تردید دلائل انقطاع نبوت از روئے قرآن مجید
پہلی آیت:۔ (الاحزاب:۴۱)
الجواب:۔ ۱۔ خَاتَمْ (تاء کی زبر کے ساتھ ) کے معنی ’’ختم کرنے والا‘‘ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہ اسمِ فاعل نہیں بلکہ اسمِ آلہ ہے جس طرح ’’عَالَمْ‘‘ مَایُعْلَمُ بِہٖ یعنی جس سے علم حاصل ہو، یعنی اﷲ تعالیٰ کی ہستی معلوم ہو چونکہ دنیا سے خدا کی ہستی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے اسے عَالَمْ کہتے ہیں۔ اسی طرح ’’خَاتَمْ‘‘ ہے جس کے معنی یُخْتَمُ بِہٖ ہوں گے۔ یعنی جس سے مہر لگائی جائے۔
پس خَاتَمْ کا ترجمہ ختم کرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ اسم فاعل میں عین کلمہ مکسور ہوتا ہے۔ جیسے قاتل ناصر۔ فاعل وغیرہ مگر خَاتَمْ میں عین کلمہ یعنی تاء مکسور نہیں بلکہ مفتوح ہے۔
۲۔ عربی زبان میں ’’خَاتَمْ‘‘ بفتحہ تا ء جب کسی جمع کے صیغہ کی طرف مضاف ہو مثلاً خَاتَمُ الشُّعَرَاءِ۔ خَاتَمُ الْفُقَھَاءِ۔ خَاتَمُ الْاَکَابِرِ۔ خَاتَمُ الْمُحَدِّثِیْنَ۔ خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ۔ خَاتَمُ الْمُھَاجِرِیْنَ وغیرہ ہو۔ تو اس کے معنے ہمیشہ بعد میں آنے والوں سے ’’افضل‘‘ کے ہوتے ہیں ہمارا غیر احمدی علماء کو چیلنج ہے کہ وہ عربی زبان کا کوئی مستعمل محاورہ پیش کریں جس میں ’’خاتم‘‘ کسی جمع کے صیغے کی طرف مضاف ہوا ہو اور پھر اس کے معنے بند کرنے والے کے ہوں کسی لغات کی کتاب لسان العرب، تاج العروس وغیرہ کا حوالہ دے دینا کافی نہ گا۔ جب تک اہلِ زبان میں اس محاورہ کا استعمال نہ دکھایا جاوے لغت کی کتابیں لکھنے والے انفرادی حیثیت رکھتے ہیں او ر ان کی کتابوں میں ان کے اپنے عقائد کا داخل ہو جانا یقینی ہوتا ہے۔ مثلا ’’المنجد اور الفرائد الدریہ‘‘ دونوں عربی کی لغات ہیں جن کے مؤلف عیسائی ہیں اور انہوں نے ’’ثالوث‘‘ کا ترجمہ ’’تثلیث مقدس‘‘The Holy Trinity کیا ہے۔ اب ’’مقدس‘‘ کسی لفظ کا ترجمہ نہیں بلکہ مؤلف کا اپنا اعتقاد ہے بعینہٖ اسی طرح ایک لغت لکھنے والا اگر اس عقیدہ کا حامی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبوت بند ہے تو وہ طبعًا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَکا ترجمہ نبیوں کو ختم کرنے والا ہی کرے گا قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے لغات لکھنے والوں کا ترجمہ مدِّ نظر رکھ کر خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَکا لفظ نہیں بولا۔ بلکہ اس اسلوب بیان کو مدِّ نظر رکھا ہے جو اہلِ زبان کا ہے لہٰذا ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ایک عرب جب ’’خاتم‘‘ کو کسی جمع کے صیغے مثلاً ’’شعراء۔ الفقھاء۔ المھاجرین‘‘ وغیرہ کی طرف مضاف کرتا ہے تو اس سے اس کی مراد کیا ہوتی ہے۔ جس طرح یہ لفظ قرآن مجید میں مستعمل ہوا ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اس طریق پر یہ لفظ ہمیشہ افضل کے معنوں میں آتا ہے۔ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے استعمال فرمایا ہے ۔ (۱) اِطْمَئِنَّ یَا عَمِّ فَاِنَّکَ خَاتَمُ الْمُھَاجِرِیْنَ فِی الْھِجْرَۃِ کَمَا اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ فِی النُّبُوَّۃِ۔ (کنز العمال از علامہ علاؤ الدین جلد ۶ صفحہ ۱۷۸ حرف العین فی ذکر العباس)
’’اے چچا (عباسؓ) آپ مطمئن رہئے کہ آپ اسی طرح خاتم المہاجرین ہیں جس طرح میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘
اب کیا حضرت عباس ؓ کے بعد کوئی مہاجر نہیں ہوا؟ حضرت مولوی رحمت اﷲ صاحب مہاجر مکی کے علاوہ آج تک ہزاروں لوگوں نے ہجرت کی اور قیامِ پاکستان کے بعد تو ایسی ’’ہجرت‘‘ ہوئی جس کی مثال ہی نہیں ملتی۔
پس ثابت ہوا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ کو ان معنوں میں خاتم المہاجرین قرار دیا ہے کہ ان کے بعد ان کی شان کا کوئی مہاجر نہ ہوگا۔ اگر کہو کہ یہاں صرف مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کا حضرت عباسؓ کو خاتم قرار دیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں تو مکہ کا کوئی لفظ نہیں۔ جس لفظ (یعنی الف لام) کی تخصیص سے تم مکہ کی قید نکالتے ہو۔ اسی الف لام کی تخصیص سے ہم خاتم النبیین کے معنے صاحبِ شریعت نبیوں کا ختم کرنے والا کریں۔ تو اس پر اعتراض کیوں؟
نوٹ:۔ بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ اگر خاتم بمعنے ’’افضل‘‘ لیا جائے تو لازم آئے گا کہ حضرت عباسؓ ابو بکرؓ و عمر ؓ و علی ؓ رضوان اﷲ علیہم بلکہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی نعوذ باﷲ افضل ہوں۔ کیونکہ یہ بھی سب مہاجرین ہیں۔
جواب:۔ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ لفظ ’’خاتم‘‘ جب کسی صیغہ جمع کی طرف مضاف ہو تو اس میں موصوف کے بعد آنے والوں پر اس کی افضلیت مراد ہوتی ہے۔ پس حضرت عباس رضی اﷲ عنہ ’’خاتم المہاجرین‘‘ ہیں یعنی اپنے بعد میں آنے والے سب مہاجرین سے افضل ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ اس طرح تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا بھی ان ہی معنوں سے ہو گا کہ آپؐ اپنے بعد میں آنے والوں نبیوں سے افضل ہیں۔ تو کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سے پہلے انبیاء سے افضل نہیں ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک حضورؐ اپنے سے بعد میں آنے والے نبیوں سے بوجہ خاتم النبیین ہونے کے افضل ہیں، لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سے پہلے ابنیاء سے بھی افضل ہیں کیونکہ حضورؐ خود فرماتے ہیں:۔
’’اِنِّیْ عِنْدَ اللّٰہِ مَکْتُوْبٌ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَ اِنَّ اٰدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِیْ طِیْنَتِہٖ۔‘‘
(۱۔ مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن باب فضائل سید المرسلین صلوات اﷲ و سلام علیہ الفصل الاول۔ ۲۔ مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۲۸ حدیث العرباض بن ساریہ۔ ۳۔ کنز العمال جلد ۱۱ صفحہ ۱۸۸ کتاب الرابع من حرف الفاء کتاب الفضائل من قسم الافعال باب الاول الفصل الثالث فی فضائل متفرقہ تبنیٔعن التحدیث بالنعم دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
کہ میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبین ہوں جبکہ حضرت آدمؑ ابھی مٹی اور پانی میں تھے (نیز محمدیہؐ پاکٹ بک مطبوعہ ۱۹۸۹ء صفحہ ۴۰۲) گویا جس قدر انبیاء آئے وہ سب ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم النبیین بننے کے بعد آئے۔ لہٰذا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تمام انبیاء سے ’’افضل‘‘ ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے
نوٹ نمبر۲:۔ اس موقعہ پر بعض غیر احمدی لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ (بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل الجہاد۔ ۲۔ کنز العمال جلد اول کتاب الاذکار من قسم الافعال من حرف الھمزہ باب فی القرآن فصل فی تفسیر سورۃ البقرۃ) والی حدیث بھی پیش کرتے ہیں تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ حدیث تو ہماری مؤید ہے۔ کیونکہ اس میں ’’لَا ہِجْرَۃَ‘‘ کا لفظ اسی طرح مستعمل ہوا ہے جس طرح لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں۔ اب کیا ’’لَا ہِجْرَۃَ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ اب مطلقًا ہجرت ہی بند ہے؟ یا یہ کہ صرف ایک خاص ہجرت جو مکہ سے مدینہ کی طرف تھی وہ بند ہے؟ ظاہر ہے کہ مطلقًا ہجرت بند نہیں۔ کیونکہ یہ واقعات کے بھی خلاف ہے اور اس سے قرآن مجید کی آیات متعلقہ ہجرت کو منسوخ ماننا پڑتا ہے اب رہی دوسری صورت کہ خاص ہجرت بند کی گئی۔ تو بعینہٖ اسی طرح لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں بھی قطعًا نبوت بند نہ ہوئی بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت مراد لینی پڑے گی یعنی تشریعی نبوت یا بلا واسطہ نبوت وہو المراد۔
چنانچہ حضرت امام رازیؒ حدیث لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ کے بارے میں لکھتے ہیں:۔ وَ اَمَّا قَوْلُہٗ لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ‘‘ فَالْمُرَادُ اَلْھِجْرَۃُ المَخْصُوْصَۃُ (تفسیر کبیر جلد ۱۵ صفحہ ۲۱۳ الطبعۃ الثانیۃ دار الکتب العلمیۃ طہران۔ مسند احمد بن حنبل مسند عبد اﷲ بن عباس حدیث ۱۹۹۱) یعنی اس حدیث میں مطلق ہجرت کی نفی نہیں بلکہ مخصوص ہجرۃ کی نفی مراد ہے اسی طرح تمہارا ’’لا‘‘ نفی جنس بھی اڑگیا!
۲۔ اَنَا خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ وَاَنْتَ یَا عَلِیُّ خَاتَمُ الْاَوْصِیَاءِ‘‘
(کنوز الحقائق فی احادیث خیر الخلائق بر حاشیہ جامع الصغیر مصری جلد ۱ صفحہ ۸۱)
کہ مَیں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علیؓ! تو خاتم الاوصیاء ہے کیا حضرت علیؓ کے بعد نہ کوئی موصی ہو سکتا ہے اور نہ کوئی وصی؟
ب۔ ایک دوسری روایت میں ہے۔
اَنَا خَاتَمُ الْاَنْبِیَآءِ وَاَنْتَ یَا عَلِیُّ خَاتَمُ الْاَوْلِیَّآءِ۔‘‘ (تفسیر صافی زیر آیت خاتم النبیین احزاب رکوع ۳) کہ اے علی! میں خاتم الانبیاء ہوں اور تو خاتم لاولیاء ہے۔
۳۔ فتوحات مکیہ کے ٹائیٹل پیج پر حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کو خاتم الاولیاء لکھا ہے۔
۴۔ خود دیو بندی علماء نے اس محاورہ کو استعمال کیا ہے چنانچہ مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی وفات پر جو مرثیہ لکھا۔ اس کے ٹائیٹل پیج پر متوفی کو خاتم الاولیاء و المحدثین کہا ہے۔
۵۔ مولوی بدر عالم صاحب مدرس دیوبند نے اپنے رسالہ ’’الجواب الفصیح‘‘ کے صفحہ ۱ پر مولوی انور شاہ سابق صدر المدرسین دیوبند کو خاتم المحدثین و آئمۃ السابقین لکھا ہے۔
۶۔ حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی کے رسالہ ’’عجالہ نافعہ جلد اول) کے ٹائٹل پیج پر حضرت شاہ صاحب موصوف کو خاتم المحدثین لکھا ہے۔
۷۔ حضر ت غوث اعظم ’’پیرانِ پیر‘‘ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں بِکَ تُخْتَمُ الْوَلَایَۃُ (فتوح الغیب مقالہ نمبر ۴ صفحہ ۲۳ نولکشور) اور اس کا ترجمہ شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی نے یہ کیا ہے:۔
’’در زمانِ تو مرتبۂ ولایت و کمالِ تو فوق کمالاتِ ہمہ باشد و قدم تو برگردن ہمہ افتد۔‘‘ (فتوح الغیب مقالہ نمبر ۴ صفحہ ۷)
یعنی حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے جو یہ فرمایا کہ اے انسان تو خلقت سے مر جائے گا تو ترقی کرتے کرتے ’’خاتم اولیاء‘‘ ہوجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو ولایت کے مرتبہ کے کمال پر پہنچ جائے گا اور تیرا مقام ولایت سب ولیوں سے بالاتر ہو گا اور تیرا قدم باقی ولیوں کی گردن پر ہو گا۔ چنانچہ ندائے غیب ترجمہ اردو فتوح الغیب مطبوعہ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور میں بِکَ تُخْتَمُ الْوَلَایَۃُ کا ترجمہ یہ لکھا ’’کہ تو ایسا عزت دار ہو جائے گا کہ تیری مثل کوئی نہ ہو گا اور تو یگانہ و تنہاء پردۂ الٰہی میں چھپا لیا جائے گا۔ تیری مانند اولیاء وقت بھی نہ ہوسکیں گے بلکہ تو اس وقت ہر ایک رسول اور نبی کا وارث ہو جائے گا ولایت کاملہ تجھ کو مل جائے گی۔‘‘ (ندائے غیب صفحہ ۷)
پس خاتم النبیین کے بھی معنی یہی ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے درجہ کو کوئی رسول نہ پا سکے گا اور آپؐ کو نبوت کاملہ مل گئی ہے۔
۸۔ مولوی بشیر احمد صاحب دیوبندی لکھتے ہیں:۔
خَاتَمُ الْاَکَابِرِ۔ حضرت گنگوہی کی وفات نے شہادت فاروقی کا نقشہ پیش کر دیا۔‘‘
(رسالہ القاسم جلد ۲ صفحہ ۵،۹)
۹۔ ’’خَاتَمَۃُ الْحَفَّاظِ شَمْسُ الدِّیْنِ اَبِی الْخَیْرِ محمد بن محمد بن محمد الجزری الدمشقی۔‘‘ (دیباچہ التجرید الصریح صفحہ ۴و صفحہ۵)
۱۰۔ مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں:۔
غالب اور ذوق جو خاتم الشعراء ہیں۔ ان کے ہاں وہ الفاظ بے تکلف ملتے ہیں جن کو شیخ ناسخ مدتوں سے چھوڑ چکے تھے۔‘‘
(موازنہ انیس و دبیر از شبلی نعمانی صفحہ ۲۹عالمگیر پریس لاہور ناشر شیخ مبارک علی تاجر کتب اندرون لوہاری گیٹ لاہور)