اصحاب ثلاثہ کے ایمان کے دلائل کتب شیعہ سے
۱۔اگر اصحاب ثلاثہ مسلمان نہ تھے تو ان کے عہد خلافت میں قیصر و کسریٰ کے ساتھ جو جہاد ہوئے وہ بھی ناجائز ٹھہرے اور جو مال غنیمت ان جہادوں میں مسلمانوں کے قبضہ میں آیا وہ بھی حلال نہ ہوا۔اور جو لونڈیاں ان جہادوں میں بنائی گئیں وہ بھی حلال نہ ہوئیں۔شہربانو خسر و پرویز کی لڑکی جو حضرت حسینؓ کے قبضہ میں حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں اسیر ہو کر آئی وہ بھی جائز نہ ہوئی اور اس سے جو اولاد ہوئی اس کے متعلق کیا فتویٰ شیعہ حضرات لگائیں گے۔
۲۔قیصر و کسریٰ کے ساتھ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جو جہاد ہوا اور خدا کے حکم کے مطابق تھا جیسا کہ فروع کافی جلد ۱ باب مَنْ یَجِبْ عَلَیْہِ الْجِہَادُصفحہ ۶۱۲میں ابو عمیر زبیری نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے وَاِنَّہُ لَیْسَ کَمَا ظَنَنْتَ وَلَا کَمَا ذَکَرْتَ وَلٰکِنَّ الْمُھَاجِرِیْنَ ظُلِمُوْا مِنْ جَھَتَیْنِ ظَلَمَھُمْ اَھْلُ مَکَّۃَ بِاِخْرَاجِھِمْ مِنْ دِیَارِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ فَقَاتِلُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہ ِ لَھُمْ فِیْ ذَالِکَ وَظَلَمَھُمْ کِسْریٰ وَقَیْصَرَ وَمَنْ کَانَ دُوْنَھُمْ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرْبِ وَالْعَجْمِ بِمَا کَانَ فِیْ اَیْدِیْھِمْ مِمَّا کَانَ الْمُوْمِنِیْنَ اَحَقَّ بِہِ مِنْھُمْ فَقَدْ قَاتَلُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہ ِ عَزَّوَجَلَّ فِیْ ذَالِکَ وَبِحُجَّۃِ ھٰذِہِ الْاٰیَۃِ یُقَاتِلُ مُْومِنُوْا کُلَّ زَمَانٍ‘‘یعنی جس طرح تو نے سمجھا یا کہا (یعنی یہ کہ قیصر و کسریٰ کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائیاں نا جائز تھیں) کیونکہ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا تھا ۔ان پر اہل مکہ نے ان کے گھروں اور مال و دولت سے نکال کر ظلم کیا۔پس مسلمانوں نے ان کے ساتھ خدا کے حکم سے جہاد کیا۔اسی طرح قیصر و کسریٰ اور دیگر عربی و عجمی قبائل نے مسلمانوں پر ظلم کیا اس ملک اور حکومت پر قبضہ کرنے کی و جہ سے جس پر ان سے زیادہ مسلمانوں کا حق تھا۔ پس مسلمانوں نے ان کے ساتھ خدا کے حکم کے ساتھ جنگ کی ۔اور اسی آیت کے مطابق (یعنی (الحج:۴۰) ہر زمانہ کے مسلمان جہاد کرتے ہیں ۔
۳۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خندق کھودتے وقت پہلی مرتبہ پتھر پر کدال مار کر فرمایا۔ اﷲ اکبر فارس کے ملک کی کنجیاں مجھے دی گئیں۔ (دیکھو حیات القلوب جلد ۶ صفحہ ۳۷۶نو لکشورو ناسخ التواریخ کتاب ۲ جلد ۱ صفحہ ۲۱۶ مطبوعہ ایران) یہ کنجیاں حضرت عمر ؓ کے ہاتھ میں دی گئیں۔گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کو اپنا قائم مقام قرار دیا ہے۔
حضرت ابوبکر ؓ و عمر ؓ کی فضیلت
۴۔ وَکَانَ اَفْضَلَھُمْ زَعَمْتَ فِی الْاِسْلَامِ وَاَنْصَحَھُمْ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہِ الْخَلِیْفَۃَ وَالْخَلِیْفَۃُالْخَلِیْفَۃِ وَلَعَمْرِیْ وَاِنََّ مَکَانَھُمَا فِی الْاِسْلَامِ لَعَظِیْمٌ وَاِنَّ الْمَصَائِبَ بِھِمَا لِجُرْحٍ فِی الْاِسْلَامِ شَدِیْدٌ فَرَحِمَھُمَا اللّٰہُ وَجَزَاھُمَا اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمَلَا (شرح نہج البلاغہ جلد۲ جز ۱۵ صفحہ ۲۱۹) فَاَرَادَ قَوْمُنَا قَتْلَ نَبِیِّنَا (نہج البلاغہ جزثانی باب استناد صفحہ ۵۱ (اردو ترجمہ) خط نمبر۹ شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز) اور خلفاء میں سے اسلام میں سب سے افضل اور خدا اور رسول کے لئے سب سے زیادہ نصیحت کرنے والے حضرت ابو بکرؓ صدیق و خلیفہ فاروق ؓ تھے۔اسی طرح جس طرح تیرا خیال ہے اور بخدا ان کا مقام اسلام میں بہت بلند ہے اور ان کی جدائی کی وجہ سے اسلام کو سخت زخم لگا ہے۔ان دونوں پر خدا تعالےٰ کی رحمت ہو اور خدا تعالیٰ اُن کے اچھے اور اعلیٰ کاموں کا ان کو اجر دے۔
۵۔ وَلَا رَیْبَ اِنَّ الصَّحِیْحَ مَا ذَکَرَہ‘ اَبُوْ عُمَرُ اِنَّ عَلِیًّا کَانَ ھُوَ السَّابِقُ وَاَنَّ اَبَابَکْرٍ ھُوَ اَوَّلُ مَنْ اَظْھَرَ اِسْلَامَہ‘ (شرح نہج البلاغہ مؤلفہ عبدالحمید ہبۃ اﷲ بن محمد بن محمد بن حسین بن ابی الحدید شیعی جلد۱ جز ۲ صفحہ ۲۱۳) اور بے شک جس بات کا ابو بکر نے ذکر کیا ہے ۔سچ ہے کہ گو حضرت علیؓ نے پہلے اسلام قبول کیا ،لیکن ابوبکر ؓ نے سب سے پہلے اسلام کا اعلان کیا۔
۶۔عَنْ اِبْرَاھِیْمَ الْنَّخْعِیْ قَالَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ اَبُوْ بَکْرٍ (شرح نہج البلاغہ جلد ۱ جزو ۲ صفحہ ۲۱۳) ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر سب سے پہلے اسلام لائے۔
۷۔عَنْ اَبِیْ نَصْرٍقَالَ قَالَ اَبُوْ بَکْرُ لِعَلِیٍّ اَنَا اَسْلَمْتُ قَبْلَکَ فِیْ حَدِیْثِ ذِکْرِہِ فَلَمْ یَنْکُرْہٗ عَلَیْہِ۔ (شرح نہج البلاغہ جلد۱جزو ۲ صفحہ ۳۱۳) ابو نصر کہتے ہیں کہ کسی سے گفتگو میں حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ میں آپ سے پہلے مسلمان ہوا تھا مگر حضرت علی ؓنے اس کے خلاف کچھ نہ کہا۔
۸۔ وَقَالَ عَلِیٌّ وَ الزُّبَیْرُمَاقَضَیْنَا اِلَّا فِیْ الْمَشْوَرَۃِ وَ اِنَّا لَنَرٰی اَبَابَکْرٍ اَحَقَّ الناَّسِ بِھَا اِنَّہُ لَصَاحِبُ الْغَارِ وَاِنَّا لَنَعْرِفُ لَہٗ سُنَنَہٗ وَلَقَدْ اَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِِﷺ بِالصَّلوٰۃِ بِالنَّاسِ وَھُوَ حَیٌٌّّ۔ (شرح نہج البلاغہ مؤلفہ ابن ابی الحدید شیعی جلد ا جزو ۲ صفحہ ۷۵)
حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ نے فرمایا کہ ہم نے سوائے مشورے کے اور کوئی فیصلہ نہیں کیا۔کیونکہ ہم یقینا ً حضرت ابو بکرؓ کو اپنوں میں سے سب سے زیادہ اس امر کا مستحق خیال کرتے ہیں کیونکہ آپ صاحب غار ہیں ۔اور ہم ان کے اچھے طریقوں کو جانتے ہیں ۔اور آنحضرت صلعم نے جبکہ آپ زندہ تھے ابوبکرؓ کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیاتھا۔
۹۔ کتاب کَشْفُ الْغُمَّۃِ فِیْ مَعْرِفَۃِ الْاَئِمَّۃِ میں ہے۔اِنَّہ‘ سُئِلَ الْاِمَامُ اَبُوْ جَعْفَرٍ
عَلَیْہِ السَّلَام ُ عَنْ حِلْیَۃِ السَّیْفِ قَالَ نَعَمْ حَلّٰی اَبُوْ بَکْر الصِّدِّیْقَ سَیْفَہٗ بِالْفِضَّۃِ فَقَالَ الرَّاوِیُّ تَقُوْلُ ھٰکَذَا فَوَثَبَ الْاِمْامُ عَنْ مَکَانِہٖ فَقَالَ نَعَمْ اَلصِّدِّیْقُ فَمَنْ لَّمْ یَقُلْ لَہُ الصِّدِّیْقُ فَلَا صَدَّقَ اللّٰہُ قَوْلَہٗ فِی الدُّنْیَا۔
کہ امام جعفر سے پوچھا گیا کہ کیا تلوار کو سونا چڑھانا جائز ہے تو آپ نے فرمایا۔ہاں جائز ہے کیونکہ حضرت ابو بکر ؓ صدیق نے اپنی تلوار کو سونا چڑھایا تھا۔اس پر راوی نے متعجب ہو کر کہا کہ آپ ایسا (یعنی ابو بکر صدیق کو کہتے ہیں) تو امام اپنی جگہ سے اٹھ کر کہنے لگے ہاں وہ صدیق ہیں۔ہاں وہ صدیق ہیں اور جو ان کو صدیق نہ کہے خدا دنیا میں اس کی بات کو سچّا نہیں کرے گا۔
۱۰۔ حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :۔وَاللّٰہِ مَا اَدْرِیْ مَا اَقُوْلُ لَکَ مَا اَعْرِفُ شَیْئاً تَجْھَلُہ‘وَلَا اَدُلُّکَ عَلٰی شَیْءٍ لَا تَعْرِفُہُ اِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا تَعْلَمُ مَا سَبَقْنَاکَ اِلیٰ شَیْءٍ فَنُبَلِّغَکَہٗ وَقَدْ رَأَیْتَ کَمَا رَأَیْنَا وَسَمِعْتَ کَمَا سَمِعْنَا وَ صَحِبْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَمَا صَحِبْنَا وَمَا اِبْنُ اَبِیْ قَحَافَۃَ وَلَا اِبْنُ الْخَطَّابِ یَأَوْلٰی بِعَمَلِ الحَقِّ مِنْکَ وَ اَنْتَ اَقْرَبُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ۔۔۔۔۔وَقَدْ نِلْتَ مِنْ صِھْرِہِ مَالَمْ یَنَالَا۔
(نہج البلاغہ جز ثانی نمبر ۱۵۹ ومن کلام لہ علیہ السلام لما اجتمع الناس ……)
بخدا میں نہیں جانتا کہ میں آپ کے سامنے کیا بیان کروں۔ مجھے کوئی ایسی نئی بات معلوم نہیں جو آپ نہ جانتے ہوں اور میں آپ کو کوئی ایسی نئی بات نہیں بتا رہا جو آپ کو معلوم نہ ہو۔کیونکہ میرا علم آپ سے زیادہ نہیں۔ہم آپ سے کسی امر میں سبقت نہیں رکھتے کہ ہم آپ کو اس کی اطلاع دینے کے قابل ہوں اور نہ ہم کسی امر میں منفرد ہی ہیں کہ وہ امر آپ تک پہنچائیں۔بے شک آپ نے وہ سب کچھ دیکھا اور سنا جو ہم نے دیکھا اور سنا ۔اور آپ بھی اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی رہے جس طرح ہم تھے۔ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ آپ سے کسی امر میں سبقت رکھنے والے نہ تھے اور آپ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دامادی کے باعث آنحضرت ؐ کے ان دونوں سے زیادہ مقرب ہیں ۔