• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 4

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 4

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ و نصلِّی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
ملفوظات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۲؍مئی ۱۹۰۴ء؁
دعا ہی خدا شناسی کا ذریعہ ہے
ایک ریئسں کا یہ خیال ُسنکر کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ دُعا سے مشکل حل ہوتی ہے ، اُن کو بہت ہی کمزور کرنے والا ہے۔
آپؑ نے فرمایا کہ:
جو دُعا سے منکر ہے وہ خدا سے منکر ہے۔ صرف دعا ہی ذریعہ خدا شناسی کا ہے۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ اْس کی ذات کو طوعاً وکر ہاً مانا جاوے۔ اصل میں سب جگہ دہریّت ہے۔ آجکل کی محفلوں کا یہ ہال ہے کہ دعا ، توکّل اور انشا اﷲ کہنے پر تمسخر کرتے ہیں۔ ان باتوں کو بیوقوفی کہا جاتا ہے ، ورنہ اگر خدا سے اُن کو ذرا بھی اُنس ، ہوتا، تو اس کے نام سے کیوں چِڑتے؟ جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ ہیرپھیر سے کسی نہ کسی طرح سے محبوب کا نام لے ہی لیتا ہے۔ اگر ان کے نزدیک خدا کوئی شے نہیں ہے۔ تو اب موت کا دروازہ کُھلا ہے اسے ذرا بند کر کے تو دکھلاویں۔ تعجب ہے کہ ہمیں جس قدر اس کے وجود پر امیدیں ہیں اسی قدر وہ دوسرا گروہ اس سے ناامید ہے۔ اصل میں خدا کے فضل کی ضرورت ہے۔ اگر وہ دل کے قفل نہ کھولے تو اور کون کھول سکتا ہے۔ اگر وہ چاہے توایک کُتے کو عقل دے سکتا ہے کہ اس کی باتوں کو سمجھ لیوے اور انسان کو محروم رکھ سکتا ہے۔
طاعون کو گالی دینا منع ہے
طاعون کو سب و شتم کرنا منع ہے، کیونکہ وہ توما مور ہے۔ہاں خدا سے صُلح کرنی چاہیے کہ وہ اسے ہٹا لیوے۔
۴؍مئی ۱۹۰۴ء؁
خدا تعالیٰ کی وحی پر کامل ایمان
آج کو مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے منیجرو ایڈیٹر رسالہ ریویوآف ریلیجنز کی طبیعت علیل ہو گئی اور دردِ سراور بخار کے عوارض دیکھ کر مولوی صاحب کوشُبہ گذرا کہ شاید طاعون کے آثار ہیں۔ جب اس بات کی خبر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ہوئی تو آپ فوراً مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ:
میرے دار میں ہو کر اگر آپ کو طاعون، ہو تو پھر
انی احافظ کل من فی الدار
الہام اور یہ سب کاروبار گویا عبث ٹھہرا۔ آپ نے نبض دیکھ کر ان کو یقین دلایا کہ ہر گز بخار نہیں ہے۔ پھر تھرمامیٹر لگا کر دکھایا کہ پارہ اس حد تک نہیں ہے، جس سے بخار کا شبہ، ہو اور فرمایا کہ میرا تو خدا کی وحی پر الیسا، ہی ایمان ہے جیسے اس کی کتابوں پر ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: کہ
ان دنوں لوگوں کو اور بعض جماعت کے آدمیوں کو بھی طرح طرح کے شکوک و شبہات پیش آرہے ہیں۔ اس لیے میرا ارادہ ہے کہ ایک رسالہ لکھ کر اصل حقیقتِبیعت اور الہامات سے اطلاع دی جاوے۔ جس سے لوگوں کو معلوم ہو کہ بعض لوگ بیعت میں داخل ہو کر کیوں طاعون سے مرتے ہیں۔؟
ایک نشان
فرمایا :
ان دنوں ایک دفعہ میری بغل میں ایک گِلٹی نکل آئی۔ میں نے اسے مخاطب ہو کر کہا کہ تو کون ہے ۔ جو مجھے ضرر دے سکے اور خدا کے وعدہ کو ٹال سکے ۔ تھوڑے عرصہ میں وہ خودبخود ہی بیٹھ گئی۔
آگ ہماری غلام، بلکہ غلاموں کی غلام ہے
فرمایا:
مّدت کا یہ میرا الہام ہے کہ ’’آگ سے ہمیں مت ڈرا۔آگ ہماری غلام بلکہ غلاموںکی غلام ہے ‘‘۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے حدیث شریف میں ہے کہ بعض بہشتی بطور سیر دوزخ کو دیکھنا چاہیں گے اور اس میں اپنا قدم رکھیں گ، تو دوزخ کہے گی کہ تونے مجھے سَرد کر دیا۔ یعنی بجائے اس کے کہ دوزخ کی آگ اُسے جلاتی۔ خادموں کی طرح آرام وہ ہو جاوے گی۔
عادت اﷲ یہی ہے کہ دوناریں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مُحبّتِ الہٰی بھی ایک نار ہے اور طاعون کو بھی نارلکھا ہے۔ لیکن ان مین سے ایک تو عذاب ہے اور دوسری انعام ہے، اسی لیے طاعون کی نار کی ایک خاص خصُوصیت خدا تعالیٰ نے رکھی ہے۔ اس میں آگ کو جو غلام کہا گیا ہے۔ میرا مذہب اس کے متعلق یہ ہے کہ اسما ء اور علام کو ان کے اشتقاق سے لینا چاہیے۔ غلام غلمہ سے نکلا ہے۔ جس کے معنے ہیں کسی شیٔ کی خواہش کے واسطے نہایت درجہ مضطرب ہونا یا ایسی خواہش جو کہ حد سے تجاوز کر جاتی ہے اور انسان پھر اس سے بیقرار ہو جاتا ہے۔ اور اسی لیے غلام کا نفظ اس وقت صادق آتا ہے جب انسان کے اندر نکاح کی خواہش جوش مارتی ہے۔ پس طاعون کا غلام اور غلاموں کی غلام کے بھی یہی معنے ہیں کہ جو شخص ہم سے ایک ایسا تعلق اور جوڑ پیدا کرتا ہے جو کہ صدق و وفا کے تعلقات کے ساتھ حد سے تجاوز ہوا ہو اور کسی قسم کی جدائی اور دُوئی اس کے رگ وریشہ میں نہ پائی جاتی ہو اسے وہ ہرگز کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اور جو ہمارا مرید الہیٰ محبت کی آگ سے جلتا ہو گا اور خدا کو حقیقی طور پر پا لینے کی خواہش کحمال درجہ پر اس کے سینہ میں شعلہ زن سو گی۔ اسی پر بیعت کا لفظ حقیقی طور پر صادق آوے گا۔ یہا نتک کہ کسی قسم کے ابتلا کے نیچے آکر وہ ہر گز متزلزل نہ ہو بلکہ اور قدم آگے بڑھاوے۔ لیکن جبکہ لوگ ابھی تک اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر وہ ابتلا میں آجاتے ہیں اور عتراض کر نے لگتے ہیں تو پھر وہ اس آگ سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں۔
بیعت کی حقیقت
بیعت کا لفظ ایک وسیع معنے رکھتا ہے اور اس کا مقام ایک انتہائی تعلق کا مقام ہے کہ جس سے بڑھ کر اور کسی قسم کا تعلق ہوہی نہیں سکتا۔
بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ ہماے نُور کی پوری روشنی میں نہیں ہیں۔ جب تک انسان کو ابتلا کی برداشت نہ ہو اور ہر طرح سے وہ اس میں ثابت قدمی نہ دکھاسکتا ہو۔ تب تک وہ بیعت میں نہیں ہے۔ پس جو لوگ صدق و صفا میں انتہائی درجہ پر پہنچے ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو امتیاز میں رکھتا ہے۔ طاعون کے ایام میں جو لوگ بیعت میں داخل کرتا ہے۔ جب یہ خوف جاتا رہا تو پھر اپنی پہلی حالت پر عود کر آویں گے۔ پس اس حالت پر عود کر آویں گے۔ پس اس حالت میں ان کی بیعت کیا ہوئی؟
؎ٰ البدر جلد ۳ نمبر ۱۸-۱۹ صفہ ۴ ، ۶۱؍مئی ۱۹۰۴ء؁
۸؍مئی ۱۹۰۴ء؁
طاعون کا نشان اور جماعت احمدیہ
حضرت حجتہ اﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام گورداسپور تھے۔ ہمارے مکرم خلیفہ رجب الدین صاحب تاجر برنج لاہور بھی شرفِ نیاز کے لیے آئے ہوئے تھے۔ خلیفہ صاحب ایک روشن خیال اور ذی فہم آدمی ہیں وہ لاہور کے حالات کا ذکر کرتے رہے کہ وہاں کے مسلمانوں کی عجیب حالت ہو رہی ہے۔ ہر اتوار کو زیارتیں نکال کر باہر لے جاتے ہیں۔ اور اس فعل کو دفعیئہ طاعون کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس حالت پر خلیفہ صاحب افسوس کر رہے تھے اور اپنے مختلف حالات سناتے رہے۔ آخر آپ نے عرض کیا:
خلیفہ صاحب: طاعون میں بعض مقامات پر جو ہمارے احباب مرتے ہیں اور لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا کیا جواب دیا جاوے؟
حضرت اقدس:اصل بات یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کسی مامور کو دنیا میں بھیجتا ہے تو سنّت اﷲ یہی ہے کہ تنبیہہ کے لیے کوئی نہ کوئی عذاب بھی بھیجتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے۔ جب اس کی مخالفت حدسے بڑھ جاتی ہے اور شوخی اور شرارت میں اہلِ دنیا بہت ترقی کر جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے بکلّی دور جا پڑتے ہیں۔ وہ عذاب اگر چہ سرکش منکرین کے لیے ہوتا ہے مگر سنت اﷲ یہی ہے کہ مامور کے بعض متبعین بھی شہید ہو جاتے ہیں وہ عذاب اَوروں کے لیے عذاب ہوتا ہے ، مگر ان کے لیے باعثِ شہادت۔ چنانچہ قرآن شریف صاف طور پر بتاتا ہے کہ کفار جو باربار عذاب مانگتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے بتایا تھا کہ تم پر عذاب بصورت جنگ نازل ہو گا۔ آخر جب وہ سلسلہ عذاب کا شروع ہوا۔ اور کفار کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی لڑائیاں ہونے لگیں، تو کون کہہ سکتا ہے کہ ان جنگوں میں صحابہؓ شہید نہیں ہوئے؛ حالانکہ یہ مسلم بات ہے کہ وہ تو کفار پر عذاب تھا اور خاص ان کے لیے ہی آیا تھا۔ مگر صحابہؓ کو بھی چشمِ زخم پہنچا اور بعض جو علمِ الہیٰ میں مقدر تھے، شہید ہوگئے۔ جن کی بابت خود اﷲتعالیٰ نے فرمایا:
لا تقو لو المن یقتل فی سبیل اﷲ اموات۔(البقر:۱۵۵) بل احیاء عند ربہم یر زقون۔
(ال عمران: ۱۷۰)
یعنی جو لوگ اﷲتعالیٰ کی راہ میں قتل کیے جاویں ان کو مردے مت کہو بلکہ وہ تو اﷲتعالیٰ کے نزدیک زندہ ہیں۔ اور اسی جگہ ان کی نسبت فرمایا:
فرحین بما اتھم اﷲ (آل عمران: ۱۷۱)
اب بتائو کہ وہ جنگ ایک ہی قسم کا تھا، لیکن وہ کفار کے لیے عذاب تھا مگر صحابہؓ کے لیے باعثِ شہادت۔ اسی طرح پر اب بھی حالت ہے۔ لیکن انجام کا ر دیکھنا چاہیے کہ طاعون سے فائدہ کس کو رہتا ہے۔ ہم کو یا ہمارے مخالفین کو۔ اس وقت معلوم ہوگا کون کم ہوئے اور کون بڑھے۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت خدا کے فضل سے غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ طاعون ہی ہے۔ بعض ایسے لوگوں کی درخواستیں بیعت کے واسطے آئی ہیں۔ جو طاعون میں مبتلا ہو کر لکھتے ہیں کہ اس وقت مجھے طاعون ، ہوا ہواہے۔اگر زندہ ہا تو پھر آکر بھی بیعت کر لوں گا۔فی الحال تحریری کرتا ہوں۔ طاعون کے ذریعہ کئی ہزار آدمی اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔
خلیفہ صاحب: وہ جنگ تو اعلائِ کلتمہ اﷲ کے لیے تھا۔
حضرت اقدس: یہ طاعون بھی اعلائِ کلتمہ اﷲ کے لیے ہی ہے۔ خداتعالیٰ نے دو نشان مسیح موعود کی سچائی کے لیے زمینی اور آسمانی اور بہت سے نشانوں کے سوا مقرر کئے تھے۔ آسمانی نشان تو کسوف و خسوف کا تھا جو رمضان کے مہینہ میں واقع ہو گیا۔ جس طرح پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا تھا۔ دوسرا زمینی نشان طاعون کا تھا۔ وہ بھی پورا ہو گیا ابھی طاعون کا پنجاب میں نام و نشان بھی نہ تھا۔ جب میں نے اس کی خبردی تھی۔ اس وقت شتاب کار لوگوں نے جلدبازی کی اور خداتعالیٰ کے اس بزرگ نشان دو ہنسی میں اڑانا چاہا۔ مگر اب گو وہ زبان سے اقرار نہ کریں، مگر ان کے دلوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ پیشگوئی جو طاعون کے متعلق تھی پوری ہو گئی۔ اس نشان سے اعلائِ کلمتہ اﷲ اس طرح پر ہو گا کہ لوگ آخر جب اس کو عذاب الہٰی سمجھ کر اس کے موحیات پر غور کریں گے اور شرارت و استہزاء چھوڑ کر خداتعالیٰ کی طرف آیئں گے اور سمجھ لیں گے کہ خدا حق ہے تو اس سے اعلائِ اﷲ ہو گا یا نہیں؟
جیسا کہ میں نے ابھی ہا ہے یہ طاعون ہمارے لیے کام کر رہی ہے۔ اگر اس گروہ میں ایک شہید ہو جاتا ہے تو اس کے قائمقام ہزار آتے ہیں۔ یہ نادانوں کا شُبہ فضول ہے کہ کیوں مرتے ہیں۔ہم کہتے ہیں صحابہؓ جنگ میں کیوں شہید ہوتے تھے؟ کسی مولوی سے پوچھو کہ وہ جنگ عذاب تھی یا نہیں؟ ہر ایک کو کہنا پڑیگا کہ عذاب تھی۔ پھر ایسا اعتراض کیوں کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلّم پر جا پڑتا ہے، لیکن اگر کوئی کہے کہ پھر نشان مشتبہ ہو جاتاہے۔ ہم کہتے ہیں کہ نشان مشتبہ نہیں ہوتا۔ اس واسطے کہ انجامکار کفار کا ستیاناس ہو گیا اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور اسلام ہی اسلام نظر آتا تھا؛چنانچہ آخر
اذاجاء نصر اﷲ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اﷲافواجا (النصر۲،۳)
کا نظارہ نظر آگیا۔ اسی طرح پرطاعون کا حال ہے ۔ اس وقت لوگوں کو تعجب معلوم ہوتا ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آتا ہے، جب طاعون اپنا کام کر کے چل جائے گی۔ اس وقت معلوم ہو گا کہ اس نے کس کو نفع پہنچایا اور کون خسارہ میں رہے گا۔ یہ اس زمانہ کے لیے ایک عظیم الشان نشان ہے جس کا ذکر سارے نبی کرتے چلے آئے ہیں اور طاعون سے اس قدر جلدی لوگ حق کی طرف آرہے ہیں کہ پہلے نہیں آرہے تھے۔
خلیفہ صاحب : حضور! کیا ایسے لوگ مامون ہوجایئںگے؟
حضرت اقدس : اس میں کیا شک ہے کہ وہ امن میں تو ہو گئے۔ اگر اس سلسلہ میں ہو کر ان میں سے کوئی مر بھی جاوے، تو وہ شہادت ہو گی اور خدا کے مامور پر ایمان لا نے کا یہ فائدہ تو حاصل ہو گیا۔ میں نے جس قدر طاعون کے متعلق کھول کھول کر بیان کیا ہے کسی نے نہیں کیا۔ متواتر میں اس پیشگوئی کو شائع کر تا رہا اور خداتعالیٰ نے مختلف رنگوں میں مختلف اوقات میں اس کے متعلق مجھ پر کھولا اور میں نے لوگوں کو سنایا۔
یامسیح الخلق عدوانا۔
بہت پُرانا الہام ہے جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے۔ پھر وہ سیاہ پودوں والی رئویا اور ہاتھی والی رئویا۔ غرض یہ طاعون خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آئی ہے اور اپنا کام کر رہی ہے۔بعض لوگ شرارت سے کہتے ہیں کہ یہ طاعون ان کی شامت اعمال سے آئی ہے ۔ یہ تو وہی بات ہے جیسے حضرت موسٰیؑ کو الزام دیا تھا۔ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ یہ عجیب بات ہے کہ شامت اعمال تو ہماری وجہ سے آئی ہے اور ہماری حفاظت کو خداتعالیٰ ایک نشان قرار دیتا ہے اور مررہے ہیں دوسرے۔
اس وقت ایک خاص تبدیلی کی ضرورت ہے۔ خداتعالیٰ کا غضب بھڑکا ہوا ہے۔ جواب بھی تبدیلی نہین کرتے۔ خداتعالیٰ ان کی پروا نہیں کرے گا۔
ان اﷲ لایغیرمابقوم حتی یغیرو امابانفسہم۔
اسی طاعون کے متعلق میرا الہام ہے۔ ؎ٰ
بخاری میں ہے کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے مجھے مومن کی جان لینے میں تردو ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اﷲتعالیٰ مومن کویکدفعہ نہیں پکڑتا۔ پکڑتا ہے پھر اس کے ساتھ نرمی کرتا ہے۔ پھر پکڑتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے۔ یہ حالت گویا تردو سے مشابہ ہے۔
پہلی کتابوں میں بھی اس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ خدا پچھتایا۔میرے الہام میں بھی
افطرواصوم
اسی رنگ کے الفاظ ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں، جس مومن کے وجود خلق اﷲ کا نفع ہو اور اس کی موت شماتت کا باعث ہو وہ کبھی طاعون سے نہیں مرے گا۔ میں جانتا ہوں اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابھی تک کوئی ایسا آدمی طاعون سے نہیں مرا جس کو میں پہچانتا ہوںیا وہ مجھے پہچانتا ہو جو شناخت کا حق ہے۔
مامورین کا خاص نشان:
امام اور پیشوا وہی ہو سکتا ہے جو اﷲتعالیٰ کے اِذن اور حکم سے مامور ہو کر آوے۔ اس میں اﷲتعالیٰ ایک جذب کی قوت رکھ دیتا ہے۔جس کی وجہ سے سعادت مند روحیں خواہ وہ کہیں ہوں اس کی طرف کھچی چلی آتی ہیں۔ جذب کا پیدا ہونا اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ بناوٹ سے یہ بات پیدا نہیں ہو سکتی۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جو لوگ خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں وہ اس بات کے حریص اور آرزُ ومند نہیں ہو تے کہ لوگ ان کے گرد جمع ہوں اور اس کی تعریفیں کریں بلکہ ان لوگوں میں طبعاً مخفی رہنے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ دنیا سے الگ رہنے میں راحت سمجھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السام جب مامور ہو نے لگے تو انھوں نے بھی عُذر کیا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم غارمیں رہا کرتے تھے۔ وہ اس کو پسند کرتے تھے۔ مگر اﷲتعالیٰ خود ان کو باہر نکالتا ہے اور مخلوق کے سامنے لاتا ہے۔ ان میں ایک حیا ہوتی ہے۔ اور ایک انقطاع ان میں پایاجاتا ہے؛ چونکہ وہ انقطاع اور صفائی قلب اﷲتعالیٰ کی نظرمیں ان کو پسندیدہ بنا دیتی ہے اور ان کو اصلاح خلق کے لیے برگزیدہ کرلیتا ہے۔ جیسے حاکم چاہتا ہے کہ اسے کارکن آدمی مل جاوے اور جب وہ کسی کارکن کو پالیتا ہے، تو خواہ وہ انکار بھی کردے مگر وہ اسے منتخب کر ہی لیتا ہے۔ اسی طرح اﷲتعالیٰ جن لوگوں کو مامور کرتا ہے وہ ان کے تعلقاتِ صافیہ اور صدق و صفاکی وجہ سے انہیں اس قابل پاتا ہے کہ انہیں اپنی رسالت کا منصب سپرد کرے۔
یہ بالکل سچی بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر ایک قسم کا جبر کیا جاتا ہے۔ وہ کوٹھڑیوں میں بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور اسی میں لذت پاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی کو ان کے حال پر اطلاع نہ ہو، مگر اﷲتعالیٰ جبراً ان کو کوٹھڑی سے باہر نکالتا ہے۔ پھر ان میں ایک جذب رکھتا ہے اور ہزار ہا مخلوق طبعاً ان کی طرف چلی آتی ہے۔ اگر فریب ہی کا کام ہو تو پھر وہ سرسبز کیوں ہو۔ پیراور گدی نشین آرزو رکھتے ہیں کہ لوگ ان کے مرید ہوں اور ان کی طرف آویں۔ مگر مامور اس شہرت کے خواہشمند نہیں ہوتے۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ مخلوقِ الہیٰ اپنے خالق کو پہچانے اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلے۔ وہ اپنے دل میں بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ چیز ہی نہیں ہیں۔ خداتعالیٰ بھی ان کو ہی پسند کرتا ہے۔ کیونکہ جب تک ایسا مخلص نہ ہو کام نہیں کر سکتا۔ ریا کار جو خدا کی جگہ اپنے آپ کو چاہتے ہیں وہ کیا کر سکتے ہیں۔ اس لیے خدا ان کو پسند کرتا ہے۔ کیونکہ وہ دنیا کے آسائش و آرام کے آرزو مند نہیں ہوتے۔
ریا کاری ایک بہت بڑا گند ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریا کار انسان فرعون سے بھی بڑھ کر شقی اور بدبخت ہوتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کی عظمت اور جبروت کو نہیں چاہتے بلکہ اپنی عزت اور عظمت منوانا چاہتے ہیں۔ لیکن جن کو خدا پسند کرتا ہے وہ طبعاً اس سے متنفر ہوتے ہیں۔ ان کی ہمت اور کوشش اسی ایک امر میں صرف ہوتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال ظاہر ہو اور دنیا اس سے واقف ہو۔ وہ ایسی حالت میں ہوتے ہیں اور پسند کرتے ہیں کہ دنیا ان کو نہ پہچان سکے، مگر ممکن نہیں ہوتا کہ دنیا ان کو چھوڑ سکے کیونکہ وہ دنیا کے فائدہ کے لیے آتے ہیں۔ ان لوگوں کے جو دشمن اور مخالف ہوتے ہیں ان سے بھی ایک فائدہ پہنچتا ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کے نشانات ان کے سبب سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اور حقائق و معارف کھلتے ہیں۔ ان کی چھیڑ چھاڑ سے عجیب عجیب انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر الوجہل وغیرہ نہ ہوتے تو قرآن شریف کے تیس سیپارے کیونکہ ہوتے؟ ابوبکر رضی اﷲعنہ کی سی فطرت والے ہی اگر سب ہوتے تو ایک دم میں وہ مسلمان ہوجاتے۔ ان کی کسی نشان اور معجزہ کی حاجت ہی نہ ہوتی۔ پس ہم ان مخالفوں کے وجود کو بھی بے مطلب نہیں سمجھتے۔ ان کی چھیڑ چھاڑ اﷲتعالیٰ کے ماموروں کا یہ خاص نشان ہوتاہے کہ وہ اپنی پرستش کرنا نہیں چاہتے۔ جس طرح پر وہ لوگ جو پیر بننے کے خواہشمند ہیں چاہتے ہیں۔ اگرکوئی شخص اپنی پوجا کر ائے تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے انسان کے بچے اس پوجا کے مستحق نہ ہوں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ایک مرید اس مرشدسے ہزار درجہ اچھا ہے جو مکر کی گدی پر بیٹھا ہوا ہو کیونکہ مرید کے اپنے دل میںکھوٹ اور دغا نہیں ہے۔ خداتعالیٰ اخلاص کو چاہتا ہے۔ ریاکاری پسند نہیں کرتا ہے۔
۹؍ مئی ۱۹۰۴ء؁ بمقام گورداسپور
طاعون کا عذاب
ایک ہندو ریئس کے بعض استفسارات کے جوابات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام درختوں کے سایہ میں حسب معمول تشریف فرماتھے:
کہ دینانگر کے دو ہندو ریئس آپ کی زیارت کو تشریف لائے۔ ان کے ساتھ بھی چند آدمی تھے۔ انھوں نے نہایت ادب اور احترام کے ساتھ سلام عرض کیا اور پھر طاعون کی مصیبت کا رونا رونا شروع کیا کہ بڑا اختلاف مذاہب کا ہو گیا ہے۔ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا:
اس زمانہ میں نِرا اختلافِ مذاہب ہی نہیں۔ اختلاف مذاہب کے سوا لوگوں نے خداتعالیٰ کہ بالکل چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے خداتعالیٰ نے اپنی سنت کے موافق یہ عذاب نازل کیا ہے۔ کیونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے۔ شرارتوں اور چالاکیوں کی کوئی حد نہیں رہی ہے۔ طاعون کو اﷲتعالیٰ نے مامور کرکے بھیجا ہے جو اس کے نوکر کی طرح ہے۔ خداتعالیٰ کے حکم کے بغیر تو ایک پتہ اور ذرہ بھی حرکت نہیں کر سکتا۔ یہ اور بدبختی ہے کہ باوجود یکہ طاعون ایک خطرناک ڈرانے والا ہے مگر اس پر بھی خداتعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خداتعالیٰ کی باتوں کو ہنسی اور ٹھٹھے میں اڑاتے ہیں۔ خداتعالیٰ سے نہیں ڈرتے اور دل پاک و صاف نہیں کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ نے مجھے خبردی ہے کہ جبتک اہلِ دنیا اپنی اصلاح اور تبدیلی نہیں کریں گے اس وقت تک اس عذاب کو نہیں اٹھائے گا۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کو اس طرف بھی بالکل توجہ نہیں ہے۔ جب کسی گائوں یا شہر میں بیماری پڑتی ہے تو چند روز کے لیے ایک خوف پیدا ہوتا ہے۔ مگر وہ خوف بھی اﷲتعالیٰ کے واسطے نہیں اور نہ ایسا کہ اس کے ذریعہ کوئی اصلاح کریں بلکہ موت کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ہم بھی مرنہ جاویں اور یہ جائداد اور اسباب کسی دوسرے کے قبضہ میں نہ چلا جاوے۔ یو نہی ذراسا وقفہ ہوتاہے۔ پھر وہی شرارت اور شوخی۔ اور نہیں ڈرتے کہ اس کے دورے بہت لمبے ہوتے ہیں۔
ریئس : جناب! بظاہر زمانہ اچھا بھی معلوم ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ بھگتی وغیرہ کرتے ہیں
حضرت اقدس : دل نہیں ہیں۔ جوکچھ ہے پوست ہی پوست ہے۔ ظاہر داری کے طور پر اگر کچھ کیا جاتا ہے تو کیا جاتاہے۔ دل والے روح ہی اور ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں صاف ہوتی ہیں۔ ان کی زبان صاف ہوتی ہے۔ ان کے چال چلن میں ایک خاص امتیناز ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اﷲتعالیٰ سے لرزاں ترساں رہتے ہیں۔ نرِی زبان درازی سے کوئی اﷲتعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتا۔ مجازی حکام کو جو اصل حالات سے نا واقف ہیں کوئی خوش کر لیوے۔ مگر اﷲتعالیٰ کی نظر تو دل پر ہے اور وہ دل کے مخفی خیالات تک کو جانتا ہے۔ پس جب تک انسان سچے دل سے خداتعالیٰ کی طرف نہیں آتا۔ ریاکاری اور طاہر داری سے کچھ نہیں بنتا۔ خداتعالیٰ سچی تبدیلی چاہتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ابھی وہ پیدا نہیں ہوئی۔ جب لوگ تبدیلی کریں گے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کچھ بھی حصہ لوگوں کا دُرست ہو جاوے گا تو اﷲتعالیٰ رحم کرے گا۔ یہ تو اور بھی چالاکی ہے کہ لوگوں کے سامنے نیک بنتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا متقی اور خدا ترس ظاہر کرتے ہیں اور اندرونی طور پر بڑی خرابیاں ان میں موجود ہوتی ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے ظاہری بحث و مباحثہ می ہزاروں مذاہب پیدا ہو گئے ہیں۔ مگر خداتعالیٰ دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھ معاملہ کیساہے۔ اگر اﷲتعالیٰ سے معاملہ صاف نہ ہو تو یہ چالاکیاں اور بھی خداتعالیٰ کے غضب کو بھڑ کاتی ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ انسان خدا ساتھ معاملہ صاف کرے اور پوری فرمانبرداری اور اخلاص کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرے اور اس کے بندوں کو بھی کسی قسم کی اذیت نہ دے۔ ایک شخص گیروی کپڑے پہن کر یا سبز لباس کر کے فقیر بن سکتا ہے اور دنیا دار اس کو فقیر بھی سمجھ لیتے ہیں مگر خداتعالیٰ تو اس کو خوب جانتا ہے کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے اور وہ کیا کررہا ہے۔ پس طاعون کا اصل اور صحیح علاج یہی ہے کہ انسان خداتعالیٰ کے حضور اپنے کناہوں سے توبہ کرے اور اس کی حدبندیوںکو نہ توڑے اور اس کی مخلوق کے ساتھ رحم کرے بدمعا ملگی نہ کرے۔ یہ سب کام اخلاص کے ساتھ کرے دکھانے کی نیت سے نہ کرے۔ اگر اس قسم کی تبدیلی کرے گا، تو می یقین رکھتاہوں کہ اﷲتعالیٰ رحم کے ساتھ اس پر نظر کرے گا۔
ریئس: جناب لوگ باہر جاتے ہیں اور اس کو بھی مفید سمجھتے ہیں۔مگر مولوی لوگ مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم گھوں سے نکلنے میں خدا کے ساتھ شِرک کرتے ہو۔ مولویوں کے ایسے فتوے دینے سے بھی بہت سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
حضرت اقدس: اﷲتعالیٰ تو علاج سے منع نہیں کرتا ہے۔ علاج بھی اسی نے رکھے ہیں۔
لوگ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے واسطے قسم قسم کے منسوبے کرتے ہیں۔ اور یا کاری سے کام لیتے ہیں۔ مگر جب تک خداتعالیٰ کسی کو منتخب اور بر گزیدہ نہ کرے کچھ نہیں ہو سکتا۔ دیکھو کسی کو بھوک پیاس لگتی ہے تو وہ روٹی کھاتا ہے یا پانی پیتا ہے۔ اسی طرح پر بیماریوں کے علاج بھی ہیں اور اشیاء میں خواص بھی اسی کے رکھے ہوتے ہیں۔ مولویوں کی غلطی ہے جو ایسا کرتے ہیں اور لوگوں کو تباہ کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ تو منع کرتا ہے کہ انسان عذاب کی جگہ پر رہے۔ لیکن ہان جب بیماری شدت کے ساتھ پھیل جاوے تو یہ مناسب نہیں کہ انسان اس گائوں یا شہر سے نکل کر کسی دوسرے گائوں یا شہر میں جاوے اور یہ اس لیے منع ہے کہ جو لوگ وبازوہ گائوں سے نکلتے ہیں وہ متاثر آب و ہوا سے نکل کر دوسری جگہ کو متاثر کرتے ہیں اور پھر بیمار ہو کر مرجاتے ہیں۔ ایسا ہی یہ بھی منع ہے کہ جہاں وبا پڑی ہوئی ہو وہاں بھی کوئی آدمی تندرست جگہ سے نہ جاوے، لیکن یہ کبھی منع نہیں ہے کہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر باہر کھلے میدانوں میں اور کھیتوں میں نہ جاویں بلکہ یہ ضروری ہے اور اس سے عموماً فائدہ پہنچتا ہے۔ جہاں طاعون ہو فوراً اس گھر کو خالی کر دینا چاہیے۔ اور باہر کھیتوں یا کھلے میدانوں میں بیشک چلے جائو۔ بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے۔
ریئس : جناب تعجب ہی ہے کہ خدا کے ہوتے یہ غضب ہو رہا ہے۔
حضرت اقدس : یہ خدا تعالیٰ کی باتیں ہیں ان میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ خداتعالیٰ نے تو خود دنیا پر یہ غضب نازل کیا ہے۔ اگر لوگ خداتعالیٰ کے وجود پر ایمان لاتے تو اس قدر شرارتیں جو زمین پر ہو رہی ہیں۔ نہ کرتے اور خداتعالیٰ کے غضب سے ڈرجاتے، مگر آپ دیکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا اقرار کر کے پھر دنیا پر ظلم اور فساد ہو رہا ہے اور خداتعالیٰ کے حکموں کی ہرگز پابندی نہیں کی جاتی۔ تو یہ تو ایک قسم کی خداتعالیٰ کے ساتھ بھی ہنسی ہے پھر خداتعالیٰ اس کو کب پسند کر سکتاہے۔ اب یہ غضب آیا ہے جو دنیا کو سیدھا کرے گا۔ خود اسی نے بھیجا ہے۔ وہ اپنے اسرار کو آپ ہی جانتا ہے۔ ہم لوگوں کو اس کی قدرتوں میں دخل دینے کا کیا حق ہے۔جب وقت آجائے گا وہ خد رحم فرمائے گا اور اس عذاب کو اٹھالے گا۔وہ ظالم نہیں ہے وہ توارحم الراحمین ہے۔
ریئس : حضور اب تو رحم ہونا چاہیے۔ آپ ہی کچھ کریں۔
حضرت اقدس : میں دیکھتا ہوں کہ ابھی دنیا کی اصلاح ہونی ضروری ہے ۔ ہم تو خداتعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے ہر ایک فعل کو سرسرا حکمت سمجھتے ہیں۔ یہ عذاب جو اس نے نازل کیا ہے یہ بھی حکمت سے خالی نہیں ہے۔ لوگوں کے اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ان کو تکلیف نہیں ہے۔ اگر وہ تکلیف کو محسوس کر لیتے تو میں دیکھتا کہ ان میں تبدیلی شروع ہو جاتی مگر ایسا نہیں ہے۔ رہا ہمارا رحم۔ یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم اس کی قضاو قدر پر ہر طرح راضی ہیں اور اسے دیکھتے ہیں؛ البتہ جب وہ خود ہمارے دل میں یہ بات ڈالے گا تو ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری دعائوں کو سُن لے گا اور سب کچھ کر دیگا۔ فی الحال تو جو ہو رہا ہے اس کی عین مرضی کے موافق ہے۔ جب تک وہ پسند کرے گا ہوتا رہے گا۔ اصل علاج یہی ہے کہ خداتعالیٰ سے صلح کی جاوے۔
اس تقریر کے بعد ریئس مذکور اپنے احباب کو لے کر نیازمندی سے سلام کرکے رخصت ہوا۔
طاعون سے محفوظ رہنے کے لیے زیارتیں لیکر نکلنا
لاہور میں جو لوگ طاعون سے محفوظ رہنے کے لیے نماز پڑھنے کے واسطے زیارتیں لے کر نکلتے ہیں۔ ان کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس پر فرمایا:
جو لوگ اب باہر جاکر نمازیں پڑھتے ہیں اور زیارتیں نکالتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے ساتھ پوری صفائی نہیں کرتے۔ سچی تبدیلی کا ارادہ نہیں معلوم ہوتا؛ ورنہ پھر وہی شوخی، بیبا کی کیوں نظر آرہی ہے۔ اگر سچی تبدیلی ہو تو ممکن نہیں کہ طاعون نہ ہٹ جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف جب میں کہتا ہوںکہ سچی تبدیلی کرو اور استغفار کرو۔ خداتعالیٰ سے صلح کرو تو میری ان باتوں پرہنسی کرتے ہیںاور ٹھٹھے اڑاتے ہیں اور اب خود بھی دعا ہی اس کا علاج بتاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ طاعون ان کے ہی سبب سے آیا ہے کیونکہ انھوں نے جھوٹے دعوے کئے تھے۔ مجھے ان کی اس بات پر بھی تعجب اور افسوس آتا ہے کہ میں تو جھوٹے دعوے کرکے سلامت بیٹھا ہوں؛ حالانکہ بقول ان کے طاعون میرے ہی سبب سے آیا ہے اور مجھے ہی حفاظت کا وعدہ دیا جاتاہے۔یہ عجیب معاملہ ہے۔ یہ بات تو ان عدالتوں میں بھی نہیں ہوتی کہ صریح ایک مجرم ہو وہ چھوڑ دیا جاوے اور بے گناہ کوپھانسی دے دی جاوے۔ پھر کیا خداتعالیٰ کی خدائی ہی میں یہ اندھیر اور ظلم ہے کہ جس کے لیے طاعون بھیجا جاوے وہ تو محفوظ رہے اور اس کو سلامتی کا وعدہ دیا جاوے اور وہ ایک نشان ہو اور دوسرے لوگ مرتے رہیں؟ میں کہتا ہوں اسی ایک بات کو لیکر کوئی شخص انصاف کرے اور بتاوے کہ کیا ہو سکتا ہے کہ جو شخص اﷲتعالیٰ پر افترا کرے وہ سلامت رہے اور اس کو یہ وعدہ دیا جاوے کہ تیرے گھر میں جو ہوگا وہ بھی بچایا جاوے گا اور دوسروں پر چُھری چلتی رہے؟ یہ تو وہی شیعوں کی سی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبوت دراصل حضرت علیؓ کو ملنی تھی اور انہیں کے واسطے جبریل ؑ لائے تھے مگر غلطی سے آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کو دے دی اور تیئس سال تک برابر یہ غلطی چلی گئی اور اس کی اصلاح نہ ہوئی۔ ایسا ہی اب بھی غلطی لگ گئی۔ جن کی حفاظت کرنی تھی وہ تو مر رہے ہیں اور جو حفاظت کے لائق نہ تھے۔ ان کی حفاظت کا وعدہ ہو گیا۔ بھلا اس قسم کی باتوں پر کوئی تسلی پا ساکتا ہے؟
طاعون سے معجزا نہ حفاظت
ایک امر تسری ملا کا ذکر آیا کہ وہ کہتا ہے کہ ایک سال گذر گیا تو کیا ہوا۔ ابھی آگے دیکھنا چاہیے۔ فرمایا: وہ تو ایک سال کہتا ہے۔ ہم تو یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ بالکل سچا ہے اور سے کے دورے تو ستر ستر سال تک ہوتے ہیں۔ وہ منتظررہیں اور دیکھیں کیا، ہوتا ہے۔ ہم بھی ان کے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔ وہ ہماری نسبت اگر کوئی خبر خداتعالیٰ سے پا چکے ہیں، تو شائع کر دیں۔ ہم کو تو جو کچھ خداتعالیٰ نے بتایا ہے ہم نے تو اس کر دیا ہے۔ اور دنیا کو معلوم ہو گیا ہے۔ وہ صبر کے ساتھ اب انجام تک دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے۔
یہ لوگ ہماری نسبت طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں۔ وہ آخر ان پر ہی لوٹ کر پڑتی ہیں۔ ایک بٹالوی مولوی نے ایک مرتبہ کہا کہ قادیان میں طاعون پڑی ہوئی ہے اور خود ان کو بھی گلٹی نکلی ہوئی ہے۔ یہ ان کی اَمانی ہیں۔ کیا گِلٹی اﷲتعالیٰ کے حکم کے بغیر نکل سکتی ہے؟ جب تک آسمان پر تغیر نہ ہو زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا ۔ ان دونوں جب قادیان میں طاعون پڑی ہوئی تھی۔ ہم خداتعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ دیکھ رہے تھے۔ ہمارے گھر کے اِدھر اُدھر سے چیخیں آتی تھیں۔ اور ہمارا گھر درمیان میں اس طرح تھا جیسے سمندر میں کشتی ہوتی ہے۔ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے اسے محفوظ رکھا جیسا اس نے فرمایا تھا۔ اور آئندہ بھی ہم اس کے فضل و کرم سے یقین رکھتے ہیں کہ ہماری حفاظت فرمائے گا۔
ہندوئوں کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا
اس کے بعد ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ، ہندوئوں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا: شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے۔ ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو
قدافلح من زکھا ( الشمس:۱۰)
پر زور دیا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گذارہ تو نہیں ہوتا ہے۔
تسبیح شماری
ایک شخص نے تسبیح کے متعلق پوچھا کہ تسبیح کرنے کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتاہے۔ اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرے اور یا توجہ کرے۔ اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پوری کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا۔ انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اﷲتعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اﷲتعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انھوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ اہل حق تو ہر وقت خداتعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے گنتی کا سوال اور خیال ہی بیہودہ ہے۔ کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گن کر لیا کرتا ہے؟ اگر سچی محبت اﷲتعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ الی اﷲ ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہوگا۔ وہ تو اسی ذکر کو اپنی روح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے کرے گا۔ زیادہ لطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اس میں اور ترقی کرے گا۔ لیکن اگر محض گنتی مقصود ہو گی تو وہ اسے ایک بیگار سمجھ پورا کرنا چاہے گا۔؎ٰ
نماز کے بعد تسبیح
ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر ۳۳ مرتبہ اﷲ اکبر وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے۔ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا : آنخضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وعظ حسبِ مراتب ہوا کرتا تھا اور اسی حفظ مراتب نہ کر نے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انھوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے؛ حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقعہ کے ہوتی تھی ۔ مثلاً ایک شخص آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزت نہیں کرتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزت کر۔ اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک دیا جاوے۔ یہی نیکی ہے۔ ایسا نہیں۔ اسی طرح تسبیح کے متعلق بات ہے۔ قرآن شریف میں تو آیا ہے۔
واذکرواﷲکثیرالعلکم تفلحون۔(انفال : ۴۶)
اﷲتعالیٰ کا بہت ذکر کرو تا کہ فلاح پائو۔ اب یہ
واذکرواﷲکثیرا
نماز کے بعد ہی ہے تو ۳۳ مرتبہ توکثیرکے اندر نہیں آتا۔ پس یاد رکھو کہ ۳۳ مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے؛ ورنہ جو شخص اﷲتعالیٰ کو سچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے، اسے شمار سے کیا کام۔ وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا۔
ایک عورت کا قصّہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی۔ اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے پھیر رہا ہے۔ اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں۔ عورت نے کہا کا یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر؟
درحقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گن گن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الہیٰ کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا ہے حاصل نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اﷲعلیہ و سلم نے جو ۳۳ مارتبہ فرمایا ہے وہ آنی اور شخصی بات ہو گی کہ کوئی کہ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگا توآپؐ نے اسے فرما دیا کہ ۳۳ مرتبہ کر لیا کر۔ اور یہ تو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں۔ یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کے حالات سے آشنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپؐ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا۔ وہ تو اﷲتعالیٰ کی راہ میں فنا تھے۔ انسان کو تعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کہتی ہیں کہ ایک رات آپ صلی اﷲعلیہ و سلم میرے گھر میں تھے۔ رات کو جب میری آنکھ کھلی تو میں نے آپؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا۔ مجھے خیال گذرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے؛ چنانچہ میں نے سب گھروں میں دیکھا، مگر آپؐ کو نہ پایا۔ پھر میں باہر نکلی تو قبرستان میں دیکھا کہ آپ سفید چادر کی طرح پر زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گرے ہوئے کہہ رہے ہیں
سجدت لک روحی و جنافی
اب بتائو کہ یہ مقام اور مرتبہ ۳۳ مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتی ہے۔ ہرگز نہیں۔
جب انسان میں اﷲتعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے۔ وہ ذکرِ الہیٰ کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سے اسے ہوتا ہے وہ کبھی روارکھ سکتا ہی نہیں کہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے۔ کسی نے کہا ہے۔من کا منہکاصاف کر۔
انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے۔ تب وہ کیفیت پیدا ہوگی اور ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا۔
تعداد رکعات
پوچھا گیا کہ نمازوں میں تعداد رکعات کیوں رکھی ہے؟ فرمایا :
اس میں اﷲ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں۔جو شخص نماز پڑھے گا۔وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر رہے گا ہی۔اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے۔لیکن وہ حد وہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے۔جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔جب وہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ بس کر جاتا ہے۔
دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں۔جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے۔اصل غرض ذکر الٰہی سے یہ ہے کہ انسان اﷲ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے۔اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔تذکرۃ اواولیاء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودا لیا اور ستر ہزار کا دیا مگر وہ ایک آن میں بھی خدا سے جدا نہیں ہوا۔پس یاد رکھو کہ کامل بندے اﷲ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے۔
لا تلھیہم تجارۃ والا بیع عن ذکر اﷲ (النور : ۳۸)
جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے‘ کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں۔وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ صوھی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہنسنے میں ہے۔وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں، کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے۔یہی مفہوم اور غرض اسلام کی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر اپنا سر رکھ دیتا ہے۔؎ٰ
۱۶؍مئی ۱۹۰۴ء؁ بمقام گورداسپور
اعلیٰ حضرت حجتہ اﷲ مسیح موعود ؑ احاطہ کچہری میں رونق افروز تھے۔وقتاً فوقتاً جو کچھ آپ نے فرمایا۔ ہدیۂ ناظرین ہے۔(ایڈیٹر الحکم)
دنیا کی مشکلات اور تلخیاں دنیا کی تلخیوں اور ناکامیوں پر فرمایا کہ :
مثنوی میں لکھا ہے ؎
دشت دنیا جزدو و جز دام نیست
جز بخلوت گاہ حق آرام نیست
فرمایا:
دنیاکے مشکلات اور تلخیاں بہت ہین۔یہ ایک دشت پر خار ہے۔اس میں سے گذرنا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔گذرنا تو سب کو پڑتا ہے، لیکن راحت اور اطمینان کے ساتھ گذرجانا یہ ہر ایک شخص کو میسر نہیں آسکتا۔یہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اپنی زندگی کو ایک فانی اور لاشئی سمجھ کر اﷲ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے لیے اسے وقف کر دیتے ہیں اور اس سے سچا تعلق پیدا کر لیتے ہیں‘ ورنہ اسنان کے تعلقات ہی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی تلخی اس کو دیکھنی پڑتی ہے۔بیوی اور بچے ہوں تو کبھی کوئی بچہ مر جاتا ہے تو صدمہ برداشت کرتا ہے۔لیکن اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعالق ہو تو ایسی ایسے صدمات پر ایک خاص صبر عطا ہوتا ہے۔جس سے وہ گھبراہٹ اور سوزش پیدا نہیں ہوتی جو ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پس جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے منشاء کو سمجھ کر اس کی رضا کے لئے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں۔وہ بیشک آرام پاتے ہیں‘ ورنہ ناکامیاں اور نامرادیاںزندگی تلخ کر دیتی ہیں۔
ایک کتاب میں ایک عجیب بات لکھی ہے کہ ایک شخص سڑک پر روتا ہوا چلا جارہا تھا۔راستہ میں ایک ولی اﷲ اس سے ملے۔انہوں نے پوچھا کہ تو کیوں روتا ہے۔اس نے جواب دیا کہ میرا دوست مر گیا ہے۔اس نے جواب دیا کہ تجھ کو پہلے سوچ لینا چاہیے تھا۔مرنے والے کے ساتھ دوستی ہی کیوں کی؟
دنیا عجیب مشکلات کا گھر ہے۔بیوی بثوں کے نہ ہونے سے بھی غم ہتوا ہے اور اگر ہوں تب بھی مشکلات پیدا ہوتے ہیں۔ان کی ضروریات کے پورا کرنے کے لئے بعض نادان انسان عجیب عجیب مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں اور صراط مستقیم سے ہٹ کر ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال بہم پہنچاتے ہیں اور پھر اور مشکلات میں پھنستے ہیں۔ایک فقیر ننگ دھڑگن جس کے پاس ستر پوشی کے سوا اور کوئی کپڑا تک نہ تھا خوش و خرم کھیلتا کودتا جارہا تا۔کسی سوار نے اس سے پوچھا کہ سائیں صاحب آپ ایسے خوش کیوں ہیں؟ اس نے کہا کہ جس کی مرادیں حاصل ہو جائیں وہ خوش ہوتا ہے کہ نہیں؟ سوار نے کہا کہ تیری ساری مرادیں کس طرح پوری ہو گئی ہیں؟ اس نے کہا کہ جب خواہشیں چھوڑ دیں تو مرادیں پوری ہو گئیں۔
بات بالکل ٹھیک ہے۔انسان دو طرح ہی خوش ہو سکتا ہے یا تو حصول مراد کے ساتھ یا ترک مراد کے ساتھ اور ان میں سہل طریق ترک مراد کا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ سب کی زندگی تلخ ہے بجز اس کے جو اس دنیا کے علاقوں سے الگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بادشاہوں نے بھی ان تلخیوں اور ناکامیوں سے عاجز آکر خودکشی کر لی ہے۔
لذات دنیا کی مثال
دنیا کی لذت خارش کی طرح ہے۔ابتداء لذت آتی ہے۔پھر جب کھجلاتا رہتا ہے تو زخم ہو کر اس میں سے خون نکل آتا ہے۔یہاںتک کہ اس میں پیپ پڑ جاتی ہے اور وہ نا سور کی طرح بن جاتا ہے اور اس میں درد بھی پیدا ہو جاتا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ یہ گھر بہت ہی ناپائیداد اور بے حقیقت ہے۔مجھے کئی بار خیال آیا ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کسی مردے کو اختیار دیدے کہ وہ پھر دنیا میں چلا جاوے تو وہ یقینا تو بہ کر اُٹھے کہ میں اس دنیا سے باز آیا۔خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو تو انسان ان مشکلات دنیا سے نجات پاسکتا ہے،کیونکہ وہ درد مندوں کی دعائوں کو سن لیتا ہے مگر اس کے لئے یہ شرط ہے کہ دعائیں مانگنے سے انسان تھکے نہیں تو کامیاب ہوگا۔اگر تھک جاوے گا تو نری ناکامی نہیں بلکہ ساتھ بے ایمانی بھی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بدظن ہو کر سلب ایمان کر بیٹھے گا۔مثلا ایک شخص کو اگر کہا جاوے کہ تو اس زمین کو کھود ۔خزانہ نکلے گا مگر وہ دوچار پانچ ہاتھ کھودنے کے بعد اُسے چھوڑ دے اور دیکھے کہ خزانہ نہیں نکلا تو وہ اس نامرادی اور ناکامی پر ہی نہ رہے گا بلکہ بتانے والے کو بھی گالیاں دے گا‘ حالانکہ یہ اس کی اپنی کمزوری اور غلطی ہے جو اُس نے پورے طور پر نہیں کھودا۔اسی طرح جب انسان دعا کرتا ہے اور تھک جاتا ہے تو اپنی نامرادی کو اپنی سستی اور غفلت پر توحمل نہیں کرتا،بلکہ خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے اور آخر بے ایمان ہو جاتا ہے اور آخر دہریہ ہو کر مرتا ہے۔
نیم ملاں خطرۂ ایمان
جہاں حضور بیٹھے ہوئے تھے وہاں سامنے ایک آم کا درخت تھا جس کو کچے پھل لگے ہوئے تھے۔ان کو دیکھ کر فرمایا :
دیکھو۔اس آم کو پھل لگا ہوا ہے مگر یہ کچا پھل ہے۔اگر کوئی اس کو کھانے بیٹھ جاوے اور اس کو ہی اصل مقصد سمجھ لے تو بجز اس کے کہ اس کے کھانے سے پھنسیاں وغیرہ نکل آویں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔اسی طرح پر نیم ملاں خطرۂ ایمان والی مثال سچ ہے۔نار سیدہ منزل کچے پھل کی طرح ہوتا ہے۔وہ جو کسی کو بات سنائے گا تو اسے گمراہ کرے گا اور اگر خود کرے گا تو آپ گمراہ ہوگا۔
خدا تعالیٰ کی راہ میں جبتک انسان بہت سی مشکلات اور امتحانات میں پورا نہ اُترے وہ کامیابی کا سرٹیفیکیٹ حاصل نہیں کر سکتا۔اسی لیے فرمایا
احسب الناس ان یتر کو اان یقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ محض اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے کہ وہ کہدیں کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں۔ایسے لوگ جو اتنی بات پر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں وہ یاد رکھیں انہی کے لیے دوسری جگہ آیا ہے۔
وما ھم بمومنین (البقرۃ : ۹)
اور ایسا ہی ایک جگہ فرمایا :
قالت الاعراب امنا۔قل لم تو منو ا ولکن قولو ااسلمنا (الحجرات : ۱۵)
یعنی تم یہ نہ کہو کہ ایماندار ہو گئے بلکہ یہ کہو کہ ہم نے مقابلہ چھوڑ دیا ہے اور اطاعت اختیار کر لی ہے۔بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کامل ایماندار بننے کے لیے مجہدات کی ضرورت ہے اور مختلف ابتلائوں اور امتحانوں سے ہوکر نکلنا پڑتا ہے ؎
گویند سنگ لعل شود در مقام صبر
آرے شود ولیک بخون جگر شود
فوٹو گرافی
منشی نظیر حسین صاحب نے سوال کیا کہ میں فوٹو کے ذریعہ تصویر اتارا کرتا تھا۔اور دل میں ڈرتا تھا کہ کہیں یہ خلاھ شرع نہ ہو۔لیکن جناب کی تصویو دیک کر یہ وہم جاتا رہا۔فرمایا :
انما الاعمال بالنیات
‏Amira 2-6-05
ہم نے اپنی تصویر محض اس لحاظ سے اتروائی تھی کہ یورپ کو تبلیغ کرتے وقت ساتھ تصویریں بھیج دیں، کیونکہ ان لوگوں کا عام مذاق اس قسم کا ہوگیا ہے کہ وہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی اس کی تصویر دیتے ہیں جس سے وہ قیافہ کی مدد سے بہت سے صحیح نتائج نکال لیتے ہیں۔مولوی جو میری تصویر پر اعتراض کرتے ہیں۔وہ خود اپنے پاس روپیہ پیسہ کیوں رکھتے ہیں کیا ان پر تصویریں نہیں ہوتی ہیں۔
اسلام ایک وسیع مذہب ہے۔اس میں اعمال کا مدار نیات پر رکھتا ہے۔بدر کی لڑائی میں ایک شخص میدان جنگ میں نکلا جو اترا کر چلتا تھا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو یہ چال بُری ہے۔کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
ولا تمش فی الارض مرحا۔ (بنی اسرائیل : ۳۸)
مگراس وقت یہ چال خدا تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہے کیونکہ یہ اس کی راہ میں اپنی جان تک نثار کرتا ہے اور اس کی نیت اعلیٰ درجہ کی ہے۔
غرض اگر نیت کا لحاظ نہ رکھا جائے تو بہت مشکل پڑتی ہے۔اسی طرح پر ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جن کاتہ بند نیچے کو ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جاویں گے۔حضرت ابو بکر ؓ یہ سن کر رو پڑے کیونکہ اُن کا تہ بند بھی ویسا تھا۔آپؐ نے فرمایا کہ تُو اُن میں سے نہیں ہے۔غرض نیت کو بہت بڑا دخل ہے اور حفظ مراتب ضروری شئے ہے۔
منشی نظیر حسین صاحب : میں خود تصویر کشی کرتا ہوں۔اس کے لیے کیا حکم ہے؟
فرمایا :
اگر کفر اور بُت پرستی کو مدد نہیں دیتے۔تو جائز ہے۔آخکل نقوش و قیافہ کا علم بہت بڑھا ہوا ہے۔؎ٰ
بلا تاریخ
اہل اﷲ اور ریا
حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں نے حضرت مسیح موعودؑ سے پوچھا کہ کیا کبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ میں بھی ریا آوے؟
اس پر حضور نے فرمایا :
کبھی چڑیا خانہ گئے ہو؟ میں کہا کہ ہاں۔ فرمایا :
دیکھو وہاں شیر‘ چیتے اور دوسرے حیوانات ہوتے ہیں۔کبھی یہ خیال وہاں جا کر دل میں آسکتا ہے کہ ان کے سامنے لمبی لمبی نمازیں پڑھیں؟ کبھی یہ خیال وہاں جا کر ریاکار سے ریاکار کے دل میں بھی نہیں آسکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ حیوانات ہماری جنس سے تو نہیں ہیں تو پھر ریاکہاں رہی؟ ریا تو ہم جنسوں سے ہوتی ہے تو اہل اﷲ کس سے ریا کریں۔اُن کے سامنے دوسرے لوگوں کی وہی مثال ہے جیسے چڑیا خانہ میں جانور بھرے ہوئے ہیں۔
اپنے الہامات پر کامل ایمان
مولانا موصوف۔ نے ف رمایا کہ ایک دن کی مجھے بات یاد ہے کہ کسی نے ذکر کیا کہ منشی الٰہی بخش اور اس کا ترجمان منشی عبد الحق کہتا ہے کہ الہام وہ ہے جو پورا ہو جاوے اور جو نہ ہووے وہ شیطانی کام ہے۔حضرت نے فرمایا کہ :
مکہ معظمہ میں داخل ہو کر اگر خدا تعالیٰ کی قسم دی جاوے تو میں کہوں گا کہ میرے الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔جس شخص نے خیالی طور پر دعویٰ کیا ہو وہ ہر گز یہ جرأت نہین کر سکتا۔کبھی وہ شخص جو کامل یقین رکھتا ہو اور وہ جو مشکوک ہے برابر ہو سکتے ہیں؟
عہد دوستی
مولانا موصوف نے کاہ کہایک دفعہ حضرت اقدس نے خاص طو رپر مجھے مخاطب کر کے فرمایا :
’’میرے خلق کی پیروی کر‘‘
میں نے عرض کی کہ دعا کریں۔فرمایا کہ :
اگر کسی نے ایک بار میرے عہد دوستی باندھا ہو تو مجھے اس قدر اس کی رعایت ہوتی ہے کہ اگر اُس نے شراب پی ہوئی ہو تو بھی میں بلاخوف لَوْمَتَہ لَائم اُسے اُٹھالائوں گا۔یعنی جب تک وہ خود ترک نہ کرے ہم خود نہ چھوڑیں گے۔پس اگر کوئی اپنے بھائیوں کو ترک کرے گا۔ وہ سخت گنہگار ہوگا۔
اشداء علی الکفار
مولانا موصوھ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
مومن مومن کبھی نہیں ہو سکتا جب تک کہ کفر اس سے مایوس نہ ہو جاوے۔فتح مسیح کو ایک بار ہم نے رسالہ بھیجا۔اس پر اُس نے لیکریں کھینچ کر واپس بھیج دیا اور لکھا کہ جس قدر دل آپ نے دکھایا ہے کسی اور نے نہیںدکھیا۔دیکھو رسول کریم ﷺ کے دشمن نے خود اقرار یکر لیا کہ ہامرا دل دکھا۔پس ایسی مضبوطی ایمان میں پیدا کرو کہ کفر مایوس ہو اجوے کہ میرا قابو نہیں چلتا۔ اشد اء علی الکفار کے یہ معنی بھی ہیں۔
قبولیت دعا کی شرط طاعون کا ذکر تھا۔کثرت اموات پر ذکر کرتے کرتے فرمایا :
دعائیں کرتے رہو۔بجز اس کے انسان مکر اﷲ سے بچ نہیں سکتا۔مگر دعائوں کی قبولیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے‘ تو دعائوں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔
خدا تعالیٰ کی شناخت کا وقت فرمایا :
اس وقت دنیا میں خدا تعالیٰ کا وجود ثابت ہو رہا ہے؛ اگر چہ لوگ برائے نام خدا تعالیٰ کے قائم، مگر اصل بات یہ ہے کہ ایک قسم کی دہریت پھیل رہی تھی اور خدا تعالیٰ سے بکلی دور جا پڑے ہیں مگر اب وقت آگیا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں۔خدا تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو توڑنا اس سے بڑھ کر خباثت کیا ہوگی۔یہ تو اس کا مقابلہ ہے۔؎ٰ
۲۰؍مئی ۱۹۰۴ء؁ بمقام گورداسپور
نومبائعین کو نصائح
بعد نماز عصر حیدر آباد دکن کے چند احباب نے بیعت کی۔بیعت کے بعد تقریری کرتے ہوئے حضور ؑ نے فرمایا :
آپ نے جو مجھ سے آج تعلق بیعت کیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ کچھ بطور نصیحت چند الفاظ تمہیں کہوں۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ پر ایمان رکھے اور پھر قرآن کریم پر غور کرے کہ خدا تعالیٰ نے کیا کچھ قرآن مجید میں فرمایا ہے تو وہ شخص دیوانہ وار دنیا کو چھوڑ خدا تعالیٰ کا ہو جائے۔یہ بالکل سچ کہا گیا ہے کہ دنیا روزے چند عاقبت با خداوند۔اب خدا تعالٰی کے کلام سے ظہر ہوتا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آنا چاہتا ہے اور فی الواقعہ اس کا دل ایسا نہیں کہ اس نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل سزا ٹھہرتا ہے۔ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں کہ اس کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے جب تک کاھی حصہ اپنا ان کی طلب میں خرچ نہ کر دیں‘ وہ مقاصد حاصل ہونے نا ممکن ہیں۔مثلاً اگر طبیب ایک دوائی اور اس کی ایک مقدار مقرر کر دے اور ایک بیمار وہ مقدار دوائی کی تو نہیں کھاتا بلکہ تھوڑا حصہ اس دوائی اور ا ستعمال کرتا ہے تو اس کو کیا فائدہ اس سے ہوگا؟ ایک شخص پیاسا ہے تو ممکن نہیں کہ ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس دور ہو سکے۔اسی طرح جو شخص بھوکا ہے وہ ایک لقمہ سے سیر نہیں ہو سکتا۔اسی طرح خدا تعالیٰ یا اس کے رسولؐ پر زبانی ایمان لے آنا یا ایک ظاہری رسم کے طور پر بیعت کر لینا بالکل بے سود ہے۔جبتک انسان پوری طاقت سے خدا تعالٰ کی راہ میں نہ لگ جاوے۔نفس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ انسان پورے طور پر وہ حصہ لے جو روحانی زندگی کے لیے ضروری ہے۔صرف یہ خیال کہ میں مسلمان ہوں کافی نہیں۔
میں نصیحت کرتا ہوں کہ آ؁ نے جو تعلق مجھ سے پیدا کیا ہے (خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے) اس کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی فکر میں ہر وقت لگے رہیں۔لیکن یاد رہے کہ صرف اقرار ہی کافی نہیں جبتک عملی رنگ سے اپنے آپ کو رنگین نہ کیا جاوے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
احسب الناس ان یتر کوا ان یقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
یعنی کیا انسانوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہم آمنا ہی کہہ کر چھٹکارا پالیں گے اور کیا وہ آزمائش میں نہ ڈالے جائیں گے۔سو اصل مطلب یہ ہے کہ یہ آزمائش اسی لیے ہے کہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا ایمان لانے والے نے دین کو ابھی دنیا پر مقدم کیا ہے یا نہیں؟ آج کل اس زمانہ میں جب لوگ خد اتعالیٰ کی راہ کو اپنے مصالح کے خلاف پاتے ہیں یا بعض جگہ حکام سے ان کو کچھ خطرہ ہوتا ہے تو وہ خد اکی راہ سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔ایسے لوگ بے ایمان ہیں۔وہ نہیں جانتے کہ فی الواقعہ خد اہی احکم الحاکمین ہے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ بہت دشوار گذار ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی کھال اپنے ہاتھ سے نہ اُتارلے تب تک وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں ہوتا۔ہامرے نزدیک بھی ایک بے وفا نوکر کسی قدر و منزلت کے قابل نہیں ۔جو نوکر صدق اور وفا نہیں دکھلاتا وہ کبھی قبولیت نہیں پاتا۔اسی طرح جنات الٰہی میں وہ شخص پر لے درجہ کا بے ادب ہے جو چند روزہ دنیوی منافع پر نگاہ رکھ کر خدا تعالیٰ کو چھوڑتا ہے۔
بیعت کی حقیقت
بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔یہ بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں چل کر انجام کر کوئی شخص نقصان اٹھاوے۔صادق کبھی نقصان نہیں اٹھاسکتا۔نقصان اسی کا ہے جو کاذب ہے۔جو دنیا کے لیے بیعت کو اور عہد کو جو اﷲ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے توڑرہا ہے۔وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے۔وہ یاد رکھے بوقت موت کوئی حاکم یا بادشاہ اسے نہ چھڑا سکے گا۔اس نے احکم الحاکمین کے پاس جانا ہے جو اُس سے دریافت کریگا کہ تو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا؟ اس لیے ہر مومن کے لیے ضروری ہے کہ خدا جو ملک السموات و الارض ہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ امر بھی یونہی حاصل نہیں ہوتا۔خدا ہی یہ امر دل میں بٹھئے تو بیٹھ سکتا ہے۔سو اس کے لیے دعا بکار ہے۔جو شخص اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدق سے قدم اٹھاتا ہے اس کو عظیم الشان طاقت اور خارق عادت قوت دی جاتی ہے۔مومن کے دل میں ایک جذب ہوتا ہے کہ جس سے قوت جاذبہ کے ذریعہ وہ دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر تم میں جذب محبت خدا تعالیٰ کی راہ میں کافی ہو تو پھر کیوں لوگ تمہاری طرف نہ کے آویں اور کیوں تم میں ایک مقناطیسی طاقت نہ ہو جاوے۔دیکھو قرآن میں سورۂ یوسف میں آیا ہے۔
ولقد ھمت بہ وھم بہا لو لا ان را برھان ربہ (یوسف : ۲۵)
یعنی جب زلیخا نے یوسف کا قصد کیا یوسف بھی زلیخا کا قصد کرتا اگر ہم حائل نہ ہوتے۔اب ایک طرف تو یوسف جیسا متقی ہے اور اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نبی زلیخا کی طرف مائل ہو ہی چکا تھا اگر ہم نہ روکتے۔اس میں سر یہ ہے کہ انسان میں ایک کشش محبت ہوتی ہے۔زلیخا کی کشش محبت اس قدر غالب آئی تھی کہ اس کشش نے ایک متقی کو بھی اپنی طرف کھینچ لیا۔سو جائے شرم ہے کہ ایک عورت میں جذب اور کشش اس قدر ہو کہ اس کا اثر ایک مضبوط دل پر ہو جاوے اور ایک شخص جو مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔اس میں جذب محبت الٰہی اس قدر نہ ہو کہ لوگ ا سکی طرف کھینچے چلے آویں۔یہ عذر قابل پذیرائی نہیں کہ زبان میں یا وعظ میں اثر نہیں۔اصلی نقصان قوت جاذبہ میں ہے۔جب تک وہ کامل نہیں تب تک زبانی خالی باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہو تا۔
وفات مسیح
اور ہمارے مسائل ۔سو وہ بھی بالکل صاف ہیں۔مثلاً قرآن شریف کی یہ آیت
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (المائدہ : ۱۱۸)
ا س میں ایک جواب اور ایک سوال ہے۔خدا تعالیٰ مسیح علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تو نے لوگوں کو ایسی تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا تو وہ جواب میں عرض کریں گے کہ بار خدایا جب تک میں زندہ رہا اور اُن میں رہا میں نے تو اُن کو ایسی تعلیم نہیں دی؛ البتہ تو نے جب مجھ کو مار دیا تو پھر تو ہی ان کا نگران حال تھا۔مجھے کوئی علم نہیں کہ میرے پیچھے انہوں نے کیا کیا۔یہ کیسی موٹی بات ہے کہ خود مسیح اپنی وفات کا اقرار کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر عیسائی بگڑے تو میری وفات کے بعد بگڑے۔جب تک میں اُن میں زندہ رہا تب تک وہ صحیح عقیدہ پر قائم تھے۔اب اگر عیسائی بگڑ گئے ہیں تو بالضرور مسیح مر چکا ہے۔اور اگر مسیح آج تک نہیں مرا تو عیسائی بھی نہیں بگڑے اور اگر عیسائی نہیں بگڑے تو بالضرور عقیدہ الوہیت مسیح بھی درست ہے۔پھر مسیح کا یہ کہہ دینا کہ مجھے تو اُن کے بگڑنے کا علم نہیں جیسے کہ اسی آیت سے پایا جاتا ہے۔کیا یہ جواب اُن کا جھوٹا نہیں ہوگا ۔اگر ان کا دوبارہ دنیا میں آنا درست ہے،کیونکہ سوال و جواب قیامت کو ہوگا۔اور اگر انہوں نے دوبارہ دنیا میں آکر چالیس سال رہنا ہے ارو عیسائیوں اور کفار کو قتل کرکے اسلام کو پھیلانا یہ تو بالضرور انہوں نے عیسائیوں کی بگڑی ہوئی حالت کو دیکھ لیا ہے اور اس بگری ہوئی حالت کو دیکھ کر وہ دوبارہ اس دنیا سے تشریف لے جاویں گے تو پھر حضرت مسیح کا یہ جواب دینا خدا کے حضور میں دروغ بیانی ہے اس دنیا سے تشریف لے جاویں گے تو پھر حضرت مسیح کا یہ جواب دینا خدا کے حضور میں دروغ بیانی ہے ۔کیا وہ احکم الحاکمین نہ کہے گا کہ تو دوبارہ دنیا میں گیا اور تونے دیکھ لیا کہ تیری امت بگڑ چکی تھی۔ایک مجازی حاکم کے آگے غلط بیانی ‘ دروغ حلفی کے جرم کا خطرناک ارتکاب ہے۔چہ جائیکہ ایک عالم الغیب حاکم کی جناب میں ایسی دروغ بیانی کی جاوے تو گویا اس آیت نے بڑی صفأئی کے ساتھ ایک طرف مسیح کی وفات کو ثابت کر دیا اور دوسری طرف ان کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا بطلان کردیا۔اس کے مقابل جب ہم حدیثوں پر غور کرتے ہیں تو وہاں سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔حضرت رسالت مآبؐ نے فرمایا اور یہ متفق علیہ حدیث ہے کہ میں نے حضرت مسیح کو حضرت یحییٰ ؑکے ساتھ دیکھا۔حضرت یحییٰ کامر جانا اور ان کا اس جماعت میں داخل ہونا جن کی قبض روح ہو چکی ہے ثابت شدہ امر ہے۔اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسیح بلاقبض روح وانتقال کرنے کے ایک ایسے شخص کا جلیس ہو جو دنیا سے مر چکا ہے اب ایک طرھ قول خدا اور دوسری سرف رئویت رسول اکرم ؐ سے وفات مسیح ؑ اور ان کا دوبارہ دنیا میں واپس نہ آنا قطعی ثابت ہو گیا۔اب بھی یہ لوگ اگر عقیدہ حیات مسیح سے باز نہ آویں۔تو یہی سمجھا جاوے گا کہ سچی ہدایت اور سعادت صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔اُ ن کے حال پر تو پھر سعدی کا یہ قول صادق آتا ہے ؎
آنکس کہ بقرآں و خبر زد نہ دہد
ایں است جوابش کہ جوابش نہ دہی

آنیوالا مسیح امتی ہوگا
رہا یہ کہ آنے والا کون ہے؟ اس کا فیصلہ بھی قرآن و حدیث نے کر دیا ہے۔سورہ نور نے صاف طور پر بیان کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے خلفاء اس امت میں سے ہوں گے۔بخاری اور مسلم کا بھی یہی مذہب ہے کہ آنیوالا مسیح اس امت میں سے ہوگا۔اب ایک طرف قرآن و حدیث بنی اسرائیل مسیح کی موت اور دوبارہ نہ آنے کو بیان کرتے ہیں۔دوسری طرف یہی قرآن و حدیث آنے والے مسیح کو اسی امت میں سے ٹھہراتے ہیں تو پھر اب انتظار کس بات کا ہے؟
نشانات
اب علامات کو بھی دیکھ لیا جاوے۔صدی کے سر پر مجدد کا آنا سب نے تسلیم کیا ہے اور یہ بھی مانا ہے کہ مسیح بطور مجدد صدی کے سر پر آوے گا۔صدی میں سے بائیس سال گذر گئے اور اس وقت تک مجدد نظر نہ آیا۔آخر اس صدی کے سر پر جس مجدد نے آنا تھا وہ کہاں ہے؟
کسوف و خسوف کا نشان
مہدی کا نشان کسوف و خسوف تھا جو رمضان میں ہونا تھا۔اس کسوف و خسوف پر بی آٹھ سال گذر گئے۔مہدی نہ آیا۔اگر یہ کہا اجوے کہ نشان تو گیا‘ لیکن صاحب نشان بعد میں آوے گا تو یہ عقیدہ بڑا فاسد ہے اور قسم قسم کے فسادات کی بناء ہے۔اگر ایک زمانہ کے بعد اکٹھے بیس انسان مہد دیت کے مدعی ہو جاویں تو پھر اُن میں کون فیصلا کریگے؟ ضرور ہے کہ صاحب نشان نشان کے ساتھ ہو۔یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر صدی کے سرے کو اور کسوف و خسوف کو یاد کیا کرتے اور روتے تھے‘ لیکن جب وہ وقت آیا تو یہی لوگ دشمن بن گئے۔حدیث کے مطابق تمام نشان واقعہ ہو گئے لیکن یہ لوگ اپنی ضد سے باز نہیں آتے۔کسوف و خسوف کا عظیم الشان نشان ظاہر ہو گیا ‘ لیکن خدا تعالیٰ کے اس نشان کی قدر نہ کی گئی۔
‏Amira 4-6-05
طاعون کا نشان
اسی طرح کل انبیاء کی کتب سابقہ ارو قرآں و حدیث میں ایک اور بلا کی طرھ اشارہ تھا جو کسوف و خسوف کے آسمانی نشان کے بعد آنے والی تھی اور وہ طاعون ہے۔جو وہ بھی مسیح کے زمانہ سے وابستہ تھی۔یہ ایک خطر ناک مصیبت ہے جس کی طرف ہر ایک اولوالعزم نبی نے بالتصریح یا بالا جمال اشارہ کیا ہے۔ طاعون آگئی۔لاکھوں انسان تباہ ہو گئے۔اور نہ معلوم کب تک اس کی تباہی چلتی رہے گی‘ لیکن جس موعود کے زمانہ کی شناخت کا یہ نشان ہے اسے اب تک ان لوگوں نیچانا۔اسی طرح زمین و آسمان نے شہادت دی۔لیکن ان شہادتوں کو ردی سمجھا گیاخدا غیور ہے اور وہ اپنی غیرت دکھلائے گا۔ایک مجازی حاکم عدول حکمی پسند نہیں کرتا تو وہ احکم الحاکمین غیور خدا کب اس عدول حکمی کو بلا سزا چھوڑ یگا۔
نئی سواری کا نشان
ایک اور نشان اس زمانہ کا وہ نئی سواری تھی جس نے اونتوں کو بیکار کر دینا تھا۔قرآن نے
وا ذاالعشار عطلت (التکویر : ۵)
(جب اُونٹیاں بے کار ہو جاویں گی) کہہ کر اس زمانہ کا پتہ بتلایا۔حدیث نے مسیح کے نشان میں یوں کہا
لیتر کن القلاص فلا یسعی علیھا۔
پھر یہ نشان کیا پرا نہ ہوا؟ حتیٰ کہ اس سر زمین میں بھی جہاں آج تک اونٹنی کی سواری تھی اور بغیر اونٹنیوں کے گذارہ نہ تھا،وہاں بی اس سواری کا انتظام ہو گیا ہے اور چند سالوں میں اونٹوں کی سواری کا نام و نشان نہیں ملے گا۔اونٹنیاں بیکار ہو گئیں ۔مقرر کردہ نشان پورے ہو گئے، لیکن جس کا یہ نشان تھا وہ پہچانا نہ گیا! کیا یہ اُمور بھی میرے اختیار میں تھے۔کہ ایک طرف تو میں دعویٰ کروں اور دوسری طرف یہ نشان پورے ہوتے جاویں۔کیا آسمانی نظام پر بھی میرا دخل ہے جو کسوف اور خسوف موعود کو پیدا کر لیتا؟ یا میرے ہاتھ کوئی ایسے مواد ہیں جن سے زمین پر موعود طاعون پیدا ہو گئی؟ یا حج کا روکنا جو یہ بھی مسیح کا نشنا تھا کیا یہ بھی میرے اشارہ سے ہوا؟ اسی طرح بیسیوں نشان زمانۂ مسیح کے ساتھ وابستہ تھے وہ سب پورے ہو گئے۔خدا تعالیٰ نے کونسی حجت کو ان پر پودا نہیں کیا، لیکن ان کا انکار ابھی اسی طرح ہے۔اصل بات یہ ہے کہ زمانہ میں دہریت پھیلی ہوئفیہ خفیہ سب دلوں پر اثر کر رہی ہے۔خشیتِ الٰہی دن بہ دن مفقود ہو رہی ہے۔کان رکھتے ہیں پر سن نہیں سکتے۔آنکھیں رکھتے ہیں پر نہیں دیکھتے۔دل رکھتے ہیں پر نہین سمجھتے۔یہی وجہ ہے کہ انکار ہے و الا معاملہ تو بہت ہی صاف تا۔میری کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس قدر اتمام حجت کی گئی۔اب ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔خدا تعالیٰ نے قوی دلائل سے اُن کا رگ و ریشہ کات دیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھتے۔
شناخت مامور کے تین طریق
ایک مامور کی شناخت کے تین طریق ہیں۔نقل۔عقل۔تائیداتِ سماوی۔اب دیکھنا چاہیے۔کہ یہ تینوں امور اس سلسلہ کے مؤید ہیں۔دانیال اور دیگرنبیاء نے تو ا سکے آنے کا زمانہ مقرر کر دیا ہے۔حتیٰ کہ صدی او رسال بھی مقرر کر دیا ہے۔تمام عیسائیوں میں ایک قسم کی گھبراہٹ پیدا ہوئی ہے کیونکہ کتبِ سابقہ کے مطابق مسیح کی آمد کا وقت آچکا ہے۔او رمسیح ابھی تک آیا نہیں۔اس لیے بعض علماء اخیر مجبور ہو کر اس طرف گئے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی سے مراد کلیسیا کی ترقی ہے جو ہو چکی ہے۔؎ٰ
اسی طرح ہماری کتب کے مطابق بھی بعثت مسیح کا یہی زمانہ ہے۔حج الکرامہ والے نے کل اہل کشوف اسی طرف گئے ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی کے لیے چودھویں صدی مقرر ہے۔شاہ ولی اﷲ صاحب نے بھی اسی زمانہ کے لیے اُسے چراغ الدین کہا ہے۔غرضیکہ ہر ایک بزرگ نے جو زمانہ مقرر کیا ہے وہ چودھویں صدی سے آگے نہیں گیا؛ اگر چہ ان میں کچھ اختلاف ہے۔چودھویں صدی میں لطیف اشارہ اس طرف تھا کہ دین اسلام چودھویں رات کے چاند کی طرح اس زمانہ میں چمک اٹھے گا۔جس طرح چاند کا کمال چودھویں رات کو ہوتا ہے۔اسی طرح اسلام کا کامل کل دنیا مٰں ثودھویں صدی میں ظاہر ہوگا۔تیرھویں صدی کی تایکی ان لوگوں میں صرب المثل ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اس صدی کے علماء س بھیڑیوں نے صدی کی تاریکی ان لوگوں میں ضرب المثل ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اس صدی کے علماء سے بھیڑیوں نے بھی نجات مانگی تھی۔یہ لوگ چودھویں صدی کے منتظر تھے،لیکن جب صدی آگئی تو اپنی بد بختی کے باعث انکار کر گئے۔اسی طرح قرآن میں ذکر ہے۔
ولما جاء ھم کتاب من عند اﷲ مصدق لما معہم وکانو ا من قبل یستفتحون علی الذین کفرو ا فلما جاء ھم ما عر فو اکفرو ابہ (البقرہ : ۹۰)
اہل کتاب منتظر تھے کہ پیغمبر کے آنے پر وہ اس کے ساتھ مل کر کفار سے جنگ کرین گے لیکن جب پیغمبر آیا تو انکار پر آمادہ ہو گئے۔
عقل کے نزدیک بھی زمانہ مسیح کا یہی معلومہوتا ہے۔اسلام اس قدر کمزور ہو گیا ہے کہ ایک وقت ایک شخص کے مرتد ہو جانے پر اس میں شور پڑ جاتا تھا۔لیکن اب لاکھوں مرتد ہو گئے۔رات دن مخالفت اسلام میں کتب تصنیف ہو رہی ہیں۔اسلام کی بیخ کنی کے واسطے سرح طرح کی تجاویز ہو رہی ہیں۔عقل پسند نہیں کرتی کہ جس خدا نے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
کا وعدہ یدا ہے وہ ا سوقت اسلام کی حفاظت نہ کرے اور خاموش رہے۔یہ زمانہ کس قسم کی مصیبت کا اسلام پر ہے کہ شرفا کی اولاد دشمن الام ہو کر گر جائوں میں ثلے گئے اور کھلے طور پر رسول اکرم ﷺ کی توہین ہو رہی ہے۔ہر ایک قسم کی گالی اور سب و شتم میں ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ان تمام امور کو بہ ہیت مجموعی اگر دیکھا جائے تو عقل کہتی ہے کہ یہی وقت خد اتعالیٰ کی تائید کا ہے اور میں تم کو سچ کاہتا ہوں کہ اگر یہ سلسلہ قائم نہ ہوتا تو اسلام برباد ہو چکا تھا۔سو خد اتعالیٰ کے وجود کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ عین ضرورت کے وقت خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور عین مصیبت کے وقت اسلام کو سنبھالا۔تائیدات سماوی اگر دیکھی جاویں تو یاہں بھی ایک بڑا خزانہ ہے۔خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہزار ہا نشان میرے ہاتھ پر ظہار کئے ۔اگر میں ان تمام نشانوں کو جمع کروں جو ہر روز میں اور میرے ساتھ رہنے والے دیکھتے ہیں تو ان کی تعداد لاکھ کے قریب ہوجاتی ہے۔قطع نظر اس کے صرف براہین احمدیہ کے بعض الہامات کو دیکھا جاوے۔چوبیس برس ہوئے کہ یہ کتاب تصنیف ہوئی جو اس وقت مکہ،مدینہ،مصر،بخارا،لنڈن اور ایسا ہی ہندوستان کے ہر ایک حصہ میں پہنچ گئی۔کئی ایک پادیریوں اور دیگر مخالفینِ اسلام کے گھروں میں پہنچ گئی۔اب اس کتاب میں مثلاً لکھا ہے کہ خد اتعالیٰ کی طرف س یمجھے ارشاد ہے کہ اس وقت تو اکیلا ہے اور تیرے ساتھ کوئی نہیں لیکن ایک وقت آئے گا کہ لوگ تیرے پاس دور دور سے آئیں گے۔
(یا تونمن کل فج عمیق)
تو لوگوں میں پہچانا جاوے گا اور تیری شہرت کی جاوے گی۔تیری امداد اور تائید کو دور دور سے لوگ آویں گے۔پھر کہا کہ لوگ کثرت سے آویں گے اور تو ان سے نرمی اور اخلاق سے پیش آنا۔اُن کی ملاقات سے مت گھبرانا۔
(ولا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس)
پھر آخر کار فرمایا
اذا جاء نصراﷲ والفتح و ان تھی امر الزمان الینا۔الیس ھذا بالحق۔
یعنی جب خدا تعالیٰ کی فتح اور نصرت آوے گی اور زمانہ کا امر ہماری طرف منتہی ہوگا تو اس وکت کہا جاوے گا کہ کیا یہ سلسلہ حق نہیں؟ اب لاہور اور امرت سر کے لوگ اور ایسا ہی پنجاب کے لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ براہین کی اشاعت کے وقت مجھے کوئی جانتا نہیں تھا۔حتیٰ کہ قادیان میں بہت کم لوگ ہوں گے جو مجھے پہچانتے ہوں گے۔پھر یہ امور کس طرح پورے ہو رہے ہیں؛ اگر چہ یہ پیشگوئیاں بدرجہ اتم ابھی پوری نہیں ہوئیں،لیکن جس قدر الہامات کا ظہر ہو رہا ہے وہ طالب حق کے لیے کافی ہے۔اب کیا یہ مریی بناوٹ ہے کہ ایک انسنا آج سے چوبیس سال پہیل آج کل کے واقعات کا نقشہ کھینچ سکتا ہے۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ہزار ہا مخلوق کا مرجع ہو گا۔خصوصاً جبکہ ایک مدت تک ان امور کا ظہور نہ ہوا۔جس سے صاف ظہار ہے کہیہ امور کسی فراست کا نتیجہ نہیں ہو سکتے۔ان امرو کو دیکھ کر میں کہہ سکتا ہوں کہ جس قدر نشانات خدا تعالیٰ نے میری تائید میں ظہار کئے وہ اپنی تعدات اور شوکت میں ایسے ہین کہ بجز حضرت نبی کریم ﷺ کل انبیاء و مرسلین سے ایسے ثابت نہیں ہوئے لیکن اس میں میرا کیا فخر ہے۔یہ سب کچھ تو اس پاک نبی کی فضیلت ہے۔جس کی امت میں ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے۔
پھر میں کہتا ہوں کہ آج کل کے پیر زادوں اور سجادہ نشینوں کو آزمالو۔کسی پادری یا کسی مذہب کے سرگروہ کو میرے مقابل میں لائو۔خدا تعالیٰ نشان نمائی میں بالضرور اس کو میرے مقابل شرمندہ اور ذلیل کرے گا۔یہان تو نشناوں کا دریا بہہ رہا ہے۔میرے دوست اس الہام سے خوب واقف ہیں جو دس بارہ سال ہوئے خدا تعالیٰ نے فرمایا
انی مھین من اراد اھا نتک وانی معین من اراد اعانتک
اس ایک الہام کو کس قدر مواقع اور محل پر میرے دوستوں نے پورے ہوتے دیکھا۔کس طرح لوگوں نے میری اہانت اور تذلیل کے لیے بیڑے اٹھائے۔اور کس طرح وہ خود ہی زلیل اور خوار ہو گئے۔اس کی ایک مثال نہیں بلکہ کئی ایک مثالیں ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان نشانات کو دیکھ کر بھی لوگ ابھی گمراہ ہیں۔ سو بات یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے دو گروہ چلے آئے ہیں۔ایک سعید دوسرا شقی۔ابو جہل نے ہزاروں نشان دیکھے لیکن وہ کافر ہی رہا۔سو اس صورت میں مومن کے لیے ضرور ہے کہ وہ دعا میں لگ جاوے۔
صرف بیعت پر قناعت نہ کریں
آپ نے جو آج مجھ سے بیعت کی ہے۔یہ تخمریزی کی طرح ہے۔چاہئے کہ آپ اکثر مجھ سے ملاقات کرین اور اس تعلق کو مضبوط کریں جو ٔء قائم ہوا ہے۔جس شاخ کا تعلق درخت سے نہیں رہتا وہ آخر خشک ہو کر گر جاتی ہے۔جو شخص زندہ ایمان رکھتا ہے وہ دنیا کی پروا نہیں رکھتا۔دنیا ہر طرح مل جاتی ہے۔دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والا ہی مبارک ہے لیکن جو دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے وہ ایک مردار کی طرح ہے جو کبیھ سچی نصرت کا منہ نہیں دیکھتا ۔یہ بیعت اس وقت کام آسکتی ہے۔جب دین کو مقدم کر لیا جاوے اور ا س میں ترقی کرنے کی کوشش ہو۔بیعت ایک بیج ہے جو آج بویا گیا۔اب اگر کوئی کسان صرف زمین میں تخمریزی پر ہی قناعت کرے اور پھل حاصل کرنے کے جو جو فرائض ہیں ان میں سے کوئی ادا نہ کرے۔نہ زمین کو درست کرے اور نہ آبپاشی کرے اور نہ موقعہ بہ موقعہ مناسب کھاد زمین میں ڈالے نہ کافی حفاظت کرے تو کیا وہ کسان کسی پھل کی امید کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔اس کا کھیت بالضرور تباہ اور خراب ہو گا۔کھیت اسی کا رہے گا جو پورا زمیندار بنے گا۔سو ایک طرح کی تخمریزی آپ نے بھی آج کی ہے۔خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کے مقدر میں کیا ہے، لیکن خوش قسمت وہ ہے جو اس تخم کو محفوظ رکھے اور اپنے طور پر ترقی کے لیے دعا کرتا رہے۔مثلاً نمازوں میں ایک قسم کی تبدیلی ہونی چاہیے۔
نماز میں حضور اور لذت پیدا کرنے کا طریق
میں دیکھتا ہوں کہ آج کل لوگ جس طرح نماز پڑھتے ہیں وہ محض ٹکریں مارنا ہے۔اُن کی نماز میں اس قدر بھی رقت اور لذت نہیں ہوتی جس قدر نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا میں ظاہر کرتے ہیں۔کاش یہ لوگ اپنی دعائیں نماز میں ہی کرتے۔شاید اُن کی نمازوں میں حضور اور لذت پیدا ہو جاتی۔اس لیے میں حکماً آپ کو کہتا ہوں کہ سردست آپ بالکل نماز کے بعد دعا نہ کریں۔اور وہ لذت اور حضور جو دعا کے لیے رکھ اہے،دعائوں کو نماز میں کرنے سے پید اکریں۔میرا مطلب یہ نہیں کہ نمازکے بعد دعا کرنی منع ہے ۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ جب تک نماز میں کافی لذت اور حضور پیدا نہ ہو نماز کے بعد دعا کرنے میں نماز کی لذت کو مت گنوائو۔ہاں ج بیہ حضور پیدا ہو جاوے تو کوئی حرج نہیں۔سو بہتر ہے نماز میں دعائیں اپنی زبان میں مانگو۔جو طبعی جوش کسی کی مادری زبان میں ہوتا ہے وہ ہر گاز غیر زبان میں پیدا نہیں ہو سکتا۔سو نمازوں میں قرآن اور ماثورہ دعائوں کے بعد اپنی ضرورتوں کو برنگ دعا اپنی زبان میں خد اتعالیٰ کے آگے پیش کرو تا کہ آہستہ آہستہ تم کو حلاوت پیدا ہو اجائے۔سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہو ں سے نجات حاصل ہو ، کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہ جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے ۔ہماری دعا یہ ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخب کر دیتے ہیں دور کر دے اور اپنی رضا مندی کی راہ کھالئے۔دنیا میں مومن کی مثال اس سواری کی ہے کہ جو جنگل میں جا رہا ہے۔راہ میں بسبب گرمی اور تھکان سفر کے ایک درخت کے نیچے سستانے کے لیے ٹھہرجاتا ہے لیکن ابھی گھوڑے پر سوار ہے اور کھڑا کھڑا گھوڑے پر ہی کچھ آرام لے کر آگے اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے لیکن جو شخص اس جنگل میں گھر بنا لے وہ ضرور درندوں کا شکار ہو گا۔مومن دنیا کو گھر نہیں بناتا اور جو ایسا نہیں خدا تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا نہ خدا تعالیٰ کے نزدیک دنیا کو گھر بنانے والے کی عزت ہے۔خدا تعالیٰ مومن کی عزت کرتا ہے۔
نوافل کی حقیقت
حدیث میں آیا ہے کہ مومن نوافل کے ساتھ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔نوافل سے مراد یہ ہے کہ خدمت مقررہ کر دہ میں زیادتی کی جاوے ہر ایک خیر کے کام میں دنیا کا بندہ تھوڑا سا کر کے سست ہو جاتا ہے،لیکن مومن زیادتی کرتا ہے۔نوافل صرف نماز سے ہی مختص نہیں بلکہ ہر ایک حسنات میں زیادتی کرنا نوافل ادا کرنا ہے۔مومن محض خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ان نوافل کی فکر میں لگا رہتا ہے۔اس کے دل میں درد ہے جو اسے بے چین کرتا ہے اور وہ دن بہ دن نوافل و حسنات میں ترقی کرتا جاتا ہے اور بالمقابل خدا تعالیٰ بھی اس کے قریب ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ مومن اپنی ذات کو فنا کر کے خدا تعالیٰ کے سایہ تلے آجاتاہے۔اس کی آنکھ خدا تعالیٰ کی آنکھ ۔اس کے کان خدا تعالٰی کے کان ہو جاتے ہیں۔کیونکہ وہ کسی معاملہ میں خدا تعالیٰ کی مخالفت نہیں کرتا۔ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس کی زبان خدا تعالیٰ کی زبان اور ا سکا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہو جاتا ہے۔
مومن کا مقام
پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے کسی بات میں اس قدر تردد نہیں ہوتا۔جس قدر مومن کی جان نکالنے میں تردد ہوتا ہے۔یون تو خدا تعالیٰ کی ذات سب ترددات سے پاک ہے لیکن یہ فقرہ جو فرمایا تو مومن کے اکرام کے لیے فرمایا۔اب دوسرے لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مر جاتے ہیں لیکن مومن کا معاملہ دگر گوں ہے۔مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ جو صلحاء اور انبیاء کی زندگی آئے دن طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہتی ہے اور بعض وقت اُن کو خوفناک امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔جیسے کہ ہمارے رسول خدا ﷺ کی صورت تھی۔یہ اُس تردد کا اظہار ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے گویا اﷲ تعالیٰ اس سے معاملہ ایسا کرتا ہے اور خوفناک بیماریوں سے اُسے نجاب دیکر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اُسے معمولی انسانوں کی طرح ضائع نہیں کرتا۔قرآن او رحدیث سے ثابت ہے کہ مومن کی ہر ایک چیز بابرکت ہو جاتی ہے جہاں وہ بیٹھتا ہے وہ جگہ دوسروں کیلئے موجب برکت ہوتی ہے۔اس کا پس خوردہ اوروں کیلئے شفا ہے۔حدیث میں آیا ہے کہ ایک گنہگار خدا تعالیٰ کے سامنے لایا جاوے گا۔خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تونے کوئی نیک کام کیا؟ وہ کہے گا کہ نہیں۔پھر خدا تعالیٰ اس کو کہے گا کہ فلاں مومن تو ملا تھا وہ کہے گا خداوند میں ارادتاً تو کبھی نہیں ملا وہ خود ہی ایک دن مجھے راستہ میں مل گیا ۔خدا تعالیٰ اسے بخش دے گا۔پھر ایک اور موقعہ پر حدیث میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ فرشتوں سے دریافت کرے گا کہ میرا ذکر کہاں پر ہو رہا ہے؟ وہ کہیں گے کہ ایک حلقہ مومنین کا تھا جہاں دنیا کے ذکر کا نام و نشان بھی نہ تھا؛ البتہ ذکر الٰہی آٹھوں پہر ہو رہا ہے۔اُن میں ایک دنیا پرست شخص تھا۔اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں ن یاس دنیادار کو اس ہم نشینی کے باعث بخش دیا۔
انھم قوم لا یشقی جلیسھم۔
بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ جہاں ایک مومن امام ہو اس کے مقتدی پیش ازیں کہ وہ سجدہ سے سر اُٹھاوے بخش دیئے جاتے ہیں۔
مومن وہ ہے کہ جس کے دل میں محبتِ الٰہی نے عشق کے رنگ میں جڑ پکڑلی ہو۔اس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ وہ ہر ایک تکلیھ اور ذلت میں بھی خدا تعالیٰ کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔اب جس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کب کسی کا کانشنس کہتا ہے کہ وہ ضائع ہو گا کیا کوئی رسول ضائع ہوا؟ دنیا نا خنوں تک اُن کو ضائع کرنے کی کوشش کرتی ہے،لیکن وہ ضائع نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ کے لیے ذلیل ہو وہی انجام کا ر عزت و جلال کا تخت نشیں ہوگا۔ایک ابو بکرؓ ہی کو دیکھو جس نے سب سے پہلے ذلت قبول کی اور سب سے پہلے تخت نشین ہوا۔اس میں کچھ شک نہیں کہ پہلے کچھ نہ کچھ دکھ اٹھانا پڑتا ہے کسی نے سچ کہا ہے ؎
عشق اول سرکش و خونی بود
تا گریزد ہر کہ بیرونی بود
عشق الٰہی بی شک اول سرکش و خونی ہوتا ہے تا کہ نا اہل دور ہو جاوے۔عاشقانِ خدا تکالیف میں ڈالے جاتے ہیں۔؎ٰقسم قسم کے مالی اور جسمانی مصائب اُٹھاتے ہیں اور ا س سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کے دل پہچانے جاویں۔خدا تعالیٰ نے یہ امر مقرر کر دیا ہے کہ جب تک کوئی پہلکے دوزخ پر راضی نہ ہو جاوے بہشت میں نہیں جاتا۔
‏Amira 8-6-05
بہشت دیکھنا اسی کو نصیب ہوتا ہے جو پہلے دوزخ دیکھنے کوتیارہوتا ہے۔دوزخ سے مراد آئندہ دوزخ نہیں بلکہ اس دنیا میں مصائب شدائدکا نظارہ مراد ہے۔اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ کافر کے لیے دوزخ بہشت کے رنگ میں اور مومن کے لیے بہشت دوزخ کے رنگ میں متمثل کیا جاتا ہے۔کافر جو دنیا کا طالب ہے دنیا میں منہمک ہو کر سگِ دنیا ہو جاتا ہے۔مومن ایک عاشق ہے جو دنیا کو طلاق دے کر ہر ایک تکلیف سہنے کو تیار ہوتا ہے اور فی الواقعہ یہ عشق ہی ہے جو اُسے ہر قسم کی تکلیف سہنے کے لیے آمادہ کر دیتا ہے۔مومن کا رنگ عاشق کا رنگ ہوتا ہے اور وہ اپنے عشق میں صادق ہوتا ہیاور اپنے معشوق یعنی خدا کے لیے کامل اخلاص اور محبت اور جان فدا کرنے والا جوش اپنے اندر رکھتا ہے اور تضرع اور ابتہال اور ثابت قدمی سے اس کے حضور میں قائم ہوتا ہے۔دنیا کی کوئی لذت اس کے لیے لذت نہیں ہوتی۔اس کی روح اسی عشق میں پرورش پاتی یہ۔معشوق کی طرف سے استغنا دیکھ کر وہ گھبراتا نہیں۔اس طرف سے خاموشی اور بے التفاتی بھی معلوم کر کے وہ کبھی ہمت نہیں ہارتا بلکہ ہمیشہ قدم آگے ہی رکھتا ہے اور دردِ دل زیادہ سے زیادہ پیدا کرتا جاتا ہے۔ان دونوں ثیزوں کا ہونا ضروری ہے کہ مومن عاشق کی طرف سے محبتِ الٰہی میں پورا استغراق ہو۔عشق کمال ہو۔محبت میں سچا جوش اور عہد عشق میں ثابت قدمی ایسی کوٹ کوٹ کے بھری ہو کہ جس کو کوئی صدمہ جنبش میں نہ لا سکے اور معشوق کی طرف سے کبھی کبھی بے پروا ہی اور خاموشی ہو۔دد دو قسم کا موجود ہو۔ایک تو وہ جو اﷲ تعالیٰ کی محبت کا درد ہو۔دوسرا وہ جو کسی کی مصیبت پر دل میں درد اُٹھے اور خیر خواہی کے لیے اضطراب پیدا ہو۔اور اس کی اعانت کے لیے بے چینی پیدا ہو۔خدا تعالیٰ کی محبت کے لیے جو اخلاص اور درد ہوتا ہے اور ثابت قدمی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے‘ وہ انسان کو بشریت سے الگ کر کے الوہیت کے سایہ میں لاڈالتا ہے۔جب تک اس کی حد تک درد اور عشق نہ پہنچ جائے کہ جس میں غیر اﷲ سے محویت حاصل ہو جائے اس وقت انسان خطرات میں پڑا رہتا ہے۔ان خطرات کا استیصال بغیر اس امر کے مشکل ہوتا ہے کہ انسان غیر اﷲ سے بکلی منقطع ہو کر اسی کا ہو جائے اور اُس کی رضا میں داخل ہونا بھی محال ہوتا ہے اور اس کی مخلوق کے لیے ایسا درد ہونا چاہیے جس طرح ایک نہایت ہی مہربان والدہ اپنے ناتواں پیارے بچے کے لیے دل میں سچا جوشِ محبت رکھتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ سے تعلق کے لیے محویت کی ضرورت
خد اتعالیٰ ایک تعلق چاہتا ہے اور اس کے حضور میں دعا کرنے کے لیے تعلق کی ضرورت ہے۔بغیر تعلق کے دعا نہیں ہوسکتی۔پہلے بزرگوں کی بھی اس قسم کی باتیں چلی آئی ہیں کہ جن سے دعا کرنے والوں کو دعا کرانے سے پہلے تعلق ثابت کر نے کی تاکید کی۔خواہ نخواہ بازار میں چلے ہوئے کسی بے تعلق کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تو میرا دوست ہے او نہ ہی اس کے لیے دردِ دل پیدا ہوتاہے۔اور نہ ہی جوش دعا پیدا ہوسکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ سے تعلق اس طرح نہیں ہوسکتا کہ انسان غفلت کا ریوں میں مبتلا بھی رہے اور صرف منہ سے دم بھرتارہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیا ہے۔اکیلے بیعت کا اقرار اور سلسلہ میں نام لکھ لینا ہی خد اتعالیٰ سے تعلق پر کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔اﷲ تعالیٰ سے تعلق کے لیے ایک محویت کی ضرورت ہے۔ہم بار بار اپنی جماعت کو اس بات پر قائم ہونے کے لیے کہتے ہیں ۔کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اﷲ تعالیٰ کے لیے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا۔بعض صوفیوں نے لکھا ہے کہ صحابہؓ جب نماز یں پڑھا کرتے تھے تو انہیں ایسی محویت ہوتی تھی کہ جب فارگ ہوتے تو ایک دوسرے کو پہچان بھی نہ سکتے تھے۔جب انسان کسی اور جگہ سے آتا ہے تو شریعت نے حکم دیا ہے کہ وہ آکر السلام علیکم کہے۔نماز سے فارغ ہونے پر السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہنے کی حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص نے نماز کا عقد باندھا اور اﷲ اکبر کہا تو اوہ گویا اس عالم سے نکل گیا اور ایک نئے جہان میں جا داخلہوا۔گویا ایک مقامِ محویت میں جا پہنچا۔پھر جب وہان سے واپس آیا تو السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہہ کر آن ملا۔لیکن صرھ ظاہری صورت کافی نہیں ہوسکتی جب تک دل میں اس کا اثر نہ ہو چھلکوں سے کیا ہاتھ آسکتا ہے۔محض صورت کا ہوان کافی نہیں ۔حال ہونا چاہیے۔علت غائی حال ہی ہے۔مطلق قال اور صورت جس کے ساتھ حال نہیں ہوتا وہ تو اُلٹی ہلاکت کی راہیں ہیں۔انسان جب حال پیدا کر لیتا ہے اور پانے حقیقی خالق و مالک سے ایسی سچی محبت اور اخلاص پیدا کر لیتا ہے کہ بے اختیار اس کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے اور ایک حقیقی محویت کا عالم اس پر طاری ہو جاتا ہے، تو اس وقت اس کیفیت سے انسان گویا سلطان بن جاتا ہیذرہ ذرہ اس کا خادم بن جاتا ہے۔
مجھے تو اﷲ تعالیٰ نے ایسی محویت دی تھی کہ تمام دنیا سے الگ ہو بیٹھا تھا۔تمام چیزیں سوائے اس کے مجھے ہرگز بھاتی نہ تھیں۔میں ہرگز ہر گز حجرہ سے باہرقدم رکھنا نہیں چاہتا تھا۔میں نے ایک لمحہ کے لیے بھی شہرت کو پسند نہیں کیا۔میں بالکل تنہائی میں تھا اور تنہائی ہی مجھ کو بھاتی تھی۔شہرت اور جماعت کو جس نفرت سے میں دیکھتا تھا اس کو خدا ہی جانتا ہے۔میں تو طبعاً گمنامی کو چاہتا تھا اور یہی میری آرزو تھی۔خدا تعالیٰ نے مجھ پر جبر کر کے اس سے مجھے باہر نکالا۔میری ہرگز مرضی نہ تھی مگر اس نے میری خلاف ِ مرضی کیا کیونکہ وہ ایک کام لینا چاہتا تھا۔اسی کام کے لیے اس نے مجھے پسند کیااوراپنے فضل سے مجھ کو اس عہدہ جلیلہ پر مامور فرمایا۔یہ اسی کا اپنا انتخاب اور اکم ہے۔میرا اس میں کچھ دخل نہیں۔میں تو دیکھتا ہوںکہ میری طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے کہ شہرت اور جماعت سے کوسوں بھاگتی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ کس طرح شہرت کی آرزو رکھتے ہیں۔میری طبیعت اور طرف جاتی تھی لیکن خدا تعالیٰ مجھے اور طرف لے جاتا تھا۔میں نے بار بار دعائیں کیں کہ مجھے گوشہ میں ہی رہنے دیا جاوے۔مجھے میری خلوت کے جھرے میں ہی چھوڑ دیا جائے۔لیکن بار بار حکم ہوا کہ اس سے نکلو اور دین کا کام جو اس وقت سخت مصیبت کی حالت میں تھا، اس کو سنوارو۔انبیاء کی طبیعت اسی طرح واقع ہوتی ہے کہ وہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی۔ہمارے نبی کریم ﷺ بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے۔آپ عبادت کرنے کے لیے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غارِ حرا تھی چلے جاتے تھے۔یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان اس میں جانے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔لیکن آپ نے اس کو اس لیے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے بھی نہ پہنچے گا۔آپ بالکل تنہائی چاہتا تھے۔شہرت کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے۔مگر خدا تعالیٰ کا حکم ہوا۔
یا یھا المدثر قم فانذر (المدثر : ۲ -۳)
اس حکم میں ایک جبر معلومہوتا ہے اور اسی لیے جبر سے حکم دیا گیا کہ آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی اب چھوڑدیں۔بعض لوگ بیوقوفی اور حماقت سے یہی خیال کرتے ہیں کہ گویا میں شہرت پسند ہوں۔میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ میں ہرگزشہرت پسند نہیں۔خدا تعالیٰ نے جبر سے مجھ کو مامور کیا ہے۔میرا اس مٰں قصور کیا ہے اور وہی گواہ ہے کہ میں شہرت پسند نہیں ہوں۔میں تو دنیا سے ہزاروں کوس بھاگتا تھا۔حاسد لوگوں کی نظر چونکہ زمین اور اس کی اسیاء تک ہی محدود ہوتی ہے اور وہ دنیا کے کیڑے ہیں اور شہرت پسند ہوتے ہیں۔ان کو اس خلوت گزینی اور بے تعلقی کی کیفیت ہی معلوم نہیں ہوسکی۔ہم تو دنیا کو نہیں چاہتے۔اگر وہ چاہیں اور اس پر قدرت رکھتے ہیں تو سب دنیا لے جائیں ہمیں ان پر کوئی گلہ نہیں۔ہمارا ایمان تو ہمارے دل میں ہے نہ دنیا کے ساتھ۔ہماری خلوت کی ایک ساعت ایسی قیمتی ہے کہ ساری دنیا اس ایک ساعت پر قربان کرنا چاہیے۔اس طبیعت اور کیفیت کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔مگر ہم نے خدا تعالیٰ کے امر پر جان و مال و آبرو کو قربان کر دیا ہے۔جب اﷲ تعالیٰ کسی کے دل میں تجلی کرتا ہے تو ھپر وہ پوشیدہ نہیں رہتا۔عاشق اپنے عشق کو خواہ کیسی ہی پوشیدہ کرے، مگر بھید پانے والے وار تاڑنے اولے قرائن اور آثار اور حالات سے پہچان ہی جاتے ہیں۔عاشق پروحشت کی حالت نازل ہوجاتی ہے۔اُداسی اُس کے سارے وجود پر چھا جاتی ہے۔الگ قسم کے خیالات اور حالات اس کے ظاہر ہو جاتے ہیں۔وہ اگر ہزاروں پردوں میں چھپے اور اپنے آپ کو چھپالے مگر چھپا نہیں رہتا۔سچ کہا ہے ؎
عشق و مشک رانتواں نہفتن
جن لوگوں کو محبتِ الیہی ہوتی ہے وہ اس محبت کو چھپاتے ہیں جس سے اُن کے دل لبریز ہوتے ہیں بلکہ اس کے افشاء پر وہ شرمندہ ہوتے ہیں،کیونکہ محبت اور عشق ایک راز ہے جو خدا اور ا سکے بندے کے درماین ہوتا ہے اور ہمیشہ راز کا فاش ہونا شرمندگی کا موجب ہوتا ہے۔کوئی رسول نہیں آیا جس کا راز خدا تعالیٰ سے نہیں ہوتا۔اسی راز کو چھپناے کی خواہش اس کے اندر ہوتی ہے مگر معشوق خود اس کو فاش کرنے پر جبر کرتا ہے اور جس بات کو وہ نہیں چاہتے وہی اُن کو ملتی ہے جو چاہتے ہیں ان کو ملتا نہیں اور جو نہیں چاہتے وہی ان کو جبراًملتا ہے۔
جب تک انسان ادنیٰ حالت میں ہوت اہے اس کے خیالات بھی ادنیٰ ہی ہوتے ہیں اور جس قدر معرفت میں گرا ہوا ہوتا ہے اسی قدر محبت میں کمی ہوتی ہے۔معرفت سے حُسن ظن پیدا ہوتا ہے۔ہر شخص میں محبت اپنے ظن کی نسبت سے ہوتی ہے۔
انا عند ظن عبدی بی
سے یہی تعلیم ملتی ہے۔صادق عاشق جو ہوتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ اس کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔خدا تعالیٰ تو وفاداری کرنا پسند کرتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان صدق دکھلاوے اور اس پر ظن نیک رکھے کہ تا وہ بھی وفا دکھلائے مگر یہ لوگ کب اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔یہ تو اپنی ہوا و ہوس کے بتوں کے آگے جھکے رہتے ہیں اور ان کو نظر دنیا تک ہی ہوتی ہے۔اﷲ تعالیٰ کو کریم و رحیم نہیں سمجھتے۔اس کے وعدوں پر ذرہ ایمان نہیں رکھتے۔اگر اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان رکھتے کہ وہ کریم و رحیم ہے تو وہ بھی اُن پر رحمت اور وفا کے ثبوت نازل کرتا ؎
گر وزیر از خدا بتر سیدے
ہمچناں کز ملک ملک بودے
اﷲ تعالیٰ سے بد ظنی مت کرو
شر بدظنی سے پیدا ہوتا ہے۔قرآن شریھ کو اول سے آخر تک پڑھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے بدظنی مت کرو۔اﷲ تعالیٰ کا ساتھ نہ ثھوڑو۔اسی سے مدد مانگو۔اﷲ تعالیٰ ہر میدان میں مومن کی مدد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں میدان میں تیرے ساتھ ہوں وہ اس کے لیے ایک فرقان پید اکر دیتا ہے جو اس کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کرتا وہ بدظنی کرتا ہے۔جو خدا تعالیٰ سے نیک طن کرتا ہے وہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور جو اﷲ تعالیٰ سے بدظنی کرتا ہے‘ وہ مجبور ہتوا ہے کہ اپنے لیے کوئی دوسرا معبود بنائے اور شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جب انسان اس بات کو سمجھتا ہے کہ خدا کریم و رحیم ہے اور بات پر ایمان صدق دل سے لاتا ہے کہ اس کے وعدے ٹلنے کے نہیں تو وہ اس پر جان فدا کرتا ہے اور دربردہ خدا تعالیٰ سے عشق رکھتا ہے۔ایسا انسان خدا تعالیٰ کا چہرہ اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے۔خدا تعالیٰ طرح طرح سے اس کی مدد کرتا ہے اور اپنے انعامات اس پر نازل کرتا ہے ارو اس کو تسلی بخشتا ہے اور محبت اور وفا کا چہرہ دکھاتا ہے لیکن بے وفا غدار ہمیشہ محروم رہتا ہے۔؎ٰ
۲۱؍مئی ۱۹۰۴ء؁ بمقام گورداسپور
طاعون اور الہام انہ اوی القریۃ
بوقت ایک بجے بمقام کچہری گورداسپور درخت جامن کے نیچے بیٹھے ہوئے حکیم نور محمد صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا تھا کہ آپ لوگ احمدی جماعت کے جو یہ کہتے ہیں کہ طاعون سے ہم بچے رہیں گے اس کی وجہ کیا ہے؟ حکیم صاحب نے اس کے جواب میں جو کچھ اس نے تقریر کی تھی۔وہ سنائی پھر اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے
وان من قریۃ الا نحن مھلکو ھا قبل یوم القیامۃ او معذبو ھا
عذابا شدیدا (بنی اسرائیل : ۵۹)
یعنی طاعون کا عذاب دو طرح پر ہوگا کوئی بستی اس سے خالی نہیں رہے گی۔بعض تو ایسی ہوں گی کہ جن کو ہم بالکل ہلاک کر دیں گے یعنی وہ اُجڑ کر بالکل گیر آباد ہو جائیں گی اور ویرانہ اور ٹھہ (اُجڑے ہوئے کھنڈرات) ہو جائیں گی۔اُن کا کوئی نشان بھی نہ رہے گا۔لوگ تلاش کرتے پھریں گے کہ اس جگہ فلاں بستی آباد تھی لیکن پھر بھی پتہ نہ ملے گا۔گویا طاعون وہاں جاروب دیکر اس کو دنیا سے صاف کر دے گی اور کوئی آثار اس کے نہ چھوڑے گی۔بعض قریئے ایسے ہوں گے کہ جن کو کم و بیش عذاب کر کے چھوڑ دیا جائے گا۔اور صفحہ دنیا سے اُن کا نام نہ مٹایا جائے گا۔صرف سرزنش کے طور پر کچھ عذاب اُن میں نازل کیا جائے گا اور تازیانہ کر کے عذاب ہٹالیا جائے گا۔دوسرے بہت سے شہر ھنا ہوں گے،مگر وہ فنا نہ ہوں گے۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے قادیان کو اسی قسم میں شامل کیا ہے۔اور اس الہام
انہ اوی القریۃ
سے مراد یہی ہے کہ اور بستیوں کی طرح ہمارے گائوں کو طاعون جارف بالکل تباہ نہ کرے گی کہ لوگ تلاش کرتے پھریں کہ کہاں قادیان واقع تھی۔اﷲ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ان بستیوں کی طرح خدا اس کو تباہ نہ کرے گا بلکہ یہ بچی رہے گی الا بطور تازیانہ کچھ سزا دے کر اُس کو بچا لیا جائے گا۔ہم نے بار بار مجلسوں میں بیان کیا ہے اور لکبھا ہے کہ
انہ اوی القریۃ
سے یہ مراد ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس قریہ کو پناہ دے دی ہے کہ وہ طاعون جارف سے بچی رہے اور بالکل فنا نہ ہو۔خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ نہیں کیا کہ باوجود گنہگار نوہے کے اﷲ تعالیٰ بغیر عذاب کے چھوڑدے۔ایک طرھ تو قرآن میں یہ کہ طاعون سے کوئی بستی خالی نہیں رہے گی ارو طاعون کی وجہ صرف یہی ہے جو
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر واما بانفسہم (الرعد : ۱۲)
کے الہام سے ظاہر ہے یعنی جب لوگوں نے اپنے افعال اور اعمال سے غضبِ الیہی کے جوش کو بھڑ کایا اور بدعملیوں سے اپنی حالتوں کو ایسا بدل لیا کہ خوف خدا اور تقویٰ و طہارت کی ہر ایک راہ کو چھوڑ دیا اور بجائے اس کے طرح طرح کے فسق و فجور کو اختیار کر لیا اور خدا تعاسلیٰ پر ایمان سے بالکل ہاتھ دھودیا۔دہریت اندھیری رات کی طرح دنیا پر محیط ہو گئی اور اﷲ تعالیٰ کے نورانی چہرے کو ظلمت کے نیچے دبا دیا تو خدا تعالیٰ نے اس عذاب کو نازل کیا تا لوگ خد اتعالیٰ کے چہرے کو دیکھ لیں اور اس کی طرھ رجوع کریں۔بعض بستیان مھلکوھا میں داخل نہ ہوگی۔یہی مراد الہام
انہ اوی القریۃ
سے ہے۔گناہوں کی طرزنش کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے یہاں بھی طاعون نازل فرمائی۔خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے
لو لا الاکرام لھلک المقام۔
یعنی قدیان مھلکوھا میں داخل کر دیا جاتا ،لیکن صرف تمہاری تکریم اور تعظیم سے اس کو مھلکوھا میں داخل نہیں کیا گیا۔جو بچے ہیں اور جو بچیں گے وہ تمہارے اکرام کی وجہ سے بچیں گے۔یہ تو قرآن کے بالک مخالھ یہ کہ قادیان عذاب طاعون سے بالکل محفوظ رہے۔ایک طرف تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما بانفسہم (الرعاد : ۱۲)
دوسری طرف
انہ اوی القریۃ
کے اگر یہ معنے ہوں کہ قادیان بالکل بچ گئی تو ان دونوں کے درمیان تضاد واقع ہوتا ہے۔دو ضدین جمع نہیں ہو سکتیں۔ہم نے کبھی
انہ اوی القریۃ
کے یہ معنی نہیں سمجھے ۔طاعون تو دنای کی ہر ایک بستی میں آئے گی۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ جہاں کسی نے دعویٰ کی کہ فلاں مقام میں طاعون نہیں تو اسی جگہ ظاہر ہو جاتی ہے۔دہلی والوں نے بڑے زور سے لکھ اتھا کہ دو وجوہ سے وہاں طاعون نہیں آتی اور نہ آئے گی۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں کے لوگ بہت صفائی رکھتے ہیں۔دوسرے مچھروں کا واہں نہ ہونا۔اب گزٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی طاعون آگئی۔لاہور کی نسبت کہا جاتا تھا کہ اس کی سرزمین میں ایسے زجزاء ہیں کہ اس میں طاعونی کیڑے زندہ نہیں رہ سکتے۔لیکن وہان بھی طاعون نے آن ڈیرا ڈالا ہے۔ابھی لوگوں کو معلوم نہیں ہے لیکن سالہا سال کے بعد لوگ دیکھیں گے کہ کیا ہوگا۔کئی لوگ اور دیہات بھی بالکل تباہ ہو جائیں گے۔
‏ Amira 11-6-05
دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ جائے گا اور اُن کے آثار تک باقی نہ رہیں گے، لیکن یہ حالت کبھی قادیان پر وارد نہ ہوگی۔یہ ایک لمبی بیماری ہے عمروں تک چلی جاتی ہے۔بڑے بڑے قطعے اس نے برباد کر کے جنگل کر دیئے۔شہروں کے شہر ویرانے بنادیئے۔سینکڑوں کوس ایسے غیر آباد کئے کہ جانور بھی زندہ نہ رہے۔اس کے آگے تو بڑے بڑے شہر بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتے۔بڑے سے بڑے آباد شہر کو بھی اگر چاہے تو دو تین دن میں صاف کر سکتی ہے۔؎ٰ
۳۱؍مئی ۱۹۰۴ء؁
تقریر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام
بمقام گورداسپور-اضری مولوی الٰہی بخش صاحب آمدہ از بنارس

جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے تو لوگ عموماً اس کی طرف سے بے پرواہی کرتے ہیں اور اکابر اور علماء کو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ کرنا عیب سمجھتے ہیں۔مگر اﷲ تعالیٰ غنی ہے اور مرسل اور مامور چونکہ ایک خدمت پر اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مقرر ہوتے ہین۔وہ بھی بے پروا ہوتے ہیں اور اپنے آپ کا محتاج نہیں سمجھتے بلکہ جیسے وہ ذات الٰہی کا مظہر ہوتے ہیں۔ایسے ہی اسی ذات سے غنا کا حصہ بھی لیتے ہیں۔ہر ایک شخص جو مامور بن کر دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس کو ایک خاص قسم کی ہمت اور حوصلہ عطا کیا جاتا ہے۔اور عزم میں ایک بے روک حزم اور استقلال عطا کیا جاتا ہے۔یہ لوگ بڑا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ہم اپنی طرف سے کسی پر اثر نہیں ڈال سکتے۔انسان تو ایک انسان پر اثر نہیں ڈال سکتا۔
یہ محض اﷲ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ہزار ہا بلکہ لاکھوں آدمیوں کو کھینچے لیے آتا۔یہاں کسی بناوٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔چوبیس برس سے زیادہ ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے الہام کیا تھا کہ
ینصرک رجال نو حی الیھم من السماء۔یا تیک من کل فج عمیق۔یا تون من کل فج عمیق۔
ولا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس۔
یعنی ہم لوگوں کے دل میں وحی کر دیں گے اور وہ تیری مدد کریں گے بڑے بڑے دور دراز راہوں سے تیرے پاس لوگ آئیں گے تم خلق کے ہجوم سے جو تیرے گرد جمع ہوگی۔تنگ مت آنا اور لوگوں سے تھکنا مت۔یہ ایسے وقت کی باتیں ہیں جب میں بالکل گمنام تھا۔اور کوئی آدمی میرے ساتھ نہ تھا۔میرے گائوں سے باہر کوئی بھی مجھے جانتا نہ تھا اور کوئی انسان اس بات پر یقین نہیں لا سکتا تھا کہ ایسی کشش لوگوں کو ہوگی کہ وہ قادیان جیسی گمنام بستی میں دور دراز سے کھنچے چلے آئین گے سو ہم دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے کلمات کس طرح صفائی سے پورے ہو رہے ہیں۔ایسے ایسے علاقوں سے لوگ آتے ہیں کہ جہاں ہمارے وہم و گمان میں بھی ہماری تبلیغ کا نام و نشان نہیں ہوتا اور اس عقیدت اور اخلاص سے آتے ہیں کہ ہم کو اُن کے اخلاص و عقیدت پر رشک آتا ہے۔
اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے مجھ کو فرمایا ہوا ہے کہ
اذا جاء نصر اﷲ والفتح وانتھی امر الزمان الینا۔ألیس ھذا بالحق۔
یعنی عنقریب ایک زمانہ آنیوالا ہے کہ تجھے اﷲ تعالیٰ نصرت اور فتح دیگا اور ہماری طرف زمانہ کا امر انتہا پاوے گا تو ا سوقت کہا جاوے گا کیا یہ سچ نہیں؟ یعنی اس سلسلہ کی صداقت پر زمانہ گواہی دے اُٹھے گا۔ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ لوگ تیری ترقی کے روکنے کی کوشش کریں گے لیکن ہم تیری مدد کریں گے اور دشمن تیری راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں گے مگر ہم اُن کو دور کریں گے اور وہ تیرے نابود کرنے کے منصوبے کریں گے۔سو ہم دیکھتے ہیں کہ چوبیس برس کی پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں۔ہر ایک شخص جو ہمارے پاس آتا ہے وہ اس پیشگوئی کو پورا کرتا ہے۔
ہمارا سارا دار و مدار دعا پر ہے
ہمارا تو سارا دار و مدار ہی دعا پر ہے۔دعا ہی ایک ہتھیار ہے جس سے مومن ہر کام میں فتح پاسکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے مومن کو دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے بلکہ وہ دعا کا منتظر رہتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری دعائوں کو خاص فضل سے قبول فرماتا ہے۔دعا سے انسان ہر ایک بلا اور مرض سے بچ جاتا ہے۔ہم نے ایک دفعہ ایک اخبار پڑھا تھا کہ ایک تھا نیدار کے ناخن میں پنسل کا ایک ٹکڑا کسی طرح سے چبھ گیا۔پنسل میں کچھ زہر بھی ہوتا ہے۔تھوڑی دیر میں اس کے ہاتھ میں ورم ہونا شروع ہو گیا۔بڑھتے بڑھتے ورم اس قدر بڑھ گیا کہ کہنی تک جا پہنچا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سہ چند بوجھ ہو گیا۔فوراً ڈاکٹر کو بلا یا گیا۔ڈاکٹر نے کہا کہ اس بازو میں زہر اثر کر گیا ہے۔تم اگر اس کو کٹانے پر راضی ہو تو جان بچ جائے گی؛ ورنہ نہیں۔وہ تھانیدار کٹانے پر راضی نہ ہوا۔اس کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں وہ مر گیا ہمارے بھی ایک دفعہ اسی طرح ناخن میں پنسل لگ گئی۔ہم سیر کرنے گئے تو دیھکا کہ ہمارے ہاتھ میں بھی ورم ہونا شروع ہوگیا ہے۔تو ہمیں وہ قصہ یاد آگیا۔میں نے اسی جگہ سے دعا شروع کر دی۔گھر پہنچنے تک برابر دعا ہی کرتا رہا تو دیکھتا کیا ہوں کہ جب میں گھر پہنچا تو وَرم کا نام و نشان تک بھی نہ تھا۔پھر میں نے لوگوں کو دکھایا اور سارا قصہ بیان کیا۔
اسی طرح ایک دفعہ میرے دانت کو سخت درد شورع ہو گیا۔میں نے لوگوں سے ذکر کیا تو اکثر نے صلاح دی کہ اس کو نکلوادیان بہتر ہے۔میں نے نکلوانا پسند نہ کیا اور دعا کی طرف رجوع کیا تو الہام ہوا
واذا مرضت فھو یشفینی۔
اس کے ساتھ ہی مرض کو بالکل آرام ہو گیا۔اس بات کو قریباً پندرہ سال ہو گئے ہیں۔
خدا تعالیٰ صالحین کا متولی ہوتا ہے
اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے ایمان کے موافق اسباب سے نفرت ہو جاتی ہے۔جس قدر ایمان کامل ہوتا ہے۔اسی قدر اسباب سے نفرت ہوتی جاتی ہے۔حقیقت میں دیکھا گیا ہے کہ دنیابڑے دھوکے میں پڑی ہوئی ہے۔جن باتوں کو اپنی ترقی کے ذرائع سمجھی بیٹھی ہے۔اصل میں وہی ذلت کا موجب ہوتی ہے۔دنیاوی عزت بڑھانے اور عروج و مالداری حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے فریب و دجل اور دھوکے استعمال کرتے ہیںاور طرح طرح کی بے ایمانیوں سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔انہیں مکاریوں کو اپنی مرادوں کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں۔یہاںنتک کہ بڑے فجر سے اپنی کامیابیوں کا دوستوں میں ذکر کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں لیکن اگر نظر انصاف اور معرفت سے دیکھ اجاوے تو انکے یہ طریق کوئی راحت نہیں بخشتے۔جب پوچھو تو شاکی اور نالاں ہی نظر آتے ہیں اور کبھی راحت اور طمانیت اُن کے حال سے ظاہر نہیں ہوتی۔طمانیت کی رئویت بجز فضل خدا کے نہیں ہوتی۔جب تک انسان اﷲ تعالیٰ پر کامل ایمان نہیں رکھتا اور اس کے وعدوں پر سچا یقین نہیں کرتا اور ہر ایک مقصود کا دینے والا اسی کو نہیں سمجھتا اور کامل اصلاح اور تقویٰ اختیار نہیں کر لیتاتو اس وقت تک وہ حقیقی راحت دستیاب نہیں ہوسکتی۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وھو یتولی الصالحین (الاعراف : ۱۹۷)
یعنی جو صلاحیت اختیار کرتے ہیں خدا تعالیٰ اُن کا متولی ہو جاتا ہے۔انسان جو متولی رکھتا ہے اس کے بہت بوجھ کم ہو جاتے ہیں۔بہت ساری ذمہ داریاں گھٹ جاتی ہیں۔بچپن میں ماں بچے کی متولی ہوتی ہے،تو بچے کو کوئی فکر اپنی ضروریات کا نہیں رہتا۔وہ خود ہی اس کی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے۔اس کے کپڑوں اور کھانے پینے کے خود ہی فکر میں لگی رہتی ہے۔اس کی صحت قائم رکھنے کا دھیان اسی کو رہتا ہے۔اس کو نہلاتی اور دھلاتی ہے اور کھلاتی اور پلاتی ہے۔یہانتک کہ بعض وقت اس کو مار کر کھنا کھلاتی ہے اور پانی پلاتی اور کپڑا پہناتی ہے۔بچہ اپنی ضرورتوں کو نہیں سمجھتا بلکہ ماں ہی اس کی ضرورتوں کو خوب سمجھتی اور اُن کو پورا کرنے کے خیال میں لگی رہتی ہے۔اسی طرح جب مان کی تولیت سے نکل آئے تو انسان کو بالطبع ایک متولی کی ضرورت پڑتی ہے۔طرح طرح سے اپنے متولی اور لوگوں کو بناتا ہے جو خود کمزور ہوتے ہیں اور اپنی ضروریات میں غلطاں ایسے ہوت یہیں کہ دوسرے کی خبر نہیں لے سکتے ،لیکن جو لوگ ان سب سے منقطع ہو کر اس قسم کا تقویٰ اور اصلاح اختیار کرتے ہیں ان کا وہ خود متولی ہو جاتا ہے اور ان کی ضروریات اور حاجات کا خود ہی کفیل ہو جاتا ہے۔انہیں کسی بناوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔وہ اس کی ضروریات کو ایسے طور سے سمجھتا ہے کہ یہ خود بھی اس طرح نہیں سمجھ سکتا اور اس پر اس طرح فضل کرتا ہے کہ انسان خود حیران رہتا ہے۔گرنہ ستانی بہ ستم مے رسد۔والی نوبت ہوتی ہے۔لیکن انسان بہت سے زمانے پالیتا ہے۔جب اس پر ایسا زمانہ آتا ہے کہ خد ااس کا متولی ہو جائے یعنی اس کو خد اتعالیٰ کی تولیت حاصل کرنے سے پہلے کئی متولیوں کی تولیت سے گذرنا پڑتا ہے۔جیس اکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
قل اعوذ برب الناس۔ملک الناس الہ الناس۔من شر الوسواس الخناس۔الذی یوسوس
فی صدور الناس۔من الجنۃ والناس۔ (الناس : ۲ تا ۷)
پہلے حاجت ماں باپ کی پڑتی ہے۔پھر جب بڑا ہوتا ہے تو بادشاہوں اور حاکموں کی حاجت پڑتی ہے پھر جب اس سے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جن کو میں نے متولی سمجھا ہوا تھا وہ خود ایسے کمزور تھے کہ ان کو متولی سمجھنا میری غلطی تھی کیونکہ انہیں متولی بنانے میں نہ تو میری ضروریات ہی حاصل ہو سکتی تھیں اور نہ ہی وہ میرے لیے کافی ہو سکتے تھے۔پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے ارو ثابت قدمی دکھانے سے خدا تعالیٰ کو اپنا متولی پاتا ہے۔اس وقت اس کو بری راحت حاصل ہوتی ہے اور ایک عجیب طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔خصوصاً جب خدا کسی کو خود کہے کہ میں تیرا متولی ہوا تو اس وقت جو راحت اور طمانیت اس کو حاصل ہوتی ہے وہ ایسی حالت پیدا کرتی ہے کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔یہ حالت تمام تلخیوں سے پاک ہوتی ہے۔دنیاوی حالتوں میں انسان تلخی سے خالی نہیں ہو سکتا۔دشتِ دنیا کانٹوں اور تلخیوں سے بھری ہوئی ہے ؎
دشتِ دنیا جزدر و جز دام نیست
جز بخلوت گاہِ آرام نیست
جن کا اﷲ تعالیٰ متولی ہو جاتا ہے ۔وہ دنیا کے آلام سے نجات پا جاتے ہیں اور ایک سچی راحت اور طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں۔اُن کے لیے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
ومن یتق اﷲ یجعل لہ مخر جا۔ویر زقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق : ۳‘۴)
جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے ہر ایک بلا اور اَلم سے نکال لیت اہے اور اس کے رزق کاخود کفیل ہو جاتا ہے اور ایسے طریق سے دیتا ہے کہ جو وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔
دنیا میں کئی قسم کے جرائم ہوتے ہیں۔بعض جرائم قانون کی حد میں آسکتے ہیں اور بعض قانون کی حد میں بھی نہیں آسکتے۔گناہ‘ خون اور نقب زنی وغیرہ جب کرتا ہے تو اُن کی سزا قانون سے پاسکتا ہے۔لیکن جھوٹ وغیرہ جو معمولی طور پر بولتا ہے یا بعض حقوق کی رعایت نہیں رکھتا وغیرہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کے لیے قانون تدارک نہیں کرتا۔لیکن اﷲ تعالیٰ کے خوھ سے اور ا سکو راضی کرنے کے لیے جو سخص ہر ایک بدی سے بچتا ہے اس کو متقی کہتے ہیں یہ وہی متقی ہے جس کی آج عدالت میں بحث تھی۔ایک مولوی عدالت میں ازطرف کرم دین مستغیث گواہ تھا اور اس پر جرح تھی۔اثنائے جرح میں اس نے بحلھ بیان کیا کہ ایک شخص زنا بھی کرے‘ جھوٹ بولے یا خیانت کرے۔دغاد ے۔فریب کرے۔وغیرہ وغیرہ تو پھر بھی وہ متقی ہی رہتا ہے۔اﷲ تعالیٰ تو متقی کے لیے وعدہ کرتا ہے کہ
من یتق اﷲ یجعل لہ مخرجا (الطلاق : ۳)
یعنی جو اﷲ تعالیٰ کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہے تو ہر مشکل سے اﷲ تعالیٰ اس کو رہائی دے دیت اہے۔لوگوں نے تقویٰ کے چھوڑنے کے لیے طرح طرح کے بہانے بنا رکھے ہیں۔بعض کہتے ہین کہ جھوٹ بولے بغیر ہمارے کاروبار نہیں چل سکتے اور دوسرے لوگوں پر الزام لگاتے ہیں کہ اگر سچ کہا جائے تو وہ لوگ ہم پر اعتبار نہیں کرتے۔پھر بعض لوگ ایسے ہیں ۔جو کہتے ہیں کہ سود لینے کے بغیر ہامرا گذارہ نہیں ہو سکتا ۔ایس یلوگ کیونکر متقی کہلاسکتے ہیں۔خد اتعالیٰ تو وعدہ کرتا ہے کہ میں متقی کو ہر ایک مشکل سے نکالوں گا۔اور ایسے طور سے رزق دوں گا جو گمان اور وہم میں بھی نہ آسکے۔اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو لوگ ہماری کتاب پر عمل کریں گے ان کو ہر طرف سے اوپر سے وار نیچے سے رزق دوں گا۔پھر فرمایا ہے کہ
فی السماء رزقکم (الذریت : ۲۲۳)
جس کا مطلب یہی ہے کہ رزق تمہارا تمہاری اپنی محنتوں اور کوششوں اور منصوبوں سے وابستہ نہیں۔وہ اس سے بالاتر ہے۔یہ لوگ ان وعدوں سے فائدہ نہٰں اُٹھاتے اور تقویٰ اخیتار نہیں کرتے۔جو شخص تقویٰ اختیار نہیں کرتا وہ معاصی میں غرق رہتا ہے اور بہت ساری رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔لکھ اہے کہ ایک ولی اﷲ کسی شہر میں رہتے تھے ان کی ہمسائگت میں ایک دنیادار بھی رہتا تھا۔ولی ہر روز تہجد پڑھا کرتا تھا۔ایک دفعہ دنیادار کے دل میں خیال آیا کہ یہ شخص جو ہر روز تہجد پڑھا کرتا ہے میں بھی تہجد پڑھوں ۔غرض یہی ارادہ مصمم کرکے وہ ایک رات اُٹھا اور تہجد کی نماز پڑھی۔اس کو تہجد پڑھنے سے اس قدر تکلیف ہوئی کہ کمر میں درد شروع ہو گیا۔اس ولی اﷲ کو خبر ملی کہ رات اُن کے دنیادار ہمسایہ نے تہجد کی نماز پڑھی تھی تو اس کے سبب سے اس کے کمر میں درد ہونے لگا ہے۔وہ عیادت کے لیے آیا اور اُس سے حال پوچھا ۔دنیادار نے کہا کہ میں آپ کو دیکھا کرتا تھا کہ آپ ہر رات تہجد پڑھتے ہیں۔میرے خیال میں بھی آیا کہ میں بھی تہجد پڑھوں۔سو آج رات میں تہجد پڑھنے اُٹھا اور یہ مصیبت مجھ پر آگئی۔اس نے جواب میں کہا کہ تجھے اس فضول سے کیا؟ پہلے چاہیے تھا کہ تو اپنے آپ کو صاف کرتا اور پھر تہجد کا ارادہ کرتا۔اﷲ تعالیٰ کی اجابت بھی متقین کے لیے ہے؛ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
انما یتقبل اﷲ من المتقین (المائدۃ : ۲۸)
در حقیقت جب تک انسان تقویٰ اختیار نہ کرے اس وقت تک اﷲ تعالیٰ اس کی طرف رجوع نہیں کرتا۔اﷲ تعالیٰ کی ذات میں بے نظیر صفات ہیں۔جو لوگ ا سکی راہ پر چلتے ہیں انہیں کو اس سے اطلاع ملتی ہے اور وہی اس سے مزہ پاتے ہیں۔خدا تعالیٰ سے رشتہ میں اس قدر شیرینی اور لذت ہوتی ہے کہ کوئی پھل ایسا شیریں نہیں ہوتا۔خدا تعالیٰ سے جلدی کوئی شخص خبر گیراں نہیں ہوسکتا ۔پھر جس کا خدا متولی ہو جاتا ہے، اس کو کئی فائدے ہوتے ہیں۔ایک تو وہ طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ راحت پاتا ہے جو کسی دنای دار کو نصیب ہونا نا ممکن ہے اور ایسی لذت پاتا ہے جو کہیں دوسری جگہ نصیب نہیں ہوسکتی۔اور اس کا متولی ایسا زبردست ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک مشکل سے بہت جلدی نکالتا اور خبر گیری کرتا ہے۔یہ لوگ بالکل بے ہودہ جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں۔جھوٹی باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔نماز اگر پڑھتے ہیں تو ریاء کیلئے پڑھتے ہیں۔وہ نماز جو آنحضرت ﷺ نے سکھلائی تھی وہ نہینں پڑھتے۔ یہ وہ نماز ہے جس کے پڑھنے سے انسنا ابدال میں داخل ہو جاتا ہے۔گناہ اس کے دور ہو جاتے ہیں۔دعائیں قبول ہوتی ہیں۔انسعان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔
احسب الناس ان یترکو اانیقولو اامنا وھم لا یفتنون (اعنکبوت : ۳)
لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں،کافی ہے۔اور کوئی امتحانی مشکل پیش نہ آئے گی۔یہ بالکل غلط خیال ہے۔اﷲ تعالیٰ مومن پر ابتلاء بھیج کر امجحان کرتا ہے۔تمام راستبازوں سے خدا تعالٰٰ کی یہی سنت ہے وہ مصائب اور شدائد میں ضرور ڈالے جاتے ہیں۔
انقطاع الیاﷲ
مصائب بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک تو وہ مصائب ہیں جو زیرِ سایۂ شریعت ہوتے ہیں۔انسان احکام کی تعمیل کے لیے انقطاع حاصل کرنا چاہتا ہے ارو اس طرف ہر ایک دنیاوی تعلق میں جو کشش ہے وہ اس کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔بیوی‘بچے، دوست دنیاداری کی رسوم کے تعلقات چاہت یہیں کہ ہماری کشش اس پر ایسی ہو کہ وہ ہماری طرف کھنچا چلا اآوے اور ہم میں ہی محو رہے۔تعمیلِ احکام کی کشش ان سے انقطاع کا تقاضا کرتی ہے۔ان سب کا چھوڑنا ایک موت کا سامنا ہوتا ہے۔
ہمارا یہ مطلب تو نہیں کہ ان سب کو اس طرح چھوڑے کہ ان سے کوئی تعلق ہی نہ رکھے۔ایک طرف بیوی بیوائوں کی طرح ہو جائے اور بچے یتینوں کی طرح ہو جائیں۔قطع رحم ہو جائے بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ بیوی بچوں کا پورا تعہد کرے۔اُن کی پرورش پورے طور سے کرے اور حقوق ادا کرے۔صلہ رحم کرے۔لیکن دل اُن میں اور اسباب دنیا ممیں نہ لگا دے۔دل با یار و ست بکار رہے؛ اگر چہ یہ بات بہت نازک ہے مگر یہی سچا انقطاع ہے جس کی مومن کو ضرورت ہے۔وقت پر خدا تعالیٰ کی طرف ایسا آجاوے کہ گویا وہ ان سے کواراہی تھا۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی نسبت لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ صاحب نے ایک دفعہ سوال کیا کہ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا ۔ہاں۔حضرت امام حسین ؑ نے اس پر بڑ اتعجب کیا او رکہا کہ ایک دل میں دو محبتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں۔پھر حضرت امام حسین ؑ نے کہا کہ وقت مقابلہ پر آپ کس سے محبت کریں گے۔فرمایا اﷲ سے۔غرض انقطاع اُن کے دلوں میں مخفی ہوت اہے اور وقت پر ان کی محبت صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے رہ جاتی ہے۔مولی عبد الطیف صاحب نے عجیب نمومن انقطاع کا دکھلایا ۔جب اُنہیں گرفتار کرنے آئے تو لوگوں نے کہا کہ آپ گھر سے ہو آویں۔آپ نے فرمایا کہ میرا اُن سے کیا تعلق ہے۔خدا تعالیٰ سے میرا تعلق ہے سو اُس کا حکم آن پہنچا ہے۔میں جاتا ہوں۔ہر چیز کی اصلیت امتحان کے وقت ظاہر ہوتی ہے۔اصحابِ رسول اﷲ سب کچھ رکھتے تھے۔زن و فرزند اور اموال و اقارب سب کچھ اُن کے موجود تھے۔عزتیں اور کاروبار بھی رکھتے تھے،مگر اُنہوں نے اس طرح شہادت کو قبول کیا کہ گویا شیریں پھل انہیں میسر آگیا۔وہ اﷲ تعالیٰ کے لیے موت کو پسند کرتے ایک طرف تعہد حقوقِ عیال و اطفال میں کمال دکھیا اور دوسری طرف ایسا انقطاع کہ گویا وہ بالکل کورے تھے۔یہانتک کہ اﷲ تعالیٰ کے لیے موت کو پسند کرتے کبھی نامردی نہ دکھاتے بلکہ آگے ہی قدم رکھتے۔ایسی محبت سے وہ آنحضرت ﷺ کے قدموں میں جان دیتے تھے کہ بیوی بچوں کو بلا جیسی سمجھتے تھے۔اگر بیوی بچے مزاحم ہوں تو اُن کو دشمن سمجھتے تھے اور یہی معنی انقطاع کے ہیں۔آج کل کے رہبانوں کی طرح نہیں کہ بالکل بیوی بچے سے تعلق چھوڑدے اور سارے جہان سے ایک طرف ہو اجئے۔آسمان پر رہبانیت کے انقطاع کی کچھ قدر نہیں۔صوفی منقطعین بھی نمونے دکھاتے رہے ہیںکہ بازن و فرزندااور باخدا رہے ہیں۔پھر جب وقت آیا تو زن و فرزند کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کی طرف ہوگئے۔وہ لوگ اﷲ تعالیٰ کی طرف منقطع ہوت یہیں۔حضرت ابراہیم ؑ کا حال دیکھئے کیا انقطاع کا نمونہ ان سے ظاہر ہوا۔جو اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ضائع کرنا چاہت اہے اﷲ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا اور اس کا نشنا دنای سے معدوم نہیں کرتا۔میرا مطلب یہ ہے کہ لوگ اﷲ تعالیٰ سے ایسا اخلاص ظاہر کریں اور اس قدر کوشش کریں کہ اﷲ تعالیٰ اُن سے راضی ہو جائے۔
‏Amira 12-6-05
دوست دوست سے راضی نہیں ہو سکتا جب تک اس کے لیے وفاداری ظاہر اور ثابت نہ ہو۔کسی کے دو خد متگار ہوں۔ایک وفادار اور مخلص ثابت ہو اور اپنے فرائض کو نہ رسم و رواج اور دبائو سے بلکہ پوری محبت اور اخلاص سے ادا کرے اور دوسرا ایسا ہو جو بے دلی اور رسمی طور پر کچھ کام کرے تو اُن میں سے مالک اسی پہلے پر راضی ہو گا اور اسی کی باتوں کو سنے گا اور اسی پر اعتبار کرے گا اور وفادار ہی کو پیار کرے گا۔
فیج اعوج کے زمانہ میں تعصب بڑھ گیا ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
من عاد ا ولیا لی فعادالی۔
ان لوگوں کو یہ خیال نہیں کہ ان کے تعصب نے ان کو خدا تعالیٰ سے بالکل دور کر دیا ہے۔ایک زمانہ آنیوالا ہے کہ جس قدر ہم لوگ ہیں وہ سب نہ ہوں گے۔رسمی نمازوں سے خدا تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔دنیا کے دوست بھی صرف الفاظ سے نہیں بنتے۔اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔اسلام کا لفظ ہی مسلمان بناتے ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی رضا اور حکموں پر گردن جھکائی جاوے۔یہ لقب کسی اور ملت کو نہیں دیا گیا۔اس اُمت پر یہ اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔اسلام جس بات کو چاہتا ہے وہ اسی جگہ سے اسلام کے ذریعہ سے حاصل ہو جاتا ہے۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمٰن : ۴۷)
خدا کے دیدار کے واسطے اسی جگہ سے حواس ملتے ہیں۔
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی۔ (بنی اسرائیل : ۳ ۷)
جو یہاں خدا نہیں دیکھتا وہ وہاں بھی نہیں دیکھ سکے گا۔؎ٰ
یکم جون ۱۹۰۴ء؁ (قبل از شام)
دعا
دعا کی مثال ایک چشمۂ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے۔وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے ۔جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیّاش کا کامل درجہ کا سرور جو اُسے کسی بدمعاشی میں میسر آسکتا ہے۔ہیچ ہے۔بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے۔دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاتا اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔جب مومن کی دعا میں پورااخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے۔تو خد اکو بیھ اس پر رحم آجاتا ہے اور اس کا متولی ہو جاتا ہے۔اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الٰہی تولی کے بغیر انسنای زندگی قطعاً تلخ ہو جاتی ہے۔دیکھ لیجئے جب انسان حد بلوغت کو پہنچتا ہے اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگتا ہے تو نامرادیوں ناکامیابیوں اور قسام قسم کے مصائب کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔وہ اُن سے بچنے کیلئے طرح طرح کی کوششیں کرتا ہے۔دولت کے ذریعہ اپنے تعلق حکام کے ذریعہ، قسام قسم کے حیلہ و فریب کے ذریعہ وہ بچائو کے راہ نکالتا ہے،لیکن مشکل ہیکہوہ اس میں کامیاب ہو۔بعض وقت اس کی تلخ کامیوں کا انجام خود کشی ہو جاتی ہے۔اب اگر ان دنیاداروں کے غموم و ہموم اور تکالیف اک مقابلہ اہل اﷲ یا انبیاء کے مصائب کے ساتھ کیا جاوے تو انبیاء علیہم السلام کے مصائب بمقابل اول الذکر جماعت کے مصائب بالکل ہیچ ہیں لیکن یہ مصائب و شدائد اس پاک گروہ کو رنجیدہ یا محزون نہیں کرسکتے۔اُن کی خوشحالی اور سرور میں فرق نہیں آتا۔کیونکہ وہ اپنی دعائوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تولی میں پھر رہے ہیں۔
استقامت ایک معجزہ ہے
دیکھو اگر ایک شخص کا ایک حاکم سے تعلق ہواور مثلاً اس حاکم نے اسے اطمینان بھی دیا ہو کہ وہ اپنے مصائب کے وقت اس سے استعانت کر سکتا ہے تو ایسا شخص کسی ایسی تکلیھ کے وقت جس کی گرہ کشائی اس حاکم کے ہاتھ میں ہے عام لوگوں کے مقابل کم درجہ رنجیدہ اور غمناک ہوتا ہے تو پھر وہ مومن جس کا اس قسم کا بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوط تعلق احکم الحاکمین سے ہو۔وہ کب مصائب و شدائد کے وقت گھبراوئے گا۔انبیاء علیہم السلام پر جو مصیبتیں آتی ہیں اگر ان کا عشر عشیر بھی ان کے غیر پر وارد ہو تو اس میں زندگی کی طاقت باقی نہ رہے۔یہ لوگ جب دنیا میں بغرض اصلاح آتے ہیں تو اُن کی کل دنیا دشمن ہو جاتی ہے۔لاکھوں آدمی اُن کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں لیکن یہ خطر ناک دشمن بھی اُن کے اطمینان میں خلل انداز نہیں ہوسکتے۔اگر ایک شخص کا ایک دشمن بھی ہو تو وہ کسی لمحہ بھی اس کے شر سے امن میں نہیں رہتا۔چہ ئائیکہ ملک کا ملک اُن کا دشمن ہو اور پھر یہ لوگ باامن زندگی بسر کریں۔ان تمام تلخ کامیوں کو ٹھنڈ ے دل سے برداشت کر لیں۔یہ برداشت ہی معجزہ و کرامت ہے۔رسول اکرم ﷺ کی استقامت اُن کے لاکھوں معجزوں سے بڑھ کر ایک معجزہ ہے۔کل قوم کا ایک طرف ہونا۔دولتق‘ سلطنت‘ دنیوی و جاہت، حسینہ جمیلہ بیویاں وغیرہ سب کچھ کے لالچ قوم کا اس شرط پر دینا کہ وہ اعلائے کلمۃ اﷲ لاالہ الا اﷲ سے رک جاویں۔لیکن ان سب کے مقابل جناب رسالمتآبؐ کا قبول کرنا اور فرمانا کہ میں اگر اپنے نفس سے کرتا تو یہ سب باتیں قبول کرتا۔میں تو حکمِ خدا کے ماتحت یہ سب کچھ کر رہا ہوں اور پھر دوسری طرھ سب تکالیف کی برداشت کرنا یہ ایک فوق الطاقت معجزہ ہے۔یہ سب طاقت اور برداشت اُس دعا کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جو مومن کو خد اتعالیٰ نے عطا کی ہے۔ان لوگوں کی درد ناک دعا بعض وقت قاتلوں کے سفا کانہ حملہ کو توڑ دیتی ہے۔حضرت عمرؓ کا آنحضرت ﷺ کے قتل کے لیے جانا آپ لوگوں نے سنا ہوگا۔ابو جہل نے ایک قسم کا اشتہار قوم میں دے رکھا تھا کہ جو جناب رسالتمآب کو قتل کرے گا وہ بہت کچھ انعام و اکرام کا مستحق ہوگا۔حضرت عمرؓ نے مشرف باسلام ہونے سے پہیل ابو جہل سے معاہدہ کیا اور قتل حضرت کے لیے آمادہ ہو گیا۔اس کو کسی عمدہ وقت کی تلاش تھی۔دریافت پر اُسے معلوم ہوا کہ حضرت نصف شب کے وقت خانہ کعبہ میں بغرض نماز آتے ہیں۔یہ وقت عمدہ سمجھ کر حضرت عمرؓ سر شام خانہ کعبہ میں جا چھپے ۔آدھی رات کے وقت جنگل میں سے لاالہ الا اﷲ کی آواز آنا شروع ہوئی۔حضرت عمرع نے ارادہ کیا کہ جب آنحضرت ﷺ سجدہ میں گریں تو اس وقت قتل کروں۔آنحضرت ﷺ نے درد کے ساتھ مناجات شروع کی اور سجدہ میں اس طرح حمد ِ الٰہی کا ذکر کیا کہ حضرت عمرؓ کا دل پسیج گیا۔اس کی ساری جرأت جاتی رہی اور اس کا قاتلانہ ہاتھ سست ہو گیا۔نماز ختم کر کے جب آنحضرت ﷺ گھر کو ثلے تو اُ۲ن کے بیچھے حضرت عمرؓ ہو گئے۔آنحضرت ﷺ نے آہٹ پا کر دریافت کیا اور معلومہونے پر فرمایا کہ اے عمر کیا تو مریا پیچھا نہ چھوڑے گا۔حضرت عمرؓ بد دعا کے ڈر سے بول اُٹھے کہ حضرت ؐ میں نے آپ کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا ۔میرے حق میں بد دعا نہ کیجئے گا؛ چنانچہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ وہ پہلی رات تھی جب مجھ میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی۔
سو میرے نزدیک شق القمر کا معجزہ ایسا زبردست معجزہ نہیں جیسے رسول پاکؓ کی استقامت ایک معجزہ ہے۔اس میں شک نہیں کہ ضرورتِ وقت کے لحاظ سے انبیاء علیہم السلام معجزہ دکھلاتے ہیں اور وہ نور و ہدایت اپنے اندر رھکتے ہیں۔لیکن ان سب معجزات سے بڑھ کر استقامت ایک معجزہ ہے۔آج چوبیس سال مجھ پر گذر گئے جب میں نے دعویٰ وحی و الہام کیا۔جو لوگ میرے پاس دن رات بیٹھتے ہیں وہ دیکھتے ہیں اور گواہ اس بات کے ہیں کہ کس طرح خد اتعالیٰ ہر روز مجھے اپنے کلام سے مشرف کرتا ہے اور کس طرح جو مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے وہ پور اہوتا ہے۔اب کیا منیں ہر روز افتراء کرتا ہوں؟ اور خداتعالیٰ بھی اس قدر صابر ہے کہ ایسے مفتری کو مہلت دے رہاہے۔پیغمبر صاحب کو تو یہ حکم کہ اگر تو ایک افتراء مجھ پر باندھتا تو میں تیری رگِ گردن کاٹ دیتا جیسے کہ آیت
لو تقول علینہ بعض الاقادویل لا خدنا منہ بالیمین ۔ثم لقطعنا منہ الوتین (الحاقۃ ۴۵ تا ۴۷)
سے ظاہر ہوتا ہے اور یہاں چوبیس سال سے روزانہ افتراء خدا تعالیٰ پر ہو اور خدا اپنی سنتِ قدیمہ کو نہ بَرتے۔بدی کرنے میں جھوٹ بولنے میں کبھی مداومت اور استقامت نہیں ہوتی۔آخر کار انسان دروغ کو چھوڑ ہی دیتا ہے۔لیکن کیا میری ہی فطرت ایسی ہو رہی ہے کہ میں چوبیس سال سے اس جھوٹ پر قائم ہوں اور برابر چل رہا ہوں اور خدا تعالیٰ بھی بالمقابل خاموش ہے ارو بالمقابل ہمیشہ تائیدات پر تائیدات کر رہا ہے۔پیشگوئی کرنا یا علم غیب سے حصہ پانا کسی ایک معمولی ولی کا بھی کام نہیں ۔یہ نعمت تو اس کو عطا ہوتی ہے جو حضرت احدیت مآب میں خاص عزت اور وجاہت رکھتا ہے۔اب دیکھ لیا جاوے کہ خد اتعالیٰ نے کس قدر پیشگوئیاں میرے ہاتھ پر پوری کیں۔براہین احمدیہ اور اس میں جو میرے آئندہ حالات درج ہیں ان کو دیکھ اجاوے اور پھر میرے آجکل کے حالات کو دیکھا جاوے کہ وہ تمام کس طرح پورے ہوئے۔پھر جو جو نشانات مسیح موعود کے زمانہ کے آثار ہیں، موجود ہیں۔وہ کس طرح اس زمانہ میں پورے ہو گئے۔رمضان میں کسوف خسوف کا ہونا۔ریل کا جاری ہو کر اونٹنیوں کا حجاز میں بھی بند ہو جانا، طاعون کا نمودار ہونا۔یہ سب علامات ہیں جو زمانہ مہدی کے ساتھ مختص ہیں۔یہ خدا تعالیٰ نے کیوں پورے کیے؟ کیا ایک کذات اور مفتری علی اﷲ کی رونق افزائی کے لیے جو چوبیس سال سے برابر افتراء باندھ رہا یہ۔آخر میں میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ عمر کا کوئی بھروسہ نہیں۔یہ وقت ہے اس کو غنیمت سمجھا جاوے۔یہ خد اتعالیٰ کے نشان ہیں۔ان سے منہ موڑنا خد اتعالیٰ کی حکم عدولی ہے۔دیکھو ایک مجازی حاکم کا پیادہ اگر آجاوے اور پیادہ جس حکم کو لاتا ہے اُس کی پروا نہ کی جاوے، تو پھر یہ حکم عدولی کیسے بدنتائج پیدا کرتی ہے۔؛چہ جائیکہ خدا تعالیٰ کی حکم عدولی۔دنیا میں جب کبھی کوئی خد اتعالٰٰ کا مرسل آوے گا وہ انسنا ہی ہوگا۔اس کے اوضاع و اطوار انسانوں والے ہی ہوں گے۔آخر فرشتہ کو تو نہیں آنا۔یہ لوگ اس کے لوازم انسانیت سے گھبرا جاتے ہیں اور اُن کی آنکھوں کے سمانے ایک حجاب ہے جو اس کے جامۂ نبوت کو چھپائے ہوئے ہے لیکن یہ حجاب ضروری ہے جس میں ہر ایک نبی مستور ہوتا ہے۔مبارک ہے وہ جو اس حجاب کے اندر اُس شخص کو دیکھ لے۔؎ٰ
ابتدائے جون ۱۹۰۴ء؁ بمقام گورداسپور
تعدّد ازدواج۔مقصد اور حدود
ایک احمدی نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعدّد ازدواج میں جو عدک کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت
الرجال قو امون علی النساء (النساء : ۳۵)
کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویسا سلوک اس کرے یا کچھ اور معنی ہیں۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ:
محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے۔مثلاً پارچہ جات۔خرچ خوراک۔معاشرت حتیٰ کہ مباشرت میں بھی مساوات بَرتے۔یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوارہنا پسند کرے۔خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی اُن کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے۔ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے،تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔تعدّد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کامیلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کر لے،لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے۔تو رات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اُس کی دلداری زیدہ کرے،کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق جاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہانتک کرنی چاہیے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواجِ ثانی کی محسوس ہو،لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اُس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لیے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔
اس قدر ذکر ہوا تھا کہ ایک صاحب نے اُٹھ کر عرض کی کہ البدر؎ٰ اور الحکم اخباروں میں تعدّد ازدواج
کی نسبت جو کچھ لکھاگیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ ہمارے ذمہ دوسرا نکاح حضور نے فرض کر
دیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ :
ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں۔قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو۔
‏Amira 13-6-05
اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو، لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا۔اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے۔دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بڑے نازک ہوتے ہیں۔جب والدین اُن کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالہ کرتے ہیں،تو خیال کرو کہ کیا امیدیں اُن کے دلون میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان
عاشرو ھن بالمعروف (النساء : ۲۰)
کے حکم سے ہی کرسکتا ہے۔اگر انسان کا سلوک اپنی بیوی سے عمدہ ہو اور اسے ضرورتِ شرعی پیدا ہو جاوے تو اس کی بیوی اس کے دوسرے نکاحوں سے ناراض نہیں ہوتی۔ہم نے اپنے گھر میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ ہمارے نکاح والی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لیے رورو کر دعائیں کرتی ہیں۔اصل بات یہ ہیکہ بیویوں کی ناراضگی کا باعث خاوند کی نفسانیت ہوا کرتی ہے اور اگر اُن کو اس بات کا علم ہو کہ ہمارا خاوند صحیح اغراض اور تقویٰ کے اصول پر دوسری بیوی کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ کبھی ناراض نہیں ہوتیں۔فساد کی بنا تقویٰ کی خلاف ورزی ہوا کرتی ہے۔
خدا تعالیٰ کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہیے اور نہ اُس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہیے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے۔یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے، خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو، بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو۔اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کے لیے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔زنا کا نام ہی گناہ نہیںبلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے۔دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہیے،تا کہ
فلیضحکواقلیلا ولیبکواکثیرا۔ (التوبہ : ۸۲)
یعنی ہنسور تھوڑا اور روئو بہت کا مصداق بنو، لیکن جس شخص کی دنیاوی تمتع کثرت سے ہیں اور رات دن بیویوں میں مصروف ہے۔اُس کو رقت ارو رونا کب نصیب ہوگا۔اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیںا رو اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دور جا پڑتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے اگر چہ بعض اشیاء جائز تو کر دی ہیں،مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے۔خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے
یبیتون لربھم سجداوقیاما (الفرقان : ۶۵)
کہ وہ اپنے رب کے لیے تمام رات سجدہ اور قیام میں گذارتے ہیں۔اب دیکھو۔رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے۔وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لیے شریک پیدا کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے آپ ساری ساری رات خد اتعالیٰ کی عبادت میں گذارے تھے ۔ایک رات آپؐ کی باری عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس تھی۔کچھ حضہ رات کا گذرگیا تو حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلی۔دیکھ اکہ آپ موجود نہیں۔اُسے شبہ ہوا کہ شائد آپ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں اُس نے اُٹھ کر ہر ایک گھر میں تلاش کیا،مگر آپؐ نہ ملے۔آخر دیکھ اکہ آپؐ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رو رہے ہیں۔اب دیکھو کہ آپؐ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھور کر مردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپؐ کی بیویان حظ نفس ای اتباعِ شہوت کی بنا پر ہوسکتی ہیں؟۔
غرضکہ جوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کا صال منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں۔اور تقویٰ کی تکمیل کے لیے اگر ضرورت حقہ پیش آوے تو اور بیوی کر لو۔آنحضرت ﷺ کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا کہ ایک ابار حضرت عمرؓ آپؐ سے ملنے گئے۔ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی۔آنحضرت ﷺ ایک کھجور کی چٹائی پ رلیٹے ہوئے تھے۔جب حضرت عمرؓ اندر آئے تو آپؐ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔حضرت عمرؓ نے دیکھ اکہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے۔ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپؐ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپؐ کی پُشت مبارک پر بنے ہوئے تھے۔حضرت عمرؓ اعن کو دیکھ کر ور پڑے۔آپؐ نے پوچھا۔اے عمرؓ ! تجھ کو کس چیز نے رلایا؟ عمرؓ نے عرض کی کہ کسریٰ اور قیصر تو تنعم کے اسباب رکھیں اور آپؐ جو خد اتعالیٰ کے رسول اور دو جہان کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔اے عمرؓ مجھے دنیا سے کیا غرض ؟ میں تو اس مسافر کی طرح گذارہ کرتا ہوں جو اُونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو۔ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں سستا لے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ پھر چل پڑے۔جس قدر نبی اور رسول ہوئے سب نے دوسرے پہلو (آخرت) کو ہی مد نظر رکھا ہوا تھا۔
پس جاننا چاہیے کہ جو شخص شہوات کی اتباع سے زیادہ بیویاں کرتا ہے وہ مغزِ اسلام سے دور رہتا ہے۔ہر ایک دن جو چڑھتا ہے اور رات جو آتی ہے اگر وہ تلخی سے زندگی بسر نہیں کرت ااور روتاکم یا بالکل ہی نہیں روتا او ہنستا زیادہ ہے تو یاد رہے کہ وہ ہلاکت کا نشانہ ہے۔استیفاء لذت اگر حلال طو رپر ہو تو حرج نہیں۔جیسے ایک شخص ٹٹو پر سوار ہے اور راستہ میں اُسے نہاری وغیرہ اس لیے دیتاہے کہ اس کی طاقت قائم رہے اور وہ منزل مقصود تک اُسے پہنچادے جہاں خدا تعالیٰ نے سب کے حقوق رکھے ہیں وہاں نفس کا بھی حق رکھا ہے کہ وہ عبادات بجالاسکے۔
لوگوں کے نزدیک چوری زنا وغیرہ، ہی گناہ ہیں اور اُن کو یہ معلوم نہیں کہ استیفاء لذات میں مشغول ہونا بھی گناہ۔اگر ایک شخص اپنا اکثر حصہ وقت کا تو عیش و آرام میں بسر کرت اہے اور کسی وقت اُٹھ کر چار ٹکریں بھی مار لیتا ہے۔(یعنی نماز پڑھتا ہے) تو وہ نمرودی زندگی بسر کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی ریاضت اور مشقت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے فرماتا کہ کیا تو اس محنت میں مر جائے گا؛ حالانکہ ہم نے تیرے لیے بیویاں بھی حلال کی ہیں۔یہ خدا تعالیٰ نے آپؐ کو ایسے ہی فرمایا جیسے ماں اپنے بچے کو پڑھنے یادوسرے کا م میں مستغرق دیکھ کر صحت کے قیام کے لحاظ سے اُسے کھیلنے کودنے کی اجازت دیتی ہے۔خدا تعالیٰ کا یہ خطاب اسی غرض سے ہے کہ آپ تازہ دم ہوکر پھر دین کی خدمت میں مصروف ہوں۔اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ آپ شہوات کی طرف جھک جاویں۔ نادان معترض ایک پہلو کو تو دیکھتے ہیں اور دوسرے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔پادریوں نے اس بات کی طرف کبھی غور نہیں کی کہ آنحضرت ﷺ کا حقیقی میلان کس طرف تھا اور رات دن آپؐ کس فکر میں رہتے تھے۔بہت سے ملا اور عام لوگ ان باریکیوں سے ناواقف ہیں۔اگر اُن کو کہا جاوے کہ تم شہوات کے تابع ہو تو جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم حرام کرتے ہیں؟ شریعت نے ہمیں اجازت دی ہے تو ہم کرتے ہیں۔ان کو اس بات کا علم نہیں کہ بے محل استعمال سے حلال بھی حرام ہو جاتا ہے۔
ماخلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات : ۵۷)
سے ظاہر ہے کہ انسان صرف عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔پس اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے جس قدر چیز اُسے درکار ہے۔اگر اُس سے زیادہ لیتا ہے تو گو وہ شئے حلال ہی ہو مگر فضول ہونے کی وجہ سے اس کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔جو انسان رات دن نفسانی لذات میں مصروف ہے وہ عبادت کا کیا حق ادا کر سکتا ہے۔مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک تلخ زندگی بسر کرے لیکن عیش و عشرت میں بسر کرنے سے تو وہ اس زندگی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکتا ۔
ہمارے کلام کا مقصد یہ ہے کہ دونوں پہلوئوں کا لحاظ رکھا جاوے۔یہ نہیں کہ صرف لذات کے پہلو پر زور دیا جاوے اور تقویٰ کو بالکل ترک کر دیا جاوے۔اسلام نے جن کاموں اور باتوں کو مباح کہا ہے اس سے یہ غرض ہر گز نہیں ہے کہ رات دن اس میں مستغرق رہے۔صرف یہ ہے کہ بقدر ضرورت وقت پر اُن سے فائدہ اُٹھایا جاوے۔
اس مقام پر پھر وہی صاحب بولے کہ اس سے تو یہ نتیجہ نکلا کہ تعدّد ازواج بطو ردوا کے ہے نہ بطور غذا کے۔
حضور ؑ نے فرمایا ۔ہاں۔
اس پر انہوں نے عرض کی کہ ان اخبار والوںنے تو لکھا ہے کہ احمدی جماعت کو بڑھانے کے لیے زیادہ بیویاں کرو۔
حضورؑ نے فرمایا کہ :
ایک حدیث میں یہ ہیکہ کثرت ازدواج سے اولاد بڑھائو تا کہ اُمت زیادہ ہو۔اصل بات یہ ہے کہ
انما الاعمال بالنیات۔
انسان کے ہر عمل کا مداراس کی نیت پر ہے۔کسی کے دل کو ثیر کر ہم نہیں دیکھ سکتے۔اگر کسی کی یہ نیت نہیں ہے کہ زیادہ بیویاں کر کے عورتوں کی لذات میں فنا ہو بلکہ یہ ہے کہ اس سے خادم دین پیدا ہوں تو کیا حرج ہے۔لیکن یہ امر بھی مشروط بشرائط بالا ہے۔مثلاً اگر ایک شخص کی چار بیویاں ہوں اور ہر سال ہر ایک سے ایک ایک اولاد ہو تو چار سال میں سولہ بچے ہوں گے، مگر بات یہ ہے کہ لوگ دوسرے پہلو کو ترک دیتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ صرف ایک پہلو پر ہی زور دیا جاوے؛ حالانکہ ہمارہ یہ منصب ہرگز نہیں ہے۔قرآن شریف میں متفرق طور پر تقویٰ کا ذکر آیا ہے، لیکن جہاں کہیں بیویوں کا ذکر ہے وہان ضرور ہی تقویٰ کا بھی ذکر ہے۔ادائیگی حقوق ایک بری ضروری شئے ہے اسی لیے عدل کی تاکید ہے۔اگر ایک شخص دیکھتا ہے کہ وہ حقوق کو ادا نہیں کر سکتا یا اس کی رجولیت کے قویٰ کمزور ہیں یا خطرہ ہو کہ کسی بیامری میں مبتلا ہو جائیتُسے چاہیے کہ دیدہ دانستہ اپنے آپ کو عذاب میں نہ الے۔تقویٰ یعنی شرعی ضرورت جو اپنے محل پر ہو اگر موجود ہو تو پہلی بیوی خود تجویز کرتی ہے کہ جاوند اور نکاح کر لے۔
آخری نصیحت ہامری یہی ہے کہ اسلام کو اپنی عیا شیوں کے لیے سپر نہ بنائو کہ آج ایک حسین عورت نظر آئی تو اُسے کر لیا۔کل اور نظر آئی تو اُسے کر لیا۔یہ تو گویا خد اکی گدی پر عورتون کو بٹھانا اور اُسے بھلادینا ہوا۔دین تو چاہتا ہیکہ کوئی زخم دل پر ایسا رہے جس سے ہر وقت خدا تعالیٰ یاد آوے ورنہ سلب ایمان کا خطرہ ہے۔اگر صحابہ کرامؓ عورتیں کرنے والے اور انہیں میں مصروف رہنے اولے ہوتے تو اپنے سر جنگوں میں کیوں کٹواتے؛ حالانکہ اُن کا یہ حال تھا کہ ایک کی انگلی کٹ گئی تو اُسے مخاطب ہو کے کہا کہ تو ایک انگلی ہی ہے اگر کٹ گئی تو کیا ہوا۔مگر جو شب و روز عیش و عشرت میں مستغرق ہے وہ کب ایسا دل لا سکت اہے۔آنحضرت ﷺ نمازوں میں اس قدر روتے اور قیام کرتے کہ آپؐ کے پائوں پر وَرم ہو جاتا۔صحابہؓ نے عرض کی کہ خدا تعالیٰ نے آپؐ کے تمام گناہ بخش دیئے ہیں پھر اس قدر مشقت اور رونے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں۔؎ٰ
۴؍جون ۱۹۰۴ء؁
نماز میں دعا ہے ایک شخص کے سوال پر فرمایا کہ :
نماز اصل میں دعا ہے۔نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے۔اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لیے تیار رہے،کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے۔ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اُٹھاتا ہوں۔مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں۔میں بہت رحم کرتا ہوں۔بیکسوں کی امداد کرتا ہوں۔لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے۔اس کے پاس سے گذرتا ہے اور اس کی ند اکی پروا نہیں کرتا نہ اپنی مشکل کا بیان کر کے طلبِ امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہوگا۔یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسنا کو آرام دینے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے، قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے۔کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پید اہوتی ہے۔
الیٰ ربک یومئذ المستقر (القیامۃ : ۱۳)
اس آیت کو قیامت پر چسپاں کرنا غلطی ہے کیونکہ اس ن تو خدا کی طرف رجوع کرنا کسی کام نہ آویگا۔بلکہ یہ اس زمانہ کی حالت ہے کہ طاعون کے بارے میں خواہ کوئی حیلہ حوالہ کریں ہرگز کام نہ آوے گا۔آخر مستقر خدا تعا لیٰ ہی ہوگا۔لوگ جب اس کو مانیں گے۔تب وہ اس سے رہائی دے گا۔
این المفر (القیامۃ : ۱۱)
بھی اس پرچسپاں ہے۔کیونکہ دوسرے آفات میں تو کوئی نہ کوئی مفر ہوتا ہے،مگر طاعون میں کوئی مفر نہیں ہے۔صرف خدا تعالیٰ کی پناہ ہی کام آویگی۔
خدا تعالیٰ کی طرف ظلم کبھی منسوب نہیں ہوسکتا جو صادق ہوگا۔وہ ضرور اپنے صدق سے نفع پاوے گا۔یہ وہی دن ہیں جن کی نسبت کہا گیا ہے؎ٰ۔
ھذا یوم ینفع الصادقین صدقہم (المائدۃ : ۱۲۰)
‏Amira 14-6-05
حقیقی تہذیب
صنعت و حرفت مین دسترس حاصل کرنے، سیر و سیاحت میں قوم کے افراد کو مشگول رہنے۔لنڈن ہو آنے، مشنوں میں ترقی کرنے وغیرہ کو آج کل تہذیب کے نام سے نامزد کیا جاتا ہے۔اور جب کسی قوم میں یہ باتیں ہوں تو اسے ایک مہذب قوم کہتے ہیں یہ ذکر ایک صاحب نے حضرت اقدسؑ کی مجلس میں آج کیا۔
اس پر آپؐ نے فرمایا کہ :
جس قوم میں راستی کا پیار نہیں۔اعمال میں للّٰہیت نہیں اورریاکاری اور خود پسندی اس کا شیوہ ہے، اُسے مہذب نہین کہہ سکتے۔تہذیب کے اصول اخلاص، صدق اور توحید ہیں۔وہ سوائے اسلام کے اور کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتے۔عیسائیوں کو اخلاق کا بڑا ناز ہے، مگر ان کی جو بات دیکھو اسی میں گناہ ہے۔کوئی عمل ہو اس میں ریاکاری ضرور ہے؛ حالناکہ خلق وہ ہے جو للہ ہو۔خدا تعالیٰ کی عظمت، اس پر ایمان اور نوع انسان کی خدمت یہ باتیں خلق کی ہیں۔لیکن یہاں خدا کی جگہ تو ایک یسوع نامی کو دیدی گئی ہے اور مخلوق کے ساتھ جو معاملہ ہے وہ ظاہر ہے۔بات یہ ہے کہ جب خدا کو شناخت ہی نہیں کیا، تو اس پر نظر رکھ کر کسی کی خدمت کیا کرسکتے ہیں؟ سچے خلق کا برتائو بہت مشکل ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک قویٰ کو برمحل برتا جاوے اور خد اسے ڈر کر وہ اپنی حد پر رہیں۔لیکن ایمان کے سوا یہ باتیں حاصل نہیں ہوتیں۔ثواب اس کو ملا کرتا ہے جو خدا تعالیٰ سے ڈر کر گناہ کو چھوڑتا ہے یا اس کو راضی کرنے کی محنت برداشت کرکے ایک نیکی کو کرتا ہے۔اور جب تک یہ نیت نہیں ہوتی۔تب تک ہرگز ثواب نہیں ملتا؛ اگر چہ وہ کام بذات خود نیک ہی ہو۔ہند و لوگ بتون کی خاطر کیا کیا کرتے ہیں۔کتنی محنتیں اٹھاتے ہیں مگر سب کی سب رائیگاں جاتی ہیں۔؎ٰ
؁ ۱۹؍جون ۱۹۰۴ء؁ بوقت ظہر
متقی کون ہے؟
ایک مولوی صاحب جن کے والد بزرگوار احمدی جماعت میں داخل تھے اور بقضائے الٰہی فوت ہو گئے۔علاقہ گوجرانوالہ سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ان کو حضرت اقدس سے ارادت حاصل نہ تھی اور نہ اپنے والد مرحوم کو صراط مستقیم پر سمجھتے تھے۔چند احباب کی تحریک سے وہ بحث و مباحثہ کی غرض لے کر یہاں آئے تھے۔حضرت اقدس کے روبرو تو ان کی کوئی کلام ہم نے نہ سنی۔حضرت مولوی نورالدین صاحب البتہ کلام کرتے رہے۔جس میں نو وارد مولوی صاحب نے یہ کہا کہ ہمارے نزدیک بہت سے متقی ہیں کہ جنہوں نے مرزا صاحب کو نہین مانا اور چونکہ ہم ان کو متقی اور راستباز تسلیم کرتے ہیں ،اس لیے ہم بھی نہیں مانتے۔حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے ا سکا جواب یہ دیا کہ اگر کوئی ایسا شخص ہے کہ جو ضد اور تعصب وغیرہ سے تو پاک ہے اور سچی ارادت سے حق کا طالب ہے اس لیے کسی شخص کو متقی مان کر اس کی تقلید سے وہ حضرت امام علیہ السلام کا منکر ہے تو وہ میرے نزدیک وہ اس وقت تک معذور ہے جبتک کہ اﷲ تعالیٰ اس پر حقیقت کو واضح نہ کردے، کیونکہ مؤاخذہ کے لیے ضروری ہے کہ
قد تبین الرشد من الغی۔ (البقرہ : ۲۵۷)
ہو۔اور خد اتعالیٰ فرماتا ہے۔
لیھلک من ھلک عن بینۃ ویحیی من حی عن بینۃ (الانفال : ۴۳)
جو ہلاک ہو وہ بھی بین آیات دیکھ کر ہلاک ہو اور جو زندہ ہو وہ بھی بین آیات دیکھ کر زندہ ہو۔
نو وارد مولوی صاحب نے چاہا کہ اس کی تصدیق حضرت مرزا صاحب سے کرائی جاوے،اس لیے جناب حکیم صاحب نے بوقتِ ظہر اس مسئلہ کو حضرت امام علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں عرض کیا جس پر آپؐ نے فرمایا کہ :
اس قسم کا سوال حضرت موسیٰ ؑسے ہوا تھا تو انہوں نے جواب دیا
علمہا عندربی (طہ : ۵۳)
ایسے ہی ہم بھی کہتے ہیں کہ اُن کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے۔وہ جیسے جیسے سمجھے گا ویسا معاملہ اس سے کرے گا۔ہاں کوئی آدمی کسی کو متقی کیونکر یقین کر سکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہے۔
لا تزکو اانفسکم (النجم :۳۳)
اور فرماتا ہے۔
ھواعلم بمن اتقی (النجم :۳۳)
اور فرماتا ہے اﷲ تعالیٰ ہی
علیم بذات الصدور (مائدہ : ۸)
ہے۔ہاں مامور من اﷲ کے متقی ہونے اور نہ ہونے کے نشانات بیّن ہوتے ہیںنہ اوروں کے۔
بعد نماز مغرب
مغرب کی نماز کے بعد جب حضرت امام ؑ شہ نشین پر جلوہ افروز ہوئے تو سیّد احمد شاہ صاحب سندھی نے آپ سے نیاز حاصل کی اور پوچھا کہ متقی کسے کہہ سکتے ہیں۔فرمایا :
آنحضرت ﷺ جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے دعویٰ کیا تو اس وقت بھی لوگوں کی نظرون میں بہت سے یہدوی عالم متقی اور پرہیز گار مشہور تھے،لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی متقی ہوں۔خدا تعالیٰ تو اُن متقیوں کا ذکر کرتا ہے جو اس کے نزدیک تقویٰ اور اخلاص رکھتے ہیں۔جب ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کا دعویٰ سنا ۔لوگوں میں جو اُن کی وجاہت تھی اس میں فرق آتا دیکھ کر رعونت سے انکار کر دیا اور حق کو اختیار کرنا گوارا نہ کیا۔اب دیکھو کہ لوگوں کے نزدیک تو وہ بھی متقی تھے مگر اُن کا نام حقیقی متقی نہیں تھا۔حقیقی متقی وہ شخص ہے کہ جس کی خواہ آبرو جائے۔ہزار ذلت آتی ہو۔جان جانے کا خطرہ ہو، فقرو فاقہ کی نوبت آئی ہو تو وہ محض اﷲ تعالیٰ سے ڈر کر ان سب نقصانوں کو گوارا کرے لیکن حق کو ہرگز نہ چھپاوے۔متقی کے یہ معنی جیسے آج کل کے مولوی عدالتوں میں باین کرتے ہیں ہرگز نہیں ہیں کہ جو شخص زبان سے سب مانتا ہو خواہ اس کا عمل درآمد اس پر ہویا نہ ہو اور وہ جھوٹ بھی بول لیتا ہو، چوری بھی کرتا ہو تو وہ متقی ہے۔تقویٰ کے بھی مراتب ہوتے ہیں اور جبتک کہ یہ کامل نہ ہوں تب تک انسان پورا متقی نہیں ہوتا۔ہر ایک شئے وہی کار آمد ہوتی ہے جس کا پورا وزن لیا جاوے۔اگر ایک شخ: کو بھوک اور پیاس لگی ہے۔تو روٹی کا ایک بھورا اور پانی کا ایک قطرہ لے لینے سے اُسے سیری حاصل نہ ہوگی اور نہ جان کو بچا سکے گا، جبتک پوری خوراک کھانے اور پینے کی اُسے نہ ملے۔یہی حال تقویٰ کا ہے کہ جب تک انسان اسے پورے طور پر ہر ایک پہلو سے اختیار نہیں کرتا۔تب تک وہ متقی نہیں ہوسکتا۔او راگر یہ بات نہیں تو ہم ایک کافر کو بھی متقی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کوئی نہ کوئی پہلو تقویٰ کا (یعنی خوبی) اس کے اندر ضرور ہوگی۔اﷲ تعالیٰ نے محض ظلمت تو کسی کو پیدا نہیں کیا۔مگر تقویٰ کی یہ مقدار اگر ایک کافر کے اندر ہو تو اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی ۔کافی مقدار ہونی چاہیے جس سے دل روشن ہو۔خدا تعالیٰ راضی ہو اور ہر ایک بدی سے انسان بث جاوے۔بہت سے ایسے مسلمان ہیں کہ جو کہتے ہیں کیا ہم روزہ نہیں رکھتے۔نماز نہیں پڑھتے وغیرہ وغیرہ۔مگر اس باتوں سے وہ متقی نہیں ہوسکتے۔تقویٰ ارو شئے ہے۔جب تک انسان خدا تعالیٰ کو مقدم نہیں رکھتا اور ہر ایک لحاظ کو خواہ برادری کا ہو خواہ قوم کا خواہ دوستوں اور شہر کے رؤسا کا خدا تعالیٰ سے ڈر کر نہیں توڑتا اور خدا تعالیٰ کے لیے ہر ایک ذلت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا، تب تک وہ متقی نہیں ہے۔
قرآن شریف میں جو بڑے بڑے وعدے متقیون کے ساھ ہیں وہ سایسے ہیں وہ ایسے متقیون کا ذکر ہے جنہوں نے تقویٰ کو وہاں تک نبھایا جہانتک ان کی طاقت تھی۔بشریت کے قویٰ نے جہانتک ان کا ساتھ دیا برابر تقویٰ پر قائم رہے حتیٰ کہ اُن کی طاقتیں ہار گئیں۔اور پھر خدا تعالیٰ سے انہوں نے اور طاقت طلب کی جیسے کہ
ایاک نعبدو ایاک نستعین (الفاتحہ :۵)
سے ظاہر ہے
ایاک نعبد
یعنی اپنی طاقت تک تو ہم نے کام کیا اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
ایاک نستعین
یعنی آگے چلنے کے لیے اور نئی طاقت تجھ سے طلب کرتے ہیں جیسے حافظ نے کہا ہے ؎
ما بداں منزل عالی نتوانیم رسید
ہاں اگر لطف شما پیش نہد گامے چند
پس خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک متقی ہونا اور شئے ہے اور انسانوں کے نزدیک متقی ہونا ارو شئے۔مسیح علیہ السلام کے وقت جو مخالفوں کے جتھے وغیرہ بنتے تھے۔اس کا باعث بھی یہی تھاکہ جو عام لوگ یہود کہ نزدیک مسلم تھے ارو متقی پرہیز گار تسلیم کیے جاتے تھے وہ مخالف تھے۔اگر وہ مخالف نہ ہوتے تو جتھے وغیرہ نہ بنتے۔آنحضرت ﷺ کے وقت میں بھی یہی حال تھا۔عجب، بخل،ریا، نمود اور وجاہت کی پاسداری وغریہ کی باتیں تھیں، جنہوں نے حق کی قبولیت سے اُن کو روکے رکھا۔غرضیکہ تقویٰ مشکل شے ہے۔
جسے اﷲ تعالیٰ عطا کرتا ہے تو اس کی علامات بھی ساتھ ہی رکھ دیتا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ حق جب ظاہر ہو تو جو اسے خواہ نخواہ رد کرتا ہے اور دلائل ۔معقولات، منقولات اور خدا تعالیٰ کے نشانوں کو ٹالتا جاوے وہ کب متقی ہو سکتا ہے۔؎ٰ
سچی بات یہ ہے کہ حق جب ظاہر ہو تو اُسے جو خواہ نخواہ رد کرتا ہے اور دلائل معقولات منقولات اور خدا تعالیٰ کے نشانات کو ٹالتا جاتا ہے وہ ہرگز متقی نہیں ہوسکتا۔متقی کوتو ترساں اور لرزاں ہونا چاہیے۔کیا دنیا میں ایس اہوا ہے کہ چوبیس سال سے برابر ایک انسان رات کو منصوبہ بناتا ہے اور صبح کو خدا کی طرف لگا کر کہتا ہے کہ مجھے یہ وحی یا الہام ہوا اور خدا تعالیٰ اس سے مؤاخذہ نہیں کرتا۔اس طرح سے تو دنیا میں اندھیر پڑ جاوے اور مخلوق تباہ ہو جاوے۔متقی تو ایک ہی بات سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور یہاں تو ہزاروں ہیں۔زمانہ الگ پکار رہا ہے۔احادیث منکم منکم کہ رہی ہیں۔سورہ نور میں بھی منکم لکھا ہے۔ قساوت قلبی اور بہائم کی طرح جو زندگی بسر ہو رہی ہے وہ الگ بتارہی ہے۔صدی کے سر پر کہتے تھے کہ مجّدد آتا ہے۔اب ۲۲ سال بھی ہو چکے ۔کسوف و خسوف بھی ہولیا۔طاعون بھی آگئی،حج بھی بند ہوا۔ان سب باتوں کو دیکھ کر اگر اب بھی یہ لوگ نہیں مانتے تو ہم کیونکر جانیں کہ ان میں تقویٰ ہے۔ہم نے بار بار کہا کہ آئو اور جن باتوں کا تم کو سوال کرنے کا حق پہنچتا ہے وہ پوچھو۔ہاں یہ نہیں ہوگا کہ قرآن شریف تو کچھ کہے اور تم کچھ کہو اور ایسے اقوال پیش کرو جو اس کے مخالف ہوں۔مسیح کا نزول جسمانی آسمان سے مانتے ہیں؛ حالانکہ وہ تب صحیح ہوسکتا ہے جبکہ صعود اول ہو۔قرآن مسیح کی وفات بیان کرتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ چھت پھاڑ کر آسمان پر چلا گیا۔کیا تقویٰ اس بات کا نام ہے کہ یقین کو ترک کر کے توہمات کی اتباع کی جاوے۔سچے تقویٰ کا پتہ قرآن سے ملتا ہے کہ دیکھ لیوے کہ تقویٰ والوں نے کیا کیا کام کیے ہیں۔
دعا کے ذریعہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو
مذکورہ بالا تقریر کے بعد ایک صاحب نے عرض کی کہ حضور بعض احمدی بھائی ایسے ہیںکہ انہوں نے بیعت کی ہوئی ہے اور اخلاص بھی رکھتے ہیں،مگر بعض اقوال اورحرکات اُن سے بیجا ظاہر ہوتی ہیں۔بعض ان میں سے احادیث کے قائل نہیں۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا :
اصل بات یہ ہے کہ سب لوگ ایک طبقہ کے نہیں ہوتے۔خدا تعالیٰ بھی قرآن شریف میں مومنوں کے طبقات بیان کرتا ہے۔
منھم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳)
کہ بعض ان میں سے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ رو اور بعض سبقت کرنے والے۔
دوسری یہ بات ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے بھی تو ترقی آہستہ آہستہ ہی کی تھی۔ایمان میں بھی اول عمل میں بھی۔لکھا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے،تو ایک صحابی سے آپ نے ایک ٹکڑا زمین کا مسجد؎ٰ بنانے کے لیے طلب کیا۔اس نے عذر کیا اور کہا کہ مجھ کو آپ درکار ہے۔اب یہ کس قدر گناہ کی بات تھی کہ خدا تعالیٰ کا رسول مسجد کے لیے زمین طلب کرے اور یہ باوجود مرید ہونے کے اپنی نفسانی ضرورت کو دین کی ضرورت پرترجیح دیتا ہے،لیکن آخر وہی صحابہؓ تھے کہ جنہوں نے اﷲ کے لیے اپنے سر کٹوائے۔ترقی ہمیشہ رفتہ رفتہ ہوتی ہے۔ایک سال انسان کچھ کرتا ہے،دوسرے سال کچھ،لیکن اگر بدظنی کریں تو اُس کی مثال یہ ہوگی کہ ایک مریض ہمارے پاس آتا ہے جو کہ طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہے ارو ہم اُسے ایک دو دن دوا دیکر نکال دیں اور پورے طور پر لگ کر علاج نہ کریں۔ہمارا کام تو رات دن اُن کے لیے دعا، تصرع اور ابتہال میں لگا رہتا ہے۔مبلغین کا یہ کام نہیں ہوتا کہ ہر ایک بات پر چڑ کر لوگوں سے متنفر ہوتے رہیں۔ابھی یہ لوگ قابل رحم ہیں اور خدا تعالیٰ اُن کی اصلاح کے سامان کر رہا ہے۔علاوہ ازیں سب ایک درجہ کے نہیں ہوتے۔صحابہؓ میں سے بعض اس درجہ کے تھے کہ عنقریب نبی کے مقام پر پہنچ جاویں اور بعض ادنیٰ درجہ کے۔جیسے دریا میں موتی بھی ہوتا ہے اور مونگا بھی اورسیپ بھی اور دوسری اشیاء مثل سونا اور دوسرے حیوانات کے۔ایسا ہی جماعت کا حال ہوتا ہے۔
‏Amira 16-5-05
ہماری جماعت کو چاہیے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لیے دعا کریں،لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلاتے ہین تو گہان کرتے ہیں۔کونسا ایسا عیب ہے جو کہ دور نہین ہو سکتا ۔اس لیے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہیے۔
حکایت
ایک صوفی کے دو مرید تھے۔ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا۔دوسرے نے صوفی سے شکایت کی۔اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے، کہ اسکی شکایت کرتا ہے اور جاکر اُٹھا نہیں لاتا۔وہ اسی وقت گیا اور اُسے اُٹھا کرلے چلا۔کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت شراب پی لیکن دوسرے نے کم پی کہ اُسے اُٹھا کر لے جا رہا ہے۔صوفی کا یہ مطلب تھا کہ تونے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی۔آنحضرت ﷺ سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا یکہ کسی کی سچی بات کا اسکی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے بُرا لگے غیبت ہے۔اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تو بیان کرتا ہے،تو اس کا نام بہتان ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ولا یغتب لعضکم بعضا ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتا (الحجرات : ۱۳)
اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے ۔ان میں غیبت کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ آیت بے کار جاتی ہے۔اگر مومنوں کو ایسا ہی مطہر ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی، تو پھر اس آیت کی کیا ضرورت تھی؟ بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے۔بعض کمزور ے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے۔بعض میں کچھ طاقت آگئی ہے۔پس چاہیے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔اگر نہ مانے توا س کے لیے دعا کرے اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضا وقدر کا معاملہ سمجھے ۔جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہیے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سرِدست جوش نہ دکھلایا جاوے۔ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے۔قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتاہے،بلکہ لکھا ہے القطب قدیز نی کہ قطب سے بھی زنا ہو جاتاہے۔بہت سے چور اور زانی آخر کا رقطب اور ابدال بن گئے۔جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے۔کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لیے وہ پوری کوشش کرتا ہے۔ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہیے،بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلائو اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے
تواصوابالصبر وتواصو ابالمرحمۃ (البلد : ۱۸)
کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور ا سکے لیے دعا بھی کی جاوے۔دعا میں بڑی تا ثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابلِ افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کر تاہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نیں کرتا۔عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہیے۔جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لیے رو رو کر دعا کی ہو۔سعدی نے کہا ہے ؎
خدا واند بپو شد
ہمسایہ نداند و خرو شد
خدا تعالیٰ تو جان کر پر دہ پوشی کرتا ہے،مگر ہمسایہ کو علم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے۔خدا تعالیٰ کا نام ستّار ہے۔تمہیں چاہیے کہ
تخلقواباخلاق اﷲ
بنو۔ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو،کیونکہ کتاب اﷲ میں جیسا آگیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے۔شیخ سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسر کرتا ہے۔شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تونے غیبت کی۔غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا۔جبتک رحم،دعا،ستاری،اور مرحمہ آپس میں نہ ہو ۔؎ٰ
۲۱؍جون ۱۹۰۴ء؁
منکروفات مسیح سے قسم کن الفاظ میں لی جائے
حضرت اقدس کے ایک مخلص حواری نے عرض کی کہ وزیر آباد میں ایک حافظ صاحب ہیں۔وہ اس بات پر آمادہ ہین کہ وہ قسم کھا کر کہیں کہ عیسیٰ ؑاسی جسدِ عنصری کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
جو شخص دلیری کر کے شوخی کی راہ سے فتنہ ڈالتا ہے خدا اس سے خدو سمجھ لیتا ہے۔اگر اُس کو قسم کھانی ہے تو تین باتوں کی قسم کھائے۔
(۱) ایک تو یہ کہ فلما توفیتنیمیں سے مسیح کی وفات ہرگز ثابت نہیں ہوتی اور یہاںتوفیتنی کے وہ معنی ہرگز نہیں ہیں جو کہ آنحضرت ﷺ کی نسبت اس لفظ کے معنی کئے جاتے ہیں۔
(۲) دوسری یہ بات ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت مسیح کو معراج کی شب میں اُن تمام انبیاء کی طرح نہیں دیکھا جو کہ وفات پا چکے ہیں بلکہ دوسرے انبیاء کی ارواح کے خلاف حضرت مسیح کو معراج کی شب میں اس ہیئت اور شکل میں پایا جس سے اُن کا بجسدِ عنصری زندہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔
(۳) تیسری یہ کہ آنحضرت ﷺ کی وفات پر صحابہؓ کا جماع جو آیت
ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (العمران : ۱۴۵)
کے ان معنوں پرہوا تھا کہ آنحضرت سے پیشتر جس قدر بنی گزرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں۔یہ بات غلط ہے کیونکہ ان تینوں باتوں میں اﷲ تعالیٰ کا قول‘ آنحضرت ﷺ کی رؤیت اور صحابہؓ کا جاماع سب آجاتا ہے۔پس ان تینوں باتوں پر وہ قسم کھاوے۔
۴۔ اور چوتھی بات یہ بھی ملالے کہ ہم مفتری ہیں اور ۲۴ سال سے جو الہامات ہم سنارہے ہیں یہ خدا تعالیٰ پر افتراء باند ھتے ہیں۔اور قسم میں یہ بھی کہے کہ اگر اس میں میں نے کوئی بدنیتی کی ہے یا ایسی بات بیان کی ہے جو کہ میرے ذہن میں نہیں ہے تو اس کا وبال مجھ پر نازل ہو۔
فرمایا :
اگر یہ لوگ منہاج نبوت کو معیار ٹھہراویں تو آج فیصلہ ہوتا ہے۔
اس مقام پر نواب محمد علی صاحب نے عرض کی کہ ایک شخص نے مجھ سے حضور کے بارے میں بحث کرنی چاہی۔میں نے اُسے کہا کہ اول تم سب کتابیں حضرت مرزا صاحب کی مطالعہ کرو اگر اس میں سمجھ نہ آوے تو ایک ماہ قادین چل کر رہو اور وہاں مرزا صاحب کے حالات وغیرہ کو آنکھ سے دیکھو۔ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہاری رہنمائی کرے۔
بعض دفعہ موت ہی انسان کے حق میں اچھی ہوتی ہے فرمایا کہ :
اگر ہمارا کوئی مرید طاعون س یمرجاتا ہے تو اس پر اعتراض کرتے ہیں؛ حالانکہ خد اتعالیٰ کے کلام میں مطلب ہرگز نہیں ہے کہ صرف بیعت کرنے والا ہی اس سے محفوظ رہیگا، بلکہ اس نے ایک دفعہ مجھے مخاطب کرکے فرمایا
الذین امنو اولم یلبسو اایما نہم بظلم (الانعام : ۸۳)
یعنی بقدر دعویٰ کے ایمان میں کسی قسم کا ظلم نہ ہو۔خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری وفا، پورا صدق اور اخلاص کا معاملہ ہو اور اس کی شناخت کامل ہو تو وہ شخص اس آیت کا مصداق ہو سکت اہے۔لیکن یہ ایسی بات ہے کہ جس کو سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جان سکتا کہ آیا فلاں شخص میں پور اصدق و اخلاص ہے کہ نہیں۔بعض وقت ایک انسان کے حق میں موت ہی اچھی ہوتی ہے کہ خد اتعالیٰ اسے اس ذریعہ سے آئندہ لغزش سے بچالیتا ہے۔ (جیسے بعض کافروں کے حق میں زندگی اس لیے بہتر ہوتی ہے کہ اُن کو آئندہ ایمان نصیب ہو جاتا ہے۔ایسے ہی بعض مومن کے حق میں موت اس لیے بہتر ہوتی ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو کافر ہو جاتا ) کہ اس کا خاتمہ کفر پر نہ ہو۔
یہ طاعون اس قسم کی ہے جیسے کہ آنحضرت ﷺ کو کفار کے عذاب کا وعدہ تھا۔لیکن پھر صحابہ کرامؓ نے بھی آخر اُس سے حضہ لیا اور اکثر شہید ہوئے۔کفر کا استیصال ان کی شہادت کا ثبوت ہے پس اسی طرح یہاں بھی استیصالِ کفر ہوگا۔
کر بلائیست سیرِ ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
ایک صاحب نیجو کہ بیعت شدہ ہیں، عرض کی کہ بعض لوگ صرف اس لیے بیعت سے پرہیز کرتے ہیں کہ حضور نے حضرت حسینؓ س یبڑے ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔جیسے کہ یہ شعر مزکورہ بالا ہے۔ایک شخص نے مجھ پر بھی یہ اعتراض کیا مگر چونکہ مجھے اس کی حقیقت معلوم نہ تھی، اس لیے میں ساکت ہو گیا۔
فرمایا کہ :
اول انسان کو اطمینان قلب ہونا چاہیے کہ آیا جس کو میں نے قبول کیا ہے وہ راستباز ہے کہ نہیں۔مختصر کیفیت اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک دعویٰ کا مصدق ہوتا ہے۔اور دعویٰ بھی ایس اہو کہ ا سکی بنا پر کوئی اعتراض نہ قائم ہوتا ہو تو اس قسم کے شکوک کا دروازہ خود ہی بند ہو جاتا ہے۔مثلاً میرا دعویٰ ہے کہ میں وہ مسیح ہوں جس کا وعدہ قرآن شریف اور حدیث میں دیا گیا ہے۔اب جبتک کوئی میرے اس دعوے کا مصدق نہیں ہے تب تک اس کو حق ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ نیک آدمی کے مقابل پر بھی وہ ہم پر اعتراض کرے۔لیکن اگر کوئی بیعت کر کے دعاویٰ کی تصدیق کرتا ہے کہ میں سچا ہوں تو وہ پھر اعتراض کیوں کرتا ہے۔(اُسے چاہیے تھا کہ بیعت سے پیشتر اس بات کا اطمینان حاصل کرتا کہ آیا آپ سچے ہیں کہ نہیں ؎ٰ) اس قسم کے معترضین سے سوال کرنا چاہیے کہ جس مسیح کے وہ منتظر ہیں۔آیا وہ اُن کے نزدیک ازروئے اعتقاد حسینؓ سے افضل ہے کہ نہیں؟ اگر وہ اُسے افضل قبول کرتا ہے تو پھر ہم تو کہتے ہین کہ ہم وہی ہیں۔پہلے ہمارا وہی ہونا فیصلہ کرے پھر اعتراض خود بخود رفع ہو جائے گا۔
یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ کے فیوض بے انتہا ہیں۔جو اُن کو محدود کرتا ہے وہ اصل میں خد اکو محدود کرتا ہیاور اس کی کلام کو عبث قرار دیتا ہے۔وہی بتلاوے کہ
اھدنا الصراط المستقیم۔صراط الذین العمت علیھم (الفاجحہ : ۶‘۷)
میں جب وہ انہی کمالات اور انعامات کو طلب کرتا ہے جو کہ سابقین پر ہوئے تو اب ان کو محدود کیسے مانا ہے؟ اگر وہ محدود ہیں اور بقول شیعہ بارہ امام تک ہی رہے توپھر سورہ فاتحہ کو نماز میں کیوں پڑھتا ہے۔وہ تو اس کے عقیدہ کے خلاف تعلیم کر رہی ہے اور خدا کو ملزم گردانتی ہیکہ ایک طرف تو وہ خود ہی کمالات کو بارہ امام تک ختم یرتا ہے اور پھر لوگوں کو قیامت تک ان کے طلب کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔دیکھو مایوس ہونا مومن کی شان نہیں ہوتی اور ترقیات اور مرات قرب کی کوئی حد بست نہیں ہے۔یہ بڑی گغلطی ہے کہ کسی فرد خاص پر ایک بات قائم کر دی جاوے۔خدا تعالیٰ نے جیس اخاص طو رپر ذکر کر دیا اور احادیث میں آگیا کہ فلاں زمانہ میں مسیح موعود ہوگااور اس کی علامات ، اس کا کام، اس کے حالات سب بتلادیئے تو اب ہم سے یہ سوال کیوں ہوتاہے کہ تم حسینؓ سے افضل کیوں بنتے ہو۔کیا رسول اﷲ ﷺ نے کہیں فرمایا ہے کہ مسیح موعود حسینؓ سے افضل نہ ہوگا بلکہ کمتر ہوگا۔ایسے معترضوں کو تم یہ جواب دو کہ ہم تو مسیح موعود مان چکے ہیں۔اب تم اس امر کا ثبوت دو کہ آیا وہ امام حسینؓ سے کم ہوگ یا برابر یا افضل؟ بجز توہمات کے اُن کے پاس کچھ بھی نہیںہے۔جیسے ایک لاہوری شیعہ نے لکھاہے کہ آنحضرت ﷺ اور دیگر کل انبیاء نے صرف حسین کی وجہ سے ہی نجات پائی۔
خدا تعالیٰ کا جو معاملہ میرے ساتھ ہے اور وہ میرے ساتھ کلام کرتا ہے ایسا کوئی الہام حسین ؓ کو تو پیش کرو۔میں تو اپنی وحی پر ویسے ہی ایمان لاتا ہوں جیسے کہ قرآن شریف اور توریت کے کلام الٰہی ہونے پر زیادہ سے زیادہ یہ لوگ امام حسین ؓ کی فضیلت میں بعض ظنی احادیث پیش کریں گے اور میں وہ پیش کرتا ہوں جو یقینی ہے اور پھر خدا کا کلام ہے۔بطور تنزل کے میں اگر مان لوں کہ حسین کے الہامات تو پہلے ہی سے ظنی ہیں۔پس دونوں ظنی الہاموں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو۔خد اتعالیٰ نے جو مراتب میرے بیان کئے ہیں۔مثلاً
انت منی بمن زلۃ عرشی۔انت منی بمنزلۃ لا یعلمہا الخلق۔انت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی۔
انت منی بمنزلۃ او لا دی۔انت منی وانا منک۔
کیا امام حسینؓ کے یہی مراتب بیان ہوئے ہیں؟ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں نہ امام حسینؓ کا نام لیا اور نہ یزید کا۔اگر ذکر کیا ہے تو زید کا ذکر کیا ہے۔یا عض مفسروں نے ایک صحابی سجل کا لکھا ہے جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔اس طرح سے دو صحابہ کا ذکر قرآں شریف میں ہوا ہے اور جو ہمیں مفتری سمجھتا ہے اور مفتری سمجھ کر پھر یہ اعتراض کرتا ہے تو اول وہ ہمارے افتراء پر بحث کرے کہ آیا افترأ ہے کہ نہیں۔
البدر جلد ۳ نمبر ۲۲-۲۳ صفحہ ۳‘۴ مورخہ ۸، ۱۶ ؍جون ۱۹۰۴ء؁؎ٰ
بمقام گورداسپور
۳۰؍جون ۱۹۰۴ء؁
طعامِ اھلِ کتاب
امریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہو رہا تھا۔اسی میں یہ ذکر بھی آگیا کہ دودھ اور شوربا وغریہ جو کہ ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہیبہت ہی نفیس اور ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔دودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے۔اس پر حضور ؑ نے فرمایا :
چونکہ نصاریٰ اس وقت ایک ایسی قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال وحرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سؤر کا گوشت اُن میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیس اکہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں۔ اس لیے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو اُن کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں اُن میں سؤر کی چربی اور سؤر کے دودھ کی امیزش ہو۔اس لیے ہمارے نزدیک ولائتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شوربے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور ناجائز ہیں۔جس حالت میں کہ سؤر کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو کہ یہ لوگ تیار کرکے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کانہ ہوتا ہو۔
اس پر ابو سعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک وقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا۔وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روبے کے خرید لیا۔جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا، تو معلوم ہوا کہ سؤر کی چربی بھی اس کا رخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے۔دریافت پر کارخانہ والوں نے بتایا کہ ہم اُسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیروں میں ڈالی جاتی ہے۔اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہو سکت اہے کہ حضرت عقدس مسیح موعود ؑ کا خیال کس قدر تقویٰ اور باریک بینی پر تھا، لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور دراز مصاروبلاد میں ابتک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اس لیے اُن کو بھی مد نظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا۔نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی لڑاہیوں کو اکثر کتے چاٹ جاتے ہیں۔اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ :
ہمارے نزدیک نصاریٰ کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور ازروئے قرآن مجید وہ حرام نہ ہو۔ورنہ اس کے یہی معنے ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا ، مگر باہر نصاریٰ کے ہاتھ سے کھا لیا۔اور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حالا کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیا کردہ چیزوں پر کای اعتبار ہو سکت اہے۔اسی لیے ہم گھر میں ولائتی بسکٹ نہیں استعمال کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں۔
عیسائیوں کی نسبت ہندوئوں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں۔ اور ہر جگہ انہیں کی دوکانیں ہوتی ہیں۔اگر مسلمانوں کی دوکانیں موجود ہوں۔اور سب شئے وہان ہی سے مل جاوے تو پھر البتّہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں۔
‏Amira 17-6-05
علاوہ ازیں میرے نزدیک اہل کتاب سے غالباً مراد یہودی ہی ہیں،کیونکہ وہ کثرت سے اس وقت عرب میں آباد تھے اور قرآن شریف میں بار بار خطاب بھی انہیں کو ہے۔اور صرف توریت ہی کتاب اس وقت تھی جو کہ حﷲت اور حرمت کے مسئلے کے بیان کر سکتی تھی اور یہود کا اس پر اس امر میں جیسے عملدرآمد اس وقت تھا ویسے ہی اب بھی ہے۔انجیل کوئی کتاب نہیں ہے۔
اس پر ابو سعید صاحب نے عرض کی کہ اھل الکتاب میں کتاب پر الف لام بھی اس کی تخصیص کرتا ہے۔جس سے یہ مسئلہ اور بھی واضح ہو گیا۔
دجال شخص واحد بھی ہو سکتا ہے
خواجہ کمال الدین صاحب نے عرض کی کہ دجال کے متعلق جو کچھ حضور نے بیان فرمایا ہے وہ بالکل حق ہے۔لیکن ایک دن میرے ذہن میں یہ بات گذری کہ دجال ایک شخص واحد بھی گذرا ہے اور اس وقت جو داجل موجود ہے وہ اس کا ظل اور اثر ہے کیونکہ موجودہ عیسویت دراصل وہ عیسویت نہیں ہے جو حضرت مسیح نے تعلیم کی بلکہ یہ بولوس کا مذہب ہے۔جس نے ہر ایک حرام کوحلال کر دیا اور کفارہ وغیرہ کے مسئلہ کی بدعت ایجاد کی اور اس کی ایک آنکھ ہی تھی۔پس آنحضرت ﷺ نے جو کچھ اس کا حلیہ بیان کیا ہے ممکن ہے کہ مکاشفہ میں آپؐ کو وہی دکھایا گیا ہو اور اس کے متبعین نے ہی یہ تمام ایجادیں کی ہیں جس کو دجال کی صفت اور کارناموں کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے۔حضرت اقدس نے فرمایا :
ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے
تقدیر مَعَلَّق و مُبرَم
صدقات و خیرات سے بلا کے ٹلنے کا ذکر ہوا۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
ہاں یہ بات ٹھیک ہے۔اس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تقدیر کے دو حضے کیوں ہیں؟ تو جواب یہ کہ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ بعض دفعہ سخت خطرناک صورتیں پیش آتی ہیں اور انسان بالکل مایوس ہو جاتا ہے، لیکن دعا و صدقات و خیرات سے آخر کار وہ صورت ٹل جاتی ہے۔پس آخر یہ ماننا پڑتا ہے کہ اگر معلّق تقدیر کوئی شے نہیں ہے اور جو کچھ ہے مبرم ہی ہے تو پھر دفعِ بَلا کیوں ہو جاتا ہے؟ اور دعا و صدقہ خیرات وغیرہ کوئی شے نہیں ہے۔بعض ارادے الٰہی صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان کو ایک حد تک خوف دلایا جاوے اور پھر صدقہ و خیرات جب وہ کرے تو وہ خوف دور کر دیا جاوے۔دعا کا اثر مثل نرومادہ کے ہوتا ہے کہ جب وہ شرط پوری ہو اور وقت مناسب مل جاوے اور کوئی نقص نہ ہو تو ایک امر ٹل جاتا ہے۔اور جب تقدیر مبرم ہو تو پھر ایسے اسباب دعا کی قبولیت کے بہم نہیں پہنچتے۔طبیعت تو دا کو چاہتی ہے مگر توجہ کامل میسر نہیں آتی او دل میں گداز پید انہیں ہوتا۔نماز سجدہ وغیرہ جو کچھ کرتا ہے اس میں بدمزگی پاتا ہے۔جس سے معلوم ہوت اہے کہ انجام بخیر نہیں اور تقدیر مبرم ہے۔ ؎ٰ
اس مقام پر ایک شخصنے عرض کی کہ جب نواب محمد علی خانصاحب کا صاحبزادہ سخت بیمار ہوا تھا تو جناب کو اس قسم کا الہام ہوا کہ تقدیر مُبرَم ہے اور موت مقدر ہے۔لیکن پھر حضور کی شفاعت سے وہ قدیر مبرم ٹل گئی۔آپ نے فرمایا کہ :
سید عبد القادر جیلانی ؓ بھی لکھتے ہیں کہ بعض وقت میری دعا سے تقدیر مبرم ٹل گئی ہے۔اس پر شارح شیخ عبد الحق محدث دہلی نے اعتراض کیا ہے کہ تقدیر مبرم تو ٹل نہیں سکتی پھر اس کے کیا معنی ہوئے۔آخر خود ہی جواب دی اہے کہ تقدیر مبرم کی دو اقسام ہیں۔ایک مبرم حقیقی اور ایک مبرم غیر حقیقی ۔جو مبرم حقیقی ہے وہ تو کسی صورت سے ٹل نہیں سکتی ہے۔جیسے انسان پر موت تو آتی ہے۔اب اگر کوئی چاہے کہ اس پر موت نہ آوے اور یہ قیامت تک زندہ رہے تو یہ نہیں ٹل سکتی۔دوسری غیر حقیقی وہ ہے جس میں مشکلات اور مصائب انتہائی درجہ تک پہنچ چکے ہوں اور قریب قریب نہ ٹلنے کے نظر آویں۔اس کا نام مجازی طور پر مبرم رکھا گیا ہے؛ ورنہ حقیقی مبرم تو ایسی ہے کہ کل انبیاء بھی مل کر دعا کیں کہ وہ ٹل جاوے تو وہ ہرگز نہیں ٹل سکتی۔
فرمایا کہ :
صبح کو یہ فقرہ الہام ہوا :
’’خدا تیری ساری مرادیں پوری کر دے گا‘‘
رؤیا میں فرشتے دیکھنا
فرشتوں پر ذکر چل پڑا کہ یہ خواب مین ہمیشہ خوبصورت لڑکوں کی صورت و شکل میں نظر آتے ہیں۔اس پر حضور ؑ نے اپنے چند ایک سابقہ رؤیا بیان فرمائے جن کو ہم اس نیت سے درج کر دیتے ہیں کہ اُن میں سے اگر کووئی شائع نہیں ہوا تو اب ہو جائے۔
(۱)
ایک فرشتہ ایک چبوترہ پر بیٹھا ہے اور ایک عجیب روٹی نان کی مثل چمکتی ہوئی اس کے ہاتھ میں ہے وہ روٹی بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ قسم کی نظر آتی ہے۔مجھے وہ روٹی دے کر کہتا ہے کہ یہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے۔اس رؤیا کو عرصہ قریباً ۳۰ سال کا ہو گیا ہوگا۔
(۲)
فرمایا :
ایک فرشتہ کو میں نے ۲۰ برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا۔صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی خوبصورت ہیں۔اس نے کہا۔ہاںمیں ورشنی آدمی ہوں۔یہ رؤیا کوئی ۲۵ برس کا ہوگا ۔؎ٰ
رجوع کا صحیح وقت نزول بلا سے پہلے ہوتا ہے
عادت اﷲ یہی ہے کہ جب انسان امن کے زمانہ میں ہو اور وہ گذر جاوے اور اس اثناء میں کوئی رجوع خدا تعالیٰ کی طرف حقیقی اور اخلاص سے نہ کیا ہو تو پھر خطرناک زمانہ میں واویلا شور مچانا اس کے کام نہیں آیا کرتے۔یہ تو وہی فرعون کی مثال ہوئی کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا کہا ب میں موسیٰ اور ہارون کے خد اپر ایمان لایا۔ مشکل یہ ہے کہ دنیا داروں کو اُن کے اپنے سلسلوں اور پیچ درپیچ معاملات سے ہرگز فرصت نہیں ہے کہ وہ روح کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور خد اکا خوف بھی محسوس کریں۔اگر کچھ خوف ہے تو گورنمنٹ کا اور امید ہے تو اسباب سے یا اپنے مکرو فریب سے۔اس زمانہ میں جو توکل کا نام لے وہ دیوانہ اور مخبوط الحواس ہے۔اس کا نام مسلوب العقل رکھا جات اہے۔یہ انسنا کی خوش قسمتی ہے کہ قبل از نزول بلا وہ تبدیلی کرلے،لیکن اگر کوئی تبدیلی نہیں کرتا اور اس کی نظر اسباب اور مکرو حیلہ پر ہے تو سوائے اس کے کہ وہ اپنے ساتھ گھر بھر کو تباہ کر دے اور کیا انجام بھوگ سکتا ہے کیونکہ مرد گھر کا کشتی بان ہوت اہے۔اگر وہ ڈوبے گا تو کشتی بھی ساتھ ہی ڈوبے گی۔اسی لیے کہا ہے
الرجال قوامون علے النساء (النساء : ۳۵)
اسی کی رستگاری کے ساتھ اس کے اہل و عیال کی رستگاری ہے اور
ولا یخاف عقبھا (الشمس : ۱۶)
سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کو ان کے پسماندوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔اس وقت اس کی بے نیازی کام کرتی ہے۔؎ٰ
۳ ؍جولائی ۱۹۰۴ء؁ بمقام قادیان شریف
غربأ کی دلجوئی
شام کا وقت تھا۔بعد نماز مغرب مختلف بلاد سے جو لوگ زیارت اور بیعت سے شرف یا ب ہونے کے لیے آئے ہوئے تھے۔مثل پر وانہ حضرت پر گر رہے تھے۔اکثر حصہ ان میں سے دیہات والوں کا تھا۔جگہ کی تنگی اور مرد مان کی کثرت دیکھ کر بعض نے کہا کہ لوگو پیچھے ہٹ جائو۔حضرت جی کو تکلیف ہوتی ہے۔
اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ :
کس کو کہا جاوے کہ تم پیچھے ہٹو۔جو آتا ہے اخلاص اور محبت لے کر آتا ہے۔سینکڑوں کوس کے سفر کر کے یہ لوگ آتے ہیں۔صرف اس لیے کہ کوئی دم صحبت حاصل ہو اور انہیں کی خاطر خدا تعالیٰ نے سفارش کی ہے اور فرمایا ہے
ولا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس
یہ صرف غریبوں کے حق میں ہے کہ جن کے کپڑے میلے ہوتے ہیں اور ان کو چنداں علم بھی نہیں ہوتا۔خدا تعالیٰ کا فضل ہی ان کی دستگیری کرتا ہے۔کیونکہ امیر لوگ تو عام مجلسوں میں خود ہی پوچھے جاتے ہیں اور ہر ایک اُن سے بااخلاق پیش آتا ہے۔اس لیے خدا تعالیٰ نے غریبوں کی سفارش کی ہے جو بیچارے گمنام زندگی بسر کرتے ہیں۔
بہت تجسس کرنا جائز نہیں
ایک شخص نے سوال کیا کہ ہمارے شہر میں وجودی فرقہ کے لوگ کثرت سے ہیں۔اور ذبیحہ وغیرہ انہیں کے ہاتھ سے ہوتا ہے۔کیا اس کا کھانا حلال ہے کہ نہیں؟ فرمایا کہ :
بہت تجسس کرنا جائز نہیں ہے۔موٹے طور پر جو انسان مظرک یا فاسق ہو اس سے پرہیز کرو۔عام طور پر اس طرح تجسس کرنے سے بہت سی مشکلات درپیش آتی ہیں۔جو ذبیحہ اﷲ کا نام لے کر کای جاوے اور اس میں اسلام کے آداب مد نظر ہوں وہ خواہ کسی کا ہو۔جائز ہے۔
وجودی فرقہ کی بناء اس کے بعد فرمایا کہ :
طبعاً یہ سوال پیدا ہوت اہے کہ وجودی پیدا کہان سے ہوئے ۔قرآن شریف اور اسلام میں تو ان کا پتہ نہیں ملتا مگر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو صرف دھوکا لگا ہوا ہے۔جو راستباز اکابر گذرے ہیں وہ اصل میں فنائے نظری کے قائل تھے۔اس کے یہ معنے ہیں کہ انسان ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون میں توجہ اﷲ کی طرف رکھے اور اس قدر فانی اس میں ہو کہ گویا اور کسی شئے کی قدرت اور حرکت بذاتہ اُسے نظر نہ آوے۔ہر ایک شئے کو فانی جان لے اور اس قدر تصرف الٰہی اُسے نظر آوے کہ بلا ارادۂ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہو رہا۔اسی مسئلہ میں غلطی واقع ہو کر آخر فنا وجودی تک نوبت آگئی اور یہ کہنے لگے کہ سوائے خدا کے اور کوئی شئے نہیں ہے۔اپنے آپ کو بھی خد اماننے لگے۔اس خیال سے یہ مذہب پھیلا ہے کہ فناء نظری کے شوق میں اولیاء اﷲ سے کچھ ایسے کلمات نکلے ہیں کہ جن کی اُلٹی تاویل کرکے یہ وجودی فرقہ بن گیا ہے۔فناء نظری تک انسنا کا حق ہے کہ محبوب میں اور اپنے آپ میں کوئی خدائی نہ سمجھے اور ؎
من تُو شُدم تُو من شُدی۔ من تن شُدم تُو جاں شُدی
تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تُو دیگری
کا مصداق ہو۔کیونکہ محب اور محبوب کا علاقہ فنائِ نظری کا تقاضا کرتا ہے اور ہر ایک سالک کی راہ میں ہے کہ وہ محبوب کے وجود کو اپنا وجود جانتا ہے،لیکن فنائِ وجودی ایک من گھڑت بات ہے، جسے ذوق شوق، محبت، صدق اور وفا اور اعمالِ صالحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔فنائِ نظری کی مثال وہی ہے جو مان اور بچے کی ہے کہ اگر کوئی بچے کو مکی مارے تو درد مان کو ہوت اہے۔سخت تعلق جو محبت کا ہے یہ اس سے بھی دردناک ہے اور یہ ایک سچی اور حقیقی محبت ہوتی ہے لیکن وجودی کا مدّعا جھوٹا ہے۔یہ وہ کرے جو خدا تعالیٰ پر محیط ہو۔وجودی چونکہ ترکِ ادب کا طریق اختیار کرتا ہے۔اس لیے طاعت،محبت، عبادتِ الٰہی سے محروم رہتا ہے۔؎ٰ
‏Amira 18-6-05
۸؍جولائی ۱۹۰۴ء؁
احاطہ عدالت
دنیوی تکالیف اور مصائب کی تلافی فرمایا :
جن کو اﷲ تعالیٰ دنیا میں تکالیف دیتا ہے اور جو لوگ خود خدا تعالیٰ کے لیے دُکھ اُٹھاتے ہیں۔اُن دونوں کو خدا تعالیٰ آخرت میں بدلہ دیگا۔دنیا تو چلنے کا مقام ہے،رہنے کا نہیں۔اگر کوئی شخص سارے سامان خوشی کے رھکتا ہے،تو خوشی کا مقام نہیں ۔یہ سب آرام اور دُکھ ختم ہونے والے ہیں اور اس کے بعد ایک ایسا جہان آنیوالا ہے جو دائمی ہے۔جو لوگ اس مختصر جہان میں انسانی بناوٹ میں فرق اور کمی بیشی دیکھ کر دوسرے جنم کے گناہوں اور عملوں پر محمول کر لیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔وہ یہ معلوم نہیں کرتے کہ آخرت کا یک بڑا جنم آنیوالا ہے اور جن کو خد اتعالیٰ نے پیدائش میں کوئی نقص عطا کیا ہے اور جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود بخود خدا تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے دُکھوں میں ڈال دیا ہے ان دونوں کو وہاں چل کر بدلہ ملے گا۔یہ جہان تو تخمریزی کا جہان ہے اور ایسے موقع حاصل کرنے کے واسطے ہے۔جن سے خدا تعالیٰ راضی ہو۔
بعض لوگ اپنے عملوں سے خد اکو راضی کرتے اور بعض اپنے آپ کو تکالیف میں ڈال کر خدا کو راضی کرتے ہیں۔ایک شخص کے دو خدمتگار ہیں۔ایک کو وہ ایسے کام اور سفر پر روانہ کرتا ہے کہ جہاں اس کو سواری مل سکتی اور راستہ میں بھی سایہ دار اور ٹھنڈا ہے اور ہر طرح کا آرام ہے۔دوسر خدمتگار کو ایسی طرف روانہ کرتا ہے جس راستہ میں نہ تو سواری مل سکتی ہے اور نہ سایہ ہے بلکہ پیدل چلنا اور سخت گرمی اور دھوپ اور لُو کا سامنا ہے۔مگر وہ جانتا ہے کہ جس کو جتنی تکلیف ہوگی اس کو اتنا ہی بدلہ اور عوضِ خدمت دوں گا۔پس پھر ان دونوں خدمتگاروں کو اپنے سفر پر کای اعتراض ہے؟ اس طرح لنگڑے ،اندھے،اپاہج،غریب، فقیر وغیرہ لوگ جو خد اتعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اُن کو جب اس آخری جہان میں چل کر بدلہ ملنا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ ہم گوناگوں جنم مان لیں اور اس بڑے اور حقیقی جنم سے اعتراض کریں۔جو دُکھ اﷲ تعالیٰ نے دیئے ہیں۔وہ تو ثواب حاصل کرنے کو دیئے ہیں،جبکہ وہ رحم کر نیوالا ہے تو کسی کو کسی طرح اور کسی کو کسی طرح بدلہ دیتا اور دیتا رہے گا۔پس اپاہج اور اندھے وغریرہ کو اپنی ان نقائص خلقت کا بدلہ قیامت میں مل جاویگا۔پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص شاہی گھر میں پید اہو اہے اور سارے سامان عیش و نشاط مہیا ہیں پر وہ باریک در باریک دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہے اور وہ شخص جو گدائی اور فقیری حیثیت میں بھیک مانگتا پھرتا ہے ایسے سُکھوں میں ہو کہ اس امیر زادے کو کبھی میّسر نہیں۔پھر کیا کہیں دولت والے کو یہ حکم دیا ہے اکہ اس سے عیاشی کر بلکہ یہ حکم دیا ہے کہ غیب بھائی کی طرح عبادت کر۔بہرحال یہ دنیا چند روزہ ہے۔انسان کیا سمجھتا ہیکہ میری عمر کس قدر ہے۔
عقیدہ تناسخ
جنم کی شکی بات کو قبول کرنا عقل کا کام ہرگز نہیں۔انسنا جب پید اہوت ااور اپنی عمر طبعی پوری کرکے مرجاتا ہے تو کبھی کسی نے اُس شخص کو اس جہان میں واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا۔مثلاً بڑے بڑے عالم اور فاضل مرجاتے ہیں تو اُنہوں نے واپس آکر کبھی نہیں بتلایا کہ میں نے پچھلے جنم میں فلاں علم حاصل کیا تھا۔ہزاروں جنم پائے اور علم و عمل حاصل کرتا رہا۔مگر جب واپس آیا وہ پہلے علم وعمل ضائع ہوتے رہے۔جس طرح وہ واپس آکر سب علوم بھلا دیت ابلکہ یہاں کا پہلا آنا بھی اس کو یاد نہیں رہتا،تو وہاں کیا یاد رکھے گا اور نجات کس طرح حاصل کرے گا۔جو لوگ تناسخ کے قاتل ہیں وہ کہتے ہیں کہ مکتی گیان سے ہوگی مگر کروڑ دفعہ کے جنم سے ایک حرف تک ان کو یاد نہیں رہتا اور جب آتا ہے خالی ہاتھ ہی آتا ہے۔کچھ تو ساتھ لاوے ۔اگر کچھ ساتھ نہیں لاتا تو گیان کیا ہوا۔
غرض جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہایک شخص کے ہاتھ پائوں سرد ہو گئے ہیں۔دم بند ہو گیا ہے۔آنکھیں پتھر اگئی ہیں اور روح رخصت ہو گیا ہے۔اسی طرح تم اس کے واپس آنے کا ثبوت پیش کرو۔تو ہم مان لیتے ہیں۔واپس آنے کا ثبوت تو یہی تھا کہ اپین کسی گیان کو ساتھ لے آتا ۔مگر یہ بیہودہ خیال ہے کہ وہ کسی گیان کو ساتھ لاوے۔پس بغیر ثبوت کے ہم کیسے مان سکتے ہیں۔بڑا مولوی اور بڑا پنڈت بن کر اس جگہ سے رخصت ہوا تھا۔واپس آکر کچھ بھی یاد نہیں۔جب وہاں جا کر سب کچھ بھول آتا ہے تو کس طرح معلوم ہو کہ یہ دوسرا جنم لے کر آیا ہے۔اگر صرف اس کمی بیشی کو پورا کرنے کے واسطے جنم مانتا ہے،تو ہم یوں کیون نہ مان لیں کہ جس طرح یہاں تکلیف اُٹھاتا ہے۔اسی طرح؎ٰوہ خدا تعالیٰ اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ عطا نہیں کرسکتا؟مثلاً دیا نند مرگیا ہے ۲؎ ۔آجاوے تو ہم اس کو اس طرح شناخت کر سکیں گے کہ ستیار تھ پر کاش کا یاوید کا کچھ حصہ ہمیں پڑھ کر سنا دیوے۔پڑھا ہوا آدمی تو اگر بھینس کی شکل میں بھی آجاوے تو چاہیے کہ وہ بھینس بھی طوطے کی طرح بولے۔ہاں صوفیوں نے بھی یہ لکھا ہے ؎
ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ام
ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام
مگر اس کے کچھ اور معنی ہیں۔یعنی جب انسان خد اتعالیٰ کی طرف ترقی کرنے لگتا ہے تو پہیل اس کی حالت بہت اَبتر ہوتی ہے۔جس طرح ایک بچہ آج پید اہوا ہے تو ا سمیں صرف دودھ چوسنے ہی کی طاقت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔پھر جب غذا کھانے لگتا یہتو آہستہ آہستہ غصہ،کینہ،خودپسندی،نخوت علیٰ ہذاالقیاس۔سب باتیں اس میں ترقی کرتی جاتی ہیں اور دن بدن جُوں جُوں اس کی غذائیت بڑھتی اجتی ہیشہوات اور طرح طرح کے اخلاقِ ردّیہ اور اخلاقِ فاضلہ زور پکڑتے جاتے ہیں اور اسی طرح ایک وقت پر اپنے پورے کمال انسانی پر جاپہنچتا ہے اور یہی اس کے جسمانی جنم ہوتے ہیں۔یعنی کبھی کُتے،کبھی سؤر،کبھی بندر،کبھی گائے،کبھی شیر وغیرہ جانوروں کے اخلاق اور صفات اپنے اندر پید اکرتا جاتا ہے گویا کل مخلوقات الارض کی خاصیت اس کے اندر ہوتی جاتی ہے۔اسی طرح جب اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سلوک کا راستہ چاہے گا تو یہ ساری خاصیتیں اس کو طے کرنی پڑیں گی اور یہی تناسخ اصفیاء نے مانا ہے اور اس کا اسلام اور قرآن بھی اقراری ہے۔غالباً یہی تناسخ ہنود میں بھی تھا،مگر بے علمی سے دھوکہ لگ ااور سمجھ اُلٹی ہو گئی۔مگر دنیا میں جس بات کو کوئی شخص مان بیٹھا ہے وہ اس کو چھوڑ نہیں سکتا ورنہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ راستی کو دریافت کرکے ناراستی کو چھوڑ دیتے،مگر یہاں ضدّ،تعصب اور ہٹ دھرمی ماننے نہیں دیتی۔
مکھیاں شہد بناتیں ۔ریشم کا کیڑا ریشم بناتا۔موتی کا کیڑا موتی بناتا،بیل،گھوڑے،گائے،جونگ وغیرہ ہر ایک چیز انسان کے واسطے فائدہ مند ہے۔اگر سب چیزیں اتفاقی ہیں۔اور خدا تعالیٰ نے حکمت سے پیدانہیں کیں توپھر ایک وقت پر اپنا جنم پورا کر کے کل گائیں، کل مکھیاں،کل گھوڑے وغیرہ سب جانورانسان بن جانے چاہیے۔تو پھر یہ چیزیں اور تعمتیں ایک وقت آنے پر دنیا سے نابود ہو جانی چاہئیں۔مگر جبتک انسان موجود ہے ان چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔پانی اور ہوا میں بھی کیڑے ہیں۔پھلوں اور اناجوں میں بھی کیڑے ہیں۔جن کے بغیر انسان کبھی زندہ نہیں رہ سکتا۔پس یا تو تناسخ مانو یا خد اتعالیٰ کی حکمت مانو،مگر چونکہ انسان کا ان چیزوں کے سوائے گذرہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔معلوم ہوا کہ یہ ساری پیدائش حکمتِ الٰہی پر مبنی ہے؎ٰ۔والسلام۔
۱۸؍جولائی ۱۹۰۴ء؁ بمقام گورداسپور
کل یعمل علی شا کلتہ
مہر نبی بخش المعروف عبد العزیز نمبردار بٹالہ نے عرض کیا کہ میں علاقہ بار سے صرف اس خیال پر آیا ہوں کہ ایک تفسیر قرآن لکھوں جس سے لوگوں کے شکوک اور غلط معانی کی اصلاح کروں۔اگر آپ مجھے امداد دیں تو میں موجودہ ثابت شدہ فلسفہ کے مطابق ترجمہ کر کے دکھلائوں۔
فرمایا :
ہمارا مشرب تو کسی سے نہیں ملتا۔ہم تو جو کچھ خد اسے پاتے ہیں خواہ اس کو عقل اور فلسفہ مانے یا نہ مانے ہم اس کو ضرور مانتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں؛ البتہ اہل عقل سے جو لوگ عقل کی پیروی کرتے ہیں وہ آپ کی بات پر توجہ کریں توخوب ہے۔آپ مولوی نور الدین صاحب سے مشورہ لیں۔آجکل تراجم کثرت سے شائع ہو رہے ہیں کہ مردوّجہ فلسفہ کی پیروی میں شائع ہوتے ہیں۔مگر ہمارا مذہب یہ نہیں ہے۔پر میں تم کو ایک نصیحت کرتا ہوں۔اس کو ضرور غور سے سُن لو۔اگر خدا تعالیٰ نے تم سے کوئی ایسا عظیم الشان کام لینا ہوتا تو تمہارا ؎ٰ ا رئیہ اور دماغ اچھا بناتا۔مگر یہ مصلحتِ الٰہی ہے کہ وہ اچھا نہیں بنایا گیا بلکہ کمزور بنایا گیا ہے ؎
ہر کے را بہر کارے ساختند
تم اپنے آپ کو خوش باش رکھو اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے خلاف نہ کرو۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
کل یعمل علی شا کلتہ (بنی اسرائیل : ۸۵)
ہر شخص کرتا اور کر سکتا ہے،مگر اپنی بناوٹ پر۔مثلاً ایک شخص کو تھوڑا ہی صدمہ دیکھ کر غشی لاحق ہو جاتی ہے۔اب اس کو میدان جنگ میں تلوار دے کر بھیجا جاتا ہے کیا وہ صرف بندوقوں کی آوازیں سنکر ہی نہ مر جاوے گا۔میں نے خود قادیان میں ایک شخص کو دیکھا ہے کہ اگر وہ بکرا ذبح ہوتا ہوا دیکھ لیتا ہے تو اس کو غش ہو جات تو اگر قصاب کا اکم اس کے سپرد کای اجتا تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ آپ ارادہ کرتے ہیں اختلاف مٹانے کا اور دماغ اور رئیہ آپ کا بہت خراب ہے۔ایسا نہ ہو کہ بیماری مہلک ہو کر تمہارے اندر ہی اختلاف پیدا ہو جاوے۔انسانی قویٰ تو بیشک ہر شخص کو ملے ہیں۔مگر مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ دھوکہ نہیں کھاتا۔پس آپ پر ا سمحنت کا پہلے بد اثر ہو چکا ہے۔آپ کم سے کم پہلے تمام ڈاکٹروں سے دریافت کر لیں کہ آپ اس محنت کے قابل ہیں یا نہیں۔میں تو بمصداق المستشار موتمن کے ایک امین اور مشفق ناصح ہو کر آپ کو صلاح دیت اہوں کہ آپ کے قویٰ ایسے نہیں ہیکہ اس محنت کو برداشت کر سکیں۔دوزخ کے ساتھ دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ۔جس رنگ سے اﷲ تعالیٰ چاہیے یقین عطا فرما دیوے۔صحابہ کرامؓ نے علوم فلسفہ وغریہ کہاں پڑھے تھے۔جو اسرارِ الٰہی طبعیات اور فلسفہ وغیرہ میں بھرے پڑے ہیں جو شخ ان سب کو طے کرنا چاہتا ہے وہ جاہل اور بے نصیب رہے گا مثلاً آگ گرم او رمہلک ہے۔اس بات کو تو ہر شخص دریافت کر سکتا ہے پر جب اس کے دل میں یہ سوال پید اہو گا کہ کیوں گرم ہے اور کیوں مہلک ہے تو یہاں فلسفہ ختم ہو جاوے گا۔پس اسرارِ الٰہیہ کو حد تک کوئی نہیں پہنچا سکتا ؎
تو کارِ زمیں کے نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پر داختی
پہلے ضرور ہے کہ اپنے گھر اور نفس کی صفائی کرو بعد میں لوگوں کی طرف توجہ کرنا۔
دنیا میں چار موٹی باتیں ماننے کے قابل ہیں۔(۱)ملائکہ،(۲)روحِ انسانی اور اس کا بقا بعد از مرگ۔(۳)جنات کا وجود۔(۴) خد اتعالیٰ کا وجود۔لوگوں نے سب سے پہلے جنات کا انکار کیا۔پھر ملائکہ کا۔پس دو باتوں کو اُڑا کر اپنی اور خدا کی روح کے قائل ہو بیٹھے یعنی کچھ کرنا اور کچھ نہ کرنا
افتو منون ببعض الکتاب وتکفرون ببعص (بقرہ : ۸۶)
اس میں پھر دہریوں نے ہی کمال کیا ہے کہ کچھ بھی نہ مانو اور سب کا انکار کرو۔
منشی صاحب مذکور نے سوال کای کہ قرآنِ کریم میں بہت سارے لفظ زائد ہوتے ہیں اور ان کے معنی نہیں کئے جاتے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔فرمایا :
قرآن کریم بلکہ ہر زبان میں قرائن ہوتے ہیں اور یہ ایسے بہت سارے محاورے ہوتے ہیں ۔آپکو صرف و نحو سے واقفیت نہیں۔
منشی صاحب نے کہا کہ میں نے صرف ونحو کو خوب پڑھا ہے۔فرمایا :
موجودہ مروجہ صرف و نۃو ناقص ہے اور آپ نے صرف و نحو کو کمال تک بھی نہیں پہنچایا۔ہر ایک زبان کا ایک خاص محاورہ ہوتا ہے۔جبتک انسان کی مادری زبان نہ ہو یا اس زبان میں اتنا کمال نہ ہو کہ مشبہ بہ مادری ہو جاوے، تب تک وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔پس اس امر کو زبان کے واقفوں سے دریافت کرو۔اور دیکھو قومی محاورات میں کوئی اہل علم اعتراض نہیں کرسکتا۔
پھر سوال کیا کہ بعض لفظ لکھنے میں آتے اور پڑھنے میں نہیں آتے۔فرمایا :
انگریزی زبان ہی کو لے لو اس میں بھی بہت سے ایسے حروف ہیں جو لکھنے میں تو آتے ہیں پڑھنے میں نہیں آتے۔میں پھر یہی کہوں گا کہ آپ کو صرف ونحو کی واقفیت بالکل نہیں۔یہ باتیں عمر کھاکے حاصل ہوتی ہیں۔آپ کی عمر اس وقت آرام چاہتی ہے اور خیال آپ کو یہ لگ گیا ہے۔پھر مجھے اس بات کا بھی ڈر ہے کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ مجھے قرآن کی خدمت سے روک دیا ہے۔بہر حال میں تو پھر بھی یہی کہوں گا اور بطور نصیحت کہوں گا کہ راحت سے زندگی بسر کرو۔آپ کا ریئہ بہت خراب ہیکوئی۔مہلک بیماری نہ ہو جاوے۔ہاں ان لوگوں کے واسطے دعا کر چھوڑو کہ اﷲ تعالیٰ ان کو ہدایت دیوے۔ااور قرآن سمجھنے کی ہر ایک کو توفیق دیوے۔مخلوق کے تم ٹھیکیدارنہیں۔اپنے آپ کو مشکلات میں نہ ڈالو اور نہ تمہارے قویٰ خدا تعالیٰ نے اس لائق بنائے ہیں۔میں تو ہمیشہ آپ کو یہی کہوں گا اور یہی نصیحت کروں گا۔آئندہ آپ کو اختیار ہے۔والسلام۔
عرش کی حقیقت
عرش کے متعلق سوال ہوا۔آپ نے اپنی تقریر کے اس حصہ کا اعادہ فرمایا جو کہ قبل ازیں کئی دفعہ شائع ہو چکی ہے۔اور فرمایا کہ :
عر ش کی نسبت مخلوق اور غیر مخلوق کا جھگڑا عبث ہے۔احادیث سے اس کے جسم کہو تو پھر خد اکو بھی مجسّم کہنا چاہیے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کو علّو جسمانی نہیں کہ جس کا تعالق جہات سے ہو بلکہ یہ روحانی علّو ہے۔
عرش کی نسبت مخلوق اور غیرمخلوق کی بحث بھی ایک بدعت ہیجو کہ پیچھے ایجاد کی گئی۔صحابہؓ نے اس کو مطلق نہیں چھیڑا ۔تو اب یہ لوگ چھیڑ کر نافہم لوگوں کو اپنے گلے ڈالتے ہیں۔لیکن عرش کے اصل معنے اس وقت سمجھ میں آسکتے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ دوسری تمام صفات پر بھی ساتھ ہی نظر ہو۔؎ٰ
‏Amira 19-6-05
۲۱؍جولائی ۱۹۰۴ء؁ بمقام گورداسپور
ترکِ گناہ
ایسی ہوا چلی ہے کہ گناہ کا چھوڑ نا عیب خیال کرتے ہیں۔اور جب کوئی گناہ کو چھوڑ نا چاہتا ہے تو اُسے ایک حسرت ہوتی ہے کہ اب یہ ہاتھ سے گیا۔اگر خدا تعالیٰ کی عظمت کو مد نظر رکھ کر بھی ترکِ گناہ کیا جاوے تو بھی اس کا بوجھ ہلکا ہو جاوے، لیکن اس کا خیال کسے ہے۔ ۳؎
۲۵؍جولائی ۱۹۰۴ء؁ بمقام گورداسپور
تعظیمِ قبلہ
سوال ہوا کہ اگر قبلہ شریف کی طرف پائوں کر کے سویا جاوے تو جائز ہے کہ نہیں؟
فرمایا کہ:
یہ ناجائز ہے کیونکہ تعظیم کے برخلاف ہے۔
سائل نے عرض کی کہ احادیث میں اس کی ممانعت نہیں آئی۔فرمایا کہ :
یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔اگر کوئی اسی بناء پر کہ حدیث میں ذکر نہیں ہے اور اس لیے قرآن شریف پر پائوں رکھ کر کھڑا ہوا کرے، تو کیا یہ جائز ہو جاوے گا؟ ہرگز نہیں۔ ۴؎
ومن یعظم شعائر اﷲ فانھا من تقوی القلوب (الحج : ۳۳)
۲۶؍جولائی ۱۹۰۴ء؁ بمقام گورداسپور
اکرامِ ضیف
اعلیٰ حجۃاﷲ مسیح موعود ؑ مہمان نوازی کا رسول اﷲ ﷺ کی طرح اعلیٰ اور زندہ نمونہ ہیں۔جن لوگوں کو کثرت سے آپ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ کسی مہمان کو (خواہ وہ سلسلہ میں داخل ہو) ذرا سی بھی تکلیف حضور کو بے چین کر دیتی ہے۔مخلصین احباب کے لیے تو اور بھی آپ کی روح میں جوشِ شفقت ہوتا ہے۔اس امر کے اظہار کے لیے ہم ذیل کا ایک واقعہ درج کر دیتے ہیں :
میاں ہدایت ال صاحب احمدی شاعر لاہور پنجاب جو کہ حضرت اقدس کے ایک عاشق صادق ہیں۔اپنی اس پیرانہ سالی میں بھی چند دنوں سے گورداسپور آئے ہوئے تھے۔آج انہوں نے رُخصت چاہی۔جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
آپ جا کر کیا کریں گے۔یہاں ہی رہیے اکٹھے چلیں گے۔آپ کا یہاں رہنا باعثِ برکت ہے۔اگر کوئی تکلیف ہو تو بتلادو اس کا انتظام کر دیا جاوے گا۔
پھر اس کے بعد آپ نے عام طو رپر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ
چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی کی ضرورت کا علم (اہلِ عملہ کو) نہ ہو۔اس لیے ہر ایک شخص کو چاہیے کہ جس شے کی اُسے ضرورت ہو وہ بلا تکلّف کہدے۔اگر کوئی جان بوجھ کر چھپاتا ہے،تو وہ گنہگار ہے۔ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلفی ہے۔
بعد ازیں حضرت اقدس نے میاں ہدایت اﷲ صاحب کو خصوصیت سے سید سرور شاسہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان کی ہر ضرورت کو وہ بہم پہنچاویں۔
سکھ مذہب اور عیسائیت
کل شام کو بعد از نماز مغرب دونو جوان اکائونٹنٹ جنرل آفس لاہور کے کلارک جن میں سے ایک صاحب ۔مسلمان تھے اور ایک عیسائی حضرت کی ملاقات کے لیے تشریف لائے؛ چونکہ مسلمان صاحب کا تعارف جناب مفتی محمد صادق صاحب سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلاہائی سکول قادیان سے تھا۔اس لیے مفتی صاحب نے ان کو حضرت اقدس سﷺے انٹروڈیوس کیا۔مختصر احالات کے استفسار کے بعد حضور عیسائی نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے۔معلوم ہوا کہ اول یہ سکھ مذہب کے تے اور ان کے والد عیسائی تھے۔اس پرحضرت اقدس نے فرمایا کہ آج کل اگر دنیا کے خدا گنے جاویں ایک ضخیم کتاب طیار ہوتی ہے،لیکن تعجب کہ سکھ جیسے مذہب کو چھوڑ کر جس میں توحید کی تعلیم ہے آپ نے عیسائی مذہب کو کیسے پسند کیا۔اس کے بعد متفرق طور پر مزاج پُِرسی وغیرہ ہوتی رہی۔اوربروقت رُخصت حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
ہمیں آپ کی ملاقات سے بہت خوشی ہوئی ہے۔افسوس ہے کہ قیام بہت تھوڑا ہے۔؎ٰ
بلاتاریخ ؎ٰ
کوئی نسخہ حکمی نہیں
ہمارے گھر مرزاصاحب (عالی جناب مرازا غلام مرتضیٰ خانصاحب مرحوم) پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔وہ اس فن طبابت میں بہت مشہور تھے،مگر اُن کا قوم تھا کہ کوئی حکمی نسخہ نہیں ملا۔حقیقت میں انہوں نے سچ فرمایا، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کوئی اثر نہیں کرسکتا۔
حکام اور برادری سے سلوک
ایک شخص نے پوچھا کہ حکام اور برادری سے کیسا سلوک کریں؟ فرمایا :
ہر ایک سے نیک سلوک کرو۔حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے۔وہ ہماری حفاظت کرتے اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔میں ا سکو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے۔
برادری کے حقوق ہیں۔اُن سے بھی نیک سلوک کرنا چاہیے؛البتہ ان باتوں میں جو اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی کے خلاف ہیں۔ان سے الگ رہنا چاہیے۔
ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کل مخلوق سے احسان کرو۔
قبولیت دعا کے آثار
جب اﷲ تعالیٰ کا فضل قریب آتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کے اسباب پہنچا دیتا ہے۔دل میںایک رقت اور سوز و گداز پیدا ہو اجت اہے،لیکن جب دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا،تو دل میں اطمینان اور رجوع پیدا نہیں ہوتا۔طبیعت پر کتانا ہی زور ڈالو مگر طبیعت متوجہ نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی خدا تعالیٰ اپنی قضاوقدر منوانا چاہتا ہے اور کبھی دعا قبول کرتا ہے۔اس لیے میں تو جبتک اذنِ الٰہی کے آثار نہ پالوں قبولیت کی کم اُمید کرتا ہوں اور اس کی قضاو قدر پر اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ جو قبولیت دعا میں ہوتی ہے راضی ہو جاتا ہوں، کیونکہ اس رضا بالقضاء کے ثمرات اور برکات اس سے بہت زیادہ ہیں۔
خدا تعالیٰ اعمالِ صالحہ کو چاہتا ہے
اﷲ تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا۔وہ تو روحانیت اور مغز کو قبول کرتا ہے۔اس لیے فرمایا
لن ینال اﷲ لحومہا ولا وما ؤ ھا ولکن ینا لہ التقوی منکم (الحج : ۳۸)
اور دوسری جگہ فرمایا
انما یتقبل اﷲ من المتقین (المائدۃ : ۲۸)
حقیقت میں یہ بڑی نازک جگہ ہے۔یہاں پیغمبر زادگی بھی کام نہیں آسکتی۔آنحضرت ﷺ نے فاطمہ ؓ سے بھی ایسا ہی فرمایا۔قرآن شریف میں بھی صاف الفاظ میں فرمایا :
اناکرمکم عند اﷲ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
یہودی بھی تو پیغمبر زادے ہیں۔کیا صدہا پیغمبر اُن میں نہیں آئے تھے مگر ا س پیغمبرزادگی نے اُن کو کیا فائدہ پہنچایا۔اگر اُن کے اعمال اچھے ہوتے تو وہ
ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ (البقرۃ : ۶۲)
کے مصداق کیوں ہوتے۔خدا تعالیٰ تو ایک پاک تبدیلی کو چاہتا ہے۔بعض اوقات انسان کو تکبر نسب بھی نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں اسی سے نجات پالو ں گا، جو بالکل خیال خام ہے۔کبیرؔ کہتا ہے کہ اچھا ہوا میں نے چماروں کے گھر جنم لیا۔
کبیرؔ اچھا ہوا ہم نیچ بھئے سب کو کریں سلام
خدا تعالیٰ وفاداری اور صدق کو پیار کرتا ہے اور اعمالِ صالحہ کو چاہتا ہے۔لاف وگزاف اُسے راضی نہیں کر سکتے۔
رفع عیسیٰ علیہ السلام
فرمایا :
قرآنِ شریف تو رفعِ اختلاف کے لیے آیا ہے۔اگر ہمارے مخالف رافعک الی کے معنی کرتے ہیں کہ مسیح جسم سمیت آسمان پر چڑھ گیا تو وہ ہمیں یہ بتائیں کہ کیا یہود کی یہ غرض تھی؟ اور وہ یہ کہتے تھے کہ مسیح آسمان پر نہیں چڑھا؟ اُن کا اعتراض تو یہ تھا کہ مسیح کا رفع الی اﷲ نہیں ہوا۔اگر رافعک الی اس اعتراض کا جواب نہیں تو پھر چاہیے کہ اس اعتراض کا جواب دیا اور دکھایا جاوے۔
مرکز میں آنے کی اصل غرض دین ہو
ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ میں تجارت کے لیے یہاں آنا چاہتا ہوں۔ فرمایا :
یہ نیت ہی فاسد ہے۔اس سے توبہ کرنی چاہیے۔یہاں تو دین کے واسطے آنا چاہیے۔اور اصلاح عاقبت کے خیال سے یاہں رہنا چاہیے۔نیت تو یہی ہو۔اور اگر پھر اس کے ساتھ کوئی تجارت وغیرہ یہاں رہنے کے اغراض کو پورا کرنے کے لیی ہو تو حرج نہیں ہے۔اصل مقصد دین ہو نہ دینا۔کیا تجارتوں کے لیے شہر موزوں نہیں؟ یہاں آنے کی اصل غرض کبھی دین کے سوا اور نہ ہو۔پھر جو کچھ حاصل ہو جاوے وہ خدا تعالیٰ کا فضل سمجھو۔
ہمدردیٔ خلائق
بنی نوع انسان کی ہمدردی خصوصاً اپنے بھائیوں کی ہمدردی اور حمایت پر نصیحت فرماتے ہوئے ایک موقعہ پر فرمایا کہ :
میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوت اہو اور میں نماز میں مصروف ہوں’میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز تور کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچاسکتا ہوں تو فائدہ پہنچائوں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔اگر تم کچھ بھی اس کے لیے نہیں کرسکتے تو کم از کم دعاہی کرو۔
اپنے تو درکنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوئوں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھائو اور اُن سے ہمدردی کرو۔لا ابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جارہا تھا۔ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا۔وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔راستہ میں ایک بڑھیا کوئی ۷۰ یا ۷۵ برس کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اُسے پڑھنے کو کہا مگر اُس نے اُسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔میرے دل پر چوٹ سی لگی۔اس نے وہ خط مجھے دیا ۔میں اُس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا۔کیونکہ ٹھہرنا پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔
سلسلہ کا مستقبل
مجھے بڑے ہی کشفِ صحیح سے معلوم ہوا ہے کہ ملوک بھی اس سلسلہ میں داخل ہوں گے۔یہانتک کہ وہ ملوک مجھے دکھائے بھی گئے ہیں۔وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔اور یہ بھی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تجھے یہانتک برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔اﷲ تعالیٰ ایک زمانہ کے بعد ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کو داخل کرے گا اور پھر اُن کے ساتھ ایک دنیا اس طرف رجوع کرے گی۔؎ٰ
آدابِ دعا
دعا میں جس قدر بیہودگی ہوتی ہے اسی قدر اثر کم ہوتاہے۔یعنی اس کی استجابت ضرورتی نہیں سمجھی جاتی۔مثلاً ایک شخص ہے کہ اس کا گذارہ ایک دوروپیہ روزانہ میں بخوبی چل سکتا ہے لیکن وہ پچاس روپیہ روزانہ طلب کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس کا سوال بیہودہ ہوگا۔یہ ضروری امر ہے کہ ضرورتِ حقہ اﷲ تعالیٰ کے آگے پیش کی جاوے۔جب کسی کی مصیبت کا خط آتا ہے اور اس میں دعا کی درخواست ہوتی ہے تو دیھکا گیا ہے کہ دل خوب لگ کر دعا کرتا ہے،لیکن دوسری بیہودہ درخواستوں میں قدر دل نہیں لگتا۔
عام لوگ جو آجکل دفعِ طاعون کے لیے دعا مانگتے ہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ :
اس وقت اﷲ تعالیٰ اپنی ذات کو منوانا چاہتا ہے۔نری دعا سے کای فائدہ ہو سکت اہیجبتک کہ عقائد کی اصلاح نہ ہو۔ایسی دعائیں کیا بُت پرست نہیں مانگتے؟ پھر اُن میں اور اِن میں فرق کیا ہوا؟ بلکہ مجھے میال آتا ہے۔
واذا سالک عبادی عنی فانی قریب (البقرۃ : ۱۸۷)
کے یہی معنی ہیں کہ اگر سوال ہو کہ خدا کا علم کیونکر ہوا تو جواب یہ ہے کہ اسلام کا خد ابہت قریب ہے۔اگر کوئی اسے سچے دل سے بلات اہے،تو وہ جواب دیت اہے۔دوسرے فرقوں کے خدا قریب نہیں ہیں بلکہ اس قدر دور ہیں کہ اس کا پتہ ہی ندارد۔اعلیٰ سے اعلیٰ غرض عابد اور پرستار کی یہی ہے کہ اس کا قُرب حاصل ہو اور یہی ذریعہ ہے جس سے اس کی ہستی پر یقین حاصل ہوتا ہے
اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (البقرۃ : ۱۸۷)
کے بھی یہی معنی ہیں کہ وہ جواب دیتا ہے گونگا نہیں ہے۔دوسرے تمام دلائل اس کے آگے ہیچ ہیں۔کلام ایک ایسی شئے ہے جو کہ دیدار کے قائمقام ہے۔
‏Amira 20-6-05
عذاب اور فسق
ایک تحصیلدار صاحب نے گورداسپور میں عرض کی کہ تجربہ ہوا ہے کہ خاص طاعون کے دنوں میں فسق بڑھ جاتا ہے؛ چنانچہ ایک گھر میں پے در پے طاعون سے موتیں ہوتی رہیں اور اس کے ستھ ہی دیوار بہ دیوار ایک شخص ایک ہفتہ زنا کاری میں مبتلا رہا ۔فرمایا کہ :
قرآن شریف سے بھی ایسا ثابت ہے جیسے کہ
امرنا متر فیہا ففسقو افیہا فحق علیہا القول فدمر نھا تدمیرا (بنی اسرائیل : ۱۷)
یعنی جب اس قسم کے عذاب نازل ہوتے ہیں تو فاسقوں کو ڈھیل دی جاتی ہے کہ وہ جی بھر کر فسق کر لیں۔پھر ان کو ایک ہی دفعہ ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
لذاتِ دینوی میں انہماک
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروہ ہیں جو حیاتِ دنیا پر راضی ہو گئے اور اطمینان پا گئے ہیں۔خدا تعالیٰ کی طرف حرکت کی ضرورت کو وہ بالکل محسوس ہی نہیں کرتے
فلا نقیم لہم یوم القیامۃ وزنا (الکہف : ۱۰۶)
میں گناہ کا ذکر نہیں ہے۔اس کا باعث پرف یہ ہے کہ ان لوگوں نے دنیا کی خواہشوں کو مقدم رکھ اہوا تھا۔ایک اور جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ دنیا کا حظ پا چکے ۔وہاں بھی گناہ کا ذکر نہیں بلکہ دنای کی لذات جن کو خدا تعالیٰ نے جائز کیا ہے۔اُن میں منہمک ہو جاتے کا ذکر ہے۔اس قسم کے لوگوں کا مرتبہ عند اﷲ کچھ نہ ہوگ ااور نہ اُن کو عزت کا مقام دیا جائے گا۔شیریں زندگی اصل میں ایک شیطان ہے جو کہ انسان کو دھوکا دیتی ہے۔مومن تو خود مصیبت خریدتا ہے؛ ورنہ اگر وہ مداہنہ برتے تو ہر طرح آرام سے رہ سکتا ہے۔آنحضرت ﷺ اگر اس طرح کرتے تو اس قدر جنگیں کیوں ہوتیںک،لیکن آپؐ نے دین کو مقدم رکھااس لیے سب دشمن ہو گئے۔
حسنِ نیت
ملازمت پیشہ لوگوں کو عبادت کا بڑا کم وقت ملتا ہے اور وہ دینی خدمات سے بھی محروم رہتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی زندگی آرام میں گذرتی ہے۔تلخ زندگی کا اُن کو موقعہ ہی نہیں آتا۔فرمایا کہ :
وہ بھی ایک تلخی کا حصہ ہے،کیونکہ معاش کے لیے کرتا ہے اس لیے عبادت کا ثواب پاتا ہے۔نیک نیتی سے اگر انسان چلے اور نیت یہ ہو کہ بال بچوں کی پرورش اس لیی کرتا ہوں کہ وہ خادمِ دین ہوں تو اس پر بھی اُسے ثواب ملتا ہے۔
نبی اور اجتہادی غلطی
انبیاء کے دشمنوں کے دو گروہ ہوتے ہیں ایک وہ جو اُن کے مکذب ہوتے ہیں۔دوسرے وہ جو اُن کو خدا مانتے ہیں۔اہلِ اسلام کا عقیدہ جو مسیح ؑکے دوبارہ آنے کا ہے وہ اسی قسم کا ہے کہ یہ لوگ اُن کے مکذب تو نہیں ہیں، لیکن ان کو خدا ضرور مانتے ہیں کہ ہر ایک اس کی صفت میں اُسے شریک کیا ہوا ہے؛ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ بعض وقت نبی کو اجتہاد اور تفہیمِ الہام میں غلطی ہو جاتی ہے۔یہ غلطی اگر احکا م دین کے متعلق ہو تو اُن کو فوراً متنبہ کیا جاتا ہے۔لیکن دوسرے امور میں ضروری نہیں کہ وہ اطلاع دیئے جاویں۔پس اس لیے یہ بات ممکن ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اُن کے دوبارہ آنے کے بارے میں جو الہامات ہوئے خود انہوں نے بھی اسے حقیقی معنوں پر حمل کر لیا ہو کیونکہ ان کا مخطی ہونا تو ثابت ہے،اس لیے انجیلوں میں ان کا یہ فقرہ نقل ہوا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ میں دوبارہ آجائوں گا۔اس قسم ک ی اجتہادی غلطی کا امکان ہر ایک نبی سے ہے۔اب دیکھو کہ مسیح علیہ السلام سے تو ایک اجتہادی غلطی ہوئی لیکن دوسروں کو کس قدر وبال آیا۔اگر ان مسلمانوں کو یہ سمجھ ہوتی تو وہ دوسرے نبیوں سے ان کو کیوں زیادہ مرتبہ دیتے۔مسلمانون پر یہ بات لازم نہیں ہے کہ وہ انجیل کے الفاظ پر ضرور اَڑ یں۔مسیح علیہ السلام کو یہ خاص عزت دیں کہ وہ محطی نہیں یہ تو اسلام سے خارج ہونا ہے۔
چند فقہی مسائل
سفر گورداسپور میں نماز کے متعلق ذیل کے مسائل میری موجود گی میں حل ہوئے۔ (ڈائری نویس)
(۱) ایک مقام پر دو جماعتیں نہ ہونی چاہیں۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس ابھی وضو فرما رہے تھے اور مولانا محمد احسن صاحب بوجہ علالتِ طبع نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔اُن کا خیال تھا کہ میں معذور ہوں الگ پڑھ لُوں،مگر چند ایک احباب ان کے پیچھے مقتدی بن گئے اور جماعت ہو گئی۔جب حضرت اقدس کو علم ہوا کہ ایک دفعہ جماعت ہو چکی ہے اور اب دوسری ہونے والی ہے۔
تو آپ نے فرمایا کہ :
ایک مقام پر دو جماعتیں ہرگز نہ ہونی چاہئیں
(۲) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور اقدس اپنی کوٹھڑی میں تھے اور ساتھ ہی کوٹھڑی میں نماز ہونے لگی۔آدمی تھوڑے تھے۔ایک ہی کوٹھڑی میں جماعت ہو سکتی تھی۔بعض احباب نے خیال کیا کہ شاید حضرت اقدس اپنی کوٹھڑی میں نماز ادا کرلیں گے،کیونکہ امام کی آواز وہاں پہنچتی ہے۔اس پر آپؑ نے فرمایا کہ :
جماعت کے ٹکڑے الگ الگ نہ ہونے چاہئیں بلکہ اکٹھی پڑھنی چاہیے۔ہم بھی وہاں ہی پڑھیں گے۔یہ اس صورت میں ہونا چاہیے جبکہ جگہ کی قلت ہو۔
(۳) ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گورداسپور میں مقیم تھے اور احمدی جماعت نزیل قادیان بہ باعث سفر میں ہونے کے نماز جمع کر کے ادا کرتی تھی۔ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ پوچھا۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ ؍
مقیم پوری نماز ادا کریں
وہ اس طرح ہوتی رہی کہ جماعت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نماز ادا کرتے۔جماعت دو رکعت ادا کرتی ،لیکن ڈاکٹر صاحب باقی کی دو رکھعت بعد از جماعت ادا کر لیتے۔ایک دفعہ حضرت اقدس نے دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے ابھی دو رکعت ادا کرنی ہے۔فرمایا کہ :
ٹھہر جائو۔ڈاکٹر صاحب دو رکعت ادا کر لیویں
پھر اس کے بعد جماعت دوسری نماز کی ہوئی۔ایسی حالت جمع میں سنت اور نوافل ادا نہیں کیے جاتے۔
(۴) حضرت مسیح موعودؑ کھڑے ہوئے تھے۔آپ نے پانی مانگا۔جب پانی آیا تو اُسے بیٹھ کر آپ نے پیا اور بھی کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ پانی وغیرہ آپ ہمیشہ بیٹھ کر ہی پیتے ہیں۔؎ٰ
۱۷؍اگست ۱۹۰۴ء؁ بمقام قادیان۔بوقت شام
صوفیا کا ملامتی فرقہ اور ریاء
شام کی نمازکے بعد چند ایک احباب نے بیعت کی۔ان میں ایک صاحب ایسے تھے جو کہ اپنے زمانہ جہالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت الفاظی سے یاد کرتے اور بہت ہی بُِرا بھلا کہتے تھے۔وہ اپنی ان خطائوں کی معفی حضرت اقدس علیہ السلام سے طلب کرتے تھے۔آپ فرماتے تھے کہ توبہ کے بعد اﷲ تعالیٰ سب گناہ بخش دیتا ہے۔اس اثناء میں اس تائب کا دل اپنے گناہوں کو یاد کرکے بھر آیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔روتا جاتا تھا اور گناہوں کی مغفرت کی دعا بھی کرتا جاتا تھا۔اس کی اس حالت کو جناب حکیم نورالدین صاحب نے دیکھ کر عرض کی کہ ایسے ہی مذنب ہیں جنکو خدا تعالیٰ بخش دیتا ہے۔اس پر سلسلہ کلام چل پڑا اور حضرت اقدس نے ذیل کی تقریر شروع کی۔
فرمایا کہ :
ذنوب آدمی کو اسی لیے قُرب بخشتے ہیں بشرطیکہ ساتھ توبہ اور استغفار بھی ہو اور یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے خطا اور صغائر میں انبیاء کو بھی شریک کر دیا ہے تاکہ قربِ الٰہی کے مراتب میں وہ ترقی کر سکیں۔فرقہ ملامتی کو میں پسند نہیں کرتا، کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر غیر کے وجود کو بڑا خیال کرتے ہیں اور اپنے اعمالِ صالحہ کو پوشیدہ رکھ کر مخلوق کو نظروں میں مُتّہَم (جائے تہمت) ہونا چاہتے ہیں۔یہ اُن کی غلطی ہے۔دوسرے وجود کو تو لاشئی خیال کرنا چاہیے اور کسی کے ضرر اور نفع پر نظر ہرگز نہ رکھنی چاہیے۔نہ کسی کی مدح سے پھولے اور دل میں خوش ہو اور نہ کسی کی ذم سے رنجیدہ خاطر ہو۔سچے موحد وہی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے وجود کو کوئی شئے خیال نہیں کرتے اور یہی وجہ ہیکہ فرقۂ ملامتی اس توحید سے گرا ہوا ہے۔خدا تعالیٰ نے مومنوں کی صفت فرمائی ہے۔
لا یخافون لو مۃ لائم (المائدۃ : ۵۵)
کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں خوف کھاتے اور صرف اپنے مولا کی رضا مندی کو مقدم رکھتے ہیۃ۔
مومن ایک لا پروا انسان ہوتا ہے۔اُسے صرف خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی حاجت ہوتی ہے اور اسی کی اطاعت کو وہ ہر دم مد نظر رکھتا ہے،کیونکہ جب اس کا معاملہ خدا سے ہے تو پھر اُسے کسی کے ضرر اور نفع کا کیا خوف ہے۔جب انسان خدا تعالیٰ کے مقابل کسی دوسرے کے وجود کو دخل دیت اہے،تو ریاء اور عجب وغیرہ معاصی میں مبتلا ہوت اہے۔یاد رکھو کہ یہ دخل وہی ایک زہر ہے اور کلمہ لاالہ الا اﷲ کے اول جزو لاالہ میں اس کی بھی نفی ہے،کیونکہ جب انسنا کسی انسان کی خاطر خدا تعالیٰ کے ایک حکم کی بجا آوری سے قاصر رہتا ہے تو آخر اُسے خد اکی کسی صفت میں شریک کرتا ہے تبھی تو قاصر رہتا ہے اس لیے لا الہ کہتے وقت اس قسم کے معبودوں کی بھی نفی کرتا ہے۔
صوفیوں نے اس قسم کے ملامتی لوگوں کے بہت سے قصے لکھے ہیں۔امام غزالی (علیہ الرحمۃ) نے بھی لکھا ہے کہ آجکل کے فقراء ریاکار ہوتے ہیں۔تن کی آسانی کو مد نظر رکھ کر موٹے جھوٹے کپڑے تو پہنتے نہیں اس لیے باریک کپڑوں کو گیرویاسبز رنگ لیتے ہیں اور اُن کے جبے پہن کر اپنے کو فقراء مشہور کرتے ہیں۔مقصود ان کا یہ ہوت اہے کہ لوگوں سے متمیز ہوں اور عوام الناس خصوصیت سے اُن کی طرف دیکھیں۔پھر روزہ داروں کا ذکر لکھا ہے کہ کوئی روزہ دار مولوی کسی کے ہاں جاوے اور اُسے مقصود ہو کہ اپنے روزہ کا اظہار کرے تومالک خانہ کے استفسار پر بجائے اس کے کہ سث بولے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے اس کی نظروں میں بڑا نفس کُش ثابت کرنے کے لیے جواب دیا کرتے ہیںکہ مجھے عذر ہے۔غرضیکہ اسی طرح کے بہت سے مخفی گناہ ہوتے ہیں جو اعمال کو تباہ کرتے رہتے ہیں۔
کبر اور نخوت
امر اء کو کبر اور نخوت لگے رہتے ہیں جو کہ ان کے عملوں کو کھاتے رہتے ہیں۔اس لیی بعض غریب آدمی جن کو اس قسم کے خیالات نہیں ہوتے وہ سبقت لے جاتے ہیں۔
غرضیکہ ریاء وغیرہ کی مثال ایک چوہے کی ہے جو کہ اندر ہی اندر اعمال کو کھاتا رہتا ہے۔خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے لیکن اس کی طرف آنے کے لیے عجز ضروری ہے۔جس قدر انانیت اور بڑائی کا خیال اس کے اندر ہوگا خواہ وہ علم کے لحاظ سے ہو، خواہ ریاست کے لحاظ سے۔خواہ مال کے لحاظ سے،خواہ خاندان اور حسب نسب کے لحاظ سے،تو اسی قدر پیچھے رہ جاویگا۔اسی لیے بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ سادات میں سے اولیاء کم ہوئے ہیں،کیونکہ خاندانی تکبر کا خیال ان میں پیا ہو جاتا ہے۔قرونِ اولیٰ کے بعد جب یہ خیال پیدا ہوا تو یہ لوگ رہ گئے۔
اس قسم کے حجاب انسان کو بے نصیب اور محروم کر دیتے ہیں۔بہت ہی کم ہیں جو ان سے نجات پاتے ہیں۔امارت اور دولت بھی ایک حجاب ہوتا ہے۔امیر آدمی کو کوئی غریب سے غریب اور ادنیٰ آدمی السلام علیکم کہے تو اُسے مخاطب کرنا اور وعلیکم السلام کہنا اس کو عار معلوم ہوتا ہے اور خیال گذرتا ہے کہ یہ حقیر اور ذلیل آدمی کب اس قابل ہوتاہے کہ ہمیں مخاطب کرے۔اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ غریب امیروں سے پانصد سال پیشتر جنت میں جاویں گے۔ہمیں معلومنہین کہ اس حدیث کے معانی کیا ہیں،لیکن ہم ان الفاظ پر ایمان لاتے ہیں۔اس کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ غریبوں کا تزکیۂ نفس قضاء قدر نے خود ہی کیا ہوتا ہے۔
حصولِ فضل کی راہیں
یاد رکھوکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کے دوراہ ہیں۔ایک تو زُہد نفس کشی اور مجاہدات کے ہے اور دوسرا قضاء وقدر کا۔لیکن مجاہدات سے اس راہ کا طے کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے اپنے بدن کو مجروح اور خستہ کرنا پڑتا ہے۔عام طبائع بہت کم اس پر قادر ہوتی ہیں کہ وہ دیدہ و دانستہ تکلیف جھیلیں۔لیکن قضاء و قدر کی طرف سے جو واقعات اور حادثات انسان پر آکر پڑتے ہیں وہ ناگہانی ہوتے ہیں اور جب آپڑ تے ہیں تو قہرِ دردیش برجان درویش ان کو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے جو کہ اس کے تزکیۂ نفس کا باعث ہو جاتا ہے جیسے شہداء کو دیکھو کہ جنگ کے بیچ میں لڑتے لڑتے جب مارے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک کس قدر جر کے مستحق ہوتے ہیں۔یہ درجاتِ قرب بھی ان کو قضاء و قدر سے ہی ملتے ہیں ورنہ اگر تنہائی میں اُن کو اپنی گردنیں کاٹنی پڑیں تو شاید بہت تھوڑے ایسے نکلیں جوشہید ہوں۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ غرباء کو بشارت دیتا ہے۔
ولنبلو نکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرت وبشر الصابرین الذین اذا اصا بتہم مصیبۃ قالو اانا لﷲ وانا الیہ راجعون (البقرۃ : ۱۵۶، ۱۵۷)
اس کا یہی مطلب ہے کہ قضاو قدر کی طرف سے ان کو ہر ایک قسم کے نقصان پہنچتے ہیں اور پھر وہ صبر کرتے ہیں تو خد اتعالیٰ کی عنائتیں اور رحمتیں ان کے شامل حال ہوتی ہیں،کیونکہ تلخ زندگی کا حصہ ان کو بہت ملتا ہے،لیکن امراء کو یہ کہاں نصیب۔امیروں کا تو یہ حال ہے کہ پنکھا چل رہا یہ۔آرام سے بیٹھے ہیں۔خدمتگار ٔچائے لایا ہے۔اگر اس میں ذرا سا قصور بھی ہے ۔خواہ میٹھا ہی کم یا زیادہ ہے تو غصہ سے بھر جاتے ہیں۔خدمتگار پر ناراض ہوتے ہیں۔بہت غصہ ہو تو مارنے لگ جاتے ہیں۔حالانکہ یہ مقام شکر کا ہے، کہ اُن کو ہل جوتنا نہیں پڑا۔کاشتکاری کے مصائب برداشت نہیں کیے۔چولہے کے آگے بیٹھ کر آگ کے سامنے تپش کی شدت برداشت نہیں کی اور پکی پکائی شئے محض خدا کے فضل سے سامنے آگئے ہے۔چاہیے تو یہ تھا کہ خد اکے احسانوں کو یاد کر کے رطب اللساں ہوتے۔لیکن اس کے سارے احسانوں کو بھول کر ایک ذرا سی بات پر سارا کیا کرایا رائیگاں کردیتے ہیں؛ حالانکہ جیسے وہ خدمتگار انسان ہے اور اس سے غلطی اور بھول ہو سکتی ہے ویسے ہی وہ (امری) بھی تو انسان ہے۔اگر اس خدمتگار کی جگہ خود یہ کام کرتا ہوت اتو کیا یہ غلطی نہ کرتا؟ پھر اگر ماتحت آگے سے جواب دے تو اس کی اور شامت آتی ہے اور آقاکے دل میں رہ رہ کر جوش اُٹھتا ہے کہ یہ ہمارے سامنے کیوں بولت اہے اور اسی لیے وہ خدمتگار کی ذلت کے درپے ہوتا ہے؛ حالانکہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنی غلطی کی تلافی کے لیے زبان کشائی کرے۔اس پر مجھے ایک بات یاد آئی ہے کہ سلطان محمود کی (یا ہارون الرشید کی) ایک کنیز تھی۔اُس نے ایک دن بادشاہ کا بستر جو کیا تو اُسے گدگدا اور ملائم اور پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا پاکر اس کے دل میں آیا کہ میں بھی لیٹ کر دیکھوں تو سہی اس میں کیا آرام حاصل ہوتا ہے۔وہ لیٹی تو اسے نیند آگئی۔جب بادشاہ آیا تو اسے سوتا پا کر ناراض ہوا اور تازیانہ کی طزا دی۔وہ کنیز روتی بھی جاتی اور ہنستی بھی جاتی۔بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ روتی تو اس لیے ہوں کہ ضربوں سے درد ہوتی ہے اور ہنستی اس لیے ہوں کہ میں چند لمحہ اس پر سوئی تو مجھے یہ سزا ملی اور جو اس پر ہمیشہ سوتے ہیں ان کو خدا معلوم کسی قدر عذاب بھگتنا پڑے گا۔
‏Amira 21-6-05
غربت ایک کیمیا ہے
پس غریبوں کو ہرگز بے دل نہ ہونا چاہیے۔ان کا قدم آگے ہی ہے،لیکن وہ کوشش کریں کہ تھوڑی بہت جو کسر ہے وہ نکال دیویں کیونکہ بعض وقت ان لوگون سے غریبی میں بھی بڑے بڑے گناہ صادر ہو جاتے ہیں۔صبر نہیں کرتے خد اتعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔معاش کی قلت ہو تو چوری،ڈاکہ اور دوسرے جراتم شروع کر دیتے ہیں۔ایسی حالتوں میں صبر کرنا چاہیے اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف ہرگز مائل نہ ہونا چاہیے۔غُربت اور کم رزتی دراصل انسان کو انسان بنانے کے لیے بڑی کیمیا ہے؛ بشرطیکہ اس کے ساتھ اور قصور نہ ہوں۔جیسے مالداروں میں تکبر اور نخوت وغریہ پید اہو کر ان کے اعمال کو تباہ کر دیتے ہیں ویسے ہی ان میں بے صبری موجبِ ہلاکت ہوتی ہے۔اگر غریب لوگ صبر سے کام لیں تو ان کو وہ حاصل ہو جو اور لوگوں کو مجاہدہ سے حاصل نہیں ہوسکتا۔خدا تعالیٰ نے اصل میں بڑا احسان کیا ہے کہ انبیاء کے ساتھ غریبی کا حصہ بھی رکھ دیا ہے۔آنحضرت ﷺ بکریاں چرایا کرتے تھے۔موسیٰ ؑنے بکریاں چرائیں۔کیا امراء یہ کام کر سکتے ہیں۔ہرگز نہیں۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ کا گذرایک جنگل میں ہوا۔وہاں کچھ پھل دار درخت کا پھل کھائو بہت شیریں ہے۔صحابہؓ نے پوچھا کہ یا حضرت آپ کو کیسے علم ہے؟ فرمایا کہ جب میں بکریاں چرایا کرتا تھا تو اس جنگل میں بھی آیا کرتا اور ان پھلوں کو کھایا کرتا تھا۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے یہ تجویز نہیں کیا کہ انبیاء شاہی خاندان سے ہوں؛ ورنہ تکبر اور نخوت کا کچھ نہ کچھ حصہ ان میں ضرور رہ جاتا۔او رپھر نبوت کے بھی دو حصے کر دیئے۔ایک مصائب اور شدائد کا اور دوسرا فتح و نصرت کا۔انبیاء کی زندگی کے ان دو حصوں میں بھی الٰہی حکمت تھی۔ایک تو یہی تھی کہ ان کے اخلاق میں ترقی ہو۔اور سچی بات یہی ہے کہ جوں جوں نبوت کا زمانہ گذرتا ہے اورواقعات اور حادثات کی صورت بدلتی جاتی ہے انبیاء کی اخلاقی حالت بھی ترقی کرتی جاتی ہے۔ابتداء میں ممکن ہے کہ غصہ وغیرہ زیادہ ہو۔ا س لیے نبی کی زندگی کا آخری حصہ بہ نسبت پہلے کے بلحاظ اخلاق کے بہت ترقی یافتہ ہوت اہے۔اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ ابتداء میں ان کے اخلاق عام لوگوں سے ترقی یافتہ نہیں ہوتے بلکہ یہ امر ہے کہ اپنے دائرہ نبوت میں وہ آخری حصہ عمر میں بہت مؤدب ہوتے ہیں؛ ورنہ ان کی ابتدائی زندگی کا حصہ بھی اخلاق میں توکُل لوگوں سے اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نبی اگر شدائد مصائب سے امن میں رہے تو اُن کی صبر کی قوت کا پتہ لوگوں کو کیسے معلوم ہو۔پھر بہت سے اخلاقِ فاضلہ اس قسم کے ہیں کہ وہصرف نزولِ مصائب پر ہی حاصل ہوئے ہیں۔آنحضرت ﷺ پر خد اتعالیٰ کا بڑا فضل و احسان تھا کہ آپؐ کو دونوں موقع عطا کیے۔ہر ایک نبی کا یہ کام نہیں کہوہ ہر ایک رتبہ کے لوگوں کو ایک کامل نمونہ اخلاق کا پیش کرسکے۔فقیر ،غریب اور امری وغیرہ ہر ایک اس کے چشمہ سے مساوی سیراب ہوں۔یہ صرف آنحضرت ﷺ کی ہی ذات سے ہے۔جس نے کُل ضرورتوں کو پورا کرکے دکھایا۔
تعلیم کے ساتھ اُسوَہ کی ضرورت
فرقہ چکڑالوی نے بھی یہاں ہی ٹھوکر کھائی ہے۔اس نے یہ نہیں سمجھا کہ بغیر نمونہ کے دوسرا انسان اتباع کیسے پوری کر سکتا ہے۔
ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی (آل عمران : ۳۲)
کہہ کر آنحضرت ﷺ نے ہر ایک طبقہ کے انسان کو مخاطب کیا ہے کہ ہر ایک قسم کا سبق مجھ سے لو۔اور ظاہر ہے کہ جبتک ایک اُسوہ سمانے نہ ہو، انسان عملدرآمد سے قاصر رہتا ہے۔ہر ایک قسم کے کمال کے حضول کے لیے نمونہ کی ضرورت ہے۔انسانی طبائع اسی قسم کی واقع ہوئی ہیں کہ وہ صرف قول سے متأثر نہیں ہوتیں جب تک اس کے ساتھ فعل نہ ہو۔اگر صرف قول ہو تو صدہا اعتراض لوگ کرتے ہیں۔دین کی باتوں کو سنکر کہا کرتے ہیںکہ یہ سب باتیں کہنے کی ہیں کون ان کو بجا لا سکتا ہے۔یونہی بنا چھوڑی ہیں۔اور ان اعتراضوں کا رد نہیں ہوسکتا جبتک ایک انسان عمل کرکے دکھانے والا نہ ہو۔
دعا کے آداب
دعا کے لیے انسان کو اپنے خیال اور دل کو ٹٹولنا چاہیے کہ آیا اس کا میلان دنای کی طرف ہے یا دین کی طرف یعنی کثرت سے وہ دعائیں دنیاوی آسائش کے لیے ہیں یا دین کی خدمت کے لیے۔پس اگر معلومہو کہ اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہوئے اسے دنیاوی افکار ہی لاحق ہیں اور دین مقصود نہیں تو اسے اپنی حالت پر رونا چاہیے۔بہت دفعہ دیکھا گیا ہیکہ لوگ کمر باندھ کر حصول دنیا کے لیے مجاہدے او ریاضتیں کرتے ہیں۔دعائیں بھی مانگتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوت اہے کہ طرح طرح کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔بعض مجنون ہو جاتے ہیں۔لیکن سب کچھ دین کے لیے ہو تو خدا تعالیٰ ان کو کبھی ضائع نہ کرے۔قول اور عمل کی مثال دانہ کی ہے۔اگر کسی کو ایک دانہ دیا جاوے اور وہ اسے لے جاکر رکھ چھوڑے اور استعمال نہ کرے تو آخر اُسے پڑے پڑے گھن لگ جاوے گا۔ایسے ہی اگر قول ہو اور اس پر عمل نہ ہو تو آہستہ آہستہ وہ قول بھی نہ رہے گا۔اس لیے اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیے۔؎ٰ
‏Amira 25-6-05
۹؍اگست ۱۹۰۴ء؁
بمقام قادیان
اپنی نیک نیت میں فرق نہ لائو
بعض لوگوں کے ایک مسجد کے تناز عہ پر آپ نے فرمایا :
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ زیادہ بزرگ تم میں سے وہ ہے جو تقویٰ میں زیادہ ہے۔جیسے قرآنُ شریف میں ہے۔
ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
اور متقیوں کے صفات میں سے ہے کہ وہ بالغیب ایمان لتے ہیں۔نماز پڑھتے ہیں اور
مما رزقنھم ینفقون (البقرۃ : ۴)
یعنی علم،مال اور دوسرے قویٰ ظاہری اور باطنی جو کچھ دیا ہے۔سب کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے انعام کے کئے ہیں۔
انسان ایک کارِ خیر کے لیے جب نیت کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ پھر اس میں کسی قسم کا فرق نہ لاوے۔اگر کوئی دوسرا جو اس میں حصہ لینے والا تھا یا نہ تھا، مزاحم ہو اور بددیانتی کرے تو بھی اول الذکر کو چاہیے کہ وہ کسی قسم کا تغیر اپنے ارادہ میں نہ کرے۔اس کو اس کی نیت کا اجر ملے گا اور دوسرا اپنی شرارت کی سزا پاوے گا۔
دنیا میں لوگوں کو ایک یہ بھی بڑی غلطی لگی ہے کہ دوسرے سے مقابلہ کے وقت یا اس کی نیت میں فرق آتا دیکھ کر اپنی نیت کو جو خیر پر مبنی ہوتی ہے،بدل دیا جاتاہے۔ اس طرح سے بجائے ثواب کے عذاب حاصل ہوتا ہے۔یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے نقصان روانہیں رکھتا وہ عند اﷲ کسی اجر کا بھی مستحق نہیں۔خدا کے لیے جو جان تک دریغ نہ کرنی چاہیے۔پھر زمین وغریہ کیا شئے ہے۔جس قدر کوئی دکھ اٹھانے کے لیے تیار ہو گا اتنا ہی اُسے ثواب ملے گا۔اگر کوئی شخص یہ اصول اختیار نہیں کرتا تو اس نے ابھی تک ہمارے سلسلہ کا مطلب اور مقصود ہی نہیں جانا۔جو لوگ اس جماعت میں دخال ہیں۔اگر وہ عام لوگوں سے اخلاق،مروت ارو ہمدردی برتتے ہیں تو اُن میں اور دوسرے لوگوں سے کیا فرق ہوا؟ شریر کی شرارت کو شریر کے حوالاہ کرو۔اور اپنے نیک جوہر دکھائو۔تب تمیز ہوگی۔دنیاوی تنازعات کے وقت مالی نقصان برداشت کرنے اور جو رنفس سے کام لینے کے سوا چارہ نہیں ہوا کرتا اور نہ انسان کو ہمیشہ اس قسم کے مواقع ہاتھ آتے ہیں کہ وہ فطرت کے یہ نیک جوہر دکھاسکے۔اس لیے اگر کوئی ایسا موقعہ ہاتھ آجاوے تو اُسے غنیمت خیال کرنا چاہیے۔
مساجد کی اہمیت اور برکات
اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔جس گائوں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔اگر کوئی ایسا گائوں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں وا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے پھر خد اخود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔محض ﷲ اُسے کیا جاوے۔نفسانی اغراض یا کسی مثرکو ہرگز دخل نہ ہو،تب خد ابرکت دے گا۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصع اور پکی عمارت کی ہو۔بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغریہ ڈال دو کہ بارش وغریہ سے آرام ہو۔خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔آنحضرت ﷺ کی مسجد چند کھوجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی۔پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا۔اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتا ہے۔شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے۔اور جماعت کے لوگوں کو چہایے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں۔جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔پراگند گی سے پھوٹ پید اہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداذ کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔
نفسِ لوّامہ
مولوی تاج محمود صاحب ساکن لالیاں نے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام سے مصافحہ کیا اور نماز میں سرور اور لذت کے لیے دعا کی درخواست کی۔فرمایا کہ :
دعا کرتے رہو۔اور کراتے رہو۔ایک کارڈ روانہ لکھ دیا کرو کہ دعایا د آجایا کرے۔طبیعت پر جبر کرکے جو کام کیا جاتا ہے ثواب اسی کا ہوتا اور اسی کا نام نفسِ لوامہ ہے کہ طبیعت آرام کرنا چاہتی ہے اور محبوباتِ نفسانی کی طرف کھچی جاتی ہے مگر وہ بزوراسے مغلوب کرکے خدا کے احکام کے ماتحت چلاتا ہے اس لیی اجر پاتا ہے۔ثواب کی حد نفسِ لوامہ تک ہی ہے اور اسے ہی خدا نے پسند کیا ہے؛ چنانچہ قرآنِ شریف میں بھی قسم نفس لوامہ کی ہی خدا نے کھائی ہے۔مطمئنہ میں جاکر ثواب نیں رہتا۔کیونکہ وہاں کوئی کشاکشی اور جنگ نہیں۔وہ تو امن کی حالت ہے۔
سونے چاندی او ریشم کا استعمال
عرض کی گئی کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ فرمایا کہ :
۳-۴ ماشہ تک کوئی حرج نہیں،لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے۔اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے۔ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں۔جیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سوین کے برتن میں کھنا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کرسکتا ہے۔
ایک شخص آنحضرت کے پاس آیا۔اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں۔آپؐ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں۔(ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے)۔
سود سود کی بابت پوچھا گیا کہ بعض مجبوریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ فرمایا کہ :
اس کا فتویٰ ہم نہیں دے سکتے۔یہ بہر حال ناجائز ہے۔ایک طرح کا سود اسلام میں جائز ہے کہ قرض دیتے وقت کوئی شرط وغیرہ کسی قسم کی نہ ہو اور مقروض جب قرضہ ادا کرے۔تو مروت کے طور پر اپنی طرف سے کچھ زیادہ دے دیوے۔آنحضرت ﷺ ایسا ہی کیاکرتے ۔اگر دس روپے قرض لیے تو ادائیگی کے وقت ایک سو تک دے دیا کرتے سو د حرام وہی ہے جس میں عہد معاہدہ اور شرائط اول ہی کر لی جاویں۔؎ٰ
۲۱؍اگست ۱۹۰۴ء؁
بمقام لاہور :- احاطہ میاں چراغ دین و سراج دین رئیسانِ لاہور۔
ظُہر کے وقت حصرت اقدس تشریف لائے اور نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد احباب کی درخواست پر آپ ایک کرسی پر رونق افروز ہویء۔میاں فیروزالدین صاحب نے آگے بڑھ کر نیاز حاصل کی۔حضرت اقدس نے چند نصائح فرماتے ہوئے تقریر کا سلسلہ یوں شروع کیا :
تمام گناہوں سے بچنے کا ذریعہ خوفِ الٰہی ہے
دیکھو! یاد رکھنے کا مقام ہے کہ بیعت کے چند الفاظ جو زبان سے کہتے ہو کہ میں گناہ سے پرہیز کروں گا۔یہی تمہارے لیے کافی نہیں ہیں اور نہ صرف ان کی تکرار سے خدا راضی ہوتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہاری اس وقت قدر ہوگی جبکہ دلوں میں تبدیلی ارو خدا تعالیٰ کا خوف ہو؛ ورنہ ادھر بیعت کی اور جب گھر میں گئے تو وہی برے خیالات اور حالات رہے تو اس سے کای فائدہ؟ یقینا مان لو کہ تمام گناہوں سے بچنے کے لیے بڑا ذریعہ خوفِ الٰہی ہے۔اگر یہ نہیں ہے تو ہرگز ممکن نہیں کہ انسان اُن سب گناہوں سے بچ سکے جو کہ اسے مصری پر چیونٹیوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔مگر خوف ہی ایک ایسی شئے ہے کہ حیوانات کو بھی جب ہو تو وہ کسی کا نقصان نہیں کرسکتے۔مثلاً بلی جو کہ دودھ کی بری حریص ہے۔جب اُسے معلوم ہو کہ اُس کے نزدیک جانے سے سزا ملتی ہے پرندوں کوجب علم ہو کہ اگر یہ دانہ کھایا توجال میں پھنسے اور موت آئی،تو وہ اس دودھ اور دانہ کے نزدیک نہیں پھٹکتے۔اس کی وجہ صرف خوف ہے۔پس جبکہ لا یعقل حیوان بھی خوف کے ہوتے ہوئے پرہیز کرتے ہیں تو انسان جو عقلمند ہے،اُسے کس قدر خوف اور پرہیز کرنا چاہیے۔یہ امر بہت ہی بدیہی ہے کہ جس موقعہ پر انسان کو خوف پیدا ہوتا ہے اس موقعہ پر وہ جرم کی جرأت ہرگز نہیں کرتا۔مثلاً طاعون زدہ گائوں میں اگ کسی کو جانے کو کہا جاوے،تو کوئی بھی جرأت کرکے نہیں جاتاحتیٰ کہ اگر حکام بھی حکم دیویں تو بھی ترساں اور لرزاں جائیگا اور دل پر یہ ڈر غالب ہوگ اکہ کہیں مجھ کو بھی طاعون نہ ہو جاوے اور وہ کوشش کرے گا کہ مفوضہ کام کا جلد پورا کرکے وہاں سے بھاگے۔پس گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجود نہ ہونا ہے۔لیکن یہ خوف کیونکر پید اہو۔اس کے لیے معرفت الٰہی کی ضرورت ہے۔جس قدر خدا تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف زیادہ ہوگا ؎
ہر کہ عارف تر است ترساں تر
اس امر میں اصل معرفت ہے اور اس کا نتیجہ خوف ہے۔معرفت ایک ایسی شئے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان ادنیٰ ادنیٰ کیڑوں سے بھی ڈرتا ہے۔جیسے پسو اور مچھر کی جب معرف ت ہوتی ہے تو ہر ایک اُن سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔پس کیاوجہ ہے کہ خد اجو قادرِ مطلق اور علیم اور بصیر ہے اور زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے،اس کے احکام کے برخلاف کرنے میں یہ اس قدر جرأت کرتا ہے۔اگر سوچ کر دیکھو گے تو معلو م ہوگاکہ معرفت نہیں۔
اﷲ تعالیٰ کی معرفت طلب کرو
بہت ہیں کہ زبان سے تو خد اتعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں،لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ان کے اندر دہریت ہے۔کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالٰٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں۔اس لیے یہ بات بہت ضروری ہیکہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اﷲ تعالٰٰ سے معرفت طلب کرو۔بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا۔وہ اس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اﷲ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے۔گناہ سے بچنے کے لیے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میںشامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو۔اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاء و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔جبتک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو۔ہرگز رہائی نہیں ہوتی۔نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اُسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ سچی نماز ہرگز نہ ہوگی۔نماز کے معنی ٹکریں مارلینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں۔ہماز وہشئے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح بگھل کر خوفناک حالت میں آستانۂ الُوہیت پر گِر پڑے۔جہانتک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرع سے مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں۔اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یادن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفسِ امارہ کی شوخی کم ہو گئی ہے۔جیسے اژدہا میں ایک سِمّ قاتل ہے۔اسی طرح نفس امارہ میں بھی سم قاتل ہوت اہے اور جس نے اُسے پید اکیا۔اُسی کے پاس اُس کا علاج ہے۔
کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ میں پاک صاف ہوں جیسے کہ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے
فلا تزکو اانفسکم (النجم : ۳۳)
کہ تم اپنے آپ کو مُزَکیّٰ مت کہو۔وہ خود جانتا ہے کہ تم میں سے متقی کون ہے۔جب انسان کے نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو خد اتعالیٰ اُس کا متولی او متکفل ہو جاتا ہے۔اور جیسے ماں بچے کو گود میں پرورش کرتی ہے اسی طرح وہ خدا کی گود میں پرورش پاتا ہے اور یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کا نور اس کے دل پر گر کر کل دنیاوی اثروں کو جلا دیتا ہے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر محسوس کرتا ہے،لیکن ایسی حالت میں بھی اُسے ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہیے کہ اب یہ طاقت مجھ میں مستقل طور پر پیدا ہوگئی ہے اور کبھی ضائع نہ ہوگی۔جیسے دیوار پر دھوپ ہو تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہوتے کہ یہ ہمیشہ ایسی ہی روشن رہے گی۔اس پر لوگوں نے ایک مثال لکھی ہے کہ دیوار جب دھوپ سے روشن ہوئی تو اُس نے آفتاب کو کہا کہ میں بھی تیری طرح روشن ہوں۔آفتاب نے کاہ کہ رات کو جب میں نہ ہوں گا تو پھر تو کہاں سے روشنی لے گی؟ اسی طرح انسان کو جو روشنی عطا ہوتی ہے،وہ بھی مستقل نہیں ہوتی،بلکہ عارضی ہوتی ہے اور ہمیشہ اُسے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے استغفار کی ضرورت ہے۔انبیاء جو استغفار کرتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ نور کی چادر جو ہمیں عطا کی گئی ہے ایسا نہ ہو کہ وہ چھن جاوے۔
استغفار کی حقیقت
نادان لوگ لا علمی کی وجہ سے یہ کہتے اور فخر کرتے ہیں کہ مسیح استغفار نہ کرتا تھا؛ حالانکہ یہ بات کسی قسم کے ناز کی نہیں بلکہ رونے اور افسوس کرنے کی ہے۔اگر وہ استغفار نہ کرتا تو گویا اس نور سے بالکل محرورم تھا جو کہ اﷲ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کو عطا کیا کرتا ہے۔کوئی نبی جس قدر زیادہ استغفار کرنیوالا ثابت ہو گا اسی قدس اس کا درجہ بڑا اور بلند ہو گا،لیکن جس کو یہ حالت حاصل نہیں تو وہ خطرہ میں ہے اور ممکن ہے کہ کسی وقت اس سے وہ چادر حفاظت کی چھین لی جاوے،کیونکہ نبیوں کو بھی وہ مستعار طور پر ملتی ہے اور وہ پھر استغفار کے ذریعہ اسے مدامی طور پر رکھتے ہیں۔بات یہ ہے کہ اصل انوار تو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہیں اور نبی ہو یا کوئی اور ،سب خدا تعالیٰ سے انہیں حاصل کرتے ہیں۔سچے نبی کی یہی علامت ہے کہ وہ اس روشنی کی حفاظت بذریعہ استغفار کے کرے۔استغفار کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خد اتعالیٰ سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اور ملے ۔اسی کی تحصیل کے لئے پنجگانہ نماز بھی ہے تا کہ ہر روز دل کھول کھول کر اس روشنی کو خدا تعالیٰ سے مانگ لیوے جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پاسکتا ہے۔وہ لوگ بہت بیوقوف ہیں جو دوری ڈالنے والی تاریکی کا علاج نہیں کرتے۔
بیعت کی غرض
میرے پاس اکثر خطوط آتے ہیں،مگر اس میں یہی لکھ اہوتا ہے کہ میرے املاک کے لیے یا اولاد کے لیے دعا ہو۔لاں مقدمہ ہے یا فلاں مرض ہے وہ اچھا ہو جاوے ،لیکن مشکل سے کوئی خط ایسا ہوتا ہے جس میں ایمان یا ان تاریکیوں کے دور ہونے کے لیے درخواست کی گئی ہو۔بعض خطوط میں یہ لکھ اہوتا ہے کہ اگر مجھے پانسو روپیہ مل جاوے تو میں بیعت کر لوں ۔بیوقوفوں کو اتنا خیال نہیں کہ جن باتوں کو ہم چھوڑانا چاہتے ہیں۔وہی ہم سے طلب کی جاتی ہیں۔اسی لیے میں اکثر لوگوں کی بیعت سے خوف کرتا ہوں، کیونکہ سچی بیعت کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔بعض تو ظاہری شروط لگاتے ہیں جیسے کہ اوپر ذکر ہوا۔اور بعض لوگ بعد بیعت کے ابتلا میں پڑ جاتے ہیں۔
‏Amira 2-7-05
جیسے کسی کا لڑکا مر گیا تو شکایت کرتا ہے، میں نے تو بیعت کی تھی یہ صدمہ مجھے کیوں ہوا؟ اس نادان کو یہ خیال نہیں آتا کہ آنحضرت ﷺ باوجود کہ پیغمبر تھے،مگر آپؐ کے گیارہ بچے فوت ہو گئے اور کبھی شکایت نہ کی کہ خداوند ا تو نے مجھے پیغمبر بنایا تھا میرے بچے کیو ں مار دیئے۔
غرضکہ یاد رکھو کہ دین کو دنیا سے ہرگز نہ ملانا چاہیے اور بیعت اس نیت سے ہرگز نہ کرنی چاہیے کہ میں بادشاہ ہی بن جائوں گا یا ایسی کیمیا حاصل ہو جاوے گی کہ گھر بیٹھے روپیہ بنتا رہے گا۔اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تو اس لیے مامور کیا ہے کہ ان باتوں کو لوگوں سے چھُڑادیویں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جو لوگ صدق اور وفا سے خدا تعالیٰ کی طرف آتے ہیں اور اس کے لیے ہر ایک دکھ اور مصیبت کو سر پر لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کو اور ان کی اولاد کو ہرگز ضائع نہیں کرتا۔حضرت دائود علیہ السلام کہتے ہیں کہ میں بوڑھا ہو گیا ،لیکن کبھی نہیں دیکھاکہ صالح آدمی کی اولاد ضائع ہوئی ہو۔خدا تعالیٰ خود اس کا متکفل ہوتا ہے۔لیکن ابتدا میں ابتلا کا آنا ضروری ہے تا کہ کھوٹے اور کھرے کی شناخت ہو جائے۔
عشق اول سر کش و خونی بود۔ تا گریز دہر کہ بیدرونی بود
دوسرے ابتلا اس لیے ہوت اہے کہ اﷲ تعالیٰ لوگوں کو دکھلاوے کہ جو ہماری طرف آنیوالے ہیں وہ کیسے مستقل مزاج اور جفاکش ہوتے ہیں کہ مار پر مار کھاتے ہیں ،لیکن منہ نہیں پھیرتے او ر جب وہ ثابت قدم نکل آتے ہیں تو پھر اﷲ تعالیٰ اُن سے وہی سنت برتتا ہے جو کہ منعم علیہ گروہ سے برتنی چاہیے۔
خدا تعالیٰ سے زیادہ پیاراور رحم اور محبت کرنی کوئی نہیں جانتا۔لیکن اخلاص ضروری ہے۔کوئی دل سے اس کا ہو۔پھر دیکھے کہ آیا مخلص کی دست گیری اور کفالت اس کی خوبی ہے کیہ نہیں ،لیکن جو اُسے آزماتا ہے وہ خود آزمایا جاتا ہے۔آنحضرت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اسلام لایا۔بعد ازاں اندھا ہو گیا ارو کہنے لگا کہ اسلام قبول کرنے سے یہ آفت مجھ پر آئی ہے۔اس لیے کافر ہو گیا۔آنحضرت ﷺ نے اُسے بہت سمجھایا ،لیکن نہ مانا؛ حالانکہ اگر وہ مسلمان رہتا تو خدا تعالیٰ تو اس امر پر قادر تھا کہ اسے دوبارہ بینائی بخش دیتا،لیکن کافر ہو کر دنیا سے تو اندھا تھا دین سے بھی اندھا بن گیا۔مجھے فکر ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہین جو کہ خد اتعالیٰ کو آزماتے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ وہ خود آزمائے جاویں۔پیغمبر خدا ﷺ فرماتے ہیں کہ جو مجھ پر ایمان لاوے ،اول وہ مصائب کے لیے تیار رہے۔مگر یہ سب کچھ اوائل میں ہوتا ہے۔اگر صبر کرے تو اﷲ تعالیٰ اس پر فضل کر دیت اہے؛کیونکہ مومن کے لیے دو حالتیں ہیں۔اول تو یہ کہ جب ایمان لاتا ہے تو مصائب ک ایاک دوزخ اس کے لیے تیار کیا جاتا ہے جس میں اُسے کچھ عرصہ رہنا پڑتا ہے اور اس کے صبر اور استقلال کا امتحان کیا جاتا ہے اور جب وہ اس میں ثابت قدمی دکھاتا ہے تو دوسری حالت یہ ہے کہ اس دوزخ کو جنت سے بدل دیا جاتا ہے۔جیسے کہ بخاری میں حدیث ہے کہ مومن بذریعہ نوافل کے اﷲ تعالیٰ سے یہاں تا کہ قرب حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔اور کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔اور ایک روایت میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مٰں اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتاہے اور ایسے لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
من عادی لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب
کہ جو شخص میرے ولی کی عداوت کرتا ہے وہ جنگ کے لیے تیار ہو جاوے۔اس قدر غیرت خدا تعالیٰ کو اپنے بندے کے لیے ہوتی ہے۔پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ مجھے کسی شئے میں اس قدر تر دد نہیں ہوتا جس قدر کہ مومن کی جان لینے میں ہوت اہے اور اسی لیے وہ کئی دفعہ بیمار ہوتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی جان لینا چاہت اہے مگر اسے مہلت دے دیتا ہے کہ اور کچھ عرصہ دنیا میں رہ لیوے۔
جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض
اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان،کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔اخلاقِ حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔اور بیجا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔تھوڑی تھوڑی سے بات پر کینہ اور بُغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چُپ کر رہے۔اور اس کا جواب نہ دے۔ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔چاہیے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لیے درد دل سے دعا کرے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے۔اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑ تی تو اﷲ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔پس جب تک تبدیلی نہ ہوگی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں۔خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔اگر تم ان صفاتِ حسنہ میں ترقی کروگے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جائو گے۔لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ان باتوں سے صرف شماتتِ اعداء ہی نہیں بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔
خُلق کی اصلاح ممکن ہے
یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے۔اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے
کل یعمل علی شا کلتہ (بنی اسرائیل : ۸۵)
بعض آدمی ایک قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں، تو دوسری قسم میں کمزور ۔اگر ایک خلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا برا ۔لیکن تا ہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے۔
خُلٰق سے ہماری مراد شیریں کلامی ہی نہیں بلکہ خَلق اور خُلق دو الفاظ ہیں۔آنکھ، کان،ناک وغیرہ جس قدر اعضاء ظاہری ہیں جن سے انسان کو حسین وغیرہ کہا جاتا ہے۔یہ سب خلق کہلاتے ہیں ارو اس کے مقابل پر باطنی قویٰ کا نام خُلق ہے۔مثلاً عقل، فہم، شجاعت،عفت، صبر وغیرہ اس قسم کے جس قدر قویٰ سرشت میں ہوتے ہیں وہ سب اسی میں داخل ہیں اور خُلق کو خَلق پر اس لیے ترجیح ہے کہ خَلق یعنی ظاہری جسمانی اعضاء میں اگر کسی قسم کا نقص ہو تو وہ ناقابل علاج ہوتا ہے۔مثلاً ہاتھ اگر چھوٹا پیدا ہوا ہے تو اس کو بڑا نہیں کر سکتا،لیکن خُلق میں اگر کوئی کمی بیشی ہو تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔
ذکر کرتے ہیں کہ افلاطون کو علم فراست میں بہت دخل تھا اور اس نے دروازہ پر ایک دربان مقرر کیا ہوا تھا۔جسے حکم تھا کہ جب کوئی شخص ملاقات کو آوے،تو اول اس کا حلیہ بیان کرو۔اس حلیہ کے ذریعے وہ اس کے اخلاق کا احال معلوم کر کے پھر اگر قابل ملاقات سمجھتا تو ملاقات کرتا؛ورنہ ردّ کردیتا۔ایک دفعہ ایک شخص اس کی ملاقات کو آیا۔دربان نے اطلاع دی۔اس کے نقوش کا حال سنکر افلاطون نے ملاقات سے انکار کر دیا۔اس پر اس شخص نے کہلا بھیجا کہ افلاطون سے کہدو کہ جو کچھ تم نے سمجھا ہے۔بالکل درست ہے۔مگر میں نے قوت مجاہدہ سے اپنے اخلاق کی اصلاح کرلی ہے۔اس پر افلاطون نے ملاقات کی اجازت دیدی۔پس خُلق ایسی شئے ہے جس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔اگر تبدیلی نہ ہوسکتی تو یہ ظلم تھا،لیکن دعا اور عمل سے کام لو گے،تب اس تبدیلی پر قادر ہو سکو گے۔عمل اس طرح سے کوئی شخص ممسک ہے تووہ قدرے قدرے خرچ کرنے کی عادت ڈالے اور نفس پر جبر کرے۔آخر کچھ عرصہ کے بعد نفس میں ایک تغیر عظیم دیکھ لے گا اور اس کی عادت امساک کی دور ہو جاوے گی۔اخلاق کی کمزوری بھی ایک دیوار ہے جو خد ااور بندے کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔
وحدتِ جمہوری
اﷲ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفسِ واحد کی طرح بناوے۔اس کا نام وحدتِ جمہوری ہے جس سے بہت سے انسان بحالتِ مجموعی ایک انسان کے حک میں سمجھا جاتا ہے۔مذہب سے بھی یہی منشاء ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدتِ جمہوری کے ایک دھاگہ میں سب پروئے جائیں ۔یہ نمازیں با جماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وخدت کے لیے ہیں تا کہ کل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے اور آپس میں مل کر کھڑے ہوین کا حکم اس لیے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور یہ وہ دوسرے کمزور میں سرایت کر کے اُسے قوت دیوے۔حتیٰ کہ حج بھی اسی لیے ہے۔اس وحدتِ جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتدا اس طرح سے اﷲ تعالیٰ ین کی ہے کہ اول یہ حک دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلہ کی مسجد میں ادا کریں تاکہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو اور انوار مل ملا کر کمزوری کو دور کردیں اور آپس میں تعارف ہو کر اُنس پید اہو جاوے۔تعارف بہت عمدہ شئے ہے کیونکہ اس سے انس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے۔حتیٰ کہ تعارف والا دشمن ایک نا آسنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں اُنس پیدا ہو جاتا ہے۔وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینہ والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شے ہوتا ہے توہ تو دور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے۔
پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے۔اس لیے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں۔آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جائیں گے۔پھر سال کے بعد عیدین میں یہ تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں تاکہ تعارف اور اُنس بڑھ کر وحدت جمہوری پیدا ہو۔پھر اسی طرح تمام دنای کے اجتماع کے لیے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکہ کے میدان میں سب جمع ہوں۔غرضیکہ اس طرح سے اﷲ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ آپس میں اُلفت اور اُنس ترقی پکڑے۔افسوس کہ ہمارے مخالفوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا پکا ہے۔دنیوی حکام کی طرف سے جو احکام پیش ہوتے ہیں۔ان میں تو انسان ہمیشہ کے لیی ڈھیلا ہو سکتا ہے۔لیکن خدا تعالیٰ کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلی روگردانی کبھی ممکن ہی نہیں کونسا ایسا مسلمان ہے جو کم ازکم عیدین کی بھی نماز نہ ادا کرتا ہو۔پس ان تمام اجتماعوں کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کے انوار دوسرے میں اثر کرکے اُسے قوت بخشیں۔
صحبتِ صادقین
نفس اور اخلاق کی پاکیزگی حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ صحبتِ صادقین بھی ہے جس کی طرف اﷲ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے
کو نو امع الصادقین (التوبہ : ۱۱۹)
یعنی تم خدا تعالیٰ کے صادق اور راستباز لوگوں کی صحبت اختیار کرو تاکہ اُن کے صدق کے انوار سے تم کو بھی حصہ ملے۔جو مذاہب کہ تفرقہ پسند کرتے ہیں اور الگ الگ رہنے کی تعلیم دیتے ہیں وہ یقینا وحدت جمہوری کی برکات سے محروم رہتے ہیں۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے تجویز کیا کہ ایک نبی ہو جو کہ جماعت بناوے اور اخلاق کے ذریعہ آپس میں تعارف اور وحدت پیدا کرے۔
آدابِ دعا
درستیٔ اخلاق کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی پاک محبت حاصل کی جاوے۔ہر ایک قسم کے گناہ اور بدی سے دور رہے اور ایسی حالت میسر ہو کہ جس قدر اندرونی آلودگیاں ہیں ان سب سے الگ ہو کر ایک مصفیٰ قطرہ کی طرح بن جاوے۔جب تک یہ حالت میسر نہ ہوگی تب تک خطرہ ہی خطرہ ہے،لیکن دعا کے ساتھ تدابیر کو نہ چھوڑے۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ تدبیر کو بھی پسند کرتا ہے اور اسی لیے
فالمد برات امرا (النازعات : ۶)
کہہ کر قرآن شریف میں قسم بھی کھائی ہے۔جب وہ اس مرحلہ کو طے کرنے کے لیے دعا بھی کرے گا اور تدبیر سے بھی اس طرح کام لے گا کہ جو مجلس اور صحبت اور تعلقات اس کو حارج ہیں ان سب کو ترک کردے گا اور رسم عادت اور بناوٹ سے الگ ہو کر دعا میں مصروف ہو گا تو ایک دن قبولیت کے آثار مشاہدہ کرلے گا۔یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ کچھ عرصہ دعا کرکے پھر رہ جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے اس قدر دعا کی مگر قبول نہ ہوئی؛ حالانکہ دعا کا حق تو اُن سے ادا ہی نہ ہوا۔تو قبول کیسے ہو؟ اگر ایک شخص کو بھوک لگی ہو یا سخت پیاس ہو اور وہ صرف ایک دانہ یا ایک قطرہ لے کر شکایت کرے کہ مجھے سیری حاصل نہیں ہوتی۔تو کیا اس کی شاکیت بجا ہوگی؟ ہرگز نہیں۔جب تک وہ پوری مقدار کھانے اور پینے کی نہ لے گا۔تب تک کچھ فائدہ نہ ہوگا۔یہی حال دعا کا ہے۔اگر انسان لگ کر اُسے کرے اور پورے آداب سے بجا لاوے۔وقت بھی میسر آوے تو امید ہے کہ ایک دن اپنی مراد کو پالیوے۔لیکن راستہ میں ہی چھوڑدینے سے صدہاانسان مر گئے (گمراہ ہو گئے) اور صدہا ابھی آئندہ مرنے کو تیار ہیں۔ایک من پیشاب میں ایک قطرہ پانی کا کیا شئے ہے جو اسے پاک کرے۔اسی طرح وہ بد اعمالیاں جن میں لوگ سر سے پاجون تک غرق ہیں ان کے ہوتے ہوئے چند دن کی دع اکیا اثر دکھا سکتی ہے۔پھر عجب ،خودبینی،تکبر اور ریاوغیرہ ایسے امراض لگے ہویء ہوتے ہیں جو عمل کو ضائع کر دیتے ہیں۔نیک عمل کی مثال ایک پرند کی طرح ہے۔اگر صدق اور اخلاص کے قفس میں اُسے قید رکھوگے تو وہ رہے گا ورنہ پروز کر جاوے گا اور یہ بجز خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل نہیں ہوسکتا۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فمن کان یرجو القاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا (الکہف : ۱۱۱)
عمل صالح سے یہاں یہ مراد ہیکہ اس میں کسی قسم کی بدی کی آمیزش نہ ہو۔صلاحیت ہی صلاحیت ہو۔نہ عُجب ہو،نہ کبر ہو،نہ نخوت ہو، نہ تکبر ہو،نہ نفسانی اغراض کا حصہ ہو۔نہ روبخلق ہو۔حتیٰ کہ دوزخ اور بہشت کی خواہش بھی نہ ہو۔صرف خدا تعالیٰ کی محبت سے وہ عمل صادر ہو۔جب تک دوسری کسی قسم کی غرض کو دخل ہے تب تک ٹھوکر کھائے گا۔اور اس کانام شرک ہے،کیونکہ وہ دوستی ارور محبت کس کام کی جس کی بنیاد صرف ایک پیالہ چائے یا دوسری خالی محبوبات تک ہی ہے۔ایسا انسان جس دن اس میں فرق آتا دیکھے گا، اسی دن قطع تعلق کردے گا۔جو لوگ خدا تعالیٰ سے اس لیے تعلق باندھتے ہیں کہ ہمیں مال ملے یا اولاد حاصل ہو یا ہم فلان فلاں امور میں کامیاب ہو جائیں، اُن کے تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور ایمان بھی خطرہ میں ہے جس دن ان کے اغراض کو کوئی صدمہ پہنچا اسی دن ایمان میں فرق آجاوے گا۔اس لیے پکا مومن وہ ہے جو کسی سہارے پر خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا۔
راستباز کی علامت
راستبازوں کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ مصیبت سے اُن کو چڑ ہوتی ہے اور جب ایسے موقعہ پر شیطا ن دخل دے کر ان کو بہکانا چاہتا ہے تب ان کی غیرت جوش مارتی ہے اور بجائے اس کے کہ ان کا قدم پیچھے ہٹے وہ آگے بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیطان ہمیں پیچھے ہر گز نہیں ڈال سکتا ۔شیطان بھی ایسے موقعہ پر ہر ایک قسم کے منصوبے اس کی لغزش کے لیی پیش کرتا ہے۔مال ،اولاد،عزت، آبرو،خلقت کی ملامت،طعن وتشنیع وغیرہ سب نقصانوں سے ڈراتا ہے۔لیکن وہ اول ہی سے دل میں فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم ان نقصانوں کی کچھ پروانہ کریں گے۔آخر نتیجہ یہ ہوت اہے کہ شیطان ان کے نزدیک ایک مخنّث سے بھی کمتر ہوتا ہے۔لیکن جس کا دعویی تو ایمان کا ہوتا ہے اور دماغ میں اغراضِ نفسانی بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔تو شیطان بڑی آسانی سے اپنا تسلط اس پر بٹھاتا ہے اور جس راستے چاہتا ہے چلاتا ہے۔خوب یاد رکھو کہ سفلی خواہشات سے شیطان کا مقابلہ ہرگز نہ ہوسکے گا۔
شیطان کے وجود کا ثبوت
ممکن ہے کہ بعض لوگ یہاں ایسے ہوں کہ جو شیطان کے وجود ہی سے منکر ہوں،لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کے وجود سے ا نکار بھی نادانی ہے۔کیا وہ مشاہدہ نہیں کرتے کہ انسان میں دو قوتیں موجود ہیں۔بیٹھے بیٹھے ایک لہر اس کے دل میں آتی ہے کہ نیکی کروں اور اکثر اوقات وہ اس کا ایسا پابند ہو جاتا ہے کہ بلا اس کے تقاضا ادا کئے کے رہ ہی نہیں سکتا۔اور اسی طرح کبھی اس کے دل میں ایسی لہر آتی ہے جو کہ بدی کی طرف رغبت دلاتی ہے اور وہ گھر سے اُٹھ کر کنجروں کی طرف چلا اجتا ہے۔پس یہ قوتیں ہیں جن میں سے بدی کے محرک کا نام شیطان رکھ لو۔انسان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ ابتدائی مراحل میں ہر ایک شئے کی حقیقت کو سمجھ لیوے جیسے جیسے بتدریج اس کی معرفت ترقی کرتی ہے۔ویسے ویسے وہ باریک در باریک امور کو سمجھتا جاتا ہے۔ آسمان کے ستاروں کو دیکھو کہ وہ اول سوائے نقطوں کے اور کچھ معلوم نہیں ہوتے مگر جب انہی نقطوں کو دور بینوں سے دیکھا جاوے تو کسقدر عجائبات معلوم ہوتے ہیں اور سابقہ معرفت اسکے آگے ہیچ نظر آتی ہے اور انسان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے کہ میں نے ان کو نقطہ کیوں سمجھا۔ایسے ہی شیطان اور فرشتے کے وجود کا حال ہے کہ انکو اول نقطوں کی طرح ماننا پڑتا ہے اور پھر اس دوربین سے جو انبیاء لے کر آتے ہیں دیکھ اجاوے تو اُن کی اصل حقیقت معلوم ہوتی ہے۔یہ تو جملہ معترضہ تھا جو کہ درمیان میں آگیا۔
عورتوں کی اصلاح کی ضرورت
پھر میں اصل مطلب کو بیان کرتا ہوں کہ اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ بھی لازمی امر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کرو۔عورتوں میں بُت پرستی کی جڑ ہے کیونکہ ان کی طبائع کا میلان زینت پرستی کی طرف ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بُت پرستی کی ابتداء انہی سے ہوئی ہے۔بزدلی کا مادہ بھی اس میں زیادہ ہوتا ہے کہ ذرا سی سختی پر اپنے جیسی مخلوق کے آگے ہاتھ جوڑنے لگ جاتی ہے،اس لیے جولوگ زن پرست ہوتے ہیں رفتہ رفتہ ان میں بھی یہ عادتیں سرایت کر جاتی ہیں ۔پس بہت ضروری ہے کہ ن کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے
الرجال قوامون علی النساء (النساء : ۳۵)
اور اسی لیے مرد کو عورتوں کی نسبت قویٰ زیادہ دیئے گئے ہیں۔ اس وقت جو نئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے۔وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکلتا ہے یا مختلف۔ایک طرف تو اسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی؟ غرضکہ عورتوں میں مردوں کی نسبت قویٰ کمزور ہیں اور کم بھی ہیں اس لیے مرد کو چاہیے کہ عورت کو اپنے ماتحت رکھے۔
پردہ کی اہمیت
یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں ۔لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔یہی عورتوں کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہے۔جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روارکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔اگر اس کی آززادی اور بے پردگی سے اُن کی عِفّت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں۔لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو اُن کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے۔پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجود کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا۔مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں۔نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے۔دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہیل مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو۔اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم ازکم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکٰن تو اس وقت اس بحچ کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں؛ ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے۔ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے۔کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے۔قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتا ہے۔کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے۔
قل للمو منین یغضو امن ابصار ھم و یحفظو افر و جہم ذلک از کی لہم (النور : ۳۱)
کہ تو ایمان والوں کو کہدے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا۔فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اوران میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے۔پھر یاد رکھو کہ ہزار درہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہیکہ جن باتوں سے اﷲ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے۔تعدد ازدواج اور طلاق کے مسئلہ پر غور کرو ؎
ہر چہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار
ہمیں افسوس ہے کہ آریہ صاحبان بھی بے پردگی پر زور دیتے ہیں اور قرآن شریف کے احکام کی مخالفت چاہتے ہیں؛ حالانکہ اسلام کا یہ بڑا احسان ہندوئوں پر ہے کہ اُس نے اُن کو تہذیب سکھلائی اور اس کی تعلیم ایسی ہے جس سے مفاسد کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔مثل مشہور ہے ؎
خربستہ بہ گرچہ وزد آشنا اسب
یہی حالت مرد اور عورت کے تعلقات کی ہے کہ اگر چہ کچھ ہی کیوں نہ ہو لیکن تا ہم فطری جوش اور تقاضے بعض اس قسم کے ہوتے ہٰں کہ جب اُن کو ذرا سی تحریک ہوئی تو جھٹ حدّ اعتدال سے ادھر اُدھر ہو گئے۔اس لیے ضروری ہیکہ مد اور عورت کے تعلقا ت میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہرگز نہ دخل دیا جاوے۔ذرا اپنے دلوں میں غور کرو کہ کیا تمہارے دل راجہ رامچند ر اور کرشن وغیرہ کی طرح پاک ہو گئے ہیں؟ پھر جب وہ پاک دلی تم کو نصیب نہیں ہوئی تو بے پردگی کو رواج دیکر بکریوں کو شیروں کے آگے کیوں رکھتے ہو۔ہٹ اور ضد اور تعصب اور چڑ وغیرہ سے تم لوگ دیدہ دانستہ اسلام کے اُن پاکیزہ اصولوں کی مخالفت کیوں کرتے ہو جن سے تمہاری عفت بر قرار رہتی ہے۔عقل تو اس بات کا نام ہے کہ انسان کو نیک بات جہاں سے ملے وہ لے لیوے،کیونکہ نیک بات کی مثال سونے اور ہیرے اور جواہر کی ہے اور یہ اشیاء خواہ کہیں ہوں۔آخر وہ سونا وغیرہ ہی ہوں گی۔اس لیے تم کو لازم ہے کہ اسلام کے نام سے چڑ کر تم نیکی کو ترک نہ کرو؛ورنہ یاد رکھو کہ اسلام کا تو کچھ حرج نہیں ہے۔
‏Amira 6-7-05
اگر اس کا ضرر ہے تو تم ہی کو ہے۔ہاں اگر تم لوگوں کو یہ اطمینان ہے کہ سب کے سب بھگت بن گئے ہو اور نفسانی جذبات پر تم کو پوری قدرت حاصل ہے اور قویٰ پر میشر کی رضا اور احکام کے برخلاف بالکل حرکت نہیں کرتے تو پھر ہم تم کو منع نہیں کرتے۔بیشک بے پردگی کو رواج دو لیکن جہانتک میرا خیال ہے ابھی تک تم کو وہ حالت نصیب نہیں اور تم میں سے جس قدر لوگ لیڈربن کر قوم کی اصلاح کے درپے ہیں اُن کی مثال سفید قبر کی ہے جس کے اندر بجز ہڈیوں کے اور کچھ نہیں،کیونکہ ان کی صرف باتیں ہی ہیں۔عمل وغیرہ کچھ نہیں۔
نفسِ انسانی کی چار حالتیں
اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفسِ انسان پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچارہے،کیونکہ ابتدا میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے۔جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیز کھانے پر۔یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے اور اس کی اصلاح کی حالتوں کے لحاظ سے اس کے چار نام مقرر کئے گئے ہیں۔اول اول نفس زکیہ ہوتا ہے کہ جس کو نیکی بدی کی کوئی خبر نہیں ہوتی اور یہ حالت طفلگی تک رہتی ہے۔پھر نفسِ امارہ ہوتا ہے کہ بدیوں کی طرف ہی مائل رہتا ہے اور انسان کو طرح طرح کے فسق و فجور میں مبتلا کرتا ہے اور اس کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ ہر وقت بدی کا ارتکاب ہو۔کبھی چوری کرتا ہے۔کوئی گالی دے یا ذرا خلاف مرضی کام ہو تو اُسے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے۔اگر شہوت کی طرف غلبہ ہو تو گناہوں اور فسق و فجور کا سیلاب بہہ نکلتا ہے۔دوسرا نفس لوامہ ہے کہ اس میں بدیاں بالکل دور تو نہیں ہوتیں، مگر ہاں ایک بچھتاوا اور حسرت و افسوس مرتکب اپین دل میں محسوس کرتا ہے اور جب بدی ہو جاوے تو اس کے دل میں نیکی سے اس کا معاوضہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے اور تدبیر کرتا ہے کہ کسی طرح گناہ سے بچے۔اور دعا میں لگتا ہے کہ زندگی پاک ہو جاوے اور ہوتے ہوتے جب یہ گناہ سے پوتر ہو جاتا ہے تواس کا نام مطمئنہ ہو جاتا ہے اور اس حالت میں بدی کو ایسی ہی بدی سمجھتا ہے۔جیسے کہ خد اتعالیٰ بدی کو بدی سمجھتا ہے۔بات یہ ہے کہ دنیا اصل میں گناہ کا گھر ہے جس میں سرکشیوں میں پڑ کر انسان خدا کو بھلا دیتا ہے۔نفس اماراہ کی حالت میں اس کے پاجوں میں زنجیریں ہوتی ہیں اور لوامہ میں کچھ زنجیریں پائوں میں ہوتی ہیں اور کچھ اُتر جاتی ہیں مگر مطمئنہ میں کوئی زنجیر نہیں رہتی سب کی سب اُتر جاتی ہیں اور وہی زمانہ انسان کا خدا تعالیٰ کی طرھ پکے رجوع کا ہوت اہے اور وہی خا تعالیٰ کے کامل بندے ہوتے ہیں جو کہ نفسِ مطمئنہ کے ساتھ دنیا سے علیحدہ ہو ویں اور جبتک وہ اسے حاصل نہ کر لے تب تک اُسے مطلق علم نہیں ہوتا کہ جنت میں جاوے گا یا دوزخ میں۔پس جبکہ انسان بلا حصول نفسِ مطمئنہ کے نہ پوری پاکیزگی حاصل کر سکتا ہے اور نہ جنت میں داخل ہو سکت اہے تو اب خواہ آریہ ہوں یا عیسائی کونسی عقلمندی ہے کہ قبل اس کے کہ یہ نفس حاصل ہو وہ بھیڑیوں اور بکریوں کو اکٹھا چھوڑدیویں۔کیا ان کو امید ہے کہ وہ پاک اور بے شرزندگی بسر کرلیں گے۔یہ ہے سرا اسلامی پردہ کا۔اور میں نے خصوصیت سے اُسے اُن مسلمانوں کے لیے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں اور مجھے امید ہے کہ آریہ لوگ اس سے بہت کم مستفید ہوں گے،کیونکہ ان کو تو اسلام کی ہر ایک بھلی بات سے چِڑ ہے۔
مسیح موعود کو ماننے کی ضرورت
اس قدر تقریر ہو چکی تھی کہ اس اثنا ء میں خلیفہ راجب الدین صاحب نے بلند آوازسے لاہور کی پبلک کی طرف سے حضرت مرزا صاحب کو ماننے کی ضرورت کا سوال پیش کیا؛ اگر چہ بعض لوگوں کو یہ دخل اس لیے ناگوار ہوا کہ خد اتعالیٰ کا فرستادہ نورِ فراست سے جس ضرورت کو محسوس کر کے کلام فرمارہا تھا اس کی توجہ ادھر سے پھیردی گئی۔لیکن ہمارے نزدیک یہ تحریک بھی مصالح ایزدی سے باہر نہیں۔
آپ نے فرمایا کہ :
اس کا مختصر جاوب یہ ہے کہ میں نے بہت سی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ سے یہ بات سمجھادی ہوئی ہے کہ میں وہ مسیح ہوں جس کا ذکر اور وعدہ اجمالاً قرآن میں اور تفصیلاً احادیث میں پایا جاتا ہے۔اور جو لوگ اسے نہیں مانتے قرآنِ شریف کی رو سے ان کا نام فاسق ہے اور احادیث سے واضح ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو اس مسیح کو نہیں مانتا وہ گویا مجھے نہیں مانتا اور جو اس کی معصیت کرتا ہے۔گویا میری معصیت کرتا ہے۔
لوگ مخلوق کو دھوکہ دیتے ہیں اور غلطیوں میں ڈالتے ہیں کہ ہم نے کوئی نیا کلمہ یا نماز تجویز کی ہے۔ایسے افترائوں کا میں کیا جاوب دوں۔اسی قسم کے افترائوں سے وہ ایک عاجز انسان مسیح لعیہ السلام کو تین خد ابنا بیٹھے ۔دیکھو۔ہم مسلمان ہیں اور امّتِ محمدی ہیں اور ہمارے نزدیک نئی نماز بنانی یا قبلہ سے روگردانی کفر ہے۔کُل احکامِ بیغمبری کو ہم مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے حکم کوٹالنا بھی بدذاتی ہے۔اور ہمارا دعویٰ قال اﷲ اور قال الرسول کے ما تحت ہے۔اتباعِ نبویؐ سے الگ ہو کر ہم نے کوئی کلمہ یا نماز یا حج یا ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد نہیں بنائی۔ہمارا کام یہ ہے کہ اس دین کی خدمت کریں اور اس کو کل مذاہب پر غالب کرکے دکھادیں۔قرآنِ شریف کی اور احادیث کی جو پیغمبر خد اسے ثابت ہیں۔اتباع کریں۔ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشرطیکہ وہ قرآنِ شریف کے مخالف نہ ہو ہم واجب العمل سمجھتے ہٰں اور بخاری اور مسلم کو بعد کتاب اﷲ اصح الکتب مانتے ہیں۔
اور دوسری بات یہ یاد رکھو کہ مجھے کبھی بھی یہ خواہش نہیں ہوئی کہ لوگ مجھے مانیں بلکہ مجھے تو ان جماعتوں سے ہمیشہ سے نفرت ہے اور اگر میں ملتا ہوں یا ان لوگوں میں آکر بیٹھتا ہوں تو اپنی مرضی سے ہرگز نہیں ملتا،بلکہ اﷲ تعالیٰ مجھے مجبور کتا ہے اور کہتا ہے کہ تو ایسا کر۔ایسی حالت میں بتلائو کہ اگر میں اس کی بات نہ مانوں تو کیا کروں؟ میں تو رات دن وحی کے نیچے کام کرتا ہوں۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر تم رسول اﷲ ﷺ کو پختہ طور سے مانو۔آپ کو ماننا یہ ہے کہ آپ کے وصایا پر عملدرآمد کیا جاوے اور انہی میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب وہ مسیح موعود آوے تو تم سب اس کے ساتھ ہو جانا۔میرے ماننے کی مثال یہ ہے جیسے ایک آقا نوکر کو کہے کہ فلاں شخص میرا میزبان؎ٰ ہے تم اُسے لا کر کھانا کھلائو اور ہر طرح کی تعظیم اور تکریم کرو۔لیکن نوکر اس کے جواب میں یہ کہے کہ میں تو صرف آپ کو مانتا ہوں۔مجھے کسی دوسرے کی تعظیم و تکریم سے غرض نہیں ہے اور نہ اس کی خواہش ہے۔تو اب سوچ کر دیکھو کہ کیا اس نے اپنے آقا کو مانا؟ ہرگز نہیں مانا۔کیونکہ جس بات میں وہ راضی ہوت اہے اس کے کرنے سے تو اُسے انکار ہے۔پس یاد رکھو کہ تم لگو بھی آنحصرت ﷺ کو حقیقی طور پر اسی وقت مانو گے،جبکہ آپ کے احکام اور وصایا کو مانو گے۔جس نے آخری حکم کو توڑا اُس نے سارے حکموں کو توڑا۔سوچو تو سہی کہ اگر ایک شخص تمام عمر نماز،روزہ ادا کرے،لیکن آخری وقت بجائے لاالہ الا اﷲ کے رام رام کہے تو کیا وہ نماز روزہ اس کے کام آوے گا؟
آنحضرت ﷺ نے یہانتک فرمادیا کہ اس اُمت کی دو دیواریں ہیں۔ایک میں اور ایک مسیح او راس کے درمیان آپ نے فیج اعوج فرمایا ہے جن کی نسبت ارشاد یہ کہ وہ نہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوںپس جبکہ خود آنحضرت ﷺ اسے ایک ٹیڑھا گروہ قرار دیتے ہیں تو ہم اُن کی باتوں کو کیوں قبول کر لیں
اس موقعہ پر ایک وزیر آبادی متعصب مولوی نے مداخلت کی اور ٹیڑھی راہ اختیار کر کے بے جا سوال اور کلام شروع کیا۔اول تو حضرت اقدس اُسے حلیمی سے سمجھاتے رہے،مگر جب معلوم ہوا کہ اس کی غرض رفع شکوک و شبہات نہیں۔صرف مناظرہ کا ایک اکھاڑہ قائم کرنا چاہتا ہے تو اُس سے اعراض کای اور فرمایا کہ مباحثہ کا دروازہ تو ہم بند کر چکے ہیں۔اب اس میں پڑنا پسند نہیں کرتے۔اس پر بعض مفسد طبائع نے شور کرنا شروع کیا۔آخر مصلحت وقت دیکھ کر مولوی صاحب کو بیجا مداخلت سے روکا گیا اور جب وہ باز نہ آئے تو اُن کو جبراً احاطہ سے باہر کر دیا گیا۔اس اثنا میں جو کلام حضور علیہ السلام نے فرمایا۔اُسے ہم یکجائی طور پر درج کرتے ہیں۔
فرمایا کہ :
مسیح اور مہدی کی ضرورت
شکوک کے رفع کے لیے اگر کوئی راستی اور سچی نیت سے آوے تو ہم اسے سمجھا سکتے ہیں اور اب تو ایسا زمانہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود ایک معلم کی طرح سمجھا رہا ہے۔یہ اس کی عادت میں داخل ہے کہ جب دنیا میں گناہ اور بے ایمانی بڑھ جاوے اور ردی اخلاق اور ردی عادات ترقی پکڑجاویں تو ایک شخص کو اصلاح کے لیی مامور کرے۔اسلام اس وقت دو آفتوں کے ماتحت یہ۔ایک اندرونی۔دوسری بیرونی۔اندرونی خود عالموں کا اختلاف اور مسلمانوں کا دنای کی طرف میلان۔اور بیرونی وہ آفت جو عیسائیت کیوجہ سے ہے۔پس کیا ابھی تمہارے نزدیک مہدی اور مسیح کی ضرورت نہ تھی؟
تیس دجال
پھر ایک اعتراض یہ پیش کرتے ہو کہ اس امت میں تیس دجال آنیوالے ہیں۔اے بدقسمتو! کیا تمہارے لیے دجال ہی رہ گئے کہ اگر ایک کے آنے سے ایمان کے تباہ ہوین میں کوئی کسر رہ جاوے تو پھر دوسرا۔تیسرا اور چوتھا حتیٰ کہ تیس دجال آویں تا کہ ایمان کا نام و نشان نہ رہے۔اس طرح تو موسیٰ علیہ السلام کی امت ہی اچھی رہی کہ جس میں پے در پے چارسو نبی آیا۔پھر موسیٰ علیہ السلام کے وقت تو عورتوںسے بھی خدا تعالیٰ نے کلام کیا۔کیا امت محمدیہ کے مرد بھی اس قابل نہ ہوئے کہ خا تعالیٰ اُن سے ہمکلام ہوتا؟ پھر یہ بتلائو کہ یہ اُمتِ مرحومہ کس طرح ہوئی،اس کا نام تو بدنصیب ہونا چاہیے۔آنحضرت ﷺ کو تیرہ سو برس گذر گئے ارو جس قدر فیوض اور برکات تھے وہ سب سماع کے حکم میں آگئے۔اب اگر خدا تعالیٰ اُن کو تازہ کر کے نہ دکھائے تو صرف قصہ کہانی کے رنگ میں اُن کو کون مان سکتا ہے؛ جبکہ تازہ طور پر خدا تعالیٰ کی مدد نہیں۔نصرت نہیں تو خد اتعالیٰ کی حفاظت کیا ہوئی؟ حالانکہ اس کا وعدہ ہے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
طاعون اور احمدی
جب متعصب مولوی صاحب نے طاعون کا ذکر کیا کہ آپ کے مرید کیوں مرتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔تو آپ نے فرمایا :
کسوف و خسوف کا علاج بھی کچھ سوچا ہے۔اس وقت بحث تو نشانوں کی ہے نہ کہ علاج کی۔ہاں جو کامل طور پر مجھ کو قبول کرتا ہے وہ ضرور محفوظ رہے گا۔لیکن اس کا مجھے علم نہیں کہ وہ کون ہے۔میں کسی کے سینہ کو چیر کر نہیں دیکھتا۔صحابہ کرامؓ کا بھی ایک گروہ طاعون سے شہید ہوا تھا۔مگر دیکھ لو کہ ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما طاعون سے ہرگز نہیں فوت ہوئے۔خدا تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں میں امتیاز رکھا ہے۔جیسے کہ فرمایا ہے
فمنھم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳)
جماعت سے خطاب اس کے بعد آپ نے جماعت کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ :
ضروری بات یہ یہکہ تم لوگ ان باتوں کی طرف متوجہ نہ ہو اور تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرو۔تمہارا معاملہ اور حساب خدا سے الگ ہے اور مخالف لوگوں کا حساب الگ ہے ۔جنہوں نے قسم کھائی ہے کہ کیسی ہی سچی بات کیوں نہ ہو مگر وہ قبول نہ کریں گے۔اﷲ تعالیٰ بھی ان کی نسبت یہی فرماتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کو ہی قبول کریں گے۔ان کی بناوٹ ہی اسی قسم کی ہے کہ عمدہ شئے یا بات جو پیش کی جاوے وہ ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اور اگر بدبودار بات ہو تو خوش ہوتے ہیں۔قرآنِ شریف ، احادیث اور عقلی دلائل اور نشان پیش کئے۔مگر یہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔صرف ایک بات کو نشانہ بناتے ہیں،پس جبکہ خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ ایک مذہب ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔مگر جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے فہمِ سلیم عطا کیا ہے ان کو چاہیے کہ وہ شکر کریں کیونکہ فائدہ اُٹھا نیوالے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے خود پا ک کیا۔
نشاناتِ صداقت
ابھی ہماری جماعت کے بہت سے لوگ چھپے ہویء ہیں ظاہر اً وہ ہم سے الگ ہیں ،لیکن دراصل ہم میں سے ہیں۔ہمیں خود ان کا علم نہیں لیکن امید ہے کہ اپین وقت پر وہ آجاویں گے ۔خود لا ہور میں ایک شخص نے ملاقات کی اور کہا کہ میں آپکو گالیاں دیا کرتا تھا۔اب توبہ کرتا ہوں۔بعضوں نے بذریعہ خواب کے مانا اور اکثر کو خد ا آنحضرت ﷺ نے کشف میں ٰا خاوب میں کہا کہ تم قبول کر لو۔جو لوگ بغض کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تیز دھار کو روک لیویں مگر وہ کسی کے روکنے سے رُک نہیں سکتی۔اگر انسانی کا روبار ہوتا تو آجتک کب کا تباہ ہو جاتا۔مجھے دعویٰ کئے ہوئے چوبیس برس سے زیادہ عرصہ گذرگیا ایک مفتری کو اس قدر مہلب مل سکتی ہے کہ اگر کسی کو عقل ،فہم اور موت کا ڈر ہو تو وہ براہین کے وقت کو دیکھے کہ جو پیشگوئیان اس میں ہیں وہ کیسے پوری ہو کر رہیں،لیکن یہ بات ہے کہ جبتک اﷲ تعالیٰ ہدایت نہ دے اور وہ دل کے تالے نہ کھولے تو کس طرح سمجھ میں آوے۔کوئی بتاوے تو سہی کہ جب سے دنیا ہوئی ہے کسی مفتری نے اس قسم کی پیشگوئی بھی کی ہے۔خد ا تعالیٰ سے خوف کرنے والے کے لیے تو ایک ہی نشان کافی ہوسکت اہے۔لیکن ان لوگوں نے اس قدر کثیر نشانوں سے بھی فائدہ نہ اُٹھایا۔
غرض مدعا یہ ہیکہ یہ تمام باتیں ان لوگوں کے لیی ہیں جو ہدایت قبول کرتے ہیں۔نہ کہ منکروں کے لیے جن کے واسطے اﷲ تعالٰٰ کا قانون اور ہے۔تم خدا سے پناہ مانگو کہ اُن کے لیے جو قانون یہ اس میں تم کو داخل نہ کرے۔ہمیشہ نیک دل خدا تعالیٰ کی رحمت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔یہ نہ خیال کرو کہ یہ لوگ مذہب میں پکے ہیں۔بڑے بُزدل ہوتے ہٰں۔قہرِ الٰہی کا ذرا نہیں مقابلہ کر سکتے۔لیکن یا د رکھیں کہ یہ ایسا زمانہ ہے۔جس کے لیی سب نبیوں ی پیش گوئیاں ہیں اور جسیے مختلف نہریں مل کر ایک دریا بہ کر بہہ نکلتی ہیں اسی طرح ان پیشگوئیوں کا سیلاب بہہ نکلے گا اور آدمؑ ،موسیٰ ؑ،ابراہیمؑ وغیرہ پیغمبروں نے جو کچھ کہا وہ سب پورا ہو کر رہے گا۔بعض رحمت کے نشان بھی ہوں گے مگر اُن سے انہی کو حصہ ملے گا جو عاجز ۔فروتن اور خائف اور تائب ہوں گے اور جو منکر ہیں وہ قہری نشان سے حصہ لیں گے؛اگر چہ یہ لوگ اس وقت انکار کو نہیں چھوڑتے اور صرف ماں باپ یا جاہل لوگوں سے سن سنا کر غلط عقائد پر اڑے ہوئے ہیں لیکن خدا تعالیٰ زبردستی سب کچھ چھڑادے گا۔زبردست سے لڑنا نادانی ہے۔اگر یہ کاروبار نسان کی طرف سے ہوتا تو کب کا تباہ ہوجاتا۔آنحضرتﷺ کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ ہم پر افتراء کرتا تو ہم اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔پھر کیا وجہ یہ کہ اگر میں خدا پر افتراء کرتا ہوں اور تھوڑی مدت نہیں بلکہ تیس سال کے قریب ہو چلا کہ ہمیشہ اس کی طرف سے وحی لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ جانتا بھی ہے کہ میں جھوتا ہوں لیکن میری تائید کرتاہے اور ہلاک نہیں کرتا۔وہ کیسا خدا ہے کہ ایک جھوٹے سے اتفاق کر بیٹھا ہے اور ہزاروں نشان اس کی تائید میں دکھاتا ہے۔نئی سواری بھی اس کے لیے نکالی۔کسوف و خسوف بھی اس کے لیی ماہ رمضان میں کیا۔طاعون بھی بھیجی۔گویا خدا نے جان کر دھوکا دیا اور جو کام دجال نے کرنا تھا وہ خود آپ کیا تا کہ مخلوق تباہ ہو۔ذرا سوچو کیا خدا تعالیٰ کے لیے یہ جائز ہو سکتا ہیکہ ایک کذاب مفتری اور دجال کی وہ اس قدر مدد کرے۔اور مولوی لوگ جو خود کو اس کا مقرب جانتے ہیں۔ان کی دعا ہرگز قبول نہ ہو۔جو لڑائی یہ لوگ لڑرہے ہیں وہ مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔میں تو کچھ شئے نہیں ہوں۔خدا تعالیٰ سے لڑائی والا کبھی بابرکت نہیں ہوسکتا ۔میں تو اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتا ہوں اور مجھے لرزہ پڑتا ہے کہ افترا ہو اور خدا تعالیٰ چپ کر کے بیٹھا رہے۔اگر اُن کے نزدیک یہ افترا یہ تو چاہیے کہ دعا کریں کہ خدا اسے نیست کرے یا دعا کر کے حضرت مسیح کو آسمان سے اُتاریں۔عیسائی محققین نے بھی آخر کا ر مسیحؑ کے آسمان کے آسمان سے آنے سے تنگ آکر اور میعاد گذرتی دیکھ کر فیصلہ کر دیا ہے کہ کلیسا کو مسیح مان لو۔یہی مسیح کا نزول ہے۔ان کو بھی آخر کاز نزول کو استعارہ کے رنگ میں ہی ماننا پڑا ۔احادیث پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ تمام خلفاء اس امت میں سے ہوں گے۔قرآنِ سریف بھی یہی کہہ رہا ہے اور سب جگہ منکم کا لفظ موجود ہے مگر نامعلوم کہ ان لوگوں نے من بنی اسرائیل کہاں سے بنا لیا۔کیا یہ تھوڑا نشان یہ کہ نہ کوئی واعظ ہے نہ لیکچرار اور ہماری ترقی برار ہو رہی ہے۔بھلا اگر ان کو طاقت ہے تو روک دیں۔اﷲ تعالیٰ خود لوگوں کو ادھر رجوع دلا رہا ہے۔مصر سے بھی بیعت کی درخواست آئی ہے۔یورپ میں تحریک ہے۔امریکہ میں تحریک ہے۔
میں پھر جماعت کو تاکیدکرتا ہوں کہ تم لوگ ان کی مخالفتوں سے غرض نہ رکھو۔تقویٰ طہارت میں ترقی کرو تو اﷲ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا اور ان لوگوں سے وہ خود سمجھ لیوے گا۔وہ فرماتا ہے۔
ان اﷲ مع الذین اتقو او الذین ھم محسنون (نحل : ۱۲۹)
اور خوب یاد رکھو کہ اگر تقویٰ اختیار نہ کرو گے اور اس نیکی سے جسے خدا چاہت اہے کثیر حصہ نہ لو گے تو اﷲ تعالیٰ سب سے اول تم ہی کو ہلاک کرے گا،کیونکہ تم نے ایک سچائی کو مانا ہے اور پھر عملی طور سے اس کے منکر ہوتے ہو۔اس بات پر ہرگز بھروسہ نہ کرو اور مغرور مت ہو کہ بیعت کر لی ہے۔جبتک پورا تقویٰ ختیار نہ کرو گے ہرگز نہ بچو گے۔خدا تعالیٰ کا کسی سے رشتہ نہیں نہ اس کو کسی کی رعایت منظور ہے۔جو ہماری مخالف ہیں وہ بھی اسی کی پیدائش ہیں اور تم بھی اسی کی مخلوق ہو۔صرف اعتقادی بات ہرگز کام نہ آوے گی جبتک تمہارا قول اور فعل ایک نہ ہو۔
ان لوگوں کی حالتوں پر غور کرو کہ جب توفی کا لفظ مسیح کے لیے آوے تو اس کے معنے آسمان پر اجنے کے کرتے ہیں۔اور جب وہی لفظ آنحضرت ﷺ کے لیے استعمال ہو تو اس کے معنے وفات پانے کے کرتے ہیں۔پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ عملی راستی دکھائو۔تا وہ تمہارے ساتھ ہو۔رحم، اخلاق، احسان،اعمالِ حسنا،ہمدردی اور فروتنی میں اگر کمی رکھو گے تو مجھے معلوم ہے اور بار بار میں بتلا چکا ہوں کہ سب سے اول ایسی ہی جماعت ہلاک ہوگی۔موسیٰ علیہ السلام کے وقت جب اس کی امت نے خدا تعالیٰ کے حکموں کی قدر نہ کی تو باوجود یکہ موسیٰ اُن میں موجود تھا مگر پھر بھی بجلی سے ہلاک کئے گئے۔پس اگر تم بھی ویسے کرو گے تو میری موجودگی کچھ کام نہ آوے گی۔
اب ہم ان لوگوں کو کہانتک سمجھائیں۔بہت سی کتابیں چھپ چکی ہیں اور ان کے لیے کافی اتمامِ حجب ہو چکا ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام پر توفی کا استعمال کریں تو اس کے معنے موت کے ہوں۔ساحرین موسیٰ کے لیے وہی لفظ آوے تو اس کے معنے موت کے ہوں،لیکن جب مسیح پر بولا جاوے تو اس کے معنے آسمان پر جانا کرتے ہیں۔یہ لوگ خدا کو کیا جواب دیویں گے۔کیا یہی اُن کی محبت آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہے اور یہ کیسی دلیری اور شوخی ہے۔آنحضرت ﷺ کا وجود مبارک جس کی دنیا کو ضرورت تھی وہ تو تیرہ سو برس گذرے کہ خاک میں دفن ہوا اورآپؐ تریسٹھ برس کی عمر میں فوت ہو جاویں اور مسیح ابتک آسمان پر۔کوئی بتلاوے کہ وہاں کیا کر رہا ہے۔اس کا وعدہ تھا کہ میں بنی اسرائیل کی طرف آیا ہوں اور کتنی قومیں بنی اسرائیل کی باقی تھیں کہ آسمان پر جا بیٹھا اور وعدہ بھی پورا نہ کیا اور پھر عقل ،نقل اور کتاب اﷲ کے برخلاف ہے۔یہ سب دلائل ہیں جو کہ ایک مومن کے لئے کافی ہیںاور بجز اس کے کہ عیسیٰ کو فوت شدہ مانا جاوے اور کوئی ذریعہ آنحضرت ﷺ کی عزت کو محفوظ رکھنے کا نہیں ہے میں تو اس شخص سے بہت خوش ہوں کہ جس نے کتاب حیاۃ النبی لکھی ہے اور اس میں یہ بھی لکھ اہے کہ جو شخص سوائے آنحضرت ﷺ کے کسی پیغمبر کو زندہ کہے وہ کافر ہے کیونکہ آخر محبت کی کچھ بھی تو علامت چاہیی۔بعض نئے نئے لوگوں نے جو عیسائیوں میں سے اسلام میں داخل ہوئے۔حضرت عمرؓ کو یہ بات کہی ہوگی کہ عیسیٰ ابتک زندہ ہے تب ہی تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر ہرگز یہ باورنہ کیا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں بلکہ ایسا کہنے والے کو قتل کرنے کے لیی آمادہ ہوئے۔آخر جب حضرت ابو بکرؓ نے آکر اس مسئلہ کو حل کیا کہ سب نبی فوت ہو گئے ہیں اور آنحضرت ﷺ بھی فوت ہوئے تب آپ کواعتبار آیا۔
اب عیسائیت کا اثر غالب آگیا ہے اور جو محبت مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ سے چاہیے تھی وہ نہیں رہی۔ہزاروں رسالے اور اخبار نکالتے ہیں۔لیکن کسی نے آجتک آنحضرت ﷺ کی حیات کا رسالہ نہ کالا۔پس اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ آپؐ کی عزت کو ظاہر کرے۔ہم آنحضرت ﷺ کو ایک نبی مانتے ہیں اور سب سے شرف جانتے ہیں اور ہرگز گوارہ نہیں کرتے کہ کوئی عمدہ بات کسی اور کی طرف منسوب کی جاوے ۔جب کفار نے آنحضرت ﷺ سے یہی معجزہ طلب کیا کہ آسمان پر چڑھ کر دکھاویں تو آپؐ نے فرمایا سبحان ربی اور انکار کر دیا۔دوسری سرف حضرت مسیح کو خد اآسمان پر لے اجوے،یہ کیسے ہو سکت اہے۔ہم قرآن سے کیا بلکہ کل کتابوں سے دکھا سکت یہیں کہ سج قدر اخلاق اور خوبیان کل انبیاء میں تھیں وہ سب کی سب آنحضرت ﷺ میں جمع تھیں۔
کان فضل اﷲ علیک عظیما (النساء : ۱۱۴)
اسی کی طرف اشارہ ہے۔پس اگر آسمان پر جانا کوئی فضیلت ہوسکتی تھی تو آنحضرت ﷺ اس سے کب باہر رہ سکتے تھے۔آخر یہ لوگ پچھتاویں گے کہ ان باتوں کو ہم نے کیوں نہ مانا۔یہ لوگ ایک سوار تو آنحضرت ﷺ کی ذات پر کرتے ہیں کہ ایک معجزہ آسمان پر جانے کا لوگوں نے مانگا مگر خدا نے آپ کی پروا نہ کی اور عیسیٰ کو یہ عزت دی کہ اُسے آسمان پر اٹھا لیا اور دوسرا حملہ خود خد اپر کرتے ہیں کہ اُس نے اپنی قوت خلق سے مسیح کو بھی کچھ دے دی جس سے تشابہ الخلق ہو گیا۔جواب دیتے ہیں کہ خد انے خود مسیح کو یہ قدرت دی تھی۔اے نادانو! اگر خدائی نے تقسیم ہونا تھا تو کیا اس کے حصہ گیر عیسیٰ ہی رہ گئے تھے۔آنحصرت ﷺ کو کیوں نہ حصہ ملا؎ٰ۔
اس قدر تقریر ہو چکی تھی کہ بعض جان نثاروں نے بہت وقت گذرجانے کی درخواست کی تاکہ آپ کی طبیعت کو زیادہ صدمہ نہ ہو اور سلسلہ تقریر ختم ہو جاوے؛ چنانچہ حضور نے دعا پر اُسے ختم کیا۔
۲۸؍اگست ۱۹۰۴ء؁
بمقام لاہور۔سات بجے صبح
(حضرت اقدس کی تقریر جو ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مجمع کے درمیان آپ نے فرمائی)
توبہ کا دن جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک ہے
سب صاحب یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اسلام میں ایسے دن مقرر کئے ہیں کہ وہ دن بڑی خوشی کے دن سمجھے اجتے ہیں اور ان میں اﷲ تعالیٰ نے عجیب عجیب برکات رکھی ہیں۔منجملہ ان دنوں کے ایک جمعہ کا دن ہے۔یہ دن بی بڑا ہی مبارک ہے۔لکھاہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو جمعہ ہی کو پیدا کیا اور اسی دن ان کی توبہ منظور ہوئی تھی۔اور بھی بہت سی برکات اور خوبیاں اس دن کی ماثور ہیں۔ایسا ہی اسلام میں دو عیدیں ہیں۔ان دونوں دنوں کو بھی بڑی خوشی کے دن مانا گیا ہے اور ان میں بھی عجیب عجیب برکات رکھی ہیں۔لیکن یاد رکھو کہ یہ دن بیشک اپنی اپنی جگہ مبارک اور خوشی کے دن ہیں۔لیکن ایک دن ان سب سے بھی بڑھ کر مبارک اور خوشی کا دن ہے، مگر افسوس سے دیکھا جاتاہے کہ لوگ نہ تو اس دن کا انتظار کرتے ہیں اور نہ اس کی تلاش ؛ ورنہ اگر اس کی برکات اور خوبیوں سے لوگوں کو اطلاع ہوتی یا وہ اس کی پروا کرتے تو حقیقت میں ہو دن ان کے لیے بڑ ا ہی مبارک اور خوش قسمتی کا دن ثابت ہوتا اور لوگ اُسے غنیمت سمجھتے۔
وہ دن کونسا دن ہے جو جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک دن ہے؟ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ دن انسان کی توبہ کا دن ہے جو ان سب سے بہتر ہے اور ہر عید سے بڑھ کر ہے۔کیوں؟ اس لیے کہ اس دن وہ بد اعمال نامہ جو انسان کو جہنم کے قریب کرتا جاتا ہے اور اندر ہی اندر غضبِ الٰہی کے نیچے اُسے لا رہا تھا دھو دیا جاتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔حقیقت میں اس سے بڑھ کر انسان کے لیے اور کونسا خوشی اور عید کا دن ہوگ اجو اسے ابدی جہنم اور ابدی غضبُ الٰہی سے نجاب دیدے۔توبہ کرنے والا گنہگار جو پہیل اﷲ تعالیٰ سے دور اور اس کے غضب کا نشانہ بنا ہوا تھا۔اب اس کے فضل سے اُس کے قریب ہوتا اور جہنم اور عذاب سے دور کای جاتا ہے۔جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا
ان اﷲ یحب التوابین ویحب المتطھرین (البقرۃ : ۲۲۳)
بیشک اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے۔اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے،بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے۔ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری شرط ہے؛ ورنہ نری توبہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔پس جو دن ایسا مبارک دن ہو کہ انسان اپنی بد کر توتوں سے توبہ کر کے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سچا عہدِ صلح باندھ لے اور اس کے احکام کے لیی اپنا سر خم کر دے تو کیا شک ہیکہ وہ اس عذاب سے جو پوشیدہ طور پر اس کے بدعملوں کی پاداش میں تیار ہو رہا تھا۔بچایا جاوے گا اور اس طرح پر وہ وہ چیز پالیتا ہے جس کی گویا اسے توقع اور امید ہی نہ رہی تھی۔
تم خود قیاس کر سکتے ہو کہ ایک شخص جب کسی چیز کے حاصل کرنے سے بالکل مایوس ہو گیا ہے اور اس ناامیدی اور یاس کی حالت میں وہ اپنے مقصود کو پالے تو اسے کس قدر خوشی حاصل ہو گی۔اس کا دل ایک تازہ زندگی پائے گا۔یہی وجہ ہے کہ احادیث میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔احادیث اور کتب سابقہ سے یہی پتہ لگتا ہے کہ جب انسان گناہ کی موت سے نکل کر توبہ کے ذریعہ نئی زندگی پاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی زندگی سے خوش ہوتا ہے ۔حقیقت میں یہ خوشی کی بات تو ہے ہی کہ انسان گناہوں کے نیچے دباہو اور ہلاکت اور موت ہر طرف سے اس یک قریب ہو۔عذابِ الٰہی اس کے کھاجانے کو تیار ہو کہ وہ یکا یک ان بدیوں اور بدکاری٭ن سے جو بعد اور ہجر کا موجب تھیں توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی طرف آجاوے وہ وقت خدا تعالیٰ کی خوشی کا ہوت اہے اور آسمان پر ملائکہ بھی خوشی کرتے ہیں،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ تباہ وار ہلاک ہو،بلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ اگر اس کے بندہ سے کوئی غلطی اور کمزوری ظاہر ہوئی ہے پھر بھی وہ توبہ کر کے امن میں داخل ہو۔پس یاد رکھو کہ وہ دن جب انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے ۔بہت ہی مبارک دن ہے اور سب ایام سے افضل ہے۔کیونکہ وہ اس دن نئی زندگی پاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے قریب کیا جاتا ہے اور اس لحاظ سے یہ دن (جس میں تم میں سے بہتوں نے اقرار کیا ہے کہ میں آج اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور آئندہ جہانتک میری طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتارہوں گا) یوم توبہ ہے۔اور اﷲ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر ایک شخص کے جس نے سچے دل سے توبہ کی ہے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے اور وہ
اتا ئب من الذنب کمن لا ذنب لہ
کے نیچے آگیا ہے۔گویا کہہ سکتے ہیں کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔مگر ہاں میں پھر کہتا ہوں کہ اس کے لیے یہ شرط ہے کہ حقیقی پاکیزگی اور سچی طہارت کی طرف قدم بڑھایا جاوے اور یہ توبہ نری لفظی توبہ ہی نہ بلکہ عمل کے نیچے آجاوے۔یہ چھوٹی سے بات نہیں ہے کہ کسی کہ گناہ بخش دیئے جاویں،بلکہ ایک عظیم الشان امر ہے۔
دیکھو! انسانوں میں اگر کوئی کسی کا ذرا سا قصور اور خطا کرے تو بعض اوقدات اس کا کینہ پشتوں تک چلا جاتا ہے وہشخص نسلاً بعد نسل تلاشِ حریف میں رہتا ہے کہ موقعہ ملے تو بدلہ لای جاوے،لیکن اﷲ تعالیٰ بہت ہی رحیم و کریم ہے۔انسنا کی طرح سخت دل نہیں جو ایک گناہ کے بدلے میں کئی نسلوں تک پیچھا نہیں چھوڑتا اور تباہ کرنا چاہتا ہے مگر وہ رحیم کریم خدا ستر برس کے بناہوں کو ایک کلمہ سے ایک لحظہ میں بخش دیتا ہے۔یہ مت خیال کرو کہ وہ بخشنا ایسا ہے کہ اس کا فائدہ کچھ نہیں ۔نہیں وہ بخشنا حقیقت میں فائدہ رساں اور نفع بخش ہے اور اس کو وہ لوگ خوب محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہو۔
نزولِ بلا کا فلسفہ
بہت سے لوگ اس امر سے غافل ہیں کہ انسان پر جو بلائیں آتی ہیں وہ بلاوجہ یونہی آجاتی ہیں یا اُن کے نزول کو انسان کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ایسا خیال بالکل غلط ہے۔ یہ خوب یاد رکھو کہ ہر بلا جو اس زندگی میں آتی ہے یا جو مرنے کے بعد آئے گی جس کا ہمیں یقین ہے۔اس کی اصل جڑ گناہ ہی ہے۔کیونکہ گناہ کی حالت میں انسان اپنے آپ کو اُن انوار اور فیوض سے جو خد اتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں پرے ہٹا دیتا ہے اور اس اصل مرکز سے جو حقیقی راحت کا مرکز ہے۔ہٹ اجتا ہے،اس لیے تکلیف کا آنا اس حالت میں اس پر ضروری ہے۔
‏Amira 7-7-05
یہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ انبیاء اور راستباز پر بھی بعض اوقات بلائیں آجاتی ہیں اور مصائب اور شدائد میں ڈالے جاتے ہیں لیکن یہ گمان کرنا کہ وہ مصائب اور بلائیں کسی گناہ کی وجہ سے آتی ہیں۔خطر ناک غلطی اور گناہ ہے۔ان بلائوں میں جو خدا کے راستبازوں اور پیارے بندوں پر آتی ہیں او ان بلائوں میں جو خدا تعالیٰ کے نفرمانوں اور خطاکاروں پر آتی ہیں زمین آسمان کا فرق ہے اس لیے کہ ان کے اسباب بھی مختلف ہیں۔نبیوں اور راستبازوں پر جو بلائیں آتی ہیں اُن میں ان کو ایک صبر جمیل دیا جاتا ہے جس سے وہ بلا اور مصیبت ان کے لیے مُدرِک الحَلَاوت ہو جاتی ہیں۔وہ اس سے لذت اُٹھاتے ہیں اور رحانی ترقیوں کے لیی ایک ذریعہ ہو جاتی ہیں۔کیونکہ ان کے درجات کی ترقی کے لیے ایسی بلاجوں کا آنا ضروری ہے جو ترقیات کے لیے زینہ کا کام دیتی ہیں۔جو شخص ان بلائوں میں نہیں پڑتا اور ان مصیبتوں کو نہیں اُٹھاتا وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کرسکتا۔
دنیا کے عام نظام میں بھی تکالیف اور مشقتوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں سے ہر ایسے شخص کو جو ترقی کا خواہاں ہے گذرنا پڑتا ہے،لیکن ان تکالیف اور شاقہ محنتوں میں باوجود تکالیف کے ایک لذت ہوتی ہے جو اُسے کشاں کشان آگے لیے جاتی ہے۔برخلاف اس کے وہ مصیبت اور تکالیف جو انسان کی اپنی بدکرداری کی وجہ سے اس پر آتی ہیں۔وہ مصیبت ہوتی ہے جس میں ایک درد اور سوزش ہوتی ہے،جو اس کی زندگی اس کے لیے وبالِ جان کر دیتی ہے وہ موت کو ترجیح دیتاہے مگر نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ مرکر بھی ختم نہیں ہوگا۔
غرض ان بلاجوں کے نزول میں ہمیشہ سے قانونِ قدرت یہی ہے کہ جو بلائیں شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں وہ الگ ہیں اور خد اکے راستبازوں اور پیغمبروں پر جو بلائیں آتی ہیں وہ ان کی ترقی درجات کے لیے ہوتی ہیں۔بعض جاہل جو اس راز کو نہیں سمجھتے وہ جب بلائوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو بجائے اس کے کہ اس بلا سے فائدہ اُٹھاویں اور کم از کم آئندہ کے لیے مفید سبق حاصل کریں اور اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا کریں کہہ دیتے ہیں کہ اگر ہم پر مصیبت آئی تو کیا ہوا نبیوں اور پیغمبروں پر بھی تو آجاتی ہیں؛ حالانکہ ان بلائوں کو انبیاء کی مشکلات اور مصائب سے کوئی نسبت ہی ہیں ۔جہالت بھی کیسی بُری مرض ہے کہ انسنا اس میں قیاس مع الفارق کر بیٹھتا ہے۔یہ بڑا دھوکہ واقع ہوت اہے جو انسان تمام انبیاء کی مشکلات کو عام لوگوں کی بلائوں پر حمل کرلیتا ہے۔
پس خوب یاد رکھو کہ جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے انبیاء اور دوسرے اخیار و ابرار کی بلائیں محبت کی راہ سے ہیں۔خدا تعالیٰ اُن کو ترقی دیتا جاتا ہے اور یہ بلائیں وسائل ترقی میں سے ہیں،لیکن جب مفسدوں پر آتی ہیں تو اﷲ تعالیٰ اُن کو اس عذاب سے تباہ کرنا چاہتا ہے۔وہ بلائیں ان کے استیصال اور نیست و نابود کرنے کا ذریعہ ہو جاتی ہیں۔یہ ایسا فرق ہے کہ دلائل کا محتاج نہیں ہے،کیونکہ جب اچھے آدمی جو اﷲ تعالیٰ کو مقدم کر لیتے ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کیوں کرتے ہیں۔بہشت اور دوزخ ان کے دل میں نہیں ہوتا اور نہ بہشت کی خواہش اور دوزخ کا ذکر اُن کو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کا محرک ہوتا ہے بلکہ وہ طبعی جوش اور طبعی محبت سے اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے اور اس کی اطاعت میں محو ہوتے ہیں۔ان پر جب کوئی بلا آتی ہے تو وہ خود محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ از راہِ محبت ہے۔وہ دیکھتے ہیں کہ ان بلائوں کے ذریعہ ایک چشمہ کھولا جاتا ہے جس سے وہ سیراب ہوتے ہیں اور ان کا دل لذت سے بھر جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی محبت ایک فوارہ کی طرح جوش مارنے لگ جاتی ہے۔تب وہ چاہتے ہیں کہ یہ بلا زیادہ ہو تا کہ قربِ الٰہی زیادہ ہو اور رضا کے مدارج جولد طے ہوں۔غرض الفاظ وفا نہیں کرتے جو اس لذت کو بیان کر سکیں جو اخیار و ابرار کو ان بلائوں کے ذریعہ آتی ہے۔یہ لذت تمام سفلی لذتوں سے بڑھی ہوئی ہے اور فوق الفوق لذت ہوتی ہے۔یہ مصیبت کیا ہے۔ایک عظیم الشان دعوت ہے جس میں قسم قسم کے انعام و اکرام اور پھل اور میوے پیش کیے جاتے ہیں۔خدا اس وقت قریب ہوتا ہے۔فرشتے ان سے مصافحہ کرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ کے مکالمہ کا شرف عطا کیا جاتا ہے اور وحی اور الہام سے اس کو تسلی اور سکینت دی جاتی ہے۔لوگوں کی نظر میں یہ بلائوں اور مصیبتوں کا وقت ہے مگر دراصل اس وقت اﷲ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض کی بارش کا وقت ہوتا ہے۔سفلی اور سطحی خیال کے لوگ اس کو سمجھ نہیں سکتے۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ بلائوں اور غموں ہی کا وقت ہے جس میں مزا آتا ہے اور راحت ملتی ہے کیونکہ خدا جو انسان کا اصل مقصود ہے۔اس وقت اپنے بندے کے بہت ہی قریب ہوتا ہے ۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن جو دیا گیا ہے ۔غم کی حالت میں دیا گیا ہے۔پس تم بھی اس کو غم کی حالت میں پڑھو۔
غرض میں کہانتک بیان کروں کہ ان بلائوں میں کیا لذت اور مزا ہوت اہے اور عاشق صادق کہانتک ان سے محفوظ ہوت اہے۔مختصر طور پر یاد رکھو کہ ان بلائوں کا پھل اور نتیجہ جو ابرار اور اخیار پر آتی ہیں جنت اور ترقی درجات ہے ار وہ بلائیں ارو غم جو مفسدوں اور شریروں پر آتے ہیں۔ان کی وجہ شامتِ اعمال اور تاریک زندگی ہے اور اس کا نتیجہ جہنم اور عذابِ الٰہی ہے۔پس جو شخص آگ کے پاس جاتا ہے ضرور ہے کہ وہ اس کی سوزش سے حصہ لے اور اسے محسوس کرے اور اُسے دُکھ پہنچے۔لیکن جو ایک باغ میں جاتا ہے۔یقینی امر ہے کہ اس کے پھلوں اور پھولوں کی خوشبو سے اور اس خوبصورت نظازہ کے مشاہدہ سے لذت پاوے۔
شامتِ اعمال کی وجہ سے آنیوالی بلائوں کا علاج
اب واضح رہے کہ جس حال میں وہ بلائیں جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں۔اور جن کا نتیجہ جہنمی زنگی اور عذابِ الٰہی ہے ان بلائوں سے جو ترقی درجات کے طور پر اخیار و ابرار کو آتی ہیں الگ ہیں۔کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے جو انسان اس عذاب سے نجات پاوے۔ہان اس عذاب اور دُکھ سے رہائی کی بجز اس کے کوئی تجویز اور علاج نہیں ہے کہ انسان سچے دل سے توبہ کرے۔جبتک سچی توبہ نہیں کرتا،یہ بلائیں جو عذابِ الٰہی کے رنگ میں آتی ہیں اس کا پیچھانہیں چھوڑ سکتی،کیونکہ اﷲ تعالیٰ اپنے قانون کو نہیں بدلتا جو اس بارے میں اس نے مقرر فرما دیا ہے۔
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما بانفسہم (ارعد : ۱۲)
یعنی جبتک کوئی قوم اپنی حالت میں تبدیلی پیدا نہیں کرتی۔اﷲ تعالیٰ بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔
اﷲ تعالیٰ ایک تبدیلی چاہتا ہے اور وہ پاگیزہ تبدیلی ہے۔جبتک وہ تبدیلی نہ ہو عذابِ الٰہی سے رستگاری اور مخلصی نہیں ملتی۔یہ اﷲ تعالیٰ کا ایک قانون اور سنت ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہی یہ فیصلہ کر دیا ہے۔
ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا (الاحزاب : ۶۳)
سنت اﷲ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔پس جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کیلئے تبدیلی ہو یعنی وہ ان عذابوں اور دُکھوں سے رہائی پائے جو شامتِ اعمال نے ا سکے لیے تایر کئے ہیں۔اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے۔جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما با نفسہم
میںکیا ہے۔اسکے عذاب اور دُکھ کو بدلادیتا ہے اور دُکھ کو سُکھ سے تبدیل کر دیت اہے۔جب انسان کے اندر تبدیلی کرتا ہے، تو اسکے لیے ضرور نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو بھی دکھاتا پھرے۔وہ رحیم کریم خدا جو دلوں کا مالک ہے۔اس کی تبدیلی کو دیکھ لیتا ہے کہ یہ پہلا انسان نہیں ہے اس لئے وہ اس پر فضل کرتا ہے۔تذکرۃ الولیاء میں لکھا ہے کہ ایک شخص نماز روزہ اور دوسرے اشغال اذکار سے ریا کرتا تھا کہ لوگ اسے ولی سمجھیں۔لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام لوگ اُسے ریاکار سمجھے تھے۔یہان تک کہ بچے بھی جس راستہ سے وہ گذرتا تھا ا سکو ریا کار اور فریبی کہا کرتے تھے۔ایک وقت تک اس کی حالت ایسی ہی رہی۔آخر اُس نے سوچاکہ اس طریق سے کوئی فائدہ تو نہیں ہوا،بلکہ حالت بد تر ہی ہوئی ہے اس لیے اس کوچھوڑ دینا چاہیے۔پس اس نے چھوڑ دیا اور ملامتی فرقہ کا سا طریق اختیار کر لیا۔مسلمانوں میں ملامتی ایک فرقہ ہے جو اپنی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور بدیوں کو ظاہر کرتا ہے تاکہ لوگ انہیں برا کہیں۔اسی طرح پر وہ اپنی نیکیوں کو چھپانے لگا اور اندر ہی اندر اﷲ تعالیٰ سے سچی محبت کرنے لگا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لکھا ہے کہ جس کوچہ سے گذرتا عام لوگ اور بچے بھی اُسے کہتے کہ بڑا نیک ہے۔ولی ہے۔بزرگ ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرنا مُشک اور عطر کی طرح ہے جو کسی طرح سے چھُپ نہیں سکتا۔یہی تاثیریں ہیں سچی توبہ میں۔جب انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے پہلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔پھر اُسے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔خدا اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے اور وہ تقدیر جو شامتِ اعمال سے اس کے لیے مقرر ہوئی ہے،دور کی اجتی ہے۔اس امر کے دلائل بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ انسان اپنی اس مختصر زندگی میں بلائوں سے محفوظ رہنے کا کس قدر محتاج ہے اور چاہتاہے کہ ان بلائوں اور وبئوں سے محفوظ رہے جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں ارو یہ ساری باتیں سچی توبہ سے حاصل ہوتی ہیں۔پس توبہ کے فوائد میں سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کا حافظ اور نگران ہو جاتا ہے۔اور ساری بلائوں کو خد ادور کر دیتاہے اور اُن منصوبوں سے جو دشمن اس کے لیے تیار کرتے ہیں اُن سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کا یہ فضل اور برکت کسی سے خاص نہیں بلکہ جس قدر بندے ہیں خدا تعالیٰ کے ہی ہیں۔اس لیے ہر ایک شخص جو اُس کی طرف آتا ہے اور اس کے احکام اور اوامر کی پیروی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ہوگا جیسے پہلا شخص توبہ کر چکا ہے۔وہ ہر ایک سچے توبہ کرنے والے کو بلائوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔پس یہ توبہ جو آج اس وقت کی گئی ہے یہ مبارک اور عید کا دن ہے۔اور یہ عید ایسی عید ہے جو کبھی میسر نہیں آئی ہوگی۔ایسا نہ ہو کہ تھوڑے سے خیال سے ماتم کا دن بنادو۔عید کے دن اگر ماتم ہو تو کیسا غم ہوگا ہے کہ دوسرے خوش ہوں اور اس کے گھر ماتم ہو۔موت تو سب کو نا گوار معلوم ہوتی ہے۔لیکن جس کے گھر عید کے دن موت ہو وہ کس قدر ناخوشگوار ہوگی۔
قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان ایک نعمت کی قدر نہیں کرتا وہ ضائع ہو جاتی ہے۔دیکھو جن چیزوں کی تم قدرکرتے ہو اُن کو صندوقوں میں بڑی حفاظت سے رکھتے ہو۔اگر ایسا نہ کرو تو وہ ضائع ہو جاتی ہے۔اسی طرح اس مال کا جو ایمان کا مال ہے چورشیطان ہے۔اگر اس کو بچا کر دل کے صندوقوں میں احتیاط سے نہ رکھو گے توچور آئے گا اور لے جائے گا۔یہ چور بہت ہی خطرناک ہے۔دوسرے چور اندھیری راتوں میں آکر نقب لگاتے ہیں وہ اکثر پکڑے اجتے ہیں اور طزا پاتے ہیں۔لیکن یہ چور ایسا ہے کہ اس کی خبر نہیں ہوتی اور نہ کبھی پکڑا جائے گا۔یہ اس وقت آتا ہے جب گناہ کی تاریکی پھیل جاتی ہے۔کیونکہ چور اور روشنی میں دشمنی ہے۔جب انسان اپنا منہ خد اکی طرف رکھتا ہے اور اسی کی طرف رجوع اور توجہ کرتا ہے تو وہ روشنی میں ہوتا ہے۔اور شیطان کو کوئی موقعہ اپنی دستبردکا نہیں ملتا۔
پس کوشش کرو کہ تمہارے ہاتھوں میں ہمیشہ روشنی رہے۔اگر غفلت بڑھ گئی تو یہ چور آئے گا اور سارا اندوختہ لے جائے گا اور برباد ہو جائو گے۔اس لیے ان اندوختہ کو احتیاط اور اپنی راستبازی اور تقویٰ کے ہتھیاروں سے محفوظ رکھو۔یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے ضائع نوہے سے کچھ حرج نہ ہو بلکہ اگر یہ اندوختہ جاتا رہا تو ہلاکت ہے اور ہمیشہ کی زندگی سے محروم ہو جائوگے۔
تنبیہ و اِنذار
یاد رکھو۔یہ طاعون کے دن ہیں۔معلوم نہیں۔ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے شروع میں کیا ہو۔جہانتک خد انے مجھ پر ظاہر کیا ہے میں دیکھتا ہوں کہ بہت خطرناک دن آنیوالے ہیں۔اس لیے ہر ایک شخص جو چاہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہے وہ اسی وقت سے تیاری کرے۔جبتک غضبِ الٰہی نازل نہیں ہوتا اور اس کے آثار نمودار نہیں ہوتے۔تو ہر شخص واجب الرحم ہوت اہے لیکن جب آثار نمودار ہو جاویں پھر عذاب نہیں ٹلتا۔بہت سے لوگ بیباک اور جرأت کرنے والے ہوتے ہیں۔وہ شوخی سے کہہ دیتے ہیں کہ صدہا وبائیں بلائیں اور ہیضے وغیرہ آتے ہیں۔ بھی ہے،لیکن یہ اُن کی بد بختی اور شقاوت یہ جو ایسی جرأت پیدا ہوتی ہے وہ نہیں جاتنے کہ یہ بُرے دنوں کی نشانی ہے۔جب بلائیں دنیا میں آتی ہے اور دنیا کو تباہ کرتی ہیں تو شامتِ اعمال سے ہی آتی ہیں۔ہمیشہ سے گناہ ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ ان صورتوں میں ہی عذاب اور بلاآئی ہے اور ان گناہوں کے بدلے میں طزا دی گئی ہے ۔پھر یہ شوخی اچھی نہیں۔اس کا نتیجہ بہت ہی بُرا ہے۔یہ وقت تو ایسا ہے کہ خدا سے صلح کرو اور پاک تبدیلی کرو نہ یہ کہ شوخی و شرارت سے پیش آئو۔
یاد رکھو یہ طاعون ایک خطرناک عذابِ الٰہی ہے جو اس وقت نازل ہوا ہے اس کو حقیر مت سمجھو۔اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔اﷲ تعالیٰ کی کتابوں میں یہ ایک نشان مقرر کیا گیا ہے۔اﷲ تعالیٰ کے نشانوں کو جو شخص حقارت سے دیکھتا ہے وہ نقصان اُٹھاتا ہے۔میں کھول کھول کر بیان کرتا ہوں کہ اس عذاب سے مخلصی کے لیے سچی توبہ اور پاک تبدیلی کی ضرورت ہے اور بجز اسکے چارہ نہیں۔پس اسی وقت سے اس کے لیے تیاری کرو۔شوخیوں اور شرارتوں سے باز آجائو۔
مسیح موعود کے زمانہ کے دوبڑے نشان
میں یہ بات بھی بیان کرنی چاہتا ہوں کہ مسیح موعود کے زمانہ کے بہت سے نشانوں میں سے دو بڑے نشان ہیں جن میںسے ایک آسمان پر ظاہر ہوگا اور دوسرا زمین پر۔
آسمان کا نشان تو یہ تھا کہ اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں مقرر تاریخوں پر سورج اور چاند گرہن ہوگا؛ چنانچہ کئی سال گذرے یہ نشن پورا ہو گیا اور نہ صرف اس ملک میں بلکہ دوسری مرتبہ امریکہ میں بھی پوراہو۔
دوسرا نشان یہی طاعون کا نشان تھا جو زمینی ہے۔یہ نشان بدن پر لرزہ ڈال دینے والا نشان ہے ۔کئی سال سے یہ بلا اس مُلک میں نازل ہو رہی ہے مگر میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ ابھی تک غفلت اور بدمستی اسی طرح ترقی پر ہے۔میں جاتنا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کی کتابوں سے معلوم ہے کہ آخر اس طاعون کی اس قدر شدت ہو اجئے گی کہ دس میں سے سات مر جائیں گے اور بعض بستیاں بالکل تباہ اور برباد ہو جائیں گی۔جہانتک اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ ابھی بہت خطرناک دن آنے والے ہیں۔اس لیی میں ہر ایک کو جو سنتا ہے کہتا ہوں کہ دیکھو اس وقت ہر ایک نفس کو چاہیے کہ اپنے نفس، اپنے بیوی بچوں اور دوستوں پر رحم کرے۔میں خوب جاتنا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر اپنا فضل کر دیتا ہے اور یہ عذاب ٹل سکتا ہے۔پس چاہیے کہ ہر شخص کوشش کرے اور سچی توبہ ارو پاک تبدیلی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے دعائیں مانگے۔
ایک اعتراض کا جواب
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارے سلسلہ میں بھی بعض آدمی طاعون سے مر گئے ہیں۔ایسے معترضین کو یاد رکھنا چاہیے کہ موت تو ہر نفس کے لیے مقرر ہے اور یاک نہ ایک دن ب کو مر جانا ہے اور طاعون سے صحابہؓ میں سے بھی بعض شہید ہو گئے تھے۔غرض موت سے تو چارہ نہیں۔امیر۔غریب،ہندو،مسلمان،زن ومرد سب مرتے ہیں۔لیکن کسی موت پر اتنا رحم نہیں آتا جیسا اس موت پر کہ گھر کا گھر تباہ ہو جائے اور قُفل لگ جاوے۔اس لیے اول نسبت قائم کرو کہ ایسی موتیں کن لوگوں میں ہوئی ہیں۔
اس کے سوا یہ بھی یاد رکھو کہ ہماری جماعت میں داخل ہونے والوں کا صحیح علم کہ ان کے ایمان کس درجہ تک ہیں اﷲ تعالیٰ ہی کو ہے۔اب دو لاکھ سے بھی زیادہ جماعت ہے ہمیں علم نہیں کہ کس حد تک کس کا ایمان ہے؛ البتہ قیاسی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض کامل الایمان ہیں اور بعض اوسط درجہ کا ایمان رکھتے ہیں اور بعض ابھی ناقص درجہ پر ہیں۔
مومنوں کے تین درجے
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
منہم ظالم لنفسہ ومہھم مقتصد و منہم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳)
یعنی تین قسم کے مومن ہوتے ہیں۔ایک تو ظالم لنفسہ ہیں۔ان میں گناہ کی آلائش موجود ہوتی ہے۔بعض میانہ رو اور بعض سرا سر نیک ہیں۔اب ہمیں کیا معلوم ہے کہ کون کس درجہ اور مقام پر ہے۔ہر ایک شخص کا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ الگ معاملہ ہے۔جیسا کوئی اس سے تعلق رکھتا ہے ویسا ہی وہ اس سے معاملہ کرتا ہے۔جو لوگ کامل الایمان ہیں۔میں یقین رکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اُسے امتیاز دے گا،کیونکہ مومن اور کافر کے درمیان ایک فرقان رکھا جاتا ہے۔
‏Amira 9-7-05
قرآن شریف میں مومن سے یہ مراد نہیں ہے کہ صرف زبان تک ہی اس کی قیل و قاسل محدود ہوا ور صبح وہ ایمان کا کام کرے،تو شام کو کفر کا کرے۔ایک لقمہ وہ تریاق کا کھالیتا ہے تو دوسرا زہر کا بھی کھالیتا ہے۔ایسے شخص کو وہ فرقان اور امتیاز جو مومن کے لیے مقرر کیاگیا ہے نہیں دیا جاتا۔تم خود ہی سوچ لو کہ وہ مریض جو پرہیز نہیں کرتا ہے وہ خواہ اس کو کیسے ہی شفا بخش نسخے دیئے جاوین اور کتنے ہی مجرب کیوں نہ ہوں۔لیکن اگر وہ پرہیز نہیں کرتا تو وہ نسخے اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
پس یہی حال بیعت کا ہے ۔اگر کوئی شخص بیعت تو کرتا ہے، لیکن شرائط بیعت کو پورا نہیں کرتا اور اپنے اندر پاک تبدیلی جو بیعت کا اصل مقصد ہے نہیں کرتا وہ اپنے لیے وبالِ جان ہو جاتا ہے۔ہاں کامل الایمان اکسیر ہے۔اس کے ساتھ فرقان رکھا جاتا ہے۔اگر یہ امتیاز نہ ہوتا تو دنیا تباہ ہو جاتی اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان مشکل ہو جاتا۔اس قسم کے نشانوں سے ہی اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان پیدا ہوتا ہے۔
احمدی جماعت اور طاعون
اب میں پھر اس اعتراض کی طرف توجہ کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے بعض آدمی طاعون س مرے ہیں۔اس بات کوخوب غورس ے یاد رکھو کہ صحابہؓ میں سے جو بعض طاعون سے شہید ہوئے وہ اُن کے لیے عذاب نہ تھی بلکہ صحابہؓ کا گروہ بڑھا اور ان کے لیے موجبِ شہادت ہوئی۔دوسروں کے لیے وہی طاعون تباہی اور بربادی کا باعث ہوئی یہی فرق ہے۔اگر کسی مومن کو طاعون ہو جاوے وہ اس کے لیے شہادت ہے اور دوسروں کے لیے تباہی کا موجب۔بایں ہمہ جیسا میں نے پہیل بیان کیا ہے۔مومن اور غیر مومن میں ایک امر فارق ہوتا ہے۔اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔مومن کے ساتھ ایسے معاملات ہوتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس کو ایک بیّن امتیاز عطا کرتا ہے اور اس کو تباہ کرنا نہیں چاہتا۔اسکی وہی مثال ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بھی مصیبت آتی ہے اور دوسروں پر بھی جو ان کے مخالف ہوتے ہیں انبیاء علیہم السلام بڑھتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں اور دوسرے تباہ اور ذلیل ہوتے ہیں۔پس دہریوں کی طرف دھوکا مت کھائو۔وہاں اور رنگ ہے، اور یہان اور رنگ ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی خوب غور سے سنو کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں لڑائیاں ہوتی تھیں اور وہ لڑائیاں عذاب کے رنگ میں تھیں،کیونکہ کافر بار بار سوال کرتے تھے کہ آپ ہمیں قہری نشان اور معجزہ دکھائو کہ ہم پر پتھر برسیں انکے بار بار کے سوالات پر ان کو وعدہ دیا گیاکہ میں قہری نشان دکھائوں گا اور وعدہ دیا گیا کہ وہ نشان تلوار کے ذریعہ ظاہر ہوگا۔اب صاف ثابت ہے کہ وہ عذاب کافروں کے واسطے تھا، مگر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ان جنگوں میں (جو قہری نشان کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے) صحابہؓ بھی شہید ہوئے۔اب کیا کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ صحابہؓ جو شہید ہوئے تھے معاذ اﷲ وہ تلوار اُن کے لیے بھی عذاب تھی؟ ہرگز نہیں بلکہ صحابہؓ کی شہادت تو قوم کی ترقی اور فتوخات کا باعث ہوئی۔صحابہؓ کی قوم بڑھی اور بالمقابل مخالفوں کا نام و نشان مٹ گیا اور ستیانا س ہو گیا۔اب کوئی پتہ دے سکتا ہے کہ ابو جہل کی اولاد کہاں ہے؟ اس کی بیخ کُنی ہو گئی۔یہی مثال سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
اسی طرح پر اس میں شک نہیں کہ طاعون عذاب کی صورت میں نازل ہوا ہے۔اور اگر ہماری جماعت میں سے بعض آدمی طاعون سے فوت ہوئے ہیں تو اس پر شور مچانا یا اعتراض کرنا دانشمندی نہیں ہے بلکہ غور طلب یہ امر قرار دینا چاہیے کہ طاعون سے نقصان کس کا ہوا۔اور فائدہ کس کو پہنچا؟ میں یقینا کہتا ہوں کہ جب طاعون شروع ہوئی ہے اس وقت میری جماعت کی تعداد بہت تھوڑی تھی،مگر اس وقت دو لاکھ سے بھی یہ جماعت بڑھی ہوئی ہے اور یہ ترقی طاعون کے سبب سے بھی ہوئی ہے۔طاعون نے میری جماعت کو بڑھایا ہے اور مخالفوں کو گھٹی اہے۔مجھے وعدہ دیا گیا تھا کہ طاعون تیری ترقی کا موجب ہوگی۔سو اس وعدہ کے موافق یہ جماعت بڑھ رہی ہے اور دو لاکھ تک بڑھی ہے،مگر مخالفوں کو تو دوہرا نقصان ہوا ہے۔کچھ اُن میں سے قبروں میں گئے اور کچھ ہمارے پاس آئے ہیں۔اگر ہمارا نقصان اس سے ہوت اتو یہ جماعت جو بہت ہی مختصر اور قلیل تھی بالکل تباہ ہو جاتی اور آج کوئی اس کو جاننے والا بھی نہ ہوتا۔ان واقعات کو مدِ نظر رکھ کر معترض کو چاہیے کہ دیکھے کیا یہ اعتراض کوئی شے ہے؟
طاعون کو خبر آج سے نہیں ۲۳ برس سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چی ہوئی ہے اور اس لیے یہ معمولی نظر سے دیکھنے کے قابل نہیں ہے، بلکہ یہ عظیم الشان قہری نشان ہے۔
غرض طاعون نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا بلکہ فائدہ ہی دیا ہے۔اس کے سات ہی میں یہ بھی ضرور کہتاہوں کہ ایمان کے طبقات ہیں۔جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔اس لیے ان طبقات کے لحاظ سے جو شخص کا مل الایمان ہے وہ نافع الناس وجود ہے۔تبلیغ دین کرنے والا ہے۔وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قدر ہے وہ طاعون سے ضرور بچایا جاوے گا۔بعض آدمی جن کی ایمانی حالت کمزور ہوتی ہے اور وہ اس درجہ پر نہ پہنچے ہوئے ہوں،جہاں اﷲ تعالیٰ کسی کو مومن کہت اہے اور ان کی ضرورت بھی کم ہو پھر ان میں سے اگر کوئی فوت ہو جاوے تو اس میں کیا حرج ہے۔میں یہ خوب جانت اہوں کہ ایمان کے درجات ہیں اور ہر درجہ پر برکت ملتی ہے،لیکن ان میں باہم فرق ضرور ہوتا ہے۔دیکھو اس وکت آفتاب کی روشنی ہے۔آنکھیں کھلی ہیں ہر ایک چیز دور و نزدیک کی صاف اور واضح نظر آتی ہے۔جب آفتاب کی سلطنت ختم ہو جائے گی تو رات آئے گی۔اس وقت عالم ہی اور ہوگا؛ اگر چہ اس وقت چاند یا ستاروں کی روشنی ہوگی مگر ان روشنیوں میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔ایسا ہی ایمان کے مراتب میں فرق صریح ہے۔ایمان بھی ایک روشنی ہے جس جس درجہ پر ایمان پہنچتا ہے اسی مرتبہ کے موافق روشنی اور پھل پاتا ہے جو چاہت اہے کہ عمر زیادہ ہو اور اس قہری نشان میں ایک امتیاز پیدا ہو کرے ا سکو لازم ہے کہ وہ کام الایمان ہو اور اپنے وجود کو قابل قدر بناوے اور اس کی یہی صورت ہے کہ لوگوں کو نفع پہنچاوے اور دین کی خدمت کرے؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
یہ خوب یاد رکھو کہ عمر کھانے پینے سے لمبی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی اصل راہ وہی ہے جو میں نے بین کی ہے۔بہت سے لوگ ہیں جو صرف کھناے پینے کو ہی زندیگ کی غرض و غایت سمجھتے ہیں؛ حالانکہ زندگی کی یہ غرض نہیں۔سعدی کہتا ہے ؎
خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است
تو معتقد کہ زیستن از بہرِ خوردن است
جب انسان کا ایک اصول ہو جاوے کہ زیستن از بہر خوردن است۔اس وقت اس کی نظر خد اپر نہیں رہتی بلکہ وہ دنیا کے کاروبار اور تجارت ہی میں منہمک ہو جاتا ہے۔اور اﷲ تعالیٰ کی طرف توجہ اور رجوع کا خایل بھی نہیں رہتا۔اس وکت اس کی زندگی قابل قدر وجود نہیں ہوتی۔ایسے لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
قل ما یعبو ابکم ربی لو لا دعاو کم (الفرقان : ۷۸)
یعنی میرا رب تمہاری پروا کیا رکھتا ہے۔اگر تم اس کی بندگی نہ کرو۔
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اس ملک میں ہیضہ کی خطرناک و با پڑی تھی۔اس سے پہیل اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ یہ نظارہ دکھایا تھا۔میں نے دیکھا کہ ایک بڑا میدان ہے اور اس میں ایک بہت بڑی لمبی نالی ہے۔جس پر قصابوں نے بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور چھریان اُن کی گردنون پر رکھی ہوئی ہیں۔وہ آسمان کی طرف منہ کرکے دیکھ رہے ہیں گویا آسمانی حکم کا انتظار کرتے ہیں ۔میں پاس ہی ٹہل رہا ہوں اتنے میں مَیںنے یہ آیت پڑھی
قل ما یعبو ابکم ربی لو لا دعاو کم (الفرقان : ۷۸)
یہ آیت سنتے ہی انہوں نے چھریاں پھیردیں اور وہ بھیڑیں تڑپنے لگیں۔اُن کو تڑپتے دیکھ کر وہ قصاب بولے کہ تم کیا ہو؟ گُوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔غرض اس کے بعد ہیضہ کی وہ خطرناک وبا پڑی۔پس جو انسان خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتا اس کا رتبہا اور قدر نجاست خود بھیڑ سے زیادہ نہیں ہوتا۔
(بدر ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۴ء؁-الحکم ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۴ء؁)
دلائل ِ صداقت
بالاآخر میں پھر کہان چاہت اہوں کہ میری نسبت جو مخالف لگو مخالفت کرتے ہیں اور میرا انکارکرتے ہیں ۔اگر وہ دعائیں کرتے اور خدا تعالیٰ سے میری نسبت کشفِ حقائق چاہتے تو اُن کی آنکھیں کُھل جاتیں،مگر افسوس ہے کہ انہوں نے مخالفت میں حد سے زیادہ حصہ لیا اور میرے دعاوی پر نہ غور کی اور نہ میری کتابوں کو پڑھا اور نہ میری باتوں کو تعصب سے خالی ہو کر سنا۔وہ مجھے دجال اور مفتری تو کہتے ہیں،مگر وہ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ کیا دجال اور مفتری بھی اس قدم کی کامیابی حاصل کیا کرتے ہیں؟ یاد رکھو کہ اگر یہ انسن کا اپنا سلسلہ ہوت اتو کبھی ک تبعاہ ہو جاتا،کیونکہ اس کے تبہ کرنے میں ہر طرف سے مخالفانہ کوشش ہو رہی ہے اور جب خدا تعالیٰ کے بھی خلاف ہوتا تو وہ بھی اس کا دشمن تھا۔پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بجائے تباہ ہوین کے ترقی کر رہا یہ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ خد اکی طرف سے ہے انسانی کاروبار نہیں ہے۔تم جانتے ہو کہ میرا یہ دعویٰ آج نہیں ہوا ہے بلکہ چوبیس سال سے میں دعویٰ کر رہا ہوں کہ خد اتعالیٰ میرے ساتھ ہمکلام ہوتا ہے اور اس نے مجھے مامور کیا ہے۔
انسانی گورنمنٹ میں اگر کوئی شخص جھوٹا ملازم سرکار بنے تو وہ فوراً پکڑا اجتا ہے۔اور طزا پاتا ہے۔تو یہ کیسا اندھیر ہے کہ خدا تعالیٰ کی گورنمنٹ میں ایک شخص مامور ہونے کا مدعی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ پکڑا جاتا اور تباہ کیا جاتا،اُسے ترقی مل رہی ہے کوئی بتاوے کیا جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوت اہے۔براہینِ احمدیہ چھپی ہوئی موجد ہے۔اس شہر میں اس کے بہت سے نسخے ہوں گے۔اس کو پڑھو اور دیکھو کہ جو کچھ اس میں درج ہے کیا آج بہت سے باتیں ان میں پوری نہیں ہوچکیں؟ اور کیا کوئی منصوبہ باز کر سکتا ہے کہ اس قدر عرصہ دراز پہلے جبکہ اپنی زندیگ کا بھی اعتبار نہیں ہوتا ایک بات کہے اور پھر اتنے عرصہ کے بعد جس میں ایک بچہ پید اہو کر بھی صاحب اولاد ہو سکت اہے وہ پوری جو جاوے۔میں جانتا ہوں کہ اسی شہر میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں مجھے جاننے والے کتنے تھے۔میں سچ کہتا ہوں کہ میں ایک گمنامی کی حالت میں تھا۔سال بھر میں بھی کبھی ایک خط نہ آتا تھا،لیکن اس گمنامی کے زمانہ میں علیم و خیبر خدا نے مجھے خبر دی جو براہینِ احمدیہ میں موجود ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ فوج در فوج لوگ تیرے پاس آئیں گے۔میں لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لائوں گا اور مالی نصرتیں بھی آئیں گی اور دنیا میں تیری شہرت ہو جائے گی جیسے لکھا ہے
‏Amira 10-7-05
فحان ان تعان وتعرف بین الناس
اور پھر فرمایا
یاتون من کل فج عمیق
اور
یا تیک من کل فج عمیق
اور پھر فرمایا
لا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس
یعنی اب وقت آگیا ہے کہ تو لوگوں میں شناخت کیا جاوے اور تیری مدد کی جاوے۔تیرے پاس دور دور راہوں سے لوگ آئیں گے اور دور دراز جگہوں سے تجھے تحائف اور مالی نصرتیں آئیں گی۔
اور پھر فرمایا کہ تیرے پاس کثرت سے مخلوق آئے گی،اس لیے تو تحمل سے ان کو قبول کرنا اور ان کی کثرت سے تھک نہ جانا۔
غرض اس قسم کے بہت سے الہامات ہیں جو نہ صرف عربی زبان میں ہوئے بلکہ فارسی میں ہوئے۔اردو میں ہوئے اور انگریزی میں بھی ہوئے جس کو میں جانتا بھی نہیں اور ایک لمبا سلسلہ ان الہامات اور پیشگوئیوں کا چلا گیا ہے اور جہاں براہین ختم ہوتی ہے وہاں یہ الہام ہوا:
’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا پر خدا
اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کریگا‘‘
مجھے حیرت آتی ہے جب میں ان لوگوں کے منہ سے سنتا ہوں کہ کوئی نشان دکھائو۔ان نشانات پروہ غور نہیں کرتے اور ان کو حقیر سمجھتے ہین افسوس! اور اور نشان مانگتے ہیں۔میں یقین کرتا ہوں کہ خد اتعالیٰ قادر ہے۔وہ نشان پر نشان دکھا رہا ہے،لیکن یہ دانشمندی اور تقویٰ کا طریق نہیں ہے کہ پہلے نشانوں کو چھوڑ دیا جائے۔ان نشانوں کو سر سری نظر سے نہ دیکھو۔مولوی محمد حسین صاحب وہ شخص ہیں کہ ان سے بڑھ کر کسی نے عداوت کا نمبر نہیں لیا۔اُنہوں نے بنارس تک پھر کر کفر کا فتویٰ حاصل کیا۔اور ہر قسم کی مخالفت میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اب باوجود اس مخالفت کے اس کو قسم دیکر پوچھو کہ جب تم نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا اور یہ پیشگوئیاں اور نشان اس میں موجود تھے۔اس وقت ہمارا کیا حال تھا۔کہانتک میری شہرت تھی اور کس قدر لوگوں کو تعلق تھا۔اور کیا اب ان لہامات کے موافق یہ نسانات جو پورے ہوئے ہیں آپ بنائے گئے ہیں؟اس وقت موجود تھے یا نہیں؟اور انہوں انے پڑھے تھے یا نہیں, اگر پڑھے تھے تو پھر سچ سچ کہو کہ ایسے زمانہ میں جب یہ دعا سکھاتا ہے
رب لا تذرنی فرد اوانت خیر الوارثین (الانبیاء : ۹۰)
اور اس میں آپ گواہی دیتا ہے کہ میں اکیلا ہوں۔وہ الہامات جو جماعت کی ترقی اور میری قبولیت کے متعلق ہیں عظیم الشان نشان ہیں یا نہیں؟ اگر تعصب اور سخت دل مانع نہ ہو تو اقرار کرانا پڑے گا۔
پھراسی براہین میں یہ بھی موجود ہے کہ علماء مخالفت کریں گے کہ ترقی نہ ہو،لیکن میں ترقی دوں گا۔اور پھر سب لوگ جانتے ہیں اور ہر روز دیکھتے ہیں کہ کس قدر مخالفت ہو رہی ہے۔اور کیا اس مخالفت سے یہ سلسلہ رُک گیا یا اس نے ترقی کی؟ اگر کوئی ایسی نظیر دنیا میں موجود ہے اور کوئی شخص ایسی کتاب پیش کر سکتاہے جس میں ایک عرصہ پہلے ایسی پیشگوئیاں درج ہوں اور وہ پوری ہوئی ہوں۔یقینا یاد رکھو کہ کہ کسی مفتری اور کذاب سے ایسا سلوک نہیں کیا جاتا اور اس قدر مہلکت اور فرصت اسے نہیں دی جاتی۔اگر کوئی ایسا مفتری یا کذاب پیش کای جاوے تو ہم قبول کرلیں گے۔پھر ایسی مخالفت کے متعلق یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ ہر مخالفت کرنے والا اپنے منصوبوں اور تجویزوں میں ناکام اور نامراد رہے گا۔خواہ وہ مولوی ہو یا فقیر ہو یا امیر ہو کوئی ہو۔اور اب تک واقعات نے اس امر کو سچا ثابت کر دکھایا ہے اورمیں کھلے دل سے بیان کرتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں اور ان مکالمات پر جو میرے ساتھ ہوتے ہیں ایسا ہی یقین رکھتا ہوں جیس اکہ خد اکی دوسری کتابوں پر ایمان لاتا ہوں۔اس نے یہ بھی مجھے فرمایا ہے کہ میں تجھے بہت برکت دوں گ یہانتک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔وہ زمانہ خواہ کبھی آنے والا ہو،لیکن میںیقین رکھتا ہوں کہ اسی طرح ہوگا۔اس زمانہ کے لوگ دیکھیں گے یا اُن کے بیٹے یا اُن کے بیٹے ۔غرض یہ ہوگا ضرور۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایک نقطہ یا شوشہ نہ ٹلے گا۔
غرض یہ نشانات ہیں جن پر غور کرنا چاہیے اور ٹھنڈے دل سے سوچو کہ مفتری کو یہ تائیدیں نہیں ملا کرتیں۔پھر بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نشانات کو کیا کریں قرآنِ شریف کے خلاف مسائل پیش کیے جاتے ہیں۔مجھے ایسا کہنے والوں پر بھی افسوس آتا ہے کہ اگر اُن کا قرآنِ شریف پر ایمان ہوتا تو ہرگز ایسی بات نہ کہتے،کیونکہ ہم نے بارہ ظاہر کیا ہے۔اور کتابوں میں شائع کیا ہے کہ ہم قرآنِ شریف پر ایمان لاتے ہیں۔اگر کوئی شخص ایک آیت کا بھی انکار کرے وہ گمراہ اور جہنمی ہے جو آنحضرت ﷺ کا انکار کرے وہ کافر ہے مگر کیا کروں یہ لوگ بنی اسرائیل کی طرف جنہوں نے آنحضرت ﷺ کا انکار کیا نہیں مانتے اور انکار کرتے ہیں۔مُجھ میں اور ان میں یہی اختلاف یہ کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آیت
یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی (ال عمران : ۵۶)
کی ترتیب جو قرآن شریف میں ہے صحیح نہیں ہے مگرمیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی نسبت ایسا اعتقاد رکھنا یا گمان کرنا خطرناک بے ادبی اور شوخی ہے۔میں کہتا ہوں کہ اس آیت کی ترتیب صحیح ہے اور اسی لیے اس کے یہ معنے ہیں ہ اے عیسیٰ میں تجھے وفت دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں۔مگر یہ لوگ ا س ترتیب کو غلط (معاذاﷲ ) ٹھہراتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ رافعک الی کی جگہ رافعک الی السماء الثانیۃ چاہیے اور اس کے بعد متوفیک چاہیے۔گویا کہ ان کے اعتقاد کے موافق خد تعالیٰ کو غلطی لگی۔اس نے کہنا تو یہ تھا کہ یا عیسیٰ انی رافعک الی السماء الثانیۃ و متوفیک اور کہہ دیا یہ جو آیت میں درج ہے۔
اب میں قرآن کو چھوڑتا ہوں اور اس کے خلاف کہتا ہوں یا یہ خو د کرتے اور کہتے ہیں۔انصاف سے بولو اگر یہ تحریف نہیں تو کیا ہے۔اسی پر مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن کے خلاف یہ۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قرآن کی تحریف ہے جس سے یہودیوں پر *** پڑی اور وہ سؤر اور بندر بنے۔یہودی جو تحریف کرتے تھے۔ان کے متعلق بھی یہی فرمایا ہے
یحرفون الکلم عن مواضعہ (النساء : ۴۷)
اور جب تم بھی اسی قسم کی تحریف کرتے ہو تو قرآنِ شریف پر تمہارا اچھا ایمان یہ۔میں زور سے کہتا ہوں کہ کیا وہ دل خدا ترس ہے اور میں تقویٰ کا حصہ ہے جو خدا تعالیٰ کے کلام میں تصرف کرنا چاہتا ہے۔اگر تم سچے ہو اور تحریف نہیں کرتے تو پھر وہ حدیث صحیح پیش کرو جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہو کہ رافعک الی کی بجائے رافعک الی السماء الثانیۃ چاہیے اور یہ متوفی سے پہلے ہے۔قرآنِ شریف میں جو لکھ اہوا ہے وہ غلط ہے۔تم سُن رکھو کہ ہرگز ہرگز کوئی شخص ایسی حدیث صحیح پیش کرنے پر قادر نہ ہوگا۔
جس قدر صاحب یہاں موجود ہیں آخر ہوش وحواس رکھتے ہیں وہ انصاف سے کہیں کہ اگر کوئی شخص تمسک کو الٹ پلٹ کرتا ہے تو وہ جعلسازی کامرتکب ہوت اہے یا نہیں اور وہ اس جعلسازی کی سزا میں جیل میں بھیجا جاتا ہے۔پھر یہ اندھیر کیوں روارکھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو اُلٹ پلٹ کیا جاوے۔خد اسے ڈرو یہ بہت خطرناک دلیری ہے۔ہاں اگر صحیحین میں کوئی حدیث درج ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس طرح پر فرمایا ہے تو پیش کرو ہم مان لیں گے۔لیکن اگر تم پیش نہ کرو اور نہیں کر سکو گے تو یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ خود کہہ دو اور دوسری غلطیوں کو قرآن شریف کی ظرح بنالو۔ہم بار بار تم سے پوچھیں گے کہ بخاری یا مسلم میں دکائو کہ اس میں لکھا ہے کہ رافعک الی السماء الثانیۃ پڑھا کرو۔
دیکھو۔ان باتوں پر غور کرو۔میرا یہ مدعا نہیں کہ ہر ایک شخص محض اس وجہ سے کہ وہ میرے ساتھ عداوت رکھتا ہے اور تعصب نے اس کے جوش کو بڑھا دیا ہے بے اختیار بول اُٹھے۔اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں صرف خدا تعالیٰ کے لیے کہتا ہوں ۔انسان کی جھوٹی منطق کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔اس یے میں مقابلہ کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں،لیکن میں اپنے دل میں مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی کے لیے ایک جوش رکھتا ہوں جو اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے، اس لیے سچے دل سے کہت اہوں اور اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلمات سے مجھے خبر دی یہمت سمجھے کہ میں بیہودہ طور پر کرتا ہوں بلکہ سچ مچ یہی بات ہے۔پس جلد بازی نہ کرو کہ جلدی صحیح نتیجہ پر پہنچنے سے روک دیتی ہے۔میں جانت اہوں کہ بہت سے لوگ اپنے سیین اور دل کو تھام نہیں سکتے اور یہ مرض کثرت سے پھیل گیاہے کہ مخالفت کی وجہ سے حق بات پر بھی غور نہیں کرتے اور یونہی کوئی بات سنی منہ پر جھاگ آجاتی ہے اور پھر جو زبان پر آجاتا ہے کہہ دیتے ہیں۔مگر یاد رکھو یہ امر تقویٰ کے خلاف یہ ۔متقی کی زبان ڈرتی ہے کہ بغیر سوچے سمجھے کوئی بات منہ سے نکالے۔
میرا معاملہ اگر سمجھ میں نہیں آتا تو طریقِ تقویٰ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے دعائیں مانگو تا کہ وہ خود تم پر اصل حقیقت کھول دے۔خدا تعالیٰ کے کلام کی بے حرمتی نہ کرو؛ ورنہ طریقِ نجات بھول جانے کا اندیشہ ہے۔آج وقت ہے بصیرت سے کام لو۔
قرآنِ شریف قانونِ آسمانی اور نجات کا ذریعہ ہے۔اگر ہم اس میں تبدیلی کریں تو یہ بہت ہی سخت گناہ ہے۔تعجب ہوگا کہ ہم یہودیوں اور عیسائیوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں اور پھر قرآنِ شریف کے لیے وہی روارکھتے ہیں۔مجھے اور بھی افسوس اور تعجب آتا ہے کہ وہ عیسائی جن کی کتابیں فی الواقعہ محرف مبدل ہیں وہ تو کوشش کریں کہ تحریف ثابت نہ ہو اور ہم خود تحریف کرنے کی فکر میں!!!
دیکھو افتراء کرنے والا خبیث اور موذی ہوت اہے اور خد اتعالیٰ کے کلام میں تحریف کرنا۔یہ بھی افتراء ہے اس سے بچو۔
عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا مسئلہ
غرض قرآنِ شریف کی یہ آیت صاف طور پر مسیح کی وفات کا وعدہ دیتی ہے اور جس قدر وعدے اس آیت میں رافعک الی سے شروع ہو کر آخر تک ہیں۔وہ ہمارے مخالف بھی مانتے ہیں کہ پورے ہو گئے حالانکہ وہ سب بعد وفات ہیں ۔پھر وفت کا انکار کیوں کیا جاتا ہے۔
علاوہ بریں آنحضرت ﷺ مُجزِ صادق ہیں جو مسلمان کہلا کر بھی آپ پر ایمان نہیں لاتا ارو آپؐ کو مخبرِ صادق تسلیم نہیں کرتا وہ بڑی بد ذاتی کرتا ہے ۔آپ نے تو فرمایا ہے کہ میں نے مسیح کو دوسرے آسمان پر یحییٰ کے پاس دیکھ اہے۔اب کیا یہ آنحضرت ﷺ کی شہادت ہے یا نہیں۔اگر حضرت عیسیٰ ؑدرحقیقت وفات یافتہ نہ تھے بلکہ زندہ تے تو پھر اس سوال کا کیا جاوب ہے کہ ایک وفات یافتہ سے کیا تعلق ہے؟ ان کی تو روح بھی ابھی قبض نہیں ہوئی تھی۔ادنیٰ فہم کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ مردے کے پاس تو مردہ ہی ہو سکت اہے۔پھر یہ کیا ہوا کہ مردہ کے پاس زندہ جا بیٹھا۔یہ صرف اپنی ہی غلطی ہے۔ورنہ سچ یہی ہے کہ حضرت مسیحؑ بھی مرکر ہی یحییٰ ؑکے پاس گئے ہیں۔جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے قول سے یعنی قرآنِ شریف سے اور آنحضرت ﷺ نے اپنے فعل یعنی رؤیت سے ثابت کر دیا ۔جو اس قول اور فعل کو نہیں مانتا اسے پھر میں کیا کہوں ۔ان دو گواہوں کے بعد اور کس گواہ کی حاجت ہے۔
‏Amira 12-7-05
پھر یہاں تک ہی بات نہیں۔خود حضرت مسیح ے کا تو صاف اقرار بھی موجود ہے اور اس آیت
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (المائدۃ : ۱۱۸)
سے تو اس سارے قضیہ کا فیصلہ ہی ہو جاتا ہے۔اس آیت سے پہلی آیتوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت مسیح ؑ سے قیامت کے دن سوال کرے گا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ میری ماں کو اور مجھ کو خدا بنالو۔حضرت عیسیٰ اپنی بریت میں عرض کریں گے کہ میری کیا مجال تھی جو میں ایسی تعلیم دیتا۔میں تو جب تک اُن میں رہا اُن کو تیری توحید ہی کی تعلیم دیت ارہا جو تونے مجھے دی تھی لیکن جب تو نے مجھ کو وفات دیدی پھر تو ان پر نگران تھا۔
اب غور کا مقام ہے کہ انی متوفیک میں جو وعدہ تھا وہ اس آیت فلما توفیتنی سے پورا ہوتا ہے۔
ماسوا اس کے یہ آیت حضرت مسیح ؑ کی موت اور ان کی دوبارہ آمد کے متعلق ایک فیصلہ کن آیت ہے اور یہ اس قرآن کی آیت ہے جس کا حرف حرف محفوظ ہے اور جس کی حفاظت کا ذمہ دار خود اﷲ تعالیٰ ہے جیس اکہ اس نے فرمایا
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
افسوس مسلمانوں نے اس کتاب کی قدر نہیں کی۔اس آیت میں حضرت مسیح ؑ نے اپنی بریت دو صورتوں سے کی ہے۔اول تو یہ کہ میری زندگی میں عیسائی نہیں بگڑے کیونکہ میں ان کو توحید کی تعلیم دیتا رہا۔دوم جب مجھے وفات دیدی مجھے کچھ خبر نہیں۔
اب غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت مسیح ابھی تک زندہ ہی ہیں۔تو صاحبو! پھر اُن کے اس اقرار کے موافق یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ابھی تک عیسائی بگڑے بھی نہیں اور جو تعلیم وہ پیش کرتے ہیں وہ صحیح ہے حالانکہ یہ واقعاتِ صحیح کے خلاف یہ۔عیسائی ضرور بگڑ چکے ہیں۔
صاحبو! اگر مسلمانوں کے اس خیالی عقیدہ زندہ آسمان پر جانے کو لے کر اور اس آیت کے موافق عیسائی مسلمانوں پر اعتراض کریں کہ ہماری تعلیم تمہارے اقرار کے موافق بگڑی نہیں ہے تو کیا جواب ہو سکت اہے۔کیونکہ یہ امر تو حضرت مسیحے کی زندگی سے وابستہ ہے اور زندگی تعلیم ہے تو ھپر دوسری تعلیموں کے انکار کے لیے کیا عذر یہ۔میں سچ کہتا ہوں کہ مسلمانوں کی خیر اسی میں ہے کہ وہ قرآن شریف پر ایمان لاویں اور وہ یہی ہے کہ مسیح ؑکی وفات پر ایمان لاویں۔
دوسری بات جو اس آیت میں فیصلہ کی گئی ہے وہ ان کی دوبارہ آمد کا مسئلہ یہ۔مسلمانوں میں غلطی سے یہ عقیدہ مشہور ہو گیا ہے جس کی کوئی اصل نہیں کہ وہی مسیح ابنِ مریم دوبارہ آسمان سے نازل ہوںگے اور چالیس برس تک اس دنیا میں رہیں گے۔صلیبوں کو توڑیں گے اور کافروں سے جنگ کریں گے۔وغیرہ وغیرہ۔
اب غور کا مقام ہے کہایک نبیٔ صادق کی نسبت یہ عقیدہ رکھنا کہ اس نے جھوٹ بولا یہ تو بے ایمانی ہے۔ایک شخص اگر عدالت کے سامنے جھوٹ بولے تو وہ حلفِ دروغی کی سزا پاتا ہے۔پھر علیم و خبیر عالم الغیب خد اکے حضور قیامت کے دن کسی نبی کو جھوٹ بولنے کی جرأت کب ہو سکتی یہ؟ ہرگز نہیں لیکن یہ عقیدہ جو میں نے ابھی بیان کیا ہے۔تسلیم کر لیا جاوے اور اس کوصحیح مانا جاوے تو پھر قرآن شریف چھوڑنا پڑے گا اور حضرت مسیح کا معاذ اﷲ خدا تعالیٰ کے حضور قیامت کے دن جھوٹ بولنے والا قرار دینا پڑے گا۔کیونکہ اگر یہ سچ ہے کہ وہی مسیح اُتر آئے گا، تو پھر خدا تعالیٰ کے سامنے ان کا یہ جواب کہ
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم
صحیح نہیں۔کیونکہ ان کو تو اس وکت یہ کہنا چاہیے کہ چالیس سال تک آسمان سے اُتر کر پھر زمین پر رہا اور میں نے جنگیں کیں، صلیبیں توڑیں اور شریروں کو مارا۔کفار کو مسلمان کیا۔حالانکہ ان کے جاوب میں ان باتوں میں سے کسی کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا۔پھر خدا کے واسطے سوچ کر جواب دو۔کیا تم یہ تجویز نہ کرو گے کہ حضرت مسیح نے معاذ اﷲ جھوٹ بوال؟ او ر کیا یہ نبی کی شان ہے کہ خدا کے سامنے جھوٹ بولے؟ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے اور قرآن پر حملہ کرتا ہے وہ بدذات اور جہنمی ہے۔ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ملعون ہیں جو رسمی بات کے لیی قرآن شریف پر حملہ کرتے ہیں۔
پس یہ آیت مسیح کی وفات اور ان کی دوبارہ آمد کے متعلق قول فیصل ہے۔اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ وفات پا چکے ہیں اور وہ دوبارہ نازل نہیں ہوں گے اور قرآن شریف سچا ہے اور حضرت مسیح ؑکا جواب بھی سچا ہے۔ہاں یہ امر کہ آنے والے مسیح سے پھر کای مراد ہے تو یاد رکھو جو کچھ خد اتعالیٰ نے مجھ پر ظہار کیا او راپنی تائیدوں اور نصرتوں اور نشانوں کے ساتھ اُسے ثابت کای۔وہ یہی ہے کہ آنیوالا اسی اُمت کا ایک فرد کامل ہے اور خدا تعالیٰ کی کھلی کھلی وحی نے ظاہر کای ہے ہ وہ آنے والا میں ہوں جو چاہے قبول کرے ۔میرا یہ دعویٰ نرا دعویٰ نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ زبردست ثبوت ہیں جو ایک سلیم الفطرت اور متقی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
مامور کی صداقت ثابت کرنے کے تین ذرائع
یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی مامور کو بھیجتا ہے تو تین ذریعوں سے اس کی سچائی کو ثابت کرتا اور اتمام حجت کرتا ہے۔
اول-نصوص کے ذریعہ یعنی شہادتوں سے اتمامِ حجت کرتا ہے۔
دوم-نشانات کے ذریعہ جو اس کی تائید میں اور اس کے لیے ظاہر کیے جاتے ہیں۔
سوم- عقل کے ذریعہ۔
بعض اوقات یہ تینوں ذریعے جمع ہو جاتے ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سب ذریعے میری سچائی کو ثابت کر رہے ہیں۔
پس نصوص کے لیے یاد رکھو کہ آنحضرت ﷺ نے بخاری اور مسلم میں جس آنے والے کی خبر دی یہ اس کے لیے یہی فرمایا ہے کہ وہ اسی اُمت میں سے ہوگا؛ چنانچہ بخاری اور مسلم میں منکم کا لفظ موجود ہے کہیں بھی نہیں فرمایا کہ من بنی اسرائیل ۔ اور قرآن شریف میں سورۂ نور میں استخلاف کے وعدہ میں بھی منکم ہی فرمایا ہے۔اب بتائو کہ قرآن اور حدیث کے نصوص آنے والے کو اسی امت سے ٹھہراتے ہیں یا باہر سے لاتے ہیں۔اور قرآن شریف یہی زمانہ مسیح موعود کے آنے کا ٹھہراتا ہے۔
دوم نشانات:وہ نشانات جو میری تائید میں ظاہر ہو چکے ہیں اور جو میرے ہاتھ پر پورے ہوئے ہیں۔اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے زندہ گواہ اس وقت لاکھوں انسان موجو د ہیں۔میں نے اپنی کتاب نزول المسیح میں ڈیڑھ سو کے قریب نشان لکھے ہیں اور بعض کا میں نے ابھی ذکر بھی کیا ہے تا ہم وہ نشان جو میرے لیے ظاہر ہوئے وہ بھی تھوڑے نہیں ہیں۔اور انسانی طاقت میں یہ نہیں کہ وہ ان باتوں کو اپنے لیے خود جمع کرلے۔
قرآن شریف سے ثابت ہے کہ مسیح موعود اس وقت آئے گا جب چھ ہزار سال کا دور ختم ہوگ ااور عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک وہ وقت آگیا ہے۔
پھر قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے اور احادیث صحیحہ اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک نئی سواری پید اہوگی جس سے اونٹ بیکا رہو جائیں گے ۔جیس اکہ قرآن شریف میں ہے
واذا العشار عطلت (التکویر : ۵)
اور حدیث صحیح میں ہے۔
ولیتر کن القلاص فلا یسعی علیہا
اب آپ لوگ جانتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بھی ریل تیار ہو رہی ہے۔اس عظیم الشان پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اخبار والے نے لکھا ہے کہ مکہ مدینہ والے بھی یہ نظارہ دیکھ لیں گے کہ اونٹوں کی قطاروں کی بجائے ریل گاڑی وہاں ثے گی۔قرآن شریف میں جو فرمایا واذاالعشار عطلت اس کے متعلق نواب صدیق حسن خاں نے لکھ اہے کہ عشار حاملہ اونٹنی کو کہتے ہیں اس لیے یہ لفظ اﷲ تعالیٰ نے اختیار فرمایا تا کہ یہ سمجھ آجاوے کہ اسی دنیا کے متعلق ہے کیونکہ حاملہ ہونا تو اسی دنیا میں ہوتا ہے۔
اسی طرح نہروں کا نکالے جانا۔چھاپے خانوں کی کثرت اور اشاعت کتب کے ذریعوں کا عام ہونا، اس قسم کے بہت سے نشن ہیں جو اس زمانہ سے مخصوص تھے اور وہ پورے ہو گئے ہیں۔ایسا ہی کسوف و خسوف کا نسان جو رمضان میں ہوا۔یہ حدیث اکمال الدین اور دارقطنی میں موجود ہے۔پھر حج کا بند ہونا بھی نشان تھا وہ بھی پورا ہوا ۔ایک ستارہ نکلنے کی نشانی تھی وہ بھی نکل چکا۔طاعون کا نشان تھا وہ بھی پورا ہو گیا۔
غرض میں کہانتک بیان کرتا جائوں یہ ایک لمبا سلسلہ ہے۔طالب حق کے لیے اسی قدر کافی ہے۔
پھر تیسرا ذریعہ عقل ہے اگر عقل سے کام لیا جاوے اور زمانہ کی حالت پر نظر کی جاوے تو صاف طور پر ضرورت نظر آئی ہے۔غور سے دیکھو اسلام کی حالت کیسی کمزور ہو گئی ہے۔اندرونی طور پر تقویٰ طہارت اُٹھ گئی ہے۔اور امرو احکام ِ الٰہی کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور ارکان اسلما کو ہنسی میں اُڑایا جاتا ہے اور بیرونی طور پر یہ حالت ہے کہ ہر قسم کے معترض اس پر حملہ کر رہے ہیں اور اپنی جگہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کا نام و نشان مٹادیں۔
غرض جس پہلو سے دیکھو۔اسلام کمزور ہو گیا ہے۔وہ اسلما جس میں ایک بھی مرتد ہو جاتا تو قیامت آجاتی ۔اس میں تیس لاکھ مرتد ہو چکا ہے کیا ایسی حالت میں اﷲ تعالیٰ کا وعدہ
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر ص: ۱۰)
پورا نہ ہوتا؟ اگر اب اسلام کی خبر نہ لی جاتی تو پھر اور کونسا وقت آنے والا تھا؟
پس از آنکہ من نہ مانم بچہ کار خواہی آمد
کیا خد اتعالیٰ اس وقت نصرت کرے گا جب یہ نام مٹ جائے گا؟ ایک طرف حدیث میں یہ وعدہ کہ ہر صدی پر مجدد آئے گا مگر اس وقت جو عین ضرورت کا وقت ہیکہکوئی مجدد نہ آئے؟ تعجب ہے تم کیا کہہ رہے ہو۔حضرت موسیٰ علیہ السلم کا تو وہ زمانہ کہ اس میں متواترنبی آتے رہے اور یہ امت جو خری الامت کہلاتی ہے اور خاتم الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت ہے۔باوجود اُمت مرحومہ کہلانے کے اس میں جب آئے تو دجال آئے اور پھر ایک دو نہیں تیس دجال۔گویا خدا کو خطرناک دشمنی ہے۔وہ اس کو ایسا تباہ کرنا چاہتا ہے کہ نام و نشنا نہ رہے۔افسوس میری مخالفت میں یہ لوگ ایسے اندھے ہوئے ہیں کہا ﷲ تعالیٰ کے حضور شوخی اور بے ادبی کرنے سے باز نہیں آتے۔اس کو عملی طور پر وعدوں کا قرار دیتے ہیں ارو رسول اﷲ ﷺ کی ہتک شان کرتے ہیں۔
‏Amira 17-7-05
وفاتِ مسیح علیہ السلام
دیکھو میں کھول کر کہتا ہوں کہ تم اپنے نفسوں پر رحم کرو۔اس پیغمبر کی شان میں جو افضل الرسل ہے یہ بے ادبی نہ کرو کہ حضرت مسیح کو اس سے افضل قرار دو۔کیا تم نہیں جانتے کہ آپؐ کی وفات پر صحابہؓ کی کیا حالت ہوئی تھی۔وہ دیوانہ وار پھرتے تھے۔آپؐ کی زندگی کو اتنی عزیز تھی کہ حضرت عمرؓ نے تلوار کھینچ لی تھی کہ اگر کوئی آپ کو مردہ کہے گا تو میں اس کا سر اُڑادوںگا۔اس شور پر حضرت ابو بکرؓ آئے اور اُنہوں نے آگے بڑھ کر آپ ؐ کی پیشانی پر بوسہ دیا کہ آپؐ پر خدا تعالیٰ دو موتیں جمع نہ کریگا اور پھر یہ آیت پڑھی
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران : ۱۴۵)
یعنی آنحضرت ﷺ بھی ایک رسول ہیں۔پہلے جس قدر رسول آئے ہیں۔سب وفات پا گئے ہیں۔صحاہؓ نے جب اس آیت کو سنا تو انہیں ایسا معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت اب اتری ہے۔اُنہوں نے معلوم کیا کہ آپؐ کے مقابلہ میں کوئی اور زندہ نہیں ہے۔تم میں وہ عشق اور محبت نہیں جو صحابہ کو آنحضرت ﷺ سے تھے؛ ورنہ تم یہ کبھی روانہ رکھتے کہ مسیح کو آنحضرت ﷺ کے مقابل زندہ کہتے۔میں سچ کہتا ہوں کہ اگر صحابہؓ کے سامنے اس وقت کوئی کہتا کہ حضرت عیسیٰ ؑزندہ ہیں تو اُن میں سے ایک بھی زندہ نہ رہتا وہ اس قدر آپؐ کے عشق اور محبت میں فنا شدہ تھے۔حسان بن ثابتؓ نے اس موقعہ پر ایک مرثیہ لکھا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں:
کنت السوادلناظری-فعمی علیک الناظر ۔ من شاء بعدک فلیمت-فعلیک کنت احاذر
یعنی اے میرے پیارے نبی تُو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا اور میرے دیدوں کا نور تھا پس میں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا۔اب تیرے بعد میں دوسروں کی موت کا کای غم کروں۔عیسیٰ ؑ مرے یا موسیٰ ؑمرے۔کوئی مرے۔مجھے تو تیرے ہی مرنے کا غم تھا۔صحابہؓ کی تو یہ حالت تھی۔مگر اس زمانہ میں اپنے مُنہ سے اقرار کرتے ہیں کہ نہیں افضل الانبیاء وفات پا گئے اور حضرت مسیح زندہ ہیں۔افسوس مسلمانوں کی حالت کیا ہسے کیا ہو گئی۔میں خوب جانتا ہوں اور اس واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کا پہلا اجماع مسیح کی وفات ہی پر ہوا تھا۔پھر اُن کے خلاف کرنا یہ کونسی عقلمندی اور تقویٰ ہے۔میں یہ مانتا ہوں۔کہ یہ غلطیاں امتدادِ زمانہ کی وجہ سے ہیں۔تقویٰ نہین رہا۔جہالت بڑھ گئی ہے۔روبحق ہونا کم ہو گیا ہے۔راہِ راست محجوب ہو گیا ہے اور یہی امور ہیں جو میری ضرورت کے داعی ہیں’میں آخر میں پھر کہت اہوں کہ ان باتوں پر غور کرو۔اپنے گھروں میں جا کر تنہائی میں سوچو کہ تم چاہتے ہو کہ اسلام اور سو سال تک آفتوں کا نشانہ بنا رہے اگر اب تک کوئی نہیں آیا تو ھپر صدی کا سر تو چلا گیا۔بائیس برس گذر چکے۔اب اور سو سال تک آفتوں کا نشانہ بنا رہے اگر اب تک کوئی نہین آیا تو ھپر صدی کا سر تو چلا گیا۔بائیس برس گذر چکے۔اب اور سو سال تک انتظار کرو۔لیکن یاد رکھو کہ اگر مجھے قبول نہ کرو گے تو پھر تم کبھی بھی آنے والے موعود کو نہیں پائو گے۔
میں نے اتنی باتیں کی ہیں۔بعض مخالفوں کو فائدہ کی بجائے جوش آئے گا اور وہ ہارجیت کی طرھ توجہ کریں گے یہ نہیں کہ رو رو کر دعائیں کریں اور اﷲ تعالیٰ سے توفیق اور مدد چاہیں۔میری یہی نصیحت ہے،کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دو ارو خدا ترسی سے ان باتوں پر غور کرو اور تنہائی میں سوچو اور آخر اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ دعائیں سنتا ہے۔؎ٰ
۲؍ستمبر ۱۹۰۴ء؁
بمقام لاہرو
ایک روح پر ورمجلس کی روئیداد
بعد نماز جمعہ حضرت عقدس ؑ زائرین اور مشتاقانِ زیارت کے اصرار و خواہش پر اجلاس فرما ہوئے۔حاضرین میں سے ہر ایک دوسرے سے پہلے آگے بڑھنا چاہتا تھا ان کے بڑھے ہوئے جوشِ زیارت اور شوقِ ارادت مٰں انتظام کا ہوان آسان نہ تھا۔دھکے پر دھکا کھاتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔آخر جب حضرت کا حکم سنا کہ بیٹھ جائو۔جو جہاں کھڑا تھا۔وہیں بیٹھ گیا۔وہ نظارہ جن لوگوں نے دیکھ اہے اس کا لطف اور اثر کچھ وہی دل محسوس کر سکتے ہیں۔حضرت حجۃ اﷲ کے انفاس طیبہ کا کچھ ایسا اثر پڑ رہا تھا کہ اس مجمع پر نگاہ ڈالنے سے اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا پتہ لگتا تھا ارو صاف سمجھ میں آتا تھا کہ یہ جذ اور کشش کسی مفتری اور کذاب کو نہیں دیا جاتا۔آپ خاموس بیٹھے تھے کہ خاکسار ایڈیٹر الحکم نے ایک اادت مند کی طرف سے عرض کیا کہ وہ کچھ سنانا چاہت اہے۔فرمایا؍
ہاں سنا دو
اس پر اس شخص نے نہایت پر درد اور پر جوش لہجہ میں بزبانِ پنجابی کچھ اشعار سنائے جن میں حضرت حجۃ اﷲ کی بعثت، آپ کی صداقت پر بحث ھی اور بالآخر اہل لاہور کو خطاب تھا کہ دیکھو مسیح موعود تمہارے گھر مہمان ہو کر آیا ہے۔تمہارا فرض تو یہ ہیکہ تم اس کا اکرام کرو نہ یہ کہ سب و شتم سے کام لو۔مہمانوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک مناسب نہیں ۔اور پھر طاعون یک زور آور حملوں سے ڈرایا تھ۔یہ نظم بہت ہی مؤثر اور رقت خیز تھی جس کو سنکر اکثر حاضرین رو رہے تھے۔نظم ختم ہو جانے کے بعد حضرت اقدس ؑ نے ذیل کی تقریر فرمائی۔ (ایڈیٹر)
پیدائشِ انسانی کی غرض
تمام مسلمان جو یہاں اکٹھے ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک کی غرض دین ہے۔یہ میں جانتا ہوں کہ کوئی تھوڑا جوش رکھتا ہے کوئی زیادہ ۔لیکن کچھ نہ کچھ غرض دین کی رکھتا ضررور ہے۔یقینا سمجھو کہ ہر شخص اپنے اندازہ کے موافق عمر کا ایک حضہ کھا چکا ہے۔بڑی عمر ہو گئی ہے تب بھی تھوڑے دن باقی ہیں اور تھوڑی ہے تب بھی تھورے ہی باقی ہیں۔کیونکہ گذرنے والے زمانہ کو ہمیشہ تھوڑا خیال کیا جاتا ہے۔پس یاد رکھو کہ انسان جو اس مسافر خانہ میں آتا ہے اس کی اصل غرض کیا ہے؟ اصل غرض انسنا کی خلقت کی ؎یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے۔اور اس کی فرمانبرداری کرے جیس اکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔
ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات : ۵۷)
میں نے جن اور انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔مگر افسوس کی بات ہیکہ اکثر وگ جو دنیا میں آتے ہیں بلغ ہوین کے بعد بجئے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندیگ کی غڑض اور غایت کو مد نظر رکھیں، وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خد اکا حضہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے د میں تو ہتوا ہی نہیں۔وہ دنیا ہی میں منہمک او رفنا ہو جاتے ہیں’انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے ہاں اس وقت پتہ لگتا ہے جب قابض ارواح آکر جان نکال لیت اہے۔پس اس دھوکا سے خبردار رہو۔ایس انہ ہو کہ مرنے کا وقت آئاوے اور تم خالی کے خالی ہی رہو۔یہ شعر اچھا کہا ہے ؎
مکن تکیر بر عمر ناپائدار
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
ایک دفعہ ہی پیام موت آجاتا ہے اور پتہ نہیں لگتا۔انسانی‘ ہستی بہت ہی ناپائدار ہے۔ہزار ہا مرضیں لگی ہوئی ہیں۔بعض ایسی ہیں کہ جب دامنگیر ہو جاتی ہیں تو اس جہاںن سے رخت کر کے ہی رخصت ہوتی ہیں۔
جبکہ حالت ایسی نازک اور خطرناک ہے تو ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک خدا سے صلح کخرلے۔اسلام نے جو خدا پیش کای ہے اور مسلمانوں نے جس خد اکو مانا ہے وہ رحیم،کریم ،حلیم،تواب اور غفار ہیجو شخص سچی توبہ کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے گنہ بخش دیت ہے۔لیکن دنای میں خواہ حقیقی بھائی بھی ہو یا کوئی اور قریبی عزیز اور رشتہ دار ہو وہ جب ایک مرتبہ قصوردیکھ لیت اہے۔پھر وہ اس سے خواہ باز بھی آئاوے مگر اُسے عیبی سمجھتا ہے لیکن ال تعالیٰ کیسا کریم ہیکہ انسان ہزاروں عیب کر کے بھی رجوع کرت اہے تو بخش دیتا ہے۔دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے بجز پیغمبروں کے (جو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں) جو چشم پوشی سے اس قدر کام لے بلکہ عام طور پر تویہ حالت ہے جو سعدی نے کہا ہے ؎
خدا داند و بپوشد و ہمسایہ نداند و بخروشد
پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم السان صفت ہے۔یہ بالکل سچ ہیکہ اگر وہ مؤاخذہ پر آئے تو سب کو تبہ کرودے،لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے۔
اسلام اور دوسرے مذاہب میں خد اکا تصور
یہ دین یعنی اسلام جو سچا مذہب ہے اور جو نبی کریم ؐ کے ذریعہ ہم کو ملا ہے اس کی سچائی کی یہ زردست علمات ہے کہ انسنای ضمیر اور فطرت جس قسم کا خدا چاہتی ہے قرآن نے ویسا ہی خدا پیش کیا ہے یعنی اس قسم کے صھات سے متصف اسے بیان کیا ہے۔لیکن چونکہ مقابلہ کے بغیر کسی کی خوبی اور عمدگی کا پتہ نہیں لگ سکتا ۔اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر مقابلہ دوسرے مذاہب سے کیا جاوے؛ اگر چہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ قرآن شریف سے ایسا ہی ثابت ہوت اہے کہ کل عالم کا یاک ہی خدا ہے۔لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مثلاؔ ہندوؤن کا خدا۔تو اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ وہ خدا جو اپنے خیالات اور عقائد کے موافق ہندوئوں نے پیش کای ہے یا عیسئای جس قسم کا تسلیم کرتے ہیں۔نعوذ باﷲ یہ کبھی بھی خایل نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی اور خد اکی مخلوق ہیں۔
غرض جب ہم اس خد کا مقابلہ ان خدائوں سے (جو دوسرے لوگوں نے پیش کیے ہیں) کرتے ہیں تو صاف طور پر اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ خد اجو قرآن شریف نے یا اسلام نے پیش کای ہے وہی حقیقٰ خد اہے۔مثلاؔ اسی مسئلہ عفو گناہ سے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے۔خواہ انسان کتنے ہی گناہ کرے ،لیکن جب سچے دل سے توبہ کر لے اور آئندہ کے لیے گناہوں سے باز آجاوے تو اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے،لیکن اس کے بالمقابل ہندوئوں نے جس خدا کو پیش کیا ہے وہ اس کے متعلق ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایسا خد اہے کہ وہ ایک گنہ کے بدلے کروڑوں جونوں میں ڈالتا ہے اور جوئیں۔پسو۔درند۔چرند یہانتک کہ پانیا ور ہوا کے کیڑے یہ سب انسان ہی ہیں جو اپنیشامتِ اعمال کی وجہ سے سزائیں بھگتنے کے واسطے ان جونوں میں آئے ہوئے ہیں۔دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ جس قدر مخلوقات انسان کے گناہوںکے طفیل ہے اور خدا تعالیٰ کو (معاذاللہ )اب تک ان پر کوئی رحم نہیں آتا اور وہ ایسا سخت دل پرمیشر ہے کہ وہ رحم کر ہی نہیں سکتا ۔
‏Adeeba 25-7-05
جب یہ عقیدہ رکھا جائے گاکہ ہر ایک گناہ کی سزامیں کئی کروڑ جُونوں میں جانا پڑے گاتو گناہ کی معافی اور رحم پرمیشر میں کہاں پایا گیا؟کیونکہ جُونوں کے اس چکر سے تو کبھی نجات ہی نہیں ہے ؛حالانکہ فطرتِ انسانی ایک ایسا خدا چاہتی ہے جو انسانی کمزوریوں پر رحم کرتا ہو ۔اور انسان کے نادم اور تائب ہونے پر اس کے قصوروں کو معاف کر دے ۔کیونکہ خود انسان میں بھی یہ وصف ایک حد تک پایا جاتا ہے ۔پھر تعجب کی بات ہوگی کہ انسان تو توبہ اور معافی پر قصور معاف کر دے اور خداتعالیٰ ایسا کینہ توز(معاذاللہ)ہو کہ اسے کسی طرح رحم ہی نہ آوے؟یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے بلکہ صحیح اعتقاد ہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے کہ خداتعالیٰ بڑا ہی کریم اور رحیم ہے اور وہ سچّے رُجوع اور حقیقی توبہ پر گناہ بخش دیتا ہے ۔اس کے بالمقابل عیسائی جو کچھ پیش کرتے ہیںوہ اور بھی عجیب ہے۔وہ خدا تعالیٰ کو رحیم تو مانتے ہیں اور کہتے ہین کہ وہ رحیم ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ رحم بلا مبادلہ نہیں کرسکتا جب تک بیٹے کو پھانسی نہ دے لے اس کا رحم کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔تعجب اور مشکلات بڑھ جاتی ہیں ۔جب اس عقیدہ کے مختلف پہلوؤںپر نظر کی جاتی ہے اور پھر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پھانسی بھی دیا۔لیکن یہ نسخہء رحم پھر بھی خطا ہی گیا سب سے پہلے تو یہ کہ یہ نسخہ اس وقت یاد آیاجب بہت سی مخلوق گناہ کی موت سے تباہ ہو چکی اور ان پر کوئی رحم نہ ہو سکا،کیونکہ پہلے کوئی بیٹا پھانسی پر نہ چڑھااور علاوہ بریں اگرچہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ زیدؔ کے سر میں درد ہوا اور بکرؔ اپنا سر پتھر سے پھوڑے اور یہ سمجھا جاوے کہ اس نسخہ سے زیدؔکو آرام آجاوے گالیکن اس کو بفرض ِمحال مان کر بھی اس نسخہ جو اثر ہوا ہے وہ تو بہت ہی خطر ناک ہے ۔جب تک یہ نسخہ استعمال نہیں ہوا تھا۔اکثر لوگ نیک تھیاور توبہ اور استغفار کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔مگر جب یہ نسخہ گھڑا گیاکہ ساری دنیا کے گناہ خدا کے بیٹے کی پھانسی پانے کے ساتھ معاف ہو گئے تو اس سے بجائے اس کے کہ گناہ رکتا، گناہ کا ایک اور سیلاب جاری ہو گیا اور وہ بندہ جو اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے خوف اور شریعت کا لگا ہوا تھا ٹوٹ گیا۔جیسا کہ یورپ کے حالات سے پتہ لگتا ہے کہ اس مسئلہ نے وہاں کیا اثر کیا ہے اور فی الحقیقت ہونا بھی یہی چاہئے تھا۔پھر جب یہ بات ہے اور حالت ایسی ہے تو ہم کیونکر تسلیم کریں کہ وہ خدا جو اس رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا وہ حقیقی خدا ہے۔
‏Amira 26-7-05
اس قسم کی غلط تعلیمیں دنیا میں جاری ہو چکی ہیں اور حقیقی خدا کا چہرہ چھپا ہوا تھا۔جو اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا۔آپؐ نے آکر دنیا کے سامنے وہ خد اپیش کیا جو انسانی کانشنس اور فطرت چاہتی ہے اور اس کا پورا پورا بیان خد اتعالیٰ کی سچی کتاب قرآن مجید میں ہے۔
مسلمانوں سے خصوصی خطاب
میں اس وقت دوسرے لوگوں کو جو مسلمان نہیں ہیں الگ رکھ کر صرف ان لوگوں کے متعلق کچھ کہوں گا جو مسلمان ہیں اور انہیں سے خطا ب کروں گا
یا رب ان قومی اتخذواھذاالقران مہجورا (فرقان : ۳۱)
یاد رکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے۔عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ توبہت دور پڑے ہوئے ہیں،لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے۔اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے۔اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اُسے پڑھا ہی نہیں۔پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لاپروا ہیں اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفیٰ اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہوین اور بہت سی امراض میں مبتلا ہوین کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا، تو یہ اس کی کیسی بد قسمتی اور جہالت ہے۔اُسے تو چاہیے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اُس کے لُطف اور شفا بخش پانی سے خظ اُٹھاتا۔مگر باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔اور اس وقت تک اُس سے دور رہتا ہے جو متو آکر خاتمہ کر دیتی ہے۔اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیون اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہیے۔مگر نہیں۔اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی۔ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خد اتعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بُلاوے تو اُسے کذاب اور دجال کہا اجتا ہے۔اس سے بڑھ کر اور کای قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی۔
مسلمانوں کو چاہیے تھا اور اب بھی اُن کے لیے یہی ضروری ہیکہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں۔اور پھر دیکیھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح اُن کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے۔کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے لیے یہ ایک نیک راہ پدیا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اُٹھائیں۔
یقینا یاد رکھو کہ جو شخص سچے دل سے اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پاک کتاب پر عمل کرتا اور رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت کرتا ہے،تو اﷲ تعالیٰ اس کو لا انتہا برکات سے حصہ دیت اہے۔ایسی برکات اُسے دی جاتی ہیں جو اس دنیا کی نعمتوں سے بہت ہی۹ بڑھ کر ہوتی ہیں۔ان میں سے ایک عفو گناہ بھی ہے کہ جب وہ رجوع کرتا اور توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔دوسرے لگو اس نعمت سے بالکل بے بہرہ ہیں اس لیے کہ وہ اس پرا عتقاد ہی نہیں رکھتے کہ توبہ سے گناہ بھی بخشے جایا کرتے ہیں۔اُن میں سے بعض تو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ہم کو جونوں میں جونوں میں جانا پڑے گا اور معافی نہیں مل سکتی۔عیسائیوں کے اصول کے موافق مسیح کے خون پر ایک بار ایمان لا کر اگر گناہ ہو جاوے،تو پھر صلیبِ مسیح کوئی فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ مسیح دو مرتبہ صلیب پر نہیں چھے گا تو کای یہ بات صاف نہیں ہے کہ ان دونوں کے لیے بخشے جانے اور نجات کی راہ بند ہے کیونکہ صدورِ گناہ تو رُک نہیں سکتا۔اگر خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کا شکر نہ کرے تو یہ بھی گناہ یہ اور غفلت کرے تو یہ بھی گناہ ہے اور ان گناہوں پر بھی جونوں میں جانا پڑے گا یا مسیح کو دوبارہ صلیب نہیں دیا جائے گا، اس لیے کُلّی طور پر مایوس ہونا پڑے گا ،مگر اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم نہین دی۔ان کے لیے ہر وقت توبہ کا دروازہ کھُلا ہے۔جب انسنا اس کی طرف رجوع کرے اور اپنے پچھلے گناہوں کا اقرار کرکے اس سے خواستگارِ معافی ہو اور آئندہ کے لیے نیکیوں کا عزم کرے تو اﷲ تعالیٰ اُسے معاف کر دیتا ہے۔
سچی توبہ اور رجوع الیٰ اﷲ کی نصیحت
اس لیے میں کہتا ہوں کہ میری باتوں کو متوجہ ہو کر سنو۔ایسا نہ ہو کہ یہ باتیں صرف تمہارے کان تک ہی رہ جائیں اور تم اُن سے کوئی فائدہ نہ اٹھائو اور یہ تمہارے دل تک نہ پہنچیں۔نہیں بلکہ توجہ سے سنو اور اُن کو دل میں جگہ دو اور اپنے عمل سے دکھائو کہ تم نے اُن کو سرسری طور پر نہیں سنا اور اُن کا اثر اسی آن تک نہیں بلکہ گہرا اثر ہے۔
اس بات کو بخوبی یاد رکھو کہ گناہ ایسی زہر ہے جس کے کھانے سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور نہ صرف ہلاک ہی ہوت ہے بلکہ وہ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے رہ جاتا ہے اور اس قابل نہیں ہوتا کہ یہ نعمت اس کو مل سکے۔جس جس قدر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے۔اسی اسی قدر خدا تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ روشنی اور نور جو خد اتعالیٰ کے قرب میں اُسے ملنی تھی اس سے پرے ہٹتا جاتا ہے اور تاریکی میں پڑ کر ہر طرف سے آفتوں اور بلائوں کا شکار ہو جاتا ہے۔یہانتک کہ سب سے زیادہ خطرناک دشمن شیطان اس پر اپنا قابو پا لیتا ہے اور اُسے ہلاک کر دیتا ہے۔لیکن اس خطرناک نتیجہ سے بچنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایک سامان بھی رکھا ہوا۔اگر انسان اس سے فائدہ اُٹھائے تو وہ اس ہلاکت کے گڑھے سے بچ جاتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے قرب کوپاسکت اہے۔وہ سامان کیا ہے۔رجوع الی اﷲ یا سچی توبہ۔خدا تعالیٰ کا نام تواب ہے۔وہ بھی رجوع کرتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے،تو اﷲ تعالیٰ سے دور ہو جات ہے اور خد اتعالیٰ اس سے بعید ہوتا ہے۔لیکن جب انسان رجوع کرتا ہے یعنی اپنے گناہوں سے نادم ہو کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف جھُکتا ہے تو اس کریم رحیم خدا کا رحم اور کرم بھی جوش میں آتا ہے اوروہ اپنے بندہ کی طرف توجہ کرتا ہے اور رجوع کرتا ہے۔اس لیے اس کا نام تواب ہے۔پس انسان کو چاہیے کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ اس کی طرف رجوع برحمت کرے۔
شامتِ اعمال
انسان جس قدر مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اور دنیا میں اس پر آفتیں آتی ہیں۔یہ سب شامتِ اعمال ہی سے آتی ہیں۔میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ لوگ ایک دھوکہ میں پڑ جاتے ہیں کہ ہم پر اگ مصیبتیں آئیں تو کای ہوا؟ انبیاء علیہم السلام پر بھی مصیبتیں آئی ہیں۔لیکن وہ نہیں جانتے کہ انبیاء علیہم السلام کی مصیبتوں اور تکلیفوںس ے ان کی مصائب اور مشکلات کو کوئی نسبت نہیں۔انبیاء علیہم السلام کی مصائب میں لذت ہوتی ہے۔وہ قربِ الٰہی کے بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں۔ان سے محبت بڑھتی ہے اور ان کا فوق العادت استقلال اور رضا وتسلیم اعلیٰ درجہ کی معرفت کا باعث بنتا ہے۔برخلاف اس کے یہ مصیبتیں اور بلائیں وبائیں جو گناہ کی شامت سے آتی ہیں اُن میں درد اور تکلیف کے علاوہ خد اسے بُعد ہوتا ہے اور ایک تاریکی چھا جاتی ہے۔آخر بالکل تباہی اور بربادی ہو جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک زہر ہے۔زہر کھ کر کوئی بچ نہیں سکتا۔پس گناہ کی زہر کھا کر یہ توقع کرنا کہ وہ بچ جائے گا خطرناک غلطی ہے۔یقینا یاد رکھو جو گناہ سے بعاز نہیں آتا وہ آخر مرے گا اور ضرور مرے گا۔اﷲ تعالیٰ نے انبیاء اور رسل کو اسی لیے بھیجا اور اپنی آخری کتاب قرآن مجید اس لیے نازل فرمائی کہ دنیا اس زہر سے ہلاک نہ ہو بلکہ اس کی تاثیرات سے واقف ہو کر بچ جاوے۔قدیم سے سنت اﷲ اسی طرف پر چلی آئی ہے کہ جب دنیا پر گناہ کی تاریکی پھیل جاتی ہے اور انسانوں میں عبودیت نہیں رہتی اور عبودیت اور الُوہیت کا باہمی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔انسان سرکشی اور بغاوت اختیار کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اُس کی آگاہی اور تنبیہہ کے لیے اپنا ایک مامور بھیج دیتا ہے وہ دنیا آکر اہل دنیا کو اس خطرناک عذاب سے ڈراتا ہے جو اس کی شرارتوں اور شوخیوں کی وجہ سے آنے والا ہوت اہے اور ان کو اس زہر سے جو گناہ کی زہر ہے بچانا چاہتا ہے جو سعید الفطرت ہوتے ہیں وہ اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔اور سچی توبہ کر کے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔لیکن شریر النفس اپنی شرارتوں میں ترقی کرتے اور ا سکی باتوں کو ہنسی ٹھٹھے میں اُڑ ا کر خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتے ہیں اور آخر تباہ ہو جاتے ہیں۔
خدا تعالیٰ سے سچا تعلق عبودیت ہو
آجکل یہی زمانہ آیا ہوا ہے۔خدا تعالیٰ کے ساتھ جو سچا تعلق عبودیت کا ہوان چاہیے اور جو محبت اپنے خالق سے ضروری ہے وہ کہاں ہے؟ ہر ایک شخص اپنی جگہ پر غور کرے اور اپنے نفس پر قیاس کرکے دیکھے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے تعلقات کس قدر ہیں آیا وہ دنیا اور اس کی شان وشوکت کو اپنا معبود سمجھتا ہے یا حقیقی خدا کو معبود مانتا ہے۔اس کے تعلقات اپنے نفس، اہل و عیال اور دوسری مخلوق کے ساتھ کس قسم کے ہیں؟ ان میں خدا تعالیٰ کا کس درجہ تک ہے۔ان باتوں پر جب آپ غور کریں گے اور خالی الذہن ہو کر غور کریں گے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ یہ وہ وقت آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی رشتہ اور پیوند رکھا ہی نہیں ہے۔اکثر ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے وجود اور ہستی ہی کا یقین نہیں رکھتے اور جو بعض مانتے ہیں کہ خد اہے ان کا ماننا نہ ماننا برابر ہو رہا ہے کیونکہ وہ تقویٰ اﷲ اور خشیتہ اﷲ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لانے سے پیدا ہوتی ہے اُن میں پائی نہیں جاتی۔گناہ سے نفرت اور احکام الٰہی کی پابندی اور نواہی سے بچنا نظر نہیں آتا۔پھر کیونکر تسلیم کر لیا جاوے کہ یہ لوگ فی الحقیقۃ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔؎ٰ
اور ماسوا اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ جبتک کامل اور پورا تعلق نہ ہو۔وہ برکات اور فیوض جو اس تعلق کے لازمی نتائج ہیں حاصل نہیں ہوتے۔اس کی مثال ایسی ہیکہ جہاں ایک پیالہ پانی کا بی کر سیر ہوان ہو وہاں ایک قطرہ کہاں تک مفید ہو سکت اہے اور تشنہ لبی کو بُجھا سکتا ہے اور جہاں دس تولہ دوا کھانی ہو وہاں ایک چاول یا ایک رتی سے کیا ہوگا؟ اسی طرح پر جب تک انسان پورے طور پر خدا تعالیٰ کا مطیع اور وفادار بندہ نہیں بنتا اور کامل نیکی نہیں کرتا۔اس وقت تک اس کے انوار و برکات ظاہر نہیں ہوتے۔ادھوری اور نا تمام باتوں سے بعض اوقات ٹھوکر لگتی ہے۔ایک شخص نیکی کو اس کے کمال تک تو پہنچاتا نہیں اور اس سے ان ثمرات کی توقع کرتا ہے جو اس کے درجہ کمال پر پیدا ہوتے ہیں اور جب وہ نہیں ملتے تو اس سچی اور پاک تعلیم سے بدظن ہونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ کچھ بھی نہیں۔بہت سے لوگ اسی طرح پر گمراہ ہوئے ہیں۔لیکن میں یقینا کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے جو تعلیم پیش کی ہے اور جس طریق پر نیکی کی راہیں بتائی ہیں ان پر اور اس درجہ تک عامل ہونے سے انسان وہ تمام کمالات اور برکات حاصل کر سکتاہے جن کا وعدہ دیا گیا ہے۔اسی پاک تعلیم کی سچی اور کامل پیروی سے ولی اﷲ اور ابدال بنتے ہیں۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ولی اﷲ یا ابدال بننے کے لیے کوئی خاص راہ ہے جو قرآن شریف میں نہیں ہے۔وہ سخت نادان اور غلطی پر ہیں ۔یہی وہ راہ ہے جس سے یہ درجے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ولی یا ابدال کای کرتے ہیں؟ یہی کہ وہ سچی تبدیلی کر لیتے ہیں اور قرآن شریف کی تعلیم کا سچا متبع اپنے آپ کو بناتے ہیں اور نیکی کو اس حد اور درجہ تک کرتے ہیں جو اس کے کمالات کے لیے مقرر ہے۔یہی نماز، روزہ ،زکوٰۃ،صدقات وغیرہ بھی بجالاتے ہیں،لیکن ان میں اور دوسرے لوگوں میں اس قدر فرق ہے کہ وہ اس حد تک ان اعمالِ صالحہ کو بجالاتے ہیں کہ اُن میں ایک قوت اور طاقت آجاتی ہے اور اُن سے وہ افعال سر زد ہوتے ہیں جو دوسروں کی نظر میں خوارق ہوتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ اعمالِ صالحہ کو پورے طور پر بجالاتے ہیں۔پس جو شخص پوری نیکی کرتا ہے اور اس کو ادھور اور ناقص نہیں چھوڑتا اور قرآن شریف کی تعلیم کا پورا پابند اپنے آپ کو بنالیتا ہے وہ یقینا ولی اور ابدال ہو جاتا ہے۔جو چاہے بن سکتا ہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ اس کے واسطے بڑی دعائوں کی ضرورت ہے۔اور دعا کی تعلیم بھی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔جس کے لیی جابجا ہدایت کی گئی ہے،بلکہ اس کا شروع ہی دعا سے ہوا ہے۔اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جیسے اگر کسی شخص کو زندہ رکھنا مقصود ہے تو ضرور ہے کہ اس کو پوری غذادی جاوے چند دانوں پر اس کی زندگی کی امید کرنا خیال خام ہے۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ میں زندگی حاصل کرنے کے لیے پوری نیکیوں کا کرنا ضروری ہے جو اس طریق کو چھوڑتا ہے وہ آج نہیں کل مر جاوے گا۔قرآن شریف نے اسی اصل کو بتایا ہے جو زیادہ خظ اٹھانا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ زیادہ توجہ کرے۔
جماعت احمدیہ کے لیے خصوصی نصائح
ہماری جماعت(جس سے مخالف بُغض رکھتے ہیں ارو چاہتے ہیں کہ یہ جماعت ہلاک اور تباہ ہو جاوے) کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں اپنے مخالفوں سے باوجود اُن کے بغض کے ایک بات میں اتفاق رکھتا ہوںاور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ یہ جماعت گناہوں سے پاک ہو اور اپنے چال چلن کا عمدہ نمونہ دکھاوے وہ قرآن شریف کی سچی تعلیم پر سچی عامل ہو اور آنحضرت ﷺ کے اتباع میں فنا ہو جاوے۔ان میں باہم کسی قسم کا بغض و کینہ نہ رہے۔وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری اور سچی محبت کرنے والی جماعت ہو۔لیکن اگر کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر بھی اس غرض کو پورا نہیں کرتا اور سچی تبدیلی اپنے اعمال سے نہیں دکھاتا وہ یاد رکھے کہ دشمنوں کی اس مراد کو پورا کر دے گا۔وہ اولاد جو انبیاء کی اولاد کہلاتی تھی۔یعنی بنی اسرائیل جن میں کثرت سے نبی اور رسول آئے اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کے وہ وارث اور حقدار ٹھہرائے گئے تھے۔لیکن جب اس کی روحانی حالت بگڑی اور اُس نے راہِ مستقیم کو چھوڑ دیا ۔سرکشی اور فسق و فجور کو اختیار کیا۔نتیجہ کیا ہوا؟
ضربت علیہم الذلۃ و المسکنۃ (البقرۃ : ۶۲)
کی مصداک ہوئی۔خدا تعالیٰ کا غضب ان پر ٹوٹ پڑا۔اور ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا۔یہانتک وہ گر گئے کہ انسانیت سے بھی اُن کو خارج کیا گیا۔یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے۔بنی اسرائیل کی حالت ہر وقت ایک مفید سبق ہے۔اسی طرح یہ قوم جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے وہ قوم ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر بڑے بڑے فضل کرے گا۔لیکن اگر کوئی اس جماعت میں داخل ہو کر خد تعالیٰ سے سچی محبت اور رسول اﷲ ﷺ کی سچی اور کامل اتباع نہیں کرتا وہ چھوٹا ہو یا بڑا کاٹ ڈالا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ ہوگا۔پس تمہیں چاہیے کہ کامل تبدیلی کرو اور جماعت کو بدنام کرنے والے نہ ٹھہرو۔
خاندانی تفاخر
بعض نادان ایسے بھی ہیں جو ذاتوں کی طرف جاتے ہیں اور اپنی ذات پر بڑا تکبر اور ناز کرتے ہیں۔بنی اسرائیل کی ذات کیا کم تھی جن میں نبی اور رسول آئے تھے۔لیکن کیا اُن کی اس اعلیٰ ذات کا کوئی لحاظ خدا تعالیٰ کے حضور ہوا۔جب اس کی حالت بدل گئی۔ابھی میں نے کہا ہیکہ ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا اور اسے اس طرح پر انسانیت کے دائرہ سے خارج کر دیا۔میں نے دیھک اہے کہ بہت لوگوں کو یہ مرض لگا ہوا ہے۔خصوصاً سادات اس مرض میں بہت مبتلا ہیں۔وہ دوسروں کو حقیر سمجھے ہیں اور اُسے ذرا بھی تعلق نہیں ہے۔آنحضرت ﷺ جو سید ولد آدم اور افضل الانبیاء ہیں۔انہوں نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے صاف طور پر فرمایا کہ اے فاطمہؓ تو اس رشتہ پر بھروسہ نہ کرنا کہ میں پیغمبر زادی ہوں۔قیامت کو یہ ہرگز نہیں پوچھا جاوے گا کہ تیرا باپ کون ہے۔وہان تو اعمال کام آئیں گے۔میں یقینا جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قرب سے زیادہ دور پھینکنے والی اور حقیقی نیکی کی طرف آنے سے روکنے والی بڑی بات یہی ذات کا گھمنڈ ہے کیونکہ اس سے تکبر پید اہوتا ہے اور تکبر ایسی شے ہے کہ وہ محروم کر دیتاہے۔علاوہ ازیں وہ اپنا سارا سہارا اپنی غلط فہمی سے اپنی ذات پر سمجھتا ہے کہ میں گیلانی ہوں یا فلاں سید ہوں؛ حالانکہ وہ نہیں سمجھتا کہ یہ ثیزیں وہاں کام نہیں آئیں گی۔ذات اور قوم کی بات تو مرنے کے ساتھ ہی الگ ہو جاتی ہے۔مرنے کے بعد اس کا کوئی تعلق باقی رہتا ہی نہیں۔اس لیے اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں یہ فرمایا ہے۔
من یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ (الزلزال : ۹)
کوئی برا عمل کرے خواہ کتنا ہی کیوں نہ کرے اس کی پاداش اس کو ملے گی۔یہاں کوئی تخصیص ذات اور قوم کی نہیں اور پھر دوسری جگہ فرمایا
ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔
پس ذاتوں پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو کہ یہ نیکی کے لیے روک کا باعث ہو جاتا ہے۔ہاں ضروری یہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو۔خدا تعالیٰ کے فضل اور برکات اسی راہ سے آتے ہیں۔میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حال میں اﷲ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت ﷺ کی کامل اور سچی اتباع کریں۔قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بنادیں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں نہ صرف قال سے۔اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقینا یاد رکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہوسکتے۔اس لیے کہ خدا ہمارے ساتھ ہوگا۔
لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے نافرمان اور اس سے قطع تعلق کر چکے ہیں تو ہماری ہلاکت کے لیے کسی کو منصوبہ کرنے کی ضرورت نہیں۔کسی مخالفت کی حاجت نہیں۔وہ سب سے پہلے خود ہم کو ہلاک کر دیگا۔
ہمیشہ سے سنت اﷲ اسی طرح پر چلی آئی ہے۔جب بنی اسرائیل نے خد اتعالیٰ کی نافرمانی اختیار کی اور اس نے گناہ کیا۔خدا تعالیٰ نے اس قوم کو ہلاک کیا؛ حالانکہ حضرت موسیٰ ؑپیغمبر اُن میں موجود تھے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ گناہ سے سخت بیزار ارو متنفر ہے۔وہ کبھی پسند نہیں کر سکت اکہ ایک شخص بغاوت کرے ارو اس کو سزا نہ دی جاوے۔
یہ بات بھی خوب یاد رکھو کہ گنہگار خد اتعالیٰ پر ایمان اور یقین نہیں رکھتا۔اگر ایمان رکھتا تو ہر گز گناہ کرنے کی جرأت نہ کرتا۔حدیث میں جو آیا ہے کہ چوری کرنے والا یا زانی یا بدکار اپنے فعل کے وقت مومن نہیں ہوتا۔اس کا بھی یہی مطلب ہے کیونکہ سچا ایمان تو گناہ سے دور کرتا ہے اور شیطاعن کی کُشتی میں وہ شیطان پر غالب آجاتا ہے،لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص علانیہ بدکاری مٰں مبتلا ہے اور دوسری خطا کاریوں سے باوجود یکہ اُن کی براتی سے آگاہ ہے باز نہیں آتا تو پھر بجز اس کے اور کیا کہنا پڑے گا کہ وہ خد اتعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا۔اگر ایمان رکھتا تو کیوں ان بدیوں سے نہ بچتا،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خدا گناہ سے سخت بیزار ہے اور اس کا نتیجہ بہت ہی برا اور تکلیف دہ ہے۔
‏Amira 28-7-05
انسانی نفس کے مراتب
نفس کی تین حالتیں ہیں۔یا یہ کہو کہ نفس تین رنگ بدلتا ہے۔بچپن کی حالت میں نفسِ زکیّہ ہوتا ہے۔یعنی بالکل سادہ ہوتا ہے۔اس عمر کے طے کرنے کے بعد پھر نفس پر تین حالتیں آتی ہیں سب سے اول جو حالت ہوتی ہیاس کا نام نفسِ امارہ ہے۔اس حالت میں انسان کی تمام طبعی قوتیں جوش زن ہوتی ہیں اور اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے دریا کا سیلاب آجاوے اس وقت قریب ہے کہ غرق ہو جاوے۔یہ جوشِ نفس ہر قِسم کی بے اعتدالیوں کی طرف لے جاتا ہے۔
لیکن پھر اس پر ایک حالت اور بھی آجاتی ہے جس کا نام نفسِ لوامہ ہے۔اس کا نام لوّامہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ بدی پر ملامت کرتا ہے اور یہ حالت نفس کی روا نہیں رکھتی کہ انسان ہر قسم کی بے اعتدالیوں اور جوشوں کا شکار ہوتا چلا جاوے۔جیسا کہ نفسِ امارہ کی صورت میں تھا۔بلکہ نفس لوامہ اُسے بدیوں پر ملامت کرتا ہے۔یہ سچ یہ کہ نفس لوامہ کی خالت میں انسان بالکل گناہ سے پاک اور بری نہیں ہوتا مگر اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اس حالت میں انسان کی شیطان اور گناہ کے ساتھ ایک جنگ ہوتی رہتی ہے۔کبھی شیطان غالب آجاتا ہے اور کبھی وہ غالب آجاتا ہے۔مگر نفسِ لَوّامہ والا خدا تعالیٰ کے رحم کا مستحق ہوتا ہے۔اس لیے کہ وہ بدیوں کے خلاف اپنے نفس سے جنگ کرتا رہتا ہے اور آخر اس کشمکش اور جنگ و جدل میں اﷲ تعالیٰ اس پر رحم کر دیتا ہے اور اُسے وہ نفس کی حالت عطا ہوتی ہے جس کا نام مُطمنّہ ہے۔یعنی اس حالت میں انسان شیطان اور نفس کی لڑائی میں فتح پا کر انسانیت اور نیکی کے قلعہ کے اندر آکر داخل ہو جاتا ہے اور اس قلعہ کو فتح کر کے مطمئن ہو جاتا ہے۔اس وکت یہ خدا پر راضی ہوت اہے اور خدا تعالیٰ اس پر راقی ہوت اہے۔کیونکہ یہ پورے طور پر اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں قتعا اور محو ہو جاتا ہے۔اور خدا تعالیٰ کی مقادیر کے ساتھ اسکو پوری صلح اور رضا حاصل ہوتی ہے؛ چنانچہ فرمایا
یا یتھا النفس المطمئنۃارجعی الی ربک راضیۃ مر ضیۃ۔فادخلی فی عبادی
وادخلی جنتی (الفجر :۲۸-۳۱)
یعنی اے نفر آرام یافتہ جو خدا سے آرام پا گیا یہ اپنے خد اکی طرف واپس چلا آ۔تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر آجا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سچا رجوع اس وقت ہوتا ہے جبکہ خد اتعالیٰ کی رضا سے رضاء انسانی مل جاوے۔یہ وہ حالت ہے جہاں انسان اولیاء اور ابدال اور مقربین کا درجہ پاتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں اﷲ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملتا ہے اور وحی کی جاتی ہے۔اور چونکہ وہ ہر قسم کی تاریکی اور شیطانی شرارت سے محفوظ ہوت اہے۔ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی رضا میں زندہ ہوت اہے،اس لیے وہ ایک ابدی بہشت اور سرور میں ہوتا ہے ۔انسانی ہستی کا مقصد اعلیٰ اور غرض اسی مقام کا حاصل کرنا ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو اسلام کے لفظ میں اﷲ تعالیٰ نے رکھا ہے، کیونکہ اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اﷲ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کرلے۔
بلند تر مراتب پانے کے لیے دعا کی ضرورت ہے
مگر سچ یہ ہے کہ یہمقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا۔ہاں اس میں کلام نہیں کہ انسان کا فرض ہیکہ وہ مجاہدات کرے،لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہے۔انسان کمزور ہے جبتک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا۔اس دشوار گذار منزل کو طے نہیں کر سکتا۔خود اﷲ تعالیٰ نے انسن کی کمزوری اور اس کے ضعفِ حال کے متعلق ارشاد فرمایا ہے
خلق الانسان ضعیفا (النساء : ۲۹)
یعنی انسان اور کمزور بنایا گیا ہے۔پھر باوجدو اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرناسراسر خام خیالی ہے۔اس کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گذار منزلوں کو انسن بڑی آسانی سے طے کر لیت اہے کیونکہ دعا اس فیض اور قوت کو جذب کرنے والی ہے جو اﷲ تعالیٰ سے آتی ہے۔جو شخص کثرت سے دعائوں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پالیتا ہے۔ہاں نری دعا خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ اول تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے اور اس کے ساتھ دعا سے کام لے۔اسباب سے کام لے۔اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے۔اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے۔اور نرے اسباب پر گر رہنا۔اور دعا کو لاشئی محض سمجھنا یہ دہریت ہے۔یقینا سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا ۔اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی۔وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے اردگرد مسلح سپانی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں۔لیکن جو دعائوں سے لا پروا ہے وہ اس شخص کی طرف ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں وار موذی جانوروں سے بھرا ہوا یہ۔وہ سمجھ سکت اہیکہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے۔ایک لمحہ میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا اور اس کی نڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔اس لیے یاد رکھو کہ انسان کی بری سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے۔یہی دعا س کے لیے پناہ ہے۔اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے۔
قرآنی نصائح کا مغز
یہ بھی یقینا سمجھو کہیہ ہتھیار اور نعمت صرف اسلام ہی میں دی گئی ہے۔دوسرے مذاہب اس عطیہ سے محروم ہیں۔آریہ لوگ بھلا کیوں دعا کریں گے جبکہ ان کا یہ اعتقاد ہیکہ تناسخ یک ثکر میں سے ہم نکل ہی نہین سکتے ہیں اور کسی گناہ کی معافی کی کوئی امید ہی نہیں ہے۔ان کو دعا کی کیا حاجت اور کای ضرورت اور اس سے کیا فائدہ اس سے صاف معلوم ہوت اہے کہ آریہ مذہب میں دعا ایک بے فائدہ چیز ہے اور پھر عیسائی دعا کیوں کریں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ دوبارہ کوئی گناہ بخشا نہیں جائیگا، کیونکہ مسیح دوبارہ تو مصلوب ہو ہی نہیں سکتا۔پس یہ خاص اکرام اسلما کے لیے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ امت مرحومہ ہے۔لیکن اگر آپ ہی اس فضل سے محرو م ہو جاویں اور خود ہی اس دروازہ کو بند کر دیں ،تو پھر کس کا گناہ ہے۔جب ایک حیات بخش ثشمہ موجد ہے اور ہر وقت اس مین سے پانی پی سکتاہے۔پھر اگر کوئی اس سے سیراب نہیں ہوتا تو خود طالب موت اور تشنہ ہلاکت ہے۔اس صورت میں تو چاہیے کہ اس پر منہ رکھ دے اور خوب سیراب ہو کر پانی پی لیوے۔یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں۔قرآن شریف کے تیس سپارے ہیں اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں۔لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر پورا عملدر آمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے۔مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے۔دعا کو مضبوطی سے پکڑلو۔میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اﷲ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا۔لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ دعا کیا چیز ہے۔دعا یہی نہیں ہے کہ ثند لفظ منہ سے بڑ بڑا لیے۔یہ تو کچھ بھی نہیں۔دعا اور دعوت کے معنی ہیں۔اﷲ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لیے پکارنا۔اور اس کا کمال اور مؤثر ہونا اس وقت ہوتا ہے جب انسان کمال درد دل اور قلق اور سوز کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کو پکارے ایسا کہ اس کی روح پانی کی طرح گداذ ہو کر آستانہ الوہیت کی طرف بہہ نکلے یا جس طرح پر کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے تو دیکھتے ہو کہ اس کی پکار میں کیسا انقلاب اور تغیر ہوتا ہے۔اس کی آواز ہی میںوہ درد بھرا ہوا ہوتا ہے جو دوسروں کے رحم کو جذب کرتا ہے۔اسی طرح وہ دعا جو اﷲ تعالیٰ سے کی جاوے۔
‏Amira 3-8-05
اس کی آاز، اس کا لب و لہجہ بھی اور ہی ہوتا ہے۔اس میں وہ رقت اور درد ہوت اہے جو الوہیت کے چشمۂ رحم کو جوش میں لاتا ہے۔اس دعا کے وقت آواز ایسی ہو کہ سارے اعضاء اس سے متاثر ہوجاویں اور زبان میں خشوع خضوع ہو۔دل میں درد ارو رقت ہو۔اعضاء میں انکسار اور رجوع الی اﷲ ہو۔اور پھر سب سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے رحم و کرم پر کامل ایمان اور پوری امید ہو۔اس کی کدرتوں پر ایمان ہو۔ایسی حالت میں جب آستانۂ الوہیت پر گرے۔نمراد واپس نہ ہوگا۔چاہیے کہ اس حالت میں بار بار حضور الٰہی میں عرض کرے کہ میں گنہگار اور کمزور ہوں۔تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔تُو آپ رحم فرما اور مجھے گناہوں سے پاک کر،کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا کوئی اور نہیں ہے جو مجھے پاک کرے۔جب اس قسم کی دعا میں مداومت کرے گا اور استقلال اور صبر کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور تائید کا طالب رہے گا تو کسی نا معلوم وقت پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور سکینت اس کے دل پر نازل ہوگی جو دل سے گناہ کی تاریکی دور کر دیگی۔اور غیب سے ایک قوت عطا ہوگی جو گناہ سے بیزاری پیدا کر دے گی اور وہ ان سے بچے گا۔اس حالت میں دیکھے گا کہ میرا دل جذبات اور نفسانی خواہشوں کا ایسا اسیر اور گرفتار تھا کہ کہ گویا ہزاروں ہزار زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا جو بے اختیار اُسے کھینچ کر گناہ کی طرف لے جاتے تے اور یا یک دفعہ وہ سب زنجیر ٹوٹ گئے ہیں اور آزاد ہو گیا ہے اور جسیے پہلی حالت میں وہ محسوس اور مشاہدہ کرے گا کہ وہی رغبت اور رجوع اﷲ تعالیٰ کی طرف ہے۔گناہ سے محبت کی بجائے نفرت اور اﷲ تعالیٰ سے وحشت اور نفرت کی بجائے محبت ارو کشش پیدا ہوگی۔
یہ ایک زبردست صداقت ہے جو اسلما میں موجود ہے اس کا انکار ہرگز نہیں ہوسکتا۔اس لیے کہ اس کا زندہ ثبوت ہر زمانہ میں موجود رہتا ہے۔میں دعویٰ سے کہتاہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہا گر انسان اس امر کو سمجھ لے اور وہ دعا کے راز سے آگاہ ہو جاوے تو اس میں اس کی بری ہی سعادت اور نیک بختی ہے اور اس صورت میں سمجھو کہ گویا اس کی ساری ہی مرادیں پوری ہو گئی ہیں؛ ورنہ دنیا کے ہّم و غم تو اس قسم کے ہیں کہ انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں۔
روبخدا ہو جائو
جو شخص رُوبَدُنیا ہوتا ہے وہ تھوڑی دور چل کر رہ جاتا ہے کیونکہ نامرادیاں اور ناکامیاں آخر آکر ہلاک کر دیتی ہیں،لیکن جو شخص ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ رو بخا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کے لیے اس کی سب حرکات و سکانات ہوتی ہیں تو خدا تعالیٰ دنای کو بھی ناک سے پکڑ کر اس کا خادم بنا دیتا ہے؛ اگر چہ اس خالت میں بہت فرق ہوتا ہے ۔دنیا دار تو دنیا کا دیوانہ ہوت اہے،لیکنیہ روبخا شخص جس کی دنیا خادم کی جاتی ہے۔دنای اور اس کی لذتوں میں کوئی لذت نہیں پاتا۔بلکہ ایک قسم کی بدمزگی ہوتی ہے،کیونکہ وہ لُطف ارو ذوقِ دنیا کی طرف نہیں ہوتا بلکہ کسی اور طرف ہوجاتا ہے۔
انسان جب اﷲ تعالیٰ کا ہو جات اہے اور ساری راحت اور لذت اﷲ تعالیٰ ہی کی رضا میں پاتا ہے تو کچھ شک نہیں دنیا بھی اس کے پاس آجاتی ہے،مگر راحت کے طریق اور ہو جائیں گے۔وہ دنای اور اس کی راحتوں میں کوئی لذت اور راحت نہیں پاتا۔اسی طرح پر انبیاء اور اولیاء کے قدموں پر دنیا کو لاکر ڈال دیا گیا ہے مگر اُن کو دنیا کا کوئی مزا نہیں آیا،کیونکہ اُن کا رُخ اور طرف تھا۔یہی قانونِ قدرت ہے ۔جب انسنا دنیا کی لذت چہتاہے تو وہ لذت اُسے نہیں ملتی لیکن جب خد اتعالیٰ میں فنا ہو کر دنیا کی لذت کو چھوڑتا ہے اور اس کی آرزو اور خواہش باقی نہیں رہتی تو دنای ملتی ہے،مگر اس کی لذت باقی نہیں رہتی۔یہ ایک مستحکم اصول ہے اس کو بھولنا نہیں چاہیے۔خدایا بی کے ساتھ دنیا یابی وابستہ ہے۔خدا تعالیٰ بار بار فرماتاہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے گا اُسے تمام مشکلات سے نجات ملے گی اور ایسے طور پر اسے رزق دے گا کہ اُسے علم بھی نہ ہوگا۔یہ کس قدر برکت اور نعمت ہے کہ ہر قسم کی تنگی اور مشکلات سے آدمی نجات پا جاوے۔ور اﷲ تعالیٰ اُس کے رزق اک کفیل ہو،لیکن یہ بات جیساکہ خدو اس نے فرمایا۔تقویٰ کے ساتھ وبستہ یہ اور کوئی امر اس کے ساتھ نہیں بتایا کہ دنیوی مکر وفریب سے یہ باتیں حاصل ہوں گی۔
اﷲ تعالیٰ کے بندوں کی علامات میں سے یہ بھی ایک علامت ہے کہ وہ دنیا سے طبعی نفرت کرتے ہیں۔پس جو شخص چاہت اہے کہ اﷲ تعالیٰ اس سے خوش ہو جاوے اور دنیا اور آخرت کی راحت اُسے مل جاوے وہ یہ راہ اختیار کرے۔اگر اس راہ کو تو چھوڑتا ہے اور اور راہیں اختیر کرتا ہے تو پھر ٹکریں مار کر دیکھ لے کہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔بہت سے لوگ ہوں گے جن کو یہ نصیحت بُری لگے گی اور وہ ہنسی کریں گے،لیکن وہ یاد رکھیں کہ آخر ایک وقت آجائے گا کہ وہ ان باتوں کی حقیقت کو سمجھیں گے اور پھر بول اُٹھیں گے کہ افسوس ہم نے یونہی عمر ضائع کی۔لیکن اس وقت کا افسوس کچھ کام نہ دیگا۔اصل موقعہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور پیغامِ موت آجائیگا۔
میں پھر کہتاہوں کہ خدا تعالیٰ کو خوشکرنے کی فکر کرو۔کیونکہ اگر خد اتعالیٰ مہربان ہو جاوے تو ساری دنیا مہربان ہو جاتی ہے،لیکن اگر وہ ناراض ہو تو پھر کوئی بھی کام نہیں آسکتا۔جب اس کا غضب آگیا تودنیا میں کوء مہر بان نہ رہے گا خواہ کیسا ہی مکروفریب کرے۔تسبیحیں الے۔بھگوے ارو سبز کپڑے پہنے۔مگر دنیا اس کو حقیر ہی سمجھے گی۔اگر چند روز دنیا دھوکہ کھا بھی لے تو بھی آخر اس کی قلعی کھُل جائے گی اور اس کا مکر و فریب ظاہر ہو جائے گا،لیکن جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے دنیا اس کی کتنی ہی مخالفت کرے وہ اپنی مخالفت اور منصوبوں میں کامیاب نہ ہوگی۔اس کو گالیاں دے۔لعنتیں بھیجے۔لیکن ایک وقت آجائے گا کہ وہی دنیا اس کی طرف رجوع کرے گی اور اس کی سچائی کا اعتراف اسے کرنا پڑے گا۔میں سچ کہتا ہوں کہ اﷲ جس کا ہو جاتا ہے دنیا بھی اس کی ہو جاتی ہے۔ہاں یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ابتداء اہل دنیا اُن کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اُسے قسم قسم کی تکلیفیں دیتے اور ا س کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔کوئی پیغمبر اور مرسل نہیں آیا جس نے دکھ نہ اُٹھایا ہو۔مکار۔فریبی۔دکاندار اس کا نام نہ رکھا ہو۔مگر باوجود اس کے کہ کروڑہا بندوں نے اس پر ہر قسم کے تیر چلانے چاہے۔پتھر مارے۔گالیاں دیں۔انہوں نے کسی بات کی پروا نہیں کی۔کوئی امر اُن کی راہ میں روک نہیں ہوسکا۔وہ دنیا کو خد اتعالیٰ کی کلام سناتے رہے اور وہ پیغام و لے کر آئے تھے۔اس کے پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اس تکلیفوں اور ایذارسانیوں نے جو نادان دنیاداروں کی طرف سے پہنچیں ان کو سست نہیں کیا بلکہ وہ اور تیز قسم ہوتے یہانتک کہ وہ زمانہ آگیا کہ اﷲ تعالیٰ نے وہ مشکلات ان پر آسان کر دیں اور مخالفوں کو سمجھ آنے لگی اور پھر وہی مخالف دنیا ان کے قدموں پر آگری اور اُن کی راستبازی اور سچائی کا اعتراف ہونے لگا۔دل اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب چاہتا ہے بدل دیتا ہے۔
تبلیغ کی مشکلات
یقینا یاد رکھو۔تمام انبیاء کو اپنی تبلیغ میں مشکلات آئی ہیں۔آنحضرتﷺ جو سب انبیاء علیہم السلم سے افضل اور بہتر تھے ۔یہانتک کہ آپ پر سلسلۂ نبوت اﷲ تعالیٰ نے ختم کر دیا یعنی تمام کمالات نبوت آپ پر طبعی طور پر ختم ہو گئے۔باوجود ایسے جلیل الشان نبی ہونے کے کون نہیں جانتا کہ آپؐ کو تبلیغ رسالت میں کس قدر مشکلات اور تکالیف پیش آئیں اور کفار نے کس حدتک آپؐ کو ستایا اور دُکھ دیا۔اس مخالفت میں اپنی ہی قوم اور چچا اور دوسرے بزرگ سب سے بڑھ کر حصہ لینے اولے تھے۔آپؐ کی مصیبتوں اور تکلیفوں کا زمانہ اتنا لمبا ہوا کہ تیرہ برس تک اپنی قوم سے ہر قسم کے دُکھ اُٹھاتے رہے۔اس حالت میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص کامیاب ہوگا۔کیونکہ ہر طرف مخالفت کا بازار گرم تھا اور خود اپنے رشتہ دار ہی تشنۂ خون ہو رہے تھے جدُی اور برادری کے لوگوں نے جب قبول نہ کیا تو اوروں کو اور بھی مشکلات پیش آگئے۔غرض اس طرح پر آپﷺ کی مصیبتوں کا زمانہ دراز ہو گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس قسم کے مشکلات پیش نہیں آئے کیونکہ حضرت موسیٰ ؑکی قوم بنی اسرائیل نے ان کو فوراً قبول کر لیا تھا۔اس لیے قوم کی طرھ سے کوئی دُکھ اور مصیبت یا روک ان کو پیش نہیں آئی۔لیکن برخلاف اس کے آنحضرت ﷺ کو اپنی ہی قوم سے مشکلات اور انکار کا مرحلہ پیش آیا۔پھر ایسی صورت میں آنحضرت ﷺ کی کامیابیاں کیسی اعلیٰ درجہ کی ثابت ہوئی ہیں جو آپ کے کمالات اور فضائل کا سب سے بڑھ کر ثبوت ہیں۔آنحضرت ﷺ نے جب اﷲ تعالیٰ کے اِذن و امر سے تبلیغ شروع کی تو پہلے ہی آپ کو یہ مرحلہ پیش آیا کہ قوم نے انکار کیا۔لکھا ہے کہ جب آپؐ نے قریش کی دعوت کی اور سب کو بلا کر کہ میں تم سے ایک بات پوچھتا ہو۔اس کا جواب دو۔یعنی میں اگر تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑی بھاری فوج پڑی ہوئی ہے اور ہ اس گھات میں بیٹھی ہوئی ہے کہ موقعہ پاکر تمہیں ہلاک کر دے،تو کای تم باور کروگے۔سب نے بالاتفاق کہا کہ بیشک ہم اس بات کو تسلیم کریں گے۔اس لیے کہ تو ہمیشہ سے صادق اور امین ہے۔جب وہیہ اقرار کر چکے تو پھر آنحضرت نے فرمایا کہ دیکھو میں سچ کہتا ہوں کہ میں خد اتعالیٰ کا پیغمبر ہوں اور تم کو آین والے عذاب سے ڈراتا ہو ں۔اتنی بات کہنی تھی کہ سب آگ ہو گئے اور ایک شریر بول اُٹھا۔ تبا لک سائرالیوم افسوس جو بات ان کی نجات اور بہتری کی تھی نا عاقبت اندیش قوم نے اس کو ہی بُرا سمجھا اور مخالفت پر آماد ہ ہو گئے۔اب اسکے بالمقابل موسیٰ ؑکی قوم کو دیکھو۔بنی اسرائیل باوجود یکہ ایک سخت دل قوم تھی،لیکن انہوں نے حضرت موسیٰ ؑکی تبلیغ پر فوراً ہی اس کو قبول کر لای۔اور اس طرف موسیٰ ؑسے افضل کو قوم نے تسلیم نہ کیا اور مخالفت کے لیے تیار ہو گئے۔مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔آئے دن قتل کے منصوبے ہونے لگے۔اور یہ زمانہ اتنا لمبا ہو گیا کہ تیرہ برس تک برابر چلا گیا۔تیرہ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا۔اس عرصہ میں آپؐ نے جس قدر دُکھ اُٹھائے ان کابیان بھی آسان نہیں ہے۔قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذارسانی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی تھی اور ادھر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے صبر اور استقلال کی ہدایت ہوتی تھی اور بار بار حکم ہوتا تھا کہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے توبھی صبر کر اور آنحضرت ﷺ کمال صب ر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں سست نہ ہوتے تھے بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا۔اور اصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا صبر پہلے نبیوں کا سانہ تھا کیونکہ وہ تو ایک محدود قوم کے لیے مبعوث ہو کر آئے تھے،اس لیے ان کی تکالیف اور ایذارسانیاں بھی اسی حدتک محدود ہوتی تھیں۔؎ٰ لیکن اس کے مقابلہ میں آنحضرت ﷺ کا صبر بہت ہی بڑا تھا،کونکہ سب سے اول تو اپنی ہی قوم آپ ﷺ کی مخالف ہو گئے اور ایذارسانی کے درپے ہوئی اور پھر عیسائی بھی دشمن ہو گئے۔جب اُنکوسنایا گیا کہ حضرت عیسیٰ ؑصرف ایک خد اکے بندے اور رسول تھے تو اُن کو آگ لگ گئی۔کیونکہ وہ تو اُنکو خدا بنائے بیٹھے تھے۔آنحضرت ﷺ نے آکر حقیقت کھول دی۔یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جس کو خدا بنا لیتا ہے اور اپنا مبعود مانتا ہے۔اس کا ترک کرنا آسن نہیں ہوتا بلکہ پھر ا سکو چھوڑنا بہت ہی مشکل ہو جات اہے۔عیسائیوں کا یہ اعتقاد پختہ ہو گیا ہوا تھا۔اس لیے جب انہوں نے سنا کہ آنحضرت ﷺ نے اُن کے مصنوعی خدا کو انسان بنا دیا تو ہ دشمن جان بن گئے اور اسی طرف پر یہودیوں میں بہت سی مشرکانہ رسومات پیدا ہو گئی تھیں اور وہ حضرت مسیح ک بالکل انکار کرتے تھے۔جب اُن کو متنبہ کیا گیا تو وہ بیھ مخالفت کے لیی اُٹھ کھڑے ہوئے۔وہ تو حضرت مسیح کو معاذ اﷲ مکار اور کذاب کہتے تھے۔بالمقابل آنحضرت ﷺ نے اُن کو بتایا کہ تم اُن کو کذاب کہنے میں خود کذاب ہو۔وہ خد اتعالیٰ کا ایک برگزیدہ نبی ہے۔
اس کے علاوہ ان کی مخالفت کی ایک بڑی بھاری وجہ یہ ہوئی کہ وہ اپنی بے وقوفی اور کم فہمی سے یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے آئے گا،کیونکہ توریت میں جیسا کہ سنت اﷲ ہے۔آخر بنی کے متعلق جو پیشگوئی ہے وہ ایسے الفاظ میں ہے جس سے اُن کو یہ شبہ پیدا ہو گیا تھاوہان لکھا ہے کہ تمہارے بھائیوں میں سے۔وہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہی لیے بیٹھے تھے؛ حالانکہ اس سے مراد بنی اسماعیل تھی۔پس جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کا دعویٰ سنا کہ وہ خاتم الانبیاء ہیں تو ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔اور جو کچھ وہ توریت کی اس پیشگوئی کے موافق سمجھے بیٹھے تھے وہ غلط قرار دیا گیا۔اس سے اُن کے آگ لگی اور وہ مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
پیشگوئیوں کے متعلق سنت اﷲ
اصل بات یہ ہیکہ خد اتعالیٰ کی پیشگوئیوں میں سنت اﷲ یہی ہے کہ ان میں اخفاء اور ابتلاء کا بھی ایک پہلو ہوتاہے کیونک اگر یہ پہلو نہ رکھا جاوے تو پھر کوئی اختلاف ہی نہ رہے اور سب ک یاک ہی مذہب ہو جاتا۔مگر خدا تعالیٰ نے امتیاز کے لیے ایسا ہی چاہا ہے۔کہ پیشگوئیوں میں ایک ابتلا کا پہلو رکھ دیتاہے۔کو تاہ اندیش ،ظاہر پرست اس پر اڑ جاتے ہیں اور اصل مقصد سے دور جا پڑتے ہیں۔اسی طرح پر ان یہودیوں کو یہ مشکل پیش آئی۔کہ وہ آنحضرت ﷺ کے متعلق شک میں پڑ گئے ۔اگر توریت میں وہ پیشگوئی صاف الفاظ میں ہوتی کہ آنے والا بنی اسمائیل میں سے ہوگ ااور اس کا نام محمد (ﷺ) ہوگا ۔اس کے باپ کا نام عبد اﷲ بن عبد المطلب ہوگا اور اس کی ماں کا نام آمنہ ہوگاتو یہودی کیونکر انکار کرتے؟ مگر ان کی بدقسمتی سے پیشگوئی میں ایسی صراحت نہ تھی۔وہاں لکھ اتھا کہ تیرے بھائیوں میں سے وہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہی سمجھتے رہے۔
ایسا ہی حضرت عیسیٰ ؑکے وقت بھی یہودیوں کو تھوکر لگی تھی۔ملاکی نبی کی کتاب میں حضرت مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا کے آنے کی پیشگوئی درج ہے۔جب حضرت مسیح آگئے اور اُنہوں نے دعویٰ کیا تو یہودی مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ پہلے الیاس کا آنا ضروری ہے۔اس لیے وہ انکار کرنے لگے؛ چنانچہ انہوں ین خود حضرت مسیح سے یہی سوال کیا کہ الیاس کا آنا جو مسیح سے پہلے ضروری ہے وہ کہاں ہے؟حضرت مسیح نے کہا کہ آنیوالا الیاس آگیا ہے۔یعنی وہ یوحنا ابنِ زکریا کے رنگ میں آیا ہے چاہو تو قبول کرو۔مگر یہ بات ان کی تسلی کا موجب کیونک ہو سکتی تھی۔وہ اس بات پر اڑے رہے کہ وہاں کسی مثیل کے آنے کی خبر تو دی نہیں گئی۔وہان تو خود ایلیا کے آنے کا وعدہ ہے۔اس بنا پر وہ انکار کرتیرہے اور دُکھ اور تکلیفیں بھی پہنچاتے رہے۔یہاںتک کہ اب بھی یہودی یہی یقین رکھتے ہیں۔میرے پاس ایک فاضل یہودی کی کتاب ہے۔اُس نے اس مسئلہ پر ایک لمبی بحث کی ہے اور کاہ یہ کہ ہم اس مسٰخ کو کیونکر قبول کر سکتے ہیں جب کہ اس سے پہلے ایلیا نہیں آیا۔یہ شخص جو یسوع مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا دعویٰ بناوٹی اور جھوٹا ہے کیونکہ وہ ایلی اکے دوبارہ آنے کی جھوٹی تاویل کرتا ہے۔ہم اس کے خالہ زاد بھائی یحییٰ کو کیونکر ایلیاء سمجھ لیں پھر وہ لوگوں کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ ہم کس طرح پر اس شخص کے دعویٰ کو تسلیم کر لیں جبکہ ہمیں یہ خبر دی گئی تھی کہ پہلے ایلیا آئے گا۔اس میں کسی مثیل کا وعدہ نہیں کیا گیا۔آخر میں کہتا ہے کہ اگر خد اتعالیٰ قیامت کو ہم سے سواک کرے گا کہ کیوں اس مسیح کو قبول نہیں کیا، تو ہم ملاکی نبی کی کتاب کھول کر اس کے سمانے رکھ دیں گے۔
اس قسم کے مشکلات ان لوگوں کو کیوں پیش آئے؟ اس کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں پر غور نہیں کیا اور ظاہر الفاظ پر اِڑے رہے۔اسی قسم کے مشکلات اس وقت مسلمانوں کو پیش آئے ہیں۔لیکن اگر غور کیا جاوے تو اُن کے سامنے تو کوئی نظیر اور فیصلہ موجود نہ تھا لیکن ان کے سامنے تو دوبارہ آنے کا مقدمہ فیصل شدہ موجود ہے جو خود حضرت عیسیٰ ؑکی عدالت سے فیصل ہو چکا ہے۔انہوں نے تاویل کر کے بتادیا تھا کہ دوبارہ آنے والے شخص سے مراد وہی نہیں ہوتا۔پھر کس قدر افسوس ہیان پر کہ یہ اس فیصلہ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔
لا یلد غ المومن جحر واحد مرتین
یہودیوں کو جس پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ *** ہو گئے۔اسی پتھر سے یہ ٹھوکر کھاتے ہیں۔یہودی اس وقت دنیا مٰں موجود ہیں۔ان کی کتابیں موجود ہیں۔اُن سے دریافت کر لو کہ کیا ان کا یہ عقیدہ تھا یا نہیں کہ مسیح سے پہلے الیاس آئے گا اور ملاکی نبی کی کتاب میں یہ پیشگوئی درج ہے یا نہیں؟ اور پھر عیسائیوں سے پوچھو اور انجیل میں اس فیصلہ کو پڑھو جو مسیح نے خود کیا ہے۔مومن تو دوسرے کی مصیبت سے عبرت پکڑتا ہے لیکن ان مسلمانوں نے اس سے کای سبق سیکھا؟ یہودی عقیدہ ہے جس کی وجہ سے یہودی داخل جہنم ہوئے۔اب کای یہ بھی یہی چاہتے ہیں؟ میں حیران ہوتا ہون کہ ان کی عقلوں کو کیا ہوگیا۔اگر حضرت مسیح کا وہ فیصلہ جو انہوں نے الیاس کے دوبارہ آنے کے متعلق کیا ہے صحیح نہیں ہے تو ھپر مجھے جواب دیں کہ حضرت مسیح سچے پیغمبر کیونکر ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ اس میں تو کوئی کلام اور شبہ ہی نہیں کہ اُن کے آنے سے پیشتر ایلیا کا آنا ضروری تھا اور ایلیا آسمان سے نہیں آیا۔پھر حضرت مسیحؑ کیونکر سچے نبی ٹھہریں گے۔
اس عقیدۂ فاسدہ سے یہی نہیں کہ یہودیوں کیط رف حصرت عیسیٰ ؑکی رسالت سے انکار کرنا پڑے گا بلکہ آنحصرت ﷺ کی رسالت بھی معاذ اﷲ ہاتھ سے جائے گی۔کیونکہ آپ ﷺ کی آمد اور بعثت حصرت مسیح ؑ کے بعد یہ اور جب ابھی تک مسیح ؑ بھی نہیں آیا تو پھر اسلام کیونکر صحیح ہوگا؟ سثو اور غور کرو کہ تمہری ذراسی ٹھوکر کا اثر کہان تک پہنچتا ہے۔سنو۔اصل حقیقت یہی ہے اور سچا فیصلہ وہی ہے جو حضرت مسیح ؑ نے کر دیا تھا۔اس سے منہ پھیرنا اچھا نہیں ہے۔
فسئلو ااھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (الانبیاء : ۸)
غرض انبیاء علیہم السلام کو اپنی تبلیغ کی رہ میں بہت سی مشکلات ہتی ہیں اور اُن کے مصائب میں سے یہ بھی بڑی مصیبت ہے کہ جس قدر دیر نبی کی کامیابی میں ہوگی۔اسی قدر ہم و غم اس کا پڑے گا۔میں ان مشکلات سے الگ نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بھی منہاجِ نبوت پر قائم کیا ہے۔
جماعت میں شامل ہونے والوں کے لیے نصائح
ہماری جماعت کے لیے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جسیے آنحضرت ﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے؛ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو ماعً دوست، رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں۔السلام علیکم تک کے رو ادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنانہیں چاہتے۔اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں۔لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو۔ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خد تعالیٰ پر ایمان قوی ہواور پایک تبدیلی کا موقعہ ملے۔دعائوں میں لگے رہو۔پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء و رسل کی پیروی کرواور صبر کے طریق کو اختیار کرو۔تماہرا کچھ بی نقصان نہیں ہوتا۔وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے؛ ورنہ چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔تمہیں چاہیے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہٰں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے اُن سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ اُن کے لیے غائبانہ دعا کرو کہ اﷲ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا رکے جو ا۲س نے اپنے فضل سے تمہیں دی یہ۔تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھائو کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔دیکھو میں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیں سُن کر بھی صبر کرو۔بدی کا جاوب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جائے اور نرمی سے جواب دو۔بار ہا ایسا ہوت اہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسد انہ طریق ہو۔جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے سے نرمی جواب ملتاہے اور گالیوںکا مقابلہ نہیں کیا جاتا،تو خود اُسے شرم آجاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہوین لگتا ہے۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوش سے وہ کام نہیں نکلتاجو صبر سے نکلتاہے۔پبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کرلیتا ہے۔یقینا یاد رکھو کہ مجھے بہت ہیرنج ہوتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہت کہ وہ جماعت جو دنیا میںایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کیر اہ نہیں ہے بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتادیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ یہانتک اس امر کی تائید کرتاہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں تو اس معاملہ کو خد اکے سپرد کردو۔تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔میرا معاملہ خد اپر چھوڑدو۔تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو۔تمہیں کیا معلوم ہے کہ میں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہو ں۔اکثر ایسا ہوتاہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں۔ بیرنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کو طور مار ہوت اہے۔ایسی فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں۔ اور میں عتبار نہیں کرتاکہ ابو جہل میں بھی ایسی گلایوں کا مادہ ہو۔لیکن یہ سب کچھ سننا پڑتا ہے۔جب میں صبر کت اہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔درخت سے بڑھ کر توشاخ نہیں ہوتی۔تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے۔آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے۔اُن کی گالیاں،اُن کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہرگز نہیں تھکا سکتے۔اگر میںخدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بیشک میں اُن کی گلایوں سے ڈرجاتا،لیکن میں یقینا جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کای ہے۔پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پروا کروں۔یہ کبیھ نہیں ہو سکتا۔تم خود غور کرو کہ اُن کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے اُن کو یا مجھے؟ ان کی جماعت گھٹی ہے اور میری بڑھی ہے۔اگر یہ گالیاں کوئی روک پیدا کر سکتی ہیں تو دو لاکھ سے زیادہ جماعت کس طرح پید ا ہو گئی۔یہ لوگ ان میں سے ہی آئے ہیں یا کہیں اور سے؟ انہوں نے مجھ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن اس فتویٰ کفر کی کیا تاثیر ہوئے؟ جماعت بڑھی۔اگر یہ سلسلہ منصوبہ بازی سے چلایا گیا ہوتا تو ضرور تھا کہ اس فتویٰ کا اثر ہوتا اور میری راہ میں وہ فتویٰ کفر بڑی بھاری روک پید اکر دیتا۔لیکن جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو انسان کا مقدور نہیں ہے کہ اُسے پامال کر سکے جو کچھ منصوبے میرے مخالف کئے جاتے ہیں۔پہچان کرنے والوں کو حسرت ہی ہوتی ہے۔میں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک عظیم الشان دریا کے سامنے جو اپنے پورے زور سے آرہا ہے اپنا ہاتھ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اس سے رُک جاوے، مگر اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ رُک نہیں سکتا۔یہ اُن گالیوں سے روکنا چاہتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ کبھی نہیں رُکے گا۔کیا شریف آدمیوں کاکام ہے کہ گالیاں دے۔میں ان مسلمانوں پر افسوس کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں جو ایسی بیباکی سے زبان کھولتے ہیں۔میں اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہت اہوں کہ ایسی گندی گالیاں میں نے تو کبھی کسی چوڑھے چمار سے بھی نہیں سنی جو ان مسلمان کہلانے والوں سے سنی ہیں۔
ان گالیوں میں یہ لوگ اپنی خالت کا اظہار کرتے ہی اور اعتراض کرتے ہیں کہ وہ فاسق و فاجر ہیں۔خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ان پر رحم کرے۔ (آمین)
ایسے گالیان دینے والے خواہ ایک کروڑ ہوں۔خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔یہ جانتے ہیں کہایک پیسہ کا کارڈ ہی ضائع ہو گا مگر نہیں جانتے کہ اس پیسہ کے نقصان سے ساتھ نامۂ عمال بھی سیاہ ہو جائے گا۔پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گالیان دی کیوں جاتی ہیں۔کیا صرف اس لیے کہ میں کہت اہوں کہ قرآنِ شریف کو نہ چھوڑو اور آنحضرت ﷺ کی تکزیب نہ کرو۔غرضب کی بات ہے کہ قرآنِ شریف میں لکھ اہو کہ حصرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے اور پھر زمین پر نہیں آئیں گے مگر یہ ماننے میں نہیں آتے اور اس عقیدۂ مخالفتِ قرآن پر اڑتے ہیں۔اگر میں نہ آیا ہوت اور خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم نہ کیا ہوتا،تو یہ جو کچھ چاہتے کہتے کیونکہ اُن کو بیدار کرنے والا اور آگاہ کرنے والا ان میں موجود نہ تھا۔لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے اور میں وہی ہوں جس کو آنحضرت ﷺ نے حکم قرار دیا ہے تو پھر میرے فیصلہ پر چون و چراکرنا ان کا حق نہیں تھا۔طریق تقویٰ تو یہ تھا کہ میری باتوں کو سنتے اور غور کرتے اناکر کے لیے جلدی نہ کرتے۔میں سچ سچ کہتاہوں کہ میرے آنے کے بعد اُن کا حق نہیں ہے کہ یہ زبان کھولیں، کیونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور حکم ہو کر آیا ہوں۔؎ٰ
ابھی بہت زمانہ نہیں گذرا کہ مُقَلِّد غیر مقلدوں کی گلطیان نکالتے اور وہ ان کی غلطیان ظاہر کرتے اور اس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے۔ایک دوسرے کو کافر کہتے اور نجس بتاتے تھے۔اگر کوئی تسلی کی راہ موجود تھی،تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہو چکی تھیں اور لوگ حقیقت کی راہ سے دور جا پڑے تھے۔ایسے اختلاف کے وقت ضرور تھا کہ خد اتعالیٰ خدو فیصلا کرتا؛ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ایک حکم ان میں بھیج دیا۔اب بتائو کہ میں نے کای زیادتی کی ہے یا کیا قرآن شریف سے کم کر دیا ہے جو میری مخالفت کے لیے اس قدر جوش پیدا ہوا ہے؟
یہ سچ ہے کہ اس وحی کی بناء پر جو خد اتعالیٰ کی کامل اور مجید کتاب کی شرح میں ہے میں نین کاہ کہ مسیح ؑ مر گیا ہے،لیکن اس کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟ کیوں یہ قرآن شریف کو غور سے نہیں پڑھتے۔کیا اُن کو شرم نہیںآتی ہے کہ یہ مسلمان کہلاتے ہیںموحد کہلاتے ہیں۔آنحضرت ﷺ کو افضل الانبیء اور خیر البشر تسلیم کرتے ہیں۔لیکن جب وہی لفظ توفی کا آپؐ پر آتا ہے تو اس کے معنی موت کرتے ہیں اور جب مسیح پر آتا ہے تو زندہ مع جسم آسمان پر اٹھائے جاتے ہیں۔ اُن کی غیرت کو کای ہوا؟ یہ آنحضرت ﷺ کی ایسی ہتک کیوں روا رکھتے ہیں؟ کیا قرآن شریف میں
تعد ھم اونتو فینک (یونس : ۴۷)
رسول اﷲ ﷺ کے لیے نہیں آیا؟ اور وہی لفظ مسیح کے لیے متوفیک اور فلما توفیتنی میں آیا ہے۔پھر یہ کیا ہو گیا کہ ایک جگ کچھ اور معنی اور ایک جگہ کچھ اور۔آنحضرت ﷺ کو ایسا ہی کمزور نبی سمجھا ہے جو انہیں زمین میں دفن کرتے ہیں اور مسیح ؓ کو آسمان پر چڑھاتے ہیں۔اگر آنحضرت کی محبت ہوتی اور آپؐ کے جلال اور شوکت کے لیے غیرت ہے تو کیوں نہیں کہہ د یتے کہ وہ بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔تب میں بھی سمجھ لیتا کہ یہ مسیحؑ کی خصوصیت نہیں ٹھہراتے مگر موجودہ حالت میں میرا دل گوارا نہیں کر سکتا کہ میں قرآنِ شریف کے ایسے معنے کروں جو خود قرآنِ شریف اور لُغت اور آنحضرت ﷺ کی تفسیر کے خلاف ہوں اور آنحضرت ﷺ کی ہتک شان کا باعث ہوں۔
میں سچ کہت اہوں کہ جس شخص نے یہ لکھ اہے کہ جو شخص یہ کہے کہ آنحضرت ﷺ زندہ نہیں وہ کافر ہے وہ سچ کہتا ہے۔
اس خصوصیت کے پید اکرنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ تیس لاکھ مرتد ہو گیا۔خد اکے واسطے اس قدر ظلم نہ کرو کہ آنحضرت ﷺ کی شان اور رتبہ کو گھٹایا جاوے۔جو اس عقیدہ سے برا بر گھٹتی ہے کہ وہ تو زمین میں دفن کئے گئے اور مسیح ؑآسمان پر اٹھایا گیا۔مسیح ؑہرگز زندہ نہیں رہا۔وہ مرگیا۔جیس اکہ خد اتعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ
یا عیسیٰ انی متوفیک (آل عمران : ۵۶)
اور خود مسیح ؑنے اقرار کر لیا
فلما توفیتنی (المائدہ : ۱۱۸)
میں پھر کہتا ہوں کہ عیسائیوں کو اعتراض کا موقعہ نہ دو۔میری باتوں کو سنو اور غور سے سنو اور پھر اپنی جگہ پر جا کر سوچو۔؎ٰ
۳؍ستمبر ۱۹۰۴ء؁
بمقام لاہور
مذہبی رواداری کی تعریف
حضرت اقدسؑ کی تیسری تقریر جو حضور نے بارہ ہزار سے زائد آدمیوں کے مجمع میں حاضرین کی بیحد خواہش سے کی:
میں آپ سب صاحبوں کا شکر کرتا ہوں کہ آپ نے نہایت صبر اور خاموشی کے ساتھ میرے لیکچر کو سنا۔میں ایک مسافر آدمی ہوں اور کل صبح انشاء اﷲ چلا جائوں گا۔لیکن میں اس شکر اور خوسی کو ساتھ لے جائوں گا۔اور یاد رکھوں گا کہ باوجود اختلاف رائے کے (کہ جس کی وجہ سے عموماً جوش پید اہو جاتاہے) آپ نے نیکی اور نیک اخلاقی اور آہستگی سے میرے مضمون کو سنا۔میں یہ جانتا ہوں اور خود محسوس کرتا ہوں کہ مدت کے خیالات کو چھوڑنا سہل اور آسان نہیں ہوتا خواہ وہ کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں۔
‏Amira 4-8-05
یہ محض اﷲ تعالیٰ کے فضل پر موقوف یہ کہ انسان اپنے اندر علمی یا عملی تبدیلی کر سکے،لیکن جو اخلاق آپ نے دکھائے ہیں ہ نہایت ہی قبل تعریف ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ جیسے اﷲ تعالیٰ نے عام طور پر یہ اجتماعی رنگ دکھایا ہے وہ ایسا وقت اور زمانہ بھی لاوے کہ د لوں میں بھی اتحاد اور اجتماع ہو اس ملک کو تفرقہ نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اس ملک کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں بہت بڑا اتحاد اور اتفاق تھا اور باوجود اختلافِ مذاہب بھی ان میں قابل قدر میل ملاپ تھا مگر اس زمانہ میں فرق آگیا اور خدا کرے کہ یہ دور ہو جائے۔
یاد رکھو کہ یہ تنگ دلی اور تنگ ظرفی کا نشان ہے کہ انسان اختلافِ شریعت و مذہب کی وجہ سے اخلاق کو بھی چھوڑدے۔اختلافِ رائے اور چیز ہے اور اخلاق اور۔یہ انسانی اخلاق کی خوبی اور کمل ہے کہ اباوجود اختلافِ رائے کے اخلاقی کمزوری نہ دکھائے۔آج کے جلسہ نے مجھے ایک تازہ امید دلائی ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ اپنا فضل کرے تو یہ میل جول ترقی کریگا۔میں خوب جانت اہوں کہ جبتک طبیعت میں یہ استعداد نہیں ہوتی کہ کوئی شخص صبر اور خوش خلقی سے ایک مخالف رائے کو سُن سکے وہایسی رائے کو سُن کر چپ نہیں رہ سکتا۔اسی لیے یہ خاموشی اور صبر مجھے امید دلاتا ہے کہ اچھے نتیجے پیدا ہوں گے۔یہ بھی خوبی کی بات ہے کہ جب مخالف رائے کو سنے تو فوراً جواب دینے کو تیار نہ ہو جائے کیونکہ یہ تو محض ہارجیت کی خواہش ہوگی،لیکن اس رائے کے صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لیی اس پر صبر سے فکر کرنا چاہیے۔اس سے علمِ و حکمت پیدا ہوتی ہے اور علم و حکمت ایسا خزانہ ہیجو تمام دولتوں سے اشرف ہے۔دنیا کی تمام دولوتوں کو فنا ہے،لیکن علم و حکمت کو فنا نہیں ہے۔پس جو جلدی نہیں کرتا بلکہ فکر کرتا اور اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ اے اﷲ اگر میں غلطی پر ہوں تو مجھے بصیرت اور معرفت عطا کر۔وہ اس حکمت کے خزانہ کو محفوظ رکھتا ہے۔پس میں چاہتا ہوں کہ آپ صاحبان اس خزانہ کے حاصل کرنے اور محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔
میں آپ صاحبوں کی خدمت میں ادب ،عجز اور تواضع سے عرض کرتا ہوں کہ یہ جو کچھ سنایا گیا ہے آپ اس پر توجہ کریں تاکہ میری محنت ضائع نہ ہو۔جو کچھ میری قلم سے نکلا ہے اور میرے دوست مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھا ہے میں اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ کسی کی دل آزاری یا استخفافِ مذہب کی نیت سے نہیں لکھا بلکہ خدا گواہ ہے اور اس سے بہتر کون گواہ ہو سکتاہے کہ میں نے سچے دل سے لکھاہے اور بنی نوعِ انسان کی ہمدردی کے لیے لکھ ہے اور میں جانتا ہوں کہ ؎
سخن کز دل بروں آید نشیند لا جرم بر دل
چونکہ فرصت بہت کم ہے۔ممکن ہے کہ بعض نے نہ سنا ہو اس لیے ہم نے چھپا دیا ہے اور بشرط گنجائش مل سکتا ہے۔پس اس کو پڑھ کر توجہ کریں اور مذہبی مخالفت کو عام مخالفت کا ذریعہ نہ بنادیں۔مذہب تو اس لیے ہوت اہے کہ اخلاق وسیع ہوں جیسے خدا تعالیٰ کے اخلاق وسیع ہیں۔کوئی ہزاروں گالیاں اُسے دے وہ اس پر پتھر نہیں برسا دیتا ۔پس اسی طرح حقیقی مذہب والا تنگ ظرف نہیں ہوسکتا۔تنگ ظرف خواہند دیا مسلمان ی عیسائی وہ دوسرے بزرگوں کو بھی بدنام کرتا ہے۔میں اس سے منع نہیں کرتاکہ اختلافِ مذہب بیان نہ کرو۔بیشک نیک نیتی سے اختلاف بیان کرو۔مگر اس میں تعصب اور کینہ کا رنگ نہ ہو۔ہندوئوں اور مسلمانوں کے تعلقات دوچار سال سے نہیں بلکہ صدہا سال سے چلے آتے ہیں۔اس لیی خد اکرے کہ بہت سے دلوں میں جوش ڈال دے کہ جوان تعلقات کو دور نہ ہونے دیں۔
یہ بھی یاد رکھو کہ مذہب صرف قیل و قال کا نام نہیں بلکہ جبتک عملی حالت نہ ہو کچھ نہیں۔خدا س کو پسند نہیں کرتا۔جس قدر بزرگ اسلام میں یا ہندوجوں میں اوتار وغیرہ گذرے ہیں ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے عمل سے اُن سچائیوں کو جن کا وہ وعظ کرتے تھے ثابت کر دکھیا ہے۔قرآنِ شریف میں بھی یہی تعلیم ہے۔
یا یھا الذین امنو ا علیکم انفسکم (المائدۃ : ۱۰۶)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اپنے آپ کو درست کرو۔جس شخص کے اندر خود روشنی اور نور نہیں ہے وہ اگر زبان سے کام لے گا تو وہ مذہب کو بچوں کا کھیل بنادے گا اور حقیقت میں ایسے ہی مصلحوں سے ملک کو نقصان پہنچاہے۔ان کی زبان پر تو منطق اور فلسفہ جاری رہتاہے مگر اندر خالی ہوتا ہے۔
مصلح کی صفات
خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نہایت خیر خواہی سے کہہ رہا ہوں خواہ کوئی میری باتوں کو نیک ظنی سے سنے یا بد ظنی سے ،مگر مین کہوں گا کہ جو شخص مصلح بننا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہپہلے خود روشن ہو اور اپنی اصلاح کرے۔دیکھو یہ سورج جو روشن ہے ہلے اس نے خود روشنی حاصل کی ہے۔میں یقینا سمجھتا ہوں کہ ہر ایک قوم کے معلم نے یہی تعلیم دی ہے،لیکن اب دوسرے پر لاٹھی مارنا آسان ہے،لیکن اپنی قربانی دینا مشکل ہوگیا ہے۔پس جو چاہتا ہے کہ قوم کی صلاح کرے اور خیر خواہی کرے۔وہ اسکو پانی اصلاح سے شروع کرے۔قریم زمانہ کے رشی اور اوتار جنگلوں اور بنوں میں ج کر اپنی اصلاح کیوں کرتے تھے وہ آجکل کے لیکچراروں کی طرح زبان نہ کھولتے تھے جبتک خود عمل نہ کر لیتے تھے۔یہی خد اتعالیٰ کے قُرب اور محبت کی راہ ہے۔جو شخص دل میں کچھ نہیں رکھتا اس کا بیان کرنا پر نالہ کے پانی کی طرح ہے،جو جھگڑے پیدا کرتا ہے اور جو نورِ معرفت اور عمل سے بھر کر بولت اہے وہ بارش کی طرخ ہے جو رحمت سمجھی جاتی ہے۔اس وقت میری نصیحت یاد رکھیں۔آج کے بعد آپ مجھے یہاں نہ دیکھیں گے اور میں نہیں جانت اکہ پھر موقعہ ہو یا نہ ہو،لیکن ان تفرقوں کو مٹانے کی کوشش کرو۔میری نسبت خواہ آپ کا کچھ ہی خیال ہو لیکن یہ سمجھ کر کہ ؎
مرد باید کہ گیرد اندر گوش
در نوشت است پند بر دیوار
میری نصیحت پر عمل کرو۔جو شخص خود زہر کھا ثکا ہے وہ دوسرون کی زہر کا کیا علاج کرے گا۔اگر علاج کرتا ہے تو خود بھی مرے گا اور دوسروں کو بھی ہلاک کرے گا۔کیونکہ زہر اس میں ار کرچکا یہ اور ا سکے خواص چونکہ قائم نہیں رہے۔اس لیے اس کا علاج بجائے مفید ہوین کے مضر ہوگا۔غرض جس قدر تفرقہ بڑھتا جاتا ہے اس کا باعث وہی لوگ ہیں جنہوں نے زبانوں کو تیز کرنا ہی سیکھا ہے۔
دوسرے مذاہب کی حیثیت
یہ بھی یاد رکھو کہ میرا یہ مذہب نہیں کہ اسلام کے سوا سب مذاہب بالکل جھوٹے ہیں۔میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ وہ خدا ج مخلوق کا خد اہے وہ سب پر نظر رکھتا ہے۔یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی قوم کی پرواہ کرے اور دوسروں پر نظر نہ کرے۔ہاں یہ سچ ہے کہ حاکم کے دورے کی طرح کھی کسی قوم پر وہ وقت آجاتا ہے اور کبھی کسی پر۔میں کسی کے لیے نہیں کہتا۔خد اتعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظہار کیا ہے کہ راجہ رامچندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راستباز بندے تھے اور اس سے سچا تعلق رکھتے تھے۔میں اس شخص سے بیزار ہوں جو ان کی نندیا یا توہین کرتا ہے۔اس کی مثال کنوئیں کے مینڈک کی سی ہے جو سمندر کی وسعت سے ناواقف ہے۔جہانتک ان لوگوں کے صحیح سوانح معلوم ہوتے ہیں اس سے پایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدات کیے اور کوشش کی کہ اس راہ کو پائیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی حقیقی راہ ہے۔پس جس شخص کا یہ مذہب ہو کہ وہ راستباز نہ تھے وہ قرآنُِ شریف یک خلاف کہتا ہے کیونکہ اس میں فرمایا ہے
وان من امۃالا خلافیھا نذیر (فاطر : ۲۵)
یعنی کوئی قوم اور اُمت ایسی نہیں گذری جس میں کوئی نذیر نہ آیا ہو۔میں بابا نانک صاحب کو بھی خدا پرست سمجھتا ہوں اور کبھی پسند نہیں کرتا کہ ان کو بُرا کہا جائے۔میں ان کو ان لوگوں میں سے سمجھتا ہوں جن کے دل میں خدا تعالیٰ اپنی محبت آپ بٹھا دیتا ہے۔پس ان لوگوں کی پیروی کرو۔اور دل کو روشن کرو۔پھر دوسروں کی اصلاح کے لیے زبان کھولو۔اس ملک کی شائستگی اور خوش قسمتی کا زمانہ تب آئے گا جب نری زبان نہ ہوگی۔بلکہ دل پر دار و مدار ہوگا۔پس اپنے تعلقات خدا تعالیٰ سے زیادہ کرو۔یہی تعلیم سب نبیوں نے دی ہے اور یہی میری نصیحت ہے۔اگر درخانہ کس است حرفے بس است۔؎ٰ
۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء؁ بمقام قادیان بعد نماز مغرب
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہ نشین پر جلو ہ افروز ہو کر فرمایا کہ :
میرے سر کی حالت آج بھی اچھی نہیں ،چکر آرہا ہے۔جب جماعت کا وقت آتا ہے ۔تو اس وقت خیال گذرتا ہے کہ سب جماعت ہوگی اور میں شامل نہ ہوں گا اور افسوس ہوتا ہے۔اس لیے افتاں خیزاں چلا آتا ہوں۔
چند اصحاب اپنی مستورات کے علاج ک لیے لاہور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور انجام کار
معلوم ہوا کہ مس ڈاکٹروں کے علاج سے کوئی فرق مرض میں معلوم نہیں ہوتا۔اس لیے حضورؑ
نے فرمایا کہ :
چونکہ یہ لوگ متدیّن نظر نہیں ئتے۔اس لیی خطرہ ہے کہ کوئی اور تکلیف نہ بڑھ جاوے۔انکو کہہ دو کہ چلے آویں۔شافی اﷲ تعالیٰ ہی ہے۔دائیوں کا دستور ہوتا ہے کہ محض روپیہ بٹورنے کی خاطر وہ مرض کو بڑھاتی جاتی ہیں۔قادیان کی آب و ہوا لاہور کی نسبت بہت عمدہ ہے۔اس سے اُن کو فائدہ ہوگا۔ہم اس لیے کہتے ہیں کہ جو بات دل میں آوے اُسے مخفی رکھا جاوے تو یہ ایک قسم کی خیانت ہے۔
بعض امراض کا علاج
عورتوں کے بعض امراض اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اُن کے علاج کے لیے کھلی ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے بعض رؤسامیں جو اشد درجہ کا پردہ رائج ہے،میں اس کے خلاف ہوں۔بعض عورتوں کو بعض وقت کھلی ہوا میں پھرانا چاہیے۔دیکھو حضرت عائشہ صدیقہؓ رفع حاجت کے لیے باہر جایا کرتی تھیں کیا پھر آجکل کے رؤساء کی عورتیں اُن سے بڑھ کر ہیں؟
حضرت حکیم نورالدین صاحب نے فرمایا کہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ مراق کے تین علاج ہیں۔
اول چلنا پھرنا۔دوسرے بیکار نہ رہنا۔کسی نہ کسی شغل میں مصروف رہنا۔تیسرے ہینگ اور
افسنتین کا استعمال۔
حصولِ اولاد کے لیے اﷲ تعالیٰ کے فضل ہی کی ضرورت ہے وا رقرآن شریف اورتورات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔حضرت یوسف ؑ کی والدہ بہت ضعیف تھیں اور ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ان کی نسبت تورات میں لکھا ہے کہ خداوند نے کہ کہ میں نے اس کے رحم کو کھولا ؎ٰ۔پس خدا تعالیٰ ہی کھولے تو کُھل سکتا ہے۔
(مگر یاد رہے کہ اس تقریر سے دائیوں کے علاج کی حرمت نہ سمجھی جائے)۲؎
۱۹؍اکتوبر ۱۹۰۴ء؁
سیالکوٹ سے احمدی جماعت کی طرف سے دعوت کا پیغام آیا۔آپ نے فرمایا کہ :
تین چار روز کے بعد جواب دوں گا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ حضورؑ استخارہ کے بعد روانگی کی تاریخ مقرر کریں گے۔؎ٰ
۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۴ء؁ بوقت ظہر
تجارتی روپیہ پر منافع
ایک صاحب کی خاطر حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے ایک مسئلہ حصرت اقدس ؑ سے دریافت کای کہ یہ ایک شخص ہیں جن کے پاس بیس بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے۔ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجرت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لیے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے۔اسی طرح ہر یک شئے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آوے وہ امانت رہے۔سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سو روپیہ ان کو منافع کا دے دیا کرے گا۔یہ اس غرض سے یہاں فتویٰ دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو اُن کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کرلی جاوے۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ :
چونکہ اُنہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے اسلئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ادا ہوا کرتی ہے۔دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں۔لہذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو اُن کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے۔اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں۔سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں) لیا جاتا ہے۔اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہو گئے ہیں۔کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔اسلئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔۲؎
احباب کی ضروریات کا خیال
ظہر کی نماز سے پیشتر حضورؑ نے کچھ روپے جن کی تعداد غالباً آٹھ یا دس ہوگی ایک مخلص مہاجر کو یہ کہہ کر دیئے کہ چونکہ موسم سرما ہے آپ کو کپڑوں کی ضرورت ہوگی۔اس مہاجر کی طرھ سے کوئی سوال نہ تھا۔خود حضورؑ نے ان کی ضرورت کو محسوس کرکے یہ رقم عطا کی جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ کو مخلص خدام کی ضرورت کا کس قدر خیال ہے۔
گناہوں سے معصوم انبیاء ہیں۔لیکن دوسرے لوگ توبہ و استغفار کے ذریعہ سے اُن سے مشابہت پیدا کر لیتے ہیں۔؎ٰ
۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۴ء؁
اﷲ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے
ایک صاحب کے رشتہ دار کسی وجہ سے قید ہو گئے تھے۔ان کے ذکر پر حصرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے عرض کی کہ میں نے اُن سے یہ کہا ہے کہ اُسے خود استغفار کی تاکید کی جاوے۔اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ :
بعض لوگ جو استغفار کے لائق ہیں وہ تو استغفار کرتے ہیں اور دوسروں کو محض خدا تعالیٰ کی رحمت سے بھی رہائی مل جایا کرتی ہے۔جن کی طبیعت میں کجی ہے ان کے لیے اس کی رحمت وسیع ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فارسی کا ایک الہام
ایک دفعہ آنحضرتﷺ سے ایک نے دریافت کیا کہ کیا اﷲ تعالیٰ نے کبھی فارسی زبان میں بھی کلام کی ہے۔تو آپؐ نے فرمایا۔ہاں۔ایک دفعہ یہ فقرہ الہام ہوا تھا ؎
ایں مُشتِ خاک راگر نہ بخشم چہ کنم
روس اور جاپان کی جنگ
اس جنگ کے ذکر پر حضرت حکیم نورالدین صاحب نے بیان کیا کہ اس قدر خو نخوار جنگ ہے کہ ہزاروں آدمی ہلاک ہورہے ہیں؛ حالانکہ دونوں سلطنتوں کا مذہب ایسا ہے جس کی رو سے اس جنگ کی مطلق نوبت ہی نہ آنی چاہیے۔جاپان کا بُدھ مذہب ہے اور اس کی رو سے ایک چیونٹی کا مارنا بھی گناہ ہے۔رُو س عیسائی ؎ٰ ہے اور اُن کو چاہیے کہ مسیح کی تعلیم کے بموجب اگر جاپان ایک مقام پر قبضہ کرے تو دوسرا مقام خود اس کے حوالہ کر دیں۔
چند عیسائیوں سے گفتگو
آج تین عیسائی حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کے لیے تشریف لائے۔ایک نو جوان تھے جو کہ ایک صاحب کے بچے تھے اور باقی میں سے ایک صاحب ڈاکٹر تے۔جو کہ ضعیف العمر تھے اور ایک قاضی صاحب پشاوری جوان مرد تھے۔ایک صاحب ان میں سے وہ تھے جنہوں نے تحقیقِ مذاہب کی بناء پر نیاز مند انہ طور پر حضرت اقدس سے کسی زمانہ میں خط و کتابت کی تھی جس کی وجہ سے انکو کمال شوق حضورؑ کی زیارت کا تھا۔خانقاہوں میں سے ایک مشہور خانقاہ ہے جہاں اکثر لوگ مشرکانہ عقائد کی بناء پر زیارت وغیرہ کے لیے جاتے ہیں۔وہاں کی نسبت ایک عیسائی صاحب نے ذکر کیا کہ جالندھر کے ضلع کے لوگوں کے لیے وہ یہ کیا کرتے ہیں کہ ایک سفید کبوتر کی ٹانگیں کمزور کر کے قبر پر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیںکہ صاحبِ مزار کی روح اس میں حلول کر آئی ہے اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ :
یہ کبوتر پیچھا نہیں چھوڑتا
اس کے بعد حضرت اقدس اور عیسائی صاحبوں میں ذیل کی گفتگو ہوئی جس میں اکثر روئے سخن
ڈاکٹر صاحب کی طرف ہی تھا۔
حضرت اقدس- ادھر آپ کا آنا کس تقریب پر ہوا؟
ڈاکٹر صاحب- صرف زیارت کی غرض سے کیونکہ ایک عرصہ سے شوق تھا۔
حضرت اقدس۔ مگر تاہم ایسی کونسی تقریب ہوئی کہ آپ ادھر آگئے؟
ڈاکٹر صاحب۔ مین نے رخصت لی تھی اور بال بچوں کو لے کر آیا تھا۔وہ لاہور میں ہیں اور خود ادھر
آیا ہوں۔بڑا باعث رخصت کا آپ کی ملاقات ہی تھی۔
حضرت اقدس۔ اب رخصت کے لکتنے دن باقی ہیں؟
مفتی صاحب۔ (حساب کر کے) ۱۷ دن باقی ہیں۔
حضرت اقدس ۔ تو اب آپ کو یہ ایام یہان ہمارے پاس ہی گذارنے چاہئیں۔
حکیم نور الدین صاحب۔ یہ تو آج ہی رخصت ہوتے تھے مگر رات کو میں نے رکھ لیا ہے۔
حضرت اقدس۔ جب رخصت ہمارے لیے لی تو پھر رخصت کے ایام ہمارے پاس گذارنے چاہئیں۔
عیسائی قاضی صاحب۔ اتنی فرصت نہیں۔زیارت مقصود تھی سو ہو گئی۔
حضرت اقدس۔ ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کرکے۔اب پھر کیا صلاح ہے۔کتنے دن رہوگے؟
عیسائی قاضی صاحب نے پھر جلدی جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔
حضرت اقدس۔ یہ مہمان داری کے ادب کے خلاف ہے اور آپ کے ارادے کے بھی برخلاف
ہے کہ اس قدر جلدی کی جاوے۔میرا ارادہ جمعرات کو سیالکوت جانے کا ہیتب تک
رہیں۔پھر اکٹھے چلیں گے۔؎ٰ
اس اثنا میں نماز کا وقت ہو یگا۔حضرت اقدس نے حکم فرمایا کہ ان کی خوابگاہ اور بساتر اور خوراک
وغیرہ کا اہتمام بہت عمدہ طور سے کر دیا جایوے کہ کوئی تکلیف نہ ہو اور ہرسہ صاحبان تشریف لے
گئے۔دوسرے دن احمدی عمارات اور کارخانوں کو دیکھ کر رخصت ہوگئے۔
۲۲؍اکتوبر ۱۹۰۴ء؁
ایک شخص بیمار کا ذکر ہوا۔آپ نے فرمایا کہ :
انسان خال تندرستی میں صحب کی قدر نہیں کرتا (کہ ان ایام میں اپنے تعلقات اﷲ تعالیٰس ے مضبوط کرے تا کہ وہ ہر طرف اس کا حافظ و ناصر ہو ۲؎)اور جب بیمار ہوتا ہے تو ھپر دوبارہ صحت اس لیے طلب کرتا ہے کہ انہی دنیا کے امور میں مبتلا ہو (اگر اس کا ارادہ خدمت دین ہو تو اس کا صحت طلب کرنا گویا منشائے الٰہی کے مطابق ہوگا ۲؎)
اسی بیمار کی نسبت ذکر ہوا کہ اس نے کئی سو روپیہ لوگوں سے لینا ہے،مگر صرف چند روپوں کے کاغذات ہیں باکی تمام زبانی لین دین ہے اور اس کی دو لڑگیاں ہیں۔بعض احباب نے تجویز کیا کہ جو کچھ رقوم لوگوں کے ذمہ ہیں اور وہ تحریر میں نہیں آئیں تو چاہیے کہ اب دو آدمی گواہ مقرر کر کے اس کی زندگی میں وہ رقمیں ان مقرو ضوں کی منوالی جاویں۔اور تحریر کردا لیا جاوے۔
حضور ؑ نے فرمایا کہ :
اس کی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔یہ بڑے ثواب کی بات ہے۔ممکن ہے کہ اگر وہ مر جاوے تو بیچاری لڑکیوں کو ہی کچھ فائدہ پہنچ جاوے۔
اسلام میں مساوات
اہل اسلام کی وحدت اور اخوّت پر ذکر ہوا کہ عیسائیوں نے بھی اس خوبی کو تسلیم کیا ہے کہ مسلمان لوگ جب مسجد میں داخل ہو جاویں تو اُن میں بادشاہ اور امیر و غریب کی کوئی تمیز نہیں رہتی اور کسی کو حق نہیں کہ کسی قسم کا امتیاز کرے؛ حالانکہ عیسائیوں کے گرجے اس سے محروم ہیں۔خاص انگریزوں کے گرجوں میں عام عیسائی لوگ داخل نہیں ہوسکتے۔پھر گرجوں میں درجہ بدرجہ چوکیان لگی ہوتی ہیں اور رومن کیتھولک تونشستگاہوں پر نام بھی لکھ دیتے ہیں۔
اس پر حضور ؑ نے فرمایا کہ :
مسلمانوں کے معبد میں یہ ایک بے نظیر نمونہ ہے کہ سب کو یکساں نظر سے دیکھ اجاتا ہے۔
مولان حکیم نورالدین صاحب نے عرض کی کہ ہماری مسجد میں تو خود امام الوقت بھی مقتدی بنکر نماز پڑھتا ہے۔
مہمان خانہ کے منتظمین کے لیے ہدایات
مہمان کی تواضع کے متعلق آپ نے فرمایا کہ :
لنگرخانہ کے مہتمم کو تاکید کر دی جاوے کہوہ ہر ایک شخص کی اختیاج کو مد نظر رکھے مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اُسے خیال نہ رہتا ہے، اس لیے کوئی دوسرا شخص یاد دلا دیا کرے۔کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دست کش نہ ہوان چاہیے،کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے ناواقف آدمی ہیں تو یہ ہمارا حق ہیکہ اُن کی ہر ایک ضرورت کو مد نظر رکھیں۔بعض وقت کسی کو بیت الخلا کا ہی پتہ نہیں ہوت اتو اُسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھ اجاوے۔میں تو اکثر بیمار رہتا ہوں، اس لیے معذور ہوں۔مگر جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لیے قائمقام کیا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں۔کیونکہ لوگ صدہا اور ہزار ہا کوس کا سفر طے کرکے صدق اور اخلاص کے ساتھ تحقیق حق کے واسطے آئے ہیں۔پھر اگر ُن کو یہاں تکلیف ہوتو ممکن ہے کہ رنج پہنچے اور رنج پہنچنے سے اعتراض بھی پید اہوتے ہیں اس طرح سے ابتلا کاموجب ہوتا ہے۔اور پھر گناہ میزبان کے ذمہ ہوتا ہے۔
بیان کیا گیا کہ حضور بعض لوگ جو مسافر خانہ میں نوواردوں سے مذہبی مناظرے شروع کردیتے ہیں اور اس میں وہ اپنے خیل اور رائے کے موافق کلام کرتے ہٰں جو کہ بعض اوقات بے محل اور حضور کے منشا کے خلاف بھی ہوتی ہے اور نووارد متلا شی بھی اس سے اندازہ لگاتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا یہی مشرب ہوگا؛ حالعانکہ یہ بالکل غلطی ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ نوواردوں کے لیے ابتلا ہوتاہے۔
حضور ؑ نے تجویز فرمایا کہ :
اس قسم کی کلام ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ہمارے بعض مناظرین کو چونکہ نصریٰ کے ساتھ کلام کرنی پڑتی ہے اور جب وہ آنحضرت ﷺ کی کسر شان کرتے ہیں تو محل اور موقعہ کے لحظ سے اُن کو یسوع کی نسبت اسی قسم کے ثبوت دینے پڑتے ہیں۔اور وہ مقتضائے وقت ہوتا ہے مگر ہر ایک آدمی اس کا اہل نہیں ہے اور دوسرے لوگ اکثر کسی نبی کی شان میں بھی کوئی کلمہ گستاخی یا بے ادبی کا ستعمال کرتے ہیں، تو وہ گناہ کرتے ہیں۔یہ کبھی نہ گمان کرنا چاہیے کہ حضرت مسیحؑ یا دوسرے انبیاء ایک معمولی آدمی تھے۔یوہ اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ اور مقرب تھے۔قرآن شریف نے مصلحت اور موقعہ کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی نسبت ایک لفظ اس قسم کا بیان فرمایا ہے کہ جہاں آپ کے بہت سے انوار و برکات اور فضائل بیان کیے ہیں وہاں…
بشر مثلکم (الکہف :۱۱۱)
بھی کہہ دیا ہے مگر اس کے یہ ہرگز معنی نہیں ہیں کہ آنحضرت ﷺ فیالواقعہ ہی عام آدمیوں جیسے تھے۔اﷲ تعالیٰ نے یہ لفظ آپ کی شان میں ساس لیے استعمال فرمایا کہ دوسرے انبیاء کی طرح آپ کی پرستش نہ ہو اور آپ کو خدا نہ بنا یا جاوے۔اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ آپؐ کے فضائل و مراتب ہی سلب کر دیئے جاویں۔؎ٰ
آخر کار تجویز ہوا کہ ایک صاحب ذی وجاہت و ذی اثر کے ہاتھ میں مہمانوں کی تواضع کا اہتمام دیا جاوے۔
۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۴ء؁
(بوقت ظہر)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تصویری کارڈ
ظہر کے وقت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں ایک شخص کی تحریری درخواست بذریعہ کارڈ کے ان الفاظ میں پیش کی۔کہ یہ شخص حضور کی تصویر کو خط و کتابت کے کارڈوں پر چھاپنا چاہتے ہیں اور اجازت طلب کرتے ہیں۔
اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ :
میں تو اسے ناپسند کرتا ہوں
یہ الفاظ جاکر میں نے اپنے کانوں سے سنے۔لیکن حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حکیم فضل دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس سے پیشتر آپ نے یہ الفاظ فرمائے کہ :
یہ بدعت بڑھتی جاتی ہے۔میں اسے ناپسند کرتا ہوں؎ٰ
۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء؁
حضرت مسیح موعودؑ سیالکوٹ تشریف لے جارہے تھے۔بٹالہ ریلوے اسٹیشن پر جماعت بٹالہ نے آکر شرف نیاز حاصل کیا۔ایک صاحب نے عرض کیا کہ ہم چاہتے ہیں کوئی محنت و تکلیف نہ اُٹھانی پڑے اور کمال حاصل ہو جائے اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ : ۲؎
حصول کمال کے لیے مجاہدہ شرط ہے
اس قسم کے لوگ ہمیشہ گذرے ہیں جو چاہتے ہیں کہ بغیر کسی قسم کی محنت اور تکلیف اور سعی اور مجاہدہ کے وہ کمالات حاصل کر لیں جو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں۔صوفیاء کرام کے حالات میں لکھ اہے کہ بعض لوگوں نے آکر اُن سے کہا کہ کوئی ایسا انتظام ہو کہ ہم پھونک مارنے سے ولی ہو جاویں۔ایسے لوگوں کے جواب میں انہوں نے یہی فرمایا کہ پھونک کے واسطے بھی تو قریب ہونے کی ضرورت ہے،کونکہ پھونک بھی دور سے نہیں لگتی۔
قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
لیس للانسان الا ما سعی (النجم : ۴۰)
یعنی کوئی انسان بغیر سعی کے کمال حاصل نہیں کرسکتا۔یہ خد اتعالیٰ کا مقرر کردہ قانون ہے۔پھر اس کے خلاف اگر کوئی کچھ حاصل کرنا چاہے تو وہ خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑتا ہے اور اسے آزماتا ہے۔اس لیے محروم رہے گا۔دنیا کے عام کاروبار میں بھی تو یہ سلسلہ نہیں ہے کہ پھونک مار کر کچھ حاصل ہو جائے یا بدوں سعی اور مجاہدہ کے کوئی کامیابی مل سکے۔دیکھو۔آپ شہر سے چلے تو اسٹیشن پر پہنچے۔اگر شہر سے ہی نہ چلتے تو کیونکر پہنچتے۔پائوں کو حرکت دینی پڑتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح سے جب قدر کاروبار دنیا کے ہیں سب میں اول انسان کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔جب وہ ہاتھ پائوں ہلاتا ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ بھی برکت ڈال دیتا ہے۔اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہی لوگ کمال حاصل کرتے ہیں جو مجاہدہ کرتے ہیں۔اسی لیے فرمایا ہے
والذین جاھدو افینا لنھدینھم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
پس کوشش کرنی چاہیے کیونکہ مجاہدہ ہی کامیابیوں کی راہ ہے۔؎ٰ
‏Amira 7-8-05
۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۴ء؁ بعد نماز جمعہ
بیعت کی اہمیت
میں ان لوگوں کے لیے جنہوں نے بیعت کی ہے چند نصیحت آمیزکلمات کہنا چاہتا ہوں یہ بیعت تخم ریزی ہے اعمالِ صالحہ کی۔جس طرح کوئی باغبان درخت لگاتا ہے یا کسی چیز کا بیج بوتا ہے۔پھر اگر کوئی شخص بیج بوکر یا درخت لگا کر وہیں اس کو ختم کردے اور آئندہ آبپاشی ور حفاظت نہ کرے تو وہ تخم بھی ضائع ہو جاوے گا۔اسی طرح انسان کے ساتھ شیطان لگا رہتا ہے۔پس اگر انسنا نیک عمل کرکے اس کے محفوظ رکھنے کی کوشش نہ کرے تو وہ عمل ضائع ہو جاتا ہے۔تمام مخلوقات مثلاً مسلمان ہی سہی اپنے مذاہب کے فرائض میں پابند ہیں مگر اس میں کوئی ترقی نہیں کرتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نیک عمل کے بڑھانے کا خیال اُن کو نہیں ہوتا اور رفتہ رفتہ وہ عمل رسم میں داخل ہو جاتا ہے۔پس مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے تو کلمہ پڑھنے لگے۔ہندوئوں کے گھر میں ہوتے تو رام رام کرتے۔
یاد رکھو بیعت کے وقت توبہ کے اقرار میں ایک برکت پیدا ہوتی ہے۔اگر ساتھ اُس کے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی شرط لگالے تو ترقی ہوتی ہے۔مگر یہ مقدم رکھنا تمہارے اختیار میں نہیں بلکہ امدادِ الٰہی کی سخت ضرورت ہے۔جیسے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے
والذین جاھدو ا فینا لنھدینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
کہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں۔ہماری راہ میں انجام کار راہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں۔جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بدوں کو شش اور آبپاشی کے بے برکت رہتا بلکہ خود بھی فنا ہو اجت اہے۔اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یاد نہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا ہماری مدد کر تو فضل الٰہی و ارد نہیں ہوگ ااور بغیر امدادِ الٰہی کے تبدیلی نا ممکن ہے۔چور، بد معاش ،زانی وغیرہ جراتم پیشہ لوگ ہر وقت ایسے نہیں رہتے بلکہ بعض وقت ان کو ضرور پشیمانی ہوتی ہے۔یہی حال ہر بدکار کا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان میں نیکی کا خیال ضرور ہے۔پس اس خیال کے واسطے اس کو امدادِ الٰہی کی بہت ضرورت ہے۔اسی لیے پنجوقتہ نماز میں سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کا حکم دیا۔اس میں ایاک نعبد اور پھر ایاک نستعین یعنی عبادت بھی تیری ہی کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔اس میں دوباتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔یعنی ہر نیک کام میں قویٰ ،تدابیر، جدوجہد سے کام لیں۔یہ اشارہ ہے نعبد کی طرف۔کیونکہ جو شخص نری دعا کرتا اور جدوجہد نہیں کرتا وہ بہرہ یاب نہیں ہوتا۔جیسے کسان بیج بوکر اگر جدوجہد نہ کرے تو پھل کا امید وار کسیسے بن سکتا ہے۔اور یہ سنت اﷲ ہے۔اگر بیج کو صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے۔مثلاً دو کسان ہیں ایک تو سخت محنت اور کلبہ رانی کرتا ہے۔یہ تو ضرور زیادہ کامیاب ہوگا۔دوسرا کسان محنت نہیں کرت یا کم کرتا ہے۔اس کی پیداوار ہمیشہ ناقص رہے گی جس سے وہ شاید سرکاری محصول بھی ادا نہ کر سکے اور وہ ہمیشہ مفلس رہے گا۔اسی طرح دینی کام بھی ہیں۔انہیں میں منافق،انہیں میں نکمے، انہیں میں صالح،انہیںمیں ابدال،قطب،غوث، بنتے ہیں۔اور خدا تعالیٰ کے نزدیک درجہ پاتے ہیں۔اور بعض چالیس چالیس برس سے نماز پڑھتے ہین مگ ہنوز روزِ اول ہی ہے اور کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔تیس روزوں سے کوئی فائدہ محسوس نہیں کرتے۔بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم بڑے متقی اور مدت کے نماز خواں ہیں مگر ہمیں امدادِ الٰہی نہیں ملتی۔اس کا سبب یہ ہے کہ رسمی اور تقلیدی عبادت کرتے ہیں۔ترقی کا کبھی خیال نہیں۔ گناہوں کی جستجو ہی نہیں۔سچی توبہ کی طلب ہی نہیں۔پس وہ پہلے قدم پر ہی رہتے ہیں۔ایسے انسان بہائم سے کم نہیں ۔ایسی نمازیں خد اکی طرف ویل لاتی ہیں۔نماز تو وہ ہے جو اپنے ساتھ ترقی لے آوے۔جیسے طبیب کے زیر علاج ایک بیمار ہے۔ایک نسخہ وہ دس روز استعمال کرت ہے۔پھر اس سے اس کو روز بروز نقصان ہو رہا ہے۔جب اتنے دنوں کے بعد فائدہ نہ ہو تو بیمار کو شک پڑجاتا ہے کہ یہ نسخہ ضرور میرے مازج کے موافق نہیں اور یہ بدلنا چاہیے ۔پس رسم اور رسمی عبادت ٹھیک نہیں۔
دعائوں کی اہمیت
نمازوں میں دعائیں اور درود ہیں۔یہ عربی زبان میں ہیں،مگ تم پر حرام نیں کہ نمازوں میں اپنی زبان میں بھی عائیں مانگ ا کرو؛ ورنہ ترقی نہ ہوگی۔خدا کا حکم ہے کہ نماز وہ ہیجس میں تضرع اور حض٭ر قلب ہو۔ایسے ہی لوگوں کے گناہ دور ہوتے ہیں؛ چنانچہ فرمایا
ان الحسنات یذھبن السیات (ھود : ۱۱۵)
یعنی نیکیان بدیوں کو دور کرتی ہیں۔یہاں حسنات کے معنے نماز کے ہیں اور حضور ور تضرع اپنی زبان میں مانگنے سے حاصل ہوت اہے۔پس کبھی کبھی ضرور اپنی زبان میں دعا کیا کرو اور بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دعا ہے۔ جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آجاوے تو وہ زمینداری کے صراط مستقیم پر پہنچ جاوے گا اور کامیاب ہو جاوے گا۔اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراط مستقیم تلاش کرو اور دعا کرو کہ یا الٰہی میں تیرا گنہگار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں۔میری راہنمائی کر۔ادنیٰ اوار اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے۔بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے؛ کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازہ پر سولی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اس کو بھی شرم آجاوے گی۔پھر خدا تعالیٰ سے مانگنے والا جو بے مثل کریم ہے کیوں نہ پائے؟ پس مانگنے والا کبھی نہ کبھی ضرور پالیتا ہے۔نماز کا دوسرا نام دعا بھی ہے۔جیسے فرمایا
ادعونی استجب لککم (مومن : ۶۱)
پھر فرمایا
واذاسالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (البقرۃ : ۱۸۷)
جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے۔لپس میں بہت ہی قریب ہوں ۔میں پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے۔بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں۔پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو۔میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا۔ اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے۔وہ شخص تو تمہاری آواز سنکر تم کو جواب دیگا مگر جب وہ دور سے جواب دے گا تو تم بہ باعث بہرہ پن کے سن نہیں سکوگے۔پس جوں جوں تمہارے درمیانی پردے اور حجاب اور دوری دور ہوتی جاوے گی، تو تم ضرور آواز کو سنو گے۔جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہمکلام ہوتاہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہو جاتی کہ اس کی ہستی ہے بھی۔پس خد اکی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبر دست ذریعہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کو سن لیں یا دیدار یاگفتار ۔پس آج کل کاگفتار قائمقام ہے دیدار کا۔ہاں جبتک خد اکے اور اس سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے۔جب درمیانی پردہ اُٹھ جاوے گا تو اُس کی آواز سنائی دے گی۔
بعض لوگ کہہ دیتے ہین کہ تیرہ سو برس سے خد اکا مکالمہ مخاطبہ بند ہو گیا۔اس کا اصل میں مطلب یہ ہے کہ اندھا سب کو ہی اندھا سمجھتا ہے۔کیونکہ اس کی اپنی آنکھوں میں جو نور موجود نہیں۔اگر اسلام میں یہ شرف بذریعہ دعائوں اور اخلاص کے نہ ہوت اتو پھر اسلام کچھ چیز بھی نہ ہوتا۔اور یہ بھی اور مذاہب کی طرح مردہ مذہب ہو جاتا۔
اسلام کا خاص امتیاز
پس تم ان مردوں کی طرف خیال مت کرو۔جو خود بھی مردہ اور اسلام کو بیھ مردہ بتاتے ہیں۔یہ تو درحقیقت ایسا مذہب ہے کہ جس میں انسان ترقی کرتا ہوا فرشتوں سے مصافحہ جا کرتا ہے۔اور اگر یہ بات نہ تھی تو
صراط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ : ۷)
کیوں سکھایا؟ اس میں صرف جسمانی اموال کی طلب نہیں کی گئی بلکہ روحانی انعام کی درخواست ہے۔پس اگر تم نے ہمیشہ اندھا ہی رہنا ہے تو پھر تم مانگتے کیا ہو؟ یہ دعا فاتحہ ایسی جامع اور عجیب دعا ہے کہ پہلے کبھی کسی نبی نے سکھلائی ہی نہیں۔پس اگر یہ نرے الفاظ ہی الفاظ ہیں اور ان کو خد تعالیٰ نے منظور نہیں کرنا تو ایسے الفاظ خد انے ہمیں کیوں سکھلائے ۔اگر تمہیں وہ مقام ملنا ہی نہیں تو ہم پانچ وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔خدا کی ذات میں بخل نہیں اور نہ انبیاء اس لیے آتے ہیں کہ ان کو پوجا کی جاوے بلکہ اس لیے کہ لوگوں کو تعلیم دیں کہ ہماری راہ اختیار کرنے والے ہمارے ظل کے نیچے آجاویں گے جیسے فرمایا
ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران : ۳۲)
یعنی میری پیروی میں تم خدا تعالیٰ کے محبوب بن جاوئو گے۔آنحضرت ﷺ پر محبوب ہونے کی بدولت یہ سب اکرام ہوئے،مگر جب کوئی اور شخص محبوب بنے گا تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا؟ اگر اسلام ایسا مذہب ہے تو سخت بیزاری ہے ایسے اسلام سے مگر ہرگز اسلام ایسا مذہب نہیں۔آنحضرت ﷺ تو وہ مائدہ لائے ہیں کہ جو چاہے اس کو حاصل کرے۔وہ نہ تو دنیا کی دولت لائے اور نہ مہاجن بنکر آئے تھے۔وہ تو خدا کی دولت لائے تھے اور خود اس کے قاسم تھے۔پس اگر وہ مال دنیا نہیں تھا تو کیا وہ گٹھڑی واپس لے گئے؟ پس سچ ہے جس اندھے کے پاس روشنی موجود نہیں وہ کیسے دعویٰ کرسکتا ہیکہ میں روشنی رکھتا ہوں اور تقسیم کر سکتا ہوں۔دیکھو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
من کان فی ھذہ اعمی فھوفی الاخرۃ اعمی واضل سبیلا (بنی اسرائیل : ۷۳)
انبیاء تو علیٰ درجہ البصیرۃ ہوتے ہیں۔پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ بصیرت کسی کو نہیں ملے گی تو گویا یہ خود اس دنیا سے اندھے ہی جائیں گے۔
اگر ان کا ایمان آنحضرت ﷺ پر سچا ہوت اتو یہ یقین رکھتے کہ وہ آسمانی مال تقسیم کرنے آئے تھے اور ان کا عقیدہ یہ ہوتا کہ یہ اُمت تمام اُمتوں سے فوقیت حاصل کرے گی؛ حالانکہ مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑکی ماں کو وحی ہوتی تھی۔اب بتائو کہ اُن کے مردوں کو بھی کبھی ایسی وحی ہوئی ہے۔لاہور میں ایک مولوی سے میری بحث ہوئی محدث کے لفظ پر۔کہحدیثوں میں آیا ہے کہ محدث وہ ہے جو خد اسے مکالمہ کر سکے اور یہ بات حضرت عمرؓ کے متعلق تھی تو اس مولوی نے جواب دیا کہ چونکہ اسلام کو آنحضرت ﷺ کے بعد مکالمۂ الٰہی نصیب نہیں۔اس لیے حضرت عمرؓ کو یہ عہدہ نصیب نہیں ہوا۔گویا اس امت میں تو دجال ہی آتے رہیں گے۔
مسیح موعود کی بعثت
مسیح کے متعلق جس زمانہ کی اطلاع احادیث وغیرہ میں دی گئیے ہے وہ یہی زمانہ ہے۔سورۂ نور اور بخاری میں منکم کا لفظ صاف ہے۔آثا تمام نمودار ہو گئے ہیں۔کسوف و خسوف رمضان میں ہوگیا۔طاعون آگئی۔یہ کیسے کھلے نشان تھے،لیکن لوگ ہمیشہ یہی کہتے ہین کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔نہ تو یہ ہارتے ہیں اور نہ خدا ہارنے والا ہے۔آخر تم جانتے ہو کہ نتیجہ کیا ہوگا یہی یکہ وہ پاک خدا جیتے گا۔باوجود اس قدر کھلے نشانات کے جواب یہ دیتے ہیں کہ تیس دجالوں میں سے یہ بھی اییک دجال ہے۔او کم بختو! تمہارے حصہ میں دجال ہی دجال رہ گئے ہیں؟ بیرونی اور اندرونی بلائیں تم پر آیں اور خد اکی طرف سے بھی آیا تو دجال ہی آیا۔اول تو تم خود بخود مرتے جاتے تھے۔اب ایسی حالت میں خ نے تم سے یہ سلوک کیا کہ مرتے کو مارنے کی تجویز ٹھہرائی ۔کی خد اکو تم سے کوئی ایسی ہی سخت عداوت تھی کہ سختی پر سختی کر رہا ہے۔یہ انسنی غلطیاں ہیں تم لوگ ان سے ہوشیار رہو۔خدا تعالیٰ بڑ اکریم و رحیم ہے۔جب کسی کپڑے پر ہفتہ گذرجاتا ہے تو فکر لگ جاتی ہے کہ اس کو صاف کرایا جاوے۔پھر کیا وجہ ہے کہ دنای پر سوکی جگہ ایک سو بیس برس گذر گئے پر خدا نے تجدیدِ دین کی کوئی تجویز نہ کی اور بجائے تجدید کے دجال بھیج کر ا سکی تخریب کی۔اس وقت تیس لاکھ مسلمان عیسائی ہو ثکا ہے۔یہ وہ قوم تھی اگر اس مٰں اسے ایک شخص بھی عیسائی ہوتا تھا تو حشر بپا ہو جاتا تھا۔دوسری طرف ایک اور خبیث قوم نے سر اُٹھایا ہے وہ مسلمانوںں کو پکڑ پکڑ کر آریہ بنا رہی ہے،مگر ان ہمارے مسلمانوں کو یہیخیال آتا ہیکہ ابھی ہمارے اندر دجال ہی پید اہوا ہے اور خد انے بھی ان کے ساتھ دھوکا کیا کہ دجال کو صدی کے سر پر بھیجا تا کہ اُن کی رہی سہی امید بھی باقی نہ رہے۔معلوم ہوا کہ تمہار ے اندر بڑے بڑے خبث اور گناہ پوشیدہ ہیں جس کی تمہیں یہ سزا مل رہی ہے۔خدا تعالیٰ نے تو فرمایا ہے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔یعنی جب اس کے معانی میں غلطیان وارد ہوں گی تو اصلاح کے لیے ہمرے مامور آیا کریں گے۔پس تم میریے اوپر خیال مت کرو بلکہ صدی کے ابتدا اور بیرونی حملوں اور اندرونی اعمال کو دیکھ کر تم خود غورو فکر کرو کہآیا دجال کی ضرورت ہے یا مہدی اور مسیح کی؟
تعصب بری بلا ہوتی ہے۔تعصب والوں نے تو کسی رسول کو بھی نہیں مانا ان کو دکاندار قرار دیا ہے؛ حالانکہ وہ خدا کی طرف بلاتے رہے ہیں۔معلوم ہوت اہے کہ یہ قوم ہمیشہ ساتھ رہی ہے اور رہے گی۔قرآن کریم کی ابتداء بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم سے ہے۔رحمن بے مانگے دینے والا اور رحیم محنت کو نہ ضائع کرنے والا۔پس اس وقت رحمانیت اور رحیمیت کہان گئی؟ سوچو تو سہی کہ یہ اس کے مناسب حال ہے یا کیا؟
اصل میں جب انسان تعصب پر آت ہے تو آنک دھندلی ہو جاتی ہے اور جب اس میں ترقی کرتا ہے تو وہ نور چھین لیا جاتا ہے۔پس ہدایت پانے کا طریق اشتہار بازوی نہیں۔ان لوگوں سے پوچھو کہ تم ایک دفعہ بھی میرے پاس آئے ہو اور اپنے اعتراضات کا جواب پوچھا ہے یا کم سے کم میری تصانیف کو ہی دیکھ اہے؟ تو جواب دیں گے کہ میاں ہم کو ان باتوں کی فرصت نہیں۔پھر تم نے جھٹ دجال کا فتویٰ کیوں لگا دیا؟ پھر ہم نے دین میں کونسی تحریف کی ہے۔تم منہ سے نماز اور روزہ کا نام لیتے ہو اور میں کہتا ہوں کہ ان کی روحانیت لو۔صرف میں ہی نہیں کہتا،بلکہ وہ خدا کہتا ہے جس نے مجھے مامور کیا ہے اور یہ اس لیے کہ تمہارے پوست میں کیفیت داخل ہو جاوے۔
‏Amira 8-8-05
ہاں تمہارے درمیاں مسیح کا جھگڑا ضرور ہے لیکن خد اکی کلام سے زیادہ سچا گواہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ہمیں دوسرے کے قول سے کیا غرض ہے۔آنحضرت ﷺ کے قول حق اور سچ ہین مگر جو قرآن کریم کے خلاف نہ ہوں۔پس ہمیں ایمان محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے قصوں پر جو احادیث میں درج ہیں قرآن کریم کو مقدم رکھیں ۔پس ہم تو قرآن کریم کو ترجیح دیں گے اور جو احادیث قوی اور صحیح ہیں وہ ضرور قرآن کے ساتھ ہیں اور ہمارے دعویٰ میں ہماری مؤید ہیں۔پس ہمارا اور ان لوگوں کا اور کوئی اختلاف نہیں۔بجز اس کے کہ یہ پوست پر قناعت کرتے ہیں اور ہم مغز کو چاہتے ہیں۔مسیح کی موت کا قرآن نے خود فلما توفیتنی میں فیصلہ کر دیا ہے۔اگر ہم قبول کر لیں کہ مسیح ناصری آجتک زندہ ہے تو ہمیں یہ بھی قبول کرنا پڑیگا کہ عیسائی بھی آجتک راہ راست پر ہیں۔اور اس کی قرآن کریم خود تردید کرتا ہے۔
تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھداان دعواللرحمن
ولدا (مریم : ۹۱،۹۲)
مجھے میرے خدا نے ہزار ہا وحیوں میں مامور کیا ہے اور وہ ہی بات ہے جو تیرہ سو برس پہلے سے لکھی ہوئی تھی۔ہمارا اور ان کا کوئی جھگڑا نہیں اگر شرم و حیا اور ایمان ہو۔یہ بھی نہ سہی۔کیا آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کل لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔نہیں مگر وہی کہ جن کے حق میں سعادت تھی۔پس ہمارا کام تو سمجھانا ہے۔پس جو شخص مسیح کو زندہ مانتا ہے وہ جھوٹا ہے اور خدا کا منکر ہے اور جس کو خد انے مامور کیا ہے اس کو تو تازہ علم ا سکی وفات کا دیا ہے۔پھر اگر اُنہوں نے مسیح کو ماننا تھا تو وہ حکم کس بات کا ہوگا اور ہر ایک مذہب والا اس کا فیصلہ کس طرح مانے گا۔حکم کا لفظ تو صاف دلالت کر رہا ہے کہ ضرور ان لوگوں میں اختلاف اور اغلاط ہوں گے جن کا وہ اآکر فیصلہ کرے گا۔پس ہم تو تم سے سچا اتباعِ نبی کریم اور ترک اغلاط کرتے ہیں اور بس۔
مخالفین سے نرمی کا سلوک ہونا چاہیے
پس ہمارے لوگ مخالفین سے سختی سے پیش نہ آیا کریں۔ان کا درشتی کا نرمی سے جواب دیں۔ اور ملاطفت سے سلوک کریں۔چونکہ یہ خیالات مدت مدید سے ان کے دلوں میں ہین رفتہ رفتہ ہین دور ہونگے اس لیے نرمی سے کام لیں۔اگر وہ سخت مخالفت کریں ،تو اعراض کریں۔مگر اس بت کے لیے اپنے اندر قوت جاذبہ پید اکرو۔اور قوتِ جاذبہ اس وقت پید ہوگی جب تم صادق مومن بنوگے اور اگر تم صادق نہیں تو تمہاری نصیحت ایسی ہے جیسے پر نالہ کا پانی موجب فساد ہوتا ہے۔پس صادق کے واسطے ورزش کی اشد ضرورت ہے۔جیسے ایک پہلوان کے سامنے تمہاری کیا ہستی ہے کہ مقبلہ کر سکو اگر چہ وہ بیھ تمہارے جیسا آدمی تھا۔جسمانی نشونما میں اس نے ترقی کی اور ورزش کر کے یہ طاقت حاصل کی۔پس تم روحانی قویٰ میں ورزش کرکے روحانی پہلوان یعنی صادق مومن بنو۔جو شخص اپنا نشونما نہیں کرتا وہ تو اپنے کنبہ کو بھی درست نہیں کر سکتا۔پس قوتِ روحانی پیدا کرو۔دیکھو نبی،رسول سب ایک ایک ہو کر ہی آئے ہیں مگر وہ صادق اور جاذب تھے۔مال کی غریبی او رکمزوری جدا چیز ہے۔
روحانی قوت کی ضرورت
روحانی قوت ہونی چاہیے۔ہاں کشش میں بھی وہی سعادت مند ہوتے ہیں جن کو کچھ مناسبت ہوتی ہے۔مثلاً انجن سرد ہے تو فائدہ نہیں دے سکتا۔اگر خوب گرم ہے تو سو گاڑی بھی لے جاوے گا۔پس گرم اور پراثیر مومن بنو۔اس ہماری جماعت کے واسطے خدا کا وعدہ ہیکہ دنیا میں پھیلے گی۔پھر اگر طاقت والے اور اس کے پھیلانے والے اور لوگ ہوں گے تو تم نے کیا حاصل کیا؟
اب سوال یہ ہوگا کہ طاقت کس طرح پید اہوتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ صادق اور پکّا بندہ بن جاوے تاکہ کسی زلزلہ سے برگشتہ اور منہ پھیرنے والا نہ ہو۔صحابہ کرامؓ سارے ہی ابخدا اور عاقل تھے مگر آنحضرت ﷺ اُن سے بڑھ کر ایسے وفادار تھا کہ کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا تھا۔اسی لیے آپ کو سانپوں اور درندوں اور خاردار کانٹوں والا جنگل اس کے درندے،حیوانات انسانی شکل میں دکھلائے گئے۔پھر ملک بھی ایسا اس کے سپرد کیا کہ جس سے بڑھ کر دنیا مٰن کوئی شریر النفس نہ تھا۔پھر آئے ایسے وقت پر کہ تمام مردہ اور فساد کی جڑھ تھے۔ جیسے فرمایا
ظھر الفساد فی البر والبحر (الروم : ۴۲)
اور گئے ایسے وقت پر کہ فرمایا
الیوم اکملت لکن دینکم واتممت علیکم نعمتی (المائدہ : ۴)
الآیتہ
اذا جاء نصر اﷲ والفتح (النصر : ۲)
اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اس سے معلوم ہوتاہے کہ کتنی محبت الٰہی اور قوت جاذبہ آنحضرت ﷺ کے اندر تھی۔پس خد اتعالیٰ کے خاص بندوں اور غیروں میں اتنا فرق ہوتاہے کہ قوتِ ایمانی اور اتقامت ایسی ہو ۔کہکسی رکاوٹ شدید سے باز نہ رہے۔اس صفت سے جس کو جتنا حصہ ملا ہے اتنا ہی وہ برکت کا موجب ہوگا۔میرا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی تبدیلی کے واسطے تین باتیں یاد رکھو:
(۱) نفسِ امارہ کے مقابل پر تدابیر اور جدوجہد سے کام لو۔ (۲) دعائوں سے کام لو۔ (۳) سست اور کاہل نہ بنو اور تھکو نہیں۔
ہماری جماعت بھی اگر بیج کا بیج ہی رہے گی تو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔جو ردی رہتے ہیں۔خدا تعالیٰ ان کو بڑھاتا نہیں۔پس تقویٰ ،عبادت اور ایمانی حالت میں ترقی کرو۔اگر کوئی شخص مجھے دجال اور کافر وغیرہ ناموں سے پکارت ہے تو تم اس بات کی کچھ پروا بھی نہ کرو۔کیونکہ جب خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے تو مجھے ان کے ایسے بدکلمات اور گالی٭ن کا کیا ڈر ہے۔فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کو کافر کہا تھا۔ایک زمانہ ایسا آگیا کہ پکار اُٹھا کہ میں اس خدا پر ایمان لایا جس پر موسیٰ اور اس کے متبع ایمان لائے ہیں۔ایسے لوگ یاد رکھو کہ مخنّث اور نامرد ہوتے ہیں۔یہ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے ایک بچہ بعض اوقات اپنی ماں اور باپ کو بھی نا سمجھی وج سے گالی دے دیتا ہے،مگر اس کے اس فعل کو کوئی برا نہیں سمجھتا۔
پس یاد رکھو کہ نری بیعت اور ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کچھ بھی سود مند نہیں۔جب کوئی شخص شدت پیاس سے مرنے کے قریب ہو جاوے یا شدت بھوک سے مرنے تک پہنچ جاوے تو کیا اس وقت ایک قطرہ پانی یا ایک دانہ کھانے کا اس کو موت سے بچالے گا؟ ہرگز نہیں۔جس طرح اس بدن کو بچانے کے واسطے کافی خوراک اور کافی پانی بہم پہنچانے کے سوائے مفر نہیں۔اسی طرح پورے جہنم سے تھوڑی سی نیکی سے تم بھی بچ نہیں سکتے۔پس اس دھوکہ میں نہ رہو کہ ہم نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اب ہمیں کیا غم ہے۔ہدایت بھی ایک موت ہے۔جو شخص یہ موت اپنے اُوپر وار کرتا ہے اس کو پھر نئی زندگی دی جاتی ہیاور یہی اصفیاء کا اعتقاد ہے۔اﷲ تعالیٰ نے بھی اسی ابتدائی حالت کے واسطے فرمایا ۔
یایھا الذین امنو ا علیکم انفسکم (المائدۃ : ۱۰۶)
یعنی پہلے اپنے آپ کو درست کرو۔اپنے امراض کو دور کرو۔دوسروں کا فکر مت کرو۔ہان رات کو اپنے آپ کو درست کرو۔اور دن کو دوسروں کوب ھی ہدایت کر دیا کرو۔خدا تعالیٰ تمہیں بخشے اور تمہارے گناہ٭نسے تمہیں مخلصی دے اور تمہاری کمزوریوں کو تم سے دور کرے اور اعمال صالحہ اور نیکی میں تقی کرنے کی توفیق دیوے ؎ٰأآمین۔
۲؍نومبر ۱۹۰۴ء؁
بمقام سیالکوٹ
بیعت کی غرض
اس بیعت کی اصل غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں ذوق وشوق پید اہو اور گناہوں سے نفڑت پید اہو کر اس کی جگہ نیکیاں پیدا ہوں۔جو شخص اس غرض کو ملحوظ نہیں رکھتا اور بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر کوئی تبدیلی کرنے کے لیے مجاہدہ اور کوشش نہیں کرتا جو کوشش کا حق ہے اور پھر اس قدر دعا نہیں کرتا جو دعا کرنے کا حق ہے تو وہ اس اقرار کی جو خدا تعالیٰ کے حضور کیا جاتا ہے سخت بے حرمتی کرتا ہے اور وہ سب سے زیادہ گنہگار اور قابل سزا ٹھہرتا ہے۔پس یہ ہرگز نہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بیعت کا اقرار ہی ہمارے لیے کافی ہے اور ہمیں کوشش نہیں کرنی چاہیے۔مثل مشہور ہے جو ئندہ یا بندہ جو شخص دروازہ کھٹکٹھاتا ہے اس کے لیے کھول جاتا ہے اور قرآن شریف میں بھی فرمایا گیا ہے۔
والذین جاھدو افینا لنھدینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
یعنی جو لوگ ہماری طرف آتے ہیں اور ہمارے لیے مجاہدہ کرتے ہیں۔ہم اُن کے واسطے انی راہ کھول دیتے ہیں ارو صراطِ مستقیم پر چلا دیتے ہیں۔لیکن جو شخص کوشش ہی نہیں کرتا وہ کس طرح اس راہ کو پاسکتاہے ۲؎۔
خدایا بی اور حقیقی کامیابی اور نجات کا بھی یہی گُر اور اصول ہے۔انسان کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے سے تھکے نہیں نہ درماندہ ہو اور نہ اس راہ میں کوئی کمزوری ظاہر کرے۔
تم لوگوں نے اس وکت خدا تعالیٰ کے حضور میرے ہاتھ پر انے گناہ٭ں سے توبہ کی ہے۔ایسا نہ ہو کہ یہ توبہ تمہارے لیے باعثِ برکت ہنے کی بجائے *** کا موجب ہو جاوے۔کیونکہ اگر تم لوگ مجھے شناخت کر کے بھی اور خدا تعالیٰ سے اقرار کر کے بھی اس عہد کو توڑتے ہو تو پھر تم کو دوہرا عذاب ہے کیونکہ عمداً تم نے معاہدہ کو توڑا ہے۔دنیا میں جب کوئی شخص کسی سے عہد کرکے اُسے توڑتا ہے تو اس کو کس قدر ذلیل اور شسرمندہ ہونا پڑتا ہے۔وہ سب کی نظروں سے گر جاتا ہے۔پھر جو شخص خد اتعالیٰ سے عہد اور اقرار کرکے توڑے وہکس قدر عذاب اور *** کا مستحق ہوگا۔
پس جہانتک تم سے ہوسکتا ہے۔اس اقرار ارو عہد کی رعایت کرو۔اور ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہو۔پھر اس اقرار پر قائم اور مضبوط رہنے کے واسطے اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو۔وہ یقیناً تمہیں تسلی اور اطمینان دے گا ارو تمہیں ثابت قدم کرے گا،کیونکہ جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ سے مانگتا ہے اُسے دیا اجتا ہے۔میں جانتا ہوں کہ تم میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے جن کو میرے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے واسطے قسم قسم کے ابتلا ء اور مشکلات پیش آئیں گے،لیکن میں کیا کروں یہ ابتکلاء نئے ہیں۔جب خدا تعالیٰ کسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کوئی اس کی طرف جاتا ہے تو اس کے واسطے ضرور ہیکہ ابتلاء٭ن مٰن سے ہوکر گذرے۔دنیا اور اس کے رشتے عارضی اور فانی ہیں مگر خدا تعالیٰ کے ساتھ تو ہمیشہ کے لیے معاملہ پڑتا ہے پھر اس سے آدمی کیوں بگاڑے؟ دیکھو صحابہؓ کو کچھ تھوڑے ابتلاء پیش آئے تھے۔ان کو اپنا وطن،مال و دولت،اپنے عزیز رشتہ دار سب چھوڑنے پڑے۔لیکن اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں ان چیزوں کو مری ہوئی مکھی کے برابر بھی نہیں سمجھا۔خدا تعالیٰ کو انے لیے کافی سمجھا۔پر خدا نے بھی ان کی کس قدر قدر کی۔اس سے وہ خسارہ میں نہیں رہے بلکہ دنیاوآخرت میں انہوں نے وہ فائدہ پایا جو اس کے بغیر انہیں مل سکتا ہی نہیں تھا۔اس لیے اگر کوئی ابتلاء آوے تو گھبرانا نہیں چاہیے۔ابتلاء مومن کے ایمان کو مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہیکیونکہ اس وقت روح یں عجزونیاز اور دل مین ایک سوزش اور جلن پیدا ہوتی ہے جس سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کے آستانہ پر پانی کی طرح گداز ہو کر بہتا ہے۔ایمانِ کامل کا مزا ہمّ و غم ہی کے ندوں میں آتا ہے۔اس وقت اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر کرو۔خدا تعالیٰ سے اب تمہارا نیا معاملہ شروع ہوا یکیونکہ وہ پچلے گناہ سچی توبہ کے بعد بخش دیتا ہے اور توبہ سے یہ مراد نہیں کہ انسان زبان سے یہ کہہ دے اور اعمال میں اس کا اثر ظاہر نہ ہو۔نہین۔توبہ یہی ہے کہ بدی٭ن او خدا کی نافرمانیوں کو قطاعً چھوڑدے اورنیکیاں کرے اور اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری مٰن اپنی زندگی بسر کرے۔
اب بے فکر رہنے کے دن نہیں ہیں۔خدا تعالی کا تازیانہ ہوشیار کر رہا ہے۔تم کو خوب معلوم ہے کہ طاعون نے اس ملک کو کیسا تباہ کیا ہے اور کس طرح پر فنا کا تصرف جاری ہے۔اور ثابت ہو رہا ہے کہ دنیا فانی ہے۔اب بھی اگر انسن اپنے اعمال کو درست نہ کرے تو یہ اسکی کیسی غفلت اور بدنصیبی ہے۔میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز بے فکر نہ ہو۔خدا تعالیٰ کے عذاب کا کچھ پتہ نہیں ہتوا کہ وہ کس وقت آجاوے اور وہ غافلوں کو ہلاک کر دیتاہے جو دنیا میںمست ہو جاتے ہیں ار خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بیباک اور شوخی اختیار کرتے ہیں۔تم جانتے ہو کہ طاعون کے دن آئے ہیں اور معلوم نہیں کہ کون اس کے حملہ سے بچے ۔ہاں اس قدر میں کہتا ہوں کہ خد اتعالیٰ ان لوگں کو اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھتا ہے جو اپنے اندر سچی تبدیلی کر لیتے ہیں اور کسی قسم کا کھوٹ اور کجی دل میں باکٰ نہیں رکھتے۔بسا اوقات جن شہروں میں طاعون پڑی ہے ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی جبتک تباہ نہیں کر لیتی اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہا س کے دورے بڑے بڑے لمبے ہوتے ہیں۔مجھ پر خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ظاہر کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی کتابوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہیہ شامت اعمال سے آتی ہے۔میں اس وکت دیکھتا ہں کہ دنیا میں غفلت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔شوخی اور بے باکی خدا تعالیٰ کی کتابوں اور باتوں سے بہت ہو گئی ہے۔دنیا ہی دنیا لوگوں کا مقصود اور معبود ٹھہر گئی ہے۔اس لیے جیسا کہ پہلے سے کہا گیا تھا اور نبیوں کی معرفت وعدہ دیا گیا تھا۔میرے اس زمانہ میں یہ طاعون لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے آئی ہے مگر افسوس ہے لوگ اس کو ابتک بھی ایک معمولی بیماری سمجھتے ہیں۔مگر مین تمہیں کہتا ہوں کہ تم ان لوگوں کے ساتھ مت ملو بلکہ تم اپنے اعمال اور افعال سے ثابت کرکے دکھادو کہ واقعی تم نے سچی تبدیلی کر لی ہے۔تمہاری مجلسوں میں وہی ہنسی اور ٹھٹھا نہ ہو جو دوسرے لوگوں کی مجلسوں اور محفلوں میں پایا جاتا ہے۔یقیناً سمجھو کہ زمین و آسمان کا خالق ایک خدا ہے۔وہی خدا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں زندگی اور موت ہے۔کوئی شخص دنیا میں کس ی قسم کی راحت اور کوئی نعمت حاصل نہیں کرسکتا مگر اسی کے فضل و کرم سے ۔ایک پتہ بھی اس کے فضل کے بغیر ہرا نہیں رہ سکتا۔اس لیے ہر وقت اسی سے سچا تعلق پیدا کرے اور ا س کی رضا جوئی کی راہوں پر مضبوط قدر رکھے۔اگر وہ اس بات کی پابندی کرے گا تو یقینا اُسے کوئی غم نہیں ہے۔ہر قسم کی راحت، صحت،عمر و دولت یہ سب اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے۔جب انسنا کا وجود ایسا نافع اور سود مند ہو تو اﷲ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا۔جیسے باغ میں کوئی درخت عمدہ پھل دینے والا ہو توا سے باغبان کاٹ نہیں ڈالتا بلکہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔اسی طرح نافع اور مفید وجود کو اﷲ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتاہے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے۔
‏Amira 10-8-05
واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
جو لوگ دنیا کے لیے نفع رساں لوگ بنتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ ان کی عمریں بڑھا دیتا ہے۔یہ اﷲ تعالیٰ کے وعدے ہیں جو سچے ہیں اور کوئی ان کو جھٹلا نہیں سکتا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سچے اور فرمانبردار بندے ایسی بلائوں سے محفوظ رہتے ہیں۔پس اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ نری بیعت اور اقرار سے کچھ نہیں بنتا،بلکہ انسان زیادہ ذمہ دار اور جوابدِ ہ ہوجاتا ہے۔اصل فائدہ کے لیے ضرورت ہے۔حقیقی ایمان اور پھر اُس ایمان کے موافق اعمالِ صالحہ کی۔جب انسان یہ خوبی اپنے اندر پیدا کرتا ہے تو جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ متقی حقیقی مومنن اور اس کے غیر میں ایک امتیاز رکھ دیا جاتا ہے۔اُسے ممتاز کیا جاتا ہے اور اس امتیار کا نام قرآنِ شریف کی اصطلاح میں فرقان ہے۔آخرت میں بھی مومن اسی فرقان سے شناخت کئے جائیں گے اور کافر۔فاسق ۔فاجر کے منہ سیاہ ہو جائیں گے۔اس دنیا میں بھی دیکھا جات اہے کہ مومن ہمیشہ ممتاز رہتا ہے۔اس کے اندر ایک سکینت اور اطمینان بخش روح ہوتی ہے؛ اگر چہ مومن کو دکھ بھی اُٹھانے پڑتے ہیں اور قسم قسم کے مصائب اور شدائد کے اندر سے گذرنا پڑتا ہے خواہ لوگ اس کے کتنے ہی بُرے نام رکھیں ار خواہ اس کے تباہ اور برباد کرنے کے لیے کچھ بھی ارادے کرین،لیکن آخروہ بچالیا جاتا ہے۔کیونکہ خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور اُسے عزیز رکھتا ہے۔اس لیے دنیا اس کو ہلاک نہیں کرسکتی۔مومن اور اس کے غیر میں امتیاز ضرور ہوتا ہے اور یہ میزان خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔خدا کی آنکھیں خوب دیکھتی ہیں کہ کون بد اور شریر ہے۔خد اکو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔پس تم دنیا کی پروا نہ کرو۔بلکہ اپنے اندر کو صاف کرو۔یہ دھوکا مت کھائو کہ ظاہری رسم ہی کافی ہے۔نہیں ۔امن اس وکت آتا ہے جب انسان سچے طور سے خدا تعالیٰ کے حرم میں داخل ہو۔
پس اب بڑی تبدیلی کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ سے سچی صلح کے دن ہیں۔بعض لوگ اپنیغلط فہمی اور شرارت سے اس سلسلہ کو بدنام کرنے کے لیے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں سے بھی بعض آدمی طاعون سے ہلاک ہوئے ہیں۔مین نے بار ہا اس اعتراض کا جواب دی اہے کہ یہ سلسلہ منہاج نبوت پر واقع ہوا ہے۔آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کفار پر جو عذاب آیا تھا وہ تلوار کا عذاب تھا۔حالانکہ وہ اُن کے لیے مخصوص تھ۔لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صحابہؓ میں سے بعض شہید نہیں ہو گئے؟ اسی طرح پرر یہ سچ ہے کہ اس سلسلہ میں سے بھی بعض لوگ طاعون سے شہید ہوئے ہیں مگر یہ بھی تو دیکھو کہ طاعون کے ذریعہ سے ہمارا نقصان ہوا ہے یا دوسروں کا؟ہماری جماعت کی تو ترقی ہوتی گئی اورہو رہی ہے اور میں پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ نافع الناس ہیں اور ایمان ،صدق و وفا میں کامل ہیں وہ یقینا بچا لیے جاویں گے۔پس تم اپنے اندر یہ خوبیاں پید اکرو۔اپنے رشتہ داروں اور بیوی بچوں کو بیھ سمجھائو اور یہی تلقین کرو اور دوستوں کے ساتھ یہی شرط دوستی رکھو کہوہ بدی سے بچیں۔
پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آئو۔جنگ کرنا اس سلسلہ کے خلاف ہے۔نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنے پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو۔یہ میری نصیحت ہے اس کو یاد رکھو ۔اﷲ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے ۔آمین۔

۳؍نومبر ۱۹۰۴ء؁
سیالکوٹ سے واپسی پر بمقام وزیر آباد ریلوے اسٹیشن۔
ایک پادری سے گفتگو
وزیر آباد کے سٹیشن پر وہی ہجوم اور کثرتِ زائرین تھی جو پہلے تھی۔حافظ غلام رسول صاحب نے پھر لیمو نیڈ اور سوڈ اواٹر کی دعوت اپنے بھائیوں کودی۔
اس مرتبہ اس اسٹیشن پر ایک عجیب بات جو پیش آی وہ یہ تھی کہ ڈسکہ کا مشنری پادری سکاٹ صاحب حضرت اقدس سے آکر ملا۔پادری سکاٹ صاحب کے ساتھ ہمارے مکم بھائی سیخ عبد الحق صاحب نو مسلم کے بھی عیسائیت کے ایام میں دوستانہ تعلقات تھے۔پادری صاحب نے حضرت اقدس کے پاس آکر پہیل سلسلہ کلام شیخ عبد الحق ہی سے شروع کیا کہ آپ نے ہمارا ایک لڑکا لے لیا۔اس قسم کی بتیں ہو رہی تھیں۔جبکہ ہم نے پہنچ کر اس گفتگو کو قلمبند کرنا شروع کیا۔
پادری سکاٹ۔ آپ میں اور عیسوی مذہب میں کی اختلاف ہے؟
حضرت اقدس۔ موجودہ عیسوی مذہب اور ہم میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے؛ البتہ حضرت مسیح علیہ السلام کی
اصل تعلیم اور مذہب اور ہمارے مذہب کے اصولوں میں اختلاف نہیں ہے۔وہ بھی خد اکی
پرستش کرتے اور اس کی توحید کا وعظ اور تبلیغ کرتے تھے۔اور دوسرے تمام نبی بھی یہی تعلیم لیکر
آئے تے۔
پادری سکاٹ۔ آپ لوگوں میں تو بہت سے فرقے موجود ہیں؟
حضرت اقدس۔ مجھے تعجب ہے کہ آپ اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عیسائیوںمیں
کس قدر فرقے ہیں جو ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور اصولوں میں بھی متفق نہیں۔مسلمانوں کے فڑقوں میںاگر کوئی اختلاف ہے تو فرد عات اور جزئیات میں ہے۔اصول سب کے ایک ہی ہیں۔
پادری سکاٹ۔ ان عیسائی فرقوں میں سے آپ کس کو حق پر سمجھتے ہیں؟
حضرت اقدس۔ میرے نزدیک تو راستبازوہی فرقہ تھا جو حضرت مسیحؑ اور اُن کے حواریوں کا تھا۔اس کے بعد تو
اس مذہب کی مرمت شروع ہو گئی اور کچھ ایسی تبدیلی شروع ہوئی ہ حضرت مسیح کے وقت کی
عیسویت اور موجودہ عیسویت میں کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔
پادری۔ اس کی خبر آپ کو کہاں سے ملی؟
حضرت اقدس۔ پیغمبروں کو خد اتعالیٰ ہی سے خبریں ملا کرتی ہیں۔میں بھی خد اہی سے خبریں پاتا ہوں اور اسی پر ایمان لات اہوں۔
پادری۔ اس میں شک نہیں کہ پیغمبروں کو خدا س یہی خبر ملتی ہے۔
اس مقام تک جب پہنچے تو پادری صاحب کی نظر ایڈیٹر الحکم پر پڑی جو اس گفتگو کو قلمبند کر رہا
تھا۔پادری صاحب اُسے دیک کر گھبرائے اور بولے کہ یہ کون نوٹ کر رہا ہے۔جب ان کو یہ کہا گیا
کہ یہ الحکم اخبار کا ایڈیٹر ہے جو اس سفر میں حضرت کے ساتھ ہے اور حالات سفر قلمبندر کر کے شائع
کرے گا تو ادری صاخب بولے میں اب جاتا ہوں یہ تو شائع کر دیں گے۔انہیں کہا گیا کہکیا حرج
ہے ۔ دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔مگر ہم سچ کہتے ہٰں اور اس وقت جو لوگ موجود تھے وہ پادری
صاحب کی گھبراہت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ہر چند وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح اس سلسلہ کلام کو یہان
چھوڑ دیں مگر حاضرین نے انہیں سلسلہ کلام جاری رکھنے پر اصرار کیا اور کہا کہ آپ کو نہیں تو ہم لوگوں
کو فائدہ پہنچ جاوے گا۔اس اصرار پر انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھا اور پھر بولے تو یہ بولے:
پادری۔ تمہارے بہت سے چیلے ہیں یہ حملہ نہ کر دیں۔
حضرت اقدس۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ خواہ مخواہ ایک قوم پر جس کو نیک ثلنی، انکسار اور تواضع
کی تعلیم دی جاتی ہے حملہ کرتے ہیں۔ایسی حالت میں کہ میں ان میں موجود ہوں اور آپ دیکھتے ہیںکہ کووئی ان میں سے بولتا بھی نہیں آپ یہ امید کر سکتے ہیں۔آپ جس طرح چاہیں جو چاہیں مجھ سے پوچھیں ان میں سے کوئی تمہیں مخاطب بی نہیں کرے گا۔ان کو یہ تعلیم نہیں دی
جاتی۔ علاوہ ازیں چیلے کا لفظ ٹھیک نہیں ہے گو اس لفظ کے معنی اور مفہوم بُرا نہ ہو۔لیکن ہر ایک قوم
کو اسی لفظ اور نام سے پکارنا چاہیے جو وہ اپنے لیے پسند کرتی ہے۔یہ لفظ چیلے کا ہندوئوں کے
ساتھ مختص ہے۔
پادری۔ میں نے سنا ہے۔سیالکوٹ میں بڑی رونق تھی۔
حضرت اقدس۔ ہاں۔بہت بڑا مجمع تھا۔
پادری۔ آپ لوگوں کو صرف ہدایت دیتے ہیں یا فضل بھی؟
حضرت اقدس۔ میری ہدایت کچھ ثیز نہیں جبتک اس کے ساتھ فضل نہ ہو۔کوئی آدمی کبھی ہدایت نہیں پاسکتا جبتک آسمانی فضل بھی اس کی دستگیری نہیں کرتا ہے۔وہ میری شناخت اُسے عطا کرتا ہے تب وہ میرے پاس آتا ہے اور وہ ہدایت اور معرفت لیتا ہے جو مجھے خدا تعالیٰ نے دی ہے اور پھر اپنے فضل سے دی ہے۔
پادری۔ میں اس فضل کا ذکر نہیں کرتا جو آپ کو ملتا ہے بلکہ میں اس فضل کا ذکر کرتا ہوں جو ان کو ملتا ہے۔
حضرت اقدس۔ میں بھی تو اس فضل کا ذکر کرتا ہوں جو اُن کو ملتا ہے۔ان کو پہلے تو ہ فضل ہی ہے جو میرے پاس لاتا ہے۔پھر جو فضل مجھے دیا جاتا ہے وہی فضل میری صحبت او ر تعلق کی وجہ سے ان میں سرایت کرتا ہے۔جس کدر اعتقاد بڑھے گا اسی قدر یہ لوگ اور ہر ایک مخلص ارادتمند اس فضل کو جذب کرے گ ۔ان لوگوں کا تعالق میرے ساتھ درخت کی شاخوں کی طرح ہے۔جس جس قدر وہ شاخیں ڈریب ہیں اور اپنی سبزی اور زندگی میں تردوتازہ ہیں اسی قدر زیادہ وہ اس غذا کو جو جڑ کے ذریعہ درخت حاصل کرت اہے یہ غذا سے کوئی حصہ نہیں پاسکتی ۔اسی طرح پر شاگرد اور مرید شاخوں کی طرح ہی ہوتے ہٰں۔جس قدر کوئی تعلق، محبت اور حسن ایمان رکھتا ہے اور جس قدر زیادہ صحبت میں رہت اہے اسی کے موافق وہ حصہ پاتے ہیں۔اول فضل خود اس درخت میں بھی ہونا چاہیے۔اگر اس میں کوئی قوت اور روح معرفت کی نہ ہوگی تو وہ دوسروں کو کیا پہنچا سکے گا۔
پادری۔ کس درخت کی شاخ؟
حضرت اقدس۔ وہ درخت جس کو خد الگاتا ہے جو خدا کی طرف سے آتا ہے جیسے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں اور خد انے مجھے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔
پادری۔ میں آپ کے دعویٰ ک اصل مطلب نہیں سمجھا۔کیا آپ مسیح کہلاتے ہیں؟
حضرت اقدس ؑ۔ تعجب ہے۔میرا دعویٰ تو عرصہ سے شائع ہو رہا ہے اور ولایت اور امریکہ تک لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے۔آپ کہتے ہیں میں مطلب نہیں سمجھا۔ہاں میں مسیح کہلاتا ہوں اور خدا نے مجھے مسیح کہا اور مسیح کرکے بھیجا۔
پادری۔ وہ تو ایک ہی مسیح ہے۔
حضرت اقدس ؑ۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات میں بخل نہیں ہے وہ ہزاروں ہزار مسیح بنا سکتا ہے؛ چنانچہ ایک میں نمونہ موجود ہوں جو زندہ مسیح ہے۔
پادری۔ انیس سو برس پیشتر آپ سے ایک مسیح دنیا میں آیا تھا اور وہی مسیح مشہور ہے جس کی طرف یہودیوں کے عہد نامے میں اشارہ ہیکہ مسیح آئے گا اور وہ اس کے منتظر تھے۔اس کے سوا تو کوئی مسیح نہیں۔
حضرت اقدس ؑ۔ ہاں۔انیس سو برس پیشتر ایک مسیح آیا تھا۔مگر جس مسیح کا آپ ذکر کرتے ہیں یا جس کو مانتے ہیں اس کا ذکر یہودیوں کے عہد نامے میں کہیں نہیں ہے،کیونکہ وہ کسی خدا مسیح کے منتظر نہ تھے بلکہ ایک نبی کے منتظر تھے۔اگر وہ کسی خدیا خدا کے بیٹے کے منتظر ہوتے تو وہ اس کو مان لیتے۔
علاوہ بریں یہودیوں کے عہد نامہ میں جس مسیح کا ذکر ہے وہ نشان دو مسیحوں کی طرف جاتا ہے۔ایک وہ جو مجھ سے پہلے آیا دوسرا میں ہوں جو ساتویں ہزار میں آنے والا تھا۔مسیح کی آمدِ ثانی کے تم لوگ بھی قائل ہو،لیکن دوسری آمد کو تم نے اسی کی آمد سمجھ لیا ہے؛ حالانکہ اس سے مراد کسی اور کا آنا تھا یعنی میرا آنا مراد تھا۔دانیال نبی کی کتاب میں بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اس امر کو بیان کیا ہے۔یہ ساتواں ہزار ہے جو آپ کے دعویٰ کو باطل کرتا ہے کہ وہی آنے والا تھا۔اس نے میری تصدیق کی؛ چنانچہ بڑے عیسائی فاضلوں نے مسیح کے آنے کا یہی زمانہ قرار دیا ہے اور آخر مایوس ہو کر امریکہ وگیرہ میں ایسے رسائل بھیشائع ہو گئے کہ دوبارہ آنے کا خیال غلط ہے۔آمد ثانی سے مراد صرف کلیسیا ہی ہے۔اگر یہ وقت آنے کا نہ تھا تو ان لوگوں کو کیا مصیبت پیش آئی تھی کہوہ ایسی تاویلیں کرتے یا انکار رکتے۔حقیقت میں آنے کا زمانہ یہی تھا۔اور آنے والا آگیا مگر تھوڑے ہیں جو اسے دیکھتے ہیں۔اب آپ خواہ قبول کریں یا نہ کریں اور کوئی مسیح تو آنے والا نہیں ۔جس کا آپ کو انتظار ہے وہ مر چکا اور میں خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق آگیا۔
پادری۔ جو دھوکہ یہودیوں کو تھا وہی آپ کو ہے کہ ایک مسیح دُکھ اُٹھائے گا۔دوسرا بزرگی پائے گا۔
حضرت اقدس ؑ۔ دراصل یہودیوں والا دھوکہ تو آپ کو لگا ہوا ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح کے اپنے فیصلہ کو یاد رکھتے تو ٹھوکر نہ کھاتے۔یہودیوں کو جو دھوکا لگا تھا۔وہ یہی تو تھا کہ مسیح کے آنے سے پہکلے ایلیا ہی کا آنا مانتے تھے اور اقرار کرتے تے کہ وہی ایلیا آئے گا؛ حالانکہ مسیح نے اس کا فیصلہ یہ کیا کہ آن چاہیے تھا۔اسی طرح مسیح کی آمد ثانی ہے اس سے مراد وہ آپ ہی کیونکر ہو سکتے ہٰں۔اسی واسطے میں کہت اہوں کہ آپ کو یہودیوں والا دھوکا لگا ہے؛ ورنہ میں تو وہی مسیح ہوں جو آنے والا تھا اور میرا وہی فیصلہ ہے جو ایلیا کے حق میں مسیح نے کیا۔
پادری۔ وہ ایلیا تو آچکا۔
حضرت اقدر ؑ۔ میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ آچکا مگر تم یہ بتائو کہ کیا یوحنا کو ایلیاء نہیں بنایا گیا۔اب میرے معاملہ میں آپ کیوں ٹھوکر کھاتے ہیں اور مسیح کے فیصلہ کو حجت نہیں مانتے۔
پادری۔ آپ معاف کریں۔میں جاتا ہوں۔
حضرت اقدس ؑ۔ اچھا۔
اس کے بعد پادری صاحب تشریف لے گئے؎ٰ۔
۵:نومبر ۱۹۰۴ء؁
بمقام قادیان۔بعد نماز مغرب
طاعون کی شدت طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ :
کسوف اور خسوف کے ساتھ ہی قرآن شریف میں
این المفر (القیامۃ : ۱۱)
آیا ہے جس سے یہی مراد ہے کہ طاعون اس کثرت سے ہوگی کہ کوئی جگہ پناہ کی نہ رہے گی۔میرے الہام میں عفت الدیار محلہا ومقامھا کے یہی معنی ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام کا وجود باعثِ ابتلاء ثابت ہوا ہے
حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود کی نسبت فرمایا کہ :
ان کا وجود دنیا کے لیے ابتلا ء ہی ثابت ہوا ہے۔یعنی ابتلاء اور حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود کا گہرا تعلق ہے کیونکہ جو منکر ہوئے وہ بھی دوزخی بنے اور جو ان پر ایماندار ہیں وہ بھی دوزخ کے کنارے ہیں۔جیس یکہ عیسائیون کے عقائد اور عملی حالت سے واضح ہے۔پھر مسلمان بھی ان پر ایمان رکھتے تے وہ بھی غلو کرکے اور آسمان پر بٹھاکر مغضوب ہوئے۔پس صرف مسیح کا وجود ہی اس قسم کا ہے کہ جس کا دوست بھی جہنم میں اور دشمن بھی جہنم میں ۔اس قسم کا ابتلاء کسی اور نبی کے وجدو کے ساتھ نہیں ہے۔؎ٰ
۱۱؍نومبر ۱۹۰۴ء؁
ایک شخص کی طرف سے رقعہ پیش کیا گیا کہ یہ مولوی صاحب ہیں اور ان کا لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ان کو ہستی باری تعالیٰ پر شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔یہ اپنی اصلاح کی تدبیر دریافت کرتے ہیں۔
فرمایا :
ان کی بے قراری کو اﷲ تعالیٰ دور کرے۔دیکھو اگر کسی شخص کے سامنے دو بچے ہوں۔ایک تو کسی اجنبی کا ہو اور دوسرا اس کا اپنا پیارا ۔تو کیا وہ اس اجنبی بچہ کی خاطر اپنے بچہ سے محبت چھوڑ دے گا۔ نہیں بلکہ ہرگز نہیں۔پس جب انسان مسلمان کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں بالکل خد اکا ہوجانا اور کسی حالت میں اس سے بے وفائی نہ کرنا۔پھر اولاد کے حق میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے :
ان من ازواجکم و اولادکم عدو الکم فاحذروھم (التغابن : ۱۵)
انما اموالکم واولادکم فتنۃ (التغابن : ۱۶)
کہ مال اور اولاد تمہاری دشمن ہیں۔ان سے ڈرتے رہو۔کیونکہ اگر زندہ رہے تو ممکن ہے کہ نافرمان ہو۔مرتد ہو جاوے۔بدکار ہو،چور یا ڈاکو بن جاوے۔مر جاوے تو پھر ویسے ابتلا آجاتا ہے۔پس ہر حالت میں موجب فتنہ اور ابتلاء ہوتی ہے مگر جب مومن کو خد اتعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ اگر یہ بچہ مر گیا ہے تو کیا ہوا۔اﷲ تعالیٰ نے جو حکم دیاہے۔
ماننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منہا اومثلھا (البقرہ : ۱۰۷)
دیکھو آنحضرت ﷺ کے ۱۲ بچے فوت ہوئے۔ایمان تو وہ ہوتا ہے جس میں لغزش نہ ہو اور ایسے ایمان والا خدا تعالیٰ کو بہت محبوب ہوتا ہے۔ہاں اگر بچہ خد اسے زیادہ محبوب ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسا شخص خد اپر ایمان کا دعویٰ کر سکے۔اور وہ کیوں ایسا دعویٰ کرتا ہے۔ہم نہیں جان سکتے کہ ہماری اولادیں کیسی ہوں گی۔صالح ہوں گی یا بدمعاش ۔اور نہ اُن کے ہم پر کوئی احسان ہیں اور خد اکے تو ہم پر لاکھوں لاکھ احسان ہیں۔پس سخت ظالم ہے وہ شخص کہ اس خدا سے تعلق توڑ کر اولاد کی طرف تعلق لگاتا ہے۔ہان خد اتعالیٰ کے حقوق کے ساتھ مخلوق کے حقوق کا بھی خیال رکھو۔اگر خدا پر تمہار اکامل ایمان ہو تو پھر تو تمہارا یہ مذہب ہونا چا ہیے کہ: ؎
ہر چہ از دوست میر سد نیکوست
اور اس ایمان والے کے شیطان قریب بھی نہیں آتا۔وہ بھی تو وہا ں ہی جاتا ہے جہاں اُس کو تھوڑی سی گنجائش مل جاتی ہے۔جب خدا تعالیٰ کو مقدم رکھ اجائے تو برکات کا نزول ہوتا ہے۔ہر کسی دوست سے اگر تم دادنیٰ باتوں میں بد عہدی اور جھوٹ اور عہد شکنی سے کام لو تو وہ تمہیں کبھی عزیز نہیں رکھے گا۔پھر وہ تو رب العالمین اور احکم الحاکمین اور رب العزت ہے۔
ولنبلونکم بشیج من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرت (البقرۃ : ۱۵۶)
یعنی ثمرات سے مراد اولاد ہے اور یہ خد اکی طرف سے ابتلا ء ہوتے ہیں اور یہی انسان کا امتحان ہوت اہے۔ہان یہ باتیں اور کامل ایمان حاصل ہوت اہے توبہ استغفار سے۔اس کی کثرت کرو۔اور
ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین ۔ (الاعراف : ۲۴)
پڑھا کرو اور اس کی کثرت کرو۔خد اتعالیٰ تعم البدل عطا کرے گا۔خدا کا دامن نہ چھوڑنے والا گنہگار ہو کر بھی بخشا جاتا ہے۔ہاں تعلق توڑنا بری بات ہے اور یہ زہر قاتل ہے۔پس توبہ استغفأر کرو اور نمازوں میں دعائیں کرتے رہو۔اﷲ تعالٰٰ تمہارا پروردگار ہو؎ٰ۔والسلام۔
بلاتاریخ
شہد اور ذیابیطس ذیابیطس کی مرض کا ذکر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ :
اس سے مجھے سخت تکلیف تھی۔ڈاکٹروں نے اس میں شیر ینی کو سخت مضر بتلایا ہے۔آج میں اس پر غور کر رہا تھا تو خیال آیا کہ بازار میں جوشکر وغیرہ ہوتی ہے اسے تو اکثر فاسق فاجر لوگ بناتے ہیں اگر اس سے ضرر ہوتا ہے تو تعجب کی بات نہیں۔مگر عسل (شہد) تو خدا تعالیٰ کی وحی سے تیار ہوا ہے۔اس لیے اس کی خاصیت دوسری شیر ینیوں کی سی ہرگز نہ ہوگی۔اگر یہ ان کی طرح ہوت اتو پھر سب شیرینی کی نسبت شفاء لناس۔ فرمایا جاتا۔مگر اس میں صرف عسل ہی کو خاص کی اہے۔پس یہ خصوصیت اس کے نفع پر دلیل ہے اور چونکہ اس کی تیاری بؓریاہ وہی کے ہے اس لیے مکھی جو پھولوں سے رس چوستی ہوگی تو ضرور مفید اجزاء کو ہی لیتی ہوگی۔اس خیال سے میں نے تھوڑے سے شہد میں کیوڑا ملا کر اُسے پیا تو تھوڑی دیر کے بعد مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا۔ حتیٰ کہ میں نے چلنے پھنے کے قابل پانے آپ کو پایا اور پھر گھر کے آدمیوں کولے کر باغ تک چلا گیا اور وہان دس رکعت اشراق نماز کی ادا کیں۔
صفاتِ باری تعالیٰ
خدا تعالیٰ کی ان صفأت رب، رحمٰن، رحیم،مالک یوم الدین پر توجہ کی جواے تو معلوم ہوت اہیکہ کہ کیسا عجیب خد اہے۔پھر جن کا رب ایسا ہو گیا وہ کبھی نامراد اور محروم رہ سکتا ہے؟ رب کے لفظ سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دوسرے عالم میں بھی ربوبیت کام کرتی رہے گی۔
جہاں اسباب غیر مؤثر معلوم ہوں وہاں دعا سے کام لے؎ٰ۔
۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء؁
بوقت ظہر
ایک الہام اور ایک رؤیاء حضرت اقدس علیہ السلام نے ذیل کی رؤیا سنائی
میں نے ایک سفید تہہ بند باندھا ہوا ہے مگر وہ بالکل سفید نہیں ہے۔کچھ کچھ میلا ہے کہ اس اثناء میں مولوی صاحب نماز پڑھانے لگے ہیں اور اُنہوں نے سورہ الحمد جہر سے پڑھی ہے اور اس کے بعد اُنہوں نے یہ پڑھا۔
الفارق واما ادرک ما الفارق
اس وقت مجھے یہی معلوم ہوا کہ قرآن شریف میں سے ہی ہے۔اور ایک اور الہام ہوا :
روز نقصاں بر تو نہ آید
آریہ مذہب اور اس کے عقائد
حضرت حکیم نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کی۔بعض آریوں نے بہت ہی گندے کلمات قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ کی شان میں لکھے ہیں۔فرمایا کہ
ہانڈی میں جب ابال ئت ہے تو پھر بہت جلدی بیٹھ جایا کرتا ہے۔یہی حالت ان لوگوں کی ہے۔میں نہیں سمجھ سکتا کہ اسلام جیسا مذہب جس خدا نے پیش کیا ہے اُس کے مقابل پر اور بی کوئی خدا مانا جا سکتا ہے۔
‏Mohsin 11-8-05
اسلام کا خدا کل کمالات ک مالک ہے اور جبکہ روح اور اس کے خواص سب خود بخود ہیں تو پھر وہ خدا کو کہہ سکتی ہے کہ تیرا مجھ پر کیا حق ہے جو تو مجھ کو کسی قسم کی سزا دے سکے۔خدا شناسی میں ان لوگوں کی حالت دہریوں سے ملتی ہے اور نیوگ میں تو کنجروں کو مات کر دیا ہے۔
انہوں نے ہر ایک بات پر اعتراض کا ٹھیکہ لے لیا ہے؛ حالانکہ ایک عارف آدمی اس بات کا ہرگز قائل نہ ہوگ اکہ کل اسرارِ الوہیت کو کوئی سمجھ سکتے مثلاً اس قدر جو مخلوقات موجود ہے اور قسم قسم کے پتھر ، بوٹیاں اور اشیاء ہیں کیا کوئی دعوٰی کر سکت اہے کہ میں نے ہر ایک کے خواص پر احاطہ کر لیا ہے اور جو کچھ میں نے معلوم کیا ہے اس سے بڑھ کر اب اور کوئی حکمت الٰہی اس میں ہر گز نہیں ہے۔اس لیے حق کے طالب کو چاہیے کہ وہ بات جس سے ایمان وابستہ ہوتا ہے اختیار کرے اور اُسے سمجھے اور دوسری باتوں کے لیے اپنے نقص عقل کو تسلیم کرے۔جوں جوں خدا تعالٰٰ بصیرت دے گا توں توں اس کا علم بڑے گا۔یہ نادانی ہے کہ انسان کے جسم کے اندر جس قدر قویٰ ہیں ان کی حکمت اور خواص پر تو نظر نہ کی جاوے اور بالوں کے ٹیڑھے ہونے یا اور اس قسم کی باتوں پر اعتراض کیا جاوے؎ٰ۔
۲۹؍نومبر ۱۹۰۴ء؁
کسی اہم کام کے لیے نماز توڑنا
افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر آجاوے اور دروازہ کو ہلا ہلا کر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یادوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں اسے کیا کرنا چاہیے۔اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہو کر ہندوستان واپس چلا گیا ہے۔
جواب :- حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا (یہ ہسپتال کا واقعہ ہے اس لیے فرمایا ؎ٰ) کیونکہ اگر اس کے التواسے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی۔احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں ثل کر درواز کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ایسے ہی اگر لڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اور جانور کو مار دینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی، بلکہ بعصوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھوڑا کُھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے۔کیونکہ وقت کیاندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے۔ ۲؎
نوٹ:- یاد رکھنا چہایے کہ اشد ضرورتوں کے لیے نازک مواقع پر یہ حکم ہے۔یہ نہیں کہ ہر ایک قسم کی رفع حاجب کو مقدم رکھ کر نماز کی پروا نہ کی جاوے اور اسے بازیچۂ طفلاں بنا دیا جاوے ورنہ نماز اشغال کی سخت ممانعت ہے اور اﷲ تعالیٰ ہر ایک دل اور نیت کو بخوبی جانتا ہے۔ ؎ٰ
۱۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء؁
بوقت ظہر
مریدان باصفا کی خاطر داری
حضرت اقدس بوقت ظہر تشریف لائے اور مولانا حکیم نورالدین صاحب کی علالت طبع کا حال خود ان سے دریافت کیا۔غذا کے انتظام کے لیے تاکید فمائی۔حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ ہر چند کوشش کی جاتی ہیمگر قدرت کی طرف سے کچف ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں کہ جس سے یہ انتظام قائم نہیں رہتا۔شاید ارادۂ الٰہی ابھی اس امر کا خواہاں نہیں ہے کہ آرام ہو۔
اس اثناء میں ایک صاحب جن کو حکیم صاحب موصوف سے نہایت محبت اور اخلاص اور نیاز مندی کا تعلق ہے بول اُٹھے کہ آخر تدبیر کرنی چاہیے۔قرآن شریف میں آیا ہے
فالمد برات امرا (النزعات : ۶)
حکیم صاحب نے ایک لطیف عارفانہ جواب یہ دیا کہ یہاں صیغہ مؤنث کا استعمال ہوا ہے فالمدبرون امرا۔ نہیں ہے۔جس سے ظاہر ہے کہ اس کا بڑا تعلق اناث سے ہے (اور اس میں ضرور نقص ہوتا ہے)بہر حازل یہ ایک عجیب نکتہ ہے۔اس بحث کو حصرت مسیح موعود ؑ نے بھی دل چسپی سے سنا اور پھر خوراک کا انتظام ایک خاص صاحب کے سپرد فرماکر زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ :
یہ سب لوگ سنتے ہیں اور گواہ ہیں کہ ہم نے اب تم کو ذمہ دار بنادیا ہے۔اب اس کا ثواب یاعذاب تمہاری گردن پر ہے۔ ۲؎
۲۰؍دسمبر ۱۹۰۴ء؁
بوقت ظہر
اپنے نیک انجام پر پختہ یقین
ظہر کے وقت حضرت اقدسؑ تشریف لائے۔مقدمہ کے ذکر پر فرمایا کہ :
خواہ کچھ ہی ہو ہم تو سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اس پر راضی ہیں۔
ہر چہ از دوست می رسد نیکوست
لیکن ہمارا ایمان جیسے خدا تعالیٰ کے ملائکہ اور کتب اور رسل پر ہے ایسے ہی اس بات پر بھی ہے ہ انجام کا رہم ہی کامیاب ہوں گے؛ اگر چہ ایک دنیا ہماری مخالف کیوں نہ ہو۔
آج کل کے عقلمندوں کے نزدیک تو کسی کو اپنا دشمن بنانا غلطی ہے۔لیکن سچ پوچھو تو یہ بھی حقانیت کی ایک دلیل ہے۔آنحضر ﷺ نے کسی ایک سے بھی نہ رکھی۔سب سے بگاڑلی۔ان لوگوں کے نزدیک تو نعوذ باﷲ آپؐ نے غلطی کی حالانکہ محض خدا تعالیٰ کے لیے سب س یبگاڑ لینا آپ کی صداقت کا بیّن ثبوت ہے کہ جس سے آپؐ کی قوتِ ایمانی کا حال معلوم ہوتا ہے۔ایک طرف مسیح ؑ کو دیکھو کہ اس کی تعلیم سے جو کہ انجیلوں میں پائی جاتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مشرب کسی کو ناراض کرنے کا ہرگز نہیں تھا۔یہودیوں کو سنایا گیا کہ میں توریت کا ایک شوشہ تک زیروزبر کرنے نہیں آیا۔اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ اُن کی خوشامد مد نظر تھی۔برخلاف اس کے آنحضرت ﷺ کی تعلیم کو دیکھ اجاوے تو کوئی بھی فرقہ اور مچہب روئے زمین پر ایسا نظر نہ آوے گا جس کو آپؐ نے دعوت نہ کی ہو اور جس کی غلطی نہ نکالی ہو (اور پھر ہر ایک کے مقابلہ پر اپنے مظفر و منصور ہونے کا دعویٰ بھی کیا) بھلا بتلائو کہ جب تک خدا پر پورا بھروسہ اور یقین نہ ہو کب کوئی اس طرح سے کر سکت اہے۔
خیر بات یہ ہے کہ درمیان میں کیا کیا مکروہات ہوں ہمیں اس کا علم نہیں مگر انجام بہر حال نیک ہے۔الہاموں کی ترتیب میں مَیں یہ امر مد نظر رکھتا ہوں کہ مکروہات کا رمتبہ اول رکھا جاتا ہے اور یہ سنت اﷲ بھی ہے کیونکہ خوشحالی اور کامیابی بعد کو ہوا کرتی ہیں۔اس لیے اُن کے الہامات کی ترتیب بھی بعد کو ہی ہوتی ہے۔
عاقبت کا ذخیرہ تیار کرو
کچھ دنوں کا عرصہ گذارا کہ ایک صاحب بہت تھوڑی دیر کے لیے قادیان آئے۔اور جلدی رخصت ہونے لگے۔حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ :
کچھ دن میرے پاس رہو اور عاقبت کا ذخیرہ تیار کرو دنیا کے کام تو کبھی ختم ہین میں نہیں آتے۔
خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند



۲۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء؁
تقریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
برموقعہ جلسہ سالانہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۴ء؁
بعد نماز ظہر بمقام مسجد اقصیٰ

خاتمہ بالخیر کی کوشش کریں
میری طرف سے اپنی جماعت کو بار بار وہی نصیحت یہ جو میں پہلے بھی کئی دفعہ کر چکا ہوں کہ عمر چونکہ تھوڑی ؎ٰ اور عظیم الشان کام درپیش ہے،اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے۔
خاتمہ بالخیر ایسا امر ہے کہ اس کی راہ میں بہت سے کانٹے ہیں۔جب انسان دنیا میں آیتا ہے تو کچھ زمانہ اس کا بے خوشی میں گذرجاتا ہے۔یہ بے ہوشے کا زمانہ وہ ہے جبکہ وہ بچہ ہوتا ہے اور اس کو دنیا اور اس کے حالات سے کوئی خبر نہیں ہوتی ۔اس کے بعد جب ہوش سنبھالتا ہے توایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ وہ بے ہوشی تو نہیں ہوت جو بچپن میں تھی۔ لیکن جوانی کیایک مستی ہوتی ہے جو اس ہوش کے دنوں میں بھی بے ہوشی پیدا کر دیتی ہے اور کچھ ایسا از خود رفتہ ہوجاتا ہے کہ نفسِ امارہ غالب آجاتا ہے۔اس کے بعد پھر تیسرا زمانہ آتا ہے ۲؎ کہ علم
‏Amira 15-8-05
کے بعد پھر لا علمی آجاتی ہے اور حواس میں اور دوسرے قویٰ میں فتور آنے لگتا ہے۔یہ پیرانہ سالی کا زمانہ ہے۔بہت سے لوگ اس زمانہ میں بالکل حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور قویٰ بیکار ہو جاتے ہیں۔اکثر لوگوں میں جنون کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ایسے بہت سے خاندان ہیں کہ ان میں ساٹھ یا ستر سال کے بعد انسان کے حواس میں فتور آجاتا ہے۔غرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی قویٰ کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہو جانے سے انسان ہوش میں بے ہوش ہوتا ہے؎ٰ اور ضعف وتکاہل اپنا اثر کرنے لگتا ہے۔انسان کی عمر کی تقسیم انہیں تین زمانوں پر ہے اور یہ تینوں ہی خطرات اور مشکلات میں ہیں۔پس اندازہ کرو کہ خاتمہ بالخیر کے لیے کس قدر مشکل مرحلہ ہے۔
بچپن کا زمانہ تومجبوری کازمانہ ہے۔اس میں سوائے لہو،لعب اور کھیل کود اور چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے اور کوئی خواہش ہی نہیں ہوتی۔ساری خواہشوں کا منتہا کھانا پینا ہی ہوتا ہے۔دنیا اور اس کے حالات سے محض نا واقف ہوتا ہے۔امور آخرت سے بکلی نا آشنا اور لاپروا ہوتا ہے۔عظیم الشان امور کی اسے کوئی خبر ہی نہیں ہوتی۔ وہ نہیں جانتا کہ دنیا میں اس کے آنے کی کیا غرض اور مقصد ہے۔یہ زمانہ تو یوں گذر گیا۔اس کے بعد جوانی کا زمانہ آت ہے۔کچھ شک نہیں کہ اس زمانہ میں اس کے معلومات بڑھتے ۔ہیں اور اس کی خواہشوں کا حلقہ وسیع ہوتا ہے، مگر جوانی کی مستی اور نفس امارہ کے جذبات عقل ماردیتے ہیں اور ایسی مشکلات میں پھنس جاتا ہے اور ایسے ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ اگر ایمان بھی لاتا ہے تب بھی نفس امارہ اور اس کے جذبات اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اُسے ایمان ارو اس کے ثمرات سے دور پھینک دینے کے لیے حملے کرتے ہیں۔اس کے بعد جو پیرانہ سالی کا زمانہ ہے وہ تو بجائے خود ایسا نکما اور ردی ہوتا ہے۔جیسے کسی چیز سے عرق نکال لیا جاوے اور اس کا پھوک باقی رہ جاوے۔اسی طرح پر انسانی عمر کا پھوک بڑھاپا ہے۔انسان اس وکت نہ دنیا کے لائق رہتا ہے اور نہ دین کے۔مخبوط الحواس اور مضمحل سا ہو کر اوقات بسر کرتا ہے۔قویٰ میں وہ تیزی اور حرکت نہیں ہوتی جو جوانی میں ہوت ہے اور بچپن کے زمانہ سے بھی گیا گذرا ہو جاتا ہے۔بچپن میں اگر چہ شوخی،حرکت اور نشونما ہوتا ہے،لیکن بڑھاپے میں یہ باتیں نہیں۔نشو نما کی بجائے اب قویٰ میں تحلیل ہوتی ہے اور کمزوری کی وجہ سے سستی اور کاہلی پیدا ہونے لگتی ہے۔
بچہ اگر چہ نماز اور اس کے مراتب اور ثمرات اور فوائد سے ناواقف ہو گا یا ہوتا ہے۔لیکن اپنے کسی عزیز کو دیکھ کر ریس اور امنگ ہی پیدا ہو جاتی ہے،مگر اس پیرانہ سالی کے زمانہ میں تو اس کے بھی قابل نہیں رہتا ۲؎۔
حواس باطنی میں جس طرح اس وقت فرق آجاتا ہے حواس ظاہی میں بھی معمر ہو کر بہت کچھ فتور پیدا ہوجاتا ہے۔بعض اندھے ہو جاتے ہیں۔بہرے ہو جاتے ہیں۔چلنے پھرنے سے عاری ہ جاتے ہیں اور قسم قسم کی مصیبتوں اور دکھوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔غرض یہ زمانہ بھی بڑا ہی ردی زمانہ ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی زمانہ ہے جو ان دونوں کے بیچ کا زمانہ ہے یعنی شباب کا جب انسان کوئی کام کر کستا ہے،کیونکہ اس وقت قویٰ میں نشونما ہوتا ہے اور طاقتیں آتی ہیں،لیکن یہی زمانہ ہے جبکہ نفس امارہ ساتھ ہوت اہے اور وہ اس پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے اور اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے۔یہی زمانہ ہے جو مؤاخذہ کا زمانہ ہے اور خاتمہ بالخیر کے لیے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں،لیکن ایسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنم میں لے جائے گا اور شقی بناوے گا۔ہاں اگر عمد گی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانہ کو بسر کیا جاوے تو اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے کیونکہ ابتدائی زماہ تو بے خبری اور غفلت کا زمانہ ہے۔اﷲ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ نہ کرے گا۔جیسا کہ اس نے خود فرمایا
لا یکلف اﷲ نفسا الا وسعھا (البقرۃ : ۲۸۷)
اور آخری زمانہ میں گوبڑھاپے کی وجہ سے سستی اور کاہلی ہوگی،لیکن فرشتے اس وقت اس کے اعمال میں وہی لکھیں گے جو جوانی کے جذبات اور خیالات ہیں۔جوانی میںا گر نیکیوں کی طرف مستعد ارو خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ،اس کے احکام کی تعمیل کرنے والا اور نواہی سے بچنے والا ہے تو بڑھاپے میں گو ان کے اعمال کی بجا آوری میں کسی قدر سستی بھی ہو جاوے لیکن اﷲ تعالیٰ اسے معذور سمجھ کر ویسا ہی اجر دیتا ہے ؎ٰ۔
ہر شخص بدھے انسان کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسا از خود فتگی کا زمانہ ہے ۲؎۔ کوئی بات چشم دید کی طرف سمجھ میں نہیں آتی ہے۔اس لیے ان لوگوں پر خدا تعالٰی کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے۔جو ابتدائی زمانہ میں اس زمانہ کے لیے سعی کرتے ہیں۔اور اس زمانہ میں ان کے لیے وہی تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی بندگی لکھی جاتی ہے۔ غرض آخر وہی ایک زمانہ جو جوانی کے جذبات اور نفس امارہ کی شوخیوں کا زمانہ کچھ کام کرنے کا زمانہ ہے۔اس لیے اب سوچنا چاہیے کہ وہ کیا طریق ہے جس کو اختیار کرکے انسان کچھ آخرت کے لیے کما سکے۔
خاتمہ بالخیر کے حصول کے تین ذرائع
اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زمانہ جو شباب اور جوانی کا زمانہ ہے ایک ایسا زمانہ ہے کہ نفس امارہ نے اس کو ردی کیا ہوا ہے لیکن اگر کوئی کار آمد ایام ہیں تو یہی ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کی زبانی قرآن شریف میں درج ہے۔
وما ابری نفسی انا النفس لا مارۃ بالسوء الا ما رحم ربی (یوسف : ۵۴)
یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہرا سکتا کیونکہ نفس امارہ بدی کی طرف تحریک کرتا ہے۔اس کی اس قسم کی تحریکوں سے وہی پاک ہو سکتا ہے جس پر میرا رب رحم کرے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کی بدیوں اور جذبات سے بچنے کے واسطے نری کوشش ہی شرط نہیں بلکہ دعائوں کی بہت بڑی ضرورت ہے نرا زُہد ظاہری ہی (جو انسان اپنی سعی اور کوشش سے کرتا ہے) کار آمد نہیں ہوتا جبتک خدا تعالیٰ کا فضل اور رحم ساتھ نہ ہو اور اصل تو یہ ہے کہ اصل زہد اور تقویٰ تو ہے ہی وہی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اسی طرح ملتا ہے؛ ورنہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بہت سے جامے بالکل سفید ہوتے ہیں اور باوجود سفید ہونے کے بھی وہ پلید ہو سکتے ہیں تو اس ظاہری تقویٰ اور طہارت کی ایسی ہی مثال ہے؎ٰ؛ تاہم اس حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ ارو طہارت کے حصول کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی زمانہ شباب و جوانی میں انسان کوشش کرے جبکہ قویٰ میں قوت اور طاقت اور دل میں ایک اُمنگ اور جوش ہوتا ہے۔اس زمانہ میں کوشش کرنا عقلمند کا کام ہے اور عقل اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے دی ہے ۲؎
‏Amira 23-8-05
پہلا ذریعہ تدبیر
اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے (جیسا کہ میں پہلے کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں) اول ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے ورنہ وہ ضرور ہلاک ہوگا۔جوشخص دیدہ دانستہ بدراہ اختیار کرتا ہے یا کنوئیں میں گرتا ہے اور زہر کھاتا ہے وہ یقینا ہلاک ہوگا۔ایسا شخص نہ دنیا کے نزدیک اور نہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قابل رحم ٹھہرسکتا ہے اس لیے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لیے (جس کو اﷲ تعالیٰ نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آنیوالی نسلوں کے لیے ایک نمونہ ٹھہرے) کہ جہانتک ممکن ہے بد صحبتوں اور بد عادتوں سے پرہیز کریں ؎ٰ۔ اور اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگائیں۔اس مقصد کے حاصل کر نیکے واسطے جہانتک تدبیر کا حق ہے تدبیر کرنی چاہیے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہیے۔
یاد رکھو تدبیر بھی ایک مخفی عبادت ہے اس کو حقیر مت سمجھو۔اسی سے وہ راہ کھل جاتی ہے جو بدیوں سے نجات پانے کی راہ ہے۔جو لوگ بدیوں سے بچنے کی تجویز اور تدبیر نہیں کرتے ہیں وہ گویا بدیوں پر راضی ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر خدا تعالیٰ اُن سے الگ ہو جاتا ہے ۲؎۔
میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفس امارہ کے پنجہ میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگ ہوا ہوتا ہے تو اس کا نفس امارہ خد اتعالیٰ کے نزدیک لوامہ ہو جاتا ہے اور ایسی قابل قدر تبدیلی پا لیتا ہے کہ یا تو وہ امارہ تھا جو *** کے قابل تھا ارو یا تدبیر اور تجویز کرنے سے وہی قابل *** نفس امارہ نفس لوامہ ہو جتا ہے جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اس کی قسم کھاتا ہے ۳؎۔ یہ کوئی چھوٹا شرف نہیں ہے۔پس حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حاصل کرنے کے واسطے اول یہ ضروری شرط ہے کہ جہاں تک بس چلے اور ممکن ہو تدبیر کرو اور بدی سے بچنے کی کوشش کرو۔بد عادتوں اور بد صحبتوں کو ترک کر دو۔ان مقامات کو چھوڑ دو جو اس قسم کی تحریکوں کا موجب ہو سکٰں جس قدر دنیا میں تدابیر کی راہ کھلی ہے اس قدر کوشش کرو اور اس سے نہ تھکو نہ ہٹو۔
دوسرا ذریعہ دعا
دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لیے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے ؎ٰوہ دعا ہے اس لیے جس قدر ہو سکے دعا کرو۔یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرب ارو مفید ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے۔
اد عونی استجب لکم (المومن : ۶۱)
تم مجھ سے دعا کرو میں تمہارے لیے قبول کروں گا۔دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہیے ۔۲؎دوسری قوموں کو دعا کی کوئی قدر نیں اور نہ انہیں اس پاک طریق پر کوئی فخر اور ناز ہو سکتاہے۔بلکہ یہ فخر اور ناز صرف اسلام ہی کو ہے دوسرے مذاہب اس سے بکلی بے بہرہ ہیں۔مثلا عیسائیوں نے جب یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک انسان (جس کو انہوں نے خدا مان لیا) نے ہمارے لیے قربانی دے دی ہے۔انہوں نے اس پر بھروسہ کر لیا اور سمجھ لیا کہ ہمارے سارے گناہ اس نے اُٹھا لیے ہیں۔پھر وہ کونسا امر ہے جو اس کو دعا کے لیے تحریک کرے گا۔نا ممکن ہے کہ وہ گدازش دل کے ساتھ دعا کرے۔دعا تو وہ کرتا ہے جو اپنی ذمہ داری اور جواب دہی کو سمجھتا ہے،لیکن جو شخص اپنے آپ کو بری الذمہ تصور کرتا ہے وہ دعا کیوں کرے گا۔اس نے تو پہلے ہی سمجھ لیا ہے کہ گناہ دوسرے شخص نے اُٹھالیے ہیں اور اس طرح پر اس کے ذمہ کوئی جواہدہی نہیں تو اس کے دل میں تحریک کس ططرح ہو گی۔اس نے اور شئے پر بھروسہ کر لیا ہے اور اس طرح پر اس طریق سے جو دعا کا طریق ہے وہ دور چلا گیا ہے ۳؎۔
غرض ایک عیسائی کے نزدیک دعا بالکل بے سود ہے اور و اس پر عمل نہیں کر سکتا۔اس کے دل میں وہ رقت اور جوش جو دع اکے لیے حرکت پیدا کرتا ہے نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح پر ایک آریہ جوتناسخ کا قاتل ہے اور سمجھتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہو سکتی اور کسی طرح پر اس کے گنہ معاف نہیں ہو سکتے وہ دعا کیوں کرے گا؟ اس نے تو یہ یقین کی اہوا ہے کہ جونوں کے چکر میں جانا ضروری ہے اور بیل۔گھوڑا۔گدھا۔گائے۔کتا۔سؤر وغیرہ بننا ہے۔وہ اس راہ کی طرف آئے گا ہی نہیں۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہد عا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے۔
مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہہ کر آستانۂ الوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لیے قوی اور مقتد خدا سے طاقت اور قوت ار مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں ا سکو موت کہہ سکتے ہیں۔جب یہ حالت میسر آجاوے تو یقینا سمجھو کہ باب ِ اجامت اس کے لیے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کیلیے عطا ہوتی ہے یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے۔
اس زمانہ کے لوگ دعا کی تاثیرات کے منکر ہو گئے ہیں
مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت وار حالت سے محض ناواقف ہیں۔اور اسی وجہ سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے منکر ہو گئے ہیں کیونکہ وہ اس تاثیرات کو نہین پاتے اور منکر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے۔پھر دعا کی کیا حاجت ہے،مگر میں خوب جانت اہوں کہ یہ تو نرا بہانہ ہے انہیں ثونکہ دعا کا تجربہ نہیں اس کی؎ٰ تاثیرات پر اطلاع نہیں اس لیے اس طرح کہہ دیتے ہیں ورنہ اگر وہ ایسے ہی متوکل ہیں تو پھر بیمار ہو کر علاج کیوں کرتے ہیں؟۔ خطرناک امراض میں مبتلا ہوتے ہیں تو طبیب کی رف دوڑے جاتے ہیں۔بلکہ میں سچ کہتاہوں کہ سب سے زیادہ چارہ کرنے والے یہی ہوتے ہیں۔سید احمد خاں بھی دعا کے منکر تھے، لیکن جب اُن کا پیشاب بند ہوا تو دلی سے معالج ڈاکٹر کو بلایا۔یہ نہ سمجھ لیا کہ خود بخود ہی پیشاب کھل جاوے گا؛ حالانکہ وہی خدا ہے جس کے ملکوت میں ظاہری دنیا ہے جبکہ دوسرے اشیاء میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ باطنی دنیا میں تاثیرات نہ ہوں۲؎۔ جن میں سے دعا ایک زبردست چیز ہے۔یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قضاو قدر میں سب کچھ ہے مگر کوئی یہ تو بتائے کہ خدا تعالیٰ نے وہ فہرست کس کو دی ہے جس سے معلوم ہو جاوے۔میں سچ کہتا ہوں کہ ان اسرار پر پر کوئی فتح نہیں پاسکتا ۔ظاہر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص قبض سے بیمار ہے تو تربدیا کسٹرائیل جب اس کو دیا جاوے گا تو اسے اسہال آجاویں گے۔اور قبض کھل جائے گی۔کیا یہ اس امر کا بین ثبوت نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے تاثیرات رکھی ہوئی ہیں۔
اسی طرح پر اور تدابیر کرنے والے ہیں۔مثلاً زراعت کرنے والے اور یہی معالجات کرنے والے وہ خوب جانتے ہیں کہ ان تدابیر کی وجہ سے اُنہوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور اشیء میں مختلف اثر دیکھے ہیں۔پھر جبکہ ان چیزوں میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دعائوں میں جو وہ بھی مخفی اسباب اور تدابیر ہیں اثر نہ ہوں؟ اثر ہیں اور ضرور ہیں ۔لیکن تھوڑے لوگ ہیں جیو ان تاثیرات سے واقف ارو آشنا ہیں اس لیے انکار کر
بیٹھتے ہیں۔
آدابِ دعا
میں یقینا جانتا ہوں کہ چونکہ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہیں جو اس نقطہ سے جہاں دعا اثر کرتی ہے دور رہ جاتے ہٰں اور وہ تھک کر دعا چھوڑ دیتے ہیں اور خدو ہی یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ دعائوں میں کوئی اثر نہیں ہے۔میں کہت اہوں کہ یہ تو اُن کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے۔جب تک کافی وزن نہ ہو خاوہ زہر ہو یا تریاق اس کا اثر نہیں ہوتا۔کسی کو بھوک لگی ہوئی ہو اور وہ چاہے کہ ایک دانہ سے پیٹبھر لے یا تو لا بھر غذا کھالے تو کای ہو سکتاہے کہ وہ سیر ہو جاوے؟کبھی نہیں۔اسی طرح جس کو پیاس لگی ہوئی ہے ایک قطرہ پانی سے اس کی پیاس کب بُجھ سکتی ہے،بلکہ سیر ہوین کے لیے چاہیے کہ وہ کافی غذا کھاوے اور پیاس بجھانے کے واسطے لازم ہے کہ کافی پانی پیوے۔تب جاکر اس کی تسلی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح پر دعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہیے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہیے جبتک دعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے۔جو لوگ تھک جاتے اور کھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں،کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشنای ہے۔میرے نزدیک دعا بہت عمدہ چیز ہے اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں خیالی بات نہیں۔جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو۔ اﷲ تعالیٰ دعا کے ذریعہ اُسے آسان کر دیتاہے۔میں سچ کہتاہوں کہ دعا بڑی زبردست اثر والی چیز ہے۔بیماری سے شفا اس کے ذریعہ ملتی ہے۔دنیا کی تنگیاں مشکلات اس سے دور ہوتی ہیں۔دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو دعا سے حاصل نہیں ہوتی۔سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے اور خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے۔گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے؎ٰ۔ بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پ ایمان ہے کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خد اہے۔
اﷲ تعالیٰ نے شروع قرآن ہی میں دع اسکھائی ہیجس سے معلوم ہوت اہے کہ یہ بڑی عظیم الشان اور ضروری چیز ہے۔اس کے بغی انسان کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
الحمد ﷲ رب العلمین۔ الرحمن الرحیم۔ مالک یوم الدین (الفاتحہ : ۲ - ۴)
اس میں اﷲ تعالیٰ کی چار صفات کو جوام الصفات ہیں بیان فرمایا ہے۔
رب العلمین ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذرہ ذرہ کی ربوبیت کر رہا ہے۔عالم اسے کہتے ہیں جس کی خبر مل سکے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دنای میں ایسی نہیں ہے جس کی ربوبیت نہ کرتا ہو۔ارواح اجسام وغیرہ سب کی ربوبیت کر رہا ہے۔وہی ہے جو ہر ایک ثیز کے حسبِ حال اس کی پرورش کرتا ہے جہاں جسم کی پرورش فرماتا ہے وہاں روح کی سیری اور تسلی کے لیے معارف اور حقائق وہی عطا فرماتا ہے۔
پھر فرمایا ہے کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اعمال سے بھی پیشتر اس کی رحمتیں موجود ہیں۔پیدا ہونے سے پہلے ہی زمین، چاند، سورج، ہوا،پانی وغیرہ جس قدر اشیاء انسان کے لیے ضروری ہیں موجود ہوتی ہیں۔
اور پھر وہ اﷲ رحیم ہے یعنی کسی کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلکہ پاداشِ عمل دیتا ہے۔
پھر مالک یوم الدین ہے یعنی جزا وہی دیتا ہے اور وہی یوم الجزاء کا مالک ہے۔اس قدر صفات اﷲ کے بیان کے بعد دعا کی تحریک کی ہے۔جب انسان اﷲ تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات پر ایمان لاتا ہے ، تو خواہ مخواہ روح میں ایک جوش اور تحریک ہوتی ہے اور دعا کے لیے اﷲ تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے۔
اس کے بعد اھدنا الصراط المستقیم کی ہدایت فرمائی ؎ٰ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔اس لیے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو۔
غرض اصلاحِ نفس کے لیے اور خاتمہ تبالخیر ہونے کے لیے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے۔اس میں جس قدر توکل اور یقین اﷲ تعالیٰ پر کریگا۔اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گااسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے۔تمام مشکلات دور ہو جائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلیٰ محل پر پہنچ جائے گا۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ جبتک خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا ۔نفسانی جذبات پر محض خدا تعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے اور یہ فضل اور جذبہ دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے۔
میں پھر کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور خصوصاً ہماری جماعت کو ہرگز ہرگز دعا کی بے قدری نہیں کرنی چاہیے۔کیونکہ یہی دعا تو ہے جس پر مسلمانوں کو ناز کرنا چاہیے۔ اور دوسرے مذاہب کے آگے تو دعا کے لیے گندے پتھر پڑے ہوئے ہیں ۲؎۔ اور وہ توجہ نہیں کر سکتے ۔ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ایک عیسائی جو خونِ مسیح پرایمان لا کر سارے گناہوں کو معاف شدہ سمجھتا ہے۔
‏Amira 25-8-05
اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دعا کرتا رہے۔اور ایک ہندو جو یقین کرتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہوتی اور تناسخ کے چکر سے رہائی ہی نہیں ہے وہ کیوں دعا کے واسطے ٹکریں مارتا رہے گا۔ وہ تو یقینا سمجھتا ہے کہ کتے،بلے،بندر،سؤر بننے سے چارہ ہی نہیں ہے۔اس لیے یاد رکھو کہ یہ اسلام کا فخر اور ناز ہے کہ اس میں دعا کی تعلیم ہے اس میں کبھی سستی نہ کرو اور نہ اس سے تھکو۔
پھر دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے؛ چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے
واذاسالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان (البقرۃ : ۱۸۷)
یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہدو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں۔یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے۔اور علاوہ بریں دعائوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔
غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جابجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جر اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعائوں میں لگے رہو۔دعائوں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا۔
تیسرا ذریعہ صحبتِ صادقین
تیسرا پہلو؎ٰ جو قرآن سے ثابت ہے وہ صحبت صادقین ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
کونو امع الصادقین (التوبہ : ۱۱۹)
یعنی صادقوں کے ساتھ رہو۔صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ان کا نور صدق و استقلال دوسروں پر اثر ڈالتا ہے اور اُن کی کمزوریوں کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔
یہ تین ذریعے ہیں جو ایمان کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور اُسے طاقت دیتے ہیں اور جبتک ان ذرائع سے انسان فائدہ نہیں اُٹھتا اس وقت تک اندیشہ رہتا ہے کہ شیطان اس پر حملہ کر کے اسکے متاعِ ایمان کو چھین نہ لے جاوے اسی لیے بہت بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم کو رکھا جاوے اور ہر طرح سے شیطانی حملوں سے احتیاط کی جاوے۔جو شخص ان تینوں، ہتھیاروں سے اپنے آپ کو مسلح نہیں کرتا ہے مجھے اندیشہ یہ کہ وہ کسی اتفاقی حملہ سے نقصان اُٹھاوے۔
دفع شر کے بعد خیر اصل مقصد ہے
لیکن یہ بات یاد رکھو کہ کتابوں میں جب لکھا جاتا ہے کہ بدیاں چھوڑ دو اور نیکیاں کرو تو بعض آدمی اتنا ہی سمجھ لیتے ہیں کہ نیکیوں کا کمال اسی قدر ہے کہ جو مشہور بدیاں ہیں مثلا چوری، زنا، غیبت، بد دیانتی، بد نظری وغیرہ موٹی موٹی بدیوں سے بچتے ہیں تو اپنے آپ کو سمھنے لگتے ہیں کے تمام مدارج حاصل کر لیے ہیں اور ہم بھی کچھ ہو گئے ہیں۔حالانکہ اگر غور کر کے دیکھ اجاوے تو یہ کچھ بھی چیز نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چوری نہیں کرتے ہیں۔بہت سے ایسے ہیں جو ڈاکے نہیں مارتے یا خون نہیں کرتے یا بد نظری یا بدکاری کی بدعادتوں میں مبتلا نہیں ہیں۔زیادہ سے زیادہ اسے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ترکِ شر کیا ہے خواہ وہ عدمِ قدرت ہی کی وجہ سے ہو۔قرآن شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترکِ شر کرکے سمجھ لے کہ بس اب میں صاحب کمال ہو گیا، بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاقِ فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہے کہ اس سے ایسے اعمال و افعال سر زد ہوں جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور اُن کا نتیجہ یہ ہو کہ اﷲ تعالیٰ اس سے راضی ہو اجوے۔ میں اس بات کو بار بار کہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی اپنی ترقی اور کمال روحانی کی یہی انتہانہ سمجھ لے کہ میں نے ترکِ بدی کی ہے۔صرف ترک بدی نیکی کے کامل مفہوم اور منشاء کو اپنے اندر نہیں رکھتی۔بار بار ایسا تصور کرنا کہ میں نے خون نہیں کیا خوبی کی با ت نہیں کیونکہ خون کرنا ہر ایک شخص کا کام نہیں ہے۔یا یہ کہنا کہ زنا نہیں کای کیونکہ زنا کرنا تو کنجروں کا کام ہے نہ کہ کسی شریف انسان کا ۔ایسی بدیوں سے پرہیز زیادہ سے زیادہ انسان کو بدمعاشوں کے طبقے سے خارج کردے گا؎ٰ۔ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔مگر وہ جماعت (جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے کہ انہوں نے ایسے اعمالِ صالحہ کیے کہ خدا تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو گئے) صرف ترکِ بدی ہی سے نہ بنی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہیچ سمجھا۔خدا کی مخلوق کو نفع پہنچانے کے واسطے اپنے آرام و آسائش کو ترک کر دیا۔تب جا کر وہ ان مدارج اور مراتب پر پہنچے کہ آواز آگئی۔
رضی اﷲ عنہم ورضو اعنہ (البینۃ : ۹)
مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوںکی یہ حالت ہو رہی ہے کہ کسبِ خیر تو بڑی بات ہے اور وہی اصل مقصد ہے، لیکن وہ تو ترکِ بدی میں بھی سُست نظر آتے ہیں اور ان کاموں کا تو ذکر ہی کیا ہے جو صلحاء کے کام ہیں۔
پس تمہیں چاہیے کہ تم ایک ہی بات اپنے لیے کاھی نہ سمجھ لو۔ہاں اول بدیوں سے پرہیز کرو۔اور پھر ان کی بجائے نیکیوں کے حاصل کرنے کے واسطے سعی اور مجاہدہ سے کام لو اور پھر خدا تعالیٰ کی توفیق اور اس کا فضل دعا سے مانگو۔جبتک انسان ان دونوں صفات سے متصف نہیں ہوتا یعنی بدیاں چھوڑ کر نیکیاں حاصل نہیں کرتا وہ اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا۔مومن کامل ہی کی تعریف میں تو انعمت علیہم فرمایا گیا ہے۔اب غور کرو کہ کیا اتنا ہی انعام تھا کہ وہ ثوری چکاری رہزنی نہیں کرتے تھے یا اس سے کچھ بڑھ کر مراد ہے؟ نہیں۔ انعمت علیہم میں تو وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات رکھے ہیں جو مخاطبہ اور مکالمہ الٰہیہ کہلاتے ہیں۔؎ٰ
اگر اسی قدر مقصود ہوتا جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرنا ہی کمال انعمت علیہم کی دعا کی تعلیم نہ ہوتی جس کا انتہائی اور آخری مرتبہ اور مقام خدا تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ یہ۔انبیاء علیہم السلام کا اتنا ہی تو کمال نہ تھا۔کہ وہ چوری چکاری نہ کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت صدق، وفا میں پنا نظیر نہ رکھتے تھے۔پس اس دعا کی تعلیم سے یہ سکھایا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شئے ہے۔جبتک انسان اُسے حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک وہ نیک اور صالح نہیں کہلا سکتا اور منعم علیہ کہ زمرہ میں نہیں آتا۔ اس سے آگے فرمایا
غیر المغضوب علیہم والا الضالین (الفاتحہ : ۷)
اس مطلب کو قرآن شریف نے دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل دوشربتوں کے پنے سے ہوتی ہے ایک شربت کا نام کافوری ہے اور دوسرے کا نام زنجیلی ہے۔کافوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لیے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو۔جس طرح پر کافور میں یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے مواد کو دبا دیتا ہے۔اسی لیے اُسے کافور کطرح پر یہ کافوری شربت گناہ اور بدی کی زہر کو دبا دیتا ہے اور وہ موادِ ردّیہ جو اُٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں ان کو اُٹھنے نہی دیتا بلکہ بے اثر کر دیتا ہے۔دوسرا شربت زنجیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کے لیے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی ہے۔پس
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ: ۶، ۷)
تو اصل مقصد اور غرض ہے یہ گویا زنجیلی شربت ہے اور
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین (الفاتحہ : ۷)
کافوری شربت ہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
باریک اور مخفی بدیوں سے بچنے کی تلقین
اب ایک اور مشکل ہے کہ انسان موٹی موٹی بدیوں کو تو آسانی سے چھوڑ بھی دیتا ہے، لیکن بعض بدیاں ایسی باریک اور مخفی ہوتی ہیں کہ اول تو انسان مشکل سے انہیں معلوم کرتا ہے اور پھر ان کا چھوڑنا اُسے بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ محرقہ بھی گوسخت تپ ہے مگر اس کا علاج کھُلا کھُلا ہو سکتا ہے لیکن تپدق جو اندر ہی کھا رہا یہ اس کا علاج بہت ہی مشکل ہے۔اسی طرح پر یہ باریک اور مخفی بدیاں ہوتی ہیں جو انسنا کو فضائل کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔یہ اخلاقی بدیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور معاملات میں پیش آتی ہیں اور ذرسی بات اور اختلاف رائے پر دلوں میں بغض، کینہ، حسد، ریا، تکبر پیید اہو جاتا ہے اور اپنے بھائی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔چند روز اگر نماز سنوار کر پڑھی ہے اور لوگوں نے تعریف کی توریا ار نمود پیدا ہو گیا اور وہ اصل غرض جو اخلاص تھی جاتی رہی۔ اور اگر خدا تعالیٰ نے دولت دی ہے یا علم دیا ہے یا کوئی خاندانی وجاہت حاصل ہے تو اس کی وجہ سے اپنے بھائی کو جس کو یہ باتیں نہیں ملی ہیں، حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے۔اور اپنے بھائی کی عیب چینی کے لیے حریص ہوتا ہے۔اور تکبر مختلف رنگوں میں ہوتا ہے۔کسی میں کسی رنگ میں اور کسی میں کسی طرح سے۔علماء علم کے رنگ میں اُسے ظاہر کرتے ہیں اور علمی طور پر نکتہ چینی کر کے اپنے بھائی کو گرانا چاہتے ہیں۔ غرض کسی نہ کسی طرح عیب ثینی کرکے اپنے بھائی کو ذلیل کرنا اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔رات دن اس کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔اس قسم کی باریک بدیاں ہوتی ہیں۔جن کا دور کرتا بہت مشکل ہوتا ہے اور شریعت ان باتوں کو جائز نہیں رکھتی ہے۔ان بدیوں میں عوام ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جومتعارف اور موٹی موٹی بدیاں نہیں کرتے ہیں اور خواص سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مبتلا ہو جاتے ہیں۔ان سے خلاصی پانا اور مرنا ایک ہی بات ہے۔ اور جبتک ان بدیوں سے نجات حاصل نہ کلے۔تزکیۂ نفس کامل طور پر نہیں ہوتا اور انسان ان کمالات اور انعامات کا وارث نہیں بنتا جو تزکیۂ نفس کے بعد خدا تعالیٰ کی طرھ سے آتے ہیں۔بعض لوگ اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پالی ہے، لیکن جب کبھی موقعہ آپڑتا ہے اور کسی سفیہ سے مقابلہ ہو جاوے تو انہیں بڑا جوش آتا ہے اور پھر وہ گند ان سے ظہر ہوتا ہے جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔اس وقت پتہ لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور وہ تزکیۂ نفس جو کامل کرتا ہے میسر نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تزکیہ جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔اس فض کے جذب کرنے کے لیے بھی وہی تین پہلو ہیں۔اولؔ مجاہدہ اور تدبیر۔ دومؔ دعا۔سومؔ صحبت صادقین۔
یہ فضل الٰہی انبیاء علیہم السلام پر بد رجہ کمال ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اول اُن کا تزکیہ اخلاقی کامل طور پر خود کر دیتا ہے۔ان میں بد اخلاقیوں اور رذائل کی آلائش رہ ہی نہیں جاتی۔ان کی حالت تو یہانتک پہنچ جاتی ہے کہ سلطنت پا کر بھی وہ فقیر ہی رہتے ہیں ۔اور کسی قسم کا کبر ان کے پاس نہیں آتا۔
خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر تزکیۂ نفس حاصل نہیں ہوتا
درحقیقت یہ گند جو نھس کے جذبات کا ہے اور بداخلاقی۔کبر۔ریا وغیرہ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اس پر موت نہیں آتی جبتک اﷲ تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور یہ مواد ردّ یہ جل نہیں سکتے۔جب تک معرفت کی آگ اُن کو نہ جلائے۔جس میں یہ معرفت کی آگ پیدا ہو جاتی ہے وہ ان اخلاقی کمزوریوں سے پاک ہونے لگتا ر بھی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اپنی ہستی کو کچھ حقیقت نہیں پاتا۔ وہ اس نور اور روشنی کو جو انوارِ معرفت سے اُسے ملتی ہے اپنی کسی قابلیت اور خوبی کا نتیجہ نہیں مانتا اور نہ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ وہ اُسے خدا تعالیٰ ہی کافضل اور رحم یقین کرتا ہے جیسے ایک دیوار پر آفتاب کی روشنی اور دھوپ پڑ کر اُسے منور کر دیتی ہے، لیکن دیوار اپنا کوئی فخر نہیں کر سکتی کہ یہ روشنی میری قابلیت کی وجہ سے ہے۔یہ ایک دوسری بات ہے کہ جس کدر وہ دیوار صاف ہوگی اسی قدر روشنی زیادہ صاف ہوگی، لیکن کسی حال میں دیوار کی ذاتی قابلیت اس روشنی کے لیے کوئی نہیں بلکہ اس کا فخر آفتاب کو ہے اور ایس اہی وہ آفتاب کو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ تو اس روشنی کو اُڑھالے۔اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام کے نفوس صافیہ ہوتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض سے معرفت کے انوار ان پر پڑتے ہیں اور ان کو روشن کر دیتے ہیں اسی لیے وہ ذاتی طور پر کوئی دعویٰ نہیں کرتے بلکہ ہر ایک فیض کو اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہی سچ بھی ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا آپؐ اعمال سے داخل جنت ہوں گے تو یہی فرمایا کہ ہرگز نہیں؎ٰ۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے۔ انبیاء علیہم السلام کبھی کسی قوت اور طاقت کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے وہ خدا ہی سے پاتے ہیں اور اسے کا نام لیتے ہیں۔
ہاں ایسے لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام سے حالانکہ کروڑوں حصہ نیچے کے درجہ میں ہوتے ہیں جو دو دن نماز پڑھ کر تکبر کرنے لگتے ہیں اور ایسا ہی روزہ اور حج سے بجائے تزکیہ کے ان میں تکبر اور نمود پیدا ہوتی ۲؎ ہے۔ یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے۔جبتک انسان اس سے دور نہ ہو۔یہ قبول حق اور فیضانِ الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہیے نہ علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے۔کیونکہ زیادہ تر انہیں باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جبتک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا۔اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہوسکتا اور وہ معرفت جو جذبات کے مواد ردّیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی،کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اﷲ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا اور کہ دیا
انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین (الاعراف : ۱۳)
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خدا تعالیی کے حضور سے مردود ہو گیا اور آدم لغزش پر (چونکہ اسے معرفت دی گئی تھی) اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے لگا۔اور خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا۔وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اس لیے دعا کی
ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفر لنا وترحمنا لنکو نن من الخاسرین (الاعراف : ۲۴)
یہی وہ سر ہے جو حضرت عیسیٰ ؑکو کہا گیا کہ اے نیک اُستاد۔تو اُنہوں نے کہا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے۔اس پرآجکل کے نادان عیسائی تو یہ کہتے ہیں کہ ان کا مطلب اس فقرہ سے یہ تھا کہ تو مجھے خدا کیوں نہیں کہتا؛ حالانکہ حضرت مسیح نے بہت ہی لطیف بات کہی تھی جو انبیاء علیہم السلام کی فطرت کا خاصہ ہے۔ وہ جانتے تھے کہ حقیقی نیکی تو خد اتعالیٰ ہی سے آتی ہے وہی اس کا چشمہ ہے اور وہیں سے وہ اُترتی ہے۔وہ جس کو چاہے عطا کرے اور جب چاہے سلب کرلے۔مگر ان نادانوں نے ایک عمدہ اور قابل قدر بات کو معیوب بنا دیا اور حضرت عیسیٰ ؑ کو متکبر ثابت کیا؛ حالانکہ وہ ایک منکسر المزاج انسان تھے۔
پاک ہونے کا طریق
پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فحر نہ کرے نہ علمی، نہ خاندانی، نہ مالی۔ جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے۔آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جبتک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے۔اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے۔اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کردے۔
پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئے محض سمجھے اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیت اہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لیے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی او انکسار میں اور بھی ترقی ہو۔کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچایں گے۔اگر انسان یہ عقید رکھے گا تو امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر *** کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ے۔
‏Amira 26-8-05
جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض
میں یہ سب باتیں با ر بار اس لیے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گُم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔اسے دوبارہ قائم کرے۔
عام طور پر تکبر دنای میں پھیلا ہوا ہے۔علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبر میں گرفتار ہیں۔فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہو رہی ہے۔ان کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا۔ان کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے۔اس لیے اُن کے مجاہدے اور ریا صنتیں بھی کچھ اور ہی قسم ی ہیں جیسے ذکرِ ارّہ وغیرہ۔جن کا چشمۂ نبوت سے پتہ نہیں چلتا۔میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں۔صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے۔جس میں روحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں۔یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں۔پس یہ زمانہ ابالکل خالی ہے۔نبوی طریق جیسا کہ کرنے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اسا دیا ہے۔اب اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آجاوے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو۔اور اس کو اس ن اس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے۔
پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت ﷺ نے اصلاح کا طریق بتایا ہے۔
حقوق اﷲ اور حقوق العباد
شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہولو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے۔ایک حق اﷲ ، دوسرے حق العباد۔ حق اﷲ تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت، اس کی اطاعت ، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا۔اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبر، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے۔گو یا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو۔سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں، لیکن عمل کرنے مٰں بہت ہی مشکل ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کا بڑے ہی فضل انسان پر ہو تو وہ ان دونوں پہلوئوں پر قائم ہو سکت اہے۔کسی میں قوتِ غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے اور نہ زبان۔دل سے اپنے بھائی کے خلاف ناپاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے۔اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے۔کسی میں قوت شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفتار ہو کر حدود اﷲ کو توڑتا ہے۔غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل ایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہیے کہ بعد اس کے جو انسان سچا موحد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے۔میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی ہے۔ اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو۔اس لیے اول ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے، کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور اُنس پیدا ہوتا ہے اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ۔بغض۔حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے۔
پھر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لیے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا ارو اس کی خبر گیری کے لیے تیار نہیں ہوتا۔یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لیے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبرگیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیت اہے بلکہ یہانتک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکائو تو شوربا زیادہ کر لو تا کہ اسے بھی دے سکو۔اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں،لیکن اس کی کچھ پروا نہیں۔یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو۔بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں۔
اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے
ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہیے کہوہ کہان تک ان امور کی پروا کرتا ہے اور کہانتک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے۔اس کا بڑا بھاری مطالبہ انسان کے ذمہ ہے۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے روز خدا تعالیٰ کہے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھان نہ کھلایا۔میں پیاسا تھا اور تونے مجھے پانی نہ دیا۔میں بیمار تھا۔تم نے میری عیادت نہ کی۔جن لوگوں سے یہ سوال ہوگا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب تو کب پیاسا تھا جو پانی نہ دیا اور تو کب بیمار تھا جو تیری عیادت نہ کی۔پھر خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ جو ہے وہ ان باتوں کا محتاج تھا مگر تم نے اس کی کوئی ہمدردی نہ کی۔اس کی ہمدردی میری ہی ہمدردی تھی۔ایسا ہی ایک اور جماعت کو کہے گا کہ شاباش! تم نے میری ہمدردی کی۔ میں بھوکا تھا۔تم نے مجھے کھانا کھلایا۔میں پیاسا تھا تم نے مجھے پنای پلایا وغیرہ۔ وہ جماعت عرض کرے گی کہ اے ہمارے خد اہم نے کب تیرے ساتھ ایسا کیا؟ تب اﷲ تعالیٰ جواب دیگاکہ میرے فلاں بندہ کے ساتھ جو تم نے ہمدردی کی وہ میری ہی ہمدردی تھی۔دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خد تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔عام طور پر دنیا میں بھی ایساہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا؟کبھی نہیں؛ حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی، مگر نہیں۔اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک گویا مالک کے ساتھ حسن سلوک ہے۔خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سرد مہری برتے۔کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔
غرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے۔میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اﷲ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے۔ جو شخص نوع انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے۔خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اس کا ایمان قوی ہو جاتا ہے۔مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نمائش اور نمود کے لیے جو اخلاق برتے جائیں وہ اخالق خدا تعالیٰ کے لیے نہیں ہوتے اور ان میں اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح پر تو بہت سے لوگ سرائیں وغیرہ بنادیتے ہیں۔ان کی اصل غرض شہرت ہوتی ہے۔اور اگر انسان خدا تعالیٰ کے لیے کوئی فعل کرے تو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ اُسے ضائع نہیں کرتا اور اس کا بدلہ دیتا ہے۔میں نے تذکرۃ الاولیاء میں پڑھا ہے کہ ایک ولی اﷲ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی اور کئی روز تک رہی۔ان بارش کے دنوں میں مَیں نے دیکھ اکہ ایک اسی برس کا بوڑھا گبر ہے جو کوٹھے پر چڑیوں کے لیے دانے ڈال رہا ہے۔میں نے اس خایل سے کہ کافر کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اس سے کہا کہ کیا تیرے اس عمل سے تجھے کچھ ثواب ہوگا؟ اس گبر نے جواب دیا کہ ہاں ضرور ہوگا۔ پھر وہی ولی اﷲ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو میں حج کو گیا تو دیکھاکہ وہی گبر طواف کر رہا یہ۔اس گبر نے مجھے پہچان لیا اور کہا کہ دیکھو ان دانوں کا مجھے ثواب مل گیا یا نہیں؟ یعنی وہی دانے میرے اسلام تک لانے کا موجب ہو گئے۔
حدیث میں بھی ذکر آیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھ اکہ ایام جاہلیت میں مَیں نے بہت خرچ کیا تھا۔کیا اس کا ثواب بھی مجھے ہگوا؟ آنحضرت ﷺ نے اس کو جواب دیا کہ یہ اسی صدقہ و خیرات کا ثمرہ تو ہے کہ تو مسلمان ہو گیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کے ادنیٰ فعل اخلاص کو بھی ضائع نہیں کرتا۔اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کی ہمدردی اور خبر گیری حقوق اﷲ کی حفاظت کا باعث ہو جاتی ہے۔
پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑدے اور اس سے دور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے۔جبتک اپنے دوسرے بھئی کے ساتھ مروت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے ؎
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔نہیں۔ میں کہتا ہوںکہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور۔میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ان میں بعض اس قسم کے خیالات بھی رکھتے ہین کہ اگر ایک شیرے کے مٹکے میں ہاتھ ڈالا جاوے اور پھر اس کو تلوں میں ڈال کر تل لگائے جاویں تو جس قدر اس کو لگ جاویںل۔ اس قدر دھوکا اور فریب دوسرے لوگوں کو دے سکتے ہیں۔ان کی ایسی بیہودہ اور خیالی باتوں نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے اور اُن کو قریباً وحشی اور درندہ بنا دیا ہے۔مگر میں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرہ کو محدود نہ کرو۔اور ہمدردی کے لیے اس تعلیم کی پیروی کرو جو اﷲ تعالیٰ نے دی ہے یعنی
ان اﷲ یا مر بالعدل والاحسن وایتای ذی القربی (لنحل : ۹۱)
یعنی اول نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو۔جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو۔
اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر اس سے سلوک کرو۔یہ احسان ہے۔احسان کا درجہ اگر چہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بری بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلادے مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہو جس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلے کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لیے اپنے سارے سُکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے۔یہانتک کہ اگر کوئی بادشان کسی مان کو حکم دیدے کہ تو اپنے بچہ کو دودھ مت پلا اور اگر ایسا کرنے سے بچہ ضائع بھی ہو جاوے تو اس کو کوئی سزا نہیں ہوگی تو کیا ماں ایسا حکم سنکر خوش ہوگی؟ اور اس کی تعمیل کرے گی؟ ہرگز نہیں۔بلکہ وہ تو انے دل میں ایسے بادشاہ کو کوسے گی کہ کیوں اس نے ایسا حکم دیا۔پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے۔کیونکہ جب کوئی شئے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اس وقت وہ کا مل ہوتی ہے۔؎ٰ
یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور و ہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اﷲ تعالیٰ کی شن اس سے پاک ہے (سبحانہ تعالیٰ شانہٗ)
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم رحم مجسم تھے
بعض لوگ جن کو حق کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے۔جب ایسی تعلیم سنتے ہیں تو اور کچھ نہیں تو یہی اعتراض کر دیتے ہیں ہ اسلام میں ہمدردی اگر ہوتی تو آنحضرت ﷺ نے لڑائیاں کیوں کی تھیں؟ وہ نادان اتنا نہیں جانتے کہ آنحضرت ﷺ نے جو جنگ کرہ برس تک خطرناک دُکھ اُٹھانے کے بعد کئے اور وہ بھی مدافعت کے طو رپر۔ تیرہ برس تک اُن کے ہاتھوں سے آپ تکالیف اٹھاتے رہے۔مسلمان مرد اور عورتیں شہید کی گئیں۔آخر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں بھی ان ظالموں نے پیچھا نہ چھوڑا۔تو خدا تعالیٰ نے مظلوم قوم کو مقابلہ کا حکم دیا اور وہ بھی اس لیے کہ شریروں کی شرارت سے مخلوق کو بچایا جائے اور ایک حق پرست قوم کے لیے راہ کھل جائے۔آنحضرت ﷺ نے کبھی کسی کے لیے بدی نہیں چاہی۔ آپ تو رحم مجسم تھے۔اگر بدی چاہتے تو جب آپ نے پورا تسلط حاصل کر لیا تھا اور شوکت او ر غلبہ آپ کو مل گیا تھا تو آپ اُن تمام ائمۃ الکفر کو جو ہمیشہ آپ کو دُکھ دیتے رہتے تھے۔قتل کرو ا دیتے اور اس میں انصاف اور عقل کی رو سے آپ کاپل۳ہ بالکل پاک تھا، مگر باوجود اس کے کہ اُرفِ عام کے لحاظ سے اور عقل اور انصاف کے لحاظ سے آپ کو حق تھا کہ ان لوگوں کو قتل کروا دیتے مگر نہیں، آپؐ نے سب کو چھوڑ دیا۔آج کل جو لوگ غداری کرتے ہیں اور باغی ہوتے ہیں انہیں کون پناہ دے سکتا ہے۔جب ہندوستان میں غدر ہو گیا تھا اور اس کے بعد انگریزوں نے تسلط عام حاصل کر لیا تو تمام شریر باغی ہلاک کر دیئے گئے اور ان کی یہ طزا بالکل انصاف پرمبنی تھی۔باغی کے لیے کسی قانون میں رہائی نہیں۔لیکن یہ آپ ہی کا حوصلہ تھا کہ اس دن آپ نے فرمایا کہ جاو تم سب کو بخش دیا۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو نوعِ نسان سے بہت بڑی ہمدردی تھی ایسی ہمدردی کہ اس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی۔ اس کے بعد بھی اگر کہا جاوے کہ اسلام دوسورن سے ہمدردی کی تعلیم نہیں دیتا تو اس سے بڑھ کر ظلم او رکیا ہوگا؟ یقیناً یاد رکھو کہ مومن متقی کے دل میں شر نہیں ہوتا۔ جس قدرانسان متقی ہوتا جاتا ہے اسی قدر وہ کسی کی نسبت سزا اور ایذا کو پسند نہین کرتا۔مسلمان کبھی کینہ ور نہیں ہوسکتا۔ہم خود دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے کوئی دُکھ اور تکلیف جو وہ پہنچاسکتے تھے اُنہوں نے پہنچایا ہے،لیکن پھر بھی ان کی ہزاروں خطائیں بخشنے کو اب بھی تیار ہیں۔
جماعت کو خاص نصیحت
پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خاوہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمددی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔
ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما و اسیرا (الدھر : ۹)
وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے۔اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے۔میری رائے میں کامل اخالقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی۔مجھے صحت ہو جاوے تو میں اخلاقی تعلیم پر یاک مستقل رسالہ لکھوں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میر امنشا ہے وہ ظاہر جو جاوے اور وہ میری جماعت کے لیے ایک کامل تعلیم ہو اور ابتغاء مرضات اﷲ کی راہیں اس میں دکھائی جائیں۔ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ۔میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی۔میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اُٹھاتا ہے تو چار قدم گرتا ہے، لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کردے گا۔اس لیے تم بھی کوشش، تدبیر، مجاہدہ اور دعائوں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں۔ جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے۔؎ٰ






۳۰؍دسمبر ۱۹۰۴ء؁
تقریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
جو آپ نے بعد نماز جمعہ مسجدِ اقصیٰ میں فرمائی
چونکہ خاکسار ایڈیٹر کچھ دیر سے پہنچا تھا اس لیے جس قدر ضبط ہو سکا وہ ہدیہ ناظرین ہے۔
سلسلہ تقریر سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انقطاعِ دنیا اور حصول قرب الی اﷲ کے متعلق مضون
تھا۔ اور وہ تقریر یہ ہے:
اﷲ تعالیٰ کو اپنا نصب العین بنائیں
انسان کو چاہیے کہ حسنات کا پلڑا بھاری رکھے ۔مگر جہانتک دیکھا جاتا ہے اس کی مصروفیت اس قدر دنیا میں ہے کہ یہ پلڑا بھاری ہوتا نظر نہیں آتا۔رات دن اسی فکر میں ہے کہ وہ کام دنای کہ ہو جاوے۔فلانی زمین مل جاوے۔فلاں مکان بن جاوے؛ حالانکہ اُسے چاہیے کہ انکار میں بھی دین کا پلڑا دنای کے پلڑے سے بھاری رکھے۔اگر کوئی شخص رات دن نماز روزہ میں مصروف ہے تو یہ بھی اس کے کام ہرگز نہیں آسکتا۔جب تک کہ خدا کو اس نے مقدم نہیں رکھا ہوا۔ہر بات اور فعل میں اﷲ تعالیٰ کو نصب العین بنانا چاہیے؛ ورنہ خدا کی قبولیت کے لائق ہرگز نہ ٹھہرے گا۔ دنیا کا ایک بت ہوتا ہے جو کہ ہر وقت انسان کی بغل میں ہوتا ہے۔اگر وہ مقابلہ اور مواز نہ کر کے دیکھے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ طرح طرح کی نمائش اس نے دنای کے لیے بنا رکھی ہے اور دین کا پہلو بہت کمزور ہے؛ حالانکہ عمر کا اعتبار نہیں اور نہ علم ہے کہ اس نے ایک پل کے بعد زندہ بھی رہنا ہے کہ نہیں۔شیخ سعدی نے کیا عمدہ فرمایا ہے ؎
مکن تکیہ بر عمر نا پائدار
اس وقت جس قدر لوگ کھڑے ہیں کون کہہ سکتا ہے کہ ایک سال تک میں ضرور زندہ رہوں گا لیکن اگر خدا کی طرف سے علم ہو جاوے کہ اب زندگی ختم ہے تو ابھی سب ارادے باطل ہو جاتے ہیں۔پس خوب یاد رکھو کہ مومن کو دنیا کا بندہ نہ ہونا چاہیے۔ہمیشہ اس امر میں کوشاں رہنا چاہیے کہ کوئی بھلائی اس کے ہاتھ سے ہو جاوے۔
‏Amira 28-8-05
خدا تعالیٰ بڑا رحیم کریم ہے اور اس کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ تم دُکھ پائو۔لیکن خوب یاد رکھو کہ جو اس سے عمداً دوری اختیار کرتا ہے اس پر اس کا قہر ضرور ہوتا ہے۔عادت اﷲ اسی طرح سے چلی آتی ہے۔نوحؑ کے زمانہ کو دیکھو اور لوطؑ کے زمانہ کو دیکھو موسیٰ ؑ کے زمانہ کو دیکھو اور پھر آنحضرت ﷺ کے زمانہ کو دیکھو کہ اس وقت جن لوگوں نے عمداً خدا سے بعد اختیار کیا ان کا کیا حال ہوا۔ ان لمبی آرزوئوں نے انسان کو ہلاک کر دیا ہے۔اﷲ تعالیٰ بھی فرماتا ہے
الھکم التکاثرو حتی زرتم المقابر (التکاثر : ۲، ۳)
کہ اے لوگو جو تم خدا سے غافل ہو۔دنای طلبی نے تم کو غافل کر دیا ہے یہانتک کہ تم قبروں میں داخل ہو جاتے ہو مگر غفلت سے باز نہیں آتے۔
کلا سوف تعلمون (التکاثر :۴)
مگر اس غلطی کا تم کو عنقریب علم ہو جائے گا۔
ثم کلا سوف تعلمون (التکاثر : ۵)
پھر تم کو اطلاع دی جاتی ہے۔کہ عنقریب تم کو علم ہو جاوے گا کہ جن خواہشات کے پیچھے تم پڑے ہو وہ ہر گز تمہارے کام نہ آویں گی اور حسرت کا موجب ہوں گی۔
کلا لو تعلمون علم الیقین (التکاثر : ۶)
اگر تم کو یقینی علم حاصل ہو جاوے تو تم علم کے ذریعہ سے سوچکر اپنے جہنم کو دیکھ لو اور تم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہاری زندگی جہنمی زندگی ہے اور جن خیالات میں تم رات دن لگے ہوئے ہو وہ بالکل ناکارہ ہیں۔میں ہر چند کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح یہ باتیں لوگوں کے دل نشین ہو جاویں مگر آخر کار یہی کہنا پڑتا ہے کہ اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہے جبتک خدا تعالیٰ خود ایک واعظ دل میں نہ پیدا کرے، تب تک فائدہ نہیں ہوتا۔جب انسان کی سعادت اور ہدایت کے دن آتے ہیں تو دل کے اندر ایک واعظ خود پیدا ہو جاتا ہے۔اور اس وقت اس کے دل کو ایسے کان مل جاتے ہیں کہ وہ دوسرے کی بات کو سنتا ہے۔راتوں کو اور دنوں کو خوب سوچکر دیکھو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انسان بہت ہی بے بنیاد شئے ہے اور اس کے وجود کی کوئی کل بھی اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ایک آنکھ ہی پر نظر کرو کہ کس قدر باریک عضو ہے اگر ایک ذرا پتھر آلگے تو فوراً نابینا ہو جاوے۔پھر اگر یہ خدا کی نعمت نہیں ہے، تو کیا ہے۔ کیا کسی نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے کہ خدا اُسے ضرور بینا ہی رکھے گا اور اسی پر سب قویٰ کا قیاس کرو کہ اگر آج کسی میں فرق آجاوے تو انسان کی کیا پیش چل سکتی ہے۔غرضکہ ہر آن اور پل میں اس کی طرف رجوع کی ضرورت ہے اور مومن کا گذارہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ جبتک اس کا دھیان ہر وقت اس کی طرف لگانہ رہے۔اگر کوئی ان باتوں پر غور نہیں کرتا اور ایک دینی نظر سے اُن کو وقعت نہیں دیتا تو وہ اپنے دنیوی معاملات پر ہی نظر ڈال کر دیکھے کہ کیا خدا کی تائید اور فضل کے سوا کوئی کام اسکا چل سکتا ہے؟ اور کوئی منفعت دنیا کی وہ حاصل کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ دین ہو یا دنیا ہر ایک امر میں اُسے خدا کی ذات کی بڑی ضرورت ہے اور ہر وقت اس کی طرف احتیاج لگی ہوئی ہے۔جو اس کا منکر ہے سخت غلطی پر ہے۔خدا تعالیٰ کو تو اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہے کہ تم اس کی طرف میلان رکھو یا نہ۔ وہ فرماتا ہے۔
کل ما یعبو ا بکم ربی لو لا دعاوکم (الفرقان : ۷۸)
کہ اگر اس کی طرف رجوع رکھو گے تو تمہارا ہی اس میں فائدہ ہوگا۔انسان جس قدر اپنے وجود کو مفید اور کار آمد ثابت کرے گا اسی قدر اس کے انعامات کو حاصل کرے گا۔دیکھو کوئی بیل کسی زمیندار کا کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو مگر جب وہ اس کے کسی کام بھی نہ آوے گا۔نہ گاڑی میں جُتے گا نہ زراعت کرے گا نہ کنوئیں میں لگے گا تو آخر سوائے ذبح کے اور کسی کام نہ آوے گا۔ایک نہ ایک دن مالک اُسے قصاب کے حوالے کر دے گا۔ ایسے ہی جو انسان خد اکی راہ میں مفید ثابت نہ ہو گا تو خدا اس کی حفاظت کا ہرگز ذمہ ار نہ ہوگا۔ ایک پھل اور سایہ دار درخت کی طرح اپنے وجود کو بنانا چاہیے تا کہ مالک بھی خبر گیری کرتا رہے۔ لیکن اگر اس درخت کی مانند ہو گا کہ جو نہ پھل لاتا ہے اور نہ پتے رکھتا ہے کہ لوگ سایہ میں آ بیٹھیں تو سوائے اس کے کہ کاٹا جاوے اور آگ میں ڈالا جاوے اور کس کام آسکتا ہے۔
خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے۔
ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات : ۵۷)
جو اس اصل غرض کو مد نظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہاو یہ کہ فلاں زمین خرید لوں۔فلاں مکان بنالوں۔فلاں جائداد پر قبضہ ہو جاوے۔ تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلالے اور کیا سلوک کیا جاوے۔
خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کی تڑپ
انسان کے دل مٰں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہیے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شئے ہو جاوے گا۔ اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کہ ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پاکر وہ ہلاک ہو جاوے گا۔خدا تعالیٰ مہلت اس لیے دیت ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حلم سے خود ہی فائدہ نہ اُٹھاوے تو اُسے وہ کیا کرے۔پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے۔ سب عبادتوں کا مرکز دل ہے۔ اگر عبادت تو بجالاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی۔ اس لیے دل کا رجوع تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے۔اب دیکھو کہ ہزاروں مساجد ہیں۔ مگر سوائے اس کے کہ ان مٰں رسمی عبادت ہو اور کیا ہے؟ ایسے ہی آنحضرت ﷺ کے وقت یہودیوں کی حالت تھی کہ رسمھ اور عادت کے طور پر عبادت کرتے تھے اور دل کا حقیقی میلان جو کہ عبادت کی روح ہے ہرگز نہ تھا۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے ان پر *** کی۔پس اس وقت بھی جو لوگ پاکیز گی قلب کی فکر نہیں کرتے تو اگر رسم و عادت کے طور پر وہ سینکڑوں ڑکریں مارتے ہیں ان کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔اعمال کے باغ کی طرطبزی پاکیزگی قلب سے ہوتی ہے اسی لیے اﷲ تعالیٰ فرمات ہے
قد افلح من زکھا وقد خاب من دسھا (الشمن : ۱۰، ۱۱)
کہ وہی بامراد ہو گا جو کہ اپنے قلب کو پاکیزہ کرتا ہے اور جو اُسے پاک نہ کرے گا بلکہ خداک میں ملا دیگا یعنی سفلی خواہشات کا اُسے مخزن بنا رکھے گا۔وہ نامراد رہے گا۔اس بات سے ہمیں انکار نہیں ہے کہ خدا کی طرف آنے کے لیے ہزار ہا روکیں ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو آج صفحہ دنیا پر نہ کوئی ہندو ہوتا نہ عیسائی۔ سب کے سب مسلمان نظر آتے۔ لیکن ان روکوں کو دور کرنا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ وہی توفیق عطا کرے تو انسان نیک و بد میں تمیز کر سکتا ہے۔اس لیے آخر کار بات پھر اسی پر آٹھہرتی ہے کہ انسان اسی کی طرف رجوع کرے تا کہ قوت اور طاقت دیوے۔
کوشش کی برکت
دنیا میں جس قدر مشورے نفس پرستی اور شہوت پرستی وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ان سب کا ماخذ نفس امارہ ہی ہے لیکن اگر انسان کوشش کرے تو اسی امارہ سے پھر وہ لوامہ بن جاتا ہے، کیونکہ کوشش میں ایک برکت ہوتی ہے اور اس سے بھی بہت کچھ تغیرات ہو جاتے ہیں۔پہلو انوں کو دیکھو کہ وہ ورزش اور محنت سے بدن کو کیا کچھ بنا لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ محنت اور کوشش سے نفس کی اصلاح نہ ہوسکے۔نفس امارہ کی مثال آگ کی ہے جو کہ مشتعل ہو کر ایک جوش طبیعت میں پیدا کرتا ہے جس سے انسان حدِ اعتدال سے گذر جاتا ہے۔ لیکن جیسے پانی آگ سے گرم ہو کر آگ کی مثال تو ہو جاتا ہے اور جو کام آگ سے لیتے ہیں وہ اس سے بھی لے لیتے ہیں مگر جب اسی پانی کو آگ کے اوپر گرایا جائے تو وہ اس آگ کو بجھادیتا ہے کیونکہ ذاتی صفت اس کی آگ کو بجھانا ہے۔وہ وہی رہے گی۔ ایسے ہی اگر انسان کی روح نفس امارہ کی آگ سے خواہ کتنی ہی گرم کیوں نہ ہو مگر جب وہ نفس سے مقابلہ کرے گی اور اس کے اوپر گرے گی تو اسے مغلوب کرکے چھوڑے گی۔ بات صرف اتنی ہے کہ خدا کو ہر ایک بات پر قادر مطلق جانا جاوے اور کسی قسم کی بدظنی اس پر نہ ی جاوے۔ جو بدظنی کرتا ہے وہی کافر ہوتا ہے۔مومن کی صفات میں سے ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو غایت درجہ قادر جانے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بہت نیکیاں کرنے سے انسان ولی بنتا ہے۔یہ نادانی ہے۔ مومن کو تو خدا نے اول ہی ولی بنایا ہے جیسے کہ فرمایا ہے
اﷲ ولی الذین امنوا (البقرۃ : ۲۵۸)
اﷲ تعالیٰ کی قدرت کے ہزاروں عجائبات ہیں اور انہیں پر کھلتے ہیں جو دل کے دروازے کھول کر رکھتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ بخیل نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص مکان کا دروازہ خود ہی نہیں کھولتا تو پھر روشنی کیسے اندر آوے ۔پس جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف رجوع۱کرے گا تو اﷲ تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جہانتک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے۔پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچے گی تو وہ خدا کے نور کو دیکھ لے گا۔
والذین جاھدو افینا لنھد ینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش کا اس کے ذمہ ہے اسے بجالائے۔ یہ نہ کرے کہ اگر پانی ۲۰ ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو وہ صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہاردے۔ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے۔پھر اس اُمت کے لیے تو اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا و تزکیۂ نفس سے کام لے گا تو سب وعدے قرآن شریف کے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے۔ہاں جو خلاف کرے گا وہ محروم رہے گا، کیونکہ اس کی ذات غیور ہے۔ اس سے اپنی طرف آنے کی راہ ضرور رکھی ہے۔ لیکن اس کے دروازے تنگ بنائے ہیں۔ پہنچتا وہی ہے جو تلخیوں کا شربت پی لیوے۔ لوگ دنیا کی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں حتیٰ کہ بعض اسی میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کے لیے ایک کانتٹے کی درد بھی برداشت کرنا پسند نہیں کرتے جبتک اس کی طرف سے صدق اور صبر اور وفاداری کے آثار ظاہر نہ ہوں تو اُدھر سے رحمت کے آثار کیسے ظاہر ہوں۔
صدق دکھلائو
ابراہیم علیہ السلام نے صدق دکھلایا تو اُن کو ابو الانبیاء بنادیا۔ میرے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ دن بہت سخت ہیں اور کسی نے اب تک نہیں سمجھے تو آئندہ سمجھ لیوے۔ مجھے الہام ہوا تھا۔
عفت الدیار محلھا و مقامھا
یہ ایک خطرناک کلمہ ہے جس میں طاعون کی خبر دی گئی ہے کہ انسان کے لیے کوئی مفر اور کوئی جائے پناہ نہ رہے گی۔ اس لیے میں تم سب کو گواہ رکھتا ہوں کہ اگر کوئی سچی تبدیلی نہ کرے گا تو وہ ہرگز اس لائق نہ ہوگا کہ مجھ کو دعا کے لیے لکھے۔ جو لوگ خدا کے بتلائے ہوئے صراط مستقیم پر چلیں گے وہی محفوظ رہیں گے۔ خدا کا وعدہ ایسے ہی لوگوں کی حفاظت کا ہے جو سچی تبدیلی اپنے اندر کرتے ہیں۔ مطلق بیعت انسان کے کیا کام آسکتی ہے؟ پورا نسخہ جبتک نہ پئے تو مریض کو فائدہ نہیں ہوتا کرتا۔ اس لیے پوری تبدیلی کرنی چاہیے۔ جہانتک ہو سکے دعا کرو اور اﷲ تعالیٰ سے کہو کہ وہ تم کو ہر ایک قسم کی توفیق عطا کرے۔؎ٰ
۳۱؍دسمبر ۱۹۰۴ء؁
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جناب مفتی محمد صادق صاحب کی علالتِ طبع کا حال استفسار فرماتے ہوئے فرمایا کہ :
اگر دودھ ہضم ہونے لگ جاوے تو بخار اُس سے بھی ٹوٹ جاتا ہے۔؎ٰ
یکم جنوری ۱۹۰۵ء؁
ایڈیٹر البد نے ایک خاکروب کاتب کی درخواست پیش کی کہ اس کا مذہب بھی خاکروبوں کا ہی ہے مگر فن کتابت سے واقف ہے اور کارخانہ البدرؔ میں آنا چاہتا ہے چونکہ میری طبیعت کراہت کرتی ہے اس لیے حضور سے مشورتاً پوچھتا ہوں۔ آپ نے تبسم فرما کر فرمایا کہ :
کہ بات تو واقعی مکروہ معلوم ہوتی ہے ۲؎
۶؍جنوری ۱۹۰۵ء؁
اپنے محبّین کی صحت یابی کے لیے کثرت سے دعا فرمانا
حضرت حکیم نور الدین صاحب کی طبیعت بہت علیل رہی چنانچہ اسی وجہ سے آپ کو درسِ قرآن ملتوی رکھنا پڑا۔ حکیم صاحب کی طبیعت کی ناسازی دیکھ کر حضرت مسیح موعود ؑ نے آپ کی صحت کے لیے کثرت سے دعا شروع کی تو ۶؍جنوری کو آپ نے تشریف لا کر فرمایا کہ میں دعا کر رہا تھا کہ یہ الہام ہوا:
ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبد نا فا تو ابشفاء من مثلہ
یہ الہام ایک بار حضور کو اول بھی ہوا تھا۔ ۳؎
۱۴؍جنوری ۱۹۰۵ء؁ بوقت عصر
استخارۂ مسنونہ کی تلقین
محبی قاضی غلام حسین صاحب وٹرنری اسسٹنٹ حصر نے عرض کی کہ میری تنخواہ میں دس روپے اضافہ ہوا ہے اور بنگال سے ایک درخواست آئی ہے کہ انسپکٹری کی پوسٹ خالی ہے … روپیہ ماہوار ملیں گے اس لیے مشورۃً استفسار ہے کہ کونسی جگہ منظور کی جاوے۔ آپ نے فرمایا کہ:
استخارۂ مسنونہ کے بعد جس طرف طبیعت کا میلان ہو وہ منظو کر لو۔؎ٰ
۱۵؍جنوری ۱۹۰۵ء؁ بوقت ظہر
الہامات کو ترتیب دینے کی ہدایت
ظہر کے وقت مقدمہ کی پیشگوئی کا اپنے الفاظ پر پورے ہونے کا ذکر رہا کہ خدا تعالیٰ نے جو جو بات جس جس طرح الہام فرمائی ویسی ہی پوری ہو کر رہی۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ :
ان سب الہاموں کو الگ الگ ترتیب دیکر اور کچھ لکھ کر پھر دنای کے سامنے پیش کیا جاوے تو امید ہے کہ کسی کی ہدایت کا موجب ہوں۔ ۲؎
۱۷؍جنوری ۱۹۰۵ء؁
عیسائیت کا مستقبل
مفتی محمد صادق صاحب نے ولایت سے آیا ہوا ایک خط پیش کیا جو ایک یورپین شخص پال کلاتھیوس کی طرف سے انگریزی میں تھا اور جس میں اس نے لکھ اتھا کہ میں نے اور میری بیوی نے آپ کی مرسلہ کتب کو سوائے اُس حصہ کے جو کہ عربی یا ہندو ستانی (کیونکہ مجھے ٹھیک علم نہیں) خط میں تھا اور جس کے لیے میری زباندانی کی قابلیت سر دست نامکمل ہے بڑی دل چسپی سے پڑھا ہے۔ہمارا تعلق ایک چھوٹے سے گروہ سے ہے جس نے کہ یسوع کے خدائی کے خیال کو استعفیٰ دیدیا ہے اور اسے صرف ایک ہادی خیال کرتا ہے اور اگر چہ یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے۔لیکن بحمد اﷲ کہ ترقی کر رہا ہے جو خیال ہارا یسوع کی نسبت ہے۔وہی زردشت۔بدھ ۔محمد (دائمی برکت اور رحمت خد اکی اس پر نازل ہو) کی نسبت ہے۔ہم ان گستاخ پادریوں کو کسی قسم کی مدد نہیں دیتے جو کہ لوگوں کو عیسائی بنانے کے لیے بھیجے جاتے ہیں؛ حالانکہ ان لوگوں کا مذہب پادریوں کے مذہب سے بہتر نہیں تو اُن ہی جیسا ضرور ہے۔
پرائمری جو کہ میں رسال کروں گا۔اگر آپ اس کے جواب میں مجھے کچھ زیادہ معلومات اپنے نئے مسیح کی نسبت اور خصوصیت سے کشمیر میں مسیح کی قبر کے ثبوت کی نسبت ارسال کریں گے تو میں بہت ہی مشکور رہوں گا۔
حضرت اقدس نے اس پر فرمایا کہ :
دراصل اب عیسویت سے دست برداری دنای میں شروع ہو گئی ہے اور اس مذہب کو جلا دینے والی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ آگ کا دستور ہے کہ وہ اول ذرا سے شروع ہو کر پھر آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے۔ یہی حال اب عیسائیت کا ہوگا۔؎ٰ
۲۸؍جنوری ۱۹۰۵ء؁
حضرت شہزادہ عبد اللطیف کے مریدین
حضور ؑ فجر کے وقت تشریف لائے تو چند ایک احباب نے شرف بیعت حاصل کیا۔بعد ازاں حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب شہید ؑ کی جماعتِ مریدین کا تذکرہ ہوتا رہا کہ اب بعض لوگ ان میں سے آکر بیعت کرتے جاتے ہیں۔اس پر حضور ؑ نے اظہارِ مسرت فرمایا کیونکہ اس طریق سے ان کے وحشیانہ خیالات کی خود بخود اصلاح ہو رہی ہے۔ ۲؎
یکم فروری ۱۹۰۵ء؁ بوقت ظہر
دو الہامات اور ایک رؤیا
ظہر کے وقت حضورؑ تشریف لائے تو ذیل کے الہامات و رؤیا سنائے :
۱۔ انی لاجد ریح یوسف لو لا ان تفندون
۲۔ انی مع الروح معک ومع اھلک
رؤیا
ایک کاغذ دکھایا گیا جس میں کچھ سطور فارسی خط میں ہیں اور سب انگریزی میں لکھا ہوا ہے۔مطلب جن کا یہ سمجھ میں آیا کہ جس قدر روپیہ نکلتا ہے سب دیدیا جاوے گا۔
اس کے بعد سردی کی شدت کا ذکر رہا کہ رات کو برف جم گئی اور اکثر لڑکوں نے اس سے قلفیاں بنا کر کھائیں جس سے اکثر بیمار ہو گئے ہیں۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ :
اس کا استعمال اس موسم میں بہت مضر ہے
برکت چاہنا
ایک شخص نے بیعت کی اور درخواست کی کہ تبرکاً مجھے کچھ پڑھایا جاوے۔جسے میں پڑھتا رہا کروں۔ حضور ؑ نے اپنی زبان مبارک سے اُسے سورۃ الحمد ساری پڑھادی۔؎ٰ
۸؍فروری ۱۹۰۵ء؁ بوقت ظہر
شرک سے پرہیز
ظہر کے وقت حضورؑ تشریف لائے تو آپ کے ایک خادم آمدہ از کشمیر نے سر بسود ہو کر خدا تعالیٰ کے کلام اسجدو الادم کو اس کے ظاہری الفاظ پر پورا کرنا چاہا۔ اور نہایت گر یہ وزاری سے اظہارِ محبت کیا۔ مگر حضور ؑ نے اسے اس حرکت سے منع فرمایا اور کہا کہ :
یہ مشرکانہ باتیں ہیں ان سے پرہیز چاہیے
مباحثات کو بند فرمانا ایک شخص کی درخواستِ مباحثہ پر فرمایا کہ:
حسب اعلامِ الٰہی ہم نے مباحثہ کا دروازہ بند کر دیا ہوا ہے۔لیکن ہاں جس کا جی چاہے ازالۂ شبہات کے لیے ہم سے کلام یا تحریر کر سکتا ہے۔ بحث میں تو فریقین کو ہار جیب کا خیال ہوتا ہے مگر اس مٰں یہ خیال نہیں ہوتا۔ بحث کے بند کرنے سے ہماری یہ غرض نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی اعتراض کرے یا سوال کرے یا اُسے کچھ وساوس ہوں تو اس کی طرف توجہ ہی نہ کی جاوے بلکہ اس سے مراد یہ تھی کہ جواب اور جواب الجواب اور پھر ہارجیت کا جو خیال لوگوں کو ہوتا ہے اس سے وہ احقاقِ حق سے دور جا پڑتے ہیں؛ ورنہ سوالات اور ازالہ وساوس کے لیے دروازہ کھلا ہے جس کا جی چاہے ہم سے پوچھ سکتا ہے۔ ۲؎
۹؍فروری ۱۹۰۵ء؁
ظہر کے وقت تشریف لا کر طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ:
سردی کی شدت میں یہ کم ہو جایا کرتی تھی مگر اب سردی کی شدت کے ساتھ اس کی بھی شدت ترقی کر رہی ہے؛ حالانکہ ابھی اس کی مزید ترقی کے ایام آنے والے ہیں۔ ۲؎
۱۱؍فروری ۱۹۰۵ء؁ بعد نماز ظہر
انگریزوں کی حکومت میں رہنے کا مسئلہ
ظہر کی نماز ادا فرما کر حضرت اقدس تشریف لے گئے۔ لیکن جناب صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی کے اقارب میں سے ایک صاحب مولوی احمد سعید صاحب انصاری سہارنپوری برادرزادہ و شاگرد خلیفہ
‏Amira 31-8-05
محی السنۃ وقامع البدعۃ حافظ حدیث جناب مولانا شیخ محمد انصاری سہانپوری مولداً مکی مہاجراً مرحوم، احقاقِ حق کے خیال سے تشریف لائے ہوئے تھے۔اس لیے صاحبزادہ صاحب نے حضور اقدس سے ان کی ملاقات کی درخواست کی۔جس پر حضور علیہ السلام اسی وقت تشریف لے آئے اور تھوڑی دیر مجلس فرمائی۔
بعد استفسار اسم و سکونت و مختلف اذکار کے مسئلہ جہاد کا تذکرہ ہوا۔جس میں ضمناً بعض ان گروہوں کا ذکر بھی آگیا جو کہ ہر ایک کافر کو بذریعہ تلوار قتل کر دینے کو غزا قرار دیتے ہیں اور انگریزوں کے ملکوں میں رہنا بدعت اور کفر خیال کرتے ہیں۔ اس پر حضور ؑ نے فرمایا کہ :
اُن کا یہ خیال کہ ہم کفر کے اثر سے بچنے کے لیے الگ رہتے ہیں اور اگر انگریزوں کی رعیت ہو کر رہیں تو آنکھوں سے کفر ارو شرک کے کام دیکھنے پڑیں اور مشرکانہ کلام کان سے سننے پڑیں۔میرے نزدیک درست نہیں ہے کیونکہ اس گورنمنٹ نے مذہب کے بارے میں ہر ایک کو اب تک آزادی دے رکھی ہے اور ہر ایک کو اختیا ر ہے کہ وہ امن اور سلامت روی سے اپین اپنے مذہب کی اشاعت کرے۔مذہبی تعصب کو گورنمنٹ ہرگز دخل نہیں دیتی۔اس کی بہت سی زندہ نظیریں موجد ہیں۔ایک دفعہ خود عیسائی پادریوں نے ایک جھوٹا مقدمہ خن کا مجھ پر بنایا ۔ایک انگریز اور عیسائی حاکم کے پاس ہی وہ مقدمہ تھا اور اس وقت کا ایک لیفٹیننٹ گورنر بھی ایک پادری مزاج آدمی تھا مگر آخر اس نے فیصلہ میرے حق میں دیا اور بالکل بری کر دیا۔بلکہ یہاں تک کہا کہ میں پادریوں کو خاطر انصاف کو ترک نہیں کر سکتا۔اس کے بعد ابھی ایک مقدمہ ھیصلہ ہوا ہے۔پہلے تو وہ ہندو مجسٹریٹوں کے پاس تھا۔نہیں معلوم کہ انہں نے کس رعب میں آکر بہت ہی واضح اور بین وجوہات کو نظر انداز کر دیا اور مجھ پر جرمانہ کیا۔لیکن آخر جب اس کی اپیل ایک انگریز حاکم کے پاس ہوئی تو اس نے بری کر دیا اور مجسٹریٹ کی کاروائی پر افسوس کیا اور کہا کہ جو مقدمہ اپنے ابتدائی مرحلہ پر خارج ہونے کے قابل تھا اس پر اس قدر وقت ضائع کیا گیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں ابھی تک عدل اور انصاف کا مادہ موجود ہے۔ اگر کسی قسم کا مذہبی تعصب یا بغض ہوتا تو کم از کم میرے ساتھ تو ضرور برتا جاتا۔ تین لاکھ کے قریب جماعت ہے۔پھر افغانستان کے لوگ بھی آ آکر بیعت کرتے رہتے ہیں ارو ایک نیا فرقہ ہونیک ی وجہ سے بھی گورنمنٹ کی نظر اور توجہ اس طرف ہونی چاہیے تھی مگر دیک لو کہ قریب آٹھ کے ہمارے مقدمات ہوئے ہیں جن میں سے سوئے ایک دو کے باقی کل مخالفین کی طرف سے ہم پر تھے مگر سب میں کامیابی ہم کو ہی حاصل ہوئی ہے۔اور انگریزوں نے ہی ہمارے حق میں فیصلے دیئے ہیں؛ اگر چہ ہم ان سب کامیابیوں کو خدا کی طرف سے ہی سمجھتے ہیں کیونکہ اگر وہ نہ چاہتا تو یہ لوگ کیا کرتے، مگر جن لوگوں کے ذریعہ اور ہاتھوں سے اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوئیوہ بھی قابل شکر کے ہیں۔ جہانتک میرا خیال بلکہ یقین ہے وہ یہ ہے کہ ابھی تک ان لوگوں میں تعصب نہیں ہے اور آئندہ کا حال خد اکو معلوم ہے اوراسی لیے میں کہتا ہوں کہ اگر ان لوگوں کو خدمت دین ہی مطلوب ہے اور ان کی غرض خد اکو راضی کرنا ہے تو چھپ کر بیٹھ رہنے سے کای فائدہ؟ ان کو چاہیے کہ خدمت دین کا ایک پہلو ہاتھ میں لیں۔گورنمنٹ کی طرف سے کسی قسم کی سختی ہرگز نہیں ہے۔ہاں جو لوگ مفسد ہوتے ہٰن وہ ضرور خود ہی گرفت کے قابل ہوتے ہیں۔گورنمنٹ کا اس مین کای قصور؟ اب تو عیسویت کا یہ حال ہے کہ اس پر خود بخود موت آ رہی ہے۔خود اُن کے بڑے بڑے عالم اور فاضل تثلیث کے پکے دشمن ہو گئے ہیں او ر نئی تعلیم نے اُن کے دلوں میں یہ بات کوٹ کر بھردی ہے کہ بناوٹی خد ااب کام نہیں آسکتا۔ پادریوں کی یہ حالت ہے کہ صرف ٹکڑے کی خاطر کام کر رہے ہیں۔ ایک دن تنخواہ کو دیر ہو جاوے تو کام چھور دیتے ہٰں اور خود عیسائی مذہب کے رد میں کتابیں لکھتے ہیں۔
اس زمانہ کا جہاد
اب یہ زمانہ کسرِ صلیب کا ہے۔ تقریر کے مقابلہ پر تلوار سے کام لینا بالکل نادانی ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جس طرح ۔اور جن آلات سے کفأر تم پر حملہ کرتے ہیں۔ انہی طریقوں اور آلات سے تم ان لوگن کا مقابلہ کرو۔اب ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے حملے اسلام پر تلوار سے نہیں ہیں بلکہ قلم سے ہیں۔ لہذا ضرور ہے کہ اُن کا جواب قلم سے دیا جاوے اگر تلوار سے دیا جاوے گ تو یہ اعتدا ہوگا جس سے خدا تعالیٰ کی صریح ممانعت قرآن شریف میں موجود ہے۔
ان اﷲ لا یحب المعتدین (البقرۃ : ۱۹۱)
پھر اگر عیسائیوں کو قتل بھی کر دیا جاوے تو اس سے وہ وساوس ہرگز دور نہ ہوں گے جو کہ دلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ وہ اور پختہ ہو جاویں گے اور لوگ کہیں گے کہ واقع میں اہل اسلام کے پاس اپنے مذہب کی حقانیت کی دلیل کوئی نہیں ہے لیکن اگر شیریں کلامی اور نرمی سے ان کے وساوس کو دور کیا جاوے تو امید ہے کہ وہ سمجھ جاویں گے اور ہم نے دیکھ اہے کہ بعض عیسائی لوگ جو یہاں آتے ہیں ان کو جب نرمی سے سمجھایا جاتا ہے تو اکثر سمجھ جاتے ہٰں اور تبدیلِ مذہب کر لیتے ہیں (جیسے کہ ماسٹر عبد الحق صاحب نو مسلم) پس ہماری رائے تو یہ ہے کہ جہانتک ہو سکے کمر بستہ ہو کر دین کی خدمت میں مصروف ہوں کیونکہ یہ وقت اسی کام کے لیے ہے اگر اب کوئی نہیں کرتا تو اور کب کرے گا؟
بعض ایسے لوگ جن تک حضور ؑ کی بعثت اور دعاوی کی مفصل کیفیت نہیں پہنچی؛ تاہم وہ حسن ظن رکھتے ہیں اور بسبب دور ہین کے یقینی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اُن کے ذکر پر آپ نے فرمایا کہ :
نیک لوگوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے، کیونکہ ان کو کامل علم نہیں ہے۔ اور علم اصل میں اسی کو کہتے ہیں جبکہ انسان کو واقفیت رؤیت کے قائمقام ہو۔
الہامات کے ذکر پر فرمایا کہ :
قضأ و قدر کے اسرار چونکہ عمیق در عمیق ہوتے ہیں، اس لیے بعض وقت الہامات اور رؤیا کی تفہیم میں انسان کو غلطی لگ جاتی ہے۔
مذکورہ بالا تقریر فرماکر حضرت اقدس تشریف لے گئے مگر پھر بہت جلد تشریف لائے اور فرمایا کہ :
عصر کا وقت ہو گیا ہے۔ اذان دی جائے۔
خاں صاحب شادی خاں اذان دینے گئے اور حضورؑ نے مجلس فرمائی۔
سچے الہام کی علامات
چونکہ اس وقت اہل اسلام میں سے بھی بعض مخالف اور منکر حضرت مسیح موعود الہام کے مدعی ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کو حضرت مرزا صاحب کے کاذب اور دجال ہوین کے بارے میں خد اتعالیٰ سے وحی ہوتی ہے اور ادھر بعض مذاہب غیراز اسلام میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو کہ اپنے مذہب کی تصدیق کے بذریعہ الہام مدعی ہیں اس لیے ایسے دعاوی کے جواب میں حضورؑ نے ایک لطیف تقریر فرمائی جو کہ بہت ہی غور اور توجہ کے قابل ہے۔
ہر ایک شخص اپنی حالت کے لحاظ سے معذور ہوتا ہے اس لیے ان میں فیصلہ کا ایک موٹا طریق ہے جسے ہم پیش کرتے ہیں۔اس وقت مختلف اقوام جن کا اسلام سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے الہام کے مدعی ہیں دس سال کا عرصہ گذرا کہ ایک دفعہ امرتسر سے ایک سکھ کا خط ئیا کہ مذہب سکھ کے سچا ہوین کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے۔ اور ایسے ہی ایک اہگریز نے الہ آباد سے لکھا کہ مجھے عیسویت کے سچا ہونے کی نسبت الاہم کے ذریعہ سے اطلاع دی گئی ہے۔اور ایک مولوی عبد اﷲ صاحب غزنوی جن کو میں نیک جانتا ہوں ان کی اولاد امرتسر میں ہے۔ اُن کو بھی دعویٰ الہام کا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہمیں الہام ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ جھوٹا ہے اور مرزا صاحب کاذب اور دجال ہیں۔پھر ادھر ہماری جماعت میں بھی ہزار ہا ایسے آدمی ہیں جن کو الہام اور رؤیا کے ذریعہ سے یہ اطلاع ملی ہے اور خدو رسول اﷲ ﷺ نے زبان مبارک سے تصدیق کی ہے کہ یہ سلسلہ منجانب اﷲ ہے اور یہی ذریعہ ان کی بیعت کا ہوا ہے تو اب ان مختلف اقسام کے الہاموں میں جلدی سے فیصلہ کرنا تقویٰ سے بعید ہے۔اس لیے میں جلدی کو پسند نہیں کرتا۔ انسان کو چاہیے کہ صبر اور دعا سے کام لے اور تقویٰ کے پہلو کو ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
ان اﷲ مع الذین التقوا (النحل : ۱۲۹)
اس وقت خدو اسلام میں کئی فرقے موجود ہیں۔ جو کہ ایک دوسرے کی تردید کر رہے ہیں۔ پھر دوسرے مذاہب کے حملے الگ ہیں۔ ایک کتاب ’’ترکِ اسلام‘‘ لکھی گئی تھی اور اب ایک ’’ تہذیب الاسلام‘‘ لکھی گئی ہے جس میں پیغمبر خدا ﷺ پر سخت فحش اور شرمناک حملے کئے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کل مذاہب اور فرقوں میں ایک جنگ چل رہی ہے اور ہر ایک کا دعویٰ یہی ہے کہ ہم حق پر ہیں۔پس ایسی حالت میں فیصلہ کرنا ایک آسان امر نہیں ہے۔ یا تو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے کسی کو فہم دے اور رُشد عطا کرے اور یا انسان خود جلدی نہ کرے اور صبر اور دعا سے کام لے تا کہ وقت پر حقیقت کھل جاوے کہ خد اکی تائید اور نصرت کس کے شامل حال ہے کیونکہ جھوٹے مذہب کے ساتھ اس کی نصرت اور تائید کبھی شامل نہیں ہوسکتی۔ اگر جھوٹے مذہب کی بھی وہی خاطر خدا تعالیٰ کو ہو جو کہ سچے مذہب کی ہوتی ہے تو پھر سچ اور جھوٹ کا امتیاز کرنا محال ہو جائے گا۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے جیسا کہ قرآن شریف میں درج ہے یہ جواب دیا کہ
اعملو اعلی مکا نتکم انی عامل (الانعام : ۱۳۶)
کہ اگر تم لوگوں پر میرا سچا ہوان مشتبہ ہے تو تم بھی اپنی اپنی جگہ عمل کرو۔ میں بھی کرتا ہوں انجام پر دیکھ لینا کہ خدا کی تائید اور نصرت کس کے شامل حال ہے جو امر خدا کی طرف سے ہوگا وہ بہر حال غالب ہو کر رہے گا۔
واﷲ غالب علی امرہ (یوسف :۲۲)
ان مختلف الہامات کے فیصلہ کے لیے بھی دراصل یہی معیار ہے کیونکہ ایک طرف تو اہل اسلام الہام کے مدعی ہیں دوسری طرف سکھ وغیرہ بھی۔ پس اگر یہ سب الہامات خد اکی طرف سے سمجھے جائیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا بھی بہت سے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ سب ایک ہی کا کلام ہے تو آپس میں ایک دوسرے کی ضد کیوں ہیں کہ وہی خدا ایک کو کہتا ہے کہ فلاں شخص سچا ہے اور دوسرے کو کہتا ہے کہ جھوٹا ہے۔ پس اس میں فیصلہ کی جو آسان ترین راہ یہ وہ یہ ہے کہ ایک قول ہوتا ہے اور ایک فعل۔ اگر قول میں اختلاف ہے تو اب فعل کی انتظار چاہیے ۔ قول پر اگر فیصلہ کامدار رکھا جاوے تو اس کی نظیر دوسری تگہ نکل آتی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ مجھے یہ الہام ہوا ہے کہ تم کذاب ہو۔ لیکن فعل کو کہاں چھپائیں گے۔اس کی مثال تو ایک سورج کی ہے جس کی رؤیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے۔قول سے مراد ہماری وحی الٰہی ہے اور فعل سے نصرت اور تائیدات الٰہیہ۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ فعل کو دکھلائو تو یاد رہے کہ اس کا جلدی ظاہر کرنا ہمارا اپنا اختیار نہیں ہے اور کسی نبی کے اختیار میں بھی یہ بات نہیں ہوئی کہ وہ آیات اﷲ کو جب چاہے دکھادیوے۔ ہاں خلق اﷲ کی خاطر ن کو اس کسم کے اضطراب ضرور ہوتے ہیں اور وہ خواہاں ہوتے ہیں مگر آخر آیات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور وہ اپنے مصالح سے ان کو کھولتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو بھی بڑا اضطراب تھا تو خدا تعالیٰ نے وحی کی کہ تو آسمان پر زینہ لگا کر جا اُن کو نشان لادے۔
اگر ہم کذاب اور دجال ہیں تو صبر کرو۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
ان یک کاذ با فعلیہ کذبہ وان یک صادقا یصبکم بعض الذی یعدکم (المومن : ۲۹)
جب سے دنیا قائم ہوئی ہے یہ کبھی اتفاق نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ نے کاذب کی تائید کرکے سچوں کوشکست دی ہو۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں آپؐ کے مقابلہ پر الاہم کے مدعی موجود تھے اور وہ آپ کو جھوٹا خیال کرتے تھے۔ مسیلمہ کذاب بھی انہی میں تھا۔ اگر قول پر مدار ہوتا تو اشتباہ رہتا مگر آخر فعل الٰہی ہے فیصلہ کر دیا۔ دیکھ لو کہ اب کس کے دین کا نقارہ بج رہا ہے۔کس کا نام روشن ہے۔ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اس کو برکت دی جاتی ہے وہ بڑھتا ہے وہ پھلتا ہ اور پھولتا ہے اور اس کے دشمنوں پر اُسے فتح پر فتح ملتی ہے۔ لیکن جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا وہ مثل جھاگ کے ہوتا ہے جو کہ بہت جلد نابود ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔ جس کا مدار تقویٰ پر ہوگا اور جس کے خدا تعالیٰ کے ساتھ پاک تعالقات ہوں گے اسی کو نصرت ہوگی۔ یہ صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں ہے کہ اس وقت اور ملہم ہمیں جھوٹا قرار دیتے ہیں بلکہ عیسیٰ ؑ اور موسیٰ ؑکے زمانہ میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو کہ ملہم تھے اور وہ نبیوں کی تکذیب کرتے تھے تو اس وقت کے دانائوں نے یہی ھیصلہ دیا تھا کہ جو سچا ہوگ ااس کا کاروبار بابرکت ہوگا۔پس اب بجز اس بات کے اور فیصلہ نہیں نظر آتا کہ اگر قول میں پیچیدگی ہے تو فعل کو دیکھو، لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ مجھ سے یہ درخواست کہ فعل ظاہر ہو عبث ہے۔ میں تو ایک عاجز بندہ ہوں، یہ خد اکا کام ہے کہ جو فعل وہ چاہے ظاہر کردے۔ میں کیا ہوں۔ خود رسول اﷲ ﷺ نے یہی جواب دیاکہ
انما الایات عند اﷲ وانما انا نذیر مبین (العنکبوت : ۵۱)
انبیاء کا کام بازیگروں کی طرح چٹے بٹے دکھانا نہیں ہوتا۔ وہ تو خدا تعالیٰ کے پیغام رساں ہوتے ہیں۔ علمی بحث الگ ہے اور الہامی بحث الگ ہے۔ مختصر فیصلہ یہی ہے کہ اگر قول میں تعارض ہے تو فعل خود فیصلہ کر دے گا۔ ایک مفتری تحصیلدار گورنمنٹ سے عزت نہیں پاسکتا اور گرفتار کیا جاتا ہے تو مفتری علی اﷲ کیسے اس کا محبوب ہو سکت اہے اور وہ کب اس کی تائید کر سکتا ہے۔ اگر سچے کی عزت بھی ویسی ہو جیسے کہ جھوٹے کی تو پھر دنای سے امان اُٹھ جاوے گا۔
پس یاد رکھو کہ قول کے اشتباہ فعل سے ہی دور ہو سکتے ہیں ۔ میرے ساتھ جو وعدے خدا تعالیٰ کے ہیں وہ بچیں تیس سال پیشتر براہین میں درج ہو چکے ہیں اور بہت سے پورے ہو گئے ہیں۔ جو باقی ہیں چاہو ت ان کا انتظار کرو۔
الہام میں دخل شیطانی بھی ہوتا ہے جیسے کہ قرآن شریف سے بھی ظاہر ہے، مگر جو شخص شیطان کے اثر کے نیچے ہو اُسے نصرت نہیں ملا کرتی۔ نصرت اُسے ہی ملا کرتی ہے جو رحمان کے زیر سایہ ہو۔ ہم اپنی زبان سے کسی کو مفتری نہیں کہتے۔ جبکہ وحی شیطانی بھی ہوتی ہے توممکن ہے کہ کسی سادہ لوح کو دھوکا لگا ہو۔ اس لیے ہم فعل الٰہی کی سند پیش کرتے ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے بھی یہ پیش کی تھی اور خدا تعالیٰ نے فعل پر بہت مدار رکھا ہے۔
ولو تقول علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین (الحاقۃ : ۴۵، ۴۶)
میں فعل ہی کا ذکر ہے۔ پس جبکہ یہ مسنون طریق ہے تو اس سے کیوں گریز ہے۔ ہم لوگوں کے سامنے ہیں اور اگر فریب سے کام کر رہے ہیں تو خدا تعالیٰ ایسے عذاب سے ہلاک کریگا کہ لوگوں کو عبرت ہو جاوے گی اور اگر یہ خد اکی طرف سے ہے اور ضرور خدا کی طرف سے ہے تو پھر دوسرے لوگ ہلاک ہو جاویں گے۔؎ٰ
۱۹؍فروری ۱۹۰۵ء؁ بعد نماز مغرب
آج کا دن اپنی شان میں ایک مبارک دن تھا کیونکہ غالباً سات ماہ کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے مغرب اور عشاء کے درمیان مجلس فرمائی اور جو رسالہ دربارہ فتح مقدمہ حضور تصنیف فرمارہے ہیں۔ اس کے مجوزہ مضامین کا مختصر تذکرہ فرمایا :
واجب الاد امہر کی ادائیگی
اس کے بعد ایک صاحب نے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا ہے۔ مگر وہ عورت کہتی تھی تو اپنی نصف نیکیاں مجھے دیدے تو بخش دوں۔ خاوند کہتا رہا کہ میرے پاس حسنات بہت کم ہیں۔ بلکہ بالکل ہی نہیں ہیں۔ اب وہ عورت مر گئی ہے خاوند کیا کرے؟
حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ :
اسے چاہیے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دیدے۔ اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں سے ہے۔ شرعی حصہ لے سکتی ہے اور علیی ہذاالقیاس خاوند بھی لے سکتا ہے۔
ایک لطیف نکتہ
حضرت مولوی نورالدین صاحب نے اثناء گفتگو میں ذکر کیا کہ یہ ایک لطیف بات ہے کہ جس قدر مجدد گذرے ہیں ان کے نام کی محمدیا احمد کی جزو ضروری ہوتی رہی ہے۔ قسطنطنیہ میں عجیب قسم کے نام لوگوں کے ہوتے ہیں مگر وہ مہدی جس نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا اس کے نام میں بھی محمد کا لفظ تھا۔
معجزات میں افراط و تفریط موجودہ زمانے کے حالات پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:
ایک گروہ تو معجزت سے قطعی منکر ہے جیسے کہ نیچری اور آریہ وغیرہ۔ اس نے تفریط کا پہلو اختیار کیا ہے اور ایک گروہ وہ ہے جو کہ افراط کی طرف چلا گیا ہے جیسے کہ بعض لوگ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے معجزات بیان کیا کرتے ہیں کہ بارہ برس کی ڈوبی ہوئی کشتی نکالی اور حضرت عزرائیل کے ہاتھ سے آسمان پر جا کر قبض شدہ ارواح چھین لیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ دونوں فریقوں نے معجزہ کی حقیقت کو نہیں سمجھا ہے۔معجزاہ سے مراد فرقان ہے جو حق اور باطل میں تمیز کرکے دکھادے اور خدا کی ہستی پر شاہد ناطق ہو؎ٰ۔
۲۰؍فروری ۱۹۰۵ء؁ قبل از عشاء
خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر ہدایت حاصل نہیں ہوتی
حضورؑ نے عشاء کی نماز سے کچھ پیشتر تشریف لا کر مجلس فرمائی۔
خدا تعالیٰ کے احسانات اور انعامات کا تذکرہ رہا۔ بعض کفار کی حالت پر آپ نے فرمایا کہ :
جب تک اﷲ تعالیٰ کا فضل انسان کے شامل حال نہ ہو تب تک اُسے ہدایت کی راہ نصیب نہیں ہوتی۔ بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ موت تک کفر ہی پر راضی رہتے ہیں اور کبھی اُن کے دل میں خیال نہیں گذرتا کہ ہم غلطی پر ہیں حتیٰ کہ اسی میں مرجاتے ہیں۔
اس میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے بیان کیا کہ چند یوم ہوئے ایک دوست بیان کرتے تھے کہ ان کے گائوں کی آبادی چار سو باشندوں کی تھی۔ طاعون جو بڑی تو سب کے سب ہلاک ہو گئے صرف چالیس شخص بچے۔ اور ان میں سے بھی صرف نوکس تندرست تھے اور باقی کچھ نہ کچھ مریض ہی تھے۔ ان نو میں اُن کا چچا بھی تھا۔ ان کے دل میں آیا کہ اس قدر عبرتناک حادثہ موت کا چونکہ گائوں میں گذار ہے،ممکن ہے کہ چچ کا دل رقیق ہوا ہو۔ چلو ا۲سے چل کر تبلیغ کر آویں شاید ہدایت نصیب ہو۔ باوجود اس کے کہ لوگوں نے اس طاعون زدہ گائوں میں جانے سے روکا مگر تبلیغ حق کے جوش میں وہ چلے گئے اور جا کر اپنے چچا کو اس سلسلہ کی صداقت کی نسبت سمجھایا ۔ چچانے یہ جواب دیا کہ اگر یہ طاعون مرزے کی مخالفت کی وجہ سے ہے تو مجھے خوشی سے اس سے مر جانا قبول ہے۔ بیشک مجھے طاعون ہو۔ انجام یہ ہوا کہ وہ اور اس کا تمام بال بچہ تباہ اور ہلاک ہوگیا، مگر مخالفت پر برابر آمادہ رہا اور مرتے دم تک نہ مانا۔؎ٰ
۲۱؍فروری ۱۹۰۵ء؁ (مابین مغرب و عشاء)
فارغ نشینی اچھی نہیں
حسب دستور قریب ایک گھنٹہ کے حضور نے مجلس فامائی۔ اول رسالہ زیر تصنیف کا ذکر رہا۔ پھر فرمایا کہ :
اول تو بوجہ علالت طبع کے فارغ نشینی رہی۔ اب خدا نے کچھ صحت عطا فرمائی ہے تو قلم میں بھی قوت آگئی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ صحت رکھے تو فارغ نشینی اچھی نہیں ہے۔ بندہ اگر خدمت ہی کرتا رہے تو خوب ہے۔
دہریت کو نبی کا وجود ہی جلاسکتا ہے فرمایا کہ :
دہریہ پن کو اگر کوئی شئے جلاسکتی ہے تو وہ صرف انبیاء کا وجود ہے؛ ورنہ عقلی دلائل سے وہاں کچھ نہیں بنتا۔ کیونکہ عقل کی حد سے تو پیشتر ہی گذرکر وہ دہریہ بنتا ہے۔ پھ رعقل کی پیش اس کے آگے کب چل سکتی ہے۔
خد انمائی کی ضرورت فرمایا کہ:
آج کل خدا نمائی کی بڑی ضرورت ہے۔ دراصل اگر دیکھا جاوے تو خد کی ہستی سے انکار ہورہا ہے۔بہت لوگوں کو یہ خیال ہے کہ کیا ہم خد اکی ہستی کے قائل نہیں ہیں۔ وہ اپنے زعم میں تو سمجھتے ہیں کہ خد اکو وہ مانتے ہیں لیکن ذرا غور سے ایک قدم رکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ وہ درحقیقت قائل نہیں ہیں کیونکہ اور اشیء کے وجود کے قائل ہونے سے جو حرکات اور افعال ان سے صادر ہوتے ہیں وہ خدا کے وجود کے قائل ہونے سے کیوں صادر نہیں ہوتے۔ مثلاً جب کہ وہ سم الفار سے واقف ہے کہ اس کے کھانے سے آدمی مرجاتا ہے تو وہ اس کے نزدیک نہیں جاتا اور نہیں کھات کیونکہ اُسے یقین ہے کہ میں اگر کھالوں گا تو مرجائوں گا ۔پس اگر خد اکی ہستی پر بھی یقین ہوتا تو وہ اسے مالک، خالق وا رقادر جان کر نافرمانی کیوں کرتا؟ پس ظاہر ہے کہ بڑا ضروری مسئلہ ہستی باری تعالیٰ کا ہے اور قابل قدر وہی مذہب ہو سکتا ہے جو کہ اسے نئے نئے لباس میں پیش کرت رہے تا کہ دلوں پر اثر پڑ سکے۔ دراصل یہ مسئلہ امّالمسائل ہے اور اسلام اور غیرمذاہب میں ایک فرقان ہے۔
عیسائیوں نے بھی فرقان کا دعویٰ کیا ہے کہ انجیل نے ایماناداروں کی فلاں فلان علامت قرار دی ہے مگر اب وہ کسی میں بھی پائی نہیں جاتیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایمان کا نام و نشان نہیں مگر اسلام میں فرقان کی سب علامات موجود ہیں۔
براہین احمدیہ عہد عتیق ہے
جو براہین احمدیہ کا حصہ چھپ چلکا ہے۔ اس پر ذکر چلا۔ فرمایا کہ :
اس میں خدا کی حکمت تھی؛ ورنہ اگر وہ چاہتا تو اسے ہم لکھتے ہی رہتے۔ لیکن خدا نے اب اول حصہ کو منقطع کر کے بائبل کے عہد عتیق کی طرح الگ کر دیا ہے، کیونکہ جو پیشگوئیاں اس میں درج ہیں وہ اب اس اثنا میں پوری ہو رہی ہیں اور جو حصہ اس کا طبع ہوگا وہ عہد جدید ہوگا جس میں سابقہ حصہ کے حوالے ہوں گے کہ خدا نے یوں فرمایا تھا اور وہ اس طرح پورا ہو کر رہا۔
‏Amira 7-9-05
سادگی سچائی کی دلیل ہے
براہین میں ہم نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح آسمان سے آویں گے۔ اس پر لوگوں نے اعتراض کئے کہ تناقض ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اسی براہین میں ہم نے تمام الہامات بھی درج کئے ہیں جن میں ہمارا نام مسیح رکھا گیا ہے اور پھر صرف نام ہی نہیں بلکہ جو کام مسیح نے آکر کرنا ہے اس کی نسبت بھی الہامات میری نسبت ہی درج ہیں۔ پس یہ تناقض تو سچائی کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر بناوٹ ہوتی تو تناقض نہ جمع کیا جاتا۔ کم بختوں کی نظر انسان کی غلطی پر تو پڑتی ہے اور خدا کے کالم پر جو اس مین درج ہے نہیں پڑتی۔
ایک الہام
کل یا پرسوں آپ کو الہام ہوا :
انما امرک اذا اردت شیئا ان تقول لہ کن فیکون
۳؍مارچ ۱۹۰۵ء؁ (قبل ظہر)
بعض نکات معرفت
حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے مولوی محمد ابراہیم صاحب کو حضرت اقدس حجۃاﷲ مسیح موعود ؑ کے حضور پیش کیا۔ مولوی موصوف نے حضرت مسیح موعودؑ سے چند استفسار کئے۔حضور نے اس کے جواب میں جو کچھ فرمایا درج ذیل ہے:
سائل: -اطمینانِ قلب کیونکر حاصل ہو سکتا ہے؟
حضرت اقدس:- قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیی کا ذکر ایسی شئے ہے جو قلبو کو اطمینان عطا کرتا ہے۔جیسا کہ فرمایا۔
الا بذکر اﷲ تطمئن القلوب (الرعد : ۲۹)
پس جہانتک ممکن ہوذکر الٰہی کرتا رہے اسی سے اطمینان حاصل ہوگا۔ ہاں اس کے واسطے صبر اور محنت درکار ہے۔ اگر گھبرا جاتا اور تھک جاتا ہے تو پھر یہ اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا۔ دیکھو ایک کسان کس طرح پر محنت کرتا ہے اور پھر کس صبر اور حوصلہ کے ساتھ باہر اپنا غلہ بکھیر آتا ہے۔ بظاہر دیکھنے والے یہی کہتے ہیں کہ اس نے دانے ضائع کر دیئے۔ لیکن ایک وقت آجاتا ہے کہ وہ ان بکھرے ہوئے دانوں سے ایک خرمن جمع کرتا ہے۔ وہ اﷲ تعالیٰ پر حسنِ ظن رکھتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ اسی طرح پر مومن جب اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق پیدا کرکے استقامت اور صبر کا نمونہ دکھاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس پر مہربانی کرتا ہے اور اُسے ہ زوق شوق اور معرفت عطا کرتا ہے۔ جس کا وہ طالب ہوتا ہے۔
یہ بڑی غلطی ہے جو لوگ کوشش اور سعی تو کرتے نہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ ہمیں ذوق شوق اور معرفت اور اطمینانِ قلب حاصل ہو جبکہ دنیوی اور سفلی امور کے لیے محنت اور صبر کی ضرورت ہے تو پھر خدا تعالیی کو پھونک مار کر کیسے پا سکتا ہے۔ دنیا کے مصائب اور مشکلات سے کبھی گھبرا نا نہیں چاہیے۔ اس راہ میں مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ آنحضرت ﷺ کے مصائب کا سلسلہ دیکھو۔ کس قدر لمبا تھا۔ تیرہ سال تک مخالفوں سے دُکھ اٹھاتے رہے۔ مکہ والوں کے دُکھ اٹھاتے اُٹھاتے طائف گئے اور وہاں سے پتھر کھا کر بھاگے۔ پھر اور کوئی شخص ہے جو ان مصائب کے سلسلہ سے الگ ہو کر خدا شناسی کی منزلوں کو طے کر لے؟
جو لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی محنت اور مشقت نہ کرنی پڑے وہ بیہودہ خیال کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے۔
والذین جاھدو افینا لنھد ینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی معرفت کے دروازوں کے کھلنے کے لیے مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ اور وہ مجاہدہ اسی طریق پر ہو جس طرح کہ اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ اس کے لیے آنحضرت ﷺ کا نمونہ اور اسوہ حسنہ ہے۔ بہت سے لوگ آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو۰ چھوڑ دیتے ہیں اور پھر سبزپوش یا کیردے پوش فقیروں کی خدمت میں جاتے ہیں کہ پھونک مار کر کچھ بنا دیں۔ یہ بیہودہ بات ہے۔ ایسے لوگ جو شرعی امور کی پابندیاں نہیں کرتے اور ایسے بیہودہ دعوے کرتے ہیں وہ خطرناک گناہ کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ سے بھی اپین مراتب کو بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ ہدایت دینا اﷲ تعالیٰ کا فعل ہے اور وہ مشت خاک ہو کر خود ہدایت دینے کے مدعی ہوتے ہیں۔ اصل راہ اور گر خدا شناسی کا دعا ہے اور پھر صبر کے ساتھ دعائوں میں لگا رہے۔ ایک پنجابی فقرہ ہے ؎
جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جا
حقیقت میں جبتک انسان دعائوں میں اپنے آپ کو اس حالت تک نہیں پہنچا لیتا کہ گویا اس پر موت وارد ہو جاوئے۔ اس وقت تک باب رحمت نہیں کھُلتا۔ خدا تعالیٰ میں زندگی ایک موت کو چاہتی ہے ۔ جبتک انسان اس تنگ دروازہ سے داخل نہ ہو کچھ نہیں ۔ خدا جوئی کی راہ میں لفظ پرستی سے کچھ نہیں بنتا۔ بلکہ یہاں حقیقت سے کام لینا چاہیے۔ جب طلب صادق ہوگی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اسے محروم نہ کرے گا۔
سائل :- استقامت بھی تو ملنی چاہیے۔
حضرت اقدس :- ہاں یہ سچ ہے کہ استقامت ہونی چاہیے اور یہ استقامت بھی اﷲ تعالیٰ کے فضل اور کرم ہی سے ملتی ہے۔ ایک ادنیی درجہ کا فقیر بھی ایک بخیل سے بخیل انسان کے دروازے پر جب دھرنا مارتا ہے تو کچھ نہ کچھ لے کر ہی اُٹھتا ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ تو کریم رحیم خدا ہے۔ یہ نا ممکن ہے کہ کوئی اس کے دروازے پر گرے اور خالی اُٹھا۔ اگر چاہتے ہو کہ ساری مرادیں پوری ہو جاویں تو یہ تو اُس کے ہی فضل سے ہوں گی۔ بعض اوقات انسان کو یہ بھی دھوکا لگتا ہے کہ فلاں مراد پوری نہیں ہوئی؛ حالانکہ بات یہ ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ احتیاج سے ہی انسان کو بری کر دیتا ہے۔
لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کا گذار ایک فقیر پر ہوا جس کے پاس صرف ستر پوشی کو چھوٹا سا پارچہ تھا مگر وہ بہت خوش تھا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تو اس قدر خوش کیوں ہے؟ فقیر نے جواب دیا کہجس کی ساری ہی مرادیں پوری ہو جاویں وہ خوش نہ ہو تو اور کیا ہو؟ بادشان کو بڑی حیرانی ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ کیا تیری ساری مرادیں پوری ہو گئی ہیں؟ فقیر نے کہا کہ کوئی مراد ہی نہیں رہی۔ حقیقت میں حصول دو ہی قسم کا ہوتا ہے۔ یا پالے یا ترک۔
غرض بات یہی ہے کہ ’’خدایا بی‘‘ اور ’’خدا شناسی‘‘ کے لیے ضروری امر یہی ہے کہ انسان دعائوں میں لگا رہے۔ زنا نہ حالت اور بزدلی سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس راہ میں مردانہ قدم اُٹھانا چاہیے۔ ہر قسم کی تکلیفوں کے برداشت کرنے کو تیار ہونا چاہیے۔ خدا تعالیٰ کو مقدم کرلے اور گھبرائے نہیں۔ پھر امید کی جاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا فضل دستگیری کرے گا اور اطمینان عطا فرمائے گا۔ ان باتوں کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسنا تزکیۂ نفس کرے جیسا فرمایا ہے۔
قد افﷲح من زکھا (الشمس : ۱۰)
سائل : - دعا جبتک دل سے نہ اُٹھے کیا فائدہ ہوگا؟
حضرت اقدس :- میں اسی لیے تو کہتا ہوں کہ صبر کرنا چاہیے۔ اور اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ خواہ دل چاہے یا نہ چاہے۔ کشاں کشاں مسجد میں لے آئو۔ کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر وساوس رہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ تونے ایک حضہ پر تو قبضہ کر لیا۔ دوسرا بھی حاصل ہو جائے گا۔ نماز پڑھنا بھی تو ایک فعل ہے اس پر مداومت کرنے سے دوسرا بھی انشاء اﷲ مل جائے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ ایک فعل انسنا کا ہوتا ہے اس پر نتیجہ مرتب کرنا ایک دوسرا فعل ہوتا ہے جو اﷲ تعالیٰ کا فعل ہے۔ سعی کرنا ، مجاہدہ کرنا یہ تو انسان کا اپنا فعل ہے۔ اس پر پاک کرنا، استقامات بخشنا یہ ال تعالیٰ کا فعل ہے۔ بھلا جو شخص جلدی کرے گا کیا اس طریق پر وہ جلد کامیاب ہو جائے گا؟ یہ جلد بازی انسان کو خراب کرتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ دنای کے کاموں میں بھی اتنی جلکدی کوئی امر نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ آخر اس پر کوئی وقت اور میعاد گذرتی ہے۔ زمیندار بیج بو کر ایک عرصہ تک صبر کے ساتھ اس کے انتظار کرتا ہے۔ بچہ بھی نو مہینے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ پہلی ہی خلوت کے بعد بچہ پیدا ہو جاوے تو لوگ اسے بیوقوف کہیں گے یا نہیں؟ پھر جب دنیوی امور میں قانون قدرت کو اس طرح دیکھتے ہو تو یہ کیسی غلطی اور نادانی ہے کہ دینی امور میں انسان بلا محنت و مشقت کے کامیاب ہو جاوے۔ جس قدر اولیای؎ء، ابدال، مرسل ہوئے ہیں انہوں نے کبھی گھبراہٹ اور بزدلی اور بے صبری ظاہر نہیں کی۔ وہ جس طریق پر چلے ہیں اسی راہ کو اختیار کرو اگر کچھ پانا ہے۔ بغیر اس راہ کے تو کچھ مل نہیں سکتا۔ اور میں یقینا کہتا ہوں۔ اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کو اطمینان جب نصیب ہوا ہے تو
ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱)
پر عمل کرنے سے ہی ہوا ہے۔ مجاہدات عجیب اکسیر ہیں سید عبدالقادر رضی اﷲ عنہ نے کیسے کیسے مجاہدات کئے۔ ہندوستان میں جو اکابر گذرے ہیں جیسے معین الدین چشتی اور فریدالدین رحمہم اﷲ تعالیٰ۔ اُن کے حالات پڑھو تو معلوم ہوکہ کیسے کیسے مجاہدات ان کو کرنے پڑے ہیں۔ مجاہدہ کے بغیر حقیقت کھلتی نہیں۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فقیر کے پاس گئے اور اس نے توجہ کی تو قلب جاری ہو گیا۔ یہ کچھ بات نہیں۔ ایسے ہندو فقراء کے پاس بھی جاری ہوتے ہیں۔ توجہ کچھ چیز نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ساتھ تزکیۂ نفس کی کوئی شرط نہیں ہے،؎۔ نہ اس میں کفر واسلام کا کوئی امتیاز ہے۔ انگریزوں نے اس فں میں آجکل وہ کمال کیا ہے کہ کوئی دوسرا کیا کرے گا۔ میرے نزدیک یہ بدعات اور محدثات ہیں۔
شریعت کی اصل غرض تزکیۂ نفس ہوتی ہے اور انبیاء علیہم السلام اسی مقصد کو لے کر آتے ہیں۔ اور وہ اپنے نمونہ اور اسوہ سے اس راہ کا پتہ دیتے ہیں جو تزکیہ کی حقیقی راہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا ہو ا اور شرح صدر حاصل ہو۔ میں بھی اسی منہاج نبوت پر آیا ہوں۔ پس اگر کوئی یہ چاہت اہے کہ میں کسی ٹوٹکے سے قلب جاری کر سکت اہوں تو یہ غلط ہے۔ میں تو اپنی جماعت کو اسی راہ پر لے جاانا چاہتا ہوں جو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام کی راہ ہے جو خدا تعالیٰ کی وحی کے ماتحت تیار ہوئی ہے۔ پس اور راہ وغیرہ کا ذکر ہماری کتابوں میں آپ نہ پائیں گے۳ اور نہ اس کی ہم تعلیم دیتے ہیں اور نہ ضرورت سمجھتے ہیں۔ ہم تو یہی بتاتے ہیں کہ نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور دعائوں میں لگے رہو۔
سائل :- حضور نمازیں پڑھتے ہیں۔ مگر منہیات سے باز نہیں رہتے اور اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔
حضرت اقدس:- نمازوں کے نتائج اور اثر تو تب پیدا ہوں۔ جب نمازوں کو سمجھ کر پڑھو بجز کلام الٰہی اور ادعیۂ ماثورہ کے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اور پھر ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو۔ یہی ایک امر ہے جس کی بار بار تاکید کرتا ہوں کہ تھکو اور گھبرائو نہیں۔ اگر استقلال اور صبر سے اس راہ کو اختیار کرو گے تو انشاء اﷲ یقینا ایک نہ ایک دن کامیاب ہو جائو گے۔ہاں یہ یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ ہی کو مقدم کرو اور دین کو دنای پر ترجیح دو۔ جب تک انسان اپنے اندر دنیا کا کوئی حصہ بھی پاتا ہے وہ یاد رکھے کہ ابھی وہ اس قابل نہیں کے دین کا نام بھی لے۔ یہ بھی ایک غلطی لوگوں کو لگی ہوئی ہے کہ دنیا کے بغیر دین حاصل نہیں ہوتا۔ انبیاء علیہم السلام جب دنیا میں آئے ہیں۔ کیا انہوں نے دنیا کے لیے سعی اور مجاہدہ کیا ہے یادین کے لیے؟ اور باوجود اس کے کہ اُن کی ساری توجہ اور کوشش دین ہی کے لیے ہوتی ہے۔ پھ رکیا وہ دنیا مین نامارد رہے ہیں۔ کبھی نہیں۔ دنیا خود اُن کے قدموں پر آگری ہے۔ یہ یقینا سمجھو کہ اُنہوں نے دنیا کو گویا طلاق دے دی تھی۔للیکن یہ ایک عام قانون قدرت ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی آتے ہیں وہ دنیا کو ترک کرتے ہیں۔ اس سے یہ مراد ہے کہ وہ دنای کو اپنا مقصود اور غایت نہیں ٹھہراتے اور دنای ان کی خادم اور غلام ہو جاتی ہے جو لوگ برخلاف اس کے دنیا کو اپنا اصل مقصود ٹہھراتے ہیں خواہ وہ دنای کو کسی قدر بھی حاصل کرلیں مگر آخر ذلیل ہوتے ہیں۔ سچی خوشی اور اطمینان اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عطا ہوتا ہے۔ یہ مجرد دنیا کے حصول پر منحصر نہیں ہے۔ اس لیے ضروری امر ہے کہ ان اشیاء کو اپنا معبود نہ ٹھہرائو۔ اﷲ تعالیٰ پر ایمان لائو اور اسی کو یگانہ و یکتا معبود سمجھو۔ جبتک انسان ایمان نہیں لاتا۔ کچھ نہیں اور ایسا ہی نماز روزہ میں اگر دنیا کو کوئی حصہ دیتا ہے تو وہ نماز روزہ اُے منزل مقصود تک نہیں لے جا سکتا۔بلکہ محض خد اکے لیے ہو جاوے۔
قل ان صلاتی و نسکی و محیا ی ومما تی ﷲ رب العالمین (الانعام : ۱۶۳)
کا سچا مصداق ہو تب مسلمان کہلائے گا۔ ابراہیم کی طرح صادق اور وفادار ہونا چاہیے۔ جس طرح پر وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے پر آمادہ ہو گیا اسی طرح انسان ساری دنیا کی خواہشوں اور آرزوئوں کو جب تک قربان نہیں کر دیتا کچھ نہیں بنتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسنا اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف اس کو ایک جذبہ پیدا ہو جاوے۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ خود اس کا متکفل اور کارساز ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ پر کبھی بدظنی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر نقص اور خرابی ہوگی تو ہم میں ہوگی۔
پس یاد رکھو کہ جبتک انسان خدا تعالیٰ کا نہ ہو جاوے بات نہیں بنتی اور جو شخص اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو جاتا ہے اس میں شتابکاری نہیں رہتی ۔ مشکل یہی ہے کہ لوگ جلد گھبرا جاتے ہیں پھر شکوہ کرنے لگتے ہیں۔
سائل:- ابتدائی منزل اس مقصد کے حصول کی کیا ہے؟
حضرت اقدس :- ابتدائی منزل یہی ہے کہ جسم کو اسلام کا تابع کرے۔ جسم ایسی چیز ہے جو ہر طرف لگ سکتاہے۔ بتائو زمینداروں کو کون سکھاتا ہے جو جیٹھ ہاڑ کی سخت دھوپ میں باہر جاکر کام کرتے ہیں اور سردیوں میںآدھی آدھی رات کو اُٹھ کر باہر جاتے اور ہل چلاتے ہیں۔ پس جسم کو جس طریق پر لگائو اسی طریق پر لگ جاتا ہے۔ ہاں ا س لیے ضرورت ہے عزم کی۔
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ مٹی کھایا کرتا تھا۔ بہت تجویرزیں کی گئیں مگر وہ باز نہیں رہ سکتا تھا۔ آخر ایک طبیب آیا اس سے دعویٰ کیا کہ میں اس کو روک دوں گا؛ چنانچہ اس نے بادشاہ کو مخاطب کرکے کہا:
ایھا الملک این عزم الملوک
یعنی اے بادشاہ! وہ بادشاہوں والا عزم کہاں گیا؟ یہ سن کر بادشان نے کہا اب میں مٹی نہیں کھائوں گا۔ پس عزم مومن بھی تو کوئی چیز ہے۔
سائل:- عزم کرتے تو آپ کو کیا ضرورت ہے؟
حضرت اقدس :- بات یہ ہیکہ جب نفوس صافیہ کا جذب ہوتا ہے تو ممدو معاون بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ صحابہؓ کے دل اچھے تھے تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک رسول بھی پیدا کر دیا ۔ ایسا ہی کہتے ہیں کہ مکہ سے جو مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس میں بھی یہی سر تھا کہ وہاں کے اصلاح پذیر قلوب کا ایک جذب تھا۔؎ٰ
۱۰؍مارچ ۱۹۰۵ء؁ بوقت شب
پیرانہ سالی کے لحاظ سے عمدہ مجاہدہ
ایک صاحب نے عرض کی کہ ایک عرصہ سے میرے دل میں خواہش ہے کہ کشف کی حالت طاری ہو اور اگر چہ میں اپنے علم کی رو سے جانتا ہوں کہ اس کا حاصل ہونا کوئی کمالات میں سے نہیں ہے مگر تاہم اس کا خیال ہرگز دور نہیں ہوتا۔ اس لیے کچھ شفاعت فرماویں۔ اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ :
اس کا تعلق مجاہدات اور ریاضات سے ہے۔ لیکن اب آپ کی عمر ان کی متحمل نظر نہیں آتی۔عالم شباب میں ایسے مجاہدات اور ریاضات انسان کر سکتا ہے جس سے اس پر یہ حالت جلد طاری ہو۔ پیرانہ سالی میں قویٰ ضعیف ہو جاتے ہیں۔ معدہ کام کرنے سے رہ جاتا ہے۔ اس لیے مجاہدات میں استقامت حاصل نہیں ہوتی۔آپ کے مناسب حال اگر کوئی مجاہدہ ہے تو میری رائے میں یہ ہے کہ خلوت کے درمیان ذکر الٰہی اور توجہ الی اﷲ کی کثرت کریں۔ غیر اﷲ کو قلب سے دفع کرنا اور اﷲ تعالیٰ کو اس کا مسکن بنا لینا آسان کام نہیں ہے۔ یہی بڑا مجاہدہ ہے۔ بیہودہ مجلسوں اور قی۸ل و قال سے الگ رہیئے۔ اور غفلت کے پردہ کو جو کہ انسنا کی زندگی پر پڑے ہوئے ہیں اُن کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ پیرانہ سالی کے لحاظ سے یہ عمدہ مجاہدہ ہے جس سے تزکیۂ نفس ہو سکتا ہے، کیونکہ اب اس عمر میں نوافل اور روزے وغیرہ کی برداشت مشکل ہے۔ اس کا مطلب اس شعر میں خوب بیان ہے۔
لب بہ بند و گوش بند و چشم بند
گر نہ بینی نور حق برما بخند
کہ انسان اپنی زبان کو اور کانوں اور آنکھوں کو اپنے قابو میں ایسا کرے کہ سوائے رضائے حق کے اور اُن سے کوئی فعل صادر نہ ہو۔ انسانی زندگی میں جو بے اعتدالی ہوتی ہے اُسے اعتدال پر لانا بڑا کام ہے۔ اب اس وقت یہی مناسب حال ہے کہ خلوت بہت ہواور ذکر الٰہی سے قلب غافل نہ ہو۔ اگر انسن اس کی مداومت اختیار کرے تو آخر کار قلب موآثر ہو جاتا ہے اور ایک تبدیلی انسان اپنے اندر رکھتا ہے۔
کشف رؤیا کا اعلیٰ درجہ ہے
کشف کیا ہے یہ رؤیا کا ایک اعلیٰ مقام اور مرتبہ ہے اس کی ابتدائی حالت کہ جس میں غیبت حس ہوتی ہے۔ صرف اس کو خواب (رؤیا) کہتے ہیں۔ جسم بالکل معطل بیکار ہوتا ہے اور حواس کا ظاہری فعل ساکت ہوتا ہے۔ لیکن کشف میں دوسرے حواس کی غیبت نہیں ہوتی۔ل بیداری کے عالم میں انسان وہ کچھ دیکھتا ہے جو کہ نیند کی حالت میں حواس کے معطل ہنے کے عالم میں دیکھتا تھا۔ کشف اسے کہتے ہیں کہ انسان پر بیداری کے عالم میں ایک ایسی ربودگی طاری ہو کہ وہ سب کچھ جانتا بھی ہو۔ اور حواس خمسہ اس کام بھی کر رہے ہوں اور ایک ایسی ہوا چلے کہ نئے حواس اُسے مل جاویں جن سے وہ عالم غیب کے نظارے دیکھ لے۔ وہ حواس مختلف طور سے ملتے ہیں۔ کبھی بصر میں، کبھی شامہ سونگھنے میں، کبھی سمع میں، شامہ میں اس طرح جیسے کہ حضرت یوسفؑ کے والد نے کہا
انی لا جدریح یوسف لو لا ان تفندون (یوسف : ۵)
(کہ مجھے یوسفؑ کی خوشبو آتی ہے۔ اگر تم یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا) اس سے مراد وہی نئے حواس ہیں جو کہ یعقوبؑ کو اس وقت حاصل ہوئے اور انہوں نے معلوم کیاکہ یوسف ؑ زندہ موجود ہے اور ملنے والا ہے۔ اس خوشبو کو دوسرے پاس والے نہ سونگھ سکے کیونکہ اُن کو وہ حواس نہ ملے تھے جو کہ یعقوبؑ کوملے۔ جیسے گڑسے شکر بنتی ہے اور شکر سے کھانڈ اور کھانڈ سے دوسری شیرینیاں لطیف درلطیف بنتی ہیں۔ ایسے ہی رؤیا کی حالت ترقی کرتی کرتی کشف کارنگ اختیار کرتی ہے اور جب وہ بہت صفائی پر آجاوے تو اس کا نام کشف ہوتا ہے۔
‏Amira 10-9-05
کشف اور وحی میں فرق
لیکن وحی ایسی شئے ہے جو کہ اس سے بدرجہا بڑھ کر صاف ہے اور اس کے حاصل ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ کشف تو ایک ہندو کو بھی ہو سکتا ہے، بلکہ ایک دہریہ بھی جو خدا کو نہ مانتا ہو وہ بھی اس میں کچھ نہ کچھ کمال حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن وحی سوائے مسلمان کو دوسرے کو نہیں ہو سکتی۔ یہ اسی اُمت کا حصہ ہے۔ کیونکہ کشف تو ایک فطرتی خاصہ انسان کا ہے اور ریاضت سے یہ حاصل ہو سکتا ہے خواہ کوئی کرے، کیونکہ فرطرتی امر ہے جیسے جیسے کوئی اس میں مشق اور محنت کرے گا۔ ویسے ویسے اس پر اس کی خالتیں طاری ہوں گی ارو ہر ایک نیک و بد کو رؤیا کا ہوان اس امر پر دلیل ہے۔ دیکھا ہو گا کہ سچی خوابیں بعض فاشق و فاجر لوگوں کو بھی آجاتی ہیں’ پس جیسے اُن کو سچی خوابیں آتی ہیں ویسے ہی زیادہ مشق سے کشف بھی ان کو ہو سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ حیوان بھی صاحب کشف ہو سکتا ہے لیکن الہام یعنی وحی الٰہی ایسی شے ہے کہ جبتک خدا سے پوری صلح نہ ہو اور اس کی اطاعت کے لیے اس نے گردن نہ رکھ دی ہو تب تک وہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی۔خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
ان الذین قالو ا ربنا اﷲ ثم استقامو اتتنزل علیہم الملائکۃ الا تخافو اولا تحزنو ا وابشرو ابالجنۃ التی کنتم توعدون (حٰم اسجدۃ : ۳۱)
یہ اسی امر کی طرف اشارہ ہے۔ نزول وحی کا صرف اُن کے ساتھ وابستہ ہے جو کہ خد اکی راہ میں مستقیم ہیں اور وہ صرف مسلمان ہی ہیں۔ وحی ہی وہ شئے ہے کہ جس سے انالموجود کی آواز کان میں آکر ہر ایک شک و شبہ سے ایمان کو نجات دیتی ہے اور بغیر جس کے مرتبہ یقین کامل کا انسان کو خاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن کشف میں یہ آواز کبھی نہیں سنائی دیتی اور یہی وجہ ہے کہ صاحب کشف ایک دہریہ بھی ہو سکتاہے۔ لیکن صاحب وحی کبھی دہریہ نہیں ہوگا۔
اس مقام پر حضرت نورالدین صاحب حکیم الامۃ نے عرض کی کہ حضور سائل کا منشاء یہ ہے کہ یہ خواہش کسی طرح دل سے دور ہو جاوے۔
خدا کے برگزیدہ اور محبوب نے فرمایا کہ :
ان کے دل میں کشف کی جو عظمت بیٹھی ہوئی ہے جبتک وہ دور نہ ہوگی تو علاج کیسے ہوگا۔ اسی لیے تو میں فرق بیان کر رہا ہوں۔ ہمارے ہاں ایک چوڑھی (خاکروبہ) آتی ہے۔ وہ بھی سچی خوابوں کا ایک سلسلہ بیان کیا کرتی ہے لیکن اس سے اس کا عند اﷲ مقرب ہونا یا صاحب کرامت ہوان ثابت نہیں ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک مسلمان کا کشف جس قدر صاف ہوگا اس قدر غیر مسلم کا ہرگز صاف نہ ہوگا کیونکہ خدا تعالیی ایک مسلم اور غیر مسلم میں تمیز رکھتا ہے اور فرماتا ہے
قد افلح من زکھا (الشمس : ۱۰)
لیکن وحی کو کشف نہیں پاسکتا۔ یہ وحی کی ہی قدر ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے ارادہ سے اس کے لیے ایک شخص کو انتخاب کرتا ہے اور شرف مکالمہ بخشتا ہے اور ہر میدان میں اس کا حافظ و ناصر ہوتا ہے اور صاحب وحی کے تعلقات دن بہ دن خدا سے قائم ہوتے اور بڑھتے جاتے ہیں اور ایمان میں غیر معمولی ترقی روز مشاہدہ کرتا ہے۔؎ی
۲۵؍مارچ ۱۹۰۵ء؁ (نماز عصر)
اپنی صداقت پر کامل یقین
عصر کی نماز سے پیشتر حضرت حجۃ اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی نے اپنے بڑے بھائی شاہ خلیل الرحمٰن صاحب سجادہ نشین سر سادہ کا خط سنایا جس میں انہوں نے حضرت حجتہ اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت بطور پیشگوئی لکھ اتھا کہ وہ جلد فوت ہو جائیں گے اور ان کے سلسلہ کا جاتمہ ہو جائے گا اور یہ بھی لیکھا تھا کہ میں کشف قبور کر سکتا ہوں اور کراسکتا ہوں۔ اگر مرزا صاحب سچے ہیں تو وہ بھی مجھے کشف قبور کر کے دکھائیں وغیرہ۔ ملخصاً۔
حضرت اقدس نے سرسری طور پر اس کا رڈکو سن لیا۔ پھر نماز عصر ادا فرمائی۔ بعد نماز عصر کوئی ایسی تحریک آپ کو ہوئی کہ آپ نے صاحبزادہ سراج الحق صاحب کو وہیں مسجد ہی میں بلایا اور فرمایا جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
آپ ان کو اپنی طرف سے ایک خط لکھ دیں کہیہ پیشگوئی جو آپ نے کی ہے اس سے میری تو برسوں کی مراد بر آئی۔ میں بھی چاہتا تھا کیونکہ اس سے سچائی کا فیصلہ ہو جاتا،لیکن مہربانی کر کے اتنی تصریح کر دو کہ کیا وہ (مرزا صاحب) آپ سے پہلے فوت ہوں گے یا پیچھے تا کہ پھر اس پیشگوئی کو آپ کی کرامت قرار دے کر سائع کر دیا جاوے۔ جب یہ پیشگوئی پوری ہوگی اس وقت دنیا دیکھ لے گی۔
پس آپ ہرگز دیر نہ کریں۔ بہت جلد اس امر کو لکھ بھیجیں۔ اور کشف قبور کا معاملہ تو بالکل بیہودہ امر ہے۔ جو شخص زندہ خد اسے کلام کرتا ہے اور اس کی تازہ بتازہ وحی اس پر آتی ہے اور اس کے ہزاروں نہیں لاکھوں ثبوت بھی موجود ہیں۔ اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ مردوں سے کالم کرے اور مردوں کی تلاش کرے اور اس امر کا ثبوت ہی کیا ہے کہ فلاں مردے سے کالم کیا ہے۔ یہان تو لاکھوں ثبوت موجود ہیں۔ ایک ایک کارڈ اور ایک ایک آدمی اور ایک ایک روپیہ جو اب آتا ہے وہ خدا کا ایک زبردست نشان ہے۔ کیونکہ ایک عرصہ دراز پیشتر خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ :
یا تون من کل فج عمیق۔ ویا تیک من کل فج عمیق
اور ایسے وقت فرمایا تھا کہ کوئی شخص بھی مجھے نہ جانتا تھا۔ اب یہ پیشگوئی کیسے زوروشور سے پوری ہو رہی ہے۔ کیا اس کی کوئی نظیر بھی ہے؟ غرض ہمیں ضرورت کیا پڑی ہے کہ ہم زندہ خدا کو چھوڑ کر مردوں کو تلاش کریں۔؎ٰ
۲۷؍مارچ ۱۹۰۵ء؁ (بوقت ظہر)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اہم مکتوب
ظہر کی اذان ہو چکنے کے بعد اعلیٰ حضرت تشریف لائے۔ باہر سے آئے ہوئے مہمانوں نے شرف زیارت پایا۔ زاں بعد حضرت مخدوم الملت مولوی عبد الکریم صاحب نے بابو عطا الٰہی صاحب سٹیشن ماسٹر کی طرف سے حصول اجازت کے لیے عرض کیا۔ آپ نے بابو عطا الیہی صاحب کو بلا کر فرمایا کہ :
مئی، جون، جولائی وغیرہ مہینوں میں کئی موقعہ یہاں رہنے کے لیے نکالنا چاہیے آئندہ جب رخصت لو تو ان مہینوں کو مدن نظر رکھ لینا۔
اس کے بعد حضرت مخدوم الملت نے عرض کیا کہ میں نے حضور کاوہ خط اخبار میں شائع کرنے کو دیدیا ہے اور اس پر ایک مضمون بھی لکھ دیا ہے۔
فرمایا :
بہت اچھا کیا ہے
جس خط کا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے ذکر کیا ۔ یہ خط الحکم جلد ۹ نمبر ۱۱ مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۵ء؁ صفحہ ۸ پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے تشریحی مضمون کے ساتھ شائع ہوا ہے جو یہ ہے :
’’مجی اخویم۔ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ۔ میں ایک مدت سے بیمارییوں میں رہا۔ اور اب بھی ان کا بقیہ باقی ہے۔ میں چاہتا تھا کہ اپنے ہاتھ سے جواب لکھوں مگر بباعث بیماری کے لکھ نہ سکا۔ آپ کے پہلے خط کا ماحصل جس قدر مجھ کو یاد ہے یہ ہے کہ میری نسبت…ؔ کی جماعت کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا تھا کہ روپیہ کے خرچ میں بہت اسراف ہوتا ہے۔ آپ اپنے پاس روپیہ جمع نہ رکھیں اور یہ روپیہ ایک کمیٹی کے سپرد ہو جو حسب ضرورت خرچ کیاکریں اور یہ بھی ذکر تھا کہ اس روپیہ میں سے باغ کے چند خدمتگار بھی روٹیاں کھتے ہیں۔ اور ایسا ہی اور کئی قسم کے اسراف کی طرف اشارہ تھا جن کو میں سمجھتا ہوں آپ نے اپنی نیک نیتی سے جو کچھ لکھا بہتر لکھا۔ میں ضروری نہیں سمجھتا کہ اس کا رد لکھوں۔ میں آپ کو خدا تعالٰی کی قسم دیتاہوں جس کی قسم کو پورا کرنا مومن کا فرض اور اس کی خلاف ورزی معصیت ہے کہ آپ… تمام جماعت کو اور خصوصاً ایسے صاحبوں کو جن کے دلوںمیں یہ اعتراض پید اہوا ہے بہت صفائی سے اور کھول کر سمجھا دیں کہ اس کے بعد ہم… کا چندہ بکلی بند کرتے ہیں اور ان پر حرام ہے اور قطعاً حرم ہے اور مثل گوشت خنزیر ہے کہ ہمارے کسی سلسلہ کی مدد کے لیے اپنی تمام زندگی تک ایک حبہ بھی بھیجیں۔ ایساہی ہر شخص جو ایسے اعتراض دل میں مخفی رکھتا ہے اس کو بھی ہم یہی قسم دیتے ہیں۔
یہ کام خدا تعالٰی کی طرف سے ہے اور جس طرح وہ میرے دل میں ڈالتا ہے خواہ وہ کام لوگوں کی نظر میں صحیح ہے یا غیر صحیح ، درست ہے یا غلط میں اسی طرخ کرتا ہوں۔ پس جو شخص کچھ مدد دے کر مجھے اسراف کا طعنہ دیتا ہے وہ میرے پر حملہ کرتا ہے۔ ایسا حملہ قابل برداشت نہیں ۔ اصل تو یہ ہے کہ مجھے کسی کی بھی پروا نہیقں۔ اگر تمام جماعت کے لوگ متفق ہو کر چندہ بند کر دیں یا مجھ سے منحرف ہو جایں تو وہ جس نے مجھ سے وعدہ کیا ہوا ہے وہ اور جماعت ان سے بہتر پیدا کردے گا جو صدق اور اخلاص رکھتی ہوگی۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے۔
ینصرک اﷲ من عندہ۔ ینصرک رجال نوحی الیہم من السماء
یعنی خد ا تیری اپنے پاس سے مدد کرے گا۔ تیری وہ مدد کریں کے جن کے دلوں میںہم آپ وحی کریں گے اور لاہام کریں گے۔ پس اس کے بعد میں ایسے لوگوں کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بھی نہہیں سمجھتا جن کے دلوں میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور کیا وجہ کہ اُتھیں جبکہ میں ایسے خشک دل لوگوں کو چندہ کے لیے مجبور نہیں کرتا جن کا ایمان ہنوز نا تمام ہے۔ مجھے وہ لوگ چندہ دے سکتے ہیں جو اپنے سچے دل سے مجھے خلیفۃ اﷲ سمجھتے ہیں۔ اور میرے تمام کا روبار خواہ اُن کو سمجھیں یا نہ سمجھیں ان پر ایمان لاتے اور ان پر اعتراض کرنا موجب سلب ایمان سمجھے ہیں۔ میں تاجر نہیں کہ کوئی حساب رکھوں ۔ میں کسی کمیٹی کا خزانچی نہیں کہ کسی کو حساب دوں۔ میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو ایک ذرہ بھی میری نسبت اور میرے مصارف کی نسبت اعتراض دل میں رکھتا ہے اس پر حرام ہے کہ ایک کوڑی میری طرف بھیجے۔ مجھے کسی کی پروا نہیں۔ جبکہ خدا مجھے بکثرت کہتا ہے گویا ہر روز کہت اہے کہ میں ہی بھیجتا ہوں جو آتا ہے اور کبھی میرے مصارف پر وہ اعتراض نہیں کرتا تو دوسرا کون ہے۔ جو مجھ پر اعتراض کرے۔ ایسا اعتراض آنحضرت ﷺ پر بھی تقسیم اموال غنیمت کے وقت کیا گیا تھا۔ سو میں آپ کو دوبارہ کہتا ہوں کہ آئندہ سب کو کہدیں کہ تم کو اس خد اکی قسم ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور ایسا ہی ہر ایک جو اس خیال میں شریک ہے کہ ایک حبہ بھی میری طرف کسی سلسلہ کے لیے کبھی اپنی عمر تک ارسال نہ کریں۔ پھر دیکھیں کہ ہمارا کیا حرج ہوا؟ اب قسم کے بعد میرے پاس نہیں کہ اور لکھوں۔
خاکسار مرزا غلام احمد
حل مشکلات کا طریق ایک شخص نے اپنی مشکلات کے لیے عرض کی فرمایا :
استغفار کثرت سے پڑھا کرو اور نمازوں میں
یا حیی یا قیوم استغیث برحمتک یا ارحم الراحمین
پڑھو۔
پھر اس نے عرض کی کہ استغفار کتنی مرتبہ پڑھوں ؟ فرمایا :
کوئی تعداد نہیں۔کثرت سے پڑھو یہاںتک کہزوق پیدا ہو جائے اور استغفار کو منتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ سمجھ کر پڑھو۔ خواہ اپنی زبان میں ہی ہو۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ اے اﷲ! مجھے گناہوں کے برے نتیجوں سے محفوظ رکھ اور آئندہ گناہوں سے بچا۔
زاں بعد خاکسار ایڈیٹر الحکم نے مولوی مشرف الدین احمد صاحب کے صاحبزادہ کے لیے دعا کے
واسطے عرض کیا۔ فرمایا :
اُن کا خط بھی آیا ہے۔ اُن کو لکھ دو کہ یاد دلاتے رہیں۔
‏Amira 22-9-05
ایک الہام
مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے بیان کیا کہ کل جب میں اٹھا تو میری زبان پر یہ جاری تھا جو
حضور کا الہام ہے۔’’آگ سے ہمیں مت ڈرا۔ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘۔
اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ کل مجھے الہام ہوا تھا:
’’چوہدری رستم علی‘‘
اس کے ساتھ اور کچھ نہیں تھا۔؎ٰ
حضرت مفتی محمد صادق کا تقرر بحیثیت ایڈیٹر اخبار البدرؔ
۳۰؍مارچ ۱۹۰۵ء؁
بسم اﷲ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اطلاع
میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ منشی محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الٰہہی سے فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آگیا ہے۔ یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن، جوان، صالح اور ہر ایک طور سے لائق جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی قائمقام منشی محمد افضل مرحوم ہو گئے ہیں۔
میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل ارو رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا۔ خدا تعالیٰ یہ کام ان کے لیے مبارک کرے اور اُن کے کاروبار میں برکت ڈالے ۲؎۔ آمین۔ ثم آمین۔
خاکسار میرزا غلام احمد۔ ۲۳ محرم الحرام ۱۳۲۳؁ھ علی صاحبہا التحیثہ والسلام
۳۰؍مارچ ۱۹۰۵ء؁ ۲؎
یکم اپریل ۱۹۰۵ء؁ (قبل ظہر)
اعلیٰ حضرت حجۃ اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ظہر سے پیستر تھوڑی دیر مجلس فرمائی۔ فرمایا :
عصر کے بعد میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے میں اس لیے شام کو آنہیں سکتا۔
اپنے مُحبیّن سے شفقت اور ہمدردی
مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سلّمہ ربہٗ کو کثرتِ پیشاب کی دو تین دن سے پھر شکایت ہو گئی ہے اور آج اعلیٰ حضرت نے ان کا قارورہ منگواکر دیکھا تھا جو کثیر مقدار میں تھا۔اس کے متعلق مولوی عبد الکریم صاحب کو مخاطب کرکے جو کچھ فرمایا اس سے آپ کی کمال شفقت ارو ہمدردی کا ثبوت ملتاہے اس لیے میں خلاصۃً اسے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں ۔فرمایا :
میں آپ کا پیشاب دیکھ کر بہت حیران ہو گیا۔ میں نے تو اس کے بعد دعا ہی شروع کر دی اور
انشاء اﷲ بہت دعا کروں گا۔؎ٰ
مجھے خود چونکہ کثرت پیشاب کی شکایت ہے میں جانتا ہوں کہ کس قدر تکلیف ہوتی دل گھٹتا ہے اور پنڈلیوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ بہت بے چینی اور گھبراہٹ ہو جاتی ہے۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس رسالہ ۲؎ کو ختم کر لینے کے بعد کچھ دنوں تک صرف دعا ہی میں لگا رہوں گا۔
میں نے جو گولی آپ کو بنا کر دی تھی وہ مفید ثابت ہوئی تھی۔ آپ اس کا استعمال کریں میں بھیجدوں گا اور ختم ہونے پر اور دوا تیار ہو سکتی ہے۔ آپ دودھ کثرت سے پئیں۔وہ اس مرض میں بہت مفید ہے اور میں انشاء اﷲ بہت دعا کروں گا۔ آپ کے پیشاب کو دیکھ کر مجھے تو حیرت ہی ہوئی کہ آپ کس طرح التزام کے ساتھ نمازوں میں آتے ہیں اور آپ کی آواز سے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کو شکایت ہے۔
اس پر حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضور کی دعا ہی ہے جو اس ہٹ اور استقلال سے میں حاضر ہوتا ہوں؛ ورنہ بعض اوقات قریب بہ غش ہو جاتا ہوں۔ پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
میں بہت دعا کروں گا
مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور کی عافیت چاہیے۔ فرمایا :
عافیت ہو ہی جاتی ہے۔ جب میں آپ کے لیے دعا کروں گا۔ حدیث میں آیا ہے
من کان فی عون اخیہ کان اﷲ فی عونہ
جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کا مددگار ہو جاتا ہے۔۳؎
دو الہامات
اس کے بعد فرمایا :
کل الہام ہوا تھا۔ محونا نا رجھنم؎ٰ
اﷲ تعالیٰ کے کلام میں یہ عجیب بات ہوتی ہے کہ بعض اوقات صرفی نحوی ایسی ترکیب پر اعتراض کر اُٹھتے ہیں مگر اﷲ تعالیٰ ان کے ماتحت تو نہیں ہے ۲؎
طاعون کو بھی نارِ جہنم کہا ہے۔ پہلے بھی ایک الہام ہوا تھا
یاتی علی جفنم زمان لیس فیہا احد
اس کے بعد آپ نے نمازِ ظہر جماعت کے ساتھ معمول کے موافق ادا کی اور آپ تشریف لے گئے ۳؎
۳؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
محبین سے تعلق خاطر
سید حامد شاہ صاحب سیالکوتی کے تقرر مستقل۔ بر عہدہ سپرنٹنڈنٹ دفتر صاحب ضلع کی خبر حضرت کی خدمت میں سنائی گئی۔ آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ :
شاہ صاحب ایک درویش مزاج آدمی ہیں ارو خدا تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
مولوی عبد الکریم صاحب کی علالتِ طبع کا ذکر تھا۔ حضرت نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ :
میں نے آپ کے واسطے اس قدر دعا کی ہے جس کی حد نہیں۔۴؎
۴؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
ایک زور آور زلزلہ کا نشان
صبح سوا چھ بجے یک دفعہ نہایت زور آور حملہ زلزلہ کا ہاو۔ تمام مکانات اور اسیاء ہلنے اور ڈورلنے لگ پڑیں۔ لوگ حیران اور سراسیمہ ہو کر گھبرانے لگے۔ ایسے وقت میں خد اکے مسیح کا حال دیکھنے کے لائق تھا، کیونکہ احادیث میں تو ہم پڑھاہی کرتے تھے کہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ایسے آسمانی اور زمینی واقعات پر خشیت اﷲ کا بڑا اثر اپنے چہرے پر ظاہر فرماتے تھے۔ ذرا سے بادل کے نمودار ہونے پر آپ بے آرام سے ہو جاتے۔ کبھی باہر نکلتے اور کبھی اندر جاتے۔ غرض اس وقت بھی نبی اﷲ نے ہر کہ عارف تراست ترساں تر والے مقولہ کو عملی رنگ میں بالکل سچا کر کے دکھایا ۔ زلزلہ کے شروع ہوتے ہی آپ بمعہ اہل بیت اور بال بچہ کے اﷲ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرنے میں شروع ہو گئے اور اپنے رب کے آگے سر بسجود ہوئے۔ بہت دیر تک قیام۔ رکوع اور سجدہ میں سارا کنبہ کا کنبہ بمعہ خدام کے گرا رہا اور اﷲ تعالیٰ کی بے نیازی سے لرزاں و ترساں رہا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے تمام مکانات اور جانوں کو گرنے وار تلف ہونے سے محفوظ رکھا اور کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جیس اکہ دوسرے شہروں سے تباہی اور ہلاکت کی خبریں آرہی ہیں۔بلکہ ایسے مکانات جن کے پردے صرف ایک ایک اینٹ کے تھے اور کچھ پھٹے ہوئے بھی تھے اور بعض اینٹیں اُکھڑی ہوئی یونہی پڑی تھیں ان میں سے ایک اینٹ بھی نہیں گری چونکہ ہر دس منٹ کے بعد بار بار زلزلہ کا حساس ہوتا تھا ارو تمام روز کچھ کچھ زلزلہ محسوس ہوتا رہا۔اس واسطے حضور اقدس نے برعایت اسباب مناسب سمجھا کہ سہ منزلہ مکان میں رہنے کی بجائے اپنے باغ والے مکان میں ایک دو روز کے واسطے رہائش اختیار کریں؛ اگر چہ اس موقعہ پر کچھ خوف ہم سب کو دیکھنا پڑا ہے تاہم دراصل اس پاک مسیح کے قدموں کے طفیل کوئی امر ہمارے واسطے ائدہ سے خالی نہیں۔ اول تو ۳؍اپریل کی رؤیا اس سے پوری ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھی تھی ۔؎ٰ اور کئی ایک کو سنائی تھی۔
دوم اشتہار الوصیت میں جو ایک عظیم الشان پیشگوئی حضرت امام نے ابھی چند روز ہوئے شائع کی تھی۔ کہ ایک شورِ قیامت برپا ہے اور موتا موتی لگی ہوئی ہے اور لوگ چیخ رہے ہیں۔ وہ پوری ہوئی۔ یہ اشتہار الوصیت اخبار الحکم مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۰۵ء؁ اور اخبار البدرؔمورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۵ء؁ اور ریویو آف ریلیجنز بابت ماہ مارچ ۱۹۰۵ء؁ میں شائع ہو گیا تھا۔ اس زلزلہ کی خبر براہین احمدیہ میں بھی دی گئی تھی۔ غرض یہ ایک بڑا نشان ہے جو خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمایا۔ اسی زلزلہ کا ذکر تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ :
’’یہ ایک قیامت ہے جو لوگ قیامت کے منکر ہیں وہ اب دیکھ لیں کہ کس طرح ایک ہی سیکنڈ میں ساری دنیا فنا ہو سکتی ہے۔ جب لوگوں کو بہت امن اور آسودگی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ خدا سے اعراض کرتے ہیں۔ یہانتک کہ خد اکا انکار کر دیتے ہیں۔ اس قسم کا امن ایک مباثت کا پھوڑا ہے۔ یہ قیامت لوگوں کے واسطے عذاب مگر ہمارے واسطے مفید ہے‘‘۔
پھر آپ نے سلطان احمد کو دیکھنے والا رؤیا بیان کیا جو الہامات کے ذیل میں درج کیا گیا ہے۔ اور میاں بشیر احمد اور شریف احمد کے خوابوں کا پھر ذکر کیا۔ اور براہین احمدیہ حصہ پنجم کے چھپنے کا ذکر کیا۔ جس کا نام نصرت الحق ہے اور فرمایا :
’’یہ قیامت ہمارے لیے نصرت الحق ہے۔ ہم صبح یہی مضمون لکھ رہے تھے اور اس الہام پر پہنچے تھے جو ب راہین احمدیہ میں رج تھا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نا کیا۔ لیکن خد ااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کردے گا۔ ہم یہ الفاظ لکھ ہی رہے تھے اور اس کے پورا ہونے کے ثبوت آگے درج کرنے کو تھے کہ یک دفعہ زلزلہ ہوا۔ یہ ایک زور آور حملہ ہے اور پیشگوئی میں حملوں کا لفظ جمع ہے جو عربی میں تین پر اطلاق پاتا ہے۔ اس واسطے خوف ہے کہ طاعون اور زلزلہ کے سوائے خدا جانے تیسرا حملہ کونسا ہے جو ہماری سچائی کے ثبوت کے واسطے خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمانا ہے اور ابھی خدا جانے کیا ہے باہر سے خبریں ئئیں گی تو معلوم ہوگ اکہ کس قدر تباہی ہونی ہے۔ ہم نے کل ہی کہا تھا کہ خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہیبت ناک نشان ہونے والا ہے۔ یہ ایک ہلاکت کا نشان ہے جماعت کے سب لوگوں کو چاہیے کہ اپنی حالتوں کو درست کریں۔ توبہ و استغفار کریں اور تمام شکوک و شبہات کو دور کرکے اور اپنے دلوں کو پاک و صاف کر کے دعائوں میں لگ جائیں اور ایسی دعا کریں کہ گویا مر ہی جائیں تا کہ خدا ان کو پانے غضب کی ہلاکت کی موت سے بچائے۔ بنی اسرائیل جب گناہ کرتے تھے تو حکم ہوت اتھا کہ اپنے تئیں قتل کرو۔ اب اس اُمت مرحومہ سے وہ حکم تو اُٹھایا گیا ہے مگر یہ اس کی بجائے ہے کہ دعا ایسی کرو کہ گویا اپنے آپ کو قتل ہی کر دو۔
یہ الہامات جو پہلے سے شائع ہو چکے ہیں کہ مکذبوں کو ایک نشان دکھا یا جائے گا۔اور یہ کہ ایک چونکا
دینے والی خبر۔ یہ سب اب پورے ہو گئے ہیں اور دیکھنے والوں کے واسطے کافی سے زیادہ سامان ایمان لانے کے پیدا ہو چکے ہیں‘‘۔؎ٰ
۵؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
نصرۃ الحق کے ایام
سید امیر علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر کو مخاطب کرکے نہایت لطف و مہربانی کے ساتھ حضرت نے فرمایا کہ :
’’آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوتی‘‘
اُنہوں نے عرض کیا کہ حضور کے قدموں میں حاضیر نصیب ہو تو پھر تکلیف کس بات کی یہاں تو جو ہو سب راحت ہی راحت ہے۔ حضرت نے فرمایا :
ہاں رحمتِ الٰہی کے دن ہیں۔ گو دوسورں کے واسطے عذاب کے دن ہیں مگر ہمارے واسطے نصرۃ الحق کے ایام ہیں۔؎ٰ
۷؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
قادیان دار الامان
مختلف مقامات سے نہایت سخت تباہی اور سینکڑوں آدمیوں کے دب جانے اور مرجانے اور ہازاروں مکانات کے گر جانے اور زمینوں کے دھنس جانے کا ذکر ہو رہا تھا۔ بالمقابل اس کے قادیان میں جو امن رہا اس کے متعلق حضرت نے فرمایا کہ :
اس میں وہ وحی الٰہی بھی پوری ہوئی جو مدت ہوئی اخباروں میں شائع ہوئی تھی کہ :
امن است درمقام محبت سرائے ما
ان تبائیوں اور شہروں کے دبنے سے وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جس کو گیارہ ماہ ہوئے کہ شائع ہونی تھی اور گورداسپور میں نازل ہوئی تھی کہ :
عفت الدیار محلھا ومقامھا
یعنی سرائیں بھی تباہ ہو گئیں اور اصلی مقامات بود و باش بھی مٹ گئے اور ان کے نشان بھی مٹ گئے۔
باغ کے مکان میں منتقل ہونا
قادیان کے گائوں سے بعض آدمیوں کے طاعون میں مبتلا ہونے اور بعض کے مرنے کا ذکر ہوا۔ حضرت نے فرمایا :
خدا جانے ہمارے باہر آجانے میں کیا کیا حکمتیں ہیں اگر قادیان میں سو آدمی روز طاعون سے مرنے لگتا تب بھی ہم نے قادیان سے نہیں نکلنا تھا مگر اس میں خدا کی کوئی حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایسی نئی بات پید اہو گئی یعنی سخت زلزلہ کے سبب سہ منزلہ مکانات کے گرنے کا اندیشہ ہوت اہے اس واسطے بموجب پابندیٔ شریعت اپنے آپ کو خطرناک جگہ سے محفوظ کرنے کے واسطے ہم باہر آگئے اور زلزلہ کی کیفیت ایسی ہے کہ ابتک محسوس ہوتا ہے۔ خدا نے دل میں پختہ طور سے یہی بات ڈال دی کہ اب باہر جانا چاہیے۔ طاعون کے لحاظ سے باہر آنا تو گناہ تھا مگر زلزلہ کے سبب خد اتعالیٰ نے یہ بات دل میں ڈال دی اور اس سے ہم کو بہت فائدہ اور آرام ہوا۔ کیونکہ باغ میں عمدہ ہوا اور خوشبودار پھولوں کے سبب مضامین کے لکھنے اور فکر اور تدابیر کے واسطے عمدہ موقعہ ملتا ہے اور صحت میں بہت ترقی محسوس ہوتی ہے اور درختوں کی چھائوں کے نیچے دعا کے واسطے عمدہ خلوت گاہ مل جاتی ہے جس کے سبب ہم باغ کے مکان میں آ گئے۔
نشانات کی کثرت اور وسعت فرمایا :
اب تو اس قدر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں کہ گویا خدا اپنے آپ کو برہنہ کر کے دکھانا چاہتا ہے۔
فرمایا :
پہلے انبیاء کے معجزات تو خاص زمینوں اور خاص شہروں تک عموماً محدود ہوتے تھے مگر اب تو خد اتعالیٰ ایسے نشان اس سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہے جو دنیا بھر پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔؎ٰ
۸؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
فرمایا: ’’جب دنیا مد نظر ہو تو تطہیر مشکل ہے‘‘۔ ۲؎
‏Amira 25-9-05
۹؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
سلسلہ کی مخالفت اور اﷲ تعالیٰ کی چہرہ نمائی
پرچہ، اہلحدیث امرتسر کا ذکر ہوا جس نے بہت سے بیجا حملے خدا کے سلسلہ پر کیے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا :
کم علم آدمی تو معذور ہوتا ہے معاف بھی کیا جاتا ہے مگر تعجب ہے ان لوگوں پر جو علم رکھتے ہیں اور پھر بھی تقویٰ اختیار نہیں کرتے۔کسی کو کیا معلوم کہ اندر ہی اندر کیا تیاری ہو رہی ہے اور ابھی زمین پر کای ہونے والا ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ ایسی تباہی لائے گا جس کی خبر وحی الٰہی میں ہے تو پھر توبہ اور رجوع بھی فائدہ نہ دے گا۔ مبارک ہیں وہ جو پہلے ایمان لائے اور پھر وہ جو ان کے بعد آئے۔ ایسا ہی درجہ بدرجہ سب کا حصہ ہے۔ دیکھو کس قدر قیامت کا نمونہ ہے مگر پھر بھی یہ لوگ باز نہیں آتے اور ناجائز باتیں کہتے ہیں۔ لیکن ہماری جماعت کو چاہے کہ ان کی باتوں کے سبب غمگین نہ ہوویں۔یہ لوگ جیسے اہلحدیث وغیرہ ہیں۔ یہ ہامرے سلسلہ کی رونق ہیں۔ اگر اس قسم کے شور مچانے والے نہ ہوں تو رونق کم ہو جاتی ہے، کیونکہ جس نے مان لیا یہ وہ تو اپنے آپ کو فروخت کر چکا ہے۔ اور مثل مردہ کے ہے۔ وہ کیا بولے گا۔ وہ تو زبان کھول ہی نہیں سکتا۔ اگر سارے ابوبکرؓ ہی بن جاتے تو پھر ایسی بڑی بڑی نصرتوں کی کیا ضرورت بڑتی۔ جو حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ظاہر ہوئی تھیں۔ دیکھو سنت اﷲ یہی ہے کہ پہلے سخت گرمی پڑے پھر برسات ہو پس تم خوش ہو کہ ایسے آدمی دنای میں موجود ہیں جو اس نصرت اور فتح کو جو کروروں کوس دور ہوتی ہے ایک دو کوس کے قریب کھینچ لاتے ہین۔ اب ان معاملات کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لای ہے۔ آج کے الہامات پر غور کرو۔ اب بحث مباحثہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہماری طرف سے خدا تعالیٰ آپ جواب دینے لگا ہے تو خلاف ادب ہے کہ ہم دخل دیں اور سبقت کریں۔ جس کام کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے ۔ وہ اس کو ناقص نہ چھوڑے گا۔ کیونکہ اب اگر امن ہو جائے اور کوئی نشان نہ دکھایا جائے تو قریب ہے کہ ساری دنای دہریہ بن جائے اور کوئی نہ جانے کہ خدا ہے۔ لیکن خد ااب اپنا چہرہ دکھائے گا۔
میرے؎ٰلڑکے محمد منظور کارؤیا حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں عرض کیا گیا۔ فرمایا :-
مومن کبھی رؤیا دیکھتا ہے اور کبھی اس کی خاطر کسی اور کو دکھاتا ہے۔ ہم نے اس کی تعمیل میں چودہ بکرے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ سب جماعت کو کہدو کہ جس جس کو استطاعت ہے قربانی کردے۔
ایک پرانا الہام
فرمایا کہ : ہمیں اس وقت اپنا پرانا الہام یاد آیا ہے کہ :
وتجلی ربہ للجبل فجعلہ دکاوخر موسی صعقا
جو براہین احمدیہ میںدرج ہے اور تجلی کی اس کے رب نے پہاڑ پر یعنی مشکلات کے پہاڑ پر اور کر دیا اس کو پاش پاش اور گر ا موسیٰ بیہوش ہو کر یعنی ایسی تجلی ہیبت ناک تھی کہ اس کی ہیبت کا اثر موسیٰ پر بھی پڑا۔
زلزلے کے پہلے دھکا کے وقت ہم دعا کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑے تھے۔ ایک ہیبت ناک صورت پیش نظر تھی جس کا ایک قوی اثر دل پر تھا۔ ایسا ار تھا کہ گویا ایک صعق کی قسم تھی۔
آج کے الاہم میں جو آئندہ زلزلہ کا خوف ہے معلوم نہیں کہ کب پورا ہو اور معلوم نہیں خکہ زلزلہ سے مراد کس قسم کا عذاب ہے۔
عفت الدیار محلھا ومقامھا
والا الہام کیسا پورا ہوا کہ شہر اور چھائو نیوں کے نشان مٹ گئے۔ نہ خانہ رہا اور نہ صاحب خانہ۔
آریوں کے اخبار ڈیلی ٹائمز اور آریہ پتر کا اور اہلحدیث نے جو مخالفانہ ریمارکس کئے ہیں۔
ان کا ذکر آیا ۔حضرت نے فرمایا کہ:
ان سب کو یہی جواب دے دو کہ ہم آسمانی فیصلہ کے منتظر ہیں۔ تمہارا جواب دینا پسند نہیں کرتے۔ تمہارا جو جی چاہے کہتے جائو۔
انبیاء کی تربیت آہستہ آہستہ ہوتی ہے فرمایا:
تربیت انبیاء کی اسی طرح آہستہ آہستہ ہوتی چلی آئی ہے ابتدا مین جب مخالف دکھ دیتے ہیں تو صبر کا حکم ہوتا ہے اور نبی صبر کرتا ہے یہانتک کہ دکھ حد سے بڑھ جاتاہے۔ تب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اب میں خود تیرے دشمنوں کا مقابلہ کروں گا۔ اب یقیناً جانو کہ وقت بہت قریب ہے اس وقت ہمیں وہ وحی الیہی یاد آتی ہے جو عرصہ ہوا کہ ہم پر نازل ہوئی تھی کہ :
قرب اجلک المقدر۔ ولا نبقی لک من المخزیات ذکرا
ان مخالفوں کی مخالف باتوں کا کوئی نشان اور ذکر باقی نہ رہے گا۔اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس جماعت کو اپنی قدرتوں پر ایمان دلاوے۔ یمین ویسار میں نشانات ہیں۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس جماعت کو حفاظت میں رکھے۔؎ٰ
۱۰؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
ایک عارفانہ دعا کثرت زلازل اور تباہیوں کا ذکر تھا۔ فرمایا :
ہم تو یہ دعا کرتے ہیں خدا جماعت کو محفوظ رکھے اور دنیا پر یہ ظہار ہو جائے کہ نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم ) برحق رسول تھے اور خدا کی ہستی پر لوگوں کو ایمان پیدا ہو جائے۔ خواہ کیسے ہی زلزلے پڑیں۔ پر خدا کا چہرہ لوگوں کو ایک دفعہ نظر آجائے اور اس ہستی پر ایمان قائم ہو جائے۔
جماعت کا مستقبل آج رات کے الہام انفرعون…الخ کا ذکر تھا۔ فرمایا :
فرعون اور اس کے ساتھی تو یہ یقین کرتے تھے کہ بنی اسرائیل ایک تباہ ہوجانے والی قوم ہے اور اس کو ہم جلد فنا کر دیں گے۔ پر خد انے فرمایا کہ وہ ایسا خیال کرنے میں خطا کار تھے۔ ایسے ہی اس جماعت کے متعلق مخالفین و معاندین کہتے ہیں کہ یہ جماعت تباہ ہو جائے گی، مگر خدا تعالیٰ کا منشا کچھ اور ہے۔
فحاشی عذاب کا موجب ہے
کا نگڑہ کے متعلق بہت تباہی کا ذکر تا۔ مولوی نور الدین صاحب نے عرض کی کہ اس جگہ فحش بہت تھا۔ فرمایا :
اسی واسطے وہاں عذاب بھی بہت ہوا ۲؎
۱۱؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
کا نگڑہ کی تباہی
وحی الٰہی عفت الدیار کا ذکر تھا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے عرض کی کہ الدیار سے مراد کا نگڑہ ویلی ہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ شرک کا بڑا مکان ان دنوں میں وہی ہے۔ دو بری دیویوں کے مند راس جگہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر دو کو تباہ کیا اور بڑے پرانے شرک کو دنیا سے مٹادیا۔ حضرت نے فرمایا :
لوگ کہا کرتے تھے کہ خد انے کس طرح پہاڑ کو بنی اسرائیل کے اوپر کر دیا تھا یہ قصہ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ اب کا نگڑہ۔ دھرمسالہ مقامات کے لوگوں نے خوب سمجھ لیا ہوگا کہ
رفعنا فوقکم الطور (البقرہ : ۶۴)
کس طرخ سے ہو سکت اہے۔ ذرا سے زلزلے میں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ گویا پہاڑ اوپر آگرا۔ پھر خدا چاہے اس کو پیچھے ہٹا دے یا اوپر گرا دے۔ یہ نیچر یت زمانہ کے جہلاء کا جواب ہے جو خدا نے زللزہ کے ذریعہ سے دیا ہے امید ہے کہ اس قدر نظارے دیکھ کر بعض خوش قسمت لوگ سمجھ جائیں گے کہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے احاطۂ قدرت میں ہے اور وہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے۔
زلزلہ کا نشان
ایک اخبار والے کا ذکر آیا کہ وہ لکھتا ہے زلزے تو آیا ہی کرتے ہیں۔ اس میں مرزا صاحب کا کیا نشان ہوا۔ فرمایا :
یہ لوگ نا بینا ہیں۔ نشان تو اس بات میں ہے کہ عین موقعہ پر ایک شخص نے قبل از وقت پیشگوئی کی اور دکھایا کہ یہی وقت ہے۔ خیرسب اندھے نہیں ہیں۔ سمجھنے والے سمجھ لیں گے کہ یہ کس قسم کا نشان ہے۔ ہزاروں برسوں کے جو معبد اور بت چلے آتے تھے وہ ب سرنگوں ہو گئے ہیں۔ یہ نشان نہیں تو اور کیا ہے؟
فرمایا :
ان بتوں کا ٹوٹنا خدا تعالیٰ کی اس توحید کے قائم ہونے کے واسطے جس کے لیے ہم رات دن دعائیں کرتے ہیں۔ ایک تفائوںہے۔
فرمایا :
اس الہام سے بھی جو ہم کو ہوا تھا کہ
جاء الحق وزھق الباطل
ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بت ٹوٹنے والے ہیں کیونکہ قرآن شریف میں بھی یہ آیت بتوں کے توٹنے اور اسلام کے غلبہ کے واسطے آئی ہے۔
فرمایا
براہین احمدیہ بڑی کام آئی۔ وہ سب پہلوئوں کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ کوئی نیا الزام اور ظن ایسا نہیں جس کا جواب پہیل سے اس کے اندر نہ دیا گیا ہو۔
بیمار کا ذکر تھا۔ فرمایا :
میں توسب کے لیے دعا کرتا ہوں۔ آگے اپنے اپنے اعمال ہیں۔
بدر؎ٰجلد ۱ نمبر ۳ صفحہ ۲ مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
۱۴؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
نواب محمد علی خاں صاحب کا خط آیا جس مین انہوں نے الحاح کے ساتھ لکھ اہاو تھا کہ میں اب لاہرو میں ہرگز نہیں رہ سکتا۔ مجھے باغ کے کسی گوشہ میں جگہ دیدیں۔ عاجز راقم کو حکم دیا کہ :
ان کو تحریر کر دو کہ آجائیں اور باغ کے کسی حصہ میں جہاں چاہیں جگہ کر لیں۔
اس زمانہ کے بنی اسرائیل
دھر مسالہ سے خبر آئی کہ اس جگہ اپنی جماعت کے جتنے آدمی تھے سب بچ گئے۔ فرمایا :
کففت عن بنی اسرائیل
والی وحی ان کے معاملہ میں تو میں تو پوری ہو گئی۔ خد انے اس غیرب جماعت کا نام اس وقت بنی اسرائیل رکھا ہے۔؎ٰ
‏Amira 27-9-05
۱۵؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
آفات کی خبر فرمایا:
لوگ کچھ ہی کریں اور کچھ ہی لکھیں مگر جیسی آفت کی خبر خدا نے اب دی ہے۔ یہ جب ظاہر ہو گی تو بہر حال اُن کو ماننا ہی پرے گا۔ کسی جگہ سے دس ہزار کے مرنے کی اور کسی جگہ سے تین ہزار کے مرنے کی خبر آرہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی وحی نے پہلے سے ہی خبر دی تھی کہ یہ سب کچھ تیرے لیے ہے لک نری ایات اور ایسا ہی براہین احمدیہ میں درج ہیں۔ قوۃ الرحمٰن لعبید اﷲ الصمد اس جگہ ہمارا نام عبید اﷲ اس لحاظ سے رکھا گیا ہے کہ ہم مخالفوں کی دکھ دہی اور مصائب سے بہت ستائے گئے ہیں۔
کسی نے خبر سنائی کہ بھاکسو میں کئی سو مر گئے اور جو باکی ہیں وہ بھوک سے مر رہے ہیں۔ اور سبحان پور میں بڑی تباہی آئی لیکن احمدی جماعت کا آدمی وزیر الدین ہیڈ ماسٹر بچ گیا۔ فالحمد ﷲ۔ فرمایا :
یہ نشان تو صرف ایک بیج بویا گیا ہے اور تخم ریزی ہے اور دوسرا نشان اس سے بڑھ کر ہوگا۔ کفار میں بھی سعید فطرت ہوتے ہین۔ آخر ہنود بھی اس طرف توجہ کریں گے۔ ۲؎

۱۶؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
امام الصوٰۃ کے لیے ہدایت
کسی شخص نے ذکر کای کہ فلاں دوست نماز پڑھانے کے وقت بہت لمبی سوریتن پڑھتے ہیں۔ فرمایا :
امام کو چاہیے کہ نماز میں ضعفاء کی رعایت رکھے
ایک انگریزی اخبار کا مضمون حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ محققین حیران ہیں کہ ان پہاڑوں سے یہ امید نہ تھی۔ فرمایا :
عقلمندوں کو کس طرح خدا حیران کرتا ہے۔ ان ملکوں میں آتش فشانی کی کبھی امید نہ تھی بلکہ یہ پہاڑ امن کا سلسلہ سمجھا جاتا تھا۔؎ٰ
۱۷؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
اس زمانہ کے مسلمانوں سے خطاب
فرمایا :
براہین احمدیہ میں ایک الہام یہ بھی درج ہے :
ام حسبتم ان اصحب الکھف والرقیم کانو امن ایا تنا عجبا
اس میں اس زمانہ کے لوگوں کو کہا گیا ہے کہ تم اصحابِ کہف کے قصہ پر کای تعجب کرتے ہو وہ تو تین سو سال تک سوئے رہے تھے اور تم کو سوئے ہوئے تیرہ سو سال گذر گئے ہیں۔ اور اب بھی تم جاگنا نہیں چاہتے۔ اسی طرح غفلت میں سوئے ہوئے ہو اور کوئی جگانا چاہتا ہے تو اس کو بُرا کہتے ہو۔
دعا کا اثر مولوی عبد الکریم صاحب کی علالتِ طبع کا ذکر تھا۔ فرمایا :
میں بہت دعا کرتاہوں۔ دعا ایسی شئے ہے کہ جن امراض کو اطباء اور ڈاکٹر لا علاج کہہ دیتے ہیں۔ ان کا علاج بھی دعا کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔
پیشگوئیوں کا صحیح مفسر
فرمایا:
پیشگوئیوں کا صحیح مفسر خود زمانہ ہے۔ دیکھو اس زمانہ میں یاجوج ماجوج ، دجال، نزول مسیح وغیرہ کے متعلق تمام پیشگوئیاں صاف سمجھ میں آگئی ہیں۔
فرمایا :
رات کو ہم نے دیکھا کہ سخت زلزلہ آیا ہے۔ وہ زمانہ اصل میں قریب ہے۔ اچانک آئے گا۔ معلوم نہیں کہ کس وقت آجائے۔
خوابوں کے معاملات
ایک شخص کا خط آیا جس مین لکھاتھا کہ میں نے خواب میں مرزا صاحب کو اچھی صورت میں نہیں دیکھا۔ فرمایا کہ :
’’انسان کو اپنے اندرونی حالات کے نقشے دکھائے جاتے ہیں۔ اپنے ہی حجب درمیان میں آجاتے ہیں‘‘۔
حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ذکر کیا کہ ہمارے اتاد صاحب نے ایک شہر میں ایک دفعہ خواب میں اﷲ تعالیٰ کو ایک بد صورت عورت کی شکل میں دیکھا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سہر کے لوگوں نے میری ایسی بے عزتی کی ہے۔؎ٰ
۱۹؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
آتھم اور لیکھرام
فرمایا :
آتھم نے نرم دلی اختیار کی اس کے معاملہ میں تاخیر کی گئی۔ لیکھرام ن ے شوخی دکھائی اس کے معاملہ میں تقدیم کی گئی۔ یعنی مدت پیشگوئی ہنوز گذرنے نہ پائی تھی کہ وہ ہلاک ہو گیا۔ ۲؎
قبل نمازِ ظہر عاجز ۳؎ راقم سے دریافت کیا کہ آیا شیخ یعقوب علی صاحب اشتہار النداء کے
انطباع کے انتظام کے واسطے لاہور چلے گئے ہیں۔ فرمایا :
’’ہمارا جی چاہتا ہے کہ آپ بھی جائیں اور پرف کو بغور پڑ ھ کر درست کردیں‘‘۔
چنانچہ حسب الحکم یہ عاجز سام کو لاہور چلا گیا اور چار روز کے بعد واپس دارالامان حاضر ہوا۔ ؎ٰ
۲۴؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
وساوس کا علاج
ایک شخص نے عرض کی کہ میرا دل آجکل ایسا ہو رہا ہے کہ نماز میں لذت اور رقت پیدا نہیں ہوتی اور نہایت سخت تکلیف میں رہتا ہوں۔ خواہ مخواہ شبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں اگر چہ ان کو بہت رد کرتا ہوں تاہم وساوس پیچھا نہیں چھوڑتے۔
فرمایا :
یہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ انسان ایسے وساوس کا مغلوب نہیں ہوتا۔یہ بھی ثواب کی حالت ہے۔ نفس کی تین حالتیں ہیں۔ ایک تو نفس امارہ ہے۔ نفس امراہ والے کو تو خبر ہی نہیں کہ بدی کیا شئے ہے۔ دوسرا نفس لوالمہ ہے جو بدی کرتا ہے پر بدی پر ہمیشہ گھبراتا ہے اور شرمندہ ہوتاہے اور توبہ کرتا رہتا ہے۔ ایسا شخص نفس کا غلام نہیں ہے اور اس خالت میں ہونا ایک حدتک ضروری بھی ہے اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس میں بڑے بڑے ثواب ہیں یہانتک کہ اﷲ تعالیٰ خود بخود نور اور سکینت نازل کرتا ہے۔ خد اکی رخ؎حمت کا وقت آت اہے اوریک ٹھنڈ پڑ جاتی ہے ارو وہ بات ہوا ہو جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ تھک نہ جاوے۔ سجدہ میں
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
بہت پڑھا کرو۔لیکن یاد رکھو کہ جلد بازی خوفناک ہے۔ اسلام میں انسان کو بہادر بننبا چاہیے۔ برسوں کی محنت و مشقت کے بعدآخر شیطان کے حملے کمزور ہو جاتے ہیں اور وہ بھاگ جاتا ہے۔ ۲؎
۲۵؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
آئندہ آنیوالی آفات
اس الہام کا تذکرہ تھا کہ بونچال آیا اور شدید آیا۔ فرمایا کہ :
بار بار زلزلہ کے متعلق جو الہامات ہوتے ہین اور خوابیں آتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر کچھ ایسی تیاری ہو رہی ہے کہ یہ امر جلد ہونے والا ہے۔ بہت سی باتیں ہوتی ہیں کہ انسان ان کو دور سمجھتا ہے مگر خدا کے علم میں وہ بہت قریب ہوتی ہے۔
یرونہ بعیداونرہ قریبا (المعارج ۷،۸)
تم اسے دور دیکھتے ہو اور ہم قریب دیکھتے ہیں۔
بغتۃ آنیوالا عذاب
مرزا ظفر اﷲ خاں صاحب ای۔اے سی گورداسپور کے ایک رشتہ دار کا ایک خط بنام سید امری علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر تھا وہ پڑھا گیا۔ اس میں نہایت دردناک الفاظ میں زلزلہ سے گھر کے آدمیوں کی تباہی کا تذکرہ تھا اور لکھا تھا کہ میرے بیس رشتہ دار ایک دم میں فوت ہو گئے ہیں۔ جن میں عزیز بھائی اور پیاری بیوی بھی شامل تھی۔ حضرت نے فرمایا :
ابھی آگے آنیوالا اس سے بھی سخت نظر آتا ہے مگر لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ابھی تک ہنسی ٹھٹھے سے باز نہیں آتے۔ خدا کا دن اچانیک آنے اوالا ہے۔
مولوی نور الدین صاحب نے عرض کی کہ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ چور کی طرح آئے گا۔
فرمایا کہ:
ٹھیک ہے مگر چور کا لفظ کچھ زیب نہیں دیتا۔ قرآن شریف میںبہت مناسب لفظ ہے کہ بغتۃ یعنی اچانک آئے گا پہلے کچھ خبر نہ ہوئی۔
فرمایا :
شاید اس میں کچھ دیر ہو جائے تا کہ لوگ پوری طرح شوخیان کر لیں اور اپنے واسطے عذاب کے سامان اچھی طرح جمع کر لیں پھر اچانک یہ آفت اُن پر پڑے گی۔؎ٰ
۲۸؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
(بعد نماز جمعہ)
باہمی ہمندردی اور اخوت کی تلقین
اعلیٰ حضرت حتۃ اﷲ مسیح موعود ؑ نے مند رجہ ذیل تقریر باہم ہمدردی ارو حقوقِ اخوت پر فرمائی :
میں صرف اس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری اس جماعت کو ایک قسم کا دھوکا لگا ہاو ہے۔ شاید اچھی طرح میری باتوں پر غور نہیں کی اور وہ غلطی اور دھوکا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہماری جماعت میں سے طاعون سے فوت ہو جاوے تو اس قدر بے رحمی اور سرومہری سے پیش آتے ہیں کہ جنازہ اُٹھانے والا بھی نہیں ملتا۔ درحقیقت جیسا کہ قاضی امری حسین صاحب نے لکھاہے یہ مصیبت تو ماتم سے بھی بڑھ کر ہے۔ یاد رکھو۔ تم میں اس وقت دواخوتیں جمع ہو چکی ہیں۔ ایک تو اسلامی اخوت اور دوسری اس سلسلہ کی اخوت ہے۔ پھر ان دو اخوتوں کے ہوتے ہوئے گریز اور سردمہری ہو تو یہ سخت قابل اعتراض امر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسے مسافر اپنے گھروں میں ہوتے تو وہ جو خارج از مذہب سمجھتے ہیں اور کافر کہتے ہیں اُن میں بھی اس قسم کی سرد مہری نہ ہوتی۔ لیکن یہ سرد مہری کیوں ہوتی ہے؟ دو باتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ افراط اور تفریط کا۔اگر افراط ارو تفریط کو چھوڑ کر اعتدال سے کام لیا جاوے تو ایسی شکایت پید انہ ہو۔ جبکہ
تواصو ابالحق (العصر : ۴)
اور
وتواصو ابالمر حمۃ (البلد : ۱۸)
کا حکم ہے تو پھر ایسے مردوں سے گریز کیوں کیا جاوے؟ اگر کسی کے مکان کو آگ لگ جاوے اور وہ پکار فریاد کرے تو جیسے یہ گناہ ہے کہ محض اس خیال سے کہ میں نہ جل جائوں اس مکان کو اور اس میں رہنے والوں کو جلنے دے اور جا کر آگ بجھانے میں مدد نہ دے ویسے ہی یہ بھی معصیت ہے کہ ایسی بے اختیاطی سے اس میں کود پڑے کہ خود جل جاوے۔ ایسے موقعہ پر احتیاط مناسب کے ساتھ ضروری ہے کہ آگ بجھانے میں اس کی مدد کرے۔
پس اس طریق پر یہاں بھی سلوک ہونا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ نے جابجا رحم کی تعلیم دی ہے۔ یہی اخوتِ اسلامی کا منشاء ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ تمام مسلمان مومن آپس میں بھائی ہیں۔ ایسی پصورت میں کہ تم میں اسلامی اخوت قائم ہو اور پھر اس سلسلہ میں ہونے کی وجہ سے دوسری اخوت بھی ساتھ ہو۔ یہ بڑی غلطی ہوگی کہ کوئی شخص مصیبت میں گرفتار ہو اور قضاو قدر سے اُسے ماتم پیش آجاوے تو دوسرا تجہیز و تکفین میں بھی اس کا شریک نہ ہو۔ ہرگز ہرگز اﷲ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ جنگ میں شہید ہوتے یا مجروح ہو جاتے تو میں یقین نہیں رکھتا کہ صحابہؓ انہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہوں یا پیغمبر ؐﷺ اس بات پر راضی ہو جاتے کہ وہ ان کو چھوڑ کر چلے جاویں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایسی وارداتوں کے وقت ہمدردی بھی ہو سکتی ہے اور احتیاط مناسب بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ اول تو کتاب اﷲ سے یہ مسئلہ ملت اہی نہیںکہ کوئی مرض لازمی طو رپر دوسرے کو لگ بھی جاتی ہے۔ ہاں جس قدر تجارب سے معلوم ہوت اہے اُس کے لیے بھی نص قرآنی سے احتیاط مناسب کا پتہ لگتا ہے۔ جہاں ایسا مرکز وبا کا ہو کہ وہ شدت سے پھیلی ہوئی ہو۔ وہاں احتیاط کرے۔لیکن اس کے بھی یہ معنے نہیںکہ ہمدردی ہی چھوڑدے۔ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ انسان ایک میت سے اس قدر بُِعد اختیارکرے کہ میت کی ذلت ہو اور پھر اس کے ساتھ ساری جماعت کی ذلت ہو۔ آئندہ خوب یاد رکھو کہ ہرگز اس بات کو نہیں کرنا چاہیے۔ جبکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں بھائی بنا دیا ہے تو پھر نفرت اور بُعد کیوں ہے؟ اگر وہ بھی مرے گا تو اس کی بھی کوئی خبر نہ لے گا اور اس طرح پر اخوت کے حقوق تلف ہو جائیں گے۔
خدا تعالیٰ نے دو ہی قسم کے حقوق رکھے ہیں حقوق اﷲ اور حقوق العباد۔ جو شخص حقوق العباد کی پروا نہیں کرتا وہ آخر حقوق اﷲ کو بھی چھوڑ دیتا ہے کیونکہ حقوق العباد کا لحاظ رکھنا یہ بھی تو امرِ الٰہی ہے جو حقوق اﷲ کے نیچے ہے۔
یہ خوب یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ پر توکل بھی کوئی چیز ہے۔ یہ مت سمجھو کہ تم نری پرہیزوں سے بچ سکتے ہو ۔ جبتک خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو اور انسان اپنے آپ کو کار آمد انسان نہ بنا لے اس وقت تک ال تعالیٰ اس کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ خواہ وہ ہزار بھاگتا پھرے۔ کیا وہ لوگ جو طاعونمیں مبتلا ہوتے ہیں وہ پرہیز نہیں کرتے؟ میں نے سنا ہے کہ لاہور میں نواب صاحب کے قریب ہی ایک انگریز رہتا تھا وہ مبتلا ہو گیا۔ حالانکہ یہ لوگ تو بڑے پرہیز کرنے والے ہوتے ہیں۔ نرا پرہیز کچھ چیز نہیں جبتک خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق نہ ہو۔ پس آئندہ کے لیے یاد رکھو کہ حقوق اخوت کو ہر گز نہ چھوڑو؛ ورنہ حقوق اﷲ بھی نہ رہیں گے۔ خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ طاعون کا سلسلہ جو مرکز پنجاب ہو گیا ہے کب تک جاری رہے لیکن مجھے یہی بتایا گیا ہے،
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیر و اما بانفسھم (الرعد : ۱۲)
اﷲ تعالیٰ کسی حالت میں قوم میں تبدیلی نہ کرے گا جبتک لوگ دل٭ں کی تبدیلی نہ کریں گے۔ ان باتوں کو سنکر یوں تو ہر شخص جواب دینے کو تیار ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتوں کو جو سمجھ لے وہی سعید ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا منشاء کچھ اور ہوت اہے۔ سمجھا کچھ اور جاتا ہے اور پھر اپنی عقل اور عمل کے پیمانہ سے اسے پایا جاتاہے۔ یہ ٹھیک نہیں۔ ہر چیز جب اپین مقررہ وزن سے کم استعمال کی جاوے تو وہ فائدہ نہیں ہوتا جو اس میں رکھا گیا ہے۔ مثلاً ایک دوائی جو تولہ کھانی چاہیے اگر تولہ کی بجائے ایک بوند استعمال کی جاوے تو اس سے کای فائدہ ہوگ ااور اگر روٹی کی بجائے کوئی ایک دانہ کھالے تو کیا وہ سیری کا باعث ہو سکے گا؟ اور پانی کے پیالے کی بجائے ایک قطرہ سیراب کر سکے گا؟ ہرگز نہیں۔ یہی حال اعمال کا ہے۔ جب تک وہ اپنے پیمانہ پر نہ ہوں وہ اوپر ہیں جاتے ہیں۔ یہ سنت اﷲ ہے جس کو ہم بدل نہیں سکتے۔ پس یہ بالکل خطا ہے کہ اسی ایک امر کو پلے باندھ لو کہ طاعون والے سے پرہیز کریں تو طاعون نہ ہوگا۔ پرہیز کرو جہانتک مناسب ہے لیکن اس پرہیز سے باہمی اخوت اور ہمدردی نہ اُٹھ جاوے اور اُس کے ساتھ ہی خد اتعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرو۔ یاد رکھو کہ مردہ کی تجہیز و تکفین میں مدد دینا اور اپنے بھائی کی ہمدردی کرنا صدقات خیرات کی طرح ہی ہے۔ یہ بھی ایک قسم کی خیرات ہے اور یہ حق حق العباد کا ہے جو فرض ہے۔ جیسے دخا تعالیٰ نے صوم و صلوٰۃ اپنے لیے فرض کیا ہے اسی طرح اس کو بھی فرض ٹھہرایا ہے کہ حقوق العباد کی حفاظت ہو۔ پس ہمارا کبھی یہ مطلب نہیں ہے کہ احتیاط کرتے کرتے اخوت ہی کو چھوڑ دیا جاوے۔ ایک شخص مسلمان ہو اور پھر سلسلہ میں داخل ہو اور اس کو یوں چھوڑ دیا جاوے جیسا کتے کو، یہ بری غلطی ہے۔ جس زندگی میں اخوت اور ہمدردی ہی نہ ہو وہ کیا زندگی ہے۔
پس ایسے موقعہ پر یاد رکھو کہ اگر کوئی ایس اواقعہ ہو جاوے تو ہمدردی کے حقوق فوت نہ ہونے پاویں۔ ہاں مناسب احتیاط بھی کرو۔ مثلاً ایک شخص طاعن زدہ کا لباس پہن لے یا اس کاپس خوردہ کھالے تو اندیشہ یہ کہ وہ مبتلا ہو جاوے۔ لیکن ہمدردی یہ نہیں بتاتی کہت م ایسا کرو۔ احتیاط کی رعایت رکھ کر اس کی خبر گیری کرو اور پھر جو زیادہ ہم رکھتا ہو وہ غسل کرکے صاف کپڑے بدل لے۔ جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے۔قرآن شریف فرماتا ہے۔
من قتل نفسا بغیر نفس او فساد (المائدہ : ۳۳)
یعنی جو شخص کسی نفس کو بلاوجہ قتل کر دیتا ہے وہ گویا ساری دنای کو قتل کرتا ہے۔ ایسا ہی میں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیںکی۔زندگی سے اس قدر پیار نہ کرو کہ ایمان ہی جاتا رہے۔ حقوق اخوت کو کبھی نہ چھوڑو وہ لوگ بھی تو گذرے ہیں جو دین کے لیے شہید ہوئے ہیں۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات پر راضی ہے کہ وہ بیمار ہو اور کوئی اسے پانی تک نہ دینے جاوے۔ خوفناک دہ بات ہوتی ہے جو تجربہ سے صحیح ثابت ہو۔ بعض ملاں ایسے ہیں جنہوںنے صدہا طاعون سے مرے ہویء مردوں کو غسل دیا ہے ارو انہیں کچھ نہیں ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے اسی لیے فرمایا ہے کہ یہ غلط ہے کہ ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ وبائی ایام میں اتنا لحاظ کرے کہ ابتدائی حالت ہو تو وہان سے نکل جاوے لیکن زوروشور ہو تو مت بھاگے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو کاہ تھا کہ تم ابوابِ متفرقہ سے داخل ہونا اس لحاظ سے کہ مبادا کوئی جاسوس سمجھ کر پکڑ نہ لے۔ احتیاط تو ہوئی لیکن قضاء وقدر کے معاملہ کو کوئی روک نہ سکا۔ وہ ابوابِ متفرکۃ سے داخل ہوئے لیکن پکڑے گئے۔ پس یاد رکھو کہ سارے فضل ایمان کے ساتھ ہیں۔ ایمان کو مضبوط کرو قطع حقوق معصیت ہے اور انسان کی زندگی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ ایسا پرہیز اور بُعد جو ظاہر ہوا ہے وہ عقل اور انصاف کی رو سے صحیح نہیں ہے۔ ایسے امور سے اپنے آپ کو بچائو جو تجربہ میں مضر ثابت ہوئے ہیں۔
یہ جماعت جس کو خدا تعالیٰ نمونہ بنانا چاہتا ہے اگر اس کا بھی یہی حال ہوا کہ ان میں اخوت اور ہمدردی نہ ہو تو بڑی خرابی ہوگی۔ میں دوسرا پہلو نہ بیان کرتا لیکن مجھے چونکہ سب سے ہمدردی ہے اس لیے اسے بھی میں نے بیان کرنا ضروری سمجھا یعنی جس کے ساتھ واقعہ ہو جاوے اس کے ساتھ بھی اور جو بچے ہوئے ہیں اُن کے ساتھ بھی۔
افسوس ہے میں خود نہیں آسکا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عصر کے بعد مجھے چکر آتا ہے۔ اور مجھے خبر تک نہیں ہوئی جبتک انہوں نے نہیں لکھا۔ بہرحال باہم ہمدردی ہو اور میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت سے اس طاعون کو اُٹھالے۔؎ٰآمین۔
گیارہ ماہ پہلے زلزلہ کی خبر
ذکر ؎ٰ آیا کہ ایک اخبار مین لکھ اہے کہ جو تشی نے پیشگوئی کی ہے کہ اب زلزلہ کا کوئی خوف نہیں۔ فرمایا:
ین اور بھی خوشی کی بات ہے۔ خدا نہیں چاہتا کہ اپنے غیب کی خبر میں دنیا داروں کو بھی شامل کرے۔ اب صاف ہو اجئے گا کہ جو تشی سچے ہیں یا خد اکا کلام صحیح ہے۔ اگر یہ جو تشی اور علم طبقات الارض کے ماہر انگریزی سے بڑی عداوت کی جو اس کے متعلق پہلے سے اطلاع دے کر ہزاروں جانوں کوا ور کروڑوں روپے کے مال کو تلف ہوین سے نہ بچالیا۔ کیونکہ انہوں نے چھ ماہ پہلے خبرو اطلاع نہ دی کہ ایسی مصیبت آنیوالی ہے۔ ہم نے تو گیارہ ماہ پہلے خبر دے دی تھی کہ ایسی آفت آنیوالی ہے۔ جس سے مکانات گر جائین گے اور مٹ جائیں گے اور وہ ایک زلزلہ کا دھکا ہوگا۔ اس میں لفظ بھی ایک تھا جس سے ظاہر ہوت اہے کہ پہلا دھکا ہی بہت تیز ہوین والا تھا؛ چنانچہ سب مکانات ایک دفعہ ہی گر گئے یہانتک کہ جو برانڈوں میںتھے وہ دوڑ کر باہر نہیں آسکے اور جو لیٹے ہوئے تھے وہ بیٹھ نہیں سکے اور جو بیٹھے ہوئے تھے اُن کو کھڑا ہونے کا وقت نہیں ملا۔ ۲؎
۲۹؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
ایک رؤیا
گذشتہ رات کو ۲ بجنے میں سات منٹ باقی تے جبکہ ہم نے یہ رؤیا دیکھا کہ زمین ہلتی ہے۔ پہلے ہم نے خیال کیا کہ شاید ویسے ہی کچھ حرکت ہوئی ہے، مگر پھر زور سے ایک دھکا لگا تب یقین ہوا کہ زلزلہ ہے۔
‏Amira 28-9-05
اور میں گھر کے آدمیوں کو جگاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اُٹھو زلزلہ آیا۔ مبارک کو بھی اُٹھالو۔ اور یہ بھی رؤیا میں کہتا ہوں کہ جو تشی کس قدر جھوٹے ہیں۔ پنڈت نے تو اخبار میں چھپایا تھا کہ اب زلزلہ نہیں آئے گا۔ اس کے بعد بیداری ہوئی۔
آج رات کی رؤیا کا ذکر تھا کہ سخت زلزلہ آیا اور گھر کے آدمیوں کو جگاتے ہیں ۔ فرمایا کہ :
آسمان پر ضرور کچھ تیاری معلوم ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ ظاہر پر یہ بات محمول ہواور ممکن ہے کہ اس سے مراد اور کوئی سخت آفت ہو۔ بعض دفعہ ویسے بھی زمینوں میں خسف ہو جاتا ہے۔ فرمایا :
اس میں مبارک کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ یہ امر ہمارے واسطے خیروبرکت کا موجب ہوگا۔ گودوسروں کے واسطے اس مین مصائب اور شدائد ہوں۔ میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اس واسطے ایک اور اشتہار لکھا جاوے۔ بار بار کے سمجھانے سے ممکن ہے کہ کوئی آدمی سمجھ جاوے۔
ذکر آیا کہ لدھیانہ میں ایک فحش گونے پھر گالیاں دینے پر کمر باندھی ہے۔ فرمایا کہ :
اب ایسے لوگوں سے اعراض ہی اچھا ہے۔ ہم کیا جواب دے سکتے ہیں۔ خدا خود ہی اب تو جواب دینے لگ پڑا ہے۔
نزولِ آفات کا سبب
ذکر ہوا کہایک شہر میں ایسا بگولہ آیا ہے کہ شہر کے ایک حصہ کو بالکل تباہ کر گیا ہے۔ اور دریائے بیاس کا پانی پہاڑ کے گرنے سے رک گیا ہے ارو خوف ہے کہ جب وہ یک دفعہ پھٹے گا تو بڑا سخت طوفان نازل ہوگا۔
فرمایا :
ہر طرف سے آفات کا سامنا ہے۔ چاروں عناصر انسان کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔کیونکہ اس نے خدا کی نافرمانی کی۔
فرمایا:
صرف باتوں سے کام پورا نہیں ہوتا۔ سنت اﷲ ہمیشہ یہی ہے کہ نشانات دکھائے جاتے ہیں۔ الہامات کے الفاظ میں بی استعارات ہوتے ہیں۔ زلزلہ سے مراد کبھی زلزلہ ہوتا ہے، کبھی آفتِ شدید۔
آج رات میں اس خیال میں سویا تھا کہ زلزلہ کا خواب اور الہامات ہوئے۔
فرمایا:
ایمان والے مانتے ہیں پر دوسرے لوگ ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں۔ پیسہ اخبار بہت ہی شوخی کرتا ہے اور لوگوں کو خدا کے نشانوں سے غافل کرنا چاہتا ہے اور ان کو تھپک تھپک کر سلاتا ہے۔؎ٰ
صدقہ و خیرات اور توبہ سے بلائیں دور ہو جاتی ہیں
۳۰؍اپریل ۱۹۰۵ء؁
آتھم کے متعلق کسی نے سوال کیا۔ فرمایا :
صدقہ و خیرات سے بلا دور ہو جاتی ہے۔ اگر صدقہ سے عذاب میں تاخیر نہیں ہو جاتی تو پھر سارے پیغمبر نعوذ باﷲ جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔ یونسؑ اور اس کی قوم کا قصہ پڑھو۔ آتھم تو آخر مر ہی گیا تھا مگر یونس کی قوم تو توبہ کرنے سے بالکل بچ گئی۔ اگر وہ باوجود اس قدر گیہ وزاری اور خاموشی کے مرجاتا تو پھر اس میں اور لیکھرام میں کیا فرق ہوتا؟ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ شوخ میں اور غیر شوخ میں فرق کر کے دکھادے۔؎ٰ
یکم مئی ۱۹۰۵ء؁
سچا مسلمان
ضلع مظفر گڑھ کا ایک عیسائی آپ کے ہاتھ پر توبہ کرکے مسلمان ہوا۔ اس کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
گذشتہ زندگی اور مذہب اور قوم کے طرز و طریق کے مطابق انسان میں بعض خصلتیں اور خواہشیں راسخ ہو جاتی ہیں اور بہت سے نفسانی فریب اندر ہی اندر پوشیدہ ہوتے ہینل۔ سچا مسلمان وہ ہے کہ سب گندوں کی گٹٹھریاں اپنے سر سے پھینک کر اور اپنے آپ کو پاک صاف کرکے خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری اختیار کرے۔ کوئی غرص نفسانی درمیان نہ رکھے۔ رازق اﷲ تعالیٰ ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ہندومسلمان ہوتے ہی کسی ملا سے ایک کاغذ لکھوالیتے ہیں اور ان کی ساری عمر بھیک مانگنے میں گذر جاتی ہے۔ ان کو معلوم بھی نہین ہوت اکہ اسلام کیا شئے ہے۔ مسلمان اس کوکہتے ہیں جو دنیا کے لوگوں سے منہ پھیر کر خدا کی طرف آجائے۔ مسلمان کو چاہیے کہ ایسا طریق اختیار کرے جس سے نفس کی ذلت نہ ہو۔ تھوڑے پر قناعت کرلے۔ اﷲ تعالیٰ کو راضی رکھے۔ راستی اور صراط مستقیم پر پکا رکھے؛ ورنہ اسلام میں آنا اس کے لیے مفید نہیں۔ ۲؎
۲؍مئی ۱۹۰۵ء؁
قبل نماز ظہر
ایک نئی روشنی کے نوجوان جو بمبئی سے کسی تقریب پر لا ہور آئے تھے اور وہاں سے حضرت اقدس کے شوق ملاقات میں قادیان تشریف لائے تھے۔ حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت ان کا حال دریافت کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا :
دین کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت
زمانہ میں بہت انقلاب ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر آج ک لوگوں کا یہ حال ہے کہ ایک طرف ایسے جھکے ہوئے ہیں کہ دوسری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور اپنے دنیوی کاموں میں یارسمی معاملات میں ایسے منہمک ہیں کہ دوسری جانب یا تو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے یا اس سے قطعاً نفرت رکھتے ہین۔ لیکن جو بات خد اکی طرف سے ہونے والی ہے وہ خواہ مخواہ ہو کر رہتی ہے۔ دیکھو ایک زور آور سیلاب جو آنیوالا ہوتا ہے اسکو کوئی کتنا ہی روکے بہر حال وہ آہی جاتا ہے اور کسی کے روکنے سے رُک نہیں سکتا۔
حضرت کے اس نوجوان سے دریافت کرنے پر کہ آپ کتنے روز ہمارے پاس قیام کریں گے انہوں نے عرض کی کہ مجھے کل واپس جانا ضروری ہے۔ اس پر فرمایا کہ :
آپ اخلاص کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔ آپ چند روز ٹھہرتے تو خوب ہوتا۔ مگر آپ کا وقت تنگ ہے۔ دوسرے پہلو کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔
کارِ دنیا کسے تمام نہ کرو
جیسا جیسا انسان کسی کام میں بڑھتا ہے ویسا ہی اس کام کے بڑھنے اور زیادہ ہونے کے بھی راہ کھلتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ دوسری طرف توجہ کرنے کے واسطے انسان کے پاس نہ وقت رہتا ہے اور نہ ہمت ۔ مگر رشید آدمی کے واسطے خدا تعالیٰ آپ ہی سامان مہیا کر دیت اہے اور اس کے دل کے اندر ہی ایک واعظ پیدا کر دیت اہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔
اذا اراد اﷲ خیر ایفقھہ فی الدین۔
جب اﷲ تعالیٰ کسی کے واسطے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے دین میں فہم عطا کرتا ہے۔ آجکل لوگوں کو انگریزی تعلیم نے فریفتہ کر رکھا ہے اور اکثر لوگ ایسے ہیں کہ ان کو دوسرے گھر کا ایمان ہی نہیں اور اگر کسی کو ہے تو ایس اکہ ہونا نہ ہونا برابر ہے مگر اس وقت اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اپنا چہرہ دکھلاوے۔مخلوق کی قسادت قلبی انتہاء تک پہنچ گئی ہے اور لوگوں نے نرمی سے فائدہ نہیں اُٹھا یا اس واسطے وہا ب قہری نشان بھی دکھانا چاہتا ہے۔ سعید ہیں وہ لوگ جو کبل ایسے نشانات کے واقع ہو جانے کے یامان لاویں ورنہ فرعون کی طرح آفت میں پڑ کر ایمان لانا مفید نہیں ہوتا۔ جو لوگ بعد میں ایمان لاتے ہیں وہ برگزیدہ پاک جماعت میں داخل نہین ہوسکتے۔ آپ کا ہمارے پاس آنا دو نتائج سے خالی نہیں۔ یا تو قبل از وقت آپ پر اثر پڑے یا بعد میں ئپ کو حسرت ہو۔
(نوجوان۔ خدا کرے دوسری بات نہ ہو)
جس سلطنت کے نیچے لوگ رہتے ہیں اس کا اثر مخلوق پر ضرور ہی ہوتا ہے۔ لوگ گر چہ بظاہر ایک مذہب رکھتے ہیں تا ہم ان کا سارا رُخ دنیا کی طرف ہے اور خدا کی طاقتوں پر ایمان نہیں ہے، لیکن اب وقت آگیا ہیکہ اﷲ تعالیٰ اپنی سنت قدیمہ کے مطابق پھر جلوہ دکھائے۔ یہ زمانہ نوح کے زمانہ سے بہت ملتا ہے۔ اس وکت بھی لوگ اکثر دہریہ تھے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
کنت کنزا مخفیا فاجلبت ان اعرف
میں ایک مخفی خزانہ تا۔ پھرمیں نے چاہا کہ پہچانا جائوں
صرف انگریری زبان میں کوئی کتنی ہی ترقی کرلے اس کا نتیجہ بجز دنیا کے اور کچھ نہیں ہے۔یوں دیکھ لینا چاہیے کہ جو بچے ایسے ہیں کہ انکے ماں باپ ہردو اہگریز ہیں ان کا انگریزی میں کمال ان کو دین کے لیے کیا فائدہ دے سکت اہے کیونکہ یہ زبان وہ نہیں جس کے ساتھ فخر کای جاسکے۔ معاش بیشک انسان پید اکرسکت اہے۔ مگر معاش تو ایک مزدور بھی ویسی ہی پیدا کرلیتا ہے بلکہ وہ مزدور اچھا ہے کیونکہ اس کے ساتھ وساوس نہیں ہیں،۔ ہمارا منشاء یہ نہیں کہ انگریزی نہ پڑھو ۔ خود ہماری جماعت میں بہت انگریزی خوان ہیں اور بی۔اے ‘ ایم۔اے تک تعلیم یافتہ ہیں اور معزز سرکاری عہدوں پر ملازم ہیں لیکن ہمارا منشا یہ ہے کہ اس سے نیک فائدہ اٹھائو اور اس کے برے فلسفہ سے بچو جو انسان کو دہریہ بنا دیتا ہے۔
ہر شئے میں ایک اثر ہتا ہے۔ چونکہ انگریزی زبان مین بہت سی کتابین اس قسم کی ہیں جو دہریت یا دہریت کی طرف جھکے ہوئے خیالات اپنے اندر رکھتی ہیں۔ اس واسطے بغیر کسی زبردست رشد اور فضل الٰہی کے ہر ایک شخص اس سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور لے لیت اہے۔ آجکل دنای کے لیے حد سے زیادہ زور لگایا جاتا ہے مگر معاش کے لیے سب درواز سے کھلے ہیں۔ افراط کا نتیجہ اچھا نہیں ہتوا۔ دنای میں بہت لوگ ایسے ہیں کہ وہ خدا پر ایمان رکھنے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔کلیا آخرت کے لیے وہ اس قدر محنت اور جان خراشی کرتے ہیں جس قدر کہ وہ دنیا کے لیے کر رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ اس طرف کا معاملہ بھی کبھی پڑے گا۔
نوجوان نے عرض کی کہ میں نے عربی بھی ساتھ ساتھ پڑھی ہے۔ حضرت نے فرمایا :
ہم تو صرف اتنے پر بھی خوش نہیں ہوسکتے۔ کیا ہزاروں مولوی ایسے نہیں ہیں جو بڑے بڑے علومِ عربیہ کی تحصیل کر چکے ہیں۔مگر پھر بھی وہ اس سلسلہ حقہ کی مخالفت کرتے ہین ار وہ علوم اُن کے واسطے اور بھی زیادہ حجاب کا موجب ہو رہے ہیں۔ ہزاروں مولوی ہیں جو بجز گالیاں دینے کے اور کچھ کام نہیں رکھتے ۔ بیشک معارف قرآنی کا ذخیرہ سب عربی مین ہے تاہم جب ایک مدت گذرجاتی ہے اور خدا کے ایک رسول کو بہت زمانہ گذر جات اہے تب لوگوں کے ہاتھ مین صرف الفاظ ہی رہ جاتے ہیں جن کے معانی اور معارف کسی پر نہیں کھل سکتے جبتک کہ اﷲ تعالیٰ ان کے واسطے کوئی چابی پیدا نہ کردے۔ جب خدا کی طر ف سے راہ کھلتا ہے تب کوئی منور قلب والا زندہ دل پید اکیا جاتا ہے۔ وہ صاحب حال ہوت اہے اس واسطے اسکی تفسیر درست ہوتی ہے۔ زندہ دل کے سوا کچھ نہیں۔ یہ باتیں سیدھی ہیں مگر افسوس ہے کہ ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔
(نوخوان:- جہالت ہے۔)
خدا کہت اہے کہ حضرت مسیحؑ فوت ہو گئے۔ حدیث نبویؐ سے بھی یہی ثابت ہیکہ فوت ہو گئے رسول اﷲ ﷺ نے اس کو مُردوں میں دیکھا۔ پھر بھی ہمارے مخالف مولوی انکار کئے چلے جاتے ہیں۔
(نوجوان:- جہالت اور بدقسمتی)
اﷲ تعالیٰ آپ کی اور ہماری ملاقات سے فائدہ دے۔؎ٰ
۶؍مئی ۱۹۰۵ء؁
قبل ظہر
اﷲ تعالیٰ سے چہرہ نمائی کے لیے دعا
فرمایا کہ :
ہم تو زلزلہ کے وقت آئے تھے کہ باغ میںثل کر دعا کرین۔ اب محض اس وجہ سے ٹھہرے ہوئے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے جو خبر دی ہے اس کے متعلق کچھ اور معلوم ہو جاوے کہ وہ قریب ہے یا دور۔ اگر معلو م ہوا کہ دور ہے تو پھرایک ماہ کے بعد واپس چلے جاویں گے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ زلزلہ ایسے وکت آئے گا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہوگی بلکہ لوگ ہماری تکذیب کر چکے ہوں گے کہ وہ پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ قرآن شریف سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے
فلما نسو اما ذکرو ابہ (الانعام : ۴۵)
یہ عادت اﷲ ہے کہ ایسے وقت عذاب آتا ہے جب لوگ اُسے بالکل بھول جاتے ہین۔ ایسا ہی ان الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ چھپ کر آئوں گا۔ گویا ہر شخص کا دل یقین کر لے گا کہ ہم نے جھوٹ بولا ہے بغتۃ کا یہی منشا ہے۔
طبقات الارض والے اور جو تشی سب مل ملا کر فیصلہ کر دیں کہ کوئی زلزلہ نہیںآئے گا۔ پھر خدا تعالیٰ کی وحی کی اور بھی عظمت ظاہر ہوگی۔ حقیقت میں اگر وہ بھی یہی رائے دیتے کہ زلزلہ آئے ا تو ہامری بات مشتبہ ہو جاتی اور کمزور سمجھی جاتی۔ لیکن اب تو ان لوگوں نے اقرار کر لای یہ کہ زلزلہ نہیں آئے گا۔
فرمایا :
اگر اب خد اتعالیٰ چپ رہے تو پھر دہریہ پن کے سوا کوئی اور مہب نہ ہوگا۔ اگر اس وقت اس کی ثہرہ نمائی کی ضرورت نہیں ہے تو پھر کب ہوگی۔ جیسے آنحصرت ﷺ نے بدر میں دعا کی تھی کہ اے اﷲ اگر تونے آج اس گروہ کو ہلاک کر دیا تو تیری کبھی عبادت نہ ہوگی۔ یہی دعا آج ہمارے دل سے بھی نکلتی ہے۔ پس یقینا یاد رکھو کہ اب اگر خد اتعالیٰ دستگیری نہ کرے تو سب ہلاک ہو جایں اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مدد اگر نہ ہوتو قطع یقین ہو جاتا ہے ۔ بچہ کو اگر دودھ نہ ملے تو وہ کب تک جئے گا۔ آخر سسک کر مر جائے گا۔
اسی طرح اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انقطاعِ امداد ہو تو انسان چونکہ کمزور اور ضعیف ے جیسا کہ فرمایا۔
خلق الانسان ضعیفا (نساء : ۲۹)
پس وہ بھی آخر روحانی طور پر مر جائے گا۔ اس کی طرف اشارہ کر کے براہین احمدیہ میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیرا پڑ جاتا۔ اصل یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائیدیں اور اس کے تازہ بتازہ نشان ظہار ہوتے ین تو ایمانی حالت درست اور مضبوط رہتی ہے ورنہ شیطانی علوم نے کچھ ایسا دخل کر لیا ہے کہ وہ دلوں سے قہری سیاست کے بغیر جو آسمان سے اُترتی ہے۔ نکل ہی نہیں سکتے ان کے لیے ایسی قہری ضرب چاہیے کہ شیطان چیخ کر نکل جاوے۔ اﷲ تعالیٰ رحیم ہے۔ پس وہ اپنے بندوں پر ان نشانوں کے ذریعہ فضل کر رہا ہے اور اُن کے ایمانوں کو طاقت دے رہا ہے۔
‏Amira 29-9-05
فرمایا:
۵ مئی؍کو میں نے ایک جامن کا پتہ توڑا۔ اس پر ہر جگہ غور سے دیکھا تو یہی لکھا ہوا پایا۔لالاہ الا اﷲ۔؎ٰ
۱۵؍مئی ۱۹۰۵ء؁
سلسلہ کا مستقبل فرمایا:
انبیاء کی زندگی وہی ہوتی ہے جو ابتلاء بھی ساتھ ہو ۔ چپ چاپ کی زندگی جو امن کے ساتھ کھاتے پیتے گذر جائے وہ عمدہ زندگی نہیں ہوتی۔ محنتوں اور مشقتوں کے عد سرٹیفیکیٹ ملا کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ جو خدا نے جاری کیا ہے۔ یہ اب ضرور اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا خواہ ہماری محنتوں سے یہ کام پورا ہو خواہ قضاء و قدر سے ایسے امور پیدا ہو جائیں جو اس کام کو پورا کر دیں۔
زلزلہ کے متعلق اشتہار شائع کرنے کا مقصد فرمایا:
ہم نے زلزلہ کے متعلق جو اشتہار شائع کیا ہے یہ مخلوق الٰہی کی خیر خواہی کے واسطے ہے اور اس کی مثال ایسے ہے جیسے کہ کسی کے گھر کو آگ لگے ارو کویء جا کر اسے اطلاع دے۔ ہر ایک خطرناک بت جو آئندہ ہونے والی ہوتی ہے جب اس سے کسی کو اطلاع دے جاوے تو ممکن ہے کہ اس کو تشویش ہو۔ مگر یہ اطلاع اس کی بہتری کے واسطے ہے تاکہ آئندہ تباہی سے وہ بچ جاوے۔
بہلول پور علاقہ لائل پور سے ایک خط پڑھا گیا جس میں لکھا تھا کہ ۱۱؍مئی کی رات کو یہاں ایسا زلزلہ آیا کہ پہیل ایسا سخت نہ آیا تھا۔ ذکر آیا کہ اس سے نجومیوں کی بات غلط ہوئی جنہوں نے کہا تھا کہ اب ان تاریخوں میں کوئی زلزلہ نہیں آئے گا۔
ابتلائوں کا مقصد
خدا کے بندوں پر ابتلاء کے آنے کا ذکر تھا۔ فرمایا :
ابتلائوں کا آنا ضروری ہے۔ بعض فتوحات کا مدار ابتلائوں پر ہوتا ہے۔ کسی کی گریہ وزاری بعض دفعہ راہ کھول دیتی ہے۔ مثنوی میں ایک قضہ لکھا ہے کہ ایک بزرگ کے پاس ایک دفعہ کھانے کو نہ تھا۔ وہ بزرگ اور اس کے ساتھ سب ھوکے تھے۔ اتنے مین ایک لڑکا حلہ بیچتا ہوا وہان سے آگذرا۔ اس بزرگ نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ اس سے حلوہ ثھیں لو۔ چنانچہ آدمیوں نے ایسا کیا اور وہ حلوہ بزرگ نے اور اس کے ساتھیوں نے کھالیا۔ وہ لڑکا بہت رویا۔ اور چلایا۔ آدمیوں نے سوال کیا کہ اس میں کیا حکمت تھی کہ بچہ کا حلوہ چھین لیا۔ فرمایا کہ یہی اس بچہ کی پونجی تھی۔ وہ بہت درد کے ساتھ رویا ہے اور اس کا رونا موجب کشائش اور فتوح کا ہوا ہے جو ہماری دعائیں نہیں ہوسکتی تھیں ؛ چنانچہ اس بچہ کو اس کے حق سے بہت زیادہ دے کر راضی کیا گیا۔
اسی طرح بعض ابتلاء صرف اس واسطے آتے ہیں کہ انسان اس تربہ کو جلد حاصل کرلے جو اُس کے واسطے مقدر ہے۔
ذکر تھا کہ ۱۴؍اپریل گذر گئی ہے جس کے واسطے انگریز نے پیشگوئی زلزلہ کی کی تھی۔ اب لوگوں کو تشفی ہو گئی ۔ فرمایا :
لوگ منخم پرست ہیں۔ خدا پرست نہیں ہیں
سبحان اﷲ کے معنی
ایک شخص نے اپنا خواب سنایا کہ میں سبحان اﷲ پڑھتا ہوں۔ فرمایا :
سبحان اﷲ کے یہ معنے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ خلاف وعدہ اور کذب اور دیگر تمام منقصتوں سے پاک ہے وہ اپنے وعدوں کو سچا کرتا اور پیشگوئیوں کو پورا کرتا ہے۔؎ٰ
۱۶؍مئی ۱۹۰۵ء؁
فرمایا:
سورہ اذا زلزلت الارض میں زلزلہ کے واسطے صاف پیشگوئی ہے کہ زمین پر سخت زلزلہ آئے گا۔ اور زمین اندر کی چیزیں باہر نکال پھینکے گی۔
پہاڑوں کی ساخت
فرمایا:
قرآن شریف میں آیا ہے کہ پہاڑ زمین کی میخیں ہیں۔ نادان اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے۔ اس زلزلہ نے اس اعتراض کو بھی صاف کیا ہے۔ ان آتش فشانیوں اور زلزلوں کا موجب یہ پہاڑ ہی ہوا کرتے ہیں۔ص جب پہاڑوں پر تباہی پڑتی ہے تو سب پر تباہی پڑتی ہے۔ پہاڑ امن یا بے امنی کا مرکز بنا ہوا ہے۔؎ٰ
۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء؁معالج کے لئے ہدایت
ایک ڈاکٹر صاحب کا ذکر آیا کہ انہوں نے ایک بیماری کو خوفناک بتایا تھا۔ بعد میں معلومہوا کہ وہ تندرست ہے۔ فرمایا :
یہ لوگ ایسی غلطیاں کھاتے ہیں۔ ہمارے مسلمان اطباء میں کیا عمدہ بات ہے کہ لکھا ہے کہ نبض دیکھنے سے پہلے طبیب یہ پڑھا کرے۔
سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم (البقرۃ : ۳۳)
تو پاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں سوا اس کے جو تونے ہم کو سکھایا تحقیق تو علم اور حکمت والا ہے۔ ۲؎
۲۴؍مئی ۱۹۰۵ء؁
ایک خادم نے عرض کی کہ مخالف حضور کی نسبت جھوٹی خبریں بیماری وغیرہ کی شائع کرتے رہتے ہیں اور ہمیں سناتے ہیں۔ فرمایا :
مخالفین خواہ مخواہ ایسی بات کرتے ہیں جس سے تم کو اشتعال پیدا ہو اور لڑائی ہو جائے۔ ایسے فتنوں سے بچنا چاہیے اور صبر کرنا چاہیے ۔ جو شخص کسی پر تہمت لگاتا ہے وہ مرتا نہیں جبتک کہ اس میں گرفتار نہ ہوجائے۔
ایک خادم نے عرص کی کہ تمام قسم کے دردوں کے واسطے عمدہ علاج ہے کہ بھرجی کیر یت ہو۔ اس پر الحمد لکھا جائے وغیرہ وغیرہ۔ فرمایا :
یہ توجہ کی ایک قسم ہے مگر یاد رکھو کہ دعا جیسی پاک صاف شرک سے خالی کوئی توجہ نہیں۔ دوسری قسم کی توجہوں میں انسان کا بھروسہ اشیء پر ہوت اہے۔ جب قبلہ حقیقی کی طرف توجہ نہ ہو تو پھر بے فائدہ ہے۔
فرمایا :
انگریزی میں سونے کو گولڑ کہتے ہیں جس کے لکھانے میں انگریزی حروف ج۔د۔ل استعمال ہوتے ہیں۔ یہ عربی لفظ دجال کا مقلوب ہے۔ عربی میں دجال سونے کو کہتے ہیں۔
اس زمانہ کی سہولتیں ہماری خادم ہیں
اس زمانہ کے عجائبات کا تذکرہ تھا کہ ریل تار ڈاک وغیرہ کس قدر سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ فرمایا :
اسی واسطے ہم کو الہام ہوا۔
الم نجعل لک سھو لۃ
کیا ہم نے تیرے ہر امر میں سہولت نہیں کردی۔حقیقت میں یہ اشیاء کسی کے لیے ایسی مفید نہیں ہوئیں جیسی کہ ہمارے واسطے ہوئی ہیں۔ ہامرا مقابلہ دین کا ہے اور ان اشیاء سے جو نفع ہم اُٹھاتے ہین وہ دائمی رہنے والا ہے۔ لوگ بھی چھاپے خانوں سے فائدے اٹھات ہیں لیکن اُن کے اغراض دنیوی اور ناپائدار ہیں۔ بر خلاف اس کے ہامرے معاملات دینی ہیں۔ اس واسطے یہ چھاپے خانے جو اس زمانہ کے عجائبات ہیں دراصل ہمارے ہی خادم ہیں۔
ایک الہام
فرمایا:
آج رات یہ وحی ہوئی
ارید ما تریدون
میں ارادہ کرتا ہوں جو تم ارادہ کرتے ہو۔ چونکہ ہمارے ارادے دوستوں کے واسطے مشترک ہیں جن کے لیے ہم دعائیں کرتے ہیں اس واسطے اس میں سب کے واسطے بشارت ہے۔ یہ وحی قبولیت دعا کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یعنی تمہارے ارادے کے موافق ہمارا ارادہ ہے۔
حضرت مولوی نور الدین صاحب نے عرض کی کہ یہ قرآن شریف کی اس وحی کے مطابق ہے کہ
ایناما تولو افثم وجہ اﷲ (البقرہ : ۱۱۶)
قبولیت دعا کے اوقات
شیخ رحمت اﷲ صاحب کو فرمایا کہ :
ہم آپ کے واسطے دعا کرتے ہین آپ بھی اس وقت دعا کیا کریں۔ ایک تو رات کے تین بجے تہجد کے واسطے خوب وقت ہوتا ہے۔ کوئی کیسا ہی ہو تین بجے اُٹھنے میں اس کے لیے ہرج نہیں۔ اور دوسرا جب اچھی طرح سورج چمک اُٹھے تو اس وکت ہم بیت الدعا مین بیٹھے ہیں۔ یہ دونوں وقت قبولیت کے ہیں۔ نماز میں تکلیف نہیں۔سادگی کے ساتھ اپنی زبان میں اﷲ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرے۔
صلوٰۃ ارو دعا میں فرق
فرمایا :
ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰۃ اور دعا میں کیا فرق ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ
الصلوٰۃ ھی الدعاء۔ الصلوٰۃ مخ العبادۃ
یعنی نماز ہی دعا ہے۔ نماز عبادت کا مغز ہے۔ جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لیے ہوتو اس کان نام صلوٰۃ نہیں، لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور ادب انکاسار تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ تب وہ صلوٰۃ میں ہوتا ہے۔اصل حقیقت دعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے۔ یہی دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اور انسنا کونا معقول باتوں سے ہٹاتی ہے۔اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الٰہی کو حاصل کرے۔ اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دعا کرے۔ یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہیکہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں حارج ہو جاتے ہیں۔ خاص کر خامی اور کج پنے کے زمانہ میں یہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں۔ صلوٰۃ کا لفظ پر سوز معنے پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے۔ ویسی ہی گدازش دعا میں پیدا ہونی چاہیے جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اس کانام صلوٰۃ ہوتا ہے۔
نماز میں وساوس کی وجہ
ایک شخص نے سوال کیاکہ مجھے نماز میں وساوس اور ادھر اُدھر کے خیالات بہت پیدا ہوتے ہیں۔ فرمایا :
اس کی اصل جڑ امن اور غفلت ہے۔ جب انسان خدا تعالیٰ کے عذاب سے غافل ہو کر امن میں ہو جاتا ہے تب وساوس ہوتے ہیں۔دیکھو زلزلے کے وقت اور کشتی میں بیٹھ کر جب کشتی خوفناک مقام پر پہنچتی ہے۔ سب اﷲ اﷲ کرتے ہیں اور کسی کے دل میں وساوس پیدا نہیں ہوتے۔
مخالفین کا وجود بھی ضروری ہے
ذکر آیا کہ بعض جگہ مخالفین ہماری جماعت کے لوگوں کو بہت دکھ دیتے ہیں اور بڑی بڑی ایذارسانی کرتے ہیں۔فرمایا :
خدا تعالیٰ کے آگے کسی کا نابود کرنا مشکل نہیں۔ لیکن جس کی طاقتیں بڑی ہوتی ہیں اس کا حوصلہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ لیکن ایسے آدمیوں کا وجود بھی ضروری ہے۔ اعداء کا وجود انبیاء کے واسطے بہت مفید ہوتا ہے۔ قرآنشریھ کے جو تیس سیپارے ہیں۔ اس کے اکثر حصہ کے نزول کا سبب اعداء ہی ہوئے۔ اگر سب ابو بکرؓ کی طرح امنّا و صدقنا کہنے والے ہوتے تو چند آیتوں پر سلسلہ ختم ہو جاتا۔ درخت کے واسطے جیسے صاف پانی کی ضرورت ہے ویسے ہی کچھ کھاد کے لیے گند کی بھی ضرورت ہے۔ بہت سی آسمانی سرگرمی انہی لوگوں کی شرارتوں پر منحصر ہے۔ کوئی بھی نہیں جس کے اعداء نہیں ہوئے۔ نبی کے نفس کے واسطے یہ امر بہتر ہے کیونکہ اس طرح اس کی توجہ بڑھتی ہے اور معجزات تائید و نصرت زیادہ ہوتے ہیں اور جماعت کے واسطے بھی مفید ہے کہ وہ پکے ہو جاتے ہیں۔ خدا کو دیر نہیں لگتی کہ لاکھوں کروڑوں کو ایک آن میں تباہ کر دے لیکن ضرورت کے سبب مخالفین کا وجود قائم رکھا جاتا ہے۔ جس شہر میں خاموشی سی ہو اس جگہ بجماعت ترقی نہیں پکڑتی۔ خدا کی حکمتوں کو ہر ایک شخص نہیں پہچان سکتا۔؎ٰ
‏Amira 1-10-05
۲۶؍میء ۱۹۰۵ی؁
چند الہامات اور ایک رؤیا
فرمایا:
گھر میں طبیعت علیل تھی۔ بہت سر درد۔ بخار اور کھانسی بھی تھی۔ لوگوں کے لیے ابتلاء کا خوف ہوتا ہے۔ میں نے رات بہت دعا کی۔ (شیخ رحمت اﷲ صاحب کو مخاطب کرکے) آپ کے لیے بھی دعا کی تھی۔ پہلے تو ایک مشتبہ سا الہام ہوا۔ معلوم نہیں کس کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے : (۱)شر الذین انعمت علیہم (ترجمہ) شرارت ان لوگوں کی جن پر تو نے انعام کیا (۲) میں اُن کو سزا دوں گا (۳) میں اس عورت کو سزادوں گا۔ معلوم نہیں یہ کس کے متعلق ہے۔ اس کے بعد گھر والون کے متعلق یہ الہام ہوا۔
رد الیھا روحھا وریحانہا۔ انی رددت الیہا روحھا وریحانہا
رؤیا :۔ اسی وقت جبکہ مذکورہ بالا الہام ہوا۔ دیکھا کہ کسی نیک ہا کہ آنویوالے زلزلہ کی یہ نشانی ہے۔ جب میں نے نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ اس ہمارے خیمہ کے سر پر سے جو باغ کے قریب نصب کیا ہوا ہے ایک ثیز گری ہے۔ خیمہ کی چواب کا اُوپر کا سرا وہ چیز ہے۔؎ٰ جب میں نے اُٹھایا تو وہ ایک لونگ ہے جو عورتوں کے ناک میں ڈالنے کا یاک زیور ہے۔ اور ایک کاغذ کے اندر لپٹا ہوا ہے۔ میرے دل میں خیال گذرا کہ یہ ہمارے ہی گھر کا مدت سے کھویا ہوا تھا اور اب ملا ہے اور زمین کی بلندی سے ملا ہے اور یہی نشانی زلزلہ کی ہے۔ ۲؎
آج کی تازہ وحی ردالیہا روحھا وریحانہا کا ذکر تھا۔ فرمایا :
اس میں بھی اﷲ تعالیٰ نے ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ تمام سمادی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی امر کے ضرور آئندہ روا ہو جانے کے متعلق کسی پیشگوئی کو ظاہر فرماتے وقت ماضی کا صیغہ استعمال کرتا مثلاً قرآن شریھ میں آیا ہے
تبت یداابی لھب وتب (الھب : ۲)
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور خود بھی ہلاک ہو گیا۔ یہ وحی الٰہی بطور پیشگوئی کے ایسے وقت میں نازل ہوئی تھی جبکہ ابو لہب چنگا بھلا پھرتا تھا۔ لیکن آسمان پر اس کے لیے ہلاکت کا حکم ہو چکا تھا۔ اس واسطے یہ بات ایسے طور پر بیان کی گئی کہ یہ کام ہو چکا ہے۔ پہلے ایک معاملہ آسمان پ رہو جاتا ہے اور پھر زمین پر اس کا ظہور ہوتا ہے۔ ایسا ہی ہمارا الہام عفت الدیار والا تھا یعنی مٹ گئے گھر۔ اگر چہ گیارہ ماہ پہلے یہ زلزلہ کی پیشگوئی تھی؛ تاہم چونکہ آسمان پر یہ فیصلہ ہو ثکا تھا کہ زلزلہ ضرور آئے گا اس واسطے اﷲ تعالیٰ نے فرمایاکہ مکانات عارضی اور مستقل سب گر گئے اور نشان مٹ گئے۔ جو لوگ مثلاً پیسہ اخبار کے نامہ نگار وغیرہ اعتراض کرتے ہیں وہ اس محاورہ سے ناواقف اور جاہل ہیں یا جان بوجھ کر تعصب کے ساتھ ضد کرتے ہیں؛ ورنہ یہ محاورہ سب زبانوں میں پایا جات اہے۔ آتھم کے متعلق جب ہم نے پیشگوئی کی تھی تو اس نے اسی مجلس میں کہا تھ کہ میں مر گیا۔ باوجود عیسائی ہوین کے وہ ادب کا بہت لحاظ رکھتا تھا اور یہی سبب تھا کہ وہ ڈرتا رہا اور میعاد کے اندر مرنے سے بچ گیا۔ ابو لہب کے متعلق صاف پیشگوئی مکہ میں کی گئی تھی کہ وہ ہلاک ہو گیا۔ حالنکہ وہ جنگ بدرؔ کے بعد طاعون سے مرا تھا۔
فرمایا :
روح دریحان سے مراد ہر قسم کی آسائش اور آسودگی ہوتی ہے۔؎ٰ
مبارک منہ کے مبارک الفاظ معناً
(مرقومہ شیخ عبد الرحیم صاحب)
بوقت ۹ بجے ۲؎ آپ باہر تشریف لائے۔ شیخ رحمت اﷲ صاحب نو وارد اور مولوی صاحبان اور دیگر احباب محفل موجود تھے۔ اِِدھر اُدھر کی باتوں میں ئپ نے فرمایا کہ :
ہم خدا کے مرسلین اور مامورین کبھی بزدل نہیں ہوا کرتے بلکہ سچے مومن بھی بزدل نہیں ہوتے بزدلی ایمان کی مزوری کی نشانی ہے۔ صحابہ رضی اﷲ عنہم پر مصیبتوں نے بار بار حملے کئیمر انہوں نے کبھی بزدلی نہیں دکھائی۔ خدا تعالیٰ اُن کی نسبت فرماتا ہے۔
منہم من قضی نحبہ ومنہم من ینتظر وما بدلو اتبدیلا (الاحزاب : ۲۴)
یعنی جس ایمان پر انہوں نے کمر ہمت باندھی تھی اس کو بعض نے تو نبھادیا اور بعض منتظر ہیں کہ کب موقعہ ملے اور سرخرو ہوں اور انہوں نے کبھی کم ہمتی اور بزدلی نہیں دکھائی۔
سب سے بڑھ کر راحت
دعا کے متعلق آپ نے فرمایا کہ :
اِدھر کی جاتی ہے اور اُدھر جواب ملتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا راحت ہو سکتی ہے اور یہی مابہ الامتیاز امر ہوتا ہے جو مامورین اور دوسروں میں رکھ دیا جاتا ہے۔
استجابت دعا کا ایک وقت ہوتا ہے
فرمایا :
شیخ صاحب میں آپ کے لیے پانچ وقت دعا کرتاہوں لیکن استجابت کا ایک وقت ہوتا ہے انسان کو بعض وقت ایک ہی سمت مقصود ہوتی ہے۔ مگر خدا تعالیٰ مومن کے لیے دنیا اور آخرت میں سنوار چاہتا ہے۔ اس لیے بعض وقت ابتلاء آجاتے ہیں جو بالآخر بابرکت ہوتے ہیں۔ بعض انسانی کمزوریوں کا علاج یہ مصائب ہوتے ہیں۔ انسان میں بیشک بعض کمزوریاں ایسی ہوتی ہیں جن کو یہ سمجھ نہیں سکتا۔ لیکن میری دعائیں ایسی ہوتی ہیں کہ محل قبولیت تک پہنچتی ہیں۔ وقت شرط ہے۔
پھر ایک طرف مخاطب ہو کر فرمایا :
میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں لیکن کل کے امر میں میں نے خیال کیا تو میں نے سمجھا کہ شاید یہی امور میری دعا کی استجابت میں مانع ہوں مگر آپ کے لکھنے پر مجھے اصل واقعہ کی حقیقت معلوم ہوئی ۔ دعا کی قبلیت میں تاخیر ڈالنے والے یا دعا کے ثمرات سے محروم کرنے والے بعض مکروہات ہوئے ہیں جن سے انسان کو بچنا لازم ہے۔
مصائب دنیا میں آکر آخرت میں موجب مدارج ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ثواب ملتا دیکھ کر بعض لوگ کہیں گے کہ کاش ہمارے وجود بھی قینچیوں سے کاٹے جاتے اور ہم بھی یہ معاوضے حاصل کرتے۔ سب سے بڑھ کر مصائب انبیاء پر آتے ہیں۔ ہمارے رسول ﷺ کو دیک لو زندگی میںکیاکای تکلیفیں اُٹھانی پڑیں۔ غرضیکہ گھبرانا نہیں چاہیے۔
اپنے الہامات پر یقین کامل
ہمیں زلزلے کے متعلق پورا اطمینان ہے۔
ما رمیت اذرمیت ولکن اﷲ رمی
ہمارے اشتہارات کے شائع ہونے کے بعد الہام ہوا ہے۔ جس سے خدا تعالیٰ کا ارادہ قطعی ثابت ہوتا ہے۔ ہم نے جو کچھ اخراجات ہزاروں تک خیمے وغیرہ منگواکرکئے ہیں۔ وہ دھوکے کی بنا پر نہیں کئے۔ ہمیں خد اکی باتوں پر ایمان ہے۔ تاریخ کا مقررنہ ہوان یا وقت کی کمی بیشی پیشگوئی کے ظاہر ہونے کی وقعت میں کچھ کمی نہیں ڈال سکتے۔ قرآن شریف
ان ادری اقریب ام بعید ما توعدون (الانبیاء : ۱۱۰)
(میں نہیں جانتا کہ عذاب کے نزول کا وقت قریب ہے یا بعید) صاف بتاتا ہے کہ ہر ایک عذاب کی مقررہ تاریخ نہیں بتائی جاتی۔؎ٰ
۲۷؍مئی ۱۹۰۵ء؁
ایک جلیل القدر الہام
عبد القادر رضی اﷲ عنہ۔ اری رضوانہ۔ اﷲ اکبر
پہلی وحی کے متعلق فرمایا کہ :
خدا اپنی کچھ قدرتیں میرے واسطے ظاہر کرنے والا ہے۔ اس واسطے میرا نام عبد القادر رکھا۔ رضوان کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ کوئی فعل دنیا میں خدا کی طرف سے ایسا ظاہر ہونے والا ہے جس سے ثابت ہو جائے اور دنیا پر روشن ہو جائے کہ خد امجھ پر راضی ہے۔ دنیا میں بھی ج ب بادشاہ کسی پر راضی ہوتا ہے، تو فعلی رنگ میں بھی اس کی رضا مندی کا کچھ اظہار ہوتا ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی رضا پر دلالت کرنے والے افعال دیکھتا ہوں۔ مومن کو اﷲ تعالیٰ کی رصا بہت پیاری ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ مومنین جب بہشت میں داخل کئے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ اب مانگو جو کچھ مانگنا چاہتے ہو تو وہ عرض کریں گے کہ اے رب تو ہم پر راضی ہو جا۔ جواب ملے گا۔ اگر میں راضی نہ ہوتا تو تم کو بہشت میں کس طرح داخل کرتا۔ ؎ٰ
۲۸؍مئی ۱۹۰۵ء؁
ایک رؤیا
شیخ رحمت اﷲ صاحب کی ایک گھڑی میرے پاس ہے اور ایک ایسی چیز جیسے ترازو کے دو پلڑے ہوتے ہیں مثل جھیوروں کی بہنگی کے ۔ میں ایک ڈولی میں بیٹھا ہوا ہوں۔ پھر کسی نے میاں شریف احمد کو اس میں بیٹھا دیا اور اس کو چکر دینا شروع کیا۔ اتنے میں گھڑی گر گئی اور اس جگہ قریب ہی گری ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کو تلاش کرو۔ ایسا نہ ہو کہ محمد حسین نالش کردے۔
فرمایا کہ :
خیال گذرتا ہے کہ شاید گھڑی سے مراد وہ ساعت ہے جو زلزلہ کی ساعت ہے جو معلوم نہیں۔ واﷲ اعلم۔ اور وہ رحمت کی ساعت ہے یعنی یہ ساعت ہمارے واسطے رحمت الٰہی کا موجب ہوگی۔ ۲؎
بلاتاریخ ۳؎
القول الطیب
خدمت والدین
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی والدہ یہان ئئی ہوئی ہیں۔ اُنہوں نے اپنی والدہ کی پیری اور ضعف کا اور اُن کی خدمت کا جو وہ کرتے ہیں ذکر کیا۔ حضرت نے فرمایا :۔
والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں۔ ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضن گذر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گذر گئے اور کے گناہ بخشے نہ گئے۔ والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم و غم والدین اُٹھاتے ہیں۔ جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے۔خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے، کیونکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دُکھ اُٹھاتی ہے۔ کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو۔ چیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو۔ ماں اس کو چھوڑ نہیں سکتی۔
ہماری لڑکی کو ایک دفعہ ہیضہ ہو گیا تھا ہمارے گھر سے اس کی تمام قے وغیرہ اپنے ہاتھ پر لیتی تھیں۔ماں سب تکالیف میں بچہ کی شریک ہوتی ہے۔ یہ طبعی محبت ہے۔ جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت مقابلہ نہیں کرسکتی۔ خدا تعالیٰ نے اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کیا ہے کہ
ان اﷲ یامر باعدل وازحسان و ایتای ذی القربی (النحل : ۹۱)
اخلاق کی انتہاء
ادنیٰ درجہ عدل کا ہوتا ہے۔ جتنا لے اتنا دے۔ اس سے ترقی کرے تو احسان کا درجہ ہے جتنا لے وہ بھی دے اور اس سے بڑھ کر بھی دے۔ پھر اس سے بڑھ کر ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اس طرح نیکی کرے جس طرح ماں بچہ کے ساتھ بغیر نیت کسی معاوضہ کے طبعی طور پر محبت کرتی ہے۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل اﷲ ترقی کر کے ایسی محبت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ انسان کا ظرف چھوٹا نہیں ۔ خدا کے فضل سے یہ باتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ بلکہ یہ وسعت اخلاق کے لوازمات میں سے ہے۔ میں تو قائل ہوں کہ اہل اﷲ یہانتک ترقی کرتے ہیں کہ مادری محبت کے اندازہ سے بھی بڑھ کر انسان کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔
ایک بڑھیا کا ذکر ہے کہ حضرت اب بکرؓ کی وفات کے روز بغیر اس کے کہ اس کو کسی نے خبر دی ہو خود بخود کہنے لگی کہ آج ابو بکرؓ مر گیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ تجھ کو کس طرح سے معلوم ہوا۔ اس نے کہا کہ ہر روز مجھ کو آپ حلوہ کھلایا کرتے تھے اور وہ وعدہ میں تخلّف کرنیوالے ہرگز نہ تھے چونکہ آج وہ حلوہ کھلانے نہیں آئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں ؛ ورنہ وہ ضرور مجھے حلوہ کھلانے آج بھی آتے۔ دیکھو۔ اخلاقی حالت کہں تک وسعت کر سکتی ہے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ ان اخلاق پر دوسرے لوگ قادر نہیں ہو سکتے۔ پیغمبر خدا ﷺ کے پاس ایک مجرم پکڑا ہوا آیا تو وہ آپ ہی رعب سے کانپتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تو کیوں اتنا ڈرتا ہے میں تو ایک بڑھیا کا بیٹا ہوں ۔معمولی انسانوں کے یہ اخلاق نہیں ہوتے۔ عرب کی قوم کئی پشتوںتک کینہ رکھنے والی تھی۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے جب اُن پر غلبہ پایا تو باوجود اس قدر دُکھوں کے جو اُن سے اٹھئے تھے سب کو معاف کر دیا۔ دنیوی حکومت رحم نہیں کر سکتی۔ انگریزوں نیباغیوں کو کس طرح پھانسی دیا اور قتل کیا تھا مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے سب باغیوں کو یکدفعہ معاف کر دیا۔ کسی نبی کو ایسی پوری کامیابی نہیں ہوئی جیسی کہ آنحضرت ﷺ کو ہوئی۔ حضرت موسیٰ ؑ اپنے وعدہ کی زمین تک نہ پہنچ سکے اور راستہ میں ہی فوت ہو گئے اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ اے موسیی تو اور تیرا خدا مل کر مخالفوں سے جاکر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ مگر آنحضرت ﷺ کے اصحاب نے کہا کہ ہم تیرے ساتھ چلیں گے؛ اگرچہ سمندر میں گریں اور قتل کئے جائیں۔
قاعدہ ہے کہ نبی کا پر تو اُمت پر بھی پڑتا ہے۔ جب اُستاد کامل ہوتا ہے ایسے ہی شاگرد بھی بنتے ہیں۔ جیسے حصرت نبی کریم ﷺ کی سجاعت، افعال و اعمال اور کامیابی کی نظیر نہیں ویسے ہی صحابہؓ کی بھی نظیر نہیں۔ صحابہؓ باوجود قلیل ہونے کے جدھر جاتے فتح پاتے صحابہؓ ایسے تھے جیسے کسی برتن کو دھوکر بالکل صاف ستھرا کر دیا جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی آلائش کا شائبہ نہیں رہتا۔ ان کی ایسی محنت اور اخلاص تھا تو خدا تعالیٰ نے پھر بدلہ بھی ایسا دیا۔ حضرت ابو بکرؓ کو آنحضرتؐ کا خلیفہ بنایا۔
شیعوں کی غلطی
اس جگہ شیعوں نے بڑی غلطی کھائی ہے کہ خلافت کا حق حصرت علیؓ کو تھا۔ بدقسمت نہیں دیکھتے کہ خدا تعالیٰ نے کیا فیصلہ کیا جو وقت وعدوں کے پورا ہوین کا تھا۔ اس وقت خدا نے ایک منافق اورا ہل بیت کے دشمن کو کیوں گدی پر بٹھا دیا۔ میں جانتا ہوں کہ اس قوم نے بھی عیسائیوں کی طرح ایک غلو کیا ہے اور اس غلو کا باعث اصلی نامرادی ہے جو ابتدا میں حاصل ہوئی۔ جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ یسوع کو ظاہری بادشہت حاصل ہوگی ان کو جب اس معاملہ میں نکامی حاصل ہوئی تو انہوں نے یسوع کی صفت میں غلو کر کے یسوع کو خدا ہی بنا دیا ایسا ہی قومِ شیعہ بھی حضرت علیؓ کو وہ درجہ دیتے ہیں جو خدا نے نہ چاہا کہ اُن کو دے۔ خدا تعالیٰ کا معاملہ ہر ایک کے ساتھ اس کے دل کی حالت کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر اُن کے پاس نور ایمان ہوتا تو ایسی بات نہ بلتے۔ کیا اس وقت خدا کمزور تھ اور وہ بدلہ لے نہ سکتا تھا یا خدا پالیسی باز تھا۔ حضرت ابو بکرؓ کو طاقتور دیکھ کر خاموش رہا۔؎ٰ
۳؍جون ۱۹۰۵ء؁
بچوں کی وفات پر صبر کی تلقین
عاجز ۲؎ راقم کی لڑکی سعیدہ بیگم بعمر تین سال آٹھ ماہ بعارضہ امّ اصل۳بیان فوت ہوئی۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بمعہ جماعت باغ میں جنازہ پڑھا اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا :
اولاد جو پہلے مرتی ہے وہ فرط ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے رسول کریم ﷺ سے عرض کی تھی کہ جس کی کوئی اولاد نہیں مرتی وہ کیا کرے گا؟ فرمایا میں اپنی اُمت کا فرط ہوں۔ فرمایا :
آپ صبر کریں۔ اﷲ تعالیٰ چاہے گا تو اس کے عوض میں لڑکا دے گا۔ صبر تو خواہ مخواہ ہی کرنا پڑتا ہے۔ لڑکیوں کے معاملات بھی مشکل ہوتے ہیں۔ الخیر فی ماوقع۔
‏Amira 4-10-05
انشاء اﷲ کہنے کا مقصد
فرمایا:
لفظ انشاء اﷲ تعالیٰ کہنے میں انسنا اپنی کمزوری کا اظہار کرتا ہیکہ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ کام کروں۔ لیکن خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو امید ہے کہ کر سکوں گا۔
ایمان کی جر نماز ہے
فرمایا:
جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بال جمع ہو جاتے ہیں ارو بارش کا وقت آجاتا ہے۔ ایسا ہی انسان کی دعائیں ایک حرارت ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے۔ نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے۔ جب انسان بندہ ہو کر لا پرواہی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی غنی ہے۔ ہر ایک اُمت اس وقت تک قائم رہتی ہے جبتک اس میں توجہ الی اﷲ قائم رہتی ہے۔ ایمان کی جڑ بھی نماز ہے۔ بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے۔ اے نادانو۱ خدا کو حاجب نہیں مگر تم کو تو حاجت ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری طرف توجہ کرے۔ خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہیں۔ نماز ہزاروں خطائوں کو دور کر دیتی ہے اور ذریعۂ حصولِ قرب الٰہی ہے۔
مسیح موعود کے دو بازو
فرمایا:
یہ اخبار (الحکم و بدر) ہمارے دو بازو ہیں۔ الہامات کو فوراً ملکوں میں شائع کرتے ہیں اور گواہ بنتے ہیں۔
روزہ اور نماز
فرمایا:
روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں۔ روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے۔ نماز سے ایک سوزوگداز پیدا ہوتا ہے۔ اس واسطے وہ افضل ہے۔ روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جو گیوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے لیکن روحاسنی گدازش جو دعائوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شامل نہیں۔؎ٰ
۱۱؍جون ۱۹۰۵ء؁
زلزلہ کی پیشگوئی کے متعلق بعض اعتراضات کے جوابات
فرمایا:
ایک شخص نے اعتراض کیا ہے کہ زلزلے کے واسطے جب تک تاریخ نہ ہو تب تک یہ پیشگوئی کچھ نہیں۔
فرمایا :
اس کا یہ جواب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ بغتۃ یعنی یہ واقعہ اچانک ہونیوالا ہے جبکہ کسی کو بھی خبر نہ ہوگی۔ اس واسطے اب تاریخ کا سوال بے فائدہ ہے اﷲ تعالیٰ اگر تاریخ بتلادے تو یہ امر پہلے الہام کے مخالف ہوگا۔
علاوہ اس کے خدا چاہتا ہے کہ نیکوں کو بچئے اور بدوں کو ہلاک کرے اگر وقت اور تاریخ بتلائی جائے تو ہر ایک شریر سے شریر اپنے واسطے بچائو کا سامن کر سکتا ہے۔ اگر وقت کے نہ بتلانے سے پیشگوئی قابل اعتراض ہو جاتی ہے، تو پھر تو قرآن شریف کی پیشگوئیوں کا بھی یہی حال ہے۔ وہاں بھی اس قسم کے لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ
متی ھذا الوعد (یونس : ۴۹)
یہ وعدہ کب پورا ہوگا۔ ہمیں وقت اور تاریخ بتلائو۔ مگر بت یہ ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں تعین نہیں ہوتا؛ ورنہ کافر بھی بھاگ کر بچ جائے۔
فرمایا:
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حوادث اور زلزلے تو آیا ہی کرتے ہیں پھر یہ پیشگوئی کیا ہوئی۔ قیامت تک زلزلہ اور حادثہ کوئی نہ کوئی آئے ہی گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں صریح الفاظ ہیں کہ یہ امر ہماری تائید میں اور ہماری زندگی میں ہونے والا ہے جس کو اس زمانہ کے وگ دیکھیں گے اور پھر تخصیص یہ ہے کہ یہ حادثہ ایسا سخت ہوگا جس کو نہ کسی نے پہلے دیکھا نہ سنا۔
فرمایا:
ایک اور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ
عفت الدیار محلھا ومقامھا
ایک کافر کا شعر ہے جو آپ کو الہام ہوا۔ تو پھر یہ معجزہ کس طرح ہوا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول ؔتو خود قرآنشریف کی آیات مثلاً
فتبارک اﷲ احسن اخالقین (المومنون : ۱۵)
قبل وحی قرآن کے دوسروں کے منہ پر یہ الفاظ جاری تھے؛ چنانچہ یہی بات اُن بدبختوں کے واسطے موجب ارتداد ہوئی۔ دومؔ یہ الفاظ جس شاعر کے ہیں وہ کافر نہ تھا بلکہ مسلمان ہو گیا تھا۔ سومؔ اصل بات یہ ہے کہ یہ الفاظ جبتک ایک شاعر کے شعر کے طور پر تھے تب تک اُن میں کوئی معجزہ نہ تھا۔ لیکن جب خدا نے اپنی وحی کے لیے اُن کو استعمال فرمایا تب یہ معجزہ بن گئے۔ پہلے تو یہ ایک گذشتہ قصہ تھا مگر اب کلام الٰہی اور ایک پیشگوئی اور معجزہ بن گیا۔
فرمایا:
کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں میں کچھ اشعار لکھ رہا تھا اور گھر سے قریب ہی سوئے ہوئے تھے کہ اچانک وہ اُٹھے اور ان کی زبان پریہ الفاظ جاری تھے ؎
صوفیا سب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ
ہم نے اس الاہمی مصرعہ کو بھی ان اشعار کے درمیان درج کر دیا ہے۔
تثلیث
کسی نے ذکر کای کہ عیسائیوں نے تثلیث پر چند نئے رسالے لکھے ہیں اور اب تثلیث کا نام ثالوث رکھا ہے۔ فرمایا :
یہ زمانہ ہی ان کے ثالوث کا فیصلہ کر جائے گا۔
تبرکات
کچھ تبرکات کا ذکر تھا۔ فرمایا :
تبرکات کا ہوان مسلمانوں کے آثار میں پایا جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے سر کے بال ایک شخص کو دیئے تھے۔ ہمیں الہام ہوا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔؎ٰ
۱۳؍جون ۱۹۰۵ء؁
صالح اولاد کی خواہش کرنا چاہیے
قاضی غلام حسین صاحب وٹرنری اسسٹنٹ حصار حاضر خدمت ہوئے۔ چند روز ہوئے قاضی صاحب کا لڑکا چنر روز کی عم پاکر فوت ہو چکا ہے۔ اس پر فرمایا :
جو بچہ مر جاتا ہے وہ فرط ہے۔ انسان کو عاقبت کے لیے بھی کچھ ذخیرہ چاہیے۔ میں لوگوں کی خواہش اولاد پر تعجب کیا کرتا ہوں۔ کون جانتا ہے اولاد کیسی ہوگی۔ اگر صالح ہو تو انسان کی دنیا میں کچھ فائدہ دے سکتی ہے اور پھر مستجاب الدعوات ہو تو عاقبت میں بی فائدہ دے سکتی ہے۔ اکثر لوگ تو سوچتے ہی نہیں کہ اُن کو اولاد کی خواہش کیوں ہے اور جو سوچتے ہیں وہ اپنی خواہش کو یہانتک محدو د رکھتے ہیں کہ ہمارے مال و دولت کا وارث ہو اور دنیا میں بڑا آدمی بن جائے۔ اولاد کی خواہش صرف اس نیت سے درست ہو سکتی ہے کہ کوئی ولد صالح پیدا ہو جو بند گانِ خدا میں سے ہو لیکن جو لوگ آپ ہی دنیا میں غرق ہوں وہ ایسی نیت کہاں سے پیدا کر سکتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ خدا فضل مانگتا رہے تو اﷲ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ نیت صحیح پیدا کرنی چاہیے؛ ورنہ اولاد ہی عبث ہے۔ دنیا میں ایک بے معنی رسم چلی آتی ہے کہ لوگ اولاد مانگتے ہیں اور پھر اولاد سے دُکھ اُٹھاتے ہیں۔ دیکھو حضرت نوحؑ کا لڑکا تھا۔ کس کام آیا۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان جو اس قدر مرادیں مد نظر رکھتا ہے اگر اس کی حالت اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہو تو خدا اس کی مرادوں و خود پوری کر دیتا ہے اور جو کام مرضیٔ الٰہی کے مطابق نہ ہوں ان میں انسان کو چاہیے کہ خود خد اکے ساتھ موافقت کرے۔
شافیٔ مطلق
ایک بیمار اور اس کے علاج کا ذکر تھا۔ فرمایا :
ہر ایک مرض اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مسلط ہوتا ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے۔ مرض ہٹ جاتا ہے۔
ایمانداری
ایک خمد کے متعلق فنڈ کا تذکرہ تھا۔ فرمایا :
خدا تعالیٰ سمیع و علیم ہے۔ اس سے دعا کرتے رہو۔ خدا تعالیٰ برکت دیگا۔ اس رمز کا سمجھنا ایمانداری ہے۔؎ٰ
۱۴؍جون ۱۹۰۵ء؁
خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں سب کچھ ہے
ایک شخص بیمار ملنے کے واسطے آیا۔ اس کے معالجہ کا ذکر تھا۔ فرمایا :
خدا تعالیٰ کے نزدیک کوئی بات انہونی نہیں ہے۔ میر صاحب کا لڑکا محمد اسحاق سخت بیار ہوا۔ ڈاکٹر نے مایوسی ظاہر کی ہم نے دعا کی۔ الہام ہوا :
سلام قولا من رب رحیم
پر خدا کا رحم ہے کوئی بھی اس سے ڈر نہیں۔دنیا سرائے فانی ہے اور معمولی موت فوت لگی ہوئی ہے۔ خدا اس کی پروا نہیں کرتا، لیکن جہاں کوئی پیچ پڑ جاتا ہے اور دین پر اعتراض وارد ہوتا ہے۔ وہاں تو خدا تعالیٰ اپنا قانون بھی بدل دیتا ہے اور معجزہ نمائی کرتا ہے۔ یوں تو مرنا کوئی حرج یادُکھ کی بات نہیں جن کو ہم کہتے ہیں کہ مر گیا ہے وہ دوسرے جہان میں چلا جاتا ہے۔ اور وہ جہان نیک آدمیوں کے لیے بہت عمدہ ہے مگر جہاں کوئی اعتراض دین کے لیے مزاحم ہوتا ہے وہاں خدا تعالیٰ عجائبات ظاہر کرتا ہے۔ دنیوی حکام بھی ایسا کرتے ہیں کہ کسی اہم ملکی ضرورت کے وقت قانون کی بھی پروا نہیں کرتے۔ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ اس نے دو گھر بنائے ہیں۔ اِدھے سے اُٹھا کر اُدھر آباد کر دیتا ہے۔
ھوالشافی
طب اور معالجات کا تذکرہ تھا۔ فرمایا:
یہ سب ظنی باتیں ہیں۔ علاج وہی ہے جو خدا تعالیٰ اندر ہی اندر کر دیتا ہے جو ڈاکٹر کہتا ہے کہ یہ علاج یقینی ہے وہ اپنے مرتبہ اور حیثیت سے آگے بڑھ کر قدم رکھتا ہے۔ بقراطؔ نے لکھا ہے کہ میرے پاس ایک دفعہ ایک بیمار آیا۔ میں نے بعد دیکھنے حالات کے حکم لگایا کہ یہ ایک ہفتہ کے بعد مرجائے گا۔ تیس سال کے بعد میں اس کو زندہ پایا۔
بعض ادویہ کو بعض طبئع کے ساتھ منسبت ہوتی ہے۔ اسی بیماری میں ایک کے واسطے ایک دوا مفید پڑتی ہے اور دوسرے کے واسطے ضرر رساں ہوتی ہے۔ جب بُرے دن ہوں تو مرض سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اگر مرض سمجھ میں آجائے تو پھر علاج نہیں سوجھتا۔ اسی واسطے مسلمان جب ان علوم کے وارث ہوئے تو اُنہوں نے ہر امر میں ایک بات برھائی۔ بنض دیکھنے کے وقت
سبحا نک لا علم لنا الا ما علمتنا (البقرۃ : ۳۳)
کہنا شروع کیا اور نسخہ لکھنے کے وقت ھوالشافی لکھنا شروع کیا۔
اسلام کی بے مثال تائید
حضرت کی خدمت میں مولوی محمد علی صاحب ایم-اے نے پالم پور کے ایک انگریز کا خط پڑھ کر سنایا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے اسلام کے ساتھ دل چسپی ہے اور آپ کے رسالہ میں جیسی اسلام کی تائید ہے ایسی میں نے کہیں نہیں دیکھی۔؎ٰ
۱۷؍جون ۱۹۰۵ء؁
کشفِ صحیح سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہو سکتی ہے
ذکر آیا کہ شاہ ولی اﷲ صاحب نے لکھا ہے کہ میں بھی تابعین میں سے ہوں کیونکہ ایک جن نے زمانہ نبی کریم ﷺ کا پایا تھا میں نے اس سے ملاقات کی۔ فرمایا :
اس سے بہتر کشفِ صحیح ہے جو بیداری کا حکم رکھتا ہے جو لوگ بذریعہ کشفِ صحیح آنحضرت ﷺ کی صُحبت حاصل کرتے ہیں وہ اصحاب میں سے ہیں۔۲؎
۲۶؍جون ۱۹۰۵ء؁
ہمارا دارومدار خدا تعالیٰ کے حکم پر ہے
ایک دوست ۳؎ نے تحریک کی کہ جاپان میں تہذیب کی بہت ترقی ہوئی ہے اور عیسائی لو گ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمام جاپانی عیسائی ہوجائیں۔ آریوں نے بھی لاہور میں جاپانی زبان سیکھنے کے واسطے ایک مدرسہ قائم کیا ہے اور جاپان میں کئی آدمی بھیجنے ہیں۔ اگر مناسب ہو تو سلسلۂ حقہ کی اس ملک میں اشاعت کے واسطے تجویز کی جائے۔ اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا :
ہر نبی اور رسول کا آخری زمانہ اس کے سلسلہ کی نصرت کا وقت ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانۂ نبوت کا پہلا بہت سا حصہ مصائب اور تکالیف میں گذرا تھا اور فتوحات اور نصرت کا زمانہ آپ کی عمر کا آخری حصہ ہی تھا۔ہم بھی اپنی عمر کا بہت سا حصہ طے کر چکے ہیں۔ اور زندگی کا کوئی اعتبر نہیں۔ اب خدا کے وعدوں کے پورا ہونے کے دن ہیں۔ ہماری حالت وہ ہے کہ عدالت میں مدت سے کسی کا مقدمہ پیش ہے اور اب فیصلہ کے دن قریب ہیں۔ہمیں مناسب نہیں کہ اور طرف توجہ کر کے اس فیصلہ میں گڑ بڑ ڈال دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب اس فیصلہ کو دیکھ لیں۔ اس مُلک میں جو جماعت تیار ہوئی ہے ابھی تک وہ بھی بہت کمزور ہے۔ بعص ذرا سے ابتلا سے ڈر جاتے ہیں اور لوگوں کے سامنے انکار کر دیتے ہیں اور پھر بعد میں ہم کو خط لکھتے ہیںک ہ ہمارا انکار دلی نہیں ہے۔ گو ایسے لوگ اس آیت کی ذیل میں آجاتے ہیں۔
من کفر بال من بعد ایمانہ الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان (النحل : ۱۰۷)
تا ہم جن کے دلوں میں حلاوتِ ایمانی پورے طور سے بیٹھ جائے وہ ایسا فعل نہیں کر سکتے۔ فیالحال موجودہ معاملات میں ہی توجہ اور دعا کی بہت ضرورت ہے اور ہم خدا پر بھروسا رکھتے ہیں کہ اب معاملہ دور ہو جانے والا نہیں۔ ایسے معاملات میں آریوں کے ساتھ ہماری کوئی مناسبت نہیں ہو سکتی۔ وہ قوم بڑھانا چاہتے ہیں اور ہم دنیا میں تقویٰ اور نیکی کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم آریوں کی نقل کرنا چاہیں تو ان کی پیروی ہمارے لیے منحوس ہوگی۔ اور ہم کو وحی کرنے والے گویا وہی ٹھہریں گے۔ اگر خدا تعالیٰ جاپانی قوم میں کسی تحریک کی ضرورت سمجھے گا تو خود ہم کو اطلاع دے گا۔ عام کے واسطے امور پیش آمدہ میں استخارہ ہوتا ہے اور ہمارے واسطے اتخارہ نہیں۔ جبتک پہلے سے خدا تعالیٰ کا منشاء نہ ہو ہم کسی امر کی طرف توجہ کر ہی نہیں سکتے۔ ہمارا دارومدار خدا تعالیٰ کے حکم پر ہے۔ انسان کی اپنی کی ہوئی بات میں اکثر ناکامی ہی حاصل ہوتی ہے۔ اگر خدا چاہے گا تو اس ملک میں طالب اسلام پیدا کردے گا جو خود ہماری طرف توجہ کرے گا۔ اب آخری زمانہ ہے۔ ہم فیصلہ سننے کے انتظار میں ہیں۔ ہاں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ میں اپنی جماعت کے سب لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ دن بہت نازک ہیں۔ خدا سے ہر اساں و ترساں رہو۔ ایسا نہ ہو کہ ا برباد ہو اجئے۔ اگر تم دوسرے لوگوں کی طرح بنوگے تو خدا تم میں او ان میں کچھ فرق نہ کرے گا۔ اور اگر تم خو د اپنے اندر نمایاں فرق پیدا نہ کروگے تو پھر خدا بھی تمہارے لیے کچھ فرق نہ رکھے گا۔ عمدہ انسان وہ ہے جو خدا کی مرضی کے مطابک چلے۔ ایسا انسان ایک بھی ہو تو اس کی خاطر ضرورت پڑنے پر خدا ساری دنیا کو بھی غرق کر دیتا ہے، لیکن اگر ظاہر کچھ اور ہو اور باطن کچھ اور تو ایسا انسان منافق ہے اور منافق کافر سے بدتر ہے۔ سب سے پہلے دلوں کی تطہیر کرو۔ مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے۔ ہم نہ تلوار سے جیت سکتے ہیں اور نہ کسی اورقوت سے۔ ہمارا ہتھیار صرف دع ہے اور دلوں ی پاکیزگی ۔ اگر ہم اپنے آپ کو درست نہ کریں گے تو ہم سب سے پہلے ہلاک ہوں گے۔ اگر خدا نہ چاہے تو جاپان میں کیا رکھا ہے؟ ہاں زبان سیکھنے میں کوئی حرج نہیں، داشتہ آید بکار۔ اگر ہمیں خدا کا حکم ہو تو بغیر زبان سیکھنے کے آج ہی چل پڑیں۔ ہم ایسے معاملات میں کسی کے مشورہ پر نہیںچل سکتے۔ خدا کے منشاء کے قدم بقدم چلنا ہمارا کام ہے۔؎ٰ
بدرؔ جلد ۱ نمبر ۱۳ صفحہ ۲ مورخہ ۲۹؍جون ۱۹۰۵ء؁
دعا کی طاقت
یکم جولائی ۱۹۰۵ء؁
کچھ بیماروں کا ذکر تھا۔ فرمایا :
میرا مذہب بیماریوں کے دعا کے ذریعہ سے شفا کے متعلق ایسا ہے کہ جتنا میرے دل میں ہے اتنا میں ظاہر نہیں کر سکتا۔ طبیب ایک حدتک چل کر ٹھہر جاتا ہے اور مایوس ہو جاتا ہے مگر اس کے آگے خدا دعا کے ذریعہ سے راہ کھول دیتا ہے۔ ۲؎ خدا شناسی اور خدا پر توکل اسی کا نام ہے کہ جو حدیں لوگوں نے مقرر کی ہوئی ہیں اُن سے آگے بڑھ کر رجا پیدا ہو ورنہ اس میں تو آدمی زندہ ہی مرجاتا ہے۔ اس جگہ سے اﷲ تعالیٰ کی شناخت شروع ہو جاتی ہے۔ مجھے ایسے معاملات میں مولوی رومیؔ کا یہ شعر بہت پسند آیا ہے ؎
اے کہ خواندی حکمت یونانیاں
حکمت ایمانیاں را ہم بخواں
عام لوگوں کے نزدیک جب کوئی معاملہ یاس کی حالت تک پہنچ جاتا ہے۔ تب خدا تعالیٰ اندر ہی اندر تصرفات شروع کرتا ہے اور معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔
دعا کے واسطے بہت لوگوں کے خطوط آتے ہیں۔ ہر ایک کے لیے جو دعا کے واسطے لکھاتا ہے دعا کرتا ہوں۔ لیکن اکثر لوگ دعا کی فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دعا کے ٹھیک ٹھکانہ پھر پہنچنے کے واسطے کس قدر توجہ اور محنت درکار ہے۔ ۳؎ اصل دعا کرنا ایک قسم کی موت کا اختیار کرنا ہوتا ہے۔
الحکم جلد ۹ نمبر ۲۴ صفحہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
۴؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
اس زمانہ کا سب سے بڑا فتنہ
عاجز ؎ٰ نے ایک اخبار ولایت کا پیش کیا جس میں عیسویت پر کچھ لے دے کی ہوئی تھی۔ فرمایا :
عیسائیت تو خود بخود مٹتی جاتی ہے لیکن بڑا فتنہ اس زمانہ کا دہریت والی سائنس ہے خدانخواستہ اگر اس کو دیر پا مہلت مل گئی تو پھر ساری دنیا دہریہ ہونے کو آمادہ ہو جائے گی۔ سائنس کا اور مذہب کا اس وقت مقابلہ ہے۔ عیسویت ایک کمزور مذہب ہے اس واسطے سائنس کے آگے فوراً گر گیا ہے لیکن اسلام طاقتور ہے۔ یہ اس پر غالب آئیگا۔ انشاء اﷲ تعالیٰ۔
بدر جلد ۱ نمبر ۱۴ صفحہ ۲ مورخہ ۶؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
۶؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
طبعی علوم سے خدا پہچانا نہیں جاسکتا
فرمایا:
جب خدا کے ساتھ انسان اپنا معاملہ درست کرتا ہے تو خدا اس پر نعمت وارد کرتا ہے ورنہ جھوٹے پر *** کی مار پڑتی ہے۔ جھوٹا فلسفہ اور طبعی علوم ہمیشہ سے چلے آتے ہیں مگر ان سے خدا نہیںپہچا جا سکتا۔
‏Amira 5-10-05
خدا تعالیٰ کی صفت خلق
ایک آریہ مخاطب تھا ۔ فرمایا :
خدا سب کا خالق ہے اور ہمیشہ سے خالق ہے۔ قرآن شریف سے بھی ثابت ہوتا ہے اور اسلام کا یہی مذہب ہے کہ ’’ لم یزل خالقا‘‘ مگر اس کا خلق ہمیشہ ایک قسم کا نہیں کہ ہم کہیں کہ انسان ہی پیدا ہوتے رہے یا بندر ہی پیدا ہوتے رہے بلکہ وہ ہمیشہ سے گوناگوں خلقت کا خالق ہے جس کا حد ہم نہیں پا سکتے۔ جس طرح خالق ازلی ہے اس کی پیدائش بھی ازلی ہے۔
آدم سے پہلے بھی مخلوق تھی
آریہ نے سوال کیا کہ اسلام کے مطابق تو دنیا آدم سے شروع ہوئی یعنی چھ ہزار سال سے۔ حضرت نے فرمایا :
یہ غلط ہے۔ اسلام اور قرآن شریف کا یہ مذہب نہیںکہ دنیا چھ ہزار سال سے ہے یہ تو عیسائی لوگوں کا عقیدہ ہے، مگر قرآن شریف میں تو خدا تعالیٰ نے آدم کے متعلق فرمایا ہے
انی جا عل فی الارض خلیفۃ (البقرۃ : ۳۱)
اب ظاہر ہے کہ خلیفہ اس کو کہتے ہیں کہ جو کسی کے پیچھے آوے اور اس کا جانشین ہو جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق تھی۔ آدم اس کا قائم مقام اور جانشین ہوا۔
آریوں کے عقائد کا رد
میں یہ نہیں قبول کر سکتا کہ انسان بار بار کتے۔ بلے اور سؤر بنتا رہتا ہے۔ نہ میں یہ قبول کر سکتا ہوں کہ کوئی انسان ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا۔ خدا رحیم و کریم ہے۔ میں اس خدا کو جانتا ہوں کہ جب انسان اس کے سامنے پاک دل کے ساتھ سچی صلح کے واسطے آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس پر رحم کرتا ہے۔ جو پوری قربانی دیتا ہے اور اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ خدا ضرور اُسے قبول کر لیتا ہے۔ بندر اور سوآر بننے کا عقیدہ تو انسان کی کمر توڑ دیتا ہے۔ مسلمان ہونے کے یہ معنے ہیں کہ انسنا اپنی تمام عقلی اور اعتقادی غلطیوں سے دست بردار ہو جائے۔
۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
ایک خواب کی تعبیر
مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنا ایک خواب عرض کیا کہ میرے کپڑے کو ایسا معلوم ہوا کہ گویا آگ لگ گئی ہے پانی ڈالا تو کپڑا بالکل صاف نکل آیا گویا ا س کو کچھ آنچ نہ پہنچی تھی۔ فقط۔ مولوی صاحب کے والد صاحب بیمار ہیں۔ حضرت نے فرمایا :
ان کی صحت کی طرف اشارہ ہے؎ٰ
۲۲؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
دعا کی حدود
خانصاحب ذوالفقار علی خاں کی زوجہ کلاں کی وفات کا ذکر آیا۔ عاجز ؎ٰکو حکم دیا کہ ہماری طرف سے اُن کو تعزیت نامہ لکھ دیںکہ۔
صبر کریں موت فوت کا سلسلہ دنیا میں لگا ہوا ہے۔ صبر کے ساتھ اجر ہے۔
فرمایا:
قبولیت دعا حق ہے لیکن دعا نے کبھی سلسلہ موت فوت کو بند نہیں کر دیا۔ تمام انبیاء کے زمانہ میں یہی حال ہوتا رہا ہے۔ وہ لوگ برے نادان ہیں جو اپنے ایمان کو اس شرط سے مشروط کرتے ہیں کہ ہماری دعا قبول ہو اور ہماری خواہش پوری ہو۔ ایسے لوگوں کے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے۔
ومن الناس من یعبد اﷲ علی حرف فان اصابہ خیر اطمان بہ۔ وان اصا بتہ فتنۃ ا نقلب علی وخھہ خسرالدنیا والاخرۃ ذالک ھوالخسران المبین (الحج : ۱۲)
بعض لوگ ایسے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت ایک کنارے پر کھڑے ہو کر کرتے ہیں۔ اگر اس کو بھلائی پہنچے تو اس کو اطمینان ہو جاتا ہے اور اگر کوئی فتنہ پہنچے تو منہ پھیر لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت کا نقصان ہے۔ اور یہ نقصان ظاہر ہے۔
فرمایا : صحابہؓکے درمیان بھی بیوی بچوں والے تھے اور سلسلہ بیماری اور موت فوت کا بھی ان کے درمیان جاری تھا۔ لیکن ان میں ہم کوئی ایسی شکایت نہیں سنتے جیسے کہ اس زمانہ کے بعض نادان شکایت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ دنیا کی محبت کو طلاق دے چکے تھے۔ وہ ہر وقت مرنے کے لیے تیار تھے تو پھر بیوی بچوں کی ان کو کیا پرواہ تھی۔ وہ ایسے امور کے واسطے کبھی دعائیں نہ کرواتے تھے اور اسی واسطے ان میں کبھی ایسے شکائتیں بھی نہ پیدا ہوتی تھیں۔ وہ دین کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کر چکے ہوئے تھے۔
بدر جلد ۱ نمبر ۱۶ صفحہ ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
۲۴؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
صبر کی تلقین
پشاور کے دو دوست پیش ہوئے۔ ان کے متعلق ذکر ہوا کہ مخالفین نے ان کو بہت ہی دُکھ دیا ہے۔ فرمایا :
صبر کرنا چاہیے۔ ایسے موقعہ پر صبر کرنے سے اﷲ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔
بدر جلد ۱ نمبر۱۶ صفحہ ۳ مورخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ء؁ ؎ٰ
حضرت خلیفۃ اﷲ علیہ السلام کی پُر دَرد بات
تمام ہم و غم دین کے لیے ہونا چاہیے
پرسوں ۲؎ میں نے ایک دوست کی نسبت عرض کیاکہ بعض ابتلائوں کا اندیشہ زیادہ ہو گیا ہے اور غم و ہم کے اُن کے دل پر غالب آنے کا خوف ہے۔ فرمایا :
میں نے دعا تو بہت کی ہے اور التزاماً لیکن مجھے بھی فکر رہتی ہے کہ ہر شخص دنیا کے غم و ہم میں گرفتار ہے۔ دین کے غم و ہم کا موقعہ انہیں کب ملے گا۔ اس زندگی میں مصائب کا آنا ضروری ہے اور انسان کی زندگی کے محدود اوقات میں کوئی نہ کوئی وقت کسی حادثہ اور رنج کا نشانہ ہوتا ہے۔ اگر اسی طرح ایک شخص کی روح دنیا کے بگڑے ہوئے معاملات کی فکر میں پیچ و تاب کھاتی رہے تو وہ وقت صافی اسے کب میسر آئے گا جبکہ اس کا سارا غم و ہم دین ہوگا۔ وہ جماعت جس نے بیعت میں اقرار کیا ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے وہ بھی اگر اسی دلدل میں دن رات پھنسے ہیں تو بتائیں وہ اس نازک عہد کے ایفاء کی طرف کب توجہ فائیں گے۔
فرمایا :
میں تو حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ جب سے مجھے ہوش ہے میں دنیا کے ہم و غم میں کبھی مبتلا نہیں ہوا۔
فرمایا :
جب میری عمر غالباً پندرہ برس کی ہوگی ایک کھتری سے میں نے کہا جو حضرت والد صاحب کے حضور میں بیٹھا ہوا اپنی تلخ کامیابیاں اور نامرادیان بیان کرتا اور سخت کُڑھ رہا تھا۔ میں نے کہا۔ لوگ دنیا کے لیے کیوں اس قدر دُکھ اُٹھاتے اور اس کے غم و ہم میں گرفتار ہیں۔ اس نے کہا تم ابھی بچہ ہو۔ جب گر ہستی ہوگے تب تمہیں ان باتوں کا پتہ لگے گا۔ فرمایاؔ۔ایک عرصہ کے بعد جب غالباً میری عمر چالیس کے قریب ہوگی کسی تقریب سے پھر اسی کھتری سے گفتگو کا اتفاق ہوا۔ میں نے کہا۔ اب بتائو اب تو میں گر ہستی ہوں۔ اس نے کہا ۔ تم تو ویسے ہی ہو۔
فرمایا :
ہر شخص اپنے دل میں جھانک کر دیکھے کہ دین و دنیا میں سے کس کا زیادہ غم اس کے دل پر غالب ہے۔ اگر ہر وقت دل کا رخ دنیا کے امور کی طرف رہتا ہے تو اُسے بہت فکر کرنی چاہیے۔ اس لیے کلماتِ الٰہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔
فرمایا:
کاش لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آجاتی کہ جس شخص کا تمام ہم و غم دین کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے دنیا کے ہم و غم کا اﷲ تعالیٰ متکفل و متولی ہو جاتا ہے۔ فرمایا:ؔ میں نے کبھی نہیں سنا اور نہ کوئی کتاب گواہی دیتی ہے کہ کبھی کوئی نبی بھوکا مرا ہو یا اس کی اولاد دروازوں پر بھیک مانگتی پھرتی ہو۔ہاں دنیا کے ملوک اور امراء اور اغنیاء کا یہ برا حال اکثر سناگیا ہے کہ اُن کی اولاد نے دربدر ٹکڑے مانگے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی سنتِ مستمرہ ہے کہ کبھی کوئی کامل مومن بستر نرم سے خاکستر گرم پر نہیں بیٹھا اور نہ اس کی اولاد کو روزِ بد دیکھنا نصیب ہوا۔ اگر لوگ ان باتوں پر پختہ ایمان لے آئیں اور سچا اور پاک بھروسہ اﷲ تعالیٰ پر کر لیں تو ہر قسم کی روحانی خود کشی اور دلی جلن سے رہائی پا جائیں۔
فرمایا :
اکثر لوگوں کو اولاد کی آرزو بھی اس خیال سے لگی رہتی ہے کہ کوئی اُن کی مردار دنیا کا وارث پیدا ہو جائے۔ نہیں جانتے کہ اگر وہ بدکار و ناہنجار نکے تو اُن کا کمایا ہوا روپیہ اور اندوختہ فسق و فجور میں ان کا معاون ہوگا اور انکی سیاہ کاریوں کا ثواب؎ٰ اُن کے نامۂ اعمال میں ثبت ہوتا رہے گا۔ فرمایا: اولاد کی آرزو کے لیے حضرت زکریا علیہ السلام کا سادل درکار ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا قرآن کریم میں اس کا ذکر کرنا اس لیے ہے کہ حضرت زکریاؑ کی دعا ولدِ صالح کے لیے مومنوں کے لیے ُسوہ ٹھہر جائے۔ فرمایا: زندگی نا قابل اعتبار ہے۔ فرصت بہت کم ہے۔ ہر ایک کو چاہے کہ دین کی فکر میں لگ جائے۔ اس سے بہتر نسخہ عمر بڑھانے اور برکت کا نہیں۔
بدر جلد ۱ نمبر ۱۷ صفحہ ۲ مورخہ ۲۷؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
۲۶؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
بوقت نماز فجر
اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا موقع
آج صبح تین بجے کے قریب زلزلہ کا سخت دھکا لگا۔ صبح کی نماز میں حضرت تشریف لائے۔ فرمایا:
کل میں دعاکر رہا تھا کہ ایسے لوگ شرارتوں میں بڑھ رہے ہیں اور غفلت نے اُن کے قلوب موٹے کر دیئے ہیں کہ اگر یونہی سکون و قرار رہا تو ان کا استہزاء ترقی کر جائے گا۔ اس سلسلہ کو جاری رہنا چاہیے۔ فرمایا:
اب ان مادہ پرست منکر ان قدرتِ الٰہی کا مقابلہ اﷲ تعالیٰ سے آپڑا ہے۔ یہ حکم لگاتے ہیں کہ کوئی آفت آنے والی نہیں۔ آخر میں فرمایا کہ :
ہماری جماعت کے لیے اب عمدہ وقت ہے کہ ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لیں۔ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ بھی اُن کے لیے تبدیلی کرے۔
فرمایا :
خدا تعالیٰ کا معاملہ انسان کے ساتھ اس کے گمان اور تبدیلی کے اندازہ پر ہوتا ہے سو خدا تعالیٰ پر نیک گمان رکھو اور دعا اور امید میں کبھی نہ تھکو اور نہ مایوس ہو۔
ایک الہام اور اس کی تشریح
کنت کنزامخفیا فاحببت ان اعرف
ترجمہ:۔ میں ایک مخفی خزانہ تھا۔ پھر میں نے چاہا کہ میں پہچانا جائوں
فرمایا :
یہ صفاتِ الٰہیہ کا ظہور ہے کسی زمانہ میں کوئی ایک صفت ظاہر ہوتی ہے اور کسی زمانہ پوشیدہ رہتی ہے جب ایک اصلاح کا زمانہ دور پڑ جاتا ہے اور لوگوں میں خدا شناسی نہیں رہتی تو اﷲ تعالیٰ پھر اپنی معرفت کو ظاہر کرنے کے واسطے ایک ایسا آدمی پیدا کرتا ہے۔ جس کے ذریعہ سے اس کی معرفت دنیا میں پھیلتی ہے لیکن جس زمانہ میں وہ مخھی ہوتا ہے اس زمانہ میں عابدوں کی عبادت اور زاہدوں کے زُہد بھی ادھورے اور نکمے رہ جاتے ہیں۔ یہ الہام براہین احمدیہ میں بھی درج ہے۔ لیکن اب پھر اس کے خاص ظہور کا وقت معلوم ہوتا ہے۔ اس واسطے دوبارہ یہ الہام ہوا ہے۔
باطنی عالمِ اسباب
فرمایا:
دعا اور توجہ میں ایک روحانی اثر ہے جس کو طبعی لوگ جو صرر رکھنے والے ہیں نہیں سمجھ سکتے۔ سنت اﷲ میں دقیق در دقیق اسباب کا ذخیرہ ہے جو دعا کے بعد اپنا کام کرتا ہے۔نیند کے واسطے طبعی اسبابرطوبات کے بیان کئے جاتے ہیں مگر بہت دفعہ آزمائش کی گئی ہے کہ بغیر رطوبات کے اسباب کے ایک نیند سی ٔجاتی ہے اور ایک حالت طاری ہوتی ہے جس میں سلسلہ الہامات کا وارد ہوتا ہے اور وہ بعض اوقات ایسا لمبا سلسلہ ہوتا ہے کہ انسان بار بار اپنے رب سے سوال کرتا ہے اور رب جواب دیتا ہے۔ ایسا ہی بعض مادی لوگوں نے چند ظاہر اسباب کو دیکھ کر فتویی لگالیا ہے کہ اب زلازل کا خاتمہ ہے اور دوسو سال تک یہاں کوئی زلزہ نہیں آئے گا۔ لیکنیہ لوگ دراصل اﷲ تعالیٰ کے باریک رازوں اور اسباب سے بے خبر ہیں۔ وہ ظاہر عالم اسباب کو جانتے ہیں لیکن اس کا ایک باطنی عالم اسباب بھی ہے ؎
فلسفی کو منکر حنانہ است
از حواس اولیاء بیگانہ است
اس جہان کے لوگ جب فتنہ و فساد کی کثرت کو دیکھ کر اس کی اصلاح سے عاجز آجاتے ہیں تب اﷲ اپنے خاص بندوں کو ایسے قویٰ عطا کرتے ہیں جن کی توجہ سے سب کام درست ہو جاتے ہیں۔ یہانتک کہ دعا کے ذریعہ سے عمریں بڑھ جاتی ہیں۔
انبیاء خلفت کی ہدایت کے واسطے بہت توجہ کرتے ہیں۔ اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ ہے کہ
لعلک باخع نفسق (الکھف : ۷)
آنحضرت ﷺ کو مخلوق کی ہدایت کا اس قدر غم تھا کہ قریب تھا کہ اسی میں اپنے آپ کو ہلاک کر دیں۔
ظاہر ی قیل و قال سے کچھ نہیں ہوتا۔ اندرونی صفائی اور روحانیت کی ضرورت ہے۔؎ٰ
۲۸؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
محترمہ فاطمہ زوجہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا ذکر خیر
حضرت مولوی نور الدین صاحب کی زوجہ کلاں جن کا نام فاطمہ تھا۔ بتاریخ ۲۸؍جولائی ۱۹۰۵ء؁ بروز جمعہ بعد نماز جمعہ اس دارِ فانی سے رحلت فرماگئیں…مرحومہ کو حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ سچا اخلاص اور ایمان تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ یہ مولوی صاحب کا احسان ہے کہ ہم نے خدا کے مسیح کو شناخت کر لیا۔لیکن اب تو میرے دل میں خدا کے رسول کی اس قدر محبت ہے کہ اگر کوئی بھی اس سے پھر جائے میں اس سے منہ نہیں پھیر سکتی۔
بعد از عصر مرحومہ کا جنازہ حضرت مسیح موعود ؑ نے بمعہ جماعت کثیر باہر میدان میں پڑھا۔ نماز جنازہ میں دعا کو بہت ہی لمبا کیا۔
قبل از عشاء حضرت مسیح موعود ؑ کی مجلس میں حضرت نے خود ہی مرحومہ کا ذکر کیا۔ فرمایا :
’’وہ ہمیشہ مجھے کہا کرتی تھیں کہ میرا جنازہ آپ پڑھائیں اور میں نے دل میں پختہ وعدہ کیا ہوا تھا کہ کیسا ہی بارش یا آندھی وغیرہ کا بھی وقت ہو میں ان کا جنازہ پڑھائوں گا۔ آج اﷲ تعالیٰ نے ایسا عمدہ موقعہ دیاکہ طبیعت بھی درست تھی اور وقت بھی صاف میسر آیا اور میں نے خود جنازہ پڑھایا‘‘۔
عاجز ۲؎ نے عرض کی ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ میری وفات جمعہ کے دن ہو۔ فرمایا:
’’ہاں وہ ایسا کہا کرتی تھیں۔ خدا تعالیٰ نے یہ خواہش بھی ان ی پوری کردی۔ چند روز ہوئے ابھی ہم باغ میں تھے کہ وہ ایک دن سخت بیمار ہو گئیں اور قریب موت کے حالت پہنچ گئی تو کہنے لگیں کہ آج تو منگل ہے اور ہنوز جمعہ دور ہے اور ابھی عبد الحی کی آمین بھی نہیں ہوئی۔ قدرت خدا اُس وقت طبیعت بحال ہو گئی اور پھر
خواہش کے مطابق عبد الحی کی آمین کی خوشی بھی دیکھی اور آخر جمعہ کا دن بھی پایا۔
فرمایا: یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک بزرگ کسی شہر میں بہت بیمار ہو گئے اور موت تک حالت پہنچ گئی تب اپنے ساتھیوں کو وصیت کی کہ مجھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔ دوست حیران ہوئے کہ یہ عابد زاہر آدمی ہیں۔ یہودیوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی کیوں خواہش کرتے ہیں شاید اس وقت حواس درست نہیں رہے۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ یہ آپ کیا فرماتے ہیں۔ بزرگ نے کہا کہ تم میرے فقرہ پر تعجب نہ کرو۔ میں ہوش سے بات کرتا ہوں اور اصل واقعہ یہ ہے کہ تیس سال سے میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے موت طوس کے شہر میں آوے پس اگر آج میں یہاں مر جائوں تو جس شخص کی تیس سال کی مانگی ہوئی دعا قبول نہیں ہوئی وہ مسلمان نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اس صورت میں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو کر اہل اسلام کو دھوکا دوں اور لوگ مجھے مسلمان جان کر میری قبر پر فاتحہ پڑھیں۔ قدرت خداوندی وہ اس وقت تندرست ہو گیا اور پھر دس پندرہ سال کے بعد شہر طوس میں بیمار ہو کر فوت ہو گیا۔
فرمایا:
مرحومہ نے اپنی عمر میں بہت شدائد اور مصائب اُٹھائے۔ کتنی اولاد مر گئی۔یہ مصائب جو قضا وقدر سے انسان پر پڑتے ہیں اس کی کمی پوری کر دیتے ہیں جو انسان سے اعمالِ حسنہ میں رہ جاتی ہے۔
جب حضرت کے ہاں صاحبزادہ میاں بشیر احمد تولد ہوئے تھے تو حصرت نے مرحومہ کو فرمایا تھا کہ یہ تمہارا بیٹا ہے۔اس واسطے بشیر احمد کے ساتھ مرحومہ کو خاص محبت تھی۔ صاحبزادہ بشیر احمد جنازہ کے ساتھ اور دفن کے وقت اس طرح موجود رہے کہ اُن کا چہرہ اس اندرونی محبت کو ظاہر کرتا تھا۔؎ٰ
۲۹؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
(قبل از عشاء)
دعائوں کی قبولیت کے لوازمات
بعد نماز مغرب حضرت حجۃ اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لے گئے اور عشاء کی نماز کی اذان ہوتے ہی تشریف لا کر شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے۔
‏Amira 10-10-05
شیخ مظہرالدین صاحب انسپکٹر پولیس پشاور چند روز سے اپنی محترمہ ہمشیرہ صاحبہ کو لے کر آئے ہوئے تھے۔ شیخ صاحب کی ہمشیرہ ایک صدمہ رسیدہ خاتون ہے اور متواتر موت کے صدموں نے انہیں سخت شکستہ خاطر بنادیا ہے۔ وہ اپنے معزز بھائی کے ہمراہ اس غرض سے دارالامن آئی ہوئی تھیں کہ حضرت اقدس سے دعا کرائیں تا کہ دردرسیدہ دل پر سکینت کا نزول ہو اور ئپ کی پراثر نصائح سے اطمینان خاطر ہو۔ حضرت مخدوم الملت نے حضرت حکیم الامت کے اشارہ سے شیخ صاحب کے لیے اجازت چاہی کہ وہ ایک ضروری کام اور تفکر کی وجہ سے جلد جانا چاہتے ہیں۔ فرمایا :
میں نے آپ کی ہمشیرہ صاحبہ کو بہت کچھ سمجھایا ہے اور اُن کے لیے دعا بھی کی ہے۔ اور وعدہ بھی کیا ہے کہ دعا کروں گا۔ ہاں اتنی بات ہے کہ آپ یاد دلاتے رہیں۔ مین نے اُن کو کہہ دیا تھا کہ مولویانہ وعظ و نصیحت سے آپ کے دل کو تسلی نہیں ہوگی۔ یہ تسلی تو خدا تعالیٰ کی ہی طرف سے آئے گی کیونکہ جس نے دل بنایا ہے وہ دل پر اثر ڈال سکتا ہے اور یہ سب کچھ دعائوں سے ہی ممکن ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ انہیں بہت فائدہ ہوا ہے۔
فرمایا : دعائوں میں جو روبخدا ہو کر توجہ کی جاوے تو پھر ان میں خارق عادت اثر ہوتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دعائوں میں قبولیت خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے اور دعائوں کے لیے بھی ایک وقت جیسے صبح کا ایک خاص وقت ہے اس وقت میں خصوصیت ہے وہ دوسرے اوقات میں نہیں۔ اسی طرح پر دعا کے لیے بھی بعض اوقات ہوتے ہیںجبکہ ان میں قبولیت اور اثر پیدا ہوتا ہے۔
فرمایا : عام انسان صدموں کو برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ انبیاء علیہم السلام ہی کے قلوب ہوتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے صدما تاور مشکلات کو برداشت کرتے ہیں اور ذرہ بھی نہیں گھبراتے۔
فرمایا : بعض مقام ایسے ہوتے ہیں کہ تقریر سے دل تسلی پکڑتا ہے۔ لیکن بعض مقام ایسے ہوتے ہیں کہ محض اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہی کام کرتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے کام میں صدہا مخفی اسرار ہوتے ہیں جن کو انسنا کبھی سمجھ لیتا ہے اور کبھی نہیں۔ انسان کو چونکہ آخرت کے ذخیرہ کی ضرورت ہے اور بعض اوقات انسان کے افعال ایسے نہیں ہوتے جو آخرت میں کام دیں اس لیے اﷲ تعالیٰ قضاء و قدر سے اس کا تدارک کر دیتا ہے۔ جس طرح پر انسان روزہ رکھتا ہے تو اس روزہ کے ساتھ سحری بھی ہے اور اس میں اس کو اجازت ہے کہ جو چاہے سو کھائے لیکن قضاء و قدر کا جو روزہ ے اس کے لیے کونسی سحری ہے؟
ایک الہام
فرمایا :
آج اﷲ تعالیٰ نے میرا ایک اور نام رکھ اہے جو پہلے کبھی سنا بھی نہیں۔ تھوڑی سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا۔
’’محمد مفلح‘‘
وَراء الوَراء اسباب
زلزلہ کے متعلق مختلف ذکر ہوتے رہے۔ فرمایا :
اموری کا پتہ رکھنا چاہیے تا کہ جب پیشگوئیپوری ہو تو اس کو بھی اشتہار بھیجا جاوے۔
فرمایا :
عام لوگوں کے علم یہیں تک محدود ہے کہ عام اسباب مادیہ کے ماتحت تحریکات ہوتی ہیں۔ لیکن اسی حدتک ختم کر دینا یہ سخت غلطی ہے۔ قضاو قدر کے اسباب بعض اوقات وراء الوراء ہوتے ہیں اور ان کا تعلق محض کن فیکون سے ہی ہوتا ہے جسے دوسرے لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے۔ اگر یہ اسباب اسی حدتک ہوتے جہانتک یہ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں تو پھر تو گویا خدائی ہی کو اپنے قبضہ میں لے آتے۔ پہلی اُمتوں پر جو جو عذاب آئے ہیں۔ اگر ان کے حکماء کو اُن کے اسباب کی خبر ہوتی تو وہ اُن کو بچا کیوں نہ لیتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسباب وراء الوراء رہتے ۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اس خارقِ عادت نشان سے بہت سے لوگ سیدھے ہو جائیں گے۔؎ٰ
۳۰؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
قبل از عشاء
مسیح موعود اور آپ کے مخالفین میں فرق
حسبِ معمول جب اعلیٰ حضرت قبل عشاء تشریف لائے تو سب سے اول لودھی ننگل کے متصل آئے ہوئے چار آدمیوں نے بیعت کی۔ بعد بیعت تذکرہ ہوا کہ موضع تیجہ متصل لودھی ننگل میں مولوی ثناء اﷲ امرتسری گیا تھا۔ وہاں اس نے مجمع عام میں اثنائے وعظ میں کہا کہ مرزا صاحب کے مرید لاالہ الا اﷲ مرزا غلام احمد رسول اﷲ۔ یہ کلمہ پڑھتے ہیں۔ اس پر ایک مخالف مگر انصاف پسند شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ مولوی صاحب اگر یہ کلمہ مرزا صاحب کی کسی نصنیف سے نکال دیں تومیں پانچسو روپیہ ابھی آپ کو نقد انعام دیتا ہوں۔ یہ تحدی سنکر مولوی صاحب چکرائے اور اکثر لوگ بیزار ہو کر حلقۂ وعظ سے اُٹھ گئے مولوی صاحب اپنا سا منہ لے کر واپس آئے۔
حضرت حجۃ اﷲ مسیح موعود ؑ نے فرمایا :
ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑکو لا کر امت بناتے ہیں اور ہم اُمت کو مسیح بناتے ہیں۔ ۲؎
بلاتاریخ
صحیح علم کی ضرورت اور اس کے حصول کا ذریعہ
قوت ذوق شوقِ علم سے پیدا ہوتی ہے۔ جبتک علم اور معرفت نہ ہو کیا ہو سکتا ہے۔
رب زدنی علما (طہ : ۱۱۵)
کی دعا میں یہ بھی ایک سر ہے کیونکہ جس قدر آپ کا علم وسیع ہوتا گیا اسی قدر آپ کی معرفت اور آپ کا ذوق شوق ترقی کرتا گیا۔ پس اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ محبت میں اسے ذوق شوق پیدا ہو تو اس کو اﷲ تعالیٰ کی نسبت صحیح علم حاصل کرنا چاہیے اور یہ علم کبھی حاصل نہیں ہوتا جبتک انسان صادق کی صحبت میں نہ رہے اور اﷲ تعالیٰ کی تازہ بہ تازہ تجلیات کا ظہور مشاہدہ نہ کرے۔
کامل وفاداری کی ضرورت
اﷲ تعالیٰ کے ساتھ صحیح اور سچا تعلق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان پورا وفادار اور مخلص ہو۔ جو شخص وفادار نہیں اگر وہ ہر روز اس قدر روتا رہے کہ اس کے آنسوئوں کا چھپڑ؎ٰ لگ جاوے تو بھی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی قدر نہیں ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمہارا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل وفاداری کا نمونہ ہو۔
موت کا واعظ
انسان کی عجیب حالت ہے کہ اگر کہیں سانپ نکلے تو اس سے دہشت کھاتا ہے اور جس اندر کی بابت اُسے گمان ہو کہ یہاں سانپ ہے وہاں جاتے ہوئے ڈرتا ہے۔ لیکن ہزاروں تجارب موت فوت کے اس کے سامنے ہیں اور پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتا؛ ورنہ ایک موت ہی کا واعظ اس کی اصلاخ کے لیے کافی تھا۔
جھوٹے قصوں پر ایمان کا نتیجہ
جھوٹے قصوں سے جھوٹا بھروسہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر اصلیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ جیسے کیمیا کی وہمی باتوں کے بھروسہ میں انسان اگلی دولت بھی کھو بیٹھتا ہے۔ جھوٹے خیالات اور خیالی قصوں کا بھی اثر ایمان پر ہوتا ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو جو اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے چھوڑتے ہیں وہ آخر اسی مرض میں گرفتار ہو کر اپانا یمان ضائع کر لیتے ہیں۔ قرآن شریف میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو انسان کو دھوکا دے۔
اصل میں انسان کے ایمان کی تازگی اسی وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اﷲ تعالیٰ ہی پر ایمان لاتا ہے اسی وقت اس کے گناہ دور ہونے لگتے ہیں۔ حقیقی ایمان جب تک پیدا نہیں ہوتا گناہ کی زہر سے انسان بچ نہیں سکتا۔ میرے نزدیک ایمان کی شناخت کا یہی پڑا معیار ہے اور ہر شخص اپنے ایمان کو اس پر آزما سکتا ہے۔ اس لیے دلیل ظاہر ہے کہ جو لوگ سم الفار کو زہر سمجھے ہیں وہ اُسے نہیں کھاتے، اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کو کھا کر ہلاک ہو جائیں گے۔ اسی طرح پر گناہ بھی ایک زہر یلا پھل ہے جسے کھاتے ہی انسان مر جاتا ہے۔ لیکن اگر اﷲ تعالیٰ پر ایمان ہو تو انسان اس پھر کے نزدیک جانے سے ڈرتا ہے۔ اس پر اس کی ہلاکت کی تاثیروں کا دروازہ کھُل جاتا ہے۔ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ بے حیائی اور کھلی بدکاری کی بیماری جو دنیا میں پھیل رہی ہے یہ درہریت کے روگ سے شروع ہوئی ہے اور اس کی جر کفارہ کے جھٹے فسانے ہیں۔
دنیا پرستی کی وجہ
دنیا پرستی کی حد ہو گئی ہے۔ ہر شخص دنیا ہی کا شیدائی نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جدھر آنکھ اُٹھاتا ہے ابنائے دنای ہی کو دیکھتا ہے۔ چونکہ ایسے مخلصوں کی نظیریں بہت ہی کم ہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل تعالقات کا نمونہ ہوں اس لیے اس طرف توجہ ہی نہیں۔ برخلاف اس کے دنیا پرستوں کی نظیریں نظر آتی ہیں۔ اس لیے ہر شخص اس طرف کو جھکتا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف بہت ہی کم لوگ آتے ہیں کیونکہ خدا کی راہ اختیار کرنا دنیا سے باہر ہو جانا ہے۔ جبتک انسان ایک موت اختیار نہیں کر لیتا اس راہ سے داخل نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے فرمایا ہے۔
مو تو اقبل ان تمولوا۔؎ٰ
‏ٰAmira 11-10-05
یکم اگست ۱۹۰۵ء؁
دربار شام
سٹروعہ ضلع ہوشیار پور سے آئے ہوئے دو بھائی داخل بیعت ہوئے۔ فرمایا :
بیعت میں داخل ہو نیوالوں کے اسماء کو باقاعدہ لکھا جاوے۔ اگر یہ سب نام لکھے جائیں تو ان مشکلات کا سامنا نہ ہو جو بعض وقت پیش آتی ہیں۔
مولوی محمد حسین بٹالوی
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ایک خط کا ذکر ہوا جو اُنہوں نے منشی حسین بخش صاحب تحصیلدار پنڈی گھیپ حال رخصتی قادیان کے نام لکھا۔ فرمایا :۔
معلوم نہیں وہ کونسی بدی تھی جس نے اسکو سلسلہ کی شناخت سے محروم رکھا۔ تا ہم جب تک وہ زندہ ہے ہم اس پیشگوئی کی کوئی تاویل نہیں کرتے جو اس کے متعلق ہے کہ وہ آخر رجوع کرے گا۔ میں جانتا ہوں کہ اوائل میں وہ بڑا اخلاص ظاہر کیا کرتا تھا۔ بٹالہ کے سٹیشن پر خود اس نے حامد علی سے لوٹا لے کر مجھے وضو کرایا اور جب میں اُٹھتا تو میرا جوتا اُٹھا کر آگے رکھ دیتا تھا۔ اس میں دوسرے مولویوں کی نسبت ایک بات تو ہے وہ یہ کہ کسی بات کو مان لے تو دلیری کے ساتھ اس کا اعلان کر سکتا ہے۔
مثیلِ مسیح
فرمایا : میں حیران ہوں کہ میرا معاملہ تو بالکل صاف تھا۔ تین باتیں تھیں۔ ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کو مثیل موسیٰ بھی تسلیم کر لیا اور امت کے مثل یہود ہو جانے کا بھی اقرار کر لیا۔ اور علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل (حدیث) کو بھی تسلیم کیا۔ ان ساری باتوں کو تو مثیل کے طور پر مانا لیکن مسیح کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ وہی آئے گا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟
یہ تو ایسی ہی مثال ہے جیسے دو بھائی ہیں۔ جب ان میں کوئی تقسیم ہو تو ہر ایک قسم کی چیزیں انہیں دی جاتی ہیں جبکہ آنحضرت ﷺ کی اُمت میں یہودیوں کے مثیل مانتے ہیں تو اس میں کیوں موت پڑتی ہے کہ ایک مسیح بھی تسلیم کر لیں۔
فرمایا : میں دیکھتا ہوں۔ براہین میں میرا نام اصحاب الکہف بھی رکھا ہے۔ اس میں یہ سر ہے کہ جیسے وہ مخفی تھے اسی طرح پر تیرہ سو برس سے یہ راز مخفی رہا اور کسی پر نہ کھلا ۔ اور ساتھ اس کے جو رقیم کا لفظ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود مخفی ہونے اس کے ساتھ ایک کتبہ بھی ہے۔ اور وہ کتبہ یہی ہے کہ تمام نبی اس کے متعلق پیشگوئی کرتے چلے آئے ہیں۔؎ٰ
۳؍اگست ۱۹۰۵ء؁
خدا تعالیٰ کی تازہ وحی
رؤیا میں دیکھا کہ ایک لفافہ ہے جس میں کچھ پیسے ہیں۔ کچھ پیسے اس میں سے نکل کر باہر سامنے بھی پڑے ہیں۔ اس کے بعد الہام ہوا :
’’تیرے لیے میرا نام چمکا‘‘
فرمایا : اس الہام سے پہلے اگر چہ خواب میں پیسے دیکھے گئے جو کسی جھگڑے یا غم پر دلالت کرتے ہیں مگر وحی الٰہی صریح لفظوں میں دلالت کرتی ہے کہ اس کے بعد کوئی نشان ظاہر ہو گا جس کے واقعہ سے خدا تعالیٰ اپنے نام اور اپنی ہستی کو لوگوں پر ظاہر کرے گا۔ ؎ٰ
الہام کا دروازہ کھلا ہے
فرمایا: جیسا ہمارے علماء کا عقیدہ ہے کہ اب الہام کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ اگر یہ سچ ہوت اتو ایک عارف طالب تو زندہ ہی مر جاتا۔ خدا بخیل نہیں ہے۔ اس نے خود
صراط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ : ۷)
کی دعا سکھائی ہے جس میں ظاہر کیا گیا ہے کہ ان نعمتوں کا دروازہ کھلا ہے۔ افسوس ہے کہ مولوی عبد اﷲ صاحب غزنوی کا بھی یہی مذہب تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ ہمیں جو الہام ہوتا ہے وہ شیطانی ہے یا الہامی۲؎ ہے۔ ہمیں تعجب آتا ہے کہ ان لوگوں کا ایسے الہام اور اس عقیدہ کے بعد کیا حال ہوتا ہے۔ اگر اس پر عمل کریں تو ممکن ہے شیطان کے فرمان کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر نہ کریں تو یہ شبہ یہ کہ خدا تعالیٰ کو نارض کرتے ہیں۔ یہی حال الٰہی بخش اکونٹنٹ کے الہامات کے ہے۔ اُن سے تو موسیٰ کی مان ہی اچھی رہی جس نے خدا تعالیٰ کے کلام پر ایمان قائم کر کے اپنے بچے کو دریا میں رکھ دیا۔ ۳؎
داربار شام
(نوٹ ازایڈیٹر) شام کی تاریکی قلمبند کرنے کی اجازت نہ دیتی تھی اس لیے میں نے خدا داد قوت حافظہ کی مدد سے اپنے الفاظ میں اس روئداد کو لکھا ہے جو بزرگ اس اجلاس میں موجود تھے وہ اسے پڑھ کر انشاء اﷲ سمجھ لیں گے کہ میں اس کے لکھنے میں بہت بڑی حد تک کامیات ہوا ہوں۔
والحمد ﷲ علیٰ ذالک (ایڈیٹر الحکم)
انبیاء کے کلام میں عجزوانکسار کا اظہار
سلسلہ کلام اس امر سے شروع ہوا کہ تمام نبیوں اور راستبازوں کے کلام میں عجزو انکسار کے الفاظ اور اپنی کمزوری کا اظہار پایا جاتا ہے اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔حضرت حجۃاﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو اشتہار متعلقہ زلزلہ میں اس قسم کے الفاظ استعمال کئے ہیں ان پر مولوی محمد حسین بٹالوی نے اعتراض کیا ہے۔ اعلیٰ حضرت نے میرے معزز بھائی مفتی محمد صادق صاحب کو غالباً بائبل میں ایسے مقامات دیکھنے کے لیے ارشاد فرمایا تھا۔ اس کا ذکر مفتی صاحب نے کیا۔ اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا :
اس قسم کے الفاظ تمام نبیوں کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کی معرفت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مقام کو شناخت کرتے ہیں۔ اس لیے نہایت انکسار اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ نادان جن کو اس مقام کی خبر نہیں ہے۔ وہ اس پر اعتراض کرتے ہیں؛ حالانکہ یہ ان کی کمال معرفت کا نشان ہوتا ہے۔آنحضرت ﷺ کے لیے
اذا جاء نصراﷲ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اﷲ افواجا فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان توابا (النصر : ۲-۴)
آیا ہے۔ اس میں صاف فرمایا ہے تو استغفٰر کر۔ اس سے کای مراد ہے؟ اس سے یہی مراد ہے کہ تبلیغ کا جو عذیم الشان کام تیرے سپرد تھا۔ دقائقِ تبلیغ کا پورا پورا علم تو اﷲ تعالیٰ ہی کو ہے اس لیے اگر اس میں کوئی کمی رہی ہو تو اﷲ تعالیٰ اُسے معاف کر دے۔ یہ استغفار تو نبیوں اور راستبازوں کی جان بخش اور عزیز چیز ہے۔ اب اس پر اندان اور کو تاہ اندیش عیسائی اعتراض کرتے ہیں۔ جہاں استغفار کا لفظ اُنہوں نے سُن لیا۔ جھٹ اعتراض کر دیا؛ حالانکہ اپنے گھر میں دیکھیں تو مسیح کہتا ہے کہ مجھے نیک مت کہہ۔ اس کی تاویل عیسائی یہ کرتے ہیں کہ مسیح کا منشاء یہ تھا کہ مجھے خدا کہے۔ یہ کیسے تعجب کی بات ہے۔ کیا مسیح کو ان کی والدہ مریم یا اُن کے بھائی خدا کہتے تھے جو وہ یہی آرزو اس شخص سے رکھتے تھے کہ وہ بھی خد اکہے۔ اُنہوں نے یہ لفظ تو اپنے عزیزوں اور شاگردوں سے بھی نہیں سنا تھا۔ وہ بھی اُستاد۔ اُستاد ہی کہا کرتے تھے۔ پھر یہ آرزو اس غریب سے کیونکر ان کو ہوئی۔ کیا وہ خوش ہوتے تھے کہ کوئی انہیں خدا کہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اُن کو نہ کسی نے اوستاد؎ٰ کہا اور نہ انہوں نے کہلوایا۔
پھرایک اور توجیہہ کرتے ہیں کہ دراصل وہ شخص منافق تھا۔ اس لیے حضرت مسیح گویا خفا ہوئے کہ تو نیک کیوں کہتا ہے کیونکہ تو مجھے نہیں جانتا۔ یہ بھی بالکل غلط بات ہے کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ منافق تھا۔
غرض اصل بات یہی ہے کہ خد اتعالیٰ کے برگزیدہ بندے اپنی عبودیت کا اعتراف کرتے رہتے ہیں اور دعائوں میں لگے رہتے ہیں۔ احمق ان باتوں کو عیب سمجھتے ہیں۔ اگر آنحضرت ﷺ کی دعائوں کو دیھکا جاوے توپھر ایسے احمق اعتراض کرنے والے تو خد ا جانے کیا کیا کہیں ۔ جیسے۔
الھم باعد بینی وبین خطا یا ی کما باعدت بین المشرق والمغرب۔ ۲؎
گرمیوں کو روحانی ترقی کے ساتھ مناسبت ہے
ایک مخلص نے پہار پر جانے کے لیے اجازت چاہی۔اس کے متعلق تذکرہ آنے پر فرمایا:-
اﷲ تعالیٰ کے وعدے بالکل سچے ہیں جبکہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی عذاب شدید آنے والا ہے تو اس کا کوئی وقت تو ہمیں معلوم نہیں ہے اس لیے بڑی احتیاط کرنی چاہیے۔ پہاڑوں پر کای ہے۔ ہم تو گرمیان یہاں ہی بسر کرتے ہیں کوئی ایسی تکلیف نہیں ہوتی، بلکہ میں ایک مرتبہ ڈلہوزی گیا۔ کسی مقدمہ کی تقریب تھی۔ جب میں وہاں پہنچا تو خلاف عادت دیکھا نہ گرمی ہے نہ پسینہ آتا ہے۔ بارش ہوتی ہے اور بدل گھروں میں اندر گھُس آئے۔ ہر وقت اندر بیٹھے رہنا نہ چلنے پھرنے کے لیے موقعہ ہے۔ اگر ہر روز چائے نہ پئیں تو اسہال آجائیں۔ ایک دو دن میں نے گذارے پھر سخت تکلیف محسوس ہونے لگی اور میں جب تک پٹھانکوٹ نہ پہنچ گیا طبیعت میں نشاط اور انشراح پیدا نہ ہوا۔ ان کو لکھ دو کہ وہ یہان آجائیں۔ اگر بارش ہوتی رہی تو یہاں بھی موسم اچھا ہے اور ۱۵؍ستمبر تک تو امید ہے موسم میں بڑی تبدیلی ہوجائے گی۔
فرمایا : میں دیکھتا ہوں کہ گرمیوں کو بھی روحانی ترقی کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔ آنحضرت ﷺ کو دیکھو کہ آپؐ کو اﷲ تعالیٰ نے مکہ جیسے شہر میں پید اکیا اور پھر آپ ان گرمیوں میں تنہا غار حرا میں جا کر اﷲ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے وہ کیسا عجیب زمانہ ہوگا۔ آپؐ ہی ایک پانی کا مشکیزہ اُٹھا کر لے جاتے ہوں گے۔
‏Amira 8-11-05
انبیاء کی خلوت پسندی
اصل بات یہ یہ کہ جب اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اُنس اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اور اہل دنیا سے ایک نفرت اور کراہت پیدا ہو جاتی ہے۔ بالطبع تنہائی اور خلوت پسند آتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی بھی یہی حالت تھی۔ اﷲ تعالیٰ کی محبت میں آپ اس قدر فنا ہو چکے تھے کہ آپ اس تنہائی میں ہی پوری لذت اور ذوق پاتے تھے۔ ایسی جگہ میں جہاں کوئی آرام کا اور راحت کا سامان نہ تھا اور جہاں جاتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہو آپ وہاں کئی کئی راتیں تنہا گذار تے تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسے بہادر اور شجاع تھے۔ جب خدا تعلق شدید ہو تو پھر شجاعت بھی آجاتی ہے اس لیے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا۔ اہل دنیا بزدل ہوتے ہیں۔ اُن میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی ہے۔
اس بات کو سن کر خدا تعالیٰ سے جس قدر تعلقات شدید ہوتے ہیں اور ایسے لوگ تنہائی اور خلوت کو پسند کرتے ہیں بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ پھر ان نبیوں اور رسولوں کے بیوی بچے کیوں ہوتے ہیں؟ وہ بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ایسا اعتراض کرنے والے نہیں سوچتے کہ ان لوگوں کی تو ایسی مثال ہے جیسے ایک شخص تو کسی کے دروازے پر بھیک مانگنے جاوے اور ایک اس کا دوست ہو اور وہ محض اس سے ملنے ہی کے لیے گیا ہو۔ اب اگر وہ دوست اپنے دوست کے سامنے پلائو وغیرہ لا کر رکھ دیتا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے؟ اس دوست کو تو اس کے کھانے میں لذت آتی ہے اور وہ گدا جو ہے اس کو خشک روٹی کا ٹکڑا دے دیا جاتا ہے۔ اگر زیادہ ٹھہرے تو پھر دھکے دے کر باہر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ معاملہ دوست سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے زیادہ قیام اور اس کے کھانے پینے سے خود اُسے ایک لذت آتی ہے۔
یہی حال ان نبیوں اور ماموروں کا ہوتا ہے۔ ان کے سامنے جو کچھ آتا ہے وہ اُن کی نفسانی خواہشوں کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ وہ تو ساری لذت اور راحت اﷲ تعالیٰ ہی کے ذکر اور شغل میں پاتے ہیں اور فی الحقیقت تنہائی ہی کو پسند کرتے ہیں جہاں وہ اپنے محبوب سے اپنے دل کی آرزو ئیں اور تمنّائیں پیس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس حالت مین کوئی ان کو دیکھ نہ لے علاوہ بریں یہ تعلقات ان کی تکمیل کے لیے ہوتے ہیں۔ میں نے بارہا بیان کیا ہے کہ اخلاق کے سارے پہلو پورے نہیں ہوتے جب تک ہر قسم کی حالتیں پیش نہ آئین ۔نبیوں اور رسولوں کے لیے شدائد اور مشکلات بھی آتے ہیں اور یہ مشکلات بھی ان کے اخلاق کی تکمیل کے لیے ہوتی ہین۔ آنحضرت ﷺ کے جیسے تمام اخلاق کا اظہار ہوا ہے کسی دوسرے کو یہ موقع نہیں ملا ۔ مکہ معظمہ مین جبتک آپؐ رہے تو ہر قسم کی تکالیف اور مشکلات کا سامنا رہا جس میں آپؐ کے کمالِ صبر اور رضا بالقضا کے پہلو کا ظہور ہوا۔ پھر جب آپؐ فاتح ہو کر ایک بادشاہ کی حیثیت سے داخل ہوئے تو حالانکہ آپ ان سب کو قتل کر سکتے تھے اور اس قتل میں حق پر بھی تھے لیکن باوجود مقدرت کے ان سب کو معاف کر دیا جس سے آپؐ کے کمال ایثار، سخاوت، عفو اور درگزر کا ثبوت مل گیا۔ حضرت مسیح کو یہ موقعہ نصیب نہیں ہوا۔ اور وہ ان دونوں پہلوئوں کو ظاہر نہیں کرسکے۔؎ٰ
۵؍اگست ۱۹۰۵ء؁
دربار شام
سلسلہ کے لیے کشش
حضرت حجۃ اﷲ کے تشریف فرما ہوتے ہی ایک حاجی صاحب درد نے پیش ہو کر بیعت کی درخواست کی جس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ ایک دو دن کے بعد کر لینا۔ اس کے بعد سلسلہ کلام یوں شروع ہوا کہ :
کثرت کے ساتھ لوگ اس سلسلہ میں داخل ہو رہے ہیں بظاہر اس کے وجوہ اور اسباب کا ہمیں علم نہیں۔ہماری طرف سے کون سے واعظ مقرر ہیں جو لوگون کو جا کر اس طرف بلا تے ہیں یہ محض خد اتعالیٰ کی طرف سے ایک کشش لگی ہوئی ہوتی ہے جس کے ساتھ لوگ کھچے چلے آتے ہیں۔ یہی حال یہان بھی ہے کہ اس نے ایک کشش رکھ دی ہے۔ جہاں تک اﷲ تعالیٰ اس سلسلہ کو پہنچانا چاہتا ہے اس حدتک اس نے کشش رکھ دی ہے۔
مشروط بیعت
پھر ذکر آیا کہ بعض لوگ بیعت کے خطوط بھیجتے ہیں تو اُن میں درج ہوت اہے کہ ہمارا فلاں کا م ہو جاوے یا اس قدر روپیہ مل جاوے تو بیعت کریں گے۔ اس پر فرمایا :۔
ایسی شرائط والے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ صدیقی ھطرت والے تو کسی نسان یا معجزہ کا طلب کرنا اپنی ہتک شان سمجھتے ہیں۔ حضرت ابو بکرؓ صدیق نے کون سے نشانات دیکھے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ عرب کی موجودہ حالت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی مصلح آوے۔ اور جب آنحضرت ﷺ نے دعویٰ کیا تو آپؐ کے اخلاک اور آپؐ کی راستبازی ہی ایک عظیم السان معجزہ ان کے واسطے ہو گئی اور انہوں نے دعویٰ کے سنتے ہی قبول کر لیا۔ ایسے لوگوں کے لیے کسی نشان کی حاجت نہیں ہوئی۔جو لوگ اس قسم کی شرائط پیش کرتے ہیں کہ اس قدر آمدنی ہو جاوے تو ایمان لائیں گے وہ گویا یہ سمجھتے ہین کہ ایمان لا کر اﷲ تعالیٰ پر یا اس کے رسول پر احسان کرتے ہیں۔ وہ احمق نہیں جانتے کہ ال تعالیٰ کو اُن کی پروا کیا ہے۔ یہ تو اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہدایت کی راہ ان کو بتائی۔ اور اپنے مامور کو ہدایت کے واسطے بھیجا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا صاف احسان ہے۔ وہ الٹا خد اتعالیٰ پر احسان رکھنا چاہتے ہیں۔ قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نشان اﷲ کے پاس ہیں۔ اور دوسری جگہ فرماتا ہے۔ زمین و آسمان میں نشان…ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ کیسے بیوقوف ہیں جو اتنا نہیں سمجھتے کہ یہ وقت کسی نبی کی ضرورت کا ہے یا نہیں۔ حالت زمانہ خود اس پر شہادت دیتی ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر اور وہ نشان چاہتے ہیں؟
ہر شخص اس امر کا محتاج ہے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو اور وہ اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے جاوے۔جب اس امر کی ضرورت ہے تو یہ شرط کیسی بیہودہ اور فضول ہے کہ وہ کام ہو یا اس قدر آمدنی ہو تو بیعت کروں گا۔ ضرورت جوہر وقت مد نظر ہونی چاہیے وہ تو حسن انجام کی ضرورت ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں کیون ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت دل پر نہیں ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ کے جلال و جبروت کا دل پر اثر ہو اور اس کی ہستی پر ایمان ہو تو دل ڈر جاوے اور یہ فسق و فجور اور شرورنفسانی جس میں دنیا مبتلا ہے اس سے نجات پاجائیں اور اس کی طرف آنے میں ایسی شرطیں نہ لگائیں۔
کیسی حیرانی کی بات ہے۔کیا بیمار طبیب کے پاس جا کر اُسے کچھ نذرانہ دیتا ہے یا اس سے یہ شرط کرتا ہے کہ اگر میں اچھا ہو جائوں تو مجھے اس قدر نذرانہ دینا؟
جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف آتے ہی نہیں۔ ان کا مقصد اور گرض تو وہ کمبخت دنیا ہوتی ہے جس کو وہ پیس کرتے ہیں۔ اُن کے دل میں یہ سوز و گداز اور جلن نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہو اور اس کی طرف دلی رجوع اور توجہ ہو جاوے اگر یہ قلق اور کرب پیدا ہو تو ایسی باتیں نہ کریں کیونکہ بیمار خواہ جسمانی ہو یا روحانی جب وہ اپنی مرص کو محسوس کر لیتا ہے تو وہ بے اختیار ہو کر تڑپتا پھرتا ہے اور طبیب کے کہنے پر اس قدر ایمان لات اہے کہ جو کچھ وہ دیدے۔ اسے اپنی بہتری کے لیے کھالیتا ہے۔ یہ عجیب بات کہ آنا تو دین کی طرف اور اس کے لیے دنیا کی شرط لگانا!!!
بعض لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ ذرا دنای کا کوئی ابتلا پیش آجاوے تو سارا جوش ٹھنڈا ہو جاتا ہے ۔ اگر ایسے ہی لوگ ہماری جماعت میں داخل ہوں تو ان سے کیا فائدہ اورصحابہع سے کای مقابلہ۔ صحابہؓ کی عجیب حالت تھی۔ اُن کے بیوی بچے بھی تھے۔ پھر بھی ہزاروں خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے گئے۔ اگروہ دین کو دنیا پر مقدم نہ کر لیتے تو کیونکر ممکن تھا کہ وہ اپنی جانوں کو اس طرح پر خدا کی راہ میں دیدیتے۔ لکھا ہے کہ ایک صحابی کے ہاتھ میں کچھ کھجوریں تھیں اور وہ کھا رہا تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ دوسرا شہید ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے نفس کو سخت ملامت کی کہ تیرا بھائی شہید ہو گیا ہے اور تو ابھی باقی ہے۔ یہ تھی ان لوگوں کی ایمانی حالت۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی۔ ہاں خدمتگار کے طور پر تو بیشک ہو سکتی ہے لیکن بطور شریک کے ہر گز نہیں ہو سکتی۔ یہ کبھی نہیں سناگیا کہ جس کا تعلق صافی اﷲ تعالیٰ سے ہو وہ ٹکڑے مانگتا پھرے۔ اﷲتعالیٰ تو اس کی اولاد پر بھی رحم کرتا ہے۔ جب یہ حالت ہے تو پھر کیوں ایسی شرطیں لگاکر ضدیں جمع کرتے ہیں۔ ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں۔جب کوئی شخص اس عہد کی رعایت رکھ کر اﷲ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو طاقت دے دیتا ہے۔
صحابہؓ کی حالت کو دیک کر خوشی ہوتی ہے کہ کیٰ نے ان کو پاک صاف کر دیا۔ حضرت عمر کو دیکھو کہ آخر وہ اسلام میں آکر کیسے تبدیل ہوئے۔ اسی طرح پر ہمیں کیا خبر ہے کہ ہماری جماعت میں وہ کون سے لوگ ہیں جن کے ایمانی قوی ویسے ہی نشونما پائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے۔ اگر ایسے لوگ نہ ہوں جن کے قویی نشونما پاکر ایک جماعت قائم کرنے والے ہوں تو پھر سلسلہ ثل کیسے سکت اہے۔ مگر یہ خوب یاد رکھو کہ جس جماعت کا قدم خد اکے لیے نہیں اس سے کیا فائدہ؟خدا کے لیے قدم رکھنا امر سہل بھی ہے جبکہ خدا تعالیٰ اس پر راضی ہو جاوے اور روح القدس سے اس کی تائید کرے۔ یہ باتیں پیدا نہیں ہوتی ہیں ۔ جبتک اپنے نفس کی قربانی نہ کرے اور نہ اس پر عمل ہو۔
اما من خاف مقام ربہ ونھی النھس عن الھوی فان الجنۃ ھی الماوی (الناز عات : ۴۱، ۴۲)
سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہشتی زندگی اسی دنای سے شروع ہو جاتی ہے۔ اگر ہوائے نفس کو روک دیں۔ صوھیوں نے جو فنا وغیرہ الفاظ سے جس مقام کو تعبیر کیا ہے وہ یہی ہے کہ نھی النفس عن الھوی کے نیچے ہو۔
۷؍اگست ۱۹۰۵ء؁
قبل از عشاء
بار بار ہونے والے الہامات
ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ ایک جگہ مبارک و مبارک و کل امرمبارک یجعل فیہ والا الہام چھوٹی مسجد کے متعلق طاہر کیا گیا ہے اور دوسری جگہ وہی الہام بڑی مسجد کے متعلق ظاہر کیا گیا ہے۔
حضرت نے فرمایا :
بعض الہام بار بار کئی دفعہ ہوتے ہیں اور ہر دفعہ وہ جدا شان رکھتے ہیں انی مھین من اراد اھانتک والا الہام بہت دفعہ ہوا ہے اور ہر دفعہ اس کا طہور کسی نئے رنگ میں ہوا ہے۔ ہر دفعہ اہانت کنندہ اور اہانت یافتہ کوئی نیا وجود ہوتا رہا ہے۔ ایسا ہی الہام انی مع الافواج اتیک بغتۃ بہت کثرت سے ہوا ہے۔ اور ہمیشہ خدائی فوجوں کی نصرت سے ایک نیا معجزہ پید اہوا ہے۔ اسی طرح اکثر الہامات بار بار ہوتے ہیں اور ہر دفعہ کوئی نیا رنگ رکھتے ہین۔ اسی طرح قرآن شریف میں بھی بہت سی آیات میں جو اپنے اپنے موقعہ پر جدا مطابقت رکھتی ہیں؛ اگر چہ ظاہر الفاظ ایک ہی ہیں۔ اﷲتعالیٰ کی صفت ہے۔
کل یوم ھوھی شان (الرحمٰن : ۳۰)
لیکن وہ مقامات کتب مجھے دکھانے چاہیے جن پر یہ سوال پیدا ہوا ہے۔
حقیقت روح القدس
کسی شخص کا سوال پیس ہوا کہ آپ نے جبرائیل کے متعلق جو تحریر کی ہے اس سے یہ طاہر ہوتا ہے کہ آپ کا خیال بھی سید احمد کی طرح ہے کہ روح الامین انسان کے اندر ہی ہے اور اس کے سوائے کوئی اور روح القدس اور جبرائیل نہیں ۔ فرمایا :
یہ بالکل غلط ہے۔ سید احمد کے ساتھ اس معاملہ میں ہامرے خایل کو کوئی مطابقت نہیں۔ ہمارا منشاء یہ ہے کہ اﷲت عالیٰ کی طرف سے روح الامین کا نزول انسان پر اس وقت ہوتا ہے جبکہ انسان خود تقدس اور تطہر کے درجہ کو حاصل کر کے اپنے اندر بھی ایک حالت پیدا کرتا ہے جو نزول روح الامین کے قابل ہوتی ہے۔ اس وقت گویا ایک روح الامین ادھر ہوتاہے تب ایک اُدھر سے آتا ہے۔ یہ بات ہم اپنے حال اور اپنے تجربہ سے کہتے ہیں نہ کہ صرف قال ہی قال ہے۔ اس کی بجلی کے ساتھ خوب مثال مطابق آسکتی ہے۔ جب کسی جسم میں خدو بھی بجلی ہتی ہے تو آسمانی بجلی اُس پر اثر کتی ہے۔ تدبر سے دیکھا جائے تو قرآن شریف سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔
خلوت میں عبادات اور دعا کا لطف
آجکل سخت گرمی پڑنے اور برسات یک نہ ہونے کا ذکر تھا۔ فرمایا :
ایسے موقعہ پر نماز استسقاء کا پڑھنا سنت ہے۔ میں جماعت کے ساتھ بھی سنت ادا کروں گا۔ مگر میراارادہ ہے کہ باہر جا کر علیحدگی میں نماز پڑھوں اور دعا کروں۔ خلوت میں اﷲ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے اور دعا مانگنے کا جو لطف ہے وہ لوگوں میں بیٹھ کر نہیں ہے۔اور بھی دعائوں کا ذخیرہ ہے۔ اسی مطلب کے واسطے میں نے باغ میں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی ہے جس کو مسجد البیت کہنا چاہیے۔
فرمایا :۔ پیغمبر خدا ﷺ کے حالات دورنگ کے تھے۔ ایک ظاہر اور ایک مخھی۔ آپﷺ کی پہلی عبادت وہی تھی جو آپؐ نے غار حرا میں کی۔ جہان کئی کئی دن ویرانہ پہاڑی کی غار میں جہاں ہر طرح کے جنگلی جانور اور سانپ چیتے وگیرہ کا خوھ ہے دن رات اﷲت عالیٰ کے حضور میں عبادت کرتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے۔
قاعدہ ہے کہ جب ایک طرف کی کشش بہت برھ جاتی ہے تو دوسری طرف کا خوف دل سے دور ہو جاتا ہے۔ بعض عورتوں کو جو بہت ہی ڈرنے والی طبیعت کی ہیں۔دیکھ اگیا ہے کہ کسی بچے کی بیماری کے وقت اندھیری راتوں میں ضرورتاً ایسی جگہ جاتی ہیں جہاں دن کو نکلنا ان کے واسطے دشوار ہے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھاکہ وہ زلزلہ کے وقت خوف سے اونچے مکان سے نیچے کودنے لگا۔ لوگوں نے پکڑ لیا۔
جب خوف الٰہی اور محبت غالب آتی ہے تو باقی تمام خوف اور محبتیں زائل ہو جاتی ہیں ایسی دعا کے واطے علیحدگی بھی ضروری ہے۔ اسی پورے تعلق کے ساتھ انوار ظاہر ہوتے ہیں اور ہر ایک تعلق ایک ستر کو چاہتا ہے۔
ایک ہی خواہش فرمایا :
آجکل حبس اور گرمی اور برسات کی کمی کسی امر کی تمہید ہے جو آگے ظاہر ہوگا۔ معلوم نہیں کہ کیا ہونیوالا ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ ہر چہ باداباد۔ مگر خد اکی ہستی دنیا پر ثابت ہو جائے اور دین اسلام کی حقیقت ظاہر ہو جائے خواہ کسی طرح سے ہو۔
وفات مسیح اجماعی مسئلہ ہے
ایک شخص نے ساول کیا کہ اسلامی کتب میں حیات مسیح کی بات کہان سے آگئی؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ :
یہ بات ایسی ہی ہے جیسا کہ ہند کے مسلمان رسوم شادی و مرگ اب تک پرانے ہندوئوں کی طرف ادا کرتے ہیں۔ جب بہت سے عیسائی اور یہودی مسلمان ہوئے تو کثھ پرانے خایلات کا بقیہ ساتھ لائے۔وہی خیالات مسلمانوں میں منتقل ہو کر اور احادیث کی گلط فہمی بھی ساتھ مل کر یہ فاسد عقیدہ پید اہو گیا اور کتابوں میں درج ہو گیا؛ ورنہ صدر اسلام میں اس کا نام و نشان نہ تھا، بلکہ تمام نبیوں کی موت پر اجماع تھا۔ لیکن ان لوگوں مین بھی بہتیرے ایسے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑکی موت کے قائل ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ تو تین دن تک مرے رہے۔ کوئی کہت اہے کہ سات دن تک مرے رہے اور کوئی ہمیشہ کے لیے ان کا مرجانا مانتا ہے۔ بہرحال اصل اجماع اسلامی وہ ہے جو صحابہؓ کے درمیان ہوا۔ صحابہع میں سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر ہوا کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں۔بغیر اس کے صحابہؓ کو آنحضرت ﷺ کے مرنے کے بعد کبھی صبر نہیں آسکتا تھا۔ یہ مبارک اجماع حضرت ابو بکرع کے زریعہ سے ہوا۔ اور اگر کسی کو یہ وہم تھا بھی کہ کوئی نبی زندہ ہے تو وہ بھی دور ہو گیا اور اس طرح آنحضرت ﷺ کی موت کا صدمہ صحابہؓ کے دل سے اُٹھا کہ نبی تو سب مراہی کرتے ہیں۔ اگر کسی فرد واحد کو قصور درایت کے سبب کچھ غلطی لگی ہوئی تھی تو وہ بھی دور ہو گئی۔ خود خد اتعالیٰ کے کلام میں اس امر کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کوئی آسمان پر نہیں جاتا۔ جہاں آنحضرت ﷺ سے کفار نے آسمان پر چڑھنے کا معجزہ طلب کیا تو فرمایا :
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا (بنی اسرائیل : ۹۴)
یعنی بشر رسول کبھی کوئی آسمان پر نہیں چڑھا۔ اور فرمایا۔
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اوقتل (ال عمران : ۱۴۵)
یعنی کوئی نبی نہیں جو فوت نہیں ہو چکا۔ پس اگر یہ نبی مر جائے یا قتل کیا جائے تو کیا تم دین سے پھر جائو گے۔ کتب سماوی اور تاریخ زمانہ بھی یہی شہادت دیتی ہیں۔ کوئی نظیر ایسی نہیں کہ پہلے کوئی دو چار نبی آسمان پر گئے ہوں۔ خود مسیح نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ یوحنا ہی الیاس ہے۔ ہاں جس طرح آدمؑ۔ موسیٰ ؑ۔نوحؑ اور دوسرے نبی آسمان پر گئے اسی طرح بیشک حضرت عیسیٰ بھی گئے تھے؛ چنانچہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ نے سب کو آسمان پر دیکھا۔ حضرت عیسیٰ کی کوئی خصوصیت نہ تھی۔ افسوس ہے کہ ان لوگوں کی قوت شامہ ہی ماری گئی ہے خود زمانہ کی حالت سے بو آتی ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا عیسائیت کی پہلی اینٹ ہے۔ بعض لوگ میری نسبت اعتراض کرکے کہتے ہیںکہ میں نے بھی براہین میں ایسا ہی لکھا تھا مگر وہ نہیں سمجھتے کہ یہی بات ہماری صداقت کی گواہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کوئی منصوبہ بازی نہیں کرتے۔ خود اسی کتاب براہین میں ہمارا نام مسیح رکھ اگیا اور خد اتعالیٰ کے تمام وعدے اسی کے اندر ہیں۔ اگر یہ غلطی مجھ سے براہین احمدیہ میں صادرنہ ہوتی تو ایک بناوٹ معلوم ہو سکتی تھی۔؎ٰ
‏Amira 9-11-05
۸؍اگست ۱۹۰۵ء؁
دربار شام
موجودہ دنیا کی حالت فرمایا :
آج میں نے بارش کے لیے دعا کی تھی۔ دعا کے ساتھ ہی دل میں یہ خیال گذرا کہ یہ حبس اور امساک باراں اﷲ تعالیٰ کے قضاو قدر کے موافق ہے اور اس میں دخل دینا مناسب نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے : ’’دنیا میں ایک نذیر آیا لیکن دنیا نے اسے قبول نہ کیا۔ پر خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘۔
ہر قسم کے مصائب شدائد اس کے زور آور حملوں میں آتے ہیں اور یہ سب ایک قسم کی پیسگوئیاں ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے بہر حال ہمارے لیے مفید ہے۔ کیا عجب کہ قحط کے رنگ میں بھی کوئی حملہ ظاہر ہونے والا ہو۔
فرمایا : دنیا کی حالت اور رنگ دیکھا جاوے تو وہ بہت کچھ بدلا ہوا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایسی حالت ہو گئی ہے کہ گویا حسن ظن کا موقعہ ہی نہیں رہا۔ کیونکہ اگر ہر پہلو سے بد ظنی ہی ظاہر ہو تو انسان کہانتک اس پر حسن ظن کرے گا۔ میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ دنیا میں سوائے دہریت، مکروفریب کے اور کوئی بات نظر نہیں آتی ۔ بالکل طبیعتیں دنیا ہی پر مائل ہو گئی ہیں یہاں تک کہ دنیا دین کا کام بھی اگر کوئی اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اس میں بھی ان باتوں کا دخل ہے۔ یا تو وہ محض دنیا کا لالچ ہے یا دنیا کی ملونی ہے۔ ایسی حالت میں میںنے سوچا کہ اگر کوئی مرتا ہے تو پھر مرے۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ لوگ تو اور اور باتوں کے لیے روتے ہین۔ میں کہتا ہوں کہ اور باتوں کو چھوڑو مجھے تو اس کا فکر ہو رہا ہے کہ خد اکی ہستی ہی پر ان کو یقین نہیں رہا۔
اس مقام پر حضرت حکیم الامت نے عرض کی کہ کل میں نے اپنے درس میں ایک موقعہ پر اپنی جماعت کو خطاب کر کے کہا کہ سنو! تم نے اس سلسلہ میں داخل ہو کر کیا کیا؟ دنیا تو تم پر *** بھیجتی ہے اگر خد اتعالیٰ کے ساتھ ہی تمہارا معاملہ صاف نہ ہو۔ اور باہم بغض، کینہ اور دشمنی رہی تو پھر خد اسے کیا لیا؟
حضرت اقدس نے فرمایا :
خدا سے کای لینا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ بالکل سچ ہے۔
حضرت منشی احمد جان کا ذکر خیر
منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور مشہور صوفی لودھیانوی کے ذکر خیر میں حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ انہوں نے طب روحانی کے سلسلہ میں اور بھی دو تین جلدیں لکھنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن حضور کے دعویٰ کو سن کر اُنہوں نے اس طریق کو چھوڑ دیا اور اسے محض کھیل تماشہ قرار دیا۔ جس سے مجھے ان کے ساتھ بری محبت ہو گئی۔
حضرت حجۃاﷲ نے فرمایا :
مجھے بھی اُنہوں نے ایسا ہی خط لکھا تھا۔
دعا ہی اصلیت ہے
غرض آپ کا ذکر خیر ہوتا رہا۔ ان کے اخلاص کے ذکر میں توجہ اور سلب امراض کے علم کا ذکر ہوا۔ اس پر فرمایا۔
اﷲ تعالیٰ نے اسلام میں جو طریق شفا کا رکھاہے وہ تو دعا ہی کا طریق ہے۔اپنے نفس اور توجہ پر بھروسہ کرنا یہ بھیا یک قسم کا شرک ہے۔ لیکن جب انسان خد اسے دعا کرتا ہے تو یہ سب باتیں فنا ہو جاتی ہیں۔اور انسان پھر اصل پناہ کی طرف دورتا ہے۔ پس یاد رکھو کہد عا ہی اصلیت ہے۔ باقی جو کچھ ہے وہ نرا خبط ہے۔
دعا کی عجیب عجیب تاثیریں میں نے تجربہ کی ہیں۔ایک بار میں درد دانت سے سخت تکلیف میںتھا عمر دراز نام ایک گرد اور ہمارے ہاں آیا ہوا تھا۔میں نے اس سے پوچھا کہ دانت کے درد کا علاج بھی آپ کو معلوم ہے۔ اس نے کہا۔علاج دنداں اخراج دنداں۔ میں نے جب یہ بات سنی تو خیال کیا کہ دانت کا نکلوانا بھی ایک عذاب ہی ہے۔میں اس وقت ایک چٹائی پر بیٹھا ہوا تھا اور درد کی بیقراری کی وجہ سے سر چار پائی کی پائنتی پر رکھا ہوا تھا۔ اس وقت مجھے ذرا سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا واذا مرضت فھو یشفی اور اس کے ساتھ ہی معاً درد جاتا رہا۔
میں یقینا جانتا ہوں کہ دعا کے سلسلہ میں ہزارہا خزائن معارف کے مخفی ہیں۔ جو سخص دوسری طرف توجہ کر یگا وہ ان خزائن سے محروم رہ جائے گا کیونکہ جب انسان اس راہ کو جس پر سایہ دار درخت ہوں اور پانی کا سامان ہو چھوردے تو وہ ان تمام آرام کے سامانوں سے محروم رہے گا یا نہیں کسی کے پہلو میں دو دل تو نہیں ہو سکتے ایک ہی طرف توجہ کرے گا۔
فرق ضالہ نے اسی وجہ سے نقصان اُٹھیا کہ حقیقی راہ کو انہوں نے چھوڑ دیا۔ شیعہ وغیرہ جو حسین حسین پکارتے رہے اسی سبب سے محروم رہے کہ اُنہوں نے انسان کو بت بنالیا۔ اور ان کے سینہ میں وہ نور عرفان کا نہ رہا۔
اس کے بعد حضور اپنے زمانہ طالب علمی اور شیعہ اُستاد کے بعض حالات بیان فرماتے رہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ قوم کہاں تک حقائق و معارف سے محروم رہ گئی۔؎ٰ
۹؍اگست ۱۹۰۵ء؁
دربار شام
حقیقی دین سے محروم رہ جانے کا باعث
پشاور سے ایک نوجوان ہندو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کے واسطے آیا ہوا تھا۔ اس نے مختصراً اپنے حالات بیان کئے کہ کس طرح پر الحکم کے پڑھنے اور ایک احمدی کی صحبت نے اُسے مشتاق زیارت بنایا۔ اس تحریک پر حضرت حجۃ اﷲ نے ذیل کی تقریر ھرمائی۔
سب سے بڑی بات تو دین ہے جس کو حاصل کر کے انسان حقیقی جوشحالی اور راحت کو حاصل کرتا ہے۔ دنیا کی زندگی تو بہر حال گذرہی جاتی ہے ؎
شب تنور گذشت و سب سمور گذست
یعنی راحت اور رنج دونوں گذر جاتے ہیں لیکن دین ایک ایسی ثیز ہے کہ اس پر ثل کر انسنا خدا تعالیٰ کو راضی کر لیتا ہے۔یقینا جانو کہ اﷲ تعالیٰ اس وقت تک راضی نہیں ہوتا اور نہ کوئی سخص اس تک پہنچ سکتا ہے۔ جبتک صراط مستقیم پر نہ چلے۔ وہ اسی وقت ہو سکتا ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کی ذات صفات کو شناخت کرے اور ان راہون اور ہدایتوں پر عملدرآمد کرے جو اس کی مرضی اور منشاء کے موافق ہیں۔جب یہ ضروری بات ہے تو انسان کو چاہیے کہ د ین کو دنیا پر مقدم کرے اور یہ کچھ مشکل امر نہیں۔دیکھو انسان پانچ سات روپیہ کی خاطر جو دنیا کی ا دنیٰ ترین خواہش ہے اپنا سرکٹا لیتا ہے۔ پھر جب اﷲ تعالیا کو راضی کرنے کا خیال ہو اور اسے راضی کرنا چاہے تو کیا مشکل ہے۔
انسان حقیقی دین سے کیوں محروم رہ جاتا ہے اس کا بڑا باعث قوم ہے۔ خویش و اقارب دوستوں اورتعلقات کو ایسا مضبوط کر لیتا ہے کہ وہ ان کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ ایسی صورت میں ناممکن ہے کہ یہ نجات کا دروازہ اس پر کھل سکے۔ یہ ایک قسم کی نامردی اور کمزوری ہے لیکن یہ شہیدوں اور مردوں کا کام ہے کہ ان تعلقات کی ذرا بھی پروا نہ کرے اور خد اتعالیٰ کی طرف قدم اُٹھائے۔
بعض کمزور فطرت لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہی کرنی ہے خواہ کسی مذہب میں ہوں۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ آج جس قدر مذاہب موجود ہیں ان میں کوئی بھی مذہب بجز اسلام کے ایسا نہیں جو اعتقادی اور عملی غلطیوں سے مبرا ہو۔ وہ سچا اور زندہ خد اجس کی طرف رجوع کرکے انسان کو حقیقی راحت اور روشنی ملتی ہے۔ جس کے ساتھ تعلق پیدا کرکے انسان اپنی گناہ آلود زندگی سے نجات پاتا ہے۔ وہ اسلام کے سوا نہیں مل سکتا۔ یہی پہلا زینہ ہر قسم کی روحانی ترقیوں کا ہے۔ اگر اس کی توفیق مل جاوے تو پھر خد ااس کا اور وہ خداکا ہو جاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ جب ایک شخص محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے کسی قسم کی نفسانی اغراض کے بغیر ایک قوم سے قطع تعلق کرتا ہے اور خد اہی کو راضی کرنے کے لیے دوسری قوم میں داخل ہوتا ہے تو ان تعلقات قومی کے توڑنے میں سخت تکلیف اور دکھ ہوتا ہے مگر یہ بات خد اتعالیٰ کے نزدیک بڑی قابل قدر ہے اور یہ ایک شہادت ہے جس کا بڑا اجراﷲ تعالیٰ کے حضور ملتا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ تو فرماتاہے۔
ھمن یعمل مثقال زرۃ خیر ایرہ (الزلزال : ۸)
یعنی جو سخص ایک ذرہ برابر بھی نیکی کرتا ہے اُسے بھی ضائع نہیں کرتا بلکہ اجر دیتا ہے تو پھر جو سخص اتنی بری نیکی کرتا ہے اورخدا تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک موت اپنے لیے روا رکھتا ہے اسے اجر کیوں نہ ملے؟ جو سخص خدا تعالیٰ کے لیے اپنے تعلقات کو توڑتا ہے وہ فی الحقیقت ایک موت اختیار کرتا ہے کیونکہ اصل موت بھی ایک قسم کا قطع تعلق ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے لیے ان تعلقات کو توڑناجو اپنی قوم اور خویش و اقارب سے ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔ بسااوقات یہ روک بری زبردست روک انسان کو خد اکی طرف آنے کے لیے ہو جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ دوستوں کا ایک گروہ ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار ہیں ان کی محبت اور تعلقات نے اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کی ہوتی ہے کہ وہ اسلام کی صداقت اور سثائی کو تسلیم کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بجز اس کے نجات نہیں۔ لیکن ان تعلقات کی بنا پر اقرار کرتا ہے کہ یہ راہجس پر میں ثلتا ہوں خطرناک اور گندی راہ ہے مگر کیا کریں جگہنم میں پڑنا منظور ان قومی تعلقات کو کیونکر چھوڑدیں۔ ایسے لوگ نہیں جانتے کہ یہ صرف زبان سے کہنا تو آسان ہے کہ جہنم میں پرنا منظور ۔ اگر انہیںاس دکھ درد کی کیفیت معلوم ہو تو پتہ لگے۔ ایک آنکھ میں ذرا درد ہوت و معلوم ہو جاتا ہے کہ کس قدر تکلیف ہے۔ پھر جہنم تو وہ جہنم ہے جس کی بابت قرآن شریف میں آیا ہے۔
لا یموت فیھا ولا یحیی (طہ : ۷۵)
ایسے لوگ سخت غلطی پر ہیں۔ اس کا تو فیصلہ آسان ہے۔ دنیا میںد یکھ لے کہ کیا وہ دنای کی بلائوں پر صبر کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں تو پھر یہ کیونکر سمجھ لیا کہ عذاب جہنم کو برداشت کر لیں گے۔
بعض لوگ تو دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر یہ لوگ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ یقینا سمجھو کہ جہنم کا عذاب بہت ہی خطرناک ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ ال تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا دیا ہے
ومن یبتغ غیر الاسلام دینا ھلن یقبل منہ (ال عمران : ۸۶)
یعنی جو سخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواستگار ہو وہ آخر کار ٹوٹے میں رہے گا۔
جس طرح پر انسان کا ایک حلیہ ہوتا ہے اور وہ اسی سے شناخت کیا جاتا ہے اسی طرح پر اﷲ تعالیٰ کی ذات اور اس کے صفات بھی ایک طرح پر واقع ہوئے ہیں۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ مختلف مذاہب والے خدا تعالیٰ کی جو سکل اور صفات پیس کرتے ہیں وہ سب کی سب درست ہوں۔ عیسائی، ہندو، چینی ہر ایک جدا جدا صفات پیش کرتا ہے پھر کون عقلمند یہ مان لے گا کہ ہر ایک اپنے اپنے بیان میں سچا ہے۔
سچے مذہب کی علامات
ماسوا اس کے سچائی کے خود انوار و برکات ہوتے ہیں۔ یہ بھی تو دیکھنا ثاہیے کہ وہ نشانات اور انوار و برکات کس خدا کو مان کر ملتے ہیں اور کس دین میں وہ اپئے جاتے ہیں۔ ایک شخص ایک نسخہ کو استعمال کرتا ہے اگر اُس نسخہ میں کوئی خوبی اور اثر ہے تو صاھ ظاہر ہے کہ چند روز کے استعمال کے بعد ہی اس کی مفید تاثیریں معلوم ہونے لگیں گی۔لیکن اگر اس میں کوئی خوبی اور تاثیر نہیں ہے تو خواہ ساری عمر اُسے استعمال کرتے جائو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اس معیار پر اسلام اور دوسرے مذاہب کی سثائی اور حقیت کا بہت جلد پ کہتا ہوں کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی تاثیر اور انوار و برکات کے لیے کسی گذشتہ قصہ کا حوالہ نہیں دیتا اور نہ صرف آئندہ کے وعدہ ہی پر رکھتا ہے بلکہ اس کے پھل اور آثار ہر وقت اور ہر زمانہ میں پائے جاتے ہیں اور اسی دنای میں ایک سچا مسلمان اُس ثمرات کو کھا لیتا ہے۔
بتلائو ایسے مذاہب انسان کو کیا امید دلا سکتے ہیں جن میں توبہ تک منظور نہیں۔ ایک گناہ کر کے جب تک کروڑوں جونین نصیب نہ ہولیں خد اتعالیٰ سے صلح ہی نہیں ہو سکتی وہاں کیا پائے گا۔ اس کی روح کو راحت اور تسلی کیونکر مل سکے گی۔ مذہب کی سچائی کی بری علامت یہ ہے کہ اس راہ سے دور افتا دہ خدا تعالیٰ کے نزدیک آجاتا ہے۔ جیسے جیسے وہ نیک عمل کرتا جاوے۔ اسی اسی قدر تاریکی دور ہو کر معرفت اور روشنی آتی جاوے اور انسان خود محسوس کرلے کہ وہ نجات کی ایک یقینی راہ پر جارہا ہے۔ اس کی ہدایتیں ایسی صاف اور واضح ہوں کہ انسان ان کے ماننے اور اس پر عمل کرنے میں اٹکے نہیں۔
بھلا یہ بھی کوئی تعلیم اور اصول ہے کہ زرہ زرہ کو خدا اقرار دے دیا جاوے جیسے خد اازلی ابدی ہے۔ اسی طرح پر زرات عالم اور ارواح کو بھی ازلی ابدی تسلیم کیا جاوے۔ اگر ایسا کوئی خد اہے کہ جس نے ایک ذرہ بھی کسی قسم کا پید انہیں کیا تو اس پر بھروسہ کیسا؟ اور اس کا ہم پر حق کیا ہے جو عبادت کریں کیونکہ عبادت کے لیے حق بھی تو ہونا چاہیے جب کوئی حق ہی نہ ہو تو ایک ذرہ ذرہ اُسے کہہ سکت اہے کہ تیرا ہم پر کیا حق ہے اس عقیدہ کو رکھ کر انسان کس طرح پر خدا پرست ہو سکتا ہے بلکہ میرے نزدیک خد اتعالیٰ کی ہستی پر دلیل ہی قائم نہیں ہو سکتی۔ اگر آریوں سے کوئی دہریہ پوچھے کہ پرمیشر کی ہستی کا کیا ثبوت ہے تو اس کا جواب وہ کیا دے سکتے ہیں۔ کیونکہ صانع کو مصنوعات سے شناخت کرتے ہیں۔ جبکہ مصنوعات ہی کا وجود نہیں تو صانع کا وجود کہان سے آیا۔ جیواورپر کرتی کو جو خود بخود تسلیم کرتے ہیں تو پھر اُن کے جوڑنے جاڑنے کے لیے کیا حاجب ہو سکتی ہے۔ اس طرح پر کوئی دلیل اﷲ تعالیا کی ہستی پر اُن کے ہاتھ میں نہیں اور جبتک اس کی ہستی پر کوئی دلیل نہ ہو کس طرح کوئی مان لے کہ وہ ہے۔
ماسوا اس کے ان لوگوں کا یہ بھی اصول نہیں کہ خد ارحم کرنیوالا ہے۔ ہر شخص کی اس ہستی پر توجہ ہوتی ہے جسے رحیم۔ کریم۔ فیاض تسلیم کرے۔ لیکن انہوں نے یہ مانا ہوا ہے کہ بگیر کرموں کے پھل کے اور کچھ عطا ہی نہیں کر سکتا۔ اگر کرموں پر ہی سارا مدار ہے تو اس خدا پر کیا بھروسہ اور کای امید جس کا زرہ بھر بھی احسان نہیں ہے۔
یہ تمام امور ہیں جب انسان ان کو بنظر غور دیکھتا ہے تو اُسے معلوم ہو جاتا ہے کہ سوائے اسلام یک دوسرون میں سچی ہدایتیں نہیں ملتی ہیں۔
ماسوا اس کے ایک اور بری بات قابل گور ہے کہ اسلام میں بہت بڑی خاصیت یہ ہے کہ انسان جس مطلب کے لیے بنایا گیا ہے وہ اسلام کے سوا حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ کیا ہے؟ یہ کہ خد اتعالیٰ کی محبت بڑھے اور اس کی معرفت ترقی کرے جس سے وہ ایک کامل سوق زوق کے ساتھ اس کی عبادت کرے۔لیکن یہ مطلب کبھی پورا نہیں ہو سکتا جبتک تعلیم اور ہدایت کامل نہ ہو اور پھر اس تعلیم اور ہدایت پر عمل کرنے کے جو نتائج اور ثمرات ہیں ان کا نمونہ موجود نہ ہو جس کو دیکھ کر معلوم ہو کہ دخا قادر خد اہے۔
یہ ساری باتیں اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جب انسان پر گور مطالعہ کرتا ہے۔ عقلمند اور سعید کے دل میں تو اﷲ تعالیٰ خود ہی ایک واعط پیدا کر دیتا ہے اور وہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں اسی طرخ امتیاز کر لیتا ہے جس طرح پر تاریکی اور نور میں کر لیتا ہے لیکن بعض شخص ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے دل پر ایک مہر ہوتی ہے وہ حقیقت تک پہنچنے کی سعی نہیں کرتے بلکہ بیہودہ اعتراض کرتے ہیں۔ سعادت خدا تعالیٰ کی عطا اور بخشش ہے کوئی شخص جبتک روح حق اور راستی سے مناسبت نہیں رکھتا ہے اس طرف آہی نہیں سکتا اور یہ خدا تعالیا کے فضل پر موقوف ہے۔
‏Amira 10-11-05
اگر کوئی کہے کہ اعمال سے شناخت ہو سکتا ہے کہ کونسا مذہب سچا ہے تو وہ لوگ جو راہزنی اور قزاقی کرتے ہیں اِن سے پوچھا جاوے تو وہ اُسے مکر وہ وہ خیال نہیں کرتے بلکہ ایک شکار سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اور لوگ جو فسق و فجور میں مبتلا ہیں وہ برا نہین سمجھتے۔ یہ کوئی بات نہیں ہے۔ اصل یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور فیض کے برکات اور انوار ساتھ ہوں۔
غرض اول یہ ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے متعلق غور کرے اور سمجھے۔ سب سے اول اسی کا فرض ہے اور یہ سمجھ ملنا اس کے فضل پر موقوف ہے۔ پھر دعا کرے اور نیک صحبت میں رہے اور یہ بھی خیال کرے کہ عمر کا کوئی اعتبار نہیں۔ بعض لوگ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ فلاں وقت اس نیکی کو کر لیںگ ے مگر وہ اس انتظار ہی میں رہتے ہیں اور موت آجاتی ہے۔ اس لیے نیکی کے اختیار کرنے میں دیر نہیں چاہیے۔؎ٰ
۱۰؍اگست ۱۹۰۵ء؁
قبل از عشاء
سچی اور آسمانی تہذیب
ذکر آیا کہ ایک انگریزی اخبار میں مضمون نکلا ہے کہ اسلام ہند میں نہیں پھیلا کیونکہ ہندو خود مہذب تھے اور کسی مہذب قوم میں اسلام پھیل نہیں سکتا۔ فرمایا :
یہ جھوٹ ہے ہندوستان میں سوائے چند ایک قوموں کے جو باہر سے آئی ہیں۔ (قریش۔ مغل۔ پٹھان) باقی سب ہند کے باسند ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا مثلاً شیخ ۔ خواجگان۔زمینداروں کی سب اقوام وغیرہ۔ یہ سب پہلے ہندو تھے۔
فرمایا : عیسائیوں کا عجیب طریقہ ہے۔ اگر کثرت دکھائی جاوے تو کہتے ہیں جبراً مسلمان ہوئے اور اگر کثرت نہ دکھائی جاوے تو کہتے ہیں اسلام کا کچھ اثر نہ ہوا۔فرمایا : تہذیب بھی ان کا اپنا بنایا ہوا ایک لفظ ہے، جس کے معنے ان کی اصطلاح میں سوائے اس کے نہیں کہ انسان خدا کی مقرر کردہ رسموں کو توہین سے دیکھے اور دنیا پرستی اور دہریہ پن کی طرف جھک جائے۔ سچی تہذیب وہ ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی۔؎ٰ جس کے ذریعہ سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے اور انسان اور حیوان میںفرق معلوم ہوتا ہے۔ اور جسکے ذریعے سے سچے اور جھوٹے مذہب میں ایک امتیاز پیدا ہوتا ہے اور انسان کو سفلی زندگی سے دل سرد ہو کر عالم جا ودانی کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک تہذیب اس کا نام ہے کہ انسان دنیا کا کیڑا بن جاوے۔ خدا کو بھول جاوے اور ظاہری اسباب کی پرستش میں لگ جائے۔ ۲؎ مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک تہذیب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہو جائے اور اس کی عظمت اور ہیبت دل میں بیٹھ جائے اور دل کو سثی پاکیزگی حاصل ہو جائے۔
یورپ میں جب عیسائیت پھیلی تھی تو اس وقت یورپ کس قدر تاریکی اور سخت بُت پرستی میں مبتلا تھا۔ پھر ان وحسی قوموں پر عیسائیت کا کیا اثر ہوا۔ صرف یہ کہ ایک بت پرستی کی جگہ دوسری بت پرستی قائم ہو گئی۔
خدا تعالیٰ کا ارادہ
اسلام نے وحشیوں کو حقیقی انسانیت تک پہنچایا۔ اُن کے اندر توحید کی روح پھونک دی مگر انجیل کی تعلیم نے صرھ یہ سکھایا کہ ایک انسان کو خدا بنانے کے لیے رگبت دی اور شراب اور سؤر کھلایا اور خدا تعالیٰ کی سچی عبادت سے آزاد کرکے اباحت کا دروازہ کھولا۔ پس چونکہ عیسائی مخلوق پرستی اور آزادی کے عادی ہو گئے ہیں۔ اس لیے نہیں چاہتے کہ سچا دین زمین پر پھیلے۔ مگر خدا کے ارادہ کو کون پلٹ سکتا ہے۔ ان لوگوں کی لرائی ارادۂ الٰہی کے ساتھ ہے۔ انسانی کوششوں سے اب یہ جنگ فتح نہیں ہوسکتی۔ مگر خدا تعالیٰ سب پر قادر و توانا ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ قادر ہے کہ نیازمین و آسمان بنادے۔ عرب کی پہلی حالت کہ وہ کس گند میں پڑے ہوئے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے تھے دیکھ کر اور پھر ان کی پچھلی حالت اسلامی دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ خدا سب کچھ کر سکتا ہے۔ ساری دنیا پر اثر ڈالنااور اُن کو اباحت کے گندے خیالات سے نکال کر اسلام کا پاک جامہ پہنانا انسانی کام نہیں ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہی دنیا کی اصلاح فرماسکتا ہے
ہماری کوششیں تو بچوں کا کھیل ہے نہ لوگوں کے دلوں سے ہم وہ گند نکال سکتے ہیں جو آجکل دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے نہ کمال محبت الٰہی کا اُن کے اندر بھر سکتے ہیں۔ نہ اُن کے درمیان باہمی کمال اُلفت پیدا کر سکتے ہیں جس سے وہ سب مثل ایک وجود کے ہو جائیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کے کام ہے؛ چنانچہ قرآن شریف میں صحابہؓ کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور نبی کریم ﷺ کو مخاطب کیا ہے۔
ھوالذیایدک بنصرہ وبالمومنین والف بین قلوبہم ۔ لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبہم ولکن اﷲ الف بینہم انہ عزیز حکیم (الانفال :۶۳‘ ۶۴)
وہ خدا جس نے اپنی نصرت سے اور مومنوں سے تیری تائید کی اور ان کے دلوں میں ایسی اُلفت ڈالی کہ اگر تو ساری زمین کے ذخیرے خرث کرتا تو بھی ایسے الفت پیدا نہ کرسکتا، لیکن خدا نے ان میں یہ الفت پیدا کردی۔ وہ غالب اور حکمتوں والا خدا ہے۔ جس خدا نے پہلے یہ کام کیا وہ اب بھی کر سکتا ہے۔ آئندہ بھی اسی پر توکل ہے جو کام ہونے والا ہوتا ہے اس میں خدا کے فضل کی روح پھونکی جاتی ہے جیسا کہ باغبان اپنے باغ کی آبپاشی کرتا ہے تو وہ تروتازہ ہوتا ہے۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ اپنے مرسلین کے سلسلہ کو ترقی اور تازگی عطا فرماتا ہے۔ جو فرقے صرف اپنی تدبیر سے بنتے ہیں ان کے درمیان چند روز میں ہی تفرقے پیدا ہو جاتے ہیں جیسا کہ برہمو تھوڑے دن تک ترقی کرتے کرتے آخررک گئے اور دن بدن نابود ہوتے جاتے ہیں کیونکہ ان کی بنا صرف انسانی خیال پر ہے۔
ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کے بڑے برے وعدے ہیں۔ کوئی انسانی عقل یا دور اندیشی یا دنیوی اسباب ان وعدوں تک ہم کو نہیں پہنچا سکتے۔؎ٰ اﷲ تعالیٰ خود ہی سب اسباب مہیا کردے گا۔ تب یہ کام انجام کو پہنثے گا۔ اگر بالفرض ہماری جماعت کی تعداد بیس پچیس لاکھ تک پہنچ کر ٹھہر جائے تو پھر بھی کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ اتنی تعداد سکھوں کی بھی ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ ساری دنیا اس جماعت سے بھر جائے اور یہ انسان کا کام نہیں۔ انسان کی زندگی کا تو ایک دم کا اعتبار نہیں۔ وہ کیا کر سکتا ہے۔
نبی کا بڑا معجزہ
لیکن خدا سب کچھ کر سکتا ہے۔ دراصل بڑا معجزہ یہی ہے کہ فرستادہ کی علتِ غائی باطل نہ ہو جاوے۔ حضرت رسول کریم ﷺ کے صد ہا معجزات ہیں لیکن سب سے بڑا یہی ہے کہ جس بات کا دعویٰ کیا تھا اس کو پورا کر دکھایا۔طبیب حاذق اسی طرح پہچانا جاتا ہے کہ بڑے بڑے بیمار اس سے شفا پائیں تب ہی اس کا دعویٰ سچا ثابت ہو۔ ۲؎
صحابہ کرام کی مثالی وفاداری
حضرت نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت قوم عرب کے تمدن اور اخلاق اور روحانیت کا کای حال تھا۔ گھر گھر میں جنگ اور شراب نوشی اور زنا اور لوٹ مار۔ غرض ہر ایک بدی موجود تھی۔ کوئی نسبت اور تعلق خدا کے ساتھ اور اخلاق فاضلہ کے ساتھ کسی کو حاصل نہ تھا۔ ہر ایک فرعون بنا پھرتا تھا، لیکن آںحضرت ﷺ کے آنے سے جب اسلام میں داخل ہوئے تو ایسی محبت الٰہی اور وحدت کی روح ان میں پیدا ہو گئے کہ ہر ایک خدا کی راہ میں مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔؎ٰ انہوں نے بیعت کی حقیقت کو ظاہر کر دیا اور اپنے عمل سے اس کا نمونہ دکھادیا۔ اب تو بعض لوگ بیعت میں داخل ہوتے ہیں تو ذرا سے ابتلاء سے گھبرا جاتے ہیں۔مال اور جسمانی آرام سے بڑھ کر جان پیاری ہوتی ہے۔صحابہؓ نے سب سے پہلے اپنی عزیز جان کو فدا کیا۔ ۲ ؎ برخلاف اس کے یسوع کے شاگردوں میں کوئی بات نہیں دیکھتے جس سے یسوع کی کامیابی پر دلیل پکڑی جائے۔ پطرس نے انکار کیا، ۳؎ بلکہ *** کی۔ یہودا نے گرفتار کرایا۔ باقی بھاگ گئے۔ معلوم ہوتا ہے اُن کے ہادی میں کچھ کشش نہ تھی کہ اُن کو برائی اور منتشر ہونے سے روک سکتی۔ یہ خدا کا فضل ہے جس پر چاہے کرے۔ اﷲ تعالیٰ کیزات میں ایک کشش اور جذب ہے وہ جزب خدا تعالیٰ اپنے کامل نبی میں رکھ دیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ نے کس قدر وفاداری کا نمونہ دکھایا۔جس کی نطیر نہ پہلے تھی نہ آگے دکھائی دیتی ہے۔ لیکن خدا چاہے تو وہ پھر بھی ویسا ہی کر سکتا ہے۔ ان نمونوں سے دوسروں کے لیے فائدہ ہے۔ اس جماعت میں خدا تعالیٰ ایسے نمونے پیدا کر سکتا ہے۔۴؎
خدا تعالیٰ نے صحابہؓ کی تعریف میں کیا خوب فرمایا ہے۔
من المومنین رجال صدقو اما عا ھدو ااﷲ علیہ ھمنہم من قضی نحبہ
ومنہم من ینتظر (الاحزاب : ۲۴)
مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہون نے اس وعدہ کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے خدا کے ساتھ کیا تھا۔ سو ا۲ن میں سے بعض اپنی جانیں دے چکے اور بعض جانیں دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔ صحابہؓ کی تعریف میں قرآن شریف سے آیات اکٹھی کی جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی اُسوہ حسنہ نہیں؎ٰ
غیر معمولی موسم کا نشان
آسمان پر گروغبار سے بارش نہ ہونے اور موسم میں ایک غیر معمولی رنگ رہنے کا ذکر تھا۔فرمایا :
ایک دن سخت گرمی اور لوگوں کی گھبراہٹ کو دیکھ کر میں دعا کرنے لگا تھا مگر پھر مجھے خیال آیا کہ اﷲ تعالیٰ یہ جو کچھ کر رہا ہے ہماری ہی تائید کر رہا ہے۔ آج اگر طاعون اٹھ جائے۔ زلزلوں سے امن ہو جائے اور فصلیں خوب پک جائیں تو پھر لوگوں کا یہی کام ہوگاکہ امن پاکر ہم کو گالیاں دینے میں مصروف ہو جائیں۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی کو ظاہر کر دوں گا۔ یہی اس کے حملے ہیں۔پس ہم ان حملوں کو روکنے کے واسطے کیوں دعا کریں؟ دنیا کے آرام میں ہمارا آرام نہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ ہمارے لیے ہی ہو رہا ہے اور ہمیشہ سے عادت اﷲ اسی طرح جاری ہے ۔ جب ہمارے ہر امر کا متولی خد اتعالیٰ ہے تو ہمیں کیا غم ہے۔ جو ہو گا کوئی نشان ہی ہوگا۔
بدر جلد ۱ نمبر ۲۰ صفحہ ۲،۳ مورخہ ۱۷ ؍اگست ۱۹۰۵ء؁
۱۱؍اگست ۱۹۰۵ء؁
دربار سام
تناسخ
حضرت حکیم الامت کا بثہ عبد القیوم بیمار تھا۔ گذشتہ شب کواسے تکلیف تھی۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کا حال پوچھ رہے تھے۔ اسی ذکر میں حضرت حکیمالامت نے کہا کہ میں اس سوال پر سوچتا رہا کہ آریہ جو اعتراض کرتے ہیں کہ بچوں کو جو دکھ یا تکالیف پہنچتی ہیں یہ ان کے پچھلے جنم کا نتیجہ ہے۔ اس تحریک پر حضرت اقدس نے زیل کی تقریر فرمائی:
یہ تو بالکل بیہودہ عقیدہ ہے۔؎ٰ اول تو یہ بھی قابل گور امر ہے کہ آیا بچے اس قدر تکلیف محسوس بھی کرتے ہیں یا نہیں جس قدر ماں باپ محسوس کرتے ہیں، کیونکہ حس بھی عقل کے ساتھ ہی بڑھتی ہے۔ اور علاوہ بریں بچہ بھی جو بہشت میں داخل ہوگا تو کسی حق ہی سے ہوگا اس لیے اس قسم کی تکالیف اُٹھاتا ہے۔۲؎
تکالیف اور شدائد کا فلسفہ
اصل بات یہ ہے کہ انسانی فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ زود کوب ہی سے درست ہوتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت انسان کی تکمیل چاہتی ہے اور خود عبودیت کا بھی تقاضا ہے کہ کسی نہ کسی طرح تکمیل کرے۔ اس لیے منجملہ تکمیل کی صورتوں کے ایک شدائد اور مصائب بھی ہیں۔
انبیاء علیہم السلام جو بالکل معصوم اور مقدس وجود ہوتے ہیں وہ بھی تکالیف اور شدائد کا نسانہ بنتے ہیں۔؎ٰاور ایسے مصائب ان پر آتے ہیں کہ اگر کسی اور پر آئیں تو وہ برداشت ہی نہ کرسکے۔ ہر طرف سے ان کے دشمن اُٹھتے ہیں۔کوئی باتوں سے دکھ دیتا ہے۔کوئی حکام وقت کے ذریعہ تکلیف دینے کا منصوبہ کرتا ہے کوئی قوم کو اس کے برخلاف اکساتا ہے۔ غرض ہر پہلو سے اس کو تکلیف دی جاتی ہے اور ہر طرح کی بے آرامی اور حزن و گم اُن پر آتا ہے۔ باوجود اس کے ان ساری باتوں کا کچھ بھی اثر اُن پر نہیں ہوتا اور وہ پہار کی طرح جنبش نہیں کرتے۔کیا اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ گنہگار ہیں؟ ہر گز نہیں۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے تو اس سے بڑھ کر بیہودگی اور کیا ہوگی۔ بچوں کی تکالیف کا مسئلہ انبیاء علیہم السلام کے مسئلہ سے خوب حل ہوتا ہے۔ معصومیت کے لحاظ سے بچہ سمجھ لو۔یہ مصائب عبودیت کی تکمیل کے لیے ہیں۔۲؎ اور عالم آخرت کے لیے مفید ہیں۔ اگر ایسی حالت ہوتی کہ مرنے کے بعد بچہ کی روح مفقود ہو جاتی تو بھی اعتراض کا موقعہ ہوتا۔ لیکن جب جاودانی عالم اور ابدی راحت موجود ہے۔ تو پھر یہ سوال ہی کیوں ہے؟ اگر یہ سوال ہے کہ بغیر تکلیف کے اس ابدی راحت میں داخل کردے تو پھر کہیں گے کہ معاصی کا بکھیڑ اکیوں ہے اس کے ساتھ ہی داخل کر سکتا تھا۔۳؎ اس کا جواب یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی ذات میں غنی بے نیاز ہے۔ انسان کو نجات اور ابدی آسائش کے
حصول کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے۔ جب تک وہ تکالیف اور شدائد نہیں اُٹھاتا ۔ راحت اور آسائس نہیں پا سکتا۔
یہ شدائد دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو انسنا خود مجاہدات کرتا ہے۔ اپنے نفس کے ساتھ جنگ کرتا ہے اور اس طرح پر اکثر تکالیف میں سے ہو کر گذرتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ قضاء و قدر خود اس پر کچھ تکالیف نازل کر دیتی ہے اور اس ذریعہ سے اسے صاف کرتی ہے۔ اس طریق میں بچہ اور انبیاء علیہم السلام کہ بے گناہ اور معصوم ہوتے ہیں اس پر بھی مصائب اور شدائد ان پر آتے ہیں وہ محض ان کی تکمیل اور ان کے اخلاق اور صدق وفا کے اظہار کے لیے۔
انسان کے لیے سعی اور مجاہدہ ضروری ثیز ہے اور اس کے ساتھ مصائب اور مشکلات بھی ضروری ہیں۔
لیس للانسان الا معسعی (النجم : ۴۰)
جو لوگ سعی کرتے ہیں وہ اس کے ثمرات سے فائدہ اّٹھاتے ہیں اسی طرح پر جو لوگ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور نفس کی قربانی کرتے ہیں۔ ان پر الٰہی قرب و انوار و برکات اور قبولیت کے آثار طاہر ہوتے ہیں اور بہشت کا نقشہ ان پر کھولا جاتا ہے۔
یہ لوگ؎ٰ اس راہ سے بے خبر ہیں اور ان انعامات سے بے بہرہ۔ اس لیے ایسے گندے اور بیہودہ اعتراض کرتے ہیں۔ ان کے ہاں تو نجات کسی کو ملتی ہی نہیں ہے۔ یہی درجہ ہے کہ وہ تناسخ مان بیٹھے ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ اس عالم کی تکالیف کا اجر دوسرے عالم میں ملتا ہے۔ جس طرح پر انبیاء ورسل کو ملتا ہے اسی طرح پر دوسرے لوگوں کو ملتا ہے۔ سنت اﷲ یہی ہے۔ اور انسانی کمزوری ضروری تھی تا کہ وہ خد اکا ہمسر نہ ہو۔ ہاں اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے مظہر تجلیات الٰہیہ ہوتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصائب اور شدائداٹھائے اور بہت سی ماریں کھائے۔۲؎یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ اس کی سچائی تجربہ سے ثابت ہو رہی ہے۔ پس جب ایک واقعہ تجربہ سے ثابت ہو جاوے تو اس پر بحث فضول ہے۔
ھرمایا: تناسخ کی دلیل میں جو امیر اور مھلس کا تفاوت پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک بیہودہ بات ہے۔ اس لیے کہ گنی کے لیے زکوٰۃ اور صدقات رکھے ہیں کہ وہ ادا کرے اور مفلس کے لیے صبر رکھا ہے اور دونون کے لیے اجر ہے۔ ا سکی ایسی مثال ہے جیسے کسی نے دو چار کوس کا راستہ طے کرنا ہو۔ ایک سخص کے پاس تو عمدہ عمدہ کھانے ہوں اور دوسرے کے پاس ستو ہی ہوں۔ دونوں ہی ا س راستہ کو طے کر لیں گے اور منزل مقصود پر جا کر اپنے اعمال کے موافق فائدہ اُٹھائیں گے۔؎ٰ
’’تناسخ پر تو اس قدر اعتراض ہوتے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک طرف تو یہ لوگ ناطہ رشہ میں دور دراز کی گوتوں اور ذاتوں کا لحاظ کرتے ہیں۔۲؎ دوسری طرف اگر بچہ کی ماں یا بہن اس کی چھوٹی عمر میں مرجاوے اور کسی دوسری جگہ جنم لے کر اس کے ساتھ بیاہی جاوے تو اس کے روکنے کا کیا انتظام ہے۳؎؟
اور پھر تناسخ کے لیے یہ بھی ضروری ہوگا کہ جرائم کے انواع بھی تجویز کریں۔ کیونکہ جس کثرت سے کیڑے مکوڑے پید اہوتے ہیں۔ یہ سب جرائم ہی کی وجہ سے ہوں گے؟ اور پھر ہر جون کا گناہ الگ چاہیے۔ اس قسم کے بہت سے اعتراض اس مسئلہ پر وارد ہوتے ہیں۔۴؎
الحکم جلد ۹ نمبر ۲۹ صفحہ ۴ موخرہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۵ء؁
۱۳؍اگست ۱۹۰۵ء؁
دربار شام
ایک نو مسلم صاحب رحیم آباد ؎ٰ سے آئے ہوئے تھے۔ حضرت حکیم الامت نے ان کی زبانی بیان کیا کہ وہ پنڈت دیانند صاحب کے ساتھ سات سال تک رہے ہیں۔پھر خود نو مسلم صاحب نے بیان کیا کہ مین نے ویدوں کو ایشور انند سے پڑھا ہے۔
حضرت حجۃ اﷲ مسیح موعود ؑ نے پوچھا کہ آپ کے قبول اسلام کی کیا تقریب ہوئی۔ جواباً کہا کہ اصل تو آپ کی پیشگوئیوں پر میری نظر تھی اور اس کے بعد دیوریا کے مباحثہ میں مجھ پر اسلام کی سچائی واضح ہو گئی اور میں مسلمان ہو گیا۔
معراج کی حقیقت
اس کے بعد انہوں نے ساول کیا کہ معراج کے متعلق حضور کی کیا رائے ہے؟ کیا وہ جسمانی تھا یا روحانی؟ اس کے جواب میں حضرت اقدس نے زیل کی تقریر فرمائی :
فرمایا: جبتک انسان بے خبر ہوتا ہے اس کی باتیں نری اٹکلیں ہی ہوتی ہیں ۔ ایسا ہی معراج کے متعلق لوگوں کا حال ہے۔ وہ اس کی حقیقت اور اصلیت سے بیخبر ہیں۔ ہم تو معراج کو بالکل بیداری تسلیم کرتے ہیں۔ ہاں ایک بیداری دنیاداروں کی ہے اور ایک بیداری عارفوں، صادقوں، نبیوں اور خدا رسیدہ لوگوں کی بیداری ہوتی ہے اور ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
آنحضرت ﷺ چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور تمام صادقوں اور عارھوں کے سرادر ہیں اس لحاظ سے یہ مرتبہ بھی آپ کا سب سے بڑھا ہوا ہے۔ معراج ایک کشفی معاملہ تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ کشف دو طرح کا ہوتا ہے۔
‏Amira 11-11-05
ایک کشف ایسا ہوتا ہے کہ اس میں گیبت حس زیادہ ہوتی ہے۔ دوسرا کشف ایسا ہوتا ہے کہ وہ بالکل بیداری کے رنگ میں ہوتا ہے اور دراصل ہوتی ہی بیداری ہے۔ اس قسم کے کشف کو خواب کبھی کہہ ہی نہیں سکتے، بلکہ ایسے کشف کو خواب کہنا ایسی ہی غلطی ہے جیسے کوئی دن کو رات کہہ دے۔ اس حالتِ کشف میں صاحب کشف وہ دیکھتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے اور وہ اسرار مشاہدہ کرتا ہے جو دوسروں کو نصیب نہین ہوتے۔اس بیداری میں (جو عام لوگوں کی حالت ہوتی ہے) اس بیداری کے مقابلہ میں صدہا پردے اور حجاب ہیں۔ اگر اس کو اندھا کہیں تو زیادہ مناسب ہے اور اگر بہرہ کہیں تو زیادہ موزوں ہے۔ لیکن اس کشفی بیداری میں اعلیٰ درجہ کی بینائی اور شنوائی عطا ہوتی ہے۔ جس میں صاحبِ کشف وہ حالات دیکھتا ہے جو کسی نے نہ دیکھے ہوں اور وہ باتیں سنتا ہے جو کبھی نہ سنی ہوں۔ پس اس قسم کی بیداری کے ساتھ وہ معراج تھا اور ایک لطیف اور راحانی جسم کے ساتھ تھا۔
انسان کے دو جسم ہیں۔ ایک زمینی اور دوسرا آسمانی جسم ہے۔ زمینی جسم کے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے۔
الم نجعل الارض کفاتا (االمرسلت : ۲۶)
پس آنحضرت ﷺ کا معراج جس جسم کے ساتھ ہوا وہ آسمانی جسم تھا۔ وہ معراج قابل تعریف نہیں جو عوام مانتے ہیں۔ ثونکہ ہر شخص اپنی حد تک بات کرتا ہے۔ بچہ اس حدتک ہی کہتاہے جو کھیل تک محدود ہو۔ کم علم اپنی حد تک ۔ اسی طرح یہ لوگ چونکہ اس حقیقت سے محض نا واقف ہیں اس لیے اعتراض کرتے ہین’ اصل بات یہی ہے کہ ایسا کشفی رنگ تھا کہ اس کو ہر گز خواب نہیں کہہ سکتے۔ یہ سثی بیداری تھی جس میں آنحضرت ﷺ کو وہ کمال حاصل ہوا۔ اور یہ حاصل نہیں ہو سکتا جبتک کامل درجہ کا تقدس اور تطہر نہ ہو۔
اس تقریر کو سن کر شیخ عبد الحق صاحب (جو اس نو مسلم کا نام ہے) نے کہا۔ یہ تو بالکل سچ ہے۔
افسوس یہ مخالف مولوی منبروں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ وہ معراج سے ہی منکر ہیں۔
اس پر پھر حضرت اقدس نے سلسلہ تقریر شروع کیا۔ فرمایا :
اسلام اور دوسرے مذاہب میں مابہ الامتیاز
جو کچھ اسلام کا زیور تھا جس پر اسلام کو ہمیشہ ناز تھا اور جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں مابہ الامتیاز تھا اس سے یہ لوگ بالکل بے خبر ہیں۔ اسلام کے سوا جس قدر مذاہب دنیا میں موجود ہیں۔ اُن کی یہ حالت ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے محبوب کی بڑی تعریف کرے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہدے کہ ہاں ایک آنکھ اس کی نہیں اور دوسرا ساری تعریفیں کرنے کے بعد کہدے کہ اس کی شنوائی نہیں یا ایک ٹانگ نہیں۔ غرض کوئی نہ کوئی نقص ضرور مانتے ہیں۔ پورے طور پر کامل محبوب تسلیم نہیں کرتے۔ اسلام میں یہ خوبی ہے کہ اس نے احسن طور پر خد اتعالیٰ کو دکھایا ہے اور کبھی انسان شرمندہ نہیں ہوسکتا۔ جس قسم کا خدا انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے وہ ایسا ہی اسلام میں پائے گی۔ کوئی نقص اور کمزوری اس میں نہیں ہے۔ اسلام ایسا مذہب ہے جو ایک ہی زندہ اور ابدی مذہب ہے، کیونکہ اس کی تاثیرات اور پھرل ہمیشہ تازہ بتازہ موجود رہتے ہیں، لیکن ہمارے مخالف علماء اسلام کی عام خوبیاں تو بیان کرتے ہیں کہ وہ توحید کی تعلیم دیتا ہے، لیکن ایک اعلیٰ درجہ کی خوبی کا انکار کرتے ہیں۔ ایسا تو ایک برہمو بھی کر سکتا ہے۔ ھرض کرو کہ اگر ایک برہمو کہے کہ بے شک
لا الاہ الا اﷲ
کی تعلیم عمدہ ہے اور میں بھی مانتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کی صفات بھی مانتا ہوں اور اﷲت عالیٰ کی قدرتوں پرایمان لاتا ہوں اور تمہاری طرح ہم بھی تناسخ کے نقص بیان کرتے ہیں۔ اور اس کی تردید کرتے ہیں۔ باوجود ان باتوں کے وہ آنحصرت ﷺ کی نبوت سے نکار کرتا ہے تو کیا اس کی اتنی باتیں قابل قدر ہو سکتی ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ا سلیے کہ اسلام کی جو اعلیٰ درجہ کی خوبی تھی وہ تو اس نے فروگذاشت کردی۔ اﷲ تعالیٰ کی ہستی کا یقینی ثبوت اور زندہ ثبوت تو آنحضرت ﷺ کی رسالت ہی تھی۔ جب اسے وہ نہیں مانتے تو معلوم ہوا کہ باقی جو کچھ ہے وہ بھی محض خیالی امر ہے۔ اسی طرح پر ہمارے مخالف علماء کی حالت ہو رہی ہے۔ وہ چیز جو میں دنیا کو دینی چاہتا ہوں وہ ان کے پاس نہیں اور اس سے وہ غفلت کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ انسان جبتک اﷲت عالیٰ کی ہستی کو سمجھ نہیں لیتا اور انا الموجود ہونے کی آواز نہیں سن لیتا نفسِ امّارہ پر گالب نہیں آتا۔ اسلام کی اصل غرض یہی تھی جو اب مفقود ہو چکی تھی۔ اس کے احیاء کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ دنای میں جس قدر کوئی کسی سے خوف کرتا ہے یا کسی کی طرف رغبت کرتا ہے۔ وہ معرفت کا ثمرہ ہوتا ہے۔ دیکھو اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ اس سوراخ میں سانپ ہے تو وہ کبھی اس میں ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ رات کے وقت اس مکان میں بھی داخل نہ ہوگا۔ ایسا ہی اگر معلوم ہو کہ یہاں ایک خزانہ مخفی ہے تو اس کی طرھ التفات پید اہوگی۔ اندھیرے میں اگر ایک چیز کو بکرا سمجھتا ہے تو جبتک اُسے بکرا سمجھا ہے پاس کھڑا رہے گا، لیکن یونہی جب یہ خیال ہوگا کہ وہ شیر ہے پھر وہاں نہیں رہ سکتا۔ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ کسی چیز کی محبت اور خوف معرفت سے پیدا ہوتی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی آدمی دانستہ زہر نہیں کھا سکتا۔ سنکھیا خواہ شہد میں بھی ملا ہوا ہو پھر بھی کوئی اسے نہیں کھائے گا کیونکہ جانتا ہے کہ اس کو ہلاک کرنیوالی زہر ہے۔ لیکن اسی طرح پر گناہ بھی ایک زہر ہے جو انسان کی روح کو ہلاک کرتا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خد اتعالیٰ کی ہستی پر ایمان رکھتا ہے تو پھر بڑی دلیری اور جرأت سے گناہ کیوں کرتا ہے۔ اگر اسے یہ معرفت ہو کہ کوئی محاسب بھی ہے تو اس قدر دلیری نہ کرے۔ یہ دلیری اور جرأت عدم معرفت کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔
غرض اسلام اور دوسرے مذاہب میں جو امتیاز ہے وہ یہی ہے کہ اسلام حقیقی معرفت عطا کرتا ہے جس سے انسان کی گناہ آلود زندگی پر موت آجاتی ہے اور پھر اُسے ایک نئی زندگی عطا کی جاتیہے جو بہستی زندگی ہوتی ہے۔ میں سچ کہت اہوں کہ اگر قرآن شریف سے اعراض صوری یا معنوی نہ ہو تو اﷲ تعالیٰ اس میں اور اُس کے غیروں میں فرقان رکھ دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان پیدا ہوتا ہے۔ اس کی قدرتوں کے عجائبات وہ مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کی معرفت بڑھتی ہے۔ اسکی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کو وہ حواس اور قویٰ دیئے جاتے ہیں کہ وہ ان چیزوں اور اسرار قدرت کو مشاہدرہ کرتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھتے وہ ان باتوں کو سنتا ہے کہ اورون کو اُس کی خبر نہیں اسی لیے فرمایا
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل : ۷۳)
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان کے لیے انسان اسی عالم سے حواس لے جاتا ہے۔ اسی جگہ سے وہ بصارت لے جاتا ہے جو وہاں کی اشیاء اور عجائبات کو دیکھے اور یہاں ہی سے وہ شنوائی لے جات اہے جو سنے۔ گویا جواس جہان میں وہاں کی باتیں دیکھتا اور سنتا نہیں وہ وہاں بھی نہیں دیکھ سکے گا۔
یہ تھاما بہ الامتیاز اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان جس کو میرے مخالف پیش نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ نے اسی فرقان کو دے کر مجھے بھیجا ہے۔ اب سوال ہوتا ہے کہ جبکہ یہ مابہ الامتیاز ہے تو کیوں ہر سخص نہیں دیکھ لیتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سنت اﷲ اسی طرح پر واق ع ہوئی ہے کہ یہ بات بجز مجاہدہ، تو بہ اور تبتل تام کے نیں ملتی؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
والذین جاھدو افینا لنھد ینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کریں گے انہی کو یہ راہ ملے گی۔ پس جو لوگ خد اتعالیٰ کے وصایا اور احکام پر عمل نہ کریں بلکہ اُن سے اعراض کریں اُن پر یہ دروازہ کس طرح کھل جائے۔یہ نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی سخص کہے کہ یہان ایک خزانہ مدفون ہے اور دس بارہ دن کی محنت کے بعد نکل سکتا ہے اور کوئی شخص محنت تو کرے نہیں اور یہ کہے کہ خزانہ مل جاوے ۔کیونکر ملے گا؟ اسی طرح پر یہ خزانہ اﷲ تعالیٰ نے اسلام میں رکھا ہے لیکن اس خزانہ کی کلید احکام اور ہدایتوں پر عمل ہے۔ اس کی وصیت اور ہدایت پر عمل کرنا اور محض خدا کے لیے نفس کو روک رکھنا یہ کنجی ہے اور اسلام ہی میں یہ ملتی ہے۔
من یبتگ غیر الاسلام دینا ھلن یقبل منہ (ال عمران : ۸۶)
اسلام ایک چشمہ ہے۔ اگر کوئی شخص اس پر جا بیٹھا ہے اور منہ رکھ کر اس سے سیراب ہو کر نہیں پیتا تو اس کا اپنا قصور ہے۔ اس چشمہ کا کای قصور ہے؟ اگر کوئی سخ آفتاب کی طرف سے اپنے دروازے اور کھڑکیان بند کر لیتا ہے تو ضرور ہے کہ اس کے کمرہ میں تاریکی آجاوے اس میں آفتاب کا کوئی قصور نہیں۔ اس لیے جب تک انسان سچا مجاہدہ اور محنت نہیں کرتا وہ معرفت کا خزانہ جو اسلام میں رکھا ہوا ہے اور جس کے حاصل ہونے پر گناہ آلودزندگی پر موت وارد ہوتی ہے ۔انسان خد ا تعالیا کو دیکھتا ہے اور اس کی آوازیں سنتا ہے اُسے نہیں مل سکتا؛ چنانچہ صاف طور پر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنۃ ھی الماوی (النزعت : ۴۱،۴۲)
یہ تو سہل بات ہے کہ ایک شخص متکبرانہ طور پر کہدے کہ میں اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہوں اور باوجود اس دعویا کے اس ایمان کے آثار اور ثمرات کچھ بھی پیدا نہ ہوں یہ نری لاف زنی ہوگی۔ ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ کی کچھ پرواہ نہیں کرتے اور اﷲ تعالیٰ بھی ان کی پرواہ نہیں کرتا۔
اصل بات یہی ہے کہ یہ دولت مجاہدہ اور محنت کے بغیر ہاتھ نہیں آتی ہے اور اُن راہوں پر ثلنا سب کے لیے ضروری ہے۔ یہانتک کہ انبیاء و رسل کے لیے بھی یہی راہ ہے۔ ان کو جو ھتوحات دیئے جاتے ہیں وہ اسی راہ سے ملتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام تو اس راہ میں فنا ہو جاتے ہیں اور وہی حالت ہوتی ہے جب ان سے معجزات صادر ہوتے ہیں۔ وہ عام لوگوں سے بالکل نرالی قوم ہوتی ہے۔ہر شخص تو یہ ثاہتا ہے کہ لوگ اس کی تعریھ کریں۔ اس کی عزت اور شہرت ہو۔ برخلاف اس کے انبیاء علیہم السلام اپنے نفس کو بالکل بھلا دیتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ ہی کی عزت اور عظمت کے بھوکے پیاسے ہوتے ہیں۔خدا تعالیٰ کی عطمت اور جبروت کے اطہار کے لیے وہ ہر قسم کی ذلت کے برداست کرنے کو تیا رہو جاتے ہیں۔ وہ تمام دکھوں اور مصیبتوں کو برداست کرتے ہیں مگر ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔ ان کی ساری خواہشیں اور آرزوئیں اسی ایک بات پر آکر ختم ہو جاتی ہیں کہ کسی طرح پر اہل دنیا خدا تعالیا پر ایمان لاویں ۔انہیں سخت تکلیف پہنچتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ مشرک اور خدا تعالیٰ سے دور لوگ اپنے بتوں اور معبودوں کی ایسی تعریف کرتے ہیں جو خدا تعالیا کی ہونی چاہیے۔ ایسا ہی وہ اس کو بھی برداست نہیں کر سکتے کہ لوگ ہر قسم کے فسق وفجور اور بد اعمالیوں میں مبتلا ہو کر خدا تعالیے منہ موڑیں۔ ایسی صورت میں اُن کے دل پر قلق اور کرب کا استیلا ء ہوتا ہے۔ پس جب اُن کے دکھوں اور تکلیف کا اندازہ حد سے گذر جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ پھر گوارا نہیں کرتا کہ وہ اس طرح پر دکھ اُٹھائیں۔ اس لیے وہ کرامت یا نشان ظاہر کرتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھو کہ راستباز دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو انبیاء و رسل ۔ یہ تو اعلیٰ درجہ کے راستباز اور مقدس وجود ہیں۔ دوسری قسم کے وہ راستباز ہیں جو عام مومن ہوتے ہیں۔ لیکن اُن میں کچھ نہ کچھ بقایا نفس بھی موجود ہوتاہے۔ ان دوسرے درجہ کے لوگوں کو بھی اﷲ تعالیٰ کچھ نہ کچھ خوارق کا حصہ دی دیتاہے۔لیکن برے نشانوں کی مستحق وہی قوم انبیاء و رسل کی ہے جو کسی صورت میں بھی خدا تعالیا کے گیر کا جلال نہیں دیکھ سکتے۔ ان کی مصیبت اور دکھ اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے خلاف نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔میرا ایمان یہی ہے کہ نوح علیہ السلام کا طوفان جو آیا اس طوفان سے پہلے ایک طوفان خود نوح پا بھی آیا۔ تب وہ طوفان آیا جس نے لوگوں کو غرق کیا۔ اسی طرح پر موسیٰ ؑنے ایک سخت مصیبت دیکھی جو لوگوں کی نظر سے مستوری تھی مگر وہ ایسی مصیبت تھی کہ اُسے اُن کا ہی دل برداشت کر سکتا تھا اور ایسی بھاری مصیبت تھی جس نے یہ نمونہ غرق دکھایا۔ نوح ؑ کا غم خیال کرو کہا نتک پہنچا ہوگا جو خدا تعالیٰ کا غضب اس طرح پر بھرکا۔
یقینا سمجھو کہ یہ قوم ایک عجیب قوم ہوتی ہے۔ لوگوں کے ہم و غم اپنے گھر کے دائرہ کے اندر ہوتے ہیں۔ بیوی بچوں کا غم ہوا یا اپنی عزت و دولت کے لیے۔ اور اسی لیے خدا تعالیٰ ان کی پروا نہیں کرتا، لیکن اس قوم کے غموں کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف مخلوق کی ہمدردی انہیں ہم و غم میں مبتلا کرتی ہے۔ دوسری طرف اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور شان بلند کرنے کے لیے کڑھتے ہیں اور یہ بات تکلف یا بناوٹ سے پیدا نیں ہوتی۔ ان کی فطرت ہی اس قسم کی بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس قوم کو اس رنگ میں گویا آگ لگی ہوئی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اﷲ تعالیٰ گوارا نہیں کرتا کہ وہ غم میں مرجاویں۔ وہ دیکھتا ہے کہ ان کا غم محض اس کے لیے ہے۔ اُن سے اگر پوچھا جاوے کہ وہ کیوں اس قدر غم کھاتے ہیں تو بتلا نہیں سکتے کیونکہ ان کے تعلقات زاتیہ ہوتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کی عظمت کے اظہار کے لیے وہ طبعی طور پر بے قرار ہوتے ہیں۔ اور اس میں اُن کے نفس کا کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا۔ کامل نفوس کے تعلقات جو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں وہ اس قسم کے ہیں کہ اگر بہشت دوزخ بھی نہ ہو تب بھی وہ دور نہیں ہو سکتے۔ غرض انسان اس کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ وہ اﷲ تعالیا کی عظمت و جبروت کے لیے کس کس قسم کے قلق وکرب میں رہتے ہیں ۔جب یہ اضطراب حد سے بڑھ جات اہے تو پھر آسمانی نسان ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سث ہے کہ خدا تعالیٰ بے پروا ہے۔ اگر ساری دنیا اس کی حمد و ستائس کرے اور کوئی بھی ا سکی خلا ف ورزی نہ کر ے تو اس کی شان ربوبیت اور الوہیت میں کثھ بھی زیادتی نہیں ہوسکتی اور نہ اس سے کوئی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اگر سب کے سب فسق و فجور میں مبتلا ہو جائیں۔مگر بات یہ ہے کہ جب ایک انسان اس کے لیے ہی کھپتا ہے تو آخر اُسے اپنی مستور ذات کو ظاہر کرنا پڑتا ہے۔ یہی سر ہے اس حدیث میں
کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف
اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب اﷲ تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں کا قلق ۔کرب حد سے بڑھتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے مجاہدات کا اتنا ہی نتیجہ نہیں ہوتا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو دیکھتے اور پہچانتے ہیں بلکہ دنیا پر بھی احسان کر جاتے ہیں کیونکہ اسے بھی دکھا دیتے ہیں۔
پس نرے چھلکے پر کفایت کر لینا کافی نہیں ہے۔ ایسی متاع چرائی جا سکتی ہے لیکن جو متاع حقیقی اسلام پیش کرتا ہے جو اس کے اور اس کے غیروں میں مابہ الامتیاز ہے اُسے کوئی چرا نہیں سکتا۔ یہ بات ہے جو ہم پیش کرتے ہیں کہ خدا تعالیا موجود ہے اور اُس کے امتیازی نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ اسلام کے ثمرات اب بھی ایسے ہی ہین’ اگر کوئی ان پھلوں کو نہیں کھاتا تو اسلام کا کیا قصور؟ طبیب اگر ایک نسخہ بتادے اور کوئی اسے استعمال نہ کرے تو اس میں طبیب کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ اسلام میں یہ ایسی نعمت ہے جو کسی اور دین میں نہیں مل سکتی۔ اسی کی طرف اشارہ کرکے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی (المائدۃ : ۴)
لیکن یہ نعمت نہیں مل سکتی جبتک اس طرف قدم نہ اُٹھاوے۔ اور افسوس کہ ہمارے مخالف اس نعمت کی طرف متوجہ نہیں۔؎ٰ
۱۴؍اگست ۱۹۰۵ء؁
دربار شام
اُولوالامر کون ہے
شیخ عبد الحق صاحب آریہ نو مسلم نے اجازت چاہی۔ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کچھ دن اور رہو۔ دین کی تپش اور تلاش انسان کو مقدم ہونی چاہیے۔
اس پر انہوں نے ذیل کا سوال کیا اس کا جو جواب حضرت اقدس نے دیا وہ بھی درج ہے:
سوال : اولوالامر سے کیا مراد ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر ایک مولوی اولوالامر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ کوئی نہیں۔
جواب از حضرت اقدس: اصل بات یہ ہے کہ اسلام میں اس طرح پر چلا آیا ہے کہ اسلام کے بادشاہ جن کے ہاتھ میں عنان حکومت ہے ان کی اطاعت کرنی چاہیے وہ بھی ایک قسم کے اولوالامر ہوتے ہیں۔ لیکن اصل اولوالامر وہی ہوتے ہیں جن کی زندگی پاک ہوتی ہے اور ایک بصیرت اور معرفت جن کو ملتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے امر پاتے ہیں۔ یعنی مامور الٰہی۔
بادشاہوں کے پاس حکومت ہوتی ہے وہ انتظامی امور میں تو پورا دخل رکھتے ہیں لیکن دینی امور کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ سچے اولوالامر وہی ہین جن کے اتباع سے معرفت کی آنکھ ملتی ہے اور انسان معصیت سے دور ہوتا ہے۔ ان دونوں باتوں کا لحاظ اولوالامر میں رکھو۔ اگر کوئی شخص بادشاہ وقت کی بگاوت کرے تو اس کا نتیجہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا کیونکہ اس سے فتنہ پیدا ہوگا اور اﷲ تعالیٰ فتنہ کو پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح پر مامور کی مخالفت کرے تو سلب ایمان ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی مخالفت سے لازم آتا ہے کہ مخالفت کرنے والا خدا تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے۔
سوال: پھر اس وقت جو مولوی ہیں کیا اُن کو اولوالامر سمجھیں؟
جواب: اوخویشتن گم اُست کرار ہبری کند۔
اصل بات یہ ہے کہ جبتک اﷲ تعالیٰ کسی کی آنکھ نہ کھولے آنکھ کھلتی نہیں۔ ان لوگوں نے دین صرف چند رسوم کا نام سمجھ رکھ اہے؛ حالانکہ دین رسوم کا نام نہیں ہے۔ ایک زمانہ وہ ہوتا ہے جبکہ یہ باتیں محض رسم اور عادت کے طور پر سمجھی جاتی ہیں۔ یہ لوگ اسی قسم کے ہو رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺکے زمانہ میں جن کو نماز اور روزہ سکھایا گیا تھا ان کا اور مذاق تھا اوہ حقیقت کو لیتے تھے اور اسی لیے جلد مستفیض ہوتے تھے۔ پھر مدت کے بعد وہی نماز اور روزہ جو اعلیٰ درجہ کی طہارت اور خدارسی کا ذریعہ تھا ایک رسم اور عادت سمجھا گیا۔ پس اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اصل امر دین کو جو مغز ہے تلاش کرے۔
سچے مذہب کی خصوصیات
یاد رکھو انسان کو اﷲ تعالیٰ نے تعبد ابدی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس لیے اس کو چاہیے کہ اسی میں لگا رہے۔ اس جہان کی جس قدر ثیزیں ہیں۔ بیوی،بچے،احباب،رشتہ دار، مال و دولت اور ہر قسم کے املاک ان کا تعالق اسی جہان تک ہے۔ اس جہان کو چھوڑنے کے ساتھ ہی یہ سارے تعلقات قطع ہو جاتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ ہے اور اس جہان میں بھی اور اس جہان میں بھی اس کی ضرورت ہے اس لیے سچا تعلق اسی کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ نجات ابدی اسی کے ساتھ وابستہ ہے جو خدا تعالیا کی معرفت، محبت اور صدق، وفاداری کے تعلق پیدا کرنے سے ملتی ہے۔ یہانتک تو سب مذاہب متفق ہیں وہ نجات کا یہی ذریعہ سمجھتے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ یہ بتیں حاصل کیونکر ہوں؟ یہی وہ مقام ہے جہاں سے مذاہب کا تفرقہ شروع ہوتا ہے۔ اب جس مذاہب نے حصول نجات کے عمدہ وسائل پیدا کئے ہیں اور جو مذہب تاثیر اور جذب اور کشش اپنے اندر رکھتا ہے وہ سچا ہے لیکن جس مذہب کے اندر وہ تاثیر اور جذب نہیں جس کی عملی تاثیروں کا کوئی نمونہ پایا نہیں جاتا وہ خواہ خدا تعالیٰ کو واحد ہی کہے، لیکن جھوٹا ہے۔ یہ توحید اس کی محض قال کے رنگ میں ہے۔ حالی کیفیت اس میں پائی نہیں جاتی۔ حالی کیفیت تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ غیر کا وجود بالکل نابود ہو جاوے۔ اﷲ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنے والا ہو۔ اسی سے ہر ایک امید و خوف ہو۔ جبتک یہ بات عملی طو رپر پیدا نہ ہو نرے قال سے کچھ نہیں بنتا۔ مثلاً اﷲ تعالیٰ کو واحد سمجھتا ہے پھر دوسرے سے بھی تعلق رکھتا ہے تو توحید کہاں رہی؟ یا خدا تعالیٰ کو رازق مانتا ہے مگر کسی دوسرے پر بھی بھروسہ کرتا ہے یا دوسرے سے محبت کرتا ہے یا کسی سے امید اور خوف رکھتا ہے تو اس نے واحد کہاں مانا؟ غرض ہر پہلو سے اﷲ تعالیٰ کو واحد ماننے سے توحید حقیقی متحقق ہوتی ہے مگر یہ اپنے اختیار میں نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی ہستی پر کامل یقین سے پیدا ہوتی ہے۔
یک طرف خیال رفتہ رفتہ ضائع ہو جایا کرتے ہیں مثلاً ایک شخص خیال کرے کہ اس ثوبارہ کے اندر آدمی ہے۔ جب وہ بیدار ہوگا تو اس کو کھولے گا لیکن جب اس پر دو دن، چار دن، مہینہ دو مہینے یہانتک کہ کئی برس گذر جاویں اور کوئی آواز نہ دے نہ کھڑکا ہو تو آخر اُسے اپنا اعتقاد بدلنا پڑے گا اور خیال پیدا ہونے لگے گا کہ اگر اس کے اندر کوئی آدمی ہوتا تو ضرور بولتا معلوم ہوا کہ کوئی آدمی ہے ہی نہیں۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ جو ان آنکھوں سے پوشیدہ ہے اس کی بابت بھی طالب حق چاہتا ہے کہ اس کا پورا پتہ لگے تا کہ ایمان ترقی کرے۔ ضرور ہے کہ اس کی قدرتوں کے جائبات نظر آویں۔ اس کی آواز بھی سنائی دے اور اس کے سننے کا پتہ لگے۔ لیکن اگر کسی بات کا پتہ ہی نہیں چلتا تو پھر رفتہ رفتہ ایمان کمزور ہو کر انسان دہریہ ہو جائے گا۔
یہ تو سب اہل مذاہب مانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ دیکھتا ہے اور ہماری دعائیں سنتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ وہ جس طرح پر سنتا ہے کیا یہ ضرورر نہیں کہ اسی طرح پر بولتا بھی ہو۔ اگر بولتا نہیں تو پھر اس کا سننا بھی باطل ہوگا اور پھر دوسرے صفات بھی باطل ہو جائیں گے۔ آریہ بھی اتنا تو مانتے ہیں کہ وہ سنتا ہے، لیکن جب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا وہ سنتا؎ٰ بھی ہے۔ تو یہاں آکر خاموش ہو جاتے ہیں’ تو پھر یہ کیوں کر مان لیا جاوے کہ اس کے کان تو ہیں۔ مگر زبان نہیں۔ یہ تو ادھورا خدا ہے۔
سچا معلم اور مذہب وہی ہو سکتاہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دے جو سننے کا ثبوت دیتا ہے وہ بولنے کا بھی دیتا ہے۔ اس معیار پر آکر صرف اسلام ہی ہے جو سچا ثابت ہوگا آریہ کہتے ہیں کہ کسی قدیم زمانے میں بولتا تھا اب نہیں بلتا۔ مگر ہم کہتے ہیں اس کا کیا ثبوت ہے کہ پہلے بولت اتھا؟ ایسا ہی عیسائیوں کا بھی حال ہے وہ بھی اس بات کا ثبوت نہیں دے سکتے کہ خدا بولتا ہے۔ ہاں ہم کہتے ہیں کہ جس طرح خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ دیکھتاہے اور سنتا ہے اسی طرح ہم یقین رکھتے ہیں اور اپنے تجربہ سے کہتے ہیں کہ وہ بولتا بھی ہے۔
یہ سچ ہے کہ اس کی آواز سننے کے لیے خود تمہارے کان بھی کھلے ہوئے ہونے چاہئیں۔ اگر تم اپنے کان میں روئی دے دو گے تو ہرگز نہیں سن سکتے۔ یا آفتاب اور ماہتاب کے نور سے بھاگ کر کسی تہہ خانہ میں چھپ جائو تو روسنی کیونکر آسکے گی؟ ہر چز کے حصول کے لیے ایک قانون ہوتا ہے۔ اگر کوئی اس قانون کو چھوڑ کر اور اس سے منحرف ہو کر اُسے حاصل کرنا چاہے تو حاصل نہیں کر سکتا۔ مثلاً آنکھ۔ کان میں جو قوتیں ہیں اگر اُن سے کام نہ لے تو اثر نہیں رہتا۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ انسان اول اپنے دل کو پاک کرے اور نفسانی خواہشوں کی مخالفت کرے۔ اس سے درمیانی گردوغبار اُٹھ جائے گا اور ثابت ہو جائیگاکہ اﷲ تعالیٰ سنتا بھی ہے اور بولتا بھی ہے۔ جو لوگ عارف ہوتے ہیں، اُن پر یہ باتیں کھل جاتی ہیں وہ اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کی صفات کو مشاہدہ کرتے ہیں۔ جو شخص ان صفات کو دیکھتا نہیں وہ صرف طوطے کی طرح رٹتا ہے۔آریوں نے جو صفائی کی ہے وہ تو پہلے سے بھی گیا گذرا والا معاملہ ہوا ہے۔ اگر انصاف سے دیکھا جاوے تو زبانی لاف وگزاف کچھ نہیں کرسکتی۔ میں یقینا کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے سارے دعوے باطل ہیں اس لیے کہ اُن کو رؤیت کی توفیق نہیں ملی ہے۔ جس پر اس جہان کی کھرکی نہیں کھلی وہ کیا دیکھے گا؟
پنڈت دیانند نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ نری اٹکل ہے۔ جیسا ایک اندھا کسی کو ہاتھ لگا کر اس کے متعلق بیان کرتا ہے، اسی طرح سے اُنہوں نے کیا ہے۔ محض اپنے مذہب کے تعصب کی جہالت سے کہا جو کچھ کہا۔ اس کی وہ آنکھیں نہیں تھیں جو وہ اس عالم کے عجائبات کو مشاہدہ کرتا۔ اس کو بالکل خبر نہیں کہ خدا کیا ہے اور اس کی صفات کیا ہیں۔
یہ بھی یاد رکھو کہ جس چیز کے صفات دور ہو جائیں تو وہ چز بھی جاتی رہتی ہے۔پھول کی صورت نوعی بھی جاتی رہے گی، جب اس کے خواص اور صفات نہ ہوں۔ اسی طرح پر آریوں کے قول کے بموجب پرمیشر ہی کا وجود نہیں رہتا جبکہ یہ مان لیا جاوے کہ اس کے صفات نہیں کونکہ وہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی سے بولتا بھی ہے جب بولتا نہیں تو سننے پر کیا دلیل ہوگی۔ اسی طرح قدرت بھی باطل ہوئی۔ خدا تعالیٰ کے صفات قدیم سے چلے آتے ہیں۔ جب ایک صفت باطل ہوئی تو ممکن ہے کوئی دوسری بھی باطل ہو جاوے۔ سچا مذہب وہی ہے جو زندہ خدا کو پیش کرے اور وہ اسلام ہے۔
ہمارے مخالف اسلام کا اقرار کرتے ہیں مگر افسوس ہے کہ وہ اسلام کی اس قابل قدر خوبی سے انکار کرتے ہیں۔ جب سے اسلام ہوا ہے اس میں ہمیشہ عملی نمونے رہے ہیں لیکن وہ انکار کرتے ہیں کہ اب نہیں۔ افسوس۔
فرمایا: ایک اور بڑی خرابی ہوتی ہے کہ انسان میں علم ہو سمجھ ہو۔ پھر دنیا کے خیال اس پر گالب ہو جائیں تو اس طرح پر دینی سرگرمی نہیں رہتی وہ مردہ یا منافق ہو جات اہے اس لیے اس جماعت میں ملنے والا تو وہ ہوگا جو ہر قسم کے مصائب اور شدائد کا نشانہ بننے کو آمادہ ہو ۔ لیکن محبت ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ جیسے ایک مست اونٹ پر جس قدر بوجھ چاہو۔ لاد دو۔
فرمایا : قوی القلب آدمی ہو۔ تو یہی نہیں کہ وہ مخالفوں کے شور و شر سے امن پاتا ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ اس میں جذب اور کشش رکھ دیتا ہے۔ (الحکم جلد ۹ نمبر ۲۹ صفحہ ۶،۷ مورخہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۵ء؁)
۲۶؍اگست ۱۹۰۵ء؁
آج نماز ظہر میں مسجد مبارک میں قبل از نماز ذکر آیا کہ جاپان میں اسلام کی طرف رغبت معلوم ہوتی ہے اور بعض ہندی مسلمانوں نے وہان جانے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر فرمایا :
جاپان میں اسلام کی تبلیغ
جن کے اندر خود ہی اسلام کی روح نہیں وہ دوسروں کو کیا ھائدہ پہنچائیں گے ۔جب یہ قائل ہیں کہ اب اسلام میں کوئی اس قابل نہیں ہو سکتا کہ خدا اس سے کلام کرے اور وحی کا سلسلہ بند ہے تو یہ ایک مردہ مذہب کے ساتھ دوسرے پر کیا اثر ڈالیںگے۔ یہ لوگ صرف اپنے پر ظلم نہیں کرتے بلکہ دوسروں پر بھی ظلم کرتے ہیں کہ اُن کو اپنے بدعقائد اور خراب اعمال دکھا کر اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ اُن کے پاس کونسا ہتھیار ہے جس سے یہ غیر مذاہب کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلاش ہے۔ اُن کی بوسیدہ اور ردی متاع کو کون لے گا۔ چاہیے کہ اس جماعت میں سے ثند آدمی اس کام کے واسطے تیار کیے جائیں جو لیاقت اور جرأت والے ہوں اور تقریر کرنے کا مادہ رکھتے ہوں؎ٰ
بدر جلد ا نمبر ۲۱ صفحہ ۲ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۵ء؁
۱۹؍اگست ۱۹۰۵ء؁
ایک شخص نے اپنا خواب عرض کیا کہ فلاں آدمی نے مجھے خواب میں ایسا کہا۔ فرمایا :
خواب کا تعین ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا۔بعض دفعہ جس کو خواب میں دیکھا جاتا ہے اس سے مراد کوئی اور شخص ہوتا ہے۔
مسیح علیہ السلام کے بارہ میں قتل و صلیب کی نفی
کسی شخص نے اعتراض کیا کہ قرآن شریف میں حضرت مسیح کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے
وما قتلوہ وما صلبوہ (النسأء : ۱۵۸)
نہ قتل کیا اور نہ صلیب دیا۔ اس میں قتل کا ذکر پہلے ہے اور صلیب کا پیچھے؛ حالانکہ پہلے کسی کو صلیب پر چڑھایا جاتا ہے اور بعد میں صلیب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قتل ہو جائے۔ برخلاف اس کے قرآن شریف میں قتل کا ذکر پہلے ہے اور صلیب کا پیچھے ہے۔ فرمایا :۔
اول تو یہود کا اعتراض جو قرآن شریف میں درج ہے وہ یہی ہے کہ
انا قتلنا المسیح (النساء : ۱۵۸)
یعنی ہم نے مسیح کو قتل کیا۔ چونکہ انہوں نے قتل کا لفظ بولا تھا۔ اس واسطے اﷲ تعالیٰ نے پہلے لفظ قتل کی ہی نھی کی۔ دوم یہ کہ یہود میں دور دایتیں تھیں۔ ایک یہ کہ ہم نے یسوع کو تلوار سے قتل کر دیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ اس کو صلیب پر مارا ہے۔پس اﷲ تعالیٰ نے ہر دو کی جدا جدا نفی کی۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہودیوں کی بعض پرانی کتب میں یہ بھی لکھا ہیکہ یسوع کو پہلے سنگسار کیا گیا تھا اور جب وہ مرگیا تو بعد میں اس کو کاٹھ پر لٹکایا گیا یعنی پہلے قتل ہوا اور پیچھے صلیب۔ پس اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں کی نفی کی اور فرمایا کہ یہود جھوٹے ہیں۔ نہ حضرت مسیح اُن کے ہاتھوں قتل ہوئے اور نہ صلیب کے ذریعے سے مارے گئے۔
اسلام کی صداقت پر ایک بھاری دلیل
فرمایا :
خدا تعالیٰ کے صھات کا جو کامل اکمل نڈشہ اسلام نے پیش کیا ہے وہ اسلام کی صداقت پر ایک بڑی بھاری دلیل ہے۔ باقی تمام مذاہب اس معاملہ میں ناقص ہیں کہ وہ خدائی صھات کا سروپاپوری طرح بیان کر سکیں اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی تمام مذاہب خدا تعالیٰ کی کام ل طاقتوں کے صھات سے منکر ہیں’ مثلاً آرییہ کہتا ہیں کہ وہ کلام نہیں کرتا۔ چپ ہے۔ عیسائیوں کا بھی یہی مذہب ہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی کو نتاج دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص کسی شخص کی تعریف کرے اور کہے کہ وہ ایسا خوبصورت ہے اور ایسا طاقتور ہے مگر بہرہ ہے۔ سن نہیں سکتا اور گنگا ہے کچھ بولتا نہیں۔ چڑ چڑا ہے۔ ہم کو نجات دینا نہیں ثاہتا۔ بہشت میں بھیجتا ہے تو بھیا یک گناہ باقی رکھ لیتا ہے جس سے پھر جلد سانپ، بچھو، کتے، سؤر کی جون میں ڈال دیتا ہے۔ ان دینوں میں یہ برکت نہین کہ انسان پاکیزگی حاصل کرکے خدا سے انا الموجود کی آواز کوئی سن سکے۔ اسی واسطے یہ لوگ غفلت کی تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں۔
‏Amira 13-11-05
مجاہدہ کی اہمیت
فرمایا : جو لوگ خدا کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ سچی توبہ کے ساتھ اس کے آگے جھک جاتے ہیں اُن کو خدا مل جاتا ہے۔ مگر جو لوگ اس کے بتلائے ہوئے راہ پر نہیں چلتے اور اس میں محنت نہیں کرتے ا۲ن کے واسطے مشکل ہے کہ وہ اس بات کو پاسکیں۔ ایسے لوگوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک باپ نے اپنے بیٹوں کووصیت کی کہ ھلاں مقام میں ایک خزانہ دھن ہے اور وہ زمین کے اندر اتنے ہاتھ گہرائی پر ہے۔ جبتک اسکو کھودنے کی محنت نہ کی جاوے وہ کس طرح اُن کو مل سکتا۔؎ٰ
۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء؁
ایک رویاء اور اس کی تعبیر
۳۱؍اگست کی رات کو میں نے دیکھا کہ عبد اﷲ سنوری میرے پاس آیا ہے اور وہ ایک کاغذ پیش کرکے کہتا ہے کہ اس کا غذ پر میں نے حاکم سے دستخط کرانا ہے اور جلدی جانا ہے۔ میری عورت سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں۔ دستخط نہیں ہوتے۔ اس وقت میں نے عبد اﷲ کے چہرہ کی طرف دیکھا تو زرد رنگ اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر تپک رہی ہے میں نے اس کو کہا کہ یہ لوگ روکھے ہوتے ہیں۔ نہ کسی کی سفارش مانیں اور نہ کسی کی شفاعت۔ میں تیرا کاغذ لے جاتا ہوں۔ آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہون کہ ایک شخص متھن لال نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسڑااسسٹنٹ تھا کرسی پر بیٹھا ہوا کثھ کام کر رہا ہے اور گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں۔ میں نے جاکر کاغذ اس کو دیا اور کہا کہ یہ ایک میرا دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے اس پر دستخط کر دو۔ اُس نے بلاتامل اسی وقت لیکر دستخط کردیئے۔ پھر میں نے واپس آکر وہ کاغذ ایک شخص کود یا اور کہا خبردار ہوس سے پکڑو ابھی دستخط گیلے ہیں اور پوچھا کہ عبد اﷲ کہاں ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ کہیں باہر گیا ہے۔ بعد اس کے آنکھ کُھل گئی اور ساتھ پھرغنودگی کی حالت ہو گئی۔ تب میں نے دیکھ اکہ اس وقت میں کہتا ہوں۔ مقبول کو بلائو اس کے کاغذ پر دستخط ہو گئے ہیں۔
یہ جو مٹفن لال دیکھا گیا ہے۔ ملائک طرح طرح کے تمثلات اختیار کر لیا کرتے ہیں۔ مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا۔ سنوری سے یہ مراد ہے۔ سنور عربی میں بلی کو کہتے ہیں اور تعبیر کی رو سے بلی ایک بیماری کا نمونہ ہے۔ عبد اﷲ سنوری سے مراد ہوئی وہ عبد اﷲ جو بیمار ہے۔
فرمایا :
طِب تو ظاہری محکمہ ہے۔ ایک اس کے دراء محکمہ پردہ میں ہے جبتک وہاں دستخط نہ ہو۔ کچھ نہیں ہوتا۔۲؎




بسم اﷲ الرحمن الر حیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود

ملفوظات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
از یکم ستمبر ۱۹۰۵ء؁ ؎ٰ
اطمینان قلب
الا بذکر اﷲ تطمئن اقلوب (الرعد : ۲۹)
اس کے عام معنی تو یہی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے زکر سے قلوب اطمینان پاتے ہیں۔ لیکن اس کی حقیقت اور ھلاسفی یہہ ہے کہ جب انسان سظے اخلاص اور پوری وھاداری کے ساتھ اﷲ تعالیا کو یاد کرتا ہے اور ہر وقت اپنے آپ کو اس کے سامنے یقین کرتا ہے۔ اس سے اس کے دل پر ایک خوف عظمت الٰہی کا پیدا ہوتا ہے وہ خوف اس کو مکر و ہات اور منہیات سے بچاتا ہے اور انسان تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرتا ہے یہانتک کہ اﷲ تعالیٰ کے ملائکہ اس پر نازل ہوتے ہیں اور وہ اس کو بشارتیں دیتے ہیں اور الہام کا دروازہ اس پر کھولا جاتا ہے۔ اس وقت وہ اﷲ تعالیٰ کو گویا دیکھ لیتا ہے اور اس کی وراء الوراء طاقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ پھر اس کے دل پر کوئی ہم و غم نہیں آسکتا اور طبیعت ہمیشہ ایک نشاط اور خوشی میں رہتی ہے۔اسی لیے دوسرے مقام پر آیا ہے
لا خوھ علیہم ولا ھم یحنون (البقرۃ : ۶۳)
اگر کوئی ہم و غم اپنے الہام سے اس کے لیے خارجی اسباب اُن کے دور کرنے کے پیدا کر دیتا ہے۔ یا خارق عادت صبر اُن کو عطا کرتا ہے۔؎ٰ
آنحضرت ﷺ کا مقام دنا فتدلی
دنا فتدلی (النجم : ۹)
آنحضرت ﷺ کی شان میں آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی طرھ ہو کر نوع انسان کی طرھ جھکا۔ آنحضرت ﷺ کا کمال اعلیا درجہ کا کمال ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی اور اس کمال میں آپﷺ کے دو درجے بیان فرمائے ہیں۔ ایک صعود، دوسرا نزول۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف تو آپﷺ کا صعود ہوا یعنی خدا تعالیٰ کی محبت اور صدق و وھا میں ایسے کھینچے گئے کہ خود اس زات اقدس کے دنو کا درجہ آپﷺ کو عطا ہوا۔ دنو ۔ اقرب سے ابلغ ہے۔ اس لیے یہاں یہ لفظ اختیار کیا۔ جب اﷲ تعالیٰ کے فیوضات اور برکات سے آپ نے حصہ لیا تو پھر بنی نوع پر رحمت کے لیے نزول فرمایا۔ یہ وہی رحمت تھی جس کا اشارہ
ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۸)
میں فرمایا ہے۔
ٔآنحضرت ﷺ کے اسم قاسم کا بھی یہی سر ہے کہ آپ اﷲ تعالیٰ سے لیتے ہیں اور پھر مخلوق کو پہنچاتے ہیں۔ پس مخلوق کو پہنچانے کے واسطے آپ کا نزول ہوا۔ اس دنا فتدلی میں اسی صعود اور نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ آنحضرت ﷺ کے علو مرتبہ کی دلیل ہے۔۲؎
پیشگوئیوں میں استعارات
انبیاء علیہم السلام کے آنے کے وقت دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو استعارات کو حقیقت پر محلول کر لیتے ہیں اور حقیقت کو استعارہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ گروہ اس کی سناخت سے محروم رہ جاتا ہے۔لیکن ایک اور گروہ ہوتا ہے جو اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید سے اصل حقیقت کو پالیتے ہیں۔ وہ استعارہ کو استعارہ اور حقیقت کو حقیقت ٹھہراتے ہیں۔ جیسے یہودیوں نے مسیح کی آمد کے وقت ملا کی نبی کے صحیفہ کی بنا پر کہا کہ مسیح کے آنے کی یہ نشانی ہے کہ اس سے پہلے ایلیا آسمان سے آوے۔ مسیح ؑسے جب انہوں نے یہی سوال کیا تو انہوں نے اس پیشگوئی کو تو تسلیم کر لیا لیکن یہ فیصلہ کر لیا کہ آنے والے ایلیا سے مراد یحییٰ ہے۔ یہودی اس فیصلہ کو سن کر یحییٰ کے پاس پہنچے۔ وہ اس مباحثہ سے بکلی بے خبر اور ناواقف تھے۔ انہوں نے ایلیا ہونے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں کو مخالفت اور بھی تیز ہو گئی اور انہوں نے اصل حقیقت سے بے خبر رہ کر ظاہر الفاظ پر زور دیا اور اس طرح پر خدا تعالیٰ کے ایک سچے نبی کا انکار کر دیا۔ نہ صرف انکار کای بلکہ ہر طرح سے اس کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی اور آخر خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک مغضوب اور *** قوم ٹھہر گئے۔
اب گور کرو اگر ایلیاء کا آنا درست تھا اور حضرت یحییٰ کی شکل میں ایلیا کا بروزی رنگ میں آنا درست نہیں تو ہمارے مخالف مسلمان بتائیں کہ ملاکی نبی کے صحیفہ کی پیشگوئی کو مد نظر رکھ کر حضرت عیسیٰ کی نبوت کا کیا ثبوت ہے؟ پھر یقینا وہ نبوت ثابت نہیں ہو سکتی اور دوسری مشکل یہ پڑتی ہے کہ حضرت عیسیٰ جو مردوں کو زندہ کرنے والے تھے کیوں انہوں نے ایلیا کو زندہ نہ کر لیا؟ اس سے دو باتیں اور بھی ثابت ہو گئیں۔ اول یہ کہ اﷲ تعالیٰ کی یہ عادت اور سنت نہیں کہ وہ مردوں کو دوبارہ دنیا میں بھیجے اور زندہ کرے۔ دوسری یہ کہ مسیح نے کوئی مردہ زندہ نہیں کیا۔ پس خوب گور کرو اگر بروزی آمد ایلیا کی مراد نہ ہوگی تو مسیح کی نبوت جاری رہے گی اور پھر اس کی زد اسلام اور قرآن شریف پر پڑے گی۔
آنے والا مسیح آچکا ہے
اس وقت مسیح کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر دوسری وجوہ اور ضروریات کو چھوڑ دیا جاوے تو سلسلہ مماثلت موسوی کے لفاظ سے بھی سخت ضرورت ہے۔ اس لیے کہ حضرت مسیح علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں آئے تھے۔ غرض میں تو بروز کی ایک نظیر پیش کرتا ہوں، لیکن جو یہ کہتے ہیں کہ نہیں خود حضرت مسیح ہی دوبارہ آئیں گے انہیں بھی تو کوئی نظیر پیش کرنی چاہیے اور اگر وہ نہیں کر سکتے اور یقینا نہیں کر سکتے تو پھر کیوں ایسی بات کرتے ہیں جو محدثات میں داخل ہے۔ محدثات سے پرہیز کرو۔ کیونکہ وہ ہلاکت کی راہ ہے۔ یہدیوں پر غضب الٰہی اسی وجہ سے نازل ہوا کہ انہوں نے استعارہ کو حقیقت پر حمل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مغضوب قوم ٹھہر گئی۔ ا سکا ہم شکل مقدمہ اب بھی پیش ہے۔ مجھے مسلمانوں کی حالت پر افسوس آتا ہے کہ ان کے سامنے یہودیوں کیایک نظیر پہلے سے موجود ہے اور پانچ وقت یہ اپنی نمازوں میں
غیر المغضوب علیہم (الفاتحہ : ۷)
کی دعا کرتے ہیں اور یہ بھی بالاتفاق مانتے ہیں کہ اس سے مراد یہود ہیں۔ پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس راہ کو یہ کیوں اختیار کرتے ہیں۔ ایک ہی رنگ کا مقدمہ جب کہ ایک پیغمبر کے حضور فیصلہ ہو ثکا ہے۔ اب اس ھیصلہ کے خلاف مسیح کو خود آسمان سے یہ کیوں اتارتے ہیں؟ آپ ہی مسیح نے ایلیا کے مقدمہ کا فیصلہ کیا اور ثابت کر دیا کہ دوبارہ آمد سے بروزی آمد مراد ہوتی ہے اور ایلیا کے رنگ میں یحییٰ آیا۔ مگر اب یہ مسلمان اس نظیر کے ہوتے ہوئے بھی اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جبتک خود مسیح کو آسمان سے نہ اتارلیں۔لیکن میں کہتا ہوں کہ تم اور تمہارے سب معاود مل کر دعائیں کرو کہ مسیح آسمان سے اُتر آوے پھر دیکھ لو کہ وہ ا۲ترتا ہے یا نہیں۔ میں یقینا کہتا ہوں کہ اگر ساری عمر ٹکریں مارتے رہو اور ایسی دعائیں کرتے کرتے ناک بھی رگڑے جاویں تب بھی وہ آسمان سے نہیں آئے گا، کیونکہ آنے والا تو آثکا۔
پھر میں کہتا ہوں کہ یہی وقت تو ہے جو اُسے آسمان سے اُتر نا چاہیے اگر اُترنا ہے کیونکہ تمہارے خیال میں ایک مفتری اور کاذب مدعی مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔اگرفی الواقعہ یہی سچ ہے کہ مسیح نے آسمان سے آنا ہے تو چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ اب اُسے اُتارے تا کہ دنیا گمراہ نہ ہو کیونکہ ایک کثیر جماعت تو مجھے مسیح موعود تسلیم کر چکی ہے۔ اگر اس وقت وہ نہ آیا تو پھر کب آئے گا؟ کیا ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کازبوں اور مفتریوں کی مدد کرے؟ اگر ایسا کبھی ہوا ہے تو نطیر پیش کرو اور پھر بتائو کہ راستبازوں کی سچائی کا کیا معیار ہے؟
مسئلہ وفات مسیح میں کون حق پر ہے
؁اس مقدمہ میں خوب گور کر کے دیکھ لو کہ حق پر کون ہے؟ عقل اور فراست ہمارے ساتھ ہے اور پھر آنحضرت ﷺ بھی ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ آپﷺ نے معراج کی رات حضرت مسیح کو مردوں میں دیکھا۔ پھر صحابہ کا اجماع مسیح کی وفات پر ہو چکا ہے۔ قرآن شریف میری تائید کرتا ہے اور اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے خاص تائیدات سماویہ سے میرے دعویٰ کو سچا کیا۔ ہزاروں ارضی اور سماوی نشان میری سچائی کے ظاہر کئے۔ اس قدر شواہد اور دلائل کے ہوتے ہوئے میں کیونکر تسلیم کر لوں کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں صحیح ہے جبکہ خدا تعالیا کی کھلی کھلی وحی مجھے مسیح موعود ٹھہراتی ہے۔ پھر میں ملانوں کی بات مانوں یا خدا تعالیا کی وحی پر ایمان لائوں؟ میں سث سث کہتا ہوں کہ خد اتعالیٰ کی وحی کو میں ہرگز نہیں چھور سکتا خواہ ساری دنیا میری دشمن ہو جاوے اور ایک بھی شخص میرے ساتھ نہ ہو۔ میں خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ کلام کو کیونکر جھٹلا سکتا ہوں۔ پھر اسیی حالت میں کہ اس کی روشن تائیدیں میرے ساتھ ہیں۔
اگر قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح کے فیصلہ کو یہ سب دھکے دیتے ہیں تو دیں۔ خدا تعالیٰ خود اُن سے مطالبہ اور محاسبہ کرے گا۔
نزولِ ایلیا
ایک اور عجیب بات ہے کہ جب ہم ایلیا کا قصہ پیش کرتے ہیں اور یہودیوں کا اعتراض سناتے ہیں جو حضرت مسیح پر اُنہوں نے کیا تو اور کچھ خجواب نہیں آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ کتابیں محرف مبدل ہیں۔،مگر ہم کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ سہی۔ قومی تواتر اور تاریخ کو کیا کہو گے؟ وہ بھی تو کوئی چیز ہے اسے کیونکر رد کرو گے؟ اگر قومی تاریخ اور تواتر بھی رد کرنے کے قابل ہے تو پھر بڑے بڑے عظیم الشان بادشاہوں کے وجود پر کیا دلیل ہوگی؟ یقینا کوئی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قومی تواتر اور تاریخ کو ہم کبھی نہیں چھوڑ سکتے اور یہ مسئلہ نزول ایلیا کا ایسا ہے کہ یہودی اور عیسائی بالاتھاق اس کو مانتے ہیں۔ خود حضرت مسیح بھی اس پیسگوئی کے قائل تھے۔ اگر یہ پیشگوئی صحیح نہ تھی تو ان کو اس کی تاویل کرنے کی کیا حاجب تجھی؟ وہ سرے سے اس کا انکار ہی کر دیتے اور کہہ دیتے کہ یہ جو ملاکی نبی کی کتاب میں لکھا ہوا تم پیش کرتے ہو بالکل غلط ہے۔ مگر نہیں اُنہوں نے اس کو صحیح تسلیم کیا اور پھر ا سکی تاویل کی۔
یہودی تو یہانتک چلاتے ہیں کہ ایک یہودی کی کتاب میرے پاس ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اگر قیامت کو ہم سے موأخذہ ہوگا تو ہم ملاکی نبی کی کتاب کھول کر رکھ دیں گے۔
غرض نزول ایلیا کا مسئلہ برا صاف اور یقینی مسئلہ ہے اور خدو حضرت مسیح کی زبان سے فیصہ پا چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی آمد کا بھی ذکر کر دیا ہے مگر افسوس ہے لوگ سمجھتے ہوئے نہیں سمجھے مگر کب تک انکار کریں گے۔ آخر یہ سچائی روز روشن کی طرح کھل جائے گی اور قومیں اس طرف رجوع کریں گی اسی طرح جیسے مسیح ابن مریم کے لیے ہوا۔
توحید کا ایک ثبوت
اﷲ تعالیٰ کی توحید پر کوں تو ہزاروں دلائل ہیں لیکن ایک دلیل بری عام اور صاف ہے اور وہ یہ ہے کہ وضع عالم میں ایک کرویت واقع ہوئی ہے اور کرویت میں توحید ہی پائی جاتی ہے۔ پانی کا قطرہ لو تو وہ بھی گول ہے۔ زمین کی شکل بھی گول ہے۔ آگ کا شعلہ بھی گول ہی ہے۔ ایسا ہی ستارے بھی گول ہیں۔ اگر تثلیث درست ہوتی تو چاہیے تھا کہ ان اشیاء کی اشکال صُوَر بھی سہ گوشی اور مثلث نما ہوتیں اسی طرح پر اﷲ تعالیٰ نے آدم سے ایک سلسلہ سروع کیا اور آدم پر اُسے ختم کیا۔ چنانچہ مسیح موعود کا نام بھی آدم رکھا ہے چونکہ یہ آدم نئی قسم کا ہے اس لیے اس کے ساتھ شیطانی جنگ بھی نئے ہی قسم کی ہے۔؎ٰ
۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
وحی کا ایک طریق فرمایا کہ :
بعض دفعہ وحی اس طرح بھی نازل ہوتی ہے کہ کوئی کاغذ یا پتھر وگیرہ دکھایا جاتا ہے جس پر کچھ لکھا ہوا ہوتا ہے۔ ھرمایا :
اﷲ تعالیٰ کے نشان اس طرح کے ہوتے ہیں کہ ان میں قدرت اور غیب ملا ہوا ہوتا ہے۔ اور انسان کی طاقت نہیں ہوتی کہ اُن کو ظاہر کر سکے۔
حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی علالت فرمایا :
مولوی صاحب کی زیادہ علالت کے وقت مین بہت دعا کرتا تھا۔ اور بعض نقشے میرے سامنے آئے جن سے نا امیدی ظاہر ہوتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا موت کا وقت ہے اور ظاہر طب کی رو سے بھی معاملہ خوفناک تھا کیونکہ ذیابیطس والے کو سرطان ہو جائے تو پھر بچنا مشکل ہوتا ہے۔ اس دعا میں مین نے بہت تکلیف اُٹھائی یہانتک کہ اﷲ تعالیٰ نے بشارت نازل کی اور عبد اﷲ سنوری والا خواب میں نے دیک اجس سے نہایت درجہ غمناک دل کو تشفی ہوئی جو گذشتہ اخبار میں چھپ چکا ہے۔؎ٰ
امت کی تشبیہ عورت سے
اس دعا میں میں نے ایک شفاعت کی تھی جیس اکہ خواب کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے کہ یہ سخص میرا دوست ہے۔ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کا عالم الگیب ہونا ظاہر ہونا تھا کہ مولوی صاحب بچ گئے۔
خدا تعالیٰ کی کتب میں نبی کے ماتحت اُمت کو عورت کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ایک جگہ نیک بندوں کی تشبیہ فرعون کی عورت سے دی گئی ہے اور دوسری جگہ عمران کی بیوی سے مشابہت دی گئی ہے۔ اناجیل میں بھی مسیح کو دولہا اور امت کو دلہن قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امت کے واسطے نبی کی ایسی ہی اطاعت لازم ہے جیسی کہ عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم ہے۔ اسی واسطے ہماری رؤیا میں عبد اﷲ نے کہا کہ میر ی بیوی بیمار ہے۔
ایک رؤیا کی تعبیر
عبد اﷲ نبی کا نام ہے۔ قرآن شریف میں بھی آنحضرت ﷺ کا نام عبد اﷲ آیا ہے۔ مٹھن سے مراد وہ لذت اور راحت صحت کی ہے جو بیماری کی تلخی کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ مقبول سے مراد ہے کہ دعا قبول ہو گئی۔ یہ سب گہرے استعارات ہیں اور تمثلات ہیں۔ جبتک آسمان پر نہ ہو زمین پر کچھ ہو نہیں سکتا۔ مولوی صاحب کا اس بیماری سے صحت پانا ایک برا معجزہ ہے۔
مطالعہ کتب کی تلقین
سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پرھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے سجاعت پید اہوتی ہے۔ جس کو علم نہیں ہوتا مخالف کے سوال کے آگے حیران ہو جاتا ہے۔
مولوی محمد حسین بتالوی کے متعلق ایک رؤیا
مولوی محمد حسین بٹالوی کا ذکر تھا۔ ایک دوست نے عرض کی کہ کہیں مرنے کے وقت توبہ کرے گا۔فرمایا :
اﷲ تعالیٰ ہر سے پر غالب ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ ہماری جوتیاں جھار کر آگے رکھتا تھا۔ ہم کو وضو کرانا ایک برا ثواب جانتا تھا۔ براہین کا ریویو اس نے خود بخود لکھا۔ ہماری درخواست نہ تھی۔ تعجب نہیں کہ وہ کسی وقت پہلی حالت پر پھر لوٹ آئے جیسا کہ ہم رؤیا میں دیکھ چکے ہیں۔ بعض خوابیں مدت کے بعد پوری ہوتی ہیں۔ یہ رؤیا چھپ چکا ہے جس میں میں نے دیکھ اتھا کہ وہ ایک چھوٹا لڑکا ہے۔ ننگا۔ رنگ سیاہ اور بدشکل ہے۔ میں نے اس کو اشارہ سے بلایا۔ تب وہ آیا۔ اور میرے گلے لگا اور پورے قد کا ہوگیا اور اس پر لباس بھی ہے اور رنگ سھید ہے۔ تب میں نے کہا کہ آپ کا ہمارا اس قدر مقابلہ رہا ممکن ہے کہ قلم سے یازبان سے کوئی سخت لفظ نکل گیا ہو تم بخش دو۔اس نے کہا اچھا میں نے بخشا۔ تب میں نے کہا کہ تم نے جو ایذا ہم کو دی تھی وہ بھی ہم نے بخس دی۔ تب ہم نے اس کی دعوت کی جس کو اس نے کچھ تردد کے بعد قبول کیا اور ایک شخص جان کندن میں ہے۔ تب میں نے کہا کہ یہ مقدر تھا کہ جس دن یہ شخص مرے اس دم تم توبہ کرو۔
انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے
آج کے الہام مسیر العرب کا ذکر تھا۔ فرمایا :
اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ عرب میں چلنا۔ شاید مقدر ہو کہ ہم عرب جائیں۔ مدت ہوئی کہ کوئی پچیس چھبیس سال کا عرصہ گزرا ہے ایک دھعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک سخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اُس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے۔ انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے۔ لیکن بعض رؤیا نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے زریعہ سے پورے ہوتے ہیں۔ مثلاً آنحضرت ﷺ کو قیصرو کسریٰ کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوئے۔؎ٰ
۱۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
الہام انی مھین من اراداھا نتک
آج کے الہام انی مھین من اراداھا نتک کا ذکر تھا۔ فرمایا :
بڑے بڑے مکفرین اور ایذاد ہندہ جو ہیں اُن کو خد اتعالیا ہمارے سامنے ہی اس زمین سے ناکام اُٹھا رہا ہے اور ان کی مرادوں کے برخلاف دن بدن اس سلسلہ کو ترقی دے رہا ہے۔ ابتداء میں جن لوگوں نے بہت زور سود سے مخالفت کا بیڑا اٹھایا تھا۔ اُن میں سے کوئی چودہ پندرہ ایسے یاد ہیں جو ہماری مخالفت کے معاملہ میںناکام مر چکے ہیں۔ اُن میں سے مولوی گلام دستگیر قصوری تھا جو مکہ سے کھر کا فتویٰ لایا تھا۔ نواب صدیق حسن خاں۔ لکھوکے کا مولوی محمد اور عبد الحی۔ رشید احمد گنگو ہی۔ لدھیانہ کے تین مولوی۔ سید احمد خاں جو کہتا تھا کہ ہماری تحریریں بے فائدہ ہیں۔ محمد عمر۔ مولوی ساہ دین لدھیانوی۔نذیر حسین دہلوی۔ محمد حسین بھینی۔ مولوی محمد اسماعیل علیگڈھی رسل بابا امرتسری جس نے جلدی معجزہ دیکھنا ہو اُسے چاہیے کہ دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرے یا تو سخت مخالف بنے۔ یا محبت کا کمال تعلق پیدا کرے۔ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو تیری اہانت کرے گا اس کی میں اہانت کروں گا اور جو تیری اعانت کرے گا اس کی میں اعانت کروں گا۔ معمولی طور پر مخالفت کرنے والا اور اپنے کاروبار میں چلنے پھرنے والا ماخوذ نہیں ہوتا کیونکہ خد احلیم اور کریم ہے وہ اس طرح نہیں پکڑتا۔
کذب باری تعالیٰ کا مسئلہ
بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ
علی کل شئی قدیر (الاحقاف : ۳۴)
اس واسطے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ جھوٹ بولے۔ ایسا اعتقاد بے ادبی میں داخل ہے۔ ہر ایک امر جو خدا تعالیٰ کے وعدہ اس کی زات جلال اور صفات کے برخلاف ہے وہ اس کی طرف منسوب کرنا برا گناہ ہے۔ جو امر اس کی صفات کے برخلاف ہے اُن کی طرف اس کی توجہ ہی نہیں۔
ادریس علیہ السلام کا آسمان پر جانا
صدیق حسن خاں نے ادریسؑ کے آسمان پر جانے کی تکذیب کی ہے اور لکھ اہے کہ اگر وہ آسمان پر گیا تو ا سکی موت کس طرح سے ہوگی کیونکہ سب کا مرنا زمین پر ضروری ہے۔ تعجب ہے کہ مسیح کے معاملہ میں یہ بات اس کو سمجھ نہیں آئی۔ اگر خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو موت نہیں دی اور ویسے ہی آسمان پر اُٹھالیا ہے تو لفظ رفع کا قرآن شریف میں کافی تھا۔ رفع سے پہلے توفی کا لفظ لانے کی پھر کوئی ضرورت نہ تھی۔ آسمان پر جانے کا مفہوم تو لفظ رفع سے ہی پوری طرح نکل سکتا تھا۔
غالی اہل تشیع کے ایک عقیدہ کی تردید
بعض اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ امام حسین آنحضرت ﷺ سے افضل ہیں اور اس پر دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ امام حسین کو شہادت کا درجہ ملا جو آنحضرت ﷺ کو نہ ملا تھا۔ یہ ایک لط خیال ہے کیونکہ شہادت صرف امام حسین کو نصیب نہیں ہوئی بلکہ ہزارہا اصحاب کو ہوئی۔ اس میں سب برابر ہیں اور آنحضرت ﷺ کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی ہے کہ
واﷲ یعصمک من الناس (المائدہ ۶۸)
اور پہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخر زمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہوگا۔ علاوہ ازیں فضیلت کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب سے ثابت ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی پاک کتاب نے آنحضرت ﷺ کو سب سے افضل قرار دیا۔ اما م حسین نے یہ کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ میں سب سے افضل ہوں۔ نہ ان کی کسی تحریر سے اور نہ کسی تقریر سے ایسی بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ تمام امت سے افضل ہیں۔ اور اگر ان کا کوئی ایسا دعویٰ ہوتا تب بھی ماننے کے قابل نہ تھا کیونکہ قرآن شریف کے برخلاف تھا۔ امام حسین کی شہادت سے بڑھ کر حضرت مولوی عبد الطیف صاحب کی شہادت ہے؛ جنہوں نے صدق اور وفا کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا اور جن کا تعلق شدید بوجہ استقامت سبقت لے گیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ لوگوں کے مراتب اور درجات کیا ہیں۔ اسی نے مجھ یالہام کیا ہے
انی فضلتک علی العالمین۔
اگر سارا زمانہ ایک طرف ہو جاوے اور میں اکیلا ایک طرف رہ جائوں تب بھی خد اتعالیٰ کے الہام کے بالمقابل کسی کا کہانا مان نہیں سکتا۔ اگر امام حسین کو یہ وحی ہوئی تھی کہ وہ قیامت تک سب سے افضل ہیں تو دوسری وحی اسی خد انے اس کے برخلاھ مجھے کس طرح کردی۔ اگر یہ وحی شیطانی ہے تو دن رات خد اتعالیٰ کی تائید اور نصرت اس کے ساتھ کیوں ہے۔ عجب خدا ہے جو پچیس تیس سال سے مفتری کو مہلت دیتاہے بلکہ دن بدن اس کے سلسلہ کو ترقی دیتا ہے اور اس کے مخالفوں کو ہلاک کرتا ہے۔ اسی طرح سارے انبیاء کی صداقت پر شبہ پر سکتا ہے۔ افتراء اور کذب تو ایک مکروہ اور غیر طبعی امر ہے۔ انسان کب تک اس کو اختیار کر سکتا ہے۔ ہمارے دشمن تو ہمیشہ منتطر رہتے ہیں کہ یہ اب مارے گئے اور اب ہلاک ہوئے مگر ہر دفعہ ان کو ندامت اُٹھانی پرتی ہے۔ ہر طرح سے ایذاد یتے ہیں۔ قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ہمارے قتل کے جواز کے فتوے دیتے ہیں۔خون کے مقدمات بناتے ہیں مگر خدا تعالیٰ ہر امر میں بقول اُن کے کازب کی طرفداری کرتا ہے۔ ہماری دشمنی کے سبب ان کی شریعت بھی بدل گئی۔ خدا تعالیا جو صادق کا معاون ہوا کرتا تھا اب اُن کے نزدیک کاذب کا معاون ہونے لگا۔ یہ عداوت ان کو کشاں کشاں کہاں لے جائے گی۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ عناد اُن کو رفتہ رفتہ لالاہ الا اﷲ کے حلقہ سے باہر نکال دے گا۔ صادق کے لیے ایک امر مابہ الامتیاز ہوتا ہے اگر وہ نہیں تو انبیاء کی صداقت مشتبہ ہو جاتی ہے۔؎ٰ
‏Amira 14-11-05
۱۳؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
اس زمانہ کے لوگوں کی حالت فرمایا :
اگر بعض لوگ خوش ہوتے یں کہ ہم نے دعا کی تھی تو بارش ہو گئی۔مگر اُن کی یہ دعائیں قابل قدر نہیں ہیں کیونکہ یہ صرھ مصیبت کے وقت کا رونا ہے اور مصیبت کے زرا ہٹنے کے بعد پھر وہی سخت دلی ا۲ن میں پائی جاتی ہے۔ اس بارش پر بھی خوس نہیں ہونا چاہیے۔ جو بات الہام الٰہی سے ہم کو معلوم ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ اس زمانہ کے لیے دن خیر کے نہیں ہیں اور یہ سچ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ان بلائوں کو نازل نہ کرے تو پھر دین کی خیر نہیں۔ تین قسم کے لوگ ہیں۔ خواصؔ۔اوسطؔ درجہ کے لوگ اور عوامؔ۔ خواص تو دہریہ مذہب بن رہے ہیں۔ ان کو دین کی کچھ پروا نہیں بلکہ دین پر ہنسی تھٹھا کرتے ہیں۔اوسط درجہ کے لوگ خواص کے تابع ہیں۔ عوام مثل وحشیوں کے ہیں۔ تمام دنیا کی حالت اس وقت بگڑی ہوئی ہے۔ مقدمہ والے ہیں تو جھوٹے گواہوں کے بنانے میں مصروف ہیں۔ زمیندار ہے تو شریعت کو چھور بیٹھا ہے۔ ملازم ہے تو اپنی ملازمت کے حقوق ادا نہیں کرتا۔ تاجر ہیت و اپنی تجارت میں قسما قسم کے دھوکوں میں مصروف ہے۔ جبتک لوگ تقویٰ اختیار نہیں کریں گے خدا تعالیٰ ہرگز اُن پر راضی نہ ہوگا ارو نہ یہ بلائیں اُن کے سر سے ٹلیں گی۔؎ٰ
۱۶؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے بارہ میں ایک دوست کا خواب
سیخ نور احمد صاحب جالندھر سے اور منشی نبی بخش صاحب کوئتہ سے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نور احمد صاحب نے اپنا ایک خواب عرض کیا۔ کہ میں نے دیکھ اکہ مولوی عبد الکریم صاحب مسجد میں کھڑے ہیں اور وعظ کرتے ہیں۔
اولئک علی ھدی من ربہم و اولئک ھم المفلحون (البقرۃ : ۶)
فرمایا:
اس سے بظاہر مولوی صاحب کی صحت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ واﷲ اعلم۔
فرمایا: یہ مرض مہلک ہے اور آثار مرض بھی خطرناک ہیں، لیکن دعا بہت کی گئی ہے۔ سب کچھ اﷲ تعالیا کے ہاتھ میں ہے۔ جب وہ چاہتا ہے ایک تنکے سے شفا ہو جاتی ہے اور جب وہ نہیں چاہتا لاکھ دوائی بے سود ہے۔
ہم سب کے واسطے دعا کرتے ہیں
میاں نبی بخش صاحب نے عرض کی کہ ایک ہندو نے مجھے تاکید کی تھی کہ میرے واسطے حضرت سے دعا کرائیں۔ فرمایا :
ہندو یا کسی اور مذہب کا آدمی جو دعا کے واسطے درخواست کرے ہم سب کے واسطے دعا کرتے ہیں۔
ذکر آیا کہ ایک شخص نے اپنے بیٹے کا نام استغفراﷲ رکھا ہے۔ فرمایا :
اچھا ہے جتنی دفعہ اس کو بلائے گا خدا تعالیٰ سے استغفار کرتا رہے گا۔
قریب رہنے والے ہمیشہ نشانات دیکھتے رہتے ہیں
مولوی نور الدین صاحب کے صاحبزادہ عبد الحی کا ذکر تھا کہ اس کے متعلق پہلے سے خبر دی تھی۔ فرمایا:۔
اجنبی دشمن اور دور رہنے والا کیا حاصل کر سکتا ہے جو لوگ قریب رہتے ہیں وہ ہمیشہ نشانات دیکھتے رہتے ہیں۔ پاس رہنے والے تو آپ بیتی کے نشان بھی دیک لیتے ہیں۔
ان کید کن عظیم
صبح ایک دوست نے عرض کی کہ میرے گھر سے خبر آئی ہے کہ تمہارا لڑکا سخت بیمار ہے۔ جلد آئو مگر بیماری کی تفصیل نہیں لکھی۔ حضور دعا فاماویں فرمایا :
میں دعا کروں گا۔ لیکن بعض دفعہ عورتیں صرف بلانے کے واسطے بھی ایسا لکھ دیا کرتی ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم اس جگہ قادیان میں تھے کہ میر ناصر نواب صاحب کے گھر سے خط آیا کہ والدہ اسحاق فوت ہو گئی ہیں اور اسحاق بھی قریب المرگ ہے۔ یہ خط اسحاق کے بھائی کا لکھا ہوا تھا جو اس وقت بہت چھوٹی عمر کا تھا۔ میں اس خط کو پرھ کر بہت پریشان ہوا۔ کیونکہ اس وقت ہمارے گھر میں بیمار تھے۔ بخار چڑھا ہوا تھا۔ ایسی حالت میں اُن کو والدہ کی وفات کی خبر سنانا ہر گز مناسب نہ تھا۔ میں اسی فکر میں تھا کہ الہام ہوا ان کید کن عظیم جس سے میں نے سمجھ لیا کہ یہ صرف بلانے کا بہانہ ہے؛ ورنہ دراصل خیر ہے۔ اس وقت مولوی عبد الکریم صاحب اس جگہ تھے اُن کو سنایا گیا۔ اور حافظ حامد علی کو بھی سنایا گیا ارو اسی کو وہاں بھیجا گیا تو بات وہی نکلی جو خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام ہم کو بتلائی تھی۔
شیخ نور احمد صاحب نے عرض کی کہ اس دن میں بھی اسی جگہ تھا اور اس واقعہ کا گواہ ہوں۔؎ٰ
قبل دوپہر
بینکوں کا سود اشاعت اسلام کے لیے خرچ کرنا جائز ہے
جب سے حضرت مولٰنا مولوی عبد الکریم صاحب کی طبیعت ناساز ہوئی ہے اور نیز اکثر احباب رخصت لے کر آئے ہیں۔ اعلیا حضرت کے معمول سا ہو گیا ہے کہ قبل دو پہر تشریف لا کر مسجد میں بیٹھتے ہیں اور مناسب موقعہ کلام فرماتے ہیں۔ ۱۴ ؍ستمبر کو شیخ نور احمد صاحب جالندھری چوہدی نصر اﷲ خاں صاحب پلیڈ رسیالکوٹ سے آئے ہوئے تھے۔ اور بھی کئی احباب بیرون جات سے آئے ہوئے تھے۔ شیخ نور احمد صاحب نے بینک کے سود کے متعلق تذکرہ کیا کہ بینک والے ضرور سود دیتے ہیں ؎ٰپھر اسے کیا کای جاوے؟
اس پر فرمایا :
ہمارا یہی مذہب ہے اور اﷲ تعالیٰ نے بھی ہامرے دل میں ڈالا ہے کہ ایسا روپیہ اشاعت دین کے کام میں خرچ کیا جاوے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ سود حرام ہے لیکن اپنے نفس کے واسطے۔ اﷲ تعالیٰ کے قبضہ میں جو ثیز جاتی ہے وہ حرام نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ حرمت اشیاء کی انسان کے لیے ہے نہ اﷲ تعالیٰ کے واسطے۔ پس سود اپنے نفس کے لیے، بیوی بچوں، احباب، رشتہ داروں اور ہسایوں کے لیے بالکل حرام ہے۔۲؎لیکن اگر یہ روپیہ خالصتاً اساعت دین کے لیی خرچ ہو تو حرج نہیں ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ اسلام بہت کمزور ہو گیا ہے اور پھر ا۲س پر دوسری مصیبت یہ ہے کہ لوگ زکواۃ بھی نہیں دیتے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دو مصیبتیں واقع ہو رہی ہین اور دو حرمتیں روا رکھی گئی ہیں۔ اول یہ کہ زکوٰۃ جس کے دینے کا حکم تھا وہ دیتے نہیں اور سود جس کے لینے سے منع کیا تھا وہ لیتے ہیں۔ یعنی جو خدا تعالیٰ کا حق تھا وہ تو دیا نہیں اور جو اپنا حق ۳؎ نہ تھا اُسے لیا گیا۔
جب ایسی حالت ہو رہی ہے اور اسلام خطرناک ضعف میں مبتلا ہے تو میں یہی فتویا دیتا ہوں کہ ایسے سودوں کی رقمیں جو بینک سے ملتا ہے یک مشت اشاعت دین میں خرچ کرنی چاہئیں۔ میں نے جو فتویؓ دیا ہے وہ عام نہیں ہے ورنہ سود کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں۔ مگر اس ضعھ اسلام کے زمانہ میں جبکہ مالی ترقی کے ذریعے پیدا نہیں ہوئے اور مسلمان توجہ نہیں کرتے ایسا روپیہ اسلام کے کام میں لگانا حرام نہیں ہے۔
قرآن شریف کے مفہوم کے موافق جو حرمت ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کے لیے اگر خرچ ہو تو حرام ہے۔ یہ بھی یاد رکھو جیسے سود اپنے لیے درست نہیں کسی اور کو اس کا دینا بھی درست نہیں۔ ہاں خد اتعالیٰ کے قبضہ میں ایسے مال کا دینا درست ہے اور یہی اس کا طریق ہے کہ وہ صرف اشاعت اسلام میں خرچ ہو۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے جہاد ہو رہا ہو اور گولی بارود کسی فاسق فاجر کے ہاں ہو۔ اس وقت محض اس خیال سے رک جانا کہ یہ گولی بارودمال حرام ؎ٰ ہے ٹھیک نہیں۔ بلکہ مناسب یہی ہوگ اکہ اس کو خرچ کیا جاوے۔ اس وقت تلوار کا جہاد تو باقی نہیں رہا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسی گورنمنٹ دی ہے جس نے ہر ایک قسم کی مذہبی آزادی عطا کی ہے۔ اب قلم کا جہاد باقی ہے۔ اس لیے اشاعت اسلام میں ہم اس کو خرچ کر سکتے ہیں۔
موجودہ مسلمانوں کی حالت
فرمایا :
مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہو گئی ہے۔ ہر ایک قسم کی علمی اور عملی کمزوریاں ان میں آگئی ہیں۔ ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا ہیں۔ جرائم پیسہ کثرت کے ساتھ مسلمان ہیں۔ جیلخانوں میں جا کر دیکھو جس قدر شدید اور سنگین جرائم ہیں ان کے مرتکب مسلمان نظر آئیں گے۔ اب یہ کس قدر عار کی بات ہے۔
غرباء سے ہمدردی اور حقوق العباد کی ادائیگی کی تلقین
زکوٰۃ کیا ہے؟
تو خذ من الامر اء وتز د الی الفقراء
امراء سے لے کر فقراء کو دی جاتی ہے۔ اس میں اعلیٰ درجہ کی ہمدردی سکھائی گئی تھی۔ اس طرح سے باہم گرم سرد ملنے سے مسلمان سنبھل جاتے ہیں۔ امراء پر یہ فرض ہیکہ وہ ادا کریں۔ اگر نہ بھی فرض ہوتی تو بھی انسانی ہمدردی کا تقاضا تھا کہ غرباء کی مدد کی جاوے۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ہمسایہ اگر فاقہ مرتا ہو تو پروا نہیں اپنے عیش و آرام سے کام ہے۔ جو بات خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے میں اس کے بیان کرنے سے نہیں رک سکتا۔ اگر کسی کا ہمسایہ فاقہ میں ہو تو اس کے لیے شرعاً حج جائز نہیں۔ مقدم ہمدردی اور اس کی خبر گیری ہے کیونکہ حج کے اعمال بعد میں آتے ہیں مگر آجکل عبادات کی اصل غرض اور مقصد کو ہرگز مد نطر نہیں رکھا جاتا بلکہ عبادات کو رسوم کے رنگ میں ادا کیا جاتا ہے اور وہ نری رسمیں ہی رہ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں حاجیوں کے متعلق بد ظنیاں پیدا ہوئی ہوئی ہیں۔کہتے ہیں ایک اندھی عورت بیٹھی تھی۔ کوئی شخص آیا تو اس کی چادر چھین کر لے گیا۔ وہ عورت چلائی کہ بچہ حاجیا! میری چادر دے جا۔ اس نے پوچھا کہ مائی تو یہ تو بتا کہ یہ کیونکر تجھے معلوم ہوا کہ میں حاجی ہوں۔ اس نے کہا تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے کام حاجی ہی کرتے ہیں۔ پس اگر ایسی ہی حالت ہو تو پھر ایسے حج سے کیا فائدہ؟
حج میں قبولیت ہو کیونکر جبکہ گردن پر بہت سے حقوق العباد ہوتے ہیں۔ ان کو تو ادا کرنا چاہیے۔ اﷲ تعالی ٰ فرماتا ہے
قد افلح من زکھا (الشمس : ۱۰)
فلاح نہیں ہوتی جب تک نفس کو پاک نہ کرے اور نفس تب ہی پاک ہوتا ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کے احکام کی عزت اور ادب کرے اور ان راہوں سے بچے جو دوسرے کے آزار اور دکھ کا موجب ہوتی ہیں۔ انسان میں ہمدردی اعلیٰ درجہ کا جوہر ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
لن تنا لو االبر حتی تنفقو ا مما تحبون (ال عمران : ۹۳)
یعنی تم ہرگز ہرگز ان نیکی کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی پیاری چیزون کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔
یہ طریق اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کا نہیں کہ مثلاً کسی ہندو کی گائے بیمار ہو جاوے اور وہ کہے کہ اچھا اس کو منس (راہ خدا پر دینا ) دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ باسی اور سری بسی روٹیاں جو کسی کام نہیں ئسکتی ہیں فقیروں کو دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے خیرات کر دی ہے۔ ایسی باتیں اﷲ تعالیٰ کو منظور نہیں اور نہ ایسی خیرات مقبول ہو سکتی ہے۔ وہ تو صاف طور پر کہتا ہے
لن تنالو االبر حتی تنفقو امما تحبون (ال عمران : ۹۳)
حقیقت میں کوئی نیکی نیکی نہیں ہو سکتی جب تک اپنے پیارے مال اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اس کے دین کی اشاعت اور اس کی مخلوق کی ہمدردی کے لیے خرچ نہ کرو۔
(اس موقعہ پر ایک بھائی نے عرض کی کہ حضور بعض فقیر بھی کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی باسی روٹی دیدو۔
پھٹا پرانا کپڑا دے دو۔ وہ مانگتے ہی پرانا اور باسی ہیں) فرمایا :
کیا تم نئی دے دو گے؟ وہ کیا کریں۔ جانتے ہیں کہ کوئی نئی نہیں دے گا۔ اس لیے وہ ایسا سوال کرتے ہیں۔ جہاں تک ہو سکے مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور شفقت کرو۔ یاد رکھو۔ شریعت کے دو ہی قسم کے حقوق ہیں۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد۔ مگر میں جانتا ہوں کہ اگر کوئی بد قسمت نہ ہو تو حقوق اﷲ پر قائم ہونا سہل ہے اس لیے کہ وہ تم سے کھانے کو نہیں مانگتا اور کسی قسم کی ضرورت اسے نہیں وہ تو صرف یہی چاہتا ہے کہ تم اسے وحدہٗ لا شریک خدا سمجھو۔ اس کی صفات کاملہ پر ایمان لائو اور اس کے مرسلوں پر ایمان لا کر ان کی زتباع کرو۔ لیکن حقوق العباد میں آکر مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ جہاں نھس دھوکہ دیتا ہے۔ ایک بھائی کا حق ہے اور اس کے دبا لینے کا فتویٰ دیتا ہے۔ مقدمات ہوتے ہیں تو چاہتا ہے کہ سریک کو ایک حبہ نہ ملے سب کچھ مجھ ہی کو مل جاوے۔ غرض حقوق العباد میں بہت مشکلات ہیں۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے اس کی بری رعایت اور حفاظت کرنی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ آدمی دوسرے کے حقوق تلف کرنے والا ٹھہرے اور یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ملتاہے جس کے لیے دعا کی بڑی ضرورت ہے۔
جاپانیوں کے لیے ایک جامع کتاب کی ضرورت ہے
یہاں تک آپ نے بیان فرمایا تھا کہ اور احباب تشریف لے آئے۔ حضرت حکیم الامت بھی آگئے۔ ا س لیے سلسلہ کلام بند کر دیا اور پھر آپ نے مکراً مسئلہ سود بینک کے متعلق فرمایاجو میں اوپر درج کر آیا ہوں۔ زاں بعد جاپان اور اشاعت اسلام کے مضمون پر سلسلہ کلام شروع ہو گیا۔ جس کا مفہوم درج ذیل ہے۔
(ایڈیٹر الحکم)
مجھے معلوم ہوا ہے کہ جاپانیوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہے۔ اس لیی کوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں اسلام کی حقیقت پورے طور پر درج کر دی جاوے گویا اسلام کی پوری تصویر ہو جس طرح پر انسان سراپا بیان کرتا ہے اور سر سے لے کر پائوں تک کی تصویر کھینچ دیتا ہے۔؎ٰاسی طرح سے اس کتاب میں اسلام کی خوبیان دکھائی جاویں۔ اس کی تعلیم کے سارے پہلوئوں پر بحث ہو اور اس کے ثمرات اور نتائج بھی دکھائے جاویں۔ اخلاقی حصہ الگ ہو اور ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جاوے۔
یہ قلم کے جہاد کا زمانہ ہے
؁فرمایا :
؁میرے نزدیک تو یہ ضرورت ایسی ضرورت ہے کہ جس شخص پر حج فرض ہے۔ اُسے بھی چاہیے کہ وہ اپنا روپیہ اس دینی جہاد میں صرف کردے۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کو پانچوں نمازیں اکٹھی پڑھنی پری تھیں۔لیکن اب چونکہ تلوار کا جہاد نہیں بلکہ صرف قلم کا جہاد رہ گیا ہے۔
اس لیے اسی ذریعہ سے اس میں ہمت، وقت اور مال کو خرث کرنا چاہیے۔ خوب سمجھ لو کہ اب مذہبی لرائیوں کا زمانہ نہیں۔ اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں جو لڑائیاں ہوئی تھیں اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ جبرا- مسلمان بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ لڑائیاں بھی دھاع کے طور پر تھیں۔ جب مسلمانوں کو سخت دکھ دیا گیا اور مکہ سے نکال دیا گیا اور بہت سے مسلمان شہید ہو چکے تب اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اسی رنگ میں ا ن کا مقابلہ کرو۔ پس وہ حفاطت خود اختیاری کے رنگ میں لڑائیاں کرنی پریں مگر اب وہ زمانہ نہیں ہے۔ ہر طرح سے امن اور آزادی ہے۔ ہاں اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں وہ قلم کے زریعہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قلم ہی کے ذریعہ ان کا جواب دیا جاوے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک مقام پر فرماتا ہے کہ جس قسم کی تیاریاں تمہارے مخالف کرتے ہیں تم بھی ویسی ہی تیاریاں کرو۔ اب کفار کی تیاریاں جو اسلام کے خلاف ہو رہی ہیں اُن کو دیکھو وہ کس قسم کی ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ فوخیں جمع کرتے ہوں۔ نہیں بلکہ وہ تو طرح طرح کی کتابیں اور رسالے شائع کرتے ہیں۔؎ٰ اس لیے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بھی ان کے جواب میں قلم اٹھائیں اور رسالوں اور کتابوں کے ذریعہ انکے حملون کو رولیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بیماری کچھ ہو اور علاج کچھ اور کیا جاوے۔ اگر ایسا ہو تو اس کا نتیجہ ہمیشہ غیر مفید اور برا ہوگا۔
یقینا یاد رکھو کہا گر ہزاروں جانیں بھی ضائع کر دی جائیں اور اسلام کے خلاف کتابوں کا ذخیراہ بدستور موجود ہو تو اس سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اصل یہی بات ہے کہ ان کتابوں کے اعتراضون کا جواب دیا جاوے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا دامن پاک کیا جاوے۔ مخالفوں کی طرف سے جو کارروائی ہو رہی ہے اس کا انسداد بجز قلم کے نہیں ہوسکتا۔ یہ نری خام خیالی اور بیہودگی ہے جو مخالف تو اعتراض کریں اور اس کا جواب تلوار سے ہو۔ خد اتعالیٰ نے کبھی اس کو پسند نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی جو مسیح موعود کے وقت میں اس قسم کے جہاد کو حرام کر دیا ۔ اس ملک میں تو عیسائیوں کی ایسی تحریریں شائع ہوتی ہی رہتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ فتنہ اسی ملک میں ہے مگر معلوم ہوا ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی اس قسم کی شرارتیں ہو رہی ہیں۔ مصر اور بلاد شام بیروت وغیرہ میں بھی ایسی تحریریں شائع کی جاتی ہیں یہانتک کہ لغت تک کی کتابوں میں شرارتیں کی جاتی ہیں۔
اس مقام پر حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ حضور فقہ اللغۃ ثعلبی کی ایک کتاب ہے۔ اُسے عیسائیوں نے چھاپا ہے۔ اس میں الحمد ﷲ والصلوٰۃ للالہ لکھ دیا۔ اور آنحضرت ﷺ کا نام ہی نکال دیا ہے۔ یہانتک دشمنی مد نظر ہے۔
پھر جاپان میں اشاعت اسلام کے سلسلہ پر فرمایا :
میں دوسری کتابوں پر جو لوگ اسلام پر لکھ کر پیش کریں بھروسہ نہیں کرتا۔ کیونکہ ان میں خود غلطیاں پری ہوئی ہیں۔ ان غلطیوں کو ساتھ رکھ کر اسلام کے مسائل جاپان یا دوسری قوموں کے سامنے پیش کرنا اسلام پر ہنسی کرانا ہے۔ اسلام وہی ہے جو ہم پیش کرتے ہیں۔ ہاں اشاعت اسلام کے لیے روپیہ کی ضرورت ہے اور اس پر اگر وہ روپیہ جو بینکوں کے سود سے آتا ہے خرچ کیا جاوے تو جائز ہے کیونکہ وہ خالص خدا کے لیے ہے۔ خد اتعالیٰ کے لیے وہ حرام نہیں ہے۔ جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ کسی جگہ کا سکہ و بارود ہو وہ جہاد مین خرچ کرنا جائز ہے۔ یہ ایسی باتیں ہیں کہ بلاتکلف سمجھ میں آجاتی ہیں کیونکہ بالکل صاف ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے سؤر کو حرام کیا ہے لیکن بایں ہمہ فرماتا ہے
ھمن اضطر گیر باغ ولا عاد ھلا اثم علیہ (البقرۃ : ۱۷۴)
جب اضطراری حالت میں محض اپنی جان بچانے کی خاطر سؤر کا کھانا جائز ہے تو کیا ایسی حالت میں اسلام کی حالت بہت ضعیف ہو گئی ہے اور اس کی جان پر آبنی ہے۔ اس کی جان بچانے کے لیے محض اعلائے کلمۂ اسلام کے لیے سود کا روپیہ خرچ نہیں ہوسکتا؟ میرے نزدیک یقینا خرچ ہو سکتا ہے اور خرچ کرنا چاہیے۔
اﷲ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا ظاہر کرنا مقصود خاطر ہو
فرمایا: دنیا تو ایسی ہے کہ ؎
کار دنیا کسے تمام نہ کرو
اﷲ تعالیٰ کا یہ ایک سر بستہ راز ہے جو کسی پر نہیں کھلا کہ موت کس وقت آجاوے۔ پھر جب موت آگئی تو سب مال و اسباب یہاں کا یہان ہی رہ جاتا ہے اور بعض اوقات اُس کے وارث وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو اگر مرنے والا زندہ ہوتا تو ایک حبہ بھی ان کو دینا پسند نہیں کرتا تھا۔ پھر کیسی غلطی ہے کہ انسان اپنے مال کو ایسی جگہ خرچ نہ کرے جو اس کے لیے ہمیشہ کے واسطے راحت اور آسائش کا موجب ہو جاوے۔ میں حیران ہوتا ہوں جب یورپ کی طرف دیکھتا ہوں کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنانے کے لیے ان میں اس قدر جوش اور سرگرمی ہے اور ہم میں خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے ظاہر کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔ یہ کس قدر بدقسمتی ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیں۔ اگر اُسے خوش کریں تو سب کچھ مل سکت اہے ۔مگر ان کی یہی تو بدقسمتی ہے کہ وہ اس کو ناراض کر رہے ہیں۔ مجھے بہت ہی افسوس ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوںکو خدا تعالیٰ نے ایک سچا دین اسلام عطا کیا تھا مگر انہوں نے اس کی قدر نہیں کی۔ خد اجانے یہ بے پروائی کیا نتیجہ پیدا کرے۔ دین کی کچھ بھی پروا اور غیرت نہیں۔ باہم اگر جنگ و جدل ہے تو اس میں سیخی۔ ریا۔عجب مقصود ہے نہ کہ اﷲ تعالیٰ کا جلال اور اس کی عظمت۔ لیکن جو سخص ہر امر میں اﷲ تعالیٰ کو مقدم کرے اور اس کے دین کی حمیت اور غیرت میں ایسا محو ہو کہ ہر کام میں اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا ظاہر کرنا اس کا مقصود خاطر ہو۔ ایسا شخص اﷲ تعالیٰ کے دفتر میں صدیق کہلاتا ہے۔
ہم جس طریق پر اسلام کو پیش کر سکتے ہیں دوسرا نہیں کر سکتا۔ مگر مشکلات یہ ہیں کہ ہماری جماعت کا بہت بڑا حصہ غرباء کا ہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ باوجود یکہ یہ غرباء کی جماعت ہے تاہم میں دیکھتا ہوں کہ ان میں صدق ہے اور ہمدردی ہے اور وہ اسلام کی ضروریات سمجھ کرحتی المقدور اس کے لیے خرچ کرنے سے فرق نہیں کرتے۔ اﷲ تعالیٰ ہی کا فضل ساتھ ہو تو کام بنتا ہے اور ہم ا س کے فضل کے امیدوار ہیں۔
اﷲ تعالیٰ اسلام کو تمام حملوں سے بچائے گا
جس طرح پر ایک طوفان قریب آتا ہو تو انسان کو فکر ہوتا ہے کہ یہ طوفان تباہ کردے گا اسی طرح پر اسلام پر طوفان آرہے ہیں۔ مخالف ہر وقت ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ کہ اسلام تباہ ہو جاوے لیکن میں یقین رکھتاہوں کہ اﷲ تعالیٰ اسلام کو ان تمام حملوں سے بچائے گا اور وہ اس طوفان میں بھی اس کا بیڑا سلامتی سے کنارہ پر پہنچاوے گا۔
‏Amira 15-11-05
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
راتوں کی دعائیں ہی مشکلات کو ختم کریں گی
انبیاء علیہم السلام کے حالات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کو مشکلات نذر آتی تھیں تو بجز اس کے اور کوئی صورت نہ ہوتی تھی کہ وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرتے تھے۔ قوم تو صمٌ بکمٌ ہوتی ہے۔ وہ ان کی باتیں سنتی نہیں بلکہ تنگ کرتی اور دکھ دیتی ہے۔ اس وقت راتوں کی دعائیں ہی کام کیا کرتی تھیں ۔اب بھی یہی صورت ہے۔ باوجود یکہ اسلام ضاف کی حالت میں ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی بحالی کے لیے پوری کوشش کی جواے لیکن مین دیکھتا ہوں کہ ہم جب سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر طرح سے ہماری مخالفت کے لیے سعی کی جاتی ہے۔ یہ میری مخالفت نہیں خدا تعالیٰ سے جنگ ہے۔ میں تو یہانتک یقین رکھتا ہوں کہ اگر میری طرف سے کوئی کتاب اسلام پر جاپان میں شائع ہو تو یہ لوگ میری مخالفت کے لیے جاپان بھی جا پہنچیں ۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔
وہ شخص بڑا ہی مبارک اور خوش قسمت ہے جس کا دل پاک ہو اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے اظہار کا خواہاں ہوں کیونکہ اﷲ تعالیٰ اس کو دوسروں پر مقدم کر لیتا ہے۔ جو لوگ میری مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا اور ہمارا فیصلہ ال تعالیا ہی کے سامنے ہے۔ وہ ہمارے اور ان کے دلوں کو خوب جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس کا دل دنیا کے نمود اور نمائش کے لیے ہے اور کون ہے جو خدا تعالیٰ ہی کے لیے اپنے دل میں سوزو گداز رکھتا ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ترقی کا باعث آپؐ کے دل کی طہارت تھی
یہ خوب یاد رکھو کہ کبھی روحانیت صعود نہیں کرتی جبتک دل پاک نہ ہو۔ جب دل میں پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے تو اس میں ترقی کے لیے ایک خاص طاقت اور قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے لیے ہر قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور وہ ترقی کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو دیکھو کہ بالکل اکیلے تھے اور اس بیکسی کی حالت میں دعویٰ کرتے ہیں
یا یھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (الاعراف : ۱۵۹)
کون اس وقت خیال کر سکتا تھا کہ یہ دعوے ایسے بے یارومدد گار شخص کا بار آور ہوگا۔پھر ساتھ ہی اس قدر مشکلات آپ کو پیش آئے کہ ہمیں تو ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں آئے۔ وہ زمانہ تو ایسا زمانہ تھا کہ سکھا شاہی سے بھی بدتر تھا۔ اب تو گورنمنٹ کی طرف سے پورا امن اور آزادی ہے۔ اس وقت ایک ثالاک آدمی ہر قسم کی منصوبہ بازی سے جو کچھ بھی چاہتا دکھ پہنچاتا۔ مگر مکہ جیسی جگہ میں اور پھر عربوں جیسی وحشیانہ زندگی رکھنے والی قوم میں آپؐ نے وہ ترقی کی جس کی نطیر دنای کی تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔
مخالفوں میں سے ہی خد اکی مرضی پوری کرنے والے پاک دل نکلیں گے
اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتاہے کہ خود ان کی مذہبی تعلیم اور عقاید کے خلاف انہیں سنایا کہ یہ لات اور عزیٰ جن کو تم اپنا معبود قرار دیتے ہو یہ سب پلید اور حطب جہنم ہیں۔ اس سے برھ کر اور کون سی بات عربوں کی ضدی قوم کو جوس دلانے والی ہو سکتی تھی۔ لیکن انہیں عربوں میں آنحضرت ﷺ نے نشونما پایا اور ترقی کی۔ انہیں میں سے حضرت ابو بکر ؓ جیسے بھی نکل آئے۔ اس سے ہمیںامید ہوتی ہے کہ انہیں مخالفوں سے وہ لوگ بھی نکلیں گے جو خدا تعالیا کی مرضی پورا کرنے والے اور پاک دل ہوں گے اور یہ جماعت جو اس وقت تک تیار ہوئی ہے آخر انہیں میں سے آئی ہے۔کئی دفعہ میر صاحب؎ٰ نے ذکر کای کہ دلی سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے مگر میرے دل میں یہی آتا ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ دلی میں بھی بعض پاک دل ضرور چھپے ہوئے ہوں گے۔ جو آخر اس طرف آئین گے۔ اﷲ تعالیا نے جو ہمارا تعلق دلی سے کیا ہے یہ بھی خالی از حکمت نہیں۔ اﷲ تعالیا سے ہم کبھی نا امید نہیں ہو سکتے۔ آخر خود میر صاحب بھی دلی ہی کے ہیں۔۲؎ غرض یہ کوئی نا امید کرنے والی بات نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ کا پاک اور کامل نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ مکہ والوں نے کیسی مخالفت کی اور پھر اسی مکہ میں سے وہ لوگ نکلے جو دنیا کی اصلاح کرنے والے ٹھہرے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ابو بکر ؓ انہیں میں سے تھے۔ وہ ابو بکرؓ جن کی بابت آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابو بکر کی قدر و منزلت اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس بات سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔ پھر حضرت عمر ؓ انہیں مکہ والوں میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ برے بھاری مخالف تے یہانتک کہ ایک مرتبہ مشورہ قتل میں بھی شریک اور قتل کے لیے مقرر ہوئے لیکن آخر خدا تعالیٰ نے ان کو وہ جوش اظہار اسلام کا دیا کہ غیر قومیں بھی ان کی تعریھیں کرتی ہیں اور ان کا نام عزت سے لیتی ہیں۔
غرض ہم کو وہ مشکلات پیش نہیں آئے جو آنحضرت ﷺ کو پیش آئے۔ باوجود اس کے آنحضرت ﷺ فوت نہیں ہوئے جب تک پورے کامیاب نہیں ہو گئے۔ اور آپﷺ نے
اذا جاء نصر اﷲ والفتح ورایت الناس ید خلون فی دین اﷲ افواجا (النصر : ۲،۳)
کا نظارہ دیکھ نہیں لیا۔
آج ہمارے مخالف بھی ہر طرح کی کوشش ہمارے نابود کرنیکی کرتے ہیں۔ مگر خد اتعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ جس قدر مخالفت اس سلسلہ کی انہوں نے کی ہے اسی قدر ناکامی اور نامرادی ان کے شامل حال رہی ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بڑھایا ہے۔ یہ تو خیال کرتے اور رائے لگاتے ہیں کہ یہ شخص مر جاوے گا اور جماعت متفرق ہو جاوے گی۔ یہ فرقہ بھی دوسرے فرقہ برہموؤن وغیرہ کی طرح ہے کہ جن میں کوئی کشش نہیں ہے اس لیے اس کے ساتھ ہی اس کا خاتمہ ہو جاوے گا مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے خدو ارادہ فرمایا ہے کہ اس سلسلہ کو قائم کرے اور اُسے ترقی دے۔ کیا آنحضرت ﷺ ، حضرت موسیٰ ؑاور حضرت عیسیٰ ؑ کے فرقے نہ تھے۔ اس وقت ان کے مخالف بھی یہی سمجھتے ہوں گے کہ بس اب ان کا خاتمہ ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اُن کو کیسا نشونما دیا اور پھیلا یا۔ ان کو سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی فرقہ تھوڑی سی ترقی کرکے رک جات اہے تو کیا ایسے فرقوں کی نظیر موجود نہیں جو عالم پر محیط ہو جاتے ہیں۔ ا سلیے اﷲت عالیٰ کے ارادوں پر نظر کر کے حکم کرنا چاہیے۔ جو لوگ رہ گئے اور اُن کی ترقی رک گئی ان کی نسبت ہم یہی کہیں گے کہ وہ اس کی نظر میں مقبول نہ تھے۔ وہ اس کی نہیں بلکہ اپنی پرستش چاہتے تھے مگر میں ایسے لوگوں کو نظیر میں پیش کرتا ہوں جو اپنے وجود سے جل جاویں اور اﷲ تعالیٰ ہی کی عظمت اور جلال کے خواہسمند ہوں۔ اس کی راہ میں ہر دکھ اور متو کے اختیار کرنے کو آمادہ ہوں۔ پھر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں تباہ کردے؟ کون ہے جو اپنے گھر کو خود تباہ کردے؟ اُن کا سلسلہ خد اتعالیٰ کا سلسلہ ہوتا ہے اس لیے وہ خود اسے ترقی دیتا ہے اور اس کے نشونما کا باعث ٹھہرتا ہے۔
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں ہوئے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکت اہے کہ ان میں سے کون تباہ ہوا؟ ایک بھی نہیں۔ اور پھر آنحصرت ﷺ کو مجموعی طور پر دیک لو کیونکہ آپ جامع کمالات تھے۔ ساری قوم آپﷺ کی دشمن ہو گئی اور اس نے قتل کے منصوبے کئے۔ مگر آپﷺ کی اﷲ تعالیا نے وہ تائید کی جس کی نطیر دنیا میں نہیں ملتی۔
ایک دفعہ اوائل دعوت میں آنحضرت ﷺ نے ساری قوم کو بلایا۔ ابو جہل وغیرہ سب ان میں سامل تھے۔؎ٰ اہل مجمع نے سمجھا تھا کہ یہ مجمع بھی کسی دنیوی مشورہ کے لیے ہوگا۔ لیکن جب ان کو اﷲتعالیٰ کے آنے والے عذاب سے ڈرایا گیا تو ابو جہل۲؎ بول اُٹھا تبا لک الھذاجمعتنا۔
غرض باوجود اس کے کہ آنحضرت ﷺ کو وہ صادق اور ماین سمجھتے تے مگ راس موقعہ پر انہوں نے خطر ناک مخالفت کی اور ایک آگ مخالفت کی بھڑک اٹھی، لیکن آخر آپ کامیاب ہوگئے اور آپؐ کے مخالف سب نیست و نابود ہوگئے۔
ترقی کرنے کے گر فرمایا :
لوگ چاہتے ہیں کہ ترقی ہو مگر وہ نہیں جانتے کہ ترقی کس طرح ہوا کرتی ہے۔ دنیا داروں نے تو یہی سمجھ لیا یہ کہ یورپ کی تقلید سے ترقی ہوگی۔ مگ رمیں کہت اہوں کہ ترقی ہمیشہ راستبازی سے ہوا کرتی ہے۔ اس کے لیے اﷲ تعالیٰ نے نمونہ رکھاہوا ہے۔ آنحضرت ﷺ اور آپ کی جماعت کا نمونہ دیکھو۔ ترقی اسی طرح ہوگی جیسے پہلے ہوئی تھی۔ اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ پہلے جو ترقی ہوئی وہ صلاح اور تقویٰ اور راستبازی سے ہوئی تھی۔ وہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے جویا ہوئے اور اس کے احکام کے تابع ہوئے۔ اب بھی جب ترقی ہوگی۔ اسی طرح ہوگی۔
سید احمد خاں قومی قومی کہتے تھے۔مگر افسوس ہے کہ وہ ایک بیٹے کی بھی اصلاح نہ کر سکے۔ اس سے ثابت ہوت اہے کہ دعویٰ کرنا اور چیز ہے اور اس دعویٰ کی صداقت کو دکھانا اور بات۔ اصل یہی ہے جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سکھایا ہے۔ جبتک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابند نہیں ہوت یوہ کسی قسم کی ترقی نہیں کرسکتے۔ جس قدر وہ قرآن شریف سے دور جارہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دور جا رہے ہیں۔ قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تجارت، زراعت اور ذرائع معاش سے جو حلال ہوں،منع نہیں کیا۔ مگر ہان اس کو مقصود بالذات قرار نہ دیا جاوے بلکہ اس کو بطور خادم دین رکھنا چاہیے۔ زکوٰۃ سے بھی یہی منشا ہے کہ وہ مال خادم دین ہو۔
قوم ترقی کاراز
خوب یاد رکھو کہ اصل طریق ترقی کا یہی ہے۔ جبتک قوم اﷲ تعالیٰ کے لیے قدم نہیں اُٹھاتی اور اپنے دلوں کو پاک و صاف نہیں کرتی کبھی ممکن نہیں کہ یہ قوم ترقی کر سکے۔یہ خیال محض غلط ہے کہ صرف انگریزی پڑھنے اور انگریزی لباس پہننے اور شراب پینے اور فسق و فجور میں مبتلا ہوین سے ترقی ہو سکتی ہے۔ یہ تو ہلاک کرنے کی راہ یہ۔ نوح علیہ السلام کے زمانہ میں جو قوم رہتی تھی کیا وہ معاش اور آسائس کے سامان نہ رکھتے تھے؟ اسی طرح لوط علیہ السلام کے زمانہ میں بھی معاش کے ذریعے تھے۔ اسی طرح اس زمانہ میں بھی معاش کے بعض زریعے ہیں جن میں سے ایک یہ زبان بھی ہے جو معاش کا ذریعہ سمجھی گئی ہے لیکن وہ زبان جو خدا تعالیٰ کی زبان ہے۔ اُسے اﷲ تعالیٰ نے علم و معرفت کی نجی بنایا ہے۔ جب انسان تعصب سے پاک ہو کر تدبر سے قرآن شریف کو دیکھے گا اور اعراض صوری اور معنوی سے باز رہے گا بلکہ دعائوں میں لگا رہے گا۔ تب ترقی ہوگی۔
یہ لوگ جو قومی ترقی قومی ترقی کا شور مثارہے ہیں۔ میں ان کی آوازوں کو سنکر حیران ہوا کرتا ہوں کہ شاید ان کو مران ہی بھولا ہوا ہے اور ناپائداد زندگی کو انہوں نے مقدم کر لیا یہ۔ یہ چاہتے ہیں کہ یورپ جیسے امیر کبیر بن جاویں۔ ہم منع نہیں کرتے کہ حد مناسب تک کوئی کوشش نہ کرے۔ مگر افراط تو مذموم امر ہے۔ افسوس ان ترقی ثاہنے والوں کے نزدیک عملی طور پر ہر ایک بدی حلال ہے یہاں تک کہ زنا بھی۔ جیساکہ یورپ کا عملی طرز بتا رہا یہ۔ اگر یہی ترقی ہے تو پھر ہلاکت کیا ہوگی؟ پس تم اپنی نیتوں کو پاف کرو۔ اﷲ تعالیٰ کو رضا مند کرو۔ دعائوں میں لگے رہو اور دین کی اشاعت کے لیے دعا کرو۔ پھر منع نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس قسم کی استعداد اور مناسبت معاش کے لیے دی ہے اس سے کام لو۔ زراعت ہو یا ملازمت یا تجارت کرو مگر یہ نہیں کہ اسکو مقصود بالذات سمجھ کر دل اس سے لگا لو ۔بلکہ دل اس سے ہمیشہ اداس رکھو اور اسے ایک ابتلا سمجھو اور دعا رکتے رہو کہ خدا تعالیٰ وہ زمانہ لاوے کہ فراغت کا زمانہ یاد الٰہی کیلئے میسر آوے۔میری غرض اور تعلیم تو یہ ہے۔ جو اس پر مخالفت کرے ا سکا اختیار ہے۔ ہنسی کرے اختیار ہے مگر حق یہی ہے۔
جو لوگ آزاد مسرب ہیں وہ ایسی باتوں پر سخت ہنسی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ اطفال کے درجہ پر ہیں اور ہمیں تیرہ سو برس پیچھے لے جاتے ہیں مگر جن میں تقویا ہو اور موت کو یاد رکھتے ہیں وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں میں سے حق پر کون ہے؟
میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ جب تک صحت ہے اس وقت تک یہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ لین جب ذرا مبتلا ہوتے ہیں تو ہوش میں آجاتے ہیں۔ نیچری مذہب کے لیی اسی قدر مستحکم ہوگ اجس قدر دنیوی آسائش و آرام میسر ہوگا۔ جس قدر مصائب ہوں گے ڈھیلا ہوتا جائے گا۔ جو شخص دنیوی و جاہت اور عہدہ پاتا ہے اور قوم میں ایک عزت دیکھتا ہے وہ کیا سمجھ سکتاہے کہ دین کیا چیز ہے؟
جو گروہ نمازوں میں تخفیف کرنی چاہتا ہے اور روزوں کو ارانا چاہتا ہے اور قرآن شریف کی ترمیم کرنے کا خواہشمند ہے۔ اگر اُسے ترقی ہو تو تم سمجھ لو کہ انجام کیا ہو۔
اس کے ضمن میں آپ نے نواب محمد حیات خاں مرحوم کا ذکر کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے کس طرح پر قبل از وقت مجھے اس کی بحالی کی اطلاع دی جس کی میں نے اس کو بھی خبر دیدی تھی۔ لیکن جب بحال ہو گیا تو پھر وہ ساری باتیں جو معطلی کے زمانہ میں تھیں بھول گئیں۔؎ٰ
۱۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
حق محنت کی ادائیگی فرمایا:
خدا تعالیٰ کی طلب مین جو شخص پوری کوشش نہیں کرتا وہ بھی کافر ہے۔ ہر ایک چیز کو جب اس کی حد مقررہ تک پہنچایا جاتا ہے تب اس سے فائدہ حاصل ہو سکتاہے۔ جیسے اس زمین میں چالیس یا پچاس ہاتھ کھودنے سے کنؤاں تیار ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص صرف چار پانچ ہاتھ کھود کر چھوڑ دے اور کہہ دے کہ یہاں پانی نہیں ہے تو یہ اس کی غلطی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس شخص نے حق محنت کا ادا نہیں کیا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی فضیلت
(قبل از ظہر)
فرمایا: یہ جو قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے
فبھد ھم اقتدہ (الانعام : ۹۱)
پس ان کی یعنی گذشتہ نبیوں کی جن کا اوپر ذکر آیا ہے اقتدا کر۔ ا س آیت سے آنحضرت ﷺ کی بڑ فضلیت ظاہر ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ جس قدر گذشتہ انبیاء ہوئے انہوں نے مخلوق کی ہدایت مختلف پہلوئوں سے کی اور مختلف قسم کی ان میں خوبیاں تھیں۔ کسی میں کوئی خوبی اور کمال تھا اور کسی میںکوئی۔ اور ان تمام نبیوں کی اقتداء کرنا یہ معنے رکھتا ہے کہ ان تمام متھرق خوبیوں کو اپنے اندر جمع کر لینا چاہیے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جو شخص جامع ان تمام خوبیوں کا ہے جو متفرق طور پر تمام ابنیاء میں پائی جاتی ہیں وہ تمام متفرق کمالات اپنے اندر جمع رکھتا ہے اس لیے وہ تمام انبیاء سے افضل ہے کیونکہ ہر ایک کی خوبی اس میں موجود ہے۔ اور وہ تمام متفرق خوبیوں کا جامع ہے۔ مگر پہلے اس سے کوئی نبی ان تمام خوبیوں کا جامع نہ تھا۔؎ٰ
۲۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
(بوقت صبح)
انجام بخیر ہے فرمایا:
طب کے ظنی امور ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے پاس جو یقین ہوتا ہے وہ کہاں؟
پیشگوئیوں کا معاملہ مخفی رکھاجاتا ہے تا کہ تکالیف کا ثواب انسان حاصل کرے۔ درمیانی دکھ ہیں اور انجام بخیر ہے۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی ایک رؤیا اور اس کی تعبیر
عاجز۲؎ راقم نے اپنی رؤیا بیان کی کہ ’’میں رات مولوی عبد الکریم صاحب کے واسطے بہت دعا کرتا تھا تو تھوڑی غنودگی میں ایسا معلوم ہوا کہ میں کہتا ہوں یا کوئی کہتا ہے ’’بلائوں میں جندرے مارے گئے‘‘۔ فرمایا:
’’مبشر ہے‘‘
ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی ایک رؤیا اور اس کی تعبیر
ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اپنا ایک خواب عرض کیا کہ کوئی کہتا ہے کہ مولوی صاحب کو خیر یہ۔ استغفار اور لاحول پڑھنا چاہیے اور پھر میں نے ایک آواز سنی۔
سلام علیکم۔ فرمایا:
’’لاحول سے یہ مراد ہے کہ بغیر فضل الٰہی کے کوئی حیلہ باقی نہیں رہا۔ اور سلام علیکم سے مراد سلامتی ہے‘‘۔ فرمایا:
’’سب اﷲ تعالیٰ کے لشکر ہیں جہاں حکم ہوتا ہے وہاں چڑھائی کرتے ہیں‘‘۔
مصائب گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں
مولوی عبد الکریم صاحب کی بیماری کا اور اُن کے متعلق دعا کا زکر کرتے ہوئے شیخ رحمت اﷲ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا :
’’آپ کے واسطے بھی پانچ وقت نماز میں دعا کی جاتی ہے مگر اﷲ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ تکالیف سے اپنے بندوں کو ثواب دے۔ عبادات میں جو قصور رہ جاتے ہیں ان کا ازالہ قضاء و قدر کے مصائب سے ہو جاتا ہے کیونکہ عبادت کی تکلیف میں تو انسان اپنا رگ پٹھا آپ بچا لیت اہے۔ سردی ہو تو وضو کے لیے پانی گرم کر لیتا ہے۔ کھڑا نہ ہوسکے تو بیٹھ کر پڑھ لیتاہے۔ لیکن قضاء و قدر سے جو آسمانی مار پڑتی ہے وہ رگ پٹھہ نہیں دیکھتی۔دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ دنای میں ہمیشہ کی خوسی صرف کافر کو حاصل ہو سکتی ہے۔کیونکہ اس کے لیے عذاب کا گھر آگے ہے۔ لیکن مومن کے لیے ایسی زندگی ہوتی ہے کہ کبھی آرام اور کبھی تکلیف۔ ہاں جان بخیر چاہیے۔
یہ مصائب گناہ کا کفارہ ہوتے ہیں۔ کرب اور گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں ؎خدا داری چہ غم داری۔
خدا تعالیٰ پر پورا ایمان اور بھروسہ ہو تو پھر انسان کوتنور میں ڈال دیا جاوے اُسے کوئی غم نہیں ہوتا۔تکالیف کا بھیایک وقت ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر راحت ہے۔ جیسا بچہ پیدا ہوین کے وقت عورت کو تکلیف ہے بلکہ ساتھ والے بھی رورتے ہیں۔لین جب بچہ پیدا ہو گیا تو پھر سب کو خوشی ہے۔ ایس اہی مومن پر خد اتعالیٰ کی طرف سے ایک تکلیف اور دکھ کا وقت آتا ہے تاکہ وہ آزمایا جائے اور صبر اور استقامت کا اجر پائے۔ اصل میں تکلیف کے دن ہی مبارک دن ہوتے ہیں۔ انبیاء تکالیف کے ساتھ موافقت کرتے ہیں۔ ہر ایک شخص پر نوبت بہ نوبت یہ دن آتے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس کا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ اصلی ہے یا نہیں۔ مولوی رومی نے خوب فرمایا ہے ؎
ہر بلا کیں قوم راحق دادہ است زیر آں گنج کرم بنہادہ است
حدیث میں آیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی سے پیار کرتا ہے تو اُسے کچھ دیکھ دیتا ہے ۔انبیاء کے معجزات انہیں مصائب کے زمانہ کی دعائوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا اپریشن ہے جو ہر صادق کے واسطے ضروری ہے۔
قبل از ظہر
دعائوں کی تلقین فرمایا:
آگے پھر طاعون کے دن ئرہے ہیں۔ نہیں معلوم کون بچے گا اور کون مرے گا؟ آجکل توبہ کرنی چاہیے اور راتوں کو اُٹھ کر دائیں کرنی چاہئیں تا کہ خدا تعالیٰ اس وقت کے عذاب سے بچائے قادیان کے قریب دو گائوں طاعون سے ملوث ہیں۔
دعا کے ذریعہ ہی مشکلات حل ہوتی ہیں فرمایا:
اﷲ تعالیٰ مخفی ہے۔ مگر وہ اپنی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ دعا کے ذریعہ سے اس کی ہستی کا پتہ لگتا ہے۔ کوئی بادشاہ یا شہنشاہ کہلائے۔ ہر شخص پر ضرور ایسے مشکلات پڑتے ہیں جن مین انسان بالکل عاجز رہ جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ اس وقت دعا کے ذریعہ سے مشکلات حل ہو سکتے ہیں۔
چراغ الدین جمونی
جموں والے چراغ الدین کا ذکر تھا کہ عیسائیوں کے ساتھ بہت تعلق محبت رکھتا ہے۔
فرمایا:
بدقسمت اور بدبخت آدمی ہے۔ اسلام ایسے گندوں کو باہر پھینکتا جاتا ہے۔
عیسائیوں پر ایک سوال
یورپ کی شراب نوشی کا ذکر تھا۔ فرمایا:
حقیقی تہذیب شراب خور کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ انجیل کی کسی آیت نے سؤر کو برخلاف توریت کے حلال نہیں کیا مگر یہ لوگ کثرت سے سؤر بھی کھاتے ہیں اور شراب بھی پیتے ہیں۔
جب شریعت توریت قابل عمل نہیں اور باوجود بہت سی اشیاء کی حرمت کے جن کا حکم توریت میں موجود ہے۔ عیسئایوں کے واسطے ضروری نہیں کہ ان احکام پر عمل کریں تو پھر رشتہ ناطہ کے معاملہ میں اس قدیم شریعت پر عمل کرنے کی کیا حاجت ہے اور بہن یا سالی وغیرہ سے شادی کرنا انجیل کے کس حکم کے برخلاف ہے۔
خدا تعالیٰ کا حلم
بعض لوگوں کے بدیوں اور شرارتوں میں حد سے بڑھ جانے کا ذکر تھا۔ فرمایاص
اﷲ تعالیٰ بڑا حلیم اور کریم ہیاور اس کے کام نہایت ، آہستگی کے ساتھ ہوتے ہیں۔معصیت میں پڑے ہوئے لوگوں کو وہ مہلت دیتا ہے اور لوگ اس پر حیران ہوتے اور گھبراتے ہیں۔ لیکن گذشتہ واقعات زمانہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں پر جب عذاب آتا ہے نہایت سخت آتا ہے۔زمانہ میں راحت کے دن بہت ہیں مگر آخر کار گرفتاری کا بھی ایک دن آہی جات اہے اور اس وقت ایس اپکڑا جاتا ہے کہ اس کے دکھ کو دیکھ کر سخت سے سخت دل آدمی بھی درد ناک ہو جاتا ہے ؎
ہاں مسو مگرور از حلم خدا
دیر گیرد سخت گیرد مر ترا
‏ؒAmira 16-11-05
قبل نماز ظہر
دعا کا اثر
جیسا اثر دعا میں ہے ویسا اور کسی شئے میں نہیں ہے مگر دعا کے واسطے پورا جوش معمولی باتوں میں پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ معمولی باتوں میں تو بعض دفعہ دعا کرنا گستاخی معلوم ہوتی ہے اور طبیعت صبر کی طرف راغب رہتی ہے۔ ہاں مسکلات کے وقت دعا کے واسطے پورا جوش دل میں پیدا ہوتا ہے تب کوئی خارق عادت امر ظاہر ہوتا ہے۔
کہتے ہیں دہلی میں ایک بزرگ تھا۔بادشاہ وقت اس پر سخت ناراض ہو گیا۔ اس وقت بادشاہ کہیں باہر جاتا تھا۔ حکم دیا کہواپس آکر میں تم کو ضرور پھانسی دوں گا اور اپنے اس حکم پر قسم کھائی ۔ جب اس کی واپسی کا وقت قریب آیا تو اس بزرگ کے دوستوں اور مریدوں نے غمگین ہو کر عرض کی کہ بادساہ کی واپسی کا وقت اب قریب آگیا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ہنوز دلی دور است۔ جب بادشاہ ایک دومنزل پر آگیا تو انہوں نے پھر عرض کی۔ مگر اس نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دور است۔ یہانتک کہ بادشاہ عین شہر کے پاس آگیا اور شہر کے اندر داخل ہونے لگا۔ تب لوگوں نے اس بزرگ کی خدمت میں عرض کی کہ اب تو بادشاہ شہر میں داخل ہونے لگا ہے۔ یاداخل ہو گیا ہے مگر پھر بھی اس بزرگ نے یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دور است۔ اسی اثنا میں خبر آئی کہ جب بادشاہ دروازہ شہر کے نیچے پہنچا تو اوپر سے دروازہ گر ا اور بادشاہ ہلاک ہو گیا۔ معلوم ہوت اہے کہ اس بزرگ کو کچھ منجانب اﷲ معلوم ہو چکا تھا۔
ایسا ہی شخ نظام الدین کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ کا سخت عتاب ان پر ہوا۔ اور حکم ہوا کہ ایک ہفتہ تک تم کو سخت سزادی جائے گی۔ جب وہ دن آیا تو وہ ایک مرید کی ران پر سر رکھ کر سوئے تھے۔ اس مرید کو جب بادشاہ کے حکم کا خیال آیا تو وہ رویا۔ اور اس کے آنسو شیخ پر گرے جس سے سیخ بیدار ہوا اور پوچھا کہ تو کیوں روتا ہے۔ اس نے اپنا خیال عرض کیا اور کہا کہ آج سزا کا دن ہے۔ شیخ نے کہا کہ تم غم مت کھائو ہم کو کوء سزا نہ ہوگی۔ میں نے ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مار کھنڈ گائے مجھے مارنے کے واسطے آئی ہے۔ میں نے اس کے دونوں سینگ پکڑ کر اس کو نیچے گرادیا ہے؛ چنانچہ اسی دن بادشاہ سخت بیمار ہوا۔ اور ایسا سخت بیمار ہوا کہ اسی بیماری میں مر گیا۔
یہ تصرفات الٰہی ہیں جو انسان کی سمجھ مین نہیں آسکتے۔ جب وقت آجاتا ہے تو کوئی نہ کوئی تقریب پید اہو جاتی ہے۔ سب دل خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں’ وہ جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے اذن کے بغیر تو کوئی جان بھی نہیں نکل سکتی خواہ کیسے ہی سدید عوارض ہوں۔ نا امید ہونے والا بت پرست سے بھی زیادہ کافر ہے۔
آئندہ طاعون سے بچنے کا علاج
عاجز؎ٰ راقم نے اپنا آج کا خواب عرض کیا کہ طاعون بہت پھیلا ہوا دکھائی دیا۔ اور کوئی کہتا ہے یا میں یہتا ہوں کہ جو آجکل رات کو اُٹھ کر دعا کرے گا وہ اس سے آئندہ طاعون کے وقت بچایا جائیگا۔ فرمایا :
یہ بالکل سچ ہے۔ راتوں کو اُٹھ کر بہت دعائین کرنی چاہئیں کہ اﷲ تعالیٰ آنے والے عذاب سے اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھے۔
جانوروں کی پرورش میں حفاظت کی ضرورت فرمایا :
ایک نجاست خور گائے ہوتی ہے جس کو جلالہ کہتے ہیں۔ اس کا گوشت حرام لکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کے جانور مثل بھیڑ، مرغی کی پرورس میں حفاظت کرنی چاہیے اور ان کو نجاست خوری سے بچانا چاہیے۔۲؎۔
۲۳؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
(قبل دوپہر)
چراغ الدین جمونی اور اس کی تصنیف
آج اتفاق سے حضور ؑ کی مجلس میں میاں چراغ دین ساکن جموں کا ذکر اس تقریب پر شروع ہو گیا کہ اس نے ایک کتاب منارۃ المسیح حال میں شائع کی ہے جس میں اسلام کی سخت ہتک کی گئی ہے۔ اس کتاب کے تذکرہ پر اعلیٰ حضرت ؑ نے فرمایا کہ :
وہ اسلام کا سخت مخالف ہے۔ ہر امر میں اس نے حضرت مسیح کو آنحضرت ﷺ پر فضیلت دی ہے۔ پھ ریہ بھی کہتا ہے کہ اسلام اور عیسائیت میں صلح کرانے آیا ہوں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے۔ اسلام اور عسیائیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور وہ صلح کراتا ہے۔ مجھے اس کتاب میں بہت گالیاں دی ہیں۔
کشمیر میں بنی اسرائیل اور مسیح علیہ السلام کی قبر
مسیح کی قبر واقع کشمیر کا ذکر تھا۔ اس کے متعلق جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
بہت سے سواہد اور دلائل س ییہ امر ثابت ہو گیا ہے کہ یہ مسیح ؑ کی قبر ہے۔ اور یہاں نہ صرف ان کی قب رہی ہے بلکہ میں یقین رکھت اہوں کہ ان کے بعض دوستوں کی قبریں بھی اسی جگہ ہیں۔ اول یوسف آسف کا نام ہی اس پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ وہ اپنے وطن میں باغی ٹھہرائے گئے تھے۔ اس لیے اس گورنمنت کے تحت حکومت میں کسی جگہ رہ نہ سکتے تھے۔ پس اﷲ تعالیٰ نے ان پر رحم کرکے پسند کیا کہ سام جیساسرد ملک ہی ان کے لیے تجویز کیا جہاں وہ ہجرت کرکے آگئے اور یہودیوں کی دس تباہ شدہ قومیں جن کا پتہ نہیں ملتا تھا۔ وہ بھی چونکہ یہاں ہی آباد تھیں۔ اس لیے اس فرض تبلیگ کو ادا کرنے کے لیے بھی یہاں اُن کا آنا ضروری تھا۔ اور پھر یہاں کے دیہات اور دوسری چیزوں کے نام بھی بلا و شام کے بعض دیہات وغیرہ سے ملتے جلتے ہیں۔
(اس موقعہ پر مفتی محمد صادق صاحب نے عرض کی حضور کا شیر کا لفظ خود موجود ہے۔ یہ لفظ اصل میں کاشیر ہے۔ م تو ہم لوگ ملا لیتے ہیں۔ اصل کشمیری کا شیر بولتے ہیں اور کاشیر کہلاتے ہیں۔ اور آشیر عبرانی زبان میں ملک شام کا نام ہے اور ک بمعنے مانند ہے۔ یعنی شام کی مانند ۔ پھر اور بہت سے نام ہیں۔)
حضرت نے فرمایا کہ
وہ سب نام جمع کر وتا کہ ان کا حوالہ کسی جگہ دیا جاوے۔
اسی سلسلہ کلام میں فرمایا کہ :
اکمال الدین جو پرانی کتا ب ہے اس سے صاف معلوم ہوت اہے کہیہ انیس سو برس کا ایک نبی ہے پھر کشمیریوں کے رسم و رواج وغیرہ یہودیوں سے ملتے ہیں۔ برنیئرؔ فرانسیسی سیاح نے بھی ان کو بنی اسرائیل ہی لکھاہے۔ اس کے علاوہ تھوما حواری کا ہندو ستان میں آنا ثابت ہے۔
(اس مقام پر مفتی صاحب نے عرض کی کہ مین نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ جب حضرت مریم بیمار ہوئیں تو انہوں نے تھوما سے جو اس وقت ہندوستان میں تھا۔ ملنا چاہا۔ چنانچہ ان کے تابوت کو ہندوستان میں پہنچایا گیا اور وہ تھوما سے مل کر بہت خوش ہوئیں اور اس کو برکت دی اور پھر تھوما نے اس کا جنازہ پڑھا۔ ا س ذکر پر کہا گیا کہ کیا تعجب ہے اگر فی الحقیقت یہ ایک ذریعہ اختیار کیا گیا ہو بیتے کے پاس آنے کا۔ اس کے متعلق مختلف باتیں ہوتی رہیں)۔
فلما توفیتنی پر ایک اعتراض کا جواب
مند رجہ بالا سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ:
ہم جب مسیح کی موت کے لیے آیت
فلما توفیتنی (المائدۃ : ۱۱۸)
پیش کرتے ہیں تو اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ مسیح ؑاگر واقعہ صلیب کے بعد کشمیر چلے آئے تھے تو پھر اُن کو بجائے فلما توفیتنی کے یہ کہنا چاہیے تھا کہ جب تونے مجھے کشمیر پہنچادیا۔اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض ایک سفطہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ مسیح ؑ صلیب پر سے زندہ اتر آئے اور موقعہ پ اکر وہ وہاں سے کسمیر کو چلے آئے۔ لیکن اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے مخالفوں کا حال تو پو چھا نہیں۔ وہ تو ان کی اپنی امت کا حال پوچھتا ہے۔ مخالف تو بدستور کا فرکذاب تھے۔
دوسرے یہاں مسیح علیہ السلام نے اپنے جواب میں یہ بھی فرمایا ہے
ما دمت فیھم (المائدۃ : ۱۱۸)
میں جب تک ان میں تھا۔ یہ نہیں کہا ما دمت فی ارضہم۔ ما دمت فیہم کا لفظ تقاضا کرتا ہے کہ جہاں مسیح جائیں وہاں ان کے حواری بھی جائیں۔ یہ نہیں ہو سکت اکہ خد اتعالیٰ کا ایک مامور و مرسل ایک سخت حادثہ موت سے بچایا جواے اور پھر وہ خد اتعالیٰ کے اذن سے ہجرت کرے اور اس کے پیرو اور حواری اسے بالکل تنہا چھوڑ دیں اور اس کا پیچھا نہ کریں۔ نہیں بلکہ وہ بھی اُن کے پاس یہان آئے۔ ہاں یہ ہو سکتاہے کہ وہ ایک دفعہ ہی سارے نہ آئے ہوں بلکہ متفرق طو رپر آگئے ہوں؛ چنانچہ تھوما کا تو ہندوستان میں آنا ثابت ہی ہے اور خود عیسائیوں نے مان لیا ہے۔ اس قسم کی ہجرت کے لیے خود آنحضرت ﷺ کخی ہجرت نظیر موجود ہے؛ حالانکہ مکہ میں آپؐ کے وفادار اور جاں نثار خدام موجود تھے۔لیکن آپؐ نے ہجرت کی تو صرف حضرت ابو بکر ؓ کو ساتھ لے لیا۔مگر اس کے بعد جب آپ مدینہ پہنچ گئے تو دوسرے اصحاب بھی یکے بعد دیگرے وہیں جا پہنچے۔ لکھا ہے کہ جب آپؐ ہجرت کرکے نکلے اور غار میں جاکر پوشیدہ ہوئے تو دسمن بھی تلاش کرتے ہوئے وہاں جا پہنچے۔ اُن کی آہٹ پا کر حضرت ابو بکرؓ گھبرائے تو اﷲ تعالیٰ نے وحی کی اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
لا تحزن ان اﷲ معنا (التوبہ : ۴۰)
کہتے ہیں کہ وہ نیچے اُتر کر اس کو دیکھنے بھی گئے۔ مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا تھا۔ اسے دیکھ کر ایک نہ کہا کہ یہ جالا تو (آنحضرت ﷺ کی) پیدائش سے بھی پہلے کا ہے۔ اس لیے وہ واپس چلے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اکثر اکابر عنکبوت سے محبت کرتے آئے ہیں۔
غرض جیسے آنحضرت ﷺ نے باوجود ایک گروہ کثیر کے اس وقت ابو بکرؓ ہی کو ساتھ لینا پسند کیا اسی طرح پر حضرت عیسیٰ ؑ نے صرف تھوما کو ساتھ لے لای اور چلے آئے ۔ پس جب حواری ان کے ساتھ تھے تو پھر کوئی اعتراض نہیں رہتا۔
دوسرا سوال اس پر یہ کرتے ہیں کہ جب کہ وہ ستاسی سال تک زندہ رہے تو ان کی قوم نے ترقی کیوں نہ کی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا ثبوت دینا ہمارے ذمہ نہیں۔ ہم کہتے ہیں ترقی کی ہوگی لیکن حوادث روز گار نے ہلاک کر دیا ہوگا۔ کشمیر میں اکثر زلزلے اور سیلاب آتے رہتے ہیں۔ مدت دراز کے بعد قوم بگڑی گئی ۔لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکت اکہ وہ ایک قوم تھی۔
اوینھما الی ربوۃ ذات قدار ومعین (المومنون : ۵۱)
کے متعالق بعض کہتے ہیں کہ وہ شام ہی میں تھا۔ میں کہتاہوں یہ بالکل غلط ہے۔ قرآن شریف خود اس کے مخالف ہے اس لے کہ اویٰ کا لفظ تو اس جگہ استعمال ہوتاہے جہاں ایک مصیبت کے بعد نجات ملے اور پناہ دی جاوے۔ یہ بات اس رومی سلطنت میں رہ کر انہیں کب حاصل ہو سکتی تھی۔ وہ تو وہاں رہ سکتے ہی نہ تھے۔ اس لیے لازمی طور پر انہوں نے ہجرت کی۔
زندگی لائق اعتبار نہیں فرمایا :
زندگی اعتبار کے لائق نہیں۔ اس پر مختلف امراض اور خصوصاً طاعون نے اور بھی خوف پیدا کر دیا ہے۔
(قبل نماز عصر)
اصل طریق دعا ہے
حضرت مخدوم ؎ٰ الملت کی بیماری کا تذکرہ تھا۔ ایک بزرگ نے باتوں ہی باتوں میں حکایتاً عن الغیرذکر کای کہ بعض مسمر یزم کے عامل توجہ سے مرض کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر بدل دینے کے دعوے کرتے ہیں۔ اس پر فرمایا :
یہ کچھ چیز نہیں۔ میری طبیعت اس سے سخت نفرت کرتی ہے۔ اصل طریق دعا ہے۔ اس سے بہتر اور کوئی راہ نہیں ہے۔ میں تو اس کے سوا دوسرے طریقوں کو ایسا سمجھتا ہوں جیسے قے کے ساتھ کسی بیماری کا علاج کیا جاوے۔ پس کون پسند کرتا ہے کہ قے کے ساتھ علاج ہو۔ سچا اور خدا شناسی کا جو طریق ہے جسے انبیاء علیہم السلام نے استعمال کیا وہ یہی دعا ہے؎ٰ۔
۲۴؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
(قبل دوپہر)
مومن کا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہوتا ہے
مخدوم ۲؎ الملت کی بیماری کے تذکرہ پر مندرجہ زیل تقریر فرمائی:
اگر انسان کا وجود اﷲ تعالیٰ کے بغیر ہتوا تو کچھ شک نہیں بری مصیبت ہوتی، مگر اب تو ذرہ ذرہ کی حفاظت وہ ایک ذات کر رہی ہے۔ پھ رکس بات کا غم اور خوف ہے۔ اس کی قدرتیں عجیب ہیں اور اس کے تصرفات بے نظیر ۔ قادے خدا کو مان کر مومن کبھی غمگین نہیں ہوتا۔ وہ جو ثاہت اہے کرتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اسی میں خیروبرکت ہوتی ہے۔مومن اور غیر مومن میں ایمان ہی کا تو ھرق ہے۔ دہریہ مزاج اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان نہ لانے والے کی زندگی اس وقت تک عمدہ اور بے خوف وخطر ہوتی ہے جبتک اس پر مصائب اور مشکلات کا حملہ نہیں ہوتا۔لیکن جب خفیف سی مشکلات بھی آخر ظاہر ہوتی ہیں تو اس کی ؓقل مار دیتی ہیں اور وہ ان کی برداشت نہیں کر سکتا۔ ا سکی امید اﷲ تعالیٰ پر ہوتی ہی نہیں اور اسباب اُسے مایوس کر دیتے ہیں ۔ایسی حالات میں زرا زرا سی بات خلاف مزاج پیش آجانے پر بعض اوقات یہ لوگ خودکشیاں کر لیتے ہیں۔ یورپ میں جہاں دہریوں کی کثرت ہے وہاں اس قدر خود کشیاں ہوتی ہیں کہ کسی اور ملک میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ و غم اور مصائب کی برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کے دل کمزور ہو جاتے ہیں۔لیکن برخلاف اس کے مومن قوی دل ہوت اہے۔ اس لیے کہ اس کا بھروسہ خد اتعالیٰ پر ہوتا ہے۔ اس پر اگر مصائب آئیں تو وہ اس کو پست ہمت نہیں بناتیں بلکہ وہ مصائب میں اور بھی قدم آگے بڑھاتا ہے۔ اس کا ایمان پہلے سے اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور سچ پوچھو تو ایمان کا مزہ اور لذت انہیں دنوں میں آتی ہے اور ایمان انہیں ایام کے لیے ہوتا ہے۔ صحت کی حالت میں جبکہ نہ کوئی مالی غم ہو نہ جانی بلکہ ہر قسم کی آسائش اور امن ہو اس وقت کافر اور غیر کاھر کی حالت یکسان ہو سکتی ہے لیکن مصیبت اور بیماری اور دوسری مشکلات میں ان باتوں کا امتحان ہو جاتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ کون اﷲ تعالیٰ سے قوی تعلق رکھتا ہے اور اس کی قدرتوں پر ایمان لاتا ہے اور کون اس کا شکوہ کرتا ہے اور اس سے ناراض ہوتا ہے۔
ایمان کا کامل معیار
مصیبت اور دکھ ایمان کا ایک کامل معیار ہے اسی سے پہچانا جاتا ہے کہ کون صبر کتا ہے۔ صبر کیا یہ؟ یہ بھی ایمان ہی کا نتیجہ ہے۔ مصیبتوں میں جب مومن صبر کرتا ہے تو یہ صبر بھی ایک نئے رنگ کا صبر معلوم ہوتا ہے کہ کافر اس صبر میں مشابہت نہیں رکھتا ۔ اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کا معاملہ بھی ایک نئے رنگ کا معاملہ ہوت اہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایک نیا خدا معلوم ہوتا ہے۔اس لیے کہ اس پر ایمان لا کر معرفت میںترقی ہوتی ہے۔ جب مشکلات اور مصائب کی وجہ س یمومن دعائیں کرتا ہے تو دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو وہ مصائب بجائے خود اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتے ہیں۔ دوسرے ان دعائوں کے ذریعہ ان سے نجات بھی ملتی ہے اور اﷲ تعالیا پر اور اس کی قدرتوں پر ایمان بڑھتا ہے۔ مصیبت سے انسان کی زندگی کبھی خالی نہیں رہ سکتی۔ کسی نہ کسی رنگ میں کوئی نہ کوئی مصیبت انسان پر آہی جاتی ہے۔ خاوہ بیماری کے رنگ میں ہو خواہ زعت و آبرو کے متعلق ہو یا مال واسباب کی صورت میں ہو۔ لیکن مومن کی مصیبت اس پر سہل ہو جاتی ہے اور اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے۔ وہ اس مصیبت کو اپنے لیے دخا تعالیٰ سے تعالقات بڑھانے کا ایک ذریعہ یقین کرتا ہے اور فی الحقیقت ایسا ہی ہوت اہے مگر وہی مصیبت بے ایمانوں کے لیے عذاب کے رنگ میں ہو جاتی ہے۔ کبھی دوسرے کو مصیبت میں دیکھ کر خوش نہیں ہونا چاہیے ۔کیونکہ وہ تو ایک عبرت کا مقام ہے۔ خدو بھی اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ تسکین دہ ہے
یہ بھی یاد رکھو کہ مصیبت کے زخم کے لیے کوئی مرہم ایسا تسکین دہ اور آرام بخش نہیں جیساکہ اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے۔ جو سخص اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے وہ سخت سے سخت مشکلات اور مصائب میں بھی اندر ہی اندر تسلی اور اطمینان پاتا ہے وہ اپنے قلب میں تلخی اور عذاب کو محسوس نہیں کرتا۔ نہایت کار اس مصیبت کا انجام یہ ہو سکتا ہے کہ اگر تقدیر مبرم ہے تو موت آجاوے۔ لیکن اس سے کیا ہوا؟ دنیا کوئی ایسی جگہ تو ہے ہی نہیں جہاں کوئی ہمیشہ رہ سکے۔ آخر ایک دن اور وقت سب پر آتا ہے کہ اس دنیا کو چھوڑنا پڑے گا۔ پھر اگر اُسے موت آگئی تو ہرج کیا ہوا؟مومن کے لیے تو موت اور بھی راحت رساں اور وصال یار کا ذریعہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اﷲتعالیٰ پر کامل ایمان اور اس کی قدرتوں پر بھروسہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ اگلا جہان اس کے لیے ابدی راحت کا ہے۔ پس نری مصیبت خواہ بیماری کی ہو یا کسی اور قسم کی تکلیھ عذاب کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ وہمصیبت دکھ دینے والا عذاب ٹھہرتی ہے جس میں اﷲ تعالیٰ پر ایمان اور بھروسہ نہ ہو۔ایسے شخص کو البتہ سخت عذات ہوت اہے اور اگر کوئی یہ خیال کرے کہ موت ہی نہ آوے تو یہ خیال خام ہے کیونکہ ال تعالیٰ نے اس دنای کو نا پائدار قرار دیا ہے۔ ایسے شخص کے لیے دوسرے جہان میں دسخت درد ناک جہنم ہوگا جس کے لیے اسے تیار رہنا چاہیے۔
موت کی حقیقت
موت آنے والی ہے اس سے کسی کو چارہ نہیں۔ یقینا سمجھو کہ اس پیالہ کے پینے س یکوئی نہیں بچ سکتا۔ خدا تعالیٰ کے تمام برگزیدہ بندوں اور انبیاء و رسل کو بیھ اس راہ سے گذرنا پڑا تواور کون ہے جو بچ اجوے۔ حکیم اور ھلا سفر جو سخت دل ہوتے ہیں ا۲ن کو بھی یہ بات سوجھ گئی ہے اور انہوں نے اعتراف کیا بلکہ موت کو ضروری سمجھ اہے۔ اُنہوں نے دیھک اکہ زمین تو ربع مسکون ہے اور اس میں بہت ہی تھوڑا حصہ آباد ہے۔ اگر وہ تمام لوگ جو ابتدائے آفرینس سے پیدا ہوئے اب تک زندہ رہتے تو ان کے رہنے کو کوئی جگہ اور مقام نہ ملت ا۔ یہانتک کہ وہ کھڑے بھی نہ ہو سکتے۔ پس اس قدر کثرت خود ثاہتی ہے کہ موت ہوت اکہ پہلے چلے جاویں تو دوسروں کے لیے جگہ ہو۔موت کو یہ ہرگز نہیں مسجھنا چاہیئے کہ مر کر انسان بالکل گم ہو جاتا ہے نہیں بلکہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک کوٹھڑی سے نکل کر انسان دوسری کوٹھڑی میں چلا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت کسی قدر خواب سے سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ خواب بھی گویا، ہمشیرۂ موت ہے۔ خواب میں بھی ایک قسم کا قبض روح ہی ہوتاہے۔ دوسورں کے خیال میں جو سونے والے کے پاس بیٹھے ہیں وہ بالکل بے خبری اور محویت کے عالم میں ہیں۔ لیکن خواب دیکھنے والا معاً دوسرے عالم میں ہوتا ہے۔ اور وہ سیاحت کر رہا ہوتا ہے۔ اب بظاہر اس کے حواس اور قویٰ سب معطل ہوتے ہیں۔ لیکن سونے والا اور خواب دیکھنے والا خوب جانتا ہے کہ اس کے حواس اور قویٰ سب کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پر مرنے والا موت کے بعد اپنے آپ کو معاً دوسرے عالم میں دیکھتا ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ جب موت آتی ہے تو وہ شخت جس نے اپنی عمر عزیز کو دنیا کے حصول میں ہی ضائع کر دیا اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا نہیں کیا تھا۔ وہ چونکہ ابھی بہت سے کاموں کو نا تمام اور ادھورا پاتا ہے۔ اس لیے اس پر حسرت اور افسوس کا استیلاء ہوجاتا ہے اور وہ موت اسے تلخ گھونٹ معلوم ہوتی ہے۔ اس سے صاف پایا جات ہے کہ انسان دلبستگی پید انہ کرے اور اپنے اوقات کو ضائع نہ کرے۔ ہر لحظہ کو غنیمت سمجھ کر اور یقین کر کے کہ شاید ابھی موت آجاوے مرنے کے واسطے تیار رہنا چاہیے۔ جب اس تیاری کی فکر و امنگیر رہے گی تو اس کا اثر یہ ہوگاکہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ انسان اپنے تعلقات کو بڑھائے گا اور اس دوسرے جہان میں آرام پانے کا خیال کرے گا۔
یہ خوب یاد رکھو کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جیسے زمیندار اپنی فصل کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے لیے ہر قسم کے دکھ اور تکالیف اُٹھاتا ہے۔ اسی طرح پر مومن کو اس کی حفاظت کے لیے کرنا چاہیے۔ تاکہ دوسرے جہاں میں آرام پاوے۔ اگر اب بے پروائی کرے گا اور وہ وقت کی قدر نہیں کرے گا تو پھر اس کو اس وقت سخت افسوس اور حسرت ہوگی۔ جب اس جہان سے رخصت ہو کر دوسرے عالم میں جانا پڑے گا اور وہاں اس کے لیے بجز دکھ اور درد کے اور کای ہوگا؟ اس دنیا میں وہ اس دنیا کے ہم و غم میں مبتلا رہا اور اُس عالم میں اس ہم و غم کے نتائج ہیں۔
موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے
جو شخص اس عالم کے ہم و غم میں مبتلا ہو رہا ہے اور دوسرے عالم کا اسے کوئی فکر بھی نہیں۔ اگر اسے یکدفعہ ہی پیغام موت آجوا یتو خیال کرو اس کا کیا حال ہوگا؟ موت تو ایک بازی گاہ ہے ہمیشہ ناگاہ آتی ہے اور جسے آتی ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ میں تو قبل از وقت جاتا ہوں۔ ایسا خیال اسے کیوں پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ چونکہ خیالات اور طرف لگے ہوئے تھے اور وہ اس کے یے تیار نہ تھا۔ اگر تیاری ہو تو قبل از وقت نہ سمجھے بلکہ ہر وقت اسے قریب اور دروازہ پر یقین کرے۔ اس لیے تمام راستبازوں نے یہی تعلیم دی ہے کہ انسان ہر وقت اپنا محاسبہ کرتا رہے اور آزماتا رہے کہ اگر اس وقت موت آجواے تو کیا وہ تیار ہے یا نہیں؟ حافظؔ نے کیا اچھا کہا ہے ؎
چو کار عمر ناپیدا است بارے آن اولیٰ
کہ روز واقعہ پیش نگار خود باشیم
ان کا مطلب یہی ہیکہ ہر وقت تیار اور مستعد رہنا چاہیے۔ اور کسی وقت بھی اس تیاری سے بے فکر اور غافل نہ ہونا چاہیے ورنہ عذاب ہوگا۔ یہ بالکل صاف بات ہے کہ جو شخص ہر وقت سفر کی تیاری میں ہے اور کمر بستہ بیٹھا ہے۔ اگر یکا یک اُسے سفر کرنا پڑے تو اُسے کوئی تکلیف اور گھبراہت نہ ہوگی۔ لیکن اگر اس نے کبھی یہ خیال بھی نہیں کیا تو پھرایسے موقعہ پر سخت گھبراہٹ کاسامنا ہوگا۔ ایک شاعر نے کیا اچھا کہا ہے ؎
ولم یتفق حتی مضی فی سبیلہ
وکم حسرات فی بطون المقابر
یعنی اس وقت تک اس امر سے اتفاق نہ کیا یہاں تک کہ کوچ کرنا پڑا۔ تب اقرار کیا کہ بہت ساری حسرتیں قبروں میں دفن کی گئی ہیں۔
مگر یہ بات اﷲ تعالیٰ کے فضل کے بغیر میسر نہیں ہو سکتی کہ انسان غفلت کی زندگی چھوڑ کر عالم آخرت کی تیاری میں لگا رہے ۔سننے کو تو ہر ایک کان سن سکت اہے کیونکہ سننا سہل ہے مگر عمل کرنے کے لیے مشکل پڑتی ہے۔انسان کی عادت میں داخل ہے کہ جبتک ایک مجلس میں بیٹھا ہے۔ اس مجلس کی باتوں سے متاثر ہوت اہے لیکن جب وہان سے اُٹھتا ہے اور مجلس منتشر ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ باتیں بھی بھول جاتی ہیں گویا وہ وہیں کے لیے تھیں۔ ایسے لوگ سخت نقصان اُٹھاتے ہیں اور دفعۃً موت کے آجانے پر انہیں بہت کچھ حسرت اور افسوس کرنا پڑتا ہے۔ موت انہیں کی اچھی ہوتی ہے جو مرنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں۔
ھرید الدین عطا رحمۃ اﷲ علیہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ عطاری کی دوکان کیا کرتے تھے۔ ایک دن صبح ہی صبح جب آکر انہوں نے دوکان کھولی توایک فقیر نے آکر سوال کیا۔ فرید الدین نے اس سائل کو کہا کہ ابھی بوہنی نہیں کی۔ فقیر نے ان کو کہا کہ اگر تو ایسا ہی دنیا کے دھندوں میں مشغول ہے تو تیری جان کیسے نکلے گی۔ فرید الدین نے اس کو جاب دیا کہ جیسے تیری نکلے گی۔فقیر یہ یہ سنکر وہیں لیٹ گیا اور کہا لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ۔ اور اس کے ساتھ ہی جان نکل گئی۔ فرید الدین نے جب اس کی یہ حالت دیکھو تو بہت متاثر ہوا۔ا سی وقت ساری دکان لٹادی اور ساری عمر یاد الٰہی میں گذاردی۔ یہ تیاری ہوتی ہے۔ تیاری میں رنج نہیں ہوتا۔ کش مکش ہو تو پھر رنج اور افسوس ہوتا ہے۔
صوفیاء اور مولوی فرمایا :
صوفیوں کی جو کتابیں ہیں ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ انہیں موت کا خیال دامنگیررہا ہے۔لیکن مولویوں کے نام سے جو لوگ گذرے ہیں وہ عموماً مامحجوب رہے ہین۔ بہت ہی کم جو دراصل وہ بھی فقیر تھے۔ وہ تو اس حجاب سے بچے ہیں ورنہ اہل تصوف سے عموماً الگ رہے ہیں اور ایسے پاکباز لوگوں پر کفر ہی کے فتوے دیتے رہے جو دنیا سے انقطاع کرنے والے تھے۔ صوفی تو ایسے ہیں جیسے ہر وقت کوئی مرنے کو تیار رہتا ہے۔ ان کی کتابوں کو پرھ کر طبیعت خوش ہو اجتی ہے۔ ان سے خوشبو آتی ہے کہ وہ صاحب حال ہیں صاحب قال نہیں۔ اگر فراست صحیحہ ہو تو انسان ان باتوں کو سمجھ لیتا ہے۔ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب ھتوح الغیب بڑی ہی عمدہ کتاب ہے۔ مین نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا ہے۔ بدعات سے پاک ہے۔ بعض کتابیں صوفیوں کی اس قسم کی بھی ہین کہ ان میں بدعات بھی داخل ہو گئی ہیں لیکن یہ کتاب بہت ہی عمدہ ہے۔
وحدت وجودی کا فتنہ
فقیروں میں بھی ایک آفت پڑی ہے ۔یعنی بعض فقیر تو ہوئے مگر وحدت وجودی ہو گئے اور خود ہی خدا بن بیٹھے ۔ ہمارے ملک میں دو آبہ (بست جالندہر) میں اکثر وجودی ہیں۔ اور جو وجودی کہلاتے ہیں ان کا مذہب عموماً اباحتی دیکھ اگیا ہے۔ اور حقیقت میں اس مذہب کا خاصہ اور اثر ہوان بھی یہی چاہیے کیونکہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کو ان صفات سے متصف نہیں مانتاجو قرآن شریف میں بیان ہوئی ہیں اور اپنے اور خدا تعالیٰ میں کوئی فرق نہیں کرتا بلکہ خود ہی خدا بنتا ہے۔ وہ اگر اباحتی نہ ہو تو اور کیا ہو۔ زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ وگ دوزخ اور بہشت پر ایمان بھی لاتے ہیں اور ایمان لا کر بھی سمجھتے ہیں کہ ہم ہی خدا ہیں۔ اور ایک اور بری غلطی ہے جس مین یہ لوگ مبتلا ہیں اور وہ یہ ہے کہ اپنے مذہب کو اکابر سے منسوب کرتے ہیں۔
وحدت شہودی
اصل یہ ہے کہ مزہب دوہیں۔ وجودی اور شہودی۔ وجودیوں نے فلسفیوں کی طرح یہ سمجھ لیا ہے کہا نسان کے سوا خد اکچھ نہیں ہے یا خد اکے سوا اور کچھ نہیں ۔ مگر شہودی ا سکے سوا ہیں اور وہ ٹھیک ہیں۔ جنہوں نے استیلاء محبت اور تجلیات صفات الٰہی سے الیسا معلوم کیا کہ خد اہے۔ انہوں نے اس کی ہستی اور وجود کے سامنے اپنی ہستی اور وجود کی نفی کرلی۔ اور من تو شدم تو من شدی، کے مصداق ہوئے۔ حقیقت میں محبت کے ثمرات میں سے نفی وجود ضروری ہے۔ اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ بلکہ قرآن شریف سے یہ صحیح معلوم ہوت اہے۔ یہی وہ مقام ہے جو فنا ھی اﷲ کہلاتا ہے۔ لیکن وجودیوں کا یہ حال نہیں۔ ان کا تو یہ حال ہے کہ گویا انہوں نے ڈاکٹروں کی طرح تشریح کرکے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیا ہے۔ تب ہی تویہ خدو بیھ خد ابنتے ہیں؛ حالانکہ یہ صریح غلط اور بے ہودہ امر ہے۔ اﷲ تعالیٰ تو صاف فرماتا ہے۔
لا تدر کہ الابصار (الانعام : ۱۰۴)
وجودیوں کا یہ مذہب ہے کہ ہم ہی لا الہ الا اﷲ پڑھتے ہیں اور ہم ہی سچے موحد ہیں۔ باقی سب مشرک ہیں۔ اس کا نتیجہ عوام میں یہ ہوا کہ اباحت پھیل گئی اور فسق و فجود میں ترقی ہو گئی، کیونکہ وہ اسے حرام نہیں سمجھتے اور نماز روزہ اور دوسرے اوامر کو ضروری نہیں سمجھتے۔ اس سے اسلام پر بہت بڑی آفت آئی ہے۔ میرے نزدیک وجودیوں اور دہریوں میں انیس اور بیس کا فرق ہے۔
یہ وجودی سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ جس قدر گدیاں ہیں ان میں سے شاید ایک بھی ایسی نہیں ہوگی جو یہ مزہب نہ رکھتی ہو۔ سب س یزیادہ افسوس یہ ہے کہ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کا فرقہ جو قادری کہلاتا ہے وہ بھی وجودی ہو گئے ہیں؛ حالانکہ سید عبد القادر جیلانیؓ وجودی نہ تھے۔ ان کا طرز عمل اور ان کی تصنیفات اھدنا الصراط المستقیم کی عملی تصدیق دکھاتی ہیں۔
علماء صرف یہ سمجھتے ہیں کہ اھدنا الصراط المستقیم صرف پرھنے کے لیے ہے، لیکن اس کے اثرات ارو نتائج کچھ نہیں۔ مگر وہ عملی طو رپر دکھاتے ہیں کہ ان منعم علیہ لوگوں کے نمونے اس امت میں ہوئے ہیں۔
غرض یہ ال تعالیٰ کا فضل ہے کہ گو ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں۔ لیکن ہیں ضرور جو خدا تعالیٰ سے کامل محبت کرتے ہیں اور اسی دنیا میں رہ کر انقطاع اور سفر آخرت کی تیاری کرتے ہیں۔ یہ امور ایسے ہی لوگوں کے حصہ میں آئے ہیں۔ جیسے سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ ۔مگر اب برخلاف ان کے وجودیوں کی کثرت ہے اور اسی وجہ سے فسق وفجور میں ترقی ہے۔
اس دنیا میں معرفت اور بصیرت حاصل کرنے کا نسخہ
قرآن سریف کی تعلیم کا خلاصہ مغز کے طور پر یہی بتایا ہیکہ خد اتعالیٰ کی محبت اس قدر استیلاء کرے کہ ماسوی اﷲ جل جاوے۔ یہی وہ عمل ہے جس سے گناہ جلتے ہیںاور یہی وہ نسخہ ہے جو اسی عالم میں انسنا کو وہ حواس اور بصیرت عطا کرتا ہے جس سے وہ اُس عالم کی برکات اور فیوض کو اس عالم میں پاتا ہے اور معرفت اور بصیرت کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوت اہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اس زمرہ سے الگ ہیں۔
من کان فی ھذہ اعمی ھھو فی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل : ۷۳)
اور ایسے ہی لوگوں کے لیے فرمایا ہے۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمٰن : ۴۷)
یعنی جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں ان کو دو جنت ملتے ہیں۔ ہمار نزدیک ا سکی حقیقت یہ ہے کہ ایک جنت تو وہ ہے جو مرنے کے بعد ملتی ہے۔ دوسری جنت اسی دنیا میں عطا ہوتی ہے اور ہی جنت کے ملنے اور عطا ہوین پر بطور گواہ واقعہ ٹھہر جاتی ہے۔ ایسا مومن دنای میں بہت سے دوزخوں سے رہائی پاتا ہے۔ مختلف قسم کی بد اخلاقیاں یہ بھی دوزخ ہی ہیں۔ جن چیزوں سے شدید تعلق ہو جات ہے۔ وہ بھی ایک قسم کا دوزخ ہی ہے۔ کیونکہ پھ ان کو چھوڑ نے سے تکلیف ہوتی ہے۔ مثلاً مال سے محبت ہو اور اسے چور لے جائیں تو اُسے سخت تکلیھ ہوتی ہے۔ یہانتک کہ بعض اوقات ایسے لوگ مر ہی جاتے ہیں یا ان کی زبان بند ہو جاتی ہے۔ اسی طرح پر اور جن فانی اشیاء سے محبت ہے وہ اگر تلف ہو جائیں یا مرجاویں تو اُس کو سخت رنج اور صدمہ ہوتا ہے۔
مثنوی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک سخص کا ایک دوست مرگیا۔ جس کے غم میں وہ رو رہا تھا۔ اس سے پوچھا گیا تو کیوں روتا ہے تو اس نے کہا کہ میرا ایک نہایت ہی عزیز مر گیا ۔ا س نے کہا کہ تُو نے مرنے والے سے دوستی ہی کیوں کی؟
اصل بات یہ ہے کہ مفارقت تو ضروری ہے اور جدائی ضروری ہوگی۔ یا یہ خود جائے گا یا وہ جس سے دوستی اور محبت کی ہے۔ پس وہ مفارڈت عذاب کا موجب ہو جائے گی۔ لیکن جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتے ہیں اور ان فانی اشیاء کے دلدادہ اور گرویدہ نہیں ہوتے وہ اس عذاب سے بچا لیے جاتے ہیں۔ کسی نے کای اچھا کہا ہے ؎
دشت دنیا جز ددو جز دام نیست
جز بخلوت گاہ حق آرام نیست
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کی حقیقت
اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ہمارا اصل منشا اور آنے کی غرض یہ نہیں کہ عیسیٰ فوت ہو گیا۔ یہ تو ایک سچائی تھی جو ہم نے پیش کی۔ ال تعالیٰ نے ہم پر یہی طاہر کیا۔ ہم نے اسی طرح اس کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ ہمیں حضرت عیسیٰ کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں رہ بھی اﷲ تعالیٰ کے ایک رسول اور پیغمبر ہیں۔ یہ کہت یہیں کہ وہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر نہیں گئے ہم کو اُن کی تذلیل منظور نہیں مگر ہم کیا کریں۔ اصل بات ہی یہ ہے ۔ جوامرم ہم کسی نبی اور رسول کے لیے نہیں مانتے ۔ہم کیونکر ان کے ساتھ اسے مختص کریں۔ ہاں ہم کو بخل نہیں۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جس جسم کے ساتھ دوسرے پیغمبر آسمان پر گئے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑبھی اسی جسم کے ساتھ گئے ہیں۔مگر ان لوگوں کی غلطیوں اور خود تراشیدہ خیالات کو کیسے مان لیں۔
یہ خوب یاد رہے کہ ہم حضرت عیسیٰ ؑکو آسمان پر روح بلا جسم ہرگز نہیں مانتے۔ ہم مانتے ہیں کہ وہ وہاں جسم ہی کے ساتھ ہی ہیں۔ ہاں فرق اتنا ہے کہ یہ لوگ جسم عنصری کہتے ہیں اور میں کہت اہوں کہ وہ جسم وہی ہے جو دوسرے رسولوں کو دیا گیا ہے۔دوزخیوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
لا تفتح لھم ابواب السماء (الاعراف : ۴۱)
یعنی کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاویں گے اور مومنون کے لیے فرماتا ہے۔
مفتحۃ لھم الابواب (ص : ۵۱)
اب ان آیات میں لہم کا لفظ اجسام کو چاہتا ہے تو کیا یہ سب کے سب پھر اسی جسم عنصری کے ساتھ جاتے ہیں؟ نہیں۔ایسا نہیں۔ جسم تو ہوتے ہیں مگر وہ وہ جسم ہیں جو مرنے کے بعد دیئے جاتے ہیں۔ ایسا ہی
فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی (الفجر : ۳۰۔۳۱)
بھی اجسام کو چاہتا ہے۔ پھر تیسری شہادت آنحضرت ﷺکی رؤیت ہے۔معراج میں آپؐ نے حضرت عیسیٰ ؑ کا ہو اور باقی بنیوں کی روحیں تھیں اور مسیح ہی کا جسم تھا۔
سچی اور بالکل سچی اور صاف بات یہی ہے کہ اجسام ضرور ملتے ہیں لیکن یہ عنصری اجسام یہان ہی رہ جاتے ہیں یہ اوپر نہیں جاسکتے۔ جیسا کہ آنحصرت ﷺ نے کفار کے جواب میں فرمایا :
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرارسولا (بنی اسرائیل : ۹۴)
یعنی ان کو کہدے میرا رب اس سے پاک ہے جو اپنے وعدوں کے خلاف کرے جو وہ پہیلے کر چکا ہے میں تو صرف ایک بسر رسول ہوں۔ سبحان کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ سابق جو وعدے ہو چکے ہیں ان کی خلاف ورزی وہ نہیں کرتا۔ وہ وعدہ کیا ہے؟
ولکم ھی الارض مستقر ومتاع الٰی حین (البقرۃ : ۳۷)
اور ایسا ہی فرمایا
الم نجعل الارض کفاتا (المرسلات : ۲۶)
اور پھر
فیھا تحیون و فیھا تموتون (الاعراف : ۲۶)
ان سب آیتوں پر اگر یکجائی نظر کی جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جسم جو کھانے پینے کا محتاج ہے آسمان پر نہیں جاتا۔ پھر ہم دوسرے نبیوں سے بڑھ کر مسیح میں یہ خصوصیت کیونکر تسلیم کر لیں۔
آنحضرت ﷺ سے کفار نے سرارت سے یہی سوال کیا تھا کہ آپﷺ آسمان پر چرھ جائیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے وہ آیات سن ثکے تھے جس میں اس مار کی نھی کی گئی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ اگر اب اقرار کریں تو اعتراض کا موقعہ ملے۔ لیکن وہ تو اﷲ تعالیٰ کاکلام تھا۔ اس میں اختلاف نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے ان کو یہی جواب ملا
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرارسولا (بنی اسرائیل : ۹۴)
یعنی ان کو کہدو کہ ایسا معجزہ اﷲ تعالیٰ کے قول کے خلاف ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اپین پہلے قول کے خلاف کرے۔
غرض یہ کس قدر موٹی باتیں ہیں جو ال تعالیٰ نے بار بار پیش کی ہیں۔ مگر تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ یہ ان کو سمجھتے نہیں اور خواہ مخواہ حضرت مسیح میں ایسی خصوصیت پیدا کرنا چاہتے ہیں جو دوسروں میں نہیں ہے۔ قرآن شریف کی یہ تعلیم اور بخاری اور مسلم کو دیکھو اور صحاح کو پڑھو وہاں آنحضرت ﷺ کی رؤیت موجود ہے۔ آپﷺ نے حضرت مسیح کو یحییٰ کے ساتھ دیکھا ویسے ہی حضرت مسیح کو اس وقت ان میں کوئی خاص بات نہ تھی جو بطور جسم کے الگ ہو۔ یعنی ان کا تو جسم ہو اور حضرت یحییٰ کی مجرو روح ہو۔ جب قرآن اور آنحضرت ﷺ کی صریح شہادت موجود ہے پھ ریہ نرالا جسم کیسا؟ اگر نرالا نہیں تو بسم اﷲ ہم ایمان لاتے ہیں کہ وہ جسم جو مرنے کے بعد دیا جاتا ہے وہ مسیح کو بھی دیا گیا۔ پھر نزاع لفظی نکلی۔ یہ ہم کبھی تسلیم نہیں کرسکتے کہ مسیح کو کوئی الگ جسم دیا جاوے کیونکہ یہ شرک ہے۔ ہم جسم کے قائل ہیں لیکن اس جسم عنصری کے قائم نہیں۔ انجیل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جلالی جسم تھا اور ایسا جسم مرنے کے بعد ملتا ہے۔ ہمارا مذہب یہی ہیکہ بہشت میں بھی جسم ہوں گے۔
نعماء بہشت کی حقیقت
لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو لکھ اہے کہ بہشت میں دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہاں گایوں کا ایک گلہ ہوگ اور بہت سارے گوالے ہوں گے جو دودھ دوہ دوہ کر ایک نہر میں ڈالتے رہیں گے یا بہت سے ثھتے سہد کی مکھیوں کے ہوں گے او ر پھر ان کا شہد جمع کر کے نہدوں میں گرایا جاوے گا۔ یہ مطلب نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے جو مجھ پر ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ بات نہ ہوگی۔ اگر یہی خربوزہ اور تربوز یا انار ہوں گے تو پھر یہ بات ہی کیا ہوئی؟ کافر بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے یہاں اس دنیا میں کھا لیے۔ تم نے آگے جا کر کھائے۔ اس کی حقیقت جو اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر کھولی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے۔
وبشر الذین امنو اوعملو الصالحات ان لہم جنت تجری من تحتھا الانھار (البقرۃ : ۲۶)
یعنی جو لوگ ایمان لاتے اور اچھے عمل بجالاتے ہیں وہ ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس آیت میں اﷲ تعالیا نے ایمان کو باگ کے ساتھ مسابہت دی جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اس آیت میں بہست کی حقیقت اﷲ تعالیٰ نے بتائی ہے۔ گویا جو رستہ نہروں کو باگ کے ساتھ ہے۔ وہی تعلق اور رسشتہ اعمال کا ایمان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جس طرح پر کوئی باغ یا درخت بغیر پانی کے سر سبز نہیں رہ سکتا اسی طرح پر کوئی ایمان بغیر اعمال صالحہ کے زندہ اور قائم نہیں رہ سکتا۔اگر ایمان ہو اور اعمال صالحہ نہ ہوں تو ایمان ہیچ ہے اور اگر اعمال ہوں اور ایمان نہ ہو تو وہ اعمال ریاکاری ہیں۔ پس قرآن شریش نے جو بہشت پیش کیا ہے اس کی حقیقت اور فلاسفی یہی ہے کہ وہ اس دنای کے ایمان اور اعمال کا ایک ذل ہے اور ہر سخص کی بہشت اس کے اپنے اعمال اور ایمان سے شروع ہوتی ہے اور اس دنیا میں ہی اس کی لذت محسوس ہونے لگتی ہے اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باگ اور نہریں نظر آتی ہیں۔ لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے اور ان کا ایک خارجی وجود نظر آجائیگا۔ قرآن شریف سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی آبپاسی اعمال صالحہ سے ہوتی ہے بغیر اس کے وہ خشک ہو جاتا ہے۔ پس یہاں دو باتیں بیان کی ہیں ایک یہ کہ وہ بہشت باغ ہے۔ دوسرا ان درختوں کی نہروں سے آبپاشی ہوتی ہے۔ قرآن شریف کو پڑھو اور اول سے اول سے آخر تک اس پر غور کرو تب اس کا مزہ آئے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ ہم مجاز اور استعارہ ہرگز پیش نہیں کرتے بلکہ یہ حقیقت الامر ہے ۔ وہ خدا تعالیٰ جس نے عرم سے انسان کو بنایا ہے اور جو خلق جدید پر قادر ہے وہ یقینا انسان کے ایمان کو اشجار سے متمثل کر دے گا اور اعمال کو انہار سے متمثل کرے گا اور واقعی طو رپر دھا دے گا یعنی ان کا وجود فی الخارج بھی نظر آئے گا۔
اس کی مختصر سی مثال یوں بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے انسان خواب میں عمدہ اور شیریں پھل کھاتا ہے ارو ٹھندے اور خوشگوار پانی پیتا ہے اورفی الواقعہ وہ پھل اور آب سرد ہوتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن میں کوئی دوسرا امر نہیں ہوتا۔ پھلوں کو کھا کر سیری ہوتی اور پانی پی کر فی الواقعہ پیاس دور ہوتی ہے۔ لیکن جب اُٹھتا ہے تو نہ اُن پھلوں کا کویء وجود ہوتا ہے اور نہ اس پانی کا۔ اسی طرح پر جیسے اس حالت میں اﷲ تعالیٰ ان اشیاء کا ایک وجود پیدا کر دیتا ہے۔ عالم آخرت میں بھی ایمان اور اعمال صالحہ کو اس صورت میں متمثل کر دیا جائے گا۔ اسی لیے فرمایا ہے۔
ھزاالذی رزقنا من قبل واتو ا بہ متشا بھا۔ (البقرۃ : ۲۶)
اس کے اگر یہ معنے کریں کہ وہ جنتی جب ان پھلوں اور میووں کو کھائیں گے تو یہ کہیںگے کہ یہ پھل اور خربوزے یا تربوز یا انار ہیں جو ہم نے دنیا میں کھائے تھے تویہ ٹھیک نہیں کیونکہ اس طرح پر تووہ لذت بخش ثیز نہیں ہو سکتے اور نعماء جنت کی حقارت ہے۔ اگر کوئی شخص مثلاً کشمیر میں جاوے اور وہاں کی ناشپاتیاں کھا کر کہے کہ یہ تو وہی ناشپاتیاں ہیں جو پنجاب میں کھائی تھیں تو صریح ان ناشپاتیوں کی حقارت ہے۔ پس اگر بہشت کی نعماء کی بھی یہی مثال ہے تو یہ خوشی نہیں بلکہ اُن سے بیزاری ہے۔ اس لیے اس کا یہ مفہوم اور مطلب نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بہشتی لوگ جو اس دنیا میں برے عابد اور زاہر تھے جب وہ اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کے متمثلات سے لطف اُٹھائیں گے تو اُن کو وہ ایمانی لذت آجائے گی اور ان مجاہدات اور اعمال صالحہ کا مزا آجائیگا جو اس عالم میں انہوں نے کئے تھے اس لیے وہ کہیں گے
ھذاالذی رزقنا من قبل (البقرۃ : ۲۶)
محبت الٰہی کی لذات
گرض جس قدر قرآن شریف کو کوئی تدبر اور گور سے پڑھے گا اسی قدر وہ اس حقیقت کو سمجھ لے گا کہ ان لذات کا تمثیلی رنگ میں فائدہ اٹھاے گا۔ محبت الٰہی کی لذات ہیں۔ لذت کا لفظ جو مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے وہ جسمانی لذت کے مفہوم سے ہزاروں درجہ زیادہ روحانی لذت میں رکھتا ہے۔ اگر اس کی محبت کی لذت میں غیر معمولی سیری اور سیرابی نہ ہو تو اﷲ تعالیٰ کے محب جسمانی لزات کو ترک کیوں کریں۔ یہاں تک کہ بعض اس قسم کے بھی ہو گذرے ہیں جنہوں نے سلطنت تک کو چھوڑ دیا۔ چنانچہ ابراہیم ادھم نے سلطنت چھوردی۔ اور انبیاء علیہم السلام نے ہزاروں لاکھوں مصائب کو برداشت کیا۔ اتر وہ لذت اور ذوق اس محبت الٰہی کی تہہ میں نہ تھا جو انہیں کشاں کشاں لیے جاتا تھا تو پھر کیا بات تھی کہ اس قدر مصائب کو انہوں نے خوشی کے ساتھ اُٹھا لیا۔ آنحضرت ﷺ چونکہ اس درجہ میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اس لیے آپؐ کی زندگی کا نمونہ بھی سب سے افضل و اعلیا ہے۔ کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں اور عزتیں پیش کیں۔ مال و دولت، سلطنت، عورتیں۔ اور کہا کہ آپؐ ہمارے بتوں کی مزمت نہ کریں۔ اور یہ توحید کا مذہب پیش نہ کریں۔ اس خیال کو جانے دیں۔ وہ دنیادار تھے۔ ان کی نطر دنیا کی فانی اور بے حقیقت لزتوں سے پرے نہ جاسکتی تھی۔ انہوں نے سمجھا کہ یہ تبلیغ انہیں اغراض کے لیے ہوگی مگر آپؐ نے اس ساری باتوں کو رد کر دیا۔ اور کہا کہ اگر دائیں بائیں آفتاب اور ماہتاب بھی لا کر رکھ دو تب بھی میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر اس کے بالمقابل انہوں نے آپﷺ کو وہ تکالیف پہنچائیں جن کا نمونہ کسی دوسرے شخص کی تکالیف میں نظر نہیں آتا۔ لیکن آپؐ نے ان تکالیف کو بڑی لزت اور سرور سے منظور کیا۔ مگر اس راہ کو نہ چھوڑا۔ اب اگر کوئی لذت اور ذوق نہ تھا تو پھر کیا وجہ تھی جو ان مصائب اور مشکلات کو برداشت کیا؟ وہ وہی لذت تھی جو اﷲ تعالیٰ کی محبت میں ملتی ہے اور جس کی مثال اور نمونہ کوئی پیش نہیں کیا جا سکتا۔
جماعت کے قیام کا مقصد محبت الٰہی کو پیدا کرنا ہے
خدا تعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا ہے کہ ایسی جماعت تیار کرے جو اﷲ تعالیا سے محبت کرے۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض کثے لوگ داخل ہو جاتے ہیں اور پھر ذرا سی دھمکی ملتی ہے اور لوگ دراتے ہیں تو پھر خط لکھ دیتے ہیں کہ کچھ تقیہ کر لیا ہے۔ بتائو انبیاء علیہم السلام اس قسم کے تقیہ کیا کرتے ہیں؟ کبھی نہیں۔ وہ دلیر ہوتے ہیں اور انہیں کسی مصیبت اور دکھ کی پروا نہیں ہوتی۔ وہ جو کچھ لے کر آتے ہیں اسے چھپا نہیں سکتے خواہ ایک شخص بھی دنیا میں ان کا ساتھی نہ ہو۔ وہ دنیاسے پیار نہیں کرتے۔ ان کا محبوب ایک ہی خدا ہوت اہے۔ وہ اس راہ میں ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ قتل ہوں ا سکو پسند کرتے ہیں۔ اس سے سمجھ لو کہ اگر اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سچے تعلق کا مزا اور لطف نہیں تو پھر یہ گروہ کیوں مصائب اٹھاتے ہیں؟ آنحضرت ﷺ کے حالات کو پڑھو کہ کفار نے کس قدر دکھ آپﷺ کو دیئے۔ آپﷺ کے قتل کا منصوبہ کیا گیا۔ طائھ میں گئے تو وہاں سے خون آلود ہو کر پھرے۔ آخر مکہ سے نکلنا پڑا۔ مگر وہ بات جو دل میں تھی اور جس کے لیے آپﷺ مبعوث ہوئے تھے اُسے ایک آن کے لیی بھی نہ چھوڑا۔
یہ مصائب اور تکالیف کبھی برداشت نہیں ہو سکتیں جب تک اندرونی کشش نہ ہو۔ ایک غریب انسان کے لیے دو چار دشمن بھی ہوں وہ تنگ آجاتا ہے اور آخر صلح کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر وہ جس کا سارا جہاں دشمن ہو وہ کیونکر اس بوجھ کو برداشت کرے گا۔ اگر قوی تعلق نہ ہو۔ عقل اس کو قبول نہیں کرتی۔
مختصر یہ کہ خدا تعالیٰ کی محبت کی لذت ساری لذتوں سے بڑھ کر ترازو میں ثابت ہوتی ہے۔ پس وہ لذات جو بہشت میں ملیں گی۔ یہ وہی لذتیں ہیں جو پہلے اُٹھا چکے ہیں۔ اور وہی ان کو سمجھتے ہیں جو پہلے اٹھا چکے ہیں۔
نعماء جنت کیونکر ہوں گی
اگر کہو کہ وہ نعمتیں کیوں کر ہوں گی؟ تو اس کا جواب صاھ ہے اﷲ تعالیٰ خلق جدید پر قادر ہے۔ خدو انسان کا اپنا وجود بھی خیالی ہے۔ جس قطرہ سے پیدا ہوتا ہے وہ کیا چیز ہے؟ پھر خیال کرو کہ اس سے کیسا اچھا انسان بناتا ہے۔ کیسے عقلمند، خوب صورت۔ بہادر۔ پھر وہی خدا ہے جو دوسرے عالم میں خلق جدید کرے گا۔ دیکھنے میں وہ لذات اور میوہ جات ہمرنگ ہوں گے لیکن کھانے میں ایسے لذیذ ہوں گے کہ نہ کسی آنکھ نے ان کو دیکھانہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی زبان نے ان کو چکھا اور نہ وہ کسی خیال میں گذرے۔
بہشت کی لذات کی کیفیت
بہشت کی لذات میں ایک اور بھی خوبی ہے جو دنیا کی لذتوں میں اور جسمانی لذتوں میں نہیں ہے۔ مثلاً انسان روٹی کھاتا ہے تو دوسری لذتیں اسے یاد نہیں رہتی ہیں۔مگر بہشت کی لذات نہ صرف جسم ہی کیلئے ہوں گی بلکہ روح کے لیے بھی لذت بخس ہوں گی۔ دونوں لزتیں اس میں اکٹھی ہوں گی اور پھر اس میں کوئی کثافتنہ ہوگی اور سب سے بڑھ کر جو لذت ہے وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا دیدار ہوگا مگر دیدار الٰہی کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہاں ہی سے تیاری ہو۔ اور اس کے دیکھنے کے لیے یہاں ہی سے انسان آنکھیں لے جاوے۔ جو شخص یہاں تیایر کرکے نہ جاویگا وہ وہاں محروم رہے گا چنانچہ فرمایا
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل : ۷۳)
اس کے یہ معنے نہیں کہ جو لوگ یہاں نابینا اور اندھے ہیں وہ وہان بھی اندھے ہوں گے۔ نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دیدار الٰہی کے یے یہاں سے حواس اور آنکھیں لے جاوے اور ان آنکھوں کے لیے ضرورت ہے تبتل کی تزکیۂ نفس کی اور یہ کہ خدا تعالیٰ کو سب پر مقدم کرو۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ دیکھو، سنو اور بولو۔ اسی کا نام فنا فی اﷲ ہے اور جبتک یہ مقام اور درجہ حاصل نہیں ہوتا نجات نہیں۔
خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کا ذریعہ
ہاں یہ اعتراض ہوت اہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق قوی اور محبت صافی تب ہو سکتی ہے جب اس کی ہستی کا پتہ لگے۔ دنیا اس قسم کے شبہات کے ساتھ خرب ہوئی ہے۔ بہت سے تو کھلے طو رپر دہریہ ہو گئے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دہریہ تو نہیں ہوئے مگر ان کے رنگ میں رنگین ہیں اور اسی وجہ سے دین میں سست ہو رہے ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں تا ان کی معرفت زیادہ ہو اور صادقوں کی صحبت میں رہیں جس سے وہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور تصرف کے تازہ بتازہ نشان دیکھتے رہیں۔ پھ روہ جس طرح پر چاہے گا اور جس راہ سے چاہے گا معرفت بڑھادے گا اور بصیرت عطا کرے گا اور ثلج قلب ہو جائے گا۔
یہ بالکل سچ ہے کہ جس قدر اﷲ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی عظمت پر ایمان ہوگا۔ اسی قدر اﷲ تعالیٰ سے محبت اور خوف ہوگا اور نہ غفلت کے ایام میں جرائم پر دلیر ہو جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ سے محبت اور اس کی عظمت پر ایمان ہوگا۔ اسی قدر اﷲ تعالیٰ سے محبت اور خوف ہوگا ورنہ غفلت کے ایام میں جرائم پر دلیر ہو جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ سے محبت اور اس کی عظمت اور جبروت کا رعب اور خوف ہی دوایسی چیزیں ہیں جن سے گناہ جل جاتے ہیں اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جن اشیاء سے ڈرتا ہے، پرہیز کرتا ہے۔ مثلاً جانتا ہیکہ آگ جلادیتی ہے اس لیے آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یا مثلاً اگر یہ علم ہو کہ فلاں جگہ سانپ ہے تو اس راستہ سے نہیں گذرے گا۔ اسی طرح اگر اس کو یہ یقین ہو جاوے کہ گناہ کا زہر اس کو ہلاک کر دیت اہے اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت سے ڈرے اور اس کو یقین ہو کہ وہ گناہ کو ناپسند کرتا ہے اور گناہ پر سخت سزا دیتا ہے تو اس کو گناہ پر دلیری اور جرأت نہ ہو۔ زمین پر پھر اس طرح سے چلتا ہے جیسے مردہ چلتا ہے۔ ا سکی روح ہر وقت خدا تعالیٰ کے پاس ہوتی ہے۔
یہ امور ہیں جو ہم اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی ہی اشاعت ہمارا مقصود ہے۔ میں یقینا جانتا ہوں اور کھول کر کہتا ہوں کہ انہیں امرو کی پابندی سے مسلمان مسلمان ہوں گے اور اسلام دوسرے ادیان پر غالب آئے گا۔ اگر اﷲ تعالیٰ مسیح کی موت یا مسیح موعود ہوین کے امور کو ہماری راہ میں نہ ڈال دیتا تو ہمیں کچھ بھی ضرورت نہ تھی کہ عیسیٰ کہلاتے مگر میں کیا کر سکت اہوں۔ جب خود اس نے مجھے اس نام سے پکارا اور اس کی اشاعت اور اعلان پر مجھے حکم دیا۔ میں خوب جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لیے مجھے عیسیٰ کہلانے کی کچھ بھی حاجب نہ تھی اور منزل مقصود پر پہنچنے کے لیی اس کی کچھ بھی حاجت نہیں اور نہ قرآن شریف میں یہ لکھا ہے۔ مگر اﷲ تعالیا نے ایسا ہی چاہا اور اس لیے چاہا کہ آنحضرت کی عزت اور عظمت کا اظہار ہو اور ایک عاجز انسان جس کو غلطی سے خدا بنا لیا گیا ہے۔اس کی حقیقت دنیا پر کھل جاوے۔
اﷲ تعالیٰ کی برکات اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیوض بند نہیں ہوں گے
میں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ ہم نیکی کے ثمرات کو محدود نہیں کرتے اور نہ خدا تعالیا کے ھضل اور فیوض کی حد بندی کرتے ہیں کہ وہ اب ختم ہو گئے ہیں اور کسی دوسر ے کو نہیں مل سکتے۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے ہاں کسی بات کی کمی نہیں ہے اور کوئی شخص بھی جو مجاہدہ کرے اور اس راہ پر جو اس نے بتائی ہے چلے محروم نہیں رہ سکتا۔ ہاں یہ بالکل سچ ہے کہ جو کچھ ملے گا وہ آنحضرت ﷺ کی سثی اور کامل اطاعت اور اتباع پر ملے گا۔ اگر یہمان لیا جاوے کہ بس اب خد اتعالیٰ کے برکات کا دروازہ بند ہے تو ال تعالیٰ کویا تو بخیل ماننا پڑے گا اور یا یہ کہنا پڑے گا کہ خاتمہ ہو گیا۔ مگر سبحان ربی۔ وہ اس قسم کے نقصوں سے پاک ہے۔ جو شخص سچے دل سے خد اتعالیٰ کے حضور آتا ہے و ہ خالی نہیں جاتا۔ پاکیزہ قلب ہونے کی ضرورت ہے ورنہ
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ : ۶،۷)
کی تعلیم اور تاکید بے فائدہ ہو جاتی ہے۔ اگر وہ انعام اکرام اب کسی کو ملنے ہی نہیں ہیں تو پھر پانث وقت اس دعا کے مانگنے کی کیا حاجب ہے؟ یہ بڑی غلطی ہے جو مسلمانوں میں پھیل گئی ہے؛ حالانکہیہی تو اسلام کا حسن اور خوبی تھی کہ اس کے برکات اور فیوض اور اس کی پاک تعلیم کے ثمرات تازہ بتازہ بہت مل سکتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع کے ثمرات
تمام صوھیوں اور اکابرانِ اُمت کا یہی مذہب ہے بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ کامل متبع ہوتا ہی نہیں۔ جب تک بروزی رنگ میں آنحضرت ﷺ کے کمالات کو اپنے اندر نہ رکھتا ہو اور حقیقت میں یہ بات صحیح بھی ہے۔ کیونکہ کامل اتباع آنحضرت ﷺ کے لیے لازم ہے کہ اس کے ثمرات اپنے اندر پیدا کرے۔ جب ایک سخص کامل اطاعت کرتا ہے اور گویا اطاعت آنحضرت میں محو اور فنا ہو کر گم ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے ایک شیشہ سمانے رکھا ہوا ہو اور تمام و کمال عکس اس میں پڑے۔
میں کبھی اﷲ تعالیا کے فضل اور برکات اور ان تاثیرات کوجو آنحضرت ﷺ کے کامل اتباع سے ملتی ہیں محدود نہیں کرسکتا بلکہ ایسا خیال کرنا کفرسمجھتا ہوں۔
آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ بہست میں ایک مقام ہے جو مجھے ہی ملے گا۔ ایک صحابی یہ سنکر روپڑا۔ آپؐ نے جو پوچھا کہ تو کیوں روپڑا؟ تو اس نے کہا یارسول اﷲ مجھے آپؐ کے ساتھ محبت ہے۔ جب آپؐ اس مقام میں ہوں گے تو میں کہاں ہوں گا؟ آپؐ نے فرمایا کہ تو میرے ساتھ ہو گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ نے اس کے وجود کو اپنے اندر لے لیا۔
غرض یہ یقینا یاد رکھو کہ کامل اتباع کے ثمرات ضائع نہیں ہو سکتے۔ یہ تصوف کا مسئلہ ہے۔ اگر طلی مرتبہ نہ ہوتا تو اولیاء امت تومر جاتے۔ یہی کامل اتباع اور بروزی اور ظلی مرتبہ ہی تو تھا جس سے بایزیدؒ محمد کہلایا اور اس کہنے پر ستر مرتبہ کھر کا فتویا ان کے خلاھ دیا گیا اور انہیں شہر بدر کیا گیا۔
مختصر یہ کہ لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات کا علم نہیں اور وہ ا س حقیقت سے بے خبر ہیں کاس وہ اس حالی کیفیات سے واقف ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا۔ آنحضرت ﷺ کی قدر اور حقیقت ان لوگوں نے سمجھی ہی نہیں۔ اگر آنحضرت ﷺ کی اتباع کی تاثیرات اور ثمرات بھی باقی نہیں ہیں تو شریعت کے اتباع کی حاجب ہی کیا جبکہ ا سکے نتائج اور برکات ہم کو مل نہیں سکتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک بیہودہ اور کفر یہ خیال ہے۔ اسلام کی اتباع کے ثمرات اب بھی اور ہمیشہ مل سکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات میں بخل نہیں اور نہ اس کے ہاں کسی بات کی کمی۔
بعض آدمی اپنی بیوقوفی اور شتابکاری سے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہم نے ولی بننا ہے۔ میرے نزدیک ایسے لوگ کفر کے مقام پر ہیں۔ اﷲ تعالیٰ تو سب کو ولی کہتا ہے اور سب کو ولی بنانا چاہتا ہے۔اسی لیے وہ اھدنا الصراط المستقیم کی ہدایت کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ تم منعم علیہ گروہ کی مانند ہو جائو۔ جو کہتا ہے کہ میں ایسانہیں ہوسکتا۔ وہ اﷲ تعالیٰ پر بخل کی تہمت لگاتا ہے اور اس لیے یہ کلمہ کفر ہے۔ آنحضرت ﷺکا سب سے بڑ مقام تو یہ تھا کہ آپ محبوب الٰہی تھے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو بھی اس مقام پر پہنچنے کی راہ بتائی جیسا کہ فرمایا
قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران : ۳۲)
یعنی ان کو کہدو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الٰہی بن جائو تو میری اتباع کرو۔ اﷲ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنالیگا۔ اب غور کرو کہ آنحضرت کی کامل اتباع محبوب الٰہی بنا دیتی ہے تو پھر اور کیا چاہیے؟ مگر اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اﷲ تعالیٰ ہی کو شناخت نہیں کیا۔
ما قدرو اﷲ حق قدرہ (الانعام : ۹۶)
ایسا ہی شیعہ ہیں۔ انہوں نے فقط اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ امام حسین رضی اﷲ عنہ کے لیے روپیٹ لینا ہی نجات کے واسطے کافی ہے۔ یہ کبھی ان کو خواہس نہیں ہوتی کہ ہم امام حسین ؓ کی اتباع میں ایسے کھوئے جاویں کہ خود حسین بن جاویں؛ حالانکہ اﷲ تعالیا تو کہتا ہے کہ اس وقت تک نجات نہیں جبتک انسان نبی کا روپ نہ ہو جاوے۔ وہ انسان جو اپنے مراتب اور مدارج میں ترقی نہیں چاہتا وہ مخنثوں کی طرح ہے۔ میں کھول کر کہتا ہوں کہ جس قدر انبیاء و رسل گذرے ہیں ان سب کے کمالات حاصل ہو سکتے ہیں۔ اس لیی کہ ان کے آنے کی غرض اور غایت ہی یہی تھی کہ لوگ اس نمونہ اور اسوہ پر چلیں۔
موت و حیات مسیح کا مسئلہ
یہ امور ہیں جن کی وجہ سے ہم کو بدنام کیا جارہا ہے۔ موت و حیات مسیح کا مسئلہ تو یونہی راہ میں آگیا۔ بہت سے مصالح الٰہی تھے جو یہ مسئلہ پیس آگیا؛ ورنہ اصل مقاصد اور اغراض ہماری بعثت کے اور ہیں۔ ہاں یہ مسئلہ ثونکہ تعلیم الٰہی کے خلاف تھا۔ اور اس میں توحید کے مصفیٰ چشمہ کو مکدر کرنے والے اجزا موجود تھے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے ا سکا ازالہ کر دیا اور صاف کر دیا کہ سب نبی فوت ہو گئے ہیں۔ مسیح علیہ السلام میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں جو دوسرے نبیوں کو نہ ملی ہو۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر گیا ہے۔ لیکن میں یہ کبھی تسلیم نہیں کر سکتا کہ دوسرے نبی جسم کے بغیر آسمان پر گئے ہیں۔ جس قسم کے جسم ان کو عطا ہوئے ہیں وہی جسم مسیح کو دیا گیا ہے اوریہ وہ جسم ہے جو مرنے کے بعد عطا ہوتا ہے۔ یہ پرانی باتیں ہیں نئی نہیں۔ چونکہ انہوں نے قرون ثلاثہ کی باتیں بھلادی ہیں۔ اس لیے بار بار کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادے غلطی پر تھے۔ میں نہیں کہتا کہ وہ غلطی پر تھے۔ آنحضرت ﷺ نے خود فرمایا کہ وہ زمانہ فیج اعوج ہے۔ آنحضرت ﷺ کے مقابل پر بھی کفار ایسا ہی کہتے تھے کہیہ ہمارے باپ دادوں کے خلاف ہے۔ یہ باپ دادوں کی سند صحیح نہیں ہوسکتی۔ ایک زمانہ قرون ثلاثہ کے بعد گذرا ہے جس کو شیطانی زمانہ کہتے ہیں یہ درمیانی زمانہ ہزار سال کا زمانہ ہے۔ جس قدر خرابیاں اور فسق و فجور پھیلا ہے۔ اس زمانہ میں ہی پھیلا ہے۔ اگر صحابہ کرامؓ ہوتے تو وہ بھی شناخت نہ کر سکتے۔ اس زمانہ کا توحوالہ دینا ہی عقلمندی نہیں۔ وفات مسیح کا مسئلہ تو ایسا صاف ہو چکاہے کہ اب کوئی عقل اس کے خلاف تجویز نہیں کرسکتی۔ اﷲ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ فوت ہو گئے خود مسیح نے اپنی وھات کا اقرار کیا۔ آنحضرت ﷺ نے اُن کو مردوں میں دیکھا اور پھر صحابہؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر پہلا اجماع اسی پر کیا اور فیصلہ کر دیا۔ صحابہؓ کا اجماع غلطی پر نہیں ہو سکتا۔کیونکہ صحابہ کو آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہونے کی فضیلت ہے۔
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران : ۱۴۵)
میں کہتے ہیں کہ خلت کے معنے موت کے نہیں۔ مگریہ تو ان کی غلطی ہے اس لیے کہ خود اﷲ تعالیٰ نے خلت کے معنے کردیئے ہیں
افائن مات او قتل (آل عمران : ۱۴۵)
اگر اس کے سوا کوئی اور معنے ہوتے جو یہ کرتے ہیںتو پھر رفع الجسد العنصری بھی ساتھ ہوتا۔ مگر قرآن شریف میں تو ہے نہیں پھر ہم کیونکر تسلیم کر لیں۔ ایسی صورت میں درمیانی زمانہ کی شہادت کو ہم کیا کریں؟ اور پھر تعجب یہ ہے کہ اس زمانہ میں بھی اسی مذہب کے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اس کی وفات کا اقرار کیا ہے۔
اور اﷲ تعالیٰ نے اگر میرا نام عیسیا رکھا تو اس میں اسلام کا کیا برا ہوا؟ یہ تو اسلام کا فخر ہوا اور آنحضرت کا فخر ہوا کہ وہ شخص جسے چالیس کروڑ انسان خدا سمجھتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی اُمت کا ایک فرد ان کمالات کو پالیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ اجت اہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیس یلکھ اہے کہ ہارون رشید نے مصر کا علاقہ ایک حبشی کودیدیا ۔ کسی نے پوچھا تو جواب دیا کہ یہ وہی مصر ہے جس کی حکومت سے فرعون نے خدائی کا دعویا کر دیا تھا۔ اسی طرح پر مسیح کی خدائی پر زومارنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے مجھے مسیح بنا دیا تا آنحضرت ﷺ کی علو شان اس سے ظاہر ہو۔
مس شیطان کی حقیقت
میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ ان لوگوں نے مسیح کو بہت سی خصوصیتیں ایسی دے رکھی ہیں جو اور کسی کو نہیں دی گئیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ مَسِّ سیطان نہیں ہوا بلکہ اﷲ تعالیٰ کے راستباز اور صادق بندوں میں سے بھی کسی کو مس شیطان نہیں ہوتا۔ مطلب اس سے اور تھا ۔ اور انہوں نے کچھ اور سمجھ لیا۔ اگر صاف یہ اعتقاد رکھاجاوے کہ مسیح ہی مس شیطان سے پاک تھے اور کوئی پاک نہ تھا تو یہ کلمۂ کفر ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہودی مریم علیہا السلام کو معاذاﷲ زانیہ اور حضرت مسیح کو نعوذ باﷲ ولد الزنا کہتے تھے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ان کے اس الزام سے بریت کی اور مریم کا نام صدیقہ رکھا ۔ اور حضرت مسیح کے لیے کہا کہ وہ مس شیطان سے پاک ہے۔
اولاد دو قسم کی ہوتی ہے ایک وہ جو مس شیطان سے ہو وہ ولد الحرام کہلاتی ہے۔ دوسری وہ جو روح القدس کے مس سے ہو۔ وہ ولد الحلال ہوتی ہے۔ یہودیوں کا اس پر زور تھا کہ مسیح پر ناجائز پیدائیش کا الزام لگاتے تھے اور ان کے ہاں یہ لکھا تھا کہ ولد الحرام سات پشت تک بھی خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہل سکتا۔ چونکہ ان کے اس شبہ اور الزام کا جواب ضروری تھا۔ اس لیے ان کے متعلق یہ کہا گیا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ معاذ اﷲ معاذ اﷲ آنحضرت ﷺ مس شیطان سے پاک نہ تھے۔ ایس ااعتقاد کفر صریف ہے۔ کیا کسی نے آنحضرت ﷺ اور حضرت آمنہ کی نسبت ایسا الزام لگایا؟ کبھی نہیں۔ آنحضرت ﷺ کو ہمیشہ مخالھوں نے امین اور صادق تسلیم کیا۔ برخلاف اسکے مسیح اور ان کی والدہ کی نسبت یہودیوں کے بیہودہ الزام تھے۔ خدو عیسائیوں نے انسائیکلو پیڈیا میں مان لیا ہے کہ نعوذ باﷲ وہ ولد الحرام تے۔ پھ رایسی صورت میں کس قدر ضروری تھا کہ اس کا ازالہ ہوتا۔ اب یہ ہمارے مخالف اندھے ہو کر ان کی خصوصیت بتاتے ہیں اور منبروں پر چڑھ کر بیان کرتے ہیں؛ حالانکہ یہ تو حضرت مسیح کا ایک داغ تھا جو آنحضرت ﷺ نے دھویا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے لیے اس کے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ مثلاً اگر ایک شخص کے چہرہ پر سیاہی کا داگ ہوا ور اسے صاف کر دیا جاوے تو یہ کیسی حماقت ہو کہ ایک شخص جس کے چہرہ پر وہ داگ ہی نہیں بلکہ خوبصورت اور روشن چہرہ رکھتا ہو اس سے اس سیاہی کے داگ والے کو افضل کہا جاوے۔ صرف ا س لیے کہ اس کا داغ صاف ہوا ہے۔
اس قسم کی غلطیوں میں ہامرے مخالف مبتلا ہیں۔ ہم ان پر صبر کرتے اگر آنحضرت ﷺ ، اسلام اور ملت پر زد نہ ہوتی ۔ آنحضرت ﷺ سے توجب آسمان پر جانے کا معجزہ مانگا جاوے تو انہیں
قل سبحان ربی (بنی اسرائیل : ۹۴)
کا جواب ملے اور مسیح کی لئے تجویز کر لیا جاوے کہ وہ آسمان پر چڑھ گئے۔
ایسی خصوصیتوں کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اسے خدا بنایا جاوے۔ پھر توحید کہاں رہی؟ انہوں نے تو ان چالیس کروڑ کی مدد کی جو اسے خدا بنا رہے۔ ہیں۔ افسوس ان لوگوں نے اصل شریعت کو چھور دیا اور عجوبہ پسند ہو گئے۔
احیاء موتی کا مسئلہ
میرے متعلق یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ مسیح نے مردے زندہ کئے تھے انہوں نے کتے نے کئے ہیں؟ میں اس کا کیا جواب دوں۔ پہلے یہ تو معلوم کر لیں کہ مسیح نے کتنے مردے زندہ کئے تھے؟ پھر اس کے سوا آنحضرت ﷺ کا زمانہ مجھ سے پہلے ہے میں تو آپﷺ کا ایک خادم ہوں۔ آپﷺ کے پاس ایک مردہ کی بابت کہا گای جس کو سانپ نے کاٹھا تھا اور کہا کہ اس کی نئی شادی ہوئی ہے آپ اسے زندہ کر دیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔کہ اپنے بھائی کو دفن کرو۔
اگر حقیقی مردے زندہ ہو سکتے تو سب سے پہلے آنحصرت ﷺ کو یہ معجزہ دیاجاتا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ بعض اوقات سخت امراض میں مبتلا اور ایسی حالت میں کہ اس میں آثار حیات مفقود ہوں اﷲ تعالیٰ اپنے ماموروں اور مرسلوں کی دعائوں کیوجہ سے انہیں شفا دی دیتا ہے۔اس قسم کا احیاء ہم مانتے ہیں اور یہاں بھی ہوا ہے اور اس کے سوا دوسری حیات روحانی حیات ہے۔ غرض یہ دو قسم کا حیاء موتی ہم مانتے ہیں۔ روحانی طو رپر مسیح کا اثر بہت کم ہوا۔ کیونکہ یہودیوں نے مانا نہیں اور جنہوں نے مانا اور ان کی تکمیل نہ ہوئی۔ ایک نے *** بھیج دی، دوسرے نے پکڑ وادیا اور باقی بھاگ گئے۔ ہان جسمانی طور پر بعض کے لیی دعائیں کہیں اور وہ مریض اچھے ہو گئے، اب بھی ہو رہے ہیں۔
غرض ہماری اصل غرض اور مقصد اور تعلیم وہ یہ جس کا میں ذکر کر آیا ہوں۔ یہ امور وفات مسیح وغیرہ ہماری راہ میں آگئے جو مسرکین کا گلبہ تورنے کے لیے مصلحت الٰہی نے ایسا ہی پسند فرمایا کہ چونکہ موسیٰ ؑکے آخری سلسلہ میں مسیح آیا تھا ویس یہی یہاں بھی ضروری تھا کہ مسیح آتا چنانچہ آگیا۔
بعض یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا نام مثیل موسیٰ تا اس لیے یہاں بھی مثیل مسیح ہوتا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہاں موسیٰ ہوتا تو شبہ پڑ جاتا۔ لیکن یہاں الیاس کی نظیر موجود تھی ا س لیے یہاں مسیح ہی کہہ دیا۔
اصل مقصد فرمایا:
ہماری جماعت کو قیل و قال پر محدود نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اصل مقصد نہیں۔ تزکیہ نفس اور اصلاح ضروری ہے جس کے لیی اﷲ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے۔؎ٰ
‏Amira 11-12-05
خواب کی حقیقت
خواب کی فلاسفی بیان کرنے کی خاطر ایڈیٹر صاحب ’’الحکم‘‘ نے حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک مکتوب گرامی حاشیہ میں شائع کیا ہے، جو درج ذیل ہے۔ یہ مکتوب کس کے نام تھا۔ اس کا ایڈیٹر صاحب نے ذکر نہیں کیا۔ (مرتب)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی مکرمی سلمہ اﷲتعالیٰ۔ السلام علیکم ورحۃ اﷲ وبرکاتہ
آپ کی خواب کے آثاریوں ہی نظر آتے ہیں کہ انشاء اﷲ رؤیا صالحہ وواقعہ صحیحہ ہوگا۔ مگر اس بات کے لیے کہ مضمون خواب حیز قوت سے حد فعل میں آوے۔ بہت سی محنتیں درکار ہیں۔ خواب کے واقعات اس پانی سے مشابہ ہیں کہ جو ہزاروں من مٹی کے نیچے زمین کی تہہ تک میں واقع ہے جس کے وجود میں تو کچھ شک نہیں لیکن بہت سی جانکنی اور محنت چاہیے تا وہ مٹی پانی کے اوپر سے بکلی دور ہو جائے اور نیچے سے پانی شیریں اور مصافا نکل آوے۔ ہمت مراداں مدد خدا۔ صدق اور وفا سے خدا تعالیٰ کو طلب کرنا موجب فتحیابی ہے۔
والذینا جاھدو النھدینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
گویند سنگ لعل شود در مقام صبر
آرے شود و لیک بخون جگر شود
گرچہ و صالش نہ بکوشش دہند
ہر قدر اے دل کہ توانی بکوشش
آپ کی ملاقات کے لیے میں بھی چاہتا ہوں مگر وقت مناسب کا منتظر ہوں۔ بے وقت حج بھی فائدہ نہیں کرتا۔ اکثر حاجی۔جوبڑی خوشی سے حج کرنے کو جاتے ہیں اور پھر دل سخت ہو کر آتے ہیں۔ اس کا یہی باعث ہے کہ انہوں نے بے وقت بیت اﷲ کی زیارت کی اور بجز ایک کوٹھہ کے اور کچھ نہ دیکھا اور اکثر مجادرین کو صدق اور صلاح پر نہ پایا۔ دل سخت ہو گیا۔ علیٰ ہذ القیاس۔ ملاقات جسمانی سے بھی کئی قسم کے ابتلا پیش آجاتے ہیں۔ الاماشاء اﷲ۔
آپ کے سوالات کا جواب جو اس وقت میرے خیال میں آتا ہے۔ مختصر طور پر عرض کیا جاتا ہے۔ آپ نے پہلا سوال یہ کیا ہے کہ پورا پورا علم جیسا بیداری میں ہوتا ہے۔ خواب میں کیوں نہیں ہوتا۔ اور خواب کا دیکھنے والا اپنی خواب کو خواب کیوں نہیں سمجھتا؟ سو آپ پر واضح ہو کہ خواب اس حالت کا نام ہے جب بباعث غلبۂ رطوبت مزاجی جو دماغ پر طاری ہوتی ہے۔ حواس طاہری و باطنی اپنے کاروبار معمولی سے معطل ہو جاتے ہیں’ پس جب خواب کو تعطل حواس لازم ہے تو نا چار جو علم اور امتیاز اور تیقظ بذریعہ حواس انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ حالت خواب میں ببعث تعطل حواس نہیں رہتا کیونکہ جب حواس بوجہ غلبہ رطوبت مزاجی معطل ہو جاتے ہیں تو بالضرورت اس فعل میں بھی فتور آجاتا ہے پھر بعلت اس فتور کے انسان نہیں سمجھ سکت اکہ میں خواب میں ہوں یا بیداری میں۔ لیکن ایک اور حالت ہوتی ہے کہ جس سے ارباب طلب اور اصحاب سلوک کبھی کبھی متمتع اور محظوظ ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بباعث دوام مراقبہ و حضور واستیلاء شوق و غلبۂ محبت ایک حالت غیبت حواس ان پر وارد ہو جاتی ہے جس کا یہ باعث نہیں ہوتا کہ دماغ پر رطوبت مستولی ہو بلکہ اس کا باعث صرف زکر اور شہود کا استیلاء ہوتا ہے۔ اس حالت میں چونکہ تعطل حواس بہت کم ہوتا ہے۔ اس جہت سے انسان اس بات پر متنبہ ہوت اہے کہ وہ کسی قدر بیدار ہے خواب میں نہیں اور نیز اپنے مکان اور اس کی تمام وضع پر بھی اطلاع رکھتا ہے۔ یعنی جس مکان میں ہے اس مکان کو برابر شناخت کرتا ہے۔ حتیا کہ لوگوں کی آواز بھی سنتا ہے اور کل مکان کو بچشم خود دیکھتا ہے۔ صرف کسی قدر بجذبہ غیبی غیبت حس ہوتی ہے۔ اور جو انسان خواب کی حالت میں اپنی رؤیا میں اپنے تئیں بیدار معلوم کرتا ہے۔ یہ علم بذریعہ حواس نہیں بلکہ اس علم کا منشاء فقط روح ہے۔
دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ ھناء اتم اعنی گایت المواج ونہایت الوصال میں علم حق رہتا ہے یا نہیں۔
اول سمجھنا چاہیے کہ فنا اتم عین وصال کا نام نہیں۔ بلکہ امارات اور آثار وصال میں سے ہے کیونکہ ھنا اتم مراد اس حالت سے ہے کہ طالب حق خلق اور ارادت اور نفس سے بکلی بہار ہو جاوے اور فعل اور ارادت الیہی میں بکلی کھویا جاوے۔ یہانتک کہ اسی کے ساتھ دیکھتا ہو اور اسی کے ساتھ سنتا ہو۔ اور اسی کے ساتھ پکڑتا ہو۔ اور اسی کے ساتھ چھوڑتا ہو۔پس یہ تمام آثار وصال کے ہیں نہ عین وصال کے اور عین وصال ایک بیچوں اور بیچگوں نور ہے کہ جس کو اہل وصال شناخت کرتے ہیں مگر بیان نہیں کر سکتے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب طالب کمال و صال کا خدا تعالیٰ کے لیے اپنے تمام وجود سے الگ ہو جاتا ہے۔ اور کوئی حرکت اور سکون اس کا پانے لیے نہیں رہتا بلکہ سب کچھ خدا کے لیے ہو جاتا ہے تو اس حالت میں اس کو ایک روحانی موت پیس آتی ہے جو بقا کو مستلزم ہے۔ پس اس حالت میں گویا وہ بعد موت کے زندہ کیا جاتا ہے اور غیر اﷲ کا وجود اس کی آنکھ میں باقی نہیں رہتا۔ یہانتک کہ غلبہ شہود ہستی الٰہی سے وہ اپنے وجود کو بھی نابود ہی خیال کرتا ہے۔ پس یہ مقام عبودیت و فنا اتم ہے جو غایت سیر اولیاء ہے اور اسی مقام میں غیب سے باذن اﷲ ایک نور سالک کے قلب پر نازل ہوتا ہے جو تقریر اور تحریر سے باہر ہے۔ غلبہ سہود کی ایک ایسی حالت ہ یکہ جو علم الیقین اور عین الیقین کے مرتبہ سے برتر ہے۔ صاحب شہود تام کو ایک علم تو ہے مگر ایسا علم جو اپنے ہی نھس پروارد ہو گیا ہے جیسے کوئی آگ میں جل رہا ہے۔ سو اگر چہ وہ بھی جلنے کا ایک علم رکھتا ہے مگر وہ علم الیقین اور عین الیقین سے برتر ہے۔ کبھی سہود تام بے خبری تک بھی نوبت پہنچا دیتا اور حالت سکر اور بیہوشی کی غلبہ کرتی ہے۔ اس حالت سے یہ آیت مشابہ ہے
فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکاوخر موسی صعقا (الاعراف : ۱۴۴)
لیکن حالت تام وہ یہ جس کی طرف اشارہ ہے۔
ما زاغ البصر وما طغی (النجم : ۱۸)
یہ حالت اہل جنت کے نصیب ہوگی۔ پس غایت یہی ہے جس کی طرف اﷲ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے۔
وجوہ یومئذ نا ضرۃ الی ربھا ناظرۃ (القیامۃ : ۲۳،۲۴)
خاکسار مرزا غلام احمد۔ ۱۸؍مارچ ۱۸۸۳ء؁ مطابق ۸ جمادی الاول ۱۳۰۰ء؁ واﷲ اعلم بالصواب ؎ٰ
۲۶؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
قبل دوپہر
یہاں رہیں اور ان ایام کی قدر کریں
یہ بھی غنیمت ہے کہ انسان اس جگہ کی صحبت کو غنیمت سمجھے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں آنے یا رہنے سے دنیاوی کاروبار میں حرج ہوگاوہ بیمار ہے۔ اسے اس بیماری کا علاج کرنا چاہیے۔ دنیا کے کام تو کبھی ختم نہیں ہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں جبتک خود انسان خدا تعالیٰ سے توفیق پا کر ان کا خاتمہ نہ کر دے۔
ابھی ہامری جماعت کو سمجھنے کے لیے بہت سی باتیں ہیں۔ رفتہ رفتہ تحریک ہوتی ہے کسی مجمع میں کوئی تحریک ہو گئی اور کسی میں کوئی۔ اس لیے جبتک یہاں انسان ایک عرصہ تک نہ رہے یا کثرت کے ساتھ نہ آتا رہے کم فائدہ ہوتا ہے اور یہ بری خامی اور بے قدری ہوتی ہے اور سلسلہ کی بدنامی کا موجب ہوتا ہے ۔ جب ایک شخص سلسلہ میں داخل ہوتا ہیاور وہ توجہ کے ساتھ ان مسائل پر جو ہم پیس کرتے ہیں نظر نہیں کرتا اور پھر اگر اس سے کوئی سوال کرتا ہے تو اُسے چپ ہونا پرتا ہے۔ ا س لیے ضروری ہے کہ ہماری کتابوں کوغور سے پڑھیں اور فکر کریں اور یہاں رہیں اور ان ایام کی قدرکریں۔
جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا یہ دن وہ نہیں ہیں جن کے لیے بہت سے سعید لوگ حسرت کرتے چلے گئے ہیں اور یہ امور کتابوں میں درج ہیں کہ کس طرح پر ہزاروں روحیں اس آرزو میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں کہ وہ مسیح موعود کے زمانہ کو پالیتیں مگر اس زمانہ کے لوگ جس طرح پر ان ایم کی قدر نہیں کرتے اور مخالفت سے پیس آتے ہیں کیا تعجب اگر وہ یہ زمانہ پاتے تو وہ سیر ہوجاتے۔
اسی طرح پرآجکل لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر ہم نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہوتے تو ہم اس طرح خدمت کرتے اور یہ اخلاص دکھاتے اور یہ کرتے اور وہ کرتے۔ لیکن سچ یہی ہے کہ اگر یہ لوگ اس وقت ہوتے تو آنحضرت ﷺ کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے جو آجکل ہمارے ساتھ کر رہے ہیں۔ زمانہ کی معاصرت بھی ایک روک ہے اس سے لوگوں کے دل تنگ ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک رنگ کا ابتلا ہے۔
ایمان کی سلامتی کے لیے باطن پر نظر رکھنی ضروری ہے
زوالنون مصری ایک باکمال شخص تھا اور اس کی شہرت باہر دور دور پہنچی ہوئی تھی۔ ایک شخص اس کے کمال کو سنکر اس کے ملنے کے واسطے گیا اور گھر پر جاکر اسے پکارا تو اس کو جواب ملا کہ خدا جانے کہاں ہے۔ کہیں بازار میں ہوگا۔ وہ جب بازار میں ان کی تلاش کرتاہوا پہنچا تو وہ بازار میں معمولی طو رپر سادگی سے کچھ سود اخر ید رہا تھا۔ لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ذوالنون ہے۔ اس نے دیک اکہ ایک سیاہ رنگ پست قامت آدمی ہے۔ معمولی سالبا س ہے۔ چہرہ پر کچھ وجاہت نہیں۔ معمولی آدمیوں کی طرح بازار میں کھرا ہے اس سے اس کا سارا اعتقاد جاتا رہا اور کہا کہ یہ تو ہماری طرح ایک معمولی آدمی ہے۔ ذوالنون نے اس کو کہا کہ تو کس خیال ہے۔ ذوالنون نے اس کے مافی الضمیر کو دیکھ لیا۔ اس لیے کہا کہ تیری نظر ظاہر پر ہے۔ تجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
ایمان تب سلامت رہتا ہے کہ باطن پر نطر رکھی جاوے۔ کہتے ہیں لقمان بھی سیاہ منظر تھے۔ یہی وجہ ہے جو لکھ اہے کہ اﷲ تعالیا کے بندوں اور برگزیدوں کے پاس ارادت سے جانا سہل ہے۔ لیکن ارادت سے واپس آنا مسکل ہے کیونکہ ان میں بشریت ہوتی ہے اور ان کے پاس جانے والے لوگوں میں سے اکثر ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے دل میں اس کی ایک فرضی اور خیالی تصویر بنالیتے ہیں، لیکن جب اس کے پاس جاتے ہیں تو وہ اس کے برخلاف پاتے ہیں جس سے بعض اوقات وہ ٹھوکر کھاتے ہیں اور ان کے اخلاص اور ارادت میں فرق آجاتا ہے۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے کھول کر بیان کر دیا کہ
قل انما انا بشر مثلکم (حم السجدۃ : ۷)
یعنی کہدو کہ بیسک میں تمہارے جیسا ایک انسان ہوں یہ اس لیے کہ وہ لوگ اعتراض کرتے تھے
وقالو اما لھذاالرسول یاکل الطعام ویمشی فی الاسواق (الفرقان : ۸)
اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا یہ اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے ۔ ان کو آخر یہی جواب دیا گیا کہ یہ بھی ایک بشر ہے اور بسری حوائج اس کے ساتھ ہیں۔ اس سے پہلے جس قدر نبی اور رسول آئے وہ بھی بشر ہی تھے۔ یہ بات انہوں نے بنظر استخفاف کہی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ خود ہی بازاروں میں عموماً سودا سلف خریدا کرتے تھے۔ ان کے دلوں میں آنحضرت ﷺ کا جو نقشہ تا وہ تو نری بشریت تھی۔ جس میں کھانا پینا۔ سونا۔چلنا۔ پھرنا وگیرہ تمام امور اور لوازم بشریت کے موجود تھے۔ اس واسطے ان لوگوں نے رد کر دیا۔ یہ مشکل اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ اپنے دل سے ہی ایک خیالی تصویر بنالیتے ہیں کہ نبی ایسا ہونا چاہیے اور چونکہ اس تصویر کے موافق وہ اسے نہیں پاتے اس لحاط سے ٹھوکر کھاتے ہیں۔ یہ مرض یہانتک ترقی کر گیا ہے۔ کہ بعض سیعوں کا بعض ائمہ کی نسبت خیال ہے کہ وہ منہ کے راستہ پیدا ہوئے تھے لیکن یہ باتین ایسی ہیں کہ ایک عقلمند ان کو کبھی قبول نہیں کر سکتابلکہ ہنسی کرتا ہے۔ اصل یہ ہیکہ جو شخص گزر جاوے اس کی نسبت جو چاہو تجویز کر لو کہ وہ آسمان سے اُترا تھا یا منہ کے راستہ پیدا ہوا تھا لیکن جو موجود ہیں ان میں بشری کمزوریاں موجود ہیں۔ وہ روتا بھی ہے۔ کھاتا بھی ہے اور پیتا بھی ہے۔غرض ہر قسم کی بشری ضرورتوں اور کمزوریوں کو اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس کو دیک کر ان لوگوں کو جو انبیاء و رسل کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں گھبراہت پید اہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی جو اﷲ تعالیٰ کو ان کے اس قسم کے اعتراضوں کا رد کرنا پڑا اور
قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی (حم السجدۃ : ۷)
کہنا پڑا۔ یعنی مجھ میں بشریت کے سوا جو امر تمہارے اور میرے درمیان فارق اور مابہ الامتیاز ہے۔ وہ یہ یہکہ مجھ پر اﷲ تعالیٰ کی وحی آتی ہے۔ دوسری جگہ قرآن شریف میں یہ اعتراض بھی منقول ہوا ہے کہ یہ تو بیویاں کرتا ہے۔ اس کے جواب میں بھی اﷲ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں جو بیوی نہ رکھتا ہو۔ غرض ایسی باتوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔
خانہ کعبہ کی تجلیات اور انوار و برکات طاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے
اسی طرح پر بعض لوگ حج کو جاتے ہیں۔ اس وقت ان کے دل میں بڑا جوس اور اخلاص ہوت اہے۔ لیکن جس جوس اور تپاک سے جاتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہی جوش اور اخلاص لے کر واپس نہیں آتے بلکہ واپس آنے پر بسااوقات پہیل سے بھی گئے گذرے ہو جاتے ہیں۔
سہل است رفتن بارادت
مشکل است آمدن بارادت
واپس آکر ان کے اخلاق میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیںہوتی بلکہ وہ تبدیلی کچھ اُلٹی تبدیلی ہو جاتی ہے۔ وہ جانے سے پہلے سمجھتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں ایک عظیم الشان تجلی نور کی ہوگی۔ اور وہاں سے انوار و برکات نکلتے ہوں گے اور وہاں فرشتوں کی آبادی ہوگی لیکن جب وہاں جاتے ہیں۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ جس کی تصویر انہوں نے اپنے خیال اور ذہن سے کچھ اور ہی قسم کی تجویز کی تھی وہ محض ایک کوٹھہ ہے اور اس کے ہمسایہ میں جو لوگ رہتے ہیں ان میں بعض جرائم پیشہ بھی ہیں وہ دنگا فساد بھی کر لیتے ہیں اور اکثر ان میں ایسے مفسد طبع دیکھے جاتے ہیں کہ بعض خام طبیعت کے آدمی انہیں دیکھ کر متردد ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر وہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ یہاں کی ساری آبادی کا یہی حال ہے۔ اور کل عرب ایسے ہی ہیں اور اس طرح پر ان کے دل میں کئی قسم کے شبہات پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ نہ وہاں وہ تجلی انوار و برکات کی دیکھتے ہیں جو انہوں نے بطور خود تجویز کر لی تھی اور نہ ملائک کی بستی پاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ خود خام طبع ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی غلطی ہے جو وہ ایسا سمجھ لیتے ہیں اس میں خانۂ کعبہ کا کیا قصور؟ یہ کوئی ضروری امر نہین ہیکہ خانہ کعبہ میں سارے قطب اور ابدال اور اولیاء اﷲ ہی رہتے ہوں۔ خانہ کعبہ نے اس وقت بھی تو گذارہ کر ہی لیا تھا۔ جب اس کے چاروں طرف بت پرست ہی بُت پرست رہتے تھے اور خود خانہ کعبہ بتوں سے بھرا ہوا تھا۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ خانہ کعبہ انوار وبرکات کی تجلی گہاہ ہے اور اس کی بزرگی میں کوئی کلام اور شبہ نہیں۔ پہلی کتابوں میں بھی اس کی بزرگی کا زکر ہے۔ مگر یہ تجلیات اور انوار وبرکات اس ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آستے۔ اس کے لیے دوسری آنکھ کی حاجب ہے۔ اگر وہ آنکھ کھلی ہو تو یقینا انسان دیکھ لے گا کہ خانہ کعبہ میں کس قسم کے برکات نازل ہو رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ بتوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کے زرائرین میں ابو جہل جیسے شریر تھے۔ پھر ان سے مقابلہ کر کے اگرتایسے خام طبع لوگ کوئی بات کہتے تو انہیں شرمندہ ہونا پڑتا کیونکہ اگر غور سے دیکھا جاوے تو وہ لوگ جو بیت اﷲ کے جوار میں رہتے ہیں۔ عوام سے ہزارہا درجگ اچھے ہیں اور یہ امر مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت میں کثرت کے ساتھ ان میں نیک اور اچھے لوگ ہیں اور ان کو دیکھ کر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ خانہ کعبہ کی مجاورت نے ان کو بہت بڑا فائدہ پہنچایا ہے۔
یہ تو قانون قدرت ہی نہیں کہ دنیا میں آکر فرشتے آباد ہوں۔ پھر ایسا خیال کرنا کیسی غلطی اور نادانی ہے۔ انسانیت کے لازم حال زلات تو ضرور ہیں۔ پس مکہ میں جب انسان آباد ہیں تو ان کی مزوریوں پر نظر کرکے مکہ کو بدنام کرنا یا اس کی بزرگی اور عظمت کی نسبت شک کرنا بڑی غلطی ہے۔ سچ یہی ہے کہ کعبہ کی بزرگی اور نورانیت دوسری آنکھوں سے نطر آتی ہے جیساکہ سعدیؔ نے فرمایا ہے
چوبیت المقدس دروں پر زتاب
رہا کردہ دیوار بیروں خراب
موجود زمانہ کے پیرزادے اور مشائخ
اولیاء اﷲ کی بھی ایسی ہی حالت ہوتی ہیکہ ان میں تکلفات نہیں ہوتے بلکہ وہ بہت ہی سادہ اور صاف دل لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے لباس اور دوسرے امور میں کسی قسم کی بناوٹ اور تصنع نہیں ہوتا مگر اس وقت اگر پیرزادوں اور مشائخوں کو دیکھاجاوے تو ان میں بڑے بڑے تکلفات پائے جاتے ہیں۔ ان کا کوئی قول اور فعل ایسا نہ پائو گے جو تکلف سے اخلی ہو گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اُمت محمدیہ ہی میں سے نہیں ہیں۔ ان کی کوئی اور ہی سریعت ہے۔ ان کی پوشاک دیکھو تو اس میں خاص قسم کا تکلف ہوگا۔ یہانتک کہ لوگوں سے ملنے جلنے اور کلام میں بھی ایک تکلف ہوتا ہے۔ ان کی خاموس محض تکلف سے ہوتی ہے۔ گویا ہر قسم کی تاثیرات کو وہ تکلف ہی سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ برخلاف اس کے آنحضرت ﷺ کی یہ شان ہے
وما انا من المتکلفین (ص : ۸۷)
اور ایسا ہی دوسرے تمام انبیاء و رسل جو وقتاً فوقتاً آئے وہ نہایت سادگی سے کلام کرتے اور اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔ اُن کے قوم و فعل میں کوئی تکلھ اور بناوت نہ ہوتی تھی مگر ان کے چلنے پھرنے اور بولنے میں تکلف ہوتا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اپنی شریعت جدا ہے۔ جو اسلام سے الگ اور مخالف ہے۔
بعض ایسے پیر بھی دیکھے گئے ہیں جو بالکل زنانہ لباس رکھتے ہیں یہاں تک کہ رنگین کپڑے پہننے کے علاوہ ہاتھوں میں چوڑیاں بھی رکھتے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے بھی بہت سے مرید پائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے پوچھے کہ آنحضرت ﷺ نے کب ایسی زنانہ صورت اختیار کی تھی تو اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ ایک نرالی شریعت بنانا چاہتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے اُسوہ حسنہ کو چھور کر اپنی تجویز اور اختیار سے ایک راہ بنانا چاہتے ہیں۔
میں یقینا جانتا ہوں کہ اس قسم کی باتیں سعائر اسلام میں سے نہیں بلکہ ان لوگوں نے یہ امور بطور رسوم ہندوجوں سے لئے ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو انہیں سے لی گئی ہیں جیسے دم کشی وغیرہ۔
خوب سمجھو کہ یہ امور اسلام کے بالکل برخلاف ہیں اور ان سے کوئی بھی مطلب اور مراد حاصل نہیں ہوسکتی۔ اصل غرض تو انسان کی یہ ہونی چاہیے تھی کہ دل پاک ہو اجوے۔ اور ہر قسم کے گند اور ناپاک مواد جو روح کو تباہ کرتے ہیں دور ہو جائیں تا کہ اﷲ تعالیا کے فیضان اور برکات نازل ہونے لگیں۔ اگر یہ امر حاصل نہیں تو پھر نرے تکلھات کو لے کر کیا کرو گے۔ تمہارا مقصود ہمیشہ یہی ہونا چاہیے کہ جس طرح ممکن ہو دل صاھ ہو جاوے اور عبودیت کا منشا اور مقصد پور اہو اور خطرناک زہر جو گناہ کی زہر ہے جس سے انسان کی روح ہلاک ہو جاتی ہے اس سے نجات ملے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک صاف اور سچا تعلق پیدا ہو جاوے، مگر یہ باتیں تکلھ سے پید انہیں ہوسکتی ہیں۔ ان کے حصول کا ذریعہ تو وہی اسلام ہے جس میں سادگی ہے۔
یقینا یاد رکھو کہ اسلام میں اﷲ تعالیٰ نے ایسی سادگی رکھی ہے کہا گر دوسری قوموں کو اس کی حقیقت پر اطلاع ہو تو وہ اس کی سادگی پر رشک کریں۔ ایک سچے مسلمان کے لیے کچھ ضرور نہیں کہ ہزار دانہ کی تسبیح اس کے ہاتھ میں ہو۔ اور اس کے کپڑے بھگوے یا سبز یا اور کسی قسم کے رنگین ہوں اور وہ خد ارسی کے لئے دم کشی کرے یا اور اسی قسم کے حیلے حوالے کرے۔ اس کے لیے ان امور کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں اس لیے کہ یہ سب امور زائدہ ہیں اور اسلام میں کوئی امر زائد نہیں ہوتا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ اسلام چاہتا ہے۔ کہ تم اندرونی طور پر بری بری ترقیاں کرو اور پانے اندر خصوصیتیں پید اکرو۔ بیرونی خصوصیتیں نری ریاکاریاں ہیں اور ان کی غرض بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ لوگوں پر ظاہر کیا جاوے۔ کہ ہم ایسے ہیں اور وہ رجوع کریں۔
حضرت امام غزالی کے زمانہ کے پیرزادے اور فقراء
امام غزالی رحمۃاﷲ علیہ نے اپنے زمانہ کے پیر زادوں اور فقیروں کے عجیب عجیب حالات لکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افسوس ہے بڑی ابتری پھیل گئی ہے کیونکہ یہ فقیر جو اس زمانہ میں پائے جاتے ہیں وہ فقیر اﷲ نہیں ہیں بلکہ فقیر الخلق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہر حرکت و سکون ،لباس خورو نوس اور کلام میں حکمت پر عمل کرتے ہیں۔ مثلاً کپڑوں کے لیے وہ دیکھتے ہیں کہ اگر ہم عام غریبوں کی طرح گزی گاڑھے کے کپڑے پہنیں تو وہ عزت نہ ہوگی جو امراء سے توقع کی جایت ہے وہ ہم کو کم حیثیت اور ادنیٰ درجہ کے لوگ سمجھیں گے۔ لیکن اگر اعلیا درجہ کے کپرے پہنتے ہیں تو پھر وہ ہم کو کامل دنیا دار سمجھ کر توجہ نہ کریں گے اور دنیا دار ہی قرار دیں گے اس لیے اس میں یہ حکمت نکال لی کہ کپڑے تو اعلیٰ درجہ کے اور قیمتی اور باریک لے لیے۔ لیکن ان کو رنگ دے لیا جو فقیری کے لباس کا امتیار ہو گئے۔
اسی طرح حرکات بھی عجیب ہوتی ہیں۔ مثلاً جب بیٹھتے ہیں تو آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں او راس حالت میں لب ہل رہے ہیں گویا اس عالم ہی میں نہیں ہیں حالانکہ طبیعت فاسد ہوتی ہے۔ نمازوں کا یہ حال ہے کہ برے آدمیوں سے ملیں تو بہت ہی لمبی لمبی پڑھتے ہیں اور بطور خود سرے سے ہی نہ پڑھیں۔ ایسا ہی روزوں میں عجیب عجیب حالات پیس آتے ہیں مثلاً یہ طاہر کرنے کے لیے کہ نفلی روزے ہم رکھتے ہیں وہ یہ طریق اختیار کرتے ہیں کہ جب اکسی امری کے ہاں گئے اور وہاں کھانے کا وقت آگیا اور کھانا رکھا گیا تو یہ کہدیتے ہیں کہ آپ کھائیے مجھے کچھ عزر ہے۔ اس کے معنے دوسرے الفاظ میں یہ ہوئے کہ مجھے روزہ ہے۔ اس طرح پر وہ گویا اپنے روزوں کو چھپاتے ہیں اور دراصل اس طرح پر ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ظاہر کریں کہ ہم نفلی روزے رکھتے ہیں۔
گرض انہوں نے اپنے زمانہ کے فقراء کے اس قسم کے بہت سے گند لکھے ہیں۔ اور صاھ طور لکھ اہے کہ ان میں تکلفات بہت ہی زیادہ ہیں۔ ایسی حالت اس زمانہ میں بھی قریب قریب واقع ہو گئے ہے۔ جو لوگ ان پیروں اور پیرزادوں کے حالات سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ قسم قسم کے تکلفات اور ریاکاریوں سے کام لیتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اسی سے امید رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو اﷲت عالیا کے لیے درست کرتا ہے اور اس طرح پر درست کرتا ہے جس طرح پر اﷲتعالیٰ چاہتا ہے اور ہدایت کرتا ہے لیکن جس شخص مخلوق سے ڈرتا اور مخلوق سے امید رکھتا ہے وہ اپین آپ کو مخلوق کے لیے درست کرتا ہے۔خدا والوں کو مخلوق کی پروا نہیں ہوتی بلکہ وہ اسے مرے ہویء کیڑے سے بھی کمتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ ان بلائوں میں نہیں پھنستے۔؎ٰ اور دراصل وہ ان کو کیا کرے۔ اﷲت عالیا خود اس کے ساتھ ہوت اہے اور وہی اس کی تائید اور نصرت فرماتا ہے۔ وہ اﷲ تعالیا پر بھروسہ کرتا ہے اور جانت اہے کہ وہ خد ااپنی مخلوق کو خود اس کے ساتھ کر دے گا۔ یہی سر ہے کہ انبیاء علیہم السلام خلوت کو پسند کرتے ہیں اور میں یقینا اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ وہ ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتے کہ باہر نکلیں،لیکن اﷲتعالیٰ ان کو مجبور کرتا ہے اور پکڑ کر باہر نکالتا ہے۔
مامورین اور مرسلین کا استغناء
دیکھو موسیٰ ؑکو جب اﷲ تعالیا نے مامور کرنا چاہا اور فرعون کی طرف ہدایت اور تبلیگ کی خاطر بھیجنے کی بشارت دی تو انہوں نے عذر شروع کر دیا کہ میں نے اُن کا ایک خون کیا ہوا ہے بھائی کو بھیج دیا جاوے۔ یہ کیا بات تھی؟یہ ایک قسم کا استغناء اور اہل عالم سے الگ رہنے کی زندگی کو پسند کرنا تھا۔ یہی استغناء ہر مامور اور مرسل کو ہوتا ہے اور وہ اس تنہائی کی زندگی کو بہت پسند کرتا ہے اور یہی ان کے اخلاص کا نشان ہوتاہے اور اسی لیے اﷲتعالیٰ ان کو اپنے لیے منتخب کرتا ہے کیونکہ وہ ان کے دل پر نظر کر کے خوب دیکھ لیتاہے کہ اس میں غیر کی طرف قطعاً توجہ نہیں ہوتی اور وہ اﷲتعالیٰ کی رضا اور تعمیل امر ہی کو اپنی زندگی اور حیات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
آن کس کہ تُرا شناخت جہاں راچہ کُنَد
فرزند و عیال و خانماں راچہ کُنَد
دیوانہ کنی و ہر دو جہانش بخشی
دیوانۂ تو دو جہاں راچہ کُنَد
اس کے دل میں بڑا بننے سے طبعاً نفرت اور کراہت ہتوی ہے۔ مگر وہ لگو جو خد اس قسم کی کبریائی کی بیہودہ خواہشوں کے گلام اور اسیر ہوتے ہیں وہ اپنے نفس پر قیاس کر کے ان کی نسبت بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ برا بننے کی خواہسوں سے ایسے دعوے کرتے ہین حالانکہ وہ اتنا نہیں ہ ان کا دعویا تو ان پر ایک آفتوں اور مصائب کا طوفان لے آتا ہے اور ان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے۔ہر طرف سے ان کی مخالفت کے لیے ہاتھ اور زبان چلتی ہے اور کوئی دقیقہ اُن کو دکھ دینے میں اُٹھ انہیں رکھا جاتا۔ پھر یہ کیسی بے انصافی اور ظلم ہے کہ ان کی نسبت یہ وہم کیا جاوے کہ وہ خواہش کبریائی سے ایسا کرتے ہیں۔ یہ بہتانِ عظیم ہے وہ تو صرف اﷲ تعالیٰ کا جلال اور اس کی عظمت کے اظہار اور اس کی کبریائی کے اعلان کو پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے اپنی جان ایک جان کیا ہزار جان بھی دینے کو تیار ہوتے ہیں۔افسوس اہل دنیا ان کے حالات سے بے خبراور ناواقف ہتوے ہیں اس لیے اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں’ اصل یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کے مصالح پسند فرماتے ہیں کہ ان کو بہار نکالا جاوے او روہ دنیا کے سامنے نکلیں اور وہ خد اجو اہلِ دنیا سے مخفی ہوتاہے ان کے وجود میں نظر آوے۔
انبیاء کو اﷲ تعالیٰ عظمت عطا کرتا ہے
یہ بھی یاد رکھو کہ جس چیز سے انسان نفرت کرتا ہے وہی اس کو دیتا ہے اور جس کی طرف بھاگتا ہے اس سے محروم کیا جاتا ہے۔انبیاء ورسل کا گروہ ہرگز ہرگز اپنی جاہ و حشمت کو نہیں چاہتے۔ لیکن اﷲ تعالیا اپنے مصالح کی بنا پر انہیں عطا کرتا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گذرے ہیں اور اس لحاظ سے ان سب کو گویا ایک ہی سمجھو کیونکہ سب کے ساتھ ایک ہی معاملہ ہوا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اُن میں سے کسی ایک کو بھی ذلیل اور خوار نہیں کیا اس لیے کہ اُن کی ذلت اﷲتعالیٰ کی ذلت ہے۔ (تعالی شانہ) جو لوگ ان کے خلاف کرتے ہیں اور مخلوق کو عظمت دیتے ہیں گویا اﷲ تعالیا کی کبریائی کی ردا مخلوق کو پہناتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں مردود ہیں۔
انبیاء میں مخلوق سے ہمدردی
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ایک طرف انبیاء و رسل اور خدا تعالیا کے مامورین اہل دنیا سے نفور ہوتے ہیں اور دوسری طرف مخلوق کے لیے ان کے دل میں اس قدر ہمدردی ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے لیے بھی خطرہ میں ڈال دیتے ہیں اور خود ان کی جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے؛ چنانچہ اﷲتعالیٰ آنحضرت ﷺ کی نسبت قرآن شریف میں فرماتا ہے
لعلک با خع نفسک الا یکونو ا مومنین (الشعر : ۴۱)
یہ کس قدر ہمدردی اور خیر خواہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس میں فرمایا ہے کہ تو ان لوگوں کے مومن نہ ہونے کے تعلق اس قدر ہم و غم نہ کر۔ اس غم میں شاید تو اپنی جان ہی دے دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمدردیٔ مخلوق میں کہاں تک بڑھ جاتے ہیں۔ اس قسم کی ہمدردی کا نمونہ کسی اور میں نہیں پایا ۔ یہاں تک کہ ماں باپ اور دوسرے اقارب میں بھی ایسی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔
مخلوق تو انہیں کاذب اور مفتری کہتی ہے اور وہ مخلوق کے لیے مرتے ہیں۔ یقینا یاد رکھو کہ یہ ہمدردی والدین میں بھی نہیں ہوتی اس لیے کہ وہ جب دیکھتے ہیں کہ اولاد سرکش اور نافرمان ہے یا اور نقص اس میں پاتے ہیں تو آخر اسے چھور دیتے ہیں مگر انبیاء و رسل کی یہ عادت نہیں وہ مخلوق کو دیکھتے ہیں کہ اُن پر حملہ کرتی اور ستاتی ہے۔ لیکن وہ اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ لوگوں کی ہدایت کے لیے اس قدر دعا کرتے تھے جس کا نمونہ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیا ہے۔ اﷲ تعالیا نے آپؐ کے دل میں ایک پیاس لگا دی تھی کہ لوگ مسلمان ہوں اور خدائے واحد کے پرستار ہوں۔
انبیاء کی جذب و کشش اور اس کے اثرات
جس قدر کوئی نبی عظیم الشان ہوت اہے اسی قدر یہ پیاس زیادہ ہوتی ہے اور یہ پیاس جس قدر تیز ہوتی ہے اسی قدر جذب اور کشش اس میں ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ چونکہ خاتم الانبیاء اور جمیع کمالات نبوت کے مظہر تھے اسی لیے یہ پیاس آپ میں بہت زیادہ تھی اور چونکہ یہ پیاس بہت تھی اسی وجہ سے آپ میں جذب اور کشش کی قوت بھی تمام راستبازوں اور ماموروں سے بڑھ کر تھی جس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگ اکہ آپؐ کی زندگی ہی میں کل عرب مسلمان ہو گیا۔ یہ کشش اور جذب جو مامورین کو دیا جاتا ہے وہ مستعد دلوں کو تو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور ان لوگوں کو جو اس سے حصہ رکھتے دشمنی میں ترقی کرنے کا موقعہ دیتا ہے ؎
باراں کہ در لطافت سبعش خلاف نیس
در باگ لالہ روید و درسورہ بوم و خس
اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام کی خاصیت ہوتی ہے کہ مومن اور کافران کے طفیل سے اپنے کفر اور ایمان میں کمال کرتے ہیں۔ لکھا ہے کہ ابو جہل کا کفر پورا نہ ہوتا اگر آنحضرتﷺ نہ آتے۔ پہلے اس کا کفر مخفی تھا لیکن آنحضرت ﷺ کی بعثت پر اس کا اظہار ہو گیا۔ اسی طرح حضرت ابو بکر ؓ کا صدق بھی مخفی تھا جو اس وقت ظاہر ہوا۔آنحضرت ﷺ نے روحانی دعوت کی۔ ایک نے اس دعوت کو قبول کیا اور دوسرے نے انکار کر دیا۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے
فی قلوبہم مرض فزادھم اﷲ مرضا (البقرۃ : ۱۱)
انبیاء و رسل اس خباثت اور شقاوت کو جو اُن کے اندر ہوتی ہے ظاہر کر دیتے ہیں۔ قرآن شریف نے انبیاء و رسل کی بعثت کی مثال مینہ سے دی ہے۔
والبلد الطیب یخرج نبا تہ باذن ربہ والذی خبث لا یجرج الا نکدا (الاعراف : ۵۹)
یہ تمثیل اسلام کی ہے۔ جب کوئی رسول آتا ہے تو انسانی فطرتوں کے سارے خواص ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ان کے ظہور کا یہ خاصہ اور علامات ہیں کہ مخلوص سعید الفطرت اور مستعد طبیعت کے لوگ اپنے اخلاص اور ارادت میں ترقی کرتے ہیں اور سریر شرارت میں بڑھ جاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ مین جب خبیث اور منکر گروہ نے شرارتیں کرنی شروع کیں اور دکھ اور ایذارسانی کے منصوبے کیے۔ اس وقت معلوم ہو اکہ کیسی کیسی خبیث روحیں ہیں۔ ایک وہ لوگ تھے کہ انہوں نے آپؐ کی راہ میں سر کٹواڈالے۔ ان کے حالات اور واقعات کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ان میں کیسا اخلاص اور ارادت تھی۔ فی الحقیقت اُن کا اُسوہ اُسوۂ حسنہ ہے۔ یہانتک کہ ان میں سے اگر کسی کا ایک ضرب سے سر نہیں کٹا تو اس کو شک ہوا۔ کہ شہید نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں کیسے فدا تھے۔ لکھا ہے کہ ایک صحابی نے اپنے مخالف کو ایک تلوار ماری۔ اس کے نہ لگی مگر اپنے لگی۔ دوسرے نے کہا کہ شہید نہیں ہوا۔آنحضرت ﷺ کے پاس لے آئے اور پوچھا کہ کیا شہید نہیں ہوا؟ آپﷺ نے فرمایا۔ دو اجر ملیں گے۔ایک یہ کہ دشمن پر حملہ کیا اور دوسرا اس لیے کہ اپنے آپ کو محض خدا تعالیٰ کے لیے خطرہ میں ڈالا۔ اس قسم کا ایمان ان لوگوں کا تھا۔ پس جب تک اس قسم کا اخلاص اور اتقامت اﷲ تعالیٰ کے لیے حاصل نہ ہو کچھ نہیں بنتا۔
میں اپنی جماعت میں صحابہ کا نمونہ دیکھنا چاہتا ہوں
میں یہی نمونہ صحابہ کا اپنی جماعت میں دیکھنا ثاہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کو وہ مقدم کر لیں اور کوئی امر ان کی راہ میں روک نہ ہو۔ وہ اپنے مال و جان کو ہیچ سمجھیں۔ میں دیکھتا ہوںکہ بعض لوگوں کے کارڈ آتے ہیں۔کسی تجارت یا اور کام میں نقصان ہوا یا اور کسی قسم کا ابتلاء آیا تو جھٹ شبہات میں پڑگئے۔ایسی حالت میں ہر سخص سمھج سکت اہے کہا صل مطلب اور مقصد سے وہ کس قدر دور ہیں۔ غور کرو کیا فرق ہے صحابہؓ میں اور ان لوگوں میں۔ صحابہؓ یہ چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کو راضی کریں خواہ اس راہ میں کیسی ہی سختیاں اور تکلیفیں اُٹھانی پڑیں۔ اگر کوئی مصائب اور مشکلات میں نہ پڑتا اور اسے دیر ہوتی تو وہ روتا اور چلاتا تھا۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ ان ابتلائوں کے نیچے خدا تعالیٰ کی رضا کا پروانہ اور خزانہ مخفی ہے۔
ہر ملا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آن گنج کرم بنہادہ است
قرآن شریف ان کی تعریف سے بھرا ہوا ہے۔ اسے کھول کر دیکھو۔ صحابہؓ کی زندگی آنحضرت ﷺ کی صداقت کا عملی ثبوت تھا۔ صحابہؓ جس مقام پر پہنچے تھے اس کو قرآن شریف میں اس طرح پر بیان فرمایا ہے
منہم من قضی نحبہ و منہم من ینتظر (الاحزاب : ۲۴)
یعنی بعض ان میں سے شہادت پا ثکے اور انہوں نے گویا اصل مقصود حاصل کر لیا۔ اور بعض اس انتظار میں ہیں کہ چاہتے ہیں کہ شہادت نصیب ہو۔ صحابہؓ دنیا کی طرف نہیں جھکے کہ عمریں لمبی ہوں اور اس قدر مال و دولت ملے اور یوں بے فکری اور عیس کے سامان ہوں۔ میں جب صحابہع کے اس نومنہ کو دیکھتا ہوں تو آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی کامل فیضان کا بے اختیار اقرار کرنا پرتا ہے کہ کس طرح پر آپ نے انکی کا یا پلٹ دی اور اُنہیں بالکل رُوبخدا کر دیا۔اللہم صل علی محمد وعلی ال محمد و بارک وسلم۔
خلاصہ یہ کہ ہمارا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی کے جو یا اور طالب رہیں اور اسی کو اپنا اصل مقصود قرار دیں۔ ہماری ساری کوسس اور تگ و دو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے میں ہونی چاہیے۔ہواہ وہ شدائد اور مصائب ہی سے حاصل ہو۔ یہ رضائے الٰہی دنیا اور اس کی تمام لذات سے افضل اور بالا تر ہے۔
شہادت کی حقیقت
یہ بھی یاد رکھو کہ یہی شہادت نہیں کہ ایک شخص جنگ میں مارا جائے بلکہ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ جو سخص اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ثابت قدم رہتا ہے اور اس کے لیے ہر دُکھ درد اور مصیبت کو اتھانے کے لیے مستعد رہتا ہے اور اتھاتا ہے وہ بھی شہید ہے۔ شہید کا مقام وہ مقام ہے جہاں وہ اﷲ تعالیٰ کو گویا دیکھتا اور مشاہدہ کرتا ہے یعنی اﷲتعالیٰ کی ہستی اس کی قدرتوں اور تصرفات پر وہ اس طرح ایمان لاتا ہے جیسے کسی چیز کو انسان مشاہدہ کر لیتا ہے۔ جب اس حالت پر انسان پہنچ جاوے۔ پھر ا س کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جان دینا کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا بلکہ وہ اس میں راحت اور لذت محسوس کرتا ہے۔ شہادت کا ابتدائی درجہ خد اکی راہ میں استقلال اور ثبات قدم ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص نہ مرا اﷲ کی راہ میں اور نہ تمنا کی مرگیا وہ نفاق کے شعبہ میں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کا مل مومن نہیں ہوتا جبتک اﷲ تعالیٰ کی راہ میں مرنا دنیا کی زندگی سے وہ مقدم نہ کرے۔ پھر یہ کیسا گراں مرحلہ ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے دنیا کی حیات کو عزیز سمجھا۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنے کے یہ معنے نہیں کہ انسان خواہ مخواہ لڑائیاں کرتا پھرے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ خد اتعالیٰ کے احکام اور اَوَامر کو اسکی رضا کو اپنی تمام خواہشوں اور آرزوؤں پر مقدم کرے اور پھر اپنے دل میں گور کرے کہ کیا وہ دنیا کی زندگی کو پسند کرتا ہے یا آخرت کو اور خدا کی راہ میں اگر اس پر مصائب اور شدائد بھی پڑیں تو وہ ایک لذت اور خوشی کے ساتھ انہیں برداشت کرے اور اگر جان بھی دینی پڑے تو تردد نہ ہو۔
اصل غرض مقام رضا کا حصول ہے
پس یہی وہ امر ہے جو میں اپنی جماعت میں پیدا کرنا ثاہتا ہوں کہ ان میں صحابہؓ کا نمونہ قائم ہو۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ جب کثرت سے ایسے خطوط آتے ہیں کہ جن مین دنای اور ا س کی خواہشوں کا زکر ہوتا ہے اور لکھا جاتا ہے کہ میرے لیے ھلاں امر کے واسطے دعا کرو۔ میری فلاں آرزو پوری ہو جائے۔ بہت ہی تھوڑے لوگ ہوتے ہیں جو محض خدا کی رضا ہی کو مقدم کرتے ہیں اور اسی کی ہی خوہاس اور آرزو کرتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ مکر سے لکھتے ہیں۔ یعنی پہلے تو ذکر کرتے ہیں کہ آپ دعا کریں کہ ہمارے دل میں زوق شوق عبادت کا پیدا ہو جاوے اور یہ ہو اور وہ ہو۔ پھر آخر میں اپنی دنیوی خواہشوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ میں ایسی بد بودار تحریروں کو شناخت کر لیتاہوں کہ ان کی اصل غرض کیا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور وہ نیات کو خوب دیکھتا ہے۔ اس طرح پر تو گویا خد اکو دھوکہ دینا ہے۔ اس طریق کو بالکل چھوڑ دیان چاہیے۔ تمہیں چاہیے کہ خالصۃً اﷲ کے لیے ہو جائو۔اگر تم اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی کو مقدم کرو گے تو یقیناً سمجھو دنیا میں بھی ذلیل اور خوار نہیں رہوگے۔اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے لیے غیرت ہوتی ہے وہ خود ان کا تکفل فرماتا ہے اور ہر قسم کی مشکلات سے انہیں نجات اور مخلصی عطا فرماتا ہے۔ میں یقیناً جانتا ہوں اور کہتاہوں کہ اگر تم میں وہ تخم بویا گیا جو صحابہؓ میں بویا گیا تھا تو اﷲ تعالیٰ ہر طرح اپنے فضل کرے گا۔ ایسے شخص پر کوئی شخص حملہ نہیں کر سکتا۔ اس امر کو خوب یاد رکھو۔ اگر خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا اور مضبوط تعلق ہو جاوے تو پھر کسی کی شمنی کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میرے نزدیک عیسیٰ یا موسیٰ کا دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ اصل غرض تو یہ ہے کہ میں مقام رضا حاصل کرنا چاہتا ہوں اور یہی سب کو کرنا چاہیے۔ یہ اس کا فضل اور محض فضل ہے کہ وہ اپنے انعامات سے حصہ دے اور اس کے حضور کوئی کمی اور اس کی ذات میں کوئی بخل نہیں۔ یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک جو شخص ایسا گمان کرتا ہے ۔وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اگر انبیاء و رسل کے انعامات کو حاصل نہیں کر سکت اتو پھر دنیا میں انکے آنے سے کیا فائدہ وار کای حاصل؟ خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے والوں اور راستبازوں کی ساری اُمیدوں کا خون ہو جاوے۔ اور وہ تو ویا زندہ ہی مر جاویں مگر نہیں ایسا نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہر شخص پر وہی انعام کر سکتا ہے جو اس نے اپنے برگزیدہ بندوں پر کیے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اس قسم کا دل اور اخلاص لے کر اس کے حضور آئو۔
مسیح کا نام دیئے جانے کی حکمت
میں نے از خود کوئی دعویٰ نہیںکیا۔ میں اپنی خلوت کو پسند کرتا تھ۔ مگر اﷲ تعالیٰ کے مصالح نے ایسا ہی چاہا اور اس نے خود مجھے باہر نکالا۔ چونکہ سنت اﷲ یہی ہے کہ جب کسی شخص کو اس کی مناسب عزت سے بڑھ کر عظمت دی جاتی ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ اس عظمت کا دشمن ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اسکی توحید کے خلاف ہے۔ اسی طرح پر حضرت عیسیٰ ؑ کے لیے وہ عظمت تجویز کر دی گئی تھی جس کے وہ مستحق نہ تھے۔ یہانتک کہ انہیں خد ابنا دیا گیا اور خانۂ خد اخالی ہو گیا۔ عیسائیوں سے پوچھ کر دیکھ لو۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ عیسیٰ مسیح ہی خود خدا ہے۔ اب جس انسان کو اس قدر عظمت دی گئی اور اسے خد ابنایا گیا۔ (نعوذ باﷲ) اور اس طرح پر خد اکا پہلو گم کر دیا گیا تو کیا خداتعالیٰ کی غیرت مخلوق کو اس انسان پرستی سے نجات دینے کے لیے جوش میں نہ آتی؟ پس اس تقاضا کے ماوفق اس نے مجھے مسیح کرکے بھیجا تا کہ دنیا پر ظاہر ہو جاوے کہ مسیح بجز ایک عاجز انسان کے اور کچھ نہ تھا۔ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس کفر کی اصلاح کرے اور اس کے لیے یہی راہ اختیا رکی کہ آنحضرت ﷺ کی اُمت کے ایک فرد کو اسی نام سے بھیج دیاتا ایک طرف آنحضرت ﷺ کی عظمت کا اظہار ہو اور دوسری طرف مسیح کی حقیقت معلوم ہو۔ یہ ایسی موٹیب ات ہے کہ معمولی عقل کا انسنا بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ دیکھو اگر ایک بڑے آدمی کو معمولی اردلی سے مشابہت دی جاوے تو وہ چڑتا ہے یا نہیں؟ پھر کیا خد اتعالیٰ میں اتنی بھی گیرت نہیں کہ ایک عاجز انسان کو اس کی اُلوہیت کے عرش پر بٹھایا جاوے اور مخلوق تباہ ہو اور وہ انسداد نہ کرے؟ خود اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسیح نے ہرگز ایسا دعویا نہیں کیا کہ میں خد اہوں۔اگر وہ ایسا دعویٰ کرے تو میں جہنم میں ڈال دوں۔ ایک مقما پر یہ بھی فرمایا ہے کہ مسیح سے اس کا جواب طلب ہوگ اکہ کیا تونے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو۔ تو حضرت مسیح اس مقام پر ا سے اپنی بریت ظاہر کریں گے اور آخر یہ کہیں گے۔
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (المائدہ : ۱۱۸)
یعنی جبتک میں ان میں زندہ رہا تھا۔ میں نے ہرگز نہیں کہا۔ ہاں جب تونے مجھے وفات دے دی تو پھر تو آپ ان کا نگران تھا۔ اس سے پہلے مادمت فیھم کا لفظ صاف طو رپر ظاہر کرتا ہے کہ جبتک حضرت مسیح زندہ رہے ان کی قوم میں یہ بگاڑ پیدا نہیں ہوا۔ ساری ضلالت بعد وفات ہوئی ہے۔ اگر حضرت مسیح ابھی تک زندہ ہیں تو پھریہ ماننا پڑے گا کہ عیسائی نہیں بگڑے بلکہ حق پر ہیں۔ پس غور کر کے بتائو اسلام کی حقانیت پر یہ کس قدر خطرناک حملہ ہوگا۔ کیونکہ جب ایک سچا مذہب موجود ہے اور اس میں کوئی خرابی ہی پیدا نہیں ہوئی تو پھر جو کچھ وہ کہتے ہیں مان لینا چاہیے۔ مگر نہیں خدا تعالیٰ کا کلام حق ہے کہ یہی سچ ہے کہ وہ مر گئے اور عیسئای مذہب بھی اُن کے ساتھ ہی مر گیا اور اس میں کوئی روح حق اور حقیقت کی نہین رہی۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں نہیں آئیں گے کیونکہ وہ عیسائیوں کے بگڑنے کا اقرار اپنی موت کے بعد کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے آنا تھا تو وہ جواب نہ دیتے ورنہ یہ جواب اﷲ تعالیا کے حضور جھوٹ سمجھا جاوے گا۔ اور رب العرش العظیم کے حضور حلف دروغی ہوگی کیونکہ اس صورت میں تو انہیں کہنا چاہیے تھا کہ میں گیا اور جا کر ان صلیبوں کو تورا اور ان میں پھر توحید قائم کی وغیرہ وغیرہ۔
غرض یہ میرا دعویٰ جو اﷲ تعالیٰ کے ایماء اور حکم صریح سے کیا گیا ہے۔ خد اتعالیا نے اپنے عظیم الشان مصالح اور حکمت سے ایسا ہی چاہا ہے تا کہ مسیح کی عظمت کو تورا جاوے اور ہمیشہ اﷲ تعالیٰ نے ایسا کیا ہے۔ یہودی خدا تعالیا کی برگزیدہ قوم کہلاتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے شریعت کی بے حرمتی کی اور وہ حد سے زیادہ بگڑ گئے تو اﷲ تعالیٰ کی غیرت نے نہ چاہا کہ اُن میں نبوت کا سلسلہ رہے اور نبوت کو خاندان بنو اسمٰعیل میں منتقل کر کے ختم کر دیا جیسا کہ خود حضرت عیسیٰ ؑ نے بھی باگ اولی تمثیل میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔یہودیوں کی اس شوخی اور گستاخی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر ذلت کی مار ماری گئی۔ اب وہ ہر سلطنت کے ماتحت ذلیل ہیں بلکہ بعض سلطنتوں سے کئی دفعہ نکالے گئے ہیں۔ اب جبکہ یہود پر ذلت پڑ چکی اور نبوت ان کے خاندان سے منتقل ہو چکی۔ تو کیا یہ انتقال نبوت تنزل کے طو رپرتھا اور ناقص تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر یہودی ناز کر سکتے ہیں اور وہ یہ پیش کر سکتے ہیں کہ ہم پر یہ فضل ہوا۔ اور وہ انعام ہوا۔
منجملہ اس کے ایک یہ بھی کہ توریت کی خدمت اور ا سکے استحکام کے لیے برابر خلفاء و رسل آتے رہے۔ لیکن قرآن سریف کو یہ مرتبہ حاصل نہ ہوا( نعوذ باﷲ من ذالک) سوچ کر بتائو۔ کہ کیا یہ اسلام کی بے عزتی اور نقص کی سلیل ہوگی یا اس کے لیے عطمت کا ذریعہ؟
مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے مخالفوں نے میری مخالفت میں یہاں تک غلو کیا ہے، کہ اسلام کی بھی سخت ہتک کر لینی انہوں نے گوارا کی اور آنحضرت ﷺکو جو خاتم الانبیاء اور تمام نبیوں سے اھضل اور اکمل تھے (ﷺ) معاذ اﷲ ناقص نبی ٹھہرایا۔ جب یہ تسلیم کر لیا اور اپنا عقیدہ بنالیا کہ اب کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکت اجو اﷲ تعالیٰ سے شرفِ مکالمہ پا سکے اور خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ پر تائیدی نشان ظاہر کر سکے تو تم خدو بتائو کہ اس عقیدہ سے اسلام کا کیا باقی رہتا ہے؟ اگر خد اتعالیٰ پہلے بولتا تھا مگر اب نہیں بولتا تو اس کا ثبوت کیا ہے کہ وہ پہلے بولتا تھا۔ اگر خدا تعالیٰ پہلے خارق عادت تصرفات دکھاتا تھا مگر اب نہیں دکھاتا تو اس کا کای ثبوت ہے؟ قصے کہانیاں کون قوم بیان نہیں کرتی۔ افسوس ان کی تعصب نے ایسا اندھا کر دیا ہے کہ کچھ بھی ان کو سمجھائی نہیں دیتا اور میری مخالفت میں یہ اسلام کو بھی ہاتھ سے دیتے ہیں۔
مسیح ناصری کے اس امت میں آنے کے عقیدہ کے نقصانات
غرض اگر یہودی ضربت الیھم الذلۃ کے مصداق ہو چکے ہیں اور نبوت اس خاندان سے منتقل ہو ثکی ہے تو پھر یہ نا ممکن ہے کہ مسیح دوبارہ اسی خاندان سے آوے۔ اگر یہ تسلیم کیا جاوے گا تو اس کا نتیجہ یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ادنیٰ نبی مانا جاوے اور اس امت کو بھی ادنیٰ اُمت؛ حالانکہ یہ قرآن شریف کے منشاء کے صریح خلاف ہے کیونکہ قرآن شریف نے تو صاف طور پر فرمایا
کنتم خیر امۃ اخرجت لناس (ال عمران : ۱۱۱)
پھر اس امت کو خری الامت کی بجائے شر الامت کہوگے؟ اور اس طرح پر آنحضرت ﷺ کی قوتِ قدسیہ پر حملہ ہوگا۔ مگر یقینا یہ سب جھوٹ ہے۔ آنحضرت ﷺ کی قوتِ قدسیہ اعلیٰ درجہ کی تھی اور ہے اس لیے کہ وہ اب تک اپنا اثر دکھا رہی ہے اور تیرہ سو سال گذرنے کے بعد مطہر اور مقدس وجود پیدا کرتی ہے۔
اسلام کی برکات اور تاثیرات اب بھی جاری ہیں
اﷲ تعالیٰ کا انتقالِ نبوت سے یہی منشاء تھا کہ وہ اپنا فضل و کام دکھانا چاہتا تھا جو اس نے آنحضرت ﷺ پر کای تھا۔ اسی کی طرف اشارہ ہے۔
اھدنا الصراط المستقیم (الفاتحہ : ۶)
میں۔ یعنی اے اﷲ ہم پر وہ انعام و اکرام کر جو پہلے نبیوں اور صدیقوں شہیدوں اور صالحین پر تونے کئے ہیں ہم پر بھی کر۔ اگر خدا تعالیٰ یہ انعام و اکرام کر ہی نہیں سکتا تھا اور ان کا دروازہ بند ہو چکا تھا تو پھر اس دعا کی تعلیم کی کیا ضرورت تھی؟ اسرائیلیوں پر تو یہ دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اگر یہاں بھی بند ہو گیا تو پھر کیا فائدہ ہوا؟اور کس بات میں بنی اسرائیل پر اس امت کو فخر ہوا؟ جو خود اندھا ہے وہ دوسرے اندھے پر کیا فحر کر سکتا ہے؟
اگر وحی، الہام، خوارق یہودیوں پر بند ہو چکے ہیں تو پھر یہ بتائو کہ یہ دروازہ کسی جگہ جا کر کھلا بھی یا نہیں؟ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ نہیں ہم پر بھی یہ دروازہ بند ہے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے۔ پانچ وقت
اھدنا الصراط المستقیم (الفاتحہ : ۶)
کی دعا کرتے ہیں اور ا س پر بھی کچھ نہیں ملتا۔ تعجب ! اﷲ تعالیا کا خدو ایسی تعلیم کرنا تو یہ معنے رکھتا ہے کہ میں تم پر انعام و اکرام کرنے کے لیے تیار ہوں جیسے کسی حاکم کے سامنے پانچ امیدوار ہوں اور وہ ان میں سے ایک کو کہے کہ تم یہاں حاضر رہو تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اس کو ضرور کام دیا جاوے گا۔ اسی طرح پر اﷲ تعالیٰ نے یہ دعا تعلیم کی اور پانچ وقت یہ پڑھی جاتی ہے مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ اس کا کچھ بھی اثر اور نتیجہ نہیں ہوتا۔ کیا یہ قرآن شریف کی ہتک اور اسلام کی ہتک نہیں؟ میرے اور اس کے درمیان یہی امر دراصل متنازع فیہ ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کے برکات اور تاثیرات جیسے پہلے تھیں ویسے ہی اب بھی ہیں۔ وہ خدا اپنے تصرفات اب بھی دکھاتا ہے اور کلام کرتا ہے۔ مگر یہ اس کے مقابلہ میں کہتے ہیں کہا ب یہ دروازہ بند ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ خاموش ہوگیا وہ کسی سے کلام نہیں کرتا۔ دعائوں میں تاثیر اور قبولیت نہیں۔ آنحضرت ﷺ کی پاک تاثیرات پیچھے رہ گئی ہیں اب نہیں۔ افسوس ان پر انہوں نے آنحضرت ﷺ اور قرآن شریف اور خدا تعالیٰ کی قدر نہیں کی۔
اسلام زندہ مذہب اور ہماری کتاب زندہ کتاب اور ہامرا خدا زندہ خد ااور ہمارا رسول زندہ رسول ۔ پھر اس کے برکات، انوار اور تاثیرات مردہ کیونکر ہو سکتی ہیں؟ نمیں اس مخالفت کی کچھ پروا نہیں کرسکتا۔ ان کی مخالفت کے خیال سے میں خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔
کیا اُمت میں وحی و الہام کا دروازہ بند ہے
لاہور میں عبد الحکیم نام ایک سخص سے میری گفتگو ہوئی۔ اس نے کاہ کہ الہام پہلی اُمتوں کا خاصہ تا۔ یہانتک کہ عورتوں کو وحی ہتی تھی مگر اس اُمت میں یہ دروازہ بند ہے کیسے شرم کی بات ہے۔ کیا یہ اُمت بنی اسرائیل کی عورتوں سے بھی گئی گذری ہو گئی اور خدا تعالیا نے اس کے لیے یہی ثاہا ہے کہ وہ خیر الامم کہلا کر بھی محروم رہے؟
اس عبد الحکیم نے تو یہانتک کہدیا تھا کہ حضرت عمر ؓ بھی محدث نہ تھے۔ وہ بیھ صرف ان کو ایک خوش کرنے کی بات تھی۔ محدث وہ بھی نہ تھے۔
مختصر یہ کہ اس قسم کی ہتک اسلام اور نبی کریم ﷺ کی یہ لوگ کرتے ہیں۔ پھر میں ان کی مخالفت کی کیا پروا کروں؟ یہ لوگ اسلام کے دوست نہیں۔ دشمن ہیں۔ اگر بقول ان کے سب بے نصیب ہیں تو پھر کیا فائدہ؟ ہزار اتباع کریں۔ معرفت نہ بڑھے گی تو کوئی احمق اور نادن ہی ہوگا جو اس پر بھی اتباع ضرورری سمجھے۔ حضرت عیسیٰ کا آنا نہ آنا تو امر ہی الگ ہے۔ اس سوال کو پیچھے چھوڑو ۔پہلے یہ تو فیصلہ کرو کہ کیا اس امت پر بھی وہ برکات اور فیوض ہوں گے یا نہیں؟ جب یہ فیصلہ ہولے تو پھر عیسیٰ کی آمد کا سوال جھٹ حل ہو سکتا ہے۔
یہ لوگ جن مہلکات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ بہت خطرناک مرض ہے اس سے بڑھ کر اور کیا مصیبت ہو گی کہ اس امت کی نسبت باوجود خیر الامم ہونے کے یہ یقین کر لیا گیا کہ وہ اﷲتعالیٰ کے خاص فضل شرفِ مکالمہ سے محروم ہے۔ اور خواہ ساری عمر کوئی مجاہدہ کرتا رہے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا (نعوذ باﷲ) جیسے کہدیا جاوے کہ خواہ ہزار ہاتھ تک کھودتے چلو مگر پانی نہیں ملے گا۔ اگر یہ سچ ہے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں تو مجاہدہ اور دعا کی کیا حاجت ہے؟ کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ جس کو ممکن الحصول سمجھتا ہے۔ اسے تلاش کرتا ہے اور اس کے لیے سعی کرتا ہے اور اگر اسے یہ خیال اور یقین نہ ہو تو وہ مجاہدہ اور سعی کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ جیسے ہمایا عنقا کی کوئی تلاش نہیں رتا۔ اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ یہ چیزیں ناممکن الحصول ہیں۔ پس اسی طرح جب یہ یقین کر لیا کہ اﷲ تعالیٰ سے ملکالمہ کا شرف ملنے کا ہی نہیں اور خوارق اب دیئے ہی نہیں جا سکتے۔ تو پھر مجاہدہ اور دعا جو اس کے لیے ضروری ہیں۔ محض بیکار ہوں گے اور اس کے لیے کوئی جرات نہ کرے گا اور اس اُمت کے لیے نعوذ باﷲ
من کان فی ھذہ اعمی فھوفی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل : ۷۳)
صادق آئے گا اور اس سے خاتمہ کا بھی پتہ لگ جائے گا کہ وہ کیسا ہوگا کیونکہ اس میں تو کوئی شک و شبہ ہی نہیں ہو سکتا کہ یہ جہنمی زندگی ہے۔ پھر آخرت میں بھی جہنم ہی ہوگا اور اسلام ایک جھوٹا مذہب ٹھہرے گا اور نعوذ باﷲ خدا تعالیٰ نے بھی اس امت کو دھوکا دیا کہ خیرالامت بنا کر پھر کچھ بھی اسے نہ دیا۔
اس قسم کا عقیدہ رکھنا ہی کچھ کم بدقسمتی اور اسلام کی ہتک نہ تھی کہ اس پر دوسری مصیبت یہ آئی کہ اس کے لیے وجوہات اور دلائل پیدا کرنے لگے؛ چنانچہ کہتے ہیں کہ یہ دروازہ مکالمات و مخاطبات کا اس وجہ سے بند ہو گیا کہ قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے
ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اﷲ وجاتم النبین (الاحزاب : ۴۱)
یعنی آنحضرت ﷺ چونکہ خاتم النبیین ہیں اس لیے آپؐ کے بعد یہ فیض اور فضل بند ہو گیا مگر ان کی عقل اور علم پر افسوس آتا ہے کہ یہ نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر ختم نبوت کے ساتھ ہی معرفت اور بصیرت کے دروازے بھی بند ہو گئے تو آنحضرت ﷺ (معاذاﷲ) خاتم النبیین تو کجا نبی بھی ثابت نہ ہوں گے۔ کیونکہ نبی کی آمد اور بعثت تو اس غرض کے لیے ہوتی ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ پر ایک یقین اوربصیرت پیدا ہو اور ایسا ایمان ہو جو لذیذ ہو۔ اﷲ تعالیٰ کے تصرفات اور اس کی قدرتوں اور صفات کی تجلی کو انسان مشاہدہ کرے اور اس کا ذریعہ بھی اس کے مکالمات و مخاطبات اور خوارق عادات ہیں۔ لیکن جب یہ دروازہ ہی بند ہو گیا تو پھر اس بعثت سے فائدہ کیا ہوا؟
میں بڑے افسوس سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کی ہرگز ہرگز قدر نہیں کی اور آپﷺ کی شانِ عالی کو بالکل نہیں سمجھا ورنہ اس قسم کے بیہودہ خیالات یہ نہ تراشتے اس آیت کے اگر یہ معنی جو یہ پیش کرتے ہیں تسلیم کر لیے جاویں تو پھر گویا آپ کو نعوذ باﷲ ابتر ماننا ہوگا۔ کیونکہ جسمانی اولاد کی نفی تو قرآن شریف کرتا ہے اور روحانی کی یہ نھی کرتے ہیں تو پھر باقی کیا رہا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ
اصل بات یہ ہے کہ اس آیت سے اﷲ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کا عظیم الشان کمال اور آپ کی قوتِ قدسیہ کا زبردست اثر بیان کرتا ہے کہ آپﷺ کی روحانی اولاد اور روحانی تاثیرات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ آئندہ اگر کوئی فیض اور برکت کسی کو مل سکتی ہے تو اسی وقت اور اسی حالت میں مل سکتی ہے جب وہ آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع میں کھویا جواے اور فنا فی الرسول کا درجہ حاصل کرلے۔ بدوں اسکے نہیں اور اگر اسکے سوا کوئی شخص ادعائے نبوت کرے تو وہ کذاب ہوگا۔اس لیے نبوت مستقلہ کا دروازہ بند ہو گیا اور کوئی ایسا نبی جو بجز آنحضرت ﷺکی اتباع اور ورزش شریعت اور فنافی الرسول ہونے کے مستقل نبی صاحب و شریعت نہیں ہو سکتا۔ ہاں فنا فی الرسول اور آپ کے امتی اور کامل متبعین کے لیے یہ دروازہ بند نہیں کیا گیا۔ اسی لیے براہین میں یہ الہام درج ہے۔
کل برکۃ من محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فتبارک من علم و تعلم
یعنی یہ مخاطبات اور مکالمات کا شرف جو مجھے دیا گیا ہے یہ محض آنحضرت ﷺ کی اتباع کے طفیل ہے اور اسی لیے یہ آپؐ ہی سے ظہور میں آرہے ہیں۔ جس قدر تاثیرات اور برکات دانوارہیں وہ آپؐ ہی کے ہیں۔
اب حضرت عیسیٰ کے لیے تم خود فتویٰ دو کہ اس کے متعلق تم کیا سمجھتے ہو اور یقین کرتے ہو۔ کیا یہ مانتے ہو کہ اس کو جو کچھ دیا جائے گا وہ آنحضرت ﷺ کا ایک اُمتی ہونے اور آپ کی کامل اتباع کی وجہ سے نصیب ہوگا یا پہلے سے انہیں دیا گیا ہے؟
یہ مانتے ہیں کہ وہ توریت اور حضرت موسیٰ ؑکا متبع تھا۔ پھر یہ تو توریت کا فخر ہوا نہ کہ قرآن مجید کا۔ پھر کیسی بیہودگی ہے کہ ایسا عقیدہ رکھا جاوے جو آنحضرت ﷺ اور قرآن مجید کی ہتک ِ شان کا موجب ہو۔ اس لیے یہ ضرور ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت سے ہو اور وہ آنحضرت ﷺ سے برکت اور تعلیم پائے اور آپؐ ہی کے فیض سے روشنی حاصل کرے۔
اُمتی کی حقیقت
میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے مخالف اس موقعہ پر چالاکی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آنیوالا عیسیٰ اُمتی ہوگا۔ یہ مصیبت انہیں بخاری اور مسلم سے آئی کیونکہ اس میں امامکم منکم اور امکم منکم لکھاہوا ہے۔اس لیے حضرت عیسیٰ کو اُمتی بناتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ اُمتی تو وہ ہوتا ہے جو آنحضرت ﷺ کی ہدایت کے بغیر گمراہ تھا جو رشد اور ہدایت اس نے پائی وہ آنحضرت ﷺ کی اتباع اور تعلیم سے پائی۔ مگرت یہ وہ تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت عیسیٰ ؑپہلے گمراہ تھے اور اب بھی گمراہ ہیں’ جس وقت آئیں گے اس وقت آپ کی ہدایت اور تعلیم پر عمل کرنے سے وہ درجہ اور عزت انہیں ملے گی۔ پھر امامکم منکم کا مفہوم اس صورت میں تو درست نہ ٹھہرا۔
افسوس کا مقام ہے کہ ان لوگوں نے قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات پرغور کرنا چھوڑ دیا ہے اور جو َحکم ہو کر آیا تھا اسکا انکار کر دیا ۔ پھر ان کو سمجھ آوے تو کیونکر۔
اما مکم منکم صاف طور پر یہی ظاہر کرتا تھا کہ آنے والا امام تم میں سے ہوگا مگر یہ اس پر راضی نہیں ہوتے۔ یہ اُمت کو شر الامم اور یہودی بنا کر تو خوش ہو جاتے ہیں لیکن مسیح اور امام کا آنا اس اُمت سے تسلیم نہیں کرتے۔اب یا تو حضرت مسیح کی نسبت یہ اقرار کریں کہ وہ گمراہ ہیں (معاذ اﷲ ) جیسا کہ عیسائیوں نے اقرار کر لیا کہ وہ ملعون ہیں (نعوذ باﷲ) عیسائیوں نے *** تو ان کو کہہ دیا مگر *** کے مفہوم سے بے خبر ہیں۔ اگر اس کو پہلے خبر ہوتی کہ *** کا یہ مفہوم ہے تو کبھی نہ کہتے۔ میں نے فتح مسیح کو لکھا کہ *** کا مفہوم تو یہ ہے کہ ملعون راندۂ درگاہ ہو اور خدا اس سے بیزار اور وہ خد اسے بیزار ہو اور شیطان سے جا ملے۔ اب بتائو کہ تم مسیح کے لیے یہ لفظ تجویز کرتے ہو؟ تو آخر وہ جواب نہ لکھ سکا۔ اور حقیقت میں اس کا جواب ہے ہی نہیں۔ انہوں نے غلطی سے *** کے مفہوم سے بے خبر رہ کر یہ لفظ ان کے لیے تراش لیا۔ اب جو خبر ہوئی تو فکر پڑی کہ کیا کیا جاوے۔؎ٰ
اسی طرح پر اگر یہ لوگ امتی کے مفہوم پر نظر ڈالیں اور غور کریں تو غلطی نہ کھائیں۔ کیونکہ اُمتی کے معنی یہی ہیں کہ وہ آنحضرت ﷺ کے فیضان و برکات سے مستفیض ہو۔ اور ترقی کرے۔لیکن جس کے لیے یہ کہتے ہیں وہ تو پہلے ہی پیغمبر ہے۔ اس کو کونسا موقعہ ملا کہ آنحضرت ﷺ سے استفاضہ کرے۔
مسیح موعود کی نبوت
پھر نبی کے لفظ پر بھی بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعویٰ نبوت ہے۔ میں کہتا ہوں یہ تو نری لفظی نزاع ہے نبی تو خبر دینے والے کو کہتے ہیں اب جس شخص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے مخاطبات اور مکالمات ہوتے ہیں۔ اس کا کیا نام رکھا جاوے گا۔ اوریہ نبوت تو آنحضرت ﷺ کے ہی طفیل اور اتباع کا نتیجہ ہے۔ میں اس کو کفر اور *** سمجھتا ہوں۔ اگر کوئی سخص یہ کہے کہ اب آنحضرت ﷺ سے استفاضہ کئے بغیر کوئی شخص نبوت کے چشمہ سے حصہ لیتا ہے اور مستقل نبوت کا مدعی ہے۔ یہ نرے دھوکے ہیں جو ان لوگوں کو لگے ہوئے ہیں اور بعض باوجود یکہ اس امر کو بخوبی سمجھتے ہیںلیکن جہلاء اور عوام کو بھڑکانے کے لیے ایسی باتیں کرتے ہیں تاکہ وہ میری کتابوں سے بیزار ہو جائیں اور انہیں پڑھ کر فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔
مسیح علیہ السلام کے لیے تجویز کردہ خصوصیات
کاش یہ لوگ سمجھتے کہ انہوں نے حضرت مسیح کے لیے جو خصوصیتیں تجویز کی ہیں ان کا نتیجہ کیا ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ مس شیطان سے وہی پاک ہے اور روح القدس کے سایہ سے پیدا ہوا ہے۔ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر وہی گئے ہیں اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں۔ پھر وہی آسمان سے اُترے گا ارو قیامت کے قریب آخری قاضی وہی ہوں گے اور پھر یہ بھی خصوصیت کہ دوہزار برس ہونے کو آئے وہ اب تک آسمان پر ہیں اور کھانے پینے اور دیگر حوائج انسانی کے محتاج نہیں۔ آنحضرتﷺ تو بھوک سے پتھر پیٹ پر باندھ لیتے مگر ان کو اس کی بھی ضرورت نہیں۔ کوئی اثر زمانہ کا اس پر نہیں ہوا۔ آنحضرت ﷺ پر بیماری کا اثر ہو مسیح پر بالکل نہیں۔ آنحضرت ﷺ پر شیب اور پیرانہ سالی کے آثار ظاہر ہوں مگر مسیح ان سے بھی محفوظ۔ اب سوچو اور بتائو کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ یقینا یہی نتیجہ ہوگا کہ انہیں ساری دنای سے اگر اور نرالا مانا جاوے یا دوسرے الفاظ میں ان کو خد اہی کہا جاوے اس لیے کہ ایسی خصوصیتیں یقینا انہیں خدا بناتی ہیں اور عیسائی اس کو پیش کرتے ہیں۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے انوار و برکات جاری ہیں
گرض اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دے کر اُن کے الزاموں سے اُن کو بَری کیا تھا تا کہ اُن کو زک دے اور پھر اس سلسلہ محمدیہ کو قائم کر کے بتا دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا فضل جس طرف وہ چاہتا ہے آتا ہے خوہ اسرائیلیوں میں ہو خواہ اسماعیلیوں میں۔اب تو یہودییوں کے ہاتھ میں نرا حسد۔اور آنحضرت ﷺ کا وجود عدم وجود معاذ اﷲ برابر ہو جائے گا۔ کیونکہ آپﷺ کے کمالات فیوض اور برکات کا سلسلہ بجائے آگے چلنے کے انہیں پر ختم ہو گیا۔
مجھے سخت تعجب آتا ہے کہ یہ لوگ میری مخالفت میں کچھ ایسے اندھے ہو رہے ہیں کہ وہ اس کے انجام اور نتائج سے بالکل بے خبر اور بے پروا ہو رہے ہی۔ کیا یہ سث نہیں ہے کہ اگر آپ کا سلسلہ آپ سے ہی شروع ہو کر آپ ہی پر ختم ہو گیا تو آپ ابتر ٹھہریں گے (معاذ اﷲ)حالانکہ اﷲ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔
ان شا نئک ھو الابتر (الکوثر : ۴)
یعنی تجھے تو ہم نے کثرت یک ساتھ روحانی اولاد عطا کی ہے جو تجھے بے اولاد کہتا ہے وہی ابتر ہے۔ آنحضرت ﷺ کا جسمانی فرزند تو کوئی تھا نہیں’ اگر روحانی طور پر بھی آپ کی اولاد کوئی نہیں تو ایسا سخص خود بتائو کیا کہلاوے گا؟ میں تو اس کو سب سے بڑھ کے بے ایمانی اور کفر سمجھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی نسبت اس قسم کا خیال بھی کیا جاوے۔
انا اعطینک الکوثر (الکوثر : ۲)
کسی دوسرے نبی کو نہیں کہا گیا۔ یہ تو آنحضرت ﷺ ہی کا خاصہ ہے۔ آپؐ کو اس قدر روحانی اولاد عطا کی گئی جس کا شمار بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ قیامت تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ روحانی اولاد ہی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ زندہ نبی ہین کیونکہ آپؐ کے انوار و برکات کا سلسلہ برابر جاری ہے اور جیسے اولاد میں والدین کے نقوش ہوتے ہیں اسی طرح روحانی اولاد میں آنحضرت ﷺ کے کمالات اور فیوض کے آثار اور نشانات موجود ہیں۔ الولد سر لابیہ۔
اُمت محمدیہ کا شرف
صوفیوں نے اس حدیث علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل کو صحیح مانا ہے اور فی الحقیقت یہ صحیح ہے اور یہودیوں پر اسی سے مار پڑتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس امت کو ایسا شرف عطا فرمایا کہ علماء امت کو انبیاء بنی اسرائیل کی مثل ٹھہرایا۔ علماء کے لفط سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ عالم وہ ہوتا ہے جو اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔
انما یخشی اﷲ من عبادہ العلمو ا (فاطر : ۲۹)
یعنی بیشک جو لوگ اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اس کے بندوں میں سے وہی عالم ہیں۔ ان میں عب ودیت تامہ اور خشیت اﷲ اس حدتک پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود اﷲ تعالیٰ سے ایک علم اور معرفت سیکھتے ہیں اور اسی سے فیض پاتے ہیں اور یہ مقام اور درجہ آنحضرتﷺ کی کامل اتباع اور آپ سے پوری محبت سے ملتا ہے یہانتک کہ انسان بالکل آپؐ کے رنگ میں رنگین ہو جاوے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ان کنتن تحبون اﷲ فتبعونی یحببکم اﷲ ویغفر لکم ذنو بکم (ال عمران : ۳۲)
یعنی اگر تم اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اس اتباع کا نتیجہ یہ ہوگاکہ اﷲ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ پس اب اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ جبتک انسان کامل متبع آنحضرت ﷺ کا نہیں ہوتا وہ اﷲ تعالیٰ سے فیوض و برکات پا نہیں سکتا اور معرفت اور بصیرت جو اس کی گناہ آلود زندگی اور نفسانی جذبات کی آگ کو ٹھنڈا کر دے عطا نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ ہیں علما ء امتی کے مفہوم کے اندر داخل ہیں۔
غرض ایک طرف تو آنحضرت ﷺ کو یہ فرمایا کہ انا اعطینک الکوثر اور دوسری طرف اس امت کو
کنتم خیر اُمۃ (ال عمران : ۱۱۱)
کہا تا کہ یہودیوں پر زد ہو۔ مگر میرے مخالف عجیب بات کہتے ہیں کہ یہ اُمت باوجود خیر الامت ہونے کے پھر شر الامت ہے۔ بنی اسرائیل میں تو عورتوں تک کو شرفِ مکالمہ الٰہیہ دیا گیا۔ مگر اس اُمت کے مرد بھی خواہ کیسے ہی متقی ہوں اور خد اتعالیٰ کی رضا جوئی میں مریں اور مجاہدہ کریں مگر ان کو حصہ نہیں دیا جائے گا اور یہی جواب ان کے لیے خدا کی طرف سے ہے کہ بس تمہارے لیے مہر لگ چکی۔ اس سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے حضور گستاخی اور اس پر سُو ء ظن اور آنحضرت ﷺ کی توہین اور اسلام کی ہتک کیا ہوگی۔ دوسری قوموں کو ملزم کرنے کے لیے یہی توزبردست اور بے مثل اَوزار ہمارے ہاتھ میں ہے اور اسی کو تم ہاتھ سے دیتے ہو۔
سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدیہ میں مشابہت
پھر ایک اور بات قابل غور ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے د و سلسلے قائم کئے تھے۔ پہلا سلسلہ سلسلہ موسوی تھا۔ دوسرا سلسلہ آنحضرت ﷺ کا سلسلہ یعنی محمدی سلسلہ۔ اور اس دوسرے سلسلہ کو مثیل ٹھہرایا۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کو بھی مثیلِ موسیٰ کہا گیاتھا۔ توریت کی کتاب استثناء میں یہی لکھا تا کہ تیرے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی اُٹھائو نگا اور قرآن شریف میں یہ فرمایا۔
انا ارسلنا لیکم رسولا شادا علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا (المزمل : ۱۶)
یعنی بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا جو تم پر شاہد ہے۔ اسی طرح یہ رسول بھیجا گیا ہے جس طرح فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا گیا تھا (یعنی موسیٰ کی طرح) اب غور کرو کہ اس میں کما کا لفظ صاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اس سلسلہ میں بھی کمالات و برکات کمی نہ ہوگی۔
پھر سورہ نور میں آیت استخلاف میں بھی یہی کما کا لفط آیا۔
وعد اﷲ الذین امنو امنکم وعملو االصالحات لیستخلفنھم ھی الارض کما استخلف الذین من قبلھم (النور : ۵۶)
اسی اُمت کے اب مومنین اور اعمال صالحہ بجالانے والوں سے خلافت کا وعدہ کیا گیا اسی طرح پر جس طرح بنی اسرائیل میں خلفاء کئے گئے تھے۔ یہاں بھی وہی کما کا لفظ موجود ہے۔ ایک طرف تو اس سلسلہ کو سلسلہ موسویہ کا مثیل ٹھہرایا۔ دوسری جگہ سلسلہ موسوی کی طرح خلفاء بنانے کا وعدہ کیا۔پھر کیا دونوں سلسلوں کا طبعی توافق ظاہر نہیں کرتا کہ اس اُمت میں خلفاء اسی رنگ کے قائم ہوں؟ ضرور کرتا ہے۔
بعض نادان اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا نام تو مثیل موسیٰ رکھا ہے۔ مگر آخر میں آنے والے خلیفہ کا نام عیسیٰ رکھا ہے مثیلِ عیسیٰ نہیں رکھا اس لیے وہ آپ ہی آجائے گا۔
اس قسم کے اعتراض بظاہر دھوکا دہ ہیں اور ممکن ہے کہ وہ آدمی جو اصل حالات سے واقف نہیں۔ اس کو سنکر گھبرا جاوے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا نام تو مثیل موسیٰ ہی ہونا چاہیے تھا۔اس لیے کہ توریت کی کتاب استثناء میں مثیل موسیٰ ہی کہا گیا تھا۔ پس اگر آپ موسیا ہونے کا دعوی کرتے تو کتاب والے کہتے کہ ہمیں تو مثیل موسیٰ کا وعدہ دیا گیا ہے نہ کہ موسیٰ کا۔اس لیے ان کو توجہ دلانے کے واسطے وہی لفظ رکھا جو وہاں موجود تھا مگر یہاں اس کے خلاھ بات تھی۔ پہلی کتابوں سے اور انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ آئے گا۔ مگر جب یہ ثابت ہو چکا کہ وہ وفات پا چکے ہیں اور آچکے ہیں تو کوئی خیال بھی نہیں کرے گا کہ وہ زندہ ہو کر آجائیں گے۔
عیسیٰ علیہ السلام کی وفات
رہا وفات کا مسئلہ۔ وہ ایسا صاف ہے کہ اس پر زیادہ کہنے کی حاجت ہی نہیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنے قوم سے
یا عیسیٰ انی متوفیک (ال عمران : ۵۶)
اور حضرت مسیح نے اپنے اقرار سے
فلما تو فیتنی (المائدۃ : ۱۱۸)
اور آنحضرت ﷺ نے اپنی رؤیت سے جبکہ معراج کی رات حضرت عیسیٰ کو حضرت یحییٰ ؑکے ساتھ اکٹھا دیکھا۔ ثابت کر دیا ہے کہ وہ وفات پا چکے ہیں ؛ ورنہ اگر وہ زندہ ہیں تو مردہ کے پاس رہنے کا کیا تعلق؟ اور اسکے علاوہ صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر پہلا اجماع یہی کیا کہ مسیح فوت ہو گیا۔ جیس اکہ بار ہا میں نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے آپ کی وفات پر تلوار نکال لی اور کہا اگر کوئی آپؐ کو مردہ کہے گا تو اس کا سر اُڑادوں گا۔ اس پر حضرت ابو بکر ؓ نے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا۔
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (ال عمران : ۱۴۵)
یعنی آنحضرت ﷺ بھی ایک رسول ہیں اور آپﷺ سے پیشتر سب رسول وفات پا چکے ہیں۔ اب بتائو ۔ اس میں مسیح یا کسی اور کی کیا خصوصیت ہے؟ کیا حضرت ابو بکرؓ نے کسی کو بہار رکھ لیا تھا اور صحابہٰ کب گوارا کر سکتے تھے کہ وہ کسی اور کو تو زندہ تسلیم کریں اور آنحضرت ﷺ کے لیے یہ تجویز کریں کہ آپؐ نے وفات پائی ہے۔
غرض صحابہؓ کا اجماع بھی موت پر مہر کرتا ہے اور پھر عقل سلیم تو دور سے اس کو دھکے دیتی ہے۔ عام طور پر ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اگر عقل کے سامنے یہ پیش کریں کہ کانوں سے دیکھتے ہیں تو وہ کب اس کو مان لے گی۔ اسی طرح جب آدم سے لے کر ابتک آسمان پر زندہ اسی جسم کے ساتھ جانے کی کوئی نظیر نہیں ملتی تو ہم کیونکر مان لیں کہ مسیح زندہ اور اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلا گیا۔ نظیر اگر کوئی ملتی ہے تو وہ ایلیاء کی آمد کی نظیر ہے جس کا وعدہ ملاکی نبی کی کتاب میں کیا گیا تھا اور اس کے آنے کا فیصلہ خود حضرت مسیح نے کیا کہ آنیوالا ایلیاء یہی یوحنا ہے۔ چاہو تو قبول کرو۔ اب اس نطیر سے معلوم ہوت اہے کہ دوبارہ آمد کے یہی معنے ہوتے ہیں اور ایسے الفاظ بطور استعارہ کے استعمال کیے جاتے ہیں۔اس کے بعد بھی اگر فیصلہ موت میں شک ہو تو پہلے ان دلائل کو توڑو اور پھر آنے والے کا جو فیصلہ حضرت عیسیٰ کی اپنی عدالت سے ہوا۔ اس کے خلاف کوئی فیصلہ پیش کرو۔ انہوں نے تو ثابت کیا کہ آنیوالا بروزی رنگ میں آیا کرتا ہے۔ تم کہتے ہو کہ وہ حقیقی مردے زندہ کر دیا کرتے تھے۔ پس اگر یہ سچ ہے تو کیوںانہوں نے ایلیاء کو زندہ نہ کر لیا تا کہ ان کی نبوت مشتبہ نہ ہوتی اور یہودیوں کی قوم تباہ نہ ہوتی۔ انہوں نے ملاکی نبی کی پیشگوئی ہی کا تو سوال کیا تھا۔ ان کی راہ میں روک اور پتھر وہی امر ہوا نہ کوئی اور۔ اس تاویل پر جوحضرت مسیح نے کی تھی وہ راضی نہ ہوئے اور انکار کر کے *** ٹھہرے۔
بعض اوقات جب اس دلیل کا نقص ہمارے مخالف نہیں کر سکتے تو پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ کتابیں محرف مبدل ہیں’۔ میں کہتا ہوں کہ محّرف و مبدّل ہی سہی، لیکن تواتر قومی کو کیا کرو گے؟ یہودی اب تک موجود ہیں۔ ان سے پوچھ لو کہ کیا وہ اس امر کے منتطر نہیں ہیں کہ مسیح سے پہلے ایلیاء ضرور آئے گ اور عیسائی بھی اس کے قائل۔اگر وہ قائل نہ ہوتے تو ایلیاء کا بروز یوحنا کو کیوں تسلیم کرتے۔
پس یہودی اور عیسائی باوجود یکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ مگر اس امر پر بالکل متفق ہیں۔ ایسی صورت میں یہ امر بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ یہ امور ہمارے زبردست مؤیّد ہین جیسے یحییٰ کا نام الیاس رکھا۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے میرا نام عیسیٰ رکھا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ اس نام میں حکمت کیا ہوئی؟اس کے جواب میں یاد رہے کہ یہود اسی شرارت کی وجہ سے منحرف ہوئے تھے کہ الیاس نہیں آیا؛ چنانچہ ایک فاضل یہودی کی کتاب میرے پاس موجود ہے اس نے اس امر پر بڑا زور دیا ہے بلکہ یہانتک لکھا ہے کہ اگر قیامت کو ہم سے سوال ہوگ اتو ہم ملاکی نبی کا صحیفہ پیش کریں گے کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ مثیل آئے گا؟
پس یہودیوں کے *** اور منحرف ہونے کے لیے یہ ابتلا انہیں آگیا۔اس امت کے لیے سلسلہ موسوی کی مماثلت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ایک مسیح آئے اور علاوہ بریں چونکہ اس اُمت کے لیے یہ کہا گیا تھا کہ آخر ی زمانہ میں وہ یہود کے ہمرنگ ہو جائے گی؛ چنانچہ بالاتفاق
غیر المغضوب علیہم (الفاتحہ : ۷)
میں مغضوب سے مراد یہودلی گئی ہے۔ پھریہ یہودی تو اسی وقت ہوتے جب ان کے سامنے بھی ایک عیسیٰ پیش ہوتا اور اسی طرح پر یہ بھی انکار کر دیتے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آنے والا عیسیٰ آگیا اور انہوں نے انکار کر دیا۔ اس میں میرا کیا قصور ہے۔یہ تو زیادہ ملزم ہیں۔ ا س لیے کہ ان کے سامنے ایلیاء والی نظیر موجود تھے۔مگر افسوس یہ ہے کہ انہوں نے غور ہی نہیں کیا اور نہیں کرتے۔اﷲ تعالیٰ ان پر رحم کرے؎ٰ۔آمین۔
۲۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
فرمایا:
انکسار اور فروتنی ماموروں کا خاصہ ہے
اﷲ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے۔ وہ ہر طرح انسان کی پرورش فرماتا اور اس پر رحم کرتا ہے اور اسی رحم کی وجہ سے وہ اپنے ماموروں اور مرسلوں کو بھیجتا ہے تا وہ اہلِ دنیا کو گناہ آلود زندگی سے نجات دیں۔ مگر تکبر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہو جاوے اس کے لیے روحانی موت ہے۔ میں یقینا جانتا ہوں کہیہ بیماری قتل سے بھی برھ کر ہے۔ متکبر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ تکبر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لیے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خد اتعالیٰ کے مامورون کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں (اللہم صل علے محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم)۔
یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گردوپیش حاضر رہتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہوتو ان سے معلوم ہو سکتا ہے۔ بعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمتگار سے ذرا کوئی کام بگرا۔ مثلاً چائے میں نقص ہوا تو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کر دیا اور ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہو گیا۔ بس بیچارے خدمت گاروں پر آفت آئی۔
دوسرے غرباء کے ساتھ معاملہ تب پڑتا ہے کہ وہ فاقہ مست ہوتے ہیں اور خشک روٹی پر گذارہ کر لیتے ہیں مگر یہ باوجود علم ہونے کے بھی پروا نہیں کرتے۔ وہ ان کو امتحان میں ڈالتے ہیں جب بصورت سائل آتے ہیں۔ خدا تعالیٰ تو ذرہ ذرہ کا خالق ہے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ گریبوں کے ساتھ ہی معاملہ کر کے سمجھا جاتا ہے کہ کس قدر ناخدا ترسی یا خد اترسی سے حصہ لیتا ہے یا لے گا۔
نوع انسان پر شفقت کرنا عبادت ہے
ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں اﷲ تعالیٰ بعض بندوں سے فرمائے گا کہ تم بڑے برگزیدہ ہو اور میں تم سے بہت خوش ہوں کیونکہ مین بہت بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں ننگا تھا تم نے کپڑا دیا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں بیمار تھا تم نے میری عیدات کی۔ وہ کہیں گے کہ یا ﷲ تُو تو ان باتوں سے پاک ہے تو کب ایسا تھا جو ہم نے تیرے ساتھ ایساکیا؟ تب وہ فرمائے گا کہ میرے فلاں فلاں بندے ایسے تھے تم نے ان کی خبر گیری کی وہ ایسا معاملہ تھا کہ گویا تم نے میرے ساتھ ہی کای۔ پھر ایک وار گروہ پیش ہوگا۔ اُن سے کہے گا کہ تم نے میرے ساتھ بُرا معاملہ کیا۔ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ دیا۔ پیاسا تھا پانی نہ دیا، ننگا تھا کپڑا نہ دیا۔ میں بیمار تھا میری عیادت نہ کی۔ تب وہ کہیںگے کہ یا اﷲ تعالیٰ تُو تو ایسی باتوں سے پاک ہے۔ تو کب ایسا تھا جو ہم نے تیرے ساتھ ایسا کیا۔ اس پر فرمائے گا کہ میرا فلاں فلاں بندہ اس حالت میں تھا اور تم نے ان کے ساتھ کوئی ہمدردی اور سلوک نہ کیا وہ گویا میرے ہی ساتھ کرنا تھا۔
غرض نوعِ انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔ مگر میں دیکھت اہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ٹھٹھے کیے جاتے ہیں۔ ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بری بات ہے۔ جو لوگ غرباء کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں۔اﷲ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گذاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں۔ اور اس خدا داد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں۔
بہت سی سعدتیں غرباء کے ہاتھ میں ہیں
خوب یاد رکھو کہ امیری کیا ہے؟ امیری ایک زہر کھانا ہے۔ اس کے اثر سے وہی بچ سکتا ہے جو شفقت علیٰ خلق اﷲ کے تریاق کو استعمال کرے اور تکبر نہ کرے لیکن اگر وہ اس کی شیخی اور گھمنڈ میں آتا ہے تو نتیجہ ہلاکت ہے۔ ایک پیاسا ہو اور ساتھ کنواں بھی ہو لیکن کمزور ہو اور غریب ہو اور پاس ایک متموّل انسان ہو تو وہ محض اس خیال سے کہ اس کو پانی پلانے سے میری عزت جاتی رہے گی اس نیکی سے محروم رہ جائے گا۔ اس نخوت کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ نیکی سے محروم رہا اور خد اتعالیٰ کے غضب کے نیچے آیا۔ پھر اس سے کیا فائدہ پہنچا۔ یہ زہر ہوا یا کیا؟وہ نادان ہے سمجھتا نہیں کہا س نے زہر کھائی ہے۔ لیکن تھوڑے دنوں کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ اس نے اپنا اثر کر لیا یہاور وہ ہلاک کر دے گی۔
یہ بالکل سچی بات ہے کہ بہت سی سعادت غرباء کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے انہیں امیروں کی امیری اور تمول پر رشک نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ انہیں وہ دولت ملی ہے جو ان کے پاس نہیں۔ ایک غریب آدمی بے جا ظلم ۔تکبر۔ خود پسندی۔ دوسروں کو ایذا پہنچانے اتلاف حقوق وغیرہ بہت سی برائیوں سے مفت میں بچ جائے گا۔ کیونکہ وہ جھوٹی شیخی اور خود پسندی جو ان باتوں پر اسے مجبور کرتی ہے اس میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی مامور اور مرسل آتا ہے تو سب سے پہلے اس کی جماعت میں غرباء داخل ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ان میں تکبر نہیں ہوتا۔ دولت مندوں کو یہی خیال اور فکر رہتاہے کہ اگر ہم اس کے خدام ہو گئے تو لوگ کہیں گے کہ اتنا بڑا آدمی ہو کر فلاں شخص کا مرید ہوگیا ہے اور اگر ہو بھی جاوے تب بھی وہ بہت سی سعدتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ الاماشاء اﷲ۔ کیونکہ غریب تو اپنے مرشد اور آقا کی کسی خدمت سے عار نہیں کرے گا مگر یہ عار کرے گا۔ ہاں اگر خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے اور دولت مند آدمی اپنے مال و ولت پر ناز نہ کرے اور ا سکو بند گانِ خدا کی خدمت میں صرف کرنے اور ان کی ہمدردی میں لگانے کے لیے موقع پائے اور اپنا فرض سمجھے تو پھر وہ ایک خیرِ کثیر کا وارث ہے۔
دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو
اصل بات یہ ہے کہ سب سے مشکل اور نازک مرحلہ حقوق العباد ہی کا ہے کیونکہ ہر وقت اس کا معاملہ پڑتا ہے اور ہر آن یہ ابتلاء سامنے رہتا ہے۔ پس اس مرحلہ پر بہت ہی ہوشیاری سے قدم اٹھانا چاہیے۔ میر اتو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ جہانتک ہو سکے اس کی تخریب اور بربادی کے لیے سعی کی جاوے۔ پھر وہ اس فکر میں پڑ کر جائز اور ناجائز امور کی بھی پروا نہیں کرتے۔ اس کو بدنام کرنے کے واسطے جھوٹی تہمت اس پر لگاتے ،افترا کرتے اور اس کی غیبت کرتے اور دوسروں کو اس کے خلاف اکساتے ہیں۔ اب بتائو کہ معمولی دشمنی سے کس قدر برائیوں اور بدیوں کا وارث بنا اور پھر یہ بدیاں جب اپنے بچے دیں گی تو کہاں تک نوبت پہنچے گی۔
میں سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینہ توزی کی عادت کو بالکل ترک کردو۔ اگر خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور تم خد اتعالیا کے ہو جائو۔ تو وہ دسمنوں کو بھی تمہارے خادموں میں داخل کر سکتا ہے، لیکن اگر تم خدا ہی سے قطع تعلق کیے بیٹھے ہو اور اس کے ساتھ ہی کوئی رستہ دوستی کا باقی نہیں۔ اس کی خلاف مرضی تمہارا چال چلن ہے۔ پھر خدا سے بڑھ کر تمہارا دشمن کون ہوگا؟ مخلوق کی دشمنی سے انسان بچ سکتا ہے لیکن جب خد ادشمن ہو تو پھر اگر ساری مخلوق دوست ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔اس لیے تمہارا طریق انبیاء علیہم السلام کا سا طریق ہو۔ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ ذاتی اعداء کوئی نہ ہوں۔
خوب یاد رکھو کہ انسان کو شرف اور سعادت تب ملتی ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی کا شمن نہ ہو۔ہاں اﷲ اور اس کے رسول کی عزت کے لیے الگ امر ہے یعنی جو شخص خدا اور اس کے رسول کی عزت نہیں کرتا بلکہ ان کا دشمن ہے اسے تم اپنا دشمن سمجھو۔ اس دشمنی سمجھنے کے یہ معنے نہین ہیں کہ تم اس پر افتراء کرو اور بلاوجہ اس کو دکھ دینے کے منصوبے کرو۔نہیں۔ بلکہ اس سے الگ ہو جائو اورخدا تعالیٰ کے سپرد کرو۔ممکن ہو تو اس کی اصلاح کے لیے دعا کرو۔ اپنی طرف سے کوئی نئی بھاجی اس کے ساتھ شروع نہ کرو۔
یہ امور ہیں جو تزکیہ نفس سے متعلق ہیں۔ کہتے ہین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا کے لیے لڑتے تھے۔ آخر حضرت علیؓ نے اس کو اپنے نیچے گرالیا اور اس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے۔ اُس نے جھٹ حضرت علیؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ آپ ھوراً اس کی چھاتی پر سے اُتر آئے اور اسے ثھور دیا۔ اس لیے کہ اب تک تو میں محض خدا تعالیٰ کے لیے تیرے ساتھ لڑتا تھا لیکن اب جبکہ تونے میرے منہ پر تھوک دیا ہے۔ تو میرے اپنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہو جاتا ہے۔ پس میں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لیے تمہیں قتل کروں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا۔ ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔ اگر نفسانی لالچ اور اغراض کے لیے کسی کو دکھ دیتے اور عداوت کے سلسلوں کو وسیع کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی کیا بات ہوگی۔
ہم سے دو شغل نہیں ہو سکتے
ایک شخص نے یاک جائداد کے متعلق جو فرخت ہونے والی ہیکہا کہ آپ اس کو خرید لیں۔ ایسا نہ ہو کہ فلاں سکھ یا کوئی اور خرید لے۔ فرمایا:
ہمیں ان باتوں سے کیا غرض ۔ہم جائدادیں اور زمینیں خرید نے کے واسطے نہیں آئے۔ہم کو کیا سکھ خرید لے یا کوئی اور خرید لے۔ ہمیشہ اس شعر کو یاد رکھا جاوے ؎
خواجہ دربند نڈش ایوان است
خانہ از پائے بست ویران است
ہم سے دو شغل نہیں ہو سکتے۔ یہی خدمت جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کی ہے۔ پورے طور پر ادا ہو جائے تو کافی ہے اس کے سوا ہمیں اور کسی کام کے لیے نہ فرصت ہے نہ ضرورت۔
ایک شخص نے کہا کہ تجارت کے متعلق خواہ نخوہ سود دینا پڑتا ہے۔ فرمایا:
ہم جائز نہیں رکھتے۔ مومن ایسی مشکلات میں پرتا ہی نہیں۔ اﷲ تعالیا خود اس کا تکفل کرتا ہے۔ عزرات سے شریعت باطل ہو جاتی ہے۔ کون امر ہے جس کے لیی کوئی عذر آدمی نہیں تراش سکتا۔ خدا تعالیا سے ڈرنا چاہیے۔
دقائق کی رعایت ضروری ہے
کسی نے پوچھا کہ بعض آدمی غلہ کی تجارت کرتے ہیں اور خرید کر اُسے رکھ چھوڑتے ہیں جب مہنگا ہو جاوے تو اسے بیچتے ہیں۔ کیا ایسی تجارت جائز ہے؟
فرمایا:
اس کو مکروہ سمجھا گیا ہے۔ میں اس کو پسند نہیں کرتا۔ میرے نزدیک شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے ایک آن کی بنیتی بھی جائز نہیں اور یہ ایک قسم کی بد نیتی ہے ہماری غرض یہ ہے کہ بد نیتی دور ہو۔
امام۱ اعظم رحمۃاﷲ علیہ کی بابت لکھ اہے کہ آپ ایک مرتبہ بہت ہی تھوڑی سی نجاست جوان کے کپڑے پر تھی دھورہے تھے۔کسی نے کہا کہ آپ نے اس قدر کے لیے توفتویٰ نہیں دیا۔ اس پر آپ نے کیا لطیھ جواب دیا کہ آن فتویٰ است وایں تقویٰ۔پس انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہیے۔ سلامتی اسی میں ہے کہ اگر چھوٹی چھوتی باتوں کی پروانہ کرے تو پھر ایک دن وہی ثھوتی چھوتی باتیں کبائر کا مرتکب بنادیں گی ارو طبیعت میں کسل اور لاپروائی پیدا ہو کر ہلاک ہو جائے گا۔ تم اپنے زیرِ نظر تقویا کے اعلیا مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لیے دقائق تقویٰ کی رعایت ضروری ہے۔
اسی طرح کہتے ہیں۔ ذوالنون مصریؒ سے کسی نے پوچھا کہ چالیس مہر کی کیا زکوٰۃ دینی چاہیے۔ ذولنون نے کہا کہ چالیس مہر کی زکوٰۃ چالیس مہر۔ سائل اس جواب پر حیران ہوا۔ اور پوچھا کہ یہ کیوں؟ اس پر ذولنون نے کہا کہ چالیس مہر اس نے رکھی ہی کیوں؟ گویا کیوں خدا تعالیا کی راہ مین خرچ نہ کر دیں۔ جمع ہی کیوں کیا؟ شریعت سے ایسا ہی پایا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ کوئی محدث وعظ کرتا تھا۔ ایک صوفی نے بھی سنا اور اس کو کہا کہ محدث صاحب زکوٰۃ بھی دیا کرو۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو مال ہی نہیں۔ زکوٰۃ کس چیز کی دوں؟ صوفی بولا۔ چالیس حدیثیں لوگوں کو سنایا کرو تو ایک پر آپ بھی عمل کر لیا کرو۔
انسانوں کے تین طبقات
فرمایا:
اسلام میں انسان کے تین طبقے رکھے ہیں۔ ظالمؔ لنفسہ۔مقتصدؔ۔سابق بالخیرات۔ظالم لنفسہ تو وہ ہوتے ہیں جو نفس امارہ کے پنجے میں گرفتار ہوں اور ابتدائی درجہ پر ہوتے ہیں۔جہانتک ان سے ممکن ہوتا ہے وہ سعی کرتے ہیں کہ اس حالت سے نجات پائیں۔
مقتصد وہ ہوتے ہیں جس کو میانہ رو کہتے ہیں۔ ایک درجہ تک وہ نفس امارہ سے نجات پاجاتے ہیں۔لیکن پھر بھی کبھی کبھی اس کا حملہ ان پر ہوت اہے اور وہ اس حملہ کے ساتھ ہی نادم بھی ہوتے ہیں۔ پورے طور پر ابھی نجات نہیں پائی ہوتی۔
مگر سابق بالخیرات وہ ہوتے ہیں کہ ان سے نیکیاں ہی سرزد ہوتی ہیں اور وہ سب سے برھ جاتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات طبعی طور پر س قسم کی ہو جاتی ہیں کہ ان سے افعالِ حَسنہ ہی کا صدور ہوتا ہے۔ گویا اُن کے نفسِ امّارہ پر بالکل موت آجاتی ہے اور وہ مطمٔنہ حالات میں ہوتے ہیں۔ ان سے اس طرح پر نیکیاں عمل میں آتی ہیں گویا وہ ایک معمولی امر ہے۔ اس لیے ان کی نظر میں بعض اوقات وہ امر بھی گناہ ہوتا ہے جو اس حدتک دوسرے اس کو نیکی ہی سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی معرفت اور بصیرت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو صوفی کہتے ہیں حسنات الابرار سیئات المقربین۔
مثلاً چندہ کی حالت پر ہی لحاظ کرو۔ ایک آدمی غریب اور دو آنہ روز کا مزدور ہے اور ایک دوسرا آدمی دو لاکھ روپیہ حیثیت رکھتا ہے اور ہزاروں کی روزانہ آمدنی ہے۔ وہ دو آنہ کا مزدور بھی اس میں سے دو پیسہ دیتا ہے اور وہ لاکھ پتی ہزاروں کی آمدنی والا دو روپیہ دیتا ہے۔ تو اگر چہ اُس نے اس مزدور سے زیادہ دیا ہے مگر اصل یہ ہے کہ اس مزدور کو تو ثواب ملے گ مگر اس دولت مند لاکھ پتی کو ثواب نہیں بلکہ عذاب ہوگا۔ کیونکہ اس نے اپنی حیثیت اور طاقت کے موافق قدم نہیں بڑھایا بلکہ گو نہ بخل کیا ہے۔
غرض یہ ہے کہ جس قسم کا انسان ہو اسے اپنی طاقت اور قدرت کے موافق قدم بڑھانا چاہیے۔ ہر شخص اپنی معرفت کے لحاظ سے پوچھا جائے گا۔ جس قدر کسی کی معرفت بڑھی ہوئی ہوگی اسی قدر وہ زیادہ جواب دہ ہوگا۔ اسی یے زوالنون نے زکوٰۃ کا وہ نکتہ سنایا یہ خلافِ شریعت نہیں ہے۔ اس کے نزدیک شریعت کا یہی اقتضاء تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مال رکھنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اُسے خدمت دین اور ہمدردی نوعِ انسان میں صر ف کرنا چاہیے۔
آنحضرت ﷺ کے ہاں آخری وقت ایک مہر تھی۔ آپنے اسے نکلوا دیا۔ اصل یہی ہیکہ ہر امر کے مراتب ہوتے ہی۔’ بعض آدمی شبہ کریں گے کہ حضرت عثمان ؓ غنی کہلاتے تھے۔ انہوں نے کیوں مال جمع کیا؟ یہ ایک بیہودہ شبہ ہے۔ اس لیے کہ وہ مہاجن نہ تھے۔ خدا تعالیٰ بہترجانتا ہے کہ اس غنی کے کیا معنی ہیں۔ میں اتنا جانت اہوں کہجو مال خدمت دین کے لیے وقف ہو۔ وہ اس کا نہیں ہے۔ اس نیت اور غرض سے جو شخص رکھتا ہے وہ اپنے لیے جمع نہیں کرتا وہ خد اتعالیٰ کا مال ہے، لیکن جو اپنے اغراض نفسانی اور دنیاوی کو ملحوظ رکھ کر جمع کرتا جاتا ہے۔وہ مال داگ لگانے کے لیے ہے جس سے آخر اس کو داغ دیا جائے گا۔
وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اولاد کے لیے کچھ مال چھورنا چاہیے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ مال چھورنے کا تو ان کو خایل آتا ہے۔ مگر یہ خیال ان کو نہیں آتا کہ اس کا فکر کریں کہ اولاد صالح ہو طالح نہ ہو۔ مگر یہ وہم بھی نہیں آتا اور نہ اس کی پروا کی جاتی ہے۔بعض اوقات ایسے لوگ اولاد کے لیے مال جمع کرتے ہیں اور اولاد کی صلاحیت کی فکر اور پروا نہیں کرتے۔ وہ اپنی زندگی ہی میں اولاد کے ہاتھ سے نالاں ہوتے ہیں اور اس کی بداطواریوں سے مشکلات میں پڑجاتے ہیں اوروہ مال جو انہوں نے خدا جانے کن کن حیلوں اور طریقوں سے جمع کیا تھا آخر بدکاری اور شراب خوری میں صرھ ہوتا ہے اور وہ اولاد ایسے ماں باپ کے لیے شرارت اور بدمعاشی کی وارث ہوتی ہے۔
اولاد کا ابتلا بھی بہت بڑا ابتلا ہے۔ اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے۔
وھو یتولی الصالحین (الاعراف : ۱۹۷)
یعنی اﷲ تعالیٰ آپ صالحین کا متولی اور متکفل ہوتا ہے۔ اگر بدبخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لیے چھوڑ جائو۔ وہ بکاریوں میں تباہ کرکے پھر قلاش ہو جائے گی اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لیے لازمی ہیں۔ جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اور منشا سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمٔن ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لیے کوشش کرے اور دعائیں کرے۔ اس صورت میں خود اﷲ تعالیٰ اس کا تکفل کرے گا۔ اور اگر بد چلن ہے تو جائے جہنم میں۔ اس کی پروا تک نہ کرے۔
حضرت دائود علیہ السلام کا ایک قوم ہے کہ میں بچہ تھا۔ جوان ہوا۔ اب بوڑھا ہو گیا۔ میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ اﷲ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے۔
پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جائو اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لیے سعی اور دعا کرو۔جس قدر کوشش تم ان کے لیے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو۔
خوب یاد رکھو کہ جبتک خدا تعالیٰ سے رشتہ نہ ہو اور سچا تعلق اس کے ساتھ نہ ہو جاوے۔ کوئی چیز نفع نہیں دے سکتی۔ یہودیوں کو دیکھو کہ کیا وہ پیغمبروں کی اولاد نہیں؟ یہی وہ قوم ہے جو اس پر ناز کیا کرتی تھی اور کہا کرتی تھی۔
نحن ابنؤا اﷲ واحبؤۃ (المائدۃ : ۱۹)
ہم اﷲ تعالیٰ کے فرزند اور اس کے محبوب ہیں مگر جب انہوں نے خدا تعالیٰ سے رشتہ توڑ دیا اور دنیا ہی دنیا کو مقدم کر لیا تو کیا نتیجہ ہوا؟ خدا تعالیٰ نے اسے سؤر اور بندر کہا۔ اور اب جو حالت ان کی مال و دولت ہوتے ہوئے بھی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
‏Amira 22-12-05
پس وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیز گار بن جائوگے۔ اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔ قرآن شریف میں حضرؑ اور موسیٰ ؑکا قصہ درج ہے کہ ان دونوں نے مل کر ایک دیوار کو بنا دیا جو یتیم بچوں کی تھی وہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
وکا ن ابو ھما صالحا۔
ان کا والد صالح تھا۔ یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ کیسے تھے ۔پس اس مقصد کو حاصل کرو۔ اولاد کے لیے ہمیشہ اس کی نیکی کی خواہش کرو۔ اگر وہ دین اور دیانت سے باہر چلے جاویں۔ پھر کیا؟ اس قسم کے امور اکثر لوگوں کو پیش آجاتے ہیں۔ بددیانتی خواہ تجارت کے ذریعہ ہو یا رشوت کے ذریعہ یا زراعت کے ذریعہ جس میں حقوقِ شرکاء کو تلف کیا جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہی میری سمجھ میں آتی ہے کہ اولاد کے لیے خواہش ہوتی ہے کیونکہ بعض اوقات صاحب جائداد لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کوئی اولاد ہو جاوے جو اس جائداد کی وارث ہوتا کہ غیروں کے ہاتھ میں نہ چلی جاوے مگر وہ نہیں جانتے کہ جب مر گئے تو شرکاء کون اور اولاد کون۔ سب ہی تیرے لیے تو غیر ہیں۔
اولاد کے لیے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادمِ دین ہو۔
غرض حق العباد میں پیچ در پیچ مشکلات ہیں جب تک انسان ان میں سے نکلے نہیں مومن نہیں ہو سکتا۔ نری باتیں ہی باتیں ہیں۔
نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر
اﷲ تعالیٰ کا کسی سے رشتہ ناطہ نہیں۔ اس کے ہاں اس کی بھی کچھ پروا نہیں کہ کوئی سید ہے یا کون ہے۔ آنحضرت ﷺ نے خود فاطمہ ؓ سے کہا کہ یہ خیال مت کرنا کہ میرا باپ پیغمبر ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ کسی نے پوچھا کہ کیا آپؐ بھی؟ فرمایا ہاں۔ میں بھی۔
مختصر یہ کہ نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر بلکہ اﷲ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور اس کو اعمالِ صالحہ اور آنحضرت ﷺ کا کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں۔ قوم کا ابتلا بھی مال کے ابتلا سے کم نہیں۔ بعض لوگ دوسری قوموں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اس ابتلا میں سید سب سے زیادہ مبتلا ہیں’ ایک عورت گدا گر ہمارے ہاں آئی۔ وہ کہتی تھی میں سیدانی ہوں۔ اس کو پیاس لگی اور پانی مانگا تو کہا کہ پیالہ دھوکر دینا کسی امتی نے پیا ہوگا۔ اس قسم کے خیالات ان لوگوں میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے حضور ان باتوں کی کچھ قدر نہیں۔ اس نے فیصلہ کر دیا ہے۔
ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
تنخواہ دار امام الصلوٰۃ
ایک مخلص اور معزز خادم نے عرض کی کہ حضور میرے والد صاحب نے ایک مسجد بنائی تھی وہاں جو امام ہے اس کو کچھ معاوضہ وہ دیتے تھے اس غرض سے کہ مسجد آباد رہے۔ وہ اس سلسلہ میں داخل نہیں۔ میں نے اس کا معاوضہ بدستور رکھا ہے اب کیا کیا جاوے؟ فرمایا:
خواہ احمدی ہو یا غیر احمدی جو روپیہ کے لیے نماز پڑھتا ہے اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ نماز تو خدا کے لیے ہے۔ اگر وہ چلا جائے گا تو خدا تعالیٰ ایسے آدمی بھیج دے گا جو محض خدا کے لیے نماز پڑھیں اور مسجد کو آباد کریں۔ ایسا امام جو محض لالچ کی وجہ سے نماز پڑھتا ہے میرے نزدیک خواہ وہ کوئی ہو۔ احمدی یا غیر احمدی اس کے پیچھے نماز نہیں ہو سکتی۔ امام اتقیٰ ہونا چاہیے۔ بعض لوگ رمضان میں ایک حافظ مقرر کر لیتے ہیں اور س کی تنخواہ بھی ٹھہرا لیتے ہیں۔ یہ درست نہیں۔ ہاں یہ ہو سکتاہے کہ اگر کوئی محض نیک نیتی اور خدا ترسی سے اس کی خدمت کر دے تو یہ جائز ہے۔؎ٰ
۲۸؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
قبل دوپہر
امام مہدی کی جنگیں
آج ایک ترک اور ایک یہودی اعلیٰ حضرت ؑ کی زیارت کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے حضرت اقدس سے چند سوالات پوچھے۔ خواب سمیت ذیل میں درج کرتا ہوں۔ یہ یاد رہے کہ سوال ہواب عربی زبان میں تھے۔ میں اُن کا مفہوم لے کر اُردو میں لکھتا ہوں۔ (ایڈیٹر الحکم)
ترک:۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں مہدی ہوں اور احادیث میں آیا ہے کہ مہدی جب آئے گا تو لڑائی کرے گا۔
حضرت اقدس:۔ آپ کو معلوم نہیں۔یہ بالکل غلط خیال ہے۔ مہدی کے متعلق جس قدر احادیث ہیں اس قسم کی ہین وہ محدثین نے مجروح قرار دی ہیں۔ صرف ایک حدیث لامھدی الا عیسی ہے ۔یعنی بجز مسیح موعود کے اور کوئی مہدی آنے والا نہیں ہے۔وہی موعود جس کو بخاری میں اما مکم منکم فرمایا ہے یعنی اسی اُمت میں سے آنے والا۔ اور اس کے متعلق کہیں نہیں لکھاکہ وہ لڑائیاں کرے گا بلکہ بخاری میں جو اصح الکُتب بعد کتاب اﷲ ہے صاف لکھا ہے کہ یضع الحرب۔یعنی اس کے وقت میں مذہبی لڑائیاں نہ ہونگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب حرب کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے مخالف ہمارے ساتھ جنگ نہیں کرتے۔ وہ تو قلم کے ساتھ اعتراض کرتے ہیں۔ پس یہ کیسی کمزوری ہوتی کہ قلم کا جواب قلم سے نہ دیا جاتا بلکہ اس کے لیے ہتھیار استعمال ہوتے۔ ایسی صورت میں جبکہ قلم کے حملے ہو رہے ہیں ہمارا یہی فرض ہے کہ قلم کے ساتھ ان کو روکیں۔
علاوہ بریں اگر اﷲ تعالیٰ کی یہ مرضی ہوتی کہ ایسے زمانہ میں اسلام کی ترقی جبگ سے وابستہ ہوتی تو ہر قسم کے ہتھیار مسلمانوں کو دیئے جاتے؛ حالانکہ جس قدر ایجادیں آلاتِ حربیہ کے متعلق یورپ میں ہو رہی ہیں کسی جگہ نہیں ہوتی ہیں۔ جس سے اﷲ تعالیٰ کی مصلحت کا صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ لڑائی کا زمانہ نہیں ہے۔ اور کبھی بھی کوئی دین اور مذہب لڑائی سے نہیں پھیل سکتا۔ پہلے بھی اسلام کی ترقی اور اشاعت کے لیے تلوار نہیں اتھائی گئی۔ اسلام اپین برکات، انوار اور تاثیرات کے ذریعہ پھیلا ہے اور ہمیشہ اسی طرح پھیلے گا۔ پس یہ نہایت ہی غلط اور مکروہ خیال ہے کہ مسیح کے وقت جنگ ہوگی اور نہ مسیح کو اس کی حاجت۔ وہ قلم سے کام لے گا ور اسلام کی حقانیت اور صداقت کو پر زور دلائل اور تاثیرات کے ساتھ ثابت کر کے دکھائے گا اور دوسرے ادیان پر اس کو غالب کرے گا اور یہ ہو رہا ہے۔
قرآن دنای سے کس طرح اٹھایا جائے گا
ترک:۔ یہ بھی تو آیا ہے کہ مسیح کے زمانہ میں قرآن اٹھایا جائے گا۔ اب کہاں اُٹھایا گیا ہے؟
حضرت اقدس:۔ آنحضرت ﷺ سے بھی ایک صحابی نے یہ پوچھا تھا کہ اس وقت قرآن شریف کیسے اُٹھایا جائیگا؟ آپ نے اس کو یہ جواب دیا تھا کہ میں تو تجھے عقلمند سمجھتا تھا۔ یہی جواب میرا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ قرآن شریف پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا۔ اس کی حمایت اور حمیت کے لیے کچھ بھی سعی نہیں ہوتی۔ قرآن شریف سے صوری اور معنوی اعراض کیا گیا ہے اس کے حقائق اور معارف اور اس کی تعلیم سے مسلمان بالکل بے خبر ہو رہے ہیں۔ اور کس طرح قرآن اُٹھایا جاوے گا؟
توحیداور شرک کی حقیقت
(ترک صاحب تو دو سوالوں کے بعد خاموش ہو گئے۔ پھر یہودی صاحب نے اپنے سوالات پیش کرنے شروع کئے)۔
یہودی:۔ یہودیوں میں بھی تو توحید موجود ہے۔ اسلام اس سے بڑھ کر کیا پیش کرتا ہے؟
حضرت اقدس:۔ یہودیوں میں توحید تو نہیں ہے۔ ہاں قشرالتوحید بے شک ہے اور نرا قشر کسی کام نہیں آ سکتا۔ توحید کے مراتب ہوتے ہیں۔ بغیر ان کے توحید کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی۔ نرا لاالٰہ الا اﷲ ہی کہہ دینا کافی نہیں۔ یہ تو شیطان بھی کہہ دیتا ہے۔ جبتک عملی طور پر لاالٰہ لا اﷲ کی حقیقت انسان کے وجود میں متحقق نہ ہو۔ کچھ نہیں۔ یہودیوں میں یہ بات کہاں ہے؟ آپ ہی بتاویں۔ توحید کا ابتدائی مرحلہ اور مقام تویہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے قول کے خلاف کوئی امر انسان سے سرزد نہ ہو۔ اور کوئی فعل اس کا اﷲ تعالیٰ کی محبت کے منافی نہ ہو۔ گویا اﷲ تعالیٰ ہی کی محبت اور اطاعت میں محو اور فنا ہو جاوے۔اسی واسطے اس کے معنے یہ ہیں۔ لامعبو دلی ولا محبوب لی والا مطاع لی الااﷲ۔ یعنی اﷲ تعالیا کے سوا نہ کوئی میر امعبود ہے اور نہ کوئی محبوب ہے اور نہ کوئی واجب الاطاعت ہے۔
یاد رکھو۔ شرک کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک شرک جلی کہلاتا ہے دوسرا شرک خفی۔ شرک جلی کی مثال تو عام طو رپر یہی ہے۔ جیسے یہ بُت پرست لوگ بُتوں ،درختوں یا اور اشیاء کو معبود سمجھتے ہیں۔ اور شرکِ خفی یہ ہے کہ انسان کسی شئی کی تعظیم اسی طرح کرے جس طرح اﷲ تعالیٰ کی کرتا ہے۔ یا کرنی چاہیے۔ یا کسی شئی سے اﷲ تعالیٰ کی طرح محبت کرے۔ یا اس سے خوف کرے یا اس پر توکل کرے۔
اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ حقیقت کامل طور پر توریت کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے یا نہیں۔ خود حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی ہی میں جو کچھ اُن سے سرزد ہوا۔ وہ آپ کو بھی معلوم ہوگا۔ اگر توریت کافی ہوتی تو چاہیے تھا کہ یہودی اپنے نفوس کو مزکی کرتے مگر ان کا تزکیہ نہ ہوا۔وہ نہایت قسی القلب اور گستاخ ہوتے گئے۔ یہ تاثیر قرآن شریف ہی میں ہے کہ وہ انسان کے دل پر بشر طیکہ اس سے صوری اور معنوی اعراض نہ کیا جاوے۔ ایک خاص اثر ڈالتا ہے اور اس کے نمونے ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں؛ چنانچہ اب بھی موجود ہے۔
قرآن شریف نے فرمایا
قل انکنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (ال عمران : ۳۲)
یعنی اے رسول تو ان لوگوں کو کہہ د یکہ اگر تم اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اﷲ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنالے گا۔ آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع انسان کو محبوب الٰہی کے مقام تک پہنچا دیتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کامل موحد کا نمونہ تھے۔ پھر اگر یہودی توحید کے ماننے والے ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ایسے موحد سے دور رہتے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے تھا کہ خدا تعالیٰ کے خاتم الرسل ؐ کا انکار اور عناد نہایت خطرناک امر ہے۔ مگر انہوں نے پروا نہیں کی اور باوجود یکہ ان کی کتاب میں آپ کی پیشگوئی موجود تھی مگر انکار کر دیا۔ اس کی وجہ بجز اس کے اَور کیا ہو سکتی ہے کہ
قست قلوبہم (الانعام : ۴۴)
سوائے اسلام کے کسی مذہب میں نجات نہیں ہے
سوال: کیا کسی اور مذہب میں رہ کر انسان نجات نہیں پاسکتا؟
جواب: اس کا جواب خود قرآن شریف نفی میں دیتا ہے۔
ان الدین عند اﷲ الاسلام (ال عمران : ۲۰)
و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ (ال عمران : ۸۶)
اسلام کے سوا اَور کوئی دین قبول نہیں ہوسکتا۔ اور یہ نرا دعویٰ نہیں۔ تاثیرات ظاہر کر رہی ہیں۔ اگر کوء اہل مذہب اسلام کے سوا اپنے مذہب کے اندر انوار و برکات اور تاثیرات رکھتا ہے تو پھر وہ آئے ہمارے ساتھ مقابلہ کرلے۔اور ہم نے ہمیشہ ایسی دعوت کی ہے کوئی مقابلہ پر نہیں آیا۔

قرآن شریف کے انوار و برکات
سوال: اگر اسلام کے سوا کوء دوسرا مذہب اپنے اندر انوار و برکات نہ رکھتا تھا اور اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قبول نہیں ہو سکتا تھا، تو پھر جزیہ کیوں رکھا تھا؟
جواب: یہ تو ایک الگ امر ہے۔ ا س سے یہ تو نہیں ثابت ہوتا کہ دوسرے مذاہب سچے تھے۔ہاں اس سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام جبر سے نہیں پھیلا گیا۔ ان لوگوں کو سوچنے اور غور کرنے کا موقعہ دیا گیا ہے اور جیسا فرمایا تھا
لا اکراہ فی الدین۔ قد تبین الرشد من الغی (البقرۃ : ۲۵۷)
اس پر عمل کیا گیا۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ تو قابل قدر بات تھی جس پر آپ اعتراض کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا فضل تا اور آنحضرت ﷺ کی رحمت ۔ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔
وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۸)
یعنی اے رسول ہم نے تجھ کو رحمۃ للعالمین کر کے بھیجا ہے۔ پس یہ آپ کی رحمت کا ایک نمونہ تھا۔ قرآن شریف میں اگر تدبر کریں تو اس کی روشن حقیقت آپ کو معلوم ہو جائے گی۔ توریت میں کوئی اثر باقی نہیں رہا۔ ورنہ چاہیے تھا کہ ان میں اولیاء اﷲ اور صلحاء ہوتے۔
یہودی: چونکہ توریت پر عمل نہیں رہا۔ اس لیے ولی اور صلحاء نہیں ہوتے۔
حضرت اقدس: اگر توریت میں کوئی تاثیر باقی ہوتی تو اسے ترک ہی کیوں کرتے؟ اگر آپ کہیں کہ بعض نے ترک کیا ہے تو پھر بھی اعتراض بدستور قائم ہے کہ جنہوں نے ترک نہیں کیا۔ ان پر جو اثر ہوا یہ وہ پیش کرو۔ اور اگر کُل ہی نے ترک کر دیا ہے تو یہ ترکِ تاثیر کو باطل کرتا ہے۔ ہم قرآن شریف کے لیے یہی نہیں مانتے۔ یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن پھ ربھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں؛ چنانچہ میں اس وقت اسی ثبوت کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ اور اﷲ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اس کی حمایت اور تائید کے لیے بھیجتا رہا ہے۔ کیونکہ اُس نے وعدہ فرمایا تھا۔
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
یعنی بے شک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن شریف) کو نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کے لیے نہیں۔ اسی لیے ان کتابوں میں انسانی چالاکیوں نے اپنا کام کیا۔ قرآن شریف کی حفا ظت کا یہ بڑا زبردست ذریعہ ہے کہ اس کی تاثیرات کا ہمیشہ تازہ بتازہ ثبوت ملتا رہتا ہے اور یہود نے ثونکہ توریت کو بالکل چھوڑ دیا ہے اور ان میں کوئی اثر اور قوت باقی نہیں رہی جو اُن کی موت پر دلالت کرتی ہے۔
قیامت کی حقانیت
یہودی: مسلمان قیامت پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ کون سی علامات ہیں جن کی وجہ سے وہ ایمان لاتے ہیں۔
حضرت اقدس: انسان ا اپنا جسم ہی اس کو حشر نشر پر ایمان لانے کے لیے مجبور کرتا ہے کیونکہ ہر آن اس میں حشر نشر ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ تین سال کے بعد یہ جسم رہتا ہی نہیں اور دوسرا جسم آجاتا ہے یہی قیامت ہے۔ اس کے سوا یہ ضروری امر نہیں کہ کُل مسائل کو عقلی طور پر ہی سمجھ لے۔ بلکہ انسان کا فرض ہے کہ وہ اس بات پر ایمان لائے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے افعال اور صفات کے ساتھ موجود ہے اور اس کی صفات میں سے یہ بھی ہے
یخلق ما یشاء (ال عمران : ۴۸)
اور
علیٰ کل شئی قدیر (البقرۃ : ۱۰۷)
تو اس بات کے ماننے میں کہ قیامت ہوگی کیا شک ہو سکتا ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ ہم اس کا ثبوت یہاں بھی رکھتے اور دیکھتے ہوں۔ بے شک قیامت حق ہے۔ اور اس کی قدرتوں کا ایک نمونہ
الم تعلم ان اﷲ علیٰ کل شئی قدیر (البقرۃ :۱۰۷)
سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ حشرو نشر پر بھی قادر ہے اور حشر و نشر قدرت ہی پر موقوھ ہے۔ یہ اسلام کی خصوصیات ہیں کہ اسلام نری تعلیم ہی نہین دیتا بلکہ جب انسان اس تعلیم پر عمل کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے نشانات اور آیات بھی دکھاتا ہے چنانچہ جب وہ اپین نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے تو وہ آیات اﷲ کو دیکھتا ہے جس سے اس کا ایمان ارفان کے رنگ میں مضبوط ہو جاتا ہے۔
دوسرے ادیان کے متبعین میں یہ آیات اور نشانات نہیں ہیں۔ یہ آنحضرت ﷺ کے کامل متبعین ہی کو ملتے ہیں جو اپنے دل کو صاف کرتے ہیں اور ان میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا۔ اس وقت انہیں یہ نشانات دیئے جاتے ہیں جو ان کی معرفت اور قوتِ یقین کو بڑھا دیتے ہیں۔
خدا تعالیٰ کا قادر ہونا
یہودی: اگر خدا قادر ہے تو کیوں نہیں ہو سکتا کہ وہ مسیح کو آسمان سے لے آوے؟
حضرت اقدس: بے شک خدا تعالیٰ قادر ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ خلاف وعدہ کرتا ہے یا ایسے افعال بھی اس سے صادر ہوتے ہیں جو اس کی صفاتِ کاملہ اور اس کی قدوسیت کے خلاف ہوں۔ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کر دے یا کوئی اپنا مثیل پیدا کرلے۔ اسی طرح پر جبکہ وہ ایک عہد کر چکا ہے کہ مردے واپس اس دنیا میں نہیں آتے تو وہ اس کا خلاف کیونکر کرے؟
قادر سمجھ کر خدا تعالیٰ کے لیے ایسے امور تجویز کر لینا جو اس کی صفات کاملہ کے منافی ہوں اﷲ تعالیٰ کی سخت ہتک اور توہین ہے اور اس سے ڈرنا چاہیے۔ یہ محلِ ادب ہے۔؎ٰ
(اس مقام پر یہودی صاحب خاموش ہو گئے اور
سلسلہ کلام ختم ہو گیا اور اعلیٰ حضرت تشریف لے گئے)
۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵ء؁
قبل دوپہر
سلسلہ مجددین ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا آپ کے بعد بھی مجدد آئیگا؟اس پر فرمایا:
اس میں کیا ہرج ہے کہ میرے بعد بھی کوئی مجدد آجاوے۔ حضرت موسیٰ ؑکی نبوت ختم ہو ثکی تھی۔ اس لیے مسیح ؑپر آپ کے خلفاء کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کا سلسلہ قیامت تک ہے اس لیے اس میں قیامت تک ہی مجد دین آتے رہیں گے۔ اگر قیامت نے فنا کرنے سے چھوڑا تو کچھ شک نہیں کہ کوئی اور بھی آجائیگا۔ ہم ہر گز اس سے انکار نہیں کرتے کہ صالح اور ابرار لوگ آتے رہیں گے اور پھر بغتۃ قیامت آجائیگی۔
اس زمانہ کے مولوی مولویوں کے ذکر پر فرمایا:
اگر تزکیۂ نفس اور اتباع سنت ان میں ہوتا تو اس قدر اختلاف اور جھگڑا کیوں ہوتا۔ کوئی ہرج اسلام کا بھی نہ ہوتا۔ مگر اب تو عام طور پر ہر سخص جانت اہے کہ ان لوگوں کی حالت کیسی ہو گئی ہے۔ آزمائش کے لیے دو چار مولوی لے آئو۔ پھر دیکھ لو کہ کیا ہوتا ہے۔ ہم ایک بات کہیں گے قطع نظر اس کے کہ وہ اس پر غور کریں۔ فوراً اس کی تردید پر آمادہ ہو جائیں گے۔ میں افسوس سے کہتا ہوں کہ جیساآنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہودیوں کی سی حالت ہو جاوے گی۔ وہی حالت ہو چکی ہے، مجھے اس امر سے بہت محبت اور خواہش تھی اور ہے کہ کوئی ان میں درنگی چھور کر انسانیت سے ہم پر اعتراض کرے اور اس کا جواب غور سے سنے۔ میں اس بات پر بھی رضا مند اور خوس تھا کہ یہاں آکر ہمارے پاس رہتے۔ ہم ہر طرح سے ان کی خاطر داری اور تواضع کرتے۔ وہ ٹھنڈے دل سے اپنے اعتراض پیش کرتے اور سعید الفطرت لوگوں کی طرف جواب سنتے۔ پھر جو اعتراض رہتا یا جو ا س جواب پر ہوتا۔ پیش کرتے۔ مگر انہوں نے اس طریق کو بالکل چھوڑ دیا اور عمداً حق پوشی کی ہے۔وہ چاہتے نہیں کہ ان کی آنکھ کھلے اور حق ظاہر ہو۔ اگر چہ وہ ا س میں کامیاب نہین ہو سکتے اس لیے کہ یہ ارادہ ان کا اﷲ تعالی ٰکے ارادہ کا صریح مخالف ہے۔ کونسی گالی ہے جو انہوں نے ہم کو نہیں دی اور کونسا نام ہے جو انہوں نے ہمارا نہیں رکھا۔
آنے والا موعود حَکم ہو کر آئے گا
انسان کا فرض تو یہ ہے کہ اگر اسے راستی ملے تو اس کے لینے میں چون و چرانہ کرے مگر انہوںنے ذرا سے اختلاف کی وجہ سے (جو وہ بھی اختلاف نہ تھا) ساری صداقتوں کا خون کر دیا۔ ہمارا ان کا بہت سے امور میں اتفاق تھا۔ صرف ایک بات پیش کی تھی کہ مسیح ابن مریم مر گیا ہے اور آنے والا موعود آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے موافق تم ہی میں سے آیا ہے۔ میں حیران ہوں کے ایک طرف تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آنے والا موعود حَکم ہو کر آئے گا۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ایک بات بھی ماننے کو تیار نہیں۔ پھر وہ حَکم کس بات کا ہوگا؟ اگر ان کے زعم اور خیال کے موافق مسیح آسمان سے بھی آجاتا تب بھی یقینی امر تھا کہ اسے ہرگز تسلیم نہ کرتے کیونکہ بحیثیت حَکم ہونے کے اس کا تو کام یہ ہوتا کہ وہ سب کی غلطیاں نکال کر صراط مستقیم پر سب کو لاتا اور یہ اپنی گلطیوں کو چھوڑنے والے نیں۔ حنھی، شافعی، مالکی، حنبلی، شیعہ، خوارج وغیرہ وغیرہ ہر فرقہ والا اپنی بات اسے منوانی چاہتا اور جس کی وہ نہ مانتا اس کے نزدیک ہی کافر اور بے دین ٹھہرتا۔ پس ایسی صورت میں ہم کیونکر مان لیں کہ یہ اپنے فرضی مسیح کو مان لیں گے۔
حَکم اسے کہتے ہیں جو قاضی ہو اور غلطیاں نکال کر اصلاح رے۔ ہم نے تو ذرا سی ہی غلطی پیش کی تھی کہ مسیح مر گیا ہے اور وہ نہیں آئیں گے۔ آنے والا اُمتی ہے جیساکہ قرآن شریف منکم کہتا ہے اور بخاری اور مسلم میں بھی منکم ہی آیا ہے۔ اب اس غلطی کو جو اسلام کی عظمت اور آنحضرت ﷺ کی جلالتِ شان کی صریح مخالف ہے یہ چھوڑ نہیں سکتے اور میرا فیصلہ تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ خود مجھ پر حکم ہونا چاہتے ہیں۔ افسوس ہے کہ میں اس اختلاف کی وجہ سے جو اسلام کی زندگی کا اصل ذریعہ ہے۔ کافر۔ اور یہ اپنے ہزاروں خطرناک اختلافوں کی وجہ سے بھی مسلمان کے مسلمان ہی ہیں۔
شیعہ آنحضرت ﷺ کے مخلص اور جان نثار صحابہؓ کو سب و شتم کرتے ہیں اور ان کو کافر اور مرتد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ سچے کے سچے۔ اب کوئی انصاف کرے کہ وہ آنے والا حکم ان میں آکر کیا کرے گا؟ کیا وہ بھی ان کے ساتھ تبرا میں شامل ہو گا یا اس سے ان کو باز رہنے کی ہدایت کرے گا؟۔
اگر ان میں خوفِ خدا ہوتا اور یہ تقویا سے کام لیتے اور
لا تقف ما لیس لک بہ علم (بنی اسرائیل : ۳۷)
پر عمل کرتے اور میری باتوں کو غور سے سنتے اور پھر ان پر فکر کرتے۔ اس کے بعد حق تھا جو چاہتے کہتے۔ مگر انہوں نے اس کی پروا نہ کی اور خدا تعالیٰ کے خوف سے نہ ڈرے۔ جو منہ میں آیا کہہ گذرے۔
میں سخت افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ ان لوگوں کی حالت مسخ ہو گئی ہے۔ یہی توفی کا لفظ یوسفؑ کے لیے ہو تو موت کے معنی کریں۔آنحضرت ﷺ کے لیے ہو تو موت کے معنی کریں، لیکن مسیح کی نسبت ہو تو اس کے معنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا ہو۔ کس قدر جرأت اور دلیری ہے۔ کیا آنحصرت ﷺ کی ذرا بھی عزت ان کے دل میں نہیں۔ اگر وہ آنحضرت ﷺ کے لیے بھی یہی معنے کرتے تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ کوئی خصوصیت پیدا نہیں کرتے۔ مگر اب تو یہ خاص طو رپر مسیح ہی کے ساتھ اس امر کو مخصوص کرتے ہیں؛حالانکہ جسم عنزصری کے ساتھ آسمان پر جانے کا کوئی بھی قائل نہیں۔ نہ یہودی قائل نہ عیسائی۔ یہودی تو رفع روحانی کے بھی قائل نہیں۔ عیسائی جلالی جسم کے قائل ہیں گو وہ اس میں جھوٹے ہیں اس لیے کہ انہوں نیجب مسیح کو دیکھ اتو وہ وہی عنصری جسم تھا کیونکہ اس میں زخم موجود تھے اور خود انہوں نے ہاتھ ڈال کر دیکھا۔ بایں عیسائیوں نے سمجھ لیا کہ جسم عنصری آسمان پر نہیں جاتا۔ اسی لیے انہوں نے جلای جسم تجویز کیا۔
حضرت مسیح کی وفات کا مسئلہ بہت صاف تھا اور اس کے لیے خود مسیح کا اپنا اقرار۔ اﷲ تعالیٰ کا قول اور آنحضرت ﷺ کی چشم دید شہادت، صحابہؓ کا اجماع کافی دلائل تھے مگر انہوں نے ذرا بھی پروا نہ کی اور سچ پوچھو تو یہودیوں سے بھی گئے گذرے ہوئے۔ اس لیے کہ وہ تو ایک جماعت بنا کر مسیح کے پاس گئے اور اُن سے اُن کے دعاوی کی تحقیق کی۔ مگر یہ کب میرے پاس آئے اور اُنہوں نے پوچھا؟
۳۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء
قبل دوپہر
قرآن کریم کا اعجاز
مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے اپنابے نقط عربی قصیدہ سنایا۔ اسی تحریک سے فرمایا:
ایک پادری نے مجھ پر اعتراض کیا کہ فیضیؔ کی تفسیر اعلیٰ درجہ کی فصاحت و بلاغت میں ہے۔ کیونکہ ساری بے نقط لکھی ہے۔ میں نے اس کا جواب دیا کہ بے نقط لکھنا کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں ۔ یہ ایک کسم کا تکلف ہے اور تکلفات میں پڑنا لغو امر ہے۔ مومنوں کی شان یہ ہے
والذین ھم عن اللغو معرضون (المومنون : ۴)
یعنی مومن وہ ہوتے ہین جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں’ اگر بے نقط ہی کو معجزہ سمجھتے ہو تو قرآن شریف میں بھی ایک بے نقط معجزہ ہے اور وہ یہ ہے
لا ریب فیہ (البقرۃ : ۲)
اس میں ریب کا کوئی لفظ نہیں۔ یہی اس کا معجزہ ہے۔
لا یاتیہ الباطل (حم السجدۃ : ۴۳)
اس سے بڑھ کر اور کیا خوبی ہوتی۔
میں نے کئی بار استہار دیا ہے کہ کوئی ایسی سچائی پیش کرو۔ جو ہم قرآن شریف سے نہ نکال سکیں۔
لا رطب ولا یابس الا ھی کتاب مبین (الانعام : ۶۰)
یہ ایک ناپیدا کنارسمندر ہے اپنے حقائق اور معارف کے لحاظ سے اور اپنی فصاحت و بلاغت کے رنگ میں۔ اگر بشر کا کلام ہوتاتو سطحی خیالات کا نمونہ دکھایا جاتا۔ مگر یہ طرز ہی ا!ور ہے جو بشری طرزوں سے الگ اور ممتاز ہے۔ اس میں باوجود اعلیٰ درجہ کی بلند پروازی کے نمود نمائش بالکل نہیں۔ خود فرمایا کہ اُمیوں کے لیے ہے۔ اور پھر اَور لطف یہ ہے کہ ظاہر تو اُمیوںکے لیے ہے اور باطن ہر ایک کے سیراب کرنے والا ہے۔
سورۃ الرحمٰن میں تکرار کی حکمت
خواجہ صاحب؎ٰنے پوچھا کہ سورۃ رحمان میں اعادہ کیوں ہوا ہے؟
فرمایا:
اس قسم کا التزام اﷲ تعالیٰ کے کلام کا ایک ممتاز نشان ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ امر واقع ہوا ہے کہ موزوں کلام اسے جلد یاد ہو جاتا ہے۔ اسی لیے فرمایا
ولقد یسر ناالقراٰن لذکر (القمر : ۱۸)
یعنی بے شک ہم نے یاد کرنے کے لیے قرآن شریف کو آسان کر دیا ہے۔
یاد رکھو اﷲ تعالیٰ کی ساری چیزوں میں حسن ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ اس کے کلام میں بھی حسن ہو؟ یہ اس کا ایک حسن ہے۔ اگر قرآن مجید ژولیدہ بیان ہوتا تو اس سے کیا فائدہ ہوتا۔ طبائع کو اس کی طرف توجہ ہی نہ ہوتی۔ اﷲ تعالیٰ کی مخلوقات میں عجیب عجیب قسم کی مخلوق دیکھی جاتی ہے۔ عجائب خانہ میں جاکر بعض جانور اس قسم کے دیکھے گئے ہیں کہ گویا وہ ایک خوبصورت چھینٹ ہیں۔ ان ساری باتوں پر نطر کر کے معلوم ہوتا ہے کہ رنگینیٔ خلق خدا تعالیٰ کی عادت ہے۔
یہانتک بھی دیکھ اگیا ہے کہ بعض جانور انڈے خود دیتے ہیں اور اس کے بچے اور جانور نکالتے ہیں۔ کوئل انڈے خود دیتی ہے اور کوے کے آشیانہ میں رکھ دیتی ہے۔ پس جس جس قدر کوئی مخلوقاتِ الٰہی کا اور افعال اﷲ کا مشاہدہ کرے گا۔ اسی قدر اس کا تعجب بڑھتا جائے گا۔ اسی طرح اس کے اقوال میں لا انتہا اسرار ہوتے ہیں جن کا مشاہدہ افعال اﷲ کی خود بین سے ہو جاتا ہے۔
حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ شاعت اور فصیح تو اس طرز بیان پر اعتراض کر ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ خود ان کو اس مار کا التزام کرنا پڑتا ہے۔
پھر حضرت حجۃ اﷲ ؑ نے اسی سلسلہ کلام میں فرمایا کہ
فبای اٰلاء ربکما تکزبٰن (الرحمان : ۱۴)
بار بار توجہ دلانے کے واسطے ہے۔ اسی تکرار پر نہ جائو۔ قرآن شریف میں اور بھی تکرار ہے۔ میں خود بھی تکرار کو اسی وجہ سے پسندر کرتا ہوں۔ میری تحریروں کو اگر کوئی دیکھتا ہیتو وہ اس تکرار کو بکثرت پائے گا۔ حقیقت سے بے خبر انسان اس کو منافیٔ بلاغت سمجھ لے گا۔ اور کہے گا کہ یہ بھول کر لکھا ہے، حالانکہ یہ بات نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید پڑھنے والا پہلے جو کچھ لکھا ہے اُسے بھول گیا ہو۔اس لیے بار بار یاد دلاتا ہوں۔تا کہ کسی مقام پر تو اس کی آنکھ کُھل جائے۔ انما الاعمال بالنیات۔
علاوہ بریں تکرار پر اعتراض ہی بے فائدہ ہے۔اس لیے کہ یہ بھی تو انسانی فطرت میں ہے کہ جبتک بار بار ایک بات کو دہرائے نہیں وہ یاد نہیں ہوتی۔ سبحان ربی الاعلیٰ اور سبحان ربی العظیم بار بار کیوں کہلاوایا؟ ایک بار ہی کافی تھا۔ نہیں۔ اس میں یہی سر ہے کہ کثرت تکرار اپنا ایک اثر ڈالتی ہے اور غافل سے غافل قوتوں میں بھی ایک بیداری پیدا کر دیتی ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
واذکر وااﷲ کثیر ا لعلکم تفلحون (الانفال : ۴۶)
یعنی اﷲ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جائو۔ جس طرح پر ذہنی تعلق ہوتا ہے اور کثرت تکرار ایک بات کو حافظہ میں محفوظ کر دیتی ہے۔ اسی طرح ایک روحانی تعلق بھی ہے اس میں بھی تکرار کی حاجت ہے۔ بُدوں تکرار وہ روحانی پیوند اور رشتہ قائم نہیں رہتا۔ اور پھر سچ تو یہ ہے کہ اصل بات نیت پر موقوف ہے۔ جو شخص صرف حفظ کرنے کی نیت سے پڑھتا ہے وہ تو وہیں تک رہتا ہے اور جو سخص روحانی تعلق کو بڑھا لیتا ہے؎ٰ۔
حضرت امام جعفر ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک آیت اتنی مرتبہ پڑھتا ہوں کہ وہ آخر وحی ہو جاتی ہے۔صوفی بھی اسی طرف گئے ہیں اور
واذکر وااﷲ کثیرا (الانفال : ۴۶)
کے یہ معنے ہیں۔کہ اس قدر ذکر کرو کہ گویا اﷲ تعالیٰ کا نام کنٹھ ہو جاوے۔
انبیاء علیہم السلام کے طرز کلام میں یہ بات عام ہوتی ہے کہ وہ ایک امر کو بار بار اور مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ تامخلوق کو نفع پہنچے۔ میں خود دیکھتا ہوں اور میری کتابیں پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اگر چار صفحے میری کسی کتاب کے دیکھے جاویں تو ان میں ایک ہی امر کا ذکر پچاس مرتبہ آئے گا اور میری غرض یہی ہوتی ہے کہ ساید پہلے مقام پر اس نے گور نہ کیا ہو اور یونہی سرسری طور سے گذرگیا ہو۔
قرآن شریف میں اعادہ اور تکرار کی بھی یہی حکمت ہے۔ یہ تو احمقوں کی خشک منطق ہے جو کہتے ہیں کہ بار بار تکرار سے بلاغت جاتی رہتی ہے۔ وہ کہتے رہیں۔ قرآن شریف کی غرض تو ایک بیمار کا اچھا کرنا ہے۔ وہ تو ضرور ایک مریض کو بار بار دوا دے گا۔ اگر یہ قاعدہ صحیح نہیں تو پھر ایسے معترض جب کوئی ان کے ہاں بیمار ہوجاوے تو اسے بار بار دو اکیوں دیتے ہیں۔ اور آپ کیوں دن رات کے تکرار میں اپنی غذا لباس وغیرہ امور کا تکرار کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں میں نے کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک انگریز نے محض اسی وجہ سے خودکشی کر لی تھی کہ بار بار وہی دن رات اور غذا مقرر ہے اور میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔
معجزات مسیح کی حقیقت
معجزات مسیح کے متعلق کہا گیا کہ ازالۂ اوہام میں جو تصریح کی گئی ہے۔ اس سے انکار پایا جاتا ہے۔فرمایا:
تعجب کی بات ہے کہ وہ انکار ہے یا اقرار؟معجزاتِ مسیح کا تو اقرار کیا گیا ہے اور ہم اب بھی اقرار کرتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑسے خوارق کا طہور ہوا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ان معجزات کی حقیقت جو خدا تعالیٰ نے ہم پر کھولی اسے ہم نے بحیثیت حکم ظاہر کر دیا ہے۔ ا سکی ہم کو کچھ پر وا نہیں کہ یہ لوگ اس پر گالیاں دیتے ہیں یا کیا کہتے ہیں۔ یہ لوگ اگر میری بات سے انکار کرتے ہیں تو پھر مجھ سے نہیں بلکہ قرآن شریف سے انکار کرتے ہیں۔ کیونکہ میں نے جو کچھ لکھاہے اپنی طرف سے تو لکھاہی نہیں۔ قرآن شریف ہی سے لکھاہے ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن شریف نے صاف طور پر فرمادیا ہے کہ حقیقی مردے واپس نہیں آتے۔
ھیمسک التی قضی علیہا الموت (الزمر : ۴۳)
کے کیا معنے ہیں۔ پھر اگر میں نے یہ کہا کہ وہ مردے جو حضرت مسیح نے زندہ کئے وہ حقیقی مردے نہ تھے جو آیت
فیمسک التی قضی علیھا الموت
کے موافق واپس نہیں آتے تو کیا بُرا کیا؟ اس سے معجزات کا انکار کیونکر ثابت ہوا۔
میرا معجزات ثابت ہوتا ہے کیونکہ نہ ایک جگہ نہ دو جگہ بلکہ قرآن شریف کے متعدد مقامات سے یہ امر ثابت ہو رہا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا
وحرام علیا قریۃ اھلکنا ھا انہم لا یرجعون (الانبیاء : ۹۶)
اب بتائو کہ جب اﷲ تعالیٰ کھول کھول کر ایک امر کو بیان کر دے کہ مردہ حقیقی واپس نہیں آیا کرتا تو پھر قرآن شریف کی تعلیم سے یہ کیسا انحراف ہے کہ خواہ نخواہ یہ تجویز کیا جاوے کہ فلاں شخص ایسا کرتا تھا۔ خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ایسی باتوں کو منہ سے نکالتے وقت اﷲ تعالیٰ کا ادب کرو۔
ہاں یہ سچ ہے کہ بعض لوگ جو مردہ ہی کی طرح ہو جاتے ہیں اور کوئی امید زندگی کی باقی نہیں ہوتی۔صرف دم باقی ہوتا ہے۔ ہر قسم کی تدابیر کی راہ بندہوتی ہے۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اپنے کسی بندہ کی دعائوں سے اس مردہ کو زندہ کر دیتا ہے۔ یہ بھی احیاء موتیٰ ہی ہوتا ہے۔ اور یہاں بھی اس قسم کی مثالیں موجود ہیں۔
نواب صاحب کے لڑکے عبدالرحیم کو جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ اس کی شہادت دے سکتے ہیں کہ اس کی کیا حالت تھی۔ اس کی زندگی کی کوئی بھی امید باقی نہ تھی؎ٰ۔ایسا ہی خدو میر الڑکا مبارک ایسی حالت تک پہنچ گیا تھا کہ گھروالوں نے انا ﷲ وانا لیہ راجعون۔ بھی پڑھ دیا۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے پھر اُسے زندہ کر دیا۔ یہ احیاء موتیٰ ہوتا ہے۔
اور علاوہ اس کے روحانی احیاء بھی ہوتا ہے جو لوگ اﷲ تعالیٰ کی ہدایتوں سے بے خبر ہوتے ہیں اور ان کی زندگی ایک گمراہی کی زندگی ہوتی ہے وہ بھی مردہ ہی ہتوے ہیں کیونکہ روحانی طور پر مرچکے ہوتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں کو ہدایت یاب ہو جانا یہ ان کا زندہ ہونا ہے۔ یہ حقیقت احیاء موتیٰ کی ہے جو قرآن شریف نے بیان کی ہے اور اسی کے موافق خدا تعالیٰ سے علم پا کر میں نے اس کی تصریح کی۔ اب اگر یہ اناکر معجزات ہے تو ایسا الزام لگانے والا خود سوچ لے کہ وہ مجھے منکر نہیں ٹھہراتا۔ بلکہ قرآن شریف سے انحراف اور انکار کرتا ہے۔
یہ کس قدر نا سمجھی اور ناواقفی کی بات ہے کہ انسان اس طرز اور کلام کو اختیار کرے جس میں قرآن شریف پر حملہ ہو اور آنحضرت ﷺ پر حملہ ہو۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ وگ کیا کرتے ہیں؟ کیا ان کو معجزاتِ مسیح پیارے ہیں یا خد اتعالیٰ کا کالم اور آنحضرت ﷺ ؟ یہ اگر معجزات مسیح کے لیے خدا تعالیٰ کے کلام او رآنحضرت کو چھوڑ سکتے ہیں تو چھوڑدیں۔ ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو چھوڑدیں اور آنحضرت ﷺ کی ہتک کریں۔ اس عقیدہ پر اگر ساری دنای مجھ کو چھورتی ہے تو چھوڑدے مجھے اس کی پروا نہیں اس لیے کہ خدا میرے ساتھ ہے۔
ان کو اعتراض کا حق تو ا سوقت ہوتا جب ہم خدا تعالیٰ کے کلام کے خلاف کرتے۔ لیکن جب ہم خدا تعالیٰ کے کلام کے بالکل موافق کہتے ہیں تو پھر اعتراض کرنا خدا تعالیٰ کے کلام پر اعتراض ہے نہ مجھ پر۔ اگر مسیح واقعی مردوں کو زندہ کرتے تھے یعنی ایسے مردوں کو جو قضی علیھا الموت کے نیچے آچکے تھے تو ھپر کیوں انہوں نے ایلیا ء کو زندہ کرکے نہ دکھا دیا۔ تا کہ یہودی تھوکر نہ کھاتے اور خد بھی صلیبی ابتلا سے بچ جاتے۔
سعدیؔ بھی یہی مذہب رکھتا تھا اور یہی سچا مذہب ہے۔ کوئی اکابر اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ سعدی کہتا ہے ؎
وہ کہ گر مردہ باز گردیدے
رد میراث سخت تر بودے
بسرائے قبیلۂ پیوند
وارثاں راز مرگ خویشاوند؎ٰ
بلاتاریخ ۲؎
حضرت اقدس علیہ السلام کے کلمات طیبات
(ایک شخص کے اپنے الفاظ میں)
انسان اور آدم
فرمانے لگے کہ :
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کو آدم بننا چاہیے۔ آدم سے مراد کامل انسان ہے۔ جب انسان کامل آدم بن جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو حکم سجدہ (اطاعت) کا دیتا ہے اور اس کے ہر ایک کام کو خدا تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ سے سر انجام کرتا ہے۔ لیکن آدم کامل بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہو۔ جب انسان ہر ایک حرکت اور سکون حکم الٰہی کے نیچے ہو کر کرتا ہے تو انسان خدا کا ہو جاتا ہے۔ تب خدا تعالیٰ انسان کا والی وارث ہو جاتا ہے اور پھر اس پر کوئی مخالفت سے دست اندازی نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ آدمی جو احکام الٰہی کی پروا نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا۔ جیسے کہ آیت کریمہ
مایعبؤابکم ربی لو لا دعاوکم (الفرقان : ۷۸)
یعنی خد اتعالیٰ کو تمہاری پروا ہی کیاہے اگر تم اس کی فرماں برداری میں کوشاں نہ ہو اور اس کے احکاموں کو بے پروائی سے دیکھو۔
فرمایا کہ:
دنیا میں لاکھوں بکریاں بھیڑیں ذبح ہوتی ہیں لیکن کوئی ان کے سر ہانے بیٹھ کر نہیں روتا اس کا کای باعث ہے؟ یہی کہ ان کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایسے انسان کی ہلاکت کی بھی آسمان پر کوئی پروا نہیں ہوتی جو ا س سے سچا تعلق نہیں رکھتا۔ انسان اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق رکھتا ہے تو اشرف المخلوقات ہے؛ ورنہ کیڑوں سے بھی بد تر ہے۔ اس میں دو اُنس ہیں۔ ایک انس احکام الٰہی سے (جو ہو تو وہ کامل آدم ہے ورنہ وہ مردہ کیڑا ہے)۔ دوم مخلوق الٰہی سے۔ دنیا میں دیکھ اجاتا ہے کہ کئی ایک محض بے گناہ قید ہو جاتے ہیں اور ظالمانہ دست اندازیوں کا نشانہ بنتے ہیں مگر اس کا باعث یہ ہوتا ہے کہ وہ خد اتعالیٰ کے احکام کی پوری پروا نہیں کرتے اور دعائوں سے اس کی پناہ نہیں چاہتے اور شریعت میں بلاکل لا پروا ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی ان سے لا ابالی کا معاملہ کرتا ہے ورنہ ان کا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہوتا تو ہرگز ممکن نہ تھاکہ وہ اپنے دوست کو دشمنوں کے ہاتھوں میں یوں چھوڑے کیونکہ وہ ولی المؤمنین ہونے اور
نحن او لیا ؤکم فی الحیٰوۃ الدنیا وفی الخرۃ۔ (حٰم السجدۃ : ۳۲)
آدم ؑکامل انسان تھے تو فرشتوں کو سجدہ (اطاعت ) کا حکم ہوا۔ اسی طرح اگر ہم میں ہر ایک آدم بنے تو وہ بھی فرشتوں سے سجدہ کا مستحق ہو۔
آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر کامل انسان کوئی نہیں
کامل انسان محمد رسول اﷲ ﷺ سے بڑھ کر کون ہوگا؟ دیکھو جب انہوں نے اپنی جان اپنا مال اپنی حیات ممات رب العالمین پر قربان کو دیئے یعنی سارے کے سارے خدا کے ہوگئے تو کیس اخدا ان کا ہوا۔ اور کیسے فرشتوں سے ان کی مدد کی۔ اگر وہ فرشتوں سے مدد نہ کرتا تو ممکن نہ تھا ایک یتیم بچہ دنیا کو مغلوب کرلیتا۔ حکم
اذکرو ااﷲ ذکرا کثیرا (الاحزاب : ۴۲)
کا وہی کامل گذرا ہے۔ یعنی لڑائی کے وقت جب جھاگ منہ سے جاری ہے اور مارے غصہ کے آدمی جل رہا ہے۔ اس وقت بھی یہ حکم ہوتا ہے کہ خد اتعالیٰ کو یاد کر کے کسی پر وار چلانا۔ ان دشمنانِ دین کے مقابلہ پر جنہوں نے سینکڑوں صحابہؓ کو ذبح کر دیا تھا۔ فتح مکہ پر کیسا خد اکو یاد کیا اور کیسا ترحم دکھایا۔
ذکرِالٰہی کی حقیقت
فرمایا کہ:
خدا کا بننا اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہر ایک گھنٹہ اور رات میں انسان ذکرِ الٰہی میں رہے۔ ذکرِ الٰہی سے مراد یہ نہیں کہ تسبیح پکڑلے بلکہ ذکر سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک کام شروؓ کرتے وقت اس کو اس بات کا دھیان ہو کہ آیا یہ کام خد اتعالیٰ کی مرضی کے خلاف تو نہیں۔جب اس طرح انسنا کامل بن جاتا ہے تو خد ااس کا بن جات اہے اور حسب ولی المومنین ا س کو ہر موقعہ پر غموم و ہموم سے بچاتا ہے۔
بظاہر اکثر ایسے لوگ ہیں کہ وہ آدمی ہوتے ہیں’ لیکن حلاتِ کشف میں ان کو کتوں اور گدھوں کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔
درازیٔ عمر
پھر فرمایا کہ :
خدا تعالیٰ کا قرب اور نزدیکی بھی اور زندگی بھی انعام (انعمت علیہم ) میں شامل ہے۔ مخالفین اس انعام میں مسیح کو تو شامل کرتے ہیں اور رسول اﷲ ﷺ کو بے نصیب رکھتے ہی۔ کیوں ان کو اس عقیدہ سے شرم نہیں آتی۔ اور لمبی زندگی اس طرح انعام میں شمار ہو سکتی ہے کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ
اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
اور
ما یعبؤابکم ربی لو لا دعاؤکم (الفرقان : ۷۸)
یعنی نافع چیز کو درازیٔ عمر نصیب ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ دین سے غافلوں کو ہلاکت میں ڈالنے سے پروا نہیں کرتا۔ پس ثابت ہوا کہ جو دین سے غافل نہ ہوں۔ ان کی ہلاکت اور موت میں خدا تعالیٰ جلدی نہیں کرتا۔
سلسلہ کا منہاجِ نبوت پر ہونا
فرمایا کہ :
ہمارا سلسلہ منہاجِ نبوت پر ہے جس طرح رسول اﷲ ﷺ کو یہود اور نصاریٰ سے مقابلہ کرنا پڑا۔ اسی طرح ہم کو بھی ان یہود صفت مسلمانوں اور نصاریٰ سے مقابلہ کرنا پڑا۔ کیا یہ مولوی ہم کو رطب و یابس اور ضعیف حدیثوں اور قولوں سے جیتنا چاہتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے ان تمام تورات اور انجیل کی آیات کو محرف قرار دیا جو آپؐکے حکم ہوین کی معارض تھیں یا ان کے ایسے معنے کئے جو آپؐ کے سلسلہ اسلام کے موافق ثابت ہوں اور ان آیات کے معنے خدا دارد فراست اور الہام سے کئے اور اہلِ کتاب کے گلط معنوں کو رد کیا۔ رسول اﷲﷺ نے ساری موجودہ تورات اور انجیل کو صحیح قبول نہ کیا۔ بلکہ کئی ایک آیات کو محرف اور کئی ایک کے معنے صحیح طو رسے بذریعہ الہام کئے۔ اسی طرح ہمارا سلسلہ ہے۔
ہم بطور حکم کے آئے ہیں۔ کیا حکم کو یہ لازم ہے کہ کسی خاص فرقہ کا مرید بن جاوے؟ بہتر فرقوں میں سے کس کی حدیثوں کو مانے؟ حکم تو بعض احادیث کو مردود اور متروک قرار دے گا اور بعض کو صحیح۔
مظالم سے بچنے کی واحد راہ
فرمایا:
بڑے بڑے صریح ظلم مظلوموں پر ڈھائے جاتے ہیں۔ اور ہمارے سامنے ظالموں سے کوئی چنداں باز پرس نہیں ہوتی۔ اس کا باعث بھی خد اتعالیٰ نے اسی آیت میں فرمایا ہے۔
ما یعبؤابکم ربی لو لا دعاؤکم (الفرقان : ۷۸)
یعنی خدا تعالیٰ کو تمہاری پروا کیا ہے۔ اگر تم دعائوں اور عبادت الٰہی میں تغافل اختیار کرو۔ بے شک ظلم اور دست درازیاں مظلوموں پر ہوویں کوئی پروا نہیں کی جائے گی جب تک وہ مظلوم خد اتعالیٰ سے سچا تعلق بذریعہ صراط مستقیم پیدا نہ کرلیں۔اور مظلوم پر ظلم اس لیے ہوتے ہیں کہ مظلوم خود ذبیحہ بکری یا کیڑے کی طرح ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے سچا تعلق نہیں رکھتا۔ ورنہ ممکن ہے کہ خد اجو اُس کا دین و دنای کا متکفل ہو اور اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ پھر اس پر کسی ظالمانہ مخالفت کا وار چلنے دے؎ٰ؟

مامور من اﷲ کی صداقت کا نشان
راستباز اور مامور من ال کی صداقت کا بڑا نشان یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کو غیب کی خبریں دیت اہے اور پھر ان خبروں میں ایک طاقت ہوتی ہے جو دوسروں کو نہیں دی جاتی نجومی جو خبریں دیتا ہے ان میں وہ طاقت اور جبروت نہیں ہوتی جو مامور کی خبروں میں ہوتی ہے۔ علاوہ بریں مامور کی خبریں ایسی ہوتی ہیں کہ فراست اور قیافہ پر ان کی بنا نہیں ہوسکتی۔ مثلاً آنحضرت ﷺ نے مکی زندگی میں جو بالکل بے سروسامانی اور بیکسی کی زندگی تھی۔ اپنی کامیابی اور دسمنوں کی ناکامی اور نامرادی کی پیشگوئی کی تھی۔ کیا کوئی عقلمند اور ملکی مدبّر آنحضرت ﷺ کی اس وقت کی حالت دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ یہ شخص کامیاب ہو جائے گا اور وہ قوم جو اس کی مخالفت پر آمادہ ہے۔ ذلت کے ساتھ نامراد رہے گی؟ پھر دیکھ لو کہ انجام کیا ہوا۔ پس یہ ایک زبردست نشان مامور کو دیا جاتا ہے۔
عیسائیت کا انجام اور اسلما کا مستقبل
عیسائیوں کے حملے اسلام پر اس صدی میں بہت تیزی کے ساتھ ہوئے ہیں۔ اُن کی زبان درازی اور ثھیڑ ثھاڑ بہت بڑھ گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ چاہتا تو ایک دم میں ان کی مخالفانہ کاروائیوں کا فیصلہ کر دیت امگر وہ اپنا ھیصلہ روزِ روشن کی طرح دکھانا چاہتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس مذہب کی حقیقت دنیا پر کھُل جاوے۔ شیطان کی آدم کے ساتھ یہ آخری جنگ ہے ملائکۃ اﷲ آدم کے ساتھ ہیں اور اب شیطان ہمیشہ کے لیے ہلاک کر دیا جائے گا۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر میری طرف سے اس مردہ پرستی کے دور کرنے کے لیے کوئی تحریک نہ بھی ہوتی اور خدا تعالیٰ مجھے نہ بھی بھیجتا۔ تب بھی اس مذہب کی حالت ایسی ہو ثکی تھی کہ یہ خودبخود نمک کی طرح پگھل جاتا۔میں خد اتعالیٰ کی تائیدوں اور نصرتوں کو دیکھ رہا ہوں۔ جو وہ اسلام کے لیے ظاہر کر رہا ہے اور میں اس نظارہ کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ جو موت کا اس صلیبی مذہب پر آنے کو ہے۔ ا س مذہب کی بناید محض ایک *** لکڑی پر ہے جس کو دیمک کھا چکی ہے اور یہ بوسیدہ لکڑی اسلام کے زبردست دلائل کے سامنے اب ٹھہر نہیں سکتی۔ اس عمارت کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہے۔ اب وقت آتاہے کہ یکدم یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوگی۔ اور وہ اس مردہ پرستی کے مذہب سے بیزار ہو کر حقیقی مذہب اسلام کو اپنی نجات کا ذریعہ یقین کریںگے۔
اسلام ،عیسائیت اور آریوں کا خد اکے متعلق نظریہ
توحید ماننے والوں میں ایک خاص رعب اور جال ہوتا ہے۔جو بُت پرست کو حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس کا قلب ملزم کرتا رہت اہے اور اس کے اعتقاد کی بناید علوم حکہ پر نہیں ہوتی بلکہ ظنیات اور اوہام پر ہوتی ہے۔ مثلاً عیسائیوں نے یسوع کو خد ابنا لیا مگر کوئی ایسی خصوصیت آجتک دو ہزار برس ہوین کو آئے نہیں بتائی جو یسوع میں ہو اور دوسرے انسانوں میں نہ ہو، بلکہ جہانتک انجیل کے بیان کے موافق یسوع کی حالت پر غور کرتے ہیں۔ اسی قدر اسے انسانی کمزوریوں کا بہت بڑا نمونہ پاتے ہیں۔
بڑی خصوصیت اقتداری معجزات کی ہوتی ہے لیکن یسوع کی لائف میں اقتداری معجزات کا پتہ نہیں ملتا اور اگر عیسائیوں کے بیان کے موافق بعض مان بھی لیں تو پھر ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ اسی رنگ کے اقتداری معجزات یسوع کے معجزات سے کہیں بڑھ چڑھ کر پہلے نبیوں کے بائیبل میں موجود ہیں۔پھر خصوصیت کیا رہی؟ وہ کیا بات تھی جس پر اُسے خدا مان لیا گیا۔ اگر ایک مجلس میں اﷲ تعالیٰ کے صفات بیان کئے جاویں اور اس میں آریہ، عیسائی اور مسلمان موجود ہوں تو اگر کسی کا ضمیر مر نہیں گیا تو بجز مسلمان کے ہر ایک خدا تعالیٰ کے صفات بیان کرنے سے شرمندہ ہوگا۔مثلاً آریہ کیا یہ بیان کر کے خوش ہوگا کہ میں ایسے خدا پر ایمان لاتا ہوں جس نے دنیا کاایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ وہ میری روح اور جسم کا خالق نہیں۔مجھے جو کچھ ملتاہے میرے اپنے اعمال اور افعال کا ثمرہ ہے۔خدا تعالیٰ کا کوئی عطیہ اور کرم نہیں۔میرا خدا مجھے کبھی ہمیشہ کی نجات نہیں دے سکتا۔ میرے لیے لازمی ہے کہ میں جونوں کے چکر میں آکر کیڑے مکوڑے بنتا رہوں۔یا کیا عیسائی صاحب یہ بیان کر کے راضی ہوگا کہ میں ایک ایسے خد اپر ایمان لاتاہوں جو ناصرہ بستی میں یوسف نجار کے گھر معمولی بچوں کی طرح پید اہوا تھا۔ وہ معمولی بچوں کی طرح روتا چلاتا اور کبھی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ماں باپ سے تھپڑ بھی کھاتا تھا۔ اسے اتنی بھی خبر نہ تھی کہ وہ انجیر کے پھ ل کے موسم کا علم رکھتا۔ وہ ایسا غصہ ور تھا کہ درختوں تک کو بددعائیں دیتا تھا۔ وہ آخر میرے گناہوں کی وجہ سے صلیب پر *** ہوا۔ اور تین دن ہاویہ میں رہا۔ بتائو کیا وہ یہ باتیں خوسی کے ساتھ بیان کرے گا یا اندر ہی اندر اس کا دل کھایا جائیگا۔ لیکن ایک مسلمان بڑی جرأت اور دلیری سے کہے گا کہ میں اس خد اپر ایمان لایا ہوں جو تمام صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں اور نقائص سے منزہ ہے۔ وہ رب ہے۔ بلا مینگے دینے والا رحمان ہے۔ سچی محنتوں کے ثمرات ضائع نہ کرنے والا ہے۔ وہ حیّ و قیوم ، ارحم الراحمین خد اہے۔ وہ ہمیشہ کی نجات دیتا ہے۔ اس کی عطاء گیر مجذوذ ہے۔ پس جب مسلمان اپنے خدا کی صفات بیان کرے گا تو ہرگز شرمندہ نہیں ہوگا اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو ہم پر ہے۔ ایسا ہی اور ابہت سی باتیں ہیں۔ غض آنحضرت ﷺ کو مان کر ہم کبھی کسی کے سامنے شرمندہ نہیں ہوسکتے۔
معجزاتِ مسیح
معجزاتِ مسیح کی حقیقت ڈوئی نے خوب کھولی ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں بھی سلبِ امراض کرتا ہوں۔ اسی طرح پر جس طرح یسوع مسیح کیا کرتا تھا۔ اور عجیب تر یہ بات ہے کہ جہاں کوئی شخص اچھا نہیں ہوت اوہاں وہ شرمندہ نہیں ہوتا، بلکہ کہہ دیتا ہے کہ یسوع مسیح سے بھی فلاں شخص اچھا نہیں ہوا۔
سلبِ امراض فی الحقیقت کوئی ایسی چیز نہیں جس پر ناز کیا جا سکے۔ یہودی بھی اس زمانہ میں سلبِ امراض کرتے تھے اور ہندوستان میں بھی بہت لوگ اس قسم کے ہوئے ہیں اور آجکل تو ہزاروں ہزار دہریئے اور ملحد بھی ایسے ہیں جو سلبِ امراض کر سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک فن اور مشق ہے جس کے لیے یہ بھی ضرور نہیں کہ اس فن کا عامل خد اتعالیٰ پر یقین رکھتا ہویا نیک چلن ہو۔ جس طرح پر دوسرے علوم کے حصول کے لیی نیک چلنی اور خدا پرستی شرط نہیں ہے اس کے لیے بھی نہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص ریاضی کے قواعد کی مشق کرے تو قطع نظر اس کے کہ وہ دہریہ ہے یا موحد خدا پرست، وہ قواعد اس کے لیے کوئی روک پیدا نہیں کریں گے۔ برخلاف اس کے وہ روحانی کمالات جو اسلام سکھاتا ہے اُن کے لیے ضروری ہے کہ اعمال میں پاکیزگی اور صدق اور وفاداری ہو۔ بغیر اس کے وہ باتیں حاصل ہی نہیں ہوسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلبِ امراض والے مسیح کے اچھے کئے ہوئے مر گئے، لیکن
قد افلح من زکھا۔(الشمس : ۱۰)
کی تعلیم دینے والے کے زندہ کئے ہوئے آجتک بھی زندہ ہیں اور اُن پر کبھی فنا آہی نہیں سکتی۔
صحابہؓ کرام اور حواریانِ مسیح
صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے مقابلہ میں حواریوں کو پیش کرتے ہوئے بھی شرم آجاتی ہے۔حواریوں کی تعریف میں ساری انجیل میں ایک بھی ایسا فقرہ نظر نہ آئے گا۔ کہ انہوں نے میری راہ میں جان دے دی۔ بلکہ برخلاف اس کے ان کے اعمال ایسے ثابت ہوں گے جس سے معلوم ہو کہ وہ حد درجہ کے غیر مستقل مزاج، غدار اور بے وفا ارو دنیا پرست تھے اور صحابہ کرام نے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی راہ میں و ہ صدق دکھلایا کہ انہیں
رضی اﷲ عنہم ورضو اعنہ (البینۃ : ۹)
کی آواز آگئی۔ یہ اعلیٰ درجہ کا مقام ہے۔ جو صحابہؓ کو حاصل ہوا۔ یعنی اﷲ تعالیٰ اُن سے راضی ہوگیا اور وہ اﷲتعالیٰ سے راضی ہو گئے۔ اس مقام کی خوبیاں اور کمالات الفاظ میں ادا نہیں ہوسکتے۔ اﷲ تعالیٰ سے راضی ہو جانا ہر شخص کا کام نہیں بلکہ یہ توکل،تبتل اور رضا و تسلیم کا اعلیٰ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کو کسی قسم کا شکوہ و شکایت اپنے مولیٰ سے نہیں رہتی اور اﷲ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے راضی ہونا یہ موقوف ہے بندے کے کمال صدق و وفاداری اور اعلیٰ درجہ کی پاکیز گی اور طہارت اور کامل اطاعت پر جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ نے معرفت اور سلوک کے تمام مدارج طے کر لیے تھے۔ اس کا نمونہ حواریوں میں اگر تلاش کریں تو ہرگز نہیں مل سکتا۔ پس نرے سلبِ امراض پر خوش ہو جانا یہ کوئی دانشمندی نہیں ہے اور روحانی کمالات کا شیدائی ان باتوں پر خوش نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں تمہارے لیے یہی پسند کرتا ہوں کہ تم اپنے دل کو پاک کرو مولیٰ کریم تم سے راضی ہو جاوے اور تم اس سے راضی ہو جائو۔ پھر وہ تمہارے جسم میں تمہاری باتوں میں ایسی برکت رکھ دے گا۔ جو سلبِ امراض کرنے والے بھی انہیں دیکھ کر حیران اور شرمندہ ہوں گے۔
ٰٰایک نکتۂ معرفت
قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کے نام کے ساتھ کوئی صفت مفعول کے صیغہ میں نہیں ہے۔ قدوس تو ہے مگر معصوم نہیں ہے کیونکہ معصوم کا لفظ ظاہر کرت اہے کہ اس کو بچانے والا کوئی اور ہے؛ حالانکہ اﷲ تعالیٰ تو اپنی ذات ہی میں بے عیب پاک خدا ہے اور وحدہٗ لاشریک اکیلا خدا ہے۔ ا سکو بچانے والا کون ہوسکتا ہے۔
ایک الزامی جواب
ایک مرتبہ آپ کی مجلس میں مفتی محمد صادق صاحب رسالہ ’’بے گناہی مسیح‘‘ سنا رہے تھے۔ اس میں ایک مقام پر مصنف نے آنحضرت ﷺ کی پاک ذات پر محض ا س بنا پر حملہ کیا کہ آنحضرت ﷺ نے نکاح کیوں کیا؟ اس پر فرمایا:
افسوس یہ لوگ ایسے بیہودہ اعتراض کرتے ہیں جن کو کوئی سلیم الفطرت پسند نہیں کرسکتا ایسی باتیں کر کے یہ لوگ کچھ سننا چاہتے ہیں’ اگ ریہ اعتراض کرنے سے پہلے اتنا سوچ لیتے کہ ایک شخص جو بیگانی اور بدو ضع مشہور عورتوں سے تعلق رکھتا ہے اس کی زندگی کو تو وہ بے عیب اور خدا کی زندگی قرار دیتے ہیں۔ پھر جائز طور پر نکاح کرنے والے پر اعتراض کیوں ہے؟ کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے۔ اپنے گھر میں انجیل کا مطالعہ کرے اور کفارہ کی برکات جو یورپ کو اخلاقی طو رپر ورثہ میں ملی ہیں ان پر نظر کرے پھر وہ اسلام پر اعتراض کرنے کے لیے منہ کھولے جس کے گھر میں اس قدر گند ہو۔ اُسے تو شرم آنی چاہیے؎ٰ۔
بلاتاریخ۲؎
اس زمانہ کی دنیا پرستی
افسوس کا مقام ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے لیکن اس کے لیے وہ وہ کوششیں کی جاتی ہیں گویا کبھی یہاں سے جانا ہی نہیں۔ انسان کیسا غافل اور نا سمجھ ہے کہ علانیہ دیکھتا ہے کہ یہاں کسی کو ہمیشہ کے لیے قیام نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اس کی آنکھ نہیں کھلتی۔ اگر یہ لوگ جو بڑے کہلاتے ہیں۔ اس طرف توجہ کرتے تو کای اچھا ہوتا۔ دنیا کی عجیب حالت ہو رہی ہے جو ایک درد مند دل کو گھبرا دیتی ہے۔ بعض لوگ تو کھلے طو رپر طالبِ دنیا میں اور ان کی ساری کوششیں اور تگ و دور دنای تک محدود ہے۔لیکن بعض لوگ ہیں تو اسی مردود دنیا کے لیے طلبگار ہیں۔مگر وہ اس پر دین کی چادر ڈالتے ہیں۔ جب اس چادر کو اُٹھایا جاوے تو وہی نجاست اور بدبو موجود ہے۔ یہ گروہ پہلے گروہ کی نسبت زیادہ خطرناک اور نقصان رساں ہے۔ اکثر لوگ جب ان دنیاداروںکی حالت کو دیکھتے ہیں تووہ دہریئے ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے اعمال کو ان کے اقوال کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا۔ سننے والے جب ان کی باتوں کو سنکر پھر ان کے اعمال کو دیکتے ہیں تو ان کا ایمان بالکل جاتا رہتا ہے اور وہ دہریہ ہو جاتے ہیں۔
سلسلہ احمدیہ کے قیام کی وجہ
میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت قریباً علماء کی یہی حالت ہو رہی ہے
لم تقولون ما لا تفعلون (سورۃ الصف : ۳)
کے مصداق اکثر پائے جاتے ہیں اور قرآن شریف پر بگفتن ایمان رہ گیا ہے؛ ورنہ قرآن شریف کی حکومت سے لوگ بکلی نکلے ہوئے ہیں۔ احادیث سے پایا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا تھا کہ قرآن شریف آسمان پر اُٹھ جائے گا۔ میں یقینا جانت اہوں کہ یہ وہی وقت آگیا ہے۔حقیقی طہارت اور تقویٰ جو قرآن شریف پر عمل کرنے سے پید اہوتا ہے آج کہاں ہے؟ اگر ایسی حالت نہ ہو گئی ہوتی تو خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو کیوں قائم کرتا۔ ہمارے مخالف اس بات کو نہیں سمجھ سکتے لیکن وہ دیکھ لیں گے کہ آخر ہماری سچائی روز روشن کی طرح کھل جائے گی۔ خدا تعالیٰ خود ایک ایسی جماعت تیار کر رہا ہے جو قرآن شریف کی ماننے والی ہوگی۔ ہر ایک قسم کی ملونی اس میں سے نکال دی جائے گی اور ایک خالص گروہ پیدا کیا جاوے گا اور وہ یہی جماعت ہے۔ اس لیے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کے احکام کے پورے پابند ہو جائو اور اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلی کرو جو صحابہ کرامؓ نے کی تھی۔ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دیکھ کر ٹھوکر کھاوے۔ ہاں میں یب بھی کہتا ہوں کہ ہر شخص کافرض ہے کہ وہ افتراء اور کذب کے سلسلہ سے الگ ہو جاوے۔ پس تم دیکھو اور منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو دیکھو۔ یہ میں جانتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور زمین پر بارش ہوتی ہے تو جہاں مفید اور نفع رساں بوٹیاں اور پودے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی زہریلی بوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس وقت خدا تعالیٰ کا کالم اُتر رہا ہے اور آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ چونکہ ایک سلسلہ حقہ قائم ہوا ہے۔ ضروری تھا کہ اس کے ساتھ جھوٹے مدعی اور مفتری بھی ہوتے ہیں جو اکثروں کوگمراہ کرتے۔ پس ہر شخص کا فرض ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ سے کشود کار کے لیے دعا کرے اور دعائوں میں لگا رہے۔ہمارے سلسلہ کی بناید نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر ہے۔ پھر اس سلسلہ کی تائید اور تصدیق کے لیے اﷲ تعالیٰ نے آیات ارضیہ اور سماویہ کی ایک خاتم ہم کو دی ہے۔ یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اسے ایک مہر دی جاتی ہے اور وہ مہر محمدی مہر ہے جس کو ناعاقبت اندیش مخالفوں نے نہیں سمجھا۔
میں بڑے یقین اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ پر کمالاتِ نبوت ختم ہو گئے ۔ وہ شخص جھوٹا اور مفتری ہے جو آپ کے خلاف کسی سلسلہ کو قائم کرتا ہے اور آپؐکی نبوت سے اگر ہو کر کوئی صداقت پیش کرتا ہے اور چشمۂ نبوت کو چھوڑتا ہے۔ میں کھول کر کہت اہوں کہ وہ سخص *** ہے جو آنحضرت کے سوا آپؐ کے بعد کسی اور کو نبی یقین کرتا ہے اور آپؐ کی ختم نبوت کو توڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آنحضرت ﷺ کے بعد نہیں آسکتا جس کے پاس وہی مہر نبوت محمدی نہ ہو۔ ہمارے مخالف الرائے مسلمانوں نے یہی گلطی کھائی ہے کہ وہ ختم نبوت کی مہر کو توڑ کر اسرائیلی نبی کو آسمان سے اُتارتے ہیں۔ اور میں یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی قوتِ قدسی اور آپﷺ کی ابدی نبوت کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد بھی آپﷺ ہی کی تربیت اور تعلیم سے مسیح موعود آپ کیا مت میں وہی مہر نبوت لے کر آیا ہے۔ اگر یہ عقیدہ کفر ہے تو پھر میں اس کفر کو عزیز رکھتا ہوں۔ لیکن یہ لوگ جن ی عقلیں تاریک ہو گئی ہیں۔ جن کو نور نبوت سے حصہ نہیں دیا گیا اس کو سمجھ نہیں سکتے اور اس کو کفر قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ وہ بات ہے جس سے آنحضرت ﷺ کا کمال اور آپؐ کی زندگی کا ثبوت ہوتا ہے۔
مامورین کی تائید اور تصدیق کے لیے نشانات
غرض ہر مامور اور راستبارز کو اﷲ تعالیٰ ایک نشان نبو تدیتا ہے اور وہ وہ آیاتِ ارضیہ اور سماویہ ہوتے ہیں جو اس کی تائید اور تصدیق کے لیے ظاہر ہتوے ہیں اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے میری تائید اور تصدیق میں ایک دو نہیں لاکھوں لاکھ نشان ظاہر کئے ہیں۔ کوئی دیکھنے والا بھی ہو۔
پھر میری تائید اور تصدیق اور اس سلسلہ کی سچائی کے لیے دلائل عقیلہ موجود ہیں۔کاس یہ لوگ اگر نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے واقف نہیں تھے اور ان آیاتِ ارضیہ اور سماویہ کو جو میری صداقت کے ثبوت میں میرے ہاتھ پر ظاہر ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے تو عقل ہی سے کام لیتے ۔ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کریم میں ذکر آیا ہے کہ جب وہ دوزخ میں داخل ہوں گے تو اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی اور اپنی غلطی پر اطلاع ہو ی تو کہیں گے۔
لو کنا نسمع او نعقل ما کنا ھی اصحاب السعیر (الملک : ۱۱)
اے کاش اگر ہم سنتے اور پھر سنکر عقل سے کام لیتے تو ہم جہنمی نہ ہوتے۔
ضرورت زمانہ کی دلیل
میں کہتا ہوں کہ اگر دوسرے امور پر نظر نہ بھی کریں توایک ضرورت موجود ہی ایسی ہے جو میر ی سچائی پر مہر کر دیتی ہے۔ کیا اس طوفان اور جنگ کے وقت جب عیسائیوں نے اسلام کونابود کرنا چاہا اور ہر طرف سے اور ہر رنگ سے اس پر حملے کر رہے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں اخبارات اور رسالے اس کی مخالفت میں شائع کر رہے ہیں،اس لیے کہ اسلام اُن کی راہ میں ایک روک اور پتھر ہے۔ اسلام ہی ان کی عیش میں تلخ ہے۔ اخبارات یورپ پکار پکار کر کہتے اور وہاں کے مدبر اور اہل الرائے اسلام ہی کو اپنی ترقی کی راہ میں روک قرار دیتے ہیں۔ ایسی حالت میں اسلام کے نیست و نابود کرنے کی جس قدر فکر عیسائیوں کو ہو سکتی ہے اس سے وہ لوگ جو حجروں میںر ہتے ہیں کب آشنا اور واقف ہو سکتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ آئے دن دو چار آدمی مسلمان ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی ترقی ہو رہی ہے انہیں ان حملوں کی خب رنہیں جومقدس اسلام پر مختلف رنگوں میں ہو رہے ہیں۔ عیسائیت کی برباد کن آگ اسلام کے گھر کو لگ چکی ہے۔۲۹ لاکھ تو ایسے ہیں جو اس آگ کی نذر ہو چکے ہیں۔ اور اسلام کے لختِ جگر کہلا کر مسلمانوں کے گھروں میں پید اہو آنحضرت کی مخالفت میں کھڑے ہو کر وعظ کہتے ہیں۔ یہ تو علانیہ دشمن ہیں۔پھر ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو گو کھلے طور پر عیسائی تو نہیں ہوئے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ انہیں اسلام کے ساتھ کوئی محبت اور لگائو نہیں ہے وہ اسلام کے ارکان اور شعار پر ہنستے اور ٹھٹھے کرتے ہیں۔آئے دن اس میں لگے رہتے ہیں کہ جہانتک ممکن ہو اور بس چلے اسلام کے احکام نماز روزہ میں ترمیم کریں اور اپنی تجویز اور تدبیر سے ایک ایسا اسلام پیدا کریں جس کے بانی مبانی وہ آپ ہوں۔آنحضرتﷺ کے تعلیم کردہ اسلام سے خواہ وہ الگ ہی کیوں نہ ہو۔ ان لوگوں کی حالت کسی صورت میں عیسائیوں سے کم نہیں ہے۔ وہ کھلم کھلا ان کی وردی پہنتے ہیں۔جو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک دشمن دین کی وردی وہ کیوں پہنتے ہیں اگر اسلام کے ساتھ انہیں محبت اور پیار ہے۔
منہاج نبوت کے معیار پر اس صداقت کو آزمائو
اگر کوئی شخص ہماری جماعت سے نفرت کرتا ہے تو کرے۔ لین اسے کم از کم غیرت اسلام کے تقاضا سے اور اسلام کی موجودہ حالت کے لحاظ سے یہ بھی تو ضرور ہے کہ وہ کسی ایسی جماعت کو تلاش کرے اور اس کا پتہ دے جو ٔحجج و براہین اور خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات اور روشن آیات سے کسر صلیب کر رہی ہو۔ مگر میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ خواہ شر قاً غرباً شمالاً جنوباً کہیں بھی چلے جائو اس جماعت کا پتہ بجز میرے نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے اس غرض کے واسطے مجھے ہی مبعوث کر کے بھیجا ہے۔میرے دعویٰ کو سنکر نری بدظنی اور بدلگامی سے کام نہ لو بلکہ تمہیں چاہیے کہ اس پر غور کرو اور منہاج نبوت کے معیار پر اس کی صداقت کو آزمائو۔ انسان ایک پیسے کا برتن لیتا ہے تو اس کی بھی دیکھ بھال کرتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری باتوں کو سنتے ہی بغیر فکر کئے گالیاں دینی سروع کرتے ہیں۔ یہ بہت ہی نامناسب امر ہے۔ جو طریق میں نے پیس کیا ہے اس طرح پر میرے دعویٰ کو آزمائو اور پھر اگر اس طریق سے بھی تم مجھے کاذب پائو تو بے شک افسوس کے ساتھ چھوڑ دو۔ لیکن میں تمہیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ مین مفتری نہیں ہوں۔ کاذب نہیں ہوں بلکہ میں وہی ہوں جس کا وعدہ نبیوں کی زبانی ہوتا چلا آیا ہے۔ جس کو آنحضرت ﷺ نے سلام کہا ہے۔ وہی مسیح موعود ہوں۔ جو چودھویں صدی میں آنے والا تھا اور جو مہدی بھی ہے۔مجھے وہی قبول کرتا ہے جس کو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے دیکھنے والی آنکھ عطا کرتا ہے اور یہ جماعت اب دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ خد اتعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ بڑھے پس یہ بڑھے گی۔ اور ضرور بڑھے گی۔
الحکم جلد ۹ نمبر ۲۰ صفحہ ۲ بابت ۱۰؍جون ۱۹۰۵ء؁
بلاتاریخ؎ٰ
حجۃاﷲ کا مقام
جب انسان حجۃاﷲ کے مقام پر ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ ہی اس کے جوارح ہو جاتا ہے۔
ما ینطق عن الھوی (النجم : ۴)
کے یہی معنے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ انسان کامل طور پر اﷲ تعالیٰ کافرمانبردار اور اس کا وفا دار بندہ ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ اسے کامل صلح ہوتی ہے۔ اس کی کوئی حرکت کوئی سکون اﷲ تعالیا کے ازن اور امر؎ٰکی ایک کل ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اس پر
ما ینطق عن الھوٰی
کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ مقام کامل اور اکمل طور پر ہمارے نبی ﷺ کو حاصل تھا۔
مکر کے معنے
مکر کا لفظ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح کے لیے استعمال کیاہے۔ پھر یہی لفظ آنحضرت ﷺ کے لیے بھی آیا ہے اور براہین احمدیہ میں میرے متعلق بھی ایک الہام ہے۔ مکر کی حد اس وقت تک ہوتی ہے۔ جب تک وہ انسانی تدابیر اور منصوبوں تک ہو۔ لیکن جب انسانی منصوبوں کی طرح نہ ہو تو پھر وہ خارق عادت ہوتا ہے مکر نہیں۔
آنحضرت ﷺ کے متعلق کفار نے جو منصوبے کئے وہ اس میں پورے ناکام اور نامراد رہے اور اﷲ تعالیٰ نے خارق عادت طریق سے آپ کو وعدہ کے موافق بچا لیا۔
بروز کا مسئلہ
مذہب کبھی سر سبز نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی روحانیت کا بروزنہ ہو اس لیے ضروری تھا ہ اسلام کے کامیاب اور بامراد ہونے کے لیے آنحضرت ﷺ فوت ہو چکے اور مدینہ طیبہ میں قبر کے اندر رکھے گئے۔ مگر میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں۔
اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر یہی ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ جو قبر میں رکھے گئے وہ ایک پاک دانہ کی طرح رکھے گئے ہیں جس کو بہت سے خوشے لگے ہیں جو
اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء (ابراہیم : ۲۵)
کا سچا مصداق ہے اگر کوئی شخص اس امر کو نہیں مانتا تو وہ گویا تسلیم کرتا ہے کہ معاذاﷲ آپﷺ ضائع ہوگئے؛ حالانکہ آپؐ کے برکات اور فیوض کا تو یہانتک اثر ہوا کہ مدینہ طیبہ کا نام یثرب بھی نہیں رہنے دیا،کیونکہ یثرب ہلاک ہونے کو کہتے ہیں۔میں یقینا کہتا ہوں اور اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر اس حقیقت کو کھول دیا ہے کہ آپﷺ مدینہ کی خاک میں اس دانے کی سرف تھے جس سے ہزار دانے اُگیں۔ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں وہ تعصب اور ضد میں اندھے ہو کر آپﷺ کو اس دانہ سے مشابہ سمجھتے ہیں جو معازاﷲ کرم خوردہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ کی یہ قدیم سے عادت ہے کہ نبی کے اخلاق، عادات اور توجہ کسی اور کو بھی دئے جاتے ہیں جو اس کی اتباع میں اس کی محبت میں کامل طور پر فنا ہو گیا ہو۔ اور ظلی طور پر اس کے کمالات اور خوبیوں کو اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ اس صورت میں اس نبی کا ہوتا ہے۔ یہی سر ہے جو انجیل؎ٰ میں لکھا ہے۔ مسیح نہ آئے گا جب تک ایلیا نہ آئے۔ اور دوسرے مقام پر ایلیا کے آنے سے مراد اس کی خواور طبیعت اور طاقت پر آنے سے لی گئی ہے۔ پس مہدی کے متعلق جو کہا گیا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے نام پر آئے گا اس سے یہی مراد ہے کہ وہ طلی اور بروزی طور پر آنحضرت ﷺ کا مظہر ہوگا۔
بعثت مسیح موعود کے مقاصد
میرے آنے کے دو مقصر ہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ کہ اصل تقویؓ اور طہارت پر قائم ہو جائیں۔ وہ ایسے سچے مسلمان ہوں جو مسلمان کے مفہوم میں اﷲ تعالیٰ نے چاہا ہے۔ اور عیسائیوں کے لیے کسر صلیب ہو۔ اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے۔ دنیا اس کو بالکل بھول جاوے۔ خدائے واحد کی عادت ہو۔
میرے ان مقاصد کو دیک کر یہ لوگ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جوکام نفاقِ طبعی اور دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہو جائیں گے کیا کازب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے؟
ان اﷲ لا یھدی من ھو مسرف کذاب (المومن: ۱۰۹)
کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے لیکن جوکام اﷲ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لیے ہوں۔اور خود اﷲ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو۔ پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں ۔ کون ہے جو اس کو تلف کر سکے؟ یاد رکھو۔ میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقینا اسی کی طرف سے ہے تو واہ ساری دنای اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مدد نہ دے۔ تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا۔
مخالفت کی میں پروا نہیں کرتا۔ میں اس کو بھی اپنے سلسلہ کی ترقی کے لیے لازمی سمجھتا ہوں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مامور اور خلیفہ دنیا میں آیا ہو اور لوگوں نے چُپ چاپ اسے قبول کر لیا ہو۔ دنیا کی تو عجیب حالت ہے۔ انسان کیسا ہی صدیق فطرت رکھتا ہو۔مگر دوسرے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے وہ تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے سلسلہ کی ترقی فوق العادت ہو رہی ہے۔بعض اوقات چار چار پانچ پانچ سو کی فہرستیں آتی ہیں اور دس دس پندرہ پندرہ تو روزانہ درخواستیں بیعت کی آتی رہتی ہیں اور وہ لوگ علیحدہ ہیں جو خود یہاں آکر داخل سلسلہ ہوتے ہیں’
سلسلہ کے قیام کی غرض
اس سلسلہ کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ لوگ دنیا کے گند سے نکلیں اور اصل طہارت حاصل کریں اور فرشتوں کی سی زندگی بسر کریں۔
وفات مسیح
مسیح کی موت کا جھگڑا بالکل صاف ہو چکا ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے اپنے قول سے اور مسیح ؑکے اپنے اقرار سے
فما توفیتنی (المائدہ : ۱۱۸)
میں موت ثابت کردی ہے۔اور آنحضرت ﷺ نے اپنے فعل سے معراج کی رات میں ا۲ن کو مردوں میں دیکھا یہ منطق ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ جو سخص ابھی اس عالم میں ہے وہ ان روحوں میں جو اس جہان سے گذر چکی ہیں کیونکر شامل ہو گیا؟
الحکم جلد ۹ نمبر ۲۵ صفحہ ۱۰-۱۱ مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۵ء؁
یکم اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
تصویر کی حِلّت و حرمت
ذکر آیا کہ ایک شخص؎ٰنے حضور کی تصویر ڈاک کے کارد پر چھپوائی ہے تاکہ لوگ کارڈوں کو خرید کر خطوط میں استعمال کریں۔
حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا:
میرے نزدیک یہ درست نہیں۔ بدعت پھیلانے کا یہ پہلا قدم ہے۔ ہم نے جو تصویر فوٹو لینے کی اجازت دی تھی وہ اس واسطے تھی کہ یورپ امریکہ کے لوگ جو ہم سے بہت دور ہیں اور فوٹو سے قیافہ شناسی کا علم رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اُن کے لیے ایک روحانی فائدہ کا موجب ہو۔ کیونکہ جیسا تصویر کی حرمت ہے۔ اس قسم کی حرمت عموم نہیں رکھتی بلکہ بعض اوقات مجتہد اگر دیکھے کہ کوئی فائدہ ہے اور نقصان نہیں تو وہ حسب ضرورت اس کو استعمال کرسکتا ہے۔جاص اس وقت یورپ کی ضرورت کے واسطے اجازت دی گئی؛ چنانچہ بعض خطوط یورپ امریکہ سے آئے ہیں جن میں لکھاتھا کہ تصویر کے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی مسیح ہے۔ ایسا ہی امراض کے واسطے بعض وقت تصویر سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ شریعت میں ہر ایک امر جو
ما ینفع الناس (الرعد : ۱۸)
کے نیچے آئے اس کو دیر پا رکھا جاتا ہے۔لیکن یہ جو کارڈوں پر تصویر یں بنتی ہیں ان کو خرید نا نہیں چاہیے۔بت پرستی کی جر تصویر ہے۔ جب انسان کسی کا معتقد ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ تعظیم تصویر کی بھی کرتا ہے۔ ایسی باتوںسے بچنا چاہیے اور ان سے دور رہنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ ہماری جماعت پر سرنکالتے ہی آفت پڑ جائے۔ میں نے اس ممانعت کو کتاب میں درج کر دیا ہے جو زیر طبع ہے۔ جو لوگ جماعت کے اندر ایسا کام کرتے ہیں اُن پر ہم سخت ناراض ہیں۔ ان پر خدا تعالیٰ ناراض ہے۔ ہاں اگر کسی طریق سے کسی انسان کی روح کو فائدہ ہوتو وہ طریق مستثنیٰ ہے۔
ایک کارڈ تصوری والا دکھایا گیا۔ دیکھ کر فرمایا:
یہ بالکل ناجائز ہے۔
ایک شخص نے اس قسم کے کارڈوں کا یک بنڈل لا کر دکھایا کہ میں نے یہ تاجرانہ طور پر فروخت کے واسطے خرید کئے تھے۔ اب کیا کروں؟ فرمایا :
ان کو جلا دو اور تلف کردو۔ اس میں اہانتِ دین اور ہانت شرع ہے۔ نہ ان کو گھر میں رکھو۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ بلکہ اس سے اخیر میں بت پرستی پیدا ہوتی ہے۔ اس تصویر کی جگہ پر اگر تبلیغ کا کوئی فقرہ ہوتا تو خوب ہوتا؎ٰ۔
(قبل دوپہر)
گناہ کی تعریف
تُرک صاحب نے مندرجہ زیل دو سوال کئے اور جواب پایا۔
سوال۔اگر کوئی چوری یا زنا کے ارادے سے جاوے مگر نہ کرے تو کیا گناہ ہوگا؟
جواب حضرت اقدس۔ جو خیالات وسوسہ کے رنگ میں دل میں گزرتے ہیں اور ان پر کوئی عزم اور ارادہ انسان نہیں کرتا ان پر مؤاخذہ نہیں ہے۔ لیکن جب کوئی خیال بددل میں گذرے اور انسان اس پر مصمّم ارادہ کرلے تو اس پر مؤاخذہ ہوتا ہے اور وہ گناہ ہے۔ جیسے ایک اُچکا دل میں خیال کرے کہ فلاں بچہ کو قتل کر کے اس کا زیور اُتار لوں گا تو گو قانونی جرم نہیں۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ مجرم ہے اور سزا پائے گا۔یاد رکھو دل کا ایک فعل ہوتا ہے مگر جب تک اس پر مصمّم ارادہ اور عزیمت نہ کرلے اس کا کوئی اثر نہیں۔
سوال۔ جو لوگ لرائیوں میں جاتے ہیں اور وہاں قتل کرتے ہیں۔ کیا وہ قتل ان کا گناہ ہے یا نہیں؟
جواب۔ علمھا عند ربی میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس نے اچھا کیا یا برا کیا؎ٰ۔
۲؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
اسلامی جنگوں کی حقیقت
مسئلہ جہاد کے متعلق ذکر تھا۔ اس کے متعلق جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے:
اسلامی جہاد پر یہ اعتراض تو محض فضول ہے کہ وہ لڑائیاں مذہب اور اشاعت اسلام کی خاطر تھیں اس لیے کہ آنحضرت ﷺ تیرہ سال تک مکہ میں کفار کے ہاتھوں سے سخت تکلیف اُٹھاتے رہے اور آپؐ کے جاں نثار صحابہؓ نے دکھ اُٹھائے اور جانیں دیں۔ بعض غریب اور بیکس ضعیف عورتوں کو سرمناک تکالیف کفار نے پہنچائیں۔ یہانتک کہ آخر آپؐ کو ہجرت کرنی پڑی اور ان کفار نے وہاں بھی آپؐ کا تعاقب کیا۔ ایسی صورت میںجب اُن کی شرارتیں اور تکلیفیں حد سے گذر گئیں تو پھر خدا تعالیٰ نے سدِ باب اور دفاع کے طو رپر حکم دیا کہ ان سے جنگ کرو؛ چنانچہ پہلی آیت جس میں جہاد کا حکم ہوا وہ یہ ہے:
اذن للذین یقاتلون بانہم ظلمو (الحج : ۴۰)
یعنی ان لوگوں کو اجازت دی گئی کہ جنگ کریں جن پرظلم ہوا۔ مسلمان مظلوم تھے۔ اُن کی طرف سے ابتدا نہیں ہوئی تھی بلکہ بانیٔ فساد کفار مکہ تھے۔ ایسی حالت میں بھی جب اُن کی شرارتیں انتہائی درجہ تک جا پہنچیں تو اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو مدافعت کے واسطے مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔
پس یہ اعتراض محض فضول اور لغو ہے کہ وہ لڑائیاں مذہب کے لیے تھیں۔ اگر محض مذہب کے لیے ہوتیں تو جزیہ دینے کی صورت میں اُن کو کیوں چھوڑا جاتا۔ پھر میں کہتا ہوں کہ عیسئای تو اس قسم کا اعتراض کر ہی نہیں سکتے۔ وہ اپنے گھر میں دیکھیں کہ اسلامی لڑائیاں موسوی لڑائیوں سے زیادہ ہیں؟اور جبکہ وہ حضرت عیسیٰ کو موسیٰ ؑ کا بھی (معاذاﷲ) خدا مانتے ہیں تو ان لڑائیوں کا الزام عیسائیوں پر بدستور قائم ہے خصوصاً ایسی حالت میں کہ وہ لرائیاں اسلامی جنگوں سے زیادہ سخت اور خونریز تھیں۔ اسلامی لڑائیوں میں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا لحاظ کیا جاتا تھا اور ان کو قتل نہیں کیا جاتا تھا۔ مگر موسوی لڑائیوں میں تو ان امور کی پروا نہیں کی جاتی تھی۔ ایسا ہی اسلامی جنگوں میں مذہب عبادت گاہوں اور پھلدار درختوں کو بھی ضائع نہیں کیا جاتا تھا۔ مگر موسوی لڑائیوں میں پھلدار درخت تباہ کر دیئے جاتے ۔غرض اسلامی جنگ موسوی لرائیوں کے مقابلہ میں کچھ چیز ہی نہیں۔
مامور من اﷲ کی جماعت اور ایک الہام فرمایا:
اﷲ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہی عادت ثلی آی ہے کہ جب کوئی مامور اور مرسل اس کی طرف سے آتا ہے تو اولاً اس کی جماعت میں ضعفاء اور غرباء ہی آتے ہیں۔ بادشاہوں یا امراء کو توجہ نہیں ہوتی ہے اور آخر اﷲ تعالیا غرباء کی جماعت کو ہر قسم کی ترقیاں دے دیتا ہے۔ میرا ایک الہام ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ وہ بادشان مجھے دکھائے بھی گئے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی زمانہ آئے گاجب اﷲ تعالیٰ بعض کو اس سلسلہ کی سچائی کا فہم عطا کردیگا۔
پنجاب کی سرزمین نرم ہے فرمایا:
پنجاب کی سرزمین نرم ہے۔ ان لوگوں مین وہ شور اور شرارت نہیں ہے۔ جو ہندوستانیوں میں ہے۔ ہندوستانیوں نے غدر کر دیا تھا مگر پنجابی گورنمنٹ کے ساتھ تھے۔ ہمارے مرزا صاحب نے بھی پچاس گھوڑے اس وقت مدد کے لیے گورنمنت کو دیئے تھے۔
پنجابیوں نے جسقدر مجھے قبول کیا ہے۔ ہندوستان کو ابھی اس سے کچھ نسبت ہی نہیں۔؎ٰ
۳؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
نبی کا نکار کفر کو مستلزم ہے فرمایا:
نبی کا انکار موجب کفر ہوتا ہے مگر ولی کا انکار بھی سلبِ ایمان کا موجب ہوجاتا ہے اور آخر کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے
من عادلی ولیا فا ذنتہ للحرب۔
یعنی جو شخص میرے ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے۔ میں اس کو لرائی کے لیے پکارتا ہوں۔
خدا تعالیٰ نے بلعم کا قصہ بیان کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ ؑکی مخالفت کی وجہ سے اس حد تک گر گیا کہ اس کی کتے سے مثال دی گئی۔ نبی کا انکار صریح کفر کو مستلزر ہے مگر ولی کا جب دشمن بنتا ہے تو اندر ہی اندر توفیق چھن جاتی ہے۔
عبادت میں ذوق و شوق خدا تعالیٰ کے فضل پر ملتا ہے
کسی نے پوچھا کہ عبادت میں ذوق و شوق کس طرح پیدا ہوتا ہے۔ فرمایا:
اعمال صالحہ اور عبادت میں ذوق شوق اپنی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق پر ملتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان گھبرائے نہیں اور خدا تعالیٰ سے اس کی توفیق اور فضل کے واسطے دعائیں کرتا رہے۔ اور ان دعائوں میں تھک نہ جاوے۔جب انسان اس طرح پر مستقل مزاج ہو کر لگا رہتا ہے تو آخر خد اتعالیٰ اپنے فضل سے وہ بات پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے اس کے دل میں تڑپ اور بے قراری ہوتی ہے۔ یعنی عبادت کے لیے ایک ذوق و شوق اور حلاوت پیدا ہونے لگتی ہے۔ لیکن اگر کوئی سخص مجاہدہ اور سعی نہ کرے۔ اور وہ یہ سمجھے کہ پھونک مار کر کوئی کر دے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا قاعدہ اور سنت نہیں۔ اس طریق پر جو شخص اﷲ تعالیٰ کو آزماتا ہے۔ وہ خدا تعالیٰ سے ہنسی کرتا ہے اور مارا جاتا ہے۔ خوب یاد رکھو کہ دل اﷲ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے اس کا فضل نہ ہو تو دوسرے دن جا کر عیسائی ہو جاوے یا کسی اور بے دینی میں مبتلا ہو جاوے۔اس لیے ہر وقت اس کے فضل کے لیے دعا کرتے رہو اور اس کی استعانت چاہو تاکہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے۔ جو شخص خدا تعالیا سے بے نیاز ہوتا ہے وہ شیطان ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تاکہ وہ زہر اور جوش پید انہ ہو جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے؎ٰ۔
۱۱؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
چند الہامات
قبل وفات مولوی صاحب۔
یایھا الناس اعبدو اربکم الذی خلقکم
۱۲؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
انی مھین من اراد اھانتک
فرمایا :
پہلے الہام کے یہ معنے معلوم ہوئے کہ مولوی عبد الکریم صاحب کی موت پر حد سے زیادہ غم کرنا ایک قسم کی مخلوق کی عبادت ہے کیونکہ جس سے حد سے زیادہ محبت کی جاتی ہے یا حد سے زیادہ اس کی جدائی کا غم کیا جاتا ہے۔ وہ معبود کے حکم میں ہو جاتا ہے۔ خدا ایک کو بلا لیتا ہے۔ دوسرا اس کا قائم مقام کر دیتا ہے۔ قادر اور بے نیاز ہے۔
پہلے اس سے ایک یہ بھی الہام ہوا تھا جبکہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم زندہ تھے کہ:
دو شہتیر ٹوٹ گئے۔ انﷲوانا الیہ راجعون
؁یہ الہام بھی خوفناک ہے خدا تعالیٰ اس کے معنے بہتر جانتا ہے۔
مقام صدیقیت فرمایا:
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ محض اﷲ کی رضا کو مقدم کر لیں۔ اگر اسے خوس کریں تو سب کچھ مل سکتا ہے۔ مگر ان کی یہی توبدقسمتی ہے کہ وہ اس کو ناراض کر رہے ہیں۔ مجھے بہت ہی افسوس ہوتا ہے جب میں دیکتا ہوں کہ مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے ایک سچا دین اسلام عطا کیا تھا مگر انہوں نے اس کی قدر نہیں کی۔ خدا جانے یہ بے پروائی کیا نتیجہ پیدا کرے۔ دین کی کچھ بھی پروا اور غیرت نہیں۔باہم اگر جبگ و جدل ہے تو اس میں شیخی، ریا، عجب مقصود ہے نہ کہ اﷲ تعالیٰ کا جلا ل اور عظمت ۔لیکن جو شخص ہر امر میں اﷲ تعالیٰ کو مقدم کرے۔ اور اس کے دین کی حمیت اور غیرت میں ایسا محو ہو کہ ہر کام میں اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا ظاہر کرنا اس کا مقصود خاطر ہو۔ ایسا شخص اﷲ تعالیٰ کے دفتر میں صدیق کہلاتا ہے۔
جماعت کا صدق اور ہمدردیٔ اسلام
ہم جس طریق پر اسلام کو پیش کرسکتے ہیں ۔دوسرا نہیں کرسکتا ۔ مگر مشکلات یہ ہیں کہ ہماری جماعت کا بہت بڑا حصہ غرباء کا ہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ باوجود یکہ یہ غرباء کی جماعت ہے؛ تاہم میں دیکھتا ہوں کہ ان میں صدق ہے اور ہمدردی ہے اور وہ اسلام کی ضروریات سمجھ کر حتی المقدور اس کے لیے خرچ کرنے سے فرق نہیں کرتے۔ اﷲ تعالیٰ ہی کا فضل ساتھ ہو تو کام بنتا ہے اور ہم اس کے فضل کے امید وار ہیں۔

اسلام کا ضعف راتوں کی دعائوں سے ہی دور ہو سکتا ہے
جس طرح پر ایک طوفان قریب آتا ہو تو انسان کو فکر ہوتاہے کہ یہ طوفان تباہ کر دے گا اسی طرح پر اسلام پر طوفان آرہے ہیں۔ مخالف ہر وقت ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلام تباہ ہو جاوے۔ لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اسلام کو ان تمام حملوں سے بچائے گا اور وہ اس طوفان میں اس کا بیڑا سلامتی سے کنارہ پر پہنچا دے گا۔ انبیاء ؑ کے حالات پر نطر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کو مشکلات نظر آتی تھیں تو بجز اس کے اور کوئی صورت نہ ہوتی تھی کہ وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرتے تھے۔ قوم تو صمٌ بکمٌ ہوتی ہے وہ ان کی باتیں سنتی نہیں بلکہ تنگ کرتی اور دکھ دیتی ہے۔ اس وقت راتوں کی دعائیں ہی کام کیا کرتی تھیں۔ اب بھی یہی صورت ہے۔ باوجود یکہ اسلام ضعف کی حالت میں ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی بحالی کے لیے پوری کوشش کی جائے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہم سے جو اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ہر طرح سے ہماری مخالفت کے لیے سعی کی جاتی ہے۔ یہ میری مخالفت نہیں خد اتعالیٰ سے جنگ ہے۔ میں تو یہانتک یقین رکھتا ہوں کہ اگر میری طرف سے کوئی کتاب اسلام پر جاپان میں شائع ہو تو یہ لوگ میری مخالفت کے لیے جاپان بھی جا پہنچیں۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔
روحانیت کا صعود پاک دلی پر منحصر ہے
وہ شخص بڑا ہی مبارک اور خوش قسمت ہے جس کا دل پاک ہواور وہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے اظہار کا خواہاں ہو۔کیونکہ اﷲتعالیٰ اُسے دوسروں پر مقدم کر لیتا ہے۔جو لوگ میری مخالفت کرتے ہیں ان کا اور ہمار ا فیصلہ اﷲ تعالیٰ ہی کے سامنے ہے۔ وہ ہمارے اور ان کے دلوں کو خوب جانتاہے اور دیکھتا ہے کہ کس کا دل دنیا کے نمود اور نمائش کے لیے ہے اور کون ہے جو خدا تعالیٰ ہی کے لیے اپنے دل میں سوزوگداز رکھتا ہے۔
یہ خوب یاد رکھو کہ کبھی روحانیت صعود نہیں کرتی جب تک دل پاک نہ ہو۔ جب دل میں پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے تو اس میں ترقی کے لیے ایک خاص طاقت اور قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے لیے ہر قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور وہ ترقی کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو دیکھو کہ بالکل اکیلے تھے اور اس بیکسی کی حالت میںد عویٰ کرتے ہیں:
یا یھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (الاعراف : ۱۵۹)
کون اس وقت خیال کر سکتا تھا کہ یہ دعویا ایسے بے یارو مددگار شخص کابار آور ہوگا۔ پھر ساتھ ہی اس قدر مشکلات آپؐ کو پیش آئیں کہ ہمیں تو ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں آئیں۔وہ زمانہ تو ایسا تھا کہ سکھا شاہی سے بھی بدتر تھا۔ اب تو گورنمنٹ کی طرف سے پورا امن اور آزادی ہے۔اس وقت ایک چالاک آدمی ہر قسم کی منصوبہ بازی سے جو کچھ بھی چاہتا دکھ پہنچاتا۔ مگر مکہ جیسی جگہ میں اور عربوں جیسی وحشیانہ زندگی رکھنے والی قوم میں آپؐ نے وہ ترقی کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ پیس نہیں کر سکتی۔ اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ خود ان کی مذہبی تعلیم اور عقائد کے خلاف انہیں سنایا کہ یہ لات اور عزیٰ جن کو تم پانا معبود قرار دیتے ہو۔ یہ سب صلید اور حَطَبِ جہنم ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کونسی بات عربوں کی ضدی قوم کو جوش دلانے والی ہو سکتی ہے۔ لیکن انہیں عربوں میں آنحضرت ﷺ نے نشو نما پایا اور ترقی کی۔
‏Amira 4-1-06
انہیں میں سے حضرت ابو بکر ؓ جیسے نکل آئے۔ اس سے ہمیں امید ہوتی ہے کہ انہیں مخالفوں میں سے وہ لوگ بھی نکلیں گے جو خدا تعالیٰ کی مرضی کو پورا کرنے والے اور پاک دل ہوں گیاور یہ جماعت جو اس وقت تک تیار ہوئی ہے آخر انہیں میں سے آئی ہے۔
اﷲ تعالیٰ سے ہم کبھی نا امید نہیں ہوسکتے
کئی دفعہ میر صاحب؎ٰنے ذکر کیا کہ دلی سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے مگر میرے دل میں یہی آتا ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ دلی میں بھی بعض پاک دل ضرور چھپے ہوئے ہوں گے جو آخر اس طرف آئیں گے۔ اﷲ تعالیٰ نے جو ہمار تعلق دلی سے کیا ہے۔ یہ بھی خالی از حکمت نہیں۔اﷲ تعالیٰ سے ہم کبھی نا امید نہیں ہو سکتے۔ آخر خود میر صاحب بھی دلی ہی کے ہیں۔ غرض یہ کوئی نا امید کرنے والی بات نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ کا پاک اور کامل نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ مکہ والوں نے کیسی مخالفت کی اور پھر اسی مکہ مین سے وہ لوگ نکلے جو دنیا کی اصلاح کرنے والے ٹھہرے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ابو بکر ؓ انہیں میں سے تھے۔ وہ ابو بکرؓ جن کی بابت آنحضرت سے فرمایا کہ ابو بکرؓ کی قدرومنضلت اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس بات سے جو اس کے دل میں ہے۔ پھر حضرت عمر ع انہیں مکہ والوں میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ بڑے بھاری مخالف تھے۔ یہانتک کہ ایک مرتبہ مشورۂ قتل میں بھی شریک اور قتل کے لیے مقرر ہوئے۔ لیکن آخر خد اتعالیٰ نے ان کو وہ جوش اظاہر اسلام کا دیا کہ گیر قومیں بھی ان کی تعریف کرتیں او ران کا نام عزت سے لیتی ہیں۔
ہم کو وہ مشکلات پیش نہیں آئے جو آنحضرت ﷺ کو پیش آئے۔باوجود اس کے آنحضرت ﷺ فوت نہ ہوئے جب تک پورے کامیاب نہیں ہو گئے اور آپﷺ نے
اذا جائنصراﷲ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اﷲ افواجا (النصر : ۲-۳)
کا نظارہ دیکھ نہیں لیا۔
نبی کا قائم کردہ سلسلہ تباہ نہیں ہو تا
آج ہمارے مخالھ بیھ ہر طرح کی کوششیں ہمارے نابود کرنے کی کرتے ہیں ۔ مگر خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ جس قدر مخالفت اس سلسلہ کی انہوں نے کی ہے اسی قدر ناکامی اور نامرادی ان کے شاملِ حال رہیہے اور اﷲ تعالیا نے اس سلسلہ کو بڑھایا ہے۔ یہ تو خیال کرتے اور رائے لگاتے ہیں کہ یہ سخص مر جاوے گا اور جماعت متھرق ہو جاوے گی۔ یہ فرقہ بھی دوسرے فرقہ برہمو وغیرہ کی طرح ہے کہ جن میں کوئی کشش نہیں ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ اس کا خاتمہ ہو جاوے گا۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ خد اتعالیٰ نے خود ارادہ فرمایا ہے کہ اس سلسلہ کو قائم کرے اور اسے ترقی دے کیا آنحضرت ﷺ ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑکے فرقے نہ تھے؟ اس وکت ان کے مخالف بھی یہی سمجھتے ہوں گے کہ بس اب انکا خاتمہ ہے۔ لیکن خدا تعالیا نے ان کو کیسا نشونما دیا اور پھیلا یا۔ان کو سوچنا چاہیے کہا گر کوئی فرقہ تھوڑی سی ترقی کرکے رُک جاتا ہے تو ایسے فرقوں کی نظیر موجود نہیں جو عالم پر محیط ہو جاتے ہیں؟ اس لیے اﷲ تعالیا کے ارادوں پر نظر کر کے حکم کرنا چاہیے۔ جو لوگ رہ گئے اور ان کی ترقی رک گئے ان کی نسبت ہم یہی کہیں گے کہ وہ اس کی نظرمیں مقبول نہ تھے وہ ا سکی نہیں بلکہ وہ اپنی پرستش چاہتے تھے۔ مگر میں ایسے لوگوں کو نظیر مین پیش کرتا ہوں جو اپنے وجود سے جل جاویں اور اﷲ تعالیٰ ہی کی عظمت اور جلال کے خواہشمند ہوں۔اس کی راہ میں ہر دکھ اور متو کے اختیار کرنے کو آمادہ ہوں۔ پھر کیا کوئی کہہ سکت اہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں تباہ کر دے گا؟ کون ہے جو اپنے گھر کو خود تباہ کردے؟ ان کا سلسلہ خد اکا سلسلہ ہوتا ہے اس لیے وہ خدو اسے ترقی دیت اہے اور ان کے نشونما کا باعث ٹھہرتا ہے۔
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیگمبر دنیا میں ہوئے ہیں کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ ان میں سے کون تباہ ہوا۔ایک بھی نہیں اور پھر آنحضرت ﷺ کو مجموعی طور پر دیکھ لو۔ کیونکہ آپ جامع کمالات تھے۔ ساری قوم آپؐ کی دشمن ہو گئی اور اس نے قتل کے منصوبے کئے، مگر آپﷺ کی اﷲ تعالیٰ نے وہ تائید کی جس کی نطیر دنیا میں نہیں ملتی۔؎ٰ
۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
زندگی بے اعتبار ہے
فرمایا: ان لوگوں پر مجھے تعجب آتا ہے جو زندگی پر اعتبار کرتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان پر آنی موت وارد ہوتی ہے۔ ایک شخص بڑے مرزا صاحب کے پاس آیا انہوں نے ا سکی نبض دیک کر کہا کہ فوراً گھر چلے جائو اور پاس والوں کو کہا کہ اگر کسی نے مردہ چلتا ہوا دیکھنا ہو تو اس کو دیکھ لے۔وہ گر پہنچ کر فوراً مر گیا۔
ایسا ہی خلیفہ محمد حسین پٹیالہ والے کچہری سے گر جا کر ایک زینہ پر گرے۔ اُٹھے اور دوسرے پر گرے اور جان نکل گئی۔
صدقہ اگر ثہ قلیل ہو مگر اس پر دوام ہو
ایک مختصر سے چندہ کی ضرورت تھی۔ فرمایا:
بعض لوگ ایک بات منہ سے نکالتے ہیں اور پھر اس پر قائم نہیں رہ سکتے اور گنہگار ہوتے ہیں۔ صدقہ عمدہ وہ ہے جو اگر چہ قلیل ہو مگر اس پر دوام ہو۔
مولوی یار محمد صاحب کا اخلاص
مولوی صاحب مرحوم؎ٰ کی علالتِ طبع کے ایام میں بعض کی خدمت گذاری کے ذکر میں مولوی یار محمد صاحب بی-او-ایل کی خدمتگذاری کا ذکر آیا۔ فرمایا :
بہت ہی مخلص یکرنگ آدمی ہے۔ کئی دفعہ بہت تکلیف کا سفر برداشت کیا۔ بدنی خدمت خوب ادا کرتا ہے۔ چالیس کوس روز پیدل چلنا پڑے تو بھی عذر نہیں کرتا۔ رات کو چلنا ہو یا دن کو چلنا ہو۔ ایام مقدمہ میں ہمارے یکہ کے ساتھ برابر پیادہ دوڑ کر گورداسپور اور قادیان آتا جاتا رہا۔ محنت اور دیانت سے کام کرنے والا آدمی ہے۔ جس کے پاس ہوگا وہ مطمئن رہے گا۔کیونکہ دانستہ غفلت کرنے والا آدمی نہیں۔ سنتِ صحابہؓ کا ایک جزو اس میں ہے۔
قبل از نماز عصر
سچے مذہب کی شناخت
گجرات کے مشن سکول کے ہیڈ ماسٹردی-نیل صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چند تحریری سوال پیش کئے جن کے جوابات تحریری دیئے جائیں گے۔ مختلف مذاہب کا تذکرہ تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا :
آجکل مذاہب کی عجیب حالت ہے۔ گھر گھر ایک نیا مذہب بن رہا ہے اور تلاش کرنے والے کے واسطے ایک حیرت کا مقام ہو رہا ہے اور اس وقت طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقعی انسان کو نجات دینے والا سچا مذہب کون سا ہے؟ اس کا جواب ہر ایک شخص اپنے اپنے رنگ میں دیگا، لیکن اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ ہر ایک مذہب میں یہ دیکھنا چاہیے کہ خد اتعالیا کے ساتھ اس کے معاملات کیسے ہیں۔ اس کی عطمت جبروت اور خوھ کس قدر دل پر غالب ہے۔انسان شر سے طبعاً نفرت کرتا ہے اور جس ثیز کے فوائد اور منافع مرکوزِ خاطر ہو جائیں اس سے طبعاً محبت کرتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ انسان کو رات رہنا ہو اور اس جگہ سانپ ہو تو گوارا نہ کرے گا کہ وہاں رہے۔ یا کسی گائوں میں طاعون ہو تو طبعاً اس بات سے نفرت کرے گا کہ اس میں داخل ہو۔ فائدہ مند ثیر کی طرف رغبت کرتا ہے۔ بری چیز سے نفرت رکھتا ہے۔ پس جس شخص کے دل میں خد اکی واقعی عظمت ہو جواے اور اس کو مناھع دینے والا یقین کرلے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی میں اپنی ہلاکت پر پورا ایمان قائم کرلے تو پھر باوجود اس نظارہ کے وہ کس طرح خدا تعالیٰ کی خلاف مرضی کر سکے گا۔
انسان کو چلتے چلتے سونے کا خزانہ نظر آجائے تو ضرور اس کو لینے کی سعی کرتا ہے۔ پس اصل بات یقین اور ایمان یہ جس کے ذریعہ تمام بدیوں سے بچ کر نیکی کی طرف انسان آسکتا ہے۔ا ب وہ یقین اور ایمان کس طرح سے حاص ہو؟ سچا مذہب وہ ہے جو اس یقین کے واسطے صرف قصہ اور کہانیوں پر مدار نہ رکھے کیونکہ یہ کہانیاں تو سب میں پائی جاتی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم مسیح کے معجزات کا قصہ مان لیں اور ایک ہندو کے دیوتائوں کے معجزات جو اس کی پرانی کتابوں میں درج ہیں نہ مانیں۔تاریخی امور میں سب قومیں تواتر پیش کرتی ہیں۔ یہ ایک تحکم ہے کہ ایک کی بات مانی جائے اور دوسرے کا انکار کیا جائے۔یہ نا مناسب ہے کہ انسان اپنے مذہب کے قصے کو درست جانے اور باقی سب کو غلط مانے۔ غرض قصوں کے ذریعہ سے حق کے تلاش کرنے کا سفر بہت دور دراز کا ہے جو طے نہیں ہوسکتا۔ اس کے سوائے آسان راہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جیس اپہلے قادر تھا اب بھی قادر ہے۔ جیس اپہلے معجزات ظاہر کر سکتا تھا۔ اب بھی طاہر کر سکتا ہے۔ جیسا پہلے سنتا تھا اب بھی سنتا ہے۔ اور جیس اپہلے بولتا تھا اب بھی بولتا ہے۔یہ کیا وجہ ہے کہ پہلے تو سننے اور بولنے کی دونوں صفتیں اس میں تھیں مگر اب سننے کی صفت تو ہے لیکن بولنے کی نہیں۔ پس سچا طالب وہ ہے جو سب باتوں کو چھوڑ کر اس لم یزل ازلی ابدی خدا ہمیشہ کی قدرتوں والے خد اکی طرف جھک جائے۔اس خدا کی طرف توجہ کرے جوا ب بھی وہی صفات اور اخلاق رکھتا ہے جو موسیٰ ؑکے وقت اور آنحضرت ﷺ کے وقت رکھتا تھا۔ وہ اب بھی چاہتا ہے کہ گم گشتہ ا سکے پاس آئے۔وہ اب بھی محبت کرتا ہے کہ کوئی اس کے حضور میں آئے۔ سچا وہی ہے جوایسے خدا کو ڈھونڈتا ہے۔ جس مذہب کا مدار صرف قصوں پر ہے وہ مردہ مذہب ہے۔ سچا مذہب وہ ہے جس مین وہ خد ااب بھی بولتا ہے۔ جو تعصب نہیں رکھتا ہے وہ محض خدائے حی و قیوم کا طالب ہو کر اس کو پاتا ہے، خدا تعالیٰ اس دل کو دوست رکھتا ہے جو اس کو ڈھونڈنے والا ہو؎ٰ۔
۲۲؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
(بمقام ریلوے اسٹیشن امرتسر)
حضرت مولوی عبد الکریمؓ کی وفات کے متعلق الہامات
حضرت مسیح موعود ؑ دہلی ۲؎تشریف لے جاتے ہویء امرتسر کے سٹیشن پر گاری کے انتظا رمیں تشریف فرما تھے۔جماعت امرتسر کے دوست ملاقات کے لیے حاضر ہویء۔ باتوں باتوں میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب رضی اﷲ عنہ کا تذکرہ آ گیا۔ حضور نے فرمایا :
بڑے ہی مخلص اور قابل قدر انسان تھے مگر اﷲ تعالیٰ کی یہی مرضی تھی۔ اگر چہ بشریت کے لحاظ سے صدمہ ہوتا ہے مگر ہم اﷲ تعالیٰ کی رضا پر خوش ہیں۔ اس نے ہماری تسلی کیلئے پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ اب مولوی صاحب ہم سے الگ ہوں گے؛ چنانچہ
ان المنا یا لا تطیش سہا مھا۔
ان کی بابت الہام ہو چکا تھا اور پھر کفن میں لپیٹا گیا اور پھر صاف طور سینتالیس (۴۷)برس کی عمر۔ انا ﷲ واناالیہ راجعون۔یہ سب الہامات اُن کی موت کی خبر دیتے تھے لیکن ہم ان کی نسبت خیر چاہتے تھے۔اس لیے اپنے طور پر ان الہامات کو کسی اور مفہوم میں پورا ہونے کے خواہشمند تھے مگر اﷲ تعالیٰ کی قضاء وقدر وہی تھی جو صاف طور پر ان الہامات میں بتادی گئی تھی اور آخر وہ پورے ہو گئے۔ ان الہامات پر غور کر کے مجھے ایک نکتہ سمجھ میں آیا ہے کہ جب مرض الموت کا وقت آجاوے تو وہ وقت دعا کا نہیں ہوتا کیونکہ اﷲ تعالیا اپنے ارادہ کو ظاہر کر دیتا ہے۔ اسی طرح پر جو حاتلیں مہلک بیماریوں کی ہوتی ہیں ان میں بھی نظر آجاتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ مولوی صاحب کے معاملہ میں ایک عجیب بات دیکھی گئی کہ ان کی اصل مرض سرطان جس کو انگریزی میں کاربنکل کہتے ہیں بالکل اچھا ہو گیا بلکہ خود انہوں نے ہاتھ پھیر کر دیکھا اور یہی کہتے رہے کہ اب میں دو ثار روز میں پھر نے لگوں گا۔ آخر ذات الجنب کی وجہ سے سخت بخار ہو گیا جو ایک سو چھ (۱۰۶)درجہ تک پہنچ گیا اور اسی عارضہ میں وفات پائی۔اکیاون (۵۱) دن تک وہ اس بیماری میں زندہ رہے۔ یہ زیادتِ ایام بھی استجابت۱ دعا پر دلالت کرتی ہے اوزاﷲ تعالیٰ نے اس مرض سے ا۲ن کو آخر نجات دیدی۔ رہی موت اس سے تو نہ کوئی بچا ہے نہ بچ سکتا ہے۔
ان کی بیوی نے بتایا کہ وہ کہتے تھے کہ کئی مرتبہ خدا بلانے آیا ہے مگر تاخیر ہی ہوتی رہی۔
خدا تعالیٰ کا تردد
اصل بات یہ ہے کہ یہ وہی تردد ہے جس کا تردّد ہے جس کا زکر صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے مومن کی جان لینے میں تردّد ہوتا ہے۔میں نے باوجودیکہ ان کی وفات کے متعالق الہامات ہو چکے تھ بہت دعا کی تو الہام ہوا۔ تؤثرون الحیٰوۃ الدنیا۔ پھر یہ بھی الہام ہوا یایھا الناس اعبدو اربکم الزی خلقکم اس کا مطلب یہ تھا کہ جب انتہا درجہ تک کسی کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے تو وہ معبود ہو جاتا ہے اور یہ صرف خدا تعالیٰ ہی کا وجود ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ کسی انسان یا اور مخلوق کے لیے ایسا نہیں کہہ سکتے۔
چند الہامات
پھر فرمایا: پرسوں الہام ہوا تھا۔
انی مع الرسول اقوم واروم ما یروم واعطیک ما ردوم
اور آج کا الہام یہ ہے
تا تیک وانا معک
یہ الہام بخیروعافیت سفر سے واپس آنے کی خبر دیتا ہے؎ٰ۔
۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
بمقام دہلی
ایک رؤیا صبح حضرت نے فرمایا کہ:
آج رات میں نے خواب میں دیکھ اہے کہ تھوڑے سے چنے بھونے ہوئے سفید ہیں اور ان کے ساتھ منقّہ بھی ہے۔
فرمایا۔ ہمارا تجربہ ہے کہ :
چنے،مولی،بینگن یا پیاز خواب میں دیکھیں تو کوئی امر مکروہ پیش آتا ہے لیکن منقہ دل کو قوت دینے والی سے ہے اور اس کا دیکھنا اچھا ہے۔ اس خاوب سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی امر مکروہ چھوٹا یا بڑا درپیش ہے جو منقّہ کی آمیزش سے وہ کراہت جاتی رہے گی۔
تنگی کے بعد فراخی آتی ہے فرمایا :
انسان کی زندگی یک ساتھ مکروہاتھ کا سلسلہ بھی لگا ہوا ہے۔ اگر انسان چاہے کہ میری ساری عمر خوسی میں گذرے تو یہ ہو نہیں سکتا۔
ان مع العسر یسرا۔ ان مع العسر یسرا (الم نشرح : ۶-۷)
یہ زندگی کا چکر ہے۔ جب تنگی آوے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے بعد فراخی بھی ضرور آئے گی۔
زیارتِ قبور
صبح حضرت مسیح موعود ؑ مردانہ مکان میں تشریف لائے۔ دہلی کی سیر کا ذکر درمیان میں آیا۔ فرمایا:
لہو و لعب کے طور پر پھر نا درست نہیں؛ البتہ یہان بعض بزرگ اولیاء اﷲ کی قبریں ہیں۔ ان پر ہم بھی جائیں گے۔
عاجز؎ٰکو فرمایا کہ :
ایسے بزرگوں کی فہرست بنائو تا کہ ئانے کے متعلق انتطام کیا جائے۔
حاضرین نے یہ ہان لکھائے۔ (ا) شاہ ولی اﷲ صاحب (۲)خواجہ نظام الدین صاحب
(۳) جناب قطب الدین صاحب (۴)خواجہ باقی باﷲ صاحب (۵) خواجہ میر درد صاحب
(۶)جناب نصیر الدین صاحب چراغ دہلی۔
چنانچہ گاڑیوں کا انتطام کای گیا اور حضرت بمعہ خدام گاڑیوں میں سوار ہو کر سب سے اول حضرت خواجہ باقی باﷲ کے مزار پر پہنچے۔ راستہ میں حضرت نے زیارتِ قبور کے متعلق فرمایا :
قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارتِ قبور کے لیے ایک سنت ہے۔ یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آجاتا ہے۔ انسان اس دنیا میں مسافر ہے۔ آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان قبر پر جائے تو کہے
السلام علیکم یا اھل القبور من المومنین والمسلمین وانا ان شاء اﷲ بکم للاحقون۔
زیارتِ قبور کے آدا ب
خواجہ باقی باﷲ کی مزار پر جب ہم پہنچے تو وہاں بہت سی قبریں ایک دوسرے کے قریب قریب اور اکثر زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھیں۔ میں نے غور سے دیکھا کہ حضرت اقدس نہایت احتیاط سے ان قبروں کے درمیان چلتے تھے تا کہ کسی کے اوپر پائوں نہ پڑے۔ قبر خواجہ صاحب پر پہنچ کر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور دعا کو لمبا کیا۔ بعد دعا میں نے عرض کیا کہ قبر پر کیا دعا کرنی چاہیے تو فرمایا کہ :
صاحبِ قبر کے واسطے دعائے مغفرت کرنی چاہیے اور اپنے واسطے بھی خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے۔ انسان ہر وقت خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرنے کا محتاج ہے۔
قبر کے سرہانے کی طرف ایک نظم خواجہ صاحب مرحوم کے متعلق لکھی ہے۔ بعد دعا آپ نے وہ نظم پڑھی اور عاجز راقم کو حکم دیا کہ اس کو نقل کرلو؎ٰ۔ فرمایا :
حضرت خواجہ باقی باﷲ
خواجہ باقی باﷲ برے مشائخ میں سے تھے۔ شیخ احمد سر ہندی کے پیر تھے۔ مجھے خایل آتا ہے کہ ان بزرگوں کی ایک کرامت تو ہم نے بھی دیکھ لی ہے اور وہ یہ ہے کہ دہلی جیسے شہر کو انہوں نے قائل کیا اور یہ وہ شہر ہے جو ہم کو مردود اور مخذ دل اور کافر کہتا ہے۔
سرزمین دہلی سیٹھ صاحب؎ٰکی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ :
یہ سر زمین بمبئی سے زیادہ سخت ہے اور اس کے لیے آسمانی سرزنش کا حصہ ہمیشہ رہا ہے۔ صرف انگریزوں کے ساتھ ہی بغاوت نہیں کی بلکہ سلاطینِ اسلامیہ کے ساتھ بھی شورہ پشتی کرتے رہے ہیں۔اس جگہ کے اکابر اور مسائخ کے اخلاق کا بھی اس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ انہوں نے ایسے شہر میں کس طرح بسر کی۔ یہ بزرگ بہت ہی مسلوب الغضب تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو متی کی طرح کر دیا تھا۔ مرزا جان جاناں کو ان لوگوں نے قتل کر دیا۔ اور بڑے دھوکے سے کیا۔ یعنی ایک آدمی نزرلے کر آیا اور دھوکا سے طپنچہ مار دیا۔ شاہ ولی اﷲ کے لیے بھی دہلی والوں نے ایسے ہی قتل کے اردے کئے تھے تھے مگر ان کو خدا تعالیٰ نے بچا لیا۔ میرے ساتھ جب مباحثہ ہوا تھا تو آٹھ نو ہزار آدمی کا مجمع تھا اور میں نے سنا ہے کہ بعض کے ہاتھ میں چاقو اور بعض کے ہاتھ میں پتھر بھی تھے۔ یہاں تک کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اندیشہ ہوا کہ کہیں غدر نہ ہو جاوے اس واسطے اس نے مجھ یاپنی گاڑی میں بتھا کر مجمع سے باہر کیا اور گھر پہنچایا۔ایسے وقت میں یہ لوگ کوتاہ اندیش، پست خیال اور سفلہ ہونا ظاہر کرتے ہیں۔
پنجاب میں بڑی سعادت ہے
اس کے بالمقابل پنجاب میں بڑی سعادت ہے۔ ہزار ہا لوگ سلسلہ حقہ میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔پنجاب کی زمین بہت نرم ہے اور اس میں خدا پرستی ہے۔ طعن و تشنیع کو برداشت کرتے ہیں۔ مگر یہ لوگ بہت سخت ہیں جس سے اندیشہ ایسے عذاب الٰہی کا ہے جو پہلے ہو تا رہا ہے کیونکہ جب کوئی مامور من اﷲ اور ولی اﷲ آتا ہے اور لوگ اس کے درپے ایذا اور توہین ہوتے ہیں۔ تو عادت اﷲ اسی طرح واقع ہے کہ بعد اس کے ایسے سہر اور ملک پر جو سرکس اور بے ادب ہوتا ہے ضرور تباہی آتی ہے۔ پنجاب میں اﷲ تعالیٰ کا برا فضل ہے۔ وہ لوگ خد اتعالیٰ کا خوف رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کثرت سے پنجابیوں کا ہماری طرف رجوع ہو رہا ہے کہ بعض اوقات ان کو ہامری مجالس میں کھڑا ہونے کی جگہ نہیں ملتی۔
فرمایا :
خواجہ باقی بال صاحب کی عمر بہت تھوڑی تھی۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے بھی کم عمر پائی تھی۔ مولوی صاحب موصوف کی عمر سینتالیس (۴۷) سال کی تھی۔
خواجہ باقی باﷲ کی قبر پر کھڑے ہو کر بعد دعا کے فرمایا کہ :
ان تمام بزرگوں کی جو دہلی میں مدفون ہین کرامت ظاہر ہے کہ ایسی سخت سرزمین نے ان کو قبول کیا۔ یہ کرامت اب تک ہم سے ظہور میں نہیں آئی۔
ذِلّت کا رزق
قبر پر بہت سے سائل جمع تھے۔ فرمایا:
یہ سائلین بہت پیچھے پڑتے ہیں’ پہلے معلوم نہ تھ اورنہ ان کے واسطے کچھ پیسے ساتھ لے آتے۔شیخ نظام الدین کی قبر پر سائل اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ آپس میں لڑنے لگ جاتے ہیں۔ یہی ان کا رزق ہو گیا ہے جو زلت کا رزق ہے۔ رزق کی تنگی بعض لگوں سے بہت بُرے کام کراتی ہے۔ ایک سائل لودھیانہ میں میرے پاس آیا اور ظاہر کیا کہ ایک آدمی مرگیا ہے اس کے کفن کے واسطے سامان کرتا ہوں۔ ۴؍(چار آین) کی کسر باقی ہے۔ ایک آدمی نے کہا کہ پہلے دیکھنا چاہیے کہ وہ میت کہاں ہے؟ پھر اس کی پوری مدد کرنی چاہیے چنانچہ وہ آدمی ساتھ گیا تو تھوڑی دور جا کر سائل بھاگ گیا کیونکہ وہ سب جھوٹا قصہ بنایا ہوا تھا۔تنگیٔ رزق یہ بد مکر کراتی ہے۔
مساجد کی اصل زینت دہلی کی جامع مسجد کو دیکھ کر فرمایا کہ:
مسجد کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑ ہوئی ہیں۔ رسول کریم ﷺ کی مسجد چھوٹیس ی تھی۔ کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔ آنحضرت ﷺ کے وقت میں دنیاداروں نے ایک مسجد بنوائی تھی۔ وہ خدا تعالیا کے حکم سے گرادی گئی۔ اس مسجد کا نام مسجدِ ضرار تھا۔ یعنی ضرر رساں۔ اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی۔ مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں۔
آثارِ قدیمہ ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ:
اگر آپ نے قلعہ نہیں دیکھا تو دیکھ لیں ؎
آثار پدید است صنادید عجم را
اجل میں تاخیر نہیں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا ذکر تھا۔فرمایا:
خدا تعالیٰ نے دعا کو قبول کر کے سرطان سے شفا دے دی۔ مگر جب کسی کی اجل آجاتی ہے تو پھر رک نہیں سکتی اور یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ دعا سے عمر بڑھ جاتی ہے۔ ا سکے یہ معنی ہیں کہ ا جل کے آجانے سے پیشتر قبل از وقت جو دعاکی جاو ے وہ کام آتی ہے ورنہ جان کندن کے وقت کون دعا کر سکتاہے؟ایسی سخت بیماری میں مولوی صاحب مرحوم کا اکیاون دن تک زندہ رہنا بھی استجابت دعا کا ہی نتیجہ تھا۔ یہ تاخیر بھی تعجب انگیز ہے۔ ہم بہت دعا کرتے تھے کہ آدمی اچھا ہے زندہ ہی رہے تب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہا م ہوا تؤثرون الحیٰوۃ الدنیا۔ یعنی کیا اگلے عالم کے تم قائل نہیں ہو جو اس دنیا کی زندگی کے واسطے اتنا زور دیتے ہو۔
بعد نماز ظہر
جو آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں
ایک شخص عبد الحق نام جو اپنے آپ کو صوفی ابوالخیر صاحب کے مرید بتلاتے تھے۔ چند طالب علموں کے ساتھ آئے۔ اور بھی دہلی والے آمودجود ہوئے۔ حضرت مسیح موعودؓ نے پوچھا کہ کیا تم سب دہلی کے ہو؟ انہوں نے کہا۔ ہاں۔پھر میان عبد الحق صاحب نے سوال کیا کہ مین تشفی کے واسطے ایک بات پوچھتا ہوں۔ حضرت نے اجازت دی۔
عبد الحق۔ کیا آپ اس مسیح اور مہدی کو یا ددلانے والے ہیں جو کہ آنے والا ہے یا کہ آپ خود مسیح اور مہدی ہیں؟
حضرت اقدس۔میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ قرآن اور حدیث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خد اتعالیٰ نے مجھے کہا۔ جو آنیوالا تھا وہ میں ہی ہون جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے۔قرآن شریف میںاﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے اور پیغمبرخدا ﷺ نے اپنی رؤیت کی گواہی دی۔
‏Amira 5-1-06
دونو باتیں ہوتی ہیں قول اور فعل۔ یہاں اﷲ تعالیٰ کا قول اور حضرت رسول کریم ﷺ کا فعل موجود ہے۔ شبِ معراج میں آنحضرت ﷺ نے حضرت عیسیٰ کو دیگر گذشتہ انبیاء کے درمیان دیکھا۔ ان دو شہادتوں کے بعد تم اور کیا چاہتے ہو؟اس کے بعد خدا تعالیٰ نے صدہا نشانات سے تائید کی۔ جو طالبِ حق ہو۔ اور خوف۱ خدا رکھتا ہو۔ اس کے سمجھنے کے واسطے کافی سامان جمع ہو گیا ہے۔ ایک شخص پہلی پیشگوئی کے مطابق، قال اﷲ قال الرسول کے مطابق عین ضرورت کے وقت دعویٰ کرتا ہے۔یہ وہ وقت ہے کہ عیسائیت اسلام کو کھا رہی ہے۔ خدا تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے جو بات پیش کی ہے اس سے برھ کر کوئی اور بات نہیں ہو سکتی۔ انیس سو سال سے عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور معبود ہے اور چالیس کروڑ عیسائی اس وقت موجود ہے۔ اس پر پھر مسلمانوں کی طرف سے اُن کی تائید کی جاتی ہے کہ بیشک عیسیٰ ابتک زندہ ہے نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج ۔ سب نبی مر گئے پر وہ زندہ آسمان پر بیٹھا ہے۔ اب آپ ہی بتلائیں کہ اس سے عیسائیوں پر کیا اثر ہوگا۔
عیسائیات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح ہتھیار
عبد الحق۔ عیسائیوں پر تو کوئی اثر ہو نہیں سکتا جبتک کہ شمشیر نہ ہو۔
حضرت اقدس۔یہ بات گلط ہے۔ تلوار کی اب ضرورت نہیں ہے اور نہ تلوار کا اب زمانہ ہے۔ابتداء میں بھی تلوار ظالموں کے حملہ کے روکنے کے واسطے اتھائی گئی تھی ورنہ اسلام کے مذہب میں جبر نہیں۔ تلوار کا زخم تو مل جاتا ہے پر حجت کا زخم نہیں ملتا۔ دلائل اور براہین کے ساتھ اس وقت مخالفین کو قائل کرنا چاہیے۔ میں آپ لوگوں کی خیر خواہی کی ایک بات کہت اہوں۔ ذرا غور سے سنو۔ ہر دو پہلوئوں پر توجہ کرو۔ اگر عیسائیوں کے سمانے اقرار کیا جائے۔ کہ وہ شخص جس کو تم خدا اور معبود مانتے ہو بیشک وہ اب تک آسمان پر موجود ہے۔ ہمارے نبی تو ھوت ہو گئے پر وہ اب تک زندہ ہے اور قیامت تک رہے گا۔ نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محجات۔ اگر ہم ایسا کہین تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ اور اگر ہم عیسائیوں کے سمانے یہ ثابت کر دیں کہ جس شخص کو تم اپنا معبود اور خدا مانتے ہو وہ مر گیا۔ مثل دوسرے انبیاء کے فوت ہو کر زمین میں دفن ہے اور اس کی قبر موجود ہے ۔ اس کا کیا نتیجہ ہوگا۔ بحثوں کو جانے دو اورمیری مخالفت کے خیال کو چھوڑو۔ میں پروا نہیں کرتا کہ مجھے کوئی کافر کہے۔د جال کہے یا کچھ اور کہے۔ تم یہ کہو کہ ان ہر دو باتوں میں سے کونسی بات ہے جس سے عیسائی مذہب بیخ و بنیاد سے اُکھڑ جاتا ہے۔
اس تقریر کا میان عبد الحق صاحب پر بہت اثر ہوا؛ چنانچہ فوراً کھڑا ہو کر حضرت اقدسؑ کے ہاتھ چومے اور کاہ۔ میں سمجھ گیا۔ آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو ترقی دے۔ انشاء اﷲ ضرور آپ کی ترقی ہو گی۔ یہ بات صحیح ہے۔
بدر جلد ۱ نمبر ۳۱ صفحہ ۱ تا ۳ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
بمقام دہلی
ایک رؤیا
دیکھا کہ بڑا سخت زلزلہ آیا ہے۔
ایک رؤیا کی تعبیر
فرمایا:
اگلے دن جو خواب میں چنے دیکھے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میر ناصر نواب صاحب کی بیماری کی طرف اشارہ تھا۔؎ٰ
بدر جلد ۱ نمبر ۳۱ صفحہ ۴ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
مسیح موعود کو ماننا کیوں ضروری ہے
چند مولوی اور طلباء آئے۔ حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں۔ قرآن اور رسول کو مانتے ہیں۔آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟
اس پر حضرت اقدس نے فرمایا :
انسان جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتاہے وہ سب موجبِ معصیت ہو جاتا ہے۔ ایک ادنیٰ سپاہی سرکار کی طرف سے کوئی پروا نہ لے کر آتا ہے تو اس کی بات نہ ماننے والا مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ اور سزا پاتا ہے۔ مجازی حکام کا یہ حلا ہے تو احکم الحاکمین کی طرف سے آنیوالے کی بے عزتی اور بے قدری کرنا کس قدر عدولِ حکمی اﷲ تعالیٰ کی ہے۔ خدا تعالیٰ غیّور ہے۔اس نے مصلحت کے مطابق عین ضرورت کے وقت بگڑی ہوئی صدی کے سر پر ایک آدمی بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائے۔ اس کے تمام مصالح کو پائوں کے نیچے کچلنا ایک بڑا گناہ ہے۔ کیا یہودی لوگ نمازیں نہیں پڑھا کرتے تھے؟ بمبئی کے ایک یہودی نے ہم کو لکھ اکہ ہمارا خد اوہی ہے جو مسلمانوں کا خدا ہے اور قرآن شریف میں جو صفات بیان ہیں وہی صفات ہم بھی مانتے ہیں۔ تیرہ سو برس سے اب تک ان یہودیوں کا وہی عقیدہ ثلا آتا ہے مگر باوجود اس عقیدہ کے ان کو سؤر اور بندر کہا گیا۔صرف اس واسطے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو نہ مانا۔ انسان کی عقل خد اتعالیٰ کی مصلحت سے نہیں مل سکتی۔ آدمی کیا چیز ہے جو مصلحتِ الٰہی سے بڑھ کر سمجھ رکھنے کا دعویٰ کرے۔ خدا تعالیٰ کی مصلحت اس وقت بدیہی اور اجلیٰ ہے۔اسلام میںسے پہلے ایک شخص بھی مرتد ہو جاتا تھا تو ایک شور بپا ہو جاتا تھا۔ اب اسلام کو ایسا پائوں کے نیچے کچلا گیا ہے کہ ایک لاکھ مرتد موجود ہے۔ اسلام جیسے مقدس مطہر مذہب پر اس قدر حملے کئے گئے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں کتابیں آنحضرت ﷺ کو گالیوں سے بھری ہوئی سائع کی جایت ہیں۔ بعض رسالے کئی کروڑ تک ثھپتے ہیں۔ اسلام کے برخلاف جو کچھ شائع ہوت اہے۔ اگر سب کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک بڑے پہاڑ بنت اہے۔ مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ گویا ان میں جان ہی نہین اور سب کے سب مر ہی گئے ہیں۔ اس وقت اگر خدا تعالیٰ بھی خاموش رہے تو پھر کیا حال ہوگا۔ خدا کا ایک حملہ انسان کے ہزار حملہ سے بڑھ کر ہے اور وہ ایسا ہے کہ اس سے دین کا بول بالا ہو جائے گا۔
حضرت عیسیٰ ؑکو زندہ ماننے کا نتیجہ
عیسائیوں نے انیس سو سال سے شور مچا رکھا ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور ان کا دین اب تک بڑھتا ثلا گیا اور مسلمان ان کو ارو بھی مدد دے رہے ہیں۔ عیسائیوں کے ہاتھ میں بڑا حربہ یہی ہے کہ مسیح زندہ ہے اور تمہارے نبی (ﷺ) فوت ہو گئے۔لاہور میں لارڈ بشپ نے ایک بھاری مجمع میں یہی بات پیش کی۔ کوئی مسلمان اس کا جواب نہ دے سکا۔ مگر ہماری جماعت میں سے مفتی محمد صادق صاحب جو یہ موجود ہین’ اُٹھے اور انہوں نے قرآن شریف،حدیث،تاریخ، انجیل،وغیرہ سے ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو ثکے اور ہمارے نبی کریم ﷺ زندہ ہیں کیونکہ آپؐ سے فیض حاصل کر کے کرامت اور خوارق دکھانے والے ہمیشہ موجود رہے۔ تب اس کا جاوب وہ کچھ نہ دے سکا۔ اب خیال کرو کہ عیسیٰ کو زندہ ماننے کا کیا نتیجہ ہے اور دوسرے انبیاء کی مانند وفات یافتہ ماننے کا کیا نتیجہ ہے۔ ذرا چار دن فوت شدہ مان کر اس کا نتیجہ بھی تو دیکھ لیں۔ میں نے ایک دفعہ لدھیانہ میں عیسائیوں کو اشتہار دیا تھا کہ تمہار ہمارا بہت اختلاف نہیں۔ تھوڑی سی بات ہے یہ کہ تم مان لوکہ عیسیٰ فوت ہو گئے اور آسمان پر نہیں گئے۔ تمہارا اس میں کیا حرج ہے؟ اس پر وہ بہت جھنجھلائے اور کہنے لگے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ عیسیٰ مر گیا اور آسمان پر نہیں گیا توآج دنیا میں ایک بھی عیسائی نہیں رہتا۔
دیکھو۔ خدا تعالیٰ علیم و حکیم ہے۔ اس نے ایسا پہگلو اختیار کیا ہے جس سے دشمن تباہ ہو جائے۔ مسلمان اس معاملہ میں کیوں اڑ تے ہیں۔ کیا عیسیٰ ؑ آنحضرت ﷺ سے افضل تھے؟ اگر میرے ساتھ خصومت ہے تو اس میں حد سے نہ بڑھو اور وہ کام نہ کرو جو دینِ اسلام کو نقصان پہنثائے۔ خد اتعالیٰ ناقص پہلو اختیار نہین کرتا اور بجز اس پہلو کے تم کسرِ صلیب نہیں کر سکتے۔
اس زمانہ کا جہاد
اگر تم نے جنگوں سے فتح پانی ہوتی اور تمہارے لیے لڑائیان کرنا مقدر تھا تو خدا تعالیٰ تم کو ہتھیار دیتا۔ توپ و تھنگ کے کام میں تم کو سب سے بڑھ کر چالاکی اور ہوشیاری دی جاتی۔مگر خدا تعالیٰ کا فعل ظاہر کر رہا ہے کہ تم کو یہ طاقتیں نہیں دی گئیں بلکہ سلطانِ روم کو بھی ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ جرمن یا انگلستان وگیرہ سے ممالک سے بنواتا ہے اور آلاتِ حربہ عیسائیوں سے خرید کرتا ہے۔ثونکہ اس زمانہ کے واسطے یہ مقدر نہ تھا کہ مسلمان جنگ کریں اس واسطے خدا تعالیٰ نے ایک اور راہ اختیار کی۔
ہاں صلاح الدین وغیرہ بادشاہوں کے وقت ان باتوں کی ضرورت تھی۔ تب خدا تعالیا نے مسلمانوں کی مدد کی اور کھار پر اُن کو فتح دی۔ مگر اب تو مذہب کے واسطے یکوئی شخص جنگ نہیں کرتا۔اب تو لاکھ لاکھ پرچہ اسلام کے برخلاف نکلتا ہے۔ جیسا ہتھیار مخالھ کا ہے ویسا ہی ہتھیار ہم کوب ھی تیار کرنا ثاہیے۔ یہی حکمِ خداوندی ہے۔اب اگر کوئی خونی مہدی آجائے اور لوگوں کے سر کاٹنے لگے تو یہ بے فائدہ ہوگا…مارنے سے کسی کی تشفی نہیں ہو سکتی۔ سر کاٹنے سے دلوں کے شبہات دور نہیں ہو سکتے۔ خدا تعالیٰ کا مذہب جبر کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام نے پہلے بھی کبھی پیش دستی نہیں کی۔ جب بہت طلم صحابہؓ پر ہوا تو دشمنوں کو دفع کرنے کے واسطے جہاد کیا گیا تھا۔ خدا تعالیٰ کی حکمت کے مطابق کسی کی دانائی نہیں۔ ہر ایک شخص کو چاہیے کہ اس معاملہ میں دعا کرے اور دیکھے کہ اس وقت اسلام کی تائید کی ضرورت ہے یا نہیں۔ جسم پر غالب آنا کوئی شئے نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ دلوں کو فتح کیا جائے۔
اسلام کی فتح وفات مسیح کے عقیدہ میں ہے
میں نے کوئی بات قال اﷲ اور قال الرسول کے برخلاف نہیں کی۔ اگر قرآن اور حدیث میں جسم عنصری کا لفظ آیا ہوتا تو اس کا منکر کافر اور ملعون ہوتا مگر اصل حقیقت خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام کے مجھ پر ظاہر کر دی اور قرآن اور حدیث اور اجماعِ صحابہؓ اس کی تائید میں ہے۔آنحضرت ﷺ کی وفات صحابہؓ کے واسطے ایک بڑا صدمہ تھا۔باسٹھ (۶۲)یا تریسٹھ(۶۳) سال کوئی بڑی عمر نہیں۔ صحابہؓ کو اگر یہ کہا جاتا کہ عیسیٰ ؑ زندہ ہے مگر ہمارے نبی کریم ﷺ فوت ہو گئے تو اُن کے واسطے ایک پست شکن صدمہ تھا۔ اسی واسطے حضرت ابو بکرؓ نے سب کو اکٹھ اکر کے وعظ کیا اور ان کو سمجھایا کہ سب نبی مر گئے ۔ کوئی بھی زندہ نہیں۔اسی طرح آنحضرت ﷺ بھی فوت ہو گئے۔ صحابہؓ ایک عشق اور محبت کی حالت رکھتے تھے۔ وفات مسیح کے بغیر دوسرا پہلو وہ ہرگز مان نہ سکتے تھے۔ اسلام کبھی ایسا عقیدہ پیش نہیں کر سکتا جو آنحضرت افضل الرسل (ﷺ) کی ہتک کرنے والا ہو۔ کوئی ہمیں بُرا یا بھال کہے ہم تو اپنا کام کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی فتح اسی میں ہے۔ اگر ہم عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملادیں تو ہم ان کو کیونکر زیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے مخالف مرنے کے بعد یقینا سمجھ لیں گے کہ وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔عادت بھی ایک بُت ہوتا ہے اور یہ لوگ اس بُت کی پرستش کر رہے ہیں۔
مسیح علیہ السلام کی زندگی اور نزول کے بارہ میں ایک گفتگو
یہاں پر ایک مولوی صاحب مخالفین کی جماعت میں سے بول اُٹھے اور چونکہ پھر انہوں نے حضرت اقدسؑ کو مسلسل تقریر کرنے نہیں دی بلکہ جلدی جلدی سوال پر سوال کرتے گئے اور کسی سوال کے متعلق حضرت کا جواب پور انہ سنا۔اس واسطے تقریر مذکورہ بالا تو ختم ہو گئی۔ مولوی صاحب کے سوال و جواب میں درج کرتا ہوں تا کہ دہلی کے مولیوں کا نمونہ ناظرین کو نظر آجائے:
مولوی صاحب:۔تو جن روایات سے حضرت عیسیٰ ؑکی زندگی ثابت ہے ان کو کیا کریں؟
حضرت اقدس ؑ:۔جو روایت قرآن اور حدیثِ صحیح کے مخالف ہو، وہ ردی ہے۔ قابلِ اعتبار نہیں۔ قولِ خدا کے برخلاف کوئی بات نہیں ماننی چاہیے۔
مولوی صاحب:۔اور جو وہ روایت بھی صحیح ہو۔
حضرت اقدس:۔جب قولِ خدا اور قول رسول کے برخلاف ہوگی تو پھر صحیح کس طرح؟خود بخاری میں متوفیک کے معنے ممیتک لکھے ہیں۔
مولوی صاحب:۔ہم بخاری کو نہیں مانتے اورر وایتوں میں مسیح کی زندگی لکھی ہے۔ قرآن کی تفسیروں میں لکھا ہے کہ مسیح زندہ ہے۔
حضرت اقدس:۔ تمہارا اختیار جو چاہو مانو یا نہ مانو اور قرآن شریف خود اپنی تفسیر آپ کرتا ہے۔ خد اتعالیٰ نے مجھے اطلاع دی کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے اور کتاب اﷲ اور احادیث صحیحہ کے مطابق یہ بات ہے جس کے کان سننے کے ہوں سنے۔ قرآن و حدیث کے مخالف ہم کوئی روایت نہیں مان سکتے۔
مولوی صاحب:۔اور جو وہ بھی صحیح ہوتو؟
حضرت اقدس ؑ:۔وہ صحیح ہو ہی نہیں سکتی۔
مولوی صاحب:۔ اگر چہ صحیح ہو۔
حضرت اقدسؑ:۔میں کئی دفعہ سمجھا چکا ہوں۔اب بار بار کیا کہوں۔ کتاب ال کے برخلاف جو روایت ہو وہ کس طرح صحیح ہو سکتی ہے؟
مولوی صاحب:۔یہ کس نے لکھا۔کس کتاب میں درج ہے کہ برخلاف روایت ہو تو نہ مانو۔امام بخاری نے بھی غلطی کھائی جو متوفیک کے معنے ممیتک کر دیئے۔
حضرت اقدسؑ:۔اگر بخاری نے غلطی کھائی تو تم اور کوئی حدیث یا لغت پیش کرو جہاں وفات کے معنے سوائے موت کے کچھ اور کئے گئے ہوں۔
مولوی صاحب:۔اچھا ۔حضرت عیسیٰ ؑ نے تو فرشتوں کے ساتھ نازل ہونا ہے۔ تمہارے ساتھ فرشتے کہاں ہیں؟
حضرت اقدسؑ:۔تمہارے کندھوں پر جو دو فرشتے ہیں وہ تم کو نظر آتے ہیں جو یہ فرستے تم کو نظر آجائیں گے؟
مولوی صاحب:۔تو زینہ کہاں ہے جس کا ذکر آیا کہ اس پر سے عیسیٰ اُترے گا۔
حضرت اقدسؑ:۔نزول کے یہ معنی نہیں جو تم سمجھتے ہو۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ جب ہم مسافر سے پوچھتے ہیں کہ تم کہاں اُترے؟
اس کے بعد وہ لوگ اُٹھ کر چلے گئے۔
بوقت شام
اولیائے دہلی کی کرامت
ڈاکٹر (یعقوب بیگ صاحب؎ٰ)کو مخاطت کر کے فرمایا:
آج کہاں کہاں کی سیر کی
انہوں نے عرض کی کہ فیروز شاہ کی لاٹ، پرانا کوٹ، مہابت خاں کی مسجد، لال قلعہ وغیرہ مقامات دیکھے۔فرمایا:
ہم تو بختیار کاکی۔ نظام الدین صاحب اولیاء حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب وغیرہ اصحاب کی قبروں پر جانا چاہتے ہین۔ دہلی کے یہ لوگ جو سطح زمین کے اُوپر ہین نہ ملاقات کرتے ہیں اور نہ ملاقات کے قابل ہیں۔ اس لیے جو اہلِ دل لوگ ان میں سے گذر چکے ہیں اور زمین کے اندر مدفون ہیں ان سے ہی ہم ملاقات کر لیں تا کہ بدوں ملاقات تو واپس نہ جائیں۔ میں ان بزرگوں کی یہ کرامت سمجھتا ہوں کہ انہوں نے قسی القلب لوگوں کے درمیان بسر کی۔ اس شہر میں ہمارے حصہ میں ابھی وہ قبولیت نہیں آئی جو ان لوگوں کو نصیب ہوئی۔
چشم باز و گوش باز و این ذکا
خیرہ ام از چشم بندیٔ خدا
مصلح کی ضرورت
اسلام پر یہ کیسامصیبت کا زمانہ ہے۔ اندرونی مصائب بھی بے انتہا ہیں۔ اور بیرونی بھی بے حد ہیں۔ پھر یہ لوگ خیال کر تے ہیں کہ اس وقت کسی مصلح کی ضرورت نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں پھر ہم کو کسی مصلح کی کیا ضرورت ہے مگر نہیں سمجھتے کہ جبتک خدا کی رحمت نہ ہو وہ رقت اور درد پیدا نہیں ہو سکت اجو انسان کے دل کو صاف کرتا ہے۔چاہیے کہ بہت دعائیں کریں۔صرف بحث کرنے والا فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔وہ نہیں دیکھتے کہ اسلام پر کس طرح کے مصائب نازل ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کو گویا خدا تعالیٰ نے فراموش کر دیا ہے۔ دہلی کے لوگ ایسے معلوم ہوتے ہیں کہلڑنے کو آئے ہیں۔حق طلبی کا نہیں خایل نہیں۔ حلق کے نیچے بات ب اُترتی ہے جب حلق صاف ہو۔ دوائی کا بھی یہی حال ہے کہ جبتک حلق صاف نہ ہو اور معدہ بھی صاف نہ ہو دوائی کا اثر نہیں ہو سکتا۔ دوائی قے ہو جاتی ہے یا ہضم نہیں ہوتی۔
احمدی نام کیوں رکھا گیا ہے
ایک مولوی صاحب ئئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات
ھو سمکم المسلمین (الحج : ۷۹)
کے برخلاف ہے۔
اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا :
اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے تہتر (۷۳) فقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سبّ و ستم کرتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کے ازواجِ مطہرات کو گلایاں دیتے ہی۔ اولیاء اﷲ کو بُرا کہتے ہیں۔پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔خارجی حضرت علی اور حضرت عمر ؓ کو بُرا کہتے ہیں اورپھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلا دِ شام میں ایک فرقہ یزید یہ ہے۔جو امام حسینؓ پر تبّرہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلفِ صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی،حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا ھرقہ نکلا ہے جو جنت ،دوزخ،وحی،ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہانتک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم ﷺ کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سُن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لیے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔
حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کای کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ
لا تھرقوا (ال عمران:۱۰۴)
اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا۔ حضرت نے فرمایا:
ہم تو تفرقہ نہیں دالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔ اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے، مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحا مانتے ہیں۔ وہ شخص بدبخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور اُن کو برا کہے۔ صرف امتیاز کے لیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے۔ ہمارا کا روبارخدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے۔ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔
اگر صرف مسلمان نام ہو تو سناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فاوئد مترتب نہیں ہوتے اور صرف ملسمان کہلاینے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل۱ حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزار ہاگندے آدمی ملے جلے رہتے ۔یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں،مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھ اگیا ہے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔ جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتی ہے تو خد اتعالیٰ خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے۔
مولوی صاحب نے پھروہی ساول کیا کہ خدا نے تو کہا ہے کہ
ھو سمکم المسلمین (الحج : ۷۹)
فرمایا:
کیا اس میں رافضی اور بدعتی اور آجکل کے ملسمان شامل ہیں؟ کیا اس میں آجکل کے وہ لوگ شامل ہیں جو اباحتی ہو رہے ہیں’؟ اور شراب اور زنا کو بھی اسلام میں جائز جانتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔اس کے مخاطب تو صحابہؓ ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرون ثلاثہ کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہو گا جس میں جھوٹ اور کذب کا افشا ہوگا۔ آنحضرت ﷺ نے اس زمانہ کے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے لیسو امنی ولست منہم نہ اُن کا مجھ سے کوئی تعلق ہے نہ میرا اُن سے کئی تعلق ہے۔ وہ لوگ مسلمان کہلائیں گے مگر میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں۔ان کو تو میں *** کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے۔ ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد ﷺ کے ساتھ اِتّصال ہے۔ اور یہ اِتّصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت ﷺ کا نام ہے۔ اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھاگیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوت اہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اول آخر کبھی نہیں ہوا۔ اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں۔ وہ احمدی ہیں؎ٰ۔
۲۶؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
بمقام دہلی
صبح کے وقت حضور نے گاڑیاں منگوائیں اور خواجہ میر درد صاحب اور شاہ ولی اﷲ صاحب کے مزار مبارک پر تشریف لے گئے۔ راستہ میں قبرستان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا :
یہ انسان کی دائمی سکونت ہے جہاں ہر قسم کے امراض سے نجات پا کر انسان آرام کرتا ہے۔ خواجہ میر درد صاحب کی قبر پر آپ نے فاتحہ پڑھی اور کتبہ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ کتبہ لکھنا شریعت میں منع نہیں ہے۔ اس میں بہت سے فوائد ہیں ۲؎۔
یہاں سے ہو کر حضرت مسیح موعودؑ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب کی قبر پر گئے اور فاتحہ پڑھی۔
فرمایا کہ:
شاہ ولی اﷲ صاحب ایک بزرگ اہلِ کشف اور کرامت تھے۔یہ سب مسائخ زیرِزمین ہیں اور جو لوگ زمیں کے اُوپر ہیں وہ ایسے بدعات میں مشغول ہیں کہ حق کو باطل بنا رہے ہیں اور باطل کو حق بنا رہے ہیں۔
‏Amira 7-1-06
راستہ میں اہلِ لدھیانہ کی درخواست کا ذکر آیا کہ حضور واپس جاتے ہوئے رستہ میں لدھیانہ ٹھہریں۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے عرض کہ لدھیانہ کی جماعت اسٹیشن لدھیانہ پر ملاقات کے واسطے آئی تھی، لیکن حضور سوئے ہوئے تھے۔ میں نے جگانے نہ دیا۔ فرمایا :
آپ نے اچھا کیا اس کے عوض ہم اب لدھیانہ میں ا۲تر کر اہل۱ لدھیانہ سے ملاقات کریں گے۔
راستہ میں مذبح کے پاس سے گذرے۔ کثیر التعداد بھیرڑیں اور بکریاں ذبح ہو رہی تھیں اور سینکڑوں کا باہر ریوڑ کھڑا تھا۔ان کو دیکھ کر فرمایا کہ:
کھانے کی حلال اشیاء کا کس قدر ذخیرہ اﷲ تعالیٰ نے جمع کر دیا ہے برخلاف اس کے حرام چیزیں مثلاً کتے وغیرہ بہت ہی کم پائے جاتے ہیں۔
فرمایا:
اس شہر میں اس قدر انقلاب آئے ہیں کہ شاید کسی دوسرے شہر پر یہ حالات وارد ہوئے ہوں۔کئی دفعہ یہ شہر آباد ہوا اور کئی دفعہ خاک میں مل گیا۔

ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مخاطب تھے اور ان کی رخصت کے قریب الاختتام ہونے کا ذکر تھا۔
فرمایا:
دو دن اور ہیں۔ یہ موقعہ غنیمت سمجھنا چاہیے۔ خد اتعالیٰ کے فضل سے ایسا موقعہ ہاتھ آسکتا ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ رخصت لینے سے ایسا موقعہ مل جاتا ہے۔ کئی آدمی ایسے بھی ہیں جو نوکر نہیں مگر ان کو ہمارے پاس رہنے کا موقعہ نہیں ملتا۔ فارغ البالی ہوتی ہے پر صحبت نصیب نہیں ہوتی۔؎ٰ
جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد
فرمایا: اﷲ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں کہ مسیح کی وفات کو ثابت کرنے والی ایک جماعت پیدا ہو جائے۔یہ بات تو ان مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے درمیان آگئی ہے؛ ورنہ اس کی تو کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ اصل مقصد اﷲ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔ وفاتِ مسیح کا معاملہ تو جملہ معرضہ کی مانند درمیان آگیا ہے۔ مولوی لوگوں نے خواہ مخواہ اپنی ٹانگ درمیان میں اَڑالی ۔ان لوگوں کو مناسب نہ تھ اکہ ا سمعاملہ میں دلیری کرتے۔ قولِ خدا ،رؤیت نبی اور اجماعِ صحابہؓ،یہ تین باتیں اس کے واسطے کافی تھیں۔ ہمیں تو افسوس آتا ہے کہ اس کا ذکر ہمیں خواہ مخواہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارا اصلی امر بھی دیگر ہے۔ یہ تو صرف خس و خاشاک کو درمیان میں سے اُٹھایا گیا ہے۔ سو چو کہ جو شخص دنیاداری میں گرق ہے اور دین کی پروا نہیں رکھتا۔اگر تم لوگ بیعت کرنے کے بعد ویسے ہی رہو تو پھر تو تم میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ بعض لوگ ایسے کچے اور کمزور ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غرض بھی دنیا ہی ہوتی ہے۔اگر بیعت کے بعد ان کی دنیاداری کے معاملات میں ذرا سا فرق آجاوے تو پھر پیچھے قدم رکھتے ہیں۔
یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسط ینہیں کہ دولت او ردنیا داری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گذرے۔ایسے شخص سے تو خدا تعالیٰ بیزار ہے۔ چاہیے کہ صحابہؓ کی زندگی کو دیکھو، وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے۔ ہر وقت مرنے کے لیے تیار تھے۔ بیعت کے معنے ہیں اپنے جان کو بیچ دینا۔جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنای کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے؟ ایسا آدمی تو صرف رسمی بیعت کرتا ہے۔ وہ توکل بھی گیا اور آج بھی گیا۔یہاں تو صرف ایسا شخص رہ سکتاہے جو ایمان کو درست کرنا چاہے۔انسان کو چاہیے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہؓ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے۔ وہ تو ایسے تھے کہ بعض مر چکے تھے اور بعض مرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ میں سچ سچ کہتاہوں کہ اس کے سوائے بات نہیں بن سکتی۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ کنارہ پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں تاکہ ابتلاء دیکھ کر بھاگ جائیں وہ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے۔ دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ کوئی ذرا سی تکلیف ہو تو لمبی چوری دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آرام کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔کیا لوگ چاہتے ہیں کہ امتحان میں سے گذرنے کے سوائے ہی خدا خوش ہو جائے ۔خدا تعالیٰ رحیم و کریمہے، مگر سچا مومن وہ ہے جو دنای کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردے۔ خدا تعالیٰ ایسے لوگن کو ضائع نہیں کرتا۔ ابتدا میں مومن کے واسطے دنیا جہنم کا نمونہ ہو جاتی ہے۔طرح طرح کے مصائب پیش آتے ہیں۔ اور ڈرائونی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں تب وہ صبر کتے ہیں اور خدا تعالیٰ اُن کی حفاظت کرتا ہے لیکن ؎
عشق اول سرکش و خونی بود
تا گریزد ہر کہ بیرون بود
جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دوجنت ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جو متفق ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کو حیاۃ طیبہ حاصل ہوتی ہے اس کی سب مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات ایمان کے بعد حاصل ہوتی ہے۔
ایک شخص کے اپنے دل میں ہزار گند ہوتا ہے۔ پھر خدا پر شک لاتا ہے اور چاہتا ہے کہ مومنوں کا حصہ مجھے بھی ملے۔ جبتک انسان پہلی زندگی کو ذبح نہ کردے، اور محسوس نہ کرلے کہ نفسِ امارہ کی خواہش مر گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ نہ جائے تب تک مومن نہیں ہوتا۔اگر مومن کو خاص امتیاز نہ بخشا جائے تو مومنون کے واسطے جو وعدے ہیں وہ کیونکر پورے ہوں گے، لیکن جب تک دورنگی اور منافقت ہو تب تک انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔
ان المنافقین فی الدرک الاسفل (النساء : ۱۴۶)
اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک ایسی جماعت بنائے گا جو ہر جہت میں سب پر فوقیت رکھے گی۔ اﷲ تعالیٰ ہر طرح کا فضل کرے گا۔مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ ہاں کمزوری میں اﷲ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔جو شخص کمزور ہے اور ہاتھ اُٹھاتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑے اور اُٹھائے ،اس کو اُٹھایا جائے گا۔مگ رمومن کو چاہیے کہ اپنی حالت پر فارغ نہ بیٹھے۔اس سے خدا راضی نہیں ہے۔ہر طرح سے کوشش کرنی چاہیے کہ خد اتعالیٰ کے راضی کرنے کے جو سامان ہیں وہ سب مہیا کئے جائیں۔
ریاکاری
ریاکار اسنان بے فائدہ کام کرتا ہے۔ مومن کو تو خداوند تعالیٰ خودبخود شہرت دیتا ہے۔ ایک شخص کا ذکر ہے کہوہ مسجدوں میں لمبی نمازیں پڑھا کرتا تھا تا کہ لوگ اُسے نیک کہیں۔ لیکن جب وہ بازار سے گذرتا تو لڑکے بھی اس کی طرف اشارہ کرتے اور کہتے کہ یہ ایک ریاکار آدمی ہے جو دکھلاوے کی نمازیں پڑھتا ہے۔ ایک دن اس شخص کو خیال ہوا کہ میں لوگوں کا کیوں خیال رکھتاہوں اور بے فائدہ محنت اٹھاتا ہوں۔ مجھے چاہیے کہ اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو جائوں اور خالص خد اکی خاطر عبادت کروں۔ یہ بات سوچ کر اس نے سثی توبہ کی اور اپنے اعمال کو خد اکے واسطے خاص کر دیا اور دنیوی رنگ کی نمازیں چھوڑ دیں،اور علیحدگی میں بیٹھ کر دعائیں کرنے لگا اور اپنی عبادت کو پوشیدہ رکھنا چاہا۔ تب وہ جس کو چہ سے گذرتا۔لوگ اس کی طرف اشارہ کرتے کہ یہ ایک نیک بخت آدمی ہے۔
سچا مومن
سچا مومن وہ ہے جو کسی کی پروا نہ کرے۔خدا تعالیٰ خود ہی سارے بندوبست کردے گا۔ لوگوں کی تکلیف دہی کی پروا نہیں رکھنی چاہیے۔دنیا میں کوئی کسی کے ساتھ دوستی پکی کرتا ہے تو دنیا کے لوگ اپنے دوستی کا حق ادا کرتے ہیں۔وہ کون دوست ہے جس کے ساتھ سلوک کیا جاوے تو وہ بے تعلقی ظاہر کرے۔ ایک چور کے ساتھ ہمارا سچا تعلق ہو تو وہ بھی ہمارے گھر میں نقب زنی نہیں کرتا، تو کیا خدا تعالیٰ کی وفا چور کے برابر بھی نہیں۔ خدا تعالیٰ کی دوستی تو وہ یہ کہ دنیاداروں میں ا سکی کوئی نظیر ہی نہیں۔ دنیاداروں کی دوستی میں تو عذر بھی یہ۔ تھوری سی رنجش کے ساتھ دنیا دار دوستی توڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔مگر خدا تعالیٰ کے تعلقات پکے ہیں۔جو شخص خد اتعالیٰ کے ساتھ دوستی کرتا ہے خدا تعالیٰ اس پر برکات نازل کرتا ہے۔اس کے گھر میں برکت دیتا ہے۔ اس کے کپڑوں میں برکت دیتا ہے۔اس کے پس خوردہ میں برکت دیتا ہے۔
بخاری میں ہے کہ نوافل کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرتا ہے۔ نوافل ہر شئے میں ہوتے ہیں۔ فرض سے بڑھ کر جو کچھ کیا جائے وہ سب نوافل میں داخل ہے۔ جب انسان نوافل میں ترقی کرتا ہے توخدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی آنکھ ہو جاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے۔ اور اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے ولی سے مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ لڑائی کے لیے تیار ہو جائے۔خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی محبت کرنے والے بھی غنی،بے نیاز ہو جاتے ہیں۔لوگوں کی تکذیب کی کچھ پروا نہیں رکھتے۔جو لوگ خلقت کی پروا کرتے ہیں وہ خلق کو معبود بناتے ہیں۔خدا تعالیٰ بندوں میں ہمدردی بہت ہوتی ہے۔مگر ساتھ ہی ایک بے نیازی کی صفت بھی لگی ہوئی ہے۔ وہ دنیا کی پروا نہیں کرتے۔آگے خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ دنیا کھچی ہوئی ان کی طرف چلی آتی ہے۔
جماعت کو نصیحت
ہماری جماعت کو ایس ہونا چاہیے کہ نری لفاظی پر نہ رہے بلکہ بیعت کے سچے منشا کو پور اکرنے والی ہو۔ اندرونی تبدیلی کرنی چاہیے۔صرف مسائل سے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کرسکتے۔اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں۔اگر تم میں مکر،فریب،کسل اور سستی پائی جائے تو تم دوسروں سے پہلے ہلاک کئے جائو گے۔ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے بوجھ کو اُٹھائے اور اپنے وعدے کو پورا کرے۔ عمر کا اعتبار نہیں دیکھو مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہو گئے۔ ہر جمعہ میں ہم کوئی نہ کوئی جنازہ پڑھتے ہیں۔ جو کچھ کرنا ہے اب کر لو۔جب موت کا وقت آتا ہے تو پھر تاخیر نہیں ہوتی۔ جو شخص قبل از وقت نیکی کرتا ہے امید ہے کہ وہ پاک ہو جائے۔اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔نماز میں دعائیں مانگو۔صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے
والذین جاھدو افینا (العنکبوت : ۷۰)
میں شامل ہو جائو۔جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا ہے۔ دوائی کھاتا ،مسہل لیتا،خون نکلواتا،تکور کروات اور شفا حاصل کرنے کے واسے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے۔ا سی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کی کوشش کرو۔صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدہ کے جس قدر طریق خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں وہ سب بجالائو۔ صدقہ خیرات کرو۔ نجگلوں میں جا کر دعائیں کرو۔ سفر کی ضرورت ہو تو وہ بھی کرو۔ بعض آدمی پیسے لے کر بچوں کو دیتے پھر تے ہیں کہ شاید اسی طرح کشوف باطن ہو جائے۔ جب باطن پر قفل ہو جائے تو پھر کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔اﷲ تعالیا حیلے کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ جب انسنا تمام حیلوں کو بجالاتا ہے تو کوئی نہ کوئی نشانہ بھی ہو جاتا ہے؎ٰ۔
۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
بمقام دہلی (بعد نماز جمعہ)
ہر قوم کی طِبّ سے استفادہ کرنا چاہیے
چند مولوی اور مدرسہ طبیہ کے چند طالب علم اور طبیب آئے۔ طب کا ذکر درمیان میں آیا ۔حضرت نے فرمایا کہ:
مسلمانوں کو انگریزی سب سے نفرت نہیں چاہیے۔ الحکمۃ ضالۃ المؤمن۔ حکمت کی بات تو مومن کی اپنی ہے۔ گم ہو کر کسی اور کے پاس چلی گئی تھی۔ پھر جہاں سے ملے جھٹ قبضہ کرلے اس میں ہمارا یہ منشا نہیں کہ ہم داکٹری کی تائید کرتے ہیں بلکہ ہمارا مطلب صرف یہ ہے کہ بموجب حدیث کے انسان کو چاہیے کہ مھید بات جہاں سے ملے وہیں سے لے لے۔ہندی،جاپانی،یونانی،انگریزی ہر طب سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے اور اس شعر کا مصداق اپنے آپ کو بنانا چاہیے ؎
تمتع ز ہر گوشۂ یا فتم
زہر خرمنے خوشۂ یا فتم
تب ہی انسنا کامل طبیب بنتا ہے۔ طبیبوں نے تو عورتوں سے بھی نسخے حاصل کئے ہیں…
لیس الحکیم الا ذو تجربۃ لیس الحلیم الا ذو عسرۃ۔
حکیم تجربہ سے بنتا ہے اور حلیم تکالیف اُ ٹھا کر حلم دکھانے سے بنتا ہے اور یوں تو تجربوں کے بعد انسان رہ جاتا ہے کیونکہ قضاو قدر سب کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جماع کمالات تھے
اﷲ تعالیا نے رسول کریم ﷺ کو فرمایا ہے کہ
فبھد ھم اقتدہ (العانعام : ۹۱)
ان کی ہدایت کی پیروی کر یعنی تمام گذستہ انبیاء کے کمالاتِ متفرقہ کو اپنے اندر جمع کرلے۔یہ آیت حضرت رسول کریم ﷺ کی بری مضیلت کا اظہار کرتی ہے۔ تمام گذشتہ نبیوں اور ولیوں میں جس قدر خوبیان اور صفات اور کمال تھے وہ سب کے سب آنحضرت ﷺ کو دیئے گئے تھے۔ سب کی ہدایتوں کا اقتداء کرکے آپ جامع تمام کمالات کے ہو گئے۔ مگر جامع بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان متکبر نہ ہو۔جو سمجھتا ہے کہ میں نے سب کچھ سمجھ لیا ہے وہ ٹھوکر کھاتا ہے۔ خاکساری سے زندگی بسر کرنی چاہیے ۔جہاں انسان کوئی فائدہ کی بات دیکھے، چاہیے کہ اسی جگہ سے فائدہ حاصل کرلے۔ ڈاکٹروں کو بھی مناسب نہیں کہ پرانی سب کو حقارت سے دیکھیں۔بعض باتیں ان میں بہت مفید ہیں۔ میں نے بعض متن کتب طب کے بیس بیس جزو کے حفظ کئے تھے۔ ہزار سے زیدہ کتاب طب کی ہمارے کتب خانے میں موجود تھی۔ جن میں سے بعض کتابیں بڑی بری قیمتیں دے کر خرید کی گئی تھیں۔مگر یہ علم ظنی ہوتا ہے۔ لاف مارنے اور دعوے کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔
تقویٰ کی اہمیت فرمایا:
افسوس ہے کہ لوگ اپنے کاروبار میں اس قدر مصروف ہیں کہ دوسرے پہلو کی طرف ان کو بالکل کوئی توجہ نہیں۔ ہر ایک شخص ایک پہلو پر حد سے زیادہ جھک جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف مین جس قدر بار بار تقویٰ کا ذکر کیا ہے۔ اتنا ذکر اور کسی امر کا نہیں کیا۔ تقویٰ کے ذریعہ سے انسان تمام مہلکات سے بچتا ہے۔یہودیون نے حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں تقویٰ سے کام نہ لیا اور کہا کہ جب تک الیاس آسمان سے نہ آئے ہم تم کو نہیں مان سکتے۔انہیں چاہیے تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزات اور خوارق کا مطالعہ کرتے اور بہت سی باتوں کے مقابلہ میں صرف ایک بات پر نہ اڑتے۔ایسا ہی نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں یہودیوں نے کہا کہ آخری زمانہ کا نبی تو اسرائیلیوں میں سے آنا چاہیے تھا۔ ہم تو کو نہیں مان سکتے۔ تائیداتِ الٰہی،نصرتِ حق اور معجزات کی انہوں نے کچھ پروا نہ کی۔
ہر نبی کے وقت ابتلائوں کا ہونا ضروری ہے
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک نبی کے وقت ابتلائوں کا ہونا ضروری ہے۔اگر خدا تعالیا چاہتا تو توریت میں ایسے لفظ صاف لکھ دیتا کہ آخری زمانہ کے نبی کے باپ کا نام عبد اﷲ اور ماں کا نام آمنہ اور مسکن مکہ ہوگا۔ مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں۔ کیا۔ ایسا ہی اس وقت کے مسیح کے زمانہ میں بھی ہوا ۔اگر لوگ نبی کریم کے ساتھ فرشتوں کو نازل ہوتے دیکھ لیتے تو کوئی بھی انکار نہ کرتا۔ مگر خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ ابتلاء آئیں اور متقی لوگ اس ابتلاء کے وقت بچ رہتے ہیں۔
آسمان سے نازل ہونے کی حقیقت
آسمان سے نازل ہونے کی سنت پہلے کبھی قائم نہیں ہوئی۔ آدم سے لے کر آجتک کوئی نظیر پیش کرو کہ کوئی نبی آسمان پر گیا ہو یا آسمان سے نازل ہوا ہو۔ خدا تعالیٰ کی عادت نہیں کہ کسی ایک شخص کے واسطے کوئی امر مخصوص کر دے۔ ایک امر مخصوص کے ساتھ تو کوئی نبی بھی نہیں آیا۔ اس طرح سے تو وہ شخص معبود بن جاتا ہے اور یسوع کو خصوصیت دینا تو خود نصاریٰ کو مدد دینا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے صاف طور رپر وفات طاہر کر دی ہے۔ معراج کی حدیث کو پڑھو۔ جو لوگ معراج کے منکر ہیں وہ تو اسلام کے منکر ہیں۔ لاکھ احادیث کے برابر ایک حدیث معراج کی ہے۔ شب معراج میں آنحضرت ﷺ نے حضرت عیسیٰ کو مردوں میں دیکھا۔ اگر قبض روح نہیں ہوا اور زندہ مع الجسم آسمان پر گئے تو دوسرے عالم میں کس طرح پہنچ گئے۔ متقی کے واسطے تو ایک ہی بات کافی ہوتی ہے۔خیالی اورظنی باتوں کے پیچھے پر کر اصلی اور صحیح بات کو چھور دینا تقویٰ کے برخلاف ہے۔مجھے خدا تعالیٰ کی طرھ سے بار بار تفہیم ہوتی ہے۔ اس کے سات نشانات ،تائد،نصرتِ الاہی، نصوصِ قرآن و حدیث ہیں’ مین جو کچھ کہتا ہوں علیا وجہ البصیرت کہتا ہوں۔خیال کرو کہ احق بالامن۔ کونسی بات ہے ۔میں تو ایسا آیا ہوں جیسا کہ الیاس آیا۔ یہود سے پوثھو کہ وہ میسح کے ماننے سے کیوں محروم رہے؟ ان کا عزر بھی یہی تھا کہ جیسا توریت میں لکھا ہے الیس آسمان سے نہیں آیا۔ مگر ہمارے مسلمان تو یہ عذر بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ بہت واقعات پہلے کے اپنے آگے رکھتے ہیں کہ نزول کس طرح سے ہوا کرتا ہے۔ یہ لوگ جتنا چاہیں مجھ سے جھگڑا کر لیں ۔مرنے کے بعد ان کو معلوم ہو جائے گا کہ حق کس طرف ہے۔یہ لوگ عیسائیوں کی اس قدر مدد کرتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو خد ان مولویوں ہی نے عیسائی بنادیا ہے جو پہلو خدا تعالیٰ نے پکڑا ہے وہی سب سے افضل ہے اور اسلام کی فتح اسی کے زریعہ ہوگی۔ نزول اور نزیل کا لفظ مہمان کے واسطے بطور اعزاز و اکرام کے استعمال کیا جاتاہے۔ ہر زبان میں یہ محاورہ ہے؛چنانچہ اردو میں بھی کہتے ہیں کہ آپ کہاں اُترے ہیں؟
اتنے میں ایک مولوی صاحب درمیان میں بول پڑے اور کہنے لگے کہ میسح تو دمشق میں نازل ہوگا۔ آپ کہاں نازل ہوئے؟
حضرت اقدس۔ حدیث سے یہ ثابت ہے کہ وہ دمشق کے مشرق کی طرف نازل ہوگا قادیان دمشق سے عین مشرق میں ہے۔
توفی کے معنے
توفی کے معنے کے متعلق شہر بغداد میں ایک بڑا مباحثہ ہوا تھا کہ اس لفظ کے کیا معنے ہیں۔ اس مباحثہ میں بالآخر یہی فیصلہ ہوا کہ جہاں اﷲ تعالیٰ فاعل ہو اور مفعول بہ علم ہو وہاں سوائے مارنے کے اور کوئی معنے نہیں آتے۔اگر آج تم قرآن حدیث یا لغت سے کوئی اور معنے دکھا دو تو میں آج بھی مان لینے کے واسطے تیار ہوں۔ لغت بھی زبان عربی کی کلید ہے، کوئی مثال لغت سے ہی دکھادو۔ تب بھی مان لوں گا۔ تعجب ہے کہ دوسروں کی رؤیت کا تم اعتبار کرتے ہومگر آنحضرت ﷺ کی رؤیت پر تم کو کوئی اعتبار نہیں۔یہ جسم عنصری کا لفظ تم نے کہاں سے نکال لیا؟ اگر کہیں یہ لفظ دکھا سکتے ہو تو لے آئو۔ میں تو اس وقت بھی قبول کرنے کے واسطے تیار ہوں ۔قرآن شریف میں‘حدیث میں‘لغت عرب، کہیں کسی نبی، صحابی وغیرہ کے متعلق لفظ توفی کا بمعنے آسمان پر جسم عنصری کے ساتھ جانے کا دکھا دو تو میں فوراً مان لوں گا۔ لیکن تم حضرت عیسیٰ کے متعلق ایک لفظ کے وہ معنے کیوں کرتے ہو جو کسی نبی، کسی ولی، کسی صحابی، کسی انسان کے متعلق نہیں کئے گئے۔پچیس (۲۵)سال سے خدا تعالیا مجھے یہی بتلارہا ہے۔ پھر تائیداتِ سماوی اور نشانات میرے ساتھ ہیں۔میں خدا تعالیٰ کی باوتں پر اب بھی وسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ پہلی کتابوں پر رکھتا ہوں۔
اس جگہ بیچ میں پھر وہی مولوی صاحب بول بڑے کہ میں توفی کے معنے آسمان پر جانے کے دکھا سکتا ہوں۔ فوراً ایک قرآن شریف مولوی صاحب کے ہاتھ میں دیا گیا۔لگے ورق گردانی کرنے اور اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے۔کبھی اس کو کہتے کیوں میاں تم نکالو اور کبھی اس کو اشارہ کرتے ہیں کیوں بھائی کچھ بتائو نہ۔ بہت سے تھے، کبھی اِس نے اُس ہاتھ سے قرآن چھینا کبھی اُس نے اِس ہاتھ سے قرآن چھینا۔نکلنا تو کیا تھا۔گھبڑا کر بولے اچھا
رافعک (آل عمران : ۵۶)
جو لکھا ہے۔
رفع کے معنے
حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
رافعک کے معنے اس جگہ وہی ہیں
رفعنا ہ مکانا علیا (مریم : ۵۸)
کے معنے ہیں۔ مسلمان ہر روز آنحضرت ﷺ کے متعلق بھی یہی دعا مانگتے ہیں کہ ان کا رفع ہو تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے جائیں؟ بات وہی صحیح ہے جو خدا تعالیٰ نے بتلادی۔ اور الہامات سے اس کی تائید کی۔
سچے الہام کا معیار
مولوی صاحب :الہام کیا ہے؟ الہام تو مجھے بھی ہوتا ہے۔
(بعد میں معلوم ہوا کہ اس مولوی کا نام نظام الدین ہے اور کسی مسجد میں لرکے پڑھاتا ہے)
حضرت اقدس: میں ایسے الہام نہیں مان سکتا جس کے ساتھ تائیدات سماوی کا نشان نہ ہو ایسے الہام کے مدعی تو ہر نبی کے زمانہ میں گذرے ہیں۔اگر آپ کے پاس کوئی نسان ہے تو دکھلائو۔

اتنے میں حضرت مولوی محمد احسن صاحب نے لغت کی ایک کتاب مختار الصحاح نکالی اور اس مولوی کو دکھلایا کہ توفی کے معنے مارنے کے لکھے ہیں۔
مولی صاحب:۔میں لغت نہیں مانتا۔اچھا مان لیا۔اگر عیسیٰ مر گیا ہے تو اس کی لاش دکھلائو۔
حضرت اقدس:۔جب مرجانا ثابت ہے تو کافی ہے۔ لاشیں حضرت ابراہیم اورموسیٰ کی کہاں ہیں؟
مولوی صاحب:۔دجال کا نا کہاں ہے؟
حضرت اقدس:۔اگر اس طرح تم لفظی معنے لوگے تو بہت مشکل پڑے گی۔قرآن شریف میں لکھا ہے کہ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اُس جہان میں بھی اندھا ہوگا، تو اس کے یہ معنے ہیں کہ جتنے نابینے ہیں وہ بہر حال سب کے سب جہنم جائیں گے اگر چہ حافظ قرآن اور مسلمان ہی ہوں۔
اُمتی کی حقیقت فرمایا:
آنے والے کے متعلق تو یہ لکھاہے کہ وہ اُمتی ہوگا۔اُمتی تو وہ ہے جو صرف آنحضرت کی سچی پیروی کے ذریعہ سے نور حاصل کرتا ہے۔ لیکن وہ جو پہلے ہی نور اور بصیرت پاکر نبوت کے درجہ تک پہنچ چکا ہے وہ اب اُمتی کس طرح بنے گا؟کیا پہلے تمام کمالات حاصل کردہ سے وہ بے نصیب کر دیا جاوے گا؟ ہاں۔ہم اُمتی ہیں جن کو سب کچھ آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے ملا ہے اور تمام معرفت وہیں سے حاصل ہوئی ہے۔
اتنے میں وہ مولوی صاحب گھبرا کر اُٹھ گئے اور ان کے ساتھی گالیاں دیتے گئے اور ایک اور طالب علم آگے بڑھا۔
نبی کی تعریف
طالب علم:۔آپ کا مرتبہ کیا ہے، اس کی تعبیر نبوت سے ہوگی یاکسی اور لفظ سے؟
حضرت اقدسے:۔جس کے ساتھ خدا تعالیٰ مکالمہ اور مخاطبہ کرتا ہے، وہ نبی ہے۔ نبی کے معنے ہیں خدا تعالیٰ سے خبر پاکر بتلانے والا۔ ہاں نبوتِ سریعت ختم ہو چکی ہے۔
سچی معرفت بغیر مخاطباتِ الٰہیہ کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ بات اس اُمت کو حاصل نہیں تو خیرِ اُمّت کس طرح سے بن گئی؟ اﷲ تعالیٰ نے مخاطبات کا دروازہ بند نہیں کیا، ورنہ نجات کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہتا۔
اُمت محمدیہ میں وحی جاری رہے گی
طالب علم:۔تو آپ کو وحی ہوتی ہے؟ وی توصرف انبیاء کو ہوتی ہے۔
حضرت اقدس:۔خدا تعالیٰ تو قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ موسیٰ ؑکی ماں کو بھی وحی ہوئی۔ کیا یہ امت عورتوں سے بھی بدتر ہو گئی؟ اس سے تو عارف کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ کیا ہمارے واسطے تمام دروازے بند ہو گئے؟ دنای دار کو آگے قدم رکھنے کی ضرورت نہیں۔ اس امت کو خد اتعالیٰ ادھورا رکھنا نہیں چاہتا۔ میں نہیں قبول کر سکتا کہ پہلی امتوں نے اس قدر برکات حالص کیں اور یہ امت بالکل محروم رکھی گئی۔
مسیح موعود کا مرتبہ
طالب علم :۔ پھر یہ مرتبہ تو ولی کا ہوا۔
حضرت اقدس:۔ ہم کب کہتے ہیں کہ ہمارا مرتبہ وہ ہے جو آنحضرت ﷺ کا تھا؟ مگر تم نہیں جانتے ۔ولی کا مرتبہ کم نہیں بلکہ بعض کے نزدیک تو ولایت بڑھ کر ہے کیونکہ ولایت، محبت،قرب اور معرفت کا ذریعہ ہے اور نبوت ایک عہدہ ہے۔ یہود کا تو یہ مذہب ہے کہ حضرت ابراہیم ولی تھے اور تمام انبیاء سے بڑھ کر تھے۔ ہم تو آنحضرت ﷺ سے باہم ایک قدم بھی رکھنا کفر سمجھتے ہیں۔ ہم کو الہام ہوا ہے۔ کل برکۃ من محمد ہم اس دائرہ سے باہر نہیں جاتے۔ آنحضرت ﷺ کی پیروی سے باہر جانا تو کفر ہے۔لوگ محجوب ہونے کے سبب وحی کے لفظ سے گھبراتے ہیں؛ ورنہ وہاں تو لکھا ہے کہ مکھی کو بھی وحی ہوئی۔بلکہ شیخ عبد القادر ؒ نے لکھا ہے کہ جس کو کبھی بھی وحی نہیں ہوئی۔ خوف ہے کہ اس کا خاتمہ برا ہو۔معرفت تامّہ بجز مکالمہ مخاطبہ کے حاصل نہیں ہوسکتی۔
وحی کی ماہیّت
طالبعلم:۔ وحی کس طرح سے ہوتی ہے؟
حضرت اقدس:۔ کئی طریق ہیں۔بعض دفعہ دل میں ایک گونج پیدا ہوتی ہے کوئی آواز نہیں ہوتی۔پھر اس کے ساتھ ایک شگفتگی پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ تیزی اور شوکت کے ساتھ ایک لذیذ کلام زبان پر جاری ہوتا ہے جو کسی فکر، تدبر اور وہم و خیال کا نتیجہ نہیں ہوتا۔اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے نشانات ہزاروں ہیں اگر کوئی چاہے تو اب بھی کم از کم چالیس (۴۰) روز ہمارے پاس رہے اور نشان دیکھ لے۔ صادق اور کاذب میں خدا تعالیٰ فرق کر دیتا ہے۔
آج سے پچیس (۲۵) سال پہلے خدا وند تعالیٰ نے مجھ یوعدہ دیا تھا کہ تیرے پاس ہر جگہ سے لوگ آئیں گے اور تحفہ تحائف بھی لائیںگے۔ یہ ایسے وقت کا الہام ہے کہ ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ تھا۔ اب تم اس کی نظیر پیش کرو کہ کیا کوئی آدمی اتنا لمبا افترا کر کے ایسی بڑی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اور ایک بات نہیں۔ اگر ہمارے پاس آئیں اور کچھ مدت قیام رکھیں تو آپ کو معلوم ہو۔
اصل میں تمام مشکلات عدمِ معرفت کے باعث ہوتی ہیں ورنہ حضرت ابوبکرع نے کونسا معجزہ مانگا تھا۔
علمأ امّت سے مراد
طالب علم:۔اُمّت کے علماء بھی انبیاء کی مانند ہیں جو آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔
حضرت اقدسؑ:۔ میں ان لوگوں کو علماء میں سامل نہیں سمجھتا جن کی زبان پر کچھ اور ہے اور اعمال کچھ اور ہی ہیں۔ منبر پر چڑھ کر کچھ کہتے ہیں اور گھر میں جا کر کچھ اور بیان کرتے ہیں۔ علماء اُمت وہ ہیں جو مذہب کی تاکید کرتے ہیں۔
مسیح موعود علیہ السلام مستقل نبی نہیں
طالب علم :۔ کیا آپ مستقل نبی ہیں؟
حضرت اقدس:۔ میرے متعلق ایسا کہنا ایک تہمت ہوگی۔ میں اس کو کفر سمجھتا ہوں کہ کوئی مستقل نبی ہونے کا دعویٰ کرے۔
مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات
طالب:۔ معجزہ تو نبی کا ہوتا ہے۔ آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ میں معجزاہ دکھاتا ہوں؟
حضرت اقدس:۔ ہمارے معجزات سب آنحضرت ﷺ کے معجزات ہیں۔ ہمارا اپنا کچھ نہیں۔ سب کاروبار آنحضرت ﷺ کا ہی چلا آتا ہے۔ دین انحطاط پر تھا ۔ہم نے سعی کی۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو خدا تعالیٰ ہماری مدد کرے گا۔ ورنہ یہ سلسلہ خود بخود ہی تباہ ہو جائے گا۔
مسیح موعود کی بعثت کا مقصد
ہمارے دو کام ہیں۔اولؔ یہ کہ اعتقاد میں نصوص کے برخلاف جو غلطیاں پڑ گئی ہیں وہ نکالی جاویں۔ دومؔ یہ کہ لوگوں کی عملی حالتیں درست کی جائیں اور صحابہؓ کے مطابق ان کو تقویٰ اور طہارت حاصل ہو جائے۔
طالب علم:۔ کیا پہلے بھی کسی نے دعویٰ کیا تھا کہ میں اسلام میں نبی ہوں؟
حضرت اقدس:۔ پہلے کس طرح کوئی دعویٰ کر سکتا۔ وہ لگو مامور نہ تھے کہ ایسا دعویٰ کریں اور میں مامور ہوں۔
طالب علم:۔ آپ کے مخالف کو کافر کیو ں کہا جائے گا؟
حضرت اقدس ؑ:۔کفر کے معنے ہیں انکار کرنا۔ جب یہ لوگ مامور من اﷲ کو نہیں مانتے اور گالیاں دیتے ہیں اور انکار کرتے ہیں تو بات یہاں تک نہیں رہتی بلکہ ایک فتح الباب ہوتا ہے اور زبان کھل جاتی ہے اور رفتہ رفتہ توفیق اعمال کی جاتی رہتی ہے؎ٰ۔
جبتک استقامت نہ ہو بیعت نا تمام ہے
ایک شخص نے بیعت کی۔ فرمایا:
خدا تعالیٰ ثابت قدم رکھے۔ ثابت قدمی خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توھیق سے خاصل ہو سکتی ہے۔ جب تک استکامت نہ ہو، بیعت بھی ناتمام ہے۔ انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاتا ہے تو راستہ میں بہت سی بلائوں اور طوفانوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔جبتک اُن میں سے انسان گذر نہ لے۔ منزل مقصود کو پہنچ نہیں سکتا۔ امن کی حالت میں استقامت کا پتہ نہیں لگ سکتا کیونکہ امن اور آرام کے وقت تو ہر ایک شخص خوش رہتا ہے اور دوست بننے کو تیار ہے۔ مستقیم وہ ہے کہ سب بلائوں کو برداشت کرے۔
طُولِ امن سے ہی سب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں
مولوی عبد الکریم صاحب کی موت کو دیکھو اور اس پر غور کرو کہ بڑی عبرت کی جگہ ہے کس طرح ناگہانی موت ان پر وارد ہوئی۔ ہر ایک شخص کو سمجھانا چاہیے کہ یہ دن کسی وقت آنے والا ہے۔ سب کو اس کے واسطے تیار رہنا چاہیے۔ ان باتوں کا تصّور اور مطالعہ انسان کو سچا مومن بادیتا ہے۔ جب انسان دنیا کی طرف جھکتا ہے اور بہت امور کو اپین گلے ڈال لیتا ہے تو ایک طول۱ امل پیدا ہو جاتا ہے۔ طولِ امل سے ہی سب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جو شخص عمر کو لمبا سمجھتا ہے اور بڑی بڑی امیدیں کرتا ہے اور کہتا ہے یہ کروں گا وہ کروںگا۔اس کے واسطے دل کی پاکیزگی کا حصول مشکل ہے۔ مومن کو چاہیے کہ رات کو سوئے اور صبح اُٹھنے کی امید نہ کرے اور صبح اٹھے تو رات تک زندگی کی امید نہ رکھے۔ سب سے اعلیٰ اور آخری بات یہ ہے کہ دل کی پاکیزگی حاصل ہو۔جب خدا تعالیٰ کسی پر فضل کرتا ہے تو دل کی پاکیزگی اس کو عطا کرتا ہے۔ بغیر فضلِ الٰہی کے پاکیزگی حاصل نہیں ہو سکتی۔اول بات یہ ہے کہ طولِ امل جاتا رہے۔ تب انسان تسلی پکڑتا ہے۔جب انسان دن بھر نا جائز وسائل اختیار کرتا ہے اور دنیا کمانے کے پیچھے پڑا رہتا ہے تو دل ناپاک ہو جاتا ہے۔مگر موت سے زیادہ اور کوئی واعظ نہیں یہی بڑا واعظ۔
مومن میں اﷲ تعالیٰ نے قوتِ جذب رکھی ہے
اٹاوہ کے دوست دیس صادق حیسن صاحب اور دیگر دوست اس جگہ کے مخاطب تھے۔ فرمایا:
اگر ایک آدمی بھی متقی اور صالح کسی مقام پر ہو جو اشاعت حق کے لیے پور اجوش رکھتا ہو تو خدا تعالیٰ اس میں قوت جاذبہ پید اکر دیتا ہے اور وہ ایک جماعت بناہی لیتا ہے کیونکہ مومن کبھی اکیلا نہیں رہ سکتا۔ یہ نہیں کہ صرف معجزات کے ذریعہ سے ہی لوگوں پر حجت پوری کی جاتی ہے۔ بلکہ مومن میں اﷲ تعالیٰ نے قوت جذب رکھی ہے۔ سعید لوگ اس کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور غیر سعید لوگ بھی سلسلہ حقہ کی خدمت میں لگائے جاتے ہیں۔ان کے سپرد یہ خدمت کی جاتی ہے کہ سلسلہ حقہ کی مخالفت میں شور وغور غا مچا کر اس کی تشہیر کریں ارو اس کی تبلیغ کو دور تک پہنچا دیں۔مومن مین قوت جاذبہ ضرور ہتوی ہے۔ جب میں براہین لکھتا تھا تو یہ الہام ہوا تھا کہ ہر ایک دور کی راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے۔ اس وقت ایک بھی آدمی میرے ساتھ نہ تھا۔ اور یہ کتاب وہ ہے جو ہر ایک فرقہ عیسائی ،ہندو،برہمو،آریہ اور سب مخالفین کے پاس ہے۔ مولوی محمد حسین نے اس پر بڑا ریویو لکھا تھا۔کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پیشگوئیاں ہم نے بنائی ہیں یا ایسے زمانہ میں لکھی گئی تھیں کہ لوگ آیا جاتا کرتے تھے۔ایسے وقت میں الہامات شائع ہوئے اور کئی ایک زبانوں میں عربی،فارسی،اردو،انگریزی عبرانی سب زبانوں میں الہامات ہوئے۔یہ اس لیے ہوا کہ ہر ایک زبان گواہ رہے اور اس کتاب کی عظمت ہو۔ اور اس میں یہ بھی ایک راز معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک زبان کے لوگ گواہ ہوں گے اور اس جماعت میں داخل ہوں گے۔
اگر دنیا میں یہ باتیں انسنا پانی طاقت سے بنا سکت اہے تو اس ی نظیر کہاں ہے؟ اگر یہ ہو سکتا اور انسان کر سکتا تو تمام انبیاء کی پیشگوئیاں اور خوارق ایک شبہ میں پڑ جاتے۔مگر بات یہ ہے کہ ابتلائوں کا آنا ضروری ہے۔ ہر نبی کے وقت میں ابتلاء آئے اور اب بھی وہی سنت اﷲ جاری ہے۔ مجدد و صاحب نے بھی ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو علماء اس کا مقابلہ کریں گے اور اس کی تکذیب کریںگے۔
جماعت کو صبر کی تلقین فرمایا:
صبر بڑا جوہر ہے۔ جو شخص صبر کرنے والا ہوتاہے اور غصے سے بھر کر نہیں بولتا اس کی تقریر اپنی نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ اس سے تقریر کراتا ہے۔جماعت کو چاہیے کہ صبر سے کام لے اور مخالفین کی سختی پر سختی نہ کرے اور گالیوں کے عوض میں گالی نہ دے۔جو شخ ہمارا مکذب ہے اس پر لازم نہیں کہ وہ ادب کے ساتھ بولے۔ اس کے نمونے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں بھی بہت پائے جاتے ہیں۔ صبر جیسی کوئی شے نہیں۔ مگر صبر کرنا بڑا مشکل ہے۔ اﷲتعالیٰ اس کی تائید کرتا ہے جو صبر سے کام لے۔ دہلی کی سر زمین سخت ہے؛ تاہم سب یکساں نہیں۔ کئی آدمی مخفی ہوں گے۔ جب وقت آئے گا تو وہ خود بخود سمجھ لیں گے۔ عرب بہت سخت ملک تھا۔ وہ بھی سیدھا ہو گیا۔دہلی تو ایسی سخت نہیں۔
میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی پر حملہ کریں یا اخلاق کے برخلاف کوئی کام کریں۔ خد اتعالیٰ بردباری کا حکم دیتا ہے اور اسی کے مطابق کرنا چاہیے۔خدا تعالیٰ کے الہامات کی تفہیم بھی یہی ہے کہ بردباری کریں۔ ہمارے پاس کوئی ایسا شربت نہیں کہ فوراً کسی کے ہاتھ پر ڈال دیں۔
‏amira 15-1-06
ابھی تو بعض ماننے والے بھی ایسے ہیں کہ وہ پورا یقین نہیں کرتے بلکہ وساوس کی قے کرتے ہیں۔تا ہم کمزوروں پر رحم کرنا چاہیے اور ہر ایک کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ میں جب نیا تھا تو میراحال بھی ایسا ہی کمزوری کا تھا۔ شیطان ہر ایک کے ساتھ لگاہوا ہے۔ رفتہ رفتہ سکینت کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔کیونکہ گذشتہ معاصی کا زہر یس زنی کرتا رہتا ہے۔ کوئی سہل امر نہیں کہ یک دفعہ یہ سارا زہر نکل جائے۔ رفتہ رفتہ خد اکی رحمت دستگیر ہوتی ہے۔ بیمار تندرست ہوت اہے تو نقاہت باقی رہتی ہے اور نقاہت کے لوازم میں سے ہے کہ انسنا کسی وقت گر جائے بلکہ بعض دفعہ مرض عود کر آتی ہے۔مومن ولی ہوتا ہے مگر اس نعمت کا حاصل ہونا مشکل ہے۔ اسی واسطے کہا گیا ہے کہ امنا نہ کہو بلکہ اسلمنا کہو۔
مسیح معوود کو ماننے کی ضرورت
حضرت کی خدمت میں آج پھر سوال پیش ہوگا کہ جب ہم لوگ نماز پڑھتے ہیں۔روزہ رکھتے ہیں اور شریعت کے دیگر امور کی پیروی کرتے ہیں تو صرف آپ کو نہ ماننے کے سبب کیا حرج ہو سکتا ہے؟
حضرت نے فرمایا:
میں نے اس بات کا جواب کئی دفعہ دیا ہے۔ ہم قال اﷲ اور قال الرسول کو مانتے ہیں۔ پھر خدا تعالیٰ کی وحی کو مانتے ہیں۔ میرا نام آنا اﷲ اور رسول کے وعدے کے مطابق ہے۔ جو شخص خدا اور رسول کی ایک بات مانتے ہے اور دوسری نہیں مانتا وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں خدا پر ایمان لاتا ہوں۔یہ تو وہ بات ہے جو قرآن شریف میں تذکرہ ہے کہ وہ لوگ بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر ایمان نہیں لاتے ؛ ورنہ دراصل ایمان نہیں’ ایک خد ااور اس کے رسول کا موعود اپنے وقت پر آیا۔ صدی کے سر پر آیا۔نشانات لایا۔ عین ضرورت کے وقت آیا۔ اپنے دعویٰ کے دلائل صحیح اور قوی رکھتا ہے۔ ایسے شخص کا انکار کیا ایک مومن کا کام ہے؟ یہودی موحد کہلاتے تھے۔اب تک ان کا دعویا ہے کہ ہم توحید پر قائم ہیں۔ نماز پڑھتے،روزہ رکھتے مگر آنحضرت ﷺ کو نہ مانتے۔ اسی سبب کافر ہو گئے۔ اﷲ تعالیٰ کے ایک حکم فرمودہ رسول کی ایک بات کا بھی جو شخص انکار کرتا ہے اور اس کے مخالف خدا کرتا ہے وہ کافر ہوتا ہے۔ اور یہ بھی ان لوگوں کی غلطی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم نماز روزہ ادا کرتے ہیں اور تمام اعمالِ حسنہ بجالاتے ہیں۔ ہمیں کیا ضرورت ہے؟ یہ نہیں جانتے کہ اعمالِ حسنہ کی توفیق بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ ہر قسم کے شرک انفسی آفاقی کا نکالنا، خلوصِ لذت اور احسان کے ساتھ عبادت بجالانا یہ کوئی اختیاری بات نہیں ہے۔ اس کے واسطے آنحضرت ﷺ کی پیروی نہایت ہی ضروری ہے۔ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے محبوب بن جائیں تو آنحضرت ﷺ کی پیروی کرو۔ ان لوگوں کو معلوم نہین کہ نیک اعمال کی توفیق فضلِ الٰہی پر موقوف ہے۔ جبتک اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل نہ وہ اندر کی آلود گیاں دور نہیں ہو سکتیں۔ جب کوئی شخص نہایت درجہ کے صدق اور اخلاص کو اختیار کرتا ہے تو ایک طاقت آسمانی اس کے واسطے نازل ہوتی ہے۔ اگر انسان سب کچھ خود کر سکتا تو دعائوں کی ضرورت نہ ہوتی۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں ا س شخص کو راہ دکھائوں گا جو میری راہ میں مجاہدہ کرے۔یہ ایک باریک رمز ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ تم سب اندھے ہو مگر وہ جس کو خد اآنکھیں دے۔اور تم سب مردے ہو مگر وہ جس کو خدا تعالیٰ زندگی دے۔ دیکھو یہودیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ مثل گدھوں کے ہیں جن پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ ایسا علم انسان کو کای فائدہ دے سکتا ہے جب تک دل آراستہ نہ ہو ہدایت اور سکینت نازل نہیں ہوتی۔ شیطان سے مناسبت آسان ہے مگر ملاتک سے مناسبت مشکل ہے کیونکہ اس میں اوپر کو چڑھنا ہے اور اُس میں نیچے گرنا ہے۔ نیچے گرنا آسان ہے، مگر اُوپر چڑھنا بہت مشکل ہے۔ یہ مقام تب حاصل ہو سکتا ہے کہ انسان درحقیقت پاک ہو کر محبت الٰہی کو اپنے اندر داخل کر لیتا ہے۔ لیکن اگر یہ امر آسان ہوتا تو اولیاء ، ابدال، غوث اور اقطاب ایسے کمیاب کیوں ہوتے؟ بظاہر تو وہ سب عام لوگوں کی مانند نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں مگر فرق صرھ توفیق کا ہے۔ ان لوگوں نے کسی قسم کی شوخی اور کج روی نہ کی بلکہ خداکساری کا راہ اختیار کیا اور مجاہدات میں لگ گئے۔ جو شخص دنیوی حکام کے بالمقابل شوخی کرتا ہے وہ بھی ذلیل کیا جاتا ہے۔ پھر اس کا کیا حال ہوگاجو خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے حکم کے ساتھ شوخی اور گستاخی سے پیش آتا ہے۔آنحضرت ﷺ دعا کیا کرتے تھے
اللہم لا تکلنی الی تفسی طر ھۃ عین۔
یا اﷲ مجھے ایک آنکھ جھپکنے تک بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر۔
اب ان لوگوں کے تقویٰ کے حال کو دیکھنا چاہیے۔میں ان کے سامنے آیا ۔میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا ہے۔ کیا انہوں نے میرے معاملہ میں تدبر کیا؟ کیا اُنہوں نے میری کتب کا مطالعہ کیا؟ کیا یہ میرے پاس آئے؟ کہ مجھ سے سمجھ لیں۔صرف لوگوں کے کہنے کہلانے سے بے ایمان، دجال اور کافر مجھے کہنا شروع کیا اور کہا کہ یہ واجب القتل ہے۔ بغیر تحقیقات کے انہوں نے یہ سب کارروائی کی اور دلیری کے ساتھ اپنا منہ کھولا۔ مناسب تھا کہ میرے مقابلہ میں یہ لوگ کوئی حدیث پیش کرتے۔ میرا مذہب ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ذرا ادھر اُدھر جانا بے ایمانی میں پڑنا ہے۔لیکن کیا اس کی پہلے کوئی نظیر دنیا میں موجود ہے کہ ایک شخص پچیس (۲۵) سال سے خدا پر افتراء کرتا ہے اور خدا تعالیٰ ہر روز اس کی تائید اور نصرت کرتا ہے۔ وہ اکیلا تھا اور خدا تعالیٰ نے تین لاکھ آدمی اس کے ساتھ شامل کر دیا۔ کیا تقویٰ کا حق ہے کہ اس کے مخالف بے ہودہ شور مچا یا جاوے اور اس کے معاملہ میں کوئی تحقیقات نہ کی جاوے۔
عقیدہ وفات مسیح علیہ السلام کی اہمیت
وفاتِ مسیح پر قرآن ہمارے ساتھ ہے۔ معراج والی حدیث ہمارے ساتھ ہے۔ صحابہؓ کا اجماع ہمارے ساتھ ہے۔کیا وجہ ہے کہ تم حضرت عیسیٰ کو وہ خصوصیت دیتے ہو جو دوسرے کے لیے نہیں۔مجھے ایک بزرگ کی بات بہت ہی پیاری لگتی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اگر دنیا میں کسی کی زندگی کا میں قائل ہوتا تو آنحضرت ﷺ کی زندگی کا قائل ہوتا۔ دوسرے کی زندگی سے ہم کو کیا فائدہ؟ تقویؓ سے کام لو۔ ضد اچھی نہیں۔دیکھو۔ پادری لوگ گلی اور کوچوں اور بازاروں میں یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہمارا یسوع زندہ ہے اور تمہارا رسول مر چکا ہے۔ اس کا جواب تم ان کو کیا دے سکتے ہو؟ یہ زمانہ تو اسلام کی ترقی کا زمانہ ہے۔کسوف خسوھ بھی پیشگوئی کے مطابق ہو چکا ہے اﷲ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے واسطے وہ پہلو اختیار کیا ہے جس کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا۔سوچو انیس سو(۱۹۰۰) سال تک مسیح ؑکو زندہ ماننے کا کای نتیجہ ہوا؟ یہی کہ چالیس کروڑ عیسائی ہو گئے۔ اب دوسرے پہلو کو بھی چند سال کے واسطے آزمائو اور دیکھو کہ اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی عیسائی سے پوچھو کہ اگر یسوع مسیح کی وفات کو تسلیم کر لیا جائے تو کیا پھر بھی کوئی عیسائی دنیا میں رہ سکتا ہے۔تمہارا یہ طیش اور یہ غضب مجھ پر کیوں ہے؟ کیا اسی واسطے کہ میں اسلام کی فتح چاہتا ہوں۔ یاد رکھو کہ تمہاری مخالفت میرا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی۔ میں اکیلا تھا۔ خد اتعالیا کے وعدے کے موافق کئی لاکھ آدمی میرے ساتھ ہو گئے اور دن بدن ترقی ہو رہی ہے۔ لاہور میں بشپ صاحب نے یہی سوال مسلمانوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ ہزاروں آدمی جمع تے اور بڑا بھاری جلسہ تھا۔ یسوع کی فضیلت اس نے اس طرح بیان کی کہ وہ زندہ یہ اور آنحضرت ﷺ فوت ہو چکے ہیں۔ تب کوئی مسلمان اس کا جواب نہ دے سکا۔ لیکن ہماری جماعت میں سے مفتی محمد صادق صاحب اُٹھے جو اس جگہ اس وقت موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ قرآن، حدیث،انجیل سب کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑفوت ہو چکے ہیں؛ چنانچہ انہوں نے ثابت کر دیا۔تب بشپ کوئی جواب نہ دے سکا اور ہماری جماعت کے ساتھ مخاطب ہونے سے اعراض کیا۔
اسلام کبھی تلوار کے ساتھ نہیں پھیلایا گیا
ان مولویوں پر افسوس ہے کہ میری تذلیل کی خا طر یہ لوگ اسلام پر حملہ کرتے ہیں اور اسلام کی بے عزتی کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ مہدی آئے گا تو وہ تلوار کے ساتھ دین پھیلائے گا۔ اے نادانو! کیا تم عیسائیوں کے اعتراض کی مدد کرتے ہو کہ دین اسلام تلوار کے ساتھ پھیلا ہے۔ یاد رکھو کہ اسلام کبھی تلوار کے ساتھ نہیں پھیلایا گیا۔ آنحضرت ﷺ نے کبھی دین جبراً پھیلانے کے واسطے تلوار نہیں اٹھائی، بلکہ دشمنوں کے حملوں کو روکنے کے واسطے اور وہ بھی بہت برداشت اور صبر کے بعد غریب مسلمانوں کو ظالم کفار کے ہاتھ سے بچانے کے واسطے جنگ کی گئی تھی اور اس میں کوئی پیش قدمی مسلمانوں کی طرف سے نہیں ہوئی تھی۔یہی جہاد کا سر ہے۔ آجکل عیسائیوں کے حملے تلوار کے ساتھ نہیں بلکہ قلم کے ساتھ ہیں۔ پس قلم کے ساتھ ان کا جواب ہونا چاہیے۔تلوار کے ساتھ سچا عقیدہ نہیں پھیل سکتا۔ بعض بیوقوف جنگلی لوگ ہندوئوں کو پکڑ کر ان سے جبراً کلمہ پڑھواتے ہیں مگر وہ جاکر پھر صرف تلوار اِٹھانے والوں کو مزہ چکھایا تھا۔اب قلم کے ساتھ،دلائل اور براہین کے ساتھ اور نشانوں کے ساتھ مخالفوں کو جواب دیا جا رہا ہے۔ اگر خدا تعالیا کو یہی منطور ہوتا کہ مسلمان جہاد کریں تو سب سے بڑھ کر مسلمانوں کو جنگی طاقت دی جاتی اور آلات حرب کی ساخت اور استعمال میں ان کو بہت دسترس عطا کی جاتی۔ مگر یہاں تویہ حال ہے کہ مسلامن بادشاہ اپنے ،ہتھیار یورپ کے لوگوں سے خرید کر لیتے ہیں۔ تم میں تلوار نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا منشاء ہی نہین کہ تم تلوار کا استعمال کرو۔ سچی تعلیم اور معجزات کے ساتھ اب اسلام کا غلبہ ہوگا۔ میں اب بھی نسان دکھانے کو تایر ہوں ۔کوئی پادری آئے اور چالیس روز تک میرے پاس رہے۔ تلواروں کو تو زنگ بھی لگ جاتا ہے پر ان نشانات کو جو تازہ ہیں کون زنگ لگا سکتا ہے۔
اسلام کی فتح کا ذریعہ
اسلام کے واسطے ایک انحطاط کا وقت ہے۔ اگر ہمارا طریق ان لوگوں کو پسند نہیں تو فتح اسلام کے واسطے کوئی پہلو یہ لوگ ہم کو بتلائیں ہم قبول کر لیںگے۔اب تو ہر ایک عقلمند نے شہادت دے دی ہے کہا گر اسلما کی فتح کسی بات سے ہو سکتی ہے تو وہ یہی بات ہے۔ یہانتک کہ عیسائی خود قائل ہیں کہ وفات مسیح یا یہی ایک پہلو ہے جس سے عیسوی مذہب بیخ و بُن سے اُکھڑ جاتا ہے۔اگر یہ لوگ عیسائیت کو چھوڑ دیں گے تو ھپر ان کے واسطے بجز اس کے اور کئی دروازہ نہیں کہ اسلام قبول کریں اور اس میں داخل ہو جائیں۔یہی ایک راہ ہے۔ اگر کوئی دوسری راہ کسی کو معلوم ہے تو اس پر فرض ہے کہ اس کو پیش کرے بلکہ اس پر کھانا پینا حرام ہے جبتک اس پہلو کو پیش نہ کرے۔
اے مسلمانو! سوچو۔اس میں تمہارا کیا حرج ہے کہ عیسیٰ فوت ہو گیا۔ کیا تمہارا پیارا نبی فوت نہیں ہوگیا؟ آنحضرت ﷺ کی وفات کے نام پر تمہیں غصہ نہیں آتا۔ عیسیٰ کی وھات کا نام سنکر تمہیں کیوں غصہ آتا ہے؟
میرا مطلب نفسانیت کا نہیں۔ میں کوئی شہرت نہیں چاہتا۔ میں تو صرف اسلام کی ترقی چاہتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ میرے دل کو خبو جانت اہے۔ اسی ین میرے دل میں یہ جوش ڈال دیا۔ میں اپنی طرف سے بات نہیں کہتا۔ پچیس برس سے خدا تعالیٰ کا الہام مجھ سے یہ بات کہلارہا ہے۔اُسی زمانہ کا یہ الہام ہے
الرحمٰن علم القراٰن (الرحمٰن : ۲۔۳)
خدا تعالیا چاہت اہے کہ مجرم علیحدہ ہو جائیں اور راستباز علیحدہ ہو جائیں۔میرے پر حملہ کرنے کا کچھ فائدہ نہیں۔بصیرت والا اپنی بصیرت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میں وعدہ کرت اہوں کہ اگر کوئی صادق طالب حق ہے تو مریے پاس آوے۔ میں تازہ ترنشان دکھائوں گا۔ کیا میں اس قدر یقین کو ترک کر کے تمہاری ظنی باوتں کے پیچھے پڑ جائوں۔ جس شخص کو خد اتعالیٰ نے بصیرت دی۔ نشانوں کے ساتھ اپنے مخاطبات اور مکالمات کے ساتھ اس کی صداقت پر مہر لگادی وہ تمہاری خیالی باوتں کوکیا کرے؟ اگر تم اس قدر باتوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لا سکتے تو
اعملو اعلی مکانتکم انی عامل فسوف تعلمون (الانعام :۱۳۶)
تم اپنی جگہ کام کرو، میں اپنا کام کرتا ہوں۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سچا کون ہے؎ٰ۔
۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
بمقام دہلی
ویران مساجد
دہلی کے ارد گرد بہت سی ویران مساجد کا تذکرہ تھا۔ حضرت نے فرمایا:۔
ان کا مرمّت کرانا کچھ مشکل امر نہ تھا۔ اگر لوگ چاہتے تو کر لیتے، مگر جب خدا تعالیٰ کسی امر سے توجہ کو نٹا دیتاہے تو پھر کوئی کر ہی کیا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں بعض مساجد کسی صحیح نیت سے نہیں۔ بنوائی جاتیں بلکہ صرف اس واسطے بنائی جاتی ہیں کہ ہماری مسجد ہو اور کہلائے۔
فرمایا:۔
کل امور نیت صحیح اور دل کے تقویٰ پر موقوف ہیں۔ ایک بعرگ کے پاس بہت دولت تھی کسی ین اعتراض کای اس نے جواب دیا ؎
کے اند اختم در دل
مگر اند اختم در گِل
غرض خد اکے ساتھ دل لگا کر جب دنیوی کاروبار کرتا ہے تو کوئی شئے اُسے خد اسے مانع نہیں ہو سکتی خواہ کتنے ہی بڑے مشاغل کیوں نہ ہوں۔
ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا فرمایا:
یہ بالکل غلط ہے کہ ہند میں اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا ۔ہرگز نہیں۔ہند میں اسلام بادشاہوں نے بجز نہیں پھیلایا بلکہ ان کو تو دین کی طرف بہت ہی کم توجہ تھی۔ اسلام ہند میں ان مشائخ اور بزرگان دین کی توجہ،دعا اور صرفات کا نتیجہ ہے جو ا س ملک میں گذرے تھے۔ بادشاہوں کو یہ توھیق کہاں ہوتی ہے کہ دلوں میں اسلام کی محبت ڈال دیں۔ جب تک کوئی آدمی اسلام کا نمونہ خود اپنے وجود سے نہ ظاہر کرے تب تک دوسرے پر اس کا کئی اثر نہیں ہوسکتا۔یہ بزرگ اﷲ تعالیٰ کے حضور میں فنا ہو کر خدو مجسم قرآن اور مجسم اسلام اور مظہر رسول کریم ﷺ بن جاتے ہیں۔ تب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ایک جذب عطا کیا جاتا ہے اور سعید فطرتوں میں ان کا اثر ہوتا چلا جاتا ہے۔ نور کروڑ مسلمان ایس یلوگوں کی توجہ اور جذب سے بن گیا۔ تھوڑے سے عرصہ میں کوئی دین اس کثرت دے ساتھ کبھی نہیں پھیلا۔یہی لوگ تھے جنہوں نے صلاح و تقویٰ کا نمونہ دکھلایا اور ان کی برہان قوی نے جوش مارا اور لوگوں کو کھینچا۔ مگر یہ بزرگ بھی عوام کی طعن و تشنیع سے خالی نہ تھے۔ گو ہم زیادہ تر ان لوگوں کے آگے گالیوں کے لیے تختۂ مشق ہو رہے ہیں تاہم ان سب نے دکھ اُٹھایا ۔یہ ہمارے علماء ہمیسہ کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہے ہیں۔
سماع
ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں۔ آیا یہ جائز ہے؟
فرمایا:
اس طرح بزرگان دین پر بدظنی کرنا اچھا نہیں۔حسن ظنی سے کام لینا چاہیے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحصرت ﷺ نے بھی اشعار سنے تے۔ لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایک صحابی مسجد کے اندر شعر پڑھتا تھا۔حضرت عمرؓ نے اس کو منع کیا۔ اس نے جواب دیا ۔میں نبی کریم ﷺ کے سامنے مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا تُو کون ہے جو مجھے روک سکے؟ یہ سنکر حضرت امیر المومنین ؒ بالکل خاموش ہو گئے۔
قرآن شریف کو بھی خوس الحانی سے پڑھنا چاہیے۔ بلکہ ا سقدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور خود اس میں ایک اثر ہے۔ عمدہ تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے۔ وہی تقریر زولیدہ زبانی سے کی جائے تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جس شئے میں خدا تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے اس کو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ حضرت دائود کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت دائود خدا تعالیٰ کی مناجات کرتے تھے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے۔
مزامیر
ایک شخص درمیان میں بول پڑا کہ مزامیر کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟
فرمایا:
بعض نے قرآن شریف یک لفظ
لھو الحدیث (لقمان : ۷)
کو مزامیر سے تعبیر کیا ہے۔ مگر میرا مذہب یہ ہے کہ ہر ایک شخص کو مقام او رمحل دیکھنا چاہیے۔ ایک شخص کو جو اپنے اندر بہت سے علوم رکھتا ہے اور تقویٰ کی علامات اس میں پائی جاتی ہیں اور متقی باخد اہونے کی ہزار دلیل اس میں موجود ہے۔ صرف ایک بات جو تمہیں سمجھ میں نہیں آتی اس کی وجہ سے اُسے برا نہ کہو۔ اس طرح انسان محروم رہ جاتا ہے۔بایزید بسطامیؒ کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ لوگ بہت ان کے گرد ہوئے اور ان کے وقت کو پراگندہ کرتے تھے۔رمضان کا مہینہ تھا۔ انہوں نے سب کے سامنے روٹی کھانی شروع کردی۔ تب سب لوگ کافر کہہ کر بھاگ گئے۔ عوام واقف نہ تھے کہ یہ مسافر ہے اور ا سکے واسطے روزہ ضروری نہیں۔لوگ نفرت کرکے بھاگے ۔ ان کے واسطے عبادت کے لیے مقام خلوت حاصل ہو گیا۔
خضری اسرار
یہ اسرار ہیں اور ان کے واسطے ایک عمدہ مثال خود قرآن شریف میں موجود ہ ہے جہاں حضرت خضرؑ نے ایک کشتی توڑ ڈالی اور ایک لڑکے کو قتل کر دیا۔ کوئی ظاہر شریعت ان کو ایسے کام کی اجازت نہ دے سکتی تھی۔ اس قصہ سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ خضری اسرار اس امت میں ہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں۔ ہمارے نبی کریم ﷺ تمام کمالات متفرقہ کے جامع تھے اور ظلی طور پر وہ کمالا ت آنحضرت ﷺ کی اُمت میں موجود ہیں۔ جو خضر نے کیا آئندہ صاحبانِ کمالات بھی حسبِ ضرورت کرتے ہیں۔ جہاں حضرت خضر نے ایک نفس زکیّہ کو قتل کر دیا اس کے بالمقابل مزامیر کیا سئے ہے۔ لہذا جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔جلد بازی انسان کو ہلاک کر دیتی ہے۔ دوسری علامات کو دیکھنا چاہیے جو اولیاء الرحمٰن میں پائی جاتی ہیں’ ان لوگوں کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ اس میں بڑی احتیاط لازم ہے۔ جو اعتراض کرے گا وہ مارا جائے گا۔ تعجب ہے کہ زبان کھولنے والے خود گندے لوگ ہوتے ہیں اور ان کے دل ناپاک ہوتے ہیں اور پھر بزرگوں پر اعتراض کرتے ہیں۔
یہ بھی میں دیکھتا ہوں کہا ولیاء اﷲ میں کسی ایسی بات کو ہونا بھی سنت اﷲ میں چلا آتا ہے۔ جیس اکہ خوبصورت بثے کو جب مان عمدہ لباس پہنا کر باہر نکالتی ہے تو اس کے چہرے پر ایک سیاہی کا داغ بھی لگا دیتی ہے تاکہ وہ نظر بد سے بچا رہے۔ ایسا ہی خد ابھی اپنے پاکیزہ بندوں کے ظاہری حالات میں ایک ایسی بات رکھ دیتا ہے جس سے بد لوگ اس سے دور رہیں اور صرف نیک لوگ اس کے گرد جمع رہیں۔ سعید آدمی چہرے کی اصلی خوبصورتی کو دیکھتا ہے اور شقی کا دھیان اس داغ کی طرف رہتا ہے۔
امرتسر کا واقعہ ہے۔ایک دعوت میں چند مولوی شریک تھے اور صاحب مکان نے مجھے بھی بلایا ہوا تھا۔ چائے لائی گئی۔ میں نے پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑلی۔ تب سب نے اعترص کیا کہ یہ سنت کے برخلاف کام کرتا ہے۔ میں نے کہا۔ یہ سنت ہے کہ پیالی دائیں ہاتھ سے پکڑی جائے مگر کیا یہ سنت نہیں کہ
لا تقف مالیس لک بہ علم (بنی اسرائیل : ۳۷)
یعنی جس بات کا تجھے علم نہیں اس کے متعلق اپنی زبان نہ کھول۔کیا آپ لوگوں کو مناسب نہ تھا کہ مجھ پر حسن ظن کرتے اور خاموش رہتے۔یا یہ نہیں ہوسکتا تھا تو اعتراض کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ ہی لیتے کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ پھر میں نے بتلایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرے دائیں بازو کی ہڈی بچپن سے ٹوٹی ہوئی ہے اور پیالی پکڑ کر میں ہاتھ کو اوپر نہیں اُٹھا سکتا۔ جب یہ بات انہیں بتلائی گئی، تب وہ سن کر شرمندہ ہو گئے؎ٰ۔
۲۹؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
بمقام دہلی
(بعد نماز طہر)
وفات مسیح کے متعلق ایک جامع تحریر
چند مولویوں کو حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک تحریر لکھ کر دی کہ آپ کیوں مسیح کی وفات کے قائل ہیں؟ حضور ؑ کی وہ تحریر درج ذیل کی جاتی ہے :۔
بسم ا ﷲالرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وجوہ مفصلہ ذیل ہیں جن کی رو سے میں حضرت عیسیٰ ؑکو فوت شدہ قرار دیتا ہوں۔
(۱) قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ ؑکی نسبت یہ آیات ہیں۔
یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الی (آل عمران: ۵۶)
فلما توفیتنی (المائدہ : ۱۱۸)
ان آیات کے معنی صحیح بخاری کتاب التفسیر میں موت لکھے ہیں۔جیسا کہ اس میں ابن عباس ؓ سے لکھا ہے۔ متوفیک ممیتک اور پھر بظاہر آیات کے لیے فلما توفیتنی کا اس جگہ ذکرکیا ہے اور نیز آنحضرت ﷺ کا قول بھی ذکر کیاہے کہ میں قیامت کے دن یہی عرض کروں گا کہ یہ لوگ میری وفات کے بعد بگڑے ہیں۔ جیساکہ لکھا ہے کما قال العبد الصالح۔ (الخ)
(۲) دوسری دلیل توفی کے ان معنوں پر جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں، لغت عرب کی کتابیں ہیں۔میں نے جہانتک ممکن تھا قریباً تمام شائع شدہ کتابیں لغت کی دیکھی ہیں۔جیسے قاموس، تاج العروس، صراح، صحاح جوہری، لسان العرب اور وہ کتابیں جو حال میں بیروت میں تالیف کر کے عیسائیوں نے شائع کی ہیں’ان تمام کتابوں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ محاورہ عرب اسی طرح پر ہے کہ جب کسی جملہ میں خدا تعالیٰ فاعل ہو اور کوئی علم انسان مفعول بہٰ ہو جیسا کہ توفی اﷲ زیدا۔تو ایسی صورت میں بجز اماتت اور قبض روح اور کوئی معنے نہیں ہوتے۔اور جو شخص اس سے انکار کرے اس پر لازم ہے کہ اس کے برخلاف لغت کی کتابوں سے کوئی نظیر مخالف پیش کرے۔
(۳) میں نے بہت محنت اور کوشش سے جہاں تک میرے لیے ممکن تھا۔صحاحِ ستہ وغیرہ حدیث کی کتابیں غور سے دیکھی ہیں اور میں نے کسی ایک جگہ پر توفی کے معنے بجز وفات دینے کے حدیث میں نہین پائے بلکہ تین سو کے قریب ایسی جگہ پائی ہیں جہان ہر جگہ موت دینے کے ہی معنے ہیں۔
(۴) میں نے جہاں تک میرے لیے ممکن تھا، عرب کے مختلف دیوان بھی دیکھے ہیں۔ مگر نہ میں نے جاہلیت کے زمانہ کے شعراء اور نا اسلام کے زمانہ کے مستند شعراء کے کلام میں کوئی ایسا فقرہ پایا ہے کہ ایسی صورت میں جو اوپر بیان کی گئی ہے بجز وفات دینے کے کوئی اور معنے ہوں۔
(۵) شاہ ولی اﷲ صاحب کی الفوز الکبیر میں بھی یہی لکھا ہے کہ متوفیک ممیتک اور میں جانتا ہوں کہ شاہ ولی اﷲ صاحب بڑے پایہ کے محدث اور فقیہ اور عالم فاضل تھے۔
(۶) حدیثِ معراج جو بخاری میں موجود ہے اس سے پایا جات اہے کہ آنحضرت ﷺ نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ ؑ کو فوت شدہ انبیاء میں دیکھا تھا۔ پس اس جگہ دو شہادتیں ہیں۔ایک خدا تعالیٰ کی شہادت قرآن شریف میں، دوسری آنحضرت ﷺ کی شہادت لیلۃالمعراج میں۔
(۷) آنحضرت ﷺ نے جیس اکہ کنزالعمال وطبرانی اور کتاب ماثبت بالسنۃ میں شیخ عبد الحق وغیرہ نے لکھاہے حضرت عیسیٰ کی عمر ایک سو پچیس (۱۲۵) برس کی تھی اور ایک روایت میں ایک سو بیس برس بھی ہے اور ہزاروں برس کی عمر کسی جگہ نہیں لکھی۔
(۸) جو صحابہؓ کا اجماع آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ہوا وہ بھی حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات پر دلیل قاطع ہے جو ا س آیت کی رو سے اجماع تھا۔
ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران : ۱۴۵)
(۹) ماسوائے اس کے خد اتعالیٰ نے اپنی وحی قطعی صحیح سے بار بار میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ وفات پا گئے اور اپنے کھلے کھلے نشانوں سے میری سچائی ظاہر فرمائی ہے۔ اسی طرح اور بہت س یدلائل ہیں مگر اس ی قدر کافی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکی موت قرآن شریف اور حدیث اور اجماع صحابہؓ سے ثابت ہے۔ اور سورہ نور سے ثابت ہے کہ اس امت کے کل خلفاء اسی امّت میں سے آئیں گے اور صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ آنیوالا عیسیٰ اسی اُمت میں سے ہوگا۔ جیساکہ لکھاہے کہ امامکم منکم بلکہ صحیح بخاری میں پہلے مسیح کا اور حلیہ لکھ اہے اور آنے والے مسیح کا اور حلیہ لکھا ہے۔ماسوائے اس کے میرا آنا بے وقت نہیں۔ صدی جس کے سر پر آنا تھے،تئیس برس اس میں سے گذر گئے۔ کسوھ خسوف بھی رمضان میں ہوگیا، طاعون بھی پید اہو گئی۔ ایک نئی سواری یعنی ریل بھی پید اہو گئی اور خد اتعالیٰ نے دس ہزار سے زیادہ نشنا میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائے ہیں اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی زندگی حضرت عیسیٰ ؑ کی موت میں ہے۔ اگر آج یہ امر عیسائیوں پر ثابت ہو کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے تو وہ سب کے سب عیسائی مذہب کو ترک کر دیں؎ٰ۔ والسلام علی من اتبح الھدی۔
مرزا غلام احمد عفی اﷲ عنہ
۲۹؍اکتوبر ۱۹۰۵ء؁
یکم نومبر ۱۹۰۵ء؁
بمقام دہلی
نزولِ برکات کے مقامات
آج حضرت بختیار کاکیؒ کے مزار پر حضور ؑ نے دعا کی اور دعا کو لمبا کیا۔واپس آتے ہوئے حضرت نے راستہ میں فرمایا کہ :
بعض مقامات نزولِ برکات کے ہوتے ہیں اور یہ بزرگ چونکہ اولیاء اﷲ تھے اس واسطے انکے مزار پر ہم گئے۔ ان کے واسطے بھی ہم نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی اور پانے واسطے بھی اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی اور دیگر بہت دعائیں کیں۔ لیکن یہ دو چار بزرگوں کے مقامات تھے جو جلد ختم ہو گئے۔اور دہلی کے لوگ تو سخت دل ہیں۔ یہی خیال تھا کہ واپس آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے ہوئے الہام ہوا۔
دست تو دعائے تو ترحم ز خدا؎ٰ
‏ ٰ Amira 18-1-06
۴؍نومبر ۱۹۰۵ء؁
لیکچر لدھیانہ
(جو حضور علیہ السلام نے ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں دیا)
دلائل صداقت
اول میں اﷲ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں جس نے مجھے یہ موقعہ دیا کہ میں پھر اس سہر میں تبلیگ کرنے کے لیے آئوں۔ میں اس شہر میں چودہ (۱۴) برس کے بعد آیا ہوں اور میں ایسے وقت اس شہر سے گیا تھا جبکہ میرے ساتھ چند آدمی تھے اور تکفیر اور تکزیب اور دجال کہنے کا بازار گرم تھا اور میں لوگوں کی نظر میں اس انسان کی طرح تھا جومطرود اور مخذول ہوتا ہے۔ اور ان لوگوں کے خیال میں تھا کہ تھوڑے ہی دنوں میں یہ جماعت مردود ہو کر منتشر ہو جائے گی اور اس سلسلہ کا نام و نشان مٹ جائے گا؛ چنانچہ اس غرض کے لیے بڑی بڑی کوششیں اور منصوبے کئے گئے اور ایک بڑی بھاری سازش میرے خلاف یہ کی گئی کہ مجھ پر اور میری جماعت پر کفر کا فتویٰ اس شہر کے چند مولویوں نے دیا۔ مگر میں دیکھتا ہوں اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کافر کہنے والے موجود نہیں اور خدا تعالیٰ نے مجھے اب تک زندہ رکھا اور میری جماعت کو بڑھیا ۔میرا خیال ہے کہ وہ فتویٰ کفرجو دوبارہ میرے خلاف تجویز ہوا۔ اسے ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں پھرایا گیا اور دوسو کے قریب مولویوں اور مشایخوں کی گواہیاں اور مہریں اس پر کرائی گئیں۔اس میں ظاہر کیا گیا کہ یہ شخص بے ایمان ہے۔ کافر ہے، دجال ہے، مفتری ہے، کافر ہے بلکہ اکفر ہے۔ غرض جو جو کچھ کسی سے ہو سکا میری نسبت اس نے لکھ ااور ان لوگوں نے اپنے خیال میں یہ سمجھ لیا کہ بس یہ ہتھیار اب اس سلسلہ کو ختم کردیگا اور فی الحقیقت اگر یہ سلسلہ انسانی منصوبہ اور افتراء ہوتا تو اس کے ہلاک کرنے کے لیے یہ فتویٰ کا ہتھیار بہت ہی زبردست تھا لیکن اس کو خدا تعالیٰ نے قائم کیا تھا۔پھر وہ مخالفوں کی مخالفت اور عداوت سے کیونکر مر سکتا تھا۔جس قدر مخالفت میں شدت ہوتی گئی اسی قدر اس سلسہ کے عظمت اور عزت دلوں میں جڑ پکڑتی گئی اور آج میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ یا تو وہ زمانہ تھا کہ جب میں اس شہر میں آیا اور یہاں سے گیا تو صرف چند آدمی میرے ساتھ تھے اور میری جماعت کی تعداد نہایت ہی قلیل تھی اور یا اب وہ وقت ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک کثیر جماعت میرے ساتھ ہے اور جماعت کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اور دن بدن ترقی ہو رہی ہے اور یقینا کروڑوں تک پہنچے گی۔
پس اس انقلابِ عظیم کو دیکھو کہ کیا یہ انسانی ہاتھ کا کام ہو سکتا ہے دنیا کے لوگوں نے تو چاہا کہ اس سلسلہ کا نام و نشان مٹا دیں اور اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ کبھی کا اسکو مٹا چکے ہوتے مگر یہ اﷲ تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ جن باتوں کا ارادہ فرماتا ہے دنیا ان کو روک نہیں سکتی اور جن باتوں کا دنیا ارادہ کرے مگر خدا تعالیٰ ان کا ارادہ نہ کرے وہ کبھی ہو نہیں سکتی ہیں۔ گور کرو۔ میرے معاملہ میں کل علماء اور پیرزادے اور گدّی نشین مخالف ہوئے اور دوسرے مذہب کے لوگوں کو بھی میری مخالفت کے لیے اپنے ساتھ ملایا۔ پھر میری نسبت ہر طرف کی کوشش کی۔ مسلمانوں کو بدظن کرنے کے لیے مجھ پر کفر کا فتویؓ دیا اور پھر جب اس تجویز میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو پھر مقدمات شروع کئے۔خون کے مقدمے میں مجھے پھنسایا اور ہر طرف کی کوسشیں کیں کہ میں سزا پا جائوں۔ ایک پادری کے قتل کا الزام مجھ پر لگایا گیا۔ اس مقدمے میں مولوی محمد حسین نے بھی میرے خلاف بڑی کوشش کی اور خود شہادت دینے کے واسطے گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں پھنس جائوں اور مجھے سزا ملے۔ مولوی محمد حسین کی یہ کوشش ظاہر کرتی تھی کہ وہ دلائل اور براہین سے عاجز ہے۔ اس لیے کہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب دشمن دلائل سے عاجز ہو جاتا ہے اور براہین سے ملزم نہیں کر سکتا تو ایذا قتل کی تجویز کرتا ہے اور وطن سے نکال دینے کا ارادہ کرتا ہے اور اس کے خلاف مختلف قسم کے منصوبے اور سازشیں کرتا ہے۔جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے مقابلہ میں جب کفار عزجز آگئے اور ہر طرح سے ساکت ہو گئے تو آخر انہوں نے بھی اس قسم کے حیلے سوچے کہ آپ کو قتل کر دیں یا قید کریں یا آپ کو وطن سے نکال دیا جاوے۔آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ کو ایذائیں دیں مگر آخر وہ سب کے سب اپنے ارادوں اور منصوبوں میں نامراد اور ناکام رہے۔اب وہی سنت اور طریق میرے ساتھ ہو رہا ہے مگر یہ دنیا بغیر خالق اور رب العالمین کے ہستی نہیں رکھتی۔ وہی ہے جو جھوٹے اور سچے میں امتیاز کرتا ہے اور آخر سچے کی حمایت کرتا اور اُسے غالب کر کے دکھادیتا ہے۔ اب اس زمانہ میں جب خد اتعالیٰ نے پھر اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا ہے میں اس کی تائیدوں کا ایک زندہ نشان ہوں اور اس وقت تم سب کے سب دیکھتے ہو کہ میں وہی ہوں جس کو قوم نے رد کیا اور میں مقبولوں کی طرح کھڑا ہوں۔ تم قیاس کرو کہ اس وقت آج سے چودہ برس پیشتر جب میںیہاں آیا تھا تو کون چاہتا تھا کہ ایک آدمی بھی میرے ساتھ ہو۔ علماء ،فقراء اور ہر قسم کے معظم کرم لوگ یہ ثاہتے تھے کہ میں ہلاک ہو جائوں اور اس سلسلہ کا نام و نشان مٹ جاوے۔ وہ کبھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ قیات نصیب ہوں۔ مگر وہ خد اجو ہمیشہ اپنے بندوں کی حمایت کرتا ہے اور جس نے راستبازوں کو غالب کر کے دکھایا ہے اس نے میری حمایت کی اور میرے مخالفوں کے خلاف ان کی امیدوں اور منصوبوں کے بالکل بر عکس اس نے مجھے وہ قبولیت بخشی کہ ایک خلق کو میری طرف متوجہ کیا جو ان مخالفتوں اور مشکلات کے پردوں اور روکوں کو چیرتی ہوئی میری طرف آئی اور آرہی ہے اب گور کا مقام ہے کہ کیا انسانی تجویزوں اور منصوبوں سے یہ کامیابی ہو سکتی ہے کہ دنیا کے بارسوخ لوگ ایک شخص کی ہلاکت کی فکر میں ہوں اور اس کے خلاف ہر قسم کے منصوبے کئے جاویں۔ اس کے لیے خطرناک آگ جلائی جاوے۔ مگ روہ ان سب آفتوں سے صاھ نکل جاوے؟ ہرگز نہیں۔ یہ خد اتعالیٰ کے کام ہیں جو ہمیشہ اس نے دکھائے ہیں۔
پھر اسی امر پر زبردست دلیل یہ ہے کہ آج سے پچیس (۲۵) برس پیشتر جبکہ کوئی بھی میرے نام سے واقف نہ تھا اور نہ کوئی شخص قادیان میں میرے پاس آتا تھا یا خط و کتابت رکھتا تھا، اس گمنامی کی حالت میں، ان کس مپرسی کے ایام میںا ﷲ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا:
یا تون من کل فج عمیق۔ وایا تیک من کل فج عمیق۔ لا تصعر لخلق اﷲ و لا تسبئم من الناس۔ رب لا تذرنی فرد ا وانت خیر الوارثین۔
یہ وہ زبردست پیشگوئی ہے جو ان ایم میں کی گئی اور چھپ کر شائع ہو گئی اور ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے اسے پڑھا۔ ایسی حالت اور ایسے وقت میں کہ میں گمنامی کے گوشہ میں پڑا ہوا تھا اور کوئی شخص مجھے نہ جانتا تھا، خد اتعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے پاس دور دراز ملکوں سے لوگ آئیں گے اور کثرت سے آئیں گے اور ان کے لیے مہمانداری کے ہر قسم کے سامان اور لوازمات بھی آئیں گے۔چونکہ ایک شخص ہزاروں لاکھوں انسانوں کو مہمانداری کے جمیع لوازمات مہیا نہیں کر سکتا اور نہ اس قدر اخراجات کو برداشت کر سکتا ہے اس لیے خود ہی فرمایا
یاتیک من کل فج عمیق۔
ان کے سامان بھی ساتھ ہی آئیں گے اور پھر انسان کثرت مخلوقات سے گھبرا جاتا ہے اور ان سے کج خلقی کر بیٹھتا ہے اس لیے اس سے منع کیا کہ ان سے کج خلقی نہ کرنا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ لوگوں کی کثرت کو دیک کر تھک نہ جانا۔
اب آپ غور کریں کہ کیا یہ امر انسانی طاقت کے اندر ہے کہ پچیس تیس برس پہلے ایک واقعہ کی اطلاع دے؟ اور وہ بھی اسی کے متعلق اور ھپر اسی طرح پر وقوع بھی ہو جاوے؟انسانی ہستی اور زندگی کا تو ایک منٹ کا بھی اعتبار نہیں اور نہیں کہہ سکتے کہ دوسرا سانس آئے گا یا نہیں۔ پھر ایسی خبر دینا یہ کیونکر اس کی طاقت اور قیاس میں آسکتا ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ میں بالکل اکیلا تھا اور لوگوں سے ملنے سے بھی مجھے نفرت تھی اور چونکہ ایک وقت آنے والا تھا کہ لاکھوں انسان میری طرف رجوع کریں اس لیے اس نصیحت کی ضرورت پڑی
لا تصعر لخلق اﷲ ولا تسئم من الناس۔
اور پھر انہیں دنوں میں یہ بھی فرمایا۔
انت منی بمنزلۃ توحیدی۔ فحان ان تعان وتعرف بین الناس۔
یعنی وہ وقت آتا ہے کہ تیری مدد کی جاوے گی اور تُو لوگوں کے درمیان شناخت کیا جاوے گا۔ اسی طرح پر فارسی، عربی اور انگریزی میں کثرت سے ایسے الہامات ہیں جو اس مضمون کو ظاہر کرتے ہیں۔
اب سوچنے کا مقام ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہیں کہ اس قدر عرصہ دراز پیشتر ایک پیشگوئی کی گئی اور وہ کتاب میں چھپ کر شائع ہوئی۔ براہین احمدیہ ایسی کتاب ہے جس کو دوست دشمن سب نے پڑھا۔ گورنمنٹ میں بھی اس کی کاپی بھیجی گئی۔عیسائیوں ہندوئوں نے اسے پڑھا۔ اس شہر میں بھی بہتوں کے پاس یہ کتاب ہو گی وہ دیکھیں کہ اس میںد رج ہے یا نہی؟ پھر وہ مولوی (جو محض عداوت کی راہ سے مجھے دجال اور کذاب کہتے ہیں اور یہ بیان کرتے ہیں کہ کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی) شرم کریں اور بتائیں کہ اگر یہ پیشگوئی نہیں تو پھر اور پیشگوئی کس کو کہتے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جس کا ریویو مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی نے کیا ہے۔ چونکہ وہ میرے ہم سبق تھے اس لیے اکثر قادیان آیا کرتے تھے۔ وہ خوب جانتے ہیں۔ اور ایسا ہی قادیان۔ بٹالہ۔ امرتسر اور گردونواح کے لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ اس وقت میں بالکل اکیلا تھا۔ اور کوئی مجھے جانتا نہ تھا۔ اور ا س وقت کی حالت سے عند العقل دوراز قیاس معلوم ہوتا تھا کہ میرے جیسے گمنام آدمی پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لاکھوں آدمی اُس کے ساتھ ہو جائیں گے۔میں سچ کہتا ہوں کہ میں اس وقت کچھ بھی نہ تھا۔ تنہا و بیکس تھا۔ خود اﷲ تعالیٰ اس زمانہ میں مجھے یہ دعا سکھاتا ہے۔
رب لا تذرنی فر دا وانت خیر الوارثین
یہ دعا اس لیے سکھائی کہ وہ پیار رکھتا ہے ان لوگوں سے جو دعا کرتے ہیں کیونکہ دعا عبادت ہے اور اس نے فرمایا ہے
ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱)
دعا کرو میں قبول کروں گا۔ اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مغز اور مُخ عبادت کا دعا ہی ہے۔ اور دوسرا اشارہ اس میں یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ دعا کے پیرایہ میں سکھانا چاہتا ہے کہ تو اکیلا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ تُو اکیلا نہ رہے گا۔ اور میں پکار کر کہتا ہوں کہ جیسا یہ دن روشن ہے اسی طرح یہ پیسگوئی روشن ہے اور یہ امر واقعی ہے کہ میں اس وقت اکیلا تھا۔کون کھڑا ہو کر کہہ سکتا ہے کہ تیرے ساتھ جماعت تھی۔ مگر اب دیکھو کہ اﷲ تعالیٰ کے ان وعدوں کے موافق اور اس پیشگوئی کے موافق جو اس نے ایک زمانہ پہلے خبر دی، ایک کثیر جماعت میرے ساتھ کردی؎ٰ۔ایسی حالت اور صورت میں اس عظیم الشان پیشگوئی کو کون جھٹلا سکت اہے۔ پھر جبکہ اسی کتاب میں یہ پیسگوئی بھی موجود ہے کہ لگو خطرناک طور پر مخالفت کریں گے اور اس جماعت کو روکنے کے لیے ہر قسم کی کوششیں کریںگ ے مگر میں ان سب کو نامراد کروںگا۔
پھربراہین احمدیہ میں یہ بھی پیشگوئی کی گئی تھی کہ جبتک پاک پلید میں فرق نہ کر لوں گا نہیں چھوڑونگا۔ان واقعات کو پیش کر کے میں ان لوگوں کو مخاطب نہیں کرتا جن کے دلوں میں خد اتعالیٰ کا خوف نہیں اور جو گویا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مرنا ہی نہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کے کلام میں تحریف کرتے ہیں،بلکہ میں ان لوگوں کو مخاطب کرتا ہوں جو اﷲ تعالیٰ سے ڈر تے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ مرنا ہے اور موت کے دروازے قریب ہو رہے ہیں اس لیے کہ خدا تعالیٰ سے ڈرنے والا ایسا گستاخ نہیں ہو سکتا۔ وہ غور کریں کہ کیا پچیس (۲۵) برس پیشتر ایسی پیشگوئی کرنا انسانی طاقت اور قیاس کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟پھر ایسی حالت میں کوئی اُسے جانتا بھی نہ ہو اور ساتھ ہی پیشگوئی بھی ہو کہ یہ لوگ مخالفت کرین گے مگروہ نامراد رہیں گے۔
‏Amira 19-1-06
مخالفوں کے نامراد رہنے اور اپین بامراد ہو جانے کی پیشگوئی کرنا ایک خارق عادت امر ہے۔ اگر اس کے ماننے میں کوئی شک ہے تو پھر نظیر پیش کرو۔
میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ حضرت آدمؑ سے لیکر اس وقت تک کے کسی مفتری کی نظیر دو جس نے پچیس (۲۵) برس پیشتر اپنی گمنامی کی حالت میں ایسی پیشگوئیاں کی ہوں اور وہ یوں روز روشن کی طرح پوری ہو گئی ہوں،۔اگر کوئی شخص ایسی نظیر پیش کر د ے تو یقینا یاد رکھو کہ یہ سارا سلسلہ اور کاروبار باطل ہو جائے گا۔ مگر اﷲ تعالیٰ کے کاروبار کو کون باطل کر سکتا ہے؟ یوں تکذیب کرنا اور بلاوجہ معقول انکار اور استہزا یہ حرامزادے کا کام ہے۔کوئی حلال زادہ ایسی جرأت نہیں کر سکتا۔
میں اپنی سچائی کو اسی پر حصر کر سکتا ہوں۔ اگر تم میں کوئی سلیم دل رکھتا ہو۔خوب یاد رکھو کہ یہ پیشگوئی کبھی رد نہیں ہو سکتی جب تک اس کی نظیر پیش نہ کی جاوے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ یہ پیشگوئی براہین احمدیہ میں موجود ہے جس کا ریویو مولوی ابو سعید نے لکھا ہے۔ اسی شہر میں مولوی محمد حسن اور منشی محمد عمر وغیرہ کے پاس ہوگی۔ اس کا نسخہ مکہ، مدینہ، بخارا تک پہنچا۔ گورنمنٹ کے پاس اس کی کاپی بھیجی گئی۔ ہندوئوں،مسلمانوں،عیسائیوں،برہموئوں نے اُسے پڑھا اوروہ کوئی گمنام کتاب نہیں بلکہ وہ شہرت یافتہ کتاب ہے کوئی پڑھا آدمی جو مذہبی مذاق رکھتا ہو اس سے بے خبر نہیں ہے۔ پھر اس کتاب میں یہ پیشگوئی لکھی ہوئی موجود ہے کہ ایک دنیا تیرے ساتھ ہو جائے گی۔ دنیا میں تجھے شہرت دوں گا۔ تیرے مخالفوں کو نامراد رکھوں گا۔اب بتائو کہ کیا یہ کام کسی مفتری کا ہو سکتا ہے؟ اگر تم یہی فیصلہ دیتے ہو کہ ہاں مفتری کا کام ہو سکتا ہے تو پھر اس کے لیے نظیر پیش کرو۔ اگر نظیر دکھا دو تو میں تسلیم کر لون گا کہ میں جھوٹا ہوں مگر کوئی نہیں جو اس کی نظیر دکھا سکے۔۔اور اگر تم اس کی نظیر نہ پیش کر سکو اور یقینا نہیں کر سکو گے تو پھر میں تمہیں یہی کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ سے ڈرو اور تکذیب سے بازآئو۔
یاد رکھو۔خدا تعالیٰ کے نشانات کو بدوں کسی سند کے رد کرنا دانشمندی نہیں اور نہ اس کا نجام کبھی بابرکت ہوا ہے۔ میں تو کسی کی تکذیب یا تکفیر کی پروا نہیں کرتا اور نہ ان حملوں سے ڈرتا ہوںجو مجھ پر کئے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے آپ ہی مجھے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ تکذیب اور تکفیر ہو گی اور خطرناک مخالفت یہ لوگ کریں گے مگر کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ کیا مجھ سے پیشتر راستباوں اور خدا تعالیٰ کے ماموروں کو رد نہیں کیا گیا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فرعون اور فرعونیوں نے، حضرت مسیح علیہ السلام پر فقہیوں نے، آنحضرت ﷺ پر مشرکین مکہ نے کیا کیا حملے نہیں کئے؟مگر ان حملوں کا انجام کیا ہوا؟ ان مخالفوں نے ان نشانات کے مقابلہ میں کبھی کوئی نظیر پیش کی؟کبھی نہیں۔ نظیر پیش کرنے سے تو ہمیشہ عاجز رہے۔ ہاں زبانیں چلتی تھیں۔ اس لیے وہ کذاب کہتے رہے۔اسی طرح پپر یہاں بھی جب عاجز آگے تو اور تو کچھ نہ پیش گئی۔ دجال کذاب کہہ دیا۔ مگر ان کے منہ کی ھونکوں سے کیا یہ خدا تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں گے کبھی نہیں بجھا سکتے۔
واﷲ متم نورہ ولو کرہ الکافرون الصف : ۹)
دوسرے خوارق اور نشانات کو وہ لوگ جو بدظنی کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں کہہ دیتے ہیں کہ شاید دست بازی ہو مگر پیشگوئی میں انہیں کوئی عذر اور باقی نہیں رہتا اس لیے نشانات نبوت میں عظیم الشان نشان اور معجزہ پیشگوئیوں کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ امر توریت سے بھی ثابت ہے اور قرآن مجید سے بھی۔پیشگوئیوں کے برابر کوئی معجزہ نہیں۔ اس لیے خد اتعالیٰ کے ماموروں کو ان کی پیشگوئیوں سے شناخت کرنا چاہیے کیونکہ اﷲت عالیٰ نے یہ نشان مقرر کر دیا ہے
ٰلا یظھر علی غیبہ احد الا من ارتضی من رسول الجن ۲۷)
ان پیشگوئیوں میں لوگ شبہات یدا کرتے ہیں مگر فی الحقیقت وہ پیشگوئیاں خدا تعالیٰ کی سنن کے ماتحت وری ہو جاتی ہیں؛ تاہم اگر وہ سمجھ میں نہ بھی آئیں تو مومن اور خدا ترس انسان کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ ان پیشگوئیوں ر نظر کرے جن میں دقائق نہیں۔ یعنی جو موٹی موٹی پیشگوئیاں ہیں,پھر دیکھے کہ وہ کس قدر تعداد میں پوری ہو چکی ہیں۔ یونہی منہ سے انکار کر دینا تقویؓ کے خلاف ہے۔ دیانت اور خدا ترسی سے ان پیشگوئیوں کو دیکھنا چاہیے جو پوری ہو چکی ہیں۔مگر جلد بازوں کا منہ کون بند کرے؟
اس قسم کے امرو مجھے ہی پیش نہیں آئے۔حضضرت موسیٰ ؑ،حضرت عیسیٰ ؑ اور آنحضرت ﷺ کو بھی پیش آئے ۔پھر اگر یہ امر مجھے بھی پیش آوے تو تعجب نہیں۔ بلکہ ضرو ر تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ سنت اﷲ یہی تھی۔میں کہتا ہوں کہ مومن کے لیے تو ایک شہادت بھی کافی ہے۔ اسی سے اس کا دل کانپ جاتا ہے مگر یہاں تو ایک نہیں صد ہا نشان موجود ہیں بلکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قدر ہیں کہ میں انہیں گن نہیں سکتا۔ یہ شہادت تھوڑی نہیں کہ دلوں کو فتح کر لے گا،مکذبوں کو موافق بنا لے گا۔اگر کوئی خدا تعالیٰ کا خوف کرے اور دل میں دیانت اور دوراندیشی سے سوچے تو اسے بے اختیار ہو کر ماننا پڑے گا کہ یہ خد اکی طرف سے ہیں۔
پھر یہ بھی ظاہر بات ہے کہ مخالف جب تک رد نہ کرے اور اس کی نظیر پیش نہ کرے، خدا تعالیٰ کی حجت غالب ہے۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ میں اسی خدا کا شکر کرتا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے اور باوجود اس شر اور طوفان کے جو مجھ پر اُٹھا اور جس کی جڑ اور ابتداء اسی شہر سے اُٹھی اور پھر دلی تک پہنچی۔ مگر اس نے تمام طوفانوں اور ابتلائوں میں مجھے حیح سالم اور کامیاب نکالا اور مجھے ایسی حالت میں اس شہر میں لایا کہ تین لاکھ سے زیادہ زن و مرد میرے مبائعین میں داخل ہیں اور کوئی مہینہ نہیں گذرتا جس میں دو ہزار چار ہزار اور بع اوقات بانچ بانچ ہزار اس سلسلہ میں داخل نہ ہوتے ہوں۔
ھر اس خدا نے ایسے وقت میں میری دستگیری فرمائی کہ جب قوم ہی دشمن ہو گئی۔ جب کسی شخ کی دشمن اس کی قوم ہی ہو جاوے تو وہ بڑا بیکس اور بڑا بے دست و ا ہوتا ہے کیونکہ قوم ہی تو دوست و پااور جوارح ہوتی ہے۔ وہی اس کی مدد کرتی ہے۔ دوسرے لوگ تو دشمن ہوتے ہی ہیں کہ ہمارے مذہب پر حملہ کرتا ہے۔ لیکن جب اپنی قوم بھی دشمن ہو تو پھر بچ جانا اور کامیاب ہو جانا معمولی بات نہیں بلکہ یہ ایک زبردست نشان ہے۔
قرآن کریم اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی میرا عقیدہ ہے
میں نہاایت افسوس اور درد دل سے یہ بات کہتا ہوں کہ قوم نیمیری مخالفت میں نہ صرف جلدی کی بلکہ بہت ہی بے دردی بھی کی ۔صرف ایک مسئلہ وفات مسیح کا اختلاف تھا جس کو میں قرآن کریم اور آنحصرت ﷺ کی سنت،صحابہؓ کے اجماع اور عقلی دلائل اور کتب سابقہ سے ثابت کرتا تھا اور کرتا ہوں اور حنفی مذہب کے موافق نص، حدیث،قیاس، دلائلِ شر عیہ میرے ساتھ تھیں مگر ان لوگوں نے قبل اس کے کہ وہ پورے طور پر مجھ سے پوچھ لیتے اور میرے دلائل کو سن لیتے، اس مسئلہ کی مخالفت میں یہانتک غلو کای کہ مجھے کافر ٹھہرایا گیا اور اس کے ساتھ اور بھی جو چاہا کہا اور میرے ذمہ لگایا۔ دیانت،نکو کاری اور تقویٰ کا تقاضہ یہ تھا کہ پہلے مجھ سے پوچھ لیتے۔ اگر میں قال اﷲ اور قال الرسول سے تجاوز کرتا تو پھر بیشک انہیں اختیار اور حق تھا کہ وہ مجھے جو چاہتے کہتے،دجال، کذاب وغیرہ۔لیکن جبکہ میں ابتداء سے بیان کرتا آیا ہوں کہ میں قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی پیروی سے ذرا ادھر اُدھر ہونا بے ایمانی سمجھتا ہوں۔میرا عقیدہ یہی ہے کہ جو اس کو ذرا بھی چھوڑے گا وہ جہنمی ہے۔ پھر اس عقیدہ کو نہ صرف تقریروں میں بلکہ ساٹھ کے قریب اپنی تصنیفات میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے اور دن رات مجھے یہی فکر اور خیال رہتا ہے۔پھر اگر یہ مخالف خدا تعالیٰ سے ڈرتے تو کیا ان کا فرض نہ تھا کہ فلاں بات خارج از اسلام کی ہے اسکی کیا وجہ ہے یا اس کا تم کیا جواب دیتے ہو۔مگر نہیں اس کی ذرا بھی پروا نہیں کی۔سنا اور کافر کہہ دیا۔ میں نہایت تعجب سے ان کی اس حرکت کو دیکھتا ہوں۔کیونکہ اول تو حیات وفات مسیحؑ کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جواسلام میں داخل ہونے کے لیے شرط ہو۔ یہاں بھی ہندو یا عیسائی مسلمان ہوتے ہیں۔ مگر بتائو کہ کیا اس سے یہ اقرار بھی لیتے ہو؟ بجز اس کے کہ
اٰمنت باﷲوملائکتہ وکتبہ ورسلہ واقدرخیرہ وشر ہ من اﷲ تعالیٰ والبعث بعد الموت۔
جبکہ یہ مسئلہ اسلما کی جزو نہیں پھر بھی مجھ پر وفات مسیح کے اعلان سے اس قدر تشدد کیوں کیا گیا کہ یہ کافر ہیں، دجال ہیں۔ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جاوے۔ ان کے مال کلوٹ لیین جائز ہیں اور ان کی عوتوں کو بغیر نکاح گھر میں رکھ لینا درست ہے۔ ان کو قتل کر دینا ثواب کا کام ہے وغیرہ وغیرہ۔ایک تووہ زمانہ تھا کہ یہی مولوی شور مچاتے تھے کہ اگر ننانوے وجوہ کفر کے ہوں اور ایک وجہ اسلام کی ہو تب بھی کفر کا فتویٰ نہ دینا چاہیے، اس کو مسلمان ہی کہو مگر کیا ہو گیا۔کیا میں اس سے بھی گیا گذرا ہو گیا؟ کیا میں اور میری جماعت
اشھد ان لا الہ الا اﷲ واشھد ان محمد ا عبدہ ورسولہ
نہیں پڑھتی؟ کیا میں نمازیں نہیں پڑھتا؟یا میرے مرید نہیں پڑھتے؟کیا ہم رمضان کے روزے نہیں رکھتے؟ اور کیا ہم ان تمام عقائد کے پابند نہیں جو آنح؁ضرت ﷺ نے اسلام کی صورت میں تلقین کئے ہیں؟ میں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں اور میری جماعت مسلمان ہے اور وہ آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم پر اسی طرح ایمان لاتی ہے جس طرح پر ایک سچے مسلمان کو لانا چاہیے۔ میں ایک ذرہ بھی اسلام سے باہر قدم رکھنا ہلاکت کا موجب یقین کرتا ہوں اور مریا یہی مذہب ہے ہ جس قدر فیوض اور برکات کوئی شخص حاصل کر سکتا ہے اور جس قدر تقرب الی اﷲ پاسکتا ہے وہ صرف صرف آنحضرت ﷺ کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پاسکتا ہے؛ ورنہ نہیں۔آپؐ کے سوا اب کوئی راہ نیکی کی نہیں۔
عقیدہ حیاتِ مسیح علیہ السلام میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین ہے
ہاں یہ بھی سچ ہے کہ میں ہرگز یقین نہیں کرتا کہ میسح علیہ السلام اسی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر گئے ہوں اور اب تک زندہ قائم ہوں۔ اس لیے کہ اس مسئلہ کو مان کر آنحضرت ﷺ کی سخت توہین اور بے حرمتی ہوتی ہے۔ میں ایک لحظہ کے لیے اس ہجو کو گوارا نہیں کرسکتا۔ سب کو معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تریسٹھ (۶۳) سال کی عمر میں وفات پائی اور مدینہ طیبہ میں آپؐ کا روضہ موجود ہے۔ ہر سال وہاں ہزاروں لاکھوں حاجی بھی جاتے ہیں۔ اب اگر مسیح ؑکی نسبت موت کا یقین کرنا یا موت کو ان کی طرف منسوب کرنا بے ادبی ہے تو پھر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی نطبت یہ گستاخی اور بے ادبی کیوں یقین کر لی جاتی ہے؟ مگر تم بڑی خوشی سے کہہ دیتے ہو کہ آپؐ نے وفات پائی۔مولود خواں بڑی خوش الحانی سے واقعات وفات کو ذکر کرتے ہیں۔ اور کفار کے مقابلہ میں بھی تم بڑی کشادہ پیشانی سے تسلیم کر لیتے ہو کہ آپؐ نے وفات پائی ۔پھر میں نہیں سمجھتا کہ حضرت عیسیٰ ؑکی وفات پر کیا پتھر پڑتا ہے کہ نیلی پیلی آنکھیں کر لیتے ہو۔ہمیں بھی رنج نہ ہوتا کہ اگر تم آنحضرت ﷺ کی نسبت بھی وفات کا لفظ سن کر ایسے آنسو بہاتے، مگر افسوس تو یہ ہیکہ خاتم النبیین اور سرور دو عالم کی نسبت تو تم بڑی خوشی سے موت تسلیم کر لو اور اس شخص کی نسبت جو اپنے آپ کو آنحضرت ﷺکی جوتی کا تسمہ کھولنے کے بھی قابل نہیں بتاتا،زندہ یقین کرتے ہو اور اس کی نسبت موت کا لفظ منہ سے نکالا اور تمہیں غضب آجاتا ہے۔ اگر آنحصرت ﷺ ابتک زندہ رہتے تو ہرج نہ تھا اس لیے کہ آپؐ وہ عظیم الشان ہدایت لیکر آئے تھے جسکی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی۔اور آپؐ نے وہ عملی حالتیں دکھائیں کہ آدمؑ سے لے کر اس وقت تک کوئی ان کا نمونہ اور نظیر پیش نہیں کر سکتا میں تم کو سچ سچ کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے وجود کی جس قدر ضرورت دنیا اور مسلمانوں کوتھی۔اس قدر ضرورت مسیح کے وجود کی نہیں تھی۔ پھر آپؐ کا وجود باجود وہ مبارک وجود ہے کہ جب آپؐ نے وفات پائی تو صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ وہ دیوانے ہو گئے۔یہانتک کہ حضرت عمر ؓ نے تلوا رمیان سے نکال لی اور کہا کہ اگر کوئی آنحضرت ﷺ کو مردہ کہے گا تو میں اس کا سر جدا کر دوں گا۔اس جوش کی حالت میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر ؓ کو ایک خاص نور اور فراست عطا کی۔انہوں نے سب کو اکٹھ اکیا اور خطبہ پڑھا۔
ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران : ۱۴۵)
یعنی آنحضرت ﷺ ایک رسول ہیں ارو آپؐ سے پیشتر جس قدر رسول آئے وہ سب وفات پا چکے ۔اب آپ غور کریں اور سوچ کر بتائیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر یہ آیت کیوں پڑھی تھی؟ اور اس سے آپ کا کای مقصد اور منشاء تھا؟ اور پھر ایسی حالت میں کہ کُل صحابہؓ موجود تھے۔ میں یقینا کہتا ہوں اور آپ انکار نہیں کر سکتے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کی وجہ سے صحابہؓ کے دل پر سخت صدمہ تھا او ر اس کو بے وقت اور قبل از وقت سمجھتے تھے۔ وہ پسند نہیں کر سکے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کی خبر سنیں۔ ایسی حالت اور صورت میں کہ حضرت عمر ؓ جیسا جلیل القدر صحابیؓ اس جوش کی حالت میں ہو ان کا غصہ فرو نہیں ہوسکتا۔ بجز اس کے کہ یہ آیت ان کی تسلی کا موجب ہوتی۔اگر انہیں یہ معلوم ہوتا یا یہ یقین ہوتا کہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ ہیں تو وہ تو زندہ ہی مر جاتے۔وہ تو آنحضرت کے عشاق تھے اور آپ کی حیات کے سوا کسی اور کی حیات کو گوارا ہی نہ کر سکتے تھے۔پھر کیونکر اپنی آنکھوں کے سامنے آپ کووفات یافتہ دیکھتے اور مسیح کو زندہ یقین کرتے۔ یعنی جب حضرت ابو بکرؓ نے خطبہ پڑھا تو ان کا جوش فرو ہو گیا۔ اس وقت صحابہؓ مدینہ کی گلیوں میں آیت پڑھتے پھرتے تھے،اور وہ سمجھتے تھے کہ گویا یہ آیت آج ہی اُتری ہے۔ اس وقت حسان بن ثابت نے ایک مرثیہ لکھا جس میں انہوں نے کہا۔
کنت اسواد لنا ظری فعمی علی الناظر
من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر
چونکہ مذکورہ بالا آیت نے بتادیا تھا کہ سب مر گئے۔ اس لیے حسان نے بھی کہ دیا کہ اب کسی کی موت کی پروا نہیں۔ یقینا سمجھو کہ آنحضرت ﷺ کے مقابلہ میں کسی کی زندگی صحابہؓ پر سخت شاق تھی اور وہ اس کو گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ اس طرح پر آنحضرت ﷺ کی وفات پر یہ پہلا اجماع تھا جو دنیا میں ہوا۔اور اس حضرت مسیح ؑ ؑ کی وفات کا بھی کلی فیصہ ہو چکا تھا۔
میں بار بار اس امر پر ا سلیے زور دیتا ہوں کہ یہ دلیل بڑی ہی زبردست دلیل ہے جس سے مسیح ؑ کی وفات ثابت ہوتی ہے۔آنحضرت کی وفات کوئی معمولی اور چھوٹا امر نہ تھا جس کا صدمہ صحابہؓ کو نہ ہوا ہو۔ ایک گائوں کا نمبردار یا محلہ دار یا گھر کا کوئی عمدہ آدمی مر جاوے تو گھر والوں یا محلہ والوں یا دیہات والوں کو صدہ ہوتا ہے۔ پھر وہ نبی جو ک ندیا کے لیے آیا تھا اور رحمۃ للعالمین ہو کر آیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے
و ما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۸)
اور پھر دوسری جگہ فرمایا۔
قل یا ایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (الاعراف : ۱۵۹)
پھر وہ نبی جس نے صدق اور وفا کا نمونہ دکھایا۔ اور وہ کمالات دکھائے کہ جنکی نظیر نظر نہیں آتی۔وہ فوت ہو جاوے اسکے ان جان نثار متّبعین پر اثر نہ پڑے جنہوں نے اس کی خاطر جانیں دے دینے سے دریغ نہ کیا۔جنہوں نے وطن کو چھوڑا۔خویش و اقارب چھوڑے اور اس کے لیے ہر قسم کی تکلیفوں اور مشکالات کو اپنے لیے راحت جان سمجھا۔ایک ذرا سے فکر اور توجہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ جس قدر بھی دکھ اور تکلیف انہیں اس خیال کے تصور سے ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اور قیاس ہم نہیں کر کستے۔ ان کی تسلی اور تسلین کا موجب یہی آیت تھی کہ جو حضرت ابو بکرؓ نے پڑھی۔اﷲ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے کہ انہوں نے ایسے نازک وقت میں صحابہؓ کو سنبھالا۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض نادان اپنی جلد بازی اور شتاب کاری کی وجہ سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ آیت تو بیشک حضرت ابو بکرؓ نے پڑھی لیکن حصرت عیسیٰ ؑ اس سے باہر رہ جاتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ایسے نادانوں کو میں کیا کہوں۔ وہ باوجود مولوی کہلانے کے ایسی بیہودہ باتیں پیش کردیتے ہیں۔ وہ نہیں بتاتے کہ اس آیت میں کونسا لفظ ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کو الگ کرتا ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے تو کوئی امر قابل بحث اس میں چھوڑا ہی نہیں۔ قد خلت کے معنے خود ہی کر دیئے۔
افائن مات اوقتل (آل عمران : ۱۴۵)
اگر کوئی تیسری شک بھی اس کے سوا ہوتی تو کیوں نہ کہہ دیتا۔
او رفع بجسدہ العنصری الی السماء۔
کیا خدا تعالیٰ اس کو بھول گیا تھا۔ جو یہ یاد دلاتے ہیں۔نعوذ باﷲ من ذالک۔
اگر صرف یہی آیت ہوتی تب بھی کافی تھی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺکی زندگی تو انہیںایسی محبوب اور پیاری تھی کہ اب تک آپ کی وفات کا ذکر کر کے یہ لوگ بھی روتے ہیں۔پھر صحابہؓ کے لیے تو اور بھی درد اور رقت اس وقت پید اہو گئی تھی۔ میرے نزدیک مومن وہی ہتا ہے جو آپ کی اتباع کرتا ہے اور وہی۹ کسی مقام پر پہنچتا ہے جیسا کہ خود اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے
قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران : ۳۲)
یعنی کہدو کہ اگر تم اﷲتعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تا کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنالے۔ اب محبت کا تقاضا تو یہ ہے۔ کہ محبوب کے فعل کے ساتھ خاص موانست ہو اور مرنا آنحضرت ﷺ کی سنت ہے۔ آپنے مر کر دکھادیا۔ پھ رکون ہے جو زندہ رہے یا زندہ رہنے کی آرزو کرے؟ یا کسی اور کے لیے تجویز کرے کہ وہ زندہ ہے؟
محبت کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپؐ کی اتباع میں ایسا گم ہو کہ اپین جذبات نفس کو تھام لے اور یہ سوچ لے کہ میں کسی کی امت ہوں۔ ایسی صورت میں جو شخص حصرت عیسیٰ ؑ کی نسبت یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ ابتک زندہ ہیں وہ کیونکر آپ کی محبت اور اتباع کا دعویٰ کرسکتا ہے؟ اس لیے کہ آپؐ کی نسبت وہ گوارا کرتا ہے کہ مسیح ؑکو افضل قرار دیا جاوے اور آپؐ کو مردہ کہا جاوے مگر اس کے لیے وہ پسند کرتا ہے کہ زندہ یقین کیا جاوے؎ٰ؟
‏Amira 21-1-06
حیات مسیح کے عقیدہ کے نقصانات
میں سچ سچ کہتاہوں کہ اگر آنحضرت ﷺ زندہ رہتے تو ایک فرد بھی کافر نہ رہتا۔حضرت عیسیٰ ؑکی زندگی نے کیا نتیجہ دکھایا۔بجز اس کے کہ چالیس کروڑ عیسائی ہیں۔غور کر کے دیکھو کہ کیا تم نے اس زندگی کے اعتقاد کو آزما نہیں لیا؟ اور نتیجہ خطرناک نہیں ہوا۔ مسلمانوں کی کسی ایک قوم کے نام لو جس میں سے کوئی عیسائی نہ ہوا ہو۔ مگر میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر طبقہ کے مسلمان عیسائی ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ سے بھی ان کی تعداد زیادہ ہوگی۔عیسائیوں کے ہاتھ میں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے واسطے ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ یہی زندگی کا مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیت کسی دوسرے میں ثابت کرو۔ اگر وہ خدا نہیں تو پھر کیوں اُسے یہ خصوصیت دی گئی؟ وہ حی و قیوم ہے (نعوذ باﷲ من ذالک)
اس حیات کے مسئلہ نے ان کو دلیر کر دیا اور اُنہوں نے مسلمانوں پر وہ حملہ کیا جس کا نتیجہ میں تمہیں بتا چکا ہوں۔ اب اس کے مقابل پر اگر تم پادریوں پر یہ ثابت کر دو کہ مسیح مر گیا ہے تو اسکا نتیجہ کیا ہوگا؟میں نے بڑے بڑے پادریوں سے پوچھا ہے۔ اُنہوںنے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاوے کہ مسیح مر گیاہے تو ہمارا مذہب زندہ نہیں رہ سکتا۔
ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ مسیح کی زندگی کے اعتقاد کا آپ لوگوں نے تجربہ کیا۔ اب ذرا اس کی موت کا بھی تجربہ کرو اور دیکھو کہ عیسائی مذہب پر اس اعتقاد سے کیا زد پڑتی ہے۔جہان کوئی میرا متید عیسائیوں سے اس مضمون پر گفتگو کرنے کو کھڑا ہوتا ہے وہ فوراً انکار کر دیتے ہیں’اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس راہ سے ان کی ہلاکت قریب ہے۔ موت کے مسئلہ سے نہ اُن کا کفارہ ثابت ہو سکتا ہے اور نہ ان کی الوہیت اور ابنیت۔پس اس مسئلہ کا تھوڑے دنوں تک تجربہ کرو۔ پھر خود حقیقت کھل جاوے گی۔
مسئلہ وفاتِ مسیح، غلبۂ اسلام اور کسرِ صلیب کا حربہ
سنو! قرآن شریف اور احادیث میں یہ وعدہ تھا کہ اسلام پھریل جاوے گا اور وہ دوسرے ادیان پر غالب آجائے گا اور کسر صلیب ہوگی۔اب غور طلب امر یہ ہے کہ دنیا تو جائے اسباب ہے۔ ایک شخص بیمار ہو تو اس میں تو شک نہیں کہ شفا تو اﷲ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ادویات میں خواص بھی اسی نے رکھ دیئے ہیں۔جب کوئی دوا دی جاتی ہے تووہ فائدہ کرتی ہے۔ پیاس لگتی ہے تو اس کے بجھانے والا تو خدا ہے مگر اس کے لیے پانی بھی اسی نے مقرر کیا ہے۔ اسی طرح پر بھوک لگتی ہے تو اس کو دورکرنے والا تو وہی ہے مگر غذا بھی اسی نے مقرر کی ہے۔ اسی طرح پر غلبۂ اسلام اور کسرِ صلیب تو ہوگا جو اس نے مقدر کیا ہے۔لیکن اس کے لیے اس نے اسباب مقرر کئے ہیں اور ایک قانون مقرر ہے؛ چنانچہ بالاتفاق یہ امر قرآن مجید اور احادیث کی بنا پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں جب عیسائیت کا غلبہ ہوگا۔ اس وقت مسیح موعود کے ہاتھ پر اسلام کا غلبہ ہوگا اور وہ کل ادیان اور ملتوں پر اسلام کو غالب کر کے دکھادے گا۔اور دجال کو قتل کرے گا اورصلیب کو توڑ دے گا اور وہ زمانہ آخری زمانہ ہوگا۔ نواب صدیق حسن خاں اور دوسرے بزرگوں نے جنہوں نے آخری زمانہ کے متعلق کتابیں لکھی ہیں، انہوں نے بھی اس امر کوت سلیم کیا ہے۔ اب اس پیشگوئی کے پوراہونے کے لیا بھی تو کوئی سبب اور ذریعہ ہوگا۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ وہ اسباب سے کام لیتا ہے دوائوں سے شفا دیتا ہے اور غذیہ اور پانی سے بھوک پیاس کو دور کرتا ہے۔ اسی طرح پر اب جبکہ عیسائی مذہب کا غلبہ ہوگیا ہے اور ہر طبقہ کے مسلمان اس گروہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اسلام کو اپنے وعدہ کے موافق غالب کرے اس کے لیے بہرحال کوئی ذریعہ اور سبب ہوگا اور وہ یہی موتِ مسیح کا حربہ ہے۔
اس حربہ سے صلیبی مذہب پر موت وارد ہوگی اور ان کی کمریں ٹوٹ جاویں گی۔میں سچ کہتا ہوں کہ اب عیسائی غلطیوں کے دور کرنے کے لیے اس سے بڑھ کر کیا سبب ہو سکتا ہے کہ مسیح کی وفات ثابت کی جاوے۔اپنے گھروں میں اس امر پر غور کریں اور تنہائی میں بستروں پر لیٹ کر سوچیں۔مخالفت کی حالت میں تو جوش آتا ہے۔ سعید الفطرت آدمی پھر سوچ لیتا ہے۔ دہلی میں جب میں نے تقریر کی تھی تو زندگی ہے۔ جب تک یہ نہ ٹوٹے اسلام کے لیے دروازہ نہیں کھلتا بلکہ عیسائیت کو اس سے مدد ملتی ہے۔ جوان کی زندگی سے پیار کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ دو گوا ہوں کیذریعہ سے پھانسی مل جاتی ہے مگر یہاں اس قدر شواہر موجود ہیں اوروہ بدستور انکار کرتے جاتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔
یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی (ال عمران : ۵۶)
اور پھر حضرت مسیح ؑ کا اپنا اقرار اسی قرآن مجید میں موجود ہے
فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (المئدۃ :۱۱۸)
اور توفی کے معنے موت بھی قرآن مجید ہی سے ثابت ہے کیونکہ یہی لفظ آنحضرت ﷺ پر بھی آیا ہے۔جیسا کہ فرمایا
واما نرینک بعض الذی نعدھم او نتوفینک (یونس: ۴۷)
اور آنحضرت ﷺ نے فلما توفیتنی کہا ہے جس کے معنے موت ہی ہیں۔اور ایسا ہی حضرت یوسف ؑ اور دوسرے لوگوں کیلئے بھی یہی لفظ آیا ہے۔ پھر ایسی صورت میں اس کے کوئی اور معنے کیونکر ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑی زبردست شہادت مسیح کی وفات پر ہے۔ اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ ؑ کو مردوں میں دیکھا۔ حدیثِ معراج کا تو کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اسے کھول کر دیکھ لو کہ کیا اس میں حضرت عیسیٰ ؑ کا ذکر مردوں کے ساتھ آیا ہییا کسی اور رنگ میں۔جیسے آپؐ نے حضرت ابراہیمؑ اور موسیٰ ؑ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو دیکھا، اسی طرح حضرت عیسیٰ کو دیکھا ان میں کوئی خصوصیت اور امتیاز نہ تھا۔ اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام وفات پا چکے ہیں اور قابض الارواح نے ان کو دوسرے عالم میں پہنچادیا ہے۔ پھر ان میں ایک شخص زندہ بجسدہ العنصری کیسے چلا گیا؟ یہ شہادتیں تھوڑی نہیں ہیں۔ ایک سچے مسلمان کیلئے کافی ہیں۔
پھر دوسری احادیث میں حضرت عیسیٰ ؑ کی عمر ایک سوبیس یا ایک سو پچیس برس کی قرار دی ہے۔ ان سب امور پر ایک جائی نظر کرنے کے بعد یہ امر تقویٰ کے خلاف تھا کہ جھٹ پٹ یہ فیصلہ کر دیا جاتا کہ مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہے اور پھر اس کی کوئی نظر بھی نہیں۔عقل بھی یہی تجویز کرتی تھی۔مگر افسوس ان لوگوں نے ذرا بھی خیال نہ کیا اور خدا ترسی سے کام نہ لے کر فوراً مجھے دجال کہ دیا۔ خیال کرنے کی بات ہے کہ کیا یہ تھوڑی سی بات تھی؟ افسوس۔
پھر جب کوئی عذر نہیں بن سکتا تو کہتے ہیں۔درمیانی زمانہ میں اجماع ہو چکا ہے۔ میں کہتا ہوں؟ کب اصل اجماع تو صحابہؓ کا اجماع تھا۔اگر اس کے بعد اجماع ہوا ہے تو اب ان مختلف فرقوں کو اکٹھا کر کے دکھائو۔ میںسچ کہتا ہوں کہ یہ بالکل غلط بات ہے مسیح کی زندگی پر کبھی اجماع نہیں ہوا۔ انہوں نے کتابوں کو نہیں پڑھا ورنہ انہیںمعلوم ہوجاتا کہ صوفی موت کے قائل ہیں اور وہ ان کی دوبارہ آمد بروزی رنگ میں مانتے ہیں۔
غرض جیسے میں نے اﷲ تعالیٰ کی حمد کی ہے۔ویسے ہی میں آنحضرت پر درود بخیجتا ہوں کہ آپؐ ہی کے لیے اﷲ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ اور آپؐ ہی کے فیضان اور برکات کا نتیجہ ہے جو یہ نصرتیں ہو رہی ہیں۔ میں کھول کر کہتا ہوں اور یہ میرا عقیدہ اور مذہب ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اتباع اور نقشِ قدم پر چلنے کے بغیر انسان کوئی روحانی فیض اور فضل حاصل نہیں کر سکتا۔
حکومت کی امن پسندی، عدل اور مذہبی آزادی کی تعریف
پھر اس کے ساتھ ہی ایک اس کا بیان نہ کروں تو ناشکری ہوگی۔ اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہم کو ایسی سلطنت اور حکومت میں پیدا کیا ہے جوہر طرف سے امن دیتی ہے اور جس نے ہم کو اپنے مذہب کی تبلیغ اور اشاعت کے یے پوری آزادی دی ہے اور ہرقسم کے سامان اس مبارک عہد میں ہمیں میسر ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا آزادی ہوگی کہ ہم عیسائی مذہب کی تردید زور شور سے کرتے ہیں اور کوئی نہیں پوچھتا۔ مگر اس سے پہلے ایک زمانہ تھا۔ اس زمانہ کے دیکھنے والے بھی اب تک موجود ہیں’ اس وقت یہ حالت تھی کہ کوئی مسلمان اپنی مسجدوں میں اذان تک نہیں کہہ سکتا تھا۔اور باتوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اور حلال چیزوں کے کھانے سے روکا جاتا تھا۔ کوئی باقاعدہ تحقیقات نہ ہوتی تھی مگر یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہیکہ ہم ایک ایسی سلطنت کے نیچے ہیں جو ان تمام عیوب سے پاک ہے۔ یعنی سلطنت انگریزی جو امن پسند ہے۔ جس کو مذاہب کے اختلاف سے کوئی اعتراض نہیں۔ جس کا قانون ہے کہ ہر اہلِ مذہب آزادی سے اپنے فرض ادا کرے۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ہماری تبلیغ ہر تگہ پہنچ جاوے۔ اس لئے اس نے ہم کو اس سلطنت میں پید اکیا۔ جس طرح آنحضرت ﷺ نوشیرواں کے عہدِ سلطنت پر فخر کرتے تھے۔اسی طرح پر ہم کو اس سلطنت پر فخر ہے۔ قاعدہ کی بات ہے کہ مامور ہو کر آئے۔عدل اور راستی کا اجراء ہونے لگتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اس رومی سلطنت سے جو مسیح کے زمانہ میں تھی یہ سلطنت براتب اورلیٰ اور افضل ہے گر چہ اس کا اور اُس کا قانون ملتا جلتا ہے لیکن انصاف یہی ہے کہ اس سلطنت کے قانون کسی سے دبے ہوئے نہیں ہیں اور مقابلہ سے دیک اجاوے تو معلوم ہوگا کہ رومی سلطنت میں وحشیانہ حصہ ضرور پایا جاوے گا لیکن یہ بزدلی تھی کہ یہودیوںکے خوف سے خدا کے پاک اور برگزیدہ بندے مسیح کو حوالات دیا گیا ۔ اس قسم کا مقدمہ مجھ پر بھی ہوا تھا۔ مسیح ؑ کے خلاف تو یہودیوں نے مقدمہ کیا تھا مگر اس سلطنت میں میرے خلاف جس نے مقدمہ کیا وہ معزز پادری تھا ارو ڈاکٹر بھی تھا یعنی ڈاکٹر مارٹن کلارک تھا جس نے مجھ پر اقدام قتل کا مقدمہ بنایا اور اُس نے شہادت پوری بہم پہنچائی۔یہانتک کہ مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی بھی جو اس سلسلہ کا سخت دشمن ہے،شہادت دینے کے واسطے عدالت میں آیا اور جہانتک اس سے ہو سکا اس نے میرے خلاف شہادت دی اور پوورے طور پر مقدمہ میرے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کی۔یہ مقدمہ کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے اجلاس میں تھا جو شاید اب شملہ میں ہیں ؎ٰ۔
ان کے روبرو مقدمہ پورے طور پر مرتب ہو گیا اور تمام شہادتیںمیرے خلاف بڑے زور شور سے دی گئیں۔ ایسی حالت اور صورت میں کوئی قانون دان اہل الرائے بھی نہیں کہہ سکتا تھا تھا کہ میں بَری ہو سکتا ہوں۔ تقاضائے وقت اور صورتیں ایسی واقع ہو چکی تھیں کہ مجھے سیشن سپرد کر دیا جاتا اور وہاں سے پھانسی کا حکم ملتا یا عبور دریائے شور کی سزا دی جاتی ۔مگر خدا تعالیٰ نے جیسے مقدمہ سے پہلے مجھے اطلاع دی تھی اسی طرح یہ بھی قبل از وقت ظاہر کر دیا تھا کہ میں اس میں بری ہوں گا چنانچہ یہ پیشگوئی میری جماعت کے ایک گروہ کثیر کو معلوم تھی۔ غرض جب مقدمہ اس مرحلہ پر پہنچا اور دشمنوں اور مخالفوں کا یہ خیال ہو گیا کہ اب مجھے مجسٹریٹ سیشن سپرد کرے گا۔ اس موقعہ پر اس نے کپتان پولیس سے کہاکہ میرے دل میں یہ بات آئی ہیکہ یہ مقدمہ بناوٹی ہے۔ میرا دل اس کو نہیں مانتا کہ فی الواقعہ ایسی کوشش کی گئی ہو اور انہوں نے ڈاکٹر کلارک کے قتل کے لیے آدمی بھیجا ہو۔ آپ اس کی پھر تفتیش کریں۔ یہ وہ وقت تھا کہ میرے مخالف میرے خلاف ہر قسم کے منصوبوں ہی میں نہ لگے ہوئے تھے اور رو رو کر دعائیں کرتے تھے کہ میں سزا یاب ہو جائوں مگر خدا تعالیٰ کا مقابلہ کون کر سکت اہے۔ مجھے معلوم ہے کہ کپتان ڈگلس صاحب کے پاس بعض سفارشیں بھی آئیں۔مگر وہ ایک انصاف پسند مجسٹریٹ تھا۔ اس نے کہا کہ ہم سے ایسی بدذاتی نہیں ہوسکتی۔
غرض جب مقدمہ دوبارہ تفتیش کے لیے کپتان لیمار چنڈ کے سپرد کیا گیا تو کپتان صاحب نے عبد الحمید کو بلایا اور اس کو کہا کہ تو سچ سچ بیان کر۔عبد الحمید نے اس پر بھی وہی قصہ جو اس نے صاحب ڈپٹی کمشنر کے رو برو بیان کیا تھا، دوہرایا۔ اس کو پہلے سے یہ کہا گیا تھا کہ اگر ذرا بھی خلاف بیانی ہوگی تو تُو پکڑا جاوے گا۔ اس لیے وہ وہی کہت اگیا مگر کپتان صاحب نے اس کو کہا کہ تُو تو پہلے بیھ یہی بیان کر چکا ہے۔ صاحب اس سے تسلی نہیں پاتے کیونکہ تُو سچ سچ بیان نہیں کرتا۔جب دوبارہ کپتان لیمار چنڈ نے اس کو کہا تو وہ روتا ہوا ان کے پائوں پر گر پڑا۔ اور کہین لگا کہ مجھے بچا لو۔ کپتان صاحب نے اس کو تسلی دی اور کہا کہ ہاں بیان کرو۔اس پر اس نے اصلیت کھول دی اور صاف اقرار کیا کہ مجھے دھمکا کر یہ بیان کرایا گیا تھا۔مجھے ہر گز ہرگز مرزا صاحب نے قتل کے لیے نہیں بھیجا۔کپتان اس بیان کو سنکر بہت خوش ہوا۔ اور اس نے ڈپٹی کمشنر کو تاردیا کہ ہم نے مقدمہ نکال لیا ہے؛ چنانچہ پھر گورداسپور کے مقام پر یہ مقدمہ پیش ہوا اور وہاں کپتان لیمار چنڈ کو حلف دیا گیا اور اس نے اپنا حلفی بیان لکھوایا۔ میں دیکھتا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اصلیت کے کھل جانے پر بڑا خوش تھا اور ان عیسائیوں پر اسے سخت غصہ تھا جنہوں نے میرے خلاف جھوٹی گواہیاں دی تھیں۔ اس نے مجھ یکہا کہ آپ ان عیسائیوں پر مقدمہ کر سکتے ہیں۔مگر چونکہ میں مقدمہ بازی سے متنفر ہوں۔ میں نے یہی کہا کہ میں مقدمہ نہیں کرنا چاہتا۔میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے۔اس پر اسی وقت ڈگلس صاحب نے فیصلہ لکھا۔ ایک مجمع کثیر اس دن جمع ہو گیا ہوا تھا۔ اس نے فیصلہ سناتے وقت مجھے کہ کہ آپ کو مبارک ہو۔ آپ بَری ہوئے۔
اب بتائو کہ یہ کیسی خوبی اس سلطنت کی ہے کہ عدل اور انصاف کے لیے نہ اپنے مذہب کی ایک سرگرو کی پروا کی اور نہ کسی اور بات کی۔ میں دیکھت اتھا کہ اس وقت تومیری دشمن ایک دنیا تھی اور ایسا ہی ہوتا ہے۔جب دنیا دُکھ دینے پر آتی ہے تو درد دیوار نیش زنی کرتے ہیں۔خدا تعالیٰ ہی ہوت اہے جو اپنے صادق بندوں کو بچا لیتا ہے۔
پھر مسٹر ڈوئی کے سامنے ایک مقدمہ ہوا۔ پھر ٹیکس کا مقدمہ ہوا۔ اس مقدمہ میں میری مخالفت میں سارا زور لگایا گیا اور یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ بس اب اس سلسلہ کا خاتمہ ہے اور حقیقت میں اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سلسلہ نہ ہوتا اور وہی اس کی تائید اور نصرت کے لیے کھڑا نہ ہوتا تو اس کے مٹنے میں کوئی شک و شبہ ہی نہ رہا تھا۔ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کرم دین کی حمایت کی گئی اور ہر طرح سے اس کیو مدد دی گئی یہانتک کہ اس مقدمہ میں بعض نے مولوی کہلا کر میرے خلاف وہ گواہیاں دیں جو سراسر خلاف تھیں اور یہانتک بیان کیا کہ زانی ہو،فاسق ہو،فاجر ہو پھر بھی وہ متقی ہوتا ہے۔ یہ مقدمہ ایک لمبے ارصہ تک ہوتا رہا۔ اس اثنا میں بہت سے نشانات ظاہر ہوئے۔ آخر مجسٹریٹ نے جو ہندو تھا مجھ پر پنچ سو روپیہ جرمانہ کر دیا۔ مگر خدا تعالیٰ نے پہلے سے یہ اطلاع دی ہوئی تھی۔ ’’عدالت ِ عالیہ نے اس کو بَری کر دیا‘‘۔ اس لیے جب وہ اپیل ڈوثیر نل جج کے سامنے پیش ہوا تو خد اداد فراست سے انہوں نے فوراً ہی مقدمہ کی حقیقت کو سمجھ لیا اور قرار دیا کہ کرم دین کے حق میں میں نے جو کچھ لکھ اتھا وہ بالکل درست تھا یعنی مجھے اس کے لکھنے کا حق حاصل تھا؛ چنانچہ اس نے جو فیصلہ لکھا ہے وہ شائع ہو چکا ہے۔آخر اس نے مجھے بَری ٹھہرایا اور جرمانہ واپس کیا اور ابتدائی عدالت کو بھی مناسب تنبیہہ کی کہ کیوں اتنی دیر تک یہ مقدمہ رکھا گیا۔
غرض جب کوئی موقعہ میرے مخالفوں کو ملا ہے انہوںنے میرے کچل دینے اور ہلاک کر دینے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا اور کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ل مگر خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے ہر آگ سے بچایا۔ اسی طرح جس طرح پر وہ این رسولوں کو بچاتا آیا ہے۔ میں ان واقعات کو مد نظر رکھ کر بڑے زور سے کہتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ بمراتب اس رومی گورنمنٹ سے بہتر ہے۔ جس کے زمانہ میں مسیح کو دکھ دیا گیا۔ پیلاطوس گورنر جس کے روبرو پہلے مقدمہ پیش ہوا وہ دراصل مسیح کا مرید تھا اور اس کی بیوی بھی مرید تھی اسی وجہ سے اُس نے مسیح کے خون سے ہاتھ دھوئے مگر باوجود اس کے کہ وہ مرید تھا اور گورنر تھا اس نے اس جرأت سے کام نہ لیا جو کپتان ڈگلس نے دکھائی۔وہاں بھی مسیح بے گناہ تھا اور یہان بھی میں بے گناہ تھا۔
میں سچ کہت اہوں اور تجربہ سے کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے اس قوم کو حق کے لیے ایک جرأت دی ہے۔ پس میں اس جگہ پر تمام مسلمانوں کو نصیحت کرت اہوں کہ ان پر فرض ہے کہ وہ سچے دل سے گورنمنٹ کی اطاعت کریں۔
یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر گذار نہیں ہوتا، وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر نہیں کرسکتا۔ جس قدر آسائش اور آرام اس زمانہ میں حاصل ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ریل،تار،ڈاک خانہ،پولیس وغیرہ کے انتظام کو دیکھو کہ کس قدس فوائد ان سے پہنچتے ہیں۔ آج سے ساٹھ ۔ستر برس پہیل بتائو۔ کیا ایسا آرام و آسانی تھی؟ پھر خود ہی انصاف کرو۔ جب ہم پر ہزاروں احسان ہیں تو ہم کونکر شکر نہ کریں۔
مسئلہ جہاد کی وضاحت
اکثر مسلمان مجھ پر حملہ کرتے ہیں کہ تمہارے سلسلہ میں یہ عیب ہے کہ تم جہاد کو موقوف کرتے ہو۔ افسوس ہیکہ وہ نادان اس کی حقیقت سے محض نا واقف ہیں۔ وہ اسلام اور آنحضرت ﷺ کو بدنام کرتے ہیں۔ آپؐ نے کبھی اشاعت مذہب کے لیے تلوار نہیں اُٹھائی۔جب آپؐ پر اور آپؐ کی جماعت پر مخالفوں کے ظلم نے انتہا تک پہچ گئے اور آپؐ کے مخلص خدام میں سے مردوں اور عورتوں کو شہید کر دیا گیا اور پھر مدینہ تک آپؐ کا تعاقب کیا گیا۔ اُس وقت مقابلہ کا حکم ملا۔ آپؐ نے تلوار نہیں اُٹھائی مگر دشمنوں ین تلوار اٹھائی ۔بعض اوقات آپؐ کو ظالم طبع کفار نے سر سے پائوں تک خون آلود کر دیا تھا۔ مگر آپؐ نے مقابلہ نہیں کیا۔ خوب یاد رکھو کہ اگر تلوار اسلام کا فرض ہوتا تو آنحضرت ﷺ مکہ میں اُٹھاتے ۔مگر نہیں، وہ تلوار جس کاذکر ہے وہ اس وقت اُٹھی، جب موذی کفار نے مدینہ تک تعاقب کیا۔
اُس وقت مخالفین کے ہاتھ میں تلوار تھی مگر اب تلوار نہیں اور میرے خلاف جھوٹی مخبریوں اور فتوئوں سے کام لیا جاتا ہے اور اسلامؔ کے خلاف صرف قلم سے کام لیا جاتا ہے۔پھر قلم کا جواب تولار سے دینے والا احمق اور ظالم ہوگا یا کچھ اور؟
اس بات کو مت بھولو کہ آنحضرت ﷺ نے کفا رکے حد سے گذرے ہوئے ظلم و ستم پر تلوار اُٹھائی اور وہ حفاظتِ خود اختیاری تھی جو ہر مہذب گورنمنٹ کا قانون میں بھی جرم نہیں۔تعزیرات ہند میں بھی حفٰظت خود اختیاری کوجائز رکھا ہے۔ اگر ایک چور گھر میں گھس آوے اور وہ حملہ کر کے مار ڈالنا چاہے۔ اس وقت اس چور کو بچائو کے لیے مار ڈالنا جرم نہیں ہے؎ٰ۔
پس جب حالت یہانتک پہنچی کہ آنحضرت ﷺ کے جان نثار خدام شہید کر دیئے گئے اور مسلمان ضعیف عورتوں تک کو نہایت سنگدلی اور بے حیائی یک ساتھ شہید کیا گیا تو کیا حق نہ تھا کہ ان کو سزا دی جاتی۔ اس وقت اگر اﷲ تعالیٰ یا یہ منشاء ہوتاکہ اسلام کا نام و نشان نہ رہے تو البتہ یہ ہو سکتا تھا کہ تلوار کا نام نہ آتا۔ مگر وہ چاہتا تھا کہ اسلام دنیا میں پھیلنے اور دنیا کی نجاعت کا ذریعہ ہو۔ اس لیے اس وقت محض مدافعت کے لیے تلواراُٹھائی گئی۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اسلام کا اس وقت تلوار اُٹھانا کسی قناون، مذہب اور اخلاق کی رو سے قابل اعتراض نہیں ٹھہرتا۔ وہ لوب جو ایک گال پر طمانچہ کھ اکر دوسری پھیر دینے کی تعلیم دیتے ہیں وہ بھی صبر نہیں کرسکتے اور جن کے ہاں کیڑے کا مارنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے، وہ بھی نہیں کر سکتے۔پھر اسلام پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟
اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا
مین یہ بھی کھول کر کہتا ہوں کہ جو جاہل مسلمان کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے۔ وہ نبیٔ معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر افترا کرتے ہیں اور اسلام کی ہتک کرتے ہیں۔ خوب یاد رکھو کہ اسلام ہمیشہ اپنی پاک تعلیم اور ہدایت اور اس کے ثمرات، انوار و برکات اور معجزات سے پھیلا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے عظیم الشان نشانات آپؐ کے اخلاق کی پاک تثیارت نے اُسے پھیلایا ہے اور وہ نشانات اور تاثیرات ختم نہیں ہو گئی ہیں۔ بلکہ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے جو میں کہت اہوں کہ ہمارے نبی ﷺ زندہ نبی ہیں۔ اس لیے کہ آپؐ کی تعلیمات اور ہدایات ہمیشہ اپنے ثمرات دیتی رہتی ہیں اور آئندہ جب اسلام ترقی کرے گا تو ا سکی یہی راہ ہوگی نہ کوئی اور۔ پس جب اسلام کی اشاعت کے لیے کبھی تلوار نہیں اُٹھائی گئی تو اس وقت ایسا خیال بھی کرنا گناہ ہے، کیونکہ اب تو سب کے سب امن سے بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کے لیے کافی ذریعے اور سامان موجود ہیں۔
مجھے بڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عیسائیوں اور دوسرے معترضین نے اسلام پر حملے کرتے وقت ہرگز ہرگز اصلیت پر غور نہیں کیا۔ وہ دیکھتے کہ اس وقت تمام مخالف اسلام اور مسلمانوں کے استیصال کے درپے تھے اور سب کے سب مل کر اس کے خلاف منصوبے کرتے اور مسلمانوں کو دکھ دیتے تھے۔ان دکھوں اور تکلیفوں کے مقابلہ میں اگر وہ اپنی جان نہ بچاتے تو کیا کرتے ۔قرآن شریف میں یہ آیت موجود ہے
اذن للذین یقاتلون با نہم ظلموا (الحج : ۴۰)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اس وقت دیا گیا جبکہ مسلمانوں پر ظلم کی حد ہو گئی، تو انہیں مقابلہ کا حکم دیا گیا۔ اس وقت کی یہ اجازت تھی۔دوسرے وقت کے لیے یہ حکم نہ تھا؛ چنانچہ مسیح موعود کے لیے یہ نشان قرار دیا گیا۔ یضع الحرب۔ اب تو اس کی سچائی کا نشان ہے کہ وہ لڑائی نہ کرے گا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس زمانہ میں مخالفوں نے بھی مذہبی لڑائیاں چھوڑ دیں۔ ہاں اس مقابلہ نے ایک اور صورت اور رنگ اختیار کر لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ قلم سے کام لے کر اسلام پر اعتراض کر رہے ہیں۔ عیسائی ہیں کہ ان کا ایک ایک پرچہ پچاس پچاس ہزار نکلتا ہے اور ہر طرح کوشش کرتے ہیں کہ لوگ اسلام سے بیزار ہو جائیں۔ پس اس مقابلہ کے لیے ہمیں قلم سے کام لینا چاہیے۔ یا تیر چلانے چاہئیں؟ اس وقت تو اگر کوئی ایس اخیال کرے تو اس سے بڑھ کر احمق اور اسلام کا دشمن کون ہوگا؟ اس قسم کا نام لینا اسلام کو بدنام کرنا ہے یا کچھ اور؟ جب ہمارے مخالف اس قسم کی ﷺعی نہیں کرتے حالانکہ وہ حق پر نہیں تو پھر کیسا تعجب اور افسوس ہوگا کہ اگر ہم حق پر ہو کر تلوار کا نام لیں۔ اس وقت تم کسی کو تلوار دکھا کر کہو کہ مسلمان ہو جا ورنا قتل کر دوں گا۔ پھ ردیکھو نتیجہ کیا ہوگا؟ وہ پولیس میں گرفتار کراکے تلوار کا مزہ چھکا دے گا۔
یہ خیالات سراسر بیہودہ ہیں۔ ان کو سروں سے نکال دینا چاہیے۔ اب وقت آیا ہے کہ اسلام کا روشن اور درخشان چہرہ دکھایا جاوے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ تمام اعتراضوں کو دور کر دیا جاوے۔ اور جو اسلام کے نورانی چہرہ پر داغ لگایا گیا یہ اسے دور کر کے دکھایا جاوے۔ میں یہ بیھ افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے جو موقعہ خدا تعالیٰ نے دیا ہے اور عیسائی مذہب کے اسلام میں داخل کرنے کے لیے جو راستہ کھولا گیا تھا اُسے ہی بُری نظر سے دیکھا اور اس کا کفر کیا۔
میں خد اتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں صادق ہوں
میں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ پورے طور پر اس طریق کو پیش کیا ہے جو اسلام کو کامیاب اور دوسرے مذاہب پر غالب کرنے والا ہے۔ میرے رسائل امریکہ اور یورپ میں جاتے ہیں۔خد اتعالیٰ نے اس قوم کو جو فراست دی ہے انہوں نے اس خدا داد فراست سے اس امر کو سمجھ لیا ہے لیکن جب ایک مسلمان کے سامنے میں اسے پیش کرتا ہوں تو اسکے منہ میں جھاگ آجاتی ہے گویا وہ دیوانہ ہے یا قتل کرنا چاہتا ہے ؛حالانکہ قرآن شریف کی تعلیم تو یہی تھی
اد فع بالتی ھی احسن (حٰم السجدۃ : ۳۵)
یہ تعلیم اس لیے تھی کہ اگر دشمن بھی ہو تو وہ اس نرمی اور حسن سلوک سے دوست بن جاوے اور ان باتوں کو آرام اور سکون کے ساتھ سن لے۔ میں اﷲ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں۔ وہ خوب جانتا ہیکہ میں مفتری نہیں،کذاب نہیں۔ اگر تم مجھے خدا تعالیٰ کی قسم پر بھی اور ان نشانات کو بھی جو اُس نے میری تائید میں ظاہر کئے ،دیکھ کر مجھے کذاب اور مفتری کہتے ہو تو پھر میں تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ کسی ایسے مفتری کی نظیر پیش کرو کہ باوجود اس کے ہر روز افتراء اور کذب کے جو وہ اﷲ تعالیٰ پر کرے۔پھر اﷲ تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت کرتا جاوے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اسے ہلاک کرے، مگر یہاں ا س کے بر خلاف معاملہ ہے۔ میں خد اتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں صادق ہوں۔اس کی طرف سے آیا ہوں۔مگر مجھ یکذاب اور مفتری کہا جاتاہے اور پھر اﷲ تعالیٰ ہر مقدمہ اور ہر بلا میں جو قوم میرے خلاف پید اکرتی ہے، مجھے نصرت دیتا ہے اور اس سے مجھے بچاتا ہے اور پھر ایسی نصرت کی کہ لاکھوں انسانوں کے دل میں میرے لیے محبت ڈال دی۔ میں اس پر اپنی سچائی کو حصر کرتا ہوں۔ اگر تم کسی ایسے مفتری کا نشان دے دو کہ وہ کذاب ہو اور اﷲ تعالیٰ پر اس نے افتراء کیا ہو اور پھر خد اتعالیٰ نے اس کی ایسی نصرتیں کی ہوں اور اس قدر عرصہ تک اُسے زندہ رکھ اہو۔ اور اس کی مرادوں کو پورا کیا ہو۔ دکائو۔
یقینا سمجھو کہ خدا تعالیٰ کے مرسل ان نشانات اور تائیدات سے شناخت کیے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ اُن کے لیے دکھاتا اور ان کی نصرت کرت اہے۔ میں اپنے قول میں سچا ہوں اور خدا تعالیٰ جو دلوں کو دیکھتاہے وہ میرے دل کے حالات سے واقف اور خبردار ہے۔ کیا تم اتنا بھی نہیں کہہ سکتے جو آل فرعون کے ایک آدمی نے کہا تھا۔
ان یک کاذ با فعلیہ کذبہ وان یک صادقا یصبکم بعض الذی یعدکم (المومن :۲۹)
کیا تم یہ یقین نہیں کرتے کہ اﷲ تعالیٰ جھوٹوں کا سب سے زیادہ دشمن ہے تم سب مل کر جو مجھ پر حملہ کرو۔ خدا تعالیٰ کا غضب اس سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔پھر اس کے غضب سے کون بچا سکتا ہے۔
‏Amira 25-1-06
وعیدی پیشگوئی ٹل سکتی ہے
یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وعید کی پیشگوئیاں بعض پوری کر دے گا۔ کل نہیں کہا۔ اس میں حکمت کیا ہے؟ حکمت یہی ہے کہ وعید کی پیشگوئیاں مشروط ہوتی ہیں وہ توبہ،استغفار اور رجوع الی الحق سے ٹل بھی جایا کرتی ہیں۔
پیشگوئی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وعدہ کی جیسے فرمایا
وعد اﷲ الذین امنو ا منکم (النور : ۵۶)
اہل سنت مانتے ہیں کہ اس قسم کی پیشگوئیوں میں تخلف نہیں ہوتا۔ کیونکہ خد اتعالیٰ کریم ہے۔لیکن وعید کی پیشگوئیوں میں وہ ڈرا کز بخش بھی دیتا ہے اس لیے کہ وہ رحیم ہے۔ بڑا نادان اور اسلام سے دور پڑا ہوا ہے وہ شخص جو کہتا ہے وعید کی سب پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں۔ وہ قرآن کریم کو چھوڑتا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کریم تو کہتا ہے۔
یصبکم بعض الذی یعدکم (المومن : ۲۹)
افسوس ہے بہت سے لوگ مولوی کہلاتے ہیں مگر انہیں نہ قرآن کی خبر ہے نہ حدیث کی۔ نہ سنت انبیاء کی۔صرف بغض کی جھاگ ہوتی ہے اس لیے وہ دھوکہ دیتے ہیں۔ یاد رکھو
الکریم اذا وعد وفی ۔
رحیم کا تقاضا یہی ہے کہ قابل سزا ٹھہرا کر معاف کر دیتا ہے اور یہ تو انسان کی بھی فطرت میں ہے کہ وہ معاف کر دیتا ہے۔ ایک مرتبہ میرے سامنے ایک شخص نے بناوٹی شہادت دی۔ اس پر جرم ثابت تھا۔ وہ مقدمہ ایک انگریز کے پاس تھا۔ اسے اتفاقاً چٹھی آگئی کہ کسی دور دراز جگہ پر اس کی تبدیلی ہو گئی ہے۔ وہ غمگین ہوا۔ جو مجرم تھا وہ بوڑھا آدمی تھا۔منشی سے کہا کہ یہ تو قید خانہ ہی میں مر جاوے گا اس نے بھی کہا کہ حضور بال بچہ دار ہے۔ اس پر وہ انگریز بولا کہ اب مثل مررتب ہو چکی ہے اب کیا ہو سکتا ہے۔ پھر کہا کہ اچھا اس مثل کو چاک کر دو۔ اب غور کر و کہ انگریز کو تو رحم آسکتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو نہیں آتا؟
پھر اس بات پر بھی غور کرو کہ صدقہ اور خیرات کیوں جاری ہے اور ہر قوم میں اس کا رواج ہے۔ فطرتاً انسان مصیبت اور بلا کے وقت صدقہ دینا چاہتا ہے اور خیرات کرتا ہے اور کہتے ہیں کہ بکرے دو۔ کپڑے دو۔یہ دو وہ دو۔ اگر اس کیذریعہ سے ردّ بلا ہوتا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کے اتفاق سے یہ ثابت ہے اور میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ صرف مسلمانوں ہی کا مذہب نہیں بلکہ یہدویوں، عیسائیوں اور ہندوجوں کا بھی یہ مذہب ہے۔ اور میری سمجھ میں روئے زمین پر کوئی اس امر کا منکر ہی نہیں۔ جبکہ یہ بات تو صاف کھل گیا کہوہ اردہ الٰہی ٹل جاتا ہے۔
پیشگوئی اور ارادہ الٰہی میں صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی اطلاع نبی کو دی جاتی ہے اور ارادۂ الٰہی پر کسی کو اطلاع نہیں ہوتی اور وہ مخفی رہتا ہے۔اگر وہی اردہ الٰہی نبی کی معرفت ظاہر کر دیا جاتا تو وہ پیشگوئی ہوتی۔اگر پیشگوئی نہیںٹل سکتی تو پھر ارادۂ الٰہی بھی صدقہ خیرات سے نہیں ٹل سکتا۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔چونکہ وعید کی پیشگوئیاں ٹل جاتی ہیں۔ اس لیے فرمایا:
وان یک صادقا یصبکم بعض الذی یعدکم (المومن : ۲۹)
اب اﷲ تعالیٰ خود گواہی دیتا ہے کہ بعض پیشگوئیاں آنحضرت ﷺکی بھی ٹل گئیں۔اگر میری کسی ایسی پیشگوئی پر ایسا اعتراض کیا جاتا ہے تو مجھے اس کا جواب دو۔ اگر اس امر میں میری تکذیب کرو گے تو میری نہیں بلکہ اﷲت عالیٰ کی تکذیب کرنے والے ٹھہرو گے۔ میں بڑے و ثوق سے کہتا ہوں کہ یہ کل اہل سنت جماعت اور کل دنیا کا مسلّم مسئلہ ہیکہ تضرع سے عذاب کا وعدہ ٹل جایا کرتا ہے۔کیا حضرت یونس ؑکی نظیر بھی تمہیں بھول گئی ہے؟ حضرت یونس کی قوم سے جو عذاب ٹل گیا تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ در منثور وغیرہ کو دیکھو اور بائبل میں یُونہ نبی کی کتاب موجود ہے۔ اس عذاب کا قطعی وعدہ تھا،مگر یونس ؑ کی قوم نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کی اور اس کی طرف رجوع کیا۔خدا تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ اور عذاب ٹل گیا۔ ادھر حضرت یونس یوم مقررہ پر عذاب کے منتظر تھے۔لوگوں سے خبریں پوچھتے تھے ایک زمیندار سے پوچھا کہ نینوہ کا کیا حال ہے؟اس نے کہاکہ اچھا حال ہے تو حضرت یونس ؑ پر بہت غم طاری ہوا۔اور انہوں نے کہا
لن ارجع الیٰ قومی کذابا۔
یعنی میں اپنی قوم کی طرف کذاب کہلا کر نہیں جائوں گا۔ اب اس نظیر کے ہوتے ہوئے اور قرآن شریف کی زبردست شہادت کی موجودگی میں میری کسی ایسی پیشگوئی پر جو پہلے ہی سے شرطی تھی، اعتراض کرنا تقویٰ کے خلاف ہے۔متقی کی یہ شان نہیں کہ بغیر سوچے سمجھے منہ سے بات نکال دے اور تکذیب کو آمادہ ہو جاوے۔
حضرت یونس کا قصہ نہایت دردناک اور عبرت بخش ہے۔ اور وہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے ۔اسے غور سے پڑھو۔ یہانتک کہ وہ دریا میں گرائے گئے اور مچھلی کے پیٹ میں گئے تب توبہ منظور ہوئی۔ یہ سزا اور عتاب حضرت یونس ؑ پر کیوں ہوا؟ اس لیے کہ انہیں نے خدا تعالیٰ کو قادر نہ سمجھا کہ وہ وعید کو ٹال دیتا ہے۔ پھر تم لوگ کیوں میرے متعلق جلدی کرتے ہو؟ اور میری تکذیب کے لیے ساری نبوتوں کو جھٹلاتے ہو؟
خونی مہدی کا عقیدہ
یاد رکھو خدا تعالیٰ کا نام غفور ہے۔ پھ رکیوں وہ رجوع کرنے والوںکو معاف نہ کرے۔ اس قسم کی غلطیان ہیں جو قوم میں واقع ہو گئی ہیں۔ انہیں غلطیوں میں سے جہاد کی غلطی بھی ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ جب میں کہتا ہوں کہ جہاد حرام ہے توکالی پیلی آنکھیں نکال لیتے ہیں حالانکہ خدو ہی مانتے ہیںکہ جو حدیثیں خونی مہدی کی ہیں وہ مخدوش ہیں۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس باب میں رسالے لکھے ہیں اور یہی مذہب میاں نذیر حسین دہلوی کا تھا۔ وہ ان کو قطعی صحیح نہیں سمجھتے۔پھر مجھے کیوں کاذب کہا جاتا ہے۔ سچی بات یہی ہے کہ مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گا۔ اور قلم، دعا، توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا۔ ارو افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لیے کہ جس قدر توجہ دنیا کی طرف ہے، دین کی طرف نہیں۔دنیا کی آلودگیوں اور تاپاکیوں میں مبتلا ہو کر یہ امید کیونکر کر سکتے ہیں کہ ان پر قرآن کریم کے معاف کھلیں وہاں صاف لکھا ہے۔
لا یمسہ الا المطھرون (الواقعہ : ۸۰)
مسیح موعود کی بعثت کی علّتِ غائی
اس بات کو بھی دل سے سنو کہ یرے مبعوث ہونے کی علت غائی کیا ہے؟ میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ میں اس لیے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھائوں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی۔ ہرگز نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے۔ آنحصرت ﷺ پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب کوئی شریعت نہیں آسکتی۔ قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔ اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے برکات اور ھیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہادیت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہو گیا۔ وہ ہر زمانہ یں تازاہ بتازہ موجود ہیں اور انہیں فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔اسلام کی جو حالت اس وقت ہے وہ پوشیدہ نہیں۔بالا تفاق مان لیا گیا یہ کہ ہر قسم کی کمزوریوں اور تنزّل کا نشانہ مسلمان ہو رہے ہیں۔ہر پہلو سے وہ گر رہے ہیں۔ان کی زبان ساتھ ہے تو دل نہیں ہے اور اسلام یتیم ہو گیا ہے۔ ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کی حمایت اور سر پرستی کروں اور اپنے وعدہ کے موافق بھیجا ہے کیونکہ اس نے فرمایا تھا
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
اگر اس وقت اور حمایت اور نصرت اور حفاظت نہ کی جاتی تو وہ اور کونسا وقت آئے گا۔ اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہو رہی ہے جو بد رکے موقعہ پر ہو گئی تھی۔جس کے لیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ولقد نصرکم اﷲ ببدر وانتم اذلۃ (آل عمران : ۱۲۴)
اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا۔ پھر تم کیوں تعجب کرتے ہو کہ اس نے اسلام کی نصرت کی۔ مجھے اس بات کا افسوس نہیں کہ میرا نام دجال اور کذاب رکھا جاتا ہے۔ اور مجھ پھر تہمتیں لگائی جاتی ہیں اس لیے کہ یہ ضرور تھا کہ میرے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو مجھ سے پہلے فرستادوں کے ساتھ ہوا تھا میں بھی اس قدیم سنت سے حصہ پاتا۔
میں نے ان مصائب اور شدائد کا کچھ بھی حصہ نہیں پایا لیکن جو مصیبتیں اور مشکلات ہمارے سید مولا آنحصرت ﷺ کی راہ میں آئیں، اس کی نظیر انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ یں کسی کے لیے نہیں پائی جاتی۔ آپؐ نے اسلام کی خاطر وہ دکھ اٹھائے کہ قلم ان کے لکھنے اور زبان ان کے بیان سے عاجز ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسے جلیل الشان اور اولوالعزم نبی تھے۔ اگر خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت آپؐ کے ساتھ نہ ہوتی تو ان مشکلات کے پہاڑ کو اُٹھانا نا ممکن ہو جاتا۔ اور اگر کوئی اور نبی ہوتا تو وہ بھی رہ جاتا۔ مگر جس اسلام کو ایسی مصیبتوں اور دکھوں کے ساتھ آپؐ نے پھیلا ای تھا آج اس کا جو حال ہو گیا ہے وہ میں کیونکر کہوں؟
اسلام کی حقیقت اور تعلیم
اسلام کے معنے تو یہ تھے کہ انسان خد اتعلایٰ کی محبت اور اطاعت میں فنا ہو جاوے اور جس طرح پر ایک بکری کی گردن قصاب کے آگے ہوتی ہے اسی طرح پر مسلمان کی گردن خدا تعالیٰ کی اطاعت کے لیے رکھ دی جاوے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ خدا تعالیٰ ہی کو وحدہْ لا شریک سمجھے۔ جب آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے اس وقت یہ توحید گم ہو گئی تھی اور یہ دیش آریہ ورت بھی بُتوں سے بھرا ہوا تھا جیسا کہ پنڈت دیانند سر سوتی نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ ایسی حالت اور ایسے وقت میں ضرور تھا کہ آپ مبعوث ہوتے اس کا ہمرنگ یہ زمانہ بھی ہے جس میں بت پرستی کے ساتھ انسان پرستی اور دہریت بھی پھیل گئی ہے اور اسلام کا اصل مقصد اور روح باقی نہیں رہی۔اس کا مغز تو یہ تھا کہ خدا ہی کی محبت میں فنا ہو جانا اور اس کے سوا کسی کو مبعود نہ سمجھنا اور مقصد یہ ہے کہ انسان رو بخدا ہو جاوے رو بدنیا نہ رہے اور اس مقصد کے لیے اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصے کئے ہیں۔ اولؔ حقوق اﷲ، دومؔ حقوق العباد ۔حق اﷲ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے اور حقوق العباد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی کریں۔یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں۔ ہمدردی اور سلوک الگ چیز ہے اور مخالفت مذہب دوسری شے۔ مسلمانوں کا وہ گروہ جو جہاد کی غلطی اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں انہوں نے یہ بھی جائز رکھا ہے کہ کفار کا مال ناجائز طور پر لینا بھی درست ہے خود میری نسبت بھی ان لوگوں نے فتویؓ دیا کہ ان کا مال لوٹ لو بلکہ یہانتک بھی کہ ان کی بیویاں نکال لو؛ حالانکہ اسلام میں اس قسم کی ناپاک تعلیمیں نہ تھیں۔ وہ تو ایک صاف اور مصفیٰ مذہب تھا۔ اسلام کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ جیسے باپ اپنے حقوقِ ابوّت کو چاہتا ہے اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اولاد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک دوسرے کو مارے۔ اسلام بھی جہاں یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہ ہو، وہان اس کا یہ بھی منشا ہے کہ نوع انسان میں مودّت اور وحدت ہو؎ٰ۔
نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثوب رکھ اہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہانتک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پائوں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں۔وہ تمیز جس ے خود اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے۔
یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہیکہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے۔پھر اسی وحدت کے لیے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عید گاہ میں جمع ہوں اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اﷲ میں اکٹھے ہوں۔ ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے حقوق کے دو ہی حصے رکھے ہیں۔ ایک حقوق اﷲ دوسرے حقوق العباد۔ اس پر بہت کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فاذکرو ااﷲ کذکرکم اباء کم او اشدا ذکرا (البقرۃ : ۲۰۱)
یعنی اﷲ تعالیٰ کو یاد کرو جس طرح پر تم اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ اس جگہ دو رمز ہیں۔ ایک توذکر اﷲ کو ذکر آباء سے مشابہت دی ہے اس میں یہ سر ہے کہ آباء کی محبت ذاتی اور فطری محبت ہوتی ہے۔ دیکھو بچہ کو جب ماں مارتی ہیوہ اس وکت بھی ماں ماں ہی پکارتا ہے۔ گویا اس آیت میں اﷲ تعالیٰ انسان کو ایسی تعلیم دیت اہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے فطری محبت کا تعلق پیدا کرے۔ اس محبت کے بعد اطاعت امر ال کی خود بخود پیدا ہوتی ہے ۔یہی وہ اصلی مقام معرفت کا ہے جہاں انسان کو پہنچنا چاہیے۔یعنی اس میں اﷲ تعالیٰ کے لیے فطری اور ذاتی محبت پیدا ہو جاوے۔
‏Amira 28-1-06
ایک مقام پر یوں فرمایا ہے
ان اﷲ یا مر با لعدل وا لاحسان وایتاء ذی القربی (انحل : ۹۱)
اس آیت میں ان تین مدارج کا ذکر کیا ہے جو انسان کو حاصل کرنے چاہئیں ۔پہلا مرتبہ عدل کا ہے اور عدل یہ ہے کہ انسان کسی سے کوئی نیکی کرے بشرطِ معاوضہ۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایسی نیکی کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں بلکہ سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ عدل کرو اور اگر اس پر ترقی کرو تو پھر وہ احسان کا درجہ ہے یعنی بلا عوض سلوک کرو۔ لیکن یہ امر کہ جو بدی کرتا ہے اس سے نیکی کی جاوے؛ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے دوسری پھیر دی جاوے۔ یہ صحیح نہیں۔ یا یہ کہو کہ عام طور پر یہ تعلیم عملد ر آمد میں نہیں آسکتی؛ چنانچہ سعدیؔ کہتا ہے ؎
نکوئی با بداں کرون چناں است
کہ بد کرون برائے نیک مرداں
اس لیے اسلام میں انتقامی حدود میں جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کوئی دوسرا مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے۔
جزٰئو ا سیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا واصلح (الشوریٰ : ۴۱)
آلایتہ یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے اور جو معاف کر دے مگر ایسے محل اور مقام پر کہ وہ عفو اصلاح کا موجب ہو، اسلام نے عفو خطا کی تعلیم دی ،لیکن یہ نہیں کہ اس سے شر بڑھے۔
غرض عدل کے بعد دوسرا درجہ احسان کے ہے یعنی بغیر کسی معاوضہ کے سلوک کیا جاوے لیکن اس سلوک میں بھی ایک قسم کی خود غرضی ہوتی ہے۔ کسی نہ کسی وقت انسان اس احسان یا نیکی کو جتا دیتا ہے اس لیے اس سے بھی بڑھ کر ایک تعلید دی اور وہ ایتائی ذی القربیٰ کا درجہ ہے۔ ماں جو اپنے بچہ کی ساتھ سلوک کرتی ہے وہ اس سے کسی معاوضہ اور انعام و اکرام کی خواہشمند نہیں ہوتی۔ وہ اس کے ساتھ جو نیکی کرتی ہیمحض طبعی محبت سے کرتی ہے۔ اگر بادشاہ اس کو حکم دے کہ تو اس کو دودھ مت دے اور اگر یہ تیری غفلت سے مر بھی جاوے تو تجھے کوئی سزا نہیں دی جاوے گی بلکہ انعام دیا جاوے گا۔ اس صورت میں وہ بادشاہ کا حکم ماننے کو تیار نہ ہوگی بلکہ اسکو گالیاں دے گی کہ یہ میری اولاد کا دشمن ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ذاتی محبت سے کر رہی ہے، اس کی کوئی غرض درمیان نہیں۔ یہ اعلیٰ درجہ کیت علیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اور یہ آیت حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں پر حاوی ہے۔ حقوق اﷲ کے پہلو کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انصاف کی رعایت سے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرو۔جس نے تمہیں پید اکیا اور تمہاری پرورش کرتا ہے۔ اور جو اطاعت الٰہی میں اس مقام سے ترقی کرے تو احسان کی پابندی سے اطاعت کر کیونکہ وہ محسن ہے اور اس کے احسانات کو کوئی شمار نہیں کر سکتا۔ اور چونکہ محسن کے شمائل اور خصائل کو مد نظر رکھنے سے اس کے احسان تازا رہتے ہیں، اس لیے احسان کا مفہوم آنحضرت ﷺ نے یہ بتایا ہے کہ ایسے طور پر اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ اﷲ تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔ اس مقام تک انسان میں ایک حجاب رہتا ہے۔ لیکن اس کے بعد جو تیسرا درجہ ہے ایتاء ذی القربیٰ کا یعنی اﷲ تعالیٰ سے اسے ذاتی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور حقوق العباد کے پہلو سے میں اس کے معنے پہلے بیان کر چکا ہوں۔اور یہ بھی میں نے بیان کیا ہے کہ یہ تعلیم جو قرآن شریف نے دی ہے کسی اور کتاب نے نہیں دی اورایسی کامل ہے کہ کوئی نظیر اس کی پیش نہیں کر سکتا ۔یعنی
جزٰ ؤ ا سیئۃ سیئۃ مثلھا۔ (الشوریٰ : ۴۱)
اس میں عفو کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ اس میں اصلاح ہو۔ یہودیوں کے مذہب نے تو یہ کہا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ ان میں انتقامی قوت اس قدر بڑھ گئی تھی اور یہانتک یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تھی کہ اگر باپ نے بدلہ نہیں لیا تو بیٹے اور اسکے پوتے تک کے فرائض میں یہ امر ہوتا تھا کہ وہ بدلہ لے۔ اس وجہ سے ان میں کینہ توزی کی عادت بڑھ گئی تھی اور وہ بہت سنگ دل اور بے درد ہو چکے تھے۔ عیسائیوں نے اس تعلیم کے مقابل یہ تعلیم دی کہ ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیردو۔ ایک کوس بیگار لے جاوے تو دو کوس چلے جائو وغیرہ۔ اس تعلیم میں جو نقص ہے۔ وہ ظاہر ہے۔ کہ اس پر عملد ر آمد ہی نہیں ہو سکتا۔ اور عیسائی گورنمنٹ نے عملی طور ثابت کر دیا ہے کہ یہ تعلیم ناقص ہے کیا یہ کسی عیسائی کی جرأت ہو سکتی ہے کہ کوئی خبیث تو اور بھی دلیر ہو اجئے گا اور اس سے امن عامہ میں خلل واقع ہوگا۔ پھر کیونکر ہم تسلیم کریں کہ یہ تعلیم عمدہ ہے یا خدا تعالیٰ کی مرضی کیموافق ہو سکتی ہے۔اگر اس مر عمل ہو تو کسی ملک کا بھی انتظام نہ ہو سکے۔ ایک ملک ایک دشمن چھین لے تو دوسرا خود حوالہ کرنا پڑے۔ ایک افسر گرفتار ہو اجوے تو دس اور دے دیئے جاویں۔ یہ نقص ہیں جو ان تعلیموں میں ہیں اور یہ صحیح نہیں۔ ہاں یہ ہو سکت اہے کہ یہ احکام بطور قانون مختص الزمان تھے۔ جب وہ زمانہ گذر گیا تو دوسرے لوگوں کے حسب ِ حال وہ تعلیم نہ رہی۔ یہودیوں کا وہ زمانہ تھا کہ وہ چار سو برس تک غلامی میں رہے۔ اور اس غلامی کی زندگی کی وجہ سے ان مین قساوت قلبی بڑھ گئی اور وہ کینہ کش ہو گئے۔ اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس بادشاہ کے زمانہ میں کوئی ہوتا ہے اس کے اخلاق بھی اسی قسم کے ہو جاتے ہیں۔سکھوں کے زمانہ میں اکثر لوگ ڈاکو ہو گئے ے۔ انگریزوں کے زمانہ میں تہذیب اور تعلیم پھیلتی جاتی ہے اور ہر شخص اس طرف کوشش کر رہے ہے۔ غرض بنی اسرائیل نے فرعون کی ماتحتی کی تھی، اسی وجہ سے ان میں ظلم بڑھ گیا تھا۔ اس لی توریت کے زمانہ میں عدل کی ضرورت مقدم تھی، کیونکہ وہ لوگ اس سے بے خبر تھے اور جابر انہ عادت رکھتے تھے اور انہوں نے یقین کر لیا تھا کہ دانت کے بدلے دانت کا توڑنا ضروری ہے اور یہ ہمارا فرض ہے۔اس وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے ان کو سکھایا کہ عدل تک ہی بات نہیں رہتی بلکہ احسان بھی ضروری ہے۔اس سبب سے مسیح ؑ کے ذریعہ انہیں یہ تعلیم دی گئی کہ ایک گال پر طمانچہ کھ اکر دوسری پھیر دو۔ اور جب اسی پر سارا زور دیا گیا تو آخر اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ اس تعلیم کو اصل نقطہ پر پہنچا دیا اور وہ یہی تعلیم تھی کہ بدی کا بدلہ اسی کدر بدی ہے لیکن جو شخص معاف کر دے اور معاف کرنے سے اصلاح ہو تی ہے ہو۔ اس کے لیے اﷲتعالیٰ کے حضور اجر ہے۔ عفو کی تعلیم دی ہے مگر ساتھ قید لگائی کہ اصلاح ہو۔ بے محل عفو نقصان پہنچاتا ہے۔پس اس مقام پر غور کرنا چاہیے کہ جب توقع اصلاح کی ہو تو عفو ہی کرنا چاہیے۔ جیسے دو خدمتگار ہوں، ایک بڑا شریف الاصل اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہو لیکن اتفاقاً اس سے کوئی غلطی ہو اجوے۔ اس موقعہ پر اس کو معاف کرنا ہی مناسب ہے۔ اگر سزا دی جاوے تو ٹھیک نہیں، لیکن ایک بدمعاش اور شریر ہے۔ ہر روز نقصان کرتا ہے اور شرارتوں سے باز نہیں آتا۔ اگر اسے چھوڑ دیا جاوے تو وہ اور بھی بیباک ہو جائے گا۔اس کو سزا ہی دینی چاہیے۔ غرض اس طرح پر محل اور موقع شناسی سے کام لو۔ یہ تعلیم ہے جو اسلام نے دی ہے اور جو کامل تعلیم ہے۔ اس کے بعد اور کئی نئی تعلیم یا شریعت نہیں آسکتی۔ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب۔ اب کوئی اور کلمہ یا کوئی اورنماز نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یا کرکے دکھایا اور جو کچھ قرآن شریف میں ہے اس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی۔ جو اس کو چھوڑے گا ۔ وہ جہنم میں جاوے گا۔ یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے۔
امت کے لیے مکالمہ ومخاطبہ کا دروازہ کھلا ہے
مگر اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس امت کے لیے مخاطبات اور مکالمات کا دروازہ کھلا ہے اور یہ دروازہ گویا قرآن مجید کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی سچائی پر ہر وقت تازہ شہادت ہے اور اس کے لیے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ ہی میں یہ دعا سکھائی ہے
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ : ۶،۷)
انعمت علیہم کی راہ کے لیے جو دعا سکھائی تو اس میں انبیاء علیہم السلام کے کمالات کے حصول کا اشارہ ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جو کامل دیا گیا وہ معرفت الٰہی ہی کا کمال تھا۔ اور یہ نعمت ان کو مکالمات اور ماخطبات سے ملی تھی۔ اسی کے تم بھی خواہاں ہو۔پس اس نعمت کے لیے یہ خیال کرو کہ قرآن شریف اس دعا کی تو ہدایت کرتا ہے مگر اس کا ثمرہ کچھ بیھ نہیں یا اس اُمت کے کسی فرد کو بھی یہ شرف نہیں مل سکتا اور قیامت تک یہ دروازہ بند ہو گیا ہے۔بتائو اس سے اسلام اور آنحضرت ﷺ کی ہتک ثابت ہوگی یا کوئی خوبی ثابت ہوگی؟ میں سچ سچ کہت اہوں کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے وہ اسلام کو بدنام کرتا ہے اور اس نے مغز شریعت کو سمجھا ہی نہین’ اسلام کے مقاصد میں سے تو یہ امر تھا کہ انسان صرف زبان ہی سے وحدہْ لا شریک نہ کہے بلکہ درحقیقت سمجھ لے اور بہشت دوزخ پر خیالی ایمان نہ ہو بلکہ فی الحقیقت اسی زندگی میں وہ بہشتی کیفیات پر اطلاع پالے اور ان گناہوں سے جن میں یہ وحشی انسان مبتلا ہیں نجات پالے۔ یہ عظیم الشان مقصد انسان کا تھ ااور ہے اور یہ ایسا پاک مطہر مقصد ہے کہ کوئی دوسری قوم اس کی نظیر اپنے مذہب میں پیش نہیں کر سکتی اور نہ اس کا نمونہ دکھا سکتی ہے۔کہنے کو تو ہر ایک کہہ سکتا ہے مگر وہ کون ہے جو دکھا سکتا ہو؟
میں نے آریوں سے عیسائیوں سے پوچھا ہے کہ وہ خد اجو تم مانتے ہو اس کا کوئی ثبوت پیش کرو۔ نری زبانی لاف گزاف سے بڑھ کر وہ کچھ بھی نہیں دکھا سکتے۔ وہ سچا خد اجو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اس سے یہ لوگ ناواقف ہیں’ اس پر اطلاع پانے کے لیی یہی ایک ذریعہ مکالمات کا تھا جس کے سبب سے اسلام دوسرے مذاہب سے ممتاز تھا۔ مگر افسوس ان مسلمانوں نے میری مخالفت کی وجہ سے اس سے بھی انکار کر دیا۔
یقینا یاد رکھو کہ گناہوں سے بچنے کی توفیق اس وقت مل سکتی ہے جب انسان پورے طور پر اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاوے۔ یہی بڑا مقصد انسانی زندگی کا ہے کہ گناہ کے پنجہ سے نجات پالے۔ دیکھو ایک سانپ جو خوشنما معلوم ہوت اہے بچہ تو اس کو ہاتھ میں پکڑنے کی خواہش کر سکت اہے اور ہاتھ بھی ڈال سکت اہے لیکن ایک عقلمند جو جانت اہے کہ سانپ کاٹ کھائے گا اور ہلاک کردے گا وہ کبھی جرأت نہیں کرتے گا کہ اس کی طرف لپکے۔بلکہ اگر معلوم ہو جاوے کہ کسی مکان میں سانپ ہے تو اس میں بھی داخل نہیں ہوگا۔ ایسا ہی زہر کو جو ہلاک کرنے والی چیز سمجھتا ہے تو اُسے کھانے پر وہ دلیر نہیں ہوگا۔ پس اسی طرح پر جبتک گناہ کو خطرناک زہر یقین نہ کرلے۔ اس سے بچ نہیں سکتا۔ یہ یقین معرفت کے بدوں پیدا نہیں ہوسکتا۔ پھر وہ کیا بات ہے کہ انسان گناہوں پر اس قدر دلیر ہو جاتا ہے باوجود یکہ وہ خد اتعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور گناہ کو گناہ بھی سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ بجز اس کے اور کوئی نہین کہ وہ معرفت اور بصیرت نہیں رکھتا جو گناہ سوز فطرت پیدا کرتی ہے۔ اگر یہ بات پید ا نہیں ہوتی تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ معاذ اﷲ اسلام اپنے اصلی مقصد سے خالی ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ ایسا نہیں۔یہ مقصد اسلام ہی کامل طور پر پور اکرتا ہے اور اس کا ایک ہی ذریعہ ہے۔ مکالمات اور مخاطباتِ الٰہیہ کیونکہ اسی سے اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا ہوتاہے اور اسی سے معلوم ہوتاکہ فی الحقیقت اﷲ تعالیٰ گناہ سے بیزار ہے اور وہ سزا دیتا ہے۔گناہ ایک زہر ہے جو اول صغیرہ سے شروع ہوت اہے اور پھر کبیرہ ہو جاتا ہے اور انجام مکار کفر تک پہنچا دیتا ہے۔
گناہ سے بچنے کا صحیح علاج؎
میں جملہ معرضہ کے طور پر کہتا ہوں کہ اپنی اپنی جگہ ہر قوم کو فکر لگ اہوا ہے کہ ہم گناہ سے پاک ہو جاویں مثلاً آریہ صاحبان نے تو یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ بجز گناہ کی سزا کے اور کوئی صورت پاک ہونے کی ہے ہی نہین۔ ایک گناہ کے بدلے کئی لاکھ جونیں ہیں جبتک انسان ان جونوں کو نہ بھگت لے وہ پاک ہی نہیں ہو سکتا۔مگر اس میں بڑی مشکلات ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جبکہ تمام مخلوقات گناہ گار ہی ہے تو اس سے نجات کب ہوگی؟ اور اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ اُن کے ہاں یہ امر مسلمہ ہے کہ نجات یافتہ بھی ایک عرصہ کے بعد مکتی خانہ سے نکال دیئے جاویں گے تو پھر اس نجات سے فائدہ ہی کیا ہوا؟ جب یہ سوال کیا جاوے کہ نجات پانے کے بعد کیوں نکالتے ہو تو بعض کہتے ہیں کہ نکالنے کے لیے ایک گناہ باقی رکھ لیا جاتا ہے۔ اب غور کر کے بتائو کہ کیا یہ قادر خدا کا کام ہو سکتا ہے؟اور پھر جبکہ ہر نفس اپنے نفس کا خود خالق ہے۔ خدا تعالیٰ اس کا خالق ہی نہیں (معاذ اﷲ) تو اُسے حاجت ہی کیا ہے کہ وہ اس کا ماتحت رہے۔
دوسرا پہلو عیسائیوں کا ہے انہوں نے گناہ سے پاک ہونے کا ایک پہلو سوچا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکو خد ااور خدا کا بیٹا مان لو اور پھر یقین کر لو کہ اس نے ہمایرے گناہ اٹھا لیے اور وہ صلیب کے ذریعہ *** ہوا۔نعوذ باﷲ من ذالک۔ اب غور کرو کہ حضولِ نجات کو اس طریق سے کیا تعلق؟ گناہوں سے بچانے کے لیے ایک اور بڑا گناہ تجویز کیا کہ انسان کو خدا بنایا گیا۔ کیااس سے بڑھ کر کوء اور گناہ ہو سکت اہے؟ پھر خدا بنا کر اُسے معاملعون بھی قرار دیا۔ اس سے بڑھ کر گستاخی اور بے ادبی اﷲ تعالیٰ کی کیا ہوگی؟ ایک کھاتا پیتا حوائج کا محتاج خدا بنالیا گیا؛ حالانکہ توریت میں لکھا تھا کہ دوسرا خدا نہ ہو۔نہ آسمان پر نہ زمین پر۔ پھر دروزاوں اور چوکھٹوں پر یہ تعلیم لکھی گئی تھی۔ اس کو چھوڑ کر یہ نیا خدا تراشا گیا جس کا کچھ بھی پتہ توریت میں نہیں ملتا۔
میں نے فاضل یہودی سے پوچھا کہ کیا تمہارے ہاں ایسے خدا کا پتہ ہے جو مریم کے پیٹ سے نکلے اور وہ یہودیوں کے ہاتھوں سے ماریں کھاتا پھرے۔اس پر یہودی علماء نے مجھے یہی خواب دیا کہ یہ محض افترا ہے۔ توریت سے کسی ایسے خدا کا پتہ نہیں ملتا۔ ہمارا وہ خد اہے جو قرآن شریف کا خد اہے ۔یعنی جس طرح پر قرآن مجید نے خدا تعالیٰ کی وحدت کی اطلاع دی ہے اسی طرح پر ہم توریت کی رو سے خد اتعالیٰ کو وحدہْ لا شریک مانتے ہیں اور کسی انسان کو خد انہیں مان سکتے۔ اور یہ تو موٹی بات ہے کہ اگر یہودیوں کے ہاں کسی ایسے خدا کی خبر دی گئی ہوتی۔ جو عورت کے پیٹ سے ہونے والا تھا تو وہ حضرت مسیح ؑکی ایسی سخت مخالفت ہی کیوں کرتے یہانتک کہ انہوں نے اس کو صلیب پر چڑھوادیا ۔اور ان پر کفر کہنے کا الزام لگاتے تھے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امر کو ماننے کے لیے قطعاً تیار نہ تھے۔
غرض عیسائیوں نے گناہ کے دور کرنے کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ ایسا علاج ہے جو بجائے خود گناہ کو پیدا کرتا ہے اور اس کو گناہ سے نجات پانے کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے؎ٰ۔انہوں نے گناہ کے دور کرنے کا علاج گناہ تجویز کیا ہے جو کسی حالت اور صورت میں مناسب نہیں۔ یہ لوگ اپنے نادان دوست ہیں۔ اور ان کی مثال اس بندر کی سی ہے جس نے اپنے آقا کا نون کر دیا تھا۔اپنے بچائو کے لیے اور گناہوں سے نجات پانے کے لیے ایک ایسا گناہ تجویز کیا جو کسی صورت میں بخشا نہ جاوے یعنی شرک کیا اور عاجز انسان کو خد ابنالیا۔ مسلمانوں کے لیے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ ان کا خدا ایسا خد انہیں جس پ رکوئی اعتراض یا حملہ ہو سکے۔ وہ اس کی طاقتوں اور قدرتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی صفات پر یقین لاتے ہیں۔ مگرجنہوں نے انسان کو خد ابنایا یا جنہوں نے اس کی قدرتوں سے انکار کر دیا، ان کے لیے خدا کا عدم و جود برابر ہے۔ جیسے مثلاً آریوں کا مذہب ہے کہ ذرہ ذرہ اپنے وجود کا آپ ہی خد اہے اور اس نے کچھ بھی پید انہیں کیا۔ اب بتائو کہ جب ذرات کے وجود کا خالق خدا نہیں تو اس کے قیام کے لیے خد اکی حاجب کیا ہے جبکہ طاقتیں خود بخود موجود ہیں اور اُن میں اتصال اور اتفصال کی قوتیں بھی موجود ہیں تو پھر انصاف سے بتائو کہ ان کے لیے خدا کے وجود کی کیا ضرورت ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس عقیدہ کے رکھنے والے آریوں اور دہریوں میں انیس (۱۹) اور بیس (۲۰) کا فرق ہے اب اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو کامل اور زندہ مذہب ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ پھر اسلام کی عظمت شوکت ظاہر ہو۔ اور اسی مقصد کو لے کر میں آیا ہوں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ جو انوار و برکات اس وقت آسمان سے اُتر رہے ہیں، وہ ان کی قدر کریں اور اﷲ تعالیٰ کا شکر کریں کہ وقت پر ان کی دستگیری ہوئی اور خد اتعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اس مصیبت کے وقت اُن کی نصرت فرمائی۔ لیکن اگر وہ خد اتعالیٰ کی اس نعمت کی قدر نہ کریں گے تو خد اتعالیٰ ان کی کچھ پروا نہ کرے گا۔وہ اپنا کام کر کے رہے گا، مگر اُن پر افسوس ہوگا۔
جو موعود آنے والا تھا وہ میں ہوں
میں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹٰ دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے۔ اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کا مقابلہ کرے۔ وہ
فعال لما یرید (ھود : ۱۰۸)
ہے مسلمانو۱ یاد رکھو اﷲت علایٰ نے میرے ذریعہ تمہیں یہ خبر دے دی ہے اور میں نے اپنا پیام پہنچا دیا ہے۔ اب اس کو سننا نہ سننا تمہارے اختیار میں ہے یہ سچی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑوفات پا چکے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو موعود آنے والا تھ اوہ میں ہی ہوں۔
اسلام کی زندگی عیسیٰ ؑ کے مرنے میں ہے
اور یہ بھی پکی بات ہے کہ اسلام کی زندگی عیسیٰ کے مرنے میں ہے۔اگر اس مسئلہ پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہی مسئلہ ہے جو عیسائی مذہب کا خاتمہ کر دینے والا ہے، یہ عیسائی مذہب کا بہت بڑا شہتیر ہے اور اسی پر اس مذہب کی عمارت قائم کی گئی ہے۔ اسے گرنے دو۔ یہ معاملہ بڑی صفائی سے طے ہو جاتا ۔ اگر میرے مخالف خدا ترسی اور تقویٰ س یکام لیتے۔ مگر ایک کا نام لو جو درندگی چھوڑ کر میرے پاس آیا ہو اور اُس نے اپنی تسلی چاہی ہو۔ان کا تو یہ حال ہیکہ میرا نام لیت یہی اُن کے منہ سے جھاگ گرنی شروع ہو جاتی ہے اور وہ گالیاں دینے لگتے ہیں۔ بھلا اس طرح پر بھی کوئی شخص حق کو پاسکتا ہے؟ میں تو قرآن شریف کے نصوص صریحہ کو پیش کرتا ہوں اور حدیث پیش کرتا ہوں اجماع صحابہؓ پیش کرتا ہ٭ں، مگر وہ ہیں کہ ان باتوں کو سنتے نہیں اور کافر کافر دجال دجال کہہ کر شور مچاتے ہیں۔
میں صاف طور پر کہت اہوں کہ قرآن شریف سے تم ثابت کرو کہ مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہو۔ آنحضرت ﷺ کی رؤیت کے خلاف کوئی امر پیش کرو اور یا بو بکر ؓ کے وقت آنحضرت کی وفات پر جو پہلا اجماع ہوا۔ اس کے خلاف دکھائو تو جواب نہیں ملتا۔ پھر بعض لوگ شور مچاتے ہیں کہ اگر آنے والا وہی مسیح ابنِ مریم اسرائیلی نبی نہ تھا تو آنے والے کا یہ نام کیوں رکھا؟ میں کہتا ہوں کہ یہ اعتراض کیسی نادانی کا اعتراض ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اعتراض کرنے والے اپنے لڑکوں کا نام تو موسیٰ، عیسیٰ،دائود، احمد،ابراہیم، اسماعیل رکھ لینے کے مجاز ہوں۔اور اگراﷲ تعالیٰ کسی کا نام عیسیٰ رکھ دے تو اس پر اعتراض ۔
تائیداتِ سماوی اور نشانات
غور طلب بات تو اس مقام پر یہ تھی کہ آیا آنے والا اپنے ساتھ نشانات رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ ان نشانات کو پاتے تو انکا رکے لیے جرأت نہ کرتے، مگر انہوں نے نشانات اور تائیدات کی تو پروا نہ کی اور دعویٰ سنتے ہی کہہ دیا انت کافر۔
یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور خدا تعالیٰ کے مامورین کی شناخت کا ذریعہ اُن کے معجزات اور نشانات ہوتے ہیں۔ جیسا کہ گورنمنٹ کی طرف سے کوئی شخص اگر حاکم مقرر کیا جاوے تو اس کو نشان دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ کے مامورین کی شناخت کے لیے بھی نشانات ہوتے ہیں اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے میری تائید میں نہ ایک نہ دو نہ دو سو بلکہ لاکھوں نشانات ظاہر کئے اور وہ نشانات ایسے نہیں ہیں کہ کوئی انہیں جانتا نہیں۔ بلکہ لاکھوں اُن کے گواہ ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اس جلسہ میں بھی صدہا اّن کے گواہ موجود ہوں گے۔ آسمان سے میرے لیے نشان ظاہر ہوئے ہیں،زمین سے بھی ظاہر ہوئے۔
وہ نشانات جو میرے دعویٰ کے ساتھ مخصوص تھے جن کی قبل از وقت اور نبیوں اور آنحضرت ﷺ کے ذریعہ خبر دی گئی تھی، وہ بھی پورے ہو گئے مثلاً ان میں سے ایک کسوف خسوف کا ہی نشان ہے تو تم سب نے دیکھا۔یہ صحیح حدیث میں خبر دی گئی تھی کہ مہدی اور مسیح کے وقت میں رمضان کے مہینے میں سورج اور چاند گرہن ہوگا۔ اب بتائو کہ کیا یہ نشان پورا ہوا ہے یا نہیں؟کوئی ہے جو یہ کہے کہ اس نے یہ نشان نہیں دیکھا؟ اور ایسا ہی یہ بھی خبر دی گئی تھی کہ اس زمانہ میں طاعون پھیلے گی۔ یہانتک شدید ہوگی کہ دس میں سے سات مر جاویںگ ے۔ اب بتائو کہ کیا طاعون کا نشنا ظاہر ہوا یا نہیں؟پھر یہ بھی لکھا تھا کہ اس وقت ایک نئی سواری ظاہر ہوگی جس سے اونٹ بیکار ہو جائیں گے۔ کیا ریل کے اجراء سے یہ نشان پورا نہیں ہوا؟ میں کہانتک شمار کروں۔یہ بہت بڑا سلسلہ نشانات کا ہے۔ اب غور کرو کہ میںت و دعویٰ کرنے والا دجال اور کاذب قرار دیا گیا ۔پھر یہ کیا غضب ہوا کہ مجھ کاذب کے لیی ہی یہ سارے نشان پورے ہو گئے؟ اور پھر اگر کوئی آنے والا اور ہے تو اس کو کیا ملے گا؟ کچھ تو انصاف کرو اور خدا تعالیٰ سیڈرو۔ کیا خدا تعالیٰ کسی جھوٹے کی بھی ایسی تائید کیا کرتا ہے؟ پھر عجیب بات ہیکہ جو میرے مقابلہ پر آیا وہ ناکام اور نامراد رہا اور مجھے جس آفت اور مصیبت می مخالفین نے ڈالا، میں اس میں سے صحیح سلامت او ر بامراد نکالا۔ پھر کوئی قسم کھا کر بتادے کہ جھوٹوں کے ساتھ یہی معاملہ ہوا کرتا ہے؟
مجھے افسوس سے کہتا پڑتا ہیکہ انمخالف الرائے علماء کو کیا ہوگای۔ وہ غور سے کیوں قرآنشریف اور احادیث کو نہیں پڑھتے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جس قدر اکابر اُمت کے گذرے ہیں وہ سب کے سب مسیح موعود کی آمد چودھویں صدی میں بتاتے رہے ہیں اور تمام اہل کشوف کے کشف یہاں آکر ٹھہر جاتے ہیں ۔حججالکرامہ میں صاف لکھا ہے کہ چودھویں صدی سے آگے نہیں جائے گا۔ یہی لوگ منبروں پر چڑھ چڑھ کر بیان کیا کرتے تھے کہ تیرھویں صدی سے تو جانروں نے بھی پناہ مانگی ہے اور چودھویں صدی مبارک ہوگی مگر یہ کیا ہوا کہ وہ چودھویں صدی جس پر ایک موعود امام آنے والا تھا۔ اس مین بجائے صادق کے کاذب آگیا۔ اور اس کی تائید میں ہازروں لاکھوں نشان بھی ظاہر ہو گئے وا رخدا تعالیٰ نے ہرمیدان اور مقابلہ میں نصرت بھی اسی کی کی۔ان باتوں کا ذڑا سوچ کر جواب دو۔ یونہی منہ سے ایک بات نکال دینا آسان ہے مگر خدا تعالیٰ کے خوف سے بات نکالنا مشکل ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ خدا تعالیٰ ایک مفتری اور کذاب انسان کو اتنی لمبی مہلت نہیں دیتا کہ وہ آنحضرت ﷺسے بھی بڑھ جاوے۔ میری عمر سٹرسٹھ (۶۷) سال کی ہے اور میری بعثت کا زمانہ تیئس (۲۳) سال سے بڑھ گیا ہے۔ اگر میں ایسا ہی مفتری اور کذاب تھا تو اﷲتعالیٰ اس معاملہ کو اتنا لمبا نہ ہونے دیتا۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہارے آنے سے کیا فائدہ ہوا ہے؟
مسیح موعود کے آنے کی غرض
یاد رکھو کہ میرے آنے کی دو غرضیں ہیں۔ ایک یہ کہ جو غلبہ اس وقت اسلام پر دوسرے مذاہب کا ہوا ہے گویا وہ اسلام کو کھاتے جاتے ہیںاور اسلام نہایت کمزور اور یتیم بچے کی طرح ہوگ یا ہے۔ پس اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تا میں ادیان باطلہ کے حملوں سے اسلام کو بچائوں اور اسلام کے برزور دلائل اور صداقوتں کے ثبوت پیش کروں اور وہ ثبوت علاوہ علمی دلائل کے انوار اور برکات سماوی ہیں جو ہمیشہ سے اسلام کی تائید میں ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ا س وکت اگر تم پادریوں کی رپورٹیں پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ اسلام کی مخالفت کے لیے کیا سامان کر رہے ہیں اور ان کا ایک ایک پرچہ کتنی تعداد میںشائع ہوتاہے۔ ایسی حالت میں ضروری تھا کہ اسلام کا بول بالا کیا جاتا۔پس اس غرض کے لیی مجھے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں یقینا کہتا ہ٭ں کہ اسلام کا غلبہ ہو کر رہے گا ارو اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں۔ ہاں یہ سچی بات ہیکہ اس غلبہ کے لیے کسی تلوار اور بندوق کی حاجب نہیں اور خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیاروں کے ساتھ بھیجا ہے۔ جو شخص اس وقت یہ خیال کر یوہ اسلام کا نادان دوست ہوگا۔ مذہب کی غرض دلوں کو فتح کرنا ہوتی ہے اور یہ غرض تلوار سے حاصل نہیںہوتی۔آنحضرت ﷺ نے جو تلوار اُٹھائی، میں بہت مرتبہ ظاہر کر چکا ہ٭ں کہ وہ تلوار محض حفاظت خود اختیاری اور دفاع کے طو رپر تھی اور وہ بھی اس وقت جبکہ مخالفین اور منکرین کے مظالم حد سے گذر گئے اور بیکس مسلمانوں کے خون سے زمین سرخ ہو چکی۔
غرض میرے آنے کی غرض تو یہ ہے کہ اسلام کاغلبہ دوسرے ادیان پر ہو۔
دوسرا کام یہ ہیکہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور یہ کرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں۔ یہ صرف زبانوں پر حساب ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ کیفیت انسان کے اندر پیدا ہو جاوے جو اسلام کا مغز اور اصل ہے۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جبتک ابو بکر، عمر، عثمان،علی ؓ اجمعین کا سارنگ پیدا نہ ہو۔ وہ دنیا سے محبت نہ کرے تھے۔ بلکہ اُنہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔ اب جو کچھ ہے وہ دنیا ہی کے لیے ہے اور اس قدر استغراق دنای میں ہو رہا ہے کہ خد اتعالیٰ کے لیے کوئی خانہ خالی نہیں رہنے دیا۔تجارت ہے تو دنیا کیلئے عمارت ہے تو دنیا کیلئے بلکہ نماز روزہ اگر ہے تو وہ بھی دنیا کیلئے۔ دنیاداروں کے قرب کے لیے تو کچھ کیا جاتا ہے مگر دین کا پاس ذرہ بھی نہیں۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کیا اسلام کے اعتراف اور قبولیت کا اتنا ہی منشا تھا جو سمجھ لیا گیا ہے؟ یا وہ بلند غرض ہے۔ میں تو یہ جانت اہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے۔جیسے جیسے اﷲ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اس سے تسلی پات اہے۔ اب تم میں سے ہرا یک اپنے انے دل میں سوچ لے کہ کیا یہ مقام اُسے حاصل ہے؟ میں سچ کہتا ہوں کہ تم صرف پوست اور چھلکے پر قانع ہو گئے ہو حالانکہ یہ کچھ چیز نہیںہے۔ خدا تعالیٰ مغز چاہتا ہے۔پس جیسے مریا یہ کام ہے کہ ان حملوں کو روکا جاوے جو بیرونی طور پر اسلام پر ہوتے ہیں ویس یہی مسلمانوں میں اسلام کی حقیقت اور روح پیدا کی جاوے۔
میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں جو خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا کے بت کو عظمت دی گئی ہے اس کی امانی اور امیدوں کو رکھا گیا ہے۔ مقدمات، صلح جو کچھ ہے وہ دنیا کے لیے ہے۔ اس بُت کو پاش پاش کیا جاوے اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت ان کے دلوں میں قائم ہو اور ایمان کا شجر تازہ بہ تازہ پھل دے۔ اس وقت درخت کی صورت ہے مگر اصل درخت نہیں کیونکہ اصل درخت کے لیے تو فرمایا :
الم ترکیف ضرب اﷲ مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء
تؤتی اکلھا کل حین باذن ربھا (ابراہیم : ۲۵،۲۶)
یعنی کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ کیونکر بیان کی اﷲ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ وہ بات پاکیزہ درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کے جڑھ ثابت ہواور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں اور وہ رہ وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہے۔ اصلھا ثابت سے یہ مراد ہے کہ اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور یقین کامل کے درجہ تک پہنچے ہوئے ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا رہے۔ کسی وقت خشک درخت کی طرش نہ ہو۔مگر بتائو کہ کیا اب یہ حالت ہے؟ بہت سے لوگ کہہ تو دیتے ہیں کہ ضرورت ہی کیا ہے؟ اس بیمار کی کیسی نادانی ہے جو یہ کہے کہ طبیب کی حاجب ہی کیا ہے؟ وہ اگر طبیب سے مستغنی ہے اور اس کی ضرورت نہیں سمجھتا تو اس کا نتیجہ اس کی ہلاکت کے سوا ارو کیا ہوگا؟ اس وقت مسلمان اسلمنا میں تو بے شک داخل ہیں مگر اٰمنا کی ذیل میں نہیں اور یہ اس وقت ہوت اہے جب ایک نور ساتھ ہو۔
غرض یہ وہ باتیں ہیں جن کے لیے میں بھیجا گیا ہوں اس لیے میرے معاملہ میں تکذیب کے لیے جلدی نہ کرو بلکہ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور توبہ کرو کیونکہ توبہ کرنے والے کی عقل تیز ہوتی ہے۔ طاعون کا نشنا بہت خطرناک نشان ہے اور خدا تعالی ٰنے اس کے متعلق مجھ پر جو کلام نازل کیا ہیوہ یہ ہے
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر واما بانفسہم (ارعد : ۱۲)
یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس پر *** ہے جو خدا تعالیٰ پر افترا کرے۔ خد اتعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ارادے کی اس وقت تبدیلی ہوگی جب دلوں کی تبدیلی ہوگی۔ پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس کے قہر سے خوف کھائو۔ کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا۔ معمولی مقمدہ کسی پر ہو تو اکثر لوگ وفا نہیں کرسکتے پھر آخرت میں کیا بھروسہ رکھتے ہو۔ جس کی نسبت فرمایاص
یوم یفر المرع من اخیہ (عبس : ۳۵)
مخالفوں کا تو یہ فرض تھا کہ وہ حسن ظنی سے کام لیتے اور
لا تقف ما لیس لک بہ علم (بنی اسرائیل ص ۳۷)
پر عمل کرتے مگر انہوں نے جلد بازی سے کام لیا۔ یاد رکھو، پہلی قومیں اسی طرح ہلاک ہوئیں۔ عقلمند وہ ہے جو مخالفت کر کے بھی جب اسے معلوم ہوکہ وہ غلطی پر تھا، اُسے چھوڑ دے۔ مگر یہ بات تب نصیب ہوتی ہے کہ خداترسی ہو۔ دراصل مردوں کا کام یہی ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں۔وہی پہلوان ہے اور اسی کو خداتعالیٰ پسند کرتا ہے۔
‏Amira 31-1-06
قیاس کی حجت
ان ساری باتوں کے علاوہ میں اب قیاس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر چہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ میرے ساتھ ہیں۔ اجماعِ صحابہؓ بھی میری تائید کرتا ہے۔نشانات اور تائیداتِ الٰہیہ میری مویّد ہیں۔ ضرورت وقت میرا صادق ہونا ظاہر کرتی ہے۔ لیکن قیاس کے ذریعہ سے بھی حجت پوری ہو سکتی ہے۔ اس لیے دیکھنا چاہیے کہ قیاس کیا کہتا ہے؟ انسان کبھی کسی ایسی چیز کو ماننے کو تیار نہیں ہو سکتا جو اپنی نظیر نہ رکھتی ہو۔ مثلاً اگر ایک شخص آکر کہے کہ تمہارے بچے کو ہوا اڑا کر آسمان پر لے گئی ہے یا بچہ کتّا بن کر بھاگ گیا ہے تو کیا تم اس کی بات کو بلا وجہ معقول اور بلا تحقیق مان لو گے؟ کبھی نہیں، اس لیے قرآن مجید نے فرمایا ہے۔
ھاسئلو ااھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (الانبیاء : ۸)
اب مسیح ؑکی وفات کے مسئلہ پر اور اُن کے آسمان پر اڑ جانے کے متعلق غور کرو۔ قطع نظران دلائل کے جو ان کی وفات کے متعلق ہیں۔یہ پکی بات ہے کہ کفار نے آنحصرت ﷺ سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ مانگا۔اب آنحصرت ﷺ جوہر طرح کامل اور افضل تھے ان کو چاہیے تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ جاتے مگر انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی وحی سے جواب دیا۔
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا (بنی اسرائیل : ۹۴)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ کہدو اﷲ تعالیٰ اس امر سے پاک ہے کہ وہ خلاف وعدہ کرے جبکہ اس نے بشر کے لیے آسمان پر مع جسم کے جانا حرام کر دیا ہے اگر میں جائوں تو تھوٹا ٹھہروں گا۔
اب اگر تمہارا یہ عقیدہ صحیح ہے کہ مسیح آسمان پر چلا گیا ہے او ر کوئی بالمقابل پادری یہ آیت پیش کر کے آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرے تو تم اس کا کیا جواب دے سکتے ہو۔
پس ایسی باتوں کے ماننے سے کیا فائدہ جن کا کوئی اصل قرآن مجید میں موجود نہیں۔ اس طرح پر تم اسلام کو اور آنحضرت ﷺ کو بدنام کرنے والے ٹھہروگے۔ پھر پہلی کتابوں میں بھی تو کئی نظیر موجود نہیں اور ان کتابوں سے اجتہاد کرنا حرام نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نسبت اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
شھد شاھد من بنی اسرائیل (الاحقاف : ۱۱)
اور پھر فرمایا
کفیٰ باﷲ شھیدا بینی و بینکم ومن عندہ علم الکتاب (الرعد : ۴۴)
اور ایسا ہی فرمایا
یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم (البقرہ : ۱۴۷)
جن آنحضرت ﷺ کی نبوت کے ثبوت کے لیے ان کو پیش کرتا ہے تو ہمارا ان سے اجتہاد کرنا کیوں حرام ہو گیا؟
اب انہیں کتابوں میں ملاکی نبی کی ایک کتاب ہے جو بائیبل میں موجود ہے۔ اس میں مسیح سے پہلے ایلیا نبی کے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا گیا ۔آخر جب مسیح ابنِ مریم آئے جو حضرت مسیح سے الیاس کے دوبارہ آنے کا سوال ملاکی نبی کی اس پیشگوئی کے موافق کیا گیا مگر حضرت مسیح نے فیصلہ کیا کہ وہ آنے والا یوحنا کے رنگ میں آچکا۔
اب یہ فیصلہ حضرت عیسیٰ ہی کی عدالت سے ہو چکا ہے کہ دوبارہ آنے والے سے کیا مراد ہوتی ہے۔ وہاں یحییٰ کا نام مثیل الیاس نہیں رکھا بلکہ انہیں ہی ایلیا قرار دیا گیا۔اب یہ قیاس بھی میرے ساتھ ہے۔ میں تو نظیر پیش کرتا ہوں مگر میرے منکر کوئی نظیر پیش نہیں کرتے۔ بعض لوگ اس مقام پر عاجز آجاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ کتابیں محرف مبدّل ہیں۔ مگر افسوس ہے یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہؓ اس سے سند لیتے رہے اور اکثر اکابر نے تحریفِ معنوی مراد لی ہے۔ بخاری نے بھی یہی کہا ہے۔ علاوہ اس کے یہودیوں اور عیسائیوں کی جانی دشمنی ہے۔ کتابیں جدا جدا ہیں۔ وہ اب تک مانتے ہیں کہ الیاس دوبارہ آئے گا۔ اگر یہ سوال نہ ہوتا تو حضرت مسیح کووہ مان نہ لیتے؟ ایک فاضل یہودی کی کتاب میرے پاس ہے وہ بڑے زور سے لکھتا ہے اور اپیل کرتا ہے کہ اگر مجھ سے یہ سوال ہوگا تو میں ملاکی نبی کی کتاب سامنے رکھ دوں گا کہ اس میں الیاس کے دوبارہ آنے کا وعدا کیا گیا تھا۔
اب غور کرو جبکہ باوجود ان عذرات کے لاکھوں یہودی جہنمی ہوئے اور سؤرن بندر بنے تو کیا میرے مقابلہ میں یہ عذر صحیح ہوگ اکہ وہاں مسیح ابن مریم کا ذکر ہے۔ یہودی تو معذور ہو سکتے تھے، ان میں نظیر نہ تھی مگر اب تو کوئی عذر باقی نہیں۔ مسیح ؑ کی موت قرآن شریف سے ثابت ہے اور آنحضرت ﷺ کی رؤیت اس کی تصدیق کرتی ہے اور پھر قرآن شریف اور حدیث میں منکم آیا ہے۔پھر خدا تعالیٰ نے مجھے خالی ہاتھ نہیں بھیجا۔ہزاروں لاکھوں نشان میری تصدیق میں ظاہر ہوئے۔ اور اب بھی اگر کوئی چالیس دن میرے پاس رہے تو وہ نشان دیکھ لے گا ۔لیکھرام کا نشان عظیم الشان نشان ہے۔ احمق کہتے ہیں کہ میں نے قتل کرادیا ۔اگر یہ اعتراض صحیح ہے تو پھر ایسے نشانات کا امان ہی اُٹھ جائے گا۔ کل کو کہہ دیا جائے گا کہ خسرو پرویز کو معاذ اﷲ آنحضرت ﷺ نے قتل کرادیا ہوگا۔ایسے اعتراض حق بین اور حق شناس لوگوں کا کام نہیں ہے۔
میں آخر میں پھ رکہتا ہوں کہ میرے نشانات تھوڑے نہیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ انسان میرے نشانوں پر گواہ ہیں اور زندہ ہیں۔ میرے انکار میں جلدی نہ کرو ورنہ مرنے کے بعد کیا جواب دوگے؟ یقینا یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ سرپر ہے اروروہ صادق کو صادق ٹھہراتا اور کاذب کو کاذب؎ٰ۔
۲۰؍نومبر ۱۹۰۵ء؁
دوتازہ الہامات
آجکل اعلیٰ حضرت حجۃ اﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا علی العموم معمول ہے کہ صبح کو دس بجے کے قریب نئے مہمانخانہ میں جہاں سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب نزیل ہیں تشریف لے آتے ہیں۔ دوسرے احباب بھی حاضر ہو جاتے ہیں اور بارہ بجے کے قریب تک وہاں بیٹھے رہتے ہیں۔ کل آپ نے قبل ظہر اپنا تازا الہام سنایا جو ۱۹؍کی شب کو ہوا۔
فرمایاؔ :
رات عجیب طرز کا الاہم ہوا تھا۔ اگر چہ اس سے پہلے اس مفہوم کا ایک الہام ہو چکا ہے۔ مگر یہ طرز عجیب ہے۔
انی معک یا ابن رسول ﷲ
دوسرا الہام اس کے ساتھ یہ ہے :
سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو علی دین واحد
اس پر فرمایا :
پہلے ایک الہام ہوا تھا جس کو عرصہ ہوتا ہے۔
سلمان منا اھل البیت مثرب الحسن۔ یصالح بین الناس ؎ٰ
دوسرے الہام کے متعلق فرمایا کہ
یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو۔علی دین واحد یہ ایک خاص قسم کا امر ہے۔
احکام اور امر کی دو قسمیں
احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوٰۃ دو، خون نہ کرو وغیرہ۔اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے جیسے یہودی کو کہا گیا کہ تورارت کو محّرف مبدّل نہ کرنا۔ یہ بتاتا تھا کہ بعض ان میں سے کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ غرض یہ امر شرعی ہے اور اصطلاح شریعت ہے۔
دوسرا امر کونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضا وقدر یک رنگ میں ہوتے ہیں جیسے
قلنا یانارکونی برداوسلما (الانبیاء : ۷۰)
اور وہ پورے طور پر وقوع میں آگیا۔ اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اس قسم کا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ روئے زمین علیٰ دین واحد جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے۔ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے۔ اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایس اہوگ اجو قابل ذکر اور قابل لحاظ نہیں؎ٰ۔
۲۶؍نومبر ۱۹۰۵ء؁
(قبل دوپہر)
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اﷲ عنہ کا ذکر خیر
حضرت مولوی صاحب کے ذکر پر فرمایا :
مولوی صاحب ہر تقریب اور ہر جلسہ پر یاد آجاتے ہیں۔ ان کے سبب لوگوں کو فائدہ ہوتا تھا۔وہ بڑی زبردست تقریر کرنے والے تھے۔میں نے مقابلہ کرکے خوب دیکھا ہے ان کے اندر محبت اور اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بجز اس کے میں سمجھتا ہوں کہ اور کچھ تھا ہی نہیں۔ اور اس حد تک تھا کہ میں دیکھتا ہوںکہ دوسروں میں وہ نہیں۔ میں ان سے بہت عرصہ سے واقف ہوں۔اس وقت بھی میں نے اُن کو دیکھا تھا جب وہ نیچری تھے۔اس وقت بیعت بھی کر لی تھی، لیکن ابھی بعض امور اُن کے دل میںتھے۔ چنانچہ مسیح کے بے پدر ہونے میں مجھ سے گفتگو بھی کیا کرتے تھے اور کئی بار کہا کرتے کہ ان کا بھی فیصلہ کر دو۔ مگر میں انہیں جواب دیا کرتا کہ ہمارا یہی مذہب ہے کہ وہ بن باپ ہوئے۔اس کا زبردست ثبوت یہ ہے کہ یحییٰ اور عیسیٰ کا قصہ ایک ہی جگہ بیان کیا ہے۔ پہلے یحییٰ کا ذکر کیا جو بانجھ سے پیدا ہوئے۔ دوسرا قصہ مسیح کا اس کے بعد بیان فرمایا جو اس سے ترقی پر ہونا چاہیے تھا ارو وہ یہی ہے کہ وہ بن باپ ہوئے اور یہی امر خارق عادت ہے اگر بانجھ سے پیدا ہونے والے یحییٰ کے بعد باپ سے پیدا ہونے والے کا ذکر ہوتا۔تو اس میں خارق عادت کی کیا بات ہوئی؟ اور عیسائی جو ان کے بن باپ ہوین سے خدا بناتے ہیں اس کا دوسری جگہ جواب دیدیا
ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل ادم (اآل عمران : ۶۰)
اب اگر بن باپ پیدا ہونے والا خدا ہو سکتا ہے تو پھر جس کا ماں باپ دونو نہ ہوں وہ تو بدرجہ اولیٰ خدا ہو گا مگر ان کو وہ خد انہیں مانتے۔اور ایسا ہی یحییٰ میں بھی خدائی ماننی چاہیے کیونکہ وہ بانجھ سے پیدا ہوئے تھے۔[
غرض اوائل میں اس قسم کی گفتگو ہوتی رہی تھی۔ پھر جب اﷲ نے ان کی معرفت زیادہ کی تو ایک دن کہنے لگے آپ گواہ رہیں آج سے میں نے سب گفتگوئیں ترک کر دیں۔ اس کے بعد موت تک بجز تسلیم اور کچھ نہ ہوگا۔
اور پھر میں نے دیکھ اکہ اس دن کے بعد موت تک واقعی یہی حالت رہی کہ رضا اور تسلیم کے سوا کوئی اور بات تھی ہی نہیں۔میں نے دیکھ اہے کہ جن لوگوں نے ان کے خطبات سنے ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں کہ ان میں بجز میرے حالات اور ذکر کے اور کچھ نہ ہوتا تھا بلکہ بعض اوقات میں نے سنا کہ بعض آدمی اس امر کو کسی حدتک پسند نہیں کرتے مگر وہ بجز اس کے اور کچھ کہنا نہ چاہتے تھے۔
اس مقام پر میں؎ٰنے عرض کی کہ حضور مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ وہ تقریر اور کلام میرے نزدیک حرام ہے جس میں حضرت مسیح موعود ؑکی سچائی کا ذکر نہ ہو۔ یہ الفاظ سنکر میں نے دیکھ اکہ حضور کی آنکھیں پُرنم ہو گئی تھیں، لیکن ان لوگوں کا ضبط اور صبر لا نظیر ہوتاہے اس لیے ضبط کا نمونہ دکھلایا مگر چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور اس میںخاص قسم کی درخشندگی پائی جاتی تھی۔
پھر اس ذکر کے سلسلہ میں فرمایا کہ :
ان کی بڑی بیوی نے رؤیا دیکھاتھا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں احمدی ہو گیا ہوں۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ میری محبت میں فنا ہو گئے تھے۔ اچھا۔اﷲ تعالیٰ مغفرت کرے۔ آمین ثم آمین۔
راستبازوہی ہے جس کی شہادت خدا دے
مولوی صاحب کے اس ذکر کے بعد سیدا میر علی شاہ صاحب نے جماعت علی کا ذکر کیا کہ وہ ان کی موت کو اپنی پیشگوئی کی بنا پر ظاہر کرتا ہے۔ اس پر فرمایا:
موت فوت سے تو کوئی رہ نہیں سکتا۔ انبیاء علیہم السلام پر بھی موت آئی۔ انہیں ٹھٹھا کرنا اور اس قسم کی شیخیاں اچھی نہیں ہوتی ہیں۔اسی طرح شیعہ بھی کہتے ہیں۔ اگر پیشگوئیاں اور خوارق یہی ہوتے ہیں۔ تو پھر یزید کی کرامت کا بھی ان کو قائل ہوان پڑیگا۔
افسوس یہ لوگ نہیں سوچتے کہ راستباز وہی ہے جس کی شہادت خدا تعالیٰ دے۔اور کسی قہر کے وقت امتیازی رنگ اس کے ساتھ ہو۔ حضرت موسیٰ ؑکے وقت فرعونی تباہ ہوئے مگر موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کو اﷲ تعالیٰ نے بچا لیا۔
اس قسم کی باتیں ہوتی رہیں۔ طاعون کا ذکر چل پڑا۔ آپ نے پرانی رؤیا۔ ہاتھی والی بیان کی اور بالآخر فرمایا کہ :
میرا الہام تو یہی ہے
ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما بانفسہم (الرعد : ۱۲)
جب تک پوری اور اصلاح نہیں ہوتی۔ خدا تعالیٰ کا یہ عذاب ٹلتا نظر نہی آتا؎ٰ۔
۲۹؍نومبر ۱۹۰۵ء؁
(قبل ظہر)
مدرسہ کے اجرا کی غرض
ہماری غرض مدرسہ کے اجرا سے محض یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کیا جاوے۔ مروّجہ تعلیم کو اس لیے ساتھ رکھا ہے کہ یہ علوم خادم دین ہوں۔ ہماری یہ غرض نہیں کہ ایف۔اے یا بی۔اے پاس کر کے دنیا کی تلاش میں مارے مارے پھریں ۔ہمارے پیش نظر تو یہ امر ہے کہ ایسے لوگ خدمت دین کے لیے زندگی بسر کریںدراصل اسی لیے مدرسہ کو ضروری سمجھتا ہوں۔ کہ شاید دینی خدمت کے لیے کام آسکے۔
مسکل یہ ہے کہ جس کو ذرا بھی استعداد ہو جاوے وہ دنیا کی طرف جھک جاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسے لوگ پیداہوں جیسے مولوی علی صاحب کام کر رہے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اب وہ اکیلے ہیں۔کوئی ان کا ہاتھ بٹانے والا یا قائم مقام نظر نہیں آتا۔
میں دیکھتا ہوں کہ آریوں کی یہ حالت ہے کہ ایک طرف تو وہ ذرہ ذرہ کو خدا بنا رہے ہیں اور اس طرح پر اﷲ تعالیٰ کی معرفت سے بے نصیب اور حقوق کے سمجھے سے قاصر ہیں۔ اور حقوق العباد کی طرف سے ایسے اندھے ہیں کہ نیگ جیسے مسئلہ کو مانتے ہیں۔ باوجود ایسا مذہب رکھنے کے پھر ان میں اس کی حمایت کے لیے اس قدر جوش ہے کہ بہت سے تعلی یافتہ اپنی زندگیاں مذہب کی خاطر وقت کر دیتے ہیں۔اور یہاں یہ حال ہے کہ جو مدرسہ سے نکلتا ہے اس کو دنیوی امور کی طرف ہی توجہ ہو جاتی ہے۔
جہانتک ہو سکے یہی آرزو ہے کہ کوئی دینی خدمت ہو جاوے۔
تازا الہامات
رات پھر وہی الہام ہوا۔
(۱) بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔
(۲) قل میعاد ربک۔
(۳) اس دن سب پر اُداسی چھا جائے گی۔
(۴) قرب اجلک المقدر۔ولا نبقی لک من المخزیات ذکرا۔
ان الہامات پر غور کر کے میں بھی سمجھتا ہوں کہ وہ زمانہ بہت ہی قریب ہے۔ پہلے بھی یہ الہام ہوا تھا۔ اس وقت اس کے ساتھ ایک رؤیا بھی تھی کہ ایک شخص نے مجھے کنوئیں کی ایک کوری ٹنڈ میں ٹھنڈ اپانی دیا۔ وہ پانی بڑا ہی مصفیٰ اور مقطّر تھا مگر وہ تھوڑا سا تھا۔اس کے ساتھ الہام ہوا تھا۔
آبِ زندگی
غرض زندگی کا زمانہ خواہ کتنا ہی لمبا ہو پھر بھی تھوڑا ہی ہے۔
(قبل عصر)
مامورین کے اغراض و مقاصد کا انکے متبعین کے ذریعہ پورا ہونا
۳۰ ؍نومبر ۱۹۰۵ء؁ کی صبح کو جناب سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب مدراسی واپس وطن کو جانے والے تھے اس لیے حضرت اقدس سیٹھ صاحب کی ملاقات کے واسطے مہمان خانہ جدید میں جہاں سیٹھ صاحب اور دوسرے احباب فروکش تھے، تشریف لائے اور سیٹھ صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا :
رات مجھے الہام ہوا ہے (وہی الہام جو اُوپر درج ہو چکے ہیں سنائے)
الہام سنانے کے بعد فرمایا:
لا نبقی لک من المخزیات ذکرا
سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی رسوا کرنے والا ذکر باقی نہ چھوڑیں گے۔ یہ بڑا مبشر الہام ہییعنی تیرے آنے کی جو علت غائی ہے اس کو ہم پورا کر دیں گے۔ کسی مامور اور مرسل کے لیے رسوا کرنے والا ذکر یہی ہو سکت اہے کہ وہ اپنے مقاصد و اغراض میں ناکامیاب ہو۔ سو اﷲ تعالیٰ نے بشارت دی کہ تیرے آنے کی جو غرض اور مقصد ہے اس کو ہم پور اکر دیں گے۔ مگر یہ سنت اﷲ ہے کہ جس قدر مامور دنیا میں آتے ہیں یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ ان کے ہی زمانہ میں پوری تکمیل ہو جاوے۔ بلکہ بہت سے امور ایسے ہوتے ہیں کہ انکے متبعین کے ہاتھوں سے پورے ہوتے ہیں اورانکے ہی ہاتھ پر وہ تکمیل سمجھی جاتی ہے۔ خود آنحضرت ﷺ کے عہد رسالت میں مکہ، مدینہ اور بعض نواح تک اسلام تھا، لیکن حضرت ابو بکر ؓاور حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا اور بہت سے امور کی تکمیل صحابہؓ کے ہاتھ پر ہوئی جو درحقیقت آنحضرت ﷺ ہی کی کامیابی اور آپ کے دست مبارک پر ہی تکمیل تھی۔ اس کے بع بنوامیہ اور دوسرے سلاطین کے ذریعہ ان ترقیوں میں اور ترقی ہوئی اور محمدو غزنوی نے بھی ان میں حضہ لیا۔ اور یہ سلاطین ہند جو سات سو برس تک حکمران رہے کسی حد تک ان کو بھی حصہ ملا۔ انہوں نے ایسی ایسی جگہ مساجد تعمیر کروائیں جو ہندوئوں کے مرکز تھے۔
غرض یہ سنت اﷲ ہے کہ جو مامور ہو کر آتا ہے۔ ضروری نہیں کہ سب مقاصد اس کے وقت ہی میں مکمل ہوں۔ آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئی ہیں، لیکن وہ کنبجیاں آپؐ کے بعد حضرت عمرؓ کو دی گئیں۔یہ کہنا کہ وہ آپؐ کو نہیں ملیں غلط ہے۔ کیونکہ اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ متبعین کی فتوحات اور کامیابیاں بھی دراصل متبوع ہی کی فتوحات ہوتی ہیں۔
مامور کی وفات پر جماعت کا غمگین ہوان فطری امر ہے
’’اس دن سب پر اُداسی چھا جائے گی‘‘۔
اس کے متعلق فرمایا کہ :
یہ بالکل سچ ہے۔ جب اﷲ تعالیٰ کا کوئی مامور دنیا سے اُٹھتا ہے تو ہر چیر پر اُداسی چھا جاتی ہے خصوصاً ان لوگوں پر جو اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ انسان کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ ہر بات کو قبل از وقت سمجھتا ہے۔ اس لیے جب اس کی کوئی محبوب چیز جاتی رہے تو پھر ضرور غمگین ہوتا ہے۔ یہ ایک فطرتی تقاضا ہے۔صحابہؓ کی حالت کا کون اندازہ کر سکتا ہے جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت تھی۔ ان کو تو قریباً ایک قسم کا جنون ہو گیا تھا اس غم میں جو آنحضرت ﷺ کی جدائی میں ان پر آیا۔ حضرت عمر ؓ کو تو وہ جوش آیا کہ انہوں نے تلوار ہی نکال لی کہ جو شخص کہے گا کہ آپؐ وفات پا گئے ہیں میں اسے قتل کر دوں گا۔گویا وہ یہ لفظ بھی سننا نہ چاہتے تھے۔ پھر حضرت ابو بکر ؓ نے خطبہ پڑھا اور آیت
ما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل (اٰل عمران : ۱۴۵)
پڑھی تو ان کا جوشفرو ہوا۔ یہ آیت دراصل ایک جنگ میں نازل ہوئی تھی جبکہ شیطان کی طرف سے آنحضرت ﷺ کی شہادت کی آوازدی گئی مگر اس وقت حضرت ابو بکر ؓ نے اس آیت کو پڑھا تو صحابہؓ سمجھتے تھے کہ گویا یہ آیت ابھی اُتری ہے۔
یقینی الوجود عالمِ آخرت
فرمایا :
ایسے امور میں حیرت اور سرگشتگی ایک لازمی امر ہوتا ہے۔ یہ اختیاری بات نہیں کہ نہ ہو۔ میں جانتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ جو قبل از وقت ان امور کو بار بار ظاہر رکتا ہے۔ اس میں یہ سر ہے کہ تا جماعت کی تسلی اور اطمینان کا موجب ہو۔ ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ دو عالم ہیں جو یقینی الوجود ہیں۔ ایک تو یہی عالم جس میں ہم اب ہیں اور زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دوسرا وہ عالم جس میں مرنے کے بعد ہم داخل ہوتے ہیں۔ چونکہ انسان کو ا س کا وسیع علم نہیں ہوتا اس لیے اسے وہمی سمجھتا اور اس سے کراہت کرتا ہے۔ اس کی وجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کی خب رنہیں۔ اور اس عالم میں چونکہ رہتا ہے اور اس کی خب روار اطلاع ہے اس لیے اس سے محبت کرتا ہے اور اسی میں رہنا چاہتا ہے۔ اگر اُس عالم پر پورا یقین ہو جاوے تو اس عالم سے چلے جانے کا کوئی غم اس کو نہ ہو اور ایسی صورت میں یہ عالم تو اسی قدر ہے کہ جیسے مسافر کسی جگہ کو کوچ کرنے کی تیاری کرے تو زاد راہ کا بندوبست کرلیتا ہے۔ اسی قدر یہ عالم ہے کہ اس عالم کے سفر کے لیے زاد راہ کا بندو بست کرے اور نہ اس سے زیادہ شریعت حکم دیتی ہے۔ اگر یہ عالم ہمیشہ کے لیے ہوتا تو آدم سے لے کر آنحصرت تک جس قدر انبیاء و رسل اس دنیا مین گذرے ہیں ان کے ہمیشہ یہاں رہنے کی بہت بڑی ضرورت تھی اور اس کو اﷲ تعالیٰ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے؟ مگر دیکھ لو اﷲ تعالیٰ نے جبتک ان کے لیے اس عالم میں رہنا پسند کیا وہ یہاں رہے اور آخر اپنا کام کر کے اس دنای سے رخصت ہوئے خواہ دوسروں کے نزدیک ان کی وہ رخصت قبل از وقت ہی سمجھی گئی ہو۔ اوروں کا ذکر چھوڑو کہ بنی اسرائیل میں بھیجے ہوئے رسولوں میں حضرت موسیٰ ؑایک بڑے اولوالعزم رسول تھے اور اﷲ تعالیٰ نے ان سے بڑے بڑ ے وعدے فرمائے۔ منجملہ ان کے ارض مقدس میں داخل ہونے کا وعدہ تھا مگر اس ارض مقدس کے راستہ ہی میں اُن کو موت آگئی اور وہ اس وعدہ کی زمین میں داخل نہ ہو سکے۔ پھر خدا تعالیٰ نے ان کے بعد یشوع بن نون کو برگزیدہ کیا اور وہ اس زمین میں داخل ہوا۔ غرض یہ ایک قسم کے اسرار ہوتے ہیں۔جن کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعائیں
حضرت عیسیٰ ؑ جورورو کر دعائیں کرتے تھے اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ موت سے ڈرتے تے یا اس زندگی سے پیار کرتے تھے بلکہ ان کو ناکامی کا اندیشہ تھا کہ ایسا نہ ہو میں ناکام دنیا سے اُٹھوں۔ آخر اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعائوں کو سنا۔ مگر یہ نہیں کہ وہ موت کا پیالہ اُن سے ٹل گیا۔ اپنے وقت پر انہوں نے پیا اور رخصت ہوئے۔
مامور کی وفات سے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں کوئی فرق نہیں آتا
فرمایا :۔
ہم تو اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ یہ مت خیال کرو کہ اﷲتعالیٰ کے کاروبار میں جن کا اس نے ارادہ کیا ہوتا ہے کسی قسم کا فرق آجاتا ہے۔ ایسا تو وہم کرنا بھی سخت گناہ ہے۔ نہیں بلکہ وہ کاروبار جس طرح وہ چاہتا ہے بدستور چلتا ہے اور جس طرح اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے اُسے چلاتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑکا بھی میں نے ذکر کیا ہے کہ وہ راستہ ہی میں فوت ہو گئے۔ قوم چالیس دن تک ماتم کرتی رہی مگر خدا تعالیٰ نیوہی کام یشوع بن نون سے لیا۔اور پھر چھوٹے چھوٹے اور نبی آتے رہے یہانتک کہ مسیح ابن مریم آگیا اور اس سلسلہ میں جو ال تعالیٰ نے موسیٰ ؑسے شروع کیا تھا کوئی فرق نہ آیا۔
پس یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں کوئی فرق آجاتا ہے۔ یہ ایک دھوکہ لگتا ہے اور بت پرستی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اگر یہ خیال کیا جاوے کہ ایک شخص کے وجود کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ میں تو اﷲ تعالیٰ کے وجود کے سوا کسی اور طرف نظر اُٹھانا بھی پسند نہیں کرتا۔
مولا بس
فرمایا :
میرے ایک چچا صاحب فوت ہو گئے تھے۔ عزصہ ہوا میں نے ایک مرتبہ اُن کو عالم رؤیا میں دیکھ ااور اُن سے اس عالم کے حالات پوچھے کہ کس طرح انسان فوت ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے۔ انہوں کہ ا کہ اس وقت عجیب نظارہ ہوتا ہے۔جب انسان کا آخری وقت قریب آتا ہے تو دو فرشتے جو سفید پوش ہوتے ہیں سامنے آتے ہیں اور کہتے آتے ہیں مولا بس ۔مولا بس۔
[فرمایا :۔ حقیقت میں ایسی حالت میں جب کوئی مفید وجود درمیان سے نکل جاتا ہے تو یہی لفظ ’’مولابس‘‘ موزون ہوتا ہے۔]
اور پھر وہ قریب آکر دونوں اُنگلیواں ناک کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ اے روح ! جس راہ سے آئی تھی اسی راہ سے واپس نکل آ۔
فرمایا۔
طبعی امور سے ثابت ہوتا ہے کہ ناک کی راہ سے روح داخل ہوتی ہے اسی راہ سے معلوم ہوا نکلتی ہے۔ توریت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نتھنوں کے ذریعہ زندگی کی روح پھونکی گئی۔؎
وہ عالم عجیب اسرار کا عالم ہے جس کو اس زندگی میں انسان پورے طو پر سمجھ بھی نہیں سکتا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظیم خوش قسمتی
فرمایا :
اگر دن تھوڑے بھی ہوں اور اﷲ تعالیٰ کی رضا میں بسر ہوں تو غنیمت ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑجس مُلک میں رہے تھے وہاں کی زندگی صرف ساڑھے تین سال کی ہی رسالت ہے۔ آنحضرت ﷺ کا زمانہ رسالت تئیس (۲۳) سال تھا۔ مگر میں جانتا ہوں کہ جیسے آنحضرت ﷺ کی خوش قسمتی ثابت ہوتی ہے اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں۔ امور رسالت میںیہ کامیابی اور سعادت کسی اور کو نہیں ملی۔آپؐ کی آمد کا وہ وقت تھا جس کو اﷲ تعالیٰ نے خود
ظھر الفساد فی البر والبحر ۰الروم : ۴۲)
سے بیان کیا ہے۔ یعنی نہ خشکی میں امن تھا نہ تری میں۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب بگڑ چکے تھے اور قسم قسم کے فساد اور خرابیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں۔گویا زمانہ کی حالت بالطبع تقاضا کرتی تھی کہ اس وقت ایک زبردست ہادی اورمصلح پیدا ہو۔ ایسی حالت میں اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو مبعوث فرمایا اور پھر آپؐ ایسے وقت دنیا سے رخصت ہوئے جب آپؐ کو یہ آواز آ گئی…
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدہ : ۴)
یہ آواز کسی اور نبی اور رسول کو نہیں آئی۔ کہتے ہیں جب یہ آیت اُتری اور پڑھی گئی تو حضرت ابو بکر ؓ اس آیت کو سن کر رو پڑے۔ ایک صحابی نے کہا کہ اے بڈھے تجھے کیا ہوگیا۔ آج تو خوشی کا دن ہے تو کیوں رو پڑا؟حضرت ابو بکرؓ نے جواب دیا تو نہیں جانتا مجھے اس آیت سے آنحضرت ﷺ کی وفات کی بو آتی ہے۔حصرت ابو بکرؓ کی فراست بڑی تیز تھی۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ جب کام ہو چکا تو پھر یہاں کیا کام؟۔
قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی بندوبست کا افسر کسی ضلع کا بندوبست کرنے کو بھیجا جاتا ہے وہ اس وقت تک وہاں رہتا ہے جبتک کام ختم نہ ہولے۔ جب کام ختم ہو جاتا ہے تو پھر کسی اور جگہ بھیجا جاتا ہے۔ اسی طرح پر مرسلین کے متعلق بھی یہی سنت ہے۔ آنحضرت ﷺ سے جب یہ امر دریافت کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا! ابو بکرؓ سچ کہتا ہے اور پھر یہ بھی فرمایا کہ اگر میں کسی کو دنیا میں دوست رکھتا تو ابو بکر ؓ کو۔
خُلَّت کی حقیقت
یہ جملہ بی قابل تشریح ہے۔ حضرت ابو بکرؓ کو آپؐ دوست تو رکھتے تھے۔ پھر اس کا کیا مطلب؟بات اصل میں یہ ہے کہ خُلَّت اور دوستی تو وہو ہوتی ہے جو رگ وریشہ یں دھنس جائے۔ وہ تو صرف اﷲ تعالیٰ ہی کا خاصہ اور اسی کے لیے مخصوص ہے۔ دوسروں کے ساتھ محض اخوّت اور برادری ہے۔ خُلَّت کا مفہوم ہی یہی ہے کہ وہ اندر دھنس جاوے۔ جیسے یوسف زلیخا کے اندر رچ گیا تھا۔ بس یہی معنے آنحضرت ﷺ کے اس پاک فقرہ کے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت میں تو کوئی شریک نہیں۔ دنیا میں اگر کسی کو دوست رکھتا تو ابو بکر ؓ کو رکھتا۔
یہ ایسی ہی بات ہے جیسے اﷲ تعالیٰ فڑماتا ہے کہ اگر کسی کو بیٹا بناتا تو ایک مقرب کو بنا لیتا۔ایک مفسّر کہتا ہے کہ مقرّب سے مراد آنحضرت ﷺ ہیں جن کو مقامِ لدنی حاصل ہے۔ غرض یہ امور تکمیل کے لیے ضروری ہیں جن کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا۔
اُمّت پر حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کا عظیم احسان
آنحضرت ﷺ کی وفات پر ہزاروں آدمی مرتد ہو گئے حالانکہ آپؐ کے زمانہ مین تکمیل شریعت ہو چکی تھی۔ یہانتک اس ارتداد کی نوبت پہنچی کہ صرف دو مسجدیں رہ گئیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی۔ باقیکسی مسجد میں نماز ہی نہیں پڑھی جاتی تھی۔ یہ وہی لوگ تھے جس کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
قل لم تؤمنو اولکم قولو ااسلمنا (الحجرات : ۱۵)
مگر اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر ؓ کے ذریعہ دوبارہ اسلام کو قائم کیا اور وہ آدم ثانی ہوئے۔ میرے نزدیک آنحصرت ﷺ کے بعد بہت بڑا احسان اس اُمت پر حضرت ابو بکرؓ کا ہے کیونکہ ان کے زمانہ میں چار جھوٹے پیغمبر ہو گئے۔ مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی ہو گئے تھے۔ اور ان کا نبی ان کے درمیان سے اُٹھ گیا تھا مگر ایسی مشکلات پر بھی اسلام اپنے مرکز پر قائم ہو گیا۔ حضرت عمر ؓ کو تو بات بنی بنائی ملی تھی۔ پھر وہ اس کو پھیلاتے گئے۔ یہاں تک نواح عرب سے اسلام نکل کر شام و روم تک جا پہنچا اور یہ ممالک مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے۔ حضرت ابو بکرؓ والی مصیبت کسی نے نہیں دیکھی تھی نہ حضرت عمرؓ نے نہ حضرت عثمانؓ نے اور نہ حصرت علیؓ نے۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ جب آنحضرت ﷺ نے وفات پائی اور میرا باپ خلیفہ ہوا اور لوگ مرتد ہو گئے تو میرے باپ پر اس قدر غم پڑا کہ اگر پہاڑ پر وہ غم پڑتا تو وہ زمین کے برابر ہو جاتا۔ ایسی حالت میں حضرت ابو بکرؓ کا مقابلہ ہم کس سے کریں۔ اصل مشکلات اور مصائب کا زمانہ وہی تھا جس میں اﷲ تعالیٰ نے انہیں کامیاب کیا۔حضرت عمر ؓ کے وقت کوئی فتنہ باقی نہ تھاور حضرت عثمانؓ کو تو میں حضرت سلیمان ؑ سے تشبیہ دیتا ہوں اُن کو بھی عمارات کا بڑا شوق تھا۔ حضرت علیٰ کے وقت میں اندرونی فتنے ضرور تھے۔ ایک طرف معاویہ تھے اور دوسری طرف علیؓ۔اور ان فتنوں کے باعث مسلمانوں کے خون بہے۔ چھ سال کے اندر اسلام کے لیے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔اسلام کیلیے تو عثمانؓ تک ہی ساری کارروائیاں ختم ہو گئیں۔پھر تو خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہما
حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہو گئے پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں۔ اس لیے معاویہ سے گذارہ لے لیا۔چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لیے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ ہم تو دونوں کے ثناخواں ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہرشخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مد نظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونو کی نیت نیک تھی۔انما الاعمال بالنیات۔ یہ الگ امر ہے کہ یزید کے ہاتھ سے بھی اسلامی ترقی ہوئی۔ یہ خدا تعالیٰ کافضل ہے۔ وہ چاہے تو فاسق کے ہاتھ سے بھی ترقی ہو جاتی ہے۔ یزید کا بیٹا نیک بخت تھا۔
ہر شخص اپنے قویٰ کے موافق کام کرتا ہے
اصل یہی ہے کہ ہر شخص اپنے قویٰ کے موافق کام کرتا ہے
قل کل یعمل علی شاکلتہ (بنی اسرائیل : ۸۵)
بعض لوگ دنیا داری میں بڑے کامل ہوتے ہیں ۔بعض سادہ ہوتے ہیں۔آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ دیکھ اکہ لوگ کھجور کو پیوند کر رہے ہیں۔یہ پیوند نر کا مادہ کو ہوتا ہے۔ آپ ؐ نے ان کو منع کیا۔ انہوں نے نہ لگایا۔ اس سال کھجوریں نہ لگیں تو آپؐ نے فرمایا انتم اعلم بامور دنیاکم یعنی تم اپنے دنیوی معاملات کو بہت جانتے ہو۔
انبیاء علیہم السلام باوجود اس کے کہ بڑے قوی الحوصلہ اور صاحب ہمت لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں قلبہ رانی کے لیے ہا اجوے تو انہیں کب توفیق ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اس غرض کے لیے بنائے ہی نہیں جاتے۔ جس مقصد اور غرض کے لیے وہ آتے ہیں اور اس راہ میں جو تکالیف اور مصائب انہیں اُٹھانے پڑتے ہیں کوئی دوسرا شخص دنیا کا خواہ وہ کیسا ہی بہادر اور تنومند کیوں نہ ہو وہ ان مشکلات کو ہر گز ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ مگر اﷲ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو کچھ ایسا دل اور حوصلہ عطا کرتا ہے کہ وہ بڑی جرأت سے اور دلیری کے ساتھ ان کو برداشت کرتے ہیں۔
خود انسان کو دیکھو کہ باوجود یکہ بڑا عقلمند اور عجیب عجیب ایجادیں کرتا ہے مگر بئے کا ساگھو نسلا نہیں بنا سکتا۔ اس لیے کہ اس قسم کے قویؓ اُسے نہیں ملے۔ شہد کی مکھی شہد بناتی ہے۔ انسان کا کیا مقدور ہیکہ اس قسم کا شہر بنا سکے۔ وہی بوٹیاں موجود ہیں۔مگر انسان عاجز ہے۔ہر چیز کو ال تعالیٰ نے جدا جدا طاقت دی ہے۔ اسی طرح ایک طبقہ اناس کا وہ ہے جس کو روحانی قوتیں دی جاتی ہیں۔
مردوں سے استفاضہ
ایک شخص نے سوال کیا کہ زندگی میں کسی مردے سے تعلق ہو یا مرید کا اپنے پیر سے ہو۔ کیا وہ بھی اس سے فیض پا لیتا ہے؟
فرمایا :۔
صوفی تو کہتے ہیں کہ انسان مرنے کے بعد بھی فیض پاتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں ایک وائرہ کے اندر محدود ہوتا ہے اور مرنے کے بعد وہ دائدہ وسیع ہو جاتا ہے اس کے سب قائل ہیں؛ چنانچہ یہانتک بھی مانا ہے کہ حضرت عیسیٰ جب آسمان سے آئیں گے تو چونکہ وہ علوم ِ عربیہ سے ناواقف ہوں گے، کیا کریں گے؟ بعض کہتے ہیں کہ وہ علوم ِ عربیہ پڑھیں گے اور حدیث اور فقہ بیھ پڑھیں گے۔بعض کہتے ہیں کہ یہ امر تو ان کے لیے موجب عار ہے کہ وہ کسی مولوی کے شاگرد ہوں۔اس لیے مانا ہے کہ آنحضرت ﷺکی قبر میں بھیٹھیں گے اور وہاں بیٹھ کر استفا ضہ کریں گے۔ مگر اصل میں یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ مگر اس سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ قبور سے استفاضہ ہو سکتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ امر بطریق شرک نہ ہو جیسا کہ عام طو رپر دیکھا جاتا ہے۔
وارِ فانی
فرمایا:
ہماری نصیحت یہی ہے کہ ہر شخص گور کے کنارے بیٹھا ہے۔یہ الگ امر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کسی کو اطلاع دیدے اور کسی کو اچانک موت آجاوے۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گھر ہے بے بنیاد۔بہت سے لوگ دیکھے ہیں کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے گھر کے سارے آدمیوں کو مٹی میں دبایا اور اولادوں کو دفن کیا مگر کچھ ایسے سخت دل ہوتے ہیں کہ وہ موت ان پر اثر نہیں کرتی اور تبدیلی ان میں نہین پائی جاتی۔ یہ بدقسمتی ہے۔ یہ تماشہ سلاطین کے ہاں بہت دیکھا جاتا ہے۔لاکھوں لاکھ خون ہو جاتے ہیں اور ان پر کوئی اثر نہیں۔ مساکین سے مال لیتے ہیں او رخود عیش کرتے ہیں۔ بڑی بھاری غفلت کا نمونہ ان کے ہاں دیکھا جاتا ہے۔
‏ Amira 2-2-06
۲؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁
ایک رؤیا ء اور ایک الہام
رؤیا دیکھا کہ ایک دیوار پر ایک مرغی ہے۔ وہ کچھ بولتی ہے۔ سب فقرات یاد نہیں رہے۔ مگر آخری فقرہ جو یاد رہا یہ تھا:
ان کنتم مسلمین
(ترجمہ) اگر تم مسلمان ہو۔
اس کے بعد بیداری ہوئی۔ یہ خیال تھا کہ مرغی نے یہ کیا الفاظ بولے ہیں۔ پھر الہام ہوا:
انفقو ا فی سبیل اﷲ ان کنتم مسلمین
(ترجمہ) اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ اگر تم مسلمان ہو۔
فرمایاکہ :۔
مرغی کا خطاب اور الہام کا خطاب ہر دو جماعت کی طرف تھے۔ دونوں فقروں میں ہماری جماعت مخاطب ہے۔ چونکہ آجکل روپیہ کی ضرورت ہے۔ لنگر میں بھی خرچ بہت ہے اور عمارت پر بھی بہت خرچ ہو رہا ہے اس واسطے جماعت کو چاہیے کہ اس حکم پر توجہ کریں۔
پرندوں میں انفاق فی سبیل اﷲ کا سبق
فرمایا:۔
مرغی اپین عمل سے دکھاتی ہے کہ کس طرح انفاق فی سبیل اﷲ کرنا چاہیے کیونکہ وہ انسان کی خاطر اپنی ساری جان قربان کرتی ہے اور انسان کے واسطے ذبح کی جاتی ہے۔اسی طرح مرغی نہایت محنت اور مشقت کے ساتھ ہر روز انسان کے واسطے انڈا دیتی ہے۔
ایسا ہی ایک پرند کی مہمان نوازی پر ایک حکایت ہے کہ ایک درخت کے نیچے ایک مسافر کو رات آگئی۔ جنگل کا دیرانہ اور درسردی کا موسم ۔درخت کے اوپر ایک پرند کاآشیانہ تھا۔ نراور مادہ آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ یہغریب الوطن آج ہمارا مہمان ہے اور سردی زدہ ہے۔ اس کے واسطے ہم کیا کریں؟ سوچ کر ان میں یہ صلاح قرار پائی کہ ہم اپنا آشیانہ توڑ کر نیچے پھینک دیں اوروہ اس کو جلا کر آگ تاپے؛ چنانچہ انہوں نے کہا کہ یہ بھوکا ہے۔ اس کے واسطے کیا دعوت تیار کی جائے۔اور تو کوئی چیز موجود نہ تھی۔ ان دونی نے اپنے آپ کو نیچے اس آگ میں گرادیا، تا کہ ان کے گوشت کا کباب ان کے مہمان کے واسطے رات کا کھانا ہو جائے۔ اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کی ایک نظیر قائم کی۔ سو ہماری جماعت کے مومنین اگر ہماری آواز کو نہیں سنتے تو اس مرغی کی آواز کو سنیں۔ مگر سب برابر نہیں۔ کتنے مخلص ایسے ہیں کہ اپنی طاقت سے زیادہ خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے ؎ٰ۔
۱۴؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁
غیر احمدی کے پیچھے نماز
دو آدمیوں نے بیعت کی۔ ایک نے سوال کیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا :
وہ لوگ ہم کوکافر کہتے ہیں۔ اگر ہم کافر نہیں ہیں تو وہ کفر لوٹ کر اُن پر پڑتا ہے۔مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہے۔ اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں۔پھر اُن کے درمیان جو لوگ خاموش ہیں وہ بھی انہیں میں شامل ہیں۔ اُن کے پیچھے بھی نماز جائز نہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے اندر کوئی مذہب مخالفانہ رکھتے ہیں جو ہمارے ساتھ بظاہر شامل نہیں ہوتے ۲؎
۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁
ایک الہام
فرمایا :
کل پھر الہام ہوا۔
قرب اجلک المقدر
واقفین زندگی کی ضرورت
اس پر فرمایا کہ :
مدرسہ کی حالت دیکھ کر دل پارہ پارہ اور زخمی ہو گیا۔ علماء کی جماعت فوت ہو رہی ہے۔ مولوی عبد الکریم کی قلم ہمیشہ چلتی رہتی تھی۔ مولوی برہان الدین فوت ہو گئے۔ اب قائم مقام کوئی نہیں۔ جو عمر رسیدہ ہیں ان کو بھی فوت شدہ سمجھئے۔ دوسرا جیسا کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تقویٰ ہو۔ اس کی تخم ریزی نہیں۔ یہ اﷲ ہی کے ہاتھ میں ہے؛ ورنہ اچھے ئدمی مفقود ہو رہے ہیں۔ آریہ زندگی وقف کر رہے ہیں۔ یہاں ایک طالب علم کے منہ سے بھی نہیں نکلتا۔
ہزارہا روپیہ قوم کا جو جمع ہوتا ہے وہ ان لوگوں کے لیے خرچ ہوتا ہے جو دنیا کا کیڑا بنتے ہیں ۔یہ حالت تبدیل ہو کر ایسی حالت ہو کہ علماء پیدا ہوں۔علم دین میں برکت ہے۔ اس سے تقویٰ حاصل ہوتی ہے۔ بغیر اس کے شوخی بڑھتی ہے۔ نبوی علم میں برکات ہیں۔
لوگ جو روپیہ بھیجتے ہیں لنگر خانہ کے لیے یا مدرسہ کے لیے۔ اس میں اگر بے جا خرچ ہوں تو گناہ کا نشانہ ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ نے تدبیر کرنے والوں کی قسم کھائی ہے۔
فالمد برات امرا (النزعت : ۶)
تو ایسے آدمیوں کی ضرورت سمجھتا ہوں جو دین کی خدمت کریں۔ میرے نزدیک زبان دانی ضروری ہے۔ انگریزی پڑھنے سے میں نہیں روکتا۔ میرا مدعا یہ ہے اور میں نے پہلے بھی سوچا ہے اور جب سوثا ہیمیرے دل کو صدمہ پہنچا ہے کہ ایک طرف تو زندگی کا اعتبار نہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ کی وحی
قرب اجلک المقدر
سے ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرا اس مدرسہ کی بنا سے غرض یہ تھی کہ دینی خدمت کیلئے لوگ تیار ہو جاویں۔ یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے۔پہلے گذر جاتے ہیں۔دوسرے جانشین ہوں۔ اگر دوسرے جانشین نہ ہوں تو قوم کے ہلاک ہونے کی جڑ ہے۔ مولوی عبدالکریم اور دوسرے مولوی فوت ہو گئے اور جو فوت ہوئے ہیں اُن کا قائم مقام کوئی نہیں۔دوسری طرف ہزار ہاروپیہ جو مدرسہ کے لیے جاتا ہے پھر اس سے فائدہ کیا؟ جب کوئی تایر ہو جاتا ہے تو دنیا کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ اصل غرض مفقود ہے۔ میں جانتا ہوں جبتک تبدیلی نہ ہوگی کچھ نہ ہوگا۔ جو اﷲ تعالیٰ کی جماعت روحانی سپاہیوں کے تیار کرنے والے تھے وہ نہیں رہے دور چلے گئے ہیں۔ ہمیں کیا غرض ہے کہ قدم بقدم ان لوگوں کے چلیں جو دنیا کے لیے چلتے ہیں؎ٰ
۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁
وفات کے متعلق الہامات
فرمایا :
اﷲ تعالیٰ کی کوئی حکمت ہے۔ وہی بہتر جانتا ہے۔ پانچ چھ روز سے یہی متواتر الہام ہو رہا ہے۔ انسان جن چیزوں کی بابت تمنا کرتا ہے ان کی بابت چاہتا ہے کہ معلوم ہوں۔جن سے کراہت کرتا ہے چاہتا کہ وہ نا معلوم ہوں۔مگر عادت اﷲ یہ نہیں کہ وہ انسانی خواہشات کی پیروی کرے۔مجھے پانچ چھ روز سے فجر کے قریب یہ الہام ہوتا ہے۔
قرب اجلک المقدر
آج اس کے ساتھ یہ بھی تھا
واخر دعونا ان الحمد لﷲ رب العالمین۔
انبیاء علیہم السلام کے متعلق سُنت اﷲ یہی ہے کہ وہ تخم ریزی کر جاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے متعلق صحابہؓ کا خیال غلط نکلا۔وہ یہی سمجھتے تھے کہ آنحضرت ﷺ سب کو فتح کرینگ ے۔ انہوں نے آپؐ کی وفات کو قبل از وقت سمجھا، مگر ابو بکرؓ کی فراست صحیح تھی۔
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع۔ مولوی عبد الکریم صاحب کے متعلق جو الہام ہوا تھا ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ اب نصرتِ الٰہی ظاہر ہو۔ میرا مذہب یہی ہے کہ طولِ امل کے طور پر کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ انبیاء علیہم السلم جس قدر آئے ہیں وہ تخم ریزی کر جاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے عرب میں اشاعت اسلام کی اور ان میں سے بھی بعض اسلمنا میں داخل تھے۔ یہ گویا تخمریزی تھی۔
وفات پا جانیوالے چند اصحاب کا ذکر خیر
مولوی برہان الدین صاحب کے متعلق فرمایا کہ :
وہ اول ہی اول ہو شیار پور میں میرے پاس گئے۔ ان کی طبیعت میں حق کے لیے ایک سوزش اوجلن تھی۔ مجھ سے قرآنشریف پڑھا۔ بائیس برس سے میرے پاس آتے تھے۔ صوفیانہ مذاق تھا۔ جہاں فقراء کو دیکھتے وہیں چلے جاتے۔ میرے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے۔ میں چاہتا ہوں کہ ماتم پرسی کے لیے لکھ دوں۔ بہتر ہے کہ ان کا جو لڑکا ہو وہ یہاں آجاوے۔تاکہ وہ باپ کی جابجا ہو۔اسے لکھو کہ وہ دین ی تکمیل کرے، کیونکہ باپ کی ہی روش پر ہونا چاہیے۔
منشی جلال الدین بھی بڑے مخلص تھے اور ان کے ہمنام پیر کوٹ والے بھی۔دونوں میں سے ہم کسی کو ترجیح نہیں دے سکتے۔ سال گذشتہ میں ہمارے کئی دوست جدا ہو گئے۔مولوی جمال الدین سید والا بھی۔مولوی شیر محمد ہو جن والے بھی۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ارادیہ میں کوئی مصالح رکھے ہوں گے۔ اس سال میں حزن کے معاملات دیکھنے پڑے؎ٰ۔
۸؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁
ایک مثالی قبرستان کی تجویز
میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے لیے ایک زمین تلاش کی جاوے جو قبرستان ہو۔ یاد گار ہو اور عبرت کا مقام ہو۔
قبروں پر جانے کی ابتداء آنحضرت ﷺ نے مخالفت کی تھی۔جب بُت پرستی کا زور تھا۔ آخر میں اجازت دے دی۔ مگر عام قبروں پر جاکر کیا اثر ہوگا جن کو جانتے ہی نہیں، لیکن جو دوست ہیں اور پار ساطبع ہیں ان کی قبریں دیکھ کر دل نرم ہوتا ہے۔ اس لیے اس قبرستان میں ہمارا ہر دوست جو فوت ہو اس کی قبر ہو۔میرے دل میں خدا تعالیٰ نے پختہ طور پر ڈال دیا ہے کہ ایسا ہی ہو۔ جو خارجاً مخلص ہو اور وہ فوت ہو جاوے اور اس کا ارادہ ہو کہ اس قبرستان میں دفن ہو۔ وہ صندوق میں دفن کر کے یہاں لایا جاوے۔ اس جماعت کو بہ ہیئت مجموعی دیکھنا مفید ہوگا۔ اس کے لیے اول کوئی زمین لینی چاہیے اور میں چاہتا ہوں کہ باغ کے قریب ہو۔
فرمایا:
عجیب مؤثر نظارہ ہوگا جو زندگی میں ایک جماعت تھے مرنے کے بعد بھی ایک جماعت ہی نظر آئے گی۔یہ بہت ہی خوب ہے ۔جو پسند کریں وہ پہلے سے بندوبست کر سکتے ہیں کہ یہان دفن ہوں۔ جو لوگ صالح معلوم ہوں ان کی قبریں دور نہ ہوں ۔ریل نے آسانی کا سامان کر دیا ہے اور اصل تو یہ ہے
ما تدری نفس بای ارض تموت (لقمان : ۳۵)
مگر اس میں یہ کیا لطیف نکتہ ہے کہ بای ارض تدفن نہیں لکھا۔ صلحاء کے پہلو میں دفن بھی ایک نعمت ہے۔ حضرت عمر ؓ کے متعلق لکھاہے، کہ مرض الموت میں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے کہلا بھیجا کہ آنحضرت ﷺ کے پہلو میں جو جگہ ہے انہیںد ی جاوے۔ حضرت عائشہ ؓ نے سے کام لے کر وہ جگہ ان کو دیدی تو فرمایا :
مابقی لی ھم بعد ذالک
یعنی اس کے بعد اب مجھے کوئی غم نہیں۔جبکہ میں آنحصرت کے روضہ میں مدفون ہوں۔مجاورت بھی خوشاحالی کا موجب ہوتی ہے۔ میں اس کو پسند کرتا ہوں۔اور یہ بدعت نہیں کہ قبروں پر کتبے لگائے جاویں۔ اس سے عبرت ہوتی ہے اور ہر کتبہ جماعت کی تاریخ ہوتی ہے۔ہماری نصیحت یہ ہے کہ ایک طرح سے ہر شخص گورکے کنارے ہے کسی کو موت کی اطلاع مل گئی اور کسی کو اچانک آجاتی ہے یہ گھر ہے بے بنیاد۔ بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے گھر بالکل ویران ہو جاتے ہیں۔ایسے واقعات کو انسان دیکھت اہے۔ جبتک مٹی ڈالتا ہے دل نرم ہوتا ہے۔پھر دل سخت ہو جاتا ہے یہ بدقسمتی ہے ؎ٰ۔
۲۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁
ایک الہام اور اس کی لطیف تشریح
یاقمر یا شمس انت منی وانامنک
(ترجمہ) اے چاند اے سورج تُو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں
فرمایا :۔
اس الہام میں خدا تعالیٰ نے ایک دفعہ اپنے آپ کو سورج فرمایا ہے اور مجھے چاند اور دوسری دفعہ مجھے سورج فرمایا ہے اور اپنے آپ کو چاند۔ یہ ایک لطیف استعارہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے میری نسبت یہ ظاہر فرمایا ہے کہ میں ایک زمانہ میں پوشیدہ تھا اور اس کی روشنی کے انعکاسے سے میں ظاہر ہوا۔ اور پھر فرمایا کہ ایک زمانہ میں وہ خود پوشیدہ تھا۔ پھر وہ روشنی جو مجھے دی گئی اس روشنی نے اس کو ظاہر کیا۔یہ ایک مشہور مسئلہ ہے کہ نور القمر مستفاض من نور الشمس۔ یعنی چاند کا نور سورج کے نور سے فیض حاصل کرنے والا ہے۔ پس اس الہام میں اول خدا تعالیٰ نے اپنے تئیں سورج قرار دیا اور اس اس کے انوار اور فیوض کے ذریعہ سے مجھ میں نور پیدا ہوان بیان فرمایا۔اس لیے میں قمر کہلایا۔پھر چونکہ میری روشنی سے جو مجھے دی گئی ا س کا نام روشن ہوا۔ اس لیے اس بنا پر مجھے سورج قرار دیا گیا اور خدا تعالیٰ نے آپ کو قمر قرار دیا کیونکہ وہ میرے ذریعہ سے ظاہر ہوا۔ اور اس نے اپنا زندہ وجود میرے وسیلہ سے لوگوں پر نمایاں کیا۔
یہ شمس و قمر کا خطاب الہام کے دوسرے حصہ کی تشریح ہے کہ انت منی وانا منک یہ ایک ایسی نظیر ہے جو انسان کے وہم و گمان میں نہیں آسکتی؎ٰ۔

تقریر حضرت مسیح موعود ؑ
جو ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁ کو قبل دوپہر آپ نے مہمان خانہ جدید میں فرمائی
میں نے یہ امر پیش کیا تھا کہ ہماری جماعت میں سے ایسے لوگ تیار ہوین چاہیے جو واقعی طو رپر دین سے واقف ہوں اور اس لائق بھی ہوں کہ وہ ان حملوں کا جو بیرونی اور اندرونی طو ر پر اسلام پر ہو رہے ہیں،پورا پورا جواب دے سکیں ؎ٰ۔اسلام کی اندرونی بدعات اس حدتک پہنچ گئی ہیں کہ ان کی وجہ اور جہالت سے ہم کافر ٹھہرائے گئے ہیں۔اور ہم ایسی کراہت کی نظر سے دیکھے گئے ہیں کہ حال کے مخالف علماء کے فتووں کے موافق ہماری جماعت مسلمانوں کے قبرستان میں بدی داخل ہونے کے قابل نہیں۔
جماعت کی مخالفت کی وجوہات
اندرونی طور پر یہ حالت ہے اور بیرونی دشمن اور مخالف ہمارے فرقہ سے اس درجہ مخالفت اور عداوت رکھتے ہیں اور اس حدتک ہم کو اور ہماری جماعت کو برا کہتے ہیں کہ گویا ہم سے ذاتی عداوت ہے۔ اور کسی فرقہ سے ایسی عداوت نہیں۔ عیسائی پادریوں کے سینہ پر بھاری پتھر یہی جماعت ہے۔ آریوں کی نظر کے سامنے سخت دشمن ہم ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی دو وجوہ معلوم ہوتی ہیں۔ اولؔ یہ کہ ان لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ کمبر بستہ ہو کہ کفر اور مخالفوں کے طریق کو دور کرنا ہمارا ہی کام ہے۔ ہم میں نفاق کا شعبہ نہیں پایا جاتا اور حقیقت میں جو شخص اﷲ تعالیٰ کے لیے اور اس کی طرف سے آکر تبلیغ کرتا ہے، اس میں نفاق ہوتا ہی نہیں۔پس ہم چونکہ اُن کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے اور اظہار حق سے نہیں رکتے اور نہیں دبتے اس لیے طبعاً ہم انہیں بُرے معلوم ہوتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔
دوسریؔ وجہ یہ ہے کہ انسان کے اعمال کا عکس دوسروں کے دل پر ضرور پڑتا ہے اور انسان تو انسان حیوانوں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ مثلاً ایک بکری کو جس نے ساری عمر میں کبھی بھیڑیئے کو نہ دیکھاہو اور ایسا ہی بھیڑیئے نے بھی نہ دیکھا ہو؛ تاہم جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے تو ایک دوسرے کے دل پر وہ اثر جو ان تعلقات کا ہوسکتا ہے ضرور پڑے گا۔اسی طرح پر یہ ہمارے مخالف فطرتاً جانتے ہیں کہ ہمارے غلط عقائد کا استیصال اس فرقہ کے ذریعہ ہوگا اور اس لیے وہ فطرتاً ہمارے دشمن ہیں اور فی الحقیقت یہ سچی بات ہے کہ جو آسمان سے نازل ہوتا ہے، اس کا اثر سب پر پڑتا ہے۔ سیاہ دل اور اکفر بھی اس اثر کو محسوس کرتے ہیں اور ایسا ہی نیک طینت اور سعید الفطرت بھی اس اثر سے متأثر ہوتے ہیں۔چونکہ اس کی غرض ہر بدی کی اصلاح ہوتی ہے۔اس لیے بدیوں کے حامی اس کی مخالفت کو ضرور اُٹھتے ہیں۔ پھر ہم مخالفت سے کیونکر بچ سکتے تھے۔
آنحضرت ﷺ جب پیدا ہوئے اور آپؐ نے دعوت کی تو جس قدر مخالفت آپؐ کی کی گئی اور جس قدر دکھ آپؐ کو دیئے گئے کسی جھوٹے پیغمبر کو نہیں دیئے گئے۔ خود آپؐ ہی کے زمانہ میں جھوٹے پیغمبر بھی اُٹھے۔مگر کوئی بتا سکتا ہے کہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو بھی اس قسم کے دکھ دیئے گئے اور ان کی بھی ویسی ہی مخالفت کی گئی؟میں سچ کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کو وہ دکھ دیا گیا کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کس سکتے۔چہ جائیکہ بیان کریں اور نہ الفاظ مل سکتے ہیں کہ اُن کی تفصیل پیش کریں۔ اور آپؐ کے بالمقابل جھوٹے نبیوں کو کوئی دکھ نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ تھی؟یہی کہ آنحضرت ﷺ کی نسبت فطرتاً دلوں پر اثر پڑ گیا تھا کہ یہی شخص ہے جو اس کفر اور بدعت کو جو اس وقت پھیل رہی ہے دو رکردے گا ارو آخر وہ ہو کر رہا۔
اسی طرح پر آج ہماری مخالفت کی جاتی ہے۔ یہ ہمارے مخالف طبعاً یقین کرتے ہیں کہ ان کے غلط عقائد کا استیصال ہمارے ہی ہاتھ سے ہوگا۔ اس لیے وہ فطرتاً ہماری مخالفت کرتے ہیں اور ہم کو دکھ دینے مین کوئی کمی نہین کرتے مگر اُن کے یہ دکھ اور ایذائیں ہمیں اپنے کام سے نہیں روک سکتی ہین۔ یہ سچ ہے کہ آجکل ہم بہت ہی غریب ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے سواہمارا کوئی بھی نہیں۔ اور وہی ہمیں بس ہے۔ہمیشہ ہمارے خلاف یہ کوشش کی جایت ہے کہ جب او رجس طرح کسی کا بس چلے اس تھوڑی سی قوم کو نابود کر دیا جاوے۔ یہ تو اﷲ تعالیٰ ہی کا فضل ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرت اہے؛ ورنہ مخالفت کی تو یہ حالت ہے کہ اگر کوئی بیرونی مخالف مقدمہ کرے تو اندرونی مخالف اس سے سازش کرتے ہیں اور اس کو ہر قسم کی مدد دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی اندرونی مخالف حملہ کرے تو بیرونی دشمن اس سے آملتے ہیں۔ اور پھر سب ایک ہو کر مخالفت میں اُٹھتے ہیں۔
یہ ساری مخالفتییں بے حقیقت ہیں
ان ساری مخالفتوں ،عداوتوں کو میں دیکھتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں اور مجھے یہ سب بے حقیقت نظر آتی ہیں جب خدا تعالیٰ کے وعدوں پر نظر کرتا ہوں۔
چنانچہ اس کا ایک وعدہ یہ ہے جو پچیس برس ہوئے اشاعت پاچکا ہے۔ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے۔
یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی ومطھرک من الذین کفرو ا وجاعل الذین اتبعوک
فوق الذین کفرو االی یوم القیامۃ (اٰل عمراہ : ۵۶)
یہ وعدہ بتا رہا یہ کہ ال تعالیٰ میرے منکروں کو میرے متبعین پرغٰلب نہیں کرے گا بلکہ وہ مغلوب ہی رہیں گے۔اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جس قدر لوگ اس فقۂ حقہ کے مخالف ہیں خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی مغلوب رہیں گے۔
پس اس وعدۂ الٰہی کو دیکھ کر ساری مخالفتیں اور عداوتیں، ہیچ نظر آتی ہیں۔ اگر چہ ہم مطمئن ہیں کہ یہ وعدے پورے ہوں گے اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے وعدے سچے ہیں وہ پورے ہو کر رہتے ہیں۔ کوئی انسان ان کو روک نہیں سکتا۔
مجاہدہ اور سعی کی ضرورت
تاہم دنای جائے اساباب ہے۔ا س لیے اسباب سے کام لینا چاہیے۔دنیا میں لوگ حصول مقاصد کے لیے سعی کرتے ہیں اور اپنے اپنے رنگ میں ہر شخص کوشش کرتا ہے۔دیکھو ایک کسان کی خواہ کیسی ہی عمدہ زمین ہو۔آب پاشی کے لیے کنوأاں بھی ہو لیکن پھر بھی وہ تردد کرتا ہے۔زمین کو جوتتا ہے، قلبہ رانی کر کے اس میں بیج ڈالتاہے۔ پھر اس کی آب پاشی کرتا ہے۔ حفاظت اور نگہبانی کرتا ہے اور بہت کوشش اور محنت کے بعد وہ اپنا ماحصل حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح پر ہر قسم کے معاملات میں دنیا کے ہوں یا دین کے محنت ، مجاہدہ اور سعی کی حاجب اور ضرورت ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا اثر
اوائل صدرِ اسلام میں جبکہ اﷲ تعالیٰ کے محض فضل و کرم سے آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے تو آپ کو وہ قوتِ قدسی عطا ہوئی کہ جس کے قوی اثر سے ہزاروں با اخلاص اور جان نثار مسلمان پیدا ہو گئے۔ آپ کی جماعت ایک ایسی قابلِ قدر اور قابل رشک جماعت تھی کہ ایسی جماعت کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی۔نہ حضرت موسیٰ ؑ کو ملی اور نہ حضرت عیسیٰ ؑ کو ۔میں نے اس امر کے بیان کرنے میں ہرگز ہرگز مبالغہ نہیںکیا۔بلکہ میں جانت اہوں کہ وہ جماعت جس مقام اور درجہ پر پہنچی ہوئی تھی اس کو پورے طو رپر بیان ہی نہیں کر سکتے۔ ہمارے مخالف علماء اور دوسرے فرقے اگر چہ ہمارے مخالف ہیں تاہم وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس بیان میں ہم نے مبالغہ کیا ہے حضرت موسیٰ ؑ کی جماعت تو ایسی شریر، کج فہم تھی کہ وہ حضرت موسیٰ ؑکو پتھر ائو کرنا چاہتی تھی۔ بات بات میں سرکشی اور ضد کر بیٹھتے تھے۔ توریت کو پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ ان کی حالت کیسی تھی۔ وہ ایک سنگدل قوم تھی۔ کیا توریت میں ان کو رضی اﷲ عنہم کہا گیا ہے؟ہرگز نہیں بلکہ وہاں تو سرقش، ٹیڑھی،شریر وغیرہ ہی لکھا ہے اور حضرت عیسیٰ ؑ کی جماعت، وہ اس سے بدتر تھی۔ جیسا کہ انجیل سے معلوم ہوتا ہے۔ خود حضرت عیسیٰ اپنی جماعت کو لالچی، بے ایمان کہتے رہے بلکہ یہان تک بھی کہا کہ اگر تم میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو تو تم میں یہ برکات ہوں وہ برکات ہوں۔ غرض وہ اور حضرت موسیٰ ؑ اپنی جماعت سے ناراض ہی گئے اور انہیں ایک وفادار جماعت کے میسر نہ آنے کا افسوس ہی رہا۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ نہ توریت میں اور نہ انجیل میں کہیں بھی ان کو رضی اﷲ عنہم نہیں کہا گیا۔ مگر برخلاف اس کے جو جماعت آنحضرت ﷺ کو میسر آئی تھی اور جس نے آپ کی قوت قدسی سے اثر پایا تھا اس کے لیے قرآن شریف میں آیا ہے
رضی اﷲ عنہم ورضو اعنہ (البینۃ : ۹)
اس کا سبب کیا ہے؟ یہ آنحضرت ﷺ کی قوت قدسیہ کا نتیجہ ہے اور آنحضرت ﷺ کی وجوہ فضیلت میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آپؐ نے ایسی اعلیٰ درجہ کی جماعت تیار کی۔میرا دعویٰ ہے کہ ایسی جماعت آدم سے لے کر آخر تک کسی کو نہیں ملی۔
جماعت کی موجودہ حالت
میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ہم کو بھی ایسی جماعت نہیں ملی۔ جب ہم کسی امر میں فیصلہ کر دیں تو تھوڑے ہیں جو اس کو شرح صدر سے منظور کر لیں۔آنحضرت ﷺ کے تو وہ ایسے فدائی اور جاں نثار تھے کہ جانیں دے دیں۔ اب اگر اتنا ہی کہا جاوے کہ سودو سو کوس پر جائو اور وہاں دو چار برس تک بیٹھے رہو تو پھر گننے مننے لگ جاویں۔ زبان سے تو کہنے کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ جو کر دیں ہم کو منظور ہے، لیکن جب کہا جاوے تو پھر ناراضگی کا موجب ہوتا ہے۔ یہ نفاق ہوتا ہے۔ میں منفقوں کو پسند نہیں کرتا اﷲ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے:
ان المنا فقین فی الدرک الاسفل من النار (النساء : ۱۴۶)
یقینا یاد رکھو کہ منافق کافر سے بھی بدتر ہے، اس لیے کہ کافر میں شجاعت اور قوت فیصلہ تو ہوتی ہے۔ وہ دلیری کے ساتھ اپنی مخالفت کا اظہار کر دیتا ہے مگر منافق میں شجاعت اور قوت فیصلہ نہین ہوتی۔ وہ چھپاتا ہے۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر جماعت میں وہ اطاعت ہوتی جو ہونی چاہیے تھی تو اب تک یہ جماعت بہت کچھ ترقی کر لیتی۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ ابھی تک کمزور ہیں۔ مین یہ نہین کہتا کہ وہ میرا کہا نہیں مانتے، بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی ابتلا آجاوے تو موت آجاوے۔جماعت کی ایسی حالت دیکھ کر دل میں درد پیدا ہوتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کے امر اور وحی سے قبرستان کی تجویز
اب جو بار بار اﷲ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ تیری اجل کے دن قریب ہیں۔جیسا کہ یہ الہام ہے :۔
قرب اجلک المقدر۔ ولا نبقی لک من المخز یات ذکرا
ایسا ہی اردو زبان میں بھی فرمایا :
بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اس دن سب بر اداسی چھا جائے گی۔
غرض جب خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر کر دیا کہ اب تھوڑ ے دن باقی ہیں تو اسی لیے میں نے وہ تجویز سوچی جو قبرستان کی ہے۔ اور یہ تجویز میں نے اﷲ تعالیٰ کے امر اور وحی سے کی ہے اور اسی کے امر سے اس کی بناء ڈالی ہے کیونکہ اس کے متعلق عرصہ سے مجھے خبر دی گئی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ یہ تجویز بھی بہت سے لوگوں کے لیا ابتلاء کا موجب ہوگی لیکن اس بنا سے غرض یہی ہے کہ تا آنیوالی نسلوں کے لیے ایک ایسی قوم کا نمونہ ہو جیسے صحابہؓ کا تھا اور تا لوگ جانیں کہ وہ اسلام اور اس کی اشاعت کے لیے فدا شدہ تھے۔ ابتلائوں کا آنا ضروری ہے اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :
احسب الناس ان یترکو اان یقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
یعنی کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اُن سے اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے اور وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے؛ حالانکہ وہ ابھی امتحان میں نہیں ڈالے گئے اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے۔
لن تنا لو البر حتی تنفقو امما تحبون (اٰل عمران : ۹۳)
یعنی اس وقت تک تم حقیقی نیکی کو حاصل ہی نہیں کر سکتے جبتک تم اس چیز کو خرچ نہ کرو گے جو تم کو سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہے۔
اب غور کرو۔ جبکہ حقیقی نیکی اور رضاء الٰہی کا حصول ان باتوں کے بغیر ممکن ہی نہیں تو پھر نری لاف گزاف سے کیا ہو سکتا ہے۔ صحابہؓ کا یہ حال تھا کہ ان میں سے مثلاً ابو بکر ؓ کا وہ قدم اور صدق تھا کہ سارا مال ہی آنحضرت کے پاس لے آئے۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ کہ خدا تعالیٰ کے لیے زندگی وقف کر چکے تھے۔اور انہوں نے اپان کچھ بھی نہ رکھا تھا۔ مومن کی بھلائی کے دن بھلے آتے ہیں تو ایسے موقعوں پر جبکہ اس کو کچھ خرچ کرنا پڑؑ خوش ہوت اہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ ہر صدق و صفا کے جواَب تک چھپے ہوئے تھے ظاہر ہوں گے۔برخلاف اس کے منافق ڈرتا ہے اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اب اس کا نفاق ظاہر ہو جائے گا۔
یہ قبرستان کا امر بھی اسی قسم کا ہے مومن اس سے خوش ہوں گے اور منافقوں کا نفاق ظاہر ہو جائے گا۔ میں نے اس امر کو جبتک تو اتر سے مجھ پر نہ کھلا پیش نہیں کیا۔ اس میں تو کچھ شک ہی نہیں کہ آخر ہم سب مرنے والے ہیں۔ اب غور کرو کہ جو لوگ اپنے بعد اموال چھوڑ جاتے ہیں وہ اموال ان کی اولاد کے قبضہ میں آتے ہیں۔مرنے کے بعد انہیں کیا معلوم کہ اولاد کیسی ہو؟ بعض اوقات اولا دایسی شریر اور فاسق فاجر نکلتی ہے کہ وہ سارا مال شراب خانوںاور زنا کاری مینا ور ہر قسم کے فسق و فجور میں تباہ کیا جاتا ہے اور اس طرح پر وہ مال بجائے مفید ہونے کے مضر ہوتا ہے اور چھوڑنے والے پر عذاب کا موجب ہو جاتا ہے جبکہ یہ حالت ہے تو پھر کیوں تم اپنے اموال کو ایسے موقع پر خرچ نہ کرو جو تمہارے لیے ثواب اور فائدہ کا باعث ہو۔ اور یہی صورت ہے کہ تمہارے مال میں دین کا بھی حصہ ہو۔ اس سے فائدہ یہ ہوگ ااگر تمہارے مال میں دین کا بھی حصہ ہے تو اس بدی کا تدارک ہو جائے گا۔ جو اس مال کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو۔ یعنی جو بدی اولاد کرتی ہے۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم اس بات کو خوب یاد رکھو کہ جیس اکہ قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اور ایسا ہی دوسرے نبیوں نے بھی کہا ہے یہ سچ ہے کہ دولت مند کا بہشت میں داخل ہونا ایسا ہی ہے جیسے اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا مال اس کے لیے بہت سی روکوں کا موجب ہوجاتا ہے۔ اس لیے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا مال تمہارے واسطے ہلاکت اور ٹھوکر کا باعث نہ ہو تو اسے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ اور اُسے دین کی اشاعت اور خدمت کے لیے وقف کرو۔
سچا مومن کون ہے؟
یقینا یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی مومن اور بیعت میں داخل ہوتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لے جیسا کہ وہ بیعت کرتے وقت کہتا ہے۔ اگر دنیا کی اغراض کو مقدم کرتا ہے تو وہ اس اقرار کو توڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مجرم ٹھہرتا ہے۔ پس اسی غرض سے یہ اشتہار (الوصیت) میں نے خدا تعالیٰ کے اذن سے دیا ہے۔ سچی بات یہی ہے۔ سال دیگر راکہ مے داند حساب۔لیکن جبکہ خد اتعالیٰ کی متواتر وحی نے مجھ پر کھولا کہ وقت قریب ہے اور اجل مقدر کا الہام ہوا تو میں نے اﷲ تعالیٰ ہی کے اشارہ سے یہ اشتہار دیا کہ ت آئندہ کے لیے اشاعت دین کا سامان ہواورتا لوگوں کو معلوم ہو کہ آمنا و صدقنا کہنے والوں کی عملی حالت کیا ہے۔ یقینا یاد رکھو کہ جبتک انسان کی عملی حالت درست نہ ہو زبان کچھ چیز نہی’ یہ نری لاف گزاف ہے۔ زبان تک جو ایمان رہت اہے اور دل مین داخل ہو کر اپنا اثر عملی حالت پر نہیں ڈالتا وہ منافق کا ایمان ہے۔ سچا ایمان وہی ہے جو دل میں داخل ہو اور اسکے اعمال کو اپنے اثر سے رنگین کر دے۔ سچا ایمان ابو بکرؓ اور دوسرے صحابہؓ اجمعین کا تھا،کیونکہ جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں مال تو مال جان تک کو دے دیا۔ اور اس کی پروا بھی نہ کی۔جان سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہوتی، مگر صحابہؓ نے اُسے بھی آنحضرت ﷺ پر قربان کر دیا۔ انہوں نے کبھی اس بات کی پروا بھی نہیں کی کہ بیوی بیوہ ہو جائے گی یا بچے یتیم رہ جائیں گے بلکہ وہ ہمیشہ اسی آرزو میںر ہتے کہ خد اتعالیٰ کی راہ مین ہماری زندگیاں قربان ہوں۔
مجھے ہمیشہ خیال آتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی عظمت کا نقش دل پر ہوجاتا ہے اور کیسی بابرکت وہ قوم تھی اور آپؐ کی قوتِ قدسیہ کا کیسا قوی اثر تھا کہ اس قوم کو اس مقام تک پہنچا دیا۔ غور کر کے دیکھو کہ آپؐ نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ایک حالت اور وقت ان پر ایسا تھا کہ تمام محرمات ان کے لیے شیر مادر کی طرح تھیں۔ چوری، شراب خوری، زنا، فسق و فجور سب کچھ تھا۔غرض کونسا گناہ تھا جو اُن میں نہ تھا لیکن آنحضرت ,ﷺ کے فیضِ صحبت اور تربیت سے اُن پر وہ اثر ہوا۔ اور ان کی حالت میں وہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ خود آنحضرت ﷺ نے اس کی شہادت دی اور کہا اﷲ اﷲ فی اصحابی۔ گویا بشریت کا چولہ اُتار کر مظہر اﷲ ہو گئے تھے اور ان کی حالت فرشتوں کی سی ہو گئی تھی جو
یفعلون ما یؤمرون (التحریم : ۷)
کے مصداق ہیں۔ ٹھیک ایسی ہی حالت صحابہؓ کی ہو گئی تھی۔ ان کے دلی ارادے اور نفسانی جذبات بالکل دور ہو گئے تے۔ ان کا اپنا کچھ رہا ہی نہیں۔نہ کوئی خواہش تھی نہ آرزو۔ بجز اس کے کہ اﷲ تعالیٰ راضی ہو۔اور اس کے لیے وہ خد اتعالیٰ کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے۔ قرآن شریف ان کی اس حالت کے متعلق فرماتا ہے۔
منہم من قضیٰ نحبہ و منہم من ینتظر وما بدلو اتبدیلا (الاحزاب : ۲۴)
دین کو دنیا پر مقدم کر لو
یہ حالت انسان کے اندر پیدا ہو جانا آسان بات نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کو آمادہ ہو جاوے۔مگر صحابہؓ کی حالت بتاتی ہے کہ انہوں نے اس فرض کو ادا کیا۔ جب انہیں حکم ہوا کہ اس راہ میں جان دے دو۔ پھر وہ دنیا کی طرف نہیں جھکے۔ پس یہ ضروری امر ہے کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کر لو۔
یاد رکھو اب جس کا اصول دنیا ہے اور پھر وہ اس جماعت میں شامل ہے۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اس جماعت میں نہیںہے۔اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہی اس جماعت میں داخل اور شامل ہے جو دنیا سے دست بردار ہے۔ یہ کوئی مت خیال کرے کہ میں ایسے خیال سے تباہ ہو جائوں گا۔یہ خدا شناسی کی راہ سے دور لے جانے والا خیال ہے۔خدا تعالیٰ کبھی اس شخص کو جو محض اسی کا ہو جاتا ہے ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ خود اس کا متکفل ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کریم ہے جو شخص اس کی راہ میں کچھ کھوتا ہے وہی کچھ پاتا ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں کو پیار کرتا ہے اور انہیں کی اولاد بابرکت ہوتی ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کرتا ہے۔ اور یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ کا سچا فرماں بردار ہو وہ یا اس کی اولاد تباہ و برباد ہو جاوے۔دنیا ان لوگوں ہی کی برباد ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور دنیا پر جھکتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہر امر کی طناب اﷲ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے بغیر کوئی مقدمہ فتح نہیں ہو سکتا۔ کوء کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی اور کسی کسم کی آسائش اور راحت میسر نہیں آسکتی دولت ہوسکتی ہے مگر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد یہ بیوی یا بچوں کے ضرور کام آئے گی۔ان باتوں پر غور کرو اور اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کرو۔
غرض مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں جماعت کو دیکھتا ہوں کہ یہ ابھی تھوڑے ابتلا کے بھی لائق نہیں۔وجہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ قوتِ ایمانی پیدا نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے۔ ابھی تک جو تعریف کی جاتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی ستاری کرارہی ہے۔ لیکن جب کوئی ابتلاء اور آزمائش آتی ہے تو وہ انسان کو ننگا کر کے دکھا دیتی ہے۔ اس وقت وہ مرض جو دل میں ہوتی ہے اپنا پورااثر کر کے انسان کو ہالک کر دیتی ہے۔
فی قلوبہم مرض فزاد ھم اﷲ مرضا (البقرۃ : ۱۱)
یہ مرض ابتلاء ہی کے وقت بڑھتی اور اپنا پورا زور دکھاتی ہے خدا تعالیٰ کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ دلوں کی مخفی قوتوں کو ظاہر کر دیتا ہے اور جو دل میں خبث اور شرارت رکھتا ہے اس کو بھی کھول کر دکھا دیتا ہے اور کوئی بات چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی۔
ایک صادق جماعت ملنے کا وعدہ
یقینا سمجھو کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکین عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں۔ پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو نہ پہلے امر کی طرف ۔اگر میں جماعت کی موجودہ حالت پر ہی نظر کروں تو مجھے بہت غم ہوتا ہے کہ ابھی بہت ہی کمزور حالت ہے اور بہت سے مراحل باقی ہیں جو اس نے طے کرنے ہیں،لیکن جب اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر نظر کرتا ہوں جو اس نے مجھ سے کئے ہیں تو میرا غم امید سے بدل جاتا ہے۔منجملہ اس کے وعدوں کے ایک یہ بھی ہے، جو فرمایا :
وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفرو االیٰ یوم القیامۃ (اٰ ل عمران : ۵۶)
یہ تو سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا۔لین غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہوسکتا۔ جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا۔ ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقشِ قدم پر چلے،اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لیے مقدر کی ہے جو میر اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو۔ اس سے مجھے تسلی ملتی اور اور میرا غم امید سے بدل جاتا ہے۔مجھے اس بات کا غم نہیں کہ ایسی جماعت نہ ہوگی۔ نہیں جماعت تو ضرور ہوگی اس لیے کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ایسے لوگ ضرور ہوں گے۔مگر غم اس بات کا ہے کہ ابھی جماعت کچی ہے اور پیغام موت آرہا ہے۔گویا جماعت کی حالت اس بچہ کی سی ہے جس نے ابھی دو چار روز دودھ پیا ہو اور اس کی ماں مر جائے۔؎ٰ
بہر حال خد اتعالیٰ کے وعدوں پر میر نظر ہے اور وہ خدا ہی ہے جو میری تسکین اور تسلی کا باعث ہے ۔ایسی حالت میں کہ جماعت کمزور اور بہت کچھ تربیت کی محتاج ہے۔ یہ ضروری امر ہے کہ میں تمہیںت وجہ دلائوں کہ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرو۔ اور اسی کو مقدم کر لو اور اپنے لیے آنحضرت ﷺکی پاک جماعت کو ایک نمونہ سمجھو ان کے نقش قدم پر چلو۔
صحابہ کرام کی پاک جماعت کا نمونہ
میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ وہ ایک ایسی صادق جماعت تھی جو اپنے ایمان قوی کے لحاظ سے جان فدا کرنے میں بھی دریغ نہ کرتی تھی بلکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ اس کی نظیر مل سکتی ہی نہیں۔ جب ہم دوسری قوموں کا اُن سے مقابلہ کرتے ہیںت و اُن کی عظمت اور شوکت کا ارو بھی دل پر اثر ہوتا ہے ؎ٰ۔اور جس قدر غور کرتے جاویں آپؐ کے مراتب اور مدارج پر حیرت ہوتی ہے کہ آپؐ کو اﷲ تعالیٰ نے کیسی قوت قدسی عنایت فرمائی تھی اور اس میں ایسی تاثیر اور طاقت رکھی تھی کہ صحابہؓ جیسی جان نثار قوم آپؐ نے تیار کی۔ آپؐ ایسی قوم چھوڑ گئے تھے جو خالص خدا ہی کے لیے قدم اٹھنے والی تھی۔وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسے سرگرم اور تیار تھے اور اس راہ میں انہیں جان دے کر ایسی خوشی ہوتی تھی کہ آجکل کے دنیا داروں کو کسی مقدمہ کی فتح سے بھی وہ خوشی نہیں ہوسکتی۔وہ بالکل خدا ہی کے لیے ہو گئے تھے۔ ایسی زبردست اور بے مثل تبدیلی کوئی نبی اپنی قوم میں پیدا نہیں کرسکا۔ لکھا ہے کہ ایک صحابیؓ جنگ کر رہا تھا۔ اس نے دشمن پر تلوار ماری،لیکن وہ تلوار دشمن کو تو نہ لگی الٹ کر اُسے کے آلگی۔ بعض نے کہا کہ وہ شہدی نہیں ہوا۔اُسے آنحضرتﷺ کے پاس لائے۔تو اس نے آنحضرت ﷺسے پوچھا کہ کیا میں شہید نہیں ہوا۔ اس لیے کہ اُسے اس بات کا سخت غم تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ دو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ اس لیے کہ ایک تو تونے دشمن پر حملہ کیا۔ دوسر خود اسی راہ میں مارا گیا۔ بات کیا تھی؟ صرف یہ کہ وہ نہ چاہتے تھے کہ یہ مرتبہ شہادت ہم سے رہ جاوے۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اپنی محبت سے بھر دیا تھا ارو اتنا ہی نہیں تھا بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت اور معرفت الٰہی میں اعلیٰ درجہ تک پہنچ گئے تھے اوراسی وجہ سے ان کی عقل فہمن اور فراست میں بہت ترقی ہو گئی تھی۔
ایک انگریز جب آنحضرت ﷺ اور مسیخ کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ لکھتا ہے کہ صحابہؓ میں علاوہ اس کے کہ ان میں صدق اور ایمان کی وہ طاقت موجود تھی کہ آنحضرت ﷺ کے لیے سرد ینے کو تیار ہو جاتے تھے اور ایسی جگہ کھڑے ہوتے تھے، جہاں بجز جان دینے کے اور کوئی چارہ ہی نہ ہوتا تھا،لیکن برخلاف اس کے مسیح کے حواریوں کی یہ حالت تھی کہ خود انہیں میں سے ایک نے تیس روپے لے کر پکڑ وادیا اور دوسرے اس کے پاس سے بھاگ گئے اور دو گھڑی بھی اس کے ساتھ نہ ٹھہر سکے۔ سامنے کھڑے ہو کر ایک نے *** کی۔ ایسے حواریوں کو صحابہؓ کے ساتھ کیا نسبت اور کیا مقابلہ؟
پھر عقلی طور پر مقابلہ کر کیلکھا ہے کہ حواریوں کی تو یہ حالت تھی کہ وہ ایک گائوں کا انتظام کرنے کی قابلیت نہ رکھتے تھے۔برخلاف اُن کے صحابہؓ نے علومِ سیاست اور حکمرانی میں وہ کمال دکھایا اور ایسی اعلیٰ قابلیت کا ثبوت دیا کہ آج اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ انہوں نے ایک عظیم الشان سلطنت کا انتظام کیا۔حضرت عمر اور حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہما کا نمونہ موجود ہے۔ حضرت ابو بکرؓ کی خلافت میں ایسا خطرناک فتنہ پیدا ہوا تھا۔ اگر اﷲ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو سخت مشکلات کا سامنا تھا مگر حضرت ابو بکر ؓ نے خدا تعالیٰ سے تائید پا کر اس فتنہ کو اور جو جنگلی بادیہ نشین مرتد ہو گئے تھے ان کو سدھا را اور درست کیا۔ غرض باوجود اس بات کے کہ وہ تیار شدہ تھے اور صدق اور نر سے بھرے ہوئے تھے؛ تاہم اﷲ تعالیٰ ان کو فرماتا ہے۔
فلو لا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ (التوبہ : ۱۲۲)
یعنی ایسے لوگ ہونے چاہیے جو تفقہ فی الدین کریں یعنی جو دین آنحضرت ﷺ نے سکھایا ہے اس میں تفقہ کر سکیں۔ یہ نہیں کہ طوطے کی طرح یاد ہو اور اس میں غور و فکر کی مطلق عادت اور مذاق ہی نہ ہو۔اس سے وہ غرض حاصل نہیں ہو سکتی جو آنحضرت ﷺ چاہتے تھے اور وہی غرض ہماری ہے یعنی محل اور موقعہ کے حسبِ حال جواب دے سکیں۔ مناظرہ کر سکیں۔ لیکن چونکہ سب کے سب ایسے نہیں ہو سکتے۔اس لیے یہ نہیں فرمایا کہ سب کے سب ایسے ہو جائیں بلکہ یہ فرمایا کہ ہر جماعت اور گروہ میں سے ایک ایک آدمی ہو اور گویا ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہونی چاہیے جو تبلیغ اور اشاعت کا کام کر سکیں۔
انسانوں کے تین درجات
اس لیے بھی کہ ہر شخص ایسی طبیعت اور مذاق کا نہیں ہوتا۔خود اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی تقسیم تین طرح پر کی ہے۔
منہم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنھم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳)
یعنی تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو ظالم لنفہ کہلاتے ہیں ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ خواہش نفس ان پر غالب ہوتی ہے اور وہ گویا پنجۂ نفس میں گرفتار ہوتے ہی۔ دوم وہ لوگ ہیں جو مقتصد یعنی میانہ رو کہلاتے ہیں۔ یعنی کبھی نفس ان پر غالب ہو جاتا ہے اور کبھی وہ نفس پر غالب ہو جاتے ہیں اور پہلی حالت سے نکل چکے ہوتے ہیں، لیکن تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو پنجۂ نفس سے کلی رہائی پالیتے ہیں اور سابق بالخیرات کہلاتے ہیں۔ یعنی نیکی کرنے میں سب سے سبقت لے جاتے ہیں۔اور وہ محض خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں ۔ان میں علمی اور عملی قوت آجاتی ہے۔ایسے لوگ خدمت دین کے لیے مفید اور کار آمد ہوتے ہیں۔ اس قانون کو مد نظر رکھ کر اﷲ تعالیٰ نے بعض کا حکم دیا۔ کیونکہ کل کے کل تو اس مقصد کے لیے تیار نہیں ہو سکتے تھے۔ اور یہی اﷲ تعالیٰ کا قانون قدرت ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوین چاہئیں جو تجارت، زراعت یا ملازمت کریں اور ایسے بھی ہونے چاہئیں جو دین کی تبلیغ کرنے والے ہوں تاکہ قوم آئندہ ٹھوکروں سے بچ جاوے۔
یہ یاد رکھو کہ جب کوئی قوم تباہ ہونے کو آتی ہے تو پہیل اس میں جہالت پیدا ہوتی ہے اور وہ دین جو انہیں سکھایا گیا تھا اُسے بھول جاتے ہیں۔جب جہالت پیدا ہوتی ہے تو اس کے بعد یہ مصیبت اور بلا آتی ہے کہ اس قوم میں تقویٰ نہیں رہتا اور اس مین فسق و فجور اور ہر قسم کی بدکرداری شروع ہو جاتیہے اور آخر اﷲ تعالیٰ کا غضب اس قوم کو ہلاک کر دیتا ہے کیونکہ تقویؓ اور خداترسی علم سے پیدا ہوتی ہے۔ جیس اکہ خود اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
انما یخشی اﷲ من عبادہ العلماء (فاطر : ۲۹)
یعنی اﷲ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو عالم ہیں۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت علم خشیت اﷲ کو پیدا کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ نے علم کو تقویٰ سے وابستہ کیا ہے کہ جو شخص پورے طور رپ عالم ہوگا اس میں ضرور خشیتہ اﷲ پیدا ہوگی۔ علم سے مراد میری دانست میں علم القرآن ہے۔ اس سے فلسفہ، سائنس یا ارو علوم مروجہ مراد نہیں کیونکہ اُن کے حصول کے لیے تقویٰ اور نیکی کی شرط نہیں بلکہ جیسے ایک فاسق فاجر اُن کو سیکھ سکتا ہے ویسے ہی ایک دیندار بھی،لین علم القرآن بجز متقی اور دیندار کے کسی دوسر یکو دیا ہی نہیں جاتا ۔پس اس جگہ علم سے مراد علم القرآن ہی ہے جس سے تقویؓ اور خشیت پیدا ہوتی ہے۔
مبلغین کے لیے دنیوی علوم کی ضرورت
ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جس قوم سے تمہیں مقابلہ پیش آوے اس مقابلہ میں تم بھی ویسے ہی ہتھیار استعمال کرو جیسے ہتھیار وہ مقابلہ والی قوم استعمال کرتی ہے۔ اور چونکہ آجکل مذہبی مناظرہ کرنے والے لوگ ایسے امور پیش کر دیتے ہیں جن کا سائنس اور موجودہ علوم سے تعلق ہے اس لیے اس حدتک ان علوم میں واقفیت اور دخل کی ضرورت ہے جیسے مثلا ً اعتراض کر دیتے ہیں کہ جن ممالک میں چھ ماہ تک آفتاب طلوع یا غروب نہیں ہوتا۔ وہاں نماز یا روزہ کے احکام کی تعمیل کس طرح پر ہوگی؟ اب جو شخص ان ممالک سے واقف نہیں یا ان باتوں پر اطلاع نہیں رکھتا وہ سنتے ہی گھبرا جاویگا اور حیران ہو کر رہ جاویگا۔ ایسا اعتراض کرنے والوں کا منشا یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کی تکمیل کو ناقص قرار دیں کہ ایسے ممالک کے لیے کوئی اور حکم ہونا چاہیے تھا۔ غرض ایسے اعتراضات چونکہ آجکل ہوتے ہیں، اس لیے ضروری امر ہے کہ ان علوم میں کچھ نہ کچھ دسترس ضرور ہو۔
ایسا ہی بعض لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف گردشِ آسمان کا قائل ہے جیسے فرمایا
والسماء ذات الرجع (الطارق : ۱۲)
حالانکہ آجکل کے بچے بھی جانتے ہیں کہ زمین گردش کرتی ہے۔ غرض اسی قسم کے بیسیوں اعتراض کر دیتے ہیں اور تادقیتکہ ان علوم میں کچھ مہارت اور واقفیت نہ ہو جواب دینے میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ زمین یا آسمان کی گردش ظنی امور ہیں ان کو یقینیات میں داخل نہیں کر سکتے۔ ایک زمانہ تک گردشِ آسمان کے قائل رہے۔پھر زمین کی گردش کے قائل ہو گئے۔ سب سے زیادہ ان لوگوں کی طبابت پر مشق ہے لیکن اس میں بھی دیکھ لو کہ آئے دن تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً پہلے ذیابیطس کے لیے یہ کہتے تھے کہ اس کے مریض کو میٹھی چیز نہیں کھانی چاہیے مگر اب جو تحقیقات ہوئی ہے تو کہتے ہیں کچھ ہرج نہیں اگر سنگترہ بھی کھا لے یاچاء پی لے۔
غرض یہ سب علوم ظنی ہیں۔اس موقعہ پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ والسماء ذات الرجع کے معنے بتادیئے جاویں۔ کیونکہ اس کا ذکر آگیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ سماء کے معنے آسمان ہی کہ نہیں ہیں بلکہ سماء مینہ کو بھی کہتے ہیں۔گویا اس آیت میں اس مینہ کی جو زمین کی طرف رجوع کرتا ہے قسم کھائی ہے اور پھر وہ زمین جس سے شگوفے نکلتے ہیں۔اکیلی زمین اور اکیلا آسمان کچھ نہیں کرسکتا۔
وحیٔ الٰہی کی ضرورت پر ایک عقلی دلیل
اس آیت کو اﷲ تعالیٰ ضرورت وحی پر بطور مثال پیش کرتا ہے کہ ہر چنر زمین میں جو جوہر قابل ہوں اور اس کی فطرت یں نشونما کا مادہ ہو لیکن وہ نشونما نہیں پاسکتا اور فطرت بار آور نہیں ہوسکتی جبتک آسمان سے مینہ نہ برسے ؎
باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست
در باغ لالہ ردیدد در شورہ بوم و خس
اس غض کے لیے کہ عمدہ عمدہ پھل اور پھول پیدا ہوں،عمدہ زمین اور اس کے لیے بارش کی ضرورت ہے جبتک یہ بات نہ ہو کچھ نہیں ہو سکتا۔اب اس نظارۂ فطرت کو اﷲ تعالیٰ ضرورت وحی کے لیے پیش کرتا ہے اور توجہ دلاتا ہے کہ دیکھو جب مینہ نہ برسے تو قحط کا اندیشہ ہوتا ہے یہانتک کہ زمینی پانی جو کنوئوں اور چشموں میں ہوتا ہے، وہ بھی کم ہونے لگتا ہے۔ پھر جبکہ دنیوی اور جسمانی ضرورتوں کے لیے آسمانی پائی کی ضرورت ہے تو کیا روحانی اور ابدی ضرورتوں کے لیے روحانی بارش کی ضرورت نہین؟ اور وہ وحیٔ الٰہی ہے۔ جیسے مینہ کے نہ برسنے سے قحط پڑتا اور کنوئیں اور چشمے خشک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پر اگر انبیاء و رسل دنیا میں نہ آئیں تو فلسفیوں کا وجود بھی نہ ہو کیونکہ قویٰ عقیلہ کا نشونما وحیٔ الٰہی ہی سے ہوتا ہے اور زمینی عقلیں اسی سے پرورش پاتی ہیں۔
پس اس آیت والسماء ذات الرجع۔ والارض ذات الصدع (الطارق : ۱۲،۱۳)
میں وحی الٰہی کی ضرورت پر عقلی اور فطرتی دلائل پیش کئے ہیں۔جو شخص اس مار کو سمجھ لے گا وہ بول اُٹھے گا کہ بیشک وحیٔ الٰہی کی ضرورت ہے۔اور یہ وہ طریق ہے جو آدم سے چلا آتا ہے اور ہر شخص نے اپنی استعداد اور فطرت کے موافق اس سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ ہاں جو جاہل اور ناقص تھے یا جن میں تکبر اور خودسری تھی وہ محروم رہ گئے اور انہوں نے کچھ بھی حصہ نہ لیا۔یہی اصل اور سچی بات ہے اور تم یقینا یاد رکھو کہ آسمانی بارش کی سخت ضرورت ہے۔اس لیے کہ عملی قوت بجز اس بارش کے پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔
تقویٰ کا مدار علم پر ہے
غرض اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔تقویٰ بھی تب ہی پورا ہوتاہے، جب علم الٰہی اس کے ساتھ ہو۔اور وہ وہ علم ہے جو کتاب اﷲ میں مندرج ہے :
یہ سچی بات ہے کہ کوئی شخص مراتب ترقیات حاصل نہیں کر سکت اجب تک تقویٰ کی باریک راہوں کی پروا نہ کرے اور تقویٰ کا مدار علم پر ہے۔یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب مجید کے شروع ہی میں بیان فرمایا ہے:
یہاں حضرت اقدس نے سورہ بقرہ کے پہیل رکوع کے کچھ حصہ کی تفسیر بیان فرمائی جس کو میں درج کرتا ہوں، لین سہولت اور اس تفسیر کی ترتیبِ اَبلغ کے لحاظ سے پہلے وہ حصہ یکجائی طور پر درج کرتا ہوں اور پھر اس کا ترجمہ دیتا ہوں :
زاں بعد تفسیر (ایڈیٹر الحکم)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
الٓمٓ۔ ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین۔ الذین یومنون بالغیب
ویقیمون الصلوٰۃ ومما رزقنٰھم ینفقون ۔والذین یو منون بما انزل الیک
وما انزل من قبلک وبالاٰخرۃ ھم یوقنون۔ اولئک علی ھدی من ربھم
واولائک ھم المفلحون۔ (البقرۃ : ۱ تا ۲)
ترجمہ:۔ میں اﷲ جو بہت جاننے والا ہوں۔ یہ کتاب جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں
ہے۔متقیوں کے لیے ہدایت نامہ ہے (متقی کون ہوتے ہیں) جو غیب پر ایمان لاتے
ہیں اور نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں عطا کیا گیا ہے اس میں سے خرچ کرتے
ہیں۔اور متقی وہ لوگ ہوتے ہیں۔ جو اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی
ہے اور اس وحی پر بھی جو تجھ سے پہلے نازل ہوئی۔ اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔
تفسیر
الٓمٓ۔ ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین۔
میں اﷲجو بہت جاننے والا ہوں۔ یہ کتاب جو شک وشبہ اور ہر عیب ونقص سے پاک ہے متقیوں کی ہدایت کے لیے بھیجی گئی ہے۔
قرآن کریم کی علل اربعہ
ہر شے کی چار علتیں ہوتی ہیں۔ یہاں بھی ان علل اربعہ کو بیان کیا ہے۔ اور وہ علل اربعہ یہ ہوتی ہیں۔علتؔ فاعلی۔ علت صوری، علت مادی، علت غائی۔ اس مقام پر قرآن شریف کی چار علتوں کا ذکر کیا۔
علت فاعلی تو اس کتاب کی الٓمٓ ہے۔ اور الٓمٓ کے معنے میرے نزدیک انا اﷲ اعلم یعنی میں اﷲ وہ ہوں جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں۔ اور علت مادی ذٰلک الکتاب ہے۔
‏Amira 21-2-06
یعنی یہ کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔اور علت صوری لا ریب فیہ ہے۔ یعنی اس کتاب کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ ہی نہیں۔ جو بات ہے مستحکم اور جو دعویٰ ہے وہ مدلل اور روشن۔اور علت غائی اس کتاب کی ھدی للمتقین ہے۔یعنی اس کتاب کے نزول کی غرض و غایت یہ ہے کہ متقیوں کو ہدایت کرتی ہے۔
متقی کی صفات
یہ چاروں علتیں بیان کرنے کے بعد پھر اﷲ تعالیٰ نے متقیوں کی عام صفات بتائی ہیں کہ وہ متقی کون ہوتے ہیں جو ہدایت پاتے ہیں۔
الذین یومنون بالغیب ویقیمون الصلوٰۃ ومما رزقنھم ینفقون۔ والذین یومنون بما انزل الیک
وما انزل من قبلک وبالاخرۃ ھم یوقنون۔
یعنی وہ متقی ہوتے ہیں جو خدا پر ہنوز پردۂ غیب میں ہوتا ہے ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تجھ پر نازل کی ہے اور جو کچھ تجھ سے پہلے نازل ہوا۔اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔یہ صفات متقی کے بیان فرمائے۔
اب یہاں بالطبع ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کتاب کی غرض و غایت تو یہ بتائی۔ ھدی للمتقین۔ اور پھر متقیوں کے صفات بھی وہ بیان کئے جو سب کے سب ایک با خدا انسان میں ہوتے ہیں۔یعنی خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو۔نماز پڑھتا ہو۔ صدقہ دیتا ہو۔کتاب اﷲ کو مانتا ہو۔ قیامت پر یقین رکھتا ہو۔ پھر جو شخص پہلے ہی سے ان صفات سے متصف ہے اور وہ متقی کہلاتا ہے اور ان امور کا پابند ہے تو پھر وہ ہدایت کیا ہوئی جو اس کتاب کے ذریعہ اس نے حاصل کی ہے؟اس میں وہ امر زائد کیا ہے جس کے لیے یہ کتاب نازل ہوئی ہے؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی اور امر ہے جو اس ہدایت میں رکھا گیا ہے کیونکہ یہ امور جو بطور صفات متقین بیان فرمائے ہیں یہ تو اس ہدایت کے لیے جو اس کتاب کا اصل مقصد اور غرض ہے بطور شرائط ہیں؛ ورنہ وہ ہدایت اور چیز ہے اور وہ ایک اعلیٰ امر ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ے اور جس کو میں بیان کرتا ہوں۔
ایمان بالغیب سے اگلا درجہ
پس یاد رکھو کہ متقی کی صفات میں سے پہلی صفت یہ بیان کی یومنون بالغیب یعنی غیب پر ایمان لاتے ہیں۔یہ مومن ایک ابتدائی حالت کا اظہار ہے۔ کہ جن چیزوں کو اس نے نہیں دیکھا ان کو مان لیا ہے۔ غیب اﷲ تعالیٰ کا نام ہے۔ اور اس غیب میں بہشت، دوزخ، حشر اجساد اور وہ تمام امور بھی جو ابھی تک پردۂ غیب میں ہیں شامل ہیں۔اب ابتدائی حالت میں تو مومن ان پر ایمان لاتا ہے لیکن ہدایت یہ ہے کہ اس حالت پر اسے ایک انعام عطا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا علم غیب سے انتقال کر کے شہود کی طرف آجاتا ہے اور اس پر پھر ایسا زمانہ آجاتا ہے کہ جن باتوں پر دہ پہلے غائب کے طور پر ایمان لاتا تھا وہ ان کا عارف ہو جاتا ہے اور وہ امور جو ابھی تک مخفی تھے اس کے سامنے آجاتے ہیں اور حالت شہود میں انہیں دیکھتا ہے۔وہ خدا تعالیٰ کو اسی عالم میں دیکھ لیتا ہے۔ اور اگر اس کو یہ مرتبہ عطا نہ ہوتا تو پھر یومنون بالغیب کے مصداق کو کوئی ہدایت اور انعام عطا نہ ہوتا۔ اس کیلئے قرآن شریف گویا موجب ہدایت نہ ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہتوا اور اس کیلئے ہدایت یہی ہے کہ اس کے ایمان کو حالت غیب سے منتقل کر کے حالت شہود میں لے آتا ہے اور اس پر دلیل یہ ہے
من کان فی ھذہ اعمیٰ فھوفی الاخرۃ اعمیٰ (بنی اسرائیل : ۷۳)
یعنی جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ دوسرے عالم میں بھی اندھا اُٹھایا جاوے گا۔ اس نابینائی سے یہی مراد ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی تجلی اور ان امرو کو جو حالت غیب میں ہیں اسی عالم میں مشاہدہ نہ کرے اور یہ نابینائی کا کچھ حصہ غیب والے میں پایاجاتا ہے، لیکن ھدی للمتقین کے موافق جو شخص ہدایت پالیتا ہے اس کی وہ نابینائی دور ہو جاتی ہے اور وہ اس حالت سے ترقی کر جاتا ہے اور وہ ترقی اس کلام کے ذریعہ سے یہ ہے کہ ایمان بالغیب کے درجہ سے شہود کے درجہ پر پہنچ جاوے گا اور اس کے لیے یہی ہدایت ہے۔
اقامت صلوٰۃ سے اگلا درجہ
متقی کی دوسری صفت یہ ہے یقیمون الصلوٰۃ یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں۔ متقی سے جیسا ہو سکتا ہے تماز کھڑی کرتا ہے۔ یعنی کبھی اس کی نماز گر پڑتی ہے۔پھر اسے کھڑا کرتا ہے۔یعنی متقی خد اتعالیٰ سے ڈراکرتا ہے اور وہ نمازکو قائم کرتا ہے۔ اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کر اس کے حضور میں حارج ہوتے ہیں اور نماز کو گرادیتے ہیں۔لیکن یہ نفس کی اس کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے۔ کبھی نماز گرتی ہے مگر یہ پھر اسے کھڑا کرتا ہے۔ اور یہی حالت اس کی رہتی ہے کہ وہ تکلف اور کوشش سے باربار اپنی نماز کو کھڑا کرتا ہے یہانتک کہ اﷲ تعالیٰ اپنے اس کلام کے ذریعہ ہدایت عطا کرتا ہے۔اس کی ہدایت کیا ہوتی ہے؎ٰ؟اس وقت بجائے یقیمون الصلوٰۃ کے ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ اس کشمکش اور وساوس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ اس غیب کے ذریعہ انہیں وہ مقام عطا کرتا ہے جس کی نسبت فرمایا ہے کہ بعض آدمی ایسے کامل ہو جاتے ہیں کہ نماز ان کے لیے بمنزلہ غزا ہوجاتی ہے اور نماز میں ان کو وہ لذت اور ذوق عطاکیا جاتا ہے، جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ نہایت رغبت سے اُسے پیتا ہے اور خوب سیر ہو کر خظ حاصل کرتا ہے یا سخت بھوک کی حالت ہو اور اُسے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا خوش ذائقہ کھانا مل جاوے جس کو کھا کر وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے۔یہی حالت پھر نماز میں ہو جاتی ہے۔ وہ ننماز اس کے لیے ایک قسم کا نشہ ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ سخت کرب اور اضطراب محسوس کرتا ہے۔لیکن نماز کے ادا کرنے سے اسکے دل میں ایک خاص سرور اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جس کو ہر شخص نہیں پاسکتا اور نہ الفاظ میں یہ لذت بیان ہو سکتی ہے اور انسان ترقی کرکے ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے اُسے ذاتی محبت ہو جاتی ہے اور اس کو نمازکے کھڑے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لیے کہ وہ نماز اس کی کھڑی ہی ہوتی ہے اور ہر وقت کھڑی ہی رہتی ہے۔ اس مین ایک طبعی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے انسان کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوتی ہے۔ انسان پر ایسی حالت آتی ہے کہ اس کی محبت اﷲ تعالیٰ سے محبت ذاتی کا رنگ رکھتی ہے ۔اس میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہیں ہوتی ۔ جس طرح پر حیوانات اور دوسرے انسان اپنے ماکو لات اور مشروبات اور دوسری شہوات میں لذت اٹھاتے ہیں اس سے بہت بڑھ چڑھ کر وہ مومن متقی نماز میں لذت پاتا ہے اس لیے نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے۔ نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے۔ اس دین میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اﷲ ،راست باز، ابدال،قطب گذرے ہیں۔ انہوں نے یہ مدارج اور مراتب کیونکر حاصل کئے؟اسی نماز کے ذریعہ سے۔ خود آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں قرۃ عینی فی الصلوٰۃ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تو اس کے لیے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے اور یہی معنے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے ہیں۔ پس کشاکش نفس سے انسان نجات پا کر اعلیٰ مقام پر پنچ جاتا ہے۔
غرض یاد رکھو کہ یقیمون الصلوٰۃ وہ ابتدائی درجہ اور مرحلہ ہے جہاں نماز بے ذوقی اور کشاکش سے ادا کرتا ہے، لیکن اس کتاب کی ہدایت ایسے آدمی کے لیے یہ ہے کہ اس مرحلہ سے نجات پا کر اس مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں نماز اس کے لیے قرۃ العین ہو جاوے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس مقام پر متکی سے مراد وہ شخص ہے جو نفس لوامہ کی حالت میں ہے۔
نفس کے تین درجے
نفس کے تین درجے ہیں۔ نفس امارہؔ۔لوامہؔ۔مطمئنہؔ۔
نفس امارہ وہ ہے جو فسق وفجور میں مبتلا ہے اور نافرمانی کا غلام ہے۔ ایسی حالت میں انسان نیکی کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر ایک سرکشی اور بغاوت پائی جاتی ہے لیکن جب اس سے کچھ ترقی کرتا اور نکلتا ہے تو وہ وہ حالت ہے جو نفس لوامہ کہلاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اگر بدی کرتا ہے تو اس سے شرمندہ بھی ہوتا ہے اور اپنے نفس کو ملامت بھی کرتا ہے۔ اور اس طرح پر نیکی کی طرف بھی توجہ کرتا ہے۔ لیکن اس حالت میں وہ کامل طور پر اپنے نفس پر غالب نہیں آتا، بلکہ اس کے اور نفس کے درمیان ایک جنگ جاری رہتی ہے جس میں کبھی وہ غالب آجاتا ہے ارو کبھی نفس اسے مغلوب کر لیتا ہے۔یہ سلسلہ لڑائی کا بدستور جاری رہتا ہے۔ یہانتک کہ اﷲ تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری کرتا ہے اور آخر اُسے کامیاب اور بامراد کرتا ہے اور وہ اپنے نفس پر فتح پالیتا ہے۔ پھر تیسری حالت میں پہنچ جاتا ہے جس کا نام نفس مطمئنہ ہے۔ اس وقت اس کے نفس کے تمام گند دور ہو جاتے ہیں اور ہر قسم کے فساد مٹ جاتے ہیں۔ نفس مطمئنہ کی آخری حالت ایسی حالت ہوتی ہے جیسے دو سلطنتوں کے درمیان ایک جنگ ہو کر ایک فتح پالے اور وہ تمام مفسدہ دور کرکے امن قائم کرے اور پہلا سارا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اس امر کی طرف اشارہ ہے۔
ان الملوک اذا دخلو اقریۃ افسدوھا وجعلو ااعزۃ اھلہا اذلۃ (النمل ۳۵)
یعنی جب بادشاہ کسی گائوں میں داخل ہوتے ہیں تو پہلا تانا بانا سب تباہ کر دیتے ہیں۔ بڑے بڑے نمبردار، رئیس نواب ہی پہلے پکڑے جاتے ہیں اور بڑے بڑے نامور ذلیل کیے جاتے ہیں اور اس طرح پر ایک عظیم تغیر واقع ہوتا ہے۔یہی ملوک کا خاصہ ہے اور ایسا ہی ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے۔ اسی طرح پر جب روحانی سلطنت بدلتی ہے تو پہلی سلطنت پر تباہی آتی ہے۔ شیطان کے غلامون کو قابو کیا جاتا ہے۔ وہ جذبات اور شہوات جو انسان کی روحانی سلطنت میں مفسدہ پردازی کرتے ہیں۔ اُن کو کچل دیا جاتا ہے اور ذلیل کیا جاتا ہے اورروحانی طو رپر ایک نیاسکہ بیٹھ جاتا ہے اور بالکل امن و امان کی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔یہی وہ حالت اور درجہ ہے جو نفس مطمئنہ کہلاتا ہے۔ اس لیے کہ اس وقت کسی قسم کی کشمکش اور کوئی فساد پایا نہین جاتا۔ بلکہ نفس ایک کامل سکون اور اطمینان کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ جنگ کا خاتمہ ہو کر نئی سلطنت قائم ہو جاتی ہے اور کوئی فساد اور مفسدہ باقی نہیں رہتا۔ بلکہ دل پر خدا تعالیٰ کی فتح کامل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کے عرش دل پر نزول فرماتا ہے۔ اسی کو کمال درجہ کی حالت بیان فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا
ان اﷲ یامر بالعدل والاحسان وایتای ذی القربیٰ (النخل : ۹۱)
یعنی بیشک اﷲ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے اور پھر اس سے ترقی کرو تو احسان کا حکم دیتا اور پھر اس سے بھی ترقی کرو تو ایتاء ذی القربیٰ کا حکم ہے۔
حالت عدل
عدل کی حالت یہ ہے جو متقی کی حالت نفس امارہؔ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس حالت کی اصلاح کے لیے عدل کا حکم ہے۔ اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرحسے اس کو دبالوں ارو اتفاق سے اس کی میعاد بھی گذرجاوے۔ اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بیباک ہوگا کہ اب تو قانونی طو رپر بھی کوئی مؤاخذہ نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ ٹھیک نہیں۔عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دین واجب ادا کیا جاوے اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں۔ اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں ۔یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرت ﷺ تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھ۔ پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہین کرنی چاہیے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہیے۔ کیونکہ یہ امر الٰہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں دیا ہے۔
حالت احسان
اس کے بعد احسان کا درجہ ہے۔ جو شخص عدل کی رعایت کرتا ہے اور اس کی حد بندی کو نہیں توڑتا۔ اﷲ تعالیٰ اسے توفیق اور قوت دے دیتا ہے اور وہ نیکی میں اور ترقی کرتا ہے۔یہانتک کہ عدل ہی نہین کرتا بلکہ تھوڑی سے نیکی کے بدلے بہت بڑی نیکی کرتا ہے۔ لیکن احسان کی حالت میں بھی ایک کمزوری ابھی باقی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت اس نیکی کو جتا بھی دیتا ہے۔ مثلاً ایک شخص دس برس تک کسی کو روٹی کھلاتا ہے اور وہ کبھی ایک بات اس کی نہیں مانتا تو اسے کہہ دیتا ہے کہ دس برس کا ہمارے ٹکڑوں کا غلام ہے اور اس طرح پر اس نیکی کو بے اثر کر دیتا ہے۔ دراصل احسان والے کے اندر بھی ایک قسم کی مخفی ریا ہوتی ہے۔ لیکن تیسرا مرتبہ ہر قسم کی آلائش اور آلودگی سے پاک ہے اور وہ ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے۔
حالت ایتاء ذی القربیٰ
ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ طبعی حالت کا درجہ ہے یعنی جس مقام پر انسان سے نیکیون کا صدور ایسے طور پر ہو جیسے طبعی تقاضا ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیس یماں اپنے بچے کو دودھ دیتی ہے اور اس کی پرورش کرتی ہے۔ کبھی اس کو خیال بھی نہیں آتا کہ بڑا ہو کر کمائی کرے گا ارو اس کی خدمت کرے گا یہانتک کہ اگر کوئی بادشاہ اسے یہ حکم دے کہ تو اگر اپنے بچہ کو دودھ نہ دے گی اور اس سے وہ مر جاوے تو بھی تجھے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ اس حکم پر بھی اس کو دودھ دینا وہ نہیں چھوڑ سکتی بلکہ ایسے بادشاہ کو دوچار گالیاں ہی سنا دے گی۔ اس لے کہ وہ پرورش اس کا ایک طبعی تقاضا ہے۔وہ کسی امید یا خوف پر مبنی نہین’ اسی طرح پر جب انسان نیکی میں ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچتا ہے کہ وہ نیکیاں اس سے ایسے طور پر صادر ہوتی ہیں گویا ایک طبعی تقاضا ہے تویہی وہ حالت ہے جو نفس مطمئنہ کہلاتی ہے۔
غرض یقیمون الصلوٰۃ کے یہ معنے ہیں کہ جبتک نفس مطمئنہ نہ ہو، اسی کشاکش میں لگا رہتا ہے۔ کبھی نفس غالب آجاتا ہے اور کبھی آپ غالب آجاتا ہے۔ صبح کو اٹھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ٹھنڈا پانی ہے اس کو نہانے کی حاجب ہے۔پس اگر نفس کی بات مان لیتا ہے تو نماز کو کھو لیتا ہے اور اگر ہمت سے کام لیتا ہے تو اس پر فتح پا لیتا ہے۔
شکر کی بات ہے کہ ایک مرتبہ خود مجھے بھی ایسی حالت پیش آئی۔ سردی کا موسم تھا۔ مجھے غسل کی حاجب ہو گئی۔ پانی گرم کرنے کے لیے کوئی سامان اس جگہ نہ تھا۔ ایک پادری کی لکھی ہوئی کتاب میزان الحق میرے پاس تھی، اس وقت وہ کام آئی ۔میں نے اس کو جلا کر پانی گرم کر لیا اور خدا تعالیٰ کا شکر کیا۔ اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ بعض وقت شیطان بھی کام آجاتا ہے۔
پھر میں اصل مطلب کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ یقیمون الصلوٰۃ کے یہی معنے ہیں اور اس پر ترقی یہی ہے کہ ایسی حالت سے نجات پاکر مطمئنہ کی حالت میں پہنچ جاوے۔
خوب یاد رکھو کہ نرا غیب پر ایمان لانے کا انجام خطرناک ہوتا رہا ہے۔افلاطون جب مرنے لگا تو کہنے لگا کہ میرے لیے بت پر ایک مرغا ہی ذبح کرو۔جالینوس نے کہا میری قبر میں خچر کی پیشابگاہ کے برابر ایک سوراخ رکھ دینا تاکہ ہوا آتی رہے۔ اب غور کرو کہ کیا ایسے لوگ ہادی ہو سکتے ہیں،جو ایسی مَذ بذب اور مضطرب حالت میں ہوتے ہیں۔اصل بات یہی ہے کہ جبتک اندر روشنی پیدا نہ ہو کیا فائدہ؟ لیکن یہ روشنی خدا تعالیٰ کے فضل ہی سے ملتی ہے۔یہ بالکل سچ ہے کہ سب طبائع یکساں نہیں ہوتی ہیں اور خدا تعالیٰ نے سب کو نبی پیدا نہیں کیا۔
صادقین کی صحبت کا اثر
لیکن صحبت میں بڑا شرف ہے۔ اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچا ہی دیتی ہے۔ کسی کے پاس اگر خوشبو ہو تو پاس والے کو بھی پہنچ ہی جاتی ہے۔اسی طرح پر صادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کر دیتی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ گہری صحبت نبی اور صاحب نبی کو ایک کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو قرآن شریف میں
کونو امع الصادقین (التوبہ : ۱۱۹)
فرمایا ہے۔ اور اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ایک بے نظیر خوبی ہے کہ ہر زمانہ میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں، لیکن آریاہ سماجی یا عیسائی اس طریق سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جبکہ ان کے ہان یہ مسلم امر ہے کہ اب کوئی شخص خدا رسید ایسا نہیں ہوسکتا جس پر خدا تعالیٰ کی تازہ بہ تازہ وحی نازل ہو اور وہ اس سے توفیق پاکر ان لوگوں کو صاف کرے جو گناہ آلود زندگی بسر کرتے ہیں۔ میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ آریہ سماج کے اندر ایک نیش ہے وہ بے جطور سے مسلمانوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اعتراض کرنا ہی اپنے مذہب کی خوبی اور کمال پیش کرتے ہیں۔ لیکن جب ان سے پوچھا جاوے کہ اسلام کے مقابلہ میں روحنایت پیش کرو۔ تو کچھ نہیں۔نکتہ چینی کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں ہوسکتی۔ وہ شخص بڑا بدنصیب اور نادان یہ جو بغیر اس کے کہ کسی منزل پ ر پہنچا ہو دوسروں پر نکتہ چینی کرنے لگے۔ ایک بچہ جو اقلیدس کے اصولوں سے ناواقف ہے اور اُن نتائج سے بے خبر ہے جو اس کی اشکال سے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ ان ٹیڑھی لکیروں کو دیکھ کر کب خوش ہوسکتا ہے وہ تو اعتراض کر ے گا لیکن عقلمندوں کے نزدیک اس اعتراض کی کیا وقعت اور حقیقت ہوسکتی ہے۔ ایس اہی حال ان آریوں کا ہے۔ وہ اعتراض کرتے ہیں مگرخود حق اور حقیقت سے بے خبر اور محروم ہیں۔ وہ اﷲ کی قدرتوں سے آگاہ نہیں اور اس کی طاقتوں کا انہیں علم نہی ہے اور نہ انہین وہ حوا س ملے ہین جو وہ اسی عالم میں بہشتی نظارون کو دیھک سکیں اور اﷲ تعالیٰ کی طاقتوں اور قدرتوں کے نمونے مشاہدہ کریں۔ایسے مذہب کی بنیاد بالکل ریت پر ہے۔وہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں۔
‏Amira 22-2-06
اسلام کی صداقت
یہ خوب یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ کسی نا بینا مذہب کی تائید نہین کرتا اور کوئی نصرت اسے نہیں دی جاتی۔ اسلام کی سچائی کی یہی بڑی زبردست دلیل ہے کہ ہر زمانہ میں اﷲ تعالیٰ اس کی نصرت فرماتا ہے ارو اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تا میں اس کی تازہ بتازہ نصرتوں کا ثبوت دوں؛ چنانچہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جس نے خدا تعالیٰ کے نشانات نہ دیکھے ہوں۔اس کے بالمقابل ہمیں کوئی بتائے کہ وید کیا لایا؟ وہ تو بالکل ادھورا ہے، دوسرے لوگوں کو تو خواب بھی آجاتی ہے، مگر ویدوالوں کے نزدیک خواب بھی بے حقیقت چیز ہے اور وہ بھی نہیں آسکتی جبکہ وہ دروازہ جو اﷲ تعالیٰ کی طرف جانے کے لیے یقینی دروازہ ہے، بند ہے تو اور وسائل خدا رسی کے کیا ہو سکتے ہیں؟
میں سچ کہتا ہوں کہ جہانتک میں نے اس فقہ کے حالات دیکھے ہیں،ان میںشوخیوں کے سوا کچھ نہیں دیکھا یا بعض ایسے لوگ اس میں داخل ہوتے ہیں کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ مذہب کی اصل غرض کیا ہے؟
غرض اسلام ایک ایسا پاک مذہب ہے جو ساری نیکیوں کا حقیقی سرچشمہ اور منبع ہے اس لیے کہ نیکیوں کی جڑ ہے اﷲ تعالیٰ پر کامل ایمان۔اور وہ بدوں اس کے پیدا نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کے عجائبات اور نشانات تزاہ بتازہ دیکھتا رہے اور یہ بجز اسلام کے کسی دوسرے کو حاصل نہیں ۔اگر ہے تو کوئی پیش کرے۔
علاوہ بریں اسلام کی یہ بھی ایک خوبی ہے کہ بعض فطرتی نیکیاں جو انسان کرتا ہے یہ ان پر از دیاد کرتا اور انہی کامل کرتا ہے اس لیے ہی ھدی للمتقین فرمایا ھدی لظالمین یا ھدی للکافرین نہیں کہا۔ عرصہ کی بات ہے ایک برہمواگنی ہو تری نے کہا تھا کہ لاالہ الا اﷲ تو ہم بھی کہتے ہیں تم محمد رسول اﷲ کیوں کہتے ہو؟ ہم نے کہا تھا کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ انسان دہریہ نہیں ہوتا؛ چنانچہ اب وہ کھلا دہریہ ہے۔ اگر محمد رسول اﷲ ﷺ پر پورا ایمان ہوتا تو کیوں دہریہ بنتا۔
میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف ایسی کامل اور جامع کتاب ہے کہ کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔کیا وید میں کوئی ایسی شرتی ہے جو ھدی للمتقین کا مقابلہ کرے۔ اگر زبانی اقرار کووئی چیز ہے۔ یعنی اس کے ثمرات اور نتائج کی حاجب نہیں تو پھر ساری دنیا کسی نہ کسی رنگ میں خد اتعالیٰ کا اقرار کرتی ہے۔ اور بھگتی، عبادت،صدقہ خیرات کو بھی اچھا سمجھتی ہے اور کسی نہ کسی صورت میں ان باتوں پر عمل بھی کرتی ہے۔ پھر ویدوں نے آکر دنیا کو کیا بخشا؟ یا تو یہ ثابت کرو کہ جو قومیں وید کو نہیں مانتی ہیں ان میں نیکیاں بالکل مفقود ہیں اور یا کوئی امتیازی نشان بتائو۔
قرآن شریف کو جہاں سے شروع کیا ہے ان ترقیوں کا وعدہ کر لیا ہے جو بالطبع روح تقاضا کرتی ہے؛ چنانچہ سورۂ فاتحہ میں
اھدنا الصراط المستقیم (الفاتحہ : ۴)
کی تعلیم کی اور فرمایا کہ تم یہ دعا کرو کہ اے اﷲ ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت فرما۔ وہ صراط مستقیم جو ان لوگوں کی راہ یہ جن پر تیرے انعام و اکرام ہوئے۔ اس دعا کے ساتھ ہی سورۃ البقرہ کی پہلی ہی آیت میں یہ بشارت دے دی۔
ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین
گویا روحیں دعا کرتی ہیں اور ساتھ ہی قبولیت اپنا اثر دھاتی ہے اور وہ وعدہ دعا کی قبولیت کا قرآن مجید کے نزول کی صورت میں پورا ہوتا ہے۔ ایک طرف دعا ہے اور دوسری طرف اس کا نتیجہ موجود ہے۔یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے جو اس نے فرمایا۔مگر افسوس دنیا اس سے بے خبر اور غافل ہے اور اس سے دور رہ کر ہلاک ہو رہی ہے۔
میں پھر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو ابتدائے قرآن مجید میں متقیوں کے صفات بیان فرمائے ہیں۔ ان کو معمولی صفات میں رکھ اہے۔ لیکن جب انسان قرآن مجید پر ایمان لا کر اُسے اپنی ہدایت کے لیے دستور العمل بناتا ہے تو وہ ہدایت کے ان اعلیٰ مدارج اور مراتب کو پالیتا ہے جو ھدی للمتقین میں مقصود رکھے ہیں۔ قرآن شریف کی اس علت غائی کے تصور سے ایسی لذت اور سرور آتا ہے کہ الفاظ میں ہم اس کو بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور قرآن مجید کے کمال کا پتہ لگتا ہے۔
متقی کی تیسری علامت
پھر متقی کی ایک اور علامت بیان فرمائی
ومما رزقنھم ینفقون (البقرۃ : ۴)
یعنی جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہ ابتدائی حالت ہوتی ہے اور اس میں سب کے سب شریک ہیں کیونکہ عام طو رپر یہ فطرت انسانی کا ایک تقاضا ہے کہ اگر کوئی سائل اس کے پاس آجاوے تو کچھ نہ کچھ اُسے ضرور دے دیتا ہے۔ گھرمیں دس روٹیاں موجود ہوں اور کسی سائل نے آکر صدا کی تو ایک روٹی اس کو بھی دے دے گا۔ یہ امر زیر ہدایت نہیں ہے بلکہ فطرت کا ایک طبعی خاصہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ یہاں ممارزقنھم ینفقون عام ہے۔ اس سے کوئی خاص شئے روپیہ پیسا یاروٹی کپڑا مراد نہیں ہے بلکہ جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ خرچ کرتے رہتے ہیں۔
غرض یہ انفاق عام انفاق ہے اور اس کے لیے مسلمان یا غیر مسلمان کی بھی شرط نہیں اور اس لیے یہ انفٰق دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک فطرتی، دوسرا زیرِ اثر نبوت۔ فطرتی تو وہی ہے جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ تم میں سے کون ہے اگر کوئی قیدی یا بھوکا آدمی جو کئی روز سے بھوکا ہو یا ننگا ہو آکر سوال کرے اور تم اُسے کچھ نہ کچھ دے نہ دو۔ کیونکہ یہ امر فطرت میں داخل ہے۔
اور یہ بھی میں نے بتادیا ہے کہ ممارزقنھم روپیہ پیسہ سے مخصوص نہیں خواہ جسمانی ہو۔ یا علمی سب اس میں داخل ہے۔ جو علم سے دیتا ہے وہ بھی اسی کے ماتحت ہے۔ مال سے دیتا ہے وہ بھی داخل ہے۔ طبیب ہے وہ بھی داخل ہے۔
لِلّٰہی وقف کا مقام
مگر بموجب منشاء ھدی للمتقین ابھی تک اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں قرآن شریف اسے لے جانا چاہتا ہے اور وہ وہ مقام ہے کہ انسان اپنی زندگی ہی خدا تعالیٰ کے لیے وقف کردے۔ اور یہ للّٰہی وقف کہلاتا ہے۔ اس حالت اور مقام پر جب ایک شخص پہنچتا ہے تو اس میں مما رہتا ہی نہیں۔کیونکہ جبتک وہ مما کی حد کے اندر ہے اس وقت تک وہ ناقص ہے اور اس علت غائی تک نہیں پہنچا جو قرآن مجید کی ہے، لیکن کامل اسی وقت ہوتا ہے جب یہ حد نہ رہے اور اس کا وجود، اس کا ہر فعل، ہر حرکت و سکون محض اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اذن کے ماتحت بنی نوع کی بھلائی کے لیے وقف ہو۔ دوسر ے لفظوں میں یہ کہو کہ مما رز قنھم ینفقون کا کام یہی ہے جو ھدی للمتقین کے منشا کے موافق ہے؎ٰ۔
متقی کی چوتھی صفت
اس کے بعد ایک اور صفت متقیوں کی بیان کی یعنی وہ
والذین یومنون بما انزل الیک (البقرۃ : ۵)
کے موافق ایمان لاتے ہیں اور ایسا ہی جو کچھ آنحضرت ﷺ سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے نازل فرمایا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں، لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی ایمان ہے تو پھر ہدایت کیا ہے؟ وہ ہدایت یہ ہے کہ ایسا انسان خود اس قابل ہو جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس پر وحی اور الہام کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور وہ وحی الٰہی اس پر بھی اُترتی ہے جس سے اس کا ایمان ترقی کر کے کامل یقین اور معرفت کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے اور وہ اس ترقی کو پالیتا ہے جو ہدایت کا اصل مقصود تھا۔ اس پر وہ انعام و اکرام ہونے لگتے ہیں جو مکالمہ الٰہیہ سے ملتے ہیں۔
اسلام میں وحی و الہام کا دروازہ کھلا ہے
یہ یاد رکھو کہ ال تعالیٰ نے وحی و الہام کے دروازہ کو بند نہیں کیا۔ جو لوگ اس امت کو وحی و الہام کے انعامات سے بے بہرہ ٹھہراتے ہیںوہ سخت غلطی پر ہیں اور قرآن شریف کے اصل مقصد کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں۔ ان کے نزدیک یہ امت وحشیوں کی طرح ہے اور آنحضرت ﷺ کی تاثیرات اور برکات اک معاذ اﷲ خاتمہ ہو چکا اور وہ خدا جو ہمیشہ سے متکلم خدا رہا ہے اب اس زمانہ میں آکر خاموش ہوگیا۔ وہ نہیں جانتے کہ اگر مکالمہ مخاطبہ نہیں تو ھدی للمتقین کا مطلب ہی کیا ہوا؟ بغیر مکالمہ مخاطبہ کے تو اس کی ہستی پر کوئی دلیل قائم نہین ہوسکتی۔ اور پھر قرآن شریف یہ کیوں کہا
والذین جاھدو ا فینا لنھدینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰)
اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا
ان الذین قالو ا ربنا اﷲ ثم استقامو اتتنزل علیھم الملائکۃ الا تخافو اولا تحزنوا
(حٰمٓ السجدۃ : ۳۱)
یعنی جن لوگوں نے اپنے قول اور فعل سے بتادیا کہ ہمارا رب اﷲ ہے اور پھر انہوں نے استقامت دکھائی ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ فرشتوں کا نزول ہوا اور مخاطبہ نہ ہو۔ نہیں بلکہ وہ انہیں بشارتیں دیتے ہیں۔ یہی تو اسلام کی خوبی اور کمال ہے جو دوسرے مذاہب کو حاصل نہیں ہے۔ استقامت بہت مشکل چیز ہے یعنی خواہ ان پر زلزلے آئیں،فتنے آئیں۔ وہ ہر قسم کی مصیبت اور دکھ میں ڈالے جاویں مگر ان کی استقامت میں فرق نہیں آتا۔ ان کا اخلاص اور وفا داری پہلے سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ ان پر خدا تعالیٰ کے فرشتے اُتریں اور انہیں بشارت دیں کہ تم کئی غم نہ کرو۔
یہ یقینا یاد رکھو کہ وحی اور الہام کے سلسلہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اکثر جگہ وعدے کئے ہیں۔ اور یہ اسلام ہی سے مخصوص ہے؛ ورنہ عیسائیوں کے ہاں بھی مہر لگ چکی ہے۔ وہ اب کوئی شخص ایسا نہیں بتا سکتے جو اﷲتعالیٰ کے مخاطبہ مکالمہ سے مشرف ہو۔اور ویدوں پر تو پہلے ہی سے مہر لگی ہوئی ہے۔ ان کا تو مذہب ہی یہی ہے۔ کہ ویدوں کے الہام کے بعد پھر ہمیشہ کے لیے یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ گویا خد اپہیل کبھی بولا تھا مگر اب وہ گونگا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر وہ اس وقت کلام نہیں کرتا اور کوئی اس کے اس فیض سے بہرہ ور نہیں تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ پہلے بولتا تھا اور یا اب وہ سنتا اور دیکھت ابھی ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں مسلمانوں کے منہ سے اس قسم کے الفاظ نکلتے سنتا ہوں کہ اب مکالمہ مخاطبہ کی نعمت کسی کو نہیں مل سکتی۔ یہ کیوں عیسائیوں یا آریوں کی طرح مہر لگاتے ہیں؟ اگر اسلام میں یہ کمال اور خوبی نہ ہو تو پھر دوسرے مذاہب پر اسے کیا فخر اور امتیاز حاصل ہوگا؟ نری توحید سے تو نہیں ہوسکتا کیونکہ برہمو بھی تو ایک ہی خد اکو مانتا ہے۔ وہ بھی صدقہ دیتا ہے۔ خدا کو اپنے طور پر یاد بھی کرتا ہے اور یہی اخلاقی صفات اس میں پائے جاتے ہیں تو پھر ایک مسلامن میں اور اس برہمو میں کیا فرق ہوا؟ یہ امور تو نقل سے بھی ہو سکتے ہیں۔ اسکا کیا جواب ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ بجز اسکے کہ اسلام کا روشن چہرہ ان امتیازی نشانوں کے ذریعہ دکھایا جاوے جو خدا تعالیٰ کے مکالمہ کے ذریعہ ملتے ہیں۔ یقینا سمجھو کہ اصل جو فضل آسمان سے آت اہے اس کی کوئی چوری اور نقل نہیں کر سکتا۔ اگر اسلام میں مکالمہ مخاطبہ اور تفضلات نہ ہوتے تو اسلام کچھ بھی چیز نہ ہوتا۔ اس کا یہی تو فخر ہے کہ وہ ایک سچے مسلمان کو ان انعامات و اکرام کا وارث بنادیتا ہے اور وہ فی الحقیقت خدا نما مذہب ہے۔اسی دنای میں اﷲ تعالیٰ کو دکھا دیتا ہے اور یہی غرض ہے اسلام کی۔کیونکہ اسی ایک ذریعہ سے انسان کی گناہ آلود زندگی پر موت وارد ہو کر اسے پاک صاف بنا دیتی ہے اور حقیقی نجات کا دروازہ اس پر کھلتا ہے، کیونکہ جبتک خدا تعالیٰ پر کامل یقین نہ ہو گناہ سے کبھی نجات مل سکتی ہی نہیں۔ جیسے یہ ایک ظاہر امر ہے کہ جب انسان کو یقین ہو کہ فلاں جگہ سانپ ہے تو وہ ہرگز ہرگز اس جگہ داخل نہ ہوگا۔ یا زہر کے کھانے سے مرجانے کا یقین زہر کے کھانے سے بچاتا ہے پھر اگر خدا تعالیٰ پر پورا پورا یقین ہو کہ وہ سمیع اور بصیر ہے اور ہمارے افعال کی جزا دیت اہے اور گناہ سے اُسے سخت نفرت ہے تو اس یقین کو رکھ کر انسان کیسے جرأت کر سکتا ہے؟
سچی بات یہ ہے کہ اسلام کی روح اور اصل حقیقت تو یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف وہ انسان کو عطا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ آسمان سے انعام و اکرام ملتے ہیں۔ جب انسنا اس مرتبہ اور مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کی نسبت کہا جات اہے
اولٰئک علیٰ ھدی من ربہم واولٰئک ھم المفلحون۔
یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو کامل ترقی پاکر اپین رب کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے نجات پائی ہے۔
تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھائو
غرض جب کہ یہ حالت ہے اور اسلام کے دنیا میں آنے کی یہ غرض اور غایت ہے اور نجات کی حقیقت بغیر ا سکے متحقق نہیں ہوتی تو ہماری جماعت کو کس قدر فکر کرنا چاہیے کہ وہ ان باتوں کو جب تک حاصل نہ کر لیں اس وقت تک بے فکر اور مطمئن نہ ہو جاویں۔ میں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت ایک درخت کی طرح ہے وہ اصلی پھل جو شیریں ہوتا اور لذت بخشتا ہے نہیں آیا۔ جیسے درخت کو پہلے پھول اور پتے نکلتے ہیں۔پھر اس کو پھل لگتا ہے جو سنیرو پھل کہلاتا ہے وہ گر جاتا ہے۔ پھر ایک اور پھل آتا ہے۔ اس میں سے کچھ جانور کھا جاتے ہیں اور کچھ تیز آندھیوں سے گر جاتے ہیں۔ آخر جو بچ رہتے ہیں اور آخر تک پک کر کھانے کے قابل ہوتے ہیں وہ تھوڑے ہوتے ہیں۔
اسی طرح سے میں دیکھتا ہوں کہ یہ جماعت تو ابھی بہت ہی ابتدائی حالت میں ہے اور پتے بھی نہیں نکلے چہ جائیکہ ہم آج ہی پھل کھائیں۔ ابھی تو سبزہ ہی نکلا ہے جس کو ایک کتا بھی پامال کر سکتا ہے۔ ایسی حال تمہیں حفاظت کی کس قدر ضرورت ہے؟ پس تم استقامت اور اپنے نمونے سے اس درخت کی حفاظت کرو۔ کیونکہ تم میں سے ہر ایک اس درخت کی شاخ ہے اور وہ درخت اسلام کا شجر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں چاہتاہوں کہ اس شجر کی حفاظت کی جاوے۔
اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لیے سب سے اول تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمومن بن کر دکھائو اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلائو۔ اس پہلو میں مالی ضرورتوں اور امداد کی حاجب ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو بھی ایسی ضرورتیں پیش آئی تھیں اور صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ ایسے وقتوں پر بعض ان میں سے اپنا سارا ہی مال آنحصرت کو دیدیتے اور بعض نے آدھا دے دیا ارو اس طرح جہاں تک کسی سے ہو سکتا فرق نہ کرتا۔
مجھے افسوس سے ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے ہاتھ میں بجز خشک باتوں کے اور کچھ بھی نہیں رکھتے اور جنہیں نفسانیت اور خود غرضی سے کوئی نجات نہیں ملی اور حقیقی خدا کا چہرہ ان پر ظاہر نہیں ہوا۔ وہ اپنے مذاہب کی اشاعت کی خاطر ہزاروں لاکھوں روپیہ دے دیتے ہیں اور بعض اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔عیسائیوں میں دیکھا ہے کہ بعض عورتوں نے دس دس لاکھ کی وصیت کر دی ہے۔ پھر مسلمانوں کے لیے کس قدر شرم کی بات ہے کہ وہ اسلام کے لیے کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے یا نہیں کرتے۔ مگر خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے روشن چہرہ پر سے وہ حجاب جو پڑا ہوا ہے دور کردے اور اسی غرض کے لیے اس نے مجھے بھیجا ہے۔
مر کر خدا کے حضور جانا ہے
یقینا یاد رکھو کہ خدا ہے اور مر کر اس کے حضور ہی جانا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ سال آئندہ کے انہیں دنوں میں ہم میں سے یہاں کون ہوگا اور کون آگے چلا جائے گا۔جبکہ یہ حالت ہے اور یہ یقینی امر ہے پھر کس قدر بدقسمتی ہوگی۔ اگر اپنی زندگی میںقدرت اور طاقت رکھتے ہوئے اس اصل مقصد کے لیے سعی نہ کریں۔اسلام تو ضرور پھیلے گا اور وہ غالب آئے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہے مگر مبارک ہوں گے وہ لوگ جو اس اشاعت میں حضہ لیں گے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے جو اُس نے تمہیں موقعہ دیا ہے۔یہ زندگی جس پر فخر کیا جاتا ہے ہیچ ہے اور ہمیشہ کی خوشی کی وہی زندگی ہے جو مرنے کے بعد عطا ہوگی۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وہ اسی دنیا اور اسی زندگی سے شروع ہو جاتی ہے اور اس کی تیاری بھی یہاں ہی ہوتی ہے۔
دین کو دنیا پر مقدم کرکے وصیت کرنے کی تلقین
عرصہ ہوا کہ خد اتعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا تھا کہ ایک بہشتی مقبرہ ہوگا۔گویا اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اﷲت عالیٰ کے علم اور ارادہ میں جنتی ہیں۔ پھر اس کے متعلق الہام ہوا۔
انزل فیھا کل رحمۃ۔
اس سے کوئی نعمت اور رحمت باہر نہیں رہتی۔ اب جو شخص چاہتا ہے کہ وہ ایسی رحمت کے نزول کی جگہ میں دفن ہو۔کیا عمدہ موقعہ ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کر لے اور اﷲ تعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم کرلے۔یہ صدی جس کے تیئیس (۲۳) سال گذرنے کو ہیں گذر جائے گی اور اس کے آخر تک موجودہ نسل میں سے کوئی نہ رہے گا اور اگر نکما ہو کر رہا تو کیا فائدہ؟ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنا صدقہ پہلے بھیجو۔ یہ لفظ صدقہ کا صدق سے لیا گیا ہے۔ جب تک اﷲ تعالیٰ کی راہ میں کوئی کامل نمونہ اپنے صدق اور اخلاص کا نہیں دکھاتا۔لاف زنی سے کچھ بن نہیں سکتا۔
اَلوصیّت اشتہار میں جو میں نے حصہ جائیداد کی اشاعت اسلام کے لیے وصیت کرنے کی قید لگائی ہے۔ میں نے دیکھاکہ کل بعض نے ۶؍۱ کی کردی ہے۔ یہ صدق ہے جو ان سے کراتا ہے اور جب تک صدق ظاہر نہ ہو کوئی مومن نہیں کہلاسکتا۔
تم اس بات کو کبھی مت بھولو کہ خد اتعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر جی ہی نہیں سکتے چہ جائیکہ موت سر پر ہو۔ طاعون کا موسم پھر آرہا ہے۔ زلزلہ کا خوف الگ دامنگیر ہے۔ وہ تو بڑا ہی بے وقوف ہے جو اپنے آپ کو امن میں سمجھتا ہے امن میںت و وہی ہو سکتا ہے جو اﷲ تعالیٰ کا سچا فرمانبردار اور اس کی رضا کا جویاں ہے۔ ایسی حالت میں بے بنیاد زندگی کے ساتھ دل لگانا کیا فائدہ؟
سلسلہ کے قیام اور وصیت کی غرض
دوسری طرف اسلام سخت اور خطرناک ضعف کی حالت میں ہے۔ اس پر یہی آفت اور مصیبت نہیں کہ باہر والے اس پر حملے کر رہے ہیں؛ اگر چہ یہ بالکل سچ ہے کہ مخالف سب کے سب مل کر ایک ہی کمان سے تیر مار رہے ہیں اور جہانتک اُن سے ہو سکت اہے وہ اس کو مٹادینے کی سعی اور فکر کرتے ہیں۔ لیکن اس مصیبت کے علاوہ بڑی بھاری مصیبت یہ ہے کہ اندرونی غلطیوں نے اسلام کے درخشان چہرہ پر ایک نہایت ہی تاریک حجاب ڈال دیا ہے۔ اور سب سے بڑی آفت یہ ہے کہ اس میں روحانیت نہیں رہی۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ ان لوگوںمیں جو مسلمان کہلاتے ہیں اور اسلام کے مدعی ہیںروحانیت موجود نہیں ہے اور اس پر دوسری بدقسمتی یہ کہ وہ انکار کر بیٹھے ہیں کہ اب کوئی ہو ہی نہیں سکتا جس سے خدا تعالیٰ کا مکالمہ مخاطبہ ہو اور وہ خدا تعالیٰ پر زندہ اور تازہ یقین پیدا کر سکے۔ ایسی حالت اور صورت میں اس نے ارادہ فرمایا ہے کہ اسلام کے چہرہ پر سے وہ تاریک حجاب ہٹادے۔ اور اس کی روشنی سے دلوں کو منور کرے اور ان بے جا اتہامات اور حملوں سے جو آئے دن مخالف اس پر لگاتے اور کرتے ہیں، اسے محفوظکیا جاوے۔ اس غرض سے یہ سلسلہ اﷲ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ وہ چاہتا ہیکہ مسلمان اپنا نمونہ دکھاویں۔ یہی وجہ ہے جو میں نے پسند کیا ہیکہ ایسے لوگ جو اشاعت اسلام کا جوش دل میں رکھتے ہیں اور جو اپنے صدق اور اخلاص کا نمونہ دکھ اکر فوت ہوں اور اس مقبرہ میںد فن ہوں اُن کی قبروں پر ایک کتبہ لگادیا جاوے جس میں اس کے مختصر سوانح ہوں اور اس اخلاص و وفا کا بھی کچھ ذکر ہو جو اس نے اپنی زندگی میں دکھایا تا جو لوگ اس قبرستان میںآویں اور ان کتبوں کو پڑھیں اُن پر ایک اثر ہو اور مخالف قوموں پر بھی اسیسے صادقوں اور راستبازوں کے نمونے دیکھ کر ایک خاص اثر پیدا ہو۔ اگر یہ بھی اسی قدر کرتے ہیں جس قدر مخالف قومیں کر رہیں اور وہ لوگ کر رہے ہیں، جن کے پاس حق اور حقیقت نہیں تو انہوں نے کیا کیا۔ پھر انہیںتو ایسی حالت میں شمندہ ہونا چاہیے۔*** ہے ایسے بیعت میں داخل ہونے پر جو کافر جتنی بھی غیرت نہ رکھتا ہو۔
اسلام اس وقت یتیم ہو گیا ہے اور کوئی ا س کا سرپرست نہیں اور خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو اختیار کیا اور پسند فرمایا کہ وہ اس کی سرپرست ہواور وہ ہر طرح سے ثابت کر کے دکھائے کہ اسلام کی سچی غمگسار اور ہمدرد ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہی قوم ہوگی جو بعید میں آنے والوں کے لیے نمونہ ٹھہرے گی۔اس کے ثمرات برکات آنے والوں کے لیے ہوں گے اور زمانہ پر محیط ہو جائیں گے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ یہ جماعت بڑھے گی لیکن وہ لوگ جو بعد میں آئیں گے ان مدارج اور مراتب کو نہ پائیں گے جو اس وقت والوں کو ملیںگے۔ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا کہ وہ اس جماعت کو بڑھائے اور وہ دین اسلام اور توحید کی اشاعت کا باعث بنے۔
خادم دین واقفین زندگی کی ضرورت
مدرسہ کی سلسلہ جنبانی کی بھی اگر کوئی غرض ہے تو یہی ہے۔ اسی لیے میں نے کہا تھا کہ اس کے متعلق غور کیا جاوے کہ یہ مدرسہ اشاعت اسلام کا ایک ذریعہ بنے اور اس سے ایسے عالم اور زندگی وقف کرنے والے لڑکے نکلیں جو دنیا کی نکریوں اور مقاصد کو چھوڑ کر خدمت دین کو اختیار کریں۔ ایس اہی اس قبرستان کے ذریعہ بھی اشاعت اسلام کا ایک مستقل انتظام سوچا گیا ہے۔ مدرسہ کے متعلق میری روح ابھی فیصلہ نہیں کر سکی کہ کیا راہ اختیار کیا جاوے۔ایک طرف ضرورت ہے ایس یلوگوں کی جو عربی اور دینیات میں تو غل رکھتے ہوں۔ اور دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو آجکل کے طرز مناظرات میں پکے ہوں۔ علوم جدیدہ سے بھی واقف ہوں۔کسی مجلس میں کوئی سوال پیش آجاوے تو جواب دے سکیں اورکبھی ضرورت کے وقت عیسائیوں سے یا کسی اور مذہب والوں سے انہیں اسلام کی طرف سے مناظرہ کرنا پڑے توہتک کا باعث نہ ہوں بلکہ وہ اسلام کی خوبیوں اور کمالات کو پرزور اور پرشوکت الفاظ میںظاہر کر سکیں۔
میرے پاس اکثر ایسے خطوط آئے ہیں جن میں ظاہر کیا گیا تھا کہ آریوں سے گفتگو ہوئی یا عیسائیوں نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہیں دے سکے۔ ایسے لوگ اسلام کی ہتک اور بے عزتی کا موجب ہو جاتے ہیں۔ اس زمانہ میں اسلام پر ہر رنگ اور ہر قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ اس قسم کے اعتراضوں کا اندازہ کیا تھا تو میں نے دیھک اکہ اسلام پر تین ہزار اعتراض مخالفوں کی طرف سے ہوا یہ۔ پس یہ کس قدر ضروری ہے کہ ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہو جو ان تمام اعتراضات کا بخوبی جواب د یسکے۔ آجکل کے مناظروں اور مباحثوں کی حالت اور بھی بُری ہو گئی ہے کہ اصول کو چھوڑ کر فروع میں جھگڑتے ہیں؛ حالانکہ اس اصل کو کبھی ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے کہ جب کسی سے گفتگو ہو تو وہ ہمیشہ اصول میں محدود ہو،لیکن یا وہ گو اس طریق کو پسند نہیں کرتے وہ جہانتک اس سے ہو سکتا ہے اس سے نکلتے ہیں اور فروعات میں آکر اُلجھ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اس امر کی بھی پابندی نہیں کرتے کہ پہیل اپنے گھر کو دیکھ لیں کہ دوسرے مذاہب پر جو اعتراض کرتا ہوں۔ وہ میرے گھر میں تو کسی تعلیم پر وارد نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی غرض محض اعتراض کرنا ہوتا ہے حق کو لینا نہیں ہوتا۔
ایک آریہ پر اگر نیوگ کا اعتراض کرو تو وہ قبل اُس کے کہ نیوگ کی حقیقت اور خوبی بیان کرے بلا سوچے سمجھے جھٹ اعتراض کردے گا کہ تم میں متعہ ہے؛ حالانکہ اول تو متعہ ہے ہی نہیں اور علاوہ بریں متعہ کی حقیقت تو اتنی ہے کہ وہ میعادی طلاق ہے۔ طلاق کو نیوگ سے کیا نسبت؟ اور کیا تعلق؟ جو شخص محض حصول اولاد کے لیے اپنی بیوی کو دوسرے سے ہمبستر کرواتا ہے وہ طلاق پر اعتراض کرے تو تعجب نہیں تو کیا ہے؟
واقفین زندگی کے لیے غیر زبانیں سیکھنے کی تلقین
غرض اعتراض کرنے والوں کی یہ حالت ہے اور نہایت شوخی اور بیباکی کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے۔ میں جب اسلام کی حالت کو مشاہدہ کرتا ہوں تو میرے دل پر چوٹ لگتی ہے اور دل چاہت اہے کہ ایسے لوگ میری زندگی میں تیار ہوجاویں جو اسلام کی خدمت کر سکیں۔ ہم تو پابگور ہیں اور اگر اور تیار نہ ہوں تو پھر مشکل پیش آتی ہے۔ میرا مدعا اس قدر ہے کہ آپ لوگ تدبیر کریں خواہ کسی پہلو پر صاد کیا جاوے مگر یہ ہو کہ چند سال میں ایسے نوجوان نکل آویں جن میں علمی قبلیت ہو اور وہ غیر زبان کی واقفیت بھی رکھتے ہوں اور پورے طو رپر تقریر کرکے اسلام کی خوبیاں دوسروں کے ذہن نشین کر سکیں۔ میرے نزدیک غیر زبانوں سے اتنی ہی مراد نہیں کہ صرف انگریزی پڑھ لیں۔ نہیںاور زبانیں بھی پڑھیں اور سنسکرت بھی پڑھیں تاکہ ویدوں کو پڑھ کر اُن کی اصلیت ظاہر کر سکیں۔ اس وقت تک وید گویا مخفی پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی ان کا مستند ترجمہ نہیں۔اگر کوئی کمیٹی ترجمہ کر کے صاد کردے تو حقیقت معلوم ہو جاوے۔
اصل بات یہ ہے کہ میں چاہتا ہوںکہ اسلام کو ان لوگوں اور قوموں میں پہنچایا جاوے جو اس سے محض ناواقف ہیں اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ جن قوموں میں تم اُسے پہنچانا چاہو اُن کی زبانوں کی پوری واقفیت ہو۔ ان کی زبانوں کی واقفیت نہ ہو اور ان کی کتابوں کو پڑھ نہ لیا جاوے تو مخالف پورے طور پر عاجز نہیں ہوسکتا۔
مولوی عبید اﷲ صاحب مرحوم نے تحفہ الہند نام ایک کتاب لکھی۔اندر امن نے اس کا جواب دیا اور بڑی گالیاں دیں۔اسلام پر اعتراض کر دیئے۔ اگر چہ اس کی بعض کتابیں جلادی گئی تھیں مگر انہیں اعتراضوں کو لے کر پنڈت دیانند صاحب نے پیش کر دیا۔اگر مولوی عبید اﷲ صاحب نے وید پڑھے ہوتے تو وہ ویدوں سے اس کا جواب دیتے۔غرض زبان کا سیکھنا ضروری ہے؎ٰ۔
‏Amira 23-2-06
واقفین کی تعلیم و تربیت
مجھے یہ بھی شبہ ہے کہ دماغی حالتیں کچھ اچھی نہیں ہیں۔ بہت ہی کم زیسے لڑکے ہوتے ہیں جن کے قویٰ اعلیٰ درجہ کے ہوں؛ ورنہ اکثر کو سل یادق ہو جاتی ہے۔ پس ایسے کمزور قویٰ کے لڑکے بہت محنت برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو اور بھی فکر دامنگیر ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف تو ہم ایسے لڑکے تیار کرنا چاہتے ہیں جو دین کیلئے اپنی زندگی وقف کریں اور فارغ التحصیل ہو کر خدمت دین کریں مگر وہ دوسری طرف اس قسم کی مشکلات ہیں۔ اسلئے ضروری ہے کہ اس سوال پر بہت فکر کیا جاوے۔ہاں میں یہ بھی دیکتا ہوں کہ جو بچے ہمارے اس مدرسہ میںآتے ہیں، اُن کا آنا بھی بے سود نہیں ہے۔ان میں اخلاص اور محبت پائی جاتی ہے اس لیے اس موجودہ صورت اور انتظام کو بدلنا بھی مناسب نہیں ہے۔
میرے نزدیک یہ قاعدہ ہونا چاہیے تھا کہ ان بچوں کو تعطیل کے دن مولوی سید محمد احسن صاحب یا مولوی حکیم نور الدین صاحب زبانی تقریروں کے ذریعہ ان کو قرآن شریف اور علم حدیث اور مناظرہ کا ڈھنگ سکھاتے اور کم از کم دو گھنٹہ ہی اس کام کے لیے رکھے جاتے۔ میں یقینا کہتا ہوں کہ زبانی تعلیم ہی کا سلسلہ جاری رہا ہے اور طب کی تعلیم بھی زبانی ہوتی آئی۔ زبانی تعلیم سے طالب علموں کوخود بھی بولنے اور کلام کرنے کا طریق آجاتا ہے۔ خصوصاً جبکہ معلم فصیح و بلیغ ہو۔ زبانی تعلیم سے بعض اوقات ایسے فائدے ہوتے ہیں کہ اگر ہزار کتاب بھی تصنیف ہوتی تو وہ فائدہ نہ ہوتا۔ اس لیے اس کا التزام ضروری ہے۔ تعطیل کے دن ضرور ان کو سکھا یا جاوے۔ پھر باقاعدہ اُن کو قرآن شریف سنایا جاوے۔ اس کے حقائق و معارف بیان کیے جاویں اور ان کی تائید میں احادیث کو پیش کیا جاوے۔اس کے حقائق و معارف بیان کیے جاویں اور ان کی تائید میں احادیث کو پیش کیا جاوے۔ عیسائی جو اعتراض اسلام پر کرتے ہیں اُن کے جواب ان کو بتائے جائیں اور اس کے بالمقابل عیسائیوں کے مذہب کی حقیقت کھول کر اُن کو بتائی جاوے تا کہ وہ اس سے خوب واقف ہو جاویں۔ ایس اہی دہریوں اور آریوں کے اعتراضات اور اُن کے جوابات سے اُن کو آگاہ کیا جاوے۔ اور یہ سب کچھ سلسلہ وار ہو۔ یعنی کسی ہفتہ کچھ اور کسی ہفتہ کچھ۔ اگر یہ التزام کر لیا گیا تو میں یقینا جانتا ہوں کہ بہت کچھ تیار کر لیں گے۔نری عربی زبان کی واقفیت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔آنحضرت ﷺ جب پیدا نہیں ہوئے تھے تو اس زبان نے عربوں کے اخلاق، عادات اور مذہب پر کیا اثر ڈالا؟ اور اب شام و مصر میں کیا فائدہ پہنچایا؟ ہاں یہ سچ ہے کہ عربی زبان اگر عمدہ طو رسے آتی ہو تو وہ قرآن شریف کی خادم ہوگی اور انسان قرآن شریف کے حقائق و معارف خوب سمجھ سکے گا۔ چونکہ قرآن اور احادیث عربی زبان میں ہیں اس لیے ا س زبان سے پورے طور پر باخبر ہونا بہت ہی ضروری ہو گیا ہے۔ اگر عربی زبان سے واقفیت نہ ہو تو قرآن شریف اور احادیث کو کیا سمجھے گا؟ ایسی حالت میں تو پتہ ہی نہیں ہو سکتا کہ یہ آیت قرآن شریف میں ہے بھی یا نہیں۔ایک شخص کسی پادری سے بحث کرتا تھا اس سے کہدیا کہ قرآن شریف میں جو آیا ہے لولاک لما پادری نے جب کہا کہ نکال کر دکھائو تو بہت ہی شرمندہ ہونا پڑا۔
سادہ ترجمہ پڑھ لینے سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا۔ ان علوم کا جو قرآن شریف کے خادم ہیں واقف ہونا ضروری ہے۔ اس طرح پر قرآن شریف پڑھایا جاوے اور پھر حدیث۔اور اس طرح پر ان کو اس سلسلہ کی سچائی سے آگاہ کیا جاوے اور ایسی کتابیں تیار کی جاویں جو اس تقسیم کے ساتھ ان کے لیے مفید ہوں۔ اگر یہ سلسلہ اس طرح پر جاری ہو جاوے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مقاصد کا بہت بڑا مرحلہ طے ہو جاوے گا۔
یہ بھی یاد رہے کہ بیان کرنے والے تقسیم اوقات کے ساتھ بیان کریں اور پھر وہ ان بچوں سے امتحان لیں۔
غرض میں جو کچھ چاہتا ہوں وہ تم نے سن لیا ہے اور میری اصل غرض اور منشاء کو تم نے سمجھ لیا ہے۔اس کے پورا کرنے کے لیے جو جو تجاویز اور پھر ان تجاویز پر جو اعتراض ہوتے ہیں وہ بھی تم نے بیان کر دیئے ہیں اور میں سن چکا ہوں۔میں مدرسہ کی موجودہ صورت کو بھی پسند کرتا ہوں۔اس سے نیک طبع بچے کچھ نہ کچھ اثر ضرور لے جاتے ہیں۔اس لیے یہ نہیں چاہیے کہ مالا یدرک کلہ لا یترک کلہ۔ تجربہ کے طور پر سردست ایک سال کے لیے ہی ایسا انتظام کر کے دیکھو کہ ہفتہ وار جلسوں کے ذریعہ ان کو دینی ضروریات سے آگاہ کیا جاوے۔ ہاں عربی زبان کے لیے معقول انتظام ہونا چاہیے۔اگر اس کے لیے کچھ نہ ہو تو پھر ہماں اس درکاسہ والی بات ہوگی۔ گویا زبانی تو سب کچ ہوا مگر عملی اور حقیقی طور پر کچھ بھی نہ ہوا۔
اس بات کو بھی زیر نظر رکھ لو کہ اگر ان بچوں پر اور بوجھ ڈالا گیا تو وہ پا س ہونے کے خیالات میں دو طرفہ محنت نہیں کر سکیں گے۔ایک ہی طرف کوشش کریں گے۔اور اگر علیحدہ تعلیم ہوگی تواس کے لیے وقت وہی ہے وہ بڑھ نہیں سکتا۔ اس لیے ایک تو وہی صورت ہو سکتی ہے جو زبانی تعلیم کی میں نے بتائی ہے۔اور ایک اور یہ صورت ہے کہ وہ بچے جو پاس اور فیل کی پروا نہ رکھیں بلکہ ان کی غرض خدمت دین کے لیے تیار ہوان ہو اور محض دین کے لیے تعلیم حاصل کریں ایسے بچوں کے لیے خاص انتظام کر دیا جاوے مگر اُن کے لیے بھی یہ ضروری امر ہے کہ علوم جدیدہ سے انہیں واقفیت ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اگر علوم جدیدہ کے موافق کسی نے اعتراض کر دیا تو وہ خاموش ہو جاویں اور کہہ دیں کہ ہمیں تو کچھ معلوم نہین’ اس لیے موجودہ علوم سے انہیں کچھ نہ کچھ واقفیت ضروری ہے تاکہ وہ کسی کے سامنے شرمندہ نہ ہوں اور ان کی تقریر کا اثر زائل نہ ہو جاوے۔ محض اس وجہ سے کہ وہ بے خبر ہیں۔
ہاں ایک جماعت یہ ہو کہ وہ دونو علوم حاصل کر سکیں اور بجائے خود انہیں وقت کی پروا نہ ہو۔ پھر اس پر مشکل یہ ہوگی کہ استاد مستعد اورمقرر بنیں۔غرض ہر پہلو کو سوچ کر یہ انتظام کرنے کی بات ہے۔ اس لیے میں جب ان تمام امور کو مد نظر رکھ کر سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا کہ ہمارا جو مطلب ہے وہ کیونکر پور اہو سکتا ہے۔ اگر موجودہ صورت ہی کو قائم رکھیں اور کوئی انتظام نہ کیا گیا تو پھر ان ساری تقریروں سے فائدہ کیا ہوا؟اور اگر ا سپر مضامین بڑھادیں تو استاد واویلا کرتے ہیں کہ وقت تھوڑ اہے اور ساتھ ہی لڑکوں کی صحت کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس نکتہ کو مد نظر رکھو کہ ایسی لوگ تیار ہو جاویں گے۔ اس لیے کہ میں چاہتا ہوںکہ میرے سامنے تیار ہوں۔ خدا تعالیٰ نے جو نوح ؑکا حکم دیا کہ
واصنع الفلک باعیننا (ہود : ۳۸)
تو کشتی ہمارے سامنے بان۔ اسی طرح پر میں اس جماعت کو اپنے سامنے تیار کرانا چاہتا ہوں۔فائدہ اسی سے ہوگا۔
مسیح موعود کی صحبت کا اثر
میں یقینا کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ایک ہفتہ ہماری صحبت میںرہے اور اُسے ہماری تقریریں سننے کا موقعہ مل جاوے تو وہ مشرق و مغرب کے مولوی سے بڑھ جاوے گا۔ اس لیے جو کچھ ہو میرے سامنے ہو۔ آپ لوگ اس کی فکر کریں۔ میں اس امر میں تمہارے ساتھ اتفاق رائے کرتا ہوں کہ مدرسہ کو توڑ انہ جاوے۔ ان کے لیے تو تعطیل کا دن مناظرات اور دینیات کے واسطے قرار دیا جاوے۔ ہمارا یہ مطلب نہین کہ سب کے سب مولوی ہی ہو جاویں اور نہ ایس اہو سکت اہے۔ ہاں اگر ان میں سے ایک بھی نکل آوے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہامرا مقصد پورا ہو گیا اور باقیوں کو کم از کم اپنے دین ہی کی خب رہو جاوے گی اوروہ غیر قوموں کے فتنہ میں نہ پڑ سکیں گے۔
ہماری کسی سے دشمنی نہیں
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مخالف مذہبوں کے لوگوں سے ہمیں کوئی دشمنی نہیں بلکہ ان کے سچے خیر خواہ اور ہمدرد ہم ہیں۔ لیکن کیا کریں ہمارا مسلک اس جراح کی طرح ہے جس کو ایک پھوڑے کو چیرنا پڑتا ہے اور پھر وہ اس پر مرہم لگاتا ہے۔ بیوقوف مریض پھوڑ یکو چیرنے کیوقت شور مچاتا ہے، حالانکہ اگر وہ سمجھے تو اس پھوڑ ے کو چیر نے کی اصل غرض اسی کے مفید مطلب ہے کیونکہ جبتک وہ چیرانہ جاوے گا اور اس کی آلائش دو رنہ کی جاوے گی وہ اپان فساد اور بڑھائے گا اور زیادہ مضر اور مہلک ہوگا۔ اسی طرح پر ہم مجبور ہیں کہ ان کی غلطیاں ان پر ظاہر کریں اور صراط مستقیم ان کے سامنے پیش کریں۔جب تک وہ صراط مستقیم اختیار نہ کریں گے تو کیا بن سکتے ہیں؟
آریوں کے بعض غیر معقول عقائد
ایک طرف ایسے لوگ موجود ہیں جو خد اتعالیٰ کے وجود ہی سے منکر ہیں اور دوسری طرف ایسے ہیں۔ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے وجود کا بظاہر اقرار کیا ہے مگر وہ مانتے ہیں کہ اس نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ گویا ذرہ ذرہ خود خدا ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ اس پر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پر میشر سرب شکتی مان ہے۔ یہ کیسا سرب شکتی مان ہے کہ کچھ پیدا نہیں کر سکتا ذرہ ذرہ انادی ہے ارو روحیں انادی ہیں۔اُن کے خواص اور قویٰ انادی ہیں۔ پھ رجوڑنا جاڑنا بھی کوئی کام ہو سکت اہے۔ میرے نزدیک ایسے عقیدہ میں اور دہریوں کے عقیدہ میں انیس (۱۹) اور بیس (۲۰) کا فرق ہے۔ یہ لوگ درحقیقت اﷲ تعالیٰ اور اس کی قدرتوں پر ایمان نہیں لاتے۔ ہم تو اس خد اکو مانتے ہیں جو
علیٰ کل شئی قدیر (البقرۃ : ۱۰۷)
ہے…
پھروہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیستی سے ہستی نہیں ہوسکتی۔یہ ایسا بیہودہ اور غلط اصول ہے کہ اس کے لیے کسی بڑی دلیل کی حاجب نہیں ہے۔ خواب کے نظارے کس نے نہیں دیکھے؟ یہانتک کہ خواب بین مُردوں سے باتیں کرتا اور کھانے پینے کی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ وہ ہستی کہان سے ہوتی ہے؟ کیا نیستی سے نہیں ہوتی؟
اگر عقل ہوت اور باپ دادا میں روحانیت کا اثر ہوتا تو ایسی باتیں نہ کرتے۔ یہ باتیں یونانیوں کے اندھے فلاسفروں سے لی ہیں۔ اور علم دین سے محض بے خبے ہیں۔ علم دین کچھ اورحواس عطا کرتا فلسفی اور طبعی نہیں پہنچ سکتے۔ رؤیا میں سب امرو ہست ہو جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات روحانی امرو جسمانی رنگ بھی اختیار کر لیتے ہیں جیسا کہ میری وہ رؤیا ہے جو سرمۂ چشم آریہ میں درج ہے جس میںسیاہی کے چھینٹے کرتے پر پڑے تھے اور وہ کرتہ اب تک موجود ہے۔یہ عجیب در عجیب اسرار ہیں جنکا ان پر ایمان نہیں وہ ایمان ہی کیا ہے؟
دین وہی ہے جو روحانیت سکھاتا ہے اور آگے قدم رکھواتا ہے۔ میں افسوس نہیں کرتا کہ ایسی بُری حالت کیوں ہوئی ہے جو اس وقت نظر آرہی ہے۔ یہ سب اسلام کے کمالات کے ظہور کی خاطر ہوا۔ بُت پرستی سے دست برداری کرانے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایسی قوم پید اکر دی۔ یہ لوگ اسلام کی ڈیوڑھی پر ہیں۔ایک غیب کا دھکا لگے گا، تو تمہارے بھائی ہو جائیں گے؎ٰ۔
۲۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁
مسیح موعود کی بعثت اور سلسلہ کے قیام کی غرض
اعلیٰ حضرت حجۃ اﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تقریر جو آپ نے ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁
کو بعد نماز ظہر و عصر مسجد اقصیٰ میں فرمائی:
۲۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁ کی صبح کو مہمان خانہ جدید کے بڑے حال میں احباب کا ایک بڑا جلسہ
اس غرض کے لیے منعقد ہوا تھاکہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی اصلاح کے سوال پر غور کریں۔
اس میں بہت سے بھائیوں نے مختلف پہلوئوں پر تقریریں کیں۔ ان تقریروں کے ضمن
میں ایک بھائی نے اپنی تقریر میں کہا کہ جہانتک میں جانتا ہوں۔ حضرت اقدس ؑ کے
سلسلہ اور دوسرے مسلمانوں میں صرف اسی قدر فرق ہے کہ وہ مسیح ابن مریم کا زندہ
آسمان پر جانا تسلیم کرتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ وفات پاچکے ہیں اور کوئی
نیا امر ایسا نہیں جو ہمارے اور ان کے درمیان اصولی طو رپر قابل نزاع ہو۔ اس سے چونکہ
کامل طو رپر سلسلہ کی بعثت کی غرض کا پتہ نہ لگ سکتا تھا بلکہ ایک امر مشتبہ اور کمزور معلوم ہوتا
تھا اس لیے ضروری امر تھا کہ آپ اس کی اصلاح فرماتے، چونکہ اس وقت کافی وقت نہ تھا۔اس لیے ۲۷؍دسمبر کو بعد ظہر و عصر آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنی بعثت کی اصل غرض پر کچھ تقریر فرمائیں۔آپ کی طبیعت بھی ناسازتھی۔تاہم محض اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی:۔
فرمایا :
افسوس ہے اس وقت میری طبیعت بیمار ہے اور میں کچھ زیادہ بول نہیں سکتا، لیکن ایک ضروری امر کی وجہ سے چند کلمے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔کل میں نے سنا تھا کہ کسی صاحب نے یہ بیان کیا تھا کہ گویا ہم میں اور ہمارے مخالف مسلمانون کے درمیان فرق موت و حیات مسیح ؑکا ہے ورنہ ایک ہی ہیں اور عملی طور پر ہمار ے مخالفوں کا قدم بھی حق پر ہے یعنی نماز،روزہ اور دوسر یاعمال مسلمانوں کے ہیں اور وہ سب اعمال بجالاتے ہیں۔ صرف حضرت عیسیٰ ؑکی موت کے بارے میں ایک غلطی پڑگئی تھی جس کے ازالہ کے لیے خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ پیدا کیا۔ سو یاد رکھنا چاہیے۔کہ یہ بات صحیح نہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ مسلمانوں میں یہ غلطی بہت بری طرح پر پیدا ہوئی ہے۔لیکن اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ میرا دنیا میںآنا صرف اتنی ہی غلطی کے ازالہ کے لیے ہے اور کوئی خرابی مسلمانوں میں ایسی نہ تھی جس کی اصلاح کی جاتی بلکہ وہ صراط مستقیم پر ہیں تو یہ خیا ل غلط ہے۔میرے نزدیک وفات یا حیات مسیح ایسی بات نہیں کہ اس کے لیے اﷲ تعالیٰ اتنا بڑ اسلسلہ قائم کرتا اور ایک خاص شخص کو دنیا میں بھیجا جاتا وار اﷲ تعالیٰ ایسے طور پر اس کو ظاہر کرتا جس سے اس کی بہت بڑی عظمت پائی جاتی ہے یعنی یہ کہ دنیا میں تاریکی پھیل گئی ہے اور زمین *** ہو گئی ہے۔حضرت عیسیٰ ؑکی موت؎ٰ کی غلطی کچھ آج پیدا نہیں ہوگئی بلکہ یہ غلطی تو آنحضرت کی وفات کے تھوڑے ہی عرصہ بعد پیدا ہوگئی تھی اور خواص اولیاء اﷲ صلحاء اور اہل اﷲ بھی آتے رہے اور لوگ اس غلطی میں گرفتار رہے۔ اگر اس غلطی ہی کا ازالہ مقصود ہوتا تو اﷲتعالیٰ اس وقت بھی کر دیتا مگر نہیں ہوا۔ اور یہ غلطی چلی آئی۔اور ہمارا زمانہ آگیا۔ اس وقت بھی اگر نری اتنی ہی بات ہوتی تو اﷲ تعالیٰ اس کے لیے ایک سلسلہ پیدا نہ کرتا۔ کیونکہ وفات مسیح ایسی بات تو تھی ہی نہیں جو پہلے کسی نے تسلیم نہ کی ہو۔پہلے سے بھی اکثر خواص جن پراﷲ تعالیٰ نے کھول دیا۔ یہی مانتے چلے آئے۔مگر بات کچھ اور ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا۔ یہ سچ ہے کہ مسیح کی وفات ۲؎ کی غلطی کو دور کرنا بھی اس سلسلہ کی بہت بڑی غرض تھی۔ لیکن صرف اتنی ہی بات کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھ کو کھڑا نہیں کیا بلکہ بہت سی باتیں ایسی پیدا ہو چکی تھیں۔کہ اگر ان کی اصلاح کے لیے اﷲ تعالیٰ ایک سلسلہ قائم کر کے کسی کو مامور نہ کرتا تو دنیا تباہ ہو جاتی اور اسلام کا انم و نشان مٹ جاتا۔ اس لیے اسی مقصد کو دوسرے پیرایہ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بعثت کی غرض کیا ہے؟
حیات مسیح کا فتنہ
وفات مسیح اور حیات اسلام یہ دونوں مقاصد باہم بہت بڑا تعلق رکھتے ہیں اور وفات مسیح کا مسئلہ اس زمانہ میں حیات اسلام کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ حیات مسیح سے جو فتنہ پیدا ہوا ہے وہ بہت بڑھ گیا ہے۔ خیات مسیخ کے لیے یہ کہنا کہ کیا اﷲ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو زندہ آسمان پر اُٹھالے جاتا؟ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی ۳؎ سے ناواقفی کو ظاہر کرتاہے۔ ہم تو سب سے زیادہ اس بات پر ایمان لاتے اور یقین کرتے ہیں کہ
ان اﷲ علیٰ کل شئی قدیر (البقرۃ : ۱۰۷)
اﷲ تعالیٰ بیشک ہر بات پر قادر ہے اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ بے شک وہ جو کچھ چاہے کر سکت اہے۔ لیکن وہ ایسے امور سے پاک اور منزہ ہے جو اس کی صفات کاملہ کے خلاف ہوں اور وہ ان باتوں کا دشمن ہے۔ جو اس کے دین کے مخالف ہوں۔ حضرت عیسیٰ کی حیات اوائل میں تو صرف ایک غلطی کا رنگ رکھتی تھی مگر آج یہ غلطی ایک اژدھا بن گئی ہے جو اسلام کو نگلنا چاہتی ہے۔ ابتدائی زمانہ میں اس غلطی سے کسی گزند کا اندیشہ نہ تھا اور وہ غلطی ہی کے رنگ میں تھی۔ مگر جب سے عیسائیت کا خروج ہوا اور انہوں نے مسیح کی زندگی کو ان کی خدائی کی ایک بڑی زبردست دلیل قرار دیا تو یہ خطرناک امر ہوگیا۔ انہوںنے بار بار اور بڑے زور سے اس امر کو پیش کیا کہ اگر مسیح خد انہیں تو وہ عرش پر کیے بیٹھا ہے؟ اور اگر انسان ہو کر کوئی ایساکرسکتا ہے کہ زندہ آسمان پر چلا جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی بھی آسمان پر نہیں گیا؟ اس قسم کے دلائل پیش کر کے وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو خد ابنانا چاہتے ہیں اور انہوںنے بنایا اور دنیا کے ایک حصہ کو گمراہ کر دیا۔ اور بہت سے مسلمان جو تیس لاکھ سے زیادہ بتائے جاتے ہیں اس غلطی کو صحیح عقیدہ تسلیم کرنے کی وجہ سے اس فتنہ کا شکا رہو گئے۔ اب اگر یہ با ت صحیح ہوتی اور درحقیقت حضرت عیسیٰ ؑ زندہ آسمان پر چلے جاتے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں اور مسلمان اپنی غلطی اور ناواقفی سے ان کی تائید کرتے ہیں تو پھر اسلام کے لیے تو ایک ماتم کا دن ہوتا۔ کیونکہ اسلام تو دنیا میں اس لیے آیا ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر دنیا کو ایک ایمان اور یقین پیدا ہو اور اس کی توحید پھیلے۔
وہ ایسا مذہب ہے کہ کوئی کمزوری اس میں پائی نہیں جاتی اور نہیں ہے۔ وہ تو اﷲ تعالیٰ ہی کو وحدہٗ لا شریک قرار دیتا ہے۔کسی دوسرے میں یہ خصوصیت تسلیم کی جاوے تو یہ تو اﷲ تعالیٰ کی کسر شان ہے اور اسلام اس کو روا نہیں رکھتا۔ مگر عیسائیوں نے مسیح کی اس خصوصیت کو پیش کرکے دنیا کو گمراہ کر دیا ہے اور مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے ان کی اس ہاں میں ہاں ملادی اور ا ضرر کی پروا نہ کی جو اس سے اسلام کو پہنچا۔
اس بات سے کبھی دھوکہ نہیں کھانا چاہیے جو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا ﷲ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ مسیح کو زندہ آسمان پر اُٹھالے جاوے؟ بیشک و قادر ہے مگر وہ ایسی باتون کو کبھی روا نہیں رکھتا جو مبدأشرک ہو کر کسی کو شریک الباری ٹھہراتی ہوں اور یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک شخص کو بعض وجوہ کی خصوصیت دینا صریح مبدأشرک ہے۔ پس مسیح ؑمیں یہ خصوصیت سلیم کرنا کہ وہ تمام انسانوں کے برخلاف ابتک زندہ ہیں اور خواص بشری سے الگ ہیں، یہ ایسی خصوصیت ہے جس نے عیسائیوں کو موقع دیا کہ وہ اُن کی خدائی پر اس کو بطور دلیل پیش کریں۔اگر کوئی عیسائی مسلمانوں پر یہ اعتراض کرے کہ تم ہی بتائو کہ ایسی خصوصیت اس وقت کسی اور شخص کو بھی ملی ہے؟تو اس کا کوئی جواب اُن کے پاس نہیں ہے۔اس لیے کہ وہ یقین کرتے ہیں کہ سب انبیاء علیہم السلام مر گئے ہیں مگر مسیح کی موت بقول ان مخالف مسلمانوں کے ثابت نہیں کیونکہ توفی کے معنے تو آسمان پر زندہ اٹھائے جاتے کے کرتے ہیں۔اس لیے
فلما توفیتنی (المائدۃ : ۱۱۸)
میں بھی یہی معنے کرنے پڑیں گے کہ جب تونے مجھے زندہ آسمان پر اُٹھالیا۔ اور کوئی آیت ثابت نہیں کرتی کہ اس کی موت بھی ہوگی ۔پھر بتائو کہ اُن کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے اور وہ اپنی غلطی کو سمجھیں۔
میں سچ کہت اہوں کہ جو لوگ مسلمان کہلا کر اس عقیدہ کی کمزوری اور شناعت کے کھل جانے پر بھی اس کو نہین چھوڑتے وہ دشمن اسلا م اور اس کے لیے مار آستین ہیں۔
یاد رکھو۔ اﷲ تعالیٰ بار بار قرآن شریف میں مسیح ؑ کی موت کا ذکر کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ وہ دوسرے نبیوں اور انسانوں کی طرح وفات پا چکے ہیں۔ کوی امر ان میں ایسا نہ تھا جو دوسرے نبیوں اور انسانوں میں نہ ہو۔یہ بالکل سچ ہے کہ توفی کے موت ہی معنے ہیں۔کسی لغت سے یہ ثابت نہیں کہ توفی کے معنے کبھی آسمان پر مع جسم اُٹھانے کے بھی ہوتے ہیں۔ زبان کی خوبی لغات کی توسیع پر ہے۔ دنیا میں کوئی لغت ایسی نہیں ہے جو صرف ایک کے لیے ہو اور دوسرے کے لیے نہ ہو۔ ہاں خدا تعالیٰ کے لیے یہ خصوصیت ضرور ہے اس لیے کہ وہ وحدہٗ لا شریک خد اہے ۔لغت کی کوئی کتاب پیش کرو جس میں توفی کے یہ معنے خصوصیت سے حضرت عیسیٰ ؑ کے لیے کئے ہوں کہ زندہ آسمان پر مع جسم اٹھانا ہے اور سارے جہان کے لیے جب یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے موت کے ہوںگے۔اس قسم کی خصوصیت لغت کی کسی کتاب میں دکھائو۔ اور اگر نہ دکھا سکو اور نہیں ہے تو پھر خدا تعالیٰ سے ڈرو کہ یہ مبدأ شرک ہے۔ ا س غلطی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان عیسائیوں کے مدیون ٹھہرتے ہیں۔ اگر عیسائی یہ کہیں کہ جس حال میں تم مسیح کو زندہ تسلیم کرتے ہو کہ وہ آسمان پر ہے اور پھر اس کا آنا بھی مانتے ہو اور یہ بھی کہ وہ حکم ہو کر آئے گا۔اب بتائو کہ اس کے خد اہونے میں کیا شبہ رہا جبکہ یہ بھی ثابت نہ ہو کہ اس کی موت ہوگی۔ یہ کتنا بڑا مصیبت کا امر ہے کہ عیسائی سوال کرے اور اس کا جواب نہ ہو۔
غرض اس غلطی کا اثر بداب یہاں تک بڑھ گیا۔ یہ تو سچ ہے کہ دراصل مسیح کی موت کا مسئلہ ایسا عظیم الشان نہ تھا کہ اس کے لیے ایک عظیم الشان مامور کی ضرورت ہوتی۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوںکی حالت بہت ہی نازک ہو گئی ہے۔انہوں نے قرآن کریم پر تدبر چھوڑ دیا ارو ان کی عملی حالت خراب ہو گئی۔ اگر ان کی عملی حالت درست ہوتی اور وہ قرآن کریم اور اس کی لغات پر توجہ کرتے تو ایسے معنے ہرگز نہ کرتے۔ انہوں نے اسی لیے اپنی طرف سے یہ معنے کر لئے۔ توفی کا لفظ کوئی نرالا اور نیا لفظ نہ تھا اس کے معنے تمام لغت عرب میں خواہ وہ کسی نے لکھگی ہوں موت کے کئے ہیں۔ پھر انہوں نے مع جسم آسمان پر اُٹھانے کے معنے آپ ہی کیوں بنالیے۔ ہم کو افسوس نہ ہوتا اگر آنحضرت ﷺ کے لیے بھی اس لفظ کے یہی معنے کر لیتے کیونکہ یہی لفظ آپ کے لیے بھی تو قرآن شریف میں آیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے
واما نرینک بعض الذی نعد ھم او نتوفینک (یونس : ۴۷)
اب بتائو کہ اگر اس لفظ کے معنے مع جسم آسمان پر اُٹھانا ہی ہیں تو کیا ہمارا حق نہیں کہ آپ کے لیے بھی یہی معنے کریں۔ کیا وجہ ہے کہ وہ نبی جو آنحضرت ﷺ سے ہزار ہاد رجہ کمتر ہے اس کے لیے جب یہ لفظ بولا جاوے تو اس کے من گھڑت معنے کرکے زندہ آسمان پر لے جاویں۔ لیکن جب سید الاوالین و الآخرین کے لیے یہ لفظ آوے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہ کریں۔ حالانکہ آپ کی زندگی ایسی ثابت ہے کہ کسی اور نبی کی ثابت نہیں۔
حیات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ثبوت
اور اس لیے ہم زور اور دعویٰ سے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی نبی زندہ ہے تو وہ ہمارے نبی کریم ﷺ ہی ہین’ اکثر اکابر نے حیات النبی پر کتابیں لکھی ہیں۔اور ہمارے پاس آنحضرت ﷺ کی زندگی کے ایسے زبردست ثبوت موجود ہیں کہ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ منجملہ ان کے ایک یہ بات ہے کہ زندہ نبی وہی ہو سکتاہے جس کے برکات اور فیوض ہمیشہ کے لیے جاری ہوں اور یہ ہم دیکھتے ہیںکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے زمانہ سے لیکر اس وقت تک کبھی بھی مسلمانوں کو ضائع نہیں کیا۔ ہر صدی کے سر پر اس نے کوئی آدمی بھیج دیا جو زمانہ کے مناسب حال اصلاح کرت ا رہا یہانتک کہ ا س صدی پر اس نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں حیات النبی کا ثبوت دوں۔ یہ امر قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ اﷲ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے دین کی حفاظت کرتا رہا اور کرے گا جیسا کہ فرمایا ہے
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰)
یعنی بیشک ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا یہ اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے انا لہ لحافظون کا لفظ صاف طور پر دلالت کرتا ہے کہ صدی کے سر پر ایسے آدمی آتے رہیں گے جو گمشدہ متاع کو لائیں اور لوگوں کو یاد دلائیں۔
یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب پہلی صدی گذرجاتی ہے تو پہلی نسل بھی اُٹھ جاتی ہے اور اس نسل میںجو عالم،حافظ قرآن، اولیاء اﷲ اور ابدال ہوتے ہیں وہ فوت ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر ضرورت ہوتی ہیکہ احیاء ملت کے لیے کوئی شخص پیدا ہو، کیونکہ اگر دوسری صدی میں نیا بندوبست اسلام کے تازہ رکھنے کے لیے نہ کرے تو یہ مذہب مر جاوے۔اس لیے وہ ہر صدی کے سر پر ایک شخص کو مارمور کرتا ہے جو اسلام کو مرنے سے بچالیتا ہے اور اس کو نئی زندگی عطا کرتا ہے اور دنیا کو ان غلطیوں بدعات اور غفلتوں اور سستیوں سے بچالیتا ہے جو اُن میں پیدا ہوتی ہیں۔
یہ خصوصیت آنحضرت ﷺ ہی کو حاصل ہے اور یہ آپ کی حیات کی ایسی زبردست دلیل ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس طرح پر آپ کے برکات و فیوض کا سلسلہ لا انتہا اور غیر منقطع ہے اور ہر زمانہ میں گویا اُمت آپؐ کا ہی فیض پاتی ہے اور آپ ہی سے تعلیم حاصل کرتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی محب بنتی ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔
ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران : ۳۲)
پس خدا تعالیٰ کا پایر ظاہر ہے کہ اس امت کو کسی صدی میں خالی نہیں چھوڑتا ۔اور یہی ایک امر ہے جو آنحضرت ﷺ کی حیات پر روشن دلیل ہے۔بالمقابل حصرت عیسیٰ ؑ کی حیات ثابت نہیں۔ ان کی زندگی ہی میں ایسا فتنہ برپا ہوا کہ کسی اور نبی کی زندگی میں وہ فتنہ نہیں ہوا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو حضرت عیسیٰ ؑ سے مطالبہ کرنا پڑا کہ
ء انت قلت لناس اتخذونی وامی الھین (المائدۃ : ۱۱۷)
یعنی کیا تونے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بنالو۔جو جماعت حضرت عیسیٰ ؑ نے تیار کی وہ ایسی کمزور اور ناقابل اعتبار تھی کہ خود یہی عیسائی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں۔
صحابہؓ اور حواریوں کا موازنہ
انجیل سے ثابت ہے کہ وہ بارہ شاگرد جو اُن کی خاص قوت قدسی اور تاثیر کا نمونہ تھے۔ اُن میں سے ایک نے جس کا نام یہودا اسکریوطی تھا۔اس نے تی روپے پر اپنے آقا و مرشد کو بیچ دیا اور دوسرے نے جو سب سے اول نمبر پر ہے اور شاگرد رشید کہلاتا تھا اور جس کے ہاتھ مین بہشت کی کنیجیاں تھیں۔یعنی پطرس۔ اس نے سامنے کھڑے ہوکر تین مرتبہ *** کی۔ جب خود حضرت مسیح کی موجودگی میں ان کا اثر اور فیض اس قدر تھا تو اب انیس سو سال گذرنے کے بعد خود اندازہ کر لو کہ کیا باقی رہا ہوگا۔ اس کے بالمقابل آنحضرت ﷺ نے جو جماعت تیار کی تھی وہ ایسی صادق اور وفادار جماعت تھی کہ انہوں نے آپؐ کے لیے جانیں دے دیں، وطن چھوڑ دیئے، عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ دیا۔ غڑض آپؐ کے لیے کسی چیز کی پروا نہ کی۔یہ کیسی زبردست تاثیر تھی۔ اس تاثیر کا بھی مخالفوں نے اقرار کیا ہے اور پھر آپؐ کی تاثیرات کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ اب تک وہ چلی جاتی ہیں۔قرآن شریف کی تعلیم میں وہو اثر وہی برکات اب بھی موجود ہیں۔
قرآن کریم اور انجیل کا موازنہ
اور پھر تاثیر کا ایک اور بھی نمونہ قابل ذکر ہے کہ انجیل کا کہیں پتہ ہی نہیں لگتا۔ خود عیسائیوں کو اس امر میں مشکلات ہیں کہ اصل انجیل کونسی ہے اور وہ کس زبان میں تھی اور کہاں ہے؟ مگر قرآن شریف کی برابرحفاظت ہوتی چلی آئی ہے۔ایک لفظ اور ایک نقطہ تک اس کا ادھر اُدھر نہیں ہوسکتا۔ اس قدر حفاظت ہوئی ہے کہ ہزاروں لاکھوں حافظ قرآن شریف کے ہر ملک او ہرقوم میں موجود ہیں جن میں باہم اتفاق ہے۔ ہمیشہ یاد کرتے اور سناتے ہیں۔ اب بتائو کہ کیا یہ آپؐ کے برکات اور زندہ برکات نہیں؟اور کیا ان سے آپؐ کی حیات ثابت نہیں ہوتی؟
غرض کیا قرآن شریف کی حفاظت کی رو سے اور کیا تجدید دین کے لیے ہر صدی پر مجدد کے آنے کی حدیث سے اور کیا آپؐکی برکات اور تاثیرات سے جو اب تک جاری ہیں آپؐ کی حیات ثابت ہوتی ہے۔اب غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی حیات کے عقیدہ نے دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ کیا اخلاقی اور عملی طور پر اصلاح ہوئی ہے یا فساد پیدا ہوا ہے؟ اس امر پر جس قدر غور کریں گے اسی کدر اس کی خرابیاں ظاہر ہوتی چلی جائیں گی۔میں سچ کہتا ہوں کہ اسلام نے اس عقیدہ سے بہت بڑا ضرر اُٹھایا ہے یہان تک کہ چالیس کروڑ کے قریب لوگ عیسائی ہو چکے ہیں جو سچے خدا کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کو خدا بنارہے ہیں اور عیسائیت نے دنیا کو جو نفع پہنچایا ہے۔ وہ ظاہر امر ہے خود عیسائیوں نے اس امر کو قبول کیا ہے کہ عیسائیت کے ذریعہ بہت سی بد اخلاقیاں دنیا میں پھیلی ہیں کیونکہ جب انسان کو تعلیم ملے کہ اس کے گناہ کسی دوسرے کے ذمہ ہوچکے تو وہ گناہ کرنے پر دلیر ہو جاتا ہے اور گناہ نوع انسان کے لیے ایک خطرناک زہر ہے جو عیسائیت نے پھیلائی ہے۔ اس صورت میں اس عقیدہ کا ضرر اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
وفات مسیح کے مسئلہ کو مشیت ایزدی نے مخفی رکھا
میں یہ نہیں کہتا کہ حیات مسیح کے متعلق اسی زمانہ کے لوگوں پر الزام ہے۔ نہیں بعض پہلوں نے غلطی کھائی ہے۔مگر وہ تو اس غلطی میں بھی ثواب ہی پر ہے۔کیونکہ مجتہد کے متعلق لکھا ہے یخطیٔ و یصیب کبھی مجتہد غلطی بھی کرتا ہے اور کبھی صواب۔مگر دونوںطرح پر اُسے ثواب ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مشیت ایزدی نے یہی چاہا تھا کہ ان سے معاملہ مخفی رہے۔ پس وہ غفلت میں رہے اور اصحاب کہف کی طرح یہ حقیقت ان پر مخفی رہی جیسا کہ مجھے الہام ہوا تھا۔
ام حسبت ان اصحاب الکھف والرقیم کانو امن ایا تنا عجبا
اسی طرح مسیح کی حیات کا مسئلہ بھی ایک عجیب سر ہے۔ باوجود یکہ قرآن شریف کھول کھول کر مسیح کی وات ثابت کرتا ہے۔احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔آنحضرت ﷺ کی وفات پر جو آیت استدلال کے طور پر پڑھی گئی ۔وہ بھی اسی کو ثابت کرتی ہے۔ مگر باوجود ا س قدر آشکار ہونے کے خد اتعالیٰ نے اس کو مخفی کر لیا اور آنے والے موعود کے لیے اس کو مخفی رکھا چنانچہ جب وہ آیا تو اس نے اس راز کو ظاہر کیا۔
یہ اﷲ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ وہ جب چاہتا ہے کسی بھید کو مخفی کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اُسے ظاہر کر دیتا ہے۔ اسی طرح اس نے اس بھید کو اپنے وقت تک مخفی رکھا مگر اب جبکہ آنیوالا آگیا اور اس کے ہاتھ میں اس سر کی کلید تھی اس نے اسے کھول کر دکھادیا۔ اب اگر کوئی نہیں مانتا اور ضد کرتا ہے تو وہ گویا اﷲ تعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے۔
وفات مسیح کا مسئلہ ایک ثابت شدہ امر ہے
غرض وفات مسیح کا مسئلہ اب ایسا مسئلہ ہو گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا اخفا نہیں رہا۔ بلکہ ہر پہلو سے صاف ہو گیاہے۔ قرآن شریف سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے احادیث وفات کی تائید کرتی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا واقعہ معرات موت کی تصدیق کرتا ہے اور آپ گویا چشم دید شہادت دیتے ہیں۔کیونکہ آپؐ نے شب معراج حضرت عیسیٰ ؑ کو حضرت یحییٰ ؑ کے ساتھ دیکھا۔ اور پھر آیت
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرارسول ا (بنی اسرائیل : ۹۴)
مسیح کو زندہ آسمان پر جانے سے روکتی ہے۔کیونکہ جب کفٰر نے آپؐ سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ مانگا تو اﷲ تعالیٰ نے اآپؐ کو یہی جواب دیا کہ
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرار سولا (بنی اسرائیل : ۹۴)
یعنی میرا رب اس وعدہ خلافی سے پاک ہے جو ایک مرتبہ تو وہ انسان کے لیے یہ قرار دے کہ وہ اسی زمین پیدا ہوا۔اور یہاں ہی مرے گا۔
فیھا تحیون وفیھا تموتون (الاعراف ۲۶)
میں تو ایک بشر رسول ہوں یعنی وہ بشریت میرے ساتھ موجود ہے جو آسمان پر نہیں جاسکتی۔ اور دراصل کفار کی غرض اس سوال سے یہی تھی۔ چونکہ وہ پہلے یہ سن چکے تھے کہ انسان اسی دنیا میں جیتا اور مرتا ہے۔ اس لیے اُنہوں نے موقعہ پاکر سوال کیا جس کا جواب ان کو ایسا دیا گیا کہ ان کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ پس یہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے کہ مسیح وفٰت پا چکے ۔ہاں یہ ایک معجزا نہ نشان ہے کہ انہیں غفلت میں رکھ ااور ہوشیاروں کو مست بنادیا۔
مسیح ؑکی موت میں اسلام کی زندگی ہے
یہ بھی یاد رکھو کہ جن لوگوں نے یہ زمانہ نہیں پایا وہ معذور ہیں’ ان پر کوئی حجت پوری نہیں ہوئی اور اس وقت اپنے اجتہاد سے جو کچھ وہ سمجھے اس کے لیے اﷲ تعالیٰ سے اجر اور ثواب پائیں گے۔ مگ راب وقت نہین رہا۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اس نقاب کو اُٹھادیا اور اس مخفی راز کو ظاہر کر دیا ہے اور اس مسئلہ کے برے اور خوفناک اثروں کو تم دیکھ رہے ہو کہ اسلام تنزل کی حالت میں ہے۔ اور عیسائیت کا یہی ہتھیار حیات مسیح ہے جس کو لے کر وہ اسلما پر حملہ آور ہو رہے ہیۃ اور مسلمانوں کی ذریت عیسائیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ میں سچ سچ کہت اہوں کہ ایسیے ہی مسائل وہ لوگون کو سنا سنا کر برگشتہ کر رہے ہیں۔ اور وہ خصوصیتیں جو نادانی سے مسلمان اُن کے لیے تجویز کرتے ہیں سکولوں اور کالجوں میں پیش کر کے اسلام سے جدا کررہے ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاوے؎ٰ۔
پس اس وقت چاہا ہے کہ مسلمان متنبہ ہو جائیں کہ ترقی اسلام کے لیے یہ پہلو نہایت ضروری ہے کہ مسیح کی وفات کے مسئلہ پر زور دیا جاوے اور وہ اس امر کے قائل نہ ہوں کہ مسیح زندہ آسمان پر یگا ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے مخالف اپنی بدقسمتی سے اس سر کو نہیں سمجھتے اور خواہ نخواہ شور مچاتے ہیں۔ کاش یہ احمق سمجھتے کہ اگر ہم سب مل کر وفات پر زور دین گے تو ھپر یہ مذہب (عیسائی) نہیں رہ سکتا۔ میں یقینا کہتا ہوں کہ اسلام کی زندگی اُس کی موت میں ہے۔ خود ایسائیوں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ جب یہ ثابت ہو جاوے کہ مسیح زندہ نہیں بلکہ مر گیا ہے تو اُن کے مذہب کا کیا باقی رہ جاتا ہے؟ وہ خود اس امر کے قائل ہیں کہ یہی ایک مسئلہ ہے جو اُن کے مذہب کا استیصال کرتا ہے مگر مسلمان ہیں کہ مسیح کی حیات کے قائل ہو کر ان کو تقویت پہنچارہے ہیں اور اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں‘ ان کی وہی مثلا ہے ؎
یکے برسر شاخ و بُن مے برید
صلیب کو توڑنے والا ہتھیار
عیسائیوں کا جو ہتھیار اسلام کے خلاف تھا۔ اسی کو ان مسلمانوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا؎ٰ اور اپنی نا سمجھی اور کم فہمی سے چلا دیا جس سے اسلام کو اس قدر نقصان پہنچا مگر خوشی کی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عین وقت پر اس سے ان کو آگاہ کر دیا اور ایسا ہتھیار عطا کیا جو صلیب کے توڑنے کے واسطے بے نظیر ہے اور ا سکی تائید اور استعمال کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور تائید سے اس موت مسیح کے ہتھیار نے صلیبی مذہب کو جس قدر کمزور اور سست کر دیا ہے وہ اب چھپی ہوئی بات نہیں رہی۔ عیسائی مذہب اور اس کے حامی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی فرقہ اور اسلسلہ اُن کے مذہب کو ہلاک کر سکتا ہے تو وہ یہی سلسلہ ہے؛ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایک اہل مذہب سے مقابلہ کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں مگر اس سلسلہ کے مقابلہ میں نہیں آتے۔بشپ صاحب کو جب مقابلہ کی دعوت کی گئی تو ہر چند اس کو بعض انگریزی اخباروں نے بھی خوش دلایا مگر پھر بھی وہ میدان میں نہیں نکلا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے پاس عیسائیت کے استیصال کے لیے وہ ہتھیار ہیں جو دوسروں کو نہیں دیئے گئے اور اُن میں سے پہلا ہتھیار یہی موت مسیح کا ہتھیار ہے۔موت اصلی غرض نہیں۔یہ تو اس لیے کہ عیسائیوں کا ہتھیار تھا جس سے اسلام کا نقصان تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ اس غلطی کا تدراک کرے؛چنانچہ بڑے زور کے ساتھ اس کی اصلاح کی گئی۔
سلسلہ کے قیام کا ایک اور مقصد
اس کے علاوہ ان غلطیوں اور بدعات کو دور کرنا بھی اصل مقصد ہے جو اسلام میں پیدا ہو گئی ہیں۔ یہ قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ کہا جاوے کہ اس سلسلہ میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔اگر موجودہ مسلمانوں کے معتقدات میں کوئی فرق نہیں آیا اور دونو ایک ہی ہیں تو پھر کیا خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو عبث قائم کیا؟ ایسا خیال کرنا اس سلسلہ کی سخت ہتک اور اﷲ تعالیٰ کے حصور ایک جرأت اور گستاخی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بار بار ظاہر کیا ہے کہ دنیا میں بہت تاریکی چھاگئی ہے۔ عملی حالت کے لفاظ سے بھی اور اعتقادی حالت کی وجہ سے بھی۔ وہ توحید جس کے لیے بے شمار نبی اور رسول دنیا میں آئے اور انہوں نے بے انتہا محنت اور سعی کی آج اس پر ایک سیاہ پردہ پڑا ہوا ہے اور لوگ کئی قسم کے شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں’ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ دنیا کی محبت نہ کرو۔مگر اب دنای کی محبت ہر ایک دل پر غلبہ کر چکی ہے او رجس کو دیکھو اسی محبت میں غرق ہے۔ دین کے لیے ایک تنکا بھی ہٹٰنے کے واسطے کہا جاوے تو وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے ہزاروں عذر اور بہانے کرنے لگتا ہے۔ہر قسم کی بدعملی اور بدکاری کو جائز سمجھ لیا گیا ہے اور ہرقسم کی مہنیات پر کھل کھلا زور دیا جاتا ہے دین بالکل بیکس اور یتیم ہو رہا ہے۔ ایسی صورت میں اگر اسلام کی تائید اور نصرت نہ فرمائی جاتی تو اور کونسا وقت اسلام پر آنے والا ہے جو اس وقت مدد کی جاوے۔ اسلام تو صرف نام کو باقی رہ گیا۔ اب بھی اگر حفاظت نہ کی جاتی تو پھر اس کے مٹنے میں کیا شبہ ہو سکتا تھا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ یہ صرف قلت تدبر کا نتیجہ ہے جو کہا جاتا ہے کہ دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟
حب دنیا کا فتنہ
اگر صرف ایک ہی بات ہوتی تو اس قدر محنت اٹھانے کی کیا حاجب تھی۔ ایک سلسلہ قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں جانتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ بار بار ظاہر کر چکا ہے کہ ایسی تاریکی چھاگئی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ توحید جس کا ہمیں فخر تھا اور اسلام جس پر ناز کرتا تھا وہ صرف زبانوں پر رہ گئی ہے ورنہ عملی اور اتعقادی طور پر بہت ہی کم ہوننگے جو توحید کے قائل ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا دنیا کی محبت نہ کرنا۔ مگر اب ہر ایک دل اسی میں غرق ہے اور دین ایک بیکس اور یتیم کی طرح رہ گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے صاف طور پر فرمایا تھا
حب الدنیا راس کل خطیئۃ
یہ کیسا پاک اور سچا کلمہ ہے۔ مگر آج دیکھ لو۔ہر ایک اس غلطی میں مبتلا ہے۔ ہمارے مخالف آریہ اور عیسائی اپنے مذاہب کی حقیقت کو خوب سمجھ چکے ہیں۔لیکن اب اسے نبا ہنا چاہتے ہیں۔عیسائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مذہب کے اصول و فروع اچھے نہیں’ ایک انسان کو خدا بنانا ٹھیک نہیں۔اس زمانہ میں فلسفہ،طبعی اور سائنس کے علوم ترقی کر گئے ہیں اور لوگ خوب سمجھ گئے ہیں کہ مسیح بجز ایک ناتواں اور ضعیف انسان ہونے کے سوا کوئی اقتداری قوت اپین اندر نہ رکھتا تھا اور یہ نا ممکن ہے کہ ان علوم کو پڑھ کر خود اپنی ذات کا تجربہ رکھ کر اور مسیح کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کو دیکھ کر یہ اعتقاد رکھیں کہ وہ خدا تھا؟ ہر گز نہیں۔
شرک عورت سے شروع ہوا ہے اور عورت سے ان کی بنیاد پڑی ہے یعنی حوا سے جس نے خد اتعالیٰ کا حکم چھوڑ کر شیطان کا حکم مانا۔ اور شک عظیم یعنی عیسائی مذہب کی حامی بھی عورتیں ہیں۔درحقیقت عیسائی مذہب ایسا مذہب ہے کہ انسانی فطرت دور سے اس کو دھکے دیتی ہے اور وہ کبھی اس کو قبول ہی نہین کر سکتی۔ اگر درمیان دنیا نہ ہوتی تو عیسائیوں کا گروہ کثیر آج مسلمان ہو جاتا۔ بعض لوگ عیسائیوں میں مخفی مسلمان رہے ہیں اور انہوں نے اپنے اسلام کو چھپایا ہے لیکن مرنے کے وقت اپنی وصیت کی اور اسلام ظاہر کیا ہے۔ ایسے لوگوں میں بڑے بڑے عہدے دار تھے۔ انہوں نے حب دنیا کی وجہ سے زندگی میں اسلام کو چھپایا لیکن آخر انہیں ظاہر کرنا پڑا۔ میں دیکھتا ہوں کہ ان دنوں میں اسلام نے راہ بنالیا ہے اور اب وہ ترقی کر رہا ہے۔ حب دنیا نے لوگوں کو محجوب کر رکھا ہے۔
غرض مسلمانوں میں اندرونی تفرقہ کا موجب بھی یہی حب دنیا ہی ہوئی ہے کیونکہ اگر محض اﷲ تعالیٰ کی رضا مقدم ہوتی تو آسانی سے سمجھ میں آسکتا تھا کہ فلاں فرقے کے اصول زیادہ صاف ہیں اور وہ انہیں قبول کرکے ایک ہوجاتے ۔اب جبکہ حب دنیا کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان کہا جاسکتا ہے جبکہ ان کا قدم آنحضرت ﷺ کے قدم پر نہین۔اﷲ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا
قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران : ۳۲)
یعنی اگر تم اﷲ تعالیٰ کی باجئے اور اتباع رسول اﷲ ﷺ کی بجائے حب الدنیا کو مقدم کیا گیا ہے۔ کیا یہی آنحضرت ﷺکی اتباع ہے؟ کیا آنحضرت ﷺ دنیادار تے؟ کیا وہ سود لیا کرتے تھے؟ یا فرائض اور احکام الٰہی کی بجا آوری میں غفلت کیا کرتے تھے؟ کیا آپؐ میں معاذ اﷲ نفاق تھا؟ مداہنہ تھا؟ دنیا کو دنی پر مقدم کرتے تھے؟ غور کرو۔ اتباع تو یہ ہے کہ آپؐ کے نقش قدم پر چلو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے۔صحابہؓ نے وہ چلن اختیار کیا تھا۔پھر دیک لو کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچایا۔اُنہوں نے دنیا پر لات ماردی تھی اور بالکل حب دنیا سے الگ ہو گئے تھے۔ اپنی خواہشوں پر ایک موت وارد کر لی تھی۔اب تم اپنی خالت کا ان سے مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ کیا انہیں کے قدموں پر ہو؟ افسوس اس وقت لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے۔ رأس کل خطیئۃ نے بہت سے بچے دے دیئے ہیں کوئی شخص عدالت میں جاتا ہے تو دو آنے لے کر جھوٹی گواہی دینے میں ذرا شرم و حیا نہیں کرتا۔کیا وکلاء قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ سارے کے سارے گواہ سچے پیش کرتے ہیں۔ آج دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔جس پہلو اور رنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔جھوٹے مقدمہ کرنا توبات ہی کچھ نہیں جھوٹے اسناد بنا لیے جاتے ہیں۔ کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت لے کر آئے تھے؟اﷲ تعالیٰ نے جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔
اجتنبو االرجس من الاوثان واجتبنو اقول الزور (الحج : ۳۱)
بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے جیس ااحمق انسان اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بت پرست بت سے نجات چاہتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بت بنات ایہ اور سمجھتا ہیکہ اس بت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔ کیسی خرابی آکر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو۔ تو کہتے ہیں کیونکر چھوڑ دیں اس کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا۔اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپان مدار سمجھتے ہیں۔مگر میں تمہین یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔
سچائی کی برکت
مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امر تسر ایک مضمون بھیجا۔ اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا۔ رلیارام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا۔میرا اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایا گیا۔ وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے راہئی نہیں جو اس خط سے انکار کر دیا جاوے۔گویا جھوٹ کے سوا بچائو نہیں۔مگر میں نے اس کو ہرگز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو جھوٹ نہیں بولوں گا ۔آخر وہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ ڈاک خانوں کا افسر بحیثیت مدعی حاضر ہوا۔ مجھ سے جس وقت اس کے متعلق پوچھا گیا تو میں نے صاف طور پر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر میں نے اس کو جزو مضمون سمجھ کر اس میں رکھا ہے۔
‏Amira 7-3-06
مجسٹریٹ کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اﷲ تعالیٰ نے اس کو بصیرت دی۔ ڈاکخانوں کے افسر نے بہت زور دیا مگر اس نے ایک نہ سنی اور مجھے رخصت کر دیا؎ٰ۔
میں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ نہیں ۔ایسی باتین نری بیہودگیاں ہیں۔سچ تویہ ہے کہ سچ کے بغیر گذارہ نہیں۔میں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا۔ اس نے ہماری رعایت رکھی۔ اور ایسی رعایت رکھی جو بطور نشان کے ہوگئی۔
من یتوکل علی اﷲ فھو حسبہ (الطلاق : ۴)
یقینا یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔عام طو رپر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہوجاتے ہیں مگر میں کیونکر اس کو باورکروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں بھی ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اﷲ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتاہے کہ وہ راستباز کو سزادے؟اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اُٹھ جاوے۔راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔
اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی وہ سزا اُن کی بعض اور مخفی درمخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اور جھوٹ کی ہوتی ہے۔ خد اتعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزاپالیتے ہیں۔
میرے ایک استاد گل علی شاہ بٹالے کے رہنے والے تھے۔ وہ شیر سنگھ کے بیٹھے پرتاپ سنگھ کو بھی پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ شیر سنگھ نے اپنے باورچی کو محض نمک مرچ کی زیادتی پر بہت مارا تو چونکہ وہ بڑے سادہ مزاج تھے انہوں نے کہ اکہ آپ نے بڑا ظلم کیا۔ اس پر شیر سنگھ نے کہا۔مولوی جی کو خبر نہیں’ اس نے میرا سو بکرا کھایا ہے اسی طرح پر انسان کی بدکاریوں کا ایک ذخیرہ ہوتاہے اور وہ کسی ایک موقعہ پر پکڑا جاکر سزا پاتا ہے؎ٰ۔جو شخص سچائی اختیار کرے گا، کبھی نہیں ہو سکتا کہ ذلیل ہو اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور خد اتعالیٰ کی حفاظت جیس ااور کوئی محفوظ قلعہ اور حصار نہیں’ لیکن ادھوری بات فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ جب پیاس لگی ہوئی ہو تو صرف ایک قطرہ پی لینا کفایت کرے گا یا شدت بھوک کے وقت ایک دانہ یا لقمہ سے سیر ہو جاوے گا۔ بالکل نہیں’بلکہ جبتک پورا سیر ہو کر پانی نہ پئے یا کھانا نہ کھالے تسلی نہ ہوگی۔اسی طرح پر جب تک اعمال میں کمال نہ ہو وہ ثمرات اور نتائج پیدا نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔ناقص اعمال اﷲ تعالیٰ کو خوش نہیں کرسکتے اور نہ وہ بابرکت ہوسکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ میری مرضی کے موافق اعمال کرو پھر میں برکت دوں گا۔
غرض یہ باتیں دنیا دار خود ہی بنالیتے ہیں کہ جھوٹ اور فریب کے بغیر گذارہ نہیں۔کوئی کہتا ہے فلاں شخص نے مقدمہ میں سچ بولا تھا اس لیے چار برس کو دھراگیا۔ میں پھر کہوں گا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں جو عدم معرفت سے پیدا ہوتی ہیں ؎
کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی
یہ نقص کے نتیجے ہیں۔ کمال ایسے ثمرات پید انہیں کرتا۔ ایک شخص اگر موٹی سی کھدر کی چادر میں کوئی توپابھرے تو اس سے وہ درزی نہیں بن جاوے گا۔ اور یہ لازم نہ آئے گا کہ اعلیٰ درجہ کے ریشمی کپڑے بھی وہ سی لے گا۔اگر اس کو ایسے کپڑے دیئے جاویں تو نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ انہیں برباد کردے گا۔ پس ایسی نیکی جس میں گند ملا ہوا ہو کسی کام کی نہیں خد اتعالیٰ کے حضور اس کی کچھ قد نہیں۔لیکن یہ لوگ اس پر ناز کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ نجات چاہتے ہیں۔
اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے
اگر اخلاص ہو تو اﷲ تعالیٰ تو ایک ذرہ بھی کسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ اس نے تو خود فرمایا ہے۔
من یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ (الزلزال : ۸)
اس لیے اگر ذرہ بھر نیکی ہو تو اﷲ تعالیٰ سے اس کا اجر پائے گا۔ پھرکیا وجہ ہے کہ اس قدر نیکی کرکے پھل نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس میں اخلاص نہیں آیاہے۔اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے جیسا کہ فرمایا
مخلصین لہ الدین (البینۃ : ۶)
یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہیں؎ٰ۔
یہ لوگ ابدال ہوجاتے ہیں اور وہ اس دنیا کے نہیں رہتے۔اُن کے ہر کام میں ایک خلوص اور اہلیت ہوتی ہے لیکن دنیا داروں کا تو یہ حال ہے کہ وہ خیرات بھی کرتے ہیں تو اس کے لیے تعریف اور تحسین چاہتے ہیں۔اگر کسی نیک کام میں کوئی چندہ دیتا ہے تو غرض یہ ہے کہ اخبارات میں اس کی تعریف ہو۔ لوگ تعریف کریں۔اس نیکی کو خد اتعالیٰ سے کیا تعلق؟ بہت لوگ شادیاں کرتے ہیں۔ اس وقت سارے گائوں میں روٹی دیتے ہیں مگ رخد اکے لیے نہیں صرف نمائش اور تعریف کے لیے۔ اگر ریانہ ہوتی اور محض شفقت علیٰ خلق اﷲ کے لحاظ سے یہ فعل ہوتا اور خالص خدا کے لیے تو ولی ہو جاتے ،لیکن چونکہ ان کاموں کو خد اتعالیٰ سے کوئی تعلق اور غرض نہیں ہوتی اس لئے کوئی اور نیک بابرکت اثر ان میں پیدا نہیں ہوتا۔
یہ خوب یاد رکھو کہ جو شخص خد اتعالیٰ کے لیے ہو جاوے خد اتعالیٰ اس کا ہو جات اہے اور خدا تعالیٰ کسی کے دھوکے میں نہیں آتا۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ ریاکاری اور فریب سے خدا تعالیٰ کو ٹھگ لوں گا تو یہ حماقت اور نادانی ہے۔ وہ خود ہی دھوکہ کھارہا ہے۔دنیا کی زیب،دنیا کی محبت ساری خطاکاریوں کی جڑ ہے۔ اس میں اندھا ہو کر انسان انسانیت سے نکل جاتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔جس حالت میں عقلمند انسان کسی کے دھوکا میں نہیں آسکتا تو اﷲ تعالیٰ کیونکر کسی کے دھوکے میں آسکتا ہے۔ مگر ایسے افعال بد کی جڑ دنیا کی محبت ہے اور سب سے بڑا گناہ جس نے اس وقت مسلمانوں کو تباہ حال کر رکھا ہے اور جس میں وہ مبتلا ہیں وہ یہی دنیا کی محبت ہے۔سوتے جاگتے،اُٹھتے،بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت لوگ اسی غم و ہم میں پھنسے ہوئے ہیں۔اور اُس وقت کا لحاظ اور خیال بھی نہیں کہ جب قبر میں رکھے جاویں گے۔ایسیے لوگ اگر اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے اور دین کے لیے ذرا بھی ہم و غم رکھتے تو بہت کچھ فائدہ اٹھالیتے۔سعدیؒ کہتا ہے ؎
گر وزیر از خدا ترسیدے
خدا کی عظمت کو دل میں جگہ دو
ملازم لوگ تھوڑی سی نوکری کے لیے اپنے کام میں کیسے چست و چالاک ہوتے ہیں،لیکن جب نماز کا وقت آتا ہے تو ذرا ٹھنڈا پانی دیکھ کر ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسی باتیں کیوں پید اہوتی ہیں؟اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت دل میں نہیں ہوتی۔ اگر خدا تعالیٰ کی کچھ بھی عظمت ہو اور مرنے کا خیال ایور یقین ہو تو ساری سستی اور غفلت جاتی رہے۔اس لیے خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں رکھنا چاہیے اور اس سے ہمیشہ ڈرنا چاہیے۔ اس کی گرفت خطرناک ہوتی ہے۔ وہ چشم پوشی کرتا ہے اور درگذر فماتا ہے لیکن جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر بہت سخت پکڑتا ہے یہانتک کہ
لا یخاف عقبھا (الشمس : ۱۶)
پھر وہ اس امر کی بھی پروا نہیں کرتا کہ اس کے پچھلوں کا کیا حال ہوگا۔ برخلاف اس کے جو لوگ اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے اور اُس کی عظمت کو دل میں جگہ دیتے ہیں۔خدا تعالیٰ اُن کو عزت دیتا اور خود اُن کے لیے ایک سپر ہو جاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے من کان ﷲ کان اﷲ لہ یعنی جو شخص اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو جاوے اﷲ تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے۔مگر افسوس یہ ہے کہ جو لوگ اس طرف توجہ بھی کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف آنا چاہتے ہیں ان میں سے اکثر یہی چاہتے ہیں کہ ہتھیلی پرسرسوں جمادی جاوے۔وہ نہیں جانتے کہ دین کے کاموں میں کس قدر صبر اور حوصلہ کی حاجت ہے اور تعجب تو یہ ہے کہ وہ دنیا جس کے لیے وہ رات دن مرتے اور ٹکریں مارتے ہیں اس کے کاموں کے لیے توبرسوں انتظار کرتے ہیں۔ کسان بیج بوکر کتنے عرصہ تک منتظر رہتا ہے لیکن دین کے کاموں میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پھونک مار کر ولی بنا دو اور پہلے ہی دن چاہتے ہیں کہ عرش پر پہنچ جاویں؛ حالانکہ نہ اس راہ میں کوئی محنت اور مشقت اٹھائی اور نہ کسی ابتلاء کے نیچے آیا۔
دین کے کاموں میں صبر اور محنت کی ضرورت
خوب یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ قانون اور آئین نہیں ہے۔یہان ہر ترقی تدریجی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ نری اتنی باتوں سے خوش نہیں ہوسکتا کہ ہم کہدیں ہم مسلمان ہیں یا مومن ہیں ؛ چنانچہ اس نے فرمایا ہے۔
احسب الناس ان یترکو اان یقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
یعنی کیا یہ لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اتنا ہی کہنے پر راضی ہو جاوے اور یہ لوگ چھوڑ دیئے جاویں کہ وہ کہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی کوئی آزمائش نہ ہو۔یہ امر سنت اﷲ کے خلاف ہے کہ پھونک مار کر ولی اﷲ بنادیا جاوے۔اگر یہی سنت ہوتی تو پھر آنحضرت ایس اہی کرتے اور اپنے جان نثار صحابہؓ کو پھونک مار کر ولی بنا دیتے۔ ان کو امتحان میں ڈلوا کر اُن کے سر نہ کٹواتے اور خدا تعالی ان کی نسبت یہ نہ فرماتا
منہم من قضیٰ نحبہ ومنہم من ینتظر وما بدلو اتبدیلا (الاحزاب : ۲۴)
پس جب دنیا بغیر مشکلات اور محنت کے ہاتھ نہیں آتی تو عجیب بے وقوف ہے۔وہ انسان جو دین کو حلوۂ بے دو سمجھتا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ دین سہل ہے مگر ہر نعمت مشقت کو چاہتی ہے۔ بایں اسلام نے تو ایسی مشقت بھی نہیں رکھی۔ ہندوئوں میں دیکھو کہ ان کے جوگیوں اور سنیاسیوں کو کیا کای کرنا پڑتا ہے۔ کہیں ان کی کمریں ماری جاتی ہیں۔ کوئی ناخن بڑھاتا ہے۔ایسا ہی عیسائیوں میں رہبانیت تھی۔ اسلام نے ان باتوں کو نہیں رکھا بلکہ اس نے یہ تعلیم دی
قد افلح من زکھا (الشمس : ۱۰)
یعنی نجات پا گیا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کیا۔ یعنی جس نے ہر قسم کی بدعت ،فسق وفجور، نفسانی جذبات سے خد ا تعالیٰ کے لیے الگ کر لیا اور ہر قسم کی نفسانی لذات کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف کو مقدم کر لیا۔ ایسا شخص فی الحقیقت نجات یافتہ ہے جو خدا تعالیٰ کو مقدم کرتا ہے اور دنیا اور اس کے تکلفات کو چھوڑتا ہے؎ٰ۔
اور پھر فرمایا
قد خاب من دسھا (الشمس : ۱۱)
مٹی کے برابر ہو گیا وہ شخص جس نے نفس کوآلودہ کر لیا یعنی جو زمین کی طرف جھک گیا۔ گویا یہ ایک ہی فقرہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسنا کس طرح خد اتعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے کہ جب تک انسان قویٰ بشریہ کے برے طریق کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک خد انہیں ملتا۔ دنیا کی گندگیوں سے نکلنا چاہتے ہو اور خدا تعالیٰ کو ملنا چاہتے ہو تو ان لذات کو ترک کرو۔ورنہ
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنون

‏Amira 9-3-06
ریاء
انسان کی فطرت میں دراصل بدی نہ تھی اور نہ کوئی چیز بری ہے لیکن بد استعمالی بری بندایتی ہے۔ مثلاً ریاہی کولو۔یہ بھی دراصل بُری نہیں۔کیونکہ اگر کوئی کام محض خدا تعالیٰ کے لیے کرتا ہے اور اس لیے کرتا ہے کہ اس نیکی کی تحریک دوسروں کو بھی ہوتو یہ ریا بھی نیکی ہے۔
ریاء کی دو قسمیں ہیں۔ایک دنیا کے لیے۔مثلا کوئی شخص نماز پڑھا رہا ہے۔ اور پیچھے کوئی بڑا آدمی آگیا اس کے خیال اور لحاظ سے نماز کو لمبا کرنا شروع کردیا۔ ایسے موقعہ پر بعض آدمیوں پر ایسا رعب پڑجاتا ہے کہ وہ پھول پھول جاتے ہیں۔یہ بھی ایک قسم ریاکی ہے جو ہر وقت ظاہر نہیں ہوتی مگر اپنے وقت پر جیسے بھوک کے وقت روٹی کھاتا ہے یا پیاس کے وقت پانی پیتا ہے۔مگر رخلاف اس کے جو شخص محض اﷲ تعالیٰ کے لیے نماز کو سنوار سنوار کر پڑھتا ہے وہ ریا میں داخل نہیں۔بلکہ رضاء الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ غرض ریاکے بھی محل ہوتے ہیں۔اور انسان ایسا جانور ہے کہ بے محل عیوب پر نظر نہیں کرتا۔ مثلاً ایک شخص اپنے آپ کو بڑا عفیف اور پارسا سمجھتا ہے۔راستہ میں اکیلا جارہا ہے۔ راستہ میں وہ ایک تھیلی جواہرات کی پڑی پاتا ہے وہ اُسے دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ مداخلت کی کوئی بات نہیں۔کوئی دیکھتا نہیں۔اگر یہ اس وقت اس پر گرتا نہین اور سمجھتا ہے کہ غیر کا حق ہوگا اور روپیہ جو گرا ہوا ہے آخر کسی کا ہے۔ان باتوں کو سوچ کر اگر اس پر نہیں گرتا اور لالچ نہیں کرتا تو فی الحقیقت پوری عفّت اور تقویٰ سے کام لیتا ہے؛ ورنہ اگر نرا دعویٰ ہی دعویٰ ہے تو اس وکت اسکی حقیقت کھل جاوے گی اور وہ اسے لے لے گا۔
اسی طرح ایک شخص جس کے متعلق یہ خیال ہے کہ وہ ریاء نہیں کرتا۔جب ریاء کا وقت ہو اور وہ نہ کرے تو ثابت ہوگا کہ نہیں کرتا۔ لیکن جیسا کہ ابھی میں نے ذکر کیا بعض اوقات ان عادتوں کا محل ایسا ہوتاہے کہ وہ بدل کر نیک ہو جاتی ہیں۔چنانچہ نماز جو باجماعت پڑھتا ہے۔اس میں بھی ایک ریعء تو ہے۔لیکن انسان کی غرض اگر نمائش ہی ہو تو بیشک ریاء ہے اور اگراس سے غرض اﷲ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری مقصود ہے تو یہ ایک عجیب نعمت ہے۔پس مسجدوں میں بھی نمازیں پڑھو اور گھروں میں بھی۔ایسا ہی ایک جگہ دین کے کام کے لیے چندہ ہو رہا ہو۔ایک شخص دیکھتا ہے کہ لوگ بیدار نہیں ہوتے اور خاموش ہیں۔وہ محض اس خیال سے کہ لوگوں کو تحریک ہو سب سے پہلے چندہ دیتا ہے۔بظاہریہ ریاء ہوگی لیکن ثواب کا باعث ہوگی۔
اسی طرح خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے
لا تمش فی الارض مرحا (لقمان : ۱۹)
زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ایک جنگ میں ایک شخص اکڑ کر اور چھاتی نکال کر چلتا تھا۔آنحضرت ﷺ نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ فعل ناپسند ہے لیکن اس وقت اﷲ تعالیٰ اس کو پسند کرتاہے۔پس ؎
گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی
خلق کی تعریف
غرض خلق محل پر مومن اور غیر محل پر کافر بنادیتا ہے۔ میں پہلے کہہ چکا ہ٭ں کہ کوئی خلق برا نہیں بلکہ بداستعمالی سے بُرے ہوجاتے ہیں۔
حضرت عمرؓکیغصہ کے متعلق آیا ہے کہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ قبل از اسلام آپ بڑے غصہ ور تھے۔حضرت عمرؓنے جواب دیا کہ غصہ تو وہی ہے؛ البتہ پہلے بے ٹھکانے چلتا تھا۔مگر اب ٹھکانے سے چلتا ہے۔اسلام ہر ایک قوت کو اپنے محل پر استعمال کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔پس یہ کبھی کوشش مت کرو کہ تمہارے قویٰ جاتے رہیں بلکہ ان قویٰ کا صحیح استعمال سیکھو۔
قرآن کریم اور انجیل کی اخلاقی تعلیم کا موازنہ
یہ سب جھوٹے اور خیالی عقائد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو۔ممکن ہے یہ تعلیم اس وکت مختصّ المکان اور مختصّ الزمان کی طرح ہو۔ہمیشہ کے لیی یہ قانون نہ کبھی ہو سکتا ہے اور نہ یہ چل سکتا ہے۔اس لیے کہ انسان ایک ایسے درخت کی طرح ہے جس کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔اگر اس کی ایک ہی شاخ کی پروا کی جاوے تو باقی شاخیں تباہ اور برباد ہو جائیں گی۔عیسائی مذہب کی اس تعلیم میں جو نقص ہے وہ بخوبی ظاہر ہے۔اس سے انسان کے تمام قویٰ کی نشونما کیونکر ہوسکتی ہے۔اگر صرف درگذر ہی ایک عمدہ چیز ہوتی تو پھر انتقامی قوت اس کی قوتوں میں کیوں رکھی گئی ہے؟اور کیوں پھر اس درگذر کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاتا؟ مگر برخلاف اس کے کامل تعلیم وہ ہے جو اسلام نے پیش کی اور جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ہم کو ملی ہے اور وہ یہ ہے:۔
جزٰؤاسیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علیٰ اﷲ (الشوری : ۴۱)
یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو۔لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو،کوئی شر پید انہ ہوتا ہو تو اسکا اجر اﷲ تعالیٰ پر ہے۔اس سے صاف طور پرظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر گز یہ منشاء نہیں کہ خواہ نخواہ ضرور ہر مقام پر شر کا مقابلہ نہ کیا جاوے اور انتقام نہ لیا جاوے بلکہ منشاء الٰہی یہ ہے کہ محل اور موقعہ کو دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ موقعہ گناہ کے بخش دینے اور معاف کر دینے کا ہے یا سزا دینے کا۔اگر اس وقت سزا دینا ہی مصلحت ہو تو اس قدر سزا دی جائے جو سزا وار ہے اور اگر عفو کا محل ہے تو سزا کا خیال چھوڑ دو۔
یہ خوبی ہے اس تعلیم میں کیونکہ وہ ہر پہلو کا لحاظ رکھتی ہے۔اگر انجیل پر عمل کرکے ہر شریر اور بدمعاش کو چھوڑ دیا جاوے تو دنیا میں ادھیر مچ جاوے۔پس تم ہمیشہ یہی خیال رکھو کہ تمام قویٰ کو مردہ مت تصور کرو۔تمہاری کوشش یہ ہو کہ محل پر استعمال کرو۔میں یقینا کہتا ہوں کہ یہ تعلیم ایسی ہے جس نے انسانی قویٰ کے نقشہ کو کھینچ کر دکھا دیا ہے۔مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جو عیسائیوں کی میٹھی میٹھی باتیں سن کر فریفتہ ہو جاتے ہیں اور اسلام جیسی نعمت کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں۔صادق ہر حالت میں دوسورن کے واسطے شیریں ظاہر نہیں ہوتا۔جس طرح کہ ماں ہر وقت بچے کو کھانے کے واسطے شیرینی نہیں دے سکتی بلکہ وقت ضرورت کڑوی دوائی بھی دیتی ہے۔ ایس اہی ایک صادق مصلح کا حال ہے۔یہی تعلیم ہر پہلو پر مبارک تعلیم ہے۔خدا ایسا ہے کہ سچا خدا ہے۔ہمارے خدا پر عیسائی بھی ایمان لاتے ہیں۔جو صفات ہم خدا تعالیٰ کی مانتے ہیں وہ سب کو ماننے پڑتے ہیں۔پادری فنڈر ایک جگہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اگر کوئی ایسا جزریرہ ہو جہاں عیسائیت کا وعظ نہیں پہنچا تو قیامت کے دن ان لوگوں سے کیا سوال ہوگا؟تب خود ہی جواب دیتا ہے کہ ان سے یہ سوال نہ ہوگا کہ تم یسوع پر ا ور اس کے کفارہ پر ایمان لائے تھے یا نہ لائے تھے، بلکہ ان سے یہی سوال ہوگا کہ کیا تم خد اکو مانتے ہو جو اسلام کی صفات کا خد ا واحد لاشریک ہے۔
اسلام کا خودا وہ خدا ہے کہ ہر ایک جنگل میںر ہنے والا فطرتاً مجبور ہے کہ اس پر ایمان لائے۔ہر ایک شخص کا کانشنس اور نور قلب گواہی دیتا ہے کہ وہ اسلامی خدا پر ایمان لائے۔اس حقیقت اسلام کو اور اصل تعلیم کو جس کی تفصیل کی گئی،آجکل کے مسلمان بھول گئے ہیں اور اسی بات کو پھر قائم کر دینا ہمارا کام ہے۔یہی ایک عظیم الشان مقصد ہے جس کو لے کر ہم آئے ہیں۔
حضرت عیسیٰ ؑاور مریم ؑکا مَس شیطان سے پاک ہونا
ان امور کے علاوہ جو اوپر بیان کئے گئے اور بھی علمی اعتقادی غلطیاں مسلمانوں کے درمیان پھیل رہی ہیں جن کا دور کرنا ہمارا کام ہے۔مثلاً ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ اور اس کی ماں مس شیطان سے پاک ہیں اور باقی سب نعوذ باﷲ پاک نہیں ہیں۔یہ ایک صریح غلطی ہے بلکہ کفر ہے اور اس میں آنحضرت ﷺ کی سخت اہانت ہے۔ان لوگوں میں ذرہ بھی غیرت نہیں۔جو اس قسم کے مسائل گھڑ لیتے ہیں اور اسلام کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ لوگ اسلام سے بہت دور ہیں۔اصل میں یہ مسئلہ اس طرح سے ہے کہ قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ پیدائش دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک مس روح القدس سے اور ایک مس شیطان سے۔تمام نیک اور رستباز لوگوں کی اولاد مس روح القدس سے ہوتی ہے اور جو اولاد بدی کا نتیجہ ہوتی ہے وہ مس شیطان سے ہوتی ہے۔تمام انبیاء مس روح القدس سے پیدا ہوئے تھے مگر چونکہ حضرت عیسیٰ کے متعلق یہودیوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ وہ نعوذ باﷲ ولد الزنا ہیں اور مریم کا یاک اور سپاہی پہڈارانام کے ساتھ تعلق ناجائز کا ذریعہ ہیں اور مس شیطان کا نتیجہ ہیں۔اس واسطے اﷲ تعالیٰ نے ا سکے ذمہ سے یہ الزام دور کرنے واسطے ان کے متعلق یہ شہادت دی تھی کہ ان کی پیدائش بھی مس روح القدس سے تھی۔چونکہ ہمارے نبی کریم ؐ اور دیگر انبیاء کے متعلق کوئی اس کسم کا عتراض نہ تھا۔ اس واسطے ان کے متعلق ایسی بات بیان کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑی۔
ہمارے نبی کریم ﷺ کے والدین عبد اﷲ اور آمنہ کو تو پہلے ہی سے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کے متعلق ایسا خیال و گمان بھی کبھی کسی کو نہ ہوا تھا۔ایک شخص جو مقدمہ میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کے واسطے صفائی کی شہادت کی ضرورت پڑتی ہے،لیکن جو شخص مقدمہ میں گرفتار ہی نہین ہوا۔اس کے واسطے صفائی کی شہادت کی کچھ ضرورت ہی نہیں۔
معراج کی حقیقت
ایسا ہی ایک اور غلطی جو مسلمانوں کے درمیان پڑ گئی ہوئی ہے وہ معراج کے متعلق ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ کو معراج ہوا تھا۔مگر اس میں جو بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ صرف ایک معمولی خواب تھا۔سو یہ عقیدہ غلط ہے۔اور جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ معراج میں آنحضرت ﷺ اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے۔سو یہ عقیدہ بھی غلط ہے۔بلکہ اصل بات اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ معراج کشفی رنگ میں ایک نورانی وجود کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ ایک وجود تھا مگر نورانی،اور ایک بیداری تھی مگر کشفی اور نورانی جس کو اس دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے مگر وہی جن پر وہ کیفیت طاری ہوئی ہو؛ ورنہ ظاہری جسم او رظاہری بیداری کے ساتھ آسمان پر جانے کے واسطے تو خود یہودیوں نے معجزہ طلب کیا تھا جس کے جواب میں قرآن شریف میں کہا گیا تھا
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشر ارسولا (بنی اسرائیل : ۹۴)
کہدے میرا رب پاک ہے میں تو ایک انسان رسول ہوں۔انسان اس طرح اُڑ کر کبھی آسمان پرنہیں جاتے۔یہی سنت اﷲ قدیم سے جاری ہے۔
قرآن شریف حدیث پر مقدم ہے
ایک اور غلطی اکثر مسلمانوں کے درمیان ہے کہ وہ حدیث کو قرآن شریف پر مقدم کرتے ہیں؛ حالانکہ یہ غلط بات ہے۔قرآن شریف ایک یقینی مرتبہ رکھتا ہے اور حدیث کا مرتبہ ظنی ہے۔حدیث قاضی نہیں،بلکہ قرآن اُس پر قاضی ہے۔ہاں حدیث قرآن شریف کی تشریح ہے۔اس کو اپنے مرتبہ پر رکھنا چاہیے۔حدیث کو اس حدتک ماننا ضروری ہے کہ قرآن شریف کے مخالف نہ پڑے اور اس کے مطابق ہو۔لیکن اگر اس کے مخالف پڑے تو وہ حدیث نہیں بلکہ مردود قول ہے۔لیکن قرآن شریف کے سمجھنے کے واسطے حدیث ضروری ہے۔قرآن شریف میں جو احکام الٰہی نازل ہوئے۔آنحضر تﷺ نے اس کو عملی رنگ میں کرکے اور کراکے دکھادیا اور ایک نمونہ قائم کر دیا۔اگر یہ نمونہ نہ ہوتا تو اسلام سمجھ میں نہ آسکتا،لیکن اصل قرآن ہے۔بعض اہل کشف آنحضرت ﷺسے براہ راست ایسی احادیث سنتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوئیں یا موجودہ احادیث کی تصدیق کر لیتے ہیں۔
غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیںجو کہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن سے خدا تعالیٰ ناراض ہے اور جو اسلامی رنگ سے بالکل مخالف ہیں۔اس واسطے اﷲ تعالیٰ اب لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جبتک کہ وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجاویں اور اس مطلب کے واسطے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں ان سب غلطیوں کو دور کرکے اصلی اسلام پھر دنیا پر قائم کروں۔
یہ فرق ہے ہمارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان۔ان کی حالت وہ نہیںر ہی جو اسلام حالت تھی۔یہ مثل ایک خراب اور نکمے باغ کے ہوگئے ۔ان کے دل ناپاک ہیں اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایک نئی قوم پید اکرے جو صدق اور راستی کو اختیار کرکے سچے اسلام کا نمونہ ہو؎ٰ۔








ایام جلسہ دسمبر ۱۹۰۵ء؁
حضرت مولوی عبد الکریم مرحوم کا ذکر خیر
باہر بہشتی مقبرہ میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا ذکر تھا۔فرمایا:۔
وہ اس سلسلہ کی محبت میں بلکل محو تھے۔جب اوائل میں میرے پاس آئے تھے،تو سید احمد کے متعقد تھے۔کبھی کبھی ایسے مسائل پر میری ان کی گفتگو ہوتی جو سید احمد کے غلط عقائد میں سے تھے اور بعض دفعہ بحث کے رنگ تک نوبت پہنچ جاتی۔مگر تھوڑی ہی مدت کے بعد ایک دن علانیہ کہا کہ آپ گواہ رہیں کہ آج میں نے سب باتیں چھوڑدیں۔اس کے بعد وہ ہماری محبت میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ ہم دن کو کہتے کہ ستارے ہیں اور رات کو کہتے کہ سورج ہے تو وہ کبھی مخالفت کرنیوالے نہ تھے۔ان کو ہمارے ساتھ ایک پورا اتحاد اور پوری موافقت حاصل تھی۔کسی امر میں ہمارے ساتھ خلاف رائے کرنا وہ کفر سمجھتے تھے۔ان کو میرے ساتھ نہایت درجہ کی محبت تھی اور وہ اصحاب الصّفہ میں سے ہوگئے تھے جن کی تعریف خدا تعالیٰ نے پہلے سے اپنی وحی میں کی تھی۔اُن کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گذری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ اُنہوں نے نہیں لیاتھا۔نوکری بھی انہوں نے اسی واسطے چھوڑدی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے۔پچھلے دنوں ان کو ایک نوکری دوسوروپے ماہوار کی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔خاکساری کے ساتھ اُنہوں نے اپنی زندگی گذاردی۔صرف عربی کتابوں کے دیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔اسلام پر جو اندرونی بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے اندفاع میں عمر بسر کر دی۔باوجود اس کدر بیماری اور ضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی۔اُن کے متعلق ایک خاص الہام بھی تھا’’مسلمانوں کا لیڈر‘‘۔
غرض میں جانتا ہوں کہ ان کا خاتمہ قابل رشک ہوا،کیونکہ ان کے ساتھ دنیا کی ملونی نہ تھی۔جس کے ساتھ دنیا کی ملونی ہوتی ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا۔انجام نیک ان کا ہوتا ہے جو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنے میں خاک ہو جائیں گے۔
ہمارا مسلک سب کی خیر خواہی ہے فرمایا:
ہمیں کسی کے ساتھ بغض و عداوت نہیں۔ہمارا مسلک سب کی خیر خواہی ہے۔اگر ہم آریوں یا عیسائیوں کے برخلاف کچھ لکھتے ہیں تو وہ کسی دلی عنا دیا کینہ کا نتیجہ نہیں ہوتا۔بلکہ اس وقت ہماری حالت اس جراح کی طرح ہوتی ہے جو پھوڑے کو چیر کر اس پر مرہم لگاتاہے۔نادان بچہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص میرا دشمن ہے اور اسکو گالیاں دیتا ہے۔مگر جراح کے دل میں نہ غصہ ہے نہ رنج۔نہ اس کو گالیوں پر کوئی غضب آتا ہے۔وہ ٹھنڈے دل سے اپنی خیر خواہی کا کام کرتا چلا جاتا ہے۔
صحبت مسیح موعودؑکی برکت مدرسہ کا ذکر تھا۔فرمایا :
اس جگہ طلباء کا آکر پڑھنا بہت ضروری ہے۔جو شخص ایک ہفتہ ہامری صحبت میں آکر رہے،وہ مشرق و مغرب کے مولوی سے بڑھ جائے گا۔جماعت کے بہت سے لوگ ہمارے روبرو ایسے تیار ہنے چاہئیں جو آئندہ نسلوں کے واسطے واعظ اور معلم ہوں اور لوگوں کو راہ راست پر لاویں؎ٰ۔
۲۹؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁
صبح نو بجے مہمان خانہ جدید میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ایک عام مجلس ہوئی۔جس قدر مہمان مختلف شہروں اور قصبوں سے آئے ہوئے تھے وہ سب کے سب موجود تھے جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک لمبی تقریر فرمائی۔اس تقریر کا مفہوم یہ تھا کہ چونکہ حضرت اقدس ؑ کی غرض اور غایت یہ ہے کہ اسلام کی عام اشاعت اور تبلیغ ہو اور ہمارے یہاں ایک ایسی جماعت پیدا ہو جو اپنی علمی اور عملی قابلیتوں کی وجہ سے ممتاز ہو کر اس خدمت کو سرانجام دے۔اس لیے تین دن سے مدرسہ کے جدید انتظام کے مسئلہ پر غور کیا جتا رہا ہے اور آخر یہ فیصلہ ہوا ہے کہ مدرسہ بصورت موجودہ بھی قائم رہے اور مبلغین اور واعظین کے لیے ایک الگ جماعت کھول جاوے۔اس کے لیے روپیہ کی ضرورت ہے۔خواجہ صاحب نے شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا کہ دنیا کی کامیابیاں بھی دین ہی کے ماتحت ہیں اور دین سے الگ ہو کر دنیا کی کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی۔غرض خواجہ صاخب کی تقریر کا خلاصہ سلسلہ کی ضروریات اور ان کی تکمیل کے لیے قوم کے اپنے فرائض تھا۔اور اس میں صحابہ کرامؓ کے زمانہ کا اس زمانہ سے مقابلہ کرکے بتایا کہ انہوں نے تو جانیں فدا کردیں۔اس وکت جانوں کی ضرورت نہیں اس لیے کہ خدا کے مسیح نے جہاد کی حرمت کا فتویٰ شائع کر دیا ہے۔اب اگر ضرورت ہے تومال خرچ کرنے کی ضرورت ہے اس لیے کوئی مستقل فنڈ ہونا چاہیے۔
خواجہ صاحب اپنی تقریر کر ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس ؑ بھی تشریف لائے۔خواجہ صاحب نے سلسلہ کی ضروریات کے رواز افزوں اخراجات کا ذکر کرکے جماعت کو متوجہ کیا۔ان کے بیٹھ جانے پر خدام نے عرض کی کہ حضور کچھ ارشاد فامائیں۔جس پر حضور نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی:
خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال خرچ کرنیوالون کیلئے بشارت
دیکھو جو کچھ خواجہ صاحب نے بیان کیا ہے یہ سب کچھ صحیح اور درست ہے۔لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف اﷲ تعالیٰ اس جماعت کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اپنی عملی حالت، قوت ایمانی کو درست کرکے دکھاویں کیونکہ جبتک عملی رنگ میں ایمان ثابت نہ ہو صرف زبان سے ایمان اﷲ تعالیٰ کے نزدیک منظور نہیں اور وہ کچف نہیں’زبان میں تو ایک مخلص اور منافق یکساں معلوم ہوتے ہیں۔ہر ایک شخص جو اپنا صدق اور ثبات قدم ثابت کرنا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ عملی طور پر ظاہر کرکے جبتک عملی طور پر قدم آگے نہیں رکھت اآسمان پر اس کو مومن نہیں کہا جاتا۔
بعض شخصوں کے دل میں خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ آئے دن ہم پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں کہانتک برداشت کریں۔میں جانتاہوں کہ ہر شخص ایسا دل نہیں رکھتا کیونکہ ایک طبیعت کے ہی سب نہیں ہوتے۔بہت سے تنگدل اور کم ظرف ہوتے ہیں اور اس قسم کی باتیں کر بیٹھتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ اﷲ تعالیٰ کو ان کی پروا کیا ہے۔ایسے شبہار ہمیشہ دنیاداری کے رنگ میں پیدا ہوا کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو توفیق بھی نہیں ملتی۔لیکن جو لوگ محض خدا تعالیٰ کے لیے قدم اُٹھاتے ہیں اور اس کی مرضی کو مقدم کرتے ہیں اور اس بناء پر جو کچھ بھی خدمت دین کرتے ہیں اس کے لیے اﷲ تعالیٰ خود انہیں توفیق دے دیتا ہے۔اور اعلاء کلمۃ الاسلام کے لیے جن اموال کو وہ خرچ کرتے ہیں ان میں برکت رکھ دیتا ہے۔یہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور جو لوگ صدق اور اخلاص سے قدم اُٹھاتے ہیں انہوں نے دیکھا ہوگاکہ کس طرح پر ا ندر ہی اندر انہیں توفیق دی جاتی ہے۔
وہ شخص بڑا نادان ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ آئے دن ہم پر بوجھ پڑتا ہے۔اﷲ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے
وﷲ خزائن السموت والارض (المنافقون : ۸)
یعنی خدا تعالیٰ کے پاس آسمان و زمین کے خزانے ہیں۔منافق ان کو سمجھ نہیں سکتے لیکن مومن اس پر ایمان لاتا اور یقین کرتا ہے۔میں سچ سچ کہتا ہوںکہ اگر سب لوگ جو اس وقت موجود ہیں اور اس سلسلہ میں داخل ہیں یہ سمجھ کر کہ آئے دن ہم پر بوجھ پڑتا ہے وہ دست بردار ہو جائیں اور بخل سے یہ کہیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے تو خدا تعالیٰ ایک اور قوم پیدا کردے گا جو ان سب اخراجات کا بوجھ خوشی سے اٹھائے اور پھر بھی سلسلہ کا احسان مانے۔
ایک عظیم نشان
اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلہ کو بڑھائے۔پس کون ہے جو اُسے روک لے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ بادشاہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔پھر وہ زمین و آسمان کا بادشاہ ہے۔کب تھک سکتا ہے۔آج سے پچیس برس بلکہ اس سے بھی بہت پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ایسے وقت میں کہ ایک شخص بھی میرے پاس نہ تھا اور کبھی سال بھر میں بھی کوئی خط نہ آتا تھا۔ اس گمنامی کی حالت میں میں نے جو دعوے کئے ہیں وہ براہین احمدیہؔمیں چھپے ہوئے موجود ہیں’اور یہ کتاب مخالفوں اور موافقوں کے پاس موجود ہے بلکہ ہندوئوں عیسائیوں تک کے پاس بھی ہے۔مکہ،مدینہ اور قسطنطنیہ تک بھی پہنچی۔اسے کھول کر دیکھو کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے فرمایا:
یا تون من کل فج عمیق و یا تیک من کل فج عمیق
یعنی تیرے پاس دور دراز جگہوں سے لوگ آئیں گے اور جن راستوں سے آئیں گے وہ راہ عمیق ہو جائیں گے۔پھر فرمایا کہ یہ لوگ جو کثرت سے آئین گے تو اُن سے تھکنا نہیں اور اُن سے کسی قسم کی بداخلاقی نہ کرنا۔یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب لوگوں کی کثرت ہوتی ہے تو انسان ان کی ملاقات سے گھبراجات ا ہے اور کبھی بے توجہی کرتا ہے۔جو ایک قسم کی بداخلاقی ہے پس اس سے منع کیا اور کہا کہ ان سے تھکنا نہیں اور مہمان نوازی کے لوازم بجالانا۔ایسی حالت میں خبردی گئی تھی کہ کوئی بھی نہ آتا تھا۔اور اب تم سب دیکھ لو کہ کس قدر موجود ہو۔یہ کتنا بڑا نشان ہے؟ اس سے اﷲ تعالیٰ کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ایسی خبر بغیر عالم الغیب خد اکے کون دے سکتاہے۔نہ کوئی منجم نہ کوئی فراست والا کہہ سکت اہے۔
ان حالات پر جب ایک سعید مومن غور کرتا ہے،تو اُسے لذت آتی ہے۔وہ یقین کرتا ہے کہ ایک خد اہے جو اعجازی خبریں دیت اہے۔غرض اس خبر میں اس نے کثرت کے ساتھ مہمانوں کی آمد ورفت کی خبر دی۔پھر چونکہ ان کے کھانے پینے کے لیے کافی سامان چاہیے تھا اور ان کے فروکش ہونے کے لیے مکانوں کا انتظام ہونا چاہیے تھا۔پس اس کے لیے بھی ساتھ ہی خبردی
یا تیک من کل فج عمیق
اب غور کرو کہ جس کام کو اﷲ تعالیٰ نے خود کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور ارادہ کر لیا ے،کون ہے جو اس کی راہ میں روک ہو۔وہ خودا ساری ضرورتوں کا تکفل اور تہیہ کرتا ہے۔یہ بات انسانی طاقت سے باہر ہے کہ اس قدر عرصہ پہلے ایک واقعہ کی خبردے کہ ایک بچہ بھی پید اہو کر صاحب اولاد ہو سکتا ہے۔یہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان معجزہ ہے۔یہی وجہ ہے جو خدا تعالیٰ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ صادق کی نشنای پیشگوئی ہے اور یہ بہت بڑا نشان ہے۔جس پر غور کرنا چاہیے۔قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان تدبر اور غور سے بڑھتا ہے۔جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے نشانوں پر غور نہیں کرتے ان کا قدم پھسلنے والی جگہ پر ہوتا ہے۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ انسان اپنے ایمان میں اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا، جبتک خدا تعالیٰ کے اقوال،افعال اور قدرتوں کو نہ دیکھے۔
پس یہ سلسلہ اسی غرض کے لیے قائم ہوا ہے تا اﷲ تعالیٰ پر ایمان بڑھے۔یہ نشنا جو میں نے ابھی پیش کیا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ایسا زبردست ہے کہ کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔برخلاف اس کے کسی دوسرے مذہب والے کو یہ حوصلہ اور ہمت کہاں ہے کہ وہ ایسے تازہ بتازہ نشان پیش کرے۔جماعت کے لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کس قد نشانات ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔یہ محض خدا تعالیٰ کا کاروبار ہے کسی اور کو اس میں دخل نہیں۔
نشانات کا مقصد
یقینا سمجھو کہ اﷲتعالیٰ ان پیشگوئیون کے ساتھ دکھاتا ہے کہ ایمانی قوت بڑھ جاوے اور یہ قوت بغیر ایسے نشناوں کے بڑھ نہیں سکتی کیونکہ ان میں خدا تعالیٰ کا زبردست ہاتھ نمایاں طو رپر نظر آتا ہے۔انسان ایسا جاندار ہے کہ جبتک خدا تعالیٰ کی طرف سے تربیت ایمانی کے لیے فیوض و برکات نہ ہوں وہ خود بخود پاک صاف نہیں ہو سکتا۔اور حقیقت میں پاک صاف ہونا اور تقویٰ پر قسم مارنا آسان امر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے یہ نعمت ملتی ہے۔
تقویٰ اور احسان
اور سچا تقویٰ جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو،اس کے حاصل کرنے کے لیے بار بار اﷲ تعالیٰ نے فرمایا
یا ایھا الذین امنو ااتقو ال (آل عمران : ۱۰۳)
اور پھر یہ بھی کہا
ان اﷲ مع الذین اتقواوالذین ھم محسنون (النحل : ۱۲۹)
یعنی اﷲ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت ممیں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں۔تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو۔اور محسنون وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیز کریں۔بلکہ نیکی بھی کریں اور پھر یہ بھی فرمایا
للذین احسنو االحسنی (یونس : ۲۷)
یعنی ان نیکیون کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں۔مجھے یہ وحی بار بار ہوئی
ان اﷲ مع الذین اتقو اوالذین ھم محسنون (النحل ۱۲۹)
اور اتنی مرتبہ ہوئی کہ میں گن نہیں سکتا۔خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو۔ اس سے غرض یہی ہے کہ تاجماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو ئگے ہیں یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جائے۔اﷲ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچا تقویٰ اور پھر نیکی ساتھ ہو۔
یہ فخر کی بات نہیں کہ انسان اتنی ہی بات پر خوش ہو جاوے کہ مثلا ً وہ زنا نہیں کرتا۔یا اس نے خون نہیں کیا۔چوری نہیںکی۔یہ کوئی فضیلت ہے کہ برے کاموں سے بچنے کا فخر حاصت کرتا ہے؟ دراصل وہ جانتا ہے کہ چوری کرے گا تو ہاتھ کاٹا جاویگا۔یا موجودہ قناون کی روسے زندان میں جاوے گا۔اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ایسی چیز کا نام نہیں کہ بُرے کام سے ہی پرہیز کرے،بلکہ جبتک بدیوںکو چھوڑ کر نیکیاں اختیار نہ کرے وہ اس روحانی زندگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔نیکیاں بوط رغذا کے ہیں۔جیسے کوئی شخص بغیر غذا کے زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح جبتک نیکی اختیار نہ کرے تو کچھ نہیں۔
قرآن شریف میں ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ دو حالتیں ہوتی ہیں’ایک حالت تو وہ ہوتی ہے
یشربون من کاس کان مزاجھا کافورا (الدھر : ۶)
یعنی ایسا شربت پی لیتے ہیں جس کی ملونی کافور ہو۔اس سے یہ مطلب ہے کہ دنیا کی محبت سے دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔کافور ٹھنڈی چیز ہے اور زہروں کو دبالیتا ہے، ہیضہ اور وبائی امراض کے لیے مفید ہے۔پس پہلا مرحلہ تقویٰ کا وہ ہے جس کو استعارہ کے رنگ میں
یشربون من کاس کان مزاجھا کافورا۔
ایسے لوگ جو کافوری شربت پی لیتے ہیں۔ان کے دل ہر قسم کی خیانت، ظلم،ہر نوع کی بدی او ربرے قویٰ سے دل ٹھنڈے ہوتے ہیں۔اور یہ بات ان میں طبعاً اور فطرناً پیدا ہوتی ہے نہ کہ تکلف سے۔وہ ہر قسم کی بدیوں سے بیزار ہو جاتے ہیں۔اور یہ بات ان میں طبعاً اور فطرتاً پیدا ہویت ہے نہ کہ تکلف سے۔وہ ہر قسم کی بدیوں سے بیزار ہو جاتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ یہ معمولی بات نہیں۔بدیوں کا چھوڑ دینا آسان نہیں۔انجیل کا اکثر حصہ اسی سے پر ہے کہ بے کام نہ کرو۔مگر یہ پہلا زینہ ہے تکمیل ایمان کا۔اسی پر قانع نہیں ہو جانا چاہیے۔ہاں اگر انسان اس پر عمل کر یاور بدیوں کو چھوڑ دے تو دوسرے حصہ کے لیے اﷲ تعالیٰ آپ ہی مدد دیتا ہے۔یہ بات انسان منہ سے تو کہہ سکتا ہے کہ میں بدیوں سے پرہیز کرتا ہوں۔لیکن جب مختلف قسم کے برے کام سامنے آتے ہیں ۔تو بدن کانپ جاتا ہے۔
بعض گناہ موٹے موٹ یہوتے ہیں مثلاً جھوٹ بولنا، زنا کرنا،خیانت ،جھوٹی گواہی دینا اور اتلاف حقوق،شرک کرنا وغیرہ۔لین بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں ۔جو ان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اُسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے۔مثلاً کلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں؛ حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے۔چنانچہ فرمایا ہے
ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا (الحجرات : ۱۳)
خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہواور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حر ج پہنچے۔ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہوان ثابت ہو یااس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پید اہو۔یہ سب بُرے کام ہیں۔ایسا ہی بخل۔غضب یہ سب برے کام ہیں۔پس اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد کے موافق پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان ان سے پرہیز کرے اور ہر قسم کے گناہوں سے جو خواہ آنکھوں سے متعلق ہوں یا کانوں سے ،یا ہاتھوں سے یا پائوں سے،بچتارہے۔کیونکہ فرمایا ہے
ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والھوادکل اولئک کان عنہ مسئولا
(بنی اسرائیل : ۳۷)
یعنی جس بات کا علم نہیں خواہنخواہ اس کی پیروی مت کرو۔کیونکہ کان،آنکھ،دل اور ہر ایک عضو سے پوچھا جاویگا۔بہت سی بدیاں صرف بدظنی سے ہی پیدا ہو جاتی ہیں۔ایک بات کسی کی نسبت سنی اور جھٹ یقین کرلیا۔یہ بہت بُری بات ہے جس بات کا قطعی علم اور یقین نہ ہو اس کو دل میں جگہ مت دو۔یہ اصل بدشنی کو دور کرنے کے لیے ہے؎ٰکہ جبتک مشاہدہ اور فیصلہ صحیح نہ کرے نہ دل میں جگہ دے اور نہ ایسی بات زبان پر لائے۔یہ کیسی محکم او رمضبوط بات ہے۔بہت سے انسان ہیں جو زبان کے ذریعہ پکڑے جائیں گے۔یہاں دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے آدمی محض زبان کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں اور انہیں بہت کچھ ندامت اور نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔
دل میں جو خطرات اور سرسری خیال گذرجاتے ہیں۔ان کے لیے کوئی موأخذہ نہیں۔مثلاً کسی کے دل میں گذرے کہ فلاں مال مجھے مل جاوے تو اچھا ہے۔یہ ایک قسم کا لالچ تو ہے لیکن محض اتنے ہی خیال پر جو طبعی طور پر دل میں آئے اور گذر جاوے کوئی موأخذہ نہیں’لیکن جب ایسے خیال کو دل میں جگہ دیتا ہے اور پھر عزم کرتا ہے کہ کسی نہ کسی حیلے سے وہ مال ضرور لینا چاہیے۔تو پھر یہ گناہ قابل موأخذہ لکھا جاتا ہے پس یہ اس قسم کے گناہ ہیں جو بہت ہی کم توجہی کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔اور یہ انسان کی ہلاکت کا موجب ہو جاتے ہیں۔بڑے بڑے اور کھلے گناہوں سے تو اکثر پرہیز کرتے ہیں۔بہت سے آدمی ایسے ہوں گے جنہوں نے کبھی خون نہیں کیا۔نقب زنی نہیں کی۔یا اور اسی قسم کے بڑے بڑے گناہ نہیں کئے۔لیکن سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کتنے ہیں جنہوں نے کسی کا گِلا نہیں کیا یا کسی اپنے بھائی کی ہتک کرکے اس کو رنج نہیں پہنچایا۔یا جھوٹ بول کر خطا نہیں کی؟یا کم از کم دل کے خطرات پر استقلال نہیں کیا!
‏ Amira12-3-06
میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ ایسے لوگ بہت ہی کم ہوں گے جو ان باتوں کی رعایت رکھتے ہوں اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوں؛ ورنہ کثرت سے ایسے لوگ ملیں گے جو تقریباً جھوٹ بولتے ہیں اور ہر وقت ان کی مجلسوں میں دوسروں کا شکوہ و شکایت ہوتا رہتا ہے اور وہ طرح طرح سے اپنے کمزور اور ضعیف بھائیوں کو دکھ دیتے ہیں۔
اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے۔میں اس وقت برے کاموں کی تفصیل بیان نہیں کرسکتا۔قرآن شریف میں اول سے آخر تک اورامر اور نواہی اور احکام الٰہی کی تفصیل موجود ہے۔اور کئی سوشاخیں مختلف قسم کے احکام کی بیان کی ہیں۔خلاصۃً یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو ہرگز منظور نہیں کہ زمین پر فساد کریں۔اﷲ تعالیٰ دنیا پر وحدت پھیلانا چاہتا ہے۔لیکن جو شخص اپنے بھائی کو رنج پہنچاتا ہے۔ظلم اور خیانت کرتا ہے،وہ وحدت کا دشمن ہے۔جبتک یہ بدخیال دل سے دور نہ ہوں کبھی ممکن نہیں کہ سچی وحدت پھیلے۔اس لیے اس مرحلہ کو سب سے اول رکھا۔
تقویٰ کی حقیقت
تقویٰ کیا ہے؟ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا۔پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابرار کے لیے پہلا انعام شربت کافوری ہے۔اس شربت کے پینے سے دل برے کاموں سے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد ان کے دلوں میں برائیوں اور بدیوں کے لیے تحریک اور جوش پید انہیں ہوتا۔ایک شخص کے دل میں یہ خیال تو آجاتا ہے کہ یہ کام اچھا نہیں یہانتک کے چور کے دل میں بھی یہ خیال آہی جاتا ہے مگر جذبۂ دل سے وہ چوری بھی کر ہی لیت اہے۔لیکن جن لوگوں کو شربت کافوری پلادیا جاتا ہے ان کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ ان کے دل میں بدی کی تحریک ہی پید انہیں ہوتی بلکہ دل برے کاموں سے بیزار اور متنفر ہو جاتا ہے۔گناہ کی تمام تحریکوں کے مواد دبادیئے جاتے ہیں۔یہ بات خدا تعالیٰ کے فضل کے سوا میسر نہیں آتی۔جب انسان دعا اور عقد ہمت سے خدا تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرتا ہے اور اپنے نفس کے جذبات پر غالب آنے کی سعی کرتا ہے تو پھر یہ سب باتیں فضل الٰہی کو کھینچ لیتی ہیں اور اُسے کافوری جام پلایا جات اہے ۔جو لوگ اس قسم کی تبدیلی کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ انہیں زمرۂ ابدال میں داخل فرماتا ہے۔اور یہی تبدیلی ہے جو ابدال کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے جب اس قسم کی باتوں کو سنتے ہیں تو اُن کے دل متاثر ہو جاتے ہیں اور وہ اچھا بھی سمجھتے ہیں۔لیکن جب اس مجلس سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے احباب اور دوستوں سے ملتے ہیں تو پھر وہی رنگ اُن میں آجاتا ہے اور اُن سنی ہوئی باتوں کو یکدم بھول جاتے ہیں اور وہی پہلا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔اس سے بچنا چاہیے۔جن صحبتوں ارو مجلسوں میں ایسی باتیں پیدا ہوں اُن سے الگ ہو جانا ضروری ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان تامام بری باتوں کے اجزاء کا علم ہو۔کیونکہ طلب شئے کے لیے علم کا ہوان سب سے اول ضروری ہے۔جب تک کسی چیز کا علم نہ ہو، اسے کیونکر حاصل کر سکتے ہیں؟ قرآں شریف نے بار بار تفصیل دی ہے پس بار بار قرآن شریف کو پڑھو۔اور تمہیں چاہیے کہ بُرے کاموں کی تفصیل لکھتے جائو۔اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو۔یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہوگا۔جب تم ایسی سعی کروگے تو اﷲتعالیٰ پھر تمہیں توفیق دے گا اور وہ کافوری شربت تمہیں دیا جاوے گا جس سے تمہارے گناہ کے جذبات بالکل سرد ہو جائیں گے۔اس کے بعد نیکیاں ہی سرزد ہوں گی۔جب تک انسان متقی نہیں بنتا یہ جام اُسے نہیں دیا جاتا اور نہ اس کی عبادات اور دعائوں میں قبولیت کا رنگ پید اہوتا ہے،کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
انما یتقبل اﷲ من المتقین (المائدۃ : ۲۸)
یعنی بیشک اﷲ تعالیٰ متقیون ہی کی عبادات کو قبول فرماتا ہے۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیون ہی کا قبول ہوتا ہے اس عبادات کی قبولیت کیا ہے اور اس سے مراد کیا ہے؟
عبادات کی قبولیت سے مراد
سو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز قبول ہو گئی ہے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پید اہو گئے ہیں جب تک وہ برکات اور اثرات پید انہ ہوں اس وقت تک نری ٹکریں ہی ہیں۔
اس نماز یا روزہ سے کیا فائدہ ہوگا جبکہ اسی مسجد میں نماز پڑھی اور وہیں کسی دوسرے کی شکایت اور گلہ کر دیا۔یا رات کو چوری کرلی۔کسی کے مال یا امانت میں خیانت کر لی۔کسی کی شان پرجو خدا تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے بخل یا حسد کی وجہ سے حملہ کر دیا۔کسی کی آبرو پر حملہ کر دیا۔غرض اس قسم کے عیبوں اور برائیوں میں اگر مبتلا کا مبتلا رہا تو تم ہی بتائو۔اس نماز نے اس کو کیا فائدہ پہنچایا؟
چاہیے تو یہ تھا کہ نماز کے ساتھ اسکی بدیاں اور وہ برائیاں جن میں وہ مبتلا تھا کم ہو جائیں اور نماز اس کے لیے ایک عمدہ ذریعہ ہے۔پس پہلی منزل اور مشکل اُس انسان کے لیے جو مومن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ برے کاموں سے پرہیز کرے۔اسی کا نام تقویٰ ہے۔
اور یہ بھی یادرکھو کہ تقویٰ اس کا نام نہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرے۔بلکہ باریک درباریک بدیوںسے بچتا رہے مثلاً ٹھٹھے اور ہنسی کی مجلسوں میں بیٹھنا یا ایسی مجلسوں میں بیٹھنا جہاں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہتک ہو یا اس کے بھائی کی شان پر حملہ ہورہا ہو اگر چہ ان کی ہاں میں ہاں بھی نہ ملائی ہو۔مگا اﷲ تعالیٰ کے نزدیک یہ بھی برا ہے کہ ایسی باتیں کیوں سنیں؟یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کے دلوں میں مرض ہے کیونکر اگر ان کے دل میں بدی کی پوری حس ہوتی تو وہ کیوں ایسا کرتے اور کیوں ان مجلسوں میں جاکر ایسی باتیں سنتے؟
یہ بھی یاد رکھو کہ ایسی باتیں سننے والا بھی کرنے والا ہی ہوتا ہے۔جو لوگ زبان سے ایسی باتیں کرتے ہیں وہ تو صریح مؤاخذہ کے نیچے ہیں کیونکہ انہوں نے ارتکاب گناہ کا کیا ہے۔لیکن جو چپکے ہو کر بیٹھے رہے ہیں وہ بھی اس گناہ کے خمیازہ کا شکار ہوں گے اس حصہ لو بڑی توجہ سے یاد رکھو اور قرآن شریف کو بار بار پڑھ کر سوچو۔
احسان
یہ تو وہ پہلا حصہ ہے نیکی کا۔مگر نیکی اسی پر ختم نہیں,بعض لوگ ہندوئوں،عیسائیوں اور دوسری قوموں میں بھی پائے جاتے ہیں جو بعض گناہ نہیں کرتے۔مثلاً بعض جھوٹ نہیں بولتے۔کسی کا مال ناحق نہیں کھاتے۔قرضہ دبا نہیں لیتے بلکہ واپس کرتے ہیں’معاملات معاشرت میںبھی پکے ہوتے ہیں۔مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اتنی ہی بات نہیں جس سے وہ راضی ہو جاوے۔بدیوں سے بچنا چاہے اور اس کے بالمقابل نیکی کرنی چاہیے۔اس کے بغیر مخلصی نہیں۔جو اسی پر مغرور ہے کہ وہ بدی نہیں کرتا۔وہ نادان ہے۔اسلام انسان کو اسی خدتک نہیں پہنچاتا اور چھوڑتا ۔بلکہ وہ دنون شقیں پوری کرانا چاہتا ہے۔یعنی بدیوں کو تمام وکمال چھوڑ دو اور نیکیوں کو پورے اخلاص سے کرو۔جبتک یہ دونوں باتیں نہ ہوں نجات نہیں ہوسکتی۔
مجھے ایک مثال کسی نے بتائی تھی اور وہ صحیح ہے۔کہتے ہیں۔ایک شخص نے کسی کی دعوت کی اور بڑے تکلف سے اس کی تواضع کی۔جب وہ کھانے سے فراغت پاچکا تو اس سے نہایت عجزوانکسار سے میزبان نے کہا کہ میں آپ کی شان کے موافق حق دعوت ادا نہیںکر سکا۔آپ مجھا معاف فرمائیں۔مہمان نے سمجھا کہ گویا اس طرح پر احسان جتاتا ہے۔اُسے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ بڑی نیکی کی ہے۔اسے تم یاد نہیں رکھتے اس نے کہا کہ وہ کونسی نیکی ہے؟ تو کہا کہ جب تو مہمان داری میں مصروف تھے تو میں تمہارے گھر کو آگ لگا سکتا تھا مگر میں نے کس قدر احسان کیا ہے کہ آگ نہیںلگائی۔یہ بدی کی مثال ہے۔گویا آگ لگا کر خطرناک نقصان نہیں کیا۔بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدی نہ کرنے کا احسان جتاتے ہیں۔ایسے لوگ حیوانات کی طرح ہیں۔اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر وہی لوگ ہیں جو بدی سے پرہیز کرکے ناز نہیں کرتے۔بلکہ نیکی کرکے بھی کچھ نہیں سمجھتے۔
غرض پہلی حالت تو وہ کافوری شربت کی تھی اور دوسرا مرحلہ زنجبیلی شربت کے ہے۔چنانچہ فرمایا
یسقون فیھا کاسا کان مزا جھاز نجبیلا ۰الدھر : ۱۸)
اور ایسے جام انہیں پلائے جاتے ہیں جو زنجبیلی شربت کے ہوتے ہیں۔
بلند روحای مراتب حاصل کرنا انسان کے لیے نا ممکن نہیں
انسان کو یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ایسا مرتبہ حاصل ہونا ناممکن ہے۔یہ سب کچھ مل سکتا ہے اور ملتا ہے۔جن لوگوں نے یہ مراتب اور مدارج حاصل کئے وہ بھی تو آخر انسان ہی تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب انسان کے سامنے اس کے جرائم کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے تو وہ اسے دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس سے بچنا مشکل ہے،مگر یہ اس کی انسانی کمزوری کا نتیجہ ہے۔بہت سے لوگ یورپ میں بھی اس خیال کے موجود ہیں۔جو یہ کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا فقط اتنا ہی منشاء ہے کہ انسان سے یہ اقرار کرایا جاوے کہ وہ ان کی تعلیم پر عمل کرنے کے ناقابل ہے یا اس پر قادر نہیں۔ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت سے محض ناواقف ہیں اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر غور نہیں کیا۔اگر وہ خود انسان کی اپنی حالت اور ان انقلابات پر ہی غور کرتے جن کے اندر سے وہ گذرا ہے تو اس قسم کا کلمہ منہ سے نہ نکالتے ۔مگر ان کے علم اور معرفت کی کمزوری نے انہیں ایسا خیال کرنے کا موقعہ دیا۔
دیکھو انسان پر کس قدر انقلاب آئے ہیں۔ایک زمانہ انسان پر وہ گذرا ہے کہ وہ صرف نطفہ کی حالت میں تھا اور وہ وہ حالت تھی کہ کچف بھی چیز نہ تھا۔اگر زمین یا کپڑے پر گرتا تو چند منٹ کے اندر خشک ہو جاتا پھر علقہ بنا۔اس میں ذرابستگی پیدا ہوئی۔اس وقت بھی اس کی کچھ ہستی نہ تھی۔پھر مضغہ ہوا۔پھر ایک اور زمانہ آیا کہ جنین کی صورت میں اس میں جان آئی۔بعد اس کے پیدا ہوا۔پھر شیر خوار سے بلوغ تک پہنچا۔وغیرہ وغیرہ۔
اب غور کرو کہ جس قادر خدا نے انسان کو ایسے ایسے انقلابات میں سے گذار کر انسان بنادیا ہے اور اب ایسا انسان ہے کہ گویا عقل حیران ہے کہ کیا سے کیا بن گیا۔ناک منہ اور دوسرے اعضاء پر غور کرو کہ خدا تعالیٰ نے اسے کیا بنایا ہے۔پھر اندرونی حواس خمسہ دیئے اور دوسرے قویٰ ارو طاقتیں اس کو عطا کیں۔پس خدائے قادر نے اس زمانہ سے جو یہ نطفہ تھا،عجیب تصرفات سے انسان بنا دیا۔کیا اس کیلئے مشکل ہے کہ اس کو پاک حالت میں لے جاوے؟ اور جذبات سے الگ کردے؟ جو شخص ان باتوں پر غور کرے گا وہ بے اختیار ہو کر کہہ اُٹھے گا:
ان اﷲ علی کل شئی قدیر (البقرۃ : ۱۴۹)
اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ جب گنہگار لوگ جہنم میں ڈالے جاویں گے تو اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمارا ایک ہی گناہ بہت بڑا ہے کہ تم نے خدا پر بدظنی کی۔اگر بدظنی نہ کرتے تو کامل اور مومن بن کر آتے۔حقیقت میں یہ بڑا گناہ ہے۔جو انسان اﷲ تعالیا پر بدظن ہو جاوے۔باقی جس قدر گناہ ہیں وہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔اگر اﷲ تعالیٰ کو حقیقی رازق یقین کرے تو پھر چوری،بددیانتی اور فریب سے لوگوں کا مال کیوں مارے؟ افسوس نادان انسان سمجھتا ہے۔ایہہ جہان مٹھا اگلا کس نے ڈٹھا۔یہ بھی خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے۔اگر اسے صادق یقین کرتے تو نہ کہتے۔بلکہ یہ کہتے کہ ؎
دنیا روزے چند آخر باخدا وند
دنیا کو چند روز یقین کرکے اس کی عمارتوں اور آسائشوں اور ہر قسم کی دولتوں سے دل نہ لگاتے، بلکہ ہر وقت موت کے فکر میں لرزاں ترساں رہ کر عاقبت کا خیال کرتے اور اس کا بندوبست کرتے کہ آخر مر کر اﷲتعالیٰ کے حضور جانا ہے۔مگر اب تو یہ حالت ہے کہ عام طو رپر ایک غفلت چھائی ہوئی ہے اور لوگ اس طرح پر مصروف اور دلدادۂ دنیا ہیں۔گویا انہوںنے کبھی یہاں سے جانا ہی نہیں اور موت کوئی چیز ہی نہین یا کم از کم اس کا اثر اُن پر کچھ بھی ہونے والا نہیں۔
خدا تعالیٰ پر بدظنی کے نتائج
یہ بدخیالی،یہ غفلت اور خود رفستگی کیوں پید اہوئی؟اس کی جڑ بھی وہی خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے۔اس کو صادق یقین نہیں کیا۔انسان کی عادت ہے کہ جس کام پر اس کی آنکھ کھل جاوے اور کسی امر کو یہ اپنے لیے مفید سمجھ لے وہی کرتا ہے۔ایک تاجر کو معلوم ہو جاو ے کہ فلاں ملک میں اگر اس کا مال جواے تو اس ے اس قدر فائدہ ہوگا تو ضرور اپنا مال وہیں لے جائے گا۔ایسا ہی ایک زمیندار اور دوسرے اہل حرفہ کرتے ہیں۔اسی طرح پر اگر انسان کی آنکھ کھل جاوے اور عاقبت کا فکر اسے دامنگیر ہو اور وہ ایک یقین اپنے اندر پیدا کرے کہ خدا کے حضور جوابدہ ہونا ہے تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میںظاہر فرمایا ہے کہ اگر مجھ پر نیک ظن ہوتا تو مشکل کیا تھا؟ کیا پانچ وقت نماز پڑھنا مشکل تھا؟ ہرگز نہیں۔خدا تعالیٰ کا خوف جب غالب ہو تو آدمی کیسا ہی مصروف ہو۔اسے چھوڑ کر بھی ادا کرسکت اہے۔اس وقت ہم سب یہان بیٹھے ہیں اور ایک کام میں مصروف ہیں۔لیکن اگر خدانخواستہ اس وقت زلزلہ آجاوے تو ہم میں سے کوئی یہاں رہ سکتا ہے؟سب کے سب لوگ بھاک جاویں یہاں تک کہ مریض اور ضعیف بھی دوڑ پڑیں۔اصل بات یہ ہے کہ خوف کے ساتھ ایک قوت آتی ہے۔اگر خدا تعالیٰ پر بدظنی نہ ہوتی تو طاقت آجاتی اور اس کے احکام کی تعمیل کے لیے ایک جوش اور اضطراب پیدا ہوتا۔
غرض بدظنی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔جونیک ظنی سے خدا تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لاویں تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔اﷲ تعالیا کی قدرتوں پر ایمان ہو تو پھر کیا ہے جو نہیں ہوسکتا۔بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں گناہ کیونکر چھوٹ سکتا ہے۔یہ باتیں اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر کامل ایمان نہیں ہوتا۔چونکہ اس کوچہ سے نامحرم ہوتے ہیں اس لیے ایسے اوہام طبیعت میں پیدا ہوتے ہیں۔مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ خدا جس نے نطفہ سے انسان کو بنادیا ہے وہ اس انسان کو ہر قسم کے پاک تغیرات کی توفیق عطا کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ہاں ضرورت ہے طلبگار دل کی۔
زنجبیلی مقام
میں پھر اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے کہتا ہوں کہ انسان کا اتنا ہی کمال نہیں ہے کہ بدیاں چھوڑدے۔کیونکہ اس میں اور بھی شریک ہیں یہانتک کہ حیوانات بھی بعض امور میں شریک ہوسکتے ہیں۔بلکہ انسان کامل نیک تب ہی ہوتا ہے کہ نہ صرف بدیوں کو ترک کرے بلکہ اس کے ساتھ نیکیوں کو بھی کامل درجہ تک پہنچاوے۔پس جب ترک شر کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اُسے کافوری شربت پلاتا ہے۔جس سے یہ مراد ہے کہ وہ جوش اور تحریکیں جو بدی کے لیے پیدا ہوتی تھیں سرد ہو جاتی ہیں اور بدی کے مواد دب جاتے ہیں۔اس کے بعد اس کو دوسرا شربت پلایا جاتا ہے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں شربت زنجبیلی ہے جیسا کہ فرمایا
یسقون فیھا کاساکان مزاجھا زنجبیلا (الدھر : ۱۸)
زنجبیل مرکب ہے زنا اور جبل سے زناالجبل کے یہ معنے ہیں کہ ایسی حرارت اور گرمی پیدا ہو جاوے کہ پہاڑ پر چڑھ جاوے۔زنجبیل میں حرارت غریزی رکھی گئی ہے اور اس کے ساتھ انسان کی حرارت غریزی کو فائدہ پہنچتا ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بڑے بڑے کام جو میری راہ میں کئے جاتے ہیں جیسے صحابہؓ نے کئے۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنی جانوں سے دریغ نہیں کیا۔خدا تعالیٰ کی راہ میںس ر کٹوا دینا آسان امر نہیں ہے۔جس کو بچے چھوٹے چھوٹے اور بیوی جوان ہو۔جبتک کوئی خاص گرمی اس کی روح میں پیدا نہ ہو۔کیونکر انہیں یتیم اور بیوہ چھوڑ کر سر کٹوالے۔میں صحابہؓ سے بڑھ کر کوئی نمونہ پیش نہیں کرسکتا۔آنحضرت ﷺ کا نمونہ اعلیٰ درجہ کی قوت قدسی اور تزکیۂ نفس کی طاقت کا ہے اور صحابہؓ کا نمونہ اعلیٰ درجہ کی تبدیلی اور فرمانبرداری کا ہے۔پس ایسی طاقت اور یہ قوت اسی زنجبیلی شربت کی تاثیر سے پیدا ہوتی ہے اور حقیقت میں کافوری شربت کے بعد طاقت کو نشونما دینے کے لیے اس زنجبیلی شربت کی ضرورت بھی تھی۔اولیاء اور ابدال جو خدا تعالیٰ کی راہ میں سرگرمی اور جوش دکھاتے ہیں۔اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ زنجبیلی جام پیتے رہتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے جب دعویٰ کیا تو غور کرو کہ کس قدر مخالفت کا بازار گرم تھا۔ایک طرف مشرک تھے۔دوسری طرف عیسائی بے حد جوش دکھارہے تھے جنہوں نے ایک عاجز انسان کو خدا بنا رکھا تھا اور ایک طرف یہودی سیاہ دل تھے۔یہ بھی اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں کرتے اور مخالفوں کو اُکساتے اور اُبھارتے تھے۔غرض جس طرف دیکھو مخالف ہی مخالف نظر آتے تھے۔قوم دشمن،پرائے دشمن،جدھر نظر اُٹھائو دشمن ہی دشمن تھے۔ایسی حالت اور صورت میں وہ زنجبیلی شربت ہی تھا جو آپ کو اپنے پیغام رسالت کی تبلیغ کے لیے آگے ہی آگے لے جاتا تھا۔کسی قسم کی مخالفت کا ڈر آپ کو باقی نہ رہا تھا۔اس راہ میں مرنا سہل اور آسان معلوم ہوتا تھا؛ چنانچہ صحابہؓ اگر موت کو اس راہ میں آسان اور آرام وہ چیز نہ سمجھ لیتے تو کیوں جانیں دیتے۔میں سچ کہتا ہوں کہ جبتک یہ شربت نہیں پیتا ایمان کا ٹھکانا نہیں۔
’’قصور میں ایک شخص قادر بخش تھا۔بڑا موحد کہلاتا تھا۔گورنمنٹ کی اس وقت اس فرقہ پر ذرا نظر تھی۔ڈپٹی کمشنر نے اس کو ذرا دھمکایا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گھر آکر اس نے رنڈیوں کا ناچ کرادیااور اپنے تمام طریق بدل دیئے۔اس غرض سے کہ تا ظاہر ہو جاوے کہ میں اس فرقہ سے الگ ہوں۔اب بتائو کہ ایسا ایمان کیا کام دے سکتا ہے؟وہ انسان بھی کچھ انسان ہو سکتا ہے جو خدا سے انسان کو مقدم کر لیتا ہے۔میں یقینا کہتا ہوں کہ اسکا ایمان ایک کوڑی قیمت نہیں رکھتا ۔یہی وجہ ہے جو ایمان کے برکات اور ثمرات نہیں ملتے‘‘۔
عام لوگوں اور اہل اﷲ کی عبادات میں فرق
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز روزہ کی وجہ سے برکات حاصل نہیں ہوتے۔وہ غلط کہتے ہیں۔نماز اور روزہ کے برکات اور ثمرات ملتے ہیں اور اسی دنیا میں ملتے ہیں۔لیکن نماز روزاہ اور دوسری عبادات کو اس مکام اور جگہ تک پہنچانا چاہیے جہاں وہ برکات دیئے ہیں۔صحابہؓ کا سارنگ پیدا کرو۔آنحصرت ﷺ کی کامل اور سچی اتباع کرو۔پھر معلوم ہوگا کہ کیا کیا برکات ملتے ہیں۔
میں صاف صاف کہتا ہوں کہ صحابہؓ میں ایس اایمان موجود تھا جو تم میں نہیں۔انہوں نے خدا تعالیٰ کے لیے اپنا فیصلہ کر لیا تھا۔ایسے لوگ قبل از موت مرجاتے ہیں اور قبل اس کے کہ قربانی دیں اوہ سمجھتے ہیں کہ دے چکے۔آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ کیا ابو بکر ؓ کا درجہ نماز،روزہ صدقات اور خیرات کی وجہ سے ہے؟ نہیں بلکہ اس چیز کے ساتھ اس کا درجہ بڑا ہے جو اس کے دل میں ہے۔حقیقت میں وہی بات ہے جو ان اعمال کا بھی موجب اور باعث ہوتی ہے۔جس قدر لوگ اہل اﷲ گذرے ہیں اور ان کے مدارج نرے ان اعمال کی وجہ سے نہیں ہیں ۔ان اعمال میں اور بھی شریک ہیں۔مسجدیں بھری پڑی ہیں؎ٰ۔ان لوگوں کی زندگی سفلی ہوتی ہے۔یہ دنیا اور اس کی گندگیوں کو چھوڑ کر الگ نہیں ہوتے ۔ان کے اعمال میں زندگی کی روح نہیں ہوتی۔لیکن جب انسان اس سفلی زندگی سے نکل ٔتا ہے تو اس کے اعمال میں اخلاص ہوتا ہے۔وہ ہر قسم کی ناپاکیوں سے الگ ہو جاتا ہے۔پھر اُسے وہ قوت اور طاقت ملتی ہے کہ وہ شئے اور امانت اﷲ جس کو اُٹھانا مشکل ہے وہ اُٹھالیتا ہے جس کی اطلاع فرشتوں کو بھی نہیں ہوتی۔وہ بھی یہی نماز روزہ کرتے ہیں اور دنیا بھی یہی کرتی ہے۔مگر اُن کی نماز اور دنیا داروں کی نماز میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔حضرت سید عبد القادر جیلانی ؓ بڑے مخلص اور شان کے لائق تھے۔کیا ان کے عہد میں لوگ نماز روزہ نہ کرتے تھے؟ پھر ان کو سب پر سبقت اور فضیلت کیوں ہے؟ اس لیے کہ دوسروں میں وہ بات نہ تھی جو اُن میں تھی۔یہ ایک روح ہوتی ہے جب پیدا ہو جاتی ہے تو ایسے شخص کو اﷲ تعالیٰ اپنے برگزیدوں میں شامل کرلیتا ہے۔لیکن وہ ملعونی زندگی خدا تعالیٰ کو منظور نہیں جو نماز اور روزہ کی حالت اور صورت میں ریاکاری اور نصنع سے آدمی بنالیتا ہے ایسے لوگوں میں زبان کی چالاکیاں اور منطق بڑھ جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو لاف و گزاف پسند نہیں۔وہ ناراض ہوجاتاہے۔اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ نماز، روزہ اور زکوٰۃ و صدقات کسی وقعت اور قدر کے لائق نہیں جن میں اخلاص نہ ہو بلکہ وہ *** ہیں۔یہ اسی وقت بابرکت ہوتے ہیں، جب دل اور زبان میں پوری صلح ہو۔
خوب یاد رکھو کہ اﷲتعالیٰ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا۔وہ دل کے نہاں درنہاں اسرار سے واقف ہے۔انسان جو محدود العلم ہے اور جس کی نظر وسیع نہیں ہے دھوکا کھا سکتا ہے۔ہمارے دوست سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب یہاں قادیان ہی میں میرے پاس موجود تھے۔ایک شخص کابل کی طرف کا رہنے والا چند ٹکڑے پتھے کے یہاں لایا اور ظاہر کیا کہ وہ ہیرے کے ٹکڑے ہیں۔وہ پتھر بہت چمکیلے اور آبدار تھے۔سیٹھ صاحب کو وہ پسند آگئے اور وہ ان کی قیمت میں پانسو روپے دینے کو تیار ہو گئے اور پچیس روپے یا کچھ کم و بیش ان کو دے بھی دییء۔پھر اتفاقاً مجھ سے مشورہ کیا کہ میں نے یہ سودا کیا ہے،آپ کی کیا رائے ہے۔میں اگر چہ ان ہیروں کی شناخت اور اصلیت سے ناواقف تھا،لیکن روحانی ہیرے جو دنیا میں کمیاب ہوتے ہیں یعنی پاک حالت کے اہل اﷲ جن کے نام پر کئی جھوٹے پتھر یعنی مُزَدِّر لگو اپنی چمک دمک دکھا کر لوگوں کو تباہ کرتے ہیں۔اس جوہر شناسی میں مجھے دخل تھا۔اس لیے میں نے اس ہنر کو اس جگہ برتا اور سیٹھ صاحب کو کہا کہ جو کچھ آپ نے دیا ہے وہ تو واپس لینا مشکل ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ پانسوروپیہ دینے سے پہلے کسی اچھے اور قابل جوہری کو یہ پتھر دکھلا لینے چاہیں۔اگر درحقیقت ہیرے ہوئے تو روپیہ دے دینا۔چنانچہ وہ پتھر مدراس میں ایک جوہری کے شناخت کرنے کے لیے بھیجے گئے ارو دریافت کیا گیا کہ ان کی کیا قیمت ہے۔وہاں سے جواب آیا کہ نرے پتھر ہیں ہیرے نہیںہیں اور اس طرح پر اس دھوکا سے سیٹھ صاحب بچ گئے۔
غرض بات یہ ہے کہ جس طرح دنیوی امور میں دھوکے لگ جاتے ہیں۔اسی طرح پر ان گدی نشینوں اور علماء کے دھوکے ہیں جو اس سلسلہ کی مخالفت میں مختلف قسم کی روکیں پید اکرتے ہی۔بہت سے لوگ جو سادہ دل ہوتے ہیں اور ان کی پوری واقفیت اس سلسلہ کی نہیں ہوتی اُن کو دھوکا لگ جاتا ہے اور وہ ناراستی کے دوست ہو جاتے ہیں۔پس خدا تعالیا کا فضل ہی ہو تو انسان روحانی طور پر جوہر شناس ہوجائیں۔بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جو اس جوہر کوشناخت کرتے ہیں۔
مجاہدہ اور دعا سے کام لیں
بہرحال میرا مقصد اس سے یہ ہے کہ نرا بدیوں سے بچنا کوئی کمال نہیں۔ہماری جماعت کو چاہیے کہ اسی پربس نہ کرے۔نہیں بلکہ انہیں دونو کمال حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔جس کے لیے مجاہدہ او ردعا سے کام لیں۔یعنی بدیوں سے بچیں اور نیکیا کریں۔ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خد اکو سادہ نہ سمجھ لے کہ وہ مکر و فریب میں آجائے گا۔جو شخص سفلہ طبع ہو کر خد اتعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتاہے اور نیکی اور رستبازی کی چادر کے نیچے فریب کرتا ہے۔وہ یاد رکھے کہ خد اتعالیٰ اُسے اور بھی رسوا کرے گا۔
فی قلوبہم مرض فزادھم اﷲ مرضا (البقرۃ : ۱۱)
سچے اخلاص کی نشانی
ایسے ہی لوگوں کے لیے فرمایا ہے۔نفاق اور ریاکاری کی زندگی *** زندگی ہے۔یہ چھپ نہیں سکتی۔آخر ظاہر ہو کر رہتی ہے اور پھر سخت ذلیل کرتی ہے۔خدا تعالیٰ کسی چیز کو چھپاتا نہیں،نہ نیکی کو نہ بدی کو۔سچے نیکوکار اپنی نیکیو کو چھپاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ انہیںظاہر کردیتا ہے۔حضرت موسیٰ ؑکو جب حکم ہوا کہ تو پیغمبر ہو کر فرعون کے پاس جو تو انہوں نے عذر ہی کیا۔اس میں سر یہ تھا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے لیے پورا اخلاص رکھتے ہیں وہ نمود اور ریا سے بالکل پاک ہوتے ہیں۔سچے اخلاص کی یہی نشانی ہے کہ کبھی خیال نہ آوے کہ دنیا ہمیں کیا کہتی ہے۔جو شخص اپنے دل میں اس امر کا ذرا بھی شائبہ رکھتا ہے وہ بھی شکر کرتا ہے۔سچا مخلص اس امر کی پروا ہی نہیں کرتا کہ دنیا اُسے نیک کہتی ہے یا بد۔
میں نے تذکرۃ الاولیاء میں دیکھ اہے کہ ایک نیک آدمی جب چھپ کر مناجات کرتا ہے تو اس کی عجیب حالت ہوتی ہے۔وہ اپنے ان تعلقات کو جو خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے۔کبھی ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔اگر اس مناجات کے وقت اتفاق سے کوئی آدمی آجاوے تو وہ ایسا شرمندہ ہوتا ہے جیسے کوئی زنا کار عین حالت زنا میں پکڑا جاوے۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ ہر نیک آدمی جس کے دل میں اخلاص بھرا ہوا ہے۔وہ طبعًا اپنے آپ کو پردہ میں رکھنا چاہتا ہے۔ایسا کہ کوئی پاکدامن عورت بھی ایسا نہیں رکھتی۔یہ امر اُن کی فطرت ہی میں ہوتا ہے۔
انبیاء ورسل کی خلوت پسندی
یہ مت سمجھو کہ انبیاء ورسل اپنے مبعوث ہوین کے لیے درخواست کرتے ہیں۔ہرگز نہیں۔وہ تو ایسی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں کہ بالکل گمنامی رہیں اور کوئی ان کو نہ جانے۔مگر اﷲ تعالیٰ زو رسے اُن کو حجروں سے باہر نکالتا ہے۔ہر ایک نبی کی زندگی ایسی ہی تھی۔آنحضرت تو دنیا سے پوشیدہ رہنا چاہتے تھے۔یہی وجہ تھی جو غار حرا میں چھُپ کر رہتے اور عبادت کرتے رہتے۔ان کو کبھی وہم بھی نہ آتا تھا کہ وہ وہاں سے نکل کر کہیں :
یا ایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (الاعراف ۱۵۹)
آپ کا منشاء یہی تھا کہ پوشیدہ زندگی بسر کریں۔مگر اﷲ تعالیٰ نے یہ نہ چاہا۔اور آپؐ کو مبعوث فرماکر باہر نکالا۔اور یہ عادت اﷲ ہے کہ جو کچھ بننے کی آرزو کرتے ہیں وہ محروم رہتے ہیں اور جو چھپنا چاہتے ہیں اُن کو باہر نکالتا اور سب کچھ بنادیتا ہے۔پس یقینا سمجھو کہ میں بھی تنہائی کی زندگی کو پسند کرتا ہوں۔وہ زمانہ جو مجھ پر گذرا ہے اس کا خیال کرکے مجھے اب بھی لذت آتی ہے۔میں طبعاً خلوت پسند تھا مگر خدا تعالیٰ نے مجھے باہر نکالا۔پھر اس حکم کو میں کیونکر رد کر سکتاتھا؟ میں اس نمودونمائش کا ہمیشہ دشمن رہا۔لیکن کیا کروں ۔جب اﷲ تعالیٰ نے یہی پسند کیا تو میں اس میں راضی ہوں اور اس کے حکم سے منحرف ہونا بھی پسند نہیں کرسکتا۔اس پر دنیا کے جوجی میں آئے کہے میں اس کی پروا نہیں کرتا۔
سچے موحد
یہ خوب سمجھ رکھو کہ سچے موحد وہی ہیں جو ذرہ بھر نیکی ظاہر نہیں کرتے اور نہ سچائی کے قبول کرنے میں دنیا سے ڈرتے ہیں۔اگر دنیا ان کے کسی فعل سے بدکتی ہے، تو انہیں پروا نہیں۔بعض کہتے ہیں کہ صفابہؓ جس قدر مجاہدہ کرتے تھے یا روزہ رکھتے تھے۔آنحضرت ﷺ سے ایسا ثابت نہیں۔صحابہؓ میں سے بعض بعض قریب قریب رہبانیت کی زندگی کے پہنچ جاتے ۔اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ آنحضرت ﷺ سے (معاذ اﷲ) بڑھے ہوئے تھے۔بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آنحصرت ﷺ کو تو اﷲ تعالیٰ نے جبرواکراہ سے باہر نکالاتھا۔آپ کی وہ عادت جو اخفاء کی تھی دور نہ ہوئی تھی۔کسی کو کیا معلوم ہے کہ آپ پوشیدہ طور پر کس قدر مجاہدات اور عبادات میں مصروف رہتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی میرے گھر میں باری تھی۔رات کو جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نہیں ہیں۔میں بہت حیران ہوئی اور آپ کو تلاش کیا۔جب کہیں پتہ نہ لگ اتو آپ کو ایک قبرستان میںپایا کہ نہایت الحاح کے ساتھ مناجات کررہے تھے کہ اے میرے خدا! میری روح،میری جان،میری ہڈیوں،میرے بال بار نے تجھے سجدہ کیا۔اب اگر عائشہ ؓ کو اس معاملہ کی خب رنہ ہوتی تو کس کو معلوم ہوتا کہ آپ اپنے رب کے ساتھ کیا معاملہ کر رہے ہیں۔اسی طرح آپ کے مجاہدات و عبادات کا حال تھا۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کی عادت میں رکھ دیتا ہے کہ وہ اخفاء کرتے ہیں۔اس لیے دنیا کو پورے حالات کی خبر نہیں ہوتی۔وہ دنیا کے لیے تو کچھ کرتے ہی نہین۔جس سے معاملہ اور تعلق ہوتا ہے وہ ہر جگہ جانتا ہے اور دیکھتا ہے۔
سراوعلا نیۃ نیکیاں کرنے کا حکم
پس مومنون کو بھی دو رہی قسم کی زندگی بسر کرنے کا حکم ہے۔
سراوعلا نیۃ (ابراہیم : ۳۲)
بعض نیکیاں ایسی ہیں کہ وہ علانیہ کی جاویں اور اس سے غرض یہ ہے کہ تا اس کی وجہ سے دوسروں کو بھی تحریک ہو اور وہ بھی کریں۔جماعت نماز علانیہ ہی ہے اور اس سے غرض یہی ہے کہ تا دوسروںکو بھی تحریک ہو اور وہ بھی پڑھیں۔اور سِرّاً اس لیے کہ یہ مخلصین کی نشانی ہے جیسے تہجد کی نماز ہے۔یہانتک بھی سراً نیکی کرنے والے ہوتے ہیں کہ ایک ہاتھ سے خیرات کرے اور دوسرے کو علم نہ ہو۔اس سے بڑھ کر اخلاص مند ملنا مشکل ہے۔انسان میں یہ بھی ایک مرض ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ بھی اسے سمجھیں ۔مگر میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ میری جماعت میں ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو بہت کچھ خرچ کرتے ہیں۔مگر اپنا نام تک ظاہر نہیں کرتے۔بعض آدمیوں نے مجھے کئی مرتبہ پارسل بھیجا ہے اور جب اسے کھولا ہے تو اندر سے سونے کا ٹکڑا نکلا ہے یا کوئی انگشتری نکلی ہے اور بھیجنے والے کا کوئی پتہ ہی نہیں۔کسی انسان کے اندر اس مرتبہ اور مقام کا پیدا ہونا چھوٹی سی بات نہیں اور نہ ہر شخص کو یہ مقام میسر آتا ہے۔یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کامل طور پر اﷲ تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات پر ایمان لاتا ہے اور اس کے ساتھ اسے ایک صافی تعلق پیدا ہوتا ہے۔دنیا اور اس کی چیزیںاس کی نظر میں فنا ہو جاتی ہیں اور اہل دنیا کی تعریف یا مذمت کا اُسے کوئی خیال ہی پید انہیں ہوتا۔اس مقام پر جب انسان پہنچتا ہے تو وہ فنا کو زیادہ پسند کرتا ہے اور تنہائی اور تخیلہ کو عزیز رکھتا ہے؎ٰ۔
‏ Amira13-3-06
غرض بدیوں کے ترک پر اس قدر ناز نہ کرو۔جبتک نیکیوں کو پورے طور پر ادا نہ کروگے اور نیکیاںبھی ایسی نیکیاں جن میں ریاء کی ملونی نہ ہو اس وقت تک سلوک کی منزل طے نہیں ہوتی۔یہ بات یاد رکھو کہ ریاء حسنات کو ایسے جلادیتی ہے جیسے آگ جس و خاشاک کو۔میں تمہیں سچ سچ کہت اہوں کہ اس مرد سے بڑھ کر مردِ خد ا نہ پائو گے جو نیکی کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی پر ظاہر نہ ہو۔
ایک بزرگ کی حکایت لکھی ہے کہ اُسے کچھ ضرورت تھی۔اس نے وعظ کہا اور دوران وعظ میں یہ بھی کہا کہ مجھے ایک دینی ضرورت پیش آگئی ہے۔مگر اس کے واسط یروپیہ نہیں ہے۔ایک بندۂ خدا نے یہ سن کر دس ہزار روپیہ رکھ دیا۔اس بزرگ نے اُٹھ کر اس کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ یہ شخص بڑا ثواب پائے گا۔جب اس شخص نے ان باتوں کو سنا تو وہ اُٹھ کر چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور کہا کہ یا حضرت مجھے اس روپیہ کے دینے میں بڑی غلطی ہوئی ۔وہ میرا مال نہ تھا بلکہ میری ماں کا مال ہے۔اس لیے وہ واپس دے دو۔اُس بزرگ نے تو اُسے روپیہ دیدیا، مگر لوگوں نے بڑی لعن طعن کی اور کہا کہ یہ اس کی اپنی بد نیتی ہے۔معلوم ہوتا ہے پہلے وعظ سن کر جوش میں آگیا اور روپیہ دیدیا اور اب اس روپیہ کی محبت نے مجبور کیا تو یہ عذر بنالیا ہے۔غرض وہ روپیہ لے کر چلا گیا اور لوگ اُسے برا بھلا کہتے رہے اور وہ مجلس برخواست ہوئی۔جب آدھی رات گذری تو وہی شخص روپیہ لئے ہوئے اس بزرگ کے گھر پہنچا اور آکر انہیں آواز دی۔وہ سوئے ہوئے تھے۔انہیں جگایا اور وہی دس ہزار رکھ دیا اور کہا کہ حضرت میں نے یہ روپیہ اس وقت اس لیے نہیں دیا تھا کہ آپ میری تعریف کریں۔میری نیت تو اور تھی۔اب میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ مرنے تک اس کا ذکر نہ کریں۔یہ سنکر وہ بزرگ رو پڑے۔اس نے پوچھا کہ آپ روئے کیوں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے رونا اس لیے آیا ہے کہ تونے ایسا اخفاء کیا ہے کہ جبتک یہ لوگ رہیں گے تجھے لعن طعن کریںگ ے۔غرض وہ چلا گیا اور آخر خدا تعالیٰ نے اس امر کو ظاہر کر دیا۔
خوش قسمت ہے وہ انسان جو ریاء سے بچے
جو شخص خدا تعالیٰ سے پوشیدہ طور پر صلح کر لیتا ہے۔خدا تعالیٰ اُسے عزت دیتا ہے۔یہ مت خیال کرو کہ جو کام تم چھپ کر خدا کے لیے کروگے وہ مخفی رہے گا۔ریا سے بڑھ کر نیکیوں کا دشمن کوئی نہیں۔ریا کار کے دل میں کبھی ٹھنڈ نہیں پڑتی ہے ۔جبتک کہ پورا حصہ نہ لے لے۔مگر ریا ہر مال کو جلادیتی ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔خوش قسمت ہے وہ انسنا جو ریا سے بچے۔اور جو کام کرے وہ خدا تعالیٰ کے لیے کرے۔ریاکاروں کی حالت عجیب ہوتی ہے۔خدا تعالیٰ کے لیے جب خرچ کرنا ہو تو وہ کفایت شعاری سے کام لیتا ہے۔لیکن جب ریاء کا موقعہ ہو تو پھر ایک کی بجائے سو دیتا ہے اور دوسرے طور پر اسی مقصد کے لیے دو کادینا کافی سمجھتا ہے۔اس لیے اس مرض سے بچنے کی دعا کرتے رہو۔
جو لوگ اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے وہ ان باتوں کی پروا نہیں کرتے۔انہیں اس بات کی غرض ہی نہیں ہوتی کہ اُن کے دییء ہوئے مال کا ذکر بھی کرے۔دنیا مرزعہ آخرت ہے۔یعنی آخرت کی کھیتی ہے۔جو کچھ بنانا ہے اسی دنیا میں بنائو۔جو شخص روحانی مال دولت اور جائداد یہاں جمع کریگا۔وہ خوشحال ہوگا؛ورنہ یہاں سے خالی ہاتھ جانا ہوگا اور بڑے عذاب میں مبتلا ہونا پڑے گا۔اس وقت نہ مال کام آئے گا نہ اولاد اور نہ دوسرے عزیز جن کے لیے دین کے پہلو کو چھوڑا تھا۔
خدا کو راضی کرنے کے یہی دن ہیں
اب یاد رکھو۔وہی خدا جس نے تیرہ سو برس پہلے اس زمانہ کی خبر دی تھی وہی خبر دیتا ہے کہزمانہ قریب آگیا ہے اور بڑے بڑے حوادث ظاہر ہوں گے۔اگر ان نشانوں کا انتظار ہے اور ان کے بعد جوش پیدا ہوا تو اس کا ثواب ایسا نہ ہوگا جیسا آج ہے۔بلکہ اﷲ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس وقت اگر کوئی ایمان پیش کریگا تو ذرہ برابراس کی قدر نہ ہوگی۔کیونکہ اس وقت تو کافر سے کافر بھی سمجھ لے گا کہ دنیا فانی ہے۔
میں نے سنا ہے کہ طاعون یک زور کے دنوں میں ایک جگہ ایک بڑا متومول ہندو مر گیا۔مرتے وقت اس نے اپنے مال و دولت کی کنجیاں اپنے بھائی کو دیں۔وہ بھی مرگیا۔اور اس طرح پر ان کا سارا خاندان تباہ ہو گیا اور آخری شخص نے مرتے وقت وہاں کے ایک زمیندار کو کنجیاں پیش کیں۔اس نے انکار کر دیا کہ میں کیا کروں گا۔بالآخر وہ مال داخل خزانہ سرکار ہوا۔
یہ سچی بات ہے کہ جب خوف کے دن آتے ہیں تو بڑے بڑے پاجی اور خبیث لوگ بھی صدقات اور خیرات کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔اس وقت یہ باتیں کام نہیں آ تی ہیں۔کیونکہ خدا تعالیٰ کا غضب بھڑک چکا ہوت اہے۔لیکن جو شخص عذاب کے آنے سے پہلے خدا تعالیٰ سے ڈرتا اور اس سے صلح کرتا ہے وہ بچا لیا جاتا ہے۔
پس خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے یہی دن ہیں۔میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ خد اتعالیٰ نے جس قدر اپنی ہستی کا ثبوت مجھے دیا ہے میرے پاس الفاظ نہیں جن میں مَیں اُسے ظاہر کر سکوں۔وہی خدا ہے جس نے براہین کے زمانہ میں ان تمام اُمور کی جو آج تم دیکھ رہے ہوخبر دی۔اُن ہندوئوں سے جو ہمارے جدی دشمن ہیں پوچھ لو کہ اس زمانہ میں اس جلوۂ قدرت کا کہاں نشان تھا۔جب وہ ساری باتیں پوری ہو چکی ہیں۔پھر جو باتیں آج وہ بتاتا ہے وہ کیونکر پوری نہ ہوں گی؟
اس خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ عنقریب خطرناک وقت آنے والاہے۔زلازل آئیں گے اور موتوں کے دروازے کھل جاویںگے ۔پس اس سے پہلے کہ وہ خطرناک گھڑی آجاوے اور موت اپنا منہ کھول کر حملہ شروع کر دے تم نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کو خوش کرلو۔
کسوف و خسوف ولای حدیث کی صداقت
میں یہ بھی تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس زمانہ کی تمام نبیوں نے خبردی ہے۔یہ آخری ہزار کا زمانہ آگیا ہے اور دیکھو یہ وقت ہے جس کے لیے گیارہ سو برس پہلے کی کتابوں میں لکھا تھا کہ مہدی کے وقت رمضان میں کسوف خسوف ہوگا اور آدمؐ سے لے کر اس وقت تک کبھی یہ نشان ظاہر نہیں ہوا۔وہ نشان تم نے دیکھ لیا ۔پھر یہ کیسی قابل غور بات ہے۔بعض جاہل اعتراض کرتے اور بہانہ بناتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔احمق اتنا نہیں جانتے کہ جس حدیث نے اپنے آپ کو سچا کر دیا ہے وہ کیسے جھوٹ ہو سکتی ہے۔
محدثین کے اصول کے مطابق سچی اور صحیح حدیث تو وہی ہے جو اپنی سچائی آپ ظاہر کردے۔اگر یہ حدیث ضعیف ہوتی تو پھر پوری کیوں ہوتی؟ دومرتبہ کسوف خسوف ہوا۔اس ملک میں بھی ار امریکہ میں بھی۔اگر یہ حدیث ضعیف ہے تو پھر اس کی مثال پیش کریں کہ کسی اور کے زمانہ میںبھی ہوا ہو؟ یہ حدیث اہل سنت اور شیعہ دونوں کے ہاں کتابوں میں موجود ہے۔پھر اس سے انکار کیونکر کیا جاسکتا ہے۔یہ آسمان کا نشان ہے۔
زمین کا نشان۔طاعون
اور زمین کا نشان وہ ہے جو طاعونکی صورت میں نمودار ہوا۔قرآن شریف میں آیا ہے
وان من قریۃ الا نحن مھلکو ھا قبل یوم القیامۃ او معذبو ھا عذا باشدیدا کان ذلک فی الکتاب مسطورا (بنی اسرائیل : ۵۹)
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب قیامت قریب آجائے گی تو عام طو رپر موت کا دروازہ کھولا جاوے گا۔اور یہ حدیث کسوف خسوف کی قرآن شریف سے بھی صحیح ثابت ہو چکی ہے۔
طاعون کے متعلق شیعہ کی کتابوں میں تو یہانتک لکھا ہے کہ ایسی طاعون ہوگی کہ جہاں دس آدمی ہوں گے ان میں سے سات مرجاویں گے۔اور حقیقت میں یہ ایسی بلا ہے کہ خاندانوں کے خاندان اس سے مٹ گئے ارو بے نام و نشان ہو گئے۔کون جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا؟اس قدر سردی کی شدت میں طاعون ترقی کر رہی ہے۔امرت سر میں زور شور ہے۔ایسی حالت میں کوئی کیا امید کر سکتا ہے۔
جبکہ موت کا بازار گرم ہے تو کیا املاک اور جائدادین سر پر اُٹھا کر لے جائوگے؟ہرگز نہیں۔پھر اگر ان نشانات کو دیکھ کر بھی تبدیلی نہیں کرتے تو کیونکر کہہ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ پر ایمان ہے۔
اسلام کی ترقی کیلئے اپنے مالو ں کو خرچ کرو
ہم اپنے نفس کے لیے کچھ نہیں چاہتے۔بارہا یہ خیال کیا ہے کہ اپنے گذارہ کے لیے تو پانچ سات روپیہ ماہوار کافی ہیں اور جائداد اس سے زیادہ ہے۔پھر میں جو باربار تاکید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہے کیونکہ اسلام اس وقت تنزل کی حالت میں ہے۔بیرونی اور اندرونی کمزوریوں کو دیکھ کر طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے۔اور اسلام دوسرے مخالف مذاہب کا شکار بن رہا ہے۔پہلے تو صرف عیسائیوں ہی کا شکار ہو رہا تھا،مگر اب آریوں نے اس پر دانت تیز کیے ہیں اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ اسلام کا نام ونشان مٹادیں۔جب یہ حالت ہو گئی ہے تو کیا اب اسلام کی ترقی کے لیے ہم قدم نہ اٹھائیں؟خدا تعالیٰ نے اسی غرض کے لیے تو اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔پس اس کی ترقی کے لیے سعی کرنا یہ اﷲ تعالیٰ کے حکم اور منشاء کی تعمیل ہے۔اس لیے اس راہ میں جو کچھ بھی خرچ کروگے وہ سمیع و بصیر ہے۔
یہ وعدے بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے دے گا۔میں اس کو چند گنا برکت دوں گا۔دنیا ہی میں اُسے بہت کچھ ملے گا اور مرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتا ہے۔غرض اس وقت میں اس امر کی طرف تم سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسلام کی ترقی کے لیے اپنے مالوں کو خرچ کرو۔اسی مطلب کے لیی یہ گفتگو ہے۔اس وقت جیسا کہ میں شائع کر چکا ہوں اﷲ تعالیٰ نے مجھے خبردی ہے کہ تیری وفات کا وقت قریب ہے جیسا کہ اس نے فرمایا
قرب اجلک المقدر۔ولا نبقی لک من المخزیات ذکرا۔
اس وحی سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کوئی ایسا ذکر باقی نہ رہنے دے گا جو کسی قسم کی نکتہ چینی اور خزی کا باعث ہو۔
انبیاء و رسل پر اعتراضات
دشمن بداندیش اور مریض قلب والوں کے لیے بہت سی باتیں ہوتی ہیں اور انبیاء اور رسل کی تو قسمت ہی میں اعتراض ہوتے ہیں۔دیکھو آنحرصت ﷺ پر کس قدر اعتراض ہوئے اور ابتک کیے جاتے ہیں۔کیا کسی معمولی زندگی کے انسان پر بھی کئے جاتے ہیں؟کبھی نہیں,صدہا انسان ایسے ہوں گے جو معمولی زندگی کے انسان کی تعریف کریں گے۔مگر جب انبیاء ورسل کا ذکر آئے گا تو وہاں اعتراض کے لیے زبان کھولیں گے۔بات کیا ہے کہ انبیاء ورسل پر اس قدر اعتراض ہوئے ہیں؟اصل یہ ہے کہ جیسے دولت پر سانپ ہوتا ہے تاکہ نامحرم پاس نہ جاوے۔اسی طرح پر انبیاء ورسل بھی ایک بے نظیر دولت ہوتے ہیں۔خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ سعید اور رشید ہی اُن تک پہنچیں۔اس لیے اس پر قسم قسم کے اعتراض ہوتے ہیں تا کہ وہ لوگ جو اہل نہیں ہیں دور رہیں؛ورنہ اگر اﷲ تعالیٰ چاہتا تو وہ نہ جہاد کرتے،نہ بیویاں کرتے، نہ اعتراض ہوتے۔مگر وہنبی جس کی تعلیم اتم اور اکمل تھی اس کے لیے خدا تعالیٰ نے یہ نہ چاہا کہ اُسے ناہل قبول کریں۔اس لیے چند باتیں ایسی رکھ دیں جو نظر بد دور کا کام دیتی ہیں اور اُن پر اعتراض ہوا اور نا اہل الگ رہے،مگر جو لوگ اہل تھے انہوں نے حقیقت کو پالیا۔
دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک نکتہ چین اور معترض ۔یہ ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت اور نبی کے صدق و وفا کو دیکھتے ہیں۔وہ اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے عجائبات مشاہدہ کرتے ہی۔وہ اس کے حالات سے خبر پاتے ہیںاور انہیں حاجت نہیں ہوتی کہ کچھ اور دیکھیں ۔بدبخت نا اہل وہ باتیں دیکھتے ہیں جن سے شقاوت بڑھے۔
میں نے تذکرۃ الاولیاء میں ایک لطیفہ دیکھا کہ ایک شخص ایک بزرگ کی نسبت بدگمانی رکھتا تھا کہ یہ مکار ہے اور فاسق ہے۔ایک دن اُن کے پاس آیا اور کہا۔کہ حضرت کوئی کرامت تو دکھائو۔فرمایا۔میری کرامت تو ظاہر ہے۔باوجودیکہ تم تمام دنیا کے معاصی مجھ میں بتاتے ہو۔مگر پھر دیکھتے ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے غرق نہیں کرتا۔لوط کی بستی تباہ ہوئی۔عاد ثمود وغیرہ تباہ ہوئے۔مگر مجھ پر غضب نہیں آتا۔کیا یہ تیرے لیے کرامت نہیں ہے؟
بات بڑی لطیف ہے۔یعنی عیب پیدا کرنے والے لوگوں کو یہ بھی تو چاہیے کہ وہ دیکھیں کہ وہ شخص جو منجانب اﷲ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جس پر اس قدر اعتراض اور نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں۔وہ جو ہلاک نہیں ہوتا کیا خدا بھی اس سے دھوکے میں ہی رہا؟
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت
عیسائیوں نے آنحضرت ﷺ کی یہی حقیقت سمجھی کہ معاذ اﷲ آپ افتراء کرتے تھے۔مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو وہ نصرت دی اور وہ فضیلت دی کہ آدمؑ سے اخیر تک کسی کو وہ کامیابی کبھی نصیب نہ ہوئی بلکہ آپؐ کے متعلق ایک ایسا نکتہ ہے جو آپ کی عظمت کو اور بھی بڑھا دیتاہے۔اور وہ یہ ہے۔کہ آپ ایسے وقت تشریف لائے جبکہ
ظھر الفساد فی البر والبحر (الروم : ۴۲)
کا وقت تھا یعنی اہل کتاب بھی بگڑ چکے تھے اور غیر اہل کتاب بھی بگڑے ہوئے تھے۔اور یہ بات مخالفوں کی تصدیق سے بھی ثابت ہے۔پنڈت دیانند صاحب کہتے ہیں کہ آریہ ورت میں بت پرستی ہو رہی تھی اور اس طرف عرب میں بھی تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔عیسائیوں کے مذہب کا خاصہ یہ رہ گیا تھا کہ ایک عاجز انسان کوخدا بنایا گیا تھا۔غرض جس طرف دیھکو ایک تاریکی چھائی ہوئی تھی اور خدا تعالیٰ سے بالکل غفلت اور لاپروائی ہو چکی تھی اور وہ وکت پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ ایک عظیم الشام مصلح کی ضرورت ہے اور یہ مسلّم بات ہے کہ ضرورت علوم کی ماں ہوتی ہے۔ہر قسم کا علم ضرورت سے پیدا ہوا ہے۔طب،طبعی،ہیئیت،جغرافہ وغیرہ تمام علوم کی ماں ضرورت ہی ہے۔پس اگر سمجھ دار ہو تو سمجھ لے کہ اس دقیقۂ معرفت؎ٰکی ماں بھی کوئی عظیم الشان ضرورت ہے۔بہت سے صحابہؓ آپؐ پر ایمان لائے یہ دیکھ کر کہ آپؐ ایسے وقت آئے ہیں جو سخت ضرورت کا وقت ہے۔اگر آپؐ نہ آتے تو شاید نوحؑ کی طرح کا ایک طوفان آکر دنیا کو ہلاک کر دیتا۔میں یقینا جانتاہوں اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آپ کے لیے ایسا اجلیٰ اور اصفیٰ نظارہ ضرورتوں کا ہے کہ کسی دوسرے کے لیے وہ میسر نہیں اور حضرت عیسیٰ ؑکے لیے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔فقیہ اور فریسی موجود تھے جو موسیٰ ؑ کی گدی پر بیٹھے تھے۔اس لیے انہوںن نے کسی نئی شریعت کا دعویٰ ہی نہیں کی اور پھر جبکہ یہودیوں کے اس قدر گوہ موجود تھے تو نہیں کہہ سکتے کہ سب منحرف تھے۔بعض عامل بھی تھے اور وحی اور الہام کا بھی دعویٰ کرتے تھے کیا ان میں کوئی ایسا تھا جو انسان کو خدا بناتا ہو؟ وہ تو موجودہ عیسائی مذہب سے بھی اچھے تھے۔موحد تھے۔میں نے زین الدین ابراہیم کی معرفت بمبئی میں ایک یہودی عالم سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ انسان خدا ہوگا۔اس نے قسماً کہا کہ ہرگز نہیں۔ہم تو اسی خد اکو مانتے ہیں جو قرآن میں بیان ہوا ہے۔ہم انسان کو خدا کہنا کفر سمجھتے ہیں جو تمام لوازم ضعف ،ناتوانی،بیماری کے رکھتا ہے۔یہ *** مذہب ہے جو انسا ن کو خدا بناتا ہے۔
غرض آنحضرت ﷺ کی بعثت کی ضرورت ایسی واضح اور روشن ہے کہ کسی دوسرے نبی کا زمانہ ایسی نظیر نہیں رکھتا۔
اب دوسرا حصہ دیکھو کہ آپ فوت نہیں ہوئے جبتک
الیوم اکم اکملت لکم دینکم (المائدۃ : ۴)
کی آواز نہیں سن لی۔اور
اذاجائنصراﷲ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اﷲ افواجا (النصر : ۲،۳)
کا نظارہ آپؐ نے نہیں دیکھ لیا۔یہ آیت نہ توریت میں ہے نہ انجیل میں۔توریت کا تو یہ حال ہے کہ موسیٰ ؑراستہ ہی میں فوت ہو گئے اور قوم کو وعدہ کی سرزمین میںداخل نہ کرسکے۔حضرت عیسیٰ ؑ خود کہتے ہیں کہ بہت سی باتیں بیان کرنے کی تھیں۔کیا قرآن شریف میں بھی ایسا لکھا ہے؟وہاں تو اکملت لکم ہے۔رہی ان کی تکمیل۔صحابہؓ کی جو تکمیل آنحضرت ﷺ نے کی وہ اس سے ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود اُن کی نسبت فرماتا ہے
منہم من قضیٰ نحبہ (الاحزاب : ۲۴)
اور پھر ان کی نسبت
رضی اﷲ عنہم ورضو اعنہ (البینۃ : ۹)
فرمایا۔لیکن انجیل میں مسیح کے حواریوں کی جو تعریف کی گئی ہے۔وہ سب کو معلوم ہے کہ جابجا ان کو لالچ اور کم ایمان کہا گیا ہے اور عملی رنگ ان کا یہ ہے کہ اُن سے ایک نے تیس روپے لیکر پکڑوادیا اور پھر ایک نے سامنے *** کی۔انصاف کر کے کہو کہ یہ کیس تکمیل ہے۔اس کے بالمقابل قرئن شریف صحابہؓ کی تعریف سے بھرا پڑا ہے۔اور ان کی ایسی تکمیل ہوئی کہ دوسری کوئی قوم اس کی نظیر نہیں رکھتی۔پھر اُن کے لیے اﷲتعالیٰ نے جزا بھی بڑی دی۔یہانتک کہ اگر باہم کوئی رنجش بھی ہوگئی تو اس کے لیے فرمایا
ونزعنا ما فی صدورھم من غل (الحجر : ۴۸)
حضرت عیسیٰ ؑنے بھی حواریوں کو تختوں کا وعدہ دیا تھا،مگر وہ ٹوٹ گیا۔کیونکہ بارہ تختوں کا وعدہ تھا مگر یہودا اسکریوٹی کا ٹوٹ گیا۔جب وہ قائم نہ رگا تو اوروں کا کیا بھروسہ کریں،مگر صحابہؓ کے تخت قائم رہے۔دنیا میں بھی رہے اور آخرت میںبھی۔غرص یہ آیت
الیوم اکملت لکم (المائدۃ : ۴)
مسلمانوں کے لے کیسے فخر کی بات ہے۔
لیلۃ القدر۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کا زمانہ
اب ان باتوں کو ملا کر غور کرو کہ آپ آئے ایسے وقت جبکہ بالکل تاریکی چھائی ہوئی تھی۔جیسا کہ فرمایا۔
انا انزلنہ فی لیلۃ القدر (القدر : ۲)
ایک لیلۃ القدر تو وہ ہے جو پچھلے حصہ رات میں ہوتی ہے جبکہ اﷲ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو میں اس کو قبول کروں،لیکن ایک معنے اس کے اور ہیںجس سے بدقسمتی سے علماء مخالف اور منکر ہیں۔اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرئن کو ایسی رات میں اُتارا ہے کہ تاریک وتار تھی اور وہ ایک مستعد مصلح کی خواہاں تھی۔خدا تعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جبکہ اس نے فرمایا:
ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات : ۵۷)
پھر جب انسان کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تاریکی ہی میں پڑا رہے۔ایسے زمانے میں بالطبع اس کی ذات جوش مارتی ہے کہ کوئی مصلح پیدا ہو۔پس
انا انزلنا ہ فی لیلۃ القدر (القدر : ۲)
اس زمانہ ضرورت بعثت آنحضرت ﷺ کی ایک اور دلیل ہے اور انجام الیوم اکملت لکم میں فرمادیا۔گویا یہ بات نبوت کی دوسری فصل ہے۔اکمال سے یہی مطلب نہیں کہ سورتیں اُتار دیں بلکہ تکمیم نفس اور تطہیر قلب کی۔وحشیوں سے انسان پھر اس کے بعد عقلمند اور بااخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنادیا اور تطہیر نفس، تکمیل اور تہذیب نفس کے مدارج طے کرادیئے۔اور اسی طرخ پر کتاب اﷲ کو بھی پورا اور کامل کر دیا۔یہانتک کہ کوئی سچائی اور صداقت نہیں جو قرآن شریف میں نہ ہو۔میں نے اگنی ہوتری کو بارہا کہا کہ کوئی ایسی سچائی بتائو جو قرآن شریف میں نہ،مگر وہ نہ بتاسکا۔ایس اہی ایک زمانہ مجھ پر گذرا ہے کہ میں نے بائیبل کو سامنے رکھ کر دیکھا۔جن باتوں پر عیسائی ناز کرتے ہیں۔وہ تمام سچائیاں مستقل طو ر پر اور نہایت ہی اکمل طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں۔مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کو اس طرف توجہ نہیں۔وہ قرآن شریف پر تدبر ہی نہیں کرتے اور نہ ان کے دل میں کچھ عظمت ہے، ورنہ یہ تو ایسا فخر کا مقام ہے کہ اس کی نظیر دوسروں میں ہے ہی نہیں۔
تکمیل دین کا مبارک دن
غرض
الیوم اکملت لکم دینکم (المئادۃ : ۴)
کی آیت دو پہلو رکھتی ہے۔ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کر چکا ۔دوم کتاب مکمل کر چکا ۔کہتے ہیں جب یہ آیت اُتری وہ جمعہ کا دن تھا۔حضرت عمر ؓ سے کسی یہودی نے کہا کہ اس آیت کے نزول کے دن عید کر لیتے۔حضرت عمرؓ نے کہا کہ جمعہ عید ہی ہے۔مگر بہت سے لوگ اس عید سے بے خبر ہیں۔دوسری عیدوں کو کپڑے بدلتے ہیں۔لیکن اس عید کی پروا نہیں کرتے اور میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ آتے ہیں۔میرے نزدیک یہ عید دو سری عیدوں سے افضل ہے۔اسی عید کے لیے سورہ جمعہ ہے اور اسی کے لیے قصر نماز ہے۔اور جمعہ وہ ہے جس میں عصر کے وقت آدم پیدا ہوئے۔اور یہ عید اس زمانہ پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پہلا انسان اس عید کو پیدا ہوا۔قرآن شریف کا خاتمہ اسی پر ہوا۔
حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کی فراست
کہتے ہیں جب یہ آیت اُتری تو ابو بکرؓ روپڑے۔کسی نے کہا اے بڈھے۔کیوں روتا ہے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ اس آیت سے آنحضرت ﷺ کی وفات کی بُو آتی ہے۔کیونکہ یہ مقرر شدہ بات ہے کہ جب کام ہو چکتا ہے تو اس کا پور اہونا ہی وفات پر دلالت کرتا ہے۔جیسا دنیا میں بندوبست ہوتے ہیں اور جب وہ ختم ہو جاتا ہے تو عملہ وہاں سے رخصت ہوتا ہے۔جب آنحصرت ﷺنے حضرت ابو بکرؓ والا قصہ سنا تو فرمایا سب سے سمجھدار ابو بکرؓ ہے اور یہ فرمایا کہ اگر دنیا میں کسی کو دوست رکھتا تو ابو بکر کو رکھتا اور فرمایا۔ابو بکرؓ کی کھڑ کی مسجد میں کھل رہے باقی سب بند کردو۔کوئی پوچھے کہ اس میں مناسبت کی اندرونی کھڑکی اس طرف ہے تو ا سکے لیے یہ بھی کھڑکی رکھی جاوے۔یہ بات نہیں کہ اور صحابہؓ محروم تھے۔نہیں۔بلکہ ابو بکرؓ کی فضیلت وہ ذاتی فراست تھی جس نے ابتداء میںبھی اپنا نمونہ دکھایا اور انتہاء میں بھی۔گویا ابو بکرؓ کا وجود مجموعۃ الفراستین تھا۔
تم اس وصیت کی تکمیل میں میرا ہاتھ بٹائو
اب میں پھر یہ ذکر کرے اس کو ختم کرتا ہوں کہ خد ا تعالیٰ نے جہاں میری وفات کی خبر دی ہے۔یہ بھی فرمایا ہے
لا نبقی لک من المخزیات ذکرا
بڑ اعتراض عقلمندوں کا یہ ہوتا ہے کہ وہ مرگیا کام کیا کیا؟ یہ مہذب لوگ کہتے ہیں کہ اتنا بڑا دعویٰ کیا تھا کہ کسر صلیب ہوگا اور یہ ہوگا اوروہ ہوگا۔مگر اب خامی کی حالت میں چلے گئے۔اس میں اﷲ تعالیٰ پیشگوئی فرماتا ہے۔
لا نبقی لک من المخزیات ذکرا۔
اور سچے آدمی کو غم بھی یہی ہوتا ہے ۔جیسے آنحضرت ﷺ کو فرمایا کہ تیرے بوجھ کو جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی اُٹھادیا۔وہ بھی علت غائی کا بوجھ ہے۔غرض اﷲ تعالیٰ نے اس وحی میں بشارت دی ہے گویا اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔اب سنو! جبکہ خد اتعالیٰ کا یہ وعدہ ہے تو یہ ہو کر رہے گا۔تمہیں مفت کا ثواب ہے۔پس تم اس وصیت کی تکمیل میں میرا ہاتھ بٹائو۔وہ قادر خد اجس نے پیدا کیا ہے دنیا اور آخرت کی مرادیں دیدے گا۔
دسمبر ۱۹۰۵ء؁ کا آخری ہفتہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک آریہ سے گفتگو
ہر سال دسمبر کے آخری ہفتہ میں احمدی احباب مختلف شہروں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلما کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور قادیان میں ایک جلسہ کا رنگ ہو جاتا ہے۔اسی واسطے آریوں نے بھی چند سالوں سے قادیان میں سالانہ جلسہ کرنے کی تجویز کی ہوئی ہے۔پہلے تو جھوٹی خبریں اُڑایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب کے ساتھ مباحثہ ہوگا اس واسطے دورونزدیک کے آریہ تماش بینی کے واسطے آجاتے تھے۔مگر اب بھی خصوصاً ایسے آریہ مہاشے لیکچرار جمع ہو جاتے ہیں کہ اسلام کو گالیاں دینے میں خاص مشق اور ملکہ رکھتے ہیں۔اس واسطے آریوں کو خوش ہوجانے کا کچھ سامان مل ہی جاتا ہے۔ان باہر سے آنے والے آریوں میں سے ہر سال کوئی نہ کوئی جماعت ایسی بھی ہوتی ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاض رہو کر عرض کرتی ہے کہ ہم تو زیادہ تر آپ کے درشنوں کے واسطے آئے تھے اور ایسے لوگ عموماً نہایت ادب کے ساتھ بیٹھتے اور حضور کی باتیں سنتے ہیں؛چنانچہ اس دفعہ بھی جلسہ آریہ کی چند جماعتیں متفرق اوقات میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتی رہیں۔ایک دن ان میں سے ایک آریہ کے ساتھ حضرت کی کچھ گفتگو ہوء جسکا اندراج دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔
آریہ سے گفتگو کرنے کے وقت درمیان میں ایک سکھ بول اُٹھا اور اس نے چاہا کہ حضرت کیساتھ گفتگو کرے مگر آپ نے نرمی کے ساتھ اس کو کہا کہ :
ہم تمہاری عزت کرتے ہیں اور تمہارے ساتھ ہمارا کوئی مباحثہ نہیں کیونکہ ہم باوا نانکؒ کو ہندوئوں کے درمیان ایک اوتار اور بزرگ مانتے ہیں اور اس کو ایک پاک آدمی سمجھتے ہیں۔پس جبکہ تمہارے مقصد کو ہم پہلے سے ہی مانتے ہیں تو تمہارے ساتھ مباحثہ کرنے کی ہمیں حاجب نہیں۔
اس کے بعد آپ آریہ کی طرف مخاطب ہوئے جس کا نام پورن چند تھا جو کہ ہوشیار پور کے رہنے والے ایک صاحب تھے۔
حضرت اقدس۔آریوں میں جو لوگ بڑے بڑے لیکچر دیت یہیں اور قوم کی پست حالت کو ترقی دینا چاہتے ہیں،اُن کی علت غائی کیا ہے؟ ہر ایک قوم اپنے لیے ایک انتہائی مقصد رکھتی ہے۔سووہ انتہائی مقصد تمہارے ریفارمروں کا کیا ہے؟لیکن مصلحین کے مقاصد دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک وہ ہوتے ہیں جو دنیوی امور کی طرف توجہ رکھتے ہیں۔ایک وہ ہوتے ہیں جو دینی امور کی طرف توجہ رکھتے ہیں۔میرا مطلب اس وکت دینی امور میں اصلاح کرنے والوں سے ہے کہ و ہ اپنا انتہائی مقصد کیا رکھتے ہیں؟
آریہ۔ ہمارے نزدیک دین دنیا سے علیحدہ نہیں۔دینی لوگ ہی دنیا کے کاموں کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور عمدگی سے کرسکتے ہیں۔اس واسطے ہم دونوں کی اصلاح کرتے ہیں۔ہم دنیا داری کی اصلاح دین میں شامل رکھتے ہیں۔
حضرت اقدس۔ میں قبول کرتا ہوں کہ جس شخص کی دین میںآنکھ کھلتی ہے وہ دنیا کے معاملات میں بھی راستی اور دیانت اختیار کرتا ہے اور اس کے بغیر دنیا نہیں سنورتی۔لیکن میرا مطلب اس جگہ صرف دین کے متعلق سوال کرنے اور دنیا کو علیحدہ رکھنے سے یہ ہے کہ دنیا کے واسطے ایک خاص عقل بھی ہوتی ہے۔مثلاً ؎ٰراج کا کام میں نہیں جانتا میں اس کے کام پر کوئی اعتراض نہیں کرتا نہ اس کے کام کی اصلاح کرتا ہوں۔اگر گورنمنٹ کو ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ ایسا آدمی ملازم رکھتی ہے جس نے اس فن میں بہت محنت اور کوشش کرکے ایک تعداد پیداکی ہوئی ہوتی ہے۔کیسا ہی کوئی دھرم آتما ہو۔اگر وہ سرکاری قناون سے آگاہ نہیں جو جج نہیں بن سکتا۔اس طرح دنیوی اصلاحوں کی ایک علیحدہ شاخ ہے۔جیس اکہ لوگ نئی نئی قسم کی ایجادیں کرکے پہلے سے بہتر گاڑیاں اور آوزار اور سامان بناتے ہیں۔یہ بیھ ایک اصلاح ہے۔ہان نیک دل لوگ بھی اصلاح کے واسطے ہی آتے ہیں،لیکن دنیوی امور میں ان کا دخل ایک عام اتفاک تک ہوت اہے کہ بدچلنی نکل جاوے اور لوگ تمام کام نیک نیتی سے پورے کریں۔باقی علوم و فنون دنیادار ہی جانتے ہیں۔دینی مصلح ایک عام اصلاح کرتا ہے جو رفاہ عام کے متعلق ہو۔
آریہ۔ جیس اکہ تمام اشیاء قدرت نے ہم کو دی ہیں جو ہماری دوسری ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں۔ایس ای گیان کے واسطے بھی قدرت نے ہم کو ایک شئے دی ہے اور وہ وید ہیں۔آریہ سماج کا یہکام ہے کہ وہ ویدوں کی تعلیم کو پھیلائیں۔
حضرت اقدس۔وہ انتہائی نقطہ کونسا ہے جس کی طرف ویدوں کی تعلیم لے جاتی ہے۔
آریہ۔ جسم کی ترقی۔سماج کی ترقی اور روح کی ترقی۔
حضرت اقدس۔روحانی ترقی کیا ہے؟
آریہ۔موکش پانا (نجات حاصل کرنا)
حضرت اقدس۔یہ تو سب کا دعویٰ ہے،لیکن ایک ادعائی رنگ ہوت اہے جو صرف خیالی رنگ اور وہم تک محدود ہو اہے کہ ہم نے یہ کام کر لیا ہے۔لیکن اس میں ایک امتیازی رنگ ہونا چاہیے جس سے تمیز ہو جاوے کہ ا سمیں نجات ہے اور اس میں نہیں۔خیر اس وقت ہم ویدوں کی تعلیم پر حملہ نہیں کرتے۔فرض کرو وہ سب تعلیم عمدہ ہے۔لیکن ممکن ہے کہ وہ کسی کی نقل ہو۔مثلاً جاپان اس وقت ایک طاقت بن گئی ہے۔لیکن ان کی سب باتیں یورپ کی نقل ہیں۔ ایسا ہی پارسی کہتے ہیں کہ زند اوستاویدوں سے بھی پرانے ہیں اور ویدوں کی بعض باتیں اس سے ملتی بھی ہیں۔اس لیے اب سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص وید کی باتوں پر عمل کرے۔فلسفیانہ رنگ میں اس کو علم کی طرح حاصل کرے لیکن ویدوں کو الہامی کتاب نہ مانے اور نہ اس کے ساتھ کوئی تعلق رکھے تو کیا وہ موکش حاصل کرسکتا ہے؟ جیس اکہ دنیوی علوم و فنون کے واسطے ضروری نہیں ہوتاکہ استاد کس مذہب کا ہو۔ایک ہندو اُستاد ہو یا عیسائی ہو یادہریہ ہو۔سب بدرسوں میں موجود ہوتے ہیں۔
آریہ۔ ہان موکش کے واسطے وید کو الہامی ماننا ضروری نہیں۔جو مثالیں آپ نے دی ہیں وہ درست ہیں اور جیساکہ اقلیدس کی شکلیں ہیں ہر ایک اس کو سیکھ اور سکھا سکتا ہے۔لیکن آریہ سماج ان شکلوں کو درست حالت میںرکھتی ہے باقیوں نے غلطیاں ملادی ہیں۔اگر وید پر اسلام عمل کرے تو وہ اچھا ہے بہ نسبت اس ہندو کے جو نہیں کرتا۔
حضرت اقدس۔ہمارا سوال تو صرف اتنا ہے کہ اگر کوئی شخص وید کو خد اتعالیٰ کا کلام نہیں مانتا مگر اس کی باتوں پر عمل کرتا ہے تو کیا وہ مکتی پائے گا؟
آریہ۔ بے شق مکتی پائیگا؎ٰ۔
فقط
 
Top