از روئے قرآن کریم
پہلی دلیل:۔
(المائدۃ:۱۱۸)
مطلب:۔ اﷲ تعالیٰ کے اس سوال کے جواب میں کہ اے عیسیٰ! کیا تو نے نصاریٰ کو تثلیث کی تعلیم دی تھی؟ آپ انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے تعلیم تو کیا دینی تھی میری زندگی میں اور میرے سامنے یہ عقیدہ ظاہر نہیں ہوا۔ میں ان کا نگران تھا جب تک میں ان میں تھا۔ پھر جب تو نے میری توفّیکرلی تو تُو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہر چیز کامحافظ ہے۔
استدلال نمبر۱:۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے دو زمانے بتائے ہیں۔ پہلا اپنی قوم میں حاضری کا زمانہ () اور دوسرا غیر حاضری کا ()اور ان دونوں زمانوں کے درمیان حد فاصل ہے۔ گویا ان کی اپنی قوم سے غیر حاضری سے پہلے ’’وفات‘‘ ہے۔ کیونکہ غیر حاضری کی و جہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اپنی قوم میں حاضر ہیں یا غیر حاضر؟ چونکہ غیر حاضر ہیں لہٰذا ان کی توفّی ہوچکی ہے۔
استدلال نمبر۲:۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ ؑاقرار فرماتے ہیں کہ تثلیث پرستی کا عقیدہ میری زندگی میں نہیں پھیلا بلکہ میری توفّی کے بعد پھیلا ہے اور اس زمانہ میں عیسائیوں کی تثلیث پرستی ایک کھلی حقیقت ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (المائدۃ:۷۴)
(المائدۃ:۱۸) کہ ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ خدا تین میں سے ایک ہے اور ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے۔
پس صاف نتیجہ نکلا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی توفّی ہوچکی ہے یعنی وہ فوت ہوچکے ہیں۔
غیر احمدی:۔ حضرت مرزا صاحب نے چشمہ معرفت صفحہ ۲۵۴ طبع اوّل پر لکھا ہے:۔
’’انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھے کہ بجائے خدا کی پرستش کے ایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی۔‘‘
(محمدیہ پاکٹ بک مؤلفہ مولانا محمد عبداﷲ صاحب معمار مرحوم امرتسری طبع اوّل مارچ ۱۹۵۰، صفحہ۵۷۱ طبع دوم اپریل ۱۹۸۹ء)
جواب:۔اس حوالہ میں انجیل کا ذکر ہے مسیح کی ہجرت کا ذکر نہیں اور انجیل اس وحی کے مجموعہ کا نام ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام پر ان کی وفات تک نازل ہوتی رہی جس طرح قرآن مجید آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے قریب زمانہ تک نازل ہوتا رہا۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ……(النساء: ۱۶۴) یعنی اے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) ہم نے آپ پر اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح اور…………عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء پر۔ پس چشمہ معرف کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات (جو ۱۲۰ برس کی عمر میں ہوئی) کے تیس برس کے قریب گزرنے پر عیسائی بگڑ گئے۔ نہ یہ کہ حضرت عیسیٰ کی زندگی ہی میں مسیح کی پرستش شروع ہوگئی تھی۔
تَوَفِّیْ کے معنے
حضرت امام بخاریؒ نیکی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد نقل کیا ہے:۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ؓ مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ مائدہ زیر آیت فلما توفیتنی المائدۃ:۱۱۸) کہ حضرت ابن عباسؓ کے فیصلہ کے بعد کسی دوسرے شخص کی بات قابل قبول نہیں اس حالت میں کہ جب قرآن مجید و احادیث و لغت و تفاسیر کے مندرجہ ذیل حوالجات بھی ان کی تائیدمیں ہیں۔ (تفسیر ابن عباسؓ کے متعلق نوٹ آگے ملاحظہ فرمائیں صفحہ ۱۸۳)۔
لفظ توفّی باب تفعل کا مصدر ہے۔ سو قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی اس کا کوئی مشتق استعمال ہوا ہے جب اﷲ تعالیٰ یا ملائکہ اس کا فائل ہوں یا صیغہ مجہول ہو اور غائب مفعول اس کا انسان ہو تو سوائے قبض روح کے اور کوئی معنے نہیں اور وہ قبض روح بذریعہ موت ہے۔ سوائے اس مقام کے کہ جہاں لیل یا منام کا قرینہ موجود ہو تو وہاں قبض روح کو نیند ہی قرار دیا گیا ہے۔ بہرحال قبضِ جسم کسی جگہ بھی مراد نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں علاوہ متنازعہ فیہ جگہ کے ۲۳ جگہ لفظ توفّی کا مشتق استعمال ہوا ہے۔
۱،۲۔ (دو مرتبہ البقرۃ : ۲۳۵، ۲۴۱)
۳۔ (آل عمران: ۱۹۴)
۴۔ (النساء: ۱۶)
۵۔ (النساء: ۹۸)
۶۔ (الانعام: ۶۲)
۷۔ (الاعراف:۳۸)
۸۔ (الاعراف:۱۲۷)
۹۔ (الرعد: ۴۱)
۱۰۔ (یونس:۴۷)
۱۱۔ (یوسف:۱۰۲)
۱۲،۱۳۔ (دو مرتبہ النحل: ۲۹،۳۳)
۱۴۔ (النحل:۷۱)
۱۵۔ (الحج: ۶)
۱۶۔ (السجدۃ: ۱۲)
۱۷۔ (الزمر:۴۳)
۱۸۔ (المومن:۶۸)
۱۹۔ (المومن:۷۸)
۲۰۔ (محمد:۲۸)
۲۱۔ (الانعام: ۶۱)
۲۲۔(الانفال: ۵۱)
۲۳۔ (یونس: ۱۰۵)
کتب احادیث سے اس کی مثالیں
بخاری میں ایک باب (بخاری کتاب المناقب باب وفات النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم) بھی ہے۔’’باب توفّی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ پھر آنحضرتؐ نے صاف فرمادیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی توفّی کے وہی معنے ہیں جو میری توفّی کے ہیں۔ فرمایا:۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؓ اِنَّہٗ یُجَاءُ بِرِجَالٍ مِّنْ اُمَّتِیْ فَیُؤْخَذُ بِھِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَاَقُوْلُ یَارَبِّ اُصَیْحَابِیْ فَیُقَالُ اِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ فَاَقُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔ فَیُقَالُ اِنَّ ھٰؤُلآءِ لَمْ یَزَالُوْا مُرْتَدِّیْنَ عَلٰی اَعْقَابِھِمْ مُنْذُ فَارَقْتَھُمْ۔
(بخاری کتاب التفسیر باب و کنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم جلد۳ صفحہ ۹۱ مصری و جلد۲ صفحہ ۱۵۹ کتاب بدء الخلق مصری)
ترجمہ:۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگ دوزخ کی طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا کہ یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ جواب ملے گا تو نہیں جانتا کہ تیرے پیچھے انہوں نے کیا کیا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اﷲ تعالیٰ کے صالح بندے عیسیٰ ؑ نے کہا تھا کہ میں ان کا اسی وقت تک کا نگران تھا جب تک ان میں تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تُو ہی ان کا نگہبان تھا۔
نتیجہ:۔ اس حدیث سے صاف نتیجہ نکلا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی توفی کی صورت وہی ہے جو آنحضرتؐ کی توفی کی ہے۔ ورنہ آپ کا یہ فرمانا فَاَقُوْلُ کَمَا قَالَ درست نہیں رہتا۔
اب دیکھو آنحضرتؐ نے بعینہٖ وہی لفظ تَوَفَّیْتَنِیْ جو مسیح کے لئے استعمال ہوا ہے اپنے لئے استعمال فرمایا ہے۔ پس تعجب ہے کہ آنحضرتؐ کے لیے جب لفظ توفّی آئے تو اس کے معنی ’’موت‘‘ لئے جائیں مگر جب وہی لفظ حضرت مسیح ؑکے متعلق استعمال ہو تو اس کے معنے آسمان پر اٹھانا لئے جائیں۔
ایک لطیفہ:۔ اس کے جواب میں مؤلف محمدیہ پاکٹ بک لکھتا ہے:۔
’’ایک ہی لفظ جب دو مختلف اشخاص پر بولا جائے تو حسب حیثیت و شخصیت اس کے جدا جدا معنے ہوتے ہیں۔ دیکھئے حضرت مسیح اپنے حق میں نفس کا لفظ بولتے ہیں اور خدائے پاک بھی……اب کیا خدا کا نفس اور مسیح کا نفس ایک جیسا ہے‘‘
جواب:۔ گویا آپ کے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثال حضرت مسیح کے بالمقابل ویسی ہی ہے جیسی مسیحؑ کی اﷲ تعالیٰ کے بالمقابل۔ اور گویا آپ کے نزدیک آنحضرتؐ کی حیثیت اور شخصیت مسیحؑ کی حیثیت اور شخصیت سے مختلف نوعیت کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف محمدیہ پاکٹ بک بھی درپردہ الوہیت مسیح کا قائل ہے۔ ورنہ آنحضرتؐ اور مسیحؑ کی حیثیت نبوت اور بشریت کے لحاظ سے نوع ہرگز مختلف نہیں اور نہ خدا کی مثال پر حضرت مسیحؑ کا قیاس کیا جاسکتا ہے۔ پس غیر احمدی کا جواب محض نفس کا دھوکہ اور قیاس مع الفارق ہے۔ کیونکہ یہ تو درست ہے کہ انسان کا قیاس خدا پر نہیں کیا جاسکتا لیکن نبی کا قیاس نبی پر اور انسان کاقیاس انسان پر تو کیا جاسکتا ہے۔ خود قرآن مجید میں ہے کہ اے محمدؐ رسول اﷲ! کہہ دے کہ میں بھی پہلے انبیاء کی طرح ایک نبی ہوں۔ نیز (اٰل عمران:۱۴۵)
پس جو معنی آنحضرتؐ کی توفی کے ہیں بعینہٖ وہی معنی حضرت عیسیٰ ؑ کی توفّی کے بھی لینے پڑیں گے۔پھر بخاری میں ہے قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ؓ مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ کہ حضرت ابن عباسؓ نے مُتَوَفِّیْکَ کے معنی موت کیے ہیں۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۂ مائدہ زیر آیت ……۱۸۸)
تفسیر ابن عباسؓ
نوٹ:۔ بعض غیر احمدی مولوی ’’تفسیر ابن عباسؓ ‘‘کے حوالہ سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ تو حیات مسیح کے قائل تھے اور وہ آیت (اٰل عمران:۵۶) میں تقدیم تاخیر کے قائل تھے۔ تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے حضرت ابن عباسؓ کا جو مذہب پیش کیا ہے وہ اَصَحَّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ یعنی صحیح بخاری میں درج ہے جس کی صحت اور اصالت میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا مگر وہ مختلف اقوال جو دوسری تفاسیر یا ’’تفسیر ابن عباسؓ ‘‘ کے نام سے مشہور کتاب میں درج ہیں وہ قابل استناد نہیں کیونکہ ان تمام تفاسیر کے متعلق محققین کی رائے ہے کہ وہ جعلی اور جھوٹی تفسیریں جو حضرت ابن عباسؓ کی طرف منسوب کردی گئی ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
۱۔وَمِنْ جُمْلَۃِ التَّفَاسِیْرِ الَّتِیْ لَا یُؤَثَّقُ بِھَا تَفْسِیْرُ ابْنِ عَبَّاسٍ فَاِنَّہ مَرْوِیٌّ مِنْ طَرِیْقِ الْکَذَّابِیْنَ۔
(فوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ مصنفہ علامہ شوکانی صفحہ ۱۱۱ و مطبوعہ در مطبع محمدی لاہور ۱۳۰۳ھ صفحہ ۱۰۴)
یعنی ناقابل اعتبار اور غیر معتبر تفسیروں میں سے ایک تفسیر ابن عباس بھی ہے کیونکہ وہ کذاب راویوں سے مروی ہے۔
۲۔حضرت امام سیوطیؒ فرماتے ہیں: ھٰذَہِ التَّفَاسِیْرُ الطِّوَالُ الَّتِیْ اَسْنَدُوْھَا اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ غَیْرُ مَرْضِیَّۃٍ وَ رُوَاتُھَا مَجَاھِیْلٌ(تفسیر اتقان جلد ۲ صفحہ ۱۸۸ التفسیر البسیط زیرآیت الانفال:۹) یہ لمبی لمبی تفسیریں جن کو مفسرین نے ابن عباس کی طرف منسوب کیا ہے ناپسندیدہ اور ان کے راوی غیر معتبر ہیں۔ (خادمؔ)
تَوفّی کے معنی عرف عام میں
قرآن مجید اور احادیث کے علاوہ اگر عرف عام کو بھی دیکھا جائے تو بھی متوفّی کے معنی میّت کے ہی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پٹواری کے رجسٹر اور دیگر دفاتر کو دیکھ لو۔ اور جنازہ کی دعا میں وَ مَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِسْلَامِ کہ جس کو تو ہم میں سے وفات دے تو اس کو اسلام پر ہی وفات دے۔