احراریات
احراری کیا ہیں؟
۱۔’’ پنجاب میں چند پنجابیوں نے ایک انجم قائم کر رکھی ہے جسے مجلس احرار کہتے ہیں۔ یہ مجلس غالباً دنیا بھر میں سب سے پہلی انجمن ہے جس کا کوئی اصول و عقیدہ نہیں۔ اگر پہلے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی تو اب سمجھ لیجئے کہ اگر کوئی احراری شیخ حسام الدین بن کر اسٹیج پر آجائے اور مجلس احرار کی دف بجا بجا کر کانگرس کے گیت گانے لگے تو وہ احرار کا صدر ہوگا۔ اگر کوئی چودھری افضل حق کے نام سے اخباری زبان میں چلا ئے کہ کانگریسی لیڈر سرمایہ دار ہیں اور سرمایہ داری کی تخریب مجلس احرار کے مقصد میں شامل ہے تو وہ متفکر احرار کہلائے گا گویا کانگرس کا ہوا خواہ بھی قائدِ احرار ہے اور کانگرس پر لعنتیں بھیجنے والا بھی زعیمِ احرار ہے۔ اب بتائیے کہ احرار بذات خود کیا ہیں۔‘‘
(روزنامہ ’’زمیندار‘‘ ۳ جولائی ۱۹۴۱ء)
۲۔’’ حر‘‘ بمعنی آزاد عربی زبان کا لفظ ہے ا س کی جمع احرار ہے۔ پنجاب میں ایک جماعت قائم ہوئی تھی ، اس کا صدر مقام لاہور رہا ہے۔ شروع شروع میں یہ نقال جماعت تھی تحریک کشمیر ختم ہوئی تو اس کی عملی سر گرمیاں بھی ختم ہو گئیں۔ مگر دفتر باقاعدہ رہا اور احکام برابر جاری ہوتے رہے لیکن نصب العین کوئی نہ تھا۔ اور نہ کوئی لائحہ عمل ، اس لئے جملہ احکام ہوائی تو پیں ثابت ہوئیں۔ نصب العین پوچھو تو کوئی نہیں۔ صرف لکیر کے فقیر ہیں اور لفظ ’’احرار‘‘ کی مالا جپ رہے ہیں کوئی پوچھے کہ کانگرسی ہو تو کہتے ہیں کانگرسی کیا ہیں؟ کانگرسیوں کے کرتا دھر تا مہاتما گاندھی یہی غنیمت سمجھتے ہیں کہ زیر سایہ بر طانیہ کم از کم سول اتھارٹی ہی مل جائے۔ مگر ہم مکمل آزادی چاہتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ لیگی ہو توکہتے ہیں نہیں۔ ہم تو سارے ہندوستان پر حکومت الٰہیہ چاہتے ہیں۔ اگر کوئی سر پھرا کہہ دے کہ کچھ کر کے بھی دکھایئے تو فرماتے ہیں کہ ہندو قوم ساری کانگرس کے ساتھ ہے اور مسلمان قوم تمام کی تمام لیگ سے جاملی ہے ہم کریں تو کیا کریں؟‘‘ (روزنامہ زمیندار ۲۱ فروری ۱۹۴۹ء)
۳۔’’ آٹھ اور آٹھ سولہ دن ہوئے کہ پنجاب میں ایک نئی پارٹی نے جنم لیا ہے قارئین کرام اس چوں چوں کے مربےّ سے بخوبی واقف ہوں گے کہ اس میں کون کون الّو باٹے اکٹھے ہوئے ہیں۔ …… اس کانام ہے ’’مجلس احرار‘‘۔ یہ جماعت معرضِ ظہور میں کیوں آئی اس کا جواب دینا ضروری ہے اس کے شرکاء وہ لوگ ہیں جو کبھی ملی کانگرس کے دامن سے وابستہ تھے اور ان کے باپو گاندھی جی مہاراج کی کرپا سے انہیں بھوجن اورپوشن مل جایا کرتا تھا لیکن جہاں کانگرس کا کام تمام ہوا۔ کانگرس سے انہیں طلاق مل گئی اور ان کا روز ینہ بند ہو گیا۔ کانگرس سے الگ ہو کر ان کے پاس سوائے ازیں کوئی چارہ کار نہ تھا کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کوئی نیا پھندا پھیلائیں۔ لہٰذا انہوں نے ’’مجلس احرا ر اسلام‘‘ کی طرح ڈالی…………عوام حیران ہیں کہ آخر ان احراریوں کو کیا ہو گیا جو یکدم مہاراجہ (کشمیر)کے اشارے پر ناچنے لگ گئے ! کسی نے خوب کہا ہے کہ
اے زرتو خدا نیست و لیکن بخدا ستّار العیوب و قاضی الحاجاتی
ان کی بلا سے قوم جہنم میں جائے یا کسی گھاٹی میں گرے انہیں اپنے حلوے مانڈے سے کام ہے۔‘‘ (سیاستؔ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳)
احراری اور ان کا امیر شریعت:۔
۴۔’’احرار تبلیغ کے وسائل اختیار نہیں کرتے جو اسوہ جناب سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی رو سے اور قرآن الحکیم کی تعلیم کے مطابق ہمیں اختیار کرنا چاہیے بلکہ قادیانوں کو اور نہ صرف ان کو بلکہ ہر اس شخص کو جو دیا نتداری کے ساتھ ان سے اختلاف رکھتا ہے غلیظ گالیاں دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے بدترین مجرم وہ شخص ہے جس کو یہ لوگ ’’امیر شریعت‘‘ کہتے ہیں۔ سید عطا ء اﷲ شاہ احراری (ان کو بخاری کہنا ساداتِ بخارا کی توہین ہے)عامیانہ مذاق کا آدمی ہے وہ بازاری گالیاں دینے میں مشاق ہے اسی لئے عام آدمی ان کی تقریر کو گھنٹوں اسی طرح ذوق شوق سے سنتے ہیں۔ جس طرح وہ میراثیوں اور ڈوموں کی گندی کہانیوں کو سنتے رہے ہیں……عطاء اﷲ احراری کا وجود علماء کی جماعت کے لئے رسوا کرنے والا ہے۔ (سیاست ۱۸ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۳)
۵۔ مولوی ظفر علی آف زمیندار بزبان امیر شریعت احرار کہتے ہیں:۔
اک طفل پری رو کی شریعت فگنی نے کل رات نکالا میرے تقویٰ کا دوالا
میں دین کا پتلا ہوں وہ دنیا کی ہے مورت اس شوخ کے نخرے میں مرا گرم مسالا
(لاہور۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۳۶ء و چمنستان یعنی مجوعہ کلام مولوی ظفر علی خاں صفحہ ۹۶۔ مطبوعہ پبلشر ز یونا ئٹیڈ لا ہو ر ۱۹۴۴ء بار اوّل)
مجلس احرار انگریز کا خود کاشتہ پودا:۔
۶۔ مولوی ظفر علی خاں لکھتے ہیں:۔
’’آج مسجد شہید گنج کے مسئلہ میں احرار کی غلط روش پر دوسرے مسلمانوں کی طرف سے اعتراض ہونے پر انگریزی حکومت احرار کی سپر بن رہی ہے اور حکومت کے اعلیٰ افسر حکم دیتے ہیں کہ احرار کے جلسوں میں کوئی گڑ بڑ پیدا نہ کی جائے تو کیا اس بدیہی الانتاج منطقی شکل سے یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ مجلس احرا ر حکومت کا خود کا شتہ پودا ہے؟ جس کی آبیاری کرنا اور جسے صرصرِ حوادث سے بچانا حکومت اپنے ذمۂ ہمت پر فرض سمجھتی ہے۔‘‘ (روزنامہ زمیندار۔ ۳۱ اگست ۱۹۳۵ء)
۷۔ مولوی ظفر علی صاحب اپنے احباب کی ایک شاعرانہ مجلس کا تذکرہ لکھتے ہیں:۔
’’ایک دوسرے صاحب نے فرمایا کہ احرار کے متعلق ایک شعر ضرور ہو نا چاہیے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ احرارکی شریعت کے امیر مولا نا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے امروہہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے وہ سؤر ہیں اور سؤرکھانے والے ہیں۔‘‘
اَوْ کَمَا قَالَ۔ پھر میرٹھ میں مولو ی حبیب الرحمن لدھیانوی صدر مجلس احرار اس قدر جوش میں آئے کہ دانت پیستے جاتے تھے۔ غصے میں آکر ہونٹ چباتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ:۔
’’دس ہزار جیناؔاور شوکتؔ اور ظفرؔ جواہر لعل کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں۔‘‘
اس پر میں نے یاروں کی فرمائش یوں پوری کی
کیا کہوں آپ سے کیا ہیں احرار کو ئی لچا ہے اور کوئی لُقّہ
(’’چمنستان‘‘ مجموعہ منظومات ظفر علی صاحب صفحہ۱۶۵مطبوعہ پبلشرز یونائیٹڈ لاہور ۱۹۴۴ء بار اوّل)
۸۔ گالیاں دے جھوٹ بول احرار کی ٹولی میں مل
نکتہ یوں ہی ہو سکے گا حل سیاسیا ت کا
(ایضاً صفحہ ۹۲)
۹۔ آج اسلام اگر ہند میں ہے خوار وذلیل
تو یہ سب ذلت اسی طبقۂ غدار سے ہے
(ایضاً صفحہ ۴)