دلائل صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
(حصہ اوّل )
پہلی دلیل
(یونس:۱۷)کہ میں نے تم میں دعویٰ نبوت سے قبل ایک لمبی عمر گزاری ہے ۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۔ اگر میں پہلے جھوٹ بولتا تھا تو اب بھی بولتا ہوں لیکن اگر میری چالیس سالہ زندگی پاک اور بے عیب ہے تو یقینا آج میرا دعویٰ الہام و نبوت بھی حق ہے ۔
در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری است
حضر ت قطب الاولیاء ابو اسحق ابراہیم بن شہریار رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :۔
’’جوشخص جوانی میں اﷲ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوگا وہ بڑھاپے میں بھی اﷲ ہی کاتابعدار رہے گا۔ ‘‘
(تذکرۃ الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فرید الدین عطار ؒ باب ۷۶ حالات ابو اسحق ابراہیم بن شہریار مترجم اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز لاہو ر۔ و ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء شائع کردہ حاجی چراغ الدین سراج الدین صفحہ ۴۲۷)
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :۔
’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جو صاحبانِ حق کے پیشرو اور امام ہوئے اور محبانِ خدا کے پیشوا ۔ جب تک برہانِ حق اور رسالت نے ان پر ظہور نہ پایا اور وحی نازل نہ ہوتی تب تک نیک نام رہے اور جب دوستی کی خلعت نے سرِ مبارک پر زیب دیا تو خلقت نے ملامت سے ان پر زبان درازی کیبعض نے کاہن کہہ دیا اور بعض نے شاعر اور بعض نے دیوانہ اور بعض نے جھوٹ کا الزام دیا ۔ ایسی ہی اور گستاخی جائز رکھی ۔‘‘
(کشف المحجوب باب چہارم ’’ملامت کے بیان میں‘‘ مترجم اردو شائع کردہ شیخ الٰہی بخش جلال دین لاہوری ۱۳۲۲ء صفحہ۶۵، ۶۶)
چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا تو اس سے قبل ابو لہب اور دوسرے کافر یہی کہتے تھے مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا (بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الشعراء و انذر عشیرتک الاقربین)کہ ہم نے آپ سے سوائے سچ کے اور کبھی کچھ تجربہ نہیں کیا مگر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا دعویٰ بیان فرمایا۔ فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ کہ میں خدا کی طرف سے نبی ہو کر آیا ہوں اور یہ کہ ایک خطرناک عذاب آنے والا ہے ۔ تو انہی مصدقین نے انکار کیا اور ابو لہب نے تو تَبًّا لَکَبھی کہہ دیا کہ آپ کو ہلاکت ہو ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو وہی لوگ جو پہلے مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًاکہا کرتے تھے بعد از دعویٰ نبوت جھوٹا کہنے لگ گئے۔ (ص:۵)کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نہ صرف جادو گرہیں بلکہ نعوذ باﷲ کذاب بھی ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ نبی کی قبل از دعویٰ زندگی دوست و دشمن کے تجربہ کے رو سے پاک ہوتی ہے۔ گو پاک تو اس کی دعویٰ نبوت کے بعد کی زندگی بھی ہوتی ہے مگر چونکہ دعویٰ نبوت کی وجہ سے لوگ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اس لئے وہ اس پر طرح طرح کے اعتراض ’’دشمن بات کرے انہونی‘‘ کے مطابق کیا کرتے ہیں ۔ پس اگر کسی مدعی نبوت کی صداقت پرکھنی ہو توا س کی دعویٰ سے قبل کی زندگی پر نظر ڈالنی چاہیے۔
حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’اب دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا ہے کہ میرے دعویٰ پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تا تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتدا سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۶۴)
اس چیلنج کو شائع ہوئے ۵۲ سال گزر گئیمگر آج تک کسی شخص کو اس کے قبول کرنے کی جرأتنہیں ہوئی۔ ہاں مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن کے زمانہ سے جانتا تھا۔ یہ شہادت دی۔
’’ مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے(جب ہم قطبی و شرح ملّا پڑھتے تھے )ہمارے ہم مکتب ۔‘‘( اشاعۃ السنۃ جلد ۷ نمبر ۶از مولوی محمد حسین بٹالوی)
’’مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (وَاللّٰہُ حَسِیْبُہٗ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار و صداقت شعار ہیں۔‘‘ (اشاعۃ السنۃ جلد ۷ نمبر ۹)
’’اب ہم اس(براہین احمدیہ ) پر اپنی رائے نہایت مختصر اور بے مبالغہ الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی……اور اس کا مؤلف (حضرت مسیح موعودؑ) بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے۔‘‘ (اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۶)
اعتراض:۔مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں لکھا ہے کہ حیاتِ مسیح کا عقیدہ مشرکانہ عقیدہ ہے اور خود بارہ سال حیات مسیح کے قائل رہے۔
جواب(۱)حد ہمیشہ اتمام حجت کے بعد لگتی ہے جب تک نبی ایک بات کو ممنوع قرار نہیں دے دیتا اس وقت تک اس کی خلاف ورزی کرنے والا کسی فتویٰ کے ماتحت نہیں آتا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا قَدْ اَفْلَحَ وَ اَبِیْہِ اِنْ صَدَقَ(مسلم کتاب الایمان باب بیان الصلوات التی ھی احد ارکان الاسلام) کہ اس کے باپ کی قسم اگر اس نے سچ بولا ہے تو وہ کامیاب ہو گیا۔ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’باپ‘‘ کی قسم وَاَبِیْہِ کے الفاط میں کھائی ہے مگر دوسری جگہ فرمایا:۔
(۲)مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِاللّٰہِ فَقَدْ اَشْرَکَ (ترمذی ابواب الایمان والنذور باب ما جاء فی عن من حلف بغیراﷲ و مشکوٰۃ کتاب الایمان والنذور باب الایمان و النذور)
جو خدا کے سوا کسی کی قسم کھائے وہ مشرک ہو جاتا ہے۔
چنانچہ مشکوٰۃ مجتبائی کتاب الاطعمہ باب اکل المضطرصفحہ ۳۷۰ میں ابو داؤد کی یہ روایت درج ہے :۔
’’قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاکَ وَ اَبِیْ الجُوْعُ‘‘ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے باپ کی قسم یہ بھوک ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے باپ کی قسم کھائی ہے اور اس کے متعلق حضرت ملّا علی قاری فرماتے ہیں:۔ ’’و قولہ و ابی الجوع قِیْلَ لَعَلَّ ھٰذَا الْحَلْفَ قَبْلَ النَّھْیِ عَنِ الْقَسْمِ بِالْاٰبَاءِ‘‘(مرقاۃ برحاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی صفحہ ۳۷۰) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ’’میرے باپ کی قسم‘‘ کہا گیا ہے کہ شاید باپوں کی قسم کی ممانعت سے قبل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ قسم اٹھائی ہے یا عادۃً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ سے نکل گئی ہے۔
(۳) فَقَدْ لَبِثْتُ والی آیت میں تو چالیس سالہ قبل از دعویٰ زندگی میں جھوٹ اور فسق و فجور سے پا کیزگی کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے ۔ورنہ عقائد تو انبیاء کو خدا تعالیٰ کی وحی ہی آکر مکمل طور پر بتاتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بھی اپنے چیلنج میں فرمایا :۔
’’ تم کوئی عیب، افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ ‘‘
(۴) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے فرمایا۔ مَنْ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی فَقَدْ کَذِبَ(بخاری کتا ب التفسیر تفسیر سورۃ النساء با ب قولہ اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا الخ ) کہ جو کہے کہ میں یونس بن متی سے بڑا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے
پھر فرمایا ’’لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی ‘‘(صحیح بخاری کتاب الانبیاء کتاب خصومات باب مایذکر فی الاشخاص) کہ مجھ کو موسیٰ ؑ سے افضل نہ کہو۔ مگر بعد میں فرمایا۔’’اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ لَا فَخْرَ‘‘ کہ میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور یہ بطور فخر نہیں بلکہ اظہار واقعہ ہے ۔ پھر فرمایا ’’اَنَا اِمَامُ النَّبِیِّیْنَ وَاَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘کہ میں تمام نبیوں کا امام اور رہبر ہوں۔ نیز دیکھو مسلم جلد ۲ صفحہ ۳۰۷ جہاں لکھا ہے کہ کسی شخص نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا۔ یَا خَیْرَ الْبَرِیَّۃِ! تو آپ نے فرمایا۔ ذَاکَ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ کہ میں تمام انسانوں سے افضل نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سب انسانوں سے افضل ہیں ۔