ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 4
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ و نصلِّی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
ملفوظات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۲؍مئی ۱۹۰۴ء
دعا ہی خدا شناسی کا ذریعہ ہے
ایک ریئسں کا یہ خیال ُسنکر کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ دُعا سے مشکل حل ہوتی ہے ، اُن کو بہت ہی کمزور کرنے والا ہے۔
آپؑ نے فرمایا کہ:
جو دُعا سے منکر ہے وہ خدا سے منکر ہے۔ صرف دعا ہی ذریعہ خدا شناسی کا ہے۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ اْس کی ذات کو طوعاً وکر ہاً مانا جاوے۔ اصل میں سب جگہ دہریّت ہے۔ آجکل کی محفلوں کا یہ ہال ہے کہ دعا ، توکّل اور انشا اﷲ کہنے پر تمسخر کرتے ہیں۔ ان باتوں کو بیوقوفی کہا جاتا ہے ، ورنہ اگر خدا سے اُن کو ذرا بھی اُنس ، ہوتا، تو اس کے نام سے کیوں چِڑتے؟ جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ ہیرپھیر سے کسی نہ کسی طرح سے محبوب کا نام لے ہی لیتا ہے۔ اگر ان کے نزدیک خدا کوئی شے نہیں ہے۔ تو اب موت کا دروازہ کُھلا ہے اسے ذرا بند کر کے تو دکھلاویں۔ تعجب ہے کہ ہمیں جس قدر اس کے وجود پر امیدیں ہیں اسی قدر وہ دوسرا گروہ اس سے ناامید ہے۔ اصل میں خدا کے فضل کی ضرورت ہے۔ اگر وہ دل کے قفل نہ کھولے تو اور کون کھول سکتا ہے۔ اگر وہ چاہے توایک کُتے کو عقل دے سکتا ہے کہ اس کی باتوں کو سمجھ لیوے اور انسان کو محروم رکھ سکتا ہے۔
طاعون کو گالی دینا منع ہے
طاعون کو سب و شتم کرنا منع ہے، کیونکہ وہ توما مور ہے۔ہاں خدا سے صُلح کرنی چاہیے کہ وہ اسے ہٹا لیوے۔
۴؍مئی ۱۹۰۴ء
خدا تعالیٰ کی وحی پر کامل ایمان
آج کو مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے منیجرو ایڈیٹر رسالہ ریویوآف ریلیجنز کی طبیعت علیل ہو گئی اور دردِ سراور بخار کے عوارض دیکھ کر مولوی صاحب کوشُبہ گذرا کہ شاید طاعون کے آثار ہیں۔ جب اس بات کی خبر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ہوئی تو آپ فوراً مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ:
میرے دار میں ہو کر اگر آپ کو طاعون، ہو تو پھر
انی احافظ کل من فی الدار
الہام اور یہ سب کاروبار گویا عبث ٹھہرا۔ آپ نے نبض دیکھ کر ان کو یقین دلایا کہ ہر گز بخار نہیں ہے۔ پھر تھرمامیٹر لگا کر دکھایا کہ پارہ اس حد تک نہیں ہے، جس سے بخار کا شبہ، ہو اور فرمایا کہ میرا تو خدا کی وحی پر الیسا، ہی ایمان ہے جیسے اس کی کتابوں پر ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: کہ
ان دنوں لوگوں کو اور بعض جماعت کے آدمیوں کو بھی طرح طرح کے شکوک و شبہات پیش آرہے ہیں۔ اس لیے میرا ارادہ ہے کہ ایک رسالہ لکھ کر اصل حقیقتِبیعت اور الہامات سے اطلاع دی جاوے۔ جس سے لوگوں کو معلوم ہو کہ بعض لوگ بیعت میں داخل ہو کر کیوں طاعون سے مرتے ہیں۔؟
ایک نشان
فرمایا :
ان دنوں ایک دفعہ میری بغل میں ایک گِلٹی نکل آئی۔ میں نے اسے مخاطب ہو کر کہا کہ تو کون ہے ۔ جو مجھے ضرر دے سکے اور خدا کے وعدہ کو ٹال سکے ۔ تھوڑے عرصہ میں وہ خودبخود ہی بیٹھ گئی۔
آگ ہماری غلام، بلکہ غلاموں کی غلام ہے
فرمایا:
مّدت کا یہ میرا الہام ہے کہ ’’آگ سے ہمیں مت ڈرا۔آگ ہماری غلام بلکہ غلاموںکی غلام ہے ‘‘۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے حدیث شریف میں ہے کہ بعض بہشتی بطور سیر دوزخ کو دیکھنا چاہیں گے اور اس میں اپنا قدم رکھیں گ، تو دوزخ کہے گی کہ تونے مجھے سَرد کر دیا۔ یعنی بجائے اس کے کہ دوزخ کی آگ اُسے جلاتی۔ خادموں کی طرح آرام وہ ہو جاوے گی۔
عادت اﷲ یہی ہے کہ دوناریں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مُحبّتِ الہٰی بھی ایک نار ہے اور طاعون کو بھی نارلکھا ہے۔ لیکن ان مین سے ایک تو عذاب ہے اور دوسری انعام ہے، اسی لیے طاعون کی نار کی ایک خاص خصُوصیت خدا تعالیٰ نے رکھی ہے۔ اس میں آگ کو جو غلام کہا گیا ہے۔ میرا مذہب اس کے متعلق یہ ہے کہ اسما ء اور علام کو ان کے اشتقاق سے لینا چاہیے۔ غلام غلمہ سے نکلا ہے۔ جس کے معنے ہیں کسی شیٔ کی خواہش کے واسطے نہایت درجہ مضطرب ہونا یا ایسی خواہش جو کہ حد سے تجاوز کر جاتی ہے اور انسان پھر اس سے بیقرار ہو جاتا ہے۔ اور اسی لیے غلام کا نفظ اس وقت صادق آتا ہے جب انسان کے اندر نکاح کی خواہش جوش مارتی ہے۔ پس طاعون کا غلام اور غلاموں کی غلام کے بھی یہی معنے ہیں کہ جو شخص ہم سے ایک ایسا تعلق اور جوڑ پیدا کرتا ہے جو کہ صدق و وفا کے تعلقات کے ساتھ حد سے تجاوز ہوا ہو اور کسی قسم کی جدائی اور دُوئی اس کے رگ وریشہ میں نہ پائی جاتی ہو اسے وہ ہرگز کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اور جو ہمارا مرید الہیٰ محبت کی آگ سے جلتا ہو گا اور خدا کو حقیقی طور پر پا لینے کی خواہش کحمال درجہ پر اس کے سینہ میں شعلہ زن سو گی۔ اسی پر بیعت کا لفظ حقیقی طور پر صادق آوے گا۔ یہا نتک کہ کسی قسم کے ابتلا کے نیچے آکر وہ ہر گز متزلزل نہ ہو بلکہ اور قدم آگے بڑھاوے۔ لیکن جبکہ لوگ ابھی تک اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر وہ ابتلا میں آجاتے ہیں اور عتراض کر نے لگتے ہیں تو پھر وہ اس آگ سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں۔
بیعت کی حقیقت
بیعت کا لفظ ایک وسیع معنے رکھتا ہے اور اس کا مقام ایک انتہائی تعلق کا مقام ہے کہ جس سے بڑھ کر اور کسی قسم کا تعلق ہوہی نہیں سکتا۔
بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ ہماے نُور کی پوری روشنی میں نہیں ہیں۔ جب تک انسان کو ابتلا کی برداشت نہ ہو اور ہر طرح سے وہ اس میں ثابت قدمی نہ دکھاسکتا ہو۔ تب تک وہ بیعت میں نہیں ہے۔ پس جو لوگ صدق و صفا میں انتہائی درجہ پر پہنچے ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو امتیاز میں رکھتا ہے۔ طاعون کے ایام میں جو لوگ بیعت میں داخل کرتا ہے۔ جب یہ خوف جاتا رہا تو پھر اپنی پہلی حالت پر عود کر آویں گے۔ پس اس حالت پر عود کر آویں گے۔ پس اس حالت میں ان کی بیعت کیا ہوئی؟
؎ٰ البدر جلد ۳ نمبر ۱۸-۱۹ صفہ ۴ ، ۶۱؍مئی ۱۹۰۴ء
۸؍مئی ۱۹۰۴ء
طاعون کا نشان اور جماعت احمدیہ
حضرت حجتہ اﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام گورداسپور تھے۔ ہمارے مکرم خلیفہ رجب الدین صاحب تاجر برنج لاہور بھی شرفِ نیاز کے لیے آئے ہوئے تھے۔ خلیفہ صاحب ایک روشن خیال اور ذی فہم آدمی ہیں وہ لاہور کے حالات کا ذکر کرتے رہے کہ وہاں کے مسلمانوں کی عجیب حالت ہو رہی ہے۔ ہر اتوار کو زیارتیں نکال کر باہر لے جاتے ہیں۔ اور اس فعل کو دفعیئہ طاعون کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس حالت پر خلیفہ صاحب افسوس کر رہے تھے اور اپنے مختلف حالات سناتے رہے۔ آخر آپ نے عرض کیا:
خلیفہ صاحب: طاعون میں بعض مقامات پر جو ہمارے احباب مرتے ہیں اور لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا کیا جواب دیا جاوے؟
حضرت اقدس:اصل بات یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کسی مامور کو دنیا میں بھیجتا ہے تو سنّت اﷲ یہی ہے کہ تنبیہہ کے لیے کوئی نہ کوئی عذاب بھی بھیجتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے۔ جب اس کی مخالفت حدسے بڑھ جاتی ہے اور شوخی اور شرارت میں اہلِ دنیا بہت ترقی کر جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے بکلّی دور جا پڑتے ہیں۔ وہ عذاب اگر چہ سرکش منکرین کے لیے ہوتا ہے مگر سنت اﷲ یہی ہے کہ مامور کے بعض متبعین بھی شہید ہو جاتے ہیں وہ عذاب اَوروں کے لیے عذاب ہوتا ہے ، مگر ان کے لیے باعثِ شہادت۔ چنانچہ قرآن شریف صاف طور پر بتاتا ہے کہ کفار جو باربار عذاب مانگتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے بتایا تھا کہ تم پر عذاب بصورت جنگ نازل ہو گا۔ آخر جب وہ سلسلہ عذاب کا شروع ہوا۔ اور کفار کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی لڑائیاں ہونے لگیں، تو کون کہہ سکتا ہے کہ ان جنگوں میں صحابہؓ شہید نہیں ہوئے؛ حالانکہ یہ مسلم بات ہے کہ وہ تو کفار پر عذاب تھا اور خاص ان کے لیے ہی آیا تھا۔ مگر صحابہؓ کو بھی چشمِ زخم پہنچا اور بعض جو علمِ الہیٰ میں مقدر تھے، شہید ہوگئے۔ جن کی بابت خود اﷲتعالیٰ نے فرمایا:
لا تقو لو المن یقتل فی سبیل اﷲ اموات۔(البقر:۱۵۵) بل احیاء عند ربہم یر زقون۔
(ال عمران: ۱۷۰)
یعنی جو لوگ اﷲتعالیٰ کی راہ میں قتل کیے جاویں ان کو مردے مت کہو بلکہ وہ تو اﷲتعالیٰ کے نزدیک زندہ ہیں۔ اور اسی جگہ ان کی نسبت فرمایا:
فرحین بما اتھم اﷲ (آل عمران: ۱۷۱)
اب بتائو کہ وہ جنگ ایک ہی قسم کا تھا، لیکن وہ کفار کے لیے عذاب تھا مگر صحابہؓ کے لیے باعثِ شہادت۔ اسی طرح پر اب بھی حالت ہے۔ لیکن انجام کا ر دیکھنا چاہیے کہ طاعون سے فائدہ کس کو رہتا ہے۔ ہم کو یا ہمارے مخالفین کو۔ اس وقت معلوم ہوگا کون کم ہوئے اور کون بڑھے۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت خدا کے فضل سے غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ طاعون ہی ہے۔ بعض ایسے لوگوں کی درخواستیں بیعت کے واسطے آئی ہیں۔ جو طاعون میں مبتلا ہو کر لکھتے ہیں کہ اس وقت مجھے طاعون ، ہوا ہواہے۔اگر زندہ ہا تو پھر آکر بھی بیعت کر لوں گا۔فی الحال تحریری کرتا ہوں۔ طاعون کے ذریعہ کئی ہزار آدمی اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔
خلیفہ صاحب: وہ جنگ تو اعلائِ کلتمہ اﷲ کے لیے تھا۔
حضرت اقدس: یہ طاعون بھی اعلائِ کلتمہ اﷲ کے لیے ہی ہے۔ خداتعالیٰ نے دو نشان مسیح موعود کی سچائی کے لیے زمینی اور آسمانی اور بہت سے نشانوں کے سوا مقرر کئے تھے۔ آسمانی نشان تو کسوف و خسوف کا تھا جو رمضان کے مہینہ میں واقع ہو گیا۔ جس طرح پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا تھا۔ دوسرا زمینی نشان طاعون کا تھا۔ وہ بھی پورا ہو گیا ابھی طاعون کا پنجاب میں نام و نشان بھی نہ تھا۔ جب میں نے اس کی خبردی تھی۔ اس وقت شتاب کار لوگوں نے جلدبازی کی اور خداتعالیٰ کے اس بزرگ نشان دو ہنسی میں اڑانا چاہا۔ مگر اب گو وہ زبان سے اقرار نہ کریں، مگر ان کے دلوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ پیشگوئی جو طاعون کے متعلق تھی پوری ہو گئی۔ اس نشان سے اعلائِ کلمتہ اﷲ اس طرح پر ہو گا کہ لوگ آخر جب اس کو عذاب الہٰی سمجھ کر اس کے موحیات پر غور کریں گے اور شرارت و استہزاء چھوڑ کر خداتعالیٰ کی طرف آیئں گے اور سمجھ لیں گے کہ خدا حق ہے تو اس سے اعلائِ اﷲ ہو گا یا نہیں؟
جیسا کہ میں نے ابھی ہا ہے یہ طاعون ہمارے لیے کام کر رہی ہے۔ اگر اس گروہ میں ایک شہید ہو جاتا ہے تو اس کے قائمقام ہزار آتے ہیں۔ یہ نادانوں کا شُبہ فضول ہے کہ کیوں مرتے ہیں۔ہم کہتے ہیں صحابہؓ جنگ میں کیوں شہید ہوتے تھے؟ کسی مولوی سے پوچھو کہ وہ جنگ عذاب تھی یا نہیں؟ ہر ایک کو کہنا پڑیگا کہ عذاب تھی۔ پھر ایسا اعتراض کیوں کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلّم پر جا پڑتا ہے، لیکن اگر کوئی کہے کہ پھر نشان مشتبہ ہو جاتاہے۔ ہم کہتے ہیں کہ نشان مشتبہ نہیں ہوتا۔ اس واسطے کہ انجامکار کفار کا ستیاناس ہو گیا اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور اسلام ہی اسلام نظر آتا تھا؛چنانچہ آخر
اذاجاء نصر اﷲ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اﷲافواجا (النصر۲،۳)
کا نظارہ نظر آگیا۔ اسی طرح پرطاعون کا حال ہے ۔ اس وقت لوگوں کو تعجب معلوم ہوتا ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آتا ہے، جب طاعون اپنا کام کر کے چل جائے گی۔ اس وقت معلوم ہو گا کہ اس نے کس کو نفع پہنچایا اور کون خسارہ میں رہے گا۔ یہ اس زمانہ کے لیے ایک عظیم الشان نشان ہے جس کا ذکر سارے نبی کرتے چلے آئے ہیں اور طاعون سے اس قدر جلدی لوگ حق کی طرف آرہے ہیں کہ پہلے نہیں آرہے تھے۔
خلیفہ صاحب : حضور! کیا ایسے لوگ مامون ہوجایئںگے؟
حضرت اقدس : اس میں کیا شک ہے کہ وہ امن میں تو ہو گئے۔ اگر اس سلسلہ میں ہو کر ان میں سے کوئی مر بھی جاوے، تو وہ شہادت ہو گی اور خدا کے مامور پر ایمان لا نے کا یہ فائدہ تو حاصل ہو گیا۔ میں نے جس قدر طاعون کے متعلق کھول کھول کر بیان کیا ہے کسی نے نہیں کیا۔ متواتر میں اس پیشگوئی کو شائع کر تا رہا اور خداتعالیٰ نے مختلف رنگوں میں مختلف اوقات میں اس کے متعلق مجھ پر کھولا اور میں نے لوگوں کو سنایا۔
یامسیح الخلق عدوانا۔
بہت پُرانا الہام ہے جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے۔ پھر وہ سیاہ پودوں والی رئویا اور ہاتھی والی رئویا۔ غرض یہ طاعون خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آئی ہے اور اپنا کام کر رہی ہے۔بعض لوگ شرارت سے کہتے ہیں کہ یہ طاعون ان کی شامت اعمال سے آئی ہے ۔ یہ تو وہی بات ہے جیسے حضرت موسٰیؑ کو الزام دیا تھا۔ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ یہ عجیب بات ہے کہ شامت اعمال تو ہماری وجہ سے آئی ہے اور ہماری حفاظت کو خداتعالیٰ ایک نشان قرار دیتا ہے اور مررہے ہیں دوسرے۔
اس وقت ایک خاص تبدیلی کی ضرورت ہے۔ خداتعالیٰ کا غضب بھڑکا ہوا ہے۔ جواب بھی تبدیلی نہین کرتے۔ خداتعالیٰ ان کی پروا نہیں کرے گا۔
ان اﷲ لایغیرمابقوم حتی یغیرو امابانفسہم۔
اسی طاعون کے متعلق میرا الہام ہے۔ ؎ٰ
بخاری میں ہے کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے مجھے مومن کی جان لینے میں تردو ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اﷲتعالیٰ مومن کویکدفعہ نہیں پکڑتا۔ پکڑتا ہے پھر اس کے ساتھ نرمی کرتا ہے۔ پھر پکڑتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے۔ یہ حالت گویا تردو سے مشابہ ہے۔
پہلی کتابوں میں بھی اس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ خدا پچھتایا۔میرے الہام میں بھی
افطرواصوم
اسی رنگ کے الفاظ ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں، جس مومن کے وجود خلق اﷲ کا نفع ہو اور اس کی موت شماتت کا باعث ہو وہ کبھی طاعون سے نہیں مرے گا۔ میں جانتا ہوں اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابھی تک کوئی ایسا آدمی طاعون سے نہیں مرا جس کو میں پہچانتا ہوںیا وہ مجھے پہچانتا ہو جو شناخت کا حق ہے۔
مامورین کا خاص نشان:
امام اور پیشوا وہی ہو سکتا ہے جو اﷲتعالیٰ کے اِذن اور حکم سے مامور ہو کر آوے۔ اس میں اﷲتعالیٰ ایک جذب کی قوت رکھ دیتا ہے۔جس کی وجہ سے سعادت مند روحیں خواہ وہ کہیں ہوں اس کی طرف کھچی چلی آتی ہیں۔ جذب کا پیدا ہونا اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ بناوٹ سے یہ بات پیدا نہیں ہو سکتی۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جو لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں وہ اس بات کے حریص اور آرزُ ومند نہیں ہو تے کہ لوگ ان کے گرد جمع ہوں اور اس کی تعریفیں کریں بلکہ ان لوگوں میں طبعاً مخفی رہنے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ دنیا سے الگ رہنے میں راحت سمجھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السام جب مامور ہو نے لگے تو انھوں نے بھی عُذر کیا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم غارمیں رہا کرتے تھے۔ وہ اس کو پسند کرتے تھے۔ مگر اﷲتعالیٰ خود ان کو باہر نکالتا ہے اور مخلوق کے سامنے لاتا ہے۔ ان میں ایک حیا ہوتی ہے۔ اور ایک انقطاع ان میں پایاجاتا ہے؛ چونکہ وہ انقطاع اور صفائی قلب اﷲتعالیٰ کی نظرمیں ان کو پسندیدہ بنا دیتی ہے اور ان کو اصلاح خلق کے لیے برگزیدہ کرلیتا ہے۔ جیسے حاکم چاہتا ہے کہ اسے کارکن آدمی مل جاوے اور جب وہ کسی کارکن کو پالیتا ہے، تو خواہ وہ انکار بھی کردے مگر وہ اسے منتخب کر ہی لیتا ہے۔ اسی طرح اﷲتعالیٰ جن لوگوں کو مامور کرتا ہے وہ ان کے تعلقاتِ صافیہ اور صدق و صفاکی وجہ سے انہیں اس قابل پاتا ہے کہ انہیں اپنی رسالت کا منصب سپرد کرے۔
یہ بالکل سچی بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر ایک قسم کا جبر کیا جاتا ہے۔ وہ کوٹھڑیوں میں بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور اسی میں لذت پاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی کو ان کے حال پر اطلاع نہ ہو، مگر اﷲتعالیٰ جبراً ان کو کوٹھڑی سے باہر نکالتا ہے۔ پھر ان میں ایک جذب رکھتا ہے اور ہزار ہا مخلوق طبعاً ان کی طرف چلی آتی ہے۔ اگر فریب ہی کا کام ہو تو پھر وہ سرسبز کیوں ہو۔ پیراور گدی نشین آرزو رکھتے ہیں کہ لوگ ان کے مرید ہوں اور ان کی طرف آویں۔ مگر مامور اس شہرت کے خواہشمند نہیں ہوتے۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ مخلوقِ الہیٰ اپنے خالق کو پہچانے اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلے۔ وہ اپنے دل میں بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ چیز ہی نہیں ہیں۔ خداتعالیٰ بھی ان کو ہی پسند کرتا ہے۔ کیونکہ جب تک ایسا مخلص نہ ہو کام نہیں کر سکتا۔ ریا کار جو خدا کی جگہ اپنے آپ کو چاہتے ہیں وہ کیا کر سکتے ہیں۔ اس لیے خدا ان کو پسند کرتا ہے۔ کیونکہ وہ دنیا کے آسائش و آرام کے آرزو مند نہیں ہوتے۔
ریا کاری ایک بہت بڑا گند ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریا کار انسان فرعون سے بھی بڑھ کر شقی اور بدبخت ہوتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کی عظمت اور جبروت کو نہیں چاہتے بلکہ اپنی عزت اور عظمت منوانا چاہتے ہیں۔ لیکن جن کو خدا پسند کرتا ہے وہ طبعاً اس سے متنفر ہوتے ہیں۔ ان کی ہمت اور کوشش اسی ایک امر میں صرف ہوتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال ظاہر ہو اور دنیا اس سے واقف ہو۔ وہ ایسی حالت میں ہوتے ہیں اور پسند کرتے ہیں کہ دنیا ان کو نہ پہچان سکے، مگر ممکن نہیں ہوتا کہ دنیا ان کو چھوڑ سکے کیونکہ وہ دنیا کے فائدہ کے لیے آتے ہیں۔ ان لوگوں کے جو دشمن اور مخالف ہوتے ہیں ان سے بھی ایک فائدہ پہنچتا ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کے نشانات ان کے سبب سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اور حقائق و معارف کھلتے ہیں۔ ان کی چھیڑ چھاڑ سے عجیب عجیب انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر الوجہل وغیرہ نہ ہوتے تو قرآن شریف کے تیس سیپارے کیونکہ ہوتے؟ ابوبکر رضی اﷲعنہ کی سی فطرت والے ہی اگر سب ہوتے تو ایک دم میں وہ مسلمان ہوجاتے۔ ان کی کسی نشان اور معجزہ کی حاجت ہی نہ ہوتی۔ پس ہم ان مخالفوں کے وجود کو بھی بے مطلب نہیں سمجھتے۔ ان کی چھیڑ چھاڑ اﷲتعالیٰ کے ماموروں کا یہ خاص نشان ہوتاہے کہ وہ اپنی پرستش کرنا نہیں چاہتے۔ جس طرح پر وہ لوگ جو پیر بننے کے خواہشمند ہیں چاہتے ہیں۔ اگرکوئی شخص اپنی پوجا کر ائے تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے انسان کے بچے اس پوجا کے مستحق نہ ہوں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ایک مرید اس مرشدسے ہزار درجہ اچھا ہے جو مکر کی گدی پر بیٹھا ہوا ہو کیونکہ مرید کے اپنے دل میںکھوٹ اور دغا نہیں ہے۔ خداتعالیٰ اخلاص کو چاہتا ہے۔ ریاکاری پسند نہیں کرتا ہے۔
۹؍ مئی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
طاعون کا عذاب
ایک ہندو ریئس کے بعض استفسارات کے جوابات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام درختوں کے سایہ میں حسب معمول تشریف فرماتھے:
کہ دینانگر کے دو ہندو ریئس آپ کی زیارت کو تشریف لائے۔ ان کے ساتھ بھی چند آدمی تھے۔ انھوں نے نہایت ادب اور احترام کے ساتھ سلام عرض کیا اور پھر طاعون کی مصیبت کا رونا رونا شروع کیا کہ بڑا اختلاف مذاہب کا ہو گیا ہے۔ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا:
اس زمانہ میں نِرا اختلافِ مذاہب ہی نہیں۔ اختلاف مذاہب کے سوا لوگوں نے خداتعالیٰ کہ بالکل چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے خداتعالیٰ نے اپنی سنت کے موافق یہ عذاب نازل کیا ہے۔ کیونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے۔ شرارتوں اور چالاکیوں کی کوئی حد نہیں رہی ہے۔ طاعون کو اﷲتعالیٰ نے مامور کرکے بھیجا ہے جو اس کے نوکر کی طرح ہے۔ خداتعالیٰ کے حکم کے بغیر تو ایک پتہ اور ذرہ بھی حرکت نہیں کر سکتا۔ یہ اور بدبختی ہے کہ باوجود یکہ طاعون ایک خطرناک ڈرانے والا ہے مگر اس پر بھی خداتعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خداتعالیٰ کی باتوں کو ہنسی اور ٹھٹھے میں اڑاتے ہیں۔ خداتعالیٰ سے نہیں ڈرتے اور دل پاک و صاف نہیں کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ نے مجھے خبردی ہے کہ جبتک اہلِ دنیا اپنی اصلاح اور تبدیلی نہیں کریں گے اس وقت تک اس عذاب کو نہیں اٹھائے گا۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کو اس طرف بھی بالکل توجہ نہیں ہے۔ جب کسی گائوں یا شہر میں بیماری پڑتی ہے تو چند روز کے لیے ایک خوف پیدا ہوتا ہے۔ مگر وہ خوف بھی اﷲتعالیٰ کے واسطے نہیں اور نہ ایسا کہ اس کے ذریعہ کوئی اصلاح کریں بلکہ موت کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ہم بھی مرنہ جاویں اور یہ جائداد اور اسباب کسی دوسرے کے قبضہ میں نہ چلا جاوے۔ یو نہی ذراسا وقفہ ہوتاہے۔ پھر وہی شرارت اور شوخی۔ اور نہیں ڈرتے کہ اس کے دورے بہت لمبے ہوتے ہیں۔
ریئس : جناب! بظاہر زمانہ اچھا بھی معلوم ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ بھگتی وغیرہ کرتے ہیں
حضرت اقدس : دل نہیں ہیں۔ جوکچھ ہے پوست ہی پوست ہے۔ ظاہر داری کے طور پر اگر کچھ کیا جاتا ہے تو کیا جاتاہے۔ دل والے روح ہی اور ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں صاف ہوتی ہیں۔ ان کی زبان صاف ہوتی ہے۔ ان کے چال چلن میں ایک خاص امتیناز ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اﷲتعالیٰ سے لرزاں ترساں رہتے ہیں۔ نرِی زبان درازی سے کوئی اﷲتعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتا۔ مجازی حکام کو جو اصل حالات سے نا واقف ہیں کوئی خوش کر لیوے۔ مگر اﷲتعالیٰ کی نظر تو دل پر ہے اور وہ دل کے مخفی خیالات تک کو جانتا ہے۔ پس جب تک انسان سچے دل سے خداتعالیٰ کی طرف نہیں آتا۔ ریاکاری اور طاہر داری سے کچھ نہیں بنتا۔ خداتعالیٰ سچی تبدیلی چاہتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ابھی وہ پیدا نہیں ہوئی۔ جب لوگ تبدیلی کریں گے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کچھ بھی حصہ لوگوں کا دُرست ہو جاوے گا تو اﷲتعالیٰ رحم کرے گا۔ یہ تو اور بھی چالاکی ہے کہ لوگوں کے سامنے نیک بنتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا متقی اور خدا ترس ظاہر کرتے ہیں اور اندرونی طور پر بڑی خرابیاں ان میں موجود ہوتی ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے ظاہری بحث و مباحثہ می ہزاروں مذاہب پیدا ہو گئے ہیں۔ مگر خداتعالیٰ دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کیساہے۔ اگر اﷲتعالیٰ سے معاملہ صاف نہ ہو تو یہ چالاکیاں اور بھی خداتعالیٰ کے غضب کو بھڑ کاتی ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ انسان خدا ساتھ معاملہ صاف کرے اور پوری فرمانبرداری اور اخلاص کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرے اور اس کے بندوں کو بھی کسی قسم کی اذیت نہ دے۔ ایک شخص گیروی کپڑے پہن کر یا سبز لباس کر کے فقیر بن سکتا ہے اور دنیا دار اس کو فقیر بھی سمجھ لیتے ہیں مگر خداتعالیٰ تو اس کو خوب جانتا ہے کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے اور وہ کیا کررہا ہے۔ پس طاعون کا اصل اور صحیح علاج یہی ہے کہ انسان خداتعالیٰ کے حضور اپنے کناہوں سے توبہ کرے اور اس کی حدبندیوںکو نہ توڑے اور اس کی مخلوق کے ساتھ رحم کرے بدمعا ملگی نہ کرے۔ یہ سب کام اخلاص کے ساتھ کرے دکھانے کی نیت سے نہ کرے۔ اگر اس قسم کی تبدیلی کرے گا، تو می یقین رکھتاہوں کہ اﷲتعالیٰ رحم کے ساتھ اس پر نظر کرے گا۔
ریئس: جناب لوگ باہر جاتے ہیں اور اس کو بھی مفید سمجھتے ہیں۔مگر مولوی لوگ مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم گھوں سے نکلنے میں خدا کے ساتھ شِرک کرتے ہو۔ مولویوں کے ایسے فتوے دینے سے بھی بہت سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
حضرت اقدس: اﷲتعالیٰ تو علاج سے منع نہیں کرتا ہے۔ علاج بھی اسی نے رکھے ہیں۔
لوگ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے واسطے قسم قسم کے منسوبے کرتے ہیں۔ اور یا کاری سے کام لیتے ہیں۔ مگر جب تک خداتعالیٰ کسی کو منتخب اور بر گزیدہ نہ کرے کچھ نہیں ہو سکتا۔ دیکھو کسی کو بھوک پیاس لگتی ہے تو وہ روٹی کھاتا ہے یا پانی پیتا ہے۔ اسی طرح پر بیماریوں کے علاج بھی ہیں اور اشیاء میں خواص بھی اسی کے رکھے ہوتے ہیں۔ مولویوں کی غلطی ہے جو ایسا کرتے ہیں اور لوگوں کو تباہ کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ تو منع کرتا ہے کہ انسان عذاب کی جگہ پر رہے۔ لیکن ہان جب بیماری شدت کے ساتھ پھیل جاوے تو یہ مناسب نہیں کہ انسان اس گائوں یا شہر سے نکل کر کسی دوسرے گائوں یا شہر میں جاوے اور یہ اس لیے منع ہے کہ جو لوگ وبازوہ گائوں سے نکلتے ہیں وہ متاثر آب و ہوا سے نکل کر دوسری جگہ کو متاثر کرتے ہیں اور پھر بیمار ہو کر مرجاتے ہیں۔ ایسا ہی یہ بھی منع ہے کہ جہاں وبا پڑی ہوئی ہو وہاں بھی کوئی آدمی تندرست جگہ سے نہ جاوے، لیکن یہ کبھی منع نہیں ہے کہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر باہر کھلے میدانوں میں اور کھیتوں میں نہ جاویں بلکہ یہ ضروری ہے اور اس سے عموماً فائدہ پہنچتا ہے۔ جہاں طاعون ہو فوراً اس گھر کو خالی کر دینا چاہیے۔ اور باہر کھیتوں یا کھلے میدانوں میں بیشک چلے جائو۔ بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے۔
ریئس : جناب تعجب ہی ہے کہ خدا کے ہوتے یہ غضب ہو رہا ہے۔
حضرت اقدس : یہ خدا تعالیٰ کی باتیں ہیں ان میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ خداتعالیٰ نے تو خود دنیا پر یہ غضب نازل کیا ہے۔ اگر لوگ خداتعالیٰ کے وجود پر ایمان لاتے تو اس قدر شرارتیں جو زمین پر ہو رہی ہیں۔ نہ کرتے اور خداتعالیٰ کے غضب سے ڈرجاتے، مگر آپ دیکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا اقرار کر کے پھر دنیا پر ظلم اور فساد ہو رہا ہے اور خداتعالیٰ کے حکموں کی ہرگز پابندی نہیں کی جاتی۔ تو یہ تو ایک قسم کی خداتعالیٰ کے ساتھ بھی ہنسی ہے پھر خداتعالیٰ اس کو کب پسند کر سکتاہے۔ اب یہ غضب آیا ہے جو دنیا کو سیدھا کرے گا۔ خود اسی نے بھیجا ہے۔ وہ اپنے اسرار کو آپ ہی جانتا ہے۔ ہم لوگوں کو اس کی قدرتوں میں دخل دینے کا کیا حق ہے۔جب وقت آجائے گا وہ خد رحم فرمائے گا اور اس عذاب کو اٹھالے گا۔وہ ظالم نہیں ہے وہ توارحم الراحمین ہے۔
ریئس : حضور اب تو رحم ہونا چاہیے۔ آپ ہی کچھ کریں۔
حضرت اقدس : میں دیکھتا ہوں کہ ابھی دنیا کی اصلاح ہونی ضروری ہے ۔ ہم تو خداتعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے ہر ایک فعل کو سرسرا حکمت سمجھتے ہیں۔ یہ عذاب جو اس نے نازل کیا ہے یہ بھی حکمت سے خالی نہیں ہے۔ لوگوں کے اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ان کو تکلیف نہیں ہے۔ اگر وہ تکلیف کو محسوس کر لیتے تو میں دیکھتا کہ ان میں تبدیلی شروع ہو جاتی مگر ایسا نہیں ہے۔ رہا ہمارا رحم۔ یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم اس کی قضاو قدر پر ہر طرح راضی ہیں اور اسے دیکھتے ہیں؛ البتہ جب وہ خود ہمارے دل میں یہ بات ڈالے گا تو ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری دعائوں کو سُن لے گا اور سب کچھ کر دیگا۔ فی الحال تو جو ہو رہا ہے اس کی عین مرضی کے موافق ہے۔ جب تک وہ پسند کرے گا ہوتا رہے گا۔ اصل علاج یہی ہے کہ خداتعالیٰ سے صلح کی جاوے۔
اس تقریر کے بعد ریئس مذکور اپنے احباب کو لے کر نیازمندی سے سلام کرکے رخصت ہوا۔
طاعون سے محفوظ رہنے کے لیے زیارتیں لیکر نکلنا
لاہور میں جو لوگ طاعون سے محفوظ رہنے کے لیے نماز پڑھنے کے واسطے زیارتیں لے کر نکلتے ہیں۔ ان کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس پر فرمایا:
جو لوگ اب باہر جاکر نمازیں پڑھتے ہیں اور زیارتیں نکالتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے ساتھ پوری صفائی نہیں کرتے۔ سچی تبدیلی کا ارادہ نہیں معلوم ہوتا؛ ورنہ پھر وہی شوخی، بیبا کی کیوں نظر آرہی ہے۔ اگر سچی تبدیلی ہو تو ممکن نہیں کہ طاعون نہ ہٹ جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف جب میں کہتا ہوںکہ سچی تبدیلی کرو اور استغفار کرو۔ خداتعالیٰ سے صلح کرو تو میری ان باتوں پرہنسی کرتے ہیںاور ٹھٹھے اڑاتے ہیں اور اب خود بھی دعا ہی اس کا علاج بتاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ طاعون ان کے ہی سبب سے آیا ہے کیونکہ انھوں نے جھوٹے دعوے کئے تھے۔ مجھے ان کی اس بات پر بھی تعجب اور افسوس آتا ہے کہ میں تو جھوٹے دعوے کرکے سلامت بیٹھا ہوں؛ حالانکہ بقول ان کے طاعون میرے ہی سبب سے آیا ہے اور مجھے ہی حفاظت کا وعدہ دیا جاتاہے۔یہ عجیب معاملہ ہے۔ یہ بات تو ان عدالتوں میں بھی نہیں ہوتی کہ صریح ایک مجرم ہو وہ چھوڑ دیا جاوے اور بے گناہ کوپھانسی دے دی جاوے۔ پھر کیا خداتعالیٰ کی خدائی ہی میں یہ اندھیر اور ظلم ہے کہ جس کے لیے طاعون بھیجا جاوے وہ تو محفوظ رہے اور اس کو سلامتی کا وعدہ دیا جاوے اور وہ ایک نشان ہو اور دوسرے لوگ مرتے رہیں؟ میں کہتا ہوں اسی ایک بات کو لیکر کوئی شخص انصاف کرے اور بتاوے کہ کیا ہو سکتا ہے کہ جو شخص اﷲتعالیٰ پر افترا کرے وہ سلامت رہے اور اس کو یہ وعدہ دیا جاوے کہ تیرے گھر میں جو ہوگا وہ بھی بچایا جاوے گا اور دوسروں پر چُھری چلتی رہے؟ یہ تو وہی شیعوں کی سی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبوت دراصل حضرت علیؓ کو ملنی تھی اور انہیں کے واسطے جبریل ؑ لائے تھے مگر غلطی سے آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کو دے دی اور تیئس سال تک برابر یہ غلطی چلی گئی اور اس کی اصلاح نہ ہوئی۔ ایسا ہی اب بھی غلطی لگ گئی۔ جن کی حفاظت کرنی تھی وہ تو مر رہے ہیں اور جو حفاظت کے لائق نہ تھے۔ ان کی حفاظت کا وعدہ ہو گیا۔ بھلا اس قسم کی باتوں پر کوئی تسلی پا ساکتا ہے؟
طاعون سے معجزا نہ حفاظت
ایک امر تسری ملا کا ذکر آیا کہ وہ کہتا ہے کہ ایک سال گذر گیا تو کیا ہوا۔ ابھی آگے دیکھنا چاہیے۔ فرمایا: وہ تو ایک سال کہتا ہے۔ ہم تو یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ بالکل سچا ہے اور سے کے دورے تو ستر ستر سال تک ہوتے ہیں۔ وہ منتظررہیں اور دیکھیں کیا، ہوتا ہے۔ ہم بھی ان کے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔ وہ ہماری نسبت اگر کوئی خبر خداتعالیٰ سے پا چکے ہیں، تو شائع کر دیں۔ ہم کو تو جو کچھ خداتعالیٰ نے بتایا ہے ہم نے تو اس کر دیا ہے۔ اور دنیا کو معلوم ہو گیا ہے۔ وہ صبر کے ساتھ اب انجام تک دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے۔
یہ لوگ ہماری نسبت طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں۔ وہ آخر ان پر ہی لوٹ کر پڑتی ہیں۔ ایک بٹالوی مولوی نے ایک مرتبہ کہا کہ قادیان میں طاعون پڑی ہوئی ہے اور خود ان کو بھی گلٹی نکلی ہوئی ہے۔ یہ ان کی اَمانی ہیں۔ کیا گِلٹی اﷲتعالیٰ کے حکم کے بغیر نکل سکتی ہے؟ جب تک آسمان پر تغیر نہ ہو زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا ۔ ان دونوں جب قادیان میں طاعون پڑی ہوئی تھی۔ ہم خداتعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ دیکھ رہے تھے۔ ہمارے گھر کے اِدھر اُدھر سے چیخیں آتی تھیں۔ اور ہمارا گھر درمیان میں اس طرح تھا جیسے سمندر میں کشتی ہوتی ہے۔ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے اسے محفوظ رکھا جیسا اس نے فرمایا تھا۔ اور آئندہ بھی ہم اس کے فضل و کرم سے یقین رکھتے ہیں کہ ہماری حفاظت فرمائے گا۔
ہندوئوں کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا
اس کے بعد ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ، ہندوئوں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا: شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے۔ ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو
قدافلح من زکھا ( الشمس:۱۰)
پر زور دیا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گذارہ تو نہیں ہوتا ہے۔
تسبیح شماری
ایک شخص نے تسبیح کے متعلق پوچھا کہ تسبیح کرنے کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتاہے۔ اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرے اور یا توجہ کرے۔ اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پوری کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا۔ انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اﷲتعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اﷲتعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انھوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ اہل حق تو ہر وقت خداتعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے گنتی کا سوال اور خیال ہی بیہودہ ہے۔ کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گن کر لیا کرتا ہے؟ اگر سچی محبت اﷲتعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ الی اﷲ ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہوگا۔ وہ تو اسی ذکر کو اپنی روح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے کرے گا۔ زیادہ لطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اس میں اور ترقی کرے گا۔ لیکن اگر محض گنتی مقصود ہو گی تو وہ اسے ایک بیگار سمجھ پورا کرنا چاہے گا۔؎ٰ
نماز کے بعد تسبیح
ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر ۳۳ مرتبہ اﷲ اکبر وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے۔ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا : آنخضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وعظ حسبِ مراتب ہوا کرتا تھا اور اسی حفظ مراتب نہ کر نے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انھوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے؛ حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقعہ کے ہوتی تھی ۔ مثلاً ایک شخص آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزت نہیں کرتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزت کر۔ اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک دیا جاوے۔ یہی نیکی ہے۔ ایسا نہیں۔ اسی طرح تسبیح کے متعلق بات ہے۔ قرآن شریف میں تو آیا ہے۔
واذکرواﷲکثیرالعلکم تفلحون۔(انفال : ۴۶)
اﷲتعالیٰ کا بہت ذکر کرو تا کہ فلاح پائو۔ اب یہ
واذکرواﷲکثیرا
نماز کے بعد ہی ہے تو ۳۳ مرتبہ توکثیرکے اندر نہیں آتا۔ پس یاد رکھو کہ ۳۳ مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے؛ ورنہ جو شخص اﷲتعالیٰ کو سچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے، اسے شمار سے کیا کام۔ وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا۔
ایک عورت کا قصّہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی۔ اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے پھیر رہا ہے۔ اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں۔ عورت نے کہا کا یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر؟
درحقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گن گن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الہیٰ کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا ہے حاصل نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اﷲعلیہ و سلم نے جو ۳۳ مارتبہ فرمایا ہے وہ آنی اور شخصی بات ہو گی کہ کوئی کہ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگا توآپؐ نے اسے فرما دیا کہ ۳۳ مرتبہ کر لیا کر۔ اور یہ تو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں۔ یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کے حالات سے آشنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپؐ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا۔ وہ تو اﷲتعالیٰ کی راہ میں فنا تھے۔ انسان کو تعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کہتی ہیں کہ ایک رات آپ صلی اﷲعلیہ و سلم میرے گھر میں تھے۔ رات کو جب میری آنکھ کھلی تو میں نے آپؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا۔ مجھے خیال گذرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے؛ چنانچہ میں نے سب گھروں میں دیکھا، مگر آپؐ کو نہ پایا۔ پھر میں باہر نکلی تو قبرستان میں دیکھا کہ آپ سفید چادر کی طرح پر زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گرے ہوئے کہہ رہے ہیں
سجدت لک روحی و جنافی
اب بتائو کہ یہ مقام اور مرتبہ ۳۳ مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتی ہے۔ ہرگز نہیں۔
جب انسان میں اﷲتعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے۔ وہ ذکرِ الہیٰ کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سے اسے ہوتا ہے وہ کبھی روارکھ سکتا ہی نہیں کہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے۔ کسی نے کہا ہے۔من کا منہکاصاف کر۔
انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے۔ تب وہ کیفیت پیدا ہوگی اور ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا۔
تعداد رکعات
پوچھا گیا کہ نمازوں میں تعداد رکعات کیوں رکھی ہے؟ فرمایا :
اس میں اﷲ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں۔جو شخص نماز پڑھے گا۔وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر رہے گا ہی۔اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے۔لیکن وہ حد وہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے۔جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔جب وہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ بس کر جاتا ہے۔
دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں۔جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے۔اصل غرض ذکر الٰہی سے یہ ہے کہ انسان اﷲ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے۔اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔تذکرۃ اواولیاء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودا لیا اور ستر ہزار کا دیا مگر وہ ایک آن میں بھی خدا سے جدا نہیں ہوا۔پس یاد رکھو کہ کامل بندے اﷲ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے۔
لا تلھیہم تجارۃ والا بیع عن ذکر اﷲ (النور : ۳۸)
جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے‘ کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں۔وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ صوھی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہنسنے میں ہے۔وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں، کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے۔یہی مفہوم اور غرض اسلام کی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر اپنا سر رکھ دیتا ہے۔؎ٰ
۱۶؍مئی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
اعلیٰ حضرت حجتہ اﷲ مسیح موعود ؑ احاطہ کچہری میں رونق افروز تھے۔وقتاً فوقتاً جو کچھ آپ نے فرمایا۔ ہدیۂ ناظرین ہے۔(ایڈیٹر الحکم)
دنیا کی مشکلات اور تلخیاں دنیا کی تلخیوں اور ناکامیوں پر فرمایا کہ :
مثنوی میں لکھا ہے ؎
دشت دنیا جزدو و جز دام نیست
جز بخلوت گاہ حق آرام نیست
فرمایا:
دنیاکے مشکلات اور تلخیاں بہت ہین۔یہ ایک دشت پر خار ہے۔اس میں سے گذرنا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔گذرنا تو سب کو پڑتا ہے، لیکن راحت اور اطمینان کے ساتھ گذرجانا یہ ہر ایک شخص کو میسر نہیں آسکتا۔یہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اپنی زندگی کو ایک فانی اور لاشئی سمجھ کر اﷲ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے لیے اسے وقف کر دیتے ہیں اور اس سے سچا تعلق پیدا کر لیتے ہیں‘ ورنہ اسنان کے تعلقات ہی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی تلخی اس کو دیکھنی پڑتی ہے۔بیوی اور بچے ہوں تو کبھی کوئی بچہ مر جاتا ہے تو صدمہ برداشت کرتا ہے۔لیکن اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعالق ہو تو ایسی ایسے صدمات پر ایک خاص صبر عطا ہوتا ہے۔جس سے وہ گھبراہٹ اور سوزش پیدا نہیں ہوتی جو ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پس جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے منشاء کو سمجھ کر اس کی رضا کے لئے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں۔وہ بیشک آرام پاتے ہیں‘ ورنہ ناکامیاں اور نامرادیاںزندگی تلخ کر دیتی ہیں۔
ایک کتاب میں ایک عجیب بات لکھی ہے کہ ایک شخص سڑک پر روتا ہوا چلا جارہا تھا۔راستہ میں ایک ولی اﷲ اس سے ملے۔انہوں نے پوچھا کہ تو کیوں روتا ہے۔اس نے جواب دیا کہ میرا دوست مر گیا ہے۔اس نے جواب دیا کہ تجھ کو پہلے سوچ لینا چاہیے تھا۔مرنے والے کے ساتھ دوستی ہی کیوں کی؟
دنیا عجیب مشکلات کا گھر ہے۔بیوی بثوں کے نہ ہونے سے بھی غم ہتوا ہے اور اگر ہوں تب بھی مشکلات پیدا ہوتے ہیں۔ان کی ضروریات کے پورا کرنے کے لئے بعض نادان انسان عجیب عجیب مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں اور صراط مستقیم سے ہٹ کر ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال بہم پہنچاتے ہیں اور پھر اور مشکلات میں پھنستے ہیں۔ایک فقیر ننگ دھڑگن جس کے پاس ستر پوشی کے سوا اور کوئی کپڑا تک نہ تھا خوش و خرم کھیلتا کودتا جارہا تا۔کسی سوار نے اس سے پوچھا کہ سائیں صاحب آپ ایسے خوش کیوں ہیں؟ اس نے کہا کہ جس کی مرادیں حاصل ہو جائیں وہ خوش ہوتا ہے کہ نہیں؟ سوار نے کہا کہ تیری ساری مرادیں کس طرح پوری ہو گئی ہیں؟ اس نے کہا کہ جب خواہشیں چھوڑ دیں تو مرادیں پوری ہو گئیں۔
بات بالکل ٹھیک ہے۔انسان دو طرح ہی خوش ہو سکتا ہے یا تو حصول مراد کے ساتھ یا ترک مراد کے ساتھ اور ان میں سہل طریق ترک مراد کا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ سب کی زندگی تلخ ہے بجز اس کے جو اس دنیا کے علاقوں سے الگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بادشاہوں نے بھی ان تلخیوں اور ناکامیوں سے عاجز آکر خودکشی کر لی ہے۔
لذات دنیا کی مثال
دنیا کی لذت خارش کی طرح ہے۔ابتداء لذت آتی ہے۔پھر جب کھجلاتا رہتا ہے تو زخم ہو کر اس میں سے خون نکل آتا ہے۔یہاںتک کہ اس میں پیپ پڑ جاتی ہے اور وہ نا سور کی طرح بن جاتا ہے اور اس میں درد بھی پیدا ہو جاتا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ یہ گھر بہت ہی ناپائیداد اور بے حقیقت ہے۔مجھے کئی بار خیال آیا ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کسی مردے کو اختیار دیدے کہ وہ پھر دنیا میں چلا جاوے تو وہ یقینا تو بہ کر اُٹھے کہ میں اس دنیا سے باز آیا۔خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو تو انسان ان مشکلات دنیا سے نجات پاسکتا ہے،کیونکہ وہ درد مندوں کی دعائوں کو سن لیتا ہے مگر اس کے لئے یہ شرط ہے کہ دعائیں مانگنے سے انسان تھکے نہیں تو کامیاب ہوگا۔اگر تھک جاوے گا تو نری ناکامی نہیں بلکہ ساتھ بے ایمانی بھی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بدظن ہو کر سلب ایمان کر بیٹھے گا۔مثلا ایک شخص کو اگر کہا جاوے کہ تو اس زمین کو کھود ۔خزانہ نکلے گا مگر وہ دوچار پانچ ہاتھ کھودنے کے بعد اُسے چھوڑ دے اور دیکھے کہ خزانہ نہیں نکلا تو وہ اس نامرادی اور ناکامی پر ہی نہ رہے گا بلکہ بتانے والے کو بھی گالیاں دے گا‘ حالانکہ یہ اس کی اپنی کمزوری اور غلطی ہے جو اُس نے پورے طور پر نہیں کھودا۔اسی طرح جب انسان دعا کرتا ہے اور تھک جاتا ہے تو اپنی نامرادی کو اپنی سستی اور غفلت پر توحمل نہیں کرتا،بلکہ خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے اور آخر بے ایمان ہو جاتا ہے اور آخر دہریہ ہو کر مرتا ہے۔
نیم ملاں خطرۂ ایمان
جہاں حضور بیٹھے ہوئے تھے وہاں سامنے ایک آم کا درخت تھا جس کو کچے پھل لگے ہوئے تھے۔ان کو دیکھ کر فرمایا :
دیکھو۔اس آم کو پھل لگا ہوا ہے مگر یہ کچا پھل ہے۔اگر کوئی اس کو کھانے بیٹھ جاوے اور اس کو ہی اصل مقصد سمجھ لے تو بجز اس کے کہ اس کے کھانے سے پھنسیاں وغیرہ نکل آویں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔اسی طرح پر نیم ملاں خطرۂ ایمان والی مثال سچ ہے۔نار سیدہ منزل کچے پھل کی طرح ہوتا ہے۔وہ جو کسی کو بات سنائے گا تو اسے گمراہ کرے گا اور اگر خود کرے گا تو آپ گمراہ ہوگا۔
خدا تعالیٰ کی راہ میں جبتک انسان بہت سی مشکلات اور امتحانات میں پورا نہ اُترے وہ کامیابی کا سرٹیفیکیٹ حاصل نہیں کر سکتا۔اسی لیے فرمایا
احسب الناس ان یتر کو اان یقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ محض اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے کہ وہ کہدیں کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں۔ایسے لوگ جو اتنی بات پر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں وہ یاد رکھیں انہی کے لیے دوسری جگہ آیا ہے۔
وما ھم بمومنین (البقرۃ : ۹)
اور ایسا ہی ایک جگہ فرمایا :
قالت الاعراب امنا۔قل لم تو منو ا ولکن قولو ااسلمنا (الحجرات : ۱۵)
یعنی تم یہ نہ کہو کہ ایماندار ہو گئے بلکہ یہ کہو کہ ہم نے مقابلہ چھوڑ دیا ہے اور اطاعت اختیار کر لی ہے۔بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کامل ایماندار بننے کے لیے مجہدات کی ضرورت ہے اور مختلف ابتلائوں اور امتحانوں سے ہوکر نکلنا پڑتا ہے ؎
گویند سنگ لعل شود در مقام صبر
آرے شود ولیک بخون جگر شود
فوٹو گرافی
منشی نظیر حسین صاحب نے سوال کیا کہ میں فوٹو کے ذریعہ تصویر اتارا کرتا تھا۔اور دل میں ڈرتا تھا کہ کہیں یہ خلاھ شرع نہ ہو۔لیکن جناب کی تصویو دیک کر یہ وہم جاتا رہا۔فرمایا :
انما الاعمال بالنیات
Amira 2-6-05
ہم نے اپنی تصویر محض اس لحاظ سے اتروائی تھی کہ یورپ کو تبلیغ کرتے وقت ساتھ تصویریں بھیج دیں، کیونکہ ان لوگوں کا عام مذاق اس قسم کا ہوگیا ہے کہ وہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی اس کی تصویر دیتے ہیں جس سے وہ قیافہ کی مدد سے بہت سے صحیح نتائج نکال لیتے ہیں۔مولوی جو میری تصویر پر اعتراض کرتے ہیں۔وہ خود اپنے پاس روپیہ پیسہ کیوں رکھتے ہیں کیا ان پر تصویریں نہیں ہوتی ہیں۔
اسلام ایک وسیع مذہب ہے۔اس میں اعمال کا مدار نیات پر رکھتا ہے۔بدر کی لڑائی میں ایک شخص میدان جنگ میں نکلا جو اترا کر چلتا تھا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو یہ چال بُری ہے۔کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
ولا تمش فی الارض مرحا۔ (بنی اسرائیل : ۳۸)
مگراس وقت یہ چال خدا تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہے کیونکہ یہ اس کی راہ میں اپنی جان تک نثار کرتا ہے اور اس کی نیت اعلیٰ درجہ کی ہے۔
غرض اگر نیت کا لحاظ نہ رکھا جائے تو بہت مشکل پڑتی ہے۔اسی طرح پر ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جن کاتہ بند نیچے کو ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جاویں گے۔حضرت ابو بکر ؓ یہ سن کر رو پڑے کیونکہ اُن کا تہ بند بھی ویسا تھا۔آپؐ نے فرمایا کہ تُو اُن میں سے نہیں ہے۔غرض نیت کو بہت بڑا دخل ہے اور حفظ مراتب ضروری شئے ہے۔
منشی نظیر حسین صاحب : میں خود تصویر کشی کرتا ہوں۔اس کے لیے کیا حکم ہے؟
فرمایا :
اگر کفر اور بُت پرستی کو مدد نہیں دیتے۔تو جائز ہے۔آخکل نقوش و قیافہ کا علم بہت بڑھا ہوا ہے۔؎ٰ
بلا تاریخ
اہل اﷲ اور ریا
حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں نے حضرت مسیح موعودؑ سے پوچھا کہ کیا کبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ میں بھی ریا آوے؟
اس پر حضور نے فرمایا :
کبھی چڑیا خانہ گئے ہو؟ میں کہا کہ ہاں۔ فرمایا :
دیکھو وہاں شیر‘ چیتے اور دوسرے حیوانات ہوتے ہیں۔کبھی یہ خیال وہاں جا کر دل میں آسکتا ہے کہ ان کے سامنے لمبی لمبی نمازیں پڑھیں؟ کبھی یہ خیال وہاں جا کر ریاکار سے ریاکار کے دل میں بھی نہیں آسکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ حیوانات ہماری جنس سے تو نہیں ہیں تو پھر ریاکہاں رہی؟ ریا تو ہم جنسوں سے ہوتی ہے تو اہل اﷲ کس سے ریا کریں۔اُن کے سامنے دوسرے لوگوں کی وہی مثال ہے جیسے چڑیا خانہ میں جانور بھرے ہوئے ہیں۔
اپنے الہامات پر کامل ایمان
مولانا موصوف۔ نے ف رمایا کہ ایک دن کی مجھے بات یاد ہے کہ کسی نے ذکر کیا کہ منشی الٰہی بخش اور اس کا ترجمان منشی عبد الحق کہتا ہے کہ الہام وہ ہے جو پورا ہو جاوے اور جو نہ ہووے وہ شیطانی کام ہے۔حضرت نے فرمایا کہ :
مکہ معظمہ میں داخل ہو کر اگر خدا تعالیٰ کی قسم دی جاوے تو میں کہوں گا کہ میرے الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔جس شخص نے خیالی طور پر دعویٰ کیا ہو وہ ہر گز یہ جرأت نہین کر سکتا۔کبھی وہ شخص جو کامل یقین رکھتا ہو اور وہ جو مشکوک ہے برابر ہو سکتے ہیں؟
عہد دوستی
مولانا موصوف نے کاہ کہایک دفعہ حضرت اقدس نے خاص طو رپر مجھے مخاطب کر کے فرمایا :
’’میرے خلق کی پیروی کر‘‘
میں نے عرض کی کہ دعا کریں۔فرمایا کہ :
اگر کسی نے ایک بار میرے عہد دوستی باندھا ہو تو مجھے اس قدر اس کی رعایت ہوتی ہے کہ اگر اُس نے شراب پی ہوئی ہو تو بھی میں بلاخوف لَوْمَتَہ لَائم اُسے اُٹھالائوں گا۔یعنی جب تک وہ خود ترک نہ کرے ہم خود نہ چھوڑیں گے۔پس اگر کوئی اپنے بھائیوں کو ترک کرے گا۔ وہ سخت گنہگار ہوگا۔
اشداء علی الکفار
مولانا موصوھ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
مومن مومن کبھی نہیں ہو سکتا جب تک کہ کفر اس سے مایوس نہ ہو جاوے۔فتح مسیح کو ایک بار ہم نے رسالہ بھیجا۔اس پر اُس نے لیکریں کھینچ کر واپس بھیج دیا اور لکھا کہ جس قدر دل آپ نے دکھایا ہے کسی اور نے نہیںدکھیا۔دیکھو رسول کریم ﷺ کے دشمن نے خود اقرار یکر لیا کہ ہامرا دل دکھا۔پس ایسی مضبوطی ایمان میں پیدا کرو کہ کفر مایوس ہو اجوے کہ میرا قابو نہیں چلتا۔ اشد اء علی الکفار کے یہ معنی بھی ہیں۔
قبولیت دعا کی شرط طاعون کا ذکر تھا۔کثرت اموات پر ذکر کرتے کرتے فرمایا :
دعائیں کرتے رہو۔بجز اس کے انسان مکر اﷲ سے بچ نہیں سکتا۔مگر دعائوں کی قبولیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے‘ تو دعائوں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔
خدا تعالیٰ کی شناخت کا وقت فرمایا :
اس وقت دنیا میں خدا تعالیٰ کا وجود ثابت ہو رہا ہے؛ اگر چہ لوگ برائے نام خدا تعالیٰ کے قائم، مگر اصل بات یہ ہے کہ ایک قسم کی دہریت پھیل رہی تھی اور خدا تعالیٰ سے بکلی دور جا پڑے ہیں مگر اب وقت آگیا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں۔خدا تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو توڑنا اس سے بڑھ کر خباثت کیا ہوگی۔یہ تو اس کا مقابلہ ہے۔؎ٰ
۲۰؍مئی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
نومبائعین کو نصائح
بعد نماز عصر حیدر آباد دکن کے چند احباب نے بیعت کی۔بیعت کے بعد تقریری کرتے ہوئے حضور ؑ نے فرمایا :
آپ نے جو مجھ سے آج تعلق بیعت کیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ کچھ بطور نصیحت چند الفاظ تمہیں کہوں۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ پر ایمان رکھے اور پھر قرآن کریم پر غور کرے کہ خدا تعالیٰ نے کیا کچھ قرآن مجید میں فرمایا ہے تو وہ شخص دیوانہ وار دنیا کو چھوڑ خدا تعالیٰ کا ہو جائے۔یہ بالکل سچ کہا گیا ہے کہ دنیا روزے چند عاقبت با خداوند۔اب خدا تعالٰی کے کلام سے ظہر ہوتا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا چاہتا ہے اور فی الواقعہ اس کا دل ایسا نہیں کہ اس نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل سزا ٹھہرتا ہے۔ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں کہ اس کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے جب تک کاھی حصہ اپنا ان کی طلب میں خرچ نہ کر دیں‘ وہ مقاصد حاصل ہونے نا ممکن ہیں۔مثلاً اگر طبیب ایک دوائی اور اس کی ایک مقدار مقرر کر دے اور ایک بیمار وہ مقدار دوائی کی تو نہیں کھاتا بلکہ تھوڑا حصہ اس دوائی اور ا ستعمال کرتا ہے تو اس کو کیا فائدہ اس سے ہوگا؟ ایک شخص پیاسا ہے تو ممکن نہیں کہ ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس دور ہو سکے۔اسی طرح جو شخص بھوکا ہے وہ ایک لقمہ سے سیر نہیں ہو سکتا۔اسی طرح خدا تعالیٰ یا اس کے رسولؐ پر زبانی ایمان لے آنا یا ایک ظاہری رسم کے طور پر بیعت کر لینا بالکل بے سود ہے۔جبتک انسان پوری طاقت سے خدا تعالٰ کی راہ میں نہ لگ جاوے۔نفس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ انسان پورے طور پر وہ حصہ لے جو روحانی زندگی کے لیے ضروری ہے۔صرف یہ خیال کہ میں مسلمان ہوں کافی نہیں۔
میں نصیحت کرتا ہوں کہ آ نے جو تعلق مجھ سے پیدا کیا ہے (خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے) اس کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی فکر میں ہر وقت لگے رہیں۔لیکن یاد رہے کہ صرف اقرار ہی کافی نہیں جبتک عملی رنگ سے اپنے آپ کو رنگین نہ کیا جاوے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
احسب الناس ان یتر کوا ان یقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
یعنی کیا انسانوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہم آمنا ہی کہہ کر چھٹکارا پالیں گے اور کیا وہ آزمائش میں نہ ڈالے جائیں گے۔سو اصل مطلب یہ ہے کہ یہ آزمائش اسی لیے ہے کہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا ایمان لانے والے نے دین کو ابھی دنیا پر مقدم کیا ہے یا نہیں؟ آج کل اس زمانہ میں جب لوگ خد اتعالیٰ کی راہ کو اپنے مصالح کے خلاف پاتے ہیں یا بعض جگہ حکام سے ان کو کچھ خطرہ ہوتا ہے تو وہ خد اکی راہ سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔ایسے لوگ بے ایمان ہیں۔وہ نہیں جانتے کہ فی الواقعہ خد اہی احکم الحاکمین ہے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ بہت دشوار گذار ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی کھال اپنے ہاتھ سے نہ اُتارلے تب تک وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں ہوتا۔ہامرے نزدیک بھی ایک بے وفا نوکر کسی قدر و منزلت کے قابل نہیں ۔جو نوکر صدق اور وفا نہیں دکھلاتا وہ کبھی قبولیت نہیں پاتا۔اسی طرح جنات الٰہی میں وہ شخص پر لے درجہ کا بے ادب ہے جو چند روزہ دنیوی منافع پر نگاہ رکھ کر خدا تعالیٰ کو چھوڑتا ہے۔
بیعت کی حقیقت
بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔یہ بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں چل کر انجام کر کوئی شخص نقصان اٹھاوے۔صادق کبھی نقصان نہیں اٹھاسکتا۔نقصان اسی کا ہے جو کاذب ہے۔جو دنیا کے لیے بیعت کو اور عہد کو جو اﷲ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے توڑرہا ہے۔وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے۔وہ یاد رکھے بوقت موت کوئی حاکم یا بادشاہ اسے نہ چھڑا سکے گا۔اس نے احکم الحاکمین کے پاس جانا ہے جو اُس سے دریافت کریگا کہ تو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا؟ اس لیے ہر مومن کے لیے ضروری ہے کہ خدا جو ملک السموات و الارض ہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ امر بھی یونہی حاصل نہیں ہوتا۔خدا ہی یہ امر دل میں بٹھئے تو بیٹھ سکتا ہے۔سو اس کے لیے دعا بکار ہے۔جو شخص اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدق سے قدم اٹھاتا ہے اس کو عظیم الشان طاقت اور خارق عادت قوت دی جاتی ہے۔مومن کے دل میں ایک جذب ہوتا ہے کہ جس سے قوت جاذبہ کے ذریعہ وہ دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر تم میں جذب محبت خدا تعالیٰ کی راہ میں کافی ہو تو پھر کیوں لوگ تمہاری طرف نہ کے آویں اور کیوں تم میں ایک مقناطیسی طاقت نہ ہو جاوے۔دیکھو قرآن میں سورۂ یوسف میں آیا ہے۔
ولقد ھمت بہ وھم بہا لو لا ان را برھان ربہ (یوسف : ۲۵)
یعنی جب زلیخا نے یوسف کا قصد کیا یوسف بھی زلیخا کا قصد کرتا اگر ہم حائل نہ ہوتے۔اب ایک طرف تو یوسف جیسا متقی ہے اور اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نبی زلیخا کی طرف مائل ہو ہی چکا تھا اگر ہم نہ روکتے۔اس میں سر یہ ہے کہ انسان میں ایک کشش محبت ہوتی ہے۔زلیخا کی کشش محبت اس قدر غالب آئی تھی کہ اس کشش نے ایک متقی کو بھی اپنی طرف کھینچ لیا۔سو جائے شرم ہے کہ ایک عورت میں جذب اور کشش اس قدر ہو کہ اس کا اثر ایک مضبوط دل پر ہو جاوے اور ایک شخص جو مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔اس میں جذب محبت الٰہی اس قدر نہ ہو کہ لوگ ا سکی طرف کھینچے چلے آویں۔یہ عذر قابل پذیرائی نہیں کہ زبان میں یا وعظ میں اثر نہیں۔اصلی نقصان قوت جاذبہ میں ہے۔جب تک وہ کامل نہیں تب تک زبانی خالی باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہو تا۔
وفات مسیح
اور ہمارے مسائل ۔سو وہ بھی بالکل صاف ہیں۔مثلاً قرآن شریف کی یہ آیت
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (المائدہ : ۱۱۸)
ا س میں ایک جواب اور ایک سوال ہے۔خدا تعالیٰ مسیح علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تو نے لوگوں کو ایسی تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا تو وہ جواب میں عرض کریں گے کہ بار خدایا جب تک میں زندہ رہا اور اُن میں رہا میں نے تو اُن کو ایسی تعلیم نہیں دی؛ البتہ تو نے جب مجھ کو مار دیا تو پھر تو ہی ان کا نگران حال تھا۔مجھے کوئی علم نہیں کہ میرے پیچھے انہوں نے کیا کیا۔یہ کیسی موٹی بات ہے کہ خود مسیح اپنی وفات کا اقرار کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر عیسائی بگڑے تو میری وفات کے بعد بگڑے۔جب تک میں اُن میں زندہ رہا تب تک وہ صحیح عقیدہ پر قائم تھے۔اب اگر عیسائی بگڑ گئے ہیں تو بالضرور مسیح مر چکا ہے۔اور اگر مسیح آج تک نہیں مرا تو عیسائی بھی نہیں بگڑے اور اگر عیسائی نہیں بگڑے تو بالضرور عقیدہ الوہیت مسیح بھی درست ہے۔پھر مسیح کا یہ کہہ دینا کہ مجھے تو اُن کے بگڑنے کا علم نہیں جیسے کہ اسی آیت سے پایا جاتا ہے۔کیا یہ جواب اُن کا جھوٹا نہیں ہوگا ۔اگر ان کا دوبارہ دنیا میں آنا درست ہے،کیونکہ سوال و جواب قیامت کو ہوگا۔اور اگر انہوں نے دوبارہ دنیا میں آکر چالیس سال رہنا ہے ارو عیسائیوں اور کفار کو قتل کرکے اسلام کو پھیلانا یہ تو بالضرور انہوں نے عیسائیوں کی بگڑی ہوئی حالت کو دیکھ لیا ہے اور اس بگری ہوئی حالت کو دیکھ کر وہ دوبارہ اس دنیا سے تشریف لے جاویں گے تو پھر حضرت مسیح کا یہ جواب دینا خدا کے حضور میں دروغ بیانی ہے اس دنیا سے تشریف لے جاویں گے تو پھر حضرت مسیح کا یہ جواب دینا خدا کے حضور میں دروغ بیانی ہے ۔کیا وہ احکم الحاکمین نہ کہے گا کہ تو دوبارہ دنیا میں گیا اور تونے دیکھ لیا کہ تیری امت بگڑ چکی تھی۔ایک مجازی حاکم کے آگے غلط بیانی ‘ دروغ حلفی کے جرم کا خطرناک ارتکاب ہے۔چہ جائیکہ ایک عالم الغیب حاکم کی جناب میں ایسی دروغ بیانی کی جاوے تو گویا اس آیت نے بڑی صفأئی کے ساتھ ایک طرف مسیح کی وفات کو ثابت کر دیا اور دوسری طرف ان کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا بطلان کردیا۔اس کے مقابل جب ہم حدیثوں پر غور کرتے ہیں تو وہاں سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔حضرت رسالت مآبؐ نے فرمایا اور یہ متفق علیہ حدیث ہے کہ میں نے حضرت مسیح کو حضرت یحییٰ ؑکے ساتھ دیکھا۔حضرت یحییٰ کامر جانا اور ان کا اس جماعت میں داخل ہونا جن کی قبض روح ہو چکی ہے ثابت شدہ امر ہے۔اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسیح بلاقبض روح وانتقال کرنے کے ایک ایسے شخص کا جلیس ہو جو دنیا سے مر چکا ہے اب ایک طرھ قول خدا اور دوسری سرف رئویت رسول اکرم ؐ سے وفات مسیح ؑ اور ان کا دوبارہ دنیا میں واپس نہ آنا قطعی ثابت ہو گیا۔اب بھی یہ لوگ اگر عقیدہ حیات مسیح سے باز نہ آویں۔تو یہی سمجھا جاوے گا کہ سچی ہدایت اور سعادت صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔اُ ن کے حال پر تو پھر سعدی کا یہ قول صادق آتا ہے ؎
آنکس کہ بقرآں و خبر زد نہ دہد
ایں است جوابش کہ جوابش نہ دہی
آنیوالا مسیح امتی ہوگا
رہا یہ کہ آنے والا کون ہے؟ اس کا فیصلہ بھی قرآن و حدیث نے کر دیا ہے۔سورہ نور نے صاف طور پر بیان کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے خلفاء اس امت میں سے ہوں گے۔بخاری اور مسلم کا بھی یہی مذہب ہے کہ آنیوالا مسیح اس امت میں سے ہوگا۔اب ایک طرف قرآن و حدیث بنی اسرائیل مسیح کی موت اور دوبارہ نہ آنے کو بیان کرتے ہیں۔دوسری طرف یہی قرآن و حدیث آنے والے مسیح کو اسی امت میں سے ٹھہراتے ہیں تو پھر اب انتظار کس بات کا ہے؟
نشانات
اب علامات کو بھی دیکھ لیا جاوے۔صدی کے سر پر مجدد کا آنا سب نے تسلیم کیا ہے اور یہ بھی مانا ہے کہ مسیح بطور مجدد صدی کے سر پر آوے گا۔صدی میں سے بائیس سال گذر گئے اور اس وقت تک مجدد نظر نہ آیا۔آخر اس صدی کے سر پر جس مجدد نے آنا تھا وہ کہاں ہے؟
کسوف و خسوف کا نشان
مہدی کا نشان کسوف و خسوف تھا جو رمضان میں ہونا تھا۔اس کسوف و خسوف پر بی آٹھ سال گذر گئے۔مہدی نہ آیا۔اگر یہ کہا اجوے کہ نشان تو گیا‘ لیکن صاحب نشان بعد میں آوے گا تو یہ عقیدہ بڑا فاسد ہے اور قسم قسم کے فسادات کی بناء ہے۔اگر ایک زمانہ کے بعد اکٹھے بیس انسان مہد دیت کے مدعی ہو جاویں تو پھر اُن میں کون فیصلا کریگے؟ ضرور ہے کہ صاحب نشان نشان کے ساتھ ہو۔یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر صدی کے سرے کو اور کسوف و خسوف کو یاد کیا کرتے اور روتے تھے‘ لیکن جب وہ وقت آیا تو یہی لوگ دشمن بن گئے۔حدیث کے مطابق تمام نشان واقعہ ہو گئے لیکن یہ لوگ اپنی ضد سے باز نہیں آتے۔کسوف و خسوف کا عظیم الشان نشان ظاہر ہو گیا ‘ لیکن خدا تعالیٰ کے اس نشان کی قدر نہ کی گئی۔
Amira 4-6-05
طاعون کا نشان
اسی طرح کل انبیاء کی کتب سابقہ ارو قرآں و حدیث میں ایک اور بلا کی طرھ اشارہ تھا جو کسوف و خسوف کے آسمانی نشان کے بعد آنے والی تھی اور وہ طاعون ہے۔جو وہ بھی مسیح کے زمانہ سے وابستہ تھی۔یہ ایک خطر ناک مصیبت ہے جس کی طرف ہر ایک اولوالعزم نبی نے بالتصریح یا بالا جمال اشارہ کیا ہے۔ طاعون آگئی۔لاکھوں انسان تباہ ہو گئے۔اور نہ معلوم کب تک اس کی تباہی چلتی رہے گی‘ لیکن جس موعود کے زمانہ کی شناخت کا یہ نشان ہے اسے اب تک ان لوگوں نیچانا۔اسی طرح زمین و آسمان نے شہادت دی۔لیکن ان شہادتوں کو ردی سمجھا گیاخدا غیور ہے اور وہ اپنی غیرت دکھلائے گا۔ایک مجازی حاکم عدول حکمی پسند نہیں کرتا تو وہ احکم الحاکمین غیور خدا کب اس عدول حکمی کو بلا سزا چھوڑ یگا۔
نئی سواری کا نشان
ایک اور نشان اس زمانہ کا وہ نئی سواری تھی جس نے اونتوں کو بیکار کر دینا تھا۔قرآن نے
وا ذاالعشار عطلت (التکویر : ۵)
(جب اُونٹیاں بے کار ہو جاویں گی) کہہ کر اس زمانہ کا پتہ بتلایا۔حدیث نے مسیح کے نشان میں یوں کہا
لیتر کن القلاص فلا یسعی علیھا۔
پھر یہ نشان کیا پرا نہ ہوا؟ حتیٰ کہ اس سر زمین میں بھی جہاں آج تک اونٹنی کی سواری تھی اور بغیر اونٹنیوں کے گذارہ نہ تھا،وہاں بی اس سواری کا انتظام ہو گیا ہے اور چند سالوں میں اونٹوں کی سواری کا نام و نشان نہیں ملے گا۔اونٹنیاں بیکار ہو گئیں ۔مقرر کردہ نشان پورے ہو گئے، لیکن جس کا یہ نشان تھا وہ پہچانا نہ گیا! کیا یہ اُمور بھی میرے اختیار میں تھے۔کہ ایک طرف تو میں دعویٰ کروں اور دوسری طرف یہ نشان پورے ہوتے جاویں۔کیا آسمانی نظام پر بھی میرا دخل ہے جو کسوف اور خسوف موعود کو پیدا کر لیتا؟ یا میرے ہاتھ کوئی ایسے مواد ہیں جن سے زمین پر موعود طاعون پیدا ہو گئی؟ یا حج کا روکنا جو یہ بھی مسیح کا نشنا تھا کیا یہ بھی میرے اشارہ سے ہوا؟ اسی طرح بیسیوں نشان زمانۂ مسیح کے ساتھ وابستہ تھے وہ سب پورے ہو گئے۔خدا تعالیٰ نے کونسی حجت کو ان پر پودا نہیں کیا، لیکن ان کا انکار ابھی اسی طرح ہے۔اصل بات یہ ہے کہ زمانہ میں دہریت پھیلی ہوئفیہ خفیہ سب دلوں پر اثر کر رہی ہے۔خشیتِ الٰہی دن بہ دن مفقود ہو رہی ہے۔کان رکھتے ہیں پر سن نہیں سکتے۔آنکھیں رکھتے ہیں پر نہیں دیکھتے۔دل رکھتے ہیں پر نہین سمجھتے۔یہی وجہ ہے کہ انکار ہے و الا معاملہ تو بہت ہی صاف تا۔میری کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس قدر اتمام حجت کی گئی۔اب ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔خدا تعالیٰ نے قوی دلائل سے اُن کا رگ و ریشہ کات دیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھتے۔
شناخت مامور کے تین طریق
ایک مامور کی شناخت کے تین طریق ہیں۔نقل۔عقل۔تائیداتِ سماوی۔اب دیکھنا چاہیے۔کہ یہ تینوں امور اس سلسلہ کے مؤید ہیں۔دانیال اور دیگرنبیاء نے تو ا سکے آنے کا زمانہ مقرر کر دیا ہے۔حتیٰ کہ صدی او رسال بھی مقرر کر دیا ہے۔تمام عیسائیوں میں ایک قسم کی گھبراہٹ پیدا ہوئی ہے کیونکہ کتبِ سابقہ کے مطابق مسیح کی آمد کا وقت آچکا ہے۔او رمسیح ابھی تک آیا نہیں۔اس لیے بعض علماء اخیر مجبور ہو کر اس طرف گئے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی سے مراد کلیسیا کی ترقی ہے جو ہو چکی ہے۔؎ٰ
اسی طرح ہماری کتب کے مطابق بھی بعثت مسیح کا یہی زمانہ ہے۔حج الکرامہ والے نے کل اہل کشوف اسی طرف گئے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی کے لیے چودھویں صدی مقرر ہے۔شاہ ولی اﷲ صاحب نے بھی اسی زمانہ کے لیے اُسے چراغ الدین کہا ہے۔غرضیکہ ہر ایک بزرگ نے جو زمانہ مقرر کیا ہے وہ چودھویں صدی سے آگے نہیں گیا؛ اگر چہ ان میں کچھ اختلاف ہے۔چودھویں صدی میں لطیف اشارہ اس طرف تھا کہ دین اسلام چودھویں رات کے چاند کی طرح اس زمانہ میں چمک اٹھے گا۔جس طرح چاند کا کمال چودھویں رات کو ہوتا ہے۔اسی طرح اسلام کا کامل کل دنیا مٰں ثودھویں صدی میں ظاہر ہوگا۔تیرھویں صدی کی تایکی ان لوگوں میں صرب المثل ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اس صدی کے علماء س بھیڑیوں نے صدی کی تاریکی ان لوگوں میں ضرب المثل ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اس صدی کے علماء سے بھیڑیوں نے بھی نجات مانگی تھی۔یہ لوگ چودھویں صدی کے منتظر تھے،لیکن جب صدی آگئی تو اپنی بد بختی کے باعث انکار کر گئے۔اسی طرح قرآن میں ذکر ہے۔
ولما جاء ھم کتاب من عند اﷲ مصدق لما معہم وکانو ا من قبل یستفتحون علی الذین کفرو ا فلما جاء ھم ما عر فو اکفرو ابہ (البقرہ : ۹۰)
اہل کتاب منتظر تھے کہ پیغمبر کے آنے پر وہ اس کے ساتھ مل کر کفار سے جنگ کرین گے لیکن جب پیغمبر آیا تو انکار پر آمادہ ہو گئے۔
عقل کے نزدیک بھی زمانہ مسیح کا یہی معلومہوتا ہے۔اسلام اس قدر کمزور ہو گیا ہے کہ ایک وقت ایک شخص کے مرتد ہو جانے پر اس میں شور پڑ جاتا تھا۔لیکن اب لاکھوں مرتد ہو گئے۔رات دن مخالفت اسلام میں کتب تصنیف ہو رہی ہیں۔اسلام کی بیخ کنی کے واسطے سرح طرح کی تجاویز ہو رہی ہیں۔عقل پسند نہیں کرتی کہ جس خدا نے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
کا وعدہ یدا ہے وہ ا سوقت اسلام کی حفاظت نہ کرے اور خاموش رہے۔یہ زمانہ کس قسم کی مصیبت کا اسلام پر ہے کہ شرفا کی اولاد دشمن الام ہو کر گر جائوں میں ثلے گئے اور کھلے طور پر رسول اکرم ﷺ کی توہین ہو رہی ہے۔ہر ایک قسم کی گالی اور سب و شتم میں ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ان تمام امور کو بہ ہیت مجموعی اگر دیکھا جائے تو عقل کہتی ہے کہ یہی وقت خد اتعالیٰ کی تائید کا ہے اور میں تم کو سچ کاہتا ہوں کہ اگر یہ سلسلہ قائم نہ ہوتا تو اسلام برباد ہو چکا تھا۔سو خد اتعالیٰ کے وجود کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ عین ضرورت کے وقت خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور عین مصیبت کے وقت اسلام کو سنبھالا۔تائیدات سماوی اگر دیکھی جاویں تو یاہں بھی ایک بڑا خزانہ ہے۔خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہزار ہا نشان میرے ہاتھ پر ظہار کئے ۔اگر میں ان تمام نشانوں کو جمع کروں جو ہر روز میں اور میرے ساتھ رہنے والے دیکھتے ہیں تو ان کی تعداد لاکھ کے قریب ہوجاتی ہے۔قطع نظر اس کے صرف براہین احمدیہ کے بعض الہامات کو دیکھا جاوے۔چوبیس برس ہوئے کہ یہ کتاب تصنیف ہوئی جو اس وقت مکہ،مدینہ،مصر،بخارا،لنڈن اور ایسا ہی ہندوستان کے ہر ایک حصہ میں پہنچ گئی۔کئی ایک پادیریوں اور دیگر مخالفینِ اسلام کے گھروں میں پہنچ گئی۔اب اس کتاب میں مثلاً لکھا ہے کہ خد اتعالیٰ کی طرف س یمجھے ارشاد ہے کہ اس وقت تو اکیلا ہے اور تیرے ساتھ کوئی نہیں لیکن ایک وقت آئے گا کہ لوگ تیرے پاس دور دور سے آئیں گے۔
(یا تونمن کل فج عمیق)
تو لوگوں میں پہچانا جاوے گا اور تیری شہرت کی جاوے گی۔تیری امداد اور تائید کو دور دور سے لوگ آویں گے۔پھر کہا کہ لوگ کثرت سے آویں گے اور تو ان سے نرمی اور اخلاق سے پیش آنا۔اُن کی ملاقات سے مت گھبرانا۔
(ولا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس)
پھر آخر کار فرمایا
اذا جاء نصراﷲ والفتح و ان تھی امر الزمان الینا۔الیس ھذا بالحق۔
یعنی جب خدا تعالیٰ کی فتح اور نصرت آوے گی اور زمانہ کا امر ہماری طرف منتہی ہوگا تو اس وکت کہا جاوے گا کہ کیا یہ سلسلہ حق نہیں؟ اب لاہور اور امرت سر کے لوگ اور ایسا ہی پنجاب کے لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ براہین کی اشاعت کے وقت مجھے کوئی جانتا نہیں تھا۔حتیٰ کہ قادیان میں بہت کم لوگ ہوں گے جو مجھے پہچانتے ہوں گے۔پھر یہ امور کس طرح پورے ہو رہے ہیں؛ اگر چہ یہ پیشگوئیاں بدرجہ اتم ابھی پوری نہیں ہوئیں،لیکن جس قدر الہامات کا ظہر ہو رہا ہے وہ طالب حق کے لیے کافی ہے۔اب کیا یہ مریی بناوٹ ہے کہ ایک انسنا آج سے چوبیس سال پہیل آج کل کے واقعات کا نقشہ کھینچ سکتا ہے۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ہزار ہا مخلوق کا مرجع ہو گا۔خصوصاً جبکہ ایک مدت تک ان امور کا ظہور نہ ہوا۔جس سے صاف ظہار ہے کہیہ امور کسی فراست کا نتیجہ نہیں ہو سکتے۔ان امرو کو دیکھ کر میں کہہ سکتا ہوں کہ جس قدر نشانات خدا تعالیٰ نے میری تائید میں ظہار کئے وہ اپنی تعدات اور شوکت میں ایسے ہین کہ بجز حضرت نبی کریم ﷺ کل انبیاء و مرسلین سے ایسے ثابت نہیں ہوئے لیکن اس میں میرا کیا فخر ہے۔یہ سب کچھ تو اس پاک نبی کی فضیلت ہے۔جس کی امت میں ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے۔
پھر میں کہتا ہوں کہ آج کل کے پیر زادوں اور سجادہ نشینوں کو آزمالو۔کسی پادری یا کسی مذہب کے سرگروہ کو میرے مقابل میں لائو۔خدا تعالیٰ نشان نمائی میں بالضرور اس کو میرے مقابل شرمندہ اور ذلیل کرے گا۔یہان تو نشناوں کا دریا بہہ رہا ہے۔میرے دوست اس الہام سے خوب واقف ہیں جو دس بارہ سال ہوئے خدا تعالیٰ نے فرمایا
انی مھین من اراد اھا نتک وانی معین من اراد اعانتک
اس ایک الہام کو کس قدر مواقع اور محل پر میرے دوستوں نے پورے ہوتے دیکھا۔کس طرح لوگوں نے میری اہانت اور تذلیل کے لیے بیڑے اٹھائے۔اور کس طرح وہ خود ہی زلیل اور خوار ہو گئے۔اس کی ایک مثال نہیں بلکہ کئی ایک مثالیں ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان نشانات کو دیکھ کر بھی لوگ ابھی گمراہ ہیں۔ سو بات یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے دو گروہ چلے آئے ہیں۔ایک سعید دوسرا شقی۔ابو جہل نے ہزاروں نشان دیکھے لیکن وہ کافر ہی رہا۔سو اس صورت میں مومن کے لیے ضرور ہے کہ وہ دعا میں لگ جاوے۔
صرف بیعت پر قناعت نہ کریں
آپ نے جو آج مجھ سے بیعت کی ہے۔یہ تخمریزی کی طرح ہے۔چاہئے کہ آپ اکثر مجھ سے ملاقات کرین اور اس تعلق کو مضبوط کریں جو ٔء قائم ہوا ہے۔جس شاخ کا تعلق درخت سے نہیں رہتا وہ آخر خشک ہو کر گر جاتی ہے۔جو شخص زندہ ایمان رکھتا ہے وہ دنیا کی پروا نہیں رکھتا۔دنیا ہر طرح مل جاتی ہے۔دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والا ہی مبارک ہے لیکن جو دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے وہ ایک مردار کی طرح ہے جو کبیھ سچی نصرت کا منہ نہیں دیکھتا ۔یہ بیعت اس وقت کام آسکتی ہے۔جب دین کو مقدم کر لیا جاوے اور ا س میں ترقی کرنے کی کوشش ہو۔بیعت ایک بیج ہے جو آج بویا گیا۔اب اگر کوئی کسان صرف زمین میں تخمریزی پر ہی قناعت کرے اور پھل حاصل کرنے کے جو جو فرائض ہیں ان میں سے کوئی ادا نہ کرے۔نہ زمین کو درست کرے اور نہ آبپاشی کرے اور نہ موقعہ بہ موقعہ مناسب کھاد زمین میں ڈالے نہ کافی حفاظت کرے تو کیا وہ کسان کسی پھل کی امید کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔اس کا کھیت بالضرور تباہ اور خراب ہو گا۔کھیت اسی کا رہے گا جو پورا زمیندار بنے گا۔سو ایک طرح کی تخمریزی آپ نے بھی آج کی ہے۔خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کے مقدر میں کیا ہے، لیکن خوش قسمت وہ ہے جو اس تخم کو محفوظ رکھے اور اپنے طور پر ترقی کے لیے دعا کرتا رہے۔مثلاً نمازوں میں ایک قسم کی تبدیلی ہونی چاہیے۔
نماز میں حضور اور لذت پیدا کرنے کا طریق
میں دیکھتا ہوں کہ آج کل لوگ جس طرح نماز پڑھتے ہیں وہ محض ٹکریں مارنا ہے۔اُن کی نماز میں اس قدر بھی رقت اور لذت نہیں ہوتی جس قدر نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا میں ظاہر کرتے ہیں۔کاش یہ لوگ اپنی دعائیں نماز میں ہی کرتے۔شاید اُن کی نمازوں میں حضور اور لذت پیدا ہو جاتی۔اس لیے میں حکماً آپ کو کہتا ہوں کہ سردست آپ بالکل نماز کے بعد دعا نہ کریں۔اور وہ لذت اور حضور جو دعا کے لیے رکھ اہے،دعائوں کو نماز میں کرنے سے پید اکریں۔میرا مطلب یہ نہیں کہ نمازکے بعد دعا کرنی منع ہے ۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ جب تک نماز میں کافی لذت اور حضور پیدا نہ ہو نماز کے بعد دعا کرنے میں نماز کی لذت کو مت گنوائو۔ہاں ج بیہ حضور پیدا ہو جاوے تو کوئی حرج نہیں۔سو بہتر ہے نماز میں دعائیں اپنی زبان میں مانگو۔جو طبعی جوش کسی کی مادری زبان میں ہوتا ہے وہ ہر گاز غیر زبان میں پیدا نہیں ہو سکتا۔سو نمازوں میں قرآن اور ماثورہ دعائوں کے بعد اپنی ضرورتوں کو برنگ دعا اپنی زبان میں خد اتعالیٰ کے آگے پیش کرو تا کہ آہستہ آہستہ تم کو حلاوت پیدا ہو اجائے۔سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہو ں سے نجات حاصل ہو ، کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہ جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے ۔ہماری دعا یہ ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخب کر دیتے ہیں دور کر دے اور اپنی رضا مندی کی راہ کھالئے۔دنیا میں مومن کی مثال اس سواری کی ہے کہ جو جنگل میں جا رہا ہے۔راہ میں بسبب گرمی اور تھکان سفر کے ایک درخت کے نیچے سستانے کے لیے ٹھہرجاتا ہے لیکن ابھی گھوڑے پر سوار ہے اور کھڑا کھڑا گھوڑے پر ہی کچھ آرام لے کر آگے اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے لیکن جو شخص اس جنگل میں گھر بنا لے وہ ضرور درندوں کا شکار ہو گا۔مومن دنیا کو گھر نہیں بناتا اور جو ایسا نہیں خدا تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا نہ خدا تعالیٰ کے نزدیک دنیا کو گھر بنانے والے کی عزت ہے۔خدا تعالیٰ مومن کی عزت کرتا ہے۔
نوافل کی حقیقت
حدیث میں آیا ہے کہ مومن نوافل کے ساتھ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔نوافل سے مراد یہ ہے کہ خدمت مقررہ کر دہ میں زیادتی کی جاوے ہر ایک خیر کے کام میں دنیا کا بندہ تھوڑا سا کر کے سست ہو جاتا ہے،لیکن مومن زیادتی کرتا ہے۔نوافل صرف نماز سے ہی مختص نہیں بلکہ ہر ایک حسنات میں زیادتی کرنا نوافل ادا کرنا ہے۔مومن محض خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ان نوافل کی فکر میں لگا رہتا ہے۔اس کے دل میں درد ہے جو اسے بے چین کرتا ہے اور وہ دن بہ دن نوافل و حسنات میں ترقی کرتا جاتا ہے اور بالمقابل خدا تعالیٰ بھی اس کے قریب ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ مومن اپنی ذات کو فنا کر کے خدا تعالیٰ کے سایہ تلے آجاتاہے۔اس کی آنکھ خدا تعالیٰ کی آنکھ ۔اس کے کان خدا تعالٰی کے کان ہو جاتے ہیں۔کیونکہ وہ کسی معاملہ میں خدا تعالیٰ کی مخالفت نہیں کرتا۔ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس کی زبان خدا تعالیٰ کی زبان اور ا سکا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہو جاتا ہے۔
مومن کا مقام
پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے کسی بات میں اس قدر تردد نہیں ہوتا۔جس قدر مومن کی جان نکالنے میں تردد ہوتا ہے۔یون تو خدا تعالیٰ کی ذات سب ترددات سے پاک ہے لیکن یہ فقرہ جو فرمایا تو مومن کے اکرام کے لیے فرمایا۔اب دوسرے لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مر جاتے ہیں لیکن مومن کا معاملہ دگر گوں ہے۔مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ جو صلحاء اور انبیاء کی زندگی آئے دن طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہتی ہے اور بعض وقت اُن کو خوفناک امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔جیسے کہ ہمارے رسول خدا ﷺ کی صورت تھی۔یہ اُس تردد کا اظہار ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے گویا اﷲ تعالیٰ اس سے معاملہ ایسا کرتا ہے اور خوفناک بیماریوں سے اُسے نجاب دیکر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اُسے معمولی انسانوں کی طرح ضائع نہیں کرتا۔قرآن او رحدیث سے ثابت ہے کہ مومن کی ہر ایک چیز بابرکت ہو جاتی ہے جہاں وہ بیٹھتا ہے وہ جگہ دوسروں کیلئے موجب برکت ہوتی ہے۔اس کا پس خوردہ اوروں کیلئے شفا ہے۔حدیث میں آیا ہے کہ ایک گنہگار خدا تعالیٰ کے سامنے لایا جاوے گا۔خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تونے کوئی نیک کام کیا؟ وہ کہے گا کہ نہیں۔پھر خدا تعالیٰ اس کو کہے گا کہ فلاں مومن تو ملا تھا وہ کہے گا خداوند میں ارادتاً تو کبھی نہیں ملا وہ خود ہی ایک دن مجھے راستہ میں مل گیا ۔خدا تعالیٰ اسے بخش دے گا۔پھر ایک اور موقعہ پر حدیث میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ فرشتوں سے دریافت کرے گا کہ میرا ذکر کہاں پر ہو رہا ہے؟ وہ کہیں گے کہ ایک حلقہ مومنین کا تھا جہاں دنیا کے ذکر کا نام و نشان بھی نہ تھا؛ البتہ ذکر الٰہی آٹھوں پہر ہو رہا ہے۔اُن میں ایک دنیا پرست شخص تھا۔اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں ن یاس دنیادار کو اس ہم نشینی کے باعث بخش دیا۔
انھم قوم لا یشقی جلیسھم۔
بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ جہاں ایک مومن امام ہو اس کے مقتدی پیش ازیں کہ وہ سجدہ سے سر اُٹھاوے بخش دیئے جاتے ہیں۔
مومن وہ ہے کہ جس کے دل میں محبتِ الٰہی نے عشق کے رنگ میں جڑ پکڑلی ہو۔اس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ وہ ہر ایک تکلیھ اور ذلت میں بھی خدا تعالیٰ کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔اب جس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کب کسی کا کانشنس کہتا ہے کہ وہ ضائع ہو گا کیا کوئی رسول ضائع ہوا؟ دنیا نا خنوں تک اُن کو ضائع کرنے کی کوشش کرتی ہے،لیکن وہ ضائع نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ کے لیے ذلیل ہو وہی انجام کا ر عزت و جلال کا تخت نشیں ہوگا۔ایک ابو بکرؓ ہی کو دیکھو جس نے سب سے پہلے ذلت قبول کی اور سب سے پہلے تخت نشین ہوا۔اس میں کچھ شک نہیں کہ پہلے کچھ نہ کچھ دکھ اٹھانا پڑتا ہے کسی نے سچ کہا ہے ؎
عشق اول سرکش و خونی بود
تا گریزد ہر کہ بیرونی بود
عشق الٰہی بی شک اول سرکش و خونی ہوتا ہے تا کہ نا اہل دور ہو جاوے۔عاشقانِ خدا تکالیف میں ڈالے جاتے ہیں۔؎ٰقسم قسم کے مالی اور جسمانی مصائب اُٹھاتے ہیں اور ا س سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کے دل پہچانے جاویں۔خدا تعالیٰ نے یہ امر مقرر کر دیا ہے کہ جب تک کوئی پہلکے دوزخ پر راضی نہ ہو جاوے بہشت میں نہیں جاتا۔
Amira 8-6-05
بہشت دیکھنا اسی کو نصیب ہوتا ہے جو پہلے دوزخ دیکھنے کوتیارہوتا ہے۔دوزخ سے مراد آئندہ دوزخ نہیں بلکہ اس دنیا میں مصائب شدائدکا نظارہ مراد ہے۔اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ کافر کے لیے دوزخ بہشت کے رنگ میں اور مومن کے لیے بہشت دوزخ کے رنگ میں متمثل کیا جاتا ہے۔کافر جو دنیا کا طالب ہے دنیا میں منہمک ہو کر سگِ دنیا ہو جاتا ہے۔مومن ایک عاشق ہے جو دنیا کو طلاق دے کر ہر ایک تکلیف سہنے کو تیار ہوتا ہے اور فی الواقعہ یہ عشق ہی ہے جو اُسے ہر قسم کی تکلیف سہنے کے لیے آمادہ کر دیتا ہے۔مومن کا رنگ عاشق کا رنگ ہوتا ہے اور وہ اپنے عشق میں صادق ہوتا ہیاور اپنے معشوق یعنی خدا کے لیے کامل اخلاص اور محبت اور جان فدا کرنے والا جوش اپنے اندر رکھتا ہے اور تضرع اور ابتہال اور ثابت قدمی سے اس کے حضور میں قائم ہوتا ہے۔دنیا کی کوئی لذت اس کے لیے لذت نہیں ہوتی۔اس کی روح اسی عشق میں پرورش پاتی یہ۔معشوق کی طرف سے استغنا دیکھ کر وہ گھبراتا نہیں۔اس طرف سے خاموشی اور بے التفاتی بھی معلوم کر کے وہ کبھی ہمت نہیں ہارتا بلکہ ہمیشہ قدم آگے ہی رکھتا ہے اور دردِ دل زیادہ سے زیادہ پیدا کرتا جاتا ہے۔ان دونوں ثیزوں کا ہونا ضروری ہے کہ مومن عاشق کی طرف سے محبتِ الٰہی میں پورا استغراق ہو۔عشق کمال ہو۔محبت میں سچا جوش اور عہد عشق میں ثابت قدمی ایسی کوٹ کوٹ کے بھری ہو کہ جس کو کوئی صدمہ جنبش میں نہ لا سکے اور معشوق کی طرف سے کبھی کبھی بے پروا ہی اور خاموشی ہو۔دد دو قسم کا موجود ہو۔ایک تو وہ جو اﷲ تعالیٰ کی محبت کا درد ہو۔دوسرا وہ جو کسی کی مصیبت پر دل میں درد اُٹھے اور خیر خواہی کے لیے اضطراب پیدا ہو۔اور اس کی اعانت کے لیے بے چینی پیدا ہو۔خدا تعالیٰ کی محبت کے لیے جو اخلاص اور درد ہوتا ہے اور ثابت قدمی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے‘ وہ انسان کو بشریت سے الگ کر کے الوہیت کے سایہ میں لاڈالتا ہے۔جب تک اس کی حد تک درد اور عشق نہ پہنچ جائے کہ جس میں غیر اﷲ سے محویت حاصل ہو جائے اس وقت انسان خطرات میں پڑا رہتا ہے۔ان خطرات کا استیصال بغیر اس امر کے مشکل ہوتا ہے کہ انسان غیر اﷲ سے بکلی منقطع ہو کر اسی کا ہو جائے اور اُس کی رضا میں داخل ہونا بھی محال ہوتا ہے اور اس کی مخلوق کے لیے ایسا درد ہونا چاہیے جس طرح ایک نہایت ہی مہربان والدہ اپنے ناتواں پیارے بچے کے لیے دل میں سچا جوشِ محبت رکھتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ سے تعلق کے لیے محویت کی ضرورت
خد اتعالیٰ ایک تعلق چاہتا ہے اور اس کے حضور میں دعا کرنے کے لیے تعلق کی ضرورت ہے۔بغیر تعلق کے دعا نہیں ہوسکتی۔پہلے بزرگوں کی بھی اس قسم کی باتیں چلی آئی ہیں کہ جن سے دعا کرنے والوں کو دعا کرانے سے پہلے تعلق ثابت کر نے کی تاکید کی۔خواہ نخواہ بازار میں چلے ہوئے کسی بے تعلق کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تو میرا دوست ہے او نہ ہی اس کے لیے دردِ دل پیدا ہوتاہے۔اور نہ ہی جوش دعا پیدا ہوسکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ سے تعلق اس طرح نہیں ہوسکتا کہ انسان غفلت کا ریوں میں مبتلا بھی رہے اور صرف منہ سے دم بھرتارہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیا ہے۔اکیلے بیعت کا اقرار اور سلسلہ میں نام لکھ لینا ہی خد اتعالیٰ سے تعلق پر کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔اﷲ تعالیٰ سے تعلق کے لیے ایک محویت کی ضرورت ہے۔ہم بار بار اپنی جماعت کو اس بات پر قائم ہونے کے لیے کہتے ہیں ۔کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اﷲ تعالیٰ کے لیے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا۔بعض صوفیوں نے لکھا ہے کہ صحابہؓ جب نماز یں پڑھا کرتے تھے تو انہیں ایسی محویت ہوتی تھی کہ جب فارگ ہوتے تو ایک دوسرے کو پہچان بھی نہ سکتے تھے۔جب انسان کسی اور جگہ سے آتا ہے تو شریعت نے حکم دیا ہے کہ وہ آکر السلام علیکم کہے۔نماز سے فارغ ہونے پر السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہنے کی حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص نے نماز کا عقد باندھا اور اﷲ اکبر کہا تو اوہ گویا اس عالم سے نکل گیا اور ایک نئے جہان میں جا داخلہوا۔گویا ایک مقامِ محویت میں جا پہنچا۔پھر جب وہان سے واپس آیا تو السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہہ کر آن ملا۔لیکن صرھ ظاہری صورت کافی نہیں ہوسکتی جب تک دل میں اس کا اثر نہ ہو چھلکوں سے کیا ہاتھ آسکتا ہے۔محض صورت کا ہوان کافی نہیں ۔حال ہونا چاہیے۔علت غائی حال ہی ہے۔مطلق قال اور صورت جس کے ساتھ حال نہیں ہوتا وہ تو اُلٹی ہلاکت کی راہیں ہیں۔انسان جب حال پیدا کر لیتا ہے اور پانے حقیقی خالق و مالک سے ایسی سچی محبت اور اخلاص پیدا کر لیتا ہے کہ بے اختیار اس کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے اور ایک حقیقی محویت کا عالم اس پر طاری ہو جاتا ہے، تو اس وقت اس کیفیت سے انسان گویا سلطان بن جاتا ہیذرہ ذرہ اس کا خادم بن جاتا ہے۔
مجھے تو اﷲ تعالیٰ نے ایسی محویت دی تھی کہ تمام دنیا سے الگ ہو بیٹھا تھا۔تمام چیزیں سوائے اس کے مجھے ہرگز بھاتی نہ تھیں۔میں ہرگز ہر گز حجرہ سے باہرقدم رکھنا نہیں چاہتا تھا۔میں نے ایک لمحہ کے لیے بھی شہرت کو پسند نہیں کیا۔میں بالکل تنہائی میں تھا اور تنہائی ہی مجھ کو بھاتی تھی۔شہرت اور جماعت کو جس نفرت سے میں دیکھتا تھا اس کو خدا ہی جانتا ہے۔میں تو طبعاً گمنامی کو چاہتا تھا اور یہی میری آرزو تھی۔خدا تعالیٰ نے مجھ پر جبر کر کے اس سے مجھے باہر نکالا۔میری ہرگز مرضی نہ تھی مگر اس نے میری خلاف ِ مرضی کیا کیونکہ وہ ایک کام لینا چاہتا تھا۔اسی کام کے لیے اس نے مجھے پسند کیااوراپنے فضل سے مجھ کو اس عہدہ جلیلہ پر مامور فرمایا۔یہ اسی کا اپنا انتخاب اور اکم ہے۔میرا اس میں کچھ دخل نہیں۔میں تو دیکھتا ہوںکہ میری طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے کہ شہرت اور جماعت سے کوسوں بھاگتی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ کس طرح شہرت کی آرزو رکھتے ہیں۔میری طبیعت اور طرف جاتی تھی لیکن خدا تعالیٰ مجھے اور طرف لے جاتا تھا۔میں نے بار بار دعائیں کیں کہ مجھے گوشہ میں ہی رہنے دیا جاوے۔مجھے میری خلوت کے جھرے میں ہی چھوڑ دیا جائے۔لیکن بار بار حکم ہوا کہ اس سے نکلو اور دین کا کام جو اس وقت سخت مصیبت کی حالت میں تھا، اس کو سنوارو۔انبیاء کی طبیعت اسی طرح واقع ہوتی ہے کہ وہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی۔ہمارے نبی کریم ﷺ بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے۔آپ عبادت کرنے کے لیے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غارِ حرا تھی چلے جاتے تھے۔یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان اس میں جانے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔لیکن آپ نے اس کو اس لیے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے بھی نہ پہنچے گا۔آپ بالکل تنہائی چاہتا تھے۔شہرت کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے۔مگر خدا تعالیٰ کا حکم ہوا۔
یا یھا المدثر قم فانذر (المدثر : ۲ -۳)
اس حکم میں ایک جبر معلومہوتا ہے اور اسی لیے جبر سے حکم دیا گیا کہ آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی اب چھوڑدیں۔بعض لوگ بیوقوفی اور حماقت سے یہی خیال کرتے ہیں کہ گویا میں شہرت پسند ہوں۔میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ میں ہرگزشہرت پسند نہیں۔خدا تعالیٰ نے جبر سے مجھ کو مامور کیا ہے۔میرا اس مٰں قصور کیا ہے اور وہی گواہ ہے کہ میں شہرت پسند نہیں ہوں۔میں تو دنیا سے ہزاروں کوس بھاگتا تھا۔حاسد لوگوں کی نظر چونکہ زمین اور اس کی اسیاء تک ہی محدود ہوتی ہے اور وہ دنیا کے کیڑے ہیں اور شہرت پسند ہوتے ہیں۔ان کو اس خلوت گزینی اور بے تعلقی کی کیفیت ہی معلوم نہیں ہوسکی۔ہم تو دنیا کو نہیں چاہتے۔اگر وہ چاہیں اور اس پر قدرت رکھتے ہیں تو سب دنیا لے جائیں ہمیں ان پر کوئی گلہ نہیں۔ہمارا ایمان تو ہمارے دل میں ہے نہ دنیا کے ساتھ۔ہماری خلوت کی ایک ساعت ایسی قیمتی ہے کہ ساری دنیا اس ایک ساعت پر قربان کرنا چاہیے۔اس طبیعت اور کیفیت کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔مگر ہم نے خدا تعالیٰ کے امر پر جان و مال و آبرو کو قربان کر دیا ہے۔جب اﷲ تعالیٰ کسی کے دل میں تجلی کرتا ہے تو ھپر وہ پوشیدہ نہیں رہتا۔عاشق اپنے عشق کو خواہ کیسی ہی پوشیدہ کرے، مگر بھید پانے والے وار تاڑنے اولے قرائن اور آثار اور حالات سے پہچان ہی جاتے ہیں۔عاشق پروحشت کی حالت نازل ہوجاتی ہے۔اُداسی اُس کے سارے وجود پر چھا جاتی ہے۔الگ قسم کے خیالات اور حالات اس کے ظاہر ہو جاتے ہیں۔وہ اگر ہزاروں پردوں میں چھپے اور اپنے آپ کو چھپالے مگر چھپا نہیں رہتا۔سچ کہا ہے ؎
عشق و مشک رانتواں نہفتن
جن لوگوں کو محبتِ الیہی ہوتی ہے وہ اس محبت کو چھپاتے ہیں جس سے اُن کے دل لبریز ہوتے ہیں بلکہ اس کے افشاء پر وہ شرمندہ ہوتے ہیں،کیونکہ محبت اور عشق ایک راز ہے جو خدا اور ا سکے بندے کے درماین ہوتا ہے اور ہمیشہ راز کا فاش ہونا شرمندگی کا موجب ہوتا ہے۔کوئی رسول نہیں آیا جس کا راز خدا تعالیٰ سے نہیں ہوتا۔اسی راز کو چھپناے کی خواہش اس کے اندر ہوتی ہے مگر معشوق خود اس کو فاش کرنے پر جبر کرتا ہے اور جس بات کو وہ نہیں چاہتے وہی اُن کو ملتی ہے جو چاہتے ہیں ان کو ملتا نہیں اور جو نہیں چاہتے وہی ان کو جبراًملتا ہے۔
جب تک انسان ادنیٰ حالت میں ہوت اہے اس کے خیالات بھی ادنیٰ ہی ہوتے ہیں اور جس قدر معرفت میں گرا ہوا ہوتا ہے اسی قدر محبت میں کمی ہوتی ہے۔معرفت سے حُسن ظن پیدا ہوتا ہے۔ہر شخص میں محبت اپنے ظن کی نسبت سے ہوتی ہے۔
انا عند ظن عبدی بی
سے یہی تعلیم ملتی ہے۔صادق عاشق جو ہوتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ اس کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔خدا تعالیٰ تو وفاداری کرنا پسند کرتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان صدق دکھلاوے اور اس پر ظن نیک رکھے کہ تا وہ بھی وفا دکھلائے مگر یہ لوگ کب اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔یہ تو اپنی ہوا و ہوس کے بتوں کے آگے جھکے رہتے ہیں اور ان کو نظر دنیا تک ہی ہوتی ہے۔اﷲ تعالیٰ کو کریم و رحیم نہیں سمجھتے۔اس کے وعدوں پر ذرہ ایمان نہیں رکھتے۔اگر اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان رکھتے کہ وہ کریم و رحیم ہے تو وہ بھی اُن پر رحمت اور وفا کے ثبوت نازل کرتا ؎
گر وزیر از خدا بتر سیدے
ہمچناں کز ملک ملک بودے
اﷲ تعالیٰ سے بد ظنی مت کرو
شر بدظنی سے پیدا ہوتا ہے۔قرآن شریھ کو اول سے آخر تک پڑھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے بدظنی مت کرو۔اﷲ تعالیٰ کا ساتھ نہ ثھوڑو۔اسی سے مدد مانگو۔اﷲ تعالیٰ ہر میدان میں مومن کی مدد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں میدان میں تیرے ساتھ ہوں وہ اس کے لیے ایک فرقان پید اکر دیتا ہے جو اس کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کرتا وہ بدظنی کرتا ہے۔جو خدا تعالیٰ سے نیک طن کرتا ہے وہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جو اﷲ تعالیٰ سے بدظنی کرتا ہے‘ وہ مجبور ہتوا ہے کہ اپنے لیے کوئی دوسرا معبود بنائے اور شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جب انسان اس بات کو سمجھتا ہے کہ خدا کریم و رحیم ہے اور بات پر ایمان صدق دل سے لاتا ہے کہ اس کے وعدے ٹلنے کے نہیں تو وہ اس پر جان فدا کرتا ہے اور دربردہ خدا تعالیٰ سے عشق رکھتا ہے۔ایسا انسان خدا تعالیٰ کا چہرہ اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے۔خدا تعالیٰ طرح طرح سے اس کی مدد کرتا ہے اور اپنے انعامات اس پر نازل کرتا ہے ارو اس کو تسلی بخشتا ہے اور محبت اور وفا کا چہرہ دکھاتا ہے لیکن بے وفا غدار ہمیشہ محروم رہتا ہے۔؎ٰ
۲۱؍مئی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
طاعون اور الہام انہ اوی القریۃ
بوقت ایک بجے بمقام کچہری گورداسپور درخت جامن کے نیچے بیٹھے ہوئے حکیم نور محمد صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا تھا کہ آپ لوگ احمدی جماعت کے جو یہ کہتے ہیں کہ طاعون سے ہم بچے رہیں گے اس کی وجہ کیا ہے؟ حکیم صاحب نے اس کے جواب میں جو کچھ اس نے تقریر کی تھی۔وہ سنائی پھر اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے
وان من قریۃ الا نحن مھلکو ھا قبل یوم القیامۃ او معذبو ھا
عذابا شدیدا (بنی اسرائیل : ۵۹)
یعنی طاعون کا عذاب دو طرح پر ہوگا کوئی بستی اس سے خالی نہیں رہے گی۔بعض تو ایسی ہوں گی کہ جن کو ہم بالکل ہلاک کر دیں گے یعنی وہ اُجڑ کر بالکل گیر آباد ہو جائیں گی اور ویرانہ اور ٹھہ (اُجڑے ہوئے کھنڈرات) ہو جائیں گی۔اُن کا کوئی نشان بھی نہ رہے گا۔لوگ تلاش کرتے پھریں گے کہ اس جگہ فلاں بستی آباد تھی لیکن پھر بھی پتہ نہ ملے گا۔گویا طاعون وہاں جاروب دیکر اس کو دنیا سے صاف کر دے گی اور کوئی آثار اس کے نہ چھوڑے گی۔بعض قریئے ایسے ہوں گے کہ جن کو کم و بیش عذاب کر کے چھوڑ دیا جائے گا۔اور صفحہ دنیا سے اُن کا نام نہ مٹایا جائے گا۔صرف سرزنش کے طور پر کچھ عذاب اُن میں نازل کیا جائے گا اور تازیانہ کر کے عذاب ہٹالیا جائے گا۔دوسرے بہت سے شہر ھنا ہوں گے،مگر وہ فنا نہ ہوں گے۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے قادیان کو اسی قسم میں شامل کیا ہے۔اور اس الہام
انہ اوی القریۃ
سے مراد یہی ہے کہ اور بستیوں کی طرح ہمارے گائوں کو طاعون جارف بالکل تباہ نہ کرے گی کہ لوگ تلاش کرتے پھریں کہ کہاں قادیان واقع تھی۔اﷲ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ان بستیوں کی طرح خدا اس کو تباہ نہ کرے گا بلکہ یہ بچی رہے گی الا بطور تازیانہ کچھ سزا دے کر اُس کو بچا لیا جائے گا۔ہم نے بار بار مجلسوں میں بیان کیا ہے اور لکبھا ہے کہ
انہ اوی القریۃ
سے یہ مراد ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس قریہ کو پناہ دے دی ہے کہ وہ طاعون جارف سے بچی رہے اور بالکل فنا نہ ہو۔خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ نہیں کیا کہ باوجود گنہگار نوہے کے اﷲ تعالیٰ بغیر عذاب کے چھوڑدے۔ایک طرھ تو قرآن میں یہ کہ طاعون سے کوئی بستی خالی نہیں رہے گی ارو طاعون کی وجہ صرف یہی ہے جو
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر واما بانفسہم (الرعد : ۱۲)
کے الہام سے ظاہر ہے یعنی جب لوگوں نے اپنے افعال اور اعمال سے غضبِ الیہی کے جوش کو بھڑ کایا اور بدعملیوں سے اپنی حالتوں کو ایسا بدل لیا کہ خوف خدا اور تقویٰ و طہارت کی ہر ایک راہ کو چھوڑ دیا اور بجائے اس کے طرح طرح کے فسق و فجور کو اختیار کر لیا اور خدا تعاسلیٰ پر ایمان سے بالکل ہاتھ دھودیا۔دہریت اندھیری رات کی طرح دنیا پر محیط ہو گئی اور اﷲ تعالیٰ کے نورانی چہرے کو ظلمت کے نیچے دبا دیا تو خدا تعالیٰ نے اس عذاب کو نازل کیا تا لوگ خد اتعالیٰ کے چہرے کو دیکھ لیں اور اس کی طرھ رجوع کریں۔بعض بستیان مھلکوھا میں داخل نہ ہوگی۔یہی مراد الہام
انہ اوی القریۃ
سے ہے۔گناہوں کی طرزنش کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے یہاں بھی طاعون نازل فرمائی۔خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے
لو لا الاکرام لھلک المقام۔
یعنی قدیان مھلکوھا میں داخل کر دیا جاتا ،لیکن صرف تمہاری تکریم اور تعظیم سے اس کو مھلکوھا میں داخل نہیں کیا گیا۔جو بچے ہیں اور جو بچیں گے وہ تمہارے اکرام کی وجہ سے بچیں گے۔یہ تو قرآن کے بالک مخالھ یہ کہ قادیان عذاب طاعون سے بالکل محفوظ رہے۔ایک طرف تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما بانفسہم (الرعاد : ۱۲)
دوسری طرف
انہ اوی القریۃ
کے اگر یہ معنے ہوں کہ قادیان بالکل بچ گئی تو ان دونوں کے درمیان تضاد واقع ہوتا ہے۔دو ضدین جمع نہیں ہو سکتیں۔ہم نے کبھی
انہ اوی القریۃ
کے یہ معنی نہیں سمجھے ۔طاعون تو دنای کی ہر ایک بستی میں آئے گی۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ جہاں کسی نے دعویٰ کی کہ فلاں مقام میں طاعون نہیں تو اسی جگہ ظاہر ہو جاتی ہے۔دہلی والوں نے بڑے زور سے لکھ اتھا کہ دو وجوہ سے وہاں طاعون نہیں آتی اور نہ آئے گی۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں کے لوگ بہت صفائی رکھتے ہیں۔دوسرے مچھروں کا واہں نہ ہونا۔اب گزٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی طاعون آگئی۔لاہور کی نسبت کہا جاتا تھا کہ اس کی سرزمین میں ایسے زجزاء ہیں کہ اس میں طاعونی کیڑے زندہ نہیں رہ سکتے۔لیکن وہان بھی طاعون نے آن ڈیرا ڈالا ہے۔ابھی لوگوں کو معلوم نہیں ہے لیکن سالہا سال کے بعد لوگ دیکھیں گے کہ کیا ہوگا۔کئی لوگ اور دیہات بھی بالکل تباہ ہو جائیں گے۔
Amira 11-6-05
دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ جائے گا اور اُن کے آثار تک باقی نہ رہیں گے، لیکن یہ حالت کبھی قادیان پر وارد نہ ہوگی۔یہ ایک لمبی بیماری ہے عمروں تک چلی جاتی ہے۔بڑے بڑے قطعے اس نے برباد کر کے جنگل کر دیئے۔شہروں کے شہر ویرانے بنادیئے۔سینکڑوں کوس ایسے غیر آباد کئے کہ جانور بھی زندہ نہ رہے۔اس کے آگے تو بڑے بڑے شہر بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتے۔بڑے سے بڑے آباد شہر کو بھی اگر چاہے تو دو تین دن میں صاف کر سکتی ہے۔؎ٰ
۳۱؍مئی ۱۹۰۴ء
تقریر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام
بمقام گورداسپور-اضری مولوی الٰہی بخش صاحب آمدہ از بنارس
جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے تو لوگ عموماً اس کی طرف سے بے پرواہی کرتے ہیں اور اکابر اور علماء کو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ کرنا عیب سمجھتے ہیں۔مگر اﷲ تعالیٰ غنی ہے اور مرسل اور مامور چونکہ ایک خدمت پر اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مقرر ہوتے ہین۔وہ بھی بے پروا ہوتے ہیں اور اپنے آپ کا محتاج نہیں سمجھتے بلکہ جیسے وہ ذات الٰہی کا مظہر ہوتے ہیں۔ایسے ہی اسی ذات سے غنا کا حصہ بھی لیتے ہیں۔ہر ایک شخص جو مامور بن کر دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس کو ایک خاص قسم کی ہمت اور حوصلہ عطا کیا جاتا ہے۔اور عزم میں ایک بے روک حزم اور استقلال عطا کیا جاتا ہے۔یہ لوگ بڑا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ہم اپنی طرف سے کسی پر اثر نہیں ڈال سکتے۔انسان تو ایک انسان پر اثر نہیں ڈال سکتا۔
یہ محض اﷲ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ہزار ہا بلکہ لاکھوں آدمیوں کو کھینچے لیے آتا۔یہاں کسی بناوٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔چوبیس برس سے زیادہ ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے الہام کیا تھا کہ
ینصرک رجال نو حی الیھم من السماء۔یا تیک من کل فج عمیق۔یا تون من کل فج عمیق۔
ولا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس۔
یعنی ہم لوگوں کے دل میں وحی کر دیں گے اور وہ تیری مدد کریں گے بڑے بڑے دور دراز راہوں سے تیرے پاس لوگ آئیں گے تم خلق کے ہجوم سے جو تیرے گرد جمع ہوگی۔تنگ مت آنا اور لوگوں سے تھکنا مت۔یہ ایسے وقت کی باتیں ہیں جب میں بالکل گمنام تھا۔اور کوئی آدمی میرے ساتھ نہ تھا۔میرے گائوں سے باہر کوئی بھی مجھے جانتا نہ تھا اور کوئی انسان اس بات پر یقین نہیں لا سکتا تھا کہ ایسی کشش لوگوں کو ہوگی کہ وہ قادیان جیسی گمنام بستی میں دور دراز سے کھنچے چلے آئین گے سو ہم دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے کلمات کس طرح صفائی سے پورے ہو رہے ہیں۔ایسے ایسے علاقوں سے لوگ آتے ہیں کہ جہاں ہمارے وہم و گمان میں بھی ہماری تبلیغ کا نام و نشان نہیں ہوتا اور اس عقیدت اور اخلاص سے آتے ہیں کہ ہم کو اُن کے اخلاص و عقیدت پر رشک آتا ہے۔
اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے مجھ کو فرمایا ہوا ہے کہ
اذا جاء نصر اﷲ والفتح وانتھی امر الزمان الینا۔ألیس ھذا بالحق۔
یعنی عنقریب ایک زمانہ آنیوالا ہے کہ تجھے اﷲ تعالیٰ نصرت اور فتح دیگا اور ہماری طرف زمانہ کا امر انتہا پاوے گا تو ا سوقت کہا جاوے گا کیا یہ سچ نہیں؟ یعنی اس سلسلہ کی صداقت پر زمانہ گواہی دے اُٹھے گا۔ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ لوگ تیری ترقی کے روکنے کی کوشش کریں گے لیکن ہم تیری مدد کریں گے اور دشمن تیری راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں گے مگر ہم اُن کو دور کریں گے اور وہ تیرے نابود کرنے کے منصوبے کریں گے۔سو ہم دیکھتے ہیں کہ چوبیس برس کی پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں۔ہر ایک شخص جو ہمارے پاس آتا ہے وہ اس پیشگوئی کو پورا کرتا ہے۔
ہمارا سارا دار و مدار دعا پر ہے
ہمارا تو سارا دار و مدار ہی دعا پر ہے۔دعا ہی ایک ہتھیار ہے جس سے مومن ہر کام میں فتح پاسکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے مومن کو دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے بلکہ وہ دعا کا منتظر رہتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری دعائوں کو خاص فضل سے قبول فرماتا ہے۔دعا سے انسان ہر ایک بلا اور مرض سے بچ جاتا ہے۔ہم نے ایک دفعہ ایک اخبار پڑھا تھا کہ ایک تھا نیدار کے ناخن میں پنسل کا ایک ٹکڑا کسی طرح سے چبھ گیا۔پنسل میں کچھ زہر بھی ہوتا ہے۔تھوڑی دیر میں اس کے ہاتھ میں ورم ہونا شروع ہو گیا۔بڑھتے بڑھتے ورم اس قدر بڑھ گیا کہ کہنی تک جا پہنچا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سہ چند بوجھ ہو گیا۔فوراً ڈاکٹر کو بلا یا گیا۔ڈاکٹر نے کہا کہ اس بازو میں زہر اثر کر گیا ہے۔تم اگر اس کو کٹانے پر راضی ہو تو جان بچ جائے گی؛ ورنہ نہیں۔وہ تھانیدار کٹانے پر راضی نہ ہوا۔اس کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں وہ مر گیا ہمارے بھی ایک دفعہ اسی طرح ناخن میں پنسل لگ گئی۔ہم سیر کرنے گئے تو دیھکا کہ ہمارے ہاتھ میں بھی ورم ہونا شروع ہوگیا ہے۔تو ہمیں وہ قصہ یاد آگیا۔میں نے اسی جگہ سے دعا شروع کر دی۔گھر پہنچنے تک برابر دعا ہی کرتا رہا تو دیکھتا کیا ہوں کہ جب میں گھر پہنچا تو وَرم کا نام و نشان تک بھی نہ تھا۔پھر میں نے لوگوں کو دکھایا اور سارا قصہ بیان کیا۔
اسی طرح ایک دفعہ میرے دانت کو سخت درد شورع ہو گیا۔میں نے لوگوں سے ذکر کیا تو اکثر نے صلاح دی کہ اس کو نکلوادیان بہتر ہے۔میں نے نکلوانا پسند نہ کیا اور دعا کی طرف رجوع کیا تو الہام ہوا
واذا مرضت فھو یشفینی۔
اس کے ساتھ ہی مرض کو بالکل آرام ہو گیا۔اس بات کو قریباً پندرہ سال ہو گئے ہیں۔
خدا تعالیٰ صالحین کا متولی ہوتا ہے
اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے ایمان کے موافق اسباب سے نفرت ہو جاتی ہے۔جس قدر ایمان کامل ہوتا ہے۔اسی قدر اسباب سے نفرت ہوتی جاتی ہے۔حقیقت میں دیکھا گیا ہے کہ دنیابڑے دھوکے میں پڑی ہوئی ہے۔جن باتوں کو اپنی ترقی کے ذرائع سمجھی بیٹھی ہے۔اصل میں وہی ذلت کا موجب ہوتی ہے۔دنیاوی عزت بڑھانے اور عروج و مالداری حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے فریب و دجل اور دھوکے استعمال کرتے ہیںاور طرح طرح کی بے ایمانیوں سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔انہیں مکاریوں کو اپنی مرادوں کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں۔یہاںنتک کہ بڑے فجر سے اپنی کامیابیوں کا دوستوں میں ذکر کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں لیکن اگر نظر انصاف اور معرفت سے دیکھ اجاوے تو انکے یہ طریق کوئی راحت نہیں بخشتے۔جب پوچھو تو شاکی اور نالاں ہی نظر آتے ہیں اور کبھی راحت اور طمانیت اُن کے حال سے ظاہر نہیں ہوتی۔طمانیت کی رئویت بجز فضل خدا کے نہیں ہوتی۔جب تک انسان اﷲ تعالیٰ پر کامل ایمان نہیں رکھتا اور اس کے وعدوں پر سچا یقین نہیں کرتا اور ہر ایک مقصود کا دینے والا اسی کو نہیں سمجھتا اور کامل اصلاح اور تقویٰ اختیار نہیں کر لیتاتو اس وقت تک وہ حقیقی راحت دستیاب نہیں ہوسکتی۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وھو یتولی الصالحین (الاعراف : ۱۹۷)
یعنی جو صلاحیت اختیار کرتے ہیں خدا تعالیٰ اُن کا متولی ہو جاتا ہے۔انسان جو متولی رکھتا ہے اس کے بہت بوجھ کم ہو جاتے ہیں۔بہت ساری ذمہ داریاں گھٹ جاتی ہیں۔بچپن میں ماں بچے کی متولی ہوتی ہے،تو بچے کو کوئی فکر اپنی ضروریات کا نہیں رہتا۔وہ خود ہی اس کی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے۔اس کے کپڑوں اور کھانے پینے کے خود ہی فکر میں لگی رہتی ہے۔اس کی صحت قائم رکھنے کا دھیان اسی کو رہتا ہے۔اس کو نہلاتی اور دھلاتی ہے اور کھلاتی اور پلاتی ہے۔یہانتک کہ بعض وقت اس کو مار کر کھنا کھلاتی ہے اور پانی پلاتی اور کپڑا پہناتی ہے۔بچہ اپنی ضرورتوں کو نہیں سمجھتا بلکہ ماں ہی اس کی ضرورتوں کو خوب سمجھتی اور اُن کو پورا کرنے کے خیال میں لگی رہتی ہے۔اسی طرح جب مان کی تولیت سے نکل آئے تو انسان کو بالطبع ایک متولی کی ضرورت پڑتی ہے۔طرح طرح سے اپنے متولی اور لوگوں کو بناتا ہے جو خود کمزور ہوتے ہیں اور اپنی ضروریات میں غلطاں ایسے ہوت یہیں کہ دوسرے کی خبر نہیں لے سکتے ،لیکن جو لوگ ان سب سے منقطع ہو کر اس قسم کا تقویٰ اور اصلاح اختیار کرتے ہیں ان کا وہ خود متولی ہو جاتا ہے اور ان کی ضروریات اور حاجات کا خود ہی کفیل ہو جاتا ہے۔انہیں کسی بناوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔وہ اس کی ضروریات کو ایسے طور سے سمجھتا ہے کہ یہ خود بھی اس طرح نہیں سمجھ سکتا اور اس پر اس طرح فضل کرتا ہے کہ انسان خود حیران رہتا ہے۔گرنہ ستانی بہ ستم مے رسد۔والی نوبت ہوتی ہے۔لیکن انسان بہت سے زمانے پالیتا ہے۔جب اس پر ایسا زمانہ آتا ہے کہ خد ااس کا متولی ہو جائے یعنی اس کو خد اتعالیٰ کی تولیت حاصل کرنے سے پہلے کئی متولیوں کی تولیت سے گذرنا پڑتا ہے۔جیس اکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
قل اعوذ برب الناس۔ملک الناس الہ الناس۔من شر الوسواس الخناس۔الذی یوسوس
فی صدور الناس۔من الجنۃ والناس۔ (الناس : ۲ تا ۷)
پہلے حاجت ماں باپ کی پڑتی ہے۔پھر جب بڑا ہوتا ہے تو بادشاہوں اور حاکموں کی حاجت پڑتی ہے پھر جب اس سے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جن کو میں نے متولی سمجھا ہوا تھا وہ خود ایسے کمزور تھے کہ ان کو متولی سمجھنا میری غلطی تھی کیونکہ انہیں متولی بنانے میں نہ تو میری ضروریات ہی حاصل ہو سکتی تھیں اور نہ ہی وہ میرے لیے کافی ہو سکتے تھے۔پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے ارو ثابت قدمی دکھانے سے خدا تعالیٰ کو اپنا متولی پاتا ہے۔اس وقت اس کو بری راحت حاصل ہوتی ہے اور ایک عجیب طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔خصوصاً جب خدا کسی کو خود کہے کہ میں تیرا متولی ہوا تو اس وقت جو راحت اور طمانیت اس کو حاصل ہوتی ہے وہ ایسی حالت پیدا کرتی ہے کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔یہ حالت تمام تلخیوں سے پاک ہوتی ہے۔دنیاوی حالتوں میں انسان تلخی سے خالی نہیں ہو سکتا۔دشتِ دنیا کانٹوں اور تلخیوں سے بھری ہوئی ہے ؎
دشتِ دنیا جزدر و جز دام نیست
جز بخلوت گاہِ آرام نیست
جن کا اﷲ تعالیٰ متولی ہو جاتا ہے ۔وہ دنیا کے آلام سے نجات پا جاتے ہیں اور ایک سچی راحت اور طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں۔اُن کے لیے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
ومن یتق اﷲ یجعل لہ مخر جا۔ویر زقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق : ۳‘۴)
جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے ہر ایک بلا اور اَلم سے نکال لیت اہے اور اس کے رزق کاخود کفیل ہو جاتا ہے اور ایسے طریق سے دیتا ہے کہ جو وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔
دنیا میں کئی قسم کے جرائم ہوتے ہیں۔بعض جرائم قانون کی حد میں آسکتے ہیں اور بعض قانون کی حد میں بھی نہیں آسکتے۔گناہ‘ خون اور نقب زنی وغیرہ جب کرتا ہے تو اُن کی سزا قانون سے پاسکتا ہے۔لیکن جھوٹ وغیرہ جو معمولی طور پر بولتا ہے یا بعض حقوق کی رعایت نہیں رکھتا وغیرہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کے لیے قانون تدارک نہیں کرتا۔لیکن اﷲ تعالیٰ کے خوھ سے اور ا سکو راضی کرنے کے لیے جو سخص ہر ایک بدی سے بچتا ہے اس کو متقی کہتے ہیں یہ وہی متقی ہے جس کی آج عدالت میں بحث تھی۔ایک مولوی عدالت میں ازطرف کرم دین مستغیث گواہ تھا اور اس پر جرح تھی۔اثنائے جرح میں اس نے بحلھ بیان کیا کہ ایک شخص زنا بھی کرے‘ جھوٹ بولے یا خیانت کرے۔دغاد ے۔فریب کرے۔وغیرہ وغیرہ تو پھر بھی وہ متقی ہی رہتا ہے۔اﷲ تعالیٰ تو متقی کے لیے وعدہ کرتا ہے کہ
من یتق اﷲ یجعل لہ مخرجا (الطلاق : ۳)
یعنی جو اﷲ تعالیٰ کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہے تو ہر مشکل سے اﷲ تعالیٰ اس کو رہائی دے دیت اہے۔لوگوں نے تقویٰ کے چھوڑنے کے لیے طرح طرح کے بہانے بنا رکھے ہیں۔بعض کہتے ہین کہ جھوٹ بولے بغیر ہمارے کاروبار نہیں چل سکتے اور دوسرے لوگوں پر الزام لگاتے ہیں کہ اگر سچ کہا جائے تو وہ لوگ ہم پر اعتبار نہیں کرتے۔پھر بعض لوگ ایسے ہیں ۔جو کہتے ہیں کہ سود لینے کے بغیر ہامرا گذارہ نہیں ہو سکتا ۔ایس یلوگ کیونکر متقی کہلاسکتے ہیں۔خد اتعالیٰ تو وعدہ کرتا ہے کہ میں متقی کو ہر ایک مشکل سے نکالوں گا۔اور ایسے طور سے رزق دوں گا جو گمان اور وہم میں بھی نہ آسکے۔اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو لوگ ہماری کتاب پر عمل کریں گے ان کو ہر طرف سے اوپر سے وار نیچے سے رزق دوں گا۔پھر فرمایا ہے کہ
فی السماء رزقکم (الذریت : ۲۲۳)
جس کا مطلب یہی ہے کہ رزق تمہارا تمہاری اپنی محنتوں اور کوششوں اور منصوبوں سے وابستہ نہیں۔وہ اس سے بالاتر ہے۔یہ لوگ ان وعدوں سے فائدہ نہٰں اُٹھاتے اور تقویٰ اخیتار نہیں کرتے۔جو شخص تقویٰ اختیار نہیں کرتا وہ معاصی میں غرق رہتا ہے اور بہت ساری رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔لکھ اہے کہ ایک ولی اﷲ کسی شہر میں رہتے تھے ان کی ہمسائگت میں ایک دنیادار بھی رہتا تھا۔ولی ہر روز تہجد پڑھا کرتا تھا۔ایک دفعہ دنیادار کے دل میں خیال آیا کہ یہ شخص جو ہر روز تہجد پڑھا کرتا ہے میں بھی تہجد پڑھوں ۔غرض یہی ارادہ مصمم کرکے وہ ایک رات اُٹھا اور تہجد کی نماز پڑھی۔اس کو تہجد پڑھنے سے اس قدر تکلیف ہوئی کہ کمر میں درد شروع ہو گیا۔اس ولی اﷲ کو خبر ملی کہ رات اُن کے دنیادار ہمسایہ نے تہجد کی نماز پڑھی تھی تو اس کے سبب سے اس کے کمر میں درد ہونے لگا ہے۔وہ عیادت کے لیے آیا اور اُس سے حال پوچھا ۔دنیادار نے کہا کہ میں آپ کو دیکھا کرتا تھا کہ آپ ہر رات تہجد پڑھتے ہیں۔میرے خیال میں بھی آیا کہ میں بھی تہجد پڑھوں۔سو آج رات میں تہجد پڑھنے اُٹھا اور یہ مصیبت مجھ پر آگئی۔اس نے جواب میں کہا کہ تجھے اس فضول سے کیا؟ پہلے چاہیے تھا کہ تو اپنے آپ کو صاف کرتا اور پھر تہجد کا ارادہ کرتا۔اﷲ تعالیٰ کی اجابت بھی متقین کے لیے ہے؛ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
انما یتقبل اﷲ من المتقین (المائدۃ : ۲۸)
در حقیقت جب تک انسان تقویٰ اختیار نہ کرے اس وقت تک اﷲ تعالیٰ اس کی طرف رجوع نہیں کرتا۔اﷲ تعالیٰ کی ذات میں بے نظیر صفات ہیں۔جو لوگ ا سکی راہ پر چلتے ہیں انہیں کو اس سے اطلاع ملتی ہے اور وہی اس سے مزہ پاتے ہیں۔خدا تعالیٰ سے رشتہ میں اس قدر شیرینی اور لذت ہوتی ہے کہ کوئی پھل ایسا شیریں نہیں ہوتا۔خدا تعالیٰ سے جلدی کوئی شخص خبر گیراں نہیں ہوسکتا ۔پھر جس کا خدا متولی ہو جاتا ہے، اس کو کئی فائدے ہوتے ہیں۔ایک تو وہ طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ راحت پاتا ہے جو کسی دنای دار کو نصیب ہونا نا ممکن ہے اور ایسی لذت پاتا ہے جو کہیں دوسری جگہ نصیب نہیں ہوسکتی۔اور اس کا متولی ایسا زبردست ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک مشکل سے بہت جلدی نکالتا اور خبر گیری کرتا ہے۔یہ لوگ بالکل بے ہودہ جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں۔جھوٹی باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔نماز اگر پڑھتے ہیں تو ریاء کیلئے پڑھتے ہیں۔وہ نماز جو آنحضرت ﷺ نے سکھلائی تھی وہ نہینں پڑھتے۔ یہ وہ نماز ہے جس کے پڑھنے سے انسنا ابدال میں داخل ہو جاتا ہے۔گناہ اس کے دور ہو جاتے ہیں۔دعائیں قبول ہوتی ہیں۔انسعان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔
احسب الناس ان یترکو اانیقولو اامنا وھم لا یفتنون (اعنکبوت : ۳)
لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں،کافی ہے۔اور کوئی امتحانی مشکل پیش نہ آئے گی۔یہ بالکل غلط خیال ہے۔اﷲ تعالیٰ مومن پر ابتلاء بھیج کر امجحان کرتا ہے۔تمام راستبازوں سے خدا تعالٰٰ کی یہی سنت ہے وہ مصائب اور شدائد میں ضرور ڈالے جاتے ہیں۔
انقطاع الیاﷲ
مصائب بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک تو وہ مصائب ہیں جو زیرِ سایۂ شریعت ہوتے ہیں۔انسان احکام کی تعمیل کے لیے انقطاع حاصل کرنا چاہتا ہے ارو اس طرف ہر ایک دنیاوی تعلق میں جو کشش ہے وہ اس کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔بیوی‘بچے، دوست دنیاداری کی رسوم کے تعلقات چاہت یہیں کہ ہماری کشش اس پر ایسی ہو کہ وہ ہماری طرف کھنچا چلا اآوے اور ہم میں ہی محو رہے۔تعمیلِ احکام کی کشش ان سے انقطاع کا تقاضا کرتی ہے۔ان سب کا چھوڑنا ایک موت کا سامنا ہوتا ہے۔
ہمارا یہ مطلب تو نہیں کہ ان سب کو اس طرح چھوڑے کہ ان سے کوئی تعلق ہی نہ رکھے۔ایک طرف بیوی بیوائوں کی طرح ہو جائے اور بچے یتینوں کی طرح ہو جائیں۔قطع رحم ہو جائے بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ بیوی بچوں کا پورا تعہد کرے۔اُن کی پرورش پورے طور سے کرے اور حقوق ادا کرے۔صلہ رحم کرے۔لیکن دل اُن میں اور اسباب دنیا ممیں نہ لگا دے۔دل با یار و ست بکار رہے؛ اگر چہ یہ بات بہت نازک ہے مگر یہی سچا انقطاع ہے جس کی مومن کو ضرورت ہے۔وقت پر خدا تعالیٰ کی طرف ایسا آجاوے کہ گویا وہ ان سے کواراہی تھا۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی نسبت لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ صاحب نے ایک دفعہ سوال کیا کہ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا ۔ہاں۔حضرت امام حسین ؑ نے اس پر بڑ اتعجب کیا او رکہا کہ ایک دل میں دو محبتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں۔پھر حضرت امام حسین ؑ نے کہا کہ وقت مقابلہ پر آپ کس سے محبت کریں گے۔فرمایا اﷲ سے۔غرض انقطاع اُن کے دلوں میں مخفی ہوت اہے اور وقت پر ان کی محبت صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے رہ جاتی ہے۔مولی عبد الطیف صاحب نے عجیب نمومن انقطاع کا دکھلایا ۔جب اُنہیں گرفتار کرنے آئے تو لوگوں نے کہا کہ آپ گھر سے ہو آویں۔آپ نے فرمایا کہ میرا اُن سے کیا تعلق ہے۔خدا تعالیٰ سے میرا تعلق ہے سو اُس کا حکم آن پہنچا ہے۔میں جاتا ہوں۔ہر چیز کی اصلیت امتحان کے وقت ظاہر ہوتی ہے۔اصحابِ رسول اﷲ سب کچھ رکھتے تھے۔زن و فرزند اور اموال و اقارب سب کچھ اُن کے موجود تھے۔عزتیں اور کاروبار بھی رکھتے تھے،مگر اُنہوں نے اس طرح شہادت کو قبول کیا کہ گویا شیریں پھل انہیں میسر آگیا۔وہ اﷲ تعالیٰ کے لیے موت کو پسند کرتے ایک طرف تعہد حقوقِ عیال و اطفال میں کمال دکھیا اور دوسری طرف ایسا انقطاع کہ گویا وہ بالکل کورے تھے۔یہانتک کہ اﷲ تعالیٰ کے لیے موت کو پسند کرتے کبھی نامردی نہ دکھاتے بلکہ آگے ہی قدم رکھتے۔ایسی محبت سے وہ آنحضرت ﷺ کے قدموں میں جان دیتے تھے کہ بیوی بچوں کو بلا جیسی سمجھتے تھے۔اگر بیوی بچے مزاحم ہوں تو اُن کو دشمن سمجھتے تھے اور یہی معنی انقطاع کے ہیں۔آج کل کے رہبانوں کی طرح نہیں کہ بالکل بیوی بچے سے تعلق چھوڑدے اور سارے جہان سے ایک طرف ہو اجئے۔آسمان پر رہبانیت کے انقطاع کی کچھ قدر نہیں۔صوفی منقطعین بھی نمونے دکھاتے رہے ہیںکہ بازن و فرزندااور باخدا رہے ہیں۔پھر جب وقت آیا تو زن و فرزند کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کی طرف ہوگئے۔وہ لوگ اﷲ تعالیٰ کی طرف منقطع ہوت یہیں۔حضرت ابراہیم ؑ کا حال دیکھئے کیا انقطاع کا نمونہ ان سے ظاہر ہوا۔جو اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ضائع کرنا چاہت اہے اﷲ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا اور اس کا نشنا دنای سے معدوم نہیں کرتا۔میرا مطلب یہ ہے کہ لوگ اﷲ تعالیٰ سے ایسا اخلاص ظاہر کریں اور اس قدر کوشش کریں کہ اﷲ تعالیٰ اُن سے راضی ہو جائے۔
Amira 12-6-05
دوست دوست سے راضی نہیں ہو سکتا جب تک اس کے لیے وفاداری ظاہر اور ثابت نہ ہو۔کسی کے دو خد متگار ہوں۔ایک وفادار اور مخلص ثابت ہو اور اپنے فرائض کو نہ رسم و رواج اور دبائو سے بلکہ پوری محبت اور اخلاص سے ادا کرے اور دوسرا ایسا ہو جو بے دلی اور رسمی طور پر کچھ کام کرے تو اُن میں سے مالک اسی پہلے پر راضی ہو گا اور اسی کی باتوں کو سنے گا اور اسی پر اعتبار کرے گا اور وفادار ہی کو پیار کرے گا۔
فیج اعوج کے زمانہ میں تعصب بڑھ گیا ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
من عاد ا ولیا لی فعادالی۔
ان لوگوں کو یہ خیال نہیں کہ ان کے تعصب نے ان کو خدا تعالیٰ سے بالکل دور کر دیا ہے۔ایک زمانہ آنیوالا ہے کہ جس قدر ہم لوگ ہیں وہ سب نہ ہوں گے۔رسمی نمازوں سے خدا تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔دنیا کے دوست بھی صرف الفاظ سے نہیں بنتے۔اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔اسلام کا لفظ ہی مسلمان بناتے ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی رضا اور حکموں پر گردن جھکائی جاوے۔یہ لقب کسی اور ملت کو نہیں دیا گیا۔اس اُمت پر یہ اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔اسلام جس بات کو چاہتا ہے وہ اسی جگہ سے اسلام کے ذریعہ سے حاصل ہو جاتا ہے۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمٰن : ۴۷)
خدا کے دیدار کے واسطے اسی جگہ سے حواس ملتے ہیں۔
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی۔ (بنی اسرائیل : ۳ ۷)
جو یہاں خدا نہیں دیکھتا وہ وہاں بھی نہیں دیکھ سکے گا۔؎ٰ
یکم جون ۱۹۰۴ء (قبل از شام)
دعا
دعا کی مثال ایک چشمۂ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے۔وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے ۔جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیّاش کا کامل درجہ کا سرور جو اُسے کسی بدمعاشی میں میسر آسکتا ہے۔ہیچ ہے۔بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے۔دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاتا اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔جب مومن کی دعا میں پورااخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے۔تو خد اکو بیھ اس پر رحم آجاتا ہے اور اس کا متولی ہو جاتا ہے۔اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الٰہی تولی کے بغیر انسنای زندگی قطعاً تلخ ہو جاتی ہے۔دیکھ لیجئے جب انسان حد بلوغت کو پہنچتا ہے اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگتا ہے تو نامرادیوں ناکامیابیوں اور قسام قسم کے مصائب کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔وہ اُن سے بچنے کیلئے طرح طرح کی کوششیں کرتا ہے۔دولت کے ذریعہ اپنے تعلق حکام کے ذریعہ، قسام قسم کے حیلہ و فریب کے ذریعہ وہ بچائو کے راہ نکالتا ہے،لیکن مشکل ہیکہوہ اس میں کامیاب ہو۔بعض وقت اس کی تلخ کامیوں کا انجام خود کشی ہو جاتی ہے۔اب اگر ان دنیاداروں کے غموم و ہموم اور تکالیف اک مقابلہ اہل اﷲ یا انبیاء کے مصائب کے ساتھ کیا جاوے تو انبیاء علیہم السلام کے مصائب بمقابل اول الذکر جماعت کے مصائب بالکل ہیچ ہیں لیکن یہ مصائب و شدائد اس پاک گروہ کو رنجیدہ یا محزون نہیں کرسکتے۔اُن کی خوشحالی اور سرور میں فرق نہیں آتا۔کیونکہ وہ اپنی دعائوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تولی میں پھر رہے ہیں۔
استقامت ایک معجزہ ہے
دیکھو اگر ایک شخص کا ایک حاکم سے تعلق ہواور مثلاً اس حاکم نے اسے اطمینان بھی دیا ہو کہ وہ اپنے مصائب کے وقت اس سے استعانت کر سکتا ہے تو ایسا شخص کسی ایسی تکلیھ کے وقت جس کی گرہ کشائی اس حاکم کے ہاتھ میں ہے عام لوگوں کے مقابل کم درجہ رنجیدہ اور غمناک ہوتا ہے تو پھر وہ مومن جس کا اس قسم کا بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوط تعلق احکم الحاکمین سے ہو۔وہ کب مصائب و شدائد کے وقت گھبراوئے گا۔انبیاء علیہم السلام پر جو مصیبتیں آتی ہیں اگر ان کا عشر عشیر بھی ان کے غیر پر وارد ہو تو اس میں زندگی کی طاقت باقی نہ رہے۔یہ لوگ جب دنیا میں بغرض اصلاح آتے ہیں تو اُن کی کل دنیا دشمن ہو جاتی ہے۔لاکھوں آدمی اُن کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں لیکن یہ خطر ناک دشمن بھی اُن کے اطمینان میں خلل انداز نہیں ہوسکتے۔اگر ایک شخص کا ایک دشمن بھی ہو تو وہ کسی لمحہ بھی اس کے شر سے امن میں نہیں رہتا۔چہ ئائیکہ ملک کا ملک اُن کا دشمن ہو اور پھر یہ لوگ باامن زندگی بسر کریں۔ان تمام تلخ کامیوں کو ٹھنڈ ے دل سے برداشت کر لیں۔یہ برداشت ہی معجزہ و کرامت ہے۔رسول اکرم ﷺ کی استقامت اُن کے لاکھوں معجزوں سے بڑھ کر ایک معجزہ ہے۔کل قوم کا ایک طرف ہونا۔دولتق‘ سلطنت‘ دنیوی و جاہت، حسینہ جمیلہ بیویاں وغیرہ سب کچھ کے لالچ قوم کا اس شرط پر دینا کہ وہ اعلائے کلمۃ اﷲ لاالہ الا اﷲ سے رک جاویں۔لیکن ان سب کے مقابل جناب رسالمتآبؐ کا قبول کرنا اور فرمانا کہ میں اگر اپنے نفس سے کرتا تو یہ سب باتیں قبول کرتا۔میں تو حکمِ خدا کے ماتحت یہ سب کچھ کر رہا ہوں اور پھر دوسری طرھ سب تکالیف کی برداشت کرنا یہ ایک فوق الطاقت معجزہ ہے۔یہ سب طاقت اور برداشت اُس دعا کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جو مومن کو خد اتعالیٰ نے عطا کی ہے۔ان لوگوں کی درد ناک دعا بعض وقت قاتلوں کے سفا کانہ حملہ کو توڑ دیتی ہے۔حضرت عمرؓ کا آنحضرت ﷺ کے قتل کے لیے جانا آپ لوگوں نے سنا ہوگا۔ابو جہل نے ایک قسم کا اشتہار قوم میں دے رکھا تھا کہ جو جناب رسالتمآب کو قتل کرے گا وہ بہت کچھ انعام و اکرام کا مستحق ہوگا۔حضرت عمرؓ نے مشرف باسلام ہونے سے پہیل ابو جہل سے معاہدہ کیا اور قتل حضرت کے لیے آمادہ ہو گیا۔اس کو کسی عمدہ وقت کی تلاش تھی۔دریافت پر اُسے معلوم ہوا کہ حضرت نصف شب کے وقت خانہ کعبہ میں بغرض نماز آتے ہیں۔یہ وقت عمدہ سمجھ کر حضرت عمرؓ سر شام خانہ کعبہ میں جا چھپے ۔آدھی رات کے وقت جنگل میں سے لاالہ الا اﷲ کی آواز آنا شروع ہوئی۔حضرت عمرع نے ارادہ کیا کہ جب آنحضرت ﷺ سجدہ میں گریں تو اس وقت قتل کروں۔آنحضرت ﷺ نے درد کے ساتھ مناجات شروع کی اور سجدہ میں اس طرح حمد ِ الٰہی کا ذکر کیا کہ حضرت عمرؓ کا دل پسیج گیا۔اس کی ساری جرأت جاتی رہی اور اس کا قاتلانہ ہاتھ سست ہو گیا۔نماز ختم کر کے جب آنحضرت ﷺ گھر کو ثلے تو اُ۲ن کے بیچھے حضرت عمرؓ ہو گئے۔آنحضرت ﷺ نے آہٹ پا کر دریافت کیا اور معلومہونے پر فرمایا کہ اے عمر کیا تو مریا پیچھا نہ چھوڑے گا۔حضرت عمرؓ بد دعا کے ڈر سے بول اُٹھے کہ حضرت ؐ میں نے آپ کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا ۔میرے حق میں بد دعا نہ کیجئے گا؛ چنانچہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ وہ پہلی رات تھی جب مجھ میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی۔
سو میرے نزدیک شق القمر کا معجزہ ایسا زبردست معجزہ نہیں جیسے رسول پاکؓ کی استقامت ایک معجزہ ہے۔اس میں شک نہیں کہ ضرورتِ وقت کے لحاظ سے انبیاء علیہم السلام معجزہ دکھلاتے ہیں اور وہ نور و ہدایت اپنے اندر رھکتے ہیں۔لیکن ان سب معجزات سے بڑھ کر استقامت ایک معجزہ ہے۔آج چوبیس سال مجھ پر گذر گئے جب میں نے دعویٰ وحی و الہام کیا۔جو لوگ میرے پاس دن رات بیٹھتے ہیں وہ دیکھتے ہیں اور گواہ اس بات کے ہیں کہ کس طرح خد اتعالیٰ ہر روز مجھے اپنے کلام سے مشرف کرتا ہے اور کس طرح جو مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے وہ پور اہوتا ہے۔اب کیا منیں ہر روز افتراء کرتا ہوں؟ اور خداتعالیٰ بھی اس قدر صابر ہے کہ ایسے مفتری کو مہلت دے رہاہے۔پیغمبر صاحب کو تو یہ حکم کہ اگر تو ایک افتراء مجھ پر باندھتا تو میں تیری رگِ گردن کاٹ دیتا جیسے کہ آیت
لو تقول علینہ بعض الاقادویل لا خدنا منہ بالیمین ۔ثم لقطعنا منہ الوتین (الحاقۃ ۴۵ تا ۴۷)
سے ظاہر ہوتا ہے اور یہاں چوبیس سال سے روزانہ افتراء خدا تعالیٰ پر ہو اور خدا اپنی سنتِ قدیمہ کو نہ بَرتے۔بدی کرنے میں جھوٹ بولنے میں کبھی مداومت اور استقامت نہیں ہوتی۔آخر کار انسان دروغ کو چھوڑ ہی دیتا ہے۔لیکن کیا میری ہی فطرت ایسی ہو رہی ہے کہ میں چوبیس سال سے اس جھوٹ پر قائم ہوں اور برابر چل رہا ہوں اور خدا تعالیٰ بھی بالمقابل خاموش ہے ارو بالمقابل ہمیشہ تائیدات پر تائیدات کر رہا ہے۔پیشگوئی کرنا یا علم غیب سے حصہ پانا کسی ایک معمولی ولی کا بھی کام نہیں ۔یہ نعمت تو اس کو عطا ہوتی ہے جو حضرت احدیت مآب میں خاص عزت اور وجاہت رکھتا ہے۔اب دیکھ لیا جاوے کہ خد اتعالیٰ نے کس قدر پیشگوئیاں میرے ہاتھ پر پوری کیں۔براہین احمدیہ اور اس میں جو میرے آئندہ حالات درج ہیں ان کو دیکھ اجاوے اور پھر میرے آجکل کے حالات کو دیکھا جاوے کہ وہ تمام کس طرح پورے ہوئے۔پھر جو جو نشانات مسیح موعود کے زمانہ کے آثار ہیں، موجود ہیں۔وہ کس طرح اس زمانہ میں پورے ہو گئے۔رمضان میں کسوف خسوف کا ہونا۔ریل کا جاری ہو کر اونٹنیوں کا حجاز میں بھی بند ہو جانا، طاعون کا نمودار ہونا۔یہ سب علامات ہیں جو زمانہ مہدی کے ساتھ مختص ہیں۔یہ خدا تعالیٰ نے کیوں پورے کیے؟ کیا ایک کذات اور مفتری علی اﷲ کی رونق افزائی کے لیے جو چوبیس سال سے برابر افتراء باندھ رہا یہ۔آخر میں میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ عمر کا کوئی بھروسہ نہیں۔یہ وقت ہے اس کو غنیمت سمجھا جاوے۔یہ خد اتعالیٰ کے نشان ہیں۔ان سے منہ موڑنا خد اتعالیٰ کی حکم عدولی ہے۔دیکھو ایک مجازی حاکم کا پیادہ اگر آجاوے اور پیادہ جس حکم کو لاتا ہے اُس کی پروا نہ کی جاوے، تو پھر یہ حکم عدولی کیسے بدنتائج پیدا کرتی ہے۔؛چہ جائیکہ خدا تعالیٰ کی حکم عدولی۔دنیا میں جب کبھی کوئی خد اتعالٰٰ کا مرسل آوے گا وہ انسنا ہی ہوگا۔اس کے اوضاع و اطوار انسانوں والے ہی ہوں گے۔آخر فرشتہ کو تو نہیں آنا۔یہ لوگ اس کے لوازم انسانیت سے گھبرا جاتے ہیں اور اُن کی آنکھوں کے سمانے ایک حجاب ہے جو اس کے جامۂ نبوت کو چھپائے ہوئے ہے لیکن یہ حجاب ضروری ہے جس میں ہر ایک نبی مستور ہوتا ہے۔مبارک ہے وہ جو اس حجاب کے اندر اُس شخص کو دیکھ لے۔؎ٰ
ابتدائے جون ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
تعدّد ازدواج۔مقصد اور حدود
ایک احمدی نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعدّد ازدواج میں جو عدک کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت
الرجال قو امون علی النساء (النساء : ۳۵)
کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویسا سلوک اس کرے یا کچھ اور معنی ہیں۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ:
محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے۔مثلاً پارچہ جات۔خرچ خوراک۔معاشرت حتیٰ کہ مباشرت میں بھی مساوات بَرتے۔یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوارہنا پسند کرے۔خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی اُن کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے۔ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے،تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔تعدّد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کامیلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کر لے،لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے۔تو رات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اُس کی دلداری زیدہ کرے،کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق جاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہانتک کرنی چاہیے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواجِ ثانی کی محسوس ہو،لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اُس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لیے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔
اس قدر ذکر ہوا تھا کہ ایک صاحب نے اُٹھ کر عرض کی کہ البدر؎ٰ اور الحکم اخباروں میں تعدّد ازدواج
کی نسبت جو کچھ لکھاگیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ذمہ دوسرا نکاح حضور نے فرض کر
دیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ :
ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں۔قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو۔
Amira 13-6-05
اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو، لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا۔اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے۔دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بڑے نازک ہوتے ہیں۔جب والدین اُن کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالہ کرتے ہیں،تو خیال کرو کہ کیا امیدیں اُن کے دلون میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان
عاشرو ھن بالمعروف (النساء : ۲۰)
کے حکم سے ہی کرسکتا ہے۔اگر انسان کا سلوک اپنی بیوی سے عمدہ ہو اور اسے ضرورتِ شرعی پیدا ہو جاوے تو اس کی بیوی اس کے دوسرے نکاحوں سے ناراض نہیں ہوتی۔ہم نے اپنے گھر میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ ہمارے نکاح والی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لیے رورو کر دعائیں کرتی ہیں۔اصل بات یہ ہیکہ بیویوں کی ناراضگی کا باعث خاوند کی نفسانیت ہوا کرتی ہے اور اگر اُن کو اس بات کا علم ہو کہ ہمارا خاوند صحیح اغراض اور تقویٰ کے اصول پر دوسری بیوی کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ کبھی ناراض نہیں ہوتیں۔فساد کی بنا تقویٰ کی خلاف ورزی ہوا کرتی ہے۔
خدا تعالیٰ کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہیے اور نہ اُس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہیے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے۔یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے، خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو، بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو۔اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کے لیے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔زنا کا نام ہی گناہ نہیںبلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے۔دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہیے،تا کہ
فلیضحکواقلیلا ولیبکواکثیرا۔ (التوبہ : ۸۲)
یعنی ہنسور تھوڑا اور روئو بہت کا مصداق بنو، لیکن جس شخص کی دنیاوی تمتع کثرت سے ہیں اور رات دن بیویوں میں مصروف ہے۔اُس کو رقت ارو رونا کب نصیب ہوگا۔اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیںا رو اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دور جا پڑتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے اگر چہ بعض اشیاء جائز تو کر دی ہیں،مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے۔خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے
یبیتون لربھم سجداوقیاما (الفرقان : ۶۵)
کہ وہ اپنے رب کے لیے تمام رات سجدہ اور قیام میں گذارتے ہیں۔اب دیکھو۔رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے۔وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لیے شریک پیدا کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے آپ ساری ساری رات خد اتعالیٰ کی عبادت میں گذارے تھے ۔ایک رات آپؐ کی باری عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس تھی۔کچھ حضہ رات کا گذرگیا تو حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلی۔دیکھ اکہ آپ موجود نہیں۔اُسے شبہ ہوا کہ شائد آپ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں اُس نے اُٹھ کر ہر ایک گھر میں تلاش کیا،مگر آپؐ نہ ملے۔آخر دیکھ اکہ آپؐ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رو رہے ہیں۔اب دیکھو کہ آپؐ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھور کر مردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپؐ کی بیویان حظ نفس ای اتباعِ شہوت کی بنا پر ہوسکتی ہیں؟۔
غرضکہ جوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کا صال منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں۔اور تقویٰ کی تکمیل کے لیے اگر ضرورت حقہ پیش آوے تو اور بیوی کر لو۔آنحضرت ﷺ کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا کہ ایک ابار حضرت عمرؓ آپؐ سے ملنے گئے۔ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی۔آنحضرت ﷺ ایک کھجور کی چٹائی پ رلیٹے ہوئے تھے۔جب حضرت عمرؓ اندر آئے تو آپؐ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔حضرت عمرؓ نے دیکھ اکہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے۔ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپؐ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپؐ کی پُشت مبارک پر بنے ہوئے تھے۔حضرت عمرؓ اعن کو دیکھ کر ور پڑے۔آپؐ نے پوچھا۔اے عمرؓ ! تجھ کو کس چیز نے رلایا؟ عمرؓ نے عرض کی کہ کسریٰ اور قیصر تو تنعم کے اسباب رکھیں اور آپؐ جو خد اتعالیٰ کے رسول اور دو جہان کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔اے عمرؓ مجھے دنیا سے کیا غرض ؟ میں تو اس مسافر کی طرح گذارہ کرتا ہوں جو اُونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو۔ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں سستا لے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ پھر چل پڑے۔جس قدر نبی اور رسول ہوئے سب نے دوسرے پہلو (آخرت) کو ہی مد نظر رکھا ہوا تھا۔
پس جاننا چاہیے کہ جو شخص شہوات کی اتباع سے زیادہ بیویاں کرتا ہے وہ مغزِ اسلام سے دور رہتا ہے۔ہر ایک دن جو چڑھتا ہے اور رات جو آتی ہے اگر وہ تلخی سے زندگی بسر نہیں کرت ااور روتاکم یا بالکل ہی نہیں روتا او ہنستا زیادہ ہے تو یاد رہے کہ وہ ہلاکت کا نشانہ ہے۔استیفاء لذت اگر حلال طو رپر ہو تو حرج نہیں۔جیسے ایک شخص ٹٹو پر سوار ہے اور راستہ میں اُسے نہاری وغیرہ اس لیے دیتاہے کہ اس کی طاقت قائم رہے اور وہ منزل مقصود تک اُسے پہنچادے جہاں خدا تعالیٰ نے سب کے حقوق رکھے ہیں وہاں نفس کا بھی حق رکھا ہے کہ وہ عبادات بجالاسکے۔
لوگوں کے نزدیک چوری زنا وغیرہ، ہی گناہ ہیں اور اُن کو یہ معلوم نہیں کہ استیفاء لذات میں مشغول ہونا بھی گناہ۔اگر ایک شخص اپنا اکثر حصہ وقت کا تو عیش و آرام میں بسر کرت اہے اور کسی وقت اُٹھ کر چار ٹکریں بھی مار لیتا ہے۔(یعنی نماز پڑھتا ہے) تو وہ نمرودی زندگی بسر کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی ریاضت اور مشقت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے فرماتا کہ کیا تو اس محنت میں مر جائے گا؛ حالانکہ ہم نے تیرے لیے بیویاں بھی حلال کی ہیں۔یہ خدا تعالیٰ نے آپؐ کو ایسے ہی فرمایا جیسے ماں اپنے بچے کو پڑھنے یادوسرے کا م میں مستغرق دیکھ کر صحت کے قیام کے لحاظ سے اُسے کھیلنے کودنے کی اجازت دیتی ہے۔خدا تعالیٰ کا یہ خطاب اسی غرض سے ہے کہ آپ تازہ دم ہوکر پھر دین کی خدمت میں مصروف ہوں۔اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ آپ شہوات کی طرف جھک جاویں۔ نادان معترض ایک پہلو کو تو دیکھتے ہیں اور دوسرے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔پادریوں نے اس بات کی طرف کبھی غور نہیں کی کہ آنحضرت ﷺ کا حقیقی میلان کس طرف تھا اور رات دن آپؐ کس فکر میں رہتے تھے۔بہت سے ملا اور عام لوگ ان باریکیوں سے ناواقف ہیں۔اگر اُن کو کہا جاوے کہ تم شہوات کے تابع ہو تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم حرام کرتے ہیں؟ شریعت نے ہمیں اجازت دی ہے تو ہم کرتے ہیں۔ان کو اس بات کا علم نہیں کہ بے محل استعمال سے حلال بھی حرام ہو جاتا ہے۔
ماخلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات : ۵۷)
سے ظاہر ہے کہ انسان صرف عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔پس اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے جس قدر چیز اُسے درکار ہے۔اگر اُس سے زیادہ لیتا ہے تو گو وہ شئے حلال ہی ہو مگر فضول ہونے کی وجہ سے اس کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔جو انسان رات دن نفسانی لذات میں مصروف ہے وہ عبادت کا کیا حق ادا کر سکتا ہے۔مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک تلخ زندگی بسر کرے لیکن عیش و عشرت میں بسر کرنے سے تو وہ اس زندگی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکتا ۔
ہمارے کلام کا مقصد یہ ہے کہ دونوں پہلوئوں کا لحاظ رکھا جاوے۔یہ نہیں کہ صرف لذات کے پہلو پر زور دیا جاوے اور تقویٰ کو بالکل ترک کر دیا جاوے۔اسلام نے جن کاموں اور باتوں کو مباح کہا ہے اس سے یہ غرض ہر گز نہیں ہے کہ رات دن اس میں مستغرق رہے۔صرف یہ ہے کہ بقدر ضرورت وقت پر اُن سے فائدہ اُٹھایا جاوے۔
اس مقام پر پھر وہی صاحب بولے کہ اس سے تو یہ نتیجہ نکلا کہ تعدّد ازواج بطو ردوا کے ہے نہ بطور غذا کے۔
حضور ؑ نے فرمایا ۔ہاں۔
اس پر انہوں نے عرض کی کہ ان اخبار والوںنے تو لکھا ہے کہ احمدی جماعت کو بڑھانے کے لیے زیادہ بیویاں کرو۔
حضورؑ نے فرمایا کہ :
ایک حدیث میں یہ ہیکہ کثرت ازدواج سے اولاد بڑھائو تا کہ اُمت زیادہ ہو۔اصل بات یہ ہے کہ
انما الاعمال بالنیات۔
انسان کے ہر عمل کا مداراس کی نیت پر ہے۔کسی کے دل کو ثیر کر ہم نہیں دیکھ سکتے۔اگر کسی کی یہ نیت نہیں ہے کہ زیادہ بیویاں کر کے عورتوں کی لذات میں فنا ہو بلکہ یہ ہے کہ اس سے خادم دین پیدا ہوں تو کیا حرج ہے۔لیکن یہ امر بھی مشروط بشرائط بالا ہے۔مثلاً اگر ایک شخص کی چار بیویاں ہوں اور ہر سال ہر ایک سے ایک ایک اولاد ہو تو چار سال میں سولہ بچے ہوں گے، مگر بات یہ ہے کہ لوگ دوسرے پہلو کو ترک دیتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ صرف ایک پہلو پر ہی زور دیا جاوے؛ حالانکہ ہمارہ یہ منصب ہرگز نہیں ہے۔قرآن شریف میں متفرق طور پر تقویٰ کا ذکر آیا ہے، لیکن جہاں کہیں بیویوں کا ذکر ہے وہان ضرور ہی تقویٰ کا بھی ذکر ہے۔ادائیگی حقوق ایک بری ضروری شئے ہے اسی لیے عدل کی تاکید ہے۔اگر ایک شخص دیکھتا ہے کہ وہ حقوق کو ادا نہیں کر سکتا یا اس کی رجولیت کے قویٰ کمزور ہیں یا خطرہ ہو کہ کسی بیامری میں مبتلا ہو جائیتُسے چاہیے کہ دیدہ دانستہ اپنے آپ کو عذاب میں نہ الے۔تقویٰ یعنی شرعی ضرورت جو اپنے محل پر ہو اگر موجود ہو تو پہلی بیوی خود تجویز کرتی ہے کہ جاوند اور نکاح کر لے۔
آخری نصیحت ہامری یہی ہے کہ اسلام کو اپنی عیا شیوں کے لیے سپر نہ بنائو کہ آج ایک حسین عورت نظر آئی تو اُسے کر لیا۔کل اور نظر آئی تو اُسے کر لیا۔یہ تو گویا خد اکی گدی پر عورتون کو بٹھانا اور اُسے بھلادینا ہوا۔دین تو چاہتا ہیکہ کوئی زخم دل پر ایسا رہے جس سے ہر وقت خدا تعالیٰ یاد آوے ورنہ سلب ایمان کا خطرہ ہے۔اگر صحابہ کرامؓ عورتیں کرنے والے اور انہیں میں مصروف رہنے اولے ہوتے تو اپنے سر جنگوں میں کیوں کٹواتے؛ حالانکہ اُن کا یہ حال تھا کہ ایک کی انگلی کٹ گئی تو اُسے مخاطب ہو کے کہا کہ تو ایک انگلی ہی ہے اگر کٹ گئی تو کیا ہوا۔مگر جو شب و روز عیش و عشرت میں مستغرق ہے وہ کب ایسا دل لا سکت اہے۔آنحضرت ﷺ نمازوں میں اس قدر روتے اور قیام کرتے کہ آپؐ کے پائوں پر وَرم ہو جاتا۔صحابہؓ نے عرض کی کہ خدا تعالیٰ نے آپؐ کے تمام گناہ بخش دیئے ہیں پھر اس قدر مشقت اور رونے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں۔؎ٰ
۴؍جون ۱۹۰۴ء
نماز میں دعا ہے ایک شخص کے سوال پر فرمایا کہ :
نماز اصل میں دعا ہے۔نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے۔اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لیے تیار رہے،کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے۔ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اُٹھاتا ہوں۔مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں۔میں بہت رحم کرتا ہوں۔بیکسوں کی امداد کرتا ہوں۔لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے۔اس کے پاس سے گذرتا ہے اور اس کی ند اکی پروا نہیں کرتا نہ اپنی مشکل کا بیان کر کے طلبِ امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہوگا۔یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسنا کو آرام دینے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے، قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے۔کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پید اہوتی ہے۔
الیٰ ربک یومئذ المستقر (القیامۃ : ۱۳)
اس آیت کو قیامت پر چسپاں کرنا غلطی ہے کیونکہ اس ن تو خدا کی طرف رجوع کرنا کسی کام نہ آویگا۔بلکہ یہ اس زمانہ کی حالت ہے کہ طاعون کے بارے میں خواہ کوئی حیلہ حوالہ کریں ہرگز کام نہ آوے گا۔آخر مستقر خدا تعا لیٰ ہی ہوگا۔لوگ جب اس کو مانیں گے۔تب وہ اس سے رہائی دے گا۔
این المفر (القیامۃ : ۱۱)
بھی اس پرچسپاں ہے۔کیونکہ دوسرے آفات میں تو کوئی نہ کوئی مفر ہوتا ہے،مگر طاعون میں کوئی مفر نہیں ہے۔صرف خدا تعالیٰ کی پناہ ہی کام آویگی۔
خدا تعالیٰ کی طرف ظلم کبھی منسوب نہیں ہوسکتا جو صادق ہوگا۔وہ ضرور اپنے صدق سے نفع پاوے گا۔یہ وہی دن ہیں جن کی نسبت کہا گیا ہے؎ٰ۔
ھذا یوم ینفع الصادقین صدقہم (المائدۃ : ۱۲۰)
Amira 14-6-05
حقیقی تہذیب
صنعت و حرفت مین دسترس حاصل کرنے، سیر و سیاحت میں قوم کے افراد کو مشگول رہنے۔لنڈن ہو آنے، مشنوں میں ترقی کرنے وغیرہ کو آج کل تہذیب کے نام سے نامزد کیا جاتا ہے۔اور جب کسی قوم میں یہ باتیں ہوں تو اسے ایک مہذب قوم کہتے ہیں یہ ذکر ایک صاحب نے حضرت اقدسؑ کی مجلس میں آج کیا۔
اس پر آپؐ نے فرمایا کہ :
جس قوم میں راستی کا پیار نہیں۔اعمال میں للّٰہیت نہیں اورریاکاری اور خود پسندی اس کا شیوہ ہے، اُسے مہذب نہین کہہ سکتے۔تہذیب کے اصول اخلاص، صدق اور توحید ہیں۔وہ سوائے اسلام کے اور کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتے۔عیسائیوں کو اخلاق کا بڑا ناز ہے، مگر ان کی جو بات دیکھو اسی میں گناہ ہے۔کوئی عمل ہو اس میں ریاکاری ضرور ہے؛ حالناکہ خلق وہ ہے جو للہ ہو۔خدا تعالیٰ کی عظمت، اس پر ایمان اور نوع انسان کی خدمت یہ باتیں خلق کی ہیں۔لیکن یہاں خدا کی جگہ تو ایک یسوع نامی کو دیدی گئی ہے اور مخلوق کے ساتھ جو معاملہ ہے وہ ظاہر ہے۔بات یہ ہے کہ جب خدا کو شناخت ہی نہیں کیا، تو اس پر نظر رکھ کر کسی کی خدمت کیا کرسکتے ہیں؟ سچے خلق کا برتائو بہت مشکل ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک قویٰ کو برمحل برتا جاوے اور خد اسے ڈر کر وہ اپنی حد پر رہیں۔لیکن ایمان کے سوا یہ باتیں حاصل نہیں ہوتیں۔ثواب اس کو ملا کرتا ہے جو خدا تعالیٰ سے ڈر کر گناہ کو چھوڑتا ہے یا اس کو راضی کرنے کی محنت برداشت کرکے ایک نیکی کو کرتا ہے۔اور جب تک یہ نیت نہیں ہوتی۔تب تک ہرگز ثواب نہیں ملتا؛ اگر چہ وہ کام بذات خود نیک ہی ہو۔ہند و لوگ بتون کی خاطر کیا کیا کرتے ہیں۔کتنی محنتیں اٹھاتے ہیں مگر سب کی سب رائیگاں جاتی ہیں۔؎ٰ
۱۹؍جون ۱۹۰۴ء بوقت ظہر
متقی کون ہے؟
ایک مولوی صاحب جن کے والد بزرگوار احمدی جماعت میں داخل تھے اور بقضائے الٰہی فوت ہو گئے۔علاقہ گوجرانوالہ سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ان کو حضرت اقدس سے ارادت حاصل نہ تھی اور نہ اپنے والد مرحوم کو صراط مستقیم پر سمجھتے تھے۔چند احباب کی تحریک سے وہ بحث و مباحثہ کی غرض لے کر یہاں آئے تھے۔حضرت اقدس کے روبرو تو ان کی کوئی کلام ہم نے نہ سنی۔حضرت مولوی نورالدین صاحب البتہ کلام کرتے رہے۔جس میں نو وارد مولوی صاحب نے یہ کہا کہ ہمارے نزدیک بہت سے متقی ہیں کہ جنہوں نے مرزا صاحب کو نہین مانا اور چونکہ ہم ان کو متقی اور راستباز تسلیم کرتے ہیں ،اس لیے ہم بھی نہیں مانتے۔حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے ا سکا جواب یہ دیا کہ اگر کوئی ایسا شخص ہے کہ جو ضد اور تعصب وغیرہ سے تو پاک ہے اور سچی ارادت سے حق کا طالب ہے اس لیے کسی شخص کو متقی مان کر اس کی تقلید سے وہ حضرت امام علیہ السلام کا منکر ہے تو وہ میرے نزدیک وہ اس وقت تک معذور ہے جبتک کہ اﷲ تعالیٰ اس پر حقیقت کو واضح نہ کردے، کیونکہ مؤاخذہ کے لیے ضروری ہے کہ
قد تبین الرشد من الغی۔ (البقرہ : ۲۵۷)
ہو۔اور خد اتعالیٰ فرماتا ہے۔
لیھلک من ھلک عن بینۃ ویحیی من حی عن بینۃ (الانفال : ۴۳)
جو ہلاک ہو وہ بھی بین آیات دیکھ کر ہلاک ہو اور جو زندہ ہو وہ بھی بین آیات دیکھ کر زندہ ہو۔
نو وارد مولوی صاحب نے چاہا کہ اس کی تصدیق حضرت مرزا صاحب سے کرائی جاوے،اس لیے جناب حکیم صاحب نے بوقتِ ظہر اس مسئلہ کو حضرت امام علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں عرض کیا جس پر آپؐ نے فرمایا کہ :
اس قسم کا سوال حضرت موسیٰ ؑسے ہوا تھا تو انہوں نے جواب دیا
علمہا عندربی (طہ : ۵۳)
ایسے ہی ہم بھی کہتے ہیں کہ اُن کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے۔وہ جیسے جیسے سمجھے گا ویسا معاملہ اس سے کرے گا۔ہاں کوئی آدمی کسی کو متقی کیونکر یقین کر سکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہے۔
لا تزکو اانفسکم (النجم :۳۳)
اور فرماتا ہے۔
ھواعلم بمن اتقی (النجم :۳۳)
اور فرماتا ہے اﷲ تعالیٰ ہی
علیم بذات الصدور (مائدہ : ۸)
ہے۔ہاں مامور من اﷲ کے متقی ہونے اور نہ ہونے کے نشانات بیّن ہوتے ہیںنہ اوروں کے۔
بعد نماز مغرب
مغرب کی نماز کے بعد جب حضرت امام ؑ شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے تو سیّد احمد شاہ صاحب سندھی نے آپ سے نیاز حاصل کی اور پوچھا کہ متقی کسے کہہ سکتے ہیں۔فرمایا :
آنحضرت ﷺ جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے دعویٰ کیا تو اس وقت بھی لوگوں کی نظرون میں بہت سے یہدوی عالم متقی اور پرہیز گار مشہور تھے،لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی متقی ہوں۔خدا تعالیٰ تو اُن متقیوں کا ذکر کرتا ہے جو اس کے نزدیک تقویٰ اور اخلاص رکھتے ہیں۔جب ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کا دعویٰ سنا ۔لوگوں میں جو اُن کی وجاہت تھی اس میں فرق آتا دیکھ کر رعونت سے انکار کر دیا اور حق کو اختیار کرنا گوارا نہ کیا۔اب دیکھو کہ لوگوں کے نزدیک تو وہ بھی متقی تھے مگر اُن کا نام حقیقی متقی نہیں تھا۔حقیقی متقی وہ شخص ہے کہ جس کی خواہ آبرو جائے۔ہزار ذلت آتی ہو۔جان جانے کا خطرہ ہو، فقرو فاقہ کی نوبت آئی ہو تو وہ محض اﷲ تعالیٰ سے ڈر کر ان سب نقصانوں کو گوارا کرے لیکن حق کو ہرگز نہ چھپاوے۔متقی کے یہ معنی جیسے آج کل کے مولوی عدالتوں میں باین کرتے ہیں ہرگز نہیں ہیں کہ جو شخص زبان سے سب مانتا ہو خواہ اس کا عمل درآمد اس پر ہویا نہ ہو اور وہ جھوٹ بھی بول لیتا ہو، چوری بھی کرتا ہو تو وہ متقی ہے۔تقویٰ کے بھی مراتب ہوتے ہیں اور جبتک کہ یہ کامل نہ ہوں تب تک انسان پورا متقی نہیں ہوتا۔ہر ایک شئے وہی کار آمد ہوتی ہے جس کا پورا وزن لیا جاوے۔اگر ایک شخ: کو بھوک اور پیاس لگی ہے۔تو روٹی کا ایک بھورا اور پانی کا ایک قطرہ لے لینے سے اُسے سیری حاصل نہ ہوگی اور نہ جان کو بچا سکے گا، جبتک پوری خوراک کھانے اور پینے کی اُسے نہ ملے۔یہی حال تقویٰ کا ہے کہ جب تک انسان اسے پورے طور پر ہر ایک پہلو سے اختیار نہیں کرتا۔تب تک وہ متقی نہیں ہوسکتا۔او راگر یہ بات نہیں تو ہم ایک کافر کو بھی متقی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کوئی نہ کوئی پہلو تقویٰ کا (یعنی خوبی) اس کے اندر ضرور ہوگی۔اﷲ تعالیٰ نے محض ظلمت تو کسی کو پیدا نہیں کیا۔مگر تقویٰ کی یہ مقدار اگر ایک کافر کے اندر ہو تو اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی ۔کافی مقدار ہونی چاہیے جس سے دل روشن ہو۔خدا تعالیٰ راضی ہو اور ہر ایک بدی سے انسان بث جاوے۔بہت سے ایسے مسلمان ہیں کہ جو کہتے ہیں کیا ہم روزہ نہیں رکھتے۔نماز نہیں پڑھتے وغیرہ وغیرہ۔مگر اس باتوں سے وہ متقی نہیں ہوسکتے۔تقویٰ ارو شئے ہے۔جب تک انسان خدا تعالیٰ کو مقدم نہیں رکھتا اور ہر ایک لحاظ کو خواہ برادری کا ہو خواہ قوم کا خواہ دوستوں اور شہر کے رؤسا کا خدا تعالیٰ سے ڈر کر نہیں توڑتا اور خدا تعالیٰ کے لیے ہر ایک ذلت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا، تب تک وہ متقی نہیں ہے۔
قرآن شریف میں جو بڑے بڑے وعدے متقیون کے ساھ ہیں وہ سایسے ہیں وہ ایسے متقیون کا ذکر ہے جنہوں نے تقویٰ کو وہاں تک نبھایا جہانتک ان کی طاقت تھی۔بشریت کے قویٰ نے جہانتک ان کا ساتھ دیا برابر تقویٰ پر قائم رہے حتیٰ کہ اُن کی طاقتیں ہار گئیں۔اور پھر خدا تعالیٰ سے انہوں نے اور طاقت طلب کی جیسے کہ
ایاک نعبدو ایاک نستعین (الفاتحہ :۵)
سے ظاہر ہے
ایاک نعبد
یعنی اپنی طاقت تک تو ہم نے کام کیا اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
ایاک نستعین
یعنی آگے چلنے کے لیے اور نئی طاقت تجھ سے طلب کرتے ہیں جیسے حافظ نے کہا ہے ؎
ما بداں منزل عالی نتوانیم رسید
ہاں اگر لطف شما پیش نہد گامے چند
پس خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک متقی ہونا اور شئے ہے اور انسانوں کے نزدیک متقی ہونا ارو شئے۔مسیح علیہ السلام کے وقت جو مخالفوں کے جتھے وغیرہ بنتے تھے۔اس کا باعث بھی یہی تھاکہ جو عام لوگ یہود کہ نزدیک مسلم تھے ارو متقی پرہیز گار تسلیم کیے جاتے تھے وہ مخالف تھے۔اگر وہ مخالف نہ ہوتے تو جتھے وغیرہ نہ بنتے۔آنحضرت ﷺ کے وقت میں بھی یہی حال تھا۔عجب، بخل،ریا، نمود اور وجاہت کی پاسداری وغریہ کی باتیں تھیں، جنہوں نے حق کی قبولیت سے اُن کو روکے رکھا۔غرضیکہ تقویٰ مشکل شے ہے۔
جسے اﷲ تعالیٰ عطا کرتا ہے تو اس کی علامات بھی ساتھ ہی رکھ دیتا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ حق جب ظاہر ہو تو جو اسے خواہ نخواہ رد کرتا ہے اور دلائل ۔معقولات، منقولات اور خدا تعالیٰ کے نشانوں کو ٹالتا جاوے وہ کب متقی ہو سکتا ہے۔؎ٰ
سچی بات یہ ہے کہ حق جب ظاہر ہو تو اُسے جو خواہ نخواہ رد کرتا ہے اور دلائل معقولات منقولات اور خدا تعالیٰ کے نشانات کو ٹالتا جاتا ہے وہ ہرگز متقی نہیں ہوسکتا۔متقی کوتو ترساں اور لرزاں ہونا چاہیے۔کیا دنیا میں ایس اہوا ہے کہ چوبیس سال سے برابر ایک انسان رات کو منصوبہ بناتا ہے اور صبح کو خدا کی طرف لگا کر کہتا ہے کہ مجھے یہ وحی یا الہام ہوا اور خدا تعالیٰ اس سے مؤاخذہ نہیں کرتا۔اس طرح سے تو دنیا میں اندھیر پڑ جاوے اور مخلوق تباہ ہو جاوے۔متقی تو ایک ہی بات سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور یہاں تو ہزاروں ہیں۔زمانہ الگ پکار رہا ہے۔احادیث منکم منکم کہ رہی ہیں۔سورہ نور میں بھی منکم لکھا ہے۔ قساوت قلبی اور بہائم کی طرح جو زندگی بسر ہو رہی ہے وہ الگ بتارہی ہے۔صدی کے سر پر کہتے تھے کہ مجّدد آتا ہے۔اب ۲۲ سال بھی ہو چکے ۔کسوف و خسوف بھی ہولیا۔طاعون بھی آگئی،حج بھی بند ہوا۔ان سب باتوں کو دیکھ کر اگر اب بھی یہ لوگ نہیں مانتے تو ہم کیونکر جانیں کہ ان میں تقویٰ ہے۔ہم نے بار بار کہا کہ آئو اور جن باتوں کا تم کو سوال کرنے کا حق پہنچتا ہے وہ پوچھو۔ہاں یہ نہیں ہوگا کہ قرآن شریف تو کچھ کہے اور تم کچھ کہو اور ایسے اقوال پیش کرو جو اس کے مخالف ہوں۔مسیح کا نزول جسمانی آسمان سے مانتے ہیں؛ حالانکہ وہ تب صحیح ہوسکتا ہے جبکہ صعود اول ہو۔قرآن مسیح کی وفات بیان کرتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ چھت پھاڑ کر آسمان پر چلا گیا۔کیا تقویٰ اس بات کا نام ہے کہ یقین کو ترک کر کے توہمات کی اتباع کی جاوے۔سچے تقویٰ کا پتہ قرآن سے ملتا ہے کہ دیکھ لیوے کہ تقویٰ والوں نے کیا کیا کام کیے ہیں۔
دعا کے ذریعہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو
مذکورہ بالا تقریر کے بعد ایک صاحب نے عرض کی کہ حضور بعض احمدی بھائی ایسے ہیںکہ انہوں نے بیعت کی ہوئی ہے اور اخلاص بھی رکھتے ہیں،مگر بعض اقوال اورحرکات اُن سے بیجا ظاہر ہوتی ہیں۔بعض ان میں سے احادیث کے قائل نہیں۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا :
اصل بات یہ ہے کہ سب لوگ ایک طبقہ کے نہیں ہوتے۔خدا تعالیٰ بھی قرآن شریف میں مومنوں کے طبقات بیان کرتا ہے۔
منھم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳)
کہ بعض ان میں سے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ رو اور بعض سبقت کرنے والے۔
دوسری یہ بات ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے بھی تو ترقی آہستہ آہستہ ہی کی تھی۔ایمان میں بھی اول عمل میں بھی۔لکھا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے،تو ایک صحابی سے آپ نے ایک ٹکڑا زمین کا مسجد؎ٰ بنانے کے لیے طلب کیا۔اس نے عذر کیا اور کہا کہ مجھ کو آپ درکار ہے۔اب یہ کس قدر گناہ کی بات تھی کہ خدا تعالیٰ کا رسول مسجد کے لیے زمین طلب کرے اور یہ باوجود مرید ہونے کے اپنی نفسانی ضرورت کو دین کی ضرورت پرترجیح دیتا ہے،لیکن آخر وہی صحابہؓ تھے کہ جنہوں نے اﷲ کے لیے اپنے سر کٹوائے۔ترقی ہمیشہ رفتہ رفتہ ہوتی ہے۔ایک سال انسان کچھ کرتا ہے،دوسرے سال کچھ،لیکن اگر بدظنی کریں تو اُس کی مثال یہ ہوگی کہ ایک مریض ہمارے پاس آتا ہے جو کہ طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہے ارو ہم اُسے ایک دو دن دوا دیکر نکال دیں اور پورے طور پر لگ کر علاج نہ کریں۔ہمارا کام تو رات دن اُن کے لیے دعا، تصرع اور ابتہال میں لگا رہتا ہے۔مبلغین کا یہ کام نہیں ہوتا کہ ہر ایک بات پر چڑ کر لوگوں سے متنفر ہوتے رہیں۔ابھی یہ لوگ قابل رحم ہیں اور خدا تعالیٰ اُن کی اصلاح کے سامان کر رہا ہے۔علاوہ ازیں سب ایک درجہ کے نہیں ہوتے۔صحابہؓ میں سے بعض اس درجہ کے تھے کہ عنقریب نبی کے مقام پر پہنچ جاویں اور بعض ادنیٰ درجہ کے۔جیسے دریا میں موتی بھی ہوتا ہے اور مونگا بھی اورسیپ بھی اور دوسری اشیاء مثل سونا اور دوسرے حیوانات کے۔ایسا ہی جماعت کا حال ہوتا ہے۔
Amira 16-5-05
ہماری جماعت کو چاہیے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لیے دعا کریں،لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلاتے ہین تو گہان کرتے ہیں۔کونسا ایسا عیب ہے جو کہ دور نہین ہو سکتا ۔اس لیے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہیے۔
حکایت
ایک صوفی کے دو مرید تھے۔ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا۔دوسرے نے صوفی سے شکایت کی۔اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے، کہ اسکی شکایت کرتا ہے اور جاکر اُٹھا نہیں لاتا۔وہ اسی وقت گیا اور اُسے اُٹھا کرلے چلا۔کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت شراب پی لیکن دوسرے نے کم پی کہ اُسے اُٹھا کر لے جا رہا ہے۔صوفی کا یہ مطلب تھا کہ تونے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی۔آنحضرت ﷺ سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا یکہ کسی کی سچی بات کا اسکی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے بُرا لگے غیبت ہے۔اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تو بیان کرتا ہے،تو اس کا نام بہتان ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ولا یغتب لعضکم بعضا ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتا (الحجرات : ۱۳)
اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے ۔ان میں غیبت کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ آیت بے کار جاتی ہے۔اگر مومنوں کو ایسا ہی مطہر ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی، تو پھر اس آیت کی کیا ضرورت تھی؟ بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے۔بعض کمزور ے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے۔بعض میں کچھ طاقت آگئی ہے۔پس چاہیے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔اگر نہ مانے توا س کے لیے دعا کرے اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضا وقدر کا معاملہ سمجھے ۔جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہیے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سرِدست جوش نہ دکھلایا جاوے۔ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے۔قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتاہے،بلکہ لکھا ہے القطب قدیز نی کہ قطب سے بھی زنا ہو جاتاہے۔بہت سے چور اور زانی آخر کا رقطب اور ابدال بن گئے۔جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے۔کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لیے وہ پوری کوشش کرتا ہے۔ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہیے،بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلائو اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے
تواصوابالصبر وتواصو ابالمرحمۃ (البلد : ۱۸)
کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور ا سکے لیے دعا بھی کی جاوے۔دعا میں بڑی تا ثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابلِ افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کر تاہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نیں کرتا۔عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہیے۔جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لیے رو رو کر دعا کی ہو۔سعدی نے کہا ہے ؎
خدا واند بپو شد
ہمسایہ نداند و خرو شد
خدا تعالیٰ تو جان کر پر دہ پوشی کرتا ہے،مگر ہمسایہ کو علم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے۔خدا تعالیٰ کا نام ستّار ہے۔تمہیں چاہیے کہ
تخلقواباخلاق اﷲ
بنو۔ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو،کیونکہ کتاب اﷲ میں جیسا آگیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے۔شیخ سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسر کرتا ہے۔شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تونے غیبت کی۔غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا۔جبتک رحم،دعا،ستاری،اور مرحمہ آپس میں نہ ہو ۔؎ٰ
۲۱؍جون ۱۹۰۴ء
منکروفات مسیح سے قسم کن الفاظ میں لی جائے
حضرت اقدس کے ایک مخلص حواری نے عرض کی کہ وزیر آباد میں ایک حافظ صاحب ہیں۔وہ اس بات پر آمادہ ہین کہ وہ قسم کھا کر کہیں کہ عیسیٰ ؑاسی جسدِ عنصری کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
جو شخص دلیری کر کے شوخی کی راہ سے فتنہ ڈالتا ہے خدا اس سے خدو سمجھ لیتا ہے۔اگر اُس کو قسم کھانی ہے تو تین باتوں کی قسم کھائے۔
(۱) ایک تو یہ کہ فلما توفیتنیمیں سے مسیح کی وفات ہرگز ثابت نہیں ہوتی اور یہاںتوفیتنی کے وہ معنی ہرگز نہیں ہیں جو کہ آنحضرت ﷺ کی نسبت اس لفظ کے معنی کئے جاتے ہیں۔
(۲) دوسری یہ بات ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت مسیح کو معراج کی شب میں اُن تمام انبیاء کی طرح نہیں دیکھا جو کہ وفات پا چکے ہیں بلکہ دوسرے انبیاء کی ارواح کے خلاف حضرت مسیح کو معراج کی شب میں اس ہیئت اور شکل میں پایا جس سے اُن کا بجسدِ عنصری زندہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔
(۳) تیسری یہ کہ آنحضرت ﷺ کی وفات پر صحابہؓ کا جماع جو آیت
ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (العمران : ۱۴۵)
کے ان معنوں پرہوا تھا کہ آنحضرت سے پیشتر جس قدر بنی گزرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں۔یہ بات غلط ہے کیونکہ ان تینوں باتوں میں اﷲ تعالیٰ کا قول‘ آنحضرت ﷺ کی رؤیت اور صحابہؓ کا جاماع سب آجاتا ہے۔پس ان تینوں باتوں پر وہ قسم کھاوے۔
۴۔ اور چوتھی بات یہ بھی ملالے کہ ہم مفتری ہیں اور ۲۴ سال سے جو الہامات ہم سنارہے ہیں یہ خدا تعالیٰ پر افتراء باند ھتے ہیں۔اور قسم میں یہ بھی کہے کہ اگر اس میں میں نے کوئی بدنیتی کی ہے یا ایسی بات بیان کی ہے جو کہ میرے ذہن میں نہیں ہے تو اس کا وبال مجھ پر نازل ہو۔
فرمایا :
اگر یہ لوگ منہاج نبوت کو معیار ٹھہراویں تو آج فیصلہ ہوتا ہے۔
اس مقام پر نواب محمد علی صاحب نے عرض کی کہ ایک شخص نے مجھ سے حضور کے بارے میں بحث کرنی چاہی۔میں نے اُسے کہا کہ اول تم سب کتابیں حضرت مرزا صاحب کی مطالعہ کرو اگر اس میں سمجھ نہ آوے تو ایک ماہ قادین چل کر رہو اور وہاں مرزا صاحب کے حالات وغیرہ کو آنکھ سے دیکھو۔ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہاری رہنمائی کرے۔
بعض دفعہ موت ہی انسان کے حق میں اچھی ہوتی ہے فرمایا کہ :
اگر ہمارا کوئی مرید طاعون س یمرجاتا ہے تو اس پر اعتراض کرتے ہیں؛ حالانکہ خد اتعالیٰ کے کلام میں مطلب ہرگز نہیں ہے کہ صرف بیعت کرنے والا ہی اس سے محفوظ رہیگا، بلکہ اس نے ایک دفعہ مجھے مخاطب کرکے فرمایا
الذین امنو اولم یلبسو اایما نہم بظلم (الانعام : ۸۳)
یعنی بقدر دعویٰ کے ایمان میں کسی قسم کا ظلم نہ ہو۔خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری وفا، پورا صدق اور اخلاص کا معاملہ ہو اور اس کی شناخت کامل ہو تو وہ شخص اس آیت کا مصداق ہو سکت اہے۔لیکن یہ ایسی بات ہے کہ جس کو سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جان سکتا کہ آیا فلاں شخص میں پور اصدق و اخلاص ہے کہ نہیں۔بعض وقت ایک انسان کے حق میں موت ہی اچھی ہوتی ہے کہ خد اتعالیٰ اسے اس ذریعہ سے آئندہ لغزش سے بچالیتا ہے۔ (جیسے بعض کافروں کے حق میں زندگی اس لیے بہتر ہوتی ہے کہ اُن کو آئندہ ایمان نصیب ہو جاتا ہے۔ایسے ہی بعض مومن کے حق میں موت اس لیے بہتر ہوتی ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو کافر ہو جاتا ) کہ اس کا خاتمہ کفر پر نہ ہو۔
یہ طاعون اس قسم کی ہے جیسے کہ آنحضرت ﷺ کو کفار کے عذاب کا وعدہ تھا۔لیکن پھر صحابہ کرامؓ نے بھی آخر اُس سے حضہ لیا اور اکثر شہید ہوئے۔کفر کا استیصال ان کی شہادت کا ثبوت ہے پس اسی طرح یہاں بھی استیصالِ کفر ہوگا۔
کر بلائیست سیرِ ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
ایک صاحب نیجو کہ بیعت شدہ ہیں، عرض کی کہ بعض لوگ صرف اس لیے بیعت سے پرہیز کرتے ہیں کہ حضور نے حضرت حسینؓ س یبڑے ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔جیسے کہ یہ شعر مزکورہ بالا ہے۔ایک شخص نے مجھ پر بھی یہ اعتراض کیا مگر چونکہ مجھے اس کی حقیقت معلوم نہ تھی، اس لیے میں ساکت ہو گیا۔
فرمایا کہ :
اول انسان کو اطمینان قلب ہونا چاہیے کہ آیا جس کو میں نے قبول کیا ہے وہ راستباز ہے کہ نہیں۔مختصر کیفیت اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک دعویٰ کا مصدق ہوتا ہے۔اور دعویٰ بھی ایس اہو کہ ا سکی بنا پر کوئی اعتراض نہ قائم ہوتا ہو تو اس قسم کے شکوک کا دروازہ خود ہی بند ہو جاتا ہے۔مثلاً میرا دعویٰ ہے کہ میں وہ مسیح ہوں جس کا وعدہ قرآن شریف اور حدیث میں دیا گیا ہے۔اب جبتک کوئی میرے اس دعوے کا مصدق نہیں ہے تب تک اس کو حق ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ نیک آدمی کے مقابل پر بھی وہ ہم پر اعتراض کرے۔لیکن اگر کوئی بیعت کر کے دعاویٰ کی تصدیق کرتا ہے کہ میں سچا ہوں تو وہ پھر اعتراض کیوں کرتا ہے۔(اُسے چاہیے تھا کہ بیعت سے پیشتر اس بات کا اطمینان حاصل کرتا کہ آیا آپ سچے ہیں کہ نہیں ؎ٰ) اس قسم کے معترضین سے سوال کرنا چاہیے کہ جس مسیح کے وہ منتظر ہیں۔آیا وہ اُن کے نزدیک ازروئے اعتقاد حسینؓ سے افضل ہے کہ نہیں؟ اگر وہ اُسے افضل قبول کرتا ہے تو پھر ہم تو کہتے ہین کہ ہم وہی ہیں۔پہلے ہمارا وہی ہونا فیصلہ کرے پھر اعتراض خود بخود رفع ہو جائے گا۔
یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ کے فیوض بے انتہا ہیں۔جو اُن کو محدود کرتا ہے وہ اصل میں خد اکو محدود کرتا ہیاور اس کی کلام کو عبث قرار دیتا ہے۔وہی بتلاوے کہ
اھدنا الصراط المستقیم۔صراط الذین العمت علیھم (الفاجحہ : ۶‘۷)
میں جب وہ انہی کمالات اور انعامات کو طلب کرتا ہے جو کہ سابقین پر ہوئے تو اب ان کو محدود کیسے مانا ہے؟ اگر وہ محدود ہیں اور بقول شیعہ بارہ امام تک ہی رہے توپھر سورہ فاتحہ کو نماز میں کیوں پڑھتا ہے۔وہ تو اس کے عقیدہ کے خلاف تعلیم کر رہی ہے اور خدا کو ملزم گردانتی ہیکہ ایک طرف تو وہ خود ہی کمالات کو بارہ امام تک ختم یرتا ہے اور پھر لوگوں کو قیامت تک ان کے طلب کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔دیکھو مایوس ہونا مومن کی شان نہیں ہوتی اور ترقیات اور مرات قرب کی کوئی حد بست نہیں ہے۔یہ بڑی گغلطی ہے کہ کسی فرد خاص پر ایک بات قائم کر دی جاوے۔خدا تعالیٰ نے جیس اخاص طو رپر ذکر کر دیا اور احادیث میں آگیا کہ فلاں زمانہ میں مسیح موعود ہوگااور اس کی علامات ، اس کا کام، اس کے حالات سب بتلادیئے تو اب ہم سے یہ سوال کیوں ہوتاہے کہ تم حسینؓ سے افضل کیوں بنتے ہو۔کیا رسول اﷲ ﷺ نے کہیں فرمایا ہے کہ مسیح موعود حسینؓ سے افضل نہ ہوگا بلکہ کمتر ہوگا۔ایسے معترضوں کو تم یہ جواب دو کہ ہم تو مسیح موعود مان چکے ہیں۔اب تم اس امر کا ثبوت دو کہ آیا وہ امام حسینؓ سے کم ہوگ یا برابر یا افضل؟ بجز توہمات کے اُن کے پاس کچھ بھی نہیںہے۔جیسے ایک لاہوری شیعہ نے لکھاہے کہ آنحضرت ﷺ اور دیگر کل انبیاء نے صرف حسین کی وجہ سے ہی نجات پائی۔
خدا تعالیٰ کا جو معاملہ میرے ساتھ ہے اور وہ میرے ساتھ کلام کرتا ہے ایسا کوئی الہام حسین ؓ کو تو پیش کرو۔میں تو اپنی وحی پر ویسے ہی ایمان لاتا ہوں جیسے کہ قرآن شریف اور توریت کے کلام الٰہی ہونے پر زیادہ سے زیادہ یہ لوگ امام حسین ؓ کی فضیلت میں بعض ظنی احادیث پیش کریں گے اور میں وہ پیش کرتا ہوں جو یقینی ہے اور پھر خدا کا کلام ہے۔بطور تنزل کے میں اگر مان لوں کہ حسین کے الہامات تو پہلے ہی سے ظنی ہیں۔پس دونوں ظنی الہاموں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو۔خد اتعالیٰ نے جو مراتب میرے بیان کئے ہیں۔مثلاً
انت منی بمن زلۃ عرشی۔انت منی بمنزلۃ لا یعلمہا الخلق۔انت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی۔
انت منی بمنزلۃ او لا دی۔انت منی وانا منک۔
کیا امام حسینؓ کے یہی مراتب بیان ہوئے ہیں؟ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں نہ امام حسینؓ کا نام لیا اور نہ یزید کا۔اگر ذکر کیا ہے تو زید کا ذکر کیا ہے۔یا عض مفسروں نے ایک صحابی سجل کا لکھا ہے جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔اس طرح سے دو صحابہ کا ذکر قرآں شریف میں ہوا ہے اور جو ہمیں مفتری سمجھتا ہے اور مفتری سمجھ کر پھر یہ اعتراض کرتا ہے تو اول وہ ہمارے افتراء پر بحث کرے کہ آیا افترأ ہے کہ نہیں۔
البدر جلد ۳ نمبر ۲۲-۲۳ صفحہ ۳‘۴ مورخہ ۸، ۱۶ ؍جون ۱۹۰۴ء؎ٰ
بمقام گورداسپور
۳۰؍جون ۱۹۰۴ء
طعامِ اھلِ کتاب
امریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہو رہا تھا۔اسی میں یہ ذکر بھی آگیا کہ دودھ اور شوربا وغریہ جو کہ ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہیبہت ہی نفیس اور ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔دودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے۔اس پر حضور ؑ نے فرمایا :
چونکہ نصاریٰ اس وقت ایک ایسی قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال وحرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سؤر کا گوشت اُن میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیس اکہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں۔ اس لیے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو اُن کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں اُن میں سؤر کی چربی اور سؤر کے دودھ کی امیزش ہو۔اس لیے ہمارے نزدیک ولائتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شوربے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور ناجائز ہیں۔جس حالت میں کہ سؤر کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو کہ یہ لوگ تیار کرکے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کانہ ہوتا ہو۔
اس پر ابو سعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک وقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا۔وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روبے کے خرید لیا۔جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا، تو معلوم ہوا کہ سؤر کی چربی بھی اس کا رخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے۔دریافت پر کارخانہ والوں نے بتایا کہ ہم اُسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیروں میں ڈالی جاتی ہے۔اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہو سکت اہے کہ حضرت عقدس مسیح موعود ؑ کا خیال کس قدر تقویٰ اور باریک بینی پر تھا، لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور دراز مصاروبلاد میں ابتک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اس لیے اُن کو بھی مد نظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا۔نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی لڑاہیوں کو اکثر کتے چاٹ جاتے ہیں۔اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ :
ہمارے نزدیک نصاریٰ کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور ازروئے قرآن مجید وہ حرام نہ ہو۔ورنہ اس کے یہی معنے ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا ، مگر باہر نصاریٰ کے ہاتھ سے کھا لیا۔اور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حالا کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیا کردہ چیزوں پر کای اعتبار ہو سکت اہے۔اسی لیے ہم گھر میں ولائتی بسکٹ نہیں استعمال کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں۔
عیسائیوں کی نسبت ہندوئوں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں۔ اور ہر جگہ انہیں کی دوکانیں ہوتی ہیں۔اگر مسلمانوں کی دوکانیں موجود ہوں۔اور سب شئے وہان ہی سے مل جاوے تو پھر البتّہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں۔
Amira 17-6-05
علاوہ ازیں میرے نزدیک اہل کتاب سے غالباً مراد یہودی ہی ہیں،کیونکہ وہ کثرت سے اس وقت عرب میں آباد تھے اور قرآن شریف میں بار بار خطاب بھی انہیں کو ہے۔اور صرف توریت ہی کتاب اس وقت تھی جو کہ حﷲت اور حرمت کے مسئلے کے بیان کر سکتی تھی اور یہود کا اس پر اس امر میں جیسے عملدرآمد اس وقت تھا ویسے ہی اب بھی ہے۔انجیل کوئی کتاب نہیں ہے۔
اس پر ابو سعید صاحب نے عرض کی کہ اھل الکتاب میں کتاب پر الف لام بھی اس کی تخصیص کرتا ہے۔جس سے یہ مسئلہ اور بھی واضح ہو گیا۔
دجال شخص واحد بھی ہو سکتا ہے
خواجہ کمال الدین صاحب نے عرض کی کہ دجال کے متعلق جو کچھ حضور نے بیان فرمایا ہے وہ بالکل حق ہے۔لیکن ایک دن میرے ذہن میں یہ بات گذری کہ دجال ایک شخص واحد بھی گذرا ہے اور اس وقت جو داجل موجود ہے وہ اس کا ظل اور اثر ہے کیونکہ موجودہ عیسویت دراصل وہ عیسویت نہیں ہے جو حضرت مسیح نے تعلیم کی بلکہ یہ بولوس کا مذہب ہے۔جس نے ہر ایک حرام کوحلال کر دیا اور کفارہ وغیرہ کے مسئلہ کی بدعت ایجاد کی اور اس کی ایک آنکھ ہی تھی۔پس آنحضرت ﷺ نے جو کچھ اس کا حلیہ بیان کیا ہے ممکن ہے کہ مکاشفہ میں آپؐ کو وہی دکھایا گیا ہو اور اس کے متبعین نے ہی یہ تمام ایجادیں کی ہیں جس کو دجال کی صفت اور کارناموں کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے۔حضرت اقدس نے فرمایا :
ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے
تقدیر مَعَلَّق و مُبرَم
صدقات و خیرات سے بلا کے ٹلنے کا ذکر ہوا۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
ہاں یہ بات ٹھیک ہے۔اس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تقدیر کے دو حضے کیوں ہیں؟ تو جواب یہ کہ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ بعض دفعہ سخت خطرناک صورتیں پیش آتی ہیں اور انسان بالکل مایوس ہو جاتا ہے، لیکن دعا و صدقات و خیرات سے آخر کار وہ صورت ٹل جاتی ہے۔پس آخر یہ ماننا پڑتا ہے کہ اگر معلّق تقدیر کوئی شے نہیں ہے اور جو کچھ ہے مبرم ہی ہے تو پھر دفعِ بَلا کیوں ہو جاتا ہے؟ اور دعا و صدقہ خیرات وغیرہ کوئی شے نہیں ہے۔بعض ارادے الٰہی صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کو ایک حد تک خوف دلایا جاوے اور پھر صدقہ و خیرات جب وہ کرے تو وہ خوف دور کر دیا جاوے۔دعا کا اثر مثل نرومادہ کے ہوتا ہے کہ جب وہ شرط پوری ہو اور وقت مناسب مل جاوے اور کوئی نقص نہ ہو تو ایک امر ٹل جاتا ہے۔اور جب تقدیر مبرم ہو تو پھر ایسے اسباب دعا کی قبولیت کے بہم نہیں پہنچتے۔طبیعت تو دا کو چاہتی ہے مگر توجہ کامل میسر نہیں آتی او دل میں گداز پید انہیں ہوتا۔نماز سجدہ وغیرہ جو کچھ کرتا ہے اس میں بدمزگی پاتا ہے۔جس سے معلوم ہوت اہے کہ انجام بخیر نہیں اور تقدیر مبرم ہے۔ ؎ٰ
اس مقام پر ایک شخصنے عرض کی کہ جب نواب محمد علی خانصاحب کا صاحبزادہ سخت بیمار ہوا تھا تو جناب کو اس قسم کا الہام ہوا کہ تقدیر مُبرَم ہے اور موت مقدر ہے۔لیکن پھر حضور کی شفاعت سے وہ قدیر مبرم ٹل گئی۔آپ نے فرمایا کہ :
سید عبد القادر جیلانی ؓ بھی لکھتے ہیں کہ بعض وقت میری دعا سے تقدیر مبرم ٹل گئی ہے۔اس پر شارح شیخ عبد الحق محدث دہلی نے اعتراض کیا ہے کہ تقدیر مبرم تو ٹل نہیں سکتی پھر اس کے کیا معنی ہوئے۔آخر خود ہی جواب دی اہے کہ تقدیر مبرم کی دو اقسام ہیں۔ایک مبرم حقیقی اور ایک مبرم غیر حقیقی ۔جو مبرم حقیقی ہے وہ تو کسی صورت سے ٹل نہیں سکتی ہے۔جیسے انسان پر موت تو آتی ہے۔اب اگر کوئی چاہے کہ اس پر موت نہ آوے اور یہ قیامت تک زندہ رہے تو یہ نہیں ٹل سکتی۔دوسری غیر حقیقی وہ ہے جس میں مشکلات اور مصائب انتہائی درجہ تک پہنچ چکے ہوں اور قریب قریب نہ ٹلنے کے نظر آویں۔اس کا نام مجازی طور پر مبرم رکھا گیا ہے؛ ورنہ حقیقی مبرم تو ایسی ہے کہ کل انبیاء بھی مل کر دعا کیں کہ وہ ٹل جاوے تو وہ ہرگز نہیں ٹل سکتی۔
فرمایا کہ :
صبح کو یہ فقرہ الہام ہوا :
’’خدا تیری ساری مرادیں پوری کر دے گا‘‘
رؤیا میں فرشتے دیکھنا
فرشتوں پر ذکر چل پڑا کہ یہ خواب مین ہمیشہ خوبصورت لڑکوں کی صورت و شکل میں نظر آتے ہیں۔اس پر حضور ؑ نے اپنے چند ایک سابقہ رؤیا بیان فرمائے جن کو ہم اس نیت سے درج کر دیتے ہیں کہ اُن میں سے اگر کووئی شائع نہیں ہوا تو اب ہو جائے۔
(۱)
ایک فرشتہ ایک چبوترہ پر بیٹھا ہے اور ایک عجیب روٹی نان کی مثل چمکتی ہوئی اس کے ہاتھ میں ہے وہ روٹی بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ قسم کی نظر آتی ہے۔مجھے وہ روٹی دے کر کہتا ہے کہ یہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے۔اس رؤیا کو عرصہ قریباً ۳۰ سال کا ہو گیا ہوگا۔
(۲)
فرمایا :
ایک فرشتہ کو میں نے ۲۰ برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا۔صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی خوبصورت ہیں۔اس نے کہا۔ہاںمیں ورشنی آدمی ہوں۔یہ رؤیا کوئی ۲۵ برس کا ہوگا ۔؎ٰ
رجوع کا صحیح وقت نزول بلا سے پہلے ہوتا ہے
عادت اﷲ یہی ہے کہ جب انسان امن کے زمانہ میں ہو اور وہ گذر جاوے اور اس اثناء میں کوئی رجوع خدا تعالیٰ کی طرف حقیقی اور اخلاص سے نہ کیا ہو تو پھر خطرناک زمانہ میں واویلا شور مچانا اس کے کام نہیں آیا کرتے۔یہ تو وہی فرعون کی مثال ہوئی کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا کہا ب میں موسیٰ اور ہارون کے خد اپر ایمان لایا۔ مشکل یہ ہے کہ دنیا داروں کو اُن کے اپنے سلسلوں اور پیچ درپیچ معاملات سے ہرگز فرصت نہیں ہے کہ وہ روح کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور خد اکا خوف بھی محسوس کریں۔اگر کچھ خوف ہے تو گورنمنٹ کا اور امید ہے تو اسباب سے یا اپنے مکرو فریب سے۔اس زمانہ میں جو توکل کا نام لے وہ دیوانہ اور مخبوط الحواس ہے۔اس کا نام مسلوب العقل رکھا جات اہے۔یہ انسنا کی خوش قسمتی ہے کہ قبل از نزول بلا وہ تبدیلی کرلے،لیکن اگر کوئی تبدیلی نہیں کرتا اور اس کی نظر اسباب اور مکرو حیلہ پر ہے تو سوائے اس کے کہ وہ اپنے ساتھ گھر بھر کو تباہ کر دے اور کیا انجام بھوگ سکتا ہے کیونکہ مرد گھر کا کشتی بان ہوت اہے۔اگر وہ ڈوبے گا تو کشتی بھی ساتھ ہی ڈوبے گی۔اسی لیے کہا ہے
الرجال قوامون علے النساء (النساء : ۳۵)
اسی کی رستگاری کے ساتھ اس کے اہل و عیال کی رستگاری ہے اور
ولا یخاف عقبھا (الشمس : ۱۶)
سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کو ان کے پسماندوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔اس وقت اس کی بے نیازی کام کرتی ہے۔؎ٰ
۳ ؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام قادیان شریف
غربأ کی دلجوئی
شام کا وقت تھا۔بعد نماز مغرب مختلف بلاد سے جو لوگ زیارت اور بیعت سے شرف یا ب ہونے کے لیے آئے ہوئے تھے۔مثل پر وانہ حضرت پر گر رہے تھے۔اکثر حصہ ان میں سے دیہات والوں کا تھا۔جگہ کی تنگی اور مرد مان کی کثرت دیکھ کر بعض نے کہا کہ لوگو پیچھے ہٹ جائو۔حضرت جی کو تکلیف ہوتی ہے۔
اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ :
کس کو کہا جاوے کہ تم پیچھے ہٹو۔جو آتا ہے اخلاص اور محبت لے کر آتا ہے۔سینکڑوں کوس کے سفر کر کے یہ لوگ آتے ہیں۔صرف اس لیے کہ کوئی دم صحبت حاصل ہو اور انہیں کی خاطر خدا تعالیٰ نے سفارش کی ہے اور فرمایا ہے
ولا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس
یہ صرف غریبوں کے حق میں ہے کہ جن کے کپڑے میلے ہوتے ہیں اور ان کو چنداں علم بھی نہیں ہوتا۔خدا تعالیٰ کا فضل ہی ان کی دستگیری کرتا ہے۔کیونکہ امیر لوگ تو عام مجلسوں میں خود ہی پوچھے جاتے ہیں اور ہر ایک اُن سے بااخلاق پیش آتا ہے۔اس لیے خدا تعالیٰ نے غریبوں کی سفارش کی ہے جو بیچارے گمنام زندگی بسر کرتے ہیں۔
بہت تجسس کرنا جائز نہیں
ایک شخص نے سوال کیا کہ ہمارے شہر میں وجودی فرقہ کے لوگ کثرت سے ہیں۔اور ذبیحہ وغیرہ انہیں کے ہاتھ سے ہوتا ہے۔کیا اس کا کھانا حلال ہے کہ نہیں؟ فرمایا کہ :
بہت تجسس کرنا جائز نہیں ہے۔موٹے طور پر جو انسان مظرک یا فاسق ہو اس سے پرہیز کرو۔عام طور پر اس طرح تجسس کرنے سے بہت سی مشکلات درپیش آتی ہیں۔جو ذبیحہ اﷲ کا نام لے کر کای جاوے اور اس میں اسلام کے آداب مد نظر ہوں وہ خواہ کسی کا ہو۔جائز ہے۔
وجودی فرقہ کی بناء اس کے بعد فرمایا کہ :
طبعاً یہ سوال پیدا ہوت اہے کہ وجودی پیدا کہان سے ہوئے ۔قرآن شریف اور اسلام میں تو ان کا پتہ نہیں ملتا مگر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو صرف دھوکا لگا ہوا ہے۔جو راستباز اکابر گذرے ہیں وہ اصل میں فنائے نظری کے قائل تھے۔اس کے یہ معنے ہیں کہ انسان ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون میں توجہ اﷲ کی طرف رکھے اور اس قدر فانی اس میں ہو کہ گویا اور کسی شئے کی قدرت اور حرکت بذاتہ اُسے نظر نہ آوے۔ہر ایک شئے کو فانی جان لے اور اس قدر تصرف الٰہی اُسے نظر آوے کہ بلا ارادۂ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہو رہا۔اسی مسئلہ میں غلطی واقع ہو کر آخر فنا وجودی تک نوبت آگئی اور یہ کہنے لگے کہ سوائے خدا کے اور کوئی شئے نہیں ہے۔اپنے آپ کو بھی خد اماننے لگے۔اس خیال سے یہ مذہب پھیلا ہے کہ فناء نظری کے شوق میں اولیاء اﷲ سے کچھ ایسے کلمات نکلے ہیں کہ جن کی اُلٹی تاویل کرکے یہ وجودی فرقہ بن گیا ہے۔فناء نظری تک انسنا کا حق ہے کہ محبوب میں اور اپنے آپ میں کوئی خدائی نہ سمجھے اور ؎
من تُو شُدم تُو من شُدی۔ من تن شُدم تُو جاں شُدی
تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تُو دیگری
کا مصداق ہو۔کیونکہ محب اور محبوب کا علاقہ فنائِ نظری کا تقاضا کرتا ہے اور ہر ایک سالک کی راہ میں ہے کہ وہ محبوب کے وجود کو اپنا وجود جانتا ہے،لیکن فنائِ وجودی ایک من گھڑت بات ہے، جسے ذوق شوق، محبت، صدق اور وفا اور اعمالِ صالحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔فنائِ نظری کی مثال وہی ہے جو مان اور بچے کی ہے کہ اگر کوئی بچے کو مکی مارے تو درد مان کو ہوت اہے۔سخت تعلق جو محبت کا ہے یہ اس سے بھی دردناک ہے اور یہ ایک سچی اور حقیقی محبت ہوتی ہے لیکن وجودی کا مدّعا جھوٹا ہے۔یہ وہ کرے جو خدا تعالیٰ پر محیط ہو۔وجودی چونکہ ترکِ ادب کا طریق اختیار کرتا ہے۔اس لیے طاعت،محبت، عبادتِ الٰہی سے محروم رہتا ہے۔؎ٰ
Amira 18-6-05
۸؍جولائی ۱۹۰۴ء
احاطہ عدالت
دنیوی تکالیف اور مصائب کی تلافی فرمایا :
جن کو اﷲ تعالیٰ دنیا میں تکالیف دیتا ہے اور جو لوگ خود خدا تعالیٰ کے لیے دُکھ اُٹھاتے ہیں۔اُن دونوں کو خدا تعالیٰ آخرت میں بدلہ دیگا۔دنیا تو چلنے کا مقام ہے،رہنے کا نہیں۔اگر کوئی شخص سارے سامان خوشی کے رھکتا ہے،تو خوشی کا مقام نہیں ۔یہ سب آرام اور دُکھ ختم ہونے والے ہیں اور اس کے بعد ایک ایسا جہان آنیوالا ہے جو دائمی ہے۔جو لوگ اس مختصر جہان میں انسانی بناوٹ میں فرق اور کمی بیشی دیکھ کر دوسرے جنم کے گناہوں اور عملوں پر محمول کر لیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔وہ یہ معلوم نہیں کرتے کہ آخرت کا یک بڑا جنم آنیوالا ہے اور جن کو خد اتعالیٰ نے پیدائش میں کوئی نقص عطا کیا ہے اور جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود بخود خدا تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے دُکھوں میں ڈال دیا ہے ان دونوں کو وہاں چل کر بدلہ ملے گا۔یہ جہان تو تخمریزی کا جہان ہے اور ایسے موقع حاصل کرنے کے واسطے ہے۔جن سے خدا تعالیٰ راضی ہو۔
بعض لوگ اپنے عملوں سے خد اکو راضی کرتے اور بعض اپنے آپ کو تکالیف میں ڈال کر خدا کو راضی کرتے ہیں۔ایک شخص کے دو خدمتگار ہیں۔ایک کو وہ ایسے کام اور سفر پر روانہ کرتا ہے کہ جہاں اس کو سواری مل سکتی اور راستہ میں بھی سایہ دار اور ٹھنڈا ہے اور ہر طرح کا آرام ہے۔دوسر خدمتگار کو ایسی طرف روانہ کرتا ہے جس راستہ میں نہ تو سواری مل سکتی ہے اور نہ سایہ ہے بلکہ پیدل چلنا اور سخت گرمی اور دھوپ اور لُو کا سامنا ہے۔مگر وہ جانتا ہے کہ جس کو جتنی تکلیف ہوگی اس کو اتنا ہی بدلہ اور عوضِ خدمت دوں گا۔پس پھر ان دونوں خدمتگاروں کو اپنے سفر پر کای اعتراض ہے؟ اس طرح لنگڑے ،اندھے،اپاہج،غریب، فقیر وغیرہ لوگ جو خد اتعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اُن کو جب اس آخری جہان میں چل کر بدلہ ملنا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ ہم گوناگوں جنم مان لیں اور اس بڑے اور حقیقی جنم سے اعتراض کریں۔جو دُکھ اﷲ تعالیٰ نے دیئے ہیں۔وہ تو ثواب حاصل کرنے کو دیئے ہیں،جبکہ وہ رحم کر نیوالا ہے تو کسی کو کسی طرح اور کسی کو کسی طرح بدلہ دیتا اور دیتا رہے گا۔پس اپاہج اور اندھے وغریرہ کو اپنی ان نقائص خلقت کا بدلہ قیامت میں مل جاویگا۔پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص شاہی گھر میں پید اہو اہے اور سارے سامان عیش و نشاط مہیا ہیں پر وہ باریک در باریک دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو گدائی اور فقیری حیثیت میں بھیک مانگتا پھرتا ہے ایسے سُکھوں میں ہو کہ اس امیر زادے کو کبھی میّسر نہیں۔پھر کیا کہیں دولت والے کو یہ حکم دیا ہے اکہ اس سے عیاشی کر بلکہ یہ حکم دیا ہے کہ غیب بھائی کی طرح عبادت کر۔بہرحال یہ دنیا چند روزہ ہے۔انسان کیا سمجھتا ہیکہ میری عمر کس قدر ہے۔
عقیدہ تناسخ
جنم کی شکی بات کو قبول کرنا عقل کا کام ہرگز نہیں۔انسنا جب پید اہوت ااور اپنی عمر طبعی پوری کرکے مرجاتا ہے تو کبھی کسی نے اُس شخص کو اس جہان میں واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا۔مثلاً بڑے بڑے عالم اور فاضل مرجاتے ہیں تو اُنہوں نے واپس آکر کبھی نہیں بتلایا کہ میں نے پچھلے جنم میں فلاں علم حاصل کیا تھا۔ہزاروں جنم پائے اور علم و عمل حاصل کرتا رہا۔مگر جب واپس آیا وہ پہلے علم وعمل ضائع ہوتے رہے۔جس طرح وہ واپس آکر سب علوم بھلا دیت ابلکہ یہاں کا پہلا آنا بھی اس کو یاد نہیں رہتا،تو وہاں کیا یاد رکھے گا اور نجات کس طرح حاصل کرے گا۔جو لوگ تناسخ کے قاتل ہیں وہ کہتے ہیں کہ مکتی گیان سے ہوگی مگر کروڑ دفعہ کے جنم سے ایک حرف تک ان کو یاد نہیں رہتا اور جب آتا ہے خالی ہاتھ ہی آتا ہے۔کچھ تو ساتھ لاوے ۔اگر کچھ ساتھ نہیں لاتا تو گیان کیا ہوا۔
غرض جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہایک شخص کے ہاتھ پائوں سرد ہو گئے ہیں۔دم بند ہو گیا ہے۔آنکھیں پتھر اگئی ہیں اور روح رخصت ہو گیا ہے۔اسی طرح تم اس کے واپس آنے کا ثبوت پیش کرو۔تو ہم مان لیتے ہیں۔واپس آنے کا ثبوت تو یہی تھا کہ اپین کسی گیان کو ساتھ لے آتا ۔مگر یہ بیہودہ خیال ہے کہ وہ کسی گیان کو ساتھ لاوے۔پس بغیر ثبوت کے ہم کیسے مان سکتے ہیں۔بڑا مولوی اور بڑا پنڈت بن کر اس جگہ سے رخصت ہوا تھا۔واپس آکر کچھ بھی یاد نہیں۔جب وہاں جا کر سب کچھ بھول آتا ہے تو کس طرح معلوم ہو کہ یہ دوسرا جنم لے کر آیا ہے۔اگر صرف اس کمی بیشی کو پورا کرنے کے واسطے جنم مانتا ہے،تو ہم یوں کیون نہ مان لیں کہ جس طرح یہاں تکلیف اُٹھاتا ہے۔اسی طرح؎ٰوہ خدا تعالیٰ اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ عطا نہیں کرسکتا؟مثلاً دیا نند مرگیا ہے ۲؎ ۔آجاوے تو ہم اس کو اس طرح شناخت کر سکیں گے کہ ستیار تھ پر کاش کا یاوید کا کچھ حصہ ہمیں پڑھ کر سنا دیوے۔پڑھا ہوا آدمی تو اگر بھینس کی شکل میں بھی آجاوے تو چاہیے کہ وہ بھینس بھی طوطے کی طرح بولے۔ہاں صوفیوں نے بھی یہ لکھا ہے ؎
ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ام
ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام
مگر اس کے کچھ اور معنی ہیں۔یعنی جب انسان خد اتعالیٰ کی طرف ترقی کرنے لگتا ہے تو پہیل اس کی حالت بہت اَبتر ہوتی ہے۔جس طرح ایک بچہ آج پید اہوا ہے تو ا سمیں صرف دودھ چوسنے ہی کی طاقت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔پھر جب غذا کھانے لگتا یہتو آہستہ آہستہ غصہ،کینہ،خودپسندی،نخوت علیٰ ہذاالقیاس۔سب باتیں اس میں ترقی کرتی جاتی ہیں اور دن بدن جُوں جُوں اس کی غذائیت بڑھتی اجتی ہیشہوات اور طرح طرح کے اخلاقِ ردّیہ اور اخلاقِ فاضلہ زور پکڑتے جاتے ہیں اور اسی طرح ایک وقت پر اپنے پورے کمال انسانی پر جاپہنچتا ہے اور یہی اس کے جسمانی جنم ہوتے ہیں۔یعنی کبھی کُتے،کبھی سؤر،کبھی بندر،کبھی گائے،کبھی شیر وغیرہ جانوروں کے اخلاق اور صفات اپنے اندر پید اکرتا جاتا ہے گویا کل مخلوقات الارض کی خاصیت اس کے اندر ہوتی جاتی ہے۔اسی طرح جب اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سلوک کا راستہ چاہے گا تو یہ ساری خاصیتیں اس کو طے کرنی پڑیں گی اور یہی تناسخ اصفیاء نے مانا ہے اور اس کا اسلام اور قرآن بھی اقراری ہے۔غالباً یہی تناسخ ہنود میں بھی تھا،مگر بے علمی سے دھوکہ لگ ااور سمجھ اُلٹی ہو گئی۔مگر دنیا میں جس بات کو کوئی شخص مان بیٹھا ہے وہ اس کو چھوڑ نہیں سکتا ورنہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ راستی کو دریافت کرکے ناراستی کو چھوڑ دیتے،مگر یہاں ضدّ،تعصب اور ہٹ دھرمی ماننے نہیں دیتی۔
مکھیاں شہد بناتیں ۔ریشم کا کیڑا ریشم بناتا۔موتی کا کیڑا موتی بناتا،بیل،گھوڑے،گائے،جونگ وغیرہ ہر ایک چیز انسان کے واسطے فائدہ مند ہے۔اگر سب چیزیں اتفاقی ہیں۔اور خدا تعالیٰ نے حکمت سے پیدانہیں کیں توپھر ایک وقت پر اپنا جنم پورا کر کے کل گائیں، کل مکھیاں،کل گھوڑے وغیرہ سب جانورانسان بن جانے چاہیے۔تو پھر یہ چیزیں اور تعمتیں ایک وقت آنے پر دنیا سے نابود ہو جانی چاہئیں۔مگر جبتک انسان موجود ہے ان چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔پانی اور ہوا میں بھی کیڑے ہیں۔پھلوں اور اناجوں میں بھی کیڑے ہیں۔جن کے بغیر انسان کبھی زندہ نہیں رہ سکتا۔پس یا تو تناسخ مانو یا خد اتعالیٰ کی حکمت مانو،مگر چونکہ انسان کا ان چیزوں کے سوائے گذرہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔معلوم ہوا کہ یہ ساری پیدائش حکمتِ الٰہی پر مبنی ہے؎ٰ۔والسلام۔
۱۸؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
کل یعمل علی شا کلتہ
مہر نبی بخش المعروف عبد العزیز نمبردار بٹالہ نے عرض کیا کہ میں علاقہ بار سے صرف اس خیال پر آیا ہوں کہ ایک تفسیر قرآن لکھوں جس سے لوگوں کے شکوک اور غلط معانی کی اصلاح کروں۔اگر آپ مجھے امداد دیں تو میں موجودہ ثابت شدہ فلسفہ کے مطابق ترجمہ کر کے دکھلائوں۔
فرمایا :
ہمارا مشرب تو کسی سے نہیں ملتا۔ہم تو جو کچھ خد اسے پاتے ہیں خواہ اس کو عقل اور فلسفہ مانے یا نہ مانے ہم اس کو ضرور مانتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں؛ البتہ اہل عقل سے جو لوگ عقل کی پیروی کرتے ہیں وہ آپ کی بات پر توجہ کریں توخوب ہے۔آپ مولوی نور الدین صاحب سے مشورہ لیں۔آجکل تراجم کثرت سے شائع ہو رہے ہیں کہ مردوّجہ فلسفہ کی پیروی میں شائع ہوتے ہیں۔مگر ہمارا مذہب یہ نہیں ہے۔پر میں تم کو ایک نصیحت کرتا ہوں۔اس کو ضرور غور سے سُن لو۔اگر خدا تعالیٰ نے تم سے کوئی ایسا عظیم الشان کام لینا ہوتا تو تمہارا ؎ٰ ا رئیہ اور دماغ اچھا بناتا۔مگر یہ مصلحتِ الٰہی ہے کہ وہ اچھا نہیں بنایا گیا بلکہ کمزور بنایا گیا ہے ؎
ہر کے را بہر کارے ساختند
تم اپنے آپ کو خوش باش رکھو اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے خلاف نہ کرو۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
کل یعمل علی شا کلتہ (بنی اسرائیل : ۸۵)
ہر شخص کرتا اور کر سکتا ہے،مگر اپنی بناوٹ پر۔مثلاً ایک شخص کو تھوڑا ہی صدمہ دیکھ کر غشی لاحق ہو جاتی ہے۔اب اس کو میدان جنگ میں تلوار دے کر بھیجا جاتا ہے کیا وہ صرف بندوقوں کی آوازیں سنکر ہی نہ مر جاوے گا۔میں نے خود قادیان میں ایک شخص کو دیکھا ہے کہ اگر وہ بکرا ذبح ہوتا ہوا دیکھ لیتا ہے تو اس کو غش ہو جات تو اگر قصاب کا اکم اس کے سپرد کای اجتا تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ آپ ارادہ کرتے ہیں اختلاف مٹانے کا اور دماغ اور رئیہ آپ کا بہت خراب ہے۔ایسا نہ ہو کہ بیماری مہلک ہو کر تمہارے اندر ہی اختلاف پیدا ہو جاوے۔انسانی قویٰ تو بیشک ہر شخص کو ملے ہیں۔مگر مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ دھوکہ نہیں کھاتا۔پس آپ پر ا سمحنت کا پہلے بد اثر ہو چکا ہے۔آپ کم سے کم پہلے تمام ڈاکٹروں سے دریافت کر لیں کہ آپ اس محنت کے قابل ہیں یا نہیں۔میں تو بمصداق المستشار موتمن کے ایک امین اور مشفق ناصح ہو کر آپ کو صلاح دیت اہوں کہ آپ کے قویٰ ایسے نہیں ہیکہ اس محنت کو برداشت کر سکیں۔دوزخ کے ساتھ دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ۔جس رنگ سے اﷲ تعالیٰ چاہیے یقین عطا فرما دیوے۔صحابہ کرامؓ نے علوم فلسفہ وغریہ کہاں پڑھے تھے۔جو اسرارِ الٰہی طبعیات اور فلسفہ وغیرہ میں بھرے پڑے ہیں جو شخ ان سب کو طے کرنا چاہتا ہے وہ جاہل اور بے نصیب رہے گا مثلاً آگ گرم او رمہلک ہے۔اس بات کو تو ہر شخص دریافت کر سکتا ہے پر جب اس کے دل میں یہ سوال پید اہو گا کہ کیوں گرم ہے اور کیوں مہلک ہے تو یہاں فلسفہ ختم ہو جاوے گا۔پس اسرارِ الٰہیہ کو حد تک کوئی نہیں پہنچا سکتا ؎
تو کارِ زمیں کے نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پر داختی
پہلے ضرور ہے کہ اپنے گھر اور نفس کی صفائی کرو بعد میں لوگوں کی طرف توجہ کرنا۔
دنیا میں چار موٹی باتیں ماننے کے قابل ہیں۔(۱)ملائکہ،(۲)روحِ انسانی اور اس کا بقا بعد از مرگ۔(۳)جنات کا وجود۔(۴) خد اتعالیٰ کا وجود۔لوگوں نے سب سے پہلے جنات کا انکار کیا۔پھر ملائکہ کا۔پس دو باتوں کو اُڑا کر اپنی اور خدا کی روح کے قائل ہو بیٹھے یعنی کچھ کرنا اور کچھ نہ کرنا
افتو منون ببعض الکتاب وتکفرون ببعص (بقرہ : ۸۶)
اس میں پھر دہریوں نے ہی کمال کیا ہے کہ کچھ بھی نہ مانو اور سب کا انکار کرو۔
منشی صاحب مذکور نے سوال کای کہ قرآنِ کریم میں بہت سارے لفظ زائد ہوتے ہیں اور ان کے معنی نہیں کئے جاتے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔فرمایا :
قرآن کریم بلکہ ہر زبان میں قرائن ہوتے ہیں اور یہ ایسے بہت سارے محاورے ہوتے ہیں ۔آپکو صرف و نحو سے واقفیت نہیں۔
منشی صاحب نے کہا کہ میں نے صرف ونحو کو خوب پڑھا ہے۔فرمایا :
موجودہ مروجہ صرف و نۃو ناقص ہے اور آپ نے صرف و نحو کو کمال تک بھی نہیں پہنچایا۔ہر ایک زبان کا ایک خاص محاورہ ہوتا ہے۔جبتک انسان کی مادری زبان نہ ہو یا اس زبان میں اتنا کمال نہ ہو کہ مشبہ بہ مادری ہو جاوے، تب تک وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔پس اس امر کو زبان کے واقفوں سے دریافت کرو۔اور دیکھو قومی محاورات میں کوئی اہل علم اعتراض نہیں کرسکتا۔
پھر سوال کیا کہ بعض لفظ لکھنے میں آتے اور پڑھنے میں نہیں آتے۔فرمایا :
انگریزی زبان ہی کو لے لو اس میں بھی بہت سے ایسے حروف ہیں جو لکھنے میں تو آتے ہیں پڑھنے میں نہیں آتے۔میں پھر یہی کہوں گا کہ آپ کو صرف ونحو کی واقفیت بالکل نہیں۔یہ باتیں عمر کھاکے حاصل ہوتی ہیں۔آپ کی عمر اس وقت آرام چاہتی ہے اور خیال آپ کو یہ لگ گیا ہے۔پھر مجھے اس بات کا بھی ڈر ہے کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ مجھے قرآن کی خدمت سے روک دیا ہے۔بہر حال میں تو پھر بھی یہی کہوں گا اور بطور نصیحت کہوں گا کہ راحت سے زندگی بسر کرو۔آپ کا ریئہ بہت خراب ہیکوئی۔مہلک بیماری نہ ہو جاوے۔ہاں ان لوگوں کے واسطے دعا کر چھوڑو کہ اﷲ تعالیٰ ان کو ہدایت دیوے۔ااور قرآن سمجھنے کی ہر ایک کو توفیق دیوے۔مخلوق کے تم ٹھیکیدارنہیں۔اپنے آپ کو مشکلات میں نہ ڈالو اور نہ تمہارے قویٰ خدا تعالیٰ نے اس لائق بنائے ہیں۔میں تو ہمیشہ آپ کو یہی کہوں گا اور یہی نصیحت کروں گا۔آئندہ آپ کو اختیار ہے۔والسلام۔
عرش کی حقیقت
عرش کے متعلق سوال ہوا۔آپ نے اپنی تقریر کے اس حصہ کا اعادہ فرمایا جو کہ قبل ازیں کئی دفعہ شائع ہو چکی ہے۔اور فرمایا کہ :
عر ش کی نسبت مخلوق اور غیر مخلوق کا جھگڑا عبث ہے۔احادیث سے اس کے جسم کہو تو پھر خد اکو بھی مجسّم کہنا چاہیے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کو علّو جسمانی نہیں کہ جس کا تعالق جہات سے ہو بلکہ یہ روحانی علّو ہے۔
عرش کی نسبت مخلوق اور غیرمخلوق کی بحث بھی ایک بدعت ہیجو کہ پیچھے ایجاد کی گئی۔صحابہؓ نے اس کو مطلق نہیں چھیڑا ۔تو اب یہ لوگ چھیڑ کر نافہم لوگوں کو اپنے گلے ڈالتے ہیں۔لیکن عرش کے اصل معنے اس وقت سمجھ میں آسکتے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ دوسری تمام صفات پر بھی ساتھ ہی نظر ہو۔؎ٰ
Amira 19-6-05
۲۱؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
ترکِ گناہ
ایسی ہوا چلی ہے کہ گناہ کا چھوڑ نا عیب خیال کرتے ہیں۔اور جب کوئی گناہ کو چھوڑ نا چاہتا ہے تو اُسے ایک حسرت ہوتی ہے کہ اب یہ ہاتھ سے گیا۔اگر خدا تعالیٰ کی عظمت کو مد نظر رکھ کر بھی ترکِ گناہ کیا جاوے تو بھی اس کا بوجھ ہلکا ہو جاوے، لیکن اس کا خیال کسے ہے۔ ۳؎
۲۵؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
تعظیمِ قبلہ
سوال ہوا کہ اگر قبلہ شریف کی طرف پائوں کر کے سویا جاوے تو جائز ہے کہ نہیں؟
فرمایا کہ:
یہ ناجائز ہے کیونکہ تعظیم کے برخلاف ہے۔
سائل نے عرض کی کہ احادیث میں اس کی ممانعت نہیں آئی۔فرمایا کہ :
یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔اگر کوئی اسی بناء پر کہ حدیث میں ذکر نہیں ہے اور اس لیے قرآن شریف پر پائوں رکھ کر کھڑا ہوا کرے، تو کیا یہ جائز ہو جاوے گا؟ ہرگز نہیں۔ ۴؎
ومن یعظم شعائر اﷲ فانھا من تقوی القلوب (الحج : ۳۳)
۲۶؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
اکرامِ ضیف
اعلیٰ حجۃاﷲ مسیح موعود ؑ مہمان نوازی کا رسول اﷲ ﷺ کی طرح اعلیٰ اور زندہ نمونہ ہیں۔جن لوگوں کو کثرت سے آپ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ کسی مہمان کو (خواہ وہ سلسلہ میں داخل ہو) ذرا سی بھی تکلیف حضور کو بے چین کر دیتی ہے۔مخلصین احباب کے لیے تو اور بھی آپ کی روح میں جوشِ شفقت ہوتا ہے۔اس امر کے اظہار کے لیے ہم ذیل کا ایک واقعہ درج کر دیتے ہیں :
میاں ہدایت ال صاحب احمدی شاعر لاہور پنجاب جو کہ حضرت اقدس کے ایک عاشق صادق ہیں۔اپنی اس پیرانہ سالی میں بھی چند دنوں سے گورداسپور آئے ہوئے تھے۔آج انہوں نے رُخصت چاہی۔جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
آپ جا کر کیا کریں گے۔یہاں ہی رہیے اکٹھے چلیں گے۔آپ کا یہاں رہنا باعثِ برکت ہے۔اگر کوئی تکلیف ہو تو بتلادو اس کا انتظام کر دیا جاوے گا۔
پھر اس کے بعد آپ نے عام طو رپر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ
چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی کی ضرورت کا علم (اہلِ عملہ کو) نہ ہو۔اس لیے ہر ایک شخص کو چاہیے کہ جس شے کی اُسے ضرورت ہو وہ بلا تکلّف کہدے۔اگر کوئی جان بوجھ کر چھپاتا ہے،تو وہ گنہگار ہے۔ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلفی ہے۔
بعد ازیں حضرت اقدس نے میاں ہدایت اﷲ صاحب کو خصوصیت سے سید سرور شاسہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان کی ہر ضرورت کو وہ بہم پہنچاویں۔
سکھ مذہب اور عیسائیت
کل شام کو بعد از نماز مغرب دونو جوان اکائونٹنٹ جنرل آفس لاہور کے کلارک جن میں سے ایک صاحب ۔مسلمان تھے اور ایک عیسائی حضرت کی ملاقات کے لیے تشریف لائے؛ چونکہ مسلمان صاحب کا تعارف جناب مفتی محمد صادق صاحب سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلاہائی سکول قادیان سے تھا۔اس لیے مفتی صاحب نے ان کو حضرت اقدس سﷺے انٹروڈیوس کیا۔مختصر احالات کے استفسار کے بعد حضور عیسائی نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے۔معلوم ہوا کہ اول یہ سکھ مذہب کے تے اور ان کے والد عیسائی تھے۔اس پرحضرت اقدس نے فرمایا کہ آج کل اگر دنیا کے خدا گنے جاویں ایک ضخیم کتاب طیار ہوتی ہے،لیکن تعجب کہ سکھ جیسے مذہب کو چھوڑ کر جس میں توحید کی تعلیم ہے آپ نے عیسائی مذہب کو کیسے پسند کیا۔اس کے بعد متفرق طور پر مزاج پُِرسی وغیرہ ہوتی رہی۔اوربروقت رُخصت حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
ہمیں آپ کی ملاقات سے بہت خوشی ہوئی ہے۔افسوس ہے کہ قیام بہت تھوڑا ہے۔؎ٰ
بلاتاریخ ؎ٰ
کوئی نسخہ حکمی نہیں
ہمارے گھر مرزاصاحب (عالی جناب مرازا غلام مرتضیٰ خانصاحب مرحوم) پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔وہ اس فن طبابت میں بہت مشہور تھے،مگر اُن کا قوم تھا کہ کوئی حکمی نسخہ نہیں ملا۔حقیقت میں انہوں نے سچ فرمایا، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کوئی اثر نہیں کرسکتا۔
حکام اور برادری سے سلوک
ایک شخص نے پوچھا کہ حکام اور برادری سے کیسا سلوک کریں؟ فرمایا :
ہر ایک سے نیک سلوک کرو۔حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے۔وہ ہماری حفاظت کرتے اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔میں ا سکو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے۔
برادری کے حقوق ہیں۔اُن سے بھی نیک سلوک کرنا چاہیے؛البتہ ان باتوں میں جو اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی کے خلاف ہیں۔ان سے الگ رہنا چاہیے۔
ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کل مخلوق سے احسان کرو۔
قبولیت دعا کے آثار
جب اﷲ تعالیٰ کا فضل قریب آتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کے اسباب پہنچا دیتا ہے۔دل میںایک رقت اور سوز و گداز پیدا ہو اجت اہے،لیکن جب دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا،تو دل میں اطمینان اور رجوع پیدا نہیں ہوتا۔طبیعت پر کتانا ہی زور ڈالو مگر طبیعت متوجہ نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی خدا تعالیٰ اپنی قضاوقدر منوانا چاہتا ہے اور کبھی دعا قبول کرتا ہے۔اس لیے میں تو جبتک اذنِ الٰہی کے آثار نہ پالوں قبولیت کی کم اُمید کرتا ہوں اور اس کی قضاو قدر پر اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ جو قبولیت دعا میں ہوتی ہے راضی ہو جاتا ہوں، کیونکہ اس رضا بالقضاء کے ثمرات اور برکات اس سے بہت زیادہ ہیں۔
خدا تعالیٰ اعمالِ صالحہ کو چاہتا ہے
اﷲ تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا۔وہ تو روحانیت اور مغز کو قبول کرتا ہے۔اس لیے فرمایا
لن ینال اﷲ لحومہا ولا وما ؤ ھا ولکن ینا لہ التقوی منکم (الحج : ۳۸)
اور دوسری جگہ فرمایا
انما یتقبل اﷲ من المتقین (المائدۃ : ۲۸)
حقیقت میں یہ بڑی نازک جگہ ہے۔یہاں پیغمبر زادگی بھی کام نہیں آسکتی۔آنحضرت ﷺ نے فاطمہ ؓ سے بھی ایسا ہی فرمایا۔قرآن شریف میں بھی صاف الفاظ میں فرمایا :
اناکرمکم عند اﷲ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
یہودی بھی تو پیغمبر زادے ہیں۔کیا صدہا پیغمبر اُن میں نہیں آئے تھے مگر ا س پیغمبرزادگی نے اُن کو کیا فائدہ پہنچایا۔اگر اُن کے اعمال اچھے ہوتے تو وہ
ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ (البقرۃ : ۶۲)
کے مصداق کیوں ہوتے۔خدا تعالیٰ تو ایک پاک تبدیلی کو چاہتا ہے۔بعض اوقات انسان کو تکبر نسب بھی نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں اسی سے نجات پالو ں گا، جو بالکل خیال خام ہے۔کبیرؔ کہتا ہے کہ اچھا ہوا میں نے چماروں کے گھر جنم لیا۔
کبیرؔ اچھا ہوا ہم نیچ بھئے سب کو کریں سلام
خدا تعالیٰ وفاداری اور صدق کو پیار کرتا ہے اور اعمالِ صالحہ کو چاہتا ہے۔لاف وگزاف اُسے راضی نہیں کر سکتے۔
رفع عیسیٰ علیہ السلام
فرمایا :
قرآنِ شریف تو رفعِ اختلاف کے لیے آیا ہے۔اگر ہمارے مخالف رافعک الی کے معنی کرتے ہیں کہ مسیح جسم سمیت آسمان پر چڑھ گیا تو وہ ہمیں یہ بتائیں کہ کیا یہود کی یہ غرض تھی؟ اور وہ یہ کہتے تھے کہ مسیح آسمان پر نہیں چڑھا؟ اُن کا اعتراض تو یہ تھا کہ مسیح کا رفع الی اﷲ نہیں ہوا۔اگر رافعک الی اس اعتراض کا جواب نہیں تو پھر چاہیے کہ اس اعتراض کا جواب دیا اور دکھایا جاوے۔
مرکز میں آنے کی اصل غرض دین ہو
ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ میں تجارت کے لیے یہاں آنا چاہتا ہوں۔ فرمایا :
یہ نیت ہی فاسد ہے۔اس سے توبہ کرنی چاہیے۔یہاں تو دین کے واسطے آنا چاہیے۔اور اصلاح عاقبت کے خیال سے یاہں رہنا چاہیے۔نیت تو یہی ہو۔اور اگر پھر اس کے ساتھ کوئی تجارت وغیرہ یہاں رہنے کے اغراض کو پورا کرنے کے لیی ہو تو حرج نہیں ہے۔اصل مقصد دین ہو نہ دینا۔کیا تجارتوں کے لیے شہر موزوں نہیں؟ یہاں آنے کی اصل غرض کبھی دین کے سوا اور نہ ہو۔پھر جو کچھ حاصل ہو جاوے وہ خدا تعالیٰ کا فضل سمجھو۔
ہمدردیٔ خلائق
بنی نوع انسان کی ہمدردی خصوصاً اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور حمایت پر نصیحت فرماتے ہوئے ایک موقعہ پر فرمایا کہ :
میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوت اہو اور میں نماز میں مصروف ہوں’میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز تور کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچاسکتا ہوں تو فائدہ پہنچائوں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔اگر تم کچھ بھی اس کے لیے نہیں کرسکتے تو کم از کم دعاہی کرو۔
اپنے تو درکنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوئوں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھائو اور اُن سے ہمدردی کرو۔لا ابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جارہا تھا۔ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا۔وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔راستہ میں ایک بڑھیا کوئی ۷۰ یا ۷۵ برس کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اُسے پڑھنے کو کہا مگر اُس نے اُسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔میرے دل پر چوٹ سی لگی۔اس نے وہ خط مجھے دیا ۔میں اُس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا۔کیونکہ ٹھہرنا پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔
سلسلہ کا مستقبل
مجھے بڑے ہی کشفِ صحیح سے معلوم ہوا ہے کہ ملوک بھی اس سلسلہ میں داخل ہوں گے۔یہانتک کہ وہ ملوک مجھے دکھائے بھی گئے ہیں۔وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔اور یہ بھی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تجھے یہانتک برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔اﷲ تعالیٰ ایک زمانہ کے بعد ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کو داخل کرے گا اور پھر اُن کے ساتھ ایک دنیا اس طرف رجوع کرے گی۔؎ٰ
آدابِ دعا
دعا میں جس قدر بیہودگی ہوتی ہے اسی قدر اثر کم ہوتاہے۔یعنی اس کی استجابت ضرورتی نہیں سمجھی جاتی۔مثلاً ایک شخص ہے کہ اس کا گذارہ ایک دوروپیہ روزانہ میں بخوبی چل سکتا ہے لیکن وہ پچاس روپیہ روزانہ طلب کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس کا سوال بیہودہ ہوگا۔یہ ضروری امر ہے کہ ضرورتِ حقہ اﷲ تعالیٰ کے آگے پیش کی جاوے۔جب کسی کی مصیبت کا خط آتا ہے اور اس میں دعا کی درخواست ہوتی ہے تو دیھکا گیا ہے کہ دل خوب لگ کر دعا کرتا ہے،لیکن دوسری بیہودہ درخواستوں میں قدر دل نہیں لگتا۔
عام لوگ جو آجکل دفعِ طاعون کے لیے دعا مانگتے ہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ :
اس وقت اﷲ تعالیٰ اپنی ذات کو منوانا چاہتا ہے۔نری دعا سے کای فائدہ ہو سکت اہیجبتک کہ عقائد کی اصلاح نہ ہو۔ایسی دعائیں کیا بُت پرست نہیں مانگتے؟ پھر اُن میں اور اِن میں فرق کیا ہوا؟ بلکہ مجھے میال آتا ہے۔
واذا سالک عبادی عنی فانی قریب (البقرۃ : ۱۸۷)
کے یہی معنی ہیں کہ اگر سوال ہو کہ خدا کا علم کیونکر ہوا تو جواب یہ ہے کہ اسلام کا خد ابہت قریب ہے۔اگر کوئی اسے سچے دل سے بلات اہے،تو وہ جواب دیت اہے۔دوسرے فرقوں کے خدا قریب نہیں ہیں بلکہ اس قدر دور ہیں کہ اس کا پتہ ہی ندارد۔اعلیٰ سے اعلیٰ غرض عابد اور پرستار کی یہی ہے کہ اس کا قُرب حاصل ہو اور یہی ذریعہ ہے جس سے اس کی ہستی پر یقین حاصل ہوتا ہے
اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (البقرۃ : ۱۸۷)
کے بھی یہی معنی ہیں کہ وہ جواب دیتا ہے گونگا نہیں ہے۔دوسرے تمام دلائل اس کے آگے ہیچ ہیں۔کلام ایک ایسی شئے ہے جو کہ دیدار کے قائمقام ہے۔
Amira 20-6-05
عذاب اور فسق
ایک تحصیلدار صاحب نے گورداسپور میں عرض کی کہ تجربہ ہوا ہے کہ خاص طاعون کے دنوں میں فسق بڑھ جاتا ہے؛ چنانچہ ایک گھر میں پے در پے طاعون سے موتیں ہوتی رہیں اور اس کے ستھ ہی دیوار بہ دیوار ایک شخص ایک ہفتہ زنا کاری میں مبتلا رہا ۔فرمایا کہ :
قرآن شریف سے بھی ایسا ثابت ہے جیسے کہ
امرنا متر فیہا ففسقو افیہا فحق علیہا القول فدمر نھا تدمیرا (بنی اسرائیل : ۱۷)
یعنی جب اس قسم کے عذاب نازل ہوتے ہیں تو فاسقوں کو ڈھیل دی جاتی ہے کہ وہ جی بھر کر فسق کر لیں۔پھر ان کو ایک ہی دفعہ ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
لذاتِ دینوی میں انہماک
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروہ ہیں جو حیاتِ دنیا پر راضی ہو گئے اور اطمینان پا گئے ہیں۔خدا تعالیٰ کی طرف حرکت کی ضرورت کو وہ بالکل محسوس ہی نہیں کرتے
فلا نقیم لہم یوم القیامۃ وزنا (الکہف : ۱۰۶)
میں گناہ کا ذکر نہیں ہے۔اس کا باعث پرف یہ ہے کہ ان لوگوں نے دنیا کی خواہشوں کو مقدم رکھ اہوا تھا۔ایک اور جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ دنیا کا حظ پا چکے ۔وہاں بھی گناہ کا ذکر نہیں بلکہ دنای کی لذات جن کو خدا تعالیٰ نے جائز کیا ہے۔اُن میں منہمک ہو جاتے کا ذکر ہے۔اس قسم کے لوگوں کا مرتبہ عند اﷲ کچھ نہ ہوگ ااور نہ اُن کو عزت کا مقام دیا جائے گا۔شیریں زندگی اصل میں ایک شیطان ہے جو کہ انسان کو دھوکا دیتی ہے۔مومن تو خود مصیبت خریدتا ہے؛ ورنہ اگر وہ مداہنہ برتے تو ہر طرح آرام سے رہ سکتا ہے۔آنحضرت ﷺ اگر اس طرح کرتے تو اس قدر جنگیں کیوں ہوتیںک،لیکن آپؐ نے دین کو مقدم رکھااس لیے سب دشمن ہو گئے۔
حسنِ نیت
ملازمت پیشہ لوگوں کو عبادت کا بڑا کم وقت ملتا ہے اور وہ دینی خدمات سے بھی محروم رہتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی زندگی آرام میں گذرتی ہے۔تلخ زندگی کا اُن کو موقعہ ہی نہیں آتا۔فرمایا کہ :
وہ بھی ایک تلخی کا حصہ ہے،کیونکہ معاش کے لیے کرتا ہے اس لیے عبادت کا ثواب پاتا ہے۔نیک نیتی سے اگر انسان چلے اور نیت یہ ہو کہ بال بچوں کی پرورش اس لیی کرتا ہوں کہ وہ خادمِ دین ہوں تو اس پر بھی اُسے ثواب ملتا ہے۔
نبی اور اجتہادی غلطی
انبیاء کے دشمنوں کے دو گروہ ہوتے ہیں ایک وہ جو اُن کے مکذب ہوتے ہیں۔دوسرے وہ جو اُن کو خدا مانتے ہیں۔اہلِ اسلام کا عقیدہ جو مسیح ؑکے دوبارہ آنے کا ہے وہ اسی قسم کا ہے کہ یہ لوگ اُن کے مکذب تو نہیں ہیں، لیکن ان کو خدا ضرور مانتے ہیں کہ ہر ایک اس کی صفت میں اُسے شریک کیا ہوا ہے؛ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ بعض وقت نبی کو اجتہاد اور تفہیمِ الہام میں غلطی ہو جاتی ہے۔یہ غلطی اگر احکا م دین کے متعلق ہو تو اُن کو فوراً متنبہ کیا جاتا ہے۔لیکن دوسرے امور میں ضروری نہیں کہ وہ اطلاع دیئے جاویں۔پس اس لیے یہ بات ممکن ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اُن کے دوبارہ آنے کے بارے میں جو الہامات ہوئے خود انہوں نے بھی اسے حقیقی معنوں پر حمل کر لیا ہو کیونکہ ان کا مخطی ہونا تو ثابت ہے،اس لیے انجیلوں میں ان کا یہ فقرہ نقل ہوا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ میں دوبارہ آجائوں گا۔اس قسم ک ی اجتہادی غلطی کا امکان ہر ایک نبی سے ہے۔اب دیکھو کہ مسیح علیہ السلام سے تو ایک اجتہادی غلطی ہوئی لیکن دوسروں کو کس قدر وبال آیا۔اگر ان مسلمانوں کو یہ سمجھ ہوتی تو وہ دوسرے نبیوں سے ان کو کیوں زیادہ مرتبہ دیتے۔مسلمانون پر یہ بات لازم نہیں ہے کہ وہ انجیل کے الفاظ پر ضرور اَڑ یں۔مسیح علیہ السلام کو یہ خاص عزت دیں کہ وہ محطی نہیں یہ تو اسلام سے خارج ہونا ہے۔
چند فقہی مسائل
سفر گورداسپور میں نماز کے متعلق ذیل کے مسائل میری موجود گی میں حل ہوئے۔ (ڈائری نویس)
(۱) ایک مقام پر دو جماعتیں نہ ہونی چاہیں۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس ابھی وضو فرما رہے تھے اور مولانا محمد احسن صاحب بوجہ علالتِ طبع نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔اُن کا خیال تھا کہ میں معذور ہوں الگ پڑھ لُوں،مگر چند ایک احباب ان کے پیچھے مقتدی بن گئے اور جماعت ہو گئی۔جب حضرت اقدس کو علم ہوا کہ ایک دفعہ جماعت ہو چکی ہے اور اب دوسری ہونے والی ہے۔
تو آپ نے فرمایا کہ :
ایک مقام پر دو جماعتیں ہرگز نہ ہونی چاہئیں
(۲) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور اقدس اپنی کوٹھڑی میں تھے اور ساتھ ہی کوٹھڑی میں نماز ہونے لگی۔آدمی تھوڑے تھے۔ایک ہی کوٹھڑی میں جماعت ہو سکتی تھی۔بعض احباب نے خیال کیا کہ شاید حضرت اقدس اپنی کوٹھڑی میں نماز ادا کرلیں گے،کیونکہ امام کی آواز وہاں پہنچتی ہے۔اس پر آپؑ نے فرمایا کہ :
جماعت کے ٹکڑے الگ الگ نہ ہونے چاہئیں بلکہ اکٹھی پڑھنی چاہیے۔ہم بھی وہاں ہی پڑھیں گے۔یہ اس صورت میں ہونا چاہیے جبکہ جگہ کی قلت ہو۔
(۳) ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گورداسپور میں مقیم تھے اور احمدی جماعت نزیل قادیان بہ باعث سفر میں ہونے کے نماز جمع کر کے ادا کرتی تھی۔ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ پوچھا۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ ؍
مقیم پوری نماز ادا کریں
وہ اس طرح ہوتی رہی کہ جماعت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نماز ادا کرتے۔جماعت دو رکعت ادا کرتی ،لیکن ڈاکٹر صاحب باقی کی دو رکھعت بعد از جماعت ادا کر لیتے۔ایک دفعہ حضرت اقدس نے دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے ابھی دو رکعت ادا کرنی ہے۔فرمایا کہ :
ٹھہر جائو۔ڈاکٹر صاحب دو رکعت ادا کر لیویں
پھر اس کے بعد جماعت دوسری نماز کی ہوئی۔ایسی حالت جمع میں سنت اور نوافل ادا نہیں کیے جاتے۔
(۴) حضرت مسیح موعودؑ کھڑے ہوئے تھے۔آپ نے پانی مانگا۔جب پانی آیا تو اُسے بیٹھ کر آپ نے پیا اور بھی کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ پانی وغیرہ آپ ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیتے ہیں۔؎ٰ
۱۷؍اگست ۱۹۰۴ء بمقام قادیان۔بوقت شام
صوفیا کا ملامتی فرقہ اور ریاء
شام کی نمازکے بعد چند ایک احباب نے بیعت کی۔ان میں ایک صاحب ایسے تھے جو کہ اپنے زمانہ جہالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت الفاظی سے یاد کرتے اور بہت ہی بُِرا بھلا کہتے تھے۔وہ اپنی ان خطائوں کی معفی حضرت اقدس علیہ السلام سے طلب کرتے تھے۔آپ فرماتے تھے کہ توبہ کے بعد اﷲ تعالیٰ سب گناہ بخش دیتا ہے۔اس اثناء میں اس تائب کا دل اپنے گناہوں کو یاد کرکے بھر آیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔روتا جاتا تھا اور گناہوں کی مغفرت کی دعا بھی کرتا جاتا تھا۔اس کی اس حالت کو جناب حکیم نورالدین صاحب نے دیکھ کر عرض کی کہ ایسے ہی مذنب ہیں جنکو خدا تعالیٰ بخش دیتا ہے۔اس پر سلسلہ کلام چل پڑا اور حضرت اقدس نے ذیل کی تقریر شروع کی۔
فرمایا کہ :
ذنوب آدمی کو اسی لیے قُرب بخشتے ہیں بشرطیکہ ساتھ توبہ اور استغفار بھی ہو اور یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے خطا اور صغائر میں انبیاء کو بھی شریک کر دیا ہے تاکہ قربِ الٰہی کے مراتب میں وہ ترقی کر سکیں۔فرقہ ملامتی کو میں پسند نہیں کرتا، کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر غیر کے وجود کو بڑا خیال کرتے ہیں اور اپنے اعمالِ صالحہ کو پوشیدہ رکھ کر مخلوق کو نظروں میں مُتّہَم (جائے تہمت) ہونا چاہتے ہیں۔یہ اُن کی غلطی ہے۔دوسرے وجود کو تو لاشئی خیال کرنا چاہیے اور کسی کے ضرر اور نفع پر نظر ہرگز نہ رکھنی چاہیے۔نہ کسی کی مدح سے پھولے اور دل میں خوش ہو اور نہ کسی کی ذم سے رنجیدہ خاطر ہو۔سچے موحد وہی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے وجود کو کوئی شئے خیال نہیں کرتے اور یہی وجہ ہیکہ فرقۂ ملامتی اس توحید سے گرا ہوا ہے۔خدا تعالیٰ نے مومنوں کی صفت فرمائی ہے۔
لا یخافون لو مۃ لائم (المائدۃ : ۵۵)
کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں خوف کھاتے اور صرف اپنے مولا کی رضا مندی کو مقدم رکھتے ہیۃ۔
مومن ایک لا پروا انسان ہوتا ہے۔اُسے صرف خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی حاجت ہوتی ہے اور اسی کی اطاعت کو وہ ہر دم مد نظر رکھتا ہے،کیونکہ جب اس کا معاملہ خدا سے ہے تو پھر اُسے کسی کے ضرر اور نفع کا کیا خوف ہے۔جب انسان خدا تعالیٰ کے مقابل کسی دوسرے کے وجود کو دخل دیت اہے،تو ریاء اور عجب وغیرہ معاصی میں مبتلا ہوت اہے۔یاد رکھو کہ یہ دخل وہی ایک زہر ہے اور کلمہ لاالہ الا اﷲ کے اول جزو لاالہ میں اس کی بھی نفی ہے،کیونکہ جب انسنا کسی انسان کی خاطر خدا تعالیٰ کے ایک حکم کی بجا آوری سے قاصر رہتا ہے تو آخر اُسے خد اکی کسی صفت میں شریک کرتا ہے تبھی تو قاصر رہتا ہے اس لیے لا الہ کہتے وقت اس قسم کے معبودوں کی بھی نفی کرتا ہے۔
صوفیوں نے اس قسم کے ملامتی لوگوں کے بہت سے قصے لکھے ہیں۔امام غزالی (علیہ الرحمۃ) نے بھی لکھا ہے کہ آجکل کے فقراء ریاکار ہوتے ہیں۔تن کی آسانی کو مد نظر رکھ کر موٹے جھوٹے کپڑے تو پہنتے نہیں اس لیے باریک کپڑوں کو گیرویاسبز رنگ لیتے ہیں اور اُن کے جبے پہن کر اپنے کو فقراء مشہور کرتے ہیں۔مقصود ان کا یہ ہوت اہے کہ لوگوں سے متمیز ہوں اور عوام الناس خصوصیت سے اُن کی طرف دیکھیں۔پھر روزہ داروں کا ذکر لکھا ہے کہ کوئی روزہ دار مولوی کسی کے ہاں جاوے اور اُسے مقصود ہو کہ اپنے روزہ کا اظہار کرے تومالک خانہ کے استفسار پر بجائے اس کے کہ سث بولے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے اس کی نظروں میں بڑا نفس کُش ثابت کرنے کے لیے جواب دیا کرتے ہیںکہ مجھے عذر ہے۔غرضیکہ اسی طرح کے بہت سے مخفی گناہ ہوتے ہیں جو اعمال کو تباہ کرتے رہتے ہیں۔
کبر اور نخوت
امر اء کو کبر اور نخوت لگے رہتے ہیں جو کہ ان کے عملوں کو کھاتے رہتے ہیں۔اس لیی بعض غریب آدمی جن کو اس قسم کے خیالات نہیں ہوتے وہ سبقت لے جاتے ہیں۔
غرضیکہ ریاء وغیرہ کی مثال ایک چوہے کی ہے جو کہ اندر ہی اندر اعمال کو کھاتا رہتا ہے۔خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے لیکن اس کی طرف آنے کے لیے عجز ضروری ہے۔جس قدر انانیت اور بڑائی کا خیال اس کے اندر ہوگا خواہ وہ علم کے لحاظ سے ہو، خواہ ریاست کے لحاظ سے۔خواہ مال کے لحاظ سے،خواہ خاندان اور حسب نسب کے لحاظ سے،تو اسی قدر پیچھے رہ جاویگا۔اسی لیے بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ سادات میں سے اولیاء کم ہوئے ہیں،کیونکہ خاندانی تکبر کا خیال ان میں پیا ہو جاتا ہے۔قرونِ اولیٰ کے بعد جب یہ خیال پیدا ہوا تو یہ لوگ رہ گئے۔
اس قسم کے حجاب انسان کو بے نصیب اور محروم کر دیتے ہیں۔بہت ہی کم ہیں جو ان سے نجات پاتے ہیں۔امارت اور دولت بھی ایک حجاب ہوتا ہے۔امیر آدمی کو کوئی غریب سے غریب اور ادنیٰ آدمی السلام علیکم کہے تو اُسے مخاطب کرنا اور وعلیکم السلام کہنا اس کو عار معلوم ہوتا ہے اور خیال گذرتا ہے کہ یہ حقیر اور ذلیل آدمی کب اس قابل ہوتاہے کہ ہمیں مخاطب کرے۔اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ غریب امیروں سے پانصد سال پیشتر جنت میں جاویں گے۔ہمیں معلومنہین کہ اس حدیث کے معانی کیا ہیں،لیکن ہم ان الفاظ پر ایمان لاتے ہیں۔اس کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ غریبوں کا تزکیۂ نفس قضاء قدر نے خود ہی کیا ہوتا ہے۔
حصولِ فضل کی راہیں
یاد رکھوکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کے دوراہ ہیں۔ایک تو زُہد نفس کشی اور مجاہدات کے ہے اور دوسرا قضاء وقدر کا۔لیکن مجاہدات سے اس راہ کا طے کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے اپنے بدن کو مجروح اور خستہ کرنا پڑتا ہے۔عام طبائع بہت کم اس پر قادر ہوتی ہیں کہ وہ دیدہ و دانستہ تکلیف جھیلیں۔لیکن قضاء و قدر کی طرف سے جو واقعات اور حادثات انسان پر آکر پڑتے ہیں وہ ناگہانی ہوتے ہیں اور جب آپڑ تے ہیں تو قہرِ دردیش برجان درویش ان کو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے جو کہ اس کے تزکیۂ نفس کا باعث ہو جاتا ہے جیسے شہداء کو دیکھو کہ جنگ کے بیچ میں لڑتے لڑتے جب مارے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک کس قدر جر کے مستحق ہوتے ہیں۔یہ درجاتِ قرب بھی ان کو قضاء و قدر سے ہی ملتے ہیں ورنہ اگر تنہائی میں اُن کو اپنی گردنیں کاٹنی پڑیں تو شاید بہت تھوڑے ایسے نکلیں جوشہید ہوں۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ غرباء کو بشارت دیتا ہے۔
ولنبلو نکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرت وبشر الصابرین الذین اذا اصا بتہم مصیبۃ قالو اانا لﷲ وانا الیہ راجعون (البقرۃ : ۱۵۶، ۱۵۷)
اس کا یہی مطلب ہے کہ قضاو قدر کی طرف سے ان کو ہر ایک قسم کے نقصان پہنچتے ہیں اور پھر وہ صبر کرتے ہیں تو خد اتعالیٰ کی عنائتیں اور رحمتیں ان کے شامل حال ہوتی ہیں،کیونکہ تلخ زندگی کا حصہ ان کو بہت ملتا ہے،لیکن امراء کو یہ کہاں نصیب۔امیروں کا تو یہ حال ہے کہ پنکھا چل رہا یہ۔آرام سے بیٹھے ہیں۔خدمتگار ٔچائے لایا ہے۔اگر اس میں ذرا سا قصور بھی ہے ۔خواہ میٹھا ہی کم یا زیادہ ہے تو غصہ سے بھر جاتے ہیں۔خدمتگار پر ناراض ہوتے ہیں۔بہت غصہ ہو تو مارنے لگ جاتے ہیں۔حالانکہ یہ مقام شکر کا ہے، کہ اُن کو ہل جوتنا نہیں پڑا۔کاشتکاری کے مصائب برداشت نہیں کیے۔چولہے کے آگے بیٹھ کر آگ کے سامنے تپش کی شدت برداشت نہیں کی اور پکی پکائی شئے محض خدا کے فضل سے سامنے آگئے ہے۔چاہیے تو یہ تھا کہ خد اکے احسانوں کو یاد کر کے رطب اللساں ہوتے۔لیکن اس کے سارے احسانوں کو بھول کر ایک ذرا سی بات پر سارا کیا کرایا رائیگاں کردیتے ہیں؛ حالانکہ جیسے وہ خدمتگار انسان ہے اور اس سے غلطی اور بھول ہو سکتی ہے ویسے ہی وہ (امری) بھی تو انسان ہے۔اگر اس خدمتگار کی جگہ خود یہ کام کرتا ہوت اتو کیا یہ غلطی نہ کرتا؟ پھر اگر ماتحت آگے سے جواب دے تو اس کی اور شامت آتی ہے اور آقاکے دل میں رہ رہ کر جوش اُٹھتا ہے کہ یہ ہمارے سامنے کیوں بولت اہے اور اسی لیے وہ خدمتگار کی ذلت کے درپے ہوتا ہے؛ حالانکہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنی غلطی کی تلافی کے لیے زبان کشائی کرے۔اس پر مجھے ایک بات یاد آئی ہے کہ سلطان محمود کی (یا ہارون الرشید کی) ایک کنیز تھی۔اُس نے ایک دن بادشاہ کا بستر جو کیا تو اُسے گدگدا اور ملائم اور پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا پاکر اس کے دل میں آیا کہ میں بھی لیٹ کر دیکھوں تو سہی اس میں کیا آرام حاصل ہوتا ہے۔وہ لیٹی تو اسے نیند آگئی۔جب بادشاہ آیا تو اسے سوتا پا کر ناراض ہوا اور تازیانہ کی طزا دی۔وہ کنیز روتی بھی جاتی اور ہنستی بھی جاتی۔بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ روتی تو اس لیے ہوں کہ ضربوں سے درد ہوتی ہے اور ہنستی اس لیے ہوں کہ میں چند لمحہ اس پر سوئی تو مجھے یہ سزا ملی اور جو اس پر ہمیشہ سوتے ہیں ان کو خدا معلوم کسی قدر عذاب بھگتنا پڑے گا۔
Amira 21-6-05
غربت ایک کیمیا ہے
پس غریبوں کو ہرگز بے دل نہ ہونا چاہیے۔ان کا قدم آگے ہی ہے،لیکن وہ کوشش کریں کہ تھوڑی بہت جو کسر ہے وہ نکال دیویں کیونکہ بعض وقت ان لوگون سے غریبی میں بھی بڑے بڑے گناہ صادر ہو جاتے ہیں۔صبر نہیں کرتے خد اتعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔معاش کی قلت ہو تو چوری،ڈاکہ اور دوسرے جراتم شروع کر دیتے ہیں۔ایسی حالتوں میں صبر کرنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف ہرگز مائل نہ ہونا چاہیے۔غُربت اور کم رزتی دراصل انسان کو انسان بنانے کے لیے بڑی کیمیا ہے؛ بشرطیکہ اس کے ساتھ اور قصور نہ ہوں۔جیسے مالداروں میں تکبر اور نخوت وغریہ پید اہو کر ان کے اعمال کو تباہ کر دیتے ہیں ویسے ہی ان میں بے صبری موجبِ ہلاکت ہوتی ہے۔اگر غریب لوگ صبر سے کام لیں تو ان کو وہ حاصل ہو جو اور لوگوں کو مجاہدہ سے حاصل نہیں ہوسکتا۔خدا تعالیٰ نے اصل میں بڑا احسان کیا ہے کہ انبیاء کے ساتھ غریبی کا حصہ بھی رکھ دیا ہے۔آنحضرت ﷺ بکریاں چرایا کرتے تھے۔موسیٰ ؑنے بکریاں چرائیں۔کیا امراء یہ کام کر سکتے ہیں۔ہرگز نہیں۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ کا گذرایک جنگل میں ہوا۔وہاں کچھ پھل دار درخت کا پھل کھائو بہت شیریں ہے۔صحابہؓ نے پوچھا کہ یا حضرت آپ کو کیسے علم ہے؟ فرمایا کہ جب میں بکریاں چرایا کرتا تھا تو اس جنگل میں بھی آیا کرتا اور ان پھلوں کو کھایا کرتا تھا۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے یہ تجویز نہیں کیا کہ انبیاء شاہی خاندان سے ہوں؛ ورنہ تکبر اور نخوت کا کچھ نہ کچھ حصہ ان میں ضرور رہ جاتا۔او رپھر نبوت کے بھی دو حصے کر دیئے۔ایک مصائب اور شدائد کا اور دوسرا فتح و نصرت کا۔انبیاء کی زندگی کے ان دو حصوں میں بھی الٰہی حکمت تھی۔ایک تو یہی تھی کہ ان کے اخلاق میں ترقی ہو۔اور سچی بات یہی ہے کہ جوں جوں نبوت کا زمانہ گذرتا ہے اورواقعات اور حادثات کی صورت بدلتی جاتی ہے انبیاء کی اخلاقی حالت بھی ترقی کرتی جاتی ہے۔ابتداء میں ممکن ہے کہ غصہ وغیرہ زیادہ ہو۔ا س لیے نبی کی زندگی کا آخری حصہ بہ نسبت پہلے کے بلحاظ اخلاق کے بہت ترقی یافتہ ہوت اہے۔اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ ابتداء میں ان کے اخلاق عام لوگوں سے ترقی یافتہ نہیں ہوتے بلکہ یہ امر ہے کہ اپنے دائرہ نبوت میں وہ آخری حصہ عمر میں بہت مؤدب ہوتے ہیں؛ ورنہ ان کی ابتدائی زندگی کا حصہ بھی اخلاق میں توکُل لوگوں سے اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نبی اگر شدائد مصائب سے امن میں رہے تو اُن کی صبر کی قوت کا پتہ لوگوں کو کیسے معلوم ہو۔پھر بہت سے اخلاقِ فاضلہ اس قسم کے ہیں کہ وہصرف نزولِ مصائب پر ہی حاصل ہوئے ہیں۔آنحضرت ﷺ پر خد اتعالیٰ کا بڑا فضل و احسان تھا کہ آپؐ کو دونوں موقع عطا کیے۔ہر ایک نبی کا یہ کام نہیں کہوہ ہر ایک رتبہ کے لوگوں کو ایک کامل نمونہ اخلاق کا پیش کرسکے۔فقیر ،غریب اور امری وغیرہ ہر ایک اس کے چشمہ سے مساوی سیراب ہوں۔یہ صرف آنحضرت ﷺ کی ہی ذات سے ہے۔جس نے کُل ضرورتوں کو پورا کرکے دکھایا۔
تعلیم کے ساتھ اُسوَہ کی ضرورت
فرقہ چکڑالوی نے بھی یہاں ہی ٹھوکر کھائی ہے۔اس نے یہ نہیں سمجھا کہ بغیر نمونہ کے دوسرا انسان اتباع کیسے پوری کر سکتا ہے۔
ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی (آل عمران : ۳۲)
کہہ کر آنحضرت ﷺ نے ہر ایک طبقہ کے انسان کو مخاطب کیا ہے کہ ہر ایک قسم کا سبق مجھ سے لو۔اور ظاہر ہے کہ جبتک ایک اُسوہ سمانے نہ ہو، انسان عملدرآمد سے قاصر رہتا ہے۔ہر ایک قسم کے کمال کے حضول کے لیے نمونہ کی ضرورت ہے۔انسانی طبائع اسی قسم کی واقع ہوئی ہیں کہ وہ صرف قول سے متأثر نہیں ہوتیں جب تک اس کے ساتھ فعل نہ ہو۔اگر صرف قول ہو تو صدہا اعتراض لوگ کرتے ہیں۔دین کی باتوں کو سنکر کہا کرتے ہیںکہ یہ سب باتیں کہنے کی ہیں کون ان کو بجا لا سکتا ہے۔یونہی بنا چھوڑی ہیں۔اور ان اعتراضوں کا رد نہیں ہوسکتا جبتک ایک انسان عمل کرکے دکھانے والا نہ ہو۔
دعا کے آداب
دعا کے لیے انسان کو اپنے خیال اور دل کو ٹٹولنا چاہیے کہ آیا اس کا میلان دنای کی طرف ہے یا دین کی طرف یعنی کثرت سے وہ دعائیں دنیاوی آسائش کے لیے ہیں یا دین کی خدمت کے لیے۔پس اگر معلومہو کہ اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہوئے اسے دنیاوی افکار ہی لاحق ہیں اور دین مقصود نہیں تو اسے اپنی حالت پر رونا چاہیے۔بہت دفعہ دیکھا گیا ہیکہ لوگ کمر باندھ کر حصول دنیا کے لیے مجاہدے او ریاضتیں کرتے ہیں۔دعائیں بھی مانگتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوت اہے کہ طرح طرح کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔بعض مجنون ہو جاتے ہیں۔لیکن سب کچھ دین کے لیے ہو تو خدا تعالیٰ ان کو کبھی ضائع نہ کرے۔قول اور عمل کی مثال دانہ کی ہے۔اگر کسی کو ایک دانہ دیا جاوے اور وہ اسے لے جاکر رکھ چھوڑے اور استعمال نہ کرے تو آخر اُسے پڑے پڑے گھن لگ جاوے گا۔ایسے ہی اگر قول ہو اور اس پر عمل نہ ہو تو آہستہ آہستہ وہ قول بھی نہ رہے گا۔اس لیے اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیے۔؎ٰ
Amira 25-6-05
۹؍اگست ۱۹۰۴ء
بمقام قادیان
اپنی نیک نیت میں فرق نہ لائو
بعض لوگوں کے ایک مسجد کے تناز عہ پر آپ نے فرمایا :
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ زیادہ بزرگ تم میں سے وہ ہے جو تقویٰ میں زیادہ ہے۔جیسے قرآنُ شریف میں ہے۔
ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
اور متقیوں کے صفات میں سے ہے کہ وہ بالغیب ایمان لتے ہیں۔نماز پڑھتے ہیں اور
مما رزقنھم ینفقون (البقرۃ : ۴)
یعنی علم،مال اور دوسرے قویٰ ظاہری اور باطنی جو کچھ دیا ہے۔سب کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے انعام کے کئے ہیں۔
انسان ایک کارِ خیر کے لیے جب نیت کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ پھر اس میں کسی قسم کا فرق نہ لاوے۔اگر کوئی دوسرا جو اس میں حصہ لینے والا تھا یا نہ تھا، مزاحم ہو اور بددیانتی کرے تو بھی اول الذکر کو چاہیے کہ وہ کسی قسم کا تغیر اپنے ارادہ میں نہ کرے۔اس کو اس کی نیت کا اجر ملے گا اور دوسرا اپنی شرارت کی سزا پاوے گا۔
دنیا میں لوگوں کو ایک یہ بھی بڑی غلطی لگی ہے کہ دوسرے سے مقابلہ کے وقت یا اس کی نیت میں فرق آتا دیکھ کر اپنی نیت کو جو خیر پر مبنی ہوتی ہے،بدل دیا جاتاہے۔ اس طرح سے بجائے ثواب کے عذاب حاصل ہوتا ہے۔یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے نقصان روانہیں رکھتا وہ عند اﷲ کسی اجر کا بھی مستحق نہیں۔خدا کے لیے جو جان تک دریغ نہ کرنی چاہیے۔پھر زمین وغریہ کیا شئے ہے۔جس قدر کوئی دکھ اٹھانے کے لیے تیار ہو گا اتنا ہی اُسے ثواب ملے گا۔اگر کوئی شخص یہ اصول اختیار نہیں کرتا تو اس نے ابھی تک ہمارے سلسلہ کا مطلب اور مقصود ہی نہیں جانا۔جو لوگ اس جماعت میں دخال ہیں۔اگر وہ عام لوگوں سے اخلاق،مروت ارو ہمدردی برتتے ہیں تو اُن میں اور دوسرے لوگوں سے کیا فرق ہوا؟ شریر کی شرارت کو شریر کے حوالاہ کرو۔اور اپنے نیک جوہر دکھائو۔تب تمیز ہوگی۔دنیاوی تنازعات کے وقت مالی نقصان برداشت کرنے اور جو رنفس سے کام لینے کے سوا چارہ نہیں ہوا کرتا اور نہ انسان کو ہمیشہ اس قسم کے مواقع ہاتھ آتے ہیں کہ وہ فطرت کے یہ نیک جوہر دکھاسکے۔اس لیے اگر کوئی ایسا موقعہ ہاتھ آجاوے تو اُسے غنیمت خیال کرنا چاہیے۔
مساجد کی اہمیت اور برکات
اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔جس گائوں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔اگر کوئی ایسا گائوں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں وا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے پھر خد اخود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔محض ﷲ اُسے کیا جاوے۔نفسانی اغراض یا کسی مثرکو ہرگز دخل نہ ہو،تب خد ابرکت دے گا۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصع اور پکی عمارت کی ہو۔بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغریہ ڈال دو کہ بارش وغریہ سے آرام ہو۔خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔آنحضرت ﷺ کی مسجد چند کھوجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی۔پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا۔اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتا ہے۔شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے۔اور جماعت کے لوگوں کو چہایے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں۔جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔پراگند گی سے پھوٹ پید اہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداذ کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔
نفسِ لوّامہ
مولوی تاج محمود صاحب ساکن لالیاں نے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام سے مصافحہ کیا اور نماز میں سرور اور لذت کے لیے دعا کی درخواست کی۔فرمایا کہ :
دعا کرتے رہو۔اور کراتے رہو۔ایک کارڈ روانہ لکھ دیا کرو کہ دعایا د آجایا کرے۔طبیعت پر جبر کرکے جو کام کیا جاتا ہے ثواب اسی کا ہوتا اور اسی کا نام نفسِ لوامہ ہے کہ طبیعت آرام کرنا چاہتی ہے اور محبوباتِ نفسانی کی طرف کھچی جاتی ہے مگر وہ بزوراسے مغلوب کرکے خدا کے احکام کے ماتحت چلاتا ہے اس لیی اجر پاتا ہے۔ثواب کی حد نفسِ لوامہ تک ہی ہے اور اسے ہی خدا نے پسند کیا ہے؛ چنانچہ قرآنِ شریف میں بھی قسم نفس لوامہ کی ہی خدا نے کھائی ہے۔مطمئنہ میں جاکر ثواب نیں رہتا۔کیونکہ وہاں کوئی کشاکشی اور جنگ نہیں۔وہ تو امن کی حالت ہے۔
سونے چاندی او ریشم کا استعمال
عرض کی گئی کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ فرمایا کہ :
۳-۴ ماشہ تک کوئی حرج نہیں،لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے۔اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے۔ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں۔جیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سوین کے برتن میں کھنا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کرسکتا ہے۔
ایک شخص آنحضرت کے پاس آیا۔اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں۔آپؐ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں۔(ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے)۔
سود سود کی بابت پوچھا گیا کہ بعض مجبوریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ فرمایا کہ :
اس کا فتویٰ ہم نہیں دے سکتے۔یہ بہر حال ناجائز ہے۔ایک طرح کا سود اسلام میں جائز ہے کہ قرض دیتے وقت کوئی شرط وغیرہ کسی قسم کی نہ ہو اور مقروض جب قرضہ ادا کرے۔تو مروت کے طور پر اپنی طرف سے کچھ زیادہ دے دیوے۔آنحضرت ﷺ ایسا ہی کیاکرتے ۔اگر دس روپے قرض لیے تو ادائیگی کے وقت ایک سو تک دے دیا کرتے سو د حرام وہی ہے جس میں عہد معاہدہ اور شرائط اول ہی کر لی جاویں۔؎ٰ
۲۱؍اگست ۱۹۰۴ء
بمقام لاہور :- احاطہ میاں چراغ دین و سراج دین رئیسانِ لاہور۔
ظُہر کے وقت حصرت اقدس تشریف لائے اور نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد احباب کی درخواست پر آپ ایک کرسی پر رونق افروز ہویء۔میاں فیروزالدین صاحب نے آگے بڑھ کر نیاز حاصل کی۔حضرت اقدس نے چند نصائح فرماتے ہوئے تقریر کا سلسلہ یوں شروع کیا :
تمام گناہوں سے بچنے کا ذریعہ خوفِ الٰہی ہے
دیکھو! یاد رکھنے کا مقام ہے کہ بیعت کے چند الفاظ جو زبان سے کہتے ہو کہ میں گناہ سے پرہیز کروں گا۔یہی تمہارے لیے کافی نہیں ہیں اور نہ صرف ان کی تکرار سے خدا راضی ہوتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہاری اس وقت قدر ہوگی جبکہ دلوں میں تبدیلی ارو خدا تعالیٰ کا خوف ہو؛ ورنہ ادھر بیعت کی اور جب گھر میں گئے تو وہی برے خیالات اور حالات رہے تو اس سے کای فائدہ؟ یقینا مان لو کہ تمام گناہوں سے بچنے کے لیے بڑا ذریعہ خوفِ الٰہی ہے۔اگر یہ نہیں ہے تو ہرگز ممکن نہیں کہ انسان اُن سب گناہوں سے بچ سکے جو کہ اسے مصری پر چیونٹیوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔مگر خوف ہی ایک ایسی شئے ہے کہ حیوانات کو بھی جب ہو تو وہ کسی کا نقصان نہیں کرسکتے۔مثلاً بلی جو کہ دودھ کی بری حریص ہے۔جب اُسے معلوم ہو کہ اُس کے نزدیک جانے سے سزا ملتی ہے پرندوں کوجب علم ہو کہ اگر یہ دانہ کھایا توجال میں پھنسے اور موت آئی،تو وہ اس دودھ اور دانہ کے نزدیک نہیں پھٹکتے۔اس کی وجہ صرف خوف ہے۔پس جبکہ لا یعقل حیوان بھی خوف کے ہوتے ہوئے پرہیز کرتے ہیں تو انسان جو عقلمند ہے،اُسے کس قدر خوف اور پرہیز کرنا چاہیے۔یہ امر بہت ہی بدیہی ہے کہ جس موقعہ پر انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے اس موقعہ پر وہ جرم کی جرأت ہرگز نہیں کرتا۔مثلاً طاعون زدہ گائوں میں اگ کسی کو جانے کو کہا جاوے،تو کوئی بھی جرأت کرکے نہیں جاتاحتیٰ کہ اگر حکام بھی حکم دیویں تو بھی ترساں اور لرزاں جائیگا اور دل پر یہ ڈر غالب ہوگ اکہ کہیں مجھ کو بھی طاعون نہ ہو جاوے اور وہ کوشش کرے گا کہ مفوضہ کام کا جلد پورا کرکے وہاں سے بھاگے۔پس گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجود نہ ہونا ہے۔لیکن یہ خوف کیونکر پید اہو۔اس کے لیے معرفت الٰہی کی ضرورت ہے۔جس قدر خدا تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف زیادہ ہوگا ؎
ہر کہ عارف تر است ترساں تر
اس امر میں اصل معرفت ہے اور اس کا نتیجہ خوف ہے۔معرفت ایک ایسی شئے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان ادنیٰ ادنیٰ کیڑوں سے بھی ڈرتا ہے۔جیسے پسو اور مچھر کی جب معرف ت ہوتی ہے تو ہر ایک اُن سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔پس کیاوجہ ہے کہ خد اجو قادرِ مطلق اور علیم اور بصیر ہے اور زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے،اس کے احکام کے برخلاف کرنے میں یہ اس قدر جرأت کرتا ہے۔اگر سوچ کر دیکھو گے تو معلو م ہوگاکہ معرفت نہیں۔
اﷲ تعالیٰ کی معرفت طلب کرو
بہت ہیں کہ زبان سے تو خد اتعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں،لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ان کے اندر دہریت ہے۔کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالٰٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں۔اس لیے یہ بات بہت ضروری ہیکہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اﷲ تعالٰٰ سے معرفت طلب کرو۔بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا۔وہ اس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اﷲ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے۔گناہ سے بچنے کے لیے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میںشامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو۔اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاء و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔جبتک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو۔ہرگز رہائی نہیں ہوتی۔نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اُسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ سچی نماز ہرگز نہ ہوگی۔نماز کے معنی ٹکریں مارلینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں۔ہماز وہشئے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح بگھل کر خوفناک حالت میں آستانۂ الُوہیت پر گِر پڑے۔جہانتک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرع سے مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں۔اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یادن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفسِ امارہ کی شوخی کم ہو گئی ہے۔جیسے اژدہا میں ایک سِمّ قاتل ہے۔اسی طرح نفس امارہ میں بھی سم قاتل ہوت اہے اور جس نے اُسے پید اکیا۔اُسی کے پاس اُس کا علاج ہے۔
کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ میں پاک صاف ہوں جیسے کہ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے
فلا تزکو اانفسکم (النجم : ۳۳)
کہ تم اپنے آپ کو مُزَکیّٰ مت کہو۔وہ خود جانتا ہے کہ تم میں سے متقی کون ہے۔جب انسان کے نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو خد اتعالیٰ اُس کا متولی او متکفل ہو جاتا ہے۔اور جیسے ماں بچے کو گود میں پرورش کرتی ہے اسی طرح وہ خدا کی گود میں پرورش پاتا ہے اور یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کا نور اس کے دل پر گر کر کل دنیاوی اثروں کو جلا دیتا ہے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر محسوس کرتا ہے،لیکن ایسی حالت میں بھی اُسے ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہیے کہ اب یہ طاقت مجھ میں مستقل طور پر پیدا ہوگئی ہے اور کبھی ضائع نہ ہوگی۔جیسے دیوار پر دھوپ ہو تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہوتے کہ یہ ہمیشہ ایسی ہی روشن رہے گی۔اس پر لوگوں نے ایک مثال لکھی ہے کہ دیوار جب دھوپ سے روشن ہوئی تو اُس نے آفتاب کو کہا کہ میں بھی تیری طرح روشن ہوں۔آفتاب نے کاہ کہ رات کو جب میں نہ ہوں گا تو پھر تو کہاں سے روشنی لے گی؟ اسی طرح انسان کو جو روشنی عطا ہوتی ہے،وہ بھی مستقل نہیں ہوتی،بلکہ عارضی ہوتی ہے اور ہمیشہ اُسے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے استغفار کی ضرورت ہے۔انبیاء جو استغفار کرتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ نور کی چادر جو ہمیں عطا کی گئی ہے ایسا نہ ہو کہ وہ چھن جاوے۔
استغفار کی حقیقت
نادان لوگ لا علمی کی وجہ سے یہ کہتے اور فخر کرتے ہیں کہ مسیح استغفار نہ کرتا تھا؛ حالانکہ یہ بات کسی قسم کے ناز کی نہیں بلکہ رونے اور افسوس کرنے کی ہے۔اگر وہ استغفار نہ کرتا تو گویا اس نور سے بالکل محرورم تھا جو کہ اﷲ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کو عطا کیا کرتا ہے۔کوئی نبی جس قدر زیادہ استغفار کرنیوالا ثابت ہو گا اسی قدس اس کا درجہ بڑا اور بلند ہو گا،لیکن جس کو یہ حالت حاصل نہیں تو وہ خطرہ میں ہے اور ممکن ہے کہ کسی وقت اس سے وہ چادر حفاظت کی چھین لی جاوے،کیونکہ نبیوں کو بھی وہ مستعار طور پر ملتی ہے اور وہ پھر استغفار کے ذریعہ اسے مدامی طور پر رکھتے ہیں۔بات یہ ہے کہ اصل انوار تو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہیں اور نبی ہو یا کوئی اور ،سب خدا تعالیٰ سے انہیں حاصل کرتے ہیں۔سچے نبی کی یہی علامت ہے کہ وہ اس روشنی کی حفاظت بذریعہ استغفار کے کرے۔استغفار کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خد اتعالیٰ سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اور ملے ۔اسی کی تحصیل کے لئے پنجگانہ نماز بھی ہے تا کہ ہر روز دل کھول کھول کر اس روشنی کو خدا تعالیٰ سے مانگ لیوے جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پاسکتا ہے۔وہ لوگ بہت بیوقوف ہیں جو دوری ڈالنے والی تاریکی کا علاج نہیں کرتے۔
بیعت کی غرض
میرے پاس اکثر خطوط آتے ہیں،مگر اس میں یہی لکھ اہوتا ہے کہ میرے املاک کے لیے یا اولاد کے لیے دعا ہو۔لاں مقدمہ ہے یا فلاں مرض ہے وہ اچھا ہو جاوے ،لیکن مشکل سے کوئی خط ایسا ہوتا ہے جس میں ایمان یا ان تاریکیوں کے دور ہونے کے لیے درخواست کی گئی ہو۔بعض خطوط میں یہ لکھ اہوتا ہے کہ اگر مجھے پانسو روپیہ مل جاوے تو میں بیعت کر لوں ۔بیوقوفوں کو اتنا خیال نہیں کہ جن باتوں کو ہم چھوڑانا چاہتے ہیں۔وہی ہم سے طلب کی جاتی ہیں۔اسی لیے میں اکثر لوگوں کی بیعت سے خوف کرتا ہوں، کیونکہ سچی بیعت کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔بعض تو ظاہری شروط لگاتے ہیں جیسے کہ اوپر ذکر ہوا۔اور بعض لوگ بعد بیعت کے ابتلا میں پڑ جاتے ہیں۔
Amira 2-7-05
جیسے کسی کا لڑکا مر گیا تو شکایت کرتا ہے، میں نے تو بیعت کی تھی یہ صدمہ مجھے کیوں ہوا؟ اس نادان کو یہ خیال نہیں آتا کہ آنحضرت ﷺ باوجود کہ پیغمبر تھے،مگر آپؐ کے گیارہ بچے فوت ہو گئے اور کبھی شکایت نہ کی کہ خداوند ا تو نے مجھے پیغمبر بنایا تھا میرے بچے کیو ں مار دیئے۔
غرضکہ یاد رکھو کہ دین کو دنیا سے ہرگز نہ ملانا چاہیے اور بیعت اس نیت سے ہرگز نہ کرنی چاہیے کہ میں بادشاہ ہی بن جائوں گا یا ایسی کیمیا حاصل ہو جاوے گی کہ گھر بیٹھے روپیہ بنتا رہے گا۔اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تو اس لیے مامور کیا ہے کہ ان باتوں کو لوگوں سے چھُڑادیویں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جو لوگ صدق اور وفا سے خدا تعالیٰ کی طرف آتے ہیں اور اس کے لیے ہر ایک دکھ اور مصیبت کو سر پر لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کو اور ان کی اولاد کو ہرگز ضائع نہیں کرتا۔حضرت دائود علیہ السلام کہتے ہیں کہ میں بوڑھا ہو گیا ،لیکن کبھی نہیں دیکھاکہ صالح آدمی کی اولاد ضائع ہوئی ہو۔خدا تعالیٰ خود اس کا متکفل ہوتا ہے۔لیکن ابتدا میں ابتلا کا آنا ضروری ہے تا کہ کھوٹے اور کھرے کی شناخت ہو جائے۔
عشق اول سر کش و خونی بود۔ تا گریز دہر کہ بیدرونی بود
دوسرے ابتلا اس لیے ہوت اہے کہ اﷲ تعالیٰ لوگوں کو دکھلاوے کہ جو ہماری طرف آنیوالے ہیں وہ کیسے مستقل مزاج اور جفاکش ہوتے ہیں کہ مار پر مار کھاتے ہیں ،لیکن منہ نہیں پھیرتے او ر جب وہ ثابت قدم نکل آتے ہیں تو پھر اﷲ تعالیٰ اُن سے وہی سنت برتتا ہے جو کہ منعم علیہ گروہ سے برتنی چاہیے۔
خدا تعالیٰ سے زیادہ پیاراور رحم اور محبت کرنی کوئی نہیں جانتا۔لیکن اخلاص ضروری ہے۔کوئی دل سے اس کا ہو۔پھر دیکھے کہ آیا مخلص کی دست گیری اور کفالت اس کی خوبی ہے کیہ نہیں ،لیکن جو اُسے آزماتا ہے وہ خود آزمایا جاتا ہے۔آنحضرت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اسلام لایا۔بعد ازاں اندھا ہو گیا ارو کہنے لگا کہ اسلام قبول کرنے سے یہ آفت مجھ پر آئی ہے۔اس لیے کافر ہو گیا۔آنحضرت ﷺ نے اُسے بہت سمجھایا ،لیکن نہ مانا؛ حالانکہ اگر وہ مسلمان رہتا تو خدا تعالیٰ تو اس امر پر قادر تھا کہ اسے دوبارہ بینائی بخش دیتا،لیکن کافر ہو کر دنیا سے تو اندھا تھا دین سے بھی اندھا بن گیا۔مجھے فکر ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہین جو کہ خد اتعالیٰ کو آزماتے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ وہ خود آزمائے جاویں۔پیغمبر خدا ﷺ فرماتے ہیں کہ جو مجھ پر ایمان لاوے ،اول وہ مصائب کے لیے تیار رہے۔مگر یہ سب کچھ اوائل میں ہوتا ہے۔اگر صبر کرے تو اﷲ تعالیٰ اس پر فضل کر دیت اہے؛کیونکہ مومن کے لیے دو حالتیں ہیں۔اول تو یہ کہ جب ایمان لاتا ہے تو مصائب ک ایاک دوزخ اس کے لیے تیار کیا جاتا ہے جس میں اُسے کچھ عرصہ رہنا پڑتا ہے اور اس کے صبر اور استقلال کا امتحان کیا جاتا ہے اور جب وہ اس میں ثابت قدمی دکھاتا ہے تو دوسری حالت یہ ہے کہ اس دوزخ کو جنت سے بدل دیا جاتا ہے۔جیسے کہ بخاری میں حدیث ہے کہ مومن بذریعہ نوافل کے اﷲ تعالیٰ سے یہاں تا کہ قرب حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔اور کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔اور ایک روایت میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مٰں اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتاہے اور ایسے لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
من عادی لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب
کہ جو شخص میرے ولی کی عداوت کرتا ہے وہ جنگ کے لیے تیار ہو جاوے۔اس قدر غیرت خدا تعالیٰ کو اپنے بندے کے لیے ہوتی ہے۔پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ مجھے کسی شئے میں اس قدر تر دد نہیں ہوتا جس قدر کہ مومن کی جان لینے میں ہوت اہے اور اسی لیے وہ کئی دفعہ بیمار ہوتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی جان لینا چاہت اہے مگر اسے مہلت دے دیتا ہے کہ اور کچھ عرصہ دنیا میں رہ لیوے۔
جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض
اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان،کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔اخلاقِ حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔اور بیجا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔تھوڑی تھوڑی سے بات پر کینہ اور بُغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چُپ کر رہے۔اور اس کا جواب نہ دے۔ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔چاہیے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لیے درد دل سے دعا کرے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے۔اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑ تی تو اﷲ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔پس جب تک تبدیلی نہ ہوگی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں۔خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔اگر تم ان صفاتِ حسنہ میں ترقی کروگے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جائو گے۔لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ان باتوں سے صرف شماتتِ اعداء ہی نہیں بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔
خُلق کی اصلاح ممکن ہے
یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے۔اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے
کل یعمل علی شا کلتہ (بنی اسرائیل : ۸۵)
بعض آدمی ایک قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں، تو دوسری قسم میں کمزور ۔اگر ایک خلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا برا ۔لیکن تا ہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے۔
خُلٰق سے ہماری مراد شیریں کلامی ہی نہیں بلکہ خَلق اور خُلق دو الفاظ ہیں۔آنکھ، کان،ناک وغیرہ جس قدر اعضاء ظاہری ہیں جن سے انسان کو حسین وغیرہ کہا جاتا ہے۔یہ سب خلق کہلاتے ہیں ارو اس کے مقابل پر باطنی قویٰ کا نام خُلق ہے۔مثلاً عقل، فہم، شجاعت،عفت، صبر وغیرہ اس قسم کے جس قدر قویٰ سرشت میں ہوتے ہیں وہ سب اسی میں داخل ہیں اور خُلق کو خَلق پر اس لیے ترجیح ہے کہ خَلق یعنی ظاہری جسمانی اعضاء میں اگر کسی قسم کا نقص ہو تو وہ ناقابل علاج ہوتا ہے۔مثلاً ہاتھ اگر چھوٹا پیدا ہوا ہے تو اس کو بڑا نہیں کر سکتا،لیکن خُلق میں اگر کوئی کمی بیشی ہو تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔
ذکر کرتے ہیں کہ افلاطون کو علم فراست میں بہت دخل تھا اور اس نے دروازہ پر ایک دربان مقرر کیا ہوا تھا۔جسے حکم تھا کہ جب کوئی شخص ملاقات کو آوے،تو اول اس کا حلیہ بیان کرو۔اس حلیہ کے ذریعے وہ اس کے اخلاق کا احال معلوم کر کے پھر اگر قابل ملاقات سمجھتا تو ملاقات کرتا؛ورنہ ردّ کردیتا۔ایک دفعہ ایک شخص اس کی ملاقات کو آیا۔دربان نے اطلاع دی۔اس کے نقوش کا حال سنکر افلاطون نے ملاقات سے انکار کر دیا۔اس پر اس شخص نے کہلا بھیجا کہ افلاطون سے کہدو کہ جو کچھ تم نے سمجھا ہے۔بالکل درست ہے۔مگر میں نے قوت مجاہدہ سے اپنے اخلاق کی اصلاح کرلی ہے۔اس پر افلاطون نے ملاقات کی اجازت دیدی۔پس خُلق ایسی شئے ہے جس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔اگر تبدیلی نہ ہوسکتی تو یہ ظلم تھا،لیکن دعا اور عمل سے کام لو گے،تب اس تبدیلی پر قادر ہو سکو گے۔عمل اس طرح سے کوئی شخص ممسک ہے تووہ قدرے قدرے خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور نفس پر جبر کرے۔آخر کچھ عرصہ کے بعد نفس میں ایک تغیر عظیم دیکھ لے گا اور اس کی عادت امساک کی دور ہو جاوے گی۔اخلاق کی کمزوری بھی ایک دیوار ہے جو خد ااور بندے کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔
وحدتِ جمہوری
اﷲ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفسِ واحد کی طرح بناوے۔اس کا نام وحدتِ جمہوری ہے جس سے بہت سے انسان بحالتِ مجموعی ایک انسان کے حک میں سمجھا جاتا ہے۔مذہب سے بھی یہی منشاء ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدتِ جمہوری کے ایک دھاگہ میں سب پروئے جائیں ۔یہ نمازیں با جماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وخدت کے لیے ہیں تا کہ کل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے اور آپس میں مل کر کھڑے ہوین کا حکم اس لیے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور یہ وہ دوسرے کمزور میں سرایت کر کے اُسے قوت دیوے۔حتیٰ کہ حج بھی اسی لیے ہے۔اس وحدتِ جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتدا اس طرح سے اﷲ تعالیٰ ین کی ہے کہ اول یہ حک دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلہ کی مسجد میں ادا کریں تاکہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو اور انوار مل ملا کر کمزوری کو دور کردیں اور آپس میں تعارف ہو کر اُنس پید اہو جاوے۔تعارف بہت عمدہ شئے ہے کیونکہ اس سے انس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے۔حتیٰ کہ تعارف والا دشمن ایک نا آسنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں اُنس پیدا ہو جاتا ہے۔وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینہ والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شے ہوتا ہے توہ تو دور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے۔
پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے۔اس لیے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں۔آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جائیں گے۔پھر سال کے بعد عیدین میں یہ تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں تاکہ تعارف اور اُنس بڑھ کر وحدت جمہوری پیدا ہو۔پھر اسی طرح تمام دنای کے اجتماع کے لیے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکہ کے میدان میں سب جمع ہوں۔غرضیکہ اس طرح سے اﷲ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ آپس میں اُلفت اور اُنس ترقی پکڑے۔افسوس کہ ہمارے مخالفوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا پکا ہے۔دنیوی حکام کی طرف سے جو احکام پیش ہوتے ہیں۔ان میں تو انسان ہمیشہ کے لیی ڈھیلا ہو سکتا ہے۔لیکن خدا تعالیٰ کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلی روگردانی کبھی ممکن ہی نہیں کونسا ایسا مسلمان ہے جو کم ازکم عیدین کی بھی نماز نہ ادا کرتا ہو۔پس ان تمام اجتماعوں کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کے انوار دوسرے میں اثر کرکے اُسے قوت بخشیں۔
صحبتِ صادقین
نفس اور اخلاق کی پاکیزگی حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ صحبتِ صادقین بھی ہے جس کی طرف اﷲ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے
کو نو امع الصادقین (التوبہ : ۱۱۹)
یعنی تم خدا تعالیٰ کے صادق اور راستباز لوگوں کی صحبت اختیار کرو تاکہ اُن کے صدق کے انوار سے تم کو بھی حصہ ملے۔جو مذاہب کہ تفرقہ پسند کرتے ہیں اور الگ الگ رہنے کی تعلیم دیتے ہیں وہ یقینا وحدت جمہوری کی برکات سے محروم رہتے ہیں۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے تجویز کیا کہ ایک نبی ہو جو کہ جماعت بناوے اور اخلاق کے ذریعہ آپس میں تعارف اور وحدت پیدا کرے۔
آدابِ دعا
درستیٔ اخلاق کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی پاک محبت حاصل کی جاوے۔ہر ایک قسم کے گناہ اور بدی سے دور رہے اور ایسی حالت میسر ہو کہ جس قدر اندرونی آلودگیاں ہیں ان سب سے الگ ہو کر ایک مصفیٰ قطرہ کی طرح بن جاوے۔جب تک یہ حالت میسر نہ ہوگی تب تک خطرہ ہی خطرہ ہے،لیکن دعا کے ساتھ تدابیر کو نہ چھوڑے۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ تدبیر کو بھی پسند کرتا ہے اور اسی لیے
فالمد برات امرا (النازعات : ۶)
کہہ کر قرآن شریف میں قسم بھی کھائی ہے۔جب وہ اس مرحلہ کو طے کرنے کے لیے دعا بھی کرے گا اور تدبیر سے بھی اس طرح کام لے گا کہ جو مجلس اور صحبت اور تعلقات اس کو حارج ہیں ان سب کو ترک کردے گا اور رسم عادت اور بناوٹ سے الگ ہو کر دعا میں مصروف ہو گا تو ایک دن قبولیت کے آثار مشاہدہ کرلے گا۔یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ کچھ عرصہ دعا کرکے پھر رہ جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے اس قدر دعا کی مگر قبول نہ ہوئی؛ حالانکہ دعا کا حق تو اُن سے ادا ہی نہ ہوا۔تو قبول کیسے ہو؟ اگر ایک شخص کو بھوک لگی ہو یا سخت پیاس ہو اور وہ صرف ایک دانہ یا ایک قطرہ لے کر شکایت کرے کہ مجھے سیری حاصل نہیں ہوتی۔تو کیا اس کی شاکیت بجا ہوگی؟ ہرگز نہیں۔جب تک وہ پوری مقدار کھانے اور پینے کی نہ لے گا۔تب تک کچھ فائدہ نہ ہوگا۔یہی حال دعا کا ہے۔اگر انسان لگ کر اُسے کرے اور پورے آداب سے بجا لاوے۔وقت بھی میسر آوے تو امید ہے کہ ایک دن اپنی مراد کو پالیوے۔لیکن راستہ میں ہی چھوڑدینے سے صدہاانسان مر گئے (گمراہ ہو گئے) اور صدہا ابھی آئندہ مرنے کو تیار ہیں۔ایک من پیشاب میں ایک قطرہ پانی کا کیا شئے ہے جو اسے پاک کرے۔اسی طرح وہ بد اعمالیاں جن میں لوگ سر سے پاجون تک غرق ہیں ان کے ہوتے ہوئے چند دن کی دع اکیا اثر دکھا سکتی ہے۔پھر عجب ،خودبینی،تکبر اور ریاوغیرہ ایسے امراض لگے ہویء ہوتے ہیں جو عمل کو ضائع کر دیتے ہیں۔نیک عمل کی مثال ایک پرند کی طرح ہے۔اگر صدق اور اخلاص کے قفس میں اُسے قید رکھوگے تو وہ رہے گا ورنہ پروز کر جاوے گا اور یہ بجز خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل نہیں ہوسکتا۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فمن کان یرجو القاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا (الکہف : ۱۱۱)
عمل صالح سے یہاں یہ مراد ہیکہ اس میں کسی قسم کی بدی کی آمیزش نہ ہو۔صلاحیت ہی صلاحیت ہو۔نہ عُجب ہو،نہ کبر ہو،نہ نخوت ہو، نہ تکبر ہو،نہ نفسانی اغراض کا حصہ ہو۔نہ روبخلق ہو۔حتیٰ کہ دوزخ اور بہشت کی خواہش بھی نہ ہو۔صرف خدا تعالیٰ کی محبت سے وہ عمل صادر ہو۔جب تک دوسری کسی قسم کی غرض کو دخل ہے تب تک ٹھوکر کھائے گا۔اور اس کانام شرک ہے،کیونکہ وہ دوستی ارور محبت کس کام کی جس کی بنیاد صرف ایک پیالہ چائے یا دوسری خالی محبوبات تک ہی ہے۔ایسا انسان جس دن اس میں فرق آتا دیکھے گا، اسی دن قطع تعلق کردے گا۔جو لوگ خدا تعالیٰ سے اس لیے تعلق باندھتے ہیں کہ ہمیں مال ملے یا اولاد حاصل ہو یا ہم فلان فلاں امور میں کامیاب ہو جائیں، اُن کے تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور ایمان بھی خطرہ میں ہے جس دن ان کے اغراض کو کوئی صدمہ پہنچا اسی دن ایمان میں فرق آجاوے گا۔اس لیے پکا مومن وہ ہے جو کسی سہارے پر خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا۔
راستباز کی علامت
راستبازوں کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ مصیبت سے اُن کو چڑ ہوتی ہے اور جب ایسے موقعہ پر شیطا ن دخل دے کر ان کو بہکانا چاہتا ہے تب ان کی غیرت جوش مارتی ہے اور بجائے اس کے کہ ان کا قدم پیچھے ہٹے وہ آگے بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیطان ہمیں پیچھے ہر گز نہیں ڈال سکتا ۔شیطان بھی ایسے موقعہ پر ہر ایک قسم کے منصوبے اس کی لغزش کے لیی پیش کرتا ہے۔مال ،اولاد،عزت، آبرو،خلقت کی ملامت،طعن وتشنیع وغیرہ سب نقصانوں سے ڈراتا ہے۔لیکن وہ اول ہی سے دل میں فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم ان نقصانوں کی کچھ پروانہ کریں گے۔آخر نتیجہ یہ ہوت اہے کہ شیطان ان کے نزدیک ایک مخنّث سے بھی کمتر ہوتا ہے۔لیکن جس کا دعویی تو ایمان کا ہوتا ہے اور دماغ میں اغراضِ نفسانی بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔تو شیطان بڑی آسانی سے اپنا تسلط اس پر بٹھاتا ہے اور جس راستے چاہتا ہے چلاتا ہے۔خوب یاد رکھو کہ سفلی خواہشات سے شیطان کا مقابلہ ہرگز نہ ہوسکے گا۔
شیطان کے وجود کا ثبوت
ممکن ہے کہ بعض لوگ یہاں ایسے ہوں کہ جو شیطان کے وجود ہی سے منکر ہوں،لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کے وجود سے ا نکار بھی نادانی ہے۔کیا وہ مشاہدہ نہیں کرتے کہ انسان میں دو قوتیں موجود ہیں۔بیٹھے بیٹھے ایک لہر اس کے دل میں آتی ہے کہ نیکی کروں اور اکثر اوقات وہ اس کا ایسا پابند ہو جاتا ہے کہ بلا اس کے تقاضا ادا کئے کے رہ ہی نہیں سکتا۔اور اسی طرح کبھی اس کے دل میں ایسی لہر آتی ہے جو کہ بدی کی طرف رغبت دلاتی ہے اور وہ گھر سے اُٹھ کر کنجروں کی طرف چلا اجتا ہے۔پس یہ قوتیں ہیں جن میں سے بدی کے محرک کا نام شیطان رکھ لو۔انسان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ ابتدائی مراحل میں ہر ایک شئے کی حقیقت کو سمجھ لیوے جیسے جیسے بتدریج اس کی معرفت ترقی کرتی ہے۔ویسے ویسے وہ باریک در باریک امور کو سمجھتا جاتا ہے۔ آسمان کے ستاروں کو دیکھو کہ وہ اول سوائے نقطوں کے اور کچھ معلوم نہیں ہوتے مگر جب انہی نقطوں کو دور بینوں سے دیکھا جاوے تو کسقدر عجائبات معلوم ہوتے ہیں اور سابقہ معرفت اسکے آگے ہیچ نظر آتی ہے اور انسان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے کہ میں نے ان کو نقطہ کیوں سمجھا۔ایسے ہی شیطان اور فرشتے کے وجود کا حال ہے کہ انکو اول نقطوں کی طرح ماننا پڑتا ہے اور پھر اس دوربین سے جو انبیاء لے کر آتے ہیں دیکھ اجاوے تو اُن کی اصل حقیقت معلوم ہوتی ہے۔یہ تو جملہ معترضہ تھا جو کہ درمیان میں آگیا۔
عورتوں کی اصلاح کی ضرورت
پھر میں اصل مطلب کو بیان کرتا ہوں کہ اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ بھی لازمی امر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کرو۔عورتوں میں بُت پرستی کی جڑ ہے کیونکہ ان کی طبائع کا میلان زینت پرستی کی طرف ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بُت پرستی کی ابتداء انہی سے ہوئی ہے۔بزدلی کا مادہ بھی اس میں زیادہ ہوتا ہے کہ ذرا سی سختی پر اپنے جیسی مخلوق کے آگے ہاتھ جوڑنے لگ جاتی ہے،اس لیے جولوگ زن پرست ہوتے ہیں رفتہ رفتہ ان میں بھی یہ عادتیں سرایت کر جاتی ہیں ۔پس بہت ضروری ہے کہ ن کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے
الرجال قوامون علی النساء (النساء : ۳۵)
اور اسی لیے مرد کو عورتوں کی نسبت قویٰ زیادہ دیئے گئے ہیں۔ اس وقت جو نئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے۔وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکلتا ہے یا مختلف۔ایک طرف تو اسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی؟ غرضکہ عورتوں میں مردوں کی نسبت قویٰ کمزور ہیں اور کم بھی ہیں اس لیے مرد کو چاہیے کہ عورت کو اپنے ماتحت رکھے۔
پردہ کی اہمیت
یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں ۔لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔یہی عورتوں کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہے۔جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روارکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔اگر اس کی آززادی اور بے پردگی سے اُن کی عِفّت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں۔لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو اُن کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے۔پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجود کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا۔مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں۔نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے۔دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہیل مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو۔اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم ازکم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکٰن تو اس وقت اس بحچ کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں؛ ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے۔ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے۔کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے۔قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتا ہے۔کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے۔
قل للمو منین یغضو امن ابصار ھم و یحفظو افر و جہم ذلک از کی لہم (النور : ۳۱)
کہ تو ایمان والوں کو کہدے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا۔فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اوران میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے۔پھر یاد رکھو کہ ہزار درہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہیکہ جن باتوں سے اﷲ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے۔تعدد ازدواج اور طلاق کے مسئلہ پر غور کرو ؎
ہر چہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار
ہمیں افسوس ہے کہ آریہ صاحبان بھی بے پردگی پر زور دیتے ہیں اور قرآن شریف کے احکام کی مخالفت چاہتے ہیں؛ حالانکہ اسلام کا یہ بڑا احسان ہندوئوں پر ہے کہ اُس نے اُن کو تہذیب سکھلائی اور اس کی تعلیم ایسی ہے جس سے مفاسد کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔مثل مشہور ہے ؎
خربستہ بہ گرچہ وزد آشنا اسب
یہی حالت مرد اور عورت کے تعلقات کی ہے کہ اگر چہ کچھ ہی کیوں نہ ہو لیکن تا ہم فطری جوش اور تقاضے بعض اس قسم کے ہوتے ہٰں کہ جب اُن کو ذرا سی تحریک ہوئی تو جھٹ حدّ اعتدال سے ادھر اُدھر ہو گئے۔اس لیے ضروری ہیکہ مد اور عورت کے تعلقا ت میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہرگز نہ دخل دیا جاوے۔ذرا اپنے دلوں میں غور کرو کہ کیا تمہارے دل راجہ رامچند ر اور کرشن وغیرہ کی طرح پاک ہو گئے ہیں؟ پھر جب وہ پاک دلی تم کو نصیب نہیں ہوئی تو بے پردگی کو رواج دیکر بکریوں کو شیروں کے آگے کیوں رکھتے ہو۔ہٹ اور ضد اور تعصب اور چڑ وغیرہ سے تم لوگ دیدہ دانستہ اسلام کے اُن پاکیزہ اصولوں کی مخالفت کیوں کرتے ہو جن سے تمہاری عفت بر قرار رہتی ہے۔عقل تو اس بات کا نام ہے کہ انسان کو نیک بات جہاں سے ملے وہ لے لیوے،کیونکہ نیک بات کی مثال سونے اور ہیرے اور جواہر کی ہے اور یہ اشیاء خواہ کہیں ہوں۔آخر وہ سونا وغیرہ ہی ہوں گی۔اس لیے تم کو لازم ہے کہ اسلام کے نام سے چڑ کر تم نیکی کو ترک نہ کرو؛ورنہ یاد رکھو کہ اسلام کا تو کچھ حرج نہیں ہے۔
Amira 6-7-05
اگر اس کا ضرر ہے تو تم ہی کو ہے۔ہاں اگر تم لوگوں کو یہ اطمینان ہے کہ سب کے سب بھگت بن گئے ہو اور نفسانی جذبات پر تم کو پوری قدرت حاصل ہے اور قویٰ پر میشر کی رضا اور احکام کے برخلاف بالکل حرکت نہیں کرتے تو پھر ہم تم کو منع نہیں کرتے۔بیشک بے پردگی کو رواج دو لیکن جہانتک میرا خیال ہے ابھی تک تم کو وہ حالت نصیب نہیں اور تم میں سے جس قدر لوگ لیڈربن کر قوم کی اصلاح کے درپے ہیں اُن کی مثال سفید قبر کی ہے جس کے اندر بجز ہڈیوں کے اور کچھ نہیں،کیونکہ ان کی صرف باتیں ہی ہیں۔عمل وغیرہ کچھ نہیں۔
نفسِ انسانی کی چار حالتیں
اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفسِ انسان پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچارہے،کیونکہ ابتدا میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے۔جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیز کھانے پر۔یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے اور اس کی اصلاح کی حالتوں کے لحاظ سے اس کے چار نام مقرر کئے گئے ہیں۔اول اول نفس زکیہ ہوتا ہے کہ جس کو نیکی بدی کی کوئی خبر نہیں ہوتی اور یہ حالت طفلگی تک رہتی ہے۔پھر نفسِ امارہ ہوتا ہے کہ بدیوں کی طرف ہی مائل رہتا ہے اور انسان کو طرح طرح کے فسق و فجور میں مبتلا کرتا ہے اور اس کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ ہر وقت بدی کا ارتکاب ہو۔کبھی چوری کرتا ہے۔کوئی گالی دے یا ذرا خلاف مرضی کام ہو تو اُسے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے۔اگر شہوت کی طرف غلبہ ہو تو گناہوں اور فسق و فجور کا سیلاب بہہ نکلتا ہے۔دوسرا نفس لوامہ ہے کہ اس میں بدیاں بالکل دور تو نہیں ہوتیں، مگر ہاں ایک بچھتاوا اور حسرت و افسوس مرتکب اپین دل میں محسوس کرتا ہے اور جب بدی ہو جاوے تو اس کے دل میں نیکی سے اس کا معاوضہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے اور تدبیر کرتا ہے کہ کسی طرح گناہ سے بچے۔اور دعا میں لگتا ہے کہ زندگی پاک ہو جاوے اور ہوتے ہوتے جب یہ گناہ سے پوتر ہو جاتا ہے تواس کا نام مطمئنہ ہو جاتا ہے اور اس حالت میں بدی کو ایسی ہی بدی سمجھتا ہے۔جیسے کہ خد اتعالیٰ بدی کو بدی سمجھتا ہے۔بات یہ ہے کہ دنیا اصل میں گناہ کا گھر ہے جس میں سرکشیوں میں پڑ کر انسان خدا کو بھلا دیتا ہے۔نفس اماراہ کی حالت میں اس کے پاجوں میں زنجیریں ہوتی ہیں اور لوامہ میں کچھ زنجیریں پائوں میں ہوتی ہیں اور کچھ اُتر جاتی ہیں مگر مطمئنہ میں کوئی زنجیر نہیں رہتی سب کی سب اُتر جاتی ہیں اور وہی زمانہ انسان کا خدا تعالیٰ کی طرھ پکے رجوع کا ہوت اہے اور وہی خا تعالیٰ کے کامل بندے ہوتے ہیں جو کہ نفسِ مطمئنہ کے ساتھ دنیا سے علیحدہ ہو ویں اور جبتک وہ اسے حاصل نہ کر لے تب تک اُسے مطلق علم نہیں ہوتا کہ جنت میں جاوے گا یا دوزخ میں۔پس جبکہ انسان بلا حصول نفسِ مطمئنہ کے نہ پوری پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے اور نہ جنت میں داخل ہو سکت اہے تو اب خواہ آریہ ہوں یا عیسائی کونسی عقلمندی ہے کہ قبل اس کے کہ یہ نفس حاصل ہو وہ بھیڑیوں اور بکریوں کو اکٹھا چھوڑدیویں۔کیا ان کو امید ہے کہ وہ پاک اور بے شرزندگی بسر کرلیں گے۔یہ ہے سرا اسلامی پردہ کا۔اور میں نے خصوصیت سے اُسے اُن مسلمانوں کے لیے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں اور مجھے امید ہے کہ آریہ لوگ اس سے بہت کم مستفید ہوں گے،کیونکہ ان کو تو اسلام کی ہر ایک بھلی بات سے چِڑ ہے۔
مسیح موعود کو ماننے کی ضرورت
اس قدر تقریر ہو چکی تھی کہ اس اثنا ء میں خلیفہ راجب الدین صاحب نے بلند آوازسے لاہور کی پبلک کی طرف سے حضرت مرزا صاحب کو ماننے کی ضرورت کا سوال پیش کیا؛ اگر چہ بعض لوگوں کو یہ دخل اس لیے ناگوار ہوا کہ خد اتعالیٰ کا فرستادہ نورِ فراست سے جس ضرورت کو محسوس کر کے کلام فرمارہا تھا اس کی توجہ ادھر سے پھیردی گئی۔لیکن ہمارے نزدیک یہ تحریک بھی مصالح ایزدی سے باہر نہیں۔
آپ نے فرمایا کہ :
اس کا مختصر جاوب یہ ہے کہ میں نے بہت سی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ سے یہ بات سمجھادی ہوئی ہے کہ میں وہ مسیح ہوں جس کا ذکر اور وعدہ اجمالاً قرآن میں اور تفصیلاً احادیث میں پایا جاتا ہے۔اور جو لوگ اسے نہیں مانتے قرآنِ شریف کی رو سے ان کا نام فاسق ہے اور احادیث سے واضح ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو اس مسیح کو نہیں مانتا وہ گویا مجھے نہیں مانتا اور جو اس کی معصیت کرتا ہے۔گویا میری معصیت کرتا ہے۔
لوگ مخلوق کو دھوکہ دیتے ہیں اور غلطیوں میں ڈالتے ہیں کہ ہم نے کوئی نیا کلمہ یا نماز تجویز کی ہے۔ایسے افترائوں کا میں کیا جاوب دوں۔اسی قسم کے افترائوں سے وہ ایک عاجز انسان مسیح لعیہ السلام کو تین خد ابنا بیٹھے ۔دیکھو۔ہم مسلمان ہیں اور امّتِ محمدی ہیں اور ہمارے نزدیک نئی نماز بنانی یا قبلہ سے روگردانی کفر ہے۔کُل احکامِ بیغمبری کو ہم مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے حکم کوٹالنا بھی بدذاتی ہے۔اور ہمارا دعویٰ قال اﷲ اور قال الرسول کے ما تحت ہے۔اتباعِ نبویؐ سے الگ ہو کر ہم نے کوئی کلمہ یا نماز یا حج یا ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد نہیں بنائی۔ہمارا کام یہ ہے کہ اس دین کی خدمت کریں اور اس کو کل مذاہب پر غالب کرکے دکھادیں۔قرآنِ شریف کی اور احادیث کی جو پیغمبر خد اسے ثابت ہیں۔اتباع کریں۔ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشرطیکہ وہ قرآنِ شریف کے مخالف نہ ہو ہم واجب العمل سمجھتے ہٰں اور بخاری اور مسلم کو بعد کتاب اﷲ اصح الکتب مانتے ہیں۔
اور دوسری بات یہ یاد رکھو کہ مجھے کبھی بھی یہ خواہش نہیں ہوئی کہ لوگ مجھے مانیں بلکہ مجھے تو ان جماعتوں سے ہمیشہ سے نفرت ہے اور اگر میں ملتا ہوں یا ان لوگوں میں آکر بیٹھتا ہوں تو اپنی مرضی سے ہرگز نہیں ملتا،بلکہ اﷲ تعالیٰ مجھے مجبور کتا ہے اور کہتا ہے کہ تو ایسا کر۔ایسی حالت میں بتلائو کہ اگر میں اس کی بات نہ مانوں تو کیا کروں؟ میں تو رات دن وحی کے نیچے کام کرتا ہوں۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر تم رسول اﷲ ﷺ کو پختہ طور سے مانو۔آپ کو ماننا یہ ہے کہ آپ کے وصایا پر عملدرآمد کیا جاوے اور انہی میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب وہ مسیح موعود آوے تو تم سب اس کے ساتھ ہو جانا۔میرے ماننے کی مثال یہ ہے جیسے ایک آقا نوکر کو کہے کہ فلاں شخص میرا میزبان؎ٰ ہے تم اُسے لا کر کھانا کھلائو اور ہر طرح کی تعظیم اور تکریم کرو۔لیکن نوکر اس کے جواب میں یہ کہے کہ میں تو صرف آپ کو مانتا ہوں۔مجھے کسی دوسرے کی تعظیم و تکریم سے غرض نہیں ہے اور نہ اس کی خواہش ہے۔تو اب سوچ کر دیکھو کہ کیا اس نے اپنے آقا کو مانا؟ ہرگز نہیں مانا۔کیونکہ جس بات میں وہ راضی ہوت اہے اس کے کرنے سے تو اُسے انکار ہے۔پس یاد رکھو کہ تم لگو بھی آنحصرت ﷺ کو حقیقی طور پر اسی وقت مانو گے،جبکہ آپ کے احکام اور وصایا کو مانو گے۔جس نے آخری حکم کو توڑا اُس نے سارے حکموں کو توڑا۔سوچو تو سہی کہ اگر ایک شخص تمام عمر نماز،روزہ ادا کرے،لیکن آخری وقت بجائے لاالہ الا اﷲ کے رام رام کہے تو کیا وہ نماز روزہ اس کے کام آوے گا؟
آنحضرت ﷺ نے یہانتک فرمادیا کہ اس اُمت کی دو دیواریں ہیں۔ایک میں اور ایک مسیح او راس کے درمیان آپ نے فیج اعوج فرمایا ہے جن کی نسبت ارشاد یہ کہ وہ نہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوںپس جبکہ خود آنحضرت ﷺ اسے ایک ٹیڑھا گروہ قرار دیتے ہیں تو ہم اُن کی باتوں کو کیوں قبول کر لیں
اس موقعہ پر ایک وزیر آبادی متعصب مولوی نے مداخلت کی اور ٹیڑھی راہ اختیار کر کے بے جا سوال اور کلام شروع کیا۔اول تو حضرت اقدس اُسے حلیمی سے سمجھاتے رہے،مگر جب معلوم ہوا کہ اس کی غرض رفع شکوک و شبہات نہیں۔صرف مناظرہ کا ایک اکھاڑہ قائم کرنا چاہتا ہے تو اُس سے اعراض کای اور فرمایا کہ مباحثہ کا دروازہ تو ہم بند کر چکے ہیں۔اب اس میں پڑنا پسند نہیں کرتے۔اس پر بعض مفسد طبائع نے شور کرنا شروع کیا۔آخر مصلحت وقت دیکھ کر مولوی صاحب کو بیجا مداخلت سے روکا گیا اور جب وہ باز نہ آئے تو اُن کو جبراً احاطہ سے باہر کر دیا گیا۔اس اثنا میں جو کلام حضور علیہ السلام نے فرمایا۔اُسے ہم یکجائی طور پر درج کرتے ہیں۔
فرمایا کہ :
مسیح اور مہدی کی ضرورت
شکوک کے رفع کے لیے اگر کوئی راستی اور سچی نیت سے آوے تو ہم اسے سمجھا سکتے ہیں اور اب تو ایسا زمانہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود ایک معلم کی طرح سمجھا رہا ہے۔یہ اس کی عادت میں داخل ہے کہ جب دنیا میں گناہ اور بے ایمانی بڑھ جاوے اور ردی اخلاق اور ردی عادات ترقی پکڑجاویں تو ایک شخص کو اصلاح کے لیی مامور کرے۔اسلام اس وقت دو آفتوں کے ماتحت یہ۔ایک اندرونی۔دوسری بیرونی۔اندرونی خود عالموں کا اختلاف اور مسلمانوں کا دنای کی طرف میلان۔اور بیرونی وہ آفت جو عیسائیت کیوجہ سے ہے۔پس کیا ابھی تمہارے نزدیک مہدی اور مسیح کی ضرورت نہ تھی؟
تیس دجال
پھر ایک اعتراض یہ پیش کرتے ہو کہ اس امت میں تیس دجال آنیوالے ہیں۔اے بدقسمتو! کیا تمہارے لیے دجال ہی رہ گئے کہ اگر ایک کے آنے سے ایمان کے تباہ ہوین میں کوئی کسر رہ جاوے تو پھر دوسرا۔تیسرا اور چوتھا حتیٰ کہ تیس دجال آویں تا کہ ایمان کا نام و نشان نہ رہے۔اس طرح تو موسیٰ علیہ السلام کی امت ہی اچھی رہی کہ جس میں پے در پے چارسو نبی آیا۔پھر موسیٰ علیہ السلام کے وقت تو عورتوںسے بھی خدا تعالیٰ نے کلام کیا۔کیا امت محمدیہ کے مرد بھی اس قابل نہ ہوئے کہ خا تعالیٰ اُن سے ہمکلام ہوتا؟ پھر یہ بتلائو کہ یہ اُمتِ مرحومہ کس طرح ہوئی،اس کا نام تو بدنصیب ہونا چاہیے۔آنحضرت ﷺ کو تیرہ سو برس گذر گئے ارو جس قدر فیوض اور برکات تھے وہ سب سماع کے حکم میں آگئے۔اب اگر خدا تعالیٰ اُن کو تازہ کر کے نہ دکھائے تو صرف قصہ کہانی کے رنگ میں اُن کو کون مان سکتا ہے؛ جبکہ تازہ طور پر خدا تعالیٰ کی مدد نہیں۔نصرت نہیں تو خد اتعالیٰ کی حفاظت کیا ہوئی؟ حالانکہ اس کا وعدہ ہے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
طاعون اور احمدی
جب متعصب مولوی صاحب نے طاعون کا ذکر کیا کہ آپ کے مرید کیوں مرتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔تو آپ نے فرمایا :
کسوف و خسوف کا علاج بھی کچھ سوچا ہے۔اس وقت بحث تو نشانوں کی ہے نہ کہ علاج کی۔ہاں جو کامل طور پر مجھ کو قبول کرتا ہے وہ ضرور محفوظ رہے گا۔لیکن اس کا مجھے علم نہیں کہ وہ کون ہے۔میں کسی کے سینہ کو چیر کر نہیں دیکھتا۔صحابہ کرامؓ کا بھی ایک گروہ طاعون سے شہید ہوا تھا۔مگر دیکھ لو کہ ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما طاعون سے ہرگز نہیں فوت ہوئے۔خدا تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں میں امتیاز رکھا ہے۔جیسے کہ فرمایا ہے
فمنھم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳)
جماعت سے خطاب اس کے بعد آپ نے جماعت کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ :
ضروری بات یہ یہکہ تم لوگ ان باتوں کی طرف متوجہ نہ ہو اور تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرو۔تمہارا معاملہ اور حساب خدا سے الگ ہے اور مخالف لوگوں کا حساب الگ ہے ۔جنہوں نے قسم کھائی ہے کہ کیسی ہی سچی بات کیوں نہ ہو مگر وہ قبول نہ کریں گے۔اﷲ تعالیٰ بھی ان کی نسبت یہی فرماتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کو ہی قبول کریں گے۔ان کی بناوٹ ہی اسی قسم کی ہے کہ عمدہ شئے یا بات جو پیش کی جاوے وہ ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اور اگر بدبودار بات ہو تو خوش ہوتے ہیں۔قرآنِ شریف ، احادیث اور عقلی دلائل اور نشان پیش کئے۔مگر یہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔صرف ایک بات کو نشانہ بناتے ہیں،پس جبکہ خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ ایک مذہب ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔مگر جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے فہمِ سلیم عطا کیا ہے ان کو چاہیے کہ وہ شکر کریں کیونکہ فائدہ اُٹھا نیوالے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے خود پا ک کیا۔
نشاناتِ صداقت
ابھی ہماری جماعت کے بہت سے لوگ چھپے ہویء ہیں ظاہر اً وہ ہم سے الگ ہیں ،لیکن دراصل ہم میں سے ہیں۔ہمیں خود ان کا علم نہیں لیکن امید ہے کہ اپین وقت پر وہ آجاویں گے ۔خود لا ہور میں ایک شخص نے ملاقات کی اور کہا کہ میں آپکو گالیاں دیا کرتا تھا۔اب توبہ کرتا ہوں۔بعضوں نے بذریعہ خواب کے مانا اور اکثر کو خد ا آنحضرت ﷺ نے کشف میں ٰا خاوب میں کہا کہ تم قبول کر لو۔جو لوگ بغض کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تیز دھار کو روک لیویں مگر وہ کسی کے روکنے سے رُک نہیں سکتی۔اگر انسانی کا روبار ہوتا تو آجتک کب کا تباہ ہو جاتا۔مجھے دعویٰ کئے ہوئے چوبیس برس سے زیادہ عرصہ گذرگیا ایک مفتری کو اس قدر مہلب مل سکتی ہے کہ اگر کسی کو عقل ،فہم اور موت کا ڈر ہو تو وہ براہین کے وقت کو دیکھے کہ جو پیشگوئیان اس میں ہیں وہ کیسے پوری ہو کر رہیں،لیکن یہ بات ہے کہ جبتک اﷲ تعالیٰ ہدایت نہ دے اور وہ دل کے تالے نہ کھولے تو کس طرح سمجھ میں آوے۔کوئی بتاوے تو سہی کہ جب سے دنیا ہوئی ہے کسی مفتری نے اس قسم کی پیشگوئی بھی کی ہے۔خد ا تعالیٰ سے خوف کرنے والے کے لیے تو ایک ہی نشان کافی ہوسکت اہے۔لیکن ان لوگوں نے اس قدر کثیر نشانوں سے بھی فائدہ نہ اُٹھایا۔
غرض مدعا یہ ہیکہ یہ تمام باتیں ان لوگوں کے لیی ہیں جو ہدایت قبول کرتے ہیں۔نہ کہ منکروں کے لیے جن کے واسطے اﷲ تعالٰٰ کا قانون اور ہے۔تم خدا سے پناہ مانگو کہ اُن کے لیے جو قانون یہ اس میں تم کو داخل نہ کرے۔ہمیشہ نیک دل خدا تعالیٰ کی رحمت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔یہ نہ خیال کرو کہ یہ لوگ مذہب میں پکے ہیں۔بڑے بُزدل ہوتے ہٰں۔قہرِ الٰہی کا ذرا نہیں مقابلہ کر سکتے۔لیکن یا د رکھیں کہ یہ ایسا زمانہ ہے۔جس کے لیی سب نبیوں ی پیش گوئیاں ہیں اور جسیے مختلف نہریں مل کر ایک دریا بہ کر بہہ نکلتی ہیں اسی طرح ان پیشگوئیوں کا سیلاب بہہ نکلے گا اور آدمؑ ،موسیٰ ؑ،ابراہیمؑ وغیرہ پیغمبروں نے جو کچھ کہا وہ سب پورا ہو کر رہے گا۔بعض رحمت کے نشان بھی ہوں گے مگر اُن سے انہی کو حصہ ملے گا جو عاجز ۔فروتن اور خائف اور تائب ہوں گے اور جو منکر ہیں وہ قہری نشان سے حصہ لیں گے؛اگر چہ یہ لوگ اس وقت انکار کو نہیں چھوڑتے اور صرف ماں باپ یا جاہل لوگوں سے سن سنا کر غلط عقائد پر اڑے ہوئے ہیں لیکن خدا تعالیٰ زبردستی سب کچھ چھڑادے گا۔زبردست سے لڑنا نادانی ہے۔اگر یہ کاروبار نسان کی طرف سے ہوتا تو کب کا تباہ ہوجاتا۔آنحضرتﷺ کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ ہم پر افتراء کرتا تو ہم اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔پھر کیا وجہ یہ کہ اگر میں خدا پر افتراء کرتا ہوں اور تھوڑی مدت نہیں بلکہ تیس سال کے قریب ہو چلا کہ ہمیشہ اس کی طرف سے وحی لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ جانتا بھی ہے کہ میں جھوتا ہوں لیکن میری تائید کرتاہے اور ہلاک نہیں کرتا۔وہ کیسا خدا ہے کہ ایک جھوٹے سے اتفاق کر بیٹھا ہے اور ہزاروں نشان اس کی تائید میں دکھاتا ہے۔نئی سواری بھی اس کے لیے نکالی۔کسوف و خسوف بھی اس کے لیی ماہ رمضان میں کیا۔طاعون بھی بھیجی۔گویا خدا نے جان کر دھوکا دیا اور جو کام دجال نے کرنا تھا وہ خود آپ کیا تا کہ مخلوق تباہ ہو۔ذرا سوچو کیا خدا تعالیٰ کے لیے یہ جائز ہو سکتا ہیکہ ایک کذاب مفتری اور دجال کی وہ اس قدر مدد کرے۔اور مولوی لوگ جو خود کو اس کا مقرب جانتے ہیں۔ان کی دعا ہرگز قبول نہ ہو۔جو لڑائی یہ لوگ لڑرہے ہیں وہ مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔میں تو کچھ شئے نہیں ہوں۔خدا تعالیٰ سے لڑائی والا کبھی بابرکت نہیں ہوسکتا ۔میں تو اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتا ہوں اور مجھے لرزہ پڑتا ہے کہ افترا ہو اور خدا تعالیٰ چپ کر کے بیٹھا رہے۔اگر اُن کے نزدیک یہ افترا یہ تو چاہیے کہ دعا کریں کہ خدا اسے نیست کرے یا دعا کر کے حضرت مسیح کو آسمان سے اُتاریں۔عیسائی محققین نے بھی آخر کا ر مسیحؑ کے آسمان کے آسمان سے آنے سے تنگ آکر اور میعاد گذرتی دیکھ کر فیصلہ کر دیا ہے کہ کلیسا کو مسیح مان لو۔یہی مسیح کا نزول ہے۔ان کو بھی آخر کاز نزول کو استعارہ کے رنگ میں ہی ماننا پڑا ۔احادیث پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ تمام خلفاء اس امت میں سے ہوں گے۔قرآنِ سریف بھی یہی کہہ رہا ہے اور سب جگہ منکم کا لفظ موجود ہے مگر نامعلوم کہ ان لوگوں نے من بنی اسرائیل کہاں سے بنا لیا۔کیا یہ تھوڑا نشان یہ کہ نہ کوئی واعظ ہے نہ لیکچرار اور ہماری ترقی برار ہو رہی ہے۔بھلا اگر ان کو طاقت ہے تو روک دیں۔اﷲ تعالیٰ خود لوگوں کو ادھر رجوع دلا رہا ہے۔مصر سے بھی بیعت کی درخواست آئی ہے۔یورپ میں تحریک ہے۔امریکہ میں تحریک ہے۔
میں پھر جماعت کو تاکیدکرتا ہوں کہ تم لوگ ان کی مخالفتوں سے غرض نہ رکھو۔تقویٰ طہارت میں ترقی کرو تو اﷲ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا اور ان لوگوں سے وہ خود سمجھ لیوے گا۔وہ فرماتا ہے۔
ان اﷲ مع الذین اتقو او الذین ھم محسنون (نحل : ۱۲۹)
اور خوب یاد رکھو کہ اگر تقویٰ اختیار نہ کرو گے اور اس نیکی سے جسے خدا چاہت اہے کثیر حصہ نہ لو گے تو اﷲ تعالیٰ سب سے اول تم ہی کو ہلاک کرے گا،کیونکہ تم نے ایک سچائی کو مانا ہے اور پھر عملی طور سے اس کے منکر ہوتے ہو۔اس بات پر ہرگز بھروسہ نہ کرو اور مغرور مت ہو کہ بیعت کر لی ہے۔جبتک پورا تقویٰ ختیار نہ کرو گے ہرگز نہ بچو گے۔خدا تعالیٰ کا کسی سے رشتہ نہیں نہ اس کو کسی کی رعایت منظور ہے۔جو ہماری مخالف ہیں وہ بھی اسی کی پیدائش ہیں اور تم بھی اسی کی مخلوق ہو۔صرف اعتقادی بات ہرگز کام نہ آوے گی جبتک تمہارا قول اور فعل ایک نہ ہو۔
ان لوگوں کی حالتوں پر غور کرو کہ جب توفی کا لفظ مسیح کے لیے آوے تو اس کے معنے آسمان پر اجنے کے کرتے ہیں۔اور جب وہی لفظ آنحضرت ﷺ کے لیے استعمال ہو تو اس کے معنے وفات پانے کے کرتے ہیں۔پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ عملی راستی دکھائو۔تا وہ تمہارے ساتھ ہو۔رحم، اخلاق، احسان،اعمالِ حسنا،ہمدردی اور فروتنی میں اگر کمی رکھو گے تو مجھے معلوم ہے اور بار بار میں بتلا چکا ہوں کہ سب سے اول ایسی ہی جماعت ہلاک ہوگی۔موسیٰ علیہ السلام کے وقت جب اس کی امت نے خدا تعالیٰ کے حکموں کی قدر نہ کی تو باوجود یکہ موسیٰ اُن میں موجود تھا مگر پھر بھی بجلی سے ہلاک کئے گئے۔پس اگر تم بھی ویسے کرو گے تو میری موجودگی کچھ کام نہ آوے گی۔
اب ہم ان لوگوں کو کہانتک سمجھائیں۔بہت سی کتابیں چھپ چکی ہیں اور ان کے لیے کافی اتمامِ حجب ہو چکا ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام پر توفی کا استعمال کریں تو اس کے معنے موت کے ہوں۔ساحرین موسیٰ کے لیے وہی لفظ آوے تو اس کے معنے موت کے ہوں،لیکن جب مسیح پر بولا جاوے تو اس کے معنے آسمان پر جانا کرتے ہیں۔یہ لوگ خدا کو کیا جواب دیویں گے۔کیا یہی اُن کی محبت آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہے اور یہ کیسی دلیری اور شوخی ہے۔آنحضرت ﷺ کا وجود مبارک جس کی دنیا کو ضرورت تھی وہ تو تیرہ سو برس گذرے کہ خاک میں دفن ہوا اورآپؐ تریسٹھ برس کی عمر میں فوت ہو جاویں اور مسیح ابتک آسمان پر۔کوئی بتلاوے کہ وہاں کیا کر رہا ہے۔اس کا وعدہ تھا کہ میں بنی اسرائیل کی طرف آیا ہوں اور کتنی قومیں بنی اسرائیل کی باقی تھیں کہ آسمان پر جا بیٹھا اور وعدہ بھی پورا نہ کیا اور پھر عقل ،نقل اور کتاب اﷲ کے برخلاف ہے۔یہ سب دلائل ہیں جو کہ ایک مومن کے لئے کافی ہیںاور بجز اس کے کہ عیسیٰ کو فوت شدہ مانا جاوے اور کوئی ذریعہ آنحضرت ﷺ کی عزت کو محفوظ رکھنے کا نہیں ہے میں تو اس شخص سے بہت خوش ہوں کہ جس نے کتاب حیاۃ النبی لکھی ہے اور اس میں یہ بھی لکھ اہے کہ جو شخص سوائے آنحضرت ﷺ کے کسی پیغمبر کو زندہ کہے وہ کافر ہے کیونکہ آخر محبت کی کچھ بھی تو علامت چاہیی۔بعض نئے نئے لوگوں نے جو عیسائیوں میں سے اسلام میں داخل ہوئے۔حضرت عمرؓ کو یہ بات کہی ہوگی کہ عیسیٰ ابتک زندہ ہے تب ہی تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر ہرگز یہ باورنہ کیا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں بلکہ ایسا کہنے والے کو قتل کرنے کے لیی آمادہ ہوئے۔آخر جب حضرت ابو بکرؓ نے آکر اس مسئلہ کو حل کیا کہ سب نبی فوت ہو گئے ہیں اور آنحضرت ﷺ بھی فوت ہوئے تب آپ کواعتبار آیا۔
اب عیسائیت کا اثر غالب آگیا ہے اور جو محبت مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ سے چاہیے تھی وہ نہیں رہی۔ہزاروں رسالے اور اخبار نکالتے ہیں۔لیکن کسی نے آجتک آنحضرت ﷺ کی حیات کا رسالہ نہ کالا۔پس اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ آپؐ کی عزت کو ظاہر کرے۔ہم آنحضرت ﷺ کو ایک نبی مانتے ہیں اور سب سے شرف جانتے ہیں اور ہرگز گوارہ نہیں کرتے کہ کوئی عمدہ بات کسی اور کی طرف منسوب کی جاوے ۔جب کفار نے آنحضرت ﷺ سے یہی معجزہ طلب کیا کہ آسمان پر چڑھ کر دکھاویں تو آپؐ نے فرمایا سبحان ربی اور انکار کر دیا۔دوسری سرف حضرت مسیح کو خد اآسمان پر لے اجوے،یہ کیسے ہو سکت اہے۔ہم قرآن سے کیا بلکہ کل کتابوں سے دکھا سکت یہیں کہ سج قدر اخلاق اور خوبیان کل انبیاء میں تھیں وہ سب کی سب آنحضرت ﷺ میں جمع تھیں۔
کان فضل اﷲ علیک عظیما (النساء : ۱۱۴)
اسی کی طرف اشارہ ہے۔پس اگر آسمان پر جانا کوئی فضیلت ہوسکتی تھی تو آنحضرت ﷺ اس سے کب باہر رہ سکتے تھے۔آخر یہ لوگ پچھتاویں گے کہ ان باتوں کو ہم نے کیوں نہ مانا۔یہ لوگ ایک سوار تو آنحضرت ﷺ کی ذات پر کرتے ہیں کہ ایک معجزہ آسمان پر جانے کا لوگوں نے مانگا مگر خدا نے آپ کی پروا نہ کی اور عیسیٰ کو یہ عزت دی کہ اُسے آسمان پر اٹھا لیا اور دوسرا حملہ خود خد اپر کرتے ہیں کہ اُس نے اپنی قوت خلق سے مسیح کو بھی کچھ دے دی جس سے تشابہ الخلق ہو گیا۔جواب دیتے ہیں کہ خد انے خود مسیح کو یہ قدرت دی تھی۔اے نادانو! اگر خدائی نے تقسیم ہونا تھا تو کیا اس کے حصہ گیر عیسیٰ ہی رہ گئے تھے۔آنحصرت ﷺ کو کیوں نہ حصہ ملا؎ٰ۔
اس قدر تقریر ہو چکی تھی کہ بعض جان نثاروں نے بہت وقت گذرجانے کی درخواست کی تاکہ آپ کی طبیعت کو زیادہ صدمہ نہ ہو اور سلسلہ تقریر ختم ہو جاوے؛ چنانچہ حضور نے دعا پر اُسے ختم کیا۔
۲۸؍اگست ۱۹۰۴ء
بمقام لاہور۔سات بجے صبح
(حضرت اقدس کی تقریر جو ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مجمع کے درمیان آپ نے فرمائی)
توبہ کا دن جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک ہے
سب صاحب یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اسلام میں ایسے دن مقرر کئے ہیں کہ وہ دن بڑی خوشی کے دن سمجھے اجتے ہیں اور ان میں اﷲ تعالیٰ نے عجیب عجیب برکات رکھی ہیں۔منجملہ ان دنوں کے ایک جمعہ کا دن ہے۔یہ دن بی بڑا ہی مبارک ہے۔لکھاہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو جمعہ ہی کو پیدا کیا اور اسی دن ان کی توبہ منظور ہوئی تھی۔اور بھی بہت سی برکات اور خوبیاں اس دن کی ماثور ہیں۔ایسا ہی اسلام میں دو عیدیں ہیں۔ان دونوں دنوں کو بھی بڑی خوشی کے دن مانا گیا ہے اور ان میں بھی عجیب عجیب برکات رکھی ہیں۔لیکن یاد رکھو کہ یہ دن بیشک اپنی اپنی جگہ مبارک اور خوشی کے دن ہیں۔لیکن ایک دن ان سب سے بھی بڑھ کر مبارک اور خوشی کا دن ہے، مگر افسوس سے دیکھا جاتاہے کہ لوگ نہ تو اس دن کا انتظار کرتے ہیں اور نہ اس کی تلاش ؛ ورنہ اگر اس کی برکات اور خوبیوں سے لوگوں کو اطلاع ہوتی یا وہ اس کی پروا کرتے تو حقیقت میں ہو دن ان کے لیے بڑ ا ہی مبارک اور خوش قسمتی کا دن ثابت ہوتا اور لوگ اُسے غنیمت سمجھتے۔
وہ دن کونسا دن ہے جو جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک دن ہے؟ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ دن انسان کی توبہ کا دن ہے جو ان سب سے بہتر ہے اور ہر عید سے بڑھ کر ہے۔کیوں؟ اس لیے کہ اس دن وہ بد اعمال نامہ جو انسان کو جہنم کے قریب کرتا جاتا ہے اور اندر ہی اندر غضبِ الٰہی کے نیچے اُسے لا رہا تھا دھو دیا جاتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔حقیقت میں اس سے بڑھ کر انسان کے لیے اور کونسا خوشی اور عید کا دن ہوگ اجو اسے ابدی جہنم اور ابدی غضبُ الٰہی سے نجاب دیدے۔توبہ کرنے والا گنہگار جو پہیل اﷲ تعالیٰ سے دور اور اس کے غضب کا نشانہ بنا ہوا تھا۔اب اس کے فضل سے اُس کے قریب ہوتا اور جہنم اور عذاب سے دور کای جاتا ہے۔جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا
ان اﷲ یحب التوابین ویحب المتطھرین (البقرۃ : ۲۲۳)
بیشک اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے۔اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے،بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے۔ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری شرط ہے؛ ورنہ نری توبہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔پس جو دن ایسا مبارک دن ہو کہ انسان اپنی بد کر توتوں سے توبہ کر کے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سچا عہدِ صلح باندھ لے اور اس کے احکام کے لیی اپنا سر خم کر دے تو کیا شک ہیکہ وہ اس عذاب سے جو پوشیدہ طور پر اس کے بدعملوں کی پاداش میں تیار ہو رہا تھا۔بچایا جاوے گا اور اس طرح پر وہ وہ چیز پالیتا ہے جس کی گویا اسے توقع اور امید ہی نہ رہی تھی۔
تم خود قیاس کر سکتے ہو کہ ایک شخص جب کسی چیز کے حاصل کرنے سے بالکل مایوس ہو گیا ہے اور اس ناامیدی اور یاس کی حالت میں وہ اپنے مقصود کو پالے تو اسے کس قدر خوشی حاصل ہو گی۔اس کا دل ایک تازہ زندگی پائے گا۔یہی وجہ ہے کہ احادیث میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔احادیث اور کتب سابقہ سے یہی پتہ لگتا ہے کہ جب انسان گناہ کی موت سے نکل کر توبہ کے ذریعہ نئی زندگی پاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی زندگی سے خوش ہوتا ہے ۔حقیقت میں یہ خوشی کی بات تو ہے ہی کہ انسان گناہوں کے نیچے دباہو اور ہلاکت اور موت ہر طرف سے اس یک قریب ہو۔عذابِ الٰہی اس کے کھاجانے کو تیار ہو کہ وہ یکا یک ان بدیوں اور بدکاری٭ن سے جو بعد اور ہجر کا موجب تھیں توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی طرف آجاوے وہ وقت خدا تعالیٰ کی خوشی کا ہوت اہے اور آسمان پر ملائکہ بھی خوشی کرتے ہیں،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ تباہ وار ہلاک ہو،بلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ اگر اس کے بندہ سے کوئی غلطی اور کمزوری ظاہر ہوئی ہے پھر بھی وہ توبہ کر کے امن میں داخل ہو۔پس یاد رکھو کہ وہ دن جب انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے ۔بہت ہی مبارک دن ہے اور سب ایام سے افضل ہے۔کیونکہ وہ اس دن نئی زندگی پاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے قریب کیا جاتا ہے اور اس لحاظ سے یہ دن (جس میں تم میں سے بہتوں نے اقرار کیا ہے کہ میں آج اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور آئندہ جہانتک میری طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتارہوں گا) یوم توبہ ہے۔اور اﷲ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر ایک شخص کے جس نے سچے دل سے توبہ کی ہے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے اور وہ
اتا ئب من الذنب کمن لا ذنب لہ
کے نیچے آگیا ہے۔گویا کہہ سکتے ہیں کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔مگر ہاں میں پھر کہتا ہوں کہ اس کے لیے یہ شرط ہے کہ حقیقی پاکیزگی اور سچی طہارت کی طرف قدم بڑھایا جاوے اور یہ توبہ نری لفظی توبہ ہی نہ بلکہ عمل کے نیچے آجاوے۔یہ چھوٹی سے بات نہیں ہے کہ کسی کہ گناہ بخش دیئے جاویں،بلکہ ایک عظیم الشان امر ہے۔
دیکھو! انسانوں میں اگر کوئی کسی کا ذرا سا قصور اور خطا کرے تو بعض اوقدات اس کا کینہ پشتوں تک چلا جاتا ہے وہشخص نسلاً بعد نسل تلاشِ حریف میں رہتا ہے کہ موقعہ ملے تو بدلہ لای جاوے،لیکن اﷲ تعالیٰ بہت ہی رحیم و کریم ہے۔انسنا کی طرح سخت دل نہیں جو ایک گناہ کے بدلے میں کئی نسلوں تک پیچھا نہیں چھوڑتا اور تباہ کرنا چاہتا ہے مگر وہ رحیم کریم خدا ستر برس کے بناہوں کو ایک کلمہ سے ایک لحظہ میں بخش دیتا ہے۔یہ مت خیال کرو کہ وہ بخشنا ایسا ہے کہ اس کا فائدہ کچھ نہیں ۔نہیں وہ بخشنا حقیقت میں فائدہ رساں اور نفع بخش ہے اور اس کو وہ لوگ خوب محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہو۔
نزولِ بلا کا فلسفہ
بہت سے لوگ اس امر سے غافل ہیں کہ انسان پر جو بلائیں آتی ہیں وہ بلاوجہ یونہی آجاتی ہیں یا اُن کے نزول کو انسان کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ایسا خیال بالکل غلط ہے۔ یہ خوب یاد رکھو کہ ہر بلا جو اس زندگی میں آتی ہے یا جو مرنے کے بعد آئے گی جس کا ہمیں یقین ہے۔اس کی اصل جڑ گناہ ہی ہے۔کیونکہ گناہ کی حالت میں انسان اپنے آپ کو اُن انوار اور فیوض سے جو خد اتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں پرے ہٹا دیتا ہے اور اس اصل مرکز سے جو حقیقی راحت کا مرکز ہے۔ہٹ اجتا ہے،اس لیے تکلیف کا آنا اس حالت میں اس پر ضروری ہے۔
Amira 7-7-05
یہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ انبیاء اور راستباز پر بھی بعض اوقات بلائیں آجاتی ہیں اور مصائب اور شدائد میں ڈالے جاتے ہیں لیکن یہ گمان کرنا کہ وہ مصائب اور بلائیں کسی گناہ کی وجہ سے آتی ہیں۔خطر ناک غلطی اور گناہ ہے۔ان بلائوں میں جو خدا کے راستبازوں اور پیارے بندوں پر آتی ہیں او ان بلائوں میں جو خدا تعالیٰ کے نفرمانوں اور خطاکاروں پر آتی ہیں زمین آسمان کا فرق ہے اس لیے کہ ان کے اسباب بھی مختلف ہیں۔نبیوں اور راستبازوں پر جو بلائیں آتی ہیں اُن میں ان کو ایک صبر جمیل دیا جاتا ہے جس سے وہ بلا اور مصیبت ان کے لیے مُدرِک الحَلَاوت ہو جاتی ہیں۔وہ اس سے لذت اُٹھاتے ہیں اور رحانی ترقیوں کے لیی ایک ذریعہ ہو جاتی ہیں۔کیونکہ ان کے درجات کی ترقی کے لیے ایسی بلاجوں کا آنا ضروری ہے جو ترقیات کے لیے زینہ کا کام دیتی ہیں۔جو شخص ان بلائوں میں نہیں پڑتا اور ان مصیبتوں کو نہیں اُٹھاتا وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کرسکتا۔
دنیا کے عام نظام میں بھی تکالیف اور مشقتوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں سے ہر ایسے شخص کو جو ترقی کا خواہاں ہے گذرنا پڑتا ہے،لیکن ان تکالیف اور شاقہ محنتوں میں باوجود تکالیف کے ایک لذت ہوتی ہے جو اُسے کشاں کشان آگے لیے جاتی ہے۔برخلاف اس کے وہ مصیبت اور تکالیف جو انسان کی اپنی بدکرداری کی وجہ سے اس پر آتی ہیں۔وہ مصیبت ہوتی ہے جس میں ایک درد اور سوزش ہوتی ہے،جو اس کی زندگی اس کے لیے وبالِ جان کر دیتی ہے وہ موت کو ترجیح دیتاہے مگر نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ مرکر بھی ختم نہیں ہوگا۔
غرض ان بلاجوں کے نزول میں ہمیشہ سے قانونِ قدرت یہی ہے کہ جو بلائیں شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں وہ الگ ہیں اور خد اکے راستبازوں اور پیغمبروں پر جو بلائیں آتی ہیں وہ ان کی ترقی درجات کے لیے ہوتی ہیں۔بعض جاہل جو اس راز کو نہیں سمجھتے وہ جب بلائوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو بجائے اس کے کہ اس بلا سے فائدہ اُٹھاویں اور کم از کم آئندہ کے لیے مفید سبق حاصل کریں اور اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا کریں کہہ دیتے ہیں کہ اگر ہم پر مصیبت آئی تو کیا ہوا نبیوں اور پیغمبروں پر بھی تو آجاتی ہیں؛ حالانکہ ان بلائوں کو انبیاء کی مشکلات اور مصائب سے کوئی نسبت ہی ہیں ۔جہالت بھی کیسی بُری مرض ہے کہ انسنا اس میں قیاس مع الفارق کر بیٹھتا ہے۔یہ بڑا دھوکہ واقع ہوت اہے جو انسان تمام انبیاء کی مشکلات کو عام لوگوں کی بلائوں پر حمل کرلیتا ہے۔
پس خوب یاد رکھو کہ جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے انبیاء اور دوسرے اخیار و ابرار کی بلائیں محبت کی راہ سے ہیں۔خدا تعالیٰ اُن کو ترقی دیتا جاتا ہے اور یہ بلائیں وسائل ترقی میں سے ہیں،لیکن جب مفسدوں پر آتی ہیں تو اﷲ تعالیٰ اُن کو اس عذاب سے تباہ کرنا چاہتا ہے۔وہ بلائیں ان کے استیصال اور نیست و نابود کرنے کا ذریعہ ہو جاتی ہیں۔یہ ایسا فرق ہے کہ دلائل کا محتاج نہیں ہے،کیونکہ جب اچھے آدمی جو اﷲ تعالیٰ کو مقدم کر لیتے ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کیوں کرتے ہیں۔بہشت اور دوزخ ان کے دل میں نہیں ہوتا اور نہ بہشت کی خواہش اور دوزخ کا ذکر اُن کو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کا محرک ہوتا ہے بلکہ وہ طبعی جوش اور طبعی محبت سے اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے اور اس کی اطاعت میں محو ہوتے ہیں۔ان پر جب کوئی بلا آتی ہے تو وہ خود محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ از راہِ محبت ہے۔وہ دیکھتے ہیں کہ ان بلائوں کے ذریعہ ایک چشمہ کھولا جاتا ہے جس سے وہ سیراب ہوتے ہیں اور ان کا دل لذت سے بھر جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی محبت ایک فوارہ کی طرح جوش مارنے لگ جاتی ہے۔تب وہ چاہتے ہیں کہ یہ بلا زیادہ ہو تا کہ قربِ الٰہی زیادہ ہو اور رضا کے مدارج جولد طے ہوں۔غرض الفاظ وفا نہیں کرتے جو اس لذت کو بیان کر سکیں جو اخیار و ابرار کو ان بلائوں کے ذریعہ آتی ہے۔یہ لذت تمام سفلی لذتوں سے بڑھی ہوئی ہے اور فوق الفوق لذت ہوتی ہے۔یہ مصیبت کیا ہے۔ایک عظیم الشان دعوت ہے جس میں قسم قسم کے انعام و اکرام اور پھل اور میوے پیش کیے جاتے ہیں۔خدا اس وقت قریب ہوتا ہے۔فرشتے ان سے مصافحہ کرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ کے مکالمہ کا شرف عطا کیا جاتا ہے اور وحی اور الہام سے اس کو تسلی اور سکینت دی جاتی ہے۔لوگوں کی نظر میں یہ بلائوں اور مصیبتوں کا وقت ہے مگر دراصل اس وقت اﷲ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض کی بارش کا وقت ہوتا ہے۔سفلی اور سطحی خیال کے لوگ اس کو سمجھ نہیں سکتے۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ بلائوں اور غموں ہی کا وقت ہے جس میں مزا آتا ہے اور راحت ملتی ہے کیونکہ خدا جو انسان کا اصل مقصود ہے۔اس وقت اپنے بندے کے بہت ہی قریب ہوتا ہے ۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن جو دیا گیا ہے ۔غم کی حالت میں دیا گیا ہے۔پس تم بھی اس کو غم کی حالت میں پڑھو۔
غرض میں کہانتک بیان کروں کہ ان بلائوں میں کیا لذت اور مزا ہوت اہے اور عاشق صادق کہانتک ان سے محفوظ ہوت اہے۔مختصر طور پر یاد رکھو کہ ان بلائوں کا پھل اور نتیجہ جو ابرار اور اخیار پر آتی ہیں جنت اور ترقی درجات ہے ار وہ بلائیں ارو غم جو مفسدوں اور شریروں پر آتے ہیں۔ان کی وجہ شامتِ اعمال اور تاریک زندگی ہے اور اس کا نتیجہ جہنم اور عذابِ الٰہی ہے۔پس جو شخص آگ کے پاس جاتا ہے ضرور ہے کہ وہ اس کی سوزش سے حصہ لے اور اسے محسوس کرے اور اُسے دُکھ پہنچے۔لیکن جو ایک باغ میں جاتا ہے۔یقینی امر ہے کہ اس کے پھلوں اور پھولوں کی خوشبو سے اور اس خوبصورت نظازہ کے مشاہدہ سے لذت پاوے۔
شامتِ اعمال کی وجہ سے آنیوالی بلائوں کا علاج
اب واضح رہے کہ جس حال میں وہ بلائیں جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں۔اور جن کا نتیجہ جہنمی زنگی اور عذابِ الٰہی ہے ان بلائوں سے جو ترقی درجات کے طور پر اخیار و ابرار کو آتی ہیں الگ ہیں۔کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے جو انسان اس عذاب سے نجات پاوے۔ہان اس عذاب اور دُکھ سے رہائی کی بجز اس کے کوئی تجویز اور علاج نہیں ہے کہ انسان سچے دل سے توبہ کرے۔جبتک سچی توبہ نہیں کرتا،یہ بلائیں جو عذابِ الٰہی کے رنگ میں آتی ہیں اس کا پیچھانہیں چھوڑ سکتی،کیونکہ اﷲ تعالیٰ اپنے قانون کو نہیں بدلتا جو اس بارے میں اس نے مقرر فرما دیا ہے۔
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما بانفسہم (ارعد : ۱۲)
یعنی جبتک کوئی قوم اپنی حالت میں تبدیلی پیدا نہیں کرتی۔اﷲ تعالیٰ بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔
اﷲ تعالیٰ ایک تبدیلی چاہتا ہے اور وہ پاگیزہ تبدیلی ہے۔جبتک وہ تبدیلی نہ ہو عذابِ الٰہی سے رستگاری اور مخلصی نہیں ملتی۔یہ اﷲ تعالیٰ کا ایک قانون اور سنت ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہی یہ فیصلہ کر دیا ہے۔
ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا (الاحزاب : ۶۳)
سنت اﷲ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔پس جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کیلئے تبدیلی ہو یعنی وہ ان عذابوں اور دُکھوں سے رہائی پائے جو شامتِ اعمال نے ا سکے لیے تایر کئے ہیں۔اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے۔جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما با نفسہم
میںکیا ہے۔اسکے عذاب اور دُکھ کو بدلادیتا ہے اور دُکھ کو سُکھ سے تبدیل کر دیت اہے۔جب انسان کے اندر تبدیلی کرتا ہے، تو اسکے لیے ضرور نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو بھی دکھاتا پھرے۔وہ رحیم کریم خدا جو دلوں کا مالک ہے۔اس کی تبدیلی کو دیکھ لیتا ہے کہ یہ پہلا انسان نہیں ہے اس لئے وہ اس پر فضل کرتا ہے۔تذکرۃ الولیاء میں لکھا ہے کہ ایک شخص نماز روزہ اور دوسرے اشغال اذکار سے ریا کرتا تھا کہ لوگ اسے ولی سمجھیں۔لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام لوگ اُسے ریاکار سمجھے تھے۔یہان تک کہ بچے بھی جس راستہ سے وہ گذرتا تھا ا سکو ریا کار اور فریبی کہا کرتے تھے۔ایک وقت تک اس کی حالت ایسی ہی رہی۔آخر اُس نے سوچاکہ اس طریق سے کوئی فائدہ تو نہیں ہوا،بلکہ حالت بد تر ہی ہوئی ہے اس لیے اس کوچھوڑ دینا چاہیے۔پس اس نے چھوڑ دیا اور ملامتی فرقہ کا سا طریق اختیار کر لیا۔مسلمانوں میں ملامتی ایک فرقہ ہے جو اپنی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور بدیوں کو ظاہر کرتا ہے تاکہ لوگ انہیں برا کہیں۔اسی طرح پر وہ اپنی نیکیوں کو چھپانے لگا اور اندر ہی اندر اﷲ تعالیٰ سے سچی محبت کرنے لگا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لکھا ہے کہ جس کوچہ سے گذرتا عام لوگ اور بچے بھی اُسے کہتے کہ بڑا نیک ہے۔ولی ہے۔بزرگ ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرنا مُشک اور عطر کی طرح ہے جو کسی طرح سے چھُپ نہیں سکتا۔یہی تاثیریں ہیں سچی توبہ میں۔جب انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے پہلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔پھر اُسے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔خدا اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے اور وہ تقدیر جو شامتِ اعمال سے اس کے لیے مقرر ہوئی ہے،دور کی اجتی ہے۔اس امر کے دلائل بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ انسان اپنی اس مختصر زندگی میں بلائوں سے محفوظ رہنے کا کس قدر محتاج ہے اور چاہتاہے کہ ان بلائوں اور وبئوں سے محفوظ رہے جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں ارو یہ ساری باتیں سچی توبہ سے حاصل ہوتی ہیں۔پس توبہ کے فوائد میں سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کا حافظ اور نگران ہو جاتا ہے۔اور ساری بلائوں کو خد ادور کر دیتاہے اور اُن منصوبوں سے جو دشمن اس کے لیے تیار کرتے ہیں اُن سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کا یہ فضل اور برکت کسی سے خاص نہیں بلکہ جس قدر بندے ہیں خدا تعالیٰ کے ہی ہیں۔اس لیے ہر ایک شخص جو اُس کی طرف آتا ہے اور اس کے احکام اور اوامر کی پیروی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ہوگا جیسے پہلا شخص توبہ کر چکا ہے۔وہ ہر ایک سچے توبہ کرنے والے کو بلائوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔پس یہ توبہ جو آج اس وقت کی گئی ہے یہ مبارک اور عید کا دن ہے۔اور یہ عید ایسی عید ہے جو کبھی میسر نہیں آئی ہوگی۔ایسا نہ ہو کہ تھوڑے سے خیال سے ماتم کا دن بنادو۔عید کے دن اگر ماتم ہو تو کیسا غم ہوگا ہے کہ دوسرے خوش ہوں اور اس کے گھر ماتم ہو۔موت تو سب کو نا گوار معلوم ہوتی ہے۔لیکن جس کے گھر عید کے دن موت ہو وہ کس قدر ناخوشگوار ہوگی۔
قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان ایک نعمت کی قدر نہیں کرتا وہ ضائع ہو جاتی ہے۔دیکھو جن چیزوں کی تم قدرکرتے ہو اُن کو صندوقوں میں بڑی حفاظت سے رکھتے ہو۔اگر ایسا نہ کرو تو وہ ضائع ہو جاتی ہے۔اسی طرح اس مال کا جو ایمان کا مال ہے چورشیطان ہے۔اگر اس کو بچا کر دل کے صندوقوں میں احتیاط سے نہ رکھو گے توچور آئے گا اور لے جائے گا۔یہ چور بہت ہی خطرناک ہے۔دوسرے چور اندھیری راتوں میں آکر نقب لگاتے ہیں وہ اکثر پکڑے اجتے ہیں اور طزا پاتے ہیں۔لیکن یہ چور ایسا ہے کہ اس کی خبر نہیں ہوتی اور نہ کبھی پکڑا جائے گا۔یہ اس وقت آتا ہے جب گناہ کی تاریکی پھیل جاتی ہے۔کیونکہ چور اور روشنی میں دشمنی ہے۔جب انسان اپنا منہ خد اکی طرف رکھتا ہے اور اسی کی طرف رجوع اور توجہ کرتا ہے تو وہ روشنی میں ہوتا ہے۔اور شیطان کو کوئی موقعہ اپنی دستبردکا نہیں ملتا۔
پس کوشش کرو کہ تمہارے ہاتھوں میں ہمیشہ روشنی رہے۔اگر غفلت بڑھ گئی تو یہ چور آئے گا اور سارا اندوختہ لے جائے گا اور برباد ہو جائو گے۔اس لیے ان اندوختہ کو احتیاط اور اپنی راستبازی اور تقویٰ کے ہتھیاروں سے محفوظ رکھو۔یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے ضائع نوہے سے کچھ حرج نہ ہو بلکہ اگر یہ اندوختہ جاتا رہا تو ہلاکت ہے اور ہمیشہ کی زندگی سے محروم ہو جائوگے۔
تنبیہ و اِنذار
یاد رکھو۔یہ طاعون کے دن ہیں۔معلوم نہیں۔ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے شروع میں کیا ہو۔جہانتک خد انے مجھ پر ظاہر کیا ہے میں دیکھتا ہوں کہ بہت خطرناک دن آنیوالے ہیں۔اس لیے ہر ایک شخص جو چاہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہے وہ اسی وقت سے تیاری کرے۔جبتک غضبِ الٰہی نازل نہیں ہوتا اور اس کے آثار نمودار نہیں ہوتے۔تو ہر شخص واجب الرحم ہوت اہے لیکن جب آثار نمودار ہو جاویں پھر عذاب نہیں ٹلتا۔بہت سے لوگ بیباک اور جرأت کرنے والے ہوتے ہیں۔وہ شوخی سے کہہ دیتے ہیں کہ صدہا وبائیں بلائیں اور ہیضے وغیرہ آتے ہیں۔ بھی ہے،لیکن یہ اُن کی بد بختی اور شقاوت یہ جو ایسی جرأت پیدا ہوتی ہے وہ نہیں جاتنے کہ یہ بُرے دنوں کی نشانی ہے۔جب بلائیں دنیا میں آتی ہے اور دنیا کو تباہ کرتی ہیں تو شامتِ اعمال سے ہی آتی ہیں۔ہمیشہ سے گناہ ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ ان صورتوں میں ہی عذاب اور بلاآئی ہے اور ان گناہوں کے بدلے میں طزا دی گئی ہے ۔پھر یہ شوخی اچھی نہیں۔اس کا نتیجہ بہت ہی بُرا ہے۔یہ وقت تو ایسا ہے کہ خدا سے صلح کرو اور پاک تبدیلی کرو نہ یہ کہ شوخی و شرارت سے پیش آئو۔
یاد رکھو یہ طاعون ایک خطرناک عذابِ الٰہی ہے جو اس وقت نازل ہوا ہے اس کو حقیر مت سمجھو۔اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔اﷲ تعالیٰ کی کتابوں میں یہ ایک نشان مقرر کیا گیا ہے۔اﷲ تعالیٰ کے نشانوں کو جو شخص حقارت سے دیکھتا ہے وہ نقصان اُٹھاتا ہے۔میں کھول کھول کر بیان کرتا ہوں کہ اس عذاب سے مخلصی کے لیے سچی توبہ اور پاک تبدیلی کی ضرورت ہے اور بجز اسکے چارہ نہیں۔پس اسی وقت سے اس کے لیے تیاری کرو۔شوخیوں اور شرارتوں سے باز آجائو۔
مسیح موعود کے زمانہ کے دوبڑے نشان
میں یہ بات بھی بیان کرنی چاہتا ہوں کہ مسیح موعود کے زمانہ کے بہت سے نشانوں میں سے دو بڑے نشان ہیں جن میںسے ایک آسمان پر ظاہر ہوگا اور دوسرا زمین پر۔
آسمان کا نشان تو یہ تھا کہ اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں مقرر تاریخوں پر سورج اور چاند گرہن ہوگا؛ چنانچہ کئی سال گذرے یہ نشن پورا ہو گیا اور نہ صرف اس ملک میں بلکہ دوسری مرتبہ امریکہ میں بھی پوراہو۔
دوسرا نشان یہی طاعون کا نشان تھا جو زمینی ہے۔یہ نشان بدن پر لرزہ ڈال دینے والا نشان ہے ۔کئی سال سے یہ بلا اس مُلک میں نازل ہو رہی ہے مگر میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ ابھی تک غفلت اور بدمستی اسی طرح ترقی پر ہے۔میں جاتنا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کی کتابوں سے معلوم ہے کہ آخر اس طاعون کی اس قدر شدت ہو اجئے گی کہ دس میں سے سات مر جائیں گے اور بعض بستیاں بالکل تباہ اور برباد ہو جائیں گی۔جہانتک اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ ابھی بہت خطرناک دن آنے والے ہیں۔اس لیی میں ہر ایک کو جو سنتا ہے کہتا ہوں کہ دیکھو اس وقت ہر ایک نفس کو چاہیے کہ اپنے نفس، اپنے بیوی بچوں اور دوستوں پر رحم کرے۔میں خوب جاتنا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر اپنا فضل کر دیتا ہے اور یہ عذاب ٹل سکتا ہے۔پس چاہیے کہ ہر شخص کوشش کرے اور سچی توبہ ارو پاک تبدیلی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے دعائیں مانگے۔
ایک اعتراض کا جواب
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارے سلسلہ میں بھی بعض آدمی طاعون سے مر گئے ہیں۔ایسے معترضین کو یاد رکھنا چاہیے کہ موت تو ہر نفس کے لیے مقرر ہے اور یاک نہ ایک دن ب کو مر جانا ہے اور طاعون سے صحابہؓ میں سے بھی بعض شہید ہو گئے تھے۔غرض موت سے تو چارہ نہیں۔امیر۔غریب،ہندو،مسلمان،زن ومرد سب مرتے ہیں۔لیکن کسی موت پر اتنا رحم نہیں آتا جیسا اس موت پر کہ گھر کا گھر تباہ ہو جائے اور قُفل لگ جاوے۔اس لیے اول نسبت قائم کرو کہ ایسی موتیں کن لوگوں میں ہوئی ہیں۔
اس کے سوا یہ بھی یاد رکھو کہ ہماری جماعت میں داخل ہونے والوں کا صحیح علم کہ ان کے ایمان کس درجہ تک ہیں اﷲ تعالیٰ ہی کو ہے۔اب دو لاکھ سے بھی زیادہ جماعت ہے ہمیں علم نہیں کہ کس حد تک کس کا ایمان ہے؛ البتہ قیاسی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض کامل الایمان ہیں اور بعض اوسط درجہ کا ایمان رکھتے ہیں اور بعض ابھی ناقص درجہ پر ہیں۔
مومنوں کے تین درجے
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
منہم ظالم لنفسہ ومہھم مقتصد و منہم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳)
یعنی تین قسم کے مومن ہوتے ہیں۔ایک تو ظالم لنفسہ ہیں۔ان میں گناہ کی آلائش موجود ہوتی ہے۔بعض میانہ رو اور بعض سرا سر نیک ہیں۔اب ہمیں کیا معلوم ہے کہ کون کس درجہ اور مقام پر ہے۔ہر ایک شخص کا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ الگ معاملہ ہے۔جیسا کوئی اس سے تعلق رکھتا ہے ویسا ہی وہ اس سے معاملہ کرتا ہے۔جو لوگ کامل الایمان ہیں۔میں یقین رکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اُسے امتیاز دے گا،کیونکہ مومن اور کافر کے درمیان ایک فرقان رکھا جاتا ہے۔
Amira 9-7-05
قرآن شریف میں مومن سے یہ مراد نہیں ہے کہ صرف زبان تک ہی اس کی قیل و قاسل محدود ہوا ور صبح وہ ایمان کا کام کرے،تو شام کو کفر کا کرے۔ایک لقمہ وہ تریاق کا کھالیتا ہے تو دوسرا زہر کا بھی کھالیتا ہے۔ایسے شخص کو وہ فرقان اور امتیاز جو مومن کے لیے مقرر کیاگیا ہے نہیں دیا جاتا۔تم خود ہی سوچ لو کہ وہ مریض جو پرہیز نہیں کرتا ہے وہ خواہ اس کو کیسے ہی شفا بخش نسخے دیئے جاوین اور کتنے ہی مجرب کیوں نہ ہوں۔لیکن اگر وہ پرہیز نہیں کرتا تو وہ نسخے اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
پس یہی حال بیعت کا ہے ۔اگر کوئی شخص بیعت تو کرتا ہے، لیکن شرائط بیعت کو پورا نہیں کرتا اور اپنے اندر پاک تبدیلی جو بیعت کا اصل مقصد ہے نہیں کرتا وہ اپنے لیے وبالِ جان ہو جاتا ہے۔ہاں کامل الایمان اکسیر ہے۔اس کے ساتھ فرقان رکھا جاتا ہے۔اگر یہ امتیاز نہ ہوتا تو دنیا تباہ ہو جاتی اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان مشکل ہو جاتا۔اس قسم کے نشانوں سے ہی اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان پیدا ہوتا ہے۔
احمدی جماعت اور طاعون
اب میں پھر اس اعتراض کی طرف توجہ کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے بعض آدمی طاعون س مرے ہیں۔اس بات کوخوب غورس ے یاد رکھو کہ صحابہؓ میں سے جو بعض طاعون سے شہید ہوئے وہ اُن کے لیے عذاب نہ تھی بلکہ صحابہؓ کا گروہ بڑھا اور ان کے لیے موجبِ شہادت ہوئی۔دوسروں کے لیے وہی طاعون تباہی اور بربادی کا باعث ہوئی یہی فرق ہے۔اگر کسی مومن کو طاعون ہو جاوے وہ اس کے لیے شہادت ہے اور دوسروں کے لیے تباہی کا موجب۔بایں ہمہ جیسا میں نے پہیل بیان کیا ہے۔مومن اور غیر مومن میں ایک امر فارق ہوتا ہے۔اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔مومن کے ساتھ ایسے معاملات ہوتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس کو ایک بیّن امتیاز عطا کرتا ہے اور اس کو تباہ کرنا نہیں چاہتا۔اسکی وہی مثال ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بھی مصیبت آتی ہے اور دوسروں پر بھی جو ان کے مخالف ہوتے ہیں انبیاء علیہم السلام بڑھتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں اور دوسرے تباہ اور ذلیل ہوتے ہیں۔پس دہریوں کی طرف دھوکا مت کھائو۔وہاں اور رنگ ہے، اور یہان اور رنگ ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی خوب غور سے سنو کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں لڑائیاں ہوتی تھیں اور وہ لڑائیاں عذاب کے رنگ میں تھیں،کیونکہ کافر بار بار سوال کرتے تھے کہ آپ ہمیں قہری نشان اور معجزہ دکھائو کہ ہم پر پتھر برسیں انکے بار بار کے سوالات پر ان کو وعدہ دیا گیاکہ میں قہری نشان دکھائوں گا اور وعدہ دیا گیا کہ وہ نشان تلوار کے ذریعہ ظاہر ہوگا۔اب صاف ثابت ہے کہ وہ عذاب کافروں کے واسطے تھا، مگر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ان جنگوں میں (جو قہری نشان کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے) صحابہؓ بھی شہید ہوئے۔اب کیا کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ صحابہؓ جو شہید ہوئے تھے معاذ اﷲ وہ تلوار اُن کے لیے بھی عذاب تھی؟ ہرگز نہیں بلکہ صحابہؓ کی شہادت تو قوم کی ترقی اور فتوخات کا باعث ہوئی۔صحابہؓ کی قوم بڑھی اور بالمقابل مخالفوں کا نام و نشان مٹ گیا اور ستیانا س ہو گیا۔اب کوئی پتہ دے سکتا ہے کہ ابو جہل کی اولاد کہاں ہے؟ اس کی بیخ کُنی ہو گئی۔یہی مثال سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
اسی طرح پر اس میں شک نہیں کہ طاعون عذاب کی صورت میں نازل ہوا ہے۔اور اگر ہماری جماعت میں سے بعض آدمی طاعون سے فوت ہوئے ہیں تو اس پر شور مچانا یا اعتراض کرنا دانشمندی نہیں ہے بلکہ غور طلب یہ امر قرار دینا چاہیے کہ طاعون سے نقصان کس کا ہوا۔اور فائدہ کس کو پہنچا؟ میں یقینا کہتا ہوں کہ جب طاعون شروع ہوئی ہے اس وقت میری جماعت کی تعداد بہت تھوڑی تھی،مگر اس وقت دو لاکھ سے بھی یہ جماعت بڑھی ہوئی ہے اور یہ ترقی طاعون کے سبب سے بھی ہوئی ہے۔طاعون نے میری جماعت کو بڑھایا ہے اور مخالفوں کو گھٹی اہے۔مجھے وعدہ دیا گیا تھا کہ طاعون تیری ترقی کا موجب ہوگی۔سو اس وعدہ کے موافق یہ جماعت بڑھ رہی ہے اور دو لاکھ تک بڑھی ہے،مگر مخالفوں کو تو دوہرا نقصان ہوا ہے۔کچھ اُن میں سے قبروں میں گئے اور کچھ ہمارے پاس آئے ہیں۔اگر ہمارا نقصان اس سے ہوت اتو یہ جماعت جو بہت ہی مختصر اور قلیل تھی بالکل تباہ ہو جاتی اور آج کوئی اس کو جاننے والا بھی نہ ہوتا۔ان واقعات کو مدِ نظر رکھ کر معترض کو چاہیے کہ دیکھے کیا یہ اعتراض کوئی شے ہے؟
طاعون کو خبر آج سے نہیں ۲۳ برس سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چی ہوئی ہے اور اس لیے یہ معمولی نظر سے دیکھنے کے قابل نہیں ہے، بلکہ یہ عظیم الشان قہری نشان ہے۔
غرض طاعون نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا بلکہ فائدہ ہی دیا ہے۔اس کے سات ہی میں یہ بھی ضرور کہتاہوں کہ ایمان کے طبقات ہیں۔جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔اس لیے ان طبقات کے لحاظ سے جو شخص کا مل الایمان ہے وہ نافع الناس وجود ہے۔تبلیغ دین کرنے والا ہے۔وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قدر ہے وہ طاعون سے ضرور بچایا جاوے گا۔بعض آدمی جن کی ایمانی حالت کمزور ہوتی ہے اور وہ اس درجہ پر نہ پہنچے ہوئے ہوں،جہاں اﷲ تعالیٰ کسی کو مومن کہت اہے اور ان کی ضرورت بھی کم ہو پھر ان میں سے اگر کوئی فوت ہو جاوے تو اس میں کیا حرج ہے۔میں یہ خوب جانت اہوں کہ ایمان کے درجات ہیں اور ہر درجہ پر برکت ملتی ہے،لیکن ان میں باہم فرق ضرور ہوتا ہے۔دیکھو اس وکت آفتاب کی روشنی ہے۔آنکھیں کھلی ہیں ہر ایک چیز دور و نزدیک کی صاف اور واضح نظر آتی ہے۔جب آفتاب کی سلطنت ختم ہو جائے گی تو رات آئے گی۔اس وقت عالم ہی اور ہوگا؛ اگر چہ اس وقت چاند یا ستاروں کی روشنی ہوگی مگر ان روشنیوں میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔ایسا ہی ایمان کے مراتب میں فرق صریح ہے۔ایمان بھی ایک روشنی ہے جس جس درجہ پر ایمان پہنچتا ہے اسی مرتبہ کے موافق روشنی اور پھل پاتا ہے جو چاہت اہے کہ عمر زیادہ ہو اور اس قہری نشان میں ایک امتیاز پیدا ہو کرے ا سکو لازم ہے کہ وہ کام الایمان ہو اور اپنے وجود کو قابل قدر بناوے اور اس کی یہی صورت ہے کہ لوگوں کو نفع پہنچاوے اور دین کی خدمت کرے؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
یہ خوب یاد رکھو کہ عمر کھانے پینے سے لمبی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی اصل راہ وہی ہے جو میں نے بین کی ہے۔بہت سے لوگ ہیں جو صرف کھناے پینے کو ہی زندیگ کی غرض و غایت سمجھتے ہیں؛ حالانکہ زندگی کی یہ غرض نہیں۔سعدی کہتا ہے ؎
خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است
تو معتقد کہ زیستن از بہرِ خوردن است
جب انسان کا ایک اصول ہو جاوے کہ زیستن از بہر خوردن است۔اس وقت اس کی نظر خد اپر نہیں رہتی بلکہ وہ دنیا کے کاروبار اور تجارت ہی میں منہمک ہو جاتا ہے۔اور اﷲ تعالیٰ کی طرف توجہ اور رجوع کا خایل بھی نہیں رہتا۔اس وکت اس کی زندگی قابل قدر وجود نہیں ہوتی۔ایسے لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
قل ما یعبو ابکم ربی لو لا دعاو کم (الفرقان : ۷۸)
یعنی میرا رب تمہاری پروا کیا رکھتا ہے۔اگر تم اس کی بندگی نہ کرو۔
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اس ملک میں ہیضہ کی خطرناک و با پڑی تھی۔اس سے پہیل اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ یہ نظارہ دکھایا تھا۔میں نے دیکھا کہ ایک بڑا میدان ہے اور اس میں ایک بہت بڑی لمبی نالی ہے۔جس پر قصابوں نے بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور چھریان اُن کی گردنون پر رکھی ہوئی ہیں۔وہ آسمان کی طرف منہ کرکے دیکھ رہے ہیں گویا آسمانی حکم کا انتظار کرتے ہیں ۔میں پاس ہی ٹہل رہا ہوں اتنے میں مَیںنے یہ آیت پڑھی
قل ما یعبو ابکم ربی لو لا دعاو کم (الفرقان : ۷۸)
یہ آیت سنتے ہی انہوں نے چھریاں پھیردیں اور وہ بھیڑیں تڑپنے لگیں۔اُن کو تڑپتے دیکھ کر وہ قصاب بولے کہ تم کیا ہو؟ گُوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔غرض اس کے بعد ہیضہ کی وہ خطرناک وبا پڑی۔پس جو انسان خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتا اس کا رتبہا اور قدر نجاست خود بھیڑ سے زیادہ نہیں ہوتا۔
(بدر ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۴ء-الحکم ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۴ء)
دلائل ِ صداقت
بالاآخر میں پھر کہان چاہت اہوں کہ میری نسبت جو مخالف لگو مخالفت کرتے ہیں اور میرا انکارکرتے ہیں ۔اگر وہ دعائیں کرتے اور خدا تعالیٰ سے میری نسبت کشفِ حقائق چاہتے تو اُن کی آنکھیں کُھل جاتیں،مگر افسوس ہے کہ انہوں نے مخالفت میں حد سے زیادہ حصہ لیا اور میرے دعاوی پر نہ غور کی اور نہ میری کتابوں کو پڑھا اور نہ میری باتوں کو تعصب سے خالی ہو کر سنا۔وہ مجھے دجال اور مفتری تو کہتے ہیں،مگر وہ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ کیا دجال اور مفتری بھی اس قدم کی کامیابی حاصل کیا کرتے ہیں؟ یاد رکھو کہ اگر یہ انسن کا اپنا سلسلہ ہوت اتو کبھی ک تبعاہ ہو جاتا،کیونکہ اس کے تبہ کرنے میں ہر طرف سے مخالفانہ کوشش ہو رہی ہے اور جب خدا تعالیٰ کے بھی خلاف ہوتا تو وہ بھی اس کا دشمن تھا۔پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بجائے تباہ ہوین کے ترقی کر رہا یہ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ خد اکی طرف سے ہے انسانی کاروبار نہیں ہے۔تم جانتے ہو کہ میرا یہ دعویٰ آج نہیں ہوا ہے بلکہ چوبیس سال سے میں دعویٰ کر رہا ہوں کہ خد اتعالیٰ میرے ساتھ ہمکلام ہوتا ہے اور اس نے مجھے مامور کیا ہے۔
انسانی گورنمنٹ میں اگر کوئی شخص جھوٹا ملازم سرکار بنے تو وہ فوراً پکڑا اجتا ہے۔اور طزا پاتا ہے۔تو یہ کیسا اندھیر ہے کہ خدا تعالیٰ کی گورنمنٹ میں ایک شخص مامور ہونے کا مدعی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ پکڑا جاتا اور تباہ کیا جاتا،اُسے ترقی مل رہی ہے کوئی بتاوے کیا جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوت اہے۔براہینِ احمدیہ چھپی ہوئی موجد ہے۔اس شہر میں اس کے بہت سے نسخے ہوں گے۔اس کو پڑھو اور دیکھو کہ جو کچھ اس میں درج ہے کیا آج بہت سے باتیں ان میں پوری نہیں ہوچکیں؟ اور کیا کوئی منصوبہ باز کر سکتا ہے کہ اس قدر عرصہ دراز پہلے جبکہ اپنی زندیگ کا بھی اعتبار نہیں ہوتا ایک بات کہے اور پھر اتنے عرصہ کے بعد جس میں ایک بچہ پید اہو کر بھی صاحب اولاد ہو سکت اہے وہ پوری جو جاوے۔میں جانتا ہوں کہ اسی شہر میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں مجھے جاننے والے کتنے تھے۔میں سچ کہتا ہوں کہ میں ایک گمنامی کی حالت میں تھا۔سال بھر میں بھی کبھی ایک خط نہ آتا تھا،لیکن اس گمنامی کے زمانہ میں علیم و خیبر خدا نے مجھے خبر دی جو براہینِ احمدیہ میں موجود ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ فوج در فوج لوگ تیرے پاس آئیں گے۔میں لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لائوں گا اور مالی نصرتیں بھی آئیں گی اور دنیا میں تیری شہرت ہو جائے گی جیسے لکھا ہے
Amira 10-7-05
فحان ان تعان وتعرف بین الناس
اور پھر فرمایا
یاتون من کل فج عمیق
اور
یا تیک من کل فج عمیق
اور پھر فرمایا
لا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس
یعنی اب وقت آگیا ہے کہ تو لوگوں میں شناخت کیا جاوے اور تیری مدد کی جاوے۔تیرے پاس دور دور راہوں سے لوگ آئیں گے اور دور دراز جگہوں سے تجھے تحائف اور مالی نصرتیں آئیں گی۔
اور پھر فرمایا کہ تیرے پاس کثرت سے مخلوق آئے گی،اس لیے تو تحمل سے ان کو قبول کرنا اور ان کی کثرت سے تھک نہ جانا۔
غرض اس قسم کے بہت سے الہامات ہیں جو نہ صرف عربی زبان میں ہوئے بلکہ فارسی میں ہوئے۔اردو میں ہوئے اور انگریزی میں بھی ہوئے جس کو میں جانتا بھی نہیں اور ایک لمبا سلسلہ ان الہامات اور پیشگوئیوں کا چلا گیا ہے اور جہاں براہین ختم ہوتی ہے وہاں یہ الہام ہوا:
’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا پر خدا
اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کریگا‘‘
مجھے حیرت آتی ہے جب میں ان لوگوں کے منہ سے سنتا ہوں کہ کوئی نشان دکھائو۔ان نشانات پروہ غور نہیں کرتے اور ان کو حقیر سمجھتے ہین افسوس! اور اور نشان مانگتے ہیں۔میں یقین کرتا ہوں کہ خد اتعالیٰ قادر ہے۔وہ نشان پر نشان دکھا رہا ہے،لیکن یہ دانشمندی اور تقویٰ کا طریق نہیں ہے کہ پہلے نشانوں کو چھوڑ دیا جائے۔ان نشانوں کو سر سری نظر سے نہ دیکھو۔مولوی محمد حسین صاحب وہ شخص ہیں کہ ان سے بڑھ کر کسی نے عداوت کا نمبر نہیں لیا۔اُنہوں نے بنارس تک پھر کر کفر کا فتویٰ حاصل کیا۔اور ہر قسم کی مخالفت میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اب باوجود اس مخالفت کے اس کو قسم دیکر پوچھو کہ جب تم نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا اور یہ پیشگوئیاں اور نشان اس میں موجود تھے۔اس وقت ہمارا کیا حال تھا۔کہانتک میری شہرت تھی اور کس قدر لوگوں کو تعلق تھا۔اور کیا اب ان لہامات کے موافق یہ نسانات جو پورے ہوئے ہیں آپ بنائے گئے ہیں؟اس وقت موجود تھے یا نہیں؟اور انہوں انے پڑھے تھے یا نہیں, اگر پڑھے تھے تو پھر سچ سچ کہو کہ ایسے زمانہ میں جب یہ دعا سکھاتا ہے
رب لا تذرنی فرد اوانت خیر الوارثین (الانبیاء : ۹۰)
اور اس میں آپ گواہی دیتا ہے کہ میں اکیلا ہوں۔وہ الہامات جو جماعت کی ترقی اور میری قبولیت کے متعلق ہیں عظیم الشان نشان ہیں یا نہیں؟ اگر تعصب اور سخت دل مانع نہ ہو تو اقرار کرانا پڑے گا۔
پھراسی براہین میں یہ بھی موجود ہے کہ علماء مخالفت کریں گے کہ ترقی نہ ہو،لیکن میں ترقی دوں گا۔اور پھر سب لوگ جانتے ہیں اور ہر روز دیکھتے ہیں کہ کس قدر مخالفت ہو رہی ہے۔اور کیا اس مخالفت سے یہ سلسلہ رُک گیا یا اس نے ترقی کی؟ اگر کوئی ایسی نظیر دنیا میں موجود ہے اور کوئی شخص ایسی کتاب پیش کر سکتاہے جس میں ایک عرصہ پہلے ایسی پیشگوئیاں درج ہوں اور وہ پوری ہوئی ہوں۔یقینا یاد رکھو کہ کہ کسی مفتری اور کذاب سے ایسا سلوک نہیں کیا جاتا اور اس قدر مہلکت اور فرصت اسے نہیں دی جاتی۔اگر کوئی ایسا مفتری یا کذاب پیش کای جاوے تو ہم قبول کرلیں گے۔پھر ایسی مخالفت کے متعلق یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ ہر مخالفت کرنے والا اپنے منصوبوں اور تجویزوں میں ناکام اور نامراد رہے گا۔خواہ وہ مولوی ہو یا فقیر ہو یا امیر ہو کوئی ہو۔اور اب تک واقعات نے اس امر کو سچا ثابت کر دکھایا ہے اورمیں کھلے دل سے بیان کرتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں اور ان مکالمات پر جو میرے ساتھ ہوتے ہیں ایسا ہی یقین رکھتا ہوں جیس اکہ خد اکی دوسری کتابوں پر ایمان لاتا ہوں۔اس نے یہ بھی مجھے فرمایا ہے کہ میں تجھے بہت برکت دوں گ یہانتک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔وہ زمانہ خواہ کبھی آنے والا ہو،لیکن میںیقین رکھتا ہوں کہ اسی طرح ہوگا۔اس زمانہ کے لوگ دیکھیں گے یا اُن کے بیٹے یا اُن کے بیٹے ۔غرض یہ ہوگا ضرور۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایک نقطہ یا شوشہ نہ ٹلے گا۔
غرض یہ نشانات ہیں جن پر غور کرنا چاہیے اور ٹھنڈے دل سے سوچو کہ مفتری کو یہ تائیدیں نہیں ملا کرتیں۔پھر بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نشانات کو کیا کریں قرآنِ شریف کے خلاف مسائل پیش کیے جاتے ہیں۔مجھے ایسا کہنے والوں پر بھی افسوس آتا ہے کہ اگر اُن کا قرآنِ شریف پر ایمان ہوتا تو ہرگز ایسی بات نہ کہتے،کیونکہ ہم نے بارہ ظاہر کیا ہے۔اور کتابوں میں شائع کیا ہے کہ ہم قرآنِ شریف پر ایمان لاتے ہیں۔اگر کوئی شخص ایک آیت کا بھی انکار کرے وہ گمراہ اور جہنمی ہے جو آنحضرت ﷺ کا انکار کرے وہ کافر ہے مگر کیا کروں یہ لوگ بنی اسرائیل کی طرف جنہوں نے آنحضرت ﷺ کا انکار کیا نہیں مانتے اور انکار کرتے ہیں۔مُجھ میں اور ان میں یہی اختلاف یہ کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آیت
یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی (ال عمران : ۵۶)
کی ترتیب جو قرآن شریف میں ہے صحیح نہیں ہے مگرمیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی نسبت ایسا اعتقاد رکھنا یا گمان کرنا خطرناک بے ادبی اور شوخی ہے۔میں کہتا ہوں کہ اس آیت کی ترتیب صحیح ہے اور اسی لیے اس کے یہ معنے ہیں ہ اے عیسیٰ میں تجھے وفت دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں۔مگر یہ لوگ ا س ترتیب کو غلط (معاذاﷲ ) ٹھہراتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ رافعک الی کی جگہ رافعک الی السماء الثانیۃ چاہیے اور اس کے بعد متوفیک چاہیے۔گویا کہ ان کے اعتقاد کے موافق خد تعالیٰ کو غلطی لگی۔اس نے کہنا تو یہ تھا کہ یا عیسیٰ انی رافعک الی السماء الثانیۃ و متوفیک اور کہہ دیا یہ جو آیت میں درج ہے۔
اب میں قرآن کو چھوڑتا ہوں اور اس کے خلاف کہتا ہوں یا یہ خو د کرتے اور کہتے ہیں۔انصاف سے بولو اگر یہ تحریف نہیں تو کیا ہے۔اسی پر مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن کے خلاف یہ۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قرآن کی تحریف ہے جس سے یہودیوں پر *** پڑی اور وہ سؤر اور بندر بنے۔یہودی جو تحریف کرتے تھے۔ان کے متعلق بھی یہی فرمایا ہے
یحرفون الکلم عن مواضعہ (النساء : ۴۷)
اور جب تم بھی اسی قسم کی تحریف کرتے ہو تو قرآنِ شریف پر تمہارا اچھا ایمان یہ۔میں زور سے کہتا ہوں کہ کیا وہ دل خدا ترس ہے اور میں تقویٰ کا حصہ ہے جو خدا تعالیٰ کے کلام میں تصرف کرنا چاہتا ہے۔اگر تم سچے ہو اور تحریف نہیں کرتے تو پھر وہ حدیث صحیح پیش کرو جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہو کہ رافعک الی کی بجائے رافعک الی السماء الثانیۃ چاہیے اور یہ متوفی سے پہلے ہے۔قرآنِ شریف میں جو لکھ اہوا ہے وہ غلط ہے۔تم سُن رکھو کہ ہرگز ہرگز کوئی شخص ایسی حدیث صحیح پیش کرنے پر قادر نہ ہوگا۔
جس قدر صاحب یہاں موجود ہیں آخر ہوش وحواس رکھتے ہیں وہ انصاف سے کہیں کہ اگر کوئی شخص تمسک کو الٹ پلٹ کرتا ہے تو وہ جعلسازی کامرتکب ہوت اہے یا نہیں اور وہ اس جعلسازی کی سزا میں جیل میں بھیجا جاتا ہے۔پھر یہ اندھیر کیوں روارکھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو اُلٹ پلٹ کیا جاوے۔خد اسے ڈرو یہ بہت خطرناک دلیری ہے۔ہاں اگر صحیحین میں کوئی حدیث درج ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس طرح پر فرمایا ہے تو پیش کرو ہم مان لیں گے۔لیکن اگر تم پیش نہ کرو اور نہیں کر سکو گے تو یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ خود کہہ دو اور دوسری غلطیوں کو قرآن شریف کی ظرح بنالو۔ہم بار بار تم سے پوچھیں گے کہ بخاری یا مسلم میں دکائو کہ اس میں لکھا ہے کہ رافعک الی السماء الثانیۃ پڑھا کرو۔
دیکھو۔ان باتوں پر غور کرو۔میرا یہ مدعا نہیں کہ ہر ایک شخص محض اس وجہ سے کہ وہ میرے ساتھ عداوت رکھتا ہے اور تعصب نے اس کے جوش کو بڑھا دیا ہے بے اختیار بول اُٹھے۔اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں صرف خدا تعالیٰ کے لیے کہتا ہوں ۔انسان کی جھوٹی منطق کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔اس یے میں مقابلہ کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں،لیکن میں اپنے دل میں مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی کے لیے ایک جوش رکھتا ہوں جو اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے، اس لیے سچے دل سے کہت اہوں اور اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلمات سے مجھے خبر دی یہمت سمجھے کہ میں بیہودہ طور پر کرتا ہوں بلکہ سچ مچ یہی بات ہے۔پس جلد بازی نہ کرو کہ جلدی صحیح نتیجہ پر پہنچنے سے روک دیتی ہے۔میں جانت اہوں کہ بہت سے لوگ اپنے سیین اور دل کو تھام نہیں سکتے اور یہ مرض کثرت سے پھیل گیاہے کہ مخالفت کی وجہ سے حق بات پر بھی غور نہیں کرتے اور یونہی کوئی بات سنی منہ پر جھاگ آجاتی ہے اور پھر جو زبان پر آجاتا ہے کہہ دیتے ہیں۔مگر یاد رکھو یہ امر تقویٰ کے خلاف یہ ۔متقی کی زبان ڈرتی ہے کہ بغیر سوچے سمجھے کوئی بات منہ سے نکالے۔
میرا معاملہ اگر سمجھ میں نہیں آتا تو طریقِ تقویٰ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے دعائیں مانگو تا کہ وہ خود تم پر اصل حقیقت کھول دے۔خدا تعالیٰ کے کلام کی بے حرمتی نہ کرو؛ ورنہ طریقِ نجات بھول جانے کا اندیشہ ہے۔آج وقت ہے بصیرت سے کام لو۔
قرآنِ شریف قانونِ آسمانی اور نجات کا ذریعہ ہے۔اگر ہم اس میں تبدیلی کریں تو یہ بہت ہی سخت گناہ ہے۔تعجب ہوگا کہ ہم یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور پھر قرآنِ شریف کے لیے وہی روارکھتے ہیں۔مجھے اور بھی افسوس اور تعجب آتا ہے کہ وہ عیسائی جن کی کتابیں فی الواقعہ محرف مبدل ہیں وہ تو کوشش کریں کہ تحریف ثابت نہ ہو اور ہم خود تحریف کرنے کی فکر میں!!!
دیکھو افتراء کرنے والا خبیث اور موذی ہوت اہے اور خد اتعالیٰ کے کلام میں تحریف کرنا۔یہ بھی افتراء ہے اس سے بچو۔
عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا مسئلہ
غرض قرآنِ شریف کی یہ آیت صاف طور پر مسیح کی وفات کا وعدہ دیتی ہے اور جس قدر وعدے اس آیت میں رافعک الی سے شروع ہو کر آخر تک ہیں۔وہ ہمارے مخالف بھی مانتے ہیں کہ پورے ہو گئے حالانکہ وہ سب بعد وفات ہیں ۔پھر وفت کا انکار کیوں کیا جاتا ہے۔
علاوہ بریں آنحضرت ﷺ مُجزِ صادق ہیں جو مسلمان کہلا کر بھی آپ پر ایمان نہیں لاتا ارو آپؐ کو مخبرِ صادق تسلیم نہیں کرتا وہ بڑی بد ذاتی کرتا ہے ۔آپ نے تو فرمایا ہے کہ میں نے مسیح کو دوسرے آسمان پر یحییٰ کے پاس دیکھ اہے۔اب کیا یہ آنحضرت ﷺ کی شہادت ہے یا نہیں۔اگر حضرت عیسیٰ ؑدرحقیقت وفات یافتہ نہ تھے بلکہ زندہ تے تو پھر اس سوال کا کیا جاوب ہے کہ ایک وفات یافتہ سے کیا تعلق ہے؟ ان کی تو روح بھی ابھی قبض نہیں ہوئی تھی۔ادنیٰ فہم کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ مردے کے پاس تو مردہ ہی ہو سکت اہے۔پھر یہ کیا ہوا کہ مردہ کے پاس زندہ جا بیٹھا۔یہ صرف اپنی ہی غلطی ہے۔ورنہ سچ یہی ہے کہ حضرت مسیحؑ بھی مرکر ہی یحییٰ ؑکے پاس گئے ہیں۔جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے قول سے یعنی قرآنِ شریف سے اور آنحضرت ﷺ نے اپنے فعل یعنی رؤیت سے ثابت کر دیا ۔جو اس قول اور فعل کو نہیں مانتا اسے پھر میں کیا کہوں ۔ان دو گواہوں کے بعد اور کس گواہ کی حاجت ہے۔
Amira 12-7-05
پھر یہاں تک ہی بات نہیں۔خود حضرت مسیح ے کا تو صاف اقرار بھی موجود ہے اور اس آیت
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (المائدۃ : ۱۱۸)
سے تو اس سارے قضیہ کا فیصلہ ہی ہو جاتا ہے۔اس آیت سے پہلی آیتوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت مسیح ؑ سے قیامت کے دن سوال کرے گا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ میری ماں کو اور مجھ کو خدا بنالو۔حضرت عیسیٰ اپنی بریت میں عرض کریں گے کہ میری کیا مجال تھی جو میں ایسی تعلیم دیتا۔میں تو جب تک اُن میں رہا اُن کو تیری توحید ہی کی تعلیم دیت ارہا جو تونے مجھے دی تھی لیکن جب تو نے مجھ کو وفات دیدی پھر تو ان پر نگران تھا۔
اب غور کا مقام ہے کہ انی متوفیک میں جو وعدہ تھا وہ اس آیت فلما توفیتنی سے پورا ہوتا ہے۔
ماسوا اس کے یہ آیت حضرت مسیح ؑ کی موت اور ان کی دوبارہ آمد کے متعلق ایک فیصلہ کن آیت ہے اور یہ اس قرآن کی آیت ہے جس کا حرف حرف محفوظ ہے اور جس کی حفاظت کا ذمہ دار خود اﷲ تعالیٰ ہے جیس اکہ اس نے فرمایا
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
افسوس مسلمانوں نے اس کتاب کی قدر نہیں کی۔اس آیت میں حضرت مسیح ؑ نے اپنی بریت دو صورتوں سے کی ہے۔اول تو یہ کہ میری زندگی میں عیسائی نہیں بگڑے کیونکہ میں ان کو توحید کی تعلیم دیتا رہا۔دوم جب مجھے وفات دیدی مجھے کچھ خبر نہیں۔
اب غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت مسیح ابھی تک زندہ ہی ہیں۔تو صاحبو! پھر اُن کے اس اقرار کے موافق یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ابھی تک عیسائی بگڑے بھی نہیں اور جو تعلیم وہ پیش کرتے ہیں وہ صحیح ہے حالانکہ یہ واقعاتِ صحیح کے خلاف یہ۔عیسائی ضرور بگڑ چکے ہیں۔
صاحبو! اگر مسلمانوں کے اس خیالی عقیدہ زندہ آسمان پر جانے کو لے کر اور اس آیت کے موافق عیسائی مسلمانوں پر اعتراض کریں کہ ہماری تعلیم تمہارے اقرار کے موافق بگڑی نہیں ہے تو کیا جواب ہو سکت اہے۔کیونکہ یہ امر تو حضرت مسیحے کی زندگی سے وابستہ ہے اور زندگی تعلیم ہے تو ھپر دوسری تعلیموں کے انکار کے لیے کیا عذر یہ۔میں سچ کہتا ہوں کہ مسلمانوں کی خیر اسی میں ہے کہ وہ قرآن شریف پر ایمان لاویں اور وہ یہی ہے کہ مسیح ؑکی وفات پر ایمان لاویں۔
دوسری بات جو اس آیت میں فیصلہ کی گئی ہے وہ ان کی دوبارہ آمد کا مسئلہ یہ۔مسلمانوں میں غلطی سے یہ عقیدہ مشہور ہو گیا ہے جس کی کوئی اصل نہیں کہ وہی مسیح ابنِ مریم دوبارہ آسمان سے نازل ہوںگے اور چالیس برس تک اس دنیا میں رہیں گے۔صلیبوں کو توڑیں گے اور کافروں سے جنگ کریں گے۔وغیرہ وغیرہ۔
اب غور کا مقام ہے کہایک نبیٔ صادق کی نسبت یہ عقیدہ رکھنا کہ اس نے جھوٹ بولا یہ تو بے ایمانی ہے۔ایک شخص اگر عدالت کے سامنے جھوٹ بولے تو وہ حلفِ دروغی کی سزا پاتا ہے۔پھر علیم و خبیر عالم الغیب خد اکے حضور قیامت کے دن کسی نبی کو جھوٹ بولنے کی جرأت کب ہو سکتی یہ؟ ہرگز نہیں لیکن یہ عقیدہ جو میں نے ابھی بیان کیا ہے۔تسلیم کر لیا جاوے اور اس کوصحیح مانا جاوے تو پھر قرآن شریف چھوڑنا پڑے گا اور حضرت مسیح کا معاذ اﷲ خدا تعالیٰ کے حضور قیامت کے دن جھوٹ بولنے والا قرار دینا پڑے گا۔کیونکہ اگر یہ سچ ہے کہ وہی مسیح اُتر آئے گا، تو پھر خدا تعالیٰ کے سامنے ان کا یہ جواب کہ
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم
صحیح نہیں۔کیونکہ ان کو تو اس وکت یہ کہنا چاہیے کہ چالیس سال تک آسمان سے اُتر کر پھر زمین پر رہا اور میں نے جنگیں کیں، صلیبیں توڑیں اور شریروں کو مارا۔کفار کو مسلمان کیا۔حالانکہ ان کے جاوب میں ان باتوں میں سے کسی کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا۔پھر خدا کے واسطے سوچ کر جواب دو۔کیا تم یہ تجویز نہ کرو گے کہ حضرت مسیح نے معاذ اﷲ جھوٹ بوال؟ او ر کیا یہ نبی کی شان ہے کہ خدا کے سامنے جھوٹ بولے؟ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے اور قرآن پر حملہ کرتا ہے وہ بدذات اور جہنمی ہے۔ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ملعون ہیں جو رسمی بات کے لیی قرآن شریف پر حملہ کرتے ہیں۔
پس یہ آیت مسیح کی وفات اور ان کی دوبارہ آمد کے متعلق قول فیصل ہے۔اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ وفات پا چکے ہیں اور وہ دوبارہ نازل نہیں ہوں گے اور قرآن شریف سچا ہے اور حضرت مسیح ؑکا جواب بھی سچا ہے۔ہاں یہ امر کہ آنے والے مسیح سے پھر کای مراد ہے تو یاد رکھو جو کچھ خد اتعالیٰ نے مجھ پر ظہار کیا او راپنی تائیدوں اور نصرتوں اور نشانوں کے ساتھ اُسے ثابت کای۔وہ یہی ہے کہ آنیوالا اسی اُمت کا ایک فرد کامل ہے اور خدا تعالیٰ کی کھلی کھلی وحی نے ظاہر کای ہے ہ وہ آنے والا میں ہوں جو چاہے قبول کرے ۔میرا یہ دعویٰ نرا دعویٰ نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ زبردست ثبوت ہیں جو ایک سلیم الفطرت اور متقی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
مامور کی صداقت ثابت کرنے کے تین ذرائع
یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی مامور کو بھیجتا ہے تو تین ذریعوں سے اس کی سچائی کو ثابت کرتا اور اتمام حجت کرتا ہے۔
اول-نصوص کے ذریعہ یعنی شہادتوں سے اتمامِ حجت کرتا ہے۔
دوم-نشانات کے ذریعہ جو اس کی تائید میں اور اس کے لیے ظاہر کیے جاتے ہیں۔
سوم- عقل کے ذریعہ۔
بعض اوقات یہ تینوں ذریعے جمع ہو جاتے ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سب ذریعے میری سچائی کو ثابت کر رہے ہیں۔
پس نصوص کے لیے یاد رکھو کہ آنحضرت ﷺ نے بخاری اور مسلم میں جس آنے والے کی خبر دی یہ اس کے لیے یہی فرمایا ہے کہ وہ اسی اُمت میں سے ہوگا؛ چنانچہ بخاری اور مسلم میں منکم کا لفظ موجود ہے کہیں بھی نہیں فرمایا کہ من بنی اسرائیل ۔ اور قرآن شریف میں سورۂ نور میں استخلاف کے وعدہ میں بھی منکم ہی فرمایا ہے۔اب بتائو کہ قرآن اور حدیث کے نصوص آنے والے کو اسی امت سے ٹھہراتے ہیں یا باہر سے لاتے ہیں۔اور قرآن شریف یہی زمانہ مسیح موعود کے آنے کا ٹھہراتا ہے۔
دوم نشانات:وہ نشانات جو میری تائید میں ظاہر ہو چکے ہیں اور جو میرے ہاتھ پر پورے ہوئے ہیں۔اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے زندہ گواہ اس وقت لاکھوں انسان موجو د ہیں۔میں نے اپنی کتاب نزول المسیح میں ڈیڑھ سو کے قریب نشان لکھے ہیں اور بعض کا میں نے ابھی ذکر بھی کیا ہے تا ہم وہ نشان جو میرے لیے ظاہر ہوئے وہ بھی تھوڑے نہیں ہیں۔اور انسانی طاقت میں یہ نہیں کہ وہ ان باتوں کو اپنے لیے خود جمع کرلے۔
قرآن شریف سے ثابت ہے کہ مسیح موعود اس وقت آئے گا جب چھ ہزار سال کا دور ختم ہوگ ااور عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک وہ وقت آگیا ہے۔
پھر قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے اور احادیث صحیحہ اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک نئی سواری پید اہوگی جس سے اونٹ بیکا رہو جائیں گے ۔جیس اکہ قرآن شریف میں ہے
واذا العشار عطلت (التکویر : ۵)
اور حدیث صحیح میں ہے۔
ولیتر کن القلاص فلا یسعی علیہا
اب آپ لوگ جانتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بھی ریل تیار ہو رہی ہے۔اس عظیم الشان پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اخبار والے نے لکھا ہے کہ مکہ مدینہ والے بھی یہ نظارہ دیکھ لیں گے کہ اونٹوں کی قطاروں کی بجائے ریل گاڑی وہاں ثے گی۔قرآن شریف میں جو فرمایا واذاالعشار عطلت اس کے متعلق نواب صدیق حسن خاں نے لکھ اہے کہ عشار حاملہ اونٹنی کو کہتے ہیں اس لیے یہ لفظ اﷲ تعالیٰ نے اختیار فرمایا تا کہ یہ سمجھ آجاوے کہ اسی دنیا کے متعلق ہے کیونکہ حاملہ ہونا تو اسی دنیا میں ہوتا ہے۔
اسی طرح نہروں کا نکالے جانا۔چھاپے خانوں کی کثرت اور اشاعت کتب کے ذریعوں کا عام ہونا، اس قسم کے بہت سے نشن ہیں جو اس زمانہ سے مخصوص تھے اور وہ پورے ہو گئے ہیں۔ایسا ہی کسوف و خسوف کا نسان جو رمضان میں ہوا۔یہ حدیث اکمال الدین اور دارقطنی میں موجود ہے۔پھر حج کا بند ہونا بھی نشان تھا وہ بھی پورا ہوا ۔ایک ستارہ نکلنے کی نشانی تھی وہ بھی نکل چکا۔طاعون کا نشان تھا وہ بھی پورا ہو گیا۔
غرض میں کہانتک بیان کرتا جائوں یہ ایک لمبا سلسلہ ہے۔طالب حق کے لیے اسی قدر کافی ہے۔
پھر تیسرا ذریعہ عقل ہے اگر عقل سے کام لیا جاوے اور زمانہ کی حالت پر نظر کی جاوے تو صاف طور پر ضرورت نظر آئی ہے۔غور سے دیکھو اسلام کی حالت کیسی کمزور ہو گئی ہے۔اندرونی طور پر تقویٰ طہارت اُٹھ گئی ہے۔اور امرو احکام ِ الٰہی کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور ارکان اسلما کو ہنسی میں اُڑایا جاتا ہے اور بیرونی طور پر یہ حالت ہے کہ ہر قسم کے معترض اس پر حملہ کر رہے ہیں اور اپنی جگہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کا نام و نشان مٹادیں۔
غرض جس پہلو سے دیکھو۔اسلام کمزور ہو گیا ہے۔وہ اسلما جس میں ایک بھی مرتد ہو جاتا تو قیامت آجاتی ۔اس میں تیس لاکھ مرتد ہو چکا ہے کیا ایسی حالت میں اﷲ تعالیٰ کا وعدہ
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر ص: ۱۰)
پورا نہ ہوتا؟ اگر اب اسلام کی خبر نہ لی جاتی تو پھر اور کونسا وقت آنے والا تھا؟
پس از آنکہ من نہ مانم بچہ کار خواہی آمد
کیا خد اتعالیٰ اس وقت نصرت کرے گا جب یہ نام مٹ جائے گا؟ ایک طرف حدیث میں یہ وعدہ کہ ہر صدی پر مجدد آئے گا مگر اس وقت جو عین ضرورت کا وقت ہیکہکوئی مجدد نہ آئے؟ تعجب ہے تم کیا کہہ رہے ہو۔حضرت موسیٰ علیہ السلم کا تو وہ زمانہ کہ اس میں متواترنبی آتے رہے اور یہ امت جو خری الامت کہلاتی ہے اور خاتم الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت ہے۔باوجود اُمت مرحومہ کہلانے کے اس میں جب آئے تو دجال آئے اور پھر ایک دو نہیں تیس دجال۔گویا خدا کو خطرناک دشمنی ہے۔وہ اس کو ایسا تباہ کرنا چاہتا ہے کہ نام و نشنا نہ رہے۔افسوس میری مخالفت میں یہ لوگ ایسے اندھے ہوئے ہیں کہا ﷲ تعالیٰ کے حضور شوخی اور بے ادبی کرنے سے باز نہیں آتے۔اس کو عملی طور پر وعدوں کا قرار دیتے ہیں ارو رسول اﷲ ﷺ کی ہتک شان کرتے ہیں۔
Amira 17-7-05
وفاتِ مسیح علیہ السلام
دیکھو میں کھول کر کہتا ہوں کہ تم اپنے نفسوں پر رحم کرو۔اس پیغمبر کی شان میں جو افضل الرسل ہے یہ بے ادبی نہ کرو کہ حضرت مسیح کو اس سے افضل قرار دو۔کیا تم نہیں جانتے کہ آپؐ کی وفات پر صحابہؓ کی کیا حالت ہوئی تھی۔وہ دیوانہ وار پھرتے تھے۔آپؐ کی زندگی کو اتنی عزیز تھی کہ حضرت عمرؓ نے تلوار کھینچ لی تھی کہ اگر کوئی آپ کو مردہ کہے گا تو میں اس کا سر اُڑادوںگا۔اس شور پر حضرت ابو بکرؓ آئے اور اُنہوں نے آگے بڑھ کر آپ ؐ کی پیشانی پر بوسہ دیا کہ آپؐ پر خدا تعالیٰ دو موتیں جمع نہ کریگا اور پھر یہ آیت پڑھی
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران : ۱۴۵)
یعنی آنحضرت ﷺ بھی ایک رسول ہیں۔پہلے جس قدر رسول آئے ہیں۔سب وفات پا گئے ہیں۔صحاہؓ نے جب اس آیت کو سنا تو انہیں ایسا معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت اب اتری ہے۔اُنہوں نے معلوم کیا کہ آپؐ کے مقابلہ میں کوئی اور زندہ نہیں ہے۔تم میں وہ عشق اور محبت نہیں جو صحابہ کو آنحضرت ﷺ سے تھے؛ ورنہ تم یہ کبھی روانہ رکھتے کہ مسیح کو آنحضرت ﷺ کے مقابل زندہ کہتے۔میں سچ کہتا ہوں کہ اگر صحابہؓ کے سامنے اس وقت کوئی کہتا کہ حضرت عیسیٰ ؑزندہ ہیں تو اُن میں سے ایک بھی زندہ نہ رہتا وہ اس قدر آپؐ کے عشق اور محبت میں فنا شدہ تھے۔حسان بن ثابتؓ نے اس موقعہ پر ایک مرثیہ لکھا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں:
کنت السوادلناظری-فعمی علیک الناظر ۔ من شاء بعدک فلیمت-فعلیک کنت احاذر
یعنی اے میرے پیارے نبی تُو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا اور میرے دیدوں کا نور تھا پس میں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا۔اب تیرے بعد میں دوسروں کی موت کا کای غم کروں۔عیسیٰ ؑ مرے یا موسیٰ ؑمرے۔کوئی مرے۔مجھے تو تیرے ہی مرنے کا غم تھا۔صحابہؓ کی تو یہ حالت تھی۔مگر اس زمانہ میں اپنے مُنہ سے اقرار کرتے ہیں کہ نہیں افضل الانبیاء وفات پا گئے اور حضرت مسیح زندہ ہیں۔افسوس مسلمانوں کی حالت کیا ہسے کیا ہو گئی۔میں خوب جانتا ہوں اور اس واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کا پہلا اجماع مسیح کی وفات ہی پر ہوا تھا۔پھر اُن کے خلاف کرنا یہ کونسی عقلمندی اور تقویٰ ہے۔میں یہ مانتا ہوں۔کہ یہ غلطیاں امتدادِ زمانہ کی وجہ سے ہیں۔تقویٰ نہین رہا۔جہالت بڑھ گئی ہے۔روبحق ہونا کم ہو گیا ہے۔راہِ راست محجوب ہو گیا ہے اور یہی امور ہیں جو میری ضرورت کے داعی ہیں’میں آخر میں پھر کہت اہوں کہ ان باتوں پر غور کرو۔اپنے گھروں میں جا کر تنہائی میں سوچو کہ تم چاہتے ہو کہ اسلام اور سو سال تک آفتوں کا نشانہ بنا رہے اگر اب تک کوئی نہیں آیا تو ھپر صدی کا سر تو چلا گیا۔بائیس برس گذر چکے۔اب اور سو سال تک آفتوں کا نشانہ بنا رہے اگر اب تک کوئی نہین آیا تو ھپر صدی کا سر تو چلا گیا۔بائیس برس گذر چکے۔اب اور سو سال تک انتظار کرو۔لیکن یاد رکھو کہ اگر مجھے قبول نہ کرو گے تو پھر تم کبھی بھی آنے والے موعود کو نہیں پائو گے۔
میں نے اتنی باتیں کی ہیں۔بعض مخالفوں کو فائدہ کی بجائے جوش آئے گا اور وہ ہارجیت کی طرھ توجہ کریں گے یہ نہیں کہ رو رو کر دعائیں کریں اور اﷲ تعالیٰ سے توفیق اور مدد چاہیں۔میری یہی نصیحت ہے،کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دو ارو خدا ترسی سے ان باتوں پر غور کرو اور تنہائی میں سوچو اور آخر اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ دعائیں سنتا ہے۔؎ٰ
۲؍ستمبر ۱۹۰۴ء
بمقام لاہرو
ایک روح پر ورمجلس کی روئیداد
بعد نماز جمعہ حضرت عقدس ؑ زائرین اور مشتاقانِ زیارت کے اصرار و خواہش پر اجلاس فرما ہوئے۔حاضرین میں سے ہر ایک دوسرے سے پہلے آگے بڑھنا چاہتا تھا ان کے بڑھے ہوئے جوشِ زیارت اور شوقِ ارادت مٰں انتظام کا ہوان آسان نہ تھا۔دھکے پر دھکا کھاتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔آخر جب حضرت کا حکم سنا کہ بیٹھ جائو۔جو جہاں کھڑا تھا۔وہیں بیٹھ گیا۔وہ نظارہ جن لوگوں نے دیکھ اہے اس کا لطف اور اثر کچھ وہی دل محسوس کر سکتے ہیں۔حضرت حجۃ اﷲ کے انفاس طیبہ کا کچھ ایسا اثر پڑ رہا تھا کہ اس مجمع پر نگاہ ڈالنے سے اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا پتہ لگتا تھا ارو صاف سمجھ میں آتا تھا کہ یہ جذ اور کشش کسی مفتری اور کذاب کو نہیں دیا جاتا۔آپ خاموس بیٹھے تھے کہ خاکسار ایڈیٹر الحکم نے ایک اادت مند کی طرف سے عرض کیا کہ وہ کچھ سنانا چاہت اہے۔فرمایا؍
ہاں سنا دو
اس پر اس شخص نے نہایت پر درد اور پر جوش لہجہ میں بزبانِ پنجابی کچھ اشعار سنائے جن میں حضرت حجۃ اﷲ کی بعثت، آپ کی صداقت پر بحث ھی اور بالآخر اہل لاہور کو خطاب تھا کہ دیکھو مسیح موعود تمہارے گھر مہمان ہو کر آیا ہے۔تمہارا فرض تو یہ ہیکہ تم اس کا اکرام کرو نہ یہ کہ سب و شتم سے کام لو۔مہمانوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک مناسب نہیں ۔اور پھر طاعون یک زور آور حملوں سے ڈرایا تھ۔یہ نظم بہت ہی مؤثر اور رقت خیز تھی جس کو سنکر اکثر حاضرین رو رہے تھے۔نظم ختم ہو جانے کے بعد حضرت اقدس ؑ نے ذیل کی تقریر فرمائی۔ (ایڈیٹر)
پیدائشِ انسانی کی غرض
تمام مسلمان جو یہاں اکٹھے ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک کی غرض دین ہے۔یہ میں جانتا ہوں کہ کوئی تھوڑا جوش رکھتا ہے کوئی زیادہ ۔لیکن کچھ نہ کچھ غرض دین کی رکھتا ضررور ہے۔یقینا سمجھو کہ ہر شخص اپنے اندازہ کے موافق عمر کا ایک حضہ کھا چکا ہے۔بڑی عمر ہو گئی ہے تب بھی تھوڑے دن باقی ہیں اور تھوڑی ہے تب بھی تھورے ہی باقی ہیں۔کیونکہ گذرنے والے زمانہ کو ہمیشہ تھوڑا خیال کیا جاتا ہے۔پس یاد رکھو کہ انسان جو اس مسافر خانہ میں آتا ہے اس کی اصل غرض کیا ہے؟ اصل غرض انسنا کی خلقت کی ؎یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے۔اور اس کی فرمانبرداری کرے جیس اکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔
ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات : ۵۷)
میں نے جن اور انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔مگر افسوس کی بات ہیکہ اکثر وگ جو دنیا میں آتے ہیں بلغ ہوین کے بعد بجئے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندیگ کی غڑض اور غایت کو مد نظر رکھیں، وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خد اکا حضہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے د میں تو ہتوا ہی نہیں۔وہ دنیا ہی میں منہمک او رفنا ہو جاتے ہیں’انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے ہاں اس وقت پتہ لگتا ہے جب قابض ارواح آکر جان نکال لیت اہے۔پس اس دھوکا سے خبردار رہو۔ایس انہ ہو کہ مرنے کا وقت آئاوے اور تم خالی کے خالی ہی رہو۔یہ شعر اچھا کہا ہے ؎
مکن تکیر بر عمر ناپائدار
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
ایک دفعہ ہی پیام موت آجاتا ہے اور پتہ نہیں لگتا۔انسانی‘ ہستی بہت ہی ناپائدار ہے۔ہزار ہا مرضیں لگی ہوئی ہیں۔بعض ایسی ہیں کہ جب دامنگیر ہو جاتی ہیں تو اس جہاںن سے رخت کر کے ہی رخصت ہوتی ہیں۔
جبکہ حالت ایسی نازک اور خطرناک ہے تو ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک خدا سے صلح کخرلے۔اسلام نے جو خدا پیش کای ہے اور مسلمانوں نے جس خد اکو مانا ہے وہ رحیم،کریم ،حلیم،تواب اور غفار ہیجو شخص سچی توبہ کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے گنہ بخش دیت ہے۔لیکن دنای میں خواہ حقیقی بھائی بھی ہو یا کوئی اور قریبی عزیز اور رشتہ دار ہو وہ جب ایک مرتبہ قصوردیکھ لیت اہے۔پھر وہ اس سے خواہ باز بھی آئاوے مگر اُسے عیبی سمجھتا ہے لیکن ال تعالیٰ کیسا کریم ہیکہ انسان ہزاروں عیب کر کے بھی رجوع کرت اہے تو بخش دیتا ہے۔دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے بجز پیغمبروں کے (جو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں) جو چشم پوشی سے اس قدر کام لے بلکہ عام طور پر تویہ حالت ہے جو سعدی نے کہا ہے ؎
خدا داند و بپوشد و ہمسایہ نداند و بخروشد
پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم السان صفت ہے۔یہ بالکل سچ ہیکہ اگر وہ مؤاخذہ پر آئے تو سب کو تبہ کرودے،لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے۔
اسلام اور دوسرے مذاہب میں خد اکا تصور
یہ دین یعنی اسلام جو سچا مذہب ہے اور جو نبی کریم ؐ کے ذریعہ ہم کو ملا ہے اس کی سچائی کی یہ زردست علمات ہے کہ انسنای ضمیر اور فطرت جس قسم کا خدا چاہتی ہے قرآن نے ویسا ہی خدا پیش کیا ہے یعنی اس قسم کے صھات سے متصف اسے بیان کیا ہے۔لیکن چونکہ مقابلہ کے بغیر کسی کی خوبی اور عمدگی کا پتہ نہیں لگ سکتا ۔اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر مقابلہ دوسرے مذاہب سے کیا جاوے؛ اگر چہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ قرآن شریف سے ایسا ہی ثابت ہوت اہے کہ کل عالم کا یاک ہی خدا ہے۔لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مثلاؔ ہندوؤن کا خدا۔تو اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ وہ خدا جو اپنے خیالات اور عقائد کے موافق ہندوئوں نے پیش کای ہے یا عیسئای جس قسم کا تسلیم کرتے ہیں۔نعوذ باﷲ یہ کبھی بھی خایل نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی اور خد اکی مخلوق ہیں۔
غرض جب ہم اس خد کا مقابلہ ان خدائوں سے (جو دوسرے لوگوں نے پیش کیے ہیں) کرتے ہیں تو صاف طور پر اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ خد اجو قرآن شریف نے یا اسلام نے پیش کای ہے وہی حقیقٰ خد اہے۔مثلاؔ اسی مسئلہ عفو گناہ سے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے۔خواہ انسان کتنے ہی گناہ کرے ،لیکن جب سچے دل سے توبہ کر لے اور آئندہ کے لیے گناہوں سے باز آجاوے تو اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے،لیکن اس کے بالمقابل ہندوئوں نے جس خدا کو پیش کیا ہے وہ اس کے متعلق ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایسا خد اہے کہ وہ ایک گنہ کے بدلے کروڑوں جونوں میں ڈالتا ہے اور جوئیں۔پسو۔درند۔چرند یہانتک کہ پانیا ور ہوا کے کیڑے یہ سب انسان ہی ہیں جو اپنیشامتِ اعمال کی وجہ سے سزائیں بھگتنے کے واسطے ان جونوں میں آئے ہوئے ہیں۔دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ جس قدر مخلوقات انسان کے گناہوںکے طفیل ہے اور خدا تعالیٰ کو (معاذاللہ )اب تک ان پر کوئی رحم نہیں آتا اور وہ ایسا سخت دل پرمیشر ہے کہ وہ رحم کر ہی نہیں سکتا ۔
Adeeba 25-7-05
جب یہ عقیدہ رکھا جائے گاکہ ہر ایک گناہ کی سزامیں کئی کروڑ جُونوں میں جانا پڑے گاتو گناہ کی معافی اور رحم پرمیشر میں کہاں پایا گیا؟کیونکہ جُونوں کے اس چکر سے تو کبھی نجات ہی نہیں ہے ؛حالانکہ فطرتِ انسانی ایک ایسا خدا چاہتی ہے جو انسانی کمزوریوں پر رحم کرتا ہو ۔اور انسان کے نادم اور تائب ہونے پر اس کے قصوروں کو معاف کر دے ۔کیونکہ خود انسان میں بھی یہ وصف ایک حد تک پایا جاتا ہے ۔پھر تعجب کی بات ہوگی کہ انسان تو توبہ اور معافی پر قصور معاف کر دے اور خداتعالیٰ ایسا کینہ توز(معاذاللہ)ہو کہ اسے کسی طرح رحم ہی نہ آوے؟یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے بلکہ صحیح اعتقاد ہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے کہ خداتعالیٰ بڑا ہی کریم اور رحیم ہے اور وہ سچّے رُجوع اور حقیقی توبہ پر گناہ بخش دیتا ہے ۔اس کے بالمقابل عیسائی جو کچھ پیش کرتے ہیںوہ اور بھی عجیب ہے۔وہ خدا تعالیٰ کو رحیم تو مانتے ہیں اور کہتے ہین کہ وہ رحیم ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ رحم بلا مبادلہ نہیں کرسکتا جب تک بیٹے کو پھانسی نہ دے لے اس کا رحم کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔تعجب اور مشکلات بڑھ جاتی ہیں ۔جب اس عقیدہ کے مختلف پہلوؤںپر نظر کی جاتی ہے اور پھر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پھانسی بھی دیا۔لیکن یہ نسخہء رحم پھر بھی خطا ہی گیا سب سے پہلے تو یہ کہ یہ نسخہ اس وقت یاد آیاجب بہت سی مخلوق گناہ کی موت سے تباہ ہو چکی اور ان پر کوئی رحم نہ ہو سکا،کیونکہ پہلے کوئی بیٹا پھانسی پر نہ چڑھااور علاوہ بریں اگرچہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ زیدؔ کے سر میں درد ہوا اور بکرؔ اپنا سر پتھر سے پھوڑے اور یہ سمجھا جاوے کہ اس نسخہ سے زیدؔکو آرام آجاوے گالیکن اس کو بفرض ِمحال مان کر بھی اس نسخہ جو اثر ہوا ہے وہ تو بہت ہی خطر ناک ہے ۔جب تک یہ نسخہ استعمال نہیں ہوا تھا۔اکثر لوگ نیک تھیاور توبہ اور استغفار کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔مگر جب یہ نسخہ گھڑا گیاکہ ساری دنیا کے گناہ خدا کے بیٹے کی پھانسی پانے کے ساتھ معاف ہو گئے تو اس سے بجائے اس کے کہ گناہ رکتا، گناہ کا ایک اور سیلاب جاری ہو گیا اور وہ بندہ جو اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے خوف اور شریعت کا لگا ہوا تھا ٹوٹ گیا۔جیسا کہ یورپ کے حالات سے پتہ لگتا ہے کہ اس مسئلہ نے وہاں کیا اثر کیا ہے اور فی الحقیقت ہونا بھی یہی چاہئے تھا۔پھر جب یہ بات ہے اور حالت ایسی ہے تو ہم کیونکر تسلیم کریں کہ وہ خدا جو اس رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا وہ حقیقی خدا ہے۔
Amira 26-7-05
اس قسم کی غلط تعلیمیں دنیا میں جاری ہو چکی ہیں اور حقیقی خدا کا چہرہ چھپا ہوا تھا۔جو اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا۔آپؐ نے آکر دنیا کے سامنے وہ خد اپیش کیا جو انسانی کانشنس اور فطرت چاہتی ہے اور اس کا پورا پورا بیان خد اتعالیٰ کی سچی کتاب قرآن مجید میں ہے۔
مسلمانوں سے خصوصی خطاب
میں اس وقت دوسرے لوگوں کو جو مسلمان نہیں ہیں الگ رکھ کر صرف ان لوگوں کے متعلق کچھ کہوں گا جو مسلمان ہیں اور انہیں سے خطا ب کروں گا
یا رب ان قومی اتخذواھذاالقران مہجورا (فرقان : ۳۱)
یاد رکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے۔عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ توبہت دور پڑے ہوئے ہیں،لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے۔اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے۔اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اُسے پڑھا ہی نہیں۔پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لاپروا ہیں اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفیٰ اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہوین اور بہت سی امراض میں مبتلا ہوین کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا، تو یہ اس کی کیسی بد قسمتی اور جہالت ہے۔اُسے تو چاہیے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اُس کے لُطف اور شفا بخش پانی سے خظ اُٹھاتا۔مگر باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔اور اس وقت تک اُس سے دور رہتا ہے جو متو آکر خاتمہ کر دیتی ہے۔اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیون اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہیے۔مگر نہیں۔اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی۔ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خد اتعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بُلاوے تو اُسے کذاب اور دجال کہا اجتا ہے۔اس سے بڑھ کر اور کای قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی۔
مسلمانوں کو چاہیے تھا اور اب بھی اُن کے لیے یہی ضروری ہیکہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں۔اور پھر دیکیھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح اُن کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے۔کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے لیے یہ ایک نیک راہ پدیا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اُٹھائیں۔
یقینا یاد رکھو کہ جو شخص سچے دل سے اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پاک کتاب پر عمل کرتا اور رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت کرتا ہے،تو اﷲ تعالیٰ اس کو لا انتہا برکات سے حصہ دیت اہے۔ایسی برکات اُسے دی جاتی ہیں جو اس دنیا کی نعمتوں سے بہت ہی۹ بڑھ کر ہوتی ہیں۔ان میں سے ایک عفو گناہ بھی ہے کہ جب وہ رجوع کرتا اور توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔دوسرے لگو اس نعمت سے بالکل بے بہرہ ہیں اس لیے کہ وہ اس پرا عتقاد ہی نہیں رکھتے کہ توبہ سے گناہ بھی بخشے جایا کرتے ہیں۔اُن میں سے بعض تو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ہم کو جونوں میں جونوں میں جانا پڑے گا اور معافی نہیں مل سکتی۔عیسائیوں کے اصول کے موافق مسیح کے خون پر ایک بار ایمان لا کر اگر گناہ ہو جاوے،تو پھر صلیبِ مسیح کوئی فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ مسیح دو مرتبہ صلیب پر نہیں چھے گا تو کای یہ بات صاف نہیں ہے کہ ان دونوں کے لیے بخشے جانے اور نجات کی راہ بند ہے کیونکہ صدورِ گناہ تو رُک نہیں سکتا۔اگر خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کا شکر نہ کرے تو یہ بھی گناہ یہ اور غفلت کرے تو یہ بھی گناہ ہے اور ان گناہوں پر بھی جونوں میں جانا پڑے گا یا مسیح کو دوبارہ صلیب نہیں دیا جائے گا، اس لیے کُلّی طور پر مایوس ہونا پڑے گا ،مگر اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم نہین دی۔ان کے لیے ہر وقت توبہ کا دروازہ کھُلا ہے۔جب انسنا اس کی طرف رجوع کرے اور اپنے پچھلے گناہوں کا اقرار کرکے اس سے خواستگارِ معافی ہو اور آئندہ کے لیے نیکیوں کا عزم کرے تو اﷲ تعالیٰ اُسے معاف کر دیتا ہے۔
سچی توبہ اور رجوع الیٰ اﷲ کی نصیحت
اس لیے میں کہتا ہوں کہ میری باتوں کو متوجہ ہو کر سنو۔ایسا نہ ہو کہ یہ باتیں صرف تمہارے کان تک ہی رہ جائیں اور تم اُن سے کوئی فائدہ نہ اٹھائو اور یہ تمہارے دل تک نہ پہنچیں۔نہیں بلکہ توجہ سے سنو اور اُن کو دل میں جگہ دو اور اپنے عمل سے دکھائو کہ تم نے اُن کو سرسری طور پر نہیں سنا اور اُن کا اثر اسی آن تک نہیں بلکہ گہرا اثر ہے۔
اس بات کو بخوبی یاد رکھو کہ گناہ ایسی زہر ہے جس کے کھانے سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور نہ صرف ہلاک ہی ہوت ہے بلکہ وہ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے رہ جاتا ہے اور اس قابل نہیں ہوتا کہ یہ نعمت اس کو مل سکے۔جس جس قدر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے۔اسی اسی قدر خدا تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ روشنی اور نور جو خد اتعالیٰ کے قرب میں اُسے ملنی تھی اس سے پرے ہٹتا جاتا ہے اور تاریکی میں پڑ کر ہر طرف سے آفتوں اور بلائوں کا شکار ہو جاتا ہے۔یہانتک کہ سب سے زیادہ خطرناک دشمن شیطان اس پر اپنا قابو پا لیتا ہے اور اُسے ہلاک کر دیتا ہے۔لیکن اس خطرناک نتیجہ سے بچنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایک سامان بھی رکھا ہوا۔اگر انسان اس سے فائدہ اُٹھائے تو وہ اس ہلاکت کے گڑھے سے بچ جاتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے قرب کوپاسکت اہے۔وہ سامان کیا ہے۔رجوع الی اﷲ یا سچی توبہ۔خدا تعالیٰ کا نام تواب ہے۔وہ بھی رجوع کرتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے،تو اﷲ تعالیٰ سے دور ہو جات ہے اور خد اتعالیٰ اس سے بعید ہوتا ہے۔لیکن جب انسان رجوع کرتا ہے یعنی اپنے گناہوں سے نادم ہو کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف جھُکتا ہے تو اس کریم رحیم خدا کا رحم اور کرم بھی جوش میں آتا ہے اوروہ اپنے بندہ کی طرف توجہ کرتا ہے اور رجوع کرتا ہے۔اس لیے اس کا نام تواب ہے۔پس انسان کو چاہیے کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ اس کی طرف رجوع برحمت کرے۔
شامتِ اعمال
انسان جس قدر مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اور دنیا میں اس پر آفتیں آتی ہیں۔یہ سب شامتِ اعمال ہی سے آتی ہیں۔میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ لوگ ایک دھوکہ میں پڑ جاتے ہیں کہ ہم پر اگ مصیبتیں آئیں تو کای ہوا؟ انبیاء علیہم السلام پر بھی مصیبتیں آئی ہیں۔لیکن وہ نہیں جانتے کہ انبیاء علیہم السلام کی مصیبتوں اور تکلیفوںس ے ان کی مصائب اور مشکلات کو کوئی نسبت نہیں۔انبیاء علیہم السلام کی مصائب میں لذت ہوتی ہے۔وہ قربِ الٰہی کے بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں۔ان سے محبت بڑھتی ہے اور ان کا فوق العادت استقلال اور رضا وتسلیم اعلیٰ درجہ کی معرفت کا باعث بنتا ہے۔برخلاف اس کے یہ مصیبتیں اور بلائیں وبائیں جو گناہ کی شامت سے آتی ہیں اُن میں درد اور تکلیف کے علاوہ خد اسے بُعد ہوتا ہے اور ایک تاریکی چھا جاتی ہے۔آخر بالکل تباہی اور بربادی ہو جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک زہر ہے۔زہر کھ کر کوئی بچ نہیں سکتا۔پس گناہ کی زہر کھا کر یہ توقع کرنا کہ وہ بچ جائے گا خطرناک غلطی ہے۔یقینا یاد رکھو جو گناہ سے بعاز نہیں آتا وہ آخر مرے گا اور ضرور مرے گا۔اﷲ تعالیٰ نے انبیاء اور رسل کو اسی لیے بھیجا اور اپنی آخری کتاب قرآن مجید اس لیے نازل فرمائی کہ دنیا اس زہر سے ہلاک نہ ہو بلکہ اس کی تاثیرات سے واقف ہو کر بچ جاوے۔قدیم سے سنت اﷲ اسی طرف پر چلی آئی ہے کہ جب دنیا پر گناہ کی تاریکی پھیل جاتی ہے اور انسانوں میں عبودیت نہیں رہتی اور عبودیت اور الُوہیت کا باہمی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔انسان سرکشی اور بغاوت اختیار کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اُس کی آگاہی اور تنبیہہ کے لیے اپنا ایک مامور بھیج دیتا ہے وہ دنیا آکر اہل دنیا کو اس خطرناک عذاب سے ڈراتا ہے جو اس کی شرارتوں اور شوخیوں کی وجہ سے آنے والا ہوت اہے اور ان کو اس زہر سے جو گناہ کی زہر ہے بچانا چاہتا ہے جو سعید الفطرت ہوتے ہیں وہ اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔اور سچی توبہ کر کے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔لیکن شریر النفس اپنی شرارتوں میں ترقی کرتے اور ا سکی باتوں کو ہنسی ٹھٹھے میں اُڑ ا کر خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتے ہیں اور آخر تباہ ہو جاتے ہیں۔
خدا تعالیٰ سے سچا تعلق عبودیت ہو
آجکل یہی زمانہ آیا ہوا ہے۔خدا تعالیٰ کے ساتھ جو سچا تعلق عبودیت کا ہوان چاہیے اور جو محبت اپنے خالق سے ضروری ہے وہ کہاں ہے؟ ہر ایک شخص اپنی جگہ پر غور کرے اور اپنے نفس پر قیاس کرکے دیکھے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے تعلقات کس قدر ہیں آیا وہ دنیا اور اس کی شان وشوکت کو اپنا معبود سمجھتا ہے یا حقیقی خدا کو معبود مانتا ہے۔اس کے تعلقات اپنے نفس، اہل و عیال اور دوسری مخلوق کے ساتھ کس قسم کے ہیں؟ ان میں خدا تعالیٰ کا کس درجہ تک ہے۔ان باتوں پر جب آپ غور کریں گے اور خالی الذہن ہو کر غور کریں گے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ یہ وہ وقت آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی رشتہ اور پیوند رکھا ہی نہیں ہے۔اکثر ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے وجود اور ہستی ہی کا یقین نہیں رکھتے اور جو بعض مانتے ہیں کہ خد اہے ان کا ماننا نہ ماننا برابر ہو رہا ہے کیونکہ وہ تقویٰ اﷲ اور خشیتہ اﷲ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لانے سے پیدا ہوتی ہے اُن میں پائی نہیں جاتی۔گناہ سے نفرت اور احکام الٰہی کی پابندی اور نواہی سے بچنا نظر نہیں آتا۔پھر کیونکر تسلیم کر لیا جاوے کہ یہ لوگ فی الحقیقۃ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔؎ٰ
اور ماسوا اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ جبتک کامل اور پورا تعلق نہ ہو۔وہ برکات اور فیوض جو اس تعلق کے لازمی نتائج ہیں حاصل نہیں ہوتے۔اس کی مثال ایسی ہیکہ جہاں ایک پیالہ پانی کا بی کر سیر ہوان ہو وہاں ایک قطرہ کہاں تک مفید ہو سکت اہے اور تشنہ لبی کو بُجھا سکتا ہے اور جہاں دس تولہ دوا کھانی ہو وہاں ایک چاول یا ایک رتی سے کیا ہوگا؟ اسی طرح پر جب تک انسان پورے طور پر خدا تعالیٰ کا مطیع اور وفادار بندہ نہیں بنتا اور کامل نیکی نہیں کرتا۔اس وقت تک اس کے انوار و برکات ظاہر نہیں ہوتے۔ادھوری اور نا تمام باتوں سے بعض اوقات ٹھوکر لگتی ہے۔ایک شخص نیکی کو اس کے کمال تک تو پہنچاتا نہیں اور اس سے ان ثمرات کی توقع کرتا ہے جو اس کے درجہ کمال پر پیدا ہوتے ہیں اور جب وہ نہیں ملتے تو اس سچی اور پاک تعلیم سے بدظن ہونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ کچھ بھی نہیں۔بہت سے لوگ اسی طرح پر گمراہ ہوئے ہیں۔لیکن میں یقینا کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے جو تعلیم پیش کی ہے اور جس طریق پر نیکی کی راہیں بتائی ہیں ان پر اور اس درجہ تک عامل ہونے سے انسان وہ تمام کمالات اور برکات حاصل کر سکتاہے جن کا وعدہ دیا گیا ہے۔اسی پاک تعلیم کی سچی اور کامل پیروی سے ولی اﷲ اور ابدال بنتے ہیں۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ولی اﷲ یا ابدال بننے کے لیے کوئی خاص راہ ہے جو قرآن شریف میں نہیں ہے۔وہ سخت نادان اور غلطی پر ہیں ۔یہی وہ راہ ہے جس سے یہ درجے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ولی یا ابدال کای کرتے ہیں؟ یہی کہ وہ سچی تبدیلی کر لیتے ہیں اور قرآن شریف کی تعلیم کا سچا متبع اپنے آپ کو بناتے ہیں اور نیکی کو اس حد اور درجہ تک کرتے ہیں جو اس کے کمالات کے لیے مقرر ہے۔یہی نماز، روزہ ،زکوٰۃ،صدقات وغیرہ بھی بجالاتے ہیں،لیکن ان میں اور دوسرے لوگوں میں اس قدر فرق ہے کہ وہ اس حد تک ان اعمالِ صالحہ کو بجالاتے ہیں کہ اُن میں ایک قوت اور طاقت آجاتی ہے اور اُن سے وہ افعال سر زد ہوتے ہیں جو دوسروں کی نظر میں خوارق ہوتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ اعمالِ صالحہ کو پورے طور پر بجالاتے ہیں۔پس جو شخص پوری نیکی کرتا ہے اور اس کو ادھور اور ناقص نہیں چھوڑتا اور قرآن شریف کی تعلیم کا پورا پابند اپنے آپ کو بنالیتا ہے وہ یقینا ولی اور ابدال ہو جاتا ہے۔جو چاہے بن سکتا ہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ اس کے واسطے بڑی دعائوں کی ضرورت ہے۔اور دعا کی تعلیم بھی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔جس کے لیی جابجا ہدایت کی گئی ہے،بلکہ اس کا شروع ہی دعا سے ہوا ہے۔اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جیسے اگر کسی شخص کو زندہ رکھنا مقصود ہے تو ضرور ہے کہ اس کو پوری غذادی جاوے چند دانوں پر اس کی زندگی کی امید کرنا خیال خام ہے۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ میں زندگی حاصل کرنے کے لیے پوری نیکیوں کا کرنا ضروری ہے جو اس طریق کو چھوڑتا ہے وہ آج نہیں کل مر جاوے گا۔قرآن شریف نے اسی اصل کو بتایا ہے جو زیادہ خظ اٹھانا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ زیادہ توجہ کرے۔
جماعت احمدیہ کے لیے خصوصی نصائح
ہماری جماعت(جس سے مخالف بُغض رکھتے ہیں ارو چاہتے ہیں کہ یہ جماعت ہلاک اور تباہ ہو جاوے) کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں اپنے مخالفوں سے باوجود اُن کے بغض کے ایک بات میں اتفاق رکھتا ہوںاور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ یہ جماعت گناہوں سے پاک ہو اور اپنے چال چلن کا عمدہ نمونہ دکھاوے وہ قرآن شریف کی سچی تعلیم پر سچی عامل ہو اور آنحضرت ﷺ کے اتباع میں فنا ہو جاوے۔ان میں باہم کسی قسم کا بغض و کینہ نہ رہے۔وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری اور سچی محبت کرنے والی جماعت ہو۔لیکن اگر کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر بھی اس غرض کو پورا نہیں کرتا اور سچی تبدیلی اپنے اعمال سے نہیں دکھاتا وہ یاد رکھے کہ دشمنوں کی اس مراد کو پورا کر دے گا۔وہ اولاد جو انبیاء کی اولاد کہلاتی تھی۔یعنی بنی اسرائیل جن میں کثرت سے نبی اور رسول آئے اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کے وہ وارث اور حقدار ٹھہرائے گئے تھے۔لیکن جب اس کی روحانی حالت بگڑی اور اُس نے راہِ مستقیم کو چھوڑ دیا ۔سرکشی اور فسق و فجور کو اختیار کیا۔نتیجہ کیا ہوا؟
ضربت علیہم الذلۃ و المسکنۃ (البقرۃ : ۶۲)
کی مصداک ہوئی۔خدا تعالیٰ کا غضب ان پر ٹوٹ پڑا۔اور ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا۔یہانتک وہ گر گئے کہ انسانیت سے بھی اُن کو خارج کیا گیا۔یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے۔بنی اسرائیل کی حالت ہر وقت ایک مفید سبق ہے۔اسی طرح یہ قوم جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے وہ قوم ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر بڑے بڑے فضل کرے گا۔لیکن اگر کوئی اس جماعت میں داخل ہو کر خد تعالیٰ سے سچی محبت اور رسول اﷲ ﷺ کی سچی اور کامل اتباع نہیں کرتا وہ چھوٹا ہو یا بڑا کاٹ ڈالا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ ہوگا۔پس تمہیں چاہیے کہ کامل تبدیلی کرو اور جماعت کو بدنام کرنے والے نہ ٹھہرو۔
خاندانی تفاخر
بعض نادان ایسے بھی ہیں جو ذاتوں کی طرف جاتے ہیں اور اپنی ذات پر بڑا تکبر اور ناز کرتے ہیں۔بنی اسرائیل کی ذات کیا کم تھی جن میں نبی اور رسول آئے تھے۔لیکن کیا اُن کی اس اعلیٰ ذات کا کوئی لحاظ خدا تعالیٰ کے حضور ہوا۔جب اس کی حالت بدل گئی۔ابھی میں نے کہا ہیکہ ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا اور اسے اس طرح پر انسانیت کے دائرہ سے خارج کر دیا۔میں نے دیھک اہے کہ بہت لوگوں کو یہ مرض لگا ہوا ہے۔خصوصاً سادات اس مرض میں بہت مبتلا ہیں۔وہ دوسروں کو حقیر سمجھے ہیں اور اُسے ذرا بھی تعلق نہیں ہے۔آنحضرت ﷺ جو سید ولد آدم اور افضل الانبیاء ہیں۔انہوں نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے صاف طور پر فرمایا کہ اے فاطمہؓ تو اس رشتہ پر بھروسہ نہ کرنا کہ میں پیغمبر زادی ہوں۔قیامت کو یہ ہرگز نہیں پوچھا جاوے گا کہ تیرا باپ کون ہے۔وہان تو اعمال کام آئیں گے۔میں یقینا جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قرب سے زیادہ دور پھینکنے والی اور حقیقی نیکی کی طرف آنے سے روکنے والی بڑی بات یہی ذات کا گھمنڈ ہے کیونکہ اس سے تکبر پید اہوتا ہے اور تکبر ایسی شے ہے کہ وہ محروم کر دیتاہے۔علاوہ ازیں وہ اپنا سارا سہارا اپنی غلط فہمی سے اپنی ذات پر سمجھتا ہے کہ میں گیلانی ہوں یا فلاں سید ہوں؛ حالانکہ وہ نہیں سمجھتا کہ یہ ثیزیں وہاں کام نہیں آئیں گی۔ذات اور قوم کی بات تو مرنے کے ساتھ ہی الگ ہو جاتی ہے۔مرنے کے بعد اس کا کوئی تعلق باقی رہتا ہی نہیں۔اس لیے اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں یہ فرمایا ہے۔
من یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ (الزلزال : ۹)
کوئی برا عمل کرے خواہ کتنا ہی کیوں نہ کرے اس کی پاداش اس کو ملے گی۔یہاں کوئی تخصیص ذات اور قوم کی نہیں اور پھر دوسری جگہ فرمایا
ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔
پس ذاتوں پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو کہ یہ نیکی کے لیے روک کا باعث ہو جاتا ہے۔ہاں ضروری یہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو۔خدا تعالیٰ کے فضل اور برکات اسی راہ سے آتے ہیں۔میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حال میں اﷲ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت ﷺ کی کامل اور سچی اتباع کریں۔قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بنادیں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں نہ صرف قال سے۔اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقینا یاد رکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہوسکتے۔اس لیے کہ خدا ہمارے ساتھ ہوگا۔
لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے نافرمان اور اس سے قطع تعلق کر چکے ہیں تو ہماری ہلاکت کے لیے کسی کو منصوبہ کرنے کی ضرورت نہیں۔کسی مخالفت کی حاجت نہیں۔وہ سب سے پہلے خود ہم کو ہلاک کر دیگا۔
ہمیشہ سے سنت اﷲ اسی طرح پر چلی آئی ہے۔جب بنی اسرائیل نے خد اتعالیٰ کی نافرمانی اختیار کی اور اس نے گناہ کیا۔خدا تعالیٰ نے اس قوم کو ہلاک کیا؛ حالانکہ حضرت موسیٰ ؑپیغمبر اُن میں موجود تھے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ گناہ سے سخت بیزار ارو متنفر ہے۔وہ کبھی پسند نہیں کر سکت اکہ ایک شخص بغاوت کرے ارو اس کو سزا نہ دی جاوے۔
یہ بات بھی خوب یاد رکھو کہ گنہگار خد اتعالیٰ پر ایمان اور یقین نہیں رکھتا۔اگر ایمان رکھتا تو ہر گز گناہ کرنے کی جرأت نہ کرتا۔حدیث میں جو آیا ہے کہ چوری کرنے والا یا زانی یا بدکار اپنے فعل کے وقت مومن نہیں ہوتا۔اس کا بھی یہی مطلب ہے کیونکہ سچا ایمان تو گناہ سے دور کرتا ہے اور شیطاعن کی کُشتی میں وہ شیطان پر غالب آجاتا ہے،لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص علانیہ بدکاری مٰں مبتلا ہے اور دوسری خطا کاریوں سے باوجود یکہ اُن کی براتی سے آگاہ ہے باز نہیں آتا تو پھر بجز اس کے اور کیا کہنا پڑے گا کہ وہ خد اتعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا۔اگر ایمان رکھتا تو کیوں ان بدیوں سے نہ بچتا،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خدا گناہ سے سخت بیزار ہے اور اس کا نتیجہ بہت ہی برا اور تکلیف دہ ہے۔
Amira 28-7-05
انسانی نفس کے مراتب
نفس کی تین حالتیں ہیں۔یا یہ کہو کہ نفس تین رنگ بدلتا ہے۔بچپن کی حالت میں نفسِ زکیّہ ہوتا ہے۔یعنی بالکل سادہ ہوتا ہے۔اس عمر کے طے کرنے کے بعد پھر نفس پر تین حالتیں آتی ہیں سب سے اول جو حالت ہوتی ہیاس کا نام نفسِ امارہ ہے۔اس حالت میں انسان کی تمام طبعی قوتیں جوش زن ہوتی ہیں اور اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے دریا کا سیلاب آجاوے اس وقت قریب ہے کہ غرق ہو جاوے۔یہ جوشِ نفس ہر قِسم کی بے اعتدالیوں کی طرف لے جاتا ہے۔
لیکن پھر اس پر ایک حالت اور بھی آجاتی ہے جس کا نام نفسِ لوامہ ہے۔اس کا نام لوّامہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ بدی پر ملامت کرتا ہے اور یہ حالت نفس کی روا نہیں رکھتی کہ انسان ہر قسم کی بے اعتدالیوں اور جوشوں کا شکار ہوتا چلا جاوے۔جیسا کہ نفسِ امارہ کی صورت میں تھا۔بلکہ نفس لوامہ اُسے بدیوں پر ملامت کرتا ہے۔یہ سچ یہ کہ نفس لوامہ کی خالت میں انسان بالکل گناہ سے پاک اور بری نہیں ہوتا مگر اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اس حالت میں انسان کی شیطان اور گناہ کے ساتھ ایک جنگ ہوتی رہتی ہے۔کبھی شیطان غالب آجاتا ہے اور کبھی وہ غالب آجاتا ہے۔مگر نفسِ لَوّامہ والا خدا تعالیٰ کے رحم کا مستحق ہوتا ہے۔اس لیے کہ وہ بدیوں کے خلاف اپنے نفس سے جنگ کرتا رہتا ہے اور آخر اس کشمکش اور جنگ و جدل میں اﷲ تعالیٰ اس پر رحم کر دیتا ہے اور اُسے وہ نفس کی حالت عطا ہوتی ہے جس کا نام مُطمنّہ ہے۔یعنی اس حالت میں انسان شیطان اور نفس کی لڑائی میں فتح پا کر انسانیت اور نیکی کے قلعہ کے اندر آکر داخل ہو جاتا ہے اور اس قلعہ کو فتح کر کے مطمئن ہو جاتا ہے۔اس وکت یہ خدا پر راضی ہوت اہے اور خدا تعالیٰ اس پر راقی ہوت اہے۔کیونکہ یہ پورے طور پر اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں قتعا اور محو ہو جاتا ہے۔اور خدا تعالیٰ کی مقادیر کے ساتھ اسکو پوری صلح اور رضا حاصل ہوتی ہے؛ چنانچہ فرمایا
یا یتھا النفس المطمئنۃارجعی الی ربک راضیۃ مر ضیۃ۔فادخلی فی عبادی
وادخلی جنتی (الفجر :۲۸-۳۱)
یعنی اے نفر آرام یافتہ جو خدا سے آرام پا گیا یہ اپنے خد اکی طرف واپس چلا آ۔تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر آجا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سچا رجوع اس وقت ہوتا ہے جبکہ خد اتعالیٰ کی رضا سے رضاء انسانی مل جاوے۔یہ وہ حالت ہے جہاں انسان اولیاء اور ابدال اور مقربین کا درجہ پاتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں اﷲ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملتا ہے اور وحی کی جاتی ہے۔اور چونکہ وہ ہر قسم کی تاریکی اور شیطانی شرارت سے محفوظ ہوت اہے۔ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی رضا میں زندہ ہوت اہے،اس لیے وہ ایک ابدی بہشت اور سرور میں ہوتا ہے ۔انسانی ہستی کا مقصد اعلیٰ اور غرض اسی مقام کا حاصل کرنا ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو اسلام کے لفظ میں اﷲ تعالیٰ نے رکھا ہے، کیونکہ اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اﷲ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کرلے۔
بلند تر مراتب پانے کے لیے دعا کی ضرورت ہے
مگر سچ یہ ہے کہ یہمقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا۔ہاں اس میں کلام نہیں کہ انسان کا فرض ہیکہ وہ مجاہدات کرے،لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہے۔انسان کمزور ہے جبتک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا۔اس دشوار گذار منزل کو طے نہیں کر سکتا۔خود اﷲ تعالیٰ نے انسن کی کمزوری اور اس کے ضعفِ حال کے متعلق ارشاد فرمایا ہے
خلق الانسان ضعیفا (النساء : ۲۹)
یعنی انسان اور کمزور بنایا گیا ہے۔پھر باوجدو اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرناسراسر خام خیالی ہے۔اس کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گذار منزلوں کو انسن بڑی آسانی سے طے کر لیت اہے کیونکہ دعا اس فیض اور قوت کو جذب کرنے والی ہے جو اﷲ تعالیٰ سے آتی ہے۔جو شخص کثرت سے دعائوں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پالیتا ہے۔ہاں نری دعا خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ اول تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے اور اس کے ساتھ دعا سے کام لے۔اسباب سے کام لے۔اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے۔اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے۔اور نرے اسباب پر گر رہنا۔اور دعا کو لاشئی محض سمجھنا یہ دہریت ہے۔یقینا سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا ۔اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی۔وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے اردگرد مسلح سپانی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں۔لیکن جو دعائوں سے لا پروا ہے وہ اس شخص کی طرف ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں وار موذی جانوروں سے بھرا ہوا یہ۔وہ سمجھ سکت اہیکہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے۔ایک لمحہ میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا اور اس کی نڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔اس لیے یاد رکھو کہ انسان کی بری سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے۔یہی دعا س کے لیے پناہ ہے۔اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے۔
قرآنی نصائح کا مغز
یہ بھی یقینا سمجھو کہیہ ہتھیار اور نعمت صرف اسلام ہی میں دی گئی ہے۔دوسرے مذاہب اس عطیہ سے محروم ہیں۔آریہ لوگ بھلا کیوں دعا کریں گے جبکہ ان کا یہ اعتقاد ہیکہ تناسخ یک ثکر میں سے ہم نکل ہی نہین سکتے ہیں اور کسی گناہ کی معافی کی کوئی امید ہی نہیں ہے۔ان کو دعا کی کیا حاجت اور کای ضرورت اور اس سے کیا فائدہ اس سے صاف معلوم ہوت اہے کہ آریہ مذہب میں دعا ایک بے فائدہ چیز ہے اور پھر عیسائی دعا کیوں کریں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ دوبارہ کوئی گناہ بخشا نہیں جائیگا، کیونکہ مسیح دوبارہ تو مصلوب ہو ہی نہیں سکتا۔پس یہ خاص اکرام اسلما کے لیے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ امت مرحومہ ہے۔لیکن اگر آپ ہی اس فضل سے محرو م ہو جاویں اور خود ہی اس دروازہ کو بند کر دیں ،تو پھر کس کا گناہ ہے۔جب ایک حیات بخش ثشمہ موجد ہے اور ہر وقت اس مین سے پانی پی سکتاہے۔پھر اگر کوئی اس سے سیراب نہیں ہوتا تو خود طالب موت اور تشنہ ہلاکت ہے۔اس صورت میں تو چاہیے کہ اس پر منہ رکھ دے اور خوب سیراب ہو کر پانی پی لیوے۔یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں۔قرآن شریف کے تیس سپارے ہیں اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں۔لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر پورا عملدر آمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے۔مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے۔دعا کو مضبوطی سے پکڑلو۔میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اﷲ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا۔لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ دعا کیا چیز ہے۔دعا یہی نہیں ہے کہ ثند لفظ منہ سے بڑ بڑا لیے۔یہ تو کچھ بھی نہیں۔دعا اور دعوت کے معنی ہیں۔اﷲ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لیے پکارنا۔اور اس کا کمال اور مؤثر ہونا اس وقت ہوتا ہے جب انسان کمال درد دل اور قلق اور سوز کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کو پکارے ایسا کہ اس کی روح پانی کی طرح گداذ ہو کر آستانہ الوہیت کی طرف بہہ نکلے یا جس طرح پر کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے تو دیکھتے ہو کہ اس کی پکار میں کیسا انقلاب اور تغیر ہوتا ہے۔اس کی آواز ہی میںوہ درد بھرا ہوا ہوتا ہے جو دوسروں کے رحم کو جذب کرتا ہے۔اسی طرح وہ دعا جو اﷲ تعالیٰ سے کی جاوے۔
Amira 3-8-05
اس کی آاز، اس کا لب و لہجہ بھی اور ہی ہوتا ہے۔اس میں وہ رقت اور درد ہوت اہے جو الوہیت کے چشمۂ رحم کو جوش میں لاتا ہے۔اس دعا کے وقت آواز ایسی ہو کہ سارے اعضاء اس سے متاثر ہوجاویں اور زبان میں خشوع خضوع ہو۔دل میں درد ارو رقت ہو۔اعضاء میں انکسار اور رجوع الی اﷲ ہو۔اور پھر سب سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے رحم و کرم پر کامل ایمان اور پوری امید ہو۔اس کی کدرتوں پر ایمان ہو۔ایسی حالت میں جب آستانۂ الوہیت پر گرے۔نمراد واپس نہ ہوگا۔چاہیے کہ اس حالت میں بار بار حضور الٰہی میں عرض کرے کہ میں گنہگار اور کمزور ہوں۔تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔تُو آپ رحم فرما اور مجھے گناہوں سے پاک کر،کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا کوئی اور نہیں ہے جو مجھے پاک کرے۔جب اس قسم کی دعا میں مداومت کرے گا اور استقلال اور صبر کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور تائید کا طالب رہے گا تو کسی نا معلوم وقت پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور سکینت اس کے دل پر نازل ہوگی جو دل سے گناہ کی تاریکی دور کر دیگی۔اور غیب سے ایک قوت عطا ہوگی جو گناہ سے بیزاری پیدا کر دے گی اور وہ ان سے بچے گا۔اس حالت میں دیکھے گا کہ میرا دل جذبات اور نفسانی خواہشوں کا ایسا اسیر اور گرفتار تھا کہ کہ گویا ہزاروں ہزار زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا جو بے اختیار اُسے کھینچ کر گناہ کی طرف لے جاتے تے اور یا یک دفعہ وہ سب زنجیر ٹوٹ گئے ہیں اور آزاد ہو گیا ہے اور جسیے پہلی حالت میں وہ محسوس اور مشاہدہ کرے گا کہ وہی رغبت اور رجوع اﷲ تعالیٰ کی طرف ہے۔گناہ سے محبت کی بجائے نفرت اور اﷲ تعالیٰ سے وحشت اور نفرت کی بجائے محبت ارو کشش پیدا ہوگی۔
یہ ایک زبردست صداقت ہے جو اسلما میں موجود ہے اس کا انکار ہرگز نہیں ہوسکتا۔اس لیے کہ اس کا زندہ ثبوت ہر زمانہ میں موجود رہتا ہے۔میں دعویٰ سے کہتاہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہا گر انسان اس امر کو سمجھ لے اور وہ دعا کے راز سے آگاہ ہو جاوے تو اس میں اس کی بری ہی سعادت اور نیک بختی ہے اور اس صورت میں سمجھو کہ گویا اس کی ساری ہی مرادیں پوری ہو گئی ہیں؛ ورنہ دنیا کے ہّم و غم تو اس قسم کے ہیں کہ انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں۔
روبخدا ہو جائو
جو شخص رُوبَدُنیا ہوتا ہے وہ تھوڑی دور چل کر رہ جاتا ہے کیونکہ نامرادیاں اور ناکامیاں آخر آکر ہلاک کر دیتی ہیں،لیکن جو شخص ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ رو بخا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کے لیے اس کی سب حرکات و سکانات ہوتی ہیں تو خدا تعالیٰ دنای کو بھی ناک سے پکڑ کر اس کا خادم بنا دیتا ہے؛ اگر چہ اس خالت میں بہت فرق ہوتا ہے ۔دنیا دار تو دنیا کا دیوانہ ہوت اہے،لیکنیہ روبخا شخص جس کی دنیا خادم کی جاتی ہے۔دنای اور اس کی لذتوں میں کوئی لذت نہیں پاتا۔بلکہ ایک قسم کی بدمزگی ہوتی ہے،کیونکہ وہ لُطف ارو ذوقِ دنیا کی طرف نہیں ہوتا بلکہ کسی اور طرف ہوجاتا ہے۔
انسان جب اﷲ تعالیٰ کا ہو جات اہے اور ساری راحت اور لذت اﷲ تعالیٰ ہی کی رضا میں پاتا ہے تو کچھ شک نہیں دنیا بھی اس کے پاس آجاتی ہے،مگر راحت کے طریق اور ہو جائیں گے۔وہ دنای اور اس کی راحتوں میں کوئی لذت اور راحت نہیں پاتا۔اسی طرح پر انبیاء اور اولیاء کے قدموں پر دنیا کو لاکر ڈال دیا گیا ہے مگر اُن کو دنیا کا کوئی مزا نہیں آیا،کیونکہ اُن کا رُخ اور طرف تھا۔یہی قانونِ قدرت ہے ۔جب انسنا دنیا کی لذت چہتاہے تو وہ لذت اُسے نہیں ملتی لیکن جب خد اتعالیٰ میں فنا ہو کر دنیا کی لذت کو چھوڑتا ہے اور اس کی آرزو اور خواہش باقی نہیں رہتی تو دنای ملتی ہے،مگر اس کی لذت باقی نہیں رہتی۔یہ ایک مستحکم اصول ہے اس کو بھولنا نہیں چاہیے۔خدایا بی کے ساتھ دنیا یابی وابستہ ہے۔خدا تعالیٰ بار بار فرماتاہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے گا اُسے تمام مشکلات سے نجات ملے گی اور ایسے طور پر اسے رزق دے گا کہ اُسے علم بھی نہ ہوگا۔یہ کس قدر برکت اور نعمت ہے کہ ہر قسم کی تنگی اور مشکلات سے آدمی نجات پا جاوے۔ور اﷲ تعالیٰ اُس کے رزق اک کفیل ہو،لیکن یہ بات جیساکہ خدو اس نے فرمایا۔تقویٰ کے ساتھ وبستہ یہ اور کوئی امر اس کے ساتھ نہیں بتایا کہ دنیوی مکر وفریب سے یہ باتیں حاصل ہوں گی۔
اﷲ تعالیٰ کے بندوں کی علامات میں سے یہ بھی ایک علامت ہے کہ وہ دنیا سے طبعی نفرت کرتے ہیں۔پس جو شخص چاہت اہے کہ اﷲ تعالیٰ اس سے خوش ہو جاوے اور دنیا اور آخرت کی راحت اُسے مل جاوے وہ یہ راہ اختیار کرے۔اگر اس راہ کو تو چھوڑتا ہے اور اور راہیں اختیر کرتا ہے تو پھر ٹکریں مار کر دیکھ لے کہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔بہت سے لوگ ہوں گے جن کو یہ نصیحت بُری لگے گی اور وہ ہنسی کریں گے،لیکن وہ یاد رکھیں کہ آخر ایک وقت آجائے گا کہ وہ ان باتوں کی حقیقت کو سمجھیں گے اور پھر بول اُٹھیں گے کہ افسوس ہم نے یونہی عمر ضائع کی۔لیکن اس وقت کا افسوس کچھ کام نہ دیگا۔اصل موقعہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور پیغامِ موت آجائیگا۔
میں پھر کہتاہوں کہ خدا تعالیٰ کو خوشکرنے کی فکر کرو۔کیونکہ اگر خد اتعالیٰ مہربان ہو جاوے تو ساری دنیا مہربان ہو جاتی ہے،لیکن اگر وہ ناراض ہو تو پھر کوئی بھی کام نہیں آسکتا۔جب اس کا غضب آگیا تودنیا میں کوء مہر بان نہ رہے گا خواہ کیسا ہی مکروفریب کرے۔تسبیحیں الے۔بھگوے ارو سبز کپڑے پہنے۔مگر دنیا اس کو حقیر ہی سمجھے گی۔اگر چند روز دنیا دھوکہ کھا بھی لے تو بھی آخر اس کی قلعی کھُل جائے گی اور اس کا مکر و فریب ظاہر ہو جائے گا،لیکن جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے دنیا اس کی کتنی ہی مخالفت کرے وہ اپنی مخالفت اور منصوبوں میں کامیاب نہ ہوگی۔اس کو گالیاں دے۔لعنتیں بھیجے۔لیکن ایک وقت آجائے گا کہ وہی دنیا اس کی طرف رجوع کرے گی اور اس کی سچائی کا اعتراف اسے کرنا پڑے گا۔میں سچ کہتا ہوں کہ اﷲ جس کا ہو جاتا ہے دنیا بھی اس کی ہو جاتی ہے۔ہاں یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ابتداء اہل دنیا اُن کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اُسے قسم قسم کی تکلیفیں دیتے اور ا س کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔کوئی پیغمبر اور مرسل نہیں آیا جس نے دکھ نہ اُٹھایا ہو۔مکار۔فریبی۔دکاندار اس کا نام نہ رکھا ہو۔مگر باوجود اس کے کہ کروڑہا بندوں نے اس پر ہر قسم کے تیر چلانے چاہے۔پتھر مارے۔گالیاں دیں۔انہوں نے کسی بات کی پروا نہیں کی۔کوئی امر اُن کی راہ میں روک نہیں ہوسکا۔وہ دنیا کو خد اتعالیٰ کی کلام سناتے رہے اور وہ پیغام و لے کر آئے تھے۔اس کے پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اس تکلیفوں اور ایذارسانیوں نے جو نادان دنیاداروں کی طرف سے پہنچیں ان کو سست نہیں کیا بلکہ وہ اور تیز قسم ہوتے یہانتک کہ وہ زمانہ آگیا کہ اﷲ تعالیٰ نے وہ مشکلات ان پر آسان کر دیں اور مخالفوں کو سمجھ آنے لگی اور پھر وہی مخالف دنیا ان کے قدموں پر آگری اور اُن کی راستبازی اور سچائی کا اعتراف ہونے لگا۔دل اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب چاہتا ہے بدل دیتا ہے۔
تبلیغ کی مشکلات
یقینا یاد رکھو۔تمام انبیاء کو اپنی تبلیغ میں مشکلات آئی ہیں۔آنحضرتﷺ جو سب انبیاء علیہم السلم سے افضل اور بہتر تھے ۔یہانتک کہ آپ پر سلسلۂ نبوت اﷲ تعالیٰ نے ختم کر دیا یعنی تمام کمالات نبوت آپ پر طبعی طور پر ختم ہو گئے۔باوجود ایسے جلیل الشان نبی ہونے کے کون نہیں جانتا کہ آپؐ کو تبلیغ رسالت میں کس قدر مشکلات اور تکالیف پیش آئیں اور کفار نے کس حدتک آپؐ کو ستایا اور دُکھ دیا۔اس مخالفت میں اپنی ہی قوم اور چچا اور دوسرے بزرگ سب سے بڑھ کر حصہ لینے اولے تھے۔آپؐ کی مصیبتوں اور تکلیفوں کا زمانہ اتنا لمبا ہوا کہ تیرہ برس تک اپنی قوم سے ہر قسم کے دُکھ اُٹھاتے رہے۔اس حالت میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص کامیاب ہوگا۔کیونکہ ہر طرف مخالفت کا بازار گرم تھا اور خود اپنے رشتہ دار ہی تشنۂ خون ہو رہے تھے جدُی اور برادری کے لوگوں نے جب قبول نہ کیا تو اوروں کو اور بھی مشکلات پیش آگئے۔غرض اس طرح پر آپﷺ کی مصیبتوں کا زمانہ دراز ہو گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس قسم کے مشکلات پیش نہیں آئے کیونکہ حضرت موسیٰ ؑکی قوم بنی اسرائیل نے ان کو فوراً قبول کر لیا تھا۔اس لیے قوم کی طرھ سے کوئی دُکھ اور مصیبت یا روک ان کو پیش نہیں آئی۔لیکن برخلاف اس کے آنحضرت ﷺ کو اپنی ہی قوم سے مشکلات اور انکار کا مرحلہ پیش آیا۔پھر ایسی صورت میں آنحضرت ﷺ کی کامیابیاں کیسی اعلیٰ درجہ کی ثابت ہوئی ہیں جو آپ کے کمالات اور فضائل کا سب سے بڑھ کر ثبوت ہیں۔آنحضرت ﷺ نے جب اﷲ تعالیٰ کے اِذن و امر سے تبلیغ شروع کی تو پہلے ہی آپ کو یہ مرحلہ پیش آیا کہ قوم نے انکار کیا۔لکھا ہے کہ جب آپؐ نے قریش کی دعوت کی اور سب کو بلا کر کہ میں تم سے ایک بات پوچھتا ہو۔اس کا جواب دو۔یعنی میں اگر تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑی بھاری فوج پڑی ہوئی ہے اور ہ اس گھات میں بیٹھی ہوئی ہے کہ موقعہ پاکر تمہیں ہلاک کر دے،تو کای تم باور کروگے۔سب نے بالاتفاق کہا کہ بیشک ہم اس بات کو تسلیم کریں گے۔اس لیے کہ تو ہمیشہ سے صادق اور امین ہے۔جب وہیہ اقرار کر چکے تو پھر آنحضرت نے فرمایا کہ دیکھو میں سچ کہتا ہوں کہ میں خد اتعالیٰ کا پیغمبر ہوں اور تم کو آین والے عذاب سے ڈراتا ہو ں۔اتنی بات کہنی تھی کہ سب آگ ہو گئے اور ایک شریر بول اُٹھا۔ تبا لک سائرالیوم افسوس جو بات ان کی نجات اور بہتری کی تھی نا عاقبت اندیش قوم نے اس کو ہی بُرا سمجھا اور مخالفت پر آماد ہ ہو گئے۔اب اسکے بالمقابل موسیٰ ؑکی قوم کو دیکھو۔بنی اسرائیل باوجود یکہ ایک سخت دل قوم تھی،لیکن انہوں نے حضرت موسیٰ ؑکی تبلیغ پر فوراً ہی اس کو قبول کر لای۔اور اس طرف موسیٰ ؑسے افضل کو قوم نے تسلیم نہ کیا اور مخالفت کے لیے تیار ہو گئے۔مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔آئے دن قتل کے منصوبے ہونے لگے۔اور یہ زمانہ اتنا لمبا ہو گیا کہ تیرہ برس تک برابر چلا گیا۔تیرہ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا۔اس عرصہ میں آپؐ نے جس قدر دُکھ اُٹھائے ان کابیان بھی آسان نہیں ہے۔قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذارسانی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی تھی اور ادھر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے صبر اور استقلال کی ہدایت ہوتی تھی اور بار بار حکم ہوتا تھا کہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے توبھی صبر کر اور آنحضرت ﷺ کمال صب ر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں سست نہ ہوتے تھے بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا۔اور اصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا صبر پہلے نبیوں کا سانہ تھا کیونکہ وہ تو ایک محدود قوم کے لیے مبعوث ہو کر آئے تھے،اس لیے ان کی تکالیف اور ایذارسانیاں بھی اسی حدتک محدود ہوتی تھیں۔؎ٰ لیکن اس کے مقابلہ میں آنحضرت ﷺ کا صبر بہت ہی بڑا تھا،کونکہ سب سے اول تو اپنی ہی قوم آپ ﷺ کی مخالف ہو گئے اور ایذارسانی کے درپے ہوئی اور پھر عیسائی بھی دشمن ہو گئے۔جب اُنکوسنایا گیا کہ حضرت عیسیٰ ؑصرف ایک خد اکے بندے اور رسول تھے تو اُن کو آگ لگ گئی۔کیونکہ وہ تو اُنکو خدا بنائے بیٹھے تھے۔آنحضرت ﷺ نے آکر حقیقت کھول دی۔یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جس کو خدا بنا لیتا ہے اور اپنا مبعود مانتا ہے۔اس کا ترک کرنا آسن نہیں ہوتا بلکہ پھر ا سکو چھوڑنا بہت ہی مشکل ہو جات اہے۔عیسائیوں کا یہ اعتقاد پختہ ہو گیا ہوا تھا۔اس لیے جب انہوں نے سنا کہ آنحضرت ﷺ نے اُن کے مصنوعی خدا کو انسان بنا دیا تو ہ دشمن جان بن گئے اور اسی طرف پر یہودیوں میں بہت سی مشرکانہ رسومات پیدا ہو گئی تھیں اور وہ حضرت مسیح ک بالکل انکار کرتے تھے۔جب اُن کو متنبہ کیا گیا تو وہ بیھ مخالفت کے لیی اُٹھ کھڑے ہوئے۔وہ تو حضرت مسیح کو معاذ اﷲ مکار اور کذاب کہتے تھے۔بالمقابل آنحضرت ﷺ نے اُن کو بتایا کہ تم اُن کو کذاب کہنے میں خود کذاب ہو۔وہ خد اتعالیٰ کا ایک برگزیدہ نبی ہے۔
اس کے علاوہ ان کی مخالفت کی ایک بڑی بھاری وجہ یہ ہوئی کہ وہ اپنی بے وقوفی اور کم فہمی سے یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے آئے گا،کیونکہ توریت میں جیسا کہ سنت اﷲ ہے۔آخر بنی کے متعلق جو پیشگوئی ہے وہ ایسے الفاظ میں ہے جس سے اُن کو یہ شبہ پیدا ہو گیا تھاوہان لکھا ہے کہ تمہارے بھائیوں میں سے۔وہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہی لیے بیٹھے تھے؛ حالانکہ اس سے مراد بنی اسماعیل تھی۔پس جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کا دعویٰ سنا کہ وہ خاتم الانبیاء ہیں تو ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔اور جو کچھ وہ توریت کی اس پیشگوئی کے موافق سمجھے بیٹھے تھے وہ غلط قرار دیا گیا۔اس سے اُن کے آگ لگی اور وہ مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
پیشگوئیوں کے متعلق سنت اﷲ
اصل بات یہ ہیکہ خد اتعالیٰ کی پیشگوئیوں میں سنت اﷲ یہی ہے کہ ان میں اخفاء اور ابتلاء کا بھی ایک پہلو ہوتاہے کیونک اگر یہ پہلو نہ رکھا جاوے تو پھر کوئی اختلاف ہی نہ رہے اور سب ک یاک ہی مذہب ہو جاتا۔مگر خدا تعالیٰ نے امتیاز کے لیے ایسا ہی چاہا ہے۔کہ پیشگوئیوں میں ایک ابتلا کا پہلو رکھ دیتاہے۔کو تاہ اندیش ،ظاہر پرست اس پر اڑ جاتے ہیں اور اصل مقصد سے دور جا پڑتے ہیں۔اسی طرح پر ان یہودیوں کو یہ مشکل پیش آئی۔کہ وہ آنحضرت ﷺ کے متعلق شک میں پڑ گئے ۔اگر توریت میں وہ پیشگوئی صاف الفاظ میں ہوتی کہ آنے والا بنی اسمائیل میں سے ہوگ ااور اس کا نام محمد (ﷺ) ہوگا ۔اس کے باپ کا نام عبد اﷲ بن عبد المطلب ہوگا اور اس کی ماں کا نام آمنہ ہوگاتو یہودی کیونکر انکار کرتے؟ مگر ان کی بدقسمتی سے پیشگوئی میں ایسی صراحت نہ تھی۔وہاں لکھ اتھا کہ تیرے بھائیوں میں سے وہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہی سمجھتے رہے۔
ایسا ہی حضرت عیسیٰ ؑکے وقت بھی یہودیوں کو تھوکر لگی تھی۔ملاکی نبی کی کتاب میں حضرت مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا کے آنے کی پیشگوئی درج ہے۔جب حضرت مسیح آگئے اور اُنہوں نے دعویٰ کیا تو یہودی مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ پہلے الیاس کا آنا ضروری ہے۔اس لیے وہ انکار کرنے لگے؛ چنانچہ انہوں ین خود حضرت مسیح سے یہی سوال کیا کہ الیاس کا آنا جو مسیح سے پہلے ضروری ہے وہ کہاں ہے؟حضرت مسیح نے کہا کہ آنیوالا الیاس آگیا ہے۔یعنی وہ یوحنا ابنِ زکریا کے رنگ میں آیا ہے چاہو تو قبول کرو۔مگر یہ بات ان کی تسلی کا موجب کیونک ہو سکتی تھی۔وہ اس بات پر اڑے رہے کہ وہاں کسی مثیل کے آنے کی خبر تو دی نہیں گئی۔وہان تو خود ایلیا کے آنے کا وعدہ ہے۔اس بنا پر وہ انکار کرتیرہے اور دُکھ اور تکلیفیں بھی پہنچاتے رہے۔یہاںتک کہ اب بھی یہودی یہی یقین رکھتے ہیں۔میرے پاس ایک فاضل یہودی کی کتاب ہے۔اُس نے اس مسئلہ پر ایک لمبی بحث کی ہے اور کاہ یہ کہ ہم اس مسٰخ کو کیونکر قبول کر سکتے ہیں جب کہ اس سے پہلے ایلیا نہیں آیا۔یہ شخص جو یسوع مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا دعویٰ بناوٹی اور جھوٹا ہے کیونکہ وہ ایلی اکے دوبارہ آنے کی جھوٹی تاویل کرتا ہے۔ہم اس کے خالہ زاد بھائی یحییٰ کو کیونکر ایلیاء سمجھ لیں پھر وہ لوگوں کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ ہم کس طرح پر اس شخص کے دعویٰ کو تسلیم کر لیں جبکہ ہمیں یہ خبر دی گئی تھی کہ پہلے ایلیا آئے گا۔اس میں کسی مثیل کا وعدہ نہیں کیا گیا۔آخر میں کہتا ہے کہ اگر خد اتعالیٰ قیامت کو ہم سے سواک کرے گا کہ کیوں اس مسیح کو قبول نہیں کیا، تو ہم ملاکی نبی کی کتاب کھول کر اس کے سمانے رکھ دیں گے۔
اس قسم کے مشکلات ان لوگوں کو کیوں پیش آئے؟ اس کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں پر غور نہیں کیا اور ظاہر الفاظ پر اِڑے رہے۔اسی قسم کے مشکلات اس وقت مسلمانوں کو پیش آئے ہیں۔لیکن اگر غور کیا جاوے تو اُن کے سامنے تو کوئی نظیر اور فیصلہ موجود نہ تھا لیکن ان کے سامنے تو دوبارہ آنے کا مقدمہ فیصل شدہ موجود ہے جو خود حضرت عیسیٰ ؑکی عدالت سے فیصل ہو چکا ہے۔انہوں نے تاویل کر کے بتادیا تھا کہ دوبارہ آنے والے شخص سے مراد وہی نہیں ہوتا۔پھر کس قدر افسوس ہیان پر کہ یہ اس فیصلہ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔
لا یلد غ المومن جحر واحد مرتین
یہودیوں کو جس پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ *** ہو گئے۔اسی پتھر سے یہ ٹھوکر کھاتے ہیں۔یہودی اس وقت دنیا مٰں موجود ہیں۔ان کی کتابیں موجود ہیں۔اُن سے دریافت کر لو کہ کیا ان کا یہ عقیدہ تھا یا نہیں کہ مسیح سے پہلے الیاس آئے گا اور ملاکی نبی کی کتاب میں یہ پیشگوئی درج ہے یا نہیں؟ اور پھر عیسائیوں سے پوچھو اور انجیل میں اس فیصلہ کو پڑھو جو مسیح نے خود کیا ہے۔مومن تو دوسرے کی مصیبت سے عبرت پکڑتا ہے لیکن ان مسلمانوں نے اس سے کای سبق سیکھا؟ یہودی عقیدہ ہے جس کی وجہ سے یہودی داخل جہنم ہوئے۔اب کای یہ بھی یہی چاہتے ہیں؟ میں حیران ہوتا ہون کہ ان کی عقلوں کو کیا ہوگیا۔اگر حضرت مسیح کا وہ فیصلہ جو انہوں نے الیاس کے دوبارہ آنے کے متعلق کیا ہے صحیح نہیں ہے تو ھپر مجھے جواب دیں کہ حضرت مسیح سچے پیغمبر کیونکر ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ اس میں تو کوئی کلام اور شبہ ہی نہیں کہ اُن کے آنے سے پیشتر ایلیا کا آنا ضروری تھا اور ایلیا آسمان سے نہیں آیا۔پھر حضرت مسیحؑ کیونکر سچے نبی ٹھہریں گے۔
اس عقیدۂ فاسدہ سے یہی نہیں کہ یہودیوں کیط رف حصرت عیسیٰ ؑکی رسالت سے انکار کرنا پڑے گا بلکہ آنحصرت ﷺ کی رسالت بھی معاذ اﷲ ہاتھ سے جائے گی۔کیونکہ آپ ﷺ کی آمد اور بعثت حصرت مسیح ؑ کے بعد یہ اور جب ابھی تک مسیح ؑ بھی نہیں آیا تو پھر اسلام کیونکر صحیح ہوگا؟ سثو اور غور کرو کہ تمہری ذراسی ٹھوکر کا اثر کہان تک پہنچتا ہے۔سنو۔اصل حقیقت یہی ہے اور سچا فیصلہ وہی ہے جو حضرت مسیح ؑ نے کر دیا تھا۔اس سے منہ پھیرنا اچھا نہیں ہے۔
فسئلو ااھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (الانبیاء : ۸)
غرض انبیاء علیہم السلام کو اپنی تبلیغ کی رہ میں بہت سی مشکلات ہتی ہیں اور اُن کے مصائب میں سے یہ بھی بڑی مصیبت ہے کہ جس قدر دیر نبی کی کامیابی میں ہوگی۔اسی قدر ہم و غم اس کا پڑے گا۔میں ان مشکلات سے الگ نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بھی منہاجِ نبوت پر قائم کیا ہے۔
جماعت میں شامل ہونے والوں کے لیے نصائح
ہماری جماعت کے لیے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جسیے آنحضرت ﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے؛ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو ماعً دوست، رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں۔السلام علیکم تک کے رو ادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنانہیں چاہتے۔اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں۔لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو۔ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خد تعالیٰ پر ایمان قوی ہواور پایک تبدیلی کا موقعہ ملے۔دعائوں میں لگے رہو۔پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء و رسل کی پیروی کرواور صبر کے طریق کو اختیار کرو۔تماہرا کچھ بی نقصان نہیں ہوتا۔وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے؛ ورنہ چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔تمہیں چاہیے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہٰں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے اُن سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ اُن کے لیے غائبانہ دعا کرو کہ اﷲ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا رکے جو ا۲س نے اپنے فضل سے تمہیں دی یہ۔تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھائو کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔دیکھو میں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیں سُن کر بھی صبر کرو۔بدی کا جاوب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جائے اور نرمی سے جواب دو۔بار ہا ایسا ہوت اہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسد انہ طریق ہو۔جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے سے نرمی جواب ملتاہے اور گالیوںکا مقابلہ نہیں کیا جاتا،تو خود اُسے شرم آجاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہوین لگتا ہے۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوش سے وہ کام نہیں نکلتاجو صبر سے نکلتاہے۔پبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کرلیتا ہے۔یقینا یاد رکھو کہ مجھے بہت ہیرنج ہوتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہت کہ وہ جماعت جو دنیا میںایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کیر اہ نہیں ہے بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتادیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ یہانتک اس امر کی تائید کرتاہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں تو اس معاملہ کو خد اکے سپرد کردو۔تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔میرا معاملہ خد اپر چھوڑدو۔تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو۔تمہیں کیا معلوم ہے کہ میں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہو ں۔اکثر ایسا ہوتاہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں۔ بیرنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کو طور مار ہوت اہے۔ایسی فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں۔ اور میں عتبار نہیں کرتاکہ ابو جہل میں بھی ایسی گلایوں کا مادہ ہو۔لیکن یہ سب کچھ سننا پڑتا ہے۔جب میں صبر کت اہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔درخت سے بڑھ کر توشاخ نہیں ہوتی۔تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے۔آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے۔اُن کی گالیاں،اُن کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہرگز نہیں تھکا سکتے۔اگر میںخدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بیشک میں اُن کی گلایوں سے ڈرجاتا،لیکن میں یقینا جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کای ہے۔پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پروا کروں۔یہ کبیھ نہیں ہو سکتا۔تم خود غور کرو کہ اُن کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے اُن کو یا مجھے؟ ان کی جماعت گھٹی ہے اور میری بڑھی ہے۔اگر یہ گالیاں کوئی روک پیدا کر سکتی ہیں تو دو لاکھ سے زیادہ جماعت کس طرح پید ا ہو گئی۔یہ لوگ ان میں سے ہی آئے ہیں یا کہیں اور سے؟ انہوں نے مجھ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن اس فتویٰ کفر کی کیا تاثیر ہوئے؟ جماعت بڑھی۔اگر یہ سلسلہ منصوبہ بازی سے چلایا گیا ہوتا تو ضرور تھا کہ اس فتویٰ کا اثر ہوتا اور میری راہ میں وہ فتویٰ کفر بڑی بھاری روک پید اکر دیتا۔لیکن جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو انسان کا مقدور نہیں ہے کہ اُسے پامال کر سکے جو کچھ منصوبے میرے مخالف کئے جاتے ہیں۔پہچان کرنے والوں کو حسرت ہی ہوتی ہے۔میں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک عظیم الشان دریا کے سامنے جو اپنے پورے زور سے آرہا ہے اپنا ہاتھ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اس سے رُک جاوے، مگر اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ رُک نہیں سکتا۔یہ اُن گالیوں سے روکنا چاہتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ کبھی نہیں رُکے گا۔کیا شریف آدمیوں کاکام ہے کہ گالیاں دے۔میں ان مسلمانوں پر افسوس کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں جو ایسی بیباکی سے زبان کھولتے ہیں۔میں اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہت اہوں کہ ایسی گندی گالیاں میں نے تو کبھی کسی چوڑھے چمار سے بھی نہیں سنی جو ان مسلمان کہلانے والوں سے سنی ہیں۔
ان گالیوں میں یہ لوگ اپنی خالت کا اظہار کرتے ہی اور اعتراض کرتے ہیں کہ وہ فاسق و فاجر ہیں۔خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ان پر رحم کرے۔ (آمین)
ایسے گالیان دینے والے خواہ ایک کروڑ ہوں۔خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔یہ جانتے ہیں کہایک پیسہ کا کارڈ ہی ضائع ہو گا مگر نہیں جانتے کہ اس پیسہ کے نقصان سے ساتھ نامۂ عمال بھی سیاہ ہو جائے گا۔پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گالیان دی کیوں جاتی ہیں۔کیا صرف اس لیے کہ میں کہت اہوں کہ قرآنِ شریف کو نہ چھوڑو اور آنحضرت ﷺ کی تکزیب نہ کرو۔غرضب کی بات ہے کہ قرآنِ شریف میں لکھ اہو کہ حصرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے اور پھر زمین پر نہیں آئیں گے مگر یہ ماننے میں نہیں آتے اور اس عقیدۂ مخالفتِ قرآن پر اڑتے ہیں۔اگر میں نہ آیا ہوت اور خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم نہ کیا ہوتا،تو یہ جو کچھ چاہتے کہتے کیونکہ اُن کو بیدار کرنے والا اور آگاہ کرنے والا ان میں موجود نہ تھا۔لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے اور میں وہی ہوں جس کو آنحضرت ﷺ نے حکم قرار دیا ہے تو پھر میرے فیصلہ پر چون و چراکرنا ان کا حق نہیں تھا۔طریق تقویٰ تو یہ تھا کہ میری باتوں کو سنتے اور غور کرتے اناکر کے لیے جلدی نہ کرتے۔میں سچ سچ کہتاہوں کہ میرے آنے کے بعد اُن کا حق نہیں ہے کہ یہ زبان کھولیں، کیونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور حکم ہو کر آیا ہوں۔؎ٰ
ابھی بہت زمانہ نہیں گذرا کہ مُقَلِّد غیر مقلدوں کی گلطیان نکالتے اور وہ ان کی غلطیان ظاہر کرتے اور اس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے۔ایک دوسرے کو کافر کہتے اور نجس بتاتے تھے۔اگر کوئی تسلی کی راہ موجود تھی،تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہو چکی تھیں اور لوگ حقیقت کی راہ سے دور جا پڑے تھے۔ایسے اختلاف کے وقت ضرور تھا کہ خد اتعالیٰ خدو فیصلا کرتا؛ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ایک حکم ان میں بھیج دیا۔اب بتائو کہ میں نے کای زیادتی کی ہے یا کیا قرآن شریف سے کم کر دیا ہے جو میری مخالفت کے لیے اس قدر جوش پیدا ہوا ہے؟
یہ سچ ہے کہ اس وحی کی بناء پر جو خد اتعالیٰ کی کامل اور مجید کتاب کی شرح میں ہے میں نین کاہ کہ مسیح ؑ مر گیا ہے،لیکن اس کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟ کیوں یہ قرآن شریف کو غور سے نہیں پڑھتے۔کیا اُن کو شرم نہیںآتی ہے کہ یہ مسلمان کہلاتے ہیںموحد کہلاتے ہیں۔آنحضرت ﷺ کو افضل الانبیء اور خیر البشر تسلیم کرتے ہیں۔لیکن جب وہی لفظ توفی کا آپؐ پر آتا ہے تو اس کے معنی موت کرتے ہیں اور جب مسیح پر آتا ہے تو زندہ مع جسم آسمان پر اٹھائے جاتے ہیں۔ اُن کی غیرت کو کای ہوا؟ یہ آنحضرت ﷺ کی ایسی ہتک کیوں روا رکھتے ہیں؟ کیا قرآن شریف میں
تعد ھم اونتو فینک (یونس : ۴۷)
رسول اﷲ ﷺ کے لیے نہیں آیا؟ اور وہی لفظ مسیح کے لیے متوفیک اور فلما توفیتنی میں آیا ہے۔پھر یہ کیا ہو گیا کہ ایک جگ کچھ اور معنی اور ایک جگہ کچھ اور۔آنحضرت ﷺ کو ایسا ہی کمزور نبی سمجھا ہے جو انہیں زمین میں دفن کرتے ہیں اور مسیح ؓ کو آسمان پر چڑھاتے ہیں۔اگر آنحضرت کی محبت ہوتی اور آپؐ کے جلال اور شوکت کے لیے غیرت ہے تو کیوں نہیں کہہ د یتے کہ وہ بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔تب میں بھی سمجھ لیتا کہ یہ مسیحؑ کی خصوصیت نہیں ٹھہراتے مگر موجودہ حالت میں میرا دل گوارا نہیں کر سکتا کہ میں قرآنِ شریف کے ایسے معنے کروں جو خود قرآنِ شریف اور لُغت اور آنحضرت ﷺ کی تفسیر کے خلاف ہوں اور آنحضرت ﷺ کی ہتک شان کا باعث ہوں۔
میں سچ کہت اہوں کہ جس شخص نے یہ لکھ اہے کہ جو شخص یہ کہے کہ آنحضرت ﷺ زندہ نہیں وہ کافر ہے وہ سچ کہتا ہے۔
اس خصوصیت کے پید اکرنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ تیس لاکھ مرتد ہو گیا۔خد اکے واسطے اس قدر ظلم نہ کرو کہ آنحضرت ﷺ کی شان اور رتبہ کو گھٹایا جاوے۔جو اس عقیدہ سے برا بر گھٹتی ہے کہ وہ تو زمین میں دفن کئے گئے اور مسیح ؑآسمان پر اٹھایا گیا۔مسیح ؑہرگز زندہ نہیں رہا۔وہ مرگیا۔جیس اکہ خد اتعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ
یا عیسیٰ انی متوفیک (آل عمران : ۵۶)
اور خود مسیح ؑنے اقرار کر لیا
فلما توفیتنی (المائدہ : ۱۱۸)
میں پھر کہتا ہوں کہ عیسائیوں کو اعتراض کا موقعہ نہ دو۔میری باتوں کو سنو اور غور سے سنو اور پھر اپنی جگہ پر جا کر سوچو۔؎ٰ
۳؍ستمبر ۱۹۰۴ء
بمقام لاہور
مذہبی رواداری کی تعریف
حضرت اقدسؑ کی تیسری تقریر جو حضور نے بارہ ہزار سے زائد آدمیوں کے مجمع میں حاضرین کی بیحد خواہش سے کی:
میں آپ سب صاحبوں کا شکر کرتا ہوں کہ آپ نے نہایت صبر اور خاموشی کے ساتھ میرے لیکچر کو سنا۔میں ایک مسافر آدمی ہوں اور کل صبح انشاء اﷲ چلا جائوں گا۔لیکن میں اس شکر اور خوسی کو ساتھ لے جائوں گا۔اور یاد رکھوں گا کہ باوجود اختلاف رائے کے (کہ جس کی وجہ سے عموماً جوش پید اہو جاتاہے) آپ نے نیکی اور نیک اخلاقی اور آہستگی سے میرے مضمون کو سنا۔میں یہ جانتا ہوں اور خود محسوس کرتا ہوں کہ مدت کے خیالات کو چھوڑنا سہل اور آسان نہیں ہوتا خواہ وہ کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں۔
Amira 4-8-05
یہ محض اﷲ تعالیٰ کے فضل پر موقوف یہ کہ انسان اپنے اندر علمی یا عملی تبدیلی کر سکے،لیکن جو اخلاق آپ نے دکھائے ہیں ہ نہایت ہی قبل تعریف ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ جیسے اﷲ تعالیٰ نے عام طور پر یہ اجتماعی رنگ دکھایا ہے وہ ایسا وقت اور زمانہ بھی لاوے کہ د لوں میں بھی اتحاد اور اجتماع ہو اس ملک کو تفرقہ نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اس ملک کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں بہت بڑا اتحاد اور اتفاق تھا اور باوجود اختلافِ مذاہب بھی ان میں قابل قدر میل ملاپ تھا مگر اس زمانہ میں فرق آگیا اور خدا کرے کہ یہ دور ہو جائے۔
یاد رکھو کہ یہ تنگ دلی اور تنگ ظرفی کا نشان ہے کہ انسان اختلافِ شریعت و مذہب کی وجہ سے اخلاق کو بھی چھوڑدے۔اختلافِ رائے اور چیز ہے اور اخلاق اور۔یہ انسانی اخلاق کی خوبی اور کمل ہے کہ اباوجود اختلافِ رائے کے اخلاقی کمزوری نہ دکھائے۔آج کے جلسہ نے مجھے ایک تازہ امید دلائی ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ اپنا فضل کرے تو یہ میل جول ترقی کریگا۔میں خوب جانت اہوں کہ جبتک طبیعت میں یہ استعداد نہیں ہوتی کہ کوئی شخص صبر اور خوش خلقی سے ایک مخالف رائے کو سُن سکے وہایسی رائے کو سُن کر چپ نہیں رہ سکتا۔اسی لیے یہ خاموشی اور صبر مجھے امید دلاتا ہے کہ اچھے نتیجے پیدا ہوں گے۔یہ بھی خوبی کی بات ہے کہ جب مخالف رائے کو سنے تو فوراً جواب دینے کو تیار نہ ہو جائے کیونکہ یہ تو محض ہارجیت کی خواہش ہوگی،لیکن اس رائے کے صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لیی اس پر صبر سے فکر کرنا چاہیے۔اس سے علمِ و حکمت پیدا ہوتی ہے اور علم و حکمت ایسا خزانہ ہیجو تمام دولتوں سے اشرف ہے۔دنیا کی تمام دولوتوں کو فنا ہے،لیکن علم و حکمت کو فنا نہیں ہے۔پس جو جلدی نہیں کرتا بلکہ فکر کرتا اور اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ اے اﷲ اگر میں غلطی پر ہوں تو مجھے بصیرت اور معرفت عطا کر۔وہ اس حکمت کے خزانہ کو محفوظ رکھتا ہے۔پس میں چاہتا ہوں کہ آپ صاحبان اس خزانہ کے حاصل کرنے اور محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔
میں آپ صاحبوں کی خدمت میں ادب ،عجز اور تواضع سے عرض کرتا ہوں کہ یہ جو کچھ سنایا گیا ہے آپ اس پر توجہ کریں تاکہ میری محنت ضائع نہ ہو۔جو کچھ میری قلم سے نکلا ہے اور میرے دوست مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھا ہے میں اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ کسی کی دل آزاری یا استخفافِ مذہب کی نیت سے نہیں لکھا بلکہ خدا گواہ ہے اور اس سے بہتر کون گواہ ہو سکتاہے کہ میں نے سچے دل سے لکھاہے اور بنی نوعِ انسان کی ہمدردی کے لیے لکھ ہے اور میں جانتا ہوں کہ ؎
سخن کز دل بروں آید نشیند لا جرم بر دل
چونکہ فرصت بہت کم ہے۔ممکن ہے کہ بعض نے نہ سنا ہو اس لیے ہم نے چھپا دیا ہے اور بشرط گنجائش مل سکتا ہے۔پس اس کو پڑھ کر توجہ کریں اور مذہبی مخالفت کو عام مخالفت کا ذریعہ نہ بنادیں۔مذہب تو اس لیے ہوت اہے کہ اخلاق وسیع ہوں جیسے خدا تعالیٰ کے اخلاق وسیع ہیں۔کوئی ہزاروں گالیاں اُسے دے وہ اس پر پتھر نہیں برسا دیتا ۔پس اسی طرح حقیقی مذہب والا تنگ ظرف نہیں ہوسکتا۔تنگ ظرف خواہند دیا مسلمان ی عیسائی وہ دوسرے بزرگوں کو بھی بدنام کرتا ہے۔میں اس سے منع نہیں کرتاکہ اختلافِ مذہب بیان نہ کرو۔بیشک نیک نیتی سے اختلاف بیان کرو۔مگر اس میں تعصب اور کینہ کا رنگ نہ ہو۔ہندوئوں اور مسلمانوں کے تعلقات دوچار سال سے نہیں بلکہ صدہا سال سے چلے آتے ہیں۔اس لیی خد اکرے کہ بہت سے دلوں میں جوش ڈال دے کہ جوان تعلقات کو دور نہ ہونے دیں۔
یہ بھی یاد رکھو کہ مذہب صرف قیل و قال کا نام نہیں بلکہ جبتک عملی حالت نہ ہو کچھ نہیں۔خدا س کو پسند نہیں کرتا۔جس قدر بزرگ اسلام میں یا ہندوجوں میں اوتار وغیرہ گذرے ہیں ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے عمل سے اُن سچائیوں کو جن کا وہ وعظ کرتے تھے ثابت کر دکھیا ہے۔قرآنِ شریف میں بھی یہی تعلیم ہے۔
یا یھا الذین امنو ا علیکم انفسکم (المائدۃ : ۱۰۶)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اپنے آپ کو درست کرو۔جس شخص کے اندر خود روشنی اور نور نہیں ہے وہ اگر زبان سے کام لے گا تو وہ مذہب کو بچوں کا کھیل بنادے گا اور حقیقت میں ایسے ہی مصلحوں سے ملک کو نقصان پہنچاہے۔ان کی زبان پر تو منطق اور فلسفہ جاری رہتاہے مگر اندر خالی ہوتا ہے۔
مصلح کی صفات
خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نہایت خیر خواہی سے کہہ رہا ہوں خواہ کوئی میری باتوں کو نیک ظنی سے سنے یا بد ظنی سے ،مگر مین کہوں گا کہ جو شخص مصلح بننا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہپہلے خود روشن ہو اور اپنی اصلاح کرے۔دیکھو یہ سورج جو روشن ہے ہلے اس نے خود روشنی حاصل کی ہے۔میں یقینا سمجھتا ہوں کہ ہر ایک قوم کے معلم نے یہی تعلیم دی ہے،لیکن اب دوسرے پر لاٹھی مارنا آسان ہے،لیکن اپنی قربانی دینا مشکل ہوگیا ہے۔پس جو چاہتا ہے کہ قوم کی صلاح کرے اور خیر خواہی کرے۔وہ اسکو پانی اصلاح سے شروع کرے۔قریم زمانہ کے رشی اور اوتار جنگلوں اور بنوں میں ج کر اپنی اصلاح کیوں کرتے تھے وہ آجکل کے لیکچراروں کی طرح زبان نہ کھولتے تھے جبتک خود عمل نہ کر لیتے تھے۔یہی خد اتعالیٰ کے قُرب اور محبت کی راہ ہے۔جو شخص دل میں کچھ نہیں رکھتا اس کا بیان کرنا پر نالہ کے پانی کی طرح ہے،جو جھگڑے پیدا کرتا ہے اور جو نورِ معرفت اور عمل سے بھر کر بولت اہے وہ بارش کی طرخ ہے جو رحمت سمجھی جاتی ہے۔اس وقت میری نصیحت یاد رکھیں۔آج کے بعد آپ مجھے یہاں نہ دیکھیں گے اور میں نہیں جانت اکہ پھر موقعہ ہو یا نہ ہو،لیکن ان تفرقوں کو مٹانے کی کوشش کرو۔میری نسبت خواہ آپ کا کچھ ہی خیال ہو لیکن یہ سمجھ کر کہ ؎
مرد باید کہ گیرد اندر گوش
در نوشت است پند بر دیوار
میری نصیحت پر عمل کرو۔جو شخص خود زہر کھا ثکا ہے وہ دوسرون کی زہر کا کیا علاج کرے گا۔اگر علاج کرتا ہے تو خود بھی مرے گا اور دوسروں کو بھی ہلاک کرے گا۔کیونکہ زہر اس میں ار کرچکا یہ اور ا سکے خواص چونکہ قائم نہیں رہے۔اس لیے اس کا علاج بجائے مفید ہوین کے مضر ہوگا۔غرض جس قدر تفرقہ بڑھتا جاتا ہے اس کا باعث وہی لوگ ہیں جنہوں نے زبانوں کو تیز کرنا ہی سیکھا ہے۔
دوسرے مذاہب کی حیثیت
یہ بھی یاد رکھو کہ میرا یہ مذہب نہیں کہ اسلام کے سوا سب مذاہب بالکل جھوٹے ہیں۔میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ وہ خدا ج مخلوق کا خد اہے وہ سب پر نظر رکھتا ہے۔یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی قوم کی پرواہ کرے اور دوسروں پر نظر نہ کرے۔ہاں یہ سچ ہے کہ حاکم کے دورے کی طرح کھی کسی قوم پر وہ وقت آجاتا ہے اور کبھی کسی پر۔میں کسی کے لیے نہیں کہتا۔خد اتعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظہار کیا ہے کہ راجہ رامچندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راستباز بندے تھے اور اس سے سچا تعلق رکھتے تھے۔میں اس شخص سے بیزار ہوں جو ان کی نندیا یا توہین کرتا ہے۔اس کی مثال کنوئیں کے مینڈک کی سی ہے جو سمندر کی وسعت سے ناواقف ہے۔جہانتک ان لوگوں کے صحیح سوانح معلوم ہوتے ہیں اس سے پایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدات کیے اور کوشش کی کہ اس راہ کو پائیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی حقیقی راہ ہے۔پس جس شخص کا یہ مذہب ہو کہ وہ راستباز نہ تھے وہ قرآنُِ شریف یک خلاف کہتا ہے کیونکہ اس میں فرمایا ہے
وان من امۃالا خلافیھا نذیر (فاطر : ۲۵)
یعنی کوئی قوم اور اُمت ایسی نہیں گذری جس میں کوئی نذیر نہ آیا ہو۔میں بابا نانک صاحب کو بھی خدا پرست سمجھتا ہوں اور کبھی پسند نہیں کرتا کہ ان کو بُرا کہا جائے۔میں ان کو ان لوگوں میں سے سمجھتا ہوں جن کے دل میں خدا تعالیٰ اپنی محبت آپ بٹھا دیتا ہے۔پس ان لوگوں کی پیروی کرو۔اور دل کو روشن کرو۔پھر دوسروں کی اصلاح کے لیے زبان کھولو۔اس ملک کی شائستگی اور خوش قسمتی کا زمانہ تب آئے گا جب نری زبان نہ ہوگی۔بلکہ دل پر دار و مدار ہوگا۔پس اپنے تعلقات خدا تعالیٰ سے زیادہ کرو۔یہی تعلیم سب نبیوں نے دی ہے اور یہی میری نصیحت ہے۔اگر درخانہ کس است حرفے بس است۔؎ٰ
۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء بمقام قادیان بعد نماز مغرب
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہ نشین پر جلو ہ افروز ہو کر فرمایا کہ :
میرے سر کی حالت آج بھی اچھی نہیں ،چکر آرہا ہے۔جب جماعت کا وقت آتا ہے ۔تو اس وقت خیال گذرتا ہے کہ سب جماعت ہوگی اور میں شامل نہ ہوں گا اور افسوس ہوتا ہے۔اس لیے افتاں خیزاں چلا آتا ہوں۔
چند اصحاب اپنی مستورات کے علاج ک لیے لاہور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور انجام کار
معلوم ہوا کہ مس ڈاکٹروں کے علاج سے کوئی فرق مرض میں معلوم نہیں ہوتا۔اس لیے حضورؑ
نے فرمایا کہ :
چونکہ یہ لوگ متدیّن نظر نہیں ئتے۔اس لیی خطرہ ہے کہ کوئی اور تکلیف نہ بڑھ جاوے۔انکو کہہ دو کہ چلے آویں۔شافی اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔دائیوں کا دستور ہوتا ہے کہ محض روپیہ بٹورنے کی خاطر وہ مرض کو بڑھاتی جاتی ہیں۔قادیان کی آب و ہوا لاہور کی نسبت بہت عمدہ ہے۔اس سے اُن کو فائدہ ہوگا۔ہم اس لیے کہتے ہیں کہ جو بات دل میں آوے اُسے مخفی رکھا جاوے تو یہ ایک قسم کی خیانت ہے۔
بعض امراض کا علاج
عورتوں کے بعض امراض اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اُن کے علاج کے لیے کھلی ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے بعض رؤسامیں جو اشد درجہ کا پردہ رائج ہے،میں اس کے خلاف ہوں۔بعض عورتوں کو بعض وقت کھلی ہوا میں پھرانا چاہیے۔دیکھو حضرت عائشہ صدیقہؓ رفع حاجت کے لیے باہر جایا کرتی تھیں کیا پھر آجکل کے رؤساء کی عورتیں اُن سے بڑھ کر ہیں؟
حضرت حکیم نورالدین صاحب نے فرمایا کہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ مراق کے تین علاج ہیں۔
اول چلنا پھرنا۔دوسرے بیکار نہ رہنا۔کسی نہ کسی شغل میں مصروف رہنا۔تیسرے ہینگ اور
افسنتین کا استعمال۔
حصولِ اولاد کے لیے اﷲ تعالیٰ کے فضل ہی کی ضرورت ہے وا رقرآن شریف اورتورات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔حضرت یوسف ؑ کی والدہ بہت ضعیف تھیں اور ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ان کی نسبت تورات میں لکھا ہے کہ خداوند نے کہ کہ میں نے اس کے رحم کو کھولا ؎ٰ۔پس خدا تعالیٰ ہی کھولے تو کُھل سکتا ہے۔
(مگر یاد رہے کہ اس تقریر سے دائیوں کے علاج کی حرمت نہ سمجھی جائے)۲؎
۱۹؍اکتوبر ۱۹۰۴ء
سیالکوٹ سے احمدی جماعت کی طرف سے دعوت کا پیغام آیا۔آپ نے فرمایا کہ :
تین چار روز کے بعد جواب دوں گا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ حضورؑ استخارہ کے بعد روانگی کی تاریخ مقرر کریں گے۔؎ٰ
۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۴ء بوقت ظہر
تجارتی روپیہ پر منافع
ایک صاحب کی خاطر حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے ایک مسئلہ حصرت اقدس ؑ سے دریافت کای کہ یہ ایک شخص ہیں جن کے پاس بیس بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے۔ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجرت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لیے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے۔اسی طرح ہر یک شئے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آوے وہ امانت رہے۔سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سو روپیہ ان کو منافع کا دے دیا کرے گا۔یہ اس غرض سے یہاں فتویٰ دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو اُن کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کرلی جاوے۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ :
چونکہ اُنہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے اسلئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ادا ہوا کرتی ہے۔دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں۔لہذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو اُن کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے۔اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں۔سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں) لیا جاتا ہے۔اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہو گئے ہیں۔کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔اسلئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔۲؎
احباب کی ضروریات کا خیال
ظہر کی نماز سے پیشتر حضورؑ نے کچھ روپے جن کی تعداد غالباً آٹھ یا دس ہوگی ایک مخلص مہاجر کو یہ کہہ کر دیئے کہ چونکہ موسم سرما ہے آپ کو کپڑوں کی ضرورت ہوگی۔اس مہاجر کی طرھ سے کوئی سوال نہ تھا۔خود حضورؑ نے ان کی ضرورت کو محسوس کرکے یہ رقم عطا کی جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ کو مخلص خدام کی ضرورت کا کس قدر خیال ہے۔
گناہوں سے معصوم انبیاء ہیں۔لیکن دوسرے لوگ توبہ و استغفار کے ذریعہ سے اُن سے مشابہت پیدا کر لیتے ہیں۔؎ٰ
۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۴ء
اﷲ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے
ایک صاحب کے رشتہ دار کسی وجہ سے قید ہو گئے تھے۔ان کے ذکر پر حصرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے عرض کی کہ میں نے اُن سے یہ کہا ہے کہ اُسے خود استغفار کی تاکید کی جاوے۔اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ :
بعض لوگ جو استغفار کے لائق ہیں وہ تو استغفار کرتے ہیں اور دوسروں کو محض خدا تعالیٰ کی رحمت سے بھی رہائی مل جایا کرتی ہے۔جن کی طبیعت میں کجی ہے ان کے لیے اس کی رحمت وسیع ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فارسی کا ایک الہام
ایک دفعہ آنحضرتﷺ سے ایک نے دریافت کیا کہ کیا اﷲ تعالیٰ نے کبھی فارسی زبان میں بھی کلام کی ہے۔تو آپؐ نے فرمایا۔ہاں۔ایک دفعہ یہ فقرہ الہام ہوا تھا ؎
ایں مُشتِ خاک راگر نہ بخشم چہ کنم
روس اور جاپان کی جنگ
اس جنگ کے ذکر پر حضرت حکیم نورالدین صاحب نے بیان کیا کہ اس قدر خو نخوار جنگ ہے کہ ہزاروں آدمی ہلاک ہورہے ہیں؛ حالانکہ دونوں سلطنتوں کا مذہب ایسا ہے جس کی رو سے اس جنگ کی مطلق نوبت ہی نہ آنی چاہیے۔جاپان کا بُدھ مذہب ہے اور اس کی رو سے ایک چیونٹی کا مارنا بھی گناہ ہے۔رُو س عیسائی ؎ٰ ہے اور اُن کو چاہیے کہ مسیح کی تعلیم کے بموجب اگر جاپان ایک مقام پر قبضہ کرے تو دوسرا مقام خود اس کے حوالہ کر دیں۔
چند عیسائیوں سے گفتگو
آج تین عیسائی حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کے لیے تشریف لائے۔ایک نو جوان تھے جو کہ ایک صاحب کے بچے تھے اور باقی میں سے ایک صاحب ڈاکٹر تے۔جو کہ ضعیف العمر تھے اور ایک قاضی صاحب پشاوری جوان مرد تھے۔ایک صاحب ان میں سے وہ تھے جنہوں نے تحقیقِ مذاہب کی بناء پر نیاز مند انہ طور پر حضرت اقدس سے کسی زمانہ میں خط و کتابت کی تھی جس کی وجہ سے انکو کمال شوق حضورؑ کی زیارت کا تھا۔خانقاہوں میں سے ایک مشہور خانقاہ ہے جہاں اکثر لوگ مشرکانہ عقائد کی بناء پر زیارت وغیرہ کے لیے جاتے ہیں۔وہاں کی نسبت ایک عیسائی صاحب نے ذکر کیا کہ جالندھر کے ضلع کے لوگوں کے لیے وہ یہ کیا کرتے ہیں کہ ایک سفید کبوتر کی ٹانگیں کمزور کر کے قبر پر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیںکہ صاحبِ مزار کی روح اس میں حلول کر آئی ہے اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ :
یہ کبوتر پیچھا نہیں چھوڑتا
اس کے بعد حضرت اقدس اور عیسائی صاحبوں میں ذیل کی گفتگو ہوئی جس میں اکثر روئے سخن
ڈاکٹر صاحب کی طرف ہی تھا۔
حضرت اقدس- ادھر آپ کا آنا کس تقریب پر ہوا؟
ڈاکٹر صاحب- صرف زیارت کی غرض سے کیونکہ ایک عرصہ سے شوق تھا۔
حضرت اقدس۔ مگر تاہم ایسی کونسی تقریب ہوئی کہ آپ ادھر آگئے؟
ڈاکٹر صاحب۔ مین نے رخصت لی تھی اور بال بچوں کو لے کر آیا تھا۔وہ لاہور میں ہیں اور خود ادھر
آیا ہوں۔بڑا باعث رخصت کا آپ کی ملاقات ہی تھی۔
حضرت اقدس۔ اب رخصت کے لکتنے دن باقی ہیں؟
مفتی صاحب۔ (حساب کر کے) ۱۷ دن باقی ہیں۔
حضرت اقدس ۔ تو اب آپ کو یہ ایام یہان ہمارے پاس ہی گذارنے چاہئیں۔
حکیم نور الدین صاحب۔ یہ تو آج ہی رخصت ہوتے تھے مگر رات کو میں نے رکھ لیا ہے۔
حضرت اقدس۔ جب رخصت ہمارے لیے لی تو پھر رخصت کے ایام ہمارے پاس گذارنے چاہئیں۔
عیسائی قاضی صاحب۔ اتنی فرصت نہیں۔زیارت مقصود تھی سو ہو گئی۔
حضرت اقدس۔ ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کرکے۔اب پھر کیا صلاح ہے۔کتنے دن رہوگے؟
عیسائی قاضی صاحب نے پھر جلدی جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔
حضرت اقدس۔ یہ مہمان داری کے ادب کے خلاف ہے اور آپ کے ارادے کے بھی برخلاف
ہے کہ اس قدر جلدی کی جاوے۔میرا ارادہ جمعرات کو سیالکوت جانے کا ہیتب تک
رہیں۔پھر اکٹھے چلیں گے۔؎ٰ
اس اثنا میں نماز کا وقت ہو یگا۔حضرت اقدس نے حکم فرمایا کہ ان کی خوابگاہ اور بساتر اور خوراک
وغیرہ کا اہتمام بہت عمدہ طور سے کر دیا جایوے کہ کوئی تکلیف نہ ہو اور ہرسہ صاحبان تشریف لے
گئے۔دوسرے دن احمدی عمارات اور کارخانوں کو دیکھ کر رخصت ہوگئے۔
۲۲؍اکتوبر ۱۹۰۴ء
ایک شخص بیمار کا ذکر ہوا۔آپ نے فرمایا کہ :
انسان خال تندرستی میں صحب کی قدر نہیں کرتا (کہ ان ایام میں اپنے تعلقات اﷲ تعالیٰس ے مضبوط کرے تا کہ وہ ہر طرف اس کا حافظ و ناصر ہو ۲؎)اور جب بیمار ہوتا ہے تو ھپر دوبارہ صحت اس لیے طلب کرتا ہے کہ انہی دنیا کے امور میں مبتلا ہو (اگر اس کا ارادہ خدمت دین ہو تو اس کا صحت طلب کرنا گویا منشائے الٰہی کے مطابق ہوگا ۲؎)
اسی بیمار کی نسبت ذکر ہوا کہ اس نے کئی سو روپیہ لوگوں سے لینا ہے،مگر صرف چند روپوں کے کاغذات ہیں باکی تمام زبانی لین دین ہے اور اس کی دو لڑگیاں ہیں۔بعض احباب نے تجویز کیا کہ جو کچھ رقوم لوگوں کے ذمہ ہیں اور وہ تحریر میں نہیں آئیں تو چاہیے کہ اب دو آدمی گواہ مقرر کر کے اس کی زندگی میں وہ رقمیں ان مقرو ضوں کی منوالی جاویں۔اور تحریر کردا لیا جاوے۔
حضور ؑ نے فرمایا کہ :
اس کی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔یہ بڑے ثواب کی بات ہے۔ممکن ہے کہ اگر وہ مر جاوے تو بیچاری لڑکیوں کو ہی کچھ فائدہ پہنچ جاوے۔
اسلام میں مساوات
اہل اسلام کی وحدت اور اخوّت پر ذکر ہوا کہ عیسائیوں نے بھی اس خوبی کو تسلیم کیا ہے کہ مسلمان لوگ جب مسجد میں داخل ہو جاویں تو اُن میں بادشاہ اور امیر و غریب کی کوئی تمیز نہیں رہتی اور کسی کو حق نہیں کہ کسی قسم کا امتیاز کرے؛ حالانکہ عیسائیوں کے گرجے اس سے محروم ہیں۔خاص انگریزوں کے گرجوں میں عام عیسائی لوگ داخل نہیں ہوسکتے۔پھر گرجوں میں درجہ بدرجہ چوکیان لگی ہوتی ہیں اور رومن کیتھولک تونشستگاہوں پر نام بھی لکھ دیتے ہیں۔
اس پر حضور ؑ نے فرمایا کہ :
مسلمانوں کے معبد میں یہ ایک بے نظیر نمونہ ہے کہ سب کو یکساں نظر سے دیکھ اجاتا ہے۔
مولان حکیم نورالدین صاحب نے عرض کی کہ ہماری مسجد میں تو خود امام الوقت بھی مقتدی بنکر نماز پڑھتا ہے۔
مہمان خانہ کے منتظمین کے لیے ہدایات
مہمان کی تواضع کے متعلق آپ نے فرمایا کہ :
لنگرخانہ کے مہتمم کو تاکید کر دی جاوے کہوہ ہر ایک شخص کی اختیاج کو مد نظر رکھے مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اُسے خیال نہ رہتا ہے، اس لیے کوئی دوسرا شخص یاد دلا دیا کرے۔کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دست کش نہ ہوان چاہیے،کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے ناواقف آدمی ہیں تو یہ ہمارا حق ہیکہ اُن کی ہر ایک ضرورت کو مد نظر رکھیں۔بعض وقت کسی کو بیت الخلا کا ہی پتہ نہیں ہوت اتو اُسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھ اجاوے۔میں تو اکثر بیمار رہتا ہوں، اس لیے معذور ہوں۔مگر جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لیے قائمقام کیا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں۔کیونکہ لوگ صدہا اور ہزار ہا کوس کا سفر طے کرکے صدق اور اخلاص کے ساتھ تحقیق حق کے واسطے آئے ہیں۔پھر اگر ُن کو یہاں تکلیف ہوتو ممکن ہے کہ رنج پہنچے اور رنج پہنچنے سے اعتراض بھی پید اہوتے ہیں اس طرح سے ابتلا کاموجب ہوتا ہے۔اور پھر گناہ میزبان کے ذمہ ہوتا ہے۔
بیان کیا گیا کہ حضور بعض لوگ جو مسافر خانہ میں نوواردوں سے مذہبی مناظرے شروع کردیتے ہیں اور اس میں وہ اپنے خیل اور رائے کے موافق کلام کرتے ہٰں جو کہ بعض اوقات بے محل اور حضور کے منشا کے خلاف بھی ہوتی ہے اور نووارد متلا شی بھی اس سے اندازہ لگاتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا یہی مشرب ہوگا؛ حالعانکہ یہ بالکل غلطی ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ نوواردوں کے لیے ابتلا ہوتاہے۔
حضور ؑ نے تجویز فرمایا کہ :
اس قسم کی کلام ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ہمارے بعض مناظرین کو چونکہ نصریٰ کے ساتھ کلام کرنی پڑتی ہے اور جب وہ آنحضرت ﷺ کی کسر شان کرتے ہیں تو محل اور موقعہ کے لحظ سے اُن کو یسوع کی نسبت اسی قسم کے ثبوت دینے پڑتے ہیں۔اور وہ مقتضائے وقت ہوتا ہے مگر ہر ایک آدمی اس کا اہل نہیں ہے اور دوسرے لوگ اکثر کسی نبی کی شان میں بھی کوئی کلمہ گستاخی یا بے ادبی کا ستعمال کرتے ہیں، تو وہ گناہ کرتے ہیں۔یہ کبھی نہ گمان کرنا چاہیے کہ حضرت مسیحؑ یا دوسرے انبیاء ایک معمولی آدمی تھے۔یوہ اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ اور مقرب تھے۔قرآن شریف نے مصلحت اور موقعہ کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی نسبت ایک لفظ اس قسم کا بیان فرمایا ہے کہ جہاں آپ کے بہت سے انوار و برکات اور فضائل بیان کیے ہیں وہاں…
بشر مثلکم (الکہف :۱۱۱)
بھی کہہ دیا ہے مگر اس کے یہ ہرگز معنی نہیں ہیں کہ آنحضرت ﷺ فیالواقعہ ہی عام آدمیوں جیسے تھے۔اﷲ تعالیٰ نے یہ لفظ آپ کی شان میں ساس لیے استعمال فرمایا کہ دوسرے انبیاء کی طرح آپ کی پرستش نہ ہو اور آپ کو خدا نہ بنا یا جاوے۔اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ آپؐ کے فضائل و مراتب ہی سلب کر دیئے جاویں۔؎ٰ
آخر کار تجویز ہوا کہ ایک صاحب ذی وجاہت و ذی اثر کے ہاتھ میں مہمانوں کی تواضع کا اہتمام دیا جاوے۔
۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۴ء
(بوقت ظہر)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تصویری کارڈ
ظہر کے وقت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں ایک شخص کی تحریری درخواست بذریعہ کارڈ کے ان الفاظ میں پیش کی۔کہ یہ شخص حضور کی تصویر کو خط و کتابت کے کارڈوں پر چھاپنا چاہتے ہیں اور اجازت طلب کرتے ہیں۔
اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ :
میں تو اسے ناپسند کرتا ہوں
یہ الفاظ جاکر میں نے اپنے کانوں سے سنے۔لیکن حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حکیم فضل دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس سے پیشتر آپ نے یہ الفاظ فرمائے کہ :
یہ بدعت بڑھتی جاتی ہے۔میں اسے ناپسند کرتا ہوں؎ٰ
۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء
حضرت مسیح موعودؑ سیالکوٹ تشریف لے جارہے تھے۔بٹالہ ریلوے اسٹیشن پر جماعت بٹالہ نے آکر شرف نیاز حاصل کیا۔ایک صاحب نے عرض کیا کہ ہم چاہتے ہیں کوئی محنت و تکلیف نہ اُٹھانی پڑے اور کمال حاصل ہو جائے اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ : ۲؎
حصول کمال کے لیے مجاہدہ شرط ہے
اس قسم کے لوگ ہمیشہ گذرے ہیں جو چاہتے ہیں کہ بغیر کسی قسم کی محنت اور تکلیف اور سعی اور مجاہدہ کے وہ کمالات حاصل کر لیں جو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں۔صوفیاء کرام کے حالات میں لکھ اہے کہ بعض لوگوں نے آکر اُن سے کہا کہ کوئی ایسا انتظام ہو کہ ہم پھونک مارنے سے ولی ہو جاویں۔ایسے لوگوں کے جواب میں انہوں نے یہی فرمایا کہ پھونک کے واسطے بھی تو قریب ہونے کی ضرورت ہے،کونکہ پھونک بھی دور سے نہیں لگتی۔
قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
لیس للانسان الا ما سعی (النجم : ۴۰)
یعنی کوئی انسان بغیر سعی کے کمال حاصل نہیں کرسکتا۔یہ خد اتعالیٰ کا مقرر کردہ قانون ہے۔پھر اس کے خلاف اگر کوئی کچھ حاصل کرنا چاہے تو وہ خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑتا ہے اور اسے آزماتا ہے۔اس لیے محروم رہے گا۔دنیا کے عام کاروبار میں بھی تو یہ سلسلہ نہیں ہے کہ پھونک مار کر کچھ حاصل ہو جائے یا بدوں سعی اور مجاہدہ کے کوئی کامیابی مل سکے۔دیکھو۔آپ شہر سے چلے تو اسٹیشن پر پہنچے۔اگر شہر سے ہی نہ چلتے تو کیونکر پہنچتے۔پائوں کو حرکت دینی پڑتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح سے جب قدر کاروبار دنیا کے ہیں سب میں اول انسان کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔جب وہ ہاتھ پائوں ہلاتا ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ بھی برکت ڈال دیتا ہے۔اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہی لوگ کمال حاصل کرتے ہیں جو مجاہدہ کرتے ہیں۔اسی لیے فرمایا ہے
والذین جاھدو افینا لنھدینھم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
پس کوشش کرنی چاہیے کیونکہ مجاہدہ ہی کامیابیوں کی راہ ہے۔؎ٰ
Amira 7-8-05
۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۴ء بعد نماز جمعہ
بیعت کی اہمیت
میں ان لوگوں کے لیے جنہوں نے بیعت کی ہے چند نصیحت آمیزکلمات کہنا چاہتا ہوں یہ بیعت تخم ریزی ہے اعمالِ صالحہ کی۔جس طرح کوئی باغبان درخت لگاتا ہے یا کسی چیز کا بیج بوتا ہے۔پھر اگر کوئی شخص بیج بوکر یا درخت لگا کر وہیں اس کو ختم کردے اور آئندہ آبپاشی ور حفاظت نہ کرے تو وہ تخم بھی ضائع ہو جاوے گا۔اسی طرح انسان کے ساتھ شیطان لگا رہتا ہے۔پس اگر انسنا نیک عمل کرکے اس کے محفوظ رکھنے کی کوشش نہ کرے تو وہ عمل ضائع ہو جاتا ہے۔تمام مخلوقات مثلاً مسلمان ہی سہی اپنے مذاہب کے فرائض میں پابند ہیں مگر اس میں کوئی ترقی نہیں کرتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نیک عمل کے بڑھانے کا خیال اُن کو نہیں ہوتا اور رفتہ رفتہ وہ عمل رسم میں داخل ہو جاتا ہے۔پس مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے تو کلمہ پڑھنے لگے۔ہندوئوں کے گھر میں ہوتے تو رام رام کرتے۔
یاد رکھو بیعت کے وقت توبہ کے اقرار میں ایک برکت پیدا ہوتی ہے۔اگر ساتھ اُس کے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی شرط لگالے تو ترقی ہوتی ہے۔مگر یہ مقدم رکھنا تمہارے اختیار میں نہیں بلکہ امدادِ الٰہی کی سخت ضرورت ہے۔جیسے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے
والذین جاھدو ا فینا لنھدینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
کہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں۔ہماری راہ میں انجام کار راہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں۔جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بدوں کو شش اور آبپاشی کے بے برکت رہتا بلکہ خود بھی فنا ہو اجت اہے۔اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یاد نہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا ہماری مدد کر تو فضل الٰہی و ارد نہیں ہوگ ااور بغیر امدادِ الٰہی کے تبدیلی نا ممکن ہے۔چور، بد معاش ،زانی وغیرہ جراتم پیشہ لوگ ہر وقت ایسے نہیں رہتے بلکہ بعض وقت ان کو ضرور پشیمانی ہوتی ہے۔یہی حال ہر بدکار کا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان میں نیکی کا خیال ضرور ہے۔پس اس خیال کے واسطے اس کو امدادِ الٰہی کی بہت ضرورت ہے۔اسی لیے پنجوقتہ نماز میں سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کا حکم دیا۔اس میں ایاک نعبد اور پھر ایاک نستعین یعنی عبادت بھی تیری ہی کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔اس میں دوباتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔یعنی ہر نیک کام میں قویٰ ،تدابیر، جدوجہد سے کام لیں۔یہ اشارہ ہے نعبد کی طرف۔کیونکہ جو شخص نری دعا کرتا اور جدوجہد نہیں کرتا وہ بہرہ یاب نہیں ہوتا۔جیسے کسان بیج بوکر اگر جدوجہد نہ کرے تو پھل کا امید وار کسیسے بن سکتا ہے۔اور یہ سنت اﷲ ہے۔اگر بیج کو صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے۔مثلاً دو کسان ہیں ایک تو سخت محنت اور کلبہ رانی کرتا ہے۔یہ تو ضرور زیادہ کامیاب ہوگا۔دوسرا کسان محنت نہیں کرت یا کم کرتا ہے۔اس کی پیداوار ہمیشہ ناقص رہے گی جس سے وہ شاید سرکاری محصول بھی ادا نہ کر سکے اور وہ ہمیشہ مفلس رہے گا۔اسی طرح دینی کام بھی ہیں۔انہیں میں منافق،انہیں میں نکمے، انہیں میں صالح،انہیںمیں ابدال،قطب،غوث، بنتے ہیں۔اور خدا تعالیٰ کے نزدیک درجہ پاتے ہیں۔اور بعض چالیس چالیس برس سے نماز پڑھتے ہین مگ ہنوز روزِ اول ہی ہے اور کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔تیس روزوں سے کوئی فائدہ محسوس نہیں کرتے۔بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم بڑے متقی اور مدت کے نماز خواں ہیں مگر ہمیں امدادِ الٰہی نہیں ملتی۔اس کا سبب یہ ہے کہ رسمی اور تقلیدی عبادت کرتے ہیں۔ترقی کا کبھی خیال نہیں۔ گناہوں کی جستجو ہی نہیں۔سچی توبہ کی طلب ہی نہیں۔پس وہ پہلے قدم پر ہی رہتے ہیں۔ایسے انسان بہائم سے کم نہیں ۔ایسی نمازیں خد اکی طرف ویل لاتی ہیں۔نماز تو وہ ہے جو اپنے ساتھ ترقی لے آوے۔جیسے طبیب کے زیر علاج ایک بیمار ہے۔ایک نسخہ وہ دس روز استعمال کرت ہے۔پھر اس سے اس کو روز بروز نقصان ہو رہا ہے۔جب اتنے دنوں کے بعد فائدہ نہ ہو تو بیمار کو شک پڑجاتا ہے کہ یہ نسخہ ضرور میرے مازج کے موافق نہیں اور یہ بدلنا چاہیے ۔پس رسم اور رسمی عبادت ٹھیک نہیں۔
دعائوں کی اہمیت
نمازوں میں دعائیں اور درود ہیں۔یہ عربی زبان میں ہیں،مگ تم پر حرام نیں کہ نمازوں میں اپنی زبان میں بھی عائیں مانگ ا کرو؛ ورنہ ترقی نہ ہوگی۔خدا کا حکم ہے کہ نماز وہ ہیجس میں تضرع اور حض٭ر قلب ہو۔ایسے ہی لوگوں کے گناہ دور ہوتے ہیں؛ چنانچہ فرمایا
ان الحسنات یذھبن السیات (ھود : ۱۱۵)
یعنی نیکیان بدیوں کو دور کرتی ہیں۔یہاں حسنات کے معنے نماز کے ہیں اور حضور ور تضرع اپنی زبان میں مانگنے سے حاصل ہوت اہے۔پس کبھی کبھی ضرور اپنی زبان میں دعا کیا کرو اور بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دعا ہے۔ جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آجاوے تو وہ زمینداری کے صراط مستقیم پر پہنچ جاوے گا اور کامیاب ہو جاوے گا۔اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراط مستقیم تلاش کرو اور دعا کرو کہ یا الٰہی میں تیرا گنہگار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں۔میری راہنمائی کر۔ادنیٰ اوار اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے۔بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے؛ کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازہ پر سولی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اس کو بھی شرم آجاوے گی۔پھر خدا تعالیٰ سے مانگنے والا جو بے مثل کریم ہے کیوں نہ پائے؟ پس مانگنے والا کبھی نہ کبھی ضرور پالیتا ہے۔نماز کا دوسرا نام دعا بھی ہے۔جیسے فرمایا
ادعونی استجب لککم (مومن : ۶۱)
پھر فرمایا
واذاسالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (البقرۃ : ۱۸۷)
جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے۔لپس میں بہت ہی قریب ہوں ۔میں پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے۔بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں۔پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو۔میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا۔ اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے۔وہ شخص تو تمہاری آواز سنکر تم کو جواب دیگا مگر جب وہ دور سے جواب دے گا تو تم بہ باعث بہرہ پن کے سن نہیں سکوگے۔پس جوں جوں تمہارے درمیانی پردے اور حجاب اور دوری دور ہوتی جاوے گی، تو تم ضرور آواز کو سنو گے۔جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہمکلام ہوتاہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہو جاتی کہ اس کی ہستی ہے بھی۔پس خد اکی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبر دست ذریعہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کو سن لیں یا دیدار یاگفتار ۔پس آج کل کاگفتار قائمقام ہے دیدار کا۔ہاں جبتک خد اکے اور اس سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے۔جب درمیانی پردہ اُٹھ جاوے گا تو اُس کی آواز سنائی دے گی۔
بعض لوگ کہہ دیتے ہین کہ تیرہ سو برس سے خد اکا مکالمہ مخاطبہ بند ہو گیا۔اس کا اصل میں مطلب یہ ہے کہ اندھا سب کو ہی اندھا سمجھتا ہے۔کیونکہ اس کی اپنی آنکھوں میں جو نور موجود نہیں۔اگر اسلام میں یہ شرف بذریعہ دعائوں اور اخلاص کے نہ ہوت اتو پھر اسلام کچھ چیز بھی نہ ہوتا۔اور یہ بھی اور مذاہب کی طرح مردہ مذہب ہو جاتا۔
اسلام کا خاص امتیاز
پس تم ان مردوں کی طرف خیال مت کرو۔جو خود بھی مردہ اور اسلام کو بیھ مردہ بتاتے ہیں۔یہ تو درحقیقت ایسا مذہب ہے کہ جس میں انسان ترقی کرتا ہوا فرشتوں سے مصافحہ جا کرتا ہے۔اور اگر یہ بات نہ تھی تو
صراط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ : ۷)
کیوں سکھایا؟ اس میں صرف جسمانی اموال کی طلب نہیں کی گئی بلکہ روحانی انعام کی درخواست ہے۔پس اگر تم نے ہمیشہ اندھا ہی رہنا ہے تو پھر تم مانگتے کیا ہو؟ یہ دعا فاتحہ ایسی جامع اور عجیب دعا ہے کہ پہلے کبھی کسی نبی نے سکھلائی ہی نہیں۔پس اگر یہ نرے الفاظ ہی الفاظ ہیں اور ان کو خد تعالیٰ نے منظور نہیں کرنا تو ایسے الفاظ خد انے ہمیں کیوں سکھلائے ۔اگر تمہیں وہ مقام ملنا ہی نہیں تو ہم پانچ وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔خدا کی ذات میں بخل نہیں اور نہ انبیاء اس لیے آتے ہیں کہ ان کو پوجا کی جاوے بلکہ اس لیے کہ لوگوں کو تعلیم دیں کہ ہماری راہ اختیار کرنے والے ہمارے ظل کے نیچے آجاویں گے جیسے فرمایا
ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران : ۳۲)
یعنی میری پیروی میں تم خدا تعالیٰ کے محبوب بن جاوئو گے۔آنحضرت ﷺ پر محبوب ہونے کی بدولت یہ سب اکرام ہوئے،مگر جب کوئی اور شخص محبوب بنے گا تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا؟ اگر اسلام ایسا مذہب ہے تو سخت بیزاری ہے ایسے اسلام سے مگر ہرگز اسلام ایسا مذہب نہیں۔آنحضرت ﷺ تو وہ مائدہ لائے ہیں کہ جو چاہے اس کو حاصل کرے۔وہ نہ تو دنیا کی دولت لائے اور نہ مہاجن بنکر آئے تھے۔وہ تو خدا کی دولت لائے تھے اور خود اس کے قاسم تھے۔پس اگر وہ مال دنیا نہیں تھا تو کیا وہ گٹھڑی واپس لے گئے؟ پس سچ ہے جس اندھے کے پاس روشنی موجود نہیں وہ کیسے دعویٰ کرسکتا ہیکہ میں روشنی رکھتا ہوں اور تقسیم کر سکتا ہوں۔دیکھو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
من کان فی ھذہ اعمی فھوفی الاخرۃ اعمی واضل سبیلا (بنی اسرائیل : ۷۳)
انبیاء تو علیٰ درجہ البصیرۃ ہوتے ہیں۔پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ بصیرت کسی کو نہیں ملے گی تو گویا یہ خود اس دنیا سے اندھے ہی جائیں گے۔
اگر ان کا ایمان آنحضرت ﷺ پر سچا ہوت اتو یہ یقین رکھتے کہ وہ آسمانی مال تقسیم کرنے آئے تھے اور ان کا عقیدہ یہ ہوتا کہ یہ اُمت تمام اُمتوں سے فوقیت حاصل کرے گی؛ حالانکہ مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑکی ماں کو وحی ہوتی تھی۔اب بتائو کہ اُن کے مردوں کو بھی کبھی ایسی وحی ہوئی ہے۔لاہور میں ایک مولوی سے میری بحث ہوئی محدث کے لفظ پر۔کہحدیثوں میں آیا ہے کہ محدث وہ ہے جو خد اسے مکالمہ کر سکے اور یہ بات حضرت عمرؓ کے متعلق تھی تو اس مولوی نے جواب دیا کہ چونکہ اسلام کو آنحضرت ﷺ کے بعد مکالمۂ الٰہی نصیب نہیں۔اس لیے حضرت عمرؓ کو یہ عہدہ نصیب نہیں ہوا۔گویا اس امت میں تو دجال ہی آتے رہیں گے۔
مسیح موعود کی بعثت
مسیح کے متعلق جس زمانہ کی اطلاع احادیث وغیرہ میں دی گئیے ہے وہ یہی زمانہ ہے۔سورۂ نور اور بخاری میں منکم کا لفظ صاف ہے۔آثا تمام نمودار ہو گئے ہیں۔کسوف و خسوف رمضان میں ہوگیا۔طاعون آگئی۔یہ کیسے کھلے نشان تھے،لیکن لوگ ہمیشہ یہی کہتے ہین کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔نہ تو یہ ہارتے ہیں اور نہ خدا ہارنے والا ہے۔آخر تم جانتے ہو کہ نتیجہ کیا ہوگا یہی یکہ وہ پاک خدا جیتے گا۔باوجود اس قدر کھلے نشانات کے جواب یہ دیتے ہیں کہ تیس دجالوں میں سے یہ بھی اییک دجال ہے۔او کم بختو! تمہارے حصہ میں دجال ہی دجال رہ گئے ہیں؟ بیرونی اور اندرونی بلائیں تم پر آیں اور خد اکی طرف سے بھی آیا تو دجال ہی آیا۔اول تو تم خود بخود مرتے جاتے تھے۔اب ایسی حالت میں خ نے تم سے یہ سلوک کیا کہ مرتے کو مارنے کی تجویز ٹھہرائی ۔کی خد اکو تم سے کوئی ایسی ہی سخت عداوت تھی کہ سختی پر سختی کر رہا ہے۔یہ انسنی غلطیاں ہیں تم لوگ ان سے ہوشیار رہو۔خدا تعالیٰ بڑ اکریم و رحیم ہے۔جب کسی کپڑے پر ہفتہ گذرجاتا ہے تو فکر لگ جاتی ہے کہ اس کو صاف کرایا جاوے۔پھر کیا وجہ ہے کہ دنای پر سوکی جگہ ایک سو بیس برس گذر گئے پر خدا نے تجدیدِ دین کی کوئی تجویز نہ کی اور بجائے تجدید کے دجال بھیج کر ا سکی تخریب کی۔اس وقت تیس لاکھ مسلمان عیسائی ہو ثکا ہے۔یہ وہ قوم تھی اگر اس مٰں اسے ایک شخص بھی عیسائی ہوتا تھا تو حشر بپا ہو جاتا تھا۔دوسری طرف ایک اور خبیث قوم نے سر اُٹھایا ہے وہ مسلمانوںں کو پکڑ پکڑ کر آریہ بنا رہی ہے،مگر ان ہمارے مسلمانوں کو یہیخیال آتا ہیکہ ابھی ہمارے اندر دجال ہی پید اہوا ہے اور خد انے بھی ان کے ساتھ دھوکا کیا کہ دجال کو صدی کے سر پر بھیجا تا کہ اُن کی رہی سہی امید بھی باقی نہ رہے۔معلوم ہوا کہ تمہار ے اندر بڑے بڑے خبث اور گناہ پوشیدہ ہیں جس کی تمہیں یہ سزا مل رہی ہے۔خدا تعالیٰ نے تو فرمایا ہے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔یعنی جب اس کے معانی میں غلطیان وارد ہوں گی تو اصلاح کے لیے ہمرے مامور آیا کریں گے۔پس تم میریے اوپر خیال مت کرو بلکہ صدی کے ابتدا اور بیرونی حملوں اور اندرونی اعمال کو دیکھ کر تم خود غورو فکر کرو کہآیا دجال کی ضرورت ہے یا مہدی اور مسیح کی؟
تعصب بری بلا ہوتی ہے۔تعصب والوں نے تو کسی رسول کو بھی نہیں مانا ان کو دکاندار قرار دیا ہے؛ حالانکہ وہ خدا کی طرف بلاتے رہے ہیں۔معلوم ہوت اہے کہ یہ قوم ہمیشہ ساتھ رہی ہے اور رہے گی۔قرآن کریم کی ابتداء بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم سے ہے۔رحمن بے مانگے دینے والا اور رحیم محنت کو نہ ضائع کرنے والا۔پس اس وقت رحمانیت اور رحیمیت کہان گئی؟ سوچو تو سہی کہ یہ اس کے مناسب حال ہے یا کیا؟
اصل میں جب انسان تعصب پر آت ہے تو آنک دھندلی ہو جاتی ہے اور جب اس میں ترقی کرتا ہے تو وہ نور چھین لیا جاتا ہے۔پس ہدایت پانے کا طریق اشتہار بازوی نہیں۔ان لوگوں سے پوچھو کہ تم ایک دفعہ بھی میرے پاس آئے ہو اور اپنے اعتراضات کا جواب پوچھا ہے یا کم سے کم میری تصانیف کو ہی دیکھ اہے؟ تو جواب دیں گے کہ میاں ہم کو ان باتوں کی فرصت نہیں۔پھر تم نے جھٹ دجال کا فتویٰ کیوں لگا دیا؟ پھر ہم نے دین میں کونسی تحریف کی ہے۔تم منہ سے نماز اور روزہ کا نام لیتے ہو اور میں کہتا ہوں کہ ان کی روحانیت لو۔صرف میں ہی نہیں کہتا،بلکہ وہ خدا کہتا ہے جس نے مجھے مامور کیا ہے اور یہ اس لیے کہ تمہارے پوست میں کیفیت داخل ہو جاوے۔
Amira 8-8-05
ہاں تمہارے درمیاں مسیح کا جھگڑا ضرور ہے لیکن خد اکی کلام سے زیادہ سچا گواہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ہمیں دوسرے کے قول سے کیا غرض ہے۔آنحضرت ﷺ کے قول حق اور سچ ہین مگر جو قرآن کریم کے خلاف نہ ہوں۔پس ہمیں ایمان محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے قصوں پر جو احادیث میں درج ہیں قرآن کریم کو مقدم رکھیں ۔پس ہم تو قرآن کریم کو ترجیح دیں گے اور جو احادیث قوی اور صحیح ہیں وہ ضرور قرآن کے ساتھ ہیں اور ہمارے دعویٰ میں ہماری مؤید ہیں۔پس ہمارا اور ان لوگوں کا اور کوئی اختلاف نہیں۔بجز اس کے کہ یہ پوست پر قناعت کرتے ہیں اور ہم مغز کو چاہتے ہیں۔مسیح کی موت کا قرآن نے خود فلما توفیتنی میں فیصلہ کر دیا ہے۔اگر ہم قبول کر لیں کہ مسیح ناصری آجتک زندہ ہے تو ہمیں یہ بھی قبول کرنا پڑیگا کہ عیسائی بھی آجتک راہ راست پر ہیں۔اور اس کی قرآن کریم خود تردید کرتا ہے۔
تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھداان دعواللرحمن
ولدا (مریم : ۹۱،۹۲)
مجھے میرے خدا نے ہزار ہا وحیوں میں مامور کیا ہے اور وہ ہی بات ہے جو تیرہ سو برس پہلے سے لکھی ہوئی تھی۔ہمارا اور ان کا کوئی جھگڑا نہیں اگر شرم و حیا اور ایمان ہو۔یہ بھی نہ سہی۔کیا آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کل لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔نہیں مگر وہی کہ جن کے حق میں سعادت تھی۔پس ہمارا کام تو سمجھانا ہے۔پس جو شخص مسیح کو زندہ مانتا ہے وہ جھوٹا ہے اور خدا کا منکر ہے اور جس کو خد انے مامور کیا ہے اس کو تو تازہ علم ا سکی وفات کا دیا ہے۔پھر اگر اُنہوں نے مسیح کو ماننا تھا تو وہ حکم کس بات کا ہوگا اور ہر ایک مذہب والا اس کا فیصلہ کس طرح مانے گا۔حکم کا لفظ تو صاف دلالت کر رہا ہے کہ ضرور ان لوگوں میں اختلاف اور اغلاط ہوں گے جن کا وہ اآکر فیصلہ کرے گا۔پس ہم تو تم سے سچا اتباعِ نبی کریم اور ترک اغلاط کرتے ہیں اور بس۔
مخالفین سے نرمی کا سلوک ہونا چاہیے
پس ہمارے لوگ مخالفین سے سختی سے پیش نہ آیا کریں۔ان کا درشتی کا نرمی سے جواب دیں۔ اور ملاطفت سے سلوک کریں۔چونکہ یہ خیالات مدت مدید سے ان کے دلوں میں ہین رفتہ رفتہ ہین دور ہونگے اس لیے نرمی سے کام لیں۔اگر وہ سخت مخالفت کریں ،تو اعراض کریں۔مگر اس بت کے لیے اپنے اندر قوت جاذبہ پید اکرو۔اور قوتِ جاذبہ اس وقت پید ہوگی جب تم صادق مومن بنوگے اور اگر تم صادق نہیں تو تمہاری نصیحت ایسی ہے جیسے پر نالہ کا پانی موجب فساد ہوتا ہے۔پس صادق کے واسطے ورزش کی اشد ضرورت ہے۔جیسے ایک پہلوان کے سامنے تمہاری کیا ہستی ہے کہ مقبلہ کر سکو اگر چہ وہ بیھ تمہارے جیسا آدمی تھا۔جسمانی نشونما میں اس نے ترقی کی اور ورزش کر کے یہ طاقت حاصل کی۔پس تم روحانی قویٰ میں ورزش کرکے روحانی پہلوان یعنی صادق مومن بنو۔جو شخص اپنا نشونما نہیں کرتا وہ تو اپنے کنبہ کو بھی درست نہیں کر سکتا۔پس قوتِ روحانی پیدا کرو۔دیکھو نبی،رسول سب ایک ایک ہو کر ہی آئے ہیں مگر وہ صادق اور جاذب تھے۔مال کی غریبی او رکمزوری جدا چیز ہے۔
روحانی قوت کی ضرورت
روحانی قوت ہونی چاہیے۔ہاں کشش میں بھی وہی سعادت مند ہوتے ہیں جن کو کچھ مناسبت ہوتی ہے۔مثلاً انجن سرد ہے تو فائدہ نہیں دے سکتا۔اگر خوب گرم ہے تو سو گاڑی بھی لے جاوے گا۔پس گرم اور پراثیر مومن بنو۔اس ہماری جماعت کے واسطے خدا کا وعدہ ہیکہ دنیا میں پھیلے گی۔پھر اگر طاقت والے اور اس کے پھیلانے والے اور لوگ ہوں گے تو تم نے کیا حاصل کیا؟
اب سوال یہ ہوگا کہ طاقت کس طرح پید اہوتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ صادق اور پکّا بندہ بن جاوے تاکہ کسی زلزلہ سے برگشتہ اور منہ پھیرنے والا نہ ہو۔صحابہ کرامؓ سارے ہی ابخدا اور عاقل تھے مگر آنحضرت ﷺ اُن سے بڑھ کر ایسے وفادار تھا کہ کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا تھا۔اسی لیے آپ کو سانپوں اور درندوں اور خاردار کانٹوں والا جنگل اس کے درندے،حیوانات انسانی شکل میں دکھلائے گئے۔پھر ملک بھی ایسا اس کے سپرد کیا کہ جس سے بڑھ کر دنیا مٰن کوئی شریر النفس نہ تھا۔پھر آئے ایسے وقت پر کہ تمام مردہ اور فساد کی جڑھ تھے۔ جیسے فرمایا
ظھر الفساد فی البر والبحر (الروم : ۴۲)
اور گئے ایسے وقت پر کہ فرمایا
الیوم اکملت لکن دینکم واتممت علیکم نعمتی (المائدہ : ۴)
الآیتہ
اذا جاء نصر اﷲ والفتح (النصر : ۲)
اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اس سے معلوم ہوتاہے کہ کتنی محبت الٰہی اور قوت جاذبہ آنحضرت ﷺ کے اندر تھی۔پس خد اتعالیٰ کے خاص بندوں اور غیروں میں اتنا فرق ہوتاہے کہ قوتِ ایمانی اور اتقامت ایسی ہو ۔کہکسی رکاوٹ شدید سے باز نہ رہے۔اس صفت سے جس کو جتنا حصہ ملا ہے اتنا ہی وہ برکت کا موجب ہوگا۔میرا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی تبدیلی کے واسطے تین باتیں یاد رکھو:
(۱) نفسِ امارہ کے مقابل پر تدابیر اور جدوجہد سے کام لو۔ (۲) دعائوں سے کام لو۔ (۳) سست اور کاہل نہ بنو اور تھکو نہیں۔
ہماری جماعت بھی اگر بیج کا بیج ہی رہے گی تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔جو ردی رہتے ہیں۔خدا تعالیٰ ان کو بڑھاتا نہیں۔پس تقویٰ ،عبادت اور ایمانی حالت میں ترقی کرو۔اگر کوئی شخص مجھے دجال اور کافر وغیرہ ناموں سے پکارت ہے تو تم اس بات کی کچھ پروا بھی نہ کرو۔کیونکہ جب خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے تو مجھے ان کے ایسے بدکلمات اور گالی٭ن کا کیا ڈر ہے۔فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کو کافر کہا تھا۔ایک زمانہ ایسا آگیا کہ پکار اُٹھا کہ میں اس خدا پر ایمان لایا جس پر موسیٰ اور اس کے متبع ایمان لائے ہیں۔ایسے لوگ یاد رکھو کہ مخنّث اور نامرد ہوتے ہیں۔یہ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے ایک بچہ بعض اوقات اپنی ماں اور باپ کو بھی نا سمجھی وج سے گالی دے دیتا ہے،مگر اس کے اس فعل کو کوئی برا نہیں سمجھتا۔
پس یاد رکھو کہ نری بیعت اور ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کچھ بھی سود مند نہیں۔جب کوئی شخص شدت پیاس سے مرنے کے قریب ہو جاوے یا شدت بھوک سے مرنے تک پہنچ جاوے تو کیا اس وقت ایک قطرہ پانی یا ایک دانہ کھانے کا اس کو موت سے بچالے گا؟ ہرگز نہیں۔جس طرح اس بدن کو بچانے کے واسطے کافی خوراک اور کافی پانی بہم پہنچانے کے سوائے مفر نہیں۔اسی طرح پورے جہنم سے تھوڑی سی نیکی سے تم بھی بچ نہیں سکتے۔پس اس دھوکہ میں نہ رہو کہ ہم نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اب ہمیں کیا غم ہے۔ہدایت بھی ایک موت ہے۔جو شخص یہ موت اپنے اُوپر وار کرتا ہے اس کو پھر نئی زندگی دی جاتی ہیاور یہی اصفیاء کا اعتقاد ہے۔اﷲ تعالیٰ نے بھی اسی ابتدائی حالت کے واسطے فرمایا ۔
یایھا الذین امنو ا علیکم انفسکم (المائدۃ : ۱۰۶)
یعنی پہلے اپنے آپ کو درست کرو۔اپنے امراض کو دور کرو۔دوسروں کا فکر مت کرو۔ہان رات کو اپنے آپ کو درست کرو۔اور دن کو دوسروں کوب ھی ہدایت کر دیا کرو۔خدا تعالیٰ تمہیں بخشے اور تمہارے گناہ٭نسے تمہیں مخلصی دے اور تمہاری کمزوریوں کو تم سے دور کرے اور اعمال صالحہ اور نیکی میں تقی کرنے کی توفیق دیوے ؎ٰأآمین۔
۲؍نومبر ۱۹۰۴ء
بمقام سیالکوٹ
بیعت کی غرض
اس بیعت کی اصل غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں ذوق وشوق پید اہو اور گناہوں سے نفڑت پید اہو کر اس کی جگہ نیکیاں پیدا ہوں۔جو شخص اس غرض کو ملحوظ نہیں رکھتا اور بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر کوئی تبدیلی کرنے کے لیے مجاہدہ اور کوشش نہیں کرتا جو کوشش کا حق ہے اور پھر اس قدر دعا نہیں کرتا جو دعا کرنے کا حق ہے تو وہ اس اقرار کی جو خدا تعالیٰ کے حضور کیا جاتا ہے سخت بے حرمتی کرتا ہے اور وہ سب سے زیادہ گنہگار اور قابل سزا ٹھہرتا ہے۔پس یہ ہرگز نہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بیعت کا اقرار ہی ہمارے لیے کافی ہے اور ہمیں کوشش نہیں کرنی چاہیے۔مثل مشہور ہے جو ئندہ یا بندہ جو شخص دروازہ کھٹکٹھاتا ہے اس کے لیے کھول جاتا ہے اور قرآن شریف میں بھی فرمایا گیا ہے۔
والذین جاھدو افینا لنھدینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
یعنی جو لوگ ہماری طرف آتے ہیں اور ہمارے لیے مجاہدہ کرتے ہیں۔ہم اُن کے واسطے انی راہ کھول دیتے ہیں ارو صراطِ مستقیم پر چلا دیتے ہیں۔لیکن جو شخص کوشش ہی نہیں کرتا وہ کس طرح اس راہ کو پاسکتاہے ۲؎۔
خدایا بی اور حقیقی کامیابی اور نجات کا بھی یہی گُر اور اصول ہے۔انسان کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے سے تھکے نہیں نہ درماندہ ہو اور نہ اس راہ میں کوئی کمزوری ظاہر کرے۔
تم لوگوں نے اس وکت خدا تعالیٰ کے حضور میرے ہاتھ پر انے گناہ٭ں سے توبہ کی ہے۔ایسا نہ ہو کہ یہ توبہ تمہارے لیے باعثِ برکت ہنے کی بجائے *** کا موجب ہو جاوے۔کیونکہ اگر تم لوگ مجھے شناخت کر کے بھی اور خدا تعالیٰ سے اقرار کر کے بھی اس عہد کو توڑتے ہو تو پھر تم کو دوہرا عذاب ہے کیونکہ عمداً تم نے معاہدہ کو توڑا ہے۔دنیا میں جب کوئی شخص کسی سے عہد کرکے اُسے توڑتا ہے تو اس کو کس قدر ذلیل اور شسرمندہ ہونا پڑتا ہے۔وہ سب کی نظروں سے گر جاتا ہے۔پھر جو شخص خد اتعالیٰ سے عہد اور اقرار کرکے توڑے وہکس قدر عذاب اور *** کا مستحق ہوگا۔
پس جہانتک تم سے ہوسکتا ہے۔اس اقرار ارو عہد کی رعایت کرو۔اور ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہو۔پھر اس اقرار پر قائم اور مضبوط رہنے کے واسطے اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو۔وہ یقیناً تمہیں تسلی اور اطمینان دے گا ارو تمہیں ثابت قدم کرے گا،کیونکہ جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ سے مانگتا ہے اُسے دیا اجتا ہے۔میں جانتا ہوں کہ تم میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے جن کو میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے واسطے قسم قسم کے ابتلا ء اور مشکلات پیش آئیں گے،لیکن میں کیا کروں یہ ابتکلاء نئے ہیں۔جب خدا تعالیٰ کسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کوئی اس کی طرف جاتا ہے تو اس کے واسطے ضرور ہیکہ ابتلاء٭ن مٰن سے ہوکر گذرے۔دنیا اور اس کے رشتے عارضی اور فانی ہیں مگر خدا تعالیٰ کے ساتھ تو ہمیشہ کے لیے معاملہ پڑتا ہے پھر اس سے آدمی کیوں بگاڑے؟ دیکھو صحابہؓ کو کچھ تھوڑے ابتلاء پیش آئے تھے۔ان کو اپنا وطن،مال و دولت،اپنے عزیز رشتہ دار سب چھوڑنے پڑے۔لیکن اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں ان چیزوں کو مری ہوئی مکھی کے برابر بھی نہیں سمجھا۔خدا تعالیٰ کو انے لیے کافی سمجھا۔پر خدا نے بھی ان کی کس قدر قدر کی۔اس سے وہ خسارہ میں نہیں رہے بلکہ دنیاوآخرت میں انہوں نے وہ فائدہ پایا جو اس کے بغیر انہیں مل سکتا ہی نہیں تھا۔اس لیے اگر کوئی ابتلاء آوے تو گھبرانا نہیں چاہیے۔ابتلاء مومن کے ایمان کو مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہیکیونکہ اس وقت روح یں عجزونیاز اور دل مین ایک سوزش اور جلن پیدا ہوتی ہے جس سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کے آستانہ پر پانی کی طرح گداز ہو کر بہتا ہے۔ایمانِ کامل کا مزا ہمّ و غم ہی کے ندوں میں آتا ہے۔اس وقت اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر کرو۔خدا تعالیٰ سے اب تمہارا نیا معاملہ شروع ہوا یکیونکہ وہ پچلے گناہ سچی توبہ کے بعد بخش دیتا ہے اور توبہ سے یہ مراد نہیں کہ انسان زبان سے یہ کہہ دے اور اعمال میں اس کا اثر ظاہر نہ ہو۔نہین۔توبہ یہی ہے کہ بدی٭ن او خدا کی نافرمانیوں کو قطاعً چھوڑدے اورنیکیاں کرے اور اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری مٰن اپنی زندگی بسر کرے۔
اب بے فکر رہنے کے دن نہیں ہیں۔خدا تعالی کا تازیانہ ہوشیار کر رہا ہے۔تم کو خوب معلوم ہے کہ طاعون نے اس ملک کو کیسا تباہ کیا ہے اور کس طرح پر فنا کا تصرف جاری ہے۔اور ثابت ہو رہا ہے کہ دنیا فانی ہے۔اب بھی اگر انسن اپنے اعمال کو درست نہ کرے تو یہ اسکی کیسی غفلت اور بدنصیبی ہے۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز بے فکر نہ ہو۔خدا تعالیٰ کے عذاب کا کچھ پتہ نہیں ہتوا کہ وہ کس وقت آجاوے اور وہ غافلوں کو ہلاک کر دیتاہے جو دنیا میںمست ہو جاتے ہیں ار خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بیباک اور شوخی اختیار کرتے ہیں۔تم جانتے ہو کہ طاعون کے دن آئے ہیں اور معلوم نہیں کہ کون اس کے حملہ سے بچے ۔ہاں اس قدر میں کہتا ہوں کہ خد اتعالیٰ ان لوگں کو اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھتا ہے جو اپنے اندر سچی تبدیلی کر لیتے ہیں اور کسی قسم کا کھوٹ اور کجی دل میں باکٰ نہیں رکھتے۔بسا اوقات جن شہروں میں طاعون پڑی ہے ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی جبتک تباہ نہیں کر لیتی اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہا س کے دورے بڑے بڑے لمبے ہوتے ہیں۔مجھ پر خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ظاہر کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی کتابوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہیہ شامت اعمال سے آتی ہے۔میں اس وکت دیکھتا ہں کہ دنیا میں غفلت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔شوخی اور بے باکی خدا تعالیٰ کی کتابوں اور باتوں سے بہت ہو گئی ہے۔دنیا ہی دنیا لوگوں کا مقصود اور معبود ٹھہر گئی ہے۔اس لیے جیسا کہ پہلے سے کہا گیا تھا اور نبیوں کی معرفت وعدہ دیا گیا تھا۔میرے اس زمانہ میں یہ طاعون لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے آئی ہے مگر افسوس ہے لوگ اس کو ابتک بھی ایک معمولی بیماری سمجھتے ہیں۔مگر مین تمہیں کہتا ہوں کہ تم ان لوگوں کے ساتھ مت ملو بلکہ تم اپنے اعمال اور افعال سے ثابت کرکے دکھادو کہ واقعی تم نے سچی تبدیلی کر لی ہے۔تمہاری مجلسوں میں وہی ہنسی اور ٹھٹھا نہ ہو جو دوسرے لوگوں کی مجلسوں اور محفلوں میں پایا جاتا ہے۔یقیناً سمجھو کہ زمین و آسمان کا خالق ایک خدا ہے۔وہی خدا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں زندگی اور موت ہے۔کوئی شخص دنیا میں کس ی قسم کی راحت اور کوئی نعمت حاصل نہیں کرسکتا مگر اسی کے فضل و کرم سے ۔ایک پتہ بھی اس کے فضل کے بغیر ہرا نہیں رہ سکتا۔اس لیے ہر وقت اسی سے سچا تعلق پیدا کرے اور ا س کی رضا جوئی کی راہوں پر مضبوط قدر رکھے۔اگر وہ اس بات کی پابندی کرے گا تو یقینا اُسے کوئی غم نہیں ہے۔ہر قسم کی راحت، صحت،عمر و دولت یہ سب اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے۔جب انسنا کا وجود ایسا نافع اور سود مند ہو تو اﷲ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا۔جیسے باغ میں کوئی درخت عمدہ پھل دینے والا ہو توا سے باغبان کاٹ نہیں ڈالتا بلکہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔اسی طرح نافع اور مفید وجود کو اﷲ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتاہے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے۔
Amira 10-8-05
واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
جو لوگ دنیا کے لیے نفع رساں لوگ بنتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ ان کی عمریں بڑھا دیتا ہے۔یہ اﷲ تعالیٰ کے وعدے ہیں جو سچے ہیں اور کوئی ان کو جھٹلا نہیں سکتا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سچے اور فرمانبردار بندے ایسی بلائوں سے محفوظ رہتے ہیں۔پس اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ نری بیعت اور اقرار سے کچھ نہیں بنتا،بلکہ انسان زیادہ ذمہ دار اور جوابدِ ہ ہوجاتا ہے۔اصل فائدہ کے لیے ضرورت ہے۔حقیقی ایمان اور پھر اُس ایمان کے موافق اعمالِ صالحہ کی۔جب انسان یہ خوبی اپنے اندر پیدا کرتا ہے تو جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ متقی حقیقی مومنن اور اس کے غیر میں ایک امتیاز رکھ دیا جاتا ہے۔اُسے ممتاز کیا جاتا ہے اور اس امتیار کا نام قرآنِ شریف کی اصطلاح میں فرقان ہے۔آخرت میں بھی مومن اسی فرقان سے شناخت کئے جائیں گے اور کافر۔فاسق ۔فاجر کے منہ سیاہ ہو جائیں گے۔اس دنیا میں بھی دیکھا جات اہے کہ مومن ہمیشہ ممتاز رہتا ہے۔اس کے اندر ایک سکینت اور اطمینان بخش روح ہوتی ہے؛ اگر چہ مومن کو دکھ بھی اُٹھانے پڑتے ہیں اور قسم قسم کے مصائب اور شدائد کے اندر سے گذرنا پڑتا ہے خواہ لوگ اس کے کتنے ہی بُرے نام رکھیں ار خواہ اس کے تباہ اور برباد کرنے کے لیے کچھ بھی ارادے کرین،لیکن آخروہ بچالیا جاتا ہے۔کیونکہ خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اُسے عزیز رکھتا ہے۔اس لیے دنیا اس کو ہلاک نہیں کرسکتی۔مومن اور اس کے غیر میں امتیاز ضرور ہوتا ہے اور یہ میزان خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔خدا کی آنکھیں خوب دیکھتی ہیں کہ کون بد اور شریر ہے۔خد اکو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔پس تم دنیا کی پروا نہ کرو۔بلکہ اپنے اندر کو صاف کرو۔یہ دھوکا مت کھائو کہ ظاہری رسم ہی کافی ہے۔نہیں ۔امن اس وکت آتا ہے جب انسان سچے طور سے خدا تعالیٰ کے حرم میں داخل ہو۔
پس اب بڑی تبدیلی کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ سے سچی صلح کے دن ہیں۔بعض لوگ اپنیغلط فہمی اور شرارت سے اس سلسلہ کو بدنام کرنے کے لیے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں سے بھی بعض آدمی طاعون سے ہلاک ہوئے ہیں۔مین نے بار ہا اس اعتراض کا جواب دی اہے کہ یہ سلسلہ منہاج نبوت پر واقع ہوا ہے۔آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کفار پر جو عذاب آیا تھا وہ تلوار کا عذاب تھا۔حالانکہ وہ اُن کے لیے مخصوص تھ۔لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صحابہؓ میں سے بعض شہید نہیں ہو گئے؟ اسی طرح پرر یہ سچ ہے کہ اس سلسلہ میں سے بھی بعض لوگ طاعون سے شہید ہوئے ہیں مگر یہ بھی تو دیکھو کہ طاعون کے ذریعہ سے ہمارا نقصان ہوا ہے یا دوسروں کا؟ہماری جماعت کی تو ترقی ہوتی گئی اورہو رہی ہے اور میں پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ نافع الناس ہیں اور ایمان ،صدق و وفا میں کامل ہیں وہ یقینا بچا لیے جاویں گے۔پس تم اپنے اندر یہ خوبیاں پید اکرو۔اپنے رشتہ داروں اور بیوی بچوں کو بیھ سمجھائو اور یہی تلقین کرو اور دوستوں کے ساتھ یہی شرط دوستی رکھو کہوہ بدی سے بچیں۔
پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آئو۔جنگ کرنا اس سلسلہ کے خلاف ہے۔نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنے پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو۔یہ میری نصیحت ہے اس کو یاد رکھو ۔اﷲ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے ۔آمین۔
۳؍نومبر ۱۹۰۴ء
سیالکوٹ سے واپسی پر بمقام وزیر آباد ریلوے اسٹیشن۔
ایک پادری سے گفتگو
وزیر آباد کے سٹیشن پر وہی ہجوم اور کثرتِ زائرین تھی جو پہلے تھی۔حافظ غلام رسول صاحب نے پھر لیمو نیڈ اور سوڈ اواٹر کی دعوت اپنے بھائیوں کودی۔
اس مرتبہ اس اسٹیشن پر ایک عجیب بات جو پیش آی وہ یہ تھی کہ ڈسکہ کا مشنری پادری سکاٹ صاحب حضرت اقدس سے آکر ملا۔پادری سکاٹ صاحب کے ساتھ ہمارے مکم بھائی سیخ عبد الحق صاحب نو مسلم کے بھی عیسائیت کے ایام میں دوستانہ تعلقات تھے۔پادری صاحب نے حضرت اقدس کے پاس آکر پہیل سلسلہ کلام شیخ عبد الحق ہی سے شروع کیا کہ آپ نے ہمارا ایک لڑکا لے لیا۔اس قسم کی بتیں ہو رہی تھیں۔جبکہ ہم نے پہنچ کر اس گفتگو کو قلمبند کرنا شروع کیا۔
پادری سکاٹ۔ آپ میں اور عیسوی مذہب میں کی اختلاف ہے؟
حضرت اقدس۔ موجودہ عیسوی مذہب اور ہم میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے؛ البتہ حضرت مسیح علیہ السلام کی
اصل تعلیم اور مذہب اور ہمارے مذہب کے اصولوں میں اختلاف نہیں ہے۔وہ بھی خد اکی
پرستش کرتے اور اس کی توحید کا وعظ اور تبلیغ کرتے تھے۔اور دوسرے تمام نبی بھی یہی تعلیم لیکر
آئے تے۔
پادری سکاٹ۔ آپ لوگوں میں تو بہت سے فرقے موجود ہیں؟
حضرت اقدس۔ مجھے تعجب ہے کہ آپ اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عیسائیوںمیں
کس قدر فرقے ہیں جو ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور اصولوں میں بھی متفق نہیں۔مسلمانوں کے فڑقوں میںاگر کوئی اختلاف ہے تو فرد عات اور جزئیات میں ہے۔اصول سب کے ایک ہی ہیں۔
پادری سکاٹ۔ ان عیسائی فرقوں میں سے آپ کس کو حق پر سمجھتے ہیں؟
حضرت اقدس۔ میرے نزدیک تو راستبازوہی فرقہ تھا جو حضرت مسیحؑ اور اُن کے حواریوں کا تھا۔اس کے بعد تو
اس مذہب کی مرمت شروع ہو گئی اور کچھ ایسی تبدیلی شروع ہوئی ہ حضرت مسیح کے وقت کی
عیسویت اور موجودہ عیسویت میں کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔
پادری۔ اس کی خبر آپ کو کہاں سے ملی؟
حضرت اقدس۔ پیغمبروں کو خد اتعالیٰ ہی سے خبریں ملا کرتی ہیں۔میں بھی خد اہی سے خبریں پاتا ہوں اور اسی پر ایمان لات اہوں۔
پادری۔ اس میں شک نہیں کہ پیغمبروں کو خدا س یہی خبر ملتی ہے۔
اس مقام تک جب پہنچے تو پادری صاحب کی نظر ایڈیٹر الحکم پر پڑی جو اس گفتگو کو قلمبند کر رہا
تھا۔پادری صاحب اُسے دیک کر گھبرائے اور بولے کہ یہ کون نوٹ کر رہا ہے۔جب ان کو یہ کہا گیا
کہ یہ الحکم اخبار کا ایڈیٹر ہے جو اس سفر میں حضرت کے ساتھ ہے اور حالات سفر قلمبندر کر کے شائع
کرے گا تو ادری صاخب بولے میں اب جاتا ہوں یہ تو شائع کر دیں گے۔انہیں کہا گیا کہکیا حرج
ہے ۔ دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔مگر ہم سچ کہتے ہٰں اور اس وقت جو لوگ موجود تھے وہ پادری
صاحب کی گھبراہت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ہر چند وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح اس سلسلہ کلام کو یہان
چھوڑ دیں مگر حاضرین نے انہیں سلسلہ کلام جاری رکھنے پر اصرار کیا اور کہا کہ آپ کو نہیں تو ہم لوگوں
کو فائدہ پہنچ جاوے گا۔اس اصرار پر انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھا اور پھر بولے تو یہ بولے:
پادری۔ تمہارے بہت سے چیلے ہیں یہ حملہ نہ کر دیں۔
حضرت اقدس۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ خواہ مخواہ ایک قوم پر جس کو نیک ثلنی، انکسار اور تواضع
کی تعلیم دی جاتی ہے حملہ کرتے ہیں۔ایسی حالت میں کہ میں ان میں موجود ہوں اور آپ دیکھتے ہیںکہ کووئی ان میں سے بولتا بھی نہیں آپ یہ امید کر سکتے ہیں۔آپ جس طرح چاہیں جو چاہیں مجھ سے پوچھیں ان میں سے کوئی تمہیں مخاطب بی نہیں کرے گا۔ان کو یہ تعلیم نہیں دی
جاتی۔ علاوہ ازیں چیلے کا لفظ ٹھیک نہیں ہے گو اس لفظ کے معنی اور مفہوم بُرا نہ ہو۔لیکن ہر ایک قوم
کو اسی لفظ اور نام سے پکارنا چاہیے جو وہ اپنے لیے پسند کرتی ہے۔یہ لفظ چیلے کا ہندوئوں کے
ساتھ مختص ہے۔
پادری۔ میں نے سنا ہے۔سیالکوٹ میں بڑی رونق تھی۔
حضرت اقدس۔ ہاں۔بہت بڑا مجمع تھا۔
پادری۔ آپ لوگوں کو صرف ہدایت دیتے ہیں یا فضل بھی؟
حضرت اقدس۔ میری ہدایت کچھ ثیز نہیں جبتک اس کے ساتھ فضل نہ ہو۔کوئی آدمی کبھی ہدایت نہیں پاسکتا جبتک آسمانی فضل بھی اس کی دستگیری نہیں کرتا ہے۔وہ میری شناخت اُسے عطا کرتا ہے تب وہ میرے پاس آتا ہے اور وہ ہدایت اور معرفت لیتا ہے جو مجھے خدا تعالیٰ نے دی ہے اور پھر اپنے فضل سے دی ہے۔
پادری۔ میں اس فضل کا ذکر نہیں کرتا جو آپ کو ملتا ہے بلکہ میں اس فضل کا ذکر کرتا ہوں جو ان کو ملتا ہے۔
حضرت اقدس۔ میں بھی تو اس فضل کا ذکر کرتا ہوں جو اُن کو ملتا ہے۔ان کو پہلے تو ہ فضل ہی ہے جو میرے پاس لاتا ہے۔پھر جو فضل مجھے دیا جاتا ہے وہی فضل میری صحبت او ر تعلق کی وجہ سے ان میں سرایت کرتا ہے۔جس کدر اعتقاد بڑھے گا اسی قدر یہ لوگ اور ہر ایک مخلص ارادتمند اس فضل کو جذب کرے گ ۔ان لوگوں کا تعالق میرے ساتھ درخت کی شاخوں کی طرح ہے۔جس جس قدر وہ شاخیں ڈریب ہیں اور اپنی سبزی اور زندگی میں تردوتازہ ہیں اسی قدر زیادہ وہ اس غذا کو جو جڑ کے ذریعہ درخت حاصل کرت اہے یہ غذا سے کوئی حصہ نہیں پاسکتی ۔اسی طرح پر شاگرد اور مرید شاخوں کی طرح ہی ہوتے ہٰں۔جس قدر کوئی تعلق، محبت اور حسن ایمان رکھتا ہے اور جس قدر زیادہ صحبت میں رہت اہے اسی کے موافق وہ حصہ پاتے ہیں۔اول فضل خود اس درخت میں بھی ہونا چاہیے۔اگر اس میں کوئی قوت اور روح معرفت کی نہ ہوگی تو وہ دوسروں کو کیا پہنچا سکے گا۔
پادری۔ کس درخت کی شاخ؟
حضرت اقدس۔ وہ درخت جس کو خد الگاتا ہے جو خدا کی طرف سے آتا ہے جیسے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں اور خد انے مجھے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔
پادری۔ میں آپ کے دعویٰ ک اصل مطلب نہیں سمجھا۔کیا آپ مسیح کہلاتے ہیں؟
حضرت اقدس ؑ۔ تعجب ہے۔میرا دعویٰ تو عرصہ سے شائع ہو رہا ہے اور ولایت اور امریکہ تک لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے۔آپ کہتے ہیں میں مطلب نہیں سمجھا۔ہاں میں مسیح کہلاتا ہوں اور خدا نے مجھے مسیح کہا اور مسیح کرکے بھیجا۔
پادری۔ وہ تو ایک ہی مسیح ہے۔
حضرت اقدس ؑ۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات میں بخل نہیں ہے وہ ہزاروں ہزار مسیح بنا سکتا ہے؛ چنانچہ ایک میں نمونہ موجود ہوں جو زندہ مسیح ہے۔
پادری۔ انیس سو برس پیشتر آپ سے ایک مسیح دنیا میں آیا تھا اور وہی مسیح مشہور ہے جس کی طرف یہودیوں کے عہد نامے میں اشارہ ہیکہ مسیح آئے گا اور وہ اس کے منتظر تھے۔اس کے سوا تو کوئی مسیح نہیں۔
حضرت اقدس ؑ۔ ہاں۔انیس سو برس پیشتر ایک مسیح آیا تھا۔مگر جس مسیح کا آپ ذکر کرتے ہیں یا جس کو مانتے ہیں اس کا ذکر یہودیوں کے عہد نامے میں کہیں نہیں ہے،کیونکہ وہ کسی خدا مسیح کے منتظر نہ تھے بلکہ ایک نبی کے منتظر تھے۔اگر وہ کسی خدیا خدا کے بیٹے کے منتظر ہوتے تو وہ اس کو مان لیتے۔
علاوہ بریں یہودیوں کے عہد نامہ میں جس مسیح کا ذکر ہے وہ نشان دو مسیحوں کی طرف جاتا ہے۔ایک وہ جو مجھ سے پہلے آیا دوسرا میں ہوں جو ساتویں ہزار میں آنے والا تھا۔مسیح کی آمدِ ثانی کے تم لوگ بھی قائل ہو،لیکن دوسری آمد کو تم نے اسی کی آمد سمجھ لیا ہے؛ حالانکہ اس سے مراد کسی اور کا آنا تھا یعنی میرا آنا مراد تھا۔دانیال نبی کی کتاب میں بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اس امر کو بیان کیا ہے۔یہ ساتواں ہزار ہے جو آپ کے دعویٰ کو باطل کرتا ہے کہ وہی آنے والا تھا۔اس نے میری تصدیق کی؛ چنانچہ بڑے عیسائی فاضلوں نے مسیح کے آنے کا یہی زمانہ قرار دیا ہے اور آخر مایوس ہو کر امریکہ وگیرہ میں ایسے رسائل بھیشائع ہو گئے کہ دوبارہ آنے کا خیال غلط ہے۔آمد ثانی سے مراد صرف کلیسیا ہی ہے۔اگر یہ وقت آنے کا نہ تھا تو ان لوگوں کو کیا مصیبت پیش آئی تھی کہوہ ایسی تاویلیں کرتے یا انکار رکتے۔حقیقت میں آنے کا زمانہ یہی تھا۔اور آنے والا آگیا مگر تھوڑے ہیں جو اسے دیکھتے ہیں۔اب آپ خواہ قبول کریں یا نہ کریں اور کوئی مسیح تو آنے والا نہیں ۔جس کا آپ کو انتظار ہے وہ مر چکا اور میں خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق آگیا۔
پادری۔ جو دھوکہ یہودیوں کو تھا وہی آپ کو ہے کہ ایک مسیح دُکھ اُٹھائے گا۔دوسرا بزرگی پائے گا۔
حضرت اقدس ؑ۔ دراصل یہودیوں والا دھوکہ تو آپ کو لگا ہوا ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح کے اپنے فیصلہ کو یاد رکھتے تو ٹھوکر نہ کھاتے۔یہودیوں کو جو دھوکا لگا تھا۔وہ یہی تو تھا کہ مسیح کے آنے سے پہکلے ایلیا ہی کا آنا مانتے تھے اور اقرار کرتے تے کہ وہی ایلیا آئے گا؛ حالانکہ مسیح نے اس کا فیصلہ یہ کیا کہ آن چاہیے تھا۔اسی طرح مسیح کی آمد ثانی ہے اس سے مراد وہ آپ ہی کیونکر ہو سکتے ہٰں۔اسی واسطے میں کہت اہوں کہ آپ کو یہودیوں والا دھوکا لگا ہے؛ ورنہ میں تو وہی مسیح ہوں جو آنے والا تھا اور میرا وہی فیصلہ ہے جو ایلیا کے حق میں مسیح نے کیا۔
پادری۔ وہ ایلیا تو آچکا۔
حضرت اقدر ؑ۔ میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ آچکا مگر تم یہ بتائو کہ کیا یوحنا کو ایلیاء نہیں بنایا گیا۔اب میرے معاملہ میں آپ کیوں ٹھوکر کھاتے ہیں اور مسیح کے فیصلہ کو حجت نہیں مانتے۔
پادری۔ آپ معاف کریں۔میں جاتا ہوں۔
حضرت اقدس ؑ۔ اچھا۔
اس کے بعد پادری صاحب تشریف لے گئے؎ٰ۔
۵:نومبر ۱۹۰۴ء
بمقام قادیان۔بعد نماز مغرب
طاعون کی شدت طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ :
کسوف اور خسوف کے ساتھ ہی قرآن شریف میں
این المفر (القیامۃ : ۱۱)
آیا ہے جس سے یہی مراد ہے کہ طاعون اس کثرت سے ہوگی کہ کوئی جگہ پناہ کی نہ رہے گی۔میرے الہام میں عفت الدیار محلہا ومقامھا کے یہی معنی ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام کا وجود باعثِ ابتلاء ثابت ہوا ہے
حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود کی نسبت فرمایا کہ :
ان کا وجود دنیا کے لیے ابتلا ء ہی ثابت ہوا ہے۔یعنی ابتلاء اور حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود کا گہرا تعلق ہے کیونکہ جو منکر ہوئے وہ بھی دوزخی بنے اور جو ان پر ایماندار ہیں وہ بھی دوزخ کے کنارے ہیں۔جیس یکہ عیسائیون کے عقائد اور عملی حالت سے واضح ہے۔پھر مسلمان بھی ان پر ایمان رکھتے تے وہ بھی غلو کرکے اور آسمان پر بٹھاکر مغضوب ہوئے۔پس صرف مسیح کا وجود ہی اس قسم کا ہے کہ جس کا دوست بھی جہنم میں اور دشمن بھی جہنم میں ۔اس قسم کا ابتلاء کسی اور نبی کے وجدو کے ساتھ نہیں ہے۔؎ٰ
۱۱؍نومبر ۱۹۰۴ء
ایک شخص کی طرف سے رقعہ پیش کیا گیا کہ یہ مولوی صاحب ہیں اور ان کا لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ان کو ہستی باری تعالیٰ پر شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔یہ اپنی اصلاح کی تدبیر دریافت کرتے ہیں۔
فرمایا :
ان کی بے قراری کو اﷲ تعالیٰ دور کرے۔دیکھو اگر کسی شخص کے سامنے دو بچے ہوں۔ایک تو کسی اجنبی کا ہو اور دوسرا اس کا اپنا پیارا ۔تو کیا وہ اس اجنبی بچہ کی خاطر اپنے بچہ سے محبت چھوڑ دے گا۔ نہیں بلکہ ہرگز نہیں۔پس جب انسان مسلمان کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں بالکل خد اکا ہوجانا اور کسی حالت میں اس سے بے وفائی نہ کرنا۔پھر اولاد کے حق میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے :
ان من ازواجکم و اولادکم عدو الکم فاحذروھم (التغابن : ۱۵)
انما اموالکم واولادکم فتنۃ (التغابن : ۱۶)
کہ مال اور اولاد تمہاری دشمن ہیں۔ان سے ڈرتے رہو۔کیونکہ اگر زندہ رہے تو ممکن ہے کہ نافرمان ہو۔مرتد ہو جاوے۔بدکار ہو،چور یا ڈاکو بن جاوے۔مر جاوے تو پھر ویسے ابتلا آجاتا ہے۔پس ہر حالت میں موجب فتنہ اور ابتلاء ہوتی ہے مگر جب مومن کو خد اتعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ اگر یہ بچہ مر گیا ہے تو کیا ہوا۔اﷲ تعالیٰ نے جو حکم دیاہے۔
ماننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منہا اومثلھا (البقرہ : ۱۰۷)
دیکھو آنحضرت ﷺ کے ۱۲ بچے فوت ہوئے۔ایمان تو وہ ہوتا ہے جس میں لغزش نہ ہو اور ایسے ایمان والا خدا تعالیٰ کو بہت محبوب ہوتا ہے۔ہاں اگر بچہ خد اسے زیادہ محبوب ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسا شخص خد اپر ایمان کا دعویٰ کر سکے۔اور وہ کیوں ایسا دعویٰ کرتا ہے۔ہم نہیں جان سکتے کہ ہماری اولادیں کیسی ہوں گی۔صالح ہوں گی یا بدمعاش ۔اور نہ اُن کے ہم پر کوئی احسان ہیں اور خد اکے تو ہم پر لاکھوں لاکھ احسان ہیں۔پس سخت ظالم ہے وہ شخص کہ اس خدا سے تعلق توڑ کر اولاد کی طرف تعلق لگاتا ہے۔ہان خد اتعالیٰ کے حقوق کے ساتھ مخلوق کے حقوق کا بھی خیال رکھو۔اگر خدا پر تمہار اکامل ایمان ہو تو پھر تو تمہارا یہ مذہب ہونا چا ہیے کہ: ؎
ہر چہ از دوست میر سد نیکوست
اور اس ایمان والے کے شیطان قریب بھی نہیں آتا۔وہ بھی تو وہا ں ہی جاتا ہے جہاں اُس کو تھوڑی سی گنجائش مل جاتی ہے۔جب خدا تعالیٰ کو مقدم رکھ اجائے تو برکات کا نزول ہوتا ہے۔ہر کسی دوست سے اگر تم دادنیٰ باتوں میں بد عہدی اور جھوٹ اور عہد شکنی سے کام لو تو وہ تمہیں کبھی عزیز نہیں رکھے گا۔پھر وہ تو رب العالمین اور احکم الحاکمین اور رب العزت ہے۔
ولنبلونکم بشیج من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرت (البقرۃ : ۱۵۶)
یعنی ثمرات سے مراد اولاد ہے اور یہ خد اکی طرف سے ابتلا ء ہوتے ہیں اور یہی انسان کا امتحان ہوت اہے۔ہان یہ باتیں اور کامل ایمان حاصل ہوت اہے توبہ استغفار سے۔اس کی کثرت کرو۔اور
ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین ۔ (الاعراف : ۲۴)
پڑھا کرو اور اس کی کثرت کرو۔خد اتعالیٰ تعم البدل عطا کرے گا۔خدا کا دامن نہ چھوڑنے والا گنہگار ہو کر بھی بخشا جاتا ہے۔ہاں تعلق توڑنا بری بات ہے اور یہ زہر قاتل ہے۔پس توبہ استغفأر کرو اور نمازوں میں دعائیں کرتے رہو۔اﷲ تعالٰٰ تمہارا پروردگار ہو؎ٰ۔والسلام۔
بلاتاریخ
شہد اور ذیابیطس ذیابیطس کی مرض کا ذکر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ :
اس سے مجھے سخت تکلیف تھی۔ڈاکٹروں نے اس میں شیر ینی کو سخت مضر بتلایا ہے۔آج میں اس پر غور کر رہا تھا تو خیال آیا کہ بازار میں جوشکر وغیرہ ہوتی ہے اسے تو اکثر فاسق فاجر لوگ بناتے ہیں اگر اس سے ضرر ہوتا ہے تو تعجب کی بات نہیں۔مگر عسل (شہد) تو خدا تعالیٰ کی وحی سے تیار ہوا ہے۔اس لیے اس کی خاصیت دوسری شیر ینیوں کی سی ہرگز نہ ہوگی۔اگر یہ ان کی طرح ہوت اتو پھر سب شیرینی کی نسبت شفاء لناس۔ فرمایا جاتا۔مگر اس میں صرف عسل ہی کو خاص کی اہے۔پس یہ خصوصیت اس کے نفع پر دلیل ہے اور چونکہ اس کی تیاری بؓریاہ وہی کے ہے اس لیے مکھی جو پھولوں سے رس چوستی ہوگی تو ضرور مفید اجزاء کو ہی لیتی ہوگی۔اس خیال سے میں نے تھوڑے سے شہد میں کیوڑا ملا کر اُسے پیا تو تھوڑی دیر کے بعد مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا۔ حتیٰ کہ میں نے چلنے پھنے کے قابل پانے آپ کو پایا اور پھر گھر کے آدمیوں کولے کر باغ تک چلا گیا اور وہان دس رکعت اشراق نماز کی ادا کیں۔
صفاتِ باری تعالیٰ
خدا تعالیٰ کی ان صفأت رب، رحمٰن، رحیم،مالک یوم الدین پر توجہ کی جواے تو معلوم ہوت اہیکہ کہ کیسا عجیب خد اہے۔پھر جن کا رب ایسا ہو گیا وہ کبھی نامراد اور محروم رہ سکتا ہے؟ رب کے لفظ سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دوسرے عالم میں بھی ربوبیت کام کرتی رہے گی۔
جہاں اسباب غیر مؤثر معلوم ہوں وہاں دعا سے کام لے؎ٰ۔
۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء
بوقت ظہر
ایک الہام اور ایک رؤیاء حضرت اقدس علیہ السلام نے ذیل کی رؤیا سنائی
میں نے ایک سفید تہہ بند باندھا ہوا ہے مگر وہ بالکل سفید نہیں ہے۔کچھ کچھ میلا ہے کہ اس اثناء میں مولوی صاحب نماز پڑھانے لگے ہیں اور اُنہوں نے سورہ الحمد جہر سے پڑھی ہے اور اس کے بعد اُنہوں نے یہ پڑھا۔
الفارق واما ادرک ما الفارق
اس وقت مجھے یہی معلوم ہوا کہ قرآن شریف میں سے ہی ہے۔اور ایک اور الہام ہوا :
روز نقصاں بر تو نہ آید
آریہ مذہب اور اس کے عقائد
حضرت حکیم نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی۔بعض آریوں نے بہت ہی گندے کلمات قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ کی شان میں لکھے ہیں۔فرمایا کہ
ہانڈی میں جب ابال ئت ہے تو پھر بہت جلدی بیٹھ جایا کرتا ہے۔یہی حالت ان لوگوں کی ہے۔میں نہیں سمجھ سکتا کہ اسلام جیسا مذہب جس خدا نے پیش کیا ہے اُس کے مقابل پر اور بی کوئی خدا مانا جا سکتا ہے۔
Mohsin 11-8-05
اسلام کا خدا کل کمالات ک مالک ہے اور جبکہ روح اور اس کے خواص سب خود بخود ہیں تو پھر وہ خدا کو کہہ سکتی ہے کہ تیرا مجھ پر کیا حق ہے جو تو مجھ کو کسی قسم کی سزا دے سکے۔خدا شناسی میں ان لوگوں کی حالت دہریوں سے ملتی ہے اور نیوگ میں تو کنجروں کو مات کر دیا ہے۔
انہوں نے ہر ایک بات پر اعتراض کا ٹھیکہ لے لیا ہے؛ حالانکہ ایک عارف آدمی اس بات کا ہرگز قائل نہ ہوگ اکہ کل اسرارِ الوہیت کو کوئی سمجھ سکتے مثلاً اس قدر جو مخلوقات موجود ہے اور قسم قسم کے پتھر ، بوٹیاں اور اشیاء ہیں کیا کوئی دعوٰی کر سکت اہے کہ میں نے ہر ایک کے خواص پر احاطہ کر لیا ہے اور جو کچھ میں نے معلوم کیا ہے اس سے بڑھ کر اب اور کوئی حکمت الٰہی اس میں ہر گز نہیں ہے۔اس لیے حق کے طالب کو چاہیے کہ وہ بات جس سے ایمان وابستہ ہوتا ہے اختیار کرے اور اُسے سمجھے اور دوسری باتوں کے لیے اپنے نقص عقل کو تسلیم کرے۔جوں جوں خدا تعالٰٰ بصیرت دے گا توں توں اس کا علم بڑے گا۔یہ نادانی ہے کہ انسان کے جسم کے اندر جس قدر قویٰ ہیں ان کی حکمت اور خواص پر تو نظر نہ کی جاوے اور بالوں کے ٹیڑھے ہونے یا اور اس قسم کی باتوں پر اعتراض کیا جاوے؎ٰ۔
۲۹؍نومبر ۱۹۰۴ء
کسی اہم کام کے لیے نماز توڑنا
افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر آجاوے اور دروازہ کو ہلا ہلا کر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یادوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں اسے کیا کرنا چاہیے۔اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہو کر ہندوستان واپس چلا گیا ہے۔
جواب :- حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا (یہ ہسپتال کا واقعہ ہے اس لیے فرمایا ؎ٰ) کیونکہ اگر اس کے التواسے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی۔احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں ثل کر درواز کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ایسے ہی اگر لڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اور جانور کو مار دینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی، بلکہ بعصوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھوڑا کُھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے۔کیونکہ وقت کیاندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے۔ ۲؎
نوٹ:- یاد رکھنا چہایے کہ اشد ضرورتوں کے لیے نازک مواقع پر یہ حکم ہے۔یہ نہیں کہ ہر ایک قسم کی رفع حاجب کو مقدم رکھ کر نماز کی پروا نہ کی جاوے اور اسے بازیچۂ طفلاں بنا دیا جاوے ورنہ نماز اشغال کی سخت ممانعت ہے اور اﷲ تعالیٰ ہر ایک دل اور نیت کو بخوبی جانتا ہے۔ ؎ٰ
۱۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء
بوقت ظہر
مریدان باصفا کی خاطر داری
حضرت اقدس بوقت ظہر تشریف لائے اور مولانا حکیم نورالدین صاحب کی علالت طبع کا حال خود ان سے دریافت کیا۔غذا کے انتظام کے لیے تاکید فمائی۔حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ ہر چند کوشش کی جاتی ہیمگر قدرت کی طرف سے کچف ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں کہ جس سے یہ انتظام قائم نہیں رہتا۔شاید ارادۂ الٰہی ابھی اس امر کا خواہاں نہیں ہے کہ آرام ہو۔
اس اثناء میں ایک صاحب جن کو حکیم صاحب موصوف سے نہایت محبت اور اخلاص اور نیاز مندی کا تعلق ہے بول اُٹھے کہ آخر تدبیر کرنی چاہیے۔قرآن شریف میں آیا ہے
فالمد برات امرا (النزعات : ۶)
حکیم صاحب نے ایک لطیف عارفانہ جواب یہ دیا کہ یہاں صیغہ مؤنث کا استعمال ہوا ہے فالمدبرون امرا۔ نہیں ہے۔جس سے ظاہر ہے کہ اس کا بڑا تعلق اناث سے ہے (اور اس میں ضرور نقص ہوتا ہے)بہر حازل یہ ایک عجیب نکتہ ہے۔اس بحث کو حصرت مسیح موعود ؑ نے بھی دل چسپی سے سنا اور پھر خوراک کا انتظام ایک خاص صاحب کے سپرد فرماکر زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ :
یہ سب لوگ سنتے ہیں اور گواہ ہیں کہ ہم نے اب تم کو ذمہ دار بنادیا ہے۔اب اس کا ثواب یاعذاب تمہاری گردن پر ہے۔ ۲؎
۲۰؍دسمبر ۱۹۰۴ء
بوقت ظہر
اپنے نیک انجام پر پختہ یقین
ظہر کے وقت حضرت اقدسؑ تشریف لائے۔مقدمہ کے ذکر پر فرمایا کہ :
خواہ کچھ ہی ہو ہم تو سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اس پر راضی ہیں۔
ہر چہ از دوست می رسد نیکوست
لیکن ہمارا ایمان جیسے خدا تعالیٰ کے ملائکہ اور کتب اور رسل پر ہے ایسے ہی اس بات پر بھی ہے ہ انجام کا رہم ہی کامیاب ہوں گے؛ اگر چہ ایک دنیا ہماری مخالف کیوں نہ ہو۔
آج کل کے عقلمندوں کے نزدیک تو کسی کو اپنا دشمن بنانا غلطی ہے۔لیکن سچ پوچھو تو یہ بھی حقانیت کی ایک دلیل ہے۔آنحضر ﷺ نے کسی ایک سے بھی نہ رکھی۔سب سے بگاڑلی۔ان لوگوں کے نزدیک تو نعوذ باﷲ آپؐ نے غلطی کی حالانکہ محض خدا تعالیٰ کے لیے سب س یبگاڑ لینا آپ کی صداقت کا بیّن ثبوت ہے کہ جس سے آپؐ کی قوتِ ایمانی کا حال معلوم ہوتا ہے۔ایک طرف مسیح ؑ کو دیکھو کہ اس کی تعلیم سے جو کہ انجیلوں میں پائی جاتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مشرب کسی کو ناراض کرنے کا ہرگز نہیں تھا۔یہودیوں کو سنایا گیا کہ میں توریت کا ایک شوشہ تک زیروزبر کرنے نہیں آیا۔اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ اُن کی خوشامد مد نظر تھی۔برخلاف اس کے آنحضرت ﷺ کی تعلیم کو دیکھ اجاوے تو کوئی بھی فرقہ اور مچہب روئے زمین پر ایسا نظر نہ آوے گا جس کو آپؐ نے دعوت نہ کی ہو اور جس کی غلطی نہ نکالی ہو (اور پھر ہر ایک کے مقابلہ پر اپنے مظفر و منصور ہونے کا دعویٰ بھی کیا) بھلا بتلائو کہ جب تک خدا پر پورا بھروسہ اور یقین نہ ہو کب کوئی اس طرح سے کر سکت اہے۔
خیر بات یہ ہے کہ درمیان میں کیا کیا مکروہات ہوں ہمیں اس کا علم نہیں مگر انجام بہر حال نیک ہے۔الہاموں کی ترتیب میں مَیں یہ امر مد نظر رکھتا ہوں کہ مکروہات کا رمتبہ اول رکھا جاتا ہے اور یہ سنت اﷲ بھی ہے کیونکہ خوشحالی اور کامیابی بعد کو ہوا کرتی ہیں۔اس لیے اُن کے الہامات کی ترتیب بھی بعد کو ہی ہوتی ہے۔
عاقبت کا ذخیرہ تیار کرو
کچھ دنوں کا عرصہ گذارا کہ ایک صاحب بہت تھوڑی دیر کے لیے قادیان آئے۔اور جلدی رخصت ہونے لگے۔حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ :
کچھ دن میرے پاس رہو اور عاقبت کا ذخیرہ تیار کرو دنیا کے کام تو کبھی ختم ہین میں نہیں آتے۔
خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند
۲۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء
تقریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
برموقعہ جلسہ سالانہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء
بعد نماز ظہر بمقام مسجد اقصیٰ
خاتمہ بالخیر کی کوشش کریں
میری طرف سے اپنی جماعت کو بار بار وہی نصیحت یہ جو میں پہلے بھی کئی دفعہ کر چکا ہوں کہ عمر چونکہ تھوڑی ؎ٰ اور عظیم الشان کام درپیش ہے،اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے۔
خاتمہ بالخیر ایسا امر ہے کہ اس کی راہ میں بہت سے کانٹے ہیں۔جب انسان دنیا میں آیتا ہے تو کچھ زمانہ اس کا بے خوشی میں گذرجاتا ہے۔یہ بے ہوشے کا زمانہ وہ ہے جبکہ وہ بچہ ہوتا ہے اور اس کو دنیا اور اس کے حالات سے کوئی خبر نہیں ہوتی ۔اس کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے توایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ وہ بے ہوشی تو نہیں ہوت جو بچپن میں تھی۔ لیکن جوانی کیایک مستی ہوتی ہے جو اس ہوش کے دنوں میں بھی بے ہوشی پیدا کر دیتی ہے اور کچھ ایسا از خود رفتہ ہوجاتا ہے کہ نفسِ امارہ غالب آجاتا ہے۔اس کے بعد پھر تیسرا زمانہ آتا ہے ۲؎ کہ علم
Amira 15-8-05
کے بعد پھر لا علمی آجاتی ہے اور حواس میں اور دوسرے قویٰ میں فتور آنے لگتا ہے۔یہ پیرانہ سالی کا زمانہ ہے۔بہت سے لوگ اس زمانہ میں بالکل حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور قویٰ بیکار ہو جاتے ہیں۔اکثر لوگوں میں جنون کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ایسے بہت سے خاندان ہیں کہ ان میں ساٹھ یا ستر سال کے بعد انسان کے حواس میں فتور آجاتا ہے۔غرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی قویٰ کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہو جانے سے انسان ہوش میں بے ہوش ہوتا ہے؎ٰ اور ضعف وتکاہل اپنا اثر کرنے لگتا ہے۔انسان کی عمر کی تقسیم انہیں تین زمانوں پر ہے اور یہ تینوں ہی خطرات اور مشکلات میں ہیں۔پس اندازہ کرو کہ خاتمہ بالخیر کے لیے کس قدر مشکل مرحلہ ہے۔
بچپن کا زمانہ تومجبوری کازمانہ ہے۔اس میں سوائے لہو،لعب اور کھیل کود اور چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے اور کوئی خواہش ہی نہیں ہوتی۔ساری خواہشوں کا منتہا کھانا پینا ہی ہوتا ہے۔دنیا اور اس کے حالات سے محض نا واقف ہوتا ہے۔امور آخرت سے بکلی نا آشنا اور لاپروا ہوتا ہے۔عظیم الشان امور کی اسے کوئی خبر ہی نہیں ہوتی۔ وہ نہیں جانتا کہ دنیا میں اس کے آنے کی کیا غرض اور مقصد ہے۔یہ زمانہ تو یوں گذر گیا۔اس کے بعد جوانی کا زمانہ آت ہے۔کچھ شک نہیں کہ اس زمانہ میں اس کے معلومات بڑھتے ۔ہیں اور اس کی خواہشوں کا حلقہ وسیع ہوتا ہے، مگر جوانی کی مستی اور نفس امارہ کے جذبات عقل ماردیتے ہیں اور ایسی مشکلات میں پھنس جاتا ہے اور ایسے ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ اگر ایمان بھی لاتا ہے تب بھی نفس امارہ اور اس کے جذبات اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اُسے ایمان ارو اس کے ثمرات سے دور پھینک دینے کے لیے حملے کرتے ہیں۔اس کے بعد جو پیرانہ سالی کا زمانہ ہے وہ تو بجائے خود ایسا نکما اور ردی ہوتا ہے۔جیسے کسی چیز سے عرق نکال لیا جاوے اور اس کا پھوک باقی رہ جاوے۔اسی طرح پر انسانی عمر کا پھوک بڑھاپا ہے۔انسان اس وکت نہ دنیا کے لائق رہتا ہے اور نہ دین کے۔مخبوط الحواس اور مضمحل سا ہو کر اوقات بسر کرتا ہے۔قویٰ میں وہ تیزی اور حرکت نہیں ہوتی جو جوانی میں ہوت ہے اور بچپن کے زمانہ سے بھی گیا گذرا ہو جاتا ہے۔بچپن میں اگر چہ شوخی،حرکت اور نشونما ہوتا ہے،لیکن بڑھاپے میں یہ باتیں نہیں۔نشو نما کی بجائے اب قویٰ میں تحلیل ہوتی ہے اور کمزوری کی وجہ سے سستی اور کاہلی پیدا ہونے لگتی ہے۔
بچہ اگر چہ نماز اور اس کے مراتب اور ثمرات اور فوائد سے ناواقف ہو گا یا ہوتا ہے۔لیکن اپنے کسی عزیز کو دیکھ کر ریس اور امنگ ہی پیدا ہو جاتی ہے،مگر اس پیرانہ سالی کے زمانہ میں تو اس کے بھی قابل نہیں رہتا ۲؎۔
حواس باطنی میں جس طرح اس وقت فرق آجاتا ہے حواس ظاہی میں بھی معمر ہو کر بہت کچھ فتور پیدا ہوجاتا ہے۔بعض اندھے ہو جاتے ہیں۔بہرے ہو جاتے ہیں۔چلنے پھرنے سے عاری ہ جاتے ہیں اور قسم قسم کی مصیبتوں اور دکھوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔غرض یہ زمانہ بھی بڑا ہی ردی زمانہ ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی زمانہ ہے جو ان دونوں کے بیچ کا زمانہ ہے یعنی شباب کا جب انسان کوئی کام کر کستا ہے،کیونکہ اس وقت قویٰ میں نشونما ہوتا ہے اور طاقتیں آتی ہیں،لیکن یہی زمانہ ہے جبکہ نفس امارہ ساتھ ہوت اہے اور وہ اس پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے اور اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے۔یہی زمانہ ہے جو مؤاخذہ کا زمانہ ہے اور خاتمہ بالخیر کے لیے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں،لیکن ایسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنم میں لے جائے گا اور شقی بناوے گا۔ہاں اگر عمد گی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانہ کو بسر کیا جاوے تو اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے کیونکہ ابتدائی زماہ تو بے خبری اور غفلت کا زمانہ ہے۔اﷲ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ نہ کرے گا۔جیسا کہ اس نے خود فرمایا
لا یکلف اﷲ نفسا الا وسعھا (البقرۃ : ۲۸۷)
اور آخری زمانہ میں گوبڑھاپے کی وجہ سے سستی اور کاہلی ہوگی،لیکن فرشتے اس وقت اس کے اعمال میں وہی لکھیں گے جو جوانی کے جذبات اور خیالات ہیں۔جوانی میںا گر نیکیوں کی طرف مستعد ارو خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ،اس کے احکام کی تعمیل کرنے والا اور نواہی سے بچنے والا ہے تو بڑھاپے میں گو ان کے اعمال کی بجا آوری میں کسی قدر سستی بھی ہو جاوے لیکن اﷲ تعالیٰ اسے معذور سمجھ کر ویسا ہی اجر دیتا ہے ؎ٰ۔
ہر شخص بدھے انسان کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسا از خود فتگی کا زمانہ ہے ۲؎۔ کوئی بات چشم دید کی طرف سمجھ میں نہیں آتی ہے۔اس لیے ان لوگوں پر خدا تعالٰی کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے۔جو ابتدائی زمانہ میں اس زمانہ کے لیے سعی کرتے ہیں۔اور اس زمانہ میں ان کے لیے وہی تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی بندگی لکھی جاتی ہے۔ غرض آخر وہی ایک زمانہ جو جوانی کے جذبات اور نفس امارہ کی شوخیوں کا زمانہ کچھ کام کرنے کا زمانہ ہے۔اس لیے اب سوچنا چاہیے کہ وہ کیا طریق ہے جس کو اختیار کرکے انسان کچھ آخرت کے لیے کما سکے۔
خاتمہ بالخیر کے حصول کے تین ذرائع
اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زمانہ جو شباب اور جوانی کا زمانہ ہے ایک ایسا زمانہ ہے کہ نفس امارہ نے اس کو ردی کیا ہوا ہے لیکن اگر کوئی کار آمد ایام ہیں تو یہی ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کی زبانی قرآن شریف میں درج ہے۔
وما ابری نفسی انا النفس لا مارۃ بالسوء الا ما رحم ربی (یوسف : ۵۴)
یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہرا سکتا کیونکہ نفس امارہ بدی کی طرف تحریک کرتا ہے۔اس کی اس قسم کی تحریکوں سے وہی پاک ہو سکتا ہے جس پر میرا رب رحم کرے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کی بدیوں اور جذبات سے بچنے کے واسطے نری کوشش ہی شرط نہیں بلکہ دعائوں کی بہت بڑی ضرورت ہے نرا زُہد ظاہری ہی (جو انسان اپنی سعی اور کوشش سے کرتا ہے) کار آمد نہیں ہوتا جبتک خدا تعالیٰ کا فضل اور رحم ساتھ نہ ہو اور اصل تو یہ ہے کہ اصل زہد اور تقویٰ تو ہے ہی وہی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اسی طرح ملتا ہے؛ ورنہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بہت سے جامے بالکل سفید ہوتے ہیں اور باوجود سفید ہونے کے بھی وہ پلید ہو سکتے ہیں تو اس ظاہری تقویٰ اور طہارت کی ایسی ہی مثال ہے؎ٰ؛ تاہم اس حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ ارو طہارت کے حصول کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی زمانہ شباب و جوانی میں انسان کوشش کرے جبکہ قویٰ میں قوت اور طاقت اور دل میں ایک اُمنگ اور جوش ہوتا ہے۔اس زمانہ میں کوشش کرنا عقلمند کا کام ہے اور عقل اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے دی ہے ۲؎
Amira 23-8-05
پہلا ذریعہ تدبیر
اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے (جیسا کہ میں پہلے کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں) اول ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے ورنہ وہ ضرور ہلاک ہوگا۔جوشخص دیدہ دانستہ بدراہ اختیار کرتا ہے یا کنوئیں میں گرتا ہے اور زہر کھاتا ہے وہ یقینا ہلاک ہوگا۔ایسا شخص نہ دنیا کے نزدیک اور نہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قابل رحم ٹھہرسکتا ہے اس لیے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لیے (جس کو اﷲ تعالیٰ نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آنیوالی نسلوں کے لیے ایک نمونہ ٹھہرے) کہ جہانتک ممکن ہے بد صحبتوں اور بد عادتوں سے پرہیز کریں ؎ٰ۔ اور اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں۔اس مقصد کے حاصل کر نیکے واسطے جہانتک تدبیر کا حق ہے تدبیر کرنی چاہیے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہیے۔
یاد رکھو تدبیر بھی ایک مخفی عبادت ہے اس کو حقیر مت سمجھو۔اسی سے وہ راہ کھل جاتی ہے جو بدیوں سے نجات پانے کی راہ ہے۔جو لوگ بدیوں سے بچنے کی تجویز اور تدبیر نہیں کرتے ہیں وہ گویا بدیوں پر راضی ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر خدا تعالیٰ اُن سے الگ ہو جاتا ہے ۲؎۔
میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفس امارہ کے پنجہ میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگ ہوا ہوتا ہے تو اس کا نفس امارہ خد اتعالیٰ کے نزدیک لوامہ ہو جاتا ہے اور ایسی قابل قدر تبدیلی پا لیتا ہے کہ یا تو وہ امارہ تھا جو *** کے قابل تھا ارو یا تدبیر اور تجویز کرنے سے وہی قابل *** نفس امارہ نفس لوامہ ہو جتا ہے جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اس کی قسم کھاتا ہے ۳؎۔ یہ کوئی چھوٹا شرف نہیں ہے۔پس حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حاصل کرنے کے واسطے اول یہ ضروری شرط ہے کہ جہاں تک بس چلے اور ممکن ہو تدبیر کرو اور بدی سے بچنے کی کوشش کرو۔بد عادتوں اور بد صحبتوں کو ترک کر دو۔ان مقامات کو چھوڑ دو جو اس قسم کی تحریکوں کا موجب ہو سکٰں جس قدر دنیا میں تدابیر کی راہ کھلی ہے اس قدر کوشش کرو اور اس سے نہ تھکو نہ ہٹو۔
دوسرا ذریعہ دعا
دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لیے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے ؎ٰوہ دعا ہے اس لیے جس قدر ہو سکے دعا کرو۔یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرب ارو مفید ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے۔
اد عونی استجب لکم (المومن : ۶۱)
تم مجھ سے دعا کرو میں تمہارے لیے قبول کروں گا۔دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہیے ۔۲؎دوسری قوموں کو دعا کی کوئی قدر نیں اور نہ انہیں اس پاک طریق پر کوئی فخر اور ناز ہو سکتاہے۔بلکہ یہ فخر اور ناز صرف اسلام ہی کو ہے دوسرے مذاہب اس سے بکلی بے بہرہ ہیں۔مثلا عیسائیوں نے جب یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک انسان (جس کو انہوں نے خدا مان لیا) نے ہمارے لیے قربانی دے دی ہے۔انہوں نے اس پر بھروسہ کر لیا اور سمجھ لیا کہ ہمارے سارے گناہ اس نے اُٹھا لیے ہیں۔پھر وہ کونسا امر ہے جو اس کو دعا کے لیے تحریک کرے گا۔نا ممکن ہے کہ وہ گدازش دل کے ساتھ دعا کرے۔دعا تو وہ کرتا ہے جو اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کو سمجھتا ہے،لیکن جو شخص اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کرتا ہے وہ دعا کیوں کرے گا۔اس نے تو پہلے ہی سمجھ لیا ہے کہ گناہ دوسرے شخص نے اُٹھالیے ہیں اور اس طرح پر اس کے ذمہ کوئی جواہدہی نہیں تو اس کے دل میں تحریک کس ططرح ہو گی۔اس نے اور شئے پر بھروسہ کر لیا ہے اور اس طرح پر اس طریق سے جو دعا کا طریق ہے وہ دور چلا گیا ہے ۳؎۔
غرض ایک عیسائی کے نزدیک دعا بالکل بے سود ہے اور و اس پر عمل نہیں کر سکتا۔اس کے دل میں وہ رقت اور جوش جو دع اکے لیے حرکت پیدا کرتا ہے نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح پر ایک آریہ جوتناسخ کا قاتل ہے اور سمجھتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہو سکتی اور کسی طرح پر اس کے گنہ معاف نہیں ہو سکتے وہ دعا کیوں کرے گا؟ اس نے تو یہ یقین کی اہوا ہے کہ جونوں کے چکر میں جانا ضروری ہے اور بیل۔گھوڑا۔گدھا۔گائے۔کتا۔سؤر وغیرہ بننا ہے۔وہ اس راہ کی طرف آئے گا ہی نہیں۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہد عا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے۔
مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہہ کر آستانۂ الوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لیے قوی اور مقتد خدا سے طاقت اور قوت ار مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں ا سکو موت کہہ سکتے ہیں۔جب یہ حالت میسر آجاوے تو یقینا سمجھو کہ باب ِ اجامت اس کے لیے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کیلیے عطا ہوتی ہے یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے۔
اس زمانہ کے لوگ دعا کی تاثیرات کے منکر ہو گئے ہیں
مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت وار حالت سے محض ناواقف ہیں۔اور اسی وجہ سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے منکر ہو گئے ہیں کیونکہ وہ اس تاثیرات کو نہین پاتے اور منکر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے۔پھر دعا کی کیا حاجت ہے،مگر میں خوب جانت اہوں کہ یہ تو نرا بہانہ ہے انہیں ثونکہ دعا کا تجربہ نہیں اس کی؎ٰ تاثیرات پر اطلاع نہیں اس لیے اس طرح کہہ دیتے ہیں ورنہ اگر وہ ایسے ہی متوکل ہیں تو پھر بیمار ہو کر علاج کیوں کرتے ہیں؟۔ خطرناک امراض میں مبتلا ہوتے ہیں تو طبیب کی رف دوڑے جاتے ہیں۔بلکہ میں سچ کہتاہوں کہ سب سے زیادہ چارہ کرنے والے یہی ہوتے ہیں۔سید احمد خاں بھی دعا کے منکر تھے، لیکن جب اُن کا پیشاب بند ہوا تو دلی سے معالج ڈاکٹر کو بلایا۔یہ نہ سمجھ لیا کہ خود بخود ہی پیشاب کھل جاوے گا؛ حالانکہ وہی خدا ہے جس کے ملکوت میں ظاہری دنیا ہے جبکہ دوسرے اشیاء میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ باطنی دنیا میں تاثیرات نہ ہوں۲؎۔ جن میں سے دعا ایک زبردست چیز ہے۔یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قضاو قدر میں سب کچھ ہے مگر کوئی یہ تو بتائے کہ خدا تعالیٰ نے وہ فہرست کس کو دی ہے جس سے معلوم ہو جاوے۔میں سچ کہتا ہوں کہ ان اسرار پر پر کوئی فتح نہیں پاسکتا ۔ظاہر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص قبض سے بیمار ہے تو تربدیا کسٹرائیل جب اس کو دیا جاوے گا تو اسے اسہال آجاویں گے۔اور قبض کھل جائے گی۔کیا یہ اس امر کا بین ثبوت نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے تاثیرات رکھی ہوئی ہیں۔
اسی طرح پر اور تدابیر کرنے والے ہیں۔مثلاً زراعت کرنے والے اور یہی معالجات کرنے والے وہ خوب جانتے ہیں کہ ان تدابیر کی وجہ سے اُنہوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور اشیء میں مختلف اثر دیکھے ہیں۔پھر جبکہ ان چیزوں میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دعائوں میں جو وہ بھی مخفی اسباب اور تدابیر ہیں اثر نہ ہوں؟ اثر ہیں اور ضرور ہیں ۔لیکن تھوڑے لوگ ہیں جیو ان تاثیرات سے واقف ارو آشنا ہیں اس لیے انکار کر
بیٹھتے ہیں۔
آدابِ دعا
میں یقینا جانتا ہوں کہ چونکہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو اس نقطہ سے جہاں دعا اثر کرتی ہے دور رہ جاتے ہٰں اور وہ تھک کر دعا چھوڑ دیتے ہیں اور خدو ہی یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ دعائوں میں کوئی اثر نہیں ہے۔میں کہت اہوں کہ یہ تو اُن کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے۔جب تک کافی وزن نہ ہو خاوہ زہر ہو یا تریاق اس کا اثر نہیں ہوتا۔کسی کو بھوک لگی ہوئی ہو اور وہ چاہے کہ ایک دانہ سے پیٹبھر لے یا تو لا بھر غذا کھالے تو کای ہو سکتاہے کہ وہ سیر ہو جاوے؟کبھی نہیں۔اسی طرح جس کو پیاس لگی ہوئی ہے ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس کب بُجھ سکتی ہے،بلکہ سیر ہوین کے لیے چاہیے کہ وہ کافی غذا کھاوے اور پیاس بجھانے کے واسطے لازم ہے کہ کافی پانی پیوے۔تب جاکر اس کی تسلی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح پر دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہیے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہیے جبتک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے۔جو لوگ تھک جاتے اور کھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں،کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشنای ہے۔میرے نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں خیالی بات نہیں۔جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو۔ اﷲ تعالیٰ دعا کے ذریعہ اُسے آسان کر دیتاہے۔میں سچ کہتاہوں کہ دعا بڑی زبردست اثر والی چیز ہے۔بیماری سے شفا اس کے ذریعہ ملتی ہے۔دنیا کی تنگیاں مشکلات اس سے دور ہوتی ہیں۔دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو دعا سے حاصل نہیں ہوتی۔سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے اور خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے۔گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے؎ٰ۔ بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پ ایمان ہے کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خد اہے۔
اﷲ تعالیٰ نے شروع قرآن ہی میں دع اسکھائی ہیجس سے معلوم ہوت اہے کہ یہ بڑی عظیم الشان اور ضروری چیز ہے۔اس کے بغی انسان کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
الحمد ﷲ رب العلمین۔ الرحمن الرحیم۔ مالک یوم الدین (الفاتحہ : ۲ - ۴)
اس میں اﷲ تعالیٰ کی چار صفات کو جوام الصفات ہیں بیان فرمایا ہے۔
رب العلمین ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذرہ ذرہ کی ربوبیت کر رہا ہے۔عالم اسے کہتے ہیں جس کی خبر مل سکے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دنای میں ایسی نہیں ہے جس کی ربوبیت نہ کرتا ہو۔ارواح اجسام وغیرہ سب کی ربوبیت کر رہا ہے۔وہی ہے جو ہر ایک ثیز کے حسبِ حال اس کی پرورش کرتا ہے جہاں جسم کی پرورش فرماتا ہے وہاں روح کی سیری اور تسلی کے لیے معارف اور حقائق وہی عطا فرماتا ہے۔
پھر فرمایا ہے کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اعمال سے بھی پیشتر اس کی رحمتیں موجود ہیں۔پیدا ہونے سے پہلے ہی زمین، چاند، سورج، ہوا،پانی وغیرہ جس قدر اشیاء انسان کے لیے ضروری ہیں موجود ہوتی ہیں۔
اور پھر وہ اﷲ رحیم ہے یعنی کسی کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلکہ پاداشِ عمل دیتا ہے۔
پھر مالک یوم الدین ہے یعنی جزا وہی دیتا ہے اور وہی یوم الجزاء کا مالک ہے۔اس قدر صفات اﷲ کے بیان کے بعد دعا کی تحریک کی ہے۔جب انسان اﷲ تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات پر ایمان لاتا ہے ، تو خواہ مخواہ روح میں ایک جوش اور تحریک ہوتی ہے اور دعا کے لیے اﷲ تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے۔
اس کے بعد اھدنا الصراط المستقیم کی ہدایت فرمائی ؎ٰ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔اس لیے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو۔
غرض اصلاحِ نفس کے لیے اور خاتمہ تبالخیر ہونے کے لیے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے۔اس میں جس قدر توکل اور یقین اﷲ تعالیٰ پر کریگا۔اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گااسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے۔تمام مشکلات دور ہو جائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلیٰ محل پر پہنچ جائے گا۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ جبتک خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا ۔نفسانی جذبات پر محض خدا تعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے اور یہ فضل اور جذبہ دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے۔
میں پھر کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور خصوصاً ہماری جماعت کو ہرگز ہرگز دعا کی بے قدری نہیں کرنی چاہیے۔کیونکہ یہی دعا تو ہے جس پر مسلمانوں کو ناز کرنا چاہیے۔ اور دوسرے مذاہب کے آگے تو دعا کے لیے گندے پتھر پڑے ہوئے ہیں ۲؎۔ اور وہ توجہ نہیں کر سکتے ۔ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ایک عیسائی جو خونِ مسیح پرایمان لا کر سارے گناہوں کو معاف شدہ سمجھتا ہے۔
Amira 25-8-05
اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دعا کرتا رہے۔اور ایک ہندو جو یقین کرتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہوتی اور تناسخ کے چکر سے رہائی ہی نہیں ہے وہ کیوں دعا کے واسطے ٹکریں مارتا رہے گا۔ وہ تو یقینا سمجھتا ہے کہ کتے،بلے،بندر،سؤر بننے سے چارہ ہی نہیں ہے۔اس لیے یاد رکھو کہ یہ اسلام کا فخر اور ناز ہے کہ اس میں دعا کی تعلیم ہے اس میں کبھی سستی نہ کرو اور نہ اس سے تھکو۔
پھر دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے؛ چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے
واذاسالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (البقرۃ : ۱۸۷)
یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہدو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں۔یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے۔اور علاوہ بریں دعائوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔
غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جابجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جر اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعائوں میں لگے رہو۔دعائوں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا۔
تیسرا ذریعہ صحبتِ صادقین
تیسرا پہلو؎ٰ جو قرآن سے ثابت ہے وہ صحبت صادقین ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
کونو امع الصادقین (التوبہ : ۱۱۹)
یعنی صادقوں کے ساتھ رہو۔صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ان کا نور صدق و استقلال دوسروں پر اثر ڈالتا ہے اور اُن کی کمزوریوں کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔
یہ تین ذریعے ہیں جو ایمان کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور اُسے طاقت دیتے ہیں اور جبتک ان ذرائع سے انسان فائدہ نہیں اُٹھتا اس وقت تک اندیشہ رہتا ہے کہ شیطان اس پر حملہ کر کے اسکے متاعِ ایمان کو چھین نہ لے جاوے اسی لیے بہت بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم کو رکھا جاوے اور ہر طرح سے شیطانی حملوں سے احتیاط کی جاوے۔جو شخص ان تینوں، ہتھیاروں سے اپنے آپ کو مسلح نہیں کرتا ہے مجھے اندیشہ یہ کہ وہ کسی اتفاقی حملہ سے نقصان اُٹھاوے۔
دفع شر کے بعد خیر اصل مقصد ہے
لیکن یہ بات یاد رکھو کہ کتابوں میں جب لکھا جاتا ہے کہ بدیاں چھوڑ دو اور نیکیاں کرو تو بعض آدمی اتنا ہی سمجھ لیتے ہیں کہ نیکیوں کا کمال اسی قدر ہے کہ جو مشہور بدیاں ہیں مثلا چوری، زنا، غیبت، بد دیانتی، بد نظری وغیرہ موٹی موٹی بدیوں سے بچتے ہیں تو اپنے آپ کو سمھنے لگتے ہیں کے تمام مدارج حاصل کر لیے ہیں اور ہم بھی کچھ ہو گئے ہیں۔حالانکہ اگر غور کر کے دیکھ اجاوے تو یہ کچھ بھی چیز نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چوری نہیں کرتے ہیں۔بہت سے ایسے ہیں جو ڈاکے نہیں مارتے یا خون نہیں کرتے یا بد نظری یا بدکاری کی بدعادتوں میں مبتلا نہیں ہیں۔زیادہ سے زیادہ اسے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ترکِ شر کیا ہے خواہ وہ عدمِ قدرت ہی کی وجہ سے ہو۔قرآن شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترکِ شر کرکے سمجھ لے کہ بس اب میں صاحب کمال ہو گیا، بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاقِ فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہے کہ اس سے ایسے اعمال و افعال سر زد ہوں جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور اُن کا نتیجہ یہ ہو کہ اﷲ تعالیٰ اس سے راضی ہو اجوے۔ میں اس بات کو بار بار کہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی اپنی ترقی اور کمال روحانی کی یہی انتہانہ سمجھ لے کہ میں نے ترکِ بدی کی ہے۔صرف ترک بدی نیکی کے کامل مفہوم اور منشاء کو اپنے اندر نہیں رکھتی۔بار بار ایسا تصور کرنا کہ میں نے خون نہیں کیا خوبی کی با ت نہیں کیونکہ خون کرنا ہر ایک شخص کا کام نہیں ہے۔یا یہ کہنا کہ زنا نہیں کای کیونکہ زنا کرنا تو کنجروں کا کام ہے نہ کہ کسی شریف انسان کا ۔ایسی بدیوں سے پرہیز زیادہ سے زیادہ انسان کو بدمعاشوں کے طبقے سے خارج کردے گا؎ٰ۔ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔مگر وہ جماعت (جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے کہ انہوں نے ایسے اعمالِ صالحہ کیے کہ خدا تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو گئے) صرف ترکِ بدی ہی سے نہ بنی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہیچ سمجھا۔خدا کی مخلوق کو نفع پہنچانے کے واسطے اپنے آرام و آسائش کو ترک کر دیا۔تب جا کر وہ ان مدارج اور مراتب پر پہنچے کہ آواز آگئی۔
رضی اﷲ عنہم ورضو اعنہ (البینۃ : ۹)
مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوںکی یہ حالت ہو رہی ہے کہ کسبِ خیر تو بڑی بات ہے اور وہی اصل مقصد ہے، لیکن وہ تو ترکِ بدی میں بھی سُست نظر آتے ہیں اور ان کاموں کا تو ذکر ہی کیا ہے جو صلحاء کے کام ہیں۔
پس تمہیں چاہیے کہ تم ایک ہی بات اپنے لیے کاھی نہ سمجھ لو۔ہاں اول بدیوں سے پرہیز کرو۔اور پھر ان کی بجائے نیکیوں کے حاصل کرنے کے واسطے سعی اور مجاہدہ سے کام لو اور پھر خدا تعالیٰ کی توفیق اور اس کا فضل دعا سے مانگو۔جبتک انسان ان دونوں صفات سے متصف نہیں ہوتا یعنی بدیاں چھوڑ کر نیکیاں حاصل نہیں کرتا وہ اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا۔مومن کامل ہی کی تعریف میں تو انعمت علیہم فرمایا گیا ہے۔اب غور کرو کہ کیا اتنا ہی انعام تھا کہ وہ ثوری چکاری رہزنی نہیں کرتے تھے یا اس سے کچھ بڑھ کر مراد ہے؟ نہیں۔ انعمت علیہم میں تو وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات رکھے ہیں جو مخاطبہ اور مکالمہ الٰہیہ کہلاتے ہیں۔؎ٰ
اگر اسی قدر مقصود ہوتا جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرنا ہی کمال انعمت علیہم کی دعا کی تعلیم نہ ہوتی جس کا انتہائی اور آخری مرتبہ اور مقام خدا تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ یہ۔انبیاء علیہم السلام کا اتنا ہی تو کمال نہ تھا۔کہ وہ چوری چکاری نہ کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت صدق، وفا میں پنا نظیر نہ رکھتے تھے۔پس اس دعا کی تعلیم سے یہ سکھایا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شئے ہے۔جبتک انسان اُسے حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک وہ نیک اور صالح نہیں کہلا سکتا اور منعم علیہ کہ زمرہ میں نہیں آتا۔ اس سے آگے فرمایا
غیر المغضوب علیہم والا الضالین (الفاتحہ : ۷)
اس مطلب کو قرآن شریف نے دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل دوشربتوں کے پنے سے ہوتی ہے ایک شربت کا نام کافوری ہے اور دوسرے کا نام زنجیلی ہے۔کافوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لیے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو۔جس طرح پر کافور میں یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے مواد کو دبا دیتا ہے۔اسی لیے اُسے کافور کطرح پر یہ کافوری شربت گناہ اور بدی کی زہر کو دبا دیتا ہے اور وہ موادِ ردّیہ جو اُٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں ان کو اُٹھنے نہی دیتا بلکہ بے اثر کر دیتا ہے۔دوسرا شربت زنجیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کے لیے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی ہے۔پس
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ: ۶، ۷)
تو اصل مقصد اور غرض ہے یہ گویا زنجیلی شربت ہے اور
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین (الفاتحہ : ۷)
کافوری شربت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ و نصلِّی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
ملفوظات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۲؍مئی ۱۹۰۴ء
دعا ہی خدا شناسی کا ذریعہ ہے
ایک ریئسں کا یہ خیال ُسنکر کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ دُعا سے مشکل حل ہوتی ہے ، اُن کو بہت ہی کمزور کرنے والا ہے۔
آپؑ نے فرمایا کہ:
جو دُعا سے منکر ہے وہ خدا سے منکر ہے۔ صرف دعا ہی ذریعہ خدا شناسی کا ہے۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ اْس کی ذات کو طوعاً وکر ہاً مانا جاوے۔ اصل میں سب جگہ دہریّت ہے۔ آجکل کی محفلوں کا یہ ہال ہے کہ دعا ، توکّل اور انشا اﷲ کہنے پر تمسخر کرتے ہیں۔ ان باتوں کو بیوقوفی کہا جاتا ہے ، ورنہ اگر خدا سے اُن کو ذرا بھی اُنس ، ہوتا، تو اس کے نام سے کیوں چِڑتے؟ جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ ہیرپھیر سے کسی نہ کسی طرح سے محبوب کا نام لے ہی لیتا ہے۔ اگر ان کے نزدیک خدا کوئی شے نہیں ہے۔ تو اب موت کا دروازہ کُھلا ہے اسے ذرا بند کر کے تو دکھلاویں۔ تعجب ہے کہ ہمیں جس قدر اس کے وجود پر امیدیں ہیں اسی قدر وہ دوسرا گروہ اس سے ناامید ہے۔ اصل میں خدا کے فضل کی ضرورت ہے۔ اگر وہ دل کے قفل نہ کھولے تو اور کون کھول سکتا ہے۔ اگر وہ چاہے توایک کُتے کو عقل دے سکتا ہے کہ اس کی باتوں کو سمجھ لیوے اور انسان کو محروم رکھ سکتا ہے۔
طاعون کو گالی دینا منع ہے
طاعون کو سب و شتم کرنا منع ہے، کیونکہ وہ توما مور ہے۔ہاں خدا سے صُلح کرنی چاہیے کہ وہ اسے ہٹا لیوے۔
۴؍مئی ۱۹۰۴ء
خدا تعالیٰ کی وحی پر کامل ایمان
آج کو مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے منیجرو ایڈیٹر رسالہ ریویوآف ریلیجنز کی طبیعت علیل ہو گئی اور دردِ سراور بخار کے عوارض دیکھ کر مولوی صاحب کوشُبہ گذرا کہ شاید طاعون کے آثار ہیں۔ جب اس بات کی خبر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ہوئی تو آپ فوراً مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ:
میرے دار میں ہو کر اگر آپ کو طاعون، ہو تو پھر
انی احافظ کل من فی الدار
الہام اور یہ سب کاروبار گویا عبث ٹھہرا۔ آپ نے نبض دیکھ کر ان کو یقین دلایا کہ ہر گز بخار نہیں ہے۔ پھر تھرمامیٹر لگا کر دکھایا کہ پارہ اس حد تک نہیں ہے، جس سے بخار کا شبہ، ہو اور فرمایا کہ میرا تو خدا کی وحی پر الیسا، ہی ایمان ہے جیسے اس کی کتابوں پر ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: کہ
ان دنوں لوگوں کو اور بعض جماعت کے آدمیوں کو بھی طرح طرح کے شکوک و شبہات پیش آرہے ہیں۔ اس لیے میرا ارادہ ہے کہ ایک رسالہ لکھ کر اصل حقیقتِبیعت اور الہامات سے اطلاع دی جاوے۔ جس سے لوگوں کو معلوم ہو کہ بعض لوگ بیعت میں داخل ہو کر کیوں طاعون سے مرتے ہیں۔؟
ایک نشان
فرمایا :
ان دنوں ایک دفعہ میری بغل میں ایک گِلٹی نکل آئی۔ میں نے اسے مخاطب ہو کر کہا کہ تو کون ہے ۔ جو مجھے ضرر دے سکے اور خدا کے وعدہ کو ٹال سکے ۔ تھوڑے عرصہ میں وہ خودبخود ہی بیٹھ گئی۔
آگ ہماری غلام، بلکہ غلاموں کی غلام ہے
فرمایا:
مّدت کا یہ میرا الہام ہے کہ ’’آگ سے ہمیں مت ڈرا۔آگ ہماری غلام بلکہ غلاموںکی غلام ہے ‘‘۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے حدیث شریف میں ہے کہ بعض بہشتی بطور سیر دوزخ کو دیکھنا چاہیں گے اور اس میں اپنا قدم رکھیں گ، تو دوزخ کہے گی کہ تونے مجھے سَرد کر دیا۔ یعنی بجائے اس کے کہ دوزخ کی آگ اُسے جلاتی۔ خادموں کی طرح آرام وہ ہو جاوے گی۔
عادت اﷲ یہی ہے کہ دوناریں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مُحبّتِ الہٰی بھی ایک نار ہے اور طاعون کو بھی نارلکھا ہے۔ لیکن ان مین سے ایک تو عذاب ہے اور دوسری انعام ہے، اسی لیے طاعون کی نار کی ایک خاص خصُوصیت خدا تعالیٰ نے رکھی ہے۔ اس میں آگ کو جو غلام کہا گیا ہے۔ میرا مذہب اس کے متعلق یہ ہے کہ اسما ء اور علام کو ان کے اشتقاق سے لینا چاہیے۔ غلام غلمہ سے نکلا ہے۔ جس کے معنے ہیں کسی شیٔ کی خواہش کے واسطے نہایت درجہ مضطرب ہونا یا ایسی خواہش جو کہ حد سے تجاوز کر جاتی ہے اور انسان پھر اس سے بیقرار ہو جاتا ہے۔ اور اسی لیے غلام کا نفظ اس وقت صادق آتا ہے جب انسان کے اندر نکاح کی خواہش جوش مارتی ہے۔ پس طاعون کا غلام اور غلاموں کی غلام کے بھی یہی معنے ہیں کہ جو شخص ہم سے ایک ایسا تعلق اور جوڑ پیدا کرتا ہے جو کہ صدق و وفا کے تعلقات کے ساتھ حد سے تجاوز ہوا ہو اور کسی قسم کی جدائی اور دُوئی اس کے رگ وریشہ میں نہ پائی جاتی ہو اسے وہ ہرگز کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اور جو ہمارا مرید الہیٰ محبت کی آگ سے جلتا ہو گا اور خدا کو حقیقی طور پر پا لینے کی خواہش کحمال درجہ پر اس کے سینہ میں شعلہ زن سو گی۔ اسی پر بیعت کا لفظ حقیقی طور پر صادق آوے گا۔ یہا نتک کہ کسی قسم کے ابتلا کے نیچے آکر وہ ہر گز متزلزل نہ ہو بلکہ اور قدم آگے بڑھاوے۔ لیکن جبکہ لوگ ابھی تک اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر وہ ابتلا میں آجاتے ہیں اور عتراض کر نے لگتے ہیں تو پھر وہ اس آگ سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں۔
بیعت کی حقیقت
بیعت کا لفظ ایک وسیع معنے رکھتا ہے اور اس کا مقام ایک انتہائی تعلق کا مقام ہے کہ جس سے بڑھ کر اور کسی قسم کا تعلق ہوہی نہیں سکتا۔
بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ ہماے نُور کی پوری روشنی میں نہیں ہیں۔ جب تک انسان کو ابتلا کی برداشت نہ ہو اور ہر طرح سے وہ اس میں ثابت قدمی نہ دکھاسکتا ہو۔ تب تک وہ بیعت میں نہیں ہے۔ پس جو لوگ صدق و صفا میں انتہائی درجہ پر پہنچے ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو امتیاز میں رکھتا ہے۔ طاعون کے ایام میں جو لوگ بیعت میں داخل کرتا ہے۔ جب یہ خوف جاتا رہا تو پھر اپنی پہلی حالت پر عود کر آویں گے۔ پس اس حالت پر عود کر آویں گے۔ پس اس حالت میں ان کی بیعت کیا ہوئی؟
؎ٰ البدر جلد ۳ نمبر ۱۸-۱۹ صفہ ۴ ، ۶۱؍مئی ۱۹۰۴ء
۸؍مئی ۱۹۰۴ء
طاعون کا نشان اور جماعت احمدیہ
حضرت حجتہ اﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام گورداسپور تھے۔ ہمارے مکرم خلیفہ رجب الدین صاحب تاجر برنج لاہور بھی شرفِ نیاز کے لیے آئے ہوئے تھے۔ خلیفہ صاحب ایک روشن خیال اور ذی فہم آدمی ہیں وہ لاہور کے حالات کا ذکر کرتے رہے کہ وہاں کے مسلمانوں کی عجیب حالت ہو رہی ہے۔ ہر اتوار کو زیارتیں نکال کر باہر لے جاتے ہیں۔ اور اس فعل کو دفعیئہ طاعون کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس حالت پر خلیفہ صاحب افسوس کر رہے تھے اور اپنے مختلف حالات سناتے رہے۔ آخر آپ نے عرض کیا:
خلیفہ صاحب: طاعون میں بعض مقامات پر جو ہمارے احباب مرتے ہیں اور لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا کیا جواب دیا جاوے؟
حضرت اقدس:اصل بات یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کسی مامور کو دنیا میں بھیجتا ہے تو سنّت اﷲ یہی ہے کہ تنبیہہ کے لیے کوئی نہ کوئی عذاب بھی بھیجتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے۔ جب اس کی مخالفت حدسے بڑھ جاتی ہے اور شوخی اور شرارت میں اہلِ دنیا بہت ترقی کر جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے بکلّی دور جا پڑتے ہیں۔ وہ عذاب اگر چہ سرکش منکرین کے لیے ہوتا ہے مگر سنت اﷲ یہی ہے کہ مامور کے بعض متبعین بھی شہید ہو جاتے ہیں وہ عذاب اَوروں کے لیے عذاب ہوتا ہے ، مگر ان کے لیے باعثِ شہادت۔ چنانچہ قرآن شریف صاف طور پر بتاتا ہے کہ کفار جو باربار عذاب مانگتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے بتایا تھا کہ تم پر عذاب بصورت جنگ نازل ہو گا۔ آخر جب وہ سلسلہ عذاب کا شروع ہوا۔ اور کفار کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی لڑائیاں ہونے لگیں، تو کون کہہ سکتا ہے کہ ان جنگوں میں صحابہؓ شہید نہیں ہوئے؛ حالانکہ یہ مسلم بات ہے کہ وہ تو کفار پر عذاب تھا اور خاص ان کے لیے ہی آیا تھا۔ مگر صحابہؓ کو بھی چشمِ زخم پہنچا اور بعض جو علمِ الہیٰ میں مقدر تھے، شہید ہوگئے۔ جن کی بابت خود اﷲتعالیٰ نے فرمایا:
لا تقو لو المن یقتل فی سبیل اﷲ اموات۔(البقر:۱۵۵) بل احیاء عند ربہم یر زقون۔
(ال عمران: ۱۷۰)
یعنی جو لوگ اﷲتعالیٰ کی راہ میں قتل کیے جاویں ان کو مردے مت کہو بلکہ وہ تو اﷲتعالیٰ کے نزدیک زندہ ہیں۔ اور اسی جگہ ان کی نسبت فرمایا:
فرحین بما اتھم اﷲ (آل عمران: ۱۷۱)
اب بتائو کہ وہ جنگ ایک ہی قسم کا تھا، لیکن وہ کفار کے لیے عذاب تھا مگر صحابہؓ کے لیے باعثِ شہادت۔ اسی طرح پر اب بھی حالت ہے۔ لیکن انجام کا ر دیکھنا چاہیے کہ طاعون سے فائدہ کس کو رہتا ہے۔ ہم کو یا ہمارے مخالفین کو۔ اس وقت معلوم ہوگا کون کم ہوئے اور کون بڑھے۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت خدا کے فضل سے غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ طاعون ہی ہے۔ بعض ایسے لوگوں کی درخواستیں بیعت کے واسطے آئی ہیں۔ جو طاعون میں مبتلا ہو کر لکھتے ہیں کہ اس وقت مجھے طاعون ، ہوا ہواہے۔اگر زندہ ہا تو پھر آکر بھی بیعت کر لوں گا۔فی الحال تحریری کرتا ہوں۔ طاعون کے ذریعہ کئی ہزار آدمی اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔
خلیفہ صاحب: وہ جنگ تو اعلائِ کلتمہ اﷲ کے لیے تھا۔
حضرت اقدس: یہ طاعون بھی اعلائِ کلتمہ اﷲ کے لیے ہی ہے۔ خداتعالیٰ نے دو نشان مسیح موعود کی سچائی کے لیے زمینی اور آسمانی اور بہت سے نشانوں کے سوا مقرر کئے تھے۔ آسمانی نشان تو کسوف و خسوف کا تھا جو رمضان کے مہینہ میں واقع ہو گیا۔ جس طرح پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا تھا۔ دوسرا زمینی نشان طاعون کا تھا۔ وہ بھی پورا ہو گیا ابھی طاعون کا پنجاب میں نام و نشان بھی نہ تھا۔ جب میں نے اس کی خبردی تھی۔ اس وقت شتاب کار لوگوں نے جلدبازی کی اور خداتعالیٰ کے اس بزرگ نشان دو ہنسی میں اڑانا چاہا۔ مگر اب گو وہ زبان سے اقرار نہ کریں، مگر ان کے دلوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ پیشگوئی جو طاعون کے متعلق تھی پوری ہو گئی۔ اس نشان سے اعلائِ کلمتہ اﷲ اس طرح پر ہو گا کہ لوگ آخر جب اس کو عذاب الہٰی سمجھ کر اس کے موحیات پر غور کریں گے اور شرارت و استہزاء چھوڑ کر خداتعالیٰ کی طرف آیئں گے اور سمجھ لیں گے کہ خدا حق ہے تو اس سے اعلائِ اﷲ ہو گا یا نہیں؟
جیسا کہ میں نے ابھی ہا ہے یہ طاعون ہمارے لیے کام کر رہی ہے۔ اگر اس گروہ میں ایک شہید ہو جاتا ہے تو اس کے قائمقام ہزار آتے ہیں۔ یہ نادانوں کا شُبہ فضول ہے کہ کیوں مرتے ہیں۔ہم کہتے ہیں صحابہؓ جنگ میں کیوں شہید ہوتے تھے؟ کسی مولوی سے پوچھو کہ وہ جنگ عذاب تھی یا نہیں؟ ہر ایک کو کہنا پڑیگا کہ عذاب تھی۔ پھر ایسا اعتراض کیوں کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلّم پر جا پڑتا ہے، لیکن اگر کوئی کہے کہ پھر نشان مشتبہ ہو جاتاہے۔ ہم کہتے ہیں کہ نشان مشتبہ نہیں ہوتا۔ اس واسطے کہ انجامکار کفار کا ستیاناس ہو گیا اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور اسلام ہی اسلام نظر آتا تھا؛چنانچہ آخر
اذاجاء نصر اﷲ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اﷲافواجا (النصر۲،۳)
کا نظارہ نظر آگیا۔ اسی طرح پرطاعون کا حال ہے ۔ اس وقت لوگوں کو تعجب معلوم ہوتا ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آتا ہے، جب طاعون اپنا کام کر کے چل جائے گی۔ اس وقت معلوم ہو گا کہ اس نے کس کو نفع پہنچایا اور کون خسارہ میں رہے گا۔ یہ اس زمانہ کے لیے ایک عظیم الشان نشان ہے جس کا ذکر سارے نبی کرتے چلے آئے ہیں اور طاعون سے اس قدر جلدی لوگ حق کی طرف آرہے ہیں کہ پہلے نہیں آرہے تھے۔
خلیفہ صاحب : حضور! کیا ایسے لوگ مامون ہوجایئںگے؟
حضرت اقدس : اس میں کیا شک ہے کہ وہ امن میں تو ہو گئے۔ اگر اس سلسلہ میں ہو کر ان میں سے کوئی مر بھی جاوے، تو وہ شہادت ہو گی اور خدا کے مامور پر ایمان لا نے کا یہ فائدہ تو حاصل ہو گیا۔ میں نے جس قدر طاعون کے متعلق کھول کھول کر بیان کیا ہے کسی نے نہیں کیا۔ متواتر میں اس پیشگوئی کو شائع کر تا رہا اور خداتعالیٰ نے مختلف رنگوں میں مختلف اوقات میں اس کے متعلق مجھ پر کھولا اور میں نے لوگوں کو سنایا۔
یامسیح الخلق عدوانا۔
بہت پُرانا الہام ہے جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے۔ پھر وہ سیاہ پودوں والی رئویا اور ہاتھی والی رئویا۔ غرض یہ طاعون خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آئی ہے اور اپنا کام کر رہی ہے۔بعض لوگ شرارت سے کہتے ہیں کہ یہ طاعون ان کی شامت اعمال سے آئی ہے ۔ یہ تو وہی بات ہے جیسے حضرت موسٰیؑ کو الزام دیا تھا۔ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ یہ عجیب بات ہے کہ شامت اعمال تو ہماری وجہ سے آئی ہے اور ہماری حفاظت کو خداتعالیٰ ایک نشان قرار دیتا ہے اور مررہے ہیں دوسرے۔
اس وقت ایک خاص تبدیلی کی ضرورت ہے۔ خداتعالیٰ کا غضب بھڑکا ہوا ہے۔ جواب بھی تبدیلی نہین کرتے۔ خداتعالیٰ ان کی پروا نہیں کرے گا۔
ان اﷲ لایغیرمابقوم حتی یغیرو امابانفسہم۔
اسی طاعون کے متعلق میرا الہام ہے۔ ؎ٰ
بخاری میں ہے کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے مجھے مومن کی جان لینے میں تردو ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اﷲتعالیٰ مومن کویکدفعہ نہیں پکڑتا۔ پکڑتا ہے پھر اس کے ساتھ نرمی کرتا ہے۔ پھر پکڑتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے۔ یہ حالت گویا تردو سے مشابہ ہے۔
پہلی کتابوں میں بھی اس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ خدا پچھتایا۔میرے الہام میں بھی
افطرواصوم
اسی رنگ کے الفاظ ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں، جس مومن کے وجود خلق اﷲ کا نفع ہو اور اس کی موت شماتت کا باعث ہو وہ کبھی طاعون سے نہیں مرے گا۔ میں جانتا ہوں اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابھی تک کوئی ایسا آدمی طاعون سے نہیں مرا جس کو میں پہچانتا ہوںیا وہ مجھے پہچانتا ہو جو شناخت کا حق ہے۔
مامورین کا خاص نشان:
امام اور پیشوا وہی ہو سکتا ہے جو اﷲتعالیٰ کے اِذن اور حکم سے مامور ہو کر آوے۔ اس میں اﷲتعالیٰ ایک جذب کی قوت رکھ دیتا ہے۔جس کی وجہ سے سعادت مند روحیں خواہ وہ کہیں ہوں اس کی طرف کھچی چلی آتی ہیں۔ جذب کا پیدا ہونا اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ بناوٹ سے یہ بات پیدا نہیں ہو سکتی۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جو لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں وہ اس بات کے حریص اور آرزُ ومند نہیں ہو تے کہ لوگ ان کے گرد جمع ہوں اور اس کی تعریفیں کریں بلکہ ان لوگوں میں طبعاً مخفی رہنے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ دنیا سے الگ رہنے میں راحت سمجھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السام جب مامور ہو نے لگے تو انھوں نے بھی عُذر کیا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم غارمیں رہا کرتے تھے۔ وہ اس کو پسند کرتے تھے۔ مگر اﷲتعالیٰ خود ان کو باہر نکالتا ہے اور مخلوق کے سامنے لاتا ہے۔ ان میں ایک حیا ہوتی ہے۔ اور ایک انقطاع ان میں پایاجاتا ہے؛ چونکہ وہ انقطاع اور صفائی قلب اﷲتعالیٰ کی نظرمیں ان کو پسندیدہ بنا دیتی ہے اور ان کو اصلاح خلق کے لیے برگزیدہ کرلیتا ہے۔ جیسے حاکم چاہتا ہے کہ اسے کارکن آدمی مل جاوے اور جب وہ کسی کارکن کو پالیتا ہے، تو خواہ وہ انکار بھی کردے مگر وہ اسے منتخب کر ہی لیتا ہے۔ اسی طرح اﷲتعالیٰ جن لوگوں کو مامور کرتا ہے وہ ان کے تعلقاتِ صافیہ اور صدق و صفاکی وجہ سے انہیں اس قابل پاتا ہے کہ انہیں اپنی رسالت کا منصب سپرد کرے۔
یہ بالکل سچی بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر ایک قسم کا جبر کیا جاتا ہے۔ وہ کوٹھڑیوں میں بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور اسی میں لذت پاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی کو ان کے حال پر اطلاع نہ ہو، مگر اﷲتعالیٰ جبراً ان کو کوٹھڑی سے باہر نکالتا ہے۔ پھر ان میں ایک جذب رکھتا ہے اور ہزار ہا مخلوق طبعاً ان کی طرف چلی آتی ہے۔ اگر فریب ہی کا کام ہو تو پھر وہ سرسبز کیوں ہو۔ پیراور گدی نشین آرزو رکھتے ہیں کہ لوگ ان کے مرید ہوں اور ان کی طرف آویں۔ مگر مامور اس شہرت کے خواہشمند نہیں ہوتے۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ مخلوقِ الہیٰ اپنے خالق کو پہچانے اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلے۔ وہ اپنے دل میں بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ چیز ہی نہیں ہیں۔ خداتعالیٰ بھی ان کو ہی پسند کرتا ہے۔ کیونکہ جب تک ایسا مخلص نہ ہو کام نہیں کر سکتا۔ ریا کار جو خدا کی جگہ اپنے آپ کو چاہتے ہیں وہ کیا کر سکتے ہیں۔ اس لیے خدا ان کو پسند کرتا ہے۔ کیونکہ وہ دنیا کے آسائش و آرام کے آرزو مند نہیں ہوتے۔
ریا کاری ایک بہت بڑا گند ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریا کار انسان فرعون سے بھی بڑھ کر شقی اور بدبخت ہوتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کی عظمت اور جبروت کو نہیں چاہتے بلکہ اپنی عزت اور عظمت منوانا چاہتے ہیں۔ لیکن جن کو خدا پسند کرتا ہے وہ طبعاً اس سے متنفر ہوتے ہیں۔ ان کی ہمت اور کوشش اسی ایک امر میں صرف ہوتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال ظاہر ہو اور دنیا اس سے واقف ہو۔ وہ ایسی حالت میں ہوتے ہیں اور پسند کرتے ہیں کہ دنیا ان کو نہ پہچان سکے، مگر ممکن نہیں ہوتا کہ دنیا ان کو چھوڑ سکے کیونکہ وہ دنیا کے فائدہ کے لیے آتے ہیں۔ ان لوگوں کے جو دشمن اور مخالف ہوتے ہیں ان سے بھی ایک فائدہ پہنچتا ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کے نشانات ان کے سبب سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اور حقائق و معارف کھلتے ہیں۔ ان کی چھیڑ چھاڑ سے عجیب عجیب انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر الوجہل وغیرہ نہ ہوتے تو قرآن شریف کے تیس سیپارے کیونکہ ہوتے؟ ابوبکر رضی اﷲعنہ کی سی فطرت والے ہی اگر سب ہوتے تو ایک دم میں وہ مسلمان ہوجاتے۔ ان کی کسی نشان اور معجزہ کی حاجت ہی نہ ہوتی۔ پس ہم ان مخالفوں کے وجود کو بھی بے مطلب نہیں سمجھتے۔ ان کی چھیڑ چھاڑ اﷲتعالیٰ کے ماموروں کا یہ خاص نشان ہوتاہے کہ وہ اپنی پرستش کرنا نہیں چاہتے۔ جس طرح پر وہ لوگ جو پیر بننے کے خواہشمند ہیں چاہتے ہیں۔ اگرکوئی شخص اپنی پوجا کر ائے تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے انسان کے بچے اس پوجا کے مستحق نہ ہوں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ایک مرید اس مرشدسے ہزار درجہ اچھا ہے جو مکر کی گدی پر بیٹھا ہوا ہو کیونکہ مرید کے اپنے دل میںکھوٹ اور دغا نہیں ہے۔ خداتعالیٰ اخلاص کو چاہتا ہے۔ ریاکاری پسند نہیں کرتا ہے۔
۹؍ مئی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
طاعون کا عذاب
ایک ہندو ریئس کے بعض استفسارات کے جوابات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام درختوں کے سایہ میں حسب معمول تشریف فرماتھے:
کہ دینانگر کے دو ہندو ریئس آپ کی زیارت کو تشریف لائے۔ ان کے ساتھ بھی چند آدمی تھے۔ انھوں نے نہایت ادب اور احترام کے ساتھ سلام عرض کیا اور پھر طاعون کی مصیبت کا رونا رونا شروع کیا کہ بڑا اختلاف مذاہب کا ہو گیا ہے۔ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا:
اس زمانہ میں نِرا اختلافِ مذاہب ہی نہیں۔ اختلاف مذاہب کے سوا لوگوں نے خداتعالیٰ کہ بالکل چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے خداتعالیٰ نے اپنی سنت کے موافق یہ عذاب نازل کیا ہے۔ کیونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے۔ شرارتوں اور چالاکیوں کی کوئی حد نہیں رہی ہے۔ طاعون کو اﷲتعالیٰ نے مامور کرکے بھیجا ہے جو اس کے نوکر کی طرح ہے۔ خداتعالیٰ کے حکم کے بغیر تو ایک پتہ اور ذرہ بھی حرکت نہیں کر سکتا۔ یہ اور بدبختی ہے کہ باوجود یکہ طاعون ایک خطرناک ڈرانے والا ہے مگر اس پر بھی خداتعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خداتعالیٰ کی باتوں کو ہنسی اور ٹھٹھے میں اڑاتے ہیں۔ خداتعالیٰ سے نہیں ڈرتے اور دل پاک و صاف نہیں کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ نے مجھے خبردی ہے کہ جبتک اہلِ دنیا اپنی اصلاح اور تبدیلی نہیں کریں گے اس وقت تک اس عذاب کو نہیں اٹھائے گا۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کو اس طرف بھی بالکل توجہ نہیں ہے۔ جب کسی گائوں یا شہر میں بیماری پڑتی ہے تو چند روز کے لیے ایک خوف پیدا ہوتا ہے۔ مگر وہ خوف بھی اﷲتعالیٰ کے واسطے نہیں اور نہ ایسا کہ اس کے ذریعہ کوئی اصلاح کریں بلکہ موت کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ہم بھی مرنہ جاویں اور یہ جائداد اور اسباب کسی دوسرے کے قبضہ میں نہ چلا جاوے۔ یو نہی ذراسا وقفہ ہوتاہے۔ پھر وہی شرارت اور شوخی۔ اور نہیں ڈرتے کہ اس کے دورے بہت لمبے ہوتے ہیں۔
ریئس : جناب! بظاہر زمانہ اچھا بھی معلوم ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ بھگتی وغیرہ کرتے ہیں
حضرت اقدس : دل نہیں ہیں۔ جوکچھ ہے پوست ہی پوست ہے۔ ظاہر داری کے طور پر اگر کچھ کیا جاتا ہے تو کیا جاتاہے۔ دل والے روح ہی اور ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں صاف ہوتی ہیں۔ ان کی زبان صاف ہوتی ہے۔ ان کے چال چلن میں ایک خاص امتیناز ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اﷲتعالیٰ سے لرزاں ترساں رہتے ہیں۔ نرِی زبان درازی سے کوئی اﷲتعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتا۔ مجازی حکام کو جو اصل حالات سے نا واقف ہیں کوئی خوش کر لیوے۔ مگر اﷲتعالیٰ کی نظر تو دل پر ہے اور وہ دل کے مخفی خیالات تک کو جانتا ہے۔ پس جب تک انسان سچے دل سے خداتعالیٰ کی طرف نہیں آتا۔ ریاکاری اور طاہر داری سے کچھ نہیں بنتا۔ خداتعالیٰ سچی تبدیلی چاہتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ابھی وہ پیدا نہیں ہوئی۔ جب لوگ تبدیلی کریں گے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کچھ بھی حصہ لوگوں کا دُرست ہو جاوے گا تو اﷲتعالیٰ رحم کرے گا۔ یہ تو اور بھی چالاکی ہے کہ لوگوں کے سامنے نیک بنتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا متقی اور خدا ترس ظاہر کرتے ہیں اور اندرونی طور پر بڑی خرابیاں ان میں موجود ہوتی ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے ظاہری بحث و مباحثہ می ہزاروں مذاہب پیدا ہو گئے ہیں۔ مگر خداتعالیٰ دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کیساہے۔ اگر اﷲتعالیٰ سے معاملہ صاف نہ ہو تو یہ چالاکیاں اور بھی خداتعالیٰ کے غضب کو بھڑ کاتی ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ انسان خدا ساتھ معاملہ صاف کرے اور پوری فرمانبرداری اور اخلاص کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرے اور اس کے بندوں کو بھی کسی قسم کی اذیت نہ دے۔ ایک شخص گیروی کپڑے پہن کر یا سبز لباس کر کے فقیر بن سکتا ہے اور دنیا دار اس کو فقیر بھی سمجھ لیتے ہیں مگر خداتعالیٰ تو اس کو خوب جانتا ہے کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے اور وہ کیا کررہا ہے۔ پس طاعون کا اصل اور صحیح علاج یہی ہے کہ انسان خداتعالیٰ کے حضور اپنے کناہوں سے توبہ کرے اور اس کی حدبندیوںکو نہ توڑے اور اس کی مخلوق کے ساتھ رحم کرے بدمعا ملگی نہ کرے۔ یہ سب کام اخلاص کے ساتھ کرے دکھانے کی نیت سے نہ کرے۔ اگر اس قسم کی تبدیلی کرے گا، تو می یقین رکھتاہوں کہ اﷲتعالیٰ رحم کے ساتھ اس پر نظر کرے گا۔
ریئس: جناب لوگ باہر جاتے ہیں اور اس کو بھی مفید سمجھتے ہیں۔مگر مولوی لوگ مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم گھوں سے نکلنے میں خدا کے ساتھ شِرک کرتے ہو۔ مولویوں کے ایسے فتوے دینے سے بھی بہت سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
حضرت اقدس: اﷲتعالیٰ تو علاج سے منع نہیں کرتا ہے۔ علاج بھی اسی نے رکھے ہیں۔
لوگ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے واسطے قسم قسم کے منسوبے کرتے ہیں۔ اور یا کاری سے کام لیتے ہیں۔ مگر جب تک خداتعالیٰ کسی کو منتخب اور بر گزیدہ نہ کرے کچھ نہیں ہو سکتا۔ دیکھو کسی کو بھوک پیاس لگتی ہے تو وہ روٹی کھاتا ہے یا پانی پیتا ہے۔ اسی طرح پر بیماریوں کے علاج بھی ہیں اور اشیاء میں خواص بھی اسی کے رکھے ہوتے ہیں۔ مولویوں کی غلطی ہے جو ایسا کرتے ہیں اور لوگوں کو تباہ کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ تو منع کرتا ہے کہ انسان عذاب کی جگہ پر رہے۔ لیکن ہان جب بیماری شدت کے ساتھ پھیل جاوے تو یہ مناسب نہیں کہ انسان اس گائوں یا شہر سے نکل کر کسی دوسرے گائوں یا شہر میں جاوے اور یہ اس لیے منع ہے کہ جو لوگ وبازوہ گائوں سے نکلتے ہیں وہ متاثر آب و ہوا سے نکل کر دوسری جگہ کو متاثر کرتے ہیں اور پھر بیمار ہو کر مرجاتے ہیں۔ ایسا ہی یہ بھی منع ہے کہ جہاں وبا پڑی ہوئی ہو وہاں بھی کوئی آدمی تندرست جگہ سے نہ جاوے، لیکن یہ کبھی منع نہیں ہے کہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر باہر کھلے میدانوں میں اور کھیتوں میں نہ جاویں بلکہ یہ ضروری ہے اور اس سے عموماً فائدہ پہنچتا ہے۔ جہاں طاعون ہو فوراً اس گھر کو خالی کر دینا چاہیے۔ اور باہر کھیتوں یا کھلے میدانوں میں بیشک چلے جائو۔ بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے۔
ریئس : جناب تعجب ہی ہے کہ خدا کے ہوتے یہ غضب ہو رہا ہے۔
حضرت اقدس : یہ خدا تعالیٰ کی باتیں ہیں ان میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ خداتعالیٰ نے تو خود دنیا پر یہ غضب نازل کیا ہے۔ اگر لوگ خداتعالیٰ کے وجود پر ایمان لاتے تو اس قدر شرارتیں جو زمین پر ہو رہی ہیں۔ نہ کرتے اور خداتعالیٰ کے غضب سے ڈرجاتے، مگر آپ دیکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا اقرار کر کے پھر دنیا پر ظلم اور فساد ہو رہا ہے اور خداتعالیٰ کے حکموں کی ہرگز پابندی نہیں کی جاتی۔ تو یہ تو ایک قسم کی خداتعالیٰ کے ساتھ بھی ہنسی ہے پھر خداتعالیٰ اس کو کب پسند کر سکتاہے۔ اب یہ غضب آیا ہے جو دنیا کو سیدھا کرے گا۔ خود اسی نے بھیجا ہے۔ وہ اپنے اسرار کو آپ ہی جانتا ہے۔ ہم لوگوں کو اس کی قدرتوں میں دخل دینے کا کیا حق ہے۔جب وقت آجائے گا وہ خد رحم فرمائے گا اور اس عذاب کو اٹھالے گا۔وہ ظالم نہیں ہے وہ توارحم الراحمین ہے۔
ریئس : حضور اب تو رحم ہونا چاہیے۔ آپ ہی کچھ کریں۔
حضرت اقدس : میں دیکھتا ہوں کہ ابھی دنیا کی اصلاح ہونی ضروری ہے ۔ ہم تو خداتعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے ہر ایک فعل کو سرسرا حکمت سمجھتے ہیں۔ یہ عذاب جو اس نے نازل کیا ہے یہ بھی حکمت سے خالی نہیں ہے۔ لوگوں کے اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ان کو تکلیف نہیں ہے۔ اگر وہ تکلیف کو محسوس کر لیتے تو میں دیکھتا کہ ان میں تبدیلی شروع ہو جاتی مگر ایسا نہیں ہے۔ رہا ہمارا رحم۔ یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم اس کی قضاو قدر پر ہر طرح راضی ہیں اور اسے دیکھتے ہیں؛ البتہ جب وہ خود ہمارے دل میں یہ بات ڈالے گا تو ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری دعائوں کو سُن لے گا اور سب کچھ کر دیگا۔ فی الحال تو جو ہو رہا ہے اس کی عین مرضی کے موافق ہے۔ جب تک وہ پسند کرے گا ہوتا رہے گا۔ اصل علاج یہی ہے کہ خداتعالیٰ سے صلح کی جاوے۔
اس تقریر کے بعد ریئس مذکور اپنے احباب کو لے کر نیازمندی سے سلام کرکے رخصت ہوا۔
طاعون سے محفوظ رہنے کے لیے زیارتیں لیکر نکلنا
لاہور میں جو لوگ طاعون سے محفوظ رہنے کے لیے نماز پڑھنے کے واسطے زیارتیں لے کر نکلتے ہیں۔ ان کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس پر فرمایا:
جو لوگ اب باہر جاکر نمازیں پڑھتے ہیں اور زیارتیں نکالتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے ساتھ پوری صفائی نہیں کرتے۔ سچی تبدیلی کا ارادہ نہیں معلوم ہوتا؛ ورنہ پھر وہی شوخی، بیبا کی کیوں نظر آرہی ہے۔ اگر سچی تبدیلی ہو تو ممکن نہیں کہ طاعون نہ ہٹ جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف جب میں کہتا ہوںکہ سچی تبدیلی کرو اور استغفار کرو۔ خداتعالیٰ سے صلح کرو تو میری ان باتوں پرہنسی کرتے ہیںاور ٹھٹھے اڑاتے ہیں اور اب خود بھی دعا ہی اس کا علاج بتاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ طاعون ان کے ہی سبب سے آیا ہے کیونکہ انھوں نے جھوٹے دعوے کئے تھے۔ مجھے ان کی اس بات پر بھی تعجب اور افسوس آتا ہے کہ میں تو جھوٹے دعوے کرکے سلامت بیٹھا ہوں؛ حالانکہ بقول ان کے طاعون میرے ہی سبب سے آیا ہے اور مجھے ہی حفاظت کا وعدہ دیا جاتاہے۔یہ عجیب معاملہ ہے۔ یہ بات تو ان عدالتوں میں بھی نہیں ہوتی کہ صریح ایک مجرم ہو وہ چھوڑ دیا جاوے اور بے گناہ کوپھانسی دے دی جاوے۔ پھر کیا خداتعالیٰ کی خدائی ہی میں یہ اندھیر اور ظلم ہے کہ جس کے لیے طاعون بھیجا جاوے وہ تو محفوظ رہے اور اس کو سلامتی کا وعدہ دیا جاوے اور وہ ایک نشان ہو اور دوسرے لوگ مرتے رہیں؟ میں کہتا ہوں اسی ایک بات کو لیکر کوئی شخص انصاف کرے اور بتاوے کہ کیا ہو سکتا ہے کہ جو شخص اﷲتعالیٰ پر افترا کرے وہ سلامت رہے اور اس کو یہ وعدہ دیا جاوے کہ تیرے گھر میں جو ہوگا وہ بھی بچایا جاوے گا اور دوسروں پر چُھری چلتی رہے؟ یہ تو وہی شیعوں کی سی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبوت دراصل حضرت علیؓ کو ملنی تھی اور انہیں کے واسطے جبریل ؑ لائے تھے مگر غلطی سے آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کو دے دی اور تیئس سال تک برابر یہ غلطی چلی گئی اور اس کی اصلاح نہ ہوئی۔ ایسا ہی اب بھی غلطی لگ گئی۔ جن کی حفاظت کرنی تھی وہ تو مر رہے ہیں اور جو حفاظت کے لائق نہ تھے۔ ان کی حفاظت کا وعدہ ہو گیا۔ بھلا اس قسم کی باتوں پر کوئی تسلی پا ساکتا ہے؟
طاعون سے معجزا نہ حفاظت
ایک امر تسری ملا کا ذکر آیا کہ وہ کہتا ہے کہ ایک سال گذر گیا تو کیا ہوا۔ ابھی آگے دیکھنا چاہیے۔ فرمایا: وہ تو ایک سال کہتا ہے۔ ہم تو یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ بالکل سچا ہے اور سے کے دورے تو ستر ستر سال تک ہوتے ہیں۔ وہ منتظررہیں اور دیکھیں کیا، ہوتا ہے۔ ہم بھی ان کے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔ وہ ہماری نسبت اگر کوئی خبر خداتعالیٰ سے پا چکے ہیں، تو شائع کر دیں۔ ہم کو تو جو کچھ خداتعالیٰ نے بتایا ہے ہم نے تو اس کر دیا ہے۔ اور دنیا کو معلوم ہو گیا ہے۔ وہ صبر کے ساتھ اب انجام تک دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے۔
یہ لوگ ہماری نسبت طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں۔ وہ آخر ان پر ہی لوٹ کر پڑتی ہیں۔ ایک بٹالوی مولوی نے ایک مرتبہ کہا کہ قادیان میں طاعون پڑی ہوئی ہے اور خود ان کو بھی گلٹی نکلی ہوئی ہے۔ یہ ان کی اَمانی ہیں۔ کیا گِلٹی اﷲتعالیٰ کے حکم کے بغیر نکل سکتی ہے؟ جب تک آسمان پر تغیر نہ ہو زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا ۔ ان دونوں جب قادیان میں طاعون پڑی ہوئی تھی۔ ہم خداتعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ دیکھ رہے تھے۔ ہمارے گھر کے اِدھر اُدھر سے چیخیں آتی تھیں۔ اور ہمارا گھر درمیان میں اس طرح تھا جیسے سمندر میں کشتی ہوتی ہے۔ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے اسے محفوظ رکھا جیسا اس نے فرمایا تھا۔ اور آئندہ بھی ہم اس کے فضل و کرم سے یقین رکھتے ہیں کہ ہماری حفاظت فرمائے گا۔
ہندوئوں کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا
اس کے بعد ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ، ہندوئوں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا: شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے۔ ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو
قدافلح من زکھا ( الشمس:۱۰)
پر زور دیا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گذارہ تو نہیں ہوتا ہے۔
تسبیح شماری
ایک شخص نے تسبیح کے متعلق پوچھا کہ تسبیح کرنے کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتاہے۔ اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرے اور یا توجہ کرے۔ اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پوری کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا۔ انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اﷲتعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اﷲتعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انھوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ اہل حق تو ہر وقت خداتعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے گنتی کا سوال اور خیال ہی بیہودہ ہے۔ کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گن کر لیا کرتا ہے؟ اگر سچی محبت اﷲتعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ الی اﷲ ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہوگا۔ وہ تو اسی ذکر کو اپنی روح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے کرے گا۔ زیادہ لطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اس میں اور ترقی کرے گا۔ لیکن اگر محض گنتی مقصود ہو گی تو وہ اسے ایک بیگار سمجھ پورا کرنا چاہے گا۔؎ٰ
نماز کے بعد تسبیح
ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر ۳۳ مرتبہ اﷲ اکبر وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے۔ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا : آنخضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وعظ حسبِ مراتب ہوا کرتا تھا اور اسی حفظ مراتب نہ کر نے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انھوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے؛ حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقعہ کے ہوتی تھی ۔ مثلاً ایک شخص آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزت نہیں کرتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزت کر۔ اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک دیا جاوے۔ یہی نیکی ہے۔ ایسا نہیں۔ اسی طرح تسبیح کے متعلق بات ہے۔ قرآن شریف میں تو آیا ہے۔
واذکرواﷲکثیرالعلکم تفلحون۔(انفال : ۴۶)
اﷲتعالیٰ کا بہت ذکر کرو تا کہ فلاح پائو۔ اب یہ
واذکرواﷲکثیرا
نماز کے بعد ہی ہے تو ۳۳ مرتبہ توکثیرکے اندر نہیں آتا۔ پس یاد رکھو کہ ۳۳ مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے؛ ورنہ جو شخص اﷲتعالیٰ کو سچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے، اسے شمار سے کیا کام۔ وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا۔
ایک عورت کا قصّہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی۔ اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے پھیر رہا ہے۔ اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں۔ عورت نے کہا کا یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر؟
درحقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گن گن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الہیٰ کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا ہے حاصل نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اﷲعلیہ و سلم نے جو ۳۳ مارتبہ فرمایا ہے وہ آنی اور شخصی بات ہو گی کہ کوئی کہ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگا توآپؐ نے اسے فرما دیا کہ ۳۳ مرتبہ کر لیا کر۔ اور یہ تو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں۔ یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کے حالات سے آشنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپؐ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا۔ وہ تو اﷲتعالیٰ کی راہ میں فنا تھے۔ انسان کو تعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کہتی ہیں کہ ایک رات آپ صلی اﷲعلیہ و سلم میرے گھر میں تھے۔ رات کو جب میری آنکھ کھلی تو میں نے آپؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا۔ مجھے خیال گذرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے؛ چنانچہ میں نے سب گھروں میں دیکھا، مگر آپؐ کو نہ پایا۔ پھر میں باہر نکلی تو قبرستان میں دیکھا کہ آپ سفید چادر کی طرح پر زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گرے ہوئے کہہ رہے ہیں
سجدت لک روحی و جنافی
اب بتائو کہ یہ مقام اور مرتبہ ۳۳ مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتی ہے۔ ہرگز نہیں۔
جب انسان میں اﷲتعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے۔ وہ ذکرِ الہیٰ کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سے اسے ہوتا ہے وہ کبھی روارکھ سکتا ہی نہیں کہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے۔ کسی نے کہا ہے۔من کا منہکاصاف کر۔
انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے۔ تب وہ کیفیت پیدا ہوگی اور ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا۔
تعداد رکعات
پوچھا گیا کہ نمازوں میں تعداد رکعات کیوں رکھی ہے؟ فرمایا :
اس میں اﷲ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں۔جو شخص نماز پڑھے گا۔وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر رہے گا ہی۔اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے۔لیکن وہ حد وہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے۔جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔جب وہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ بس کر جاتا ہے۔
دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں۔جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے۔اصل غرض ذکر الٰہی سے یہ ہے کہ انسان اﷲ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے۔اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔تذکرۃ اواولیاء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودا لیا اور ستر ہزار کا دیا مگر وہ ایک آن میں بھی خدا سے جدا نہیں ہوا۔پس یاد رکھو کہ کامل بندے اﷲ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے۔
لا تلھیہم تجارۃ والا بیع عن ذکر اﷲ (النور : ۳۸)
جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے‘ کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں۔وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ صوھی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہنسنے میں ہے۔وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں، کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے۔یہی مفہوم اور غرض اسلام کی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر اپنا سر رکھ دیتا ہے۔؎ٰ
۱۶؍مئی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
اعلیٰ حضرت حجتہ اﷲ مسیح موعود ؑ احاطہ کچہری میں رونق افروز تھے۔وقتاً فوقتاً جو کچھ آپ نے فرمایا۔ ہدیۂ ناظرین ہے۔(ایڈیٹر الحکم)
دنیا کی مشکلات اور تلخیاں دنیا کی تلخیوں اور ناکامیوں پر فرمایا کہ :
مثنوی میں لکھا ہے ؎
دشت دنیا جزدو و جز دام نیست
جز بخلوت گاہ حق آرام نیست
فرمایا:
دنیاکے مشکلات اور تلخیاں بہت ہین۔یہ ایک دشت پر خار ہے۔اس میں سے گذرنا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔گذرنا تو سب کو پڑتا ہے، لیکن راحت اور اطمینان کے ساتھ گذرجانا یہ ہر ایک شخص کو میسر نہیں آسکتا۔یہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اپنی زندگی کو ایک فانی اور لاشئی سمجھ کر اﷲ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے لیے اسے وقف کر دیتے ہیں اور اس سے سچا تعلق پیدا کر لیتے ہیں‘ ورنہ اسنان کے تعلقات ہی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی تلخی اس کو دیکھنی پڑتی ہے۔بیوی اور بچے ہوں تو کبھی کوئی بچہ مر جاتا ہے تو صدمہ برداشت کرتا ہے۔لیکن اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعالق ہو تو ایسی ایسے صدمات پر ایک خاص صبر عطا ہوتا ہے۔جس سے وہ گھبراہٹ اور سوزش پیدا نہیں ہوتی جو ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پس جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے منشاء کو سمجھ کر اس کی رضا کے لئے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں۔وہ بیشک آرام پاتے ہیں‘ ورنہ ناکامیاں اور نامرادیاںزندگی تلخ کر دیتی ہیں۔
ایک کتاب میں ایک عجیب بات لکھی ہے کہ ایک شخص سڑک پر روتا ہوا چلا جارہا تھا۔راستہ میں ایک ولی اﷲ اس سے ملے۔انہوں نے پوچھا کہ تو کیوں روتا ہے۔اس نے جواب دیا کہ میرا دوست مر گیا ہے۔اس نے جواب دیا کہ تجھ کو پہلے سوچ لینا چاہیے تھا۔مرنے والے کے ساتھ دوستی ہی کیوں کی؟
دنیا عجیب مشکلات کا گھر ہے۔بیوی بثوں کے نہ ہونے سے بھی غم ہتوا ہے اور اگر ہوں تب بھی مشکلات پیدا ہوتے ہیں۔ان کی ضروریات کے پورا کرنے کے لئے بعض نادان انسان عجیب عجیب مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں اور صراط مستقیم سے ہٹ کر ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال بہم پہنچاتے ہیں اور پھر اور مشکلات میں پھنستے ہیں۔ایک فقیر ننگ دھڑگن جس کے پاس ستر پوشی کے سوا اور کوئی کپڑا تک نہ تھا خوش و خرم کھیلتا کودتا جارہا تا۔کسی سوار نے اس سے پوچھا کہ سائیں صاحب آپ ایسے خوش کیوں ہیں؟ اس نے کہا کہ جس کی مرادیں حاصل ہو جائیں وہ خوش ہوتا ہے کہ نہیں؟ سوار نے کہا کہ تیری ساری مرادیں کس طرح پوری ہو گئی ہیں؟ اس نے کہا کہ جب خواہشیں چھوڑ دیں تو مرادیں پوری ہو گئیں۔
بات بالکل ٹھیک ہے۔انسان دو طرح ہی خوش ہو سکتا ہے یا تو حصول مراد کے ساتھ یا ترک مراد کے ساتھ اور ان میں سہل طریق ترک مراد کا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ سب کی زندگی تلخ ہے بجز اس کے جو اس دنیا کے علاقوں سے الگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بادشاہوں نے بھی ان تلخیوں اور ناکامیوں سے عاجز آکر خودکشی کر لی ہے۔
لذات دنیا کی مثال
دنیا کی لذت خارش کی طرح ہے۔ابتداء لذت آتی ہے۔پھر جب کھجلاتا رہتا ہے تو زخم ہو کر اس میں سے خون نکل آتا ہے۔یہاںتک کہ اس میں پیپ پڑ جاتی ہے اور وہ نا سور کی طرح بن جاتا ہے اور اس میں درد بھی پیدا ہو جاتا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ یہ گھر بہت ہی ناپائیداد اور بے حقیقت ہے۔مجھے کئی بار خیال آیا ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کسی مردے کو اختیار دیدے کہ وہ پھر دنیا میں چلا جاوے تو وہ یقینا تو بہ کر اُٹھے کہ میں اس دنیا سے باز آیا۔خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو تو انسان ان مشکلات دنیا سے نجات پاسکتا ہے،کیونکہ وہ درد مندوں کی دعائوں کو سن لیتا ہے مگر اس کے لئے یہ شرط ہے کہ دعائیں مانگنے سے انسان تھکے نہیں تو کامیاب ہوگا۔اگر تھک جاوے گا تو نری ناکامی نہیں بلکہ ساتھ بے ایمانی بھی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بدظن ہو کر سلب ایمان کر بیٹھے گا۔مثلا ایک شخص کو اگر کہا جاوے کہ تو اس زمین کو کھود ۔خزانہ نکلے گا مگر وہ دوچار پانچ ہاتھ کھودنے کے بعد اُسے چھوڑ دے اور دیکھے کہ خزانہ نہیں نکلا تو وہ اس نامرادی اور ناکامی پر ہی نہ رہے گا بلکہ بتانے والے کو بھی گالیاں دے گا‘ حالانکہ یہ اس کی اپنی کمزوری اور غلطی ہے جو اُس نے پورے طور پر نہیں کھودا۔اسی طرح جب انسان دعا کرتا ہے اور تھک جاتا ہے تو اپنی نامرادی کو اپنی سستی اور غفلت پر توحمل نہیں کرتا،بلکہ خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے اور آخر بے ایمان ہو جاتا ہے اور آخر دہریہ ہو کر مرتا ہے۔
نیم ملاں خطرۂ ایمان
جہاں حضور بیٹھے ہوئے تھے وہاں سامنے ایک آم کا درخت تھا جس کو کچے پھل لگے ہوئے تھے۔ان کو دیکھ کر فرمایا :
دیکھو۔اس آم کو پھل لگا ہوا ہے مگر یہ کچا پھل ہے۔اگر کوئی اس کو کھانے بیٹھ جاوے اور اس کو ہی اصل مقصد سمجھ لے تو بجز اس کے کہ اس کے کھانے سے پھنسیاں وغیرہ نکل آویں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔اسی طرح پر نیم ملاں خطرۂ ایمان والی مثال سچ ہے۔نار سیدہ منزل کچے پھل کی طرح ہوتا ہے۔وہ جو کسی کو بات سنائے گا تو اسے گمراہ کرے گا اور اگر خود کرے گا تو آپ گمراہ ہوگا۔
خدا تعالیٰ کی راہ میں جبتک انسان بہت سی مشکلات اور امتحانات میں پورا نہ اُترے وہ کامیابی کا سرٹیفیکیٹ حاصل نہیں کر سکتا۔اسی لیے فرمایا
احسب الناس ان یتر کو اان یقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ محض اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے کہ وہ کہدیں کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں۔ایسے لوگ جو اتنی بات پر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں وہ یاد رکھیں انہی کے لیے دوسری جگہ آیا ہے۔
وما ھم بمومنین (البقرۃ : ۹)
اور ایسا ہی ایک جگہ فرمایا :
قالت الاعراب امنا۔قل لم تو منو ا ولکن قولو ااسلمنا (الحجرات : ۱۵)
یعنی تم یہ نہ کہو کہ ایماندار ہو گئے بلکہ یہ کہو کہ ہم نے مقابلہ چھوڑ دیا ہے اور اطاعت اختیار کر لی ہے۔بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کامل ایماندار بننے کے لیے مجہدات کی ضرورت ہے اور مختلف ابتلائوں اور امتحانوں سے ہوکر نکلنا پڑتا ہے ؎
گویند سنگ لعل شود در مقام صبر
آرے شود ولیک بخون جگر شود
فوٹو گرافی
منشی نظیر حسین صاحب نے سوال کیا کہ میں فوٹو کے ذریعہ تصویر اتارا کرتا تھا۔اور دل میں ڈرتا تھا کہ کہیں یہ خلاھ شرع نہ ہو۔لیکن جناب کی تصویو دیک کر یہ وہم جاتا رہا۔فرمایا :
انما الاعمال بالنیات
Amira 2-6-05
ہم نے اپنی تصویر محض اس لحاظ سے اتروائی تھی کہ یورپ کو تبلیغ کرتے وقت ساتھ تصویریں بھیج دیں، کیونکہ ان لوگوں کا عام مذاق اس قسم کا ہوگیا ہے کہ وہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی اس کی تصویر دیتے ہیں جس سے وہ قیافہ کی مدد سے بہت سے صحیح نتائج نکال لیتے ہیں۔مولوی جو میری تصویر پر اعتراض کرتے ہیں۔وہ خود اپنے پاس روپیہ پیسہ کیوں رکھتے ہیں کیا ان پر تصویریں نہیں ہوتی ہیں۔
اسلام ایک وسیع مذہب ہے۔اس میں اعمال کا مدار نیات پر رکھتا ہے۔بدر کی لڑائی میں ایک شخص میدان جنگ میں نکلا جو اترا کر چلتا تھا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو یہ چال بُری ہے۔کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
ولا تمش فی الارض مرحا۔ (بنی اسرائیل : ۳۸)
مگراس وقت یہ چال خدا تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہے کیونکہ یہ اس کی راہ میں اپنی جان تک نثار کرتا ہے اور اس کی نیت اعلیٰ درجہ کی ہے۔
غرض اگر نیت کا لحاظ نہ رکھا جائے تو بہت مشکل پڑتی ہے۔اسی طرح پر ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جن کاتہ بند نیچے کو ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جاویں گے۔حضرت ابو بکر ؓ یہ سن کر رو پڑے کیونکہ اُن کا تہ بند بھی ویسا تھا۔آپؐ نے فرمایا کہ تُو اُن میں سے نہیں ہے۔غرض نیت کو بہت بڑا دخل ہے اور حفظ مراتب ضروری شئے ہے۔
منشی نظیر حسین صاحب : میں خود تصویر کشی کرتا ہوں۔اس کے لیے کیا حکم ہے؟
فرمایا :
اگر کفر اور بُت پرستی کو مدد نہیں دیتے۔تو جائز ہے۔آخکل نقوش و قیافہ کا علم بہت بڑھا ہوا ہے۔؎ٰ
بلا تاریخ
اہل اﷲ اور ریا
حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں نے حضرت مسیح موعودؑ سے پوچھا کہ کیا کبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ میں بھی ریا آوے؟
اس پر حضور نے فرمایا :
کبھی چڑیا خانہ گئے ہو؟ میں کہا کہ ہاں۔ فرمایا :
دیکھو وہاں شیر‘ چیتے اور دوسرے حیوانات ہوتے ہیں۔کبھی یہ خیال وہاں جا کر دل میں آسکتا ہے کہ ان کے سامنے لمبی لمبی نمازیں پڑھیں؟ کبھی یہ خیال وہاں جا کر ریاکار سے ریاکار کے دل میں بھی نہیں آسکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ حیوانات ہماری جنس سے تو نہیں ہیں تو پھر ریاکہاں رہی؟ ریا تو ہم جنسوں سے ہوتی ہے تو اہل اﷲ کس سے ریا کریں۔اُن کے سامنے دوسرے لوگوں کی وہی مثال ہے جیسے چڑیا خانہ میں جانور بھرے ہوئے ہیں۔
اپنے الہامات پر کامل ایمان
مولانا موصوف۔ نے ف رمایا کہ ایک دن کی مجھے بات یاد ہے کہ کسی نے ذکر کیا کہ منشی الٰہی بخش اور اس کا ترجمان منشی عبد الحق کہتا ہے کہ الہام وہ ہے جو پورا ہو جاوے اور جو نہ ہووے وہ شیطانی کام ہے۔حضرت نے فرمایا کہ :
مکہ معظمہ میں داخل ہو کر اگر خدا تعالیٰ کی قسم دی جاوے تو میں کہوں گا کہ میرے الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔جس شخص نے خیالی طور پر دعویٰ کیا ہو وہ ہر گز یہ جرأت نہین کر سکتا۔کبھی وہ شخص جو کامل یقین رکھتا ہو اور وہ جو مشکوک ہے برابر ہو سکتے ہیں؟
عہد دوستی
مولانا موصوف نے کاہ کہایک دفعہ حضرت اقدس نے خاص طو رپر مجھے مخاطب کر کے فرمایا :
’’میرے خلق کی پیروی کر‘‘
میں نے عرض کی کہ دعا کریں۔فرمایا کہ :
اگر کسی نے ایک بار میرے عہد دوستی باندھا ہو تو مجھے اس قدر اس کی رعایت ہوتی ہے کہ اگر اُس نے شراب پی ہوئی ہو تو بھی میں بلاخوف لَوْمَتَہ لَائم اُسے اُٹھالائوں گا۔یعنی جب تک وہ خود ترک نہ کرے ہم خود نہ چھوڑیں گے۔پس اگر کوئی اپنے بھائیوں کو ترک کرے گا۔ وہ سخت گنہگار ہوگا۔
اشداء علی الکفار
مولانا موصوھ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
مومن مومن کبھی نہیں ہو سکتا جب تک کہ کفر اس سے مایوس نہ ہو جاوے۔فتح مسیح کو ایک بار ہم نے رسالہ بھیجا۔اس پر اُس نے لیکریں کھینچ کر واپس بھیج دیا اور لکھا کہ جس قدر دل آپ نے دکھایا ہے کسی اور نے نہیںدکھیا۔دیکھو رسول کریم ﷺ کے دشمن نے خود اقرار یکر لیا کہ ہامرا دل دکھا۔پس ایسی مضبوطی ایمان میں پیدا کرو کہ کفر مایوس ہو اجوے کہ میرا قابو نہیں چلتا۔ اشد اء علی الکفار کے یہ معنی بھی ہیں۔
قبولیت دعا کی شرط طاعون کا ذکر تھا۔کثرت اموات پر ذکر کرتے کرتے فرمایا :
دعائیں کرتے رہو۔بجز اس کے انسان مکر اﷲ سے بچ نہیں سکتا۔مگر دعائوں کی قبولیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے‘ تو دعائوں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔
خدا تعالیٰ کی شناخت کا وقت فرمایا :
اس وقت دنیا میں خدا تعالیٰ کا وجود ثابت ہو رہا ہے؛ اگر چہ لوگ برائے نام خدا تعالیٰ کے قائم، مگر اصل بات یہ ہے کہ ایک قسم کی دہریت پھیل رہی تھی اور خدا تعالیٰ سے بکلی دور جا پڑے ہیں مگر اب وقت آگیا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں۔خدا تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو توڑنا اس سے بڑھ کر خباثت کیا ہوگی۔یہ تو اس کا مقابلہ ہے۔؎ٰ
۲۰؍مئی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
نومبائعین کو نصائح
بعد نماز عصر حیدر آباد دکن کے چند احباب نے بیعت کی۔بیعت کے بعد تقریری کرتے ہوئے حضور ؑ نے فرمایا :
آپ نے جو مجھ سے آج تعلق بیعت کیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ کچھ بطور نصیحت چند الفاظ تمہیں کہوں۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ پر ایمان رکھے اور پھر قرآن کریم پر غور کرے کہ خدا تعالیٰ نے کیا کچھ قرآن مجید میں فرمایا ہے تو وہ شخص دیوانہ وار دنیا کو چھوڑ خدا تعالیٰ کا ہو جائے۔یہ بالکل سچ کہا گیا ہے کہ دنیا روزے چند عاقبت با خداوند۔اب خدا تعالٰی کے کلام سے ظہر ہوتا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا چاہتا ہے اور فی الواقعہ اس کا دل ایسا نہیں کہ اس نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل سزا ٹھہرتا ہے۔ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں کہ اس کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے جب تک کاھی حصہ اپنا ان کی طلب میں خرچ نہ کر دیں‘ وہ مقاصد حاصل ہونے نا ممکن ہیں۔مثلاً اگر طبیب ایک دوائی اور اس کی ایک مقدار مقرر کر دے اور ایک بیمار وہ مقدار دوائی کی تو نہیں کھاتا بلکہ تھوڑا حصہ اس دوائی اور ا ستعمال کرتا ہے تو اس کو کیا فائدہ اس سے ہوگا؟ ایک شخص پیاسا ہے تو ممکن نہیں کہ ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس دور ہو سکے۔اسی طرح جو شخص بھوکا ہے وہ ایک لقمہ سے سیر نہیں ہو سکتا۔اسی طرح خدا تعالیٰ یا اس کے رسولؐ پر زبانی ایمان لے آنا یا ایک ظاہری رسم کے طور پر بیعت کر لینا بالکل بے سود ہے۔جبتک انسان پوری طاقت سے خدا تعالٰ کی راہ میں نہ لگ جاوے۔نفس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ انسان پورے طور پر وہ حصہ لے جو روحانی زندگی کے لیے ضروری ہے۔صرف یہ خیال کہ میں مسلمان ہوں کافی نہیں۔
میں نصیحت کرتا ہوں کہ آ نے جو تعلق مجھ سے پیدا کیا ہے (خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے) اس کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی فکر میں ہر وقت لگے رہیں۔لیکن یاد رہے کہ صرف اقرار ہی کافی نہیں جبتک عملی رنگ سے اپنے آپ کو رنگین نہ کیا جاوے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
احسب الناس ان یتر کوا ان یقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
یعنی کیا انسانوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہم آمنا ہی کہہ کر چھٹکارا پالیں گے اور کیا وہ آزمائش میں نہ ڈالے جائیں گے۔سو اصل مطلب یہ ہے کہ یہ آزمائش اسی لیے ہے کہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا ایمان لانے والے نے دین کو ابھی دنیا پر مقدم کیا ہے یا نہیں؟ آج کل اس زمانہ میں جب لوگ خد اتعالیٰ کی راہ کو اپنے مصالح کے خلاف پاتے ہیں یا بعض جگہ حکام سے ان کو کچھ خطرہ ہوتا ہے تو وہ خد اکی راہ سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔ایسے لوگ بے ایمان ہیں۔وہ نہیں جانتے کہ فی الواقعہ خد اہی احکم الحاکمین ہے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ بہت دشوار گذار ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی کھال اپنے ہاتھ سے نہ اُتارلے تب تک وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں ہوتا۔ہامرے نزدیک بھی ایک بے وفا نوکر کسی قدر و منزلت کے قابل نہیں ۔جو نوکر صدق اور وفا نہیں دکھلاتا وہ کبھی قبولیت نہیں پاتا۔اسی طرح جنات الٰہی میں وہ شخص پر لے درجہ کا بے ادب ہے جو چند روزہ دنیوی منافع پر نگاہ رکھ کر خدا تعالیٰ کو چھوڑتا ہے۔
بیعت کی حقیقت
بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔یہ بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں چل کر انجام کر کوئی شخص نقصان اٹھاوے۔صادق کبھی نقصان نہیں اٹھاسکتا۔نقصان اسی کا ہے جو کاذب ہے۔جو دنیا کے لیے بیعت کو اور عہد کو جو اﷲ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے توڑرہا ہے۔وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے۔وہ یاد رکھے بوقت موت کوئی حاکم یا بادشاہ اسے نہ چھڑا سکے گا۔اس نے احکم الحاکمین کے پاس جانا ہے جو اُس سے دریافت کریگا کہ تو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا؟ اس لیے ہر مومن کے لیے ضروری ہے کہ خدا جو ملک السموات و الارض ہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ امر بھی یونہی حاصل نہیں ہوتا۔خدا ہی یہ امر دل میں بٹھئے تو بیٹھ سکتا ہے۔سو اس کے لیے دعا بکار ہے۔جو شخص اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدق سے قدم اٹھاتا ہے اس کو عظیم الشان طاقت اور خارق عادت قوت دی جاتی ہے۔مومن کے دل میں ایک جذب ہوتا ہے کہ جس سے قوت جاذبہ کے ذریعہ وہ دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر تم میں جذب محبت خدا تعالیٰ کی راہ میں کافی ہو تو پھر کیوں لوگ تمہاری طرف نہ کے آویں اور کیوں تم میں ایک مقناطیسی طاقت نہ ہو جاوے۔دیکھو قرآن میں سورۂ یوسف میں آیا ہے۔
ولقد ھمت بہ وھم بہا لو لا ان را برھان ربہ (یوسف : ۲۵)
یعنی جب زلیخا نے یوسف کا قصد کیا یوسف بھی زلیخا کا قصد کرتا اگر ہم حائل نہ ہوتے۔اب ایک طرف تو یوسف جیسا متقی ہے اور اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نبی زلیخا کی طرف مائل ہو ہی چکا تھا اگر ہم نہ روکتے۔اس میں سر یہ ہے کہ انسان میں ایک کشش محبت ہوتی ہے۔زلیخا کی کشش محبت اس قدر غالب آئی تھی کہ اس کشش نے ایک متقی کو بھی اپنی طرف کھینچ لیا۔سو جائے شرم ہے کہ ایک عورت میں جذب اور کشش اس قدر ہو کہ اس کا اثر ایک مضبوط دل پر ہو جاوے اور ایک شخص جو مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔اس میں جذب محبت الٰہی اس قدر نہ ہو کہ لوگ ا سکی طرف کھینچے چلے آویں۔یہ عذر قابل پذیرائی نہیں کہ زبان میں یا وعظ میں اثر نہیں۔اصلی نقصان قوت جاذبہ میں ہے۔جب تک وہ کامل نہیں تب تک زبانی خالی باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہو تا۔
وفات مسیح
اور ہمارے مسائل ۔سو وہ بھی بالکل صاف ہیں۔مثلاً قرآن شریف کی یہ آیت
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (المائدہ : ۱۱۸)
ا س میں ایک جواب اور ایک سوال ہے۔خدا تعالیٰ مسیح علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تو نے لوگوں کو ایسی تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا تو وہ جواب میں عرض کریں گے کہ بار خدایا جب تک میں زندہ رہا اور اُن میں رہا میں نے تو اُن کو ایسی تعلیم نہیں دی؛ البتہ تو نے جب مجھ کو مار دیا تو پھر تو ہی ان کا نگران حال تھا۔مجھے کوئی علم نہیں کہ میرے پیچھے انہوں نے کیا کیا۔یہ کیسی موٹی بات ہے کہ خود مسیح اپنی وفات کا اقرار کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر عیسائی بگڑے تو میری وفات کے بعد بگڑے۔جب تک میں اُن میں زندہ رہا تب تک وہ صحیح عقیدہ پر قائم تھے۔اب اگر عیسائی بگڑ گئے ہیں تو بالضرور مسیح مر چکا ہے۔اور اگر مسیح آج تک نہیں مرا تو عیسائی بھی نہیں بگڑے اور اگر عیسائی نہیں بگڑے تو بالضرور عقیدہ الوہیت مسیح بھی درست ہے۔پھر مسیح کا یہ کہہ دینا کہ مجھے تو اُن کے بگڑنے کا علم نہیں جیسے کہ اسی آیت سے پایا جاتا ہے۔کیا یہ جواب اُن کا جھوٹا نہیں ہوگا ۔اگر ان کا دوبارہ دنیا میں آنا درست ہے،کیونکہ سوال و جواب قیامت کو ہوگا۔اور اگر انہوں نے دوبارہ دنیا میں آکر چالیس سال رہنا ہے ارو عیسائیوں اور کفار کو قتل کرکے اسلام کو پھیلانا یہ تو بالضرور انہوں نے عیسائیوں کی بگڑی ہوئی حالت کو دیکھ لیا ہے اور اس بگری ہوئی حالت کو دیکھ کر وہ دوبارہ اس دنیا سے تشریف لے جاویں گے تو پھر حضرت مسیح کا یہ جواب دینا خدا کے حضور میں دروغ بیانی ہے اس دنیا سے تشریف لے جاویں گے تو پھر حضرت مسیح کا یہ جواب دینا خدا کے حضور میں دروغ بیانی ہے ۔کیا وہ احکم الحاکمین نہ کہے گا کہ تو دوبارہ دنیا میں گیا اور تونے دیکھ لیا کہ تیری امت بگڑ چکی تھی۔ایک مجازی حاکم کے آگے غلط بیانی ‘ دروغ حلفی کے جرم کا خطرناک ارتکاب ہے۔چہ جائیکہ ایک عالم الغیب حاکم کی جناب میں ایسی دروغ بیانی کی جاوے تو گویا اس آیت نے بڑی صفأئی کے ساتھ ایک طرف مسیح کی وفات کو ثابت کر دیا اور دوسری طرف ان کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا بطلان کردیا۔اس کے مقابل جب ہم حدیثوں پر غور کرتے ہیں تو وہاں سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔حضرت رسالت مآبؐ نے فرمایا اور یہ متفق علیہ حدیث ہے کہ میں نے حضرت مسیح کو حضرت یحییٰ ؑکے ساتھ دیکھا۔حضرت یحییٰ کامر جانا اور ان کا اس جماعت میں داخل ہونا جن کی قبض روح ہو چکی ہے ثابت شدہ امر ہے۔اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسیح بلاقبض روح وانتقال کرنے کے ایک ایسے شخص کا جلیس ہو جو دنیا سے مر چکا ہے اب ایک طرھ قول خدا اور دوسری سرف رئویت رسول اکرم ؐ سے وفات مسیح ؑ اور ان کا دوبارہ دنیا میں واپس نہ آنا قطعی ثابت ہو گیا۔اب بھی یہ لوگ اگر عقیدہ حیات مسیح سے باز نہ آویں۔تو یہی سمجھا جاوے گا کہ سچی ہدایت اور سعادت صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔اُ ن کے حال پر تو پھر سعدی کا یہ قول صادق آتا ہے ؎
آنکس کہ بقرآں و خبر زد نہ دہد
ایں است جوابش کہ جوابش نہ دہی
آنیوالا مسیح امتی ہوگا
رہا یہ کہ آنے والا کون ہے؟ اس کا فیصلہ بھی قرآن و حدیث نے کر دیا ہے۔سورہ نور نے صاف طور پر بیان کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے خلفاء اس امت میں سے ہوں گے۔بخاری اور مسلم کا بھی یہی مذہب ہے کہ آنیوالا مسیح اس امت میں سے ہوگا۔اب ایک طرف قرآن و حدیث بنی اسرائیل مسیح کی موت اور دوبارہ نہ آنے کو بیان کرتے ہیں۔دوسری طرف یہی قرآن و حدیث آنے والے مسیح کو اسی امت میں سے ٹھہراتے ہیں تو پھر اب انتظار کس بات کا ہے؟
نشانات
اب علامات کو بھی دیکھ لیا جاوے۔صدی کے سر پر مجدد کا آنا سب نے تسلیم کیا ہے اور یہ بھی مانا ہے کہ مسیح بطور مجدد صدی کے سر پر آوے گا۔صدی میں سے بائیس سال گذر گئے اور اس وقت تک مجدد نظر نہ آیا۔آخر اس صدی کے سر پر جس مجدد نے آنا تھا وہ کہاں ہے؟
کسوف و خسوف کا نشان
مہدی کا نشان کسوف و خسوف تھا جو رمضان میں ہونا تھا۔اس کسوف و خسوف پر بی آٹھ سال گذر گئے۔مہدی نہ آیا۔اگر یہ کہا اجوے کہ نشان تو گیا‘ لیکن صاحب نشان بعد میں آوے گا تو یہ عقیدہ بڑا فاسد ہے اور قسم قسم کے فسادات کی بناء ہے۔اگر ایک زمانہ کے بعد اکٹھے بیس انسان مہد دیت کے مدعی ہو جاویں تو پھر اُن میں کون فیصلا کریگے؟ ضرور ہے کہ صاحب نشان نشان کے ساتھ ہو۔یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر صدی کے سرے کو اور کسوف و خسوف کو یاد کیا کرتے اور روتے تھے‘ لیکن جب وہ وقت آیا تو یہی لوگ دشمن بن گئے۔حدیث کے مطابق تمام نشان واقعہ ہو گئے لیکن یہ لوگ اپنی ضد سے باز نہیں آتے۔کسوف و خسوف کا عظیم الشان نشان ظاہر ہو گیا ‘ لیکن خدا تعالیٰ کے اس نشان کی قدر نہ کی گئی۔
Amira 4-6-05
طاعون کا نشان
اسی طرح کل انبیاء کی کتب سابقہ ارو قرآں و حدیث میں ایک اور بلا کی طرھ اشارہ تھا جو کسوف و خسوف کے آسمانی نشان کے بعد آنے والی تھی اور وہ طاعون ہے۔جو وہ بھی مسیح کے زمانہ سے وابستہ تھی۔یہ ایک خطر ناک مصیبت ہے جس کی طرف ہر ایک اولوالعزم نبی نے بالتصریح یا بالا جمال اشارہ کیا ہے۔ طاعون آگئی۔لاکھوں انسان تباہ ہو گئے۔اور نہ معلوم کب تک اس کی تباہی چلتی رہے گی‘ لیکن جس موعود کے زمانہ کی شناخت کا یہ نشان ہے اسے اب تک ان لوگوں نیچانا۔اسی طرح زمین و آسمان نے شہادت دی۔لیکن ان شہادتوں کو ردی سمجھا گیاخدا غیور ہے اور وہ اپنی غیرت دکھلائے گا۔ایک مجازی حاکم عدول حکمی پسند نہیں کرتا تو وہ احکم الحاکمین غیور خدا کب اس عدول حکمی کو بلا سزا چھوڑ یگا۔
نئی سواری کا نشان
ایک اور نشان اس زمانہ کا وہ نئی سواری تھی جس نے اونتوں کو بیکار کر دینا تھا۔قرآن نے
وا ذاالعشار عطلت (التکویر : ۵)
(جب اُونٹیاں بے کار ہو جاویں گی) کہہ کر اس زمانہ کا پتہ بتلایا۔حدیث نے مسیح کے نشان میں یوں کہا
لیتر کن القلاص فلا یسعی علیھا۔
پھر یہ نشان کیا پرا نہ ہوا؟ حتیٰ کہ اس سر زمین میں بھی جہاں آج تک اونٹنی کی سواری تھی اور بغیر اونٹنیوں کے گذارہ نہ تھا،وہاں بی اس سواری کا انتظام ہو گیا ہے اور چند سالوں میں اونٹوں کی سواری کا نام و نشان نہیں ملے گا۔اونٹنیاں بیکار ہو گئیں ۔مقرر کردہ نشان پورے ہو گئے، لیکن جس کا یہ نشان تھا وہ پہچانا نہ گیا! کیا یہ اُمور بھی میرے اختیار میں تھے۔کہ ایک طرف تو میں دعویٰ کروں اور دوسری طرف یہ نشان پورے ہوتے جاویں۔کیا آسمانی نظام پر بھی میرا دخل ہے جو کسوف اور خسوف موعود کو پیدا کر لیتا؟ یا میرے ہاتھ کوئی ایسے مواد ہیں جن سے زمین پر موعود طاعون پیدا ہو گئی؟ یا حج کا روکنا جو یہ بھی مسیح کا نشنا تھا کیا یہ بھی میرے اشارہ سے ہوا؟ اسی طرح بیسیوں نشان زمانۂ مسیح کے ساتھ وابستہ تھے وہ سب پورے ہو گئے۔خدا تعالیٰ نے کونسی حجت کو ان پر پودا نہیں کیا، لیکن ان کا انکار ابھی اسی طرح ہے۔اصل بات یہ ہے کہ زمانہ میں دہریت پھیلی ہوئفیہ خفیہ سب دلوں پر اثر کر رہی ہے۔خشیتِ الٰہی دن بہ دن مفقود ہو رہی ہے۔کان رکھتے ہیں پر سن نہیں سکتے۔آنکھیں رکھتے ہیں پر نہیں دیکھتے۔دل رکھتے ہیں پر نہین سمجھتے۔یہی وجہ ہے کہ انکار ہے و الا معاملہ تو بہت ہی صاف تا۔میری کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس قدر اتمام حجت کی گئی۔اب ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔خدا تعالیٰ نے قوی دلائل سے اُن کا رگ و ریشہ کات دیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھتے۔
شناخت مامور کے تین طریق
ایک مامور کی شناخت کے تین طریق ہیں۔نقل۔عقل۔تائیداتِ سماوی۔اب دیکھنا چاہیے۔کہ یہ تینوں امور اس سلسلہ کے مؤید ہیں۔دانیال اور دیگرنبیاء نے تو ا سکے آنے کا زمانہ مقرر کر دیا ہے۔حتیٰ کہ صدی او رسال بھی مقرر کر دیا ہے۔تمام عیسائیوں میں ایک قسم کی گھبراہٹ پیدا ہوئی ہے کیونکہ کتبِ سابقہ کے مطابق مسیح کی آمد کا وقت آچکا ہے۔او رمسیح ابھی تک آیا نہیں۔اس لیے بعض علماء اخیر مجبور ہو کر اس طرف گئے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی سے مراد کلیسیا کی ترقی ہے جو ہو چکی ہے۔؎ٰ
اسی طرح ہماری کتب کے مطابق بھی بعثت مسیح کا یہی زمانہ ہے۔حج الکرامہ والے نے کل اہل کشوف اسی طرف گئے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی کے لیے چودھویں صدی مقرر ہے۔شاہ ولی اﷲ صاحب نے بھی اسی زمانہ کے لیے اُسے چراغ الدین کہا ہے۔غرضیکہ ہر ایک بزرگ نے جو زمانہ مقرر کیا ہے وہ چودھویں صدی سے آگے نہیں گیا؛ اگر چہ ان میں کچھ اختلاف ہے۔چودھویں صدی میں لطیف اشارہ اس طرف تھا کہ دین اسلام چودھویں رات کے چاند کی طرح اس زمانہ میں چمک اٹھے گا۔جس طرح چاند کا کمال چودھویں رات کو ہوتا ہے۔اسی طرح اسلام کا کامل کل دنیا مٰں ثودھویں صدی میں ظاہر ہوگا۔تیرھویں صدی کی تایکی ان لوگوں میں صرب المثل ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اس صدی کے علماء س بھیڑیوں نے صدی کی تاریکی ان لوگوں میں ضرب المثل ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اس صدی کے علماء سے بھیڑیوں نے بھی نجات مانگی تھی۔یہ لوگ چودھویں صدی کے منتظر تھے،لیکن جب صدی آگئی تو اپنی بد بختی کے باعث انکار کر گئے۔اسی طرح قرآن میں ذکر ہے۔
ولما جاء ھم کتاب من عند اﷲ مصدق لما معہم وکانو ا من قبل یستفتحون علی الذین کفرو ا فلما جاء ھم ما عر فو اکفرو ابہ (البقرہ : ۹۰)
اہل کتاب منتظر تھے کہ پیغمبر کے آنے پر وہ اس کے ساتھ مل کر کفار سے جنگ کرین گے لیکن جب پیغمبر آیا تو انکار پر آمادہ ہو گئے۔
عقل کے نزدیک بھی زمانہ مسیح کا یہی معلومہوتا ہے۔اسلام اس قدر کمزور ہو گیا ہے کہ ایک وقت ایک شخص کے مرتد ہو جانے پر اس میں شور پڑ جاتا تھا۔لیکن اب لاکھوں مرتد ہو گئے۔رات دن مخالفت اسلام میں کتب تصنیف ہو رہی ہیں۔اسلام کی بیخ کنی کے واسطے سرح طرح کی تجاویز ہو رہی ہیں۔عقل پسند نہیں کرتی کہ جس خدا نے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
کا وعدہ یدا ہے وہ ا سوقت اسلام کی حفاظت نہ کرے اور خاموش رہے۔یہ زمانہ کس قسم کی مصیبت کا اسلام پر ہے کہ شرفا کی اولاد دشمن الام ہو کر گر جائوں میں ثلے گئے اور کھلے طور پر رسول اکرم ﷺ کی توہین ہو رہی ہے۔ہر ایک قسم کی گالی اور سب و شتم میں ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ان تمام امور کو بہ ہیت مجموعی اگر دیکھا جائے تو عقل کہتی ہے کہ یہی وقت خد اتعالیٰ کی تائید کا ہے اور میں تم کو سچ کاہتا ہوں کہ اگر یہ سلسلہ قائم نہ ہوتا تو اسلام برباد ہو چکا تھا۔سو خد اتعالیٰ کے وجود کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ عین ضرورت کے وقت خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور عین مصیبت کے وقت اسلام کو سنبھالا۔تائیدات سماوی اگر دیکھی جاویں تو یاہں بھی ایک بڑا خزانہ ہے۔خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہزار ہا نشان میرے ہاتھ پر ظہار کئے ۔اگر میں ان تمام نشانوں کو جمع کروں جو ہر روز میں اور میرے ساتھ رہنے والے دیکھتے ہیں تو ان کی تعداد لاکھ کے قریب ہوجاتی ہے۔قطع نظر اس کے صرف براہین احمدیہ کے بعض الہامات کو دیکھا جاوے۔چوبیس برس ہوئے کہ یہ کتاب تصنیف ہوئی جو اس وقت مکہ،مدینہ،مصر،بخارا،لنڈن اور ایسا ہی ہندوستان کے ہر ایک حصہ میں پہنچ گئی۔کئی ایک پادیریوں اور دیگر مخالفینِ اسلام کے گھروں میں پہنچ گئی۔اب اس کتاب میں مثلاً لکھا ہے کہ خد اتعالیٰ کی طرف س یمجھے ارشاد ہے کہ اس وقت تو اکیلا ہے اور تیرے ساتھ کوئی نہیں لیکن ایک وقت آئے گا کہ لوگ تیرے پاس دور دور سے آئیں گے۔
(یا تونمن کل فج عمیق)
تو لوگوں میں پہچانا جاوے گا اور تیری شہرت کی جاوے گی۔تیری امداد اور تائید کو دور دور سے لوگ آویں گے۔پھر کہا کہ لوگ کثرت سے آویں گے اور تو ان سے نرمی اور اخلاق سے پیش آنا۔اُن کی ملاقات سے مت گھبرانا۔
(ولا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس)
پھر آخر کار فرمایا
اذا جاء نصراﷲ والفتح و ان تھی امر الزمان الینا۔الیس ھذا بالحق۔
یعنی جب خدا تعالیٰ کی فتح اور نصرت آوے گی اور زمانہ کا امر ہماری طرف منتہی ہوگا تو اس وکت کہا جاوے گا کہ کیا یہ سلسلہ حق نہیں؟ اب لاہور اور امرت سر کے لوگ اور ایسا ہی پنجاب کے لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ براہین کی اشاعت کے وقت مجھے کوئی جانتا نہیں تھا۔حتیٰ کہ قادیان میں بہت کم لوگ ہوں گے جو مجھے پہچانتے ہوں گے۔پھر یہ امور کس طرح پورے ہو رہے ہیں؛ اگر چہ یہ پیشگوئیاں بدرجہ اتم ابھی پوری نہیں ہوئیں،لیکن جس قدر الہامات کا ظہر ہو رہا ہے وہ طالب حق کے لیے کافی ہے۔اب کیا یہ مریی بناوٹ ہے کہ ایک انسنا آج سے چوبیس سال پہیل آج کل کے واقعات کا نقشہ کھینچ سکتا ہے۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ہزار ہا مخلوق کا مرجع ہو گا۔خصوصاً جبکہ ایک مدت تک ان امور کا ظہور نہ ہوا۔جس سے صاف ظہار ہے کہیہ امور کسی فراست کا نتیجہ نہیں ہو سکتے۔ان امرو کو دیکھ کر میں کہہ سکتا ہوں کہ جس قدر نشانات خدا تعالیٰ نے میری تائید میں ظہار کئے وہ اپنی تعدات اور شوکت میں ایسے ہین کہ بجز حضرت نبی کریم ﷺ کل انبیاء و مرسلین سے ایسے ثابت نہیں ہوئے لیکن اس میں میرا کیا فخر ہے۔یہ سب کچھ تو اس پاک نبی کی فضیلت ہے۔جس کی امت میں ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے۔
پھر میں کہتا ہوں کہ آج کل کے پیر زادوں اور سجادہ نشینوں کو آزمالو۔کسی پادری یا کسی مذہب کے سرگروہ کو میرے مقابل میں لائو۔خدا تعالیٰ نشان نمائی میں بالضرور اس کو میرے مقابل شرمندہ اور ذلیل کرے گا۔یہان تو نشناوں کا دریا بہہ رہا ہے۔میرے دوست اس الہام سے خوب واقف ہیں جو دس بارہ سال ہوئے خدا تعالیٰ نے فرمایا
انی مھین من اراد اھا نتک وانی معین من اراد اعانتک
اس ایک الہام کو کس قدر مواقع اور محل پر میرے دوستوں نے پورے ہوتے دیکھا۔کس طرح لوگوں نے میری اہانت اور تذلیل کے لیے بیڑے اٹھائے۔اور کس طرح وہ خود ہی زلیل اور خوار ہو گئے۔اس کی ایک مثال نہیں بلکہ کئی ایک مثالیں ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان نشانات کو دیکھ کر بھی لوگ ابھی گمراہ ہیں۔ سو بات یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے دو گروہ چلے آئے ہیں۔ایک سعید دوسرا شقی۔ابو جہل نے ہزاروں نشان دیکھے لیکن وہ کافر ہی رہا۔سو اس صورت میں مومن کے لیے ضرور ہے کہ وہ دعا میں لگ جاوے۔
صرف بیعت پر قناعت نہ کریں
آپ نے جو آج مجھ سے بیعت کی ہے۔یہ تخمریزی کی طرح ہے۔چاہئے کہ آپ اکثر مجھ سے ملاقات کرین اور اس تعلق کو مضبوط کریں جو ٔء قائم ہوا ہے۔جس شاخ کا تعلق درخت سے نہیں رہتا وہ آخر خشک ہو کر گر جاتی ہے۔جو شخص زندہ ایمان رکھتا ہے وہ دنیا کی پروا نہیں رکھتا۔دنیا ہر طرح مل جاتی ہے۔دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والا ہی مبارک ہے لیکن جو دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے وہ ایک مردار کی طرح ہے جو کبیھ سچی نصرت کا منہ نہیں دیکھتا ۔یہ بیعت اس وقت کام آسکتی ہے۔جب دین کو مقدم کر لیا جاوے اور ا س میں ترقی کرنے کی کوشش ہو۔بیعت ایک بیج ہے جو آج بویا گیا۔اب اگر کوئی کسان صرف زمین میں تخمریزی پر ہی قناعت کرے اور پھل حاصل کرنے کے جو جو فرائض ہیں ان میں سے کوئی ادا نہ کرے۔نہ زمین کو درست کرے اور نہ آبپاشی کرے اور نہ موقعہ بہ موقعہ مناسب کھاد زمین میں ڈالے نہ کافی حفاظت کرے تو کیا وہ کسان کسی پھل کی امید کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔اس کا کھیت بالضرور تباہ اور خراب ہو گا۔کھیت اسی کا رہے گا جو پورا زمیندار بنے گا۔سو ایک طرح کی تخمریزی آپ نے بھی آج کی ہے۔خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کے مقدر میں کیا ہے، لیکن خوش قسمت وہ ہے جو اس تخم کو محفوظ رکھے اور اپنے طور پر ترقی کے لیے دعا کرتا رہے۔مثلاً نمازوں میں ایک قسم کی تبدیلی ہونی چاہیے۔
نماز میں حضور اور لذت پیدا کرنے کا طریق
میں دیکھتا ہوں کہ آج کل لوگ جس طرح نماز پڑھتے ہیں وہ محض ٹکریں مارنا ہے۔اُن کی نماز میں اس قدر بھی رقت اور لذت نہیں ہوتی جس قدر نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا میں ظاہر کرتے ہیں۔کاش یہ لوگ اپنی دعائیں نماز میں ہی کرتے۔شاید اُن کی نمازوں میں حضور اور لذت پیدا ہو جاتی۔اس لیے میں حکماً آپ کو کہتا ہوں کہ سردست آپ بالکل نماز کے بعد دعا نہ کریں۔اور وہ لذت اور حضور جو دعا کے لیے رکھ اہے،دعائوں کو نماز میں کرنے سے پید اکریں۔میرا مطلب یہ نہیں کہ نمازکے بعد دعا کرنی منع ہے ۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ جب تک نماز میں کافی لذت اور حضور پیدا نہ ہو نماز کے بعد دعا کرنے میں نماز کی لذت کو مت گنوائو۔ہاں ج بیہ حضور پیدا ہو جاوے تو کوئی حرج نہیں۔سو بہتر ہے نماز میں دعائیں اپنی زبان میں مانگو۔جو طبعی جوش کسی کی مادری زبان میں ہوتا ہے وہ ہر گاز غیر زبان میں پیدا نہیں ہو سکتا۔سو نمازوں میں قرآن اور ماثورہ دعائوں کے بعد اپنی ضرورتوں کو برنگ دعا اپنی زبان میں خد اتعالیٰ کے آگے پیش کرو تا کہ آہستہ آہستہ تم کو حلاوت پیدا ہو اجائے۔سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہو ں سے نجات حاصل ہو ، کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہ جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے ۔ہماری دعا یہ ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخب کر دیتے ہیں دور کر دے اور اپنی رضا مندی کی راہ کھالئے۔دنیا میں مومن کی مثال اس سواری کی ہے کہ جو جنگل میں جا رہا ہے۔راہ میں بسبب گرمی اور تھکان سفر کے ایک درخت کے نیچے سستانے کے لیے ٹھہرجاتا ہے لیکن ابھی گھوڑے پر سوار ہے اور کھڑا کھڑا گھوڑے پر ہی کچھ آرام لے کر آگے اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے لیکن جو شخص اس جنگل میں گھر بنا لے وہ ضرور درندوں کا شکار ہو گا۔مومن دنیا کو گھر نہیں بناتا اور جو ایسا نہیں خدا تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا نہ خدا تعالیٰ کے نزدیک دنیا کو گھر بنانے والے کی عزت ہے۔خدا تعالیٰ مومن کی عزت کرتا ہے۔
نوافل کی حقیقت
حدیث میں آیا ہے کہ مومن نوافل کے ساتھ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔نوافل سے مراد یہ ہے کہ خدمت مقررہ کر دہ میں زیادتی کی جاوے ہر ایک خیر کے کام میں دنیا کا بندہ تھوڑا سا کر کے سست ہو جاتا ہے،لیکن مومن زیادتی کرتا ہے۔نوافل صرف نماز سے ہی مختص نہیں بلکہ ہر ایک حسنات میں زیادتی کرنا نوافل ادا کرنا ہے۔مومن محض خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ان نوافل کی فکر میں لگا رہتا ہے۔اس کے دل میں درد ہے جو اسے بے چین کرتا ہے اور وہ دن بہ دن نوافل و حسنات میں ترقی کرتا جاتا ہے اور بالمقابل خدا تعالیٰ بھی اس کے قریب ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ مومن اپنی ذات کو فنا کر کے خدا تعالیٰ کے سایہ تلے آجاتاہے۔اس کی آنکھ خدا تعالیٰ کی آنکھ ۔اس کے کان خدا تعالٰی کے کان ہو جاتے ہیں۔کیونکہ وہ کسی معاملہ میں خدا تعالیٰ کی مخالفت نہیں کرتا۔ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس کی زبان خدا تعالیٰ کی زبان اور ا سکا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہو جاتا ہے۔
مومن کا مقام
پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے کسی بات میں اس قدر تردد نہیں ہوتا۔جس قدر مومن کی جان نکالنے میں تردد ہوتا ہے۔یون تو خدا تعالیٰ کی ذات سب ترددات سے پاک ہے لیکن یہ فقرہ جو فرمایا تو مومن کے اکرام کے لیے فرمایا۔اب دوسرے لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مر جاتے ہیں لیکن مومن کا معاملہ دگر گوں ہے۔مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ جو صلحاء اور انبیاء کی زندگی آئے دن طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہتی ہے اور بعض وقت اُن کو خوفناک امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔جیسے کہ ہمارے رسول خدا ﷺ کی صورت تھی۔یہ اُس تردد کا اظہار ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے گویا اﷲ تعالیٰ اس سے معاملہ ایسا کرتا ہے اور خوفناک بیماریوں سے اُسے نجاب دیکر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اُسے معمولی انسانوں کی طرح ضائع نہیں کرتا۔قرآن او رحدیث سے ثابت ہے کہ مومن کی ہر ایک چیز بابرکت ہو جاتی ہے جہاں وہ بیٹھتا ہے وہ جگہ دوسروں کیلئے موجب برکت ہوتی ہے۔اس کا پس خوردہ اوروں کیلئے شفا ہے۔حدیث میں آیا ہے کہ ایک گنہگار خدا تعالیٰ کے سامنے لایا جاوے گا۔خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تونے کوئی نیک کام کیا؟ وہ کہے گا کہ نہیں۔پھر خدا تعالیٰ اس کو کہے گا کہ فلاں مومن تو ملا تھا وہ کہے گا خداوند میں ارادتاً تو کبھی نہیں ملا وہ خود ہی ایک دن مجھے راستہ میں مل گیا ۔خدا تعالیٰ اسے بخش دے گا۔پھر ایک اور موقعہ پر حدیث میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ فرشتوں سے دریافت کرے گا کہ میرا ذکر کہاں پر ہو رہا ہے؟ وہ کہیں گے کہ ایک حلقہ مومنین کا تھا جہاں دنیا کے ذکر کا نام و نشان بھی نہ تھا؛ البتہ ذکر الٰہی آٹھوں پہر ہو رہا ہے۔اُن میں ایک دنیا پرست شخص تھا۔اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں ن یاس دنیادار کو اس ہم نشینی کے باعث بخش دیا۔
انھم قوم لا یشقی جلیسھم۔
بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ جہاں ایک مومن امام ہو اس کے مقتدی پیش ازیں کہ وہ سجدہ سے سر اُٹھاوے بخش دیئے جاتے ہیں۔
مومن وہ ہے کہ جس کے دل میں محبتِ الٰہی نے عشق کے رنگ میں جڑ پکڑلی ہو۔اس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ وہ ہر ایک تکلیھ اور ذلت میں بھی خدا تعالیٰ کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔اب جس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کب کسی کا کانشنس کہتا ہے کہ وہ ضائع ہو گا کیا کوئی رسول ضائع ہوا؟ دنیا نا خنوں تک اُن کو ضائع کرنے کی کوشش کرتی ہے،لیکن وہ ضائع نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ کے لیے ذلیل ہو وہی انجام کا ر عزت و جلال کا تخت نشیں ہوگا۔ایک ابو بکرؓ ہی کو دیکھو جس نے سب سے پہلے ذلت قبول کی اور سب سے پہلے تخت نشین ہوا۔اس میں کچھ شک نہیں کہ پہلے کچھ نہ کچھ دکھ اٹھانا پڑتا ہے کسی نے سچ کہا ہے ؎
عشق اول سرکش و خونی بود
تا گریزد ہر کہ بیرونی بود
عشق الٰہی بی شک اول سرکش و خونی ہوتا ہے تا کہ نا اہل دور ہو جاوے۔عاشقانِ خدا تکالیف میں ڈالے جاتے ہیں۔؎ٰقسم قسم کے مالی اور جسمانی مصائب اُٹھاتے ہیں اور ا س سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کے دل پہچانے جاویں۔خدا تعالیٰ نے یہ امر مقرر کر دیا ہے کہ جب تک کوئی پہلکے دوزخ پر راضی نہ ہو جاوے بہشت میں نہیں جاتا۔
Amira 8-6-05
بہشت دیکھنا اسی کو نصیب ہوتا ہے جو پہلے دوزخ دیکھنے کوتیارہوتا ہے۔دوزخ سے مراد آئندہ دوزخ نہیں بلکہ اس دنیا میں مصائب شدائدکا نظارہ مراد ہے۔اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ کافر کے لیے دوزخ بہشت کے رنگ میں اور مومن کے لیے بہشت دوزخ کے رنگ میں متمثل کیا جاتا ہے۔کافر جو دنیا کا طالب ہے دنیا میں منہمک ہو کر سگِ دنیا ہو جاتا ہے۔مومن ایک عاشق ہے جو دنیا کو طلاق دے کر ہر ایک تکلیف سہنے کو تیار ہوتا ہے اور فی الواقعہ یہ عشق ہی ہے جو اُسے ہر قسم کی تکلیف سہنے کے لیے آمادہ کر دیتا ہے۔مومن کا رنگ عاشق کا رنگ ہوتا ہے اور وہ اپنے عشق میں صادق ہوتا ہیاور اپنے معشوق یعنی خدا کے لیے کامل اخلاص اور محبت اور جان فدا کرنے والا جوش اپنے اندر رکھتا ہے اور تضرع اور ابتہال اور ثابت قدمی سے اس کے حضور میں قائم ہوتا ہے۔دنیا کی کوئی لذت اس کے لیے لذت نہیں ہوتی۔اس کی روح اسی عشق میں پرورش پاتی یہ۔معشوق کی طرف سے استغنا دیکھ کر وہ گھبراتا نہیں۔اس طرف سے خاموشی اور بے التفاتی بھی معلوم کر کے وہ کبھی ہمت نہیں ہارتا بلکہ ہمیشہ قدم آگے ہی رکھتا ہے اور دردِ دل زیادہ سے زیادہ پیدا کرتا جاتا ہے۔ان دونوں ثیزوں کا ہونا ضروری ہے کہ مومن عاشق کی طرف سے محبتِ الٰہی میں پورا استغراق ہو۔عشق کمال ہو۔محبت میں سچا جوش اور عہد عشق میں ثابت قدمی ایسی کوٹ کوٹ کے بھری ہو کہ جس کو کوئی صدمہ جنبش میں نہ لا سکے اور معشوق کی طرف سے کبھی کبھی بے پروا ہی اور خاموشی ہو۔دد دو قسم کا موجود ہو۔ایک تو وہ جو اﷲ تعالیٰ کی محبت کا درد ہو۔دوسرا وہ جو کسی کی مصیبت پر دل میں درد اُٹھے اور خیر خواہی کے لیے اضطراب پیدا ہو۔اور اس کی اعانت کے لیے بے چینی پیدا ہو۔خدا تعالیٰ کی محبت کے لیے جو اخلاص اور درد ہوتا ہے اور ثابت قدمی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے‘ وہ انسان کو بشریت سے الگ کر کے الوہیت کے سایہ میں لاڈالتا ہے۔جب تک اس کی حد تک درد اور عشق نہ پہنچ جائے کہ جس میں غیر اﷲ سے محویت حاصل ہو جائے اس وقت انسان خطرات میں پڑا رہتا ہے۔ان خطرات کا استیصال بغیر اس امر کے مشکل ہوتا ہے کہ انسان غیر اﷲ سے بکلی منقطع ہو کر اسی کا ہو جائے اور اُس کی رضا میں داخل ہونا بھی محال ہوتا ہے اور اس کی مخلوق کے لیے ایسا درد ہونا چاہیے جس طرح ایک نہایت ہی مہربان والدہ اپنے ناتواں پیارے بچے کے لیے دل میں سچا جوشِ محبت رکھتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ سے تعلق کے لیے محویت کی ضرورت
خد اتعالیٰ ایک تعلق چاہتا ہے اور اس کے حضور میں دعا کرنے کے لیے تعلق کی ضرورت ہے۔بغیر تعلق کے دعا نہیں ہوسکتی۔پہلے بزرگوں کی بھی اس قسم کی باتیں چلی آئی ہیں کہ جن سے دعا کرنے والوں کو دعا کرانے سے پہلے تعلق ثابت کر نے کی تاکید کی۔خواہ نخواہ بازار میں چلے ہوئے کسی بے تعلق کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تو میرا دوست ہے او نہ ہی اس کے لیے دردِ دل پیدا ہوتاہے۔اور نہ ہی جوش دعا پیدا ہوسکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ سے تعلق اس طرح نہیں ہوسکتا کہ انسان غفلت کا ریوں میں مبتلا بھی رہے اور صرف منہ سے دم بھرتارہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیا ہے۔اکیلے بیعت کا اقرار اور سلسلہ میں نام لکھ لینا ہی خد اتعالیٰ سے تعلق پر کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔اﷲ تعالیٰ سے تعلق کے لیے ایک محویت کی ضرورت ہے۔ہم بار بار اپنی جماعت کو اس بات پر قائم ہونے کے لیے کہتے ہیں ۔کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اﷲ تعالیٰ کے لیے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا۔بعض صوفیوں نے لکھا ہے کہ صحابہؓ جب نماز یں پڑھا کرتے تھے تو انہیں ایسی محویت ہوتی تھی کہ جب فارگ ہوتے تو ایک دوسرے کو پہچان بھی نہ سکتے تھے۔جب انسان کسی اور جگہ سے آتا ہے تو شریعت نے حکم دیا ہے کہ وہ آکر السلام علیکم کہے۔نماز سے فارغ ہونے پر السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہنے کی حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص نے نماز کا عقد باندھا اور اﷲ اکبر کہا تو اوہ گویا اس عالم سے نکل گیا اور ایک نئے جہان میں جا داخلہوا۔گویا ایک مقامِ محویت میں جا پہنچا۔پھر جب وہان سے واپس آیا تو السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہہ کر آن ملا۔لیکن صرھ ظاہری صورت کافی نہیں ہوسکتی جب تک دل میں اس کا اثر نہ ہو چھلکوں سے کیا ہاتھ آسکتا ہے۔محض صورت کا ہوان کافی نہیں ۔حال ہونا چاہیے۔علت غائی حال ہی ہے۔مطلق قال اور صورت جس کے ساتھ حال نہیں ہوتا وہ تو اُلٹی ہلاکت کی راہیں ہیں۔انسان جب حال پیدا کر لیتا ہے اور پانے حقیقی خالق و مالک سے ایسی سچی محبت اور اخلاص پیدا کر لیتا ہے کہ بے اختیار اس کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے اور ایک حقیقی محویت کا عالم اس پر طاری ہو جاتا ہے، تو اس وقت اس کیفیت سے انسان گویا سلطان بن جاتا ہیذرہ ذرہ اس کا خادم بن جاتا ہے۔
مجھے تو اﷲ تعالیٰ نے ایسی محویت دی تھی کہ تمام دنیا سے الگ ہو بیٹھا تھا۔تمام چیزیں سوائے اس کے مجھے ہرگز بھاتی نہ تھیں۔میں ہرگز ہر گز حجرہ سے باہرقدم رکھنا نہیں چاہتا تھا۔میں نے ایک لمحہ کے لیے بھی شہرت کو پسند نہیں کیا۔میں بالکل تنہائی میں تھا اور تنہائی ہی مجھ کو بھاتی تھی۔شہرت اور جماعت کو جس نفرت سے میں دیکھتا تھا اس کو خدا ہی جانتا ہے۔میں تو طبعاً گمنامی کو چاہتا تھا اور یہی میری آرزو تھی۔خدا تعالیٰ نے مجھ پر جبر کر کے اس سے مجھے باہر نکالا۔میری ہرگز مرضی نہ تھی مگر اس نے میری خلاف ِ مرضی کیا کیونکہ وہ ایک کام لینا چاہتا تھا۔اسی کام کے لیے اس نے مجھے پسند کیااوراپنے فضل سے مجھ کو اس عہدہ جلیلہ پر مامور فرمایا۔یہ اسی کا اپنا انتخاب اور اکم ہے۔میرا اس میں کچھ دخل نہیں۔میں تو دیکھتا ہوںکہ میری طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے کہ شہرت اور جماعت سے کوسوں بھاگتی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ کس طرح شہرت کی آرزو رکھتے ہیں۔میری طبیعت اور طرف جاتی تھی لیکن خدا تعالیٰ مجھے اور طرف لے جاتا تھا۔میں نے بار بار دعائیں کیں کہ مجھے گوشہ میں ہی رہنے دیا جاوے۔مجھے میری خلوت کے جھرے میں ہی چھوڑ دیا جائے۔لیکن بار بار حکم ہوا کہ اس سے نکلو اور دین کا کام جو اس وقت سخت مصیبت کی حالت میں تھا، اس کو سنوارو۔انبیاء کی طبیعت اسی طرح واقع ہوتی ہے کہ وہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی۔ہمارے نبی کریم ﷺ بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے۔آپ عبادت کرنے کے لیے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غارِ حرا تھی چلے جاتے تھے۔یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان اس میں جانے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔لیکن آپ نے اس کو اس لیے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے بھی نہ پہنچے گا۔آپ بالکل تنہائی چاہتا تھے۔شہرت کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے۔مگر خدا تعالیٰ کا حکم ہوا۔
یا یھا المدثر قم فانذر (المدثر : ۲ -۳)
اس حکم میں ایک جبر معلومہوتا ہے اور اسی لیے جبر سے حکم دیا گیا کہ آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی اب چھوڑدیں۔بعض لوگ بیوقوفی اور حماقت سے یہی خیال کرتے ہیں کہ گویا میں شہرت پسند ہوں۔میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ میں ہرگزشہرت پسند نہیں۔خدا تعالیٰ نے جبر سے مجھ کو مامور کیا ہے۔میرا اس مٰں قصور کیا ہے اور وہی گواہ ہے کہ میں شہرت پسند نہیں ہوں۔میں تو دنیا سے ہزاروں کوس بھاگتا تھا۔حاسد لوگوں کی نظر چونکہ زمین اور اس کی اسیاء تک ہی محدود ہوتی ہے اور وہ دنیا کے کیڑے ہیں اور شہرت پسند ہوتے ہیں۔ان کو اس خلوت گزینی اور بے تعلقی کی کیفیت ہی معلوم نہیں ہوسکی۔ہم تو دنیا کو نہیں چاہتے۔اگر وہ چاہیں اور اس پر قدرت رکھتے ہیں تو سب دنیا لے جائیں ہمیں ان پر کوئی گلہ نہیں۔ہمارا ایمان تو ہمارے دل میں ہے نہ دنیا کے ساتھ۔ہماری خلوت کی ایک ساعت ایسی قیمتی ہے کہ ساری دنیا اس ایک ساعت پر قربان کرنا چاہیے۔اس طبیعت اور کیفیت کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔مگر ہم نے خدا تعالیٰ کے امر پر جان و مال و آبرو کو قربان کر دیا ہے۔جب اﷲ تعالیٰ کسی کے دل میں تجلی کرتا ہے تو ھپر وہ پوشیدہ نہیں رہتا۔عاشق اپنے عشق کو خواہ کیسی ہی پوشیدہ کرے، مگر بھید پانے والے وار تاڑنے اولے قرائن اور آثار اور حالات سے پہچان ہی جاتے ہیں۔عاشق پروحشت کی حالت نازل ہوجاتی ہے۔اُداسی اُس کے سارے وجود پر چھا جاتی ہے۔الگ قسم کے خیالات اور حالات اس کے ظاہر ہو جاتے ہیں۔وہ اگر ہزاروں پردوں میں چھپے اور اپنے آپ کو چھپالے مگر چھپا نہیں رہتا۔سچ کہا ہے ؎
عشق و مشک رانتواں نہفتن
جن لوگوں کو محبتِ الیہی ہوتی ہے وہ اس محبت کو چھپاتے ہیں جس سے اُن کے دل لبریز ہوتے ہیں بلکہ اس کے افشاء پر وہ شرمندہ ہوتے ہیں،کیونکہ محبت اور عشق ایک راز ہے جو خدا اور ا سکے بندے کے درماین ہوتا ہے اور ہمیشہ راز کا فاش ہونا شرمندگی کا موجب ہوتا ہے۔کوئی رسول نہیں آیا جس کا راز خدا تعالیٰ سے نہیں ہوتا۔اسی راز کو چھپناے کی خواہش اس کے اندر ہوتی ہے مگر معشوق خود اس کو فاش کرنے پر جبر کرتا ہے اور جس بات کو وہ نہیں چاہتے وہی اُن کو ملتی ہے جو چاہتے ہیں ان کو ملتا نہیں اور جو نہیں چاہتے وہی ان کو جبراًملتا ہے۔
جب تک انسان ادنیٰ حالت میں ہوت اہے اس کے خیالات بھی ادنیٰ ہی ہوتے ہیں اور جس قدر معرفت میں گرا ہوا ہوتا ہے اسی قدر محبت میں کمی ہوتی ہے۔معرفت سے حُسن ظن پیدا ہوتا ہے۔ہر شخص میں محبت اپنے ظن کی نسبت سے ہوتی ہے۔
انا عند ظن عبدی بی
سے یہی تعلیم ملتی ہے۔صادق عاشق جو ہوتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ اس کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔خدا تعالیٰ تو وفاداری کرنا پسند کرتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان صدق دکھلاوے اور اس پر ظن نیک رکھے کہ تا وہ بھی وفا دکھلائے مگر یہ لوگ کب اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔یہ تو اپنی ہوا و ہوس کے بتوں کے آگے جھکے رہتے ہیں اور ان کو نظر دنیا تک ہی ہوتی ہے۔اﷲ تعالیٰ کو کریم و رحیم نہیں سمجھتے۔اس کے وعدوں پر ذرہ ایمان نہیں رکھتے۔اگر اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان رکھتے کہ وہ کریم و رحیم ہے تو وہ بھی اُن پر رحمت اور وفا کے ثبوت نازل کرتا ؎
گر وزیر از خدا بتر سیدے
ہمچناں کز ملک ملک بودے
اﷲ تعالیٰ سے بد ظنی مت کرو
شر بدظنی سے پیدا ہوتا ہے۔قرآن شریھ کو اول سے آخر تک پڑھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے بدظنی مت کرو۔اﷲ تعالیٰ کا ساتھ نہ ثھوڑو۔اسی سے مدد مانگو۔اﷲ تعالیٰ ہر میدان میں مومن کی مدد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں میدان میں تیرے ساتھ ہوں وہ اس کے لیے ایک فرقان پید اکر دیتا ہے جو اس کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کرتا وہ بدظنی کرتا ہے۔جو خدا تعالیٰ سے نیک طن کرتا ہے وہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جو اﷲ تعالیٰ سے بدظنی کرتا ہے‘ وہ مجبور ہتوا ہے کہ اپنے لیے کوئی دوسرا معبود بنائے اور شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جب انسان اس بات کو سمجھتا ہے کہ خدا کریم و رحیم ہے اور بات پر ایمان صدق دل سے لاتا ہے کہ اس کے وعدے ٹلنے کے نہیں تو وہ اس پر جان فدا کرتا ہے اور دربردہ خدا تعالیٰ سے عشق رکھتا ہے۔ایسا انسان خدا تعالیٰ کا چہرہ اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے۔خدا تعالیٰ طرح طرح سے اس کی مدد کرتا ہے اور اپنے انعامات اس پر نازل کرتا ہے ارو اس کو تسلی بخشتا ہے اور محبت اور وفا کا چہرہ دکھاتا ہے لیکن بے وفا غدار ہمیشہ محروم رہتا ہے۔؎ٰ
۲۱؍مئی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
طاعون اور الہام انہ اوی القریۃ
بوقت ایک بجے بمقام کچہری گورداسپور درخت جامن کے نیچے بیٹھے ہوئے حکیم نور محمد صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا تھا کہ آپ لوگ احمدی جماعت کے جو یہ کہتے ہیں کہ طاعون سے ہم بچے رہیں گے اس کی وجہ کیا ہے؟ حکیم صاحب نے اس کے جواب میں جو کچھ اس نے تقریر کی تھی۔وہ سنائی پھر اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے
وان من قریۃ الا نحن مھلکو ھا قبل یوم القیامۃ او معذبو ھا
عذابا شدیدا (بنی اسرائیل : ۵۹)
یعنی طاعون کا عذاب دو طرح پر ہوگا کوئی بستی اس سے خالی نہیں رہے گی۔بعض تو ایسی ہوں گی کہ جن کو ہم بالکل ہلاک کر دیں گے یعنی وہ اُجڑ کر بالکل گیر آباد ہو جائیں گی اور ویرانہ اور ٹھہ (اُجڑے ہوئے کھنڈرات) ہو جائیں گی۔اُن کا کوئی نشان بھی نہ رہے گا۔لوگ تلاش کرتے پھریں گے کہ اس جگہ فلاں بستی آباد تھی لیکن پھر بھی پتہ نہ ملے گا۔گویا طاعون وہاں جاروب دیکر اس کو دنیا سے صاف کر دے گی اور کوئی آثار اس کے نہ چھوڑے گی۔بعض قریئے ایسے ہوں گے کہ جن کو کم و بیش عذاب کر کے چھوڑ دیا جائے گا۔اور صفحہ دنیا سے اُن کا نام نہ مٹایا جائے گا۔صرف سرزنش کے طور پر کچھ عذاب اُن میں نازل کیا جائے گا اور تازیانہ کر کے عذاب ہٹالیا جائے گا۔دوسرے بہت سے شہر ھنا ہوں گے،مگر وہ فنا نہ ہوں گے۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے قادیان کو اسی قسم میں شامل کیا ہے۔اور اس الہام
انہ اوی القریۃ
سے مراد یہی ہے کہ اور بستیوں کی طرح ہمارے گائوں کو طاعون جارف بالکل تباہ نہ کرے گی کہ لوگ تلاش کرتے پھریں کہ کہاں قادیان واقع تھی۔اﷲ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ان بستیوں کی طرح خدا اس کو تباہ نہ کرے گا بلکہ یہ بچی رہے گی الا بطور تازیانہ کچھ سزا دے کر اُس کو بچا لیا جائے گا۔ہم نے بار بار مجلسوں میں بیان کیا ہے اور لکبھا ہے کہ
انہ اوی القریۃ
سے یہ مراد ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس قریہ کو پناہ دے دی ہے کہ وہ طاعون جارف سے بچی رہے اور بالکل فنا نہ ہو۔خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ نہیں کیا کہ باوجود گنہگار نوہے کے اﷲ تعالیٰ بغیر عذاب کے چھوڑدے۔ایک طرھ تو قرآن میں یہ کہ طاعون سے کوئی بستی خالی نہیں رہے گی ارو طاعون کی وجہ صرف یہی ہے جو
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر واما بانفسہم (الرعد : ۱۲)
کے الہام سے ظاہر ہے یعنی جب لوگوں نے اپنے افعال اور اعمال سے غضبِ الیہی کے جوش کو بھڑ کایا اور بدعملیوں سے اپنی حالتوں کو ایسا بدل لیا کہ خوف خدا اور تقویٰ و طہارت کی ہر ایک راہ کو چھوڑ دیا اور بجائے اس کے طرح طرح کے فسق و فجور کو اختیار کر لیا اور خدا تعاسلیٰ پر ایمان سے بالکل ہاتھ دھودیا۔دہریت اندھیری رات کی طرح دنیا پر محیط ہو گئی اور اﷲ تعالیٰ کے نورانی چہرے کو ظلمت کے نیچے دبا دیا تو خدا تعالیٰ نے اس عذاب کو نازل کیا تا لوگ خد اتعالیٰ کے چہرے کو دیکھ لیں اور اس کی طرھ رجوع کریں۔بعض بستیان مھلکوھا میں داخل نہ ہوگی۔یہی مراد الہام
انہ اوی القریۃ
سے ہے۔گناہوں کی طرزنش کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے یہاں بھی طاعون نازل فرمائی۔خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے
لو لا الاکرام لھلک المقام۔
یعنی قدیان مھلکوھا میں داخل کر دیا جاتا ،لیکن صرف تمہاری تکریم اور تعظیم سے اس کو مھلکوھا میں داخل نہیں کیا گیا۔جو بچے ہیں اور جو بچیں گے وہ تمہارے اکرام کی وجہ سے بچیں گے۔یہ تو قرآن کے بالک مخالھ یہ کہ قادیان عذاب طاعون سے بالکل محفوظ رہے۔ایک طرف تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما بانفسہم (الرعاد : ۱۲)
دوسری طرف
انہ اوی القریۃ
کے اگر یہ معنے ہوں کہ قادیان بالکل بچ گئی تو ان دونوں کے درمیان تضاد واقع ہوتا ہے۔دو ضدین جمع نہیں ہو سکتیں۔ہم نے کبھی
انہ اوی القریۃ
کے یہ معنی نہیں سمجھے ۔طاعون تو دنای کی ہر ایک بستی میں آئے گی۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ جہاں کسی نے دعویٰ کی کہ فلاں مقام میں طاعون نہیں تو اسی جگہ ظاہر ہو جاتی ہے۔دہلی والوں نے بڑے زور سے لکھ اتھا کہ دو وجوہ سے وہاں طاعون نہیں آتی اور نہ آئے گی۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں کے لوگ بہت صفائی رکھتے ہیں۔دوسرے مچھروں کا واہں نہ ہونا۔اب گزٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی طاعون آگئی۔لاہور کی نسبت کہا جاتا تھا کہ اس کی سرزمین میں ایسے زجزاء ہیں کہ اس میں طاعونی کیڑے زندہ نہیں رہ سکتے۔لیکن وہان بھی طاعون نے آن ڈیرا ڈالا ہے۔ابھی لوگوں کو معلوم نہیں ہے لیکن سالہا سال کے بعد لوگ دیکھیں گے کہ کیا ہوگا۔کئی لوگ اور دیہات بھی بالکل تباہ ہو جائیں گے۔
Amira 11-6-05
دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ جائے گا اور اُن کے آثار تک باقی نہ رہیں گے، لیکن یہ حالت کبھی قادیان پر وارد نہ ہوگی۔یہ ایک لمبی بیماری ہے عمروں تک چلی جاتی ہے۔بڑے بڑے قطعے اس نے برباد کر کے جنگل کر دیئے۔شہروں کے شہر ویرانے بنادیئے۔سینکڑوں کوس ایسے غیر آباد کئے کہ جانور بھی زندہ نہ رہے۔اس کے آگے تو بڑے بڑے شہر بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتے۔بڑے سے بڑے آباد شہر کو بھی اگر چاہے تو دو تین دن میں صاف کر سکتی ہے۔؎ٰ
۳۱؍مئی ۱۹۰۴ء
تقریر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام
بمقام گورداسپور-اضری مولوی الٰہی بخش صاحب آمدہ از بنارس
جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے تو لوگ عموماً اس کی طرف سے بے پرواہی کرتے ہیں اور اکابر اور علماء کو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ کرنا عیب سمجھتے ہیں۔مگر اﷲ تعالیٰ غنی ہے اور مرسل اور مامور چونکہ ایک خدمت پر اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مقرر ہوتے ہین۔وہ بھی بے پروا ہوتے ہیں اور اپنے آپ کا محتاج نہیں سمجھتے بلکہ جیسے وہ ذات الٰہی کا مظہر ہوتے ہیں۔ایسے ہی اسی ذات سے غنا کا حصہ بھی لیتے ہیں۔ہر ایک شخص جو مامور بن کر دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس کو ایک خاص قسم کی ہمت اور حوصلہ عطا کیا جاتا ہے۔اور عزم میں ایک بے روک حزم اور استقلال عطا کیا جاتا ہے۔یہ لوگ بڑا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ہم اپنی طرف سے کسی پر اثر نہیں ڈال سکتے۔انسان تو ایک انسان پر اثر نہیں ڈال سکتا۔
یہ محض اﷲ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ہزار ہا بلکہ لاکھوں آدمیوں کو کھینچے لیے آتا۔یہاں کسی بناوٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔چوبیس برس سے زیادہ ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے الہام کیا تھا کہ
ینصرک رجال نو حی الیھم من السماء۔یا تیک من کل فج عمیق۔یا تون من کل فج عمیق۔
ولا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس۔
یعنی ہم لوگوں کے دل میں وحی کر دیں گے اور وہ تیری مدد کریں گے بڑے بڑے دور دراز راہوں سے تیرے پاس لوگ آئیں گے تم خلق کے ہجوم سے جو تیرے گرد جمع ہوگی۔تنگ مت آنا اور لوگوں سے تھکنا مت۔یہ ایسے وقت کی باتیں ہیں جب میں بالکل گمنام تھا۔اور کوئی آدمی میرے ساتھ نہ تھا۔میرے گائوں سے باہر کوئی بھی مجھے جانتا نہ تھا اور کوئی انسان اس بات پر یقین نہیں لا سکتا تھا کہ ایسی کشش لوگوں کو ہوگی کہ وہ قادیان جیسی گمنام بستی میں دور دراز سے کھنچے چلے آئین گے سو ہم دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے کلمات کس طرح صفائی سے پورے ہو رہے ہیں۔ایسے ایسے علاقوں سے لوگ آتے ہیں کہ جہاں ہمارے وہم و گمان میں بھی ہماری تبلیغ کا نام و نشان نہیں ہوتا اور اس عقیدت اور اخلاص سے آتے ہیں کہ ہم کو اُن کے اخلاص و عقیدت پر رشک آتا ہے۔
اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے مجھ کو فرمایا ہوا ہے کہ
اذا جاء نصر اﷲ والفتح وانتھی امر الزمان الینا۔ألیس ھذا بالحق۔
یعنی عنقریب ایک زمانہ آنیوالا ہے کہ تجھے اﷲ تعالیٰ نصرت اور فتح دیگا اور ہماری طرف زمانہ کا امر انتہا پاوے گا تو ا سوقت کہا جاوے گا کیا یہ سچ نہیں؟ یعنی اس سلسلہ کی صداقت پر زمانہ گواہی دے اُٹھے گا۔ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ لوگ تیری ترقی کے روکنے کی کوشش کریں گے لیکن ہم تیری مدد کریں گے اور دشمن تیری راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں گے مگر ہم اُن کو دور کریں گے اور وہ تیرے نابود کرنے کے منصوبے کریں گے۔سو ہم دیکھتے ہیں کہ چوبیس برس کی پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں۔ہر ایک شخص جو ہمارے پاس آتا ہے وہ اس پیشگوئی کو پورا کرتا ہے۔
ہمارا سارا دار و مدار دعا پر ہے
ہمارا تو سارا دار و مدار ہی دعا پر ہے۔دعا ہی ایک ہتھیار ہے جس سے مومن ہر کام میں فتح پاسکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے مومن کو دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے بلکہ وہ دعا کا منتظر رہتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری دعائوں کو خاص فضل سے قبول فرماتا ہے۔دعا سے انسان ہر ایک بلا اور مرض سے بچ جاتا ہے۔ہم نے ایک دفعہ ایک اخبار پڑھا تھا کہ ایک تھا نیدار کے ناخن میں پنسل کا ایک ٹکڑا کسی طرح سے چبھ گیا۔پنسل میں کچھ زہر بھی ہوتا ہے۔تھوڑی دیر میں اس کے ہاتھ میں ورم ہونا شروع ہو گیا۔بڑھتے بڑھتے ورم اس قدر بڑھ گیا کہ کہنی تک جا پہنچا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سہ چند بوجھ ہو گیا۔فوراً ڈاکٹر کو بلا یا گیا۔ڈاکٹر نے کہا کہ اس بازو میں زہر اثر کر گیا ہے۔تم اگر اس کو کٹانے پر راضی ہو تو جان بچ جائے گی؛ ورنہ نہیں۔وہ تھانیدار کٹانے پر راضی نہ ہوا۔اس کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں وہ مر گیا ہمارے بھی ایک دفعہ اسی طرح ناخن میں پنسل لگ گئی۔ہم سیر کرنے گئے تو دیھکا کہ ہمارے ہاتھ میں بھی ورم ہونا شروع ہوگیا ہے۔تو ہمیں وہ قصہ یاد آگیا۔میں نے اسی جگہ سے دعا شروع کر دی۔گھر پہنچنے تک برابر دعا ہی کرتا رہا تو دیکھتا کیا ہوں کہ جب میں گھر پہنچا تو وَرم کا نام و نشان تک بھی نہ تھا۔پھر میں نے لوگوں کو دکھایا اور سارا قصہ بیان کیا۔
اسی طرح ایک دفعہ میرے دانت کو سخت درد شورع ہو گیا۔میں نے لوگوں سے ذکر کیا تو اکثر نے صلاح دی کہ اس کو نکلوادیان بہتر ہے۔میں نے نکلوانا پسند نہ کیا اور دعا کی طرف رجوع کیا تو الہام ہوا
واذا مرضت فھو یشفینی۔
اس کے ساتھ ہی مرض کو بالکل آرام ہو گیا۔اس بات کو قریباً پندرہ سال ہو گئے ہیں۔
خدا تعالیٰ صالحین کا متولی ہوتا ہے
اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے ایمان کے موافق اسباب سے نفرت ہو جاتی ہے۔جس قدر ایمان کامل ہوتا ہے۔اسی قدر اسباب سے نفرت ہوتی جاتی ہے۔حقیقت میں دیکھا گیا ہے کہ دنیابڑے دھوکے میں پڑی ہوئی ہے۔جن باتوں کو اپنی ترقی کے ذرائع سمجھی بیٹھی ہے۔اصل میں وہی ذلت کا موجب ہوتی ہے۔دنیاوی عزت بڑھانے اور عروج و مالداری حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے فریب و دجل اور دھوکے استعمال کرتے ہیںاور طرح طرح کی بے ایمانیوں سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔انہیں مکاریوں کو اپنی مرادوں کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں۔یہاںنتک کہ بڑے فجر سے اپنی کامیابیوں کا دوستوں میں ذکر کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں لیکن اگر نظر انصاف اور معرفت سے دیکھ اجاوے تو انکے یہ طریق کوئی راحت نہیں بخشتے۔جب پوچھو تو شاکی اور نالاں ہی نظر آتے ہیں اور کبھی راحت اور طمانیت اُن کے حال سے ظاہر نہیں ہوتی۔طمانیت کی رئویت بجز فضل خدا کے نہیں ہوتی۔جب تک انسان اﷲ تعالیٰ پر کامل ایمان نہیں رکھتا اور اس کے وعدوں پر سچا یقین نہیں کرتا اور ہر ایک مقصود کا دینے والا اسی کو نہیں سمجھتا اور کامل اصلاح اور تقویٰ اختیار نہیں کر لیتاتو اس وقت تک وہ حقیقی راحت دستیاب نہیں ہوسکتی۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وھو یتولی الصالحین (الاعراف : ۱۹۷)
یعنی جو صلاحیت اختیار کرتے ہیں خدا تعالیٰ اُن کا متولی ہو جاتا ہے۔انسان جو متولی رکھتا ہے اس کے بہت بوجھ کم ہو جاتے ہیں۔بہت ساری ذمہ داریاں گھٹ جاتی ہیں۔بچپن میں ماں بچے کی متولی ہوتی ہے،تو بچے کو کوئی فکر اپنی ضروریات کا نہیں رہتا۔وہ خود ہی اس کی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے۔اس کے کپڑوں اور کھانے پینے کے خود ہی فکر میں لگی رہتی ہے۔اس کی صحت قائم رکھنے کا دھیان اسی کو رہتا ہے۔اس کو نہلاتی اور دھلاتی ہے اور کھلاتی اور پلاتی ہے۔یہانتک کہ بعض وقت اس کو مار کر کھنا کھلاتی ہے اور پانی پلاتی اور کپڑا پہناتی ہے۔بچہ اپنی ضرورتوں کو نہیں سمجھتا بلکہ ماں ہی اس کی ضرورتوں کو خوب سمجھتی اور اُن کو پورا کرنے کے خیال میں لگی رہتی ہے۔اسی طرح جب مان کی تولیت سے نکل آئے تو انسان کو بالطبع ایک متولی کی ضرورت پڑتی ہے۔طرح طرح سے اپنے متولی اور لوگوں کو بناتا ہے جو خود کمزور ہوتے ہیں اور اپنی ضروریات میں غلطاں ایسے ہوت یہیں کہ دوسرے کی خبر نہیں لے سکتے ،لیکن جو لوگ ان سب سے منقطع ہو کر اس قسم کا تقویٰ اور اصلاح اختیار کرتے ہیں ان کا وہ خود متولی ہو جاتا ہے اور ان کی ضروریات اور حاجات کا خود ہی کفیل ہو جاتا ہے۔انہیں کسی بناوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔وہ اس کی ضروریات کو ایسے طور سے سمجھتا ہے کہ یہ خود بھی اس طرح نہیں سمجھ سکتا اور اس پر اس طرح فضل کرتا ہے کہ انسان خود حیران رہتا ہے۔گرنہ ستانی بہ ستم مے رسد۔والی نوبت ہوتی ہے۔لیکن انسان بہت سے زمانے پالیتا ہے۔جب اس پر ایسا زمانہ آتا ہے کہ خد ااس کا متولی ہو جائے یعنی اس کو خد اتعالیٰ کی تولیت حاصل کرنے سے پہلے کئی متولیوں کی تولیت سے گذرنا پڑتا ہے۔جیس اکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
قل اعوذ برب الناس۔ملک الناس الہ الناس۔من شر الوسواس الخناس۔الذی یوسوس
فی صدور الناس۔من الجنۃ والناس۔ (الناس : ۲ تا ۷)
پہلے حاجت ماں باپ کی پڑتی ہے۔پھر جب بڑا ہوتا ہے تو بادشاہوں اور حاکموں کی حاجت پڑتی ہے پھر جب اس سے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جن کو میں نے متولی سمجھا ہوا تھا وہ خود ایسے کمزور تھے کہ ان کو متولی سمجھنا میری غلطی تھی کیونکہ انہیں متولی بنانے میں نہ تو میری ضروریات ہی حاصل ہو سکتی تھیں اور نہ ہی وہ میرے لیے کافی ہو سکتے تھے۔پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے ارو ثابت قدمی دکھانے سے خدا تعالیٰ کو اپنا متولی پاتا ہے۔اس وقت اس کو بری راحت حاصل ہوتی ہے اور ایک عجیب طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔خصوصاً جب خدا کسی کو خود کہے کہ میں تیرا متولی ہوا تو اس وقت جو راحت اور طمانیت اس کو حاصل ہوتی ہے وہ ایسی حالت پیدا کرتی ہے کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔یہ حالت تمام تلخیوں سے پاک ہوتی ہے۔دنیاوی حالتوں میں انسان تلخی سے خالی نہیں ہو سکتا۔دشتِ دنیا کانٹوں اور تلخیوں سے بھری ہوئی ہے ؎
دشتِ دنیا جزدر و جز دام نیست
جز بخلوت گاہِ آرام نیست
جن کا اﷲ تعالیٰ متولی ہو جاتا ہے ۔وہ دنیا کے آلام سے نجات پا جاتے ہیں اور ایک سچی راحت اور طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں۔اُن کے لیے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
ومن یتق اﷲ یجعل لہ مخر جا۔ویر زقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق : ۳‘۴)
جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے ہر ایک بلا اور اَلم سے نکال لیت اہے اور اس کے رزق کاخود کفیل ہو جاتا ہے اور ایسے طریق سے دیتا ہے کہ جو وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔
دنیا میں کئی قسم کے جرائم ہوتے ہیں۔بعض جرائم قانون کی حد میں آسکتے ہیں اور بعض قانون کی حد میں بھی نہیں آسکتے۔گناہ‘ خون اور نقب زنی وغیرہ جب کرتا ہے تو اُن کی سزا قانون سے پاسکتا ہے۔لیکن جھوٹ وغیرہ جو معمولی طور پر بولتا ہے یا بعض حقوق کی رعایت نہیں رکھتا وغیرہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کے لیے قانون تدارک نہیں کرتا۔لیکن اﷲ تعالیٰ کے خوھ سے اور ا سکو راضی کرنے کے لیے جو سخص ہر ایک بدی سے بچتا ہے اس کو متقی کہتے ہیں یہ وہی متقی ہے جس کی آج عدالت میں بحث تھی۔ایک مولوی عدالت میں ازطرف کرم دین مستغیث گواہ تھا اور اس پر جرح تھی۔اثنائے جرح میں اس نے بحلھ بیان کیا کہ ایک شخص زنا بھی کرے‘ جھوٹ بولے یا خیانت کرے۔دغاد ے۔فریب کرے۔وغیرہ وغیرہ تو پھر بھی وہ متقی ہی رہتا ہے۔اﷲ تعالیٰ تو متقی کے لیے وعدہ کرتا ہے کہ
من یتق اﷲ یجعل لہ مخرجا (الطلاق : ۳)
یعنی جو اﷲ تعالیٰ کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہے تو ہر مشکل سے اﷲ تعالیٰ اس کو رہائی دے دیت اہے۔لوگوں نے تقویٰ کے چھوڑنے کے لیے طرح طرح کے بہانے بنا رکھے ہیں۔بعض کہتے ہین کہ جھوٹ بولے بغیر ہمارے کاروبار نہیں چل سکتے اور دوسرے لوگوں پر الزام لگاتے ہیں کہ اگر سچ کہا جائے تو وہ لوگ ہم پر اعتبار نہیں کرتے۔پھر بعض لوگ ایسے ہیں ۔جو کہتے ہیں کہ سود لینے کے بغیر ہامرا گذارہ نہیں ہو سکتا ۔ایس یلوگ کیونکر متقی کہلاسکتے ہیں۔خد اتعالیٰ تو وعدہ کرتا ہے کہ میں متقی کو ہر ایک مشکل سے نکالوں گا۔اور ایسے طور سے رزق دوں گا جو گمان اور وہم میں بھی نہ آسکے۔اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو لوگ ہماری کتاب پر عمل کریں گے ان کو ہر طرف سے اوپر سے وار نیچے سے رزق دوں گا۔پھر فرمایا ہے کہ
فی السماء رزقکم (الذریت : ۲۲۳)
جس کا مطلب یہی ہے کہ رزق تمہارا تمہاری اپنی محنتوں اور کوششوں اور منصوبوں سے وابستہ نہیں۔وہ اس سے بالاتر ہے۔یہ لوگ ان وعدوں سے فائدہ نہٰں اُٹھاتے اور تقویٰ اخیتار نہیں کرتے۔جو شخص تقویٰ اختیار نہیں کرتا وہ معاصی میں غرق رہتا ہے اور بہت ساری رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔لکھ اہے کہ ایک ولی اﷲ کسی شہر میں رہتے تھے ان کی ہمسائگت میں ایک دنیادار بھی رہتا تھا۔ولی ہر روز تہجد پڑھا کرتا تھا۔ایک دفعہ دنیادار کے دل میں خیال آیا کہ یہ شخص جو ہر روز تہجد پڑھا کرتا ہے میں بھی تہجد پڑھوں ۔غرض یہی ارادہ مصمم کرکے وہ ایک رات اُٹھا اور تہجد کی نماز پڑھی۔اس کو تہجد پڑھنے سے اس قدر تکلیف ہوئی کہ کمر میں درد شروع ہو گیا۔اس ولی اﷲ کو خبر ملی کہ رات اُن کے دنیادار ہمسایہ نے تہجد کی نماز پڑھی تھی تو اس کے سبب سے اس کے کمر میں درد ہونے لگا ہے۔وہ عیادت کے لیے آیا اور اُس سے حال پوچھا ۔دنیادار نے کہا کہ میں آپ کو دیکھا کرتا تھا کہ آپ ہر رات تہجد پڑھتے ہیں۔میرے خیال میں بھی آیا کہ میں بھی تہجد پڑھوں۔سو آج رات میں تہجد پڑھنے اُٹھا اور یہ مصیبت مجھ پر آگئی۔اس نے جواب میں کہا کہ تجھے اس فضول سے کیا؟ پہلے چاہیے تھا کہ تو اپنے آپ کو صاف کرتا اور پھر تہجد کا ارادہ کرتا۔اﷲ تعالیٰ کی اجابت بھی متقین کے لیے ہے؛ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
انما یتقبل اﷲ من المتقین (المائدۃ : ۲۸)
در حقیقت جب تک انسان تقویٰ اختیار نہ کرے اس وقت تک اﷲ تعالیٰ اس کی طرف رجوع نہیں کرتا۔اﷲ تعالیٰ کی ذات میں بے نظیر صفات ہیں۔جو لوگ ا سکی راہ پر چلتے ہیں انہیں کو اس سے اطلاع ملتی ہے اور وہی اس سے مزہ پاتے ہیں۔خدا تعالیٰ سے رشتہ میں اس قدر شیرینی اور لذت ہوتی ہے کہ کوئی پھل ایسا شیریں نہیں ہوتا۔خدا تعالیٰ سے جلدی کوئی شخص خبر گیراں نہیں ہوسکتا ۔پھر جس کا خدا متولی ہو جاتا ہے، اس کو کئی فائدے ہوتے ہیں۔ایک تو وہ طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ راحت پاتا ہے جو کسی دنای دار کو نصیب ہونا نا ممکن ہے اور ایسی لذت پاتا ہے جو کہیں دوسری جگہ نصیب نہیں ہوسکتی۔اور اس کا متولی ایسا زبردست ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک مشکل سے بہت جلدی نکالتا اور خبر گیری کرتا ہے۔یہ لوگ بالکل بے ہودہ جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں۔جھوٹی باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔نماز اگر پڑھتے ہیں تو ریاء کیلئے پڑھتے ہیں۔وہ نماز جو آنحضرت ﷺ نے سکھلائی تھی وہ نہینں پڑھتے۔ یہ وہ نماز ہے جس کے پڑھنے سے انسنا ابدال میں داخل ہو جاتا ہے۔گناہ اس کے دور ہو جاتے ہیں۔دعائیں قبول ہوتی ہیں۔انسعان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔
احسب الناس ان یترکو اانیقولو اامنا وھم لا یفتنون (اعنکبوت : ۳)
لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں،کافی ہے۔اور کوئی امتحانی مشکل پیش نہ آئے گی۔یہ بالکل غلط خیال ہے۔اﷲ تعالیٰ مومن پر ابتلاء بھیج کر امجحان کرتا ہے۔تمام راستبازوں سے خدا تعالٰٰ کی یہی سنت ہے وہ مصائب اور شدائد میں ضرور ڈالے جاتے ہیں۔
انقطاع الیاﷲ
مصائب بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک تو وہ مصائب ہیں جو زیرِ سایۂ شریعت ہوتے ہیں۔انسان احکام کی تعمیل کے لیے انقطاع حاصل کرنا چاہتا ہے ارو اس طرف ہر ایک دنیاوی تعلق میں جو کشش ہے وہ اس کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔بیوی‘بچے، دوست دنیاداری کی رسوم کے تعلقات چاہت یہیں کہ ہماری کشش اس پر ایسی ہو کہ وہ ہماری طرف کھنچا چلا اآوے اور ہم میں ہی محو رہے۔تعمیلِ احکام کی کشش ان سے انقطاع کا تقاضا کرتی ہے۔ان سب کا چھوڑنا ایک موت کا سامنا ہوتا ہے۔
ہمارا یہ مطلب تو نہیں کہ ان سب کو اس طرح چھوڑے کہ ان سے کوئی تعلق ہی نہ رکھے۔ایک طرف بیوی بیوائوں کی طرح ہو جائے اور بچے یتینوں کی طرح ہو جائیں۔قطع رحم ہو جائے بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ بیوی بچوں کا پورا تعہد کرے۔اُن کی پرورش پورے طور سے کرے اور حقوق ادا کرے۔صلہ رحم کرے۔لیکن دل اُن میں اور اسباب دنیا ممیں نہ لگا دے۔دل با یار و ست بکار رہے؛ اگر چہ یہ بات بہت نازک ہے مگر یہی سچا انقطاع ہے جس کی مومن کو ضرورت ہے۔وقت پر خدا تعالیٰ کی طرف ایسا آجاوے کہ گویا وہ ان سے کواراہی تھا۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی نسبت لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ صاحب نے ایک دفعہ سوال کیا کہ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا ۔ہاں۔حضرت امام حسین ؑ نے اس پر بڑ اتعجب کیا او رکہا کہ ایک دل میں دو محبتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں۔پھر حضرت امام حسین ؑ نے کہا کہ وقت مقابلہ پر آپ کس سے محبت کریں گے۔فرمایا اﷲ سے۔غرض انقطاع اُن کے دلوں میں مخفی ہوت اہے اور وقت پر ان کی محبت صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے رہ جاتی ہے۔مولی عبد الطیف صاحب نے عجیب نمومن انقطاع کا دکھلایا ۔جب اُنہیں گرفتار کرنے آئے تو لوگوں نے کہا کہ آپ گھر سے ہو آویں۔آپ نے فرمایا کہ میرا اُن سے کیا تعلق ہے۔خدا تعالیٰ سے میرا تعلق ہے سو اُس کا حکم آن پہنچا ہے۔میں جاتا ہوں۔ہر چیز کی اصلیت امتحان کے وقت ظاہر ہوتی ہے۔اصحابِ رسول اﷲ سب کچھ رکھتے تھے۔زن و فرزند اور اموال و اقارب سب کچھ اُن کے موجود تھے۔عزتیں اور کاروبار بھی رکھتے تھے،مگر اُنہوں نے اس طرح شہادت کو قبول کیا کہ گویا شیریں پھل انہیں میسر آگیا۔وہ اﷲ تعالیٰ کے لیے موت کو پسند کرتے ایک طرف تعہد حقوقِ عیال و اطفال میں کمال دکھیا اور دوسری طرف ایسا انقطاع کہ گویا وہ بالکل کورے تھے۔یہانتک کہ اﷲ تعالیٰ کے لیے موت کو پسند کرتے کبھی نامردی نہ دکھاتے بلکہ آگے ہی قدم رکھتے۔ایسی محبت سے وہ آنحضرت ﷺ کے قدموں میں جان دیتے تھے کہ بیوی بچوں کو بلا جیسی سمجھتے تھے۔اگر بیوی بچے مزاحم ہوں تو اُن کو دشمن سمجھتے تھے اور یہی معنی انقطاع کے ہیں۔آج کل کے رہبانوں کی طرح نہیں کہ بالکل بیوی بچے سے تعلق چھوڑدے اور سارے جہان سے ایک طرف ہو اجئے۔آسمان پر رہبانیت کے انقطاع کی کچھ قدر نہیں۔صوفی منقطعین بھی نمونے دکھاتے رہے ہیںکہ بازن و فرزندااور باخدا رہے ہیں۔پھر جب وقت آیا تو زن و فرزند کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کی طرف ہوگئے۔وہ لوگ اﷲ تعالیٰ کی طرف منقطع ہوت یہیں۔حضرت ابراہیم ؑ کا حال دیکھئے کیا انقطاع کا نمونہ ان سے ظاہر ہوا۔جو اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ضائع کرنا چاہت اہے اﷲ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا اور اس کا نشنا دنای سے معدوم نہیں کرتا۔میرا مطلب یہ ہے کہ لوگ اﷲ تعالیٰ سے ایسا اخلاص ظاہر کریں اور اس قدر کوشش کریں کہ اﷲ تعالیٰ اُن سے راضی ہو جائے۔
Amira 12-6-05
دوست دوست سے راضی نہیں ہو سکتا جب تک اس کے لیے وفاداری ظاہر اور ثابت نہ ہو۔کسی کے دو خد متگار ہوں۔ایک وفادار اور مخلص ثابت ہو اور اپنے فرائض کو نہ رسم و رواج اور دبائو سے بلکہ پوری محبت اور اخلاص سے ادا کرے اور دوسرا ایسا ہو جو بے دلی اور رسمی طور پر کچھ کام کرے تو اُن میں سے مالک اسی پہلے پر راضی ہو گا اور اسی کی باتوں کو سنے گا اور اسی پر اعتبار کرے گا اور وفادار ہی کو پیار کرے گا۔
فیج اعوج کے زمانہ میں تعصب بڑھ گیا ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
من عاد ا ولیا لی فعادالی۔
ان لوگوں کو یہ خیال نہیں کہ ان کے تعصب نے ان کو خدا تعالیٰ سے بالکل دور کر دیا ہے۔ایک زمانہ آنیوالا ہے کہ جس قدر ہم لوگ ہیں وہ سب نہ ہوں گے۔رسمی نمازوں سے خدا تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔دنیا کے دوست بھی صرف الفاظ سے نہیں بنتے۔اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔اسلام کا لفظ ہی مسلمان بناتے ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی رضا اور حکموں پر گردن جھکائی جاوے۔یہ لقب کسی اور ملت کو نہیں دیا گیا۔اس اُمت پر یہ اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔اسلام جس بات کو چاہتا ہے وہ اسی جگہ سے اسلام کے ذریعہ سے حاصل ہو جاتا ہے۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمٰن : ۴۷)
خدا کے دیدار کے واسطے اسی جگہ سے حواس ملتے ہیں۔
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی۔ (بنی اسرائیل : ۳ ۷)
جو یہاں خدا نہیں دیکھتا وہ وہاں بھی نہیں دیکھ سکے گا۔؎ٰ
یکم جون ۱۹۰۴ء (قبل از شام)
دعا
دعا کی مثال ایک چشمۂ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے۔وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے ۔جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیّاش کا کامل درجہ کا سرور جو اُسے کسی بدمعاشی میں میسر آسکتا ہے۔ہیچ ہے۔بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے۔دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاتا اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔جب مومن کی دعا میں پورااخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے۔تو خد اکو بیھ اس پر رحم آجاتا ہے اور اس کا متولی ہو جاتا ہے۔اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الٰہی تولی کے بغیر انسنای زندگی قطعاً تلخ ہو جاتی ہے۔دیکھ لیجئے جب انسان حد بلوغت کو پہنچتا ہے اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگتا ہے تو نامرادیوں ناکامیابیوں اور قسام قسم کے مصائب کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔وہ اُن سے بچنے کیلئے طرح طرح کی کوششیں کرتا ہے۔دولت کے ذریعہ اپنے تعلق حکام کے ذریعہ، قسام قسم کے حیلہ و فریب کے ذریعہ وہ بچائو کے راہ نکالتا ہے،لیکن مشکل ہیکہوہ اس میں کامیاب ہو۔بعض وقت اس کی تلخ کامیوں کا انجام خود کشی ہو جاتی ہے۔اب اگر ان دنیاداروں کے غموم و ہموم اور تکالیف اک مقابلہ اہل اﷲ یا انبیاء کے مصائب کے ساتھ کیا جاوے تو انبیاء علیہم السلام کے مصائب بمقابل اول الذکر جماعت کے مصائب بالکل ہیچ ہیں لیکن یہ مصائب و شدائد اس پاک گروہ کو رنجیدہ یا محزون نہیں کرسکتے۔اُن کی خوشحالی اور سرور میں فرق نہیں آتا۔کیونکہ وہ اپنی دعائوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تولی میں پھر رہے ہیں۔
استقامت ایک معجزہ ہے
دیکھو اگر ایک شخص کا ایک حاکم سے تعلق ہواور مثلاً اس حاکم نے اسے اطمینان بھی دیا ہو کہ وہ اپنے مصائب کے وقت اس سے استعانت کر سکتا ہے تو ایسا شخص کسی ایسی تکلیھ کے وقت جس کی گرہ کشائی اس حاکم کے ہاتھ میں ہے عام لوگوں کے مقابل کم درجہ رنجیدہ اور غمناک ہوتا ہے تو پھر وہ مومن جس کا اس قسم کا بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوط تعلق احکم الحاکمین سے ہو۔وہ کب مصائب و شدائد کے وقت گھبراوئے گا۔انبیاء علیہم السلام پر جو مصیبتیں آتی ہیں اگر ان کا عشر عشیر بھی ان کے غیر پر وارد ہو تو اس میں زندگی کی طاقت باقی نہ رہے۔یہ لوگ جب دنیا میں بغرض اصلاح آتے ہیں تو اُن کی کل دنیا دشمن ہو جاتی ہے۔لاکھوں آدمی اُن کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں لیکن یہ خطر ناک دشمن بھی اُن کے اطمینان میں خلل انداز نہیں ہوسکتے۔اگر ایک شخص کا ایک دشمن بھی ہو تو وہ کسی لمحہ بھی اس کے شر سے امن میں نہیں رہتا۔چہ ئائیکہ ملک کا ملک اُن کا دشمن ہو اور پھر یہ لوگ باامن زندگی بسر کریں۔ان تمام تلخ کامیوں کو ٹھنڈ ے دل سے برداشت کر لیں۔یہ برداشت ہی معجزہ و کرامت ہے۔رسول اکرم ﷺ کی استقامت اُن کے لاکھوں معجزوں سے بڑھ کر ایک معجزہ ہے۔کل قوم کا ایک طرف ہونا۔دولتق‘ سلطنت‘ دنیوی و جاہت، حسینہ جمیلہ بیویاں وغیرہ سب کچھ کے لالچ قوم کا اس شرط پر دینا کہ وہ اعلائے کلمۃ اﷲ لاالہ الا اﷲ سے رک جاویں۔لیکن ان سب کے مقابل جناب رسالمتآبؐ کا قبول کرنا اور فرمانا کہ میں اگر اپنے نفس سے کرتا تو یہ سب باتیں قبول کرتا۔میں تو حکمِ خدا کے ماتحت یہ سب کچھ کر رہا ہوں اور پھر دوسری طرھ سب تکالیف کی برداشت کرنا یہ ایک فوق الطاقت معجزہ ہے۔یہ سب طاقت اور برداشت اُس دعا کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جو مومن کو خد اتعالیٰ نے عطا کی ہے۔ان لوگوں کی درد ناک دعا بعض وقت قاتلوں کے سفا کانہ حملہ کو توڑ دیتی ہے۔حضرت عمرؓ کا آنحضرت ﷺ کے قتل کے لیے جانا آپ لوگوں نے سنا ہوگا۔ابو جہل نے ایک قسم کا اشتہار قوم میں دے رکھا تھا کہ جو جناب رسالتمآب کو قتل کرے گا وہ بہت کچھ انعام و اکرام کا مستحق ہوگا۔حضرت عمرؓ نے مشرف باسلام ہونے سے پہیل ابو جہل سے معاہدہ کیا اور قتل حضرت کے لیے آمادہ ہو گیا۔اس کو کسی عمدہ وقت کی تلاش تھی۔دریافت پر اُسے معلوم ہوا کہ حضرت نصف شب کے وقت خانہ کعبہ میں بغرض نماز آتے ہیں۔یہ وقت عمدہ سمجھ کر حضرت عمرؓ سر شام خانہ کعبہ میں جا چھپے ۔آدھی رات کے وقت جنگل میں سے لاالہ الا اﷲ کی آواز آنا شروع ہوئی۔حضرت عمرع نے ارادہ کیا کہ جب آنحضرت ﷺ سجدہ میں گریں تو اس وقت قتل کروں۔آنحضرت ﷺ نے درد کے ساتھ مناجات شروع کی اور سجدہ میں اس طرح حمد ِ الٰہی کا ذکر کیا کہ حضرت عمرؓ کا دل پسیج گیا۔اس کی ساری جرأت جاتی رہی اور اس کا قاتلانہ ہاتھ سست ہو گیا۔نماز ختم کر کے جب آنحضرت ﷺ گھر کو ثلے تو اُ۲ن کے بیچھے حضرت عمرؓ ہو گئے۔آنحضرت ﷺ نے آہٹ پا کر دریافت کیا اور معلومہونے پر فرمایا کہ اے عمر کیا تو مریا پیچھا نہ چھوڑے گا۔حضرت عمرؓ بد دعا کے ڈر سے بول اُٹھے کہ حضرت ؐ میں نے آپ کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا ۔میرے حق میں بد دعا نہ کیجئے گا؛ چنانچہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ وہ پہلی رات تھی جب مجھ میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی۔
سو میرے نزدیک شق القمر کا معجزہ ایسا زبردست معجزہ نہیں جیسے رسول پاکؓ کی استقامت ایک معجزہ ہے۔اس میں شک نہیں کہ ضرورتِ وقت کے لحاظ سے انبیاء علیہم السلام معجزہ دکھلاتے ہیں اور وہ نور و ہدایت اپنے اندر رھکتے ہیں۔لیکن ان سب معجزات سے بڑھ کر استقامت ایک معجزہ ہے۔آج چوبیس سال مجھ پر گذر گئے جب میں نے دعویٰ وحی و الہام کیا۔جو لوگ میرے پاس دن رات بیٹھتے ہیں وہ دیکھتے ہیں اور گواہ اس بات کے ہیں کہ کس طرح خد اتعالیٰ ہر روز مجھے اپنے کلام سے مشرف کرتا ہے اور کس طرح جو مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے وہ پور اہوتا ہے۔اب کیا منیں ہر روز افتراء کرتا ہوں؟ اور خداتعالیٰ بھی اس قدر صابر ہے کہ ایسے مفتری کو مہلت دے رہاہے۔پیغمبر صاحب کو تو یہ حکم کہ اگر تو ایک افتراء مجھ پر باندھتا تو میں تیری رگِ گردن کاٹ دیتا جیسے کہ آیت
لو تقول علینہ بعض الاقادویل لا خدنا منہ بالیمین ۔ثم لقطعنا منہ الوتین (الحاقۃ ۴۵ تا ۴۷)
سے ظاہر ہوتا ہے اور یہاں چوبیس سال سے روزانہ افتراء خدا تعالیٰ پر ہو اور خدا اپنی سنتِ قدیمہ کو نہ بَرتے۔بدی کرنے میں جھوٹ بولنے میں کبھی مداومت اور استقامت نہیں ہوتی۔آخر کار انسان دروغ کو چھوڑ ہی دیتا ہے۔لیکن کیا میری ہی فطرت ایسی ہو رہی ہے کہ میں چوبیس سال سے اس جھوٹ پر قائم ہوں اور برابر چل رہا ہوں اور خدا تعالیٰ بھی بالمقابل خاموش ہے ارو بالمقابل ہمیشہ تائیدات پر تائیدات کر رہا ہے۔پیشگوئی کرنا یا علم غیب سے حصہ پانا کسی ایک معمولی ولی کا بھی کام نہیں ۔یہ نعمت تو اس کو عطا ہوتی ہے جو حضرت احدیت مآب میں خاص عزت اور وجاہت رکھتا ہے۔اب دیکھ لیا جاوے کہ خد اتعالیٰ نے کس قدر پیشگوئیاں میرے ہاتھ پر پوری کیں۔براہین احمدیہ اور اس میں جو میرے آئندہ حالات درج ہیں ان کو دیکھ اجاوے اور پھر میرے آجکل کے حالات کو دیکھا جاوے کہ وہ تمام کس طرح پورے ہوئے۔پھر جو جو نشانات مسیح موعود کے زمانہ کے آثار ہیں، موجود ہیں۔وہ کس طرح اس زمانہ میں پورے ہو گئے۔رمضان میں کسوف خسوف کا ہونا۔ریل کا جاری ہو کر اونٹنیوں کا حجاز میں بھی بند ہو جانا، طاعون کا نمودار ہونا۔یہ سب علامات ہیں جو زمانہ مہدی کے ساتھ مختص ہیں۔یہ خدا تعالیٰ نے کیوں پورے کیے؟ کیا ایک کذات اور مفتری علی اﷲ کی رونق افزائی کے لیے جو چوبیس سال سے برابر افتراء باندھ رہا یہ۔آخر میں میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ عمر کا کوئی بھروسہ نہیں۔یہ وقت ہے اس کو غنیمت سمجھا جاوے۔یہ خد اتعالیٰ کے نشان ہیں۔ان سے منہ موڑنا خد اتعالیٰ کی حکم عدولی ہے۔دیکھو ایک مجازی حاکم کا پیادہ اگر آجاوے اور پیادہ جس حکم کو لاتا ہے اُس کی پروا نہ کی جاوے، تو پھر یہ حکم عدولی کیسے بدنتائج پیدا کرتی ہے۔؛چہ جائیکہ خدا تعالیٰ کی حکم عدولی۔دنیا میں جب کبھی کوئی خد اتعالٰٰ کا مرسل آوے گا وہ انسنا ہی ہوگا۔اس کے اوضاع و اطوار انسانوں والے ہی ہوں گے۔آخر فرشتہ کو تو نہیں آنا۔یہ لوگ اس کے لوازم انسانیت سے گھبرا جاتے ہیں اور اُن کی آنکھوں کے سمانے ایک حجاب ہے جو اس کے جامۂ نبوت کو چھپائے ہوئے ہے لیکن یہ حجاب ضروری ہے جس میں ہر ایک نبی مستور ہوتا ہے۔مبارک ہے وہ جو اس حجاب کے اندر اُس شخص کو دیکھ لے۔؎ٰ
ابتدائے جون ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
تعدّد ازدواج۔مقصد اور حدود
ایک احمدی نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعدّد ازدواج میں جو عدک کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت
الرجال قو امون علی النساء (النساء : ۳۵)
کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویسا سلوک اس کرے یا کچھ اور معنی ہیں۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ:
محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے۔مثلاً پارچہ جات۔خرچ خوراک۔معاشرت حتیٰ کہ مباشرت میں بھی مساوات بَرتے۔یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوارہنا پسند کرے۔خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی اُن کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے۔ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے،تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔تعدّد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کامیلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کر لے،لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے۔تو رات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اُس کی دلداری زیدہ کرے،کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق جاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہانتک کرنی چاہیے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواجِ ثانی کی محسوس ہو،لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اُس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لیے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔
اس قدر ذکر ہوا تھا کہ ایک صاحب نے اُٹھ کر عرض کی کہ البدر؎ٰ اور الحکم اخباروں میں تعدّد ازدواج
کی نسبت جو کچھ لکھاگیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ذمہ دوسرا نکاح حضور نے فرض کر
دیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ :
ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں۔قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو۔
Amira 13-6-05
اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو، لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا۔اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے۔دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بڑے نازک ہوتے ہیں۔جب والدین اُن کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالہ کرتے ہیں،تو خیال کرو کہ کیا امیدیں اُن کے دلون میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان
عاشرو ھن بالمعروف (النساء : ۲۰)
کے حکم سے ہی کرسکتا ہے۔اگر انسان کا سلوک اپنی بیوی سے عمدہ ہو اور اسے ضرورتِ شرعی پیدا ہو جاوے تو اس کی بیوی اس کے دوسرے نکاحوں سے ناراض نہیں ہوتی۔ہم نے اپنے گھر میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ ہمارے نکاح والی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لیے رورو کر دعائیں کرتی ہیں۔اصل بات یہ ہیکہ بیویوں کی ناراضگی کا باعث خاوند کی نفسانیت ہوا کرتی ہے اور اگر اُن کو اس بات کا علم ہو کہ ہمارا خاوند صحیح اغراض اور تقویٰ کے اصول پر دوسری بیوی کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ کبھی ناراض نہیں ہوتیں۔فساد کی بنا تقویٰ کی خلاف ورزی ہوا کرتی ہے۔
خدا تعالیٰ کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہیے اور نہ اُس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہیے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے۔یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے، خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو، بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو۔اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کے لیے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔زنا کا نام ہی گناہ نہیںبلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے۔دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہیے،تا کہ
فلیضحکواقلیلا ولیبکواکثیرا۔ (التوبہ : ۸۲)
یعنی ہنسور تھوڑا اور روئو بہت کا مصداق بنو، لیکن جس شخص کی دنیاوی تمتع کثرت سے ہیں اور رات دن بیویوں میں مصروف ہے۔اُس کو رقت ارو رونا کب نصیب ہوگا۔اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیںا رو اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دور جا پڑتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے اگر چہ بعض اشیاء جائز تو کر دی ہیں،مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے۔خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے
یبیتون لربھم سجداوقیاما (الفرقان : ۶۵)
کہ وہ اپنے رب کے لیے تمام رات سجدہ اور قیام میں گذارتے ہیں۔اب دیکھو۔رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے۔وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لیے شریک پیدا کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے آپ ساری ساری رات خد اتعالیٰ کی عبادت میں گذارے تھے ۔ایک رات آپؐ کی باری عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس تھی۔کچھ حضہ رات کا گذرگیا تو حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلی۔دیکھ اکہ آپ موجود نہیں۔اُسے شبہ ہوا کہ شائد آپ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں اُس نے اُٹھ کر ہر ایک گھر میں تلاش کیا،مگر آپؐ نہ ملے۔آخر دیکھ اکہ آپؐ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رو رہے ہیں۔اب دیکھو کہ آپؐ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھور کر مردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپؐ کی بیویان حظ نفس ای اتباعِ شہوت کی بنا پر ہوسکتی ہیں؟۔
غرضکہ جوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کا صال منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں۔اور تقویٰ کی تکمیل کے لیے اگر ضرورت حقہ پیش آوے تو اور بیوی کر لو۔آنحضرت ﷺ کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا کہ ایک ابار حضرت عمرؓ آپؐ سے ملنے گئے۔ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی۔آنحضرت ﷺ ایک کھجور کی چٹائی پ رلیٹے ہوئے تھے۔جب حضرت عمرؓ اندر آئے تو آپؐ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔حضرت عمرؓ نے دیکھ اکہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے۔ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپؐ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپؐ کی پُشت مبارک پر بنے ہوئے تھے۔حضرت عمرؓ اعن کو دیکھ کر ور پڑے۔آپؐ نے پوچھا۔اے عمرؓ ! تجھ کو کس چیز نے رلایا؟ عمرؓ نے عرض کی کہ کسریٰ اور قیصر تو تنعم کے اسباب رکھیں اور آپؐ جو خد اتعالیٰ کے رسول اور دو جہان کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔اے عمرؓ مجھے دنیا سے کیا غرض ؟ میں تو اس مسافر کی طرح گذارہ کرتا ہوں جو اُونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو۔ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں سستا لے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ پھر چل پڑے۔جس قدر نبی اور رسول ہوئے سب نے دوسرے پہلو (آخرت) کو ہی مد نظر رکھا ہوا تھا۔
پس جاننا چاہیے کہ جو شخص شہوات کی اتباع سے زیادہ بیویاں کرتا ہے وہ مغزِ اسلام سے دور رہتا ہے۔ہر ایک دن جو چڑھتا ہے اور رات جو آتی ہے اگر وہ تلخی سے زندگی بسر نہیں کرت ااور روتاکم یا بالکل ہی نہیں روتا او ہنستا زیادہ ہے تو یاد رہے کہ وہ ہلاکت کا نشانہ ہے۔استیفاء لذت اگر حلال طو رپر ہو تو حرج نہیں۔جیسے ایک شخص ٹٹو پر سوار ہے اور راستہ میں اُسے نہاری وغیرہ اس لیے دیتاہے کہ اس کی طاقت قائم رہے اور وہ منزل مقصود تک اُسے پہنچادے جہاں خدا تعالیٰ نے سب کے حقوق رکھے ہیں وہاں نفس کا بھی حق رکھا ہے کہ وہ عبادات بجالاسکے۔
لوگوں کے نزدیک چوری زنا وغیرہ، ہی گناہ ہیں اور اُن کو یہ معلوم نہیں کہ استیفاء لذات میں مشغول ہونا بھی گناہ۔اگر ایک شخص اپنا اکثر حصہ وقت کا تو عیش و آرام میں بسر کرت اہے اور کسی وقت اُٹھ کر چار ٹکریں بھی مار لیتا ہے۔(یعنی نماز پڑھتا ہے) تو وہ نمرودی زندگی بسر کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی ریاضت اور مشقت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے فرماتا کہ کیا تو اس محنت میں مر جائے گا؛ حالانکہ ہم نے تیرے لیے بیویاں بھی حلال کی ہیں۔یہ خدا تعالیٰ نے آپؐ کو ایسے ہی فرمایا جیسے ماں اپنے بچے کو پڑھنے یادوسرے کا م میں مستغرق دیکھ کر صحت کے قیام کے لحاظ سے اُسے کھیلنے کودنے کی اجازت دیتی ہے۔خدا تعالیٰ کا یہ خطاب اسی غرض سے ہے کہ آپ تازہ دم ہوکر پھر دین کی خدمت میں مصروف ہوں۔اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ آپ شہوات کی طرف جھک جاویں۔ نادان معترض ایک پہلو کو تو دیکھتے ہیں اور دوسرے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔پادریوں نے اس بات کی طرف کبھی غور نہیں کی کہ آنحضرت ﷺ کا حقیقی میلان کس طرف تھا اور رات دن آپؐ کس فکر میں رہتے تھے۔بہت سے ملا اور عام لوگ ان باریکیوں سے ناواقف ہیں۔اگر اُن کو کہا جاوے کہ تم شہوات کے تابع ہو تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم حرام کرتے ہیں؟ شریعت نے ہمیں اجازت دی ہے تو ہم کرتے ہیں۔ان کو اس بات کا علم نہیں کہ بے محل استعمال سے حلال بھی حرام ہو جاتا ہے۔
ماخلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات : ۵۷)
سے ظاہر ہے کہ انسان صرف عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔پس اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے جس قدر چیز اُسے درکار ہے۔اگر اُس سے زیادہ لیتا ہے تو گو وہ شئے حلال ہی ہو مگر فضول ہونے کی وجہ سے اس کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔جو انسان رات دن نفسانی لذات میں مصروف ہے وہ عبادت کا کیا حق ادا کر سکتا ہے۔مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک تلخ زندگی بسر کرے لیکن عیش و عشرت میں بسر کرنے سے تو وہ اس زندگی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکتا ۔
ہمارے کلام کا مقصد یہ ہے کہ دونوں پہلوئوں کا لحاظ رکھا جاوے۔یہ نہیں کہ صرف لذات کے پہلو پر زور دیا جاوے اور تقویٰ کو بالکل ترک کر دیا جاوے۔اسلام نے جن کاموں اور باتوں کو مباح کہا ہے اس سے یہ غرض ہر گز نہیں ہے کہ رات دن اس میں مستغرق رہے۔صرف یہ ہے کہ بقدر ضرورت وقت پر اُن سے فائدہ اُٹھایا جاوے۔
اس مقام پر پھر وہی صاحب بولے کہ اس سے تو یہ نتیجہ نکلا کہ تعدّد ازواج بطو ردوا کے ہے نہ بطور غذا کے۔
حضور ؑ نے فرمایا ۔ہاں۔
اس پر انہوں نے عرض کی کہ ان اخبار والوںنے تو لکھا ہے کہ احمدی جماعت کو بڑھانے کے لیے زیادہ بیویاں کرو۔
حضورؑ نے فرمایا کہ :
ایک حدیث میں یہ ہیکہ کثرت ازدواج سے اولاد بڑھائو تا کہ اُمت زیادہ ہو۔اصل بات یہ ہے کہ
انما الاعمال بالنیات۔
انسان کے ہر عمل کا مداراس کی نیت پر ہے۔کسی کے دل کو ثیر کر ہم نہیں دیکھ سکتے۔اگر کسی کی یہ نیت نہیں ہے کہ زیادہ بیویاں کر کے عورتوں کی لذات میں فنا ہو بلکہ یہ ہے کہ اس سے خادم دین پیدا ہوں تو کیا حرج ہے۔لیکن یہ امر بھی مشروط بشرائط بالا ہے۔مثلاً اگر ایک شخص کی چار بیویاں ہوں اور ہر سال ہر ایک سے ایک ایک اولاد ہو تو چار سال میں سولہ بچے ہوں گے، مگر بات یہ ہے کہ لوگ دوسرے پہلو کو ترک دیتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ صرف ایک پہلو پر ہی زور دیا جاوے؛ حالانکہ ہمارہ یہ منصب ہرگز نہیں ہے۔قرآن شریف میں متفرق طور پر تقویٰ کا ذکر آیا ہے، لیکن جہاں کہیں بیویوں کا ذکر ہے وہان ضرور ہی تقویٰ کا بھی ذکر ہے۔ادائیگی حقوق ایک بری ضروری شئے ہے اسی لیے عدل کی تاکید ہے۔اگر ایک شخص دیکھتا ہے کہ وہ حقوق کو ادا نہیں کر سکتا یا اس کی رجولیت کے قویٰ کمزور ہیں یا خطرہ ہو کہ کسی بیامری میں مبتلا ہو جائیتُسے چاہیے کہ دیدہ دانستہ اپنے آپ کو عذاب میں نہ الے۔تقویٰ یعنی شرعی ضرورت جو اپنے محل پر ہو اگر موجود ہو تو پہلی بیوی خود تجویز کرتی ہے کہ جاوند اور نکاح کر لے۔
آخری نصیحت ہامری یہی ہے کہ اسلام کو اپنی عیا شیوں کے لیے سپر نہ بنائو کہ آج ایک حسین عورت نظر آئی تو اُسے کر لیا۔کل اور نظر آئی تو اُسے کر لیا۔یہ تو گویا خد اکی گدی پر عورتون کو بٹھانا اور اُسے بھلادینا ہوا۔دین تو چاہتا ہیکہ کوئی زخم دل پر ایسا رہے جس سے ہر وقت خدا تعالیٰ یاد آوے ورنہ سلب ایمان کا خطرہ ہے۔اگر صحابہ کرامؓ عورتیں کرنے والے اور انہیں میں مصروف رہنے اولے ہوتے تو اپنے سر جنگوں میں کیوں کٹواتے؛ حالانکہ اُن کا یہ حال تھا کہ ایک کی انگلی کٹ گئی تو اُسے مخاطب ہو کے کہا کہ تو ایک انگلی ہی ہے اگر کٹ گئی تو کیا ہوا۔مگر جو شب و روز عیش و عشرت میں مستغرق ہے وہ کب ایسا دل لا سکت اہے۔آنحضرت ﷺ نمازوں میں اس قدر روتے اور قیام کرتے کہ آپؐ کے پائوں پر وَرم ہو جاتا۔صحابہؓ نے عرض کی کہ خدا تعالیٰ نے آپؐ کے تمام گناہ بخش دیئے ہیں پھر اس قدر مشقت اور رونے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں۔؎ٰ
۴؍جون ۱۹۰۴ء
نماز میں دعا ہے ایک شخص کے سوال پر فرمایا کہ :
نماز اصل میں دعا ہے۔نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے۔اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لیے تیار رہے،کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے۔ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اُٹھاتا ہوں۔مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں۔میں بہت رحم کرتا ہوں۔بیکسوں کی امداد کرتا ہوں۔لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے۔اس کے پاس سے گذرتا ہے اور اس کی ند اکی پروا نہیں کرتا نہ اپنی مشکل کا بیان کر کے طلبِ امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہوگا۔یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسنا کو آرام دینے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے، قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے۔کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پید اہوتی ہے۔
الیٰ ربک یومئذ المستقر (القیامۃ : ۱۳)
اس آیت کو قیامت پر چسپاں کرنا غلطی ہے کیونکہ اس ن تو خدا کی طرف رجوع کرنا کسی کام نہ آویگا۔بلکہ یہ اس زمانہ کی حالت ہے کہ طاعون کے بارے میں خواہ کوئی حیلہ حوالہ کریں ہرگز کام نہ آوے گا۔آخر مستقر خدا تعا لیٰ ہی ہوگا۔لوگ جب اس کو مانیں گے۔تب وہ اس سے رہائی دے گا۔
این المفر (القیامۃ : ۱۱)
بھی اس پرچسپاں ہے۔کیونکہ دوسرے آفات میں تو کوئی نہ کوئی مفر ہوتا ہے،مگر طاعون میں کوئی مفر نہیں ہے۔صرف خدا تعالیٰ کی پناہ ہی کام آویگی۔
خدا تعالیٰ کی طرف ظلم کبھی منسوب نہیں ہوسکتا جو صادق ہوگا۔وہ ضرور اپنے صدق سے نفع پاوے گا۔یہ وہی دن ہیں جن کی نسبت کہا گیا ہے؎ٰ۔
ھذا یوم ینفع الصادقین صدقہم (المائدۃ : ۱۲۰)
Amira 14-6-05
حقیقی تہذیب
صنعت و حرفت مین دسترس حاصل کرنے، سیر و سیاحت میں قوم کے افراد کو مشگول رہنے۔لنڈن ہو آنے، مشنوں میں ترقی کرنے وغیرہ کو آج کل تہذیب کے نام سے نامزد کیا جاتا ہے۔اور جب کسی قوم میں یہ باتیں ہوں تو اسے ایک مہذب قوم کہتے ہیں یہ ذکر ایک صاحب نے حضرت اقدسؑ کی مجلس میں آج کیا۔
اس پر آپؐ نے فرمایا کہ :
جس قوم میں راستی کا پیار نہیں۔اعمال میں للّٰہیت نہیں اورریاکاری اور خود پسندی اس کا شیوہ ہے، اُسے مہذب نہین کہہ سکتے۔تہذیب کے اصول اخلاص، صدق اور توحید ہیں۔وہ سوائے اسلام کے اور کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتے۔عیسائیوں کو اخلاق کا بڑا ناز ہے، مگر ان کی جو بات دیکھو اسی میں گناہ ہے۔کوئی عمل ہو اس میں ریاکاری ضرور ہے؛ حالناکہ خلق وہ ہے جو للہ ہو۔خدا تعالیٰ کی عظمت، اس پر ایمان اور نوع انسان کی خدمت یہ باتیں خلق کی ہیں۔لیکن یہاں خدا کی جگہ تو ایک یسوع نامی کو دیدی گئی ہے اور مخلوق کے ساتھ جو معاملہ ہے وہ ظاہر ہے۔بات یہ ہے کہ جب خدا کو شناخت ہی نہیں کیا، تو اس پر نظر رکھ کر کسی کی خدمت کیا کرسکتے ہیں؟ سچے خلق کا برتائو بہت مشکل ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک قویٰ کو برمحل برتا جاوے اور خد اسے ڈر کر وہ اپنی حد پر رہیں۔لیکن ایمان کے سوا یہ باتیں حاصل نہیں ہوتیں۔ثواب اس کو ملا کرتا ہے جو خدا تعالیٰ سے ڈر کر گناہ کو چھوڑتا ہے یا اس کو راضی کرنے کی محنت برداشت کرکے ایک نیکی کو کرتا ہے۔اور جب تک یہ نیت نہیں ہوتی۔تب تک ہرگز ثواب نہیں ملتا؛ اگر چہ وہ کام بذات خود نیک ہی ہو۔ہند و لوگ بتون کی خاطر کیا کیا کرتے ہیں۔کتنی محنتیں اٹھاتے ہیں مگر سب کی سب رائیگاں جاتی ہیں۔؎ٰ
۱۹؍جون ۱۹۰۴ء بوقت ظہر
متقی کون ہے؟
ایک مولوی صاحب جن کے والد بزرگوار احمدی جماعت میں داخل تھے اور بقضائے الٰہی فوت ہو گئے۔علاقہ گوجرانوالہ سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ان کو حضرت اقدس سے ارادت حاصل نہ تھی اور نہ اپنے والد مرحوم کو صراط مستقیم پر سمجھتے تھے۔چند احباب کی تحریک سے وہ بحث و مباحثہ کی غرض لے کر یہاں آئے تھے۔حضرت اقدس کے روبرو تو ان کی کوئی کلام ہم نے نہ سنی۔حضرت مولوی نورالدین صاحب البتہ کلام کرتے رہے۔جس میں نو وارد مولوی صاحب نے یہ کہا کہ ہمارے نزدیک بہت سے متقی ہیں کہ جنہوں نے مرزا صاحب کو نہین مانا اور چونکہ ہم ان کو متقی اور راستباز تسلیم کرتے ہیں ،اس لیے ہم بھی نہیں مانتے۔حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے ا سکا جواب یہ دیا کہ اگر کوئی ایسا شخص ہے کہ جو ضد اور تعصب وغیرہ سے تو پاک ہے اور سچی ارادت سے حق کا طالب ہے اس لیے کسی شخص کو متقی مان کر اس کی تقلید سے وہ حضرت امام علیہ السلام کا منکر ہے تو وہ میرے نزدیک وہ اس وقت تک معذور ہے جبتک کہ اﷲ تعالیٰ اس پر حقیقت کو واضح نہ کردے، کیونکہ مؤاخذہ کے لیے ضروری ہے کہ
قد تبین الرشد من الغی۔ (البقرہ : ۲۵۷)
ہو۔اور خد اتعالیٰ فرماتا ہے۔
لیھلک من ھلک عن بینۃ ویحیی من حی عن بینۃ (الانفال : ۴۳)
جو ہلاک ہو وہ بھی بین آیات دیکھ کر ہلاک ہو اور جو زندہ ہو وہ بھی بین آیات دیکھ کر زندہ ہو۔
نو وارد مولوی صاحب نے چاہا کہ اس کی تصدیق حضرت مرزا صاحب سے کرائی جاوے،اس لیے جناب حکیم صاحب نے بوقتِ ظہر اس مسئلہ کو حضرت امام علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں عرض کیا جس پر آپؐ نے فرمایا کہ :
اس قسم کا سوال حضرت موسیٰ ؑسے ہوا تھا تو انہوں نے جواب دیا
علمہا عندربی (طہ : ۵۳)
ایسے ہی ہم بھی کہتے ہیں کہ اُن کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے۔وہ جیسے جیسے سمجھے گا ویسا معاملہ اس سے کرے گا۔ہاں کوئی آدمی کسی کو متقی کیونکر یقین کر سکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہے۔
لا تزکو اانفسکم (النجم :۳۳)
اور فرماتا ہے۔
ھواعلم بمن اتقی (النجم :۳۳)
اور فرماتا ہے اﷲ تعالیٰ ہی
علیم بذات الصدور (مائدہ : ۸)
ہے۔ہاں مامور من اﷲ کے متقی ہونے اور نہ ہونے کے نشانات بیّن ہوتے ہیںنہ اوروں کے۔
بعد نماز مغرب
مغرب کی نماز کے بعد جب حضرت امام ؑ شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے تو سیّد احمد شاہ صاحب سندھی نے آپ سے نیاز حاصل کی اور پوچھا کہ متقی کسے کہہ سکتے ہیں۔فرمایا :
آنحضرت ﷺ جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے دعویٰ کیا تو اس وقت بھی لوگوں کی نظرون میں بہت سے یہدوی عالم متقی اور پرہیز گار مشہور تھے،لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی متقی ہوں۔خدا تعالیٰ تو اُن متقیوں کا ذکر کرتا ہے جو اس کے نزدیک تقویٰ اور اخلاص رکھتے ہیں۔جب ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کا دعویٰ سنا ۔لوگوں میں جو اُن کی وجاہت تھی اس میں فرق آتا دیکھ کر رعونت سے انکار کر دیا اور حق کو اختیار کرنا گوارا نہ کیا۔اب دیکھو کہ لوگوں کے نزدیک تو وہ بھی متقی تھے مگر اُن کا نام حقیقی متقی نہیں تھا۔حقیقی متقی وہ شخص ہے کہ جس کی خواہ آبرو جائے۔ہزار ذلت آتی ہو۔جان جانے کا خطرہ ہو، فقرو فاقہ کی نوبت آئی ہو تو وہ محض اﷲ تعالیٰ سے ڈر کر ان سب نقصانوں کو گوارا کرے لیکن حق کو ہرگز نہ چھپاوے۔متقی کے یہ معنی جیسے آج کل کے مولوی عدالتوں میں باین کرتے ہیں ہرگز نہیں ہیں کہ جو شخص زبان سے سب مانتا ہو خواہ اس کا عمل درآمد اس پر ہویا نہ ہو اور وہ جھوٹ بھی بول لیتا ہو، چوری بھی کرتا ہو تو وہ متقی ہے۔تقویٰ کے بھی مراتب ہوتے ہیں اور جبتک کہ یہ کامل نہ ہوں تب تک انسان پورا متقی نہیں ہوتا۔ہر ایک شئے وہی کار آمد ہوتی ہے جس کا پورا وزن لیا جاوے۔اگر ایک شخ: کو بھوک اور پیاس لگی ہے۔تو روٹی کا ایک بھورا اور پانی کا ایک قطرہ لے لینے سے اُسے سیری حاصل نہ ہوگی اور نہ جان کو بچا سکے گا، جبتک پوری خوراک کھانے اور پینے کی اُسے نہ ملے۔یہی حال تقویٰ کا ہے کہ جب تک انسان اسے پورے طور پر ہر ایک پہلو سے اختیار نہیں کرتا۔تب تک وہ متقی نہیں ہوسکتا۔او راگر یہ بات نہیں تو ہم ایک کافر کو بھی متقی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کوئی نہ کوئی پہلو تقویٰ کا (یعنی خوبی) اس کے اندر ضرور ہوگی۔اﷲ تعالیٰ نے محض ظلمت تو کسی کو پیدا نہیں کیا۔مگر تقویٰ کی یہ مقدار اگر ایک کافر کے اندر ہو تو اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی ۔کافی مقدار ہونی چاہیے جس سے دل روشن ہو۔خدا تعالیٰ راضی ہو اور ہر ایک بدی سے انسان بث جاوے۔بہت سے ایسے مسلمان ہیں کہ جو کہتے ہیں کیا ہم روزہ نہیں رکھتے۔نماز نہیں پڑھتے وغیرہ وغیرہ۔مگر اس باتوں سے وہ متقی نہیں ہوسکتے۔تقویٰ ارو شئے ہے۔جب تک انسان خدا تعالیٰ کو مقدم نہیں رکھتا اور ہر ایک لحاظ کو خواہ برادری کا ہو خواہ قوم کا خواہ دوستوں اور شہر کے رؤسا کا خدا تعالیٰ سے ڈر کر نہیں توڑتا اور خدا تعالیٰ کے لیے ہر ایک ذلت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا، تب تک وہ متقی نہیں ہے۔
قرآن شریف میں جو بڑے بڑے وعدے متقیون کے ساھ ہیں وہ سایسے ہیں وہ ایسے متقیون کا ذکر ہے جنہوں نے تقویٰ کو وہاں تک نبھایا جہانتک ان کی طاقت تھی۔بشریت کے قویٰ نے جہانتک ان کا ساتھ دیا برابر تقویٰ پر قائم رہے حتیٰ کہ اُن کی طاقتیں ہار گئیں۔اور پھر خدا تعالیٰ سے انہوں نے اور طاقت طلب کی جیسے کہ
ایاک نعبدو ایاک نستعین (الفاتحہ :۵)
سے ظاہر ہے
ایاک نعبد
یعنی اپنی طاقت تک تو ہم نے کام کیا اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
ایاک نستعین
یعنی آگے چلنے کے لیے اور نئی طاقت تجھ سے طلب کرتے ہیں جیسے حافظ نے کہا ہے ؎
ما بداں منزل عالی نتوانیم رسید
ہاں اگر لطف شما پیش نہد گامے چند
پس خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک متقی ہونا اور شئے ہے اور انسانوں کے نزدیک متقی ہونا ارو شئے۔مسیح علیہ السلام کے وقت جو مخالفوں کے جتھے وغیرہ بنتے تھے۔اس کا باعث بھی یہی تھاکہ جو عام لوگ یہود کہ نزدیک مسلم تھے ارو متقی پرہیز گار تسلیم کیے جاتے تھے وہ مخالف تھے۔اگر وہ مخالف نہ ہوتے تو جتھے وغیرہ نہ بنتے۔آنحضرت ﷺ کے وقت میں بھی یہی حال تھا۔عجب، بخل،ریا، نمود اور وجاہت کی پاسداری وغریہ کی باتیں تھیں، جنہوں نے حق کی قبولیت سے اُن کو روکے رکھا۔غرضیکہ تقویٰ مشکل شے ہے۔
جسے اﷲ تعالیٰ عطا کرتا ہے تو اس کی علامات بھی ساتھ ہی رکھ دیتا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ حق جب ظاہر ہو تو جو اسے خواہ نخواہ رد کرتا ہے اور دلائل ۔معقولات، منقولات اور خدا تعالیٰ کے نشانوں کو ٹالتا جاوے وہ کب متقی ہو سکتا ہے۔؎ٰ
سچی بات یہ ہے کہ حق جب ظاہر ہو تو اُسے جو خواہ نخواہ رد کرتا ہے اور دلائل معقولات منقولات اور خدا تعالیٰ کے نشانات کو ٹالتا جاتا ہے وہ ہرگز متقی نہیں ہوسکتا۔متقی کوتو ترساں اور لرزاں ہونا چاہیے۔کیا دنیا میں ایس اہوا ہے کہ چوبیس سال سے برابر ایک انسان رات کو منصوبہ بناتا ہے اور صبح کو خدا کی طرف لگا کر کہتا ہے کہ مجھے یہ وحی یا الہام ہوا اور خدا تعالیٰ اس سے مؤاخذہ نہیں کرتا۔اس طرح سے تو دنیا میں اندھیر پڑ جاوے اور مخلوق تباہ ہو جاوے۔متقی تو ایک ہی بات سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور یہاں تو ہزاروں ہیں۔زمانہ الگ پکار رہا ہے۔احادیث منکم منکم کہ رہی ہیں۔سورہ نور میں بھی منکم لکھا ہے۔ قساوت قلبی اور بہائم کی طرح جو زندگی بسر ہو رہی ہے وہ الگ بتارہی ہے۔صدی کے سر پر کہتے تھے کہ مجّدد آتا ہے۔اب ۲۲ سال بھی ہو چکے ۔کسوف و خسوف بھی ہولیا۔طاعون بھی آگئی،حج بھی بند ہوا۔ان سب باتوں کو دیکھ کر اگر اب بھی یہ لوگ نہیں مانتے تو ہم کیونکر جانیں کہ ان میں تقویٰ ہے۔ہم نے بار بار کہا کہ آئو اور جن باتوں کا تم کو سوال کرنے کا حق پہنچتا ہے وہ پوچھو۔ہاں یہ نہیں ہوگا کہ قرآن شریف تو کچھ کہے اور تم کچھ کہو اور ایسے اقوال پیش کرو جو اس کے مخالف ہوں۔مسیح کا نزول جسمانی آسمان سے مانتے ہیں؛ حالانکہ وہ تب صحیح ہوسکتا ہے جبکہ صعود اول ہو۔قرآن مسیح کی وفات بیان کرتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ چھت پھاڑ کر آسمان پر چلا گیا۔کیا تقویٰ اس بات کا نام ہے کہ یقین کو ترک کر کے توہمات کی اتباع کی جاوے۔سچے تقویٰ کا پتہ قرآن سے ملتا ہے کہ دیکھ لیوے کہ تقویٰ والوں نے کیا کیا کام کیے ہیں۔
دعا کے ذریعہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو
مذکورہ بالا تقریر کے بعد ایک صاحب نے عرض کی کہ حضور بعض احمدی بھائی ایسے ہیںکہ انہوں نے بیعت کی ہوئی ہے اور اخلاص بھی رکھتے ہیں،مگر بعض اقوال اورحرکات اُن سے بیجا ظاہر ہوتی ہیں۔بعض ان میں سے احادیث کے قائل نہیں۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا :
اصل بات یہ ہے کہ سب لوگ ایک طبقہ کے نہیں ہوتے۔خدا تعالیٰ بھی قرآن شریف میں مومنوں کے طبقات بیان کرتا ہے۔
منھم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳)
کہ بعض ان میں سے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ رو اور بعض سبقت کرنے والے۔
دوسری یہ بات ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے بھی تو ترقی آہستہ آہستہ ہی کی تھی۔ایمان میں بھی اول عمل میں بھی۔لکھا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے،تو ایک صحابی سے آپ نے ایک ٹکڑا زمین کا مسجد؎ٰ بنانے کے لیے طلب کیا۔اس نے عذر کیا اور کہا کہ مجھ کو آپ درکار ہے۔اب یہ کس قدر گناہ کی بات تھی کہ خدا تعالیٰ کا رسول مسجد کے لیے زمین طلب کرے اور یہ باوجود مرید ہونے کے اپنی نفسانی ضرورت کو دین کی ضرورت پرترجیح دیتا ہے،لیکن آخر وہی صحابہؓ تھے کہ جنہوں نے اﷲ کے لیے اپنے سر کٹوائے۔ترقی ہمیشہ رفتہ رفتہ ہوتی ہے۔ایک سال انسان کچھ کرتا ہے،دوسرے سال کچھ،لیکن اگر بدظنی کریں تو اُس کی مثال یہ ہوگی کہ ایک مریض ہمارے پاس آتا ہے جو کہ طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہے ارو ہم اُسے ایک دو دن دوا دیکر نکال دیں اور پورے طور پر لگ کر علاج نہ کریں۔ہمارا کام تو رات دن اُن کے لیے دعا، تصرع اور ابتہال میں لگا رہتا ہے۔مبلغین کا یہ کام نہیں ہوتا کہ ہر ایک بات پر چڑ کر لوگوں سے متنفر ہوتے رہیں۔ابھی یہ لوگ قابل رحم ہیں اور خدا تعالیٰ اُن کی اصلاح کے سامان کر رہا ہے۔علاوہ ازیں سب ایک درجہ کے نہیں ہوتے۔صحابہؓ میں سے بعض اس درجہ کے تھے کہ عنقریب نبی کے مقام پر پہنچ جاویں اور بعض ادنیٰ درجہ کے۔جیسے دریا میں موتی بھی ہوتا ہے اور مونگا بھی اورسیپ بھی اور دوسری اشیاء مثل سونا اور دوسرے حیوانات کے۔ایسا ہی جماعت کا حال ہوتا ہے۔
Amira 16-5-05
ہماری جماعت کو چاہیے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لیے دعا کریں،لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلاتے ہین تو گہان کرتے ہیں۔کونسا ایسا عیب ہے جو کہ دور نہین ہو سکتا ۔اس لیے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہیے۔
حکایت
ایک صوفی کے دو مرید تھے۔ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا۔دوسرے نے صوفی سے شکایت کی۔اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے، کہ اسکی شکایت کرتا ہے اور جاکر اُٹھا نہیں لاتا۔وہ اسی وقت گیا اور اُسے اُٹھا کرلے چلا۔کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت شراب پی لیکن دوسرے نے کم پی کہ اُسے اُٹھا کر لے جا رہا ہے۔صوفی کا یہ مطلب تھا کہ تونے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی۔آنحضرت ﷺ سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا یکہ کسی کی سچی بات کا اسکی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے بُرا لگے غیبت ہے۔اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تو بیان کرتا ہے،تو اس کا نام بہتان ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ولا یغتب لعضکم بعضا ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتا (الحجرات : ۱۳)
اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے ۔ان میں غیبت کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ آیت بے کار جاتی ہے۔اگر مومنوں کو ایسا ہی مطہر ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی، تو پھر اس آیت کی کیا ضرورت تھی؟ بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے۔بعض کمزور ے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے۔بعض میں کچھ طاقت آگئی ہے۔پس چاہیے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔اگر نہ مانے توا س کے لیے دعا کرے اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضا وقدر کا معاملہ سمجھے ۔جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہیے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سرِدست جوش نہ دکھلایا جاوے۔ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے۔قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتاہے،بلکہ لکھا ہے القطب قدیز نی کہ قطب سے بھی زنا ہو جاتاہے۔بہت سے چور اور زانی آخر کا رقطب اور ابدال بن گئے۔جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے۔کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لیے وہ پوری کوشش کرتا ہے۔ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہیے،بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلائو اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے
تواصوابالصبر وتواصو ابالمرحمۃ (البلد : ۱۸)
کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور ا سکے لیے دعا بھی کی جاوے۔دعا میں بڑی تا ثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابلِ افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کر تاہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نیں کرتا۔عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہیے۔جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لیے رو رو کر دعا کی ہو۔سعدی نے کہا ہے ؎
خدا واند بپو شد
ہمسایہ نداند و خرو شد
خدا تعالیٰ تو جان کر پر دہ پوشی کرتا ہے،مگر ہمسایہ کو علم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے۔خدا تعالیٰ کا نام ستّار ہے۔تمہیں چاہیے کہ
تخلقواباخلاق اﷲ
بنو۔ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو،کیونکہ کتاب اﷲ میں جیسا آگیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے۔شیخ سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسر کرتا ہے۔شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تونے غیبت کی۔غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا۔جبتک رحم،دعا،ستاری،اور مرحمہ آپس میں نہ ہو ۔؎ٰ
۲۱؍جون ۱۹۰۴ء
منکروفات مسیح سے قسم کن الفاظ میں لی جائے
حضرت اقدس کے ایک مخلص حواری نے عرض کی کہ وزیر آباد میں ایک حافظ صاحب ہیں۔وہ اس بات پر آمادہ ہین کہ وہ قسم کھا کر کہیں کہ عیسیٰ ؑاسی جسدِ عنصری کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
جو شخص دلیری کر کے شوخی کی راہ سے فتنہ ڈالتا ہے خدا اس سے خدو سمجھ لیتا ہے۔اگر اُس کو قسم کھانی ہے تو تین باتوں کی قسم کھائے۔
(۱) ایک تو یہ کہ فلما توفیتنیمیں سے مسیح کی وفات ہرگز ثابت نہیں ہوتی اور یہاںتوفیتنی کے وہ معنی ہرگز نہیں ہیں جو کہ آنحضرت ﷺ کی نسبت اس لفظ کے معنی کئے جاتے ہیں۔
(۲) دوسری یہ بات ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت مسیح کو معراج کی شب میں اُن تمام انبیاء کی طرح نہیں دیکھا جو کہ وفات پا چکے ہیں بلکہ دوسرے انبیاء کی ارواح کے خلاف حضرت مسیح کو معراج کی شب میں اس ہیئت اور شکل میں پایا جس سے اُن کا بجسدِ عنصری زندہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔
(۳) تیسری یہ کہ آنحضرت ﷺ کی وفات پر صحابہؓ کا جماع جو آیت
ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (العمران : ۱۴۵)
کے ان معنوں پرہوا تھا کہ آنحضرت سے پیشتر جس قدر بنی گزرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں۔یہ بات غلط ہے کیونکہ ان تینوں باتوں میں اﷲ تعالیٰ کا قول‘ آنحضرت ﷺ کی رؤیت اور صحابہؓ کا جاماع سب آجاتا ہے۔پس ان تینوں باتوں پر وہ قسم کھاوے۔
۴۔ اور چوتھی بات یہ بھی ملالے کہ ہم مفتری ہیں اور ۲۴ سال سے جو الہامات ہم سنارہے ہیں یہ خدا تعالیٰ پر افتراء باند ھتے ہیں۔اور قسم میں یہ بھی کہے کہ اگر اس میں میں نے کوئی بدنیتی کی ہے یا ایسی بات بیان کی ہے جو کہ میرے ذہن میں نہیں ہے تو اس کا وبال مجھ پر نازل ہو۔
فرمایا :
اگر یہ لوگ منہاج نبوت کو معیار ٹھہراویں تو آج فیصلہ ہوتا ہے۔
اس مقام پر نواب محمد علی صاحب نے عرض کی کہ ایک شخص نے مجھ سے حضور کے بارے میں بحث کرنی چاہی۔میں نے اُسے کہا کہ اول تم سب کتابیں حضرت مرزا صاحب کی مطالعہ کرو اگر اس میں سمجھ نہ آوے تو ایک ماہ قادین چل کر رہو اور وہاں مرزا صاحب کے حالات وغیرہ کو آنکھ سے دیکھو۔ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہاری رہنمائی کرے۔
بعض دفعہ موت ہی انسان کے حق میں اچھی ہوتی ہے فرمایا کہ :
اگر ہمارا کوئی مرید طاعون س یمرجاتا ہے تو اس پر اعتراض کرتے ہیں؛ حالانکہ خد اتعالیٰ کے کلام میں مطلب ہرگز نہیں ہے کہ صرف بیعت کرنے والا ہی اس سے محفوظ رہیگا، بلکہ اس نے ایک دفعہ مجھے مخاطب کرکے فرمایا
الذین امنو اولم یلبسو اایما نہم بظلم (الانعام : ۸۳)
یعنی بقدر دعویٰ کے ایمان میں کسی قسم کا ظلم نہ ہو۔خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری وفا، پورا صدق اور اخلاص کا معاملہ ہو اور اس کی شناخت کامل ہو تو وہ شخص اس آیت کا مصداق ہو سکت اہے۔لیکن یہ ایسی بات ہے کہ جس کو سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جان سکتا کہ آیا فلاں شخص میں پور اصدق و اخلاص ہے کہ نہیں۔بعض وقت ایک انسان کے حق میں موت ہی اچھی ہوتی ہے کہ خد اتعالیٰ اسے اس ذریعہ سے آئندہ لغزش سے بچالیتا ہے۔ (جیسے بعض کافروں کے حق میں زندگی اس لیے بہتر ہوتی ہے کہ اُن کو آئندہ ایمان نصیب ہو جاتا ہے۔ایسے ہی بعض مومن کے حق میں موت اس لیے بہتر ہوتی ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو کافر ہو جاتا ) کہ اس کا خاتمہ کفر پر نہ ہو۔
یہ طاعون اس قسم کی ہے جیسے کہ آنحضرت ﷺ کو کفار کے عذاب کا وعدہ تھا۔لیکن پھر صحابہ کرامؓ نے بھی آخر اُس سے حضہ لیا اور اکثر شہید ہوئے۔کفر کا استیصال ان کی شہادت کا ثبوت ہے پس اسی طرح یہاں بھی استیصالِ کفر ہوگا۔
کر بلائیست سیرِ ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
ایک صاحب نیجو کہ بیعت شدہ ہیں، عرض کی کہ بعض لوگ صرف اس لیے بیعت سے پرہیز کرتے ہیں کہ حضور نے حضرت حسینؓ س یبڑے ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔جیسے کہ یہ شعر مزکورہ بالا ہے۔ایک شخص نے مجھ پر بھی یہ اعتراض کیا مگر چونکہ مجھے اس کی حقیقت معلوم نہ تھی، اس لیے میں ساکت ہو گیا۔
فرمایا کہ :
اول انسان کو اطمینان قلب ہونا چاہیے کہ آیا جس کو میں نے قبول کیا ہے وہ راستباز ہے کہ نہیں۔مختصر کیفیت اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک دعویٰ کا مصدق ہوتا ہے۔اور دعویٰ بھی ایس اہو کہ ا سکی بنا پر کوئی اعتراض نہ قائم ہوتا ہو تو اس قسم کے شکوک کا دروازہ خود ہی بند ہو جاتا ہے۔مثلاً میرا دعویٰ ہے کہ میں وہ مسیح ہوں جس کا وعدہ قرآن شریف اور حدیث میں دیا گیا ہے۔اب جبتک کوئی میرے اس دعوے کا مصدق نہیں ہے تب تک اس کو حق ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ نیک آدمی کے مقابل پر بھی وہ ہم پر اعتراض کرے۔لیکن اگر کوئی بیعت کر کے دعاویٰ کی تصدیق کرتا ہے کہ میں سچا ہوں تو وہ پھر اعتراض کیوں کرتا ہے۔(اُسے چاہیے تھا کہ بیعت سے پیشتر اس بات کا اطمینان حاصل کرتا کہ آیا آپ سچے ہیں کہ نہیں ؎ٰ) اس قسم کے معترضین سے سوال کرنا چاہیے کہ جس مسیح کے وہ منتظر ہیں۔آیا وہ اُن کے نزدیک ازروئے اعتقاد حسینؓ سے افضل ہے کہ نہیں؟ اگر وہ اُسے افضل قبول کرتا ہے تو پھر ہم تو کہتے ہین کہ ہم وہی ہیں۔پہلے ہمارا وہی ہونا فیصلہ کرے پھر اعتراض خود بخود رفع ہو جائے گا۔
یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ کے فیوض بے انتہا ہیں۔جو اُن کو محدود کرتا ہے وہ اصل میں خد اکو محدود کرتا ہیاور اس کی کلام کو عبث قرار دیتا ہے۔وہی بتلاوے کہ
اھدنا الصراط المستقیم۔صراط الذین العمت علیھم (الفاجحہ : ۶‘۷)
میں جب وہ انہی کمالات اور انعامات کو طلب کرتا ہے جو کہ سابقین پر ہوئے تو اب ان کو محدود کیسے مانا ہے؟ اگر وہ محدود ہیں اور بقول شیعہ بارہ امام تک ہی رہے توپھر سورہ فاتحہ کو نماز میں کیوں پڑھتا ہے۔وہ تو اس کے عقیدہ کے خلاف تعلیم کر رہی ہے اور خدا کو ملزم گردانتی ہیکہ ایک طرف تو وہ خود ہی کمالات کو بارہ امام تک ختم یرتا ہے اور پھر لوگوں کو قیامت تک ان کے طلب کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔دیکھو مایوس ہونا مومن کی شان نہیں ہوتی اور ترقیات اور مرات قرب کی کوئی حد بست نہیں ہے۔یہ بڑی گغلطی ہے کہ کسی فرد خاص پر ایک بات قائم کر دی جاوے۔خدا تعالیٰ نے جیس اخاص طو رپر ذکر کر دیا اور احادیث میں آگیا کہ فلاں زمانہ میں مسیح موعود ہوگااور اس کی علامات ، اس کا کام، اس کے حالات سب بتلادیئے تو اب ہم سے یہ سوال کیوں ہوتاہے کہ تم حسینؓ سے افضل کیوں بنتے ہو۔کیا رسول اﷲ ﷺ نے کہیں فرمایا ہے کہ مسیح موعود حسینؓ سے افضل نہ ہوگا بلکہ کمتر ہوگا۔ایسے معترضوں کو تم یہ جواب دو کہ ہم تو مسیح موعود مان چکے ہیں۔اب تم اس امر کا ثبوت دو کہ آیا وہ امام حسینؓ سے کم ہوگ یا برابر یا افضل؟ بجز توہمات کے اُن کے پاس کچھ بھی نہیںہے۔جیسے ایک لاہوری شیعہ نے لکھاہے کہ آنحضرت ﷺ اور دیگر کل انبیاء نے صرف حسین کی وجہ سے ہی نجات پائی۔
خدا تعالیٰ کا جو معاملہ میرے ساتھ ہے اور وہ میرے ساتھ کلام کرتا ہے ایسا کوئی الہام حسین ؓ کو تو پیش کرو۔میں تو اپنی وحی پر ویسے ہی ایمان لاتا ہوں جیسے کہ قرآن شریف اور توریت کے کلام الٰہی ہونے پر زیادہ سے زیادہ یہ لوگ امام حسین ؓ کی فضیلت میں بعض ظنی احادیث پیش کریں گے اور میں وہ پیش کرتا ہوں جو یقینی ہے اور پھر خدا کا کلام ہے۔بطور تنزل کے میں اگر مان لوں کہ حسین کے الہامات تو پہلے ہی سے ظنی ہیں۔پس دونوں ظنی الہاموں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو۔خد اتعالیٰ نے جو مراتب میرے بیان کئے ہیں۔مثلاً
انت منی بمن زلۃ عرشی۔انت منی بمنزلۃ لا یعلمہا الخلق۔انت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی۔
انت منی بمنزلۃ او لا دی۔انت منی وانا منک۔
کیا امام حسینؓ کے یہی مراتب بیان ہوئے ہیں؟ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں نہ امام حسینؓ کا نام لیا اور نہ یزید کا۔اگر ذکر کیا ہے تو زید کا ذکر کیا ہے۔یا عض مفسروں نے ایک صحابی سجل کا لکھا ہے جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔اس طرح سے دو صحابہ کا ذکر قرآں شریف میں ہوا ہے اور جو ہمیں مفتری سمجھتا ہے اور مفتری سمجھ کر پھر یہ اعتراض کرتا ہے تو اول وہ ہمارے افتراء پر بحث کرے کہ آیا افترأ ہے کہ نہیں۔
البدر جلد ۳ نمبر ۲۲-۲۳ صفحہ ۳‘۴ مورخہ ۸، ۱۶ ؍جون ۱۹۰۴ء؎ٰ
بمقام گورداسپور
۳۰؍جون ۱۹۰۴ء
طعامِ اھلِ کتاب
امریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہو رہا تھا۔اسی میں یہ ذکر بھی آگیا کہ دودھ اور شوربا وغریہ جو کہ ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہیبہت ہی نفیس اور ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔دودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے۔اس پر حضور ؑ نے فرمایا :
چونکہ نصاریٰ اس وقت ایک ایسی قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال وحرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سؤر کا گوشت اُن میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیس اکہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں۔ اس لیے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو اُن کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں اُن میں سؤر کی چربی اور سؤر کے دودھ کی امیزش ہو۔اس لیے ہمارے نزدیک ولائتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شوربے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور ناجائز ہیں۔جس حالت میں کہ سؤر کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو کہ یہ لوگ تیار کرکے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کانہ ہوتا ہو۔
اس پر ابو سعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک وقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا۔وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روبے کے خرید لیا۔جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا، تو معلوم ہوا کہ سؤر کی چربی بھی اس کا رخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے۔دریافت پر کارخانہ والوں نے بتایا کہ ہم اُسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیروں میں ڈالی جاتی ہے۔اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہو سکت اہے کہ حضرت عقدس مسیح موعود ؑ کا خیال کس قدر تقویٰ اور باریک بینی پر تھا، لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور دراز مصاروبلاد میں ابتک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اس لیے اُن کو بھی مد نظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا۔نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی لڑاہیوں کو اکثر کتے چاٹ جاتے ہیں۔اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ :
ہمارے نزدیک نصاریٰ کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور ازروئے قرآن مجید وہ حرام نہ ہو۔ورنہ اس کے یہی معنے ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا ، مگر باہر نصاریٰ کے ہاتھ سے کھا لیا۔اور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حالا کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیا کردہ چیزوں پر کای اعتبار ہو سکت اہے۔اسی لیے ہم گھر میں ولائتی بسکٹ نہیں استعمال کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں۔
عیسائیوں کی نسبت ہندوئوں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں۔ اور ہر جگہ انہیں کی دوکانیں ہوتی ہیں۔اگر مسلمانوں کی دوکانیں موجود ہوں۔اور سب شئے وہان ہی سے مل جاوے تو پھر البتّہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں۔
Amira 17-6-05
علاوہ ازیں میرے نزدیک اہل کتاب سے غالباً مراد یہودی ہی ہیں،کیونکہ وہ کثرت سے اس وقت عرب میں آباد تھے اور قرآن شریف میں بار بار خطاب بھی انہیں کو ہے۔اور صرف توریت ہی کتاب اس وقت تھی جو کہ حﷲت اور حرمت کے مسئلے کے بیان کر سکتی تھی اور یہود کا اس پر اس امر میں جیسے عملدرآمد اس وقت تھا ویسے ہی اب بھی ہے۔انجیل کوئی کتاب نہیں ہے۔
اس پر ابو سعید صاحب نے عرض کی کہ اھل الکتاب میں کتاب پر الف لام بھی اس کی تخصیص کرتا ہے۔جس سے یہ مسئلہ اور بھی واضح ہو گیا۔
دجال شخص واحد بھی ہو سکتا ہے
خواجہ کمال الدین صاحب نے عرض کی کہ دجال کے متعلق جو کچھ حضور نے بیان فرمایا ہے وہ بالکل حق ہے۔لیکن ایک دن میرے ذہن میں یہ بات گذری کہ دجال ایک شخص واحد بھی گذرا ہے اور اس وقت جو داجل موجود ہے وہ اس کا ظل اور اثر ہے کیونکہ موجودہ عیسویت دراصل وہ عیسویت نہیں ہے جو حضرت مسیح نے تعلیم کی بلکہ یہ بولوس کا مذہب ہے۔جس نے ہر ایک حرام کوحلال کر دیا اور کفارہ وغیرہ کے مسئلہ کی بدعت ایجاد کی اور اس کی ایک آنکھ ہی تھی۔پس آنحضرت ﷺ نے جو کچھ اس کا حلیہ بیان کیا ہے ممکن ہے کہ مکاشفہ میں آپؐ کو وہی دکھایا گیا ہو اور اس کے متبعین نے ہی یہ تمام ایجادیں کی ہیں جس کو دجال کی صفت اور کارناموں کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے۔حضرت اقدس نے فرمایا :
ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے
تقدیر مَعَلَّق و مُبرَم
صدقات و خیرات سے بلا کے ٹلنے کا ذکر ہوا۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
ہاں یہ بات ٹھیک ہے۔اس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تقدیر کے دو حضے کیوں ہیں؟ تو جواب یہ کہ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ بعض دفعہ سخت خطرناک صورتیں پیش آتی ہیں اور انسان بالکل مایوس ہو جاتا ہے، لیکن دعا و صدقات و خیرات سے آخر کار وہ صورت ٹل جاتی ہے۔پس آخر یہ ماننا پڑتا ہے کہ اگر معلّق تقدیر کوئی شے نہیں ہے اور جو کچھ ہے مبرم ہی ہے تو پھر دفعِ بَلا کیوں ہو جاتا ہے؟ اور دعا و صدقہ خیرات وغیرہ کوئی شے نہیں ہے۔بعض ارادے الٰہی صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کو ایک حد تک خوف دلایا جاوے اور پھر صدقہ و خیرات جب وہ کرے تو وہ خوف دور کر دیا جاوے۔دعا کا اثر مثل نرومادہ کے ہوتا ہے کہ جب وہ شرط پوری ہو اور وقت مناسب مل جاوے اور کوئی نقص نہ ہو تو ایک امر ٹل جاتا ہے۔اور جب تقدیر مبرم ہو تو پھر ایسے اسباب دعا کی قبولیت کے بہم نہیں پہنچتے۔طبیعت تو دا کو چاہتی ہے مگر توجہ کامل میسر نہیں آتی او دل میں گداز پید انہیں ہوتا۔نماز سجدہ وغیرہ جو کچھ کرتا ہے اس میں بدمزگی پاتا ہے۔جس سے معلوم ہوت اہے کہ انجام بخیر نہیں اور تقدیر مبرم ہے۔ ؎ٰ
اس مقام پر ایک شخصنے عرض کی کہ جب نواب محمد علی خانصاحب کا صاحبزادہ سخت بیمار ہوا تھا تو جناب کو اس قسم کا الہام ہوا کہ تقدیر مُبرَم ہے اور موت مقدر ہے۔لیکن پھر حضور کی شفاعت سے وہ قدیر مبرم ٹل گئی۔آپ نے فرمایا کہ :
سید عبد القادر جیلانی ؓ بھی لکھتے ہیں کہ بعض وقت میری دعا سے تقدیر مبرم ٹل گئی ہے۔اس پر شارح شیخ عبد الحق محدث دہلی نے اعتراض کیا ہے کہ تقدیر مبرم تو ٹل نہیں سکتی پھر اس کے کیا معنی ہوئے۔آخر خود ہی جواب دی اہے کہ تقدیر مبرم کی دو اقسام ہیں۔ایک مبرم حقیقی اور ایک مبرم غیر حقیقی ۔جو مبرم حقیقی ہے وہ تو کسی صورت سے ٹل نہیں سکتی ہے۔جیسے انسان پر موت تو آتی ہے۔اب اگر کوئی چاہے کہ اس پر موت نہ آوے اور یہ قیامت تک زندہ رہے تو یہ نہیں ٹل سکتی۔دوسری غیر حقیقی وہ ہے جس میں مشکلات اور مصائب انتہائی درجہ تک پہنچ چکے ہوں اور قریب قریب نہ ٹلنے کے نظر آویں۔اس کا نام مجازی طور پر مبرم رکھا گیا ہے؛ ورنہ حقیقی مبرم تو ایسی ہے کہ کل انبیاء بھی مل کر دعا کیں کہ وہ ٹل جاوے تو وہ ہرگز نہیں ٹل سکتی۔
فرمایا کہ :
صبح کو یہ فقرہ الہام ہوا :
’’خدا تیری ساری مرادیں پوری کر دے گا‘‘
رؤیا میں فرشتے دیکھنا
فرشتوں پر ذکر چل پڑا کہ یہ خواب مین ہمیشہ خوبصورت لڑکوں کی صورت و شکل میں نظر آتے ہیں۔اس پر حضور ؑ نے اپنے چند ایک سابقہ رؤیا بیان فرمائے جن کو ہم اس نیت سے درج کر دیتے ہیں کہ اُن میں سے اگر کووئی شائع نہیں ہوا تو اب ہو جائے۔
(۱)
ایک فرشتہ ایک چبوترہ پر بیٹھا ہے اور ایک عجیب روٹی نان کی مثل چمکتی ہوئی اس کے ہاتھ میں ہے وہ روٹی بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ قسم کی نظر آتی ہے۔مجھے وہ روٹی دے کر کہتا ہے کہ یہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے۔اس رؤیا کو عرصہ قریباً ۳۰ سال کا ہو گیا ہوگا۔
(۲)
فرمایا :
ایک فرشتہ کو میں نے ۲۰ برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا۔صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی خوبصورت ہیں۔اس نے کہا۔ہاںمیں ورشنی آدمی ہوں۔یہ رؤیا کوئی ۲۵ برس کا ہوگا ۔؎ٰ
رجوع کا صحیح وقت نزول بلا سے پہلے ہوتا ہے
عادت اﷲ یہی ہے کہ جب انسان امن کے زمانہ میں ہو اور وہ گذر جاوے اور اس اثناء میں کوئی رجوع خدا تعالیٰ کی طرف حقیقی اور اخلاص سے نہ کیا ہو تو پھر خطرناک زمانہ میں واویلا شور مچانا اس کے کام نہیں آیا کرتے۔یہ تو وہی فرعون کی مثال ہوئی کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا کہا ب میں موسیٰ اور ہارون کے خد اپر ایمان لایا۔ مشکل یہ ہے کہ دنیا داروں کو اُن کے اپنے سلسلوں اور پیچ درپیچ معاملات سے ہرگز فرصت نہیں ہے کہ وہ روح کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور خد اکا خوف بھی محسوس کریں۔اگر کچھ خوف ہے تو گورنمنٹ کا اور امید ہے تو اسباب سے یا اپنے مکرو فریب سے۔اس زمانہ میں جو توکل کا نام لے وہ دیوانہ اور مخبوط الحواس ہے۔اس کا نام مسلوب العقل رکھا جات اہے۔یہ انسنا کی خوش قسمتی ہے کہ قبل از نزول بلا وہ تبدیلی کرلے،لیکن اگر کوئی تبدیلی نہیں کرتا اور اس کی نظر اسباب اور مکرو حیلہ پر ہے تو سوائے اس کے کہ وہ اپنے ساتھ گھر بھر کو تباہ کر دے اور کیا انجام بھوگ سکتا ہے کیونکہ مرد گھر کا کشتی بان ہوت اہے۔اگر وہ ڈوبے گا تو کشتی بھی ساتھ ہی ڈوبے گی۔اسی لیے کہا ہے
الرجال قوامون علے النساء (النساء : ۳۵)
اسی کی رستگاری کے ساتھ اس کے اہل و عیال کی رستگاری ہے اور
ولا یخاف عقبھا (الشمس : ۱۶)
سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کو ان کے پسماندوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔اس وقت اس کی بے نیازی کام کرتی ہے۔؎ٰ
۳ ؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام قادیان شریف
غربأ کی دلجوئی
شام کا وقت تھا۔بعد نماز مغرب مختلف بلاد سے جو لوگ زیارت اور بیعت سے شرف یا ب ہونے کے لیے آئے ہوئے تھے۔مثل پر وانہ حضرت پر گر رہے تھے۔اکثر حصہ ان میں سے دیہات والوں کا تھا۔جگہ کی تنگی اور مرد مان کی کثرت دیکھ کر بعض نے کہا کہ لوگو پیچھے ہٹ جائو۔حضرت جی کو تکلیف ہوتی ہے۔
اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ :
کس کو کہا جاوے کہ تم پیچھے ہٹو۔جو آتا ہے اخلاص اور محبت لے کر آتا ہے۔سینکڑوں کوس کے سفر کر کے یہ لوگ آتے ہیں۔صرف اس لیے کہ کوئی دم صحبت حاصل ہو اور انہیں کی خاطر خدا تعالیٰ نے سفارش کی ہے اور فرمایا ہے
ولا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس
یہ صرف غریبوں کے حق میں ہے کہ جن کے کپڑے میلے ہوتے ہیں اور ان کو چنداں علم بھی نہیں ہوتا۔خدا تعالیٰ کا فضل ہی ان کی دستگیری کرتا ہے۔کیونکہ امیر لوگ تو عام مجلسوں میں خود ہی پوچھے جاتے ہیں اور ہر ایک اُن سے بااخلاق پیش آتا ہے۔اس لیے خدا تعالیٰ نے غریبوں کی سفارش کی ہے جو بیچارے گمنام زندگی بسر کرتے ہیں۔
بہت تجسس کرنا جائز نہیں
ایک شخص نے سوال کیا کہ ہمارے شہر میں وجودی فرقہ کے لوگ کثرت سے ہیں۔اور ذبیحہ وغیرہ انہیں کے ہاتھ سے ہوتا ہے۔کیا اس کا کھانا حلال ہے کہ نہیں؟ فرمایا کہ :
بہت تجسس کرنا جائز نہیں ہے۔موٹے طور پر جو انسان مظرک یا فاسق ہو اس سے پرہیز کرو۔عام طور پر اس طرح تجسس کرنے سے بہت سی مشکلات درپیش آتی ہیں۔جو ذبیحہ اﷲ کا نام لے کر کای جاوے اور اس میں اسلام کے آداب مد نظر ہوں وہ خواہ کسی کا ہو۔جائز ہے۔
وجودی فرقہ کی بناء اس کے بعد فرمایا کہ :
طبعاً یہ سوال پیدا ہوت اہے کہ وجودی پیدا کہان سے ہوئے ۔قرآن شریف اور اسلام میں تو ان کا پتہ نہیں ملتا مگر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو صرف دھوکا لگا ہوا ہے۔جو راستباز اکابر گذرے ہیں وہ اصل میں فنائے نظری کے قائل تھے۔اس کے یہ معنے ہیں کہ انسان ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون میں توجہ اﷲ کی طرف رکھے اور اس قدر فانی اس میں ہو کہ گویا اور کسی شئے کی قدرت اور حرکت بذاتہ اُسے نظر نہ آوے۔ہر ایک شئے کو فانی جان لے اور اس قدر تصرف الٰہی اُسے نظر آوے کہ بلا ارادۂ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہو رہا۔اسی مسئلہ میں غلطی واقع ہو کر آخر فنا وجودی تک نوبت آگئی اور یہ کہنے لگے کہ سوائے خدا کے اور کوئی شئے نہیں ہے۔اپنے آپ کو بھی خد اماننے لگے۔اس خیال سے یہ مذہب پھیلا ہے کہ فناء نظری کے شوق میں اولیاء اﷲ سے کچھ ایسے کلمات نکلے ہیں کہ جن کی اُلٹی تاویل کرکے یہ وجودی فرقہ بن گیا ہے۔فناء نظری تک انسنا کا حق ہے کہ محبوب میں اور اپنے آپ میں کوئی خدائی نہ سمجھے اور ؎
من تُو شُدم تُو من شُدی۔ من تن شُدم تُو جاں شُدی
تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تُو دیگری
کا مصداق ہو۔کیونکہ محب اور محبوب کا علاقہ فنائِ نظری کا تقاضا کرتا ہے اور ہر ایک سالک کی راہ میں ہے کہ وہ محبوب کے وجود کو اپنا وجود جانتا ہے،لیکن فنائِ وجودی ایک من گھڑت بات ہے، جسے ذوق شوق، محبت، صدق اور وفا اور اعمالِ صالحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔فنائِ نظری کی مثال وہی ہے جو مان اور بچے کی ہے کہ اگر کوئی بچے کو مکی مارے تو درد مان کو ہوت اہے۔سخت تعلق جو محبت کا ہے یہ اس سے بھی دردناک ہے اور یہ ایک سچی اور حقیقی محبت ہوتی ہے لیکن وجودی کا مدّعا جھوٹا ہے۔یہ وہ کرے جو خدا تعالیٰ پر محیط ہو۔وجودی چونکہ ترکِ ادب کا طریق اختیار کرتا ہے۔اس لیے طاعت،محبت، عبادتِ الٰہی سے محروم رہتا ہے۔؎ٰ
Amira 18-6-05
۸؍جولائی ۱۹۰۴ء
احاطہ عدالت
دنیوی تکالیف اور مصائب کی تلافی فرمایا :
جن کو اﷲ تعالیٰ دنیا میں تکالیف دیتا ہے اور جو لوگ خود خدا تعالیٰ کے لیے دُکھ اُٹھاتے ہیں۔اُن دونوں کو خدا تعالیٰ آخرت میں بدلہ دیگا۔دنیا تو چلنے کا مقام ہے،رہنے کا نہیں۔اگر کوئی شخص سارے سامان خوشی کے رھکتا ہے،تو خوشی کا مقام نہیں ۔یہ سب آرام اور دُکھ ختم ہونے والے ہیں اور اس کے بعد ایک ایسا جہان آنیوالا ہے جو دائمی ہے۔جو لوگ اس مختصر جہان میں انسانی بناوٹ میں فرق اور کمی بیشی دیکھ کر دوسرے جنم کے گناہوں اور عملوں پر محمول کر لیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔وہ یہ معلوم نہیں کرتے کہ آخرت کا یک بڑا جنم آنیوالا ہے اور جن کو خد اتعالیٰ نے پیدائش میں کوئی نقص عطا کیا ہے اور جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود بخود خدا تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے دُکھوں میں ڈال دیا ہے ان دونوں کو وہاں چل کر بدلہ ملے گا۔یہ جہان تو تخمریزی کا جہان ہے اور ایسے موقع حاصل کرنے کے واسطے ہے۔جن سے خدا تعالیٰ راضی ہو۔
بعض لوگ اپنے عملوں سے خد اکو راضی کرتے اور بعض اپنے آپ کو تکالیف میں ڈال کر خدا کو راضی کرتے ہیں۔ایک شخص کے دو خدمتگار ہیں۔ایک کو وہ ایسے کام اور سفر پر روانہ کرتا ہے کہ جہاں اس کو سواری مل سکتی اور راستہ میں بھی سایہ دار اور ٹھنڈا ہے اور ہر طرح کا آرام ہے۔دوسر خدمتگار کو ایسی طرف روانہ کرتا ہے جس راستہ میں نہ تو سواری مل سکتی ہے اور نہ سایہ ہے بلکہ پیدل چلنا اور سخت گرمی اور دھوپ اور لُو کا سامنا ہے۔مگر وہ جانتا ہے کہ جس کو جتنی تکلیف ہوگی اس کو اتنا ہی بدلہ اور عوضِ خدمت دوں گا۔پس پھر ان دونوں خدمتگاروں کو اپنے سفر پر کای اعتراض ہے؟ اس طرح لنگڑے ،اندھے،اپاہج،غریب، فقیر وغیرہ لوگ جو خد اتعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اُن کو جب اس آخری جہان میں چل کر بدلہ ملنا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ ہم گوناگوں جنم مان لیں اور اس بڑے اور حقیقی جنم سے اعتراض کریں۔جو دُکھ اﷲ تعالیٰ نے دیئے ہیں۔وہ تو ثواب حاصل کرنے کو دیئے ہیں،جبکہ وہ رحم کر نیوالا ہے تو کسی کو کسی طرح اور کسی کو کسی طرح بدلہ دیتا اور دیتا رہے گا۔پس اپاہج اور اندھے وغریرہ کو اپنی ان نقائص خلقت کا بدلہ قیامت میں مل جاویگا۔پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص شاہی گھر میں پید اہو اہے اور سارے سامان عیش و نشاط مہیا ہیں پر وہ باریک در باریک دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو گدائی اور فقیری حیثیت میں بھیک مانگتا پھرتا ہے ایسے سُکھوں میں ہو کہ اس امیر زادے کو کبھی میّسر نہیں۔پھر کیا کہیں دولت والے کو یہ حکم دیا ہے اکہ اس سے عیاشی کر بلکہ یہ حکم دیا ہے کہ غیب بھائی کی طرح عبادت کر۔بہرحال یہ دنیا چند روزہ ہے۔انسان کیا سمجھتا ہیکہ میری عمر کس قدر ہے۔
عقیدہ تناسخ
جنم کی شکی بات کو قبول کرنا عقل کا کام ہرگز نہیں۔انسنا جب پید اہوت ااور اپنی عمر طبعی پوری کرکے مرجاتا ہے تو کبھی کسی نے اُس شخص کو اس جہان میں واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا۔مثلاً بڑے بڑے عالم اور فاضل مرجاتے ہیں تو اُنہوں نے واپس آکر کبھی نہیں بتلایا کہ میں نے پچھلے جنم میں فلاں علم حاصل کیا تھا۔ہزاروں جنم پائے اور علم و عمل حاصل کرتا رہا۔مگر جب واپس آیا وہ پہلے علم وعمل ضائع ہوتے رہے۔جس طرح وہ واپس آکر سب علوم بھلا دیت ابلکہ یہاں کا پہلا آنا بھی اس کو یاد نہیں رہتا،تو وہاں کیا یاد رکھے گا اور نجات کس طرح حاصل کرے گا۔جو لوگ تناسخ کے قاتل ہیں وہ کہتے ہیں کہ مکتی گیان سے ہوگی مگر کروڑ دفعہ کے جنم سے ایک حرف تک ان کو یاد نہیں رہتا اور جب آتا ہے خالی ہاتھ ہی آتا ہے۔کچھ تو ساتھ لاوے ۔اگر کچھ ساتھ نہیں لاتا تو گیان کیا ہوا۔
غرض جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہایک شخص کے ہاتھ پائوں سرد ہو گئے ہیں۔دم بند ہو گیا ہے۔آنکھیں پتھر اگئی ہیں اور روح رخصت ہو گیا ہے۔اسی طرح تم اس کے واپس آنے کا ثبوت پیش کرو۔تو ہم مان لیتے ہیں۔واپس آنے کا ثبوت تو یہی تھا کہ اپین کسی گیان کو ساتھ لے آتا ۔مگر یہ بیہودہ خیال ہے کہ وہ کسی گیان کو ساتھ لاوے۔پس بغیر ثبوت کے ہم کیسے مان سکتے ہیں۔بڑا مولوی اور بڑا پنڈت بن کر اس جگہ سے رخصت ہوا تھا۔واپس آکر کچھ بھی یاد نہیں۔جب وہاں جا کر سب کچھ بھول آتا ہے تو کس طرح معلوم ہو کہ یہ دوسرا جنم لے کر آیا ہے۔اگر صرف اس کمی بیشی کو پورا کرنے کے واسطے جنم مانتا ہے،تو ہم یوں کیون نہ مان لیں کہ جس طرح یہاں تکلیف اُٹھاتا ہے۔اسی طرح؎ٰوہ خدا تعالیٰ اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ عطا نہیں کرسکتا؟مثلاً دیا نند مرگیا ہے ۲؎ ۔آجاوے تو ہم اس کو اس طرح شناخت کر سکیں گے کہ ستیار تھ پر کاش کا یاوید کا کچھ حصہ ہمیں پڑھ کر سنا دیوے۔پڑھا ہوا آدمی تو اگر بھینس کی شکل میں بھی آجاوے تو چاہیے کہ وہ بھینس بھی طوطے کی طرح بولے۔ہاں صوفیوں نے بھی یہ لکھا ہے ؎
ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ام
ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام
مگر اس کے کچھ اور معنی ہیں۔یعنی جب انسان خد اتعالیٰ کی طرف ترقی کرنے لگتا ہے تو پہیل اس کی حالت بہت اَبتر ہوتی ہے۔جس طرح ایک بچہ آج پید اہوا ہے تو ا سمیں صرف دودھ چوسنے ہی کی طاقت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔پھر جب غذا کھانے لگتا یہتو آہستہ آہستہ غصہ،کینہ،خودپسندی،نخوت علیٰ ہذاالقیاس۔سب باتیں اس میں ترقی کرتی جاتی ہیں اور دن بدن جُوں جُوں اس کی غذائیت بڑھتی اجتی ہیشہوات اور طرح طرح کے اخلاقِ ردّیہ اور اخلاقِ فاضلہ زور پکڑتے جاتے ہیں اور اسی طرح ایک وقت پر اپنے پورے کمال انسانی پر جاپہنچتا ہے اور یہی اس کے جسمانی جنم ہوتے ہیں۔یعنی کبھی کُتے،کبھی سؤر،کبھی بندر،کبھی گائے،کبھی شیر وغیرہ جانوروں کے اخلاق اور صفات اپنے اندر پید اکرتا جاتا ہے گویا کل مخلوقات الارض کی خاصیت اس کے اندر ہوتی جاتی ہے۔اسی طرح جب اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سلوک کا راستہ چاہے گا تو یہ ساری خاصیتیں اس کو طے کرنی پڑیں گی اور یہی تناسخ اصفیاء نے مانا ہے اور اس کا اسلام اور قرآن بھی اقراری ہے۔غالباً یہی تناسخ ہنود میں بھی تھا،مگر بے علمی سے دھوکہ لگ ااور سمجھ اُلٹی ہو گئی۔مگر دنیا میں جس بات کو کوئی شخص مان بیٹھا ہے وہ اس کو چھوڑ نہیں سکتا ورنہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ راستی کو دریافت کرکے ناراستی کو چھوڑ دیتے،مگر یہاں ضدّ،تعصب اور ہٹ دھرمی ماننے نہیں دیتی۔
مکھیاں شہد بناتیں ۔ریشم کا کیڑا ریشم بناتا۔موتی کا کیڑا موتی بناتا،بیل،گھوڑے،گائے،جونگ وغیرہ ہر ایک چیز انسان کے واسطے فائدہ مند ہے۔اگر سب چیزیں اتفاقی ہیں۔اور خدا تعالیٰ نے حکمت سے پیدانہیں کیں توپھر ایک وقت پر اپنا جنم پورا کر کے کل گائیں، کل مکھیاں،کل گھوڑے وغیرہ سب جانورانسان بن جانے چاہیے۔تو پھر یہ چیزیں اور تعمتیں ایک وقت آنے پر دنیا سے نابود ہو جانی چاہئیں۔مگر جبتک انسان موجود ہے ان چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔پانی اور ہوا میں بھی کیڑے ہیں۔پھلوں اور اناجوں میں بھی کیڑے ہیں۔جن کے بغیر انسان کبھی زندہ نہیں رہ سکتا۔پس یا تو تناسخ مانو یا خد اتعالیٰ کی حکمت مانو،مگر چونکہ انسان کا ان چیزوں کے سوائے گذرہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔معلوم ہوا کہ یہ ساری پیدائش حکمتِ الٰہی پر مبنی ہے؎ٰ۔والسلام۔
۱۸؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
کل یعمل علی شا کلتہ
مہر نبی بخش المعروف عبد العزیز نمبردار بٹالہ نے عرض کیا کہ میں علاقہ بار سے صرف اس خیال پر آیا ہوں کہ ایک تفسیر قرآن لکھوں جس سے لوگوں کے شکوک اور غلط معانی کی اصلاح کروں۔اگر آپ مجھے امداد دیں تو میں موجودہ ثابت شدہ فلسفہ کے مطابق ترجمہ کر کے دکھلائوں۔
فرمایا :
ہمارا مشرب تو کسی سے نہیں ملتا۔ہم تو جو کچھ خد اسے پاتے ہیں خواہ اس کو عقل اور فلسفہ مانے یا نہ مانے ہم اس کو ضرور مانتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں؛ البتہ اہل عقل سے جو لوگ عقل کی پیروی کرتے ہیں وہ آپ کی بات پر توجہ کریں توخوب ہے۔آپ مولوی نور الدین صاحب سے مشورہ لیں۔آجکل تراجم کثرت سے شائع ہو رہے ہیں کہ مردوّجہ فلسفہ کی پیروی میں شائع ہوتے ہیں۔مگر ہمارا مذہب یہ نہیں ہے۔پر میں تم کو ایک نصیحت کرتا ہوں۔اس کو ضرور غور سے سُن لو۔اگر خدا تعالیٰ نے تم سے کوئی ایسا عظیم الشان کام لینا ہوتا تو تمہارا ؎ٰ ا رئیہ اور دماغ اچھا بناتا۔مگر یہ مصلحتِ الٰہی ہے کہ وہ اچھا نہیں بنایا گیا بلکہ کمزور بنایا گیا ہے ؎
ہر کے را بہر کارے ساختند
تم اپنے آپ کو خوش باش رکھو اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے خلاف نہ کرو۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
کل یعمل علی شا کلتہ (بنی اسرائیل : ۸۵)
ہر شخص کرتا اور کر سکتا ہے،مگر اپنی بناوٹ پر۔مثلاً ایک شخص کو تھوڑا ہی صدمہ دیکھ کر غشی لاحق ہو جاتی ہے۔اب اس کو میدان جنگ میں تلوار دے کر بھیجا جاتا ہے کیا وہ صرف بندوقوں کی آوازیں سنکر ہی نہ مر جاوے گا۔میں نے خود قادیان میں ایک شخص کو دیکھا ہے کہ اگر وہ بکرا ذبح ہوتا ہوا دیکھ لیتا ہے تو اس کو غش ہو جات تو اگر قصاب کا اکم اس کے سپرد کای اجتا تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ آپ ارادہ کرتے ہیں اختلاف مٹانے کا اور دماغ اور رئیہ آپ کا بہت خراب ہے۔ایسا نہ ہو کہ بیماری مہلک ہو کر تمہارے اندر ہی اختلاف پیدا ہو جاوے۔انسانی قویٰ تو بیشک ہر شخص کو ملے ہیں۔مگر مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ دھوکہ نہیں کھاتا۔پس آپ پر ا سمحنت کا پہلے بد اثر ہو چکا ہے۔آپ کم سے کم پہلے تمام ڈاکٹروں سے دریافت کر لیں کہ آپ اس محنت کے قابل ہیں یا نہیں۔میں تو بمصداق المستشار موتمن کے ایک امین اور مشفق ناصح ہو کر آپ کو صلاح دیت اہوں کہ آپ کے قویٰ ایسے نہیں ہیکہ اس محنت کو برداشت کر سکیں۔دوزخ کے ساتھ دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ۔جس رنگ سے اﷲ تعالیٰ چاہیے یقین عطا فرما دیوے۔صحابہ کرامؓ نے علوم فلسفہ وغریہ کہاں پڑھے تھے۔جو اسرارِ الٰہی طبعیات اور فلسفہ وغیرہ میں بھرے پڑے ہیں جو شخ ان سب کو طے کرنا چاہتا ہے وہ جاہل اور بے نصیب رہے گا مثلاً آگ گرم او رمہلک ہے۔اس بات کو تو ہر شخص دریافت کر سکتا ہے پر جب اس کے دل میں یہ سوال پید اہو گا کہ کیوں گرم ہے اور کیوں مہلک ہے تو یہاں فلسفہ ختم ہو جاوے گا۔پس اسرارِ الٰہیہ کو حد تک کوئی نہیں پہنچا سکتا ؎
تو کارِ زمیں کے نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پر داختی
پہلے ضرور ہے کہ اپنے گھر اور نفس کی صفائی کرو بعد میں لوگوں کی طرف توجہ کرنا۔
دنیا میں چار موٹی باتیں ماننے کے قابل ہیں۔(۱)ملائکہ،(۲)روحِ انسانی اور اس کا بقا بعد از مرگ۔(۳)جنات کا وجود۔(۴) خد اتعالیٰ کا وجود۔لوگوں نے سب سے پہلے جنات کا انکار کیا۔پھر ملائکہ کا۔پس دو باتوں کو اُڑا کر اپنی اور خدا کی روح کے قائل ہو بیٹھے یعنی کچھ کرنا اور کچھ نہ کرنا
افتو منون ببعض الکتاب وتکفرون ببعص (بقرہ : ۸۶)
اس میں پھر دہریوں نے ہی کمال کیا ہے کہ کچھ بھی نہ مانو اور سب کا انکار کرو۔
منشی صاحب مذکور نے سوال کای کہ قرآنِ کریم میں بہت سارے لفظ زائد ہوتے ہیں اور ان کے معنی نہیں کئے جاتے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔فرمایا :
قرآن کریم بلکہ ہر زبان میں قرائن ہوتے ہیں اور یہ ایسے بہت سارے محاورے ہوتے ہیں ۔آپکو صرف و نحو سے واقفیت نہیں۔
منشی صاحب نے کہا کہ میں نے صرف ونحو کو خوب پڑھا ہے۔فرمایا :
موجودہ مروجہ صرف و نۃو ناقص ہے اور آپ نے صرف و نحو کو کمال تک بھی نہیں پہنچایا۔ہر ایک زبان کا ایک خاص محاورہ ہوتا ہے۔جبتک انسان کی مادری زبان نہ ہو یا اس زبان میں اتنا کمال نہ ہو کہ مشبہ بہ مادری ہو جاوے، تب تک وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔پس اس امر کو زبان کے واقفوں سے دریافت کرو۔اور دیکھو قومی محاورات میں کوئی اہل علم اعتراض نہیں کرسکتا۔
پھر سوال کیا کہ بعض لفظ لکھنے میں آتے اور پڑھنے میں نہیں آتے۔فرمایا :
انگریزی زبان ہی کو لے لو اس میں بھی بہت سے ایسے حروف ہیں جو لکھنے میں تو آتے ہیں پڑھنے میں نہیں آتے۔میں پھر یہی کہوں گا کہ آپ کو صرف ونحو کی واقفیت بالکل نہیں۔یہ باتیں عمر کھاکے حاصل ہوتی ہیں۔آپ کی عمر اس وقت آرام چاہتی ہے اور خیال آپ کو یہ لگ گیا ہے۔پھر مجھے اس بات کا بھی ڈر ہے کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ مجھے قرآن کی خدمت سے روک دیا ہے۔بہر حال میں تو پھر بھی یہی کہوں گا اور بطور نصیحت کہوں گا کہ راحت سے زندگی بسر کرو۔آپ کا ریئہ بہت خراب ہیکوئی۔مہلک بیماری نہ ہو جاوے۔ہاں ان لوگوں کے واسطے دعا کر چھوڑو کہ اﷲ تعالیٰ ان کو ہدایت دیوے۔ااور قرآن سمجھنے کی ہر ایک کو توفیق دیوے۔مخلوق کے تم ٹھیکیدارنہیں۔اپنے آپ کو مشکلات میں نہ ڈالو اور نہ تمہارے قویٰ خدا تعالیٰ نے اس لائق بنائے ہیں۔میں تو ہمیشہ آپ کو یہی کہوں گا اور یہی نصیحت کروں گا۔آئندہ آپ کو اختیار ہے۔والسلام۔
عرش کی حقیقت
عرش کے متعلق سوال ہوا۔آپ نے اپنی تقریر کے اس حصہ کا اعادہ فرمایا جو کہ قبل ازیں کئی دفعہ شائع ہو چکی ہے۔اور فرمایا کہ :
عر ش کی نسبت مخلوق اور غیر مخلوق کا جھگڑا عبث ہے۔احادیث سے اس کے جسم کہو تو پھر خد اکو بھی مجسّم کہنا چاہیے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کو علّو جسمانی نہیں کہ جس کا تعالق جہات سے ہو بلکہ یہ روحانی علّو ہے۔
عرش کی نسبت مخلوق اور غیرمخلوق کی بحث بھی ایک بدعت ہیجو کہ پیچھے ایجاد کی گئی۔صحابہؓ نے اس کو مطلق نہیں چھیڑا ۔تو اب یہ لوگ چھیڑ کر نافہم لوگوں کو اپنے گلے ڈالتے ہیں۔لیکن عرش کے اصل معنے اس وقت سمجھ میں آسکتے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ دوسری تمام صفات پر بھی ساتھ ہی نظر ہو۔؎ٰ
Amira 19-6-05
۲۱؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
ترکِ گناہ
ایسی ہوا چلی ہے کہ گناہ کا چھوڑ نا عیب خیال کرتے ہیں۔اور جب کوئی گناہ کو چھوڑ نا چاہتا ہے تو اُسے ایک حسرت ہوتی ہے کہ اب یہ ہاتھ سے گیا۔اگر خدا تعالیٰ کی عظمت کو مد نظر رکھ کر بھی ترکِ گناہ کیا جاوے تو بھی اس کا بوجھ ہلکا ہو جاوے، لیکن اس کا خیال کسے ہے۔ ۳؎
۲۵؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
تعظیمِ قبلہ
سوال ہوا کہ اگر قبلہ شریف کی طرف پائوں کر کے سویا جاوے تو جائز ہے کہ نہیں؟
فرمایا کہ:
یہ ناجائز ہے کیونکہ تعظیم کے برخلاف ہے۔
سائل نے عرض کی کہ احادیث میں اس کی ممانعت نہیں آئی۔فرمایا کہ :
یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔اگر کوئی اسی بناء پر کہ حدیث میں ذکر نہیں ہے اور اس لیے قرآن شریف پر پائوں رکھ کر کھڑا ہوا کرے، تو کیا یہ جائز ہو جاوے گا؟ ہرگز نہیں۔ ۴؎
ومن یعظم شعائر اﷲ فانھا من تقوی القلوب (الحج : ۳۳)
۲۶؍جولائی ۱۹۰۴ء بمقام گورداسپور
اکرامِ ضیف
اعلیٰ حجۃاﷲ مسیح موعود ؑ مہمان نوازی کا رسول اﷲ ﷺ کی طرح اعلیٰ اور زندہ نمونہ ہیں۔جن لوگوں کو کثرت سے آپ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ کسی مہمان کو (خواہ وہ سلسلہ میں داخل ہو) ذرا سی بھی تکلیف حضور کو بے چین کر دیتی ہے۔مخلصین احباب کے لیے تو اور بھی آپ کی روح میں جوشِ شفقت ہوتا ہے۔اس امر کے اظہار کے لیے ہم ذیل کا ایک واقعہ درج کر دیتے ہیں :
میاں ہدایت ال صاحب احمدی شاعر لاہور پنجاب جو کہ حضرت اقدس کے ایک عاشق صادق ہیں۔اپنی اس پیرانہ سالی میں بھی چند دنوں سے گورداسپور آئے ہوئے تھے۔آج انہوں نے رُخصت چاہی۔جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
آپ جا کر کیا کریں گے۔یہاں ہی رہیے اکٹھے چلیں گے۔آپ کا یہاں رہنا باعثِ برکت ہے۔اگر کوئی تکلیف ہو تو بتلادو اس کا انتظام کر دیا جاوے گا۔
پھر اس کے بعد آپ نے عام طو رپر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ
چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی کی ضرورت کا علم (اہلِ عملہ کو) نہ ہو۔اس لیے ہر ایک شخص کو چاہیے کہ جس شے کی اُسے ضرورت ہو وہ بلا تکلّف کہدے۔اگر کوئی جان بوجھ کر چھپاتا ہے،تو وہ گنہگار ہے۔ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلفی ہے۔
بعد ازیں حضرت اقدس نے میاں ہدایت اﷲ صاحب کو خصوصیت سے سید سرور شاسہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان کی ہر ضرورت کو وہ بہم پہنچاویں۔
سکھ مذہب اور عیسائیت
کل شام کو بعد از نماز مغرب دونو جوان اکائونٹنٹ جنرل آفس لاہور کے کلارک جن میں سے ایک صاحب ۔مسلمان تھے اور ایک عیسائی حضرت کی ملاقات کے لیے تشریف لائے؛ چونکہ مسلمان صاحب کا تعارف جناب مفتی محمد صادق صاحب سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلاہائی سکول قادیان سے تھا۔اس لیے مفتی صاحب نے ان کو حضرت اقدس سﷺے انٹروڈیوس کیا۔مختصر احالات کے استفسار کے بعد حضور عیسائی نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے۔معلوم ہوا کہ اول یہ سکھ مذہب کے تے اور ان کے والد عیسائی تھے۔اس پرحضرت اقدس نے فرمایا کہ آج کل اگر دنیا کے خدا گنے جاویں ایک ضخیم کتاب طیار ہوتی ہے،لیکن تعجب کہ سکھ جیسے مذہب کو چھوڑ کر جس میں توحید کی تعلیم ہے آپ نے عیسائی مذہب کو کیسے پسند کیا۔اس کے بعد متفرق طور پر مزاج پُِرسی وغیرہ ہوتی رہی۔اوربروقت رُخصت حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
ہمیں آپ کی ملاقات سے بہت خوشی ہوئی ہے۔افسوس ہے کہ قیام بہت تھوڑا ہے۔؎ٰ
بلاتاریخ ؎ٰ
کوئی نسخہ حکمی نہیں
ہمارے گھر مرزاصاحب (عالی جناب مرازا غلام مرتضیٰ خانصاحب مرحوم) پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔وہ اس فن طبابت میں بہت مشہور تھے،مگر اُن کا قوم تھا کہ کوئی حکمی نسخہ نہیں ملا۔حقیقت میں انہوں نے سچ فرمایا، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کوئی اثر نہیں کرسکتا۔
حکام اور برادری سے سلوک
ایک شخص نے پوچھا کہ حکام اور برادری سے کیسا سلوک کریں؟ فرمایا :
ہر ایک سے نیک سلوک کرو۔حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے۔وہ ہماری حفاظت کرتے اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔میں ا سکو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے۔
برادری کے حقوق ہیں۔اُن سے بھی نیک سلوک کرنا چاہیے؛البتہ ان باتوں میں جو اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی کے خلاف ہیں۔ان سے الگ رہنا چاہیے۔
ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کل مخلوق سے احسان کرو۔
قبولیت دعا کے آثار
جب اﷲ تعالیٰ کا فضل قریب آتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کے اسباب پہنچا دیتا ہے۔دل میںایک رقت اور سوز و گداز پیدا ہو اجت اہے،لیکن جب دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا،تو دل میں اطمینان اور رجوع پیدا نہیں ہوتا۔طبیعت پر کتانا ہی زور ڈالو مگر طبیعت متوجہ نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی خدا تعالیٰ اپنی قضاوقدر منوانا چاہتا ہے اور کبھی دعا قبول کرتا ہے۔اس لیے میں تو جبتک اذنِ الٰہی کے آثار نہ پالوں قبولیت کی کم اُمید کرتا ہوں اور اس کی قضاو قدر پر اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ جو قبولیت دعا میں ہوتی ہے راضی ہو جاتا ہوں، کیونکہ اس رضا بالقضاء کے ثمرات اور برکات اس سے بہت زیادہ ہیں۔
خدا تعالیٰ اعمالِ صالحہ کو چاہتا ہے
اﷲ تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا۔وہ تو روحانیت اور مغز کو قبول کرتا ہے۔اس لیے فرمایا
لن ینال اﷲ لحومہا ولا وما ؤ ھا ولکن ینا لہ التقوی منکم (الحج : ۳۸)
اور دوسری جگہ فرمایا
انما یتقبل اﷲ من المتقین (المائدۃ : ۲۸)
حقیقت میں یہ بڑی نازک جگہ ہے۔یہاں پیغمبر زادگی بھی کام نہیں آسکتی۔آنحضرت ﷺ نے فاطمہ ؓ سے بھی ایسا ہی فرمایا۔قرآن شریف میں بھی صاف الفاظ میں فرمایا :
اناکرمکم عند اﷲ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
یہودی بھی تو پیغمبر زادے ہیں۔کیا صدہا پیغمبر اُن میں نہیں آئے تھے مگر ا س پیغمبرزادگی نے اُن کو کیا فائدہ پہنچایا۔اگر اُن کے اعمال اچھے ہوتے تو وہ
ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ (البقرۃ : ۶۲)
کے مصداق کیوں ہوتے۔خدا تعالیٰ تو ایک پاک تبدیلی کو چاہتا ہے۔بعض اوقات انسان کو تکبر نسب بھی نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں اسی سے نجات پالو ں گا، جو بالکل خیال خام ہے۔کبیرؔ کہتا ہے کہ اچھا ہوا میں نے چماروں کے گھر جنم لیا۔
کبیرؔ اچھا ہوا ہم نیچ بھئے سب کو کریں سلام
خدا تعالیٰ وفاداری اور صدق کو پیار کرتا ہے اور اعمالِ صالحہ کو چاہتا ہے۔لاف وگزاف اُسے راضی نہیں کر سکتے۔
رفع عیسیٰ علیہ السلام
فرمایا :
قرآنِ شریف تو رفعِ اختلاف کے لیے آیا ہے۔اگر ہمارے مخالف رافعک الی کے معنی کرتے ہیں کہ مسیح جسم سمیت آسمان پر چڑھ گیا تو وہ ہمیں یہ بتائیں کہ کیا یہود کی یہ غرض تھی؟ اور وہ یہ کہتے تھے کہ مسیح آسمان پر نہیں چڑھا؟ اُن کا اعتراض تو یہ تھا کہ مسیح کا رفع الی اﷲ نہیں ہوا۔اگر رافعک الی اس اعتراض کا جواب نہیں تو پھر چاہیے کہ اس اعتراض کا جواب دیا اور دکھایا جاوے۔
مرکز میں آنے کی اصل غرض دین ہو
ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ میں تجارت کے لیے یہاں آنا چاہتا ہوں۔ فرمایا :
یہ نیت ہی فاسد ہے۔اس سے توبہ کرنی چاہیے۔یہاں تو دین کے واسطے آنا چاہیے۔اور اصلاح عاقبت کے خیال سے یاہں رہنا چاہیے۔نیت تو یہی ہو۔اور اگر پھر اس کے ساتھ کوئی تجارت وغیرہ یہاں رہنے کے اغراض کو پورا کرنے کے لیی ہو تو حرج نہیں ہے۔اصل مقصد دین ہو نہ دینا۔کیا تجارتوں کے لیے شہر موزوں نہیں؟ یہاں آنے کی اصل غرض کبھی دین کے سوا اور نہ ہو۔پھر جو کچھ حاصل ہو جاوے وہ خدا تعالیٰ کا فضل سمجھو۔
ہمدردیٔ خلائق
بنی نوع انسان کی ہمدردی خصوصاً اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور حمایت پر نصیحت فرماتے ہوئے ایک موقعہ پر فرمایا کہ :
میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوت اہو اور میں نماز میں مصروف ہوں’میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز تور کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچاسکتا ہوں تو فائدہ پہنچائوں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔اگر تم کچھ بھی اس کے لیے نہیں کرسکتے تو کم از کم دعاہی کرو۔
اپنے تو درکنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوئوں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھائو اور اُن سے ہمدردی کرو۔لا ابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جارہا تھا۔ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا۔وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔راستہ میں ایک بڑھیا کوئی ۷۰ یا ۷۵ برس کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اُسے پڑھنے کو کہا مگر اُس نے اُسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔میرے دل پر چوٹ سی لگی۔اس نے وہ خط مجھے دیا ۔میں اُس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا۔کیونکہ ٹھہرنا پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔
سلسلہ کا مستقبل
مجھے بڑے ہی کشفِ صحیح سے معلوم ہوا ہے کہ ملوک بھی اس سلسلہ میں داخل ہوں گے۔یہانتک کہ وہ ملوک مجھے دکھائے بھی گئے ہیں۔وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔اور یہ بھی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تجھے یہانتک برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔اﷲ تعالیٰ ایک زمانہ کے بعد ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کو داخل کرے گا اور پھر اُن کے ساتھ ایک دنیا اس طرف رجوع کرے گی۔؎ٰ
آدابِ دعا
دعا میں جس قدر بیہودگی ہوتی ہے اسی قدر اثر کم ہوتاہے۔یعنی اس کی استجابت ضرورتی نہیں سمجھی جاتی۔مثلاً ایک شخص ہے کہ اس کا گذارہ ایک دوروپیہ روزانہ میں بخوبی چل سکتا ہے لیکن وہ پچاس روپیہ روزانہ طلب کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس کا سوال بیہودہ ہوگا۔یہ ضروری امر ہے کہ ضرورتِ حقہ اﷲ تعالیٰ کے آگے پیش کی جاوے۔جب کسی کی مصیبت کا خط آتا ہے اور اس میں دعا کی درخواست ہوتی ہے تو دیھکا گیا ہے کہ دل خوب لگ کر دعا کرتا ہے،لیکن دوسری بیہودہ درخواستوں میں قدر دل نہیں لگتا۔
عام لوگ جو آجکل دفعِ طاعون کے لیے دعا مانگتے ہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ :
اس وقت اﷲ تعالیٰ اپنی ذات کو منوانا چاہتا ہے۔نری دعا سے کای فائدہ ہو سکت اہیجبتک کہ عقائد کی اصلاح نہ ہو۔ایسی دعائیں کیا بُت پرست نہیں مانگتے؟ پھر اُن میں اور اِن میں فرق کیا ہوا؟ بلکہ مجھے میال آتا ہے۔
واذا سالک عبادی عنی فانی قریب (البقرۃ : ۱۸۷)
کے یہی معنی ہیں کہ اگر سوال ہو کہ خدا کا علم کیونکر ہوا تو جواب یہ ہے کہ اسلام کا خد ابہت قریب ہے۔اگر کوئی اسے سچے دل سے بلات اہے،تو وہ جواب دیت اہے۔دوسرے فرقوں کے خدا قریب نہیں ہیں بلکہ اس قدر دور ہیں کہ اس کا پتہ ہی ندارد۔اعلیٰ سے اعلیٰ غرض عابد اور پرستار کی یہی ہے کہ اس کا قُرب حاصل ہو اور یہی ذریعہ ہے جس سے اس کی ہستی پر یقین حاصل ہوتا ہے
اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (البقرۃ : ۱۸۷)
کے بھی یہی معنی ہیں کہ وہ جواب دیتا ہے گونگا نہیں ہے۔دوسرے تمام دلائل اس کے آگے ہیچ ہیں۔کلام ایک ایسی شئے ہے جو کہ دیدار کے قائمقام ہے۔
Amira 20-6-05
عذاب اور فسق
ایک تحصیلدار صاحب نے گورداسپور میں عرض کی کہ تجربہ ہوا ہے کہ خاص طاعون کے دنوں میں فسق بڑھ جاتا ہے؛ چنانچہ ایک گھر میں پے در پے طاعون سے موتیں ہوتی رہیں اور اس کے ستھ ہی دیوار بہ دیوار ایک شخص ایک ہفتہ زنا کاری میں مبتلا رہا ۔فرمایا کہ :
قرآن شریف سے بھی ایسا ثابت ہے جیسے کہ
امرنا متر فیہا ففسقو افیہا فحق علیہا القول فدمر نھا تدمیرا (بنی اسرائیل : ۱۷)
یعنی جب اس قسم کے عذاب نازل ہوتے ہیں تو فاسقوں کو ڈھیل دی جاتی ہے کہ وہ جی بھر کر فسق کر لیں۔پھر ان کو ایک ہی دفعہ ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
لذاتِ دینوی میں انہماک
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروہ ہیں جو حیاتِ دنیا پر راضی ہو گئے اور اطمینان پا گئے ہیں۔خدا تعالیٰ کی طرف حرکت کی ضرورت کو وہ بالکل محسوس ہی نہیں کرتے
فلا نقیم لہم یوم القیامۃ وزنا (الکہف : ۱۰۶)
میں گناہ کا ذکر نہیں ہے۔اس کا باعث پرف یہ ہے کہ ان لوگوں نے دنیا کی خواہشوں کو مقدم رکھ اہوا تھا۔ایک اور جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ دنیا کا حظ پا چکے ۔وہاں بھی گناہ کا ذکر نہیں بلکہ دنای کی لذات جن کو خدا تعالیٰ نے جائز کیا ہے۔اُن میں منہمک ہو جاتے کا ذکر ہے۔اس قسم کے لوگوں کا مرتبہ عند اﷲ کچھ نہ ہوگ ااور نہ اُن کو عزت کا مقام دیا جائے گا۔شیریں زندگی اصل میں ایک شیطان ہے جو کہ انسان کو دھوکا دیتی ہے۔مومن تو خود مصیبت خریدتا ہے؛ ورنہ اگر وہ مداہنہ برتے تو ہر طرح آرام سے رہ سکتا ہے۔آنحضرت ﷺ اگر اس طرح کرتے تو اس قدر جنگیں کیوں ہوتیںک،لیکن آپؐ نے دین کو مقدم رکھااس لیے سب دشمن ہو گئے۔
حسنِ نیت
ملازمت پیشہ لوگوں کو عبادت کا بڑا کم وقت ملتا ہے اور وہ دینی خدمات سے بھی محروم رہتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی زندگی آرام میں گذرتی ہے۔تلخ زندگی کا اُن کو موقعہ ہی نہیں آتا۔فرمایا کہ :
وہ بھی ایک تلخی کا حصہ ہے،کیونکہ معاش کے لیے کرتا ہے اس لیے عبادت کا ثواب پاتا ہے۔نیک نیتی سے اگر انسان چلے اور نیت یہ ہو کہ بال بچوں کی پرورش اس لیی کرتا ہوں کہ وہ خادمِ دین ہوں تو اس پر بھی اُسے ثواب ملتا ہے۔
نبی اور اجتہادی غلطی
انبیاء کے دشمنوں کے دو گروہ ہوتے ہیں ایک وہ جو اُن کے مکذب ہوتے ہیں۔دوسرے وہ جو اُن کو خدا مانتے ہیں۔اہلِ اسلام کا عقیدہ جو مسیح ؑکے دوبارہ آنے کا ہے وہ اسی قسم کا ہے کہ یہ لوگ اُن کے مکذب تو نہیں ہیں، لیکن ان کو خدا ضرور مانتے ہیں کہ ہر ایک اس کی صفت میں اُسے شریک کیا ہوا ہے؛ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ بعض وقت نبی کو اجتہاد اور تفہیمِ الہام میں غلطی ہو جاتی ہے۔یہ غلطی اگر احکا م دین کے متعلق ہو تو اُن کو فوراً متنبہ کیا جاتا ہے۔لیکن دوسرے امور میں ضروری نہیں کہ وہ اطلاع دیئے جاویں۔پس اس لیے یہ بات ممکن ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اُن کے دوبارہ آنے کے بارے میں جو الہامات ہوئے خود انہوں نے بھی اسے حقیقی معنوں پر حمل کر لیا ہو کیونکہ ان کا مخطی ہونا تو ثابت ہے،اس لیے انجیلوں میں ان کا یہ فقرہ نقل ہوا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ میں دوبارہ آجائوں گا۔اس قسم ک ی اجتہادی غلطی کا امکان ہر ایک نبی سے ہے۔اب دیکھو کہ مسیح علیہ السلام سے تو ایک اجتہادی غلطی ہوئی لیکن دوسروں کو کس قدر وبال آیا۔اگر ان مسلمانوں کو یہ سمجھ ہوتی تو وہ دوسرے نبیوں سے ان کو کیوں زیادہ مرتبہ دیتے۔مسلمانون پر یہ بات لازم نہیں ہے کہ وہ انجیل کے الفاظ پر ضرور اَڑ یں۔مسیح علیہ السلام کو یہ خاص عزت دیں کہ وہ محطی نہیں یہ تو اسلام سے خارج ہونا ہے۔
چند فقہی مسائل
سفر گورداسپور میں نماز کے متعلق ذیل کے مسائل میری موجود گی میں حل ہوئے۔ (ڈائری نویس)
(۱) ایک مقام پر دو جماعتیں نہ ہونی چاہیں۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس ابھی وضو فرما رہے تھے اور مولانا محمد احسن صاحب بوجہ علالتِ طبع نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔اُن کا خیال تھا کہ میں معذور ہوں الگ پڑھ لُوں،مگر چند ایک احباب ان کے پیچھے مقتدی بن گئے اور جماعت ہو گئی۔جب حضرت اقدس کو علم ہوا کہ ایک دفعہ جماعت ہو چکی ہے اور اب دوسری ہونے والی ہے۔
تو آپ نے فرمایا کہ :
ایک مقام پر دو جماعتیں ہرگز نہ ہونی چاہئیں
(۲) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور اقدس اپنی کوٹھڑی میں تھے اور ساتھ ہی کوٹھڑی میں نماز ہونے لگی۔آدمی تھوڑے تھے۔ایک ہی کوٹھڑی میں جماعت ہو سکتی تھی۔بعض احباب نے خیال کیا کہ شاید حضرت اقدس اپنی کوٹھڑی میں نماز ادا کرلیں گے،کیونکہ امام کی آواز وہاں پہنچتی ہے۔اس پر آپؑ نے فرمایا کہ :
جماعت کے ٹکڑے الگ الگ نہ ہونے چاہئیں بلکہ اکٹھی پڑھنی چاہیے۔ہم بھی وہاں ہی پڑھیں گے۔یہ اس صورت میں ہونا چاہیے جبکہ جگہ کی قلت ہو۔
(۳) ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گورداسپور میں مقیم تھے اور احمدی جماعت نزیل قادیان بہ باعث سفر میں ہونے کے نماز جمع کر کے ادا کرتی تھی۔ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ پوچھا۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ ؍
مقیم پوری نماز ادا کریں
وہ اس طرح ہوتی رہی کہ جماعت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نماز ادا کرتے۔جماعت دو رکعت ادا کرتی ،لیکن ڈاکٹر صاحب باقی کی دو رکھعت بعد از جماعت ادا کر لیتے۔ایک دفعہ حضرت اقدس نے دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے ابھی دو رکعت ادا کرنی ہے۔فرمایا کہ :
ٹھہر جائو۔ڈاکٹر صاحب دو رکعت ادا کر لیویں
پھر اس کے بعد جماعت دوسری نماز کی ہوئی۔ایسی حالت جمع میں سنت اور نوافل ادا نہیں کیے جاتے۔
(۴) حضرت مسیح موعودؑ کھڑے ہوئے تھے۔آپ نے پانی مانگا۔جب پانی آیا تو اُسے بیٹھ کر آپ نے پیا اور بھی کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ پانی وغیرہ آپ ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیتے ہیں۔؎ٰ
۱۷؍اگست ۱۹۰۴ء بمقام قادیان۔بوقت شام
صوفیا کا ملامتی فرقہ اور ریاء
شام کی نمازکے بعد چند ایک احباب نے بیعت کی۔ان میں ایک صاحب ایسے تھے جو کہ اپنے زمانہ جہالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت الفاظی سے یاد کرتے اور بہت ہی بُِرا بھلا کہتے تھے۔وہ اپنی ان خطائوں کی معفی حضرت اقدس علیہ السلام سے طلب کرتے تھے۔آپ فرماتے تھے کہ توبہ کے بعد اﷲ تعالیٰ سب گناہ بخش دیتا ہے۔اس اثناء میں اس تائب کا دل اپنے گناہوں کو یاد کرکے بھر آیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔روتا جاتا تھا اور گناہوں کی مغفرت کی دعا بھی کرتا جاتا تھا۔اس کی اس حالت کو جناب حکیم نورالدین صاحب نے دیکھ کر عرض کی کہ ایسے ہی مذنب ہیں جنکو خدا تعالیٰ بخش دیتا ہے۔اس پر سلسلہ کلام چل پڑا اور حضرت اقدس نے ذیل کی تقریر شروع کی۔
فرمایا کہ :
ذنوب آدمی کو اسی لیے قُرب بخشتے ہیں بشرطیکہ ساتھ توبہ اور استغفار بھی ہو اور یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے خطا اور صغائر میں انبیاء کو بھی شریک کر دیا ہے تاکہ قربِ الٰہی کے مراتب میں وہ ترقی کر سکیں۔فرقہ ملامتی کو میں پسند نہیں کرتا، کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر غیر کے وجود کو بڑا خیال کرتے ہیں اور اپنے اعمالِ صالحہ کو پوشیدہ رکھ کر مخلوق کو نظروں میں مُتّہَم (جائے تہمت) ہونا چاہتے ہیں۔یہ اُن کی غلطی ہے۔دوسرے وجود کو تو لاشئی خیال کرنا چاہیے اور کسی کے ضرر اور نفع پر نظر ہرگز نہ رکھنی چاہیے۔نہ کسی کی مدح سے پھولے اور دل میں خوش ہو اور نہ کسی کی ذم سے رنجیدہ خاطر ہو۔سچے موحد وہی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے وجود کو کوئی شئے خیال نہیں کرتے اور یہی وجہ ہیکہ فرقۂ ملامتی اس توحید سے گرا ہوا ہے۔خدا تعالیٰ نے مومنوں کی صفت فرمائی ہے۔
لا یخافون لو مۃ لائم (المائدۃ : ۵۵)
کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں خوف کھاتے اور صرف اپنے مولا کی رضا مندی کو مقدم رکھتے ہیۃ۔
مومن ایک لا پروا انسان ہوتا ہے۔اُسے صرف خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی حاجت ہوتی ہے اور اسی کی اطاعت کو وہ ہر دم مد نظر رکھتا ہے،کیونکہ جب اس کا معاملہ خدا سے ہے تو پھر اُسے کسی کے ضرر اور نفع کا کیا خوف ہے۔جب انسان خدا تعالیٰ کے مقابل کسی دوسرے کے وجود کو دخل دیت اہے،تو ریاء اور عجب وغیرہ معاصی میں مبتلا ہوت اہے۔یاد رکھو کہ یہ دخل وہی ایک زہر ہے اور کلمہ لاالہ الا اﷲ کے اول جزو لاالہ میں اس کی بھی نفی ہے،کیونکہ جب انسنا کسی انسان کی خاطر خدا تعالیٰ کے ایک حکم کی بجا آوری سے قاصر رہتا ہے تو آخر اُسے خد اکی کسی صفت میں شریک کرتا ہے تبھی تو قاصر رہتا ہے اس لیے لا الہ کہتے وقت اس قسم کے معبودوں کی بھی نفی کرتا ہے۔
صوفیوں نے اس قسم کے ملامتی لوگوں کے بہت سے قصے لکھے ہیں۔امام غزالی (علیہ الرحمۃ) نے بھی لکھا ہے کہ آجکل کے فقراء ریاکار ہوتے ہیں۔تن کی آسانی کو مد نظر رکھ کر موٹے جھوٹے کپڑے تو پہنتے نہیں اس لیے باریک کپڑوں کو گیرویاسبز رنگ لیتے ہیں اور اُن کے جبے پہن کر اپنے کو فقراء مشہور کرتے ہیں۔مقصود ان کا یہ ہوت اہے کہ لوگوں سے متمیز ہوں اور عوام الناس خصوصیت سے اُن کی طرف دیکھیں۔پھر روزہ داروں کا ذکر لکھا ہے کہ کوئی روزہ دار مولوی کسی کے ہاں جاوے اور اُسے مقصود ہو کہ اپنے روزہ کا اظہار کرے تومالک خانہ کے استفسار پر بجائے اس کے کہ سث بولے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے اس کی نظروں میں بڑا نفس کُش ثابت کرنے کے لیے جواب دیا کرتے ہیںکہ مجھے عذر ہے۔غرضیکہ اسی طرح کے بہت سے مخفی گناہ ہوتے ہیں جو اعمال کو تباہ کرتے رہتے ہیں۔
کبر اور نخوت
امر اء کو کبر اور نخوت لگے رہتے ہیں جو کہ ان کے عملوں کو کھاتے رہتے ہیں۔اس لیی بعض غریب آدمی جن کو اس قسم کے خیالات نہیں ہوتے وہ سبقت لے جاتے ہیں۔
غرضیکہ ریاء وغیرہ کی مثال ایک چوہے کی ہے جو کہ اندر ہی اندر اعمال کو کھاتا رہتا ہے۔خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے لیکن اس کی طرف آنے کے لیے عجز ضروری ہے۔جس قدر انانیت اور بڑائی کا خیال اس کے اندر ہوگا خواہ وہ علم کے لحاظ سے ہو، خواہ ریاست کے لحاظ سے۔خواہ مال کے لحاظ سے،خواہ خاندان اور حسب نسب کے لحاظ سے،تو اسی قدر پیچھے رہ جاویگا۔اسی لیے بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ سادات میں سے اولیاء کم ہوئے ہیں،کیونکہ خاندانی تکبر کا خیال ان میں پیا ہو جاتا ہے۔قرونِ اولیٰ کے بعد جب یہ خیال پیدا ہوا تو یہ لوگ رہ گئے۔
اس قسم کے حجاب انسان کو بے نصیب اور محروم کر دیتے ہیں۔بہت ہی کم ہیں جو ان سے نجات پاتے ہیں۔امارت اور دولت بھی ایک حجاب ہوتا ہے۔امیر آدمی کو کوئی غریب سے غریب اور ادنیٰ آدمی السلام علیکم کہے تو اُسے مخاطب کرنا اور وعلیکم السلام کہنا اس کو عار معلوم ہوتا ہے اور خیال گذرتا ہے کہ یہ حقیر اور ذلیل آدمی کب اس قابل ہوتاہے کہ ہمیں مخاطب کرے۔اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ غریب امیروں سے پانصد سال پیشتر جنت میں جاویں گے۔ہمیں معلومنہین کہ اس حدیث کے معانی کیا ہیں،لیکن ہم ان الفاظ پر ایمان لاتے ہیں۔اس کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ غریبوں کا تزکیۂ نفس قضاء قدر نے خود ہی کیا ہوتا ہے۔
حصولِ فضل کی راہیں
یاد رکھوکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کے دوراہ ہیں۔ایک تو زُہد نفس کشی اور مجاہدات کے ہے اور دوسرا قضاء وقدر کا۔لیکن مجاہدات سے اس راہ کا طے کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے اپنے بدن کو مجروح اور خستہ کرنا پڑتا ہے۔عام طبائع بہت کم اس پر قادر ہوتی ہیں کہ وہ دیدہ و دانستہ تکلیف جھیلیں۔لیکن قضاء و قدر کی طرف سے جو واقعات اور حادثات انسان پر آکر پڑتے ہیں وہ ناگہانی ہوتے ہیں اور جب آپڑ تے ہیں تو قہرِ دردیش برجان درویش ان کو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے جو کہ اس کے تزکیۂ نفس کا باعث ہو جاتا ہے جیسے شہداء کو دیکھو کہ جنگ کے بیچ میں لڑتے لڑتے جب مارے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک کس قدر جر کے مستحق ہوتے ہیں۔یہ درجاتِ قرب بھی ان کو قضاء و قدر سے ہی ملتے ہیں ورنہ اگر تنہائی میں اُن کو اپنی گردنیں کاٹنی پڑیں تو شاید بہت تھوڑے ایسے نکلیں جوشہید ہوں۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ غرباء کو بشارت دیتا ہے۔
ولنبلو نکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرت وبشر الصابرین الذین اذا اصا بتہم مصیبۃ قالو اانا لﷲ وانا الیہ راجعون (البقرۃ : ۱۵۶، ۱۵۷)
اس کا یہی مطلب ہے کہ قضاو قدر کی طرف سے ان کو ہر ایک قسم کے نقصان پہنچتے ہیں اور پھر وہ صبر کرتے ہیں تو خد اتعالیٰ کی عنائتیں اور رحمتیں ان کے شامل حال ہوتی ہیں،کیونکہ تلخ زندگی کا حصہ ان کو بہت ملتا ہے،لیکن امراء کو یہ کہاں نصیب۔امیروں کا تو یہ حال ہے کہ پنکھا چل رہا یہ۔آرام سے بیٹھے ہیں۔خدمتگار ٔچائے لایا ہے۔اگر اس میں ذرا سا قصور بھی ہے ۔خواہ میٹھا ہی کم یا زیادہ ہے تو غصہ سے بھر جاتے ہیں۔خدمتگار پر ناراض ہوتے ہیں۔بہت غصہ ہو تو مارنے لگ جاتے ہیں۔حالانکہ یہ مقام شکر کا ہے، کہ اُن کو ہل جوتنا نہیں پڑا۔کاشتکاری کے مصائب برداشت نہیں کیے۔چولہے کے آگے بیٹھ کر آگ کے سامنے تپش کی شدت برداشت نہیں کی اور پکی پکائی شئے محض خدا کے فضل سے سامنے آگئے ہے۔چاہیے تو یہ تھا کہ خد اکے احسانوں کو یاد کر کے رطب اللساں ہوتے۔لیکن اس کے سارے احسانوں کو بھول کر ایک ذرا سی بات پر سارا کیا کرایا رائیگاں کردیتے ہیں؛ حالانکہ جیسے وہ خدمتگار انسان ہے اور اس سے غلطی اور بھول ہو سکتی ہے ویسے ہی وہ (امری) بھی تو انسان ہے۔اگر اس خدمتگار کی جگہ خود یہ کام کرتا ہوت اتو کیا یہ غلطی نہ کرتا؟ پھر اگر ماتحت آگے سے جواب دے تو اس کی اور شامت آتی ہے اور آقاکے دل میں رہ رہ کر جوش اُٹھتا ہے کہ یہ ہمارے سامنے کیوں بولت اہے اور اسی لیے وہ خدمتگار کی ذلت کے درپے ہوتا ہے؛ حالانکہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنی غلطی کی تلافی کے لیے زبان کشائی کرے۔اس پر مجھے ایک بات یاد آئی ہے کہ سلطان محمود کی (یا ہارون الرشید کی) ایک کنیز تھی۔اُس نے ایک دن بادشاہ کا بستر جو کیا تو اُسے گدگدا اور ملائم اور پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا پاکر اس کے دل میں آیا کہ میں بھی لیٹ کر دیکھوں تو سہی اس میں کیا آرام حاصل ہوتا ہے۔وہ لیٹی تو اسے نیند آگئی۔جب بادشاہ آیا تو اسے سوتا پا کر ناراض ہوا اور تازیانہ کی طزا دی۔وہ کنیز روتی بھی جاتی اور ہنستی بھی جاتی۔بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ روتی تو اس لیے ہوں کہ ضربوں سے درد ہوتی ہے اور ہنستی اس لیے ہوں کہ میں چند لمحہ اس پر سوئی تو مجھے یہ سزا ملی اور جو اس پر ہمیشہ سوتے ہیں ان کو خدا معلوم کسی قدر عذاب بھگتنا پڑے گا۔
Amira 21-6-05
غربت ایک کیمیا ہے
پس غریبوں کو ہرگز بے دل نہ ہونا چاہیے۔ان کا قدم آگے ہی ہے،لیکن وہ کوشش کریں کہ تھوڑی بہت جو کسر ہے وہ نکال دیویں کیونکہ بعض وقت ان لوگون سے غریبی میں بھی بڑے بڑے گناہ صادر ہو جاتے ہیں۔صبر نہیں کرتے خد اتعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔معاش کی قلت ہو تو چوری،ڈاکہ اور دوسرے جراتم شروع کر دیتے ہیں۔ایسی حالتوں میں صبر کرنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف ہرگز مائل نہ ہونا چاہیے۔غُربت اور کم رزتی دراصل انسان کو انسان بنانے کے لیے بڑی کیمیا ہے؛ بشرطیکہ اس کے ساتھ اور قصور نہ ہوں۔جیسے مالداروں میں تکبر اور نخوت وغریہ پید اہو کر ان کے اعمال کو تباہ کر دیتے ہیں ویسے ہی ان میں بے صبری موجبِ ہلاکت ہوتی ہے۔اگر غریب لوگ صبر سے کام لیں تو ان کو وہ حاصل ہو جو اور لوگوں کو مجاہدہ سے حاصل نہیں ہوسکتا۔خدا تعالیٰ نے اصل میں بڑا احسان کیا ہے کہ انبیاء کے ساتھ غریبی کا حصہ بھی رکھ دیا ہے۔آنحضرت ﷺ بکریاں چرایا کرتے تھے۔موسیٰ ؑنے بکریاں چرائیں۔کیا امراء یہ کام کر سکتے ہیں۔ہرگز نہیں۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ کا گذرایک جنگل میں ہوا۔وہاں کچھ پھل دار درخت کا پھل کھائو بہت شیریں ہے۔صحابہؓ نے پوچھا کہ یا حضرت آپ کو کیسے علم ہے؟ فرمایا کہ جب میں بکریاں چرایا کرتا تھا تو اس جنگل میں بھی آیا کرتا اور ان پھلوں کو کھایا کرتا تھا۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے یہ تجویز نہیں کیا کہ انبیاء شاہی خاندان سے ہوں؛ ورنہ تکبر اور نخوت کا کچھ نہ کچھ حصہ ان میں ضرور رہ جاتا۔او رپھر نبوت کے بھی دو حصے کر دیئے۔ایک مصائب اور شدائد کا اور دوسرا فتح و نصرت کا۔انبیاء کی زندگی کے ان دو حصوں میں بھی الٰہی حکمت تھی۔ایک تو یہی تھی کہ ان کے اخلاق میں ترقی ہو۔اور سچی بات یہی ہے کہ جوں جوں نبوت کا زمانہ گذرتا ہے اورواقعات اور حادثات کی صورت بدلتی جاتی ہے انبیاء کی اخلاقی حالت بھی ترقی کرتی جاتی ہے۔ابتداء میں ممکن ہے کہ غصہ وغیرہ زیادہ ہو۔ا س لیے نبی کی زندگی کا آخری حصہ بہ نسبت پہلے کے بلحاظ اخلاق کے بہت ترقی یافتہ ہوت اہے۔اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ ابتداء میں ان کے اخلاق عام لوگوں سے ترقی یافتہ نہیں ہوتے بلکہ یہ امر ہے کہ اپنے دائرہ نبوت میں وہ آخری حصہ عمر میں بہت مؤدب ہوتے ہیں؛ ورنہ ان کی ابتدائی زندگی کا حصہ بھی اخلاق میں توکُل لوگوں سے اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نبی اگر شدائد مصائب سے امن میں رہے تو اُن کی صبر کی قوت کا پتہ لوگوں کو کیسے معلوم ہو۔پھر بہت سے اخلاقِ فاضلہ اس قسم کے ہیں کہ وہصرف نزولِ مصائب پر ہی حاصل ہوئے ہیں۔آنحضرت ﷺ پر خد اتعالیٰ کا بڑا فضل و احسان تھا کہ آپؐ کو دونوں موقع عطا کیے۔ہر ایک نبی کا یہ کام نہیں کہوہ ہر ایک رتبہ کے لوگوں کو ایک کامل نمونہ اخلاق کا پیش کرسکے۔فقیر ،غریب اور امری وغیرہ ہر ایک اس کے چشمہ سے مساوی سیراب ہوں۔یہ صرف آنحضرت ﷺ کی ہی ذات سے ہے۔جس نے کُل ضرورتوں کو پورا کرکے دکھایا۔
تعلیم کے ساتھ اُسوَہ کی ضرورت
فرقہ چکڑالوی نے بھی یہاں ہی ٹھوکر کھائی ہے۔اس نے یہ نہیں سمجھا کہ بغیر نمونہ کے دوسرا انسان اتباع کیسے پوری کر سکتا ہے۔
ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی (آل عمران : ۳۲)
کہہ کر آنحضرت ﷺ نے ہر ایک طبقہ کے انسان کو مخاطب کیا ہے کہ ہر ایک قسم کا سبق مجھ سے لو۔اور ظاہر ہے کہ جبتک ایک اُسوہ سمانے نہ ہو، انسان عملدرآمد سے قاصر رہتا ہے۔ہر ایک قسم کے کمال کے حضول کے لیے نمونہ کی ضرورت ہے۔انسانی طبائع اسی قسم کی واقع ہوئی ہیں کہ وہ صرف قول سے متأثر نہیں ہوتیں جب تک اس کے ساتھ فعل نہ ہو۔اگر صرف قول ہو تو صدہا اعتراض لوگ کرتے ہیں۔دین کی باتوں کو سنکر کہا کرتے ہیںکہ یہ سب باتیں کہنے کی ہیں کون ان کو بجا لا سکتا ہے۔یونہی بنا چھوڑی ہیں۔اور ان اعتراضوں کا رد نہیں ہوسکتا جبتک ایک انسان عمل کرکے دکھانے والا نہ ہو۔
دعا کے آداب
دعا کے لیے انسان کو اپنے خیال اور دل کو ٹٹولنا چاہیے کہ آیا اس کا میلان دنای کی طرف ہے یا دین کی طرف یعنی کثرت سے وہ دعائیں دنیاوی آسائش کے لیے ہیں یا دین کی خدمت کے لیے۔پس اگر معلومہو کہ اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہوئے اسے دنیاوی افکار ہی لاحق ہیں اور دین مقصود نہیں تو اسے اپنی حالت پر رونا چاہیے۔بہت دفعہ دیکھا گیا ہیکہ لوگ کمر باندھ کر حصول دنیا کے لیے مجاہدے او ریاضتیں کرتے ہیں۔دعائیں بھی مانگتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوت اہے کہ طرح طرح کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔بعض مجنون ہو جاتے ہیں۔لیکن سب کچھ دین کے لیے ہو تو خدا تعالیٰ ان کو کبھی ضائع نہ کرے۔قول اور عمل کی مثال دانہ کی ہے۔اگر کسی کو ایک دانہ دیا جاوے اور وہ اسے لے جاکر رکھ چھوڑے اور استعمال نہ کرے تو آخر اُسے پڑے پڑے گھن لگ جاوے گا۔ایسے ہی اگر قول ہو اور اس پر عمل نہ ہو تو آہستہ آہستہ وہ قول بھی نہ رہے گا۔اس لیے اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیے۔؎ٰ
Amira 25-6-05
۹؍اگست ۱۹۰۴ء
بمقام قادیان
اپنی نیک نیت میں فرق نہ لائو
بعض لوگوں کے ایک مسجد کے تناز عہ پر آپ نے فرمایا :
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ زیادہ بزرگ تم میں سے وہ ہے جو تقویٰ میں زیادہ ہے۔جیسے قرآنُ شریف میں ہے۔
ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
اور متقیوں کے صفات میں سے ہے کہ وہ بالغیب ایمان لتے ہیں۔نماز پڑھتے ہیں اور
مما رزقنھم ینفقون (البقرۃ : ۴)
یعنی علم،مال اور دوسرے قویٰ ظاہری اور باطنی جو کچھ دیا ہے۔سب کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے انعام کے کئے ہیں۔
انسان ایک کارِ خیر کے لیے جب نیت کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ پھر اس میں کسی قسم کا فرق نہ لاوے۔اگر کوئی دوسرا جو اس میں حصہ لینے والا تھا یا نہ تھا، مزاحم ہو اور بددیانتی کرے تو بھی اول الذکر کو چاہیے کہ وہ کسی قسم کا تغیر اپنے ارادہ میں نہ کرے۔اس کو اس کی نیت کا اجر ملے گا اور دوسرا اپنی شرارت کی سزا پاوے گا۔
دنیا میں لوگوں کو ایک یہ بھی بڑی غلطی لگی ہے کہ دوسرے سے مقابلہ کے وقت یا اس کی نیت میں فرق آتا دیکھ کر اپنی نیت کو جو خیر پر مبنی ہوتی ہے،بدل دیا جاتاہے۔ اس طرح سے بجائے ثواب کے عذاب حاصل ہوتا ہے۔یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے نقصان روانہیں رکھتا وہ عند اﷲ کسی اجر کا بھی مستحق نہیں۔خدا کے لیے جو جان تک دریغ نہ کرنی چاہیے۔پھر زمین وغریہ کیا شئے ہے۔جس قدر کوئی دکھ اٹھانے کے لیے تیار ہو گا اتنا ہی اُسے ثواب ملے گا۔اگر کوئی شخص یہ اصول اختیار نہیں کرتا تو اس نے ابھی تک ہمارے سلسلہ کا مطلب اور مقصود ہی نہیں جانا۔جو لوگ اس جماعت میں دخال ہیں۔اگر وہ عام لوگوں سے اخلاق،مروت ارو ہمدردی برتتے ہیں تو اُن میں اور دوسرے لوگوں سے کیا فرق ہوا؟ شریر کی شرارت کو شریر کے حوالاہ کرو۔اور اپنے نیک جوہر دکھائو۔تب تمیز ہوگی۔دنیاوی تنازعات کے وقت مالی نقصان برداشت کرنے اور جو رنفس سے کام لینے کے سوا چارہ نہیں ہوا کرتا اور نہ انسان کو ہمیشہ اس قسم کے مواقع ہاتھ آتے ہیں کہ وہ فطرت کے یہ نیک جوہر دکھاسکے۔اس لیے اگر کوئی ایسا موقعہ ہاتھ آجاوے تو اُسے غنیمت خیال کرنا چاہیے۔
مساجد کی اہمیت اور برکات
اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔جس گائوں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔اگر کوئی ایسا گائوں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں وا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے پھر خد اخود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔محض ﷲ اُسے کیا جاوے۔نفسانی اغراض یا کسی مثرکو ہرگز دخل نہ ہو،تب خد ابرکت دے گا۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصع اور پکی عمارت کی ہو۔بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغریہ ڈال دو کہ بارش وغریہ سے آرام ہو۔خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔آنحضرت ﷺ کی مسجد چند کھوجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی۔پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا۔اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتا ہے۔شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے۔اور جماعت کے لوگوں کو چہایے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں۔جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔پراگند گی سے پھوٹ پید اہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداذ کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔
نفسِ لوّامہ
مولوی تاج محمود صاحب ساکن لالیاں نے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام سے مصافحہ کیا اور نماز میں سرور اور لذت کے لیے دعا کی درخواست کی۔فرمایا کہ :
دعا کرتے رہو۔اور کراتے رہو۔ایک کارڈ روانہ لکھ دیا کرو کہ دعایا د آجایا کرے۔طبیعت پر جبر کرکے جو کام کیا جاتا ہے ثواب اسی کا ہوتا اور اسی کا نام نفسِ لوامہ ہے کہ طبیعت آرام کرنا چاہتی ہے اور محبوباتِ نفسانی کی طرف کھچی جاتی ہے مگر وہ بزوراسے مغلوب کرکے خدا کے احکام کے ماتحت چلاتا ہے اس لیی اجر پاتا ہے۔ثواب کی حد نفسِ لوامہ تک ہی ہے اور اسے ہی خدا نے پسند کیا ہے؛ چنانچہ قرآنِ شریف میں بھی قسم نفس لوامہ کی ہی خدا نے کھائی ہے۔مطمئنہ میں جاکر ثواب نیں رہتا۔کیونکہ وہاں کوئی کشاکشی اور جنگ نہیں۔وہ تو امن کی حالت ہے۔
سونے چاندی او ریشم کا استعمال
عرض کی گئی کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ فرمایا کہ :
۳-۴ ماشہ تک کوئی حرج نہیں،لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے۔اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے۔ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں۔جیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سوین کے برتن میں کھنا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کرسکتا ہے۔
ایک شخص آنحضرت کے پاس آیا۔اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں۔آپؐ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں۔(ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے)۔
سود سود کی بابت پوچھا گیا کہ بعض مجبوریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ فرمایا کہ :
اس کا فتویٰ ہم نہیں دے سکتے۔یہ بہر حال ناجائز ہے۔ایک طرح کا سود اسلام میں جائز ہے کہ قرض دیتے وقت کوئی شرط وغیرہ کسی قسم کی نہ ہو اور مقروض جب قرضہ ادا کرے۔تو مروت کے طور پر اپنی طرف سے کچھ زیادہ دے دیوے۔آنحضرت ﷺ ایسا ہی کیاکرتے ۔اگر دس روپے قرض لیے تو ادائیگی کے وقت ایک سو تک دے دیا کرتے سو د حرام وہی ہے جس میں عہد معاہدہ اور شرائط اول ہی کر لی جاویں۔؎ٰ
۲۱؍اگست ۱۹۰۴ء
بمقام لاہور :- احاطہ میاں چراغ دین و سراج دین رئیسانِ لاہور۔
ظُہر کے وقت حصرت اقدس تشریف لائے اور نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد احباب کی درخواست پر آپ ایک کرسی پر رونق افروز ہویء۔میاں فیروزالدین صاحب نے آگے بڑھ کر نیاز حاصل کی۔حضرت اقدس نے چند نصائح فرماتے ہوئے تقریر کا سلسلہ یوں شروع کیا :
تمام گناہوں سے بچنے کا ذریعہ خوفِ الٰہی ہے
دیکھو! یاد رکھنے کا مقام ہے کہ بیعت کے چند الفاظ جو زبان سے کہتے ہو کہ میں گناہ سے پرہیز کروں گا۔یہی تمہارے لیے کافی نہیں ہیں اور نہ صرف ان کی تکرار سے خدا راضی ہوتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہاری اس وقت قدر ہوگی جبکہ دلوں میں تبدیلی ارو خدا تعالیٰ کا خوف ہو؛ ورنہ ادھر بیعت کی اور جب گھر میں گئے تو وہی برے خیالات اور حالات رہے تو اس سے کای فائدہ؟ یقینا مان لو کہ تمام گناہوں سے بچنے کے لیے بڑا ذریعہ خوفِ الٰہی ہے۔اگر یہ نہیں ہے تو ہرگز ممکن نہیں کہ انسان اُن سب گناہوں سے بچ سکے جو کہ اسے مصری پر چیونٹیوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔مگر خوف ہی ایک ایسی شئے ہے کہ حیوانات کو بھی جب ہو تو وہ کسی کا نقصان نہیں کرسکتے۔مثلاً بلی جو کہ دودھ کی بری حریص ہے۔جب اُسے معلوم ہو کہ اُس کے نزدیک جانے سے سزا ملتی ہے پرندوں کوجب علم ہو کہ اگر یہ دانہ کھایا توجال میں پھنسے اور موت آئی،تو وہ اس دودھ اور دانہ کے نزدیک نہیں پھٹکتے۔اس کی وجہ صرف خوف ہے۔پس جبکہ لا یعقل حیوان بھی خوف کے ہوتے ہوئے پرہیز کرتے ہیں تو انسان جو عقلمند ہے،اُسے کس قدر خوف اور پرہیز کرنا چاہیے۔یہ امر بہت ہی بدیہی ہے کہ جس موقعہ پر انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے اس موقعہ پر وہ جرم کی جرأت ہرگز نہیں کرتا۔مثلاً طاعون زدہ گائوں میں اگ کسی کو جانے کو کہا جاوے،تو کوئی بھی جرأت کرکے نہیں جاتاحتیٰ کہ اگر حکام بھی حکم دیویں تو بھی ترساں اور لرزاں جائیگا اور دل پر یہ ڈر غالب ہوگ اکہ کہیں مجھ کو بھی طاعون نہ ہو جاوے اور وہ کوشش کرے گا کہ مفوضہ کام کا جلد پورا کرکے وہاں سے بھاگے۔پس گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجود نہ ہونا ہے۔لیکن یہ خوف کیونکر پید اہو۔اس کے لیے معرفت الٰہی کی ضرورت ہے۔جس قدر خدا تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف زیادہ ہوگا ؎
ہر کہ عارف تر است ترساں تر
اس امر میں اصل معرفت ہے اور اس کا نتیجہ خوف ہے۔معرفت ایک ایسی شئے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان ادنیٰ ادنیٰ کیڑوں سے بھی ڈرتا ہے۔جیسے پسو اور مچھر کی جب معرف ت ہوتی ہے تو ہر ایک اُن سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔پس کیاوجہ ہے کہ خد اجو قادرِ مطلق اور علیم اور بصیر ہے اور زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے،اس کے احکام کے برخلاف کرنے میں یہ اس قدر جرأت کرتا ہے۔اگر سوچ کر دیکھو گے تو معلو م ہوگاکہ معرفت نہیں۔
اﷲ تعالیٰ کی معرفت طلب کرو
بہت ہیں کہ زبان سے تو خد اتعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں،لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ان کے اندر دہریت ہے۔کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالٰٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں۔اس لیے یہ بات بہت ضروری ہیکہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اﷲ تعالٰٰ سے معرفت طلب کرو۔بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا۔وہ اس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اﷲ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے۔گناہ سے بچنے کے لیے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میںشامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو۔اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاء و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔جبتک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو۔ہرگز رہائی نہیں ہوتی۔نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اُسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ سچی نماز ہرگز نہ ہوگی۔نماز کے معنی ٹکریں مارلینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں۔ہماز وہشئے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح بگھل کر خوفناک حالت میں آستانۂ الُوہیت پر گِر پڑے۔جہانتک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرع سے مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں۔اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یادن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفسِ امارہ کی شوخی کم ہو گئی ہے۔جیسے اژدہا میں ایک سِمّ قاتل ہے۔اسی طرح نفس امارہ میں بھی سم قاتل ہوت اہے اور جس نے اُسے پید اکیا۔اُسی کے پاس اُس کا علاج ہے۔
کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ میں پاک صاف ہوں جیسے کہ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے
فلا تزکو اانفسکم (النجم : ۳۳)
کہ تم اپنے آپ کو مُزَکیّٰ مت کہو۔وہ خود جانتا ہے کہ تم میں سے متقی کون ہے۔جب انسان کے نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو خد اتعالیٰ اُس کا متولی او متکفل ہو جاتا ہے۔اور جیسے ماں بچے کو گود میں پرورش کرتی ہے اسی طرح وہ خدا کی گود میں پرورش پاتا ہے اور یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کا نور اس کے دل پر گر کر کل دنیاوی اثروں کو جلا دیتا ہے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر محسوس کرتا ہے،لیکن ایسی حالت میں بھی اُسے ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہیے کہ اب یہ طاقت مجھ میں مستقل طور پر پیدا ہوگئی ہے اور کبھی ضائع نہ ہوگی۔جیسے دیوار پر دھوپ ہو تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہوتے کہ یہ ہمیشہ ایسی ہی روشن رہے گی۔اس پر لوگوں نے ایک مثال لکھی ہے کہ دیوار جب دھوپ سے روشن ہوئی تو اُس نے آفتاب کو کہا کہ میں بھی تیری طرح روشن ہوں۔آفتاب نے کاہ کہ رات کو جب میں نہ ہوں گا تو پھر تو کہاں سے روشنی لے گی؟ اسی طرح انسان کو جو روشنی عطا ہوتی ہے،وہ بھی مستقل نہیں ہوتی،بلکہ عارضی ہوتی ہے اور ہمیشہ اُسے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے استغفار کی ضرورت ہے۔انبیاء جو استغفار کرتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ نور کی چادر جو ہمیں عطا کی گئی ہے ایسا نہ ہو کہ وہ چھن جاوے۔
استغفار کی حقیقت
نادان لوگ لا علمی کی وجہ سے یہ کہتے اور فخر کرتے ہیں کہ مسیح استغفار نہ کرتا تھا؛ حالانکہ یہ بات کسی قسم کے ناز کی نہیں بلکہ رونے اور افسوس کرنے کی ہے۔اگر وہ استغفار نہ کرتا تو گویا اس نور سے بالکل محرورم تھا جو کہ اﷲ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کو عطا کیا کرتا ہے۔کوئی نبی جس قدر زیادہ استغفار کرنیوالا ثابت ہو گا اسی قدس اس کا درجہ بڑا اور بلند ہو گا،لیکن جس کو یہ حالت حاصل نہیں تو وہ خطرہ میں ہے اور ممکن ہے کہ کسی وقت اس سے وہ چادر حفاظت کی چھین لی جاوے،کیونکہ نبیوں کو بھی وہ مستعار طور پر ملتی ہے اور وہ پھر استغفار کے ذریعہ اسے مدامی طور پر رکھتے ہیں۔بات یہ ہے کہ اصل انوار تو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہیں اور نبی ہو یا کوئی اور ،سب خدا تعالیٰ سے انہیں حاصل کرتے ہیں۔سچے نبی کی یہی علامت ہے کہ وہ اس روشنی کی حفاظت بذریعہ استغفار کے کرے۔استغفار کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خد اتعالیٰ سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اور ملے ۔اسی کی تحصیل کے لئے پنجگانہ نماز بھی ہے تا کہ ہر روز دل کھول کھول کر اس روشنی کو خدا تعالیٰ سے مانگ لیوے جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پاسکتا ہے۔وہ لوگ بہت بیوقوف ہیں جو دوری ڈالنے والی تاریکی کا علاج نہیں کرتے۔
بیعت کی غرض
میرے پاس اکثر خطوط آتے ہیں،مگر اس میں یہی لکھ اہوتا ہے کہ میرے املاک کے لیے یا اولاد کے لیے دعا ہو۔لاں مقدمہ ہے یا فلاں مرض ہے وہ اچھا ہو جاوے ،لیکن مشکل سے کوئی خط ایسا ہوتا ہے جس میں ایمان یا ان تاریکیوں کے دور ہونے کے لیے درخواست کی گئی ہو۔بعض خطوط میں یہ لکھ اہوتا ہے کہ اگر مجھے پانسو روپیہ مل جاوے تو میں بیعت کر لوں ۔بیوقوفوں کو اتنا خیال نہیں کہ جن باتوں کو ہم چھوڑانا چاہتے ہیں۔وہی ہم سے طلب کی جاتی ہیں۔اسی لیے میں اکثر لوگوں کی بیعت سے خوف کرتا ہوں، کیونکہ سچی بیعت کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔بعض تو ظاہری شروط لگاتے ہیں جیسے کہ اوپر ذکر ہوا۔اور بعض لوگ بعد بیعت کے ابتلا میں پڑ جاتے ہیں۔
Amira 2-7-05
جیسے کسی کا لڑکا مر گیا تو شکایت کرتا ہے، میں نے تو بیعت کی تھی یہ صدمہ مجھے کیوں ہوا؟ اس نادان کو یہ خیال نہیں آتا کہ آنحضرت ﷺ باوجود کہ پیغمبر تھے،مگر آپؐ کے گیارہ بچے فوت ہو گئے اور کبھی شکایت نہ کی کہ خداوند ا تو نے مجھے پیغمبر بنایا تھا میرے بچے کیو ں مار دیئے۔
غرضکہ یاد رکھو کہ دین کو دنیا سے ہرگز نہ ملانا چاہیے اور بیعت اس نیت سے ہرگز نہ کرنی چاہیے کہ میں بادشاہ ہی بن جائوں گا یا ایسی کیمیا حاصل ہو جاوے گی کہ گھر بیٹھے روپیہ بنتا رہے گا۔اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تو اس لیے مامور کیا ہے کہ ان باتوں کو لوگوں سے چھُڑادیویں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جو لوگ صدق اور وفا سے خدا تعالیٰ کی طرف آتے ہیں اور اس کے لیے ہر ایک دکھ اور مصیبت کو سر پر لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کو اور ان کی اولاد کو ہرگز ضائع نہیں کرتا۔حضرت دائود علیہ السلام کہتے ہیں کہ میں بوڑھا ہو گیا ،لیکن کبھی نہیں دیکھاکہ صالح آدمی کی اولاد ضائع ہوئی ہو۔خدا تعالیٰ خود اس کا متکفل ہوتا ہے۔لیکن ابتدا میں ابتلا کا آنا ضروری ہے تا کہ کھوٹے اور کھرے کی شناخت ہو جائے۔
عشق اول سر کش و خونی بود۔ تا گریز دہر کہ بیدرونی بود
دوسرے ابتلا اس لیے ہوت اہے کہ اﷲ تعالیٰ لوگوں کو دکھلاوے کہ جو ہماری طرف آنیوالے ہیں وہ کیسے مستقل مزاج اور جفاکش ہوتے ہیں کہ مار پر مار کھاتے ہیں ،لیکن منہ نہیں پھیرتے او ر جب وہ ثابت قدم نکل آتے ہیں تو پھر اﷲ تعالیٰ اُن سے وہی سنت برتتا ہے جو کہ منعم علیہ گروہ سے برتنی چاہیے۔
خدا تعالیٰ سے زیادہ پیاراور رحم اور محبت کرنی کوئی نہیں جانتا۔لیکن اخلاص ضروری ہے۔کوئی دل سے اس کا ہو۔پھر دیکھے کہ آیا مخلص کی دست گیری اور کفالت اس کی خوبی ہے کیہ نہیں ،لیکن جو اُسے آزماتا ہے وہ خود آزمایا جاتا ہے۔آنحضرت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اسلام لایا۔بعد ازاں اندھا ہو گیا ارو کہنے لگا کہ اسلام قبول کرنے سے یہ آفت مجھ پر آئی ہے۔اس لیے کافر ہو گیا۔آنحضرت ﷺ نے اُسے بہت سمجھایا ،لیکن نہ مانا؛ حالانکہ اگر وہ مسلمان رہتا تو خدا تعالیٰ تو اس امر پر قادر تھا کہ اسے دوبارہ بینائی بخش دیتا،لیکن کافر ہو کر دنیا سے تو اندھا تھا دین سے بھی اندھا بن گیا۔مجھے فکر ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہین جو کہ خد اتعالیٰ کو آزماتے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ وہ خود آزمائے جاویں۔پیغمبر خدا ﷺ فرماتے ہیں کہ جو مجھ پر ایمان لاوے ،اول وہ مصائب کے لیے تیار رہے۔مگر یہ سب کچھ اوائل میں ہوتا ہے۔اگر صبر کرے تو اﷲ تعالیٰ اس پر فضل کر دیت اہے؛کیونکہ مومن کے لیے دو حالتیں ہیں۔اول تو یہ کہ جب ایمان لاتا ہے تو مصائب ک ایاک دوزخ اس کے لیے تیار کیا جاتا ہے جس میں اُسے کچھ عرصہ رہنا پڑتا ہے اور اس کے صبر اور استقلال کا امتحان کیا جاتا ہے اور جب وہ اس میں ثابت قدمی دکھاتا ہے تو دوسری حالت یہ ہے کہ اس دوزخ کو جنت سے بدل دیا جاتا ہے۔جیسے کہ بخاری میں حدیث ہے کہ مومن بذریعہ نوافل کے اﷲ تعالیٰ سے یہاں تا کہ قرب حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔اور کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔اور ایک روایت میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مٰں اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتاہے اور ایسے لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
من عادی لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب
کہ جو شخص میرے ولی کی عداوت کرتا ہے وہ جنگ کے لیے تیار ہو جاوے۔اس قدر غیرت خدا تعالیٰ کو اپنے بندے کے لیے ہوتی ہے۔پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ مجھے کسی شئے میں اس قدر تر دد نہیں ہوتا جس قدر کہ مومن کی جان لینے میں ہوت اہے اور اسی لیے وہ کئی دفعہ بیمار ہوتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی جان لینا چاہت اہے مگر اسے مہلت دے دیتا ہے کہ اور کچھ عرصہ دنیا میں رہ لیوے۔
جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض
اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان،کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔اخلاقِ حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔اور بیجا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔تھوڑی تھوڑی سے بات پر کینہ اور بُغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چُپ کر رہے۔اور اس کا جواب نہ دے۔ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔چاہیے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لیے درد دل سے دعا کرے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے۔اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑ تی تو اﷲ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔پس جب تک تبدیلی نہ ہوگی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں۔خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔اگر تم ان صفاتِ حسنہ میں ترقی کروگے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جائو گے۔لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ان باتوں سے صرف شماتتِ اعداء ہی نہیں بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔
خُلق کی اصلاح ممکن ہے
یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے۔اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے
کل یعمل علی شا کلتہ (بنی اسرائیل : ۸۵)
بعض آدمی ایک قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں، تو دوسری قسم میں کمزور ۔اگر ایک خلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا برا ۔لیکن تا ہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے۔
خُلٰق سے ہماری مراد شیریں کلامی ہی نہیں بلکہ خَلق اور خُلق دو الفاظ ہیں۔آنکھ، کان،ناک وغیرہ جس قدر اعضاء ظاہری ہیں جن سے انسان کو حسین وغیرہ کہا جاتا ہے۔یہ سب خلق کہلاتے ہیں ارو اس کے مقابل پر باطنی قویٰ کا نام خُلق ہے۔مثلاً عقل، فہم، شجاعت،عفت، صبر وغیرہ اس قسم کے جس قدر قویٰ سرشت میں ہوتے ہیں وہ سب اسی میں داخل ہیں اور خُلق کو خَلق پر اس لیے ترجیح ہے کہ خَلق یعنی ظاہری جسمانی اعضاء میں اگر کسی قسم کا نقص ہو تو وہ ناقابل علاج ہوتا ہے۔مثلاً ہاتھ اگر چھوٹا پیدا ہوا ہے تو اس کو بڑا نہیں کر سکتا،لیکن خُلق میں اگر کوئی کمی بیشی ہو تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔
ذکر کرتے ہیں کہ افلاطون کو علم فراست میں بہت دخل تھا اور اس نے دروازہ پر ایک دربان مقرر کیا ہوا تھا۔جسے حکم تھا کہ جب کوئی شخص ملاقات کو آوے،تو اول اس کا حلیہ بیان کرو۔اس حلیہ کے ذریعے وہ اس کے اخلاق کا احال معلوم کر کے پھر اگر قابل ملاقات سمجھتا تو ملاقات کرتا؛ورنہ ردّ کردیتا۔ایک دفعہ ایک شخص اس کی ملاقات کو آیا۔دربان نے اطلاع دی۔اس کے نقوش کا حال سنکر افلاطون نے ملاقات سے انکار کر دیا۔اس پر اس شخص نے کہلا بھیجا کہ افلاطون سے کہدو کہ جو کچھ تم نے سمجھا ہے۔بالکل درست ہے۔مگر میں نے قوت مجاہدہ سے اپنے اخلاق کی اصلاح کرلی ہے۔اس پر افلاطون نے ملاقات کی اجازت دیدی۔پس خُلق ایسی شئے ہے جس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔اگر تبدیلی نہ ہوسکتی تو یہ ظلم تھا،لیکن دعا اور عمل سے کام لو گے،تب اس تبدیلی پر قادر ہو سکو گے۔عمل اس طرح سے کوئی شخص ممسک ہے تووہ قدرے قدرے خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور نفس پر جبر کرے۔آخر کچھ عرصہ کے بعد نفس میں ایک تغیر عظیم دیکھ لے گا اور اس کی عادت امساک کی دور ہو جاوے گی۔اخلاق کی کمزوری بھی ایک دیوار ہے جو خد ااور بندے کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔
وحدتِ جمہوری
اﷲ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفسِ واحد کی طرح بناوے۔اس کا نام وحدتِ جمہوری ہے جس سے بہت سے انسان بحالتِ مجموعی ایک انسان کے حک میں سمجھا جاتا ہے۔مذہب سے بھی یہی منشاء ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدتِ جمہوری کے ایک دھاگہ میں سب پروئے جائیں ۔یہ نمازیں با جماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وخدت کے لیے ہیں تا کہ کل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے اور آپس میں مل کر کھڑے ہوین کا حکم اس لیے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور یہ وہ دوسرے کمزور میں سرایت کر کے اُسے قوت دیوے۔حتیٰ کہ حج بھی اسی لیے ہے۔اس وحدتِ جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتدا اس طرح سے اﷲ تعالیٰ ین کی ہے کہ اول یہ حک دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلہ کی مسجد میں ادا کریں تاکہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو اور انوار مل ملا کر کمزوری کو دور کردیں اور آپس میں تعارف ہو کر اُنس پید اہو جاوے۔تعارف بہت عمدہ شئے ہے کیونکہ اس سے انس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے۔حتیٰ کہ تعارف والا دشمن ایک نا آسنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں اُنس پیدا ہو جاتا ہے۔وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینہ والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شے ہوتا ہے توہ تو دور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے۔
پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے۔اس لیے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں۔آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جائیں گے۔پھر سال کے بعد عیدین میں یہ تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں تاکہ تعارف اور اُنس بڑھ کر وحدت جمہوری پیدا ہو۔پھر اسی طرح تمام دنای کے اجتماع کے لیے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکہ کے میدان میں سب جمع ہوں۔غرضیکہ اس طرح سے اﷲ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ آپس میں اُلفت اور اُنس ترقی پکڑے۔افسوس کہ ہمارے مخالفوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا پکا ہے۔دنیوی حکام کی طرف سے جو احکام پیش ہوتے ہیں۔ان میں تو انسان ہمیشہ کے لیی ڈھیلا ہو سکتا ہے۔لیکن خدا تعالیٰ کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلی روگردانی کبھی ممکن ہی نہیں کونسا ایسا مسلمان ہے جو کم ازکم عیدین کی بھی نماز نہ ادا کرتا ہو۔پس ان تمام اجتماعوں کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کے انوار دوسرے میں اثر کرکے اُسے قوت بخشیں۔
صحبتِ صادقین
نفس اور اخلاق کی پاکیزگی حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ صحبتِ صادقین بھی ہے جس کی طرف اﷲ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے
کو نو امع الصادقین (التوبہ : ۱۱۹)
یعنی تم خدا تعالیٰ کے صادق اور راستباز لوگوں کی صحبت اختیار کرو تاکہ اُن کے صدق کے انوار سے تم کو بھی حصہ ملے۔جو مذاہب کہ تفرقہ پسند کرتے ہیں اور الگ الگ رہنے کی تعلیم دیتے ہیں وہ یقینا وحدت جمہوری کی برکات سے محروم رہتے ہیں۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے تجویز کیا کہ ایک نبی ہو جو کہ جماعت بناوے اور اخلاق کے ذریعہ آپس میں تعارف اور وحدت پیدا کرے۔
آدابِ دعا
درستیٔ اخلاق کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی پاک محبت حاصل کی جاوے۔ہر ایک قسم کے گناہ اور بدی سے دور رہے اور ایسی حالت میسر ہو کہ جس قدر اندرونی آلودگیاں ہیں ان سب سے الگ ہو کر ایک مصفیٰ قطرہ کی طرح بن جاوے۔جب تک یہ حالت میسر نہ ہوگی تب تک خطرہ ہی خطرہ ہے،لیکن دعا کے ساتھ تدابیر کو نہ چھوڑے۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ تدبیر کو بھی پسند کرتا ہے اور اسی لیے
فالمد برات امرا (النازعات : ۶)
کہہ کر قرآن شریف میں قسم بھی کھائی ہے۔جب وہ اس مرحلہ کو طے کرنے کے لیے دعا بھی کرے گا اور تدبیر سے بھی اس طرح کام لے گا کہ جو مجلس اور صحبت اور تعلقات اس کو حارج ہیں ان سب کو ترک کردے گا اور رسم عادت اور بناوٹ سے الگ ہو کر دعا میں مصروف ہو گا تو ایک دن قبولیت کے آثار مشاہدہ کرلے گا۔یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ کچھ عرصہ دعا کرکے پھر رہ جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے اس قدر دعا کی مگر قبول نہ ہوئی؛ حالانکہ دعا کا حق تو اُن سے ادا ہی نہ ہوا۔تو قبول کیسے ہو؟ اگر ایک شخص کو بھوک لگی ہو یا سخت پیاس ہو اور وہ صرف ایک دانہ یا ایک قطرہ لے کر شکایت کرے کہ مجھے سیری حاصل نہیں ہوتی۔تو کیا اس کی شاکیت بجا ہوگی؟ ہرگز نہیں۔جب تک وہ پوری مقدار کھانے اور پینے کی نہ لے گا۔تب تک کچھ فائدہ نہ ہوگا۔یہی حال دعا کا ہے۔اگر انسان لگ کر اُسے کرے اور پورے آداب سے بجا لاوے۔وقت بھی میسر آوے تو امید ہے کہ ایک دن اپنی مراد کو پالیوے۔لیکن راستہ میں ہی چھوڑدینے سے صدہاانسان مر گئے (گمراہ ہو گئے) اور صدہا ابھی آئندہ مرنے کو تیار ہیں۔ایک من پیشاب میں ایک قطرہ پانی کا کیا شئے ہے جو اسے پاک کرے۔اسی طرح وہ بد اعمالیاں جن میں لوگ سر سے پاجون تک غرق ہیں ان کے ہوتے ہوئے چند دن کی دع اکیا اثر دکھا سکتی ہے۔پھر عجب ،خودبینی،تکبر اور ریاوغیرہ ایسے امراض لگے ہویء ہوتے ہیں جو عمل کو ضائع کر دیتے ہیں۔نیک عمل کی مثال ایک پرند کی طرح ہے۔اگر صدق اور اخلاص کے قفس میں اُسے قید رکھوگے تو وہ رہے گا ورنہ پروز کر جاوے گا اور یہ بجز خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل نہیں ہوسکتا۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فمن کان یرجو القاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا (الکہف : ۱۱۱)
عمل صالح سے یہاں یہ مراد ہیکہ اس میں کسی قسم کی بدی کی آمیزش نہ ہو۔صلاحیت ہی صلاحیت ہو۔نہ عُجب ہو،نہ کبر ہو،نہ نخوت ہو، نہ تکبر ہو،نہ نفسانی اغراض کا حصہ ہو۔نہ روبخلق ہو۔حتیٰ کہ دوزخ اور بہشت کی خواہش بھی نہ ہو۔صرف خدا تعالیٰ کی محبت سے وہ عمل صادر ہو۔جب تک دوسری کسی قسم کی غرض کو دخل ہے تب تک ٹھوکر کھائے گا۔اور اس کانام شرک ہے،کیونکہ وہ دوستی ارور محبت کس کام کی جس کی بنیاد صرف ایک پیالہ چائے یا دوسری خالی محبوبات تک ہی ہے۔ایسا انسان جس دن اس میں فرق آتا دیکھے گا، اسی دن قطع تعلق کردے گا۔جو لوگ خدا تعالیٰ سے اس لیے تعلق باندھتے ہیں کہ ہمیں مال ملے یا اولاد حاصل ہو یا ہم فلان فلاں امور میں کامیاب ہو جائیں، اُن کے تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور ایمان بھی خطرہ میں ہے جس دن ان کے اغراض کو کوئی صدمہ پہنچا اسی دن ایمان میں فرق آجاوے گا۔اس لیے پکا مومن وہ ہے جو کسی سہارے پر خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا۔
راستباز کی علامت
راستبازوں کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ مصیبت سے اُن کو چڑ ہوتی ہے اور جب ایسے موقعہ پر شیطا ن دخل دے کر ان کو بہکانا چاہتا ہے تب ان کی غیرت جوش مارتی ہے اور بجائے اس کے کہ ان کا قدم پیچھے ہٹے وہ آگے بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیطان ہمیں پیچھے ہر گز نہیں ڈال سکتا ۔شیطان بھی ایسے موقعہ پر ہر ایک قسم کے منصوبے اس کی لغزش کے لیی پیش کرتا ہے۔مال ،اولاد،عزت، آبرو،خلقت کی ملامت،طعن وتشنیع وغیرہ سب نقصانوں سے ڈراتا ہے۔لیکن وہ اول ہی سے دل میں فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم ان نقصانوں کی کچھ پروانہ کریں گے۔آخر نتیجہ یہ ہوت اہے کہ شیطان ان کے نزدیک ایک مخنّث سے بھی کمتر ہوتا ہے۔لیکن جس کا دعویی تو ایمان کا ہوتا ہے اور دماغ میں اغراضِ نفسانی بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔تو شیطان بڑی آسانی سے اپنا تسلط اس پر بٹھاتا ہے اور جس راستے چاہتا ہے چلاتا ہے۔خوب یاد رکھو کہ سفلی خواہشات سے شیطان کا مقابلہ ہرگز نہ ہوسکے گا۔
شیطان کے وجود کا ثبوت
ممکن ہے کہ بعض لوگ یہاں ایسے ہوں کہ جو شیطان کے وجود ہی سے منکر ہوں،لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کے وجود سے ا نکار بھی نادانی ہے۔کیا وہ مشاہدہ نہیں کرتے کہ انسان میں دو قوتیں موجود ہیں۔بیٹھے بیٹھے ایک لہر اس کے دل میں آتی ہے کہ نیکی کروں اور اکثر اوقات وہ اس کا ایسا پابند ہو جاتا ہے کہ بلا اس کے تقاضا ادا کئے کے رہ ہی نہیں سکتا۔اور اسی طرح کبھی اس کے دل میں ایسی لہر آتی ہے جو کہ بدی کی طرف رغبت دلاتی ہے اور وہ گھر سے اُٹھ کر کنجروں کی طرف چلا اجتا ہے۔پس یہ قوتیں ہیں جن میں سے بدی کے محرک کا نام شیطان رکھ لو۔انسان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ ابتدائی مراحل میں ہر ایک شئے کی حقیقت کو سمجھ لیوے جیسے جیسے بتدریج اس کی معرفت ترقی کرتی ہے۔ویسے ویسے وہ باریک در باریک امور کو سمجھتا جاتا ہے۔ آسمان کے ستاروں کو دیکھو کہ وہ اول سوائے نقطوں کے اور کچھ معلوم نہیں ہوتے مگر جب انہی نقطوں کو دور بینوں سے دیکھا جاوے تو کسقدر عجائبات معلوم ہوتے ہیں اور سابقہ معرفت اسکے آگے ہیچ نظر آتی ہے اور انسان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے کہ میں نے ان کو نقطہ کیوں سمجھا۔ایسے ہی شیطان اور فرشتے کے وجود کا حال ہے کہ انکو اول نقطوں کی طرح ماننا پڑتا ہے اور پھر اس دوربین سے جو انبیاء لے کر آتے ہیں دیکھ اجاوے تو اُن کی اصل حقیقت معلوم ہوتی ہے۔یہ تو جملہ معترضہ تھا جو کہ درمیان میں آگیا۔
عورتوں کی اصلاح کی ضرورت
پھر میں اصل مطلب کو بیان کرتا ہوں کہ اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ بھی لازمی امر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کرو۔عورتوں میں بُت پرستی کی جڑ ہے کیونکہ ان کی طبائع کا میلان زینت پرستی کی طرف ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بُت پرستی کی ابتداء انہی سے ہوئی ہے۔بزدلی کا مادہ بھی اس میں زیادہ ہوتا ہے کہ ذرا سی سختی پر اپنے جیسی مخلوق کے آگے ہاتھ جوڑنے لگ جاتی ہے،اس لیے جولوگ زن پرست ہوتے ہیں رفتہ رفتہ ان میں بھی یہ عادتیں سرایت کر جاتی ہیں ۔پس بہت ضروری ہے کہ ن کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے
الرجال قوامون علی النساء (النساء : ۳۵)
اور اسی لیے مرد کو عورتوں کی نسبت قویٰ زیادہ دیئے گئے ہیں۔ اس وقت جو نئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے۔وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکلتا ہے یا مختلف۔ایک طرف تو اسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی؟ غرضکہ عورتوں میں مردوں کی نسبت قویٰ کمزور ہیں اور کم بھی ہیں اس لیے مرد کو چاہیے کہ عورت کو اپنے ماتحت رکھے۔
پردہ کی اہمیت
یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں ۔لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔یہی عورتوں کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہے۔جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روارکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔اگر اس کی آززادی اور بے پردگی سے اُن کی عِفّت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں۔لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو اُن کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے۔پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجود کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا۔مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں۔نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے۔دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہیل مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو۔اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم ازکم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکٰن تو اس وقت اس بحچ کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں؛ ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے۔ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے۔کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے۔قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتا ہے۔کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے۔
قل للمو منین یغضو امن ابصار ھم و یحفظو افر و جہم ذلک از کی لہم (النور : ۳۱)
کہ تو ایمان والوں کو کہدے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا۔فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اوران میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے۔پھر یاد رکھو کہ ہزار درہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہیکہ جن باتوں سے اﷲ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے۔تعدد ازدواج اور طلاق کے مسئلہ پر غور کرو ؎
ہر چہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار
ہمیں افسوس ہے کہ آریہ صاحبان بھی بے پردگی پر زور دیتے ہیں اور قرآن شریف کے احکام کی مخالفت چاہتے ہیں؛ حالانکہ اسلام کا یہ بڑا احسان ہندوئوں پر ہے کہ اُس نے اُن کو تہذیب سکھلائی اور اس کی تعلیم ایسی ہے جس سے مفاسد کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔مثل مشہور ہے ؎
خربستہ بہ گرچہ وزد آشنا اسب
یہی حالت مرد اور عورت کے تعلقات کی ہے کہ اگر چہ کچھ ہی کیوں نہ ہو لیکن تا ہم فطری جوش اور تقاضے بعض اس قسم کے ہوتے ہٰں کہ جب اُن کو ذرا سی تحریک ہوئی تو جھٹ حدّ اعتدال سے ادھر اُدھر ہو گئے۔اس لیے ضروری ہیکہ مد اور عورت کے تعلقا ت میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہرگز نہ دخل دیا جاوے۔ذرا اپنے دلوں میں غور کرو کہ کیا تمہارے دل راجہ رامچند ر اور کرشن وغیرہ کی طرح پاک ہو گئے ہیں؟ پھر جب وہ پاک دلی تم کو نصیب نہیں ہوئی تو بے پردگی کو رواج دیکر بکریوں کو شیروں کے آگے کیوں رکھتے ہو۔ہٹ اور ضد اور تعصب اور چڑ وغیرہ سے تم لوگ دیدہ دانستہ اسلام کے اُن پاکیزہ اصولوں کی مخالفت کیوں کرتے ہو جن سے تمہاری عفت بر قرار رہتی ہے۔عقل تو اس بات کا نام ہے کہ انسان کو نیک بات جہاں سے ملے وہ لے لیوے،کیونکہ نیک بات کی مثال سونے اور ہیرے اور جواہر کی ہے اور یہ اشیاء خواہ کہیں ہوں۔آخر وہ سونا وغیرہ ہی ہوں گی۔اس لیے تم کو لازم ہے کہ اسلام کے نام سے چڑ کر تم نیکی کو ترک نہ کرو؛ورنہ یاد رکھو کہ اسلام کا تو کچھ حرج نہیں ہے۔
Amira 6-7-05
اگر اس کا ضرر ہے تو تم ہی کو ہے۔ہاں اگر تم لوگوں کو یہ اطمینان ہے کہ سب کے سب بھگت بن گئے ہو اور نفسانی جذبات پر تم کو پوری قدرت حاصل ہے اور قویٰ پر میشر کی رضا اور احکام کے برخلاف بالکل حرکت نہیں کرتے تو پھر ہم تم کو منع نہیں کرتے۔بیشک بے پردگی کو رواج دو لیکن جہانتک میرا خیال ہے ابھی تک تم کو وہ حالت نصیب نہیں اور تم میں سے جس قدر لوگ لیڈربن کر قوم کی اصلاح کے درپے ہیں اُن کی مثال سفید قبر کی ہے جس کے اندر بجز ہڈیوں کے اور کچھ نہیں،کیونکہ ان کی صرف باتیں ہی ہیں۔عمل وغیرہ کچھ نہیں۔
نفسِ انسانی کی چار حالتیں
اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفسِ انسان پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچارہے،کیونکہ ابتدا میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے۔جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیز کھانے پر۔یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے اور اس کی اصلاح کی حالتوں کے لحاظ سے اس کے چار نام مقرر کئے گئے ہیں۔اول اول نفس زکیہ ہوتا ہے کہ جس کو نیکی بدی کی کوئی خبر نہیں ہوتی اور یہ حالت طفلگی تک رہتی ہے۔پھر نفسِ امارہ ہوتا ہے کہ بدیوں کی طرف ہی مائل رہتا ہے اور انسان کو طرح طرح کے فسق و فجور میں مبتلا کرتا ہے اور اس کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ ہر وقت بدی کا ارتکاب ہو۔کبھی چوری کرتا ہے۔کوئی گالی دے یا ذرا خلاف مرضی کام ہو تو اُسے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے۔اگر شہوت کی طرف غلبہ ہو تو گناہوں اور فسق و فجور کا سیلاب بہہ نکلتا ہے۔دوسرا نفس لوامہ ہے کہ اس میں بدیاں بالکل دور تو نہیں ہوتیں، مگر ہاں ایک بچھتاوا اور حسرت و افسوس مرتکب اپین دل میں محسوس کرتا ہے اور جب بدی ہو جاوے تو اس کے دل میں نیکی سے اس کا معاوضہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے اور تدبیر کرتا ہے کہ کسی طرح گناہ سے بچے۔اور دعا میں لگتا ہے کہ زندگی پاک ہو جاوے اور ہوتے ہوتے جب یہ گناہ سے پوتر ہو جاتا ہے تواس کا نام مطمئنہ ہو جاتا ہے اور اس حالت میں بدی کو ایسی ہی بدی سمجھتا ہے۔جیسے کہ خد اتعالیٰ بدی کو بدی سمجھتا ہے۔بات یہ ہے کہ دنیا اصل میں گناہ کا گھر ہے جس میں سرکشیوں میں پڑ کر انسان خدا کو بھلا دیتا ہے۔نفس اماراہ کی حالت میں اس کے پاجوں میں زنجیریں ہوتی ہیں اور لوامہ میں کچھ زنجیریں پائوں میں ہوتی ہیں اور کچھ اُتر جاتی ہیں مگر مطمئنہ میں کوئی زنجیر نہیں رہتی سب کی سب اُتر جاتی ہیں اور وہی زمانہ انسان کا خدا تعالیٰ کی طرھ پکے رجوع کا ہوت اہے اور وہی خا تعالیٰ کے کامل بندے ہوتے ہیں جو کہ نفسِ مطمئنہ کے ساتھ دنیا سے علیحدہ ہو ویں اور جبتک وہ اسے حاصل نہ کر لے تب تک اُسے مطلق علم نہیں ہوتا کہ جنت میں جاوے گا یا دوزخ میں۔پس جبکہ انسان بلا حصول نفسِ مطمئنہ کے نہ پوری پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے اور نہ جنت میں داخل ہو سکت اہے تو اب خواہ آریہ ہوں یا عیسائی کونسی عقلمندی ہے کہ قبل اس کے کہ یہ نفس حاصل ہو وہ بھیڑیوں اور بکریوں کو اکٹھا چھوڑدیویں۔کیا ان کو امید ہے کہ وہ پاک اور بے شرزندگی بسر کرلیں گے۔یہ ہے سرا اسلامی پردہ کا۔اور میں نے خصوصیت سے اُسے اُن مسلمانوں کے لیے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں اور مجھے امید ہے کہ آریہ لوگ اس سے بہت کم مستفید ہوں گے،کیونکہ ان کو تو اسلام کی ہر ایک بھلی بات سے چِڑ ہے۔
مسیح موعود کو ماننے کی ضرورت
اس قدر تقریر ہو چکی تھی کہ اس اثنا ء میں خلیفہ راجب الدین صاحب نے بلند آوازسے لاہور کی پبلک کی طرف سے حضرت مرزا صاحب کو ماننے کی ضرورت کا سوال پیش کیا؛ اگر چہ بعض لوگوں کو یہ دخل اس لیے ناگوار ہوا کہ خد اتعالیٰ کا فرستادہ نورِ فراست سے جس ضرورت کو محسوس کر کے کلام فرمارہا تھا اس کی توجہ ادھر سے پھیردی گئی۔لیکن ہمارے نزدیک یہ تحریک بھی مصالح ایزدی سے باہر نہیں۔
آپ نے فرمایا کہ :
اس کا مختصر جاوب یہ ہے کہ میں نے بہت سی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ سے یہ بات سمجھادی ہوئی ہے کہ میں وہ مسیح ہوں جس کا ذکر اور وعدہ اجمالاً قرآن میں اور تفصیلاً احادیث میں پایا جاتا ہے۔اور جو لوگ اسے نہیں مانتے قرآنِ شریف کی رو سے ان کا نام فاسق ہے اور احادیث سے واضح ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو اس مسیح کو نہیں مانتا وہ گویا مجھے نہیں مانتا اور جو اس کی معصیت کرتا ہے۔گویا میری معصیت کرتا ہے۔
لوگ مخلوق کو دھوکہ دیتے ہیں اور غلطیوں میں ڈالتے ہیں کہ ہم نے کوئی نیا کلمہ یا نماز تجویز کی ہے۔ایسے افترائوں کا میں کیا جاوب دوں۔اسی قسم کے افترائوں سے وہ ایک عاجز انسان مسیح لعیہ السلام کو تین خد ابنا بیٹھے ۔دیکھو۔ہم مسلمان ہیں اور امّتِ محمدی ہیں اور ہمارے نزدیک نئی نماز بنانی یا قبلہ سے روگردانی کفر ہے۔کُل احکامِ بیغمبری کو ہم مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے حکم کوٹالنا بھی بدذاتی ہے۔اور ہمارا دعویٰ قال اﷲ اور قال الرسول کے ما تحت ہے۔اتباعِ نبویؐ سے الگ ہو کر ہم نے کوئی کلمہ یا نماز یا حج یا ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد نہیں بنائی۔ہمارا کام یہ ہے کہ اس دین کی خدمت کریں اور اس کو کل مذاہب پر غالب کرکے دکھادیں۔قرآنِ شریف کی اور احادیث کی جو پیغمبر خد اسے ثابت ہیں۔اتباع کریں۔ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشرطیکہ وہ قرآنِ شریف کے مخالف نہ ہو ہم واجب العمل سمجھتے ہٰں اور بخاری اور مسلم کو بعد کتاب اﷲ اصح الکتب مانتے ہیں۔
اور دوسری بات یہ یاد رکھو کہ مجھے کبھی بھی یہ خواہش نہیں ہوئی کہ لوگ مجھے مانیں بلکہ مجھے تو ان جماعتوں سے ہمیشہ سے نفرت ہے اور اگر میں ملتا ہوں یا ان لوگوں میں آکر بیٹھتا ہوں تو اپنی مرضی سے ہرگز نہیں ملتا،بلکہ اﷲ تعالیٰ مجھے مجبور کتا ہے اور کہتا ہے کہ تو ایسا کر۔ایسی حالت میں بتلائو کہ اگر میں اس کی بات نہ مانوں تو کیا کروں؟ میں تو رات دن وحی کے نیچے کام کرتا ہوں۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر تم رسول اﷲ ﷺ کو پختہ طور سے مانو۔آپ کو ماننا یہ ہے کہ آپ کے وصایا پر عملدرآمد کیا جاوے اور انہی میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب وہ مسیح موعود آوے تو تم سب اس کے ساتھ ہو جانا۔میرے ماننے کی مثال یہ ہے جیسے ایک آقا نوکر کو کہے کہ فلاں شخص میرا میزبان؎ٰ ہے تم اُسے لا کر کھانا کھلائو اور ہر طرح کی تعظیم اور تکریم کرو۔لیکن نوکر اس کے جواب میں یہ کہے کہ میں تو صرف آپ کو مانتا ہوں۔مجھے کسی دوسرے کی تعظیم و تکریم سے غرض نہیں ہے اور نہ اس کی خواہش ہے۔تو اب سوچ کر دیکھو کہ کیا اس نے اپنے آقا کو مانا؟ ہرگز نہیں مانا۔کیونکہ جس بات میں وہ راضی ہوت اہے اس کے کرنے سے تو اُسے انکار ہے۔پس یاد رکھو کہ تم لگو بھی آنحصرت ﷺ کو حقیقی طور پر اسی وقت مانو گے،جبکہ آپ کے احکام اور وصایا کو مانو گے۔جس نے آخری حکم کو توڑا اُس نے سارے حکموں کو توڑا۔سوچو تو سہی کہ اگر ایک شخص تمام عمر نماز،روزہ ادا کرے،لیکن آخری وقت بجائے لاالہ الا اﷲ کے رام رام کہے تو کیا وہ نماز روزہ اس کے کام آوے گا؟
آنحضرت ﷺ نے یہانتک فرمادیا کہ اس اُمت کی دو دیواریں ہیں۔ایک میں اور ایک مسیح او راس کے درمیان آپ نے فیج اعوج فرمایا ہے جن کی نسبت ارشاد یہ کہ وہ نہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوںپس جبکہ خود آنحضرت ﷺ اسے ایک ٹیڑھا گروہ قرار دیتے ہیں تو ہم اُن کی باتوں کو کیوں قبول کر لیں
اس موقعہ پر ایک وزیر آبادی متعصب مولوی نے مداخلت کی اور ٹیڑھی راہ اختیار کر کے بے جا سوال اور کلام شروع کیا۔اول تو حضرت اقدس اُسے حلیمی سے سمجھاتے رہے،مگر جب معلوم ہوا کہ اس کی غرض رفع شکوک و شبہات نہیں۔صرف مناظرہ کا ایک اکھاڑہ قائم کرنا چاہتا ہے تو اُس سے اعراض کای اور فرمایا کہ مباحثہ کا دروازہ تو ہم بند کر چکے ہیں۔اب اس میں پڑنا پسند نہیں کرتے۔اس پر بعض مفسد طبائع نے شور کرنا شروع کیا۔آخر مصلحت وقت دیکھ کر مولوی صاحب کو بیجا مداخلت سے روکا گیا اور جب وہ باز نہ آئے تو اُن کو جبراً احاطہ سے باہر کر دیا گیا۔اس اثنا میں جو کلام حضور علیہ السلام نے فرمایا۔اُسے ہم یکجائی طور پر درج کرتے ہیں۔
فرمایا کہ :
مسیح اور مہدی کی ضرورت
شکوک کے رفع کے لیے اگر کوئی راستی اور سچی نیت سے آوے تو ہم اسے سمجھا سکتے ہیں اور اب تو ایسا زمانہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود ایک معلم کی طرح سمجھا رہا ہے۔یہ اس کی عادت میں داخل ہے کہ جب دنیا میں گناہ اور بے ایمانی بڑھ جاوے اور ردی اخلاق اور ردی عادات ترقی پکڑجاویں تو ایک شخص کو اصلاح کے لیی مامور کرے۔اسلام اس وقت دو آفتوں کے ماتحت یہ۔ایک اندرونی۔دوسری بیرونی۔اندرونی خود عالموں کا اختلاف اور مسلمانوں کا دنای کی طرف میلان۔اور بیرونی وہ آفت جو عیسائیت کیوجہ سے ہے۔پس کیا ابھی تمہارے نزدیک مہدی اور مسیح کی ضرورت نہ تھی؟
تیس دجال
پھر ایک اعتراض یہ پیش کرتے ہو کہ اس امت میں تیس دجال آنیوالے ہیں۔اے بدقسمتو! کیا تمہارے لیے دجال ہی رہ گئے کہ اگر ایک کے آنے سے ایمان کے تباہ ہوین میں کوئی کسر رہ جاوے تو پھر دوسرا۔تیسرا اور چوتھا حتیٰ کہ تیس دجال آویں تا کہ ایمان کا نام و نشان نہ رہے۔اس طرح تو موسیٰ علیہ السلام کی امت ہی اچھی رہی کہ جس میں پے در پے چارسو نبی آیا۔پھر موسیٰ علیہ السلام کے وقت تو عورتوںسے بھی خدا تعالیٰ نے کلام کیا۔کیا امت محمدیہ کے مرد بھی اس قابل نہ ہوئے کہ خا تعالیٰ اُن سے ہمکلام ہوتا؟ پھر یہ بتلائو کہ یہ اُمتِ مرحومہ کس طرح ہوئی،اس کا نام تو بدنصیب ہونا چاہیے۔آنحضرت ﷺ کو تیرہ سو برس گذر گئے ارو جس قدر فیوض اور برکات تھے وہ سب سماع کے حکم میں آگئے۔اب اگر خدا تعالیٰ اُن کو تازہ کر کے نہ دکھائے تو صرف قصہ کہانی کے رنگ میں اُن کو کون مان سکتا ہے؛ جبکہ تازہ طور پر خدا تعالیٰ کی مدد نہیں۔نصرت نہیں تو خد اتعالیٰ کی حفاظت کیا ہوئی؟ حالانکہ اس کا وعدہ ہے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
طاعون اور احمدی
جب متعصب مولوی صاحب نے طاعون کا ذکر کیا کہ آپ کے مرید کیوں مرتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔تو آپ نے فرمایا :
کسوف و خسوف کا علاج بھی کچھ سوچا ہے۔اس وقت بحث تو نشانوں کی ہے نہ کہ علاج کی۔ہاں جو کامل طور پر مجھ کو قبول کرتا ہے وہ ضرور محفوظ رہے گا۔لیکن اس کا مجھے علم نہیں کہ وہ کون ہے۔میں کسی کے سینہ کو چیر کر نہیں دیکھتا۔صحابہ کرامؓ کا بھی ایک گروہ طاعون سے شہید ہوا تھا۔مگر دیکھ لو کہ ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما طاعون سے ہرگز نہیں فوت ہوئے۔خدا تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں میں امتیاز رکھا ہے۔جیسے کہ فرمایا ہے
فمنھم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳)
جماعت سے خطاب اس کے بعد آپ نے جماعت کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ :
ضروری بات یہ یہکہ تم لوگ ان باتوں کی طرف متوجہ نہ ہو اور تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرو۔تمہارا معاملہ اور حساب خدا سے الگ ہے اور مخالف لوگوں کا حساب الگ ہے ۔جنہوں نے قسم کھائی ہے کہ کیسی ہی سچی بات کیوں نہ ہو مگر وہ قبول نہ کریں گے۔اﷲ تعالیٰ بھی ان کی نسبت یہی فرماتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کو ہی قبول کریں گے۔ان کی بناوٹ ہی اسی قسم کی ہے کہ عمدہ شئے یا بات جو پیش کی جاوے وہ ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اور اگر بدبودار بات ہو تو خوش ہوتے ہیں۔قرآنِ شریف ، احادیث اور عقلی دلائل اور نشان پیش کئے۔مگر یہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔صرف ایک بات کو نشانہ بناتے ہیں،پس جبکہ خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ ایک مذہب ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔مگر جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے فہمِ سلیم عطا کیا ہے ان کو چاہیے کہ وہ شکر کریں کیونکہ فائدہ اُٹھا نیوالے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے خود پا ک کیا۔
نشاناتِ صداقت
ابھی ہماری جماعت کے بہت سے لوگ چھپے ہویء ہیں ظاہر اً وہ ہم سے الگ ہیں ،لیکن دراصل ہم میں سے ہیں۔ہمیں خود ان کا علم نہیں لیکن امید ہے کہ اپین وقت پر وہ آجاویں گے ۔خود لا ہور میں ایک شخص نے ملاقات کی اور کہا کہ میں آپکو گالیاں دیا کرتا تھا۔اب توبہ کرتا ہوں۔بعضوں نے بذریعہ خواب کے مانا اور اکثر کو خد ا آنحضرت ﷺ نے کشف میں ٰا خاوب میں کہا کہ تم قبول کر لو۔جو لوگ بغض کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تیز دھار کو روک لیویں مگر وہ کسی کے روکنے سے رُک نہیں سکتی۔اگر انسانی کا روبار ہوتا تو آجتک کب کا تباہ ہو جاتا۔مجھے دعویٰ کئے ہوئے چوبیس برس سے زیادہ عرصہ گذرگیا ایک مفتری کو اس قدر مہلب مل سکتی ہے کہ اگر کسی کو عقل ،فہم اور موت کا ڈر ہو تو وہ براہین کے وقت کو دیکھے کہ جو پیشگوئیان اس میں ہیں وہ کیسے پوری ہو کر رہیں،لیکن یہ بات ہے کہ جبتک اﷲ تعالیٰ ہدایت نہ دے اور وہ دل کے تالے نہ کھولے تو کس طرح سمجھ میں آوے۔کوئی بتاوے تو سہی کہ جب سے دنیا ہوئی ہے کسی مفتری نے اس قسم کی پیشگوئی بھی کی ہے۔خد ا تعالیٰ سے خوف کرنے والے کے لیے تو ایک ہی نشان کافی ہوسکت اہے۔لیکن ان لوگوں نے اس قدر کثیر نشانوں سے بھی فائدہ نہ اُٹھایا۔
غرض مدعا یہ ہیکہ یہ تمام باتیں ان لوگوں کے لیی ہیں جو ہدایت قبول کرتے ہیں۔نہ کہ منکروں کے لیے جن کے واسطے اﷲ تعالٰٰ کا قانون اور ہے۔تم خدا سے پناہ مانگو کہ اُن کے لیے جو قانون یہ اس میں تم کو داخل نہ کرے۔ہمیشہ نیک دل خدا تعالیٰ کی رحمت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔یہ نہ خیال کرو کہ یہ لوگ مذہب میں پکے ہیں۔بڑے بُزدل ہوتے ہٰں۔قہرِ الٰہی کا ذرا نہیں مقابلہ کر سکتے۔لیکن یا د رکھیں کہ یہ ایسا زمانہ ہے۔جس کے لیی سب نبیوں ی پیش گوئیاں ہیں اور جسیے مختلف نہریں مل کر ایک دریا بہ کر بہہ نکلتی ہیں اسی طرح ان پیشگوئیوں کا سیلاب بہہ نکلے گا اور آدمؑ ،موسیٰ ؑ،ابراہیمؑ وغیرہ پیغمبروں نے جو کچھ کہا وہ سب پورا ہو کر رہے گا۔بعض رحمت کے نشان بھی ہوں گے مگر اُن سے انہی کو حصہ ملے گا جو عاجز ۔فروتن اور خائف اور تائب ہوں گے اور جو منکر ہیں وہ قہری نشان سے حصہ لیں گے؛اگر چہ یہ لوگ اس وقت انکار کو نہیں چھوڑتے اور صرف ماں باپ یا جاہل لوگوں سے سن سنا کر غلط عقائد پر اڑے ہوئے ہیں لیکن خدا تعالیٰ زبردستی سب کچھ چھڑادے گا۔زبردست سے لڑنا نادانی ہے۔اگر یہ کاروبار نسان کی طرف سے ہوتا تو کب کا تباہ ہوجاتا۔آنحضرتﷺ کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ ہم پر افتراء کرتا تو ہم اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔پھر کیا وجہ یہ کہ اگر میں خدا پر افتراء کرتا ہوں اور تھوڑی مدت نہیں بلکہ تیس سال کے قریب ہو چلا کہ ہمیشہ اس کی طرف سے وحی لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ جانتا بھی ہے کہ میں جھوتا ہوں لیکن میری تائید کرتاہے اور ہلاک نہیں کرتا۔وہ کیسا خدا ہے کہ ایک جھوٹے سے اتفاق کر بیٹھا ہے اور ہزاروں نشان اس کی تائید میں دکھاتا ہے۔نئی سواری بھی اس کے لیے نکالی۔کسوف و خسوف بھی اس کے لیی ماہ رمضان میں کیا۔طاعون بھی بھیجی۔گویا خدا نے جان کر دھوکا دیا اور جو کام دجال نے کرنا تھا وہ خود آپ کیا تا کہ مخلوق تباہ ہو۔ذرا سوچو کیا خدا تعالیٰ کے لیے یہ جائز ہو سکتا ہیکہ ایک کذاب مفتری اور دجال کی وہ اس قدر مدد کرے۔اور مولوی لوگ جو خود کو اس کا مقرب جانتے ہیں۔ان کی دعا ہرگز قبول نہ ہو۔جو لڑائی یہ لوگ لڑرہے ہیں وہ مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔میں تو کچھ شئے نہیں ہوں۔خدا تعالیٰ سے لڑائی والا کبھی بابرکت نہیں ہوسکتا ۔میں تو اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتا ہوں اور مجھے لرزہ پڑتا ہے کہ افترا ہو اور خدا تعالیٰ چپ کر کے بیٹھا رہے۔اگر اُن کے نزدیک یہ افترا یہ تو چاہیے کہ دعا کریں کہ خدا اسے نیست کرے یا دعا کر کے حضرت مسیح کو آسمان سے اُتاریں۔عیسائی محققین نے بھی آخر کا ر مسیحؑ کے آسمان کے آسمان سے آنے سے تنگ آکر اور میعاد گذرتی دیکھ کر فیصلہ کر دیا ہے کہ کلیسا کو مسیح مان لو۔یہی مسیح کا نزول ہے۔ان کو بھی آخر کاز نزول کو استعارہ کے رنگ میں ہی ماننا پڑا ۔احادیث پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ تمام خلفاء اس امت میں سے ہوں گے۔قرآنِ سریف بھی یہی کہہ رہا ہے اور سب جگہ منکم کا لفظ موجود ہے مگر نامعلوم کہ ان لوگوں نے من بنی اسرائیل کہاں سے بنا لیا۔کیا یہ تھوڑا نشان یہ کہ نہ کوئی واعظ ہے نہ لیکچرار اور ہماری ترقی برار ہو رہی ہے۔بھلا اگر ان کو طاقت ہے تو روک دیں۔اﷲ تعالیٰ خود لوگوں کو ادھر رجوع دلا رہا ہے۔مصر سے بھی بیعت کی درخواست آئی ہے۔یورپ میں تحریک ہے۔امریکہ میں تحریک ہے۔
میں پھر جماعت کو تاکیدکرتا ہوں کہ تم لوگ ان کی مخالفتوں سے غرض نہ رکھو۔تقویٰ طہارت میں ترقی کرو تو اﷲ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا اور ان لوگوں سے وہ خود سمجھ لیوے گا۔وہ فرماتا ہے۔
ان اﷲ مع الذین اتقو او الذین ھم محسنون (نحل : ۱۲۹)
اور خوب یاد رکھو کہ اگر تقویٰ اختیار نہ کرو گے اور اس نیکی سے جسے خدا چاہت اہے کثیر حصہ نہ لو گے تو اﷲ تعالیٰ سب سے اول تم ہی کو ہلاک کرے گا،کیونکہ تم نے ایک سچائی کو مانا ہے اور پھر عملی طور سے اس کے منکر ہوتے ہو۔اس بات پر ہرگز بھروسہ نہ کرو اور مغرور مت ہو کہ بیعت کر لی ہے۔جبتک پورا تقویٰ ختیار نہ کرو گے ہرگز نہ بچو گے۔خدا تعالیٰ کا کسی سے رشتہ نہیں نہ اس کو کسی کی رعایت منظور ہے۔جو ہماری مخالف ہیں وہ بھی اسی کی پیدائش ہیں اور تم بھی اسی کی مخلوق ہو۔صرف اعتقادی بات ہرگز کام نہ آوے گی جبتک تمہارا قول اور فعل ایک نہ ہو۔
ان لوگوں کی حالتوں پر غور کرو کہ جب توفی کا لفظ مسیح کے لیے آوے تو اس کے معنے آسمان پر اجنے کے کرتے ہیں۔اور جب وہی لفظ آنحضرت ﷺ کے لیے استعمال ہو تو اس کے معنے وفات پانے کے کرتے ہیں۔پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ عملی راستی دکھائو۔تا وہ تمہارے ساتھ ہو۔رحم، اخلاق، احسان،اعمالِ حسنا،ہمدردی اور فروتنی میں اگر کمی رکھو گے تو مجھے معلوم ہے اور بار بار میں بتلا چکا ہوں کہ سب سے اول ایسی ہی جماعت ہلاک ہوگی۔موسیٰ علیہ السلام کے وقت جب اس کی امت نے خدا تعالیٰ کے حکموں کی قدر نہ کی تو باوجود یکہ موسیٰ اُن میں موجود تھا مگر پھر بھی بجلی سے ہلاک کئے گئے۔پس اگر تم بھی ویسے کرو گے تو میری موجودگی کچھ کام نہ آوے گی۔
اب ہم ان لوگوں کو کہانتک سمجھائیں۔بہت سی کتابیں چھپ چکی ہیں اور ان کے لیے کافی اتمامِ حجب ہو چکا ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام پر توفی کا استعمال کریں تو اس کے معنے موت کے ہوں۔ساحرین موسیٰ کے لیے وہی لفظ آوے تو اس کے معنے موت کے ہوں،لیکن جب مسیح پر بولا جاوے تو اس کے معنے آسمان پر جانا کرتے ہیں۔یہ لوگ خدا کو کیا جواب دیویں گے۔کیا یہی اُن کی محبت آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہے اور یہ کیسی دلیری اور شوخی ہے۔آنحضرت ﷺ کا وجود مبارک جس کی دنیا کو ضرورت تھی وہ تو تیرہ سو برس گذرے کہ خاک میں دفن ہوا اورآپؐ تریسٹھ برس کی عمر میں فوت ہو جاویں اور مسیح ابتک آسمان پر۔کوئی بتلاوے کہ وہاں کیا کر رہا ہے۔اس کا وعدہ تھا کہ میں بنی اسرائیل کی طرف آیا ہوں اور کتنی قومیں بنی اسرائیل کی باقی تھیں کہ آسمان پر جا بیٹھا اور وعدہ بھی پورا نہ کیا اور پھر عقل ،نقل اور کتاب اﷲ کے برخلاف ہے۔یہ سب دلائل ہیں جو کہ ایک مومن کے لئے کافی ہیںاور بجز اس کے کہ عیسیٰ کو فوت شدہ مانا جاوے اور کوئی ذریعہ آنحضرت ﷺ کی عزت کو محفوظ رکھنے کا نہیں ہے میں تو اس شخص سے بہت خوش ہوں کہ جس نے کتاب حیاۃ النبی لکھی ہے اور اس میں یہ بھی لکھ اہے کہ جو شخص سوائے آنحضرت ﷺ کے کسی پیغمبر کو زندہ کہے وہ کافر ہے کیونکہ آخر محبت کی کچھ بھی تو علامت چاہیی۔بعض نئے نئے لوگوں نے جو عیسائیوں میں سے اسلام میں داخل ہوئے۔حضرت عمرؓ کو یہ بات کہی ہوگی کہ عیسیٰ ابتک زندہ ہے تب ہی تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر ہرگز یہ باورنہ کیا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں بلکہ ایسا کہنے والے کو قتل کرنے کے لیی آمادہ ہوئے۔آخر جب حضرت ابو بکرؓ نے آکر اس مسئلہ کو حل کیا کہ سب نبی فوت ہو گئے ہیں اور آنحضرت ﷺ بھی فوت ہوئے تب آپ کواعتبار آیا۔
اب عیسائیت کا اثر غالب آگیا ہے اور جو محبت مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ سے چاہیے تھی وہ نہیں رہی۔ہزاروں رسالے اور اخبار نکالتے ہیں۔لیکن کسی نے آجتک آنحضرت ﷺ کی حیات کا رسالہ نہ کالا۔پس اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ آپؐ کی عزت کو ظاہر کرے۔ہم آنحضرت ﷺ کو ایک نبی مانتے ہیں اور سب سے شرف جانتے ہیں اور ہرگز گوارہ نہیں کرتے کہ کوئی عمدہ بات کسی اور کی طرف منسوب کی جاوے ۔جب کفار نے آنحضرت ﷺ سے یہی معجزہ طلب کیا کہ آسمان پر چڑھ کر دکھاویں تو آپؐ نے فرمایا سبحان ربی اور انکار کر دیا۔دوسری سرف حضرت مسیح کو خد اآسمان پر لے اجوے،یہ کیسے ہو سکت اہے۔ہم قرآن سے کیا بلکہ کل کتابوں سے دکھا سکت یہیں کہ سج قدر اخلاق اور خوبیان کل انبیاء میں تھیں وہ سب کی سب آنحضرت ﷺ میں جمع تھیں۔
کان فضل اﷲ علیک عظیما (النساء : ۱۱۴)
اسی کی طرف اشارہ ہے۔پس اگر آسمان پر جانا کوئی فضیلت ہوسکتی تھی تو آنحضرت ﷺ اس سے کب باہر رہ سکتے تھے۔آخر یہ لوگ پچھتاویں گے کہ ان باتوں کو ہم نے کیوں نہ مانا۔یہ لوگ ایک سوار تو آنحضرت ﷺ کی ذات پر کرتے ہیں کہ ایک معجزہ آسمان پر جانے کا لوگوں نے مانگا مگر خدا نے آپ کی پروا نہ کی اور عیسیٰ کو یہ عزت دی کہ اُسے آسمان پر اٹھا لیا اور دوسرا حملہ خود خد اپر کرتے ہیں کہ اُس نے اپنی قوت خلق سے مسیح کو بھی کچھ دے دی جس سے تشابہ الخلق ہو گیا۔جواب دیتے ہیں کہ خد انے خود مسیح کو یہ قدرت دی تھی۔اے نادانو! اگر خدائی نے تقسیم ہونا تھا تو کیا اس کے حصہ گیر عیسیٰ ہی رہ گئے تھے۔آنحصرت ﷺ کو کیوں نہ حصہ ملا؎ٰ۔
اس قدر تقریر ہو چکی تھی کہ بعض جان نثاروں نے بہت وقت گذرجانے کی درخواست کی تاکہ آپ کی طبیعت کو زیادہ صدمہ نہ ہو اور سلسلہ تقریر ختم ہو جاوے؛ چنانچہ حضور نے دعا پر اُسے ختم کیا۔
۲۸؍اگست ۱۹۰۴ء
بمقام لاہور۔سات بجے صبح
(حضرت اقدس کی تقریر جو ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مجمع کے درمیان آپ نے فرمائی)
توبہ کا دن جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک ہے
سب صاحب یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اسلام میں ایسے دن مقرر کئے ہیں کہ وہ دن بڑی خوشی کے دن سمجھے اجتے ہیں اور ان میں اﷲ تعالیٰ نے عجیب عجیب برکات رکھی ہیں۔منجملہ ان دنوں کے ایک جمعہ کا دن ہے۔یہ دن بی بڑا ہی مبارک ہے۔لکھاہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو جمعہ ہی کو پیدا کیا اور اسی دن ان کی توبہ منظور ہوئی تھی۔اور بھی بہت سی برکات اور خوبیاں اس دن کی ماثور ہیں۔ایسا ہی اسلام میں دو عیدیں ہیں۔ان دونوں دنوں کو بھی بڑی خوشی کے دن مانا گیا ہے اور ان میں بھی عجیب عجیب برکات رکھی ہیں۔لیکن یاد رکھو کہ یہ دن بیشک اپنی اپنی جگہ مبارک اور خوشی کے دن ہیں۔لیکن ایک دن ان سب سے بھی بڑھ کر مبارک اور خوشی کا دن ہے، مگر افسوس سے دیکھا جاتاہے کہ لوگ نہ تو اس دن کا انتظار کرتے ہیں اور نہ اس کی تلاش ؛ ورنہ اگر اس کی برکات اور خوبیوں سے لوگوں کو اطلاع ہوتی یا وہ اس کی پروا کرتے تو حقیقت میں ہو دن ان کے لیے بڑ ا ہی مبارک اور خوش قسمتی کا دن ثابت ہوتا اور لوگ اُسے غنیمت سمجھتے۔
وہ دن کونسا دن ہے جو جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک دن ہے؟ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ دن انسان کی توبہ کا دن ہے جو ان سب سے بہتر ہے اور ہر عید سے بڑھ کر ہے۔کیوں؟ اس لیے کہ اس دن وہ بد اعمال نامہ جو انسان کو جہنم کے قریب کرتا جاتا ہے اور اندر ہی اندر غضبِ الٰہی کے نیچے اُسے لا رہا تھا دھو دیا جاتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔حقیقت میں اس سے بڑھ کر انسان کے لیے اور کونسا خوشی اور عید کا دن ہوگ اجو اسے ابدی جہنم اور ابدی غضبُ الٰہی سے نجاب دیدے۔توبہ کرنے والا گنہگار جو پہیل اﷲ تعالیٰ سے دور اور اس کے غضب کا نشانہ بنا ہوا تھا۔اب اس کے فضل سے اُس کے قریب ہوتا اور جہنم اور عذاب سے دور کای جاتا ہے۔جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا
ان اﷲ یحب التوابین ویحب المتطھرین (البقرۃ : ۲۲۳)
بیشک اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے۔اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے،بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے۔ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری شرط ہے؛ ورنہ نری توبہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔پس جو دن ایسا مبارک دن ہو کہ انسان اپنی بد کر توتوں سے توبہ کر کے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سچا عہدِ صلح باندھ لے اور اس کے احکام کے لیی اپنا سر خم کر دے تو کیا شک ہیکہ وہ اس عذاب سے جو پوشیدہ طور پر اس کے بدعملوں کی پاداش میں تیار ہو رہا تھا۔بچایا جاوے گا اور اس طرح پر وہ وہ چیز پالیتا ہے جس کی گویا اسے توقع اور امید ہی نہ رہی تھی۔
تم خود قیاس کر سکتے ہو کہ ایک شخص جب کسی چیز کے حاصل کرنے سے بالکل مایوس ہو گیا ہے اور اس ناامیدی اور یاس کی حالت میں وہ اپنے مقصود کو پالے تو اسے کس قدر خوشی حاصل ہو گی۔اس کا دل ایک تازہ زندگی پائے گا۔یہی وجہ ہے کہ احادیث میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔احادیث اور کتب سابقہ سے یہی پتہ لگتا ہے کہ جب انسان گناہ کی موت سے نکل کر توبہ کے ذریعہ نئی زندگی پاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی زندگی سے خوش ہوتا ہے ۔حقیقت میں یہ خوشی کی بات تو ہے ہی کہ انسان گناہوں کے نیچے دباہو اور ہلاکت اور موت ہر طرف سے اس یک قریب ہو۔عذابِ الٰہی اس کے کھاجانے کو تیار ہو کہ وہ یکا یک ان بدیوں اور بدکاری٭ن سے جو بعد اور ہجر کا موجب تھیں توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی طرف آجاوے وہ وقت خدا تعالیٰ کی خوشی کا ہوت اہے اور آسمان پر ملائکہ بھی خوشی کرتے ہیں،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ تباہ وار ہلاک ہو،بلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ اگر اس کے بندہ سے کوئی غلطی اور کمزوری ظاہر ہوئی ہے پھر بھی وہ توبہ کر کے امن میں داخل ہو۔پس یاد رکھو کہ وہ دن جب انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے ۔بہت ہی مبارک دن ہے اور سب ایام سے افضل ہے۔کیونکہ وہ اس دن نئی زندگی پاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے قریب کیا جاتا ہے اور اس لحاظ سے یہ دن (جس میں تم میں سے بہتوں نے اقرار کیا ہے کہ میں آج اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور آئندہ جہانتک میری طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتارہوں گا) یوم توبہ ہے۔اور اﷲ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر ایک شخص کے جس نے سچے دل سے توبہ کی ہے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے اور وہ
اتا ئب من الذنب کمن لا ذنب لہ
کے نیچے آگیا ہے۔گویا کہہ سکتے ہیں کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔مگر ہاں میں پھر کہتا ہوں کہ اس کے لیے یہ شرط ہے کہ حقیقی پاکیزگی اور سچی طہارت کی طرف قدم بڑھایا جاوے اور یہ توبہ نری لفظی توبہ ہی نہ بلکہ عمل کے نیچے آجاوے۔یہ چھوٹی سے بات نہیں ہے کہ کسی کہ گناہ بخش دیئے جاویں،بلکہ ایک عظیم الشان امر ہے۔
دیکھو! انسانوں میں اگر کوئی کسی کا ذرا سا قصور اور خطا کرے تو بعض اوقدات اس کا کینہ پشتوں تک چلا جاتا ہے وہشخص نسلاً بعد نسل تلاشِ حریف میں رہتا ہے کہ موقعہ ملے تو بدلہ لای جاوے،لیکن اﷲ تعالیٰ بہت ہی رحیم و کریم ہے۔انسنا کی طرح سخت دل نہیں جو ایک گناہ کے بدلے میں کئی نسلوں تک پیچھا نہیں چھوڑتا اور تباہ کرنا چاہتا ہے مگر وہ رحیم کریم خدا ستر برس کے بناہوں کو ایک کلمہ سے ایک لحظہ میں بخش دیتا ہے۔یہ مت خیال کرو کہ وہ بخشنا ایسا ہے کہ اس کا فائدہ کچھ نہیں ۔نہیں وہ بخشنا حقیقت میں فائدہ رساں اور نفع بخش ہے اور اس کو وہ لوگ خوب محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہو۔
نزولِ بلا کا فلسفہ
بہت سے لوگ اس امر سے غافل ہیں کہ انسان پر جو بلائیں آتی ہیں وہ بلاوجہ یونہی آجاتی ہیں یا اُن کے نزول کو انسان کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ایسا خیال بالکل غلط ہے۔ یہ خوب یاد رکھو کہ ہر بلا جو اس زندگی میں آتی ہے یا جو مرنے کے بعد آئے گی جس کا ہمیں یقین ہے۔اس کی اصل جڑ گناہ ہی ہے۔کیونکہ گناہ کی حالت میں انسان اپنے آپ کو اُن انوار اور فیوض سے جو خد اتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں پرے ہٹا دیتا ہے اور اس اصل مرکز سے جو حقیقی راحت کا مرکز ہے۔ہٹ اجتا ہے،اس لیے تکلیف کا آنا اس حالت میں اس پر ضروری ہے۔
Amira 7-7-05
یہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ انبیاء اور راستباز پر بھی بعض اوقات بلائیں آجاتی ہیں اور مصائب اور شدائد میں ڈالے جاتے ہیں لیکن یہ گمان کرنا کہ وہ مصائب اور بلائیں کسی گناہ کی وجہ سے آتی ہیں۔خطر ناک غلطی اور گناہ ہے۔ان بلائوں میں جو خدا کے راستبازوں اور پیارے بندوں پر آتی ہیں او ان بلائوں میں جو خدا تعالیٰ کے نفرمانوں اور خطاکاروں پر آتی ہیں زمین آسمان کا فرق ہے اس لیے کہ ان کے اسباب بھی مختلف ہیں۔نبیوں اور راستبازوں پر جو بلائیں آتی ہیں اُن میں ان کو ایک صبر جمیل دیا جاتا ہے جس سے وہ بلا اور مصیبت ان کے لیے مُدرِک الحَلَاوت ہو جاتی ہیں۔وہ اس سے لذت اُٹھاتے ہیں اور رحانی ترقیوں کے لیی ایک ذریعہ ہو جاتی ہیں۔کیونکہ ان کے درجات کی ترقی کے لیے ایسی بلاجوں کا آنا ضروری ہے جو ترقیات کے لیے زینہ کا کام دیتی ہیں۔جو شخص ان بلائوں میں نہیں پڑتا اور ان مصیبتوں کو نہیں اُٹھاتا وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کرسکتا۔
دنیا کے عام نظام میں بھی تکالیف اور مشقتوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں سے ہر ایسے شخص کو جو ترقی کا خواہاں ہے گذرنا پڑتا ہے،لیکن ان تکالیف اور شاقہ محنتوں میں باوجود تکالیف کے ایک لذت ہوتی ہے جو اُسے کشاں کشان آگے لیے جاتی ہے۔برخلاف اس کے وہ مصیبت اور تکالیف جو انسان کی اپنی بدکرداری کی وجہ سے اس پر آتی ہیں۔وہ مصیبت ہوتی ہے جس میں ایک درد اور سوزش ہوتی ہے،جو اس کی زندگی اس کے لیے وبالِ جان کر دیتی ہے وہ موت کو ترجیح دیتاہے مگر نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ مرکر بھی ختم نہیں ہوگا۔
غرض ان بلاجوں کے نزول میں ہمیشہ سے قانونِ قدرت یہی ہے کہ جو بلائیں شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں وہ الگ ہیں اور خد اکے راستبازوں اور پیغمبروں پر جو بلائیں آتی ہیں وہ ان کی ترقی درجات کے لیے ہوتی ہیں۔بعض جاہل جو اس راز کو نہیں سمجھتے وہ جب بلائوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو بجائے اس کے کہ اس بلا سے فائدہ اُٹھاویں اور کم از کم آئندہ کے لیے مفید سبق حاصل کریں اور اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا کریں کہہ دیتے ہیں کہ اگر ہم پر مصیبت آئی تو کیا ہوا نبیوں اور پیغمبروں پر بھی تو آجاتی ہیں؛ حالانکہ ان بلائوں کو انبیاء کی مشکلات اور مصائب سے کوئی نسبت ہی ہیں ۔جہالت بھی کیسی بُری مرض ہے کہ انسنا اس میں قیاس مع الفارق کر بیٹھتا ہے۔یہ بڑا دھوکہ واقع ہوت اہے جو انسان تمام انبیاء کی مشکلات کو عام لوگوں کی بلائوں پر حمل کرلیتا ہے۔
پس خوب یاد رکھو کہ جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے انبیاء اور دوسرے اخیار و ابرار کی بلائیں محبت کی راہ سے ہیں۔خدا تعالیٰ اُن کو ترقی دیتا جاتا ہے اور یہ بلائیں وسائل ترقی میں سے ہیں،لیکن جب مفسدوں پر آتی ہیں تو اﷲ تعالیٰ اُن کو اس عذاب سے تباہ کرنا چاہتا ہے۔وہ بلائیں ان کے استیصال اور نیست و نابود کرنے کا ذریعہ ہو جاتی ہیں۔یہ ایسا فرق ہے کہ دلائل کا محتاج نہیں ہے،کیونکہ جب اچھے آدمی جو اﷲ تعالیٰ کو مقدم کر لیتے ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کیوں کرتے ہیں۔بہشت اور دوزخ ان کے دل میں نہیں ہوتا اور نہ بہشت کی خواہش اور دوزخ کا ذکر اُن کو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کا محرک ہوتا ہے بلکہ وہ طبعی جوش اور طبعی محبت سے اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے اور اس کی اطاعت میں محو ہوتے ہیں۔ان پر جب کوئی بلا آتی ہے تو وہ خود محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ از راہِ محبت ہے۔وہ دیکھتے ہیں کہ ان بلائوں کے ذریعہ ایک چشمہ کھولا جاتا ہے جس سے وہ سیراب ہوتے ہیں اور ان کا دل لذت سے بھر جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی محبت ایک فوارہ کی طرح جوش مارنے لگ جاتی ہے۔تب وہ چاہتے ہیں کہ یہ بلا زیادہ ہو تا کہ قربِ الٰہی زیادہ ہو اور رضا کے مدارج جولد طے ہوں۔غرض الفاظ وفا نہیں کرتے جو اس لذت کو بیان کر سکیں جو اخیار و ابرار کو ان بلائوں کے ذریعہ آتی ہے۔یہ لذت تمام سفلی لذتوں سے بڑھی ہوئی ہے اور فوق الفوق لذت ہوتی ہے۔یہ مصیبت کیا ہے۔ایک عظیم الشان دعوت ہے جس میں قسم قسم کے انعام و اکرام اور پھل اور میوے پیش کیے جاتے ہیں۔خدا اس وقت قریب ہوتا ہے۔فرشتے ان سے مصافحہ کرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ کے مکالمہ کا شرف عطا کیا جاتا ہے اور وحی اور الہام سے اس کو تسلی اور سکینت دی جاتی ہے۔لوگوں کی نظر میں یہ بلائوں اور مصیبتوں کا وقت ہے مگر دراصل اس وقت اﷲ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض کی بارش کا وقت ہوتا ہے۔سفلی اور سطحی خیال کے لوگ اس کو سمجھ نہیں سکتے۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ بلائوں اور غموں ہی کا وقت ہے جس میں مزا آتا ہے اور راحت ملتی ہے کیونکہ خدا جو انسان کا اصل مقصود ہے۔اس وقت اپنے بندے کے بہت ہی قریب ہوتا ہے ۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن جو دیا گیا ہے ۔غم کی حالت میں دیا گیا ہے۔پس تم بھی اس کو غم کی حالت میں پڑھو۔
غرض میں کہانتک بیان کروں کہ ان بلائوں میں کیا لذت اور مزا ہوت اہے اور عاشق صادق کہانتک ان سے محفوظ ہوت اہے۔مختصر طور پر یاد رکھو کہ ان بلائوں کا پھل اور نتیجہ جو ابرار اور اخیار پر آتی ہیں جنت اور ترقی درجات ہے ار وہ بلائیں ارو غم جو مفسدوں اور شریروں پر آتے ہیں۔ان کی وجہ شامتِ اعمال اور تاریک زندگی ہے اور اس کا نتیجہ جہنم اور عذابِ الٰہی ہے۔پس جو شخص آگ کے پاس جاتا ہے ضرور ہے کہ وہ اس کی سوزش سے حصہ لے اور اسے محسوس کرے اور اُسے دُکھ پہنچے۔لیکن جو ایک باغ میں جاتا ہے۔یقینی امر ہے کہ اس کے پھلوں اور پھولوں کی خوشبو سے اور اس خوبصورت نظازہ کے مشاہدہ سے لذت پاوے۔
شامتِ اعمال کی وجہ سے آنیوالی بلائوں کا علاج
اب واضح رہے کہ جس حال میں وہ بلائیں جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں۔اور جن کا نتیجہ جہنمی زنگی اور عذابِ الٰہی ہے ان بلائوں سے جو ترقی درجات کے طور پر اخیار و ابرار کو آتی ہیں الگ ہیں۔کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے جو انسان اس عذاب سے نجات پاوے۔ہان اس عذاب اور دُکھ سے رہائی کی بجز اس کے کوئی تجویز اور علاج نہیں ہے کہ انسان سچے دل سے توبہ کرے۔جبتک سچی توبہ نہیں کرتا،یہ بلائیں جو عذابِ الٰہی کے رنگ میں آتی ہیں اس کا پیچھانہیں چھوڑ سکتی،کیونکہ اﷲ تعالیٰ اپنے قانون کو نہیں بدلتا جو اس بارے میں اس نے مقرر فرما دیا ہے۔
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما بانفسہم (ارعد : ۱۲)
یعنی جبتک کوئی قوم اپنی حالت میں تبدیلی پیدا نہیں کرتی۔اﷲ تعالیٰ بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔
اﷲ تعالیٰ ایک تبدیلی چاہتا ہے اور وہ پاگیزہ تبدیلی ہے۔جبتک وہ تبدیلی نہ ہو عذابِ الٰہی سے رستگاری اور مخلصی نہیں ملتی۔یہ اﷲ تعالیٰ کا ایک قانون اور سنت ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہی یہ فیصلہ کر دیا ہے۔
ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا (الاحزاب : ۶۳)
سنت اﷲ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔پس جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کیلئے تبدیلی ہو یعنی وہ ان عذابوں اور دُکھوں سے رہائی پائے جو شامتِ اعمال نے ا سکے لیے تایر کئے ہیں۔اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے۔جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما با نفسہم
میںکیا ہے۔اسکے عذاب اور دُکھ کو بدلادیتا ہے اور دُکھ کو سُکھ سے تبدیل کر دیت اہے۔جب انسان کے اندر تبدیلی کرتا ہے، تو اسکے لیے ضرور نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو بھی دکھاتا پھرے۔وہ رحیم کریم خدا جو دلوں کا مالک ہے۔اس کی تبدیلی کو دیکھ لیتا ہے کہ یہ پہلا انسان نہیں ہے اس لئے وہ اس پر فضل کرتا ہے۔تذکرۃ الولیاء میں لکھا ہے کہ ایک شخص نماز روزہ اور دوسرے اشغال اذکار سے ریا کرتا تھا کہ لوگ اسے ولی سمجھیں۔لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام لوگ اُسے ریاکار سمجھے تھے۔یہان تک کہ بچے بھی جس راستہ سے وہ گذرتا تھا ا سکو ریا کار اور فریبی کہا کرتے تھے۔ایک وقت تک اس کی حالت ایسی ہی رہی۔آخر اُس نے سوچاکہ اس طریق سے کوئی فائدہ تو نہیں ہوا،بلکہ حالت بد تر ہی ہوئی ہے اس لیے اس کوچھوڑ دینا چاہیے۔پس اس نے چھوڑ دیا اور ملامتی فرقہ کا سا طریق اختیار کر لیا۔مسلمانوں میں ملامتی ایک فرقہ ہے جو اپنی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور بدیوں کو ظاہر کرتا ہے تاکہ لوگ انہیں برا کہیں۔اسی طرح پر وہ اپنی نیکیوں کو چھپانے لگا اور اندر ہی اندر اﷲ تعالیٰ سے سچی محبت کرنے لگا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لکھا ہے کہ جس کوچہ سے گذرتا عام لوگ اور بچے بھی اُسے کہتے کہ بڑا نیک ہے۔ولی ہے۔بزرگ ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرنا مُشک اور عطر کی طرح ہے جو کسی طرح سے چھُپ نہیں سکتا۔یہی تاثیریں ہیں سچی توبہ میں۔جب انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے پہلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔پھر اُسے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔خدا اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے اور وہ تقدیر جو شامتِ اعمال سے اس کے لیے مقرر ہوئی ہے،دور کی اجتی ہے۔اس امر کے دلائل بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ انسان اپنی اس مختصر زندگی میں بلائوں سے محفوظ رہنے کا کس قدر محتاج ہے اور چاہتاہے کہ ان بلائوں اور وبئوں سے محفوظ رہے جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں ارو یہ ساری باتیں سچی توبہ سے حاصل ہوتی ہیں۔پس توبہ کے فوائد میں سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کا حافظ اور نگران ہو جاتا ہے۔اور ساری بلائوں کو خد ادور کر دیتاہے اور اُن منصوبوں سے جو دشمن اس کے لیے تیار کرتے ہیں اُن سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کا یہ فضل اور برکت کسی سے خاص نہیں بلکہ جس قدر بندے ہیں خدا تعالیٰ کے ہی ہیں۔اس لیے ہر ایک شخص جو اُس کی طرف آتا ہے اور اس کے احکام اور اوامر کی پیروی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ہوگا جیسے پہلا شخص توبہ کر چکا ہے۔وہ ہر ایک سچے توبہ کرنے والے کو بلائوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔پس یہ توبہ جو آج اس وقت کی گئی ہے یہ مبارک اور عید کا دن ہے۔اور یہ عید ایسی عید ہے جو کبھی میسر نہیں آئی ہوگی۔ایسا نہ ہو کہ تھوڑے سے خیال سے ماتم کا دن بنادو۔عید کے دن اگر ماتم ہو تو کیسا غم ہوگا ہے کہ دوسرے خوش ہوں اور اس کے گھر ماتم ہو۔موت تو سب کو نا گوار معلوم ہوتی ہے۔لیکن جس کے گھر عید کے دن موت ہو وہ کس قدر ناخوشگوار ہوگی۔
قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان ایک نعمت کی قدر نہیں کرتا وہ ضائع ہو جاتی ہے۔دیکھو جن چیزوں کی تم قدرکرتے ہو اُن کو صندوقوں میں بڑی حفاظت سے رکھتے ہو۔اگر ایسا نہ کرو تو وہ ضائع ہو جاتی ہے۔اسی طرح اس مال کا جو ایمان کا مال ہے چورشیطان ہے۔اگر اس کو بچا کر دل کے صندوقوں میں احتیاط سے نہ رکھو گے توچور آئے گا اور لے جائے گا۔یہ چور بہت ہی خطرناک ہے۔دوسرے چور اندھیری راتوں میں آکر نقب لگاتے ہیں وہ اکثر پکڑے اجتے ہیں اور طزا پاتے ہیں۔لیکن یہ چور ایسا ہے کہ اس کی خبر نہیں ہوتی اور نہ کبھی پکڑا جائے گا۔یہ اس وقت آتا ہے جب گناہ کی تاریکی پھیل جاتی ہے۔کیونکہ چور اور روشنی میں دشمنی ہے۔جب انسان اپنا منہ خد اکی طرف رکھتا ہے اور اسی کی طرف رجوع اور توجہ کرتا ہے تو وہ روشنی میں ہوتا ہے۔اور شیطان کو کوئی موقعہ اپنی دستبردکا نہیں ملتا۔
پس کوشش کرو کہ تمہارے ہاتھوں میں ہمیشہ روشنی رہے۔اگر غفلت بڑھ گئی تو یہ چور آئے گا اور سارا اندوختہ لے جائے گا اور برباد ہو جائو گے۔اس لیے ان اندوختہ کو احتیاط اور اپنی راستبازی اور تقویٰ کے ہتھیاروں سے محفوظ رکھو۔یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے ضائع نوہے سے کچھ حرج نہ ہو بلکہ اگر یہ اندوختہ جاتا رہا تو ہلاکت ہے اور ہمیشہ کی زندگی سے محروم ہو جائوگے۔
تنبیہ و اِنذار
یاد رکھو۔یہ طاعون کے دن ہیں۔معلوم نہیں۔ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے شروع میں کیا ہو۔جہانتک خد انے مجھ پر ظاہر کیا ہے میں دیکھتا ہوں کہ بہت خطرناک دن آنیوالے ہیں۔اس لیے ہر ایک شخص جو چاہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہے وہ اسی وقت سے تیاری کرے۔جبتک غضبِ الٰہی نازل نہیں ہوتا اور اس کے آثار نمودار نہیں ہوتے۔تو ہر شخص واجب الرحم ہوت اہے لیکن جب آثار نمودار ہو جاویں پھر عذاب نہیں ٹلتا۔بہت سے لوگ بیباک اور جرأت کرنے والے ہوتے ہیں۔وہ شوخی سے کہہ دیتے ہیں کہ صدہا وبائیں بلائیں اور ہیضے وغیرہ آتے ہیں۔ بھی ہے،لیکن یہ اُن کی بد بختی اور شقاوت یہ جو ایسی جرأت پیدا ہوتی ہے وہ نہیں جاتنے کہ یہ بُرے دنوں کی نشانی ہے۔جب بلائیں دنیا میں آتی ہے اور دنیا کو تباہ کرتی ہیں تو شامتِ اعمال سے ہی آتی ہیں۔ہمیشہ سے گناہ ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ ان صورتوں میں ہی عذاب اور بلاآئی ہے اور ان گناہوں کے بدلے میں طزا دی گئی ہے ۔پھر یہ شوخی اچھی نہیں۔اس کا نتیجہ بہت ہی بُرا ہے۔یہ وقت تو ایسا ہے کہ خدا سے صلح کرو اور پاک تبدیلی کرو نہ یہ کہ شوخی و شرارت سے پیش آئو۔
یاد رکھو یہ طاعون ایک خطرناک عذابِ الٰہی ہے جو اس وقت نازل ہوا ہے اس کو حقیر مت سمجھو۔اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔اﷲ تعالیٰ کی کتابوں میں یہ ایک نشان مقرر کیا گیا ہے۔اﷲ تعالیٰ کے نشانوں کو جو شخص حقارت سے دیکھتا ہے وہ نقصان اُٹھاتا ہے۔میں کھول کھول کر بیان کرتا ہوں کہ اس عذاب سے مخلصی کے لیے سچی توبہ اور پاک تبدیلی کی ضرورت ہے اور بجز اسکے چارہ نہیں۔پس اسی وقت سے اس کے لیے تیاری کرو۔شوخیوں اور شرارتوں سے باز آجائو۔
مسیح موعود کے زمانہ کے دوبڑے نشان
میں یہ بات بھی بیان کرنی چاہتا ہوں کہ مسیح موعود کے زمانہ کے بہت سے نشانوں میں سے دو بڑے نشان ہیں جن میںسے ایک آسمان پر ظاہر ہوگا اور دوسرا زمین پر۔
آسمان کا نشان تو یہ تھا کہ اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں مقرر تاریخوں پر سورج اور چاند گرہن ہوگا؛ چنانچہ کئی سال گذرے یہ نشن پورا ہو گیا اور نہ صرف اس ملک میں بلکہ دوسری مرتبہ امریکہ میں بھی پوراہو۔
دوسرا نشان یہی طاعون کا نشان تھا جو زمینی ہے۔یہ نشان بدن پر لرزہ ڈال دینے والا نشان ہے ۔کئی سال سے یہ بلا اس مُلک میں نازل ہو رہی ہے مگر میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ ابھی تک غفلت اور بدمستی اسی طرح ترقی پر ہے۔میں جاتنا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کی کتابوں سے معلوم ہے کہ آخر اس طاعون کی اس قدر شدت ہو اجئے گی کہ دس میں سے سات مر جائیں گے اور بعض بستیاں بالکل تباہ اور برباد ہو جائیں گی۔جہانتک اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ ابھی بہت خطرناک دن آنے والے ہیں۔اس لیی میں ہر ایک کو جو سنتا ہے کہتا ہوں کہ دیکھو اس وقت ہر ایک نفس کو چاہیے کہ اپنے نفس، اپنے بیوی بچوں اور دوستوں پر رحم کرے۔میں خوب جاتنا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر اپنا فضل کر دیتا ہے اور یہ عذاب ٹل سکتا ہے۔پس چاہیے کہ ہر شخص کوشش کرے اور سچی توبہ ارو پاک تبدیلی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے دعائیں مانگے۔
ایک اعتراض کا جواب
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارے سلسلہ میں بھی بعض آدمی طاعون سے مر گئے ہیں۔ایسے معترضین کو یاد رکھنا چاہیے کہ موت تو ہر نفس کے لیے مقرر ہے اور یاک نہ ایک دن ب کو مر جانا ہے اور طاعون سے صحابہؓ میں سے بھی بعض شہید ہو گئے تھے۔غرض موت سے تو چارہ نہیں۔امیر۔غریب،ہندو،مسلمان،زن ومرد سب مرتے ہیں۔لیکن کسی موت پر اتنا رحم نہیں آتا جیسا اس موت پر کہ گھر کا گھر تباہ ہو جائے اور قُفل لگ جاوے۔اس لیے اول نسبت قائم کرو کہ ایسی موتیں کن لوگوں میں ہوئی ہیں۔
اس کے سوا یہ بھی یاد رکھو کہ ہماری جماعت میں داخل ہونے والوں کا صحیح علم کہ ان کے ایمان کس درجہ تک ہیں اﷲ تعالیٰ ہی کو ہے۔اب دو لاکھ سے بھی زیادہ جماعت ہے ہمیں علم نہیں کہ کس حد تک کس کا ایمان ہے؛ البتہ قیاسی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض کامل الایمان ہیں اور بعض اوسط درجہ کا ایمان رکھتے ہیں اور بعض ابھی ناقص درجہ پر ہیں۔
مومنوں کے تین درجے
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
منہم ظالم لنفسہ ومہھم مقتصد و منہم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳)
یعنی تین قسم کے مومن ہوتے ہیں۔ایک تو ظالم لنفسہ ہیں۔ان میں گناہ کی آلائش موجود ہوتی ہے۔بعض میانہ رو اور بعض سرا سر نیک ہیں۔اب ہمیں کیا معلوم ہے کہ کون کس درجہ اور مقام پر ہے۔ہر ایک شخص کا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ الگ معاملہ ہے۔جیسا کوئی اس سے تعلق رکھتا ہے ویسا ہی وہ اس سے معاملہ کرتا ہے۔جو لوگ کامل الایمان ہیں۔میں یقین رکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اُسے امتیاز دے گا،کیونکہ مومن اور کافر کے درمیان ایک فرقان رکھا جاتا ہے۔
Amira 9-7-05
قرآن شریف میں مومن سے یہ مراد نہیں ہے کہ صرف زبان تک ہی اس کی قیل و قاسل محدود ہوا ور صبح وہ ایمان کا کام کرے،تو شام کو کفر کا کرے۔ایک لقمہ وہ تریاق کا کھالیتا ہے تو دوسرا زہر کا بھی کھالیتا ہے۔ایسے شخص کو وہ فرقان اور امتیاز جو مومن کے لیے مقرر کیاگیا ہے نہیں دیا جاتا۔تم خود ہی سوچ لو کہ وہ مریض جو پرہیز نہیں کرتا ہے وہ خواہ اس کو کیسے ہی شفا بخش نسخے دیئے جاوین اور کتنے ہی مجرب کیوں نہ ہوں۔لیکن اگر وہ پرہیز نہیں کرتا تو وہ نسخے اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
پس یہی حال بیعت کا ہے ۔اگر کوئی شخص بیعت تو کرتا ہے، لیکن شرائط بیعت کو پورا نہیں کرتا اور اپنے اندر پاک تبدیلی جو بیعت کا اصل مقصد ہے نہیں کرتا وہ اپنے لیے وبالِ جان ہو جاتا ہے۔ہاں کامل الایمان اکسیر ہے۔اس کے ساتھ فرقان رکھا جاتا ہے۔اگر یہ امتیاز نہ ہوتا تو دنیا تباہ ہو جاتی اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان مشکل ہو جاتا۔اس قسم کے نشانوں سے ہی اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان پیدا ہوتا ہے۔
احمدی جماعت اور طاعون
اب میں پھر اس اعتراض کی طرف توجہ کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے بعض آدمی طاعون س مرے ہیں۔اس بات کوخوب غورس ے یاد رکھو کہ صحابہؓ میں سے جو بعض طاعون سے شہید ہوئے وہ اُن کے لیے عذاب نہ تھی بلکہ صحابہؓ کا گروہ بڑھا اور ان کے لیے موجبِ شہادت ہوئی۔دوسروں کے لیے وہی طاعون تباہی اور بربادی کا باعث ہوئی یہی فرق ہے۔اگر کسی مومن کو طاعون ہو جاوے وہ اس کے لیے شہادت ہے اور دوسروں کے لیے تباہی کا موجب۔بایں ہمہ جیسا میں نے پہیل بیان کیا ہے۔مومن اور غیر مومن میں ایک امر فارق ہوتا ہے۔اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔مومن کے ساتھ ایسے معاملات ہوتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس کو ایک بیّن امتیاز عطا کرتا ہے اور اس کو تباہ کرنا نہیں چاہتا۔اسکی وہی مثال ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بھی مصیبت آتی ہے اور دوسروں پر بھی جو ان کے مخالف ہوتے ہیں انبیاء علیہم السلام بڑھتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں اور دوسرے تباہ اور ذلیل ہوتے ہیں۔پس دہریوں کی طرف دھوکا مت کھائو۔وہاں اور رنگ ہے، اور یہان اور رنگ ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی خوب غور سے سنو کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں لڑائیاں ہوتی تھیں اور وہ لڑائیاں عذاب کے رنگ میں تھیں،کیونکہ کافر بار بار سوال کرتے تھے کہ آپ ہمیں قہری نشان اور معجزہ دکھائو کہ ہم پر پتھر برسیں انکے بار بار کے سوالات پر ان کو وعدہ دیا گیاکہ میں قہری نشان دکھائوں گا اور وعدہ دیا گیا کہ وہ نشان تلوار کے ذریعہ ظاہر ہوگا۔اب صاف ثابت ہے کہ وہ عذاب کافروں کے واسطے تھا، مگر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ان جنگوں میں (جو قہری نشان کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے) صحابہؓ بھی شہید ہوئے۔اب کیا کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ صحابہؓ جو شہید ہوئے تھے معاذ اﷲ وہ تلوار اُن کے لیے بھی عذاب تھی؟ ہرگز نہیں بلکہ صحابہؓ کی شہادت تو قوم کی ترقی اور فتوخات کا باعث ہوئی۔صحابہؓ کی قوم بڑھی اور بالمقابل مخالفوں کا نام و نشان مٹ گیا اور ستیانا س ہو گیا۔اب کوئی پتہ دے سکتا ہے کہ ابو جہل کی اولاد کہاں ہے؟ اس کی بیخ کُنی ہو گئی۔یہی مثال سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
اسی طرح پر اس میں شک نہیں کہ طاعون عذاب کی صورت میں نازل ہوا ہے۔اور اگر ہماری جماعت میں سے بعض آدمی طاعون سے فوت ہوئے ہیں تو اس پر شور مچانا یا اعتراض کرنا دانشمندی نہیں ہے بلکہ غور طلب یہ امر قرار دینا چاہیے کہ طاعون سے نقصان کس کا ہوا۔اور فائدہ کس کو پہنچا؟ میں یقینا کہتا ہوں کہ جب طاعون شروع ہوئی ہے اس وقت میری جماعت کی تعداد بہت تھوڑی تھی،مگر اس وقت دو لاکھ سے بھی یہ جماعت بڑھی ہوئی ہے اور یہ ترقی طاعون کے سبب سے بھی ہوئی ہے۔طاعون نے میری جماعت کو بڑھایا ہے اور مخالفوں کو گھٹی اہے۔مجھے وعدہ دیا گیا تھا کہ طاعون تیری ترقی کا موجب ہوگی۔سو اس وعدہ کے موافق یہ جماعت بڑھ رہی ہے اور دو لاکھ تک بڑھی ہے،مگر مخالفوں کو تو دوہرا نقصان ہوا ہے۔کچھ اُن میں سے قبروں میں گئے اور کچھ ہمارے پاس آئے ہیں۔اگر ہمارا نقصان اس سے ہوت اتو یہ جماعت جو بہت ہی مختصر اور قلیل تھی بالکل تباہ ہو جاتی اور آج کوئی اس کو جاننے والا بھی نہ ہوتا۔ان واقعات کو مدِ نظر رکھ کر معترض کو چاہیے کہ دیکھے کیا یہ اعتراض کوئی شے ہے؟
طاعون کو خبر آج سے نہیں ۲۳ برس سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چی ہوئی ہے اور اس لیے یہ معمولی نظر سے دیکھنے کے قابل نہیں ہے، بلکہ یہ عظیم الشان قہری نشان ہے۔
غرض طاعون نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا بلکہ فائدہ ہی دیا ہے۔اس کے سات ہی میں یہ بھی ضرور کہتاہوں کہ ایمان کے طبقات ہیں۔جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔اس لیے ان طبقات کے لحاظ سے جو شخص کا مل الایمان ہے وہ نافع الناس وجود ہے۔تبلیغ دین کرنے والا ہے۔وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قدر ہے وہ طاعون سے ضرور بچایا جاوے گا۔بعض آدمی جن کی ایمانی حالت کمزور ہوتی ہے اور وہ اس درجہ پر نہ پہنچے ہوئے ہوں،جہاں اﷲ تعالیٰ کسی کو مومن کہت اہے اور ان کی ضرورت بھی کم ہو پھر ان میں سے اگر کوئی فوت ہو جاوے تو اس میں کیا حرج ہے۔میں یہ خوب جانت اہوں کہ ایمان کے درجات ہیں اور ہر درجہ پر برکت ملتی ہے،لیکن ان میں باہم فرق ضرور ہوتا ہے۔دیکھو اس وکت آفتاب کی روشنی ہے۔آنکھیں کھلی ہیں ہر ایک چیز دور و نزدیک کی صاف اور واضح نظر آتی ہے۔جب آفتاب کی سلطنت ختم ہو جائے گی تو رات آئے گی۔اس وقت عالم ہی اور ہوگا؛ اگر چہ اس وقت چاند یا ستاروں کی روشنی ہوگی مگر ان روشنیوں میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔ایسا ہی ایمان کے مراتب میں فرق صریح ہے۔ایمان بھی ایک روشنی ہے جس جس درجہ پر ایمان پہنچتا ہے اسی مرتبہ کے موافق روشنی اور پھل پاتا ہے جو چاہت اہے کہ عمر زیادہ ہو اور اس قہری نشان میں ایک امتیاز پیدا ہو کرے ا سکو لازم ہے کہ وہ کام الایمان ہو اور اپنے وجود کو قابل قدر بناوے اور اس کی یہی صورت ہے کہ لوگوں کو نفع پہنچاوے اور دین کی خدمت کرے؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
یہ خوب یاد رکھو کہ عمر کھانے پینے سے لمبی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی اصل راہ وہی ہے جو میں نے بین کی ہے۔بہت سے لوگ ہیں جو صرف کھناے پینے کو ہی زندیگ کی غرض و غایت سمجھتے ہیں؛ حالانکہ زندگی کی یہ غرض نہیں۔سعدی کہتا ہے ؎
خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است
تو معتقد کہ زیستن از بہرِ خوردن است
جب انسان کا ایک اصول ہو جاوے کہ زیستن از بہر خوردن است۔اس وقت اس کی نظر خد اپر نہیں رہتی بلکہ وہ دنیا کے کاروبار اور تجارت ہی میں منہمک ہو جاتا ہے۔اور اﷲ تعالیٰ کی طرف توجہ اور رجوع کا خایل بھی نہیں رہتا۔اس وکت اس کی زندگی قابل قدر وجود نہیں ہوتی۔ایسے لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
قل ما یعبو ابکم ربی لو لا دعاو کم (الفرقان : ۷۸)
یعنی میرا رب تمہاری پروا کیا رکھتا ہے۔اگر تم اس کی بندگی نہ کرو۔
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اس ملک میں ہیضہ کی خطرناک و با پڑی تھی۔اس سے پہیل اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ یہ نظارہ دکھایا تھا۔میں نے دیکھا کہ ایک بڑا میدان ہے اور اس میں ایک بہت بڑی لمبی نالی ہے۔جس پر قصابوں نے بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور چھریان اُن کی گردنون پر رکھی ہوئی ہیں۔وہ آسمان کی طرف منہ کرکے دیکھ رہے ہیں گویا آسمانی حکم کا انتظار کرتے ہیں ۔میں پاس ہی ٹہل رہا ہوں اتنے میں مَیںنے یہ آیت پڑھی
قل ما یعبو ابکم ربی لو لا دعاو کم (الفرقان : ۷۸)
یہ آیت سنتے ہی انہوں نے چھریاں پھیردیں اور وہ بھیڑیں تڑپنے لگیں۔اُن کو تڑپتے دیکھ کر وہ قصاب بولے کہ تم کیا ہو؟ گُوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔غرض اس کے بعد ہیضہ کی وہ خطرناک وبا پڑی۔پس جو انسان خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتا اس کا رتبہا اور قدر نجاست خود بھیڑ سے زیادہ نہیں ہوتا۔
(بدر ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۴ء-الحکم ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۴ء)
دلائل ِ صداقت
بالاآخر میں پھر کہان چاہت اہوں کہ میری نسبت جو مخالف لگو مخالفت کرتے ہیں اور میرا انکارکرتے ہیں ۔اگر وہ دعائیں کرتے اور خدا تعالیٰ سے میری نسبت کشفِ حقائق چاہتے تو اُن کی آنکھیں کُھل جاتیں،مگر افسوس ہے کہ انہوں نے مخالفت میں حد سے زیادہ حصہ لیا اور میرے دعاوی پر نہ غور کی اور نہ میری کتابوں کو پڑھا اور نہ میری باتوں کو تعصب سے خالی ہو کر سنا۔وہ مجھے دجال اور مفتری تو کہتے ہیں،مگر وہ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ کیا دجال اور مفتری بھی اس قدم کی کامیابی حاصل کیا کرتے ہیں؟ یاد رکھو کہ اگر یہ انسن کا اپنا سلسلہ ہوت اتو کبھی ک تبعاہ ہو جاتا،کیونکہ اس کے تبہ کرنے میں ہر طرف سے مخالفانہ کوشش ہو رہی ہے اور جب خدا تعالیٰ کے بھی خلاف ہوتا تو وہ بھی اس کا دشمن تھا۔پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بجائے تباہ ہوین کے ترقی کر رہا یہ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ خد اکی طرف سے ہے انسانی کاروبار نہیں ہے۔تم جانتے ہو کہ میرا یہ دعویٰ آج نہیں ہوا ہے بلکہ چوبیس سال سے میں دعویٰ کر رہا ہوں کہ خد اتعالیٰ میرے ساتھ ہمکلام ہوتا ہے اور اس نے مجھے مامور کیا ہے۔
انسانی گورنمنٹ میں اگر کوئی شخص جھوٹا ملازم سرکار بنے تو وہ فوراً پکڑا اجتا ہے۔اور طزا پاتا ہے۔تو یہ کیسا اندھیر ہے کہ خدا تعالیٰ کی گورنمنٹ میں ایک شخص مامور ہونے کا مدعی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ پکڑا جاتا اور تباہ کیا جاتا،اُسے ترقی مل رہی ہے کوئی بتاوے کیا جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوت اہے۔براہینِ احمدیہ چھپی ہوئی موجد ہے۔اس شہر میں اس کے بہت سے نسخے ہوں گے۔اس کو پڑھو اور دیکھو کہ جو کچھ اس میں درج ہے کیا آج بہت سے باتیں ان میں پوری نہیں ہوچکیں؟ اور کیا کوئی منصوبہ باز کر سکتا ہے کہ اس قدر عرصہ دراز پہلے جبکہ اپنی زندیگ کا بھی اعتبار نہیں ہوتا ایک بات کہے اور پھر اتنے عرصہ کے بعد جس میں ایک بچہ پید اہو کر بھی صاحب اولاد ہو سکت اہے وہ پوری جو جاوے۔میں جانتا ہوں کہ اسی شہر میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں مجھے جاننے والے کتنے تھے۔میں سچ کہتا ہوں کہ میں ایک گمنامی کی حالت میں تھا۔سال بھر میں بھی کبھی ایک خط نہ آتا تھا،لیکن اس گمنامی کے زمانہ میں علیم و خیبر خدا نے مجھے خبر دی جو براہینِ احمدیہ میں موجود ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ فوج در فوج لوگ تیرے پاس آئیں گے۔میں لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لائوں گا اور مالی نصرتیں بھی آئیں گی اور دنیا میں تیری شہرت ہو جائے گی جیسے لکھا ہے
Amira 10-7-05
فحان ان تعان وتعرف بین الناس
اور پھر فرمایا
یاتون من کل فج عمیق
اور
یا تیک من کل فج عمیق
اور پھر فرمایا
لا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس
یعنی اب وقت آگیا ہے کہ تو لوگوں میں شناخت کیا جاوے اور تیری مدد کی جاوے۔تیرے پاس دور دور راہوں سے لوگ آئیں گے اور دور دراز جگہوں سے تجھے تحائف اور مالی نصرتیں آئیں گی۔
اور پھر فرمایا کہ تیرے پاس کثرت سے مخلوق آئے گی،اس لیے تو تحمل سے ان کو قبول کرنا اور ان کی کثرت سے تھک نہ جانا۔
غرض اس قسم کے بہت سے الہامات ہیں جو نہ صرف عربی زبان میں ہوئے بلکہ فارسی میں ہوئے۔اردو میں ہوئے اور انگریزی میں بھی ہوئے جس کو میں جانتا بھی نہیں اور ایک لمبا سلسلہ ان الہامات اور پیشگوئیوں کا چلا گیا ہے اور جہاں براہین ختم ہوتی ہے وہاں یہ الہام ہوا:
’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا پر خدا
اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کریگا‘‘
مجھے حیرت آتی ہے جب میں ان لوگوں کے منہ سے سنتا ہوں کہ کوئی نشان دکھائو۔ان نشانات پروہ غور نہیں کرتے اور ان کو حقیر سمجھتے ہین افسوس! اور اور نشان مانگتے ہیں۔میں یقین کرتا ہوں کہ خد اتعالیٰ قادر ہے۔وہ نشان پر نشان دکھا رہا ہے،لیکن یہ دانشمندی اور تقویٰ کا طریق نہیں ہے کہ پہلے نشانوں کو چھوڑ دیا جائے۔ان نشانوں کو سر سری نظر سے نہ دیکھو۔مولوی محمد حسین صاحب وہ شخص ہیں کہ ان سے بڑھ کر کسی نے عداوت کا نمبر نہیں لیا۔اُنہوں نے بنارس تک پھر کر کفر کا فتویٰ حاصل کیا۔اور ہر قسم کی مخالفت میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اب باوجود اس مخالفت کے اس کو قسم دیکر پوچھو کہ جب تم نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا اور یہ پیشگوئیاں اور نشان اس میں موجود تھے۔اس وقت ہمارا کیا حال تھا۔کہانتک میری شہرت تھی اور کس قدر لوگوں کو تعلق تھا۔اور کیا اب ان لہامات کے موافق یہ نسانات جو پورے ہوئے ہیں آپ بنائے گئے ہیں؟اس وقت موجود تھے یا نہیں؟اور انہوں انے پڑھے تھے یا نہیں, اگر پڑھے تھے تو پھر سچ سچ کہو کہ ایسے زمانہ میں جب یہ دعا سکھاتا ہے
رب لا تذرنی فرد اوانت خیر الوارثین (الانبیاء : ۹۰)
اور اس میں آپ گواہی دیتا ہے کہ میں اکیلا ہوں۔وہ الہامات جو جماعت کی ترقی اور میری قبولیت کے متعلق ہیں عظیم الشان نشان ہیں یا نہیں؟ اگر تعصب اور سخت دل مانع نہ ہو تو اقرار کرانا پڑے گا۔
پھراسی براہین میں یہ بھی موجود ہے کہ علماء مخالفت کریں گے کہ ترقی نہ ہو،لیکن میں ترقی دوں گا۔اور پھر سب لوگ جانتے ہیں اور ہر روز دیکھتے ہیں کہ کس قدر مخالفت ہو رہی ہے۔اور کیا اس مخالفت سے یہ سلسلہ رُک گیا یا اس نے ترقی کی؟ اگر کوئی ایسی نظیر دنیا میں موجود ہے اور کوئی شخص ایسی کتاب پیش کر سکتاہے جس میں ایک عرصہ پہلے ایسی پیشگوئیاں درج ہوں اور وہ پوری ہوئی ہوں۔یقینا یاد رکھو کہ کہ کسی مفتری اور کذاب سے ایسا سلوک نہیں کیا جاتا اور اس قدر مہلکت اور فرصت اسے نہیں دی جاتی۔اگر کوئی ایسا مفتری یا کذاب پیش کای جاوے تو ہم قبول کرلیں گے۔پھر ایسی مخالفت کے متعلق یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ ہر مخالفت کرنے والا اپنے منصوبوں اور تجویزوں میں ناکام اور نامراد رہے گا۔خواہ وہ مولوی ہو یا فقیر ہو یا امیر ہو کوئی ہو۔اور اب تک واقعات نے اس امر کو سچا ثابت کر دکھایا ہے اورمیں کھلے دل سے بیان کرتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں اور ان مکالمات پر جو میرے ساتھ ہوتے ہیں ایسا ہی یقین رکھتا ہوں جیس اکہ خد اکی دوسری کتابوں پر ایمان لاتا ہوں۔اس نے یہ بھی مجھے فرمایا ہے کہ میں تجھے بہت برکت دوں گ یہانتک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔وہ زمانہ خواہ کبھی آنے والا ہو،لیکن میںیقین رکھتا ہوں کہ اسی طرح ہوگا۔اس زمانہ کے لوگ دیکھیں گے یا اُن کے بیٹے یا اُن کے بیٹے ۔غرض یہ ہوگا ضرور۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایک نقطہ یا شوشہ نہ ٹلے گا۔
غرض یہ نشانات ہیں جن پر غور کرنا چاہیے اور ٹھنڈے دل سے سوچو کہ مفتری کو یہ تائیدیں نہیں ملا کرتیں۔پھر بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نشانات کو کیا کریں قرآنِ شریف کے خلاف مسائل پیش کیے جاتے ہیں۔مجھے ایسا کہنے والوں پر بھی افسوس آتا ہے کہ اگر اُن کا قرآنِ شریف پر ایمان ہوتا تو ہرگز ایسی بات نہ کہتے،کیونکہ ہم نے بارہ ظاہر کیا ہے۔اور کتابوں میں شائع کیا ہے کہ ہم قرآنِ شریف پر ایمان لاتے ہیں۔اگر کوئی شخص ایک آیت کا بھی انکار کرے وہ گمراہ اور جہنمی ہے جو آنحضرت ﷺ کا انکار کرے وہ کافر ہے مگر کیا کروں یہ لوگ بنی اسرائیل کی طرف جنہوں نے آنحضرت ﷺ کا انکار کیا نہیں مانتے اور انکار کرتے ہیں۔مُجھ میں اور ان میں یہی اختلاف یہ کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آیت
یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی (ال عمران : ۵۶)
کی ترتیب جو قرآن شریف میں ہے صحیح نہیں ہے مگرمیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی نسبت ایسا اعتقاد رکھنا یا گمان کرنا خطرناک بے ادبی اور شوخی ہے۔میں کہتا ہوں کہ اس آیت کی ترتیب صحیح ہے اور اسی لیے اس کے یہ معنے ہیں ہ اے عیسیٰ میں تجھے وفت دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں۔مگر یہ لوگ ا س ترتیب کو غلط (معاذاﷲ ) ٹھہراتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ رافعک الی کی جگہ رافعک الی السماء الثانیۃ چاہیے اور اس کے بعد متوفیک چاہیے۔گویا کہ ان کے اعتقاد کے موافق خد تعالیٰ کو غلطی لگی۔اس نے کہنا تو یہ تھا کہ یا عیسیٰ انی رافعک الی السماء الثانیۃ و متوفیک اور کہہ دیا یہ جو آیت میں درج ہے۔
اب میں قرآن کو چھوڑتا ہوں اور اس کے خلاف کہتا ہوں یا یہ خو د کرتے اور کہتے ہیں۔انصاف سے بولو اگر یہ تحریف نہیں تو کیا ہے۔اسی پر مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن کے خلاف یہ۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قرآن کی تحریف ہے جس سے یہودیوں پر *** پڑی اور وہ سؤر اور بندر بنے۔یہودی جو تحریف کرتے تھے۔ان کے متعلق بھی یہی فرمایا ہے
یحرفون الکلم عن مواضعہ (النساء : ۴۷)
اور جب تم بھی اسی قسم کی تحریف کرتے ہو تو قرآنِ شریف پر تمہارا اچھا ایمان یہ۔میں زور سے کہتا ہوں کہ کیا وہ دل خدا ترس ہے اور میں تقویٰ کا حصہ ہے جو خدا تعالیٰ کے کلام میں تصرف کرنا چاہتا ہے۔اگر تم سچے ہو اور تحریف نہیں کرتے تو پھر وہ حدیث صحیح پیش کرو جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہو کہ رافعک الی کی بجائے رافعک الی السماء الثانیۃ چاہیے اور یہ متوفی سے پہلے ہے۔قرآنِ شریف میں جو لکھ اہوا ہے وہ غلط ہے۔تم سُن رکھو کہ ہرگز ہرگز کوئی شخص ایسی حدیث صحیح پیش کرنے پر قادر نہ ہوگا۔
جس قدر صاحب یہاں موجود ہیں آخر ہوش وحواس رکھتے ہیں وہ انصاف سے کہیں کہ اگر کوئی شخص تمسک کو الٹ پلٹ کرتا ہے تو وہ جعلسازی کامرتکب ہوت اہے یا نہیں اور وہ اس جعلسازی کی سزا میں جیل میں بھیجا جاتا ہے۔پھر یہ اندھیر کیوں روارکھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو اُلٹ پلٹ کیا جاوے۔خد اسے ڈرو یہ بہت خطرناک دلیری ہے۔ہاں اگر صحیحین میں کوئی حدیث درج ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس طرح پر فرمایا ہے تو پیش کرو ہم مان لیں گے۔لیکن اگر تم پیش نہ کرو اور نہیں کر سکو گے تو یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ خود کہہ دو اور دوسری غلطیوں کو قرآن شریف کی ظرح بنالو۔ہم بار بار تم سے پوچھیں گے کہ بخاری یا مسلم میں دکائو کہ اس میں لکھا ہے کہ رافعک الی السماء الثانیۃ پڑھا کرو۔
دیکھو۔ان باتوں پر غور کرو۔میرا یہ مدعا نہیں کہ ہر ایک شخص محض اس وجہ سے کہ وہ میرے ساتھ عداوت رکھتا ہے اور تعصب نے اس کے جوش کو بڑھا دیا ہے بے اختیار بول اُٹھے۔اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں صرف خدا تعالیٰ کے لیے کہتا ہوں ۔انسان کی جھوٹی منطق کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔اس یے میں مقابلہ کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں،لیکن میں اپنے دل میں مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی کے لیے ایک جوش رکھتا ہوں جو اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے، اس لیے سچے دل سے کہت اہوں اور اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلمات سے مجھے خبر دی یہمت سمجھے کہ میں بیہودہ طور پر کرتا ہوں بلکہ سچ مچ یہی بات ہے۔پس جلد بازی نہ کرو کہ جلدی صحیح نتیجہ پر پہنچنے سے روک دیتی ہے۔میں جانت اہوں کہ بہت سے لوگ اپنے سیین اور دل کو تھام نہیں سکتے اور یہ مرض کثرت سے پھیل گیاہے کہ مخالفت کی وجہ سے حق بات پر بھی غور نہیں کرتے اور یونہی کوئی بات سنی منہ پر جھاگ آجاتی ہے اور پھر جو زبان پر آجاتا ہے کہہ دیتے ہیں۔مگر یاد رکھو یہ امر تقویٰ کے خلاف یہ ۔متقی کی زبان ڈرتی ہے کہ بغیر سوچے سمجھے کوئی بات منہ سے نکالے۔
میرا معاملہ اگر سمجھ میں نہیں آتا تو طریقِ تقویٰ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے دعائیں مانگو تا کہ وہ خود تم پر اصل حقیقت کھول دے۔خدا تعالیٰ کے کلام کی بے حرمتی نہ کرو؛ ورنہ طریقِ نجات بھول جانے کا اندیشہ ہے۔آج وقت ہے بصیرت سے کام لو۔
قرآنِ شریف قانونِ آسمانی اور نجات کا ذریعہ ہے۔اگر ہم اس میں تبدیلی کریں تو یہ بہت ہی سخت گناہ ہے۔تعجب ہوگا کہ ہم یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور پھر قرآنِ شریف کے لیے وہی روارکھتے ہیں۔مجھے اور بھی افسوس اور تعجب آتا ہے کہ وہ عیسائی جن کی کتابیں فی الواقعہ محرف مبدل ہیں وہ تو کوشش کریں کہ تحریف ثابت نہ ہو اور ہم خود تحریف کرنے کی فکر میں!!!
دیکھو افتراء کرنے والا خبیث اور موذی ہوت اہے اور خد اتعالیٰ کے کلام میں تحریف کرنا۔یہ بھی افتراء ہے اس سے بچو۔
عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا مسئلہ
غرض قرآنِ شریف کی یہ آیت صاف طور پر مسیح کی وفات کا وعدہ دیتی ہے اور جس قدر وعدے اس آیت میں رافعک الی سے شروع ہو کر آخر تک ہیں۔وہ ہمارے مخالف بھی مانتے ہیں کہ پورے ہو گئے حالانکہ وہ سب بعد وفات ہیں ۔پھر وفت کا انکار کیوں کیا جاتا ہے۔
علاوہ بریں آنحضرت ﷺ مُجزِ صادق ہیں جو مسلمان کہلا کر بھی آپ پر ایمان نہیں لاتا ارو آپؐ کو مخبرِ صادق تسلیم نہیں کرتا وہ بڑی بد ذاتی کرتا ہے ۔آپ نے تو فرمایا ہے کہ میں نے مسیح کو دوسرے آسمان پر یحییٰ کے پاس دیکھ اہے۔اب کیا یہ آنحضرت ﷺ کی شہادت ہے یا نہیں۔اگر حضرت عیسیٰ ؑدرحقیقت وفات یافتہ نہ تھے بلکہ زندہ تے تو پھر اس سوال کا کیا جاوب ہے کہ ایک وفات یافتہ سے کیا تعلق ہے؟ ان کی تو روح بھی ابھی قبض نہیں ہوئی تھی۔ادنیٰ فہم کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ مردے کے پاس تو مردہ ہی ہو سکت اہے۔پھر یہ کیا ہوا کہ مردہ کے پاس زندہ جا بیٹھا۔یہ صرف اپنی ہی غلطی ہے۔ورنہ سچ یہی ہے کہ حضرت مسیحؑ بھی مرکر ہی یحییٰ ؑکے پاس گئے ہیں۔جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے قول سے یعنی قرآنِ شریف سے اور آنحضرت ﷺ نے اپنے فعل یعنی رؤیت سے ثابت کر دیا ۔جو اس قول اور فعل کو نہیں مانتا اسے پھر میں کیا کہوں ۔ان دو گواہوں کے بعد اور کس گواہ کی حاجت ہے۔
Amira 12-7-05
پھر یہاں تک ہی بات نہیں۔خود حضرت مسیح ے کا تو صاف اقرار بھی موجود ہے اور اس آیت
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (المائدۃ : ۱۱۸)
سے تو اس سارے قضیہ کا فیصلہ ہی ہو جاتا ہے۔اس آیت سے پہلی آیتوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت مسیح ؑ سے قیامت کے دن سوال کرے گا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ میری ماں کو اور مجھ کو خدا بنالو۔حضرت عیسیٰ اپنی بریت میں عرض کریں گے کہ میری کیا مجال تھی جو میں ایسی تعلیم دیتا۔میں تو جب تک اُن میں رہا اُن کو تیری توحید ہی کی تعلیم دیت ارہا جو تونے مجھے دی تھی لیکن جب تو نے مجھ کو وفات دیدی پھر تو ان پر نگران تھا۔
اب غور کا مقام ہے کہ انی متوفیک میں جو وعدہ تھا وہ اس آیت فلما توفیتنی سے پورا ہوتا ہے۔
ماسوا اس کے یہ آیت حضرت مسیح ؑ کی موت اور ان کی دوبارہ آمد کے متعلق ایک فیصلہ کن آیت ہے اور یہ اس قرآن کی آیت ہے جس کا حرف حرف محفوظ ہے اور جس کی حفاظت کا ذمہ دار خود اﷲ تعالیٰ ہے جیس اکہ اس نے فرمایا
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
افسوس مسلمانوں نے اس کتاب کی قدر نہیں کی۔اس آیت میں حضرت مسیح ؑ نے اپنی بریت دو صورتوں سے کی ہے۔اول تو یہ کہ میری زندگی میں عیسائی نہیں بگڑے کیونکہ میں ان کو توحید کی تعلیم دیتا رہا۔دوم جب مجھے وفات دیدی مجھے کچھ خبر نہیں۔
اب غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت مسیح ابھی تک زندہ ہی ہیں۔تو صاحبو! پھر اُن کے اس اقرار کے موافق یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ابھی تک عیسائی بگڑے بھی نہیں اور جو تعلیم وہ پیش کرتے ہیں وہ صحیح ہے حالانکہ یہ واقعاتِ صحیح کے خلاف یہ۔عیسائی ضرور بگڑ چکے ہیں۔
صاحبو! اگر مسلمانوں کے اس خیالی عقیدہ زندہ آسمان پر جانے کو لے کر اور اس آیت کے موافق عیسائی مسلمانوں پر اعتراض کریں کہ ہماری تعلیم تمہارے اقرار کے موافق بگڑی نہیں ہے تو کیا جواب ہو سکت اہے۔کیونکہ یہ امر تو حضرت مسیحے کی زندگی سے وابستہ ہے اور زندگی تعلیم ہے تو ھپر دوسری تعلیموں کے انکار کے لیے کیا عذر یہ۔میں سچ کہتا ہوں کہ مسلمانوں کی خیر اسی میں ہے کہ وہ قرآن شریف پر ایمان لاویں اور وہ یہی ہے کہ مسیح ؑکی وفات پر ایمان لاویں۔
دوسری بات جو اس آیت میں فیصلہ کی گئی ہے وہ ان کی دوبارہ آمد کا مسئلہ یہ۔مسلمانوں میں غلطی سے یہ عقیدہ مشہور ہو گیا ہے جس کی کوئی اصل نہیں کہ وہی مسیح ابنِ مریم دوبارہ آسمان سے نازل ہوںگے اور چالیس برس تک اس دنیا میں رہیں گے۔صلیبوں کو توڑیں گے اور کافروں سے جنگ کریں گے۔وغیرہ وغیرہ۔
اب غور کا مقام ہے کہایک نبیٔ صادق کی نسبت یہ عقیدہ رکھنا کہ اس نے جھوٹ بولا یہ تو بے ایمانی ہے۔ایک شخص اگر عدالت کے سامنے جھوٹ بولے تو وہ حلفِ دروغی کی سزا پاتا ہے۔پھر علیم و خبیر عالم الغیب خد اکے حضور قیامت کے دن کسی نبی کو جھوٹ بولنے کی جرأت کب ہو سکتی یہ؟ ہرگز نہیں لیکن یہ عقیدہ جو میں نے ابھی بیان کیا ہے۔تسلیم کر لیا جاوے اور اس کوصحیح مانا جاوے تو پھر قرآن شریف چھوڑنا پڑے گا اور حضرت مسیح کا معاذ اﷲ خدا تعالیٰ کے حضور قیامت کے دن جھوٹ بولنے والا قرار دینا پڑے گا۔کیونکہ اگر یہ سچ ہے کہ وہی مسیح اُتر آئے گا، تو پھر خدا تعالیٰ کے سامنے ان کا یہ جواب کہ
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم
صحیح نہیں۔کیونکہ ان کو تو اس وکت یہ کہنا چاہیے کہ چالیس سال تک آسمان سے اُتر کر پھر زمین پر رہا اور میں نے جنگیں کیں، صلیبیں توڑیں اور شریروں کو مارا۔کفار کو مسلمان کیا۔حالانکہ ان کے جاوب میں ان باتوں میں سے کسی کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا۔پھر خدا کے واسطے سوچ کر جواب دو۔کیا تم یہ تجویز نہ کرو گے کہ حضرت مسیح نے معاذ اﷲ جھوٹ بوال؟ او ر کیا یہ نبی کی شان ہے کہ خدا کے سامنے جھوٹ بولے؟ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے اور قرآن پر حملہ کرتا ہے وہ بدذات اور جہنمی ہے۔ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ملعون ہیں جو رسمی بات کے لیی قرآن شریف پر حملہ کرتے ہیں۔
پس یہ آیت مسیح کی وفات اور ان کی دوبارہ آمد کے متعلق قول فیصل ہے۔اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ وفات پا چکے ہیں اور وہ دوبارہ نازل نہیں ہوں گے اور قرآن شریف سچا ہے اور حضرت مسیح ؑکا جواب بھی سچا ہے۔ہاں یہ امر کہ آنے والے مسیح سے پھر کای مراد ہے تو یاد رکھو جو کچھ خد اتعالیٰ نے مجھ پر ظہار کیا او راپنی تائیدوں اور نصرتوں اور نشانوں کے ساتھ اُسے ثابت کای۔وہ یہی ہے کہ آنیوالا اسی اُمت کا ایک فرد کامل ہے اور خدا تعالیٰ کی کھلی کھلی وحی نے ظاہر کای ہے ہ وہ آنے والا میں ہوں جو چاہے قبول کرے ۔میرا یہ دعویٰ نرا دعویٰ نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ زبردست ثبوت ہیں جو ایک سلیم الفطرت اور متقی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
مامور کی صداقت ثابت کرنے کے تین ذرائع
یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی مامور کو بھیجتا ہے تو تین ذریعوں سے اس کی سچائی کو ثابت کرتا اور اتمام حجت کرتا ہے۔
اول-نصوص کے ذریعہ یعنی شہادتوں سے اتمامِ حجت کرتا ہے۔
دوم-نشانات کے ذریعہ جو اس کی تائید میں اور اس کے لیے ظاہر کیے جاتے ہیں۔
سوم- عقل کے ذریعہ۔
بعض اوقات یہ تینوں ذریعے جمع ہو جاتے ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سب ذریعے میری سچائی کو ثابت کر رہے ہیں۔
پس نصوص کے لیے یاد رکھو کہ آنحضرت ﷺ نے بخاری اور مسلم میں جس آنے والے کی خبر دی یہ اس کے لیے یہی فرمایا ہے کہ وہ اسی اُمت میں سے ہوگا؛ چنانچہ بخاری اور مسلم میں منکم کا لفظ موجود ہے کہیں بھی نہیں فرمایا کہ من بنی اسرائیل ۔ اور قرآن شریف میں سورۂ نور میں استخلاف کے وعدہ میں بھی منکم ہی فرمایا ہے۔اب بتائو کہ قرآن اور حدیث کے نصوص آنے والے کو اسی امت سے ٹھہراتے ہیں یا باہر سے لاتے ہیں۔اور قرآن شریف یہی زمانہ مسیح موعود کے آنے کا ٹھہراتا ہے۔
دوم نشانات:وہ نشانات جو میری تائید میں ظاہر ہو چکے ہیں اور جو میرے ہاتھ پر پورے ہوئے ہیں۔اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے زندہ گواہ اس وقت لاکھوں انسان موجو د ہیں۔میں نے اپنی کتاب نزول المسیح میں ڈیڑھ سو کے قریب نشان لکھے ہیں اور بعض کا میں نے ابھی ذکر بھی کیا ہے تا ہم وہ نشان جو میرے لیے ظاہر ہوئے وہ بھی تھوڑے نہیں ہیں۔اور انسانی طاقت میں یہ نہیں کہ وہ ان باتوں کو اپنے لیے خود جمع کرلے۔
قرآن شریف سے ثابت ہے کہ مسیح موعود اس وقت آئے گا جب چھ ہزار سال کا دور ختم ہوگ ااور عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک وہ وقت آگیا ہے۔
پھر قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے اور احادیث صحیحہ اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک نئی سواری پید اہوگی جس سے اونٹ بیکا رہو جائیں گے ۔جیس اکہ قرآن شریف میں ہے
واذا العشار عطلت (التکویر : ۵)
اور حدیث صحیح میں ہے۔
ولیتر کن القلاص فلا یسعی علیہا
اب آپ لوگ جانتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بھی ریل تیار ہو رہی ہے۔اس عظیم الشان پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اخبار والے نے لکھا ہے کہ مکہ مدینہ والے بھی یہ نظارہ دیکھ لیں گے کہ اونٹوں کی قطاروں کی بجائے ریل گاڑی وہاں ثے گی۔قرآن شریف میں جو فرمایا واذاالعشار عطلت اس کے متعلق نواب صدیق حسن خاں نے لکھ اہے کہ عشار حاملہ اونٹنی کو کہتے ہیں اس لیے یہ لفظ اﷲ تعالیٰ نے اختیار فرمایا تا کہ یہ سمجھ آجاوے کہ اسی دنیا کے متعلق ہے کیونکہ حاملہ ہونا تو اسی دنیا میں ہوتا ہے۔
اسی طرح نہروں کا نکالے جانا۔چھاپے خانوں کی کثرت اور اشاعت کتب کے ذریعوں کا عام ہونا، اس قسم کے بہت سے نشن ہیں جو اس زمانہ سے مخصوص تھے اور وہ پورے ہو گئے ہیں۔ایسا ہی کسوف و خسوف کا نسان جو رمضان میں ہوا۔یہ حدیث اکمال الدین اور دارقطنی میں موجود ہے۔پھر حج کا بند ہونا بھی نشان تھا وہ بھی پورا ہوا ۔ایک ستارہ نکلنے کی نشانی تھی وہ بھی نکل چکا۔طاعون کا نشان تھا وہ بھی پورا ہو گیا۔
غرض میں کہانتک بیان کرتا جائوں یہ ایک لمبا سلسلہ ہے۔طالب حق کے لیے اسی قدر کافی ہے۔
پھر تیسرا ذریعہ عقل ہے اگر عقل سے کام لیا جاوے اور زمانہ کی حالت پر نظر کی جاوے تو صاف طور پر ضرورت نظر آئی ہے۔غور سے دیکھو اسلام کی حالت کیسی کمزور ہو گئی ہے۔اندرونی طور پر تقویٰ طہارت اُٹھ گئی ہے۔اور امرو احکام ِ الٰہی کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور ارکان اسلما کو ہنسی میں اُڑایا جاتا ہے اور بیرونی طور پر یہ حالت ہے کہ ہر قسم کے معترض اس پر حملہ کر رہے ہیں اور اپنی جگہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کا نام و نشان مٹادیں۔
غرض جس پہلو سے دیکھو۔اسلام کمزور ہو گیا ہے۔وہ اسلما جس میں ایک بھی مرتد ہو جاتا تو قیامت آجاتی ۔اس میں تیس لاکھ مرتد ہو چکا ہے کیا ایسی حالت میں اﷲ تعالیٰ کا وعدہ
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر ص: ۱۰)
پورا نہ ہوتا؟ اگر اب اسلام کی خبر نہ لی جاتی تو پھر اور کونسا وقت آنے والا تھا؟
پس از آنکہ من نہ مانم بچہ کار خواہی آمد
کیا خد اتعالیٰ اس وقت نصرت کرے گا جب یہ نام مٹ جائے گا؟ ایک طرف حدیث میں یہ وعدہ کہ ہر صدی پر مجدد آئے گا مگر اس وقت جو عین ضرورت کا وقت ہیکہکوئی مجدد نہ آئے؟ تعجب ہے تم کیا کہہ رہے ہو۔حضرت موسیٰ علیہ السلم کا تو وہ زمانہ کہ اس میں متواترنبی آتے رہے اور یہ امت جو خری الامت کہلاتی ہے اور خاتم الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت ہے۔باوجود اُمت مرحومہ کہلانے کے اس میں جب آئے تو دجال آئے اور پھر ایک دو نہیں تیس دجال۔گویا خدا کو خطرناک دشمنی ہے۔وہ اس کو ایسا تباہ کرنا چاہتا ہے کہ نام و نشنا نہ رہے۔افسوس میری مخالفت میں یہ لوگ ایسے اندھے ہوئے ہیں کہا ﷲ تعالیٰ کے حضور شوخی اور بے ادبی کرنے سے باز نہیں آتے۔اس کو عملی طور پر وعدوں کا قرار دیتے ہیں ارو رسول اﷲ ﷺ کی ہتک شان کرتے ہیں۔
Amira 17-7-05
وفاتِ مسیح علیہ السلام
دیکھو میں کھول کر کہتا ہوں کہ تم اپنے نفسوں پر رحم کرو۔اس پیغمبر کی شان میں جو افضل الرسل ہے یہ بے ادبی نہ کرو کہ حضرت مسیح کو اس سے افضل قرار دو۔کیا تم نہیں جانتے کہ آپؐ کی وفات پر صحابہؓ کی کیا حالت ہوئی تھی۔وہ دیوانہ وار پھرتے تھے۔آپؐ کی زندگی کو اتنی عزیز تھی کہ حضرت عمرؓ نے تلوار کھینچ لی تھی کہ اگر کوئی آپ کو مردہ کہے گا تو میں اس کا سر اُڑادوںگا۔اس شور پر حضرت ابو بکرؓ آئے اور اُنہوں نے آگے بڑھ کر آپ ؐ کی پیشانی پر بوسہ دیا کہ آپؐ پر خدا تعالیٰ دو موتیں جمع نہ کریگا اور پھر یہ آیت پڑھی
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران : ۱۴۵)
یعنی آنحضرت ﷺ بھی ایک رسول ہیں۔پہلے جس قدر رسول آئے ہیں۔سب وفات پا گئے ہیں۔صحاہؓ نے جب اس آیت کو سنا تو انہیں ایسا معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت اب اتری ہے۔اُنہوں نے معلوم کیا کہ آپؐ کے مقابلہ میں کوئی اور زندہ نہیں ہے۔تم میں وہ عشق اور محبت نہیں جو صحابہ کو آنحضرت ﷺ سے تھے؛ ورنہ تم یہ کبھی روانہ رکھتے کہ مسیح کو آنحضرت ﷺ کے مقابل زندہ کہتے۔میں سچ کہتا ہوں کہ اگر صحابہؓ کے سامنے اس وقت کوئی کہتا کہ حضرت عیسیٰ ؑزندہ ہیں تو اُن میں سے ایک بھی زندہ نہ رہتا وہ اس قدر آپؐ کے عشق اور محبت میں فنا شدہ تھے۔حسان بن ثابتؓ نے اس موقعہ پر ایک مرثیہ لکھا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں:
کنت السوادلناظری-فعمی علیک الناظر ۔ من شاء بعدک فلیمت-فعلیک کنت احاذر
یعنی اے میرے پیارے نبی تُو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا اور میرے دیدوں کا نور تھا پس میں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا۔اب تیرے بعد میں دوسروں کی موت کا کای غم کروں۔عیسیٰ ؑ مرے یا موسیٰ ؑمرے۔کوئی مرے۔مجھے تو تیرے ہی مرنے کا غم تھا۔صحابہؓ کی تو یہ حالت تھی۔مگر اس زمانہ میں اپنے مُنہ سے اقرار کرتے ہیں کہ نہیں افضل الانبیاء وفات پا گئے اور حضرت مسیح زندہ ہیں۔افسوس مسلمانوں کی حالت کیا ہسے کیا ہو گئی۔میں خوب جانتا ہوں اور اس واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کا پہلا اجماع مسیح کی وفات ہی پر ہوا تھا۔پھر اُن کے خلاف کرنا یہ کونسی عقلمندی اور تقویٰ ہے۔میں یہ مانتا ہوں۔کہ یہ غلطیاں امتدادِ زمانہ کی وجہ سے ہیں۔تقویٰ نہین رہا۔جہالت بڑھ گئی ہے۔روبحق ہونا کم ہو گیا ہے۔راہِ راست محجوب ہو گیا ہے اور یہی امور ہیں جو میری ضرورت کے داعی ہیں’میں آخر میں پھر کہت اہوں کہ ان باتوں پر غور کرو۔اپنے گھروں میں جا کر تنہائی میں سوچو کہ تم چاہتے ہو کہ اسلام اور سو سال تک آفتوں کا نشانہ بنا رہے اگر اب تک کوئی نہیں آیا تو ھپر صدی کا سر تو چلا گیا۔بائیس برس گذر چکے۔اب اور سو سال تک آفتوں کا نشانہ بنا رہے اگر اب تک کوئی نہین آیا تو ھپر صدی کا سر تو چلا گیا۔بائیس برس گذر چکے۔اب اور سو سال تک انتظار کرو۔لیکن یاد رکھو کہ اگر مجھے قبول نہ کرو گے تو پھر تم کبھی بھی آنے والے موعود کو نہیں پائو گے۔
میں نے اتنی باتیں کی ہیں۔بعض مخالفوں کو فائدہ کی بجائے جوش آئے گا اور وہ ہارجیت کی طرھ توجہ کریں گے یہ نہیں کہ رو رو کر دعائیں کریں اور اﷲ تعالیٰ سے توفیق اور مدد چاہیں۔میری یہی نصیحت ہے،کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دو ارو خدا ترسی سے ان باتوں پر غور کرو اور تنہائی میں سوچو اور آخر اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ دعائیں سنتا ہے۔؎ٰ
۲؍ستمبر ۱۹۰۴ء
بمقام لاہرو
ایک روح پر ورمجلس کی روئیداد
بعد نماز جمعہ حضرت عقدس ؑ زائرین اور مشتاقانِ زیارت کے اصرار و خواہش پر اجلاس فرما ہوئے۔حاضرین میں سے ہر ایک دوسرے سے پہلے آگے بڑھنا چاہتا تھا ان کے بڑھے ہوئے جوشِ زیارت اور شوقِ ارادت مٰں انتظام کا ہوان آسان نہ تھا۔دھکے پر دھکا کھاتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔آخر جب حضرت کا حکم سنا کہ بیٹھ جائو۔جو جہاں کھڑا تھا۔وہیں بیٹھ گیا۔وہ نظارہ جن لوگوں نے دیکھ اہے اس کا لطف اور اثر کچھ وہی دل محسوس کر سکتے ہیں۔حضرت حجۃ اﷲ کے انفاس طیبہ کا کچھ ایسا اثر پڑ رہا تھا کہ اس مجمع پر نگاہ ڈالنے سے اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا پتہ لگتا تھا ارو صاف سمجھ میں آتا تھا کہ یہ جذ اور کشش کسی مفتری اور کذاب کو نہیں دیا جاتا۔آپ خاموس بیٹھے تھے کہ خاکسار ایڈیٹر الحکم نے ایک اادت مند کی طرف سے عرض کیا کہ وہ کچھ سنانا چاہت اہے۔فرمایا؍
ہاں سنا دو
اس پر اس شخص نے نہایت پر درد اور پر جوش لہجہ میں بزبانِ پنجابی کچھ اشعار سنائے جن میں حضرت حجۃ اﷲ کی بعثت، آپ کی صداقت پر بحث ھی اور بالآخر اہل لاہور کو خطاب تھا کہ دیکھو مسیح موعود تمہارے گھر مہمان ہو کر آیا ہے۔تمہارا فرض تو یہ ہیکہ تم اس کا اکرام کرو نہ یہ کہ سب و شتم سے کام لو۔مہمانوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک مناسب نہیں ۔اور پھر طاعون یک زور آور حملوں سے ڈرایا تھ۔یہ نظم بہت ہی مؤثر اور رقت خیز تھی جس کو سنکر اکثر حاضرین رو رہے تھے۔نظم ختم ہو جانے کے بعد حضرت اقدس ؑ نے ذیل کی تقریر فرمائی۔ (ایڈیٹر)
پیدائشِ انسانی کی غرض
تمام مسلمان جو یہاں اکٹھے ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک کی غرض دین ہے۔یہ میں جانتا ہوں کہ کوئی تھوڑا جوش رکھتا ہے کوئی زیادہ ۔لیکن کچھ نہ کچھ غرض دین کی رکھتا ضررور ہے۔یقینا سمجھو کہ ہر شخص اپنے اندازہ کے موافق عمر کا ایک حضہ کھا چکا ہے۔بڑی عمر ہو گئی ہے تب بھی تھوڑے دن باقی ہیں اور تھوڑی ہے تب بھی تھورے ہی باقی ہیں۔کیونکہ گذرنے والے زمانہ کو ہمیشہ تھوڑا خیال کیا جاتا ہے۔پس یاد رکھو کہ انسان جو اس مسافر خانہ میں آتا ہے اس کی اصل غرض کیا ہے؟ اصل غرض انسنا کی خلقت کی ؎یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے۔اور اس کی فرمانبرداری کرے جیس اکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔
ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات : ۵۷)
میں نے جن اور انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔مگر افسوس کی بات ہیکہ اکثر وگ جو دنیا میں آتے ہیں بلغ ہوین کے بعد بجئے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندیگ کی غڑض اور غایت کو مد نظر رکھیں، وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خد اکا حضہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے د میں تو ہتوا ہی نہیں۔وہ دنیا ہی میں منہمک او رفنا ہو جاتے ہیں’انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے ہاں اس وقت پتہ لگتا ہے جب قابض ارواح آکر جان نکال لیت اہے۔پس اس دھوکا سے خبردار رہو۔ایس انہ ہو کہ مرنے کا وقت آئاوے اور تم خالی کے خالی ہی رہو۔یہ شعر اچھا کہا ہے ؎
مکن تکیر بر عمر ناپائدار
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
ایک دفعہ ہی پیام موت آجاتا ہے اور پتہ نہیں لگتا۔انسانی‘ ہستی بہت ہی ناپائدار ہے۔ہزار ہا مرضیں لگی ہوئی ہیں۔بعض ایسی ہیں کہ جب دامنگیر ہو جاتی ہیں تو اس جہاںن سے رخت کر کے ہی رخصت ہوتی ہیں۔
جبکہ حالت ایسی نازک اور خطرناک ہے تو ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک خدا سے صلح کخرلے۔اسلام نے جو خدا پیش کای ہے اور مسلمانوں نے جس خد اکو مانا ہے وہ رحیم،کریم ،حلیم،تواب اور غفار ہیجو شخص سچی توبہ کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے گنہ بخش دیت ہے۔لیکن دنای میں خواہ حقیقی بھائی بھی ہو یا کوئی اور قریبی عزیز اور رشتہ دار ہو وہ جب ایک مرتبہ قصوردیکھ لیت اہے۔پھر وہ اس سے خواہ باز بھی آئاوے مگر اُسے عیبی سمجھتا ہے لیکن ال تعالیٰ کیسا کریم ہیکہ انسان ہزاروں عیب کر کے بھی رجوع کرت اہے تو بخش دیتا ہے۔دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے بجز پیغمبروں کے (جو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں) جو چشم پوشی سے اس قدر کام لے بلکہ عام طور پر تویہ حالت ہے جو سعدی نے کہا ہے ؎
خدا داند و بپوشد و ہمسایہ نداند و بخروشد
پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم السان صفت ہے۔یہ بالکل سچ ہیکہ اگر وہ مؤاخذہ پر آئے تو سب کو تبہ کرودے،لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے۔
اسلام اور دوسرے مذاہب میں خد اکا تصور
یہ دین یعنی اسلام جو سچا مذہب ہے اور جو نبی کریم ؐ کے ذریعہ ہم کو ملا ہے اس کی سچائی کی یہ زردست علمات ہے کہ انسنای ضمیر اور فطرت جس قسم کا خدا چاہتی ہے قرآن نے ویسا ہی خدا پیش کیا ہے یعنی اس قسم کے صھات سے متصف اسے بیان کیا ہے۔لیکن چونکہ مقابلہ کے بغیر کسی کی خوبی اور عمدگی کا پتہ نہیں لگ سکتا ۔اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر مقابلہ دوسرے مذاہب سے کیا جاوے؛ اگر چہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ قرآن شریف سے ایسا ہی ثابت ہوت اہے کہ کل عالم کا یاک ہی خدا ہے۔لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مثلاؔ ہندوؤن کا خدا۔تو اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ وہ خدا جو اپنے خیالات اور عقائد کے موافق ہندوئوں نے پیش کای ہے یا عیسئای جس قسم کا تسلیم کرتے ہیں۔نعوذ باﷲ یہ کبھی بھی خایل نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی اور خد اکی مخلوق ہیں۔
غرض جب ہم اس خد کا مقابلہ ان خدائوں سے (جو دوسرے لوگوں نے پیش کیے ہیں) کرتے ہیں تو صاف طور پر اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ خد اجو قرآن شریف نے یا اسلام نے پیش کای ہے وہی حقیقٰ خد اہے۔مثلاؔ اسی مسئلہ عفو گناہ سے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے۔خواہ انسان کتنے ہی گناہ کرے ،لیکن جب سچے دل سے توبہ کر لے اور آئندہ کے لیے گناہوں سے باز آجاوے تو اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے،لیکن اس کے بالمقابل ہندوئوں نے جس خدا کو پیش کیا ہے وہ اس کے متعلق ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایسا خد اہے کہ وہ ایک گنہ کے بدلے کروڑوں جونوں میں ڈالتا ہے اور جوئیں۔پسو۔درند۔چرند یہانتک کہ پانیا ور ہوا کے کیڑے یہ سب انسان ہی ہیں جو اپنیشامتِ اعمال کی وجہ سے سزائیں بھگتنے کے واسطے ان جونوں میں آئے ہوئے ہیں۔دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ جس قدر مخلوقات انسان کے گناہوںکے طفیل ہے اور خدا تعالیٰ کو (معاذاللہ )اب تک ان پر کوئی رحم نہیں آتا اور وہ ایسا سخت دل پرمیشر ہے کہ وہ رحم کر ہی نہیں سکتا ۔
Adeeba 25-7-05
جب یہ عقیدہ رکھا جائے گاکہ ہر ایک گناہ کی سزامیں کئی کروڑ جُونوں میں جانا پڑے گاتو گناہ کی معافی اور رحم پرمیشر میں کہاں پایا گیا؟کیونکہ جُونوں کے اس چکر سے تو کبھی نجات ہی نہیں ہے ؛حالانکہ فطرتِ انسانی ایک ایسا خدا چاہتی ہے جو انسانی کمزوریوں پر رحم کرتا ہو ۔اور انسان کے نادم اور تائب ہونے پر اس کے قصوروں کو معاف کر دے ۔کیونکہ خود انسان میں بھی یہ وصف ایک حد تک پایا جاتا ہے ۔پھر تعجب کی بات ہوگی کہ انسان تو توبہ اور معافی پر قصور معاف کر دے اور خداتعالیٰ ایسا کینہ توز(معاذاللہ)ہو کہ اسے کسی طرح رحم ہی نہ آوے؟یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے بلکہ صحیح اعتقاد ہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے کہ خداتعالیٰ بڑا ہی کریم اور رحیم ہے اور وہ سچّے رُجوع اور حقیقی توبہ پر گناہ بخش دیتا ہے ۔اس کے بالمقابل عیسائی جو کچھ پیش کرتے ہیںوہ اور بھی عجیب ہے۔وہ خدا تعالیٰ کو رحیم تو مانتے ہیں اور کہتے ہین کہ وہ رحیم ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ رحم بلا مبادلہ نہیں کرسکتا جب تک بیٹے کو پھانسی نہ دے لے اس کا رحم کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔تعجب اور مشکلات بڑھ جاتی ہیں ۔جب اس عقیدہ کے مختلف پہلوؤںپر نظر کی جاتی ہے اور پھر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پھانسی بھی دیا۔لیکن یہ نسخہء رحم پھر بھی خطا ہی گیا سب سے پہلے تو یہ کہ یہ نسخہ اس وقت یاد آیاجب بہت سی مخلوق گناہ کی موت سے تباہ ہو چکی اور ان پر کوئی رحم نہ ہو سکا،کیونکہ پہلے کوئی بیٹا پھانسی پر نہ چڑھااور علاوہ بریں اگرچہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ زیدؔ کے سر میں درد ہوا اور بکرؔ اپنا سر پتھر سے پھوڑے اور یہ سمجھا جاوے کہ اس نسخہ سے زیدؔکو آرام آجاوے گالیکن اس کو بفرض ِمحال مان کر بھی اس نسخہ جو اثر ہوا ہے وہ تو بہت ہی خطر ناک ہے ۔جب تک یہ نسخہ استعمال نہیں ہوا تھا۔اکثر لوگ نیک تھیاور توبہ اور استغفار کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔مگر جب یہ نسخہ گھڑا گیاکہ ساری دنیا کے گناہ خدا کے بیٹے کی پھانسی پانے کے ساتھ معاف ہو گئے تو اس سے بجائے اس کے کہ گناہ رکتا، گناہ کا ایک اور سیلاب جاری ہو گیا اور وہ بندہ جو اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے خوف اور شریعت کا لگا ہوا تھا ٹوٹ گیا۔جیسا کہ یورپ کے حالات سے پتہ لگتا ہے کہ اس مسئلہ نے وہاں کیا اثر کیا ہے اور فی الحقیقت ہونا بھی یہی چاہئے تھا۔پھر جب یہ بات ہے اور حالت ایسی ہے تو ہم کیونکر تسلیم کریں کہ وہ خدا جو اس رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا وہ حقیقی خدا ہے۔
Amira 26-7-05
اس قسم کی غلط تعلیمیں دنیا میں جاری ہو چکی ہیں اور حقیقی خدا کا چہرہ چھپا ہوا تھا۔جو اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا۔آپؐ نے آکر دنیا کے سامنے وہ خد اپیش کیا جو انسانی کانشنس اور فطرت چاہتی ہے اور اس کا پورا پورا بیان خد اتعالیٰ کی سچی کتاب قرآن مجید میں ہے۔
مسلمانوں سے خصوصی خطاب
میں اس وقت دوسرے لوگوں کو جو مسلمان نہیں ہیں الگ رکھ کر صرف ان لوگوں کے متعلق کچھ کہوں گا جو مسلمان ہیں اور انہیں سے خطا ب کروں گا
یا رب ان قومی اتخذواھذاالقران مہجورا (فرقان : ۳۱)
یاد رکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے۔عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ توبہت دور پڑے ہوئے ہیں،لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے۔اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے۔اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اُسے پڑھا ہی نہیں۔پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لاپروا ہیں اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفیٰ اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہوین اور بہت سی امراض میں مبتلا ہوین کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا، تو یہ اس کی کیسی بد قسمتی اور جہالت ہے۔اُسے تو چاہیے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اُس کے لُطف اور شفا بخش پانی سے خظ اُٹھاتا۔مگر باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔اور اس وقت تک اُس سے دور رہتا ہے جو متو آکر خاتمہ کر دیتی ہے۔اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیون اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہیے۔مگر نہیں۔اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی۔ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خد اتعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بُلاوے تو اُسے کذاب اور دجال کہا اجتا ہے۔اس سے بڑھ کر اور کای قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی۔
مسلمانوں کو چاہیے تھا اور اب بھی اُن کے لیے یہی ضروری ہیکہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں۔اور پھر دیکیھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح اُن کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے۔کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے لیے یہ ایک نیک راہ پدیا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اُٹھائیں۔
یقینا یاد رکھو کہ جو شخص سچے دل سے اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پاک کتاب پر عمل کرتا اور رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت کرتا ہے،تو اﷲ تعالیٰ اس کو لا انتہا برکات سے حصہ دیت اہے۔ایسی برکات اُسے دی جاتی ہیں جو اس دنیا کی نعمتوں سے بہت ہی۹ بڑھ کر ہوتی ہیں۔ان میں سے ایک عفو گناہ بھی ہے کہ جب وہ رجوع کرتا اور توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔دوسرے لگو اس نعمت سے بالکل بے بہرہ ہیں اس لیے کہ وہ اس پرا عتقاد ہی نہیں رکھتے کہ توبہ سے گناہ بھی بخشے جایا کرتے ہیں۔اُن میں سے بعض تو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ہم کو جونوں میں جونوں میں جانا پڑے گا اور معافی نہیں مل سکتی۔عیسائیوں کے اصول کے موافق مسیح کے خون پر ایک بار ایمان لا کر اگر گناہ ہو جاوے،تو پھر صلیبِ مسیح کوئی فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ مسیح دو مرتبہ صلیب پر نہیں چھے گا تو کای یہ بات صاف نہیں ہے کہ ان دونوں کے لیے بخشے جانے اور نجات کی راہ بند ہے کیونکہ صدورِ گناہ تو رُک نہیں سکتا۔اگر خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کا شکر نہ کرے تو یہ بھی گناہ یہ اور غفلت کرے تو یہ بھی گناہ ہے اور ان گناہوں پر بھی جونوں میں جانا پڑے گا یا مسیح کو دوبارہ صلیب نہیں دیا جائے گا، اس لیے کُلّی طور پر مایوس ہونا پڑے گا ،مگر اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم نہین دی۔ان کے لیے ہر وقت توبہ کا دروازہ کھُلا ہے۔جب انسنا اس کی طرف رجوع کرے اور اپنے پچھلے گناہوں کا اقرار کرکے اس سے خواستگارِ معافی ہو اور آئندہ کے لیے نیکیوں کا عزم کرے تو اﷲ تعالیٰ اُسے معاف کر دیتا ہے۔
سچی توبہ اور رجوع الیٰ اﷲ کی نصیحت
اس لیے میں کہتا ہوں کہ میری باتوں کو متوجہ ہو کر سنو۔ایسا نہ ہو کہ یہ باتیں صرف تمہارے کان تک ہی رہ جائیں اور تم اُن سے کوئی فائدہ نہ اٹھائو اور یہ تمہارے دل تک نہ پہنچیں۔نہیں بلکہ توجہ سے سنو اور اُن کو دل میں جگہ دو اور اپنے عمل سے دکھائو کہ تم نے اُن کو سرسری طور پر نہیں سنا اور اُن کا اثر اسی آن تک نہیں بلکہ گہرا اثر ہے۔
اس بات کو بخوبی یاد رکھو کہ گناہ ایسی زہر ہے جس کے کھانے سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور نہ صرف ہلاک ہی ہوت ہے بلکہ وہ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے رہ جاتا ہے اور اس قابل نہیں ہوتا کہ یہ نعمت اس کو مل سکے۔جس جس قدر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے۔اسی اسی قدر خدا تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ روشنی اور نور جو خد اتعالیٰ کے قرب میں اُسے ملنی تھی اس سے پرے ہٹتا جاتا ہے اور تاریکی میں پڑ کر ہر طرف سے آفتوں اور بلائوں کا شکار ہو جاتا ہے۔یہانتک کہ سب سے زیادہ خطرناک دشمن شیطان اس پر اپنا قابو پا لیتا ہے اور اُسے ہلاک کر دیتا ہے۔لیکن اس خطرناک نتیجہ سے بچنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایک سامان بھی رکھا ہوا۔اگر انسان اس سے فائدہ اُٹھائے تو وہ اس ہلاکت کے گڑھے سے بچ جاتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے قرب کوپاسکت اہے۔وہ سامان کیا ہے۔رجوع الی اﷲ یا سچی توبہ۔خدا تعالیٰ کا نام تواب ہے۔وہ بھی رجوع کرتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے،تو اﷲ تعالیٰ سے دور ہو جات ہے اور خد اتعالیٰ اس سے بعید ہوتا ہے۔لیکن جب انسان رجوع کرتا ہے یعنی اپنے گناہوں سے نادم ہو کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف جھُکتا ہے تو اس کریم رحیم خدا کا رحم اور کرم بھی جوش میں آتا ہے اوروہ اپنے بندہ کی طرف توجہ کرتا ہے اور رجوع کرتا ہے۔اس لیے اس کا نام تواب ہے۔پس انسان کو چاہیے کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ اس کی طرف رجوع برحمت کرے۔
شامتِ اعمال
انسان جس قدر مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اور دنیا میں اس پر آفتیں آتی ہیں۔یہ سب شامتِ اعمال ہی سے آتی ہیں۔میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ لوگ ایک دھوکہ میں پڑ جاتے ہیں کہ ہم پر اگ مصیبتیں آئیں تو کای ہوا؟ انبیاء علیہم السلام پر بھی مصیبتیں آئی ہیں۔لیکن وہ نہیں جانتے کہ انبیاء علیہم السلام کی مصیبتوں اور تکلیفوںس ے ان کی مصائب اور مشکلات کو کوئی نسبت نہیں۔انبیاء علیہم السلام کی مصائب میں لذت ہوتی ہے۔وہ قربِ الٰہی کے بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں۔ان سے محبت بڑھتی ہے اور ان کا فوق العادت استقلال اور رضا وتسلیم اعلیٰ درجہ کی معرفت کا باعث بنتا ہے۔برخلاف اس کے یہ مصیبتیں اور بلائیں وبائیں جو گناہ کی شامت سے آتی ہیں اُن میں درد اور تکلیف کے علاوہ خد اسے بُعد ہوتا ہے اور ایک تاریکی چھا جاتی ہے۔آخر بالکل تباہی اور بربادی ہو جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک زہر ہے۔زہر کھ کر کوئی بچ نہیں سکتا۔پس گناہ کی زہر کھا کر یہ توقع کرنا کہ وہ بچ جائے گا خطرناک غلطی ہے۔یقینا یاد رکھو جو گناہ سے بعاز نہیں آتا وہ آخر مرے گا اور ضرور مرے گا۔اﷲ تعالیٰ نے انبیاء اور رسل کو اسی لیے بھیجا اور اپنی آخری کتاب قرآن مجید اس لیے نازل فرمائی کہ دنیا اس زہر سے ہلاک نہ ہو بلکہ اس کی تاثیرات سے واقف ہو کر بچ جاوے۔قدیم سے سنت اﷲ اسی طرف پر چلی آئی ہے کہ جب دنیا پر گناہ کی تاریکی پھیل جاتی ہے اور انسانوں میں عبودیت نہیں رہتی اور عبودیت اور الُوہیت کا باہمی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔انسان سرکشی اور بغاوت اختیار کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اُس کی آگاہی اور تنبیہہ کے لیے اپنا ایک مامور بھیج دیتا ہے وہ دنیا آکر اہل دنیا کو اس خطرناک عذاب سے ڈراتا ہے جو اس کی شرارتوں اور شوخیوں کی وجہ سے آنے والا ہوت اہے اور ان کو اس زہر سے جو گناہ کی زہر ہے بچانا چاہتا ہے جو سعید الفطرت ہوتے ہیں وہ اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔اور سچی توبہ کر کے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔لیکن شریر النفس اپنی شرارتوں میں ترقی کرتے اور ا سکی باتوں کو ہنسی ٹھٹھے میں اُڑ ا کر خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتے ہیں اور آخر تباہ ہو جاتے ہیں۔
خدا تعالیٰ سے سچا تعلق عبودیت ہو
آجکل یہی زمانہ آیا ہوا ہے۔خدا تعالیٰ کے ساتھ جو سچا تعلق عبودیت کا ہوان چاہیے اور جو محبت اپنے خالق سے ضروری ہے وہ کہاں ہے؟ ہر ایک شخص اپنی جگہ پر غور کرے اور اپنے نفس پر قیاس کرکے دیکھے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے تعلقات کس قدر ہیں آیا وہ دنیا اور اس کی شان وشوکت کو اپنا معبود سمجھتا ہے یا حقیقی خدا کو معبود مانتا ہے۔اس کے تعلقات اپنے نفس، اہل و عیال اور دوسری مخلوق کے ساتھ کس قسم کے ہیں؟ ان میں خدا تعالیٰ کا کس درجہ تک ہے۔ان باتوں پر جب آپ غور کریں گے اور خالی الذہن ہو کر غور کریں گے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ یہ وہ وقت آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی رشتہ اور پیوند رکھا ہی نہیں ہے۔اکثر ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے وجود اور ہستی ہی کا یقین نہیں رکھتے اور جو بعض مانتے ہیں کہ خد اہے ان کا ماننا نہ ماننا برابر ہو رہا ہے کیونکہ وہ تقویٰ اﷲ اور خشیتہ اﷲ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لانے سے پیدا ہوتی ہے اُن میں پائی نہیں جاتی۔گناہ سے نفرت اور احکام الٰہی کی پابندی اور نواہی سے بچنا نظر نہیں آتا۔پھر کیونکر تسلیم کر لیا جاوے کہ یہ لوگ فی الحقیقۃ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔؎ٰ
اور ماسوا اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ جبتک کامل اور پورا تعلق نہ ہو۔وہ برکات اور فیوض جو اس تعلق کے لازمی نتائج ہیں حاصل نہیں ہوتے۔اس کی مثال ایسی ہیکہ جہاں ایک پیالہ پانی کا بی کر سیر ہوان ہو وہاں ایک قطرہ کہاں تک مفید ہو سکت اہے اور تشنہ لبی کو بُجھا سکتا ہے اور جہاں دس تولہ دوا کھانی ہو وہاں ایک چاول یا ایک رتی سے کیا ہوگا؟ اسی طرح پر جب تک انسان پورے طور پر خدا تعالیٰ کا مطیع اور وفادار بندہ نہیں بنتا اور کامل نیکی نہیں کرتا۔اس وقت تک اس کے انوار و برکات ظاہر نہیں ہوتے۔ادھوری اور نا تمام باتوں سے بعض اوقات ٹھوکر لگتی ہے۔ایک شخص نیکی کو اس کے کمال تک تو پہنچاتا نہیں اور اس سے ان ثمرات کی توقع کرتا ہے جو اس کے درجہ کمال پر پیدا ہوتے ہیں اور جب وہ نہیں ملتے تو اس سچی اور پاک تعلیم سے بدظن ہونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ کچھ بھی نہیں۔بہت سے لوگ اسی طرح پر گمراہ ہوئے ہیں۔لیکن میں یقینا کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے جو تعلیم پیش کی ہے اور جس طریق پر نیکی کی راہیں بتائی ہیں ان پر اور اس درجہ تک عامل ہونے سے انسان وہ تمام کمالات اور برکات حاصل کر سکتاہے جن کا وعدہ دیا گیا ہے۔اسی پاک تعلیم کی سچی اور کامل پیروی سے ولی اﷲ اور ابدال بنتے ہیں۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ولی اﷲ یا ابدال بننے کے لیے کوئی خاص راہ ہے جو قرآن شریف میں نہیں ہے۔وہ سخت نادان اور غلطی پر ہیں ۔یہی وہ راہ ہے جس سے یہ درجے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ولی یا ابدال کای کرتے ہیں؟ یہی کہ وہ سچی تبدیلی کر لیتے ہیں اور قرآن شریف کی تعلیم کا سچا متبع اپنے آپ کو بناتے ہیں اور نیکی کو اس حد اور درجہ تک کرتے ہیں جو اس کے کمالات کے لیے مقرر ہے۔یہی نماز، روزہ ،زکوٰۃ،صدقات وغیرہ بھی بجالاتے ہیں،لیکن ان میں اور دوسرے لوگوں میں اس قدر فرق ہے کہ وہ اس حد تک ان اعمالِ صالحہ کو بجالاتے ہیں کہ اُن میں ایک قوت اور طاقت آجاتی ہے اور اُن سے وہ افعال سر زد ہوتے ہیں جو دوسروں کی نظر میں خوارق ہوتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ اعمالِ صالحہ کو پورے طور پر بجالاتے ہیں۔پس جو شخص پوری نیکی کرتا ہے اور اس کو ادھور اور ناقص نہیں چھوڑتا اور قرآن شریف کی تعلیم کا پورا پابند اپنے آپ کو بنالیتا ہے وہ یقینا ولی اور ابدال ہو جاتا ہے۔جو چاہے بن سکتا ہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ اس کے واسطے بڑی دعائوں کی ضرورت ہے۔اور دعا کی تعلیم بھی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔جس کے لیی جابجا ہدایت کی گئی ہے،بلکہ اس کا شروع ہی دعا سے ہوا ہے۔اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جیسے اگر کسی شخص کو زندہ رکھنا مقصود ہے تو ضرور ہے کہ اس کو پوری غذادی جاوے چند دانوں پر اس کی زندگی کی امید کرنا خیال خام ہے۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ میں زندگی حاصل کرنے کے لیے پوری نیکیوں کا کرنا ضروری ہے جو اس طریق کو چھوڑتا ہے وہ آج نہیں کل مر جاوے گا۔قرآن شریف نے اسی اصل کو بتایا ہے جو زیادہ خظ اٹھانا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ زیادہ توجہ کرے۔
جماعت احمدیہ کے لیے خصوصی نصائح
ہماری جماعت(جس سے مخالف بُغض رکھتے ہیں ارو چاہتے ہیں کہ یہ جماعت ہلاک اور تباہ ہو جاوے) کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں اپنے مخالفوں سے باوجود اُن کے بغض کے ایک بات میں اتفاق رکھتا ہوںاور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ یہ جماعت گناہوں سے پاک ہو اور اپنے چال چلن کا عمدہ نمونہ دکھاوے وہ قرآن شریف کی سچی تعلیم پر سچی عامل ہو اور آنحضرت ﷺ کے اتباع میں فنا ہو جاوے۔ان میں باہم کسی قسم کا بغض و کینہ نہ رہے۔وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری اور سچی محبت کرنے والی جماعت ہو۔لیکن اگر کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر بھی اس غرض کو پورا نہیں کرتا اور سچی تبدیلی اپنے اعمال سے نہیں دکھاتا وہ یاد رکھے کہ دشمنوں کی اس مراد کو پورا کر دے گا۔وہ اولاد جو انبیاء کی اولاد کہلاتی تھی۔یعنی بنی اسرائیل جن میں کثرت سے نبی اور رسول آئے اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کے وہ وارث اور حقدار ٹھہرائے گئے تھے۔لیکن جب اس کی روحانی حالت بگڑی اور اُس نے راہِ مستقیم کو چھوڑ دیا ۔سرکشی اور فسق و فجور کو اختیار کیا۔نتیجہ کیا ہوا؟
ضربت علیہم الذلۃ و المسکنۃ (البقرۃ : ۶۲)
کی مصداک ہوئی۔خدا تعالیٰ کا غضب ان پر ٹوٹ پڑا۔اور ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا۔یہانتک وہ گر گئے کہ انسانیت سے بھی اُن کو خارج کیا گیا۔یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے۔بنی اسرائیل کی حالت ہر وقت ایک مفید سبق ہے۔اسی طرح یہ قوم جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے وہ قوم ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر بڑے بڑے فضل کرے گا۔لیکن اگر کوئی اس جماعت میں داخل ہو کر خد تعالیٰ سے سچی محبت اور رسول اﷲ ﷺ کی سچی اور کامل اتباع نہیں کرتا وہ چھوٹا ہو یا بڑا کاٹ ڈالا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ ہوگا۔پس تمہیں چاہیے کہ کامل تبدیلی کرو اور جماعت کو بدنام کرنے والے نہ ٹھہرو۔
خاندانی تفاخر
بعض نادان ایسے بھی ہیں جو ذاتوں کی طرف جاتے ہیں اور اپنی ذات پر بڑا تکبر اور ناز کرتے ہیں۔بنی اسرائیل کی ذات کیا کم تھی جن میں نبی اور رسول آئے تھے۔لیکن کیا اُن کی اس اعلیٰ ذات کا کوئی لحاظ خدا تعالیٰ کے حضور ہوا۔جب اس کی حالت بدل گئی۔ابھی میں نے کہا ہیکہ ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا اور اسے اس طرح پر انسانیت کے دائرہ سے خارج کر دیا۔میں نے دیھک اہے کہ بہت لوگوں کو یہ مرض لگا ہوا ہے۔خصوصاً سادات اس مرض میں بہت مبتلا ہیں۔وہ دوسروں کو حقیر سمجھے ہیں اور اُسے ذرا بھی تعلق نہیں ہے۔آنحضرت ﷺ جو سید ولد آدم اور افضل الانبیاء ہیں۔انہوں نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے صاف طور پر فرمایا کہ اے فاطمہؓ تو اس رشتہ پر بھروسہ نہ کرنا کہ میں پیغمبر زادی ہوں۔قیامت کو یہ ہرگز نہیں پوچھا جاوے گا کہ تیرا باپ کون ہے۔وہان تو اعمال کام آئیں گے۔میں یقینا جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قرب سے زیادہ دور پھینکنے والی اور حقیقی نیکی کی طرف آنے سے روکنے والی بڑی بات یہی ذات کا گھمنڈ ہے کیونکہ اس سے تکبر پید اہوتا ہے اور تکبر ایسی شے ہے کہ وہ محروم کر دیتاہے۔علاوہ ازیں وہ اپنا سارا سہارا اپنی غلط فہمی سے اپنی ذات پر سمجھتا ہے کہ میں گیلانی ہوں یا فلاں سید ہوں؛ حالانکہ وہ نہیں سمجھتا کہ یہ ثیزیں وہاں کام نہیں آئیں گی۔ذات اور قوم کی بات تو مرنے کے ساتھ ہی الگ ہو جاتی ہے۔مرنے کے بعد اس کا کوئی تعلق باقی رہتا ہی نہیں۔اس لیے اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں یہ فرمایا ہے۔
من یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ (الزلزال : ۹)
کوئی برا عمل کرے خواہ کتنا ہی کیوں نہ کرے اس کی پاداش اس کو ملے گی۔یہاں کوئی تخصیص ذات اور قوم کی نہیں اور پھر دوسری جگہ فرمایا
ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔
پس ذاتوں پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو کہ یہ نیکی کے لیے روک کا باعث ہو جاتا ہے۔ہاں ضروری یہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو۔خدا تعالیٰ کے فضل اور برکات اسی راہ سے آتے ہیں۔میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حال میں اﷲ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت ﷺ کی کامل اور سچی اتباع کریں۔قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بنادیں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں نہ صرف قال سے۔اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقینا یاد رکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہوسکتے۔اس لیے کہ خدا ہمارے ساتھ ہوگا۔
لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے نافرمان اور اس سے قطع تعلق کر چکے ہیں تو ہماری ہلاکت کے لیے کسی کو منصوبہ کرنے کی ضرورت نہیں۔کسی مخالفت کی حاجت نہیں۔وہ سب سے پہلے خود ہم کو ہلاک کر دیگا۔
ہمیشہ سے سنت اﷲ اسی طرح پر چلی آئی ہے۔جب بنی اسرائیل نے خد اتعالیٰ کی نافرمانی اختیار کی اور اس نے گناہ کیا۔خدا تعالیٰ نے اس قوم کو ہلاک کیا؛ حالانکہ حضرت موسیٰ ؑپیغمبر اُن میں موجود تھے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ گناہ سے سخت بیزار ارو متنفر ہے۔وہ کبھی پسند نہیں کر سکت اکہ ایک شخص بغاوت کرے ارو اس کو سزا نہ دی جاوے۔
یہ بات بھی خوب یاد رکھو کہ گنہگار خد اتعالیٰ پر ایمان اور یقین نہیں رکھتا۔اگر ایمان رکھتا تو ہر گز گناہ کرنے کی جرأت نہ کرتا۔حدیث میں جو آیا ہے کہ چوری کرنے والا یا زانی یا بدکار اپنے فعل کے وقت مومن نہیں ہوتا۔اس کا بھی یہی مطلب ہے کیونکہ سچا ایمان تو گناہ سے دور کرتا ہے اور شیطاعن کی کُشتی میں وہ شیطان پر غالب آجاتا ہے،لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص علانیہ بدکاری مٰں مبتلا ہے اور دوسری خطا کاریوں سے باوجود یکہ اُن کی براتی سے آگاہ ہے باز نہیں آتا تو پھر بجز اس کے اور کیا کہنا پڑے گا کہ وہ خد اتعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا۔اگر ایمان رکھتا تو کیوں ان بدیوں سے نہ بچتا،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خدا گناہ سے سخت بیزار ہے اور اس کا نتیجہ بہت ہی برا اور تکلیف دہ ہے۔
Amira 28-7-05
انسانی نفس کے مراتب
نفس کی تین حالتیں ہیں۔یا یہ کہو کہ نفس تین رنگ بدلتا ہے۔بچپن کی حالت میں نفسِ زکیّہ ہوتا ہے۔یعنی بالکل سادہ ہوتا ہے۔اس عمر کے طے کرنے کے بعد پھر نفس پر تین حالتیں آتی ہیں سب سے اول جو حالت ہوتی ہیاس کا نام نفسِ امارہ ہے۔اس حالت میں انسان کی تمام طبعی قوتیں جوش زن ہوتی ہیں اور اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے دریا کا سیلاب آجاوے اس وقت قریب ہے کہ غرق ہو جاوے۔یہ جوشِ نفس ہر قِسم کی بے اعتدالیوں کی طرف لے جاتا ہے۔
لیکن پھر اس پر ایک حالت اور بھی آجاتی ہے جس کا نام نفسِ لوامہ ہے۔اس کا نام لوّامہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ بدی پر ملامت کرتا ہے اور یہ حالت نفس کی روا نہیں رکھتی کہ انسان ہر قسم کی بے اعتدالیوں اور جوشوں کا شکار ہوتا چلا جاوے۔جیسا کہ نفسِ امارہ کی صورت میں تھا۔بلکہ نفس لوامہ اُسے بدیوں پر ملامت کرتا ہے۔یہ سچ یہ کہ نفس لوامہ کی خالت میں انسان بالکل گناہ سے پاک اور بری نہیں ہوتا مگر اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اس حالت میں انسان کی شیطان اور گناہ کے ساتھ ایک جنگ ہوتی رہتی ہے۔کبھی شیطان غالب آجاتا ہے اور کبھی وہ غالب آجاتا ہے۔مگر نفسِ لَوّامہ والا خدا تعالیٰ کے رحم کا مستحق ہوتا ہے۔اس لیے کہ وہ بدیوں کے خلاف اپنے نفس سے جنگ کرتا رہتا ہے اور آخر اس کشمکش اور جنگ و جدل میں اﷲ تعالیٰ اس پر رحم کر دیتا ہے اور اُسے وہ نفس کی حالت عطا ہوتی ہے جس کا نام مُطمنّہ ہے۔یعنی اس حالت میں انسان شیطان اور نفس کی لڑائی میں فتح پا کر انسانیت اور نیکی کے قلعہ کے اندر آکر داخل ہو جاتا ہے اور اس قلعہ کو فتح کر کے مطمئن ہو جاتا ہے۔اس وکت یہ خدا پر راضی ہوت اہے اور خدا تعالیٰ اس پر راقی ہوت اہے۔کیونکہ یہ پورے طور پر اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں قتعا اور محو ہو جاتا ہے۔اور خدا تعالیٰ کی مقادیر کے ساتھ اسکو پوری صلح اور رضا حاصل ہوتی ہے؛ چنانچہ فرمایا
یا یتھا النفس المطمئنۃارجعی الی ربک راضیۃ مر ضیۃ۔فادخلی فی عبادی
وادخلی جنتی (الفجر :۲۸-۳۱)
یعنی اے نفر آرام یافتہ جو خدا سے آرام پا گیا یہ اپنے خد اکی طرف واپس چلا آ۔تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر آجا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سچا رجوع اس وقت ہوتا ہے جبکہ خد اتعالیٰ کی رضا سے رضاء انسانی مل جاوے۔یہ وہ حالت ہے جہاں انسان اولیاء اور ابدال اور مقربین کا درجہ پاتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں اﷲ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملتا ہے اور وحی کی جاتی ہے۔اور چونکہ وہ ہر قسم کی تاریکی اور شیطانی شرارت سے محفوظ ہوت اہے۔ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی رضا میں زندہ ہوت اہے،اس لیے وہ ایک ابدی بہشت اور سرور میں ہوتا ہے ۔انسانی ہستی کا مقصد اعلیٰ اور غرض اسی مقام کا حاصل کرنا ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو اسلام کے لفظ میں اﷲ تعالیٰ نے رکھا ہے، کیونکہ اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اﷲ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کرلے۔
بلند تر مراتب پانے کے لیے دعا کی ضرورت ہے
مگر سچ یہ ہے کہ یہمقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا۔ہاں اس میں کلام نہیں کہ انسان کا فرض ہیکہ وہ مجاہدات کرے،لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہے۔انسان کمزور ہے جبتک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا۔اس دشوار گذار منزل کو طے نہیں کر سکتا۔خود اﷲ تعالیٰ نے انسن کی کمزوری اور اس کے ضعفِ حال کے متعلق ارشاد فرمایا ہے
خلق الانسان ضعیفا (النساء : ۲۹)
یعنی انسان اور کمزور بنایا گیا ہے۔پھر باوجدو اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرناسراسر خام خیالی ہے۔اس کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گذار منزلوں کو انسن بڑی آسانی سے طے کر لیت اہے کیونکہ دعا اس فیض اور قوت کو جذب کرنے والی ہے جو اﷲ تعالیٰ سے آتی ہے۔جو شخص کثرت سے دعائوں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پالیتا ہے۔ہاں نری دعا خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ اول تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے اور اس کے ساتھ دعا سے کام لے۔اسباب سے کام لے۔اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے۔اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے۔اور نرے اسباب پر گر رہنا۔اور دعا کو لاشئی محض سمجھنا یہ دہریت ہے۔یقینا سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا ۔اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی۔وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے اردگرد مسلح سپانی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں۔لیکن جو دعائوں سے لا پروا ہے وہ اس شخص کی طرف ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں وار موذی جانوروں سے بھرا ہوا یہ۔وہ سمجھ سکت اہیکہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے۔ایک لمحہ میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا اور اس کی نڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔اس لیے یاد رکھو کہ انسان کی بری سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے۔یہی دعا س کے لیے پناہ ہے۔اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے۔
قرآنی نصائح کا مغز
یہ بھی یقینا سمجھو کہیہ ہتھیار اور نعمت صرف اسلام ہی میں دی گئی ہے۔دوسرے مذاہب اس عطیہ سے محروم ہیں۔آریہ لوگ بھلا کیوں دعا کریں گے جبکہ ان کا یہ اعتقاد ہیکہ تناسخ یک ثکر میں سے ہم نکل ہی نہین سکتے ہیں اور کسی گناہ کی معافی کی کوئی امید ہی نہیں ہے۔ان کو دعا کی کیا حاجت اور کای ضرورت اور اس سے کیا فائدہ اس سے صاف معلوم ہوت اہے کہ آریہ مذہب میں دعا ایک بے فائدہ چیز ہے اور پھر عیسائی دعا کیوں کریں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ دوبارہ کوئی گناہ بخشا نہیں جائیگا، کیونکہ مسیح دوبارہ تو مصلوب ہو ہی نہیں سکتا۔پس یہ خاص اکرام اسلما کے لیے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ امت مرحومہ ہے۔لیکن اگر آپ ہی اس فضل سے محرو م ہو جاویں اور خود ہی اس دروازہ کو بند کر دیں ،تو پھر کس کا گناہ ہے۔جب ایک حیات بخش ثشمہ موجد ہے اور ہر وقت اس مین سے پانی پی سکتاہے۔پھر اگر کوئی اس سے سیراب نہیں ہوتا تو خود طالب موت اور تشنہ ہلاکت ہے۔اس صورت میں تو چاہیے کہ اس پر منہ رکھ دے اور خوب سیراب ہو کر پانی پی لیوے۔یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں۔قرآن شریف کے تیس سپارے ہیں اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں۔لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر پورا عملدر آمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے۔مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے۔دعا کو مضبوطی سے پکڑلو۔میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اﷲ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا۔لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ دعا کیا چیز ہے۔دعا یہی نہیں ہے کہ ثند لفظ منہ سے بڑ بڑا لیے۔یہ تو کچھ بھی نہیں۔دعا اور دعوت کے معنی ہیں۔اﷲ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لیے پکارنا۔اور اس کا کمال اور مؤثر ہونا اس وقت ہوتا ہے جب انسان کمال درد دل اور قلق اور سوز کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کو پکارے ایسا کہ اس کی روح پانی کی طرح گداذ ہو کر آستانہ الوہیت کی طرف بہہ نکلے یا جس طرح پر کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے تو دیکھتے ہو کہ اس کی پکار میں کیسا انقلاب اور تغیر ہوتا ہے۔اس کی آواز ہی میںوہ درد بھرا ہوا ہوتا ہے جو دوسروں کے رحم کو جذب کرتا ہے۔اسی طرح وہ دعا جو اﷲ تعالیٰ سے کی جاوے۔
Amira 3-8-05
اس کی آاز، اس کا لب و لہجہ بھی اور ہی ہوتا ہے۔اس میں وہ رقت اور درد ہوت اہے جو الوہیت کے چشمۂ رحم کو جوش میں لاتا ہے۔اس دعا کے وقت آواز ایسی ہو کہ سارے اعضاء اس سے متاثر ہوجاویں اور زبان میں خشوع خضوع ہو۔دل میں درد ارو رقت ہو۔اعضاء میں انکسار اور رجوع الی اﷲ ہو۔اور پھر سب سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے رحم و کرم پر کامل ایمان اور پوری امید ہو۔اس کی کدرتوں پر ایمان ہو۔ایسی حالت میں جب آستانۂ الوہیت پر گرے۔نمراد واپس نہ ہوگا۔چاہیے کہ اس حالت میں بار بار حضور الٰہی میں عرض کرے کہ میں گنہگار اور کمزور ہوں۔تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔تُو آپ رحم فرما اور مجھے گناہوں سے پاک کر،کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا کوئی اور نہیں ہے جو مجھے پاک کرے۔جب اس قسم کی دعا میں مداومت کرے گا اور استقلال اور صبر کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور تائید کا طالب رہے گا تو کسی نا معلوم وقت پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور سکینت اس کے دل پر نازل ہوگی جو دل سے گناہ کی تاریکی دور کر دیگی۔اور غیب سے ایک قوت عطا ہوگی جو گناہ سے بیزاری پیدا کر دے گی اور وہ ان سے بچے گا۔اس حالت میں دیکھے گا کہ میرا دل جذبات اور نفسانی خواہشوں کا ایسا اسیر اور گرفتار تھا کہ کہ گویا ہزاروں ہزار زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا جو بے اختیار اُسے کھینچ کر گناہ کی طرف لے جاتے تے اور یا یک دفعہ وہ سب زنجیر ٹوٹ گئے ہیں اور آزاد ہو گیا ہے اور جسیے پہلی حالت میں وہ محسوس اور مشاہدہ کرے گا کہ وہی رغبت اور رجوع اﷲ تعالیٰ کی طرف ہے۔گناہ سے محبت کی بجائے نفرت اور اﷲ تعالیٰ سے وحشت اور نفرت کی بجائے محبت ارو کشش پیدا ہوگی۔
یہ ایک زبردست صداقت ہے جو اسلما میں موجود ہے اس کا انکار ہرگز نہیں ہوسکتا۔اس لیے کہ اس کا زندہ ثبوت ہر زمانہ میں موجود رہتا ہے۔میں دعویٰ سے کہتاہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہا گر انسان اس امر کو سمجھ لے اور وہ دعا کے راز سے آگاہ ہو جاوے تو اس میں اس کی بری ہی سعادت اور نیک بختی ہے اور اس صورت میں سمجھو کہ گویا اس کی ساری ہی مرادیں پوری ہو گئی ہیں؛ ورنہ دنیا کے ہّم و غم تو اس قسم کے ہیں کہ انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں۔
روبخدا ہو جائو
جو شخص رُوبَدُنیا ہوتا ہے وہ تھوڑی دور چل کر رہ جاتا ہے کیونکہ نامرادیاں اور ناکامیاں آخر آکر ہلاک کر دیتی ہیں،لیکن جو شخص ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ رو بخا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کے لیے اس کی سب حرکات و سکانات ہوتی ہیں تو خدا تعالیٰ دنای کو بھی ناک سے پکڑ کر اس کا خادم بنا دیتا ہے؛ اگر چہ اس خالت میں بہت فرق ہوتا ہے ۔دنیا دار تو دنیا کا دیوانہ ہوت اہے،لیکنیہ روبخا شخص جس کی دنیا خادم کی جاتی ہے۔دنای اور اس کی لذتوں میں کوئی لذت نہیں پاتا۔بلکہ ایک قسم کی بدمزگی ہوتی ہے،کیونکہ وہ لُطف ارو ذوقِ دنیا کی طرف نہیں ہوتا بلکہ کسی اور طرف ہوجاتا ہے۔
انسان جب اﷲ تعالیٰ کا ہو جات اہے اور ساری راحت اور لذت اﷲ تعالیٰ ہی کی رضا میں پاتا ہے تو کچھ شک نہیں دنیا بھی اس کے پاس آجاتی ہے،مگر راحت کے طریق اور ہو جائیں گے۔وہ دنای اور اس کی راحتوں میں کوئی لذت اور راحت نہیں پاتا۔اسی طرح پر انبیاء اور اولیاء کے قدموں پر دنیا کو لاکر ڈال دیا گیا ہے مگر اُن کو دنیا کا کوئی مزا نہیں آیا،کیونکہ اُن کا رُخ اور طرف تھا۔یہی قانونِ قدرت ہے ۔جب انسنا دنیا کی لذت چہتاہے تو وہ لذت اُسے نہیں ملتی لیکن جب خد اتعالیٰ میں فنا ہو کر دنیا کی لذت کو چھوڑتا ہے اور اس کی آرزو اور خواہش باقی نہیں رہتی تو دنای ملتی ہے،مگر اس کی لذت باقی نہیں رہتی۔یہ ایک مستحکم اصول ہے اس کو بھولنا نہیں چاہیے۔خدایا بی کے ساتھ دنیا یابی وابستہ ہے۔خدا تعالیٰ بار بار فرماتاہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے گا اُسے تمام مشکلات سے نجات ملے گی اور ایسے طور پر اسے رزق دے گا کہ اُسے علم بھی نہ ہوگا۔یہ کس قدر برکت اور نعمت ہے کہ ہر قسم کی تنگی اور مشکلات سے آدمی نجات پا جاوے۔ور اﷲ تعالیٰ اُس کے رزق اک کفیل ہو،لیکن یہ بات جیساکہ خدو اس نے فرمایا۔تقویٰ کے ساتھ وبستہ یہ اور کوئی امر اس کے ساتھ نہیں بتایا کہ دنیوی مکر وفریب سے یہ باتیں حاصل ہوں گی۔
اﷲ تعالیٰ کے بندوں کی علامات میں سے یہ بھی ایک علامت ہے کہ وہ دنیا سے طبعی نفرت کرتے ہیں۔پس جو شخص چاہت اہے کہ اﷲ تعالیٰ اس سے خوش ہو جاوے اور دنیا اور آخرت کی راحت اُسے مل جاوے وہ یہ راہ اختیار کرے۔اگر اس راہ کو تو چھوڑتا ہے اور اور راہیں اختیر کرتا ہے تو پھر ٹکریں مار کر دیکھ لے کہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔بہت سے لوگ ہوں گے جن کو یہ نصیحت بُری لگے گی اور وہ ہنسی کریں گے،لیکن وہ یاد رکھیں کہ آخر ایک وقت آجائے گا کہ وہ ان باتوں کی حقیقت کو سمجھیں گے اور پھر بول اُٹھیں گے کہ افسوس ہم نے یونہی عمر ضائع کی۔لیکن اس وقت کا افسوس کچھ کام نہ دیگا۔اصل موقعہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور پیغامِ موت آجائیگا۔
میں پھر کہتاہوں کہ خدا تعالیٰ کو خوشکرنے کی فکر کرو۔کیونکہ اگر خد اتعالیٰ مہربان ہو جاوے تو ساری دنیا مہربان ہو جاتی ہے،لیکن اگر وہ ناراض ہو تو پھر کوئی بھی کام نہیں آسکتا۔جب اس کا غضب آگیا تودنیا میں کوء مہر بان نہ رہے گا خواہ کیسا ہی مکروفریب کرے۔تسبیحیں الے۔بھگوے ارو سبز کپڑے پہنے۔مگر دنیا اس کو حقیر ہی سمجھے گی۔اگر چند روز دنیا دھوکہ کھا بھی لے تو بھی آخر اس کی قلعی کھُل جائے گی اور اس کا مکر و فریب ظاہر ہو جائے گا،لیکن جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے دنیا اس کی کتنی ہی مخالفت کرے وہ اپنی مخالفت اور منصوبوں میں کامیاب نہ ہوگی۔اس کو گالیاں دے۔لعنتیں بھیجے۔لیکن ایک وقت آجائے گا کہ وہی دنیا اس کی طرف رجوع کرے گی اور اس کی سچائی کا اعتراف اسے کرنا پڑے گا۔میں سچ کہتا ہوں کہ اﷲ جس کا ہو جاتا ہے دنیا بھی اس کی ہو جاتی ہے۔ہاں یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ابتداء اہل دنیا اُن کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اُسے قسم قسم کی تکلیفیں دیتے اور ا س کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔کوئی پیغمبر اور مرسل نہیں آیا جس نے دکھ نہ اُٹھایا ہو۔مکار۔فریبی۔دکاندار اس کا نام نہ رکھا ہو۔مگر باوجود اس کے کہ کروڑہا بندوں نے اس پر ہر قسم کے تیر چلانے چاہے۔پتھر مارے۔گالیاں دیں۔انہوں نے کسی بات کی پروا نہیں کی۔کوئی امر اُن کی راہ میں روک نہیں ہوسکا۔وہ دنیا کو خد اتعالیٰ کی کلام سناتے رہے اور وہ پیغام و لے کر آئے تھے۔اس کے پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اس تکلیفوں اور ایذارسانیوں نے جو نادان دنیاداروں کی طرف سے پہنچیں ان کو سست نہیں کیا بلکہ وہ اور تیز قسم ہوتے یہانتک کہ وہ زمانہ آگیا کہ اﷲ تعالیٰ نے وہ مشکلات ان پر آسان کر دیں اور مخالفوں کو سمجھ آنے لگی اور پھر وہی مخالف دنیا ان کے قدموں پر آگری اور اُن کی راستبازی اور سچائی کا اعتراف ہونے لگا۔دل اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب چاہتا ہے بدل دیتا ہے۔
تبلیغ کی مشکلات
یقینا یاد رکھو۔تمام انبیاء کو اپنی تبلیغ میں مشکلات آئی ہیں۔آنحضرتﷺ جو سب انبیاء علیہم السلم سے افضل اور بہتر تھے ۔یہانتک کہ آپ پر سلسلۂ نبوت اﷲ تعالیٰ نے ختم کر دیا یعنی تمام کمالات نبوت آپ پر طبعی طور پر ختم ہو گئے۔باوجود ایسے جلیل الشان نبی ہونے کے کون نہیں جانتا کہ آپؐ کو تبلیغ رسالت میں کس قدر مشکلات اور تکالیف پیش آئیں اور کفار نے کس حدتک آپؐ کو ستایا اور دُکھ دیا۔اس مخالفت میں اپنی ہی قوم اور چچا اور دوسرے بزرگ سب سے بڑھ کر حصہ لینے اولے تھے۔آپؐ کی مصیبتوں اور تکلیفوں کا زمانہ اتنا لمبا ہوا کہ تیرہ برس تک اپنی قوم سے ہر قسم کے دُکھ اُٹھاتے رہے۔اس حالت میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص کامیاب ہوگا۔کیونکہ ہر طرف مخالفت کا بازار گرم تھا اور خود اپنے رشتہ دار ہی تشنۂ خون ہو رہے تھے جدُی اور برادری کے لوگوں نے جب قبول نہ کیا تو اوروں کو اور بھی مشکلات پیش آگئے۔غرض اس طرح پر آپﷺ کی مصیبتوں کا زمانہ دراز ہو گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس قسم کے مشکلات پیش نہیں آئے کیونکہ حضرت موسیٰ ؑکی قوم بنی اسرائیل نے ان کو فوراً قبول کر لیا تھا۔اس لیے قوم کی طرھ سے کوئی دُکھ اور مصیبت یا روک ان کو پیش نہیں آئی۔لیکن برخلاف اس کے آنحضرت ﷺ کو اپنی ہی قوم سے مشکلات اور انکار کا مرحلہ پیش آیا۔پھر ایسی صورت میں آنحضرت ﷺ کی کامیابیاں کیسی اعلیٰ درجہ کی ثابت ہوئی ہیں جو آپ کے کمالات اور فضائل کا سب سے بڑھ کر ثبوت ہیں۔آنحضرت ﷺ نے جب اﷲ تعالیٰ کے اِذن و امر سے تبلیغ شروع کی تو پہلے ہی آپ کو یہ مرحلہ پیش آیا کہ قوم نے انکار کیا۔لکھا ہے کہ جب آپؐ نے قریش کی دعوت کی اور سب کو بلا کر کہ میں تم سے ایک بات پوچھتا ہو۔اس کا جواب دو۔یعنی میں اگر تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑی بھاری فوج پڑی ہوئی ہے اور ہ اس گھات میں بیٹھی ہوئی ہے کہ موقعہ پاکر تمہیں ہلاک کر دے،تو کای تم باور کروگے۔سب نے بالاتفاق کہا کہ بیشک ہم اس بات کو تسلیم کریں گے۔اس لیے کہ تو ہمیشہ سے صادق اور امین ہے۔جب وہیہ اقرار کر چکے تو پھر آنحضرت نے فرمایا کہ دیکھو میں سچ کہتا ہوں کہ میں خد اتعالیٰ کا پیغمبر ہوں اور تم کو آین والے عذاب سے ڈراتا ہو ں۔اتنی بات کہنی تھی کہ سب آگ ہو گئے اور ایک شریر بول اُٹھا۔ تبا لک سائرالیوم افسوس جو بات ان کی نجات اور بہتری کی تھی نا عاقبت اندیش قوم نے اس کو ہی بُرا سمجھا اور مخالفت پر آماد ہ ہو گئے۔اب اسکے بالمقابل موسیٰ ؑکی قوم کو دیکھو۔بنی اسرائیل باوجود یکہ ایک سخت دل قوم تھی،لیکن انہوں نے حضرت موسیٰ ؑکی تبلیغ پر فوراً ہی اس کو قبول کر لای۔اور اس طرف موسیٰ ؑسے افضل کو قوم نے تسلیم نہ کیا اور مخالفت کے لیے تیار ہو گئے۔مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔آئے دن قتل کے منصوبے ہونے لگے۔اور یہ زمانہ اتنا لمبا ہو گیا کہ تیرہ برس تک برابر چلا گیا۔تیرہ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا۔اس عرصہ میں آپؐ نے جس قدر دُکھ اُٹھائے ان کابیان بھی آسان نہیں ہے۔قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذارسانی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی تھی اور ادھر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے صبر اور استقلال کی ہدایت ہوتی تھی اور بار بار حکم ہوتا تھا کہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے توبھی صبر کر اور آنحضرت ﷺ کمال صب ر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں سست نہ ہوتے تھے بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا۔اور اصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا صبر پہلے نبیوں کا سانہ تھا کیونکہ وہ تو ایک محدود قوم کے لیے مبعوث ہو کر آئے تھے،اس لیے ان کی تکالیف اور ایذارسانیاں بھی اسی حدتک محدود ہوتی تھیں۔؎ٰ لیکن اس کے مقابلہ میں آنحضرت ﷺ کا صبر بہت ہی بڑا تھا،کونکہ سب سے اول تو اپنی ہی قوم آپ ﷺ کی مخالف ہو گئے اور ایذارسانی کے درپے ہوئی اور پھر عیسائی بھی دشمن ہو گئے۔جب اُنکوسنایا گیا کہ حضرت عیسیٰ ؑصرف ایک خد اکے بندے اور رسول تھے تو اُن کو آگ لگ گئی۔کیونکہ وہ تو اُنکو خدا بنائے بیٹھے تھے۔آنحضرت ﷺ نے آکر حقیقت کھول دی۔یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جس کو خدا بنا لیتا ہے اور اپنا مبعود مانتا ہے۔اس کا ترک کرنا آسن نہیں ہوتا بلکہ پھر ا سکو چھوڑنا بہت ہی مشکل ہو جات اہے۔عیسائیوں کا یہ اعتقاد پختہ ہو گیا ہوا تھا۔اس لیے جب انہوں نے سنا کہ آنحضرت ﷺ نے اُن کے مصنوعی خدا کو انسان بنا دیا تو ہ دشمن جان بن گئے اور اسی طرف پر یہودیوں میں بہت سی مشرکانہ رسومات پیدا ہو گئی تھیں اور وہ حضرت مسیح ک بالکل انکار کرتے تھے۔جب اُن کو متنبہ کیا گیا تو وہ بیھ مخالفت کے لیی اُٹھ کھڑے ہوئے۔وہ تو حضرت مسیح کو معاذ اﷲ مکار اور کذاب کہتے تھے۔بالمقابل آنحضرت ﷺ نے اُن کو بتایا کہ تم اُن کو کذاب کہنے میں خود کذاب ہو۔وہ خد اتعالیٰ کا ایک برگزیدہ نبی ہے۔
اس کے علاوہ ان کی مخالفت کی ایک بڑی بھاری وجہ یہ ہوئی کہ وہ اپنی بے وقوفی اور کم فہمی سے یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے آئے گا،کیونکہ توریت میں جیسا کہ سنت اﷲ ہے۔آخر بنی کے متعلق جو پیشگوئی ہے وہ ایسے الفاظ میں ہے جس سے اُن کو یہ شبہ پیدا ہو گیا تھاوہان لکھا ہے کہ تمہارے بھائیوں میں سے۔وہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہی لیے بیٹھے تھے؛ حالانکہ اس سے مراد بنی اسماعیل تھی۔پس جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کا دعویٰ سنا کہ وہ خاتم الانبیاء ہیں تو ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔اور جو کچھ وہ توریت کی اس پیشگوئی کے موافق سمجھے بیٹھے تھے وہ غلط قرار دیا گیا۔اس سے اُن کے آگ لگی اور وہ مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
پیشگوئیوں کے متعلق سنت اﷲ
اصل بات یہ ہیکہ خد اتعالیٰ کی پیشگوئیوں میں سنت اﷲ یہی ہے کہ ان میں اخفاء اور ابتلاء کا بھی ایک پہلو ہوتاہے کیونک اگر یہ پہلو نہ رکھا جاوے تو پھر کوئی اختلاف ہی نہ رہے اور سب ک یاک ہی مذہب ہو جاتا۔مگر خدا تعالیٰ نے امتیاز کے لیے ایسا ہی چاہا ہے۔کہ پیشگوئیوں میں ایک ابتلا کا پہلو رکھ دیتاہے۔کو تاہ اندیش ،ظاہر پرست اس پر اڑ جاتے ہیں اور اصل مقصد سے دور جا پڑتے ہیں۔اسی طرح پر ان یہودیوں کو یہ مشکل پیش آئی۔کہ وہ آنحضرت ﷺ کے متعلق شک میں پڑ گئے ۔اگر توریت میں وہ پیشگوئی صاف الفاظ میں ہوتی کہ آنے والا بنی اسمائیل میں سے ہوگ ااور اس کا نام محمد (ﷺ) ہوگا ۔اس کے باپ کا نام عبد اﷲ بن عبد المطلب ہوگا اور اس کی ماں کا نام آمنہ ہوگاتو یہودی کیونکر انکار کرتے؟ مگر ان کی بدقسمتی سے پیشگوئی میں ایسی صراحت نہ تھی۔وہاں لکھ اتھا کہ تیرے بھائیوں میں سے وہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہی سمجھتے رہے۔
ایسا ہی حضرت عیسیٰ ؑکے وقت بھی یہودیوں کو تھوکر لگی تھی۔ملاکی نبی کی کتاب میں حضرت مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا کے آنے کی پیشگوئی درج ہے۔جب حضرت مسیح آگئے اور اُنہوں نے دعویٰ کیا تو یہودی مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ پہلے الیاس کا آنا ضروری ہے۔اس لیے وہ انکار کرنے لگے؛ چنانچہ انہوں ین خود حضرت مسیح سے یہی سوال کیا کہ الیاس کا آنا جو مسیح سے پہلے ضروری ہے وہ کہاں ہے؟حضرت مسیح نے کہا کہ آنیوالا الیاس آگیا ہے۔یعنی وہ یوحنا ابنِ زکریا کے رنگ میں آیا ہے چاہو تو قبول کرو۔مگر یہ بات ان کی تسلی کا موجب کیونک ہو سکتی تھی۔وہ اس بات پر اڑے رہے کہ وہاں کسی مثیل کے آنے کی خبر تو دی نہیں گئی۔وہان تو خود ایلیا کے آنے کا وعدہ ہے۔اس بنا پر وہ انکار کرتیرہے اور دُکھ اور تکلیفیں بھی پہنچاتے رہے۔یہاںتک کہ اب بھی یہودی یہی یقین رکھتے ہیں۔میرے پاس ایک فاضل یہودی کی کتاب ہے۔اُس نے اس مسئلہ پر ایک لمبی بحث کی ہے اور کاہ یہ کہ ہم اس مسٰخ کو کیونکر قبول کر سکتے ہیں جب کہ اس سے پہلے ایلیا نہیں آیا۔یہ شخص جو یسوع مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا دعویٰ بناوٹی اور جھوٹا ہے کیونکہ وہ ایلی اکے دوبارہ آنے کی جھوٹی تاویل کرتا ہے۔ہم اس کے خالہ زاد بھائی یحییٰ کو کیونکر ایلیاء سمجھ لیں پھر وہ لوگوں کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ ہم کس طرح پر اس شخص کے دعویٰ کو تسلیم کر لیں جبکہ ہمیں یہ خبر دی گئی تھی کہ پہلے ایلیا آئے گا۔اس میں کسی مثیل کا وعدہ نہیں کیا گیا۔آخر میں کہتا ہے کہ اگر خد اتعالیٰ قیامت کو ہم سے سواک کرے گا کہ کیوں اس مسیح کو قبول نہیں کیا، تو ہم ملاکی نبی کی کتاب کھول کر اس کے سمانے رکھ دیں گے۔
اس قسم کے مشکلات ان لوگوں کو کیوں پیش آئے؟ اس کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں پر غور نہیں کیا اور ظاہر الفاظ پر اِڑے رہے۔اسی قسم کے مشکلات اس وقت مسلمانوں کو پیش آئے ہیں۔لیکن اگر غور کیا جاوے تو اُن کے سامنے تو کوئی نظیر اور فیصلہ موجود نہ تھا لیکن ان کے سامنے تو دوبارہ آنے کا مقدمہ فیصل شدہ موجود ہے جو خود حضرت عیسیٰ ؑکی عدالت سے فیصل ہو چکا ہے۔انہوں نے تاویل کر کے بتادیا تھا کہ دوبارہ آنے والے شخص سے مراد وہی نہیں ہوتا۔پھر کس قدر افسوس ہیان پر کہ یہ اس فیصلہ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔
لا یلد غ المومن جحر واحد مرتین
یہودیوں کو جس پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ *** ہو گئے۔اسی پتھر سے یہ ٹھوکر کھاتے ہیں۔یہودی اس وقت دنیا مٰں موجود ہیں۔ان کی کتابیں موجود ہیں۔اُن سے دریافت کر لو کہ کیا ان کا یہ عقیدہ تھا یا نہیں کہ مسیح سے پہلے الیاس آئے گا اور ملاکی نبی کی کتاب میں یہ پیشگوئی درج ہے یا نہیں؟ اور پھر عیسائیوں سے پوچھو اور انجیل میں اس فیصلہ کو پڑھو جو مسیح نے خود کیا ہے۔مومن تو دوسرے کی مصیبت سے عبرت پکڑتا ہے لیکن ان مسلمانوں نے اس سے کای سبق سیکھا؟ یہودی عقیدہ ہے جس کی وجہ سے یہودی داخل جہنم ہوئے۔اب کای یہ بھی یہی چاہتے ہیں؟ میں حیران ہوتا ہون کہ ان کی عقلوں کو کیا ہوگیا۔اگر حضرت مسیح کا وہ فیصلہ جو انہوں نے الیاس کے دوبارہ آنے کے متعلق کیا ہے صحیح نہیں ہے تو ھپر مجھے جواب دیں کہ حضرت مسیح سچے پیغمبر کیونکر ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ اس میں تو کوئی کلام اور شبہ ہی نہیں کہ اُن کے آنے سے پیشتر ایلیا کا آنا ضروری تھا اور ایلیا آسمان سے نہیں آیا۔پھر حضرت مسیحؑ کیونکر سچے نبی ٹھہریں گے۔
اس عقیدۂ فاسدہ سے یہی نہیں کہ یہودیوں کیط رف حصرت عیسیٰ ؑکی رسالت سے انکار کرنا پڑے گا بلکہ آنحصرت ﷺ کی رسالت بھی معاذ اﷲ ہاتھ سے جائے گی۔کیونکہ آپ ﷺ کی آمد اور بعثت حصرت مسیح ؑ کے بعد یہ اور جب ابھی تک مسیح ؑ بھی نہیں آیا تو پھر اسلام کیونکر صحیح ہوگا؟ سثو اور غور کرو کہ تمہری ذراسی ٹھوکر کا اثر کہان تک پہنچتا ہے۔سنو۔اصل حقیقت یہی ہے اور سچا فیصلہ وہی ہے جو حضرت مسیح ؑ نے کر دیا تھا۔اس سے منہ پھیرنا اچھا نہیں ہے۔
فسئلو ااھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (الانبیاء : ۸)
غرض انبیاء علیہم السلام کو اپنی تبلیغ کی رہ میں بہت سی مشکلات ہتی ہیں اور اُن کے مصائب میں سے یہ بھی بڑی مصیبت ہے کہ جس قدر دیر نبی کی کامیابی میں ہوگی۔اسی قدر ہم و غم اس کا پڑے گا۔میں ان مشکلات سے الگ نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بھی منہاجِ نبوت پر قائم کیا ہے۔
جماعت میں شامل ہونے والوں کے لیے نصائح
ہماری جماعت کے لیے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جسیے آنحضرت ﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے؛ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو ماعً دوست، رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں۔السلام علیکم تک کے رو ادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنانہیں چاہتے۔اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں۔لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو۔ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خد تعالیٰ پر ایمان قوی ہواور پایک تبدیلی کا موقعہ ملے۔دعائوں میں لگے رہو۔پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء و رسل کی پیروی کرواور صبر کے طریق کو اختیار کرو۔تماہرا کچھ بی نقصان نہیں ہوتا۔وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے؛ ورنہ چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔تمہیں چاہیے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہٰں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے اُن سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ اُن کے لیے غائبانہ دعا کرو کہ اﷲ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا رکے جو ا۲س نے اپنے فضل سے تمہیں دی یہ۔تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھائو کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔دیکھو میں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیں سُن کر بھی صبر کرو۔بدی کا جاوب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جائے اور نرمی سے جواب دو۔بار ہا ایسا ہوت اہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسد انہ طریق ہو۔جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے سے نرمی جواب ملتاہے اور گالیوںکا مقابلہ نہیں کیا جاتا،تو خود اُسے شرم آجاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہوین لگتا ہے۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوش سے وہ کام نہیں نکلتاجو صبر سے نکلتاہے۔پبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کرلیتا ہے۔یقینا یاد رکھو کہ مجھے بہت ہیرنج ہوتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہت کہ وہ جماعت جو دنیا میںایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کیر اہ نہیں ہے بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتادیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ یہانتک اس امر کی تائید کرتاہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں تو اس معاملہ کو خد اکے سپرد کردو۔تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔میرا معاملہ خد اپر چھوڑدو۔تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو۔تمہیں کیا معلوم ہے کہ میں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہو ں۔اکثر ایسا ہوتاہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں۔ بیرنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کو طور مار ہوت اہے۔ایسی فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں۔ اور میں عتبار نہیں کرتاکہ ابو جہل میں بھی ایسی گلایوں کا مادہ ہو۔لیکن یہ سب کچھ سننا پڑتا ہے۔جب میں صبر کت اہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔درخت سے بڑھ کر توشاخ نہیں ہوتی۔تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے۔آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے۔اُن کی گالیاں،اُن کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہرگز نہیں تھکا سکتے۔اگر میںخدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بیشک میں اُن کی گلایوں سے ڈرجاتا،لیکن میں یقینا جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کای ہے۔پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پروا کروں۔یہ کبیھ نہیں ہو سکتا۔تم خود غور کرو کہ اُن کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے اُن کو یا مجھے؟ ان کی جماعت گھٹی ہے اور میری بڑھی ہے۔اگر یہ گالیاں کوئی روک پیدا کر سکتی ہیں تو دو لاکھ سے زیادہ جماعت کس طرح پید ا ہو گئی۔یہ لوگ ان میں سے ہی آئے ہیں یا کہیں اور سے؟ انہوں نے مجھ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن اس فتویٰ کفر کی کیا تاثیر ہوئے؟ جماعت بڑھی۔اگر یہ سلسلہ منصوبہ بازی سے چلایا گیا ہوتا تو ضرور تھا کہ اس فتویٰ کا اثر ہوتا اور میری راہ میں وہ فتویٰ کفر بڑی بھاری روک پید اکر دیتا۔لیکن جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو انسان کا مقدور نہیں ہے کہ اُسے پامال کر سکے جو کچھ منصوبے میرے مخالف کئے جاتے ہیں۔پہچان کرنے والوں کو حسرت ہی ہوتی ہے۔میں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک عظیم الشان دریا کے سامنے جو اپنے پورے زور سے آرہا ہے اپنا ہاتھ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اس سے رُک جاوے، مگر اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ رُک نہیں سکتا۔یہ اُن گالیوں سے روکنا چاہتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ کبھی نہیں رُکے گا۔کیا شریف آدمیوں کاکام ہے کہ گالیاں دے۔میں ان مسلمانوں پر افسوس کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں جو ایسی بیباکی سے زبان کھولتے ہیں۔میں اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہت اہوں کہ ایسی گندی گالیاں میں نے تو کبھی کسی چوڑھے چمار سے بھی نہیں سنی جو ان مسلمان کہلانے والوں سے سنی ہیں۔
ان گالیوں میں یہ لوگ اپنی خالت کا اظہار کرتے ہی اور اعتراض کرتے ہیں کہ وہ فاسق و فاجر ہیں۔خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ان پر رحم کرے۔ (آمین)
ایسے گالیان دینے والے خواہ ایک کروڑ ہوں۔خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔یہ جانتے ہیں کہایک پیسہ کا کارڈ ہی ضائع ہو گا مگر نہیں جانتے کہ اس پیسہ کے نقصان سے ساتھ نامۂ عمال بھی سیاہ ہو جائے گا۔پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گالیان دی کیوں جاتی ہیں۔کیا صرف اس لیے کہ میں کہت اہوں کہ قرآنِ شریف کو نہ چھوڑو اور آنحضرت ﷺ کی تکزیب نہ کرو۔غرضب کی بات ہے کہ قرآنِ شریف میں لکھ اہو کہ حصرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے اور پھر زمین پر نہیں آئیں گے مگر یہ ماننے میں نہیں آتے اور اس عقیدۂ مخالفتِ قرآن پر اڑتے ہیں۔اگر میں نہ آیا ہوت اور خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم نہ کیا ہوتا،تو یہ جو کچھ چاہتے کہتے کیونکہ اُن کو بیدار کرنے والا اور آگاہ کرنے والا ان میں موجود نہ تھا۔لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے اور میں وہی ہوں جس کو آنحضرت ﷺ نے حکم قرار دیا ہے تو پھر میرے فیصلہ پر چون و چراکرنا ان کا حق نہیں تھا۔طریق تقویٰ تو یہ تھا کہ میری باتوں کو سنتے اور غور کرتے اناکر کے لیے جلدی نہ کرتے۔میں سچ سچ کہتاہوں کہ میرے آنے کے بعد اُن کا حق نہیں ہے کہ یہ زبان کھولیں، کیونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور حکم ہو کر آیا ہوں۔؎ٰ
ابھی بہت زمانہ نہیں گذرا کہ مُقَلِّد غیر مقلدوں کی گلطیان نکالتے اور وہ ان کی غلطیان ظاہر کرتے اور اس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے۔ایک دوسرے کو کافر کہتے اور نجس بتاتے تھے۔اگر کوئی تسلی کی راہ موجود تھی،تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہو چکی تھیں اور لوگ حقیقت کی راہ سے دور جا پڑے تھے۔ایسے اختلاف کے وقت ضرور تھا کہ خد اتعالیٰ خدو فیصلا کرتا؛ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ایک حکم ان میں بھیج دیا۔اب بتائو کہ میں نے کای زیادتی کی ہے یا کیا قرآن شریف سے کم کر دیا ہے جو میری مخالفت کے لیے اس قدر جوش پیدا ہوا ہے؟
یہ سچ ہے کہ اس وحی کی بناء پر جو خد اتعالیٰ کی کامل اور مجید کتاب کی شرح میں ہے میں نین کاہ کہ مسیح ؑ مر گیا ہے،لیکن اس کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟ کیوں یہ قرآن شریف کو غور سے نہیں پڑھتے۔کیا اُن کو شرم نہیںآتی ہے کہ یہ مسلمان کہلاتے ہیںموحد کہلاتے ہیں۔آنحضرت ﷺ کو افضل الانبیء اور خیر البشر تسلیم کرتے ہیں۔لیکن جب وہی لفظ توفی کا آپؐ پر آتا ہے تو اس کے معنی موت کرتے ہیں اور جب مسیح پر آتا ہے تو زندہ مع جسم آسمان پر اٹھائے جاتے ہیں۔ اُن کی غیرت کو کای ہوا؟ یہ آنحضرت ﷺ کی ایسی ہتک کیوں روا رکھتے ہیں؟ کیا قرآن شریف میں
تعد ھم اونتو فینک (یونس : ۴۷)
رسول اﷲ ﷺ کے لیے نہیں آیا؟ اور وہی لفظ مسیح کے لیے متوفیک اور فلما توفیتنی میں آیا ہے۔پھر یہ کیا ہو گیا کہ ایک جگ کچھ اور معنی اور ایک جگہ کچھ اور۔آنحضرت ﷺ کو ایسا ہی کمزور نبی سمجھا ہے جو انہیں زمین میں دفن کرتے ہیں اور مسیح ؓ کو آسمان پر چڑھاتے ہیں۔اگر آنحضرت کی محبت ہوتی اور آپؐ کے جلال اور شوکت کے لیے غیرت ہے تو کیوں نہیں کہہ د یتے کہ وہ بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔تب میں بھی سمجھ لیتا کہ یہ مسیحؑ کی خصوصیت نہیں ٹھہراتے مگر موجودہ حالت میں میرا دل گوارا نہیں کر سکتا کہ میں قرآنِ شریف کے ایسے معنے کروں جو خود قرآنِ شریف اور لُغت اور آنحضرت ﷺ کی تفسیر کے خلاف ہوں اور آنحضرت ﷺ کی ہتک شان کا باعث ہوں۔
میں سچ کہت اہوں کہ جس شخص نے یہ لکھ اہے کہ جو شخص یہ کہے کہ آنحضرت ﷺ زندہ نہیں وہ کافر ہے وہ سچ کہتا ہے۔
اس خصوصیت کے پید اکرنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ تیس لاکھ مرتد ہو گیا۔خد اکے واسطے اس قدر ظلم نہ کرو کہ آنحضرت ﷺ کی شان اور رتبہ کو گھٹایا جاوے۔جو اس عقیدہ سے برا بر گھٹتی ہے کہ وہ تو زمین میں دفن کئے گئے اور مسیح ؑآسمان پر اٹھایا گیا۔مسیح ؑہرگز زندہ نہیں رہا۔وہ مرگیا۔جیس اکہ خد اتعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ
یا عیسیٰ انی متوفیک (آل عمران : ۵۶)
اور خود مسیح ؑنے اقرار کر لیا
فلما توفیتنی (المائدہ : ۱۱۸)
میں پھر کہتا ہوں کہ عیسائیوں کو اعتراض کا موقعہ نہ دو۔میری باتوں کو سنو اور غور سے سنو اور پھر اپنی جگہ پر جا کر سوچو۔؎ٰ
۳؍ستمبر ۱۹۰۴ء
بمقام لاہور
مذہبی رواداری کی تعریف
حضرت اقدسؑ کی تیسری تقریر جو حضور نے بارہ ہزار سے زائد آدمیوں کے مجمع میں حاضرین کی بیحد خواہش سے کی:
میں آپ سب صاحبوں کا شکر کرتا ہوں کہ آپ نے نہایت صبر اور خاموشی کے ساتھ میرے لیکچر کو سنا۔میں ایک مسافر آدمی ہوں اور کل صبح انشاء اﷲ چلا جائوں گا۔لیکن میں اس شکر اور خوسی کو ساتھ لے جائوں گا۔اور یاد رکھوں گا کہ باوجود اختلاف رائے کے (کہ جس کی وجہ سے عموماً جوش پید اہو جاتاہے) آپ نے نیکی اور نیک اخلاقی اور آہستگی سے میرے مضمون کو سنا۔میں یہ جانتا ہوں اور خود محسوس کرتا ہوں کہ مدت کے خیالات کو چھوڑنا سہل اور آسان نہیں ہوتا خواہ وہ کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں۔
Amira 4-8-05
یہ محض اﷲ تعالیٰ کے فضل پر موقوف یہ کہ انسان اپنے اندر علمی یا عملی تبدیلی کر سکے،لیکن جو اخلاق آپ نے دکھائے ہیں ہ نہایت ہی قبل تعریف ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ جیسے اﷲ تعالیٰ نے عام طور پر یہ اجتماعی رنگ دکھایا ہے وہ ایسا وقت اور زمانہ بھی لاوے کہ د لوں میں بھی اتحاد اور اجتماع ہو اس ملک کو تفرقہ نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اس ملک کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں بہت بڑا اتحاد اور اتفاق تھا اور باوجود اختلافِ مذاہب بھی ان میں قابل قدر میل ملاپ تھا مگر اس زمانہ میں فرق آگیا اور خدا کرے کہ یہ دور ہو جائے۔
یاد رکھو کہ یہ تنگ دلی اور تنگ ظرفی کا نشان ہے کہ انسان اختلافِ شریعت و مذہب کی وجہ سے اخلاق کو بھی چھوڑدے۔اختلافِ رائے اور چیز ہے اور اخلاق اور۔یہ انسانی اخلاق کی خوبی اور کمل ہے کہ اباوجود اختلافِ رائے کے اخلاقی کمزوری نہ دکھائے۔آج کے جلسہ نے مجھے ایک تازہ امید دلائی ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ اپنا فضل کرے تو یہ میل جول ترقی کریگا۔میں خوب جانت اہوں کہ جبتک طبیعت میں یہ استعداد نہیں ہوتی کہ کوئی شخص صبر اور خوش خلقی سے ایک مخالف رائے کو سُن سکے وہایسی رائے کو سُن کر چپ نہیں رہ سکتا۔اسی لیے یہ خاموشی اور صبر مجھے امید دلاتا ہے کہ اچھے نتیجے پیدا ہوں گے۔یہ بھی خوبی کی بات ہے کہ جب مخالف رائے کو سنے تو فوراً جواب دینے کو تیار نہ ہو جائے کیونکہ یہ تو محض ہارجیت کی خواہش ہوگی،لیکن اس رائے کے صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لیی اس پر صبر سے فکر کرنا چاہیے۔اس سے علمِ و حکمت پیدا ہوتی ہے اور علم و حکمت ایسا خزانہ ہیجو تمام دولتوں سے اشرف ہے۔دنیا کی تمام دولوتوں کو فنا ہے،لیکن علم و حکمت کو فنا نہیں ہے۔پس جو جلدی نہیں کرتا بلکہ فکر کرتا اور اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ اے اﷲ اگر میں غلطی پر ہوں تو مجھے بصیرت اور معرفت عطا کر۔وہ اس حکمت کے خزانہ کو محفوظ رکھتا ہے۔پس میں چاہتا ہوں کہ آپ صاحبان اس خزانہ کے حاصل کرنے اور محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔
میں آپ صاحبوں کی خدمت میں ادب ،عجز اور تواضع سے عرض کرتا ہوں کہ یہ جو کچھ سنایا گیا ہے آپ اس پر توجہ کریں تاکہ میری محنت ضائع نہ ہو۔جو کچھ میری قلم سے نکلا ہے اور میرے دوست مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھا ہے میں اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ کسی کی دل آزاری یا استخفافِ مذہب کی نیت سے نہیں لکھا بلکہ خدا گواہ ہے اور اس سے بہتر کون گواہ ہو سکتاہے کہ میں نے سچے دل سے لکھاہے اور بنی نوعِ انسان کی ہمدردی کے لیے لکھ ہے اور میں جانتا ہوں کہ ؎
سخن کز دل بروں آید نشیند لا جرم بر دل
چونکہ فرصت بہت کم ہے۔ممکن ہے کہ بعض نے نہ سنا ہو اس لیے ہم نے چھپا دیا ہے اور بشرط گنجائش مل سکتا ہے۔پس اس کو پڑھ کر توجہ کریں اور مذہبی مخالفت کو عام مخالفت کا ذریعہ نہ بنادیں۔مذہب تو اس لیے ہوت اہے کہ اخلاق وسیع ہوں جیسے خدا تعالیٰ کے اخلاق وسیع ہیں۔کوئی ہزاروں گالیاں اُسے دے وہ اس پر پتھر نہیں برسا دیتا ۔پس اسی طرح حقیقی مذہب والا تنگ ظرف نہیں ہوسکتا۔تنگ ظرف خواہند دیا مسلمان ی عیسائی وہ دوسرے بزرگوں کو بھی بدنام کرتا ہے۔میں اس سے منع نہیں کرتاکہ اختلافِ مذہب بیان نہ کرو۔بیشک نیک نیتی سے اختلاف بیان کرو۔مگر اس میں تعصب اور کینہ کا رنگ نہ ہو۔ہندوئوں اور مسلمانوں کے تعلقات دوچار سال سے نہیں بلکہ صدہا سال سے چلے آتے ہیں۔اس لیی خد اکرے کہ بہت سے دلوں میں جوش ڈال دے کہ جوان تعلقات کو دور نہ ہونے دیں۔
یہ بھی یاد رکھو کہ مذہب صرف قیل و قال کا نام نہیں بلکہ جبتک عملی حالت نہ ہو کچھ نہیں۔خدا س کو پسند نہیں کرتا۔جس قدر بزرگ اسلام میں یا ہندوجوں میں اوتار وغیرہ گذرے ہیں ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے عمل سے اُن سچائیوں کو جن کا وہ وعظ کرتے تھے ثابت کر دکھیا ہے۔قرآنِ شریف میں بھی یہی تعلیم ہے۔
یا یھا الذین امنو ا علیکم انفسکم (المائدۃ : ۱۰۶)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اپنے آپ کو درست کرو۔جس شخص کے اندر خود روشنی اور نور نہیں ہے وہ اگر زبان سے کام لے گا تو وہ مذہب کو بچوں کا کھیل بنادے گا اور حقیقت میں ایسے ہی مصلحوں سے ملک کو نقصان پہنچاہے۔ان کی زبان پر تو منطق اور فلسفہ جاری رہتاہے مگر اندر خالی ہوتا ہے۔
مصلح کی صفات
خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نہایت خیر خواہی سے کہہ رہا ہوں خواہ کوئی میری باتوں کو نیک ظنی سے سنے یا بد ظنی سے ،مگر مین کہوں گا کہ جو شخص مصلح بننا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہپہلے خود روشن ہو اور اپنی اصلاح کرے۔دیکھو یہ سورج جو روشن ہے ہلے اس نے خود روشنی حاصل کی ہے۔میں یقینا سمجھتا ہوں کہ ہر ایک قوم کے معلم نے یہی تعلیم دی ہے،لیکن اب دوسرے پر لاٹھی مارنا آسان ہے،لیکن اپنی قربانی دینا مشکل ہوگیا ہے۔پس جو چاہتا ہے کہ قوم کی صلاح کرے اور خیر خواہی کرے۔وہ اسکو پانی اصلاح سے شروع کرے۔قریم زمانہ کے رشی اور اوتار جنگلوں اور بنوں میں ج کر اپنی اصلاح کیوں کرتے تھے وہ آجکل کے لیکچراروں کی طرح زبان نہ کھولتے تھے جبتک خود عمل نہ کر لیتے تھے۔یہی خد اتعالیٰ کے قُرب اور محبت کی راہ ہے۔جو شخص دل میں کچھ نہیں رکھتا اس کا بیان کرنا پر نالہ کے پانی کی طرح ہے،جو جھگڑے پیدا کرتا ہے اور جو نورِ معرفت اور عمل سے بھر کر بولت اہے وہ بارش کی طرخ ہے جو رحمت سمجھی جاتی ہے۔اس وقت میری نصیحت یاد رکھیں۔آج کے بعد آپ مجھے یہاں نہ دیکھیں گے اور میں نہیں جانت اکہ پھر موقعہ ہو یا نہ ہو،لیکن ان تفرقوں کو مٹانے کی کوشش کرو۔میری نسبت خواہ آپ کا کچھ ہی خیال ہو لیکن یہ سمجھ کر کہ ؎
مرد باید کہ گیرد اندر گوش
در نوشت است پند بر دیوار
میری نصیحت پر عمل کرو۔جو شخص خود زہر کھا ثکا ہے وہ دوسرون کی زہر کا کیا علاج کرے گا۔اگر علاج کرتا ہے تو خود بھی مرے گا اور دوسروں کو بھی ہلاک کرے گا۔کیونکہ زہر اس میں ار کرچکا یہ اور ا سکے خواص چونکہ قائم نہیں رہے۔اس لیے اس کا علاج بجائے مفید ہوین کے مضر ہوگا۔غرض جس قدر تفرقہ بڑھتا جاتا ہے اس کا باعث وہی لوگ ہیں جنہوں نے زبانوں کو تیز کرنا ہی سیکھا ہے۔
دوسرے مذاہب کی حیثیت
یہ بھی یاد رکھو کہ میرا یہ مذہب نہیں کہ اسلام کے سوا سب مذاہب بالکل جھوٹے ہیں۔میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ وہ خدا ج مخلوق کا خد اہے وہ سب پر نظر رکھتا ہے۔یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی قوم کی پرواہ کرے اور دوسروں پر نظر نہ کرے۔ہاں یہ سچ ہے کہ حاکم کے دورے کی طرح کھی کسی قوم پر وہ وقت آجاتا ہے اور کبھی کسی پر۔میں کسی کے لیے نہیں کہتا۔خد اتعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظہار کیا ہے کہ راجہ رامچندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راستباز بندے تھے اور اس سے سچا تعلق رکھتے تھے۔میں اس شخص سے بیزار ہوں جو ان کی نندیا یا توہین کرتا ہے۔اس کی مثال کنوئیں کے مینڈک کی سی ہے جو سمندر کی وسعت سے ناواقف ہے۔جہانتک ان لوگوں کے صحیح سوانح معلوم ہوتے ہیں اس سے پایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدات کیے اور کوشش کی کہ اس راہ کو پائیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی حقیقی راہ ہے۔پس جس شخص کا یہ مذہب ہو کہ وہ راستباز نہ تھے وہ قرآنُِ شریف یک خلاف کہتا ہے کیونکہ اس میں فرمایا ہے
وان من امۃالا خلافیھا نذیر (فاطر : ۲۵)
یعنی کوئی قوم اور اُمت ایسی نہیں گذری جس میں کوئی نذیر نہ آیا ہو۔میں بابا نانک صاحب کو بھی خدا پرست سمجھتا ہوں اور کبھی پسند نہیں کرتا کہ ان کو بُرا کہا جائے۔میں ان کو ان لوگوں میں سے سمجھتا ہوں جن کے دل میں خدا تعالیٰ اپنی محبت آپ بٹھا دیتا ہے۔پس ان لوگوں کی پیروی کرو۔اور دل کو روشن کرو۔پھر دوسروں کی اصلاح کے لیے زبان کھولو۔اس ملک کی شائستگی اور خوش قسمتی کا زمانہ تب آئے گا جب نری زبان نہ ہوگی۔بلکہ دل پر دار و مدار ہوگا۔پس اپنے تعلقات خدا تعالیٰ سے زیادہ کرو۔یہی تعلیم سب نبیوں نے دی ہے اور یہی میری نصیحت ہے۔اگر درخانہ کس است حرفے بس است۔؎ٰ
۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء بمقام قادیان بعد نماز مغرب
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہ نشین پر جلو ہ افروز ہو کر فرمایا کہ :
میرے سر کی حالت آج بھی اچھی نہیں ،چکر آرہا ہے۔جب جماعت کا وقت آتا ہے ۔تو اس وقت خیال گذرتا ہے کہ سب جماعت ہوگی اور میں شامل نہ ہوں گا اور افسوس ہوتا ہے۔اس لیے افتاں خیزاں چلا آتا ہوں۔
چند اصحاب اپنی مستورات کے علاج ک لیے لاہور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور انجام کار
معلوم ہوا کہ مس ڈاکٹروں کے علاج سے کوئی فرق مرض میں معلوم نہیں ہوتا۔اس لیے حضورؑ
نے فرمایا کہ :
چونکہ یہ لوگ متدیّن نظر نہیں ئتے۔اس لیی خطرہ ہے کہ کوئی اور تکلیف نہ بڑھ جاوے۔انکو کہہ دو کہ چلے آویں۔شافی اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔دائیوں کا دستور ہوتا ہے کہ محض روپیہ بٹورنے کی خاطر وہ مرض کو بڑھاتی جاتی ہیں۔قادیان کی آب و ہوا لاہور کی نسبت بہت عمدہ ہے۔اس سے اُن کو فائدہ ہوگا۔ہم اس لیے کہتے ہیں کہ جو بات دل میں آوے اُسے مخفی رکھا جاوے تو یہ ایک قسم کی خیانت ہے۔
بعض امراض کا علاج
عورتوں کے بعض امراض اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اُن کے علاج کے لیے کھلی ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے بعض رؤسامیں جو اشد درجہ کا پردہ رائج ہے،میں اس کے خلاف ہوں۔بعض عورتوں کو بعض وقت کھلی ہوا میں پھرانا چاہیے۔دیکھو حضرت عائشہ صدیقہؓ رفع حاجت کے لیے باہر جایا کرتی تھیں کیا پھر آجکل کے رؤساء کی عورتیں اُن سے بڑھ کر ہیں؟
حضرت حکیم نورالدین صاحب نے فرمایا کہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ مراق کے تین علاج ہیں۔
اول چلنا پھرنا۔دوسرے بیکار نہ رہنا۔کسی نہ کسی شغل میں مصروف رہنا۔تیسرے ہینگ اور
افسنتین کا استعمال۔
حصولِ اولاد کے لیے اﷲ تعالیٰ کے فضل ہی کی ضرورت ہے وا رقرآن شریف اورتورات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔حضرت یوسف ؑ کی والدہ بہت ضعیف تھیں اور ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ان کی نسبت تورات میں لکھا ہے کہ خداوند نے کہ کہ میں نے اس کے رحم کو کھولا ؎ٰ۔پس خدا تعالیٰ ہی کھولے تو کُھل سکتا ہے۔
(مگر یاد رہے کہ اس تقریر سے دائیوں کے علاج کی حرمت نہ سمجھی جائے)۲؎
۱۹؍اکتوبر ۱۹۰۴ء
سیالکوٹ سے احمدی جماعت کی طرف سے دعوت کا پیغام آیا۔آپ نے فرمایا کہ :
تین چار روز کے بعد جواب دوں گا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ حضورؑ استخارہ کے بعد روانگی کی تاریخ مقرر کریں گے۔؎ٰ
۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۴ء بوقت ظہر
تجارتی روپیہ پر منافع
ایک صاحب کی خاطر حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے ایک مسئلہ حصرت اقدس ؑ سے دریافت کای کہ یہ ایک شخص ہیں جن کے پاس بیس بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے۔ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجرت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لیے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے۔اسی طرح ہر یک شئے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آوے وہ امانت رہے۔سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سو روپیہ ان کو منافع کا دے دیا کرے گا۔یہ اس غرض سے یہاں فتویٰ دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو اُن کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کرلی جاوے۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ :
چونکہ اُنہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے اسلئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ادا ہوا کرتی ہے۔دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں۔لہذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو اُن کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے۔اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں۔سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں) لیا جاتا ہے۔اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہو گئے ہیں۔کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔اسلئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔۲؎
احباب کی ضروریات کا خیال
ظہر کی نماز سے پیشتر حضورؑ نے کچھ روپے جن کی تعداد غالباً آٹھ یا دس ہوگی ایک مخلص مہاجر کو یہ کہہ کر دیئے کہ چونکہ موسم سرما ہے آپ کو کپڑوں کی ضرورت ہوگی۔اس مہاجر کی طرھ سے کوئی سوال نہ تھا۔خود حضورؑ نے ان کی ضرورت کو محسوس کرکے یہ رقم عطا کی جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ کو مخلص خدام کی ضرورت کا کس قدر خیال ہے۔
گناہوں سے معصوم انبیاء ہیں۔لیکن دوسرے لوگ توبہ و استغفار کے ذریعہ سے اُن سے مشابہت پیدا کر لیتے ہیں۔؎ٰ
۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۴ء
اﷲ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے
ایک صاحب کے رشتہ دار کسی وجہ سے قید ہو گئے تھے۔ان کے ذکر پر حصرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے عرض کی کہ میں نے اُن سے یہ کہا ہے کہ اُسے خود استغفار کی تاکید کی جاوے۔اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ :
بعض لوگ جو استغفار کے لائق ہیں وہ تو استغفار کرتے ہیں اور دوسروں کو محض خدا تعالیٰ کی رحمت سے بھی رہائی مل جایا کرتی ہے۔جن کی طبیعت میں کجی ہے ان کے لیے اس کی رحمت وسیع ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فارسی کا ایک الہام
ایک دفعہ آنحضرتﷺ سے ایک نے دریافت کیا کہ کیا اﷲ تعالیٰ نے کبھی فارسی زبان میں بھی کلام کی ہے۔تو آپؐ نے فرمایا۔ہاں۔ایک دفعہ یہ فقرہ الہام ہوا تھا ؎
ایں مُشتِ خاک راگر نہ بخشم چہ کنم
روس اور جاپان کی جنگ
اس جنگ کے ذکر پر حضرت حکیم نورالدین صاحب نے بیان کیا کہ اس قدر خو نخوار جنگ ہے کہ ہزاروں آدمی ہلاک ہورہے ہیں؛ حالانکہ دونوں سلطنتوں کا مذہب ایسا ہے جس کی رو سے اس جنگ کی مطلق نوبت ہی نہ آنی چاہیے۔جاپان کا بُدھ مذہب ہے اور اس کی رو سے ایک چیونٹی کا مارنا بھی گناہ ہے۔رُو س عیسائی ؎ٰ ہے اور اُن کو چاہیے کہ مسیح کی تعلیم کے بموجب اگر جاپان ایک مقام پر قبضہ کرے تو دوسرا مقام خود اس کے حوالہ کر دیں۔
چند عیسائیوں سے گفتگو
آج تین عیسائی حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کے لیے تشریف لائے۔ایک نو جوان تھے جو کہ ایک صاحب کے بچے تھے اور باقی میں سے ایک صاحب ڈاکٹر تے۔جو کہ ضعیف العمر تھے اور ایک قاضی صاحب پشاوری جوان مرد تھے۔ایک صاحب ان میں سے وہ تھے جنہوں نے تحقیقِ مذاہب کی بناء پر نیاز مند انہ طور پر حضرت اقدس سے کسی زمانہ میں خط و کتابت کی تھی جس کی وجہ سے انکو کمال شوق حضورؑ کی زیارت کا تھا۔خانقاہوں میں سے ایک مشہور خانقاہ ہے جہاں اکثر لوگ مشرکانہ عقائد کی بناء پر زیارت وغیرہ کے لیے جاتے ہیں۔وہاں کی نسبت ایک عیسائی صاحب نے ذکر کیا کہ جالندھر کے ضلع کے لوگوں کے لیے وہ یہ کیا کرتے ہیں کہ ایک سفید کبوتر کی ٹانگیں کمزور کر کے قبر پر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیںکہ صاحبِ مزار کی روح اس میں حلول کر آئی ہے اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ :
یہ کبوتر پیچھا نہیں چھوڑتا
اس کے بعد حضرت اقدس اور عیسائی صاحبوں میں ذیل کی گفتگو ہوئی جس میں اکثر روئے سخن
ڈاکٹر صاحب کی طرف ہی تھا۔
حضرت اقدس- ادھر آپ کا آنا کس تقریب پر ہوا؟
ڈاکٹر صاحب- صرف زیارت کی غرض سے کیونکہ ایک عرصہ سے شوق تھا۔
حضرت اقدس۔ مگر تاہم ایسی کونسی تقریب ہوئی کہ آپ ادھر آگئے؟
ڈاکٹر صاحب۔ مین نے رخصت لی تھی اور بال بچوں کو لے کر آیا تھا۔وہ لاہور میں ہیں اور خود ادھر
آیا ہوں۔بڑا باعث رخصت کا آپ کی ملاقات ہی تھی۔
حضرت اقدس۔ اب رخصت کے لکتنے دن باقی ہیں؟
مفتی صاحب۔ (حساب کر کے) ۱۷ دن باقی ہیں۔
حضرت اقدس ۔ تو اب آپ کو یہ ایام یہان ہمارے پاس ہی گذارنے چاہئیں۔
حکیم نور الدین صاحب۔ یہ تو آج ہی رخصت ہوتے تھے مگر رات کو میں نے رکھ لیا ہے۔
حضرت اقدس۔ جب رخصت ہمارے لیے لی تو پھر رخصت کے ایام ہمارے پاس گذارنے چاہئیں۔
عیسائی قاضی صاحب۔ اتنی فرصت نہیں۔زیارت مقصود تھی سو ہو گئی۔
حضرت اقدس۔ ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کرکے۔اب پھر کیا صلاح ہے۔کتنے دن رہوگے؟
عیسائی قاضی صاحب نے پھر جلدی جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔
حضرت اقدس۔ یہ مہمان داری کے ادب کے خلاف ہے اور آپ کے ارادے کے بھی برخلاف
ہے کہ اس قدر جلدی کی جاوے۔میرا ارادہ جمعرات کو سیالکوت جانے کا ہیتب تک
رہیں۔پھر اکٹھے چلیں گے۔؎ٰ
اس اثنا میں نماز کا وقت ہو یگا۔حضرت اقدس نے حکم فرمایا کہ ان کی خوابگاہ اور بساتر اور خوراک
وغیرہ کا اہتمام بہت عمدہ طور سے کر دیا جایوے کہ کوئی تکلیف نہ ہو اور ہرسہ صاحبان تشریف لے
گئے۔دوسرے دن احمدی عمارات اور کارخانوں کو دیکھ کر رخصت ہوگئے۔
۲۲؍اکتوبر ۱۹۰۴ء
ایک شخص بیمار کا ذکر ہوا۔آپ نے فرمایا کہ :
انسان خال تندرستی میں صحب کی قدر نہیں کرتا (کہ ان ایام میں اپنے تعلقات اﷲ تعالیٰس ے مضبوط کرے تا کہ وہ ہر طرف اس کا حافظ و ناصر ہو ۲؎)اور جب بیمار ہوتا ہے تو ھپر دوبارہ صحت اس لیے طلب کرتا ہے کہ انہی دنیا کے امور میں مبتلا ہو (اگر اس کا ارادہ خدمت دین ہو تو اس کا صحت طلب کرنا گویا منشائے الٰہی کے مطابق ہوگا ۲؎)
اسی بیمار کی نسبت ذکر ہوا کہ اس نے کئی سو روپیہ لوگوں سے لینا ہے،مگر صرف چند روپوں کے کاغذات ہیں باکی تمام زبانی لین دین ہے اور اس کی دو لڑگیاں ہیں۔بعض احباب نے تجویز کیا کہ جو کچھ رقوم لوگوں کے ذمہ ہیں اور وہ تحریر میں نہیں آئیں تو چاہیے کہ اب دو آدمی گواہ مقرر کر کے اس کی زندگی میں وہ رقمیں ان مقرو ضوں کی منوالی جاویں۔اور تحریر کردا لیا جاوے۔
حضور ؑ نے فرمایا کہ :
اس کی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔یہ بڑے ثواب کی بات ہے۔ممکن ہے کہ اگر وہ مر جاوے تو بیچاری لڑکیوں کو ہی کچھ فائدہ پہنچ جاوے۔
اسلام میں مساوات
اہل اسلام کی وحدت اور اخوّت پر ذکر ہوا کہ عیسائیوں نے بھی اس خوبی کو تسلیم کیا ہے کہ مسلمان لوگ جب مسجد میں داخل ہو جاویں تو اُن میں بادشاہ اور امیر و غریب کی کوئی تمیز نہیں رہتی اور کسی کو حق نہیں کہ کسی قسم کا امتیاز کرے؛ حالانکہ عیسائیوں کے گرجے اس سے محروم ہیں۔خاص انگریزوں کے گرجوں میں عام عیسائی لوگ داخل نہیں ہوسکتے۔پھر گرجوں میں درجہ بدرجہ چوکیان لگی ہوتی ہیں اور رومن کیتھولک تونشستگاہوں پر نام بھی لکھ دیتے ہیں۔
اس پر حضور ؑ نے فرمایا کہ :
مسلمانوں کے معبد میں یہ ایک بے نظیر نمونہ ہے کہ سب کو یکساں نظر سے دیکھ اجاتا ہے۔
مولان حکیم نورالدین صاحب نے عرض کی کہ ہماری مسجد میں تو خود امام الوقت بھی مقتدی بنکر نماز پڑھتا ہے۔
مہمان خانہ کے منتظمین کے لیے ہدایات
مہمان کی تواضع کے متعلق آپ نے فرمایا کہ :
لنگرخانہ کے مہتمم کو تاکید کر دی جاوے کہوہ ہر ایک شخص کی اختیاج کو مد نظر رکھے مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اُسے خیال نہ رہتا ہے، اس لیے کوئی دوسرا شخص یاد دلا دیا کرے۔کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دست کش نہ ہوان چاہیے،کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے ناواقف آدمی ہیں تو یہ ہمارا حق ہیکہ اُن کی ہر ایک ضرورت کو مد نظر رکھیں۔بعض وقت کسی کو بیت الخلا کا ہی پتہ نہیں ہوت اتو اُسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھ اجاوے۔میں تو اکثر بیمار رہتا ہوں، اس لیے معذور ہوں۔مگر جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لیے قائمقام کیا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں۔کیونکہ لوگ صدہا اور ہزار ہا کوس کا سفر طے کرکے صدق اور اخلاص کے ساتھ تحقیق حق کے واسطے آئے ہیں۔پھر اگر ُن کو یہاں تکلیف ہوتو ممکن ہے کہ رنج پہنچے اور رنج پہنچنے سے اعتراض بھی پید اہوتے ہیں اس طرح سے ابتلا کاموجب ہوتا ہے۔اور پھر گناہ میزبان کے ذمہ ہوتا ہے۔
بیان کیا گیا کہ حضور بعض لوگ جو مسافر خانہ میں نوواردوں سے مذہبی مناظرے شروع کردیتے ہیں اور اس میں وہ اپنے خیل اور رائے کے موافق کلام کرتے ہٰں جو کہ بعض اوقات بے محل اور حضور کے منشا کے خلاف بھی ہوتی ہے اور نووارد متلا شی بھی اس سے اندازہ لگاتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا یہی مشرب ہوگا؛ حالعانکہ یہ بالکل غلطی ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ نوواردوں کے لیے ابتلا ہوتاہے۔
حضور ؑ نے تجویز فرمایا کہ :
اس قسم کی کلام ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ہمارے بعض مناظرین کو چونکہ نصریٰ کے ساتھ کلام کرنی پڑتی ہے اور جب وہ آنحضرت ﷺ کی کسر شان کرتے ہیں تو محل اور موقعہ کے لحظ سے اُن کو یسوع کی نسبت اسی قسم کے ثبوت دینے پڑتے ہیں۔اور وہ مقتضائے وقت ہوتا ہے مگر ہر ایک آدمی اس کا اہل نہیں ہے اور دوسرے لوگ اکثر کسی نبی کی شان میں بھی کوئی کلمہ گستاخی یا بے ادبی کا ستعمال کرتے ہیں، تو وہ گناہ کرتے ہیں۔یہ کبھی نہ گمان کرنا چاہیے کہ حضرت مسیحؑ یا دوسرے انبیاء ایک معمولی آدمی تھے۔یوہ اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ اور مقرب تھے۔قرآن شریف نے مصلحت اور موقعہ کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی نسبت ایک لفظ اس قسم کا بیان فرمایا ہے کہ جہاں آپ کے بہت سے انوار و برکات اور فضائل بیان کیے ہیں وہاں…
بشر مثلکم (الکہف :۱۱۱)
بھی کہہ دیا ہے مگر اس کے یہ ہرگز معنی نہیں ہیں کہ آنحضرت ﷺ فیالواقعہ ہی عام آدمیوں جیسے تھے۔اﷲ تعالیٰ نے یہ لفظ آپ کی شان میں ساس لیے استعمال فرمایا کہ دوسرے انبیاء کی طرح آپ کی پرستش نہ ہو اور آپ کو خدا نہ بنا یا جاوے۔اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ آپؐ کے فضائل و مراتب ہی سلب کر دیئے جاویں۔؎ٰ
آخر کار تجویز ہوا کہ ایک صاحب ذی وجاہت و ذی اثر کے ہاتھ میں مہمانوں کی تواضع کا اہتمام دیا جاوے۔
۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۴ء
(بوقت ظہر)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تصویری کارڈ
ظہر کے وقت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں ایک شخص کی تحریری درخواست بذریعہ کارڈ کے ان الفاظ میں پیش کی۔کہ یہ شخص حضور کی تصویر کو خط و کتابت کے کارڈوں پر چھاپنا چاہتے ہیں اور اجازت طلب کرتے ہیں۔
اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ :
میں تو اسے ناپسند کرتا ہوں
یہ الفاظ جاکر میں نے اپنے کانوں سے سنے۔لیکن حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حکیم فضل دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس سے پیشتر آپ نے یہ الفاظ فرمائے کہ :
یہ بدعت بڑھتی جاتی ہے۔میں اسے ناپسند کرتا ہوں؎ٰ
۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء
حضرت مسیح موعودؑ سیالکوٹ تشریف لے جارہے تھے۔بٹالہ ریلوے اسٹیشن پر جماعت بٹالہ نے آکر شرف نیاز حاصل کیا۔ایک صاحب نے عرض کیا کہ ہم چاہتے ہیں کوئی محنت و تکلیف نہ اُٹھانی پڑے اور کمال حاصل ہو جائے اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ : ۲؎
حصول کمال کے لیے مجاہدہ شرط ہے
اس قسم کے لوگ ہمیشہ گذرے ہیں جو چاہتے ہیں کہ بغیر کسی قسم کی محنت اور تکلیف اور سعی اور مجاہدہ کے وہ کمالات حاصل کر لیں جو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں۔صوفیاء کرام کے حالات میں لکھ اہے کہ بعض لوگوں نے آکر اُن سے کہا کہ کوئی ایسا انتظام ہو کہ ہم پھونک مارنے سے ولی ہو جاویں۔ایسے لوگوں کے جواب میں انہوں نے یہی فرمایا کہ پھونک کے واسطے بھی تو قریب ہونے کی ضرورت ہے،کونکہ پھونک بھی دور سے نہیں لگتی۔
قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
لیس للانسان الا ما سعی (النجم : ۴۰)
یعنی کوئی انسان بغیر سعی کے کمال حاصل نہیں کرسکتا۔یہ خد اتعالیٰ کا مقرر کردہ قانون ہے۔پھر اس کے خلاف اگر کوئی کچھ حاصل کرنا چاہے تو وہ خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑتا ہے اور اسے آزماتا ہے۔اس لیے محروم رہے گا۔دنیا کے عام کاروبار میں بھی تو یہ سلسلہ نہیں ہے کہ پھونک مار کر کچھ حاصل ہو جائے یا بدوں سعی اور مجاہدہ کے کوئی کامیابی مل سکے۔دیکھو۔آپ شہر سے چلے تو اسٹیشن پر پہنچے۔اگر شہر سے ہی نہ چلتے تو کیونکر پہنچتے۔پائوں کو حرکت دینی پڑتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح سے جب قدر کاروبار دنیا کے ہیں سب میں اول انسان کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔جب وہ ہاتھ پائوں ہلاتا ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ بھی برکت ڈال دیتا ہے۔اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہی لوگ کمال حاصل کرتے ہیں جو مجاہدہ کرتے ہیں۔اسی لیے فرمایا ہے
والذین جاھدو افینا لنھدینھم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
پس کوشش کرنی چاہیے کیونکہ مجاہدہ ہی کامیابیوں کی راہ ہے۔؎ٰ
Amira 7-8-05
۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۴ء بعد نماز جمعہ
بیعت کی اہمیت
میں ان لوگوں کے لیے جنہوں نے بیعت کی ہے چند نصیحت آمیزکلمات کہنا چاہتا ہوں یہ بیعت تخم ریزی ہے اعمالِ صالحہ کی۔جس طرح کوئی باغبان درخت لگاتا ہے یا کسی چیز کا بیج بوتا ہے۔پھر اگر کوئی شخص بیج بوکر یا درخت لگا کر وہیں اس کو ختم کردے اور آئندہ آبپاشی ور حفاظت نہ کرے تو وہ تخم بھی ضائع ہو جاوے گا۔اسی طرح انسان کے ساتھ شیطان لگا رہتا ہے۔پس اگر انسنا نیک عمل کرکے اس کے محفوظ رکھنے کی کوشش نہ کرے تو وہ عمل ضائع ہو جاتا ہے۔تمام مخلوقات مثلاً مسلمان ہی سہی اپنے مذاہب کے فرائض میں پابند ہیں مگر اس میں کوئی ترقی نہیں کرتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نیک عمل کے بڑھانے کا خیال اُن کو نہیں ہوتا اور رفتہ رفتہ وہ عمل رسم میں داخل ہو جاتا ہے۔پس مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے تو کلمہ پڑھنے لگے۔ہندوئوں کے گھر میں ہوتے تو رام رام کرتے۔
یاد رکھو بیعت کے وقت توبہ کے اقرار میں ایک برکت پیدا ہوتی ہے۔اگر ساتھ اُس کے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی شرط لگالے تو ترقی ہوتی ہے۔مگر یہ مقدم رکھنا تمہارے اختیار میں نہیں بلکہ امدادِ الٰہی کی سخت ضرورت ہے۔جیسے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے
والذین جاھدو ا فینا لنھدینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
کہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں۔ہماری راہ میں انجام کار راہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں۔جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بدوں کو شش اور آبپاشی کے بے برکت رہتا بلکہ خود بھی فنا ہو اجت اہے۔اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یاد نہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا ہماری مدد کر تو فضل الٰہی و ارد نہیں ہوگ ااور بغیر امدادِ الٰہی کے تبدیلی نا ممکن ہے۔چور، بد معاش ،زانی وغیرہ جراتم پیشہ لوگ ہر وقت ایسے نہیں رہتے بلکہ بعض وقت ان کو ضرور پشیمانی ہوتی ہے۔یہی حال ہر بدکار کا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان میں نیکی کا خیال ضرور ہے۔پس اس خیال کے واسطے اس کو امدادِ الٰہی کی بہت ضرورت ہے۔اسی لیے پنجوقتہ نماز میں سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کا حکم دیا۔اس میں ایاک نعبد اور پھر ایاک نستعین یعنی عبادت بھی تیری ہی کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔اس میں دوباتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔یعنی ہر نیک کام میں قویٰ ،تدابیر، جدوجہد سے کام لیں۔یہ اشارہ ہے نعبد کی طرف۔کیونکہ جو شخص نری دعا کرتا اور جدوجہد نہیں کرتا وہ بہرہ یاب نہیں ہوتا۔جیسے کسان بیج بوکر اگر جدوجہد نہ کرے تو پھل کا امید وار کسیسے بن سکتا ہے۔اور یہ سنت اﷲ ہے۔اگر بیج کو صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے۔مثلاً دو کسان ہیں ایک تو سخت محنت اور کلبہ رانی کرتا ہے۔یہ تو ضرور زیادہ کامیاب ہوگا۔دوسرا کسان محنت نہیں کرت یا کم کرتا ہے۔اس کی پیداوار ہمیشہ ناقص رہے گی جس سے وہ شاید سرکاری محصول بھی ادا نہ کر سکے اور وہ ہمیشہ مفلس رہے گا۔اسی طرح دینی کام بھی ہیں۔انہیں میں منافق،انہیں میں نکمے، انہیں میں صالح،انہیںمیں ابدال،قطب،غوث، بنتے ہیں۔اور خدا تعالیٰ کے نزدیک درجہ پاتے ہیں۔اور بعض چالیس چالیس برس سے نماز پڑھتے ہین مگ ہنوز روزِ اول ہی ہے اور کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔تیس روزوں سے کوئی فائدہ محسوس نہیں کرتے۔بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم بڑے متقی اور مدت کے نماز خواں ہیں مگر ہمیں امدادِ الٰہی نہیں ملتی۔اس کا سبب یہ ہے کہ رسمی اور تقلیدی عبادت کرتے ہیں۔ترقی کا کبھی خیال نہیں۔ گناہوں کی جستجو ہی نہیں۔سچی توبہ کی طلب ہی نہیں۔پس وہ پہلے قدم پر ہی رہتے ہیں۔ایسے انسان بہائم سے کم نہیں ۔ایسی نمازیں خد اکی طرف ویل لاتی ہیں۔نماز تو وہ ہے جو اپنے ساتھ ترقی لے آوے۔جیسے طبیب کے زیر علاج ایک بیمار ہے۔ایک نسخہ وہ دس روز استعمال کرت ہے۔پھر اس سے اس کو روز بروز نقصان ہو رہا ہے۔جب اتنے دنوں کے بعد فائدہ نہ ہو تو بیمار کو شک پڑجاتا ہے کہ یہ نسخہ ضرور میرے مازج کے موافق نہیں اور یہ بدلنا چاہیے ۔پس رسم اور رسمی عبادت ٹھیک نہیں۔
دعائوں کی اہمیت
نمازوں میں دعائیں اور درود ہیں۔یہ عربی زبان میں ہیں،مگ تم پر حرام نیں کہ نمازوں میں اپنی زبان میں بھی عائیں مانگ ا کرو؛ ورنہ ترقی نہ ہوگی۔خدا کا حکم ہے کہ نماز وہ ہیجس میں تضرع اور حض٭ر قلب ہو۔ایسے ہی لوگوں کے گناہ دور ہوتے ہیں؛ چنانچہ فرمایا
ان الحسنات یذھبن السیات (ھود : ۱۱۵)
یعنی نیکیان بدیوں کو دور کرتی ہیں۔یہاں حسنات کے معنے نماز کے ہیں اور حضور ور تضرع اپنی زبان میں مانگنے سے حاصل ہوت اہے۔پس کبھی کبھی ضرور اپنی زبان میں دعا کیا کرو اور بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دعا ہے۔ جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آجاوے تو وہ زمینداری کے صراط مستقیم پر پہنچ جاوے گا اور کامیاب ہو جاوے گا۔اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراط مستقیم تلاش کرو اور دعا کرو کہ یا الٰہی میں تیرا گنہگار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں۔میری راہنمائی کر۔ادنیٰ اوار اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے۔بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے؛ کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازہ پر سولی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اس کو بھی شرم آجاوے گی۔پھر خدا تعالیٰ سے مانگنے والا جو بے مثل کریم ہے کیوں نہ پائے؟ پس مانگنے والا کبھی نہ کبھی ضرور پالیتا ہے۔نماز کا دوسرا نام دعا بھی ہے۔جیسے فرمایا
ادعونی استجب لککم (مومن : ۶۱)
پھر فرمایا
واذاسالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (البقرۃ : ۱۸۷)
جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے۔لپس میں بہت ہی قریب ہوں ۔میں پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے۔بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں۔پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو۔میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا۔ اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے۔وہ شخص تو تمہاری آواز سنکر تم کو جواب دیگا مگر جب وہ دور سے جواب دے گا تو تم بہ باعث بہرہ پن کے سن نہیں سکوگے۔پس جوں جوں تمہارے درمیانی پردے اور حجاب اور دوری دور ہوتی جاوے گی، تو تم ضرور آواز کو سنو گے۔جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہمکلام ہوتاہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہو جاتی کہ اس کی ہستی ہے بھی۔پس خد اکی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبر دست ذریعہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کو سن لیں یا دیدار یاگفتار ۔پس آج کل کاگفتار قائمقام ہے دیدار کا۔ہاں جبتک خد اکے اور اس سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے۔جب درمیانی پردہ اُٹھ جاوے گا تو اُس کی آواز سنائی دے گی۔
بعض لوگ کہہ دیتے ہین کہ تیرہ سو برس سے خد اکا مکالمہ مخاطبہ بند ہو گیا۔اس کا اصل میں مطلب یہ ہے کہ اندھا سب کو ہی اندھا سمجھتا ہے۔کیونکہ اس کی اپنی آنکھوں میں جو نور موجود نہیں۔اگر اسلام میں یہ شرف بذریعہ دعائوں اور اخلاص کے نہ ہوت اتو پھر اسلام کچھ چیز بھی نہ ہوتا۔اور یہ بھی اور مذاہب کی طرح مردہ مذہب ہو جاتا۔
اسلام کا خاص امتیاز
پس تم ان مردوں کی طرف خیال مت کرو۔جو خود بھی مردہ اور اسلام کو بیھ مردہ بتاتے ہیں۔یہ تو درحقیقت ایسا مذہب ہے کہ جس میں انسان ترقی کرتا ہوا فرشتوں سے مصافحہ جا کرتا ہے۔اور اگر یہ بات نہ تھی تو
صراط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ : ۷)
کیوں سکھایا؟ اس میں صرف جسمانی اموال کی طلب نہیں کی گئی بلکہ روحانی انعام کی درخواست ہے۔پس اگر تم نے ہمیشہ اندھا ہی رہنا ہے تو پھر تم مانگتے کیا ہو؟ یہ دعا فاتحہ ایسی جامع اور عجیب دعا ہے کہ پہلے کبھی کسی نبی نے سکھلائی ہی نہیں۔پس اگر یہ نرے الفاظ ہی الفاظ ہیں اور ان کو خد تعالیٰ نے منظور نہیں کرنا تو ایسے الفاظ خد انے ہمیں کیوں سکھلائے ۔اگر تمہیں وہ مقام ملنا ہی نہیں تو ہم پانچ وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔خدا کی ذات میں بخل نہیں اور نہ انبیاء اس لیے آتے ہیں کہ ان کو پوجا کی جاوے بلکہ اس لیے کہ لوگوں کو تعلیم دیں کہ ہماری راہ اختیار کرنے والے ہمارے ظل کے نیچے آجاویں گے جیسے فرمایا
ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران : ۳۲)
یعنی میری پیروی میں تم خدا تعالیٰ کے محبوب بن جاوئو گے۔آنحضرت ﷺ پر محبوب ہونے کی بدولت یہ سب اکرام ہوئے،مگر جب کوئی اور شخص محبوب بنے گا تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا؟ اگر اسلام ایسا مذہب ہے تو سخت بیزاری ہے ایسے اسلام سے مگر ہرگز اسلام ایسا مذہب نہیں۔آنحضرت ﷺ تو وہ مائدہ لائے ہیں کہ جو چاہے اس کو حاصل کرے۔وہ نہ تو دنیا کی دولت لائے اور نہ مہاجن بنکر آئے تھے۔وہ تو خدا کی دولت لائے تھے اور خود اس کے قاسم تھے۔پس اگر وہ مال دنیا نہیں تھا تو کیا وہ گٹھڑی واپس لے گئے؟ پس سچ ہے جس اندھے کے پاس روشنی موجود نہیں وہ کیسے دعویٰ کرسکتا ہیکہ میں روشنی رکھتا ہوں اور تقسیم کر سکتا ہوں۔دیکھو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
من کان فی ھذہ اعمی فھوفی الاخرۃ اعمی واضل سبیلا (بنی اسرائیل : ۷۳)
انبیاء تو علیٰ درجہ البصیرۃ ہوتے ہیں۔پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ بصیرت کسی کو نہیں ملے گی تو گویا یہ خود اس دنیا سے اندھے ہی جائیں گے۔
اگر ان کا ایمان آنحضرت ﷺ پر سچا ہوت اتو یہ یقین رکھتے کہ وہ آسمانی مال تقسیم کرنے آئے تھے اور ان کا عقیدہ یہ ہوتا کہ یہ اُمت تمام اُمتوں سے فوقیت حاصل کرے گی؛ حالانکہ مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑکی ماں کو وحی ہوتی تھی۔اب بتائو کہ اُن کے مردوں کو بھی کبھی ایسی وحی ہوئی ہے۔لاہور میں ایک مولوی سے میری بحث ہوئی محدث کے لفظ پر۔کہحدیثوں میں آیا ہے کہ محدث وہ ہے جو خد اسے مکالمہ کر سکے اور یہ بات حضرت عمرؓ کے متعلق تھی تو اس مولوی نے جواب دیا کہ چونکہ اسلام کو آنحضرت ﷺ کے بعد مکالمۂ الٰہی نصیب نہیں۔اس لیے حضرت عمرؓ کو یہ عہدہ نصیب نہیں ہوا۔گویا اس امت میں تو دجال ہی آتے رہیں گے۔
مسیح موعود کی بعثت
مسیح کے متعلق جس زمانہ کی اطلاع احادیث وغیرہ میں دی گئیے ہے وہ یہی زمانہ ہے۔سورۂ نور اور بخاری میں منکم کا لفظ صاف ہے۔آثا تمام نمودار ہو گئے ہیں۔کسوف و خسوف رمضان میں ہوگیا۔طاعون آگئی۔یہ کیسے کھلے نشان تھے،لیکن لوگ ہمیشہ یہی کہتے ہین کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔نہ تو یہ ہارتے ہیں اور نہ خدا ہارنے والا ہے۔آخر تم جانتے ہو کہ نتیجہ کیا ہوگا یہی یکہ وہ پاک خدا جیتے گا۔باوجود اس قدر کھلے نشانات کے جواب یہ دیتے ہیں کہ تیس دجالوں میں سے یہ بھی اییک دجال ہے۔او کم بختو! تمہارے حصہ میں دجال ہی دجال رہ گئے ہیں؟ بیرونی اور اندرونی بلائیں تم پر آیں اور خد اکی طرف سے بھی آیا تو دجال ہی آیا۔اول تو تم خود بخود مرتے جاتے تھے۔اب ایسی حالت میں خ نے تم سے یہ سلوک کیا کہ مرتے کو مارنے کی تجویز ٹھہرائی ۔کی خد اکو تم سے کوئی ایسی ہی سخت عداوت تھی کہ سختی پر سختی کر رہا ہے۔یہ انسنی غلطیاں ہیں تم لوگ ان سے ہوشیار رہو۔خدا تعالیٰ بڑ اکریم و رحیم ہے۔جب کسی کپڑے پر ہفتہ گذرجاتا ہے تو فکر لگ جاتی ہے کہ اس کو صاف کرایا جاوے۔پھر کیا وجہ ہے کہ دنای پر سوکی جگہ ایک سو بیس برس گذر گئے پر خدا نے تجدیدِ دین کی کوئی تجویز نہ کی اور بجائے تجدید کے دجال بھیج کر ا سکی تخریب کی۔اس وقت تیس لاکھ مسلمان عیسائی ہو ثکا ہے۔یہ وہ قوم تھی اگر اس مٰں اسے ایک شخص بھی عیسائی ہوتا تھا تو حشر بپا ہو جاتا تھا۔دوسری طرف ایک اور خبیث قوم نے سر اُٹھایا ہے وہ مسلمانوںں کو پکڑ پکڑ کر آریہ بنا رہی ہے،مگر ان ہمارے مسلمانوں کو یہیخیال آتا ہیکہ ابھی ہمارے اندر دجال ہی پید اہوا ہے اور خد انے بھی ان کے ساتھ دھوکا کیا کہ دجال کو صدی کے سر پر بھیجا تا کہ اُن کی رہی سہی امید بھی باقی نہ رہے۔معلوم ہوا کہ تمہار ے اندر بڑے بڑے خبث اور گناہ پوشیدہ ہیں جس کی تمہیں یہ سزا مل رہی ہے۔خدا تعالیٰ نے تو فرمایا ہے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔یعنی جب اس کے معانی میں غلطیان وارد ہوں گی تو اصلاح کے لیے ہمرے مامور آیا کریں گے۔پس تم میریے اوپر خیال مت کرو بلکہ صدی کے ابتدا اور بیرونی حملوں اور اندرونی اعمال کو دیکھ کر تم خود غورو فکر کرو کہآیا دجال کی ضرورت ہے یا مہدی اور مسیح کی؟
تعصب بری بلا ہوتی ہے۔تعصب والوں نے تو کسی رسول کو بھی نہیں مانا ان کو دکاندار قرار دیا ہے؛ حالانکہ وہ خدا کی طرف بلاتے رہے ہیں۔معلوم ہوت اہے کہ یہ قوم ہمیشہ ساتھ رہی ہے اور رہے گی۔قرآن کریم کی ابتداء بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم سے ہے۔رحمن بے مانگے دینے والا اور رحیم محنت کو نہ ضائع کرنے والا۔پس اس وقت رحمانیت اور رحیمیت کہان گئی؟ سوچو تو سہی کہ یہ اس کے مناسب حال ہے یا کیا؟
اصل میں جب انسان تعصب پر آت ہے تو آنک دھندلی ہو جاتی ہے اور جب اس میں ترقی کرتا ہے تو وہ نور چھین لیا جاتا ہے۔پس ہدایت پانے کا طریق اشتہار بازوی نہیں۔ان لوگوں سے پوچھو کہ تم ایک دفعہ بھی میرے پاس آئے ہو اور اپنے اعتراضات کا جواب پوچھا ہے یا کم سے کم میری تصانیف کو ہی دیکھ اہے؟ تو جواب دیں گے کہ میاں ہم کو ان باتوں کی فرصت نہیں۔پھر تم نے جھٹ دجال کا فتویٰ کیوں لگا دیا؟ پھر ہم نے دین میں کونسی تحریف کی ہے۔تم منہ سے نماز اور روزہ کا نام لیتے ہو اور میں کہتا ہوں کہ ان کی روحانیت لو۔صرف میں ہی نہیں کہتا،بلکہ وہ خدا کہتا ہے جس نے مجھے مامور کیا ہے اور یہ اس لیے کہ تمہارے پوست میں کیفیت داخل ہو جاوے۔
Amira 8-8-05
ہاں تمہارے درمیاں مسیح کا جھگڑا ضرور ہے لیکن خد اکی کلام سے زیادہ سچا گواہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ہمیں دوسرے کے قول سے کیا غرض ہے۔آنحضرت ﷺ کے قول حق اور سچ ہین مگر جو قرآن کریم کے خلاف نہ ہوں۔پس ہمیں ایمان محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے قصوں پر جو احادیث میں درج ہیں قرآن کریم کو مقدم رکھیں ۔پس ہم تو قرآن کریم کو ترجیح دیں گے اور جو احادیث قوی اور صحیح ہیں وہ ضرور قرآن کے ساتھ ہیں اور ہمارے دعویٰ میں ہماری مؤید ہیں۔پس ہمارا اور ان لوگوں کا اور کوئی اختلاف نہیں۔بجز اس کے کہ یہ پوست پر قناعت کرتے ہیں اور ہم مغز کو چاہتے ہیں۔مسیح کی موت کا قرآن نے خود فلما توفیتنی میں فیصلہ کر دیا ہے۔اگر ہم قبول کر لیں کہ مسیح ناصری آجتک زندہ ہے تو ہمیں یہ بھی قبول کرنا پڑیگا کہ عیسائی بھی آجتک راہ راست پر ہیں۔اور اس کی قرآن کریم خود تردید کرتا ہے۔
تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھداان دعواللرحمن
ولدا (مریم : ۹۱،۹۲)
مجھے میرے خدا نے ہزار ہا وحیوں میں مامور کیا ہے اور وہ ہی بات ہے جو تیرہ سو برس پہلے سے لکھی ہوئی تھی۔ہمارا اور ان کا کوئی جھگڑا نہیں اگر شرم و حیا اور ایمان ہو۔یہ بھی نہ سہی۔کیا آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کل لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔نہیں مگر وہی کہ جن کے حق میں سعادت تھی۔پس ہمارا کام تو سمجھانا ہے۔پس جو شخص مسیح کو زندہ مانتا ہے وہ جھوٹا ہے اور خدا کا منکر ہے اور جس کو خد انے مامور کیا ہے اس کو تو تازہ علم ا سکی وفات کا دیا ہے۔پھر اگر اُنہوں نے مسیح کو ماننا تھا تو وہ حکم کس بات کا ہوگا اور ہر ایک مذہب والا اس کا فیصلہ کس طرح مانے گا۔حکم کا لفظ تو صاف دلالت کر رہا ہے کہ ضرور ان لوگوں میں اختلاف اور اغلاط ہوں گے جن کا وہ اآکر فیصلہ کرے گا۔پس ہم تو تم سے سچا اتباعِ نبی کریم اور ترک اغلاط کرتے ہیں اور بس۔
مخالفین سے نرمی کا سلوک ہونا چاہیے
پس ہمارے لوگ مخالفین سے سختی سے پیش نہ آیا کریں۔ان کا درشتی کا نرمی سے جواب دیں۔ اور ملاطفت سے سلوک کریں۔چونکہ یہ خیالات مدت مدید سے ان کے دلوں میں ہین رفتہ رفتہ ہین دور ہونگے اس لیے نرمی سے کام لیں۔اگر وہ سخت مخالفت کریں ،تو اعراض کریں۔مگر اس بت کے لیے اپنے اندر قوت جاذبہ پید اکرو۔اور قوتِ جاذبہ اس وقت پید ہوگی جب تم صادق مومن بنوگے اور اگر تم صادق نہیں تو تمہاری نصیحت ایسی ہے جیسے پر نالہ کا پانی موجب فساد ہوتا ہے۔پس صادق کے واسطے ورزش کی اشد ضرورت ہے۔جیسے ایک پہلوان کے سامنے تمہاری کیا ہستی ہے کہ مقبلہ کر سکو اگر چہ وہ بیھ تمہارے جیسا آدمی تھا۔جسمانی نشونما میں اس نے ترقی کی اور ورزش کر کے یہ طاقت حاصل کی۔پس تم روحانی قویٰ میں ورزش کرکے روحانی پہلوان یعنی صادق مومن بنو۔جو شخص اپنا نشونما نہیں کرتا وہ تو اپنے کنبہ کو بھی درست نہیں کر سکتا۔پس قوتِ روحانی پیدا کرو۔دیکھو نبی،رسول سب ایک ایک ہو کر ہی آئے ہیں مگر وہ صادق اور جاذب تھے۔مال کی غریبی او رکمزوری جدا چیز ہے۔
روحانی قوت کی ضرورت
روحانی قوت ہونی چاہیے۔ہاں کشش میں بھی وہی سعادت مند ہوتے ہیں جن کو کچھ مناسبت ہوتی ہے۔مثلاً انجن سرد ہے تو فائدہ نہیں دے سکتا۔اگر خوب گرم ہے تو سو گاڑی بھی لے جاوے گا۔پس گرم اور پراثیر مومن بنو۔اس ہماری جماعت کے واسطے خدا کا وعدہ ہیکہ دنیا میں پھیلے گی۔پھر اگر طاقت والے اور اس کے پھیلانے والے اور لوگ ہوں گے تو تم نے کیا حاصل کیا؟
اب سوال یہ ہوگا کہ طاقت کس طرح پید اہوتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ صادق اور پکّا بندہ بن جاوے تاکہ کسی زلزلہ سے برگشتہ اور منہ پھیرنے والا نہ ہو۔صحابہ کرامؓ سارے ہی ابخدا اور عاقل تھے مگر آنحضرت ﷺ اُن سے بڑھ کر ایسے وفادار تھا کہ کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا تھا۔اسی لیے آپ کو سانپوں اور درندوں اور خاردار کانٹوں والا جنگل اس کے درندے،حیوانات انسانی شکل میں دکھلائے گئے۔پھر ملک بھی ایسا اس کے سپرد کیا کہ جس سے بڑھ کر دنیا مٰن کوئی شریر النفس نہ تھا۔پھر آئے ایسے وقت پر کہ تمام مردہ اور فساد کی جڑھ تھے۔ جیسے فرمایا
ظھر الفساد فی البر والبحر (الروم : ۴۲)
اور گئے ایسے وقت پر کہ فرمایا
الیوم اکملت لکن دینکم واتممت علیکم نعمتی (المائدہ : ۴)
الآیتہ
اذا جاء نصر اﷲ والفتح (النصر : ۲)
اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اس سے معلوم ہوتاہے کہ کتنی محبت الٰہی اور قوت جاذبہ آنحضرت ﷺ کے اندر تھی۔پس خد اتعالیٰ کے خاص بندوں اور غیروں میں اتنا فرق ہوتاہے کہ قوتِ ایمانی اور اتقامت ایسی ہو ۔کہکسی رکاوٹ شدید سے باز نہ رہے۔اس صفت سے جس کو جتنا حصہ ملا ہے اتنا ہی وہ برکت کا موجب ہوگا۔میرا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی تبدیلی کے واسطے تین باتیں یاد رکھو:
(۱) نفسِ امارہ کے مقابل پر تدابیر اور جدوجہد سے کام لو۔ (۲) دعائوں سے کام لو۔ (۳) سست اور کاہل نہ بنو اور تھکو نہیں۔
ہماری جماعت بھی اگر بیج کا بیج ہی رہے گی تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔جو ردی رہتے ہیں۔خدا تعالیٰ ان کو بڑھاتا نہیں۔پس تقویٰ ،عبادت اور ایمانی حالت میں ترقی کرو۔اگر کوئی شخص مجھے دجال اور کافر وغیرہ ناموں سے پکارت ہے تو تم اس بات کی کچھ پروا بھی نہ کرو۔کیونکہ جب خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے تو مجھے ان کے ایسے بدکلمات اور گالی٭ن کا کیا ڈر ہے۔فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کو کافر کہا تھا۔ایک زمانہ ایسا آگیا کہ پکار اُٹھا کہ میں اس خدا پر ایمان لایا جس پر موسیٰ اور اس کے متبع ایمان لائے ہیں۔ایسے لوگ یاد رکھو کہ مخنّث اور نامرد ہوتے ہیں۔یہ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے ایک بچہ بعض اوقات اپنی ماں اور باپ کو بھی نا سمجھی وج سے گالی دے دیتا ہے،مگر اس کے اس فعل کو کوئی برا نہیں سمجھتا۔
پس یاد رکھو کہ نری بیعت اور ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کچھ بھی سود مند نہیں۔جب کوئی شخص شدت پیاس سے مرنے کے قریب ہو جاوے یا شدت بھوک سے مرنے تک پہنچ جاوے تو کیا اس وقت ایک قطرہ پانی یا ایک دانہ کھانے کا اس کو موت سے بچالے گا؟ ہرگز نہیں۔جس طرح اس بدن کو بچانے کے واسطے کافی خوراک اور کافی پانی بہم پہنچانے کے سوائے مفر نہیں۔اسی طرح پورے جہنم سے تھوڑی سی نیکی سے تم بھی بچ نہیں سکتے۔پس اس دھوکہ میں نہ رہو کہ ہم نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اب ہمیں کیا غم ہے۔ہدایت بھی ایک موت ہے۔جو شخص یہ موت اپنے اُوپر وار کرتا ہے اس کو پھر نئی زندگی دی جاتی ہیاور یہی اصفیاء کا اعتقاد ہے۔اﷲ تعالیٰ نے بھی اسی ابتدائی حالت کے واسطے فرمایا ۔
یایھا الذین امنو ا علیکم انفسکم (المائدۃ : ۱۰۶)
یعنی پہلے اپنے آپ کو درست کرو۔اپنے امراض کو دور کرو۔دوسروں کا فکر مت کرو۔ہان رات کو اپنے آپ کو درست کرو۔اور دن کو دوسروں کوب ھی ہدایت کر دیا کرو۔خدا تعالیٰ تمہیں بخشے اور تمہارے گناہ٭نسے تمہیں مخلصی دے اور تمہاری کمزوریوں کو تم سے دور کرے اور اعمال صالحہ اور نیکی میں تقی کرنے کی توفیق دیوے ؎ٰأآمین۔
۲؍نومبر ۱۹۰۴ء
بمقام سیالکوٹ
بیعت کی غرض
اس بیعت کی اصل غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں ذوق وشوق پید اہو اور گناہوں سے نفڑت پید اہو کر اس کی جگہ نیکیاں پیدا ہوں۔جو شخص اس غرض کو ملحوظ نہیں رکھتا اور بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر کوئی تبدیلی کرنے کے لیے مجاہدہ اور کوشش نہیں کرتا جو کوشش کا حق ہے اور پھر اس قدر دعا نہیں کرتا جو دعا کرنے کا حق ہے تو وہ اس اقرار کی جو خدا تعالیٰ کے حضور کیا جاتا ہے سخت بے حرمتی کرتا ہے اور وہ سب سے زیادہ گنہگار اور قابل سزا ٹھہرتا ہے۔پس یہ ہرگز نہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بیعت کا اقرار ہی ہمارے لیے کافی ہے اور ہمیں کوشش نہیں کرنی چاہیے۔مثل مشہور ہے جو ئندہ یا بندہ جو شخص دروازہ کھٹکٹھاتا ہے اس کے لیے کھول جاتا ہے اور قرآن شریف میں بھی فرمایا گیا ہے۔
والذین جاھدو افینا لنھدینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
یعنی جو لوگ ہماری طرف آتے ہیں اور ہمارے لیے مجاہدہ کرتے ہیں۔ہم اُن کے واسطے انی راہ کھول دیتے ہیں ارو صراطِ مستقیم پر چلا دیتے ہیں۔لیکن جو شخص کوشش ہی نہیں کرتا وہ کس طرح اس راہ کو پاسکتاہے ۲؎۔
خدایا بی اور حقیقی کامیابی اور نجات کا بھی یہی گُر اور اصول ہے۔انسان کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے سے تھکے نہیں نہ درماندہ ہو اور نہ اس راہ میں کوئی کمزوری ظاہر کرے۔
تم لوگوں نے اس وکت خدا تعالیٰ کے حضور میرے ہاتھ پر انے گناہ٭ں سے توبہ کی ہے۔ایسا نہ ہو کہ یہ توبہ تمہارے لیے باعثِ برکت ہنے کی بجائے *** کا موجب ہو جاوے۔کیونکہ اگر تم لوگ مجھے شناخت کر کے بھی اور خدا تعالیٰ سے اقرار کر کے بھی اس عہد کو توڑتے ہو تو پھر تم کو دوہرا عذاب ہے کیونکہ عمداً تم نے معاہدہ کو توڑا ہے۔دنیا میں جب کوئی شخص کسی سے عہد کرکے اُسے توڑتا ہے تو اس کو کس قدر ذلیل اور شسرمندہ ہونا پڑتا ہے۔وہ سب کی نظروں سے گر جاتا ہے۔پھر جو شخص خد اتعالیٰ سے عہد اور اقرار کرکے توڑے وہکس قدر عذاب اور *** کا مستحق ہوگا۔
پس جہانتک تم سے ہوسکتا ہے۔اس اقرار ارو عہد کی رعایت کرو۔اور ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہو۔پھر اس اقرار پر قائم اور مضبوط رہنے کے واسطے اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو۔وہ یقیناً تمہیں تسلی اور اطمینان دے گا ارو تمہیں ثابت قدم کرے گا،کیونکہ جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ سے مانگتا ہے اُسے دیا اجتا ہے۔میں جانتا ہوں کہ تم میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے جن کو میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے واسطے قسم قسم کے ابتلا ء اور مشکلات پیش آئیں گے،لیکن میں کیا کروں یہ ابتکلاء نئے ہیں۔جب خدا تعالیٰ کسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کوئی اس کی طرف جاتا ہے تو اس کے واسطے ضرور ہیکہ ابتلاء٭ن مٰن سے ہوکر گذرے۔دنیا اور اس کے رشتے عارضی اور فانی ہیں مگر خدا تعالیٰ کے ساتھ تو ہمیشہ کے لیے معاملہ پڑتا ہے پھر اس سے آدمی کیوں بگاڑے؟ دیکھو صحابہؓ کو کچھ تھوڑے ابتلاء پیش آئے تھے۔ان کو اپنا وطن،مال و دولت،اپنے عزیز رشتہ دار سب چھوڑنے پڑے۔لیکن اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں ان چیزوں کو مری ہوئی مکھی کے برابر بھی نہیں سمجھا۔خدا تعالیٰ کو انے لیے کافی سمجھا۔پر خدا نے بھی ان کی کس قدر قدر کی۔اس سے وہ خسارہ میں نہیں رہے بلکہ دنیاوآخرت میں انہوں نے وہ فائدہ پایا جو اس کے بغیر انہیں مل سکتا ہی نہیں تھا۔اس لیے اگر کوئی ابتلاء آوے تو گھبرانا نہیں چاہیے۔ابتلاء مومن کے ایمان کو مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہیکیونکہ اس وقت روح یں عجزونیاز اور دل مین ایک سوزش اور جلن پیدا ہوتی ہے جس سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کے آستانہ پر پانی کی طرح گداز ہو کر بہتا ہے۔ایمانِ کامل کا مزا ہمّ و غم ہی کے ندوں میں آتا ہے۔اس وقت اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر کرو۔خدا تعالیٰ سے اب تمہارا نیا معاملہ شروع ہوا یکیونکہ وہ پچلے گناہ سچی توبہ کے بعد بخش دیتا ہے اور توبہ سے یہ مراد نہیں کہ انسان زبان سے یہ کہہ دے اور اعمال میں اس کا اثر ظاہر نہ ہو۔نہین۔توبہ یہی ہے کہ بدی٭ن او خدا کی نافرمانیوں کو قطاعً چھوڑدے اورنیکیاں کرے اور اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری مٰن اپنی زندگی بسر کرے۔
اب بے فکر رہنے کے دن نہیں ہیں۔خدا تعالی کا تازیانہ ہوشیار کر رہا ہے۔تم کو خوب معلوم ہے کہ طاعون نے اس ملک کو کیسا تباہ کیا ہے اور کس طرح پر فنا کا تصرف جاری ہے۔اور ثابت ہو رہا ہے کہ دنیا فانی ہے۔اب بھی اگر انسن اپنے اعمال کو درست نہ کرے تو یہ اسکی کیسی غفلت اور بدنصیبی ہے۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز بے فکر نہ ہو۔خدا تعالیٰ کے عذاب کا کچھ پتہ نہیں ہتوا کہ وہ کس وقت آجاوے اور وہ غافلوں کو ہلاک کر دیتاہے جو دنیا میںمست ہو جاتے ہیں ار خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بیباک اور شوخی اختیار کرتے ہیں۔تم جانتے ہو کہ طاعون کے دن آئے ہیں اور معلوم نہیں کہ کون اس کے حملہ سے بچے ۔ہاں اس قدر میں کہتا ہوں کہ خد اتعالیٰ ان لوگں کو اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھتا ہے جو اپنے اندر سچی تبدیلی کر لیتے ہیں اور کسی قسم کا کھوٹ اور کجی دل میں باکٰ نہیں رکھتے۔بسا اوقات جن شہروں میں طاعون پڑی ہے ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی جبتک تباہ نہیں کر لیتی اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہا س کے دورے بڑے بڑے لمبے ہوتے ہیں۔مجھ پر خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ظاہر کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی کتابوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہیہ شامت اعمال سے آتی ہے۔میں اس وکت دیکھتا ہں کہ دنیا میں غفلت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔شوخی اور بے باکی خدا تعالیٰ کی کتابوں اور باتوں سے بہت ہو گئی ہے۔دنیا ہی دنیا لوگوں کا مقصود اور معبود ٹھہر گئی ہے۔اس لیے جیسا کہ پہلے سے کہا گیا تھا اور نبیوں کی معرفت وعدہ دیا گیا تھا۔میرے اس زمانہ میں یہ طاعون لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے آئی ہے مگر افسوس ہے لوگ اس کو ابتک بھی ایک معمولی بیماری سمجھتے ہیں۔مگر مین تمہیں کہتا ہوں کہ تم ان لوگوں کے ساتھ مت ملو بلکہ تم اپنے اعمال اور افعال سے ثابت کرکے دکھادو کہ واقعی تم نے سچی تبدیلی کر لی ہے۔تمہاری مجلسوں میں وہی ہنسی اور ٹھٹھا نہ ہو جو دوسرے لوگوں کی مجلسوں اور محفلوں میں پایا جاتا ہے۔یقیناً سمجھو کہ زمین و آسمان کا خالق ایک خدا ہے۔وہی خدا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں زندگی اور موت ہے۔کوئی شخص دنیا میں کس ی قسم کی راحت اور کوئی نعمت حاصل نہیں کرسکتا مگر اسی کے فضل و کرم سے ۔ایک پتہ بھی اس کے فضل کے بغیر ہرا نہیں رہ سکتا۔اس لیے ہر وقت اسی سے سچا تعلق پیدا کرے اور ا س کی رضا جوئی کی راہوں پر مضبوط قدر رکھے۔اگر وہ اس بات کی پابندی کرے گا تو یقینا اُسے کوئی غم نہیں ہے۔ہر قسم کی راحت، صحت،عمر و دولت یہ سب اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے۔جب انسنا کا وجود ایسا نافع اور سود مند ہو تو اﷲ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا۔جیسے باغ میں کوئی درخت عمدہ پھل دینے والا ہو توا سے باغبان کاٹ نہیں ڈالتا بلکہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔اسی طرح نافع اور مفید وجود کو اﷲ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتاہے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے۔
Amira 10-8-05
واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
جو لوگ دنیا کے لیے نفع رساں لوگ بنتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ ان کی عمریں بڑھا دیتا ہے۔یہ اﷲ تعالیٰ کے وعدے ہیں جو سچے ہیں اور کوئی ان کو جھٹلا نہیں سکتا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سچے اور فرمانبردار بندے ایسی بلائوں سے محفوظ رہتے ہیں۔پس اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ نری بیعت اور اقرار سے کچھ نہیں بنتا،بلکہ انسان زیادہ ذمہ دار اور جوابدِ ہ ہوجاتا ہے۔اصل فائدہ کے لیے ضرورت ہے۔حقیقی ایمان اور پھر اُس ایمان کے موافق اعمالِ صالحہ کی۔جب انسان یہ خوبی اپنے اندر پیدا کرتا ہے تو جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ متقی حقیقی مومنن اور اس کے غیر میں ایک امتیاز رکھ دیا جاتا ہے۔اُسے ممتاز کیا جاتا ہے اور اس امتیار کا نام قرآنِ شریف کی اصطلاح میں فرقان ہے۔آخرت میں بھی مومن اسی فرقان سے شناخت کئے جائیں گے اور کافر۔فاسق ۔فاجر کے منہ سیاہ ہو جائیں گے۔اس دنیا میں بھی دیکھا جات اہے کہ مومن ہمیشہ ممتاز رہتا ہے۔اس کے اندر ایک سکینت اور اطمینان بخش روح ہوتی ہے؛ اگر چہ مومن کو دکھ بھی اُٹھانے پڑتے ہیں اور قسم قسم کے مصائب اور شدائد کے اندر سے گذرنا پڑتا ہے خواہ لوگ اس کے کتنے ہی بُرے نام رکھیں ار خواہ اس کے تباہ اور برباد کرنے کے لیے کچھ بھی ارادے کرین،لیکن آخروہ بچالیا جاتا ہے۔کیونکہ خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اُسے عزیز رکھتا ہے۔اس لیے دنیا اس کو ہلاک نہیں کرسکتی۔مومن اور اس کے غیر میں امتیاز ضرور ہوتا ہے اور یہ میزان خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔خدا کی آنکھیں خوب دیکھتی ہیں کہ کون بد اور شریر ہے۔خد اکو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔پس تم دنیا کی پروا نہ کرو۔بلکہ اپنے اندر کو صاف کرو۔یہ دھوکا مت کھائو کہ ظاہری رسم ہی کافی ہے۔نہیں ۔امن اس وکت آتا ہے جب انسان سچے طور سے خدا تعالیٰ کے حرم میں داخل ہو۔
پس اب بڑی تبدیلی کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ سے سچی صلح کے دن ہیں۔بعض لوگ اپنیغلط فہمی اور شرارت سے اس سلسلہ کو بدنام کرنے کے لیے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں سے بھی بعض آدمی طاعون سے ہلاک ہوئے ہیں۔مین نے بار ہا اس اعتراض کا جواب دی اہے کہ یہ سلسلہ منہاج نبوت پر واقع ہوا ہے۔آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کفار پر جو عذاب آیا تھا وہ تلوار کا عذاب تھا۔حالانکہ وہ اُن کے لیے مخصوص تھ۔لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صحابہؓ میں سے بعض شہید نہیں ہو گئے؟ اسی طرح پرر یہ سچ ہے کہ اس سلسلہ میں سے بھی بعض لوگ طاعون سے شہید ہوئے ہیں مگر یہ بھی تو دیکھو کہ طاعون کے ذریعہ سے ہمارا نقصان ہوا ہے یا دوسروں کا؟ہماری جماعت کی تو ترقی ہوتی گئی اورہو رہی ہے اور میں پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ نافع الناس ہیں اور ایمان ،صدق و وفا میں کامل ہیں وہ یقینا بچا لیے جاویں گے۔پس تم اپنے اندر یہ خوبیاں پید اکرو۔اپنے رشتہ داروں اور بیوی بچوں کو بیھ سمجھائو اور یہی تلقین کرو اور دوستوں کے ساتھ یہی شرط دوستی رکھو کہوہ بدی سے بچیں۔
پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آئو۔جنگ کرنا اس سلسلہ کے خلاف ہے۔نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنے پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو۔یہ میری نصیحت ہے اس کو یاد رکھو ۔اﷲ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے ۔آمین۔
۳؍نومبر ۱۹۰۴ء
سیالکوٹ سے واپسی پر بمقام وزیر آباد ریلوے اسٹیشن۔
ایک پادری سے گفتگو
وزیر آباد کے سٹیشن پر وہی ہجوم اور کثرتِ زائرین تھی جو پہلے تھی۔حافظ غلام رسول صاحب نے پھر لیمو نیڈ اور سوڈ اواٹر کی دعوت اپنے بھائیوں کودی۔
اس مرتبہ اس اسٹیشن پر ایک عجیب بات جو پیش آی وہ یہ تھی کہ ڈسکہ کا مشنری پادری سکاٹ صاحب حضرت اقدس سے آکر ملا۔پادری سکاٹ صاحب کے ساتھ ہمارے مکم بھائی سیخ عبد الحق صاحب نو مسلم کے بھی عیسائیت کے ایام میں دوستانہ تعلقات تھے۔پادری صاحب نے حضرت اقدس کے پاس آکر پہیل سلسلہ کلام شیخ عبد الحق ہی سے شروع کیا کہ آپ نے ہمارا ایک لڑکا لے لیا۔اس قسم کی بتیں ہو رہی تھیں۔جبکہ ہم نے پہنچ کر اس گفتگو کو قلمبند کرنا شروع کیا۔
پادری سکاٹ۔ آپ میں اور عیسوی مذہب میں کی اختلاف ہے؟
حضرت اقدس۔ موجودہ عیسوی مذہب اور ہم میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے؛ البتہ حضرت مسیح علیہ السلام کی
اصل تعلیم اور مذہب اور ہمارے مذہب کے اصولوں میں اختلاف نہیں ہے۔وہ بھی خد اکی
پرستش کرتے اور اس کی توحید کا وعظ اور تبلیغ کرتے تھے۔اور دوسرے تمام نبی بھی یہی تعلیم لیکر
آئے تے۔
پادری سکاٹ۔ آپ لوگوں میں تو بہت سے فرقے موجود ہیں؟
حضرت اقدس۔ مجھے تعجب ہے کہ آپ اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عیسائیوںمیں
کس قدر فرقے ہیں جو ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور اصولوں میں بھی متفق نہیں۔مسلمانوں کے فڑقوں میںاگر کوئی اختلاف ہے تو فرد عات اور جزئیات میں ہے۔اصول سب کے ایک ہی ہیں۔
پادری سکاٹ۔ ان عیسائی فرقوں میں سے آپ کس کو حق پر سمجھتے ہیں؟
حضرت اقدس۔ میرے نزدیک تو راستبازوہی فرقہ تھا جو حضرت مسیحؑ اور اُن کے حواریوں کا تھا۔اس کے بعد تو
اس مذہب کی مرمت شروع ہو گئی اور کچھ ایسی تبدیلی شروع ہوئی ہ حضرت مسیح کے وقت کی
عیسویت اور موجودہ عیسویت میں کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔
پادری۔ اس کی خبر آپ کو کہاں سے ملی؟
حضرت اقدس۔ پیغمبروں کو خد اتعالیٰ ہی سے خبریں ملا کرتی ہیں۔میں بھی خد اہی سے خبریں پاتا ہوں اور اسی پر ایمان لات اہوں۔
پادری۔ اس میں شک نہیں کہ پیغمبروں کو خدا س یہی خبر ملتی ہے۔
اس مقام تک جب پہنچے تو پادری صاحب کی نظر ایڈیٹر الحکم پر پڑی جو اس گفتگو کو قلمبند کر رہا
تھا۔پادری صاحب اُسے دیک کر گھبرائے اور بولے کہ یہ کون نوٹ کر رہا ہے۔جب ان کو یہ کہا گیا
کہ یہ الحکم اخبار کا ایڈیٹر ہے جو اس سفر میں حضرت کے ساتھ ہے اور حالات سفر قلمبندر کر کے شائع
کرے گا تو ادری صاخب بولے میں اب جاتا ہوں یہ تو شائع کر دیں گے۔انہیں کہا گیا کہکیا حرج
ہے ۔ دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔مگر ہم سچ کہتے ہٰں اور اس وقت جو لوگ موجود تھے وہ پادری
صاحب کی گھبراہت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ہر چند وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح اس سلسلہ کلام کو یہان
چھوڑ دیں مگر حاضرین نے انہیں سلسلہ کلام جاری رکھنے پر اصرار کیا اور کہا کہ آپ کو نہیں تو ہم لوگوں
کو فائدہ پہنچ جاوے گا۔اس اصرار پر انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھا اور پھر بولے تو یہ بولے:
پادری۔ تمہارے بہت سے چیلے ہیں یہ حملہ نہ کر دیں۔
حضرت اقدس۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ خواہ مخواہ ایک قوم پر جس کو نیک ثلنی، انکسار اور تواضع
کی تعلیم دی جاتی ہے حملہ کرتے ہیں۔ایسی حالت میں کہ میں ان میں موجود ہوں اور آپ دیکھتے ہیںکہ کووئی ان میں سے بولتا بھی نہیں آپ یہ امید کر سکتے ہیں۔آپ جس طرح چاہیں جو چاہیں مجھ سے پوچھیں ان میں سے کوئی تمہیں مخاطب بی نہیں کرے گا۔ان کو یہ تعلیم نہیں دی
جاتی۔ علاوہ ازیں چیلے کا لفظ ٹھیک نہیں ہے گو اس لفظ کے معنی اور مفہوم بُرا نہ ہو۔لیکن ہر ایک قوم
کو اسی لفظ اور نام سے پکارنا چاہیے جو وہ اپنے لیے پسند کرتی ہے۔یہ لفظ چیلے کا ہندوئوں کے
ساتھ مختص ہے۔
پادری۔ میں نے سنا ہے۔سیالکوٹ میں بڑی رونق تھی۔
حضرت اقدس۔ ہاں۔بہت بڑا مجمع تھا۔
پادری۔ آپ لوگوں کو صرف ہدایت دیتے ہیں یا فضل بھی؟
حضرت اقدس۔ میری ہدایت کچھ ثیز نہیں جبتک اس کے ساتھ فضل نہ ہو۔کوئی آدمی کبھی ہدایت نہیں پاسکتا جبتک آسمانی فضل بھی اس کی دستگیری نہیں کرتا ہے۔وہ میری شناخت اُسے عطا کرتا ہے تب وہ میرے پاس آتا ہے اور وہ ہدایت اور معرفت لیتا ہے جو مجھے خدا تعالیٰ نے دی ہے اور پھر اپنے فضل سے دی ہے۔
پادری۔ میں اس فضل کا ذکر نہیں کرتا جو آپ کو ملتا ہے بلکہ میں اس فضل کا ذکر کرتا ہوں جو ان کو ملتا ہے۔
حضرت اقدس۔ میں بھی تو اس فضل کا ذکر کرتا ہوں جو اُن کو ملتا ہے۔ان کو پہلے تو ہ فضل ہی ہے جو میرے پاس لاتا ہے۔پھر جو فضل مجھے دیا جاتا ہے وہی فضل میری صحبت او ر تعلق کی وجہ سے ان میں سرایت کرتا ہے۔جس کدر اعتقاد بڑھے گا اسی قدر یہ لوگ اور ہر ایک مخلص ارادتمند اس فضل کو جذب کرے گ ۔ان لوگوں کا تعالق میرے ساتھ درخت کی شاخوں کی طرح ہے۔جس جس قدر وہ شاخیں ڈریب ہیں اور اپنی سبزی اور زندگی میں تردوتازہ ہیں اسی قدر زیادہ وہ اس غذا کو جو جڑ کے ذریعہ درخت حاصل کرت اہے یہ غذا سے کوئی حصہ نہیں پاسکتی ۔اسی طرح پر شاگرد اور مرید شاخوں کی طرح ہی ہوتے ہٰں۔جس قدر کوئی تعلق، محبت اور حسن ایمان رکھتا ہے اور جس قدر زیادہ صحبت میں رہت اہے اسی کے موافق وہ حصہ پاتے ہیں۔اول فضل خود اس درخت میں بھی ہونا چاہیے۔اگر اس میں کوئی قوت اور روح معرفت کی نہ ہوگی تو وہ دوسروں کو کیا پہنچا سکے گا۔
پادری۔ کس درخت کی شاخ؟
حضرت اقدس۔ وہ درخت جس کو خد الگاتا ہے جو خدا کی طرف سے آتا ہے جیسے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں اور خد انے مجھے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔
پادری۔ میں آپ کے دعویٰ ک اصل مطلب نہیں سمجھا۔کیا آپ مسیح کہلاتے ہیں؟
حضرت اقدس ؑ۔ تعجب ہے۔میرا دعویٰ تو عرصہ سے شائع ہو رہا ہے اور ولایت اور امریکہ تک لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے۔آپ کہتے ہیں میں مطلب نہیں سمجھا۔ہاں میں مسیح کہلاتا ہوں اور خدا نے مجھے مسیح کہا اور مسیح کرکے بھیجا۔
پادری۔ وہ تو ایک ہی مسیح ہے۔
حضرت اقدس ؑ۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات میں بخل نہیں ہے وہ ہزاروں ہزار مسیح بنا سکتا ہے؛ چنانچہ ایک میں نمونہ موجود ہوں جو زندہ مسیح ہے۔
پادری۔ انیس سو برس پیشتر آپ سے ایک مسیح دنیا میں آیا تھا اور وہی مسیح مشہور ہے جس کی طرف یہودیوں کے عہد نامے میں اشارہ ہیکہ مسیح آئے گا اور وہ اس کے منتظر تھے۔اس کے سوا تو کوئی مسیح نہیں۔
حضرت اقدس ؑ۔ ہاں۔انیس سو برس پیشتر ایک مسیح آیا تھا۔مگر جس مسیح کا آپ ذکر کرتے ہیں یا جس کو مانتے ہیں اس کا ذکر یہودیوں کے عہد نامے میں کہیں نہیں ہے،کیونکہ وہ کسی خدا مسیح کے منتظر نہ تھے بلکہ ایک نبی کے منتظر تھے۔اگر وہ کسی خدیا خدا کے بیٹے کے منتظر ہوتے تو وہ اس کو مان لیتے۔
علاوہ بریں یہودیوں کے عہد نامہ میں جس مسیح کا ذکر ہے وہ نشان دو مسیحوں کی طرف جاتا ہے۔ایک وہ جو مجھ سے پہلے آیا دوسرا میں ہوں جو ساتویں ہزار میں آنے والا تھا۔مسیح کی آمدِ ثانی کے تم لوگ بھی قائل ہو،لیکن دوسری آمد کو تم نے اسی کی آمد سمجھ لیا ہے؛ حالانکہ اس سے مراد کسی اور کا آنا تھا یعنی میرا آنا مراد تھا۔دانیال نبی کی کتاب میں بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اس امر کو بیان کیا ہے۔یہ ساتواں ہزار ہے جو آپ کے دعویٰ کو باطل کرتا ہے کہ وہی آنے والا تھا۔اس نے میری تصدیق کی؛ چنانچہ بڑے عیسائی فاضلوں نے مسیح کے آنے کا یہی زمانہ قرار دیا ہے اور آخر مایوس ہو کر امریکہ وگیرہ میں ایسے رسائل بھیشائع ہو گئے کہ دوبارہ آنے کا خیال غلط ہے۔آمد ثانی سے مراد صرف کلیسیا ہی ہے۔اگر یہ وقت آنے کا نہ تھا تو ان لوگوں کو کیا مصیبت پیش آئی تھی کہوہ ایسی تاویلیں کرتے یا انکار رکتے۔حقیقت میں آنے کا زمانہ یہی تھا۔اور آنے والا آگیا مگر تھوڑے ہیں جو اسے دیکھتے ہیں۔اب آپ خواہ قبول کریں یا نہ کریں اور کوئی مسیح تو آنے والا نہیں ۔جس کا آپ کو انتظار ہے وہ مر چکا اور میں خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق آگیا۔
پادری۔ جو دھوکہ یہودیوں کو تھا وہی آپ کو ہے کہ ایک مسیح دُکھ اُٹھائے گا۔دوسرا بزرگی پائے گا۔
حضرت اقدس ؑ۔ دراصل یہودیوں والا دھوکہ تو آپ کو لگا ہوا ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح کے اپنے فیصلہ کو یاد رکھتے تو ٹھوکر نہ کھاتے۔یہودیوں کو جو دھوکا لگا تھا۔وہ یہی تو تھا کہ مسیح کے آنے سے پہکلے ایلیا ہی کا آنا مانتے تھے اور اقرار کرتے تے کہ وہی ایلیا آئے گا؛ حالانکہ مسیح نے اس کا فیصلہ یہ کیا کہ آن چاہیے تھا۔اسی طرح مسیح کی آمد ثانی ہے اس سے مراد وہ آپ ہی کیونکر ہو سکتے ہٰں۔اسی واسطے میں کہت اہوں کہ آپ کو یہودیوں والا دھوکا لگا ہے؛ ورنہ میں تو وہی مسیح ہوں جو آنے والا تھا اور میرا وہی فیصلہ ہے جو ایلیا کے حق میں مسیح نے کیا۔
پادری۔ وہ ایلیا تو آچکا۔
حضرت اقدر ؑ۔ میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ آچکا مگر تم یہ بتائو کہ کیا یوحنا کو ایلیاء نہیں بنایا گیا۔اب میرے معاملہ میں آپ کیوں ٹھوکر کھاتے ہیں اور مسیح کے فیصلہ کو حجت نہیں مانتے۔
پادری۔ آپ معاف کریں۔میں جاتا ہوں۔
حضرت اقدس ؑ۔ اچھا۔
اس کے بعد پادری صاحب تشریف لے گئے؎ٰ۔
۵:نومبر ۱۹۰۴ء
بمقام قادیان۔بعد نماز مغرب
طاعون کی شدت طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ :
کسوف اور خسوف کے ساتھ ہی قرآن شریف میں
این المفر (القیامۃ : ۱۱)
آیا ہے جس سے یہی مراد ہے کہ طاعون اس کثرت سے ہوگی کہ کوئی جگہ پناہ کی نہ رہے گی۔میرے الہام میں عفت الدیار محلہا ومقامھا کے یہی معنی ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام کا وجود باعثِ ابتلاء ثابت ہوا ہے
حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود کی نسبت فرمایا کہ :
ان کا وجود دنیا کے لیے ابتلا ء ہی ثابت ہوا ہے۔یعنی ابتلاء اور حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود کا گہرا تعلق ہے کیونکہ جو منکر ہوئے وہ بھی دوزخی بنے اور جو ان پر ایماندار ہیں وہ بھی دوزخ کے کنارے ہیں۔جیس یکہ عیسائیون کے عقائد اور عملی حالت سے واضح ہے۔پھر مسلمان بھی ان پر ایمان رکھتے تے وہ بھی غلو کرکے اور آسمان پر بٹھاکر مغضوب ہوئے۔پس صرف مسیح کا وجود ہی اس قسم کا ہے کہ جس کا دوست بھی جہنم میں اور دشمن بھی جہنم میں ۔اس قسم کا ابتلاء کسی اور نبی کے وجدو کے ساتھ نہیں ہے۔؎ٰ
۱۱؍نومبر ۱۹۰۴ء
ایک شخص کی طرف سے رقعہ پیش کیا گیا کہ یہ مولوی صاحب ہیں اور ان کا لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ان کو ہستی باری تعالیٰ پر شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔یہ اپنی اصلاح کی تدبیر دریافت کرتے ہیں۔
فرمایا :
ان کی بے قراری کو اﷲ تعالیٰ دور کرے۔دیکھو اگر کسی شخص کے سامنے دو بچے ہوں۔ایک تو کسی اجنبی کا ہو اور دوسرا اس کا اپنا پیارا ۔تو کیا وہ اس اجنبی بچہ کی خاطر اپنے بچہ سے محبت چھوڑ دے گا۔ نہیں بلکہ ہرگز نہیں۔پس جب انسان مسلمان کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں بالکل خد اکا ہوجانا اور کسی حالت میں اس سے بے وفائی نہ کرنا۔پھر اولاد کے حق میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے :
ان من ازواجکم و اولادکم عدو الکم فاحذروھم (التغابن : ۱۵)
انما اموالکم واولادکم فتنۃ (التغابن : ۱۶)
کہ مال اور اولاد تمہاری دشمن ہیں۔ان سے ڈرتے رہو۔کیونکہ اگر زندہ رہے تو ممکن ہے کہ نافرمان ہو۔مرتد ہو جاوے۔بدکار ہو،چور یا ڈاکو بن جاوے۔مر جاوے تو پھر ویسے ابتلا آجاتا ہے۔پس ہر حالت میں موجب فتنہ اور ابتلاء ہوتی ہے مگر جب مومن کو خد اتعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ اگر یہ بچہ مر گیا ہے تو کیا ہوا۔اﷲ تعالیٰ نے جو حکم دیاہے۔
ماننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منہا اومثلھا (البقرہ : ۱۰۷)
دیکھو آنحضرت ﷺ کے ۱۲ بچے فوت ہوئے۔ایمان تو وہ ہوتا ہے جس میں لغزش نہ ہو اور ایسے ایمان والا خدا تعالیٰ کو بہت محبوب ہوتا ہے۔ہاں اگر بچہ خد اسے زیادہ محبوب ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسا شخص خد اپر ایمان کا دعویٰ کر سکے۔اور وہ کیوں ایسا دعویٰ کرتا ہے۔ہم نہیں جان سکتے کہ ہماری اولادیں کیسی ہوں گی۔صالح ہوں گی یا بدمعاش ۔اور نہ اُن کے ہم پر کوئی احسان ہیں اور خد اکے تو ہم پر لاکھوں لاکھ احسان ہیں۔پس سخت ظالم ہے وہ شخص کہ اس خدا سے تعلق توڑ کر اولاد کی طرف تعلق لگاتا ہے۔ہان خد اتعالیٰ کے حقوق کے ساتھ مخلوق کے حقوق کا بھی خیال رکھو۔اگر خدا پر تمہار اکامل ایمان ہو تو پھر تو تمہارا یہ مذہب ہونا چا ہیے کہ: ؎
ہر چہ از دوست میر سد نیکوست
اور اس ایمان والے کے شیطان قریب بھی نہیں آتا۔وہ بھی تو وہا ں ہی جاتا ہے جہاں اُس کو تھوڑی سی گنجائش مل جاتی ہے۔جب خدا تعالیٰ کو مقدم رکھ اجائے تو برکات کا نزول ہوتا ہے۔ہر کسی دوست سے اگر تم دادنیٰ باتوں میں بد عہدی اور جھوٹ اور عہد شکنی سے کام لو تو وہ تمہیں کبھی عزیز نہیں رکھے گا۔پھر وہ تو رب العالمین اور احکم الحاکمین اور رب العزت ہے۔
ولنبلونکم بشیج من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرت (البقرۃ : ۱۵۶)
یعنی ثمرات سے مراد اولاد ہے اور یہ خد اکی طرف سے ابتلا ء ہوتے ہیں اور یہی انسان کا امتحان ہوت اہے۔ہان یہ باتیں اور کامل ایمان حاصل ہوت اہے توبہ استغفار سے۔اس کی کثرت کرو۔اور
ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین ۔ (الاعراف : ۲۴)
پڑھا کرو اور اس کی کثرت کرو۔خد اتعالیٰ تعم البدل عطا کرے گا۔خدا کا دامن نہ چھوڑنے والا گنہگار ہو کر بھی بخشا جاتا ہے۔ہاں تعلق توڑنا بری بات ہے اور یہ زہر قاتل ہے۔پس توبہ استغفأر کرو اور نمازوں میں دعائیں کرتے رہو۔اﷲ تعالٰٰ تمہارا پروردگار ہو؎ٰ۔والسلام۔
بلاتاریخ
شہد اور ذیابیطس ذیابیطس کی مرض کا ذکر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ :
اس سے مجھے سخت تکلیف تھی۔ڈاکٹروں نے اس میں شیر ینی کو سخت مضر بتلایا ہے۔آج میں اس پر غور کر رہا تھا تو خیال آیا کہ بازار میں جوشکر وغیرہ ہوتی ہے اسے تو اکثر فاسق فاجر لوگ بناتے ہیں اگر اس سے ضرر ہوتا ہے تو تعجب کی بات نہیں۔مگر عسل (شہد) تو خدا تعالیٰ کی وحی سے تیار ہوا ہے۔اس لیے اس کی خاصیت دوسری شیر ینیوں کی سی ہرگز نہ ہوگی۔اگر یہ ان کی طرح ہوت اتو پھر سب شیرینی کی نسبت شفاء لناس۔ فرمایا جاتا۔مگر اس میں صرف عسل ہی کو خاص کی اہے۔پس یہ خصوصیت اس کے نفع پر دلیل ہے اور چونکہ اس کی تیاری بؓریاہ وہی کے ہے اس لیے مکھی جو پھولوں سے رس چوستی ہوگی تو ضرور مفید اجزاء کو ہی لیتی ہوگی۔اس خیال سے میں نے تھوڑے سے شہد میں کیوڑا ملا کر اُسے پیا تو تھوڑی دیر کے بعد مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا۔ حتیٰ کہ میں نے چلنے پھنے کے قابل پانے آپ کو پایا اور پھر گھر کے آدمیوں کولے کر باغ تک چلا گیا اور وہان دس رکعت اشراق نماز کی ادا کیں۔
صفاتِ باری تعالیٰ
خدا تعالیٰ کی ان صفأت رب، رحمٰن، رحیم،مالک یوم الدین پر توجہ کی جواے تو معلوم ہوت اہیکہ کہ کیسا عجیب خد اہے۔پھر جن کا رب ایسا ہو گیا وہ کبھی نامراد اور محروم رہ سکتا ہے؟ رب کے لفظ سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دوسرے عالم میں بھی ربوبیت کام کرتی رہے گی۔
جہاں اسباب غیر مؤثر معلوم ہوں وہاں دعا سے کام لے؎ٰ۔
۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء
بوقت ظہر
ایک الہام اور ایک رؤیاء حضرت اقدس علیہ السلام نے ذیل کی رؤیا سنائی
میں نے ایک سفید تہہ بند باندھا ہوا ہے مگر وہ بالکل سفید نہیں ہے۔کچھ کچھ میلا ہے کہ اس اثناء میں مولوی صاحب نماز پڑھانے لگے ہیں اور اُنہوں نے سورہ الحمد جہر سے پڑھی ہے اور اس کے بعد اُنہوں نے یہ پڑھا۔
الفارق واما ادرک ما الفارق
اس وقت مجھے یہی معلوم ہوا کہ قرآن شریف میں سے ہی ہے۔اور ایک اور الہام ہوا :
روز نقصاں بر تو نہ آید
آریہ مذہب اور اس کے عقائد
حضرت حکیم نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی۔بعض آریوں نے بہت ہی گندے کلمات قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ کی شان میں لکھے ہیں۔فرمایا کہ
ہانڈی میں جب ابال ئت ہے تو پھر بہت جلدی بیٹھ جایا کرتا ہے۔یہی حالت ان لوگوں کی ہے۔میں نہیں سمجھ سکتا کہ اسلام جیسا مذہب جس خدا نے پیش کیا ہے اُس کے مقابل پر اور بی کوئی خدا مانا جا سکتا ہے۔
Mohsin 11-8-05
اسلام کا خدا کل کمالات ک مالک ہے اور جبکہ روح اور اس کے خواص سب خود بخود ہیں تو پھر وہ خدا کو کہہ سکتی ہے کہ تیرا مجھ پر کیا حق ہے جو تو مجھ کو کسی قسم کی سزا دے سکے۔خدا شناسی میں ان لوگوں کی حالت دہریوں سے ملتی ہے اور نیوگ میں تو کنجروں کو مات کر دیا ہے۔
انہوں نے ہر ایک بات پر اعتراض کا ٹھیکہ لے لیا ہے؛ حالانکہ ایک عارف آدمی اس بات کا ہرگز قائل نہ ہوگ اکہ کل اسرارِ الوہیت کو کوئی سمجھ سکتے مثلاً اس قدر جو مخلوقات موجود ہے اور قسم قسم کے پتھر ، بوٹیاں اور اشیاء ہیں کیا کوئی دعوٰی کر سکت اہے کہ میں نے ہر ایک کے خواص پر احاطہ کر لیا ہے اور جو کچھ میں نے معلوم کیا ہے اس سے بڑھ کر اب اور کوئی حکمت الٰہی اس میں ہر گز نہیں ہے۔اس لیے حق کے طالب کو چاہیے کہ وہ بات جس سے ایمان وابستہ ہوتا ہے اختیار کرے اور اُسے سمجھے اور دوسری باتوں کے لیے اپنے نقص عقل کو تسلیم کرے۔جوں جوں خدا تعالٰٰ بصیرت دے گا توں توں اس کا علم بڑے گا۔یہ نادانی ہے کہ انسان کے جسم کے اندر جس قدر قویٰ ہیں ان کی حکمت اور خواص پر تو نظر نہ کی جاوے اور بالوں کے ٹیڑھے ہونے یا اور اس قسم کی باتوں پر اعتراض کیا جاوے؎ٰ۔
۲۹؍نومبر ۱۹۰۴ء
کسی اہم کام کے لیے نماز توڑنا
افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر آجاوے اور دروازہ کو ہلا ہلا کر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یادوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں اسے کیا کرنا چاہیے۔اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہو کر ہندوستان واپس چلا گیا ہے۔
جواب :- حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا (یہ ہسپتال کا واقعہ ہے اس لیے فرمایا ؎ٰ) کیونکہ اگر اس کے التواسے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی۔احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں ثل کر درواز کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ایسے ہی اگر لڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اور جانور کو مار دینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی، بلکہ بعصوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھوڑا کُھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے۔کیونکہ وقت کیاندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے۔ ۲؎
نوٹ:- یاد رکھنا چہایے کہ اشد ضرورتوں کے لیے نازک مواقع پر یہ حکم ہے۔یہ نہیں کہ ہر ایک قسم کی رفع حاجب کو مقدم رکھ کر نماز کی پروا نہ کی جاوے اور اسے بازیچۂ طفلاں بنا دیا جاوے ورنہ نماز اشغال کی سخت ممانعت ہے اور اﷲ تعالیٰ ہر ایک دل اور نیت کو بخوبی جانتا ہے۔ ؎ٰ
۱۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء
بوقت ظہر
مریدان باصفا کی خاطر داری
حضرت اقدس بوقت ظہر تشریف لائے اور مولانا حکیم نورالدین صاحب کی علالت طبع کا حال خود ان سے دریافت کیا۔غذا کے انتظام کے لیے تاکید فمائی۔حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ ہر چند کوشش کی جاتی ہیمگر قدرت کی طرف سے کچف ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں کہ جس سے یہ انتظام قائم نہیں رہتا۔شاید ارادۂ الٰہی ابھی اس امر کا خواہاں نہیں ہے کہ آرام ہو۔
اس اثناء میں ایک صاحب جن کو حکیم صاحب موصوف سے نہایت محبت اور اخلاص اور نیاز مندی کا تعلق ہے بول اُٹھے کہ آخر تدبیر کرنی چاہیے۔قرآن شریف میں آیا ہے
فالمد برات امرا (النزعات : ۶)
حکیم صاحب نے ایک لطیف عارفانہ جواب یہ دیا کہ یہاں صیغہ مؤنث کا استعمال ہوا ہے فالمدبرون امرا۔ نہیں ہے۔جس سے ظاہر ہے کہ اس کا بڑا تعلق اناث سے ہے (اور اس میں ضرور نقص ہوتا ہے)بہر حازل یہ ایک عجیب نکتہ ہے۔اس بحث کو حصرت مسیح موعود ؑ نے بھی دل چسپی سے سنا اور پھر خوراک کا انتظام ایک خاص صاحب کے سپرد فرماکر زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ :
یہ سب لوگ سنتے ہیں اور گواہ ہیں کہ ہم نے اب تم کو ذمہ دار بنادیا ہے۔اب اس کا ثواب یاعذاب تمہاری گردن پر ہے۔ ۲؎
۲۰؍دسمبر ۱۹۰۴ء
بوقت ظہر
اپنے نیک انجام پر پختہ یقین
ظہر کے وقت حضرت اقدسؑ تشریف لائے۔مقدمہ کے ذکر پر فرمایا کہ :
خواہ کچھ ہی ہو ہم تو سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اس پر راضی ہیں۔
ہر چہ از دوست می رسد نیکوست
لیکن ہمارا ایمان جیسے خدا تعالیٰ کے ملائکہ اور کتب اور رسل پر ہے ایسے ہی اس بات پر بھی ہے ہ انجام کا رہم ہی کامیاب ہوں گے؛ اگر چہ ایک دنیا ہماری مخالف کیوں نہ ہو۔
آج کل کے عقلمندوں کے نزدیک تو کسی کو اپنا دشمن بنانا غلطی ہے۔لیکن سچ پوچھو تو یہ بھی حقانیت کی ایک دلیل ہے۔آنحضر ﷺ نے کسی ایک سے بھی نہ رکھی۔سب سے بگاڑلی۔ان لوگوں کے نزدیک تو نعوذ باﷲ آپؐ نے غلطی کی حالانکہ محض خدا تعالیٰ کے لیے سب س یبگاڑ لینا آپ کی صداقت کا بیّن ثبوت ہے کہ جس سے آپؐ کی قوتِ ایمانی کا حال معلوم ہوتا ہے۔ایک طرف مسیح ؑ کو دیکھو کہ اس کی تعلیم سے جو کہ انجیلوں میں پائی جاتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مشرب کسی کو ناراض کرنے کا ہرگز نہیں تھا۔یہودیوں کو سنایا گیا کہ میں توریت کا ایک شوشہ تک زیروزبر کرنے نہیں آیا۔اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ اُن کی خوشامد مد نظر تھی۔برخلاف اس کے آنحضرت ﷺ کی تعلیم کو دیکھ اجاوے تو کوئی بھی فرقہ اور مچہب روئے زمین پر ایسا نظر نہ آوے گا جس کو آپؐ نے دعوت نہ کی ہو اور جس کی غلطی نہ نکالی ہو (اور پھر ہر ایک کے مقابلہ پر اپنے مظفر و منصور ہونے کا دعویٰ بھی کیا) بھلا بتلائو کہ جب تک خدا پر پورا بھروسہ اور یقین نہ ہو کب کوئی اس طرح سے کر سکت اہے۔
خیر بات یہ ہے کہ درمیان میں کیا کیا مکروہات ہوں ہمیں اس کا علم نہیں مگر انجام بہر حال نیک ہے۔الہاموں کی ترتیب میں مَیں یہ امر مد نظر رکھتا ہوں کہ مکروہات کا رمتبہ اول رکھا جاتا ہے اور یہ سنت اﷲ بھی ہے کیونکہ خوشحالی اور کامیابی بعد کو ہوا کرتی ہیں۔اس لیے اُن کے الہامات کی ترتیب بھی بعد کو ہی ہوتی ہے۔
عاقبت کا ذخیرہ تیار کرو
کچھ دنوں کا عرصہ گذارا کہ ایک صاحب بہت تھوڑی دیر کے لیے قادیان آئے۔اور جلدی رخصت ہونے لگے۔حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ :
کچھ دن میرے پاس رہو اور عاقبت کا ذخیرہ تیار کرو دنیا کے کام تو کبھی ختم ہین میں نہیں آتے۔
خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند
۲۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء
تقریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
برموقعہ جلسہ سالانہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء
بعد نماز ظہر بمقام مسجد اقصیٰ
خاتمہ بالخیر کی کوشش کریں
میری طرف سے اپنی جماعت کو بار بار وہی نصیحت یہ جو میں پہلے بھی کئی دفعہ کر چکا ہوں کہ عمر چونکہ تھوڑی ؎ٰ اور عظیم الشان کام درپیش ہے،اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے۔
خاتمہ بالخیر ایسا امر ہے کہ اس کی راہ میں بہت سے کانٹے ہیں۔جب انسان دنیا میں آیتا ہے تو کچھ زمانہ اس کا بے خوشی میں گذرجاتا ہے۔یہ بے ہوشے کا زمانہ وہ ہے جبکہ وہ بچہ ہوتا ہے اور اس کو دنیا اور اس کے حالات سے کوئی خبر نہیں ہوتی ۔اس کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے توایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ وہ بے ہوشی تو نہیں ہوت جو بچپن میں تھی۔ لیکن جوانی کیایک مستی ہوتی ہے جو اس ہوش کے دنوں میں بھی بے ہوشی پیدا کر دیتی ہے اور کچھ ایسا از خود رفتہ ہوجاتا ہے کہ نفسِ امارہ غالب آجاتا ہے۔اس کے بعد پھر تیسرا زمانہ آتا ہے ۲؎ کہ علم
Amira 15-8-05
کے بعد پھر لا علمی آجاتی ہے اور حواس میں اور دوسرے قویٰ میں فتور آنے لگتا ہے۔یہ پیرانہ سالی کا زمانہ ہے۔بہت سے لوگ اس زمانہ میں بالکل حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور قویٰ بیکار ہو جاتے ہیں۔اکثر لوگوں میں جنون کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ایسے بہت سے خاندان ہیں کہ ان میں ساٹھ یا ستر سال کے بعد انسان کے حواس میں فتور آجاتا ہے۔غرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی قویٰ کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہو جانے سے انسان ہوش میں بے ہوش ہوتا ہے؎ٰ اور ضعف وتکاہل اپنا اثر کرنے لگتا ہے۔انسان کی عمر کی تقسیم انہیں تین زمانوں پر ہے اور یہ تینوں ہی خطرات اور مشکلات میں ہیں۔پس اندازہ کرو کہ خاتمہ بالخیر کے لیے کس قدر مشکل مرحلہ ہے۔
بچپن کا زمانہ تومجبوری کازمانہ ہے۔اس میں سوائے لہو،لعب اور کھیل کود اور چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے اور کوئی خواہش ہی نہیں ہوتی۔ساری خواہشوں کا منتہا کھانا پینا ہی ہوتا ہے۔دنیا اور اس کے حالات سے محض نا واقف ہوتا ہے۔امور آخرت سے بکلی نا آشنا اور لاپروا ہوتا ہے۔عظیم الشان امور کی اسے کوئی خبر ہی نہیں ہوتی۔ وہ نہیں جانتا کہ دنیا میں اس کے آنے کی کیا غرض اور مقصد ہے۔یہ زمانہ تو یوں گذر گیا۔اس کے بعد جوانی کا زمانہ آت ہے۔کچھ شک نہیں کہ اس زمانہ میں اس کے معلومات بڑھتے ۔ہیں اور اس کی خواہشوں کا حلقہ وسیع ہوتا ہے، مگر جوانی کی مستی اور نفس امارہ کے جذبات عقل ماردیتے ہیں اور ایسی مشکلات میں پھنس جاتا ہے اور ایسے ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ اگر ایمان بھی لاتا ہے تب بھی نفس امارہ اور اس کے جذبات اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اُسے ایمان ارو اس کے ثمرات سے دور پھینک دینے کے لیے حملے کرتے ہیں۔اس کے بعد جو پیرانہ سالی کا زمانہ ہے وہ تو بجائے خود ایسا نکما اور ردی ہوتا ہے۔جیسے کسی چیز سے عرق نکال لیا جاوے اور اس کا پھوک باقی رہ جاوے۔اسی طرح پر انسانی عمر کا پھوک بڑھاپا ہے۔انسان اس وکت نہ دنیا کے لائق رہتا ہے اور نہ دین کے۔مخبوط الحواس اور مضمحل سا ہو کر اوقات بسر کرتا ہے۔قویٰ میں وہ تیزی اور حرکت نہیں ہوتی جو جوانی میں ہوت ہے اور بچپن کے زمانہ سے بھی گیا گذرا ہو جاتا ہے۔بچپن میں اگر چہ شوخی،حرکت اور نشونما ہوتا ہے،لیکن بڑھاپے میں یہ باتیں نہیں۔نشو نما کی بجائے اب قویٰ میں تحلیل ہوتی ہے اور کمزوری کی وجہ سے سستی اور کاہلی پیدا ہونے لگتی ہے۔
بچہ اگر چہ نماز اور اس کے مراتب اور ثمرات اور فوائد سے ناواقف ہو گا یا ہوتا ہے۔لیکن اپنے کسی عزیز کو دیکھ کر ریس اور امنگ ہی پیدا ہو جاتی ہے،مگر اس پیرانہ سالی کے زمانہ میں تو اس کے بھی قابل نہیں رہتا ۲؎۔
حواس باطنی میں جس طرح اس وقت فرق آجاتا ہے حواس ظاہی میں بھی معمر ہو کر بہت کچھ فتور پیدا ہوجاتا ہے۔بعض اندھے ہو جاتے ہیں۔بہرے ہو جاتے ہیں۔چلنے پھرنے سے عاری ہ جاتے ہیں اور قسم قسم کی مصیبتوں اور دکھوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔غرض یہ زمانہ بھی بڑا ہی ردی زمانہ ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی زمانہ ہے جو ان دونوں کے بیچ کا زمانہ ہے یعنی شباب کا جب انسان کوئی کام کر کستا ہے،کیونکہ اس وقت قویٰ میں نشونما ہوتا ہے اور طاقتیں آتی ہیں،لیکن یہی زمانہ ہے جبکہ نفس امارہ ساتھ ہوت اہے اور وہ اس پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے اور اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے۔یہی زمانہ ہے جو مؤاخذہ کا زمانہ ہے اور خاتمہ بالخیر کے لیے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں،لیکن ایسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنم میں لے جائے گا اور شقی بناوے گا۔ہاں اگر عمد گی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانہ کو بسر کیا جاوے تو اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے کیونکہ ابتدائی زماہ تو بے خبری اور غفلت کا زمانہ ہے۔اﷲ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ نہ کرے گا۔جیسا کہ اس نے خود فرمایا
لا یکلف اﷲ نفسا الا وسعھا (البقرۃ : ۲۸۷)
اور آخری زمانہ میں گوبڑھاپے کی وجہ سے سستی اور کاہلی ہوگی،لیکن فرشتے اس وقت اس کے اعمال میں وہی لکھیں گے جو جوانی کے جذبات اور خیالات ہیں۔جوانی میںا گر نیکیوں کی طرف مستعد ارو خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ،اس کے احکام کی تعمیل کرنے والا اور نواہی سے بچنے والا ہے تو بڑھاپے میں گو ان کے اعمال کی بجا آوری میں کسی قدر سستی بھی ہو جاوے لیکن اﷲ تعالیٰ اسے معذور سمجھ کر ویسا ہی اجر دیتا ہے ؎ٰ۔
ہر شخص بدھے انسان کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسا از خود فتگی کا زمانہ ہے ۲؎۔ کوئی بات چشم دید کی طرف سمجھ میں نہیں آتی ہے۔اس لیے ان لوگوں پر خدا تعالٰی کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے۔جو ابتدائی زمانہ میں اس زمانہ کے لیے سعی کرتے ہیں۔اور اس زمانہ میں ان کے لیے وہی تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی بندگی لکھی جاتی ہے۔ غرض آخر وہی ایک زمانہ جو جوانی کے جذبات اور نفس امارہ کی شوخیوں کا زمانہ کچھ کام کرنے کا زمانہ ہے۔اس لیے اب سوچنا چاہیے کہ وہ کیا طریق ہے جس کو اختیار کرکے انسان کچھ آخرت کے لیے کما سکے۔
خاتمہ بالخیر کے حصول کے تین ذرائع
اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زمانہ جو شباب اور جوانی کا زمانہ ہے ایک ایسا زمانہ ہے کہ نفس امارہ نے اس کو ردی کیا ہوا ہے لیکن اگر کوئی کار آمد ایام ہیں تو یہی ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کی زبانی قرآن شریف میں درج ہے۔
وما ابری نفسی انا النفس لا مارۃ بالسوء الا ما رحم ربی (یوسف : ۵۴)
یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہرا سکتا کیونکہ نفس امارہ بدی کی طرف تحریک کرتا ہے۔اس کی اس قسم کی تحریکوں سے وہی پاک ہو سکتا ہے جس پر میرا رب رحم کرے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کی بدیوں اور جذبات سے بچنے کے واسطے نری کوشش ہی شرط نہیں بلکہ دعائوں کی بہت بڑی ضرورت ہے نرا زُہد ظاہری ہی (جو انسان اپنی سعی اور کوشش سے کرتا ہے) کار آمد نہیں ہوتا جبتک خدا تعالیٰ کا فضل اور رحم ساتھ نہ ہو اور اصل تو یہ ہے کہ اصل زہد اور تقویٰ تو ہے ہی وہی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اسی طرح ملتا ہے؛ ورنہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بہت سے جامے بالکل سفید ہوتے ہیں اور باوجود سفید ہونے کے بھی وہ پلید ہو سکتے ہیں تو اس ظاہری تقویٰ اور طہارت کی ایسی ہی مثال ہے؎ٰ؛ تاہم اس حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ ارو طہارت کے حصول کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی زمانہ شباب و جوانی میں انسان کوشش کرے جبکہ قویٰ میں قوت اور طاقت اور دل میں ایک اُمنگ اور جوش ہوتا ہے۔اس زمانہ میں کوشش کرنا عقلمند کا کام ہے اور عقل اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے دی ہے ۲؎
Amira 23-8-05
پہلا ذریعہ تدبیر
اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے (جیسا کہ میں پہلے کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں) اول ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے ورنہ وہ ضرور ہلاک ہوگا۔جوشخص دیدہ دانستہ بدراہ اختیار کرتا ہے یا کنوئیں میں گرتا ہے اور زہر کھاتا ہے وہ یقینا ہلاک ہوگا۔ایسا شخص نہ دنیا کے نزدیک اور نہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قابل رحم ٹھہرسکتا ہے اس لیے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لیے (جس کو اﷲ تعالیٰ نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آنیوالی نسلوں کے لیے ایک نمونہ ٹھہرے) کہ جہانتک ممکن ہے بد صحبتوں اور بد عادتوں سے پرہیز کریں ؎ٰ۔ اور اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں۔اس مقصد کے حاصل کر نیکے واسطے جہانتک تدبیر کا حق ہے تدبیر کرنی چاہیے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہیے۔
یاد رکھو تدبیر بھی ایک مخفی عبادت ہے اس کو حقیر مت سمجھو۔اسی سے وہ راہ کھل جاتی ہے جو بدیوں سے نجات پانے کی راہ ہے۔جو لوگ بدیوں سے بچنے کی تجویز اور تدبیر نہیں کرتے ہیں وہ گویا بدیوں پر راضی ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر خدا تعالیٰ اُن سے الگ ہو جاتا ہے ۲؎۔
میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفس امارہ کے پنجہ میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگ ہوا ہوتا ہے تو اس کا نفس امارہ خد اتعالیٰ کے نزدیک لوامہ ہو جاتا ہے اور ایسی قابل قدر تبدیلی پا لیتا ہے کہ یا تو وہ امارہ تھا جو *** کے قابل تھا ارو یا تدبیر اور تجویز کرنے سے وہی قابل *** نفس امارہ نفس لوامہ ہو جتا ہے جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اس کی قسم کھاتا ہے ۳؎۔ یہ کوئی چھوٹا شرف نہیں ہے۔پس حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حاصل کرنے کے واسطے اول یہ ضروری شرط ہے کہ جہاں تک بس چلے اور ممکن ہو تدبیر کرو اور بدی سے بچنے کی کوشش کرو۔بد عادتوں اور بد صحبتوں کو ترک کر دو۔ان مقامات کو چھوڑ دو جو اس قسم کی تحریکوں کا موجب ہو سکٰں جس قدر دنیا میں تدابیر کی راہ کھلی ہے اس قدر کوشش کرو اور اس سے نہ تھکو نہ ہٹو۔
دوسرا ذریعہ دعا
دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لیے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے ؎ٰوہ دعا ہے اس لیے جس قدر ہو سکے دعا کرو۔یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرب ارو مفید ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے۔
اد عونی استجب لکم (المومن : ۶۱)
تم مجھ سے دعا کرو میں تمہارے لیے قبول کروں گا۔دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہیے ۔۲؎دوسری قوموں کو دعا کی کوئی قدر نیں اور نہ انہیں اس پاک طریق پر کوئی فخر اور ناز ہو سکتاہے۔بلکہ یہ فخر اور ناز صرف اسلام ہی کو ہے دوسرے مذاہب اس سے بکلی بے بہرہ ہیں۔مثلا عیسائیوں نے جب یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک انسان (جس کو انہوں نے خدا مان لیا) نے ہمارے لیے قربانی دے دی ہے۔انہوں نے اس پر بھروسہ کر لیا اور سمجھ لیا کہ ہمارے سارے گناہ اس نے اُٹھا لیے ہیں۔پھر وہ کونسا امر ہے جو اس کو دعا کے لیے تحریک کرے گا۔نا ممکن ہے کہ وہ گدازش دل کے ساتھ دعا کرے۔دعا تو وہ کرتا ہے جو اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کو سمجھتا ہے،لیکن جو شخص اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کرتا ہے وہ دعا کیوں کرے گا۔اس نے تو پہلے ہی سمجھ لیا ہے کہ گناہ دوسرے شخص نے اُٹھالیے ہیں اور اس طرح پر اس کے ذمہ کوئی جواہدہی نہیں تو اس کے دل میں تحریک کس ططرح ہو گی۔اس نے اور شئے پر بھروسہ کر لیا ہے اور اس طرح پر اس طریق سے جو دعا کا طریق ہے وہ دور چلا گیا ہے ۳؎۔
غرض ایک عیسائی کے نزدیک دعا بالکل بے سود ہے اور و اس پر عمل نہیں کر سکتا۔اس کے دل میں وہ رقت اور جوش جو دع اکے لیے حرکت پیدا کرتا ہے نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح پر ایک آریہ جوتناسخ کا قاتل ہے اور سمجھتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہو سکتی اور کسی طرح پر اس کے گنہ معاف نہیں ہو سکتے وہ دعا کیوں کرے گا؟ اس نے تو یہ یقین کی اہوا ہے کہ جونوں کے چکر میں جانا ضروری ہے اور بیل۔گھوڑا۔گدھا۔گائے۔کتا۔سؤر وغیرہ بننا ہے۔وہ اس راہ کی طرف آئے گا ہی نہیں۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہد عا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے۔
مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہہ کر آستانۂ الوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لیے قوی اور مقتد خدا سے طاقت اور قوت ار مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں ا سکو موت کہہ سکتے ہیں۔جب یہ حالت میسر آجاوے تو یقینا سمجھو کہ باب ِ اجامت اس کے لیے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کیلیے عطا ہوتی ہے یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے۔
اس زمانہ کے لوگ دعا کی تاثیرات کے منکر ہو گئے ہیں
مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت وار حالت سے محض ناواقف ہیں۔اور اسی وجہ سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے منکر ہو گئے ہیں کیونکہ وہ اس تاثیرات کو نہین پاتے اور منکر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے۔پھر دعا کی کیا حاجت ہے،مگر میں خوب جانت اہوں کہ یہ تو نرا بہانہ ہے انہیں ثونکہ دعا کا تجربہ نہیں اس کی؎ٰ تاثیرات پر اطلاع نہیں اس لیے اس طرح کہہ دیتے ہیں ورنہ اگر وہ ایسے ہی متوکل ہیں تو پھر بیمار ہو کر علاج کیوں کرتے ہیں؟۔ خطرناک امراض میں مبتلا ہوتے ہیں تو طبیب کی رف دوڑے جاتے ہیں۔بلکہ میں سچ کہتاہوں کہ سب سے زیادہ چارہ کرنے والے یہی ہوتے ہیں۔سید احمد خاں بھی دعا کے منکر تھے، لیکن جب اُن کا پیشاب بند ہوا تو دلی سے معالج ڈاکٹر کو بلایا۔یہ نہ سمجھ لیا کہ خود بخود ہی پیشاب کھل جاوے گا؛ حالانکہ وہی خدا ہے جس کے ملکوت میں ظاہری دنیا ہے جبکہ دوسرے اشیاء میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ باطنی دنیا میں تاثیرات نہ ہوں۲؎۔ جن میں سے دعا ایک زبردست چیز ہے۔یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قضاو قدر میں سب کچھ ہے مگر کوئی یہ تو بتائے کہ خدا تعالیٰ نے وہ فہرست کس کو دی ہے جس سے معلوم ہو جاوے۔میں سچ کہتا ہوں کہ ان اسرار پر پر کوئی فتح نہیں پاسکتا ۔ظاہر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص قبض سے بیمار ہے تو تربدیا کسٹرائیل جب اس کو دیا جاوے گا تو اسے اسہال آجاویں گے۔اور قبض کھل جائے گی۔کیا یہ اس امر کا بین ثبوت نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے تاثیرات رکھی ہوئی ہیں۔
اسی طرح پر اور تدابیر کرنے والے ہیں۔مثلاً زراعت کرنے والے اور یہی معالجات کرنے والے وہ خوب جانتے ہیں کہ ان تدابیر کی وجہ سے اُنہوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور اشیء میں مختلف اثر دیکھے ہیں۔پھر جبکہ ان چیزوں میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دعائوں میں جو وہ بھی مخفی اسباب اور تدابیر ہیں اثر نہ ہوں؟ اثر ہیں اور ضرور ہیں ۔لیکن تھوڑے لوگ ہیں جیو ان تاثیرات سے واقف ارو آشنا ہیں اس لیے انکار کر
بیٹھتے ہیں۔
آدابِ دعا
میں یقینا جانتا ہوں کہ چونکہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو اس نقطہ سے جہاں دعا اثر کرتی ہے دور رہ جاتے ہٰں اور وہ تھک کر دعا چھوڑ دیتے ہیں اور خدو ہی یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ دعائوں میں کوئی اثر نہیں ہے۔میں کہت اہوں کہ یہ تو اُن کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے۔جب تک کافی وزن نہ ہو خاوہ زہر ہو یا تریاق اس کا اثر نہیں ہوتا۔کسی کو بھوک لگی ہوئی ہو اور وہ چاہے کہ ایک دانہ سے پیٹبھر لے یا تو لا بھر غذا کھالے تو کای ہو سکتاہے کہ وہ سیر ہو جاوے؟کبھی نہیں۔اسی طرح جس کو پیاس لگی ہوئی ہے ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس کب بُجھ سکتی ہے،بلکہ سیر ہوین کے لیے چاہیے کہ وہ کافی غذا کھاوے اور پیاس بجھانے کے واسطے لازم ہے کہ کافی پانی پیوے۔تب جاکر اس کی تسلی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح پر دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہیے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہیے جبتک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے۔جو لوگ تھک جاتے اور کھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں،کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشنای ہے۔میرے نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں خیالی بات نہیں۔جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو۔ اﷲ تعالیٰ دعا کے ذریعہ اُسے آسان کر دیتاہے۔میں سچ کہتاہوں کہ دعا بڑی زبردست اثر والی چیز ہے۔بیماری سے شفا اس کے ذریعہ ملتی ہے۔دنیا کی تنگیاں مشکلات اس سے دور ہوتی ہیں۔دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو دعا سے حاصل نہیں ہوتی۔سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے اور خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے۔گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے؎ٰ۔ بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پ ایمان ہے کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خد اہے۔
اﷲ تعالیٰ نے شروع قرآن ہی میں دع اسکھائی ہیجس سے معلوم ہوت اہے کہ یہ بڑی عظیم الشان اور ضروری چیز ہے۔اس کے بغی انسان کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
الحمد ﷲ رب العلمین۔ الرحمن الرحیم۔ مالک یوم الدین (الفاتحہ : ۲ - ۴)
اس میں اﷲ تعالیٰ کی چار صفات کو جوام الصفات ہیں بیان فرمایا ہے۔
رب العلمین ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذرہ ذرہ کی ربوبیت کر رہا ہے۔عالم اسے کہتے ہیں جس کی خبر مل سکے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دنای میں ایسی نہیں ہے جس کی ربوبیت نہ کرتا ہو۔ارواح اجسام وغیرہ سب کی ربوبیت کر رہا ہے۔وہی ہے جو ہر ایک ثیز کے حسبِ حال اس کی پرورش کرتا ہے جہاں جسم کی پرورش فرماتا ہے وہاں روح کی سیری اور تسلی کے لیے معارف اور حقائق وہی عطا فرماتا ہے۔
پھر فرمایا ہے کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اعمال سے بھی پیشتر اس کی رحمتیں موجود ہیں۔پیدا ہونے سے پہلے ہی زمین، چاند، سورج، ہوا،پانی وغیرہ جس قدر اشیاء انسان کے لیے ضروری ہیں موجود ہوتی ہیں۔
اور پھر وہ اﷲ رحیم ہے یعنی کسی کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلکہ پاداشِ عمل دیتا ہے۔
پھر مالک یوم الدین ہے یعنی جزا وہی دیتا ہے اور وہی یوم الجزاء کا مالک ہے۔اس قدر صفات اﷲ کے بیان کے بعد دعا کی تحریک کی ہے۔جب انسان اﷲ تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات پر ایمان لاتا ہے ، تو خواہ مخواہ روح میں ایک جوش اور تحریک ہوتی ہے اور دعا کے لیے اﷲ تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے۔
اس کے بعد اھدنا الصراط المستقیم کی ہدایت فرمائی ؎ٰ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔اس لیے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو۔
غرض اصلاحِ نفس کے لیے اور خاتمہ تبالخیر ہونے کے لیے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے۔اس میں جس قدر توکل اور یقین اﷲ تعالیٰ پر کریگا۔اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گااسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے۔تمام مشکلات دور ہو جائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلیٰ محل پر پہنچ جائے گا۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ جبتک خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا ۔نفسانی جذبات پر محض خدا تعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے اور یہ فضل اور جذبہ دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے۔
میں پھر کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور خصوصاً ہماری جماعت کو ہرگز ہرگز دعا کی بے قدری نہیں کرنی چاہیے۔کیونکہ یہی دعا تو ہے جس پر مسلمانوں کو ناز کرنا چاہیے۔ اور دوسرے مذاہب کے آگے تو دعا کے لیے گندے پتھر پڑے ہوئے ہیں ۲؎۔ اور وہ توجہ نہیں کر سکتے ۔ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ایک عیسائی جو خونِ مسیح پرایمان لا کر سارے گناہوں کو معاف شدہ سمجھتا ہے۔
Amira 25-8-05
اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دعا کرتا رہے۔اور ایک ہندو جو یقین کرتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہوتی اور تناسخ کے چکر سے رہائی ہی نہیں ہے وہ کیوں دعا کے واسطے ٹکریں مارتا رہے گا۔ وہ تو یقینا سمجھتا ہے کہ کتے،بلے،بندر،سؤر بننے سے چارہ ہی نہیں ہے۔اس لیے یاد رکھو کہ یہ اسلام کا فخر اور ناز ہے کہ اس میں دعا کی تعلیم ہے اس میں کبھی سستی نہ کرو اور نہ اس سے تھکو۔
پھر دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے؛ چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے
واذاسالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (البقرۃ : ۱۸۷)
یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہدو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں۔یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے۔اور علاوہ بریں دعائوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔
غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جابجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جر اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعائوں میں لگے رہو۔دعائوں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا۔
تیسرا ذریعہ صحبتِ صادقین
تیسرا پہلو؎ٰ جو قرآن سے ثابت ہے وہ صحبت صادقین ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
کونو امع الصادقین (التوبہ : ۱۱۹)
یعنی صادقوں کے ساتھ رہو۔صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ان کا نور صدق و استقلال دوسروں پر اثر ڈالتا ہے اور اُن کی کمزوریوں کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔
یہ تین ذریعے ہیں جو ایمان کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور اُسے طاقت دیتے ہیں اور جبتک ان ذرائع سے انسان فائدہ نہیں اُٹھتا اس وقت تک اندیشہ رہتا ہے کہ شیطان اس پر حملہ کر کے اسکے متاعِ ایمان کو چھین نہ لے جاوے اسی لیے بہت بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم کو رکھا جاوے اور ہر طرح سے شیطانی حملوں سے احتیاط کی جاوے۔جو شخص ان تینوں، ہتھیاروں سے اپنے آپ کو مسلح نہیں کرتا ہے مجھے اندیشہ یہ کہ وہ کسی اتفاقی حملہ سے نقصان اُٹھاوے۔
دفع شر کے بعد خیر اصل مقصد ہے
لیکن یہ بات یاد رکھو کہ کتابوں میں جب لکھا جاتا ہے کہ بدیاں چھوڑ دو اور نیکیاں کرو تو بعض آدمی اتنا ہی سمجھ لیتے ہیں کہ نیکیوں کا کمال اسی قدر ہے کہ جو مشہور بدیاں ہیں مثلا چوری، زنا، غیبت، بد دیانتی، بد نظری وغیرہ موٹی موٹی بدیوں سے بچتے ہیں تو اپنے آپ کو سمھنے لگتے ہیں کے تمام مدارج حاصل کر لیے ہیں اور ہم بھی کچھ ہو گئے ہیں۔حالانکہ اگر غور کر کے دیکھ اجاوے تو یہ کچھ بھی چیز نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چوری نہیں کرتے ہیں۔بہت سے ایسے ہیں جو ڈاکے نہیں مارتے یا خون نہیں کرتے یا بد نظری یا بدکاری کی بدعادتوں میں مبتلا نہیں ہیں۔زیادہ سے زیادہ اسے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ترکِ شر کیا ہے خواہ وہ عدمِ قدرت ہی کی وجہ سے ہو۔قرآن شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترکِ شر کرکے سمجھ لے کہ بس اب میں صاحب کمال ہو گیا، بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاقِ فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہے کہ اس سے ایسے اعمال و افعال سر زد ہوں جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور اُن کا نتیجہ یہ ہو کہ اﷲ تعالیٰ اس سے راضی ہو اجوے۔ میں اس بات کو بار بار کہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی اپنی ترقی اور کمال روحانی کی یہی انتہانہ سمجھ لے کہ میں نے ترکِ بدی کی ہے۔صرف ترک بدی نیکی کے کامل مفہوم اور منشاء کو اپنے اندر نہیں رکھتی۔بار بار ایسا تصور کرنا کہ میں نے خون نہیں کیا خوبی کی با ت نہیں کیونکہ خون کرنا ہر ایک شخص کا کام نہیں ہے۔یا یہ کہنا کہ زنا نہیں کای کیونکہ زنا کرنا تو کنجروں کا کام ہے نہ کہ کسی شریف انسان کا ۔ایسی بدیوں سے پرہیز زیادہ سے زیادہ انسان کو بدمعاشوں کے طبقے سے خارج کردے گا؎ٰ۔ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔مگر وہ جماعت (جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے کہ انہوں نے ایسے اعمالِ صالحہ کیے کہ خدا تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو گئے) صرف ترکِ بدی ہی سے نہ بنی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہیچ سمجھا۔خدا کی مخلوق کو نفع پہنچانے کے واسطے اپنے آرام و آسائش کو ترک کر دیا۔تب جا کر وہ ان مدارج اور مراتب پر پہنچے کہ آواز آگئی۔
رضی اﷲ عنہم ورضو اعنہ (البینۃ : ۹)
مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوںکی یہ حالت ہو رہی ہے کہ کسبِ خیر تو بڑی بات ہے اور وہی اصل مقصد ہے، لیکن وہ تو ترکِ بدی میں بھی سُست نظر آتے ہیں اور ان کاموں کا تو ذکر ہی کیا ہے جو صلحاء کے کام ہیں۔
پس تمہیں چاہیے کہ تم ایک ہی بات اپنے لیے کاھی نہ سمجھ لو۔ہاں اول بدیوں سے پرہیز کرو۔اور پھر ان کی بجائے نیکیوں کے حاصل کرنے کے واسطے سعی اور مجاہدہ سے کام لو اور پھر خدا تعالیٰ کی توفیق اور اس کا فضل دعا سے مانگو۔جبتک انسان ان دونوں صفات سے متصف نہیں ہوتا یعنی بدیاں چھوڑ کر نیکیاں حاصل نہیں کرتا وہ اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا۔مومن کامل ہی کی تعریف میں تو انعمت علیہم فرمایا گیا ہے۔اب غور کرو کہ کیا اتنا ہی انعام تھا کہ وہ ثوری چکاری رہزنی نہیں کرتے تھے یا اس سے کچھ بڑھ کر مراد ہے؟ نہیں۔ انعمت علیہم میں تو وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات رکھے ہیں جو مخاطبہ اور مکالمہ الٰہیہ کہلاتے ہیں۔؎ٰ
اگر اسی قدر مقصود ہوتا جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرنا ہی کمال انعمت علیہم کی دعا کی تعلیم نہ ہوتی جس کا انتہائی اور آخری مرتبہ اور مقام خدا تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ یہ۔انبیاء علیہم السلام کا اتنا ہی تو کمال نہ تھا۔کہ وہ چوری چکاری نہ کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت صدق، وفا میں پنا نظیر نہ رکھتے تھے۔پس اس دعا کی تعلیم سے یہ سکھایا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شئے ہے۔جبتک انسان اُسے حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک وہ نیک اور صالح نہیں کہلا سکتا اور منعم علیہ کہ زمرہ میں نہیں آتا۔ اس سے آگے فرمایا
غیر المغضوب علیہم والا الضالین (الفاتحہ : ۷)
اس مطلب کو قرآن شریف نے دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل دوشربتوں کے پنے سے ہوتی ہے ایک شربت کا نام کافوری ہے اور دوسرے کا نام زنجیلی ہے۔کافوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لیے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو۔جس طرح پر کافور میں یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے مواد کو دبا دیتا ہے۔اسی لیے اُسے کافور کطرح پر یہ کافوری شربت گناہ اور بدی کی زہر کو دبا دیتا ہے اور وہ موادِ ردّیہ جو اُٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں ان کو اُٹھنے نہی دیتا بلکہ بے اثر کر دیتا ہے۔دوسرا شربت زنجیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کے لیے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی ہے۔پس
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ: ۶، ۷)
تو اصل مقصد اور غرض ہے یہ گویا زنجیلی شربت ہے اور
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین (الفاتحہ : ۷)
کافوری شربت ہے۔