اختلافاتِ بائیبل
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلۡقُرۡءَانَۚ وَلَوۡ كَانَ مِنۡ عِندِ غَيۡرِ ٱللَّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ ٱخۡتِلَـٰفً۬ا ڪَثِيرً۬ا (٨٢) (النساء:۸۳)
ترجمہ۔ کیا وہ قرآن پر غوروفکر نہیں کرتے اور اگر وہ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو وہ اس میں بہت سا اختلاف پاتے ۔
نوٹ:۔ تناقضات و اختلافاتِ بائیبل کا مضمون دراصل تحریفِ بائیبل کے مضمون کا ضروری جزو ہے۔ کیونکہ الہامی کلام میں تناقضات کا وجود اس بات کو قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ ان دو مختلف اور متناقض بیانات میں سے ایک ضرور ہی انسانی تحریف یا بعد کا الحاق ہے۔دونوں کلام خدا کے نہیں ہوسکتے۔ پس پادری صاحبان کے لیے دو راستوں میں سے ایک راستہ کھلا ہے۔یا تو ہمارے پیش کردہ حوالوں میں تطابق ثابت کریں یا اس بات کا اقرار کریں کہ موجودہ بائیبل محرف و مبدل ہے۔
۱ ۔ ۱۔سلاطین۱۵/۳۲ میں لکھا ہے کہ آسا اور شاہ اسرائیل بعشا کے درمیان ان کی تمام عمر لڑائی رہی۔
اور ۲۔تواریخ۱۵/۱۹ میں لکھا ہے کہ آسا کی سلطنت کے پنتیسویں برس پھر لڑائی نہ رہی۔
۲۔ ۱۔ سموئیل ۲۱/۱ میں لکھا ہے کہ داؤد اکیلا اخمیلک کاہن کے پاس آیا م
گر مرقس۲۵،۲/۲۶ میں لکھا ہے کہ داؤد اپنے ساتھیوں سمیت ابیا تار کاہن کے گھر گیا۔
۳۔ پیدائش ۲۴تا۴۶/۲۷ میں لکھا ہے کہ یعقوب اپنی صُلب سے پیداشدہ اولاد اور اولاد کی بیویوں سمیت کل چھیاسٹھ مردوں کے ساتھ آیا
مگر خروج ۱/۵ میں لکھا ہے کہ صرف یعقوب اپنے صُلبی بیٹوں کے ساتھ جن کی تعداد ۷۰ تھی آیا۔
۴۔ پیدائش۲۲/۱۴ میں لکھا ہے کہ ابراہیم نے خدا کو دیکھا اور اس جگہ کا نام یہوواہ یری رکھا۔
مگر خروج ۲،۶/۳ میں لکھا ہے۔ خدا موسیٰ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں نے ابراہیم و اسحاق و یعقوب پر اپنا یہوواہ نام ظاہر نہیں کیا۔
۵۔ یرمیاہ ۴،۳۴/۵ میں ہے کہ اے صدقیا! تو تلوار سے نہیں مرے گابلکہ آرام سے اور تجھ پر خوشبوئیاں سلگائی جائیں گی
مگر یرمیاہ ۱۰،۵۲/۱۱ میں لکھا ہے کہ صدقیا کے سامنے اس کے بیٹوں کو مارا گیا پھر اس کی آنکھیں نکالی گئیں اور پیتل کی زنجیروں سے جکڑا گیااور مرنے کے دن تک قید خانہ میں رہا۔
۶۔ ۲سلاطین ۲۴/۶ میں لکھا ہے۔ یہو یقیم بادشاہ باپ دادوں میں شامل ہو کر سو رہا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا بادشاہ ہوا
مگر یرمیاہ ۳۶/۳۰ میں لکھا ہے کہ وہ بمع خاندان کے تباہ کیا جائے گا۔اس کی نسل سے کوئی تخت نشین نہ ہوگا اور اس کی لاش پھینکی جائے گی تاکہ گرمی اور سردی میں باہر رہے۔
۷۔ مرقس باب ۴۶،۱۰/۴۷ میں لکھا ہے کہ یریحو سے نکلتے وقت راستے میں ایک اندھا نکلا
مگر متی ۲۹،۲۰/۳۰ میں لکھا ہے کہ دو اندھے ملے۔
۸۔ مرقس ۱،۵/۲ کہ یسوع کو ایک بدروح والا ملا مگر متی ۸/۲۸ میں دو کا ذکر ہے۔
۹۔ مرقس ۱۶/۵ میں مسیح کی قبر میں ایک سفید پوش آدمی مگر لوقا ۲۴/۴ میں دو آدمیوں کا ذکر ہے۔
۱۰۔ مرقس ۱۵/۳۲ و متی ۲۷/۴۴ دونوں میں ہے کہ مسیح کے ساتھیوں یعنی دونوں چوروں نے مسیح کو ملامت کی اور طعنہ کیا
مگر لوقا ۳۹،۲۳/۴۰ میں لکھا ہے کہ ایک نے طعنہ دیااور دوسرے نے اپنے ساتھی کو اس بات سے باز رکھا۔
۱۱۔ یوحنا۲۰/۱۷۔ میرے بھائیوں کو کہہ دو کہ میں اب خدا اور باپ کے پاس آسمان پر جاتا ہوں
لیکن متی باب ۲۸/۱۰ میں ہے کہ میرے بھائیوں کو کہو کہ گلیل کو جاویں۔وہاں مجھے دیکھیں گے۔
۱۲۔ متی۵،۲۷/۷ کہ مسیح کو پکڑوانے والے یہودا اسکر یوطی نے مسیح کی گرفتاری پر جو روپیہ لیا تھا اس کو ہیکل میں واپس آکر پھینک دیا
مگر اعمال ۱/۱۸ میں لکھا ہے کہ اس نے اس روپیہ سے ایک کھیت مول لیا۔
۱۳۔ متی۱۲/۴۰ میں ہے کہ مسیح نے یونس جیسا معجزہ دکھانے کا اظہار کیا
مگر متی ۱تا۲۸/۷ اور یوحنا ۲۰/۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح اپنی قبر میں صرف ایک ہی دن رہا اور پھر غائب ہوگیا۔
۱۴۔ متی ۳۴/ ۲۶ و یوحنا۱۳/۳۸ ان دونوں حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پطرس کو مرغ کی بانگ سے قبل ہی مسیح کا انکار کرنا پڑے گا۔
مگر مرقس ۶۷تا۱۴/۷۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرغ کے دو بار بانگ دینے کی شرط ہے نہ کہ مطلق بانگ سے قبل کی اور ایسا ہی ہوا۔
۱۵۔ لوقا۷و۲۳/۱۶ میں مسیح نے اپنے حواریوں کے ساتھ بیٹھ کر عید الفطر کے دن جس میں فسح کرنا ضروری تھا بیٹھ کر کھانا کھایا اور یوحنا ۱۹/۱۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح بے چارا تو عدالت میں رہا۔
۱۶۔ یوحنا۱۲/۲۸ میں مسیح اپنے آپ کو باپ سے چھوٹا کہتا ہے مگر فلپیوں ۲/۶ میں خدا کے برابر ہونے میں غنیمت نہ جانا۔
۱۷۔ یوحنا ۵/۳۱ میں مسیح نے اپنے متعلق اپنی گواہی کو سچا قرار نہیں دیا مگر یوحنا ۸/۱۴ میں اپنی گواہی کو سچا قرار دیا۔
۱۸۔ متی ۵/۳۹ میں لکھا ہے کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنابلکہ اگر کوئی طمانچہ مارے تو دوسری گال آگے کردو ۔
مگر لوقا ۲۲/۳۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اپنے حواریوں کو بٹوے اور جھولی اور کپڑے بیچ کر تلوار خریدنے کا اپنی حفاظت کے لیے حکم دیا۔
۱۹۔ متی ۸/۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر نحوم میں داخل ہوتے ہی ایک صوبیدار نے اپنے لڑکے کے علاج کے لیے بڑی منت سماجت کی ل
یکن لوقا ۲۔۷/۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ صوبیدار پاس آیا ہی نہیں یہودیوں نے سفارش کی تھی۔
۲۰۔ اعمال ۹/۷سے معلوم ہوتا ہے کہ سولس (جو پولوس ہی ہے) پر نور آیا اور ساتھیوں نے آواز سنی۔ مگر کسی نے نہ دیکھا۔
مگر اعمال ۲۲/۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ساتھیوں نے نور دیکھا مگر آواز نہ سنی۔