• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 18 ۔گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 18. Page: 621

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 621

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 622

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 622

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 623

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 623

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اس رسالہ میں ہمارا یہ ارادہ ہے کہ دنیا کو دکھائیں کہ جس قدر ہمارا یہ زمانہ اپنی جسمانی حالت کے رو سے ترقی کر گیا ہے اسی قدر اپنی روحانی حالت کے رو سے تنزل میں ہے یہاں تک کہ روحوں میں یہ برداشت ہی نہیں رہی کہ وہ پاک سچائیوں کو چھو بھی سکیں بلکہ انسانوں پر ایک غور کی نظر ڈالنے سے ثابت ہو رہا ہے کہ مخفی طور پر ایک بھاری کشش ان کو نیچے کی طرف کھینچ رہی ہے اور وہ دمبدم ایک گڑھے کی طرف حرکت کررہے ہیں جس کو دوسرے لفظوں میں اسفل السافلینکہہ سکتے ہیں اور استعدادوں پرایک ایساانقلاب آگیا ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی خوبصورتی کی نہایت تعریف کررہے ہیں جو روحانیت کی نظر سے سخت مکروہ اور بدشکل ہیں ۔ ہرایک کانشنس محسوس کررہاہے کہ ایک کشش اس کو نیچے کی طرف لے جارہی ہے اور انہی کششوں کے برباد کن اثروں سے ایک عالم تباہ ہوگیا ہے ۔ پاک سچائیوں کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھا جاتا ہے اور سچ مچ روبخدا ہوجانے کو ایک حماقت سمجھا جاتا ہے ۔ تمام نفوس جو زمین پر ہیں یک لخت دنیا پر سرنگوں نظر آتے ہیں گویا ایک پنہانی قوت جاذبہ سے معذور اور مجبور ہو رہے ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ دنیا کا تمام کاروبارکششوں پرہی چلتا ہے۔ جس پہلومیں یقین کی قوت زیادہ ہے وہ اس دوسرے پہلوکو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور چونکہ یہ فلاسفی نہایت ہی صحیح ہے کہ ایک کشش کو صرف وہ کشش روک سکتی ہے جو اس کی نسبت بہت زبردست اور طاقتور ہواس لئے یہ دنیا جو اس سفلی کشش سے متاثر ہوکر نیچے کی طرف کھینچی جارہی ہے اس کا اوپر کی طرف رخ کرنا بالکل جائے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 624

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 624

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ناامیدی ہے جب تک کہ ایک ایسی مخالف اور زبردست کشش آسمان سے پیدا نہ ہو جو مخالف پہلوکے یقین کو بڑھا دے یعنی جیسا کہ ایک یقینی نظر سے نفسانی بدعملیوں میں فوائد اور لذّات محسوس ہورہے ہیں ان سے بڑھ کر رحمانی حکموں میں فوائد دکھائی دیں اوریقین کی نظر سے بدی کا ارتکاب مرنے کے برابر مشہودہو جو دل کو پکڑلے اور یہ یقین کی روشنی صرف آسمان سے اس آفتاب کے ذریعہ سے آتی ہے جو امام الوقت ہوتا ہے ۔ اس لئے اس امام کا شناخت نہ کرنا جاہلیت کی موت مرنا ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں اس آفتاب سے روشنیؔ حاصل کرنا نہیں چاہتا وہ خدا کے مستمرہ قانون کو توڑنا چاہتا ہے ۔کیا ممکن ہے کہ آفتاب کے بغیر آنکھیں دیکھ سکیں ؟ گو کہ آنکھوں میں بھی ایک نو رہے مگر آفتا ب کا محتاج ۔ آفتاب حقیقی نور ہے جو آسمان سے آتا اور زمین کو روشن کرتا ہے اور آنکھیں بغیراس کے اندھی ہیں۔اور جس شخص کو اس آسمانی نور کے ذریعہ سے یقین پید اہوگااس کو نیکی کی طرف ایک کشش پیدا ہوگی اوراس آسمانی کشش اور زمینی کشش میں لڑائی ہونا ایک طبعی امر ہے کیونکہ اس صورت میں ایک کشش نیکی کی طرف کھینچے گی اور ایک بدی کی طرف ۔ اورایک مشرق کی طرف دھکا دے گی اور ایک مغرب کی طرف ۔ اور دونوں کا باہم ٹکرانا اس وقت سخت خطر ناک ہوگا جب کہ دونوں میں انتہائی درجہ کی کششیں موجود ہوں گی جن کا دنیا کی انتہائی ترقیات پر موجود نہ ہونا ایک لازمی امر ہے ۔ پس جب تم دیکھو کہ زمین نے انتہائی درجہ پر ترقی کرلی ہے تو سمجھ لو کہ یہی دن آسمانی ترقی کے بھی ہیں اور یقین کرلو کہ آسمان پر بھی ایک روحانی تیاری ہے اور وہاں بھی ایک کشش پیدا ہوگئی ہے جو زمینی کشش سے لڑنا چاہتی ہے ۔ پس ایسے دن سخت خوفناک ہیں جب کہ زمین غفلت اور برائی میں انتہائی درجہ پر ترقی کرجائے کیونکہ روحانی لڑائی کیلئے وہی وعدہ کے دن ہیں جن کو نبیوں نے طرح طرح کے استعارات میں بیان کیا ہے اور بعض نے اس مثال میں اس کو پیش کیا ہے کہ یہ آسمانی فرشتوں اور زمینی شیطانوں کی ایک آخری لڑائی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 625

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 625

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ہے جس پر اس دنیا کا خاتمہ ہو گا ۔ اور بعض نے اپنی جہالت اور نادانی سے اس لڑائی کو ایک جسمانی لڑائی سمجھ لیا ہے جو تلوار اور بندوق سے ہوتی ہیں ۔ مگر وہ لوگ غلطی پر ہیں اور اپنی سفلی عقل اور حماقت سے روحانی جنگ کو جسمانی جنگ کی طرف کھینچ کرلے گئے ہیں۔ غرض ان دنوں زمین کی تاریکی اور آسمان کے نور کا ایک انتہائی جنگ ہے ۔ آدم سے لے کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک تمام خدا کے مقدس نبی اس جنگ کی طرف اشارات کرتے آئے ہیں اور اس جنگ کے سپہ سالاروں کے دو مختلف نام رکھے گئے ہیں ایک سچائیوں کو چھپانے والااور دوسرا سچائیوں کو ظاہر کرنے والایا دوسرے لفظوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آسمان سے نورانی فرشتوں کے ساتھ اترنے والا اور میکائیل کا مظہر اور ایک زمین سے تمام شیطانی تاریکیوں کو لے کر ظاہر ہونے والا اور ابلیس کا مظہر ہو گا ۔ اب جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ زمینی لشکر خوب تیار ہے اور وہ خوب مسلح ہو کر کھڑے ہیں اور اپناکام کررہے ہیں بلکہ بہت کچھ کر بھی چکے ہیں تو طبعاً یہ نیک خواہش پیدا ہوتی ہے اور فراست صحیحہ گواہی دیتی ہے کہ آسمانی گورنمنٹ بھی ان تیاریوں سے غافل نہیں ہے ۔ اسؔ گورنمنٹ کی کچھ ایسی عادت ہے کہ وہ ظاہری شوروغوغاکو پسند نہیں کرتی اور وہ بہت کچھ کارروائیاں اندر ہی اندر ہی کرلیتی ہے اورلوگوں کو خبر بھی نہیں ہوتی تب آسمان پر ایک نشان ظاہرہوتا ہے اور زمین پرایک منار روشن اور نہایت سپید اور وہ آسمانی روشنی منار پر گرتی ہے اور پھر وہ منار تمام دنیا کو روشن کرتاہے ۔ یہ مختصر فقرہ تشریح کا محتاج ہے اور تشریح یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا روحانی سلسلہ اگرچہ جسمانی سلسلے کے بالکل مطابق ہے لیکن بعض امور میں اس میں وہ خواص عجیبہ پائے جاتے ہیں کہ جو جسمانی سلسلہ میں کھلے کھلے طور سے نظرآ نہیں سکتے چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ بھی خاصہ ہے کہ جب سفلی کشش اپناکام کرنا شروع کرتی ہے تو گو وہ کشش آسمانی کشش سے بالکل مخالف ہے تاہم آسمانی کشش اس کشش کے طبعی تقاضا سے پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 626

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 626

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


پس یہ امر معقول ہے کہ ان کششوں کے انتہائی درجہ کے زوروں کے وقت جو دنیا کا آخری زمانہ ہے ان دونوں میں لڑائی ہونا چاہئے تھی کیونکہ اقبال کا تقاضا ہے کہ فریق مخالف کو فنا کرے ۔ پس جس موقعہ اور محل میں فریقین برابر درجہ کا اقبال و شوکت رکھیں گے ،ایسے دو فریق بغیر لڑائی کے نہیں رہ سکتے کیونکہ ہرایک خدا کے نبیوں کی کتابوں میں پیشگوئی کے طور پربیان کی گئی ہے ۔ایسا ہی عقل بھی اس کو ضروری سمجھتی ہے ۔ کیونکہ جب دو مخالف اور پُرزور کششوں میں باہم ٹکر لگے تو ضروری ہے کہ ایک دوسری کو فنا کردیوے یادونوں فنا ہوجاویں اور اس لڑائی کے بارہ میں نبیوں کی کتابوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام سے پورا ہزار برس گزرا جس میں نبیوں کی پیشگوئی کے مطابق شیطان قید کیا گیا تھا تو سفلی کشش نے زمین پر اپنا رنگ جمانا شروع کیا ۔ یہ وہی زمانہ تھا جبکہ اسلام اپنے پاک اصولوں کے لحاظ سے تنزل کی حالت کی طرف مائل ہوگیا تھا اور اس کی روحانی ترقیاں رک گئی تھیں اور اس کی ظاہری فتوحات کا بھی خاتمہ ہوچکا تھا اور وہ شیطان کے قید ہونے کے دنوں میں پیدا ہو ا۔اور ضرور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا جیسا کہ تمام نبیوں نے یوحنّا فقیہ تک گواہی دی ہے۔ اور شیطان کے چھوٹنے پر یعنی ۱۰۰۰ عیسوی کے بعد اس کا تنزل شروع ہوگیا اوروہ آگے بڑھنے سے رک گیاتب سے شیطانی کارروائیاں رنگا رنگ کے پیراؤں میں شروع ہوئیں اور زمین پر یہ پودا بڑھتا گیا ۔ اور اس کی شاخیں کچھ تو مشرق کی طرف پھیل گئیں اور کچھ مغرب کی انتہائی آبادیوں تک جانکلیں اور کچھ جنوب کی طرف اور کچھ شمال کی طرف متوجہ ہوئیں جیسا کہ شیطان کے قید رکھنے کا زمانہ ہزار برس تھا جس پر واقعاؔ ت خارجیہ نے گواہی دی ہے ایسا ہی نبیوں کی پیشین گوئیوں کے رو سے شیطان کے چھوٹنے کا زمانہ بھی ہزار برس ہی تھاجو ہجرت کی چودھویں صدی کے سر پر پورا ہوجاتا ہے۔ مگر یہ ہزار برس خدائی حساب کے رو سے ہے یعنی چاند کے حساب سے اور خدا کی طرف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 627

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 627

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


سے یہودیوں اور مسلمانوں کو پیشگوئیوں کے وقتوں کی شناخت کرنے کے لئے یہی حساب سکھایا گیا ہے اور سورج کے دنوں کے رو سے حساب کرنا انسانوں کی بدعت ہے جو پاک نوشتوں کے منشاء کے مخالف ہے۔ غرض اس حساب کے رو سے شیطان کی مہلت کے آخری دن یہی ہیں جن میں ہم ہیں بلکہ یوں سمجھو کہ گزر بھی چکے کیونکہ ہجری صدی جس کے سر پر ہزار برس شیطان کے چھوٹنے کا پورا ہوگیا ۔ اس کو انیس برس گزر چکے اور شیطان نہیں چاہتا کہ اس سے آزادی اور حکومت چھین لی جاوے۔ ناچار دونوں کششوں کی لڑائی ہوگی جو ابتدا سے مقدر تھی اور ممکن نہیں ہے کہ خداکا کلام غلط ہو۔ اور ان دنوں پرایک دوسری شہادت یہ بھی ہے کہ دنیا کی ابتدا سے یعنی آدم کے ظہور سے آج تک چھٹا ہزار بھی گزر گیاجس میں آدم ثانی پیدا ہوناچاہئے تھا۔ کیونکہ چھٹا دن آدم کی پیدائش کا دن ہے اور خدا کی پاک کتابوں کے رو سے ایک ہزار برس ایسا ہے جیسا کہ ایک دن سو یہ امر خدا کے پاک وعدوں کے رو سے ماننا پڑتا ہے کہ وہ آدم پیدا ہوگیا۔ گو وہ ابھی کامل طور پر شناخت نہیں کیاگیا اور ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ اس آدم کامقام جو خدا کے ہاتھ سے تجویز کیا گیا وہ شرقی ہے نہ غربی کیونکہ توریت باب ۲۔ آیت ۸*سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آدم کو ایک باغ میں شرقی طرف جگہ دی گئی تھی پس ضرور ہے کہ یہ آدم بھی مشرقی ملک میں ہی ظاہر ہو تا اول اور آخرکی مماثلت مکانی قائم رہے۔اور اس اعتراف سے جیسا کہ مسلمانوں کو چارہ نہیں ویساہی عیسائیوں کوبھی کوئی گریز کی جگہ نہیں بشرطیکہ دہریت کی رگ مانع نہ ہو ۔ پس اصل حقیقت کے سمجھنے کیلئے کچھ مشکلات باقی نہیں رہیں اور یہ مسئلہ نہایت صاف ہے کہ یہ زمانہ نوراور ظلمت کی لڑائی کا زمانہ ہے اور ظلمت نے انتہا تک اپناکام کرلیا ہے اور یہ امیدیں نہیں کی جاسکتیں کہ بغیر نزول آسمانی نور کے اس ظلمت پر کوئی فتحیاب ہو سکے اور اس بات میں ذرابھی شبہ نہیں ہے کہ ظلمت اپنے پورے زوروں میں ہے اور راستبازی کا نیم مردہ چراغ فنا ہونے کے قریب ہے اور رسمی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 628

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 628

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


عقیدے اور رسمی علم اور رسمی نمازیں اس روشنی کو بحال نہیں کرسکتیں جو گم ہوچکی ہے کیا اندھا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے ؟ہرگز نہیں !کیا ظلمت ، ظلمت کودور کرسکتی ہے ؟کسی طرح ممکن نہیں۔ اب تو ایک جدیدمنارکی ضرورت ہے جو زمین پر تیارہو جو سفلی آبادیوں سے امتیاؔ زکے ساتھ اونچا ہو تا آسمانی روشنی اس پر نازل ہو اور سماوی چراغ اس پر رکھاجاوے اور پھر تمام دنیااس روشنی سے منور ہو جاوے کیونکہ اگر چراغ اونچے مقام پر نہ رکھا جائے تو کیونکر اس کی روشنی دور دور تک پھیل سکے ۔ اب آپ کو یہ سمجھناباقی ہے کہ منار کیا چیز ہے پس یاد رہے کہ منار اس نفس مقدس اور مطہر اور بلند ہمت کا نام ہے جوانسان کامل کو ملتا ہے جو آسمانی نور پانے کا مستحق جیسا کہ منار کے معنے میں یہ مطلب داخل ہے اور منارکی بلندی سے مراد اس انسان کی بلند ہمتی ہے اور منارکی مضبوطی سے مراد اس انسان کی استقامت ہے جو طرح طرح کے امتحانوں کے وقت وہ دکھلاتا ہے اور اس کی سفیدی و بریّت ہے جو انجام کارظاہر ہو جاتی ہے ۔ اور جب یہ سب کچھ ہو لیتا ہے یعنی جب اس کی علو ہمت اور کمال استقامت اور کمال صبراور استقلال اور دلائل کے ساتھ اس کی بریّت ایک چمکتے ہوئے منار کی طرح کھل جاتی ہے تب اس کی جلالی آمدکا وقت آجاتا ہے اور پہلی آمدجو ابتلاؤں کے ساتھ ہے اس کا وقت ختم ہوجاتا ہے ۔ تب وہ روحانیت خدائی جلال سے رنگین ہو کر اس وجود پر اترتی ہے جو منارکی صورت پر کھڑا ہے تب باذنہٖ تعالیٰ خدائی تاثیریں اس میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ سب کچھ آمد ثانی میں ہوتاہے ۔اور مسیح موعود کی خاص طور کی آمد اسی حقیقت کی کامل تصویرہے اور مسلمانوں میں جویہ روایتیں ہیں کہ مسیح موعود منار کے پاس اترے گا ۔ اترنے سے مراد ایک جلالی طورکی آمد ہے جو خدائی رنگ اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ پہلے اس سے زمین پر موجود نہ تھا مگر ضرور ہے کہ آسمان اسے لئے رہے ۔ جب تک کہ وہ وقت نہ آوے جو خدا نے مقررکر دیا ہے ۔ خدا کی عادت میں یہ بھی داخل ہے کہ روحانی امور کو ذہن نشین کرانے کیلئے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 629

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 629

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/629/mode/1up


ان کے کسی حصہ کی جسمانی تصویر بھی پیدا کر دیتا ہے جیسا کہ بیت المقدس کی ہیکل اور مکہ معظمہ کا خانہ کعبہ یہ دونوں تصویریں روحانی تجلیات کی ہیں اسی بنا پر شریعت اسلامی میں یہ سمجھا گیا ہے کہ مسیح موعود منار پر یا منار کے قریب نازل ہو گا ۔ ایک ایسے ملک میں جو دمشق کے شرقی طرف ہے جیسا کہ آدم کو بھی شرقی طرف ہی جگہ دی گئی تھی۔ اس جلالی آمد سے پہلے ظاہری منار کے بھی بنائے جانے میں کچھ حرج نہیں بلکہ حدیثوں میں بطور پیش گوئی اس کا ذکر پایا جاتا ہے کہ وہ مسیح موعود کی جلالی آمد کیلئے ایک نشان ہو گا جو اس آمد سے پہلے بنایا جائے گا۔ یہ مقدر ہے کہ مسیح موعود کا آنا دورنگ میں ہو گا ۔ اول معمولی طور پر جس میں طرح طرح کے ابتلا بھرے ہوئے ہیں ۔طرح طرح کی تکلیفوں کا وقت ہے ۔ جب یہ دن پورے ہوجائیں گے تب جلالی آمدکا وقت آجائے گا اور ضرورہے کہ اؔ س سے پہلے ایک منار تیار ہو جائے جیسا کہ حدیثوں سے پایا جاتا ہے کہ اس حقیقت کے دکھلانے کے لئے ایک ظاہری مناربھی ہوگا اور وہ باطنی منارکی تصویر ہو گا اور قبل اس کے جو وہ جلالی طورپر نازل ہو دنیا اس کو نہیں پہچانتی کیونکہ وہ دنیا میں سے نہیں ہے اور دنیا اس سے محبت نہیں کرتی کیونکہ جس خدا سے وہ آیا ہے اس سے بھی دنیاکومحبت نہیں۔ پس ضرور ہے کہ وہ آمداول میں ستایا جائے اور دکھ دیا جائے اور طر ح طرح کے الزام اس پر لگائے جائیں جیسا کہ اسلامی پیشگوئیوں میں لکھا ہے کہ ابتدامیں مسیح موعود کو قبول نہیں کیا جائے گا اور نادان لوگوں کے کینے اس کی نسبت بہت بڑھ جائیں گے اور شرارتیں انتہاتک پہنچ جائیں گی ۔ یہاں تک کہ ایک شخص ظالمانہ حملہ اس پرکرکے خیال کرے گا کہ اس نے بڑی نیکی کاکام کیا ہے اور ایک اس کو دکھ دے کر یہ سمجھے گا کہ اس نے اپنے فعل سے خدا کو راضی کردیا ہے ۔اسی طرح ہوتا رہے گا اور ہر ایک قسم کا زلزلہ اس پر آئے گا اور ہر ایک مصیبت کا اس کوسامنا ہوگایہاں تک کہ عادت اللہ اس میں پوری ہوجاوے گی۔ تب اس کی جلالی آمد کا وقت آجائے گا اور مستعد دلوں کی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 630

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 630

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/630/mode/1up


آنکھیں کھولی جائیں گی اور وہ خود بخود سوچنے لگیں گے کہ یہ کیا بات ہے اور یہ کس قسم کا کاذب ہے جو زیر نہیں ہوتا اور کیوں خدا کی تائیدیں اس کے شامل حال ہیں اور ہمارے شامل حال نہیں ۔ تب خداکا ایک فرشتہ ان کے دلوں پر اترے گا اور ان کو سمجھائے گا کہ کیاتمہاری حدیثوں اور روایتوں کی پیشگوئیاں ضروری الوقوع ہیں جو تمھاری روک کا باعث ہیں اور کیا ان میں سے بعض کی نسبت وضع اور غلطی ممکن اور محل نہیں اور کیا بعض پیشگوئیوں کا استعارات کے رنگ میں پورا ہوناجائز نہیں۔ اور کیایہودیوں کی بد نصیبی اور بے ایمانی کا بجز اس کے کوئی اور بھی باعث تھاکہ وہ منتظر رہے کہ تمام باتیں ظاہری صورت میں ہی پوری ہوں اور ان کے خیالات کے مطابق سب کچھ ہو مگر نہ ہوا ۔ تو پھرجب کہ وہی خدا اب بھی ہے اور وہی اس کی عادت، تو کیوں جائز نہیں کہ وہی ابتلا تمہیں بھی پیش آیا ہو ۔ غرض آخر کار انہی خیالات کی طرف طبعاً انسانوں کے دلوں کا رجوع ہوجائے گا جیساکہ قدیم سے ہوتاآیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں کہ حقیقی دین اور راستبازی کے پھیلانے کے لئے یہ جسمانی لڑائیوں کا زمانہ ہے کیونکہ تلوار سچائی کے جوہروں کو ظاہر نہیں کرسکتی بلکہ ان کو اور بھی چھپاتی اور مشتبہ کرتی ہے جولوگ ایسے خیالات کے خواہشمند ہیں و ہ اسلام کے دوست نہیں ہیں بلکہ دشمن ہیں اور ان کی فطرؔ ت نہایت پست اور سفلی رنگ میں اور ان کی ہمتیں گری ہوئی اور دل منقبض اور دماغ اَبلہ اور طبیعتیں تاریک ہیں کیونکہ وہ مخالفوں کو ایک ایسے اعتراض کاموقعہ دیتے ہیں جو در حقیقت وارد ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بقول ان کے اسلام اپنی ترقی کے واسطے جہاد کا محتاج ہے اور یہ اسلام کی ہجو ہے کیونکہ جس مذہب میں یہ قوت ہے کہ وہ اپنی سچائی کو عقلی دلائل سے یا کسی اور قسم کے قابل تمسک شہادتوں سے یا آسمانی نشانوں سے باآسانی ثابت کرسکتا ہے۔ ایسے مذہب کے لئے کچھ ضرورت نہیں کہ جبر سے اور تلوارکی دھمکی سے اپنی سچائی کا اقرار کراوے لیکن اگر کسی مذہب میں یہ ذاتی خاصیّت موجود نہیں اور اپنی کمزوری کا تلوار سے تدارک کرتا ہے تو ایسے مذہب کے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 631

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 631

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/631/mode/1up


جھوٹا ہونے کے لئے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں اس کے کاٹنے کے لئے اسی کی تلوار کافی ہے ۔

مگر یہ اعتراض کہ اگر جہاد اب جائز نہیں تواسلام میں اول زمانہ میں کیوں تلوار سے کام لیا گیا۔ یہ معترضین کی اپنی غلطی ہے جو بباعث ناواقفیت پیدا ہوئی ہے ۔ انہیں معلوم نہیں کہ اسلام دین کے پھیلانے کے لئے ہر گز جبر کی اجازت نہیں دیتا ۔ دیکھو کیسی ممانعت قرآن میں موجودہے کہ فرماتا ہے کہ3 ۱؂ یعنی دین میں جبر نہیں کرنا چاہئے ۔پھر کیوں تلوار اٹھائی گئی۔ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ عرب کے وحشی جن میں کوئی تمیز اور تہذیب باقی نہیں رہی تھی وہ اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن ہوگئے تھے اور جب ان پر توحید اور اسلامی سچائیوں کی کھلے کھلے دلائل سے حجت پوری کی گئی اوران کے ذہن نشین کیا گیا کہ انسان ہو کر پتھروں کی پوجا کرنا ایک صریح غلطی ہے کہ انسانیت کے بھی بر خلاف ہے تووہ ان معقول باتوں کا کچھ بھی جواب نہ دے سکے اور ان کے لاجواب ہوجانے سے سمجھدار لوگوں کو اسلام کی طرف حرکت پیدا ہوگئی اور بھائی سے بھائی اور باپ سے بیٹا جدا ہوگیاتب انہیں اپنے باطل مذہب کے بچانے کے لئے کوئی تدبیر بجز اس کے خیال میں نہ آئی کہ سخت سخت سزاؤں کے ساتھ لوگوں کو مسلمان ہونے سے روک دیں ۔ چنانچہ مکہ معظمہ میں ابو جہل وغیرہ مکہ کے رئیسوں کی طرف سے یہی عمل درآمد شروع ہو گیا ۔اسلام کے ابتدائی زمانہ کی تاریخ پڑھنے والے خوب جانتے ہیں کہ ایسی بے رحمی کی وارداتیں مخالفوں کی طرف سے مکہ میں کس قدر ظہور میں آئیں اور کس قدر بے گناہ ظلم سے مارے گئے مگر لوگ پھر بھی مسلمان ہونے سے باز نہیں آتے تھے کیونکہ ہرایک موٹی عقل کا انسان بھی جانتا تھا کہ بت پرستوں کے مقابل پر کس قدر اسلام معقولیت اور صفائی رکھتاہے ناچاؔ ر جب اس تدبیر سے بھی پوری کامیابی نہ ہوئی تو یہ ٹھہری کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کوہی قتل کیاجاوے لیکن خدا تعالیٰ آپ کو بچا کر مدینہ میں لے گیا مگر پھر بھی انہوں نے قتل کے لئے تعاقب کیا اور کسی صورت میں اپنی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 632

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 632

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/632/mode/1up


عادت کو چھوڑنا نہ چاہا ۔ پس اس صورت میں اسلام کے لئے بجز اس کارروائی کے اور کیاچارہ تھا کہ وہ ان حملوں کی مدافعت کرتا اور بیجا حملہ کرنے والوں کو سزادیتا ۔ سو اسلام کی لڑائیاں دین پھیلانے کیلئے نہیں تھیں بلکہ مسلمانوں کی جان بچانے کے لئے تھیں۔ کیا کوئی عقل سلیم قبول کرسکتی ہے کہ اسلام وحشی بت پرستوں کے آگے بھی اپنی توحید کی معقولیت ثابت کرنے سے عاجز تھا اور کیا کوئی عقلمند باور کرسکتا ہے کہ وہ مشرک لوگ جو پتھروں اور جمادات کی پوجاکرتے اور طرح طرح کی ناپاکیوں میں مبتلاتھے اسلام ان کے آگے بھی حجت کے رو سے مغلوب تھا اور تلوار سے کام چلاناچاہتاتھا۔ معاذاللّٰہ ہرگز یہ خیالات صحیح نہیں ہیں اور جنہوں نے ایسے اعتراض اسلام پرکئے ہیں انہوں نے سراسرظلم کی راہ سے حقیقت کو چھپایاہے ۔

ہاں یہ سچ ہے اس ظلم سے جیسا کہ مولویوں نے حصہ لیا ۔ پادریوں نے بھی ان سے کم حصہ نہیں لیا اور اسلام پرا س قسم کے اعتراض کرکے نادان مولویوں کی باتوں کو عوام کے ذہن میں خوب جما دیا اور ان کو یہ دھوکا لگاکہ جس حالت میں ہمارے مولوی جہاد کا فتویٰ دیتے ہیں اور پادری جو بڑے صاحب علم ہیں وہ بھی یہی اعتراض پیش کرتے ہیں سواس سے ثابت ہوتا ہے کہ درحقیقت ہمارے مذہب میں جہاد روا ہے۔ اب یہ کس قدر ظلم ہوا کہ دو مختلف شہادتوں سے اسلام پر یہ اعتراض جمایا گیا۔ اگر پادری ایسا طریق اختیارنہ کرتے اور ایمانداری سے سچ کی پیروی کرکے یہ کہتے کہ یہ مولوی نادانی اور جہالت کافتویٰ دیتے ہیں ورنہ اسلام کی ابتدا میں جس صورت نے یہ ضرورت پیداکی تھی اب وہ صورت اس زمانہ میں موجود نہیں ہے تو امید تھی کہ جہاد کا خیال ہی دنیا سے اٹھ جاتا مگر جوش زیادہ اور سمجھ کم تھی اس لئے حقیقت کو نہیں سمجھا ۔

ہاں یہ سچ ہے کہ عرب کے لوگ جب بہت سی مفسدانہ حرکات کے بعد اپنی ناحق کی خون ریزیوں کی وجہ سے خداتعالیٰ کی نظرمیں واجب القتل ٹھہرگئے تھے تب یہ حکم بھی نکلا تھا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 633

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 633

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/633/mode/1up


کہ وہ سب قتل کے لائق ہیں ۔ مگر پھر بھی اگر ایمان لے آویں تو سزا ئے قتل سے معافی دی جاوے گی۔ غالباً کم فہم مخالفوں نے اسی حکم سے دھوکاکھایا ہے انہیں معلوم نہیں کہ یہ صورت جبر کی نہیں بلکہ واجب القتل کے لئے ایک رعایت ہے اس ؔ کو جبر سمجھ لینا اس سے بڑھ کر کوئی حماقت نہیں ۔ وہ لوگ تو قاتل ہونے کی وجہ سے مستوجب قتل تھے نہ کافر ہونے کی وجہ سے اور خدائے رحیم یہ بھی خوب جانتا تھاکہ انہوں نے اسلام کی سچائی کو خوب سمجھ لیا ہے لہٰذا س کی رحمت نے تقاضا فرمایا کہ ایسے واجب القتل مجرموں کو پھر بھی گناہ معاف کرانے کاایک موقع دیا جاوے سوا س سے بھی یہی ثابت ہواکہ اسلام کا ہرگز منشاء نہ تھاکہ کسی کو قتل کرے بلکہ جولوگ اپنی خونریزیوں کی وجہ سے قتل کے لائق تھے ان کے لئے بھی معافی کی ایک راہ نکال دی۔ اس زمانہ میں اسلام کو یہ مشکلات جابجا پیش آئیں کہ ہرایک قوم میں اس قدر تعصب بڑھاہوا تھاکہ کوئی بیچارہ کسی قوم میں سے اگر مسلمان ہوجاتا تو یا تووہ قتل کیا جاتا تھا اوریااس کی جان سخت خطرہ میں پڑجاتی تھی اور زندگی اس پر وبال ہوجاتی تھی۔ تواس صورت میں اسلام کو امن قائم کرنے کیلئے بھی لڑائیاں کرنی پڑیں اور بجز ان دو صورتوں کے اس ابتلا کے زمانہ میں کبھی اسلام نے جنگ کا نام نہ لیا اوراسلام کاہرگز مقصود نہ تھاکہ مذہب کیلئے وہ جنگ کرے لیکن اس کو جنگ کرنے پر خواہ نخواہ مجبور کیا گیا۔ پس جو کچھ اس سے ظہور میں آیا وہ حفاظت خود اختیاری اور ضرورت مدافعت کیلئے ظہور میں آیا پھر بعد اس کے ناسمجھ مولویوں نے اس مسئلہ پرا ور رنگ چڑھا دیا اور ایک قابل شرم درندگی کو اپنا فخر سمجھا لیکن یہ اسلام کا قصورنہیں ہے یہ خود ان لوگوں کی عقلوں کا قصور ہے جو انسانی خون کو چارپایوں کے خون سے بھی کم قدر سمجھتے ہیں اور ابھی تک خونوں سے سیر نہیں ہوئے بلکہ اسی غرض کیلئے ایک مہدی خونی کے منتظر ہیں ۔گویا تمام قوموں کو یہ ثبوت دینا چاہتے ہیں کہ اسلام اپنی اشاعت کے لئے ہمیشہ جبر اور زبردستی کا محتاج رہاہے ۔ اور اس میں کوئی خفیف اور سُبک سچائی بھی نہیں ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 634

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 634

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/634/mode/1up


مجھے معلوم ہوتاہے کہ حال کے بعض مولوی اس انحطاط پرا بھی راضی نہیں ہیں جواسلام کو پیش آرہا ہے اوروہ ۱یسے عقیدوں پر زور دے کر کسی اور اسفل مقام تک اسلام کو لے جانا چاہتے ہیں ۔ لیکن یقیناًً سمجھو کہ خدا کو منظور نہیں ہے کہ اسلام ایسی ملامتوں اور تہمتوں کا نشانہ بنے ۔ نادان مخالفوں کیلئے یہ ابتلا بس ہے کہ وہ اب تک اپنے اس خیال پرجمے ہوئے ہیں کہ گویا ابتدائی زمانہ میں اور بعد میں بھی اسلام اپنی جماعت بڑھانے کے لئے تلوار سے کام لیتا رہاہے۔ اب یہ زمانہ اور یہ وقت وہ ہے کہ اس غلطی کو دلوں کے اندرسے نکال د یا جائے نہ یہ کہ اور بھی پختہ کیاجائے ۔ اگر اسلام کے مولوی اتفاق کرکے اس بات پر زور دیں کہ وہ وحشی مسلمانوں کے دلوں سے اس غلطی کو نکال دیں تو وہ بلا ؔ شبہ قوم پر ایک بڑا احسان کریں گے اور نہ صرف یہی بلکہ ان کے ذریعہ سے اسلام کی خوبیوں کی ایک بھاری جڑ لوگوں پر ظاہر ہو جائے گی اوروہ سب کراہتیں جو اپنی غلطیوں سے مذہبی مخالف اسلام کی نسبت رکھتے ہیں وہ جاتی رہیں گی تب ان کی نظریں صاف ہوکر جلد تر اس چشمہ نور سے فیض اٹھائیں گی ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ایک خونی انسان کے نزدیک کوئی نہیں آسکتا ہرایک شخص اس سے ڈرتا ہے خاص کربچے اور عورتیں اس کو دیکھ کر کانپتی ہیں اور وہ ایک مجنون کی طرح دکھائی دیتا ہے ۔ اور ایک غیر مذاہب کا مخالف اس کے پاس رات رہنے سے بھی اندیشہ کرتا ہے کہ مبادا غازی بننے کے لئے رات اٹھ کر اس کوقتل نہ کردے کیونکہ انہیں ثوابوں کے خیال سے بعض سرحدی اب تک ناحق کے خون کرکے یہ خیال کرلیتے ہیں کہ آج ہم نے اپنے ایک ہی عمل سے بہشت حاصل کر لیا ہے اور اس کی تمام نعمتوں کے مستحق ہوگئے۔ سو کس قدر جائے شرم ہے کہ غیرقوموں کو مسلمانوں کی ہمسائیگی سے امان اٹھ گیا ہے اور وہ اپنے دلوں میں کبھی تسلی نہیں پکڑ سکتے کہ اگر موقع پاویں تو یہ قوم ہم سے کچھ نیکی کرسکے گی ۔ ایسے نمونے بارہا پیش آتے ہیں کہ ایک غیر قوم کے انسان کو دیکھا جاتاہے کہ وہ درحقیقت مسلمانوں کے اس چھپے ہوئے عقیدہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 635

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 635

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/635/mode/1up


سے ہراساں اور لرزاں نظر آتاہے ۔

میں ایک ایسا نظارہ دیکھ چکا ہوں اور وہ یہ کہ شاید ۲۰؍نومبر۱۹۰۱ء کایہ واقعہ ہے جو ہمارے اس جگہ قادیان میں ایک انگریز آیا اور اس وقت ہماری جماعت کے لوگ بہت جمع تھے اور کوئی مذہبی گفتگو شروع تھی کہ وہ آکر ایک کنارہ پر کھڑا ہوگیا۔ تب اس کو بہت خلق سے بلایا گیا اوراپنے پاس بٹھایا گیا اور معلوم ہوا کہ وہ ایک سیّاح انگریزہے جو عرب کاملک بھی دیکھ آیا ہے اورہماری جماعت کی تصویریں لیناچاہتا ہے۔ چنانچہ اس کے کام میں اس کو مدددی گئی اور اس کو خاطر داری اور دلجوئی کے طور پر کہا گیا کہ وہ چند روز ہمارے پاس رہے مگر معلوم ہوا کہ وہ ڈرتا تھااور اس نے بیان کیا کہ میں نے بہت مسلمان دیکھے ہیں کہ عیسائیوں کو بے رحمی سے قتل کردیتے ہیں۔ چنانچہ اس نے ایسے چند قصے بغداد کے بھی سنائے جس میں ایسی وارداتیں بڑی بے رحمی سے ہوئی تھیں ۔ تب اس کو بڑی نرمی اور خلق سے سمجھایا گیا کہ یہ جماعت جو احمدی فرقہ کہلاتاہے ایسے عقائد سے سخت بیزاراور ایسے لوگوں کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور انسانی حقوق کی نسبت جو کچھ اس فرقہ نے کام کرنا ہے وہ یہی ہے کہ اسلام میں سے ایسے خیالات کا استیصال کردیوے ۔ تب اس کا دل مطمئن ہوا اور وہ خوشی سے ہمارے پاس ایک رات رہا۔

اس قصہ کے بیان سے غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کے ایسے عقیدے جو سراسرخلاف واقعہ ہیں غیر قوموں کو بہت مضر ہوئے ہیں اور ان کے دلوں میں بد ظنی اور نفرت پیدا ہوگئی ہے ۔ اور مسلمانوں کی سچی ہمدردی کی نسبت ان کے نیک ظن بہت ہی کم ہوگئے ہیں اور اگر کچھ ہیں بھی تو ایسے لوگوں کی نسبت جو مولویانہ زندگی نہیں رکھتے اور اسلامی اصولوں کی پابندی کی چنداں پروا نہیں کرتے پس جبکہ مسلمانوں کی نسبت اس قدر بدظنی بڑھ گئی ہے جس کے بڑھانے کے وہ خود ہی موجب ہیں تو کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور گنا ہ بھی ہوگا کہ ایک



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 636

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 636

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/636/mode/1up


دنیاکوایسے علماء اوران کے معتقدوں نے اسلامی فیوض سے محروم کردیا ہے ۔ کیا ایسا مذہب خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو دلوں کے اندر اپنی تعلیم کو بغیر اس کے نہیں اتار سکتا جب تک تلوار کی چمک نہ دکھلاوے۔ مذہب سچاتو وہ ہے جو اپنی ذاتی خاصیت اور طاقت سے دلائل قاطعہ سے خود تلوار کاکام دے نہ یہ کہ لوہے کی تلوار کا محتاج ہو ۔

یہی خرابیاں ہیں جو ہر وقت تقاضا کر رہی ہیں جوکوئی مصلح پیدا ہو۔ جب ہم اسلام کی اندرونی حالت پر غور کریں تو ایسی خوفناک حالت ہے جو گویا سورج کو گرہن لگا ہوا ہے اور اس کا بہت سا حصہ تاریک ہو چکا ہے اور کچھ تھوڑا سا باقی ہے۔ مسلمانوں کی عملی حالتیں قابل رحم ہیں۔ بعض حدیثیں ایسی بنائی گئی ہیں جو ان کی اخلاقی حالت پر بہت ہی برا اثر ڈالتی ہیں اور خدا کے مقرر کردہ قوانین کی دشمن ہیں ۔ مثلاً خدا کے قانون نے انسانوں کی نوع کے لئے تین قسم کے حقوق قائم کئے تھے۔ یہ کہ بے گناہ کسی کو قتل نہ کریں ۔ اور یہ کہ بے خطا کسی کی عزت میں خلل انداز نہ ہوں اور یہ کہ بغیر کسی حق کے کسی کا مال نہ لیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ بعض مسلمانوں نے ان تینوں حکموں کو توڑ دیا ہے۔ وہ ایک بے گناہ کا خون کردیتے ہیں اور نہیں ڈرتے ۔ ان کے احمق مولویوں نے ایسے فتوے بھی دے رکھے ہیں کہ غیر قوموں کی عورتوں کو جن کو وہ کافر اور بے دین کہتے ہیں کسی حیلہ سے بہکا لے جانا جائزہے یا پکڑ لینا اور پھر اپنی عورت بنانا۔ اور ایساہی کافروں کا مال خیانت اور چوری کی راہ سے لینا روا ہے۔ کوئی گناہ نہیں ۔اب سوچنا چاہیئے کہ جس مذہب میں اس قدر خرابی پیدا ہوجائے کہ اس میں ایسے ایسے بھی مولوی فتو یٰ دینے والے موجود ہیں وہ مذہب کس قدر خطرناک حالت میں ہے۔ نفس پرست لوگوں نے یہ سب فتوے اپنی طرف سے بنا لئے ہیں اورخدا اور رسول پر افترا کیا ہے یہ تماؔ م گناہ جو نادان وحشی کررہے ہیں سب ان کی گردن پر ہے ۔ وہ بھیڑیئے ہیں مگر بھیڑوں کے لباس میں ظاہر ہوتے ہیں اور دھوکادیتے ہیں ۔وہ زہر ہیں مگر اپنے تئیں



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 637

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 637

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/637/mode/1up


خوبصورت تریاق دکھاتے ہیں وہ اسلام کے لئے اور خدا کی مخلوق کیلئے سخت بدخواہ ہیں اور ان کے دل رحم اور ہمدردی سے خالی ہیں مگراپنے تئیں چھپاتے ہیں۔ وہ مکاری سے وعظ کرتے اوراپنی نفسانی اغراض مد نظر رکھتے ہیں۔ وہ زاہدانہ لباسوں میں مسجدوں میں آتے مگر فاسقانہ عادتیں ان کی چھپی ہوئی ہیں ۔ یہ ایک ملک کی حالت نہیں ہے اور نہ کسی خاص شہر کی نہ کسی خاص فرقہ کی بلکہ تمام اسلامی دنیامیں ایک گروہ ایسا ہے جو علماء کہلاتے اور مولویانہ جُبّے پہنتے ہیں اورجہاں تک ممکن ہے اپنی صورتیں متدین لوگوں کی طرح بناتے ہیں تا ان کو بہت بزرگ اور مقدس سمجھا جائے مگر ان کے اعمال گواہی دیتے ہیں کہ وہ کیا ہیں اور کس سیرت کے انسان ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ دنیا میں سچی پاکیزگی اور سچی ہمدردی پھیلے کیونکہ اس میں وہ اپنا نقصان کرتے ہیں ۔

غرض آج کل اسلام بڑی مشکلات میں پھنس گیا ہے۔ اکثر روحیں مرگئی ہیں ان میں نیکی کی طرف ذرہ حرکت نہیں۔ اعتدال کو ان لوگوں نے یک لخت چھوڑ دیا ہے۔ ان میں ایک وہ گروہ ہے جو قبروں کی پوجا کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کی طرح ان کا طواف بجا لاتے ہیں ۔ اور اپنے پیروں کی روحوں کوایسا قادر اور متصرف جانتے کہ گویا سب کچھ ان کو خدا کی طرف سے اختیار دیا گیا ہے۔ اکثر گدیاں ایسی ہی پاؤگے جن کے ساتھ قبر بھی ہے جن کی وہ اپنے مریدوں سے پوجا کراتے ہیں اور اگر کوئی ان سے کرامت کاطالب ہوتا ہے توصاحب قبر کی ہزاروں کرامتیں سنا دیتے ہیں اور ثبوت ایک کا بھی نہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کا مغز قبرپرستی ہے اور تمام دوسرے مسلمانوں کو وہ گمراہ جانتے ہیں۔ یہ تو وہ فریق ہے جس نے افراط کی راہ لی ہے۔ ان کے مقابل پر ایک تفریط کا گروہ بھی موجود ہے اور وہ انکار کرنے میں حد سے گزر گئے ہیں یہاں تک کہ ولایت توولایت ان کے نزدیک نبوت بھی کچھ چیز نہیں ۔ معجزات سے وہ قطعاً منکر ہیں اور ان پر ہنسی اور ٹھٹھا اُڑاتے ہیں اوروحی کی یہ تعبیر کرتے ہیں



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 638

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 638

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/638/mode/1up


کہ وہ صاحب کتاب کے اپنے دل کے ہی خیالات ہوتے ہیں اور اس کو ایسے خیالات کی تراش خراش میں ایک ملکہ ہوتا ہے۔ اور ایسی پیشگوئی جو عقلی فراست کی حد سے دور ہو اورؔ خالص غیب کی خبرہو غیر ممکن ہے ۔ غرض ا ن کے نزدیک نہ خدا کی طرف سے کوئی وحی نازل ہوتی ہے اور نہ معجزہ کچھ چیز ہے اور نہ پیشگوئی کچھ حقیقت رکھتی ہے اور مردوں کی قبریں صرف خاک کا ڈھیر ہے جن کے ساتھ روح کا کوئی علاقہ نہیں۔ اور مردوں کا جی اٹھنا کم عقلی کے زمانہ کی کہانیاں ہیں اور آخرت کا فکر دیوانگی ہے اور تمام عقلمندی اسی میں ہے کہ دنیا کمانے کی لیاقتیں حاصل کریں ۔ اور جو لوگ دن رات دنیا میں اور دنیا کی کارستانیوں میں مشغول ہیں ان کی پیروی کریں ا ور ایسے ہی بن جائیں ۔

یہ افراط تفریط تو مسئلہ نبوت اور معاد کے متعلق ہے مگر بجز اس کے بات بات میں مسلمانوں کے امور معاشرت میں افراط تفریط پائی جاتی ہے۔ نہ کلام میں اعتدال پایا جاتا ہے ۔ نہ کام میں ۔ نہ اخلاق میں نہ نکاح میں نہ طلاق میں نہ امساک میں نہ اتفاق میں ۔ نہ غضب میں نہ رحم میں ۔ نہ انتقام میں نہ عفو میں ۔ غرض اس قوم میں عجیب قسم کا طوفان بے تمیزی برپا ہے جہالت کا کچھ انتہا نہیں ضلالت کی کچھ حدوپایاں نہیں ۔ پھر جبکہ وہ قوم جو توحید اور میانہ روی کا عمامہ پہن کر دنیا میں ظاہر ہوئی تھی اس کی بے اعتدالیوں کی یہاں تکنوبت پہنچ گئی ہے تو دوسری قوموں پرکیا افسوس اور کیا ذکر ۔

عیسائی قوم کا مرکزایسی زمین ہے جس میں زیر کی اور قویٰ دماغی کی لطافت بہت کچھ امیدیں دلاتی تھی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دین اور توحید کے معاملہ میں انہوں نے بھی طبعی اور فلسفہ پڑھ کر ڈبو دیا ہے ۔ ایک طرف جب ہم نظر کرتے ہیں کہ وہ امور دنیا کی تدبیر اور ترتیب اور آئے دن جدید صنعتوں کے نکالنے میں کس انتہائی نقطہ تک پہنچ گئے ہیں ۔ اور پھر جب ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ وہ خدا شناسی کے مسئلہ میں کیسے گر گئے ہیں اور



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 639

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 639

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/639/mode/1up


کیسے ایک عاجز انسان کو رب العالمین سمجھ بیٹھے ہیں توحیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے کاموں میں یہ ذہن رسا اور خدا شناسی میں یہ عقل وذکا۔ اور جب ہم غور کریں کہ عیسائیوں اور مسلمانوں میں افراط تفریط کے رو سے مابہ الامتیاز کیا ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت ہیں جوبنی نوع کے حقوق تلف کرتے ہیں اور عیسائیوں میں ایسے لوگ ہیں جو خدا کے حقوق کو تلف کرتے ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کو جہاد کے مسئلہ کی غلطی نے ایسا سخت دل کردیا ہے کہ نوع انسان کی سچی محبت ان کے دلوں میں نہیں رہی ۔ لہٰذؔ ا ان میں سے وحشی لوگ کیسی ادنیٰ غرض نفسانی یاجوش شیطانی کی وجہ سے بے گناہ انسان کا خون کرنے کو تیا ر ہوجاتے ہیں اور بے آبرو کرنے اور مال چھیننے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور بنی نوع کے حقوق کا ایک ضروری حصہ تلف کر کے انسانیت کو داغ لگا دیا ہے۔ پھر جب ہم عیسائیوں کے حالات کو غور کی نظر سے دیکھیں تو بکمال صفائی کھل جاتا ہے کہ انہوں نے خدا کے حقوق تلف کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا اور ایک عاجز انسان کو بے وجہ خدا بنارکھا ہے ۔اور جس غرض کے لئے خدا بنایاگیا تھاوہ غرض حاصل بھی نہیں ہوئی ۔ اگر گناہ سے پاک ہونے کے لئے یہی نسخہ تھا کہ یسوع مسیح کے خون سے ایمان لایا جائے تو کیوںیہ نسخہ یورپ کے لوگوں کو دنیا پرستی اور طرح طرح کے ناجائز شہوات کے گناہ سے جن کا ذکر کرنا بھی جائے شرم ہے پاک نہیں کرسکا بلکہ بجائے اس کے فوق العادت ترقی ہوئی۔ کیا یورپ کے ملک بدکاریوں میں ایشیائی ملکوں سے کچھ کم ہیں ؟توپھر اس غیر مؤثر نسخہ پر کیوں نظر ثانی نہیں کی گئی ۔ دنیا کی چند روزہ صحت کے لئے ہرایک ڈاکٹر اور بیمار اس قاعدہ کاپابند رہتا ہے کہ جب ایک نسخہ سے ہفتہ عشرہ تک کوئی فائدہ نہیں ہوتاتووہ نسخہ بدلنا پڑتاہے اور کوئی اور احسن تجویز سوچی جاتی ہے توپھر کیا وجہ کہ باوجود غلط ثابت ہونے کے اب تک یہ نسخہ بدلایا نہیں گیا ۔ کیا باوجود انیس سو برس لاحاصل گزرجانے کے اب تک یہ خیال قابل وقعت ہے کہ خون مسیح پرایمان لانا حقیقی نجات کو



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 640

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 640

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/640/mode/1up


عطاکرتاہے ۔ یا یہ امید کرسکتے ہیں کہ اگر چہ موجودہ زمانہ تککوئی امتیاز فیصلہ کرنے والے ظاہر نہیں ہوئے لیکن آئندہ وہ زمانہ آنے والاہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بدکاریوں اور بدمستیوں سے پرہیزکرنے والے عیسائی ہوں گے۔ جو شخص یورپ کے ملکوں میں سے کسی ملک میں رہتا ہے وہ اگر چاہے گواہی دے سکتاہے کہ یہ بیان درست ہے بلکہ ہرایک دانشمند جس نے کبھی یورپ کی سیر کی ہے اور کچھ عرصہ پیرس وغیرہ میں رہ چکا ہے اس کو اس گواہی میں تأمل نہیں ہوگا کہ اب بعض حصے یورپ کے اس حالت تک پہنچ گئے ہیں کہ قریب ہے کہ بہتوں کی نظر میں بد کاری کچھ گناہ ہی نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ایک بیوی سے زیادہ نکاح حرام ہے مگر بدنظری حرام نہیں ۔ درحقیقت فرانس وغیرہ میں لاکھوں عورتیں ایسی پائی جائیں گی جن کو خاوند کی ضرورت نہیں۔ پس اب یاتو کہنا پڑے گا کہ ان کیلئے کوئی نئی آیت انجیل میں سے نکل آئی ہے جس سے یہ سب کارروائیاں حلال ہوگئی ہیں یاضرور یہ کہنا پڑے گا کہ خون مسیح کے نسخہ نے الٹا اثر کیا ہے اور دعویٰ غلط نکلا ۔ لیکن سچ یہی ہے کہ یہ نسخہ صحیح نہ تھا اورؔ ایک شخص کے مرنے کو دوسرے شخص کے نجات پانے سے کوئی طبعی تعلق نہیں اور خدا کازندہ ہونا تمام برکات کامدار ہے نہ کہ مرنا اور سورج کے طلوع کرنے سے روشنی پیدا ہوتی ہے نہ کہ ڈوبنے سے۔ اور جبکہ اس نسخہ سے گناہوں سے پاک ہونے کا مقصود حاصل نہ ہوسکا تووہ اصول بھی صحیح نہ رہا کہ یہ خدا کا بیٹا تھا جس نے اس نیت سے اپنے تئیں ہلاک کیا۔ ہم خدا کی نسبت ایسی موت تجویز نہیں کرسکتے کہ جان بھی گئی اورکام بھی نہ ہوا۔ اول تو یہ بات ہی خدا کے قدیم قانون قدرت کے مخالف ہے کہ خدا بھی موت اورفنا اور ہرایک نقصان اور ذلت کو اپنے پر قبول کرکے ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ اس دعوے کو نہ تو کسی نظیر سے ثابت کیا گیا ہے تایہ بات سمجھ میں آجائے کہ دوچار دفعہ پہلے بھی خدا نے ایسے طور سے جنم لیا تھا۔ اور دل قرار پکڑ جائے اور نہ اس دعویٰ کوخدائی کرشموں کے ساتھ جوانسانی معجزات کی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 641

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 641

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/641/mode/1up


حد سے باہر ہوں بپایۂ ثبوت پہنچایا گیا ہے اور پھر باایں ہمہ اس عقیدہ کی اصل غرض جس کے لئے یہ عقیدہ تراشا گیا تھابالکل مفقود ہے۔ دنیا میں نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے بڑے بڑے دوگناہ ہیں ایک شراب نوشی اور ایک بدکاری ۔ اب کہو کیایہ سچ نہیں ہے کہ ان دوگناہوں میں یورپ کے اکثر مرد وں اور عورتوں نے پورا حصہ لیا ہے بلکہ میں اس بات میں مبالغہ نہیں دیکھتا کہ شراب نوشی میں ایشیا کے تمام ملکوں کی نسبت یورپ بڑھا ہوا ہے اور یورپ کے اکثر شہروں میں شراب فروشی کی اس قدر دوکانیں ملیں گی کہ ہمارے قصبوں کی ہر قسم کی دوکانیں ملا کر بھی ان سے کمتر ہوں گی اور تجربہ شہادت دے رہا ہے کہ تما م گناہوں کی جڑھ شراب ہے کیونکہ وہ چند منٹ میں ہی بدمست بنا کر خون کرنے تک دلیر کردیتی ہے اور دوسری قسم کا فسق وفجور اس کے ضروری لوازم ہیں ۔ میں سچ سچ کہتاہوں اور اس پر زور دیتا ہوں کہ شراب اور تقویٰ ہر گز جمع نہیں ہوسکتے ۔ اورجو شخص اس کے بد نتیجوں سے آگاہ نہیں وہ عقلمند ہی نہیں اور اس میں ایک اور بڑی مصیبت ہے کہ اس کی عادت کوترک کرنا ہرایک کاکا م نہیں ۔

اب اگریہ سوال پیش ہے کہ اگر خون مسیح گناہوں سے پاک نہیں کر سکتا جیسا کہ وہ واقعی طورپر پاک نہیں کر سکا توپھر گناہوں سے پاک ہونے کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں کیونکہ گندی زندگی درحقیقت مرنے سے بد تر ہے ۔ تو میں اس سوال کے جواب میں نہ صرف پُرزوردعویٰ سے بلکہ اپنے ذاتی تجربہ سے اور اپنی حقیقت اس آزمائشوں سے دیتاہوں کہ درحقیقت گناہوں سے پاک ہو ؔ نے کیلئے اس وقت سے جوانسان پیدا ہوا آج تک جو آخری دن ہیں صرف ایک ہی ذریعہ گناہ اور نافرمانی سے بچنے کا ثابت ہوا ہے اور وہ یہ کہ انسان یقینی دلائل اور چمکتے ہوئے نشانوں کے ذریعہ سے اس معرفت تک پہنچ جائے کہ جو درحقیقت خدا کو دکھا دیتی ہے اور کھل جاتا ہے کہ خدا کاغضب ایک کھا جانے والی آگ ہے اور پھر تجلی حسن الٰہی ہوکر ثابت ہوجاتا ہے کہ ہریک کامل لذت خدا میں ہے یعنی جلالی اور جمالی طورپر



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 642

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 642

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/642/mode/1up


تمام پردے اٹھائے جاتے ہیں ۔ یہی ایک طریق ہے جس سے جذبات نفسانی رُکتے ہیں اور جس سے چار ناچار ایک تبدیلی انسان کے اندر پید ا ہو جاتی ہے۔ اس جواب کے وقت کتنے لوگ بول اٹھیں گے کیاہم خدا پر ایمان نہیں رکھتے؟ کیا ہم خدا سے نہیں ڈرتے اور اس سے محبت نہیں رکھتے؟ اور کیاتما م دنیا بجز تھوڑے افراد کے خدا کو نہیں مانتی اورپھر وہ طرح طرح کے گنا ہ بھی کرتے ہیں اور انواع واقسام کے فسق وفجور میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں تواس کا جواب یہ ہے کہ ایمان اور چیز ہے اور عرفان اورچیز ہے ۔اور ہماری تقریر کا یہ مدعا نہیں ہے کہ مومن گناہ سے بچتا ہے بلکہ یہ مدعا ہے کہ عارف کامل گناہ سے بچتا ہے یعنی وہ کہ جس نے خوف الٰہی کا مزہ بھی چکھا اور محبت الٰہی کا بھی ۔ شاید کوئی کہے کہ شیطان کو معرفت کامل حاصل ہے پھر وہ کیوں نافرمان ہے ۔ اس کا یہی جواب ہے کہ اس کو وہ معرفت کامل ہرگز حاصل نہیں ہے جو سعیدوں کوبخشی جاتی ہے ۔ انسان کی یہ فطرت میں ہے کہ کامل درجہ کے علم سے ضرور وہ متاثر ہوتا ہے اور جب ہلاکت کی راہ اپنا ہیبت ناک منہ دکھاوے تواس کے سامنے نہیں آتا مگرایمان کی حقیقت صرف یہ ہے کہ حسن ظن سے مان لے ۔ لیکن عرفان کی حقیقت یہ ہے کہ اس مانی ہوئی بات کو دیکھ بھی لے۔ پس عرفان اور عصیان دونوں کا ایک ہی دل میں جمع ہونا محال ہے۔ جیسا کہ دن اور رات کا ایک ہی وقت میں جمع ہوجانا محال ہے۔

تمہارا روز مرہ کا تجربہ ہے کہ ایک چیز کا مفید ہونا جب ثابت ہو جائے تو فی الفور اس کی طرف ایک رغبت پیدا ہوجاتی ہے اور جب مضر ہونا ثابت ہو جائے تو فی الفور دل اس سے ڈرنے لگتا ہے مثلاً جس کو یہ معلوم نہیں کہ یہ چیز جو میرے ہاتھ میں ہے یہ سم الفار ہے وہ اس کو طبا شیر یا کوئی مفید دوا سمجھ کر ایک ہی وقت میں تولہ یا دو تولہ تک بھی کھا سکتا ہے لیکن جس کو اس بات کا تجربہ ہو چکا ہے کہ یہ تو زہر قاتل ہے وہ بقدر ایک ماشہ بھی اس کو استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے کھانے کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔ اسی طرح



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 643

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 643

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/643/mode/1up


جب انسان کو واقعی طور پر علم ہو جاتا ہے کہ بلا شبہ خدا موجود ہے اورؔ در حقیقت تمام قسم کے گناہ اس کی نظر میں قابل سزا ہیں۔ جیسے چوری، خونریزی، بدکاری، ظلم، خیانت، شرک، جھوٹ، جھوٹی گواہی دینا، تکبر، ریاکاری، حرام خوری، دغا، دشنام دہی، دھوکہ دینا، بد عہدی، غفلت اور بدمستی میں زندگی گزارنا، خدا کا شکر نہ کرنا، خدا سے نہ ڈرنا، اس کے بندوں کی ہمدردی نہ کرنا، خدا کو پُر خوف دل کے ساتھ یا د نہ کرنا۔ عیاشی اور دنیا کی لذّات میں بکلّی محو ہو جانا اور منعم حقیقی کو فراموش کر دینا۔ دعا اور عاجزی سے کچھ غرض اور واسطہ نہ رکھنا۔ فروختنی چیزوں میں کھوٹ ملانا یا کم وزن کرنا یا نرخ بازار سے کم بیچنا، ماں باپ کی خدمت نہ کرنا۔ بیویوں سے نیک معاشرت نہ رکھنا۔ خاوند کی پورے طور پر اطاعت نہ کرنا۔ نامحرم مردوں یا عورتوں کو نظر بد سے دیکھنا۔ یتیموں، ضعیفوں، کمزوروں، درماندوں کی کچھ پرواہ نہ کرنا۔ ہمسایہ کے حقوق کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھنا اور اس کو دکھ دینا ۔ اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لئے دوسرے کی توہین کرنا۔ کسی کو دلآزار لفظوں کے ساتھ ٹھٹھا کرنا یا توہین کے طور پر کوئی بدنی نقص اس کا بیان کرنایا کوئی بُرا لقب اس کا رکھنا یا کوئی بیجا تہمت اس پر لگانا یا خدا پر افترا کرنا اور نعوذ باللہ کوئی جھوٹا دعویٰ نبوت یا رسالت یا منجانب اللہ ہونے کا کر دینا یا خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہو جانا یا ایک عادل بادشاہ سے بغاوت کرنا اور شرارت سے ملک میں فساد برپا کرنا تو یہ تمام گناہ اس علم کے بعد کہ ہر یک ارتکاب سے سزا کا ہونا ایک ضروری امر ہے خود بخود ترک ہو جاتے ہیں۔

شائد پھر کوئی دھوکہ کھا کر یہ سوال پیش کر دے کہ باوجود اس کے کہ جانتے بھی ہیں کہ خدا موجود ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ گناہوں کی سزا ہو گی۔ پھر بھی ہم سے گناہ ہوتا ہے اس لئے ہم کسی اور ذریعہ کے محتاج ہیں تو ہم اس کا وہی جواب دیں گے جو پہلے دے چکے ہیں کہ ہرگز ممکن نہیں اور کسی طرح ممکن نہیں کہ تم اس بات کی پوری بصیرت حاصل کر کے کہ گناہ کرنے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 644

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 644

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/644/mode/1up


کے ساتھ ہی ایک بجلی کی طرح تم پر سزا کی آگ برسے گی پھر بھی تم گناہ پر دلیر ہو سکو گے۔ یہ ایسی فلاسفی ہے جو کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتی۔ سوچو اور خوب سوچو کہ جہاں جہاں سزا پانے کا پورا یقین تمہیں حاصل ہے وہاں تم ہرگز اس یقین کے برخلاف کوئی حرکت نہیں کر سکتے۔ بھلا بتلاؤ کیا تم آگ میں اپنا ہاتھ ڈال سکتے ہو۔ کیا تم پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اپنے تئیں گرا سکتے ہو کیا تم کنوئیں میں گر سکتے ہو کیا تم چلتی ہوئی ریل کے آگے لیٹ سکتے ہو کیا تم شیر کے مُنہ میں اپنا ہاتھ دے سکتے ہو۔ کیا تم دیوانہ کتّے کے آگے اپنا پیر کر سکتے ہو کیا تم ایسی جگہ ٹھہر سکتے ہو جہاں بڑ ؔ ی خوفناک صورت سے بجلی گر رہی ہے۔ کیا تم ایسے گھر سے جلد باہر نہیں نکلتے جہاں شہتیر ٹوٹنے لگا ہے یا زلزلہ سے زمین نیچے کو دھسنے لگی ہے۔ بھلا تم میں سے کون ہے جو ایک زہریلہ سانپ کو اپنے پلنگ پر دیکھے اور جلد کود کر نیچے نہ آجائے۔ بھلا ایک ایسے شخص کا نام تو لو کہ جب اس کے کوٹھہ کو جس کے اندر وہ سوتا تھا آگ لگ جائے تو وہ سب کچھ چھوڑ کر باہر کو نہ بھاگے تو اب بتلاؤ کہ ایسا تم کیوں کرتے ہو اور کیوں ان تمام موذی چیزوں سے علیحدہ ہو جاتے ہو مگر وہ گناہ کی باتیں جو ابھی میں نے لکھی ہیں ان سے تم علیحدہ نہیں ہوتے اس کا کیا سبب ہے۔ پس یاد رکھو کہ وہ جواب جو ایک عقلمند پوری سوچ اور عقل کے بعد دے سکتا ہے وہ یہی ہے کہ ان دونوں صورتوں میں علم کا فرق ہے یعنی خدا کے گناہوں میں اکثر انسانوں کا علم ناقص ہے اور وہ گناہوں کو بُرا تو جانتے ہیں مگر شیر اور سانپ کی طرح نہیں سمجھتے اور پوشیدہ طور پر ان کے دلوں میںیہ خیالات ہیں کہ یہ سزائیں یقینی نہیں ہیں یہاں تک کہ خدا کے وجود میں بھی ان کو شک ہے کہ وہ ہے یا نہیں اور اگر ہے تو پھر کیا خبر کہ روح کو بعد مرنے کے بقا ہے یا نہیں اور اگر بقا بھی ہے تو پھر کیا معلوم کہ ان جرائم کی کچھ سزا بھی ہے یا نہیں بلاشبہ بہتوں کے دلوں کے اندر یہی خیال چھپا ہوا موجود ہے جس پر انہیں اطلاع نہیں



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 645

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 645

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/645/mode/1up


لیکن وہ خوف کے تمام مقامات جن سے وہ پرہیز کرتے ہیں جن کی چند نظیریں میں لکھ چکا ہوں ان کی نسبت سب کو یقین ہے کہ ان چیزوں کے نزدیک جا کر ہم ہلاک ہو جائیں گے اس لئے ان کے نزدیک نہیں جاتے بلکہ ایسی مہلک چیزیں اگر اتفاقاً سامنے بھی آ جائیں تو چیخیں مار کر ان سے دور بھاگتے ہیں۔ سو اصل حقیقت یہی ہے کہ ان چیزوں کے دیکھنے کے وقت انسان کو علم یقینی ہے کہ ان کا استعمال موجب ہلاکت ہے۔ مگر مذہبی احکام میں علم یقینی نہیں ہے بلکہ محض ظن ہے اور اُس جگہ رویت ہے اور اِس جگہ محض کہانی ہے۔ سو مجرد کہانیوں سے گناہ ہرگز دور نہیں ہو سکتے۔ میں اس لئے تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ایک مسیح نہیں ہزار مسیح بھی مصلوب ہو جائیں تو وہ تمہیں حقیقی نجات ہرگز نہیں دے سکتے۔ کیونکہ گناہ سے یا

کامل خوف چھڑاتا ہے یا کامل محبت اور مسیح کا صلیب پر مرنا اول خود جھوٹ اور پھر اس کو گناہ کا جوش بند کرنے سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ سوچ لو کہ یہ دعویٰ تاریکی میں پڑا ہوا ہے جس پر نہ تجربہ شہادت دے سکتا ہے اور نہ مسیح کی خودکشی کی حرکت کو دوسروں کے گناہ بخشے جانے سے کوئی تعلق پایا جاتا ہے۔ حقیقی نجات کی فلاسفی یہ ہے کہ اسی دنیا میں انسان گناہ کے دوزخ سے نجات پا جائے مگر تم سوچ لو ؔ کہ کیا تم ایسی کہانیوں سے گناہ کے دوزخ سے نجات پا گئے یا کبھی کسی نے ان بیہودہ قصوں سے جن میں کچھ بھی سچائی نہیں اور جن کو حقیقی نجات کے ساتھ کوئی بھی رشتہ نہیں نجات پائی ہے۔ مشرق و مغرب میں تلاش کرو۔ کبھی تمہیں ایسے لوگ نہیں ملیں گے جو ان قصوں سے اس حقیقی پاکیزگی تک پہنچ گئے ہوں جس سے خدا نظر آجاتا ہے اور جس سے نہ صرف گناہ سے بیزاری ہوتی ہے بلکہ بہشت کی صورت پر سچائی کی لذّتیں شروع ہو جاتی ہیں اور انسان کی روح پانی کی طرح بہ کر خدا کے آستانہ پر گر جاتی ہے اور آسمان



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 646

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 646

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/646/mode/1up


سے ایک روشنی اترتی اور تمام نفسانی ظلمت کو دور کر دیتی ہے۔ اسی طرح جبکہ تم روز روشن میں چاروں طرف کھڑکیاں کھول دو تو یہ طبعی قانون تمہیں نظر آجائے گا کہ فی الفور سورج کی روشنی تمہارے اندر آجائے گی لیکن اگر تم اپنی کھڑکیاں بند رکھو گے تو محض کسی قصہ یا کہانی سے وہ روشنی تمہارے اندر نہیں آسکتی۔ تمہیں روشنی لینے کے لئے یہ ضرور کرنا پڑے گا کہ اپنے مقام سے اٹھو اور کھڑکیاں کھول دو تب خود بخود روشنی تمہارے اندر آجائے گی اور تمہارے گھر کو روشن کر دے گی۔ کیا کوئی صرف پانی کے خیال سے اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔ نہیں بلکہ اس کو چاہیے کہ اُفتاں و خیزاں پانی کے چشمہ پر پہنچے اور اس زلال پر اپنی لبیں رکھ دے تب اُس آب شیریں سے سیراب ہو جائے گا۔

سو وہ پانی جس سے تم سیراب ہو جاؤ گے اور گناہ کی سوزش اور جلن جاتی رہے گی وہ یقین ہے۔ آسمان کے نیچے گناہ سے پاک ہونے کے لئے بجز اس کے کوئی بھی حیلہ نہیں۔ کوئی صلیب نہیں جو تمہیں گناہ سے چھڑا سکے۔ کوئی خون نہیں جو تمہیں نفسانی جذبات سے روک سکے ان باتوں کو حقیقی نجات سے کوئی رشتہ اور تعلق نہیں۔ حقیقتوں کو سمجھو۔ سچائیوں پر غور کرو اور جس طرح دنیا کی چیزوں کو آزماتے ہو اس کو بھی آزماؤ۔ تب تمہیں جلد سمجھ آجائے گی کہ بغیر سچے یقین کے کوئی روشنی نہیں جو تمہیں نفسانی ظلمت سے چھڑا سکے اور بغیر کامل بصیرت کے مصفّا پانی کے تمہاری اندر ونی غلاظتوں کو کوئی بھی دھو نہیں سکتا۔اور بغیر رویت حق کی زلال کے تمہاری جلن اور سوزش کبھی دور نہیں ہو سکتی۔ جھوٹا ہے وہ شخص جو اور اور تدبیریں تمہیں بتلاتا ہے اور جاہل ہے وہ انسان جو اور قسم کا علاج کرنا چاہتا ہے۔ وہ لوگ تمہیں روشنی نہیں دے سکتے بلکہ اور بھی ظلمت کے گڑھے میں ڈالتے ہیں اور تمہیں آب شیریں نہیں دیتے بلکہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 647

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 647

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/647/mode/1up


وہ اور بھی جلن اور سوزش زیادہ کرتے ہیں۔ کوئی خون تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتا مگر وہ خون جو یقین کی غذا سے خود تمہارے اندر پیدا ہو۔ اور کوئی صلیب تمہیں چھڑا نہیں سکتی مگر راہِ راست کی صلیب یعنی سچائی پر صبر کرنا۔ سو تم آنکھیں کھولو اور دیکھو کہ کیا یہ سچ نہیں کہ تم روشنی سے ہی دیکھ سکتے ہو نہ کسی اور چیز سے اور صرف سیدؔ ھی راہ سے منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہو نہ کسی ا ور راہ سے۔ دنیا کی چیزیں تم سے نزدیک ہیں اور دین کی چیزیں دور۔ پس جو نزدیک ہے انہیں پر غور کرو اور ان کا قانون سمجھ لو اور پھر دور کو اس پر قیاس کر لو۔ کیونکہ وہی ایک ہے جس نے یہ دونوں قانون بنائے ہیں۔ تم میں سے کون ہے جو بغیر آنکھوں کے دیکھ سکتا ہے یا بغیر کانوں کے سن سکتا ہے یا بغیر زبان کے بول سکتا ہے پھر تم کیوں اسی قانون سے روحانی امور میں فائدہ نہیں اٹھاتے۔ تم آنکھوں کے ہوتے ہوئے کسی ایسے مقام پر ٹھہر سکتے ہو جو اتھاہ گڑھے کے قریب ہے یا کانوں کے ہوتے ہوئے تم ایسی آواز سے متنبہ نہیں ہو سکتے جو چوروں کی آمد کی تمہیں خبر دیتی ہے یا زبان کے ہوتے ہوئے جو تمہیں کڑوی اور شیریں میں فرق دکھلاتی ہے پھر بھی کڑوی اور زہریلی چیزیں کھا سکتے ہو جو تمہاری زبان کو کاٹیں اور تمہارے معدہ میں فساد پیدا کریں اور قے لاویں اور بدن کو سوجاویں اور انجام کار ہلاک کر دیں۔ سو تم انہیں اعضا سے سمجھ لو کہ تم روحانی طور پر بھی روحانی زندگی کے لئے اس بات کے محتاج ہو کہ تمہیں ایک روشنی ملے جو بُرے راہوں کی برائی تمہیں دکھائی دے اور تمہیں ایک آواز ملے جو چوروں اور ڈاکوؤں کے گذرگاہ سے تمہیں علیحدہ کرے اور تمہیں ایک ذائقہ ملے جس سے تم کڑوی اور شیریں اور زہر اور تریاق میں فرق کر سکوسو جن باتوں کو ہلاکت سے بچنے کے لئے تمہیں طلب کرنا چاہیے وہ یہی ہیں۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ تم بغیر روشنی حاصل کرنے کے محض اندھے رہ کر پھر کسی کے خون سے نجات پا جاؤ۔ نجات کوئی ایسی شے نہیں ہے جو اس



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 648

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 648

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/648/mode/1up


دنیا کے بعد ملے گی، سچی اور حقیقی نجات اسی دنیا میں ملتی ہے۔ وہ ایک روشنی ہے جو دلوں پر اترتی ہے اور دکھا دیتی ہے کہ کون سے ہلاکت کے گڑھے ہیں۔ حق اور حکمت کی راہ پر چلو کہ اس سے خدا کو پاؤگے اور اپنے دلوں میں گرمی پیدا کرو تا سچائی کی طرف حرکت کر سکو۔ بد نصیب ہے وہ دل جو ٹھنڈا پڑا ہے اور بدبخت ہے وہ طبیعت جو افسردہ ہے اور مردہ ہے وہ کانشنس جس میں چمک نہیں۔ پس تم اس ڈول سے کم نہ رہو جو کنوئیں میں خالی گر تا اور بھر کر نکلتا ہے اور اس چھاننی کی صفت مت اختیارکرو جس میں کچھ بھی پانی نہیں ٹھہر سکتا اور ایک راہ سے آتا اور دوسری راہ سے چلا جاتا ہے۔ کوشش کرو کہ تندرست ہو جاؤ اور وہ دنیا طلبی کے تپ کی زہریلی گرمی دور ہو جائے جس کی وجہ سے نہ آنکھوں میں روشنی ہے نہ کان اچھی طرح سن سکتے ہیں نہ زبان کا مزہ درست ہے۔ اور نہ ہاتھوں میں زورؔ اور نہ پیروں میں طاقت ہے۔ ایک تعلق کو قطع کرو تا دوسرا تعلق پیدا ہو۔ ایک طرف سے دل کو رو کو تا دوسری طرف دل کو راہ مل جائے۔ زمین کا نجس کیڑا پھینک دو تا آسمان کا چمکیلا ہیرا تمہیں عطا ہو۔ اور اپنے مبدء کی طرف رجوع کرو وہی مبدء جبکہ آدم اس خدائی روح سے زندہ کیا گیا تھا تا تمہیں تمام چیزوں پر بادشاہت ملے جیسا کہ تمہارے باپ کو ملی۔

دن گزر گیا اب عصر کا وقت ہے چار بجنے کے قریب رات ہوا چاہتی ہے۔ سورج غروب ہونے کو ہے۔ اب اگر دیکھنا ہے دیکھو لو۔ پھر کیا دیکھو گے۔ قبل اس کے کہ کوچ کرو۔ اپنے کھانے کے لئے عمدہ چیزیں آگے بھیجو نہ پتھر اور اینٹ۔ اور پہننے کے لئے لباس روا نہ کرو نہ کانٹے اور خس و خاشاک۔ وہ خدا جو بچے کے پیدا ہونے سے پہلے پستان میں دودھ ڈالتا ہے اس نے تمہارے لئے تمہارے ہی زمانہ میں تمہارے ہی ملکوں میں۔۔۔ ایک بھیجا ہے تا ماں کی طرح اپنی چھاتیوں سے تمہیں دودھ پلاوے۔ وہی تمہیں یقین کا دودھ پلائے گا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 649

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 649

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/649/mode/1up


جو سورج سے زیادہ سفید اور تمام شرابوں سے زیادہ سرور بخشتا ہے۔ پس اگر تم جیتے پیدا ہوئے ہو مردہ نہیں ہو تو آؤ اس پستان کی طرف دوڑو۔ کہ تم اس سے تازہ دودھ پیو گے۔ اور وہ دودھ اپنے برتنوں سے پھینک دو کہ جو تازہ نہیں اور گندی ہواؤں نے اس کو متعفن کر دیا ہے اور اس میں کیڑے چل رہے ہیں جن کو تم دیکھ نہیں سکتے۔ وہ تمہیں روشن نہیں کر سکتا بلکہ اندر داخل ہوتے ہی طبیعت کو بگاڑ دے گا کیونکہ اب وہ دودھ نہیں ہے بلکہ ایک زہر ہے۔ ہر ایک سفیدی کو بنظر تعریف نہ دیکھو کیونکہ بعض سپید سے بعض سیاہ ہی اچھے ہیں۔ جیسا کہ بال سیاہ جوانی کی طاقت پر دلالت کرتا ہے اور بال سفید ضعف اور کمزوری اور پیرانہ سالی پر اسی طرح ریاکاری کی سپیدی اور نیکی کی نمائش کسی کام کی نہیں ہے اس سے گنہ گار سادہ وضع اچھا ہے کہ جو فریب سے اپنے گناہ کو نہیں چھپاتا۔ سو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ خدا کی مغفرت سے زیادہ قریب ہے۔ ان چیزوں پر بھروسہ مت کرو جو یقینی نہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقی روشنی نہیں جن کے نیچے کوئی پاک فلسفہ نہیں کہ وہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں۔ تم اپنے دلوں کی خواہشوں کا اندازہ کرو کہ وہ کیا چیز چاہتے ہیں اور کس طور سے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس طرح ہم بدی سے الگ ہو سکتے ہیں۔

کس علاج پر ان کا کانشنس بولتا ہے کہ یہ ہمارے لئے کافی ہو گا۔ کیا کوئی دل اس بات کو قبول کرتا ؔ ہے کہ مسیح کا خون اس کو گناہ کرنے سے خوف دلائے بلکہ تجربہ بتلا رہا ہے کہ اور بھی دلیر کرتا ہے۔ کیونکہ مسیح کے خون پر بھروسہ کر نے والا جانتا ہے کہ اس کے گناہ کا فدیہ ادا ہو چکا ہے لیکن گناہ کے زہر کا علم جس کو دیا جائے گا وہ کسی طرح گناہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اس میں اپنی ہلاکت دیکھتا ہے۔ سو خدا کی طرف سے ایک بھیجا گیا ہے جو ایسے علم تک تمہیں پہنچانا چاہتا ہے جس سے تمہارے دل خدا کو دیکھ لیں اور بدی کے زہر کو دیکھ لیں تب خود بخود تم گناہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 650

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 650

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/650/mode/1up


سے بھاگو گے جیسا کہ ایک انسان شیر سے بھاگتا ہے پس اس رسالہ کا ضروری فرض یہی ہو گا کہ اس کی تعلیم اور اس کے نشانوں کو دنیا میں پھیلاوے تا جو لوگ صلیب اور مسیح کے خون میں نجات ڈھونڈتے ہیں وہ حقیقی نجات کے چشمہ کو دیکھ لیں۔ حقیقی نجات ان پانیوں میں نہیں ہے جن میں ایک حصہ پانی اور بیس حصہ کیچڑ اور غلاظت۔ دلوں کو دھونے والا پانی آسمان سے اپنے وقت پر اترتا ہے۔ جو نہر اس سے لبالب چلتی ہے وہ کیچڑ اور میلے پانی سے بہت دور ہوتی ہے اور لوگ صاف اور عمدہ پانی اس کا استعمال کرتے ہیں لیکن وہ نہر جو خشک ہے اور کچھ تھوڑا پانی اس میں کھڑا ہے اور وہ بھی متعفن اس میں وہ لطافت اور صفائی نہیں رہ سکتی اور بہت سا کیچڑ اس سے مل جاتا ہے۔ اور کئی حیوان اس میں بول و براز کرتے ہیں اسی طرح جس دل کو خدا کا علم دیا گیا ہے اور یقین بخشا گیا ہے وہ اس لبالب نہر کی مانند ہے جو تمام کھیتوں کو سیراب کرتی جاتی ہے اور اس کا صاف اور ٹھنڈا پانی دلوں کو تسکین بخشتا اور کلیجوں کی جلن کو دور کرتا ہے اور وہ نہ صرف آپ پاک ہے بلکہ پاک بھی کرتا ہے کیونکہ وہ حکمت اور دانش بخشتا ہے کہ جو دلوں کا زنگ دور کرتی ہے گناہ سے نفرت دلاتی ہے مگر وہ جو تھوڑے پانی کی مانند ہے جس میں کیچڑ ملا ہوا ہے وہ مخلوق کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور نہ اپنے تئیں صاف کر سکتا ہے۔ سو اب وقت ہے اٹھو اور یقین کا پانی تلاش کرو کہ وہ تمہیں ملے گا اور کثرت یقین سے ایک دریا کی طرح بہہ نکلو۔ ہر ایک شک و شبہ کی نجاست سے پاک ہو کر گناہ سے دور ہو جاؤ۔ یہی پانی ہے جو گناہ کے نقوش کو دھوئے گا اور تمہارے لوح سینہ کو صاف کر کے ربّانی نقوش کے لئے مستعد کردے گا۔ تم نفسانی حروف کو اس لوحِ خاطر سے کسی طرح مٹا نہیں سکتے جب تک کہ یقین کے صاف پانی سے اس کو دھو نہ ڈالو۔ قصد کرو تا تمہیں توفیق دی جائے اور ڈھونڈو تا تمہارے لئے میسر کیا جائے اور دلوں کو نرم کرو تا ان باتوں کو سمجھ سکو۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 651

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 651

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/651/mode/1up


کیونکہ ممکن نہیں کہ سخت دل حقیقتوں کو سمجھ سکے۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم بغیر اس راہ کے کہ خدا کی عظمت تمہارے دل میں قائم ہو اور اس زندہ خدا کا جلال تم پر کھلے اور اس کا اقتدار تم پر ظاہر ہو اور دل یقین کی روشنی سے بھر جائے کسی اور طریق سے تم گناہ سے سچی نفرت کر سکو۔ ہرگز نہیں ایک ہی راہ ہے اور ایک ہی خدا اور ایک ہی قانون۔

(ماخوذ از ریویو آف ریلیجنز اردو جلد اول نمبر۱صفحہ ۹ تا ۳۰ مطبوعہ جنوری ۱۹۰۲ء)



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 652

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے: صفحہ 652

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/652/mode/1up
 
Top