تاریخ احمدیت ۔ جلد 13 ۔ یونی کوڈ
tav.13.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت
جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر حضرت سیدنا مصلح موعودؓ
کے ایمان افروز اور پر شوکت پیغام )مورخہ ۳ مارچ ۱۹۵۳ء( تک
مولفہ
دوست محمد شاہد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی پندرھویں جلد
اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے تاریخ احمدیت کی پندرھویں جلد طبع ہو کر احباب کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے۔ نئی جلد کو پیش کرتے ہوئے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہے کہ تاریخ احمدیت کی تدوین و اشاعت کے بارے میں جو ذمہ داری سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ادارۃ المصنفین پر ڈالی تھی اس کو ادا کرتے ہوئے ہم ایک قدم اور آگے بڑھ رہے ہیں۔
تاریخ احمدیت کی پہلی جلد دسمبر ۱۹۵۷ء میں` دوسری جلد دسمبر ۱۹۵۸ء میں اوت تیسری جلد دسمبر ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی۔ اس وقت خیلا یہ تھا کہ خلافت اولیٰ کے دور کی تاریخ ایک جلد میں خلافت ثانیہ کے دور کی تاریخ دو جلدوں میں مکمل ہوجائے گی اور تاریخ کی تدوین کا کام ختم ہوجائے گا اور ہم اس بار گراں سے سبکدوش ہوجائیں گے جو سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا تھا لیکن معرض وجود میں وہی آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے انسان کے اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ خلافت ثانیہ کے واقعات پر مشتمل جب دو جلدیں طبع ہوئیں تو ان میں صرف ۱۹۳۱ء تک کے واقعات ہی ختم ہوسکے اور ہمارے اندازے درست ثابت نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تدوین تاریخ کا کام ہوتا رہا اور مزید جلدیں شائع ہوتی چلی گئیں۔ اب پندرھویں جلد شائع ہورہی ہے۔ اس میں جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء سے لے کر مارچ ۱۹۶۳ء تک کے واقعات کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کو صحیح علم ہے کہ خلافت ثانیہ کے دور کی تاریخ کو مکمل کرنے میں مزید کتنی جلدیں درکار ہوں گی کیونکہ واقعات تذکرہ کے بعد سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی سیرت پر کچھ لکھنا بھی ضروری ہوگا اور اس کے بعد پھر خلافت ثالثہ کے دور کے واقعات شروع ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ جب اس نے محض اپنے فضل سے پندرہ جلدیں شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے تو بقیہ کام کو مکمل کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور تکمیل کی خوشی سے بہر ور کرے )آمین( وھو علی کل شی قدیر وبالا جابتہ جدید]ydob [tag
نئی جلد تقریباً چھ صد صفحات پر مشتمل ہے اور گیارہ نایاب تصاویر سے اس مزین کیا گیا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ کاغذ جو بازار میں دستیاب ہوسکتا تھا اسے حاصل کیا گیا اور کتابت و طباعت کو معیاری بنانے کی پوری کوشش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ التجا ہے کہ وہ ہماری ان حقیر مساعی کو قبول فرمائے اور اپنے فضلوں سے نوازے )آمین(
ادارۃ المصنفین کا ابتداء سے یہ اصول رہا ہے کہ وہ اپنی شائع کردہ کتابوں کو تقریباً لاگت پر احباب کو پیش کرتا ہے نفع حاصل کرنا اس کے مدنظر نہیں ہوتا۔ اس جلد کی قیمت مقرر کرنے میں اسی اصول کو مدنظر رکھا گیا ہے لیکن پہلے کی نسبت کتابوں کی قیمت کا بڑھ جانا ایک ناگزیر امر ہے کیونکہ مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ کاغذ کی قیمت` کتابت ` طباعت اور جلد بندی کی اجرتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کتاب کا شائع کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ چونکہ سلسلہ کی تاریخ کو محفوظ کرنا نہایت ہی ضروری ہے اس لئے ادارہ پوری کوشش کرتا چلا آیا ہے کہ بہرحال ہر سال تاریخ احمدیت کی ایک جلد پیش کرتا چلا جائے۔ یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب احباب پورا تعاون فرمائیں اور کتاب کو ہاتھوں ہاتھ خریدیں خرچ کردہ رقم واپس آجائے اور اگلی کی تیاری میں استعمال ہوسکے۔
ادارہ مولف کتاب ہذا مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا شکر گزار ہے کہ انہوں نے رات دن ایک کر کے مواد جمع کیا اور اسے نہایت احسن طریق سے ترتیب دی اور ہر لحاظ سے اسے معیاری بنانے کی کوشش کی فجزاہ للہ حسن الجزاء اسی طرح مکرم حمید الدین صاحب کاتب اور دیگر کارکن جنہوں نے کاپی اور پروف ریڈنگ کا کام کیا وہ بھی شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے فضلوں سے نوازے )آمین(
خاکسار
ابو المنیر نور الحق
مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین۔ ربوہ
دسمبر ۱۹۷۵ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب
جلسہ سالانہ قادیانہ ۱۳۳۰ ہش ۱۹۵۱ء سے لیکر حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ کی وفات تک
)از ماہ فتح ۱۳۳۰ ہش تا ماہ شہادت ۱۳۳۱ ہش از ماہ دسمبر ۱۹۵۱ء تا ماہ اپریل ۱۹۵۲ء(
مذہبی تاریخ کا اہم واقعہ
]0 [rtfاسلام میں مہدی موعود علیہ السلام کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ جیسی عالمگیر تبلیغی اور روہانی تحریک کا آغاز ہمارے نبی خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے~صل۱~ کی قوت قدسیہ کا زندہ نشان اور مذہبی تاریخ کانہایت اہم واقعہ ہے۔
سلسلہ احمدیہ کامقصد
قیام سلسلہ احمدیہ کا مقصد مہدی موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ ہے کہ:۔
>یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجود میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے< ۱
مخالفت کے باوجود شاندار ترقی
اس آسمانی سلسلہ کی ابتداء اگرچہ سنت ربانی کے مطابق پہلی خدائی جماعتوں کی طرح غربت` بے کسی اور گمنامی کے ماحول میں ہوئی مگر اس کے اثرات ہر قسم کی مخالفت وعداوت کے مضبوط حلقوں کو توڑتے` اور منافرت کی ہولناک خندقوں کو پھاندتے ہوئے ` وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے ۔ حتیٰ کہ ۱۹۴۷ء کے ان خونچکاں اور ہوش ربا واقعات کے باوجود` جنہوں نے جماعتی نظم و نسق کی بنیاد تک ہلا ڈالی تھی` چند برسوں کے اندر اندر قادیان اور ربوہ سے اٹھنے والی آوازیں دنیا بھر میں گونجنے لگیں اور اسلامی انقلاب کا وہ نقشہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الاسلام کو ۱۸۹۱ء میں ایک نئے نظام ` نئے آسمان اور نئی زمین کی صورت میں بذریعہ خواب دکھایا گیا تھا۲ ایک حقیقت بن کر ابھرنے لگا۔
حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
>کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہوجائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزارہا پرند اس پر آرام کررہے ہیں۔<۳
سالانہ جلسہ کی اہمیت
جماعت احمدیہ کی اس حیرت انگیز تگرقی میں اس کے سالانہ جلسہ کو ہمیشہ بھاری دخل رہا ہے جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کے اشتہار میں بطور پیشگوئی لکھا :۔
>اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیاد اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی۔ کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔<۴
جلسہ سالانہ کی اس غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر >تاریخ احمدیت< کی جلد ۱۴ کا اختتام جلسہ سالانہ ربوہ ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء کے کوائف پر کیا گیا تھا۔ اب موجودہ جلد کا آغاز اسی سال کے جلسہ قادیان کے واقعات سے کیا جاتا ہے۔
فصل اول
جلسہ سالانہ قادیان
کوائف جلسہ
۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء کا سالانہ جلس حسب دستور اپنی شاندار اور مخصوص روایات کے ساتھ شروع ہوا اور )۲۶ تا ۲۸ ماہ فتح / دسمبر( تین روز تک جاری رہا۔ اس مبارک اجتماع میں بھارت کے جن دور دراز علاقوں سے شمع احمدیت کے پروانے جمع ہوئے ان کے نام یہ ہیں :۔
حیدر آباد دکن` چنتہ کنتہ` کرنول` یادگیر` بمبئی` سورت` مدراس` مالا بار` پٹنہ` مظفرپور` حسینا` پرکھوپٹی` مونگھیر` سہارنپور` بجوپورہ` امروہہ` بریلی` شاہجہان پور` راٹھ` علی پور کھیڑہ` ننگلہ گھنو` آگرہ` صالح نگر` ساندھن` انبٹیہ` کرہل` کان پور` انبالہ` اور کشمیر
علاوہ ازیں پاکستان زائرین کا ایک قافلہ بھی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی امارت۵ ایڈووکیٹ لاہور کی امارت میں قادیان پہنچ اور مرکز احمدیت کی برکات و فیوض سے مستفیض ہوا۔
مردانہ جلسہ گاہ کی حاضری سوا گیارہ سو کے قریب تھی جس میں سے آدھے غیر مسلم تھے۔ جلسہ سے ہندوستان کے علاوہ انگلستان` ہالینڈ اور انڈونیشیا کے بعض احمدی مجاہدین نے بھی خطاب فرمایا جس سے غیر مسلم متاثر ہوئے اور انہوں نے اسلام کا پیغام سننے میں دلچسپی کا اظہار کیا جلسہ میں پریس کا نمائندہ بھی موجود تھا۔
زنانہ جلسہ کے طور پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب ۶ قادیانیؓ کا مکان استعمال کیا گیا جہاں آلہ جہیر الصورت کے ذریعہ سے مردانہ جلسہ کی پوری کارروائی سنائی دیتی تھی۔ ۲۹ فتح/دسمبر کو سو خواتین کا علیحدہ اجلاس بھی منعقد ہوا۔ غیر مسلم خواتین کی تعداد تیس تھی۔
افسر جلسہ کے فرائض صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے انجام دیئے اور مسیح پاک کی مقدس بستی کے ایثار پیشہ درویش انتظامات جلسہ کے لئے وقف رہے اور مہمانوں کو ہر ممکن آرام پہنچانے کی خاطر ہر تکلیف بخوشی گوارا فرمائی۔
پاکستانی زائرین کی روانگی
پاکستان کے خوش نصیب زائرین جو ۲۴/۲۵ فتح/دسمبر کی درمیانی شب کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے وارد قادیان ہوئے تھے مقامات مقدسہ کی زیارت اور اس مبارک اجتماع میں شرکت کرنے اور شب و روز عبادتوں اور دعائوں میں منہمک رہنے کے بعد ۳۱ فتح / دسمبر کی شام کو واپس ہوئے۔
روانگی سے قبل زائرین کا مسجد اقصیٰ میں فوٹو لیا گیا اور اجتماعی دعا ہوئی۔ پانچ بجے شام مزار مسیح موعود پر مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل نے اجتماعی دعا کرائی بعدازاں سب درویش زائرین کو الوداع کہنے کے لئے بٹالہ والی سڑک پر تشریف لے گئے اور ٹھیک پونے چھ بجے شام زائرین کی دونوں بسیں نصرہ ہائے تکبیر` احمدیت زندہ باد` اور حضرت امیر المومنین زندہ باد کے درمیان روانہ ہوئیں۔ اس موقعہ پر رخصت ہونے والوں اور الوداع کہنے والوں کے جو جذبات تھے الفاظ ان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستانی حدود میں داخل ہوگیا۔۷
امیر قافلہ کے تاثرات
امیر قافلہ نے واپسی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ۲۴ دسمبر کی رات کو گیارہ بجے ہمارا قافلہ نہر کا پل عبور کر کے حدود قادیان میں داخل ہوا۔ جونہی منارۃ المسیح پر ہماری نگاہ پڑی تو طبعیت میں عجیب رقت پیدا ہوئی۔ تقسیم کے وقت مشرقی پنجاب میں مساجد و مقابر اور دینی مدرسوں کی بربادی اور ویرانی کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور جہاں ان کی خستہ حالی سے دل میں ایک درد پیدا ہوا وہاں خدا تعالیٰ کی تحمید و تمجید کی طرف بھی طبعیت مائل ہوئی کہ ایک مقدس بستی اس خطہ میں ایسی بھی ہے جو اللہ تعالیٰ اور محمد~صل۱~ کے ذکر سے معمور ہے۔
ہمارا قافلہ ابھی قادیان سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر تھا کہ ہم نے وہاں دس بارہ سال کے ایک بچہ کو استقبال کے لئے موجود پایا حضرت امیر صاحب جماعت احمدیہ قادیان نے اسے راستہ دکھانے پر مقرر کیا تھا تاکہ ہماری بڑی بڑی لاریاں ایک خاص راستے سے ہو کر مسیح پاک کی بستی میں داخل ہوں وہ بچہ فرط مسرت میں میل ڈیڑھ میل تک لاریوں کے آگے بھاگتا چلا گیا اور اس نے اس وقت تک دم نہ لیا جب تک قافلہ درویشوں کی بستی میں جا داخل نہ ہوا۔ اس بچے کا یہ ولولہ شوق اور جذبہ اخلاق دیکھ کر ہم بہت متاثر ہوئے۔
بستی کے سرے پر درویشان قادیان قافلے کے انتظار میں ہمہ تن شوق بنے کھڑے تھے۔ لاریوں کے پہنچتے ہی تمام فضا نعرہ ` تکبیر اور احمدیت زندہ باد کے پرجوش نعروں سے گونج اٹھی۔ درویشوں نے نہایت محبت بھرے الفاظ سے ہمیں خوش آمدید کہا اور نہایت درجہ اشتیاق کے عالم میں ہم سے بغلگیر ہوئے قادیان کی مقدس بستی` مسیح کے درویشوں کا مسکن` زندہ خدا کی زندہ امانت ہے۔ وہاں ہمارے درویش بھائی اپنے دن اور رات جس طرح خدا تعالیٰ کے حضور آہ وزاری میں بسر کرتے ہیں` اس کے تصور ہی سے روحانی مسرت نصیب ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے یہ عاشق صادق عابد شب بیدار ہیں۔ آدھی رات کے بعد میاں مولا بخش صاحب ۸ باورچی اور سید محمد شریف صاحب سیالکوٹی قادیان کی گلیوں میں نہایت سوز و گذار سے آواز دیتے ہیں کہ مسیح پاک کے درویشو !! آٹھو تہجد کا وقت ہوگیا۔ آٹھو !! اور اپنے مولا کریم کو راضی کر لو۔ چنانچہ درویش اٹھتے ہیں اور پہلے بیت الدعا یا بیت الذکر میں خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہیں پھر چار بجے کے قریب مسجد مبارک میں باجماعت تہجد پڑھتے ہیں۔ اس وقت جس درد کے ساتھ آخری رکعتیں ادا ہوتی ہیں اور جس سوز وگذار کے ساتھ آہ وزاری کی آوازیں بلند ہوتی ہیں ان کی نظیر ملنا محال ہے۔ یقیناً یہ انعام باقی دنیا سے منقطع ہوجانے کا ہی ہے کہ درویشوں کو انقطاع الی اللہ کی آسمانی اور لازوال دولت حاصل ہے۔ ان پاک بندوں کی اس کے سوا کوئی خواہش نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے جلد پورے ہوں اور اسلام کی آخری فتح قریب سے تر آجائے
درویش ذکر و فکر کے ساتھ` اپنے دیگر فرائض سے غافل نہیں بیشتی مقبرہ میں چوبیس گھنٹے پہرہ دینا ان کے معمول میں شامل ہے۔ وہ تبلیغ اسلام کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کے عزم و ثبات کا اثر ہے کہ دنیا کے دور دراز علاقوں سے سیاح اور زائرین ہزاروں کی تعداد میں قادیان آتے ہیں۔ رجسٹر زائرین کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں قریباً تیس ہزار ہندو` سکھ اور عیسائی اور غیر ملکی باشندے محض زیارت قادیان کے لئے آچکے ہیں وہ ان کو جی بھر کے تبلیغ کرتے ہیں۔ انہیں اسلام کا پیغام پہنچاتے اور لٹریچر دیتے ہیں۔
اس بے بضاعتی کے عالم میں بھی انہوں نے ہندوستان کی احمدی جماعتوں کو منظم کر لیا ہے۔ ان کے مبلغ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں جاتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ الغرض وہ اس ملک میں اسلام کی عظمت کا نشان ہیں اور اس کی سر بلندی کی خاطر کوہ وقار بن کر اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں اور اس یقین سے لبریز ہیں کہ بالاخر اسلام ہی دنیا پر غالب آئے گا۔ اس یقین کے برملا اظہار سے وہ قطعاً نہیں ڈرتے بلکہ اپنی تقریروں میں برملا کہتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب کہ احمدی دنیا میں غالب ہو کر رہیں گے۔ یہ خدائی تقدیر ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی۔۹
فصل دوم
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اصحاب مہدی موعود کاپاک گروہ ۱۳۲۶ ہش/۱۹۴۷ء کی حجرت کے بعد بڑی تیزی کے ساتھ اس جہان فانی سے رخصت ہورہا تھا اور جماعت احمدیہ ان مبارک وجودوں سے جلد جلد خالی ہونے لگی تھی جن کو تیرہ سو سال کے بعد خدا کے ایک مرسل کا خدا نما چہرہ دیکھنے اور اس کی بابرکت صحبت میں بیٹھنے کا موقعہ نصیب ہوا تھا۔
۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء میں جو ممتاز بزرگ صحابہ رحلت فرما گئے ان کا مختصر تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:۔
حضرت صاحبزادہ حاجی پیر افتخار احمد صاحبؓ لدھیانوی
)ولادت ۱۴ شعبان ۱۰۱۲۸۲ ھ مطابق ۳ جنوری ۱۸۶۶ء۔ زیارت ۱۱ ۱۸۸۴ء۔بیعت ۱۲ ۹ جولائی ۱۸۹۱ء ۔ وفات ۸ ۔ جنوری ۱۳ ۱۹۵۱ء(
>سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام< میں اپنے مخلصین و محبین میں آپ کا ذکر نہایت پیارے اور محبت بھرے الفاظ میں کیا ہے۔ حضورﷺ~ تحریر فرماتے ہیں:۔
>جی فی اللہ صاحبزادہ افتخار احمد۔ یہ جوان صالح میرے مخلص اور محب صادق حاجی حرمین شریفین منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے حلف رشید ہیں اور بمقتضائے الولد سر لابیہ تمام محاسن اپنے والد بزرگوار کے اپنے اندر جمع رکھتے ہیں۔ اور وہ مادہ ان میں پایا جاتا ہے جو ترقی کرتا کرتا فانیوں کی جماعت میں انسان کو داخل کردیتا ہے۔ خدا تعالیٰ روحانی غذائوں سے ان کو حصہ وافر بخشے اور اپنے عاشقانہ ذوق و شوق سے سرمست کرے۔<۱۳
>حاجی افختار ۔۔۔۔۔ اس عاجز سے کمال درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اور آثار رشد و اصلاح و تقویٰ ان کے چہرے پر ظاہر ہیں۔ وہ باوجود متوکلانہ گذارہ کے اول درجہ کی خدمت کرتے ہیں اور دل و جان کے ساتھ اس راہ میں حاضر ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو ظاہری اور باطنی برکتوں سے متمتع کرے۔۱۴
خود نوشت سوانح
حضرت صاحبزادہ صاحب کی خودنوشت سوانح میں ہے :۔
>میری پیدائش بروز منگل بوقت عصر ۱۴ شعبان ۲۸۲ ہجری کی ہے۔ میرے والد ۱۵ صاحب کو حضرت صاحب کی اطلاع اس وقت ہوئی جب کہ براہین احمدیہ کے تین حصے شائع ہوئے تھے۔ انہوں نے جب ان تین حصوں کو پڑھا اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کی عقیدت واردات آپ کے دل میں مستحکم ہوگئی۔ اس کے بعد براہین احمدیہ حصہ چہارم شائع ہوئی۔ والد صاحب کی ارادت سے آپ کے اہل و عیال اور مریدین بھی زمرہ معتقدین میں شامل ہوگئے۔<
>میرے والد صاحب کو اور میرے بھائی منظور محمد صاحب کو اور مجھ کو حضرت صاحب کی ابتدائی زیارت اس وقت ہوئی جب کہ حضور ۱۸۸۴ء میں سب سے پہلے تین دن کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے تھے۔ میرے والد صاحب اور میرے بھائی صاحب اور میں اور سب احباب حضور کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر گئے تھے حضور کی پہلی زیارت اسٹیشن پر ہوئی ۔ میرے والد صاحب نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں بغیر تلائے حضرت صاحب کو پہچان لوں گا۔ ایسا ہی ہوا کہ حضور جب گاڑی سے اترے بغیر بتلائے والد صاحب نے فرمایا کہ وہ یہ ہیں۔<
>حضرت صاحب نے تین روز محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب صوفی کے ہاں >جو کہ میرے والد صاحب کے مرید تھے< قیام فرمایا<
>حضور تین دن کے بعد لدھیانہ سے تشریف لے گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اطلاع ملی کہ حضرت صاحب شادی کے لئے دہلی تشریف لے جائیں گے اور فلاں وقت ریلوے سٹیشن لدھیانہ سے گاڑی گذرے گی۔ والد صاحب اور لدھیانہ کے احباب پہلے سے سٹیشن پر جا پہنچے میں بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ تھا۔ جتنی دیر گاڑی کھڑی رہی حضور پلیٹ فارم پر ٹھہرے رہے۔ حضور کے ساتھ جو احباب آئے تھے میرے خیال میں شاید چھ سات ہوں گے۔ حضور اور ساتھی سب اپنے معمولی سادہ لباس میں تھے۔ کوئی ایسی علامت نہ تھی جس سے یہ ظاہر ہوسکتا کہ یہ دولہا اور یہ اس کی برات ہے۔<
>حضور مع رفقاء شاید ۱۰۔۱۵ منٹ لدھیانہ پلیٹ فارم پر کھڑے رہے پھر گاڑی پر سوا ہو کر دہلی روانہ ہوگئے۔ واپسی کے وقت پھر لدھیانہ سٹیشن پر گاڑی ٹھہری۔ احباب سے ملاقات کی۔ میرے والد صاحب نے پھلور کے دو ٹکٹ پہلے سے لے لئے تھے۔ میرے بھائی منظور محمد صاحب کو ساتھ لے کر حضور کی گاڑی کے ڈبہ میں سوار ہوگئے میں ساتھ نہیں گیا۔ پھلور لدھیانہ سے ۵ میل ہے اور انجن بدلتا ہے۔ گاڑی نصف گھنٹہ وہاں ٹھہری۔ یہ میرے والد صاحب کا ولی اخلاص تھا جو اس تھوڑے عرصہ کی ملاقات کو غنیمت سمجھا۔ یہ والد صاحب کی حضرت صاحب سے آخری ملاقات تھی کیونکہ اس کے بعد حج کو تشریف لے گئے۔ واپسی کے وقت راستہ میں بیمار ہوگئے اور لدھیانہ آکر چند روز بعد ۱۹۔ ربیع الاول ۳۰۳۰ ۱۶ ہجری کو وفات پاگئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
والد صاحب کی وفات سے تھوڑے عرصہ بعد حضرت صاحب تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لائے تھوڑی دیر قیام فرمایا۔ والد صاحب مرحوم کی محبت` اخلاص اور دینی خدمت کا ذکر فرماتے رہے۔ پھر حضور نے مع حاضرین دعا فرمائی۔ حضور نے قرآن شریف کی یہ آیات وکان ابوھما صالحا۱۷ پڑھ کر فرمایا کہ ان دونوں بچوں پر مہربانی کرنے کی یہ وجہ تھی کہ ان کا باپ صالح تھا )ہم بھی اپنے باپ کے دو ہی لڑکے ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر بھی فضل فرمائے ۔ آمین(
یہ وقت بھی گزر گیا اور حضور کے یہاں صاحبزادہ بشیر احمد صاحب اول تولد ہوئے ۱۸ حضور کا خط لدھیانہ کے احباب کے نام عقیقہ میں شمولیت کے لئے آیا جس میں حضور نے یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ عقیقہ کا ساتواں دن اتوار کو پڑتا تھا مگر کچھ قدرتی اسباب ایسے پیدا ہوگئے کہ عقیقہ بجائے اتوار کے پیر کے دن ہوا جس سے یہ الہام دوشنبہ ہے مبارک دوشنہ پورا ہوتا ہے۔ ہم سب احباب لدھیانہ سے قادیان پہنچے۔ یہ سفر قادیان کا میرا پہلا سفر تھا اس سے پہلے میں نے قادیان کو ہیں دیکھا تھا مہمان مسجد اقصیٰ میں ٹھہرے۔ عقیقہ میں ایک دن یا دو دن باقی تھے کہ بارش شروع ہوئی اور تین دن لگاتار برستی رہی۔ قادیانہ کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہوگیا۔ صاحبزادہ بشیر احمد اولؓ کا عقیقہ بیت الفکر میں ہوا جو کہ بیت الذکر یعنی مسجد مبارک کے ساتھ کا حضور کے دولت خانہ کا کمرہ ہے اور جس کا وہی دروازہ مسجد مبارک کے داہنی طرف اب تک موجود ہے۔ حاضرین مہمانوں کی تعداد اتنی تھی کہ بیت الفکر میں گنجائش ہوگئی۔ مجھے یاد ہے کہ صاحبزادہ بشیر احمد اول مولوی رحیم بخش صاحب کی گود میں تھے جس وقت کح حجام نے سر کے بال اتارے۔ ۔۔۔۔۔ عقیقہ کے بعد ایک دو دن مہمان ٹھہرے۔ پانی کا وہی عالم تھا اگرچہ بارش بند ہوگئی تھی لیکن راستہ پانی سے لبریز تھا۔ یکہ پر اسباب لاد کر احباب پا پیادہ روانہ ہوئے۔ حضور نے پلائو کی دیگر ساتھ کردی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ بٹالہ کے راستے میں بعض جگہ پانی کمر تک پہنچ جاتا تھا۔ یکہ کے پہیے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسی حال میں ہم بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ اسٹیشن بٹالہ پر حضر میر ناصر نواب صاحب رحمتہ اللہ علیہ دو دن سے پانی کی وجہ سی رکے ہوئے تھے۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے حضرت میر صاحب کی رخصت بھی ختم ہوچکی تھی` وہ بھی ہمارے ساتھ ریل پر واپس ہوگئے۔
کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب معہ اہل بیت لدھیانہ تشریف لے گئے اور ہمارے مکان کے بالکل متصل ایک حولی میں فروکش ہوئے اور بیعت کا اعلان کیا<
>اس کے کچھ عرصہ بعد بحمد اللہ تعالیٰ ۱۸۹۲ء کو میں مع اہل و عیال ہجرت کر کے قادیان آرہا حضور نے اپنے رہائش ہی کے مکانوں میں جگہ دی ۔ ۔۔۔۔۔۔ ایک روز حضور نے مجھے فرمایا کہ انسپکٹر مدراس آیا ہوا ہے اس سے کہو کہ قادیان کے سکول میں تم کو رکھ لے۔ ۔۔۔۔۔۔ میں نے محض حضور کے ارشاد کی تعمیل میں انسپکٹر سے مل کر کہا کہ آپ مجھے قادیان کے سکول میں مدرسی کی آسامی دے دیں۔ انہوں نے میری تعلیم وغیرہ کا حال پوچھا اور کہا بہت اچھا میں جا کر حکم بھیج دوں گا۔ اس نے جا کر میری تعیناتی کی باضابطہ کارروائی کی اور میں قادیان کے سکول میں مدرس ہوگیا۔<
>ان دنوں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز )حضرت خلیفہ ثانیؓ ناقل( خورد سال تھے۔ حضور نے مجھے فرمایا کہ میاں کو بھی سکول لے جایا کرو۔ میں حضرت صاحب کے ارشاد کے مطابق حضور کو بھی ساتھ لے جایا کرتا تھا۔<
>پانچ سال کے قریب یہاں قادیان میں رہا پھر مع عیال لدھیانہ چلا گیا۔ ۔۔۔۔۔ پھر ۱۹۰۱ء کو مع اہل و عیال قادیان آیا اور بفضل خدا یہیں رہا۔ ۱۹۰۲ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت اقدس کی اجازت سے محرری کے کام پر مجھے رکھ لیا۔ لنگر اور سکول کا چندہ اور حضرت صاحب ؑ کے خطوط کا جواب لکھنا میرا کام تھا۔ بفضل خدا مسلسل دفتر ڈاک کا کام کرتا رہا یہاں تک کہ ۱۹۲۷ء میں بموجب قواعد ریٹائرڈ ہوگیا۔ محمد اللہ اب حضور کے قدموں میں پڑا ہوں اور دعا کرتا ہوں من دعا ہائے برد بار تو اے ابر بہار۔< ۱۹
حضرت عرفانیؓ کا نوٹ
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے آپ کی وفات پر لکھا :۔
>جہاں تک میرا علم ہے بچپن سے سعادت مند اور زاہد تھے۔ ہر دیکھنے والے کو ان کے چہرہ پر نوڑ نظر آتا تھا۔ وہ رمضان کا مہینہ خصوصیت سے عبادت میں گذارتے اور اعتکاف کرتے تھے اوت تہجد گذار تھے۔ مجھے بارہا ان کے ساتھ تہجد میں شرکت اور سحری میں شریک طعام ہونے کا موقعہ ملا۔ ان کے چہرے پر تبسم کھیلتا تھا میں نے کبھی ان کو غصہ کی حالت میں نہیں پایا۔ وہ اپنے گھر کے کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے تھے اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ارشاد خیرکم خیرکم لاھلہ 10] p[۲۰ پر جوانی سے بڑھاپے تک مخلصانہ عامل رہے۔ اولاد کی تربیت اور اولاد پر شفقت کا بھی وہ ایک خاص نمونہ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور اپ کے اہلیت سے انہیں محبت و اخلاص کا نہایت بلند مقام حاصل تھا۔ وہ توکل علی اللہ کا ایک خاص درجہ رکھتے تھے۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام شہزادوں کی طرح سے گزرے اس لئے کہ ان کے خاندان کے فیض یافتہ لوگ بڑے اخلاص سے خدمت کرتے تھے` لیکن احمدی ہوجانے کے بعد ہی دراصل ان کے توکل کے مقام کا پتہ لگا۔ وہ نہایت قانع انسان تھے اور اپنے فرض کو نہایت محنت اور جفاکشی سے ادا کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا قرب انہیں آپ کے گونہ پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے حاصل تھا اس لئے کہ آپ صیغہ ڈاک میں کام کرتے تھے۔< ۲۱
دیگر خصائل و شمائل
حضرت پیر صاحبؓ کا قد لمبا تھا` آپ کی زندگی فروتنی` کسر نفسی اور عجز و انکسار کی مجسم تصویر تھی۔ فرشتہ خصلت بزرگ تھے۔ خط نہایت پاکیزہ اور بہت عمدہ تھا۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں بے تکلف بات کر لیتے تھے۔ طبعیت پر غور و فکر کا رنگ غالب تھا۔
غایت درجہ کم سخن تھے اور فضول اور زائد باتوں سے طبعی نفرت تھی۔ ہمیشہ راضی بقضاء رہے اور شدید تکلیف میں بھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔ ان کے جوان لڑکے فوت ہوگئے۔ مگر کیا مجال کہ زبان سے اف تک نکل جائے یا چہرے سے کسی قسم کے درد یا تکلیف کا اظہار ہو۔ بڑھاپے اور ضعف کی حالت میں بھی مسجد میں تشریف لاتے۔ آخری عمر میں زیادہ دیر تک بیٹھ نہ سکتے تھے۔ جماعت شروع ہونے سے قبل مسجد میں لیٹ جاتے اور باجماعت نماز کا انتظار فرماتے۔ ۲۲]ydob [tag کتاب >انعامات خدا وند کریم< جو پر حکتگم نصائح پر مشتمل ہے آپ ہی کی تصنیف لطیف ہے اور آپ کے صوفیانہ مزاج کا پتہ دیتی ہے۔
حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ کی اولاد کے نام درج ذیل ہیں :۔
اولاد
)۱( پیر مظہر قیوم صاحب )وفات ۱۸ ۔ جولائی ۱۹۱۷ء(۲۳ )۲( پیر مظہر الحق صاحب ۲۴ )سابق خزانچی صدر انجم احمدیہ ربوہ(۔ )۳( پیر حبیب احمد صاحب )ولادت ۱۹۰۱ء ۔ وفات ۲۶ ۔ فتح ۱۳۴۱ ہش/۲۶ دسمبر ۱۹۲۶ء( )۴( پیر نثار احمد صاحب )وفات ۲۲ اپریل ۱۹۱۲ء( )۵( سعیدہ بیگم صاحبہ )وفات ۲۰ دسمبر ۱۹۱۰ء( )۶( پیر خلیل احمد صاحب مرحوم )ولادت ۱۳ اگست ۱۹۰۷ء وفات ۲۰ امان ۱۳۴۳ ہش/۲۰ مارچ ۱۹۶۴ء( )۷( پیر محمد عبد اللہ صاحب مرحوم ٹیچر مدرسہ احمدیہ قادیان )۸( پیر عبدالرحمن صاحب )۹( سلیمہ بیگم صاحبہ )۱۰( سعیدہ بیگم صاحبہ۔
۲۔ چوہدری امیر محمد خاص صاحب متوطن اہرانہ تحصیل وضلع ہوشیار پور
)بیعت ۴۔۱۹۰۳ء۔۲۵ وفات ۳ امان ۱۳۳۰ ہش/۳مارچ ۱۹۵۱ء(
آپ چوہدری سکندر خان صاحب کے بیٹھے اور چوہدری پیر بخش صاحب عرف باب اولیا سخی پیر شاہ جمال علیہ الرحمتہ کے پوتے تھے۔ ضلع ہوشیار پور میں موضوع اہرانہ` پھگلانہ اور مٹھیانہ کی احمدی جماعتیں آپ ہی کی تبلیغ سے قائم ہوئیں۔
آپ کے بیٹے چوہدری عبداللہ خان صاحب کی روایت ہے کہ آپ نے بتایا کہ ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط ملا جس میں چندہ لنگر خانہ کی تحریک تھی میرے پاس اس وقت کوئی روپیہ موجود نہ تھا میں نے اسی وقت حضرت اقدس کی خدمت میں واپسی خط لکھا کہ ایک شخص میری کچھ اراضی خریدنا چاہتا ہے۔ اس کی آمد پیش حضور کردوں گا۔ دعا فرمائیں۔ حضور کا اپنے قلم مبارک سے لکھا ہوا جواب ملا کہ دعا کی گئی الل تعالیٰ آپ کی یہ منشاء پوری کرے۔ اس خط کے چند دن بعد میرا یہ کام ہوگیا اور روپیہ بھی مجھے مل گیا۔ چنانچہ میں یہ رقم لئے پیدل قادیان کی طرف روانہ ہوگیا۔ دریائے بیاس کو بیٹ کے پتن سے پار کیا ہی تھا کہ کانگڑہ کا زلزلہ آگیا۔ قادیان پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے باغ میں تشریف فرما تھے میں نے وہ رقم پوٹلی کی صورت میں حضور کی خدمت میں نذر کردی۔ )یہ ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے(
چوہدری امیر محمد خان صاحب کے نزدیک ۲۶ حضرت مصلح موعودؓ کے ہسب ذیل الفاظ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے:۔
>پھر جب زلزلہ آیا اور حضرت اقدس باہر باغ میں تشریف لے گئے اور مہمانوں کی زیادہ آمد و رفت وغیرہ ذالک وجوہات سے لنگر کا خرچ بڑھ گیا تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ قرض لے لیں۔ فرماتے ہیں میں اسی خیال میں آرہا تھا کہ ایک شخص ملا جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے تھے اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی اور پھر الگ ہوگیا۔ اس کی حالت سے میں ہرگز نہ سمجھ سکا کہ اس میں اس میں کوئی قیمتی چیز ہوگی لیکن جب گھر آکر دیکھا تو دو سو روپیہ تھا۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اس کی حالت سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی ساری عمر کا اندوختہ لے آیا۔ پھر اس نی اپنے لئے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ میں پہچانا جائو یہ شاکر کا مقام ہے۔< ۲۷
۳۔ منشی حسن دین صاحبؓ رہتاسی :۔
)بیعت ۱۸۹۶ء۲۸ وفات ۱۰۔ امان ۱۳۳۰ ہش/۱۰ مارچ ۱۹۵۱ء۲۹(
آپ حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم صحابی اور بلند پایہ شاعر حضرت منشی گلاب الدین صاحبؓ رہتاسی۳۰ کے بیٹے اور خود بھی نغزگو اور پرجوش فطرتی شاعر تھے جو عرصہ دراز تک احمدیت اور اردو آدب کی خدمت کرتے رہے۔ آپ کے اشعار کا مجموعہ >کلام حسن< کے نام سے شائع شدہ ہے ۳۱ ملکی تقسیم ۱۹۴۷ء کے بعد آپ جہلم میں تشریف لے آئے۔ وفات سے دو ماہ قل لائلپور میں فروکش ہوئے جہاں بیمار ہوگئے جماعت احمدیہ لائلپور نے ان کے علاج معالجہ اور تیمارداری کی پوری کوشش کی مگر بیماری جان لیوا ثابت ہوئی اور آپ ۱۰ امان ۱۳۳۰ہش/۱۰ ۱۹۵۱ء کو انتقال فرما گئے اور لائلپور کے مقامی قبرستان میں سپردخاک کئے گئے۔ ۳۲
۴۔ حضرت شیخ عبدالرشید صاحبؓ بٹالوی
)ولادت اندازاً ۸۸۰ء۔ زیارت۱۹۰۰ء بیعت۱۹۰۱ء۔ وفات ۲۷۔ ہجرت۱۳۳۰ ہش/۲۷۔ مئی ۱۹۵۱ء(
آپ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان مخلص صحابہ میں سے تھے جو عہد شباب کے آغاز میں احمدیت سے وابستہ ہوئے اور باوجود خاندانی مخالفت کے آخر دم تک حق و صداقت کو پھیلانے میں کوشاں رہے۔
آپ کی بیعت کا موجب عبداللہ اور چراغ الدین نامی دو شخص تھے جو امرتسر سے بٹالہ آئے اور قادیان جانے کا شوق ظاہر کر کے آپ کو بھی ہمسفر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ قادیان پہنچے جہاں ان کا ایک رشتہ دار گورنمنٹ کی طرف سے اس خفیہ ڈیوٹی پر متعین تھا کہ آنے والے مہمانوں کے نام نوٹ کرے۔ اس دن حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین بھیرویؓ نے الحمد کی تفسیر فرمائی جس نے آپ کے دل پر خاص اثر کیا۔ اس کے بعد آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ گول کمرہ میں کھانا کھانے اور حضور کی زبان مبارک سے نئے سے نئے حقائق و معارف سننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے نورانی چہرے اور پرجذب کلام نے آپ پر گہرا نقش قائم کردیا اور آپ بار بار قادیان جانے لگے اور پھر جلد ہی حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر لی۔
قبول احمدیت کے بعد آپ پر مخالفت کے گویا پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اہل حدیث برادری نے قافیہ حیات تنگ کردیا۔ اور تو اور آپ کی والدہ صاحبہ بھی آپ پر بہت سختی کرتی تھیں اور آپ کو عاق کرانے کے درپے ہوگئیں۔ آپ کے والد صاحب نے شروع میں تو یہ جواب دیا کہ پہلے یہ دین کے سراسر غافل و بے پروا تھا مگر اب نمازی بلکہ تہجد گذار بن گیا ہے اسے میں کس بات پر عاق کردوں لیکن بعد ازاں وہ بھی اپنی برادری کے سامنے جھک گئے جس پر آپ کو کئی ماہ تک گھر سے باہر رہنا پڑا۔ ۳۳
آپ کا وجود جماعت احمدیہ بٹالہ کے لئے ایک ستون کی حیثیت رکھتا تھا چنانچہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ فاضل )سابق سوداگرمل( تحریر فرماتے ہیں کہ :۔
>بٹالہ احمدیت کا مرکز ان کا مکان ہی تھا۔ بہت خوش خلق ` مہمان نواز اور سخی تھے۔ ساری عمر جماعت بٹالہ کے پریذیڈنٹ رہے۔ بٹالہ میں احمدیوں کے غیروں کے ساتھ متعدد مناظرے اور جلسے ہوئے ان کا انتظام بھی حضرت شیخ صاحبؓ کے ذمہ ہوتا تھا اور عموماً مہمان نوازی کے فرائض بھی شیخ صاحب ہی سرانجام دیتے تھے< ۳۴
۵۔میاں محمد صاحب بستی مندرانی تحصیل سنگھڑ ضلع ڈیرہ غازی خان:۔
)ولادت ؟ وفات ۱۹ تبوک ۱۳۳۰ ہش/۱۹ ستمبر ۱۹۵۱ء(
آپ ایک نیک طبع` غریب النفس مگر دل کے غنی اور دینی غیرت رکھنے والے بزرگ تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ذکر پر آپ کی آنکھیں اکثر پرنم ہوجایا کرتی تھیں۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود آپ ہمیشہ پر اثر رنگ سے تعلیم یافتہ لوگوں تک پیغام حق پہنچاتے رہے۔
آپ دو دفعہ حضورؑ کی زندگی میں دارالامان تشریف لے گئے۔ جب پہلی بار بیعت کر کے اپنے وطن واپس آئے تو آپ کا بائیکاٹ کردیا گیا مگر اس مرد خدا نے اپنے حقیقی رزاق کا سہارا کافی سمجھا۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تھے۔ پورے کنبہ کے اخراجات سر پر تھے اور ذریعہ معاش بند تھا۔ انہیں ایام کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ بعض رشتہ داروں نے تکالیف اور تنگی کو دیکھ کر کہا کہ اگر تم بظاہر ہم لوگوں میں ہی رہتے اور دل میں مرزا صاحبؑ پر اعتقاد رکھتے تو ایسے تنگ نہ ہوتے۔ آپ نے جواب دیا کہ میں منافق کی سی زندگی بسر کروں ؟ مجھے بھوکا مرنا منظور ہے لیکن مجھ سے منافقت نہیں ہوسکتی۔ اگر میں ایسا کروں اور خدا مجھے اندھا کردے تو اس وقت میرا کون رازق بنے گا ؟
بیان فرمایا کرتے تھ کہ جب میں پہلے پہل قادیان دارالامان گیا تو ان دنوں مجھ پر گریہ زاری کی حالت طاری تھی اور میں اکثر رویا کرتا تھا۔ ان دنوں میرے ہاں اولاد نرنیہ نہیں تھی۔ میں دل میں یہ خواہش رکھتا تھا کہ حضور سے اس بارے میں دعا کی درخواست کروں گا لیکن انہی دنوں میں حضور نے ایک تقریر فرمائی کہ بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور بعض لوگوں کے خط آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہمارے ہاں اولاد نہیں یا حضرت !! دعا فرمایئے ہمیں اللہ تعالفی اولاد دے۔ کوئی اپنی مالی تنگی کے بارے میں کہتا ہے۔ کوئی اور ایسی ہی خواہش پیش کرتا ہے۔ گو ہم سب کے لئے دعا کرتے ہیں مگر میرے آنے کی غرض یہ ہے کہ کوئی ایمان سلامت لے جائے مجھے اپنے خواہش کا اظہار کرتے شرم محسوس ہوتی تھی۔ خاموش رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس خاموشی کو نواز کر اولاد نرینہ عطا فرمائی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کی برکت تھی۔ ۳۵
۶۔ حضرت میاں محمدالدین صاحبؓ واصلباقی نویس۔ بلانی ضلع گجرات درویش قادیان:۔
)ولادت۱۸۷۲ء۔ بیعت ۱۸۹۴ء۔ زیارت جون ۱۸۹۵ء۔ وفات یکم نبوت ۳۳۰ ہش/یکم نومبر ۱۹۵۱ء بمقام قادیان(
ابتدائی حالات
موضع حقیقہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے ۵ مارچ ۱۸۸۵ء کو پرائمری کا امتحان کھاریاں سے اور جنوری ۱۸۸۸ء میں مڈل کا امتحان ڈنگہ سیپاس کیا۔ ۱۹ جولائی ۱۸۹۰ء کو حلقہ بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات )پنجاب( میں بطور پٹواری تعینات ہوئے جہاں ۱۹۰۵ء تک رہے۔ بعد میں گرد اور قانون گو بن گئے۔ ۱۹۱۰ء سے لے کر ۱۹۲۹ء تک تحصیل کھاریاں میں واصل باقی نویس رہے پھر چار ماہ ضلع دفتر میں تبدیل ہو کر پنشن حاصل کی۔
>براہین احمدیہ< سے روحانی انقلاب
ان ایام میں جب کہ آپ نے ملازمت شروع کی آپ کی دینی اور عملی حالت سخت ابتر تھی حتیٰ کہ آپ بالکل دہریہ ہوگئے تھے۔ اسی دوران میں حضرت مسیح موعود السلام کے ممتاز صحابی حضرت مرزا جلال الدین صاحبؓ ۳۶ نے اپنے بیٹوں کو اسلمی لٹریچر بھجوایا جس میں براہین احمدیہ بھی تھی۔ آپ کو ان کے بڑے صاحبزادہ مرزا محمد نسیم صاحب۳۷ کے ذریعہ یہ عظیم الشان کتاب دیکھنے کا موقعہ ملا اور اس کے ابتدائی مطالعہ سے آپ کے سب ظلماتی پردے اٹھ گئے اور ایک ہی رات میں کایا پلٹ گئی۔ خود فرماتے ہیں :۔
>آریہ` برہمو` دہریہ لیکچراروں کے بداثر نے مجھے اور مجھ جیسے اور اکثروں کو ہلاک کردیا تھا اور ان اثرات کے ماتحت لا یعنی زندگی بسر کررہا تھا کہ براہین پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں۔ صفحہ ۹۰ کے بقیہ حاشیہ نمبر۴ اور صفحہ نمبر ۱۴۹ کے بقیہ حاشیہ نمبر ۱۱ پر پہنچا تو معاً میری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہوجاتا ہے۔ سردی کا موسم جنوری ۱۸۹۳ء کی ۱۹ تاریخ تھی آدھی رات کا وقت تھا کہ جب میں >ہونا چاہئے< اور >ہے< کے مقام پر پہنچا چڑھتے ہی معاً توبہ کی ۔۔۔۔۔۔۔ عین جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے میرا ایمان جو ثریا سے شاید اوپر ہی گیا ہوا تھا` اتار کر میرے دل میں داخل کیا اور مسلماں را مسلماں باز کروند کا مصداق بنایا جس رات میں میں بحالت کفر داخل ہوا تھا اس کی صبح مجھ پر بحالت اسلام ہوئی۔ اس مسلمانی پر میری صبح ہوئی تو میں وہ محمد الدین نہ تھا جو کل شام تک تھا۔ فطرتاً مجھ میں حیا کی خصلت تھی اور وہ اوباشوں کی صحبت بس عنقا ہوچکی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی برکت سے وہی خصلت حیا واپس دی۔ میں اس وقت اس آیت کے پرتو کے تحت مزے لے رہا تھا الیکم الایمان وزینہ فی قبلوبکم وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولئک ھم الراشدون فضلا من اللہ ونعمتہ واللہ علیم حکیم )الحجرات :۸(
)ترجمہ : لیکن اللہ نے تمہاری نگاہ میں ایمان کو پیارا بنایا ہے اور تمہارے دلوں مین اس کو خوبصورت کر کے دکھایا ہے اور تمہاری نگاہ میں کفر اور اطاعت سی نکل جانے اور نافرمانی کرنے کو ناپسند کر کے دکھایا ہے وہی لوگ سیدھے راستہ پر ہیں یہ محض اللہ کے فضل اور نعمت سے ہے اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے۔(
میاں محمد دین صاحب اپنے واقعہ بیعت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
واقعہ بیعت
>ایمان لانے کے ساتھ ہی قرآن کی عظمت اور محبت نے میرے دل میں ڈیرہ لگایا گویا علم شریعت جو ایمان کی جڑھہے اس کے حاصل کرنے کا شوق اور فکر دا منگیر ہوا۔ ازاں بعد سال ۹۴۔۱۸۹۳ء براہین احمدیہ کا ایک دور ختم کیا جو نماز تہجد کے بعد کیا کرتا تھا اور پھر آئینہ کمالات اسلام پڑھا جو توضیح مرام کی تفسیر ہے۔
حضرت قبلہ منشی مرزا جلال الدین صاحب پنشنر میر منشی رسالہ نمبر ۱۲ ساکن بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات دو ماہ کی رخصت لے کر سیالکوٹ چھائونی سی بلانی تشریف لائے اور بلانی میں ہی میں پٹواری تھا ان سے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا جس کا جواب مجھے اکتوبر ۱۸۹۴ء میں ملا جس میں لکھا تھا کہ ظاہری بیعت بھی ضروری ہے جو میں نے ۵ جون ۱۸۹۵ء مسجد مبارک کے چھت پر بالاخانہ کے دروازہ کی چوکھٹ کے مشرقی بازو کے ساتھ حضرت صاحب سے کی۔<
>مسجد مبارک میں ظہر کی نماز مولوی عبدالکریم صاحب کے اقتدار میں ادا کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ان دنون نماز ظہر اور عصر کے درمیان اور نماز مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد میں تشریف رکھا کرتے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہو کر حضرت صاحب شمالی دیوار کے ساتھ کھڑکی )دریچہ( کے جانب غرب بیٹھے تو میں نے آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھا اور چہرہ اور پیشانی سے نور کی شعاعیں سفید رنگ کی اٹھتی دیکھیں جو بڑی لمبی تھیں اور چھت کو پھاڑ کر آسمان کی طرف جارہی تھیں میں اس نظارہ سے مسرور اور تصویر حیرت ہوگیا۔<
>میں نے حضرت مسیح موعود السلام سے عرض کیا کہ قرآن شریف کس طرح آئے؟ آپ نے فرمایا واتقوااللہ ویعلمکم اللہ ۳۸ )ترجمہ( اور تم تقویٰ کرو خدا تمہارا خود استاد ہوجائے گا۔
پھر میرے دل میں گذار کہ کہ میں علم دین سے ناواقف ہوں اور مولوی لوگ مجھے تنگ کریں گے میں کیا کروں گا اور پوچھنے سے بھی شرم کررہا تھا جو اپ نے بغیر میرے سوال ۔۔۔۔۔۔ ایسے بلند لہجہ اور رعب ناک انداز سے فرمایا کہ میں کانپ گیا۔ فرمایا ہماری کتابوں کو پڑھنے والا کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔<۳۹
کتب حضرت مسیح موعودؑ میں ذکر
جنوری ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۱۳ اصحاب کی فہرست مشمولہ انجام اتھم میں آپ کا نام تیسرے نمبر پر درج فرمایا۔ اسی سال >سراج منیر< شائع ہوئی جس میں مہمان خانہ قادیان کے چند دہندگان میں بھی آپ کا نام شامل تھا۔ ازاں بعد ۲۴ فرور ۱۸۹۸ء کے اشتہار )مشمولہ کتاب البریہ( میں آپ کا نام ۱۱۰ پر شائع ہوا۔
آپ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں دو مرتبہ قادیان دارالامان تشریف لے گئے ۴۰ اور اس پاک اور پر انوار اور برکتوں سے معمور بستی میں ایک ایک ماہ تک قیام فرمایا اور حضرت امام الزمان کی بابرکت مجالس سے اکتساب فیض کیا اور حضورؑ کی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کی تازہ بہ تازہ وحی سنی ۴۱
خدمات سلسلہ
یکم جولائی ۱۹۰۰ء کو حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے چندہ منارۃ المسیح کی تحریک ہوئی جس میں آپ نے ایک سو روپیہ دیا۔
۲۳ اکتوبر ۱۹۰۶ء کو آپ نے اپنی جائیداد کے پانچویں حصہ کی وصیت کی اور ۱۹۰۹ء میں اپنا حصہ جائیداد ادا بھی کردیا۔ بعد میں جو جائیداد پیدا کی اس کا اندراج بھی صدر انجمن احمدیہ میں کرادیا۔ ازاں بعد اپنی آمد کی بھی وصیت کردی اور آخر دم تک اس کی ادائیگی کرتے رہے۔
۱۹۲۹ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کردی۔ کشمیر فنڈ جمع کیا۔ ضلع گجرات کی جماعتوں کا بجٹ تیار کیا۔ کچھ عرصہ پہلے سندھ کی اراضیات میں پھر دفتر جائیداد صدر انجمن احمدیہ میں سرگرم عمل رہے۔
دور درویشی اور وفات
۱۲ تبوک ۱۳۳۶ ہش/۱۲ستمبر ۱۹۴۷ء کو ہجرت کر کے پاکستان آگئے مگر اگلے سال ماہ ہجرت / مئی میں حضرت مصلح موعود کی تحریک پر لبیک کہہ کر مستقل طور پر قادیان تشریف لے گئے۔
درویش آپ سے دینی مسائل سیکھتے اور ناظرہ قرآن پڑھتے تھے۔ بڑھاپے میں بھی بہت ذی ہمت تھے۔ مسجد مبارک سے اترتے اگر کوئی درویش سہارا دینے کی کوشش کرتا تو آپ منع کرتے اور فرماتے کہ میں بوڑھا نہیں ہوں۔ آپ درویشوں کو اکثر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کی باتیں سناتے رہتے تھے۔ آپ کا دستور تھا کہ جب آپ لنگر خانہ میں کھانا لینے کے لئے جاتے اس مقدس دور کی کوئی ایک بات ضرور سنادیتے تھے۔ آپ نے عہد درویشی کمال صدق و صفا کے ساتھ نبھایا اور وفات کے بعد بہشتی مقبرہ کے قطعہ صہابہ میں دفن کئے گئے ۴۲ اور ان ابدال میں شامل ہوئے جن کا ذکر حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے درج ذیل عبارت میں فرمایا ہے :۔
>پنجاب اور ہندوستان سے ہزارہا سعید لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ایسا ہی سرزمین ریاست امیر کابل سے بہت سے لوگ میری بیعت میں داخل ہوئے ہیں۔ اور میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزارہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہرگز ایسا صاف نہیں ہوسکتا۔ اور میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزارہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کرچکے ہیں کہ ایک فرد ان میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے۔< ۴۳
حضرت میاں محمد الدین صاحب کی اولاد :۔
اولاد
۱۔ غلام فاطمہ صاحبہ )ولادت ۳۰ نومبر ۱۸۹۵ء( ۲۔ صوفی غلام محمد صاحب ۴۴ بی۔ایس سی` بی ٹی ریٹائرڈ ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول حال ناظر بیت المال )خرچ( )ولادت ۱۹ اکتوبر ۱۸۹۸ء( ۳۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے صاحب )ولادت ۳۰ مارچ ۱۹۰۱ء( ۴۔ زینب بی بی صاحب )ولادت ۳۱ دسمبر ۱۹۰۳ء( ۵۔ آمنہ بی بی صاحبہ )ولادت ۶ دسمبر ۱۹۰۵ء( ۶۔ چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب بی ۔ اے ` ایل ایل بی۔ بیرسٹر وکیل القانون تحریک جدید )ولادت ۲۱ دسمبر ۱۹۰۹ء( ۷۔ غلام احمد مرحوم )ولادت ۱۵ اپریل ۱۹۱۲ء وفات ۱۸ء مارچ ۱۹۳۲ء( ۸۔ چوہدری غلام یٰسین صاحب بی۔ اے سابق مبلغ اسلام امریکہ )ولادت ۲۸ فروری ۹۱۵ء( امتہ اللہ صاحبہ )ولادت ۱۳ نومبر ۱۹۲۰ء(
حضرت حافظ عبدالعزیز صاحب~رضی۱~ متوطن سیالکوٹ چھائونی :۔
)ولادت تقریباً ۱۸۷۳ء ۔ بیعت ۱۸۹۶ء۴۵۔ وفات ۹۔ نبوت ۱۳۳۰ ہش/۹ نومبر ۱۹۵۱ء(
ابتدائی حالات
سیالکوٹ چھائونی کے ایک موحد گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد چوہدری نبی بخش صاحب بہت متدین اور مہمان نواز تھے۔ آپ نے بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا۔ آپ نہایت صحت اور خوش الحانی سے کتاب اللہ کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ خاندانی وجاہت کے علاوہ اپنی ذاتی خوبیوں کے باعث بچپن ہی سے محبت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
پاکیزہ دینی ماحول میں جواب ہوئے اور عنفوان شباب ہی سے مذہبی مطالعہ کرنے اور دینی مجالس میں بیٹھنے کا شوق تھا۔ صدر بازار سے آپ شہر سیالکوٹ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کا درس سننے کے لئے آیا کرتے تھے۔
سلسلہ احمدیہ میں شمولیت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چرچا سنا تو اپنے پیرو مرشد سید جماعت علی شاہ صاحب علی پوری )ثانی(۴۶ سے پوچھا کہ مرزا صاحب اپنے دعوے میں کیسے ہیں جواب ملا کہ )نعوذ باللہ( جھوٹے ہیں۔ آپ نے دلیل مانگی تو پیر صاحب موصوف نے فرمایا مرید کا کام دلیل مانگنا نہیں بس پیر نے کہا اور مرید نے مان لیا۔ مگر حافظ صاحب ہر بات دلیل سے ماننے کے عادی تھے اس طرح اندھا دھند تقلید آپ کے مزاج اور فطرت کے منافی تھی۔ آپ نے مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور پیر صاحب کی دعوت کی۔ دونوں میں مذہبی گفتگو ہوئی اس تبادلہ خیالات میں پیر صاحب احمدیت کے علم کلام کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور کوئی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے جس پر آپ ان کو چھوڑ کر حضرت مہدی موعود کے دامن سے وابستہ ہوگئے۔
قبول احمدیت کے بعد
قبول احمدیت کے بعد مخالفت کا سلسلہ لازمی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ کو ثبات و استقلال بخشا بلکہ آپ کے بابرکت وجود سے سیالکوٹ چھائونی کی قدیم وفدائی جماعت کو بھی بہت تقویت پہنچی اور آپ کے نیک نمونہ اور تبلیغ سے بہت سی سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں۔
۱۹۱۴ء میں جب کہ مولوی مبارک علی صاحب جیسے عالم فاضل بھی غیر مبائعین میں شامل ہوگئے۔ آپ اس نازک ابتلاء میں مستحکم چٹان بن کر کھڑے رہے اور دوسرے احباب جماعت کی بھی خلافت سے وابستگی کا موجب بنے۔
۱۹۲۸ء میں آپ نے اپنا مکان چھائونی میں تعمیر کرایا تو دو کمرے نماز باجماعت اور جمعہ کی نیت سے بنوائے۔ ایک مردوں کے لئے اور ایک عورتوں کے لئے۔ اس طرح آپ کا مکان مرکز کا کام دینے لگا اللہ تعالیٰ نے آپ کے مال میں اتنی برکت ڈالی کہ آپ نے انیس مکانات اپنے ورثہ میں چھوڑے۔ ان اللہ لایضیع اجر المحسنین۔
حضرت حافظ صاحب قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے۔ ایک دفعہ کسی بدر زبان نے اپ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں تحقیر آمیز الفاظ کہے تو آپ کو اتنا صدمہ ہوا کہ بخار ہوگیا اور دو دن تک ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہے۔ ۴۷
حضرت مولوی عبدالاحد خانؓ میرٹھی کا بیان
حضرت مولوی عبدالاحد خان صاحب میرٹھی نے آپ کی وفات پر لکھا :۔
>حافظ عبدالعزیز صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ صحابہ میں سے تھے۔ حافظ صاحبؓ اور خاکسار نے ایک ہی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی مجھے جہاں تک یاد ہے غالباً نومبر دسمبر ۱۸۹۵ء کے ایام تھے۔ حضرت حافظ صاحبؓ پہلے پیر جماعت علی شاہ کے مرید تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت بھی زوروں پر تھی چھائونی سیالکوٹ صدر میں مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب احمدی تھے اور ایک اور دوست بھی۔ مولوی صاحب نے درس قرآن شریف شروع کیا ہوا تھا اور حافظ صاحبؓ درس میں شامل ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل و احسان کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی۔ حضرت مولانا عبدالکریمؓ کا درس قرآن شریف شہر میں حکیم حسام الدینؓ کی مسجد میں ہوتا تھا۔ خاکسار اور حافظ صاحب سردیوں میں صبح ۵ بجے چھائونی سے اڑھائی تین میل کا فاصلہ چل کر مولوی عبدالکریمؓ کے پیچھے نماز صبح پڑھتے اور درس میں شامل ہوتے۔ اصل میں حافظ صاحبؓ کی بیعت کا بڑا سبب یہ ہوا کہ میں نے حافظ صاحب کو تحریک کی کہ پیر صاحب کی دعوت کریں اور مولوی صاحب کو بھی بلائیں )مولوی مبارک علی صاحب( پھر کچھ ذکر ضرور ہوگا۔ دیکھیں گے پیر صاحب کیا فرماتے ہیں۔ خیر شام کو حافظ صاحب کی بیٹھک میں انتظام ہوا اور پیر صاحب` مولوی صاحب` حاجی حسین بخش صاحب مرید پیر بخش صاحب` منشی الہ بخش احمدی` حافظ صاحب` خاکسار ایک یا دو اور دوست تھے غالباً ۷۔۸ آدمی تھے۔ پیر صاحب نے فرمایا مولوی صاحب کوئی رکوع قرآن شریف کا سنائیں۔ مولوی صاحب نے یاعیسی انی متوفیک۴۸ یہ ہی رکوع سنایا۔ اس وقت شروع شروع میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی زیادہ زیر بحث رہتے تھے اب تو غیر احمدی صاحبان اس بحث کو چھوڑ بھاگے۔ جب پیر صاحب اس رجوع کو سن کر کچھ بولے نہیں بلکہ مولوی صاحب کی خوش الحافی کی تعریف کی تو مولوی صاحب نے خود ہی دریافت کیا کہ آپ کا حضرت مرزا صاحب کے متعلق کیا خیال ہے ؟ پیر صاحب نے فرمایا کہ میں نے باوا صاحب ۴۹ سے پوچھا تھا۔ )یعنی اپنے پیر صاحب سے( باوا صاحب نے کہا وہ >کوڑا< )جھوٹا( ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کوئی دلیل ؟ پیر صاحب نے کہا باوا صاحب کے کہنے پر دلیل کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔< دوسرے دن صبح ہی میں نے اور حافظ صاحب نے بیعت کا خط حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت شریف میں ارسال کردیا جس کا جواب حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قلم کا لکھا ہوا مجھ کو اور حافظ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مل گیا۔ الحمد لل¶ہ علی حسبانہ۔
خاکسار اور حافظ عبدالعزیزؓ بچپن کے دوست تھے۔ ایک ساتھ قریب ۲۵۔۳ برس رہے۔ ایک ہی سکول میں پڑھے بلکہ انہیں کے گھر میں رہے۔ حافظ صاحبؓ مجھ سے دو برس بڑے تھے۔ بچپن ہی سے خاموش` کم سخن` سنجیدہ مزاج` نیک سیرت اور خوش اخلاق انسان تھے۔ ہمارے محلہ میں نیز سارے بازار یعنی چھائونی سیالکوٹ میں بغیر امتیاز مذہب و ملت کیا ہندو کیا مسلمان ہر ایک آپ کو عزت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ یہ بالکل سچی حقیقت ہے اور ہر ایک آپ کا احترام کرتا تھا۔ باوجود احمدیت کی سخت مخالفت کے آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے کسی مخالف کو آپ کے سامنے احمدیت کے خلاف زبان کھولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ آپ کی صفائی گوئی` راست بازی` نیک چلنی` اخلاص اور تقویٰ کا ہر ایک مداح تھا۔ علاوہ چھائونی کے چونکہ آپ سنگر کمپنی کے مینجر تھے شہر سیالکوٹ میں بھی بہت آنا جانا رہتا تھا شہر سیالکوٹ کے اکثر و بیشتر لوگ جن سے آپ کو معاملہ پڑتا آپ کے حسن اخلاق` اپ کے اوصاف حمیدہ کے معترف تھے اور آپ کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آتے تھے۔ ہمارے ایک دوست مستری نظام الدین صاحب سپورٹ ورکس سیالکوٹ شہر جو کاربار کے سلسلہ میں چھائونی آتے رہتے تھے اور مولا بخش صاحب بوٹ فروش )جو بعد میں پیغامی ہوگئے( بھی آتے اور حافظ صاحب کی دکان پر ضرور بیٹھک رہتی۔ ایک مرتبہ حافظ جی کی نظر مستری نظام الدین صاحب کے موزوں پر پڑ گئی جو پھٹے ہوئے تھے۔ آپ نے فوراً ان کے پھٹے ہوئے موزے اتروایئے اور اپنے نئے موزے ان کو پہنائے۔۔۔۔۔۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دارالامان سے مولوی کرم دین کے مقدمہ میں ۵۰ تشریف لے جارہے تھے تو میں اور حافظ جیؓ اور مستری نظام الدین تینوں آدمی وزیر آباد سٹیشن سے اسی ٹرین میں سوار ہو کر حضور علیہ السلام کے ساتھ ہی جہلم گئے اور حضور علیہ السلام کے قیام جہلم تک وہیں رہے اور ساتھ ہی واپس ہوئے۔ آہا ! اسٹیشنوں پر کیا کیا نظارے دیکھے اور خاص کر جہلم سٹیشن پر پھرکچہری احاطہ میں` کیا بتائو ؟ جن کا بیان کرنا بڑا طویل ہے جس کی اس خط میں گنجائش نہیں ہے۔ اکثر واقعات میری نوٹ بک میں ہیں جو ذکر حبیب کے وقت دوستوں کو از دیاد ایمان کے لئے سناتا ہوں۔
احاطہ کچہری میں حضور مسیح موعود علیہ السلام کرسی پر بیٹھے ہوتے تھے اور باقی دوست دری پر بیٹھ جاتے اور کچھ دوست چاروں طرف گھیرا باندھ کر کھڑے رہتے حضور تقریر فرماتے۔ اکثر و بیشتر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے جن میں حافظ صاحبؓ اور خاکسار بھی شامل تھے۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹ والے بھی تھے جنہوں نے قریب ہی تھوڑی دوری پر مخالفت میں اکھاڑا لگایا ہوا تھا۔ پھر حضور مسیح موعود علیہ السلام کے لیکچر سیالکوٹ میں بھی حافظ صاحب اور خاکسار شامل رہے۔۵۱
tav.13.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
اولاد
ڈاکٹر رشید احمد صاحب۵۲۔ ارشاد احمد صاحب۵۳ شبیر احمد صاحب۵۴بی۔ اے۔ بشارت احمد صاحب۵۵ بی۔اے۔ شمشاد احمد صاحب۵۶۔ ریاض احمد صاحب۵۷ اعجاز احمد صاحب۵۸ ذوالفقار احمد صاحب۵۹ مبارکہ بیگم صاحب۔ سلطان حیدری بیگم صاحبہ۔ اقبال حیدری بیگم صاحبہ۔
تادم تحریری خدا کے فضل و کرم سے حضرت حافظ صاحب کی اولاد کی مجموعی تعداد ۵۳ تک جا پہنچی ہے خدائے عزوجل نے مہدی موعود کو بشارت دی تھی :۔
>میں تیرے خالص اور ولی محبوں کا گروہ بھی بڑھائوں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا۔<۶۰
۸۔ اخوند محمد اکبر خان صاحبؓ آف ڈیرہ غازی خاں :۔
)ولادت اپریل ۱۸۸۵ء تحریری بیعت ۱۹۰۴ء۔ زیارت ۱۹۰۵ء ۔ وفات ۴۔ فتح ۱۳۳۰ ہش/۴ دسمبر ۱۹۵۱ء(
۱۹۰۳ء میں دفتر ضلع ڈیرہ غازی خان میں ملازم ہو کر راجن پور میں تعینات تھے کہ ایک سعید نوجوان حکیم عبدالخالق صاحب سے ملاقات ہوئی۔ حکیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب کا مطالعہ کرچکے تھے اور رسالہ >ریویو آف ریلیجز< خود آپ کے زیر نظر رہ چکا تھا۔ دونوں نے تحریک احمدیت پر علمی تحقیقی شروع کردی اور دونوں خوش نصیبوں پر اللہ تعالیٰ نے حق کھول دیا اور انہوں نے اوائل ۱۹۰۴ء میں بیعت کا خط لکھ دیا۔
ایک نشان
پرانے ڈیرہ غازی خان میں احمدیت کی سخت مخالفت تھی اور اس میں آپ کے خاندان کے ایک بارسوخ پولیس افسر اخوند امیر بخش خاں صاحب بہت پیش پیش تھے۔ غیر احمدیوں نے احمدیہ مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے سخت ہنگامہ کھڑا کردیا تھا اور یہ صاحب ان کے پشت پناہ بنے ہوئے تھے۔ انہون نے سب انسپکٹر پولیس ڈیرہ غازی خان کو اکسایا کہ فریقین کے سرگردہ لوگوں کی ضمانتیں لی جائیں ۶۱ اخوند صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں ایک عریضہ لکھا جس میں ان صاحب کی مخالفت کا ذکر کیا کہ ان کو اس قدر عناد ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو مجھے قتل کردیں اور ضمانت طلبی کا بھی ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی حضور نے اپنے مبارک ہاتھ سے اس عریضہ کی پشت پر جواب رقم فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے دعا کی گئی ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس کا جلد نیک نتیجہ ظاہر ہوگا اور جماعت کو چاہئے کہ ضمانت ہرگز نہ دیوے ہاں مسجد چھوڑنی پڑے تو چھوڑ دی جاوے اور کسی احمدی کے مکان پر باجماعت نمازوں کا انتظام کر لیا جاوے مگر جماعت کے کسی فرد کو ضمانت ہرگز نہیں دینی چاہئے۔
حضور کے اس جواب کے تھوڑے دنوں بعد اخوند امیر بخش خاں لقمہ اجل ہوگئے اور صاحب ڈپٹی کمشنر نے سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈیرہ غازی خان کی رپورٹ پر ایک مسلمان۔ ای۔ اے سی کو مقرر کردیا کہ وہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مصالحت کرادے مگر کامیابی نہ ہوئی۔ یہ کشمکش جاری تھی کہ آخر دریائے سندھ کی طغیانی سے سارا شہر غرق ہوگیا اور نیا شہر آباد کیا گیا جس میں جماعت احمدیہ نے اپنی نئی مسجد تعمیر کرائی جو نئے شہر میں سب سے پہلے مسجد تھی ۶۲ یہ مسجد فراخ اور کشادہ ہے اور شہر کے مرکزی اور بارونق حصہ میں واقع ہے مسجد میں لائبریری اور مربی سلسلہ کی رہائش کاہ بھی موجود ہے اور جمعہ کے علاوہ پبلک جلسے بھی اسی میں منعقد کئے جاتے ہیں۔
اخلاق
اخوند صاحبؓ نے اپنے زمانہ ملازمت میں خوب پیغام حق پہنچایا۔ آپ مبلغین سلسلہ کو بلوا کر تقریریں کراتے اور اخراجات خود برداشت کرتے تھے۔ اپنے افسروں کو ہمیشہ جماعتی لٹریچر دیتے مستقل چندوں کے علاوہ سلسلہ کی دیگر مالی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ سلسلہ کے لٹریچر سے گہرا شف تھا۔ مرکزی اخبارات` رسائل اور کتب منگواتے اور فرماتے یہی ترکہ میں اپنی اولاد کے لئے چھوڑ جائوں گا۔ جماعتی کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیتے۔ آپ کو اپنے رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں سے تکالیف پہنچیں مگر آپ نے ہمیشہ صبر کیا ور دکھ دینے والوں سے نیکی اور احسان کیا حضرت مصلح موعودؓ اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ اور بزرگان سلسلہ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔
جب آپ دوران ملازمت ملتان میں قیام فرما تھے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا پانچ مرتبہ آپ کے گھر تشریف لائیں۔
عسر ویسر دونوں حالتیں آپ پر آئیں مگر آپ میں شفقت علی خلق اللہ انفاق فی سبیل اللہ اور مہمان نوازی کے اوصاف بدستور قائم رہے۔ مفوضہ کام نہایت توجہ اور محنت سے انجام دیتے آپ کی دیانتداری اپنوں اور بیگانوں میں مسلم تھی۔
ہجرت اور وفات
۱۹۳۸ء میں پنشن ملی تو قادیان آگئے اور ۱۹۴۰ء میں محلہ دار الفضل میں اپنا مکان بنا لیا۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۷ء میں قادیان سے آکر ملتان میں پناہ گزین ہوئے اور ۴ ماہ فتح ۱۳۳۰ہش/۴دسمبر ۱۹۵۱ء کو وفات پائی اور ربوہ میں دفن کئے گئے۔ ۶۳
اولاد
۱۔ صفیہ خانم صاحبہ اہلیہ اخوند محمد عبدالقادر خان صاحب ایم۔ اے مرحوم ریٹائرڈ پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ
۲۔بشری خانم مرحومہ )بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون(
۳۔ اخوند فیاض احمد خان صاحب حال مینجر سیلز انٹرہام لمٹیڈ لاہور۔
۴۔ثریا خانم صاحبہ اہلیہ ضیاء الرحمن صدیقی صاحب۔ ملتان
۵۔ رضیہ خانم صاحبہ اہلیہ پروفیسر حفیظ احمد اعوان صاحب۔ خانپور )ضلع رحیم یار خان(
۶۔ آصفہ خانم صاحبہ اہلیہ پروفیسر ناصر احمد صاحب پشاور
۷۔ فرحت خانم صاحبہ
۸۔ اخوند ریاض احمد خان صاحب۔ ایم ۔ ایس سی۔ حال ربوہ
حضرت ملک برکت علی صاحبؓ والد ماجد خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ
)ولادت۶۴ قریباً ۱۸۶۹ء۔ تحریری بیعت ۶۵ ۱۸۹۷ء دستی بیعت ۶۶ ۲۔۱۹۰۱ء وفات ۶۷ ۲۰ ماہ فتح ۱۳۳۰ ہش / ۲۰ دسمبر ۱۹۵۱ء
خود نوشت حالات
حضرت ملک صاحبؓ اپنے قبول احمدیت اور سفر قادیان کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :۔
>میں گجرات سے تعلیم حاصل کرکے لاہور میں ملازم ہوگیا۔ وہاں جو دفتر کے کلرک تھے انہوں نے پیر سید جماعت علی شاہ ۶۸ کی بیعت کے اور مجھے بھی تحریک کی۔ میں نے بھی ان کے کہنے سے پیر صاحب کی بیعت کر لی اور ہر روز صبح و شام دفتر کے وقت کے علاوہ ان کی صحبت میں رہنے لگا۔ جب عرصہ گزر گیا اور میری طبعیت پر کوئی اثر پیدا نہ ہوا اور نہ ہی میں نے کوئی روحانی ترقی حاصل کی تو پیر صاحب سے سوال کیا کہ مجھے بیعت کئے ہوئے اس قدر عرصہ گزر گیا ہے مگر میری حالت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ پیر صاحب نے کہا کہ آپ مجاہدات کریں اور اس حد تک میرا تصور کریں کہ میرا نقش ہر وقت آپ کے سامنے رہے پھر آپ کو بارگاہ الٰہی میں رسائی حاصل ہوگی۔ میں عرصہ تک ان کا تصور بھی کرتا رہا۔ مجاہدات بھی بڑے کئے مگر کوئی فائدہ حاصل نہ ہو۔ اکونٹنٹ جنرل کے دفتر میں ایک شخص میاں شرف الدین صاحب ہوا کرتے تھے وہ احمدی تو نہ تھے مگر حضرت صاحب کی کتابیں پڑھا کرتے تھے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کو پیر صاحب کی بیعت کئے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا ہے مگر آپ کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں تو ہر روز پیر صاحب کو یہی کہتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ میری حالت میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں آپ کو کوئی کتاب دوں تو کیا آپ پڑھیں گے میں نے کہا کہ ضرور۔ آپ دیں میں انشاء اللہ ضرور پڑھوں گا۔ اس پر انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ایک کتاب مطالعہ کے لئے دی۔ میں نے اس کا مطالعہ کیا۔ پھر انہوں نے دوسری دی۔ یہاں تک کہ چار کتابیں میں نے پڑھ لیں۔ اس کے بعد ایک دن میں نے پیر صاحب کی خدمت میں حضرت صاحب کا ذکر اور پوچھا کہ ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ پیر صاحب نے کہا کہ نہ ہم ان کو اچھا کہتے ہیں نہ برا۔ میں اس جواب پر بہت مستعجب ہوا مگر اس وقت خاموش ہوگیا۔ ایک روز پھر میں نے یہی سوال کردیا۔ پیر صاحب نے پھر وہی جواب دیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ >مگر نہ ان کی کوئی کتاب پڑھو اور نہ وعظ سنو< میں حیران ہوا کہ ایک طرف تو ان پر اچھا یا برا ہونے کے متعلق کوئی فتویٰ نہیں لگاتے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ ان کی کتابیں پڑھو اور نہ وعظ سنو۔ میں نے کہا کہ کیا آپ نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ؟ اس پر پیر صاحب جوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم ان کی کتابیں پڑھیں علماء نے ان پر کفر کا فتویٰ جو لگا دیا ہے۔ ان کا جواب سن کر میرے ذہن میں حضرت اقدس کی تحریرات کا نقشہ کھنچ گیا جس میں حضور نے مخالف علماء کے کفر کے فتویٰ کا ذکر کر کے فرمایا تھا کہ یہ لوگ نہ میری کتابیں پڑھتے ہیں اور نہ میرے خیالات کو انہیں سننے کا موقعہ ملا ہے مگر محض مولوی محمد حسین کے کہنے پر یک طرفہ فتویٰ لگادیا ہے۔
میں نے دل میں کہا کہ پیر صاحب کی بھی یہی حالت ہے کہ بالکل یک طرفہ فتویٰ لگارہے ہیں۔ یہ باتیں سن کر میں پیر صاحب سے بدشطن ہوگیا اور واپس آکر تحقیقات میں مشغول ہوگیا۔ ان ایام میں عبداللہ آتھم کے متعلق حضور کے اشتہارات نکل رہے تھے اور عیسائیوں کی طرف سے بھی اشتہارات نکلا کرتے تھے۔ میں فریقین کے اشتہارات کو ایک فائل کی صورت میں محفوظ کررہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضڑت اقدس کی پیشگوئی آتھم کے بارہ میں بالکل صحیح پوری ہوگئی ہے۔ اس کے بعد لیکھرام کے متعلقہ حضور کے اشتہارات اور تحریرات نکلنا شروع ہوگئیں ان کو بھی میں فائل میں محفوظ کرتا گیا۔ ان ہر دو واقعات کے گزرنے کے بعد مجھے حضرت اقدس کی صداقت کے متعلق اطیمنان ہوگیا اور میں نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ پھر قریباً ۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء میں قادیان جا کر دستی بیعت کی۔<
>جب قادیان پہنچے تو مہمان خانہ میں ٹھہرے۔ دوسرے دن حضرت اقدس نماز ظہر کے لئے تشریف لائے ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت اقدس کے زمانہ میں چونکہ مسجد چھوٹی ہوا کرتی تھی اس لئے جب آدمی زیادہ ہوتے تو چھت پر جہاں حضور تشریف فرما ہوتے تھے جہاں کسی کو جگہ مل جاتی وہ بیٹھ جاتا اور ہمہ تن گوش ہو کر حضور کی باتوں کو سنتا۔ بعض غیر احمدی معترض ہوئے کہ آپ پیر ہیں اور نیچے بیٹھے ہیں مگر مرید شہ نشین پر اوپر بیٹھے ہیں۔ حضرت صاحب فرماتے کہ معذوری ہے جگہ تنگ ہے لوگ مجھے پوجنے کے لئے نہیں آئے بلکہ تقویٰ اور طہارت کی باتیں سننے کے لئے آئے ہیں اور میں تو انسان پرستی کو دور کرنے کے لئے آیا ہوں۔
ایک دفعہ جب کہ میں بھوچرا بنگلہ نہر لوئر جہلم ضلع سرگودھا میں تھا ایک ¶سب ڈویژنل افسر مسٹر ہاورڈ میرے خلاف ہوگیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بددیانت تھا اور پہلے کلرک کے ساتھ مل کر کھایا کرتا تھا مگر جب میں گیا تو میں نے ایسی بل بنانے سے انکار کردیا اور کہا اپ میئر منٹ بک ۶۹Book) (Mesurement میں درج کر کے دے دیں میں بل بنادوں گا لیکن کتاب میں درج نہیں کروں گا۔ اس پر وہ بگڑ گیا اور میرے خلاف رپورٹ کردی اور مجھے معطل کردیا۔ وجہ یہ لکھی کہ میں اس کو بدمعاشی کی وجہ سے معطل کرتا ہوں لیکن افسر بالا نے لکھا کہ اس پر چارج شیٹ لگائو اور جواب لے کر بھیجو۔ اس وقت جو جرم مجھ پر لگایا گیا وہ کوئی بھی جرم نہ تھا بلکہ اس قسم کی باتھیں تھیں کہ اس نے فلاں کاغذ پر دستخط کئے ہیں لیکن لفظ پڑتال نہیں لکھا۔ ایسی باتوں کا میں نے مدلل جواب دے دیا۔ خیر کیس چل پڑا اور تین مہینہ تک چلتا رہا۔ میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے درخواست کی حضور کی طرف ے ایک کارڈ پر جواب آیا کہ >دعا کی ہے اللہ تعالیٰ رحم کرے گا۔< اتفاق سے یہ خط ایک شخص پر سرام اور رسیئر کے ہاتھ آگیا اور اس نے پڑھ لیا اس نے مجھے آکر کہا کہ مقدمہ آپ کے حق میں ہوگیا ہے اور آپ بری ہوگئے ہیں۔ میں حیران ہوا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے علم ہوا ؟ اس نے وہ کارڈ مجھے دیا اور کہا اس پر لکھا ہوا ہے۔ میں نے اس سے پڑھا اور کہا کہ یہاں تو یہ نہیں لکھا کہ آپ بری ہوگئے ہیں۔ وہ بولا کہ اتنے بڑے خدا کے بندے نے آپ کے لئے دعا کی ہے بھلا اب کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ بری نہ ہوں ؟؟ چنانچہ اس خط کے مطابق تھوڑے ہی عرصہ کے بعد میں بری ہوگیا اور باوجود اس بات کے کہ میں کلرک تھا اور جھگڑا ایک انگریز سب ڈوینل افسر کے ساتھ تھا مگر اس مقدمہ کی تفتیش کے لئے سپرنٹنڈنٹ اور چیف انجینئر مسٹر مبنٹین تک آئے اور خوب اچھی طرح سے انکوائری کی اور مجھے بری کیا۔<۷۰
اخلاق و عادات
ملک صاحب نے محکمہ نہر میں ملازمت کر کے ۱۹۲۷ء میں پنسن حاصل کی۔ عرصہ دراز تک جماعت احمدیہ گجرات کے جنرل سیکرٹری۔ اور پھر امیر رہے۔ دوران ملازمت اور بعد مین بھی تبلیغ دین کو اپنی غذا بنائے رکھا۔ آپ کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سلسلہ میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ تہجد گذار اور متقی بزرگ تھے ۔ اولو الضرمی اور راست گوئی آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ بہت دعائیں کرنے والے` مستجاب الدعوات` صاحب کشوف و رویا تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور~صل۱~ کے خلفاء کے ساتھ عشق تھا۔ سلسلے کے لئے غیرت رکھنے والے انسان تھے۔ دینی اور دنیاوی لحاظ سے کامیاب اور کامران زندگی گزاری وفات تک تبلیغ کا کام سرانجام دیتے رہے۔ باوجود پیرانہ سالی کے جواں ہمت اور جواں دل تھے اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت کو قبول کیا۔ آپ کے ذریعہ سے آپ کے خاندان اور متعلقین کا اکثر حصہ احمدیت میں داخل ہوا۔ ۷۱
بہتر علمی یادگار
حضرت ملک صاحبؓ کی بہترین علمی یادگار آپ کے فرزند خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ تھے جن کے تبلیغی معرکے ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔ خادم صاحبؓ نے اپنی مایہ ناز کتاب >احمدیہ پاکٹ بک< کا چھٹا ایڈیشن آپ سے معنوں کرتے ہوئے لکھا ہے :۔
>میں اپنے والد مرحوم و مغفور حضرت ملک برکت علی کا نام زیب عنوان کرتا ہوں جن کا عشق دیں اور جوش تبلیغ مجھے ورثہ میں ملا ہے اور جن کی تعلیم و تربیت سے میں خدام احمدیت میں شمار ہونے کے قابل بنا۔<۷۲4] ftr[
فصل سوم
۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں تقریب مسرت
۲۶ فتح ۱۳۳۰ ہش /۲۶ دسمبر ۱۹۵۱ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے سالانہ جلسہ ربوہ کے افتتاح سے قبل اپنے صاحبزاہ مرزا وسیم احمد صاحب اور اپنی صاحبزادی امہ النصیر بیگم صاحبہ کے نکاحوں کا اعلان فرمایا۔ صاحبزادہ صاحب کا نکاح حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی بیٹی امتہ القدوس بیگم صاحبہ سے اور صاحبزادی صاحبہ کا پیر معین الدین صاحب ایم۔ ایس سی ابن حضرت پیر اکبر علی صاحب ۷۳ مرحوم سے ایک ایک ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا تھا۔
حضور نے خطبہ نکاح میں فرمایا کہ >میں اپنی لڑکیوں کا نکاح صرف واقفین زندگی سے کررہا ہوں اور اس رشتہ میں میرے لئے یہی کشش تھی کہ لڑکا واقف زندگی ہے۔< ۷۴
مجاہدین احمدیت کا تبلیغی دورہ
بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دینے والے مجاہدین کے ایک وفد نے صوبہ پنجاب و صوبہ سرہد کا کامیاب تبلیغی دورہ کیا۔ وفد نے لائلپور` سیالکوٹ` جہلم ` راولپندی` کیمبلپور` نوشہرہ` پشاور اور لاہور جیسے مرکزی شہروں کی انفرادی مجالس اور پبلک جلسوں سے خطاب کیا۔ اور`انڈونیشیا` سنگاپور` مشرق وسطیٰ` افریقہ اور یورپ وغیرہ ممالک میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات کے ایمان افروز اور دلچسپ واقعات بیان کئے اور بتایا کہ جماعت احمدیہ کے اسلامی مشن مسلمانان عالم خصوصاً پاکستان کے وقار اور مفادات کا ہر ممکن تحفظ و دفاع کرتے ہیں اور انڈونیشیا کی جنگ آزادی میں احمدیوں نے شاندار کردار ادا کیا ہے۔ وفد کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ مسلمانان پاکستان کو مسئلہ فلسطین کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کر کے انہیں صیہونی حکومت کے خلاف متحد ہونے کی تلقین کرے۔ چنانچہ اس پہلو پر بھی خاص زور دیا گیا۔
وفد جہاں جہاں پہنچا` مقامی جماعتوں نے اس کا پرجوش استقبال کیا اور اس سے استفادہ کرنے کے لئے عمدہ مواقع پیدا کئے۔ احمدیوں کی معلومات اور قوت عمل میں اضافہ ہوا اور غیر احمدی معززین مجاہدین کے کارناموں اور تبلیغی مساعی سے بہتر متاثر ہوئے۔ ۷۵
وفد میں شامل مبلغین کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ حضرت مولانا رحمت علی صاحبؓ مبلغ انڈونیشیا )امیر وفد(
۲۔ حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایازؓ مبلغ سنگاپور
۳۔ شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ فلسطین و شام
۴۔ مولوی غلام احمد صاحب مبلغ عدن۔
۵۔ مولوی عنایت اللہ صاحب احمدی مبلغ مشرقی افریقہ
۶۔ مولوی محمدﷺ~ اسحاق صاحب ساقی مبلغ سپین۔
ربوہ میں ٹیلی فون کا اجراء
خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ربوہ میں دینی خدمت بجالانے کی ساری سہولتیں قلیل ترین عرصہ میں مہیا فرمادیں۔ ریلوے لائن پہلے ہی ربوہ کے رقبہ میں سے گزرتی تھی بعد کو اسٹیشن بھی قائم ہوگیا اور اسٹیشن` ڈاک خانہ اور تار گھرکھلنے کے بعد اس سال ۲۱ ماہ ہجرت/مئی سے ٹیلی فون بھی جاری ہوگیا۔ ربوہ سے پہلا فون امیر جماعت احمدیہ قادیان کو کیا گیا جو حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے درج ذیل الفاظ پر مشتمل تھا۔ :۔
>جماعت کو سلام` بیماروں کی عیادت اور دعائوں کی تحریک۔<۷۶
دفاع وطن کا عہد
ماہ وفا/جولائی کے وسط میں ہندوستان کی بکتر بند فوجیں مشرقی پنجاب اور ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستانی حدود کے اتنے قریب فاصلہ پر جمع ہوگئیں کہ پاکستان کی سالمیت خطرہ میں پڑ گئی۔
اس نازک موقع پر مرکز احمدیت ۔۔۔ ربوہ کی طرف سے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان کے احمدی مادر وطن کے دفاع اور اس کی حفاظت کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اس سلسلہ میں ناظر صاحب امور خارجہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے وزیراعظم کے نام حسب ذیل تار ارسال کیا :۔
>پاکستانی سرحدات کے قریب ہندوستانی فوجوں کے جمع ہونے کی خبر سے افسوس ہوا ہم حکومت کو یقین دلاتے ہیں کہ قوم کے اس نازک وقت میں پاکستان کے احمدی ہر حال میں اپنی حکومت سے پورا پورا تعاون کریں گے اور مادر وطن کے دفاع اور اس کی حفاظت کی خاطر ہر ممکن قربانی کے لئے ہرآن تیار رہیں گے۔< ۷۷
رسالہ الفرقان کا اجراء
وسط ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء میں مولانا ابو العطا صاحب جالندھری سابق مبلغ بلاد عربیہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ نے رسالہ >الفرقان< جاری فرماا۔ اس رسالہ کے تین بنیادی اغراض و مقاصد تھے۔
۱۔ قرآن مجید کے حسن کو نمایاں کرنا اور فضائل قرآنی بیان کرنا۔
۲۔ غیر مسلموں )آریوں` عیسائیوں اور بہائیوں وغیرہ( کے قرآن مجید پر اعتراضات کے جوابات۔
۳۔ اہل پاکستان میں آسان اسباق کے ذریعہ عربی زبان کی ترویج و اشاعت۔
اس رسالہ کے اولین مینجر حضرت بابو فقیر علی صاحب )والد ماجد مولانا نذیر احمد علی صاحب شہید افریقہ( مقرر کئے گئے۔ یہ رسالہ چوبیس سال سے نہایت باقاعدگی اور التزام کے ساتھ چھپ رہا ہے اور اپنے بلند پایہ اور تحقیقی مضامین کے اعتبار سے رسالہ >ریویو آف ریلیجز اردو< کی نمائندگی کرتا ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی نگاہ میں >الفرقان< کو جو علمی افادی اہمیت حاصل تھی اس کا اندازہ حضور کے مندرجہ ذیل ارشاد سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا :۔
>میرے نزدیک الفرقان جیسا علمی رسالہ تیس چالیس ہزار بلکہ لاکھ تک چھپنا چاہئے اور اس کی بہت وسیع اشاعت ہونی چاہئے۔<۷۸
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے نے لکھا :۔
>رسالہ الفرقان بہت عمدہ اور قابل قدر رسالہ ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی اشاعت زیادہ سے زیادہ وسیع ہو کیونکہ اس میں تہقیقی اور علمی مضامین چھپتے ہیں ار قرآن کے فضائل اور اسلام کے محاسن پر بہت عمدہ طریق پر بحث کی جاتی ہے۔ ایک طرح سے یہ رسالہ اس غرض و غایت کو پورا کررہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدنظر رسالہ ریویو آف ریلیجز اردو ایڈیشن کے جاری کرنے میں تھی۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ خواہش بڑی گہری اور خدا کی پیدا کردہ آرزو پر مبنی ہے کہ اگر ایسے رسالہ کی اشاعت ایک لاکھ بھی ہو تو پھر بھی دنیا کی موجودہ ضرورت کے لحاظ سے کم ہے۔ پس مخیر اور مستطیع احمدی اصہاب کو یہ رسالہ نہ صرف زیادہ سے زیادہ تعداد میں خود خریدنا چاہئے بلکہ اپنی طرف سے نیک دل اور سچائی کی تڑپ رکھنے والے غیر احمدی اور غیر مسلم اصہاب کے نام بھی جاری کرانا چاہئے۔ تا اس رسالہ کی غرض و غایت بصورت احسن پوری ہو اور اسلام کا آفتاب عالمتاب اپنی پوری شان کے ساتھ ساری دنیا کو اپنے نور سے منور کرے۔<۷۹
دفتر >حفاظت مرکز< ربوہ میں
دفتر >حفاظت مرکز ہند< جو قریباً تین برس سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی نگرانی میں جو دھامل بلڈنگ )لاہور( میں قائم تھا اس سال کے آغاز میں ربوہ منتقل ہوگیا ۸۰ اور حضڑت میاں صاحبؓ بھیاس جدید مرکز میں رہائش پذیر ہوگئے۔
اس دفتر کا نام سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی منظری سے ۷ ماہ شہادت ۱۳۳۹ ہش/۷ ماہ اپریل ۱۹۶۰ء کو خدمت درویشاں رکھا گیا۔ حضور کے الفاظ مبارک یہ تھے >خدمت درویشاں نام بدل دیں< حضور کا یہ ارشاد اس دفتر میں زیر نمبر ۹۲۷۔۶۰۔۴۔۷ ریکارڈ شدہ ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے نام مبارکباد کا پیغام
۴۔ صلح/جنوری سے لنڈن میں دولت مشترکہ کے وزرائے اعظم کی کانفرنس ہورہی تھی۔ وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جائے گا وہ اس میں شامل نہین ہوں گے۔ اس جرات مندانہ اقدام پر حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے درج ذیل الفاظ میں ان کو مبارکباد کا پیغام دیا:۔
>آپ نے دولت مشترکہ کے وزیراعظم کی کانفرنس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کی شمولیت پر زور دیتے ہوئے جس عزم و ثبات کا اظہار کیا ہے میں اس پر آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اگرچہ ہمارے جماعت کے نزدیک دولت مشترکہ کی رکنیت بھی اہم ہے لیکن اس کے نزدیک یقیناً پاکستان کی سلامتی اور حفاظت کا سوال اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے خیر سگالی کا جذبہ بیشک ایک قابل قدر اور نہایت بیش قیمت چیز ہے لیکن اپنے ملک کے مفاد کے لئے ثابت قدمی دکھانا بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔ خدا آپ کے ساتھ ہو۔<۸۱
درویشان قادیان کے اہل و عیال کی واپسی
اس سال ایک لمبی جدوجہد اور انتظار کے بعد بارہ درویشوں کے اہل و عیال )جو انقلاب ہجرت کے باعث پاکستان میں آگئے تھے( واپس قادیان جا کر آباد ہوگئے اور یہ سب ان درویشوں کے رشتہ دار تھے جو شروع سے ہندوستان کے باشندے تھے۔ ان بارہ خاندانوں میں سے ایک تو کچھ عرصہ قبل قادیان چلا گیا تھا اور باقی ۲۸ ماہ احسان/ جون کو واپس گئے تھے۔
ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے مصنف >اصحاب< اس واقعہ کی تفصیل میں تحریر فرماتے ہیں :۔
>۱۹۴۸ء سے اہل و عیال کی واپسی کے لئے کوشش ہورہی تھی بالاخر حکومت ہند کی طرف سے چند ماہ قبل اہل و عیال منگوانے کی اجازت ملی اور حکومت پاکستان نے بھی اس کی اجازت دیدی گویا دونوں حکومتوں کے اتفاق رائے سے یہ کام ہوا۔ لیکن گزشتہ ماہ کی ابتداء میں اچانک یہ روح فرسا اطلاع گورنمنٹ ہند کی طرف سے آئی کہ اجازت کی میعاد گزر چکی ہے۔ اس میعاد کی ادھ اور ادھر کے منتظمین کو کوئی اطلاع نہ تھی بلکہ یہ اطلاع تھی کہ کوئی میعاد مقرر نہیں ہے۔ بہرحال منسوخی کی اطلاع ملنے پر صدر انجمن احمدیہ قادیان نے مکرم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز اور خاکسار کو اس سلسلہ میں ولی بھیجا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۲۲ جون کو میعاد توسیع منظور ہو کر لاہور اطلاع چلی گئی۔ پاکستان حکومت کی طرف سے میعاد ۳۰ جون تک کی تھی۔ وقت بہت تنگ تھا اور درویشوں کے اہل و عیال متفرق مقامات پر تھے۔ ان کے جلد اور بروقت پہنچنے کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بہت ہی سعی فرمائی جو خدا کے فضل سے مشکور ہوئی۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء قریباً سارے دوست جن کے اہل و عیال آرہے تھے۔ فون پر اطلاع ملنے پر استقبال کے لئے واہگہ بارڈر پر پہنچ گئے۔ نظارت امور عامہ کی طرف سے انتظام کے لئے اخویم فضل الٰہی صاحب مقرر تھے۔ ۲۸ جون کو گیارہ درویشوں کے اہل و عیال قریباً ساڑھے بجے دن سرحد پاکستان عبور کر کے سرزمین ہند میں داخل ہوئے جہاں سے لاری کے ذریعہ ساڑھے چھ بجے شام روانہ ہو کر قریباً ۸ بجے شام بٹالہ اور وہاں سے ڈیڑھ بجے شب بخیریت تمام قادیان پہنچے۔ سڑک کی خرابی کی وجہ سے قادیان کے راستہ میں ٹرک پھنس گیا اس وجہ سے کافی وقت صرف ہوگیا جوں جوں ان کی آمد میں دیر ہوتی جاتی تھی۔ درویشوں کا اشتیاق اور فکر بڑھتا جاتا تھا اور وہ دست بدعا تھے کہ اللہ تعالیٰ قافلہ کو خیریت سے لائے۔ احمدیہ چوک )نزد مکان حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب( میں درویش ہلال عید کی طرح چسم براہ تھے اور قافلہ کی آمد پر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔< ۸۲
جماعت احمدیہ پشاور کی نئی جامع مسجد
پشاور میں ۱۹۲۳ء سے صرف ایک احمدیہ مسجد کوچہ گلہ اوشاہ میں تھی۔ اب اس سال حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجکیؓ مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تحریک پر سول کوارٹرز میں دوسری عالیشان مسجد بنی۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد حضرت مولانا صاحب~رضی۱~ نے ۲۸ ماہ شہادت ۱۳۳۰ ہش/۲۸ اپریل ۱۹۵۱ء بروز اتوار صبح آٹھ بجے رکھا بنیاد کے بعد آپ نے احادیث نبوی اور اسلامی واقعات کی روشنی میں تعمیر مسجد میں حصہ لینے کی اہمیت بتائی جس پر احمدی دوستوں نے نایت اخلاص اور فراخدلی سی چندہ فرہام کیا یکم شوال ۱۳۷۱ ھ مطابق ۲۴ جون ۱۹۵۲ء کو حضرت مولانا مہبی نے اس میں نماز عید پڑھا کر اس کا افتتاح کیا۔
یہ مسجد صوبہ سرحد کی احمدی مساجد میں سب سی وسیع مسجد ہے اور مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ نے حیات قدسی ۸۳< جلد سوم صفحہ ۰۰۱ پر اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ فاروقی امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد نے اپنی کتاب >تاریخ احمدیہ ۸۴ )سرحد( کے صفحہ ۹۷ پر اس مسجد کا تذکرہ فرمایا ہے۔
قادیان سے رسالہ >درویش< کا اجراء
قادیان کے اہل علم و قلم درویشوں نے ۱۲ صلح ۱۳۲۷ ہش/۱۲ جنوری ۱۹۴۸ء کو >بز درویشاں< کے نام سے ایک علمی مجلس قائم کی جس کا مقصد اسلامی طریق پر فن تقریر سکھانا اور دینی اور علمی قابلیت میں اضافہ کرنا تھا۔ اس مجلس کی ابتدائی دو تین سال درویشوں میں تقریری شوق پیدا کرنے کے لئے وقف رہے ماہ فتح ۱۳۲۹ ہش/دسمبر ۱۹۵۰ء میں مجلس کی پہلی تحریری جدوجہد ایک مجموعہ نظم و نثر کی صورت میں سامنے آئی جس کا نام بھی >درویشان قادیان< تھا۔ ازاں بعد بزم نے اپنے اجلاس )مورخہ ۴ صلح ۱۳۳۰ ہش / ۴ جنوری ۱۹۵۱ء( میں قادیان سے ایک ماہنامہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس رسالہ کا نام >درویش< تجویز فرمایا جس کا پہلا شمارہ ماہ تبوک ۱۳۳۰ ہش/ستمبر۱۹۵۱ء میں شائع ہوا۔
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے اس رسالہ کے لئے حسب ذیل پیغام بذریعہ تار ارسال فرمایا :۔
IDARWESHAN۔BAZM
QADIAN MASIH DARUL ALI MOBARIK O/o
faith your to or God your to do you service Whatever straightiorward, be honst, be earnest, be conuntry, and is work your If you help to people upon look don't۔you help will nobody not if you, help will God God, for
51۔26 RABWAH MASIH KHALIFATUL
)ترجمہ( آپ اپنے خدا` مذہب اور ملک کی خاطر جو خدمت بھی انجام دیں اس میں پوری سنجیدگی` دیانتداری اور استنبازی سے کام لیں۔ انسانی امداد پر انحصار نہ رکھیں۔ اگر آپ کا کام محض اللہ کے لئے ہے تو وہ خود آپ کی تائید و نصرت فرمائے گا ورنہ کوئی فرد آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔
خلیفتہ المسیح
۲۶ جولائی۱۹۵۱ ربوہ
رسالہ >درویش< نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کی نگرانی میں چھپتا تھا اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اس کے نگران تھے۔ مولوی مبارک علی صاحب طالب پوری` چوہدری سعید احمد صاحب بی۔ اے آنرز` محمد صادق صاحب ناقد لائلپوری نے بالترتیب اس کی ادارت کے اور مکرم یونس احمد صاحب اسلم نے تابع و ناشر کے فرائض انجام دیئے ابتداً یہ رسالہ پریم پرنٹنگ پریس امرتسر سے چھپوایا گیا۔ پھر راما آرٹ پریس امرتسر سے طبع ہونے لگا۔ رسالہ کا سرورق منارۃ المسیح کے نہایت دلکش اور خوبصورت فوٹو سے مزین ہوتا تھا۔
انقلاب ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد مرکز سے شائع ہونے والا یہ پہلا رسالہ تھا اور اسے ہندوستان اور پاکستان کے مشہور احمدی علماء اور ادباء کی علمی و ادبی سرپرستی حاصل تھی۔ اس کے مضمون نگاروں میں حضرت عرفانی الکبیرؓ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ حضرت مرزا برکت علی صاحب جیسی بزرگ صحابہ اور مولانا ابو العطاء صاحب` مولوی شریف احمد صاحب امینی ` مولوی محمد اسمعیل صاحب یادگیری` مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری` ملک صلاح الدین صاحب ایم ۔ اے اور مولوی مد ابراہیم صاحب مجاہد بلاد عربیہ جیسے علماء اور سید اختر احمد صاحب اور نینوی ایم ۔ اے پٹنہ کالج جیسی اوباء اور شیخ عبدالقادر صاحب محقق عیسائیت` سید ارشد علی صاحب لکھنوی اور پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب جیسے فاضل شامل تھے۔
احمد شعراء میں سے خاص طور پر چوہدری عبدالسلام صاحب اختر` جناب قیس سینائی صاحب` جناب مصلح الدین صاحب راجیکی` جناب عبدالمنان صاحب ناہید اور جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کا کلام رسالہ کی زینت بنتا رہا۔
۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء میں ادارہ >درویش< کا دفتر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی کی بلڈنگ میں قائم تھا اور بزم درویشاں کی لائبریری بھی یہیں تھی۔۸۵
یہ ماہنامہ ماہ ۱ خاء ۱۳۳۱ ہش/اکتوبر ۱۹۵۲ء تک جاری رہا اور پھر اقتصادی مشکلات کے باعث بند کردیا گیا۔ ۸۶
پیغام امام جماعت احمدیہ سیر الیون کے نام
حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت احمدیہ سیر الیون کے سالانہ جلسہ ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء کے لئے مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
برادران جماعت احمدیہ ملک سیر الوین !!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
یہ پیغام میں آپ کے ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء جلسہ کے لئے بھجوارہا ہوں۔ آپ کے ملک میں مغربی افریقہ کے ممالک میں سب سے آخر میں تبلیغ شروع ہوئی ہے۔ لیکن آپ کا ملک چار طرف سے ایسے علاقوں سے گھرا ہوا ہے جو احمدیت سے ناآشنا ہیں۔ پس آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے اور آپ کے لئے کام کے مواقع بھی بہت پیدا ہوجاتے ہیں۔ پس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی محنت اور کوشش کو بڑھائیں اور نہ صرف اپنے علاقہ میں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں بلکہ لائبریا اور فرنچ افریقن علاقوں میں بھی تبلیغ کا کام اپنے ذمہ لیں مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے فرائض کو ادا کریں گے تو آپ کے لئے آخرت میں بہت سا ثواب جمع ہوجائے گا۔ اور اس دنیا میں آپ شمالی افریقہ کے رہنما بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اسلام کی تعلیم پر سچے طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اخلاص اور قربانی اور اتحاد اور نظام کے احترام کا مادہ آپ میں پیدا کرے۔
خاکسار )دستخط( مرزا محمود احمد
خلیفتہ المسیح الثانی ۸۷
دعائوں کی خاص تحریک
تحریک احمدیت کا ایک عظیم مقصد دعا پر زندہ اور غیر متزلزل ایمان بھی ہے اسی لئے سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نئے سے نئے انداز میں جماعت احمدیہ کو اس نقطہ مرکز یہ کی اہمیت و ضرورت کا احساس تازہ رکھتے تھے۔ اس مستقل دستور کے مطابق آپ نے ۲۸ تبوک ۱۳۳۰ ہش/۲۸ ستمبر ۱۹۵۱ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :۔
>خدا تعالیٰ جس کی نصرت پر آتا ہے کوئی طاقت اس کا کچھ بگاڑ نہین سکتی پس اگر دینوی امور میں وہ اس طرح مدد کرتا ہے تو وہ دینی باتوں میں کس طرح مدد نہ کرے گا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس راتوں کو اٹھو خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور انکسار کرو۔ پھر یہی نہیں کہ خود دعا کرو بلکہ یہ دعا بھی کرو کہ ساری جماعت کو دعا کا ہتھیار مل جائے۔ ایک سپاہی جیت نہیں سکتا۔ جتنی فوج ہی ہے۔ اسی طرح اگر ایک فرد دعا کرے گا تو اس کا اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا ایک جماعت کی دعا کا فائدہ ہوگا۔ تم خود بھی دعا کرو اور پھر ساری جماعتکے لئے بھی دعا کرو کہ خدا تعالیٰ انہیں دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر احمدی کے دل میں یقین پیدا ہوجائے کہ دعا ایک کارگر وسیلہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جماعت کے سب افراد مین ایک آگ سی لگ جائے۔ ہر احمدی اپنے گھر پر دعا کررہا ہو۔ پھر دیکھو خدا تعالیٰ کا فضل کس طرح نازل ہوتا ہے ؟< ۸۸
جلسہ >سیرۃ النبیﷺ<~ میں حضرت مصلح موعودؓ کی ایمان افروز تقریر
۱۸ ماہ نبوت ۱۳۳۰ ہش/۱۸ نومبر ۱۹۵۱ء کو پاکستان کے طول وعرض میں جماعت احمدیہ کے زیراہتمام وسیع پیمانے پر سیرۃ النبیﷺ~ کے جلسے منعقد ہوئے۔
اس تقریب پر حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ میں ایک معرکتہ الاراء تقریر فرمائی جس میں سورۃ علق کی سب سے پہلی قرآنی وحی سے نہایت لطیف استدلال کر کے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفٰے~صل۱~ کے ارفع و اعلیٰ و رعدیم المثال خلق عظیم کا روح پرور نقشہ کھینچا۸۹
مبلغین احمدیت کی روانگی اور آمد
اس سال مندرجہ ذیل مجاہدین احمدیت بغرض تبلیغ اسلام بیرونی ممالک کو روانہ ہوئے :۔
۱۔ مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر )برائے سیلو۔ روانگی ۱۶۔ وفا ۱۳۳۰ ہش(
۲۔ شیخ نور احمد صاحب منیر )برائے لبنان ۔ روانگی ۶ ظہور ۱۳۳۰ ہش(
۳۔ مولوی غلام احمد صاحب مبشر )برائے حلب۔ روانگی ۶ ظہور ۱۳۳۰ ہش(
۴۔ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل )برائے سیر الیون۔ روانگی ۲۴ تبوک ۱۳۳۰ ہش(
علاوہ ازیں مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب )مبلغ لنڈن( مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب )مبلغ جرمنی( مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب )مبلغ گولڈ کوسٹ( مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب )مبلغ فرانس( مکرم ملک احسان اللہ صاحب )مبلغ مغربی افریقہ( مکرم قریشی مقبول احمد صاحب )مبلغ انگلستان( اور مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی )مبلغ اردن و شام و لبنان( اعلائے کلمہ اسلام کا فریضہ بجا لانے کے بعد مرکز میں واپس تشریف لائے۔ ۹۰
0] fts[بیرونی ممالک میں احمدیﷺ~ مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں
لبنان ۔ لبنان میں احمدیت کا بیج ۱۳۲۹ ہش/۱۹۵۰ء میں بویا گیا جہاں مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کو اردن و شام میں دعوت حق دینے کے بعد بھجوایا گیا تھا اور جن کے ذریعہ سید فائز الشہابی داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔ یہ پہلے لبنانی تھے جنہیں احمدیت کی نعمت نصیب ہوئی۔ ان کے بعد اس سال السید حسن احمد قزق` السیدہ فخریہ زوجہ ہسن اور الحاج حسین قزق نے بیعت کی اور لبنان میں مقامی احمدیوں کی ایک مختصر جماعت قائم ہوگئی۔
مکرم مولوی رشید اہمد صاحب چغتائی نے پریس اور نیوز ایجنسی سے رابطہ قائم کیا اور ملک کی ممتاز شخصیتوں )مثلاً رفیق بے قصار` لبنانی قانون دان مسٹر فوا درزق ڈاکٹر عمر فروخ وغیرہ( سے ملاقاتین کیں اور ان تک تحریک احمدیت کی آواز پہنچائی۔ آپ نے لبنان کے علمی حلقوں میں کشتی نوح استنقاء حمامتہ البشریٰ` اسلامی اصول کی فلاسفی ` ابطال الوہیت` اور پیغام احمدیت کی بھی اشاعت کی ۔
جناب چغتائی صاحب اسی سال واپس مرکز میں آگئے اور ان کی جگہ جناب شیخ نور احمد صاحب منیر تشریف لے گئے۔
امریکہ
یہ سال امریکہ مشن کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں واشنگٹن کے اندر ایک تین منزلہ مکان خرید کر مسجد فضل کا قیام ہوا۔ یہ مسجد دارالتبلیغ اور لائبریری کے لئے بھی استعمال ہوئی ہے اور امریکہ بھر میں تربیت و اصلاح ` تبلیغ اسلام اور لٹریچر کی تقسیم و اشاعت کا مضبوط اور فعال مرکز ہے۔
اس مسجد میں بااثر طبقہ کے مسلمانوں کے علاوہ نامور غیر مسلم شخصیتوں کی آمد کا باقاعدہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تمام امریکن مشنون پر کنٹرول اور ان کی تنظیم` ان کے چندوں کے انفرادی حسابات` احباب جماعت کے خطوط اور غیر مسلم اصحاب کے سوالوں کے جوابات` امریکن پریس میں اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کی اشاعت پر ان کی تصحیح کا انتظام` اہم اداروں` لائبریریوں ` یونیورسٹیوں سے رابطہ مستشرقین سے تعلقات کا قیام` اور اسلام و احمدیت کے لٹریچر کی وسیع تقسیم و اشاعت وغیرہ سب امور مسجد فضل امریکہ کی دینی سرگرمیوں کا ایک مستقل حصہ ہیں۔ تعمیر مسجد کے بعد نئی دنیا کے تین ہزار میل پر پھیلے ہوئے لمبے محاذ پر اشاعت اسلام کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی۔ ۹۱
>امریکن احمدیوں کی چوتھی سالانہ کنونشن یکم ۲ تبوک/ستمبر کو کلیو لینڈ میں منعقد ہوئی جس میں دو سو مندوبین نے شرکت کی۔ کنونشن میں تربیتی تقاریر کے علاوہ گزشتہ سال کی کارگزاری اور آئندہ سال کے پروگرام پر بھی غور و فکر کیا گیا ۔ ۹۲
اس سال امریکہ مشن کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کی مندرجہ ذیل تحریرات شائع کی گئیں :۔
۱۔ کمیونزم اینڈ ڈیموکریسی )حضرت مصلح موعودؓ(
۲۔ ISLAM I BELIEVE I WHY )حضرت مصلح موعودؓ(
۳۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام )اس کے امریکن ایڈیشن کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دیباچہ بھی رقم فرمایا(
۴۔ CULTURE> ISLAMIC OF BASIS THE AS PRINCIPLES <MORAL )مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب(۹۳
واشنگٹن کے اخبار >واشنگٹن پوسٹ< نے اپنے ۲۲ مارچ ۱۹۵۱ء کے ادارتی نوٹ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے متعلق ایک نازیبا فقرہ اور بے بنیاد محاورہ استعمال کیا جس پر احمدیہ مشن کی طرف سے پرزور احتجاج کیا گیا۔ مکرم چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر انچارج مبلغ اسلام امریکہ نے ایڈیٹر کے ام خط لکھا اور اس افسوسناک حرکت کو آنحضرتﷺ~ کی توہین اور دنیا بھر کے ۳۵۰ ملین مسلمان کی دل آزاری کے مترادف قرار دیا۔
یہ خط واشنگٹن پوسٹ نے ۲۶ ۹۴ مارچ کو قارئین کے کالم میں TO> <OFFENCE MUSLIMS کے عنوان میں سے من و عن شائع کردیا۔
اس موثر احتجاج کا ذکر امریکن رسالہ PATHFINDER نے ۱۸ اپریل ۱۹۵۱ء کے پرچہ میں بھی کیا۔
نائیجیریا
اس سال مکرم مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی انچارج مشن نے تحریک احمدیت سے روشناس کرنے اور مرکز احمدیت اور دیگر جماعتی خبروں کو بروقت افراد جماعت تک پہنچانے کے لئے لیگوس سے >دی نائیجریا احمدیہ بلٹین< BULLENTIN) AHMADIYYA NIGERIA (THE جاری کیا جو پہلے سائیکلوسٹائل ہوتا تھا پھر )اگست ۱۹۵۱ء سے( پریس میں چھپنے لگا۔ بلیٹن کو ابتدائی مراحل میں ہی ایسی غیر معمولی قبولیت حاصل ہوئی کہ اسے دسمبر ۱۹۵۱ء میں TRUTH> <THE کے نام سے ایک باتصویر ماہوار اخبار کی صورت دے دی گئی جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے تحریر فرمایا :۔
>اخبار ٹروتھ کا اجراء خوشکن ہے خدا کرے اس میں ترقی ہو۔ اخبار کو اچھا بنائیں یہ آمد کا بہترین ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اپنا پریس بھی بنانے کی کوشش کریں اس کے ذریعہ بہت کامیابی ہوسکتی ہے۔ آپ پہلی تجارت پریس کے ذریعہ ہی سروع کریں۔ اس ملک میں پریس کی زیادہ ضرورت ہے۔<
اس کے بعد تحریر فرمایا :۔
Truth> کا پرچہ ملا۔ بہت بڑی کامیابی ہے۔ خدا کرے اس سے بڑا ہو۔<
پھر حضور نے اس دلی خواہش کا اظہار فرمایا کہ :۔
>میں سمجھتا تھا کہ آپ کا اخبار ہفتہ وار ہے اب معلوم ہوا ماہوار ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد ہفتہ وار کرنے کی توفیق بخشے اور خدا کرے پھر روزانہ ہوجائے۔<
اس ارشاد پر جولائی ۱۹۵۲ء میں پرچہ کے سائز کو دگنا کر کے اسے ہفتہ وار کردیا گیا۔ یہ اخبار نائیجیریا میں پہلا مسلم اخبار ہے جو اب تک نہایت کامیابی سے ملکی` قومی اور ملی خدمات بجالارہا ہے۔
حضرت امیرالمومنینؓ نے ہفتہ وار ایڈیشن لکھا :۔
>اللہ تعالیٰ ہفتہ واری اخبار مبارک کرے۔ نائب ضرور رکھیں۔ اور پریس کو اور سکول کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ ملک کی آزادی سے پہلے زبردست جماعت بنالیں چار پانچ لاکھ کی جماعت تو شروع میں ضرور ہونی چاہئے۔ ۹۵
انڈونیشیا
انڈونیشیا میں تحریک احمدیت کو اس سال انڈونیشیا کے طول و عرض میں کئی اعتبار سے نمایاں کامیابی نصیب ہوئی اور ترقی کے نئے دروازے کھل گئے۔ دوران سال قریباً آٹھ سو نفسو مہدی موعود کی جماعت میں شامل ہوئے۔ ملک کی احمدی جماعتوں میں تنظیم اور یکجہتی کا دور جدید شروع ہوا اور ان کے چندوں میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ باقاعدگی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ اس سال پہلے سالوں کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ آمد ہوئی۔ اس کے عالوہ طوعی چندوں کی کئی مدات میں انفرادی اور اجتماعی طور پر جماعت انڈونیشیا نے اپنے اخلاص و قربانی کا شاندار نمونہ پیش کیا گزشتہ مالی سال ۹۶ سال میں چونسٹھ ہزار آٹھ سو چھتیس روپے چندہ عام اور حصہ آمد میں جمع ہوئے جب کہ ان مدات میں اس سال ہجرت/مئی سے لے کر اخاء/ اکتوبر تک کی صرف ششماہی آمد باون ہزار روپیہ ہوئی۔
اس سال تا سکملایا میں جماعت نے ایک بار موقعہ جگہ زمین اور مکان خرید کر اسے دار التبلیغ میں تبدیل کردیا۔ جا کرتا کی خستہ مسجد ایک وسیع اور پختہ مسجد کی صورت میں از سر نو تعمیر کی گئی۔ اس کے پہلو میں مبلغ کے لئے رہائشی مکان اور اس کے اوپر مہمان خانہ بنایا گیا۔ پاڈانگ کے ایک پرانے احمدی تاجر باگنڈا ذکریا۹۷ صاحب نے اپنی گنرہ سے ایک بار موقعہ اور وسیع قطعہ زمین اور مکان خرید کر جماعت کے نام وقف کردیا۔
ماہ تبلیغ ۱۳۳۰ ہش/فروری ۱۹۵۱ء میں جا کرتا میں مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی گئی جس کے چند ماہ بعد مجلس اپنا رسالہ سینار اسلام Islam) (Sinar جاری کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
احمدی مبلغین کو دوران سال کئی ایک انڈونیشین لیڈروں` احکام اور دوسری بڑی شخصیتوں سے ملاقاتوں کا موقعہ ملا۔ مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ اس سال بھی حسب سابق ملک کے پہلے صدر مملکت ڈاکٹر سکارنو (Sukarno) کی طرف سے کئی تقریبوں پر مدعو تھے۔ شاہ صاحب کا تعارف ڈاکٹر سکارنو سے پہلی بار مارچ ۱۹۴۷ء میں ہوا تھا جب کہ آپ نے تبلیغی مقاصد کے لئے جو گجا کرتا میں ان کے محل میں ملاقات کی اور لٹریچر پیش کیا۔
اس سال کا اہم واقعہ جماعت ہائے انڈونیشیا کی تیسری سالانہ کانفرنس ۹۸ کا انعقاد ہے جو ۲۷۔۲۸۔۲۹ ماہ فتح/دسمبر کو پاڈانگ )سماٹرا( میں ہوئی پہلی دو کانفرنسیں جاوا میں ہوئیں جہاں احمدیوں کی تعداد زیادہ ہے اور ذرائع آمد و رفت میں سہولتیں بھی ہیں لیکن سماٹرا میں معاملہ اس کے برعکس تھا اور جاوا سے آنے والوں کے پندرہ بیس دن صرف ہوتے تھے۔ مرکزی عہدیداران میں نوے فیصدی سرکاری ملازم تھے جن کے لئے اتنی چھٹی کا ملنا مشکل تھا پر اخراجات سفر کا سوال الگ تھا لیکن ان مشکلات کے باوجود یہ کانفرنس نہایت کامیاب اور ازدیاد ایمان کا باعث ہوئی۔ پہلے روز مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس المبلغین` مکرم مولوی عدالواحد صاحب` مکرم مولوی امام الدین صاحب` مکرم مولوی محمد ایوب صاحب` مکرم مولوی ذینی دھلان صاحب` مکرم سوکری` برماوی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ انڈونیشیا اور دیگر نمائندگان جماعت نے خطاب فرمایا۔ دوسرے دو دن جماعت احڈیہ انڈونیشیا کی ترقی و بہبود کے لئے بعض تجاویز زیر غور لائی گئیں۔ اور ایک لاکھ چوراسی ہزار روپیہ کا بجٹ منظور کیا گیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب کہ جماعت کی آمد و خرچ کا تفصیلی بجٹ جماعت نمائندوں کے سامنے رکھا گیا۔ بجٹ کے اعلان پر پریس کے رپورٹر حیران رہ گئے کہ ایک چھوٹی سی جماعت کس قدر اخلاق اور جوش سے اتنی بھاری رقم ادا کرنے کا وعدہ کررہی ہے۔
آخری اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ چوتھی سالانہ کانفرنس تاسکملایا میں ہوگی۔ اس اجلاس میں مبلغین احمدیت نے دوبارہ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آخر میں جماعت پاڈانگ کے مخلص پریذیڈنٹ جناب ابوبکر نے دردناک تقریر کی جس سے اکثر احباب چشم آب ہوگئے۔ کانفرنس ایک لمبی اور پرسوز دعا پر اختتام پذیر ہوئی۔
اگلے روز پاڈانگ کے ایک بڑے سینما ہال کیپٹل میں جماعت کا تبلیغی جلسہ ہوا جس کی تفصیلی روداد مقامی پریس اور ریڈیو دونوں نے نشر کی۔
مجاہدین انڈونیشیا ہمیشہ ہی اپنے اپنے رنگ میں پاکستان کے مفادات کو پیش نظر رکھتے رہے ہیں۔ انڈونیشیاء میں پاکستان لیگ کا قیام سید شاہ محمدﷺ~ صاحب کی کوشش سے ہوا۔ آپ ان دنوں مرکزی آل انڈیا پاکستان لیگ کے وائس پریذیڈنٹ بھی تھے جو گجا کرتا جس زمانہ میں جمہوریہ انڈونیشیا کا دارالحکومت تھا۔ آپ کو پاکستان کے لئے شاندار جدوجہد کرنے کا موقعہ ملا۔ اس مرکزی شہر میں آپ نے اس محنت سے ملک و قوم کی خدمت کی کہ معلوم ہوتا تھا آپ پاکستان کے باقاعدہ نمائندہ ہیں۔ ڈاکٹر ملک عمر حیات صاحب سابق سفیر پاکستان برائے انڈونیسیاء جو گجا کرتا کے دورہ پر تشریف لے گئے تو آپ کو مقامی اکابرین کے ذریعہ شاہ صاحب کی ان سنہری خدمات کا علم ہوا اور آپ بہت متاثر ہوئے۔ اس سال ڈاکٹر صاحب اپنے دورے میں جہاں جہاں بھی تشریف لے گئے مبلغین سلسلہ اور دیگر احمدی افراد نے ان سے پورا پور اتعاون کیا خاص طور مکرم ڈاکٹر عبدالغفور صاحب احمدی سرا بابا نے )جن کی پرخلوص خدمات کو خود ڈاکٹر ملک عمر حیات صاحب نے خراج تحسین ادا کیا( بالی میں میاں عبدالحی صاحب مبلغ جزیرہ بالی نے ان کے اعزاز میں ایک پارٹی دی جس میں مقامی حکام ورئو ساء بھی مدعو تھے۔ تاسکلمایا میں پاکستان لیگ کے صدر مکرم ملک عزیز احمد صاحب تھے جنہوں نے اس سال ماہ ظہور/اگست میں پاکستان کے متلعق ایک مختصر کتاب بھی تصنیف فرمائی ۹۹۔
شام السید منیر الضنی امیر جماعت احمدیہ شام کے قلم سے >عثرت العلاما فی مخالفہ الاحمدیتہ کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی۔
نئی مطبوعات
اس سال برصغیر پاک و ہند میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مندرجہ ذیل کتب شائع ہوئیں جن سے سلسلہ کے لٹریچر میں مفید اضافہ ہوا:۔
۱۔ اسلام اور مذہبی رواداری
)تقریر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ
۲۔ اصحاب احمد۔ جلد اول
)ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے درویش قادیان(
۳۔ کتاب الاداب
)حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ
۴۔ حیات احمد۔ جلد دوم نمبر سوم
)حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ
۵۔ حیات احمد۔ جلد دوم نمبر سوم
)حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ(
۶۔ اسلامی خلافت کا صحیح نظریہ
)حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۷۔ اشتراکیت اور اسلام
)حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۸۔ اسلام اور اشتراکیت
)چوہدری سردار احمد صاحب بزمی مولویفاضل جامعہ احمدیہ(۱۰۰
۹۔ >تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات<
]2lcol )[tagخطبات مصلح موعودؓ کا سلسلہ مرتبہ ادارہ ترقی اسلام سکندر آباد و دکن(
۱۰۔ یومیہ ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء
)نظارت دعوۃ و تبلیغ کی تیار کردہ سالانہ ڈائری(
ان کتابوں کے علاوہ صیغہ نشر و اشاعت ربوہ کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب >احمدیت کا پیغام )انگریزی( ساڑھے سات ہزار کی تعداد میں شائع کی گئی نیز ۴۱ مختلف عنوانات کے تحت ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ اور ٹریکٹ بھی چھپوائے گئے۔ ۱۰۱
20] p[فصل چہارم
افتاء کمیٹی کا احیاء سالانہ پروگرام بنانے اور صوبجاتی نظام کو مستحکم کا فرمان تبلیغ اسلام کی موثر تحریک اخلاق فاضلہ کے قیام کی جدوجہد بے لوث قومی خدمات بجالانے کی تلقین چوہدری محمدحسین صاحبؓ کی المناک شہادت جلسہ سیالکوٹ پر منظم یورش
)خلافت ثانیہ کا انتالیسواں سال )۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء(
افتاء کمیٹی کا احیاء
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ۱۳۲۲ہش/۱۹۴۳ء میں فقہ اسلامی کے مختلف مسائل پر غور و فکر کرنے کے لئے ایک افتاء کمیٹی قائم فرمائی تھی ۱۰۲ جس کا احیاء اس سال عمل میں آیا اور اس کے دور لو کا پہلا صدر ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدہ و پرنسپل جامعتہ المبشرین کو اور پہلا سیکرٹری مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کو مقرر فرمایا۔
اس سلسلہ میں حضور کے قسلم سے الفضل ۱۱ صلح ۱۳۳۱ ہش کو حسب ذیل اعلان شائع ہوا :۔
>جیسا کہ جلسہ پر اعلان یا گیا تھا فقہی مسائل پر یکجائی غور کرنے اور فیصلہ کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کی ایک کمیٹی مقرر کی جاتی ہے۔ تمام اہم مسائل پر فتویٰ اس کمیٹی کے غور کرنے کے بعد شائع کیا جائے گا۔
ایسے فتاویٰ خلیفہ وقت کی تصدیق کے بعد شائع ہوں گے اور صرف انہی امور کے متعلق شائع ہوں گے جن کو اہم سمجھا گیا ہو۔ ایسے فتاویٰ جب تک ان کے اندر کوئی تبدیلی نہ کی گئی ہو یا تنسیخ نہ کی گئی ہو` جماعت احمدیہ کی قضاء کو پابند کرنے والے ہوں گے اور وہ ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گی۔ ہاں وہ ان کی تشریح کرنے میں آزاد ہوگی لیکن اگر وہ تشریح غلط ہو تو یہی مجلس فتویٰ دہندہ اس تشریح کو غلط قرار دے سکتی ہے۔
اس کمیٹی کے ممبر فی الحال مندرجہ ذیل ہوں گے :۔
۱۔ مولوی سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعتہ المبشرین ۲۔ مولوی جلال الدین صاحب شمس ۳۔ مولوی راجیکی صاحب ۴۔ مولوی ابو العطاء صاحب ۵۔ مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ۶۔ مولوی محمد احمد صاحب جلیل نمائندہ قضاء ۷۔ مولوی تاج دین صاحب نمائندہ قضا ۸۔ مولوی نذیر احمد صاحب ۱۰۳ پروفیسر جامعہ احمدیہ ۹۔ مولوی محمد صدیق صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین ۱۰۔ مولوی خورشید احمد صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین ۱۱۔ مرزا بشیر احمد صاحب ۱۲۔ مرزا ناصر احمد صاحب ۱۳۔ مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا ۱۴۔ شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ لائلپور ۱۵۔ چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج۔
ان ممبران ۱۰۴ کا اعلان سال بہ سال خلیفہ وقت کی طرف سے ہوا کرے گا اور ایک سال کے لئے یہ ممبر نامزد کئے جایا کریں گے۔ مناسب ہوگا کہ کچھ نہ کچھ ممبر اس میں سے بدلے جایا کریں تاکہ جماعت کے مختلف طبقوں کے لوگوں کی تربیت ہوتی رہا کرے۔ خاص امور کے متلعق خلیفہ وقت اس انجمن کا اجلاس اپنی نگرانی میں کروائے گا لیکن عام طور پر یہ کمیٹی اپنا اجلاس اپنے مقررہ صدر کی صدارت میں کیا کرے گی لیکن اس کے فیصلوں کا اعلان خلیفہ وقت کے دستخطوں سے ہوا کرے گا اور ایسے ہی فیصلے سند سمجھے جایا کریں گے۔ مناسب ہوگا کہ کچھ نہ کچھ ممبر اس میں سے بدلے جایا کریں تاکہ جماعت کے مختلف طبقوں کے لوگوں کی تربیت ہوتی رہا کرے۔ خاص امور کے متعلق خلیفہ وقت اس انجمن کا اجلاس اپنی نگرانی میں کروائے گا لیکن عام طور پر یہ کمیٹی اپنا اجلاس اپنے مقررہ صدر کی صدارت میں کیا کرے گی لیکن ان کے فیصلوں کا اعلان خلیفہ وقت کے دستخطوں سے ہوا کری گا اور ایسے ہی فیصلے سند سمجھے جایا کریں گے۔ سردست اس کمیٹی کے صدر جامعتہ المبشرین کے پرنسپل ملک سیف الرحمن صاحب ہوں گے اور اس کے سیکرٹری مولوی جلال الدین صاحب شمس ۔
>مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ۵۲۔۷۔۱<
یہ مجلس جس کی بنیاد سیدنا محمودؓ جیسے خلیفہ موعود کے مقدس ہاتھوں سے رکھی گئی تھی۔ خدا کے فضل سے اب بھی خلیفہ وقت کی زیر نگرانی گرانقدر فقہی خدمات بجا لارہی ہے۔ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے قاعدہ ۸۷ کے مطابق جن امور میں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے وحدت فکری کے بھی متقضی ہوتی ہیں ان کے بارے میں مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے فتویٰ کی بجائے مجلس افتاء فیصلہ کرتی ہے۔
مجلس افتاء کے سال میں کم از کم چار اجلاس ضرور منعقد ہوتے ہیں ۱۰۵۔ اجلاس کو کورم دس مقرر ہے۔ ۱۰۶ ممبران مجلس کے لئے حکم ہے کہ وہ بیماری یا عدالت میں پیشی کے سوا بہرحال شریک اجلاس ہون یا کم از کم سیکرٹری مجلس کو اجلاس سے ایک روز قبل اپنی معذوری سے مطلع کردیں ورنہ وہ غیر حاضر متصور ہوں گے ایسے رکن سے باز پرس ہوسکے گی۔ ۱۰۷
مجلس افتاء کے فیصلہ )۲۸ ماہ شہادت ۱۳۴۱ ہش/ اپریل ۱۹۶۲ء( کے مطابق اگر کوئی ایسا مسئلہ مجلس افتاء کے زیر بحث آئے جو کسی رکن مجلس کے تنازع متدائرہ قضاء پر اثر انداز ہوتا ہو تو وہ رکن اس مسئلہ کی بحث اور فیصلہ میں شریک نہیں ہوسکتا۔ ۱۰۸
خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں جن مسائل پر مجلس افتا نے غور و فکر کیا ان میں سود اور انشورنس کا مسئلہ خاص طور پر قال ذکر ہے۔ اول الذکر مسئلہ پر مولوی ابو العطاء صاحب` صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور ملک سیف الرحمن صاحب نے ٹھوس اور پرمغز تحقیقی مقالے لکھے جو مجلس افتاء کی طرف سے >اسلام اور ربو< کے عنوان سے شائع شدہ ہیں۔
tav.13.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
فہرست اراکین مجلس افتاء
)از ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء تا ۱۳۵۴ ہش/۱۹۷۵ء(
۱۔
مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ صدر ۲۵۹۱ ء تا ۱۹۶۱ء سیکرٹری ۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۵ء۔
۲۔
مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمسؓ سیکرٹری ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء ممبر ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۷ء۔
۳۔
حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۳۶ء ممبر ۔ ۳۶۱ سے اعزازی ممبر۔
۴۔
مکرم مولوی ابو العطاء صاحب ۱۹۵۲ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۵۔
مکرم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۸ء ممبر۔
۶۔
مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۹ء ممبر۔
۷۔
مکرم مولوی تاج الدین صاحب ناظم دارالقضا۱۹۵۲ء تا ۱۹۲۹ء ممبر۔
۸۔
مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ۱۹۵۲ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۹۔
مکرم مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۷۴ء ممبر۔
۱۰۔
مکرم مولوی خورشید احمد صاحب شاد ۱۹۲۵ء تا ۱۹۲۶ء ممبر۔
۱۱۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۲۶ء ممبر ۱۹۶۲ء سے اعزازی ممبر
۱۲۔
حضڑت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء ممبر۔ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء نائب صدر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۵ء صدر۔
۱۳۔
مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی سرگودھا ۱۹۵۲ء تا ممبر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۸ء نائب صدر۔ ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء صدر
۱۴۔
مکرم شیخ احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ضلع لائلپور ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۷ء ممبر۔ ۱۹۶۷ء تا ۱۹۶۸ء صدر ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء نائب صدر۔
۱۵۔
مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء ممبر۔
۱۶۔
مکرم مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۷ء ممبر ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۱۷۔
مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ صدر۔ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۵ء اعزازی ممبر۔
۱۸۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۳ء ممبر ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۴ء اعزازی ممبر۔
۱۹۔
مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق امام مسجد لندن و مبلغ سوئٹزر لینڈ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء ممبر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۴ء اعزازی ممبر
۲۰۔
مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۱۔
مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید ۱۹۶۱ء ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۲۔
کرمل صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۷ء ممبر۔
۲۳۔
مکرم سید میروائود احمد صاحبؓ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۶ء ممبر ۔ ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۳ء نائب صدر
۲۴۔
مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ سینئر ایڈووکیٹ و جج ہائی کورٹ پنجاب ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء ممبر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۳ء نائب صدر۔
۲۵۔
مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔اے ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء ممبر۔ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۵ء اعزازی ممبر۔۱۹۶۶ء صدر ۱۹۶۷ء نائب صدر۔ ۱۹۶۸ء تا ۱۹۷۰ء ممبر۔
۲۶۔
مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف ۱۹۶۱ء تا نومبر ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۷۔
مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ غانا ۱۹۶۲ء تا نومبر ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۸۔
مکرم میاں عبدالسمیع صاحب نون ایڈووکیٹ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۳ء ممبر۔ ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۹۔
مکرم سید میر محمود احمد صاحب ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۲ء ممبر۔
۳۰۔
مکرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم۔اے ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۳۱۔
مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم۔اے ایڈیٹر تفسیر القرآن انگریزی ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۵ء ممبر۔
۳۲۔
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرق افریقہ ۱۹۶۳ء تا ۱۹۷۴ء ممبر۔
۳۳۔
مکرم مولوی عبداللطیف صاحب فاضل بہاولپوری ۱۹۶۳ء تا نومبر ۱۹۷۰ء ممبر۔
۳۴۔
مکرم مولوی محمد صادق صاحب سماٹری ۱۹۶۵ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۳۵۔
مکرم ملک مبارک احمد صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۳۶۔
مکرم شیخ عبدالقادر صاحبؓ )سابق سوداگر مل( مربی لاہور نومبر ۱۹۶۶ء تا نومبر ۱۹۶۷ء ممبر
۳۷۔
مکرم مولوی محمد یار عارف صاحب )سابق مبلغ لندن( نومبر ۱۹۶۶ء تا نومبر ۱۹۶۷ء ممبر۔
۳۸۔
مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب لاہور نومبر ۱۹۶۶ء تا نومبر ۱۹۶۷ء ممبر۔
۳۹۔
مکرم مولوی عبدالمالک خان صاحب ۱۹۶۷ء تا ۱۹۶۸ء ممبر ۱۹۷۰ء تا نومبر ۱۹۷۴ء ممبر۔
۴۰۔
مکرم مولوی امام الدین صاحب مبلغ انڈونیشیا نومبر ۱۹۶۷ء تا نومبر ۱۹۷۰ء ممبر۔
۴۱۔
مکرم سید احمد علی صاحب مربی سلسلہ نومبر ۱۹۶۷ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۴۲۔
مکرم پروفیسر حیبب اللہ خان صاحب ۱۹۶۷ء تا ۱۹۲۹ء ممبر۔ نومبر ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۴ء ممبر۔
۴۳۔
مکرم مولوی محمد اجمل صاحب شاہد مربی سلسلہ نومبر ۱۹۶۸ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۴۴۔
مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد نومبر ۱۹۶۸ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۴۵۔
مکرم ڈاکٹر خلیل الرحمن صاحب ملتان نومبر ۱۹۶۸ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۴۶۔
مکرم پروفیسر سلطان محمود صاحب شاہد ایم۔ایس سی نومبر ۱۹۶۹ء تا نومبر ۱۹۷۰ء ممبر۔][۴۷۔
مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب )ممتاز عالمی سائنسدان( ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۵ء اعزازی ممبر۔
۴۸۔
مکرم نور محمد نسیم سیفی صاحب نومبر ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۴۹۔
مکرم پروفیسر نصیر احمد خان صاحب نومبر ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۵۰۔
مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر مبلغ ماریشس و سیلون و افریقہ نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۱۹۷۲ء ممبر۔
۵۱۔
مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد لندن نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۱۹۷۲ء ممبر۔
۵۲۔
مکرم عبدالحکیم صاحب اکمل مبلغ ہالینڈ نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۱۹۷۲ء ممبر۔
۵۳۔
مکرم زا خورشید احمد صاحب ناظر خدمت درویشاں نومبر ۱۹۷۴ء تا نومبر ۱۹۷۵ء ممبر۔
۵۴۔
مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب )خلف اکبر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰے( نومبر ۱۹۷۴ء تا نومبر ۱۹۷۵ء )ووٹ کے بغیر ممبر(
دیگر کوائف
۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء تعداد ممبران ۱۵۔ صدر مجلس مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ سیکرٹری مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ
۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء تعداد ممبران ۲۵ صدر مجلس مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ سابق جج ہائیکورٹ و حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب۔
۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۳ء ۔ تعداد ممبرا ۲۴۔ صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم قاضی محمد اسلم صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۴ء ۔ تعداد ممبر ۲۴۔ صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ حضڑت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔اے کنیٹب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۵ء تعداد ممبران ۲۵۔ صدر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۶ء۔ تعداد ممبر ۶۸۔ صدر مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔اے سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتا احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۷ء تا ۱۹۶۸ء تعداد ممبر ۶۷۔ صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری مہمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۸ء تا ۱۹۶۹ء۔ تعداد ممبر ۶۸ صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ مکرم سید میر دائود احمد صاحب۔ مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۰ء تعداد ممبر ۲۳۔ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۱ء تعداد ممبر ۲۳۔ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمں صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحبؓ مکرم سید میر دائود احمد صاحبؓ اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۲ء۔ تعداد ممبران ۲۶ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ کرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ۔ مکرم سید میر دائود احمد صاحبؓ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۳ء تعداد ممبر ۲۲۔ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ۔ مکرم سید میر دائود احمد صاحبؓ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۴ء تعداد ممبران مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۵ء تعداد ممبران ۱۸۔ صدر مجلس مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب لندن۔
)دارلافتاء ربوہ کے ریکارڈ سے مرتب شدہ(
سالانہ پروگرام تجویز کرنے کی ہدایت
۴۔ صلح ۱۳۳۱ہش/جنوری ۱۹۵۲ء کو سال کا پہلا جمعہ تھا جس میں حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے تاکیدی ہدایت فرمائی کہ جماعتی ادارے ہر سال اپنا پروگرام شروع سے ہی تجویز کر لیا کریں اور پھر اس پر سختی سے عمل پیرا ہوں چنانچہ فرمایا :۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پر اب یہ نیا سال چڑھ رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعویٰ کے لحاظ سے باسٹھواں سال ہے اور بیعت کے لحاظ سے چونسٹھواں سال ہے۔ بیعت پر گویا ۲۳ سال گذر گئے ہیں اور دعویٰ کے لحاظ سے جماعت پر ۱۶ سال گذر گئے ہیں۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہماری جماعت کی عمر صدی کے نصف سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مگر کیا ہم جہاں عمر کے لحاظ سے نصف صدی سے اوپر جارہے ہیں ہم ترقی کے لحاظ سے بھی نصف صدی سے اوپر جارہے ہیں یا نہیں۔ جہاں تک جماعت کے متعدد ممالک میں پھیل جانے کا سوال ہے ہماری ترقی قابل تحسین و فخر ہے مگر جہاں تک تعداد کا سوال ہے ہماری جماعت ابھی بہت پیچھے ہے۔ جہاں تک مرکزی طاقت کا سوال ہے ہم اخلاقی اور عقلی طور پر اپنی پوزیشن قائم کرچکے ہیں مگر جہاں تک نفوذ کا سوال ہے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ مگر ہماری مخفلت ترقی کررہی ہے اور اب ان گروہوں اور جماعتوں میں بھی پھیل رہی ہے جو پہلے ہمیں نظر انداز کردیتی تھیں یا ہمارے افعال کو خوشی کی نگاہ سے سے دیکھتی تھیں۔ پس آنے والے سال میں ہمیں مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک انقلابی تغیر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک انقلابی تغیر پیدا کئے بغیر ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ یہ انقلاب ہمارے دماغوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہماری روحوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہمارے دلوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہمارے افکار اور جذبات میں پیدا ونا چاہئے۔ ہم اپنے دلوں` روحوں اور دماغوں میں عظیم الشان انقلاب پیدا کئے بغیر اس مقام کو حاصل نہیں کرسکتے یا کم از کم اس مقام کو جلد حاصل نہیں کرسکتے جس کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہر سال اپنے لئے ایک پروگرام مقرر کرنا چاہئے اور اسے پورا کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔<
>ہماری جماعت ایک جہاد کرنے والی جماعت ہے بے شک ہم تلوار کے اس جہاد کے مخالف ہیں جو کسی ناکردہ گناہ پر تلوار چلانے کی اجازت دیتا ہے مگر ہم سے زیادہ اس جہاد کا قائل کوئی نہیں جو جہاد ذہنوں جذبات اور روحوں سے کیا جاتا ہے پس حقیقتاً اگر کوئی جماعت جہاد کی قائل ہے تو وہ صرف ہماری جماعت ہی ہے۔<۱۰۹
]bus [tagصوبجاتی نظام کو مستحکم کرنے کا فرمان
متحدہ ہندوستان میں جماعت احمدیہ کا صوبجاتی نظام ۱۹۳۳ء میں معرض وجود میں آیا تھا۱۱۰ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے علاوہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے صوبوں میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی صوبائی انجمنیں خوش اسلوبی سے کام کررہی تھیں۔ اس سال سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے پنجاب میں بھی صوبائی امارت قائم فرمائی جس کے انتخاب کے لئے صوبہ کے جملہ اضلاع اور ان کے ساتھ دو دو سیکرٹریوں نے حصہ لیا۔ یہ انتخاب ربوہ کی پہلی مسجد مبارک میں ہوا جو اس وقت کچی بنی ہوئی تھی۔ اس انتخاب میں مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا صوبائی امیر مقرر ہوئے۔ صوبائی امارت اگرچہ صرف ایک سال کے لئے قائم کی گئی تھی مگر جب پہلا تجربہ کامیاب رہا تو اس کو مستقل حیثیت دے دی گئی۔ صوبائی امیر کے فرائض اب تک مرزا عبدالحق صاحب ہی انجام دے رہے ہیں۔۱۱۱
حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء کے پہلے خطبہ جمعہ میں مکرم مرزا عبدالحق صاحب اور ان کے رفقاء کار کی مساعی پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :۔
>پہلے پنجاب کا صوبہ` صوبجاتی نظام سے باہر تھا لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے پنجاب کو بھی صوبجاتی نظام میں شامل کردیا گیا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ صوبہ پنجاب کے لئے یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ اسے ابتداء میں ہی ایسے کارکن مل گئے جو اپنے اندر قربانی اور ایثار کی روح رکھتے ہیں۔ مگر خالی اچھے کارکنوں کامل جانا کوئی چیز نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ تمام کارکن اپنا پروگرام مقرر کریں اور پھر اس کے لئے وقت مقرر کریں اور اسے پورا کرنے کی کوشش کریں یہ امر ضرور مدنظر رکھا جائے کہ پروگرام ایسا نہ ہو کہ جس پر عمل نہ کیا جاسکے۔ بعض لوگ خیالی تجاویز بنا لیتے ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ انہیں پورا نہیں کرسکیں گے۔ پروگرام ایسا ہونا چاہئے۔ جس کو وہ مالی لحاظ سے` افراد کے لحاظ سے` اور وقت کے لحاظ سے پورا کرسکتے ہین یعنی عملی پروگرام ہونا چاہئے ایسا پروگرام تجویز نہ کیا جائے کہ جس کو مالی لحاظ سے جاری نہ کیا جاسکے۔ ایسا پروگرام تجویز نہ کیا جائے جس کے لئے اتنے کارکنوں کی ضڑورت ہو جو مہیا نہ ہوسکیں یا ایسا پروگرام ہو جس کے لئے زیادہ وقت کی ضرورت ہو۔ ہر کام معقول اور طاقت کے مطابق ہونا چاہئے۔ ہماری جو طاقت اور قوت ہے اسی کے مطابق ہم کوئی پروگرام بنا سکتے ہیں۔ اور اپنی طاقت کو خواہ وہ کتنی ہی قلیل ہو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔۔ پروگرام ایسا ہونا چاہئے جو عقلی لحاظ سے` مالی لحاظ سے` وقت اور افراد کے لحاظ سے ممکن ہو۔ پھر پوری کوشش کی جائے کہ جو تجویز اور ملپین ۱۱۲ شروع سال میں بنائی جائے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے۔
صوبجاتی نظام کے لحاظ سے بھی ایک پروگرام کی ضرورت ہے۔ پہلا تجربہ ہم یہ کریں گے کہ امراء کو بلا کر شوریٰ کریں گے اور باہمی مشورہ سے ان کے علاقوں کے لئے ایک پروگرام تجویز کریں گی یہ کام نظارت علیا کا ہوتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد امراء کو بلا کر مشورہ لے اور ان کے لئے ایک پروگرام مقرر کرے۔ پھر آئندہ ہر سال یہ مجلس ہوا کرے۔ اور پھر آہستہ آہستہ بیرونی ممالک میں سے بھی اگر کسی میں اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ وہ اس مجلس میں شریک ہوسکے تو پھر وہ شریک ہوا کرے اور اس طرح اسے ایک عالمگیر ادارہ بنادیا جائے۔<۱۱۳]ybod [tag
محاسبہ نفس کی دعوت
۱۱ ماہ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کو محاسبہ نفس اور وقت کی قیمت پہچاننے کی تلقین کی اور فرمایا:۔
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ہر انسان کے اندر کوئی وقت سستی کا آجاتا ہے اور کوئی وقت چستی کا آجاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا نام باسط بھی ہے اور قابض بھی ہے اس لئی وہ کبھی انسان کی فطرت میں قبض پیدا کردیتا ہے اور کبھی بسط پیدا کردیتا ہے۔ اس حالت کا علاج یہی ہوا کرتا ہے کہ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور اپنے گرد و پیش کے حالات کا بھی محاسبہ کرتا رہے۔ اسی لئے صوفیاء نے محاسبہ نفس کو ضرورت قرار دیا ہے۔ میرے دل میں خیال گزرا ہے کہ اگر ہم اپنے تمام وقت کا جائزہ لیتے رہتے تو شاید ہم بہت سی سستیوں سے محفوظ رہتے۔ کسی شاعر نے کہا ہے~}~
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
یعنی گھڑیال سے وقت کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں کی عمر زیادہ ہوگئی لیکن دراصل اس کی عمر کم ہوجاتی ہے۔ فرض کرو کسی کی ۶۰ سال عمر مقدر تھی وہ جب پیدا ہوا تو اس کی عمر کے ساٹھ سال باقی تھے لیکن جب وہ ایک سال کا ہوگیا تو اس کی ایک سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ دو سال کا ہوگیا تو اس کی دو سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ دس سال کا ہوگیا تو اس کی دس سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ بیس سال کا ہوگیا تو اس کی بیس سال عمر گھٹ گئی۔ غرض ہر وقت جو اس پر گزرتا ہے وہ اس کی عمر کو گھٹاتا ہے۔ اسی طرح ہماری زندگی ہے۔ ہمارے بہت سے اوقات یونہی گزر جاتے ہیں اور ہم خیال تک نہیں کرتے کہ ہمارا وقت ضائع ہورہا ہے۔ مثلاً کل مجھے خیال آیا کہ کسی وقت ہم جلسہ سالانہ کی تیاریاں کررہے تھے۔ رات دن کارکن اس کام میں لگے ہوئے تھے اور خیال کررہے تھے کہ جلسہ سالانہ آئے گا تو مہمان آئیں گے۔ ان کے ٹھہرانے اور ان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان ہم نے کرنا ہے۔ وہ دن آئے۔ دوست آئے ہم سے ملے جلے اور چلے بھی گئے ہم دل میں خوش ہوئے کہ ایک سال ختم ہوگیا ہے۔ مگر سوچنے والی یہ بات تھی کہ ہم نے نئے سال کو کس طرح گزارنا ہے۔ جو سال گزر گیا وہ تو کوتاہیوں سمیت گز گیا۔ اصل چیز تو آنے والا سال ہے۔ کل مجھے خیال آیا کہ یا تو ہم اتنے جوش اور زور شور سے آئندہ جلسہ کی تیاریاں کررہے تھے اور یہ اب اس جلسہ پر چودہ دن گزر گئے ہیں اور ابھی ہم بیکار بیٹھے ہیں۔ چودہ دن کے معنے دو ہفتے کے ہیں ۵۳ ہفتوں کا سال ہوتا ہے دو ہفتے گزر جانے کا مطلب یہ ہوا کہ سال ۲۶ واں حصہ گزر گیا لیکن ابھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ وہ جلسہ سالانہ کی کوفت دور کررہے ہیں۔ دو ہفتے اور گزر گئے تو سال کا تیرھواں حصہ گزر جائے گا لیکن نئے سال کے لئے شورا شوریٰ شروع نہیں ہوگی چودہ دن اور گزر جائیں گے تو سال کا گیارہ فیصدی حصہ گزر جائے گا۔ اور چودہ دن اور گزر گئے تو سال کا پندرہ فیصدی حصہ گزر جائے گا۔ غرض بہت تھوڑی تھوڑی غفلت کے ساتھ ایک بہت بڑی چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں۔ ہر سال جو ہم پر آئے بجائے پچھلے سال کے ہم آئندہ سال پر نظر رکھیں۔ ہر دن ہم سوچیں کہ کام کے ۳۶۵ دنوں میں سے ایک دن گزر گیا ہے۔ ہم نے کس قدر کام کرنا تھا اس میں سے کس قدر کام ہم نے کر لیا ہے اور کس قدر کام کرنا باقی ہے ؟ اگر ہم اس طرح غور کرنا شروع کردیں تو ہم اپنے وقت کو پوری طرح استعمال کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہم سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔< 4] f[st۱۱۴
تبلیغ اسلام کی موثر تحریک
تحریک جدید کا نظام دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کی غرض سے قائم کیا گیا تھا یہی وجہ تھی کہ حضرت مصلح موعودؓ ہمیشہ اس کے مالی جہاد میں شرکت کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں حضورؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء میں جماعت کو نصیحت فرمائی کہ :۔
>جس جہاد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیش کیا تھا اور جو جہاد ہم کررہے ہیں وہ کسی وقت بھی ہٹ نہیں سکتا۔ ہر وقت نماز یا جہاد اور ذکر الٰہی ضروری ہیں۔ جہاد کے معنے ہیں اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنا اور غیر مسلموں کو اسلام میں لانے کے لئے تبلیغ کرنا اور روز و شب جماعت سے ہمارا یہی خطاب ہوتا ہے ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ تم دوسرے لوگوں کو تبلیغ کے ذریعہ مسلمان بنائو۔ ہمارا جہاد وہ ہے جو نماز کی طرح روزانہ ہورہا ہے اور جو احمدی اس جہاد میں حصہ لیں گے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جہاد کررہے ہیں لیکن جو لوگ اس جہاد میں حصہ نہیں لیں گے ہم ان کے متعلق فتویٰ تو نہیں دیتے لیکن جس طرح نماز نہ پڑھنے والا سچا مسلمان نہیں ہوسکتا اسی طرح اسلام کی اشاعت کے لئے قربانی نہ کرنے والا بھی سچا مسلمان یا سچا احمدی نہیں کہلا سکتا۔ لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مقدمات میں کس طرح اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں۔ اب کفر و اسلام کے مقدمہ میں جو حصہ نہیں لیتا اور اسے نفلی سمجھتا ہے وہ کیسے سچا مسلمان کہلا سکتا ہے؟ تحریک جدید نفلی اس لئے ہے کہ ہم اس میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دیتے لیکن فرض اس لحاظ سے ہے کہ اگر تمہیں احمدیت سے سچی محبت ہے تو تحریک جدید میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے۔ جب ماں بچہ کے لئے رات کو جاگتی ہے تو کون کہتا ہے کہ اس کے لئے رات کو جاگنا فرض ہے۔ بچہ کی خاطر رات کو جاگنا فرض نہیں نفل ہے۔ لیکن اسے رات کو جاگنے سے کون روک سکتا ہے؟ جس سے حبت ہوتی ہے اس کی خاطر ہر شخص قربانی کرتا ہے اور یہ نہیں کہ ایسا کرنا فرض نہیں نفل ہے۔ اسی طرح جو شخص اسلام اور احمدیت سے سچی محبت رکھتا ہے وہ یہ نہیں کہے گا کہ ان کی اشاعت کی خاطر قربانی کرنا فرض نہیں بلکہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے قربانی کرنا اسے فرض سے بھی زیادہ پیارا لگے گا کیونکہ وہ سمجھے گا کہ ایسا کرنے سے اسلام کو دوبارہ شوکت و عظمت حاصل ہوجائے گی بلکہ جب تبلیغ جہاد کا ایک حصہ ہے تو اس میں حصہ لینا فرض ہی کہلانے کا مستحق ہے۔< ۱۱۵
اخلاق فاضلہ کے قیام کی جدوجہد
۲۵ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء کو سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے بذریعہ خطبہ جمعہ یہ ارشاد فرمایا کہ قومی اخلاق کو راسخ کرنے کے لئے ہمیں اجتماعی جدجہد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ حضورؓ نے خطبہ کے پہلے حصہ میں فرمایا کہ:۔
>ہم نے دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کرنا ہے کہ اخلاق فاضلہ دنیا سے مٹ گئے تھے اب جماعت احمدیہ اخلاق فاضلہ پر قائم ہے اور ہر نیا تغیر جو رونما ہوتا ہے` ہر خرابی جو پیدا ہوتی ہے اس سے اگر ہم بھی متاثر ہوجاتے ہیں تو ہم دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیسے کرسکتے ہیں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے جرائم میں قومی اثر بھی ضرور داخل ہوتا ہے۔ مثلاً چوری ہے` ڈاکہ ہے` یہ ایک شخص کا فعل نہیں ہوتا بلکہ ایسا فعل کرنے والوں کو اس کے ہمسائے بھی جانتے ہیں۔ اگر سارے لوگوں کے اندر غیرت پیدا ہوجائے اور احساس پیدا ہوجائے تو ایسے لوگوں کا پکڑا جانا آسان ہے۔ مثلاً حرام خری ہے دکاندار ٹھگی کرتے ہیں وہ اچھی چیز میں خراب چیز کی آمیزش کردیتے ہیں تو اس کا ہر گاہک کو پتہ ہوتا ہے۔ اگر ہر شخص بجائے یہ کہنے کے کہ مجھے مصیبت اٹھائے کی کیا ضڑورت ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجائے اور کہے کہ میں اسے برداشت نہیں کرسکتا تو دیکھ لیں ایسی لوگ فوراً اپنی اصلاح کرلیں گے۔<
خطبہ کے آخر میں اس نکتہ معرفت کی طرف متوجہ فرمایا :۔
>شیطانی کاموں کے لئے قربانی اور ایثار کی ضرورت نہیں ہوتی قربانی اور ایثار کی ضرورت خدائی کاموں کے لئے ہوتی ہے۔ شیطان کو نبی بھیجے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شیطانی باتیں خودبخود چلتی جاتی ہیں کیونکہ ان میں ہر ایک کو مزا ملتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نبی بھیجتا ہے۔ انہیں ماریں پڑتی ہیں` دکھ دیئے جاتے ہیں اور بعض اوقات انہیں جانیں دینی پڑتی ہیں۔ اس طرح بڑی قربانی اور ایثار کے بعد ایک جماعت بنتی ہے اور شیطان اسے پھر خراب کردیتا ہے۔ انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں ترقی کی لیکن جب ان کا زمانہ ختم ہونے کا وقت آیا تو شیطان نے کتنی جلدی انہیں ختم کردیا ؟ غرض شیطانی آواز کی طرف لوگ جلد آتے ہیں کیونکہ انہین تر لقمہ ملتا ہے وہ آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ اس لئے میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور قومی احساس پیدا کرے۔< ۱۱۶
قوم کی بے لوث خدمات بجالانے کی تلقین
حضرت مصلح موعودؓ نے ۸ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء کے خطبہ جمعہ میں بتایا کہ قومی خدمات اپنے اندر بھاری برکات رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں ان کے فوائد اور بلند معیار کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی:۔
>ایک لیڈری شیطان بن کر ملتی ہے اور ایک لیڈری خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے۔ ان دونوں میں کتنا فرق ہے۔ دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ تھوڑے ہوتے ہیں جن کو فریب` دھوکہ بازی اور منصوبہ بازی کے بغیر لیڈری مل جائے۔ بعض لوگ قوم کی خدمت کرتے ہیں اور اس طرح آگے آجاتے ہیں۔ مثلاً سرسید علی گڑھ۱۱۷` مولانا محمد علی جوہر۱۱۸ میاں فضل حسین۱۱۹ اور قائداعظم محمد علی جناح۱۲۰` سر اقبال۱۲۱ یہ وہ لوگ تھے جن کو تمام مسلمان جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی اغراض کے لئے کوئی کام نہیں کیا بلکہ محض قوم کی خدمت کی` نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ انہیں آگے لے آیا۔ مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ ورنہ چھوٹی چھوٹی انجمنوں تک میں ہزاروں ریشہ دوانیاں ہوتی ہیں کہ کسی طرح کوئی خاص پارٹی آگے آجائے اور غرض یہ ہوتی ہے کہ زیدیابکر اس انجمن کے لیڈر بن جائیں۔ سیکرٹری بن جائیں یا انہیں کوئی اور عہدہ مل جائے۔ ایسے آدمی جنہوں نے قوم کی خدمت کی اور آگے آئے وہ کروڑوں کی جماعت میں درجنوں اور بیسیوں کے اندر ہی رہ جاتے ہیں لیکن ہماری جماعت میں بغیر کسی قسم کے دھوکہ` فریب اور منصوبہ کے آپ ہی آپ نظام کے ماتحت کچھ لوگ اوپرآجاتے ہیں اور جماعت کی باگ ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ ان کی زندگیوں میں تو ایک تغیر ہونا چاہئے تھا جس طرح خدا تعالیٰ نے ان سے سلوک کیا ہے اور انہیں بلا استحقاق قوم کا لیڈر بنا دیا ہے اسی طرح ان کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے لیڈر بنیں جن کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہو۔ ان کے کام اپنے نفس کی خاطر نہیں ہونی چاہئیں بلکہ ان کے کردار` ان کے افعال` ان کے اخلاق اور ان کے طریق خالصتاً مذہب کے لئے وقف ہوں۔ اور جب کسی کی زندگی خالصتاً کسی مذہب یا جماعت کے لئے ہوجاتی ہے تو اس کے عمل میں دیوانگی پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ ڈاک خانہ بن کر نہیں رہ جاتا کہ چند خطوط کا جواب دے دیا اور سمجھ لیا کہ بڑا کام کیا ہے بلکہ ایسا شخص رات دن سکیمیں سوچتا ہے کہ کس کس طرح میں اپنی قوم کو اونچا کروں جس کی وجہ سی اسے عزت ملی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر جو خدمات کی جاتی ہیں وہ پے در پے نفع لاتی ہیں ان کی یہ خدمت بھی بلا معاوضہ نہیں ہوتی۔ فرض کرو جماعت اب تین لاکھ کی ہے اور وہ قربانی کرتے ہیں اور تعداد تین لاکھ سے چھ لاکھ ہوجاتی ہے` تو انہون نے صرف قوم کی خدمت نہیں کی انہوں نے اپنی خدمت بھی کی ہے۔ وہ پہلے تین لاکھ کے لیڈر تھے اب چھ لاکھ کے لیڈر ہوگئے۔ اگر وہ اور قربانی کریں اور تعداد بارہ لاکھ ہوجائے تو یہ خدمت اسلام کی بھی ہوگی مگر ساتھ ہی اپنی کدمت بھی ہگی کیونکہ کل وہ چھ لاکھ کے لیڈر تھے تو آج وہ بارہ لاکھ کے لیڈر بن گئے ہیں۔ غرض ان کے اندر ایسی دیوانگی ہونی چاہئے۔ جو دوسری قوموں میں نہ ملے۔< ۱۲۲
چوہدری محمد حسین صاحبؓ کی ریاست خیرپور میں المناک شہادت
یکم فروری ۱۹۵۲ء سے احراری لیڈروں نے سندھ کو اپنی اشتعال انگیز سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا اور کانفرنس منعقد کرکے صوبہ کی فضا
کو اس درجہ مکدر کردیا کہ ۱۹ فروری ۱۹۵۲ء کو ایک مخلص احمدی چوہدری محمد حسین صاحب گمبٹ ریاست خیر پور میرس سندھ پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا۔ چوہدری صاحب کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں آپ ۲۲ فروری ۱۹۵۲ء کو رحلت کرگئے۔۱۲۳
جلسہ سیالکوٹ پر یورش
جماعت احمدیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ ۱۶۔۱۷ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء کو قرار پایا تھا اور احمدیون کی کثیر تعداد بیرونی مقامات اور مضافات سے اس میں شرکت کے لئے پہنچ چکی تھی کہ بعض احواری علماء نے پہلے تو احمدیوں کے واجب القتل ہونے کا فتوٰ¶ نشر کیا پھر ایک ہجوم میں یہ اعلان کر کے ہم احمدیوں کا جلسہ نہیں ہونے دیں گے جلسہ گاہ کا رخ کر لیا اور جونہی پہلا اجلاس ختم ہوا اور سامعین جلسہ گاہ سے باہر نکلے تو ان پر شدید سنگ باری کی گئی جس سے چالیس سے زائد افراد بری طرح مجروح ہوئے۔ اس کے بعد بلوائیوں نے بازار میں متعدد اشخاص کو مارا پیٹا اور گلیوں میں بھی تشدد سے کام لیا۔
رات کو ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ نے جماعت احمدیہ کے ارکان کو بلایا اور مشورہ دیا کہ جلسہ احمدیہ مسجد میں کر للیں لیکن جماعت سیالکوٹ نے اس رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اگلے روز کا پروگرام منسوخ کردیا۔۱۲۴
فصل پنجم
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا سفر بشیر آباد سندھ بصیرت افروز خطبات حیدر آباد میں پریس کانفرنس اتحاد المسلمین پر شاندار لیکچر
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ اراضی سندھ کی نگرانی اور حسابات کی پڑتال کرنے کارکنوں کو ہدایات دینے اور بہت سے تربیتی و تبلیغی امور کی انجام دہی کے لئے سالہاسال سے سندھ تشریف لے جارہے تھے۔ حضور حسب سابق اس سال بھی ۳۴ نفوس پر مشتمل قافلہ سمیت ۲۵ تبلیغ/فروری کو بشیر آباد سندھ تشریف لے گئے اور ایک ماہ کے کامیاب دورہکے بعد ۲۶ امان/مارچ کو ربوہ میں رونق افروز ہوئے۔ حضور نے اس سفر کے دوران مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کو امیر مقامی نامزد فرمایا۔۱۲۵
۱۳۳۱/ہش/۱۹۵۲ء کے بابرکت سفر سندھ کے واقعات میں سے تین کا ذکر ضروری ہے:۔
۱۔ خطبات جمعہ ۲۔ پریس کانفرنس ۳۔ اتحاد المسلمین پر لیکچر
بصیرت افروز خطبات
دوران سفر حضور نے اپنے خطبات میں احباب میں احباب جماعت کو بہت قیمتی نصائح فرمائیں جن کا ملخص یہ تھا کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرو` تبلیغ کرو` جماعت کو وسیع کرتے چلے جائو ہمیشہ اپنے کاموں میں محبت اور عقل کا توازہ قائم رکھو اور اخلاق فاضلہ کا بہترین نمونہ بنو۔
پریس کانفرنس
]0 [rtfحضورﷺ~ نے ۲۵ امان / مارچ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جس کی روداد اخبار المصلح کراچی )مورخہ ۲۸ مارچ ۱۹۵۶ء( کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے:۔
>حضرت امام جماعت احمدیہ حضرت مرز بشیر الدین محمود احمد صاحب نے گزشتہ روز حیدر آباد میں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :۔
>میں اصولاً تو یہی سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی زبان لازمی طور پر اردو ہے لیکن موجود حالات میں یہ ضروری ہے کہ بنگالیوں کی دلجوئی کر کے ان کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے جذبات رکھے جائیں اور زبان کے سوال کو موجودہ حالات میں اٹھانا اور خواہ مخواہ اس مسئلہ کو اختلاف کی بنیاد بنانا درست نہیں۔<
ایک سوال کے جواب میں مسئلہ جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا:۔
>ہم قرآن کریم کو مانتے ہیں۔ لامحالہ جو چیز قرآن مجید کریم میں ہوگی وہی ہمارا عقیدہ اور مسلک ہوگا ہاں اس کی توضیح اور مفہوم میں فرق ہوسکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد دشمنوں کے حملوں کے دفاع کا نام ہے اور ایک دفعہ دفاعی جنگ شروع ہوجانے کے بعد اقدام بھی لازماً اس کا ایک حصہ بن جائے گا۔<
پاکستان میں آئندہ ماہ ہونے والی اسلامی ممالک کے وزراء اعظم کی کانفرنس کے متعلق آپ نے فرمایا:۔
>جہاں تک میرا خیال ہے اس کانفرنس میں باہمی عام مسائل پر عام مشورہ ہوگا اور اس کے فیصلے سب پر عائد نہیں کئے جائیں گے۔ بہرحال یہ اقدام نہایت خو شکن ہے اور آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ ہے۔< ۱۲۶
اتحاد المسلمین پر عظیم الشان لیکچر
قیام حیدر آباد کا اہم ترین واقعہ امیر المومنین حضرت مصلح موعودؓ کا >اتحاد المسلمین< کے موضوع پر عظیم الشان لیکچر ہے جو ۲۵ امان/مارچ کو پریس کانفرنس کے بعد تھیوسافیکل ہال میں ہوا۔ داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا۔ قریباً ایک ہزار ٹکٹ غیر احمدی معززین میں تقسیم کئے گئے۔ جلسہ میں آلہ نشرالصوت کا خاطر خواہ انتظام تھا۔ ہال کا اندرونی حصہ اس قدر پر تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی حتیٰ کہ احمدی اور غیر احمدی احباب کثیر تعداد میں دونوں طرف باغ اور صحن میں بیٹھے یا کھڑے کھڑے آخر وقت تک پوری توجہ دلجمعی اور سکون کے ساتھ تقریر سنتے رہے۔ مستورات کے لئے ہال کے ایک ملحقہ کمرہ میں الگ پردہ کا بندوبست تھا۔ جناب ایم۔اے حافظ بار ایٹ لاء ہیرہ آباد کی صدارت میں کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے مولوی سید احمد علی شاہ صاحب مبلغ سلسلہ ۱۲۷ نے تلاوت فرمائی پھر مبارک احمد صاحب نے کلام محمود سے ایک نظم پڑھی۔ ازاں بعد صدر جلسہ نے حضرت مصلح موعودؓ کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے اس تقریب پر اظہار مسرت و شادمانی کیا اور فرمایا :۔
>ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسلام میں جماعت احمدیہ جیسی ایک جماعت موجود ہے جس کے کارنامے طویل ہیں۔ اس جماعت نے اسلام کو جس جوش و خروش سے یورپ میں پیش کیا ہے وہ اس کا ہی حصہ ہے اور ہم سب مسلمان اس کے ممنون ہیں۔ اس جماعت کے ایک ممبر آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں حکومت میں شامل ہیں۔ اس ممبر نے دنیا میںپاکستان کی عزت کو چار چاند لگادیئے ہیں اور دنیا میں پاکستان کا نام بلند کرنے اور اسلامی ممالک کو متحد بنانے میں عظیم الشان کامیابی حاصل کی ہے یہ ممبر ساری اسلامی دنیا کے لئے ایک قابل فخر ہستی ہے۔ آج اس عظیم الشان جماعت کے عظیم الشان لیڈر کی تقریر سننے کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔ اور میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ آج صدارت کے لئے مجھے چنا گیا۔<
اس کے بعد حضور اقدس نی اتحاد المسلمین کے موضوع پر سوا گھنٹہ کے قریب ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی۔
اس تقریر کے ضروری حصے درج ذیل کئے جاتے ہیں :۔
اتحاد اور اس کا فلسفہ
>اتحاد عربی لفظ ہے اور وحدت سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں یکجہتی اختیار کر لینا۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ بہت سی چیزیں ہیں اور انہوں نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو کھو کر اجتماعیت اختیار کریں گی۔ عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مطالب کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ ایک لفظ کے اندر سارا فلسفہ بیان کردیا جاتا ہے۔ اتحاد نے اردو زبان میں آکر اپنے معنی کھو دیئے ہیں لیکن عربی زبان میں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے فلسفہ کو جاننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ بولنے والا کئی باتیں تسلیم کرتا ہے۔<
اسلام اور اجتماعیت
>اجتماعیت اور ملت کا جو احساس اسلام نے پیدا کیا ہے وہ کسی اور مذہب نے پیدا نہیں کیا۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو اجتماعیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔<
کلمہ
>مثلاً اسلام میں ایک کلمہ ہے جو ہر مسلمان کے لئے ماننا ضروری ہے۔ بے شک اسلامی فرقوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً ہماری جماعت کو بھی دوسرے فرقوں سے اختلاف ہے لیکن کوئی احمدی ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ میں کلمہ طیبہ نہیں مانتا۔ پھر شیعوں کو سنیوں سے اختلاف ہے اور سنیوں کو شیعوں سے اختلاف ہے۔ لیکن سنی یا شیعہ کو یہ جرات نہیں کہ وہ کلمہ سے انکار کردے۔ تم کسی اسلامی فرقہ میں چلے جائو اور ان سے پوچھ لو وہ کلمہ سے باہر نہیں جائیں گے۔ ہر ایک مسلمان یہ کہے گا کہ ہمارا ایک کلمہ ہے اور وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ ہر شخص جو مسلمان ہوگا وہ اس بارہ میں دوسرے مسلمانوں سے متحد ہوگا۔ شیعہ سنیوں سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ کے بارہ میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا سنی شیعہ سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ میں دونوں متحد ہوں گے اور یہ کلمہ صرف مسلمانوں میں ہے اور کسی مذہب میں نہیں۔ اس کا یہ مطلب کہ ایک عیسائی کو لا الہ الا اللہ کہنا نہیں آتا۔ ایک عیسائی بھی لا الہ الا اللہ کہہ سکتا ہے لیکن ان کا اپنا کوئی ایسا کلمہ نہیں جس میں بتایا گیا ہو کہ خدا تین ہیں۔ تم کسی مشن میں چلے جائو اور عیسائیوں سے پوچھو کہ کیا تمہارا بھی کوئی کلمہ ہے تو وہ یہی جواب دیں گے کہ ہمارا کوئی کلمہ نہیں۔ وہ یہ کہہ ہی نہیں سکتے کہ ہمارا کوئی کلمہ ہے کیونکہ ان کے ہاں مذہب کا ضروری حصہ وہ لوگ بھی ہیں جو تین خدا مانتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے لوگ بھی پائے جاتے جو باوجود عیسائی ہونے کے ایک خدا کے قائل ہیں لیکن ہمارا ہر شخص لا الہ الا اللہ میں دوسرے مسلمانوں سے اتحاد رکھتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص لا الہ الا اللہ کے خلاف کسی تعلیم کو مانتا ہو اور وہ اسلام میں بھی رہے۔<
>ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳۷۰ سال قبل فرما دیا تھا کہ ہمارا کلمہ لا الہ الا اللہ ہے اور اس میں اسلام کا خلاصہ آگیا ہے۔ باقی لوگ ابھی ٹکریں مار رہے ہیں کہ ہمارا کلمہ کیا ہے ؟ اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے جو مسلمانوں کے سوا دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں۔<
قبلہ
>پھر اسلام میں ایک قبلہ پایا جاتا ہے لیکن اسلام کے سوا کسی مذہب میں قبلہ نہیں پایا جاتا بے شک ہندوئوں کے پاس سومناتھ کا مندر موجود ہے لیکن یہ ایسی چیز نہیں جس پر سارے ہندو جمع ہوجائیں عیسائیون اور یہودیوں میں بھی کوئی قبلہ نہیں وہ یروشلم کی مسجد کو بطور قبلہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پانچ سو سال بعد حضرت دائود علیہ السلام نے بنائی تھی۔ حضرت دائود علیہ السلام سے پانچ سو سال قبل یہودیوں کے پاس کونسا قبلہ تھا ہمارے پاس پہلے سے قبلہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ظاہر ہوئے تو آپ نے بتادیا کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے اور اس طرح مسلمانوں پر کوئی دن ایسا نہیں آیا جب ان کے پاس کوئی قبلہ نہ ہو۔ یہ نہیں کہ ایک سال دو سال یا دس سال کے بعد قبلہ کا حکم ہوا ہو بلکہ پہلے دن سے بتادیا گیا ہے کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے۔ اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے جو دوسرے مذہب والوں کو حاصل نہیں۔<
نماز باجماعت
>پھر نماز باجماعت ہے۔ اسلامی نماز بھی انفرادی نماز نہیں بلکہ ایک قومی نماز ہے۔ پہلے صفوں مین سیدھے کھڑے ہوجائو۔ قبلہ رخ ہو۔ اقامت ہو پھر ایک امام ہو۔ امام کھڑا ہو تو مقتدی کھڑا ہو امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں چلا جائے۔ یہ خصوصیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے اور مذاہب میں نہیں نہ عیسائیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور یہودیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔ عیسائی اور یہودی اکٹھے تو ہوجاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے لئے اکٹھا ہونے کا کہاں حکم ہے ؟ ساری تو رات میں اکٹھے ہو کر عبادت کرنے کا حکم نہیں ملتا تورات میں یہی آتا ہے کہ کامل عبادت یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے لئے قربانی پیش کرو۔ باقی یہ کہ عبادت کے لئے تم اکٹھے ہوجائو ایسا کوئی ۔ حکم نہ پرانوں اور ویدوں میں موجود ہے اور نہ ایسا حکم تورات اور انجیل میں پایا جاتا ہے۔<
sub] [tagاذان
>صرف اسلام ہی ایس امذہب ہے جو کہتا ہے پہلے اذان دو پھر اس طرح مسجد میں آئو سیدھ صفوں میں کھڑے ہوجائو۔ پھر قبلہ کی طرف منہ کرو۔ سامنے ایک امام ہو۔ جو حرکت امام کرے وہی حرکت مقتدی بھی کرے۔ امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں چلے جائیں امام کھڑا ہو تو مقتدی بھی کھڑے ہوجائیں۔ اس طرح ساری قم امام کے تابع ہوجاتی ہے اور یہ طاقت ہٹلر میں بھی نہیں تھی کہ اس کے اشارہ سے سارے لوگ جھک جائیں لیکن یہاں یہ بات پائی جاتی ہے کہ امام رکوع میں جاتا ہے تو سارے مقتدی رکوع میں چلے جاتے ہیں۔ امام سجدہ میں جاتا ہے تو سارے لوگ سجدہ میں چلے جاتے ہیں۔ گویا خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت بخشی ہے جس نے اجتماعیت کی ایسی مستحکم روح قائم کردی ہے جس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔<
حج
>پھر حج ہے یہ خصوصیت بھی صرف اسلام میں ہے۔ بے شک ہندو لوگ یاترا کے لئے جاتے ہیں لیکن یاترائیں بیسیوں ہیں۔ کوئی مشخصہ یاترا نہیں۔ اور نہ ایسی تعلیم ہے کہ جس شخص کے پاس سرمایہ ہو۔ پھر امن ہو اس کے لئے کوئی روک نہ ہو۔ ایسا شخص اگر حج نہیں کرتا تو وہ گنہگار ہے یہ اجتماعیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے۔ باقی لوگ یاترا گئے تب بھی بزرگ ہیں اور اگر یاترا کو نہ گئے تب بھی بزرگ ہیں۔<
زکٰوۃ
>پھر زکٰوۃ ہے۔ اسلام میں جیسی زکٰوۃ پائی جاتی ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی بے شک یہودیوں میں بھی زکٰوۃ پائی جاتی ہے لیکن اس میں اتنی باریکیاں نہیں پائی جاتیں جتنی باریکیاں اسلامی زکٰوۃ میں پائی جاتی ہیں۔ اسلامی زکٰوۃ کے اخراجات کو نہایت وسیع طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس میں قومی ترقی کی ہر چیز آجاتی ہے۔ اس میں کلیت کا رنگ پایا جاتا ہے اور یہ بات یہودی زکٰوۃ میں نہیں پائی جاتی۔ اس میں کلیت کا رنگ پایا جاتا ہے اور یہ بات یہودی زکٰوۃ میں نہیں پائی جاتی۔ اسلامی زکٰوۃ میں ہر قسم کے غرباء کا حق مرر کردیا گیا ہے مثلاً ایک شخص کے پاس تجارت کے لئے سرمایہ نہیں تو اسلام کہتا ہے اسے کچھ سرمایہ دے دو۔ ایک درزی ہے وہ درزی کا کام جانتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی مشین نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ ایک شخص کو یکہ چلانا آتا ہے لیکن اس کے پاس روپیہ نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ اس طرح ایک مسافر آتا ہے وہ مالدار ہوتا ہے۔ لیکن وہ شہر میں جاتا ہے اور اس کا مال چوری ہوجاتا ہے اور وہ گھر سے بھی روپیہ منگوا نہیں سکتا تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ ایک غریب آدمی قید ہوجاتا ہے۔ اس کے بچوں کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دیدو گوایا اسلام نے زکٰوۃ کے نظام کو اس قدر وسیع کیا ہے اور اتنا نرم رکھا ہے کہ ہر قوم اور ہر گروہ کے لوگ اس سے اس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ کسی کا سر بھی نیچا نہ ہو۔ کیونکہ بڑی زکٰوۃ حکومت خو دے گی۔ مثلاً زمین ہے۔ زمین کی زکٰوۃ میں ذاتی طور پر نہیں دے سکتا بلکہ یہ زکٰوۃ گورنمنٹ کے پاس جمع کرائی جائے گی اور وہ آگے مستحقین میں تقسیم کرے گی۔ اگر حکومت اس رقم میں سے کچھ میرے ہمسایہ کو دیتی ہے تو اگرچہ وہ میری رقم ہوگی لیکن میرا ہمسایہ اسے گورنمنٹ سے حاصل کرے گا اس طرح وہ میرا ممنون نہیں ہوگا اور میرے سامنے نظریں نیچی نہیں کرے گا۔ گویا زکٰوۃ لینے کے نتیجہ میں جو تحقیر پیدا ہوتی ہے وہ پیدا نہیں ہوگی۔ غرض اسلامی زکٰوۃ میں اس امر کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ غریب کی نظر نیچی نہ ہو۔ اور باوجود مدد لینے کے وہ امیر ہمسایہ کو کہہ سکے کہ میں نے تجھ سے مدد نہیں لی۔<
قضاء
>پھر قضاء ہے یہ بھی اسلام کی ہی ایک خصوصیت ہے اور یہ خصوصیت بھی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ اسلام اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک فرد اگر کسی کو ڈنڈا مارے تو قضاء اسے کہے گی کہ تم قاضی کے پاس جائو وہ اسے ڈنڈا مارے گا۔ یہاں تک کہ اسلام میں بدکاری کی سزا سخت ہے لیکن اس کے لئے بھی اسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ تم سزا کو اپنے ہاتھ میں نہ لو بلکہ معاملہ قاضی کے پاس لے جائو وہ سزا دے گا۔
ایک شخص رسول کریم~صل۱~ کے پاس آیا۔ اس وقت یہودی سزا پر عمل کیا جاتا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا یارسول اللہ اگر خاوند دیکھے کہ اس کی بیوی بدکاری کررہی ہے تو کیا اسے حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مار ڈالے۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا نہیں۔۱۲۸ اسے خود سزا دینے کا حق نہیں۔ موسوی شریعت میں زنا کی سزا قتل تھی اور اس وقت تک اس بارہ میں موسوی شریعت کے مطابقہی عمل کیا جاتا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا جب زنا کی سزا قتل ہے تو خاوند جب اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھے تو کیوں نہ اسے قتل کردے ؟ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا اسے سزا دینے کا حق نہیں سزا دینے کا حق قاضی کو ہے۔ اگر وہ اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھتا ہے اور اسے قتل کردیتا ہے تو اسے قاتل سمجھ کر موت کی سزا دی جائے گی اب دیکھو اسلام اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اسلام یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کہیں بدلہ لینے میں جلد بازی سے کام تو نہیں لیا گیا۔ کیا جرم کی تحقیق کے سامان پوری طرح مہیا کئے ہیں ؟ اور یہ باتیں قاضی دیکھ سکتا ہے دوسرا نہیں۔ اگرچہ یہ انفرادی حق ہے لیکن کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی ائے گی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے لے مجرم کو سزا صرف حکومت کے ذریعہ ہی دلائی جاسکتی ہے۔<
جہاد
>پھر فرضیت جہاد ہے۔ جہاد بھی اکیلا شخص نہیں کرسکتا بلکہ جب جہاد فرض ہوگا تو ساری قوم لڑے گی۔ پس جہاد بھی ایک اجتماع چیز ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ جب امام کہے کہ اب جہاد کا موقع ہے تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فریضہ کو پورا کرے اور اگر کوئی مسلمان اس فرض کو پورا نہیں کرتا تو وہ شریعت اور قاون کا مجرم ہے یہ ایک اجتماعی حکم ہے پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام انفرادی مذہب ہے وہ غلطی پر ہے۔ اسلام انفرادی مذہب نہیں بلکہ اجتماعی مذہب ہے۔<
انفرادیت و اجتماعیت
>اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام ایک طرف تو انفرادیت کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے اور نہ صرف تسلیم کرتا بلکہ اسے ضروری قرار دیتا ہے اور وہ دوسری طرو وہ اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے یہ دونون چیزیں اکٹھی کیسے ہوسکتی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مددگار ہیں۔ ان دونوں کو جمع کئے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی۔
جس مزہب نے صرف انفرادیت کی تعلیم دی ہے وہ بھی تباہ ہوا ہے۔ کوئی مذہب اور کوئی حکومت اپنے لئے ترقی کا راستہ نہیں کھول سکتی جب تک وہ ان دونوں چیزوں پر بیک وقت عمل نہ کررہی ہو۔ اگلے زمانہ میں خدا سے تعلق محض انفرادیت کے طور پر ہوتا تھا لیکن صحیح راستہ انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان ہے۔ جیسے اگلے جہاں میں ایک پل صراط ہوگی یہ اس دنیا کی پل صراط ہے۔ اسلام دونوں چیزوں کو ایک وقت میں بیان کرتا ہے۔ ایک طرف وہ انسان کو اثنا بلد کرتا ہے کہ اسے عرض پر پہنچتا دیتا ہے اور اس کے درمیان اور خدا تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ باقی نہیں رہتا اور دوسری طرف جس طرح یونانی جب لڑتے ہیں تو وہ آپس میں ایک کو دوسرے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں تاکہ وہ اگر مریں تو اکٹھے مریں اسی طرح اسلام بھی ایک انسان کو دوسرے کے ساتھ باندھ دیتا ہے پس حقیقت یہی ہے کہ اتحاد موجودہ حالات اور افراد سے اتحاد کا نام ہے۔ اتحاد اس بات کا نام ہے کہ موجودہ حالات اور افراد سے کام لیا جائے اور ترقی کے معنی یہ ہیں کہ موجودہ حالات اور افراد میں اختلاف پیدا کیا جائے۔ جب تک تجربہ اور تھیوری سے اختلاف نہیں کیا جاتا اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی۔ غرض انفرادیت کے بغیر ترقی مشکل ہے اور اتحاد کے بغیر امن قائم رکھنا مشکل ہے۔<
قرآن مجید کی تعلیم
>قرآن کریم نے ان دونوں کو تسلیم کیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ واطیعوا اللہ و رسولہ ولاتنازعو فتفشلو و تذھب ریحکم واصبر وان اللہ مع الصبرین )انفال : ۴۷(
اے مسلمانو !! تم آپس میں اختلاف نہ کرو۔ اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے تو کمزور ہوجائو گے اور دشمن سے شکست کھا جائو گے۔ تم ہمیشہ اکٹھے رہنا اور ایک دوسرے کے مددگار رہنا۔ واصبروا اور چونکہ اکٹھے رہنے میں تمہیں کئی مشکلات پیش آئیں گی اس لئے تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ جب تم اجتماعیت کی طرف آئو گے تو کئی جھگڑے پیدا ہوں گے۔ رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں بھی شکوہ پیدا ہوجایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ آپﷺ~ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا جارہا۔ اس پر رسول کریم~صل۱~ فرمایا ۔ اے شخص اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا ؟ حضرت عمرؓ بھی وہاں موجود تھے آپ نے تلوار نکال لی اور عرض کیا یارسول اللہ آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن کاٹ دوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانے دو اس شخص نے بے شک غلطی کی ہے لیکن اگر اس کی گردن کاٹ دی گئی تو لوگ کہیں گے محمد~صل۱~ اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کردیتا ہے۔۱۲۹ پس اگر اس زمانہ کے لوگ بھی شکورہ کردیتے تھے اور اختلاف کا اظہار کردیتے تھے تو پاکستان اور شام اور عراق اور ارون کے لوگ کیوں نہیں کرسکتے ؟ غلطیاں ہوجاتی ہیں اور لوگ شکوہ بھی کرتے ہیں پھر تم کیا کرو۔
فرمایا واصبروا اور مجھ پر امید رکھو میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ پھر فرماتا ہے واعتصموا بجبل اللہ جمعیا ولاتفرقوا )آل عمران رکوع ۱۱( اے مسلمانو ! تم سارے مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو۔ اگر تم نے تفرقہ کیا تو اس کے نتیجہ میں تمہاری طاقت زائل ہوجائے گی۔ یہ اجتماعی اتحاد کی دعوت ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے مذہب کو کیسی چھوڑ سکتے ہیں وہ بے دین ہیں۔ گویا قرآن کریم اختلاف و اتحاد دونوں کو تسلیم کرتاہے۔ رسول کریم~صل۱~ کے کلام میں بھی اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں اختلاف امتی رحمتہ ۱۳۰ میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ اب دیکھو رسول~صل۱~ اختلاف کو بجائے عذاب کے رحمت قرار دیتے ہیں اور اختلاف کرنے والے دونوں فریق کو اپنی امت قرار دیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف آپﷺ~ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ جو شخص ۱۳۱جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا وہ ہم میں سے نہیں۔ گویا آپﷺ~ نے ایک طرف یہ کہا کہ اختلاف رحمت ہے اور دوسری طرف یہ کہا کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوگا وہ ہم میں سے نہیں۔ یعنی وہ مسلمان نہیں رہے گا۔ ایک صحابی رسول کریم~صل۱~ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ جب تفقہ ہوگا تو میں کیا کروں۔ کیا میں تلوار لوں اور لوگوں کا مقابلہ کروں۔ تو آپﷺ~۔ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔ جس طرف جماعت ۱۳۲ ہو تم اسی طرف چلے جائو۔ گویا آپ نے ایک طرف انفرادیت پر اس قدر زور دیا ہے کہ اختلاف امت کو رحمت قرار دے دیا اور دوسری طرف یہ شدید ہے کہ اگر تم پر ظلم بھی کیا جائے تب بھی تم اختلاف نہ کرو بلکہ جماعت کا ساتھ دو۔ غرض رسول کریم~صل۱~ اور قرآن کریم دونوں نے اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا ہے۔<
پہلا اسلامی اصول اتحاد
>اگر ہم اکٹھے ہو کر بیٹھ جائیں گے تو آہستہ آہستہ اتحاد کی گئی صورتیں نکل آئیں گی۔ فلاں مردہ باد۔ فلاں زندہ باد کے نعروں سے کچھ نہیں بنتا۔ اگر کوئی نقطہ مرکزی ایسا ہے جس پر اتحاد ہوسکتا ہے تو اس کو لے لو کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اختلافات قائم رکھو بلکہ بعض دفعہ یہاں تک کہتا ہے کہ ہم اختلاف رکھنے میں تمہاری مدد کریں گے۔ پھر یہ بیوقوفی کی بات ہے کہ ہم ان اختلافات کی وجہ سے اتحاد کو چھوڑ دیں۔ میں نے عملی طور پر بھی اس کا تجربہ کیا ہے۔ جب تحریک خلافت کا جھگڑا شروع ہوا اور مولانا محمد علی اور شوکت علی نے یہ تحریک شروع کی کہ انگریزوں کو کہا جائے کہ وہ سلطان ترکی کو جسے ہم مسلمان خلیفہ تسلیم کرتے ہیں کچھ نہ کہیں ورنہ ہم سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں گے تو انہوں نے باقی مسلمانوں کو بھی دعوت دی کہ وہ اس تحریک میں ان کے ساتھ شامل ہوں اور اس کے تعلق میں لکھنو میں ایک جلسہ کیا گیا۔ میں نے جب اس بات پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ شیعہ اور اہل حدیث سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے اور نہ خوارج اسے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں اور پھر ہم احمدی بھی اس بات کے خلاف ہیں۔ ہمارا ہیڈ خود خلیفہ ہوتا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ یہ سارے لوگ یہ بات کیوں کہیں گے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ مانتے ہیں اس لئے اگر تم نے اس پر ہاتھ ڈالا تو ہم سب متحد ہو کر اس کی امداد کریں گے۔ میں نے جلسہ میں شرکت کے لئی ایک وفد لکھنوء بھیجا اور انہیں تحریر پیغام بھجوایا ۱۳۳ کہ اگر تم اس صورت میں انگریزوں کے پاس جائو گے تو وہ کہیں گے کہ خوارج` اہل حدیث اور شیعہ مسلمان عبدالحمید کو اپنا خلیفہ نہیں مانتے تم کیسے کہتے ہو کہ وہ سب مسلمانوں کا خلیفہ ہے ؟ میں نے کہا تم یوں کہو کہ سلطان ترکی جسے مسلمانوں کی اکثریت خلیفہ تسلیم کرتی ہے اور باقی مسلمان بھی ان کا احترام کرتے ہیں اگر تم نے اسے کچھ کہا تو ہم سب مسلمان مل کر تمہارا مقابلہ کریں گے۔ اگر تم یوں کہو گے تو کام بن جائے گا۔ کسی احمدی` شیعہ یا اہل حدیث کو یہ جرات نہیں ہوسکے گی کہ وہ کہے سلطان عبدالحمید کو مار دو۔ وہ دل میں بے شک کہے لیکن اس کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا۔ مولانا شوکت علی کی طبعیت جوشیلی تھی جب وفد میرا خط لے کر گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تفرقہ کی بات ہے۔ پندرہ دن کے بعد اہل حدیث کی طرف سے اعلان شائع ہوا کہ ہم سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے شیعوں کی طرف سے بھی اس قسم کا اعلان شائع ہوا اور پھر سرپھٹول شروع ہوگئی۔ خورج اس ملک میں موجود نہیں تھے ورنہ وہ بھی اس قسم کا اعلان کردیتے اور پھر سال ڈیڑھ سال کے بعد خود ترکوں نے بھی اسے جواب دے دیا۔ تین چار سال کے بعد شملہ میں ہم سب ملے تو مولانا محمد علی نے کہا کتنا اچھا کام تھا۔ لیکن آخر ہم اس میں ناکام ہوگئے مسلمانوں میں تفرقہ ہوگیا اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ مین نے کہا مولانا میں نے مشورہ دے دیا تھا کہ یہ نہ لکھا جائے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو خلیفہ مانتے ہیں کیونکہ اہل حدیث` خوارج` شیعہ اور ہم احمدی اسے خلیفہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ کہا جائے کہ سلطان ترکی جس کو مسلمانوں میں سے اکثریت خلیفہ مانتی ہے اور جو خلیفہ نہیں مانتے وہ بھی ان کا احترام کرتے ہین۔ اگر میری بات مان لی جاتی تو یہ ناکامی نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا آپ نے یہ مشورہ ہمیں دیا ہی نہیں۔ میں نے کہا آپ کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کو دیا تھا مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ کی میں نے کہا اگر آپ میرا مشورہ مان لیتے تو اہل حدیث` خوارج اور شیعہ کو شکایت پیدا نہ ہوتی۔ آپ یہ لکھتے کہ اکثریت مسلمانوں کی سلطان ترکی کو خلیفہ مانتی ہے اور اقلیت اسے اپنے اقتدار کا نشان مانتی ہے۔ وہ افسوس کرنے لگے کہ مجھے پہلے کیوں نہ بتایا۔ پس شیعہ` سنی اور حنفی` وہابی اور احمدی اور غیر احمدی کے اختلاف کو چھوڑ دیا جائے اور ان کی اتحاد کی باتوں کو لے لیا جائے یہی اتحاد کا اصول ہے۔<
tav.13.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
دوسرا اسلامی اصول اتحاد
>دوسرا اصول اتحاد کا یہ ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کردیا جائے۔ اگر تم دیکھتے ہو کہ ہر بات میں اتحاد نہیں ہوسکتا تو تم چھوٹی باتوں کو چھوڑ دو اور بڑی باتوں کو لے لو۔ دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جہاں توحید کا ذکر کرتا ہے وہاں ماں باپ کا بھی ذکر کرتا ہے اور ان کی اطاعت اور فرنبرداری پر زور دیتا ہے لیکن جب انبیاء دنیا میں آئے اور ان کی قوم نے یہ کہا کہ ہم اپنے آبائو اجداد کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے تو خدا تعالیٰ نے یہاں تک کہہ دیا کہ تم جاہلوں کی بات مانتے ہو۔ باپ دادا سے کی عزت بے شک بڑی ہے لیکن جب ان کا مقابلہ خدا تعالیٰ سے ہوجائے تو انہیں چھوڑ دیں۔<
عالم اسلام کو دعوت اتحاد
>پس ان دونوں باتوں پر عمل کیا جائے تو اتحاد ہوسکتا ہے اس وقت پاکستان` لبنان` عراق` اردن ` شام ` مصر` لیبیا` ایران`افغانستان`انڈونیشیا اور سعودی عرب یہ گیارہ مسلم ممالک ہیں جو آزاد ہیں اور ان سب میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ اگر انہوں نے آپس میں اتحاد کرنا ہے تو پھر اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے ان کا فرض ہے کہ وہ سوچیں اور غور کریں کہ کیا کوئی ایسا پوائنٹ بھی ہے جس پر وہ متحد ہوسکتے ہیں ؟ اور اگر کوئی ایسا پوائنٹ مل جائے تو وہ اس پر اکٹھے ہوجائیں اور کہیں کہ ہم یہ بات نہیں ہونے دیں گے۔ مثلاً یہ سب ممالک اس بات پر اتحاد کر لیں کہ ہم کسی مسلم ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور بجائے اس کے کہ اس بات کا انتظار کریں کہ پہلے ہمارے آپس کے اختلافات دور ہوجائیں وہ سب مل کر اس بات پر اتحاد کر لیں کہ وہ کسی ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور سب مل کر اس کی آزادی کی جدوجہد کریں گے جس طرح رسول کریم~صل۱~ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دی تھی کہ آئو ہم توحید پر جو ہم سب میں مشترک ہے متحد ہوجائیں` اسی طرح ہم سب مسلمان اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ ہم کسی کو غلام نہیں رہنے دیں گے اختلافات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ اسی طرح پاکستان کے مسلمانوں کے آپس کے جھگڑے ہین اور ان میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن ان سب ممالک میں کوئی چیز مشترک بھی ہے وہ اس پر متحد ہوسکتے ہیں۔ مثلاً یہی بات لے لو کہ ہم نے پاکستان کو ہندوئوں سے بچانا ہییا کشمیر حاصل کرنا ہے تم ان چیزوں کو لے لو اور بجائے آپس میں اختلاف کرنے کے ان چیزوں پر متحد ہوجائو بعد میں ملنے ملانے سے دوسرے اختلافات بھی دور ہوجائیں گے ۔۔۔۔۔ عالم اسلامی کا اتحاد بھی اسی طرح ہوگا۔ اگر مسلم ممالک آپس میں اتحاد کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ اختلاف کے باوجود ہم دشمن سے اکٹھے ہو کر لڑیں گے اور ہم بھی اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ باہمی اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے سے لڑیں گے نہیں۔<
نازک زمانہ کی خبر
>اسلام پر ایک نازک زمانہ آرہا ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں کو کھولیں اور خطرات کو دیکھیں اور کم از کم اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم رسول کریم~صل۱~ کا ذکر مٹنے نہیں دیں گے۔<۱۳۴
غیر احمدی معززین کے تاثرات
اس پراز معلومات خطاب کے بعد بعض غیر احمدی معززین نے فرط محبت سے حضور سے مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ آج کی تقریر سننے کے بعد ہمارے بہت سے مشکوک و شبہات رفع ہوگئے ہیں۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا سفر حیدر آباد سندھ
)مکرم سید احمد علی شاہ صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کی ایک غیر مطبوعہ یادداشت(
مورخہ ۲۶ فروری ۱۹۵۲ء کو حضورؓ اڑھائی بجے صبح کو پنجاب سے حیدر آباد تشریف لائے۔ حضور کو الوداع کہنے کے لئے ہم لوگ ٹنڈوالہیار تک گئے جہاں حضور کو ناشتہ دیا گیا۔ جماعت احمدیہ حیدر آباد آدھی رات سے استقبال کے لئے موجود تھی۔ ۲۹ فروری کو جماعت حیدر آباد میں جلسہ کرانے کی تجویز ہوئی اور پھر حضور سے اجازت کے لئے خاکسار نے ناصر آباد جا کر عرض کیا تو فرمایا :۔
>وہاں جلسہ ہو بھی سکے گا۔ ابھی تھوڑے دن قبل احراری تقریریں کر کے گئے ہیں<
آخر حضورؓ نے ہماری درخواست منظور فرمائی۔ کیونکہ حضور کی گاڑی میر پور خاص کی طرف سے ان دنوں دس بجے آتی تھی اور چناب ایکسپریس ۸ بجے روانہ ہوجاتی تھی۔ حضور نے ۲ گھنٹے حیدر آباد قیام فرمایا تھا۔
۱۵ مارچ کو جماعت کی میٹنگ ہوئی اور مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب نے جو ہسپتال میں ڈاکٹر تھے اپنے تمام کمرے خالی کر کے دینے اور حضور کے قیام و طعام کا ذمہ لیا اور مکرم ماسٹر رحمت اللہ صاحب ٹیچر ہائی سکول ہیرہ آباد نے مکرم ماسٹر نور محمد صاحب ہیڈ ماسٹر سے اجازت لے لی کہ حضور کے ہمراہی اصحاب اور دیگر تمام مہمانوں کا قیام اور زائرین کے لئے ہائی سکول کا ہوسٹل فارغ ہوگا جو ہسپتال کے ساتھ ہی تھا درمیان میں صرف سڑک تھی۔
حضور نے جلسہ کی اجازت کے ساتھ مجھے یہ ہدایت فرمائی کہ جماعت کراچی سے مدد حاصل کی جائے چنانچہ ۲۱ مارچ کو پھر میٹنگ کی گئی اور مورخہ ۲۵ مارچ کی شام کو >تھیا صوفیکل ہال< میں جلسہ کا پروگرام بنا کر سندھ کی بڑی بڑی ۳۲ جماعتوں کو کو جلسہ کی دعوت دی اور حاضری کی تاکید کی گئی اور پہرہ کا خاص اہتمام کیا گیا۔
۱۷ مارچ کو مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کو میں نے چٹھی لکھ اور حضور کے ارشاد سے آگاہ کر کے پہرہ اور صدر جلسہ کا اہتمام کر کے آنے کے لئے تاکید کی اور ۳۲ جماعتوں کو بھی دعوتی خطوط خاکسار نے لکھے۔
۲۰ مارچ کو پھر جلسہ اور حضور کے قیام کے بارہ میں میٹنگ ہوئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ میں حضور کو >مسلم ہوسٹل< میں قیام کے انتظام کی اطلاع ناصر آباد میں جاکردوں اور جلسہ کے لئے دعوتی پاس چھپوانے کا اہتمام کیا گیا چنانچہ خاکسار سید احمد علی جو ان دنوں زیریں سندھ )ضلع حیدر آباد` ٹھٹھہ` تھرپارکر` سانگھڑ` نواب شاہ اور ضلع دادو( کا انچارج مبلغ تھا ۲۱ مارچ بروز جمعہ صبح کو ناصر آباد گیا اور حالات تحریری چٹھی میں عرض کئے تو حضور نے میرے لفافہ میں حسب ذیل الفاظ تحریر فرمائے :۔
>اگر مسلم ہوسٹل بہتر ہے تو وہیں انتظام کردیں لیکن موقعہ پر لوگوں کے شور سے اکثر افسر ڈر جاتے ہیں۔<
)یہ اصل لفافہ میرے پاس ہے جس کے اوپر یہ الفاظ ہیں(
خاکسار حضور کی اقتداء میں نماز جمعہ کے بعد رات کو واپس حیدر آباد پہنچا اور جماعت کو حالات سے آگاہ کر کے کہا کہ ہمیں کوئی دوسرا انتظام فوری طور پر کر لینا چاہئے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعد میں بعض اساتذہ سے مرعوب ہو کر مکرم` ماسٹر نور محمد صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول ہیرہ آبادنے معذرت کردی ادھر ہم نے متبادل انتظام کر لیا ہوا تھا۔
۲۲۔ مارچ کو دفتر >تبلیغ< ربوہ کی طرف سے تار آیا کہ حضور کی تقریر کے قلم بند کرنے کا انتظام کریں چنانچہ جواب میں عرض کیا گیا کہ مکرم مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوٹی تقریر قلم بند کریں گے۔
اسی رات کو پھر میٹنگ ہوئی اور مورخہ ۲۳۔ مارچ کو حضور کے قیام کے لئے >مسلم ہوسٹل< کی بجائے >انسپکشن بنگلہ< نزد سرکٹ ہائوس انتظام کر لیا گیا اور جلسہ کے لئے حسب ذیل دعوت نامہ پوسٹ کارڈ سائز پر طبع کرایا گیا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکرمی جناب !
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`
امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بروز منگل مورخہ ۲۵ مارچ ۱۹۵۲ء کو ساڑھے چار بجے شام تھیا صوفیکل ہال نزد جنرل پوسٹ آفس حیدر آباد میں >اتحاد المسلمین< کے موضوع پر تقریر فرمائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
آپ اس جلسہ میں شرکت فرما کر منتظمین کو شکریہ کا موقعہ دیں۔
نوٹ :۔ براہ مہربانی یہ دعوت نامہ ہمراہ لایئے گا۔
والسلام
الداعی سیکرٹری جماعت احمدیہ حیدر آباد< یہ دعوت نامہ صرف ۵۰۰ کی تعداد میں طبع کرایا گیا تھا کیونکہ ہال میں اسی قدر بمشکل گنجائش تھی مگر شائقین و سامعین کا اتنا اشتیاق و اصرار ہوا کہ کارڈ تقسیم کرنے کے بعد جس کو کارڈ بوجہ واقفیت دیا گیا اس کی سفارش پر اسی کے کارڈ پر دو دو تین تین بلکہ چار چار کے بھی نام مجھے درج کرنا پڑے۔ اور ہال میں تنگی کی وجہ سے اکثر لوگوں کو جلسہ میں تقریر لائوڈ سپیکر کے ذریعہ باہر کھڑے ہو کر سننا پڑی۔ میں دعوتی کارڈ دیکھ دیکھ کر لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دیتا تو پہر داران کو داخل ہونے دیتے تھے۔
۲۴ مارچ بروز سوموار حضور دس بجے شب بذریعہ ٹرین ناصر آباد سے میر پور خاص کے راستے حیدر آباد تشریف فرما ہوئے۔ جماعت احمدیہ حیدر آباد نے حضور کا استقبال کیا اور کاروں کے ذریعہ حضور مع عملہ >انسپکشن بنگلہ< نزد سرکٹ ہائوس حیدر آباد میں تشریف لے گئے۔ جہاں رات کو قیام فرمایا۔
۲۵ مارچ کی صبح کو مکرم چوہدری محمد سعید صاحب نے اپنے مکان واقع ہیرہ آباد میں حضور کو دعوت ناشتہ دی۔ اس موقع پر لی گئی ایک تصویر میرے پاس تھی جو آپ ہنگاموں میں ضائع ہوگئی ہے۔ اسٹیشن پر سے اترنے کے وقت بھی ایک تصویر تھی وہ بھی ضائع ہوگئی ہے۔ مکرم بابو عبدالغفار صاحب فوٹو اسپیڈ کمپنی حیدر آباد سندھ کے پاس بھی ہے ان کے بھائی مکرم نثار احمد صاحب کے پاس غالباً یہ مل سکیں گی جنہوں نے یہ تصاویر لی تھیں۔
۲۵۔ مارچ بروز منگال حضور سے معززین شہر حیدر آباد آ آ کر دن بھر ملاقات کرتے رہے۔
مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحبؓ امیر جماعت کراچی نے کراچی سے کافی تعداد میں موٹر کاروں کے ذریعہ احباب جماعت کو حیدر آباد بھیجا اور خود بھی تشریف لائے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ حیدر آباد کے اس جلسہ کے صدر کا آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟ تو انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ میں اب یہاں کوشش کرتا ہوں چنانچہ ہم دونوں مکرم جناب ایم۔اے حافظ صاحب بار ایٹ لاء ہیرہ آباد کے پاس پہنچے۔ انہوں نے اس جلسہ کی صدارت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا۔ وہ مکرم چوہدری صاحب کے واقف اور دوست تھے اور آنے کا وعدہ کیا بڑی خوشی کا اظہار کیا۔
وقت مقررہ سے قبل ہی ہال کھچا کھچ بھر گیا جس مین انتظامی لحاظ سے احمدی نصف کے قریب تھے باہر بھی دعوت نامہ والے صحن میں کھڑے تھے۔حضور وقت مقررہ پر ساڑھے چار بجے بذریعہ کار ہال میں تشریف لائے۔ مکرم جناب ایم۔اے اے حافظ صاحب بار ایٹ لاء کی صدارت کا مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب نے اعلان کیا۔ تلاوت قرآن کریم خاکسار سید احمد علی مبلغ نے کی۔ نظم مکرم میر مبارک احمد صاب تالپور نے پڑھی اور پھر صدر جلسہ نے حضور سے تقریر کی درخواست کی جو حضور نے >اتحاد المسلمین< کے موضوع پر ساڑھے چھ بجے شام تک فرمائی۔ آخر میں دعا کرائی اور پھر اس کے بعد چناب ایکسپریس کے ذریعہ پنجاب کے سفر کے لئے بذریعہ کار حضور سید حیدر آباد اسٹیشن تشریف لے گئے جہاں تمام احباب جماعت ہائے احمدیہ حیدر آباد )سندھ اور کراچی سے آنیوالوں نے حضور سے ملاقات کی۔ گاڑی کے آنے میں کافی وقت تھا حضور کے لئے پلیٹ فارم پر کرسی کا انتظام کیا گیا جس پر رونق افروز ہر کر حضور نے مشتاقین کو زیارت سے مشرف فرمایا اور غیر از جماعت اصحاب کو بھی شرف ملاقات بخشتے رہے۔ اس موقع پر حضور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ پچھلی دفعہ جب یہاں میرا لیکچر ہوا تھاتو صرف ۳۵ افراد سننے والے تھے مگر اب کے تھیا صوفیکل ہال کیاندر ۵۰۰ سے زائد اور باہر اسے بھی زیادہ صحن میں موجود تھے اس طرح حاضری ہزار بارہ سو تھی مگر جو باہر کھڑے لائوڈ سپیکر کے ذریعہ حضور کی تقریر سنتے رہے وہ بھی کئی صد تھے۔ حضور بے حد خوشی اور مسرتمحسوس فرمارہے تھے۔ اور یہ خدا کا خاص فضل تھا کہ جلسہ میں ہر طبقہ اور ہر فرقہ کے لوگ یعنی سنی` حنفی` بریلوی` شیعہ اہل حدیث` دیو بندی وغیرہ بلکہ عیسائی اور ہندو بھی موجود تھے اور بہت ہی اچھا اثر لے کر گئے اور حضور کی تقریر کے مدح سراتھے۔
دس بجے حضور چناب ایکسپریس پر سوار ہوئے احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر خوش و شادمانی اور جلسہ کی شاندار کامیابی کے ساتھ پنجاب کو تشریف لے گئے۔
اگلے ہی دن ۲۶ مارچ کو خاکسار نے اس جلسہ کی رپورٹ دفتر >تبلیغ ربوہ< الفضل< اور >المصلح< کراچی کو روانہ کردی >الفضل< مورخہ ۳۰ مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ پر زیر عنوان >حضرت امیر المونین ایدہ اللہ تعالیٰ کی حیدر آباد میں تشریف آوری اور بصیرت افروز تقریر شائع ہوئی` فالحمدلل¶ہ
میری ۱۹۵۲ء کو ڈائری اب تک موجود ہے اس سے یہ حالات مرتب کئے گئے ہیں۔ والسلام
خاکسار سید احمد علی مربہ جماعت احمدیہ
از شہر گوجرانوالہ ۵۷۔۳۔۷
دیگر کوائف
اس یادگار اور تاریخی موقع پر جن مقامات کے احمدی تشریف لائے ان کے نام یہ ہیں:۔
کرچی` بدین` میرپور خاص` نواب شاہ` سکھر` روہڑی` کرونڈی )خیر پور اسٹیٹ`( سانگھڑ` پڈعیدن` ٹنڈوالہ` یار باندھی` لاکھا روڈ` بنی سر روڈ` ڈگری` کوٹ احمدیاں اوراحمدیہ اسٹیٹس۔
چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی اور قائد و نائب قائد مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے بھی جماعت کی خاصی تعداد اور قریباً ڈیڑھ سو خدام کے ساتھ شرکت کی اور انتظامی اور حفاظتی امور میں مقامی جماعت سے مخلصانہ تعاون کیا۔ اسی طرح مکرم ماسٹر رحمت اللہ صاحب )نگران اعلیٰ( پریذیڈنٹ حیدر آباد` مکرم سید احمد علی شاہ صاحب مبلغ حیدر آبا` مکرم مولوی غلام احمد صاحب فرخ مبلغ بالائی سندھ` مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب سیکرٹری تبلیغ۔ مکرم بابو عبدالغفار صاحب کانپوری` مکرم ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب اپنے اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوشاں رہے۔]4 [stf۱۳۵
فصل ششم
حکام وقت کو حالات سے باخبر رکھنے کی واضح ہدایت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا پارلیمنٹ میں اعلان حق خلافت احمدیہ سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی وضاحت دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا افتتاح
حکام کو حالات سے باخبر رکھنے کی واضح ہدایت
پاکستان میں اب تک کئی احمدی جام شہادت نوش کرچکے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مخالفت کا دبائو بڑھتا جارہا تھا۔ لٰہذا سیدنا محمود خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ۱۳۳۱۲۸ہش کے خطبہ جمعہ میں واضح رنگ میں یہ ہدایت دی کہ ہر صورت میں احباب جماعت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ حکام وقت کو ہمیشہ حالات سے باخبر رکھیں۔ چنانچہ فرمایا:۔
>جہاں تک قانون کا سوال ہے میرے نزدیک صاف بات ہے کہ جماعت کو ایسے افعال کی طرف بار بار توجہ دلانی چاہئے کیونکہ حکومت کے ذمہ دار افراد نے خواہ وہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کریں جو نام اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے ان کا فرض ہے کہ وہ اس طرف توجہ کریں۔ اگر جماعتیں انہیں اس طرف توجہ نہ دلائیں تو وہ دنیا کے سامنے کہہ سکتے ہیں کہ ہم حالات سے واقف نہیں تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم تیرے بندوں کی حفاظت کے لئے تیار تھے لیکن انہوں نے ہمیں بتایا ہی نہیں۔ پس دنیا کے دربار میں اور خدا تعالیٰ کے دربار میں بھی حکومت کے آفیسروں پر محبت پوری کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر ضلع اور ہر صوبہ کے حکام اور گورنمنٹ پاکستان کے سامنے متواتر اپنے حالات رکھیں اور قطعاً اس بات کا خیال نہ کریں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا جتنی دیر سے نتجہ نکلے گا اتنا ہی وہ انہں مجرم بنانے اور خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کا موجب ہوگا۔ دنیا کی حکومت جتنی گرفت کرسکتی ہے خدا تعالیٰ کی حکومت یقیناً اس سے زیادہ گرفت کرسکتی ہے لیکن کسی شخص پر حجت تمام کردینا سب سے بڑا کام ہے خودسر` جوشیلے اور بے وقوف لوگ اسے فضول سمجھتے ہیں لیکن عقل مند لوگ جانتے ہیں کہ سب سے بڑی سا یہ ہے کہ کسی شخص پر حجت پوری ہوجائے اور اس کے ساتھیوں اور دوسرے لوگوں پر حجت پوری ہوجائے اس کے بعد وہ خواہ عمل نہ کرے اس کے لئے ہی سزا کافی ہے پھر خدا تعالیٰ جو سزا دے گا وہ الگ ہے میں ان لوگوں سے متفق نہیں ہوں جو کہتے ہیں کہ حکومت نے پہلے کیا کیا ہے کہ ہم پھر اس کے پاس جائیں۔ یہاں اس بات کا سوال نہیں کہ وہ کوئی علاج بھی کرتے ہیں یا نہیں یہ لوگ ہم پر مقرر کردیئے گئے ہیں اور انہیں خدا تعالیٰ نے ہم پر حاکم مقرر کیا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی انہیں اسی نام سے مخاطب کریں اور کہیں کہ تم ہمارے حاکم ہوا اور امن قائم رکھنا تمہارا فرض ہے۔ اور اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کرں تو ہم دوبارہ ان کے پاس جائیں گے اور انہیں اس طرف توجہ دلائیں گے۔<
>جو لوگ مادی چیزوں کو لیتے ہیں وہ کسی افسر کے موقوف ہوجانے اور اس کے ڈسمس ہوجانے کا نام سزا رکھتے ہیں بے شک وہ سزا ہے لیکن وہ سزا گھٹیا درجہ کی ہے کسی شخص کا مجرم ثابت ہو جاتا ` اس کا غیر ذمہ دار قرار پانا اور فرض ناشناس قرار پانا اس کے ڈسمس ہوجانے اور معطل ہو جانے سے زیادہ خطرناک ہے۔ کتنے آدمی ہیں جو معطل ہوئے لیکن بعد میں آنے والوں نے انہیں بری قرار دیا۔ پرانے زمانے میں کئی کمانڈر اپنی کمانوں سے الگ ہوئے۔ کئی بادشاہ اپنی بادشاہتوں سے الگ ہوئے لیکن بعد کی تاریخ نے انہیں بری قار دے دیا۔ وہ کتنے سال تھے جو انہوں نے تکلیف میں گزارے ؟ یہی دس بارہ سال وہ تکلیف میں ہے اور انہوں نے ذلت کو برداشت کیا لیکن بعد کی تاریخ نے انہیں اتنا اچھالا کہ وہی معطل شدہ کمانڈر اور بادشاہ عزت والے قرار پائے۔ اس کے مقابلہ میں کتنے بڑے سرکش بادشاہ اور کمانڈر گزرے ہیں جنہیں اپنے وقت میں طاقت` قوت اور دبدبہ حاصل تھا` انہوں نے ماتحتوں پر ظلم بھی کئے لیکن سینکڑوں اور ہزاروں سال گزر گئے کوئی شخص انہیں اچھا۔ ہر تاریخ پڑھنے والا نہیں ملامت کرتا ہے اور انہیں حقیر اور ذلیل سمجھتاہے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کی اولاد بھی اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا پسند نہیں کرتی۔<
>اگر تم پر کوئی شخص ظلم اور تعدی کرتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ افسر فرض شناس ہے اور وہ تمہاری مدد بھی کرے گا تو پھر بھی وہ اس وقت تک ظلم کو نہیں مٹا سکتا جب تک کہ وہ وقت نہ آجائے جو خدا تعالیٰ نے اس مٹانے کے لئے مقرر کیا ہے۔ ایک صداقت کی دشمنی محض یہ نہیں ہوتی کہ اس کے قبول کرنے والے کو مارا جائے بلکہ دشمنی یہ ہوتی ہے کہ اسے جھوٹا کہا جائے۔ اب کیا حکومتیں کسی کو جھوٹا کہنے سے روک سکتی ہیں ؟ اگر وہ جلسے روک دیں گے تو لوگ گھروں میں بیتھے باتوں باتوں میں جھوٹا کہیں گے۔ اور اگر حکومت اور زیادہ دبائے گی تو وہ دلوں میں جھوٹا کہیں گے اب دلوں میں برا منانے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے ؟ اگر ایک شخص صداقت سے محروم ہے` وہ ناواقف ہے اس لئے وہ صداقت سے دشمنی کرتا ہے اور وہ شیطان کا ہاتھ میں پڑ گیا ہے۔ تو جب تک اس کا دل صاف نہ ہو اس کی دشمنی کو دور نہیں کیا جاسکتا اور جس دن اس کا دل صاف ہو جائے گا تو کیا ایسی طاقت ہے یا کوئی ایسی حکومت ہے جو اس سے مخالفت کرواسکے ؟ جو لوگ احمید کے دشمن میں حکومت اگر چاہے بھی تو ان کے دلوں سے دشمنی کو نہیں نکال سکتی۔ اسی طرح جن لوگوں نے احمدیت کو قبول کر لیا ہے اگر حکومت چاہے بھی تو بھی ان کے دلوں سے بانی سلسلہ احمدیہ کی محبت کو نہیں نکال سکتی۔
ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے` اور جب ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے تو حکومت پر نظر رکھنی فضول ہے۔ تمہاری فتح دلوں کی فتح ہے اور جب دل فتح ہوجائیں گے تو تمہیں فتح حاصل ہوجائے گی۔ اگر تم نے دلوں کو فتح کر لیا تو تم دیکھو گے کہ یہی افسر جو آج تمہارے خلاف دوسروں کو اکساتے ہیں ہاتھ جوڑ کر تمہارے سامنے کھڑے ہوجائیں گے اور کہیں گے ہم تو آپ کے ہمیشہ سے خادم ہیں۔<]>[آخر کوئی حکومت ہو مسلم ہو یا غیر مسلم` بری ہو یا اچھی اس کے بننے میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
ترتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعزمن تشاء و تذل من تشاء۱۳۶
یعنی حکومت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکومت دیتا ہے وہ جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں فلاں شخص نے لڑائی کر کے حکومت لے لی ہے` فلاں شخص نے غصب کر کے حکومت لے لی ہے یا فلاں شخص نے بغاوت کر کے حکومت کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے` لیکن ہر حکومت میں خدا تعالیٰ کی مرضی ضرور شامل ہوتی ہے۔ جس طرح انسان کی پیدائش میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے جس طرح انسان کی موت میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے۔ جس طرح رزق میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے اسی طرح اس کی مرضی حکومت مین بھی شامل ہوتی ہے۔ بے شک اس میں انسانی اعمال کا بھی دخل ہے۔ بے شک اس میں انسانی کوششوں` سستیوں اور غفلتوں کا بھی دخل ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ ہماری طرف سے ہے۔ جس طرح موت اور حیات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اسی طرح حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا بھی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
کسی قوم کی موت اور حیات اس کا ٹوٹ جانا اور بننا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جب ہم کہتے ہیں۔
توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعزمن تشاء و تذل میں تشاء
تو حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا بھی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوا۔ اور جس خدا کے ہاتھ میں حکومت کا قائم کرنا ہے جس خدا کے ہاتھ میں حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا ہے وہی خدا حکم دیتا ہے کہ تم اپنی تکلیفیں افسران بالا کے سامنے لے جائو اور اس سے فائدہ نہ اٹھانا بے وقوفی ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم مذہبی لحاظ سے بار بار اپنی تکالیف گورنمنٹ تک پہنچائیں۔ اس طرح اگر کوئی افسر فرض شناس ہوگا تو وہ ہماری مدد بھی کرے گا اور ہمیں فائدہ پہنچائے گا۔ لیکن اگر وہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گا تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہہ سکو گے کہ اے خدا جو ذریعہ اصلاح کا تونے بتایا تھا وہ ہم نے اختیار کیا ہے۔<
>پھر تم یہ بات بھی مت بھولو کہ تمہارا توکل خدا تعالیٰ پر ہے حکومت پر نہیں۔ پھر جہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ ان امور کو حکومت کے سامنے لے جائو وہاں اگر تمہیں مایوسی نظر آتی ہے تو مایوس مت ہو کیونکہ اصل بادشاہ خدا تعالیٰ ہے اور جو فیصلہ بادشاہ کرے گا وہی ہوگا انسان جو فیصلہ کرے گا وہ نہیں ہوگا۔ ایک افسر کی غلطی کی وجہ سے حکام کو توجہ دلانا چھوڑ نہ دو اور ایک افسر کی غفلت کی وجہ سے فائدہ اٹھانا ترک نہ کرو۔ محض چند افسران کا اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہونا ایسی چیز نہیں کہ تم حکام کے کام سے غافل ہوجائو۔ تم انہیں توجہ دلاتے رہو اور ان کے پاس اپنی شکایت لے جائو۔ لیکن تمہارا تبھی مکمل ہوگا جب تم اپنی شکایات حکومت کو سامنے پیش تو کرو` تم ان امور کو لے کر افسران کے پاس جائو تو ضرور لیکن یہ خیال مت کرو کہ اگر وہ توجہ نہ کریں گے تو تم کو نقصان پہنچے گا۔ اگر یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے تو خدا تعالیٰ نے ہی اسے پورا کرنا ہے۔ جس دن تمہیں یہ یقین ہوجاے گا کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور وہ اسے ضرور کرے گا تو تم موجودہ مخالفت سے گھبرائو گے نہیں۔ ہر انسان میں تھوڑی بہت شرافت ضرور ہوتی ہے تم اگر متواتر افسروں کے پاس جاتے رہو گے تو ایک نہ ایک دن وہ شرما جائیں گے اور وہ خیال کریں گے ہم نے اپنا فرض ادا نہیں کیا لیکن یہ لوگ اپنا فرض ادا کئے جارہے ہیں اور جب تم خدا تعالیٰ پر توکل کرو گے تو تم جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمام رحمتوں اور فضلوں کا منبع ہے یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ ایک جماعت کو خود قائم کرے اور پھر اسے مٹا دے اسے بڑی بے دینی اور بدظنی اور کیا ہوسکتی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں چھوڑ دے گا ؟<
آخر میں حضور نے قو و یقین سے لبریز الفاظ میں پیشگوئی فرمائی کہ :۔
>اگر تم نیکی اور معیار دین کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہو گے تو وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا کبھی نہیں چھوڑے گا۔ اگر دنیا کی ساری طاقتیں بھی تمہاری مدد کرنے سے انکار کردیں تو خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ اس کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور تمہاری مدد کے سامان پیدا کریں گے۔<۱۳۷
چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب کاپارلیمنٹ میں اعلان حق
مارچ ۱۹۵۲ء کا واقعہ ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو کے بعض لیڈروں نے پاکستان کی پارلیمنٹ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کی کہ برطانیہ اور امریکہ کے دامن سے بندھن ہوئی ہے۔ نیز کہا:۔
>وزیر خارجہ کا ریکارڈ یہ ہے کہ تیس سال تک برطانوی سامراجیت کے سامنے سجدہ ریز رہے ہیں۔<
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنے جواب میں پہلے تو چند ایک مثالیں پیش کیں جن میں پاکستان نے بڑی بڑی طاقتوں کی سخت سے سخت مخالفت کے علی الرغم مسلم ممالک کی آزادی کے لئے حمایت کی اور ان کو مدد دی۔ آپ نے کہا ان میں سے لیبیا` ایرٹیریا ` سمالی لینڈ` مراکو ` ٹیونس اور انڈونیشیا بعض مثالیں ہیں۔ آپ نے ان لیڈروں کو دعوت دی کہ وہ ان مشرق وسطی کے ممالک کا دورہ کریں تو انہیں معلوم ہوگا کہ ان ممالک کا ہر ایک انسانی معترف ہے کہ جہاں کہیں بھی آزدی` حریت اور سامراجیت کے خلاف لڑائی اور نو آبادیاتی پالیسی کی مخالفت کا سوال پیدا ہوا پاکستان ہمیشہ صف اول میں رہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مری برطانوی جھگڑے میں پاکستان کا موقف یہ تھا کہ کوئی ایسا فیصلہ ہو جس سے مرصی عوام کی پوری پوری تسلی ہو اور جو مصر کے وقار` عزت نفس اور علو شان کے شادیاں ہو۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ برطانوی ایرانی جھگڑے میں ہماری تمام جدوجہد اس اصول کے پیش نظر رہی ہے کہ اس امر کو غیر مبہم الفاظ میں تسلیم کر لیا جائے کہ ایران کو اپنی تیل کی صنعت کو قومی بنانے کا حق حاصل ہے اور یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ قومی بنانے کا اقدام اب منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت چوہدری صاحب نے برطانوی سامراجیت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے اعتراض کے جوبا میں واضح لفظوں میں اعلان کیا کہ:۔
>میں کبھی کسی کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوا خواہ کوئی حکومت ہو یا ایک بادشا یا رعایا سوائے اس کے کہ جو شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ اور چونکہ میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہوں میں کسی دوسرے کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا۔<
پھر فرمایا :۔
>میں نے ہرگز کبھی کسی کے پاس کسی عہدے یا مرتبے کے لئے درخواست نہیں کے۔ وزارت خارجہ مجھے پیش کی گئی جیسا کہ میں غیر منقسم ہندوستان میں اس عہدہ پر فائز تھا اور مجھے اس عزت افزائی کا فخر ہے کہ جو مجھے پاکستان کی تاریخ کے ایسے نازک مرحلے پر اس کی حقیر سی خدمت کرنے کا موقعہ دینے سے کی گئی ہے۔<۱۳۸
حضرت مصلح موعودؓ کی وضاحت خلافت احمدیہ سے متعلق
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے الفضل )۲۵ فتح ۱۳۳۰ ہش/۲۵ دسمبر ۱۹۵۱ء( میں >اسلامی خلافت کا نظریہ< کے زیر عنوان ایک پرمغز مقالہ تحریر فرمایا ۱۳۹]4 [rtf جس میں یہ ذوقی بات بھی شامل ہوگئی کہ >یہ اٹل تقدیر ظاہر ہو کر رہے گی کہ کسی وقت احمدیت کی خلافت بھی ملکویت کو جگہ دے کر پیچھے ہٹ جائے گی۔<
صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو یہ نظریہ حضرت مسیح موعودؓ علیہ السلام کی تصریحات اور جماعتی منسلک کے منافعی معلوم ہوا اور آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھی اپنی رائے عرض کردی جس پر حضور پر نور نے موجودہ آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لئے حسب ذیل وضاحت نوٹ سپرد قلم فرمایا:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
خلافت عارضی ہے یا مستقل
عزیزم مرزا منصور احمد نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے اور لکھا ہے کہ غالباً اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریکیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق اور وقت ہے۔ میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا اس خط کی بناء پر میں نے مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت` خلافت کے بارہ میں پیش نہیں کی گئی۔
مرزا بشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے اس حدیث میں قانون نہیں بنایا کیا گیا بلکہ رسول کریم~صل۱~ کے بعد حالات کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے سب اوقات کے متلعق نہیں ہوتی یہ امر کہ رسول کریم~صل۱~ کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مستبدہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہوگیا۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا۔ قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہان یہ بتایا گیا ہے کہ خلاف ایک انعام ہے۔ پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسی ملتا رہے گا۔ پس جہاں تک مسئلے اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپںی آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کردے۔ لیکن اس اصل سے یہ بات ہرگز نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آرہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنون میں حضرت مسیح کا خلیفہ نہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی امت نہیں۔ پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ملا ضرور ہے۔ بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسیٰؑ کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسیٰؑ کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی` اسی طرح گو رسول~صل۱~ کے بعد خلافت محمدیہ تواتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معینہ عرصہ تک چلتی چلی جائے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل ہے جو امور کہ تکمیل اور خوبی پر ولالت کرتے ہیں سوائے ان امور کے کہ جن سے بعض ابتلاء ملے ہوتے ہیں۔ ان میں علاقہ محمدیت` علاقہ موسویت پر غالب آجاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کردیا ہے جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکایا گیا لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لٹکایا گیا۔ کیونکہ مسیح اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اورمسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی۔ خلافت چونکہ ایک انعام سے ابتلاء نہیں اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ مسیح اول کی امت کو ملیں۔ کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کی پشت پر محمدی برکات ہیں۔
پس جہاں میرے یہ بحث نہ صرف یہ کہ بیکار ہے بلکہ خطرناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بحثیں شروع کردیں وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصہ تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جاسکتا اور اگر خدانخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہوگا بلکہ ایسا ہی وقفہ ہوگا جیسی دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں۔ کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ ان حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں تھا۔< ۱۴۰
دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا افتتاح
نوجوانان احمدیت کی عالمی تنظیم۔خدام الاحمدیہ۔۔ کے مرکزی دفتر کی بنیاد سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ۶ ماہ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/۶ فروری ۱۹۵۲ء کو اپنے دست مبارک سے رکھی۔ قریباً پانچ ہزار روپیہ کی لاگت سے دفتر کے دو کمرے اور ان کے آگے آٹھ فٹ چوڑا برآمدہ` ایک سٹور اور ایک چوکیدار کا کمرہ تعمیر ہوچکا تو مورخہ ۵ اپریل ۱۹۵۲ء )مطابق ۵ شہادت ۱۳۳۱ ہش( کو دفتر اپنی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ اس روز سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بعد نماز عصر دفتر میں تشریف لا کر افتتاحی دعا کی۔ دعا سے قبل حضور نے مجلس کے دفتر بنانے پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور اسے جلد مکمل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ۱۴۱
اس موقعہ پر حضور نے ایک مختصر مگر ایمان افروز خطاب کیا جس میں فرمایا:۔
>اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چاہئے اور اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے۔ ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو انسان ان کا تیار کیا ہوا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کردیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں۔ اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مرجائیں۔ اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں تمہیں خدا تعالیٰ نے رکھا ہے تمہیں اسی میں فوراً کام شروع کردینا چاہئے۔ اگر خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جا کر کام شروع کردو لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو۔ مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے۔ گویا مومن کے لئے کام ختم کرنے کا وقت موت ہوتی ہے۔<۱۴۲
فصل ہفتم
مجلس مشاورت ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء کا انعقاد چندہ تعمیر مساجد کا مستقل نظام اشاعت لٹریچر کیلئے دوکمپنیوں کے قیام کا اعلان مکمل مرکزی لائبریری کا منصوبہ
مجلس مشاورت ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء اور اہم فیصلے
۱۱۔۱۲۔۱۳۔ ماہ شہادت ۱۳۳۱ ہش/ اپریل ۱۹۵۲ء کو جماعت احمدیہ کی تینتیسویں مجلس مشاورت کا ربوہ میں انعقاد ہوا۔
خطبہ جمعہ میں نصیحت
حضرت مصلح موعود~رضی۱~ نے افتتاح مشاورت سے قبل خطبہ جمعہ میں نصیحت فرمائی کہ :۔
>جب تک کسی قوم کے افراد اپنے اندر صحیح تبدیلی پیدا نہ کریں` وہ اپنے اندر سچا تقویٰ نہ پیدا کریں` وہ اپنے اندر درمیانہ روش کی روح پیدا نہ کریں یا وہ اپنے اندر سوچنے اور فکر کرنے کی روح پیدا نہ کریں یا وہ اپنے اندر عقل اور دانائی سے کام لینے کی روح پیدا نہ کریں` اس کے نمائندے بھی درحقیقت صحیح رستہ اور سچائی سے ایسے ہی دور ہوں گے جیسے اس جماعت کے افراد جس کا کوئی نمائندہ نہیں ہوتا۔ پس یہ جو ہم شوریٰ کرتے ہیں وہ اس غرض کو تو پورا کرتی ہے کہ اگر جماعت کے افراد صحیح ہوں تو شوریٰ مفید ہوسکتی ہے لیکن اس غرض کو پورا نہیں کرتی کہ اس کے افراد ٹھیک ہوں افراد کا ٹھیک ہونا ان کے اپنے ارادے اور کوشش کے صحیح ہونے پر مبنی ہے۔ یہ وہ کام ہے جو آپ لوگ کر سکتے ہیں کوئی نمائندہ نہیں کرسکتا۔ دل کی اصلاح کے لئے انسان کی اپنی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس کی اپنی کوشش کی ضرورت ہے۔ اگر تم ٹھیک ہوجائو تو تمہاری شوریٰ اور مشورے بھی ٹھیک ہوجائیں اور پھر صحیح مشورے پورے بھی ہوجائیں۔ کیونکہ اگر تم صحیح ہوگے تو تم اپنے مشوروں کو پورا کرنے کی کوشش کرو گے۔<۱۴۳
مشاورت کے عمومی کوائف
مشاورت دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ہال میں منعقد ہوئی جس میں ۳۷۳ نمائندوں نے شرکت فرمائی۔ بیرونی ممالک میں سے اس مرتبہ جرمنی` امریکہ ` سوڈان` انڈونیشیا اور چین کے نمائندے بھی شامل ہوئے۔ فیصلہ ہوا کہ آئندہ سال بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے قریباً تیرہ لاکھ روپیہ خرچ کیا جاے۔ صدر انجمن کا میزانیہ جس کی منظوری حضرت امام ہمام نے عطا فرمائی پندرہ لاکھ ۷۶ ہزار روپیہ پر مشتمل تھا۔
چندہ تعمیر مساجد کا مستقل نظام
اس تقریب پر حضورؓ نے تعمیر مساجد کے چندہ کی فراہمی کے لئے ایک مستقل نظام تجویز فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ )۱( ملازم پیشہ اپنی سالانہ ترقی کے پہلے ماہ کی رقم )۲( بڑے پیشہ ور ایک مہینے کی آد کا پانچواں حصہ )۳( چھوٹے پیشہ ور مہینے کی کسی معینہ تاریخ کی مزدوری کا دسواں حصہ )۴( تاجر اصحاب مہینہ کے پہلے سودا کا منافع اس مد میں دیا کریں۔ اور )۵( زمیندار احباب ہر فصل پر ایکڑ زمین میں سے ایک کرم کے برابر چندہ تعمیر مساجد ادا کیا کریں۔<
مندرجہ بالا طبقوں کے نمائندوں نے خلیفہ وقت کے سامنے بشاشت کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ مجوزہ نظام کے مطابق بالالتزام چندہ دیا کریں گے۔ اس موقعہ پر سیالکوٹ کے ایک تاجر دوست خواجہ محمد یعقوب صاحب نے حضور کی خدمت میں ایک سو روپیہ اس فنڈ کے لئے پیش کیا جس پر حضور کی خدمت بابرکت میں نقدی پیش کرنے کی ایک عام رو پیدا ہوگئی اور حضورؓ کے اردگرد اتنا ہجوم ہوگیا کہ نظم و ضبط کی خاطر انہیں قطاروں میں کھڑا کرنا پڑا` چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے چار ہزار سے زائد روپیہ نقد اور ایک ہزار روپیہ سے زائد کے وعدے وصول ہوگئے۔ خواتین کی طرف سے ۔/۶/۰۹ نقد کے علاوہ دو طلائی انگوٹھیاں بھی حضور کی خدمت می پیش ہوئیں۔ چندہ دینے کا یہ سلسلہ ابھی پورے جوش و خروش سے جاری تھا کہ حضور نے مجلس کی کارروائی کی خاطر اسے روک دینے کا اعلان کیا اور ارشاد فرمایا کہ مسجد فنڈ کے مزید چندے اور وعدے بعد میں دیئے جائیں۔ ۱۴۴
سب سے پہلے احمدی تاجر جنہوں نے مشاورت کے معاً بعد اس مالی جہاد مین حصہ اور ڈھائی سو روپیہ اس مد میں بھجوایا حضرت شیخ کریم بخش صاحب آف کوئٹہ کے فرزند شیخ محمد اقبال صاحب ہیں جن کا ذکر خصوصی خود حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ ۲۶ ہجرت ۱۳۳۱ ہش میں فرمایا ۱۴۵
اشاعت لٹریچر کے لئے دو کمپنیوں کے قیام کا اعلان
حضورؓ نے اس مشاورت پر اشاعت لٹریچر کے لئے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی دو اشاعت کمپنیوں کے قیام کا بھی اعلان فرمایا۔ ایک کمپنی اردو لٹریچر کے لئے اور ایک کمپنی غیر ملکی زبانوں خصوصاً عربی زبان کے لٹریچر کے لئے !!
body] g[taکمپنیوں کے سرمایہ کی نسبت حضورؓ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ :۔
>خلافت جوبلی فنڈ کا روپیہ جو دو لاکھ ستر ہزار کے قریب ہے میں اس کمپنی کو دیتا ہوں جو صدر انجمن احمدیہ کی ہوگی۔ اس کے علاوہ گزشتہ سالوں میں صدر انجمن احمدیہ چھ ہزار روپیہ سالانہ مجھے گذارہ کے لئے قرض کے طور پر دیتی رہی ہے بعض سالوں میں اس سے کم رقم بھی لی ہے بہرحال آپ لوگ مجھے امداد کے طور پر وہ رقم دینا چاہتے )تھے( اور میں نے قرض کے طور پر لی۔ ا میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو بھی جب میں ادا کرنے کے قابل ہو سکوں تو اس مد میں ادا کر دوں۔ اس رقم کو ملا کر تین لاکھ ستر ہزار بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ رقم جمع ہوجائے گی۔ کچھ سرمایہ پہلے سے اس مد میں فروخت کتب سے حاصل ہوچکا ہے اسے ملا کر قریباً چار لاکھ روپیہ کا سرمایہ ہوجاتا ہے۔ جب کمپنی جاری ہو تو اس وقت ایک لاکھ کے حصے اگر صاحب توفیق احباب خرید لیں تو پانچ لاکھ سرمایہ ہوجائے گا اور یہ اتنا بڑا سرمایہ ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا پریس اور کافی کتب شائع کی جاسکتی ہیں۔ سردست میں اس غرض کے لئے چار لاکھ سرمایہ کی ہی اجازت دیتا ہوں اگر ضرورت پڑی تو بعد میں اس رقم کو بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔ جب اس کمپنی کی وجہ سے آمد شروع ہوگئی تو چونکہ خلافت جوبلی فنڈ کے روپیہ پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور میں نے اس فنڈ سے وظائف دینے کا بھی اعلان کیا تھا اس لئے آمد کے پیدا ہونے پر اس کا ایک حصہ وظائف میں بھی جاسکتا ہے۔
اب رہ گئی تحریک جدید کی چار لاکھ روپیہ کی کمپنی جس کا کام اردو کے سوا دوسری زبانوں میں لٹریچر شائع کرنا ہوگا` اس کمپنی کے سرمایہ کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے غیر زبانوں میں تراجم کا کام` چونکہ اس کا حصہ ہے اور اس کا سرمایہ ہماری جماعت دس سال سے جمع کرچکی ہے` جو دو لاکھ کے قریب ہے اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تراجم قرآن کا دو لاکھ روپیہ اس کمپنی کو دے دیا جائے۔ وہ تراجم بھی یہی کمپنی شائع کرے گی اور اس کے علاوہ دوسرا لٹریچر بھی یہ کمپنی شائع کرے۔ باقی دو لاکھ روپیہ رہ گیا اس کے لئے میرے ذہن میں ایک اور صورت ہے` اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور وہ کام بن جائے تو اس کمپنی کے لئے بھی پورا سرمایہ حاصل ہوسکتا ہے۔ میرے ذہن میں جو صورت ہے وہ ایسی نہیں کہ فوری طور پر روپیہ مل جائے لیکن بہرحال اگر کوشش کی جائے تو مجھے امید ہے کہ دو لاکھ روپیہ ہمیں مل جائے گا۔ اس کے لئے ایک زمین کو فروخت کرنے کی ضرورت ہے جو مجھے کسی دوست نے تحفہ کے طور پر پیش ککی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ تحفہ بھی اس طرف منتقل کردوں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کئے جائیں۔< ۱۴۶
اس عظیم الشان سکیم کے مطابق >الشترکتہ الاسلامیہ< اور >ڈی اورنٹیل اینڈ میلحبس پبلشنگ کارپوریشن لمٹیڈ< کے نام سے دو مستقل اشاعتی ادارے معرض وجود میں آئے جن کی بدولت سلسلہ احمدیہ کا اردو` عربی اور انگریزی لٹریچر کثیر تعداد میں چھپ کر منظر عام پر آچکا ہے۔<۱۴۷
ایک مکمل مرکزی لائبریری کا منصوبہ
اس مشاورت کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں حضورؓ نے پہلی بار جماعت احمدیہ کے سامنے ایک ایسی مکمل اور جدید لٹریچر سے آراستہ لائبریری کا منصوبہ رکھا جو سلسلہ احمدیہ کی جملہ علمی و تبلیغی ضروریات میں اس کو خود کفیل بنادے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں جماعت احمدیہ کی مرکزی لائبریری اور اس کے کارکنوں کے فرائض کا نقشہ کیا تھا ؟ اس کی تفصیل حضور انور کے مبارک الفاظ ہی میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ فرمایا :۔
>لائبریری ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی تبلیغی جماعت اس کے بغیر کام نہیں کرسکتی یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ نہیں تبلیغ اسلام` مخالفوں کے اعتراضات کے جواب` تربیت یہ سب کام لائبریری ہی سے متعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت تک جتنا کام ہورہا ہے یا تو حضرت خلیفہ اولؓ کی لائبریری سے ہورہا ہے اور یا پھر میری لائبریری سے ہورہا ہے میں نے اپنے طور پر بہت سی کتابیں جمع کی ہوئی ہیں جن پر میرا پچاس ساٹھ بلکہ ستر ہزار روپیہ خرچ ہوچکا ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کو کتابوں کا شوق تھا اور آپ نے بھی ہزاروں کتابیں اکٹھی کی ہوئی تھیں وہ کام آتی ہیں۔ لیکن وہ جماعت جو ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کے کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے اس کے علوم کی بنیاد کسی دوسرے شخص کی لائبریری پر ہونا عقل کے بالکل خلاف ہے۔
ہمارے پاس تو اتنی مکمل لائبریری ہونی چاہئے کہ جس قسم کی مکمل مذہبی لائبریری کسی دوسرے جگہ نہ ہو مگر ہمارا خانہ اس بارہ میں بالکل خالی ہے۔ پچھلے سال لائبریری کی مد میں میں نے کچھ رقم رکھوائی تھی مگر وہ زیادہ تر الماریوں وغیرہ پر ہی صرف ہوگئی۔ شائد بارہ چودہ سو روپیہ الماریوں پر صرف ہوگیا تھا باقی جو روپیہ پچاس اس میں سے ایک کتاب ہی آٹھ سو اسی روپیہ میں آئی ہے اور جو باقی کتابیں منگوائی گئی ہیں ان کی قیمت سردست امانت سے قرض لے کر دی گئی ہے۔
غرض میں نے ایک خاصی رقم کتابوں کے جمع کرنے پر خرچ کی ہے۔ تقسیم کے وقت قادیان میں میری لائبریری کی بہت سی کتابیں رہ گئیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ کی لائبریری کا بھی ایک اچھا خاصہ حصہ وہیں رہ گیا اور گورنمنٹ نے اس لائبریری کو تالا لگا دیا۔ میرے بیٹے چونکہ وہاں موجود تھے اس لئے میں شروع ہجرت میں ان کو لکھتا رہا کہ میری کتابیں بھجوانے کی کوشش کرو چنانچہ انہوں نے میری بہت سی کتب بھجوادیں لیکن انجمن کے نمائندوں نے ہوشیاری سے کام نہ لیا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی کتابوں کا اکثر حصہ وہیں رہ گیا
پھر دنیا میں نئی سے نئی کتابیں نکل رہی ہیں اور ان کتابوں کا منگوانا بھی ضروری ہے۔ صرف مذہب سے تعلق رکھنے والی ہی نہیں` بلکہ تاریخی اور ادبی کتابیں منگوانا بھی لائبریری کی تکمیل کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ اچھی لائبریری وہ ہوسکتی ہے جس میں کم سے کم ایک لاکھ جلد منتخب کردہ کتب کی موجود ہو اور اگر ایک جلد کی اوسط قیمت ۲۵ روپے لگا لی جائے تو میرے نزدیک صرف ایک لائبریری کے لئے پچیس لاکھ روپیہ ہونا چاہئے لیکن ظاہر ہے کہ پچیس لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی ہم میں ہمت نہیں۔ ایسی صورت میں یہی طریق رہ جاتا ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق اس بوجھ کو اٹھائیں اور اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ اس کام کو اپنے سامنے رکھیں اور اپنی لائبریری کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرتے چلے جائیں۔ لائبریری کا بجٹ بھی پرائیویٹ سیکرٹری کے بجغ میں ہوگا گو اس کے کرچ کا تعلق لائبریری سے ہوگا۔ عام طور پر ہمارا طریق یہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں کسی کام کی ہمت نہیں تو ہم اس کام کو کرتے ہی نہیں حالانکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے۔
پس میں تجویز کروں گا کہ فائنانس۱۴۸ کمیٹی ان تمام حالات کو دیکھ لے اور بجٹ میں اس کی گنجائش رکھے۔ اور جماعت کو بھی اس بات کی اجازت ہوگی کہ اگر وہ دیکھے کہ میری کوئی تجویز ضروری تھی مگر فائنانس کمیٹی نے اس طرف توجہ نہیں دی تو وہ ترمیم کے طور پر اس کو یہاں مجلس میں پیش کردے میری تجویز یہ ہے کہ سردست ہم کو دس ہزار روپیہ سالانہ کے کام کو شروع کردینا چاہئے لیکن دس ہزار روپیہ سالانہ خرچ کرنے کے بھی یہ معنے ہیں کہ ہم اڑھائی سو سال میں پچیس لاکھ روپے کی کتابیں اکٹھی کرسکیں گے۔
پس میرا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ہمیشہ دس ہزار روپیہ پر ہی کھڑے رہنا چاہئے جوں جوں ہماری تبلیغ بڑھے گی اور چندہ میں زیادتی ہوگی یہ رقم بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہم اس خرچ کو کسی وقت لاکھ دو لاکھ بلکہ دس پندرہ لاکھ سالانہ بھی کرسکتے ہین۔ یہ دس ہزار روپیہ صرف کتابوں کے لئے ہوگا۔ عملہ جو تھوڑا بہت پہلے بجٹ میں رکھا جاچکا ہے وہ الگ ہوگا۔ شاید اس میں بھی کچھ زیادتی کرنی پڑے گی کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ لائبریرین کے طور پر صرف ایک ہی نیا آدمی رکھا گیا ہے حالانکہ وہاں کم از کم دو آدمی اور ہونے چاہئیں۔
لائبریرین کا کام ایسا ہے کہ اس کے لئے آج کل پاس شدہ آدمی رکھے جاتے ہیں۔ پہلے انسان گریجوایٹ ہو اور پھر لائبریرین کا امتحان پاس کرے تب وہ لائبریرین لگایا جاتا ہے ورنہ نہیں لائبریرین کے معنے محض چپڑاسی یا کتابوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے نہیں ہوتے بلکہ لائبریرین کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مختلف مضامین کی کتابون سے واقف ہو اور جب اس سے پوچھا جائے کہ فلاں فلاں مضمون پر کون کون سی کتابیں دیکھنی چاہئیں تو وہ فوراً ان کتابوں کے نام بتاسکے اور پوچھنے والے کی رہنمائی کرسکے کہ اسے کس کتاب سے کس قسم کی مدد مل سکتی ہے۔<
>لائبریری میں ہر فن کے جاننے والے آدمی ہونے چاہئیں۔ ان کا کام یہ ہو کہ وہ کتابیں پڑھتے رہیں اور ان کے خلاصے نکالتے رہیں اور ان اخلاصوں کو ایک جگہ نتھی کرتے چلے جائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب لوگوں کو ان کتابوں کے حوالوں کی ضرورت ہوگی وہ خلاصہ سے فوراً ضروری باتیں اخذ کر لیں گے مثلاً ہماری جماعت کا یہ ایک معروف مسئلہ ہے کہ حضرت مسیح کشمیر گئے تھے۔ اب مسیح کے کشمیر جانے کا کچھ عرصہ انجیلوں سے تعلق رکھتا ہے کہ کچھ انجیلوں کی تفسیروں میں بحث آئے گی کہ یہ جو لکھا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی طرف نہیں بھیجا گیا` اس میں کھوئی ہوئی بھیڑوں سے بنی اسرائیل کے کو کون سے قبائل مراد ہیں اور مسیح ان کی تلاش کے لئے کہاں کہاں گئے ؟؟ یا یہ جو لکھا ہے کہ مسیح کہر میں غائب ہوگیا اس کے کیا معنی ہیں ؟ یہ فقرہ بتاتا ہے کہ اس میں مسیح کے سفر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ غرض جو لوگ تفسیر کریں گے ان کا ذہن اس طرف ضرور جائے گا کہ ان فقروں کا حل کیا ہے ؟ اور وہ اس پر بحث کریں گے۔ جس طرح ہمارے ہاں تفسیریں ہیں اسی طرح عیسائیوں میں بھی سینکڑوں تفسیریں ہیں۔ اب جو لائبریرین مقرر ہوں گے ان میں سے وہ جو عیسائی لٹریچر پر مقرر کیا جائے گا اس کا کام یہ ہوگا کہ وہ زائد وقت میں تمام تفاسیر پر نظر ڈالتا چلا جائے اور ان کے انڈکس تیار کرتا چلا جائے جس وقت ہم و کسی تحقیق کی ضرورت ہوگی ہم انچارج کو بلا کر کہیں گے کہ کتابوں پر نشان لگا کر لائو کہ مفسرین نے اس بارہ میں کہاں کہاں بحث کی ہے۔ پھر یہی مضمون تاریخوں میں بھی آتا ہے چنانچہ اس کے بعد تاریخوں کے ماہر کو بلایا جائے گا اور اسے کہا جائے گا کہ اس اس مضمون کے متعلق تاریخ کتابوں پر نشان لگا کر لائو۔ اس طرح کتاب لکھنے والا آسانی اور سہولت کے ساتھ کتاب لکھ لے گا۔ کتاب والے کا یہ فن ہوگا کہ وہ اپنی کتاب کے لئے چند اصول تجویز کرے اور پھر اپنے مضمون کو ترتیب دے اور اسے ایسی عبارت میں لکھے جو موثر اور دلنشین ہو۔ گویا لڑنے والا حصہ اور ہوگا اور گولہ بارود تیار کرنے والا حصہ اور ہوگا۔ کیا تم نے کبھی کوئی سپاہی ایسا دیکھا ہے جسے لڑائی پر جانے کا حکم ملے تو وہ کارتوس بنانا شروع کردے یا بندوق بنانا شروع کردے۔ کیا کبھی تم نے کبھی دیکھا کہ کسی کو مدرس مقرر کیا گیا ہو تو ساتھ ہی اسے یہ کہا گیا ہو کہ اب جغرافیہ پر ایسی کتاب لکھ دو جو پڑھانے کے کام آسکے۔
ہمیشہ اصل کام والا حصہ الگ ہوتا ہے اور تعارفی حصہ الگ ہوتا ہے۔<
>درحقیت لائبریرین کے عہدہ پر ایسے آدمی ہونے چاہئیں جو صرف ونحو کا علم رکھتے ہوں` تاریخ جانتے ہوں` ہدیث` فقہ` اصول فقہ` تفسیر قرآن اور اصول تفسیر تعلق رکھنے والے تمام علوم سے آگاہ ہوں اور جب منصفین کو حوالہ جات وغیرہ کی ضرورت ہو تو وہ کتابیں نکال نکال کر ان کے سامنے رکھتے چلے جائیں۔ جیسے لڑنے کے لئے سپاہی جاتا ہے تو اسے وردی تم سلا کر دیتے ہو` اسے گولہ بارود خود تیار کر کے دیتے ہو۔ اس کے بعد ہمیں ضرورت ہوگی کہ جرمن جاننے والے آدمی ہمارے پاس موجود ہوں۔ فرانسیسی جاننے والے ہمارے پاس موجود ہوں۔ انگریزی جاننے والے ہمارے پاس موجود ہوں۔ اسی طرح عربی علوم کے جاننے والے لوگ موجود ہوں۔ کوئی تفسیر کا ماہر ہو۔ کوئی حدیث کا ماہر ہو۔ کوئی لغت کا ماہر ہو اور ان کا کام یہی ہو کہ وہ رات دن ان کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے خلاصے تیار کرتے رہیں۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہوں جو سلسلہ کے خلاف دشمنوں کا شائع کردہ لٹریچر ہی پڑھتے رہیں۔ کچھ لوگ ایسی ہوں جو وفات مسیح وغیرہ کے متعلق نئے دلائل کی جستجو میں مشغول رہنے والے ہوں۔ اب تو اس مسئلہ پر کچھ لکھتے ہوئے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ یہ مضمون پامال ہوچکا ہے لیکن بعض دفعہ کوئی نیا نکتہ بھی ذہن میں آجاتا ہے بعض دفعہ کوئی نیا اعتراض آجاتا ہے جس کے متلعق انسان سمجھ لیتا ہے کہ اس کا حل ہونا ضروری ہے۔ یہ لائبریرین کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ فلاں فلاں مسائل پر ہمارے علماء نے روشنی نہیں ڈالی یا ان کو ان ان کتابوں سے مدد مل سکتی ہے۔ گویا لائبریری ایک آرڈ نینس ڈپو یا سپلائی ڈپو ہے کہ مبلغین اور علماء سلسلہ کی مدد کے لئے ضروری ہے۔
یہ کام بہت بڑا ہے۔ میں جب حساب لگاتا ہوں تو میرا اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے پاس ایک لاکھ کتاب ہو تو ہمارے پاس پچاس آدمی لائبریرین ہونا چاہئے جن میں سے کچھ نئے کتابوں کے پڑھنے میں لگا رہے` کچھ پرانی کتابوں کے خلاصے تیار کرنے میں لگارہے` کچھ ایسے ہوں جو طلباء کے لئے نئی کتابوں کے ضروری مضامین الگ کرتے چلے جائیں تاکہ وہ تھوڑے سے وقت مین ان پر نظر ڈال کر اپنے علم کو بڑھا سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ طالب علموں کو جو سکولون اور کالجوں میں کتابیں پڑھائی جات ہیں ان سے دنیا میں وہ کوئی مفید کام نہیں کرسکتے کیونکہ وہ صرف ابتدائی کتابیں ہوتی ہیں مگر پھر بھی کسی کالج اور سکول سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ہر طالب علم کو لاکھ لاکھ دو دو لاکھ کتاب پڑھا دے۔ یہ لائبریرین کا کام ہوتا ہے کہ وہ ایسے خلاصے نکال کر رکھیں کہ جن پر طلباء کا نظر ڈالنا ضروری ہو۔ اور جن سے تھوڑے وقت میں ہی وہ زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہوں۔<
>غرض یہ کام نہایت اہم ہے اس کے بغیر ہماری جماعت کی علمی ترقی نہیں ہوسکتی۔ مرکزی لائبریری یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی لائبریری بھی اسی میں شامل ہوجائے گی اور پھر میری کتابیں بھی آخر آپ لوگوں کے ہی کام آنی ہیں۔ اس طرح پانچ سات سال میں اس قدر کتابیں جمع کر لی جائیں کہ ہر قسم کے علوم ہمارے پاس محفوظ ہوجائیں۔< ۱۵۰۱۴۹
اختتامی خطاب
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے مشاورت کے پراثر اختتامی خطاب میں جماعت احمدیہ کے بین الاقوامی نصب العین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
>ہمارا مقابلہ اڑھائی کروڑ یا تین کروڑ سے نہیں بلکہ ہمارا مقابلہ اڑھائی ارب سے ہے اور یہ مقابلہ کم نہیں۔ جو حالت آپ لوگوں کی ہے وہی حالت ہماری ہے۔ ہم نی دنیا میں تبلیغ کرنی ہے حوصلہ پست نہ کیجئے اور یہ مت کئے کہ فلاں رعایت ملے گی تو کام ہوگا۔ اگر پنجاب والے حوصلہ چھوڑ دیں تو کام ہی رک جائے۔ تم اپنا کام بھی کرو اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی تبلیغ کا کام کرو۔ کسی مومن کے ذمہ کوئی خاص گھر نہیں` کوئی خاص گائوں نہین` کوئی خاص سہر نہیں` کوئی خاص ملک نہیں بلکہ ساری دنیا ہے۔<۱۵۱
فصل ہشتم
حضرت سید نصرت جہاں بیگمؓ کا انتقال
مسیح محمدی علیہ السلام کے یوم وصول ۔۔ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ۔۔ کی طرح ۲۱۔۲۰ اپریل ۱۹۵۲ء کی درد بھری راتبھی سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ یہ وہ رات تھی جس میں جماعت احمدیہ اور مہدی موعودؓ کے درمیان وہزندہواسطہ جو حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم کے مقدس وجوہ کی شکل میں اب تک باقی تھا آپ کی وفات کے ساتھ ہمیشہ کے لئے منقطع ہوگیا۔
علالت
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم حرم مسیح پاکؑ قریباً دو ماہ سے بیمار تھیں۔ ڈاکٹر تشخیص کے مطابق گردوں کے فعل میں نقص پیدا ہوجانے سے ہماری کا آغاز ہوا اور پھر اس کا اثر دل پر اور تنفس پر پڑنا شروع ہوا۔ بیماری کے حملے وقتاً فوقتاً بڑی شدت اختیار کرتے رہے لیکن آپ نے ان تمام شدید حملون میں نہ صرف کامل صبر و شکر کا نمونہ دکھایا بلکہ بیماری کا بھی نہایت ہمت کے ساتھ مقابل کیا۔ اس عرصہ میں لاہور سے علی الترتیب ڈاکٹر کرنل ضیاء اللہ صاحب` ڈاکٹر غلام محمدﷺ~ صاحب بلوچ اور ڈاکٹر محمد یوس صاحب غلام کے لئے بلائے جاتے رہے۔ ان کے ساتھ مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب بھی ہوتے تھے لیکن وقتی افاقہ کے سوا بیماری میں کوئی تخفیف کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اس کے بعد حکیم محمد حسن صاحب قرشی کو بھی بلا کر دکھایا گیا جن کے ساتھ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ بھی تھے لیکن ان کے علاج سے بھی کوئی تخفیف کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ مقامی طور پر ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب بھی معالج تھے جن کے ساتھ بعد میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی شامل ہوگئے اور چند دن کے لئے درمیان میں ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب نے بھی علاج میں حصہ لیا۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک خواتین اور نونہال نہایت تندہی کے ساتھ خدمت میں لگے رہے۔ بالاخر ۲۰ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۲۰ اپریل ۱۹۵۲ء کی صبح کو ساڑھے تین بجے کے قریب دل میں ضعف کے آثار پیدا ہوئے جو فوری علاج کے نتیجہ میں کسی قدر کم ہوگئے مگر دن بھر دل کی کمزوری کے حملے ہوتے رہے۔ اس عرصہ میں حضرت سیدہ کے ہوش و حواس خدا کے فضل سے اچھی طرح قائم رہتے۔ صرف کبھی کبھی عارضی غفلت سی آتی تھی۔ جو جلد دور ہوجاتی تھی۔ رات پونے نو بجے آپ نے دل میں زیادہ تکلیف محسوس کی اور اس کے ساتھ ہی نظام تنفس میں خلل آنا شروع ہوگیا اور نبض کمزور پڑنے لگی۔ ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے خود ہی ٹیکے وغیرہ لگائے مگر کوئی افاقہ کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اس وقت حضرت اماں جانؓ نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ قرآن شریف پڑھو چنانچہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے چھوٹے صاحبزادے میر محمود احمد صاحب۱۵۲ نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا۔ اس وقت حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ آپ کے سامنے بٹھے ہوئے تھے آپ نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا دعا کریں` چنانچہ حضور بعض قرآنی دعائیں کسی قدر اونچی آواز سے دیر تک پڑھتے رہے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود حضرت اماں جان مصروف دعا ہیں۔ آپ کی نبض اس وقت بے حد کمزور ہوچکی تھی بلکہ اکثر اوقات محسوس تک نہیں ہوتی تھی لیکن ہوش و حواس بدستور قائم تھے اور کبھی کبھی آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد نظر ڈالتی تھیں اور آنکھوں میں شناخت کے آثار بھی واضح طور پر موجود تھے۔
حضرت امیر المومنین تھوڑے وقفہ کے لئے باہر تشریف لے گئے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت سیدہ کے سامنے بیٹھ کر دعائیں کرتے رہے۔ اس وقت بھی آپ آنکھ کھول کر دیکھتی تھیں۔
اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دعا میں مصروف ہیں۔ دیگر عزیز بھی چارپائی کے اردگرد موجود تھے اور اپنے اپنے رنگ میں دعائیں کرتے اور حسب ضرورت خدمت بجالاتے تھے۔
سوا گیارہ بجے شب کے بعد آپ نے اشارۃ کروٹ بدلنے کی خواہش ظاہر فرمائی لیکن کروٹ بدلتے ہی نبض کی حالت زیادہ مخدوش ہوگئی اور چند منٹ کے بعد تنفس زیادہ کمزور ہونا شروع ہوگیا۔
وفات
بالاخر ساڑھے گیارہ بجے شب آپ کی روح اپنے مولائے حقیقی کے حضور پہنچ گئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
وفات کے وقت اپ کی مبشر اولاد میں سے حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ آپ کے پاس موجود تھے۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ چند روز قبل ربوہ آکر لاہور واپس تشریف لے گئے تھے اور وفات کی خبر پانے کے بعد ربوہ پہنچے۔ ۱۵۳
MUMENEEN۔UMMUL <HAZRAT
THIRTY ELEVEN AWA PASSED
INNALILLAH۔TONIGHT-
MORNING> TUESDAY ۔M۔A 5 JANAZA
)ترجمہ( ربوہ ۲۱۔۲۰ اپریل )سوا بارہ بجے شب( حضرت ام المومنینؓ آج شب ساڑھے گیارہ بجے انتقال فرما گئیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون نماز جنازہ منگل کو صبح پانچ بجے ادا کی جائے گی۔
ریڈیو خبر
صبح سوا آٹھ بجے ریڈیو پاکستان لاہور نے حضرت سیدہ ممدوحہؓ کی وفات کی خبر حسب ذیل الفاظ میں نشر کی:۔
>ہم افسوس سے اعلان کرتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی زوجہ محترمہ گزشتہ رات ساڑھے گیارہ بجے ربوہ میں انتقال کر گئیں۔ آپ جماعت احمدیہ کے موجودہ امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی والدہ ہیں۔ جنازہ کل )صبح( ۵ بجے ربوہ میں ہوگا۔< ۱۵۴
تکفین
آپ ایک تھان قادیان دارالامان سے بوقت ہجرت ساتھ لائی ہوئی تھیں اور اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے اسے اپنے کفن کے لئے رکھا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں حضرت مہدی معہود و مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک متبرک کرتہ بھی ململ کا آپ نے محفوظ رکھا ہوا تھا چنانچہ غسل کے بعد پہلے یہ مبارک کرتہ اور پھر کفن پہنایا گیا۔
tav.13.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
ہزاروں احمدیوں کی ربوہ میں مضطربانہ آمد
حضرت امام سیدنا المصلح الموعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ جنازہ ۲۲ اپریل کی صبح کو ہو تاکہ دوست زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوسکیں چنانچہ ۲۲ اپریل کی صبح تک ملک کے چاروں اطراف سے ہزاروں کی تعداد میں احمدی مردو زن ربوہ میں پہنچ چکے تھے اور پشاور سے لے کر کراچی تک کی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے۔ ۲۱ اپریل کی شام کو حضرت سیدہ کی نعش مبارک کی زیارت کا موقع مستورات کو دیا گیا۔ قریباً ڈیڑھ ہزار مستورات نے زیارت کا شرف حاصل کیا اور ابھی ایک بڑی تعداد باقی رہ گئی۔
جنازہ اور تدفین کا دردناک منظر
حضرت سیدہ کا جنازہ اندرون خانہ سے اٹھا کر چھ بجکر ایک منٹ پر تابوت میں باہر لایا گیا۔ اس وقت خاندان مسیح موعود کے زخم رسیدہ جگہ گوشے اسے تھامے ہوئے تھے۔ تابوت کو ایک چارپائی پر رکھ دیا گیا جس کے دونوں طرف لمبے بانس بندھے ہوئے تھے۔ اس وقت تک ملک کے کونے کونے سے ہزاروں احمدی مردوزن پہنچ چکے تھے جو اپنی مادر مشفق کے لئے سوز و گداز سے دعائیں کرنے میں مصروف تھے۔ چھ بجکر پانچ منٹ پر جنازہ اٹھایا گیا جب کہ سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعدد دیگر افراد جنازے کو کندھا دے رہے تھے اور ساتھ ساتھ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی دعائیں بعض اوقات خاموشی کے ساتھ اور بعض اوقات کسی قدر بلند آواز سے دہرا رہے تھے۔
چونکہ احباب بہت بڑی تعداد میں آچکے تھے اور ہر دوست کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کا متمنی تھا اس لئے رستے میں یہ انتظام کیا گیا کہ اعلان کر کے باری باری مختلف دوستوں کو کندھا دینے کا موقع دیا جائے- چنانچہ صحابہ مسیح موعود` امرائے صوبجات` اضلاع یا ان کے نمائندگان` بیرونی ممالک کے مبلغین` غیر ملکی طلباء ` کارکنان صدر انجمن احمدیہ و تحریک جدید` مدراس` مجلاس خدام الاحمدیہ و انصار اللہ کے نمائندگان اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے علاوہ مختلف مقامات کی جماعتوں نے بھی وقفے وقفے سے جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کی۔ سیدنا حضرت امیر المومنین` حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض افراد نے شروع سے آخر تک کندھا دیئے رکھا۔
چھ بج کر چھپن منٹ پر تابوت جنازہ گاہ میں پہنچ گیا` جو موصیوں کے قبرستان کے ایک حصہ میں مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر کی مساعی سے قبلہ رخ خطوط لگا کر تیار کی گئی تھی صفوں کی درستی اور گنتی کے بعد سات بج کر پانچ منٹ پر سیدنا حضرت امیر المومنین مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ شروع فرمائی جو سات بجر کر ستر منٹ تک جاری رہی۔ نماز میں رقت کا ایک ایسا عالم طاری تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
نمازہ جنازہ کے بعد تابوت مجوزہ قبر تک لے جایا گیا جہاں اماں جانؓ کو امانتاً دفن کرناتھا۔ قبر کے لئے حضورؓ کے منشاء کے ماتحت قبرستان موصیاں ربوہ کا ایک قطعہ مخصو کردیا گیا تھا۔ ہجوم بہت زیادہ تھا اس لئے نظم و ضبط کی کاطر مجوزہ قبر کے اردگرھ ایک بڑا حلقہ قائم کردیا گیا جس میں جماعت کے مختلف طبقوں کے نمائندگان کو بلا لیا گیا چنانچہ صحابہ کرام` مختلف علاقوں کے امراء افسران صیغہ جات` بیرونی مبلغین` غیر ملکی طلباء اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کو اس حلقہ میں بلا کر شمولیت کا موقع دیا گیا۔
پونے آٹھ بجے تابوت کو قبر میں اتارا گیا۔ اس وقت سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اور تمام حاضر الوقت اصحاب نہایت رقت اور سوز و گذار کے ساتھ دعائوں میں مصروف تھے۔ رقت کا یہ سماں اپنے اندر ایک خاص روحانی کیفیت رکھتا تھا۔
تابوت پر چھت ڈالنے کے بعد حضرت امیر المومنین ۸ بجکر ۲۲ منٹ پر قبر پر اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی جس کی تمام احباب نے اتباع کی۔ جب قبر تیار ہوگئی تو حضور نے پھر مسنون طریق پر مختصر دعا فرمائی۔
نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے احباب کا اندازہ نامہ نگار الفضل کی رائے کے مطابق چھ سات ہزار تھا جو پاکستان کے ہر علاقہ اور ہر گوشہ سے تشریف لائے تھے- علاوہ ازیں پندرہ سولہ وہ غیر ملکی طلباء بھی شامل تھے جو دنیا کے مختلف حصوں سے دین سیکھنے اور خدمت دین میں اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے ربوہ آئے ہوئے تھے ان غیر ملکی طلبہ میں چین` جاوا` سماٹرا` ملایا` برما` شام` مصر` سوڈان` حبشہ` مغربی افریقہ` جرمنی` انگلستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے طلبہ شامل تھے۔<۱۵۵
ریڈیو میں خبر
اگلے روز ریڈیو پاکستان سے ۲۲ اپریل ۵۲ء بوقت ۵ بج کر ۲۰ منٹ شام حسب ذیل خبر نشر کی گئی:۔
>آج ربوہ میں سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ سیدہ نصرت جہاں بیگم کو سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کی وفات کل )۲۰ اپریل بروز اتوار( ربوہ میں ہوئی تھی۔ ایک بڑے مجمع نے جنازہ میں شرکت کی۔ نماز جنازہ ان کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے پڑھائی۔ آپ سلسلہ احمدیہ کے موجودہ امام ہیں۔<
پریس میں اطلاعات
پاکستانی پریس نے حضرت سید موصوفہ کی وفات پر اطلاعات شائع کیں- اس سلسلہ میں لاہور کے اخبارات میں سے احسان` آفاق` خاتون` امروز` سول اینڈ ملٹری گزٹ اور پاکستان ٹائمز خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
>مرزا غلام احمد کی بیوہ ربوہ میں دفن کردی گئیں-
لاہور ۲۲ اپریل بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد کی اہلیہ نصرت جہاں بیگم کو آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ نے اتوار کی شب کو ربوہ ہی میں انتقال کیا تھا۔ )نامہ نگار<(
۲- روزنامہ >آفاق< لاہور )مورخہ ۲۴ اپریل ۱۹۵۲ء( کی خبر:۔
>بانی احمدیت کی بیوہ کا انتقال
لاہور ۲۲ اپریل- مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمدیت کی بیوہ نصرت جہاں بیگم کا پرسوں شب ۸۶ برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ نصرت جہاں بیگم احمدی فرقہ کے موجودہ خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی والدہ تھیں۔ ان کی تدفین آج ربوہ میں ہوگئی۔ )۱-پ<(
روزنامہ >خاتون< لاہور نے ۲۴ اپریل ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں بعنوان >مرزا بشیر الدین کی والدہ کا انتقال< لکھا :۔
>لاہور ۲۲ اپریل۔ بانی سلسلہ احمدیہ )حضرت( مرزا غلام احمد صاحب کی اہلیہ سیدہ نصرت جہاں بیگم کو آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ نے اتوار کی شب کو ربوہ ہی میں وفات پائی تھی۔ نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین صاحب امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی۔<
روزنامہ >امروز< لاہور )۲۴ اپریل ۱۹۵۲ء( کے نامہ نگار( نے لکھا:۔
بانی جماعت احمدیہ کی زوجہ محترمہ سپرد خاک کردی گئیں-
لاہور ۲۲ اپریل - مرزا غلام احمد بانی جماعت احمدیہ کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کو جو اتوار کی شب وفات پاگئی تھیں آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی` جس میں ہزارہا افراد نے شرکت کی۔
مرحومہ کو احمدیہ جماعت میں کافی بلند مقام حاصل تھا۔ مقاصد کی تکمیل میں نصف صدی سے زائد عرصہ تک سرگرم عمل رہیں۔<
۵- اخبار >دی سول اینڈ ملٹری گزٹ< )۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء( کی خبر کا متن یہ تھا:۔
WIDOW AHMAD'S GHULAM MIRZA
REST TO LAID
Correspondent) a (From
Nusrat Sayyeda body The۔23 April ۔RABWAH the of founder Ahmad, Ghulam Mirza late to widow Begum, Jhan was night sunday on last her breathed who Movement Abmadiyya ۔rabwah at morning this rest to laid
Din۔ud۔Bashir Mirza son, eldest her ledoy was prayer funcial The attended was and comnunity the of head present the Ahmad, Mahmud Besides ۔society of clases lal from people thousand several by country ofthe parts various from community ۔madiyy Ah the of member tuneral the join to Rabwah reached public general the of number large a
community ahmadiyya the in estoem high in held was lady deceased The husband, her of work the with countury a half over for association her for pouring are messages Conoolence ۔Movement ahmadiyya the of founder the ۔indonesia including word the and India, ۔Pakistan of parts all from in movement the of followers the erewh America and Europe ۔Est Meddle the "۔spread are
)ترجمہ( )حضرت( مرزا غلام احمد )صاحب( کی بیوہ کو سپرد خاک کردیا گیا۔
ربوہ ۲۲ اپریل سیدہ نصرت جہاں بیگم جو مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ کی بیوہ تھی گزشتہ اتوار کی رات کو وفات پاگئیں اور اور آج صبح انہیں ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔
آپ کی نماز جنازہ ان کے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد جو کہ جماعت کے موجودہ سربراہ ہیں نے پڑھائی اور جنازہ میں جماعت کے ہر طبقہ کے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے جماعت احمدیہ کے ممبران کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کثیر تعداد میں نماز جنازہ میں شرکت کے لئے ربوہ پہنچے۔
مرحومہ کا اپنے شوہر محترم کے کام کے ساتھ نصف صدی سے زائد تعلق کی وجہ سے بہت بلند مقام تھا۔ پاک و ہند کے ہر حصے سے اور دنیا کے دیگر ممالک مثلاً انڈونیشیاء شرق اوسط ` یورپ اور امریکہ سے جہاں جہاں بھی جماعت کے ممبران موجود ہیں تعزیتی پیغامات موصول ہورہے ہیں۔
اخبار >دی پاکستان ٹائمز< )۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء( نے حسب ذیل الفاظ میں خبر دی:۔
AHMAD MALGHU MIRZA BEGUM
REST TO ALID
consort the Begum, Jahan Nusrat Sayyeda of body The ۔Movement Ahmadivya the of Founder the Ahmad, Ghulam Mirza late of on rest to laid was right, sunday on place took demise sad whose ۔Rabwh at morning Tuesday
Din۔ud۔Bashir Mirza ۔son oldest her by led was praver tuneral The attended was and Community the of Head present the Ahmad, Mahmud ۔society of clases all to belonging people thousand several by various from Community Ahmadiyya the of srebmem devoted only Not the joined relations and wishers۔well of number large a also but large a also but headquarter the to flocked country the of parts rites, burit the joined relations and wishers۔well of number
)ترجمہ( بیگم )حضرت( مرزا غلام احمد )صاحب( کو سپرد خاک کردیا گیا۔
سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحب زوجہ محترمہ مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ کو جو اتوار کی شب کو فوت ہوگئی تھیں منگل کی صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔
نماز جنازہ آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبامام جماعت احمدیہ نے پڑھائی جس میں جماعت کے ہر طبقہ کے ہزاوں افراد شریک ہوئے۔
تجہیز و تکفین کی رسومات میں شریک ہونے کے لئے نہ صرف جماعت احمدیہ کی مخلصین ہی تشریف لائے بلکہ دوسرے بہن خواہان اور متعلقین بھی کثیر تعداد میں حاضر ہوئے۔
تعزیتی تاریں اور خطوط
حضرت ام المومنینؓ کی وفات حسرت آیات پر جماعت کے مخلصین کی طرف سے جن میں صحابی بھی شامل تھے` اور غیر صحابی بھی ` بچے بھی شامل تھے اور بوڑھے بھی ` عورتیں بھی شامل تھیں اور مرد بھی ` خاندان مسیح موعود کے مختلف افراد کے نام بے شمار تارے ۱۵۶ اور خطوط پہنچے- یہ ہمدردی کے پیغامات نہ صرف۔ بی اور شرقی پاکستان کے ہر حصہ سے بلکہ قادیان اور دلی اور لکھنئو اور حیدر آباد اور مالیر کوئلہ اور مونگھیر اور کلکتہ اور بمبئی اور مدراس اور ہندوستان کے دوسرے حصوں اور بلاد عربی اور براعظم ایشیا اور افریقہ اور یورپ اور امریکہ کے مختلف ملکوں سے اس طرح چلے آرہے تھے جس طرح ایک قدرتی نہر اپنے طبعی بہائو میں بہتی چلی جاتی ہے۔ اور پھر ان اصحاب میں صرف ہماری جماعت کے دوست ہی شامل نہیں تھے۔ بلکہ غیر مبائع اور غیر احمدی اور غیر مسلم سب طبقات کے لوگ شامل تھے۔ اظہار ہمدردی کے لئے بعض غیر احمدی معززین اور غیر مبائع اصحاب مثلاً مرزا مسعود بیگ صاحب لاہور سے اور مکرم عبداللہ جان صاحب پشاور سے ربوہ تشریف لائے۔۱۵۷
حضرت ام المومنین کا مقام سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی نظر میں
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ حضرت ام المومنین کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
>اس سال احمدیت کی تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہوا ہے اور وہ ہے حضرت ام المومنین کی وفات۔ ان کا وجود ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان میں ایک زنجیر کی طرح تھا اولاد کے ذریعے بھی ایک تعلق اور واسطہ ہوتا ہے مگر وہ اور طرح کا ہوتا ہے۔ اولاد کو ہم ایک درخت کا پھول تو کہہ سکتے ہیں مگر اسے اس درخت کا اپنا حصہ نہیں کہا جاسکتا۔ پس حضرت ام المومنینؓ ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں اور یہ واسطہ ان کی وفات سے ختم ہوگیا۔ پھر حضرت ام المومنینؓ کے وجود کی اہمیت عام حالات سے بھی زیادہ تھی کیونکہ ان کے متعلق خدا تعالیٰ نے قبل از وقت بشارتیں اور خبریں دیں۔ چنانچہ انجیل میں آنے والے مسیح کو آدم کہا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ جس رنگ میں حوا آدم کی شریک کا تھیں اسی طرح مسیح موعودؑ کی بیوی بھی اس کی شریک کار ہوگی۔ پھر رسول کریم~صل۱~ کی حدیث ہے کہ آنے والا مسیح شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی۔ اب شادی تو ہر نبی کرتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس خبر میں یہی اشارہ تھا کہ اس کی بیوی کو یہ خصوصیت حاصل ہوگی کہ وہ اس کے کام میں اس کی شریک ہوگی۔ اسی طرح دلی میں ایک مشہور بزرگ خواجہ میر ناصر گزرے ہیں ان کے متلعق آتا ہے کہ ان کے پاس کشف میں حضرت امام حسنؓ تشریف لائے اور انہوں نے ایک روحانیت کی خلعت دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تحفہ ایسا ہے جس میں تم مخصوص ہو۔ اس کی ابتداء تم سے کی جاتی ہے اور اس کا خاتمہ عہدی کے ظہور پر ہوگا۔ چنانچہ یہ کشف اس طرح پورا ہوا کہ آپ کی ہی اولاد میں سے حضڑت ام المومنین کا وجود پیدا ہوا۔ یہ کشف خواجہ ناصر نذیر فراق کے بیٹے خواجہ ناصر خلیق نے اپنی کتاب میخانہ درد )۲۵( میں درج کیا ہے۔<۱۵۹۱۵۸
حضرت سیدہ کے شمائل و اخلاق اور بلند سیرت
حضرت ام المومنین کے شمائل و اخلاق اور بلند سیرت کے متعلق سب سے جامع اور سب سے زیادہ مختصر کلام وہ ہے جو حضرت مسیح موعودؑ والسلام کی زبان مبارک پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا یعنی اذکر نعمتی رائیت خدیجتی ھذا من رحمتہ ربک ۱۶۰ میری نعمت کو یاد کر کہ تو نے میری خدیجہ کو دیکھا یہ تیرے رب کی رحمت ہے۔
اس مختصر فقرہ کی کسی قدر تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے الفاظ میں دی جاتی ہے۔
۱- حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں-:
دوامتیازی خصوصیات
>حضرت اماں جاںؓ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی شادی خاص الٰہی تحریک کے ماتحت ہوئی تھی۔ اور دوسرا امتیاز یہ حاصل ہے کہ یہ شادی ۱۸۸۴ء میں ہوئی۔ اور یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ مجددیت کا اعلان فرمایا تھا اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت اماں جان مرحومہ مغفورہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ حیات رہیں اور حضرت مسیح موعود انہیں انتہاء درجہ محبت اور انتہاء درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دلدادی فرماتے تھے۔ کیونکہ حضرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبردست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے خاص منشاء کے ماتحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جان کو مخصوص نسبت ہے۔ چنانچہ بعض اوقات حضرت اماں جان بھی محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں کہ میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے جس پر حضرت مسیح موعودؑ مسکرا کر فرماتے تھے کہ >ہاں یہ ٹھیک ہے۔< دوسری طرف حضرت اماں جان بھی حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق کابل محبت اور کامل یگانگت کے مقام پر فائز تیں اور گھر میں یوں نظر آتا تھا کہ گویا دو سینوں میں ایک دل کام کررہا ہے۔
حضرت اماں جانؓ کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں مگر اس جگہ میں صرف اشارہ کے طور پر نمونتاً چند باتوں کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں۔
عبادات میں شغف
آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے حضرت اماں جان نماز تہجد اور نماز ضحیٰ کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں کے دلوں میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی۔ بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقعہ ملتا تھا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں۔ میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت~صل۱~ )فداہ نفسی( کی یہ پیاری کیفیت کہ جعلت قرہ عینی فی الصلوہ۱۶۱ )یعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے( حضرت اماں جان کو بھی اپنے آقا سے ورثے میں ملی تھی۔
پھر دعا میں ببھی حضرت اماں جان کو بے حد شغف تھا۔ اپنی اولاد اور دوسرے عزیزوں بلکہ ساری جماعت کے لئے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں بڑے درود و سوز کے ساتھ دعا فرمایا کرتی تھیں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی۔
اولاد کے متعلق حضرت اماں جان کی دعا کا نمونہ ان اشعار سے ظاہر ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اماں جان کے جذبات کی ترجمانہ کرتے ہوئے ان کی طرف سے اور گویا انہی کی زبان سی فرمائے۔ خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ عرض کرتے ہیں ~}~
کوئی ضائع نہیں ہوتا جو تیرا طالب ہے
کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جویاں تیرا
آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں
کوئی ہوجائے اگر بندہ فرماں تیرا
اس جہاں میں ہی وہ جنت میں ہے بے ریب و گماں
وہ جو ایک پختہ توکل سے ہے مہماں تیرا
میری اولاد کو تو ایسی ہی کردے پیارے
دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرہ نمایاں تیرا
عمردے ` رزق دے` اور عافیت و صحت بھی
سب سے بڑھ کر یہ کہ پاجائیں وہ عرفاں تیرا
اپنی ذاتی دعائوں میں جو کلمہ حضرت اماں جانؓ کی زبان پر سب سے زیادہ آتا تھا وہ یہ مسنون دعا تھی کہ :۔
یاحیی یا قیوم برحمتک استغیث
یعنی اے میرے زندہ خدا اور میرے زندگی بخش آقا! میں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں یہ وہی جذبہ ہے جس کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر فرمایا ہے کہ ~}~
تیری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر
مری جاں تیرے فضلوں کی پنہ گیر
مالی جہاد میں شمولیت
جماعتی چندوں میں بھی حضرت اماں جانؓ بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں اور تبلیغ اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ دیتی تھیں۔ تحریک جدید کا چندہ جس سے بیرونی ممالک میں اشاعت اسلام کا کام سرانجام پاتا ہے اس کے اعلان کے لئے ہمیشہ ہمہ تن منتظر رہتی تھیں اور اعلان ہوتے ہی بلا توقف اپنا وعدہ لکھا دیتی تھیں بلکہ وعدہ کے ساتھ ہی نقد ادائیگی بھی کردیتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں وعدہ جب تک ادا نہ ہوجائے دل پر بوجھ رہتا ہے۔ دوسرے چندوں میں بھی یہی ذوق و شوق کا عالم تھا۔
صدقہ و خیرات
صدقہ و خیرات اور غربیوں کی امداد بھی حضرت اماں جاں نور اللہ مرقدھا کا نمایاں خلق تھا اور اس میں وہ خاص لذت پاتی تھیں اور اس کثرت کے ساتھ غریبوں کی امداد کرتی تھیں کہ یہ کثرت بہت کم لوگوں میں دیکھی گئی ہے۔ جو شخص بھی ان کے پاس اپنی مصیبت کا ذکر لے کر آتا تھا حضرت اماں جان انے مقدور سے بڑھ کر اس کی امداد فرماتی تھیں اور کئی دفعہ ایسے خفیہ رنگ میں مدد کرتی تھیں کہ کسی اور کو پتہ تک نہیں چلتا تھا۔ اسی ذیل میں ان کا یہ طریق بھی تھا کہ بعض اوقات یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے مکان پر بلا کر کھانا کھلاتی تھیں اور بعض اوقات ان کے گھروں پر بھی کھانا بھجوا دیتی تھیں۔ ایک دفعہ ایک واقف کار شخص سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کو کسی ایسے شخص )احمدی یا غیر احمدی` مسلم یا غیر مسلم( کا علم ہے جو قرض کی وجہ سیقید بھگت رہا ہو )اوائل زمانے میں ایسے ۱۶۲ سول قیدی بھی ہوا کرتے تھے( اور جب اس نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ تلاش کرنا` میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں تا قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کرسکوں کہ معذور قیدیوں کی مدد بھی کار ثواب ہے۔
قرض سے مدد
قرض مانگنے والوں کو فراخدلی کے ساتھ قرض بھی دیتی تھیں مگر یہ دیکھ لیتی تھیں کہ قرض مانگنے والا کوئی ایسا شخص تو نہیں جو عادی طور پر قرض مانگا کرتا ہے اور پھر قرض کی رقم واپس نہیں کرتا ایسے شخص کو قرض دینے سے پرہیز کیا کرتی تھیں تاکہ اس کی یہ بری عادت ترقی نہ کرے مگر ایسے شخص کو بھی حسب گنجائش امداد دے دیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ میرے سامنے ایک عورت نے ان سے کچھ قرض مانگا اس وقت اتفاق سے حضرت اماں جان کے پاس اس قرض کی گنجائش نہیں تھیں مجھ سے فرمانے لگیں >میاں! )وہ اپنے بچوں کو اکثر میاں کہہ کر پکارتی تھیں( تمہارے پاس اتنی رقم ہو تو اسے قرض دے دو یہ عورت لین دین میں صاف ہے۔< چنانچہ میں نے مطلوبہ رقم دیدی اور پھر اس غریب عورت نے تنگدستی کے باوجود عین وقت پر اپنا قرض واپس کردیا جو آج کل کے اکثر نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔
یتامیٰ کی پرورش و تربیت
حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کو اسلامی احکام کے ماتحت یتیم بچوں کی پرورش اور تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا میں نے جب سے ہوش سنبھالا ان کے سایہ عاطفت میں ہمیشہ کسی نہ کسی یتیم لڑکی یا لڑکے کو پلتے دیکھا اور وہ یتیموں کو لوکروں کی طرح نہیں رکھتی تھیں بلکہ ان کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ ان کے آرام و آسائش اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے واجب اکرام اور عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں۔ اس طرح ان کے ذریعہ بیسیوں یتیم بچے جماعت کے مفید وجود بن گئے۔ بسا اوقات اپنے ہاتھوں سے یتیموں کی خدمت کرتی تھیں مثلاً یتیم بچوں کو نہلانا` ان کے بالوں کو کنگھی کرنا اور کپڑے بدلوانا وغیرہ وغیرہ مجھے یقین ہے کہ حضرت اماں جاں رسول~صل۱~ کی اس بشارت سے انشاء اللہ ضرور حصہ پائیں گی کہ انا و کافل الیتیم کھاتین ۱۶۳` >یعنی قیامت کے دن میں اور یتیمون کی پرورش کرنے والا شخص اس طرح اکٹھے ہوں گے جس طرح کہ ایک ہاتھ کی دو انگلیاں باہم پیوست ہوتی ہیں۔
مہمان نوازی
مہمان نوازی بھی حضرت اماںؓ کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھا۔ اپنے عزیزوں اور دوسرے لوگوں کو اکثر کھانے پر بلاتی رہتی تھیں اور اگر گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تھی تو ان کے گھروں میں بھی بھجوا دیتی تھیں- خاکسار راقم الحروف کو علیحدہ گھر ہونے کے باوجود حضرت اماں جان نے اتنی دفعہ گھر سے کھانا بھجوایا ہے کہ اس کا شمار ناممکن ہے۔ اور اگر کوئی عزیز یا کوئی دوسری خاتون کھانے کے وقت حضرت اماں جان کے گھر میں جاتی تھیں تو حضرت اماں جان کا اصرار ہوتا تھا کہ کھانا کھا کر واپس جائو چنانچہ اکثر اوقات زبردستی روک لیتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہمان نوازی ان کی روح کی غذا ہے۔ عیدوں کے دن حضرت اماں جان کا دستور تھا کہ اپنے سارے خاندان کو اپنے پاس کھانے کی دعوت دیتی تھیں اور ایسے موقعوں پر کھانا پکوانے اور کھانا کھلانے کی بذات خود نگرانی فرماتی تھیں اور اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ فلاں عزیز کو کیا چیز مرغوب ہے اور اس صورت میں حتی الوسع وہ چیز ضرور پکواتی تھیں۔ جبآخری عمرمیں زیادہ کمزور ہوگئیں تو مجھے ایک دن حسرت کے ساتھ فرمایا کہ اب مجھ میں ایسے اہتمام کی طاقت نہیں رہی میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھ سے رقم لے لے اور میری طرف سے کھانے کا انتظام کردے۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل جب کہ حضرت اماں جان بے حد کمزور ہوچکی تھیں اور کافی بیمار تھیں مجھے ہماری بڑی ممانی صاحبہ نے جو ان دنوں میں حضرت اماں جان کے پاس ان کی عیادت کے لئے ٹھہری ہوئی تھیں` فرمایا کہ آج آپ یہاں روزہ کھولیں۔ میں نے خیال کیا کہ شاید یہ اپنی طرف س حضرت اماں جان کی خوشی اور ان کا دل بہلانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہیں چنانچہ میں وقت پر وہاں چلا گیا تو دیکھا کہ بڑے اہتمام سے افطاری کا سامان تیار کر کے رکھا گیا ہے۔ اس وقت ممانی صاحبہ نے بتایا کہ میں نے تو اماں جان کی طرف سے ان کے کہنے پر آپ کی یہ دعوت دی تھی۔
محنت کی عادت
حضرت اماں جانؓ میں بے حد محنت کی عادت تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں راحت پاتی تھیں۔ میں نے انہیں اپنی انکھوں سے بارہا کھانا پکاتے` چرخہ کاتنے` نواڑ بکتے بلکہ بھینسوں کے آگے چارہ تک ڈالتے دیکھا ہے۔ بعض اوقات خود بھنگنوں کے سر پر کھڑے ہو کر صفائی کرواتی تھیں اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں۔ گھر میں اپنے ہاتھ سے پھولوں کے پودے یا سیم کی بیل یا دوائی کی غرض سے گلوکی بیل لگانے کا بھی شوق تھا عموماً انہیں اپنے ہاتھ سے پانی دیتی تھیں۔
مریضوں کی عیادت
مریضوں کی عیادت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی کسی احمدی عورت کے متعلق یہ سنتیں کہ وہ بیمار ہے تو بلاامتیاز غریب و امیر خود اس کے مکان پر جا کر عیادت فرماتی تھیں اور آنحضرت~صل۱~ کی سنت کے مطابق تسلی دیا کرتی تھیں کہ گھبرائو نہیں خدا کے فضل سے اچھی ہوجائوگی۔ ان اخلاق فاضلہ کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدی عورتیں حضرت اماں جان پر جان چھڑکتی تھیں اور ان کے ساتھ اپنی حقیقی مائوں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی تھیں- اور جب کوئی فکر کی بات پیش آتی تھی یا کسی امر میں مشورہ لینا ہوتا تھا تو حضرت اماں جان کے پاس دوڑی آتی تھیں۔ اس میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ حضرت اماں جان کا مبارک وجود احمدی مستورا کے لئے ایک بھاری ستون تھا۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ان کا وجود محبت اور شفقت کا ایک بلند اور مضبوط مینار تھا جس کے سایہ میں احمدی خواتین بے انداز راحت اور برکت اور ہمت اور تسلی پاتی تھیں۔
تقویٰ اور توکل کے دو واقعات
مگر غالباً حضرت اماں جانؓ کے تقویٰ اور توکل اور دینداری اور اخلاق کی بلندی کا سب سے زیادہ شاندار اظہار ذیل کے دو واقعات میں نظر آتا ہے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بعض اقرباء پر اتمام حجت کی غرض سے خدا سے علم پاکر محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو اس وقت حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دن دیکھا کہ حضرت اماں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی گریہ و زاری اور سوز و گذار سے یہ دعا فرمارہی ہیں کہ خدایا تو اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور اپنی قدرت نمائی سے پورا فرما۔ جب وہ دعا سے فارغ ہوئیں تو حضرت مسیح موعودؑ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم یہ دعا کررہی تھیں اور تم جانتی ہو کہ اس کے نتیہ میں تم پر سوکن آتی ہے ؟ حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرمایا >خواہ کچھ ہو مجھے اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں میری خوشی اسی میں ہے کہ خدا کے منہ کی بات اور آپ کی پیشگوئی پوری ہو۔
دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کس شان کا ایمان اور کس بلند اخلاقی کا مظاہرہ اور کسی تقویٰ کا مقام ہے کہ اپنی ذاتی راحت اور ذاتی خوشی کو کلیتاً قربان کر کے محض خدا کی رضا کو تلاش کیا جارہا ہے اور شاید منجملہ دوسری باتوں کے یہ ان کی اسی بے نظیر قربانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشروط پیشگوئی کو اس کی ظاہری صورت سے بدل کر دوسرے رنگ میں پورا فرما دیا۔ پھر جب حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہوئی )اور یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے( اور آپ کے آخری سانس تھے تو حضرت امان جان نور اللہ مرقدھا و رفعھا فی اعلی علیین آپ کی چارپائی کے قریب فرش پر آکر بیٹھ گئیں اور خدا سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ :۔
>خدایا ! یہ تو اب ہمیں چھوڑ رہے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑیو۔<
یہ ایک خاص انداز کا کلام تھا جس سے مراد یہ تھی کہ تو ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور دل اس یقین سے پر تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ اللہ اللہ !۔
خاوند کی وفات پر اور خاوند بھی وہ جو گویا ظاہری لحاط سے ان کی ساری قسمت کا بانی اور ان کی تمام راحت کا مرکز تھا توکل` ایمان اور صبر کا یہ مقام دنیا کی بے مثال چیزوں میں سے ایک نہایت درخشاں نمونہ ہے۔ مجھے اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کا وہ بے حد پیارا اور مضبوطی کے لحاظ سے گویا فولادی نوعیت کا قول یاد آرہا ہے جو آپ نے کامل توحید کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنحضرت~صل۱~ )فداہ نفسی( کی وفات پر فرمایا کہ :۔
>الا من کان منکم یعبد محمدا فان محمد اقدامات ومن کان یعبد اللہ فان اللہ حیی لا یموت<- ۱۶۴
>یعنی اے مسلمانو! سنو کہ جو شخص محمد رسول اللہ~صل۱~ کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد~صل۱~ فوت ہوگئے ہیں مگر جو شخص خدا کا پرستا ہے وہ یقین رکھے کہ خدا زندہ ہے اس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔< ۱۶۵
۲- حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں :۔
غیر معمولی محبت کرنے والی ماں
>صرف اس لئے نہیں کہ اماں جانؓ غیر معمولی محبت کرنے والی ماں تھیں اور اس لئے نہیں کہ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو محض ذکر خیر ے طور پر آپ کا تاریخی پہلو لکھا جائے۔ اور اس لئے بھی نہیں کہ مجھے ان سے بے حد محبت تھی )اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح میں ان کی جدائی کو برداشت کررہی ہوں( بلکہ حق اور محض حق ہے کہ حضرت اماں جانؓ کو خدا تعالیٰ نے سچ مچ اس قابل بنایا تھا کہ وہ ان کو اپنے مامور کے لئے چن لے اور اس وجود کو اپنی خاص >نعمت< قرار دے کہ اپنے مرسل کو عطا فرمائے۔
صابرہ و شاکرہ
آپ نہایت درجہ صابرہ اور شاکرہ تھیں- آپ کا قلب غیر معمولی طور پر صاف اور وسیع تھا۔ کسی کے لئے خواہ اس سے کتنی تکلیف پہنچی ہو آپ کے دل پر میل نہ آتا تھا۔ کان میں پڑی ہوئی رنج دہ بات کو اس صبر سے پی جاتی تھیں کہ حیرت ہوتی تھی اور ایسا برتائو کرتی تھیں کہ کسی دوسرے کو کبھی کسی بات کے دوہرانے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ شکوہ` چغلی` غیبت کسی بھی رنگ میں نہ کبھی اپ نے کیا` نہ اس کو پسند کیا۔ اس صفت کو اس اعلیٰ اور کابل رنگ میں کبھی کسی میں میں نے نہیں دیکھا۔ آخر دنیا میں کبھی کوئی بات کوئی کسی کی کر ہی لیتا ہے` مگر زبان پر کسی کے لئے کوئی لفظ نہیں آتے سنا۔
شفقت
حضرت اماں جانؓ سے جہاں کسی نے مجلس میں کسی کی بطور شکایت بات شروع ی اور آپ نے فوراً کا حتیٰ کہ اپنے ملازموں کی شکایت جو خود آپ کے وجود کے ہی آرام کے سلسلے میں تنگ آکر کبھی کی جاتی پیچھے سے سننا پسند نہ کرتی تھیں۔ اپنے ملازموں پر انتہائی شفقت فرماتی تھیں۔ آخری ایام میں جب آواز نکلنا محال تھا مائی عائش )والدہ مجید احمد مرحوم درویش قادیان( کی آواز کسی سے جھگڑے کی کان میں آئی۔ بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور بدقت فرمایا >مائی کیوں روئی ؟< میں نے کہا نہیں اماں جان روئی تو نہیں یوں ہی کسی سے بات کررہی تھی۔ مگر جو درد حضرت اماں جان کی آواز میں اس وقت مائی کے لئے تھا وہ آج تک مجھے بے چین کردیتا ہے۔ آپ نے کئے لڑکیوں اور لڑکوں کو پرورش کیا اور سب سے بہت ہی شفقت و محبت کا برتائو تھا۔ خود اپنے ہاتھ سے ان کا کام کیا کرتی تھیں اور کھلانے` پلانے` آرام کا خیال رکھنے کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا مگر تربیت کا بھی بہت خیال رکھتیں اور زبانی نصیحت اکثر فرماتیں۔ ایک لڑکی تھی` مجھے یاد ہے میں ان دنوں حضڑت اماں جانؓ کے پاس تھی۔ وہ رات کو تہجد کے وقت سے اٹھ بیٹھتی اور حضرت اماں جاںؓ سے سوالات کرنے اور لفظوں کے معنے پوچھنا شروع کرتی اور آپ اس کی ہر بات کا جواب صبر اور خندہ پیشانی سے دیا کرتیں۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ اس وقت نہ ستایا کرو۔ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد آپ نے بہت زیادہ صبر و تحمل کا نمونہ دکھایا مگر آپؑ کی جدائی کو جس طرح آپ محسوس کرتی رہیں اس کو جو لوگ جانتے ہیں وہ اس صبر کو اور بھی حیرت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔
حضرت مسیح موعودؑ سے غیر معمولی محبت
آپ اکثر سفر پر بھی جاتی تھیں اور بظاہر اپنے آپ کو بہت بہلائے رکھتی تھیں۔ باغ وغیرہ یا باہر گائوں مین پھرنے کو بھی عورتوں کو لے کر جانا یا گھر میں کچھ نہ کچھ کام کرواتے رہنا` کھانا بکوانا اور اکثر غرباء میں تقسیم کرنا )جو آپ کا بہت مرغوب کام تھا( لوگوں کا آنا جانا اپنی اولاد کی دلچسپیاں یہ سب کچھ تھا مگر حضرت مسیح موعودؑ کے بعد پورا سکون آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ کوئی اپنا وقت کاٹ رہا ہے۔ ایک سفر ہے جس کو طے کرنا ہے۔ کچھ کام ہیں جو جلدی جلدی کرنے ہین۔ غرض بظاہر ایک صبر کی نثان ہونے کے باوجود ایک قسم کی گھبراہٹ سی بھی تھی جو آپ پر طاری رہتی تھی مگر ہم لوگوں کے لئے تو گویا وہ ہر غم اپنے سینہ میں چھپا کر خود سینہ سپر ہوگئہی تھیں` دل میں طوفان اس درد جدائی کے اٹھتے اور اس کو دبا لیتیں اور سب کی خوشی کے سامنے کرتیں۔ مجھے ذاتی علم ہے کہ جب کوئی بچہ گھر میں پیدا ہوتا تو خوشی کے ساتھ ایک رنج حضرت مسیح موعودؑ کی جدائی کا آپ کے دل میں تازہ ہوجاتا اور وہ آپ کو اس بچہ کی آمد پر یاد کرتیں۔
چشمہ محبت
میں اپنے لئے ہی دیکھتی تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد ایک چشمہ ہے` بے حد محبت کا ` جو اماں جان کے دل میں پھوٹ پڑا ہے اور بار بار فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے ابا تمہاری ہر بات مان لیتے اور میرے اعتراض کرنے پر بھی فرمایا کرتے تھے کہ >لڑکیاں تو چار دن کی مہمان ہیں۔ یہ کیا یاد کرے گی جو یہ کہتی ہے وہی کرو۔< غرض یہ >محبت بھی دراصل حضرت مسیح موعودؑ کی محبت تھی جو آپ کے دل میں موجزن تھی۔
اس کے بعد میری زندگی مں ایک دوسر امرحلہ آیا یعنی میرے میاں مرحوم کی وفات ! ان کے بعد ایک بار اور میں نے اس >چشمہ محبت< کو پورے زور سے پھوٹتے دیکھا جیسے بارش برستے برستے یکدم ایک جھڑا کے سے گرنے لگتی ہے۔ اس وقت وہی بابرکت ہستی تھی` وہی رحمت و شفقت کا مجسمہ تھا جو بظاہر اس دنیا میں خدا تعالیٰ رفیق اعلیٰ و رحیم و کریم ذات کے بعد میرا رفیق ثابت ہوا` جس کے پیار نے میرے زخم دل پر مرہم رکھا۔ جس نے مجھی بھلا دیا تھا کہ میں اب ایک بیوہ ہوں بلکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں کہیں جاکر پھر آغوش مادر میں واپس آگئی ہوں۔ اب دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو میرا منہ دیکھے کہ اداس تو نہیں ہے۔ اب کوئی ایسا نہیں جو میرے احساس کو سمجھے ! میرے دکھ کو اپنے دل پر بیتا ہوا دکھ محسوس کرے۔ خدا سب عزیزوں کو سلامت رکھے۔ میرے بھائیوں کی عمر مین اپنے فضل سے خاص برکت دے۔ مگر یہ خصوصیت جو خدا نے ماں کے وجود میں بخشی ہے اس کا بدل تو کوئی خود اس نے ہی پیدا نہیں کیا اور میری ماں تو ایک بے بدل ماں تھیں` سب مومنوں کی ماں۔ ہزارون رحمتیں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی رحمتیں ہمیشہ ہمیشہ آپ پر نازل ہوتی رہیں۔ وہ تو اب خاموش ہیں مگر ہم جب تک خدا ان سے نہ ملائے گا ان کی جدائی کی کھٹک برابر محسوس کرتے رہیں گے۔~}~
عمر بھر کا ہش جاں بن کے یہ تڑپائے گی
وہ نہ آئیں گی مگر یاد چلی آئے گی
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کے لئے زیادہ ہی زیادہ ان دعائوں کو جو حضرت مسیح موعودؓ نے ہمارے لئے فرمائیں )اور حضرت اماں جاںؓ نے جو سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا( قبول فرمائے اور ایسا ہو کہ گویا وہ دعائیں جاری ہیں اور ہر گھڑی مقبول ہورہی ہیں` آمین` اور ہم سب کو اس قابل بنائے کہ ہم ان فضلوں کے جاذب بنیں جو ہماری لئے مانگے جاتے رہے۔ ثم آمین۔
حضرت اماں جانؓ کو ہماری تعریف کی حاجت نہیں خدا نے جس وجود کی تعریف کردی اس کو اور کیا چاہئے مگر ہمارا بھی فرض ہے کہ جو عمر بھر دیکھا اس کو آئندہ ہونے والوں کے لئے ظاہر کردیں۔
آپ ایک نمایاں شان کے ساتھ صابرہ تھیں اور خدا تعالیٰ کی رضا پر خوشی سے راضی ہونے والی تکالیف کا حوصلہ سے مقابل کرنے والی ! کبھی کسی کا شکوہ شکایت زبان پر نہ لانے والی کسی سے پہنچے ہوئے رنج کو مہر بہ لب ہو کر ایسی خاموشی سے برداشت کرنے اور مٹا ڈالنے والی کہ وہ مٹ ہی جاتا تھا۔
جس سے تکلیف پہنچتی اس پراپنی مہربانی اس طرح جاری رکھتیں بلکہ زیادہ حتی کہ وہ امر اورون کے بھی دلوں سے محو ہوجاتا۔
خشیت الٰہی
بہت خشو و خضوع سے` بہت سنوار کر نمازیں ادا کرنے والی` بہت دعائیں کرنے والی کبھی میں نے آپ کو کسی حالت میں بھی جلدی جلدی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تہجد اور اشراق بھی جب تک طاقت رہی ہمیشہ باقاعدہ ادا فرماتی رہیں- دوسرے اوقات میں بھی بہت دعا کرتی تھیں۔ اکثر بلند آواز سے دعا بے اختیار اس طرح آپ کی زبان سے نکلتی گویا کسی کا دم گھٹ کر یکدم رکا ہوا سانس نکلے۔ بہت ہی بے قرار اور تڑپ سے دعا فرماتی تھیں۔ کبھی کبھی موزوں نیم شعر الفاظ میں اور کبھی مصرع اور شعر کی صورت میں بھی دعا فرماتی تھیں اسی درد اورتڑپ سے ایک بار لاہور میں غیر آباد مسجد کو دیکھ کر ایک آہ کے ساتھ فرمایا
الٰہی مسجدیں آباد ہوں گر جائیں` گرجائیں
آپ کی دعائوں میں سب آپ کی احمدی اولاد شریک ہوتی۔ اکثر ایسوں کا نام لے کر بے قرار ہو کر دعا کر تین جن کا بظاہر ہر کسی کو خیال تک نہ ہوتا۔ ایک بار لیٹے لیٹے اس طرح کرب سے >یااللہ< کہا کہ میں گھبرا گئی مگر اس کے بعد کا فقرہ کیا تھا؟ یہ کہ >میرے نیر کو بٹا دے< خدا نے آپ کے نیر )مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب نیر۱۶۶( کو اس کے بعد محمودہ کڑک سے دو بیٹے عطا فرمائے۔ خدا نیکی اور زندگی ان کو بخشے` سب جماعت سے محبت دلی فرماتی تھیں اور خصوصاً حضرت مسیح موعودؑ والسلام کے زمانہ کے لوگوں سے آپ کو بہت ہی پیار تھا۔ ان کی اولادوں کو اب تک دیکھ کر شاد ہوجاتی تھیں۔ شاید آپ میں سے بعض کو پورا احساس نہ ہو مجھے پوچھیں آپ سچ مچ ایک اعلیٰ نعمت سے` ایک ہزار ماں سے بہتر ماں سے محروم ہوگئے ہیں۔
شریکہ غم
ہر چھوٹے بڑے کی خوشی اور تکلیف میں بدل شریک ہوتی تھیں۔ جب تک طاقت رہی یعنی زمانہ قریب ہجرت تک جب باہر جاتیں اکثر گھروں میں ملنے جاتیں- حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے آپ کا یہی عمل تھا۔ مجھے کئی واقعات یاد ہیں کہ کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا اور آپ برابر ان کی تکلیف کے وقت میں زچہ کے پاس رہیں اور یہی طریق بعد میں جب تک ہمت رہی جاری رہا۔
خاص چیز جو پکواتیں بہت کھلی اور ضرور سب میں تقسیم کرتیں۔ حضرت مسیح موعودؓ کے زمانہ میں چونکہ لوگ کم تھے تو سب کو گھروں سے بلا کر اکثر ساتھ ہی کھلوایا کرتی تھیں۔
خیرات و فیاضی
خیرات کثرت سے فرماتی تھیں` غرباء کو کھانا کھلانا آپ کو بہت پسند تھا۔ حضڑت مسیح موعودؑ کے پسند کی چیز تو ضرور کھلایا کرتی تھیں۔ اور گھر میں روزمرہ جب کوئی چیز سامنے آتی تو اول اول دنوں میں تو بہت فرمایا کرتی تھیں کہ یہ چیز آپؑ کو پسند تھی لو تم کھائو!
ہاتھ سے کام کرنا
ہاتھ سے کام کرنے میں ہرگز کبھی آپ کو عار نہ تھا۔ قادیان س آتے وقت بھی برابر خود کوئی نہ کوئی کام کرتی تھیں۔ باورچی خانہ جا کر خود کچھ پکا لینا` چیز خود ہی جا کر بکسوں میں سے نکالنا` کسی کو بہت کم کہتی تھیں` خود ہی کام کرنے لگتی تھیں۔ جب تک کمزوری حد سے نہ بڑھی سہارا لینا ہرگز پسند نہیں فرماتی تھیں کوئی سہارا دینا چاہتا تو نہیں دینے دیتیں کہ میں خود چلوں گی سہارا نہ دو۔
]sub [tagذکر الٰہی
ایک خاص بات آپ کی اپنی بچپن سے مجھی یاد ہے کہ جن ایام میں آپ نے نماز نہیں پڑھنی ہوتی تھی اس وقت کو کبھی باتوں وغیرہ میں ضائع نہیں فرماتی تھیں برابر مقررہ اوقات نماز میں تنہا ٹہل کر یا بٹھ کر دعا اور ذکر الٰہی کرتی تھیں اور پھر ہمیشہ میں نے اس امر کا التزام دیکھا۔
نظافت پسندی
جن لڑکیوں کو پالا ان کی جوئیں نکالنا` کنگھی کرنا یہ کام اکثر خود ہی کرتی تھیں اور باوجود نہایت صفائی پسند ہونے کے گھن نہیں کھاتی تھیں۔
صاف لباس` پاکیزہ بستر اور خوشبو آپ کو بے ہد پسند تھی مگر ان چیزوں کا شغف کبھی اس درجہ کو نہیں پہنچا کہ آپ کے اوقات نماز یا دعا یا ذکر میں حاج ہوا ہو۔
عطر کا استعمال
مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ بھی عطا اور چنبیلی کا تیل آپ کے لئے خاص طور منگایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد آپ نے اپنا عطر کا صندوقچہ مجھے پاس بلا کر تیسرے روز دے دیا تھا۔ )جو مین نے بھاوجوں میں تقسیم کردیا تھا( زمانہ عدت میں آپ نے خوشبو نہیں استعمال کی ` نہ زیور ہی کوئی پہنا سفید لباس پہنتی تھیں مگر صاف ` میلا نہیں۔ مجھے یاد ہے جس دن ایام عدت ختم ہوئے آپ نے غسل کیا` صاف لباس پہنا` عطر لگایا اور اس دن جو کیفیت صدمہ کی اور پھر ضبط آپ کے چہرہ سے مترشح تھا وہ تحریر میں نہیں آسکتا۔ آپ کا رونا نمازوں کا رونا` دعائوں کا رونا ہوتا تھا ویسے نہین۔ روزانہ بہشتی مقبرہ جاتیں اور نہایت رقت سے دعا کرتین۔ وہ آپ کی ہالت دیکھی نہیں جایا کرتی تھی جس مقام میں آخر آرام کرنے کے لئے آپ کی روح چالیس سال تڑپ سے انتظار کرتی رہی اور دل میں جس زمین کو دیکھ دیکھ کر بے قرار ہوتا رہا اس میں آپ کے جسد مبارک کا فی الحال رکھا جانا تقدیر الٰہی کے مطابق نہ تھا۔ دل بے چین ہوجاتا ہے جب یاد کرتی ہوں کہ قادیان سے آنے کا صدمہ بھی صبر اور تحمل سے برداشت کر جانے والی میری اماں جانؓ کس بے قرار سے وہاں سے آکر بار بار کہا کرتی تھیں کہ >مجھے قادیان ضرور پہنچانا یہاں نہ رکھ لینا< )یعنی بعد وفات( اگر کوئی گھبراہٹ ظاہراً دیکھی تو بس ایک اسی بات کے لئے !
داغ ہجرت میں وفات
سخت کرب پیدا ہوتا ہے اس خیال سے کہ یہ آرزو حضرت اماں جانؓ کی پورا نہ ہونا اور ان کا ہجرت میں داغ جدائی دینا` بے شک پیشگوئی کے مطابق ہوا مگر کہیں ہم لوگ کی شامت اعمال تو اس وقت کو نزدیک نہیں کھینچ لائی۔ یہی منشاء الٰہی تھا اور ہو ہوا۔ مگر آب تو خدا کرے وہ دن بھی جلدی لائے کہ حضڑت اماں جانؓ کی تمنا کو پورا کرنے والے آپ لوگ بنیںاور ہم سب اس طرح حضرت اماں جانؓ کو ان کے اصل مقام میں لے جائیں جس طرح جانا ان کے شایان شان ہے )آمین(
ایک دعا اور اس کی قبولیت
بہت سال ہوئے حضرت سیدنا۱۶۷ بھائی صاحب نے ایک دن مجھے کہا تھا کہ >میں بھی یہ دعا کیا کرتا ہوں تم بھی کیا کرو کہ اماں جانؓ کو خدا تعالیٰ مدت دراز تک سلامت رکھے مگر اب اماں جانؓ ہم میں سے کسی کا صدرمہ نہ دیکھیں< میں نے اس دن س اس دعا کو ہمیشہ یاد رکھا اور اپنی خاص اس دعا کے ساتھ کہ ایسا وقت اس حالت میں نہ آئے کہ میں اماں جان سے دور ہوں۔ میں سالہال مالیر کوٹلہ وہی گو بار بار اور جلد جلد آتی تھی کیونکہ حضرت اماں جانؓ اور اس گھر کو ` بھائیوں کو` دیکھے بغیر مجھی چین ہی نہ آتا تھا مگر جب بھی وہاں ہوتی حضرت اماں جانؓ کے متعلق توہمات مجھی چین سے نہ رہنے دیتے۔ میں نے میان مرحوم سے صاف کررکھا تھا کہ میں یہان آپ کا ساتھ دے کر رہتی تو ہوں لیکن اگر کبھی اماں جانؓ کی علالت کی خبر مجھے ملی تو ہر گز نہ مجھے کسی اجازت کی حاجت ہوگی نہ کوئی ساتھ ڈھونڈنے کی ` میں ایک منٹ بھی پھر نہیں ٹھہروں گی خواہ اکیلے چل پڑنے کی صورت ہو۔ ہمیشہ ہر حال میں میں نے ایک رقم الگ محفوظ رکھی اس نیت سے کہ اماں جانؓ کو خدا نہ کرے کبھی تکلیف ہو تو کسی روپیہ کے انتظام کے لئے میرا گھنٹہ بھر بھی ضائع نہ ہو۔
الحمد لل¶ہ ! کہ وہ دعا بھی خدا تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ خدمت کے قابل گو میں نہ رہی تھی مگر پاس رہی منہ دیکھتی رہی اور وہ پاکیزہ نعمت الٰہی جو مجھے دنیا میں لانے کا ذریعہ ایک دن بنی تھی میری آنکھوں کے سامنے میرے ہاتھ میں اس دنیا سے رخصت ہو کر محبوب حقیقی سے جا ملی۔<۱۶۸
>چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے<
تاریخی شخصیت
>آپ میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جس نے یہ دعا حضرت مسیح موعودؑ بزبان حضرت اماں جانؓ نہ پڑھی ہوگی۔ یہ مصرعہ آپ کو اس وجود کی اہمیت اور بزرگی کا مرتبہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے مسیحا کے لئے چن کر چھانٹ لیا وہ کیا چیز ہوگی ؟
حضرت ام المومنینؓ کا وجود بھی اس زمانہ کی مستورات کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نمونہ بنا کر` اپنے مرسل مسیح موعود اور مہدی معہودؑ کے لئے تفیق حیات منتخب فرما کر بھیجا تھا اور آپ کی تمام حیات آپ کی زندگی کا ہر پہلو اس پر روشن شہادت دیتا رہا اور دے رہا ہے اور ہمیشہ تاریخ احمدیت پر مرد درخشاں کی مانند چمک دکھلا کر شہادت دیتا رہے گا۔<۱۷۰۱۶۹
حواشی
۱۔
>حجتہ الاسلام< ۱۲`۱۳ )اشاعت ۸ مئی ۱۸۹۳ء( مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر
۲۔
>آئینہ کمالات اسلام< ۵۶۴ - ۵۶۶ طبع اول )اشاعت ۱۸۹۳ء( و >ختاب البریہ< ۷۸` ۷۹ )اشاعت ۲۴ جنوری ۱۸۹۸ء(
۳۔
>نزول المسیح< ۶ )اشاعت اگست ۱۹۰۹ء(
۴۔
>تبلیغ رسالت< )مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعودؑ جلد ۲ صفحہ ۱۲۰ مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحبؓ مدیر >فاروق< قادیان
۵۔
ولادت ۲۳ اپریل ۱۹۰۲ء۔۔ وفات یکم اپریل ۱۹۷۳ء(
۶۔
ولادت یکم جنوری ۱۸۷۹۔۔ وفات ۴ جنوری ۱۹۶۱ء / ۴ صلح ۱۳۴۰ ہش
۷۔
الفضل ۱۶ صلح و الفضل ۲ صلح ۱۳۳۱ ہش/۱۶ء ۲ جنوری ۱۹۵۲ء
۸۔
وفات ۲۴ وفا ۱۳۳ ہش/۲۴ جولائی ۱۹۵۴ء
۹۔
ملخصاً ازا الفضل ۸ صلح ۱۳۳۱ ہش/ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ و ۸
۱۰۔
روایات صحابہ )غیر مطبوعہ( رجسٹر ۷ صفحہ ۱
۱۱۔
رجسٹر بیعت )غیر مطبوعہ(
۱۲۔
الفضل لاہور ۱۱- صلح ۱۳۳۰ ہش/۱۱ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱
۱۳۔
ازالہ اوہام صفحہ ۸۱۲ )طبع اول(
۱۴۔
ازالہ اوہام صفحہ ۷۹۳ )طبع اول(
۱۵۔
یعنی حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ )ناقل(
۱۶۔
مطابق ۲۷ دسمبر ۱۸۸۵
۱۷۔
کہف :۳۸
۱۸۔
ولادت ۷ اگست ۱۸۸۷ء
۱۹۔
تلخیص >روایات صحابہ< جلد ۷ )غیر مطبوعہ( صفحہ ۱`۶
۲۰۔
ابن ماجہ )ابواب النکاح باب حسن معاشرۃ النساء( صفحہ ۱۴۳
۲۱۔
الفضل ۲۸ صلح ۱۳۳۰ ہش/۲۸ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۲۲۔
الفضل ۲ تبلیغ ۱۳۳۰ ہش/۲ فروری ۱۹۵۱ صفحہ ۵
۳۲۔
قادیان گائیڈ صفحہ ۶۲`۵۸ )ازمیاں محمد یامین صاحبؓ تاجر کتب قادیان۔ اشاعت ۲۵ نومبر ۱۹۲۰ء(
۲۴۔
اولاد :۔ پیر عبدالرحیم صاحب۔ پیر سلطان احمد صاحب پیر ہارون احمد صاحب۔ پیر مبارک احمد صاحب )مون لائٹ ربوہ( صفیہ بیگم صاحب اہلیہ مولاا بذل الرحمن صاحبؓ فاضل بنگالی مبلغ سلسلہ احمدیہ )وفات ۳۱ فتح ۱۳۲۸ ہش/۱۳ دسمبر ۱۹۴۹ء( امتہ الحکیم صاحبہ اہلیہ مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر مجاہد بلاد عربیہ
۲۵۔
ریکارڈ بہشتی مقبرہ ۔ربوہ
۲۶۔
الفضل ۱۱-۱خاء ۱۳۳۰ ہش/۱۱- اکتوبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۲۷۔
بدر ۱۱ جنوری ۱۹۱۲ صفحہ ۸ کالم ۲ )تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۱۱ء بعنوان >مدراج تقٰوی(<
۲۸۔
>روایات صحابہ< )غیر مطبوعہ( جلد ۱۳ صفحہ ۱۰۷
۲۹۔
الفضل ۱۵۔ امان ۱۳۳۰ ہش/۱۵۔ مارچ ۱۹۵۱ صفحح ۲
۳۰۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۸ ستمبر ۱۸۹۲ء کو انہیں تحریر فرمایا :۔ >بیعت کنندوں کے نمبر ۳۵۲ میں آپ کا نام ہے۔< >سراج منیر< میں حضور نے آپ کی ایک نظم درج فرمائی ہے۔ ۲۳ نومبر ۱۹۲۰ء کو جہلم ہسپتال میں انتقال کیا۔ قلعہ رہتاس کے دروازہ خواص خوانی کے برہا آپ کا مزار ہے۔ )الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۲۱ء صفہہ ۷ ` ۸
۳۱۔
مرتبہ ڈاکٹر ملک نذیر احمد صاحب ریاض۔ بھابڑا بازار راولپنڈی
۳۲۔
روزنامہ الفضل ۱۵۔ امان ۱۳۳۰ہش/۱۵۔ مارچ ۱۹۵۱ء
۳۳۔
الفضل ۴ تبوک ۱۳۳۰ ہش/۴ ستمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۴ )مضمون حضرت مولانا جلال ادلین صاحب شمسؓ(
۳۴۔
>لاہور ۔۔ تاریخ احمدیت< ۳۸۶ مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ طبع اول ۲۰ فروری ۱۹۶۶ء(
۳۵۔
الفضل ۲۷ اخاء ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۶
۳۶۔
۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نام سرفہرست نمبر ۳ پر درج ہے۔ )ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۱(
۳۷۔
۲ ستمبر ۱۹۰۲ کو فوت ہوئے اور ۱۹ ستمبر ۱۹۰۳ء کو جمعہ کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کا جنازہ غائب پڑھا۔ حضرت مرزا محمد اشرف صاحب ریٹائرڈ محاسب صدر انجمن احمدیہ آپ ہی کے صاحبزادے تھے۔
۳۸۔
البقر : ۲۸۳
۳۹۔
>روایات اصحابہ< جلد ۷ صفحہ ۴۸` ۴۹
۴۰۔
۷ جنوری ۱۹۰۰ ء تا یکم فروری ۱۹۰۰ء ۔ یکم نومبر ۱۹۰۱ء تا ۲۲ دسمبر ۱۹۰۱ء )ڈاکٹر غلام مصطفٰے صاحب کی تحریری یادداشتوں سے ماخوذ(
۴۱۔
آپ کی خود نوشت روایات کے حوالہ سے تذکرہ طبع سوم ۷۷۷ تا صفحہ ۷۷۹ میں کئی امامات محفوظ ہوچکے ہیں۔
۴۲۔
الفضل یکم فتح ۱۳۳۰ ہش/یکم دسمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۵ و ۱۴ نبوت ۳۳۰ ہش/۱۴ ۔ نومبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۲
۴۳۔
حقیقہ الوحی صفحہ ۲۳۷ ` ۲۳۸ طبع اول ۱۵ مئی ۱۹۰۷ء مطبع میگزین قادیان
۴۴۔
مبارک مصلح الدین احمد صاحب واقف زندگی جو وکیل المال ثانی تحریک جدید ہیں آپ ہی کے صاحبزدے ہیں۔
۴۵۔
بروایت سردار عبدالحمید صاحبؓ آڈیٹر برادر اصغر
۴۶۔
ولادت ۱۸۶۰ء وفات ۱۹۳۹ء >)صوفیائے نقش بند< از سید امین الدین احمد صاحب ناشر مقبول اکیڈیمی لاہور طبع اول ۱۹۷۳ء(
۴۷۔
الفضل ۸۔ فتح ۱۳۳۰ ہش/۸ دسمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۵ )مضمون چوہدری شبیر احمد صاحب بی ۔ اے(
۴۸۔
آل عمران : ۵۶
۴۹۔
چورہ شریف کے پیر جناب فقیر محمدﷺ~ صاحب عرف باوا جی مراد ہیں
۵۰۔
جنوری ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے۔
۵۱۔
مکتوب حضرت مولوی عبدالاحد خاںؓ مکان نمبر ۸۳۹ پیر کالونی چوہدری شبیر احمد صاحب
۵۲۔
دندان سازی کی پریکٹس کرتے ہیں
۵۳۔
ٹرانسپورٹ مینجر ۱۹۵۰ء
۵۴۔
وکیل المال اول تحریک جدید ربوہ و نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ ربوہ )صف دوم(
۵۵۔
اسسٹنٹ ان ملٹری اکونٹس کراچی
۵۶۔
متوفی ۱۹۵۱ء غیر شادی شدہ ہونے کی حالت میں وفات پائی
۵۷۔
ملازم آرڈی نینس کراچی
۵۸۔
چیف ٹیک ایر فورس کراچی
۵۹۔
میڈیکل اسسٹنٹ مسقط
۶۰۔
اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و تذکرہ ۴۱ ایڈیشن سوم
۶۱۔
>روایات صحابہ< غیر مطبوعہ جلد نمبر ۲ صفحہ ۱۲۶ >بشارات رحمانیہ< جلد اول ۲۰۵ صفحہ ۲۰۷ مولفہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر )طبع دوم(
۶۲۔
>روایات صحابہ< غیر مطبوعہ جلد نمبر ۳ صفحہ ۱۲۶` ۱۲۸ )خود نوشت روایات اخوند محمد اکبر خان صاحبؓ
۶۳۔
الفضل ۲۸ اخاء ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۶
۶۴۔
روایات صہابہ جلد نمبر ۱۰ صفحہ ۴۷` ۵۰
۶۵۔
الفضل ۴ صلح ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵
۶۶۔
روایات صحابہ جلد ۱۰ صفحہ ۴۷ ` ۵۰
۶۷۔
الفضل ۴ صلح ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵
۶۸۔
علی پور سیداں میں سید جماعت علی شاہ کے نام سے دو پیرہم عصر گزرے ہیں یہاں کون سے مراد ہیں اس کی تحقیق نہیں ہوسکی
۶۹۔
پیمائش کی کتاب
۷۰۔
)رجسٹر >روایات صحابہ< )غیر مطبوعہ( جلد نمبر ۱۰` ۵۹( خود نوشت حالات حضرت ملک برکت علی صاحبؓ مورخہ ۱۰ جون ۱۹۳۹ء
۷۱۔
الفضل ۴ صلح ۱۳۳۱ ہش/۴ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۵ )مضمون منشی محمد رمضان صاحب احمدی پوسٹل پنشنر گجرات سابق ضلع وار کلرک جماعت احمدیہ گجرات(
۷۲۔
مندرجہ بالا بزرگ صحابہ کے علاوہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے امیر اور صدر مولانا محمد علی صاحب ایم۔اے سابق ایڈیٹر >ریویو آف ریلیجز< کی وفات بھی اسی سال ہوئی۔
)ولادت دسمبر ۱۸۷۴ء۔ زیارت جنوری ۱۸۹۲ء دستی بیعت ۱۸۹۷ء ہجرت قادیان ۱۸۹۹ء لاہور میں مستقل قیام ۲۰ اپریل ۱۹۱۴ء ۔ وفات ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۱ء(
>تاریخ احمدیت< جلد دوم میں آپ کے حالات زندگی کا اجمالی خاکہ دیا جاچکا ہی۔ آپ کے مفصل سوانح کے لئے ملاحظہ ہو >مجاہد کبیر< مولفہ جناب ممتاز احمد صاحب فاروقی بی۔ ایس سی۔ ای ۔ ای ستارہ خدمت و جناب محمد احمد صاحب ایم۔ اے خلف مولانا محمد علی صاحب مرحوم۔
۷۳۔
آپ کی سوانح ۱۳۴۶ ہش/۱۹۶۷ء میں ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کے قلم سے >تابعین اصحاب احمد< جلد نمبر ۶ میں چھپ چکی ہیں۔
۷۴۔
الفضل یکم صلح ۱۳۳۱ ہش/یکم جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۷۵۔
تفصیل الفضل ۱۶ ہجرت / مئی تا ۵ ۔ احسان/ جون ۱۳۳۰ ہش میں ملاحظہ ہو
۷۶۔
الفضلی ۲۳ و ۲۴ ہجرت ۱۳۳۰ ہش/۲۳`۲۴ مئی ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۷۷۔
الفضل ۱۸۔ وفا ۱۳۳۰ ہش/۱۸ جولائی ۱۹۵۱ء
۷۸۔
الفضل ۵ صلح ۱۳۳۵ ہش/۵ جنوری ۱۹۵۶ء
۷۹۔
الفضل ۱۸ وفا ۱۳۳۸ ہش/۱۸ جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ ۴
۸۰۔
الفضل ۹ صلح ۱۳۳۰ ہش/۹ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۸۱۔
الفضل لاہور ۶ صلح ۱۳۳۰ ہش/ ۶ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱
۸۲۔
روزنامہ الفضل ۱۲۔ وفا ۱۳۳۰ ہش/۱۲ جولائی ۱۹۵۱ء صفحہ ۵
۸۳۔
ناشر سیٹھ محمد معین الدین صاحب احمدی چنت کنٹہ حیدر آباد دکن طبع اول جنوری ۱۹۵۴ء مطبوعہ تاج پریس حیدر آباد دکن
۸۴۔
طبع اول ۱۳۳۸ ہش مطابق ۱۹۵۹ء مطبوعہ منظور عام پریس پشاور
۸۵۔
ماہنامہ درویش اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۸
۸۶۔
]h2 [tagبدر ۲۱۔ ۲۸ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲۳
۸۷۔
الفضل ۴ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۴۔ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۴
۸۸۔
الفضل ۱۷ نبوت ۱۳۳۰ ہش/۱۷ نومبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۳`۴
۸۹۔
پوری تقریر الفضل ۲۵ امان ۱۳۳۱ ہش/۲۵ مارچ ۱۹۵۲ء میں شائع شدہ ہے۔
۹۰۔
الفضل ۲۱۔ وفا ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۵` الفضل ۱۸ ظہور ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۵` الفضل ۲۸ تبوک ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۲ الفضل ۱۰۔ نبوت ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۱` الفضل ۱۱ فتح ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۱ الفضل یکم صلح ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۶
۹۱۔
الفضل ۲۵ ۱۳۳۰ ہش/فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۳ ` ۶ و ۶ اخاء ۱۳۳۰ ہش/اکتوبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۴
۹۲۔
الفضل ۸ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۴۴
۹۳۔
الفضل ۱۶ اخاء ۱۳۳۰ ہش/اکتوبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۴
۹۴۔
ان اخبارات کے تراشے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہیں
۹۵۔
رسالہ تحریک جدید صلح ۱۳۵۳ ہش/ جنوری ۱۹۷۴ء صفحہ ۴۰` ۴۱
۹۶۔
ماہ ہجرت ۱۳۲۹ ہش/مئی۱۹۵۰ء تا ماہ شہادت ۱۳۳۰ ہش/اپریل ۱۹۵۱ء
۹۷۔
ان کے صاحبزادے بختیار ذکریا صاحب ربوہ میں دینی علم حاصل کرتے رہے ہیں۔
۹۸۔
پہلی سالانہ کانفرنس ۹۔۱۰۔۱۱ ماہ فتح ۱۳۲۸ ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو جا کرتا میں اور دوسری ۲۴۔۲۵ ۲۶ فتح ۱۳۲۹ ہش/ دسمبر ۱۹۵۰ء کو بانڈونگ میں ہوئی۔
۹۹۔
الفضل ۷ تا ۱۳ امان ۱۳۳۱ ہش/ مارچ ۱۹۵۲ء )تلخیص(
۱۰۰۔
حال انگلستان
۱۰۱۔
تفصیلی رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت ۵۲۔۱۹۵۱ء صفحہ ۲۶` ۲۸ میں درج ہے۔
۱۰۲۔
>تاریخ احمدیت< جلد ۹ صفحہ ۴۵۴` ۴۵۶
۱۰۳۔
محترم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل مراد ہیں )ناقل(
۱۰۴۔
۱۳۱ ہش / ۱۹۵۲ء سے لے کر ۱۳۵۴ ہش/۱۳۷۵/۱۹۷۵ء تک کے ممبران کمیٹی کی فہرست شامل ضمیمہ ہے۔
۱۰۵۔
فیصلہ ۵ ہجرت ۱۳۳۶ ہش/مئی ۱۹۵۷ء
۱۰۶۔
فیصلہ ۲۷ ہجرت ۱۳۴۱ ہش/مئی ۱۹۶۲ء
۱۰۷۔
فیصلہ ۶ تبوک ۱۳۴۰ ہش/ستمبر ۱۹۶۱
۱۰۸۔
>مجلس افتاء اور اس کے فرائض صفحہ ۴ )شائع کردہ دارالافتاء ربوہ ضلع جھنگ(
۱۰۹۔
الفضل ۱۱۔ صلح ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۱۰۔
مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۵
۱۱۱۔
تابعین اصحاب احمد جلد ۷ صفحہ ۷۶ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے` مطبوعہ شہادت ۱۳۵۰ ہش/۱۹۷۱ء ناشر احمدیہ بک ڈبو داراالرحمت شرقی ربوہ
۱۱۲۔
تجویز (Plan)
۱۱۳۔
الفضل ۱۱۔ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳` ۴
۱۱۴۔
الفضل ۳ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۱۵۔
الفضل ۲۴ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ ` ۳
۱۱۶۔
الفضل ۱۵ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۱۷۔
وفات ۱۸۹۸
۱۱۸۔
وفات ۱۹۳۱ء
۱۱۹۔
وفات ۱۹۳۶ء
۱۲۰۔
وفات ۱۱ ستمبر ۱۹۴۸ء
۱۲۱۔
۲۰ اپریل ۱۹۳۸ء
۱۲۲۔
الفضل ۱۷ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء صفحہ صفحہ ۲`۳
۱۲۳۔
الفضل ۴ امان ۱۳۳۱ ہش/مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۱۲۴۔
اس موقعہ پر مقامی جماعت کی طرف سے صاحب ڈپٹی کمشنرکو یہ مراسلہ بھیجا گیا:۔
>ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بجائے اپنی جلسہ گاہ کے مسجد میں جا کر جلسہ کرنا کسی حالت میں بھی مناسب نہیں اور ہمارے حق کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ہم نے بار بار آپ کی کدمتمیں عرض کی کہ ہم خطرہ بھی برداشت کرنے کے لئے تیار ہین لیکن پہلی مرتبہ کے التواء کے بعد وسری بار ایک نہایت ہی مختصر اجلاس کو کافی سمجھنا ہمارے لئے مشکل ہے۔ ہم یقیناً اس بات کے حق دار ہیں کہ اس تعاون کے بعد جو ہم نے پچھلی بار دکھایا تھا اس دفعہ حالات کی مشکلات کو برداشت کر کے ہمارے لئے جلسہ کرنا ممکن کیا جاتا۔ اس جلسہ میں شرکت کے لئے بعض دوست باہر کے اضلاع سے آئے ہوئے تھے ہم حکومت جو یقیناً مشکلات میں پھنسانا نہیں چاہتے لیکن اس کا یہ اثر ضرور ہوگا کہ ایسا شرارت پسند عنصر جو ہر ممکن طریق سے حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور زیادہ دلیر ہوجائے گا اور امن پسند لوگوں کے لئی اپنے حقوق کی حفاظت مشکل ہوجائے گی۔ بہرحال آپ کی انتظامی معذوریوں کے یش نظر ہمارے لئے بجز اس کے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ ہم اپنا بقیہ پروگرام منسوک کردیں۔<
الفضل ۱۹ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۱۲۵۔
الفضل ۲۷ تبلیغ و ۲۸ امان ۱۳۳۱ ہش )مطابق ۲۷ فروری ۲۸ مارچ ۱۹۵۲ء(
۱۲۶۔
روزنامہ الفضل ۲ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۲ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۲۷۔
آپ ان دنوں زیریں سندھ )ضلع حیدر آباد ` ٹھٹھہ` تھرپارکر` سانگھڑ` نواب اور ضلع دادو( کے انچارج مبلغ تھے ؟
۱۲۸۔
ابودائود )کتاب الحدود(
۱۲۹۔
مسنداحمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۳۵۳
۱۳۰۔
>کنوز الحقائق< )از حضرت علامہ امام عبدالروئوف منادی(
۱۳۱۔
ابو دائود میں ہے >من فارق الجماعتہ قید شبیر فقد خلع ربقتہ الاسلام عن عنقہ )کتاب السنہ( بخاری کتاب الاحکام میں ہے< لیس احد یفارق الجماعتہ شبرا فیموت الامات میتتہ جاھیلتہ۔<
۱۳۲۔
بخاری کتاب الفتن کے الفاظ ہیں >تلزم جماعتہ المسلمین وامامھم۔<
۱۳۳۔
یہ پیغام >ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض< کے نام سے چھپا ہوا ہے
۱۳۴۔
روزنامہ الفضل ربوہ ۱۲۔۱۹ فتح ۱۳۴۱ ہش مطابق ۱۲۔۱۹ دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۲ تا ۵
۱۳۵۔
الفضل ۳۰ امان۔ یکم شہادت ۔ ۱۰ شہادت ۱۳۳۱ ہش )مطابق ۳۰ مارچ یکم و ۱۰ اپریل ۱۹۵۲ء( بابو عبدالغفار صاحب نے خوردو نوش کے سامان اور لائوڈ سپیکر کی فراہمی کے علاوہ حضور کی تقریر بھی ریکارڈ کی۔ قیام گاہ اور ٹرانسپورٹ کا انتظام ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب کے سپرد تھا اور ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب پریس کانفرنس اور معززین کی ملاقات کی منتظم تھے۔
۱۳۶۔
آل عمران : ۲۸
۱۳۷۔
الفضل ۲۳ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/۲۳ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۳ تا ۴
۱۳۸۔
اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ )لاہور( ۲۵۲ مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۸ )ترجمہ و تلخیص( بحوالہ الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۱۳۹۔
یہ مقالہ >اسلامی خلافت کا صحیح نظریہ< کے نام سے شائع شدہ ہے۔
۱۴۰۔
روزنامہ الفضل ۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۳ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۴۱۔
روزنامہ الفضل ۱۶ شہادت ۱۳۳۱ ہش۔۱۶ اپریل ۱۹۵۲ء
۱۴۲۔
>مشعل راہ< صفحہ ۷۳۸ )خدام الاحمدیہ سے متعلق سیدنا حضڑت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے خطبات و تقاریر کا مجموعہ( شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ )پاکستان تاریخ اشاعت ۱۴ دسمبر ۱۹۷۰ء
۱۴۳۔
الفضل ۲۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۴۴۔
h2] [tagالفضل ۱۷ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۴۵۔
الفضل ۱۳ احسان ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۴۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۰۷` ۱۰۸
۱۴۷۔
تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
۱۴۸۔
Committy Finance )مالیات کی کمیٹی(
۱۴۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۹ تا ۱۸
۱۵۰۔
جیسا کہ ۱۳۳۱ ہش/ ۱۹۵۲ء کے واقعات کی آخری فصل میں ذکر ارہا ہے حضرت مصلح موعودؓ نے اس منصوبہ کی داغ بیل کے طور پر اپنی ذاتی لائبریری اور صدر انجمن احمدیہ کی لائبریری کو مدغم کر کے خلافت لائبریری قائم فرمادی جس نے خلافت ثانیہ کی علمی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ازاں بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۸ صلح ۱۳۴۹ ہش/۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو خلافت لائبریری ربوہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور ۳ اخاء ۱۳۵۰ ہش۳اکتوبر ۱۹۷۱ء کو اس کا افتتاح فرمایا )تفصیل خلافت ثالثہ کے حالات میں آئے گی(
۱۵۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۳۶ )یہاں اشارہ بنگالی احمدیوں کی طرف ہے جن کے امیر صاحب صوبائی نے مشاورت میں بعض مطالبات پیش کئے تھے(
۱۵۲۔
حال پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ
۱۵۳۔
روزنامہ الفضل لاہور ۲۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش مطابق ۲۳ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
۱۵۴۔
روزنامہ الفضل لاہور ۱۲ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۱
۱۵۵۔
روزنامہ الفضل لاہور ۲۳ شہادت ۱۳۵۱ ہش مطابق ۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۱`۲
۱۵۶۔
محکمہ تار نے تاروں کی کثرت دیکھ کر حضرت سیدہ کی بیماری کے ایام ہی سے ایک اور سگنیلر عارضی طور پر ربوہ میں متعین کردیا تھا )الفضل ۲۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش(
۱۵۷۔
روزنامہ الفضل لاہور ۳۰ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۴
۱۵۸۔
تمن کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد نمبر ۲ صفحہ ۳۵
۱۵۹۔
الفضل ۱۳ فتح ۱۳۳۱ ہش/۳۱ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۴
۱۶۰۔
الحکم ۲۴ اگست ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۰ بحوالہ تذکرہ صفحہ ۳۷۷ ایڈیشن سوم
۱۶۱۔
نسائی باب النساء مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۲۸`۱۹۹`۲۹۵
۱۶۲۔
Civil
۱۶۳۔
بخاری )کتاب الطلاق۔ کتاب الادب( مسلم )کتاب الزہد(
۱۶۴۔
نارژ لتان الغزوات )باب وفات النبی~صل۱(~
۱۶۵۔
>چار تقریریں< صفحہ ۹۴ تا ۱۰۸ مولفہ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` نسر شعبہ نشر و اشاعت نظارت اصلاح و ارشاد صدر انجمن صدر انجمن احمدیہ پاکستان )طبع دوم دسمبر ۱۹۶۶ء(
۱۶۶۔
بانی نائیجیریا مشن )وفات ۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ء( مفصل حالات تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۲۰۵ طبع اول میں درج ہیں۔
۱۶۷۔
یعنی سیدنا حضرت مصلح موعودؓ
۱۶۸۔
روزنامہ الفضل ۱۱ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/۱۱ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۴۷۳
۱۶۹۔
>نصرت الحق< ۱۳`۱۴ ناشر خدام الاحمدیہ ربوہ طبع اول
۱۷۰۔
آپ کی سوانح اور سیرت پر مستقل لٹریچر شائع ہوچکا ہے مثلاً )۱( سیرت نصرت جہاں بیگم حصہ اول )مصنفہ شیخ محمود احمد صاحبؓ عرفانی مجاہد مصر مدیر الحکم ۔ طبع اول دسمبر ۱۹۴۳ء مطبوعہ انتظامی پریس حدر آباد )دکن( )۲( سیرت نصرت جہاں بیگم حصہ دوم )مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی الکبیر موسس الحکم تاریخ اشاعت ۲۵ جولائی ۱۹۴۵ء مطبوعہ انتظامی پریس حیدر آباد )دکن( )۳( نصرت الحق )ناشر چوہدری عبدالعزیز صاحب واقف زندگی مہتتم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ(۔
ان کتابوں کے علاوہ وہ وسط ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء میں رسالہ >مصباح< اور رسالہ >درویش< کے خصوصی نمبر آپ کے اخلاق و شمائل پر شائع کئے گئے۔
tav.13.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
جلسہ کراچی سے لیکر حضرت مصلح موعودؓ کے وضاحتی اعلان تک
دوسرا باب
جماعت احمدیہ کے جلسہ کراچی سے لیکر مسئلہ اقلیت سے متلعق حضرت مصلح موعودؓ کے وضاحتی اعلان تک
فصل اول
مرکزی تعلیمی اداروں کو ایک ضروری ہدایت الجزائری نمائندہ احتفال العلماء کی ربوہ میں آمد جماعت احمدیہ کا جلسہ کراچی` مخالف عناصر کا ہنگامہ اور پاکستان اور بیرونی ممالک میں اس کا وسیع ردعمل`
مرکزی تعلیمی اداروں کو ایک ضروری ہدایت
چونکہ سلسلہ احمدیہ کے مرکزی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کو علمی و اخلاقی اعتبار سے بہت بلند معیار پر ہونا چاہئے اس لئے حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے ۲ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/مئی ۱۹۵۲ء کو بذریعہ خطبہ جمعہ واضح ہدایت دی کہ ہمارے مرکزی سکولوں اور کالجوں کے منتظمین کا فرض اولین ہے کہ وہ آئندہ نسل کی ایسے بہترین رنگ میں تربیت کریں کہ وہ مستقبل میں اسلام کیلئے مفید وجود بن سکیں۔ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا:۔
>اساتذہ کا فرض ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہورہیں تو وہ ان کے ماں باپ سے مشورہ کریں اور ان کی اصلاح کی تدابیر سوچیں۔ مگر یہ طریق صرف انلڑکوں کے متعلق اختیار کیا جاسکتا ہے جو بورڈنگ میں نہیں رہتے۔ جو لڑکے بورڈنگ میں رہتے ہیں ان کی تو سو فیصدی ذمہ داری اساتذہ اور نگران عملہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہی ضرورت میں سمجھتا ہوں دینیات کے مدراس میں بھی ہے۔ وہاں بھی یہی غفلت پائی جاتی ہے۔ لڑکے تعلیم پارہے ہوتے ہیں اور ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بیس مبلغ تیار ہوجائیں گے مگر ہوتا یہ ہے کہ بیس بے دین یا بیس نکمے یا بیس نکارہ یا بیس جاہل پیدا ہوجاتے ہیں۔<
>استاد کا کام نہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے کورس کو پورا کرے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ زائد سٹڈی کروائے۔ کوئی طالب علم صحیح طور پر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کا مطالعہ اس قدر وسیع نہ ہو کہ وہ اگر ایک کتاب مدرسہ کی پڑھتا ہو تو دس کتابیں باہر کی پڑھتا ہو۔ باہر کا علم ہی اصل علم ہوتا ہے۔ استاد کا پڑھایا ہوا علم صرف علم کے حصول کیلئے ممد ہوتا ہے` سہارا ہوتا ہے` یہ نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعہ وہ سارے علوم پر حاوی ہوسکے۔ دنیا میں کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکتا اگر وہ اتنی ہی کتابیںپڑھنے پر اکتفا کرے جتنی اسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکتا اگر وہ اتنی ہی کتابیں پڑھنے پر اکتفا کرے جتنی اسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کوئی وکیل` وکیل نہیں بن سکتا اگر وہ صرف اتنی کتابوں پر ہی انحصار رکھے جتنی اسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کوئی مبلغ` مبلغ نہیں بن سکتا اگر وہ صرف انہی کتابوں تک اپنے علم کو محدود رکھے جو اسے مدرسہ میں پڑھائی جاتی ہیں۔ وہی ڈاکٹر` وہی وکیل اور وہی مبلغ کامیاب ہوسکتا ہے جو رات اور دن اپنے فن کی کتابوں کا مطالعہ رکھتا ہے اور ہمیشہ اپنے علم کو بڑھاتا رہتا ہے۔ پس جب تک ریسرچ ۱ ورک کے طور پر نئی نئی کتابوں کا مطالعہ نہ رکھا جائے اس وقت تک لڑکوں کی تعلیمی حالت ترقی نہیں کرسکتی۔<۲
الجزائری نمائندہ احتفل العلامء کی ربوہ میں آمد
کراچی میں >احتفال علماء اسلام< کا ایک سہ روزہ اجلاس ۱۶۔۱۷۔۱۸ فروری ۱۹۵۲ء کو منعقد ہوا جس میں مسلم ممالک کے ۴۳ علماء نے شرکت کی۔ ۲۱ علماء پاکستان کے تھے اور ۲۲ ایران` انڈونیشیا` عراق` افغانستان` مصر` شام` ہندوستان اور الجیریا سے تشریف لائے۔ اجلاس نے متفقہ قرار داد کے ذریعہ استعماری طاقتوں کو خبردار کیا کہ وہ کشمیر اور تمام دوسرے اسلامی ممالک کے متعلق اپنی پالیسی فوراً بدل میں ورنہ امن عالم خطرہ میں پڑ جائے گا۔ ۳
اجلاس میں الجزائر کی نمائندگی علامہ محمد بشیر الابراہیم الجزائری نے کی جو اس ملک کے ایک مقتدر عالم اور قریباً ۱۳۰ سکولون کے نگران و ناظم تھے۔ علامہ موصوف اجلاس کے بعد کراچی میں کچھ عرصہ قیام کے بعد ۵ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/ مئی ۱۹۵۲ء کو مرکز احمدیت میں تشریف لائے۔
جلسہ
آپ کے اعزاز میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ہال مین ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں ربوہ کے عربی دان بزرگ اور اصہاب خصوصیت سے شامل ہوئے۔ تلاوت قرآن عظیم کے بعد الجزائری مندوب کے ترجمان محمد عادل قدوسی صاحب نے آپ کا تعارف کرایا۔ پھر اہل ربوہ کی طرف سے مکرم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مبلغ بلاد عربیہ پرنسپل جامعہ احمدیہ نے خوش آمدید کہا۔ آپ نے سب سے پہلے معزز مہمان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ گرمی کے موسم میں سفر کے صعوبتیں برداشت کر کے ربوہ تشریف لائے جہاں نئی بستی ہونے کی وجہ سے نہ اشجاء ہیں نہ پانی کی کثرت اور نہ یہ کوئی بڑا شہر ہے گو انشاء اللہ بہت جلد ربوہ ایک بڑا شہر بن جائے گا لیکن فی الحال اس کی حیثیت ایک چھوٹی ہی بستی کی ہے جس میں شہروں جیسے آرام و سامان میسر نہیں آسکتے۔ ازاں بعد آپ نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کے تمام ممبر چھوٹے اور بڑے` مرد اور عورتیں سب کے دماغ میں صرف ایک ہی بات سمائی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانا اور تمام مسلمانوں کو وحدت کے رشتہ میں پرونا ہے۔
مولانا ابو العطاء صاحب کی تقریر کے بعد جناب علامہ محمد بشیر ابراہیمی نے الجزائری مسلمانوں کی فرانسیسی انقلاب کے خلاف تحریک آزادی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی جدوجہد آزادی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح طویل جدوجہد کے بعد الجزائر کو غلام سے نجات ملی۔
تقریر کا دوسرا حصہ تربیتی رنگ کا تھا جس میں اپ نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ مسلمان قوم پو جو آج کل نکبت و آدبار کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس قوم کے ساتھ کوئی دشمنی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلامی تعلیم بھلادی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان مسلمان نہیں رہے اور آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جہاں آپ یورپ میں اسلامی تعلیمات پھیلاتے ہیں وہاں مسلمانوں کی اصلاح کو مقدم کرین مین آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمان علماء کی حالت خصوصاً اعمال کے لحاظ سے نہایت ناگفتہ بہ ہے وہی ساری خرابی کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اسلام کی روح کو بھلا بیٹھے ہیں آپ کو ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔
آخر میں آپ نے فرمایا یہاں مین اجنبیت محسوس نہیں کرتا کیونکہ کثرت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو عربی زبان مادری زبان کی طرح بول سکتے ہیں۔
آپ کی تقریر کے بعد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے صدارتی خطاب میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور دعا پر یہ تقریب ختم ہوئی۔ ۴
جماعت احمدیہ کراچی کا سالانہ جلسہ
اب ہم اس سال کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر آن پہنچے ہیں جہاں سے حالات نے یکایک پلٹا کھایا اور اہل پاکستان عموماً اور جماعت احمدیہ پاکستان خصوصاً ایک سنگین اور تشویش انگیز صورتحال سے دو چار ہوگئے۔ واقعہ یوں ہوا کہ جماعت احمدیہ کراچی کا سالانہ جلسہ ۱۸۱۷ مئی بروز ہفتہ وار اتوار بعد نماز مغربہ جہانگیر پارک میں مقرر تھا جس کا اعلان دو پوسٹروں` ہینڈ بل اور دعوتی خطوط کے ذریعہ اچھی طرح سے کیا گیا۔ پوسٹروں کے شائع ہوتے ہی ایک طرف تو مسجوں میں تقریریں کر کے عوام الناس کو اشتعال دلانے اور جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے ہر ناجائز طریق استعمال کرنے کی ترغیب دلائی گئی` دوسری طرف ذمہ دار حکام پر تاروں وغیرہ کے ذریعہ زور دیا گیا کہ وہ اس جلسہ کے انعقاد کی اجازت نہ دیں لیکن اس میں صریح ناکامی ہوئی۔
پہلا اجلاس
پروگرام کے مطابق پہلے دن کے اجلاس میں تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد محترم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے افتتاحی خطاب فرمایا۔ اس کے بعد حسب ذیل موضوعات پر تقاریر ہوئیں:۔
۱۔ قرآن کریم کے کامل ہونے کے دلائل
مولانا ابو العطاء صاحب فاضل مبلغ بلاد عربیہ
۲۔ اتہاد بین المسلمین
ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف ہوگا۔
کیا یہ وہی زمانہ ہے جس میں مسیح موعودؓ مہدی مسعود کا ظہور مقدر تھا ؟
مولانا جلال الدین صاحب شمس مبلغ بلاد عربیہ و انگلستان
۴۔ حیات مسیح علیہ السلام کے عقیدہ سے اسلام کو کیا نقصان پہنچا ہے ؟
سید احمد علی شاہ صاحب سیالکوٹی
صاحب صدر کی تقریر شروع ہوتیے ہی بعص لوگوں نے آوازے کسنے` نعرے لگانے اور گالیاں دینی شروع کردیں۔ پولیس نے ان لوگوں کو جو ایک پروگرام کے ماتحت جلسہ گاہ کی مختلف سمتوں میں پھیلے ہوئے تھے ایک طرف دھیکلنا شروع کیا تاکہ انہیں جلسہ گاہ کے باہر نکال دے لیکن جب یہ لوگ تشد پر اتر آئے اور پولیس پر بھی پتھرائو شروع کردیا تو پولیس کو مجبوراً لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ ہر تقریر کے دوران شر پسند باہر والوں کو اکسا کر اندر لے آتے اور پھر شور مچانا شروع کردیتے جس سے ان کی غرض یہ ہوتی کہ تقریریں نہ ہوسکیں اور جلسہ بند ہوجائے لیکن جب اس مقصد میں کامیابی نہ ہوسکی تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ آوازے کسے` نعرے لگائے بلکہ سخت سے سخت گندی اور فحش گالیان دیں ` تالیاں پسٹیں سیٹیاں بجائیں اور رقص کرنا شروع کردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ مولانا ابو العطاء صاحب قرآن کریم کے کامل ہونے کے دلائل بیان کررہے تھے۔ اس ہنگامے آرائی کے باوجود سامعین جلسہ خصوصاً غیر از جماعت معززین اور شرفاء جو محض تقریریں سننے کی غرض سے تشریف لائے ہوئے تھے آخر تک نہایت دلچسپی اور ذوق و شوق کے ساتھ تقیریریں سنتے رہے۔
اس کے بعد جونہی صاحب صدر نے اجلاس اول کی کارروائی کے خاتمہ کا اعلان کیا ایک جبتھہ آگے بڑھا اور ان رسیوں کو جو پولیس نے سٹیج کے گرد بغرض حفاظت باندھی تھیں پھلانگ کر سٹیج پر حملہ کرنا چاہا۵ جس پر پولیس کی ایک بڑی جمعیت نے اندر جانے سے روک دیا۔ اس موقعہ پر ان لوگوں نے پولیس پر پتھر وغیرہ پھینکے اور مقابلہ کیا لیکن پولیس نے انہیں پیچھے ہٹا دیا اور ان کا ایک آدمی بھی حفاظتی لائن کے اندر داخل نہ ہوسک۔ اس ہنگامہ میں جماعت کے بعض احباب کو بھی جنہیں یہ حکم تھا کہ وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہیں پولیس کے لاٹھی چارج سے چوٹیں آئیں۔ اس سے قبل بجلی کی تاریں کاٹ دی گئیں۔ لائوڈ سپیکر گرا دیا گیا لیکن چونکہ سٹیج پر لائوڈ سپیکر ٹھیک کام کررہا تھا اس لئے وہ اپنی اس حرکت سے بھی جلسہ کو خراب نہ کرسکے جلسہ ختم ہونے کے بعد لوگ باہر جانے لگے تو بعض احمدیوں کی کاروں پر بلکہ اس کا کار بھی جس میں علماء کرام تشریف لے جارہے تھے۔ پتھر پھینکے گئے جس سے کاروں کے شیشے ٹوٹ گئے اور بعض کو سخت نقصان پہنچا۔
دوسرا اجلاس
دوسرے دن اتوار کی صبح کو ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ صاحب نے جہانگیر پارک کے چاروں طرف آدھ آدھ میل تک دفعہ ۱۴۴ نافذ کردی اور تمام شہر میں اعلانکرایا کہ احمدیہ جماعت کا جلسہ جہانگیر پارک میں بدستور منعقد ہوگا لیکن پارک کے اردگرد دفعہ ۱۴۴ نافذ کردی گئی ہے کوئی آدمی لاٹھی وغیرہ ساتھ لے کر نہ آئے اور پانچ سے زائد آدمی باہر جمع نہ ہوں۔ دوسرے دن کے جلسہ میں تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد حسب ذیل موضوعات پر تقاریر ہوئیں:۔
۱۔ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات
مولانا عبدالمالک خان صاحب
۲۔ آنحضرت~صل۱~ کے فیاص` احمدیہ نقطہ نگاہ سے
مولانا ابو العطاء صاحب
coll1] ga[t۳۔ اسلام زندہ مذہب ہے۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان
۴۔ مخالفین احمدیت کے اعتراضات کے جوابات۔
مولانا جلال الدین صاحب شمس
اجلاس دوم میں بھی شور و غوغا بلند کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی۔ بایں ہمہ جلسہ کی کارروائی بدستور جاری رہی۔ اس روز سامعین کی تعداد سات آٹھ ہزار کے قریبتھی جلسہ میں چیف کمشنر صاحب آئی جی پولیس ` سپرنٹنڈنٹ` ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس` ڈسٹرکٹ اور ایڈیشنل میجسٹریٹ وغیرہ اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر۵ شروع ہوتے ہی باہر کے لوگوں کو اندر آنے سے روک دیا گیا اور ان لوگوں کو جو ایک بھاری تعداد میں باہر جمع ہو کر نعرے لگارہے تھے اور شور مچارہے تھے` پولیس نے سمجھایا کہ دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت ان کا وہان آنا خلاف قانون ہے لیکن اس کا الٹ نتیجہ برآمد ہوا اور غضب ناک ہجوم تشدد پر اتر آیا مجبوراً پولیس کو بھی کئی بار اشک آور گیس استعمال کرنا پڑی جس کے بعد بلوائیوں نے شیزان ہوٹل کو آگ لگادی` شاہنواز موٹر کے شوروم پر سنگباری کر کے شیشے توڑ دیئے اور نئی موٹروں کو نقصان پہنچایا ` احمدیہ فرنیچر ہائوس میں آگ لگادی۔ بلوائیوں نے بند روڈ پر احمدیہ لائبریری اور احمدیہ ہال )احمدیہ مسجد( کو بھی جلانے کی کوشش کی اور گو فائر بریگیڈ نے موقع پر پہنچ کر آگ بجھا دی لیکن اس کے باوجود ان مقامات پر ہزاروں روپے کا نقصان ہوگیا۔ اس وقت اکے دکے احمدیوں کو بھی ظلم کا تختہ مشق بنایا گیا۔ ایک نوجوان کے سر پر سخت چوٹیں آئیں۔ ایک احمدی نوجوان پر چاقو سے قاتلانہ حملہ کیا گیا مگر وہ خدا کے فضل سے محفوظ رہے۔
احمدیوں کا صبر و تحمل
0] [rtfاس نہایت دل آزار اور اشتعال انگیز فضا میں احمدیوں نے صبر و تحمل اور اطاعت و فرمانبرداری کا جو نمونہ دکھایا وہ اپنی نظیر آپ تھا فحش گوئی اور گالیوں کی بوچھاڑ میں بھی ہر احمدی نے قانون کا احترام ضروری سمجھا اور شروع سے آخر تک پورے وقار کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ کر قال اللہ اور قال الرسول کی اس پاکیزہ مجلس سے ہر ممکن استفادہ کیا۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی ایمان افروز تقریر
جلسہ کراچی کے موقعہ پر علماء سلسلہ کی تقاریر نہایت بلند پایہ اور پراز معلومات تھیں خصوصاً چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا خطاب بہت ایمان افروز تھا جس میں آپ نے علمی اور واقعاتی دلائل سے روز روشن کی طرح ثابت کیا کہ دنیا میں صرف اسلام ہی زندہ مذہب ہے آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم~صل۱~ کو نہ صرف صاحب شریعت نبی بنایا بلکہ آپ کو خاتم النبین کا بے مثال مقام عطا فرمایا اور وہ کتاب بخشی جو مختصر سی کتاب ہونے کے باوجود معانی و مطالب میں غیر محدود ہے اور ایک صحیفہ میں گویا کئی سمندر بند ہیں۔ ان حقائق پر روشنی ڈالنے کے بعد آپ نے قرآن مجی کی اس خصوصیت کو پیش کیا کہ خدا تعالیٰ نے اس کے نزول کے ساتھ ہی اس کی لفظی` لغوی اور معنوی ہر اعتبار سے حفاظت کا وعدہ فرمای جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:۔
انا نحن نزلنا الذکر ونالہ لحفظون ۷
میں نے ہی اس ذکر کو نازل کیا اور میں ہی اس کی حفاظت کروں گا۔
قرآن مجید کی معنوی حفاظت کے صمن میں آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے منظوم اور عارفانہ کلام میں سے متعدد اشعار پڑھے جن میں حضرت اقدس علیہ السلام نے نہایت وجد آفریں اور روح پرور انداز مین خدا تعالیٰ ` قرآن مجید` خاتم الانبیاء محمد مصطفٰے~صل۱~ اور اسلام کے فضائل و محاسن کا تذکرہ فرمایا ہے۔
چوہدری صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں واصح فرمایا کہ احمدیت خدا کا لگایا ہوا پودا ہے۔ یہ پودا قرآنی وعدہ کے عین مطابق اسلام کی حفاظت کے لئے لگایا گیا ہے اور اس غرض سے لگایا گیا ہے تا اس زمانہ میں بھی اسلام کا زندہ مذہب ہونا` قرآن کا زندہ کتاب ہونا اور خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ رسول ہونا پوری دنیا پر ظاہر ہوجائے۔
>تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں جلسہ کراچی کا ذکر
جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے رپورٹ تحقیقاتی عدالت ۱۹۵۳ء میں جلسہ کراچی اور چوہدری صاحب کی تقریر کا خاص طور رپ ذکر کیا ہے چنانچہ لکھا ہے:۔
>کراچی میں اشتہار دیا گیا کہ انجمن اہمدیہ کراچی کا ایک جلسہ۱۸۱۷ مئی ۱۹۵۲ء کو جہانگیر پارک میں منعقد ہوگا اور اس میں دوسرے مقررین کے علاوہ چوہدری ظفر اللہ خان بھی تقریر کریں گے اگرچہ یہ جلسہ انجمن احمدیہ کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا لیکن یہ جلسہ عام تھا جس میں جمہور کا کوئی فرد بھی تقریر سننے کیلئے شریک ہوسکتا تھا۔ اس جلسے سے چند روز پہلے کواجہ ناظم الدین وزیراعظم نے اس امر کے خلاف اپنی ناپسندی کا اظہار کیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان نے ایک فرقہ وار جلسہ عام میں شرکت کا ارادہ کیا ہے لیکن چوہدری ظفر اللہ نے خواجہ ناظم الدین سے کہا کہ میں انجمن سے وعدہ کر چکا ہوں اگر چند روز پہلے مجھی یہ مشورہ دیا جاتا تو میں جلسی میں شریک نہ ہوتا لیکن وعدہ کر لینے کے بعد میں اس جلسہ میں تقریر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اور اگر اس کے باوجود بھی وزیراعظم اس بات پر مصر ہوں کہ مجھے جلسے میں شامل نہ ہونا چاہئے تو میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کو تیار ہوں۔
اس جلسے کے پہلے اجلاس پر عوام کی طرف سے ناراضی کا مظاہرہ کیا گیا اور اجلاس کی کارروائی میں مداخلت کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن ۱۸ مئی کو قیام امن کیلئے خاص انتظامات کئے گئے اور چوہدری ظفر اللہ خان نے اس عنوان پر تقریر کی کہ >اسلام زندہ مذہب ہے۔< ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت سے اسلام کی برتری اور ختمیت کے مسئلے پر یہ ایک فاضلانہ تقریر تھی مقرر نے واضح کیا کہ قرآن آخری الہامی کتاب ہے جس میں عالم انسانیت کے لئے آخری ضابطہ حیات مہیا کیا گیا ہے کوئی بعد میں آنے والا ضابطہ اس کو موقوف نہیں کرسکتا پیغمبر اسلام صلعم خاتم النبین ہیں جنہوں نے عالم انسانی کو اللہ کا آخری پیغام پہنچایا ہے اور اس کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت کا حامل ہو یا قرآنی شریعت کے کسی قانون کو منسوخ کرسکے۔ احمدیوں کے مسلک کے متعلق پوری تقریر میں صرف اتنا اشارہ کیا گیا تھا کہ )رسول اللہ کے( وعدہ کے مطابق ایسے اشخاص آئے رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے خود لگایا ہے اور اب جڑ پکڑ گیا ہے تاکہ قرآن کے وعدے کی تکمیل میں اسلام کی حفاظت کا ضامن ہو۔4]< fts[۸
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا بیان
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اپنی خود نوشت سوانح عمری میں واقعہ کراچی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
۱۹۵۲ء کے جماعت احمدیہ کراچی کے سالانہ جلسے میں مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا گیا تھا میں نے اپنی تقریر کا عنوان >اسلام زندہ مذہب ہے< انتخاب کیا۔ جب جلسے کا دن قریب آیا تو بعض عناصر کی طرف سے جلسے کے خلاف اور خصوصاً میرے تقریر کرنے کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ جلسے کے دن تک یہ مخالفت بظا ایک منظم صورت اختیار کر گئی۔ میں نے تقریر کی۔ دوران تقریر میں کچھ فاصلے سے مشورہ شغب کے ذریعے جلسے کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش جاری رہی کچے آوازے بھی کئے گئے۔ تقریر کے بعد میں اپنے مکان پر واپس آگیا۔ جہاں تک علم ہے گو کسی قدر بدمزگی تو پیدا کی گئی۔ لیکن الحمدلل¶ہ کوئی فساد نہیں ہوا۔
وقتاً فوقتاً جماعت احمدیہ کے جلسوں یا دیگر سرگرمیوں کے خلاف مختلف مقامات پرجوش کا مظاہرہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں جہاں کہیں ایسی صورت پیدا ہوتی رہی جماعت کا ردعمل بفضل اللہ امن پسندی کا رہا۔ جماعت کی طرف سے کبھی خلاف وقار یا موجب اشتعال کارروائی یا حرکت ظہور میں نہیں آئی نتیجہ ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ وہ چار روز میں مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا۔ اس موقعہ پر خلاف معمولی ایک تو متعدد عناصر نے مل کر مخالفت کا ایک محاذ قائم کر لیا اور دوسرے مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑنے کی بجائے زور پکڑتا گیا اور بعض دوسرے مقامات پر بھی تائیدی مظاہرے شروع ہوگئے۔ رفتہ رفتہ اس محاذ کی طرف سے ایک فہرست مطالبات کی تیار کی گئی اور کثرت سے عوام کے دستخطوں کے ساتھ بذریعہ ڈاک حکومت کو پہنچائی جانے لگی یہ سلسلہ جاری تھا کہ میں اقوام متحدہ کی اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک چلا گیا۔ میری غیر حاضری میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل کا تو مجھے کوئی ذاتی علم نہیں کیونکہ اس نوع کی بہت کم کوئی خبر مجھے امریکہ پہنچی لیکن واپسی پر معلوم ہوا کہ یہ تحریک بہت زور پکڑ چکی ہے۔
امریکہ جانے سے پہلے بھی اور امریکہ سے واپسی کے بعد بھی میں نے خواجہ ناظم الدین صاحب کی خدمت میں گذارش کی کہ اگر میرے وزارت خارجہ سے علیحدہ ہوجانے سے آپ کیلئے سہولت ہوجاتی ہے تو میں آپ کی خدمت میں اپنا استعفٰے پیش کردیتا ہوں لیکن خواجہ صاحب نے اسے پسند نہ فرمایا بلکہ کہا کہ تمہارا استعفیٰ دینے سے مشکل حل نہیں ہوگی بلکہ اور بڑھے گی۔ جو صورت حال پیدا کردی گئی وہ ہر چند مجھ پر گراں تھی لیکن >اقامتہ فی امام اقام اللہ< )جہاں اللہ کھڑا کرے وہاں قائم رہنا( کا مقدس ارشاد اور فرض کی ادائیگی کا احساس ترک خدمت کے رستے میں روک تھے۔< ۹
جماعت احمدیہ کے خلاف تین مطالبات
تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب کے فاضل ججوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے >احراریوں نے اس موقعہ سے جس کا وہ مدت سے انتظار کررہے تھے خوب فائدہ اٹھایا۔۱۰ اس سلسلہ میں احرار نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ کراچی میں ہی مختلف علماء کو فوراً جمع کر کے خفیہ مشورہ کیا اور ۲ جون ۱۹۵۲ء کو ایک کانفرنس میں مندرجہ ذیل مطالبات تشکیل دیئے:۔
۱۔ احمدی غیر مسلم اقلیتی قرار دیئے جائیں۔
۲۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ کے عہدہ سے برطرف کئے جائیں۔
۳۔ احمدیوں کو تمام کلیدی آسامیوں سے ہٹا دیا جائے۔
پس منظر
جو مطالبات ایک اسلامی مملکت کے اندر آتش زنی` ہلڑ بازی اور قانون شکنی کی کوکھ سے جنم لیں ان کے صحیح خدوخال کا پہچاننا چنداں مشکل نہیں تاہم مذکورہ مطالبات کے حقیقی پس منظر کو سمجھنے کیلئے پاکستان کے ایک سوشلسٹ ادیب عبداللہ ملک صاحب کا مندرجہ ذیل تجزیہ بہت ممدو معاون ہوگا۔ آپ لکھتے ہیں:۔
>قادیانیوں کے خلاف مجلس احرار کی تحریک کو ایک مذہب تحریک کے طور پر سمجھنے کی کوشش ہمیشہ کی جاتی رہی ہے لیکن تمام تقدس کے باوجود یہ مذہبی تحریکیں سیاسی اور اقتصادی تقاضوں` خواہشات اور ضرورتوں کیلئے اپر کا خول ہوتی ہیں کبھی یہ تحریکیں عوامی خواہشات کا مظرہ بن جاتی ہیں تو کبھی یہ بدترین قسم کے رجعت پسند طبقون کے ہاتھ کا ہتھیار بن جاتی ہیں چنانچہ خود احرار کے قائد بھی اس تحریک کے سیاسی تقاضوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے۔< ۱۱
عبداللہ ملک صاحب کے اس نظریہ کی مکمل تائید خود زعمائے احرار کے مستقل عقیدہ و مسلک سے بھی ہوتی ہے چنانچہ مفکر احرار >چوہدری افضل حق صاحب >فتنہ قادیان< کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں:۔
>لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ احرار کو کیا ہوگیا کہ مذہب کی دل دل میں پھنس گئے یہاں پھنس کر کون نکلا جو یہ نکلیں گے؟ مگر یہ کون لوگ ہیں وہی جن کا دل غریبوں کی مصیبوں سے خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ مذہب اسلام سے بھی بیزار ہیں اس لئے کہ اس کی سار تاریخ شہنشاہیت اور جاگیرداری کی دردناک کہانی ہے۔ کسی کو کیا پڑی کہ وہ شہنشاہیت کے خس و خاشاک کے ڈھیر کی چھان بین کر کے اسلام کی سوئی کو ڈھونڈے تاکہ انسانیت کی چاک دامانی کارفو کرسکے۔ اس کے پاس کارل مارکس کے سائنٹفک سوشلزم کا ہتھیار موجود ہے وہ اس کے ذریعہ سے امراء اور سرمایہ داروں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اسے اسلام کی اتنی لمبی تاریخ سے چند سال کے اوراق کو ڈھونڈ کر اپنی زندگی کے پروگرام بنانے کی فرصت کہاں ؟ <۱۲
احراری لیڈروں نے اسی بناء پر متحدہ ہندوستان میں اعلان کیا تھا:۔
>اسلام کے باغی پاکستان سے نم اس ہندو ہندوستان کو پسند کریں گے جہاں نماز روزہ کی اجازت کے ساتھ اسلام کے باقی عدل و انصاف کے پوگرام کے مطابق نظام حکومت ہوگا یعنی ہر شخ کو صرف رسول کریم~صل۱~ اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ کی زندگی کی پیروی میں محض ضروریات زندگی مہیا کی جائیں گی اور کسی کو کسی دوسر پر سیاسی یا اقتصادی فوقیت نہ ہوگی۔<
>امراء اور سلاطین کو لوٹ کھسوٹ سے لوگوں کو بچانا پیغمبر~صل۱~ کا مشن تھا۔ پس اگر محمد علی جناح اسلام کے اقتصادی اور سیاسی نظام کے خلاف کسی سرمایہ داری کے نظام کو چلائے تو نفع کیا اور اگر جواہرالعل اور گاندھی خلفائے راسدین کی پیروی میں سوسائٹی میں نابرابری کے سارے نقوش کو مٹاتے چلے جائیں تو بطور مسلمان کے ہمیں نقصان کیا؟<۱۳
پھر لکھا:۔
>مجلس احرار کا ہر دستور عمل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کیا جاتا ہے اس لئے پاکستان کے مسئلے پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اسلام دنیا میں کسی قسم کی جغرافیائی تقسیم یا وطنوں کا تعین کرنے نہیں آیا ہم وطنی تقسیم کے قائل نہیں ہم تو صرف ایک ہی تقسیم کے قائل ہیں اور وہ ہے دولت کی منصفانہ تقسیم۔< ۱۴
چیف کمشنر کراچی کی پریس کانفرنس
مندرجہ بالا احراری مسلک و عقیدہ کی روشنی میں ہنگامہ کراچی کا اصولی پس منظر بیان کرنے کے عبد اب ہم اس کے اندرون و بیرون ملک ردعمل کی طرف آتے ہیں اور سب سے پہلے یہ بتاتے ہیں کہ جلسہ کے اگلے روز ۱۹ مئی کو کراچی کے چیف کمشنر مسٹر ابو طالب نقوی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:۔
>انجمن احمدیہ کراچی کے زیر انتظام دو جلسے ہوئے۔ پولیس کی اطلاع کے مطابق ان جلسوں میں گڑبڑ کا اندیشہ تھا اس لئے جہانگیر پارک میں پولیس کی جمعیت تعینات کردی گئی تھی۔ ۱۷ مئی کو حسب معمول گڑ بڑ ہوئی اور جو لوگ گڑ بڑ کے ذمہ دار تھے انہیں گرفتار کر کے تھانے پہنچا دیا گیا۔ اس رات کو جلسہ گاہ میں پتھرائو بھی ہوا تھا جس سے پولیس کے ۲۱ سپاہی زخمی ہوئے۔ گرفتار شدگان کو جلسہ ختم ہونے ے بعد رہا کردیاگیا تھا۔ ۱۸ مئی کو جلسہ گاہ سے باہر ہنگامہ ہوا اور ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کو حکم ہوا اور گیس استعمال کرنا پڑی۔ جس ہجوم کو پولیس نے جہانگیر پارک کے قریب منتشر کیا تھا اس نے شیزان ریسٹورنٹ کے شیشے وغیرہ توڑ ڈالے اور اندر گھس کر فرنیچر کو آگ لگانے کی ناکام کوشش کی۔ اس کے بعد ہجوم نے شاہ نواز موٹرز کمپنی کی دکان کے شیشے توڑے اور احمدیہ فرنیچر اسٹور کو آگ لگادی جس سے ایک ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ کل رات کے ہنگامہ میں کل ساٹھ آدمی گرفتار ہوئے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ہجوم کا رویہ بہت زیادہ قابل اعتراض تھا اور وہ اپنے اس رویہ کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکتے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر پاکستانی کو قانونی حدود میں رہت ہوئے اپنے مذہب اعتقادات پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ قادیانیوں کے ان دونوں جلسوں کی کارروائی پولیس کے رپورٹروں نے قلم بند کی ہے اور اگر مقررین نے اپنی تقاریر میں کوئی قابل اعتراض بات کہی ہے تو حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے گی لیکن کسی شہری کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرے۔ میں یہ تہیہ کرچکا ہوں کہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا چیف کمشنر نے بتایا کہ ان کے پاس جلسے سے کئی روز قبل اس قسم کے تار آئے تھے کہ جلسے میں گڑ بڑ ہوگی اور ان کا خیال تھا کہ اس گڑ بڑ میں کسی جماعت کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا گرفتار ہونے والوں میں مجلس احرار کے چند کارکن ہیں اور اس امر کی تحقیق ہورہی ہے کہ اور کسی جماعت اس میں ہاتھ ہے یا نہیں۔ مسٹر نقوی نے کہا >غنڈوں اور کرایہ کے آدمیون کے ذریعہ ہنگامہ کرایا گیا تھا انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جن اشخاص یا جماعتوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ لوگوں کو اس قسم کا ہنگامہ کرنے پر اکسایا تھا ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی چیف کمشنر نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر کراچی میں ہندو کوئی جلسہ کر کے اسلام پر تبصرہ کریں تو حکومت انہیں اس کی اجازت دے گی ؟ >کہا< ضرور بشرطیکہ وہ قانونی حدود سے باہر نہ جائیں۔< ۱۵
کراچی بار ایسوسی ایشن کا متفقہ بیان
کراچی بار ایسوسی ایشن کے ۴۷ وکلاء نے چیف کمشنر صاحب کراچی کی پالیسی کی تائید میں متفقہ طور پر حسب ذیل بیان جاری کیا:۔
>۱۔ ہم مندرجہ ذیل دستخط کنندگان ممبران انجمن وکلاء کراچی نے بعض معتصب افراد کے نہایت ہی افسوسناک اور ناخوشگوار رویہ اور اس سے پیدا شدہ غنڈہ گردی کے متعلق چیف کمشنر صاحب صوبہ کراچی و دیگر اداروں کے متعدد بیانات پر انتہائی غورو خوض کیا ہے۔
۲۔ پاکستان جو انجام کار ایک خالص اسلامی مملکت یا سیکولر سٹیٹ بنے` اس کا قیام اس بات کی ضمانت اور مسلم لیگ کی یقین دہانی پر ہوا تھا کہ پاکستان مختلف اقلیتوں اور فرقہ جات کے تمام جائز حقوق کی حفاظت کرے گا لٰہذا اب حکومت کا یہ مقدس فرض ہے کہ وہ ان تمام مواعید اور یقین دہانیوں پر کاربند رہے۔ کوئی مملکت اپنی ہستی کے قیام کا ثبوت جھوٹے بیانات اور بہانہ تراشیوں سے نہیں دے سکتی۔
۳۔ ہر قسم کی جمہوریت جس کا دستور تحریری ہو یا غیر تحریری۔ ہر شہری کو بلا لحاظ عقیدہ` رنگ ` مذہب اور ملت تقریر و تحریر جدوجہد اور مذہبی رسومات کی بجا آوری کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے اب ان وعدوں کا احترام نہ کرنا جو اس و قت کئے گئے جب پاکستان جملہ مسلم فرقوں کی متحدہ جدوجہد سے حاصل کیا جارہا تھا ایک اخلاقی اور مذہبی جرم ہے۔
۴۔ ہر اچھی حکومت کا سب سے مقدم کام یہ ہے کہ وہ اپنے آہنی اور مضبوط ذرائع سے لاقانونیت` غنڈہ گردی اور تباہ کن سرگرمیوں کا قلع قمع کرے۔ چاہے وہ کسی شکل میں یا کسی طبقہ سے نمودار ہوں ایسے اقدامات مملکت کے مختلف شہریوں کے دل میں اعلیٰ انتظام مملکت کی بابت اعتماد اور وثوق کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے اور بھی زیادہ ضروری ہیں۔
۵۔ ایک اعلیٰ حکومت کے بقاء کا انحصار صرف اس کے دلکش فلسفہ اور نظریات پر نہیں ہوتا جو اوراق پر مکتوب ہوں یا لاسلکی سے نشر کئے جائیں بلکہ اس کا انحصار ہر فرد چاہے وہ اقلیتی فرقہ سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہو` کے اس درجہ ایقان پر ہے جو اسے ملکی قوانین کی رو سے اپنے اظہار خیالات اور عملی جدوجہد کی ادائیگی کیلئے دیئے گئے قانونی حقوق کے متعلق حاصل ہے۔
۶۔ ہمیں علاقی دارالحکومت میں جو پاکستانی قوم اور اس کے احساس کا مظہر ہے کسی غنڈ گردی کو برداشت نہیں کرنا چاہئے۔
۷۔ اگر مختلف فرقوں کے درمیان جذبات منافرت کو پھیلانے کی اجازت دی گئی تو یہ مملکت کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
۸۔ یہ ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ وقت کی نزاکت اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستان کے شہریوں میں ایسی حالت میں جب کہ ہم دشمنوں سے گھرے ہوئے ہیں اتحاد کے جذبات کی ہمت افزائی کی جائے اور اندرون مملکت ایک مضبوط چٹان کی مانند یک جہتی پیدا کی جائے۔
۹۔ ہر گروہ سے جو کسی حیلہ سے پھوٹ پیدا کرے مذہبی اختلافات کی آگ کو ہوا دے کر انارکی پھیلائے مملکت کے انتہائی خطرناک دشمن کا سا سلوک کیا جائے۔
۱۰۔ ہم عوام سے مستدعی ہیں کہ وہ ہر گمراہ کن تحریک سے اجتناب کریں جو ملک کے اتحاد کو کمزور اور اس کی پرسکون فضا کو زہر آلود کرے۔
۱۱۔ ہم چیف کمشنر صاحب صوبہ کراچی کے امن اور قانون کی برقراری کے سلسلہ میں اختیار کئے گئے طرز عمل اور بیان کی پر زور حمایت کرتے ہیں جو انہوں نے اس مقصد پر قیام امن کے بارے میں دیا ہے۔
دستخط ایڈووکیٹ و وکلاء صاحبان
)۱( سید بشیر احمد رضوی )۲( ثروت حسین )۳( فاروقی صاحب )۴( محمد معجز علی )۵( ایم۔اے حسینی )۶( زیڈ ایچ نقوی )۷( ایس علی حسین )۸( عبدالحکیم خان )۹( ایم خان )۱۰( انعام الحق )۱۱( شیخ عبدالغنی )۱۲( اے` ایچ قریشی سیکرٹری )۱۳( ایس۔ ایم ۔ ایس حسینی )۱۴( ایس حسن علی رضوی )۱۵( آسانند جوشی )۱۶( ایس جعفر حسین )۱۷( ایم۔ آر ۔ عباسی )۱۸( پی` ایف کھلنانی۔ )۱۹( ایس۔ایم احمد )۲۰( مسٹر رضا )۲۱( سید ممتاز الدین )۲۲( قاضی خورشید علی )۲۳( شبیر حسین )۲۴( نصیر حسین )۲۵( آغا علی حیدر )۲۶( محمد علی خاں )۲۷( کبیر الدین خاں )۲۸( محمد جلال الدین )۲۹( فیض الجلیل )۳۰( مسٹر کرمانی )۳۱( پی اے مین والا )۳۲( محمد حسن صدیقی صدر )۳۳( ایس ایم نور الحسن )۳۴( افتخار الدین )۳۵( عبدالمجید )۳۶( حافظ محمد صدیقی )۳۷( ایم نجم الدین قریشی )۳۸( حیدر حسین )۳۹( محمد دائود )۴۰( سید اے رفیق سابق صدر )۴۱( حیات احمد خاں۔ )۴۲( ایم فصیح الدین )۴۳( ایم ایس قریشی )۴۴( عبدالمجید خاں )۴۵( عبدالرئوف )۴۶( سید معزز حسین )۴۷( کے اے قدوائی۔
حادثہ کراچی اور پاکستان کا محب وطن پریس
حادثہ کراچی اور کنونیشن کا ردعمل مغربی پاکستان کے محب وطن اور متین و سنجیدہ پریس پر بھی نہایت شدید ہوا اور نہ صرف کراچی بلکہ دوسری صوبوں کے اخبارات نے بھی اس کی پر زور مذمت کی بلکہ کراچی کے بعض اخبارات نے تو خدشہ ظاہر کیا کہ اس ہنگامہ آرائی کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ کام کررہا ہے اور کسی بیرونی سازش کا نتیجہ ہے۔
مشہور مسلم لیگی راہ نما سردار شوکت حیات کا کہنا ہے >تحریک ختم نبوت بھی ایک سازش کا نتیجہ تھی۔ یہ تحریک مرکزی حکومت کے سی ایس پی افسروں نے چلائی۔<۱۶
ذیل میں بطور نموننہ بعض >اخبارات و رسائل کے تبصرے درج کئے جاتے ہیں۔
کراچی
۱۔ کراچی کے ہفتہ وار اخبار >ایوننگ اسٹار< نے ۲۴ مئی ۱۹۵۲ء کو صفحہ اول پر ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا
Riots> Karachi Directed <Who )کراچی کا بلوہ میں کس کا ہاتھ تھا ؟(
اس مضمون کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
Hand Foreign
Riots Karachi Directed Who
Man)۔Karachi `STAR' (From
sporadic the behind hand foreign some sense here Observers resulted and Conference Ahmadia the greeted that disturbances feature a unpleasantness of much and injuries arrests, several in ۔calm characteristic Karachi's defaced never dah which
rather considered is demonstrations ugly such of time The inspired۔American obviously the after immediately۔۔significant۔flopped miserably so had Tamasha O P M
was O P M the way the about bitter very are Americans The Pakistan in press and public the by only not insulted and ignored to due considered was it of Much ۔Goverenment the by also but ۔Zatrullah ۔Ch Minister, Foreign the
opportunity better a got have not could Americans aggrieved The ۔Minister Foreign the dislike to public the induce to exploit to the of ruins the on almost held being is Conference Ahmadi The ۔dismantling of process the in only still is Pandal O P M The ۔۔O P M had has Zafrullah Chaudhri Park, Jehangir same the in here just And ۔life his in demonstration ever۔hostile۔most the perhaps face to
۔S۔U the perhaps that fact the of evidence increasing is There the playing۔ever are country this in missions and Offices recognsed interntionally the within play to entitled are they part had sah ۔S۔U weeks several last the During ۔diplomacy of sphere the in comment pleasant so not of stream increasing an face to ۔offcial semi or offcial be to considered is what particulary Press,
the at witness to had has Karachi that spectacle The ruliness۔un such was before Never ۔shocking been has Park beenJehangir have charges Lathi and gassing۔Tear ۔city this in seen۔town this to alien parcically
religious a was occasion the that is worse it makes What probably was, inspiration that fact eht from Apart ۔byconference disrupted being conference one of sight ugly the troubleforeign, off ward to vain in trying police and camp hostile another ۔country any of capital the to insult an was
1371 29, Shaban 1952 , 24 May 37, ۔No 2 ۔Vol ۔Exclusive `STAR'
احمدیہ کانفرنس کے دوران جو اکا دکا فسادات ہوئے اور جن کے نتیجہ میں کئی گرفتاریاں ہوئیں۔ کئی لوگ زخمی ہوئے اور ایسے ناخوشگوار اور حالات پیدا ہوئے جن سے کراچی کا پرسکون ماحول کبھی آلودہ نہ ہوا تھا مبصرین سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ کام کررہا ہے۔
ان بدنما مظاہروں کیلئے جو وقت منتخب کیا گیا وہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اور یہ وہ وقت تھا جب کہ امریکی شہ پر منعقدہ O P M تماشا بری طرح ناکام ہوچکا تھا۔
جس طریق پر O P M کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی تذلیل کی گئی۔ نہ صرف عوام اور پریس کی طرف سے بلکہ حکومت کی طرف سے بھی امریکنوں کو یہ بہت تلخ محسوس ہوا ہے۔ غالب خیال یہی کیا جاتا ہے کہ وزیر خارجہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کی وجہ سے ہوا ہے۔
زخم خوردہ امریکنوں کیلئے اس سے بہتر اور کوئی موقع نہ مل سکا کہ وہ عوام کو وزیر خارجہ کے خلاف بھڑکا سکیں۔
احمدیہ کانفرنس کلیت¶ہ O P M کے کھنڈرات پر منعقد ہورہی ہے۔ O P M کا پنڈال ابھی تک گرایا جارہا ہے اور اسی جہانگیر پارک میں ہی چوہدری ظفر اللہ خان کو اپنی زندگی کا بدترین مظاہرہ دیکھنا پڑا۔
اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ امریکن سفارت خانہ اور ان کے قونصل خانے اس ملک میں ہمیشہ وہی کردار ادا کرتے رہے ہیں جو بین الاقوامی سیاست کے حلقوں میں ادا کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے سے امریکنوں کو سرکاری یا نیم سرکاری پریس کی ناخوشگوار تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جہانگیر پارک میں کراچی کو جو نظارہ دیکھنا پڑا وہ سخت وحشت ناک تھا۔ شہر میں اس قدر بے لگامی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ آنسو گیس یا لاٹھی چارج اس شہر میں عملی طور پر کبھی دیکھنے میں نہیں آئے جو بات اسے اور بھی بدتر بنارہی ہے وہ یہ کہ یہ ایک مذہبی کانفرنس کا موقعہ تھا۔ باوجود اس امر کے کہ اس کے پیچھے ایک غیر ملکی ہاتھ تھا ایک بدنما داغ یہ ہے کہ ایک مخالف گروہ ایک کانفرنس درہم برہم کررہا ہے اور پولیس ہنگامہ کو فرد کرنے کی کوشش کررہی ہے جو ایک ملک کے دارالسلطنت کی توہین ہے۔ ۱۷
اسی اخبار نے ۱۹ جون ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں حسب ذیل اداریہ بھی لکھا:۔
ہم نہایت سختی سے ان تمام لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو جہانگیر پارک میں غنڈہ گردی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسلام کو خاص نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان اور پاکستانیوں کی یکجہتی کو برباد کرنا چاہا ہے۔
فرقہ وارانہ مذہبی اختلافات و فسادات اور بغیر مقصد مسلمان کے ہاتھوں مسلمانوں کی جان و مال کی تباہی نے ماضی میں اسلام اور مسلمانوں کو ایک مہیب نقصان پہنچایا ہے اور ایسا رویہ یقیناً ہماری عزیز آزادی کو خطرہ میں ڈال دے گا۔ اسلام نے کبھی بھی اجازت نہیں دی کہ کسی دوسرے پر اپنے خیالات جبر کے ساتھ ٹھونسے جائیں اور متضاد نظریوں کو دلائل اور بات چیس سے حل نہ کیا جائے۔ بدقسمتی سے لوگوں کے ایک طبقے نے تبلیغ کی اہمیت کو نظر انداز کردیا اور اسے ایک ثانوی حیثیت دے کر زیادہ زور عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے پر صرف کیا جارہا ہے۔ سیاسی معروضات اس طبقہ کو تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرنے دیتیں۔ یہ طبقہ دلائل کا جواب تشدد سے دینا چاہتا ہے یہ قابل مذمت ہے اور بدامنی اور قانون شکنی کو ہر گز برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ایسے آدمیوں میں جو خدا تعالیٰ کا پیغام مذہبی جماعتوں کے پلیٹ فارموں سے عوام کو سمجھاتے ہیں اور ان سیاسی گرگوں میں جو مذہبی پلیٹ فارموں کو اپنے مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں امتیاز کیا جائے۔ آخر الذکر لوگ عوام کے مذہبی جذبات کو خطرناک حد تک برکا کر ایسے کام ان سے کراتے ہیں جن سے اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کی عزت پر بٹہ لگتا ہے ایسے لوگوں کو مسلمانوں کو ہرگز کوئی پناہ نہیں دینی چاہئے۔۱۸
۲۔ ہفت روزہ>مسلم آواز< کراچی )۱۹ مئی ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>کل ایک ہفتہ وار میری نظروں سے گذرا جس میں فرقہ قادیانی کی مخالفت میں شرافت سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ مضمون نگار کے مضمون کو دیکھ کر ہر شخص یہ اندازہ لگاسکتا ہے کہ مضمون نگار کو ابھی یہ ہی نہیں معلوم کہ ارکان اسلام کیا کیا ہیں ایسی حالت میں کسی فرقہ کے خلاف قلم اٹھانا ہی نہایت واہیات طریقہ ہے۔ ہم مضمون نگار سے صاف صاف کہہ دینا بہتر سمجھتے ہیں کہ پاکستان تمام فرقوں کا ملک ہے۔ دوسروں پر انگشت نمائی کرنے سے بہتر ہے کہ وہ گریبان خود دیکھے یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے اور تمہارے مقابلہ میں اس فرقہ کا ہر فرد اپنے طریقہ مذہب کا سختی سے پابندی احکام خدا وندی کو بجا لانے والا ہے۔ ہم لوگ نہ تو نماز روزہ کے پابند ہیں۔ اور نہ کسی نیک کام کے عادی صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ باقی اللہ کا نام۔
اس گمراہ کن پراپیگنڈہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ۱۷ مئی کی رات کو جہانگیر پارک کے جلسہ میں ہنگامہ ہوا۔ اول تو ہمارے انڈے پراٹھے والے مولوی دوسرے ہم تعلیم یافتہ اخبار نویس حضرات بلاوجہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں نتائج سے بے خبر رہتے ہوئے ایسا خطرناک پراپیگنڈہ کرتے ہیں جو کسی وقت بھی بجائے فائدہ کے ملک و ملت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ پاکستان میں ہر شخص اور ہر فرقہ کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور رہے گی۔ کیا اچھا ہوتا کہ اگر اسلام کے تمام فرقے قائداعظم کے اصول عمل` اتحاد اور تنظیم پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوشش کریں۔<
۳۔ اخبار >ڈان< انگریزی نے مورخح ۲۰ مئی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
گذشتہ دنوں کراچی میں مسلسل دو روز تک تشدد کا جو شرمناک مظاہرہ ہوتا رہا ہے اسے محض اتفاقی حادثہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس سے تعصب اور قانون شکنی کے اس خطرناک رجحان کی نشان دہی ہوتی ہے جو ملک میں دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان کے مذہبی اور سیاسی زندگی میں مسلمہ خوبیوں کے انحطاط پذیر ہونے اور رواداری کی بجائے قریب قریب لاقانونیت کی سی کیفیت پیدا ہونے کی ذمہ داری ہمارے بہت سے مذہبی اور سیاسی لیڈروں پر عائد ہوتی ہے لیکن ان سے کہیں زیادہ اس صورتحال کی خود حکومت ذمہ دار ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی اصول اور اسلامی اتحاد کی ضرورت اور اس کی اہمیت بیان کنے میں لوگوں کی زبان نہیں تھکتی۔ لیکن عجب ستم ظریفی ہے کہ اس بارے میں کوئی جتنا زیادہ چرب زبان واقع ہوا ہے اتنا ہی وہ رواداری کے اصولوں کو خاک میں ملانے اور لوگوں کو خود تشدد پر اکسانے میں پیش پیش نظر آتا ہے۔ حالانکہ مذہبی آزادی اور رواداری کے جذبات ہی اسلام کی اصل روح ہے۔
رواداری کے اصول کو خاک میں ملنے والے یہ چرب زبان لوگ اسلام اسلام پکارنے کے باوجود مسلمانوں کے درمیان تشتت و افتراق کی خلیج دن بدن وسیع کررہے ہیں اور پھر اس پر استہزائیہ کہ ہماری حکومت جو اپنی ذات میں کلی اختیارات مجتمع کرنا چاہتی ہے ایسی شر پسند عناصر کے بروقت انسداد کے لئے معمولی اختیارات کے استعمال سے بھی گریزاں ہے۔
گزشتہ اتوار کو بے شک حکومت نے سخت قدم اٹھایا اور صورت حال کا مقابلہ کرنے کیلئے کراچی میں پولیس کی کافی جمعیت موجود تھی۔ لیکن اگر ہماری حکومت زیادہ مستعد ہوتی` یا سخت اقدام کیلئے بروقت جرات مندی سے کام لیتی تو یقیناً وہ فتنہ جسے روکنے کیلئے بالاخر یہ سب کچھ انتظامات کرنے پڑے بہت پہلے ہی دبا دیا جاتا۔ یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ حکام اس فتنہ سے جو اندر ہی اندر پرورش پارہا تھا بے خبر تھے یا ان کیلئے چند لوگوں ¶کی نشان دہی ممکن نہ تھی جو اعلانیہ یا درپردہ فتنہ پردازی کی مہم کو ہوا دینے میں مصروف تھے۔ ہمیں اس بحث سے کوئی واسطہ نہیں کہ مذہبی اعتبار سے کس فرقہ کا موقف زیادہ صحیح ہے اور کس کا کم لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک مہذب سوسائٹی میں کسی مذہب یا سیاسی جماعت کے اس حق کا احترام لازمی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تبلیغ کرسکے البتہ یہ ضروری ہوگا کہ ایسا کرنے میں مروجہ قانون اور عام ضابلہ کی خلاف ورزی نہ ہو۔
جہاں تک ایک قضیہ کا تعلق ہے` احمدیوں کو پبلک جلسے کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ان کے مخالفین کو ہے۔ اگر یہ حق استعمال کرنے میں ان دونوں میں سے کوئی ایک قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس بارے میں اصلاحی قدم اٹھانا حکومت کا کام ہے نہ عوام الناس کا۔ اسی طرح اگر دوسرے فرقوں کے لوگ بھی اسی طرح ایسے ہی جرم کا ارتکاب کریں تو بھی اصلاح حال کی یہی صورت ہوگی۔ برخلاف اس کے نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ کوئی فرقہ یا گروہ حقیقی یا محض خیال وجہ اشتعال کو آڑ بنا کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس طرح معاشرے کا وجود ہی معرض خطر میں پڑ جائے گا۔ لیکن کیا کیا جائے گا فی مکروہ حد تک پاکستان کے مختلف حصوں میں وایسا ہی کچچھ وقوع میں آتا رہا ہے۔ اس ہفتہ کے واقعات سے قطع نظر پہلے ہی ہم تعصب وعدم رواداری کے اس جذبہ کا بعض نمایاں اور واضح صورتوں میں مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ بعض لوگوں کو کھلم کھلا قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان کا زیادہ سے زیادہ تصور یہ تھا کہ انہوں نے مذہبی امور سے تعلق رکھنے والے معاملات میں اظہار خیال کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیا۔ اسی طرح تقریر و تحریر کے ذریعہ علی الاعلان تشدد کا پرچار کیا گیا لیکن حکومت کمال بے تعلقی سے اس صورتحال کا نظارہ کرتی رہی مذہب کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی بعض عناصر کی جرات کا یہ علام ہے کہ وہ تشدد سے کام لے کر قانون کے پرخچے اڑا سکتے ہیں اور حتیٰ کہ حیطہ اقتدار کو بھی تہ و بالا کرسکتے ہیں۔ کیا یہی وہ طریق ہے جس پر چل کر ہم اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ؟
اس تمام صورت حال کا علاج کیا ہے ؟ اس کا علاج خود معاشرے میں موجود ہے۔ ضروری ہے کہ ہر فرقہ کے افراد اس بڑھتے ہوئے خطرے کو جو ان کی پرامن زندگی کو دن بدن لاحق ہوتا جارہا ہے پوری شدت سے محسوس کریں اور ان عناصر کی قطعاً ہمت افزائی نہ کریں جو مذہب کے نام پر ناجائز انتفاع کی خاطر انہیں آلہ کار بنا رہے ہیں۔ ہمارا پریس اور بالخصوص اردو اور دوسری قومی زبانوں کے اخبارات اس گند کو روکنے میں بڑی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں اس کے سوا بھی چارہ نہیں کہ حکومت فتنہ پردازوں کے خلاف سخت اور موثر اقدامات کرے اور آئندہ اس امر کا انتظار ترک کردے کہ حالات نازک صورت اختیار کریں تو وہ حفاظتی سامان اشک آور گیس اور حکومتی رعب و داب کے نشانوں سے مسلح پولیس کی مدد سے حالات پر قابو پائے۔ یہ زریں دستور العمل کہ >قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں< کتبوں اور طغروں کی شکل میں لکھوا کر وزراء اور دیگر حکام کے کمروں میں آویزاں کر دینا چاہئے بعض لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اونچے منصب داروں اور بعض مذہب کے نام کو اچھال کر ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان ملی بھگت چل رہی ہے وہ تمام لوگ جو اپنے اپنے مخصوص حلقہ میں نمایاں شخصیت رکھتے ہیں یقیناً اس بات کے حق دار ہیں کہ معاشرے میں ان کی عزت و توقیر کو محفوظ رکھا جائے اور بالخصوص جہاں تک حقیقی علماء کا تعلق ہے کوئی ان کے احترام سی روگردانی نہیں کرسکتا۔
اگر ان میں سے کوئی عالم اور بالخصوص پیشہ ور قسم کے وہ ملاں جو روشن دماغی اور بیدار مغزی سے یکسر محروم ہیں اور جن کا کاروبار ہی لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ہے اگر انہیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ از خود اقتدار اعلیٰ کی حیثیت اختیار کر لیں اور کوئی ان کے بہکائے ہوئے یا کرایہ پر ملازم رکھے ہوئے کتبوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے بغیر ان کے خلاب لب کشائی نہ کرسکے تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ بین الاقوامی لحاظ سے ہمارے وقار کو پہلے ہی کافی صدمہ پہنچا ہے اس ہفتہ کے واقعات اس میں اور اضافہ کا سبب ہوں گے۔ کیا ہم امید رکھیں کہ خواجہ ناظم الدین صاحب نے جہاں اور بہت سے معاملات کو سلجھا کر اپنے فہم و تدبر کا ثبوت بہم پہنچایا ہے اب بھی مملکت کی کشتی کو تعصب و تنفر کے متلاطم سمندر سے نکال کر امن و عافیت کی بندرگاہ پر جلد واپس آئیں گے۔<
>ڈان< نے ایک اور اشاعت میں لکھا:۔
گزشتہ ہفتہ کے شرمناک واقعات میں جو فتنہ پنہاں تھا وہ اب کسی نہ کسی شکل میں برابر سر اٹھا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بعض عناصر اپنی خطرناک سرگرمیوں سے ابھی دستکش نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی پبلک کو روزانہ مشورہ دینے والے بعض مشیروں )یعنی( اخبارات نے( معاملہ فہی اور سمجھ بوجھ کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ عوامی زندگی کے چشمے برابر زہر آلود کئے جارہے ہیں ان حرکات سے بیرونی ممالک بھی ہمارے قومی وقار کو سخت صدمہ پہنچ رہا ہے۔ کراچی کے چیف کمشنر نے فتنہ پردازوں کو زبردست تنبیہہ کی ہے اور ساتھ ہی حکومت کے اس عزم کا اعلان کیا ہے کہ ان شورش پسندوں کو فتنہ انگیزی کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی فی الحقیقت ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ گزشتہ اتوار کی شب کو سخت اقدامات کئے گئے ان کے متلعق سستی شہرت کے دلدادہ تقریر و تحریر کے ذریعہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ کہیں اس میں شک نہیں ان اقدامات نے ایک حد تک یہ اعتماد بحال کردیا ہے کہ حکومت میں حکمرانی کی صلاحیت موجود ہے لیکن جیسا کہ ہم نے گزشتہ مضمون میں بھی اشارہ کیا تھا یہی نہیں کہ حکومت کو بہت دیر میں ہوش آیا بلکہ خدشہ یہ ہے کہ اس کی یہ بیداری شررنا پائیدار کی طرح دیر پا ثابت نہ ہو۔
چیف کمشنر نے اپنے بیان میں اس امر کا اعتراف کیا کہ حالیہ فساد کرائے کے غنڈوں کے ذریعہ برباد ہوا تھا اگر یہ صحیح ہے تو پھر ضرور ایسے لوگ ہونے چاہئیں جنہوں نے کرایہ پر ان غنڈوں کی خدمات حاصل کیں۔ ہم پوچھتے ہیں ان لوگوں کی نشان دہی کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں ؟ اگر اگر ان کی نشان دہی ہوچکی ہے تو پھر ان کے خلاف کیا کارروائی عمل میں آئی ہے ؟ یہ خیال کرنا عبث ہے کہ ہر قسم کے ہنگامی اور غیر ہنگامی قوانین وضع کر لینے کے بعد حکومت میں اچانک ایک ایسا فطری تغیر رونما ہوا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال سے خود ہی کترانے لگی ہے حقیقت الامر یہ ہے کہ حکومت نے اب تک اس بارے میں کوئی معین پالیسی ہی وضع نہیں کی اور نہ ہی اس میں اتنی ہمت ہے ۔ ہمیں اس امکان بھی نظر آرہا ہے کہ کہیں حکومت ایک مرتبہ پھر بے تعلقی اور لاپرواہی کی اسی رو میں نہ بہہ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت پھر ملک کو لاقانونیت اور نراج سے ہمکنار کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی اور عوام الناس کے جذبات سے کھیلنے والوں کے حوصلے جو پہلے ہی کافی بڑھے ہوئے ہیں اور زیادہ بلند ہوجائیں گے۔ ہمارے نزدیک ایسے خطرناک رجحانات کا سدباب سخت قسم کی مثبت پالیسی سے ہی کیا جاسکتا ہے گاہے گاہے اشک آور گیس استعمال کرنے سے نہیں۔ اگر سردست خاص قسم کے مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں لے جانا اور معمول کے مطابق ان کے خلاف چارہ جوئی کرنا ممکن نہیں ہے تو متعلقہ تعزیری قوانین میں یقیناً ترمیم ہونی چاہئے۔ تعزیرات کا موجودہ مجموعہ برطانوی راج کی یادگار ہے اور ان ہی سے ہم کو ورثہ میں ملا ہے۔ اس میں سے بعض خطرناک جرائم کی سزا کا جنہوں نے بعد میں معین صورت اختیار کی ہے کوئی ذکر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس سے کسی کو اتفاق نہ ہوگا کہ ایسی تشدد آمیز دھمکیاں جن کا مقصد دوسروں پر خاص قسم کے مذہبی یا سیاسی نظریات ٹھونسنا ہو یا دوسرے طبقہ خیال کے لوگوں کو تحریر و تقریر اور تمدنی میل جول کی آزادی سے محروم کرنا ہو جرائم کی فہرست میں شمار ہونی چاہئیں اور وہ لوگ جو اعلانیہ طور پر جرم کا ارتکاب کئے بغیر بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسی لاقانونیتکو ہوا دیتے ہیں انہیں بھی ملزم گرداننا چاہئے۔ اگر موجودہ تعزیری قوانین میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ ان کے تحت ایسے لوگوں پر عدالت میں مقدمہ چلا جاسکے تو جرائم کی از سر نو وضاحت ہونی چاہئے یا نئے جرائم کی تعبین عمل میں آنی چاہئے تاکہ عدالتیں ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں۔ اس کام کیلئے ضروری نہیں کہ میکالے کو قبر سے نکال کر اسی پھر زندہ کیا جائے۔ خود اپنے ملک میں ایسے ماہر قانون دان موجود ہیں جو یہ کام باسانی کرسکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حکومت اس کام کو سرانجام دینے کا عزم کرلے۔ رہا عبوری دور سو اس کیلئے بھی حکومت اتنی بے بس نہیں ہے جتنا کہ اس کے بعض ترجمان اسے ظاہر کرتے ہیں۔
بعض مخصوص قسم کے مذہبی دیوانوں کے ہاتھوں پاکستان کا حال ہی میں مہلک قسم کاجو نقصان پہنچا ہے ان میں سے ایک ملک کے نامور وزیر خارجہ کے خلاف گند اچھالنے کی مہم ہے۔ حالانکہ جہاں تک بیرونی دنیا میں پاکستان کی شہرت اور وقار کو چار چاند لگانے کا سوال ہے موجودہ قائدین میں سے کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ان کو بدنام کرنے کی مہم اگر عاقبت ن اندیش مذہبی دیوانگی کی پیداور ہے تو یہ جذبہ قومی استحکام کیلئے اتنا ہی مضر ہے جتنا کہ یہ خود اسلام کی اصل روح کے منافی ہے۔ ہمارے موجودہ مقاصد کے پیش نظر یہ قطعی غیر ضروری ہے کہ مذہبی مناقشات کا دروازہ کھولا جائے۔ لیکن ہم پورے انشراح کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے الے سیاسی اغراض کے تحت ایسا کررہے ہیں اور مذہب کو محض روغ قاز کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاکہ ان کے اصل مقاصد پر پردہ پڑا رہے۔ کوئی ہوش مند پاکستانی یہ خیال نہیں کرسکتا کہ چوہدری محمد ظفر اللہہ خان کا کسی فرقہ سے تعلق ملک کی خارجہ پالیسی پر کوئی خفیف سے خفیف اثر بھی ڈال سکتا ہے۔ ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کی خارجہ پالیسی یا اس کی خامیون پر نکتہ چینی کرے اور اگرچہ خارجہ پالیسی اور اس کی جزئیات کی تمام تر ذمہ داری مجموعی طور پر کابینہ پر عائد ہوتی ہے پھر بھی وزیر خارجہ کی حیثیت میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو زیر تنقید لایا جاسکتا ہے لیکن ان کو بدنام کرنے والوں کا طرز عمل یہ نہیں ہے۔ وہ حملہ کرنے میں حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔ چوہدری صاحب کے اپنے خیالات خواہ کچھ ہی ہوں لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ امر ان کیلئے موجب اطیمنان ہوگا کہ ان کو بدنام کرنے والے اہل دانش کی نظر میں خود اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں منہ لگایا جائے۔ قوم ان لوگوں کے حق میں جو پورے خلوص اور انہماک کے ساتھ اس کی خدمت کررہے ہیں اتنی ناشکر گزار نہیں ہوسکتی کہ وہ معدو دے چند رجعت پسندوں کی غوغہ آرائی سے گمراہ ہوجائے اور پھر ان گنے چنے لوگوں کی غوغہ آرائی سے جو جہالت کے محدود متعفن ماحول میں پھنسے ہوئے ہیں اور کنوئیں کے مینڈک کی طرح ساری کائنات کو اس تک ہی محدود سمجھتے ہیں۔<۱۹body] [tag
tav.13.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
جلسہ کراچی سے لیکر حضرت مصلح موعودؓ کے وضاحتی اعلان تک
۴۔ اخبار >سندھ آبزرور< )۲۰ مئی ۱۹۵۲ء( میں حسب ذیل نوٹ شائع ہوا:۔
>جماعت احمدیہ کے جلسہ سے بہت سے اہم امور ہمارے سامنے آگئے ہیں جن کا فیصلہ عوام کے ذہنوں سے الجھن دور کرنے اور ایسے واقعات کے سدباب کیلئے اسی وقت کرنا ضروری ہے۔ اس کی وجہ اس ضرورت سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری مجلس دستور ساز کی مقرر کردہ سب کمیٹی بنیادی اصول کی تدوین کررہی ہے۔ لٰہذا یہ فیصلے اس رہنمائی کیلئے بہت ممد ثابت ہوں گے۔ سہولت کیلئے ان امور کو دو حصوں میں منقسم کردینا چاہئے ایک وہ جو خاص اس وقعہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے جن کا اثر مستقبل پر پڑنے والا ہے۔ جہاں تک موجودہ حادثہ کا تعلق ہے دو نظریے ہمارے سامنے ہیں۔ جماعت احمدیہ کا دعویٰ ہے کہ قرار داد مقاصد کے مطابق )جس کی تشریح لیاقت علی مرحوم نے ۷ مارچ ۱۹۴۹ء کو کی( ان کو جلسے کرنے اور اپنے خیالات کے اظہار و اشاعت کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ جلسہ حکام متعلقہ کی اجازت کے ساتھ خاص پنڈال میں منعقد کیا گیا تھا۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ احمدیوں کے خیالات سے ان کے جذبات مجروح ہوں گے وہ جلسہ میں شرکت کیلئے مجبور نہ تھے چنانچہ ہجوم کا متشددانہ رویہ قانون کی خلاف ورزی ہے لٰہذا ان کے خالف موثر کارروائی ہونی چاہئے۔ برعکس اس کے علماء کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو اس قسم کے جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی۔ قادیانیوں کے عقائد مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں اور ان کی اشاعت سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں جلسہ میں جو تقریریں کی گئیں وہ اشتعال انگیز تھیں۔ پولیس کا اقدام اس اشتعال انگیزی میں اضافہ کا باعث ثابت ہوا۔ چند قادیانیوں کیلئے سولہ لاکھ مسلمانوں کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں اس لئے ان کو اقلیت قرار دیا جائے۔ گرفتار شدگان نے چونکہ مشتعمل ہو کر ہنگامہ برپا کیا اس لئے انکو رہا کیا جائے۔ ان ہر دو قسم کے خیالات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور ناقابل اتفاق ہیں۔ جہاں احمدی اپنے خیالات کو آزادانہ استعمال کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور تشدد کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کو ضروری خیال کرتے ہیں وہاں دوسری طرف علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ احمدیوں کو عام جلسی کرنے اور اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں کیونکہ اس سے اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں لٰہذا جنہوں نے ان کے جلسہ میں تشدد کیا ہے ان کو رہا کیا جائے۔ ان حالات میں حکومت کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے:۔
۱۔ کیا وہ فرقے اور مذاہب جو اکثریت کے خلاف عقائد رکھتے ہیں اس بات کے مجاز ہیں کہ وہ اپنے عقائد کی آزادانہ تبلیغ کریں خواہ اس سے اکثریت کے دل مجروح ہی کیوں نہ ہوں ؟
۲۔ برعکس اس کے کیا اکثریت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقلیت کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اپنے خیالات` معتقدات کی اشاعت کریں۔
۳۔ حضرت رسول~صل۱~ کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو حکومت قانونی حیثیت دے گی اور جو نہ مانے گا اس کے خلاف تعزیری کارروائی کرے گی ؟
۴۔ کیا حکومت کا مذہب اسلام ہے اگر ایسا ہے تو وہ کس فرقہ سے اپنے آپ کو وابستہ اور کون سے فقہ پر عمل کرے گی۔ کیا وہ کسی خاص فرقہ اور فقہ کی تائید کرے گی ایسی صورت میں کیا مخالف فقہ رکھنے والوں کو ریاست کے فقہ کی آزادانہ مخالفت کرنے کا حق دیا جائے گا ؟
۵۔ کیا حکومت ایسے معاملات میں اکثریت کی اتباع کرے گی یا اپنے خیالات کو خواہ وہ اکثریت کے خیالات کے خلاف ہوں نافذ کرے گی ؟
۶۔ مذہب کے معاملہ میں قرار داد مقاصد کے تحت عطا کردہ حقوق کی کونسی حدود مقرر کی جائیں گی ؟
۷۔ متنازعہ فیہ امور کے تصفیہ کیلئے کونسا ذریعہ مقرر کیا جائے گا ؟
مندرجہ بالا امور کا فیصلہ صاف صاف ہونا چاہئے اور لوگوں کے حقوق شہریت کی حدود متین کردینی چاہئے۔ تذبدب اور قائل سے اور زیادہ الجھنیں پیدا ہوں گی جس سے بسا اوقات خود حکومت کی اپنی پوزیشن نازک ہوجائے گی۔ قرار داد مقاصد اور لیاقت علی خاں صاحب مرحوم کے بیان میں صرف اجمالی طور پر ان اصولوں کا خاکہ کھینچا گیا ہے اور تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ وہ خلاء ہے جس سے یہ تمام تر الجھنیں پیدا ہورہی ہیں جتنی جلدی اس خلا کو پورا کردیا جائے گا اتنا ہی ہماری مملکت کیلئے مفید ہوگا۔ بالاخر ہم پھر یہ تجویز کرتے ہیں کہ جہانگیر پارک میں جلسہ کے دوران میں جو ہنگامہ ہوا اس کی پوری پوری تحقیقات کی جائے اور قانون کے مطابق جو بھی اس کا ذمہ دار ہے خواہ وہ احمدی ہو یا غیر احدی اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ساتھ ہی جن لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور اشتعمال کے عذر کو عدالت کے فیصلے پر چھوڑا جائے۔
۵۔ >سول اینڈ ملٹری گزٹ< کراچی کے ۱۹ مئی ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں >سیہ کاری< کے تحت ایک مقالہ افتتاحیہ شائع ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے۔
)۱۷۔ مئی کو( ہفتہ کے روز ایک بے لگام ہجوم نے جہانگیر پارک میں احمدیوں کے جلسہ پر زبردست ہلہ بول دیا اور منہ میں کف لا لا کر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے خلاف نعرے لگائے۔ ان کے اس طرز عمل نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ مذہبی تعصب کا مکروہ جذبہ جو ذہنی اور روحانی آزادی کے حق میں زہر کا درجہ رکھتا ہے ظلم روا رکھنے میں کیا کچھ گل نہیں کھلا سکتا۔ ظاہر ہے کہ ہجوم نے تشدد اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ اس لئے کیا کہ وہ بعض مخصوص روحانی اور اخلاقی نظریات کے پبلک اظہار اور خارجہ پالیسی کا تعلق ہے ہمیں صف اول کی چند نامور ہستیوں میں سے ایک ہستی کی راہنمائی اور نگرانی حاصل ہے جس کو بجا طور پر ایشیا بھر میں علم و دانش اور فہم و فراست کا مظہر قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس سر پھرے ہجوم نے یہ نعرے بلند کئے کہ >قادیانی برطانیہ کے ایجنٹ ہیں< ظفر اللہ کو وزارت خارجہ سے الگ کردو< اور ساتھ ہی پرامن جلسہ پر پتھرائو بھی کیا۔ ان کی یہ نعرہ بازی اور شرہ پستی ان کے اس خوفناک رجحان کو بے نقاب کررہی تھی کہ وہ لوگوں کو اتنی بھی آزادی دینے کے روادار نہیں ہیں کہ وہ مظاہرین کے مخصوص عقائد و نظریات کے سوا کوئی اور عقیدہ یا نظریہ اختیار کرسکیں ہمیں احمدیت یا کسی دوسرے فرقے کے مذہبی معتقدات کے متعلق بحث کی ضرورت نہیں۔ البتہ مسلمہ طور پر ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جلسوں وغیرہ کے ذریعہ اپنے مخصوص مذہبی عقائد و نظریات کی تبلیغ کرسکے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ملائیت ہر قسم کی انفرادی اور اجتماعی آزادی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے پر کمر بستہ ہوچکی ہے اور اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اس نے ضروری خیال کیا ہے کہ پوری طرح مسلح ہو کر علی الاعلان میدان میں نکل آئے۔ ہمارے ملک میں ملا ازم کا فریب ان لوگوں پر باسانی چل جاتا ہے جو احیائے دین کے تو دل سے حامی ہیں لیکن ان کے ذہنوں میں اس کی ماہیت اور اہمیت کا صرف ایک مبہم سا تصور ہے۔ جہاں تک اس کے مالہ و ما علیہ کا تعلق ہے مذہبی تعصب نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے اور وہ اس کے صحیح جذبات سے بالکل عاری ہیں۔ ایک جمہوری حکومت شخصی آزادی کی اس حد تک اجازت نہیں دے سکتی کہ لوگ فساد برپا کر کے فرقہ دارانہ امن کو خاک میں ملا کر رکھ دیں۔ حکومت کے قیام کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ وہ امن کو برقرار رکھے۔ بالخصوص وہ اس ذمہ داری کو تو کبھی فراموش کر ہی نہیں سکتی کہ وہ مذہبی اور سیاسی اعتبار سے ہر طبقہ خیال کے لوگوں میں اعتماد پیدا کرے کہ وہ اپنے خیالات کا پوری آزادی اور بے باکی سے اظہار کرسکتے ہیں اور ایسا کرنے میں انہیں تشدد آمیز دھمکیوں اور مظاہروں کے خلاف قانون کی پوری پوری حمایت حاصل ہوگی۔ جمہوری خیالات کی صحت مند نشوونما کیلئے ضروری ہے کہ قانوناً شخصی آزادی کی حدود تعین کردی جائیں اور باقاعدہ ان کی وضاحت کر کے ہر قسم کا اوہام دور کردیا جائے۔
شخصی آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جاسکتا کہ انسان اپنے نظریات اور رجحانات کو دوسروں پر بالجبر ٹھونسنے کی کوشش کرے کسی کو بدگوئی اور تذلیل و تحقیر کی اجازت دینا جمہوری آزادی کے یکسر منافی ہے۔ اس سے جہاں دوسروں کی آزادی رخنہ پڑتا ہے وہاں جماعتی تحفظ اور مفاد عامہ کو بھی سخت نقصان پہنچتا ہے۔
مظاہرین نے ایک ایسی ہستی کو ہدف ملامت بنایا جو ان اسلامی نظریات پر صدق دل سے ایمان رکھنے میں کسی دوسرے سے پیچھے نہیں ہے جن کا یہ مظاہرین خود اپنے آپ کو علمبردار سمجھتے ہیں اور پھر اسے شاندار قومی و ملی خدمات کی وجہ سے بیرونی دنیا میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے ایسی قابل قدر شخصیت کے خلاف بدگوئی سے کام لے کر احسان فراموشی کا انتہائی شرمناک مظاہرہ کیا۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے جو اس وقت اقوام عالم میں دنیائے اسلام کے عظیم ترین سیاستدان تسلیم کئے جاتے ہیں پاکستان کی خدمت بجا لانے میں حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سامنے ملک کا معاملہ پیش کرنے کا سوال ہو یا مسلمان قوموں کے نظریات و مقاصد کو فروغ دینے کا مسئلہ امن عالم کے قیام کا تذکرہ ہو یا دنیا کی پسماندہ قوموں کے حق خود اختیاری کی تائید کا ذکر بہرحال جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے انہوں نے پاکستان کی عظمت و وقار میں وہ گرانقدر اضافہ کیا ہے کہ جس کی مثال ملنی محال ہے۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں اورنادر روزگار مدبرین میں سے ایک ہیں جن کی سیاسی پیش بنیوں میں روحانی بصیرت کا عنصر نمایاں طور پر غالب نظر آتا ہے۔ ایمان و یقین اور باطنی پاکیزگی کے باہمی امتزاج نے ان کے ضمیر اور قول و فعل میں کامل مطابقت پیدا کردی ہے وہ موجودہ وقت کے الجھے ہوئے سیاسی مسائل کو مذہبی عرفان کی مدد سے حل کرتے ہیں لیکن ان کی باطنی معرفت اور روحانی بصیرت نام نہاد صوفیاء کی کرامات اور فاسد قسم کے مذہبی جنون سے یکسر پاک ہے تاریخ کے گہرے مطالعہ اور دور بینی کی خداداد صلاحیت نے ان کے نقطہ نظر میں ایسا توازن پیدا کردیا ہے جو بلاشبہ کمال کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔
ایک ایسا شخص جس کی باطنی تربیت کا معیار بے حد بلند ہو جس میں عجز و انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو جس کی حب الوطنی اور جس کا جذبہ وفاداری حد درجہ پختہ اور مستحکم ہو اور جو کمال خاموشی سے تعمیر ملت میں ہمہ تن کصروف ہو ایسے شخص کیلئے دل میں محبت و اخلاص اور احسان مندی کے گہرے جذبات کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس پر >برطانیہ کا پٹھو< ہونے کا الزام لگانا حق و صداقت کا خون نہیں تو اور کیا ہے۔ )اس کے سوا کیا کہا جائے کہ( اس الزام تراشی کا کوئی فاسد اور بدنما داغ ہی مرتکب ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا واجب التعظیم شخص بھی حاسدوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکتا تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ پر ہونی صورت حال اس دور میں انسانی سیہ کاری کی انتہائی پست ہالت پر دلالت کرتی ہے۔<
۶۔ اخبار >نئی روشنی< نے اپنی ۲۵ مئی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
>۱۷ مئی اور ۱۸ مئی کو کراچی میں فرقہ احمدی کے جلسے منعقد ہوئے۔ ان جلسوں میں جو ناخوشگوار واقعات پیش آئے اس قدر شرمناک ہیں کہ کوئی شخص تردید کی جرات نہیں کرسکتا۔
فرقہ احمدیہ آج سے نہیں برسوں سے اس برصغیر ہندو پاکستان میں موجود ہے اور اس فرقہ کے عالم وجود میں آنے سے لے کر آج تک سینکڑوں مناظرے احمدیوں اور عام مسلمانوں کے درمیان ہوئے۔ اختلافات پیدا ہوئے۔ سوال و جواب کے سلسلے جاری ہوئے لیکن کوئی غیر سنجیدہ اور تکلیف دہ قسم کا حادثہ پیش نہیں ایا بلکہ ہر موقعہ پر ضبط و نظم کا خیال رکھا گیا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
احمدیوں کے متذکرہ جلسہ سے کچھ ہی دن قبل رام باغ میں ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں فرقہ احمدیہ کے خلاف انتہائی زہر افشانی کی گئی تھی مگر انجلسوں میں کسی قسم کا کوئی ہنگامہ نہیں ہوا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو جلسہ کا نظم و نسق برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ احمدیوں نے انتہائی صبر و سکون کے ساتھ جلسہ کی کارروائیوں کو جاری رہنے دیا۔ کوشش یہ کی کہ ان کا کوئی فرد اس میں شریک نہ ہو اور اگر شریک ہو بھی نہایت صبر و سکون کے ساتھ جلسہ کی کارروائی کو سنے۔ اس کے برعکس احمدیوں کے جلسہ میں چند شر پسند عناصر نے مجمع کو اکٹھا کر کے ایسے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے کی کوشش کی جو انتہائی شرمناک متصور ہوتے ہیں۔ ہم ان حضرات سے براہ راست مخاطب ہو کر یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر ان میں مخالفانہ نظریات کو سننے کی جرات نہیں تھی تو وہ جلسہ گاہ میں شرکت کی غرض سے گئے کیوں ؟ اور یہ کہ کیا اختلافات کو مٹانے اور اپنے نظریات کو سمجھانے کا یہی طریقہ کار ہے ؟ کہ شہر میں بدامنی پھیلا دی جائے اور دکانوں اور ہوٹلوں کو آگ لگادی جائے ؟
اس ہنگامہ میں شیزان ریسٹورنٹ احمدیہ فرنیچر مارٹ اور شاہنواز لمٹیڈ کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سمجھ کر کہ یہ سارے ادارے احمدیوں کی ملکیت ہیں ان داروں کو آگ لگا کر عام مسلمانوں نے جس غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ حرکت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کی گئی ہے اور ہم وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس میں کسی کا ہاتھ ہے یا عوام نے خود ایسا کیا ہے؟ لیکن صرف اس قدر کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ ہوا نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ہمیں عوام کے جذبات کا احترام ہے لیکن ہم کسی ایسی حرکت کی اجازت نہیں دے سکتے جس سے پاکستان کا امن خطرے میں پڑے اور نہ ہی ہمیںیہ توقع رکھنا چاہئے کہ کوئی پاکستانی پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔
اس ناخوشگوار واقعہ سے کوئی اور نتیجہ برآمد ہو یا نہ ہو۔ یہ تلخ حقیقت ضرور سامنے آتی ہے کہ کراچی میں ایک بھی ایسی شخصیت نہیں ہے جو عوامکو ایسے موقعوں پر صحیح راہ دکھا سکے۔ کراچی میں عوام کے محبوب قائدین کا کال شہید ملت کی یاد کو اور تازہ کررہا ہے ہمیںیقین ہے کہ آج قائد ملت لیاقت علی خاں زندہ ہوتے تو پولیس کو اشک آور گیس اور لاٹھی چارج کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ان کا صرف ایک جملہ عوام کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کافی ہوتا۔ بلکہ ہم اس قدر کہنے کیلئے تیار ہیں کہ ان کی موجودگی میں ایسا واقعہ سرے سے رونما ہی نہ ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ ہمارے درمیان سے دانستہ طور پر ہٹا دیئے گئے جن کے بعد ایسا واقعہ پیش آگیا اور وہ بھی پاکستان کے دارالخلافہ میں جس کے متعلقہ یہ اندیشہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ آگ کہیں دوسرے شہروں میں نہ پہنچ جائے اس لئے کہ وہ جو چیز مرکز سے شروع ہوتی ہے وہ دوسرے شہروں میں ضرور پھلنے پھولنے کے مواقع تلاش کرتی ہے۔
ہمیں سب سے زیادہ حیرت تو اس امر پر ہے کہ مرکزی وزراء میں سے کسی نے اس واقعہ سے دلچسپی نہیں لی۔ یقیناً مرکزی کابینہ میں ایک دو شخصیتیں ایسی بھی موجود ہیں جن کی قدر و منزلت عوام کی نظر میں بے انتہا ہے اور جن کو عوام کا اعلیٰ ترین اعتماد حاصل ہے۔ اگر اس وقت مسلم لیگ زندہ ہوتی اور سرکاری جماعت نہ بن چکی ہوتی تو ایسے موقعوں پر صدر مسلم لیگ کے فرائض نہایت اہم مسلم لیگ کے پرانے کارکن۔ آج اگر میدان عمل میں ہوتے تو یقیناً پاکستان کی اس قدر بے عزتی نہ ہوتی۔ افسوس کہ علماء اسلام بھی اپنے گھروں میں بیٹھتے رہے بلکہ ہم تو اس خیال کے حامی ہیں کہ اس واقعہ نے مذہب اسلام کو بدنام کیا ہے کیونکہ آج عام مسلمانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی اختلافی نظریہ کو سننے کی اہلیت نہیں رکھتے اور مخالفین کیلئے کیچڑ اچھالنے کا موقعہ فراہم کردیا گیا ہے۔ کیا ہم اپنی حکومت سے توقع رکھیں کہ وہ اس ناخوشگوار واقعہ کے سلسلہ میں نہایت سخت اقدام سے بھی گریز نہیں کرے گی ؟ اور اس فتنہ کے اٹھانے والوں کو انتہائی عبرتناک سزائیں دے کر ملک میں اس آگ کو پھیلنے سے روک دے گی۔ ہمیں خواجہ ناطم الدین وزیراعظم پاکستان سی قوی توقع ہے کہ وہ اس شرر کو کچلنے کیلئے ہر ذریعہ استعمال کریں گے اور ان >مولویوں< کے فتنہ کا قلع قمع کردیں گے جنہوں نے غیر منقدم ہندوستان میں مسلمانوں کو آپس میں لڑائو کو مسلم خون کی ارزانی کا ثبوت دیا تھا۔ اگر پاکستان میں غیر مسلم ہندوستان کی فرقہ وارانہ روایات کو دہرایا گیا تو ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان تباہ ہوجائے گا۔
عام مسلمانوں کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے ان کو سوچنا چاہئے کہ جن شر پسندوں نے یہ حرکت کی ہے کیا انہوں نے احمدیت کے قلع قمع کرنے کا یہ صحیح راستہ اختیار کیا ہے۔ کہاں ہیں مفتی محمدشفیع صاحب` کدھر ہیں سید سلیمان ندوی ` مولانا احتشام الحق اور صدر پاکستان مسلم لیگ کہاں ہیں ؟ یہ سب کیوں نہیں اس موقعہ پر پہنچے ؟ اور کہاں ہیں کراچی مسلم لیگ کی صدارت کے امیدوار۔ اگر یہ سوچی سمجھی تجویز اور پروگرام نہیں ہے تو برانگیختہ مسلمانوں کو کیوں نہیں سمجھایا گیا کیا اسے عوام حکومت کے پاس گیس مارنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا۔ شرپسندوں کو سمجھانے کی ضرورت تھی اگر ان کو کوئی عوامی شخصیت سمجھانے ولای ہوتی تو یہ ہنگاہ اس قدر شدید صورت اختیار نہ کرتا۔ ہم ان افراد کی جنہوں نے اس میں حصہ لیا ہے یا جنہوں نے اس کا پروگرام بنایا ہے سخت مذمت کرتے ہیں۔<
۷۔ ہفت روز >پیام مشرق< )۸ جون ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>پاکستان کا باشعور طبقہ بہت عرصہ سے یہ سوچ رہا ہے کہ مملکت اسلامیہ دولت خداداد پاکستان کا کیا مفہوم ہے اور اسلامی حکومت کا نعرہ کمزور حکومت کے ایوانوں میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ کیا اسلامی حکومت سے مراد ایک ایسا نظام ہے جہاں صرف مولانا بدایوانی ہی شہریت کے پورے حقوق کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں یا قرار داد مقاصد کی چھائوں میں سوامی کلجگانند بھی پاکستان کے شہری ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں ؟
آج پانچ سال کے بعد یہ سوال اس وجہ سے اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ شہرت و اقتدار کے بھوکے پاکستان کے نام نہاد ملا اور مولوی پاکستان کی سالمیت کیلئے ایک مستقل خطرہ بن کر اس کے سامنے آگئے ہیں اور آج ہی ہمیںیہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس اجتماعی قومیت کو باقی رکھنے کیلئے ہمارا ¶آئندہ قدم کیا ہونا چاہئے۔
احمدیہ عقائد سے ہمیں شدید اختلاف ہے اور ہم کبھی بھی ان کے ہمنوا نہیں ہوسکتے لیکن پچھلے دنوں جہانگیر پارک کراچی میں سالانہ کانفرنس میں شر پسند عناصر نے اسلامی حکومت کا نام لے کر جس طرح قرار داد مقاصد کو ننگا کیا ہے ساری دنیا کی جمہوریت پسند انسانوں کی نگاہ میں اسلام ایک متعصب ملا کا ایک پرفریب سیاسی عقیدہ بن کر رہ گیا ہے۔
اسلام دنیا کے ہر انسان کیلئے امن اور خوشحالی کا پیغام لے کر آیا تھا۔ پاکستان کے ان تنگ نظر اور مفاد پرست ملائوں نے اس مقدس تعلیم کو محض کارخانوں اور وزارتوں کی ہوس میں بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ہے۔ ۲ جون ۱۹۵۲ء کو >آل مسلم پارٹیز کنونشن< کے نام سے تھیاسوفیکل ہال کراچی میں علماء کرام کا ایک جلسہ منعقد ہوا۔ کارکنان جلسہ میں بہت سے ایسے علماء کے نام بھی درج ہیں جن کی مذہبی خدمات آج کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں اور برصغیر پاک و ہند کا ہر مسلمان ان کا ذکر آنے پر عقیدہ سے سرجھکا دیتا ہے۔ ہم ان کے تقدس اور علمیت کا پورا احترام کرتے ہوئے ان سے یہ دریافت کرنے کی جرات ضرور کریں گے کہ احمدیوں کے مذہبی عقائد کچھ بھی ہوں لیکن وہ پاکستان کے آزاد شہری ہیں یا نہیں ؟
اگر اسلامی جمہوریت کے اصولوں کے تحت ابوسفیان اور اس کے ساتھیون کو فتح مکہ کے بعد مکہ کی آزاد شہریت فراغ دلی سے بخشی جاسکتی ہے تو احمدیہ عقائد کے پرو تو پھر بھی خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں۔ ویسے وہ بھی اگر سر ظفراللہ کی سرخ ٹوپی کو نعوذ باللہ خدا مان لیں تو بھی پاکستان دنیا کے نقشہ پر کعبہ بن کر نہیں بلکہ ایک آزاد جمہوریت بن کر ابھرا ہے۔
کسی پاکستان کے ٹھیکیدار یا مذہب کے رکھوالے کو یہ حق حاصل نہیںہے کہ ان کو محض احمدی ہونے کی بناء پر پاکستان کا غڈار قرار دے دے۔ پاکستان کے اصل غدار لمبی عبائیں قبائیںپہنے ہوئے وہ دشمنی اسلام افراد ہیں جو لاکھوں پاکستانی شہریوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کر کے انہیں پانچویں کالم والوں کی ایک بڑی فوج بنا دینا چاہتے ہیں۔
آل مسلم پارٹیز کنونشن نے ایک قرار داد کے ذریعہ مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان ممالک اسلامیہ اور کشمیر کے مفادات کے پیش نظر وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو کابینہ سے فوری علیحدہ کردیا جائے کیونکہ وہ پاکستان اور ہندوستان کو دوبارہ اکٹھا بنانے پر عقیدہ رکھتے ہیں۔
کیونکہ نہیں قائداعظم یا قائد ملت کی زندگی میں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ تمہارا انتخاب غلط ہے اور وزیر خارجہ کی وفاداری مشکوک ہے ؟ شاید وجہ یہ ہو کہ ان قائدین کے آہنی ہاتھوں کا شکنجہ مضبوط اور ایک مولانا چند ماہ جیل میں رہ کر اور انتہائی گریہ وزاری کے بعد معافی مانگ کر یہ سمجھ چکے تھے کہ بین الاقوامی سیاست اور ملائی ذہنیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن آنر بیل خواجہ ناظام الدین کی اس وزارت میں جہاں عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے` انہیں بدامنی کی تلقین کرنے اور امن کی بحالی پر پولیس کے رویہ پر قرار داد مذمت منظور کرنے والے شر پسند کو پاکستانی دشمن کے الزام میں گرفتار نہیں کیا جاتا وہاں قائداعظم کے زمانہ کا زمین و آسماں والا فرق خودبخود ایک سراب میں تبدیل ہوجانا چاہئے تھا چنانچہ آل پارٹیز کنونشن کی ساری قرار دادیں اس سراب ک پس منظر ہی پر پیش کی گئیں اور اگر حکومت کو اب بھی ہوش نہ آیا تو ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے اور خود مستفید ہونے کیلئے یہ نام نہاد علماء ایک اتنا بڑا ہنگامہ شروع کرادیں گے کہ پولیس کے اشک آور گیس کے گولے بھی کوئی مدد نہ کریں گے۔
پاکستان دشمن ملالئوں کی نظر میں سر محمد ظفر اللہ اور احمدیہ فرقہ کے لاتعداد پیرو محض اس وجہ سے پاکستان کے غدار قرار دیئے گئے ہیں کہ وہ آنحضرت~صل۱~ کی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے احمدیہ فرقہ کے مذہبی عقائد سے پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کو اختلاف ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ ہم اعلان کردیں کہوہ تمام فرقے جو ہمارے مذہبی عقائد کو تسلیم نہیں کرتے قابل گردن زدنی ہیں اور ان پر کسی طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
کل یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ شیعہ فرقہ کے مذہبی عقائد سے پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کو اختلاف ہے لٰہذا ان کے کسی آدمی کو پاکستان کا کوئی اہم عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح آغا خانی` مہدوی ` ذکری` ہندو` عیسائی` پارسی اور وہ تمام لوگ جو اپنی اجتماعی جدوجہد اور پوری توانائی سے پاکستانقومیت کی تخلیق کررہے ہیں پاکستان کے غدار قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ ہم حکومت سے پر زور مطالبہکرتے ہیں کہ قبل اس کے کہ تعصب کی یہ آگ بھڑک کر اپنے ہی گھر کو جلا ڈالے اس کے خلاف سخت انسدادی تدابیر اختیار کی جائیں۔
سر چوہدری محمد ظفر اللہ وزیر خارجہ پاکستان کے خلاف عام طور پر انگریز نوازی کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے ہمیں انتہائی افسوس ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ کابینہ سے چوہدری سر ظفر اللہ کی علیحدگی کا پر زور مطالبہ کر کے یہ سمجھ لیتا ہے کہ سر ظفر اللہ کی علیحدگی سے انگریز نوازی ختم ہوجائے گی۔
سر ظفر اللہ کی خارجہ پالیسی خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ کی خارجہ پالیسی ہے۔ مرکزی حکومت جس حکتم عملی کا تعین کرتی ہے وزیر خارجہ پاکستان ان بنیادوں پر اپنی تقاریر کا خاکہ تیار کرتے ہیں۔
یہ تو انتہائی بچپن ہوگا کہ ہم سامنے کی چیزوں کو دیکھ کر بھڑک اٹھیں اور ان اندرونی دھاروں سے چشم پوشی اختیار کریں جو ان حالات کی اصل ذمہ دار ہیں۔
۷۔ ہفت روز >شیراز< )۲۶ مئی ۱۹۵۲ء( نے زیر عنوان >کراچی کا ہنگامہ< لکھا:۔
>قادیانی جماعت کے سالانہ اجتماعات کے موقع پر کراچی میں جو ہنگامہ ہوا ہے اس نے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو واضح کردیا کہ جب تک تنگ نظر متعصب مذہب باغیوں کو ڈھیل دی جاتی رہے گی پاکستان کی سالمیت خطرے میں رہے گی۔ کراچی کے بعض علمائے اسلام کا بیان ہے کہ اس ہنگامہ کا سبب قادیانی جماعت کی دل آزار اور اشتعال انگیز تقریریں تھیں۔ اور مسٹر ابو طالب نقوی چیف کمشنر کا اعلان یہ ہے کہ ہنگامہ ایک منظم سازش کے ماتحت کرایا گیا۔ اور اگر پولیس کی پوری طاقت استعمال نہ کی جاتی تو خدا جانے قادیانیوں کے خلاف یہ گڑ بڑ کیا رخ اختیار کرتی ؟ نقوی صاحب نے اپنے بیان میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ اس ہنگامہ کی وسعت اور اس کے پس منظر کی طرف اشارے کئے ہیں چیف کمشنر کے وضاحتی بیان کی تردید مفتی محمد شفیع مولانا احتشام الحق` مفتی جعفر حسین )رکن پارلیمنٹ( اور مولانا لال حسین اختر نے کی ہے اور اشتعال انگیزی کا سرچشمہ قادیانی جماعت کے مقرروں بلکہ خود چوہدری سر محمد ظفر اللہ صاحب کو قرار دیا ہے۔ ان متضاد بیانات کی موجودگی میں بیک وقت کسی قطعی نتیجہ تک پہنچنا مشکل ہے تاہم اگر سنجیدگی اور احتیاط کے ساتھ صورت حالات کا تجزیہ کیا جائے تو چند >واضح حقائق< تک پہنچنا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ بھلا اس بات سے کون واقف نہیں کہ پورے پاکستان میں قادیانی جماعت کی تعداد چند لاکھ )شاید یہ اندازہ بھی زیادہ ہے( سے زیادہ نہیں۔ اور اس قلیل تعدد کو ہمیشہ ایک عظیم ترین مخالفت سے دو چار رہنا پڑتا ہے مرزا غلام احمد صاحب کے متلعق قادیانیون کے کیا عقائد ہیں ؟ وہ ان کی مجدیت کے قائل ہیں یا نبوت کے ؟ وہ ختم رسالت کے عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں ؟ یہ تمام مباحث علمی اور تحقیقی نوعیت رکھتے ہیں اور یہ منصب علماء کا ہے کہ وہ ان عقائد کی تردید اور اصلاح کریں۔ اور جو گمراہ لوگ ختم رسالت کے عقیدے میں متذبذب ہیں ان کو راہ راست پر لائیں۔ لیکن یہ بحث و مباحثہ مناظرہ و مکالمہ کی حدود تک رہنا چاہئے۔ بے شک جو شخص >ختم رسالت< کے عقیدے کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں۔ اس باب میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں۔ لیکن قادیانی اپنی صفائی میں کیا کہتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ تحمل کے ساتھ اسے سنیں اور جہاں جہاں انہیں اعتقادی طور پر غلط پائیں نرمی کے ساتھ متنبہ اور محبت کے ساتھ خبردار کریں۔ یہ تو ہے اصلاح نفوس اور امر بالمعروف کا وہ طریقہ جو اسلام نے تسلیم کیا ہے اور قرآن مجید میں بار بار اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ غنڈہ گردی اور جہالت کا راستہ یہ ہے کہ لاٹھیاں لے کر مخالف عقیدہ رکھنے والوں پر دھاوا بول دیا جائے اور ڈنڈے کے زور سے ان کی اصلاح کی جائے۔ افسوس یہ ہے کہ بعض حلقوں نے قادیانیوں کی اصلاح کیلئے یہی دوسرا راستہ اختیار کررکھا ہے جس کے نتائج >جہانگیر پارک< کے جلسے میں ظاہر ہوگئے۔ ہم ہر گز اس الزام کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ قادیانیوں کے جلسہ میں اشتعال انگیزی کی گئی۔ مولانا احتشام الحق صاحب اور ان کے دوسرے رفقاء نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ >سو ڈیڑھ سو قادیانیوں کی خوشنودی کیلئے کراچی کے سولہ لاکھ باشندوں کو کچلا نہیں جاسکتا<۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جلسہ میں قادیانیوں کی تعداد سو ڈیڑھ سو سے زائد نہ تھی۔ انصاف کیجئے کہ مخالفت کے ایسے عظیم طوفان میں مٹھی بھر انسانوں کو اشتعال انگیزی اور بد زبانی کی جرات ہوسکتی ہے ؟ نہیں یہ الزام کوئی شخص تسلیم نہیں کرسکتا۔ اس سلسلہ میں چیف کمشنر نے جو وضاحت کی ہے صرف وہی قابل تسلیم ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کافی عرصہ سے قادیانیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر اشتعال انگیزی کی جاری ہے اور اس پرجوش مخالفت کے سبب پنجاب میں کہیں کہیں چند ناخوشگوار حوادث بھی پیش آئے چند ماہ قبل کراچی میں اینٹی قادیانی اجتماعات ہوئے تھے انہوں نے بھی مخالفانہ احساست کو کافی بھڑکایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے ایک مشتعل ہجوم نے پولیس سے مڈبھیڑ کے بعد شیزان ریسٹورنٹ` احمدیہ فرنیچر سٹور` احمدیہ لائبریری اور بعض دوسرے ایسے اداروں کو جن کے متعلق احمد ملکیت ہونے کا شبہ تھا آگ لگانے کی کوشش کی اور اگر کراچی ایڈمنسٹریشن اس موقع پر غیر معمولی احتیاطی تدابیر نہ اختیار کرتا اور پولیس وسیع پیمانے پر حرکت میں نہ لائی جاتی تو خدا جانے کراچی میں کیا کیا مناظر دیکھنے میں آتے ہم ایک طرف تو حضرت علماء کرام کے روشن خیال طبقہ سے درخواست کریں گے کہ وہ خدا اور رسولﷺ~ کیلئے میدان میں آئیں اور جاہلوں کو موقع نہ دیں کہ وہ دس لاکھ انسانوں کے خون سے خریدی ہوئی اس گراں مایہ مملکت کے اتحاد` سالمیت اور آزادی کو خطرہ میں ڈال دیں اور دوسری حکومت پاکستان کے اصرار کریں گے کہ >مذہبی اشتعال انگیزی< کے مقابل اس کا رویہ اب تک تحمل اور نرمی کا رہا ہے۔ یہ رویہ ایک دن پوری قوم کو خطرے میں ڈال دے گا جہاں تک قادیانیوں کا تعلق ہے ہم اس کے حامی ہیں کہ ان کے عقائد کی تردید موثر طور پر کی جانی چاہئے اس کا طریقہ یہ ہے کہ علماء اسلام تحقیق و علم کے میدان میں ان کا مقابلہ کریں لیکن یہ غنڈہ گردی یہ بلوے` یہ اشتعال انگیزیاں ! ہمیں صاف لفظوں میں اعلان کرنا چاہئے کہ پاکستان میں مذہبی مخالفت پر لاٹھیاں برسانے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔<
)۷( >شیراز< نے علماء کنونشن کے مطالبات پر حسب ذیل رائے کا اظہار کیا:۔
>کراچی میں >علمائے کراچم< اور مفتیان عظام< کے ایک کنونشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ۔
>چونکہ سر محمد ظفر اللہ قادیانی ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان سے کوئی دلچسپی اور ہمدردی نہیں ہوسکتی اس لئے انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے عہدے سے الگ کردیا جائے اور قادیانیوں کو پاکستان میں >مذہبی اقلیت< قرار دے دیا جائے۔<
حضرات علمائے کرام نے جس بناء پر چوہدری صاحب کی >برخواستگی< کا مطالبہ کیا ہے ہم اس بنیاد کو پاکستان کی سالمیت` خوشحالی` ترقی` اور اتحاد کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ ہمارے واجب الاحترام علماء نے اس کنونشن میں جو مطالبہ کیا ہے وہ ملک اور ملت کیلئے سخت تباہ کن ہے >قادیانیت< کو >پاکستانیت< کا حریف اور ہر قادیانی کو اینٹی پاکستان قرار دینا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے کوئی باشعور پاکستان اتفاق نہیں کرسکتا۔ اس موقع پر جب کہ ابھی ہم اپنے قومی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے ایک شدید جنگ لڑرہے ہیں مذہبی بنیادوں پر ایک اس قسم ے ہنگامے گرم کرنا اور سیاسیات کو خواہ مخواہ فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھنا گویا اجتماعی خودکشی کا سامان فراہم کرنا ہے۔ ہم اس ملک کے سمجھدار طبقے سے درخواست کریں گے کہ وہ میدان میں آئے اور بغیر کسی توقف اور قاتل کے اس قسم کے مضحکہ انگیز مطالبوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرے۔ حکومت کو بھی زیادہ عرصہ تک اس سلسلہ میں >مجہول پالیسی< اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کا فرض ہے کہ اور کسی سبب سے نہیں تو اپنے وزیر خارجہ کی پوزیشن کے تحفظ ہی کیلئے حرکت میں آئے اور ان مدعیان دین سے صاف الفاظ میں کہہ د کہ تم فقہی تاویلات کی بناء پر مسلمانوں کو کافر یا مومن بناتے رہو لیکن تمہیں یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ تم پوری قوم کے مفادات سے )اس قسم کے مطالبات کر کے( کھیلو۔< ۲۰
۸۔ ہفت روز >تارا< )۲۶ جون ۱۹۵۲ء( نے علماء کی کنونشن کی نسبت لکھا:۔
>کراچی میں حال میں > مفتیان عظام< اور علماء کرام کا ایک عظیم الشان کنونشن ہوا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ )خلاصہ یہ ہے(
>چونکہ سر ظفر اللہ قادیانی ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان سے کوئی دلچسپی اور ہمدردی نہیں اس لئے انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے عہدے سے الگ کردیا جائے اور قادیانیوں کو پاکستان میں ایک >مذہبی اقلیت< قرار دے دیا جائے۔< ~}~
ہنسی ہنسی میں بعض اوقات
طول پکڑ جاتی ہے بات
اس مطالبہ پر بحث کرنے اور لکھنے کیلئے تو بہت کچھ ہے مگر مختصراً ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ قومی حکومت کی خارجہ پالیسی سے نامطمئن ہو کر حضرات علماء کرام نے جن بنیادوں پر وزیر خارجہ کی برخواستگی طلب کی ہے وہ بنیادیں پاکستان کی سالمیت` خوشحالی` ترقی اور اتحاد کیلئے نشتر اور زہر ہلاہل کا حکم رکھتی ہیں۔ اور ہمارے واجب الاحترام علماء نے اس کنونشن میں جو مطالبہ کیا ہے وہ ملک اور ملت کیلئے انتہائی تباہ کن ہے۔ ہر قادیانی کو اینٹی پاکستان اور قادیانیت کو پاکستانیت کا تضاد ٹھہرانا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے کوئی باشعور پاکستانی اتفاق نہیں کرسکتا۔ ایسے حالات میں جب ہمیں اپنا قومی وجود قائم رکھنے کیلئے زندگی کے ہر شعبہ میں ایک جنگ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے مذہبی بنیادوں پر اس قسم کے ہنگامے برپا کرنا اور سیاسیات کو مذہبی رنگ دے کر فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنا کہاں کی دانشمندی ہے بلکہ مضحکہ خیز ہے۔
ہم ملک کے دانشمند اور باشعور طبقہ سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ میدان عمل میں آئیں اور اس قسم کے مضحکہ انگیز مطالبات کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور بلاتامل و توقف حکومت کے اس >مجہول پالیسی< اختیار کرنے پر آداب سیاست کا خیال رکھتے ہوئے احتجاج کریں<۔۲۱
۹۔ سہ روز >رہبر< )۳۰ مئی ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
بہاولپور
>مجلس احرار جب سے قائم ہوئی ہے تب ہی سے بزرگان احرار نے مسلمانوں کے سودا اعظم` مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مخالفت کرنا اپنا شیوہ ملی قرار دے رکھا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد خیال تھا کہ یہ بزرگ اپنے رویہ میں خوشگوار تبدیلی کر کے ملت کا ساتھ دیں گے لیکن ملت کی بدنصیبی ہے کہ ایسے لوگوں سے کوئی بھلائی کی توقع کیونکر ہوسکتی ہے جنہوں نے جنم ہی ہندو کانگرس کی گود اور سیٹھ ڈالیا کی دولت کی تجوریوں میں لیا ہو اور جنہوں نے اس بات کی قسم کھا رکھی ہو کہ انہوں نے ہمیشہ لت کے خلاف ہی محاذ قائم کر کے ملت کی صفوں مین انتشار پیدا کرنا ہی اپنا فریصہ ملی تصور کر رکھا ہو۔ کہیں قادیانیوں کی مخالفت کے بہانے سے تبلیغی کانفرنس اور کہیں ختم نبوت کانفرنسوں کے نام پر بڑے بڑے اجتماع کر کے مسلمانوں میں وزیر خارجہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کی جاتی ہے اور کئی حیلے بہانے تلاش کر کے پاکستان کی وحدت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بزرگان احرار اگر تبلیغ اور تحفظ نبوت تک ہی اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھیں اور قادیانیوں کی مذہبی نقطہ نگاہ سے ہی مخالفت کریں تو ہم جیسے ہنفی العقیدہ لوگ بھی ان کا ضرور ساتھ دیں۔ لیکن قوم و ملک کی بدنصیبی ہے کہ اس احرار ٹولے کے یہ ڈرامہ صرف اپنے ان احراری زعماء کے ایماء پر )جو پاکستان کے قیام کے بعد بھارت میں اپنے ہندو آقائوں کو خوش کرنے کیلئے چلے گئے تھے اور بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کو ختم کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں( پاکستان کے مسلمانوں کو حکومت پاکستان کے خلاف اکھانے کیلئے کھیلنا شروع کررکھا ہے۔
حال ہی میں معاصر عزیز >نوائے وقت< لاہور کی ایک خبر کے مطابق احراری امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ بخاری نے یہ اعلان پشاور کے ایک عام اجتماع میں کیا ہے کہ >میں ہوں قائداعظم اور میرے مرکزی دفتر کے چپڑاسی کا نام بھی قائداعظم ہے< اور ساتھ ہی حکومت پاکستان کو چیلنج بھی دیا ہے کہ >اگر حکومت میں طاقت ہے تو توہین قائداعظم کے سلسلے میں میرے خلاف مقدمہ چلائے< قائداعظم مرحوم کی زندگی میں بھی یہ احراری بزرگ مرحوم کو >کافر اعظم< کے نام سے خطاب کرتے رہے لیکن پاکستان کے بانی کی وفات کے بعد ان لوگوں کو اتنی ہمت اور جرات ہوگئی ہے کہ وہ برسرعام مسلمانوں کے اجتماع میں پشاور جیسے غیور شہر میں قائداعظم مرحوم کی توہین کرنے کے بعد حکومت پاکستان کو چیلنج دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان میں واقعی کوئی غیرت اور طاقت ہے کہ وہ اپنے سب سے بڑے رہنما کی توہین کو خاموشی اور بے غیرتی سے برداشت کر لیتی ہے یا اس گستاخی کے خلاف کوئی عملی اقدام کرتی ہے تاکہ آئندہ کسی دوسرے شخص کو ایسی گستاخی اور ذلالت کی جرات ہی نہ ہو ورنہ یہ چنگاری جس کی داغ بیل احراری بزرگوں نے آج پشاور جیسے شہر میں رکھی کہیں پاکستان کے سارے خرمن امن کو جلا کر خاکستر نہ کردے۔ کیونکہ بھارتی حکومت صرف اسی وقت کے انتظار میں ہے کہ بانی پاکستان اور حکومت پاکستان کے خلاف پاکستانیوں کے جذبات کو ابھار ر پاکستان میں اختلاف پیدا کر کے حکومت پاکستان کے خلاف عوام میں جذبات نفرت پیدا کر کے پاکستان پر حملہ کر کے پاکستان کو خدانخواستہ ختم کردیا جائے ن کی ابتداء ہندوئوں کے دیرینہ زر خرید غلاموں اور ایجنٹوں نے پشاور سے کردی ہے۔ اس لئے حکومت پاکستان کو سختی سے اس فتنہ کو جلد سے جلد دبا دینا چاہئے ورنہ بعد میں پچھتانے سے کچھ نہ ہوگا۔ وما علینا الا البلاغ۔<۲۲
کوئٹہ
۱۰۔ کراچی کے فساد پر کوئٹہ کے پارسی اخبار >کوئٹہ ٹائمس< مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۵۲ء کا تبصرہ:۔
>ہنگامہ کراچی کے وہ مکروہ واقعات جو حال ہی میں رونما ہوئے ایک مہذب ملک کیلئے شرم کا باعث ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کی تہ میں مذہبی تعصب اور عدم رواداری کا جذبہ کار فرما ہے۔ یہ جہالت اور تعصب کی بدولت ہے کہ مذہب کے نام پر عدم رواداری کا بندبہ پروان چڑھتا ہے۔ تاریخ عالم پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے آپ کو باسانی معلوم ہوجائے گا جب کبھی کسی ملک میں مذہب کی آڑ میں ظلم اور ایذارسانی کا دور دورہ ہو تو ترقی کی راہیں اس ملک پر مسدود ہوگئیں۔
مذہب کے نام پر ظلم روا رکھنے سے انسانی فطرت مسخ ہوجاتی ہے اور جس ملک میں بھی یہ دور دورہ ہو وہ دنیا میں ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ تنگ نظری نے جہاں راہ پائی وہیں آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی۔ ایک مہذب اور روشن خیال قوم مذہبکے نام پر کبھی ظلم روا نہیں رکھتی۔ علم انسان کے نقطہ نظر میں وسعت پیدا کردیتا ہے اور انسان یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ ایک مقدس ماحول میں زندگی بسر کررہا ہے۔ پس ایک ایسی قوم ہی جو جہالت کی تاریکیوں میں رینگ رہی ہو مذہبی غلامی کو برداشت کرسکتی ہے۔ تاریخ ایسی واضح مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ نیک دل بادشاہوں نے رواداری کی بدولت بڑی مستحکم سلطنتیں قائم کیں اور بعد میں آنے والوں نے عدم رواداری کے ہاتھوں انہیں خاک میں ملا دیا۔
یہ کہتے ہوئے دشمنان اسلام کی زبان نہیں تھکتی کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے یا اس کی تبلیغ و اشاعت میں تلوار کا بہت بڑا دخل ہے۔ جو لوگ گزشتہ ہفتہ کے ہولناک واقعات کے ذمہ دار ہیں افسوس کہ انہوں نے اپنی حماقت سے ایسے دشمنان اسلام کی خود ہی تائید کر کے ان کے ہاتھ مضبوط کئے۔ رسول پاک~صل۱~ نے اپنے ماننے ولاوں کو بار بار تاکید کی ہے کہ وہ رواداری کے اوصاف سے اپنے آپ کو متصف کریں۔ لیکن کیا کیا جائے تعصب اور غیظ و غضب کی گرمی نے ان لوگوں کو اندھا کر رکھا ہے بانی اسلام~صل۱~ کی روشن دماغی کا یہ ایک بین ثبوت ہے کہ آپ نے ہمیشہ اشاعت دین کی راہ میں طاقت استعمال نہ کرنے کی تعلیم دی۔
یہ جھگڑا مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں کے درمیان نہیں ہے یہ جھگڑا ہے جہالت اور علم کے درمیان` نام نہاد مولویوں کے اندھے مقلدوں اور ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اسلام کی صحیح روح اپنے اندر جذب کی ہوئی ہے۔
جہاں تک مذہب اور مملکت کا تعلق ہے حکومت پر بعض فرائض عائد ہوتی ہیں۔ ایسے تعصب کے قلعے سر کرنے میں ہر ممکن امداد کرنی چاہئے۔ اگر کٹر اور متعصب لوگوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا گیا تو لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ حکومت بھی ان عناصر کی گردنیں اور اکڑ جائیں گے اور پھر آگے چل کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا آسان نہ رہے گا۔ امن برباد کرنے والون کے لئے ایک ہی قانون ہے قانون شکنی کرنے والوں میں سے کسی کو بھی اس کے نتائج بھگتنے سے مستثنیٰ قرار نہ دینا چاہئے۔<
۱۱۔ اخبار >تنظیم< پشاور )۲۰ مئی ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
پشاور
>حضرت قائداعظم اور مسلمانان پاکستان و ہند کے محبوب مطالبہ پاکستان کے وقت سے لے کر قیام پاکستان کے کافی عرصہ تک ہندوئوں کے اشارہ پر پاکستان` قائداعظم اور پاکستان کے حامی مسلمانوں کو جو بے نقطہ اور ان گنت گالیاں ۲۳]txet [tag جماعت احرار نے سنائی ہیں اعید ہے مسلمانان پاکستان ابھی تک انہیں نہ بھولے ہون گے۔ غرضیکہ پاکستان کے قیام کی مخالفت میں احرار بزرگوں کی ترکش کا زہر میں بجھا ہوا کوئی ایسا تیر باقی نہ رہا تھا جو انہوں نے استعمال نہ کیا ہو۔ پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔ پاکستان قائم ہو اور اب انشاء اللہ ٹھوس اور مستحکم بنیادوں پر اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ نامعلوم اب اللہ تعالیٰ پاکستان کے مسلمانوں سے ناراض ہوگئے ہیں کہ انہوں نے اب پاکستان کی تخریب کیلئے شاید ایک دوسرے >قائداعظم< پیدا کردیئے ہیں جن کا کام پہلے سرے سے پاکستان کے قیام کی مخالفت تھا اور اب ان کا کام پاکستان میں رہنے والوں کو آپس میں لڑا کر تخریب پاکستان ہے۔ پیر عطاء اللہ صاحب پاکستان کے ہر حصہ میں ختم نبوت کانفرنسیں منعقد کر کے اپنے آپ کو قائداعظم ظاہر کررہے ہیں حالانکہ ختم نبوت کے مسئلہ سے مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہے کہ حضور رسول~صل۱~ خاتم النبین ہیں۔ آپﷺ~ کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو وہ >غلط کار اور جھوٹا< ہے اور مسلمانوں سے نہیں۔ اگر >مرزائی کافر< ہندو کافروں سے کٹ کر پاکستان کے >مومن مسلمانوں< کے سایہ میں آگئے ہیں تو کیا ہمارا اسلام اور آئین ہمیں یہی اجازت دیتا ہے کہ اختلاف عقائد کی بنا پر ہم ایک فرقہ کی زندگی دوبھر کردیں۔
سادہ لوح جوشیلے مذہب اور اسلام کے نام پر کٹ مرنے اور مارنے والے مسلمانوں کو یہ جوش اور اشتعال دلاتے پھریں کہ مرزائیوں کو قتل کرنا عین ثواب اور اسلام دوستی ہے۔
مرزائیوں سے حضرت شاہ صاحب کو درحقیقت اتنی نفرت ہے یا نہیں البتہ پاکستان سے آپ کی دشمنی مسلمہ ۲۴ ہے۔ آپ لوگ پاکستان کو باہر کی مسلمان دنیا اور جمہوری ممالک میں بدنام ` تنگ نظر اور غیر اسلامی حکومت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو خود بخود قائداعظم بن کر تخریب پاکستان کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مرزائی کافر سہی لیکن پاکستان کے باشندے اور اپنے آپ کو وفادار شہری ظاہر کر رہے ہیں۔ اور حضرت قائداعظم نے احمدیوں کے وجود کو پاکستان کیلئے مفید پا کر اکثر موقعہ پر ان سے پاکستان کیلئے امداد دیں بھی حاصل کیں ہیں اور پاکستان سے اپنا تعلق و انس ثابت کرنے کیلئے اپنے مرکز کو چھوڑنے اور کروڑوں روپیہ کی جائیدادیں چھوڑ کر مرزائی کافروں نے اپنی جانیں پاکستان کی خدمت کیلئے پیش کی ہیں۔ حضرت قائداعظم نے سر ظفر اللہ کو ایک قابل وفادار پاکستانی سمجھتے ہوئے وزارت خارجہ کا ایک نہایت اہم اور ذمہ دار عہدہ پیش کیا تھا۔ چنانچہ اپنی بے نطیر دماغی صلاحیتوں اور قانونی قابلیتوں کے باعث نہ صرف خود ظفر اللہ اقوام عالم میں ہمہ گیر ہر دلعزیزی حاصل کرچکے ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کے وقار اور عزت کو بھی چار چاند لگادیئے ہیں۔ البتہ اگر حکومت کو اب ان کی خدمات کی ضرورت نہ ہو تو ان سے استعفے مانگا جاسکتا ہے اور مرزائیوں کو ایک علیحدہ اور اقلیتی فرقہ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی پاکستان کے مرزائیوں کو ان کے عقائد` جان و مال کے تحفظ اور دوسرے شہری و ملکی حقوق کی مراعات دینی ہوں گی۔ نامعلوم حکومت کن سیاسی مصلحتوں کی بناء پر خاموش نئے قائداعظم کے تخریبی پروگرام کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ ہمارے خیال میں اس موقعہ پر حکومت ناقابل تلافی سیاسی غلطیوں سے کام لے رہی ہے۔ یہی نیا قائداعظم کل کہے گا` جو اسلامی آئین ہم چاہتے ہیں پاکستان کے موجودہ حکمران صحیح اسلامی آئین نہیں بنا سکے۔ لٰہذا جس حکومت کا آئین اسلامی نہ ہو وہ مسلمان نہیں کہلا سکتی۔ >میں قائداعظم ہوں< کا خطاب حاصل کرنے کے باعث احرار مذہبی جھگڑوں کے ذریعہ تخریب پاکستان کے مواقع پیدا کررہی ہے اور وہ ایک مذہبی وہیں بہتے ہوئے مسلمانوں کے خیالات و عقائد کا جو احرار اس وقت ان میں پیدا کررہے ہیں مقابلہ نہ کرسکے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکومت اور مسلمانوں کو اسلامی اور اخلاقی شعور پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور چور دروازوں سے داخل ہونے کی بجائے احرار کیلئے بھی سیاسی اقتدار کی کوئی راہ نکالے تاکہ پاکستان تخریبی سرگرمیوں کا اڈہ بننے سے بچ سکے۔<
لاہور
۱۲۔ اخبار >امروز< )۲۲مئی ۱۹۵۲ء( نے >کراچی کا ہنگامہ< کے زیر عنوان حسب ذیل شذرہ سپرد قلم کیا:۔
>جہانگیر پارک کراچی میں جماعت احمدیہ کے جلسہ عام میں جو ہنگامہ ہوا وہ ہر اعتبار سے افسوسناک ہے اور ایک آزاد و مہذب قوم کے شایان شان نہیں۔ ذمہ دار قوموں کے افراد انتہائی اشتعال کے عالم میں بھی اپنے فرائض کا خیال رکھتے ہیں اور تہذیب و دمن کی حدود سے آگے نہیں بڑھتے کیونکہ جبر و تشدد کے ذریعہ نہ تو کوئی مسئلہ حل ہوسکت اہے اور نہ عقائد ہی میں کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے تاہم یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ اس فوری اشتعال کے اسباب و علل کیا ہیں کیونکہ جب تک ہم کو ملت نمائی کا علم نہ ہو ہم اس حادثے کے متعلق صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔
ہجوم کے طرز عمل سے یہ حقیقت بالکل آشکار ہوجاتی ہے کہ وہ انتہائی مشتعل تھا اور اس قدر بے قابو تھا کہ پولیس کے لاٹھی چارج کے باوجود اس نے جلسہ کو درہم بدرہم کرنے کی پیہم کوششیں کی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا خشت باری ہوئی۔ لوگوں کے چوٹیں آئیں۔ شامیانے پھٹے۔ کاروں لائوڈ سپیکروں اور روشنیوں کو نقصان پہنچا۔ گرفتاریاں ہوئیں منتظمین کا باہر نکلنا مشکل تھا۔ غرض یہ کہ سوا گیارہ بجے رات تک میدان کا رازر کا نقشہ جما رہا۔
قطع نظر اس سے کہ اس اشتعال کے اسباب کیا تھے ؟ کسی شہری کو اس کا حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے اس لئے اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ اگر ہر شخص اسی طرح عمل کرتا رہے تو نظم و نسق تباہ ہوجائے گا اور لاقانونیت اور نراج کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ رہا یہ سوال کہ یہ واقعہ پیش ہی کیوں آیا تو اس کی ظاہری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے جیسا کہ کراچی کے اخبارات میں مذکور ہے کہ جلسہ کی اجازت اس بناء پر دی گئی تھی کہ اس میں اختلافی امور پر کچھ نہ کہا جائے گا لیکن اس کے باوجود مقررین نے اختلافی مسائل پر تقریریں کیں۔ مجمع نے احتجاج کیا مگر انہوں نے اس کے جذبات و احساسات کا احترام نہیں کیا۔
اگر یہ واقعات صحیح ہیں تو ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ منتظمین اور مقررین جلسہ نے انتہائی غیر ذمہ داری اور فرض ناشناسی کا ثبوت دیا۔ اگر وہ حدود سے تجاوز نہ کرتے تو غالباً یہ افسوسناک واقعہ ظہور پذیر نہ ہوتا جس طرح مشتعمل ہجوم کو قانون شکنی کا حق نہیں تھا اسی طرح منتظمین و مقررین بھی اس کے مجاز نہیں تھے کہ وہ ان شرائط سے روگردانی کریں جو اس جلسے کے انعقاد کیلئے لازمی قرار دی جاچکی تھیں۔ لیکن اس سلسلے میں ہر شخص یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر منتظمین اور مقررین کی طرف سے عہد شکنی کا مظاہرہ ہوا تھا۔ حاضرین نے اعتراض کیا تھا اور مقررین نے اس کی پروا نہیں کی تھی تو نظم و نسق کے ذمہ دار خاموش کیوں رہے۔
اس واقعہ کا ایک پہلو جو ان سب سے زیادہ اہم اور نتیہ خیز ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کی آویزشات کی حوصلہ افزائی ہوئی تو اس سے قوم کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی جس سے ملک دشمن عناصر خوب فائدہ اٹھائیں گے اس لئے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔
پاکستان میں مختلف مذاہب کے پیرو اور مختلف عقائد رکھنے والے لوگ بستے ہیں انہیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب اور عقیدے پر چلیں۔ لیکن کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے فرقے کی دل آزاری کے ساتھ اپنے مذہب اور عقیدے پر چلیں لیکن کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے فرقے کی دل آزاری پر اتر آئے اور دوسرے فرقہ کے جذبات و احساسات کا خیال نہ رکھے کیونکہ اگر اس کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو پھر ملک میں ہنگاموں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا اور جدال وقتال کا بازار ہمیشہ گرم رہے گا جو ملک کے مستقبل کیلئے کسی طرح بھی مفید نہیں۔ اس لئے ہمیں یقین ہے کہ ملک کے تمام ذمہ دار سنجیدہ اور وطن دوست حضرات اس واقعہ کی مذمت کریں گے۔ ساتھ ہی ہم کراچی کے حکام کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہ اس ہنگامہ کی نہایت احتیاط سے تحقیقات کریں اور طرفین کے رویہ کا جائزہ لیں۔<۲۵
۱۳۔ روزنامہ >آفاق< )یکم جون ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>احمدیوں کے خلاف عام مسلمانوں کو جو شکایات ہیں ان میں سب سے بڑی شکایت تو یہی ہے کہ وہ حضرت سرور کائنات کے بعد اجرائے نبوت کے قائل ہیں حالانکہ خاتم النبین کا مطلب ۱۴۴۰ سال سے یہی سمجھا جارہا ہے کہ حضورﷺ~ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس کے علاوہ احمدیوں کا یہ شیوہ بھی مسلمانوں کو بہت ناگوار ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے سوا کسی دوسرے مسلمان کیلئے دعائے مغفرت نہیں کرتے نہ کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر جذبات کی ہنگامہ آرائی سے الگ ہو کر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو دوسرے مسلمان فرقوں کے اختلافات لبھی کچھ کم تکلیف نہیں ہیں۔ شیعہ حضرات صدیقؓ اکبر` فاروق اعظم` عثمان غنیؓ کو غاصب و ظالم کہہ کر ناگفتہ بہ کلمات سے یاد کرتے ہیں۔ سنیوں کے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی۔ گو وہ کسی وقت منافقت سے شامل صلٰوۃ ہو بھی جاویں یا کسی سنی کی نماز جنازہ بھی پڑھ لیں لیکن ان کے عقائد کا یہ تقاضا نہیں ہے۔ بریلوی عقیدے کے لوگ اہل حدیث کے نزدیک پرلے درجے کے مشرک ہیں جو انسانوں کی روحوں اور مردوں کی قبروں کو قبلہ ` مراد مانتے ہیں اور ایسے شمار ایسی رسوم کے پابند ہیں جن کی اصل دین میں موجود نہیں ہے۔ دنیائے اسلام میں بعض ایسے فرقے بھی مسلم معاشرے کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں جن کے عقائد سواد اعظم کے سخت خلاف ہیں۔ مثلاً آغا خانی` بہائی اور دروزی۔ لیکن ہندوستان` ایران` پاکستان ` شام وغیرہ میں وہ ملت اسلامی ہی سمجھے جاتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ احمدیوں کے بارے میں مسلمان صبر اور رواداری سے کامنہ لیں اور لکم دینکم ولی دین کہہ کر ان سے تعرض نہ کریں۔ اگر مذہبی فرقوں کے درمیان جنگ و شقاق کا ہنگامہ جاری رہا تو ظاہر ہے کہ اس سے کلمہ گویوں کے اتحاد کی بنیاد کمزور ہوجائے گی۔ میں ان جوشیلے حضرات سے متفق نہیں ہوں جو یہ کہنے کے عادی ہیں کہ احمدی ہندوئوں ` سکھوں` عیسائیوں` یہودیوں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو شخص توحید الٰہی` نبوت محمدی` حشر نشر` سزا` جزا` قرآن اور کعبہ کا` قائل ہے۔ اور نماز روزہ` زکٰوۃ حج اور تمام احکام فقہی میں سواد اعظم سے متشابہ ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ کفار سے زیادہ کیون کر برا ہوسکتا ہے اور ملت سے خارج کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ بڑے بڑے عظیم الشان آئمہ اسلام نے تو نہایت شدید اختلافات کی حالت میں بھی دوسروں سے انتہائی رواداری کا ثبوت دیاہے۔ اور خود امام ابوحنیفہ کا یہ ارشاد مشہور ہے کہ جس شخص میں ننانوے وجوہ کفر کی اور ایک وجہ اسلام کی بھی موجود ہو اس کو کافر کہنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ خیر مجھے مذہبی مسائل کی پیچیدگیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور نہ آج کل ان بھول بھلیوں میں اپنے آپ کو کھو دینے کا زمانہ ہے میں تو یہ کہتا ہون کہ پاکستان میں ملت اسلامیہ کے اندر فرقہ پرستی کی آگ کو ہو دینا ملت اور بہبود وطنکے خلاف ہوگا۔ جب پاکستان کے ہندوئوں` اچھوتوں` عیسائیوں پارسیوں کے شہری حقوق مسلمانوں کے برابر ہیں اور ان کے جان و مال و آبرو کی حفاظت اور تحریر و تقریر اجتماع کی آزادی کی ضامن و کفیل خود حکومت پاکستان ہے )بشرطیکہ وہ قانون ملکی کی خلاف ورزی نہ کریں( تو پھر اللہ اور رسول~صل۱~ کا کلمہ پڑھنے والی جماعتوں کو وہتمام حقوق اور آزادیاں کیون حاصل نہیں۔ عیسائیوں کو تو تبلیغی جماعتیں مثلاً مثن اسکول۔ وائی۔ ایم۔ سی۔ اے سالولیشن آرمی و مکتی فوج تک پاکستان میں اپنا کام آزادانہ طور پر کررہی ہیں اوف ان سے کوئی معترض نہیں ہوتا پھر مرزائیوں سے معترض کے کیا معنی ؟
بعض متعصب مولوی اور ان کے جوشیلے پیرو یہ کہنے کی تو جرات نہیں کرسکتے کہ فلاں فرقے کے تمام مردوں` عورتوں اور بچوں کو پاکستان بدر کردیا جائے اور اگر وہ ایسا مطالبہ بھی کریں تو اہل عقل میں سے کون ہے جو ان کا ہم زبان ہوسکے۔ پھر جب تمام حنفیوں` وہابیوں` بریلویوں` شیعوں` مرزائیوں` ہندوئوں ` عیسائیوں اور اچھوتوں کو اسی ملک میں رہنا اور یہیں مرنا گرنا ہے اور پاکستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے ان سب کے حقوق مساوی ہیں تو سمجھ مں نہیں آتا کہ ان قوموں اور فرقوں کی آپس میں ہنگامہ آرائی کرنا کس اعتبار سے پاکستان کیلئے مفید ہے۔
ہمارے بعض علماء کو اس امر کا اندازہ نہیں کہ کراچی میں مرزائیوں کے جلسے پر ہزاروں مسلمانوں کی یورش سے ہم دنیا بھر کے ممالک میں حد درجہ بدنام ہوئے ہیں اور حریت رائے اور جمہوریت کے بلند بانگ دعوئوں کی کس طرح قلعی کھلی ہے۔ خدا کیلئے اپنے وطن کو اقوام عالم میں بدنام و رسوا نہ کرو تم اپنے عقائد پر قائم رہو اور دوسروں کو اپنے عقائد پر قائم رہنے کا حق دو عیسیٰ بدین خود موسیٰ بدین خود۔ بعض علماء کا صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ >ہجوم نے جو کچھ کیا برا کیا ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔< علماء اسلامی شائستگی اور اخلاق کے امین ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اختلاف عقائد کو الگ رکھ کر عامتہ المسلمین کو اس طرح احتجاجی کی بنا پر سختی سے ڈانتیں اور ملک بھر کی مسجدوں سے یہ آواز بلند کریں کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ احکام اسلام ` وقار اسلام اور اخلاق اسلام کے منافی ہے اور اس سے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ مولوی کبھی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ یہ فتنہ فساد کا ہنگامہ اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور وہ خلوت میں اسی پر بغلیں بجا رہا ہے۔
قانون امن کی طاقتوں کو بلا خوف لومتہ لائمہ قانون و انتظام کو تباہ کرنے والوں کے خلاف شدید کارروائی کرنی چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ ہر صحیح ہر صحیح الدماغ اور ذمہ دار پاکستانی اس اقدام میں ان کا حامی ہوگا۔
حکومت کے صیغہ داخلہ کو مذہبی فرقہ آرائی کے ذمہ داروں اور اشتعال انگیز و اعظموں اور مقرروں پر نہایت کڑی نظر رکھنی چاہئے خواہ وہ کسی فرقہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں۔ احراری ہوں یا مرزائی جو بھی فتنہ انگیزی کے درپے ہو اس کے ساتھ قانونی سلوک ہونا چاہئے۔<
سرگودھا
>قارئین کو ریڈیو پاکستان اور روزانہ اخبارات کے ذریعہ سے معلوم ہوچکا ہوگا کہ ۱۷۔۱۸ مئی ۱۹۵۲ء کو کراچی کے جہانگیر پارک کے اندر >اسلام ایک زندہ مذہب< کہنے والے کے خلاف مردہ بار کے نعرے لگائے گئے جلسہ میں پتھرائو کیا گیا جس سے حالات کافی مخدوش ہوگئے۔
ہمارے ایک احراری بزرگ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہمارا لب و لہجہ احرار کے بارے میں نہایت تند و تلخ ہوتا ہے اس لئے ہم ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے نہایت نرم الفاظ میں کچھ گذارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
>مجلس احرار< یہ گرگٹ جماعت جو مرغ بادنما کی طرح اپنا رخ بدلتی رہتی ہے جسے کل اپنا آج کا مسلک غلط نظر آتا ہے اور پرسوں آج کا مسلک راست معلوم ہوتا ہے جسے خود یہ علم نہیں کہ وہ چاہتی کیا تھی اور چاہتی کیا ہے جس کے مقدس >لیڈر ان کرام< ۱۵ اگست تک سیاست کا رخ معلوم نہ کرسکے اور ان سے کس سمجھ بوجھ کی توقع رکھی جاسکتی ہے جس کا وجود ہی محض اس لئے معرض ظہور میں لایا گیا کہ کچھ خود غرض لوگ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کیلئے اس جماعت کو بطور >حربہ< استعمال کریں جس نے ہر موقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ غداری کی۔ جس نے نظریہ پاکستان کا مذاق اڑایا کبھی تو یہ جماعت سیاسی ہے کبھی مذہبی پر سیاسی ۔ پھر مذہبی۔ غرضیکہ مذہبیوں کی یہ جماعت گرگٹ کی طرح رنگ ہی بدلتی نظر آئی۔<
مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اور تخریبی کارروائیاں کرنا اس جماعت کا پرانا مشغلہ ہے جس پر نہایت استقلال کے ساتھ آج تک قائم ہے۔ کراچی کے تلخ واقعات بھی اس روش کا نتیجہ ہیں۔ آج قائداعظم علیہ الرحمتہ کی روح >مسلمانوں< سے پوچھ رہی ہے کہ کیا میں نے تمہیں اتحاد اور تنظیم کا یہی سبق دیا تھا ؟ ان کے جلسہ میں پتھرائو کیوں کیا گیا ؟ اس جلسہ میں موضوع تقریر یہی تھا >اسلام ایک زندہ مذہب ہے۔< کیا ان مفسیدن کو اس چیز سے اختلاف ہے ؟ آخر یہ متشددانہ رویہ کیوں اختیار کیا گیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ مسلمانوں سے دلچسپی ہے نہ اسلام سے انہیں صرف اپنے ہی موضوع سی دلچسپی ہے۔ فساد ! ان کی گزشتہ روایات بھی یہی کہتی ہیں۔ انہوں نے ہر اس موقعہ پر فساد کیا اور کرایا جہاں مسلمان آپس میں مل بیٹھے۔ کبھی شیعہ سنی فتنہکو ہوا دی گئی کبھی مدح صحابہ کی راگنی الاپی گئی۔ کبھی رد مرزائیت کے نام پر منہ میں جھاگ لا لا کر مظاہرے کئے گئے۔
اس وقت تو یہ تخریبی کارروائیاں انگریز کراتا تھا کیونکہ اس کا مفاد ہی اسی میں تھا کہ لڑائو اور حکومت کرو۔ مگر اب ۔۔ ؟
اب یہ نتیجہ ہے ہماری حکومت کی نرم پالیسی کا۔ ان بھیڑوں کے منہ کو انسان خون لگ چکا ہے یہ اب بھی برہ معصوم کی تلاش میں ہیں۔
ہم حکومت سے امن` اتحاد` تنظیم اور انسانیت کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ اس فتنہ کو فی الفور دبا دیا جائے ورنہ یہ آئے دن کے فسادات نہ صرف حکومت کیلئے درد سرکار موضوع ہیں بلکہ عامتہ الکمسلمین میں بھی بددلی ` تشکک اور عدم اعتماد کو ایک لہر پیدا کردیں گے جو قوم کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے ملی شیرازہ پارہ پارہ کرنے کا باعث ہوں گے۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ پاکستانی سورما بڑے بہادر ہیں۔ کاش ! حکومت ابھی سے ان کی فہرست مرتب کرے تاکہ جب کبھی جہاد کشمیر کا وقت آئے تو انہیں محاذ پر بھیج کر ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
حکومت پاکستان کے دل ` کراچی میں حکومت پاکستان کا متدین اور متقی وزیر خارجہ ایک جلسہ کے اندر اسلام کے افضلیت پر تقریر فرما رہا ہے اور اس جلسہ گاہ کے باہر چند شوریدہ سر کرایہ پر لائے ہو مفسد گڑ بڑ پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ ایک ایسے جلسہ میں جہاں اسلام کی فضیلت بیان کی جانی مقصود ہو غیر مسلم اور بیرونی ممالک کے سفر اور معززین بھی مدعو ہوں گے۔ صرف یہتصور کیجئے کہ جب ہمارا وزیر خارجہ یو۔ این او میں اور دیگر ممالک میں اپنی مدلل تقاریر سے ان لوگوں کو محو حیرت بنا کر خراج تحسین حاصل کرتا ہوگا۔ اور پھر ان ممالک کے معززین جو کراچی میں مقیم ہیں اور جلسہ کے اندر ہمارے وزیر خارجہ کی اس طرح گت بنتی دیکھتے ہوں گے تو ان کی مقبولیت کے متعلق ان کا تاثر کیا ہوگا؟
اگر ہمارے وزیر خارجہ کا وقار ان لوگوں کی نظروں کے سامنے خاک میں ملا دیا جائے تو کیا ہمارے ملک کا وقار قائم رہ سکتا ہے ؟ اگر یہ کوئی انتخابی جلسہ ہوتا یا الیکشن کے سلسلہ میں کوئی اجتماع ہوتا تو بھی مفسدین کی یہ حرکت قابل برداشت نہ ہوتی لیکن ۔۔۔ لیکن یہ ایک خالص مذہبی جلسہ تھا مفسدین کی روش یقیناً حد درجہ افسوسناک ہے۔
ہمیں اب یہ اندازہ لگانا ہوگا کہ آئندہ کیلئے حکومت اس سلسلہ میں کیا پالیسی مقرر کرتی ہے ؟ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت میں یہ معاملہ ملزمان کے سزا پانے یا بری ہوجانے پر ختم ہو جائے گا یا اس حادثہ کی روشنی میں آئندہ کیلئے اس قسم کی تخریبی سرگرمیوں کے استیصال کیلئے بھی حکومت کوئی اقدامات کرتی ہے< ؟ ۲۶
سیالکوٹ
۱۵۔ اخبار >درنجف< سیالکوٹ نے >حادثہ کراچی< کے زیر عنوان اپنی یکم جون ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
>۱۷۔۱۸ مئی کو جہانگیر پارک کراچی میں احمدیوں کے سالانہ اجتماع کے موقعہپر اکثریتی عوام نے جو نازیبا مظاہرہ کیا ہے وہ ہر حساس پاکستان کیلئے موجب مذمت ہے۔ مملکت پاکستان نئے جذبات اور بلند ترین قدروں کی اساس پر قائم ہوئی ہے جس کی صیانت اور مزید استحکام ہر محب وطن کا اولین فریضہ ہونا چاہئے ہمیں احمدیت سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ان کا کوئی مسئلہ ہمارے مسائل سے میل کھاتا ہے بلکہ بلاخوف تردید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعی مسلمات جس شدت سے احمدیت کی نفی کرتے ہیں مسلمانوں کے کسی فرقہ کے معتقدات میں اتنی سختی نہیں کیونکہ شیعہ عصمت انبیاء اور وجود امام عصر کا راسخ عقیدہ رکھتے ہیں۔ برخلاف اس کے دوسرے فرقوں میں یہ اصول کچی ٹہنی کی طرح لچکدار ہیں۔ لٰہذا مسلمانوں کے عام مکاتب تو کسی نہ کسی گنجائش کے سبب ممکن ہے برداشت بھی کر لیں مگر تشیع تو کسی صورت بھی احمدیت وغیرہ کو کوئی جگہ نہیں دے سکتا اس کے باوجود شیعہ علماء پریس اور عوام نے کسی لمحہ مخالفت میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہیںکیا جس سے شرمناک فرقہ واریت کی ہمت بڑھتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مجلس احرار )جس کا مقصد وحید احمدیت کا استیصال ہے( کا اسٹیج ایک عرصہ تک بد زبانی اور غیر مہذب طریق جدل کا اکھاڑہ بنا رہا مگر جب سے شیعہ علماء کو مدعو کیا جانے لگا اسی پلیٹ فارم پر مثالی شائستگی پیدا ہوگئی۔
شیعہ علماء وجادلھم بالتی ھی احسن کے قرآنی فلسفہ سے اچھی طرح واقف اور اس پر عامل ہین۔ اسی طرح شیعہ پریس بھی اپنی روایتی متانت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ عوام خواہ کسی فرقے کے ہوں ان ہی دو ذرائع سے اثر قبول کرتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثریت کے علماء اور پریس نے اپنے عوام کو اس درجہ اشتعال دلایا ہے کہ جب کبھی بھی انہیں موقعہ ملتا ہے دوسرے فرقوں کے مقابلہ کوہ آتش فشان کی طرح پھٹ پڑتے ہیں۔
جہانگیر پارک کا حادثہ یقیناً تکلیف دہ ہے لیکن ہم اس کی ذمہ داری کس پر عائد کئے بغیر تمام پاکستانی عوام کی خدمت میں عرض کریں گے کہ پاکستان کی تخلیق میں اقلیت کے مفہوم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس مملکت کے ارباب بست و کشاد کا دعویٰ بھی ہے کہ سبز پرچم کا سایہ اقلیتوں
tav.13.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
جہانگیر پارک کا حادثہ یقیناً تکلیف دہ ہے لیکن ہم اس کی ذمہ داری کس پر عائد کئے بغیر تمام پاکستانی عوام کی خدمت میں عرض کریں گے کہ پاکستان کی تخلیق میں اقلیت کے مفہوم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس مملکت کے ارباب بست و کشاد کا دعویٰ بھی ہے کہ سبز پرچم کا سایہ اقلیتوں کی آسودگی کا ضامن ہے لٰہذا کسی خام خیالی کے باعث غلط راہیں اختیار کر کے کوئی ایسی صورت پیدا کرنے کی کوشش نہ کرنا چاہئے جس سے ملک کی نیک نامی پر آنچ آئے جمہور کو چاہئے کہ وہ مسٹر طالب نقوی چیف کمشنر کراچی کے ان الفاظ پر توجہ دیں اور ہمیشہ کیلئے انہیں مشعل راہ بنائیں:۔
>مرزائی بھی پاکستانی ہیں اور انہیں بھی اجلاس منعقد کرنے کا حق اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک کہ وہ مروجہ قانونکی خلاف ورزی نہ کریں حکومت کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔<
ساتھی ہی علمائے کرام کی خدمت میں بھی گذارش پیش کریں گے کہ وہ >جو ازو عدم جواز< کی بحث چھیڑ کر جارحانہ ذہنیتوں کی حوصلہ افزائی نہ فرمائیں نیز پریس کو بھی اپنے واجبات اور ملک کے حالات کا احساس کرنا چاہئے۔
اس سلسلہ میں ۲۰ مئی کو کراچی میں مجلس ختم نبوت کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں طبقہ علماء نے جو بیان دیا ہے اسے ہم کم از کم پاکستان معیار کے علماء کے اذہان کا نتیجہ نہیں کر سکتے۔
اس کانفرنس میں ہمارے ذمہ دار عالم مولانا مفتی جعفر حسین صاحب قبلہ بھی شریک تھے اس اعتبار سے مولانائے موصوف بھی ایک حد تک مسئول ہیں جس کا ہمیں سخت ملال ہے۔ اور بصد ادب و احترام ہم قبلہ و کعبہ کی خدمت میں بلتجی ہیں کہ وہ آئندہ ایسی کسی نشست میں شمولیت نہیں فرمائیں گے جس میں شعوری طور پر قرار داد مقاصد کا پاس اور اقلیتوں کیلئے جذبہ احترام موجود نہ ہو۔ اس وقت سواد اعظم کے علماء صرف احمدیت کے خلاف اپنی جنبہ دارانہ ذہنیت کا استعمال کررہے ہیں مگر ان کے بگڑے ہوئے تیور شیعوں کو بھی للکار سکتے ہیں اور فضا اعلان کررہی ہے >آج کل وہ ہماری ہاری ہے۔<۲۷
مشرقی پاکستان
روزنامہ >آزاد< )مشرقی پاکستان( مورخہ ۲۰ مئی ۱۹۵۲ء نے لکھا:۔
معلوم ہوا ہے کہ مسلمانوں کا ایک فریق کراچی میں ایک جگہ متواتر دو دن سے اپنا )سالانہ( جلسہ کررہا ہے اور ایک اور فریق کے لوگ جلسہ گاہ پر حملہ کر کے روک ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسرے دن وزیر خارجہ پاکستان چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تقریر کررہے تھے کہ عین اس وقت دوسرے فریق نے گڑ بڑ ڈالنے کیلئے حملہ کردیا۔ اگر یہ خبر صہیح ہے تو اس سے بعض لوگوں کی بے صبری اور عدم رواداری ہی ثابت ہوتی ہے۔ کسی معاملہ میں خاص کر مذہبی معاملات میں عدم رواداری اسلامی تعلیم کی روح کے بالکل خلاف ہے۔ پاکستان اور اسلامی دنیا کے کسی کونہ میں بھی ایسی ذہنیت کا وجود بڑے اچنبھے کی بات ہے۔ ان دنوں جب کہ تمام اسلامی دنیا کے اتحاد کے خواب کو امر واقع اور حقیقت مشہودہ بنانے کی کوشش ہورہی ہیں۔ ایسے نازک وقت میں فرقہ وارانہ مناقشات کو ہوا دینا اتحاد و یگانگت کی تمام تدبیروں کو ملیامیٹ کرنے کا موجب ہوگا۔ جب مسلمان کیلئے غیر مذاہب کی لوگوں کو محض اختلاف عقائد کی بناء پر تکلیف دینا اسلامی شریعت میں ناجائز ہے تو خود کسی مسلمان کو اختلاف عقائد کی وجہ سیکوئی دکھ یا تکلیف دینا کہاں جائز ہوسکتا ہے ؟ اختلاف خواہ کسی وجہ سے بھی ہو جنگل کا قانون یعنی یہ دستور کہ اپنی داد رسی آپ ہی کر لو اور جس سے اختلاف ہو اس کو مار کر تباہ کر دو قومی ترقی کیلئے ایک بہت بڑی سدراہ ہے۔ آج پاکستان کے ہر مرد اور ہر عورت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مسلمان اپنے علم و عمل اور ریاضیت ہی کے ذریعہ سے دوسروں کو ختم کرسکتے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔< ۲۸ )ترجمہ(
بھارت کا پریس
0] f[rtاس حادثہ کی بازگشت بھارت میں بھی سنی گئی۔ ۱۔ چنانچہ اخبار >حقیقت< )لکھنئو( نے ۲۳ مئی ۱۹۵۲ء کے شمارہ میں ہنگامہ کراچی کی مذمت کرتے ہوئے لکھا:۔
>کراچی کا فرقہ وار فساد<
ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کے بنانے میں جن مسلم جماعتوں نے نمایاں حصہ لیا اور اس جدوجہد میں مسلم لیگ کی بہت زیادہ مدد کی ان میں پیش پیش جماعت احمدیہ قادیان بھی رہی ہے۔ اس جماعت کے افراد نے آنکھیں بند کر کے اور بغیر انجام پر غور کئے پاکستان بنائے جانے کی حمایت کی۔ آج اسی پاکستان میں اس کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور اس کو ایک غیر مسلم >اقلیت< قرار دیئے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ قادیانی جماعت کے مذہبی عقائد کیا ہیں > لیکن جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکسان میں ہر فرقہ کو یکساں مذہبی آزادی حاصل ہے تو پھر قادیانیوں پر اس قدر تشدد کیوں کیا جارہا ہے ؟ خاص کراچی میں پچھلے ہفتہ جو افسوسناک واقعہ پیش آیا اور جس کے نتیجہ میں ایک سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے اور جابہ آتشزدگی اور لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے۔ کیا یہ پاکستانیوں کے اس دعویٰ کی قطعی تردید نہیں ہے کہ وہاں ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے ؟ دیکھنا ہے کہ قادیانیوں کے بعد اور کس فرقہ پر پاکستان کے مذہبی دیوانوں کا نزلہ گرتا ہے؟< ۲۹
اخبار >حقیقت< کے اسی پرچہ میں درج ذیل خبر بھی شائع ہوئی:۔
>کراچی میں قادیانی ابھی تک اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلے آگ لگانے کی اکا دکا وارداتیں۔ پولیس کا وسیع انتظام<
کراچی ۲۲ مئی ۔ قادیانیوں میں ابھی تک خوف وہراس پھیلا ہوا ہے۔ وہ ابھی تک اپنے گھروں سے باہر نکلتے گھبراتے ہیں۔ ان کاروبار ابھی تک بند ہے۔ ان کی حفاظت کیلئے ان کے مکانوں پر پولیس بٹھا دی گئی ہے پھر بھی کہیں کہیں آگ لگانے کی اکا دکا واردات ہورہی ہے۔
جہانگیر پارک میں بلوہ کے سلسلہ میں جو تین سو اشخاص گرفتار کئے گئے تھے ان سے پولیس نے صرف ساٹھ اشخاص کو حراست میں رکھا ہے اور باقی کو چھوڑ دیا ہے۔ کل پولیس افسروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام صورت حالات پر غور کیا گیا۔ بندر روڈ پ احمدیہ ایسوسی ایشن کی لائبریری بالکل بند پڑی ہے اس کے باہر پولیس کا پہرہ ہے۔ کراچی کے کمشنر نے ایک بیان میں کہا کہ قادیانیوں اور غیر قادیانیوں کے درمیان سنیچر اور اتوار کو جو تصادم ہوا ہے اس کے پس پشت ایک آرگنائزیشن کام کررہی ہے۔ آپ نے کہا کہ حکومت کو اس بلوہ کا پہلے ہی علم تھا۔ حکام کو نامعلوم اشخاص کی طرف سے پہلے ہی مطلع کردیا گیا تھا کہ جلسوں میں جھگڑا کیا جائے۔<۳۰
۲۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنے ہفتہ وار اخبار >صدق جدید< لکھنئو )۲ جون ۱۹۵۳ء(
میں چوہدری صاحب کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے یہ نوٹ لکھا:۔
>تبلیغ غیروں کی مجلس میں<
سر ظفر الل خاں وزیر خارجہ پاکستان کا بیان ۲ جون کی پریس کانفرنس کراچی میں >میرے اوپر بارہا یہ اعتراض ہوچکا ہے کہ میں ملکی اور بین الملکی مسائل کو دینی سند مل جائے تو بہتر ہی ہوا کرے۔ چنانچہ اس وقت بھی اس اعتراض کا مزید خطرہ لے کر میں کہتا ہوں کہ ہمیں تو تعلیم اس کی ملی ہے کہ تعاونو اعلی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدون ۳۱۔ اور ہمارے پیغمبر کا قول ہے جسے میں پیرس میں جنرل اسمبلی میں پچھلے نومبر کو پیش بھی کرچکا ہوں کہ انصراخاک ظالما او مظلوما۳۲۔<
کاش یہی شیوہ عرب اور مصر اور عراق اور ایران اور شرق یردن اور شام اور افغانستان کے نمائندوں کا بھی ہوتا۔ کاش ان میں بھی جرات غیروں کے سامنے اپنے ہاں کی چیزوں کے پیش کرنے کی ہوتی ! اور ایک تو نمائندہ پاکستان اپنے منفرد ہونے کی بناء پر غیروں کی مجلس میں بے شک عجیب سا معلوم ہوتا ہوگا اور اسی لئے اس کا استحقاق اجر بھی کہیں بڑھ رہا ہوگا۔ غیروں کی مجلس مے بے باکانہ تبلیغ دین کی یہ سنت قائم کی ہوئی مولانا محمد علی کی ہے۔ اور ایک بار مرحوم وزیراعظم پاکستان نے بھی اس کا حق امریکہ میں ادا کیا تھا اور اب تو اونچے حلقوں میں یہ وزیر خارجہ پاکستان کے دم سے ہی قائم ہے۔ ۳۳
۳۔ رسالہ >مولوی< دہلی ظبابت ماہ جولائی ۱۹۵۳ء( نے اس واقعہ پر ایک درد انگیز مقابلہ سپرد اشاعت کیا جس کا متن یہ ہے:۔
>آپ اپنی تاریخ پر چاہے جتنا فخر کیجئے۔ آپ سلف صالحین کی حیات طیبہ پڑھ کر کتنا ہی رقص کیجئے مگر اس کی حیثیت پدرم سلطان بود سے ہرگز زیادہ نہ ہوگی۔ اسی اپنی گمشدہ متاع کو بروئے کار لانے اور اپنے بے چارگی کے بندھن توڑنے کیلئے تو اسے راہبران دین متین اور اے مجاہدین اسلام آپ نے تقسیم کی مانگ کی تھی اور خدا نے` اگر یہ اس کا فضل تھا تو آپ کو اس نے نواز دیا۔
آج پورے پانچ سال ہوگئے کہ آپ آزاد ہیں۔ آپ حاضر اور استقبال کے پورے مالک ہیں۔ آپ کے معاملات میں کوئی مداخلت کرنے ولا بھی نہیں ہے۔ اللہ کے واسطے بتایئے کہ آپ نے ہم پسماندہ بھارت کے مسلمانوں کی نسبت سے زیادہ کونسا قدم اسلام کی طرف اٹھایا اور وہ کونسی بات کی جس سے آپ کے دعویٰ کی ذرا سی بھی سچائی دنیا پر روشن ہوئی۔
الاہ ثم اہ: دہلی۔ یو۔پی۔سی۔ بمبئی۔مدراس کے مسلمانوں نے اپ کی ہمنوائی میں پورا پورا حصہ۔ یہ جان کر یہ بوجھ کر اس سے ہمیں مادی نفع تو درکنار ہماری غلامی کے طوق اور بوجھل ہوں گے۔ ہماری بیڑیاں اب سے ہزار درجہ گراں بار ہوں گی۔ ہماری دنیاوی عزتیں خاک میں ملیں گی۔ ہمارے اعزہ ہم سے جدا ہوں گے۔ ہماری پیٹھیں ہی تازیانوں سے زخمی نہ ہوں گی۔ ہم پر پیٹ کی ماریں بھی پڑیں گی۔ ہم رکوال اکثریت کی فیاضی سے بھی پوری طرح واقف تھے اور ان کی تنگ نظریاں بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل نہ تھیں۔ اور وہ مصیبت جو ہم پر آئی اورہی ہے اور شاید ابھی پوری نہ ہوئی ہو وہ ہماری توقع سے چاہے شدید ہو لیکن غیر متوقع ہرگز نہ تھی۔ پھر اسے سرفروشان اسلام ! یہ بربادی ہم نے کیوں قبول کی ؟ ہم پاگل تو نہ تھے صرف ایک لگن تھی اور وہ یہ کہ اس آزادی کے بعد یہ مجاہدین اور شیدایان اسلام قرون اولیٰ کا اسلام زندہ کریں گے۔ دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ ہدایت کے چشمے پھوٹ نکلیں گے۔ رشد کی چمکاہٹ غنی کی ظلمت کو نابود کردے گی۔ یہ ہمارا اسلامی وطن حرم محترم ہوگا۔ یہاں انسانی خون ہی نہیں اس کے پسینہ کا ہر قطرہ محترم ہوگا اور دنیا کو یہ بتا دینے کے پورے اسبابوسائل ہمارے ہاتھ میں ہوں گے کہ امن` ایٹم بموں۔ جراثیم بموں۔ زہر کی گیسوں سے قائم نہیں ہوسکتا کہ یہ سب شیطانی ہتھیار ہیں رحمانی ہتھیار تو ایثار ہے۔ انسانی ہمدردی ہے۔ انسانی برابری ہے۔ ادائے حقوق العباد ہے۔ اور دیکھو کہ ہم دنیا کی ہر مادی اتباع سے تہی دست ہیں لیکن پھر بھی پوری دنیا سے مالدار ہیں کہ خدا کی تائید ہے۔ اس کا فضل ہمارے ساتھ ہے۔ وکفی باللہ وکیلا
یہ تھا وہ خواب جس پر ہم نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ اے اونچے ایوانوں میں رہنے والے راہنمائو ! اے موفہ اور قالینوں کو زینت دینے والے مجاہدو ! اور اے کفن بردوش مسلمانو ! تم ہم سے کیا کہہ کر گئے تھے اور اب کیا کررہے ہو۔ ابتدائی صعوبات کے زمانہ کو چھوڑ کر جب خدا نے تم کو اپنے کرم سے بے خوف کیا۔ غنی کیا۔ تم کو حکومت دی تم نے اس کے افضال کا کونسا قرضہ چکایا؟
ہمارے دل کتنے درد مند ہیں ہم تم کو یہ نہیں بتا سکتے اور بتانا بھی نہیں چاہتے۔ ہم یہاں کتنے بے عزت ہیں اس کا استفسار بھی تم سے مقصود نہیں کہ اس بے عزتی کے ذمہ دار تم ہو اور تم سے گلہ بھی نہیں کرتے کہ تم اس کے اہل نہیں۔ تم سے کوئی مدد بھی نہیں چاہتے کہ تمہارے پاس دھرا کیا ہے ؟ تم نے متاع ایمان و اسلام کو ہی زنگ آلود بنادیا تو پھر تمہارے پاس کیا رکھا ہے جو ہماری مدد کرو گے ؟ ہم فاقوں کو برداشت کر لیتے ہیں کہ روزہ ہم کو اس پر صبر دلا دیتا ہے۔ ہم اس بے عزتی کو بھی سہار لیتے ہیں کہ بھارت کا فروتر غیر مسلم آج اس دور میں ہم سے زیادہ معزز ہے۔ آج ہمارے آگے ہاتھ پھیلانے والا ہم کو بے تکلف گالی دیتا ہے اور ہم خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہم معمولی سی چپقلش میں اکثریت اور اس کے بعد پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہیں۔ پھر جیل بھی ہم ہی جاتے ہیں۔ ہماری منقولہ متاع یہاں بنے بسنے والوں نے چھین لی اور غیر منقولہ محافظین جائیداد نے اپنی حفاظت میں لے لیں۔ ہم نہایت محنت شاقہ کے بعد مٹھی بھر آن جوں توں حاصل کر لیتے ہیں اور پیٹ کی آگ بھجا لیتے ہیں۔ ہمارے خاندان متفرق ہوئے۔ مائیں اولاد سے دور ہوئیں۔ خاوند بیویوں سے جدا ہوئے۔ بہنیں بھائیوں کی صورتوں کو ترس گئیں۔ بچے باپ کے جیتے جی یتیم ہوگئے۔ اس پر طرہ یہ کہ آنے جانے کے راستے ہم پر بند ہوگئے۔ ہم نے ان طبعی تلملاہٹوں اور فطری بے چینیوں کو نیچی نظروں سے قبول کر لیا۔ تمہاری طرف تو کیا دیکھتے ہم نے تو آسمان کی طرف نظر نہیں اٹھائی اور کھل کر آہ بھی نہ کی۔ یہ سب کہانیاں نہیں۔ کسی ڈرامہ کی ٹریجڈی کے ٹکڑے نہیں۔ اے مجاہدین ! اسلام حقیقت ہے اور اس کا بھارت کے مسلمان کا ہر دل گواہ ہے۔ یہ سب ہم نے برداشت کیا۔ جو نہیں برداشت ہوسکتا وہ یہ کہ ہمارے غیر مسلم بھائی ہمارے دل و دماغ میں بھالے چبھوتے ہیں کہ یہ ہے تمہارا پاکستان۔ اسی کیلئے تم نے ہم سے لڑائی مول لی۔ تم تو کہتے تھے کہ اسلام بڑا روا دار مذہب ہے اس میں انسانی خون اور آبرو کی بڑی عزت ہے۔ کیا یہی رواداری ہے کہ غیر مسلم تو کجا تو مسلم کے بھی تھوڑے سے اختلاف کو نہیں بخش سکتے۔ تمہارے بھائیوں نے اپنے ہی قوم اور وطن کے بھائیوں کو ذرا سے بل بوتے پر کیا ناچ نچایا۔ ان کے جلسہ گاہ میں پہنچ گئے جو انہوں نے تمہاری حکومت میں تمہاری اجازت لے کر کیا۔ تم نے ان کو رسوا کیا۔ ان کا جلسہ درہم برہم کیا۔ اس پر ہی بس نہیں ان کی دکانوں کو آگ لگائی۔ ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔ یہ وہ مرزائی ہیں جن کا تمہارا دینی اختلاف ہے۔ جب ان کی زیست حرام کرسکتے ہو تو غیر مسلموں پر کیا آفت نہ ڈھائو گے ؟ وہ تمہارا الزام اسلام پر لگاتے ہیں اور ان کو لگانا بھی چاہئے کیونکہ نہ انہوں نے قرآن پڑھا ہے نہ اسلامی تعلیم کا مطالعہ کیا۔ ہاں ان کو تمہارا وہ دعویٰ آج بھی یاد ہے کہ ہم بااختیار ہوئے تو ہماری حکومت کی تشکیل اسلامی ہوگی اور ان کا اب یہ سمجھنا کون غلط بتا سکتا ہے کہ جو کچھ تم کہتے ہو اور کرتے ہو اسلام نہیں ہے۔<۳۵۳۴
مسلم پریس کے علاوہ بھارت کے مشہور غیر مسلم صحافی سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون اخبار >ریاست دہلی )۲۶ مئی ۱۹۵۲ء( میں لکھا:۔
>چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں کے حالات اور ان کے کیریکٹر سے جو لوگ واقف ہیں وہ اقرار کریں گے کہ جہاں تک مذہبی خیالات کا سوال ہے پاکستان کی وزارت تو کیا دنیا کے تمام ممالک کی وزارتیں بھی ان کے پائوں میں لغزش پیدا نہیں کرسکتیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ اپنے خیالات کو چھوڑ دیں۔<
مصری لیڈر رالسید مصطفیٰ مومن کا بیان
مصر کی وفد پارٹی کے ایک راہنما اور شعوب المسلمین کے مندوب السید مصطفیٰ مومن نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری ظفر اللہ خان کی خدمات صرف پاکستان کے وزیر خارجہ کی نہیں بلکہ آپ مشرق وسطی اور بالخصوص مصر اور عرب دنیا کے بھی وزیر خارجہ ہیں۔ وہ بہت بڑے مدبر ہیں انہوں نے اقوام متحدہ میں تیونس` مراکش` ایران اور مصر کی حمایت کر کے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے۔ چوہدری صاحب پر حملہ پوری اسلامی دنیا پر حملہ ہوگا۔ ۳۶
چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے عہدہ وزارت کی خارجہ پالیسی کی نسبت چوہدری محمد علی صاحب سابق وزیراعظم پاکستان کا بیان ہے کہ:۔
>عالم اسلام کی آزادی` استحکام` خوشحالی اور اتحاد کیلئے کوشاں رہنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مستقل مقصد ہے۔ حکومت پاکستان کا ایک اولین اقدام یہ تھا کہ مشرق وسطیٰ کے ملکون میں ایک خیر سگالی وفد بھیجا گیا۔ پاکستان نے فلسطین میں عربوں کے حقوق کے حقوق کو اپنا مسئلہ سمجھا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں اس کے فصیح ترین ترجمان تھے۔ علاوہ ازیں انڈونیشیاء ملایا` سوڈان` لیبیاء تونس` مراکش` نائیجیریا اور الجزائر کی آزادی کی مکمل حمایت کی گئی۔ مغربی ایریان کے مسئلے پر پاکستان نے انڈونیشیا کا پورا ساتھ دیا۔ کئی مسلم ملکوں کے ساتھ دوستی کے معاہدے کئے گئے اور ثقافتی ارتباط کا انتظام کیا گیا ہے۔ موتمر عالم اسلامی کی تنظیم عمل میں لائی گئی۔ ۱۹۴۹ء میں کراچی میں بین الاقوامی اقتصادی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ۱۸ مسلم ملکوں کے نمائندے شامل ہوئے تھے۔ کانفرنس نے اتفاق رائے سے اسلامی ایوان ہائے صنعت و تجارت کا بین الاقوامی وفاق قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔< )ظہور پاکستان ۴۴۵(
اسی کتاب میں انہوں نے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کی خدمات کشمیر کا تذکرہ بایں الفاظ کیا ہے:۔
>سلامتی کونسل نے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو ہندوستان کی شکایت اور پاکستان کے جواب کی سماعت شروع کی۔ ظفر اللہ خاں نے مقدمہ کی ایسی اعلیٰ وکالت کی کہ سلامتی کونسل کو یقین آگیا کہ مسئلہ محض کشمیر سے نما نہاد حملہ آوروں کو نکال دینے کا نہیں ہے جیسا کہ ہندوستان کا نمائندہ اسے باور کرانا چاہتا تھا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے تعلقات کو منصفانہ اور پرامن اساس پر استوار کیا جائے اور تنازع کشمیر کو ریاست کے عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے۔<
)ظہور پاکستان از چوہدری محمد علی صاحب مترجمہ بشیر احمد صاحب ارشد۔ ناشر مکتب کارواں کچہری روڈ لاہور طبع ثانی ۱۹۷۲ء مسعود پرنٹرز لاہور صفحہ ۰۶۳(
فصل دوم
خدا زندہ تعلق کیلئے خصوصی دعائوں کی تحریک رسالہ پاکستان لاء ریویو )کراچی( میں حضرت مصلح موعودؓ کا مقالہ ایک فقہی مسئلہ میں حضرت مصلح موعودؓ کی واضح راہنمائی عروج احمدیت کی پیشگوئی صبر و صلٰوۃ کی پر زور تلقین
خدا سے زندہ تعلق کیلئے دعائوں کی خاص تحریک
آسمانی جماعتوں اور سلسلوں کیلئے ابتلائوں اور مخالفتوں کا زمانہ خدا سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا موسم ہوتا ہے۔ یہی وہ سنہری دور ہوتا ہے جس میں خدا کے سچے بندوں کا اپنے مولیٰ سے تعلق پختہ اور مستحکم ہوتا ہے اور سلسلہ احمدیہ میں یہ نظارے ابتداء سے اب تک مسلسل دکھائی دیتے ہیں۔ ~}~
عدو جب بڑھ گیا شورو فغاں میں
نہاں ہم ہوگئے یار نہاں میں
تحریک احمدیت کی اس مخصوص روایت کوی ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء کے مصائب و آلام میں قائم رکھنا از بس ضروری تھا اسی حکمت کے پیش نظر حضرت مصلح موعودؓ نے اس سال رمضان المبارک کے آخری جمعتہ المبارک میں خاص تحریک فرمائی کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا زندہ تعلق پیدا ہوجائے۔ چنانچہ فرمایا:۔
>خدا تعالیٰ کی محبت` خدا تعالیٰ پر یقین اور وثوق پیدا کرنا اور اسے ملنے کی کوشش کرنا ایک طبعی جذبہ ہے لیکن کتنے نوجوان ہیں جو ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ فرمای تھا اس وقت ہر انسان کا ایک ہی مقصد تھا ک وہ آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کو ملے گا۔ وہ لوگ آگے بڑھتے تھے کیونکہ ان میں سے ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ اگر کسی چیز نے حضرت مسیح موعودؑ کو دوسرے علماء پر امتیاز دیا ہے تو وہ یہی چیز ہے کہ آپ کی پیروی کرنے سے خدا ملتا ہے۔ مسائل دوسرے علماء بھی جانتے ہیں۔ اگر آپ کی وجہ سے کوئی فرق پیدا ہوا ہے تو وہ یہی ہے کہ آپ کی پیروی سے خدا تعالیٰ ملتا ہے۔ اپ کا دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ کو ملنے کا دروازہ کھلا ہے بند نہیں لیئکن اب کتنے نوجوان ہیں جو خدا تعالیٰ کو ملنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ جتنا وقت دور ہوتا جاتا ہے لوگوں سے یہ خواہش مٹتی جاتی ہے۔ حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ ہمت اور کوشش سے اس جذبہ کو ابھارا جاتا۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو حضرت مسیح موعودؑ کا آنا بھی بیکار ہے۔
پس ان دنوں میں دعائیں کرو۔ نوجوان اپنے اندر یہ روح پیدا کریں کہ خدا تعالیٰ کا زندہ تعلق حاصل ہوجائے پہلے اگر ایک شخص جاتا تھا جسے خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا تھا تو اس کی جگہ کئی اور پیدا ہوجاتے تھے۔ بجائے اس کے کہ تم یہ کہو کہ اب ایسا کوئی شخص نہیں جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو یا جسے الہام ہوتا ہو۔ تم خود کوشش کرو کہ اگر ایک ایسا شخص مر جائے تو بیس اور ایسے آدمی پیدا ہوجائیں۔ اور اگر ۲۰ آدمی مرجائیں تو ۲۰۰ اور ایسے آدمی پیدا ہوجائیں۔ اگر ۲۰۰ مر جائیں تو ۲۰ ہزار اور ایسے آدمی پیدا ہوجائیں۔ یہ چیز ہے جو تمہارے حوصلوں کو بڑھائے گی اور دنیا کو مایوس کردینے والی ہوگی۔ دنیا مادی ہتھیاروں کی طرف دیکھتی ہے۔ اگر ¶ہزاروں لوگ ایسے پیدا ہوجائیں جو خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھنے والے ہوں پر یقین رکھنے والے ہوں اور اس کا ظہور اپنی ذات میں محسوس کرنے والے ہوں تو دوسرے لوگ خود۔ بخود مایوس ہوجائیں گے۔ کیونکہ دوسرے لوگ قصے سناتے ہیں اور یہ لوگ آپ بیتی سنائیں گے اور جگ بیتی آپ بیتی جیسی نہیں ہوتی۔ جب ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ پیدا ہوجائیں گے جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوگا تو جگ بیتی بھاگ جائے گی اور آپ بیتی غالب آجائے گی کیونکہ سنی سنائی بات دیکھی ہوئی بات پر غالب نہیں آسکتی۔<۳۷
پاکستان میں قانون کا مستقبل
سندھ مسلم لاء کالج نے ایک سہ ماہی رسالہ پاکستان لاء ریویو کے نام سے کراچی سے جاری کیا جس کے اگست ۱۹۵۲ء کے شمارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا رقم فرمودہ حسب ذیل مقالہ سپرد اشاعت ہوا:۔
>مجھے یہ معلوم کر کے ازحد مسرت ہوئی ہے کہ سندھ مسلم لاء کالج عنقریب ایک سہ ماہی رسالہ اس مقصد کیلئے جاری کررہا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو قانون کے سائنٹیفک طور پر مطالعہ کرنے کی طرف عموماً اور پاکستان میں قوانین کو بہتر بنانے کے متعلق امور پر بحث کرنے کی طرف خصوصاً رہنمائی کرسکے تاکہ اس طرح عام لوگوں اور ماہرین علم قانون کے نظریات اور خیالات میں یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور تاکہ ماہرین علم قانون اپنے اہم فرائض سے بہتر طریق پر زیادہ سہولت کے ساتھ عہدہ برآ ہوسکیں۔
اس میں شک نہیں کہ علم قانون دوسرے علوم کی طرح بلکہ ان میں سے اکثر سے کچھ زیادہ ہی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کو انسانی عمل اور تجربہ کی روشنی میں منضبط اور مرتب کیا جائے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی صحیح راہنمائی کرسکے۔ لیکن بدقسمتی سے ایشیاء کے باشندے کئی صدیون سے غیروں کی ماتحتی میں رہنے کی وجہ سے اس ضروری علم سے بالکل بے بہرہ ہوچکے ہیں۔ اب جب کہ کم از کم ایشیاء پر مکمل آزادی کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور اس کے باشندوں نے بھی دنیا کی آزاد اقوام کی طرح اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا ہے یہ امر اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کے مقابلہ پر علم قانون کے مطالعہ کیلئے زیادہ توجہ اور زیادہ وقت صرف کریں۔ دنیا کی آزاد اقوام نے علم قانون کیلئے مطالعہ اور تجربہ کے بعد آخر کار اپنے ممالک کے قوانین کیلئے ایک مخصوص راستہ اور پس منظر پیدا کر لیا ہے جو کامل طور پر ان کی شخصی اور اجتماعی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ علاوہ اس کے ان میں وسیع اور گہرا علم رکھنے والے ماہرین قانون موجود ہیں جو اپنے لوگوں کے پرانے اختیار کردہ راستہ کے مطابق نئے پیدا ہونے والے دشوار اور دقیق قانونی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ایشیائی لوگوںکیلئے بہرحال یہ مشکل ہے کہ ان میں جو لوگ قانون کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کا علم بھی رکھتے ہیں وہ کوئی گزشتہ تجربہ اور قومی روایات نہیں رکھتے جن سے انہیں قوانین بنانے میں مدد مل سکے۔ پس ان کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے لئے ایک نیا راستہ بنائیں اور پھر ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے ان پر قانو پائیں جو مبتدیوں کو پیش آتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کو اس راہ میں سب سے بڑی مشکل یہ پیش ائے گی کہ اس کے باشندوں میں ایک بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور پاکستان کی حکومت کسی فوجی یا ملکی فتح کے نتیجہ میں قائم نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک معاہدہ کے ذریعہ سے معرض وجود میں آئی ہے اس لئے اپنے قوانین بناتے ہوئے پاکستان کو باوجود اپنی وسیع مسلمان اکثریت کے اس معاہدہ کا لحاظ رکھنا پڑے گا اور نہ اس کو اس بات کا بجا طور پر ملزم گردانا جائے گا کہ اس نے ایک باہمی معاہدہ توڑ دیا۔ جوش اور ولولہ اگرچہ ایک قابل تعریف خصلت ہے لیکن اس کا حد سے بڑھ جانا بھی غلط اقدام کا باعث بن جاتا ہے۔ ترکی میں مذہب کا سیاست سے بالکل الگ کیا جانا دراصل اسی قسم کے غلط مذہبی جوش کا رد عمل تھا۔ اسلام سے محبت اور اپنے ملک میں اس کے قیام کی خواہش یقیناً بہت اعلیٰ جذبات ہیں۔ لیکن اگر ان ہی جذبات کو مناسب حدود سے تجاوز کرنے دیا جائے تو یہی ہمیں اسلام سے دور لے جانے کا باعث بن جائیں گے۔
ہمارے رسول پاک~صل۱~ نے بھی مکہ والون کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ میں بھی صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان کفر اختیار کر لے تو اسے مکہ جانے کا پورا اختیار ہوگا لیکن اس کے برعکس اگر کوئی کافر اسلام لے آئے تو اسے مدینہ کی اسلامی ریاست میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ اسے اس کے وارثوں اور رشتہ داروں کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا۔ یہ شرط مسلمانوں کیلئے بظاہر نقصان دہ اور ذلیل کن معلوم ہوتی تھی اور انہوں نے اس ہتک کو محسوس بھی کیا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ جیسے لیڈر بھی کچھ وقت کیلئے تذبذب میں پڑ گئے۔ ابھی اس معاہدہ پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ایک نوجوان جس کا نام ابوجندل تھا بیڑیوں میں جکڑا ہوا بمشکل تمام اس مجلس میں آ پہنچا جہاں اس کے باپ سہیل نے ابھی ابھی مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔ سہیل نے فوراً مطالبہ کیا کہ معاہدہ کے مطابق ابوجندل کو مکہ واپس کیا جائے۔ مسلمانوں نے جب اس معاہدہ کا عملی پہلو دیکھا تو اسے نہایت خطرناک اور ذلیل کن خیال کیا اور ابوجندل کی حفاظت میں فوراً کھینچ لیں لیکن رسول پاک~صل۱~ نے انہیں سمجھایا اور فرمایا:۔
>خدا کے رسول اپنا عہد کبھی توڑا نہیں کرتے< ۳۸
اور مسلمانوں کی جذبات انگیز درخواتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابوجندل کو اس کے باپ کے حوالہ کردیا۔ اس لئے ایک پاکستانی مسلمان خواہ کتنا ہی مخلص اور دینی جوش رکھنے والا ہو کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اسلام کی محبت اور خیر خواہی میں اتنا گداز ہے جتنا حضرت نبی~صل۱~ تھے اور رسول پاک~صل۱~ اس معاملہ میں ہمارے لئے خود ایک اعلیٰ نمونہ چھوڑ گئے ہیں۔ اگر ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی نظر میں ویسا ہی اچھا مسلمان ثابت ہونا چاہتا ہے جیسا کہ وہ خود گمان کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ لفظی اور معنوی طور پر ان تمام معاہدات اور وعدوں کو پورا کرے جو پاکستان بننے کے وقت اقلیتوں اور دوسری قوموں سے کئے گئے تھے اگر وہ ان وعدوں کے ایفاء سے ذرا بھی پہلو تہی کرتا ہے تو وہ درحقیقت اسلام سے دور جاتا ہے۔
پاکستان کے قوانین بناتے ہوئے ہمیں خاص خیال رکھنا ہوگا کہ:۔
الف۔ تعلیم اسلام کی روح ہمیشہ ہمارے مدنظر رہے
ب ۔ ہمارے قوانین فطرت انسانی کے ساتھ کامل مطابقت رکھتے ہوں۔
ج۔ ہم ان وعدوں کو ہر لحاظ سے پورا کریں جو اقلیتوں سے کئے گئے ہیں۔
آنحضرت~صل۱~ کے ایک ارشاد کے مطابق ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ )بخاری کتاب القدر(
اب اگر حضور کا یہ ارشاد صحیح اور سچا ہے اور حضو~صل۱~ سے زیادہ سچا کون ہوسکتا ہے تو پھر اسلام کے قوانین بھی انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہوسکتے اور نہ ہی انسانی فطرت قوانین اسلام کے خلاف ہوسکتی ہے۔ پس ہمارا یہ ایک مقدس فرض ہے کہ ہم مندرجہ بالا حدیث کو سامنے رکھیں اور اس حقیقت پر یقین رکھیں کہ اسلام نے جو کچھ سکھایا ہے فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اگر اسلام کی تعلیم کا وہ حصہ جسے ہم انسانی فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں واقعیانسانی فطرت کے خلاف ہے تو ظاہر ہے کہ ہم نے اس حصہ تعلیم کی روح کو اخذ نہیں کیا لیکن اگر ہم نے اسلامی تعلیم کو صحیح طور پر سمجھا ہے تو فطرت انسانی کبھی بھی اس کے خلاف نہیں ہوسکتی اور یقیناً کہیں پر ہماری ہی غلطی ہوگی۔ اس صورت میں ہمیں چاہئے کہ اس معاملہ پر زیادہ گہرے طور پر غور کریں اور مزید کوشش کر کے اصل حقیقت کو معلوم کریں۔ اگر ہم اس نہایت ہی مضبوط اصل کو سامنے رکھیں گے تو ہم یقیناً بہت جلد صداقت کو پالیں گے اور اپنے ملک کے بہترین قوانین بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے ملک کے ہر طبقہ یعنی مولویوں` مغربیت زدہ تعلیم یافتہ لوگوں` غریبوں اور امیروں کو پوری طرح مطمئن نہیں کرسکتے لیکن مندرجہ بالا دانشمندانہ اصول پر عمل کر کے ہم یقیناً انسانی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرسکیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے میں دعا کرتا ہوں کہ پاکستان کے قوانین بنانے والوں اوران پر عمل کرانے والوں کو۔ ان کے وکیلوں کو اور قوانین کی کتابیں لکھنے والوں کو اور ان کے شارحین کو اللہ تعالیٰ اسلام کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ مفید رسالہ جو کہ سندھ مسلم لاء کالج کی طرف سے جاری کیا جارہا ہے اس مقصد کے حصول کیلئے ایک مفید آلہ ثابت ہو۔< ز۳۹
احترام مساجد سے متعلق ایک فقہی مسئلہ اور حضرت مصلح موعودؓ کا موقف
پنجاب میں احمدیوں کے خلاف فرقہ وارانہ تقاریر سے صوبہ بھر کا امن و امان درہم برہم ہونے لگا تو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز
محمد خان دولتانہ نے ۱۱ جون ۱۹۵۲ء کو فرقہ وارانہ نوعیت کے تمام جلسوں پر پابندی لگادی اور تمام ڈسٹرکٹ میجسٹریٹوں کو ہدایت دی کہ جمعہ کے ایسے اجتماعات پر بھی نگاہ رکھیں جن کو خطیب فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے لئے استعمال کریں۔۴۰
حکومت پنجاب نے اس پابندی کی وضاحت میں حسب ذیل پریس نوٹ جاری کیا:۔
>حکومت پنجاب عوام کی اطلاع کیلئے ان واقعات کا پس منظر بنتانا چاہتی ہے جس کے پیش نظر صوبہ کے مختلف اضلاع میں ایک خاص نوعیت کے پبلک جلسوں کے انعقاد پر پابندی عائد کرنا پڑی۔
کچھ عرصہ سے صوبہ میں مجلس اخرار اور احمدیوں کے درمیان مناقشت نے پبلک جلسوں میں اشتعال انگیز تقاریر کی ناگوار صورت اختیار کر لی ہے۔ ان تقریروں میں اکثر مذہبی بحث و مناظرہ کی تمام جائز حدود کو نظر انداز کردیا گیا اور ان تقریروں سے زیادہ تر پاکستانی شہریوں کے دو طبقات کے درمیان نفرت اور کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اس طرح ماحول میں جو کشیدگی پیدا ہوئی اس کے باعث چند مقامات پر تشدد کے واقعات بھی پیش ائے جن سے جانی نقصان اور دوسرے نہایت افسوسناک نتائج برآمد ہوئے امن عامہ برقرار رکھنے کے اولین فریضہ کا خیال کرتے ہوئے حکومت اس صورت حال کے جاری رہنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی خصوصاً اس خطرہ کے پیش نظر کہ اگر تشدد کیلئے بالواسطہ اور بلاواسطہ اشتعال انگیزیوں کا موثر سدباب نہ کیا گیا تو حالات اور بھی ابتر ہوجائیں گے اور آبادی کے دو حصوں میں کھلم کھلا زبردست تصادم شروع ہوجائیں گے۔
نصرت انگیزی کے اس ماحول میں بعض لوگوں کے ذہنون کی افتاد کیا ہوگئی ؟ اس کی مثال ایک پوسٹر سے ملتی ہے جس کی کاپیاں متعلقہ جماعتوں میں سے ایک جماعت کے دفتر سے دستیاب ہوئی ہیں اس پوسٹر میں اعلانیہ تلقین کی گئی ہے کہ دوسری جماعت کے مبلغوں کو قتل کردیا جائے۔ اور ان کی مساجد پر جبراً قبضہ کر لیا جائے۔ اس پوسٹر میں ایک طبقہ کے مزارعین سے بھی کہا گیا ہے کہ دوسرے طبقہ سے تعلق رکھنے والے جاگیرداروں کو بٹائی بھی نہ دیں اور ان کی جائیداد کی ضبطی کو ایک جائز اقدام تصور کریں۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ حالات کو ابتر ہونے سے بچایا جاتا۔ چنانچہ پبلک جلسوں پر پابندی عائد کرنا ضروری سمجھا گیا تاکہ دونوں میں سے کوئی جماعت باہمی مناقشت کو جاری نہ رکھ سکے۔
حکومت اس ضمن میں اس امر کی پوری وضاحت کردینا چاہتی ہے کہ اس نے پوری پوری احتیاط کی ہے کہ یہ احکام کسی جگہ بھی عوام کی جائز مذہبی سرگرمیوں میں مداخلت یا ایسی مذہبی سرگرمیوں پر معمولی سی پابندی عائد کرنے کے بھی موجب نہ ہوں۔ حکومت صوبہ میں کسی جائز سیاسی یا سماجی سرگرمی کے رستہ میں بھی رکاوٹ حائل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی جلسوں پر پابندی کے احکام اسی سپرٹ پر عائد کئے گئے ہیں۔<۴۱
حکومت کے اس اقدام پر علماء کے حلقوں میں سخت تنقید کی گئی حتیٰ کہ اسے >مداخلت فی الدین< کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا گیا:۔
>خانہ خدا پر کسی سلطنت کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوسکتا مساجد حکومت کے قوانین سے مستثنیٰ ہوا کرتی ہیں۔<۴۲
اس پر حکومت پنجاب نے اعلان کیا:۔
>یہ بالکل غلط ہے کہ سرکاری احکام کسی قسم کے مذہبی اجتماعات یا مذہبی عبادات یا مساجد میں کسی مذہبی سرگرمی میں مخل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص قانون کے خلاف کوئی حرکت کرتا ہے تو اس سے یقیناً مواخذہ کیا جائے گا قطع نظر اس سے کہ اس سے یہ حرکت مسجد میں سرزد ہوئی ہے یا مسجد سے باہر۔<ز۴۳
احرار حکومت کی اس کشمکش سے عوام میں یہ سوال خودبخود ابھر آیا کہ کیا حکومت پنجاب نے ایسا حکم دے کر واقعی مداخلت فی الدین کا ارتکاب کیا ہے یا وہ اس کی شرعاً مجاز ہے۔
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے اس اہم فقہی مسئلہ پر راہنمائی کیلئے حسب ذیل مضمون سپرد قلم فرمایا:۔
>آج کل یہ سوال بڑے زور شور سے پیدا ہے کہ آیا حکومت کسی ایسے معاملہ میں دخل سکتی ہے جس کا فیصلہ یا جس کا انعقاد کسی مسجد میں ہوا ہو۔ اور آیا حکومت اگر ایسا کرے تو یہ تداخل فی الدین ہوگا یا نہیں ؟ اس سوال کے دو پہلو ہین۔ اول تو یہ کہ کیا مساجد منعقد ہونے والے جلسوں یا مساجد میں کئے گئے فیصلوں یا مساجد کی پناہ میں آنے والے لوگوں کو اسلامی شریعت نے قانون سے بالا سمجھا ہے۔ دوسرے یہ کہ کیا عقلاً یہ بات قابل قبول اور قابل عمل ہے ؟ ان دونوں سوالون کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے حکومت وقت یعنی رسول~صل۱~ اور آپﷺ~ کی جماعت کے خلاف کارروائیاں کرنے کیلئے ایک مسجد تیار کی تھی اور خود رسول کریم~صل۱~ کو اس میں آکر نماز پڑھنے اور دعا کرنے کی دعوت دی تھی۔ درحقیقت ان لوگوں کی غرض یہ تھی کہ اس جگہ پر جمع ہو کر بعض سیاسی امور کا تصفیہ کریں جو کہ رسول کریم~صل۱~ اور آپﷺ~ کی جماعت کی خلاف تھے غالباً ان لوگوں کا خیال بھی آج کل کے احرار ی طرح تھا کہ جو امر مسجد میں طے کیا جائے وہ قانون کی زد سے بالا ہوتا ہے اور جو کوئی اس معاملہ میں دخل اندازی کرے وہ مداخلت فی الدین کا موجب سمجھا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر کیا اور ان کے اس فعل کو ناجائز قرار دیا چنانچہ فرماتا ہے:۔
والذین اتحذوامجسدا اضرار وکفر و تفریقا بین المومنین وارصاد المن حارب اللہ و رسولہ من قبل ولیحلفن ان اردنا الا الحسنی واللہ یشھد انھم لکذبون لا لاتقم فیہ ابدا لمسجد اسس علی التوی من اول یوم احق ان تقوم فیہ فیہ رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المطھرین افمن اسس بنیانہ علی تقوی من اللہ و رضوان خیر ام من اسس بنیانہ علی شفا جرف ھارفانھا ربہ فی نارجھنم واللہ لایھدی القوم الظلمین لا یزال بنیانھم الذی بنواریبتہ فی قلوبھم الا ان تقطع قلوبھم واللہ علیم حکیم )التوبتہ ع(
ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ جو کوئی مسجد بناتے ہیں یا کسی مسجد کو اختیار کر لیتے ہیں اس لئے کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کو نقصان پہنچائیں اور نافرمانی کی تعلیم دیں اور مسلمانوں میں تفرقہ یدا کرنے کی کوشش کریں اور وہ لوگ جو کہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر لڑرہے ہیں ان کیلئے گھات میں بیٹھیں اور ان کے اوپر حملہ کریں اور بڑی شدت سے اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم اپنے افعال سے صرف نیکی اور بھلائی چاہتے ہیں۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ ایسے لوگ جھوٹے ہیں۔ اے خدا کے رسول تو ایسی مسجد میں مت کھڑا ہو۔ وہ مسجدیں جن کی بنیادی تقویٰ پر قائم کی گئی ہے ابتدائی دن سے وہ زیادہ حق دار ہیں کہ تو ان میں کھڑا ہو۔ ان مسجدوں میں ایسے لوگ جاتے ہیں جو کہ نفس کی پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی پاکیزہ نفس لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ کیا وہ لوگ جو مسجدوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تقویٰ پر رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی پر رکھتے ہیں وہ اچھے ہیں یا وہ لوگ جو مسجد کی بنیاد ایک ایسی کھوکھلی زمین ے کنارے پر رکھتے ہیں جو کہ گرنے والی ہے اور جو ان لوگوں کو دوزخ کی آگ میں گرا کر پھینک دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ظلم اور فساد کرنے والے لوگوں کو کبھی پسند نہیں فرماتا۔ جو لوگ اس قسم کی مسجدوں کی بنیادیں رکھتے ہیں )یعنی جن میں ضرر اور فتنہ کی کارروائیاں ہوتی ہیں ان کی یہ تعمیر ہمیشہ کے ان دلوں میں شک و شبہات ہی پیدا کرتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ بہت جاننے والا اور بہت حکمت والا ہے۔
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد اپنی ذات میں کسی شخص کو نہیں بچا سکتی۔ اگر مسجد میں کوئی برا کام کیا جائے گا تو اس کو برا سمجھا جائیگا اور اگر مسجد میں کوئی اچھا کام کیا جائے گا تو اس کو اچھا سمجھا جائے گا۔ اگر مسجد اپنی ذات میں ہر ای فعل کو بچا لیتی ہے اور مسجد میں کیا جانے والا فعل مذہبی کہلاتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ وہ منافق لوگ جن کا مذکورہ بالا آیات میں ذکر ہے اور جو مسجد میں اسلامی سیاست کے خلاف منصوبے کرتے تھے وہ بھی مسجد میں مجالس کرنے کی وجہ سے دینی افعال کرتے تھے اور ہر قسم کی گرفت سے بالا تھی بلکہ حکومت اگر ان کو پکڑتی تو وہ مداخلت فی الدین کی مرتکب ہوجاتی تھی اور اس صورت میں نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم~صل۱~ پر الزام آئے گا کہ آپﷺ~ نے جو مذکورہ مسجد کو گروا دیا اور اس کی جگہ کھاد کا ڈھیر لگوا دیا یہ فعل نعوذ باللہ ناجائز کیا۔ پس تعجب ہے ان لوگوں پر جو علمائے اسلام کہلاتے ہیں اور مسجد کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور پبلک کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اگر فعل کی نوعیت کو دیکھے بغیر صرف مسجد کے نام سے کوئی فعل مذہبی ہوجات اہے تو پھر یہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم کی اس مذکورہ بالا مسجد میں انجمنیں اور جلسے کرنے شروع کئے تھے انہیں کیوں حق بجانب نہ سمجھا جائے مگر کیا کوئی مسلمان کہلانے والا ایسا خیال بھی کرسکتا ہے کہ رسول اللہ~صل۱~ نے ایک درست فعل کرنے والے کو سزا دی۔ احرار اور ان کے ساتھی یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے جو فعل مسجد میں کیا وہ قانونی تھا۔ مسجد کے باہر بھی اگر وہ فعل ہم کرتے تو اس پر گرفت کرنی ناجائز تھی۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر فعل جو مسجد میں کیا جائے وہ مذہبی ہوتا ہے اور اگر ہر فعل جو مسجد میں کیا جاتا ہے وہ مذہبی نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دنیوی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خلاف قانون ہو تو مسجد کے اندر کئے گئے ایسے فعل پر گرفت بھی جائز ہوگی جیسا کہ رسول کریم~صل۱~ نے مذکورہ بالا مسجد میں فتنہ کرنے والے لوگوں پر گرفت کی اور ان کی مسجد کو توڑ دیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسجد کے اندر گرفتاریاں کرنی مداخلت فی الدین ہے اور اسی سے متاثر ہو کر حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری نے ایک اعلان بھی کیا ہے کہ ہم نے تو ہدایت دی ہوئی ہے کہ مسجد کے اندر کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔ لیکن احرار اور ان کے ساتھی علماء کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط اور خلاف اسلام ہے۔ رسول کریم~صل۱~ کا اپنا فعل ان کے اس دعویٰ کے خلاف ہے تمام کی تمام مساجد خانہ کعبہ اور مسجد نبویﷺ~ کے نمونہ پر بنائی گئی ہیں یعنی تمام مساجد ان کے اظلال ہیں۔ چونکہ ہر شخص خانہ کعبہ میں نہیں جاسکتا اور ہر شخص مسجد نبویﷺ~ میں نہیں جاسکتا اس لئے اجازت دی گئی ہے کہ ان کی نقل میں ہر جگہ پر مسجدیں بنالی جائیں۔ پس کسی مسجد کو وہ فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی جو خانہ کعبہ کو یا مسجد نبویﷺ~ کو حاصل ہے اور کسی مسجد کو وہ حفاظت حاصل نہیں ہوسکتی جو خانہ کعبہ یا مسجد نبویﷺ~ کو حاصل ہے لیکن رسول کریم~صل۱~ نے فتح مکہ کے موقعہ پر گیارہ افراد کے نام لے کر فرمایا کہ کعبہ بھی ان لوگوں کو پناہ نہیں دے گا اگر یہ کعبہ میں پائے جائیں تو وہاں بھی ان کو قتل کردیا جائے۔ بلکہ آپ~صل۳~ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر تم ان لوگوں کو خانہ کعبہ کے پردوں سے بھی لٹکا ہوا پائو تو وہاں بھی ان کو نہ چھوڑو۔ )سیرت ۴۴ الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۹۲(
اب یہ علماء کہلانے والے لوگ مجھے بتائیں کہ کیا یہ مسجدیں جن میں وہ سازشیں کرتے ہیں اور حکومت کے احکام کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں یہ خانہ کعبہ سے زیادہ معزز ہیں ؟ اگر بعض مجرموں کو رسول کریم~صل۱~ خانہ کعبہ میں بھی قتل کردینے یا پکڑ لینے کا حکم دیتے ہیں تو دوسری مسجدوں کی خانہ کعبہ کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے کہ ان میں خلاف آئین کام کرنے والے لوگوں کو قانون سے آزادی ملنی چاہئے قرآن کریم تو صاف فرماتا ہے کہ مساجد تقویٰ کے قیام کیلئے قائم کی گئی ہیں نہ کہ قانون شکنی کیلئے۔ اگر مسجدیں قانون شکنی کیلئے ہیں تو پھر شیطان کیلئے تو کوئی گھر بھی بند نہیں رہتا۔ جن گھروں کو خدا تعالیٰ نے امن کیلئے` تسکین کیلئے روحانیت کیلئے` تقویٰ کیلئے` تعاون کیلئے` اتحاد کیلئے بنایا تھا ان گھروں کو مسلمانوں میں فتنہ ڈالنے کا ذریعہ بنانا` ان گھروں کو حکومت سے بغاوت کا ذریعہ بنانا` ان گھروں کو فتنہ و فساد کی بنیاد رکھنے کی جگہ بنانا تو ایک خطرناک ظلم ہے۔ ان افعال کے مرتکب کو مسجدوں میں پکڑنے والا مسجدوں کی بے حرمتی نہیں کرتا وہ مسجدوں کی عزت کو قائم کرتا ہے اور مسجدوں میں ایسے افعال کے مرتکب لوگ اول درجہ کے بزدل ہیں کہ حکومت کے ڈر کے مارے مسجدوں کی پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولﷺ~ کے نام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں اور تقویٰ کے مقامات کو فساد اور گناہ کی جگمیں بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس اس کے سوا کیا زور ہے کہ وہ عوام الناس کو بھڑکا رہے ہیں لیکن عوام الناس کے مل جانے سے نہ قرآن بدل سکتا ہے` نہ محمد~صل۱~ کی تعلیم بدل سکتی ہے` نہ محمد~صل۱~ کا عمل بدل سکتا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ گو مسلمان عوام تعلیم اسلام سے بے بہرہ ہیں مگر محبت اسلام ان کے دلون میں باقی ہے اور وہ اس دھوکے میں نہ آئیں گے اور ان لوگوں سے پوچھیں گے کہ شہید گنج کی مسجد کے سوال پر تو تم کو مسجد کی حرمت کا خیال نہ آیا مگر اب مسجد کے نام سے اپنے آپ کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کرتے ہو آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک عالم کہلانے والے صاحب نے تاریخ اسلام میں سے ایک مثال مسجد کی حرمت کی پیش کی ہے۔ انہوں نے ایک عباسی خلیفہ کا ذکر کیا ہے کہ اس نے اپنی بیوی سے خفا ہو کر حکم دیا کہ شام سے پہلے پہلے وہ بغداد سے نکل جائے اگر وہ نہ گئی تو اسے سزا دی جائے گی لیکن بعد میں وہ اپنے حکم سے پچھتایا اور اس نے علماء س پوچھا کہ اب میں کیا کروں۔ سب علماء نے بے بسی کا اظہار کیا لیکن امام ابو یوسف نے کہا کہ اس کا علاج تو آسان ہے وہ مسجد میں چلی جائے اس طرح وہ بچ جائے گی۔ میں ان عالم سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہر چور اور ڈاکو اور قاتل اورزانی اگر مسجد میں چلا جائے تو اس کا پکڑا جانا ناجائز ہوجائے گا۔ کیا اگر کوئی شخص مسجد میں کھڑے ہو کر اسلام اور اس کے شعائر کو نعوذ باللہ گالیاں دینی شروع کردے تو اس کی گرفتاری ناجائز ہوجائے گی۔ اور چونکہ آپ لوگوں کے نزدیک جو جگہ ایک دفعہ مسجد بن جائے پھر وہ مسجد کی شرطوں سے باہر نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص مسجد میں کھڑے ہو کر مسجد کی عمارت ہی کو گرانے لگ جائے تو اس کو کوئی سزا نہیں مل سکتی کیونکہ وہ مسجد میں کھڑا ہے اور ایک دینی کام کررہا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک
امام ابو یوسف نے اگر یہ واقعہ صحیح ہے )جو بظاہر صحیح نہیں( تو بادشاہ کو ایک حیلہ بتاتا ہے کیونکہ جب بادشاہ اپنے کئے پر پچھتایا تو بادشاہ خود اس عورت کو بچانا چاہتا تھا اس لئے مسجد میں جا کر وہ عورت قانون شکنی کی مرتکب نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ قانون بنانے والے کی مرضی کو پورا کررہی تھی۔ پس ان دونوں باتوں کا جوڑ کیا ہے؟ اگر تو امام ابو یوسف یہ کہتے کہ مسجد میں گھس کے جو چاہے جرم کرے اس کی اجازت ہے تو بے شک ان کے فتویٰ کے یہ معنی لئے جاسکتے تھے مگر وہ تو بادشاہ کی تائید میں ایک فتویٰ پیش کرتے ہیں اس کے خلاف فتویٰ پیش نہیں کرتے۔ میں ان فتویٰ دینے والے مفتیوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر انہی مسجدوں میں اور ان کے جلسوں میں کھڑے ہو کر کوئی احمدی ان کے خلاف تقریر شروع کردے تو کیا وہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ مسجد میں کوئی فساد نہیں ہوگا اور کوئی اس آدمی کو مارے پیٹے گا نہیں اور کیا مسجد اس کو بھی پناہ دے گی جو احرار کے خلاف مسجد میں بولے یا صرف ان احرار کو پناہ دے گی جو حکومت کے خلاف مسجد میں بولیں ؟
یہ علماء یہ بھی تو سوچیں کہ اگر مسجد ہر عمل کو پاک کردیتی ہے تو جب پولیس مسجد کے اندر جا کر غیر آئینی کارروائی کرنے والے کو پکڑ لے تو اس کا یہ مسجد کے اندر کیا ہوا فعل کیون دینی قرار نہ دیا جائے۔ آخر یہ امتیاز کہاں سے نکالا گیا ہے کہ دوسرے لوگ مسجد میں کوئی بھی کام کریں تو وہ دینی ہوجاتا ہے لیکن اگر پولیس یا حکومت مسجد میں کوئی کام کرے تو وہ دینی نہیں ہوتا۔
آخر میں میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے ایک احراری اخبار نے لکھا ہے کہ قانون شکن لوگوں کو مسجد میں گرفتار کر کے پاکستان کی حکومت نے وہ ظالمانہ فعل کیا ہے کہ انگریز کی حکومت نے بھی ایسا نہ کیا تھا۔ اول تو ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب نے اس امر کی تردید کی ہے اور بیان دیا ہے کہ حکومت نے مسجد کے اندر گرفتار کرنے سے حکام کو روکا ہوا ہے۔ لیکن فرض کرو یہ صحیح ہو تو کیا احرار اس واقعہ کو بھول گئے ہیں جب انگریزی حکومت نے مساجد میں گھس کر خاکساروں پر حملہ کیا تھا اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کا فعل اچھا تھا کیونکہ سارے واقعات میرے سامنے نہیں۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے پاس سے بات گھڑ کر اس کی بناء پر انگریزی حکومت کو پاکستان کی حکومت پر ترجیح دینا کیا محض فساد کی نیت سے نہیں ؟<۴۵
عروج احمدیت کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی
جماعت احمدیہ اپنے محبوب امام سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کی قیادت میں خارق عادت رنگ میں ترقی کرتے ہوئے اس مقام تک جاپہنچی تھی کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود تحریک احمدیت کی آخری منزل کو قریب سے قریب تر لانے اور عالمگیر اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لئے مزید ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت تھی۔
اس ضرورت کے پیش نظر حضورؓ نے ۲۷ احسان ۱۳۳۱ ہش / جون ۱۹۵۲ء کو بذریعہ خطبہ جمعہ ایک تو یہ اصولی راہنمائی فرمائی کہ جب قومین اپنے زمانہ جوانی میں داخل ہوتی ہیں تو ان کا ہر تغیر ان کیلئے ایک نیک نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ دوسرے یہ پیشگوئی فرمائی کہ غلبہ احمدیت میں جتنی دیر لگ رہی ہے اسی نسبت سے جماعت احمدیہ کی عظمت و شوکت کا زمانہ بھی لمبا ہوگا۔
حضور کے اس انقلاب انگیز خطبہ کے بعض ضروری حصے درج کئے جاتے ہیں۔:
>سلسلہ احمدیہ اور میری عمر ایک ہی ہے جس سال حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ کیا ہے اور بیعت لی ہے میں اسی سال پیدا ہوا تھا۔ گویا جتنی میری عمر ہے اتنی عمر سلسلہ کی ہے لیکن افراد کی عمروں اور قوم کی عمر میں فرق ہوتا ہے۔ ایک فرد اگر ۷۰ یا ۱۰۰ سال زندہ رہ سکتا ہے تو قومیں ۳۰۰` ۴۰۰ سال تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ اگر تین سو سال بھی کسی قوم کی زندگی رکھ لی جائے تو اس کی جوانی کا زمانہ اس کے چوتھے حصہ کے قریب سے شروع ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان کی عمر ۷۲`۷۴ سال فرض کر لی جائے تو اس کی عمر کے چوتھے حصہ سے جوانی شروع ہوتی ہے یعنی ۱۸۔۱۹ سال سے انسان جوانی کی عمر میں داخل ہوتا ہے۔ اس طرح اگر کسی قوم کی عمر ۳۰۰ سال قرار دے لی جائے تو اس کی جوانی ۷۵ سال کی عمر سے شروع ہوگی۔ تمہاری عمر تو ابھی ۶۳ سال کی ہے ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ابھی جوان بھی نہیں ہوئی۔ اس پر ابھی وہ زمانہ ہے جب انسان کچھ بھی کھالے تو وہ اسے ہضم ہوجاتا ہے۔ ہزاروں مخالفتیں ہوں` مصائب ہوں` ابتلاء ہوں۔ یہ اس کی قوت کو بڑھانے کا موجب ہونے چاہئیں کمزوری کا موجب نہیں۔ اگر تم اس چیز کو سمجھ لو تو یقیناً تمہارے حالات اچھے ہوجائیں گے۔ جو لوگ جسمانی بنائوٹ کے ماہر ہیں ان کا خیال ہے کہ انسانی جسم اس یقین کے ساتھ بڑھتا ہے کہ اس کی طاقت بڑھ رہی ہے` طاقت کا مشہور ماہر سینڈو گزار ہے اس نے طاقت کے کئی کرتب دکھائے ہیں اور کئی بادشاہوں کے پاس جا کر اس نے اپنی طاقت کے مظاہرے کئے ہیں۔ اس نے ایک رسالہ لکھا ہے کہ مجھے ورزش کا کہاں سے خیال پیدا ہوا اور میرا جسم کیسے مضبوط ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ مجھے ایسے رنگ میں کام کرنے کا موقعہ ملتا تھا کہ میرے باز و بنیان سے باہر رہتے تھے۔ میں نے ایک دن اپنے بازو دیکھ کر خیال کیا کہ میرے بازو مضبوط ہورہے ہیں۔ اس خیال کے انے کے بعد میں نے ورزش شروع کردی اور آہستہ آہستہ میرا جسم مضبوط ہوتا گیا۔ سینڈو کا یہ خیال تھا کہ ورزش لنگوٹا باندھ کر کرنی چاہئے تا ورزش کرنے والے کی نظر اس کے جسم کے مختلف حصوں پر پڑتی رہے اور اسے یہ خیال رہے کہ اس کا جسم بڑھ رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے لنگوٹا باندھ کر ورزش شروع کی۔ میں ہمیشہ یہ خیال کرتا تھا کہ میرے جسم کا فلاں حصہ بڑھ رہا ہے اور مجھ پر یہ اثر ہوا کہ صحت کی دوستی خیال کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ جب تک انسان کا خیال اس کی مدد نہیں کرتا اس کا جسم مضبوط نہیں ہوتا۔ اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ورزش کرنے والا اپنے جسم کو دیکھ رہا ہو۔ یہ نہایت کامیاب اصل ہے۔ ہزاروں نے اس کا رجربہ کیا اور اسے کامیاب پایا اور انہوں نے اپنے جسموں کو درست کیا۔ تمہیں بھی اٹھتے بیٹھتے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ تم ہمت محسوس کررہے ہو اور تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ تم تو ابھی جوان بھی نہیں ہوئے۔ تمہاری عمر ابھی ۶۳ سال کی ہے۔ اور اگر تمہاری عمر کم سے کم عمر بھی قرار دے لی جائے تو تم نے ۷۵ سال کے بعد جا کر جوان ہونا ہے اور پھر ۱۵۰۔۱۷۵ سال جوانی کے بھی گزرنے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم کی عمر کو لیا جائے تو اس کی جونای کی عمر ۵۰۰ سال کی تھی ۲۶۰ سال گزر جانے کے بعد ان کی جوانی کا وقت شروع ہوا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے ہیں ان کے مطابق ہماری جوانی پہلے شروع ہوگی۔ بہرحال ہماری ان سے کچھ مشابہت تو ہونی چاہئے ممکن ہے ہماری جوانی کا وقت ۱۰۰ یا سوا سو سال سے شروع ہو۔ اس صورت میں جونای کا زمانہ پونے دو سو سے اڑھائی سو سال تک کا ہوگا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جن کی جوانی میں دیر لگتی ہے ان کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں اور جن کی عمریں چھوٹی ہوتی ہیں ان کی جوانی بھی جلدی آتی ہے۔ جانوروں کو دیکھ لو جن جانوروں کی عمر چار پانچ سال کی ہوتی ہے ان کی جوانی مہینوں میں ہوتی ہے اور جو جانور ۲۷`۲۸ سال تک زندہ رہتے ہیں ان کی جوانی سالوں میں آتی ہے۔ گھوڑے کو لے لو اس کی عمر بیس پچیس سال کی ہوتی ہے اور اس کی جوانی کی عمر کہیں چار سال سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن بکری اور بلی چوتھے پانچویں ماہ جوان ہوجاتے ہیں۔ گویا جتنی کسی کی عمر چھوٹی ہوگہی اسی نسبت سے اس کی جوانی پہلے آئے گی اور جتنی کسی کی عمر لمبی ہوگی اسی نسبت سے اس کی جوانی بھی بعد میں آئے گی۔ تمہاری زندگی کا لمبا ہونا مقدر ہے۔ اور یہ نیک فال ہے کہ ابھی تمہاری جوانی کا وقت نہیں آیا۔ اگر تم ۶۳ سال کی عمر میں ابھی نیم جوانی کی حالت میں ہو تو معلوم ہوا کہ تمہاری عمر لمبی ہے۔ عمر اور جوانی میں کچھ نسبت ہوتی ہے۔ لمبی عمر ہو تو جوانی دیر سے آتی ہے اور اگر جوانی دیر سے آئے تو معلوم ہوا کہ عمر لمبی ہوگی۔ بہرحال اس زمانہ تک جماعت احمدیہ کا ترقی نہ کرنا حیرت کا موجب نہیں ۶۳ سال جماعت پر گز چکے ہیں اگر ۶۳ سال میں جماعت غالب نہیں آئی تو یہ خوشی کی بات ہے عیسائیوں پر پونے تین سو سال میں جوانی آئی اور اج تک وہ پھیلتے چلے جارہے ہیں۔ ایک لمبے عرصہ تک انہیں مصائب جھیلنے پڑے۔ تکالیف برداشت کرنی پڑیں اور وہ غور و فکر کرتے رہے جس کی وجہ سے انہیں ہر کام کے متعلق غور کرنے اور فکر کرنے کی عادت پڑ گئی اور اس کے نتیجہ میں انہوں نے بعد میں شاندار ترقی حاصل کی۔
پس ہماری جماعت پر جوانی کا وقت انے میں جو دیر لگی ہے اس کی وجہ سے ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے جوانی دیر سے آنے کے یہ معنے ہیں کہ جماعت کی عمر بھی لمبی ہوگی اور احمدیت دیر تک قائم رہے گی۔ یہ چیزیں تمہاری گھبراہٹ کا موجب نہیں ہونی چاہئیں بلکہ تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ جماعت کو لمبی عمر دینا چاہتا ہے۔ تم سوچنے اور فکر کرنے کی عادت ڈالو۔ تمہاری طاقت` تمہارا ایان` تمہاری قوت مقابلہ اور عقل سوچنے سے بڑھے گی۔< ۴۶
صبر و صلٰوۃ کی پر زور تحریک
ابتلائو اور آزمائشوں کے ان پرفتن ایام میں جب کہ مخالف عناصر کا سارا زور غیر اسلامی بلکہ غیر اخلاقی حربوں ۴۷ کے استعمال پر صرف ہورہا تھا` حضرت مصلح موعودؓ اپنے مستقل طریق کے مطابق قدم قدم پر خدا کی جماعت کو صبر و صلٰوۃ کی تاکیدی فرما رہے تھے۔
چنانچہ حضور نے ۴ وفا ۱۳۳۱ ہش/جولائی ۱۹۵۲ء کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:۔
>قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دعویٰ تو یہ کریں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن ان کو آزمائشوں اور ابتلائوں کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولو امنا وھم لایضلنون کیا یہ لوگ وہم بھی کرسکتے ہیں۔ کیا مسلمان اس قسم کے خیالات میں مبتلا ہیں کہ انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ انہیں آزمائشوں اور ابتلائوں کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے گا۔ انہیں تکالیف اور مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ انہیں ٹھوکریں نہیں لگیں گی حالانکہ وہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے۔ یہ قاعدہ کلیہ ہے جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اسے ابتلائوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ضرور ڈالا جاتا ہے۔ اگر یہ قاعدہ کلیہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ابتدائے اسلام میں یہ نہ فرماتا کہ تم کس طرح یہ خیال کرتے ہو کہ تم دعویٰ تو یہ کرو کہ ہم ایمان لائے لیکن تمہیں ابتلائوں اور آزمائشوں میں نہ ڈالا جائے۔ اسے ٹھوکریں نہ لگیں۔ وہ مخالفت کی آگ میں نہ پڑے۔
پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم ایک مامورمن اللہ کی آواز پر لبیک کہنے والے ہیں تو انہیں ابتلائوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ڈالا جائے گا خدا تعالیٰ فرماتا ہے وھم لا یغتنون اگر یہ سچ ہے کہ تم ایمان لائے ہو تو یہ بات بھی سچ ہے کہ تمہیں ابتلائوں میں ڈالا جائے گا۔<
حضور نے یہ حقیقت ذہن نشین کرانے کے بعد ارشاد فرمایا:۔
>پس ہماری جماعت کو مشکلات کے مقابلہ میں دعا اور نماز کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ میرے تو وہم میں بھی یہ نہیں ایا کہ کوئی احمدی نماز چھوڑتا ہے۔ اگر کوئی ایسا احمدی ہے جو نماز کا پابند نہیں تو میں اسے کہوں گا کہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس وقت تم پر نماز گراں نہیں ہونی چاہئے۔ مصیبت کے وقت میں نماز گراں نہیں ہوتی مصیبت کے وقت لوگ دعائیں مانگتے ہیں گر یہ وزاریاں کرتے ہیں۔ ۱۹۰۵ء میں جب زلزلہ آیا تو اس وقت ہمارے ماموں میر محمد اسمعیل صاحبؓ لاہور میں پڑھتے تھے آپ ہسپتال میں ڈیوٹی پر تھے کہ زلزلہ آیا۔ آپ کے ساتھ ایک ہندو طالب علم بھی تھا جو دہریہ تھا اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق ہنسی اور مذاق کیا کرتا تھا۔ جب زلزلہ کا جھٹکا آیا تو وہ رام رام کر کے باہر بھاگ آیا جب زلزلہ رک گیا تو میر صاحب نے اسے کہا تم رام پر مذاق اڑایا کرتے تھے اب تمہیں رام کیسے یاد آگیا ؟ اس کے بعد خوف کی حالت جاتی رہی تھی۔ زلزلہ ہٹ گیا تھا۔ اس نے کہا یونہی عادت پڑی ہوئی ہے اور منہ سے یہ لفظ نکل جاتے ہیں۔ پس حقیقت یہ ہے کہ مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ یاد آجاتا ہے۔ جس شخص کو مصیبت کے وقت بھی خدا تعالیٰ یاد نہیں آتا سمجھ لو کہ اس کا دل بہت شقی ہے۔ وہ اب ایسا لاعلاج ہوگیا ہے کہ خطرہ کی حالت بھی اسے علاج کی طرف توجہ نہیں دلاتی پس اگر ایسے لوگ جماعت میں موجود ہیں جو نماز کے پابند نہیں تو میں انہیں کہتا ہوں کہ یہ وقت ایسا ہے کہ انہیں اپنی نمازوںکو پکا کرنا چاہئے اور جو نماز کے پابند ہیں میں انہیں کہتا ہوں آپ اپنی نمازیں سنوا دیں اور جو لوگ نماز سنوار کر پڑھنے کے عادی ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ بہتر وقت دعا کا تہجد کا وقت ہے نماز تہجد کی عادت ڈالیں۔ دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری مشکلات کو دور فرمائے اور لوگوں کو صداقت قبول کرنے کی توفیق دے۔ مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ دشمن کیا کہتا ہے۔ لیکن یہ ڈر ضرور ہے کہ جب اس قسم کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تو اکثر لوگ صداقت کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پس ہماری سب سے مقدم دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہماری مسکلات کو دور کردے۔ جو لوگوں کے صداقت قبول کرنے میں روک ہیں اور ان کی توجہ اس طرف پھیر رہی ہیں۔ ابتلاء مانگنا منع ہے لیکن اس کے دور ہونے کیلئے دعا مانگنا سنت ہے اس لئے یہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ وہ روکیں دور کردے جو لوگوں کو صداقت قبول کرنے سے ہٹا رہی ہیں اور ہماری فکر مندیوں کو دور کردے۔ ہاں وہ ہمیں ایسا بے فکر اور بے ایمان نہ بنائے کہ جس کی وجہ سے ہمارے ایمان میں خلل واقع ہو۔ درحقیقت ایمان کا کمال یہ ہے کہ انسان خوف اور امن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکے اگر کوئی شخص خوف اور امن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے امن دیتا ہے۔ لیکن جو مومن خوف کی حالت میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے امن کی حالت میں نہیں خدا تعالیٰ اس کیلئے ٹھوکریں پیدا کرتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ اسے مرتذ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کیلئے امن کی حالت پیدا کردیتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ سے دور ہوجاتا ہے۔ پس جو لوگ نماز کے پابند ہیں وہ نماز سنوار کر پڑھیں اور جو نماز سنوار کر پڑھنے کے عادی ہیں وہ تہجد کی عادت ڈالیں پھر نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیں پھر نہ صرف نوافل پڑھیں بلکہ دوسروں کوبھی نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ خدا تعالیٰ نے لوگوں کو روزہ کی عادت ڈالنے کیلئے ایک ماہ کے روز سے فرض کئے ہیں۔ روزے فرض ہونے کی وجہ سے ایک مسلمان ایک ماہ جاگتا ہے اور پھر اپنے ساتھیوں کو بھی جگاتا ہے ڈھول پٹتے ہیں اور اسی طرح تمام لوگ اس مہینہ میں تہجد کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اگر ایک ہمسایہ روزہ کیلئے نہ اٹھتا تو دوسرا بھی نہ اٹھتا۔ لیکن چونکہ ایک آدمی روزہ کیلئے اٹھتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرا بھی بیدار ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے اس طرح روزے فرض کرنے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ سب لوگوں کو اس عبادت کی عادت پڑ جائے پس اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ ربوہ کی جماعت کے افسران اور عہدیداران محلوں میں تہجد کی تحریک کریں اور جو لوگ تہجد پڑھنے کیلئے تیار ہوں اور یہ عہد کریں کہ وہ تہجد پڑھنے کے لئے تیار ہیں ا نکے نام لکھ لیں اور جب وہ چند دنوں کے بعد اپنے نفوس پر قابو صالیں تو انہیں تحریک کی جائے کہ وہ باقیوں کو بھی جگائیں۔ جب سارے لوگ اٹھنا شروع ہوجائیں۔ پیسے بچنے لگ جائیں تو کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا نماز پڑھنے کو دل تو چاہتا ہے لیکن نیند کے غلبہ کی وجہ سے بیدار نہیں ہوتے وہ بھی تہجد کیلئے اٹھ بیٹھیں گے رمضان میں لوگ اٹھ بیٹھتے ہیں اس لئے کہ اردگرد شور ہوتا ہے۔ اکیلے آدمی کو اٹھائیں تو وہ سوجاتا ہے لیکن رمضان میں وہ نہیں سوتا اس لئے کہ اردگرد آوازیں آتی ہیں۔ کوئی قرآن کریم پڑھتا ہے۔ کوئی دوسرے کو جگاتا ہے۔ کوئی دوسرے آدمی سے کہتا ہے کہ ہارے ہاں ماچس نہیں ذرا ماچس دے دو۔ ہمارے ہاں مٹی کا تیل نہیں تھوڑا سا مٹی کا تیل دو۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارے ہاں آگ نہیں آگ دو۔ کوئی کہتا ہے میں سحری کھانے کیلئے تیار ہوں روٹی تیار ہے ؟ یہ آوازیں اس کا سونا دوبھر کردیتی ہیں وہ کہتا ہے نیند تو آتی نہیں لیٹنا کیا ہے چلو چند نفل ہی پڑھ لو۔ رمضان بے شک برکت ہے لیکن رمضان میں جاگنے کا بڑا ذریعہ یہی ہوتا ہے کہ اردگرد سے آوازیں آتی ہیں اور وہ انسان کو جگادیتی ہیں۔ ایک آدمی آٹھ بجے سوتا ہے اور اسے دو بجے بھی جاگ نہیں آتی لیکن ایک آدمی بارہ بجے سوتا ہے لیکن تین بجے اٹھ بیٹھتا ہے اس لئے کہ اردگرد سے آوازیں آتی ہیں۔ ذکر الٰہی کرنے کی آوازیں آتی ہیں۔ قرآن کریم پڑھنے کی آوازیں آتی ہیں۔ کوئی کسی کو جگا رہا ہوتا ہے اور کوئی کھانا پکا رہا ہوتا ہے اور اس کی آواز اسے آتی ہے۔ اس لئے صرف تین گھنٹے سونے والا بھی اٹھ بیٹھتا ہے یہ ایک تدبیر ہے جس سے جاگنے کی عادت ہوجاتی ہے۔ پس مقامی عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ اس کا محلوں میں انتظام کریں اور پھر اسے باہر بھی پھیلایا جائے تا آہستہ آہستہ لوگ تہجد کی نماز کے عادی ہوجائیں پھر اگر کوئی تہجد کا مسئلہ پوچھے تو اسے کہو کہ اگر تہجد رہ جائے تو اشراق کی نماز پڑھو جو دو رکعت ہوتی ہے۔ وہ بھی رہجائے تو ضحیٰ پڑھو جو تہجد کی طرح دو سے آٹھ رکعت تک ہوتی ہے اس طرح تہجد اور نوافل کی عادت پڑ جائے گی۔ صلٰوۃ کے دو معنے ہیں نماز اور دعا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واستعینو بالصبر والصلوہ تم مدد مانگو صبر` نماز اور دعا سے۔ اور جو شخص خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ کوئی شخص اس پر غالب نہیں آسکتا۔ اگر خدا تعالیٰ ہے تو سیدھی بات ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں۔ اگر خدا تعالیٰ سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں یقیناً وہی شخص جیتے گا جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے۔ بے شک کسی کے ساتھ دنیا کی سب طاقتیں ہوں` جلسے ہوں` جلوس ہوں` نعرے ہوں` قتل و غارت ہو` قید خانے ہوں` پھانسیاں ہوں` *** و ملامت ہو لیکن جیتے گا وہی جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے۔ دلوں کی حالت کے متعلق رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ ۴۹ خدا تعالیٰ ہی دلون کے بھید جانتا ہے وہی دلوں کو بدل سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان کے کیا خیالات ہیں اور ان کا ردعمل کیا ہے ؟ وہ دلوں کو جانتا ہے۔ وہ اعمال کو جانتا ہے اور ان کے ردعمل کو جانتا ہے۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو میری طرف آتا ہے اسے دلوں کی طرف ایک سرنگ مل جاتی ہے۔ آخر دلون کو بدلنے کا کونسا ذریعہ ہے سوائے اس کے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں۔ خدا تعالیٰ نے اس کا ذریعہ صبر و صلٰوۃ مقرر کردیا ہے۔ صبر کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے کامل محبت ہو۔ وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مقدم ہے اور باقی ہر چیز موخر ہے اس لئے وہ اس کیلئے ہر مشکل اور تکلیف کو برداشت کر لیتا ہے۔ گویا صبر میں جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ اور صلٰوۃ میں عشقیہ طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ صبر جبری محبت اور نماز طوعی محبت ہم کچھ کام جبری طور پر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑنا یہ چیز جبری ہے۔ مشکلات اور مصائب تم خود پیدا نہیں کرتے۔ دشمن مشکلات اور مصائب لاتا ہے اور تم انہیں برداشت کرتے ہو اور خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑتے لیکن نماز طوعی ہے نماز تمہیں کوئی اور نہیں پڑھاتا نماز تم خود پڑھتے ہو۔ پس تم صبر میں جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا ثبوت دیتے ہو اور نماز میں طوعی طور پر اس کا اظہار کرتے ہو اور یہ دونوں چیزیں مل جاتی ہیں تو محبت کامل ہوجاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا فیضان جاری ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فیضان کو حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس سے صبر و صلٰوۃ کے ساتھ مدد مانگو۔ خدا تعالیٰ کا دلوں پر قبضہ ہے وہ انہیں بدل دے گا۔ میں جب تم سے کہتا تھا کہ جماعت پر مصائب اور ابتلائوں کا زمانہ آنے والا ہے اس لئے تم بیدار ہوجائو اس وقت تم میری بات پر یقین نہیں کرتے تھے تم ہنسی اڑاتے تھے اور لکھتے تھے کہ آپ کہاں کی باتیں کرتے ہیں ہمیں تو یہ بات نظر نہیں آتی۔ اور جب کہ فتنہ آگیا ہے میں تمہیں دوسری خبر دیتا ہوں کہ جس طرح بگولا آتا ہے اور چلا جاتا ہے یہ فتنہ مٹ جائے گا یہ سب کارروائی ھباء منثواً ہوجائیں گی۔ خدا تعالیٰ کے فرشتے آئیں گے اور وہ ان مشکلات اور ابتلائوں کو جھاڑو دے کر صاف کردیں گے۔ لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ تم صبر اور صلٰوۃ کے ساتھ میری مدد مانگو تمہیں مدد دوں گا لیکن تم دو باتیں کرو اول مصائب اور ابتلائوں پر گھبرائو نہیں۔ انہیں برداشت کرو اور دوسرے نمازوں اور دعائوں پر زور مجھے پتہ لگ جائے کہ تمہاری محبت کامل ہوگئی ہے۔ اور جب تمہاری محبت کامل ہوجائے گی تو میں بھی ایسا بے وفا نہیں ہوں کہ میں اپنی محبت کا اظہار نہ کروں< ۵۰
tav.13.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
فصل سوم
>مسلمان فرقہ احمدیہ< کی تکفیر کا نیا دور مطالبہ >غیر مسلم اقلیت< پر مختلف مسلمان حلقوں کی طرف سے تشویش واضطراب احمدی علم کلام کی برتری کا اعتراف اور ایک دلچسپ تجویز۔
ماہ جولائی ۱۹۵۲ء کے شرع میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے نمائندہ خصوصی مقیم مصر نے یہ انکشاف کیا کہ مصر میں بھارت اور افغانستان مل کر اس قسم کی سازشیں کررہے ہیں کہ پاکستان کو عرب ممالک سے بالکل الگ کردیا جائے۔ پاکستان اور عرب ملکوں میں کشیدگی پیدا کرنے کی ایک عرصہ سی یہاں بھارتی اور افغان ایجنٹ منصوبے بنا رہے ہیں تاکہ عرب ممالک میں پاکستان کو بدنام کر کے عرب ملکوں کو بھارتی حلقہ اقتدار میں شامل کردیا جائے۔۵۱
جماعت احمدیہ کی تکفیر کا نیا دور
اس انکشاف کے چند روز بعد احرار کی کوشش سے ۱۳۔ جولائی ۱۹۵۲ء کو برکت علی محمڈن ہال لاہور میں ایک >آل پاکستان پارٹیز کنونیشن< منعقد ہوا جس میں مختلف مکاتب فکر کے سیاسی اور مذہبی راہنما اور دیگر مندوب کم و بیش سات سو کی تعداد میں جمع ہوئے اور احراری مطالبات کے حق میں زور شور سے پراپیگنڈا کرنے کا فیصلہ کیا ۵۲ جس کے بعد حکومت پاکستان اور جماعت احمدیہ کے خلاف جارحانہ سرگرمیاں تیز کردی گئیں اور >مسلمان فرقہ احمدیہ< یا احمدی مذہب کے مسلمانوں ۵۳]txet [tag کے خلاف تکفیر کا نیا دور شروع ہوا۔
جماعت احمدیہ اپنے قیام کے روز اول ہی سے روح کافر گری کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی بلکہ خود حضرت مسیح موعودؑ پر تو براہین احمدیہ جیسی عظیم الشان تصنیف اور علمی شاہکار کی پاداش میں ۱۸۸۴ء ہی سے فتویٰ کفر لگ چکا تھا اور اس میں مختلف فرقوں کے علماء حتیٰ کہ حرمین شریفین کے حنفی مسلک کے مفتیان بھی شامل ہوگئے تھے جیسا کہ نومبر ۱۸۸۸ء کے مطبوعہ رسالہ >نصرت الابرار< سے ثابت ہے۔ ۵۴
حضرت مسیح موعودؑ نے ایک بار فرمایا تھا:۔
>عجیب بات یہ ہے کہ جتنے اہل اللہ گذرے ان میں کوئی بھی تکفیر سے نہیں بچا۔ کیسے کیسے مقدس اور صاحب برکات تھے ۔۔۔۔۔۔ یہ تو کفر بھی مبارک ہے جو ہمیشہ اولیاء اور خدا تعالیٰ کے مقدس لوگوں کے حصہ میں ہی آتا رہا ہے۔< ۵۵
تکفیر کے قدیم و جدید دور میں ایک فرق
اس اعتبار سے ۱۹۵۲ء کا فتنہ تکفیر احمدیوں کے لئے کوئی انوکھی چیز نہ تھی نہ ہوسکتی تھی البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ تقسیم ملک سے قبل جو فتاویٰ کفر صادر کئے گئے ان سے انگریزی حکومت یا ہندوئوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ تقویت پہنچتی تھی مگر تکفیر کے اس نئے دور میں اس کا مقصد ایک اسلامی مملکت کو نقصان پہنچانا تھا۔
ملک محمد جعفر خان کا بیان
چنانچہ ملک محمد جعفر خاں )وزیر مملکت پاکستان برائے اقلیتی امور و سیاحت( فرماتے ہیں:۔
>پنجاب میں ختم نبوت کی ایجی ٹیشن میں سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ احمدیون کو سیاسی لحاظ سے ایک اقلیت کا درجہ دے دیا جائے۔ اس مطالبے کی تہ میں کوئی قابل ستائش ملک یا قومی مفاد نہ تھا۔<
>یہ بات تو انسانی فہم ہی سے بالا ہے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے ختم نبوت کا کیا تعلق ہے بہرحال تحریک جو کچھ تھی چلی اور خوب چلی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مملکت کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔< ۵۷۵۶
محض لفظی نزاع
ملک صاحب موصوف نے کھلے لفظوں میں اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت میں احمدی اور غیر احمدی علماء میں محض لفظی نزاع ہے اس لئے مخالف احمدیت علماء احمدیوں کو خارج از اسلام اور غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:۔
>ہمیں اس امر نے ہمیشہ حیران کیا ہے کہ جس ختم نبوت کے عقیدہ سے انکار کی بناء پر علماء جماعت احمدیہ کو اسلام سے کارج قرار دیتے ہیں اس کی روشنی میں یہ علماء اپنے پوزیشن پر کیوں غور نہیں کرتے ؟ اگر ختم نبوت سے یہ مراد ہے کہ محمد~صل۱~ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور ہمارے نزدیک یہی مراد ہے تو جماعت احمدیہ اور غیر احمدی علماء جو نزول مسیحؑ پر ایمان رکھتے ہیں دونوں ہی ختم نبوت کے منکر ہیں مسیح ابن مریمؑ کے نبی ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اور اگر ان کو رسول کریم~صل۱~ کے بعد آنا ہے تو نبی کریم خاتم النبین نہیں ہوسکتے۔ احمدیوں کے نزدیک مسیح ابن مریمؑ کو نہیں آنا بلکہ ان کے مثیل کو آنا تھا جو مرزا صاحب کی ذات میں آگیا۔ ساتھ ہی ان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ مثیل بھی نبی ان کے مثیل کو آنا تھا جو مرزا صاحب کی ذات میں اگیا۔ ساتھ ہی ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مثیل بھی نبی ہے بلکہ اپنی شان میں مسیح ناصری سے بڑھ کر ہے۔ اس طرح بنیادی لحاظ سے ان دو فریقوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے صرف اتنا فرق ہے کہ ایک فریق ایک نبی کے آنے کا منتظر ہے اور دوسرے کا خیال ہے کہ نبی آچکا ہے۔< ۵۸
>تحفظ ختم نبوت< کا ادعا اور اس کی حقیقت
ان لوگوں کو >ختم نبوت< اور اس کے تحفظ سے کہاں تک تعلق تھا ؟ اس کا اندازہ >امیر شریعت< ۵۹ احرار سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری کے مندرجہ ذیل بیان سے بخوبی لگ سکتا ہے جو انہوں نے ۶ جولائی ۱۹۵۲ء کو ملتان کے ایک معزز اجتماع میں دیا:۔
>میں ممتاز صاحب دولتانہ کو اس لئے اپنا لیڈر جانتا ہوں کہ ایک تو وہ صوبہ مسلم لیگ کے صدر ہیں اور دوسرے وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اگر دولتانہ صاحب کہہ دیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان لے آئوں گا اور مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خلیفتہ المسیح مان لوں گا۔ ۶۰
یہ وہی >امیر شریعت< تھے جنہوں نے قبل ازیں >ختم نبوت کانفرنس کراچی< میں یہ فرماتا تھا کہ :۔
>اگر خواجہ غریب نواز اجمیری` سید عبدالقادر جیلانی` امام ابوحنیفہ` امام بخاری` امام مالک` امام شافعی ` ابن تیمیہ` غزالی` حسن بصری` نبوت کا دعویٰ کرتے تو کیا ہم انہیں نبی مان لیتے۔ علیؓ دعویٰ کرتا کہ جسے تلوار حق نے دی اور بیٹی نبی نے دی۔ عثمان غنی دعویٰ کرتا` فاروق اعظم دعویٰ کرتا` ابوبکر صدیق دعویٰ کرتا تو کیا بخاری اسے نبی مان لیتا۔< ۶۱
حکومت پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی
آل مسلم پارٹیز کنونیشن کے انعقاد کے بعد عوام کو کس طرح کھلم کھلا تشدد اور بغاوت پر اکسایا جانے لگا اس کا صرف ایک نمونہ کافی ہے۔ احرار کے >مجاہد ملت< مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے اگست ۱۹۵۲ء میں ملتان کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:۔
>اگر حکومت نے کراچی کی طرح سنگینوں کے سائے میں مرزائیت کی جبری تبلیغ کروانی ہے تو پھر ہماری تمہاری جنگ ہے۔ اگر اظہار استبداد کے معنی بغاوت ہے۔ اگر مظلوم کی فریاد کے معنی بغاوت ہے۔ اگر بیزاری بیداد کے معنی بغاوت ہے تو پھر میں ایک باغ ہوں میرا مذہب بغاوت ہے۔<
>محمدﷺ~ ملک کے لئے نہیں ملک محمد کے لئے ہے اور ایسے کروڑوں خطہ ارضی محمد کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں۔ ۶۲]ydob [tag اپنی وزارتوں کے تحفظ کے لئے سیفٹی اور سیکیورٹی ایکٹ بنانے والو ! اس دن کے متلعق بھی سوچ لو جب حوض کوثر پر محمد~صل۱~ کوثر کا پیالہ ہاتھ میں لئے سوال کریں گے تمہاری وزارتوں میں میری نبوت کیوں کر رسوا ہوئی تو سوچ لو اس وقت تمہارا کیا جواب ہوگا؟<۶۳
محب وطن حلقوں میں تشویش واضطراب اور سیاسی ردعمل
یہ شعلہ نوائی جلد ہی رنگ لائی اور عوام میں اپنے حکمرانوں کے خلاف آتش انتقال سلگنے لگی۔ امن غارت ہونے لگا اور انتشار اور بدامنی اور بے اطیمنانی کا مہیب طوفان امڈتا دکھائی دینے لگا تو تمام محب وطن مسلمان حلقوں میں تشویش و اضطراب کی زبردست لہر پیدا ہوگئی۔ حتیٰ کہ وہ طبقہ بھی جو اب تک خاموش کھڑا اس معاملہ کو ایک دینی مسئلہ سمجھے بیٹھا تھا` احتجاج کرنے لگا۔
ملتان
ان دنوں اس تحریک کا اصل مرکز ملتان تھا جس کے بیس صحافیوں نے >تحریک ختم نبوت کا موجود دور< کے عنوان سے حسب ذیل اشتہار شائع کیا:۔
>تحریک ختم نبوت کی ابتداء جن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر کی گئی اس نے بلا امتیاز فرقہ ہر ایک مسلمان کا دل و دماغ اپنی طرف متوجہ کر لیا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ یہ مقدس تحریک جس موجودہ دور سے گذر رہی ہے اور اس سے پاکستانی عوام` پاکستان کی سالمیت` سکون اور امن پر جو ہولناک حملے ہورہے ہیں اس نے ہر ایک ذی شعور مسلمان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ بانیان تحریک کون ہیں اور اس تحریک سے ان کا اصل مقصد کیا ہے ؟
ہم صحافیان ملتان نے دیگر صوبہ جات مملکت خدا داد پاکستان کے مسلمانوں کے خیالات کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ ہم نے حکومت کے اعلانات` بیانات اور انسدادی تدابیر پر بھی غور کیا ہے۔ ہم نے ان خیالات پر بھی دھیان دیا ہے جو دیگر ممالک کی صہافت نے اس تحریک کے متعلق ظاہر کئے ہیں۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ سمجھدار طبقہ اس تحریک کی موجودہ انتشار انگیز ضرر رساں شکل کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ مسلم عوام کا ایمان تازہ` ارادے مستقل اور قدم مضبوط ہیں اور وہ ہر ایسی تحریک سے دیوانہ وار منسلک ہوجاتے ہیں جو قوم` ملک اور مذہب کے نام پر چلائی جائے۔ لیکن اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ ان کی یہ قربانیاں ملک و ملت کے لئے مفید بھی ہیں یا نہیں ؟ اگر تحریک کے علمبردار پاکستان دشمنی` قوم کی تباہی اور دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے درپے ہوں تو فدیان ناموس رسولﷺ~ کا اولین فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے دشمنوں کے دھوکہ میں نہ آئیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے وقت میں قومی مفاد کے تحفظ کی ذمہ داری جہاں گونمنٹ پر عائد ہوتی ہے وہاں ملکی صحافت اور عوام پر بھی اسی طرح اس ذمہ داری کا بوجھ پڑتا ہے۔
ہم صحافیان ملتان پورے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ تحریک کو موجودہ انتہائی خطرناک اور غیر آئینی رنگ دینے میں یقیناً دشمنان پاکستانکا ہاتھ ہے اور وہ اس مقدس نعرہ کی آڑ لے کر ملک کی خوشحالی و امن و سکون کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ لٰہذا ہم صحافیان ملتان کو تحریک کے اصل پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے ان پر یہ واضح کردیں کہ تحریک کی موجودہ شکل کو تحریک ختم نبوت کا نام دینا ہی اس مقدس ترین نام کی توہین سے لٰہذا وہ اسے تحریک ختم نبوت کا نام نہ دیں بلکہ اسے دشمنان پاکستان کے ایجنٹوں کی تحریک سمجھیں۔
)شیخ( مظفر الدین ایڈیٹر روزنامہ >زمیندار سدھار< )چوہدری( محمد ظفر محزون ایڈیٹر رونامہ >کارزار< )صاحبزادہ ڈاکٹر( عبدالستار حامد ایڈیٹر ہفت روز >کلیم< )شیخ( عاشق حسین حسینی ایڈیٹر >روشن چراغ< )مولانا( منظور احمد اختر ایڈیٹر >الجیلان< )مسٹر( رسول بخش ارشد ملتان ایڈیٹر ہفت روزہ >صدائی حق< )مسٹر( امان اللہ غازی ایڈیٹر >جدت< )قاری( وحید الزمان رزمی ایڈیٹر ہفت روزہ >بیوپاری< )مولانا الحاج( محبوب احمد اویسی ایڈیٹر ہفت روزہ >محسن< )مولانا( خدا بخش اویسی ایڈیٹر ہفت روزہ >مقبول< )مسٹر( اختر رسول ایڈیٹر ہفت روزہ >طوفان< )شیخ( غلام علی ظفر حیدری ایڈیٹر >الکائنات< )شیخ( علائو الدین اختر ایڈیٹر >زمیندار سدھار< )خان( محمد اکرم خان ایڈیٹر روزنامہ ¶>شمس< بد )شیخ( منور دین ایڈیٹر سہ روزہ >نوائے عامہ< )خواجہ( عبدالکریم قاصف ایڈیٹر ہفت روزہ >ملتان کرانیکل< )چوہدری( نظر حسین نطر ایدیٹر ہفت روز >زلزلہ< )ڈاکٹر( احتشام الحق ایڈیٹر >ہومیوپیتھی< بیگم شمیم حسینی مدیرہ >شمیم< )ڈاکٹر حکیم( فاروق احمد اویسی جرنلسٹ۔ )خادم کاتب( )یونین پریس ملتان شہر<( ۴۶
لاہور
لاہور جہاں >آل مسلم پارٹیز کنونیشن< منعقد ہوئی اور جہاں سے >آزاد< اور >زمیندار< وغیرہ اخبارات شورش کو ہوا دینے میں سرگرم تھے۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ` امروز اور نوائے وقت جیسی وقیع اخبارات نے ڈٹ کر اس امن شکن تحریک کے خلاف آواز بلند کی۔ چنانچہ روزنامہ >نوائے وقت< لاہور نے ۲۳ جولائی ۱۹۵۲ء کے ایشوع میں مسلمانوں کی فرقہ وارانہ کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:۔
>ہم مسلمانوں کے پڑھے لکھے افراد سے یہ پوچھتے ہیں کہ آخر وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کو کیوں محسوس نہیں کرتے ؟ اور اپنے ان پڑھ اور سادہ لوح بھائیوں کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ اگر مسلمانوں میں یہ باہمی مناقشت اسی طرح جاری رہی تو مسلمانوں کا یہ نیا ملک پاکستان خدانخواستہ بالکل تباہ ہوجائے گا۔ کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ سپین میں مسلمانوں کی تاہی کا باعث ان کے باہمی جھگڑے ہی تھے؟ اور یہ ان جھگڑوں ہی کا نتیجہ ہے کہ آج سپین میں ایک مسلمان بھی نہیں ملتا حالانکہ مسلمانوں نے صدیوں اس ملک پر حکومت کی ہے۔ خلافت بغداد کی بربادی بھی مسلمانوں کے ان باہمی مناقشات کے باعث ہوئی اور آپ کے اپنے زمانہ میں سلطنت عثمانیہ مہض اس وجہ سے پارہ پارہ ہوئی کہ مسلمان مسلمان کا دشمن تھا۔ سپین` بغداد اورترکان عثمانی کی سلطنیں اپنے اپنے زمانہ میں دنیا کی طاقتور تر سلطنتوں میں شمار ہوتی تھیں اور ہم عصر یورپ ان کے دبدبہ اور ہئیت سے کانپنا تھا مگر آج ان عظیم الشان سلطنتوں کے صرف کھنڈر باقی رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں نے آپس میں لڑ بھھڑ کر اپنے ہاتھوں سے ان سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔
وطن عزیز پاکستان سے محبت اور عقیدت بجا` مگر ان سلطنتوں کے مقابلہ پر پاکستان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ اس بچہ نے تو ابھی گھٹنوں پر چلنا بھی نہیں سیکھا۔ اور ہم خود اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹنے کے درپے ہیں۔ کیا وطن سے محبت اور عقیدت کا یہ تقاضا نہیں کہ پڑھے لکھے لوگ مسلمان عوام کو اس مہیب خطرہ سے آغاہ کریں۔ ابھی پاکستان میں قومیت یا ملیت کا شعور یکسر ناپید ہے ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت` اخبار` سیاسی کارکن اور پڑھے لکھے لوگ عوام میں ملیت اور قومیت کا شعور پیدا کرتے اور ہر شخص میں یہ احساس پیدا کیا جاتا کہ وہ مسلمان اور پاکستانی ہے مگر ہماری قوم کن جھگڑوں میں الجھ گئی ہے ؟ اور ان جھگڑوں کا کیا انجام ہوگا ؟ جن خود غرضیوں کے منہ کو لہو لگ چکا ہے۔ کیا وہ اسی پر اکتفاء کریں گے ؟ جن کی دکان مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کی وجہ سے چلتی ہے۔ کیا وہ شیعہ سنی کو ایک دوسرے سے لڑانے کے بعد یہ دکان بند کردیں گے ؟ ہر گز نہیں آج شیعہ سنی جھگڑا ہے کل یہی لوگ سنیوں کو وہابیوں سے لڑائیں گے۔ پھر اہل حدیث اور اہل قرآن میں جنگ ہوگی۔ اور اگر یہی دلیل و نہار رہے تو کچھ عرصہ بعد پاکستان میں شیعہ سنی ` وہابی چکڑالوی بریلوی` دیو بندی تو بہت مل جائیں گے مگر سیدھے سادے مسلمان اور پاکستانی چراغ لے کر ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکیں گے۔
شکر ہے کہ ارباب اقتدار میں سے دو اصحاب کو اللہ نے توفیق دی کہ وہ اس مسئلہ پر لب کشائی کریں۔ میاں ممتاز دولتانہ نے پسرور میں کہا ہے کہ:۔
>فرقہ وارانہ نفرت پھیلانا پاکستان کے وجود کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ جب بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالا جارہا تھا تو کسی نے مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں کوئی تمیز روا نہ رکھی تھی۔ اس کے برعکس سبھی نشانہ ستم بنے محض اس لئے کہ وہ مسلمان تھے۔<
خان عبدالقیوم وزیراعلیٰ سرحد نے مانسہرہ میں یہ کہا ہے کہ:۔
>ماضی میں مسلمانوں کی سلطنتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ دوسروں نے ان مسلمان سلطنتوں میں انتشار کا بیج بو دیا۔ مسلمانان پاکستان کو ان تاریخی واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور انرونی انتشار پید اکر کے اپنی آزادی خطرے میں نہ ڈالنی چاہئے نئی اور پرانی سامراجی طاقتیں پاکستان کے وجود سے سخت ناخوش ہیں۔ وہ ہر ممکن ذریعہ سے اسے ختم کرنا چاہتی ہیں۔ بنگال میں زبان کا جھگڑا اسی قسم کا ایک بارود تھا۔ اب پنجاب میں اور دوسری جگہ حد درجہ بھک سے اڑ جانے والے بارودی جھگڑے کھڑے کردیئے گئے ہیں۔<
خدا کا شکر ہے کہ ارباب اقتدار اس خطرے سے آگاہ ہیں جو ملک و ملت کو درپیش ہے۔ پھر وہ اس کا استیصال کیوں نہیں کرتے ؟ اس معاملہ میں دوزخی یا نیم ملاناہ پالیسی ملک و ملت کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ ارباب اقتدار کا فرض ہے کہ حکومت کی مشینری کو اس خطرہ کے استیصال کے لئے استعمال کریں۔ تبلیغ اور تشہیر کے بے شمار ذرائع حکومت کے پاس ہیں یہ ذرائع اس کام آنے چاہئیں کہ مسلمان عوام کو یہ بتایا جائے کہ ماضے میں دنیا کے ہر خطہ میں مسلمانوں کے باہمی جھگڑے ہی ان کی تباہی و بربادی کا باعث بنے۔ اب پاکستان کو بھی )جیسا کہ قیوم صاحب اور دولتانہ صاحب دونوں نے فرمایا ہے( یہی خطرہ درپیش ہے۔ مسلمان عوام کو ملک و ملت کے ان دشمنوں سے خبردار رہنا چاہئے جو مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔
تبلیغ و تشہیر کے ذرائع کے علاوہ قانون کی قوت بھی حکومت کو حاصل ہے۔ آخر وہ قوت جائز اور نیک مقصد کے لئے کیوں استعمال نہیں کی جاتی ؟ دولتانہ صاحب نے بعض سرگرمیون کے متعلق صاف لفظوں میں یہ کہا ہے کہ وہ پاکستان کے وجود کے لئے تباہ کن ہیں۔ اور قیوم صاحب نے صرف یہی نہیں یہ بھی اشارہ کردیا ہے کہ بعض نئی اور پرانی سامراجی طاقتیں پاکستان کے وجود پر سخت ناخوش ہیں اور ہر ممکن ذریعہ سے اسے ختم کرنا چاہتی ہیں اور خطرناک سرگرمیاں اسی ناپاک مہم کے ہتھیار ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو ارباب اقتدار کے اختیارات ملک و ملت کے ان بدترین دشمنوں کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آتے جو ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جو خود ارباب اقتدار ے قول کے مطابق ملک کے لئے تباہ کن ہیں ؟
حیرت ہے کہ جائز سیاسی اختلاف کا اظہار کرنے پر تو زبان کٹتی ہو مگر ان عناصر کو جو ملک کو برباد کردینے والی سرگرمیوں میں مصروف ہوں کھلی چھٹی ہو۔ اس کی وجہ دو رخی ہے یا نیم دلی اور کمزوی ؟
خدارا اب بھی آنکھیں کھولئے ورنہ جب پانی سر سے گذر گیا تو پھر جاگنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا ملک اپنی زندگی کے ابتدائی چند سالوں بعد ہی تباہی کے موڑ پر پہنچ گیا ہے اور اس کے ذمہ دار ہمیں لوگ ہیں۔ یہ آگ ہم نے لگائی ہے اب اگر نیک نیتی کے ساتھ ملک کو بربادی سے بچانا مقصود ہے تو ہم سب کا۔۔ صرف حکومت کا نہیں۔۔ حکوتم` لیڈروں` اخبارات علمائے کرام` پڑھے لکھے افراد سب کا فرض ہے کہ وہ اس آگ کو بجھانے کی کوشش کریں ورنہ یاد رکھئے شیعہ` سنی ` وہابی کسی کا گھر محفوظ نہیں۔
>جو ڈوبی یہ نائو تو ڈو گے سارے<
روزنامہ >سول اینڈ ملٹری گزٹ< لاہور نے ایجی ٹیشن سے متاثر ہو کر حسب ذیل اداریہ لکھا:۔
عین اس وقت جب کہ مسئلہ کشمیر کے متعلق بات چیت انتہائی نازک مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے ظفر اللہ کے خلاف موجود ایجی ٹیشن اس یقینی کیفیت کا پتہ دیتی ہے کہ جب کہ کشمیر جل رہا ہے۔ علماء بنسریاں بجارہے ہیں۔ دو ہفتہ کے اندر اندر جینیوا میں کشمیر کے متعلق آخری بات چیت جس پر پاکستان کی موت و حیات کا دارومدار ہے شروع ہوجائے گی لیکن اسلام کے ان مقدس پاسبانوں نے >اسلام خطرے میں ہے۔< کا نعرہ لگا کر اس شخص کی فوری برطرفی کا مطالبہ شروع کردیا ہے جو پاکستان کی زندگی اور موت کی لڑائی لڑنے کے لئے جارہا ہے۔ اگر احرار شور و غوغا کریں تو یہ بات بڑی حد تک سمجھ میں آنے والی ہوسکتی ہے کہ وہ عین اس موقعہ پر جب کہ مسئلہ کشمیر اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے اور دو ٹوک فیصلہ کا وقت آچکا ہے اس مسئلہ سے لوگوں کی توجہ کو ہٹا کر اپنے آقائوں کا نمک حلال کررہے ہیں لیکن جب بعض علماء بھی دشمن کا کردار ادا کرنے لگیں تو ان کی سمجھ کی کمی پر ماتم کناں ہونے کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے ؟
بات چیت کے اس خطرناک مرحلہ پر ملک کو صرف ایک امر کا تہیہ کر لینا چاہئے تھا یعنی ہر قیمت پر کشمیریوں سے انصاف کرانا لیکن ب کہ کشمیر کا معاملہ تیزی سے بگڑتا جارہا ہے عوام کی طرف سے جو چند روز قبل گلے پھاڑ پھاڑ کر اس جنت ارضی کی خاطر اپنے خون کا خری قطرہ تک بہا دینے کا اعلان کیا کرتے تھے اب اس کے متلعق ایک آواز بھی نہیں اٹھتی۔ کیا اب بھی ملا کے نشہ اور نعرے >اسلام خطرے میں ہے< کا شکریہ ادا نہ کیا جائے ؟
قوم کو اس زبردست فریب پر جو مذہب کے نام پر اسلام اور پاکستان دونوں سے کھیلا گیا ہے ہوش میں آجانا چاہئے۔ اب یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ جہاں تک ظفر اللہ کے خلاف ایجی ٹیشن کے پیچھے اندرونی طاقتوں کا سوال ہے سب کچھ ذاتی اغراض اور خواہشات کو بروئے کار لانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی یک جہتی اور سلامتی کے لئے ذاتی اغراض کو پس پشت ڈال دیں۔ ہمیں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ اگر مذہب کا لبادہ اوڑھ کر قائداعظم کا ایک رفیق کار بھی محض ذاتی مقاصد کے لئے پاکستان کی یک جہتی قائم رکھنے کے اصول کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کررہا ہے تو پھر پاکستان کا خدا ہی حافظ ہے۔
ایک سے زائد بار ہم واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم قادیانیوں کی ختم نبوت کی تاویل کو قبول نہیں کرتے تاہم ایک سرکاری ملازم کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لئے اس کے مذہبی خیالات کو بیچ میں لانے کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں۔ مملکت کے کسی وزیر یا افسر کو پرکھنے کی واحد کسوٹی یہ ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ کیا اس کے ذریعہ ملک کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں اور اس کا وجود ملک کے لئے سود مند ہے یا کہ نہیں ؟ اس میزان پر جب ہم چوہدری ظفر اللہ خان کو جانچتے ہیں تو ملک میں اس کے متعلق دو مختلف رائیں نہیں ہوسکتیں کہ بحیثیت وزیر خارجہ کے چوہدری صاحب نے ایک عظیم الشان کام سرانجام دیا ہے اور اپنی ٹھوس خدمت کی وجہ سے ان کا شمار معمار ان پاکستان نے ایک عظیم الشان کام سرانجام دیا ہے اور اپنے ٹھوس خدمت کی وجہ سے ان کا شمار معمار ان پاکستان کی صف اولین میں ہونے کے قابل ہے۔ ہم قوم کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جب فضیلت ماب غلام محمد کو گورنر جنرل کا عہدہ تفویض کیا گیا اور آپ کی جگہ ممالک اسلامی کی اقتصادی کانفرنس کی صدارت کا گورنر جنرل کا عہدہ تفویض کیا گیا اور آپ کی جگہ ممالک اسلامی کی اقتصادی کانفرنس کی صدارت کا مسئلہ پیش ہوا تو ہر مسلم ملک نے بلا استثناء اعزاز کے لئے چوہدری ظفر اللہ خاں کا نام ہی تجویز کیا۔ اکیلا یہی امر اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ وزیر خارجہ کے خلاف پراپیگنڈہ کی جو کھڑی کی جارہی ہے اس کی حقیقت کیا ہے شاید لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ ظفر اللہ خاں نے کبھی کسی عہدے کے لئے درخواست نہیں کی۔ اور دو موقعوں پر جب پاکستان کی نیابت کا سوال اٹھا قائداعظم کی نظر آپ پر ہی پڑی۔ بائونڈری کمیشن کے سامنے پاکستان کی پیروی کرنے کے موقعہ پر اور بعد ازاں پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کرنے کے وقت۔ دونوں مواقع پر متحدہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے مسلم لیڈر کی معرفت آپ سے ان اہم ذمہ داریوں کو اٹھانے کی درخواست کی گئی۔ یہ لیڈر جن کا نام ہم بعض مخصوص وجوہات کی وجہ سے ظاہر نہیں کرسکتے ابھی تک بھارت میں مقیم ہیں۔ بائونڈری کمیشن کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کرنے کے معاملہ میں بھی آپ کو ہدف ملامت بنایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ ہی گورداسپور کو پاکستان کے ہاتھ سے کھو دینے کے ذمہ دار ہیں۔ ایک معمولی آدمی بھی اگر ذرا سی سمجھ بوجھ سے کام لے تو سمجھ سکتا ہے کہ اگر اس الزام میں رائی برابر بھی صداقت ہوتی تو قائداعظم آپ کو وزارت خارجہ جیسے اہم عہدہ کے لئے کسی صورت میں بھی نہ چن سکتے تھے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ظفر الل¶ہ خان نے اس عہدہ کو قبول کرنے میں بڑی ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ قائداعظم کی پیشکش کے جواب میں آپ نے کہا کہ اگر آپ کو میری قابلیت اور دیانت و امانت پر پورا اعتماد ہے تو میں وزارت کے علاوہ کسی اور صورت میں پاکستان کی خدمت کرنے کو تیار ہوں۔ اس پر قائداعظم نے یہ تاریخی جواب دیا >آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے مجھ سے ایسے جذبات کا اظہار کیا ہے مجھے پتہ ہے کہ آپ عہدوں کے بھوکے نہیں ہیں۔<
قائداعظم کا یہ جواب چوہدری صاحب کی قابلیت اور استبازی کا ایک روشن ثبوت ہے یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چوہدری صاحب کے مذہبی متقدات کے باوجود قائداعظم آپ کے ہاتھوں پاکستان کے مفادات کو پوری طرح محفوظ سمجھتے تھے۔ اس پاکستان میں جس کا تصور قائداعظم کے ذہن میں تھا عوام کے خادموں کو ان کی قابلیت اور دیانت و امانت کے پیمانہ سے ناپنا چاہئے نہ کہ ان کے مذہبی معتقدات کی بناء پر قائداعظم کے تصور میں ایسے پاکستان کا نقشہ تھا جس میں نہ مسلمان ہوگا` نہ ہندو نہ عیسائی مذہبی اعتقاد کی بناء پر نہیں بلکہ پاکستان کے شہری ہونے کی بناء پر۔ ۶۵
الحاج خواجہ ناظم الدین کو جن کے کندھوں پر قائداعظم کا بوجھ آپڑا ہے قائداعظم کے مقدس ترکہ >پاکستان< کی جسے علماء ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں پوری حفاظت کرنی چاہئے- حالات کی موجودہ رفتار سے پاکستان کی نوزائیدہ مملکت میں ابتری پیدا ہونے کا سخت خطرہ ہے۔ علماء جو پاکستان کو اپنے خود ساختہ مذہبی اصولوں کی بناء پر اپنی جائیداد سمجھتے ہیں موجودہ ایجی ٹیشن کو ملک میں اپنی قیادت قائم کرنے کا ایک ذریعہ بنارہے ہین۔ ان کا اصل مقصد طاقت حاصل کرنا ہے لیکن انتخابات کے سیدھے راستہ سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اب وہ مذہبی عصبیت کے چور دروازہ سے داخل ہو کر اپنی اغراض حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ مملکت نوزائیدہ پاکستان کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔
ہمیں یقین ہے کہ مرکزی کابینہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ وہ خلاء جو ظفر اللہ خاں کو ان کے عہدے سے ہٹانے سے پیدا ہوگا اس کا پر کرنا ناممکن ہوگا۔ چند روز قبل ان کے استعفے کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو روشن خیال عوام کو سخت دھکا پہنچا تھا۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے موجودہ کشتی بان خواجہ ناظم الدین جنہوں نے دلیر قیادت کی ایک مثال قائم کردی ہے اور قوم کی زندگی میں جن طوفانوں سے انہیں سابقہ پڑا ان کا انہوں نے دلیری سے مقابلہ کیا حالات کی نزاکت کو پوری طرح محسوس کریں گے اور ملک کی ایسی دلیرانہ قیادت کریں گے جس کا حالات تقاضا کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ کو جب کہ وہ اس آخری نازک مرحلہ پر پاکستان کی نیابت کرنے جنیوا تشریف لے جا رہے ہیں ملک کے واحد ترجمان کی حیثیت سے قوم کا پورا اعتماد حاصل ہونا چاہئے- دشمن کے جاسوسوں نے ایسے آدمی کے عزت و وقار اور اقتدار کو کھوکھلا کرنے کی کوشش میں جو ملک کی جنگ لڑنے باہر جارہا ہے۔ کشمیر کے معاملہ پر بھرپور ضرب لگائی ہے۔ اب یہ پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس نقصان کی تلافی ایک ایسے جرات مندانہ بیان سے کرے جس میں وزیر خارجہ کی قابلیت دیانت و امانت اور نمائندہ حیثیت پر پورا اعتماد ظاہر کیا گیا ہو۔ ۶۶ )ترجمہ(
اسی طرح سالار نیشنل گارڈ مسلم لیگ نے >امروز< کے ایک حقیقت افروز مضمون کی بناء پر حسب ذیل اشتہار دیا:۔
>بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم<
پاکستان کے دوست نما دشمنوں کو انتباہ
کراچی میں احرار نے یہ پوسٹر لگایا کہ >ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے ہٹا دو< اس کی بابت سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخری کیوں ہٹایا جائے ؟
کیا اس لئے کہ
چوہدری صاحب کو ہمارے محبوب رہنما بانی پاکستان حضرت قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی دور بین نگاہ نے وزارت خارجہ کے لئے منتخب کیا اور حضرت قائد ملت لیاقت علی خاں نے ان کے کام کی تعریف کی۔ حضرت قائد پاکستان الحاج خواجہ ناظم الدین وزیراعظم و صدر مسلم لیگ اور آپ کے رفقاء کار قائدین نے بار بار ان پر اعتماد کا اظہار فرمایا۔ تمام اسلامی ممالک کے مدبرین نے ان کی اسلامی خدمات کی تعریف کی اور آج بھی اسلام اور مسلمانوں کے ہمدرد نمائندوں نے انہیں اپنا مشیرو معاون بنا رکھا ہے۔
یا اس لئے کہ ؟
اس فتنہ کو کھڑا کرنے والے اور ہوا دینے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے شروع سے ہی ہمارے ان محبوب رہنمائوں پر اعتما نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے محبوب وطن پاکستان کی تعمیر میں حصہ لیا بلکہ شدید مخالفت اور پاکستان کو پلیدستان اور بیوقوفوں کی جنت بتایا اور آج بھی ان کی موجودہ روش سے یہی ظاہر ہے کہ وہ فرقہ وارانہ کشمکش پھیلا کر ہمارے زریں اصول
اتحاد تنظیم یقین محکم
کو برباد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط ہوں۔ وہ اپنی روش سے حضرت قائداعظم اور قائد ملت کی ارواح کو اذیت پہنچا رہے ہیں۔ ہم ان کو اپنے محبوب رہبر ملت جناب الحاج خواجہ ناظام الدین وزیراعظم پاکستان و صدر مسلم لیگ کا ارشاد پیش کر کے تنبیہہ کرتے ہیں کہ وہ انتشار پسندی اور فرقہ پرستی سے باز آجائیں۔ اپنے بے اعتمادی کے مرض کا علاج کریں اور قوم کا شیرازہ منتشر کر کے غرقابی کی طرف نہ دھکیلیں ورنہ یاد رکھیں کہ قوم ان باتوں کو ہر گز برداشت نہ کرے گی ہوشیار باش۔
رہبر ملت وزیراعظم کا ارشاد
ملک کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو ہماری آزادی پر بالواسطہ حملہ کر رہے ہیں تاکہ ملک کے لیڈڑوں اور حکومت ے ارکان کے متعلق عوام کے دلوں میں بے اعتمادی پیدا ہوجائے یہ صوبہ پرستی` فرقہ پرستی اور اسی قسم کے دوسرے امور چھیڑ کر پاکستانیوں کے درمیان نفاق و نفرت پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ تمام مسلم لیگی حضرات اور ہر وفادار پاکستانی کا فرض ہے کہ ان شر انگیز سرگرمیوں کی مخالفت کرے- انہیں رسوا کرنے میں کوئی کسر باقی نہ اٹھا رکھے۔ یہ وہی ہیں جو تقسیم سے پیشتر پاکستان کے عقیدے ہی کے خلاف تھے۔ اگرچہ ان میں سے بعض آج پاکستان اور اسلام کی حمایت کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن ہم ان پر ہرگز اعتبار نہیں کرسکتے۔< )اروز ۱۴ اکتوب۴ ۱۹۵۲ء(
)المشتھر:۔
سالار نیشنل گارڈ۔
مسلم لیگ لاہور( )ناظر پریس کراچی(
گوجرانوالہ
گوجرانوالہ بھی احراری تحریک کا ایک مضبوط مرکز بنا ہوا تھا۔ اس شہر کے اخبار >لاحول< نے اپنی ماہ ستمبر ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں احراری ایجی ٹیشن کو ملک و ملت کے مفاد کے لئے سخت مضرت رساں قرار دیتے ہوئے لکھا:۔
>گذشتہ تین ماہ حکومت عالیہ پاکستان کی آزمائش کے دن تھے۔ احرار جو کہا کرتے تھے کہ مسلمان کو پاکستان تو کیا اس کی >پ< بھی میسر نہ ائے گی ختم نبوت کی آڑ میں ملک میں شور و شر پھیلانے اور کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہین۔ اور حکومت یہ جانتی تھی کہ ان کی تار دہلی سے مولوی حبیب الرحمن بلارہے ہیں جو پنڈت نہرو کے معتمد خاص بنے ہوئے ہیں۔ ۶۷]4 [rtf اور حکومت یہ بھی جانتی تھی کہ احرار جو کام کرتے ہیں قوم یا اسلام کی خاطر نہیں کرتے بلکہ اپنے ذاتی وقار اور بگڑی ہوئی شہرت کو بنانے کے لئے کرتے ہیں۔ چنانچہ مسئلہ شہید گنج جو خالص قومی اور اسلامی مسئلہ تھا اور مسلمانوں کی موت و حیات کا سوال تھا اس کو احراری لیڈروں نے اس لئے ادھورا چھوڑ دیا اور عین موقعہ پر اس سے الگ ہوگئے کہ اگر یہ کامیاب ہوگیا تو نام فدائے ملت حضرت مولانا ظفر علی خاں کا ہوگا جو اس وقت اس تحریک کے قائد تھے- چنانچہ ایک جوٹی کے احراری لیڈر کے ایک خط کا عکس بھی اخبار زمیندار میں شائع ہوا تھا جس میں خود ساختہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو اس تحریک سے لیحدہ رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا اور صاف لکھا تھا کہ کام تو احرار کریں گے لیکن نام مولانا ظفر علی خاں کا ہوجائے گا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
یہ اس پارٹی کے لیڈروں کا کردار ہے کہ مسجد شہید گنج ایسے اہم مسئلہ کو جس پر لاہور کے مسلمانوں نے اپنی جانیں نچھاور کرردی تھیں اور یکی دروازہ کے باہر ان کے خون کی ندیاں بہہ گئی تھیں محض اس لئے ادھورا چھوڑ دیا کہ کام تو احرار کریں گے نام دوسروں کا ہوجائے گا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
اس کے بعد اس پارٹی نے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے لئے جتنے بھی ہتھکنڈے اختیار کئے وہ ناکام رہے۔ شہید گنج کے مسئلہ پر قوم کے ساتھ غداری کرنے والوں کو مسلمان کبھی بھی معاف نہیں کرسکتے چاہے وہ فرشتہ بن کر بھی آجائیں چنانچہ جب بھی احرار کوئی نئی تحریک شروع کرتے تھے تو اخبار زمیندار لکھا کرتا تھا کہ
ع نیا جال لائے پرانے شکاری
ع روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر
ع نمازی اپنے جوتوں سے رہیں ہوشیار
لیکن جوئندہ یا بندہ آخر وہ ایک ایسا مسئلہ تلاش کرہی لائے جس سے وہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی حاصل کر لیں اور دہلی کے مخالف پاکستانی آقائوں کو بھی خوش کر لیں اور یہ دونوں مقاصد اس پارٹی نے قریب قریب حاصل کر لئے ہیں۔ وقار تو خیر چند روزہ ہی ہے کیونکہ جونہی ان کا ساتھ دینے والوں پر یہ بھید کھل گیا کہ احرار کا دوسرا مقصد حاصل ہوچکا ہے اور وہ ملک میں بدامنی اور انتشار اور عوام اور حکومت میں بدظنی` غلط فہمی اور ایک حد تک نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں` جو ان کے دہلوی آقائوں کے مدنظر تھا` تو وہ ان سے الگ ہوجائیں گے۔
ملک چاروں طرف سے دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو گلے سے پکڑ رکھا ہے اور کشمیر ہضم کرنے کے لئے سرحدوں پر ساری فوج جمع کئے بیٹھا اور احرار حکومت کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور عوام سمجھنے لگے ہیں کہ حکومت دیدہ دانستہ ایک جماعت کا ساتھ دے رہی ہے اس کی پشت پناہی کررہی ہے اور اسے کشتی و گردی زدنی قرار دینے میں بہت لیت و لعل کررہی ہے۔ جو مسئلہ ختم نبوت میں ان کے ہم خیال نہیں اور اپنی تبلیغ کے وسیع وسائل اختیار کررہی ہے جس سے مسلمان اور خود ساختہ امیر شریعت کے ساتھی قطعاً غافل ہیں۔ ان کے پاس دلائل کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے اور اب وہ مجبور ہو کر دھینگا مشتی پر اتر آئے ہیں اور حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس جماعت کا حقہ پانی بند کردے۔ ان پر کاروبار اور ملازمت کے دروازے بند کردے اور پھر ان کو دیس نکالا دے۔ لاحول ولا قوہ۔
ایک مٹھی بھر جماعت سات کروڑ پاکستانی مسلمانوں کو خائف کرنے اور اس جماعت کی نامہ بندی کرنے میں احرار پوری طاقت خرچ کررہے ہیں حالانکہ صاف اور سیدھی سی بات ہے۔ اگر یہ جماعت باطل پر ہے تو کسمپرسی سے اپنی موت آپ مر جائے گی اسے اتنی اہمیت دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر وہ راستی پر ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کی ترقی` غلبہ اور قیام سلطنت کے منصوبہ کو نہیں روک سکتی۔
معلوم نہیں احرار کو پاکستان کی وفاداری کا بار بار اظہار کرنے کا مروڑ کب سے اٹھا ہے ؟ بانی پاکستان قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ ان کی روح پر لاکھ لاکھ رحمتیں نازل فرمائے( ان کے متلعق احرار جو کچھ کہا کرتے تھے فحاشی کی ڈکشنری م=بھی اس سے شرمسار ہوجاتی تھی۔ اور بھی چند ہی روز قبل کی باتہے سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری نے ایک تقیر کے دوران کہا تھا >میں قائداعظم ہوں جائو جو کچھ میرا کرسکتے ہو کر لو۔< اس پر بھی مسلمان ان کی پاکستان ہمدردی کے قائل ہوجائیں تو یہ ان کی بدقسمتی ہے۔ جب بھی ملک پر مصیبت آئے گی احرار کے ہاتھوں آئے گی۔ نوٹ کر لیں۔
مسئلہ ختم نبوت کی نوعیت اور اہمیت سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں لیکن اس کی باگ ڈور ایک ایسی پارٹی کے ہاتھ میں دینا جو اپنے وقار کے لئے سرگرم عمل ہو قرین دانشن و عقلمندی نہیں۔ مسلمانوں کو ٹھنڈے دل سے اس پر غور کرنا چاہئے اور حکومت اس سلسلہ میں جو کچھ کررہی ہے یا آئندہ کرے گی وہ مسلمانان پاکستان و مملکت پاکستان کے شایان شان ہوگا اور دنیا بھر مین اہمیت اور فوقیت حاصل کرنے والا پاکستان قرین انصاف و دانش طرز عمل اختیار کرے گا۔ حکومت کسی بھی جماعت کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کرسکتی۔ احرار کو تبلیغ کا جواب تبلیغ سے دینا چاہئے اور حکومت کو مجبور و پریشان کرنے یا عوام کو اس کے خالف اکسانے کا طرز عمل ترک کردینا چاہئے۔
مسلمان عوام نہایت صائب رائے اور دانشمند ہیں اور وہ ہر معاملہ میں حکومت کا ساتھ دیں گے اور پاکستانکی شہرت و سالمیت کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیں گے اور ہر معاملہ میں ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کریں گے اور وقتی جوش میں کوئی ایسا اقدام نہ کریں گے جو بعد میں انہیں کف افسوس ملنے پر مجبور کردے۔ وما علینا الا البلاغ۔<۶۸
صوبہ سرحد
صوبہ سرحد مغربی پاکستان کا واحد صوبہ تھا جہاں عبدالقیوم خاں صاحب کی مسلم لیگی وزارت کے ہاتھوں صورت حال مکمل طور پر قابو میں تھی۔ اس صوبہ کے اخبار >تنظیم< نے اس نام نہاد تحریک کو ختم پاکستان کی سازش قرار دیتے ہوئے لکھا:۔
>خدا کی شان آج وہی لوگ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے ارکان حکومت پر اس امر کا زور دے رہے ہیں کہ پاکستان کے مختلف العقائد مسلمانوں کو جن میں ایک جماعت احمدیہ بھی ہے اقلیت قرار دیا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو اور پاکستان کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اس مطالبہ کی تائید میں ان دونوں جماعتوں )مولانا موودی کی جماعت اسلامی اور امیر شریعت ر عطاء اللہ شاہ صاحب کی جماعت احرار( نے مسلم رائے عامہ کو بھی متاثرکررکھا ہے جو سرے سے پاکستان کے قیام کے ہی نہ صرف مخالف تھے بلکہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم اور ان کے دوزرے ساتھی مسلم لیگی زعماء بھی ان کے نزدیک صحیح مسلمان ہی نہ تھے۔ مطالبہ پاکستان کی مخالفت میں قائداعظم سمیت مسلم لیگی لیڈروں کو جو بڑی سے بڑی فحش کلامی ہوسکتی ہے سے یاد کیا۔
جماعت احمدیہ نے مالبہ پاکستان کی تائید میں ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہوئے اپنے مرکز اور لاکھوں روپیہ کی جائیداد کو چھوڑ کر اپنے کلمہ گو بھائیوں کے زیر سایہ آگئے ہیں مہر و محبت سے انہیں اپنے سینوں سے ملانے کے بجائے یہ کہاں کا انصاف اور اسلام ہے کہ اقتدار کے خواہش مند چند سیاسی لیڈروں کی خاطر ایک کلمہ گو فرقہ سے متعلق ہزاروں انسانوں کی زندگی دوبر کردی جائے ؟ حکومت کو پریشان کرنے اور مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کی خاطر ایک ایسا مطالبہ پیش کردیا گیا ہے جسے اگر آج تسلیم کر لیا جائے تو اس سے کل دوسرے مسلم فرقوں کو بھی اقلیت قرار دینے کی راہ صاف ہوجاتی ہے نیز حکومت اور مسلمانوں کے پاس اس امر کی کیا گارنٹی ہوسکتی ہے کہ جب اسلام کا دائرہ احرار کے نزدیک اس قدر تنگ ہے کہ کلمہ` نماز` روزہ` حج`زکٰوۃ پانچوں ارکان اسلام کی سختی سے پابندی کرنے والے ایک گروہ کو سرے سے ہی کافر اور غیر مسلم قرار دیا جارہا ہے خدانخواستہ` اگر ان کے ہاتھ اقتدار آجائے تو پاکستان کے دوسرے مسلمانوں سے جو کئی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اسلامی اور منصفانہ سلوک روا رکھیں گے دوسری صورت میں جب تک ان کے ہاتھ اقتدار نہیں آجاتا پھر بھی یہ لوگ اسی طرح پاکستان میں رہنے والے دوسرے فرقوں کو بھی اقلیت قرار دلوانے کے لئے پاکستان میں کسی نہ کسی وقت قومی جنگ کی ہولی گرم کر کے ہی دم لیں گے۔ جب یہ لوگ سرے سے ہی مسلم حکومت کے قیام کے مخالف تھے اور ہیں تو انہیں اس سے کیا غرض )اگر اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں آسکتا( تو مسلمانوں کی اس کمزوری سے خواہ ہندو فائدہ اٹھائیں یا روس لیکن یہ لوگ موجود حکومت کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہندو سے ان کا تعاون ہوسکتا ہے۔ انگریزی ڈپلومیسی کی یہ تائید کرسکتے ہیں اور ان کے اشتراک عمل سے بقول احرار` مرزا غلام احمد اگر انگریزوں کا خود ساختہ پودا تھا اور انگریزوں نے اس پودا کی کاشت بقلو احرار` مرزا غلام احمد اگر انگریزوں کا خود ساختہ پودا تھا اور انگریزوں نے اس پودا کی کاشت اس لئے کی کہ مرزا غلام احمد جہاد کا مخالف تھا اور اس نے حکومت وقت )یعنی انگریزوں( کے خلاف مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کے جذبہ کو مفقود کرنے کی کوشش کی لیکن ان مذہبی رہنمائوں )جماعت احرار و اسلامی( والوں کی تو جہاد کی حقیقت و اہمیت معلوم تھی کہ ایک غیر ملکی مشرک حکمران ان قوم کے خلاف جہاد روا بلکہ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے۔ آپ بتایئے آپ لوگوں نے کس حد تک انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے کام کیا کیا پاکستان میں شرعی آئین کے نفاذ کے یہ دعویدار )جماعت اسلامی اور احرار( ایک اسلامی سلطنت کے قیام کی مخالفت میں غداری کی جو سزا شرعی آئین پیش کرتا ہے اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے تو قیام پاکستان کے پہلے روز سے ہی پاکستان میں خود ہی شرعی آئین کے نفاذ کا اجراء ہوجاتا۔ غداری سے بڑھ کر اسلامی آئین میں کوئی جرم نہیں۔ جب یہ لوگ خود اسے بچ نکلے ہیں تو یہ پاکستانی عوام کے کونسے اتنے خیر خواہ ہیں جو ہندوئوں سے ان کی فروختگی کا سودا )متحدہ حندوستان کی صورت یں( کرنا چاہتے تھے- شرعی آئین کے قیام کے لئے زمین و آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ کیا شرعی آئین کے دعویدار یہ لوگ نہیں جب سکھوں کے قبضہ سے مسجد شہید گنج کو چھڑانے کے لئے ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے شہید گنج کے حصول کے لئے قربانیاں پیش کیں اس وقت بھی شہید گنج ایجی ٹیشن میں احرار بزرگوں نے فوج کی گولی سے ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی شہادت کو حرام موت اور کتے کی موت مرنے کا فتویٰ دیا تھا اور بجائے اس کے مسلمانوں کے ساتھ شہید گنج ایجی ٹیشن میں شریک ہوتے الٹا ان کی انگریزوں اور سکھوں سے ساز باز تھی۔ ہم حیران ہیں کہ جس جماعت نے ہر موقعہ پر مسلم رائے عامہ کے خلاف مشرکوں اور مرتدوں کا ساتھ دیا ہو وہ آج کس طرح پاکستان کو ضعف پہنچانے اور اپنے اقتدار کے لئے ایک کلمہ گو فرقہ کو اقلیت اور اقلیت بھی غیر مسلم قرار دلوانے کے لئے ایک بار پھر مذہبی روپ میں پاکستان کے سادہ لوح اور مذہب کے نام پر اپنا سب کچھ لٹا دینے والے غیور مسلمانوں کو اپنے ہمنواز بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے اور قوم ان کے سابقہ کارناموں کو جانتے بوجھتے ہوئے پھر ان کا آلہ کار بننے کے لئے ہوگئی ہے- باہمی خانہ جنگی کے ذریعہ بیرونی اقتدار کے ہاتھوں غلامی کے ایک ایسی گڑھے میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں سے نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایک طویل عرصہ کی غلامی کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمان قوم کو قائداعظم کے اخلاص و استقلال کے ذریعہ ای آزاد ملک دیا تھا اور آج اس ملک کو دوبارہ غیر ملکی استبدادیت کے پنجہ میں دینے کی کوششیں شروع ہیں۔
چونکہ ہماری موجودہ حکومت ایک دفعہ خود مذہب کے نام پر پاکستان کے حصول میں قوم کو استعمال کرچکی ہے اور اس لئے اب وہ مسلم رائے عامہ کے جوش و خروش کا اپنے آپ میں مقابلہ کی تاب نہ پاتے ہوئے باوجود نتیجہ سے باخبر ہونے کے یہ کھیل دیکھ رہی ہے اور بے بس ہے یا نادانستہ طور پر پہلے اس تحریک کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اور اب پانی سر سے چڑھ چکا ہے اور ہمارے یہ مولوی جو پاکستان اور جو مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں۔ پاکستان کے دشمنون سے قیام پاکستان سے پہلے جو سودا کرچکے ہیں نصف قوم ہلاک اور تباہ برباد کرانے کے باوجود بھی اپنے اس سودا پر پوری ایمان داری سے قائم ہیں خواہ ملک اور ساری قوم اس سودا کی نذر ہوجائے۔ احمدی تو خوش قسمت ہیں کہ ہمارے احرار بزرگ خود انہیں سرکاری طور پر اقلیت قرار دلوا رہے ہین۔ اب جب کہ ان کو پاکستان کے کسی صوبہ میں آئین ساز اداروں یا لوکل باڈیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کوئی ایک نشست بھی مخصوص نہیں اور نہ ہی احرار نظریات کے رو سے ان کی جان و مال` عزت و آبرو محفوظ ہیں عیسائی مشتریوں کی طرح قانوناً انہیں بھی اپنے عقائد کی اشاعت یا تبلیغ کی اجازت مل گئی۔ احمدیوں کو اس رعایت کے لئے احرار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہیں پاکستان سے باہر نکالنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ نیز اگر احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں اور میں تو احرار کی طرف سے >غیر مسلم اقلیت< کا لیبل الٹا ان کے مفید ثابت ہوگا جب آپ عملاً قولاً اور فعلاً مسلمان ہوں گے تو >غیر مسلم اقلیت< کا ٹائیٹل آپ کے لئے مزید تقویت کا باعث ہوگا کیونکہ پاکستان کے مقتدر علماء کی تمام تر توجہ سیاسیات اور اقتدار کی طرف لگی ہوئی ہے اور ان کی سیاسیات کی راہ میں مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی اثر انداز ہوا اس کی بھی یہی سزا ہوگی جو آپ کے لئے تجویز کی گئی ہے۔
جہاں تک ہماری ناقص رائے کا تعلق ہے ملک افتراق و تشتت سے اسی صورت میں بچ سکتا ہے کہ موجودہ حکمران احرار اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کے حق میں دستبردار ہوجائیں ورنہ افتراق و تشتت کے بیج کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے نہایت موثر اور مدلل پراپیگنڈا کی ضرورت ہے جو پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں مسلمانوں کی کئی شاندار حکومتیں فتویٰ ساز علماء کے ہاتھوں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں اور اگر یہاں پاکستان میں بھی جو کئی مسلم فرقوں کا ملک ہے فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دی گئی تو پاکستان اور پاکستان کے مسلمانوں کا بھی وہی حشر ہوگا جو ماضی میں کئی شاندار اسلامی سلطنتوں کا ہوچکا ہے۔ کابل اور امان اللہ کی مثال سامنے ہے۔
آخر میں ہم اس حقیقت کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ نہ احرار سے ہماری فی سبیل اللہ دشمنی اور نہ ہی ہم احمدی ہیں البتہ احرار اور احمدی جنگ کے نتیجہ میں پاکستان کو نقصان پہنچنا کسی حالت میں برداشت نہیں کرسکتے۔< ۶۹
کراچی
کراچی پریس نے بھی ان ملک دشمن سرگرمیوں پر تنقید کی چنانچہ ہفت روزہ >مسلم آواز< نے لکھا:۔
>یوں تو حقیقت مدتوں قبل بے نقاب ہوچکی بلکہ اسلامی دنیا کے علاوہ یورپ کے تمام ممالک کے سیاستدان تسلیم کرچکے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے تمام امور میں آج تک جو اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں ان کے ہر پہلو کے نقش و نگار کو دیکھ کر بڑے بڑے مدبرین وقت انگشت بدنداں ہیں۔
امور خارجہ میں سیادت تدبر کے اعتبار سے ایک طرف آپ سارے ایشیا کے لئے سرمایہ ناز و صد افتخار ہیں تو دوسری طرف اکناف عالم میں سیاسی دانش کے آئینہ دار بھی۔ وہ اوصاف اور قابلیت کے وہ جوہر ہیں جن کی قدر قائداعظم اور قائدملت کرتے تھے لیکن افسوس بھارتی ایجنٹ اور بعض احراری علماء جو کل تک کانگرس کی ہمنوائی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قائداعظم اور مسلم لیگ میں شریک ہونے والوں کو کفر کا فتویٰ دیتے تھے آج ایک طرف پاکستان کا لیبل لگا کر ملک اور ملت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف مذہب کی آڑ لے کر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
کہیں تو عوام کو قادیانی اور غیر قادیانی کا غلط فلسفہ سمجھا کر اپنے ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے اور کہیں خلیفہ جاعت احمدیہ کے خلاف عدالت میں استغاثہ پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کے دلوں میں فرقہ احمدیہ کے خلاف بدظنی قائم رہے اور وقت ضرورت یہ حضرات جہلا کو جلتی ہوئی آگ میں دھکیل دیں۔ ان حضرات کو غلط روش کی ایک زندہ مثال میرے پاس موجود ہے جو عنقریب ایک خاص ایڈیشن میں بمعہ نام عوام کے سامنے پیش کردیں گے۔
بولٹن مارکیٹ کے پاس نیو میمن مسجد زیر تعمیر تھی۔ چند علماء حضرات میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ حکیم صاحب آپ کے اخبار کے لئے دس ہزار روپیہ دلوانے کے لئے ہم ذمہ دار ہیں اگر آپ اس فتویٰ کو اپنے اخبار میں شائع کردیں۔
میں نے شائع کرنے کا وعدہ کر لیا اور فتویٰ ان حضرات سے لے لیا جس میں لکھا تھا کہ اس میمن مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اس فتویٰ پر تیرہ مقتدر علماء حضرت کے دستخط بمعہ ثبت ہیں۔ میں نے دوسرے ایڈیشن میں مختلف واقعات لکھتے ہوئے آخر میں لکھا تھا کہ اصل فتویٰ میرے پاس موجود ہے۔ ہر شخص میرے دفتر میں آکر دیکھ سکتا ہے۔
فتویٰ میں نے اس وجہ سے شائع نہیں کیا کہ مجھ کو یقین تھا کہ یہ علماء ہضرات قوم میں ٹکراہ پید اکرنے کی کوشش کررہے ہیں اور بعد میں چندے بازی سے جیبیں گرم کریں گے- آج یہی علماء حضرات جنہوں نے فتویٰ دیا تھا اسی نیو میمن مسجد میں خود نماز پڑھتے ہیں اور لمبے لمبے وعظ کرتے ہیں۔ ¶یہ حالت ہے ان حضرات کی۔<۷۰
ہفتہ وار >سٹار< کراچی ۲۳ اگست ۱۹۵۲ء نے اپنے اداریہ میں لکھا :۔
اب جب کہ احرری` احمدی تنازعہ سے پیدا شدہ شور و غوغا کچھ مدہم ہوگیا ہے تو آیئے ہم ایک لمحہ کے لئے بیٹھ کر غور کریں کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کو مرکزی وزارت سے علیحدہ کرنے کے جو مطالبات کئے جارہے ہیں ان کے سیاسی نتائج کیا ہوسکتے ہیں ؟ ؟
حکومت پاکستان نے حسب معمول نرم طریقے سے پوزیشن کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے اور چوہدری ظفر اللہ خاں نے بھی جنیوا جاتے ہوئے ایک بیان دیا ہے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک کسی نے اس سانپ کے سوراخ کو بند کرنے کی پوری کوشش نہیں کی اور نہ دلیری سے اس شورش کے خطرات کو واشگاف کیا ہے۔ ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے کہ ہم مسئلہ کے مذہبی پہلو پر بحث کریں کیونکہ سبمسلمان ختم نبوتپر متفق ہیں۔ ہمارے نزدیک جو خطرہ بڑا ہم ہے وہ یہ ہے کہ ایسی شورش پاکستان کو بطور ایک ایسی جدید قسم کی جمہوری ریاست کے سخت نقصانپہنچا سکتی ہے جو مشترک قومی ثقافت وکردار` مشترک تاریخ` مشترک رسم و رواج` مشترک مقاصد اور مطمح نظر مشترک معیار اور آرزوئوں سے باہم پیوست ہے۔ افسوس ہے کہ یہ تمام تنازعہ ایسی جذبات فضا میں ہوا ہے کہ کوئی آدمی عقل کی بات سننے کو تیار نہیں لیکن ہم عصر جدید کے تقاضوں اور پاکستان کو پیش آمدہ حالات سے آنکھیں بند نہیںکرسکتے۔ ہمارا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اگرچہ تعداد میں تھوڑے ہیں مگر ان میں آنکھیں کھول کر دیکھنے کی صلاحیت ابھی کچھ باقی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے فہمیدہ ناظرین ہمارے خیالات کو تسلیم کرنے سے پہلے حالات پر گہری اور دانشمندانہ نظر ڈالیں گے۔ کیا یہ مجرمانہ دیوانگی نہیں ہے کہ ہم اپنا وقت` قوت` جوش اور تعمیری فوائد ایسے معاملات پر ضائع کریں جو قوم کے وسیع مفادات کے مقابلہ میں نہایت حقیر اور بے وقعت ہیں۔
پاکستان ایسے ملک میں جہاں ابھی ہمیں اپنا دستور مکمل کرنا ہے جہاں ابھی ہمیں زندگی اور موت کے سوالات حاصل کرنے ہیں جہاں مہاجرین ابھی تک تباہ حال پڑے ہیں۔ جہاں فاقہ کش عورتیں بداخلاقی پر مجبور ہیں۔ جہاں گداگر اور معذور سینکڑوں کی تعداد میں آوارہ گردی کررہے ہیں۔ جہاں پر بیماریاں` بھوک اور جہاں گداگر اور معذور سینکڑوں کی تعداد میں آوارہ گردی کررہے ہیں۔ جہاں پر بیماریاں` بھوک اور جہالت مستولی ہیں کیا ہم ایسے تنازعات میں الجھ سکتے ہیں جو ہمارے قومی اتحاد کی جڑیں کھوکھلی کرسکتے ہیں۔ اور یہ تنازعہ بھی کیا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قادیانیت کے یہ مخالف مولوی جو اس وقت پیش پیش ہیں اس فریق کے نمائندہ ہیں جس کے ارکان نے ماضی میں قائداعظم اور علامہ اقبال تک کو بھی نہیں چھوڑا بلکہ مولانا ظفر علی خاں کو بھی نہیں چھوڑا جو اس تحریک کے سالہا سال تک قائد رہے ہیں۔
بات یہ ہے کہ ان مولویوں نے جس طریقے سے کفر کے فتوے صادر کئے ہیں اس نے ان کے موقف کے نیچے سے زمین نکال دی ہے۔ یہ فتوے اس طرح بے سوچے سمجھے دئے گئے ہیں کہ وہ عام مسلمانوں کے لئے کوئی اپیل نہیں رکھتے اور نہ ان کے کوئی معنے ہیں۔
دوئم:۔ اگر آج ہم قادیانیوں کو اقلیت قرار دیدیں تو کل ان پیشہ ور ملائوں کو یہ مطالبہ کرنے سے کون روک سکتا ہے کہ شیعوں` وہابیوں اور آغاخانیوں کو بھی غیر مسلم قرار دیا جائے۔ اخراج کا طریق اگر جاری رہا تو اس کے انجام کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ ہم تو اس خیال سے بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ کیا آپ بھی ؟
سوم:۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اگر کسی مذہبی فرقہ یا معاشی گروہ یا سیاسی پارٹی کو زبردستی دبا دیا جائے تو وہ مرتا نہیں ہے بلکہ زمین دوز ہو کر زیادہ خطرناک بن جاتا ہے۔ اگر ہم یہ فرض بھی کر لیں کہ قادیانی پاکستان کے لئے مفید نہیں تو ہمیں اس بات کا بھی پہلے سے اندازہ کر لینا چاہئے کہ انہیں مسلمانوں سے نکالنے کے بعد کیا ان کا سوال اور زیادہ پچیدہ نہ بن جائے گا ؟
چہارم-: اگر ہم تعصب سے اس طرح اقلیتیں پیدا کرتے جائیں تو کیا ہم دنیا کی نظرون میں بے وقوف اور مذہبی دیوانے نے سمجھے جائیں گے حالانکہ جمہوری رجحانات تو یہ ہیں کہ مختلف ثقافتی وحدتوں کو ملک میں یک جا کردیا جائے اور ذات پات اور رنگ کے اختلافات مٹا دیئے جائیں تاکہ ایک قوم کہلانے کے لئے لوگوں میں مشترکہ شہریت کا شعور پیدا ہوا۔
آئو ہم سوچیں کیا ہم پاکستان کا یہ نقسہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہب کو محض نمائشی رنگ دے دیا گیا ہے۔ جہاں مذہبی دیوانگی کا دور دورہ ہے اور جہاں قانون محض تعصب ہے۔
پنجم:۔ اگر ہم احراری مولویوں اور ان کے پٹھوئوں کے کہنے پر قادیانیوں کو اقلیت قرار دیدیں اور انہیں کلیدی آسامیوں سے محروم کردیں۔ پھر اگر بھارت بھی ہمارے نقش قدم پر چل کر بھارت کے مسلمانوں کو ایسی اقلیت قرار دیدے جس کے ارکان ملک میں کسی کلیدی عہدے پر نہیں لگائے جاسکتے تو ہم اس کو کس طرح محسوس کریں گے ؟؟ اگر ہم میں ذرا بھی دور اندیشی کا مادہ ہے اور ہم ایسی حرکت کے نتائج کا اندازہ کرسکتے ہیں تو ہمیں اپنے ملک میں حقائق کو بنظر غور دیکھنا شروع کردینا چاہئے۔
ششم:۔ ہمیں یاد ہوگا کہ کشمیر پر ہمارے دعویٰ کی بنیاد اس دلیل پر تھی کہ ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اور اگر ریڈ کلف اس علاقہ کو بدنیتی سے پاکستان سے علیحدہ نہ کردیتا تو ریاست کشمیر خودبخود پاکستان کا ایک حصہ بن جاتی۔ اگر ہم قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ کردیں تو کیا ہماری یہ دلیل بے اثر نہیں ہوجائے گی ؟
آخری سوال یہ ہے کہ چونکہ اس شورش کا مرکزی نشانہ چوہدری ظفر اللہ خان ہیں کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم پاکستان کے وزیر خارجہکو فی الفور وزارت سے علیدہ کردیں تو مشرق وسطیٰ اور مغرب کے اسلامی ممالک میں اس کا کیا ردعمل ہوگا ؟ سوال یہ نہیں ہوگا کہ وہ قادیانی ہیں یا نہیں بلکہ اس بات کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کا غیر ممالک میں بطور ایک پاکستانی ترجمان کے کیا مقام اور کیا مرتبہ ہے ؟ چونکہ اس کے متعلق دو رائیں نہیں ہوسکتیں اس لئے اگر ہم احراری مطالبہ مان لیں تو اس کے بین الاقوامی نتائج کے متعلق ہم کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے۔
ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آئو ہم غور کریں اور پھر غور کریں کہ اگر ہم نے پاگل بننے کا عزم بالجزم کر لیا ہے تو ہمارے پاگل پن میں بھی کچھ نہ کچھ نظرم تو ہونا چاہئے- ۷۱ )ترجمہ(
مشرقی پاکستان
مشرقی پاکستان پریس کی نظر میں احراری کی تحریک کے عزائم و مقاصد کس درجہ مکروہ اور ملک و ملت کے لئے تباہ کن تھے ؟ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل مندرجات باسانی لگ سکتا ہے:۔
۱- روزنامہ >ستیہ جوگ< ڈھاکہ نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۵۲ء میں احراری تحریک کو خالص سیاسی قرار دیتے ہوئے مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کیا:۔
کراچی ۱۹ جولائی۔ مغربی پاکستان کے سیاسی اور سماجی میدان میں ایک اشتعال پیدا ہو کر انتہاء کو پہنچ گیا ہے۔ ادھر قادیانیوں کے خلاف تحریک زوروں پر ہے اور ملتان میں فساد ہوا ہے ادھر )پاکستان کی( راجدھانی کراچی میں مزدوروں اور ملازمین نے ہڑتال کررکھی ہے۔ قادیانی فرقہ کے خلاف تحریک اور اس کے نتیجہ میں جو فسادات رونما ہوئے ہیں اس کی خبر اس سے پہلے اخباروں میں چھپ چکی ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قادیانیوں کے خلاف جو تحریک چلائی جارہی ہے اس کا پس منظر سیاسی ہے۔ ان دونوں یہ تحریک کچھ مدھم پڑ گئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی بلکہ خفیہ خفیہ اس کا پرچار جاری ہے۔ پاکستان کے سب سے پرانے روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کی ایک خبر سے ظاہر ہے کہ احراری پارٹی کے لوگوں مسجدوں میں گھوم گھام کر خلاف فرقہ قادیانیہ تحریک کے عام لوگوں کی امداد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بہت سے مقامات میں ان کی یہ کوشش ناکام ہوئی ہے۔
tav.13.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
لاہور کے قانون پیشہ لوگوں کا خیال ہے کہ احرار کی یہ تحریک اہل پاکستان کے اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی ایک خطرناک کوشش ہے- اسلامی دنیا کے لیڈر کی حیثیت سے ملک پاکستان کو دنیا میں جو مقام اور عزت حاصل ہے احراریوں کی یہ تحریک صرف اس مقام کو گنوانے اور عزت کو بٹہ لگانے کی خاطر جاری ہے وہ لوگ )یعنی لاہور کے قانون پیشہ( یہ امید رکھتے ہیں کہ رائے عامہ کا تعاون حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک آہستہ آہستہ اپنی طعبی موت مر جائے گی تاہم پاکستان میں اس قسم کے خود غرض لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اس قسم کی فساد انگریز تحریکات اور ذلیل اور ناجائز پروپیگنڈے کے سہارے سے اپنے ناجائز مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اس قسم کے لوگ اس طرح کے فسادوں کے لئے لوگوں کو اکساتے رہتے ہیں۔ حکومت اگر سختی سے ان فسادات کی روک تھام کا انتظام کرے تو حکومت اور عوام دونون کی خیر اسی میں ہے۔ ۷۲ )ترجمہ(
بنگال کے ہفت روزہ >شیی نیک< اپنی اشاعت مورخہ ۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء میں لکھتا ہے:۔
ان دنوں مغربی پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیتی قرار دینے کی تحریک کا بہت چرچا ہے افواہ ہے کہ مرکزی مجلس کے وزراء کے بعض ایسی ارکان نے جو اپنا اقتدار بڑھانا چاہتے ہیں غالباً اس تحریک کی بنیادی رکھی ہے۔ چوہدری ظفر اللہ کان جو مرکزی مجلس وزراء کے ممبر ہیں آئندہ ان کے وزیراعظم ہوجانے کا امکان ہے اسی ڈر سے ان کو مجلس وزراء سے کارج کرانے کے لئے غالباً احمدیت کے خلاف تحریک پیدا کی گئی ہے- یہ امر اس بات سے ظاہر ہے کہ ہر جگہ احمدیت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ چوہدری ظفر اللہ خان کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ ان دنوں مختلف مقامات پر اس بات پر فساتات بھی ہوئے ہیں اور ملتان میں اسی شورش کی وجہ سے پولیس لوگوں پر گولیاں چلانے پر بھی مجبور ہوئی۔ ۲۱ جولائی کو شہر بغداد الجدید )ریاست بہاولپور( سہروردی صاحب کی صدارت میں عوامی لیگ نے ایک جلسہ کیا اور اس میں احمدیوں کو اقلیتی قرار دیتے ہوئے ظفر اللہ خاں کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس قدر شور و غوغا کے ساتھ احمدیوں کی مخالفت کی اس وقت کیا ضرورت تھی ؟ خیال کیا جاتا ہے کہ چند خود غرض لوگ اپنی مطلب براری کے لئے یہ تحریک چلا کر عوا کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان ابھی اندرونی اور بیرونی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر ابھی حل ہونے میں نہیں آتا۔ افغانستان والے روزبروز دشمنی میں بڑھ رہے ہیں ان حالات میں خواہ مخواہ آپس میں الجھنے سے کیا ہوگا ؟
حصول پاکستان کی جنگ شیعہ` سنی` احمدی سبھی نے مل کر لڑی تھی۔ خود قائداعظم شیعہ تھے مگر ان کی قیادت پر کوئی اعتراض نہ اٹھا ظفر اللہ خاں احمدی ہیں لیکن قائداعظم کے وقت سے لے کر چار سال تک ان پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔ ایک صحیح العقل آدمی کے لئے اس بات کا سمجھنا ناممکن نہیں ہے کہ جو گندرناتھ جو غیر مسلم تھے ان کی وزارت پر گیر مسلم ہونے کی وجہ سے اعتراض نہیں اٹھایا گیا تو سر ظفر اللہ خاں کو غیر مسلم قرار دے کر وزارت سے برطرف کرنے کی تحریک کیوں کی جارہی ہے ؟
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ وزراء میں ظفر اللہ خاں بہترین قابلیت کے مالک ہیں۔ بعض دیگر وزراء کی نسبت بہت سی باتیں سنی جاتی ہیں لیکن ظفر اللہ خاں کے خلاف آج تک کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی۔ اہم عہدوں پر ناقابل لوگوں کے ہجوم سے پاکستان کے تباہی کی طرف جانے کا خطرہ ہے۔ اندریں حالات ظفر اللہ جیسے قابل ترین شخص کو وزارت سے برطرف کرنے کا مطالبہ قوم کے لئے مہلک ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی اہم ترین بھلائی کی خاطر اس قسم کی دیوانگی اور آپس کی توتو میں میں کو بند کردینا چاہئے۔ ۷۳ )ترجمہ(
روزنامہ >ملت< )ڈھاکہ( نے ۹ اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں چوہدری محمد ظفر اللہہ خاں صاحب کے استعفیٰ کی خبر پر حسب ذیل ریمارکس دیئے:۔
کراچی میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی استعفیٰ کی خبر غیر سرکاری طور پر جاری ہے۔ گزشتہ ۶ اگست کو یہ خبر اڑی کہ وزیر خارجہ نے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن وزیراعظم نے دوسرے وزراء سے مشورہ کر کے ان سے استعفیٰ واپس لینے کو کہا ہے۔
وزیر خارجہ کے استعفیٰ کی ابھی تک صرف افواہ ہی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا استعفیٰ دے دینا قرین قیاس بھی ہے اور اس سے جو نقصان ہوگا اس کے خیال سے پاکستان کے تمام بہی خواہوں کا پریشان ہونا ایک طبعی امر ہے۔ بین الاقوامی سیاست کے میدان میں پاکستان نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ صرف چوہدری ظفر اللہ خان کی جانفشانی اور مساعد جمیلہ ہی کا نتیجہ ہے۔ ایک قابل سیاستدان کی حیثیت سے انہوں نے تمام حکومتوں کی نگاہ تحسین و استعجاب کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ مصر` ٹیونیشیاء` ایران اور فلسطین کی جنگ آزادی میں ان کی گرانقدر امداد کی اہمیت سب کے نزدیک مسلم ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم جو باوجود طرفداری کے ارادے اور نیت کے ہندوستان کی جنبہ داری نہیں کرسکی تو اس کا موجب وہ براہین قاطعہ کے پہاڑ ہیں جو انہوں نے اپنے حسن خطابت سے ان کی راہ میں رکھ دیئے ہیں۔
ابھی تک مسئلہ کشمیر حال ہونے میں نہیںآیا اور ان دنوں یہ سوال ایک نازک مرحلے میں ہے اور انہی دنوں میں ہر سہ فریق خصومت کی مجلس )جنیوا میں( شروع ہونے والی ہے ایسی وقت میں چوہدری صاحب کے استعفیٰ کا امکان غایت درجہ تکلیف دہ ہے۔ اگر واقعی انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور وہ استعفیٰ منظور بھی کر لیا گیا تو مملکت پاکستان کو ایسا نقصان پہنچے گا کہ پھر تلافی نہ ہوسکے گی پاکستان کے سامنے جب کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی لاینحل ہے ایسے وقت میں ظفر اللہ خاں جیسے آدمی کو کھو دینا بڑی غلطی ہے۔ آخر پاکستان کے اعلیٰ عہوں پر بعض یورپین اور دوسرے غیر مسلم بھی تو کام کررہے ہیں اسی طرح اگر ظفر اللہ خاں سے بھی کام لیا جائے تو اس میں پاکستان کا کیا نقصان ہے ؟ ہمارے مسلمان بھائیوں کی اس تحریک نے تو فقط یہی ثابت کیا ہے کہ مخالف رائے کو برداشت کرنے کی تربیت ابھی ہمیں حاصل نہیں ہوئی۔ ۷۴ )ترجمہ(
بنگالی اخبار >انصاف< نے اپنے ۱۵ اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں ایک اداریہ لکھا س کا آخری حصہ درج ذیل ہے:۔
چوہدری ظفر اللہ خاں کی مغرب زدہ خارجی پالیسی کو جو لوگ ناپسند کرتے ہیں وہ بھی ان کے خلاف افواہیں پھیلانے والے اخبارات اور ملک کی متعصب پارٹی کے غیر روادارانہرویے اور ناجائز پراپیگنڈے کو دیکھ کر دلی صدمہ محسوس کرتے ہیں۔ پاکستانکی سیاست میں یہ لوگ فرقہ پرستی کا زہر داخل کررہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کے لئے ایک ترقی یافتہ ملک بننا ممکن ہو جائے گا۔ آیا فرقہ قادیانیہ مسلمان ہے یا نہیں ؟ اس سولا کو اٹھا کر جو ان لوگوں نے وزیر خارجہ کے خلاف جنگ شروع کی ہے اس طبعاً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس قسم کی تفرقہ اندازی کو جتنی جلدی روکا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ۷۵ )ترجمہ(
Prompted India Agitation
Chief Ahmadiyya
necessary if up given be to lable Distinctive
of back the at is India of hand secret the that convinced am <I Din۔ud۔Bashir Mirza declared Agitation>, Ahmadiyya۔Anti present the ۔Mail Daily London the with interview an in sunday on Ahmad Mahmud
to prepared be would and possession his in proof positive dha He ۔added he time, proper the at Autborities proper the before it put
his declaring Pakistan in body authoritative the of event the In mandate a issuing is hesitation no have would he minority, a Muslims,community themselves call and Ahmadi of lable the drop to followers his to ۔declared Leader Ahmdiyya the
Ahmadiyya the of branch Qadiani the of head old year three۔Sixty an of course the in Ahmad, Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza ۔Community Mail Daily the of Shafi ۔Mohd Main with interview exclusive coup a planning was he that allegation the denied categorically ۔Pakistan In power political seize to d'etat
a is Ours ۔theory political a not is <Ahmadiyat said He Ahmadyas between tension present the With ۔movement religious pohitical seizing of think can man mad a only non-Ahmadyas and Ahmadis> for Power
tiny the argument, of sake the for if, Even added: He authority of seat the into getting in succeeds minority Ahmadiyya very the liquidated be to prepared be should it ,force by >۔non-Ahmadis hostile bitterly the of hands the at day next
the and you between conflict a of case In GovernmentQuestion: in Ahmadis that presume to correct it is Government, you to loyalty first their owe would Service
an is day the of Government the to <Loyalty conflictAnswer: such into entered I moment The ۔us with faith of GovernmentArticle in Ahmadis of loyalty the test the to put will presentwhich may of out thrown be to ready be should I <Weservice said: he Continuing >۔Khalifa the being of Governmentposition the against unconstitutional anything do never >shall۔law by established Country the of
Ahmadis declaring for agitation wide۔country tothe Referring it, dislike <I : said Shahib Mirza community, minority ita because but us, to harm any do to going is it because <Wenot : added he Explaining >۔Islam to name bad a bring ourwill of because and community growing۔internationally and are If ۔Muslims and Islam to kudos of lot bring we work restmissionary eth from separate community minority a branded are we be not will abroad activities missionary our Muslims, wholeof a as people Mslim the of behalf on effort an as willinterpreted This ۔community religious distinct a of work the as but and Ahmadis the between fulf unbridgeable an creat >also۔Muslim rothodox
<Wht : question a posed then leader religious shrewd mincrityThe Ahmadiyya proposed the of lines delimiting the be authoritativewill the of event the in that said He > wouldcommunity eh community, minority a as it declaring Pakistan in dropbody to followers his to mandate a issuing in hisitation no have۔only muslim themselves call and Ahmadi of label the
mandatory a not is Ahmadi of nomeclature <The : said sakeHe the for only was It ۔book religious our in declareprovisison to followers his asked had founder the that showing of in poerations census the during and in Ahmadis as >themselves۔lifetime his
Anjuman your declare Government the <Suppose : yourQuestion be will what it, bans then and organisation Political ofa name the change Will <I : said promptly He > >attitude۔Government the with conflict into come never but Anjuman, the
conflict inter-sectarian the of view in whether asked being ofOn establishment the advocate would he isues, religious n said he Pakistan, in State Islamic freedom> neligious complete a
Islam ۔freedom religious complete is there Stat Islamic an ><In۔ideals religious their to up live to non-Muslims even expects
the that dconvince am <I said emphatically then AhmadiyyaHe۔anti present the of back the at is India of hand wouldsecret and possession his in proof positive had He ۔agitation>۔time proper the at authorities proper the before it put to prepared be
of Ulema of convention a that like you <Would uponQustion: adjudicate to held be world the over fromall >Islam Islam of pale the outside declared be Ahmadis whether issue the
۔Convention proposed the to party a made are we provided Yes : onAnswer deralced are you vote majority a by <Suppose : inQuestion persist the even you Will ۔non-Muslims be to basis >dectrial۔Muslims are you that claiming
attached be to continue still, will Answer<Se۔Islam of brotherhood universal Lahoreto Gazette, Military & Civil The
1-3 Pages 1952 22, July Teusday,
بھارت کی بھڑکائی ہوئی شورش
از امام جماعت احمدیہ
اگر ضروری ہوا تو امتیازی شناخت کو ترک کردیا جائے گا۔
>مجھے اس بات کا یقین ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف موجودہ شورش کی پشت پر ہندوستان کا خفیہ ہاتھ ہے< اس بات کا واضح اعلان )حضرت( مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اتوار کے روز لندن کے اخبار >ڈیلی میل< سے ایک انٹرویو میں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس حتمی ثبوت موجودہے۔ اور وہ اسے مناسب وقت پر متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔
>اس صورت میں کہ پاکستان صا صاحب اقتدار طبقہ ان کی جماعت کو اقلیت قرار دے دے وہ اپنے پیروکاروں کو یہ حکم جاری کرنے سے دریغ نہیں کریں گے کہ وہ اپنی شناختی >احمدی< کو ترک کردیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے لگ جائیں<
سربراہ جماعت نے واضح الفاظ میں کہا۔
جماعت احمدیہ کی قادیانی شاخ کے تریسٹھ سالہ سربراہ مرزا بشیر الدین محمود احمدنے >ڈیلی میل< کے میان محمد شفیع سے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران اس الزام کی و ٹوک الفاظ میں تردید کی کہ وہ پاکستان میں سیاسی اقتدار پر قابض ہونے کے لئے کسی غیر آئینی انقلاب کا منصوبہ بنارہے ہیں۔
انہوں نے کہا >احمدیت کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے ہماری تحریک مذہبی ہے۔ احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان موجودہ کشمکش کے ہوتے ہوئے کوئی دیوانہ ہی ہوگا جو احمدیوں کے لئے سیاسی تسلط حاصل کرنے کا سوچے<
انہوں نے مزید کہا >اگر بغرض بحث مان بھی لیا جائے کہ قلیل التعداد جماعت احمدیہ بزور قوت سند اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اسے اگلے روز ہی شدید معانہ غیر احمدیوں کے ہاتھوں نیست و نابود ہوجانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔<
سوال-: آپ اور گورنمنٹ کے درمیان تصادم کی صورت میں کیا یہ قیاس کرنا درست ہوگا کہ جو احمدی گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں وہ آپ کے ساتھ وفاداری کو اولیت دیں گے ؟
جواب-: >حکومت وقت کے ساتھ وفاداری کرنا ہمارے نزدیک ایماں کا جزو ہے۔ عین اس لمحہ کہ میں ایسے تصادم میں حصہ دار بنوں جو کہ حکومت کی ملازمت میں شامل احمدیوں کی وفاداری کا ایک امتحان ہوگا میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ میں خلیفہ ہونے کے موجودہ منصب سے الگ کردیا جائوں۔< آپ نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا >ہم کبھی بھی ملک حکومت` جو قانونی طور پر معرض وجود میں آئی ہے کے خلاف کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کریں گے۔<
ملک بھر میں احمدیوں کو اقلیتی گروہ قرار دینے کے ہنگامہ کا ذکر کرتے ہوئے مرزا صاحب نے فرمایا >میں اسے پسند نہیں کرتا۔ اس لئے نہیں کہ اس سے ہمیں نقصان پہنچے گا بلکہ اس لئے کہ یہ اسلام کی بدنامی کا باعث ہوگا۔< اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا >ہم بین الاقوامی سطح پر ایک پھیلتی ہوئی جماعت ہیں اور ہم اپنے گبلیغی کام کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے بے پناہ افرام و احتشام کا موجب بنتے ہیں۔ اگر ہم پر باقی مسلمانوں سے الگ ایک اقلیتی گروہ ہونے کا دھبہ لگایا گیا تو بیرون ملک ہماری تبلیغی سرگرمیوں کو من حیث المجموع مسلمان قوم کی طرف سے مساعی قرار نہیں دیا جائے گا۔ بلکہ اس ایک علیحدہ مذہبی جماعت کا کام سمجھا جائے گا۔ نیز یہ احمدیوں اور کٹر مسلمانوں کے درمیان ناقابل عبور خلیج پیدا کرے گا۔<
اس کے بعد اس زیرک مذہبی رہنمائے ایک سوال داغ دیا< اس مجوزہ اقلیتی احمدیہ جماعت کی حدود و قیود کیا ہوں گی؟< انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صاحب اقتدار طبقہ کی طرف سے جماعت کو اقلیتی قرار دینے کی صورت میں وہ اپنے پیروکاروں کو یہ حکم جاری کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کریں گے کہ وہ اپنی شناخت >احمدی< تو ترک کردیں اور اپنے آپ کو صرف مسلمان کہنے لگ جائیں۔<
انہوں نے کہا >احمدی نام رکھنا ہماری مذہب کتب میں کوئی لازم شق نہیں ہے یہ صرف اس غرض کو ظاہر کرنے کے لئے تھا کہ )حضرت( بانی سلسلہ نے اپنی پیروکاروں کو یہ ارشاد فرمایا تھا کہ وہ ان کے زندگی میں ہونے والی مردم شماری کے عمل کے دوران اپنے آپ کو احمدی ظاہر کریں۔
سوال:۔ >فرض کیجئے کہ حکومت آپ کی انجمن کو ایک سیاسی تنظیم قرار دے دیتی ہے اور پھر اس پر پابندی عائد کردیتی ہے اس صورت میں آپ کا ردعمل کیا ہوگا ؟ >انہوں نے بلا تامل جواب دیا >میں انجمن کا نام بدل دوں گا لیکن حکومت کے ساتھ کبھی تصادم کی راہ اختیار نہیں کروں گا۔<
یہ دریافت کرنے پر کہ مذہبی مسائل کے بارہ میں مختلف فرقوں کے درمیان اختلافات کے پیش نظر کیا وہ اس امر کی حمایت کریں گے کہ اسلامی ریاست پاکستان میں مکمل مذہبی آزاد ہو۔
جواب:۔ >اسلامی ریاست میں پوری مذہبی آزادی ہوتی ہے۔ اسلام تو غیر مسلموں سے بھی توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی اقدار کے مطابق زندگی بسر کریں۔<
اس کے بعد انہوں نے زور دے کر کہا >مجھ یقین ہے کہ احمدیوں کے خلاف موجودہ شورش کی پست پر ہندوستان کا خفیہ ہاتھ ہے۔< ان کے پاس اس کا حتمی ثبوت موجود ہے اور وہ مناسب وقت پر اسے متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔
سوال:۔ >کیا آپ پسند کریں گے کہ دنیا بھر سے علمائے اسلام کا ایک اجتماع اس مسئلہ پر فیصلہ دینے کے لئے منعقد کیا جائے کہ کیا احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے۔<
جواب:۔ >جی ہاں بشرطیکہ مجوزہ اجتماع میں ہمیں ایک فریق بنایا جائے<
سوال:۔ >فرض کیجئے کہ اکثریتی ووٹ کے ذریعے آپ کو مذہبی تعلیمات کی بناء پر غیر مسلم قرار دے دیا جاتا ہے کیا آپ پھر بھی اس دعویٰ پر مصر ہوں گے کہ آپ مسلمان ہیں۔< ؟
جواب:۔ ہم پھر بھی اسلام کی عالمی برادری کے ساتھ وابستگی کوجاری رکھیں گے۔<
)سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور - منگل ۲۲ جولائی ۱۹۵۲ء ص ۱ تا ۳(
مطالبہ اقلیت کا مذہبی ردعمل
پاکستانی پریس کی طرف سے احراری تحریک کے سیاسی پہلوئوں پر جو ردعمل ہوا اس کا ذکر آچکا ہے اب یہ بتانا باقی ہے کہ جہاں تک اس مطالبہ کے >مذہبی< پہلو کا تعلق تھا اس زمانہ کے بعض سنجیدہ ` باوقار اور مذہبی اقدار کے علمبردار رسائل و اخبارات نے اسے فتنہ` تکفیر سے تعبیر کیا اور اس کی پر زور مذمت کی جس کے ثبوت میں حیدر آباد سندھ کے اخبار >ناظم< ` پشاور کے اخبار >تنظیم< اور کوئٹہ کے رسالہ >کوہسار< کے ادارتی نوٹ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ اخبار >ناظم حیدر آباد )سندھ( نے ۷۲ جولائی ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں اس فتنہ کو قلب پاکستان میں چھرا گھونپنے کی ناپاک سازش قرار دیتے ہوئے لکھا:۔
>کفر سازی:۔ ہمارے علماء کرام کو کفر سازی کا پورا ملکہ ہے تبلیغ دین کی بجائے کفر گری آج کل ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی بجائے خود مسلمانوں کو کافر بناتے ہیں۔ دیوبندی علماء کی تحریرات ملاحظہ کیجئے۔ بریلوی علماء کو کفر کی سند دیتے نظر آئیں گے اور بریلوی علماء کے دربار سے دیو بندیون کو کفر کا سرٹیفکیٹ ملے گا وغیرہ وغیرہ ` سنی` شیہ` مقلد ` غیر مقلد` وہابی` بدعتی خدا معلوم کتنے فرقے ان علماء کی بدولت پیدا ہوگئے اور کتنے پیدا ہوں گے۔ کمال یہ ہے کہ جن کے خلاف خود کفر کے فتاویٰ موجود ہوں وہ کس طرح دوسروں پر کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ ان ہی فرقہ بندیوں کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمانوں پر ادبار کی گھٹائیں رہیں۔ اور یہی فرقہ بندی اور عقائدی جنگ آج پاکستان کے مسلمانوں کی شیرازہ بندی کو ختم کرنے اور انہیں باہم متصادم کرنے کے لئے شروع کی جارہی ہے جس کو فتنہعظیم کہنا بے جانہ ہوگا۔جہاں تک عقائدی اختلافات کا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے- بڑے بڑے مصلحان دین اور برگزیدہ ہستیوں کی ان تھک کوششوں کے باوجود یہ اختلاف قائم رہے پھر بھلا یہ ہمارے موٹر نشین اور نرم گدوں پر استراحت کرنے والے علماء جو اپنے نفس کی فرمانبرداری کا کسی حد تک عہد کرچکے ہیں اور جن کا خود امن ملوث ہے کس طرح ان سے کوئی توقع کی جاسکتی ہے؟
ہوشیارباش-: آج پاکستان میں جس تحریک کا آغآز کیا جارہا ہے۔ جا بجا جلسے کر کے کمیٹیاں بنائی جارہی ہیں اور فنڈ اکٹھے کئے جارہے ہیں کیا اس تحریک کا مقصد خدمت اسلام ہے ؟ کیا اس تحریک سے مسلمانوں میں ختم نبوت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ؟ کیا اس سے پاکستانی مسلمانوں کی تنظیم پر ضرب نہیں لگتی ؟ کیا اس تحریک سے استحکام پاکستان پر چوٹ نہیں پڑتی ؟ آخر یہ اتنی مدت کے بعد باسی کڑھی میں کیوں ابال ہے ؟ کیا اس میں سیاسی اغراض پوشیدہ نہیں ہیں ؟ کیا اس طرح دشمنان پاکستان کے عزائم کو تقویت نہیں پہنچتی ؟ اور کیا یہ پاکستان اور پاکستانیوں سے غداری نہیں ہے ؟
مسلمان بالکل سادہ واقع ہوا ہے۔ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ آج جو معصومیت کا چولہ پہن کر ان کے سامنے آیا کل وہ کون تھا ؟ اور قوم کے لئے کس طرح عذاب بنا ہوا تھا ؟ یہی ہمارے احراری علماء کرام اور احراری بھائی قیام پاکستان کی مخالفت میں ہندو دوستوں کی آغوش میں بیٹھے ہوئے مسلمانوں کی پھتیاں اڑانے میں کونسی کسر چھوڑ رہے تھی۔ مسلم لیگیوں اور مسلم لیگ پر دشنام طرازی سے کس وقت چوکنے تھے ؟ کیا انہوں نے قائداعظم پر کفر کے فتوے نہیں جاری کئے ؟ کونسا برا لفظ تھا جو ان مولوی حضرات نے قائداعظم کی شان میں استعمال نہیں کیا ؟
پاکستان بن جانے پر طوعاً کرہاً ہمارے ان احراری بھائیون نے پاکستان بننا قبول کیا۔ کیونکہ بھارت کی زمین ان کے لئے تنگ تھی۔ ہندوئوں نے کہہ دیا کہ جب تم اپنے بھائیوں کے ہی نہ ہوئے تو ہمیں کیا توقع رکھنی چاہئے۔ ہماری جمعیتہ الماء پاکستان کے محترم صدر جو آج احراری بھائیوں کے دوش بدوش پاکستان میں عقائدی جنگ کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ برائے خدا اتنا تو بتادیں کہ قیام پاکستان سے قیا اور قبل پاکستان کے بعد انہوں نے قادیانیوں کے خلاف کتنے احتجاجات کئے ؟ کیا انہوں نے مسلم لیگ کے ذریعہ سے قادیانی امیدواروں کو اسمبلیوں میں کامیاب نہیں کیا ؟ کیا مسلم لیگی حکومت پاکستان نے جب چوہدری ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ مقرر کیا تو کوئی احتجاج کیا گیا ؟ جب دستور پاکستان کے لئے بنیادی حقوق کی کمیٹی میں چوہدری ظفر اللہ خاں کو لیا گیا تو کوئی احتجاج کیا گیا ؟ اور جب آپ نے اس کمیٹی سے علیحدگی کی خواہش ظاہر کی تو انہیں مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ اس کمیٹی سے الگ نہ ہوں >؟ اگر یہ سب حقائق ہیں تو پھر اس وقت راگنی کا مقصد کیا ہے؟
پاکستان سے غداری نہیں کی جاسکتی
ہر پاکستان جانتا ہے کہ استحکام پاکستان کے لئے تمام پاکستانیوں کا بلا لحاظ مذہب و ملت متحد و منظم رہنا ضروری ہے۔ اس وقت کی ذرا سی لغزش نہ صرف پاکستانیوں بلکہ پاکستان کے ساتھ غداری ہے۔ ایسی حالت میں فرقہ پرستی اور عقائدی جنگ کے حامی خواہ ان کی نیت صاف ہی کیوں نہ ہو سیاسی نوعیت سے پاکستان دوستی کا ہرگز ثبوت نہیں دے رہے بلکہ پاکستان کے قلب میں چھرا گھونپنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان عوام اس تحریک سے عدم دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں۔<۷۶
۲- ماہنامہ >کوہسار< کوئٹہ )ماہ اگست ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>پاکستان سے ہندوئوں اور سکھوں کے انخلاء کے بعد خیال ایسا تھا کہ اس ملک میں اب فرقہ وارانہ قضنیوں کے لئے کسی قسم کی گنجائش کا امکان نہیں ہوگا مگر یار لوگ بھلا کب چین سے بیٹھنے والے تھے ؟ فرقہ وارانہ ہنگامہ آرائی کے لئے آخر کار انہوں نے موقعہ تلاش کر ہی لیا۔ احمدیت اور غیر احمدیت کا مسئلہ آج کل پاکستان کے بعض حصوں میں خطراک حد تک نزاعی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس ضمن میں ہماری احراری دوست اور احمدیوں کا ایک طبقہ بہت پیش پیش نظر آتے ہیں۔
جہاں تک احمدیوں کے عقائد کا تعلق ہے کوئی مسلمان انہیں اسلامی اصولوں کے مطابق ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ اس سلسلہ میں علمائے اسلام کے فتاویٰ اور بیانات واضح ہیں مگر ان اختالفات کی بنا پر کسی انسان کو گردن زدنی قرار دینا نہ اسلام کی رو سے جائز ہے` نہ انسانیت کی رو سے احسن` اور نہ اختلافات کو ہوا دینے سے کسی فائدہ کی توقع ہوسکتی ہے۔ البتہ برخلاف اس کے ملی اور ملکی نقصان کے امکانات زیادہ ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد خود احمدیوں کا وطن اور اصلی مرکز ان سے اس بناء پر چھن گیا کہ انہیں بھی مسلمان سمجھا گیا تھا۔ اس لئے اس سرزمین میں رہنے اور بسنے کے لئے ان کے حقوق بھی ہمارے ساتھ ہوگئے ہیں۔ پاکستان سے پہلے احمدیوں کے خلاف تکفیر بازی کا فتویٰ دینے والے سات کروڑ کی اکثریت کے باوجود حکومت وقت سے یہ مطالبہ منوانے سے قاصر رہے کہ احمدی مسلمانوں سے علیحدہ ایک مختصر سی جماعت ہیں۔ آج پاکستان میں وہ ایک پناہ گزیں جماعت کی حیثیت سے مقیم ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے خلاف ہنگامہ آرائی کا جواز پیدا کرنا ہمارے نزدیک بین الانسانی اخلاق کے لحاظ سے بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہمارا اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ احمدیوں کو اپنے عقائد کی برسرعام اشاعت اور تبلیغ کے لئے کھلی چھٹی دے دی جائے۔ احمدی ہوں یا غیر احمدی کسی کو کسی کے جذبات کی بے احترامی کی اس سرزمین پر اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ امن اور رحمت کی سرزمین ہے جسے ہم نے لاکھوں جان` مالی اور آبروئی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ اس سرزمین پر اس قسم کی ہنگامہ آرائیوں کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ دشمنان وطن اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر ملک کی توجہ تعمیری کاموں سے ہٹا کر ہماری تباہی کا باعث بنیں اور بس۔ احمدیوں کے عقائد کی تردید اور مخالفت بوجہاحسن بھی ہوسکتی ہے وہ اس طرح کہ علمائے اسلام متفقہ طور پر ان صحیح عقائد سے مسلمانوں کو روشناس کرنے کی کوشش کریں جنہیں اچھی طرح سمجھ کر کوئی مسلمان احمدیون کے پھندے میں نہیں پھنس سکے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس موعظہ حسنہ سے بعض احمدی حضرات بھی آپ کے ہم خیال ہوجائیں۔ کسی کے عقیدہ کو طاقت اور قانون سے توڑنا کامیابی کی دلیل نہیں ہوسکتی۔<۷۷
مطالبہ غیر مسلم اقلیت اور برصغیر کی ممتاز مسلم شخصیتیں
ان دنوں >مطالبہ غیر اقلیتی< کی برصغیر پاک و ہند کی جن شخصیتوں نے زبردست مذمت کی ان کے نام یہ ہیں:۔
۱- دیو بندی عالم مولانا منور الدین صاحب۔ ۲۔ اہل حدیث عالم مولانا محی الدین صاحب قصوری ۳۔ ممتاز صحافی مولانا عبدالمجید سالک۔ ۴۔ صدق جدید لکھنئو کے ایڈیٹر مولانا عبدالماجد صاحب دریا آبادی ۔۵۔ مصور فطرت خواجہ حسن نظامی مدیر منادی دہلی۔۶۔ بھارتی مسلمانوں کے رسالہ >مولوی< کے مدیرمولوی عبدالحمیدی خاں صاحب۔
۱- مولانا منور الدین صاحب )معتقد مولانا حسین علی آف واں بھچراں ضلع میانوالی( نے اپنے رسلالہ >مکتوب بنام علماء< میں لکھا:۔
>حضرات میں یقیناً کہتا ہوں جس ڈھب سے تم لوگ مرزائیوں پر فتح پانا چاہتے ہوں اس میں تم ہر گز کامیاب نہ ہوسکو گے کیونکہ اعداء پر فتح پانے کی جو شرائط قرآن مجید نے بیان کی ہیں قرآن کو اٹھا کر پڑھو خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے انا لننصر رسلان والذین امنو۔<۷۸ادھر تمہارے لیڈروں کو ایمان کی خبر نہیں۔ خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے۔ انتم الاعلون ان کنتم مومنین۔۷۹ ادھر تمہاری تحریک میں اکثریت مشرکوں کی ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ومن یتول اللہ و رسولہ والذین امنوا فان حزباللہ ہم الغالبون۔۸۰ ادھر آپ کی nsk] [tagتولی والذین اشرکوا سے ہے خدا تعالیٰ کی ذات کو حاضر ناظر جانتے ہوئے آپ فرمائیں کیا یہ تحریک ساری کی ساری مجموعہ علماء سوء نہیں ؟ کیا اپ لوگ قلباً و صدراً ظفر علی خاں اور اختر علی جیسی ابناء الوقت کو دینی پیشواما نئے ہیں ؟ کیا تمہاری تحریک میں کوئی کامل اہل اللہ وارث علوم نبوی ہے > کیا تم میں کوئی حکیم الامت تھانوی جیسا ہے ؟ کیا تم میں کوئی اسمعیل شہید جیسا امام موجود ہے ؟ کیا تم میں کوئی جنید وقت حضرت مولانا حسین علی مرحوم جیسا کوئی موحد موجود ہے۔ ہاں لے دے کر آپ کے پاس ایک امیر شریعت موجود ہے جس کی شریعت کی حقیقت سے آپ لوگوں کے سینے تو واقف ہیں۔ لیکن کیا کہوں ان زبانوںکو جن پر آج مہریں لگ گئیں ہیں۔ ادھر خدا کے چند بندے جو خدا کی توحید سناتے تھے انہوں نے قسم اٹھالی کہ ہم کلمہ توحید ہرگز کسی کو نہسنائیں گے- گویا ان کے نزدیک ربانی حکم سبحو بکرہ واصیلا۸۱آج سے منسوخ ہوگیا ؟ جس کا یہ مطلب تھا کہ اے مومنو ! صبح شام خدا کی توحید بیان کرو اور اس کو شریکوں سے پاک کہو۔ سوچئے ! بھلا جس کشتی تحریک کے ایسے ناخداہوں کیا وہ ساحل تک پہنچ سکتی ہے ؟<
>حضرت تیر اصلاحاً کہتا ہوں کہ آپ کی تحریک کسی خدائی تحریک کے نقش قدم پر نہیں ہے کیونکہ آسمانی کتابیں گواہ ہیں کہ خدائی تحریکوں نے ابتداًء ہمیشہ دلائل سے کام لیا نہ کہ زور اور لاٹھیوں سے۔ ہاں باطل تحریکیں جب دلائل سے عاجز آجاتی ہیں تو کبھی اکثریت کے بل پر اقلیتوں کو ملک بدر کرنے کو تازیانہ دکھاتی ہیں جس طرح قوم لوط نے کہا لا لم تنتہ یا لوط لتکونن من المغرجین۔۸۲ اور کبھی واویلا کرتی ہیں کہ فلاں اقلیت ملک میں ارتدا پھیلنا چاہتی ہے اور ملک میں انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے جس طرح فرعون نے کہا انی اخاف ان یبدل دینکم او ان یظھر فی الارض الفساد۸۳ اور کبھی حکام کے پاس جا کر سچی اقلیتوں پر جھوٹے الزام لگاتی ہیں جن کی وجہ سے ہزاروں خدا کے پیارے بندوں کو بے جا آلام و مصائب کا شکار ہونا پڑتا ہے اسلامی تاریخ میں ذرا امام اعظم۔ امام احمد حنبل۔ امام ابن تیمیہ۔ مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہم کے حالات ملاحظہ فرمائے جائیں<
>اور باطل تحریکیں کبھی اکثریت کے نشہ میں اکر سچی اقلیتوں کو کچلنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں اور مملکت کے کونہ کونہ میں اپنے داعی بھیجتی ہیں جو عوام میں یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ فلاں اقلیت نے ہم کو تنگ کررکھا ہے آئو ہم سب اکٹھے ہو کر اس کا استیصال کردیں جس طرح فرعون نے کیا فارسل فرعون فی المدائن حشرین ان ھو لاء لشر ذمتہ قلیلون و انھم لنا لغائظون وانا لجمیع حذرون ۸۴
اس مقام پر میں حکومت پاکستان کے بااقتدار طبقہ کی روشن ضمیری پر بھی داد دیتا ہوں جنہوں نے خوب سمجھ لیا ہے کہ اگر بمطالبہ احرار آج مرزائیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تو کل دیو بندیوں کو اقلیت قرار دینا پڑے گا اور پرسوں اہلحدیثوں کو علی ہذا لقیاس۔ اور اس طرح سے ملت پاکستانیہ کا شیرازہ بکھر جائے گا اور نوزائیدہ مملکت کا وجود ہی سرے سے ختم ہوجائے گا۔ اور میں گورنر جنرل پاکستان کے ان الفاظ کی بہت قدر کرتا ہوں جو انہوں نے کراچی میں ایک کانفرنس میں کہے کہ گزشتہ ہزار سال میں شخصی حکومتوں اور ملائوں نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے<
>حضرت خدا اور انبیاء اور بعثت انبیاء اور آخرت کا واسطہ دیتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ تبلیغ توحید کو ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ کیا مشرکین سے الگ ہو کر ہم مرزائیوں کا رد نہیں کرسکتے۔ کیا علماء سوء کے تعاون کے )کے(۸۵ بغیر دین کا کام نہیں ہوسکتا ؟ کیا ختم نبوت کا مسئلہ ختم توحید کے بغیر حل نہ ہوسکتا تھا۔ مرزائیوں نے ایک فتنہ قلیلہ ہوتے ہوئے اتنی مخالفت کے باوجود اپنی تبلیغ کو نہ چھوڑا۔ اہل شرک و بدعت کے پیشوائوں نے یہ اعلان نہ کیا کہ آئندہ ہم عقائد شرکیہ کی تبلیغ نہ کریں گے مگر ہمارے موحد علماء نے سوچا کہ مصلحت وقت کا تقاضا ہے کہ مسئلہ توحید کو بند کردیا جائے کیونکہ تحریک کو نقصان پہنچتا ہے۔<
>میں پوچھتا ہوں اگر تحریک کے بااثر لوگ مشرک ہیں تو آپ لوگوں کو ان کی اطاعت کرنی ہوگی اور ان کی خوشامد کے لئے کتمان حق کرنا ہوگا جیسا کہ گجرات میں کیا گیا ہے تو پھر وان اطعتموھم انکم لمشرکون کے مصداق کون ہوں گے ؟ کیا مرزائیت کا دور ہمارے حضرت صاحب کی زندگی میں نہ تھا۔ کیا ان کی کوئی تحریر و تقریر ملتی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ جب تک مرزائیوں کو اقلیت قرار نہ دیا گیا میں گو لڑے والوں یا سیال والوں کے ساتھ مل کر دینی کام کروں گا ؟
خدارا سوچئے ! اگر کل ابوالحسنات` قمر دین سیالوی` پیرگولڑوی جن کے گھٹنوں پر تمہارے امیر شریعت نے لاہور میں سجدہ کیا یا شیعہ مجتہدین جیسے بزرگوں کے ہاتھ میں زمام حکومت آگئی اور قانون ان کے ہاتھ میں آگیا تو جیسے آج مرزائیوں کو اقلیت قرار دے رہے ہیں کل ہمیں اقلیت قرار دیں گے۔
اگر یہ لوگ برسراقتدار آگئے تو محمد بن عبدالوہاب` اسمعیل شہید` محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین تو ان کے ہاتھ نہ لگیں گے ہم ہی ہیں جو ان کی گولی کا اولین نشانہ بنیں گے۔
لٰہذا آخری التجا کرتا ہوں کہ ہم کو ان لوگوں سے کسی بھلائی کی امید نہ رکھنی چاہئے اور مرزائیوں سے بڑھ کر ان لوگوں کے عقائد شرکیہ کو دلائل سے رد کرنا چاہئے- اگر مرزائی اس وجہ سے کافرین سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک انسان میں وہ صفات اور کمالات ثابت کئے جو تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انسانوں میں پہلے پائے جاتے ہیں تو یہ لوگ جو ہزاروں انسانوں میں خدائی صفات ثابت کرتے ہیں یقیناً مشرک اور اصل ہیں۔
خدا کے لئے اپنے دلوں کو ٹٹولو اور ان سے پوچھو ان دونوں فتنوں میں کونسا بڑا فتنہ ہے<؟۸۶
۲- مولان محی الدین صاحب قصوری ممتاز اہلحدیث عالم نے لکھا:۔
>آب ذرا علمائے کرام کی حالت ملاحظہ فرمایئے:۔ ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ تمام ارکان اسلامی کا پابند ہے لیکن کسی ایک عقیدے یا عمل میں اس کا آپ سے اختالف ہے۔ بس وہ مرتد ہے۔ واجب القتل ہے۔ کوئی اگر ان سے کہہ دے کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص گمراہ ہے۔ اس کے بعد عقائد اسلام کے ٹھیٹھ عقائد کے خلاف ہیں۔ وہ فاسق ہے۔ لیکن خدارا آپ کس دلیل سے اسے مرتد کہتے ہیں۔ تو آپ خود >فھومنھم< کی بناء پر کافر` مرتد اور واجب القتل اور جہنمی ہیں۔ وزراء کے خلاف کچھ کہنے والا تو صرف یہاں چند مہینوں یا زیادہ سے زیادہ چند برسوں کے لئے محبوس کردیا جاتا ہے مگر ہمارے خدا فوجدار` خدائی جنت و دوزخ کے مالک ایسے آدمی کو اگلی دنیا میں بھی نہیں چھوڑتے۔
ہم نے صرف ان دو مثالوں پر اکتفاء کیا ہے۔ اگر زیادہ اطناب سے کام لیں تو صر فاس ایک موضوع پر پوری تصنیف تیار ہوجائے۔ بریلویوں کی طرف سے تمام اہل سنت والجماعت )اہل حدیث` دیوبندی` احناف وغیرہ( اور تمام شیعہ حضرات کی تکفیر` شیعہ صاحبان کی طرف سے تمام اہلت سنت و الجماعت اور بریلویوں کی بلکہ اہل سنت کے آئمہ ہدی خلفائے راشدین المحدثین کی تکفیر )نعوذ باللہ من ھذہ الاباطیل الکاذبہ : ان یقولون الا کذبا( اور پھر سب کی طرف سے )یعنی سنیوں اور شیعہ کے کل فرقوں کی طرف سے( مرزائیوں کی تکفیر کیا یہ اسی جہالت اور کبر و نخوت کا کرشمہ نہیں جو لوگوں کے دلوں میں نہ تو قرآن پاک کی وعید : ولا تقولو لمن القی الیکم السلم لست مومنا ۸۷ اور ان الذین فرقوا دینھم وکانو شیعا لست منھم فی شی۸۸ کا خوف پیدا ہونے دیتا ہے اور نہ ھل لا شققت قلبہ 4] fts[۸۹ کی تنبیہہ کی طرف انہیں وجہ ہونے دیتا ہے۔ کیا قران پاک اسی تحدید کا بالکل عملی نمونہ ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں پیش کرتا جو نبی اسرائیل کو ہوئی تھی؟ قالت الیھود لیست النصری علی شی وقالت النصری لیست الیھرد علی شی وھم یتلون الکتب۹۰ مجھے ذاتی طور سے علم ہے کہ لاہور کے دو نہایت جید دیوبندی علماء نے جن کی میرے دل میں عزت ہے برسرمجلس ایک جماعت کو مرتد کہہ کر اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا۔ لا یکادون یفقھون حدیثا۔<]4 [stf۹۱
۳- مولانا عبدالمجید خاں سالک نے تجویز پیش کی کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت تکفیر مسلمان کو قانوناً جرم قرار دے۔ ان کے الفاظ یہ تھے:۔
>اسلام کے بعد ایمان کا درجہ ہے اور قرآن مجید کے نزدیک ایمان یہ ہے کہ اللہ اس کے فرشتوں` پیغمبروں ` اس کی کتابوں ` حشر و نشر اور سزا و جزا کا اقرار کیا جائے۔ حدیث میں اسلام کے ارکان پانچ بیان کئے ہیں سہادت` نماز` روزہ` زکٰوۃ` حج
>صفت ایمان مفصل< اور ارکان اسلام پر عمل کا درجہ تو بعد میں آتا ہے اولین چیز توحید و رسالت کا اقرار ہے اور جو شخص یہ اقرار کرتا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت کا فر قرار نہیں دے سکتی۔ بخاری میں حدیث ہے۔ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں۔ ایک شخص نے حضورﷺ~ سے سوال کیا۔ اسلام کیا ہے؟ ارشاد ہوا اسلام یہ ہے کہ >تم اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو۔ نماز کو قائم کرو۔ رمضان میں روزہ رکھو اور زکٰوۃ۔< پھر جو شخص توحید و رسالت کا اقرار کرنے کے بعد حضور~صل۱~ کے ان احکام پر بھی عمل کرتا اس کو کون کا فرقرار دے سکتا ہے؟
قرآن حکیم کا حکم
سورۃ النساء میں الل¶ہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم بست مومنا جو شکص تم کو سلام کہے اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ یعنی اللہ کے نزدیک اس شخص کو کبھی کافر قرار نہیں دیا جاسکتا جو مسلمانوں کو >السلام علیکم< کہتا ہے۔ اس پر بعض شائقین تکفیر کہا کرتے ہیں کہ اگر کوئی عیسائی یا ہندو ہم کو سلام کہے تو کیا ہم اس کو بھی مسلمان مان لیں؟ اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ تمہارے اعتراض کا جواب ہم نہیں دے سکتے کیونکہ آیت صاف ہے اور اللہ کا حکم ہے اگر تم اللہ کے بندے ہو تو تمہیں اللہ کا حکم ماننا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ >لست مومنا< کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کسی مومن کو یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے جس حالت میں وہ تم کو مومنا نہ سلام کہتا ہے۔ غیر مسلم کا تو اس سے تعلق ہی نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ جو شخص مسلمان کہلاتا ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ ظاہر اخوت کا ثبوت )یعنی سلام و کلام بھی دیتا ہے اس کو کافر کہنا ازروئے قرآن ممنوع ہے۔
حدیث رسولﷺ~ کا حکم
عن ابن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذالک المسلک الذی لہ ذمتہ اللہ و ذمہ رسول اللہ فلا تخفر واللہ فی ذمتہ )بخاری کتاب الصلٰوہ(
انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں فرمایا رسول اللہ~صل۱~ جو شخص ہماری طرح نماز پڑھتا ہے` ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہے تو یہ شخص مسلم ہے جس کیلئے اللہ کا عہد ہے اور رسول اللہ کا عہد ہے پس اللہ کے عہد کو نہ توڑو حضورﷺ~ نے فرمایا جس نے لا الہ الا اللہ کہنے والون کی تکفیر کی وہ خود کفر سے زیادہ قریب ہے۔
ایسی حدیثیں متعدد ہیں جن میں حضورﷺ~ کے قول و عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص توحید کا اقرار کر لیتا تھا حضورﷺ~ اسے مسلمان سمجھتے تھے۔ اور اگر کوئی اعتراض کرتا تھا کہ فلاں شخص شاید ولی سے مسلمان نہ ہوا ہو تو حضورﷺ~ فرماتے کہ مجھے یہ حکم نہیں ملا کہ میں لوگوں کے دلوں کو پھاڑ کر دیکھوں۔ اسلام کے لئے اقرار کافی ہے۔
آئمہ اسلام اور تکفیر
ہمارے آئمہ کبارنے اہل قبلہ کی تکفیر کو ہمیشہ ناواجب ٹھہرایا ہے۔ امام ملحاوی نے کیا خوب بات کہی ہے کہ جس اقرار کے بعد کوئی مسلمان ہوتا ہے جب تک اس اقرار سے برگشتہ نہ ہو دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتا۹۲ )رد المحتار سوم صفحہ ۳۱۱(
ساری دنیا جانتی ہے کہ ایک کافر جس وقت کلمہ پڑھ کر توحید و رسالت کا اقرار کر لیتا ہے تو مسلمان ہوجاتا ہے اور تمام مسلم اور غیر مسلم اس کو مسلمان سمجھ لیتے ہیں۔ اب جب تک وہ اس اقرار کو واپس نہ لے یعنی توحید و رسالت سے منکر نہ ہوجائے اس کو کافر اور غیر مسلمکیونکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ حاکم نے اپنی کتاب منتفیٰ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ سے بیان کیا ہے کہ وہ اہل قبلہ میں سے کسی کو بھی کافر نہیں کہتے اور ابوبکر رازی نے امام کرخی سے بھی یہی روایات کی ہیں۔ )شرح مواقف(
شرح عقائد نفسی صفحہ ۱۲۱ میں لکھا ہے کہ اہل السنت والجماعت کے قواعد میں سے ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہ کی جائے۔
ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے وصال کے بعد مسلمانوں میں کئی امور پر اختلاف ہوا۔ وہ ایک دوسرے کو گمراہ کہنے لگے اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے لیکن اسلام ان سب کو یکجا کر کے اپنے دائرہ میں جمع کرتا ہے۔ >)مقالات الاسلامیین< ابوالحسن اشعری صفحہ ۱`۲(
مولانا احمد بن المصطفیٰ کہتے ہیں کہ حنفیوں` شافعیوں` مالکیوں اور اشعریوں کے معتمد علیہ اور مستند اماموں کی رائے یہی ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہا جاسکتا۔ )مفتاح دارالسعادۃ حصہ اول صفحہ ۴۶(
فقہ حنفی کی مستند ترین کتابوں سے صاف ظاہر ہے کہ اہل السنت کو تکفیر کی ممانعت کی گئی ہے۔ مثلاً ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
کسی مسلمان کی تکفیر نہ کی جائے جب تک اس کے کلافم کے کوئی اچھے معنی نہ لئے جاسکیں۔ )در مختار(
اگر کسی مسئلے میں ننانوے وجوہ کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفی کفر کا` تو قاضی و مفتی کا فرض ہے کہ اس احتمال کو اختیار کرے جو نفی کفر کا ہے۔ )شرح فقہ اکبر ملا علی قاری صفحہ ۱۴۶(
جب کسی مسئلے میں کئی وجوہ کفر کے ہوں اور ایک وجہ عدم تکفیر کی ہو تو مفتی پر واجب ہے کہ وہ حسن کی راہ سے اسی وجہ کو اختیار کرے جو تکفیر کی مانع ہے۔ )سل الحسام الہندی سید محمد عابدین صفحہ ۴۵(
ہم کسی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے۔ اگرچہ وہ بہت سی باتوں میں باطل پر ہی ہو۔ کیونکہ اقرار تو حید الٰہی تصدیق رسالت محمدیہ اور توجہ الی القبلہ کے بعد کوئی شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور آنحضرت~صل۱~ نے فرمایاکہ جو لوگ لا الہ الا اللہ انہیں کافر نہ کہو۔ )علم الکتاب میر درد صفحہ ۷۵(
حضرت شاہ اسمعیل شہید نے اپنی کتاب >منصب امامت< میں جہاں بعض سلاطین کو ان کے اعمال بد پر زجرو تو بیخ کی ہے وہاں یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ لوگ چونکہ ظاہری شعائر اسلامی مثلاً ختنہ` عیدین پر اظہار شکریہ` تجہیز و تکفین` نماز جنازہ وغیرہ کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔
>پس یہ دعویٰ اسلام جو ظاہر اطوار پر ان کی زبانوں سی صادر ہوتا ہے انہیں کفر صریح سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگرچہ آخرت کے مواخذہ کے لئے خفیہ کفر کافی ہے لیکن ظاہری اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے ساتھ دنیوی احکام میں مسلمانوں کا سا سلوک کیا جائے۔ اور معاملات کی حد تک انہیں بھی مسلمانوں میں ہی شمار کیا جائے۔<
ابو الحسن اشعری نے اپنی کتاب >مقالات الاسلامیین واختلاف المصلین< میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کا ذکر کیا ہے مثلاً شیعہ` خوارج` مرحبہ` معتزلہ وگیرہ پھر ان فرقوں کے اندرونی گروہون پربھی بحث کی ہے۔ مثلاً شیعہ کے تین گروہ ہیں غالیہ` رافضہ` زیدیہ` ان میں سے غالیہ کے پندرہ چھوٹے گروہ ہیں۔ اشعری کے نزدیک یہ بھی مسلمان ہیں یہاں تک کہ وہ غالیہ کو خارج از اسلام قرار نہیں دیتے حلانکہ وہ اپنے ایک سردار کو نبی کا رتبہ دیتے ہیں۔ مثلاً بیانیہ فرقہ کے لوگ ایک شخص بیان کو عبداللہ بن معاویہ کے پیرو اس کو اپنا خدا وند اور پیغمبر مانتے ہیں لیکن چونکہ یہ سب لوگ حضرت رسول کریم~صل۱~ کی نبوت اور قران مجید کا کلام الٰہی ہونا تسلیم کرتے ہیں اس لئے وہ خارج از اسلام قرار نہیں دیئے جاتے۔۹۴
مسلمانوں کو کافر نہ بنائو
غرض جہاں تک دیکھا جائے کتاب اللہ` حدیث رسول اللہ` تصانیف اہل ` السنت والجماعت میں تکفیر اہل قبلہ کو قطعی طور پر ناجائز قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ دین اسلام دنیا میں توحید و رسالت کا اقرار کرانے کے لئے آیا تھا اس لئے نہیں آیا کہ اچھے خاصے توحید و رسالت کے اقرار انسانوں کو جو مسلمان ہیں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور مسلمان ہی رہنا چاہتے ہیں زبردستی اسلام کے دائرہ سے نکال کر باہر کرے۔ یہ تکفیر کا مشغلہ پاکستان میں مسلمانوں کی وحدت کے لئے سخت مہلک ہے- اگر اس کو رائے عامہ نے اپنی قوت سے فوراً دبانہ دیا تو دین مقدس اور ملت پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
کفر کی دو قسمیں
ممکن ہے تکفیر کے بعض شوقیں بزرگان اسلام کی بعض تحریروں سے ایسے اقوال نقل کریں جن میں بعض مسائل پر >کفر< کی مہر لگائی گئی ہے اس لئے میں یہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کفر کی دو قسمیں ہیں جیسا کہ علامہ ابن اثیر اپنی کتاب >نہایہ< میں لکھتے ہیں:۔
کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک کفر تو وہ ہے جس میں خود دین کا انکار ہو )یعنی توحید و رسالت کا( اور دوسرا کفر یہ ہے جس میں کسی فرع کا انکار ہو۔ احکام اسلامی فروع کا حکم رکھتے ہیں ان میں سے کسی کے انکار سے کوئی شخص دین سے خارج نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں قتال بھی شروع کردیں جو صریحاً دین و ملت کے مقاصد کے خلاف ہے تو خود قرآن بھی ان کو کافر نہیں کہتا بلکہ ان کو >طائفتان من المومنین< قرار دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ یعنی وہ آپس میں لڑنے کے بعد بھی مومن ہی رہتے ہیں کافر نہیں ہوجاتے۔
علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ علامہ ازہری سے کسی نے پوچھا کہ آیا فلاں شخص فلاں قسم کی رائے ظاہر کرنے کی وجہ سے کافر ہوگیا جواب ملا کہ ایسی رائے کفر ہے۔ پوچھا گیا کیا وہ مسلمان رہا؟ آپ نے جواب دیا بعض اوقات مسلمان بھی کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے۔۹۵
اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان کوئی کافرانہ عمل بھی کرے تو اس کو فاسق` عاصی ` گمراہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن کافر نہیں کہہ سکتے۔ جس طرح اگر کسی کافر سے کوئی مومنانہ عمل سرزد ہوجائے تو اس عمل کو تو مومنانہ کہہ سکتے ہیں لیکن وہ کافر محض اس عمل سے مومن و مسلم تسلیم نہیں کیا جاسکتا ¶کیونکہ مسلم اور کافر کے درمیان خط فاضل توحید اور رسالت کا اقرار ہے-
ہر مسلمان کہلانے والا مسلمان ہے
لٰہذا ہر شخص جو توحید و رسالت کا اقراری ہے وہ مسلمان ہے۔ باقی رہے اس کے اعمال تو اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ اگر شریعت ظاہری ان اعمال کو جرم سمجھے گی تو اسے سزا دے گی اور اگر وہ اعمال شریعت کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے عذاب دے گا ہمارا کام صرف اتنا ہی ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ہر قائل کو مسلمان سمجھیں اور مسلمانوں کی تکفیر کو ہمیشہ کے لئے ترک کردیں بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ اسلامی حکومت تکفیر مسلمین کو قانوناً جرم قرار دے تاکہ معاشرہ اسلامی اس *** سے ہمیشہ کے لئے پاک ہوجائے<۹۶
۴۔ مولانا عبدالمجاد صاحب دریا بادی مدیر >صدق جدید< کو ہمیشہ یہ خصوصیت حال رہی ہے کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کی تکفیر کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کی ہے اور ان ایام میں تو آپ نے مسلسل پر زور شدزرات سپرد قلم فرمائے- مثلاً ایک صاحب نے لائل پور سے مولانا عبدالماجد خاں صاحب دریا بادی کو بطور شکوہ لکھا کہ وہ >متفقہ مطالبہ تکفیر< کی مخالفت کیون کررہے ہیں ؟ آپ نے اس کا جواب حسب ذیل الفاظ میں دیا:۔
>یہ مطالبہ اگر مکتوب نگار صاحب اپنے دل میں سوچیں تو انہیں خود کچھ عجیب سا نظر آئے گا کہ مدیر >صدق< کے نزدیک تکفیر قادیانیہ کا فتویٰ غیر مدلل ہو۔ غیر تشقی بخش ہو پھر بھی اسے بولنے کا حق نہ تھا۔ اسے خاموشی ہی اختیار کر لینا تھی۔ گویا اظہار حق کا حق صرف اکثریت کو حاصل ہے۔ اور جو فرد اپنے کو اس درجہ میں حق پر سمجھتا ہے لیکن چونکہ اقلیت میں ہے اس لئے اسے اکثریت پر جرح کا بھی حق نہیں اور اس پر لازم ہے کہ اگر وہ بے چون و چرا سر اطاعت ختم نہیں کرتا تو کم از کم خاموش ہی رہے خواہ اس میںاپنے ضمیر و دیانت کا گلا ہی گھونٹ دینا پڑے۔
اکثریت کی یہ نازک مزاجی مکتوب نگار خود غور کریں کہ کسی حد تک معقول ہے۔ ~}~
ع کان ان کے نازم کہ گراں میری غزل بھی
مکتوب میں کوئی نئی اور مستقل دلیل تکفیر قادیانیہ پر پیش کرنے کی بجائے اکتفا صرف اس پر کیا گیا ہے کہ یہ چونکہ دنیائے اسلام کا فتویٰ ہے متفقہ فیصلہ ہے۔ فلاں فلاں بزرگوں کا اس پر اجماع ہوچکا ہے اس لئے یہ بہر صورت واجب التسلیم ہے۔ لیکن گزارش یہی ہے کہ اتفاق رائے کا یہ مظر >بے نظیر< آخر کیسے قرار دے لیا گیا ہے ؟ یہ اتفاق و اجماع کب اور کس فرقہ کی تکفیر سے متعلق ایسے ہی بزرگوں کا نہیں ہوچکا ہے ؟ کون فرقہ ایسا ہے۔ کس کی تکفیر کا اعلان بالجبر انہیں دلائل کے ماتحت اس جوش و قوت کے ساتھ بار بار نہیں کیا جاچکا ہے؟ کیا فرقہ شیعہ ؟ مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی مدظلہ ماشاء اللہ ابھی ہمارے درمیان بہ خیریت و عافیت موجود ہیں اور وہ یقیناً اہل سنت کے ایک بڑے اور ممتاز عالم دین ہیں ذرا انہیں سے دریافت فرمایا جائے ان کے قلم کا مرتب کیا ہوا >علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ )یہ لفظ یاد رہے( درباب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ< ابھی یاد میں تازہ ہے جس میں یہ تفریح موجود ہے کہ شیعوں کی تکفیر میں کسی کو اختلاف ہو ہی نہیں سکتا۔ اور تصریح در تصریح یہ کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام` ان سے مناکحت ناجائز` ان کا جنازہ پڑھنا ناجائز` انہیں اپنے جنازوں میں شریک کرنا ناجائز` ان کا چندہ اپنی مسجدوں میں لینا ناجائز۔ غرض یہ کہ ان سے کوئی سا بھی معاملہ مسلمانوں کا سا کرنا جائز نہیں۔ گویا سید کلب حسین اورلالہ گھگوان دین ایک سطح پر۔
اس فتویٰ کفر و ارتداد شیعہ پر آپ دستخط سنیں گے کہ کن کن بزرگوں کے ہیں۔ کہنا چاہئے کہ سارے دیوبند کے ` مولانا مرتضیٰ حسین` مولانا حسین احمد` مولانا محمد شفیع` مولانا اعزاز علی` مولانا اصغر حسین` مولانا عقیل احمد` مولانا محمد انور )عجب نہیں کہ یہ وہی مشہور فاضل عصر مولانا انور شاہ کاشمیری ہی ہوں( مولانا محمد طیب` مولانا مفتی مہدی حسنشاہجہانپوری` مولانا محمد چراغ )گوجرانوالہ( مولانا محمد منظور نعمانی وغیرہ۔ پھر اس نہلہ پر دہلہ جناب ناظام صاحب تعلیمات دیوبند کے قلم سے کہ >اور صرف مرتد اور کافر خارج از اسلام ہی نہیں ہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بھی اس درجہ میں ہیں کہ دوسرے فریق کم ہی نکلیں گے< اور اس متفقہ فتویٰ میں تائیدی حوالہ حضرت بحر العلوم فرنگی محلی کا بھی درج ہے۔ اور خود موجودہ امیر شریعت پنجاب آج سے چند سال قبل اپنی لکھنئو )احالہ شیخ شوکت علی( کی تقریروں میں فرقہ شیعہ کے باب میں جو کچھ فرما چکے ہیں اسے کوئی کیسے بھلا دے ؟
پھر انہیں حضرات کا فیصلہ ایسے ہی دلائل کی بناء پر اسماعیلیوں اور آغا خاں اور سارے آغا خانیوں کے کفر اور اسلام سے متعلق کیا ہے؟
اور خود بانی پاکستان قائداعظم کے عقائد مذہبی سے متعلق انہیں مقدمات ومبادی کو تسلیم کرنے کے بعد فتویٰ کیا مرتب ہوتا ہے ؟
سرسید کا زمانہ گزرے ابھی ایک ہی پشت ہوئی ہے۔ مکتوب نگار کے علم یا حافظہ میں یقیناً یہ حقیقت محفوظ نہیں رہی کہ >جمہور علماء< کے حلقہ میں ان کا استقبال کس روش و انداز سے ہوا تھا ؟ وہ >پیرنیچر< شائد مرزائے قادیان اور اس کے پیرو >نیچری< شائد قادیانیوں سے کچھ بڑھ چڑھ کر ہی تھے اور ان کے اسلام کا دعویٰ کرنا >خرق اجماع< کا مرتکب ہونا تھا۔ اپ اسے مبالغہ سمجھ رہے ہیں ؟ مولوی امداد العلی مرحوم کا رسالہ >امداد الافاق بہ رحم اہل النفاق< کسی لائبریری کے پرانے ذخیروں میں دبا دیا ہوا ضرور پڑا مل جائے گا۔ ذرا اسے ملاحظہ فرما لیا جائے یا اس زمانہ کے دوسرے اخبارات اور رسالوں کی فائلوں کو لکھنئو` دہلی` سہانپور` رام پور` ہندوستان کے ہر ہر شہر کے فقہاء کرام کا متفقہ فتویٰ اس شخص کے کفر و ارتداد اور اس کے کالج اس کی کانفرنس سب کی ملعونیت پر ناطق ملے گا۔ دہلوی فتویٰ آپ سنیں گے ؟
>ایسے مکان نااک کا نام مدرسہ رکھنا اور محل تعلیم و تحصیل سمجھنا آدمیت سے نکلنا ہے- اور زمرہ حیوانات میں داخل ہونا ہے صرف کرنا مال کا ایسے محل میں موجب کندہ ہونا جہنم` اور ایسے بے محل میں ساعی ہونا ہیمہ اور حطب بننا لازم۔< ۹۷
اور لکھنئوی فرنگی محلی فتویٰ:۔
>وجود شیطان اوراجنہ کا منصوص قطعی ہیں اور منکر اس کا شیطان ہے بلکہ اس سے بھی زائد کیونکہ خود شیطان کو بھی اپنے وجود سے انکار نہیں وہ شخص مخرب دین ابلیس لعین کے وسوسہ سے صورت اسلام میں تخریب دین محمدی کی فکر میں ہے۔< ۷۸
اور مفتیان حرم شریف حنفیہ` شافعیہ` مالکیہ` حنبلیہ چاروں مفتی صاحبان کے متفقہ فیصلہ کی تاب آپ آج لاسکیں گے ؟
>یہ شخص ضال و مضل ہے بلکہ ابلیس لعین کا خلیفہ ہے اس کا فتنہ یہود و نصارے کے فتنہ سے بھی بڑھ کر ہے خدا اس کو سمجھے۔ واجب ہے اولوالامر پر اس سے انتقال لینا اگر باز آوے تو بہتر ہے ورنہ ضرب اور جنس سے اس کی تادیب کرنی چاہئے۔< ۹۹
مدینہ منورہ کے مفتی احناف کا قلم کیوں پیچھے رہنے لگا تھا ؟
>یہ شخص یا تو ملحد ہے یا شرع سے کفر کی کسی جانب مائل ہوگیا ہے یا زندیق ہے کہ کوئی دین نہں رکھتا یا اباحی ہے کیونکہ متحنقہ کا کھانا مباح بتاتا ہے اور اہل مذہب )حنفیہ( کے بیانات سے مفہوم ہوتا ہے کہ ایسی لوگوں کی توبہ گرفتاری کے بعد قبول نہیں ہوتی ورنہ اس کا قتل واجب ہے دین کی حفاظت کے لئے اور ولاۃ امر پر واجب ہے کہ ایسا کریں۔< ۱۰۰
اور شیعہ نیچر یہ اسماعیلیہ کے علاوہ عام اہل اہوا و بدعت و خوارج اور >)وہابیہ تجدید(< اور تازہ ترین >مودودیہ< سے متعلق جوجو موتی قلم پروچکا ہے اگر ان سب کے اقتباسات نمونہ کے طور پر ہی نقل ہونے لگیں تو مقالہ رسالہ نہیں پوری ضخیم کتاب بن جائے۔ مغالطہ سب میں مشترک ہے بس یہی ہے کہ نصوص کی تاویل و تعبیر کو ہر جگہ انکار و تکذیب کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے اور تاویل و تعبیر میں ٹھوکر کھانے والوں کو جوش دینی سے مغلوب ہو کر منکرین و مکذبین کے حکم میں رکھ دیا گیا ہے۔ اس بے علم و بے عمل کے دل میں اپنے اکابر کی بحمد اللہ پوری عزت و رفعت عظمت و عقیدت موجود ہے لیکن انقیاد کامل کا رشتہ صرف ذات رسول معصوم کے ساتھ محدود و مخصوص ہے اور جو حضرات آج اپنے علماء و شیوخ کے ہر فیصلہ کو ناطق اور ان کے ہر قول کو
گفتہ او گفتہ اللہ بود
سمجھے ہوئے ہیں۔ وہ خوش عقیدگی کے غلو میں مبتلا ہیں اور نادانستہ و غیر شعوری طور پر سہی عملاً خود ختم نبوت کے منکر ہورہے ہیں کہ غیر معصوم کو معصوم کے درجہ پر رکھے ہوئے ہیں
آج سے ۳۰ ۔ ۱۳ سال پیشتر جب تحریک خلافت ہندوستان میں زور شور سے اٹھی ہر شہر ہر قریہ میں مجلس خلافت بننے لگی اور بوڑھے سے لے کر بچے تک پورے جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگے تو ایک بڑا اہم اور سنجیدہ مسئلہ یہی پیش ہو اتھا کہ آخر مسلمان سمجھا کس کو جائے گا ؟ اور کن کن فرقوں کو امت سے الگ رکھا جائے گا ؟ اس وقت پورے غور و خوض کے بعد بڑے بڑے علما و مفکرین امت کے مشورہ سے یہی فارمولا طے ہوا تھا کہ جو بھی اپنے کو مسلمان کہے اور توحید و رسالت کا قائل ہو پس اسے مسلمان سمجھا جائے گا اور اس کے دوسرے عقائد سے قطع نظر کر لی جائے گی۔ ان غلط و باطل عقائد پر جرح یقیناً بجائے خود جاری رہے گی لیکن کسی کلمہ گو کو بھی اسلام کی عام وسیع برادری سے خارج نہ کیا جائے گا۔۔ مجلس خلافت کے زمانہ میں غالباً سرکار کی طرف سے سوال اٹھا تھا کہ مسلمان کسے سمجھا جائے ؟ اس کا جوبا اس مرد ظریف و لطیف نے یہ دیا تھا کہ جو رائے شمار کے رجسٹر میں مسلمان لکھائے وحدت کلمہ کی یہ ضرورت جب اس وقت تھی تو موجودہ حالت ضعف و انتشار میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔
جن حضرات نے دین کے تحفظ کی خاطر اخلاص نیت سی کفر کے فتوے دئے ہیں یقیناً وہ عند اللہ ماجور ہوں گے لیکن دوسرے شائع معذور ہیں جنہوں نے اپنی فہم و بصیرت کے موافق اس قطع و برید و عمل اخراج کو امت کے حق میں زہر سمجھا ہے )اور ان ہی میں مولانا محمد علی اور شوکت علی اور خود قائداعظم سے لے کر آپ کے صوبہ کے مہر صاحب اور سالک صاحب شامل ہیں( انہیں بھی ¶اخلاص اسلامی اور درد ملی سے معرانہ سمجھ لیا جائے۔<۱۰۱
مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے ایک اور خط کے جواب میں لکھا:۔
tav.13.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
>ختم نبوت اور ہم<
ایک طرف ایک ایسا شخص ہے جو ختم نبوت کا قولاً منکر ہے)؟( اب دوسری طرف ایک شخص ہے جو قولاً تو منکر نہیں ہے لیکن عملاً اس کی تکذیب کرتا ہے آپ اس کو مسلمان کہتے ہیں حالانکہ حقیقت میں دونوں ہی ختم نبوت کا انکار کررہے ہیں زبانی اقرار کی وجہ سے فقہی طور پر ہم اس کو کافر نہ کہیں یہ اور بات ہے لیکن آیا میزان عمل میں بھی کوئی قدر و قیمت و زن رکھے گا یا نہیں؟ قابل غور ہے۔
پھر ذرا سوچئے تو سہی کہ آج دنیا بھر کے مسلمانوں میں کتنے فیصدی ایسے ہیں کہ ختم نبوت کے عملاً معتقد ہیں؟ جاہلوں اور امیدوں ہی میں نہیں عالموں اور صوفیوں میں بھی قادیانیوں کو کافر کہنے والوں اور ظفر اللہ خان کو وزارت سے برطرف کرنے والون کو بھی ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر سوچنا چاہئے کہ کہیں خدانخواستہ ع
ہم الزام ان کو دیتے تھی قصور اپنا نکل آیا
والا معاملہ تو نہیں ہے؟ کیا ہم نے اپنے سیاست و معیشت` اخلاق و معاشرت` حکومت و عدالت سے اس عقیدہ کو عملاً خیر باد نہیں کہہ دیا ہے؟ کیا ہمارے مدرسے` خانقاہ بھی اب اس کی روح سے خالی ہوگئے ہیں۔ پھر ایک فریق ایک جرم کی وجہ سے کافر اور گردن زدنی اور دوسرا قریباً اسی جرم کا مجرم لیکن نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے۔ )الانصاف(۔< ۱۰۲
۵- خواجہ حسن نظامی صاحب نے اخبار >منادی< بابت ماہ جون ۱۹۵۲ء میں لکھا:۔
>میں نے مئی کے منادی میں قادیانی جماعت کرای کی نسبت لکھا تھا کہ اس جماعت کے جلسے کے خلاف جو ہنگامہ ہوا وہ مصلحت وقت کے خلاف تھا۔ میں نے قرآن مجید کی آیت بھی لکھی تھی کہ خدا نے فرمایا ہے کہ ہر شخص سے اس کے عمل کا حساب لیا جائے گا دوسروں کے اعمال کو پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور یہ بھی لکھا تھا کہ میں قادیانی جماعت کے عقائد کے ہمیشہ خلاف رہا ہوں اور اب بھی خلاف ہوں مگر موجودہ وقت ایسا نازک ہے کہ مسلمانوں کو شیعہ` سنی` مقلد` غیر مقلد کے اختلافات ترک کردینے چاہئیں۔
چوہدری ظفر اللہ خاں نے باوجود قادیانی ہونے کے پاکستان بننے کے بعد سے آج تک یورپ اور امریکہ اور اسلامی دنیا میں جو خدمات پاکستان کی انجام دی ہیں وہ بے مثل ہیں- اگر پاکستان کی تخت گاہ کراچی میں مسلمان ان کی مخالفت کریں گے تو امریکہ اور یورپ اور اسلامی ملکوں کے دلون سے پاکستان کا وقار جاتا رہے گا۔
مجھے یقین تھا کہ کراچی میں مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی اور مولانا سید سلیمان صاحب ندوی جیسے معاملہ فہم اور تاریخ کے ماہر موجود ہیں وہ عوام کی غلط فہمیاں دور کردیں گے اور یہ فتنہ زیادہ نہ بڑھے گا مگر یہ میرا خیال غلط ثابت ہوا اور اخباروں نے ایک ایسی کبر شائع کی کہ میرا دل پاش پاش ہوگیا یعنی اخباروں نے شائع کیا کہ مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی اور مولانا سید سلیمان صاحبندوی وغیرہ علماء نے جمع ہو کر ایک نیا جلسہ کیا جس میں سر ظفر اللہ خان کو وزارت سے خارجہ سے الگ کردینے کا مطالبہ کیا گیا۔ مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی کو جب کراچی میں نظر بند کیا گیا تھا تو میں نے کراچی جا کر حاجی خواجہ شہاب الدین صاحب وزیر داخلہ پاکستان سے کہا تھا کہ آپ نے ایسے عالم کو نظر بند یا ہے جس نے ساری عمر مسلم لیگ کی خدمات انجام دی ہیں اور خواجہ شہاب الدین صاحب نے اس کو تسلیم کر کے نظر بندی کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ان کو رہا کردیا تھا۔
اور مولانا سید سلیمان صاحب ندوی کی نسبت تو بھارت کے پانچ کروڑ مسلمانوں اور پاکستان کے سب چھوٹے بڑے مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آج بھارت اور پاکستان میں ان سے زیادہ گذشتہ تاریخ کے نیک و بد حالات کے نتائج پر کسی دوسرے مورخ کی نظر نہیں جاتی۔ پھر میں کیونکہ یقین کر لوں کہ جو کچھ اخباروں میں چھپا ہے وہ درست ہے؟ اخباروں میں بہت سی غلط باتیں شائع ہوجاتی ہیں۔ میں پچاس برس سے اخبار نویسی کرتا ہوں اور آج کل باوجود بینائی خراب ہوجانے کے ہندوئوں اور مسلمانوں کے سب روزانہ اخبار پڑھتا ہوں اور بھارت اور پاکستان کے عوام کے رجحان طبع اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے جب میں نے مذکورہ خبر پڑھی تو بے اختیار میری زبان سے نکلا غلط ہے۔ مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا سید سلیمان ندوی کبھی ایسی بے عقلی کا کام نہیں کرسکتے لیکن اب تک کسی نے اس خبر کی تردید نہیں کی۔ پاکستان کے اخباروں کو بھی پڑھا ریڈیو بھی سنے مگر اس خبر کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی۔
اگر سچ مچ علماء مذکور نے ایسا جلسہ کیا تھا تو مجھے خدا کے سامنے سجدے میں گر کر اور رو رو کر دعا کرنی چاہئے کہ وہ علماء مذکور کو اس غلط طرز عمل سے بچائے اور یا مجھ کو اس دنیا سے جلدی اٹھالے تاکہ میں اپنی مسلمان قوم کی تباہی اور پاکستان کی تباہی نہ دیکھوں جو ایسے غلط کاموں سے ہونی ضروری ہے۔< ۱۰۳
۶۔ مولوی عبدالحمید خاں صاحب مدیر رسالہ >مولوی< )دہلی( )ذوالحجہ ۱۳۷۱ھ مطابق ستمبر ۱۹۵۲ء نے حسب ذیل اداریہ سپرد اشاعت کیا:۔
>آب ذرا ان کو بھی دیکھئے۔ یہ بھی اسی بدنصیب بھارت کے مسلمانوں ے خوش نصیب بھائی ہیں جن پر خدا کا >فضل< ہوا۔ آزادی ملی مختار ہوئے` اپنے آپ حاکم بنے` اپنی قسمتوں کے مالک ہوئے۔ ہاں بھارت کے مسلمان آسمانی بلائوں` اپنے وطنی بھائیوں کی بے انصافیوں سے پامال نڈھال وہاں ان ہی کے صدقہ میں پاکستان والے چونچال ۱۰۴ نہال نہال اور خوش حال ہوئے۔ ہم نے فاقوں پر بھی بھوک سے واویلا نہ کی کہ اسلام صبر کی تلقین کرتا ہے۔ ہم نے اپنی بے عزتی پر بھی بین نہ کیا کیونکہ قرآن کافران تھا کہ >نہیں آتی تم پر کوئی مصیبت مگر تمہارے ہی ہاتھوں۔< اب بین کا موقعہ تھا نہ شکوہ کا وقت غم ہے تو یہ اور صرف یہ کہ مسلمان کہیں پیٹ کے ئے دین نہ بیچ دیں اور کمیونزم کے سیلاب میں نہ بہہ جائیں کہ اس سے بھوک تو مٹے گی۔ تن پوشی تو ہو ہوگی مگر بہت بڑی قیمت دے کر >ایمان< واسلام<۔
ہم سر جوڑ کر بیٹھنے کے سو سو جتن کرتے ہیں۔ لڑنا بھول گئے۔ ایک دوسرے کے آنسو پونچھتے ہیں کہ اللہ کو راضی کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے بلکہ شاید یہی ایک طریقہ ہے۔ جب سیلاب آتا ہے تو شیر اور بھیڑ دونوں برابر کھڑے ہوجاتے ہیں تو یہ تو مصائب کا مال ہے۔
ان کا حال جن کو اللہ نے بندوں سے بے خوفی دی یہ ہے کہ ان کو اللہ کا خوف نہ رہا اور وہ سب کچھ کیا جو اللہہ کے پسندیدہ دین اسلام کے یکسر خلاف تھا۔ منہایت قبول کرنے کے ساتھ وہ آپس میں بھی شدومد سے دست و گریبان ہونے لگے۔ اگر آنکھیں غافل نہ ہوتیں تو اللہ کی ایک ہلکی سی تنبیہہ کافی تھی کہ اللہ نے ان کا رزق کم کردیا۔ جو ملک دوسرے ممالک کو غلہ فراہم کرتا تھا آج اسے دوسروں سے مانگنا پڑا۔
سنی سنی سے لڑتا ہے۔ شیعہ سنی سے لڑتا ہے اب مرزائیوں اور سنیوں کا مقابلہ ہے اور مقابلہ بھی ایسا سخت کہ اب مرزائی مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم اقلیت اور کافروں سے بھی بدتر۔
یہ کاغذی مولوی فتویٰ دینے کے اہل نہ اس نے فتویٰ بازی کو اپنے صفحات میں جگہ دی۔ اس کو یہ دکھ ہے کہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے والے پاکستانی غیر مسلموں کو کیا منہ دکھائیں گے؟ غیر مسلم کہتے ہیں کہ >وہ کبھی مسلم حکومت میں بے خوف اور باعزت نہیں رہ سکتے ہیں۔ ہوگا اسلام صلح کل اور اسلام قران میں ہو تو ہو ۔ مسلمانون میں کم از کم نہیں ہے۔ تمہاری کتنی ہی چھوٹی بڑی حکومتوں میں ایک پاکستان ہی کا تو دعویٰ تھا کہ وہ اسلامی حکومت ہے اور اس کی بنیاد ہی اس پر رکھیگ ئی اور تم ناسمجھ بھارت کے مسلمانوں نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنی زندگی خراب کر لی۔ اچھا احمدی ہم ہی جیسے غیر مسلم سہی تو کیا اسلام کہتا ہے کہ اپنے غیر مسلم محکوموں کے جان لیوا بن جائو۔ ان کی عزتیں خاک میں ملائو۔ ان سے نوکریاں واپس لے لو ۔ پرستانہ ۱۰۵ کرے اگر ان کو پورا بنگال ` آسام اور پورا پنجاب مل جاتا تو ہمارا کیا بناتے۔ بتلایئے ہمارے پاس کیا جواب ہے؟ ہم شرم نے نیچی گردنیں کر لیتے ہیں وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم احراریون کو لیگیوں سے بدرجہا بہتر سمجھتے تھے لیکن یہ بھی حکومت ملتے ہی ننگے ہوئے اور ہندو مسلم بھائی بھائی کہتے نہ تھکنے والے آج مسلم مسلم قصائی قصائی بن رہے ہیں۔<
ایک تو ہم پر فاقوں کی بھرمار دوسرے بے عزت اور بے کار اس پر ان طعنوں کی بوچھاڑ ہمارا ہی دل گردہ ہے کہ یہ سب سہہ رہے ہیں۔
نعوش باللہ من شرور انفسنا کبھی کبھی تو ہمارے دل میں وسوسہ اٹھنے لگتا ہے کہ ہمارے غیر مسلم بھائی جو مسلمانوں کے عمل سے اسلام کو برا سمجھتے ہیں کہیں یہ سچ تو نہیں ہے۔
شیعہ` سنیوں` وہابی اور بدعتیوں میں پہلے ہی یہ انتشار کیا کم تھا کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھتے تھے۔ ایک دوسرے کے ہاں شادی نہ کرتے تھے اور یہی بیوپار قادیانیوں سے بھی تھا۔ یہ افتراق نجی تھا منظر عام پر نہ آتا تھا کہ ایسی ہلڑ بازی ہوتی تھی کہ غیر مسلموں کو طعنہ زنی اور نشتر چبھونے کا موقعہ ملتا۔ آج پاکستانیوں نے اس کو بھی اجاگر کر کے اور ہمارا جینا دوبر کردیا۔
مذہبی موشگافیاں فتویٰ سازوں کو مبارک۔ اس کاغذی مولوی کو اس میں دخل نہیں۔ میں یہاں اپنے غیر مسلم بھائیوں سے موقعہ بہ موقعہ اسلام کی رواداریوں اور خوبیوں کا بقدر استطاعت ذکر کرتا رہتا تھا اور چاہتا تھا وہ مسلمانوں کو چاہئے برا کہیں لیکن اسلام کی خوبیوں کا بقدر استطاعت ذکر کرتا رہتا تھا اور چاہتا تھا وہ مسلمانوں کو چاہئے برا کہیں لیکن اسلام کی خوبیوں کے قائل ہوجائیں- ان میں سے ایک بھائی میرے چڑانے کو کہیں سے الفضل کا خاتم النبین نمبر ۱۰۶ اٹھا لائے اور مجھ سے فرمایا۔ مولوی جی ذرا اس کا پہلا پیج پڑھنا۔ یہ آپ کے دکھانے کو لایا ہوں۔ دیکھئے اس میں لکھا ہے:۔
>ہم سچے مسلمان ہیں< جماعت احمدیہ کسی نئے مذہب کی پابند نہیں بلکہ اسلام اس کا مذہب ہے اور اس سے ایک قدم ادھر ادھر ہونا وہ حرام اور موجب شقاوت خیال کرتی ہے اس کا نیا نام اس کے نئے مذہب پر دلالتنہیں کرتا بلکہ اس کی صرف یہ غرض ہے کہ یہ جماعت ان دوسرے لوگوں سے جو اسی طرح اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ممتاز حیثیت سے دنا میں پیش ہوسکے غرض ہم لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں اور ہر ایک ایسی بات کو جس کا ماننا ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے مانتے ہیں اور ہر وہ بات جس کا رد کرنا ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے اسے رد کرتے ہیں اور وہ شخص جو باوجود تمام صداقتوں کی تصدیق کرنے کے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو ماننے کے ہم پر کفر کا الزام لگاتا ہے اور کسی نئے مذہب کا ماننے والا قرار دیتا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں جواب دہ ہے۔ انسان اپنے منہ کی بات سے پکڑا جاتا ہے نہ کہ اپنے ل کے خیال پر۔ کون کہہ سکتا ہے کہ کسی کے دل میں کیا ہے؟ جو شخص کسی دوسرے پر الزام لگاتا ہے کہ جو کچھ یہ منہ سے کہتا ہے وہ اس کے دل میں نہیں ہے وہ خدائی کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ دلوں کا حال جاننے والا صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی کے دل میں کیا ہے۔< )دعوۃ الامیر ۱۰۷ صفحہ ۱`۲(
پھر فرمانے لگے کہ مولوی جی ہن دسو۔ اگر یہی بات پوری کی پوری میں کہوں تو کیا آپ مجھے مسلمان نہیں کہیں گے اور مجھے اپنا دینی بھائی نہیں جانیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر مجھ پر اتیاچار ہو اور یہ کہا جائے کہ تم مسلمان نہیں ہو تو کیا یہی اسلام کی تعلیم ہے؟ اور میں نے سنا ہے کہ غیر مسلم کو مسلمان کرتے وقت یہی تو اس سے کہلواتے ہیں۔ میں دم بخود رہ گیا۔ کیا شرما جی اس میں ایک بات یہ ہے کہ وہ ہمارے رسول کو خاتم الانبیاء نہیں مانتے۔ انہوں نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور کہا بھلا اس فقرے میں یہ بات نہیں آتی >اسلام کا مذہب ہے اور اس سے ایک قدم ادھر ادھر ہونا حرام اور موجوب شقاوت خیال کرتی ہے۔< کیا خاتم الانبیاء کی تصدیق کے لئے یہ کافی نہیں ہے اور جناب اس فقرے میں کیا خاتم الانبیاء کی تصدیق نہیں ہے۔< ہم لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں اور ہر ایک ایسی بات کو جو ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے مانتے ہیں اور ہر وہ بات جس کا رد کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے اسے رد کرتے ہیں۔ اب میں خاموش تھا۔ کہنے لگے کہ اگر میں مسلمان ہونا چاہوں تو اتنی بات کہہ دینی مسلمان ہونے کے لئے کافی سمجھتا ہوں- پھر قہقہہ لگایا اور کہا دیکھئے اب کیا فرمائیں گے آپ جناب مولوی صاحب ! احمدیوں کے امام کے بیانات پر جو اسی پرچہ کے صفحہ ۷ ء ۸ پر درج ہیں۔ انہوں نے ۲۷ جگہ اقرار کیا ہے کہ آپ رسولﷺ~ خاتم الانبیاء ہیں- اور سرخی دیکھئے >مجھ کو خدا کی عزت و جلال کی قسم کہ میں ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے رسول حضرت محمدﷺ~ تمام رسولوں سے افضل اور خاتم الانبیاء ہیں۔<
ایک غیر مسلم کو سمجھانے کے لئے میرے پاس کیا تھا؟ پسینہ آگیا کہ آب یہ میرے مسلمان ہونے اور اسلام کے گن گانے پر ہمیشہ قہقہہ ہی لگائیں گے پھر میں کیونکر اسلام کی رواداری پر بحث کرسکوں گا۔ شرماجی کو تاریخ اسلام پڑھنے کی کیا ضرورت ان کے تو آنکھوں کے سامنے مملکت اسلامی پاکستان کی جیتی جاگتی تاریخ موجود ہے۔
ہمارے سورما بھائیوں اگر اس کی تہہ میں کوئی سیاسی جوڑ توڑ تھا تو ویسے ہی دائو پیچ کرتے` ہماری گردنیں تو یہاں کے غیر مسلموں کے سامنے خم نہ ہوتیں اور ہم ان کی زبان سے اسلام رسوا ہوتا نہ دیکھتے۔
یہ ہیں ہمارے ابتلاء اور یہ ہیں ہماری مشکلات جن سے ہم اور مایوس وہراس مند ہوجاتے ہیں اور اے پاکستانی بھائیو آپ کی ان باتوں کا کوئی ڈیفنس نہیں کرسکتے۔
ہم نے آپ کے لئے اپنی ساری آسودگیاں نذر تباہی کیں- ہر مشکل پر صابر و صابط رہے۔ آپ سے کوئی مدد نہیں چاہی۔ آپ سے کسی ہمدردی کی توقع نہیں رکھی۔ جو بچے` بیویاں` مائیں` بہنیں ہم سے جدا ہو کر آپ کے زیر نگیں آئیں ہم نے تو ان کے مصائب پر بھی آپ کو متوجہ نہیں کیا اور بس
مرا بخیر تو امید نیست ` بدمرساں۔<۱۰۸
احرار کا مطالبہ اقلیت اور شیعان پاکستان
احمدیوں کو غیر مسلم اقلیتی قرار دینے کے مطالبہ پر پاکستان میں اہل تشیع کے مشہور آرگن درنجف )۲۴ اگست ۱۹۵۲ء( میں ایک شیعہ دوست کا حسب ذیل مکتوب شائع ہوا:۔
>میں اتفاق بین المسلمین کا ہمیشہ حامی رہا ہوں اور ہوں۔ لیکن صرف معاملات معاشرت اور حدود سیاست تک۔ ہمارا مذہبی اتحاد نہ کسی فرقہ سے ممکن ہے نہ آج تک ہوسکا۔ جب ہمارے اصول دین ہی کسی سے متحد نہیں تو دینی اتحاد کے کوئی معنی نہیں۔ اس لئے گذارش ہے حدود پاکستان میں جو خلفشار سواد اعظم اور جماعت قادیانیہ کے درمیان اس وقت نظر آرہا ہے اور اہل سنت زعم اکثریت میں قادیانیوں پر حملے کررہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ ان کی پرانی روایات ہیں جن کا دہرانا اگر فرض نہیں تو سیرت شخین کے لحاظ سے سنت ضرور ہوگا۔ سواد اعظم نے جب جہان کسی کو کمزور دیکھا بڑھ گئے۔ دبالیا تو شیر ورنہ میدان چھوڑ بھاگے۔
قادیانی جماعت کوئی اجنبی جماعت نہیں۔ سواد اعظم کی ایک شاخ` عقائد و اعمال میں ہم خیال` توحید` رسالت` امامت۔ قیامت میں سارے معتقدات قریب قریب یکساں` عبادات ملتے جلتے ہیں فرقہ` حقہ امامیہ کو نہ ان سے واسطہ نہ ان سے مطلب۔ پھر قادیانیوں کے ویساور بھی یہی ہیں جتنا مال اٹھایا اسی منڈی سے۔ خدا کا شکر ہے ہماری جماعت پر نہ کسی فرقہ باطلہ کا اثر اب تک ہوسکا نہ آئندہ بتصدق ائمہ المہار علیہم السلام اندیشہ ہے۔
ان حالات میں علماء شیعہ کا ختم نبوت کے نام پر ان برادران یوسف سے تعاون عمل کیسا؟ کیا اطیمنان ہوگیا؟ یہ لوگ ہماری دوست بن گئے۔ ان کے دلوں سے فرقہ شیعہ کی عداوت دیرینہ نکل گئی؟ حکومت بنی امیہ و بنی عباس کے روایات دہرائے نہیں جاسکتے؟ قادیانیوں پر کفر کے فتوے شائع کرنے والے ہم کو مسلمان سجھنے لگے؟ انہوں نے اپنے سابقہ فتوئوں سے توبہ کر لی؟ ان کی غلطی کا اعتراف کرچکے؟ عزاداری سید الشہدائؑ کو بدعت کہنا چھوڑ دیا؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو آپ حضرات کا ان سے کسی معاملہ میں تعاون کیا معنی رکھتا ہے؟
تعجب ہے جو لوگ رسول خداﷺ~ پر طرح طرح کے الزامات` قسم قسم کے اتہامات لگاتے رہے پیغمبر اسلامﷺ~ کو )معاذ اللہ( خاطی` گنہگار وغیرہ وغیرہ قرار دے کر نبوت رسالتﷺ~ تو درکنار آپ کی شرافت و نجابت سے بھی انکار کرتے رہے خدا جانے آج اثبات ختم نبوت پر کس منہ سے تیار ہوئے ہیں؟ اور اس سے زیادہ تعجب خیر و حیرت انگیز علمائے شیعہ کا ان سے تعاون ہے۔ اگر ایک خاطی غیر معصوم جس کی حیثیت بڑھے بھائی سے زیادہ نہ ہو اس کی ختم نبوت تو درکنار اصل نبوت ہی ثابت نہ ہو تو کیا تعجب؟ بالخصوص جب کہ اس جماعت کے سرپرست مولوی عنایت اللہ شاہ بخاری` مولوی محمد علی صاحب جالندھری` مولوی لعل حسین اختر جیسے حضرات ہوں تو ہمارا تعاون حیرت بالائے حیرت ہے ۱۰۹ یہ ہرسہ حضرات تقریباً تین سال ہوئے جیلانی متصل بھریاروڈ )سندھ( آئے تو اپنی تقریر میں کہا خلفائے راشدین تو بڑی چیز ہیں اگر امیر معاویہؓ کی شان میں بھی کوئی شخص گستاخی کا کلمہ کہے تو کافر خارج از اسلام۔ اس پر سید امام علی شاہ صاحب رئیس بھریا سٹی سے بحث ہوئی۔ دوران بحث میں فدک کا ذکر آگیا تو انہی مولوی صاحبان نے برجستہ کہا >حضرت ابوبکرؓ حق پر تھے بی بی فاطمہ زہرا کی سخت غلطی تھی جو ناجائز دعویٰ لے کر ان کے پاس گئیں۔< ان خیالات اور ایسے دریدہ دہن لوگوں سے علماء شیعہ کا اتحاد کسی جگہ ممکن ہے؟ مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے جامع مسجد خیر پور میرس میں اہلیت رسول علیہم السلام کی شان میں جس قدر سب دشتم کر کے شیعوں کی دلازاری کی اہل خیر پور ہی خوب واقف ہیں- بالخصوص معصومہ عالم کی ذات پر جو ناسزا الزامات لگائے بس خدا کی پناہ۔ آج تک اہالیان خیر پور بے چین ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی تعاون درست ہے؟ حضرات علماء کرام کو سمجھتے رہنا چاہئے کہ قادیانیوں سے ان کی ناچاقی ان کا گھریلو معاملہ ہے۔ کسی سیاسی مصلحت سے ناراض ہوگئے تو اپنی کمزور محسوس کر کے آپ حضرات کو اپنا ساتھی بنانے کی کوشش کی۔ آئو بھگت کر کے ریاکاری کا مکمل مظاہرہ کررہے ہیں جانتے ہیں کہ قادیانی علماء کا ہم مقابلہ نہیں کرسکتے ان کا منہ توڑ جواب اگر دے سکتے ہیں تو علمائے شیعہ اس لئے آپ کو ہر تدبیر سے ہمنوا بنا کر وقتی کام نکالنا چاہتے ہیں اور وقت نکل جانے پر حسب دستور قدیم آنکھیں پھر جائیں گی۔ غنیمت ہے اس وقت سواد اعظم اور ہمارے درمیان یہ قادیانی موجود ہیں اگر کبھی ان کو اس گروہ سے فرصت ملی تو دوسرا قدم ہمارے سروں پر رکھنے کی کوشش کریں گے- وہی ہتھیار جو آج قادیانیون کی گردن پر چلا رہے ہیں کل کو براہ راست دوبارہ تیز کر کے ہماری گردنوں پر چلائیں گے۔ جس طرح انکار خاتمیت کی وجہ سے قادیانیوں پر کفر کے فتوے لگائے جارہے ہیں کل کو انکار خلافت ثلاثہ کی وجہ سے ہم پر صادر ہو کر مطالبہ پیش کریں گے چونکہ روافض خلفائے راشدین سے حسن عقیدت نہیں رکھتے ان کی خلافت و امامت کے منکر ہیں اس لئے کافر ہیں ان کو غیر مسلم اقلیتی قرار دیا جائے۔
اس لئے بصد ادب التجا رہے کہ آپ اپنی اور اپنی پوری قوم کی حفاظت کی تدابیر پر غور کریں تاکہ برادران یوسف جب قادیانیوں سے فرصت پا کر ہماری طرف رخ کریں تو ہم بھی پوری طرح سے تیار ہوں-
آپ حضرات کے لئے یہ فرصت کا وقت اور اپنے تحفظ کے ذرائع پر غور کرنے کا قدرتی موقع ہے اور یہ کام موجود تعاون سے زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے۔ یہ لوگ جانیں ان کے بھائی قادیانی جانیں نہ ہم کو ان سے مطلب جنہوں نے سرہندی کو دوسری ہزار صدی کا مجدد مانا اور نہ ان سے واسطہ جنہوں نے مرزا غلام احمد کو چودھویں صدی کا مجدد مان لیا اور نہ ان سے تعلق جنہوں نے خاتم المرسلین کی نبوت کو جبریل امین کی طرفداری کا نتیجہ قرار دیا ورنہ حضرت ابوبکرؓ بنی ہوتے۔ نہ ایسے لوگوں سے غرض جو مرزا غلام احمد کو نبی جانتے ہیں۔ اصل یہ ہے سواد اعظم نے توہین رسول خدا میں کونسی کسر باقی رکھی جو قادیانی پوری کریں گے۔ فقط< ۱۱۰
احمدی علم کلام کی برتری کا بالواسطہ اعتراف اور دلچسپ تجویز
بزرگان امت محمدیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تحریرات سے چونکہ ختم نبوت کے ان معنوں کی تائید ہوتی تھی جو احمدی علم کلام نے پیش کئے ہیں` اس لئے ان دنوں بعض غیر احمدی اصحاب نے یہ دلچسپ تجویز پیش کی کہ ہمارے علماء کرام کو چاہئے کہ ہمارے ان بزرگوں کا لٹریچر ہی غائب کردیا جائے۔ یہ تجویز ایک ٹریکٹ کی شکل میں شائع کی گئی جس کا متن یہ تھا:۔
>یہ عمل کا وقت ہے خاموشی کا نہیں<
برادران !! احرار اسلام۔ مولوی عبدالحامد صاحب بدایونی` سید سلیمان صاحب ندوی اور مولوی احتشام الحق صاحب دیوبندی نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے ایک کشادہ راستہ کھول دیا ہے یعنی یہ کہ جو لوگ بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں لیکن اہل سنت و الجماعت کے عقائد سے یا بالفاظ دیگر اس وقت کے علماء سے اختلاف رکھتے ہیں انہیں اسلام سے باہر کیا جائے تا آئندہ اختلافات کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہے۔ نہ رہے گا بانس نہ باجے گی بانسریا۔ اس عمدہ نسخہ کے ذریعہ سے امید ہے کہ آئندہ مصلحت دیکھتے ہوئے مناسب وقت پر بعض اور فرقوں کو بھی اسلام )سے( باہر کرنے اور اختلاف کا نام و نشان مٹا دینے کی صورت نکلتی رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے بہت سے ممالک میں جہاں تک ہماری دسترس نہیں یہ کانٹا موجود رہے گا اوراسلام کے وہ معنی نہیں سمجھے جائیں گے جو یہاں کے علماء سمجھتے ہیں بلکہ وہی پرانے معنے جو امام ابوحنیفہؓ اور بعض دوسری بزرگوں کی طرف منسوب ہیں سمجھے جائیں گے لیکن اپنے ملک کو پاک کرنا یہان کے علماء کا کام ہے۔ باہر والے جانیں ان کا کام جانے۔
موجودہ موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ علماء کو پوری طرح گھر کی صفائی کردینی چاہئے مثلاً مرزائی لوگ کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے متعلق ہمارا وہی عقیدہ ہے جو مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا تھا جو دیوبند کے بانی تھے اور مولانا احتشام الحق صاحب اور مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے روحانی باپ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کتاب تحذیر الناس میں ایسے فقرات موجود ہیں جن کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مرزائی لکھ رہا ہے۔ جب تک یہ کتاب موجود ہے مرزائیوں کو دوسرے مسلمانوں پر غلبہ رہے گا اور موجودہ جدوجہد ناکام رہے گی- اس لئے ہمارے نزدیک وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے احرار اسلام اور مولانا احتشام الحق صاحب کو اس بات پر راضی ہوجانا چاہئے کہ نانوتوی صاحب کی یہ کتاب اور دوسری کتابیں جن میں اس وقت کا ذکر ہے پاکستان میں ممنوع الاشاعت قرار دی جائیں بے شک مولانا بخاری اور مولانا احتشام الحق کے لئے یہ گھونٹ پینا تلخ ہوگا لیکن اس بڑے کام کے پورا کرنے کے لئے جو انہوں نے شروع کیا ہے یہ تلخ گھونٹ پینا کوئی ایسا بڑا کارنامہ بھی نہیں۔ مرزائیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے تو ان علماء سے بھی کلی برات کا اظہار کیا جائے جنہوں نے مرزائی عقائد کی تائید کی ہے اور نادانستہ ان کی اشاعت میں ممد ثابت ہوئے ہیں۔ یہ پتھر تو سخت ہے مگر چاٹنا ہی پڑے گا ورنہ وہ مغرب زدہ مسلمان جو ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں وہ کمزور ایمان والے اپنی عقل کے برتے پر شور مچائیں گے کہ جب دیو بندی علماء یہی کہتے چلے آئے ہیں جو یہ مرزائی کہتے ہیں تو ان پر یہ فتویٰ کیوں نہیں لگایاجاتا۔ دلوں میں ان لوگوں کی بے شک عزت کی جائے مگر ظاہر میںبرات ضرور ظاہر کی جائے ورنہ یہ مہم ناکام رہے گی۔
ہاں ایک اور مشکل ہے اور وہ یہ کہ خالص حنفی طبقہ کے علماء نے بھی کچھ اسی قسم کی حرکات کی ہیں۔ ملا علی قاری جن کو عقائد کے بیان میں امام ابوحنیفہ صاحب سے کچھ ہی کم مرتبہ دیا جاتا ہے اور مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی نے جو احناف ہند کے لئے گویا شیخ المشائخ کا رتبہ رکھتے ہیں اسی قسم کے الفاظ اپنی کتابوں میں لکھ دیئے ہیں جو مرزائی کہتے ہیں اور مرزائی ان کتب کو دکھا دکھا کر کہتے ہیں کہ یہ لوگ ان عقیدوں کے باوجود بزرگ اور امام اور ہم کافر اور مرتد؟ آخر یہ فرق کیوں؟ اور یہ مغرب زدہ مسلمان اس دلیل کو سن کر متاثر ہوجاتے ہیں حالانکہ عقل انسان کو علماء کی تائید کے لئے ملی ہے نہ کہ ان کی مخالفت کے لئے۔ مگر بہرحال اس مغربیت کی مرض کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے اگر کسی نہ کسی رنگ میں ملا علی قاری اور مولانا عبدالحی فرنگی محلی کی کتب کو بھی ضبط کر لیا جائے تو یہ ایک بڑی دینی خدمت ہوگی اور اس سے احرار اسلام جیسے مجاہدین کو بڑی تقویت پہنچے گی۔
مگر ایک اور بات بڑی مشکل ہے اس کا علاج ذرا جان جوکھوں کا کام ہے۔ مگر احرار اسلام ارادہ کر لیں تو وہ بھی کوئی ایسی بڑی بات نہیں اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں پیروں فقیروں کا بہت زور ہے اور یہ لوگ محی الدین صاحب ابن عربی` معین الدین صاحب چشتی اور خواجہ میر درد صاحب کے ذرا ضرورت سے زیادہ معتقد ہوتے ہیں اور ان بزرگوں نے بھی اپنی کتب میں ویسی ہی باتیں لکھی ہوئی ہیں جیسے مرزائی کہتے ہیں- حضرت معین الدین صاحب چشتی نے تو اپنے آپ کو مسیح تک کہہ دیا ہے اور اپنے اوپر جبرائیل کے اترنے اور ان پر وحی نازل کرنے تک کا دعویٰ کردیا ہے۔ ان حوالوں سے مرزائیوں کو بہت تقویت ملتی ہے اور ان حوالوں کو سن کر صوفیوں کے شاگرد اور معتقد چلا اٹھتے ہیں کہ ان بزرگوں کو کافر کہیں یا مرزائیوں کو مسلمان اور پھر گھبرا کر کہہ اٹھتے ہیں کہ ان بزرگوں کو تو کافر کہنا مشکل ہے ان مرزائیوں کو ہی مسلمان سمجھ لیتے ہیں۔ اب اس شر کا ازالہ یہی ہے کہ کم سے کم مرزائی فتنہ کے استیصال تک ان بزرگوں کی کتب کو پاکستان میں ضبط کر لیا جائے اور داخلہ ممنوع قرار دیا جائے تاکہ مرزائی ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اور تمام مساجد میں علماء یہ خطبہ پڑھیں کہ بعض ضروری مصالح کی وجہ سے ان کتب کا پڑھنا ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ کم سے کم عقل کی مرض میں مبتلا ان کو ہرگز نہ دیکھیں۔ اس وقت مسلمانوں کی تو وہی حالت ہے کہ۔
ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
چند سال ہوئے ایک شخص نے شیخ شلتوت پروفیسر جامعہ ازہرو صدر مجلس افتاء سے پوچھا کہ قرآن کی رو سے مسیح زندہ ہیں یا فوت ہوگئے؟ تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ قرن کی رو سے مرد ہیں۔ ان کی توجہ جب اس طرف پھرائی گئی کہ مولانا علماء ہند تو متوفیک کے معنی موت کے نہیں کرتے تو انہوں نے اس اشارہ کو بھی نہ سمجھا اور صاف لکھ دیا کہ غیر عرب جو عربی نہیں جانتے )یہ ہتک کی ہمارے علماء کی( جو چاہیں معنے کریں ہم عرب لوگ جن کی مادری زبان عربی ہے متوفیک کے معنے وفات دینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ اس پر بھی جب فتویٰ پوچھنے والے نے کہا کہ اس فتوے سے مرازئیت کو تقویت پہنچتی ہے تو انہوں نے یہ جواب لکھ کر بھجوادیا کہ مجھے اس سے کیا کہ اس فتویٰ سے مرزائیت کو تقویت پہنچتی ہے میں نے تو وہ فتویٰ دیا ہے جو قرآن سے ثابت ہے۔ اگر موجودہ دور کے علماء بھی مصلحت وقت کو نہیں سمجھ سکتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں تو ان علماء سے اس دنیا میں کیا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
یہ وقت کام کا ہے ہمیں سب پرانے بزرگوں کا ایسا لٹریچر غائب کردینا چاہئے جس سے مرزائی فائدہ اٹھا سکیں۔ آخر ان بزرگوں سے ہم نے اب کیا فائدہ اٹھانا ہے؟ انہوں نے جو کچھ لکھنا تھا لکھ چکے اور فوت ہوگئے کام تو اب احرار اسلام آئیں گے۔ کوئی الیکشن لڑنا پڑا یا باہمی مناقشتوں میں استمداد کی ضرورت ہوئی تو آخر یہی کام دیں گے پس انہی کی تائید ہمیں کرنی چاہئے- اگر ایسا نہ کیا گیا تو موجودہ علماء کے فتووں سے مرزائیوں کا کچھ نہ بگڑے گا۔ مسلمان فطرتاً بہادر اور شریف الطبع واقع ہوا ہے وہ ان فتوئوں سے متاثر ہو کر اور زیادہ تحقیق کرنے لگ جائے گا اور مرزائیوں کے قتل اور ان کے بائیکاٹ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شریف اور بہادر مسلمان مظلوم کی حمایت کے جذبہ سے متاثر ہو کر کھڑا ہوجائے گا۔
پس اس وت کے انے سے پہلے سب ایسا لٹریچر غائب کردینا چاہئے۔ نہ وہ لٹریچر ہوگا نہ مرزائی اسے مسلمانوں کو دکھا سکیں گے۔
خاکسار
کامریڈ محمد حسین پریذیڈنٹ انجمن نوجوانان اسلام
پاکستان پنجاب لاہور
فصل چہارم
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا اخبار >لنڈن ڈیلی میل< کے نمائندہ کو اہم انٹرویو پنجاب مسلم لیگ کا اجلاس لاہور >اراکین پنجاب مسلم لیگ کی خدم میں چند معروضات< وزیراعلیٰ پنجاب کا احمدیوں سے متعلق موقف اور حضرت مصلح موعودؓ کا بیان
حضرت مصلح موعودؓ >ڈیلی میل< کو ایک اہم انٹرویو
احرار نے احمدیوں کے خلاف تحریک تو جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے اٹھائی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سی اسے جماعت احمدیہ کی تبلیغ اور اس کی عالمی شہرت میں اضافہ کا موجب بنادیا۔ چنانچہ جب مطالبہ اقلیت کا زور بڑھا اور احرار بعض مسلم لیگی عہدیداروں اور ممبروں کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو بیرونی پریس نے بھی دلچسپی لینا شروع کردی۔ اسی کی ایک کڑی اخبار >لنڈن ڈیلی میل< کے نمائندہ خصوصی )میاں محمد شفیع صاحب( کا اہم انٹرویو ہے جو انہوں نے ربوہ میں
جولائی ۱۹۵۲ء کے تیسرے عشرہ میں حضرت مصلح موعودؓ سے لیا۔
اصل انٹرویو انگریزی میں چھپا۔ انٹرویو کا مکمل متن حسب ذیل ہے
مرزا بشیر الدین محمود احمد نے لنڈن ڈیلی میل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اتوار کو فرمایا:۔۱۱۱>مجھے یقین ہے کہ احمدیوں کے خلاف موجودہ ایجی ٹیشن میں ہندوستان کا مخفی ہاتھ کام کر رہا ہے۔
آپ نے بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پاس اس کا حتمی ثبوت موجود ہے جسے متعلقہ حکام کو مناسب وقت پر پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔
اگر پاکستان کی ہائی کمان نے ان کی جماعت کو اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کردیا تو انہیں اپنی جماعت کو یہ حکم جاری کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو احمدی نہ کہیں بلکہ مسلم کہیں ڈیلی میل کے میاں محمد شفیع کو خصوصی بیان دیتے ہوئے جماعت احمدیہ کی قادیانی شاخ کے تریسٹھ سالہ سربراہ نے اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی کہ طاقت کے زور پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے انہوں نے کسی قسم کا کوئی منصوبہ بنایاہے۔
آپ نے فرمایا کہ احمدیت کو سیاسی نظریہ نہیں ہے ہماری جماعت تو مذہبی جماعت ہے۔ احمدیوں اور غیر احمدیوں کی موجودہ کشمکش کے پیش نظر صرف ایک دیوانہ ہی احمدیوں کے لئے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا سوچ سکتا ہے۔
آپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر بفرض محال یہ مان ہی لیا جائے کہ یہ چھوٹی سی اقلیت طاقت سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہے تو اگلے ہی دن غیر احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر اسے چھوڑنے کے لئے تیار بھی رہنا چاہئے۔
سوال:۔کیا یہ فرض کرنا صحیح ہوگا کہ حکومت کے ساتھ تصادم کے نتیجہ میں حکومت کے احمدی ملازم آپ کی اطاعت کو حکومت کے احکام پر ترجیح دیں گے؟
جواب:۔ حکومت وقت کے ساتھ وفاداری ہمارے مذہب کا جزو ہے۔ اگر کسی وقت بھی میرے ساتھ ایسے تصادم کا وقت آجائے جس سے احمدیوں کی حکومت وقت کے ساتھ اطاعت پر آزمائش آجائے تو اسی لمحہ بحیثیت خلیفہ اپنا موجودہ متمام چھوڑنے کے لئے مجھے تیار رہنا چاہئے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا ہم کسی ایسی ملکی حکومت کے خلاف کبھی کوئی غیر قانونی اقدام نہیں کریں گے جو قانون کے ذریعہ قائم کی گئی ہو۔
احمدیوں کے خلاف اس ملک گیر تحریک کے خلاف کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے مرزا صاحب نے فرمایا: >مجھے یہ پسند نہیں اور اس لئے پسند نہیں کہ ہمیں اس سے کوئی نقصان ہوگا بلکہ اس لئے کہ اس سے اسلام بدنام ہوجائے گا۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:۔
ہماری جماعت بین الاقومی طور پر ترقی پذیر جماعت ہے اور تبلیغی کاموں کی وجہ سے ہم اسلام اور مسلمانوں کے لئے کئی شاندار کام سرانجام دیتے ہیں۔ اگر ہمیں مسلمانوں سے علیحدہ ایک اقلیت قرار دے دیاجائے تو ممالک بیرون میں ہمارے کاموں میں روک پیدا ہوگی اور اسے مجموعی طور پر ایک مسلم قوم کی کوشش نہیں سمجھا جائے گا بلکہ یہ ایک علیحدہ مذہبی فرقہ کا کام سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج بھی پیدا ہوجائے گی۔
اس پر نہایت ذہین لیڈر نے یہ سوال کیا کہ پھر مجوزہ احمدی اقلیت کے لئے کون سی حدود مقرر کی جائیں گی؟
ہئیت حاکمہ نے اگر جماعت کو اقلیت قرار دیا تو میں یہ حکم جاری کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں کروں گا کہ ہم اپنے ساتھ احمدی کا نام ترک کردیں اور صرف مسلم کہلائیں۔
آپ نے فرمایا کہ ہماری مذہبی کتب میں لفظ احمدی ہمارے لئے قطعی )یا لازمی( نہیں۔ یہ نام بانی سلسلہ نے اپنے معتقدین کو مردم شماری کے لئے اپنی زندگی میں صرف امتیاز کے لئے استعمال کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔
فرض کریں کہ حکومت آپ کی انجمن کو سیاسی جماعت قرار دے کر غیر قانونی قرار دے دیتی ہے اس وقت آپ کا رویہ کیا ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں انجمن کا نام تبدیل کردوں گا لیکن حکومت کے ساتھ تصادم نہیں ہونے دوں گا۔
اسلامی مملکت پاکستان میں آپ سے دریافت کیا گیا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں بھی آپ مکمل مذہبی آزادی کی حمایت کریں گے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ایک اسلامی ریاست میں مکمل مذہبی آزادی ہوتی ہے۔ اسلام غیر مسلموں ¶سے بھی امید کرتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی اصولوں پر عمل کریں گے۔
آپ نے پھر فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ موجودہ احمدیہ ایجی ٹیشن میں ہندوستان کا مخفی ہاتھ کام کررہا ہے۔ ہمارے پاس اس کا حتمی ثبوت ہے جسے وقت آنے پر متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کے لئے ہم تیار ہوں گے۔
سوال:۔ کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ ساری دنیا کے علماء اسلام کا ایک کنونشن بلایا جائے جو احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے بارہ میں غور کرے۔
جواب:۔ ہاں بشرطیکہ ہمیں مجوزہ کنونشن میں نمائندگی دی جائے۔
سوال:۔ فرض کریں کہ اکثریت آپ کو عقائد کی بناء پر غیر مسلم قرار دیتی ہے تو کیا پھر بھی آپ اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر اصرار کریں گے؟
جواب:۔ ہاں ہم پھر بھی عالمی اسلامی برادری کے ساتھ منسلک رہیں گے۔۱۱۲
وضاحت
مندرجہ بالا انٹرویو کی اشاعت کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ایڈیٹر سول اینڈ ملٹری گزٹ کو وضاحت مکتوب لکھا جو جولائی ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں شائع ہوا
Clarification
report a instant 22nd the Tuesday of issue your In ۔۔ ,riS interiewer The ۔published been has me with interview an of ۔person honest and experienced very a is Shafi Mohammad Mian and questions his to replies my recorded carefully most has He faithfully very has he discrepancies immaterial some from apart misunderstanding some been however has There ۔said I what reporduced somehow has Shafi Muhmmad Main ۔point one regarding definite of possession in already are we that impression the taken say to meant I What ۔India from help getting Ahrar the of sfproo they that persons certain by informed been had I that was other the from help getting Ahrar the about proof some possessed ۔it verify finally to power no had I that but border the of side some to as cluse important some had too we that said also I parties Indian certain from help receiving workers Ahrar the of when that added I ۔cluse those up following were we that and before them put would we conclusions definite some reached we that seems It ۔tie proper the at authorities proper the
and point the on clearly myself express not could I unfortunately ۔other each with intermixed got things two the
Ahmad Mahmud ۔B Mirza
Community Ahmadiyya the of Head
Lahore, Gazette Military & Civil (The
3) Page 1952, 25, July (Friday,
اس مکتوب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:۔
جناب عالی ! آپ کی بروز منگل ۲۲ ماہ حال کی اشاعت میں میرے ایک انٹرویو کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ میاں محمد شفیع صاحب جنہوں نے انٹرویو لیا ہے ایک آزمودہ کار اور دیانتدار شخص ہیں انہوں نے میرے جوابات کو نہایت احتیاط کے ساتھ ریکارڈ کیا ہے اور معمولی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے وہی چیز شائع کی ہے جو میں نے بیان کی۔ لیکن ایک امر کے بارہ میں کچھ غلط فہمی رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ میاں محمد شفیع صاحب نے یہ اثر لیا ہے کہ ہمارے پاس اس امر کا حتمی ثبوت موجود ہے کہ احرار کو ہندوستان سے مدد مل رہی ہے۔ لیکن میرا مطلب یہ تھا کہ مجھے بعض لوگوں نے بتایا ہے کہ ان کے پاس کچھ ثبوت موجود ہے کہ احرار کو سرحد پار سے کچھ مدد مل رہی ہے۔ لیکن میرے پاس اس کی تصدیق کے لئے کوئی طاقت نہیں ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے بعض لوگوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس کچھ ایسی اہم باتیں موجود ہیں کہ بعض احراری کارکنان بعض ہندوستانی پارٹیوں سے امداد حاصل کررہے ہیں۔ ہم ان کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور میں نے مزید کہا تھا کہ جب یقینی معلومات حاصل ہوجائیں گی تو ہم مناسب وقت پر یہ معلومات متعلقہ حکام کے سامنے پیش کردیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں بدقسمتی سے یہاں یہ بات واضح نہ کرسکا اور دونوں باتیں آپس میں غلط ملط ہوگئیں۔ ۱۱۳
]bsu [tagپنجاب مسلم لیگ کونسل کا اجلاس لاہور
۲۶-۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء کو لاہور میں پنجاب مسلم لیگ کونسل کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں کونسل کے بعض ممبروں کی ان قرار دادوں کو زیر بحث لایا گیا جن میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے۔۱۱۴
اراکین پنجاب مسلم لیگ کی خدمت میں چند معروضات
اس موقعہ پر پنجاب پراونشل مسلم لیگ کونسل کے ممبر جناب اصغر بھٹی صاحب بی۔ اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ سرگودھا کی طرف سے بعنوان >اراکین پنجاب مسلم لیگ کی خدمت میں چند معروضات< ایک حقیقت افروز رسالہ شائع ہوا جس میں مطالبہ اقلیت کی حقیقت واضح کی گئی تھی۔ اس رسالہ کے دو اقتباسات ذیل میں نقل کئے جاتے ہیں:۔
۱- >میں تو ایک سیدھا سادھا مسلمان ہوں قران پاک نے اسلامی زندگی کی بنیاد چار باتوں پر رکھی ہے۔
ایمان۔ عمل صالح۔ توصیہ حق۔ توصیہ صبر
میں نہ قادیانی مرزائی ہوں اور نہ لاہوری۔نہ میرا شیعہ فرقہ سے تعلق ہے اور نہ ہی کسی اور فرقہ سے میں مہص مسلمان ہوں جس کا مسلک یہ ہونا چاہئے کہ وہ حق کے اعلان میں کسی سے نہ ڈرے- نہ تو دنیا کا کوئی لالچ اس پر غالب آئے اور نہ کوئی خوف۔ مسلمان اگر طمع بھی رکھے تو صرف خدا سے اور ڈرے بھی تو صرف خدا سے۔
پاکستان نوزائیدہ بچہ ہے جس کو معرض وجود میں آئے ابھی صرف پانچ سال ہوئے ہیں معمار ملت حضرت قائداعظم نے ہمیں اپنے اندر >اتحاد` یقین محکم عمل پیہم ` مبت فاتح عالم< کی صلاحیتیں پیدا کرنے کی ہدایت فرمائی تھی اور حکم دیا تھا کہ فرقہ پرستی کا چغہ اتار کر اسلام کے نام پر متحد رہیں تاکہ ہم عالم اسلام اور خود اپنے لئے ایک طاقت بن سکیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وہی سیاسی پارٹی جو قیام پاکستان کے خلاف تھی اور جس نے حضرت قائداعظم کو کافر قرار دیا تھا ایک نئے لیبل کے تحت ہماری ملی وحدت اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ ابھی حال ہی میں پاکستانی بنگال میں >بنگالی اردو< جھگڑا کھڑا کردیا گیا جس کو اگر حکمت علی سے نہ دبا دیا جاتا تو عین ممکن تھا کہ ہم ایک اندرونی خلفشار میں مبتلا ہوجاتے جس سے نکلنا اگرچہ ناممکن نہ تھا لیکن محال ضرور تھا۔ یہ سیاسی بساط کے پٹے ہوئے مہرے یعنی اراکین مجلس احرار بمصداق >نیادام لائے پرانے شکاری< نے ہمارے دیس پنجاب میں مرزائی اور غیر مرزائی کا نیا فتنہ کھڑا کردیا اور یہی نہیں بلکہ سادہ عوام کو گمراہ کر کے حکومت وقت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ >قادیانیوں کو پاکستان کی ایک اقلیت قرار دیا جائے۔<
سادہ لوح عوام احراریوں کی گزشتہ سیاسی زندگی سے کما حقہ` آگاہ ہونے کے باوجود جذبات کے سمندر میں بہے جارہے ہیں اور اس طرح نادانستہ نظام ملت کو پارہ پارہ کرنے میں ان کے ممدو معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ اعلائے کلمتہ الحق کا فرض ادا کیا جائے اور عامتہ المسلمین کو آنے والے خطرہ سے قبل از وقت آگاہ کردیا جائے ~}~
کھول کر آنکھ میرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
امتیاز حق و باطل کی طاقتیں خواہ کس قدر ماند پڑ گئی ہوں تاہم حقیقت ایک ایسی چیز ہے کہ اخلاص کے ساتھ موثر انداز میں جب بھی اس کو پیش کیا جائے گا تو سخت سے سخت طبائع بھی اس کے آگے سر تسلیم خم کردیں گی۔ ان حالات کے پیش نظر میں آپ سے مدوبانہ گذارش کرتا ہوں کہ مندرجہ ذیل کوائف کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کریں اور پھر جائزہ لیں کہ >احرار< اپنے اس مطالبہ میں کہاں تک حق بجانب ہیں۔ کیا ان کا کھڑا کیا ہوا فتنہ کہیں پاکستان کو نیست و نابود کرنے کا ایک دوسرا حیلہ تو نہیں ہے!
۱- مرزائیوں کو اقلیت بنا کر ہم کیا فائدہ اٹھالیں گے؟ کیا ہم سیاسی حقوق سے ان کو محروم کریں گے؟ کیا ہم ان کو تبلیغ سے روک دیں گے؟ کیا عیسائی تبلیغ نہیں کررہے؟ کیا آریہ سماج تبلیغ نہیں کررہے؟ کیا بہائی ہمارے ملک میں بیٹھے ہوئے تبلیغ نہیں کررہے؟ کراچی کے قریباً تمام ہوٹل ان کے قبضہ میں ہیں۔
وہ قرآن کریم کو منسوخ قرار دیتے ہیں اور بہاء اللہ کو خدا تعالیٰ کا مظہر قرار دیتے ہیں مگر وہ تبلیغ کررہے ہیں اور پاکستان ان کو نہیں روکتا۔ پارٹیشن کے بعد بھی کئی لوگ عیسائی ہوئے ہیں ان کو گورنمنٹ نہیں روکتی اور نہ روک سکتی ہے۔ خود ہم بھی تو ہر ملک میں اسلام کے لئے تبلیغ کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
۲- اگر مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہے تو ہمارا ان کو اقلیت قرار دینے سے بنتا ہی کیا ہے یا پھر ہمیں یہ قانون بنانا پڑے گا کہ کوئی شخص مولویوں کی اجازت کے بغیر اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا اور پھر اگر یہی جھگڑا جاری رہا تو اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ آئندہ سنیوں اور شیعوں اور حنفیوں اور دیوبندیوں کے خلاف ایسے ہی الزام نہیں لگائے جائیں گے اور ایسی ہی شورش نہیں کی جائے گی اور پاکستان میں فتنہ کی خلیج وسیع سے وسیع تر نہیں کی جائے گی؟
۳- پھر ایک یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر مرزائی اپنی آپ کو مسلمان کہنے پر اصرار کرتے رہے اور مسلمانون کے دین پر چلتے رہے تو آپ کو گورنر جنرل سے ایک ایسا آرڈی نینس نافذ کرانا پڑے گا کہ جس کی رو سے کوئی مرزائی اپنا نام مسلمانوں کا سانہ رکھے نہ ہی کلمہ پڑھے اگر پڑھے تو اس کی زبان گدی سے نکال لی جائے- قرآن کو ہاتھ لگائے تو ہاتھ کاٹ دیئے جائیں- اور اگر مسلمانوں کے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے بلکہ مسلمانون کی طرح نماز بھی پڑھے تو اس کو سخت سزا دی جائے۔ یا اور کوئی اسلامی کام کرے تو اس کو ازروئے قانون ماخوذ کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ کوئی مہذب حکومت ایسا قانون نافذ نہیں کرسکتی۔ اور جب یہ حقیقت ہے تو پھر خدارا سوچیں کہ ہم کہاں اور کس طرف جارہے ہیں۔ آخر دنیا ہمیں کیا کہے گی؟
۵- اس کے علاوہ ہمیں ایک قربانی اور دینی پڑے گی اور وہ ہے کشمیر کا ہندوستان سے الحاق۔ ضلع گوداسپور کی قبل تقسیم مسلم اور غیر مسلم آبادی کا تناسب کچھ اس قسم کا تھا کہ مسلمان نصف سے زیادہ تھے اور غیر مسلم جن میں ہندو` سکھ` اور عیسائی وغیرہ سب شامل تھے مل ملا کر مسلمانوں کے برابر نہ تھے۔ اس لحاظ سے یہ ضلع بحیثیت مجموعی مسلم اکثریت کا ضلع تھا۔ اس ضلع یں مرزائی کثرت سے آباد تھے ان کی آبادی کو الگ کر کے شمار کیا جاتا تو پھر مسلمان نصف سے کم رہ جاتے تھے اس صورت میں یہ ضلع غیر مسلم اکثریت کا ضلع ہو کر رہ جاتا تھا۔ چونکہ کانگرس کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی تھی اور اس راہ میں گورداسپور کا ضلع بری طرح حائل تھا کیونکہ ہندوستان کو کشمیر جانے کے لئے بہرحال گوداسپور ہو کر جانا پڑتا تھا اس لئے کانگرس نے پورا زور لگایا کہ ضلع گوداسپور بھی ہندوستان میں شامل ہوجائے چنانچہ اس نے گوداسپور کو غیر مسلم اکثریت کا ضلع ثابت کرنے کے لئے پوری کوشش کی۔ اس وقت احرار مسلم لیگ کے سخت مخالف بلکہ پاکستان کے نظریے ہی کے قائل نہ تھے اور بڑے سرگرم کانگرسی تھے اس لئے کانگرس نے ان سے خوب فائدہ اٹھایا اور ان کے پوسٹر اور لٹریچر وغیرہ کمیشن کے سامنے پیش کئے جن میں ثابت کیا گیا تھا کہ مرزائی مسلمانوں سے الگ فرقہ یعنی خود مسلمان مرزائیوں کو اپنا حصہ نہیں سمجھتے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ثابت ہونے سے مسلم لیگ کو ایک عظیم نقصان کا ڈر تھا چنانچہ اس وقت کے دوربین قائداعظم اور مسلم لیگ کے رہنمائوں نے اس سازش کو بروقت بھانپ لیا اور اس کے جواب کے طور پر خود قادیانیوں کی طرف سے ایک میمورنڈم ٹربیونل کے سامنے پیش یا اس میں قادیانیوں نے خود اس بات کو پیش کیا کہ وہ مسلمانوں کا ایک حصہ ہیں اور کوئی الگ فرقہ نہیں ہیں۔ یعنی >احرار نے ثابت کرنا چاہا کہ قادیانی الگ فرقہ ہیں اور مسلم لیگ نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کا حصہ ہیں< گو بعد میں ضلع گوداسپور پاکستان کو نہ مل سکا لیکن پاکستان کی یہ دلیل کہ ضلع گوداسپور مسلم اکثریت کا ضلع ہے قائم رہی اور یہ دلیل ایک ایسی مضبوط بنیاد تھی جس پر آئندہ مسئلہ کشمیر` نہروں اور بجلی وغیرہ کے مسائل میں پاکستان کے دلائل کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کردی جس کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر ہندوستان کی تمام دلیلیں ٹوٹتی پھوٹتی ہیں۔ آج بھی یہ دلیل قائم ہے اور پاکستان کے ہاتھ میں ایک زبردست ہتھیار ہے جس پر مسئلہ کشمیر کا دارومدار ہے۔
۵۔ ہندوستان میں اس وقت پانچ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ انتہائی کسمپرسی اور قابل رحم حالت مین ان کی زندگی کے دن گزررہے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں سے جس قسم کا سلوک ہوتا ہے اس کی طرف ان کی ملتجیانہ نگاہیں لگی رہتی ہیں۔ پاکستانیون کی ذرا سی لغزش ان کے لئے قیامت کا نمونہ بن سکتی ہے۔ اگر مرزائیوں کو محض اقلیت قرار دینے کی بات ہوتی تو کچھ نہ تھا لیکن آج کل خونی مولوی تو برملا اعلان پر اعلان کررہے ہیں کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دے کر اس ملک سے ہی نکال دیا جائے اور شاید ان کا پیٹ تو اس طرح بھی نہ بھرے گا خواہ ایسا کرنے سے پانچ کروڑ جانیں خطرہ میں پڑ جائیں۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر مرزائیوں کو آپ اقلیت قرار دے دیا تو آخر ان سے وہی سلوک ہوگا جو ہندوئوں سے۔ اور ہندو پاکستان میں دو کروڑ ہیں۔ یہ دو کروڑ ہندو کیا پانچ کروڑ مسلمانوں کو زندہ رہنے دے گا؟ کیا یہ دو کروڈ ہندو مسلمان کا اپنے میں سے علیحدہکئے ہوئے فرقہ پر ہوتا ہوا ظلم دیکھ کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھے گا؟ کیا وہ اس خدشہ پر ہی آفت نہ لے آئے گا۔ خدارا ذرا تو سوچئے کہ آیا آپ چند لاکھ مرزائیوں پر ظلم کر کے پاکستان کے وجود کو خطرے میں تو نہیں ڈال رہے؟ ~}~
تازہ خواہی داشتن گرد داغہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را<
۲- >کیا یہ حقیقت نہیں کہ مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ خدا ایک ہے اور رسول اکرمﷺ~ خدا کے آخری نبی ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں وہی نماز جس کی حقیقت ہم لوگوں نے کھودی ہے۔ زکٰوۃ ادا کرتے ہیں )جس کا ہم میں اخلاص باقی نہیں رہا( حج کرتے ہیں ہاں وہی حج جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے اور ان کے عقیدہ میں صرف لفظ >نبی< کا اختلاف ہے۔ وہ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں` ایسا نبی کہ جس کی نبوت رسول اکرمﷺ~ کی غلامی کی رہین منت ہے۔ ہمیں ان کے اس عقیدہ سے ایک بنیادی اختلاف ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ نبی کا لفظ سوائے رسول خداﷺ~ کے اور کسی پر استعمال نہیں ہوسکتا۔ وہی نبی آخر الزماں ہیں ان کے بعد نبوت کے دروازے ہمیشہ کے لئے مسدود ہوگئے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا محض عقیدہ کے اس اختلاف پر ہم ان کو خارج از اسلام قرار دے سکتے ہیں؟ مسلمانوں کے اس وقت بہتر فرقے ہیں ان میں سے ایسے بھی ہیں جو قرآن کے دس پاروں کو نہیں مانتے۔ بعض ایسے ہیں جو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایسے بھی ہیں جو قرآن کے دس پاروں کو نہیں مانتے۔ بعض ایسے ہیں جو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے چند ایک کو کالعدم قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلمان ہیں اور ہماری حکومت میں اور سوسائٹی میں ایک امتیازی درجہ حاصل کئے ہوئے ہیں اور ہمیں بجا طور پر ان سے کوئی پرخاش نہیں۔ اگر ایک آدمی اپنے آپ کو مسلمان کہے تو ازروئے قرآن پاک ہم اس کو خارج از اسلام نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں جس کے تحت ہم ان کو کافر بنا سکیں۔ مذہب کا تعلق دل سے ہے اور دل کے بھید سوائے حق تعالیٰ کے اور کسی کو معلوم نہیں ہوسکتے۔ ہاں اگر مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام سے ماوریٰ دعویٰ نبوت کیا ہوتا` قرآن سے انکار کیا ہوتا` کسی آیت قرآنی کو کالعدم قرار دیا ہوتا یا اس میں تبدیلی پیدا کی ہوتی` کوئی نئی شریعت لائے ہوتے` حضور سرور کائنات کی اطاعت سے آزاد ہو کر کسی نئی نبوت کا اعلان کیا ہوتا تو ہم حق بجانب تھے کہ ان کو غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے کارج قرار دیتے حالانکہ قرآن کا فیصلہ یہ ہے:۔
>جو لوگ پیغمبر اسلام پر ایمان لاچکے ہیں وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا نصاریٰ اور صابی ہوں کوئی ہو اور کسی گروہ بندی میں ہو لیکن کوئی بھی جو خدا پر اور اس کے آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان اور عمل کا اجرا اپنے پرودگار سے ضرور پائے گا۔ اس کے لئے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔<
میرا خطاب حضرات احرار سے ہے کہ خدارا پاکستان میں نیا فتنہ نہ پھیلائے۔ فساد کو اللہ کریم نے قرآن حکیم میں قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا ہے اور فتنہ و فساد سے ارض الٰہی کو پاک کرنے کے لئے تلوار سے مدد لینے تک کی اجازت دے دی ہے۔ آپ نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور اس وقت کی تھی جبکہ ہمیں آپ کی امداد کی اشد ضرورت تھی لیکن آپ جان بوجھ کر دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلے مسلمانوں کی من حیث القوم مخالفت کی۔ حضرت قائداعظم کو کافر قرار دیا اور ان کو طرح طرح کی گالیاں دیں۔ ہم نے یہ سب کچھ سنا اور سہا کیونکہ اس وقت ہمارا دشمن قوی تھا اور ہم میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ہم اپنوں کا مقابلہ کرتے۔ لیکن آپ کو اپنے عزائم میں شکست ہوئی اور خدا کے فضل و کرم سے پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ اب ہمیں ایک عظیم سلطنت کی بنیادوں کو مستحکم کرنا ہے۔ اسلام کے تمام فرقے اسلام کے نام پر متحد ہیں۔ آپ شیرازہ ملت کو پارہ پارہ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگایئے۔ مسلم لیگ اسلامی وحدت کی علمبردار ہے اس کو اللہ کریم نے اتنی طاقت بخشی ہے کہ آپ کے ان خطرناک ہتھکنڈوں کو یکسر ناکام بنادے۔
ہاں اگر آپ صدق دل سے مرزائیوں کو مسلمانوں کے لئے ایک فتنہ عظیم سمجھتے ہیں تو آپ تبلیغ فرمائیں وعظ کریں` اعلیٰ اخلاق پیش کریں تاکہ نئی پود مرزائیوں کے چنگل میں پھنسے اور پرانے مرزائی اپنے عقیدہ کو خیرباد کہہ کر آپ کی صفوں میں آملیں۔ آپ اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کردیں تاکہ ہندو` عیسائی اور دوسری خارج از اسلام جماعتیں اسلام کی لذتوں سے سرشار ہو کر مسلمان ہوجائیں۔
ایک تبلیغی مذہب کے پیرو صرف محبت اور اسوہ حسنہ پیش کر کے مخالفین کے دل موہ سکتے ہیں۔ نفرت اور حقارت کا آلہ استعمال کر کے کوئی مبلغ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ حضرات ! صوفیائے کرام کا طریقہ تبلیغ استعمال کریں کہ کس طرح غیر مسلموں سے بے پناہ محبت کرنے اور ان کو اپنے ہمہ گیر اخلاق حسنہ سے گرویدہ بنا کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیتے تھے اسوہ رسولﷺ~ کو مشعل راہ بنائیں۔ کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر فرمائیں کہ کیا آپ کا یہ مطالبہ کہ مرزائیوں کو جا ببانگ دہل اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں قانون کے ذریعہ کافر قرار دیا جائے حق بجانب اور نیک نیتی پر مبنی ہے؟ وما علینا الاالبلاغ<۱۱۵
tav.13.12
tav.13.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت
جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر حضرت سیدنا مصلح موعودؓ
کے ایمان افروز اور پر شوکت پیغام )مورخہ ۳ مارچ ۱۹۵۳ء( تک
مولفہ
دوست محمد شاہد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی پندرھویں جلد
اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے تاریخ احمدیت کی پندرھویں جلد طبع ہو کر احباب کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے۔ نئی جلد کو پیش کرتے ہوئے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہے کہ تاریخ احمدیت کی تدوین و اشاعت کے بارے میں جو ذمہ داری سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ادارۃ المصنفین پر ڈالی تھی اس کو ادا کرتے ہوئے ہم ایک قدم اور آگے بڑھ رہے ہیں۔
تاریخ احمدیت کی پہلی جلد دسمبر ۱۹۵۷ء میں` دوسری جلد دسمبر ۱۹۵۸ء میں اوت تیسری جلد دسمبر ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی۔ اس وقت خیلا یہ تھا کہ خلافت اولیٰ کے دور کی تاریخ ایک جلد میں خلافت ثانیہ کے دور کی تاریخ دو جلدوں میں مکمل ہوجائے گی اور تاریخ کی تدوین کا کام ختم ہوجائے گا اور ہم اس بار گراں سے سبکدوش ہوجائیں گے جو سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا تھا لیکن معرض وجود میں وہی آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے انسان کے اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ خلافت ثانیہ کے واقعات پر مشتمل جب دو جلدیں طبع ہوئیں تو ان میں صرف ۱۹۳۱ء تک کے واقعات ہی ختم ہوسکے اور ہمارے اندازے درست ثابت نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تدوین تاریخ کا کام ہوتا رہا اور مزید جلدیں شائع ہوتی چلی گئیں۔ اب پندرھویں جلد شائع ہورہی ہے۔ اس میں جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء سے لے کر مارچ ۱۹۶۳ء تک کے واقعات کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کو صحیح علم ہے کہ خلافت ثانیہ کے دور کی تاریخ کو مکمل کرنے میں مزید کتنی جلدیں درکار ہوں گی کیونکہ واقعات تذکرہ کے بعد سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی سیرت پر کچھ لکھنا بھی ضروری ہوگا اور اس کے بعد پھر خلافت ثالثہ کے دور کے واقعات شروع ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ جب اس نے محض اپنے فضل سے پندرہ جلدیں شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے تو بقیہ کام کو مکمل کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور تکمیل کی خوشی سے بہر ور کرے )آمین( وھو علی کل شی قدیر وبالا جابتہ جدید]ydob [tag
نئی جلد تقریباً چھ صد صفحات پر مشتمل ہے اور گیارہ نایاب تصاویر سے اس مزین کیا گیا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ کاغذ جو بازار میں دستیاب ہوسکتا تھا اسے حاصل کیا گیا اور کتابت و طباعت کو معیاری بنانے کی پوری کوشش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ التجا ہے کہ وہ ہماری ان حقیر مساعی کو قبول فرمائے اور اپنے فضلوں سے نوازے )آمین(
ادارۃ المصنفین کا ابتداء سے یہ اصول رہا ہے کہ وہ اپنی شائع کردہ کتابوں کو تقریباً لاگت پر احباب کو پیش کرتا ہے نفع حاصل کرنا اس کے مدنظر نہیں ہوتا۔ اس جلد کی قیمت مقرر کرنے میں اسی اصول کو مدنظر رکھا گیا ہے لیکن پہلے کی نسبت کتابوں کی قیمت کا بڑھ جانا ایک ناگزیر امر ہے کیونکہ مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ کاغذ کی قیمت` کتابت ` طباعت اور جلد بندی کی اجرتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کتاب کا شائع کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ چونکہ سلسلہ کی تاریخ کو محفوظ کرنا نہایت ہی ضروری ہے اس لئے ادارہ پوری کوشش کرتا چلا آیا ہے کہ بہرحال ہر سال تاریخ احمدیت کی ایک جلد پیش کرتا چلا جائے۔ یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب احباب پورا تعاون فرمائیں اور کتاب کو ہاتھوں ہاتھ خریدیں خرچ کردہ رقم واپس آجائے اور اگلی کی تیاری میں استعمال ہوسکے۔
ادارہ مولف کتاب ہذا مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا شکر گزار ہے کہ انہوں نے رات دن ایک کر کے مواد جمع کیا اور اسے نہایت احسن طریق سے ترتیب دی اور ہر لحاظ سے اسے معیاری بنانے کی کوشش کی فجزاہ للہ حسن الجزاء اسی طرح مکرم حمید الدین صاحب کاتب اور دیگر کارکن جنہوں نے کاپی اور پروف ریڈنگ کا کام کیا وہ بھی شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے فضلوں سے نوازے )آمین(
خاکسار
ابو المنیر نور الحق
مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین۔ ربوہ
دسمبر ۱۹۷۵ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب
جلسہ سالانہ قادیانہ ۱۳۳۰ ہش ۱۹۵۱ء سے لیکر حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ کی وفات تک
)از ماہ فتح ۱۳۳۰ ہش تا ماہ شہادت ۱۳۳۱ ہش از ماہ دسمبر ۱۹۵۱ء تا ماہ اپریل ۱۹۵۲ء(
مذہبی تاریخ کا اہم واقعہ
]0 [rtfاسلام میں مہدی موعود علیہ السلام کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ جیسی عالمگیر تبلیغی اور روہانی تحریک کا آغاز ہمارے نبی خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے~صل۱~ کی قوت قدسیہ کا زندہ نشان اور مذہبی تاریخ کانہایت اہم واقعہ ہے۔
سلسلہ احمدیہ کامقصد
قیام سلسلہ احمدیہ کا مقصد مہدی موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ ہے کہ:۔
>یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجود میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے< ۱
مخالفت کے باوجود شاندار ترقی
اس آسمانی سلسلہ کی ابتداء اگرچہ سنت ربانی کے مطابق پہلی خدائی جماعتوں کی طرح غربت` بے کسی اور گمنامی کے ماحول میں ہوئی مگر اس کے اثرات ہر قسم کی مخالفت وعداوت کے مضبوط حلقوں کو توڑتے` اور منافرت کی ہولناک خندقوں کو پھاندتے ہوئے ` وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے ۔ حتیٰ کہ ۱۹۴۷ء کے ان خونچکاں اور ہوش ربا واقعات کے باوجود` جنہوں نے جماعتی نظم و نسق کی بنیاد تک ہلا ڈالی تھی` چند برسوں کے اندر اندر قادیان اور ربوہ سے اٹھنے والی آوازیں دنیا بھر میں گونجنے لگیں اور اسلامی انقلاب کا وہ نقشہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الاسلام کو ۱۸۹۱ء میں ایک نئے نظام ` نئے آسمان اور نئی زمین کی صورت میں بذریعہ خواب دکھایا گیا تھا۲ ایک حقیقت بن کر ابھرنے لگا۔
حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
>کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہوجائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزارہا پرند اس پر آرام کررہے ہیں۔<۳
سالانہ جلسہ کی اہمیت
جماعت احمدیہ کی اس حیرت انگیز تگرقی میں اس کے سالانہ جلسہ کو ہمیشہ بھاری دخل رہا ہے جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کے اشتہار میں بطور پیشگوئی لکھا :۔
>اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیاد اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی۔ کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔<۴
جلسہ سالانہ کی اس غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر >تاریخ احمدیت< کی جلد ۱۴ کا اختتام جلسہ سالانہ ربوہ ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء کے کوائف پر کیا گیا تھا۔ اب موجودہ جلد کا آغاز اسی سال کے جلسہ قادیان کے واقعات سے کیا جاتا ہے۔
فصل اول
جلسہ سالانہ قادیان
کوائف جلسہ
۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء کا سالانہ جلس حسب دستور اپنی شاندار اور مخصوص روایات کے ساتھ شروع ہوا اور )۲۶ تا ۲۸ ماہ فتح / دسمبر( تین روز تک جاری رہا۔ اس مبارک اجتماع میں بھارت کے جن دور دراز علاقوں سے شمع احمدیت کے پروانے جمع ہوئے ان کے نام یہ ہیں :۔
حیدر آباد دکن` چنتہ کنتہ` کرنول` یادگیر` بمبئی` سورت` مدراس` مالا بار` پٹنہ` مظفرپور` حسینا` پرکھوپٹی` مونگھیر` سہارنپور` بجوپورہ` امروہہ` بریلی` شاہجہان پور` راٹھ` علی پور کھیڑہ` ننگلہ گھنو` آگرہ` صالح نگر` ساندھن` انبٹیہ` کرہل` کان پور` انبالہ` اور کشمیر
علاوہ ازیں پاکستان زائرین کا ایک قافلہ بھی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی امارت۵ ایڈووکیٹ لاہور کی امارت میں قادیان پہنچ اور مرکز احمدیت کی برکات و فیوض سے مستفیض ہوا۔
مردانہ جلسہ گاہ کی حاضری سوا گیارہ سو کے قریب تھی جس میں سے آدھے غیر مسلم تھے۔ جلسہ سے ہندوستان کے علاوہ انگلستان` ہالینڈ اور انڈونیشیا کے بعض احمدی مجاہدین نے بھی خطاب فرمایا جس سے غیر مسلم متاثر ہوئے اور انہوں نے اسلام کا پیغام سننے میں دلچسپی کا اظہار کیا جلسہ میں پریس کا نمائندہ بھی موجود تھا۔
زنانہ جلسہ کے طور پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب ۶ قادیانیؓ کا مکان استعمال کیا گیا جہاں آلہ جہیر الصورت کے ذریعہ سے مردانہ جلسہ کی پوری کارروائی سنائی دیتی تھی۔ ۲۹ فتح/دسمبر کو سو خواتین کا علیحدہ اجلاس بھی منعقد ہوا۔ غیر مسلم خواتین کی تعداد تیس تھی۔
افسر جلسہ کے فرائض صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے انجام دیئے اور مسیح پاک کی مقدس بستی کے ایثار پیشہ درویش انتظامات جلسہ کے لئے وقف رہے اور مہمانوں کو ہر ممکن آرام پہنچانے کی خاطر ہر تکلیف بخوشی گوارا فرمائی۔
پاکستانی زائرین کی روانگی
پاکستان کے خوش نصیب زائرین جو ۲۴/۲۵ فتح/دسمبر کی درمیانی شب کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے وارد قادیان ہوئے تھے مقامات مقدسہ کی زیارت اور اس مبارک اجتماع میں شرکت کرنے اور شب و روز عبادتوں اور دعائوں میں منہمک رہنے کے بعد ۳۱ فتح / دسمبر کی شام کو واپس ہوئے۔
روانگی سے قبل زائرین کا مسجد اقصیٰ میں فوٹو لیا گیا اور اجتماعی دعا ہوئی۔ پانچ بجے شام مزار مسیح موعود پر مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل نے اجتماعی دعا کرائی بعدازاں سب درویش زائرین کو الوداع کہنے کے لئے بٹالہ والی سڑک پر تشریف لے گئے اور ٹھیک پونے چھ بجے شام زائرین کی دونوں بسیں نصرہ ہائے تکبیر` احمدیت زندہ باد` اور حضرت امیر المومنین زندہ باد کے درمیان روانہ ہوئیں۔ اس موقعہ پر رخصت ہونے والوں اور الوداع کہنے والوں کے جو جذبات تھے الفاظ ان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستانی حدود میں داخل ہوگیا۔۷
امیر قافلہ کے تاثرات
امیر قافلہ نے واپسی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ۲۴ دسمبر کی رات کو گیارہ بجے ہمارا قافلہ نہر کا پل عبور کر کے حدود قادیان میں داخل ہوا۔ جونہی منارۃ المسیح پر ہماری نگاہ پڑی تو طبعیت میں عجیب رقت پیدا ہوئی۔ تقسیم کے وقت مشرقی پنجاب میں مساجد و مقابر اور دینی مدرسوں کی بربادی اور ویرانی کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور جہاں ان کی خستہ حالی سے دل میں ایک درد پیدا ہوا وہاں خدا تعالیٰ کی تحمید و تمجید کی طرف بھی طبعیت مائل ہوئی کہ ایک مقدس بستی اس خطہ میں ایسی بھی ہے جو اللہ تعالیٰ اور محمد~صل۱~ کے ذکر سے معمور ہے۔
ہمارا قافلہ ابھی قادیان سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر تھا کہ ہم نے وہاں دس بارہ سال کے ایک بچہ کو استقبال کے لئے موجود پایا حضرت امیر صاحب جماعت احمدیہ قادیان نے اسے راستہ دکھانے پر مقرر کیا تھا تاکہ ہماری بڑی بڑی لاریاں ایک خاص راستے سے ہو کر مسیح پاک کی بستی میں داخل ہوں وہ بچہ فرط مسرت میں میل ڈیڑھ میل تک لاریوں کے آگے بھاگتا چلا گیا اور اس نے اس وقت تک دم نہ لیا جب تک قافلہ درویشوں کی بستی میں جا داخل نہ ہوا۔ اس بچے کا یہ ولولہ شوق اور جذبہ اخلاق دیکھ کر ہم بہت متاثر ہوئے۔
بستی کے سرے پر درویشان قادیان قافلے کے انتظار میں ہمہ تن شوق بنے کھڑے تھے۔ لاریوں کے پہنچتے ہی تمام فضا نعرہ ` تکبیر اور احمدیت زندہ باد کے پرجوش نعروں سے گونج اٹھی۔ درویشوں نے نہایت محبت بھرے الفاظ سے ہمیں خوش آمدید کہا اور نہایت درجہ اشتیاق کے عالم میں ہم سے بغلگیر ہوئے قادیان کی مقدس بستی` مسیح کے درویشوں کا مسکن` زندہ خدا کی زندہ امانت ہے۔ وہاں ہمارے درویش بھائی اپنے دن اور رات جس طرح خدا تعالیٰ کے حضور آہ وزاری میں بسر کرتے ہیں` اس کے تصور ہی سے روحانی مسرت نصیب ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے یہ عاشق صادق عابد شب بیدار ہیں۔ آدھی رات کے بعد میاں مولا بخش صاحب ۸ باورچی اور سید محمد شریف صاحب سیالکوٹی قادیان کی گلیوں میں نہایت سوز و گذار سے آواز دیتے ہیں کہ مسیح پاک کے درویشو !! آٹھو تہجد کا وقت ہوگیا۔ آٹھو !! اور اپنے مولا کریم کو راضی کر لو۔ چنانچہ درویش اٹھتے ہیں اور پہلے بیت الدعا یا بیت الذکر میں خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہیں پھر چار بجے کے قریب مسجد مبارک میں باجماعت تہجد پڑھتے ہیں۔ اس وقت جس درد کے ساتھ آخری رکعتیں ادا ہوتی ہیں اور جس سوز وگذار کے ساتھ آہ وزاری کی آوازیں بلند ہوتی ہیں ان کی نظیر ملنا محال ہے۔ یقیناً یہ انعام باقی دنیا سے منقطع ہوجانے کا ہی ہے کہ درویشوں کو انقطاع الی اللہ کی آسمانی اور لازوال دولت حاصل ہے۔ ان پاک بندوں کی اس کے سوا کوئی خواہش نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے جلد پورے ہوں اور اسلام کی آخری فتح قریب سے تر آجائے
درویش ذکر و فکر کے ساتھ` اپنے دیگر فرائض سے غافل نہیں بیشتی مقبرہ میں چوبیس گھنٹے پہرہ دینا ان کے معمول میں شامل ہے۔ وہ تبلیغ اسلام کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کے عزم و ثبات کا اثر ہے کہ دنیا کے دور دراز علاقوں سے سیاح اور زائرین ہزاروں کی تعداد میں قادیان آتے ہیں۔ رجسٹر زائرین کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں قریباً تیس ہزار ہندو` سکھ اور عیسائی اور غیر ملکی باشندے محض زیارت قادیان کے لئے آچکے ہیں وہ ان کو جی بھر کے تبلیغ کرتے ہیں۔ انہیں اسلام کا پیغام پہنچاتے اور لٹریچر دیتے ہیں۔
اس بے بضاعتی کے عالم میں بھی انہوں نے ہندوستان کی احمدی جماعتوں کو منظم کر لیا ہے۔ ان کے مبلغ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں جاتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ الغرض وہ اس ملک میں اسلام کی عظمت کا نشان ہیں اور اس کی سر بلندی کی خاطر کوہ وقار بن کر اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں اور اس یقین سے لبریز ہیں کہ بالاخر اسلام ہی دنیا پر غالب آئے گا۔ اس یقین کے برملا اظہار سے وہ قطعاً نہیں ڈرتے بلکہ اپنی تقریروں میں برملا کہتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب کہ احمدی دنیا میں غالب ہو کر رہیں گے۔ یہ خدائی تقدیر ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی۔۹
فصل دوم
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اصحاب مہدی موعود کاپاک گروہ ۱۳۲۶ ہش/۱۹۴۷ء کی حجرت کے بعد بڑی تیزی کے ساتھ اس جہان فانی سے رخصت ہورہا تھا اور جماعت احمدیہ ان مبارک وجودوں سے جلد جلد خالی ہونے لگی تھی جن کو تیرہ سو سال کے بعد خدا کے ایک مرسل کا خدا نما چہرہ دیکھنے اور اس کی بابرکت صحبت میں بیٹھنے کا موقعہ نصیب ہوا تھا۔
۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء میں جو ممتاز بزرگ صحابہ رحلت فرما گئے ان کا مختصر تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:۔
حضرت صاحبزادہ حاجی پیر افتخار احمد صاحبؓ لدھیانوی
)ولادت ۱۴ شعبان ۱۰۱۲۸۲ ھ مطابق ۳ جنوری ۱۸۶۶ء۔ زیارت ۱۱ ۱۸۸۴ء۔بیعت ۱۲ ۹ جولائی ۱۸۹۱ء ۔ وفات ۸ ۔ جنوری ۱۳ ۱۹۵۱ء(
>سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام< میں اپنے مخلصین و محبین میں آپ کا ذکر نہایت پیارے اور محبت بھرے الفاظ میں کیا ہے۔ حضورﷺ~ تحریر فرماتے ہیں:۔
>جی فی اللہ صاحبزادہ افتخار احمد۔ یہ جوان صالح میرے مخلص اور محب صادق حاجی حرمین شریفین منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے حلف رشید ہیں اور بمقتضائے الولد سر لابیہ تمام محاسن اپنے والد بزرگوار کے اپنے اندر جمع رکھتے ہیں۔ اور وہ مادہ ان میں پایا جاتا ہے جو ترقی کرتا کرتا فانیوں کی جماعت میں انسان کو داخل کردیتا ہے۔ خدا تعالیٰ روحانی غذائوں سے ان کو حصہ وافر بخشے اور اپنے عاشقانہ ذوق و شوق سے سرمست کرے۔<۱۳
>حاجی افختار ۔۔۔۔۔ اس عاجز سے کمال درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اور آثار رشد و اصلاح و تقویٰ ان کے چہرے پر ظاہر ہیں۔ وہ باوجود متوکلانہ گذارہ کے اول درجہ کی خدمت کرتے ہیں اور دل و جان کے ساتھ اس راہ میں حاضر ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو ظاہری اور باطنی برکتوں سے متمتع کرے۔۱۴
خود نوشت سوانح
حضرت صاحبزادہ صاحب کی خودنوشت سوانح میں ہے :۔
>میری پیدائش بروز منگل بوقت عصر ۱۴ شعبان ۲۸۲ ہجری کی ہے۔ میرے والد ۱۵ صاحب کو حضرت صاحب کی اطلاع اس وقت ہوئی جب کہ براہین احمدیہ کے تین حصے شائع ہوئے تھے۔ انہوں نے جب ان تین حصوں کو پڑھا اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کی عقیدت واردات آپ کے دل میں مستحکم ہوگئی۔ اس کے بعد براہین احمدیہ حصہ چہارم شائع ہوئی۔ والد صاحب کی ارادت سے آپ کے اہل و عیال اور مریدین بھی زمرہ معتقدین میں شامل ہوگئے۔<
>میرے والد صاحب کو اور میرے بھائی منظور محمد صاحب کو اور مجھ کو حضرت صاحب کی ابتدائی زیارت اس وقت ہوئی جب کہ حضور ۱۸۸۴ء میں سب سے پہلے تین دن کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے تھے۔ میرے والد صاحب اور میرے بھائی صاحب اور میں اور سب احباب حضور کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر گئے تھے حضور کی پہلی زیارت اسٹیشن پر ہوئی ۔ میرے والد صاحب نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں بغیر تلائے حضرت صاحب کو پہچان لوں گا۔ ایسا ہی ہوا کہ حضور جب گاڑی سے اترے بغیر بتلائے والد صاحب نے فرمایا کہ وہ یہ ہیں۔<
>حضرت صاحب نے تین روز محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب صوفی کے ہاں >جو کہ میرے والد صاحب کے مرید تھے< قیام فرمایا<
>حضور تین دن کے بعد لدھیانہ سے تشریف لے گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اطلاع ملی کہ حضرت صاحب شادی کے لئے دہلی تشریف لے جائیں گے اور فلاں وقت ریلوے سٹیشن لدھیانہ سے گاڑی گذرے گی۔ والد صاحب اور لدھیانہ کے احباب پہلے سے سٹیشن پر جا پہنچے میں بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ تھا۔ جتنی دیر گاڑی کھڑی رہی حضور پلیٹ فارم پر ٹھہرے رہے۔ حضور کے ساتھ جو احباب آئے تھے میرے خیال میں شاید چھ سات ہوں گے۔ حضور اور ساتھی سب اپنے معمولی سادہ لباس میں تھے۔ کوئی ایسی علامت نہ تھی جس سے یہ ظاہر ہوسکتا کہ یہ دولہا اور یہ اس کی برات ہے۔<
>حضور مع رفقاء شاید ۱۰۔۱۵ منٹ لدھیانہ پلیٹ فارم پر کھڑے رہے پھر گاڑی پر سوا ہو کر دہلی روانہ ہوگئے۔ واپسی کے وقت پھر لدھیانہ سٹیشن پر گاڑی ٹھہری۔ احباب سے ملاقات کی۔ میرے والد صاحب نے پھلور کے دو ٹکٹ پہلے سے لے لئے تھے۔ میرے بھائی منظور محمد صاحب کو ساتھ لے کر حضور کی گاڑی کے ڈبہ میں سوار ہوگئے میں ساتھ نہیں گیا۔ پھلور لدھیانہ سے ۵ میل ہے اور انجن بدلتا ہے۔ گاڑی نصف گھنٹہ وہاں ٹھہری۔ یہ میرے والد صاحب کا ولی اخلاص تھا جو اس تھوڑے عرصہ کی ملاقات کو غنیمت سمجھا۔ یہ والد صاحب کی حضرت صاحب سے آخری ملاقات تھی کیونکہ اس کے بعد حج کو تشریف لے گئے۔ واپسی کے وقت راستہ میں بیمار ہوگئے اور لدھیانہ آکر چند روز بعد ۱۹۔ ربیع الاول ۳۰۳۰ ۱۶ ہجری کو وفات پاگئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
والد صاحب کی وفات سے تھوڑے عرصہ بعد حضرت صاحب تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لائے تھوڑی دیر قیام فرمایا۔ والد صاحب مرحوم کی محبت` اخلاص اور دینی خدمت کا ذکر فرماتے رہے۔ پھر حضور نے مع حاضرین دعا فرمائی۔ حضور نے قرآن شریف کی یہ آیات وکان ابوھما صالحا۱۷ پڑھ کر فرمایا کہ ان دونوں بچوں پر مہربانی کرنے کی یہ وجہ تھی کہ ان کا باپ صالح تھا )ہم بھی اپنے باپ کے دو ہی لڑکے ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر بھی فضل فرمائے ۔ آمین(
یہ وقت بھی گزر گیا اور حضور کے یہاں صاحبزادہ بشیر احمد صاحب اول تولد ہوئے ۱۸ حضور کا خط لدھیانہ کے احباب کے نام عقیقہ میں شمولیت کے لئے آیا جس میں حضور نے یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ عقیقہ کا ساتواں دن اتوار کو پڑتا تھا مگر کچھ قدرتی اسباب ایسے پیدا ہوگئے کہ عقیقہ بجائے اتوار کے پیر کے دن ہوا جس سے یہ الہام دوشنبہ ہے مبارک دوشنہ پورا ہوتا ہے۔ ہم سب احباب لدھیانہ سے قادیان پہنچے۔ یہ سفر قادیان کا میرا پہلا سفر تھا اس سے پہلے میں نے قادیان کو ہیں دیکھا تھا مہمان مسجد اقصیٰ میں ٹھہرے۔ عقیقہ میں ایک دن یا دو دن باقی تھے کہ بارش شروع ہوئی اور تین دن لگاتار برستی رہی۔ قادیانہ کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہوگیا۔ صاحبزادہ بشیر احمد اولؓ کا عقیقہ بیت الفکر میں ہوا جو کہ بیت الذکر یعنی مسجد مبارک کے ساتھ کا حضور کے دولت خانہ کا کمرہ ہے اور جس کا وہی دروازہ مسجد مبارک کے داہنی طرف اب تک موجود ہے۔ حاضرین مہمانوں کی تعداد اتنی تھی کہ بیت الفکر میں گنجائش ہوگئی۔ مجھے یاد ہے کہ صاحبزادہ بشیر احمد اول مولوی رحیم بخش صاحب کی گود میں تھے جس وقت کح حجام نے سر کے بال اتارے۔ ۔۔۔۔۔ عقیقہ کے بعد ایک دو دن مہمان ٹھہرے۔ پانی کا وہی عالم تھا اگرچہ بارش بند ہوگئی تھی لیکن راستہ پانی سے لبریز تھا۔ یکہ پر اسباب لاد کر احباب پا پیادہ روانہ ہوئے۔ حضور نے پلائو کی دیگر ساتھ کردی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ بٹالہ کے راستے میں بعض جگہ پانی کمر تک پہنچ جاتا تھا۔ یکہ کے پہیے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسی حال میں ہم بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ اسٹیشن بٹالہ پر حضر میر ناصر نواب صاحب رحمتہ اللہ علیہ دو دن سے پانی کی وجہ سی رکے ہوئے تھے۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے حضرت میر صاحب کی رخصت بھی ختم ہوچکی تھی` وہ بھی ہمارے ساتھ ریل پر واپس ہوگئے۔
کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب معہ اہل بیت لدھیانہ تشریف لے گئے اور ہمارے مکان کے بالکل متصل ایک حولی میں فروکش ہوئے اور بیعت کا اعلان کیا<
>اس کے کچھ عرصہ بعد بحمد اللہ تعالیٰ ۱۸۹۲ء کو میں مع اہل و عیال ہجرت کر کے قادیان آرہا حضور نے اپنے رہائش ہی کے مکانوں میں جگہ دی ۔ ۔۔۔۔۔۔ ایک روز حضور نے مجھے فرمایا کہ انسپکٹر مدراس آیا ہوا ہے اس سے کہو کہ قادیان کے سکول میں تم کو رکھ لے۔ ۔۔۔۔۔۔ میں نے محض حضور کے ارشاد کی تعمیل میں انسپکٹر سے مل کر کہا کہ آپ مجھے قادیان کے سکول میں مدرسی کی آسامی دے دیں۔ انہوں نے میری تعلیم وغیرہ کا حال پوچھا اور کہا بہت اچھا میں جا کر حکم بھیج دوں گا۔ اس نے جا کر میری تعیناتی کی باضابطہ کارروائی کی اور میں قادیان کے سکول میں مدرس ہوگیا۔<
>ان دنوں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز )حضرت خلیفہ ثانیؓ ناقل( خورد سال تھے۔ حضور نے مجھے فرمایا کہ میاں کو بھی سکول لے جایا کرو۔ میں حضرت صاحب کے ارشاد کے مطابق حضور کو بھی ساتھ لے جایا کرتا تھا۔<
>پانچ سال کے قریب یہاں قادیان میں رہا پھر مع عیال لدھیانہ چلا گیا۔ ۔۔۔۔۔ پھر ۱۹۰۱ء کو مع اہل و عیال قادیان آیا اور بفضل خدا یہیں رہا۔ ۱۹۰۲ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت اقدس کی اجازت سے محرری کے کام پر مجھے رکھ لیا۔ لنگر اور سکول کا چندہ اور حضرت صاحب ؑ کے خطوط کا جواب لکھنا میرا کام تھا۔ بفضل خدا مسلسل دفتر ڈاک کا کام کرتا رہا یہاں تک کہ ۱۹۲۷ء میں بموجب قواعد ریٹائرڈ ہوگیا۔ محمد اللہ اب حضور کے قدموں میں پڑا ہوں اور دعا کرتا ہوں من دعا ہائے برد بار تو اے ابر بہار۔< ۱۹
حضرت عرفانیؓ کا نوٹ
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے آپ کی وفات پر لکھا :۔
>جہاں تک میرا علم ہے بچپن سے سعادت مند اور زاہد تھے۔ ہر دیکھنے والے کو ان کے چہرہ پر نوڑ نظر آتا تھا۔ وہ رمضان کا مہینہ خصوصیت سے عبادت میں گذارتے اور اعتکاف کرتے تھے اوت تہجد گذار تھے۔ مجھے بارہا ان کے ساتھ تہجد میں شرکت اور سحری میں شریک طعام ہونے کا موقعہ ملا۔ ان کے چہرے پر تبسم کھیلتا تھا میں نے کبھی ان کو غصہ کی حالت میں نہیں پایا۔ وہ اپنے گھر کے کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے تھے اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ارشاد خیرکم خیرکم لاھلہ 10] p[۲۰ پر جوانی سے بڑھاپے تک مخلصانہ عامل رہے۔ اولاد کی تربیت اور اولاد پر شفقت کا بھی وہ ایک خاص نمونہ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور اپ کے اہلیت سے انہیں محبت و اخلاص کا نہایت بلند مقام حاصل تھا۔ وہ توکل علی اللہ کا ایک خاص درجہ رکھتے تھے۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام شہزادوں کی طرح سے گزرے اس لئے کہ ان کے خاندان کے فیض یافتہ لوگ بڑے اخلاص سے خدمت کرتے تھے` لیکن احمدی ہوجانے کے بعد ہی دراصل ان کے توکل کے مقام کا پتہ لگا۔ وہ نہایت قانع انسان تھے اور اپنے فرض کو نہایت محنت اور جفاکشی سے ادا کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا قرب انہیں آپ کے گونہ پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے حاصل تھا اس لئے کہ آپ صیغہ ڈاک میں کام کرتے تھے۔< ۲۱
دیگر خصائل و شمائل
حضرت پیر صاحبؓ کا قد لمبا تھا` آپ کی زندگی فروتنی` کسر نفسی اور عجز و انکسار کی مجسم تصویر تھی۔ فرشتہ خصلت بزرگ تھے۔ خط نہایت پاکیزہ اور بہت عمدہ تھا۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں بے تکلف بات کر لیتے تھے۔ طبعیت پر غور و فکر کا رنگ غالب تھا۔
غایت درجہ کم سخن تھے اور فضول اور زائد باتوں سے طبعی نفرت تھی۔ ہمیشہ راضی بقضاء رہے اور شدید تکلیف میں بھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔ ان کے جوان لڑکے فوت ہوگئے۔ مگر کیا مجال کہ زبان سے اف تک نکل جائے یا چہرے سے کسی قسم کے درد یا تکلیف کا اظہار ہو۔ بڑھاپے اور ضعف کی حالت میں بھی مسجد میں تشریف لاتے۔ آخری عمر میں زیادہ دیر تک بیٹھ نہ سکتے تھے۔ جماعت شروع ہونے سے قبل مسجد میں لیٹ جاتے اور باجماعت نماز کا انتظار فرماتے۔ ۲۲]ydob [tag کتاب >انعامات خدا وند کریم< جو پر حکتگم نصائح پر مشتمل ہے آپ ہی کی تصنیف لطیف ہے اور آپ کے صوفیانہ مزاج کا پتہ دیتی ہے۔
حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ کی اولاد کے نام درج ذیل ہیں :۔
اولاد
)۱( پیر مظہر قیوم صاحب )وفات ۱۸ ۔ جولائی ۱۹۱۷ء(۲۳ )۲( پیر مظہر الحق صاحب ۲۴ )سابق خزانچی صدر انجم احمدیہ ربوہ(۔ )۳( پیر حبیب احمد صاحب )ولادت ۱۹۰۱ء ۔ وفات ۲۶ ۔ فتح ۱۳۴۱ ہش/۲۶ دسمبر ۱۹۲۶ء( )۴( پیر نثار احمد صاحب )وفات ۲۲ اپریل ۱۹۱۲ء( )۵( سعیدہ بیگم صاحبہ )وفات ۲۰ دسمبر ۱۹۱۰ء( )۶( پیر خلیل احمد صاحب مرحوم )ولادت ۱۳ اگست ۱۹۰۷ء وفات ۲۰ امان ۱۳۴۳ ہش/۲۰ مارچ ۱۹۶۴ء( )۷( پیر محمد عبد اللہ صاحب مرحوم ٹیچر مدرسہ احمدیہ قادیان )۸( پیر عبدالرحمن صاحب )۹( سلیمہ بیگم صاحبہ )۱۰( سعیدہ بیگم صاحبہ۔
۲۔ چوہدری امیر محمد خاص صاحب متوطن اہرانہ تحصیل وضلع ہوشیار پور
)بیعت ۴۔۱۹۰۳ء۔۲۵ وفات ۳ امان ۱۳۳۰ ہش/۳مارچ ۱۹۵۱ء(
آپ چوہدری سکندر خان صاحب کے بیٹھے اور چوہدری پیر بخش صاحب عرف باب اولیا سخی پیر شاہ جمال علیہ الرحمتہ کے پوتے تھے۔ ضلع ہوشیار پور میں موضوع اہرانہ` پھگلانہ اور مٹھیانہ کی احمدی جماعتیں آپ ہی کی تبلیغ سے قائم ہوئیں۔
آپ کے بیٹے چوہدری عبداللہ خان صاحب کی روایت ہے کہ آپ نے بتایا کہ ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط ملا جس میں چندہ لنگر خانہ کی تحریک تھی میرے پاس اس وقت کوئی روپیہ موجود نہ تھا میں نے اسی وقت حضرت اقدس کی خدمت میں واپسی خط لکھا کہ ایک شخص میری کچھ اراضی خریدنا چاہتا ہے۔ اس کی آمد پیش حضور کردوں گا۔ دعا فرمائیں۔ حضور کا اپنے قلم مبارک سے لکھا ہوا جواب ملا کہ دعا کی گئی الل تعالیٰ آپ کی یہ منشاء پوری کرے۔ اس خط کے چند دن بعد میرا یہ کام ہوگیا اور روپیہ بھی مجھے مل گیا۔ چنانچہ میں یہ رقم لئے پیدل قادیان کی طرف روانہ ہوگیا۔ دریائے بیاس کو بیٹ کے پتن سے پار کیا ہی تھا کہ کانگڑہ کا زلزلہ آگیا۔ قادیان پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے باغ میں تشریف فرما تھے میں نے وہ رقم پوٹلی کی صورت میں حضور کی خدمت میں نذر کردی۔ )یہ ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے(
چوہدری امیر محمد خان صاحب کے نزدیک ۲۶ حضرت مصلح موعودؓ کے ہسب ذیل الفاظ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے:۔
>پھر جب زلزلہ آیا اور حضرت اقدس باہر باغ میں تشریف لے گئے اور مہمانوں کی زیادہ آمد و رفت وغیرہ ذالک وجوہات سے لنگر کا خرچ بڑھ گیا تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ قرض لے لیں۔ فرماتے ہیں میں اسی خیال میں آرہا تھا کہ ایک شخص ملا جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے تھے اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی اور پھر الگ ہوگیا۔ اس کی حالت سے میں ہرگز نہ سمجھ سکا کہ اس میں اس میں کوئی قیمتی چیز ہوگی لیکن جب گھر آکر دیکھا تو دو سو روپیہ تھا۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اس کی حالت سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی ساری عمر کا اندوختہ لے آیا۔ پھر اس نی اپنے لئے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ میں پہچانا جائو یہ شاکر کا مقام ہے۔< ۲۷
۳۔ منشی حسن دین صاحبؓ رہتاسی :۔
)بیعت ۱۸۹۶ء۲۸ وفات ۱۰۔ امان ۱۳۳۰ ہش/۱۰ مارچ ۱۹۵۱ء۲۹(
آپ حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم صحابی اور بلند پایہ شاعر حضرت منشی گلاب الدین صاحبؓ رہتاسی۳۰ کے بیٹے اور خود بھی نغزگو اور پرجوش فطرتی شاعر تھے جو عرصہ دراز تک احمدیت اور اردو آدب کی خدمت کرتے رہے۔ آپ کے اشعار کا مجموعہ >کلام حسن< کے نام سے شائع شدہ ہے ۳۱ ملکی تقسیم ۱۹۴۷ء کے بعد آپ جہلم میں تشریف لے آئے۔ وفات سے دو ماہ قل لائلپور میں فروکش ہوئے جہاں بیمار ہوگئے جماعت احمدیہ لائلپور نے ان کے علاج معالجہ اور تیمارداری کی پوری کوشش کی مگر بیماری جان لیوا ثابت ہوئی اور آپ ۱۰ امان ۱۳۳۰ہش/۱۰ ۱۹۵۱ء کو انتقال فرما گئے اور لائلپور کے مقامی قبرستان میں سپردخاک کئے گئے۔ ۳۲
۴۔ حضرت شیخ عبدالرشید صاحبؓ بٹالوی
)ولادت اندازاً ۸۸۰ء۔ زیارت۱۹۰۰ء بیعت۱۹۰۱ء۔ وفات ۲۷۔ ہجرت۱۳۳۰ ہش/۲۷۔ مئی ۱۹۵۱ء(
آپ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان مخلص صحابہ میں سے تھے جو عہد شباب کے آغاز میں احمدیت سے وابستہ ہوئے اور باوجود خاندانی مخالفت کے آخر دم تک حق و صداقت کو پھیلانے میں کوشاں رہے۔
آپ کی بیعت کا موجب عبداللہ اور چراغ الدین نامی دو شخص تھے جو امرتسر سے بٹالہ آئے اور قادیان جانے کا شوق ظاہر کر کے آپ کو بھی ہمسفر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ قادیان پہنچے جہاں ان کا ایک رشتہ دار گورنمنٹ کی طرف سے اس خفیہ ڈیوٹی پر متعین تھا کہ آنے والے مہمانوں کے نام نوٹ کرے۔ اس دن حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین بھیرویؓ نے الحمد کی تفسیر فرمائی جس نے آپ کے دل پر خاص اثر کیا۔ اس کے بعد آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ گول کمرہ میں کھانا کھانے اور حضور کی زبان مبارک سے نئے سے نئے حقائق و معارف سننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے نورانی چہرے اور پرجذب کلام نے آپ پر گہرا نقش قائم کردیا اور آپ بار بار قادیان جانے لگے اور پھر جلد ہی حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر لی۔
قبول احمدیت کے بعد آپ پر مخالفت کے گویا پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اہل حدیث برادری نے قافیہ حیات تنگ کردیا۔ اور تو اور آپ کی والدہ صاحبہ بھی آپ پر بہت سختی کرتی تھیں اور آپ کو عاق کرانے کے درپے ہوگئیں۔ آپ کے والد صاحب نے شروع میں تو یہ جواب دیا کہ پہلے یہ دین کے سراسر غافل و بے پروا تھا مگر اب نمازی بلکہ تہجد گذار بن گیا ہے اسے میں کس بات پر عاق کردوں لیکن بعد ازاں وہ بھی اپنی برادری کے سامنے جھک گئے جس پر آپ کو کئی ماہ تک گھر سے باہر رہنا پڑا۔ ۳۳
آپ کا وجود جماعت احمدیہ بٹالہ کے لئے ایک ستون کی حیثیت رکھتا تھا چنانچہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ فاضل )سابق سوداگرمل( تحریر فرماتے ہیں کہ :۔
>بٹالہ احمدیت کا مرکز ان کا مکان ہی تھا۔ بہت خوش خلق ` مہمان نواز اور سخی تھے۔ ساری عمر جماعت بٹالہ کے پریذیڈنٹ رہے۔ بٹالہ میں احمدیوں کے غیروں کے ساتھ متعدد مناظرے اور جلسے ہوئے ان کا انتظام بھی حضرت شیخ صاحبؓ کے ذمہ ہوتا تھا اور عموماً مہمان نوازی کے فرائض بھی شیخ صاحب ہی سرانجام دیتے تھے< ۳۴
۵۔میاں محمد صاحب بستی مندرانی تحصیل سنگھڑ ضلع ڈیرہ غازی خان:۔
)ولادت ؟ وفات ۱۹ تبوک ۱۳۳۰ ہش/۱۹ ستمبر ۱۹۵۱ء(
آپ ایک نیک طبع` غریب النفس مگر دل کے غنی اور دینی غیرت رکھنے والے بزرگ تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ذکر پر آپ کی آنکھیں اکثر پرنم ہوجایا کرتی تھیں۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود آپ ہمیشہ پر اثر رنگ سے تعلیم یافتہ لوگوں تک پیغام حق پہنچاتے رہے۔
آپ دو دفعہ حضورؑ کی زندگی میں دارالامان تشریف لے گئے۔ جب پہلی بار بیعت کر کے اپنے وطن واپس آئے تو آپ کا بائیکاٹ کردیا گیا مگر اس مرد خدا نے اپنے حقیقی رزاق کا سہارا کافی سمجھا۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تھے۔ پورے کنبہ کے اخراجات سر پر تھے اور ذریعہ معاش بند تھا۔ انہیں ایام کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ بعض رشتہ داروں نے تکالیف اور تنگی کو دیکھ کر کہا کہ اگر تم بظاہر ہم لوگوں میں ہی رہتے اور دل میں مرزا صاحبؑ پر اعتقاد رکھتے تو ایسے تنگ نہ ہوتے۔ آپ نے جواب دیا کہ میں منافق کی سی زندگی بسر کروں ؟ مجھے بھوکا مرنا منظور ہے لیکن مجھ سے منافقت نہیں ہوسکتی۔ اگر میں ایسا کروں اور خدا مجھے اندھا کردے تو اس وقت میرا کون رازق بنے گا ؟
بیان فرمایا کرتے تھ کہ جب میں پہلے پہل قادیان دارالامان گیا تو ان دنوں مجھ پر گریہ زاری کی حالت طاری تھی اور میں اکثر رویا کرتا تھا۔ ان دنوں میرے ہاں اولاد نرنیہ نہیں تھی۔ میں دل میں یہ خواہش رکھتا تھا کہ حضور سے اس بارے میں دعا کی درخواست کروں گا لیکن انہی دنوں میں حضور نے ایک تقریر فرمائی کہ بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور بعض لوگوں کے خط آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہمارے ہاں اولاد نہیں یا حضرت !! دعا فرمایئے ہمیں اللہ تعالفی اولاد دے۔ کوئی اپنی مالی تنگی کے بارے میں کہتا ہے۔ کوئی اور ایسی ہی خواہش پیش کرتا ہے۔ گو ہم سب کے لئے دعا کرتے ہیں مگر میرے آنے کی غرض یہ ہے کہ کوئی ایمان سلامت لے جائے مجھے اپنے خواہش کا اظہار کرتے شرم محسوس ہوتی تھی۔ خاموش رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس خاموشی کو نواز کر اولاد نرینہ عطا فرمائی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کی برکت تھی۔ ۳۵
۶۔ حضرت میاں محمدالدین صاحبؓ واصلباقی نویس۔ بلانی ضلع گجرات درویش قادیان:۔
)ولادت۱۸۷۲ء۔ بیعت ۱۸۹۴ء۔ زیارت جون ۱۸۹۵ء۔ وفات یکم نبوت ۳۳۰ ہش/یکم نومبر ۱۹۵۱ء بمقام قادیان(
ابتدائی حالات
موضع حقیقہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے ۵ مارچ ۱۸۸۵ء کو پرائمری کا امتحان کھاریاں سے اور جنوری ۱۸۸۸ء میں مڈل کا امتحان ڈنگہ سیپاس کیا۔ ۱۹ جولائی ۱۸۹۰ء کو حلقہ بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات )پنجاب( میں بطور پٹواری تعینات ہوئے جہاں ۱۹۰۵ء تک رہے۔ بعد میں گرد اور قانون گو بن گئے۔ ۱۹۱۰ء سے لے کر ۱۹۲۹ء تک تحصیل کھاریاں میں واصل باقی نویس رہے پھر چار ماہ ضلع دفتر میں تبدیل ہو کر پنشن حاصل کی۔
>براہین احمدیہ< سے روحانی انقلاب
ان ایام میں جب کہ آپ نے ملازمت شروع کی آپ کی دینی اور عملی حالت سخت ابتر تھی حتیٰ کہ آپ بالکل دہریہ ہوگئے تھے۔ اسی دوران میں حضرت مسیح موعود السلام کے ممتاز صحابی حضرت مرزا جلال الدین صاحبؓ ۳۶ نے اپنے بیٹوں کو اسلمی لٹریچر بھجوایا جس میں براہین احمدیہ بھی تھی۔ آپ کو ان کے بڑے صاحبزادہ مرزا محمد نسیم صاحب۳۷ کے ذریعہ یہ عظیم الشان کتاب دیکھنے کا موقعہ ملا اور اس کے ابتدائی مطالعہ سے آپ کے سب ظلماتی پردے اٹھ گئے اور ایک ہی رات میں کایا پلٹ گئی۔ خود فرماتے ہیں :۔
>آریہ` برہمو` دہریہ لیکچراروں کے بداثر نے مجھے اور مجھ جیسے اور اکثروں کو ہلاک کردیا تھا اور ان اثرات کے ماتحت لا یعنی زندگی بسر کررہا تھا کہ براہین پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں۔ صفحہ ۹۰ کے بقیہ حاشیہ نمبر۴ اور صفحہ نمبر ۱۴۹ کے بقیہ حاشیہ نمبر ۱۱ پر پہنچا تو معاً میری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہوجاتا ہے۔ سردی کا موسم جنوری ۱۸۹۳ء کی ۱۹ تاریخ تھی آدھی رات کا وقت تھا کہ جب میں >ہونا چاہئے< اور >ہے< کے مقام پر پہنچا چڑھتے ہی معاً توبہ کی ۔۔۔۔۔۔۔ عین جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے میرا ایمان جو ثریا سے شاید اوپر ہی گیا ہوا تھا` اتار کر میرے دل میں داخل کیا اور مسلماں را مسلماں باز کروند کا مصداق بنایا جس رات میں میں بحالت کفر داخل ہوا تھا اس کی صبح مجھ پر بحالت اسلام ہوئی۔ اس مسلمانی پر میری صبح ہوئی تو میں وہ محمد الدین نہ تھا جو کل شام تک تھا۔ فطرتاً مجھ میں حیا کی خصلت تھی اور وہ اوباشوں کی صحبت بس عنقا ہوچکی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی برکت سے وہی خصلت حیا واپس دی۔ میں اس وقت اس آیت کے پرتو کے تحت مزے لے رہا تھا الیکم الایمان وزینہ فی قبلوبکم وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولئک ھم الراشدون فضلا من اللہ ونعمتہ واللہ علیم حکیم )الحجرات :۸(
)ترجمہ : لیکن اللہ نے تمہاری نگاہ میں ایمان کو پیارا بنایا ہے اور تمہارے دلوں مین اس کو خوبصورت کر کے دکھایا ہے اور تمہاری نگاہ میں کفر اور اطاعت سی نکل جانے اور نافرمانی کرنے کو ناپسند کر کے دکھایا ہے وہی لوگ سیدھے راستہ پر ہیں یہ محض اللہ کے فضل اور نعمت سے ہے اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے۔(
میاں محمد دین صاحب اپنے واقعہ بیعت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
واقعہ بیعت
>ایمان لانے کے ساتھ ہی قرآن کی عظمت اور محبت نے میرے دل میں ڈیرہ لگایا گویا علم شریعت جو ایمان کی جڑھہے اس کے حاصل کرنے کا شوق اور فکر دا منگیر ہوا۔ ازاں بعد سال ۹۴۔۱۸۹۳ء براہین احمدیہ کا ایک دور ختم کیا جو نماز تہجد کے بعد کیا کرتا تھا اور پھر آئینہ کمالات اسلام پڑھا جو توضیح مرام کی تفسیر ہے۔
حضرت قبلہ منشی مرزا جلال الدین صاحب پنشنر میر منشی رسالہ نمبر ۱۲ ساکن بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات دو ماہ کی رخصت لے کر سیالکوٹ چھائونی سی بلانی تشریف لائے اور بلانی میں ہی میں پٹواری تھا ان سے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا جس کا جواب مجھے اکتوبر ۱۸۹۴ء میں ملا جس میں لکھا تھا کہ ظاہری بیعت بھی ضروری ہے جو میں نے ۵ جون ۱۸۹۵ء مسجد مبارک کے چھت پر بالاخانہ کے دروازہ کی چوکھٹ کے مشرقی بازو کے ساتھ حضرت صاحب سے کی۔<
>مسجد مبارک میں ظہر کی نماز مولوی عبدالکریم صاحب کے اقتدار میں ادا کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ان دنون نماز ظہر اور عصر کے درمیان اور نماز مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد میں تشریف رکھا کرتے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہو کر حضرت صاحب شمالی دیوار کے ساتھ کھڑکی )دریچہ( کے جانب غرب بیٹھے تو میں نے آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھا اور چہرہ اور پیشانی سے نور کی شعاعیں سفید رنگ کی اٹھتی دیکھیں جو بڑی لمبی تھیں اور چھت کو پھاڑ کر آسمان کی طرف جارہی تھیں میں اس نظارہ سے مسرور اور تصویر حیرت ہوگیا۔<
>میں نے حضرت مسیح موعود السلام سے عرض کیا کہ قرآن شریف کس طرح آئے؟ آپ نے فرمایا واتقوااللہ ویعلمکم اللہ ۳۸ )ترجمہ( اور تم تقویٰ کرو خدا تمہارا خود استاد ہوجائے گا۔
پھر میرے دل میں گذار کہ کہ میں علم دین سے ناواقف ہوں اور مولوی لوگ مجھے تنگ کریں گے میں کیا کروں گا اور پوچھنے سے بھی شرم کررہا تھا جو اپ نے بغیر میرے سوال ۔۔۔۔۔۔ ایسے بلند لہجہ اور رعب ناک انداز سے فرمایا کہ میں کانپ گیا۔ فرمایا ہماری کتابوں کو پڑھنے والا کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔<۳۹
کتب حضرت مسیح موعودؑ میں ذکر
جنوری ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۱۳ اصحاب کی فہرست مشمولہ انجام اتھم میں آپ کا نام تیسرے نمبر پر درج فرمایا۔ اسی سال >سراج منیر< شائع ہوئی جس میں مہمان خانہ قادیان کے چند دہندگان میں بھی آپ کا نام شامل تھا۔ ازاں بعد ۲۴ فرور ۱۸۹۸ء کے اشتہار )مشمولہ کتاب البریہ( میں آپ کا نام ۱۱۰ پر شائع ہوا۔
آپ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں دو مرتبہ قادیان دارالامان تشریف لے گئے ۴۰ اور اس پاک اور پر انوار اور برکتوں سے معمور بستی میں ایک ایک ماہ تک قیام فرمایا اور حضرت امام الزمان کی بابرکت مجالس سے اکتساب فیض کیا اور حضورؑ کی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کی تازہ بہ تازہ وحی سنی ۴۱
خدمات سلسلہ
یکم جولائی ۱۹۰۰ء کو حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے چندہ منارۃ المسیح کی تحریک ہوئی جس میں آپ نے ایک سو روپیہ دیا۔
۲۳ اکتوبر ۱۹۰۶ء کو آپ نے اپنی جائیداد کے پانچویں حصہ کی وصیت کی اور ۱۹۰۹ء میں اپنا حصہ جائیداد ادا بھی کردیا۔ بعد میں جو جائیداد پیدا کی اس کا اندراج بھی صدر انجمن احمدیہ میں کرادیا۔ ازاں بعد اپنی آمد کی بھی وصیت کردی اور آخر دم تک اس کی ادائیگی کرتے رہے۔
۱۹۲۹ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کردی۔ کشمیر فنڈ جمع کیا۔ ضلع گجرات کی جماعتوں کا بجٹ تیار کیا۔ کچھ عرصہ پہلے سندھ کی اراضیات میں پھر دفتر جائیداد صدر انجمن احمدیہ میں سرگرم عمل رہے۔
دور درویشی اور وفات
۱۲ تبوک ۱۳۳۶ ہش/۱۲ستمبر ۱۹۴۷ء کو ہجرت کر کے پاکستان آگئے مگر اگلے سال ماہ ہجرت / مئی میں حضرت مصلح موعود کی تحریک پر لبیک کہہ کر مستقل طور پر قادیان تشریف لے گئے۔
درویش آپ سے دینی مسائل سیکھتے اور ناظرہ قرآن پڑھتے تھے۔ بڑھاپے میں بھی بہت ذی ہمت تھے۔ مسجد مبارک سے اترتے اگر کوئی درویش سہارا دینے کی کوشش کرتا تو آپ منع کرتے اور فرماتے کہ میں بوڑھا نہیں ہوں۔ آپ درویشوں کو اکثر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کی باتیں سناتے رہتے تھے۔ آپ کا دستور تھا کہ جب آپ لنگر خانہ میں کھانا لینے کے لئے جاتے اس مقدس دور کی کوئی ایک بات ضرور سنادیتے تھے۔ آپ نے عہد درویشی کمال صدق و صفا کے ساتھ نبھایا اور وفات کے بعد بہشتی مقبرہ کے قطعہ صہابہ میں دفن کئے گئے ۴۲ اور ان ابدال میں شامل ہوئے جن کا ذکر حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے درج ذیل عبارت میں فرمایا ہے :۔
>پنجاب اور ہندوستان سے ہزارہا سعید لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ایسا ہی سرزمین ریاست امیر کابل سے بہت سے لوگ میری بیعت میں داخل ہوئے ہیں۔ اور میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزارہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہرگز ایسا صاف نہیں ہوسکتا۔ اور میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزارہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کرچکے ہیں کہ ایک فرد ان میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے۔< ۴۳
حضرت میاں محمد الدین صاحب کی اولاد :۔
اولاد
۱۔ غلام فاطمہ صاحبہ )ولادت ۳۰ نومبر ۱۸۹۵ء( ۲۔ صوفی غلام محمد صاحب ۴۴ بی۔ایس سی` بی ٹی ریٹائرڈ ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول حال ناظر بیت المال )خرچ( )ولادت ۱۹ اکتوبر ۱۸۹۸ء( ۳۔ ڈاکٹر غلام مصطفٰے صاحب )ولادت ۳۰ مارچ ۱۹۰۱ء( ۴۔ زینب بی بی صاحب )ولادت ۳۱ دسمبر ۱۹۰۳ء( ۵۔ آمنہ بی بی صاحبہ )ولادت ۶ دسمبر ۱۹۰۵ء( ۶۔ چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب بی ۔ اے ` ایل ایل بی۔ بیرسٹر وکیل القانون تحریک جدید )ولادت ۲۱ دسمبر ۱۹۰۹ء( ۷۔ غلام احمد مرحوم )ولادت ۱۵ اپریل ۱۹۱۲ء وفات ۱۸ء مارچ ۱۹۳۲ء( ۸۔ چوہدری غلام یٰسین صاحب بی۔ اے سابق مبلغ اسلام امریکہ )ولادت ۲۸ فروری ۹۱۵ء( امتہ اللہ صاحبہ )ولادت ۱۳ نومبر ۱۹۲۰ء(
حضرت حافظ عبدالعزیز صاحب~رضی۱~ متوطن سیالکوٹ چھائونی :۔
)ولادت تقریباً ۱۸۷۳ء ۔ بیعت ۱۸۹۶ء۴۵۔ وفات ۹۔ نبوت ۱۳۳۰ ہش/۹ نومبر ۱۹۵۱ء(
ابتدائی حالات
سیالکوٹ چھائونی کے ایک موحد گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد چوہدری نبی بخش صاحب بہت متدین اور مہمان نواز تھے۔ آپ نے بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا۔ آپ نہایت صحت اور خوش الحانی سے کتاب اللہ کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ خاندانی وجاہت کے علاوہ اپنی ذاتی خوبیوں کے باعث بچپن ہی سے محبت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
پاکیزہ دینی ماحول میں جواب ہوئے اور عنفوان شباب ہی سے مذہبی مطالعہ کرنے اور دینی مجالس میں بیٹھنے کا شوق تھا۔ صدر بازار سے آپ شہر سیالکوٹ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کا درس سننے کے لئے آیا کرتے تھے۔
سلسلہ احمدیہ میں شمولیت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چرچا سنا تو اپنے پیرو مرشد سید جماعت علی شاہ صاحب علی پوری )ثانی(۴۶ سے پوچھا کہ مرزا صاحب اپنے دعوے میں کیسے ہیں جواب ملا کہ )نعوذ باللہ( جھوٹے ہیں۔ آپ نے دلیل مانگی تو پیر صاحب موصوف نے فرمایا مرید کا کام دلیل مانگنا نہیں بس پیر نے کہا اور مرید نے مان لیا۔ مگر حافظ صاحب ہر بات دلیل سے ماننے کے عادی تھے اس طرح اندھا دھند تقلید آپ کے مزاج اور فطرت کے منافی تھی۔ آپ نے مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور پیر صاحب کی دعوت کی۔ دونوں میں مذہبی گفتگو ہوئی اس تبادلہ خیالات میں پیر صاحب احمدیت کے علم کلام کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور کوئی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے جس پر آپ ان کو چھوڑ کر حضرت مہدی موعود کے دامن سے وابستہ ہوگئے۔
قبول احمدیت کے بعد
قبول احمدیت کے بعد مخالفت کا سلسلہ لازمی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ کو ثبات و استقلال بخشا بلکہ آپ کے بابرکت وجود سے سیالکوٹ چھائونی کی قدیم وفدائی جماعت کو بھی بہت تقویت پہنچی اور آپ کے نیک نمونہ اور تبلیغ سے بہت سی سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں۔
۱۹۱۴ء میں جب کہ مولوی مبارک علی صاحب جیسے عالم فاضل بھی غیر مبائعین میں شامل ہوگئے۔ آپ اس نازک ابتلاء میں مستحکم چٹان بن کر کھڑے رہے اور دوسرے احباب جماعت کی بھی خلافت سے وابستگی کا موجب بنے۔
۱۹۲۸ء میں آپ نے اپنا مکان چھائونی میں تعمیر کرایا تو دو کمرے نماز باجماعت اور جمعہ کی نیت سے بنوائے۔ ایک مردوں کے لئے اور ایک عورتوں کے لئے۔ اس طرح آپ کا مکان مرکز کا کام دینے لگا اللہ تعالیٰ نے آپ کے مال میں اتنی برکت ڈالی کہ آپ نے انیس مکانات اپنے ورثہ میں چھوڑے۔ ان اللہ لایضیع اجر المحسنین۔
حضرت حافظ صاحب قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے۔ ایک دفعہ کسی بدر زبان نے اپ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں تحقیر آمیز الفاظ کہے تو آپ کو اتنا صدمہ ہوا کہ بخار ہوگیا اور دو دن تک ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہے۔ ۴۷
حضرت مولوی عبدالاحد خانؓ میرٹھی کا بیان
حضرت مولوی عبدالاحد خان صاحب میرٹھی نے آپ کی وفات پر لکھا :۔
>حافظ عبدالعزیز صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ صحابہ میں سے تھے۔ حافظ صاحبؓ اور خاکسار نے ایک ہی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی مجھے جہاں تک یاد ہے غالباً نومبر دسمبر ۱۸۹۵ء کے ایام تھے۔ حضرت حافظ صاحبؓ پہلے پیر جماعت علی شاہ کے مرید تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت بھی زوروں پر تھی چھائونی سیالکوٹ صدر میں مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب احمدی تھے اور ایک اور دوست بھی۔ مولوی صاحب نے درس قرآن شریف شروع کیا ہوا تھا اور حافظ صاحبؓ درس میں شامل ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل و احسان کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی۔ حضرت مولانا عبدالکریمؓ کا درس قرآن شریف شہر میں حکیم حسام الدینؓ کی مسجد میں ہوتا تھا۔ خاکسار اور حافظ صاحب سردیوں میں صبح ۵ بجے چھائونی سے اڑھائی تین میل کا فاصلہ چل کر مولوی عبدالکریمؓ کے پیچھے نماز صبح پڑھتے اور درس میں شامل ہوتے۔ اصل میں حافظ صاحبؓ کی بیعت کا بڑا سبب یہ ہوا کہ میں نے حافظ صاحب کو تحریک کی کہ پیر صاحب کی دعوت کریں اور مولوی صاحب کو بھی بلائیں )مولوی مبارک علی صاحب( پھر کچھ ذکر ضرور ہوگا۔ دیکھیں گے پیر صاحب کیا فرماتے ہیں۔ خیر شام کو حافظ صاحب کی بیٹھک میں انتظام ہوا اور پیر صاحب` مولوی صاحب` حاجی حسین بخش صاحب مرید پیر بخش صاحب` منشی الہ بخش احمدی` حافظ صاحب` خاکسار ایک یا دو اور دوست تھے غالباً ۷۔۸ آدمی تھے۔ پیر صاحب نے فرمایا مولوی صاحب کوئی رکوع قرآن شریف کا سنائیں۔ مولوی صاحب نے یاعیسی انی متوفیک۴۸ یہ ہی رکوع سنایا۔ اس وقت شروع شروع میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی زیادہ زیر بحث رہتے تھے اب تو غیر احمدی صاحبان اس بحث کو چھوڑ بھاگے۔ جب پیر صاحب اس رجوع کو سن کر کچھ بولے نہیں بلکہ مولوی صاحب کی خوش الحافی کی تعریف کی تو مولوی صاحب نے خود ہی دریافت کیا کہ آپ کا حضرت مرزا صاحب کے متعلق کیا خیال ہے ؟ پیر صاحب نے فرمایا کہ میں نے باوا صاحب ۴۹ سے پوچھا تھا۔ )یعنی اپنے پیر صاحب سے( باوا صاحب نے کہا وہ >کوڑا< )جھوٹا( ہے۔ مولوی صاحب نے کہا کوئی دلیل ؟ پیر صاحب نے کہا باوا صاحب کے کہنے پر دلیل کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔< دوسرے دن صبح ہی میں نے اور حافظ صاحب نے بیعت کا خط حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت شریف میں ارسال کردیا جس کا جواب حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قلم کا لکھا ہوا مجھ کو اور حافظ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مل گیا۔ الحمد لل¶ہ علی حسبانہ۔
خاکسار اور حافظ عبدالعزیزؓ بچپن کے دوست تھے۔ ایک ساتھ قریب ۲۵۔۳ برس رہے۔ ایک ہی سکول میں پڑھے بلکہ انہیں کے گھر میں رہے۔ حافظ صاحبؓ مجھ سے دو برس بڑے تھے۔ بچپن ہی سے خاموش` کم سخن` سنجیدہ مزاج` نیک سیرت اور خوش اخلاق انسان تھے۔ ہمارے محلہ میں نیز سارے بازار یعنی چھائونی سیالکوٹ میں بغیر امتیاز مذہب و ملت کیا ہندو کیا مسلمان ہر ایک آپ کو عزت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ یہ بالکل سچی حقیقت ہے اور ہر ایک آپ کا احترام کرتا تھا۔ باوجود احمدیت کی سخت مخالفت کے آپ کے حسن اخلاق کی وجہ سے کسی مخالف کو آپ کے سامنے احمدیت کے خلاف زبان کھولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ آپ کی صفائی گوئی` راست بازی` نیک چلنی` اخلاص اور تقویٰ کا ہر ایک مداح تھا۔ علاوہ چھائونی کے چونکہ آپ سنگر کمپنی کے مینجر تھے شہر سیالکوٹ میں بھی بہت آنا جانا رہتا تھا شہر سیالکوٹ کے اکثر و بیشتر لوگ جن سے آپ کو معاملہ پڑتا آپ کے حسن اخلاق` اپ کے اوصاف حمیدہ کے معترف تھے اور آپ کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آتے تھے۔ ہمارے ایک دوست مستری نظام الدین صاحب سپورٹ ورکس سیالکوٹ شہر جو کاربار کے سلسلہ میں چھائونی آتے رہتے تھے اور مولا بخش صاحب بوٹ فروش )جو بعد میں پیغامی ہوگئے( بھی آتے اور حافظ صاحب کی دکان پر ضرور بیٹھک رہتی۔ ایک مرتبہ حافظ جی کی نظر مستری نظام الدین صاحب کے موزوں پر پڑ گئی جو پھٹے ہوئے تھے۔ آپ نے فوراً ان کے پھٹے ہوئے موزے اتروایئے اور اپنے نئے موزے ان کو پہنائے۔۔۔۔۔۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دارالامان سے مولوی کرم دین کے مقدمہ میں ۵۰ تشریف لے جارہے تھے تو میں اور حافظ جیؓ اور مستری نظام الدین تینوں آدمی وزیر آباد سٹیشن سے اسی ٹرین میں سوار ہو کر حضور علیہ السلام کے ساتھ ہی جہلم گئے اور حضور علیہ السلام کے قیام جہلم تک وہیں رہے اور ساتھ ہی واپس ہوئے۔ آہا ! اسٹیشنوں پر کیا کیا نظارے دیکھے اور خاص کر جہلم سٹیشن پر پھرکچہری احاطہ میں` کیا بتائو ؟ جن کا بیان کرنا بڑا طویل ہے جس کی اس خط میں گنجائش نہیں ہے۔ اکثر واقعات میری نوٹ بک میں ہیں جو ذکر حبیب کے وقت دوستوں کو از دیاد ایمان کے لئے سناتا ہوں۔
احاطہ کچہری میں حضور مسیح موعود علیہ السلام کرسی پر بیٹھے ہوتے تھے اور باقی دوست دری پر بیٹھ جاتے اور کچھ دوست چاروں طرف گھیرا باندھ کر کھڑے رہتے حضور تقریر فرماتے۔ اکثر و بیشتر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے جن میں حافظ صاحبؓ اور خاکسار بھی شامل تھے۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹ والے بھی تھے جنہوں نے قریب ہی تھوڑی دوری پر مخالفت میں اکھاڑا لگایا ہوا تھا۔ پھر حضور مسیح موعود علیہ السلام کے لیکچر سیالکوٹ میں بھی حافظ صاحب اور خاکسار شامل رہے۔۵۱
tav.13.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
اولاد
ڈاکٹر رشید احمد صاحب۵۲۔ ارشاد احمد صاحب۵۳ شبیر احمد صاحب۵۴بی۔ اے۔ بشارت احمد صاحب۵۵ بی۔اے۔ شمشاد احمد صاحب۵۶۔ ریاض احمد صاحب۵۷ اعجاز احمد صاحب۵۸ ذوالفقار احمد صاحب۵۹ مبارکہ بیگم صاحب۔ سلطان حیدری بیگم صاحبہ۔ اقبال حیدری بیگم صاحبہ۔
تادم تحریری خدا کے فضل و کرم سے حضرت حافظ صاحب کی اولاد کی مجموعی تعداد ۵۳ تک جا پہنچی ہے خدائے عزوجل نے مہدی موعود کو بشارت دی تھی :۔
>میں تیرے خالص اور ولی محبوں کا گروہ بھی بڑھائوں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا۔<۶۰
۸۔ اخوند محمد اکبر خان صاحبؓ آف ڈیرہ غازی خاں :۔
)ولادت اپریل ۱۸۸۵ء تحریری بیعت ۱۹۰۴ء۔ زیارت ۱۹۰۵ء ۔ وفات ۴۔ فتح ۱۳۳۰ ہش/۴ دسمبر ۱۹۵۱ء(
۱۹۰۳ء میں دفتر ضلع ڈیرہ غازی خان میں ملازم ہو کر راجن پور میں تعینات تھے کہ ایک سعید نوجوان حکیم عبدالخالق صاحب سے ملاقات ہوئی۔ حکیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب کا مطالعہ کرچکے تھے اور رسالہ >ریویو آف ریلیجز< خود آپ کے زیر نظر رہ چکا تھا۔ دونوں نے تحریک احمدیت پر علمی تحقیقی شروع کردی اور دونوں خوش نصیبوں پر اللہ تعالیٰ نے حق کھول دیا اور انہوں نے اوائل ۱۹۰۴ء میں بیعت کا خط لکھ دیا۔
ایک نشان
پرانے ڈیرہ غازی خان میں احمدیت کی سخت مخالفت تھی اور اس میں آپ کے خاندان کے ایک بارسوخ پولیس افسر اخوند امیر بخش خاں صاحب بہت پیش پیش تھے۔ غیر احمدیوں نے احمدیہ مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے سخت ہنگامہ کھڑا کردیا تھا اور یہ صاحب ان کے پشت پناہ بنے ہوئے تھے۔ انہون نے سب انسپکٹر پولیس ڈیرہ غازی خان کو اکسایا کہ فریقین کے سرگردہ لوگوں کی ضمانتیں لی جائیں ۶۱ اخوند صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں ایک عریضہ لکھا جس میں ان صاحب کی مخالفت کا ذکر کیا کہ ان کو اس قدر عناد ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو مجھے قتل کردیں اور ضمانت طلبی کا بھی ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی حضور نے اپنے مبارک ہاتھ سے اس عریضہ کی پشت پر جواب رقم فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے دعا کی گئی ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس کا جلد نیک نتیجہ ظاہر ہوگا اور جماعت کو چاہئے کہ ضمانت ہرگز نہ دیوے ہاں مسجد چھوڑنی پڑے تو چھوڑ دی جاوے اور کسی احمدی کے مکان پر باجماعت نمازوں کا انتظام کر لیا جاوے مگر جماعت کے کسی فرد کو ضمانت ہرگز نہیں دینی چاہئے۔
حضور کے اس جواب کے تھوڑے دنوں بعد اخوند امیر بخش خاں لقمہ اجل ہوگئے اور صاحب ڈپٹی کمشنر نے سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈیرہ غازی خان کی رپورٹ پر ایک مسلمان۔ ای۔ اے سی کو مقرر کردیا کہ وہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مصالحت کرادے مگر کامیابی نہ ہوئی۔ یہ کشمکش جاری تھی کہ آخر دریائے سندھ کی طغیانی سے سارا شہر غرق ہوگیا اور نیا شہر آباد کیا گیا جس میں جماعت احمدیہ نے اپنی نئی مسجد تعمیر کرائی جو نئے شہر میں سب سے پہلے مسجد تھی ۶۲ یہ مسجد فراخ اور کشادہ ہے اور شہر کے مرکزی اور بارونق حصہ میں واقع ہے مسجد میں لائبریری اور مربی سلسلہ کی رہائش کاہ بھی موجود ہے اور جمعہ کے علاوہ پبلک جلسے بھی اسی میں منعقد کئے جاتے ہیں۔
اخلاق
اخوند صاحبؓ نے اپنے زمانہ ملازمت میں خوب پیغام حق پہنچایا۔ آپ مبلغین سلسلہ کو بلوا کر تقریریں کراتے اور اخراجات خود برداشت کرتے تھے۔ اپنے افسروں کو ہمیشہ جماعتی لٹریچر دیتے مستقل چندوں کے علاوہ سلسلہ کی دیگر مالی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ سلسلہ کے لٹریچر سے گہرا شف تھا۔ مرکزی اخبارات` رسائل اور کتب منگواتے اور فرماتے یہی ترکہ میں اپنی اولاد کے لئے چھوڑ جائوں گا۔ جماعتی کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیتے۔ آپ کو اپنے رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں سے تکالیف پہنچیں مگر آپ نے ہمیشہ صبر کیا ور دکھ دینے والوں سے نیکی اور احسان کیا حضرت مصلح موعودؓ اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ اور بزرگان سلسلہ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔
جب آپ دوران ملازمت ملتان میں قیام فرما تھے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا پانچ مرتبہ آپ کے گھر تشریف لائیں۔
عسر ویسر دونوں حالتیں آپ پر آئیں مگر آپ میں شفقت علی خلق اللہ انفاق فی سبیل اللہ اور مہمان نوازی کے اوصاف بدستور قائم رہے۔ مفوضہ کام نہایت توجہ اور محنت سے انجام دیتے آپ کی دیانتداری اپنوں اور بیگانوں میں مسلم تھی۔
ہجرت اور وفات
۱۹۳۸ء میں پنشن ملی تو قادیان آگئے اور ۱۹۴۰ء میں محلہ دار الفضل میں اپنا مکان بنا لیا۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۷ء میں قادیان سے آکر ملتان میں پناہ گزین ہوئے اور ۴ ماہ فتح ۱۳۳۰ہش/۴دسمبر ۱۹۵۱ء کو وفات پائی اور ربوہ میں دفن کئے گئے۔ ۶۳
اولاد
۱۔ صفیہ خانم صاحبہ اہلیہ اخوند محمد عبدالقادر خان صاحب ایم۔ اے مرحوم ریٹائرڈ پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ
۲۔بشری خانم مرحومہ )بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون(
۳۔ اخوند فیاض احمد خان صاحب حال مینجر سیلز انٹرہام لمٹیڈ لاہور۔
۴۔ثریا خانم صاحبہ اہلیہ ضیاء الرحمن صدیقی صاحب۔ ملتان
۵۔ رضیہ خانم صاحبہ اہلیہ پروفیسر حفیظ احمد اعوان صاحب۔ خانپور )ضلع رحیم یار خان(
۶۔ آصفہ خانم صاحبہ اہلیہ پروفیسر ناصر احمد صاحب پشاور
۷۔ فرحت خانم صاحبہ
۸۔ اخوند ریاض احمد خان صاحب۔ ایم ۔ ایس سی۔ حال ربوہ
حضرت ملک برکت علی صاحبؓ والد ماجد خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ
)ولادت۶۴ قریباً ۱۸۶۹ء۔ تحریری بیعت ۶۵ ۱۸۹۷ء دستی بیعت ۶۶ ۲۔۱۹۰۱ء وفات ۶۷ ۲۰ ماہ فتح ۱۳۳۰ ہش / ۲۰ دسمبر ۱۹۵۱ء
خود نوشت حالات
حضرت ملک صاحبؓ اپنے قبول احمدیت اور سفر قادیان کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :۔
>میں گجرات سے تعلیم حاصل کرکے لاہور میں ملازم ہوگیا۔ وہاں جو دفتر کے کلرک تھے انہوں نے پیر سید جماعت علی شاہ ۶۸ کی بیعت کے اور مجھے بھی تحریک کی۔ میں نے بھی ان کے کہنے سے پیر صاحب کی بیعت کر لی اور ہر روز صبح و شام دفتر کے وقت کے علاوہ ان کی صحبت میں رہنے لگا۔ جب عرصہ گزر گیا اور میری طبعیت پر کوئی اثر پیدا نہ ہوا اور نہ ہی میں نے کوئی روحانی ترقی حاصل کی تو پیر صاحب سے سوال کیا کہ مجھے بیعت کئے ہوئے اس قدر عرصہ گزر گیا ہے مگر میری حالت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ پیر صاحب نے کہا کہ آپ مجاہدات کریں اور اس حد تک میرا تصور کریں کہ میرا نقش ہر وقت آپ کے سامنے رہے پھر آپ کو بارگاہ الٰہی میں رسائی حاصل ہوگی۔ میں عرصہ تک ان کا تصور بھی کرتا رہا۔ مجاہدات بھی بڑے کئے مگر کوئی فائدہ حاصل نہ ہو۔ اکونٹنٹ جنرل کے دفتر میں ایک شخص میاں شرف الدین صاحب ہوا کرتے تھے وہ احمدی تو نہ تھے مگر حضرت صاحب کی کتابیں پڑھا کرتے تھے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کو پیر صاحب کی بیعت کئے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا ہے مگر آپ کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں تو ہر روز پیر صاحب کو یہی کہتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ میری حالت میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں آپ کو کوئی کتاب دوں تو کیا آپ پڑھیں گے میں نے کہا کہ ضرور۔ آپ دیں میں انشاء اللہ ضرور پڑھوں گا۔ اس پر انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ایک کتاب مطالعہ کے لئے دی۔ میں نے اس کا مطالعہ کیا۔ پھر انہوں نے دوسری دی۔ یہاں تک کہ چار کتابیں میں نے پڑھ لیں۔ اس کے بعد ایک دن میں نے پیر صاحب کی خدمت میں حضرت صاحب کا ذکر اور پوچھا کہ ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ پیر صاحب نے کہا کہ نہ ہم ان کو اچھا کہتے ہیں نہ برا۔ میں اس جواب پر بہت مستعجب ہوا مگر اس وقت خاموش ہوگیا۔ ایک روز پھر میں نے یہی سوال کردیا۔ پیر صاحب نے پھر وہی جواب دیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ >مگر نہ ان کی کوئی کتاب پڑھو اور نہ وعظ سنو< میں حیران ہوا کہ ایک طرف تو ان پر اچھا یا برا ہونے کے متعلق کوئی فتویٰ نہیں لگاتے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ ان کی کتابیں پڑھو اور نہ وعظ سنو۔ میں نے کہا کہ کیا آپ نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ؟ اس پر پیر صاحب جوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم ان کی کتابیں پڑھیں علماء نے ان پر کفر کا فتویٰ جو لگا دیا ہے۔ ان کا جواب سن کر میرے ذہن میں حضرت اقدس کی تحریرات کا نقشہ کھنچ گیا جس میں حضور نے مخالف علماء کے کفر کے فتویٰ کا ذکر کر کے فرمایا تھا کہ یہ لوگ نہ میری کتابیں پڑھتے ہیں اور نہ میرے خیالات کو انہیں سننے کا موقعہ ملا ہے مگر محض مولوی محمد حسین کے کہنے پر یک طرفہ فتویٰ لگادیا ہے۔
میں نے دل میں کہا کہ پیر صاحب کی بھی یہی حالت ہے کہ بالکل یک طرفہ فتویٰ لگارہے ہیں۔ یہ باتیں سن کر میں پیر صاحب سے بدشطن ہوگیا اور واپس آکر تحقیقات میں مشغول ہوگیا۔ ان ایام میں عبداللہ آتھم کے متعلق حضور کے اشتہارات نکل رہے تھے اور عیسائیوں کی طرف سے بھی اشتہارات نکلا کرتے تھے۔ میں فریقین کے اشتہارات کو ایک فائل کی صورت میں محفوظ کررہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضڑت اقدس کی پیشگوئی آتھم کے بارہ میں بالکل صحیح پوری ہوگئی ہے۔ اس کے بعد لیکھرام کے متعلقہ حضور کے اشتہارات اور تحریرات نکلنا شروع ہوگئیں ان کو بھی میں فائل میں محفوظ کرتا گیا۔ ان ہر دو واقعات کے گزرنے کے بعد مجھے حضرت اقدس کی صداقت کے متعلق اطیمنان ہوگیا اور میں نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ پھر قریباً ۱۹۰۱ء یا ۱۹۰۲ء میں قادیان جا کر دستی بیعت کی۔<
>جب قادیان پہنچے تو مہمان خانہ میں ٹھہرے۔ دوسرے دن حضرت اقدس نماز ظہر کے لئے تشریف لائے ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت اقدس کے زمانہ میں چونکہ مسجد چھوٹی ہوا کرتی تھی اس لئے جب آدمی زیادہ ہوتے تو چھت پر جہاں حضور تشریف فرما ہوتے تھے جہاں کسی کو جگہ مل جاتی وہ بیٹھ جاتا اور ہمہ تن گوش ہو کر حضور کی باتوں کو سنتا۔ بعض غیر احمدی معترض ہوئے کہ آپ پیر ہیں اور نیچے بیٹھے ہیں مگر مرید شہ نشین پر اوپر بیٹھے ہیں۔ حضرت صاحب فرماتے کہ معذوری ہے جگہ تنگ ہے لوگ مجھے پوجنے کے لئے نہیں آئے بلکہ تقویٰ اور طہارت کی باتیں سننے کے لئے آئے ہیں اور میں تو انسان پرستی کو دور کرنے کے لئے آیا ہوں۔
ایک دفعہ جب کہ میں بھوچرا بنگلہ نہر لوئر جہلم ضلع سرگودھا میں تھا ایک ¶سب ڈویژنل افسر مسٹر ہاورڈ میرے خلاف ہوگیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بددیانت تھا اور پہلے کلرک کے ساتھ مل کر کھایا کرتا تھا مگر جب میں گیا تو میں نے ایسی بل بنانے سے انکار کردیا اور کہا اپ میئر منٹ بک ۶۹Book) (Mesurement میں درج کر کے دے دیں میں بل بنادوں گا لیکن کتاب میں درج نہیں کروں گا۔ اس پر وہ بگڑ گیا اور میرے خلاف رپورٹ کردی اور مجھے معطل کردیا۔ وجہ یہ لکھی کہ میں اس کو بدمعاشی کی وجہ سے معطل کرتا ہوں لیکن افسر بالا نے لکھا کہ اس پر چارج شیٹ لگائو اور جواب لے کر بھیجو۔ اس وقت جو جرم مجھ پر لگایا گیا وہ کوئی بھی جرم نہ تھا بلکہ اس قسم کی باتھیں تھیں کہ اس نے فلاں کاغذ پر دستخط کئے ہیں لیکن لفظ پڑتال نہیں لکھا۔ ایسی باتوں کا میں نے مدلل جواب دے دیا۔ خیر کیس چل پڑا اور تین مہینہ تک چلتا رہا۔ میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے درخواست کی حضور کی طرف ے ایک کارڈ پر جواب آیا کہ >دعا کی ہے اللہ تعالیٰ رحم کرے گا۔< اتفاق سے یہ خط ایک شخص پر سرام اور رسیئر کے ہاتھ آگیا اور اس نے پڑھ لیا اس نے مجھے آکر کہا کہ مقدمہ آپ کے حق میں ہوگیا ہے اور آپ بری ہوگئے ہیں۔ میں حیران ہوا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے علم ہوا ؟ اس نے وہ کارڈ مجھے دیا اور کہا اس پر لکھا ہوا ہے۔ میں نے اس سے پڑھا اور کہا کہ یہاں تو یہ نہیں لکھا کہ آپ بری ہوگئے ہیں۔ وہ بولا کہ اتنے بڑے خدا کے بندے نے آپ کے لئے دعا کی ہے بھلا اب کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ بری نہ ہوں ؟؟ چنانچہ اس خط کے مطابق تھوڑے ہی عرصہ کے بعد میں بری ہوگیا اور باوجود اس بات کے کہ میں کلرک تھا اور جھگڑا ایک انگریز سب ڈوینل افسر کے ساتھ تھا مگر اس مقدمہ کی تفتیش کے لئے سپرنٹنڈنٹ اور چیف انجینئر مسٹر مبنٹین تک آئے اور خوب اچھی طرح سے انکوائری کی اور مجھے بری کیا۔<۷۰
اخلاق و عادات
ملک صاحب نے محکمہ نہر میں ملازمت کر کے ۱۹۲۷ء میں پنسن حاصل کی۔ عرصہ دراز تک جماعت احمدیہ گجرات کے جنرل سیکرٹری۔ اور پھر امیر رہے۔ دوران ملازمت اور بعد مین بھی تبلیغ دین کو اپنی غذا بنائے رکھا۔ آپ کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سلسلہ میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ تہجد گذار اور متقی بزرگ تھے ۔ اولو الضرمی اور راست گوئی آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ بہت دعائیں کرنے والے` مستجاب الدعوات` صاحب کشوف و رویا تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور~صل۱~ کے خلفاء کے ساتھ عشق تھا۔ سلسلے کے لئے غیرت رکھنے والے انسان تھے۔ دینی اور دنیاوی لحاظ سے کامیاب اور کامران زندگی گزاری وفات تک تبلیغ کا کام سرانجام دیتے رہے۔ باوجود پیرانہ سالی کے جواں ہمت اور جواں دل تھے اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت کو قبول کیا۔ آپ کے ذریعہ سے آپ کے خاندان اور متعلقین کا اکثر حصہ احمدیت میں داخل ہوا۔ ۷۱
بہتر علمی یادگار
حضرت ملک صاحبؓ کی بہترین علمی یادگار آپ کے فرزند خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ تھے جن کے تبلیغی معرکے ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔ خادم صاحبؓ نے اپنی مایہ ناز کتاب >احمدیہ پاکٹ بک< کا چھٹا ایڈیشن آپ سے معنوں کرتے ہوئے لکھا ہے :۔
>میں اپنے والد مرحوم و مغفور حضرت ملک برکت علی کا نام زیب عنوان کرتا ہوں جن کا عشق دیں اور جوش تبلیغ مجھے ورثہ میں ملا ہے اور جن کی تعلیم و تربیت سے میں خدام احمدیت میں شمار ہونے کے قابل بنا۔<۷۲4] ftr[
فصل سوم
۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں تقریب مسرت
۲۶ فتح ۱۳۳۰ ہش /۲۶ دسمبر ۱۹۵۱ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے سالانہ جلسہ ربوہ کے افتتاح سے قبل اپنے صاحبزاہ مرزا وسیم احمد صاحب اور اپنی صاحبزادی امہ النصیر بیگم صاحبہ کے نکاحوں کا اعلان فرمایا۔ صاحبزادہ صاحب کا نکاح حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی بیٹی امتہ القدوس بیگم صاحبہ سے اور صاحبزادی صاحبہ کا پیر معین الدین صاحب ایم۔ ایس سی ابن حضرت پیر اکبر علی صاحب ۷۳ مرحوم سے ایک ایک ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا تھا۔
حضور نے خطبہ نکاح میں فرمایا کہ >میں اپنی لڑکیوں کا نکاح صرف واقفین زندگی سے کررہا ہوں اور اس رشتہ میں میرے لئے یہی کشش تھی کہ لڑکا واقف زندگی ہے۔< ۷۴
مجاہدین احمدیت کا تبلیغی دورہ
بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دینے والے مجاہدین کے ایک وفد نے صوبہ پنجاب و صوبہ سرہد کا کامیاب تبلیغی دورہ کیا۔ وفد نے لائلپور` سیالکوٹ` جہلم ` راولپندی` کیمبلپور` نوشہرہ` پشاور اور لاہور جیسے مرکزی شہروں کی انفرادی مجالس اور پبلک جلسوں سے خطاب کیا۔ اور`انڈونیشیا` سنگاپور` مشرق وسطیٰ` افریقہ اور یورپ وغیرہ ممالک میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات کے ایمان افروز اور دلچسپ واقعات بیان کئے اور بتایا کہ جماعت احمدیہ کے اسلامی مشن مسلمانان عالم خصوصاً پاکستان کے وقار اور مفادات کا ہر ممکن تحفظ و دفاع کرتے ہیں اور انڈونیشیا کی جنگ آزادی میں احمدیوں نے شاندار کردار ادا کیا ہے۔ وفد کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ مسلمانان پاکستان کو مسئلہ فلسطین کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کر کے انہیں صیہونی حکومت کے خلاف متحد ہونے کی تلقین کرے۔ چنانچہ اس پہلو پر بھی خاص زور دیا گیا۔
وفد جہاں جہاں پہنچا` مقامی جماعتوں نے اس کا پرجوش استقبال کیا اور اس سے استفادہ کرنے کے لئے عمدہ مواقع پیدا کئے۔ احمدیوں کی معلومات اور قوت عمل میں اضافہ ہوا اور غیر احمدی معززین مجاہدین کے کارناموں اور تبلیغی مساعی سے بہتر متاثر ہوئے۔ ۷۵
وفد میں شامل مبلغین کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ حضرت مولانا رحمت علی صاحبؓ مبلغ انڈونیشیا )امیر وفد(
۲۔ حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایازؓ مبلغ سنگاپور
۳۔ شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ فلسطین و شام
۴۔ مولوی غلام احمد صاحب مبلغ عدن۔
۵۔ مولوی عنایت اللہ صاحب احمدی مبلغ مشرقی افریقہ
۶۔ مولوی محمدﷺ~ اسحاق صاحب ساقی مبلغ سپین۔
ربوہ میں ٹیلی فون کا اجراء
خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ربوہ میں دینی خدمت بجالانے کی ساری سہولتیں قلیل ترین عرصہ میں مہیا فرمادیں۔ ریلوے لائن پہلے ہی ربوہ کے رقبہ میں سے گزرتی تھی بعد کو اسٹیشن بھی قائم ہوگیا اور اسٹیشن` ڈاک خانہ اور تار گھرکھلنے کے بعد اس سال ۲۱ ماہ ہجرت/مئی سے ٹیلی فون بھی جاری ہوگیا۔ ربوہ سے پہلا فون امیر جماعت احمدیہ قادیان کو کیا گیا جو حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے درج ذیل الفاظ پر مشتمل تھا۔ :۔
>جماعت کو سلام` بیماروں کی عیادت اور دعائوں کی تحریک۔<۷۶
دفاع وطن کا عہد
ماہ وفا/جولائی کے وسط میں ہندوستان کی بکتر بند فوجیں مشرقی پنجاب اور ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستانی حدود کے اتنے قریب فاصلہ پر جمع ہوگئیں کہ پاکستان کی سالمیت خطرہ میں پڑ گئی۔
اس نازک موقع پر مرکز احمدیت ۔۔۔ ربوہ کی طرف سے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان کے احمدی مادر وطن کے دفاع اور اس کی حفاظت کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اس سلسلہ میں ناظر صاحب امور خارجہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے وزیراعظم کے نام حسب ذیل تار ارسال کیا :۔
>پاکستانی سرحدات کے قریب ہندوستانی فوجوں کے جمع ہونے کی خبر سے افسوس ہوا ہم حکومت کو یقین دلاتے ہیں کہ قوم کے اس نازک وقت میں پاکستان کے احمدی ہر حال میں اپنی حکومت سے پورا پورا تعاون کریں گے اور مادر وطن کے دفاع اور اس کی حفاظت کی خاطر ہر ممکن قربانی کے لئے ہرآن تیار رہیں گے۔< ۷۷
رسالہ الفرقان کا اجراء
وسط ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء میں مولانا ابو العطا صاحب جالندھری سابق مبلغ بلاد عربیہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ نے رسالہ >الفرقان< جاری فرماا۔ اس رسالہ کے تین بنیادی اغراض و مقاصد تھے۔
۱۔ قرآن مجید کے حسن کو نمایاں کرنا اور فضائل قرآنی بیان کرنا۔
۲۔ غیر مسلموں )آریوں` عیسائیوں اور بہائیوں وغیرہ( کے قرآن مجید پر اعتراضات کے جوابات۔
۳۔ اہل پاکستان میں آسان اسباق کے ذریعہ عربی زبان کی ترویج و اشاعت۔
اس رسالہ کے اولین مینجر حضرت بابو فقیر علی صاحب )والد ماجد مولانا نذیر احمد علی صاحب شہید افریقہ( مقرر کئے گئے۔ یہ رسالہ چوبیس سال سے نہایت باقاعدگی اور التزام کے ساتھ چھپ رہا ہے اور اپنے بلند پایہ اور تحقیقی مضامین کے اعتبار سے رسالہ >ریویو آف ریلیجز اردو< کی نمائندگی کرتا ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی نگاہ میں >الفرقان< کو جو علمی افادی اہمیت حاصل تھی اس کا اندازہ حضور کے مندرجہ ذیل ارشاد سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا :۔
>میرے نزدیک الفرقان جیسا علمی رسالہ تیس چالیس ہزار بلکہ لاکھ تک چھپنا چاہئے اور اس کی بہت وسیع اشاعت ہونی چاہئے۔<۷۸
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے نے لکھا :۔
>رسالہ الفرقان بہت عمدہ اور قابل قدر رسالہ ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی اشاعت زیادہ سے زیادہ وسیع ہو کیونکہ اس میں تہقیقی اور علمی مضامین چھپتے ہیں ار قرآن کے فضائل اور اسلام کے محاسن پر بہت عمدہ طریق پر بحث کی جاتی ہے۔ ایک طرح سے یہ رسالہ اس غرض و غایت کو پورا کررہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدنظر رسالہ ریویو آف ریلیجز اردو ایڈیشن کے جاری کرنے میں تھی۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ خواہش بڑی گہری اور خدا کی پیدا کردہ آرزو پر مبنی ہے کہ اگر ایسے رسالہ کی اشاعت ایک لاکھ بھی ہو تو پھر بھی دنیا کی موجودہ ضرورت کے لحاظ سے کم ہے۔ پس مخیر اور مستطیع احمدی اصہاب کو یہ رسالہ نہ صرف زیادہ سے زیادہ تعداد میں خود خریدنا چاہئے بلکہ اپنی طرف سے نیک دل اور سچائی کی تڑپ رکھنے والے غیر احمدی اور غیر مسلم اصہاب کے نام بھی جاری کرانا چاہئے۔ تا اس رسالہ کی غرض و غایت بصورت احسن پوری ہو اور اسلام کا آفتاب عالمتاب اپنی پوری شان کے ساتھ ساری دنیا کو اپنے نور سے منور کرے۔<۷۹
دفتر >حفاظت مرکز< ربوہ میں
دفتر >حفاظت مرکز ہند< جو قریباً تین برس سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی نگرانی میں جو دھامل بلڈنگ )لاہور( میں قائم تھا اس سال کے آغاز میں ربوہ منتقل ہوگیا ۸۰ اور حضڑت میاں صاحبؓ بھیاس جدید مرکز میں رہائش پذیر ہوگئے۔
اس دفتر کا نام سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی منظری سے ۷ ماہ شہادت ۱۳۳۹ ہش/۷ ماہ اپریل ۱۹۶۰ء کو خدمت درویشاں رکھا گیا۔ حضور کے الفاظ مبارک یہ تھے >خدمت درویشاں نام بدل دیں< حضور کا یہ ارشاد اس دفتر میں زیر نمبر ۹۲۷۔۶۰۔۴۔۷ ریکارڈ شدہ ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے نام مبارکباد کا پیغام
۴۔ صلح/جنوری سے لنڈن میں دولت مشترکہ کے وزرائے اعظم کی کانفرنس ہورہی تھی۔ وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جائے گا وہ اس میں شامل نہین ہوں گے۔ اس جرات مندانہ اقدام پر حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے درج ذیل الفاظ میں ان کو مبارکباد کا پیغام دیا:۔
>آپ نے دولت مشترکہ کے وزیراعظم کی کانفرنس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کی شمولیت پر زور دیتے ہوئے جس عزم و ثبات کا اظہار کیا ہے میں اس پر آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اگرچہ ہمارے جماعت کے نزدیک دولت مشترکہ کی رکنیت بھی اہم ہے لیکن اس کے نزدیک یقیناً پاکستان کی سلامتی اور حفاظت کا سوال اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہے خیر سگالی کا جذبہ بیشک ایک قابل قدر اور نہایت بیش قیمت چیز ہے لیکن اپنے ملک کے مفاد کے لئے ثابت قدمی دکھانا بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔ خدا آپ کے ساتھ ہو۔<۸۱
درویشان قادیان کے اہل و عیال کی واپسی
اس سال ایک لمبی جدوجہد اور انتظار کے بعد بارہ درویشوں کے اہل و عیال )جو انقلاب ہجرت کے باعث پاکستان میں آگئے تھے( واپس قادیان جا کر آباد ہوگئے اور یہ سب ان درویشوں کے رشتہ دار تھے جو شروع سے ہندوستان کے باشندے تھے۔ ان بارہ خاندانوں میں سے ایک تو کچھ عرصہ قبل قادیان چلا گیا تھا اور باقی ۲۸ ماہ احسان/ جون کو واپس گئے تھے۔
ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے مصنف >اصحاب< اس واقعہ کی تفصیل میں تحریر فرماتے ہیں :۔
>۱۹۴۸ء سے اہل و عیال کی واپسی کے لئے کوشش ہورہی تھی بالاخر حکومت ہند کی طرف سے چند ماہ قبل اہل و عیال منگوانے کی اجازت ملی اور حکومت پاکستان نے بھی اس کی اجازت دیدی گویا دونوں حکومتوں کے اتفاق رائے سے یہ کام ہوا۔ لیکن گزشتہ ماہ کی ابتداء میں اچانک یہ روح فرسا اطلاع گورنمنٹ ہند کی طرف سے آئی کہ اجازت کی میعاد گزر چکی ہے۔ اس میعاد کی ادھ اور ادھر کے منتظمین کو کوئی اطلاع نہ تھی بلکہ یہ اطلاع تھی کہ کوئی میعاد مقرر نہیں ہے۔ بہرحال منسوخی کی اطلاع ملنے پر صدر انجمن احمدیہ قادیان نے مکرم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز اور خاکسار کو اس سلسلہ میں ولی بھیجا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۲۲ جون کو میعاد توسیع منظور ہو کر لاہور اطلاع چلی گئی۔ پاکستان حکومت کی طرف سے میعاد ۳۰ جون تک کی تھی۔ وقت بہت تنگ تھا اور درویشوں کے اہل و عیال متفرق مقامات پر تھے۔ ان کے جلد اور بروقت پہنچنے کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بہت ہی سعی فرمائی جو خدا کے فضل سے مشکور ہوئی۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء قریباً سارے دوست جن کے اہل و عیال آرہے تھے۔ فون پر اطلاع ملنے پر استقبال کے لئے واہگہ بارڈر پر پہنچ گئے۔ نظارت امور عامہ کی طرف سے انتظام کے لئے اخویم فضل الٰہی صاحب مقرر تھے۔ ۲۸ جون کو گیارہ درویشوں کے اہل و عیال قریباً ساڑھے بجے دن سرحد پاکستان عبور کر کے سرزمین ہند میں داخل ہوئے جہاں سے لاری کے ذریعہ ساڑھے چھ بجے شام روانہ ہو کر قریباً ۸ بجے شام بٹالہ اور وہاں سے ڈیڑھ بجے شب بخیریت تمام قادیان پہنچے۔ سڑک کی خرابی کی وجہ سے قادیان کے راستہ میں ٹرک پھنس گیا اس وجہ سے کافی وقت صرف ہوگیا جوں جوں ان کی آمد میں دیر ہوتی جاتی تھی۔ درویشوں کا اشتیاق اور فکر بڑھتا جاتا تھا اور وہ دست بدعا تھے کہ اللہ تعالیٰ قافلہ کو خیریت سے لائے۔ احمدیہ چوک )نزد مکان حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب( میں درویش ہلال عید کی طرح چسم براہ تھے اور قافلہ کی آمد پر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔< ۸۲
جماعت احمدیہ پشاور کی نئی جامع مسجد
پشاور میں ۱۹۲۳ء سے صرف ایک احمدیہ مسجد کوچہ گلہ اوشاہ میں تھی۔ اب اس سال حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجکیؓ مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تحریک پر سول کوارٹرز میں دوسری عالیشان مسجد بنی۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد حضرت مولانا صاحب~رضی۱~ نے ۲۸ ماہ شہادت ۱۳۳۰ ہش/۲۸ اپریل ۱۹۵۱ء بروز اتوار صبح آٹھ بجے رکھا بنیاد کے بعد آپ نے احادیث نبوی اور اسلامی واقعات کی روشنی میں تعمیر مسجد میں حصہ لینے کی اہمیت بتائی جس پر احمدی دوستوں نے نایت اخلاص اور فراخدلی سی چندہ فرہام کیا یکم شوال ۱۳۷۱ ھ مطابق ۲۴ جون ۱۹۵۲ء کو حضرت مولانا مہبی نے اس میں نماز عید پڑھا کر اس کا افتتاح کیا۔
یہ مسجد صوبہ سرحد کی احمدی مساجد میں سب سی وسیع مسجد ہے اور مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ نے حیات قدسی ۸۳< جلد سوم صفحہ ۰۰۱ پر اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ فاروقی امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد نے اپنی کتاب >تاریخ احمدیہ ۸۴ )سرحد( کے صفحہ ۹۷ پر اس مسجد کا تذکرہ فرمایا ہے۔
قادیان سے رسالہ >درویش< کا اجراء
قادیان کے اہل علم و قلم درویشوں نے ۱۲ صلح ۱۳۲۷ ہش/۱۲ جنوری ۱۹۴۸ء کو >بز درویشاں< کے نام سے ایک علمی مجلس قائم کی جس کا مقصد اسلامی طریق پر فن تقریر سکھانا اور دینی اور علمی قابلیت میں اضافہ کرنا تھا۔ اس مجلس کی ابتدائی دو تین سال درویشوں میں تقریری شوق پیدا کرنے کے لئے وقف رہے ماہ فتح ۱۳۲۹ ہش/دسمبر ۱۹۵۰ء میں مجلس کی پہلی تحریری جدوجہد ایک مجموعہ نظم و نثر کی صورت میں سامنے آئی جس کا نام بھی >درویشان قادیان< تھا۔ ازاں بعد بزم نے اپنے اجلاس )مورخہ ۴ صلح ۱۳۳۰ ہش / ۴ جنوری ۱۹۵۱ء( میں قادیان سے ایک ماہنامہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس رسالہ کا نام >درویش< تجویز فرمایا جس کا پہلا شمارہ ماہ تبوک ۱۳۳۰ ہش/ستمبر۱۹۵۱ء میں شائع ہوا۔
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے اس رسالہ کے لئے حسب ذیل پیغام بذریعہ تار ارسال فرمایا :۔
IDARWESHAN۔BAZM
QADIAN MASIH DARUL ALI MOBARIK O/o
faith your to or God your to do you service Whatever straightiorward, be honst, be earnest, be conuntry, and is work your If you help to people upon look don't۔you help will nobody not if you, help will God God, for
51۔26 RABWAH MASIH KHALIFATUL
)ترجمہ( آپ اپنے خدا` مذہب اور ملک کی خاطر جو خدمت بھی انجام دیں اس میں پوری سنجیدگی` دیانتداری اور استنبازی سے کام لیں۔ انسانی امداد پر انحصار نہ رکھیں۔ اگر آپ کا کام محض اللہ کے لئے ہے تو وہ خود آپ کی تائید و نصرت فرمائے گا ورنہ کوئی فرد آپ کی مدد نہیں کرسکتا۔
خلیفتہ المسیح
۲۶ جولائی۱۹۵۱ ربوہ
رسالہ >درویش< نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کی نگرانی میں چھپتا تھا اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اس کے نگران تھے۔ مولوی مبارک علی صاحب طالب پوری` چوہدری سعید احمد صاحب بی۔ اے آنرز` محمد صادق صاحب ناقد لائلپوری نے بالترتیب اس کی ادارت کے اور مکرم یونس احمد صاحب اسلم نے تابع و ناشر کے فرائض انجام دیئے ابتداً یہ رسالہ پریم پرنٹنگ پریس امرتسر سے چھپوایا گیا۔ پھر راما آرٹ پریس امرتسر سے طبع ہونے لگا۔ رسالہ کا سرورق منارۃ المسیح کے نہایت دلکش اور خوبصورت فوٹو سے مزین ہوتا تھا۔
انقلاب ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد مرکز سے شائع ہونے والا یہ پہلا رسالہ تھا اور اسے ہندوستان اور پاکستان کے مشہور احمدی علماء اور ادباء کی علمی و ادبی سرپرستی حاصل تھی۔ اس کے مضمون نگاروں میں حضرت عرفانی الکبیرؓ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ حضرت مرزا برکت علی صاحب جیسی بزرگ صحابہ اور مولانا ابو العطاء صاحب` مولوی شریف احمد صاحب امینی ` مولوی محمد اسمعیل صاحب یادگیری` مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری` ملک صلاح الدین صاحب ایم ۔ اے اور مولوی مد ابراہیم صاحب مجاہد بلاد عربیہ جیسے علماء اور سید اختر احمد صاحب اور نینوی ایم ۔ اے پٹنہ کالج جیسی اوباء اور شیخ عبدالقادر صاحب محقق عیسائیت` سید ارشد علی صاحب لکھنوی اور پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب جیسے فاضل شامل تھے۔
احمد شعراء میں سے خاص طور پر چوہدری عبدالسلام صاحب اختر` جناب قیس سینائی صاحب` جناب مصلح الدین صاحب راجیکی` جناب عبدالمنان صاحب ناہید اور جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کا کلام رسالہ کی زینت بنتا رہا۔
۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء میں ادارہ >درویش< کا دفتر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی کی بلڈنگ میں قائم تھا اور بزم درویشاں کی لائبریری بھی یہیں تھی۔۸۵
یہ ماہنامہ ماہ ۱ خاء ۱۳۳۱ ہش/اکتوبر ۱۹۵۲ء تک جاری رہا اور پھر اقتصادی مشکلات کے باعث بند کردیا گیا۔ ۸۶
پیغام امام جماعت احمدیہ سیر الیون کے نام
حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت احمدیہ سیر الیون کے سالانہ جلسہ ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء کے لئے مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
برادران جماعت احمدیہ ملک سیر الوین !!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
یہ پیغام میں آپ کے ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء جلسہ کے لئے بھجوارہا ہوں۔ آپ کے ملک میں مغربی افریقہ کے ممالک میں سب سے آخر میں تبلیغ شروع ہوئی ہے۔ لیکن آپ کا ملک چار طرف سے ایسے علاقوں سے گھرا ہوا ہے جو احمدیت سے ناآشنا ہیں۔ پس آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے اور آپ کے لئے کام کے مواقع بھی بہت پیدا ہوجاتے ہیں۔ پس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی محنت اور کوشش کو بڑھائیں اور نہ صرف اپنے علاقہ میں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں بلکہ لائبریا اور فرنچ افریقن علاقوں میں بھی تبلیغ کا کام اپنے ذمہ لیں مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے فرائض کو ادا کریں گے تو آپ کے لئے آخرت میں بہت سا ثواب جمع ہوجائے گا۔ اور اس دنیا میں آپ شمالی افریقہ کے رہنما بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اسلام کی تعلیم پر سچے طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اخلاص اور قربانی اور اتحاد اور نظام کے احترام کا مادہ آپ میں پیدا کرے۔
خاکسار )دستخط( مرزا محمود احمد
خلیفتہ المسیح الثانی ۸۷
دعائوں کی خاص تحریک
تحریک احمدیت کا ایک عظیم مقصد دعا پر زندہ اور غیر متزلزل ایمان بھی ہے اسی لئے سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نئے سے نئے انداز میں جماعت احمدیہ کو اس نقطہ مرکز یہ کی اہمیت و ضرورت کا احساس تازہ رکھتے تھے۔ اس مستقل دستور کے مطابق آپ نے ۲۸ تبوک ۱۳۳۰ ہش/۲۸ ستمبر ۱۹۵۱ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :۔
>خدا تعالیٰ جس کی نصرت پر آتا ہے کوئی طاقت اس کا کچھ بگاڑ نہین سکتی پس اگر دینوی امور میں وہ اس طرح مدد کرتا ہے تو وہ دینی باتوں میں کس طرح مدد نہ کرے گا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس راتوں کو اٹھو خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور انکسار کرو۔ پھر یہی نہیں کہ خود دعا کرو بلکہ یہ دعا بھی کرو کہ ساری جماعت کو دعا کا ہتھیار مل جائے۔ ایک سپاہی جیت نہیں سکتا۔ جتنی فوج ہی ہے۔ اسی طرح اگر ایک فرد دعا کرے گا تو اس کا اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا ایک جماعت کی دعا کا فائدہ ہوگا۔ تم خود بھی دعا کرو اور پھر ساری جماعتکے لئے بھی دعا کرو کہ خدا تعالیٰ انہیں دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر احمدی کے دل میں یقین پیدا ہوجائے کہ دعا ایک کارگر وسیلہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جماعت کے سب افراد مین ایک آگ سی لگ جائے۔ ہر احمدی اپنے گھر پر دعا کررہا ہو۔ پھر دیکھو خدا تعالیٰ کا فضل کس طرح نازل ہوتا ہے ؟< ۸۸
جلسہ >سیرۃ النبیﷺ<~ میں حضرت مصلح موعودؓ کی ایمان افروز تقریر
۱۸ ماہ نبوت ۱۳۳۰ ہش/۱۸ نومبر ۱۹۵۱ء کو پاکستان کے طول وعرض میں جماعت احمدیہ کے زیراہتمام وسیع پیمانے پر سیرۃ النبیﷺ~ کے جلسے منعقد ہوئے۔
اس تقریب پر حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ میں ایک معرکتہ الاراء تقریر فرمائی جس میں سورۃ علق کی سب سے پہلی قرآنی وحی سے نہایت لطیف استدلال کر کے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفٰے~صل۱~ کے ارفع و اعلیٰ و رعدیم المثال خلق عظیم کا روح پرور نقشہ کھینچا۸۹
مبلغین احمدیت کی روانگی اور آمد
اس سال مندرجہ ذیل مجاہدین احمدیت بغرض تبلیغ اسلام بیرونی ممالک کو روانہ ہوئے :۔
۱۔ مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر )برائے سیلو۔ روانگی ۱۶۔ وفا ۱۳۳۰ ہش(
۲۔ شیخ نور احمد صاحب منیر )برائے لبنان ۔ روانگی ۶ ظہور ۱۳۳۰ ہش(
۳۔ مولوی غلام احمد صاحب مبشر )برائے حلب۔ روانگی ۶ ظہور ۱۳۳۰ ہش(
۴۔ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل )برائے سیر الیون۔ روانگی ۲۴ تبوک ۱۳۳۰ ہش(
علاوہ ازیں مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب )مبلغ لنڈن( مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب )مبلغ جرمنی( مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب )مبلغ گولڈ کوسٹ( مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب )مبلغ فرانس( مکرم ملک احسان اللہ صاحب )مبلغ مغربی افریقہ( مکرم قریشی مقبول احمد صاحب )مبلغ انگلستان( اور مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی )مبلغ اردن و شام و لبنان( اعلائے کلمہ اسلام کا فریضہ بجا لانے کے بعد مرکز میں واپس تشریف لائے۔ ۹۰
0] fts[بیرونی ممالک میں احمدیﷺ~ مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں
لبنان ۔ لبنان میں احمدیت کا بیج ۱۳۲۹ ہش/۱۹۵۰ء میں بویا گیا جہاں مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کو اردن و شام میں دعوت حق دینے کے بعد بھجوایا گیا تھا اور جن کے ذریعہ سید فائز الشہابی داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔ یہ پہلے لبنانی تھے جنہیں احمدیت کی نعمت نصیب ہوئی۔ ان کے بعد اس سال السید حسن احمد قزق` السیدہ فخریہ زوجہ ہسن اور الحاج حسین قزق نے بیعت کی اور لبنان میں مقامی احمدیوں کی ایک مختصر جماعت قائم ہوگئی۔
مکرم مولوی رشید اہمد صاحب چغتائی نے پریس اور نیوز ایجنسی سے رابطہ قائم کیا اور ملک کی ممتاز شخصیتوں )مثلاً رفیق بے قصار` لبنانی قانون دان مسٹر فوا درزق ڈاکٹر عمر فروخ وغیرہ( سے ملاقاتین کیں اور ان تک تحریک احمدیت کی آواز پہنچائی۔ آپ نے لبنان کے علمی حلقوں میں کشتی نوح استنقاء حمامتہ البشریٰ` اسلامی اصول کی فلاسفی ` ابطال الوہیت` اور پیغام احمدیت کی بھی اشاعت کی ۔
جناب چغتائی صاحب اسی سال واپس مرکز میں آگئے اور ان کی جگہ جناب شیخ نور احمد صاحب منیر تشریف لے گئے۔
امریکہ
یہ سال امریکہ مشن کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں واشنگٹن کے اندر ایک تین منزلہ مکان خرید کر مسجد فضل کا قیام ہوا۔ یہ مسجد دارالتبلیغ اور لائبریری کے لئے بھی استعمال ہوئی ہے اور امریکہ بھر میں تربیت و اصلاح ` تبلیغ اسلام اور لٹریچر کی تقسیم و اشاعت کا مضبوط اور فعال مرکز ہے۔
اس مسجد میں بااثر طبقہ کے مسلمانوں کے علاوہ نامور غیر مسلم شخصیتوں کی آمد کا باقاعدہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تمام امریکن مشنون پر کنٹرول اور ان کی تنظیم` ان کے چندوں کے انفرادی حسابات` احباب جماعت کے خطوط اور غیر مسلم اصحاب کے سوالوں کے جوابات` امریکن پریس میں اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کی اشاعت پر ان کی تصحیح کا انتظام` اہم اداروں` لائبریریوں ` یونیورسٹیوں سے رابطہ مستشرقین سے تعلقات کا قیام` اور اسلام و احمدیت کے لٹریچر کی وسیع تقسیم و اشاعت وغیرہ سب امور مسجد فضل امریکہ کی دینی سرگرمیوں کا ایک مستقل حصہ ہیں۔ تعمیر مسجد کے بعد نئی دنیا کے تین ہزار میل پر پھیلے ہوئے لمبے محاذ پر اشاعت اسلام کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی۔ ۹۱
>امریکن احمدیوں کی چوتھی سالانہ کنونشن یکم ۲ تبوک/ستمبر کو کلیو لینڈ میں منعقد ہوئی جس میں دو سو مندوبین نے شرکت کی۔ کنونشن میں تربیتی تقاریر کے علاوہ گزشتہ سال کی کارگزاری اور آئندہ سال کے پروگرام پر بھی غور و فکر کیا گیا ۔ ۹۲
اس سال امریکہ مشن کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کی مندرجہ ذیل تحریرات شائع کی گئیں :۔
۱۔ کمیونزم اینڈ ڈیموکریسی )حضرت مصلح موعودؓ(
۲۔ ISLAM I BELIEVE I WHY )حضرت مصلح موعودؓ(
۳۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام )اس کے امریکن ایڈیشن کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دیباچہ بھی رقم فرمایا(
۴۔ CULTURE> ISLAMIC OF BASIS THE AS PRINCIPLES <MORAL )مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب(۹۳
واشنگٹن کے اخبار >واشنگٹن پوسٹ< نے اپنے ۲۲ مارچ ۱۹۵۱ء کے ادارتی نوٹ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے متعلق ایک نازیبا فقرہ اور بے بنیاد محاورہ استعمال کیا جس پر احمدیہ مشن کی طرف سے پرزور احتجاج کیا گیا۔ مکرم چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر انچارج مبلغ اسلام امریکہ نے ایڈیٹر کے ام خط لکھا اور اس افسوسناک حرکت کو آنحضرتﷺ~ کی توہین اور دنیا بھر کے ۳۵۰ ملین مسلمان کی دل آزاری کے مترادف قرار دیا۔
یہ خط واشنگٹن پوسٹ نے ۲۶ ۹۴ مارچ کو قارئین کے کالم میں TO> <OFFENCE MUSLIMS کے عنوان میں سے من و عن شائع کردیا۔
اس موثر احتجاج کا ذکر امریکن رسالہ PATHFINDER نے ۱۸ اپریل ۱۹۵۱ء کے پرچہ میں بھی کیا۔
نائیجیریا
اس سال مکرم مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی انچارج مشن نے تحریک احمدیت سے روشناس کرنے اور مرکز احمدیت اور دیگر جماعتی خبروں کو بروقت افراد جماعت تک پہنچانے کے لئے لیگوس سے >دی نائیجریا احمدیہ بلٹین< BULLENTIN) AHMADIYYA NIGERIA (THE جاری کیا جو پہلے سائیکلوسٹائل ہوتا تھا پھر )اگست ۱۹۵۱ء سے( پریس میں چھپنے لگا۔ بلیٹن کو ابتدائی مراحل میں ہی ایسی غیر معمولی قبولیت حاصل ہوئی کہ اسے دسمبر ۱۹۵۱ء میں TRUTH> <THE کے نام سے ایک باتصویر ماہوار اخبار کی صورت دے دی گئی جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے تحریر فرمایا :۔
>اخبار ٹروتھ کا اجراء خوشکن ہے خدا کرے اس میں ترقی ہو۔ اخبار کو اچھا بنائیں یہ آمد کا بہترین ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اپنا پریس بھی بنانے کی کوشش کریں اس کے ذریعہ بہت کامیابی ہوسکتی ہے۔ آپ پہلی تجارت پریس کے ذریعہ ہی سروع کریں۔ اس ملک میں پریس کی زیادہ ضرورت ہے۔<
اس کے بعد تحریر فرمایا :۔
Truth> کا پرچہ ملا۔ بہت بڑی کامیابی ہے۔ خدا کرے اس سے بڑا ہو۔<
پھر حضور نے اس دلی خواہش کا اظہار فرمایا کہ :۔
>میں سمجھتا تھا کہ آپ کا اخبار ہفتہ وار ہے اب معلوم ہوا ماہوار ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد ہفتہ وار کرنے کی توفیق بخشے اور خدا کرے پھر روزانہ ہوجائے۔<
اس ارشاد پر جولائی ۱۹۵۲ء میں پرچہ کے سائز کو دگنا کر کے اسے ہفتہ وار کردیا گیا۔ یہ اخبار نائیجیریا میں پہلا مسلم اخبار ہے جو اب تک نہایت کامیابی سے ملکی` قومی اور ملی خدمات بجالارہا ہے۔
حضرت امیرالمومنینؓ نے ہفتہ وار ایڈیشن لکھا :۔
>اللہ تعالیٰ ہفتہ واری اخبار مبارک کرے۔ نائب ضرور رکھیں۔ اور پریس کو اور سکول کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ ملک کی آزادی سے پہلے زبردست جماعت بنالیں چار پانچ لاکھ کی جماعت تو شروع میں ضرور ہونی چاہئے۔ ۹۵
انڈونیشیا
انڈونیشیا میں تحریک احمدیت کو اس سال انڈونیشیا کے طول و عرض میں کئی اعتبار سے نمایاں کامیابی نصیب ہوئی اور ترقی کے نئے دروازے کھل گئے۔ دوران سال قریباً آٹھ سو نفسو مہدی موعود کی جماعت میں شامل ہوئے۔ ملک کی احمدی جماعتوں میں تنظیم اور یکجہتی کا دور جدید شروع ہوا اور ان کے چندوں میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ باقاعدگی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ اس سال پہلے سالوں کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ آمد ہوئی۔ اس کے عالوہ طوعی چندوں کی کئی مدات میں انفرادی اور اجتماعی طور پر جماعت انڈونیشیا نے اپنے اخلاص و قربانی کا شاندار نمونہ پیش کیا گزشتہ مالی سال ۹۶ سال میں چونسٹھ ہزار آٹھ سو چھتیس روپے چندہ عام اور حصہ آمد میں جمع ہوئے جب کہ ان مدات میں اس سال ہجرت/مئی سے لے کر اخاء/ اکتوبر تک کی صرف ششماہی آمد باون ہزار روپیہ ہوئی۔
اس سال تا سکملایا میں جماعت نے ایک بار موقعہ جگہ زمین اور مکان خرید کر اسے دار التبلیغ میں تبدیل کردیا۔ جا کرتا کی خستہ مسجد ایک وسیع اور پختہ مسجد کی صورت میں از سر نو تعمیر کی گئی۔ اس کے پہلو میں مبلغ کے لئے رہائشی مکان اور اس کے اوپر مہمان خانہ بنایا گیا۔ پاڈانگ کے ایک پرانے احمدی تاجر باگنڈا ذکریا۹۷ صاحب نے اپنی گنرہ سے ایک بار موقعہ اور وسیع قطعہ زمین اور مکان خرید کر جماعت کے نام وقف کردیا۔
ماہ تبلیغ ۱۳۳۰ ہش/فروری ۱۹۵۱ء میں جا کرتا میں مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی گئی جس کے چند ماہ بعد مجلس اپنا رسالہ سینار اسلام Islam) (Sinar جاری کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
احمدی مبلغین کو دوران سال کئی ایک انڈونیشین لیڈروں` احکام اور دوسری بڑی شخصیتوں سے ملاقاتوں کا موقعہ ملا۔ مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ اس سال بھی حسب سابق ملک کے پہلے صدر مملکت ڈاکٹر سکارنو (Sukarno) کی طرف سے کئی تقریبوں پر مدعو تھے۔ شاہ صاحب کا تعارف ڈاکٹر سکارنو سے پہلی بار مارچ ۱۹۴۷ء میں ہوا تھا جب کہ آپ نے تبلیغی مقاصد کے لئے جو گجا کرتا میں ان کے محل میں ملاقات کی اور لٹریچر پیش کیا۔
اس سال کا اہم واقعہ جماعت ہائے انڈونیشیا کی تیسری سالانہ کانفرنس ۹۸ کا انعقاد ہے جو ۲۷۔۲۸۔۲۹ ماہ فتح/دسمبر کو پاڈانگ )سماٹرا( میں ہوئی پہلی دو کانفرنسیں جاوا میں ہوئیں جہاں احمدیوں کی تعداد زیادہ ہے اور ذرائع آمد و رفت میں سہولتیں بھی ہیں لیکن سماٹرا میں معاملہ اس کے برعکس تھا اور جاوا سے آنے والوں کے پندرہ بیس دن صرف ہوتے تھے۔ مرکزی عہدیداران میں نوے فیصدی سرکاری ملازم تھے جن کے لئے اتنی چھٹی کا ملنا مشکل تھا پر اخراجات سفر کا سوال الگ تھا لیکن ان مشکلات کے باوجود یہ کانفرنس نہایت کامیاب اور ازدیاد ایمان کا باعث ہوئی۔ پہلے روز مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس المبلغین` مکرم مولوی عدالواحد صاحب` مکرم مولوی امام الدین صاحب` مکرم مولوی محمد ایوب صاحب` مکرم مولوی ذینی دھلان صاحب` مکرم سوکری` برماوی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ انڈونیشیا اور دیگر نمائندگان جماعت نے خطاب فرمایا۔ دوسرے دو دن جماعت احڈیہ انڈونیشیا کی ترقی و بہبود کے لئے بعض تجاویز زیر غور لائی گئیں۔ اور ایک لاکھ چوراسی ہزار روپیہ کا بجٹ منظور کیا گیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب کہ جماعت کی آمد و خرچ کا تفصیلی بجٹ جماعت نمائندوں کے سامنے رکھا گیا۔ بجٹ کے اعلان پر پریس کے رپورٹر حیران رہ گئے کہ ایک چھوٹی سی جماعت کس قدر اخلاق اور جوش سے اتنی بھاری رقم ادا کرنے کا وعدہ کررہی ہے۔
آخری اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ چوتھی سالانہ کانفرنس تاسکملایا میں ہوگی۔ اس اجلاس میں مبلغین احمدیت نے دوبارہ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آخر میں جماعت پاڈانگ کے مخلص پریذیڈنٹ جناب ابوبکر نے دردناک تقریر کی جس سے اکثر احباب چشم آب ہوگئے۔ کانفرنس ایک لمبی اور پرسوز دعا پر اختتام پذیر ہوئی۔
اگلے روز پاڈانگ کے ایک بڑے سینما ہال کیپٹل میں جماعت کا تبلیغی جلسہ ہوا جس کی تفصیلی روداد مقامی پریس اور ریڈیو دونوں نے نشر کی۔
مجاہدین انڈونیشیا ہمیشہ ہی اپنے اپنے رنگ میں پاکستان کے مفادات کو پیش نظر رکھتے رہے ہیں۔ انڈونیشیاء میں پاکستان لیگ کا قیام سید شاہ محمدﷺ~ صاحب کی کوشش سے ہوا۔ آپ ان دنوں مرکزی آل انڈیا پاکستان لیگ کے وائس پریذیڈنٹ بھی تھے جو گجا کرتا جس زمانہ میں جمہوریہ انڈونیشیا کا دارالحکومت تھا۔ آپ کو پاکستان کے لئے شاندار جدوجہد کرنے کا موقعہ ملا۔ اس مرکزی شہر میں آپ نے اس محنت سے ملک و قوم کی خدمت کی کہ معلوم ہوتا تھا آپ پاکستان کے باقاعدہ نمائندہ ہیں۔ ڈاکٹر ملک عمر حیات صاحب سابق سفیر پاکستان برائے انڈونیسیاء جو گجا کرتا کے دورہ پر تشریف لے گئے تو آپ کو مقامی اکابرین کے ذریعہ شاہ صاحب کی ان سنہری خدمات کا علم ہوا اور آپ بہت متاثر ہوئے۔ اس سال ڈاکٹر صاحب اپنے دورے میں جہاں جہاں بھی تشریف لے گئے مبلغین سلسلہ اور دیگر احمدی افراد نے ان سے پورا پور اتعاون کیا خاص طور مکرم ڈاکٹر عبدالغفور صاحب احمدی سرا بابا نے )جن کی پرخلوص خدمات کو خود ڈاکٹر ملک عمر حیات صاحب نے خراج تحسین ادا کیا( بالی میں میاں عبدالحی صاحب مبلغ جزیرہ بالی نے ان کے اعزاز میں ایک پارٹی دی جس میں مقامی حکام ورئو ساء بھی مدعو تھے۔ تاسکلمایا میں پاکستان لیگ کے صدر مکرم ملک عزیز احمد صاحب تھے جنہوں نے اس سال ماہ ظہور/اگست میں پاکستان کے متلعق ایک مختصر کتاب بھی تصنیف فرمائی ۹۹۔
شام السید منیر الضنی امیر جماعت احمدیہ شام کے قلم سے >عثرت العلاما فی مخالفہ الاحمدیتہ کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی۔
نئی مطبوعات
اس سال برصغیر پاک و ہند میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مندرجہ ذیل کتب شائع ہوئیں جن سے سلسلہ کے لٹریچر میں مفید اضافہ ہوا:۔
۱۔ اسلام اور مذہبی رواداری
)تقریر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ
۲۔ اصحاب احمد۔ جلد اول
)ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے درویش قادیان(
۳۔ کتاب الاداب
)حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ
۴۔ حیات احمد۔ جلد دوم نمبر سوم
)حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ
۵۔ حیات احمد۔ جلد دوم نمبر سوم
)حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ(
۶۔ اسلامی خلافت کا صحیح نظریہ
)حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۷۔ اشتراکیت اور اسلام
)حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۸۔ اسلام اور اشتراکیت
)چوہدری سردار احمد صاحب بزمی مولویفاضل جامعہ احمدیہ(۱۰۰
۹۔ >تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات<
]2lcol )[tagخطبات مصلح موعودؓ کا سلسلہ مرتبہ ادارہ ترقی اسلام سکندر آباد و دکن(
۱۰۔ یومیہ ۱۳۳۰ ہش/۱۹۵۱ء
)نظارت دعوۃ و تبلیغ کی تیار کردہ سالانہ ڈائری(
ان کتابوں کے علاوہ صیغہ نشر و اشاعت ربوہ کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب >احمدیت کا پیغام )انگریزی( ساڑھے سات ہزار کی تعداد میں شائع کی گئی نیز ۴۱ مختلف عنوانات کے تحت ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ اور ٹریکٹ بھی چھپوائے گئے۔ ۱۰۱
20] p[فصل چہارم
افتاء کمیٹی کا احیاء سالانہ پروگرام بنانے اور صوبجاتی نظام کو مستحکم کا فرمان تبلیغ اسلام کی موثر تحریک اخلاق فاضلہ کے قیام کی جدوجہد بے لوث قومی خدمات بجالانے کی تلقین چوہدری محمدحسین صاحبؓ کی المناک شہادت جلسہ سیالکوٹ پر منظم یورش
)خلافت ثانیہ کا انتالیسواں سال )۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء(
افتاء کمیٹی کا احیاء
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ۱۳۲۲ہش/۱۹۴۳ء میں فقہ اسلامی کے مختلف مسائل پر غور و فکر کرنے کے لئے ایک افتاء کمیٹی قائم فرمائی تھی ۱۰۲ جس کا احیاء اس سال عمل میں آیا اور اس کے دور لو کا پہلا صدر ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدہ و پرنسپل جامعتہ المبشرین کو اور پہلا سیکرٹری مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کو مقرر فرمایا۔
اس سلسلہ میں حضور کے قسلم سے الفضل ۱۱ صلح ۱۳۳۱ ہش کو حسب ذیل اعلان شائع ہوا :۔
>جیسا کہ جلسہ پر اعلان یا گیا تھا فقہی مسائل پر یکجائی غور کرنے اور فیصلہ کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کی ایک کمیٹی مقرر کی جاتی ہے۔ تمام اہم مسائل پر فتویٰ اس کمیٹی کے غور کرنے کے بعد شائع کیا جائے گا۔
ایسے فتاویٰ خلیفہ وقت کی تصدیق کے بعد شائع ہوں گے اور صرف انہی امور کے متعلق شائع ہوں گے جن کو اہم سمجھا گیا ہو۔ ایسے فتاویٰ جب تک ان کے اندر کوئی تبدیلی نہ کی گئی ہو یا تنسیخ نہ کی گئی ہو` جماعت احمدیہ کی قضاء کو پابند کرنے والے ہوں گے اور وہ ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گی۔ ہاں وہ ان کی تشریح کرنے میں آزاد ہوگی لیکن اگر وہ تشریح غلط ہو تو یہی مجلس فتویٰ دہندہ اس تشریح کو غلط قرار دے سکتی ہے۔
اس کمیٹی کے ممبر فی الحال مندرجہ ذیل ہوں گے :۔
۱۔ مولوی سیف الرحمن صاحب پرنسپل جامعتہ المبشرین ۲۔ مولوی جلال الدین صاحب شمس ۳۔ مولوی راجیکی صاحب ۴۔ مولوی ابو العطاء صاحب ۵۔ مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ۶۔ مولوی محمد احمد صاحب جلیل نمائندہ قضاء ۷۔ مولوی تاج دین صاحب نمائندہ قضا ۸۔ مولوی نذیر احمد صاحب ۱۰۳ پروفیسر جامعہ احمدیہ ۹۔ مولوی محمد صدیق صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین ۱۰۔ مولوی خورشید احمد صاحب پروفیسر جامعتہ المبشرین ۱۱۔ مرزا بشیر احمد صاحب ۱۲۔ مرزا ناصر احمد صاحب ۱۳۔ مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا ۱۴۔ شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ لائلپور ۱۵۔ چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج۔
ان ممبران ۱۰۴ کا اعلان سال بہ سال خلیفہ وقت کی طرف سے ہوا کرے گا اور ایک سال کے لئے یہ ممبر نامزد کئے جایا کریں گے۔ مناسب ہوگا کہ کچھ نہ کچھ ممبر اس میں سے بدلے جایا کریں تاکہ جماعت کے مختلف طبقوں کے لوگوں کی تربیت ہوتی رہا کرے۔ خاص امور کے متلعق خلیفہ وقت اس انجمن کا اجلاس اپنی نگرانی میں کروائے گا لیکن عام طور پر یہ کمیٹی اپنا اجلاس اپنے مقررہ صدر کی صدارت میں کیا کرے گی لیکن اس کے فیصلوں کا اعلان خلیفہ وقت کے دستخطوں سے ہوا کرے گا اور ایسے ہی فیصلے سند سمجھے جایا کریں گے۔ مناسب ہوگا کہ کچھ نہ کچھ ممبر اس میں سے بدلے جایا کریں تاکہ جماعت کے مختلف طبقوں کے لوگوں کی تربیت ہوتی رہا کرے۔ خاص امور کے متعلق خلیفہ وقت اس انجمن کا اجلاس اپنی نگرانی میں کروائے گا لیکن عام طور پر یہ کمیٹی اپنا اجلاس اپنے مقررہ صدر کی صدارت میں کیا کرے گی لیکن ان کے فیصلوں کا اعلان خلیفہ وقت کے دستخطوں سے ہوا کری گا اور ایسے ہی فیصلے سند سمجھے جایا کریں گے۔ سردست اس کمیٹی کے صدر جامعتہ المبشرین کے پرنسپل ملک سیف الرحمن صاحب ہوں گے اور اس کے سیکرٹری مولوی جلال الدین صاحب شمس ۔
>مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی ۵۲۔۷۔۱<
یہ مجلس جس کی بنیاد سیدنا محمودؓ جیسے خلیفہ موعود کے مقدس ہاتھوں سے رکھی گئی تھی۔ خدا کے فضل سے اب بھی خلیفہ وقت کی زیر نگرانی گرانقدر فقہی خدمات بجا لارہی ہے۔ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے قاعدہ ۸۷ کے مطابق جن امور میں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے وحدت فکری کے بھی متقضی ہوتی ہیں ان کے بارے میں مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے فتویٰ کی بجائے مجلس افتاء فیصلہ کرتی ہے۔
مجلس افتاء کے سال میں کم از کم چار اجلاس ضرور منعقد ہوتے ہیں ۱۰۵۔ اجلاس کو کورم دس مقرر ہے۔ ۱۰۶ ممبران مجلس کے لئے حکم ہے کہ وہ بیماری یا عدالت میں پیشی کے سوا بہرحال شریک اجلاس ہون یا کم از کم سیکرٹری مجلس کو اجلاس سے ایک روز قبل اپنی معذوری سے مطلع کردیں ورنہ وہ غیر حاضر متصور ہوں گے ایسے رکن سے باز پرس ہوسکے گی۔ ۱۰۷
مجلس افتاء کے فیصلہ )۲۸ ماہ شہادت ۱۳۴۱ ہش/ اپریل ۱۹۶۲ء( کے مطابق اگر کوئی ایسا مسئلہ مجلس افتاء کے زیر بحث آئے جو کسی رکن مجلس کے تنازع متدائرہ قضاء پر اثر انداز ہوتا ہو تو وہ رکن اس مسئلہ کی بحث اور فیصلہ میں شریک نہیں ہوسکتا۔ ۱۰۸
خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں جن مسائل پر مجلس افتا نے غور و فکر کیا ان میں سود اور انشورنس کا مسئلہ خاص طور پر قال ذکر ہے۔ اول الذکر مسئلہ پر مولوی ابو العطاء صاحب` صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور ملک سیف الرحمن صاحب نے ٹھوس اور پرمغز تحقیقی مقالے لکھے جو مجلس افتاء کی طرف سے >اسلام اور ربو< کے عنوان سے شائع شدہ ہیں۔
tav.13.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
فہرست اراکین مجلس افتاء
)از ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء تا ۱۳۵۴ ہش/۱۹۷۵ء(
۱۔
مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ صدر ۲۵۹۱ ء تا ۱۹۶۱ء سیکرٹری ۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۵ء۔
۲۔
مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمسؓ سیکرٹری ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء ممبر ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۷ء۔
۳۔
حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۳۶ء ممبر ۔ ۳۶۱ سے اعزازی ممبر۔
۴۔
مکرم مولوی ابو العطاء صاحب ۱۹۵۲ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۵۔
مکرم مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۸ء ممبر۔
۶۔
مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۹ء ممبر۔
۷۔
مکرم مولوی تاج الدین صاحب ناظم دارالقضا۱۹۵۲ء تا ۱۹۲۹ء ممبر۔
۸۔
مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ۱۹۵۲ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۹۔
مکرم مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۷۴ء ممبر۔
۱۰۔
مکرم مولوی خورشید احمد صاحب شاد ۱۹۲۵ء تا ۱۹۲۶ء ممبر۔
۱۱۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۲۶ء ممبر ۱۹۶۲ء سے اعزازی ممبر
۱۲۔
حضڑت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء ممبر۔ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء نائب صدر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۵ء صدر۔
۱۳۔
مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی سرگودھا ۱۹۵۲ء تا ممبر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۸ء نائب صدر۔ ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء صدر
۱۴۔
مکرم شیخ احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ضلع لائلپور ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۷ء ممبر۔ ۱۹۶۷ء تا ۱۹۶۸ء صدر ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء نائب صدر۔
۱۵۔
مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء ممبر۔
۱۶۔
مکرم مولوی ابو المنیر نور الحق صاحب مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۷ء ممبر ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۱۷۔
مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ صدر۔ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۵ء اعزازی ممبر۔
۱۸۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۳ء ممبر ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۴ء اعزازی ممبر۔
۱۹۔
مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق امام مسجد لندن و مبلغ سوئٹزر لینڈ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء ممبر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۴ء اعزازی ممبر
۲۰۔
مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۱۔
مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید ۱۹۶۱ء ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۲۔
کرمل صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۷ء ممبر۔
۲۳۔
مکرم سید میروائود احمد صاحبؓ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۶ء ممبر ۔ ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۳ء نائب صدر
۲۴۔
مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ سینئر ایڈووکیٹ و جج ہائی کورٹ پنجاب ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء ممبر ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۳ء نائب صدر۔
۲۵۔
مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔اے ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء ممبر۔ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۵ء اعزازی ممبر۔۱۹۶۶ء صدر ۱۹۶۷ء نائب صدر۔ ۱۹۶۸ء تا ۱۹۷۰ء ممبر۔
۲۶۔
مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف ۱۹۶۱ء تا نومبر ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۷۔
مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ غانا ۱۹۶۲ء تا نومبر ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۸۔
مکرم میاں عبدالسمیع صاحب نون ایڈووکیٹ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۳ء ممبر۔ ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۲۹۔
مکرم سید میر محمود احمد صاحب ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۲ء ممبر۔
۳۰۔
مکرم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم۔اے ۱۹۶۲ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۳۱۔
مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم۔اے ایڈیٹر تفسیر القرآن انگریزی ۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۵ء ممبر۔
۳۲۔
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرق افریقہ ۱۹۶۳ء تا ۱۹۷۴ء ممبر۔
۳۳۔
مکرم مولوی عبداللطیف صاحب فاضل بہاولپوری ۱۹۶۳ء تا نومبر ۱۹۷۰ء ممبر۔
۳۴۔
مکرم مولوی محمد صادق صاحب سماٹری ۱۹۶۵ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۳۵۔
مکرم ملک مبارک احمد صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۳۶۔
مکرم شیخ عبدالقادر صاحبؓ )سابق سوداگر مل( مربی لاہور نومبر ۱۹۶۶ء تا نومبر ۱۹۶۷ء ممبر
۳۷۔
مکرم مولوی محمد یار عارف صاحب )سابق مبلغ لندن( نومبر ۱۹۶۶ء تا نومبر ۱۹۶۷ء ممبر۔
۳۸۔
مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب لاہور نومبر ۱۹۶۶ء تا نومبر ۱۹۶۷ء ممبر۔
۳۹۔
مکرم مولوی عبدالمالک خان صاحب ۱۹۶۷ء تا ۱۹۶۸ء ممبر ۱۹۷۰ء تا نومبر ۱۹۷۴ء ممبر۔
۴۰۔
مکرم مولوی امام الدین صاحب مبلغ انڈونیشیا نومبر ۱۹۶۷ء تا نومبر ۱۹۷۰ء ممبر۔
۴۱۔
مکرم سید احمد علی صاحب مربی سلسلہ نومبر ۱۹۶۷ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۴۲۔
مکرم پروفیسر حیبب اللہ خان صاحب ۱۹۶۷ء تا ۱۹۲۹ء ممبر۔ نومبر ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۴ء ممبر۔
۴۳۔
مکرم مولوی محمد اجمل صاحب شاہد مربی سلسلہ نومبر ۱۹۶۸ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۴۴۔
مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد نومبر ۱۹۶۸ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۴۵۔
مکرم ڈاکٹر خلیل الرحمن صاحب ملتان نومبر ۱۹۶۸ء تا نومبر ۱۹۶۹ء ممبر۔
۴۶۔
مکرم پروفیسر سلطان محمود صاحب شاہد ایم۔ایس سی نومبر ۱۹۶۹ء تا نومبر ۱۹۷۰ء ممبر۔][۴۷۔
مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب )ممتاز عالمی سائنسدان( ۱۹۶۷ء تا ۱۹۷۵ء اعزازی ممبر۔
۴۸۔
مکرم نور محمد نسیم سیفی صاحب نومبر ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۴۹۔
مکرم پروفیسر نصیر احمد خان صاحب نومبر ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۵ء ممبر۔
۵۰۔
مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر مبلغ ماریشس و سیلون و افریقہ نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۱۹۷۲ء ممبر۔
۵۱۔
مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد لندن نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۱۹۷۲ء ممبر۔
۵۲۔
مکرم عبدالحکیم صاحب اکمل مبلغ ہالینڈ نومبر ۱۹۷۱ء تا نومبر ۱۹۷۲ء ممبر۔
۵۳۔
مکرم زا خورشید احمد صاحب ناظر خدمت درویشاں نومبر ۱۹۷۴ء تا نومبر ۱۹۷۵ء ممبر۔
۵۴۔
مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب )خلف اکبر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰے( نومبر ۱۹۷۴ء تا نومبر ۱۹۷۵ء )ووٹ کے بغیر ممبر(
دیگر کوائف
۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۱ء تعداد ممبران ۱۵۔ صدر مجلس مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ سیکرٹری مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ
۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۲ء تعداد ممبران ۲۵ صدر مجلس مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ سابق جج ہائیکورٹ و حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب۔
۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۳ء ۔ تعداد ممبرا ۲۴۔ صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم قاضی محمد اسلم صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۳ء تا ۱۹۶۴ء ۔ تعداد ممبر ۲۴۔ صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ حضڑت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔اے کنیٹب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۵ء تعداد ممبران ۲۵۔ صدر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۶ء۔ تعداد ممبر ۶۸۔ صدر مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔اے سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتا احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۷ء تا ۱۹۶۸ء تعداد ممبر ۶۷۔ صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ و مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری مہمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۸ء تا ۱۹۶۹ء۔ تعداد ممبر ۶۸ صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ مکرم سید میر دائود احمد صاحب۔ مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۰ء تعداد ممبر ۲۳۔ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۱ء تعداد ممبر ۲۳۔ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمں صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحبؓ مکرم سید میر دائود احمد صاحبؓ اعزازی ممبر۔ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۲ء۔ تعداد ممبران ۲۶ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ کرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ۔ مکرم سید میر دائود احمد صاحبؓ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۳ء تعداد ممبر ۲۲۔ صدر مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ مکرم شیخ بشیر احمد صاحبؓ۔ مکرم سید میر دائود احمد صاحبؓ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۴ء تعداد ممبران مکرم مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔
۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۵ء تعداد ممبران ۱۸۔ صدر مجلس مرزا عبدالحق صاحب۔ سیکرٹری مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ۔ نائب صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ اعزازی ممبر مکرم چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب لندن۔
)دارلافتاء ربوہ کے ریکارڈ سے مرتب شدہ(
سالانہ پروگرام تجویز کرنے کی ہدایت
۴۔ صلح ۱۳۳۱ہش/جنوری ۱۹۵۲ء کو سال کا پہلا جمعہ تھا جس میں حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے تاکیدی ہدایت فرمائی کہ جماعتی ادارے ہر سال اپنا پروگرام شروع سے ہی تجویز کر لیا کریں اور پھر اس پر سختی سے عمل پیرا ہوں چنانچہ فرمایا :۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پر اب یہ نیا سال چڑھ رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعویٰ کے لحاظ سے باسٹھواں سال ہے اور بیعت کے لحاظ سے چونسٹھواں سال ہے۔ بیعت پر گویا ۲۳ سال گذر گئے ہیں اور دعویٰ کے لحاظ سے جماعت پر ۱۶ سال گذر گئے ہیں۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہماری جماعت کی عمر صدی کے نصف سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مگر کیا ہم جہاں عمر کے لحاظ سے نصف صدی سے اوپر جارہے ہیں ہم ترقی کے لحاظ سے بھی نصف صدی سے اوپر جارہے ہیں یا نہیں۔ جہاں تک جماعت کے متعدد ممالک میں پھیل جانے کا سوال ہے ہماری ترقی قابل تحسین و فخر ہے مگر جہاں تک تعداد کا سوال ہے ہماری جماعت ابھی بہت پیچھے ہے۔ جہاں تک مرکزی طاقت کا سوال ہے ہم اخلاقی اور عقلی طور پر اپنی پوزیشن قائم کرچکے ہیں مگر جہاں تک نفوذ کا سوال ہے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ مگر ہماری مخفلت ترقی کررہی ہے اور اب ان گروہوں اور جماعتوں میں بھی پھیل رہی ہے جو پہلے ہمیں نظر انداز کردیتی تھیں یا ہمارے افعال کو خوشی کی نگاہ سے سے دیکھتی تھیں۔ پس آنے والے سال میں ہمیں مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک انقلابی تغیر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک انقلابی تغیر پیدا کئے بغیر ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ یہ انقلاب ہمارے دماغوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہماری روحوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہمارے دلوں میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہمارے افکار اور جذبات میں پیدا ونا چاہئے۔ ہم اپنے دلوں` روحوں اور دماغوں میں عظیم الشان انقلاب پیدا کئے بغیر اس مقام کو حاصل نہیں کرسکتے یا کم از کم اس مقام کو جلد حاصل نہیں کرسکتے جس کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہر سال اپنے لئے ایک پروگرام مقرر کرنا چاہئے اور اسے پورا کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔<
>ہماری جماعت ایک جہاد کرنے والی جماعت ہے بے شک ہم تلوار کے اس جہاد کے مخالف ہیں جو کسی ناکردہ گناہ پر تلوار چلانے کی اجازت دیتا ہے مگر ہم سے زیادہ اس جہاد کا قائل کوئی نہیں جو جہاد ذہنوں جذبات اور روحوں سے کیا جاتا ہے پس حقیقتاً اگر کوئی جماعت جہاد کی قائل ہے تو وہ صرف ہماری جماعت ہی ہے۔<۱۰۹
]bus [tagصوبجاتی نظام کو مستحکم کرنے کا فرمان
متحدہ ہندوستان میں جماعت احمدیہ کا صوبجاتی نظام ۱۹۳۳ء میں معرض وجود میں آیا تھا۱۱۰ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے علاوہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے صوبوں میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی صوبائی انجمنیں خوش اسلوبی سے کام کررہی تھیں۔ اس سال سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے پنجاب میں بھی صوبائی امارت قائم فرمائی جس کے انتخاب کے لئے صوبہ کے جملہ اضلاع اور ان کے ساتھ دو دو سیکرٹریوں نے حصہ لیا۔ یہ انتخاب ربوہ کی پہلی مسجد مبارک میں ہوا جو اس وقت کچی بنی ہوئی تھی۔ اس انتخاب میں مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا صوبائی امیر مقرر ہوئے۔ صوبائی امارت اگرچہ صرف ایک سال کے لئے قائم کی گئی تھی مگر جب پہلا تجربہ کامیاب رہا تو اس کو مستقل حیثیت دے دی گئی۔ صوبائی امیر کے فرائض اب تک مرزا عبدالحق صاحب ہی انجام دے رہے ہیں۔۱۱۱
حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء کے پہلے خطبہ جمعہ میں مکرم مرزا عبدالحق صاحب اور ان کے رفقاء کار کی مساعی پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :۔
>پہلے پنجاب کا صوبہ` صوبجاتی نظام سے باہر تھا لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے پنجاب کو بھی صوبجاتی نظام میں شامل کردیا گیا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ صوبہ پنجاب کے لئے یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ اسے ابتداء میں ہی ایسے کارکن مل گئے جو اپنے اندر قربانی اور ایثار کی روح رکھتے ہیں۔ مگر خالی اچھے کارکنوں کامل جانا کوئی چیز نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ تمام کارکن اپنا پروگرام مقرر کریں اور پھر اس کے لئے وقت مقرر کریں اور اسے پورا کرنے کی کوشش کریں یہ امر ضرور مدنظر رکھا جائے کہ پروگرام ایسا نہ ہو کہ جس پر عمل نہ کیا جاسکے۔ بعض لوگ خیالی تجاویز بنا لیتے ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ انہیں پورا نہیں کرسکیں گے۔ پروگرام ایسا ہونا چاہئے۔ جس کو وہ مالی لحاظ سے` افراد کے لحاظ سے` اور وقت کے لحاظ سے پورا کرسکتے ہین یعنی عملی پروگرام ہونا چاہئے ایسا پروگرام تجویز نہ کیا جائے کہ جس کو مالی لحاظ سے جاری نہ کیا جاسکے۔ ایسا پروگرام تجویز نہ کیا جائے جس کے لئے اتنے کارکنوں کی ضڑورت ہو جو مہیا نہ ہوسکیں یا ایسا پروگرام ہو جس کے لئے زیادہ وقت کی ضرورت ہو۔ ہر کام معقول اور طاقت کے مطابق ہونا چاہئے۔ ہماری جو طاقت اور قوت ہے اسی کے مطابق ہم کوئی پروگرام بنا سکتے ہیں۔ اور اپنی طاقت کو خواہ وہ کتنی ہی قلیل ہو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔۔ پروگرام ایسا ہونا چاہئے جو عقلی لحاظ سے` مالی لحاظ سے` وقت اور افراد کے لحاظ سے ممکن ہو۔ پھر پوری کوشش کی جائے کہ جو تجویز اور ملپین ۱۱۲ شروع سال میں بنائی جائے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے۔
صوبجاتی نظام کے لحاظ سے بھی ایک پروگرام کی ضرورت ہے۔ پہلا تجربہ ہم یہ کریں گے کہ امراء کو بلا کر شوریٰ کریں گے اور باہمی مشورہ سے ان کے علاقوں کے لئے ایک پروگرام تجویز کریں گی یہ کام نظارت علیا کا ہوتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ جلد سے جلد امراء کو بلا کر مشورہ لے اور ان کے لئے ایک پروگرام مقرر کرے۔ پھر آئندہ ہر سال یہ مجلس ہوا کرے۔ اور پھر آہستہ آہستہ بیرونی ممالک میں سے بھی اگر کسی میں اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ وہ اس مجلس میں شریک ہوسکے تو پھر وہ شریک ہوا کرے اور اس طرح اسے ایک عالمگیر ادارہ بنادیا جائے۔<۱۱۳]ybod [tag
محاسبہ نفس کی دعوت
۱۱ ماہ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کو محاسبہ نفس اور وقت کی قیمت پہچاننے کی تلقین کی اور فرمایا:۔
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ہر انسان کے اندر کوئی وقت سستی کا آجاتا ہے اور کوئی وقت چستی کا آجاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا نام باسط بھی ہے اور قابض بھی ہے اس لئی وہ کبھی انسان کی فطرت میں قبض پیدا کردیتا ہے اور کبھی بسط پیدا کردیتا ہے۔ اس حالت کا علاج یہی ہوا کرتا ہے کہ انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور اپنے گرد و پیش کے حالات کا بھی محاسبہ کرتا رہے۔ اسی لئے صوفیاء نے محاسبہ نفس کو ضرورت قرار دیا ہے۔ میرے دل میں خیال گزرا ہے کہ اگر ہم اپنے تمام وقت کا جائزہ لیتے رہتے تو شاید ہم بہت سی سستیوں سے محفوظ رہتے۔ کسی شاعر نے کہا ہے~}~
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
یعنی گھڑیال سے وقت کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں کی عمر زیادہ ہوگئی لیکن دراصل اس کی عمر کم ہوجاتی ہے۔ فرض کرو کسی کی ۶۰ سال عمر مقدر تھی وہ جب پیدا ہوا تو اس کی عمر کے ساٹھ سال باقی تھے لیکن جب وہ ایک سال کا ہوگیا تو اس کی ایک سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ دو سال کا ہوگیا تو اس کی دو سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ دس سال کا ہوگیا تو اس کی دس سال عمر گھٹ گئی۔ جب وہ بیس سال کا ہوگیا تو اس کی بیس سال عمر گھٹ گئی۔ غرض ہر وقت جو اس پر گزرتا ہے وہ اس کی عمر کو گھٹاتا ہے۔ اسی طرح ہماری زندگی ہے۔ ہمارے بہت سے اوقات یونہی گزر جاتے ہیں اور ہم خیال تک نہیں کرتے کہ ہمارا وقت ضائع ہورہا ہے۔ مثلاً کل مجھے خیال آیا کہ کسی وقت ہم جلسہ سالانہ کی تیاریاں کررہے تھے۔ رات دن کارکن اس کام میں لگے ہوئے تھے اور خیال کررہے تھے کہ جلسہ سالانہ آئے گا تو مہمان آئیں گے۔ ان کے ٹھہرانے اور ان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان ہم نے کرنا ہے۔ وہ دن آئے۔ دوست آئے ہم سے ملے جلے اور چلے بھی گئے ہم دل میں خوش ہوئے کہ ایک سال ختم ہوگیا ہے۔ مگر سوچنے والی یہ بات تھی کہ ہم نے نئے سال کو کس طرح گزارنا ہے۔ جو سال گزر گیا وہ تو کوتاہیوں سمیت گز گیا۔ اصل چیز تو آنے والا سال ہے۔ کل مجھے خیال آیا کہ یا تو ہم اتنے جوش اور زور شور سے آئندہ جلسہ کی تیاریاں کررہے تھے اور یہ اب اس جلسہ پر چودہ دن گزر گئے ہیں اور ابھی ہم بیکار بیٹھے ہیں۔ چودہ دن کے معنے دو ہفتے کے ہیں ۵۳ ہفتوں کا سال ہوتا ہے دو ہفتے گزر جانے کا مطلب یہ ہوا کہ سال ۲۶ واں حصہ گزر گیا لیکن ابھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ وہ جلسہ سالانہ کی کوفت دور کررہے ہیں۔ دو ہفتے اور گزر گئے تو سال کا تیرھواں حصہ گزر جائے گا لیکن نئے سال کے لئے شورا شوریٰ شروع نہیں ہوگی چودہ دن اور گزر جائیں گے تو سال کا گیارہ فیصدی حصہ گزر جائے گا۔ اور چودہ دن اور گزر گئے تو سال کا پندرہ فیصدی حصہ گزر جائے گا۔ غرض بہت تھوڑی تھوڑی غفلت کے ساتھ ایک بہت بڑی چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں۔ ہر سال جو ہم پر آئے بجائے پچھلے سال کے ہم آئندہ سال پر نظر رکھیں۔ ہر دن ہم سوچیں کہ کام کے ۳۶۵ دنوں میں سے ایک دن گزر گیا ہے۔ ہم نے کس قدر کام کرنا تھا اس میں سے کس قدر کام ہم نے کر لیا ہے اور کس قدر کام کرنا باقی ہے ؟ اگر ہم اس طرح غور کرنا شروع کردیں تو ہم اپنے وقت کو پوری طرح استعمال کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہم سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔< 4] f[st۱۱۴
تبلیغ اسلام کی موثر تحریک
تحریک جدید کا نظام دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کی غرض سے قائم کیا گیا تھا یہی وجہ تھی کہ حضرت مصلح موعودؓ ہمیشہ اس کے مالی جہاد میں شرکت کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں حضورؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء میں جماعت کو نصیحت فرمائی کہ :۔
>جس جہاد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیش کیا تھا اور جو جہاد ہم کررہے ہیں وہ کسی وقت بھی ہٹ نہیں سکتا۔ ہر وقت نماز یا جہاد اور ذکر الٰہی ضروری ہیں۔ جہاد کے معنے ہیں اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنا اور غیر مسلموں کو اسلام میں لانے کے لئے تبلیغ کرنا اور روز و شب جماعت سے ہمارا یہی خطاب ہوتا ہے ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ تم دوسرے لوگوں کو تبلیغ کے ذریعہ مسلمان بنائو۔ ہمارا جہاد وہ ہے جو نماز کی طرح روزانہ ہورہا ہے اور جو احمدی اس جہاد میں حصہ لیں گے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جہاد کررہے ہیں لیکن جو لوگ اس جہاد میں حصہ نہیں لیں گے ہم ان کے متعلق فتویٰ تو نہیں دیتے لیکن جس طرح نماز نہ پڑھنے والا سچا مسلمان نہیں ہوسکتا اسی طرح اسلام کی اشاعت کے لئے قربانی نہ کرنے والا بھی سچا مسلمان یا سچا احمدی نہیں کہلا سکتا۔ لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مقدمات میں کس طرح اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں۔ اب کفر و اسلام کے مقدمہ میں جو حصہ نہیں لیتا اور اسے نفلی سمجھتا ہے وہ کیسے سچا مسلمان کہلا سکتا ہے؟ تحریک جدید نفلی اس لئے ہے کہ ہم اس میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دیتے لیکن فرض اس لحاظ سے ہے کہ اگر تمہیں احمدیت سے سچی محبت ہے تو تحریک جدید میں حصہ لینا تمہارے لئے ضروری ہے۔ جب ماں بچہ کے لئے رات کو جاگتی ہے تو کون کہتا ہے کہ اس کے لئے رات کو جاگنا فرض ہے۔ بچہ کی خاطر رات کو جاگنا فرض نہیں نفل ہے۔ لیکن اسے رات کو جاگنے سے کون روک سکتا ہے؟ جس سے حبت ہوتی ہے اس کی خاطر ہر شخص قربانی کرتا ہے اور یہ نہیں کہ ایسا کرنا فرض نہیں نفل ہے۔ اسی طرح جو شخص اسلام اور احمدیت سے سچی محبت رکھتا ہے وہ یہ نہیں کہے گا کہ ان کی اشاعت کی خاطر قربانی کرنا فرض نہیں بلکہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے قربانی کرنا اسے فرض سے بھی زیادہ پیارا لگے گا کیونکہ وہ سمجھے گا کہ ایسا کرنے سے اسلام کو دوبارہ شوکت و عظمت حاصل ہوجائے گی بلکہ جب تبلیغ جہاد کا ایک حصہ ہے تو اس میں حصہ لینا فرض ہی کہلانے کا مستحق ہے۔< ۱۱۵
اخلاق فاضلہ کے قیام کی جدوجہد
۲۵ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء کو سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے بذریعہ خطبہ جمعہ یہ ارشاد فرمایا کہ قومی اخلاق کو راسخ کرنے کے لئے ہمیں اجتماعی جدجہد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ حضورؓ نے خطبہ کے پہلے حصہ میں فرمایا کہ:۔
>ہم نے دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کرنا ہے کہ اخلاق فاضلہ دنیا سے مٹ گئے تھے اب جماعت احمدیہ اخلاق فاضلہ پر قائم ہے اور ہر نیا تغیر جو رونما ہوتا ہے` ہر خرابی جو پیدا ہوتی ہے اس سے اگر ہم بھی متاثر ہوجاتے ہیں تو ہم دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیسے کرسکتے ہیں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے جرائم میں قومی اثر بھی ضرور داخل ہوتا ہے۔ مثلاً چوری ہے` ڈاکہ ہے` یہ ایک شخص کا فعل نہیں ہوتا بلکہ ایسا فعل کرنے والوں کو اس کے ہمسائے بھی جانتے ہیں۔ اگر سارے لوگوں کے اندر غیرت پیدا ہوجائے اور احساس پیدا ہوجائے تو ایسے لوگوں کا پکڑا جانا آسان ہے۔ مثلاً حرام خری ہے دکاندار ٹھگی کرتے ہیں وہ اچھی چیز میں خراب چیز کی آمیزش کردیتے ہیں تو اس کا ہر گاہک کو پتہ ہوتا ہے۔ اگر ہر شخص بجائے یہ کہنے کے کہ مجھے مصیبت اٹھائے کی کیا ضڑورت ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجائے اور کہے کہ میں اسے برداشت نہیں کرسکتا تو دیکھ لیں ایسی لوگ فوراً اپنی اصلاح کرلیں گے۔<
خطبہ کے آخر میں اس نکتہ معرفت کی طرف متوجہ فرمایا :۔
>شیطانی کاموں کے لئے قربانی اور ایثار کی ضرورت نہیں ہوتی قربانی اور ایثار کی ضرورت خدائی کاموں کے لئے ہوتی ہے۔ شیطان کو نبی بھیجے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ شیطانی باتیں خودبخود چلتی جاتی ہیں کیونکہ ان میں ہر ایک کو مزا ملتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نبی بھیجتا ہے۔ انہیں ماریں پڑتی ہیں` دکھ دیئے جاتے ہیں اور بعض اوقات انہیں جانیں دینی پڑتی ہیں۔ اس طرح بڑی قربانی اور ایثار کے بعد ایک جماعت بنتی ہے اور شیطان اسے پھر خراب کردیتا ہے۔ انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں ترقی کی لیکن جب ان کا زمانہ ختم ہونے کا وقت آیا تو شیطان نے کتنی جلدی انہیں ختم کردیا ؟ غرض شیطانی آواز کی طرف لوگ جلد آتے ہیں کیونکہ انہین تر لقمہ ملتا ہے وہ آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ اس لئے میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور قومی احساس پیدا کرے۔< ۱۱۶
قوم کی بے لوث خدمات بجالانے کی تلقین
حضرت مصلح موعودؓ نے ۸ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء کے خطبہ جمعہ میں بتایا کہ قومی خدمات اپنے اندر بھاری برکات رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں ان کے فوائد اور بلند معیار کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی:۔
>ایک لیڈری شیطان بن کر ملتی ہے اور ایک لیڈری خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے۔ ان دونوں میں کتنا فرق ہے۔ دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ تھوڑے ہوتے ہیں جن کو فریب` دھوکہ بازی اور منصوبہ بازی کے بغیر لیڈری مل جائے۔ بعض لوگ قوم کی خدمت کرتے ہیں اور اس طرح آگے آجاتے ہیں۔ مثلاً سرسید علی گڑھ۱۱۷` مولانا محمد علی جوہر۱۱۸ میاں فضل حسین۱۱۹ اور قائداعظم محمد علی جناح۱۲۰` سر اقبال۱۲۱ یہ وہ لوگ تھے جن کو تمام مسلمان جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی اغراض کے لئے کوئی کام نہیں کیا بلکہ محض قوم کی خدمت کی` نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ انہیں آگے لے آیا۔ مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ ورنہ چھوٹی چھوٹی انجمنوں تک میں ہزاروں ریشہ دوانیاں ہوتی ہیں کہ کسی طرح کوئی خاص پارٹی آگے آجائے اور غرض یہ ہوتی ہے کہ زیدیابکر اس انجمن کے لیڈر بن جائیں۔ سیکرٹری بن جائیں یا انہیں کوئی اور عہدہ مل جائے۔ ایسے آدمی جنہوں نے قوم کی خدمت کی اور آگے آئے وہ کروڑوں کی جماعت میں درجنوں اور بیسیوں کے اندر ہی رہ جاتے ہیں لیکن ہماری جماعت میں بغیر کسی قسم کے دھوکہ` فریب اور منصوبہ کے آپ ہی آپ نظام کے ماتحت کچھ لوگ اوپرآجاتے ہیں اور جماعت کی باگ ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ ان کی زندگیوں میں تو ایک تغیر ہونا چاہئے تھا جس طرح خدا تعالیٰ نے ان سے سلوک کیا ہے اور انہیں بلا استحقاق قوم کا لیڈر بنا دیا ہے اسی طرح ان کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے لیڈر بنیں جن کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہو۔ ان کے کام اپنے نفس کی خاطر نہیں ہونی چاہئیں بلکہ ان کے کردار` ان کے افعال` ان کے اخلاق اور ان کے طریق خالصتاً مذہب کے لئے وقف ہوں۔ اور جب کسی کی زندگی خالصتاً کسی مذہب یا جماعت کے لئے ہوجاتی ہے تو اس کے عمل میں دیوانگی پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ ڈاک خانہ بن کر نہیں رہ جاتا کہ چند خطوط کا جواب دے دیا اور سمجھ لیا کہ بڑا کام کیا ہے بلکہ ایسا شخص رات دن سکیمیں سوچتا ہے کہ کس کس طرح میں اپنی قوم کو اونچا کروں جس کی وجہ سی اسے عزت ملی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر جو خدمات کی جاتی ہیں وہ پے در پے نفع لاتی ہیں ان کی یہ خدمت بھی بلا معاوضہ نہیں ہوتی۔ فرض کرو جماعت اب تین لاکھ کی ہے اور وہ قربانی کرتے ہیں اور تعداد تین لاکھ سے چھ لاکھ ہوجاتی ہے` تو انہون نے صرف قوم کی خدمت نہیں کی انہوں نے اپنی خدمت بھی کی ہے۔ وہ پہلے تین لاکھ کے لیڈر تھے اب چھ لاکھ کے لیڈر ہوگئے۔ اگر وہ اور قربانی کریں اور تعداد بارہ لاکھ ہوجائے تو یہ خدمت اسلام کی بھی ہوگی مگر ساتھ ہی اپنی کدمت بھی ہگی کیونکہ کل وہ چھ لاکھ کے لیڈر تھے تو آج وہ بارہ لاکھ کے لیڈر بن گئے ہیں۔ غرض ان کے اندر ایسی دیوانگی ہونی چاہئے۔ جو دوسری قوموں میں نہ ملے۔< ۱۲۲
چوہدری محمد حسین صاحبؓ کی ریاست خیرپور میں المناک شہادت
یکم فروری ۱۹۵۲ء سے احراری لیڈروں نے سندھ کو اپنی اشتعال انگیز سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا اور کانفرنس منعقد کرکے صوبہ کی فضا
کو اس درجہ مکدر کردیا کہ ۱۹ فروری ۱۹۵۲ء کو ایک مخلص احمدی چوہدری محمد حسین صاحب گمبٹ ریاست خیر پور میرس سندھ پر قاتلانہ حملہ کردیا گیا۔ چوہدری صاحب کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں آپ ۲۲ فروری ۱۹۵۲ء کو رحلت کرگئے۔۱۲۳
جلسہ سیالکوٹ پر یورش
جماعت احمدیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ ۱۶۔۱۷ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء کو قرار پایا تھا اور احمدیون کی کثیر تعداد بیرونی مقامات اور مضافات سے اس میں شرکت کے لئے پہنچ چکی تھی کہ بعض احواری علماء نے پہلے تو احمدیوں کے واجب القتل ہونے کا فتوٰ¶ نشر کیا پھر ایک ہجوم میں یہ اعلان کر کے ہم احمدیوں کا جلسہ نہیں ہونے دیں گے جلسہ گاہ کا رخ کر لیا اور جونہی پہلا اجلاس ختم ہوا اور سامعین جلسہ گاہ سے باہر نکلے تو ان پر شدید سنگ باری کی گئی جس سے چالیس سے زائد افراد بری طرح مجروح ہوئے۔ اس کے بعد بلوائیوں نے بازار میں متعدد اشخاص کو مارا پیٹا اور گلیوں میں بھی تشدد سے کام لیا۔
رات کو ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ نے جماعت احمدیہ کے ارکان کو بلایا اور مشورہ دیا کہ جلسہ احمدیہ مسجد میں کر للیں لیکن جماعت سیالکوٹ نے اس رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اگلے روز کا پروگرام منسوخ کردیا۔۱۲۴
فصل پنجم
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا سفر بشیر آباد سندھ بصیرت افروز خطبات حیدر آباد میں پریس کانفرنس اتحاد المسلمین پر شاندار لیکچر
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ اراضی سندھ کی نگرانی اور حسابات کی پڑتال کرنے کارکنوں کو ہدایات دینے اور بہت سے تربیتی و تبلیغی امور کی انجام دہی کے لئے سالہاسال سے سندھ تشریف لے جارہے تھے۔ حضور حسب سابق اس سال بھی ۳۴ نفوس پر مشتمل قافلہ سمیت ۲۵ تبلیغ/فروری کو بشیر آباد سندھ تشریف لے گئے اور ایک ماہ کے کامیاب دورہکے بعد ۲۶ امان/مارچ کو ربوہ میں رونق افروز ہوئے۔ حضور نے اس سفر کے دوران مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کو امیر مقامی نامزد فرمایا۔۱۲۵
۱۳۳۱/ہش/۱۹۵۲ء کے بابرکت سفر سندھ کے واقعات میں سے تین کا ذکر ضروری ہے:۔
۱۔ خطبات جمعہ ۲۔ پریس کانفرنس ۳۔ اتحاد المسلمین پر لیکچر
بصیرت افروز خطبات
دوران سفر حضور نے اپنے خطبات میں احباب میں احباب جماعت کو بہت قیمتی نصائح فرمائیں جن کا ملخص یہ تھا کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرو` تبلیغ کرو` جماعت کو وسیع کرتے چلے جائو ہمیشہ اپنے کاموں میں محبت اور عقل کا توازہ قائم رکھو اور اخلاق فاضلہ کا بہترین نمونہ بنو۔
پریس کانفرنس
]0 [rtfحضورﷺ~ نے ۲۵ امان / مارچ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جس کی روداد اخبار المصلح کراچی )مورخہ ۲۸ مارچ ۱۹۵۶ء( کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے:۔
>حضرت امام جماعت احمدیہ حضرت مرز بشیر الدین محمود احمد صاحب نے گزشتہ روز حیدر آباد میں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :۔
>میں اصولاً تو یہی سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی زبان لازمی طور پر اردو ہے لیکن موجود حالات میں یہ ضروری ہے کہ بنگالیوں کی دلجوئی کر کے ان کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے جذبات رکھے جائیں اور زبان کے سوال کو موجودہ حالات میں اٹھانا اور خواہ مخواہ اس مسئلہ کو اختلاف کی بنیاد بنانا درست نہیں۔<
ایک سوال کے جواب میں مسئلہ جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا:۔
>ہم قرآن کریم کو مانتے ہیں۔ لامحالہ جو چیز قرآن مجید کریم میں ہوگی وہی ہمارا عقیدہ اور مسلک ہوگا ہاں اس کی توضیح اور مفہوم میں فرق ہوسکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد دشمنوں کے حملوں کے دفاع کا نام ہے اور ایک دفعہ دفاعی جنگ شروع ہوجانے کے بعد اقدام بھی لازماً اس کا ایک حصہ بن جائے گا۔<
پاکستان میں آئندہ ماہ ہونے والی اسلامی ممالک کے وزراء اعظم کی کانفرنس کے متعلق آپ نے فرمایا:۔
>جہاں تک میرا خیال ہے اس کانفرنس میں باہمی عام مسائل پر عام مشورہ ہوگا اور اس کے فیصلے سب پر عائد نہیں کئے جائیں گے۔ بہرحال یہ اقدام نہایت خو شکن ہے اور آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ ہے۔< ۱۲۶
اتحاد المسلمین پر عظیم الشان لیکچر
قیام حیدر آباد کا اہم ترین واقعہ امیر المومنین حضرت مصلح موعودؓ کا >اتحاد المسلمین< کے موضوع پر عظیم الشان لیکچر ہے جو ۲۵ امان/مارچ کو پریس کانفرنس کے بعد تھیوسافیکل ہال میں ہوا۔ داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا۔ قریباً ایک ہزار ٹکٹ غیر احمدی معززین میں تقسیم کئے گئے۔ جلسہ میں آلہ نشرالصوت کا خاطر خواہ انتظام تھا۔ ہال کا اندرونی حصہ اس قدر پر تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی حتیٰ کہ احمدی اور غیر احمدی احباب کثیر تعداد میں دونوں طرف باغ اور صحن میں بیٹھے یا کھڑے کھڑے آخر وقت تک پوری توجہ دلجمعی اور سکون کے ساتھ تقریر سنتے رہے۔ مستورات کے لئے ہال کے ایک ملحقہ کمرہ میں الگ پردہ کا بندوبست تھا۔ جناب ایم۔اے حافظ بار ایٹ لاء ہیرہ آباد کی صدارت میں کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے مولوی سید احمد علی شاہ صاحب مبلغ سلسلہ ۱۲۷ نے تلاوت فرمائی پھر مبارک احمد صاحب نے کلام محمود سے ایک نظم پڑھی۔ ازاں بعد صدر جلسہ نے حضرت مصلح موعودؓ کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے اس تقریب پر اظہار مسرت و شادمانی کیا اور فرمایا :۔
>ہماری خوش قسمتی ہے کہ اسلام میں جماعت احمدیہ جیسی ایک جماعت موجود ہے جس کے کارنامے طویل ہیں۔ اس جماعت نے اسلام کو جس جوش و خروش سے یورپ میں پیش کیا ہے وہ اس کا ہی حصہ ہے اور ہم سب مسلمان اس کے ممنون ہیں۔ اس جماعت کے ایک ممبر آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں حکومت میں شامل ہیں۔ اس ممبر نے دنیا میںپاکستان کی عزت کو چار چاند لگادیئے ہیں اور دنیا میں پاکستان کا نام بلند کرنے اور اسلامی ممالک کو متحد بنانے میں عظیم الشان کامیابی حاصل کی ہے یہ ممبر ساری اسلامی دنیا کے لئے ایک قابل فخر ہستی ہے۔ آج اس عظیم الشان جماعت کے عظیم الشان لیڈر کی تقریر سننے کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔ اور میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ آج صدارت کے لئے مجھے چنا گیا۔<
اس کے بعد حضور اقدس نی اتحاد المسلمین کے موضوع پر سوا گھنٹہ کے قریب ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی۔
اس تقریر کے ضروری حصے درج ذیل کئے جاتے ہیں :۔
اتحاد اور اس کا فلسفہ
>اتحاد عربی لفظ ہے اور وحدت سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں یکجہتی اختیار کر لینا۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ بہت سی چیزیں ہیں اور انہوں نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو کھو کر اجتماعیت اختیار کریں گی۔ عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مطالب کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ ایک لفظ کے اندر سارا فلسفہ بیان کردیا جاتا ہے۔ اتحاد نے اردو زبان میں آکر اپنے معنی کھو دیئے ہیں لیکن عربی زبان میں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے فلسفہ کو جاننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ بولنے والا کئی باتیں تسلیم کرتا ہے۔<
اسلام اور اجتماعیت
>اجتماعیت اور ملت کا جو احساس اسلام نے پیدا کیا ہے وہ کسی اور مذہب نے پیدا نہیں کیا۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو اجتماعیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔<
کلمہ
>مثلاً اسلام میں ایک کلمہ ہے جو ہر مسلمان کے لئے ماننا ضروری ہے۔ بے شک اسلامی فرقوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً ہماری جماعت کو بھی دوسرے فرقوں سے اختلاف ہے لیکن کوئی احمدی ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ میں کلمہ طیبہ نہیں مانتا۔ پھر شیعوں کو سنیوں سے اختلاف ہے اور سنیوں کو شیعوں سے اختلاف ہے۔ لیکن سنی یا شیعہ کو یہ جرات نہیں کہ وہ کلمہ سے انکار کردے۔ تم کسی اسلامی فرقہ میں چلے جائو اور ان سے پوچھ لو وہ کلمہ سے باہر نہیں جائیں گے۔ ہر ایک مسلمان یہ کہے گا کہ ہمارا ایک کلمہ ہے اور وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ ہر شخص جو مسلمان ہوگا وہ اس بارہ میں دوسرے مسلمانوں سے متحد ہوگا۔ شیعہ سنیوں سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ کے بارہ میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا سنی شیعہ سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ میں دونوں متحد ہوں گے اور یہ کلمہ صرف مسلمانوں میں ہے اور کسی مذہب میں نہیں۔ اس کا یہ مطلب کہ ایک عیسائی کو لا الہ الا اللہ کہنا نہیں آتا۔ ایک عیسائی بھی لا الہ الا اللہ کہہ سکتا ہے لیکن ان کا اپنا کوئی ایسا کلمہ نہیں جس میں بتایا گیا ہو کہ خدا تین ہیں۔ تم کسی مشن میں چلے جائو اور عیسائیوں سے پوچھو کہ کیا تمہارا بھی کوئی کلمہ ہے تو وہ یہی جواب دیں گے کہ ہمارا کوئی کلمہ نہیں۔ وہ یہ کہہ ہی نہیں سکتے کہ ہمارا کوئی کلمہ ہے کیونکہ ان کے ہاں مذہب کا ضروری حصہ وہ لوگ بھی ہیں جو تین خدا مانتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے لوگ بھی پائے جاتے جو باوجود عیسائی ہونے کے ایک خدا کے قائل ہیں لیکن ہمارا ہر شخص لا الہ الا اللہ میں دوسرے مسلمانوں سے اتحاد رکھتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص لا الہ الا اللہ کے خلاف کسی تعلیم کو مانتا ہو اور وہ اسلام میں بھی رہے۔<
>ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳۷۰ سال قبل فرما دیا تھا کہ ہمارا کلمہ لا الہ الا اللہ ہے اور اس میں اسلام کا خلاصہ آگیا ہے۔ باقی لوگ ابھی ٹکریں مار رہے ہیں کہ ہمارا کلمہ کیا ہے ؟ اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے جو مسلمانوں کے سوا دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں۔<
قبلہ
>پھر اسلام میں ایک قبلہ پایا جاتا ہے لیکن اسلام کے سوا کسی مذہب میں قبلہ نہیں پایا جاتا بے شک ہندوئوں کے پاس سومناتھ کا مندر موجود ہے لیکن یہ ایسی چیز نہیں جس پر سارے ہندو جمع ہوجائیں عیسائیون اور یہودیوں میں بھی کوئی قبلہ نہیں وہ یروشلم کی مسجد کو بطور قبلہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پانچ سو سال بعد حضرت دائود علیہ السلام نے بنائی تھی۔ حضرت دائود علیہ السلام سے پانچ سو سال قبل یہودیوں کے پاس کونسا قبلہ تھا ہمارے پاس پہلے سے قبلہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ظاہر ہوئے تو آپ نے بتادیا کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے اور اس طرح مسلمانوں پر کوئی دن ایسا نہیں آیا جب ان کے پاس کوئی قبلہ نہ ہو۔ یہ نہیں کہ ایک سال دو سال یا دس سال کے بعد قبلہ کا حکم ہوا ہو بلکہ پہلے دن سے بتادیا گیا ہے کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے۔ اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے جو دوسرے مذہب والوں کو حاصل نہیں۔<
نماز باجماعت
>پھر نماز باجماعت ہے۔ اسلامی نماز بھی انفرادی نماز نہیں بلکہ ایک قومی نماز ہے۔ پہلے صفوں مین سیدھے کھڑے ہوجائو۔ قبلہ رخ ہو۔ اقامت ہو پھر ایک امام ہو۔ امام کھڑا ہو تو مقتدی کھڑا ہو امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں چلا جائے۔ یہ خصوصیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے اور مذاہب میں نہیں نہ عیسائیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور یہودیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔ عیسائی اور یہودی اکٹھے تو ہوجاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے لئے اکٹھا ہونے کا کہاں حکم ہے ؟ ساری تو رات میں اکٹھے ہو کر عبادت کرنے کا حکم نہیں ملتا تورات میں یہی آتا ہے کہ کامل عبادت یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے لئے قربانی پیش کرو۔ باقی یہ کہ عبادت کے لئے تم اکٹھے ہوجائو ایسا کوئی ۔ حکم نہ پرانوں اور ویدوں میں موجود ہے اور نہ ایسا حکم تورات اور انجیل میں پایا جاتا ہے۔<
sub] [tagاذان
>صرف اسلام ہی ایس امذہب ہے جو کہتا ہے پہلے اذان دو پھر اس طرح مسجد میں آئو سیدھ صفوں میں کھڑے ہوجائو۔ پھر قبلہ کی طرف منہ کرو۔ سامنے ایک امام ہو۔ جو حرکت امام کرے وہی حرکت مقتدی بھی کرے۔ امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں چلے جائیں امام کھڑا ہو تو مقتدی بھی کھڑے ہوجائیں۔ اس طرح ساری قم امام کے تابع ہوجاتی ہے اور یہ طاقت ہٹلر میں بھی نہیں تھی کہ اس کے اشارہ سے سارے لوگ جھک جائیں لیکن یہاں یہ بات پائی جاتی ہے کہ امام رکوع میں جاتا ہے تو سارے مقتدی رکوع میں چلے جاتے ہیں۔ امام سجدہ میں جاتا ہے تو سارے لوگ سجدہ میں چلے جاتے ہیں۔ گویا خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت بخشی ہے جس نے اجتماعیت کی ایسی مستحکم روح قائم کردی ہے جس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔<
حج
>پھر حج ہے یہ خصوصیت بھی صرف اسلام میں ہے۔ بے شک ہندو لوگ یاترا کے لئے جاتے ہیں لیکن یاترائیں بیسیوں ہیں۔ کوئی مشخصہ یاترا نہیں۔ اور نہ ایسی تعلیم ہے کہ جس شخص کے پاس سرمایہ ہو۔ پھر امن ہو اس کے لئے کوئی روک نہ ہو۔ ایسا شخص اگر حج نہیں کرتا تو وہ گنہگار ہے یہ اجتماعیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے۔ باقی لوگ یاترا گئے تب بھی بزرگ ہیں اور اگر یاترا کو نہ گئے تب بھی بزرگ ہیں۔<
زکٰوۃ
>پھر زکٰوۃ ہے۔ اسلام میں جیسی زکٰوۃ پائی جاتی ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی بے شک یہودیوں میں بھی زکٰوۃ پائی جاتی ہے لیکن اس میں اتنی باریکیاں نہیں پائی جاتیں جتنی باریکیاں اسلامی زکٰوۃ میں پائی جاتی ہیں۔ اسلامی زکٰوۃ کے اخراجات کو نہایت وسیع طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس میں قومی ترقی کی ہر چیز آجاتی ہے۔ اس میں کلیت کا رنگ پایا جاتا ہے اور یہ بات یہودی زکٰوۃ میں نہیں پائی جاتی۔ اس میں کلیت کا رنگ پایا جاتا ہے اور یہ بات یہودی زکٰوۃ میں نہیں پائی جاتی۔ اسلامی زکٰوۃ میں ہر قسم کے غرباء کا حق مرر کردیا گیا ہے مثلاً ایک شخص کے پاس تجارت کے لئے سرمایہ نہیں تو اسلام کہتا ہے اسے کچھ سرمایہ دے دو۔ ایک درزی ہے وہ درزی کا کام جانتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی مشین نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ ایک شخص کو یکہ چلانا آتا ہے لیکن اس کے پاس روپیہ نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ اس طرح ایک مسافر آتا ہے وہ مالدار ہوتا ہے۔ لیکن وہ شہر میں جاتا ہے اور اس کا مال چوری ہوجاتا ہے اور وہ گھر سے بھی روپیہ منگوا نہیں سکتا تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ ایک غریب آدمی قید ہوجاتا ہے۔ اس کے بچوں کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تو اسلام کہتا ہے کہ زکٰوۃ میں سے اسے بھی کچھ دیدو گوایا اسلام نے زکٰوۃ کے نظام کو اس قدر وسیع کیا ہے اور اتنا نرم رکھا ہے کہ ہر قوم اور ہر گروہ کے لوگ اس سے اس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ کسی کا سر بھی نیچا نہ ہو۔ کیونکہ بڑی زکٰوۃ حکومت خو دے گی۔ مثلاً زمین ہے۔ زمین کی زکٰوۃ میں ذاتی طور پر نہیں دے سکتا بلکہ یہ زکٰوۃ گورنمنٹ کے پاس جمع کرائی جائے گی اور وہ آگے مستحقین میں تقسیم کرے گی۔ اگر حکومت اس رقم میں سے کچھ میرے ہمسایہ کو دیتی ہے تو اگرچہ وہ میری رقم ہوگی لیکن میرا ہمسایہ اسے گورنمنٹ سے حاصل کرے گا اس طرح وہ میرا ممنون نہیں ہوگا اور میرے سامنے نظریں نیچی نہیں کرے گا۔ گویا زکٰوۃ لینے کے نتیجہ میں جو تحقیر پیدا ہوتی ہے وہ پیدا نہیں ہوگی۔ غرض اسلامی زکٰوۃ میں اس امر کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ غریب کی نظر نیچی نہ ہو۔ اور باوجود مدد لینے کے وہ امیر ہمسایہ کو کہہ سکے کہ میں نے تجھ سے مدد نہیں لی۔<
قضاء
>پھر قضاء ہے یہ بھی اسلام کی ہی ایک خصوصیت ہے اور یہ خصوصیت بھی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ اسلام اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک فرد اگر کسی کو ڈنڈا مارے تو قضاء اسے کہے گی کہ تم قاضی کے پاس جائو وہ اسے ڈنڈا مارے گا۔ یہاں تک کہ اسلام میں بدکاری کی سزا سخت ہے لیکن اس کے لئے بھی اسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ تم سزا کو اپنے ہاتھ میں نہ لو بلکہ معاملہ قاضی کے پاس لے جائو وہ سزا دے گا۔
ایک شخص رسول کریم~صل۱~ کے پاس آیا۔ اس وقت یہودی سزا پر عمل کیا جاتا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا یارسول اللہ اگر خاوند دیکھے کہ اس کی بیوی بدکاری کررہی ہے تو کیا اسے حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مار ڈالے۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا نہیں۔۱۲۸ اسے خود سزا دینے کا حق نہیں۔ موسوی شریعت میں زنا کی سزا قتل تھی اور اس وقت تک اس بارہ میں موسوی شریعت کے مطابقہی عمل کیا جاتا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا جب زنا کی سزا قتل ہے تو خاوند جب اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھے تو کیوں نہ اسے قتل کردے ؟ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا اسے سزا دینے کا حق نہیں سزا دینے کا حق قاضی کو ہے۔ اگر وہ اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھتا ہے اور اسے قتل کردیتا ہے تو اسے قاتل سمجھ کر موت کی سزا دی جائے گی اب دیکھو اسلام اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اسلام یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کہیں بدلہ لینے میں جلد بازی سے کام تو نہیں لیا گیا۔ کیا جرم کی تحقیق کے سامان پوری طرح مہیا کئے ہیں ؟ اور یہ باتیں قاضی دیکھ سکتا ہے دوسرا نہیں۔ اگرچہ یہ انفرادی حق ہے لیکن کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی ائے گی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے لے مجرم کو سزا صرف حکومت کے ذریعہ ہی دلائی جاسکتی ہے۔<
جہاد
>پھر فرضیت جہاد ہے۔ جہاد بھی اکیلا شخص نہیں کرسکتا بلکہ جب جہاد فرض ہوگا تو ساری قوم لڑے گی۔ پس جہاد بھی ایک اجتماع چیز ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ جب امام کہے کہ اب جہاد کا موقع ہے تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فریضہ کو پورا کرے اور اگر کوئی مسلمان اس فرض کو پورا نہیں کرتا تو وہ شریعت اور قاون کا مجرم ہے یہ ایک اجتماعی حکم ہے پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام انفرادی مذہب ہے وہ غلطی پر ہے۔ اسلام انفرادی مذہب نہیں بلکہ اجتماعی مذہب ہے۔<
انفرادیت و اجتماعیت
>اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام ایک طرف تو انفرادیت کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے اور نہ صرف تسلیم کرتا بلکہ اسے ضروری قرار دیتا ہے اور وہ دوسری طرو وہ اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے یہ دونون چیزیں اکٹھی کیسے ہوسکتی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مددگار ہیں۔ ان دونوں کو جمع کئے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی۔
جس مزہب نے صرف انفرادیت کی تعلیم دی ہے وہ بھی تباہ ہوا ہے۔ کوئی مذہب اور کوئی حکومت اپنے لئے ترقی کا راستہ نہیں کھول سکتی جب تک وہ ان دونوں چیزوں پر بیک وقت عمل نہ کررہی ہو۔ اگلے زمانہ میں خدا سے تعلق محض انفرادیت کے طور پر ہوتا تھا لیکن صحیح راستہ انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان ہے۔ جیسے اگلے جہاں میں ایک پل صراط ہوگی یہ اس دنیا کی پل صراط ہے۔ اسلام دونوں چیزوں کو ایک وقت میں بیان کرتا ہے۔ ایک طرف وہ انسان کو اثنا بلد کرتا ہے کہ اسے عرض پر پہنچتا دیتا ہے اور اس کے درمیان اور خدا تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ باقی نہیں رہتا اور دوسری طرف جس طرح یونانی جب لڑتے ہیں تو وہ آپس میں ایک کو دوسرے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں تاکہ وہ اگر مریں تو اکٹھے مریں اسی طرح اسلام بھی ایک انسان کو دوسرے کے ساتھ باندھ دیتا ہے پس حقیقت یہی ہے کہ اتحاد موجودہ حالات اور افراد سے اتحاد کا نام ہے۔ اتحاد اس بات کا نام ہے کہ موجودہ حالات اور افراد سے کام لیا جائے اور ترقی کے معنی یہ ہیں کہ موجودہ حالات اور افراد میں اختلاف پیدا کیا جائے۔ جب تک تجربہ اور تھیوری سے اختلاف نہیں کیا جاتا اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی۔ غرض انفرادیت کے بغیر ترقی مشکل ہے اور اتحاد کے بغیر امن قائم رکھنا مشکل ہے۔<
قرآن مجید کی تعلیم
>قرآن کریم نے ان دونوں کو تسلیم کیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ واطیعوا اللہ و رسولہ ولاتنازعو فتفشلو و تذھب ریحکم واصبر وان اللہ مع الصبرین )انفال : ۴۷(
اے مسلمانو !! تم آپس میں اختلاف نہ کرو۔ اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے تو کمزور ہوجائو گے اور دشمن سے شکست کھا جائو گے۔ تم ہمیشہ اکٹھے رہنا اور ایک دوسرے کے مددگار رہنا۔ واصبروا اور چونکہ اکٹھے رہنے میں تمہیں کئی مشکلات پیش آئیں گی اس لئے تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ جب تم اجتماعیت کی طرف آئو گے تو کئی جھگڑے پیدا ہوں گے۔ رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں بھی شکوہ پیدا ہوجایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ آپﷺ~ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا جارہا۔ اس پر رسول کریم~صل۱~ فرمایا ۔ اے شخص اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا ؟ حضرت عمرؓ بھی وہاں موجود تھے آپ نے تلوار نکال لی اور عرض کیا یارسول اللہ آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن کاٹ دوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانے دو اس شخص نے بے شک غلطی کی ہے لیکن اگر اس کی گردن کاٹ دی گئی تو لوگ کہیں گے محمد~صل۱~ اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کردیتا ہے۔۱۲۹ پس اگر اس زمانہ کے لوگ بھی شکورہ کردیتے تھے اور اختلاف کا اظہار کردیتے تھے تو پاکستان اور شام اور عراق اور ارون کے لوگ کیوں نہیں کرسکتے ؟ غلطیاں ہوجاتی ہیں اور لوگ شکوہ بھی کرتے ہیں پھر تم کیا کرو۔
فرمایا واصبروا اور مجھ پر امید رکھو میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ پھر فرماتا ہے واعتصموا بجبل اللہ جمعیا ولاتفرقوا )آل عمران رکوع ۱۱( اے مسلمانو ! تم سارے مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو۔ اگر تم نے تفرقہ کیا تو اس کے نتیجہ میں تمہاری طاقت زائل ہوجائے گی۔ یہ اجتماعی اتحاد کی دعوت ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے مذہب کو کیسی چھوڑ سکتے ہیں وہ بے دین ہیں۔ گویا قرآن کریم اختلاف و اتحاد دونوں کو تسلیم کرتاہے۔ رسول کریم~صل۱~ کے کلام میں بھی اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں اختلاف امتی رحمتہ ۱۳۰ میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ اب دیکھو رسول~صل۱~ اختلاف کو بجائے عذاب کے رحمت قرار دیتے ہیں اور اختلاف کرنے والے دونوں فریق کو اپنی امت قرار دیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف آپﷺ~ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ جو شخص ۱۳۱جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا وہ ہم میں سے نہیں۔ گویا آپﷺ~ نے ایک طرف یہ کہا کہ اختلاف رحمت ہے اور دوسری طرف یہ کہا کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوگا وہ ہم میں سے نہیں۔ یعنی وہ مسلمان نہیں رہے گا۔ ایک صحابی رسول کریم~صل۱~ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ جب تفقہ ہوگا تو میں کیا کروں۔ کیا میں تلوار لوں اور لوگوں کا مقابلہ کروں۔ تو آپﷺ~۔ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔ جس طرف جماعت ۱۳۲ ہو تم اسی طرف چلے جائو۔ گویا آپ نے ایک طرف انفرادیت پر اس قدر زور دیا ہے کہ اختلاف امت کو رحمت قرار دے دیا اور دوسری طرف یہ شدید ہے کہ اگر تم پر ظلم بھی کیا جائے تب بھی تم اختلاف نہ کرو بلکہ جماعت کا ساتھ دو۔ غرض رسول کریم~صل۱~ اور قرآن کریم دونوں نے اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا ہے۔<
پہلا اسلامی اصول اتحاد
>اگر ہم اکٹھے ہو کر بیٹھ جائیں گے تو آہستہ آہستہ اتحاد کی گئی صورتیں نکل آئیں گی۔ فلاں مردہ باد۔ فلاں زندہ باد کے نعروں سے کچھ نہیں بنتا۔ اگر کوئی نقطہ مرکزی ایسا ہے جس پر اتحاد ہوسکتا ہے تو اس کو لے لو کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اختلافات قائم رکھو بلکہ بعض دفعہ یہاں تک کہتا ہے کہ ہم اختلاف رکھنے میں تمہاری مدد کریں گے۔ پھر یہ بیوقوفی کی بات ہے کہ ہم ان اختلافات کی وجہ سے اتحاد کو چھوڑ دیں۔ میں نے عملی طور پر بھی اس کا تجربہ کیا ہے۔ جب تحریک خلافت کا جھگڑا شروع ہوا اور مولانا محمد علی اور شوکت علی نے یہ تحریک شروع کی کہ انگریزوں کو کہا جائے کہ وہ سلطان ترکی کو جسے ہم مسلمان خلیفہ تسلیم کرتے ہیں کچھ نہ کہیں ورنہ ہم سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں گے تو انہوں نے باقی مسلمانوں کو بھی دعوت دی کہ وہ اس تحریک میں ان کے ساتھ شامل ہوں اور اس کے تعلق میں لکھنو میں ایک جلسہ کیا گیا۔ میں نے جب اس بات پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ شیعہ اور اہل حدیث سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے اور نہ خوارج اسے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں اور پھر ہم احمدی بھی اس بات کے خلاف ہیں۔ ہمارا ہیڈ خود خلیفہ ہوتا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ یہ سارے لوگ یہ بات کیوں کہیں گے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ مانتے ہیں اس لئے اگر تم نے اس پر ہاتھ ڈالا تو ہم سب متحد ہو کر اس کی امداد کریں گے۔ میں نے جلسہ میں شرکت کے لئی ایک وفد لکھنوء بھیجا اور انہیں تحریر پیغام بھجوایا ۱۳۳ کہ اگر تم اس صورت میں انگریزوں کے پاس جائو گے تو وہ کہیں گے کہ خوارج` اہل حدیث اور شیعہ مسلمان عبدالحمید کو اپنا خلیفہ نہیں مانتے تم کیسے کہتے ہو کہ وہ سب مسلمانوں کا خلیفہ ہے ؟ میں نے کہا تم یوں کہو کہ سلطان ترکی جسے مسلمانوں کی اکثریت خلیفہ تسلیم کرتی ہے اور باقی مسلمان بھی ان کا احترام کرتے ہیں اگر تم نے اسے کچھ کہا تو ہم سب مسلمان مل کر تمہارا مقابلہ کریں گے۔ اگر تم یوں کہو گے تو کام بن جائے گا۔ کسی احمدی` شیعہ یا اہل حدیث کو یہ جرات نہیں ہوسکے گی کہ وہ کہے سلطان عبدالحمید کو مار دو۔ وہ دل میں بے شک کہے لیکن اس کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا۔ مولانا شوکت علی کی طبعیت جوشیلی تھی جب وفد میرا خط لے کر گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تفرقہ کی بات ہے۔ پندرہ دن کے بعد اہل حدیث کی طرف سے اعلان شائع ہوا کہ ہم سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے شیعوں کی طرف سے بھی اس قسم کا اعلان شائع ہوا اور پھر سرپھٹول شروع ہوگئی۔ خورج اس ملک میں موجود نہیں تھے ورنہ وہ بھی اس قسم کا اعلان کردیتے اور پھر سال ڈیڑھ سال کے بعد خود ترکوں نے بھی اسے جواب دے دیا۔ تین چار سال کے بعد شملہ میں ہم سب ملے تو مولانا محمد علی نے کہا کتنا اچھا کام تھا۔ لیکن آخر ہم اس میں ناکام ہوگئے مسلمانوں میں تفرقہ ہوگیا اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ مین نے کہا مولانا میں نے مشورہ دے دیا تھا کہ یہ نہ لکھا جائے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو خلیفہ مانتے ہیں کیونکہ اہل حدیث` خوارج` شیعہ اور ہم احمدی اسے خلیفہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ کہا جائے کہ سلطان ترکی جس کو مسلمانوں میں سے اکثریت خلیفہ مانتی ہے اور جو خلیفہ نہیں مانتے وہ بھی ان کا احترام کرتے ہین۔ اگر میری بات مان لی جاتی تو یہ ناکامی نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا آپ نے یہ مشورہ ہمیں دیا ہی نہیں۔ میں نے کہا آپ کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کو دیا تھا مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ کی میں نے کہا اگر آپ میرا مشورہ مان لیتے تو اہل حدیث` خوارج اور شیعہ کو شکایت پیدا نہ ہوتی۔ آپ یہ لکھتے کہ اکثریت مسلمانوں کی سلطان ترکی کو خلیفہ مانتی ہے اور اقلیت اسے اپنے اقتدار کا نشان مانتی ہے۔ وہ افسوس کرنے لگے کہ مجھے پہلے کیوں نہ بتایا۔ پس شیعہ` سنی اور حنفی` وہابی اور احمدی اور غیر احمدی کے اختلاف کو چھوڑ دیا جائے اور ان کی اتحاد کی باتوں کو لے لیا جائے یہی اتحاد کا اصول ہے۔<
tav.13.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
دوسرا اسلامی اصول اتحاد
>دوسرا اصول اتحاد کا یہ ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کردیا جائے۔ اگر تم دیکھتے ہو کہ ہر بات میں اتحاد نہیں ہوسکتا تو تم چھوٹی باتوں کو چھوڑ دو اور بڑی باتوں کو لے لو۔ دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جہاں توحید کا ذکر کرتا ہے وہاں ماں باپ کا بھی ذکر کرتا ہے اور ان کی اطاعت اور فرنبرداری پر زور دیتا ہے لیکن جب انبیاء دنیا میں آئے اور ان کی قوم نے یہ کہا کہ ہم اپنے آبائو اجداد کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے تو خدا تعالیٰ نے یہاں تک کہہ دیا کہ تم جاہلوں کی بات مانتے ہو۔ باپ دادا سے کی عزت بے شک بڑی ہے لیکن جب ان کا مقابلہ خدا تعالیٰ سے ہوجائے تو انہیں چھوڑ دیں۔<
عالم اسلام کو دعوت اتحاد
>پس ان دونوں باتوں پر عمل کیا جائے تو اتحاد ہوسکتا ہے اس وقت پاکستان` لبنان` عراق` اردن ` شام ` مصر` لیبیا` ایران`افغانستان`انڈونیشیا اور سعودی عرب یہ گیارہ مسلم ممالک ہیں جو آزاد ہیں اور ان سب میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ اگر انہوں نے آپس میں اتحاد کرنا ہے تو پھر اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے ان کا فرض ہے کہ وہ سوچیں اور غور کریں کہ کیا کوئی ایسا پوائنٹ بھی ہے جس پر وہ متحد ہوسکتے ہیں ؟ اور اگر کوئی ایسا پوائنٹ مل جائے تو وہ اس پر اکٹھے ہوجائیں اور کہیں کہ ہم یہ بات نہیں ہونے دیں گے۔ مثلاً یہ سب ممالک اس بات پر اتحاد کر لیں کہ ہم کسی مسلم ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور بجائے اس کے کہ اس بات کا انتظار کریں کہ پہلے ہمارے آپس کے اختلافات دور ہوجائیں وہ سب مل کر اس بات پر اتحاد کر لیں کہ وہ کسی ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور سب مل کر اس کی آزادی کی جدوجہد کریں گے جس طرح رسول کریم~صل۱~ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دی تھی کہ آئو ہم توحید پر جو ہم سب میں مشترک ہے متحد ہوجائیں` اسی طرح ہم سب مسلمان اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ ہم کسی کو غلام نہیں رہنے دیں گے اختلافات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ اسی طرح پاکستان کے مسلمانوں کے آپس کے جھگڑے ہین اور ان میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن ان سب ممالک میں کوئی چیز مشترک بھی ہے وہ اس پر متحد ہوسکتے ہیں۔ مثلاً یہی بات لے لو کہ ہم نے پاکستان کو ہندوئوں سے بچانا ہییا کشمیر حاصل کرنا ہے تم ان چیزوں کو لے لو اور بجائے آپس میں اختلاف کرنے کے ان چیزوں پر متحد ہوجائو بعد میں ملنے ملانے سے دوسرے اختلافات بھی دور ہوجائیں گے ۔۔۔۔۔ عالم اسلامی کا اتحاد بھی اسی طرح ہوگا۔ اگر مسلم ممالک آپس میں اتحاد کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ اختلاف کے باوجود ہم دشمن سے اکٹھے ہو کر لڑیں گے اور ہم بھی اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ باہمی اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے سے لڑیں گے نہیں۔<
نازک زمانہ کی خبر
>اسلام پر ایک نازک زمانہ آرہا ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں کو کھولیں اور خطرات کو دیکھیں اور کم از کم اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم رسول کریم~صل۱~ کا ذکر مٹنے نہیں دیں گے۔<۱۳۴
غیر احمدی معززین کے تاثرات
اس پراز معلومات خطاب کے بعد بعض غیر احمدی معززین نے فرط محبت سے حضور سے مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ آج کی تقریر سننے کے بعد ہمارے بہت سے مشکوک و شبہات رفع ہوگئے ہیں۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا سفر حیدر آباد سندھ
)مکرم سید احمد علی شاہ صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کی ایک غیر مطبوعہ یادداشت(
مورخہ ۲۶ فروری ۱۹۵۲ء کو حضورؓ اڑھائی بجے صبح کو پنجاب سے حیدر آباد تشریف لائے۔ حضور کو الوداع کہنے کے لئے ہم لوگ ٹنڈوالہیار تک گئے جہاں حضور کو ناشتہ دیا گیا۔ جماعت احمدیہ حیدر آباد آدھی رات سے استقبال کے لئے موجود تھی۔ ۲۹ فروری کو جماعت حیدر آباد میں جلسہ کرانے کی تجویز ہوئی اور پھر حضور سے اجازت کے لئے خاکسار نے ناصر آباد جا کر عرض کیا تو فرمایا :۔
>وہاں جلسہ ہو بھی سکے گا۔ ابھی تھوڑے دن قبل احراری تقریریں کر کے گئے ہیں<
آخر حضورؓ نے ہماری درخواست منظور فرمائی۔ کیونکہ حضور کی گاڑی میر پور خاص کی طرف سے ان دنوں دس بجے آتی تھی اور چناب ایکسپریس ۸ بجے روانہ ہوجاتی تھی۔ حضور نے ۲ گھنٹے حیدر آباد قیام فرمایا تھا۔
۱۵ مارچ کو جماعت کی میٹنگ ہوئی اور مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب نے جو ہسپتال میں ڈاکٹر تھے اپنے تمام کمرے خالی کر کے دینے اور حضور کے قیام و طعام کا ذمہ لیا اور مکرم ماسٹر رحمت اللہ صاحب ٹیچر ہائی سکول ہیرہ آباد نے مکرم ماسٹر نور محمد صاحب ہیڈ ماسٹر سے اجازت لے لی کہ حضور کے ہمراہی اصحاب اور دیگر تمام مہمانوں کا قیام اور زائرین کے لئے ہائی سکول کا ہوسٹل فارغ ہوگا جو ہسپتال کے ساتھ ہی تھا درمیان میں صرف سڑک تھی۔
حضور نے جلسہ کی اجازت کے ساتھ مجھے یہ ہدایت فرمائی کہ جماعت کراچی سے مدد حاصل کی جائے چنانچہ ۲۱ مارچ کو پھر میٹنگ کی گئی اور مورخہ ۲۵ مارچ کی شام کو >تھیا صوفیکل ہال< میں جلسہ کا پروگرام بنا کر سندھ کی بڑی بڑی ۳۲ جماعتوں کو کو جلسہ کی دعوت دی اور حاضری کی تاکید کی گئی اور پہرہ کا خاص اہتمام کیا گیا۔
۱۷ مارچ کو مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کو میں نے چٹھی لکھ اور حضور کے ارشاد سے آگاہ کر کے پہرہ اور صدر جلسہ کا اہتمام کر کے آنے کے لئے تاکید کی اور ۳۲ جماعتوں کو بھی دعوتی خطوط خاکسار نے لکھے۔
۲۰ مارچ کو پھر جلسہ اور حضور کے قیام کے بارہ میں میٹنگ ہوئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ میں حضور کو >مسلم ہوسٹل< میں قیام کے انتظام کی اطلاع ناصر آباد میں جاکردوں اور جلسہ کے لئے دعوتی پاس چھپوانے کا اہتمام کیا گیا چنانچہ خاکسار سید احمد علی جو ان دنوں زیریں سندھ )ضلع حیدر آباد` ٹھٹھہ` تھرپارکر` سانگھڑ` نواب شاہ اور ضلع دادو( کا انچارج مبلغ تھا ۲۱ مارچ بروز جمعہ صبح کو ناصر آباد گیا اور حالات تحریری چٹھی میں عرض کئے تو حضور نے میرے لفافہ میں حسب ذیل الفاظ تحریر فرمائے :۔
>اگر مسلم ہوسٹل بہتر ہے تو وہیں انتظام کردیں لیکن موقعہ پر لوگوں کے شور سے اکثر افسر ڈر جاتے ہیں۔<
)یہ اصل لفافہ میرے پاس ہے جس کے اوپر یہ الفاظ ہیں(
خاکسار حضور کی اقتداء میں نماز جمعہ کے بعد رات کو واپس حیدر آباد پہنچا اور جماعت کو حالات سے آگاہ کر کے کہا کہ ہمیں کوئی دوسرا انتظام فوری طور پر کر لینا چاہئے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعد میں بعض اساتذہ سے مرعوب ہو کر مکرم` ماسٹر نور محمد صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول ہیرہ آبادنے معذرت کردی ادھر ہم نے متبادل انتظام کر لیا ہوا تھا۔
۲۲۔ مارچ کو دفتر >تبلیغ< ربوہ کی طرف سے تار آیا کہ حضور کی تقریر کے قلم بند کرنے کا انتظام کریں چنانچہ جواب میں عرض کیا گیا کہ مکرم مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوٹی تقریر قلم بند کریں گے۔
اسی رات کو پھر میٹنگ ہوئی اور مورخہ ۲۳۔ مارچ کو حضور کے قیام کے لئے >مسلم ہوسٹل< کی بجائے >انسپکشن بنگلہ< نزد سرکٹ ہائوس انتظام کر لیا گیا اور جلسہ کے لئے حسب ذیل دعوت نامہ پوسٹ کارڈ سائز پر طبع کرایا گیا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکرمی جناب !
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`
امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بروز منگل مورخہ ۲۵ مارچ ۱۹۵۲ء کو ساڑھے چار بجے شام تھیا صوفیکل ہال نزد جنرل پوسٹ آفس حیدر آباد میں >اتحاد المسلمین< کے موضوع پر تقریر فرمائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
آپ اس جلسہ میں شرکت فرما کر منتظمین کو شکریہ کا موقعہ دیں۔
نوٹ :۔ براہ مہربانی یہ دعوت نامہ ہمراہ لایئے گا۔
والسلام
الداعی سیکرٹری جماعت احمدیہ حیدر آباد< یہ دعوت نامہ صرف ۵۰۰ کی تعداد میں طبع کرایا گیا تھا کیونکہ ہال میں اسی قدر بمشکل گنجائش تھی مگر شائقین و سامعین کا اتنا اشتیاق و اصرار ہوا کہ کارڈ تقسیم کرنے کے بعد جس کو کارڈ بوجہ واقفیت دیا گیا اس کی سفارش پر اسی کے کارڈ پر دو دو تین تین بلکہ چار چار کے بھی نام مجھے درج کرنا پڑے۔ اور ہال میں تنگی کی وجہ سے اکثر لوگوں کو جلسہ میں تقریر لائوڈ سپیکر کے ذریعہ باہر کھڑے ہو کر سننا پڑی۔ میں دعوتی کارڈ دیکھ دیکھ کر لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دیتا تو پہر داران کو داخل ہونے دیتے تھے۔
۲۴ مارچ بروز سوموار حضور دس بجے شب بذریعہ ٹرین ناصر آباد سے میر پور خاص کے راستے حیدر آباد تشریف فرما ہوئے۔ جماعت احمدیہ حیدر آباد نے حضور کا استقبال کیا اور کاروں کے ذریعہ حضور مع عملہ >انسپکشن بنگلہ< نزد سرکٹ ہائوس حیدر آباد میں تشریف لے گئے۔ جہاں رات کو قیام فرمایا۔
۲۵ مارچ کی صبح کو مکرم چوہدری محمد سعید صاحب نے اپنے مکان واقع ہیرہ آباد میں حضور کو دعوت ناشتہ دی۔ اس موقع پر لی گئی ایک تصویر میرے پاس تھی جو آپ ہنگاموں میں ضائع ہوگئی ہے۔ اسٹیشن پر سے اترنے کے وقت بھی ایک تصویر تھی وہ بھی ضائع ہوگئی ہے۔ مکرم بابو عبدالغفار صاحب فوٹو اسپیڈ کمپنی حیدر آباد سندھ کے پاس بھی ہے ان کے بھائی مکرم نثار احمد صاحب کے پاس غالباً یہ مل سکیں گی جنہوں نے یہ تصاویر لی تھیں۔
۲۵۔ مارچ بروز منگال حضور سے معززین شہر حیدر آباد آ آ کر دن بھر ملاقات کرتے رہے۔
مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحبؓ امیر جماعت کراچی نے کراچی سے کافی تعداد میں موٹر کاروں کے ذریعہ احباب جماعت کو حیدر آباد بھیجا اور خود بھی تشریف لائے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ حیدر آباد کے اس جلسہ کے صدر کا آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟ تو انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ میں اب یہاں کوشش کرتا ہوں چنانچہ ہم دونوں مکرم جناب ایم۔اے حافظ صاحب بار ایٹ لاء ہیرہ آباد کے پاس پہنچے۔ انہوں نے اس جلسہ کی صدارت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا۔ وہ مکرم چوہدری صاحب کے واقف اور دوست تھے اور آنے کا وعدہ کیا بڑی خوشی کا اظہار کیا۔
وقت مقررہ سے قبل ہی ہال کھچا کھچ بھر گیا جس مین انتظامی لحاظ سے احمدی نصف کے قریب تھے باہر بھی دعوت نامہ والے صحن میں کھڑے تھے۔حضور وقت مقررہ پر ساڑھے چار بجے بذریعہ کار ہال میں تشریف لائے۔ مکرم جناب ایم۔اے اے حافظ صاحب بار ایٹ لاء کی صدارت کا مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب نے اعلان کیا۔ تلاوت قرآن کریم خاکسار سید احمد علی مبلغ نے کی۔ نظم مکرم میر مبارک احمد صاب تالپور نے پڑھی اور پھر صدر جلسہ نے حضور سے تقریر کی درخواست کی جو حضور نے >اتحاد المسلمین< کے موضوع پر ساڑھے چھ بجے شام تک فرمائی۔ آخر میں دعا کرائی اور پھر اس کے بعد چناب ایکسپریس کے ذریعہ پنجاب کے سفر کے لئے بذریعہ کار حضور سید حیدر آباد اسٹیشن تشریف لے گئے جہاں تمام احباب جماعت ہائے احمدیہ حیدر آباد )سندھ اور کراچی سے آنیوالوں نے حضور سے ملاقات کی۔ گاڑی کے آنے میں کافی وقت تھا حضور کے لئے پلیٹ فارم پر کرسی کا انتظام کیا گیا جس پر رونق افروز ہر کر حضور نے مشتاقین کو زیارت سے مشرف فرمایا اور غیر از جماعت اصحاب کو بھی شرف ملاقات بخشتے رہے۔ اس موقع پر حضور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ پچھلی دفعہ جب یہاں میرا لیکچر ہوا تھاتو صرف ۳۵ افراد سننے والے تھے مگر اب کے تھیا صوفیکل ہال کیاندر ۵۰۰ سے زائد اور باہر اسے بھی زیادہ صحن میں موجود تھے اس طرح حاضری ہزار بارہ سو تھی مگر جو باہر کھڑے لائوڈ سپیکر کے ذریعہ حضور کی تقریر سنتے رہے وہ بھی کئی صد تھے۔ حضور بے حد خوشی اور مسرتمحسوس فرمارہے تھے۔ اور یہ خدا کا خاص فضل تھا کہ جلسہ میں ہر طبقہ اور ہر فرقہ کے لوگ یعنی سنی` حنفی` بریلوی` شیعہ اہل حدیث` دیو بندی وغیرہ بلکہ عیسائی اور ہندو بھی موجود تھے اور بہت ہی اچھا اثر لے کر گئے اور حضور کی تقریر کے مدح سراتھے۔
دس بجے حضور چناب ایکسپریس پر سوار ہوئے احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر خوش و شادمانی اور جلسہ کی شاندار کامیابی کے ساتھ پنجاب کو تشریف لے گئے۔
اگلے ہی دن ۲۶ مارچ کو خاکسار نے اس جلسہ کی رپورٹ دفتر >تبلیغ ربوہ< الفضل< اور >المصلح< کراچی کو روانہ کردی >الفضل< مورخہ ۳۰ مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ پر زیر عنوان >حضرت امیر المونین ایدہ اللہ تعالیٰ کی حیدر آباد میں تشریف آوری اور بصیرت افروز تقریر شائع ہوئی` فالحمدلل¶ہ
میری ۱۹۵۲ء کو ڈائری اب تک موجود ہے اس سے یہ حالات مرتب کئے گئے ہیں۔ والسلام
خاکسار سید احمد علی مربہ جماعت احمدیہ
از شہر گوجرانوالہ ۵۷۔۳۔۷
دیگر کوائف
اس یادگار اور تاریخی موقع پر جن مقامات کے احمدی تشریف لائے ان کے نام یہ ہیں:۔
کرچی` بدین` میرپور خاص` نواب شاہ` سکھر` روہڑی` کرونڈی )خیر پور اسٹیٹ`( سانگھڑ` پڈعیدن` ٹنڈوالہ` یار باندھی` لاکھا روڈ` بنی سر روڈ` ڈگری` کوٹ احمدیاں اوراحمدیہ اسٹیٹس۔
چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی اور قائد و نائب قائد مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے بھی جماعت کی خاصی تعداد اور قریباً ڈیڑھ سو خدام کے ساتھ شرکت کی اور انتظامی اور حفاظتی امور میں مقامی جماعت سے مخلصانہ تعاون کیا۔ اسی طرح مکرم ماسٹر رحمت اللہ صاحب )نگران اعلیٰ( پریذیڈنٹ حیدر آباد` مکرم سید احمد علی شاہ صاحب مبلغ حیدر آبا` مکرم مولوی غلام احمد صاحب فرخ مبلغ بالائی سندھ` مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب سیکرٹری تبلیغ۔ مکرم بابو عبدالغفار صاحب کانپوری` مکرم ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب اپنے اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوشاں رہے۔]4 [stf۱۳۵
فصل ششم
حکام وقت کو حالات سے باخبر رکھنے کی واضح ہدایت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا پارلیمنٹ میں اعلان حق خلافت احمدیہ سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی وضاحت دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا افتتاح
حکام کو حالات سے باخبر رکھنے کی واضح ہدایت
پاکستان میں اب تک کئی احمدی جام شہادت نوش کرچکے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مخالفت کا دبائو بڑھتا جارہا تھا۔ لٰہذا سیدنا محمود خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ۱۳۳۱۲۸ہش کے خطبہ جمعہ میں واضح رنگ میں یہ ہدایت دی کہ ہر صورت میں احباب جماعت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ حکام وقت کو ہمیشہ حالات سے باخبر رکھیں۔ چنانچہ فرمایا:۔
>جہاں تک قانون کا سوال ہے میرے نزدیک صاف بات ہے کہ جماعت کو ایسے افعال کی طرف بار بار توجہ دلانی چاہئے کیونکہ حکومت کے ذمہ دار افراد نے خواہ وہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کریں جو نام اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے ان کا فرض ہے کہ وہ اس طرف توجہ کریں۔ اگر جماعتیں انہیں اس طرف توجہ نہ دلائیں تو وہ دنیا کے سامنے کہہ سکتے ہیں کہ ہم حالات سے واقف نہیں تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم تیرے بندوں کی حفاظت کے لئے تیار تھے لیکن انہوں نے ہمیں بتایا ہی نہیں۔ پس دنیا کے دربار میں اور خدا تعالیٰ کے دربار میں بھی حکومت کے آفیسروں پر محبت پوری کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر ضلع اور ہر صوبہ کے حکام اور گورنمنٹ پاکستان کے سامنے متواتر اپنے حالات رکھیں اور قطعاً اس بات کا خیال نہ کریں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا جتنی دیر سے نتجہ نکلے گا اتنا ہی وہ انہں مجرم بنانے اور خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کا موجب ہوگا۔ دنیا کی حکومت جتنی گرفت کرسکتی ہے خدا تعالیٰ کی حکومت یقیناً اس سے زیادہ گرفت کرسکتی ہے لیکن کسی شخص پر حجت تمام کردینا سب سے بڑا کام ہے خودسر` جوشیلے اور بے وقوف لوگ اسے فضول سمجھتے ہیں لیکن عقل مند لوگ جانتے ہیں کہ سب سے بڑی سا یہ ہے کہ کسی شخص پر حجت پوری ہوجائے اور اس کے ساتھیوں اور دوسرے لوگوں پر حجت پوری ہوجائے اس کے بعد وہ خواہ عمل نہ کرے اس کے لئے ہی سزا کافی ہے پھر خدا تعالیٰ جو سزا دے گا وہ الگ ہے میں ان لوگوں سے متفق نہیں ہوں جو کہتے ہیں کہ حکومت نے پہلے کیا کیا ہے کہ ہم پھر اس کے پاس جائیں۔ یہاں اس بات کا سوال نہیں کہ وہ کوئی علاج بھی کرتے ہیں یا نہیں یہ لوگ ہم پر مقرر کردیئے گئے ہیں اور انہیں خدا تعالیٰ نے ہم پر حاکم مقرر کیا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی انہیں اسی نام سے مخاطب کریں اور کہیں کہ تم ہمارے حاکم ہوا اور امن قائم رکھنا تمہارا فرض ہے۔ اور اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کرں تو ہم دوبارہ ان کے پاس جائیں گے اور انہیں اس طرف توجہ دلائیں گے۔<
>جو لوگ مادی چیزوں کو لیتے ہیں وہ کسی افسر کے موقوف ہوجانے اور اس کے ڈسمس ہوجانے کا نام سزا رکھتے ہیں بے شک وہ سزا ہے لیکن وہ سزا گھٹیا درجہ کی ہے کسی شخص کا مجرم ثابت ہو جاتا ` اس کا غیر ذمہ دار قرار پانا اور فرض ناشناس قرار پانا اس کے ڈسمس ہوجانے اور معطل ہو جانے سے زیادہ خطرناک ہے۔ کتنے آدمی ہیں جو معطل ہوئے لیکن بعد میں آنے والوں نے انہیں بری قرار دیا۔ پرانے زمانے میں کئی کمانڈر اپنی کمانوں سے الگ ہوئے۔ کئی بادشاہ اپنی بادشاہتوں سے الگ ہوئے لیکن بعد کی تاریخ نے انہیں بری قار دے دیا۔ وہ کتنے سال تھے جو انہوں نے تکلیف میں گزارے ؟ یہی دس بارہ سال وہ تکلیف میں ہے اور انہوں نے ذلت کو برداشت کیا لیکن بعد کی تاریخ نے انہیں اتنا اچھالا کہ وہی معطل شدہ کمانڈر اور بادشاہ عزت والے قرار پائے۔ اس کے مقابلہ میں کتنے بڑے سرکش بادشاہ اور کمانڈر گزرے ہیں جنہیں اپنے وقت میں طاقت` قوت اور دبدبہ حاصل تھا` انہوں نے ماتحتوں پر ظلم بھی کئے لیکن سینکڑوں اور ہزاروں سال گزر گئے کوئی شخص انہیں اچھا۔ ہر تاریخ پڑھنے والا نہیں ملامت کرتا ہے اور انہیں حقیر اور ذلیل سمجھتاہے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کی اولاد بھی اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا پسند نہیں کرتی۔<
>اگر تم پر کوئی شخص ظلم اور تعدی کرتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ افسر فرض شناس ہے اور وہ تمہاری مدد بھی کرے گا تو پھر بھی وہ اس وقت تک ظلم کو نہیں مٹا سکتا جب تک کہ وہ وقت نہ آجائے جو خدا تعالیٰ نے اس مٹانے کے لئے مقرر کیا ہے۔ ایک صداقت کی دشمنی محض یہ نہیں ہوتی کہ اس کے قبول کرنے والے کو مارا جائے بلکہ دشمنی یہ ہوتی ہے کہ اسے جھوٹا کہا جائے۔ اب کیا حکومتیں کسی کو جھوٹا کہنے سے روک سکتی ہیں ؟ اگر وہ جلسے روک دیں گے تو لوگ گھروں میں بیتھے باتوں باتوں میں جھوٹا کہیں گے۔ اور اگر حکومت اور زیادہ دبائے گی تو وہ دلوں میں جھوٹا کہیں گے اب دلوں میں برا منانے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے ؟ اگر ایک شخص صداقت سے محروم ہے` وہ ناواقف ہے اس لئے وہ صداقت سے دشمنی کرتا ہے اور وہ شیطان کا ہاتھ میں پڑ گیا ہے۔ تو جب تک اس کا دل صاف نہ ہو اس کی دشمنی کو دور نہیں کیا جاسکتا اور جس دن اس کا دل صاف ہو جائے گا تو کیا ایسی طاقت ہے یا کوئی ایسی حکومت ہے جو اس سے مخالفت کرواسکے ؟ جو لوگ احمید کے دشمن میں حکومت اگر چاہے بھی تو ان کے دلوں سے دشمنی کو نہیں نکال سکتی۔ اسی طرح جن لوگوں نے احمدیت کو قبول کر لیا ہے اگر حکومت چاہے بھی تو بھی ان کے دلوں سے بانی سلسلہ احمدیہ کی محبت کو نہیں نکال سکتی۔
ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے` اور جب ہمارا مقابلہ اور ہماری جنگ دل سے ہے تو حکومت پر نظر رکھنی فضول ہے۔ تمہاری فتح دلوں کی فتح ہے اور جب دل فتح ہوجائیں گے تو تمہیں فتح حاصل ہوجائے گی۔ اگر تم نے دلوں کو فتح کر لیا تو تم دیکھو گے کہ یہی افسر جو آج تمہارے خلاف دوسروں کو اکساتے ہیں ہاتھ جوڑ کر تمہارے سامنے کھڑے ہوجائیں گے اور کہیں گے ہم تو آپ کے ہمیشہ سے خادم ہیں۔<]>[آخر کوئی حکومت ہو مسلم ہو یا غیر مسلم` بری ہو یا اچھی اس کے بننے میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
ترتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعزمن تشاء و تذل من تشاء۱۳۶
یعنی حکومت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکومت دیتا ہے وہ جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں فلاں شخص نے لڑائی کر کے حکومت لے لی ہے` فلاں شخص نے غصب کر کے حکومت لے لی ہے یا فلاں شخص نے بغاوت کر کے حکومت کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے` لیکن ہر حکومت میں خدا تعالیٰ کی مرضی ضرور شامل ہوتی ہے۔ جس طرح انسان کی پیدائش میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے جس طرح انسان کی موت میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے۔ جس طرح رزق میں خدا تعالیٰ کی مرضی شامل ہے اسی طرح اس کی مرضی حکومت مین بھی شامل ہوتی ہے۔ بے شک اس میں انسانی اعمال کا بھی دخل ہے۔ بے شک اس میں انسانی کوششوں` سستیوں اور غفلتوں کا بھی دخل ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ ہماری طرف سے ہے۔ جس طرح موت اور حیات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اسی طرح حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا بھی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
کسی قوم کی موت اور حیات اس کا ٹوٹ جانا اور بننا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جب ہم کہتے ہیں۔
توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعزمن تشاء و تذل میں تشاء
تو حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا بھی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوا۔ اور جس خدا کے ہاتھ میں حکومت کا قائم کرنا ہے جس خدا کے ہاتھ میں حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا ہے وہی خدا حکم دیتا ہے کہ تم اپنی تکلیفیں افسران بالا کے سامنے لے جائو اور اس سے فائدہ نہ اٹھانا بے وقوفی ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم مذہبی لحاظ سے بار بار اپنی تکالیف گورنمنٹ تک پہنچائیں۔ اس طرح اگر کوئی افسر فرض شناس ہوگا تو وہ ہماری مدد بھی کرے گا اور ہمیں فائدہ پہنچائے گا۔ لیکن اگر وہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گا تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہہ سکو گے کہ اے خدا جو ذریعہ اصلاح کا تونے بتایا تھا وہ ہم نے اختیار کیا ہے۔<
>پھر تم یہ بات بھی مت بھولو کہ تمہارا توکل خدا تعالیٰ پر ہے حکومت پر نہیں۔ پھر جہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ ان امور کو حکومت کے سامنے لے جائو وہاں اگر تمہیں مایوسی نظر آتی ہے تو مایوس مت ہو کیونکہ اصل بادشاہ خدا تعالیٰ ہے اور جو فیصلہ بادشاہ کرے گا وہی ہوگا انسان جو فیصلہ کرے گا وہ نہیں ہوگا۔ ایک افسر کی غلطی کی وجہ سے حکام کو توجہ دلانا چھوڑ نہ دو اور ایک افسر کی غفلت کی وجہ سے فائدہ اٹھانا ترک نہ کرو۔ محض چند افسران کا اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہونا ایسی چیز نہیں کہ تم حکام کے کام سے غافل ہوجائو۔ تم انہیں توجہ دلاتے رہو اور ان کے پاس اپنی شکایت لے جائو۔ لیکن تمہارا تبھی مکمل ہوگا جب تم اپنی شکایات حکومت کو سامنے پیش تو کرو` تم ان امور کو لے کر افسران کے پاس جائو تو ضرور لیکن یہ خیال مت کرو کہ اگر وہ توجہ نہ کریں گے تو تم کو نقصان پہنچے گا۔ اگر یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے تو خدا تعالیٰ نے ہی اسے پورا کرنا ہے۔ جس دن تمہیں یہ یقین ہوجاے گا کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور وہ اسے ضرور کرے گا تو تم موجودہ مخالفت سے گھبرائو گے نہیں۔ ہر انسان میں تھوڑی بہت شرافت ضرور ہوتی ہے تم اگر متواتر افسروں کے پاس جاتے رہو گے تو ایک نہ ایک دن وہ شرما جائیں گے اور وہ خیال کریں گے ہم نے اپنا فرض ادا نہیں کیا لیکن یہ لوگ اپنا فرض ادا کئے جارہے ہیں اور جب تم خدا تعالیٰ پر توکل کرو گے تو تم جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمام رحمتوں اور فضلوں کا منبع ہے یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ ایک جماعت کو خود قائم کرے اور پھر اسے مٹا دے اسے بڑی بے دینی اور بدظنی اور کیا ہوسکتی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں چھوڑ دے گا ؟<
آخر میں حضور نے قو و یقین سے لبریز الفاظ میں پیشگوئی فرمائی کہ :۔
>اگر تم نیکی اور معیار دین کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہو گے تو وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا کبھی نہیں چھوڑے گا۔ اگر دنیا کی ساری طاقتیں بھی تمہاری مدد کرنے سے انکار کردیں تو خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ اس کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور تمہاری مدد کے سامان پیدا کریں گے۔<۱۳۷
چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب کاپارلیمنٹ میں اعلان حق
مارچ ۱۹۵۲ء کا واقعہ ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو کے بعض لیڈروں نے پاکستان کی پارلیمنٹ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر تنقید کی کہ برطانیہ اور امریکہ کے دامن سے بندھن ہوئی ہے۔ نیز کہا:۔
>وزیر خارجہ کا ریکارڈ یہ ہے کہ تیس سال تک برطانوی سامراجیت کے سامنے سجدہ ریز رہے ہیں۔<
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنے جواب میں پہلے تو چند ایک مثالیں پیش کیں جن میں پاکستان نے بڑی بڑی طاقتوں کی سخت سے سخت مخالفت کے علی الرغم مسلم ممالک کی آزادی کے لئے حمایت کی اور ان کو مدد دی۔ آپ نے کہا ان میں سے لیبیا` ایرٹیریا ` سمالی لینڈ` مراکو ` ٹیونس اور انڈونیشیا بعض مثالیں ہیں۔ آپ نے ان لیڈروں کو دعوت دی کہ وہ ان مشرق وسطی کے ممالک کا دورہ کریں تو انہیں معلوم ہوگا کہ ان ممالک کا ہر ایک انسانی معترف ہے کہ جہاں کہیں بھی آزدی` حریت اور سامراجیت کے خلاف لڑائی اور نو آبادیاتی پالیسی کی مخالفت کا سوال پیدا ہوا پاکستان ہمیشہ صف اول میں رہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مری برطانوی جھگڑے میں پاکستان کا موقف یہ تھا کہ کوئی ایسا فیصلہ ہو جس سے مرصی عوام کی پوری پوری تسلی ہو اور جو مصر کے وقار` عزت نفس اور علو شان کے شادیاں ہو۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ برطانوی ایرانی جھگڑے میں ہماری تمام جدوجہد اس اصول کے پیش نظر رہی ہے کہ اس امر کو غیر مبہم الفاظ میں تسلیم کر لیا جائے کہ ایران کو اپنی تیل کی صنعت کو قومی بنانے کا حق حاصل ہے اور یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ قومی بنانے کا اقدام اب منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت چوہدری صاحب نے برطانوی سامراجیت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے اعتراض کے جوبا میں واضح لفظوں میں اعلان کیا کہ:۔
>میں کبھی کسی کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوا خواہ کوئی حکومت ہو یا ایک بادشا یا رعایا سوائے اس کے کہ جو شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ اور چونکہ میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہوں میں کسی دوسرے کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا۔<
پھر فرمایا :۔
>میں نے ہرگز کبھی کسی کے پاس کسی عہدے یا مرتبے کے لئے درخواست نہیں کے۔ وزارت خارجہ مجھے پیش کی گئی جیسا کہ میں غیر منقسم ہندوستان میں اس عہدہ پر فائز تھا اور مجھے اس عزت افزائی کا فخر ہے کہ جو مجھے پاکستان کی تاریخ کے ایسے نازک مرحلے پر اس کی حقیر سی خدمت کرنے کا موقعہ دینے سے کی گئی ہے۔<۱۳۸
حضرت مصلح موعودؓ کی وضاحت خلافت احمدیہ سے متعلق
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے الفضل )۲۵ فتح ۱۳۳۰ ہش/۲۵ دسمبر ۱۹۵۱ء( میں >اسلامی خلافت کا نظریہ< کے زیر عنوان ایک پرمغز مقالہ تحریر فرمایا ۱۳۹]4 [rtf جس میں یہ ذوقی بات بھی شامل ہوگئی کہ >یہ اٹل تقدیر ظاہر ہو کر رہے گی کہ کسی وقت احمدیت کی خلافت بھی ملکویت کو جگہ دے کر پیچھے ہٹ جائے گی۔<
صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو یہ نظریہ حضرت مسیح موعودؓ علیہ السلام کی تصریحات اور جماعتی منسلک کے منافعی معلوم ہوا اور آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھی اپنی رائے عرض کردی جس پر حضور پر نور نے موجودہ آئندہ نسلوں کی رہنمائی کے لئے حسب ذیل وضاحت نوٹ سپرد قلم فرمایا:۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
خلافت عارضی ہے یا مستقل
عزیزم مرزا منصور احمد نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے اور لکھا ہے کہ غالباً اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریکیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق اور وقت ہے۔ میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا اس خط کی بناء پر میں نے مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت` خلافت کے بارہ میں پیش نہیں کی گئی۔
مرزا بشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے اس حدیث میں قانون نہیں بنایا کیا گیا بلکہ رسول کریم~صل۱~ کے بعد حالات کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے سب اوقات کے متلعق نہیں ہوتی یہ امر کہ رسول کریم~صل۱~ کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مستبدہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہوگیا۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا۔ قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہان یہ بتایا گیا ہے کہ خلاف ایک انعام ہے۔ پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسی ملتا رہے گا۔ پس جہاں تک مسئلے اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپںی آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کردے۔ لیکن اس اصل سے یہ بات ہرگز نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آرہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنون میں حضرت مسیح کا خلیفہ نہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی امت نہیں۔ پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ملا ضرور ہے۔ بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسیٰؑ کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسیٰؑ کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی` اسی طرح گو رسول~صل۱~ کے بعد خلافت محمدیہ تواتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معینہ عرصہ تک چلتی چلی جائے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل ہے جو امور کہ تکمیل اور خوبی پر ولالت کرتے ہیں سوائے ان امور کے کہ جن سے بعض ابتلاء ملے ہوتے ہیں۔ ان میں علاقہ محمدیت` علاقہ موسویت پر غالب آجاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کردیا ہے جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکایا گیا لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لٹکایا گیا۔ کیونکہ مسیح اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اورمسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی۔ خلافت چونکہ ایک انعام سے ابتلاء نہیں اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ مسیح اول کی امت کو ملیں۔ کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کی پشت پر محمدی برکات ہیں۔
پس جہاں میرے یہ بحث نہ صرف یہ کہ بیکار ہے بلکہ خطرناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بحثیں شروع کردیں وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصہ تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جاسکتا اور اگر خدانخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہوگا بلکہ ایسا ہی وقفہ ہوگا جیسی دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں۔ کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ ان حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں تھا۔< ۱۴۰
دفتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا افتتاح
نوجوانان احمدیت کی عالمی تنظیم۔خدام الاحمدیہ۔۔ کے مرکزی دفتر کی بنیاد سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ۶ ماہ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/۶ فروری ۱۹۵۲ء کو اپنے دست مبارک سے رکھی۔ قریباً پانچ ہزار روپیہ کی لاگت سے دفتر کے دو کمرے اور ان کے آگے آٹھ فٹ چوڑا برآمدہ` ایک سٹور اور ایک چوکیدار کا کمرہ تعمیر ہوچکا تو مورخہ ۵ اپریل ۱۹۵۲ء )مطابق ۵ شہادت ۱۳۳۱ ہش( کو دفتر اپنی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ اس روز سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بعد نماز عصر دفتر میں تشریف لا کر افتتاحی دعا کی۔ دعا سے قبل حضور نے مجلس کے دفتر بنانے پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور اسے جلد مکمل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ۱۴۱
اس موقعہ پر حضور نے ایک مختصر مگر ایمان افروز خطاب کیا جس میں فرمایا:۔
>اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چاہئے اور اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے۔ ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو انسان ان کا تیار کیا ہوا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کردیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں۔ اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مرجائیں۔ اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں تمہیں خدا تعالیٰ نے رکھا ہے تمہیں اسی میں فوراً کام شروع کردینا چاہئے۔ اگر خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جا کر کام شروع کردو لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو۔ مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے۔ گویا مومن کے لئے کام ختم کرنے کا وقت موت ہوتی ہے۔<۱۴۲
فصل ہفتم
مجلس مشاورت ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء کا انعقاد چندہ تعمیر مساجد کا مستقل نظام اشاعت لٹریچر کیلئے دوکمپنیوں کے قیام کا اعلان مکمل مرکزی لائبریری کا منصوبہ
مجلس مشاورت ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء اور اہم فیصلے
۱۱۔۱۲۔۱۳۔ ماہ شہادت ۱۳۳۱ ہش/ اپریل ۱۹۵۲ء کو جماعت احمدیہ کی تینتیسویں مجلس مشاورت کا ربوہ میں انعقاد ہوا۔
خطبہ جمعہ میں نصیحت
حضرت مصلح موعود~رضی۱~ نے افتتاح مشاورت سے قبل خطبہ جمعہ میں نصیحت فرمائی کہ :۔
>جب تک کسی قوم کے افراد اپنے اندر صحیح تبدیلی پیدا نہ کریں` وہ اپنے اندر سچا تقویٰ نہ پیدا کریں` وہ اپنے اندر درمیانہ روش کی روح پیدا نہ کریں یا وہ اپنے اندر سوچنے اور فکر کرنے کی روح پیدا نہ کریں یا وہ اپنے اندر عقل اور دانائی سے کام لینے کی روح پیدا نہ کریں` اس کے نمائندے بھی درحقیقت صحیح رستہ اور سچائی سے ایسے ہی دور ہوں گے جیسے اس جماعت کے افراد جس کا کوئی نمائندہ نہیں ہوتا۔ پس یہ جو ہم شوریٰ کرتے ہیں وہ اس غرض کو تو پورا کرتی ہے کہ اگر جماعت کے افراد صحیح ہوں تو شوریٰ مفید ہوسکتی ہے لیکن اس غرض کو پورا نہیں کرتی کہ اس کے افراد ٹھیک ہوں افراد کا ٹھیک ہونا ان کے اپنے ارادے اور کوشش کے صحیح ہونے پر مبنی ہے۔ یہ وہ کام ہے جو آپ لوگ کر سکتے ہیں کوئی نمائندہ نہیں کرسکتا۔ دل کی اصلاح کے لئے انسان کی اپنی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس کی اپنی کوشش کی ضرورت ہے۔ اگر تم ٹھیک ہوجائو تو تمہاری شوریٰ اور مشورے بھی ٹھیک ہوجائیں اور پھر صحیح مشورے پورے بھی ہوجائیں۔ کیونکہ اگر تم صحیح ہوگے تو تم اپنے مشوروں کو پورا کرنے کی کوشش کرو گے۔<۱۴۳
مشاورت کے عمومی کوائف
مشاورت دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ہال میں منعقد ہوئی جس میں ۳۷۳ نمائندوں نے شرکت فرمائی۔ بیرونی ممالک میں سے اس مرتبہ جرمنی` امریکہ ` سوڈان` انڈونیشیا اور چین کے نمائندے بھی شامل ہوئے۔ فیصلہ ہوا کہ آئندہ سال بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے قریباً تیرہ لاکھ روپیہ خرچ کیا جاے۔ صدر انجمن کا میزانیہ جس کی منظوری حضرت امام ہمام نے عطا فرمائی پندرہ لاکھ ۷۶ ہزار روپیہ پر مشتمل تھا۔
چندہ تعمیر مساجد کا مستقل نظام
اس تقریب پر حضورؓ نے تعمیر مساجد کے چندہ کی فراہمی کے لئے ایک مستقل نظام تجویز فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ )۱( ملازم پیشہ اپنی سالانہ ترقی کے پہلے ماہ کی رقم )۲( بڑے پیشہ ور ایک مہینے کی آد کا پانچواں حصہ )۳( چھوٹے پیشہ ور مہینے کی کسی معینہ تاریخ کی مزدوری کا دسواں حصہ )۴( تاجر اصحاب مہینہ کے پہلے سودا کا منافع اس مد میں دیا کریں۔ اور )۵( زمیندار احباب ہر فصل پر ایکڑ زمین میں سے ایک کرم کے برابر چندہ تعمیر مساجد ادا کیا کریں۔<
مندرجہ بالا طبقوں کے نمائندوں نے خلیفہ وقت کے سامنے بشاشت کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ مجوزہ نظام کے مطابق بالالتزام چندہ دیا کریں گے۔ اس موقعہ پر سیالکوٹ کے ایک تاجر دوست خواجہ محمد یعقوب صاحب نے حضور کی خدمت میں ایک سو روپیہ اس فنڈ کے لئے پیش کیا جس پر حضور کی خدمت بابرکت میں نقدی پیش کرنے کی ایک عام رو پیدا ہوگئی اور حضورؓ کے اردگرد اتنا ہجوم ہوگیا کہ نظم و ضبط کی خاطر انہیں قطاروں میں کھڑا کرنا پڑا` چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے چار ہزار سے زائد روپیہ نقد اور ایک ہزار روپیہ سے زائد کے وعدے وصول ہوگئے۔ خواتین کی طرف سے ۔/۶/۰۹ نقد کے علاوہ دو طلائی انگوٹھیاں بھی حضور کی خدمت می پیش ہوئیں۔ چندہ دینے کا یہ سلسلہ ابھی پورے جوش و خروش سے جاری تھا کہ حضور نے مجلس کی کارروائی کی خاطر اسے روک دینے کا اعلان کیا اور ارشاد فرمایا کہ مسجد فنڈ کے مزید چندے اور وعدے بعد میں دیئے جائیں۔ ۱۴۴
سب سے پہلے احمدی تاجر جنہوں نے مشاورت کے معاً بعد اس مالی جہاد مین حصہ اور ڈھائی سو روپیہ اس مد میں بھجوایا حضرت شیخ کریم بخش صاحب آف کوئٹہ کے فرزند شیخ محمد اقبال صاحب ہیں جن کا ذکر خصوصی خود حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ ۲۶ ہجرت ۱۳۳۱ ہش میں فرمایا ۱۴۵
اشاعت لٹریچر کے لئے دو کمپنیوں کے قیام کا اعلان
حضورؓ نے اس مشاورت پر اشاعت لٹریچر کے لئے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی دو اشاعت کمپنیوں کے قیام کا بھی اعلان فرمایا۔ ایک کمپنی اردو لٹریچر کے لئے اور ایک کمپنی غیر ملکی زبانوں خصوصاً عربی زبان کے لٹریچر کے لئے !!
body] g[taکمپنیوں کے سرمایہ کی نسبت حضورؓ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ :۔
>خلافت جوبلی فنڈ کا روپیہ جو دو لاکھ ستر ہزار کے قریب ہے میں اس کمپنی کو دیتا ہوں جو صدر انجمن احمدیہ کی ہوگی۔ اس کے علاوہ گزشتہ سالوں میں صدر انجمن احمدیہ چھ ہزار روپیہ سالانہ مجھے گذارہ کے لئے قرض کے طور پر دیتی رہی ہے بعض سالوں میں اس سے کم رقم بھی لی ہے بہرحال آپ لوگ مجھے امداد کے طور پر وہ رقم دینا چاہتے )تھے( اور میں نے قرض کے طور پر لی۔ ا میں چاہتا ہوں کہ اس رقم کو بھی جب میں ادا کرنے کے قابل ہو سکوں تو اس مد میں ادا کر دوں۔ اس رقم کو ملا کر تین لاکھ ستر ہزار بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ رقم جمع ہوجائے گی۔ کچھ سرمایہ پہلے سے اس مد میں فروخت کتب سے حاصل ہوچکا ہے اسے ملا کر قریباً چار لاکھ روپیہ کا سرمایہ ہوجاتا ہے۔ جب کمپنی جاری ہو تو اس وقت ایک لاکھ کے حصے اگر صاحب توفیق احباب خرید لیں تو پانچ لاکھ سرمایہ ہوجائے گا اور یہ اتنا بڑا سرمایہ ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا پریس اور کافی کتب شائع کی جاسکتی ہیں۔ سردست میں اس غرض کے لئے چار لاکھ سرمایہ کی ہی اجازت دیتا ہوں اگر ضرورت پڑی تو بعد میں اس رقم کو بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔ جب اس کمپنی کی وجہ سے آمد شروع ہوگئی تو چونکہ خلافت جوبلی فنڈ کے روپیہ پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور میں نے اس فنڈ سے وظائف دینے کا بھی اعلان کیا تھا اس لئے آمد کے پیدا ہونے پر اس کا ایک حصہ وظائف میں بھی جاسکتا ہے۔
اب رہ گئی تحریک جدید کی چار لاکھ روپیہ کی کمپنی جس کا کام اردو کے سوا دوسری زبانوں میں لٹریچر شائع کرنا ہوگا` اس کمپنی کے سرمایہ کے لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے غیر زبانوں میں تراجم کا کام` چونکہ اس کا حصہ ہے اور اس کا سرمایہ ہماری جماعت دس سال سے جمع کرچکی ہے` جو دو لاکھ کے قریب ہے اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تراجم قرآن کا دو لاکھ روپیہ اس کمپنی کو دے دیا جائے۔ وہ تراجم بھی یہی کمپنی شائع کرے گی اور اس کے علاوہ دوسرا لٹریچر بھی یہ کمپنی شائع کرے۔ باقی دو لاکھ روپیہ رہ گیا اس کے لئے میرے ذہن میں ایک اور صورت ہے` اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور وہ کام بن جائے تو اس کمپنی کے لئے بھی پورا سرمایہ حاصل ہوسکتا ہے۔ میرے ذہن میں جو صورت ہے وہ ایسی نہیں کہ فوری طور پر روپیہ مل جائے لیکن بہرحال اگر کوشش کی جائے تو مجھے امید ہے کہ دو لاکھ روپیہ ہمیں مل جائے گا۔ اس کے لئے ایک زمین کو فروخت کرنے کی ضرورت ہے جو مجھے کسی دوست نے تحفہ کے طور پر پیش ککی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ تحفہ بھی اس طرف منتقل کردوں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کئے جائیں۔< ۱۴۶
اس عظیم الشان سکیم کے مطابق >الشترکتہ الاسلامیہ< اور >ڈی اورنٹیل اینڈ میلحبس پبلشنگ کارپوریشن لمٹیڈ< کے نام سے دو مستقل اشاعتی ادارے معرض وجود میں آئے جن کی بدولت سلسلہ احمدیہ کا اردو` عربی اور انگریزی لٹریچر کثیر تعداد میں چھپ کر منظر عام پر آچکا ہے۔<۱۴۷
ایک مکمل مرکزی لائبریری کا منصوبہ
اس مشاورت کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں حضورؓ نے پہلی بار جماعت احمدیہ کے سامنے ایک ایسی مکمل اور جدید لٹریچر سے آراستہ لائبریری کا منصوبہ رکھا جو سلسلہ احمدیہ کی جملہ علمی و تبلیغی ضروریات میں اس کو خود کفیل بنادے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں جماعت احمدیہ کی مرکزی لائبریری اور اس کے کارکنوں کے فرائض کا نقشہ کیا تھا ؟ اس کی تفصیل حضور انور کے مبارک الفاظ ہی میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ فرمایا :۔
>لائبریری ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی تبلیغی جماعت اس کے بغیر کام نہیں کرسکتی یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ نہیں تبلیغ اسلام` مخالفوں کے اعتراضات کے جواب` تربیت یہ سب کام لائبریری ہی سے متعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت تک جتنا کام ہورہا ہے یا تو حضرت خلیفہ اولؓ کی لائبریری سے ہورہا ہے اور یا پھر میری لائبریری سے ہورہا ہے میں نے اپنے طور پر بہت سی کتابیں جمع کی ہوئی ہیں جن پر میرا پچاس ساٹھ بلکہ ستر ہزار روپیہ خرچ ہوچکا ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کو کتابوں کا شوق تھا اور آپ نے بھی ہزاروں کتابیں اکٹھی کی ہوئی تھیں وہ کام آتی ہیں۔ لیکن وہ جماعت جو ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کے کام کے لئے کھڑی ہوئی ہے اس کے علوم کی بنیاد کسی دوسرے شخص کی لائبریری پر ہونا عقل کے بالکل خلاف ہے۔
ہمارے پاس تو اتنی مکمل لائبریری ہونی چاہئے کہ جس قسم کی مکمل مذہبی لائبریری کسی دوسرے جگہ نہ ہو مگر ہمارا خانہ اس بارہ میں بالکل خالی ہے۔ پچھلے سال لائبریری کی مد میں میں نے کچھ رقم رکھوائی تھی مگر وہ زیادہ تر الماریوں وغیرہ پر ہی صرف ہوگئی۔ شائد بارہ چودہ سو روپیہ الماریوں پر صرف ہوگیا تھا باقی جو روپیہ پچاس اس میں سے ایک کتاب ہی آٹھ سو اسی روپیہ میں آئی ہے اور جو باقی کتابیں منگوائی گئی ہیں ان کی قیمت سردست امانت سے قرض لے کر دی گئی ہے۔
غرض میں نے ایک خاصی رقم کتابوں کے جمع کرنے پر خرچ کی ہے۔ تقسیم کے وقت قادیان میں میری لائبریری کی بہت سی کتابیں رہ گئیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ کی لائبریری کا بھی ایک اچھا خاصہ حصہ وہیں رہ گیا اور گورنمنٹ نے اس لائبریری کو تالا لگا دیا۔ میرے بیٹے چونکہ وہاں موجود تھے اس لئے میں شروع ہجرت میں ان کو لکھتا رہا کہ میری کتابیں بھجوانے کی کوشش کرو چنانچہ انہوں نے میری بہت سی کتب بھجوادیں لیکن انجمن کے نمائندوں نے ہوشیاری سے کام نہ لیا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی کتابوں کا اکثر حصہ وہیں رہ گیا
پھر دنیا میں نئی سے نئی کتابیں نکل رہی ہیں اور ان کتابوں کا منگوانا بھی ضروری ہے۔ صرف مذہب سے تعلق رکھنے والی ہی نہیں` بلکہ تاریخی اور ادبی کتابیں منگوانا بھی لائبریری کی تکمیل کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ اچھی لائبریری وہ ہوسکتی ہے جس میں کم سے کم ایک لاکھ جلد منتخب کردہ کتب کی موجود ہو اور اگر ایک جلد کی اوسط قیمت ۲۵ روپے لگا لی جائے تو میرے نزدیک صرف ایک لائبریری کے لئے پچیس لاکھ روپیہ ہونا چاہئے لیکن ظاہر ہے کہ پچیس لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی ہم میں ہمت نہیں۔ ایسی صورت میں یہی طریق رہ جاتا ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق اس بوجھ کو اٹھائیں اور اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ اس کام کو اپنے سامنے رکھیں اور اپنی لائبریری کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرتے چلے جائیں۔ لائبریری کا بجٹ بھی پرائیویٹ سیکرٹری کے بجغ میں ہوگا گو اس کے کرچ کا تعلق لائبریری سے ہوگا۔ عام طور پر ہمارا طریق یہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم میں کسی کام کی ہمت نہیں تو ہم اس کام کو کرتے ہی نہیں حالانکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے۔
پس میں تجویز کروں گا کہ فائنانس۱۴۸ کمیٹی ان تمام حالات کو دیکھ لے اور بجٹ میں اس کی گنجائش رکھے۔ اور جماعت کو بھی اس بات کی اجازت ہوگی کہ اگر وہ دیکھے کہ میری کوئی تجویز ضروری تھی مگر فائنانس کمیٹی نے اس طرف توجہ نہیں دی تو وہ ترمیم کے طور پر اس کو یہاں مجلس میں پیش کردے میری تجویز یہ ہے کہ سردست ہم کو دس ہزار روپیہ سالانہ کے کام کو شروع کردینا چاہئے لیکن دس ہزار روپیہ سالانہ خرچ کرنے کے بھی یہ معنے ہیں کہ ہم اڑھائی سو سال میں پچیس لاکھ روپے کی کتابیں اکٹھی کرسکیں گے۔
پس میرا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ہمیشہ دس ہزار روپیہ پر ہی کھڑے رہنا چاہئے جوں جوں ہماری تبلیغ بڑھے گی اور چندہ میں زیادتی ہوگی یہ رقم بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہم اس خرچ کو کسی وقت لاکھ دو لاکھ بلکہ دس پندرہ لاکھ سالانہ بھی کرسکتے ہین۔ یہ دس ہزار روپیہ صرف کتابوں کے لئے ہوگا۔ عملہ جو تھوڑا بہت پہلے بجٹ میں رکھا جاچکا ہے وہ الگ ہوگا۔ شاید اس میں بھی کچھ زیادتی کرنی پڑے گی کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ لائبریرین کے طور پر صرف ایک ہی نیا آدمی رکھا گیا ہے حالانکہ وہاں کم از کم دو آدمی اور ہونے چاہئیں۔
لائبریرین کا کام ایسا ہے کہ اس کے لئے آج کل پاس شدہ آدمی رکھے جاتے ہیں۔ پہلے انسان گریجوایٹ ہو اور پھر لائبریرین کا امتحان پاس کرے تب وہ لائبریرین لگایا جاتا ہے ورنہ نہیں لائبریرین کے معنے محض چپڑاسی یا کتابوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے نہیں ہوتے بلکہ لائبریرین کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مختلف مضامین کی کتابون سے واقف ہو اور جب اس سے پوچھا جائے کہ فلاں فلاں مضمون پر کون کون سی کتابیں دیکھنی چاہئیں تو وہ فوراً ان کتابوں کے نام بتاسکے اور پوچھنے والے کی رہنمائی کرسکے کہ اسے کس کتاب سے کس قسم کی مدد مل سکتی ہے۔<
>لائبریری میں ہر فن کے جاننے والے آدمی ہونے چاہئیں۔ ان کا کام یہ ہو کہ وہ کتابیں پڑھتے رہیں اور ان کے خلاصے نکالتے رہیں اور ان اخلاصوں کو ایک جگہ نتھی کرتے چلے جائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب لوگوں کو ان کتابوں کے حوالوں کی ضرورت ہوگی وہ خلاصہ سے فوراً ضروری باتیں اخذ کر لیں گے مثلاً ہماری جماعت کا یہ ایک معروف مسئلہ ہے کہ حضرت مسیح کشمیر گئے تھے۔ اب مسیح کے کشمیر جانے کا کچھ عرصہ انجیلوں سے تعلق رکھتا ہے کہ کچھ انجیلوں کی تفسیروں میں بحث آئے گی کہ یہ جو لکھا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی طرف نہیں بھیجا گیا` اس میں کھوئی ہوئی بھیڑوں سے بنی اسرائیل کے کو کون سے قبائل مراد ہیں اور مسیح ان کی تلاش کے لئے کہاں کہاں گئے ؟؟ یا یہ جو لکھا ہے کہ مسیح کہر میں غائب ہوگیا اس کے کیا معنی ہیں ؟ یہ فقرہ بتاتا ہے کہ اس میں مسیح کے سفر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ غرض جو لوگ تفسیر کریں گے ان کا ذہن اس طرف ضرور جائے گا کہ ان فقروں کا حل کیا ہے ؟ اور وہ اس پر بحث کریں گے۔ جس طرح ہمارے ہاں تفسیریں ہیں اسی طرح عیسائیوں میں بھی سینکڑوں تفسیریں ہیں۔ اب جو لائبریرین مقرر ہوں گے ان میں سے وہ جو عیسائی لٹریچر پر مقرر کیا جائے گا اس کا کام یہ ہوگا کہ وہ زائد وقت میں تمام تفاسیر پر نظر ڈالتا چلا جائے اور ان کے انڈکس تیار کرتا چلا جائے جس وقت ہم و کسی تحقیق کی ضرورت ہوگی ہم انچارج کو بلا کر کہیں گے کہ کتابوں پر نشان لگا کر لائو کہ مفسرین نے اس بارہ میں کہاں کہاں بحث کی ہے۔ پھر یہی مضمون تاریخوں میں بھی آتا ہے چنانچہ اس کے بعد تاریخوں کے ماہر کو بلایا جائے گا اور اسے کہا جائے گا کہ اس اس مضمون کے متعلق تاریخ کتابوں پر نشان لگا کر لائو۔ اس طرح کتاب لکھنے والا آسانی اور سہولت کے ساتھ کتاب لکھ لے گا۔ کتاب والے کا یہ فن ہوگا کہ وہ اپنی کتاب کے لئے چند اصول تجویز کرے اور پھر اپنے مضمون کو ترتیب دے اور اسے ایسی عبارت میں لکھے جو موثر اور دلنشین ہو۔ گویا لڑنے والا حصہ اور ہوگا اور گولہ بارود تیار کرنے والا حصہ اور ہوگا۔ کیا تم نے کبھی کوئی سپاہی ایسا دیکھا ہے جسے لڑائی پر جانے کا حکم ملے تو وہ کارتوس بنانا شروع کردے یا بندوق بنانا شروع کردے۔ کیا کبھی تم نے کبھی دیکھا کہ کسی کو مدرس مقرر کیا گیا ہو تو ساتھ ہی اسے یہ کہا گیا ہو کہ اب جغرافیہ پر ایسی کتاب لکھ دو جو پڑھانے کے کام آسکے۔
ہمیشہ اصل کام والا حصہ الگ ہوتا ہے اور تعارفی حصہ الگ ہوتا ہے۔<
>درحقیت لائبریرین کے عہدہ پر ایسے آدمی ہونے چاہئیں جو صرف ونحو کا علم رکھتے ہوں` تاریخ جانتے ہوں` ہدیث` فقہ` اصول فقہ` تفسیر قرآن اور اصول تفسیر تعلق رکھنے والے تمام علوم سے آگاہ ہوں اور جب منصفین کو حوالہ جات وغیرہ کی ضرورت ہو تو وہ کتابیں نکال نکال کر ان کے سامنے رکھتے چلے جائیں۔ جیسے لڑنے کے لئے سپاہی جاتا ہے تو اسے وردی تم سلا کر دیتے ہو` اسے گولہ بارود خود تیار کر کے دیتے ہو۔ اس کے بعد ہمیں ضرورت ہوگی کہ جرمن جاننے والے آدمی ہمارے پاس موجود ہوں۔ فرانسیسی جاننے والے ہمارے پاس موجود ہوں۔ انگریزی جاننے والے ہمارے پاس موجود ہوں۔ اسی طرح عربی علوم کے جاننے والے لوگ موجود ہوں۔ کوئی تفسیر کا ماہر ہو۔ کوئی حدیث کا ماہر ہو۔ کوئی لغت کا ماہر ہو اور ان کا کام یہی ہو کہ وہ رات دن ان کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے خلاصے تیار کرتے رہیں۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہوں جو سلسلہ کے خلاف دشمنوں کا شائع کردہ لٹریچر ہی پڑھتے رہیں۔ کچھ لوگ ایسی ہوں جو وفات مسیح وغیرہ کے متعلق نئے دلائل کی جستجو میں مشغول رہنے والے ہوں۔ اب تو اس مسئلہ پر کچھ لکھتے ہوئے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ یہ مضمون پامال ہوچکا ہے لیکن بعض دفعہ کوئی نیا نکتہ بھی ذہن میں آجاتا ہے بعض دفعہ کوئی نیا اعتراض آجاتا ہے جس کے متلعق انسان سمجھ لیتا ہے کہ اس کا حل ہونا ضروری ہے۔ یہ لائبریرین کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ فلاں فلاں مسائل پر ہمارے علماء نے روشنی نہیں ڈالی یا ان کو ان ان کتابوں سے مدد مل سکتی ہے۔ گویا لائبریری ایک آرڈ نینس ڈپو یا سپلائی ڈپو ہے کہ مبلغین اور علماء سلسلہ کی مدد کے لئے ضروری ہے۔
یہ کام بہت بڑا ہے۔ میں جب حساب لگاتا ہوں تو میرا اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے پاس ایک لاکھ کتاب ہو تو ہمارے پاس پچاس آدمی لائبریرین ہونا چاہئے جن میں سے کچھ نئے کتابوں کے پڑھنے میں لگا رہے` کچھ پرانی کتابوں کے خلاصے تیار کرنے میں لگارہے` کچھ ایسے ہوں جو طلباء کے لئے نئی کتابوں کے ضروری مضامین الگ کرتے چلے جائیں تاکہ وہ تھوڑے سے وقت مین ان پر نظر ڈال کر اپنے علم کو بڑھا سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ طالب علموں کو جو سکولون اور کالجوں میں کتابیں پڑھائی جات ہیں ان سے دنیا میں وہ کوئی مفید کام نہیں کرسکتے کیونکہ وہ صرف ابتدائی کتابیں ہوتی ہیں مگر پھر بھی کسی کالج اور سکول سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ ہر طالب علم کو لاکھ لاکھ دو دو لاکھ کتاب پڑھا دے۔ یہ لائبریرین کا کام ہوتا ہے کہ وہ ایسے خلاصے نکال کر رکھیں کہ جن پر طلباء کا نظر ڈالنا ضروری ہو۔ اور جن سے تھوڑے وقت میں ہی وہ زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہوں۔<
>غرض یہ کام نہایت اہم ہے اس کے بغیر ہماری جماعت کی علمی ترقی نہیں ہوسکتی۔ مرکزی لائبریری یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی لائبریری بھی اسی میں شامل ہوجائے گی اور پھر میری کتابیں بھی آخر آپ لوگوں کے ہی کام آنی ہیں۔ اس طرح پانچ سات سال میں اس قدر کتابیں جمع کر لی جائیں کہ ہر قسم کے علوم ہمارے پاس محفوظ ہوجائیں۔< ۱۵۰۱۴۹
اختتامی خطاب
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے مشاورت کے پراثر اختتامی خطاب میں جماعت احمدیہ کے بین الاقوامی نصب العین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
>ہمارا مقابلہ اڑھائی کروڑ یا تین کروڑ سے نہیں بلکہ ہمارا مقابلہ اڑھائی ارب سے ہے اور یہ مقابلہ کم نہیں۔ جو حالت آپ لوگوں کی ہے وہی حالت ہماری ہے۔ ہم نی دنیا میں تبلیغ کرنی ہے حوصلہ پست نہ کیجئے اور یہ مت کئے کہ فلاں رعایت ملے گی تو کام ہوگا۔ اگر پنجاب والے حوصلہ چھوڑ دیں تو کام ہی رک جائے۔ تم اپنا کام بھی کرو اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی تبلیغ کا کام کرو۔ کسی مومن کے ذمہ کوئی خاص گھر نہیں` کوئی خاص گائوں نہین` کوئی خاص سہر نہیں` کوئی خاص ملک نہیں بلکہ ساری دنیا ہے۔<۱۵۱
فصل ہشتم
حضرت سید نصرت جہاں بیگمؓ کا انتقال
مسیح محمدی علیہ السلام کے یوم وصول ۔۔ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ۔۔ کی طرح ۲۱۔۲۰ اپریل ۱۹۵۲ء کی درد بھری راتبھی سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ یہ وہ رات تھی جس میں جماعت احمدیہ اور مہدی موعودؓ کے درمیان وہزندہواسطہ جو حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم کے مقدس وجوہ کی شکل میں اب تک باقی تھا آپ کی وفات کے ساتھ ہمیشہ کے لئے منقطع ہوگیا۔
علالت
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم حرم مسیح پاکؑ قریباً دو ماہ سے بیمار تھیں۔ ڈاکٹر تشخیص کے مطابق گردوں کے فعل میں نقص پیدا ہوجانے سے ہماری کا آغاز ہوا اور پھر اس کا اثر دل پر اور تنفس پر پڑنا شروع ہوا۔ بیماری کے حملے وقتاً فوقتاً بڑی شدت اختیار کرتے رہے لیکن آپ نے ان تمام شدید حملون میں نہ صرف کامل صبر و شکر کا نمونہ دکھایا بلکہ بیماری کا بھی نہایت ہمت کے ساتھ مقابل کیا۔ اس عرصہ میں لاہور سے علی الترتیب ڈاکٹر کرنل ضیاء اللہ صاحب` ڈاکٹر غلام محمدﷺ~ صاحب بلوچ اور ڈاکٹر محمد یوس صاحب غلام کے لئے بلائے جاتے رہے۔ ان کے ساتھ مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خاں صاحب بھی ہوتے تھے لیکن وقتی افاقہ کے سوا بیماری میں کوئی تخفیف کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اس کے بعد حکیم محمد حسن صاحب قرشی کو بھی بلا کر دکھایا گیا جن کے ساتھ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ بھی تھے لیکن ان کے علاج سے بھی کوئی تخفیف کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ مقامی طور پر ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب بھی معالج تھے جن کے ساتھ بعد میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی شامل ہوگئے اور چند دن کے لئے درمیان میں ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب نے بھی علاج میں حصہ لیا۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک خواتین اور نونہال نہایت تندہی کے ساتھ خدمت میں لگے رہے۔ بالاخر ۲۰ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۲۰ اپریل ۱۹۵۲ء کی صبح کو ساڑھے تین بجے کے قریب دل میں ضعف کے آثار پیدا ہوئے جو فوری علاج کے نتیجہ میں کسی قدر کم ہوگئے مگر دن بھر دل کی کمزوری کے حملے ہوتے رہے۔ اس عرصہ میں حضرت سیدہ کے ہوش و حواس خدا کے فضل سے اچھی طرح قائم رہتے۔ صرف کبھی کبھی عارضی غفلت سی آتی تھی۔ جو جلد دور ہوجاتی تھی۔ رات پونے نو بجے آپ نے دل میں زیادہ تکلیف محسوس کی اور اس کے ساتھ ہی نظام تنفس میں خلل آنا شروع ہوگیا اور نبض کمزور پڑنے لگی۔ ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے خود ہی ٹیکے وغیرہ لگائے مگر کوئی افاقہ کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اس وقت حضرت اماں جانؓ نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ قرآن شریف پڑھو چنانچہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے چھوٹے صاحبزادے میر محمود احمد صاحب۱۵۲ نے قرآن شریف پڑھ کر سنایا۔ اس وقت حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ آپ کے سامنے بٹھے ہوئے تھے آپ نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا دعا کریں` چنانچہ حضور بعض قرآنی دعائیں کسی قدر اونچی آواز سے دیر تک پڑھتے رہے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود حضرت اماں جان مصروف دعا ہیں۔ آپ کی نبض اس وقت بے حد کمزور ہوچکی تھی بلکہ اکثر اوقات محسوس تک نہیں ہوتی تھی لیکن ہوش و حواس بدستور قائم تھے اور کبھی کبھی آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد نظر ڈالتی تھیں اور آنکھوں میں شناخت کے آثار بھی واضح طور پر موجود تھے۔
حضرت امیر المومنین تھوڑے وقفہ کے لئے باہر تشریف لے گئے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت سیدہ کے سامنے بیٹھ کر دعائیں کرتے رہے۔ اس وقت بھی آپ آنکھ کھول کر دیکھتی تھیں۔
اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دعا میں مصروف ہیں۔ دیگر عزیز بھی چارپائی کے اردگرد موجود تھے اور اپنے اپنے رنگ میں دعائیں کرتے اور حسب ضرورت خدمت بجالاتے تھے۔
سوا گیارہ بجے شب کے بعد آپ نے اشارۃ کروٹ بدلنے کی خواہش ظاہر فرمائی لیکن کروٹ بدلتے ہی نبض کی حالت زیادہ مخدوش ہوگئی اور چند منٹ کے بعد تنفس زیادہ کمزور ہونا شروع ہوگیا۔
وفات
بالاخر ساڑھے گیارہ بجے شب آپ کی روح اپنے مولائے حقیقی کے حضور پہنچ گئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
وفات کے وقت اپ کی مبشر اولاد میں سے حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ آپ کے پاس موجود تھے۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ چند روز قبل ربوہ آکر لاہور واپس تشریف لے گئے تھے اور وفات کی خبر پانے کے بعد ربوہ پہنچے۔ ۱۵۳
MUMENEEN۔UMMUL <HAZRAT
THIRTY ELEVEN AWA PASSED
INNALILLAH۔TONIGHT-
MORNING> TUESDAY ۔M۔A 5 JANAZA
)ترجمہ( ربوہ ۲۱۔۲۰ اپریل )سوا بارہ بجے شب( حضرت ام المومنینؓ آج شب ساڑھے گیارہ بجے انتقال فرما گئیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون نماز جنازہ منگل کو صبح پانچ بجے ادا کی جائے گی۔
ریڈیو خبر
صبح سوا آٹھ بجے ریڈیو پاکستان لاہور نے حضرت سیدہ ممدوحہؓ کی وفات کی خبر حسب ذیل الفاظ میں نشر کی:۔
>ہم افسوس سے اعلان کرتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی زوجہ محترمہ گزشتہ رات ساڑھے گیارہ بجے ربوہ میں انتقال کر گئیں۔ آپ جماعت احمدیہ کے موجودہ امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی والدہ ہیں۔ جنازہ کل )صبح( ۵ بجے ربوہ میں ہوگا۔< ۱۵۴
تکفین
آپ ایک تھان قادیان دارالامان سے بوقت ہجرت ساتھ لائی ہوئی تھیں اور اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے اسے اپنے کفن کے لئے رکھا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں حضرت مہدی معہود و مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک متبرک کرتہ بھی ململ کا آپ نے محفوظ رکھا ہوا تھا چنانچہ غسل کے بعد پہلے یہ مبارک کرتہ اور پھر کفن پہنایا گیا۔
tav.13.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
ہزاروں احمدیوں کی ربوہ میں مضطربانہ آمد
حضرت امام سیدنا المصلح الموعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ جنازہ ۲۲ اپریل کی صبح کو ہو تاکہ دوست زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوسکیں چنانچہ ۲۲ اپریل کی صبح تک ملک کے چاروں اطراف سے ہزاروں کی تعداد میں احمدی مردو زن ربوہ میں پہنچ چکے تھے اور پشاور سے لے کر کراچی تک کی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے۔ ۲۱ اپریل کی شام کو حضرت سیدہ کی نعش مبارک کی زیارت کا موقع مستورات کو دیا گیا۔ قریباً ڈیڑھ ہزار مستورات نے زیارت کا شرف حاصل کیا اور ابھی ایک بڑی تعداد باقی رہ گئی۔
جنازہ اور تدفین کا دردناک منظر
حضرت سیدہ کا جنازہ اندرون خانہ سے اٹھا کر چھ بجکر ایک منٹ پر تابوت میں باہر لایا گیا۔ اس وقت خاندان مسیح موعود کے زخم رسیدہ جگہ گوشے اسے تھامے ہوئے تھے۔ تابوت کو ایک چارپائی پر رکھ دیا گیا جس کے دونوں طرف لمبے بانس بندھے ہوئے تھے۔ اس وقت تک ملک کے کونے کونے سے ہزاروں احمدی مردوزن پہنچ چکے تھے جو اپنی مادر مشفق کے لئے سوز و گداز سے دعائیں کرنے میں مصروف تھے۔ چھ بجکر پانچ منٹ پر جنازہ اٹھایا گیا جب کہ سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعدد دیگر افراد جنازے کو کندھا دے رہے تھے اور ساتھ ساتھ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی دعائیں بعض اوقات خاموشی کے ساتھ اور بعض اوقات کسی قدر بلند آواز سے دہرا رہے تھے۔
چونکہ احباب بہت بڑی تعداد میں آچکے تھے اور ہر دوست کندھا دینے کی سعادت حاصل کرنے کا متمنی تھا اس لئے رستے میں یہ انتظام کیا گیا کہ اعلان کر کے باری باری مختلف دوستوں کو کندھا دینے کا موقع دیا جائے- چنانچہ صحابہ مسیح موعود` امرائے صوبجات` اضلاع یا ان کے نمائندگان` بیرونی ممالک کے مبلغین` غیر ملکی طلباء ` کارکنان صدر انجمن احمدیہ و تحریک جدید` مدراس` مجلاس خدام الاحمدیہ و انصار اللہ کے نمائندگان اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے علاوہ مختلف مقامات کی جماعتوں نے بھی وقفے وقفے سے جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کی۔ سیدنا حضرت امیر المومنین` حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض افراد نے شروع سے آخر تک کندھا دیئے رکھا۔
چھ بج کر چھپن منٹ پر تابوت جنازہ گاہ میں پہنچ گیا` جو موصیوں کے قبرستان کے ایک حصہ میں مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر کی مساعی سے قبلہ رخ خطوط لگا کر تیار کی گئی تھی صفوں کی درستی اور گنتی کے بعد سات بج کر پانچ منٹ پر سیدنا حضرت امیر المومنین مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ شروع فرمائی جو سات بجر کر ستر منٹ تک جاری رہی۔ نماز میں رقت کا ایک ایسا عالم طاری تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
نمازہ جنازہ کے بعد تابوت مجوزہ قبر تک لے جایا گیا جہاں اماں جانؓ کو امانتاً دفن کرناتھا۔ قبر کے لئے حضورؓ کے منشاء کے ماتحت قبرستان موصیاں ربوہ کا ایک قطعہ مخصو کردیا گیا تھا۔ ہجوم بہت زیادہ تھا اس لئے نظم و ضبط کی کاطر مجوزہ قبر کے اردگرھ ایک بڑا حلقہ قائم کردیا گیا جس میں جماعت کے مختلف طبقوں کے نمائندگان کو بلا لیا گیا چنانچہ صحابہ کرام` مختلف علاقوں کے امراء افسران صیغہ جات` بیرونی مبلغین` غیر ملکی طلباء اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کو اس حلقہ میں بلا کر شمولیت کا موقع دیا گیا۔
پونے آٹھ بجے تابوت کو قبر میں اتارا گیا۔ اس وقت سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اور تمام حاضر الوقت اصحاب نہایت رقت اور سوز و گذار کے ساتھ دعائوں میں مصروف تھے۔ رقت کا یہ سماں اپنے اندر ایک خاص روحانی کیفیت رکھتا تھا۔
تابوت پر چھت ڈالنے کے بعد حضرت امیر المومنین ۸ بجکر ۲۲ منٹ پر قبر پر اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی جس کی تمام احباب نے اتباع کی۔ جب قبر تیار ہوگئی تو حضور نے پھر مسنون طریق پر مختصر دعا فرمائی۔
نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے احباب کا اندازہ نامہ نگار الفضل کی رائے کے مطابق چھ سات ہزار تھا جو پاکستان کے ہر علاقہ اور ہر گوشہ سے تشریف لائے تھے- علاوہ ازیں پندرہ سولہ وہ غیر ملکی طلباء بھی شامل تھے جو دنیا کے مختلف حصوں سے دین سیکھنے اور خدمت دین میں اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے ربوہ آئے ہوئے تھے ان غیر ملکی طلبہ میں چین` جاوا` سماٹرا` ملایا` برما` شام` مصر` سوڈان` حبشہ` مغربی افریقہ` جرمنی` انگلستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے طلبہ شامل تھے۔<۱۵۵
ریڈیو میں خبر
اگلے روز ریڈیو پاکستان سے ۲۲ اپریل ۵۲ء بوقت ۵ بج کر ۲۰ منٹ شام حسب ذیل خبر نشر کی گئی:۔
>آج ربوہ میں سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ سیدہ نصرت جہاں بیگم کو سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کی وفات کل )۲۰ اپریل بروز اتوار( ربوہ میں ہوئی تھی۔ ایک بڑے مجمع نے جنازہ میں شرکت کی۔ نماز جنازہ ان کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے پڑھائی۔ آپ سلسلہ احمدیہ کے موجودہ امام ہیں۔<
پریس میں اطلاعات
پاکستانی پریس نے حضرت سید موصوفہ کی وفات پر اطلاعات شائع کیں- اس سلسلہ میں لاہور کے اخبارات میں سے احسان` آفاق` خاتون` امروز` سول اینڈ ملٹری گزٹ اور پاکستان ٹائمز خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
>مرزا غلام احمد کی بیوہ ربوہ میں دفن کردی گئیں-
لاہور ۲۲ اپریل بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد کی اہلیہ نصرت جہاں بیگم کو آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ نے اتوار کی شب کو ربوہ ہی میں انتقال کیا تھا۔ )نامہ نگار<(
۲- روزنامہ >آفاق< لاہور )مورخہ ۲۴ اپریل ۱۹۵۲ء( کی خبر:۔
>بانی احمدیت کی بیوہ کا انتقال
لاہور ۲۲ اپریل- مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمدیت کی بیوہ نصرت جہاں بیگم کا پرسوں شب ۸۶ برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ نصرت جہاں بیگم احمدی فرقہ کے موجودہ خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی والدہ تھیں۔ ان کی تدفین آج ربوہ میں ہوگئی۔ )۱-پ<(
روزنامہ >خاتون< لاہور نے ۲۴ اپریل ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں بعنوان >مرزا بشیر الدین کی والدہ کا انتقال< لکھا :۔
>لاہور ۲۲ اپریل۔ بانی سلسلہ احمدیہ )حضرت( مرزا غلام احمد صاحب کی اہلیہ سیدہ نصرت جہاں بیگم کو آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ نے اتوار کی شب کو ربوہ ہی میں وفات پائی تھی۔ نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین صاحب امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی۔<
روزنامہ >امروز< لاہور )۲۴ اپریل ۱۹۵۲ء( کے نامہ نگار( نے لکھا:۔
بانی جماعت احمدیہ کی زوجہ محترمہ سپرد خاک کردی گئیں-
لاہور ۲۲ اپریل - مرزا غلام احمد بانی جماعت احمدیہ کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کو جو اتوار کی شب وفات پاگئی تھیں آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے پڑھائی` جس میں ہزارہا افراد نے شرکت کی۔
مرحومہ کو احمدیہ جماعت میں کافی بلند مقام حاصل تھا۔ مقاصد کی تکمیل میں نصف صدی سے زائد عرصہ تک سرگرم عمل رہیں۔<
۵- اخبار >دی سول اینڈ ملٹری گزٹ< )۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء( کی خبر کا متن یہ تھا:۔
WIDOW AHMAD'S GHULAM MIRZA
REST TO LAID
Correspondent) a (From
Nusrat Sayyeda body The۔23 April ۔RABWAH the of founder Ahmad, Ghulam Mirza late to widow Begum, Jhan was night sunday on last her breathed who Movement Abmadiyya ۔rabwah at morning this rest to laid
Din۔ud۔Bashir Mirza son, eldest her ledoy was prayer funcial The attended was and comnunity the of head present the Ahmad, Mahmud Besides ۔society of clases lal from people thousand several by country ofthe parts various from community ۔madiyy Ah the of member tuneral the join to Rabwah reached public general the of number large a
community ahmadiyya the in estoem high in held was lady deceased The husband, her of work the with countury a half over for association her for pouring are messages Conoolence ۔Movement ahmadiyya the of founder the ۔indonesia including word the and India, ۔Pakistan of parts all from in movement the of followers the erewh America and Europe ۔Est Meddle the "۔spread are
)ترجمہ( )حضرت( مرزا غلام احمد )صاحب( کی بیوہ کو سپرد خاک کردیا گیا۔
ربوہ ۲۲ اپریل سیدہ نصرت جہاں بیگم جو مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ کی بیوہ تھی گزشتہ اتوار کی رات کو وفات پاگئیں اور اور آج صبح انہیں ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔
آپ کی نماز جنازہ ان کے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد جو کہ جماعت کے موجودہ سربراہ ہیں نے پڑھائی اور جنازہ میں جماعت کے ہر طبقہ کے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے جماعت احمدیہ کے ممبران کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کثیر تعداد میں نماز جنازہ میں شرکت کے لئے ربوہ پہنچے۔
مرحومہ کا اپنے شوہر محترم کے کام کے ساتھ نصف صدی سے زائد تعلق کی وجہ سے بہت بلند مقام تھا۔ پاک و ہند کے ہر حصے سے اور دنیا کے دیگر ممالک مثلاً انڈونیشیاء شرق اوسط ` یورپ اور امریکہ سے جہاں جہاں بھی جماعت کے ممبران موجود ہیں تعزیتی پیغامات موصول ہورہے ہیں۔
اخبار >دی پاکستان ٹائمز< )۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء( نے حسب ذیل الفاظ میں خبر دی:۔
AHMAD MALGHU MIRZA BEGUM
REST TO ALID
consort the Begum, Jahan Nusrat Sayyeda of body The ۔Movement Ahmadivya the of Founder the Ahmad, Ghulam Mirza late of on rest to laid was right, sunday on place took demise sad whose ۔Rabwh at morning Tuesday
Din۔ud۔Bashir Mirza ۔son oldest her by led was praver tuneral The attended was and Community the of Head present the Ahmad, Mahmud ۔society of clases all to belonging people thousand several by various from Community Ahmadiyya the of srebmem devoted only Not the joined relations and wishers۔well of number large a also but large a also but headquarter the to flocked country the of parts rites, burit the joined relations and wishers۔well of number
)ترجمہ( بیگم )حضرت( مرزا غلام احمد )صاحب( کو سپرد خاک کردیا گیا۔
سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحب زوجہ محترمہ مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ کو جو اتوار کی شب کو فوت ہوگئی تھیں منگل کی صبح ربوہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔
نماز جنازہ آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبامام جماعت احمدیہ نے پڑھائی جس میں جماعت کے ہر طبقہ کے ہزاوں افراد شریک ہوئے۔
تجہیز و تکفین کی رسومات میں شریک ہونے کے لئے نہ صرف جماعت احمدیہ کی مخلصین ہی تشریف لائے بلکہ دوسرے بہن خواہان اور متعلقین بھی کثیر تعداد میں حاضر ہوئے۔
تعزیتی تاریں اور خطوط
حضرت ام المومنینؓ کی وفات حسرت آیات پر جماعت کے مخلصین کی طرف سے جن میں صحابی بھی شامل تھے` اور غیر صحابی بھی ` بچے بھی شامل تھے اور بوڑھے بھی ` عورتیں بھی شامل تھیں اور مرد بھی ` خاندان مسیح موعود کے مختلف افراد کے نام بے شمار تارے ۱۵۶ اور خطوط پہنچے- یہ ہمدردی کے پیغامات نہ صرف۔ بی اور شرقی پاکستان کے ہر حصہ سے بلکہ قادیان اور دلی اور لکھنئو اور حیدر آباد اور مالیر کوئلہ اور مونگھیر اور کلکتہ اور بمبئی اور مدراس اور ہندوستان کے دوسرے حصوں اور بلاد عربی اور براعظم ایشیا اور افریقہ اور یورپ اور امریکہ کے مختلف ملکوں سے اس طرح چلے آرہے تھے جس طرح ایک قدرتی نہر اپنے طبعی بہائو میں بہتی چلی جاتی ہے۔ اور پھر ان اصحاب میں صرف ہماری جماعت کے دوست ہی شامل نہیں تھے۔ بلکہ غیر مبائع اور غیر احمدی اور غیر مسلم سب طبقات کے لوگ شامل تھے۔ اظہار ہمدردی کے لئے بعض غیر احمدی معززین اور غیر مبائع اصحاب مثلاً مرزا مسعود بیگ صاحب لاہور سے اور مکرم عبداللہ جان صاحب پشاور سے ربوہ تشریف لائے۔۱۵۷
حضرت ام المومنین کا مقام سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی نظر میں
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ حضرت ام المومنین کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
>اس سال احمدیت کی تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہوا ہے اور وہ ہے حضرت ام المومنین کی وفات۔ ان کا وجود ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان میں ایک زنجیر کی طرح تھا اولاد کے ذریعے بھی ایک تعلق اور واسطہ ہوتا ہے مگر وہ اور طرح کا ہوتا ہے۔ اولاد کو ہم ایک درخت کا پھول تو کہہ سکتے ہیں مگر اسے اس درخت کا اپنا حصہ نہیں کہا جاسکتا۔ پس حضرت ام المومنینؓ ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں اور یہ واسطہ ان کی وفات سے ختم ہوگیا۔ پھر حضرت ام المومنینؓ کے وجود کی اہمیت عام حالات سے بھی زیادہ تھی کیونکہ ان کے متعلق خدا تعالیٰ نے قبل از وقت بشارتیں اور خبریں دیں۔ چنانچہ انجیل میں آنے والے مسیح کو آدم کہا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ جس رنگ میں حوا آدم کی شریک کا تھیں اسی طرح مسیح موعودؑ کی بیوی بھی اس کی شریک کار ہوگی۔ پھر رسول کریم~صل۱~ کی حدیث ہے کہ آنے والا مسیح شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی۔ اب شادی تو ہر نبی کرتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس خبر میں یہی اشارہ تھا کہ اس کی بیوی کو یہ خصوصیت حاصل ہوگی کہ وہ اس کے کام میں اس کی شریک ہوگی۔ اسی طرح دلی میں ایک مشہور بزرگ خواجہ میر ناصر گزرے ہیں ان کے متلعق آتا ہے کہ ان کے پاس کشف میں حضرت امام حسنؓ تشریف لائے اور انہوں نے ایک روحانیت کی خلعت دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تحفہ ایسا ہے جس میں تم مخصوص ہو۔ اس کی ابتداء تم سے کی جاتی ہے اور اس کا خاتمہ عہدی کے ظہور پر ہوگا۔ چنانچہ یہ کشف اس طرح پورا ہوا کہ آپ کی ہی اولاد میں سے حضڑت ام المومنین کا وجود پیدا ہوا۔ یہ کشف خواجہ ناصر نذیر فراق کے بیٹے خواجہ ناصر خلیق نے اپنی کتاب میخانہ درد )۲۵( میں درج کیا ہے۔<۱۵۹۱۵۸
حضرت سیدہ کے شمائل و اخلاق اور بلند سیرت
حضرت ام المومنین کے شمائل و اخلاق اور بلند سیرت کے متعلق سب سے جامع اور سب سے زیادہ مختصر کلام وہ ہے جو حضرت مسیح موعودؑ والسلام کی زبان مبارک پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا یعنی اذکر نعمتی رائیت خدیجتی ھذا من رحمتہ ربک ۱۶۰ میری نعمت کو یاد کر کہ تو نے میری خدیجہ کو دیکھا یہ تیرے رب کی رحمت ہے۔
اس مختصر فقرہ کی کسی قدر تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے الفاظ میں دی جاتی ہے۔
۱- حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں-:
دوامتیازی خصوصیات
>حضرت اماں جاںؓ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی شادی خاص الٰہی تحریک کے ماتحت ہوئی تھی۔ اور دوسرا امتیاز یہ حاصل ہے کہ یہ شادی ۱۸۸۴ء میں ہوئی۔ اور یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ مجددیت کا اعلان فرمایا تھا اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت اماں جان مرحومہ مغفورہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ حیات رہیں اور حضرت مسیح موعود انہیں انتہاء درجہ محبت اور انتہاء درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دلدادی فرماتے تھے۔ کیونکہ حضرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبردست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے خاص منشاء کے ماتحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جان کو مخصوص نسبت ہے۔ چنانچہ بعض اوقات حضرت اماں جان بھی محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں کہ میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے جس پر حضرت مسیح موعودؑ مسکرا کر فرماتے تھے کہ >ہاں یہ ٹھیک ہے۔< دوسری طرف حضرت اماں جان بھی حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق کابل محبت اور کامل یگانگت کے مقام پر فائز تیں اور گھر میں یوں نظر آتا تھا کہ گویا دو سینوں میں ایک دل کام کررہا ہے۔
حضرت اماں جانؓ کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں مگر اس جگہ میں صرف اشارہ کے طور پر نمونتاً چند باتوں کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں۔
عبادات میں شغف
آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے حضرت اماں جان نماز تہجد اور نماز ضحیٰ کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں کے دلوں میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی۔ بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقعہ ملتا تھا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں۔ میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت~صل۱~ )فداہ نفسی( کی یہ پیاری کیفیت کہ جعلت قرہ عینی فی الصلوہ۱۶۱ )یعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے( حضرت اماں جان کو بھی اپنے آقا سے ورثے میں ملی تھی۔
پھر دعا میں ببھی حضرت اماں جان کو بے حد شغف تھا۔ اپنی اولاد اور دوسرے عزیزوں بلکہ ساری جماعت کے لئے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں بڑے درود و سوز کے ساتھ دعا فرمایا کرتی تھیں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی۔
اولاد کے متعلق حضرت اماں جان کی دعا کا نمونہ ان اشعار سے ظاہر ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اماں جان کے جذبات کی ترجمانہ کرتے ہوئے ان کی طرف سے اور گویا انہی کی زبان سی فرمائے۔ خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ عرض کرتے ہیں ~}~
کوئی ضائع نہیں ہوتا جو تیرا طالب ہے
کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جویاں تیرا
آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں
کوئی ہوجائے اگر بندہ فرماں تیرا
اس جہاں میں ہی وہ جنت میں ہے بے ریب و گماں
وہ جو ایک پختہ توکل سے ہے مہماں تیرا
میری اولاد کو تو ایسی ہی کردے پیارے
دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرہ نمایاں تیرا
عمردے ` رزق دے` اور عافیت و صحت بھی
سب سے بڑھ کر یہ کہ پاجائیں وہ عرفاں تیرا
اپنی ذاتی دعائوں میں جو کلمہ حضرت اماں جانؓ کی زبان پر سب سے زیادہ آتا تھا وہ یہ مسنون دعا تھی کہ :۔
یاحیی یا قیوم برحمتک استغیث
یعنی اے میرے زندہ خدا اور میرے زندگی بخش آقا! میں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں یہ وہی جذبہ ہے جس کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر فرمایا ہے کہ ~}~
تیری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر
مری جاں تیرے فضلوں کی پنہ گیر
مالی جہاد میں شمولیت
جماعتی چندوں میں بھی حضرت اماں جانؓ بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں اور تبلیغ اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ دیتی تھیں۔ تحریک جدید کا چندہ جس سے بیرونی ممالک میں اشاعت اسلام کا کام سرانجام پاتا ہے اس کے اعلان کے لئے ہمیشہ ہمہ تن منتظر رہتی تھیں اور اعلان ہوتے ہی بلا توقف اپنا وعدہ لکھا دیتی تھیں بلکہ وعدہ کے ساتھ ہی نقد ادائیگی بھی کردیتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں وعدہ جب تک ادا نہ ہوجائے دل پر بوجھ رہتا ہے۔ دوسرے چندوں میں بھی یہی ذوق و شوق کا عالم تھا۔
صدقہ و خیرات
صدقہ و خیرات اور غربیوں کی امداد بھی حضرت اماں جاں نور اللہ مرقدھا کا نمایاں خلق تھا اور اس میں وہ خاص لذت پاتی تھیں اور اس کثرت کے ساتھ غریبوں کی امداد کرتی تھیں کہ یہ کثرت بہت کم لوگوں میں دیکھی گئی ہے۔ جو شخص بھی ان کے پاس اپنی مصیبت کا ذکر لے کر آتا تھا حضرت اماں جان انے مقدور سے بڑھ کر اس کی امداد فرماتی تھیں اور کئی دفعہ ایسے خفیہ رنگ میں مدد کرتی تھیں کہ کسی اور کو پتہ تک نہیں چلتا تھا۔ اسی ذیل میں ان کا یہ طریق بھی تھا کہ بعض اوقات یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے مکان پر بلا کر کھانا کھلاتی تھیں اور بعض اوقات ان کے گھروں پر بھی کھانا بھجوا دیتی تھیں۔ ایک دفعہ ایک واقف کار شخص سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کو کسی ایسے شخص )احمدی یا غیر احمدی` مسلم یا غیر مسلم( کا علم ہے جو قرض کی وجہ سیقید بھگت رہا ہو )اوائل زمانے میں ایسے ۱۶۲ سول قیدی بھی ہوا کرتے تھے( اور جب اس نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ تلاش کرنا` میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں تا قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کرسکوں کہ معذور قیدیوں کی مدد بھی کار ثواب ہے۔
قرض سے مدد
قرض مانگنے والوں کو فراخدلی کے ساتھ قرض بھی دیتی تھیں مگر یہ دیکھ لیتی تھیں کہ قرض مانگنے والا کوئی ایسا شخص تو نہیں جو عادی طور پر قرض مانگا کرتا ہے اور پھر قرض کی رقم واپس نہیں کرتا ایسے شخص کو قرض دینے سے پرہیز کیا کرتی تھیں تاکہ اس کی یہ بری عادت ترقی نہ کرے مگر ایسے شخص کو بھی حسب گنجائش امداد دے دیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ میرے سامنے ایک عورت نے ان سے کچھ قرض مانگا اس وقت اتفاق سے حضرت اماں جان کے پاس اس قرض کی گنجائش نہیں تھیں مجھ سے فرمانے لگیں >میاں! )وہ اپنے بچوں کو اکثر میاں کہہ کر پکارتی تھیں( تمہارے پاس اتنی رقم ہو تو اسے قرض دے دو یہ عورت لین دین میں صاف ہے۔< چنانچہ میں نے مطلوبہ رقم دیدی اور پھر اس غریب عورت نے تنگدستی کے باوجود عین وقت پر اپنا قرض واپس کردیا جو آج کل کے اکثر نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔
یتامیٰ کی پرورش و تربیت
حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کو اسلامی احکام کے ماتحت یتیم بچوں کی پرورش اور تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا میں نے جب سے ہوش سنبھالا ان کے سایہ عاطفت میں ہمیشہ کسی نہ کسی یتیم لڑکی یا لڑکے کو پلتے دیکھا اور وہ یتیموں کو لوکروں کی طرح نہیں رکھتی تھیں بلکہ ان کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ ان کے آرام و آسائش اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے واجب اکرام اور عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں۔ اس طرح ان کے ذریعہ بیسیوں یتیم بچے جماعت کے مفید وجود بن گئے۔ بسا اوقات اپنے ہاتھوں سے یتیموں کی خدمت کرتی تھیں مثلاً یتیم بچوں کو نہلانا` ان کے بالوں کو کنگھی کرنا اور کپڑے بدلوانا وغیرہ وغیرہ مجھے یقین ہے کہ حضرت اماں جاں رسول~صل۱~ کی اس بشارت سے انشاء اللہ ضرور حصہ پائیں گی کہ انا و کافل الیتیم کھاتین ۱۶۳` >یعنی قیامت کے دن میں اور یتیمون کی پرورش کرنے والا شخص اس طرح اکٹھے ہوں گے جس طرح کہ ایک ہاتھ کی دو انگلیاں باہم پیوست ہوتی ہیں۔
مہمان نوازی
مہمان نوازی بھی حضرت اماںؓ کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھا۔ اپنے عزیزوں اور دوسرے لوگوں کو اکثر کھانے پر بلاتی رہتی تھیں اور اگر گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تھی تو ان کے گھروں میں بھی بھجوا دیتی تھیں- خاکسار راقم الحروف کو علیحدہ گھر ہونے کے باوجود حضرت اماں جان نے اتنی دفعہ گھر سے کھانا بھجوایا ہے کہ اس کا شمار ناممکن ہے۔ اور اگر کوئی عزیز یا کوئی دوسری خاتون کھانے کے وقت حضرت اماں جان کے گھر میں جاتی تھیں تو حضرت اماں جان کا اصرار ہوتا تھا کہ کھانا کھا کر واپس جائو چنانچہ اکثر اوقات زبردستی روک لیتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہمان نوازی ان کی روح کی غذا ہے۔ عیدوں کے دن حضرت اماں جان کا دستور تھا کہ اپنے سارے خاندان کو اپنے پاس کھانے کی دعوت دیتی تھیں اور ایسے موقعوں پر کھانا پکوانے اور کھانا کھلانے کی بذات خود نگرانی فرماتی تھیں اور اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ فلاں عزیز کو کیا چیز مرغوب ہے اور اس صورت میں حتی الوسع وہ چیز ضرور پکواتی تھیں۔ جبآخری عمرمیں زیادہ کمزور ہوگئیں تو مجھے ایک دن حسرت کے ساتھ فرمایا کہ اب مجھ میں ایسے اہتمام کی طاقت نہیں رہی میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھ سے رقم لے لے اور میری طرف سے کھانے کا انتظام کردے۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل جب کہ حضرت اماں جان بے حد کمزور ہوچکی تھیں اور کافی بیمار تھیں مجھے ہماری بڑی ممانی صاحبہ نے جو ان دنوں میں حضرت اماں جان کے پاس ان کی عیادت کے لئے ٹھہری ہوئی تھیں` فرمایا کہ آج آپ یہاں روزہ کھولیں۔ میں نے خیال کیا کہ شاید یہ اپنی طرف س حضرت اماں جان کی خوشی اور ان کا دل بہلانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہیں چنانچہ میں وقت پر وہاں چلا گیا تو دیکھا کہ بڑے اہتمام سے افطاری کا سامان تیار کر کے رکھا گیا ہے۔ اس وقت ممانی صاحبہ نے بتایا کہ میں نے تو اماں جان کی طرف سے ان کے کہنے پر آپ کی یہ دعوت دی تھی۔
محنت کی عادت
حضرت اماں جانؓ میں بے حد محنت کی عادت تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں راحت پاتی تھیں۔ میں نے انہیں اپنی انکھوں سے بارہا کھانا پکاتے` چرخہ کاتنے` نواڑ بکتے بلکہ بھینسوں کے آگے چارہ تک ڈالتے دیکھا ہے۔ بعض اوقات خود بھنگنوں کے سر پر کھڑے ہو کر صفائی کرواتی تھیں اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں۔ گھر میں اپنے ہاتھ سے پھولوں کے پودے یا سیم کی بیل یا دوائی کی غرض سے گلوکی بیل لگانے کا بھی شوق تھا عموماً انہیں اپنے ہاتھ سے پانی دیتی تھیں۔
مریضوں کی عیادت
مریضوں کی عیادت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی کسی احمدی عورت کے متعلق یہ سنتیں کہ وہ بیمار ہے تو بلاامتیاز غریب و امیر خود اس کے مکان پر جا کر عیادت فرماتی تھیں اور آنحضرت~صل۱~ کی سنت کے مطابق تسلی دیا کرتی تھیں کہ گھبرائو نہیں خدا کے فضل سے اچھی ہوجائوگی۔ ان اخلاق فاضلہ کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدی عورتیں حضرت اماں جان پر جان چھڑکتی تھیں اور ان کے ساتھ اپنی حقیقی مائوں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی تھیں- اور جب کوئی فکر کی بات پیش آتی تھی یا کسی امر میں مشورہ لینا ہوتا تھا تو حضرت اماں جان کے پاس دوڑی آتی تھیں۔ اس میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ حضرت اماں جان کا مبارک وجود احمدی مستورا کے لئے ایک بھاری ستون تھا۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ان کا وجود محبت اور شفقت کا ایک بلند اور مضبوط مینار تھا جس کے سایہ میں احمدی خواتین بے انداز راحت اور برکت اور ہمت اور تسلی پاتی تھیں۔
تقویٰ اور توکل کے دو واقعات
مگر غالباً حضرت اماں جانؓ کے تقویٰ اور توکل اور دینداری اور اخلاق کی بلندی کا سب سے زیادہ شاندار اظہار ذیل کے دو واقعات میں نظر آتا ہے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بعض اقرباء پر اتمام حجت کی غرض سے خدا سے علم پاکر محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو اس وقت حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دن دیکھا کہ حضرت اماں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی گریہ و زاری اور سوز و گذار سے یہ دعا فرمارہی ہیں کہ خدایا تو اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور اپنی قدرت نمائی سے پورا فرما۔ جب وہ دعا سے فارغ ہوئیں تو حضرت مسیح موعودؑ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم یہ دعا کررہی تھیں اور تم جانتی ہو کہ اس کے نتیہ میں تم پر سوکن آتی ہے ؟ حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرمایا >خواہ کچھ ہو مجھے اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں میری خوشی اسی میں ہے کہ خدا کے منہ کی بات اور آپ کی پیشگوئی پوری ہو۔
دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کس شان کا ایمان اور کس بلند اخلاقی کا مظاہرہ اور کسی تقویٰ کا مقام ہے کہ اپنی ذاتی راحت اور ذاتی خوشی کو کلیتاً قربان کر کے محض خدا کی رضا کو تلاش کیا جارہا ہے اور شاید منجملہ دوسری باتوں کے یہ ان کی اسی بے نظیر قربانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشروط پیشگوئی کو اس کی ظاہری صورت سے بدل کر دوسرے رنگ میں پورا فرما دیا۔ پھر جب حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہوئی )اور یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے( اور آپ کے آخری سانس تھے تو حضرت امان جان نور اللہ مرقدھا و رفعھا فی اعلی علیین آپ کی چارپائی کے قریب فرش پر آکر بیٹھ گئیں اور خدا سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ :۔
>خدایا ! یہ تو اب ہمیں چھوڑ رہے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑیو۔<
یہ ایک خاص انداز کا کلام تھا جس سے مراد یہ تھی کہ تو ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور دل اس یقین سے پر تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ اللہ اللہ !۔
خاوند کی وفات پر اور خاوند بھی وہ جو گویا ظاہری لحاط سے ان کی ساری قسمت کا بانی اور ان کی تمام راحت کا مرکز تھا توکل` ایمان اور صبر کا یہ مقام دنیا کی بے مثال چیزوں میں سے ایک نہایت درخشاں نمونہ ہے۔ مجھے اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کا وہ بے حد پیارا اور مضبوطی کے لحاظ سے گویا فولادی نوعیت کا قول یاد آرہا ہے جو آپ نے کامل توحید کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنحضرت~صل۱~ )فداہ نفسی( کی وفات پر فرمایا کہ :۔
>الا من کان منکم یعبد محمدا فان محمد اقدامات ومن کان یعبد اللہ فان اللہ حیی لا یموت<- ۱۶۴
>یعنی اے مسلمانو! سنو کہ جو شخص محمد رسول اللہ~صل۱~ کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد~صل۱~ فوت ہوگئے ہیں مگر جو شخص خدا کا پرستا ہے وہ یقین رکھے کہ خدا زندہ ہے اس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔< ۱۶۵
۲- حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں :۔
غیر معمولی محبت کرنے والی ماں
>صرف اس لئے نہیں کہ اماں جانؓ غیر معمولی محبت کرنے والی ماں تھیں اور اس لئے نہیں کہ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو محض ذکر خیر ے طور پر آپ کا تاریخی پہلو لکھا جائے۔ اور اس لئے بھی نہیں کہ مجھے ان سے بے حد محبت تھی )اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح میں ان کی جدائی کو برداشت کررہی ہوں( بلکہ حق اور محض حق ہے کہ حضرت اماں جانؓ کو خدا تعالیٰ نے سچ مچ اس قابل بنایا تھا کہ وہ ان کو اپنے مامور کے لئے چن لے اور اس وجود کو اپنی خاص >نعمت< قرار دے کہ اپنے مرسل کو عطا فرمائے۔
صابرہ و شاکرہ
آپ نہایت درجہ صابرہ اور شاکرہ تھیں- آپ کا قلب غیر معمولی طور پر صاف اور وسیع تھا۔ کسی کے لئے خواہ اس سے کتنی تکلیف پہنچی ہو آپ کے دل پر میل نہ آتا تھا۔ کان میں پڑی ہوئی رنج دہ بات کو اس صبر سے پی جاتی تھیں کہ حیرت ہوتی تھی اور ایسا برتائو کرتی تھیں کہ کسی دوسرے کو کبھی کسی بات کے دوہرانے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ شکوہ` چغلی` غیبت کسی بھی رنگ میں نہ کبھی اپ نے کیا` نہ اس کو پسند کیا۔ اس صفت کو اس اعلیٰ اور کابل رنگ میں کبھی کسی میں میں نے نہیں دیکھا۔ آخر دنیا میں کبھی کوئی بات کوئی کسی کی کر ہی لیتا ہے` مگر زبان پر کسی کے لئے کوئی لفظ نہیں آتے سنا۔
شفقت
حضرت اماں جانؓ سے جہاں کسی نے مجلس میں کسی کی بطور شکایت بات شروع ی اور آپ نے فوراً کا حتیٰ کہ اپنے ملازموں کی شکایت جو خود آپ کے وجود کے ہی آرام کے سلسلے میں تنگ آکر کبھی کی جاتی پیچھے سے سننا پسند نہ کرتی تھیں۔ اپنے ملازموں پر انتہائی شفقت فرماتی تھیں۔ آخری ایام میں جب آواز نکلنا محال تھا مائی عائش )والدہ مجید احمد مرحوم درویش قادیان( کی آواز کسی سے جھگڑے کی کان میں آئی۔ بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور بدقت فرمایا >مائی کیوں روئی ؟< میں نے کہا نہیں اماں جان روئی تو نہیں یوں ہی کسی سے بات کررہی تھی۔ مگر جو درد حضرت اماں جان کی آواز میں اس وقت مائی کے لئے تھا وہ آج تک مجھے بے چین کردیتا ہے۔ آپ نے کئے لڑکیوں اور لڑکوں کو پرورش کیا اور سب سے بہت ہی شفقت و محبت کا برتائو تھا۔ خود اپنے ہاتھ سے ان کا کام کیا کرتی تھیں اور کھلانے` پلانے` آرام کا خیال رکھنے کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا مگر تربیت کا بھی بہت خیال رکھتیں اور زبانی نصیحت اکثر فرماتیں۔ ایک لڑکی تھی` مجھے یاد ہے میں ان دنوں حضڑت اماں جانؓ کے پاس تھی۔ وہ رات کو تہجد کے وقت سے اٹھ بیٹھتی اور حضرت اماں جاںؓ سے سوالات کرنے اور لفظوں کے معنے پوچھنا شروع کرتی اور آپ اس کی ہر بات کا جواب صبر اور خندہ پیشانی سے دیا کرتیں۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ اس وقت نہ ستایا کرو۔ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد آپ نے بہت زیادہ صبر و تحمل کا نمونہ دکھایا مگر آپؑ کی جدائی کو جس طرح آپ محسوس کرتی رہیں اس کو جو لوگ جانتے ہیں وہ اس صبر کو اور بھی حیرت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔
حضرت مسیح موعودؑ سے غیر معمولی محبت
آپ اکثر سفر پر بھی جاتی تھیں اور بظاہر اپنے آپ کو بہت بہلائے رکھتی تھیں۔ باغ وغیرہ یا باہر گائوں مین پھرنے کو بھی عورتوں کو لے کر جانا یا گھر میں کچھ نہ کچھ کام کرواتے رہنا` کھانا بکوانا اور اکثر غرباء میں تقسیم کرنا )جو آپ کا بہت مرغوب کام تھا( لوگوں کا آنا جانا اپنی اولاد کی دلچسپیاں یہ سب کچھ تھا مگر حضرت مسیح موعودؑ کے بعد پورا سکون آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ کوئی اپنا وقت کاٹ رہا ہے۔ ایک سفر ہے جس کو طے کرنا ہے۔ کچھ کام ہیں جو جلدی جلدی کرنے ہین۔ غرض بظاہر ایک صبر کی نثان ہونے کے باوجود ایک قسم کی گھبراہٹ سی بھی تھی جو آپ پر طاری رہتی تھی مگر ہم لوگوں کے لئے تو گویا وہ ہر غم اپنے سینہ میں چھپا کر خود سینہ سپر ہوگئہی تھیں` دل میں طوفان اس درد جدائی کے اٹھتے اور اس کو دبا لیتیں اور سب کی خوشی کے سامنے کرتیں۔ مجھے ذاتی علم ہے کہ جب کوئی بچہ گھر میں پیدا ہوتا تو خوشی کے ساتھ ایک رنج حضرت مسیح موعودؑ کی جدائی کا آپ کے دل میں تازہ ہوجاتا اور وہ آپ کو اس بچہ کی آمد پر یاد کرتیں۔
چشمہ محبت
میں اپنے لئے ہی دیکھتی تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد ایک چشمہ ہے` بے حد محبت کا ` جو اماں جان کے دل میں پھوٹ پڑا ہے اور بار بار فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے ابا تمہاری ہر بات مان لیتے اور میرے اعتراض کرنے پر بھی فرمایا کرتے تھے کہ >لڑکیاں تو چار دن کی مہمان ہیں۔ یہ کیا یاد کرے گی جو یہ کہتی ہے وہی کرو۔< غرض یہ >محبت بھی دراصل حضرت مسیح موعودؑ کی محبت تھی جو آپ کے دل میں موجزن تھی۔
اس کے بعد میری زندگی مں ایک دوسر امرحلہ آیا یعنی میرے میاں مرحوم کی وفات ! ان کے بعد ایک بار اور میں نے اس >چشمہ محبت< کو پورے زور سے پھوٹتے دیکھا جیسے بارش برستے برستے یکدم ایک جھڑا کے سے گرنے لگتی ہے۔ اس وقت وہی بابرکت ہستی تھی` وہی رحمت و شفقت کا مجسمہ تھا جو بظاہر اس دنیا میں خدا تعالیٰ رفیق اعلیٰ و رحیم و کریم ذات کے بعد میرا رفیق ثابت ہوا` جس کے پیار نے میرے زخم دل پر مرہم رکھا۔ جس نے مجھی بھلا دیا تھا کہ میں اب ایک بیوہ ہوں بلکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں کہیں جاکر پھر آغوش مادر میں واپس آگئی ہوں۔ اب دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو میرا منہ دیکھے کہ اداس تو نہیں ہے۔ اب کوئی ایسا نہیں جو میرے احساس کو سمجھے ! میرے دکھ کو اپنے دل پر بیتا ہوا دکھ محسوس کرے۔ خدا سب عزیزوں کو سلامت رکھے۔ میرے بھائیوں کی عمر مین اپنے فضل سے خاص برکت دے۔ مگر یہ خصوصیت جو خدا نے ماں کے وجود میں بخشی ہے اس کا بدل تو کوئی خود اس نے ہی پیدا نہیں کیا اور میری ماں تو ایک بے بدل ماں تھیں` سب مومنوں کی ماں۔ ہزارون رحمتیں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی رحمتیں ہمیشہ ہمیشہ آپ پر نازل ہوتی رہیں۔ وہ تو اب خاموش ہیں مگر ہم جب تک خدا ان سے نہ ملائے گا ان کی جدائی کی کھٹک برابر محسوس کرتے رہیں گے۔~}~
عمر بھر کا ہش جاں بن کے یہ تڑپائے گی
وہ نہ آئیں گی مگر یاد چلی آئے گی
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کے لئے زیادہ ہی زیادہ ان دعائوں کو جو حضرت مسیح موعودؓ نے ہمارے لئے فرمائیں )اور حضرت اماں جاںؓ نے جو سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا( قبول فرمائے اور ایسا ہو کہ گویا وہ دعائیں جاری ہیں اور ہر گھڑی مقبول ہورہی ہیں` آمین` اور ہم سب کو اس قابل بنائے کہ ہم ان فضلوں کے جاذب بنیں جو ہماری لئے مانگے جاتے رہے۔ ثم آمین۔
حضرت اماں جانؓ کو ہماری تعریف کی حاجت نہیں خدا نے جس وجود کی تعریف کردی اس کو اور کیا چاہئے مگر ہمارا بھی فرض ہے کہ جو عمر بھر دیکھا اس کو آئندہ ہونے والوں کے لئے ظاہر کردیں۔
آپ ایک نمایاں شان کے ساتھ صابرہ تھیں اور خدا تعالیٰ کی رضا پر خوشی سے راضی ہونے والی تکالیف کا حوصلہ سے مقابل کرنے والی ! کبھی کسی کا شکوہ شکایت زبان پر نہ لانے والی کسی سے پہنچے ہوئے رنج کو مہر بہ لب ہو کر ایسی خاموشی سے برداشت کرنے اور مٹا ڈالنے والی کہ وہ مٹ ہی جاتا تھا۔
جس سے تکلیف پہنچتی اس پراپنی مہربانی اس طرح جاری رکھتیں بلکہ زیادہ حتی کہ وہ امر اورون کے بھی دلوں سے محو ہوجاتا۔
خشیت الٰہی
بہت خشو و خضوع سے` بہت سنوار کر نمازیں ادا کرنے والی` بہت دعائیں کرنے والی کبھی میں نے آپ کو کسی حالت میں بھی جلدی جلدی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تہجد اور اشراق بھی جب تک طاقت رہی ہمیشہ باقاعدہ ادا فرماتی رہیں- دوسرے اوقات میں بھی بہت دعا کرتی تھیں۔ اکثر بلند آواز سے دعا بے اختیار اس طرح آپ کی زبان سے نکلتی گویا کسی کا دم گھٹ کر یکدم رکا ہوا سانس نکلے۔ بہت ہی بے قرار اور تڑپ سے دعا فرماتی تھیں۔ کبھی کبھی موزوں نیم شعر الفاظ میں اور کبھی مصرع اور شعر کی صورت میں بھی دعا فرماتی تھیں اسی درد اورتڑپ سے ایک بار لاہور میں غیر آباد مسجد کو دیکھ کر ایک آہ کے ساتھ فرمایا
الٰہی مسجدیں آباد ہوں گر جائیں` گرجائیں
آپ کی دعائوں میں سب آپ کی احمدی اولاد شریک ہوتی۔ اکثر ایسوں کا نام لے کر بے قرار ہو کر دعا کر تین جن کا بظاہر ہر کسی کو خیال تک نہ ہوتا۔ ایک بار لیٹے لیٹے اس طرح کرب سے >یااللہ< کہا کہ میں گھبرا گئی مگر اس کے بعد کا فقرہ کیا تھا؟ یہ کہ >میرے نیر کو بٹا دے< خدا نے آپ کے نیر )مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب نیر۱۶۶( کو اس کے بعد محمودہ کڑک سے دو بیٹے عطا فرمائے۔ خدا نیکی اور زندگی ان کو بخشے` سب جماعت سے محبت دلی فرماتی تھیں اور خصوصاً حضرت مسیح موعودؑ والسلام کے زمانہ کے لوگوں سے آپ کو بہت ہی پیار تھا۔ ان کی اولادوں کو اب تک دیکھ کر شاد ہوجاتی تھیں۔ شاید آپ میں سے بعض کو پورا احساس نہ ہو مجھے پوچھیں آپ سچ مچ ایک اعلیٰ نعمت سے` ایک ہزار ماں سے بہتر ماں سے محروم ہوگئے ہیں۔
شریکہ غم
ہر چھوٹے بڑے کی خوشی اور تکلیف میں بدل شریک ہوتی تھیں۔ جب تک طاقت رہی یعنی زمانہ قریب ہجرت تک جب باہر جاتیں اکثر گھروں میں ملنے جاتیں- حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے آپ کا یہی عمل تھا۔ مجھے کئی واقعات یاد ہیں کہ کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا اور آپ برابر ان کی تکلیف کے وقت میں زچہ کے پاس رہیں اور یہی طریق بعد میں جب تک ہمت رہی جاری رہا۔
خاص چیز جو پکواتیں بہت کھلی اور ضرور سب میں تقسیم کرتیں۔ حضرت مسیح موعودؓ کے زمانہ میں چونکہ لوگ کم تھے تو سب کو گھروں سے بلا کر اکثر ساتھ ہی کھلوایا کرتی تھیں۔
خیرات و فیاضی
خیرات کثرت سے فرماتی تھیں` غرباء کو کھانا کھلانا آپ کو بہت پسند تھا۔ حضڑت مسیح موعودؑ کے پسند کی چیز تو ضرور کھلایا کرتی تھیں۔ اور گھر میں روزمرہ جب کوئی چیز سامنے آتی تو اول اول دنوں میں تو بہت فرمایا کرتی تھیں کہ یہ چیز آپؑ کو پسند تھی لو تم کھائو!
ہاتھ سے کام کرنا
ہاتھ سے کام کرنے میں ہرگز کبھی آپ کو عار نہ تھا۔ قادیان س آتے وقت بھی برابر خود کوئی نہ کوئی کام کرتی تھیں۔ باورچی خانہ جا کر خود کچھ پکا لینا` چیز خود ہی جا کر بکسوں میں سے نکالنا` کسی کو بہت کم کہتی تھیں` خود ہی کام کرنے لگتی تھیں۔ جب تک کمزوری حد سے نہ بڑھی سہارا لینا ہرگز پسند نہیں فرماتی تھیں کوئی سہارا دینا چاہتا تو نہیں دینے دیتیں کہ میں خود چلوں گی سہارا نہ دو۔
]sub [tagذکر الٰہی
ایک خاص بات آپ کی اپنی بچپن سے مجھی یاد ہے کہ جن ایام میں آپ نے نماز نہیں پڑھنی ہوتی تھی اس وقت کو کبھی باتوں وغیرہ میں ضائع نہیں فرماتی تھیں برابر مقررہ اوقات نماز میں تنہا ٹہل کر یا بٹھ کر دعا اور ذکر الٰہی کرتی تھیں اور پھر ہمیشہ میں نے اس امر کا التزام دیکھا۔
نظافت پسندی
جن لڑکیوں کو پالا ان کی جوئیں نکالنا` کنگھی کرنا یہ کام اکثر خود ہی کرتی تھیں اور باوجود نہایت صفائی پسند ہونے کے گھن نہیں کھاتی تھیں۔
صاف لباس` پاکیزہ بستر اور خوشبو آپ کو بے ہد پسند تھی مگر ان چیزوں کا شغف کبھی اس درجہ کو نہیں پہنچا کہ آپ کے اوقات نماز یا دعا یا ذکر میں حاج ہوا ہو۔
عطر کا استعمال
مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ بھی عطا اور چنبیلی کا تیل آپ کے لئے خاص طور منگایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد آپ نے اپنا عطر کا صندوقچہ مجھے پاس بلا کر تیسرے روز دے دیا تھا۔ )جو مین نے بھاوجوں میں تقسیم کردیا تھا( زمانہ عدت میں آپ نے خوشبو نہیں استعمال کی ` نہ زیور ہی کوئی پہنا سفید لباس پہنتی تھیں مگر صاف ` میلا نہیں۔ مجھے یاد ہے جس دن ایام عدت ختم ہوئے آپ نے غسل کیا` صاف لباس پہنا` عطر لگایا اور اس دن جو کیفیت صدمہ کی اور پھر ضبط آپ کے چہرہ سے مترشح تھا وہ تحریر میں نہیں آسکتا۔ آپ کا رونا نمازوں کا رونا` دعائوں کا رونا ہوتا تھا ویسے نہین۔ روزانہ بہشتی مقبرہ جاتیں اور نہایت رقت سے دعا کرتین۔ وہ آپ کی ہالت دیکھی نہیں جایا کرتی تھی جس مقام میں آخر آرام کرنے کے لئے آپ کی روح چالیس سال تڑپ سے انتظار کرتی رہی اور دل میں جس زمین کو دیکھ دیکھ کر بے قرار ہوتا رہا اس میں آپ کے جسد مبارک کا فی الحال رکھا جانا تقدیر الٰہی کے مطابق نہ تھا۔ دل بے چین ہوجاتا ہے جب یاد کرتی ہوں کہ قادیان سے آنے کا صدمہ بھی صبر اور تحمل سے برداشت کر جانے والی میری اماں جانؓ کس بے قرار سے وہاں سے آکر بار بار کہا کرتی تھیں کہ >مجھے قادیان ضرور پہنچانا یہاں نہ رکھ لینا< )یعنی بعد وفات( اگر کوئی گھبراہٹ ظاہراً دیکھی تو بس ایک اسی بات کے لئے !
داغ ہجرت میں وفات
سخت کرب پیدا ہوتا ہے اس خیال سے کہ یہ آرزو حضرت اماں جانؓ کی پورا نہ ہونا اور ان کا ہجرت میں داغ جدائی دینا` بے شک پیشگوئی کے مطابق ہوا مگر کہیں ہم لوگ کی شامت اعمال تو اس وقت کو نزدیک نہیں کھینچ لائی۔ یہی منشاء الٰہی تھا اور ہو ہوا۔ مگر آب تو خدا کرے وہ دن بھی جلدی لائے کہ حضڑت اماں جانؓ کی تمنا کو پورا کرنے والے آپ لوگ بنیںاور ہم سب اس طرح حضرت اماں جانؓ کو ان کے اصل مقام میں لے جائیں جس طرح جانا ان کے شایان شان ہے )آمین(
ایک دعا اور اس کی قبولیت
بہت سال ہوئے حضرت سیدنا۱۶۷ بھائی صاحب نے ایک دن مجھے کہا تھا کہ >میں بھی یہ دعا کیا کرتا ہوں تم بھی کیا کرو کہ اماں جانؓ کو خدا تعالیٰ مدت دراز تک سلامت رکھے مگر اب اماں جانؓ ہم میں سے کسی کا صدرمہ نہ دیکھیں< میں نے اس دن س اس دعا کو ہمیشہ یاد رکھا اور اپنی خاص اس دعا کے ساتھ کہ ایسا وقت اس حالت میں نہ آئے کہ میں اماں جان سے دور ہوں۔ میں سالہال مالیر کوٹلہ وہی گو بار بار اور جلد جلد آتی تھی کیونکہ حضرت اماں جانؓ اور اس گھر کو ` بھائیوں کو` دیکھے بغیر مجھی چین ہی نہ آتا تھا مگر جب بھی وہاں ہوتی حضرت اماں جانؓ کے متعلق توہمات مجھی چین سے نہ رہنے دیتے۔ میں نے میان مرحوم سے صاف کررکھا تھا کہ میں یہان آپ کا ساتھ دے کر رہتی تو ہوں لیکن اگر کبھی اماں جانؓ کی علالت کی خبر مجھے ملی تو ہر گز نہ مجھے کسی اجازت کی حاجت ہوگی نہ کوئی ساتھ ڈھونڈنے کی ` میں ایک منٹ بھی پھر نہیں ٹھہروں گی خواہ اکیلے چل پڑنے کی صورت ہو۔ ہمیشہ ہر حال میں میں نے ایک رقم الگ محفوظ رکھی اس نیت سے کہ اماں جانؓ کو خدا نہ کرے کبھی تکلیف ہو تو کسی روپیہ کے انتظام کے لئے میرا گھنٹہ بھر بھی ضائع نہ ہو۔
الحمد لل¶ہ ! کہ وہ دعا بھی خدا تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ خدمت کے قابل گو میں نہ رہی تھی مگر پاس رہی منہ دیکھتی رہی اور وہ پاکیزہ نعمت الٰہی جو مجھے دنیا میں لانے کا ذریعہ ایک دن بنی تھی میری آنکھوں کے سامنے میرے ہاتھ میں اس دنیا سے رخصت ہو کر محبوب حقیقی سے جا ملی۔<۱۶۸
>چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے<
تاریخی شخصیت
>آپ میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جس نے یہ دعا حضرت مسیح موعودؑ بزبان حضرت اماں جانؓ نہ پڑھی ہوگی۔ یہ مصرعہ آپ کو اس وجود کی اہمیت اور بزرگی کا مرتبہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے مسیحا کے لئے چن کر چھانٹ لیا وہ کیا چیز ہوگی ؟
حضرت ام المومنینؓ کا وجود بھی اس زمانہ کی مستورات کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نمونہ بنا کر` اپنے مرسل مسیح موعود اور مہدی معہودؑ کے لئے تفیق حیات منتخب فرما کر بھیجا تھا اور آپ کی تمام حیات آپ کی زندگی کا ہر پہلو اس پر روشن شہادت دیتا رہا اور دے رہا ہے اور ہمیشہ تاریخ احمدیت پر مرد درخشاں کی مانند چمک دکھلا کر شہادت دیتا رہے گا۔<۱۷۰۱۶۹
حواشی
۱۔
>حجتہ الاسلام< ۱۲`۱۳ )اشاعت ۸ مئی ۱۸۹۳ء( مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر
۲۔
>آئینہ کمالات اسلام< ۵۶۴ - ۵۶۶ طبع اول )اشاعت ۱۸۹۳ء( و >ختاب البریہ< ۷۸` ۷۹ )اشاعت ۲۴ جنوری ۱۸۹۸ء(
۳۔
>نزول المسیح< ۶ )اشاعت اگست ۱۹۰۹ء(
۴۔
>تبلیغ رسالت< )مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعودؑ جلد ۲ صفحہ ۱۲۰ مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحبؓ مدیر >فاروق< قادیان
۵۔
ولادت ۲۳ اپریل ۱۹۰۲ء۔۔ وفات یکم اپریل ۱۹۷۳ء(
۶۔
ولادت یکم جنوری ۱۸۷۹۔۔ وفات ۴ جنوری ۱۹۶۱ء / ۴ صلح ۱۳۴۰ ہش
۷۔
الفضل ۱۶ صلح و الفضل ۲ صلح ۱۳۳۱ ہش/۱۶ء ۲ جنوری ۱۹۵۲ء
۸۔
وفات ۲۴ وفا ۱۳۳ ہش/۲۴ جولائی ۱۹۵۴ء
۹۔
ملخصاً ازا الفضل ۸ صلح ۱۳۳۱ ہش/ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ و ۸
۱۰۔
روایات صحابہ )غیر مطبوعہ( رجسٹر ۷ صفحہ ۱
۱۱۔
رجسٹر بیعت )غیر مطبوعہ(
۱۲۔
الفضل لاہور ۱۱- صلح ۱۳۳۰ ہش/۱۱ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱
۱۳۔
ازالہ اوہام صفحہ ۸۱۲ )طبع اول(
۱۴۔
ازالہ اوہام صفحہ ۷۹۳ )طبع اول(
۱۵۔
یعنی حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ )ناقل(
۱۶۔
مطابق ۲۷ دسمبر ۱۸۸۵
۱۷۔
کہف :۳۸
۱۸۔
ولادت ۷ اگست ۱۸۸۷ء
۱۹۔
تلخیص >روایات صحابہ< جلد ۷ )غیر مطبوعہ( صفحہ ۱`۶
۲۰۔
ابن ماجہ )ابواب النکاح باب حسن معاشرۃ النساء( صفحہ ۱۴۳
۲۱۔
الفضل ۲۸ صلح ۱۳۳۰ ہش/۲۸ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۲۲۔
الفضل ۲ تبلیغ ۱۳۳۰ ہش/۲ فروری ۱۹۵۱ صفحہ ۵
۳۲۔
قادیان گائیڈ صفحہ ۶۲`۵۸ )ازمیاں محمد یامین صاحبؓ تاجر کتب قادیان۔ اشاعت ۲۵ نومبر ۱۹۲۰ء(
۲۴۔
اولاد :۔ پیر عبدالرحیم صاحب۔ پیر سلطان احمد صاحب پیر ہارون احمد صاحب۔ پیر مبارک احمد صاحب )مون لائٹ ربوہ( صفیہ بیگم صاحب اہلیہ مولاا بذل الرحمن صاحبؓ فاضل بنگالی مبلغ سلسلہ احمدیہ )وفات ۳۱ فتح ۱۳۲۸ ہش/۱۳ دسمبر ۱۹۴۹ء( امتہ الحکیم صاحبہ اہلیہ مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر مجاہد بلاد عربیہ
۲۵۔
ریکارڈ بہشتی مقبرہ ۔ربوہ
۲۶۔
الفضل ۱۱-۱خاء ۱۳۳۰ ہش/۱۱- اکتوبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۲۷۔
بدر ۱۱ جنوری ۱۹۱۲ صفحہ ۸ کالم ۲ )تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۱۱ء بعنوان >مدراج تقٰوی(<
۲۸۔
>روایات صحابہ< )غیر مطبوعہ( جلد ۱۳ صفحہ ۱۰۷
۲۹۔
الفضل ۱۵۔ امان ۱۳۳۰ ہش/۱۵۔ مارچ ۱۹۵۱ صفحح ۲
۳۰۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۸ ستمبر ۱۸۹۲ء کو انہیں تحریر فرمایا :۔ >بیعت کنندوں کے نمبر ۳۵۲ میں آپ کا نام ہے۔< >سراج منیر< میں حضور نے آپ کی ایک نظم درج فرمائی ہے۔ ۲۳ نومبر ۱۹۲۰ء کو جہلم ہسپتال میں انتقال کیا۔ قلعہ رہتاس کے دروازہ خواص خوانی کے برہا آپ کا مزار ہے۔ )الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۲۱ء صفہہ ۷ ` ۸
۳۱۔
مرتبہ ڈاکٹر ملک نذیر احمد صاحب ریاض۔ بھابڑا بازار راولپنڈی
۳۲۔
روزنامہ الفضل ۱۵۔ امان ۱۳۳۰ہش/۱۵۔ مارچ ۱۹۵۱ء
۳۳۔
الفضل ۴ تبوک ۱۳۳۰ ہش/۴ ستمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۴ )مضمون حضرت مولانا جلال ادلین صاحب شمسؓ(
۳۴۔
>لاہور ۔۔ تاریخ احمدیت< ۳۸۶ مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ طبع اول ۲۰ فروری ۱۹۶۶ء(
۳۵۔
الفضل ۲۷ اخاء ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۶
۳۶۔
۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نام سرفہرست نمبر ۳ پر درج ہے۔ )ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۱(
۳۷۔
۲ ستمبر ۱۹۰۲ کو فوت ہوئے اور ۱۹ ستمبر ۱۹۰۳ء کو جمعہ کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کا جنازہ غائب پڑھا۔ حضرت مرزا محمد اشرف صاحب ریٹائرڈ محاسب صدر انجمن احمدیہ آپ ہی کے صاحبزادے تھے۔
۳۸۔
البقر : ۲۸۳
۳۹۔
>روایات اصحابہ< جلد ۷ صفحہ ۴۸` ۴۹
۴۰۔
۷ جنوری ۱۹۰۰ ء تا یکم فروری ۱۹۰۰ء ۔ یکم نومبر ۱۹۰۱ء تا ۲۲ دسمبر ۱۹۰۱ء )ڈاکٹر غلام مصطفٰے صاحب کی تحریری یادداشتوں سے ماخوذ(
۴۱۔
آپ کی خود نوشت روایات کے حوالہ سے تذکرہ طبع سوم ۷۷۷ تا صفحہ ۷۷۹ میں کئی امامات محفوظ ہوچکے ہیں۔
۴۲۔
الفضل یکم فتح ۱۳۳۰ ہش/یکم دسمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۵ و ۱۴ نبوت ۳۳۰ ہش/۱۴ ۔ نومبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۲
۴۳۔
حقیقہ الوحی صفحہ ۲۳۷ ` ۲۳۸ طبع اول ۱۵ مئی ۱۹۰۷ء مطبع میگزین قادیان
۴۴۔
مبارک مصلح الدین احمد صاحب واقف زندگی جو وکیل المال ثانی تحریک جدید ہیں آپ ہی کے صاحبزدے ہیں۔
۴۵۔
بروایت سردار عبدالحمید صاحبؓ آڈیٹر برادر اصغر
۴۶۔
ولادت ۱۸۶۰ء وفات ۱۹۳۹ء >)صوفیائے نقش بند< از سید امین الدین احمد صاحب ناشر مقبول اکیڈیمی لاہور طبع اول ۱۹۷۳ء(
۴۷۔
الفضل ۸۔ فتح ۱۳۳۰ ہش/۸ دسمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۵ )مضمون چوہدری شبیر احمد صاحب بی ۔ اے(
۴۸۔
آل عمران : ۵۶
۴۹۔
چورہ شریف کے پیر جناب فقیر محمدﷺ~ صاحب عرف باوا جی مراد ہیں
۵۰۔
جنوری ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے۔
۵۱۔
مکتوب حضرت مولوی عبدالاحد خاںؓ مکان نمبر ۸۳۹ پیر کالونی چوہدری شبیر احمد صاحب
۵۲۔
دندان سازی کی پریکٹس کرتے ہیں
۵۳۔
ٹرانسپورٹ مینجر ۱۹۵۰ء
۵۴۔
وکیل المال اول تحریک جدید ربوہ و نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ ربوہ )صف دوم(
۵۵۔
اسسٹنٹ ان ملٹری اکونٹس کراچی
۵۶۔
متوفی ۱۹۵۱ء غیر شادی شدہ ہونے کی حالت میں وفات پائی
۵۷۔
ملازم آرڈی نینس کراچی
۵۸۔
چیف ٹیک ایر فورس کراچی
۵۹۔
میڈیکل اسسٹنٹ مسقط
۶۰۔
اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و تذکرہ ۴۱ ایڈیشن سوم
۶۱۔
>روایات صحابہ< غیر مطبوعہ جلد نمبر ۲ صفحہ ۱۲۶ >بشارات رحمانیہ< جلد اول ۲۰۵ صفحہ ۲۰۷ مولفہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر )طبع دوم(
۶۲۔
>روایات صحابہ< غیر مطبوعہ جلد نمبر ۳ صفحہ ۱۲۶` ۱۲۸ )خود نوشت روایات اخوند محمد اکبر خان صاحبؓ
۶۳۔
الفضل ۲۸ اخاء ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۶
۶۴۔
روایات صہابہ جلد نمبر ۱۰ صفحہ ۴۷` ۵۰
۶۵۔
الفضل ۴ صلح ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵
۶۶۔
روایات صحابہ جلد ۱۰ صفحہ ۴۷ ` ۵۰
۶۷۔
الفضل ۴ صلح ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۵
۶۸۔
علی پور سیداں میں سید جماعت علی شاہ کے نام سے دو پیرہم عصر گزرے ہیں یہاں کون سے مراد ہیں اس کی تحقیق نہیں ہوسکی
۶۹۔
پیمائش کی کتاب
۷۰۔
)رجسٹر >روایات صحابہ< )غیر مطبوعہ( جلد نمبر ۱۰` ۵۹( خود نوشت حالات حضرت ملک برکت علی صاحبؓ مورخہ ۱۰ جون ۱۹۳۹ء
۷۱۔
الفضل ۴ صلح ۱۳۳۱ ہش/۴ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۵ )مضمون منشی محمد رمضان صاحب احمدی پوسٹل پنشنر گجرات سابق ضلع وار کلرک جماعت احمدیہ گجرات(
۷۲۔
مندرجہ بالا بزرگ صحابہ کے علاوہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے امیر اور صدر مولانا محمد علی صاحب ایم۔اے سابق ایڈیٹر >ریویو آف ریلیجز< کی وفات بھی اسی سال ہوئی۔
)ولادت دسمبر ۱۸۷۴ء۔ زیارت جنوری ۱۸۹۲ء دستی بیعت ۱۸۹۷ء ہجرت قادیان ۱۸۹۹ء لاہور میں مستقل قیام ۲۰ اپریل ۱۹۱۴ء ۔ وفات ۱۳ اکتوبر ۱۹۵۱ء(
>تاریخ احمدیت< جلد دوم میں آپ کے حالات زندگی کا اجمالی خاکہ دیا جاچکا ہی۔ آپ کے مفصل سوانح کے لئے ملاحظہ ہو >مجاہد کبیر< مولفہ جناب ممتاز احمد صاحب فاروقی بی۔ ایس سی۔ ای ۔ ای ستارہ خدمت و جناب محمد احمد صاحب ایم۔ اے خلف مولانا محمد علی صاحب مرحوم۔
۷۳۔
آپ کی سوانح ۱۳۴۶ ہش/۱۹۶۷ء میں ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کے قلم سے >تابعین اصحاب احمد< جلد نمبر ۶ میں چھپ چکی ہیں۔
۷۴۔
الفضل یکم صلح ۱۳۳۱ ہش/یکم جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۷۵۔
تفصیل الفضل ۱۶ ہجرت / مئی تا ۵ ۔ احسان/ جون ۱۳۳۰ ہش میں ملاحظہ ہو
۷۶۔
الفضلی ۲۳ و ۲۴ ہجرت ۱۳۳۰ ہش/۲۳`۲۴ مئی ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۷۷۔
الفضل ۱۸۔ وفا ۱۳۳۰ ہش/۱۸ جولائی ۱۹۵۱ء
۷۸۔
الفضل ۵ صلح ۱۳۳۵ ہش/۵ جنوری ۱۹۵۶ء
۷۹۔
الفضل ۱۸ وفا ۱۳۳۸ ہش/۱۸ جولائی ۱۹۵۹ء صفحہ ۴
۸۰۔
الفضل ۹ صلح ۱۳۳۰ ہش/۹ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۸۱۔
الفضل لاہور ۶ صلح ۱۳۳۰ ہش/ ۶ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱
۸۲۔
روزنامہ الفضل ۱۲۔ وفا ۱۳۳۰ ہش/۱۲ جولائی ۱۹۵۱ء صفحہ ۵
۸۳۔
ناشر سیٹھ محمد معین الدین صاحب احمدی چنت کنٹہ حیدر آباد دکن طبع اول جنوری ۱۹۵۴ء مطبوعہ تاج پریس حیدر آباد دکن
۸۴۔
طبع اول ۱۳۳۸ ہش مطابق ۱۹۵۹ء مطبوعہ منظور عام پریس پشاور
۸۵۔
ماہنامہ درویش اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۸
۸۶۔
]h2 [tagبدر ۲۱۔ ۲۸ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲۳
۸۷۔
الفضل ۴ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۴۔ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۴
۸۸۔
الفضل ۱۷ نبوت ۱۳۳۰ ہش/۱۷ نومبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۳`۴
۸۹۔
پوری تقریر الفضل ۲۵ امان ۱۳۳۱ ہش/۲۵ مارچ ۱۹۵۲ء میں شائع شدہ ہے۔
۹۰۔
الفضل ۲۱۔ وفا ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۵` الفضل ۱۸ ظہور ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۵` الفضل ۲۸ تبوک ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۲ الفضل ۱۰۔ نبوت ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۱` الفضل ۱۱ فتح ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۱ الفضل یکم صلح ۱۳۳۰ ہش صفحہ ۶
۹۱۔
الفضل ۲۵ ۱۳۳۰ ہش/فروری ۱۹۵۱ء صفحہ ۳ ` ۶ و ۶ اخاء ۱۳۳۰ ہش/اکتوبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۴
۹۲۔
الفضل ۸ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۴۴
۹۳۔
الفضل ۱۶ اخاء ۱۳۳۰ ہش/اکتوبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۴
۹۴۔
ان اخبارات کے تراشے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہیں
۹۵۔
رسالہ تحریک جدید صلح ۱۳۵۳ ہش/ جنوری ۱۹۷۴ء صفحہ ۴۰` ۴۱
۹۶۔
ماہ ہجرت ۱۳۲۹ ہش/مئی۱۹۵۰ء تا ماہ شہادت ۱۳۳۰ ہش/اپریل ۱۹۵۱ء
۹۷۔
ان کے صاحبزادے بختیار ذکریا صاحب ربوہ میں دینی علم حاصل کرتے رہے ہیں۔
۹۸۔
پہلی سالانہ کانفرنس ۹۔۱۰۔۱۱ ماہ فتح ۱۳۲۸ ہش/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو جا کرتا میں اور دوسری ۲۴۔۲۵ ۲۶ فتح ۱۳۲۹ ہش/ دسمبر ۱۹۵۰ء کو بانڈونگ میں ہوئی۔
۹۹۔
الفضل ۷ تا ۱۳ امان ۱۳۳۱ ہش/ مارچ ۱۹۵۲ء )تلخیص(
۱۰۰۔
حال انگلستان
۱۰۱۔
تفصیلی رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت ۵۲۔۱۹۵۱ء صفحہ ۲۶` ۲۸ میں درج ہے۔
۱۰۲۔
>تاریخ احمدیت< جلد ۹ صفحہ ۴۵۴` ۴۵۶
۱۰۳۔
محترم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل مراد ہیں )ناقل(
۱۰۴۔
۱۳۱ ہش / ۱۹۵۲ء سے لے کر ۱۳۵۴ ہش/۱۳۷۵/۱۹۷۵ء تک کے ممبران کمیٹی کی فہرست شامل ضمیمہ ہے۔
۱۰۵۔
فیصلہ ۵ ہجرت ۱۳۳۶ ہش/مئی ۱۹۵۷ء
۱۰۶۔
فیصلہ ۲۷ ہجرت ۱۳۴۱ ہش/مئی ۱۹۶۲ء
۱۰۷۔
فیصلہ ۶ تبوک ۱۳۴۰ ہش/ستمبر ۱۹۶۱
۱۰۸۔
>مجلس افتاء اور اس کے فرائض صفحہ ۴ )شائع کردہ دارالافتاء ربوہ ضلع جھنگ(
۱۰۹۔
الفضل ۱۱۔ صلح ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۱۰۔
مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۵
۱۱۱۔
تابعین اصحاب احمد جلد ۷ صفحہ ۷۶ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے` مطبوعہ شہادت ۱۳۵۰ ہش/۱۹۷۱ء ناشر احمدیہ بک ڈبو داراالرحمت شرقی ربوہ
۱۱۲۔
تجویز (Plan)
۱۱۳۔
الفضل ۱۱۔ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳` ۴
۱۱۴۔
الفضل ۳ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۱۵۔
الفضل ۲۴ صلح ۱۳۳۱ ہش/جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ ` ۳
۱۱۶۔
الفضل ۱۵ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۱۷۔
وفات ۱۸۹۸
۱۱۸۔
وفات ۱۹۳۱ء
۱۱۹۔
وفات ۱۹۳۶ء
۱۲۰۔
وفات ۱۱ ستمبر ۱۹۴۸ء
۱۲۱۔
۲۰ اپریل ۱۹۳۸ء
۱۲۲۔
الفضل ۱۷ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء صفحہ صفحہ ۲`۳
۱۲۳۔
الفضل ۴ امان ۱۳۳۱ ہش/مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۱۲۴۔
اس موقعہ پر مقامی جماعت کی طرف سے صاحب ڈپٹی کمشنرکو یہ مراسلہ بھیجا گیا:۔
>ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بجائے اپنی جلسہ گاہ کے مسجد میں جا کر جلسہ کرنا کسی حالت میں بھی مناسب نہیں اور ہمارے حق کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ہم نے بار بار آپ کی کدمتمیں عرض کی کہ ہم خطرہ بھی برداشت کرنے کے لئے تیار ہین لیکن پہلی مرتبہ کے التواء کے بعد وسری بار ایک نہایت ہی مختصر اجلاس کو کافی سمجھنا ہمارے لئے مشکل ہے۔ ہم یقیناً اس بات کے حق دار ہیں کہ اس تعاون کے بعد جو ہم نے پچھلی بار دکھایا تھا اس دفعہ حالات کی مشکلات کو برداشت کر کے ہمارے لئے جلسہ کرنا ممکن کیا جاتا۔ اس جلسہ میں شرکت کے لئے بعض دوست باہر کے اضلاع سے آئے ہوئے تھے ہم حکومت جو یقیناً مشکلات میں پھنسانا نہیں چاہتے لیکن اس کا یہ اثر ضرور ہوگا کہ ایسا شرارت پسند عنصر جو ہر ممکن طریق سے حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور زیادہ دلیر ہوجائے گا اور امن پسند لوگوں کے لئی اپنے حقوق کی حفاظت مشکل ہوجائے گی۔ بہرحال آپ کی انتظامی معذوریوں کے یش نظر ہمارے لئے بجز اس کے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ ہم اپنا بقیہ پروگرام منسوک کردیں۔<
الفضل ۱۹ تبلیغ ۱۳۳۱ ہش/فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۱۲۵۔
الفضل ۲۷ تبلیغ و ۲۸ امان ۱۳۳۱ ہش )مطابق ۲۷ فروری ۲۸ مارچ ۱۹۵۲ء(
۱۲۶۔
روزنامہ الفضل ۲ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۲ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۲۷۔
آپ ان دنوں زیریں سندھ )ضلع حیدر آباد ` ٹھٹھہ` تھرپارکر` سانگھڑ` نواب اور ضلع دادو( کے انچارج مبلغ تھے ؟
۱۲۸۔
ابودائود )کتاب الحدود(
۱۲۹۔
مسنداحمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۳۵۳
۱۳۰۔
>کنوز الحقائق< )از حضرت علامہ امام عبدالروئوف منادی(
۱۳۱۔
ابو دائود میں ہے >من فارق الجماعتہ قید شبیر فقد خلع ربقتہ الاسلام عن عنقہ )کتاب السنہ( بخاری کتاب الاحکام میں ہے< لیس احد یفارق الجماعتہ شبرا فیموت الامات میتتہ جاھیلتہ۔<
۱۳۲۔
بخاری کتاب الفتن کے الفاظ ہیں >تلزم جماعتہ المسلمین وامامھم۔<
۱۳۳۔
یہ پیغام >ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض< کے نام سے چھپا ہوا ہے
۱۳۴۔
روزنامہ الفضل ربوہ ۱۲۔۱۹ فتح ۱۳۴۱ ہش مطابق ۱۲۔۱۹ دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۲ تا ۵
۱۳۵۔
الفضل ۳۰ امان۔ یکم شہادت ۔ ۱۰ شہادت ۱۳۳۱ ہش )مطابق ۳۰ مارچ یکم و ۱۰ اپریل ۱۹۵۲ء( بابو عبدالغفار صاحب نے خوردو نوش کے سامان اور لائوڈ سپیکر کی فراہمی کے علاوہ حضور کی تقریر بھی ریکارڈ کی۔ قیام گاہ اور ٹرانسپورٹ کا انتظام ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحب کے سپرد تھا اور ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب پریس کانفرنس اور معززین کی ملاقات کی منتظم تھے۔
۱۳۶۔
آل عمران : ۲۸
۱۳۷۔
الفضل ۲۳ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/۲۳ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۳ تا ۴
۱۳۸۔
اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ )لاہور( ۲۵۲ مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۸ )ترجمہ و تلخیص( بحوالہ الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۵۲ء صفحہ ۸
۱۳۹۔
یہ مقالہ >اسلامی خلافت کا صحیح نظریہ< کے نام سے شائع شدہ ہے۔
۱۴۰۔
روزنامہ الفضل ۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش/۳ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۱۴۱۔
روزنامہ الفضل ۱۶ شہادت ۱۳۳۱ ہش۔۱۶ اپریل ۱۹۵۲ء
۱۴۲۔
>مشعل راہ< صفحہ ۷۳۸ )خدام الاحمدیہ سے متعلق سیدنا حضڑت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے خطبات و تقاریر کا مجموعہ( شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ )پاکستان تاریخ اشاعت ۱۴ دسمبر ۱۹۷۰ء
۱۴۳۔
الفضل ۲۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۴۴۔
h2] [tagالفضل ۱۷ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۴۵۔
الفضل ۱۳ احسان ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۳
۱۴۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۰۷` ۱۰۸
۱۴۷۔
تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
۱۴۸۔
Committy Finance )مالیات کی کمیٹی(
۱۴۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۹ تا ۱۸
۱۵۰۔
جیسا کہ ۱۳۳۱ ہش/ ۱۹۵۲ء کے واقعات کی آخری فصل میں ذکر ارہا ہے حضرت مصلح موعودؓ نے اس منصوبہ کی داغ بیل کے طور پر اپنی ذاتی لائبریری اور صدر انجمن احمدیہ کی لائبریری کو مدغم کر کے خلافت لائبریری قائم فرمادی جس نے خلافت ثانیہ کی علمی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ازاں بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۸ صلح ۱۳۴۹ ہش/۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو خلافت لائبریری ربوہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور ۳ اخاء ۱۳۵۰ ہش۳اکتوبر ۱۹۷۱ء کو اس کا افتتاح فرمایا )تفصیل خلافت ثالثہ کے حالات میں آئے گی(
۱۵۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۳۶ )یہاں اشارہ بنگالی احمدیوں کی طرف ہے جن کے امیر صاحب صوبائی نے مشاورت میں بعض مطالبات پیش کئے تھے(
۱۵۲۔
حال پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ
۱۵۳۔
روزنامہ الفضل لاہور ۲۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش مطابق ۲۳ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۲
۱۵۴۔
روزنامہ الفضل لاہور ۱۲ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۱
۱۵۵۔
روزنامہ الفضل لاہور ۲۳ شہادت ۱۳۵۱ ہش مطابق ۲۳ اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۱`۲
۱۵۶۔
محکمہ تار نے تاروں کی کثرت دیکھ کر حضرت سیدہ کی بیماری کے ایام ہی سے ایک اور سگنیلر عارضی طور پر ربوہ میں متعین کردیا تھا )الفضل ۲۳ شہادت ۱۳۳۱ ہش(
۱۵۷۔
روزنامہ الفضل لاہور ۳۰ شہادت ۱۳۳۱ ہش صفحہ ۴
۱۵۸۔
تمن کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد نمبر ۲ صفحہ ۳۵
۱۵۹۔
الفضل ۱۳ فتح ۱۳۳۱ ہش/۳۱ دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۴
۱۶۰۔
الحکم ۲۴ اگست ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۰ بحوالہ تذکرہ صفحہ ۳۷۷ ایڈیشن سوم
۱۶۱۔
نسائی باب النساء مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۲۸`۱۹۹`۲۹۵
۱۶۲۔
Civil
۱۶۳۔
بخاری )کتاب الطلاق۔ کتاب الادب( مسلم )کتاب الزہد(
۱۶۴۔
نارژ لتان الغزوات )باب وفات النبی~صل۱(~
۱۶۵۔
>چار تقریریں< صفحہ ۹۴ تا ۱۰۸ مولفہ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` نسر شعبہ نشر و اشاعت نظارت اصلاح و ارشاد صدر انجمن صدر انجمن احمدیہ پاکستان )طبع دوم دسمبر ۱۹۶۶ء(
۱۶۶۔
بانی نائیجیریا مشن )وفات ۱۷ ستمبر ۱۹۴۸ء( مفصل حالات تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۲۰۵ طبع اول میں درج ہیں۔
۱۶۷۔
یعنی سیدنا حضرت مصلح موعودؓ
۱۶۸۔
روزنامہ الفضل ۱۱ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/۱۱ مئی ۱۹۵۲ء صفحہ ۴۷۳
۱۶۹۔
>نصرت الحق< ۱۳`۱۴ ناشر خدام الاحمدیہ ربوہ طبع اول
۱۷۰۔
آپ کی سوانح اور سیرت پر مستقل لٹریچر شائع ہوچکا ہے مثلاً )۱( سیرت نصرت جہاں بیگم حصہ اول )مصنفہ شیخ محمود احمد صاحبؓ عرفانی مجاہد مصر مدیر الحکم ۔ طبع اول دسمبر ۱۹۴۳ء مطبوعہ انتظامی پریس حدر آباد )دکن( )۲( سیرت نصرت جہاں بیگم حصہ دوم )مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی الکبیر موسس الحکم تاریخ اشاعت ۲۵ جولائی ۱۹۴۵ء مطبوعہ انتظامی پریس حیدر آباد )دکن( )۳( نصرت الحق )ناشر چوہدری عبدالعزیز صاحب واقف زندگی مہتتم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ(۔
ان کتابوں کے علاوہ وہ وسط ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء میں رسالہ >مصباح< اور رسالہ >درویش< کے خصوصی نمبر آپ کے اخلاق و شمائل پر شائع کئے گئے۔
tav.13.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
جلسہ کراچی سے لیکر حضرت مصلح موعودؓ کے وضاحتی اعلان تک
دوسرا باب
جماعت احمدیہ کے جلسہ کراچی سے لیکر مسئلہ اقلیت سے متلعق حضرت مصلح موعودؓ کے وضاحتی اعلان تک
فصل اول
مرکزی تعلیمی اداروں کو ایک ضروری ہدایت الجزائری نمائندہ احتفال العلماء کی ربوہ میں آمد جماعت احمدیہ کا جلسہ کراچی` مخالف عناصر کا ہنگامہ اور پاکستان اور بیرونی ممالک میں اس کا وسیع ردعمل`
مرکزی تعلیمی اداروں کو ایک ضروری ہدایت
چونکہ سلسلہ احمدیہ کے مرکزی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کو علمی و اخلاقی اعتبار سے بہت بلند معیار پر ہونا چاہئے اس لئے حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے ۲ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/مئی ۱۹۵۲ء کو بذریعہ خطبہ جمعہ واضح ہدایت دی کہ ہمارے مرکزی سکولوں اور کالجوں کے منتظمین کا فرض اولین ہے کہ وہ آئندہ نسل کی ایسے بہترین رنگ میں تربیت کریں کہ وہ مستقبل میں اسلام کیلئے مفید وجود بن سکیں۔ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا:۔
>اساتذہ کا فرض ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہورہیں تو وہ ان کے ماں باپ سے مشورہ کریں اور ان کی اصلاح کی تدابیر سوچیں۔ مگر یہ طریق صرف انلڑکوں کے متعلق اختیار کیا جاسکتا ہے جو بورڈنگ میں نہیں رہتے۔ جو لڑکے بورڈنگ میں رہتے ہیں ان کی تو سو فیصدی ذمہ داری اساتذہ اور نگران عملہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہی ضرورت میں سمجھتا ہوں دینیات کے مدراس میں بھی ہے۔ وہاں بھی یہی غفلت پائی جاتی ہے۔ لڑکے تعلیم پارہے ہوتے ہیں اور ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بیس مبلغ تیار ہوجائیں گے مگر ہوتا یہ ہے کہ بیس بے دین یا بیس نکمے یا بیس نکارہ یا بیس جاہل پیدا ہوجاتے ہیں۔<
>استاد کا کام نہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے کورس کو پورا کرے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ زائد سٹڈی کروائے۔ کوئی طالب علم صحیح طور پر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کا مطالعہ اس قدر وسیع نہ ہو کہ وہ اگر ایک کتاب مدرسہ کی پڑھتا ہو تو دس کتابیں باہر کی پڑھتا ہو۔ باہر کا علم ہی اصل علم ہوتا ہے۔ استاد کا پڑھایا ہوا علم صرف علم کے حصول کیلئے ممد ہوتا ہے` سہارا ہوتا ہے` یہ نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعہ وہ سارے علوم پر حاوی ہوسکے۔ دنیا میں کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکتا اگر وہ اتنی ہی کتابیںپڑھنے پر اکتفا کرے جتنی اسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکتا اگر وہ اتنی ہی کتابیں پڑھنے پر اکتفا کرے جتنی اسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کوئی وکیل` وکیل نہیں بن سکتا اگر وہ صرف اتنی کتابوں پر ہی انحصار رکھے جتنی اسے کالج میں پڑھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کوئی مبلغ` مبلغ نہیں بن سکتا اگر وہ صرف انہی کتابوں تک اپنے علم کو محدود رکھے جو اسے مدرسہ میں پڑھائی جاتی ہیں۔ وہی ڈاکٹر` وہی وکیل اور وہی مبلغ کامیاب ہوسکتا ہے جو رات اور دن اپنے فن کی کتابوں کا مطالعہ رکھتا ہے اور ہمیشہ اپنے علم کو بڑھاتا رہتا ہے۔ پس جب تک ریسرچ ۱ ورک کے طور پر نئی نئی کتابوں کا مطالعہ نہ رکھا جائے اس وقت تک لڑکوں کی تعلیمی حالت ترقی نہیں کرسکتی۔<۲
الجزائری نمائندہ احتفل العلامء کی ربوہ میں آمد
کراچی میں >احتفال علماء اسلام< کا ایک سہ روزہ اجلاس ۱۶۔۱۷۔۱۸ فروری ۱۹۵۲ء کو منعقد ہوا جس میں مسلم ممالک کے ۴۳ علماء نے شرکت کی۔ ۲۱ علماء پاکستان کے تھے اور ۲۲ ایران` انڈونیشیا` عراق` افغانستان` مصر` شام` ہندوستان اور الجیریا سے تشریف لائے۔ اجلاس نے متفقہ قرار داد کے ذریعہ استعماری طاقتوں کو خبردار کیا کہ وہ کشمیر اور تمام دوسرے اسلامی ممالک کے متعلق اپنی پالیسی فوراً بدل میں ورنہ امن عالم خطرہ میں پڑ جائے گا۔ ۳
اجلاس میں الجزائر کی نمائندگی علامہ محمد بشیر الابراہیم الجزائری نے کی جو اس ملک کے ایک مقتدر عالم اور قریباً ۱۳۰ سکولون کے نگران و ناظم تھے۔ علامہ موصوف اجلاس کے بعد کراچی میں کچھ عرصہ قیام کے بعد ۵ ہجرت ۱۳۳۱ ہش/ مئی ۱۹۵۲ء کو مرکز احمدیت میں تشریف لائے۔
جلسہ
آپ کے اعزاز میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ہال مین ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں ربوہ کے عربی دان بزرگ اور اصہاب خصوصیت سے شامل ہوئے۔ تلاوت قرآن عظیم کے بعد الجزائری مندوب کے ترجمان محمد عادل قدوسی صاحب نے آپ کا تعارف کرایا۔ پھر اہل ربوہ کی طرف سے مکرم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری مبلغ بلاد عربیہ پرنسپل جامعہ احمدیہ نے خوش آمدید کہا۔ آپ نے سب سے پہلے معزز مہمان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ گرمی کے موسم میں سفر کے صعوبتیں برداشت کر کے ربوہ تشریف لائے جہاں نئی بستی ہونے کی وجہ سے نہ اشجاء ہیں نہ پانی کی کثرت اور نہ یہ کوئی بڑا شہر ہے گو انشاء اللہ بہت جلد ربوہ ایک بڑا شہر بن جائے گا لیکن فی الحال اس کی حیثیت ایک چھوٹی ہی بستی کی ہے جس میں شہروں جیسے آرام و سامان میسر نہیں آسکتے۔ ازاں بعد آپ نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کے تمام ممبر چھوٹے اور بڑے` مرد اور عورتیں سب کے دماغ میں صرف ایک ہی بات سمائی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانا اور تمام مسلمانوں کو وحدت کے رشتہ میں پرونا ہے۔
مولانا ابو العطاء صاحب کی تقریر کے بعد جناب علامہ محمد بشیر ابراہیمی نے الجزائری مسلمانوں کی فرانسیسی انقلاب کے خلاف تحریک آزادی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی جدوجہد آزادی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح طویل جدوجہد کے بعد الجزائر کو غلام سے نجات ملی۔
تقریر کا دوسرا حصہ تربیتی رنگ کا تھا جس میں اپ نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ مسلمان قوم پو جو آج کل نکبت و آدبار کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس قوم کے ساتھ کوئی دشمنی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلامی تعلیم بھلادی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان مسلمان نہیں رہے اور آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جہاں آپ یورپ میں اسلامی تعلیمات پھیلاتے ہیں وہاں مسلمانوں کی اصلاح کو مقدم کرین مین آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمان علماء کی حالت خصوصاً اعمال کے لحاظ سے نہایت ناگفتہ بہ ہے وہی ساری خرابی کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اسلام کی روح کو بھلا بیٹھے ہیں آپ کو ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔
آخر میں آپ نے فرمایا یہاں مین اجنبیت محسوس نہیں کرتا کیونکہ کثرت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو عربی زبان مادری زبان کی طرح بول سکتے ہیں۔
آپ کی تقریر کے بعد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے صدارتی خطاب میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور دعا پر یہ تقریب ختم ہوئی۔ ۴
جماعت احمدیہ کراچی کا سالانہ جلسہ
اب ہم اس سال کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر آن پہنچے ہیں جہاں سے حالات نے یکایک پلٹا کھایا اور اہل پاکستان عموماً اور جماعت احمدیہ پاکستان خصوصاً ایک سنگین اور تشویش انگیز صورتحال سے دو چار ہوگئے۔ واقعہ یوں ہوا کہ جماعت احمدیہ کراچی کا سالانہ جلسہ ۱۸۱۷ مئی بروز ہفتہ وار اتوار بعد نماز مغربہ جہانگیر پارک میں مقرر تھا جس کا اعلان دو پوسٹروں` ہینڈ بل اور دعوتی خطوط کے ذریعہ اچھی طرح سے کیا گیا۔ پوسٹروں کے شائع ہوتے ہی ایک طرف تو مسجوں میں تقریریں کر کے عوام الناس کو اشتعال دلانے اور جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے ہر ناجائز طریق استعمال کرنے کی ترغیب دلائی گئی` دوسری طرف ذمہ دار حکام پر تاروں وغیرہ کے ذریعہ زور دیا گیا کہ وہ اس جلسہ کے انعقاد کی اجازت نہ دیں لیکن اس میں صریح ناکامی ہوئی۔
پہلا اجلاس
پروگرام کے مطابق پہلے دن کے اجلاس میں تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد محترم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے افتتاحی خطاب فرمایا۔ اس کے بعد حسب ذیل موضوعات پر تقاریر ہوئیں:۔
۱۔ قرآن کریم کے کامل ہونے کے دلائل
مولانا ابو العطاء صاحب فاضل مبلغ بلاد عربیہ
۲۔ اتہاد بین المسلمین
ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف ہوگا۔
کیا یہ وہی زمانہ ہے جس میں مسیح موعودؓ مہدی مسعود کا ظہور مقدر تھا ؟
مولانا جلال الدین صاحب شمس مبلغ بلاد عربیہ و انگلستان
۴۔ حیات مسیح علیہ السلام کے عقیدہ سے اسلام کو کیا نقصان پہنچا ہے ؟
سید احمد علی شاہ صاحب سیالکوٹی
صاحب صدر کی تقریر شروع ہوتیے ہی بعص لوگوں نے آوازے کسنے` نعرے لگانے اور گالیاں دینی شروع کردیں۔ پولیس نے ان لوگوں کو جو ایک پروگرام کے ماتحت جلسہ گاہ کی مختلف سمتوں میں پھیلے ہوئے تھے ایک طرف دھیکلنا شروع کیا تاکہ انہیں جلسہ گاہ کے باہر نکال دے لیکن جب یہ لوگ تشد پر اتر آئے اور پولیس پر بھی پتھرائو شروع کردیا تو پولیس کو مجبوراً لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ ہر تقریر کے دوران شر پسند باہر والوں کو اکسا کر اندر لے آتے اور پھر شور مچانا شروع کردیتے جس سے ان کی غرض یہ ہوتی کہ تقریریں نہ ہوسکیں اور جلسہ بند ہوجائے لیکن جب اس مقصد میں کامیابی نہ ہوسکی تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ آوازے کسے` نعرے لگائے بلکہ سخت سے سخت گندی اور فحش گالیان دیں ` تالیاں پسٹیں سیٹیاں بجائیں اور رقص کرنا شروع کردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ مولانا ابو العطاء صاحب قرآن کریم کے کامل ہونے کے دلائل بیان کررہے تھے۔ اس ہنگامے آرائی کے باوجود سامعین جلسہ خصوصاً غیر از جماعت معززین اور شرفاء جو محض تقریریں سننے کی غرض سے تشریف لائے ہوئے تھے آخر تک نہایت دلچسپی اور ذوق و شوق کے ساتھ تقیریریں سنتے رہے۔
اس کے بعد جونہی صاحب صدر نے اجلاس اول کی کارروائی کے خاتمہ کا اعلان کیا ایک جبتھہ آگے بڑھا اور ان رسیوں کو جو پولیس نے سٹیج کے گرد بغرض حفاظت باندھی تھیں پھلانگ کر سٹیج پر حملہ کرنا چاہا۵ جس پر پولیس کی ایک بڑی جمعیت نے اندر جانے سے روک دیا۔ اس موقعہ پر ان لوگوں نے پولیس پر پتھر وغیرہ پھینکے اور مقابلہ کیا لیکن پولیس نے انہیں پیچھے ہٹا دیا اور ان کا ایک آدمی بھی حفاظتی لائن کے اندر داخل نہ ہوسک۔ اس ہنگامہ میں جماعت کے بعض احباب کو بھی جنہیں یہ حکم تھا کہ وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہیں پولیس کے لاٹھی چارج سے چوٹیں آئیں۔ اس سے قبل بجلی کی تاریں کاٹ دی گئیں۔ لائوڈ سپیکر گرا دیا گیا لیکن چونکہ سٹیج پر لائوڈ سپیکر ٹھیک کام کررہا تھا اس لئے وہ اپنی اس حرکت سے بھی جلسہ کو خراب نہ کرسکے جلسہ ختم ہونے کے بعد لوگ باہر جانے لگے تو بعض احمدیوں کی کاروں پر بلکہ اس کا کار بھی جس میں علماء کرام تشریف لے جارہے تھے۔ پتھر پھینکے گئے جس سے کاروں کے شیشے ٹوٹ گئے اور بعض کو سخت نقصان پہنچا۔
دوسرا اجلاس
دوسرے دن اتوار کی صبح کو ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ صاحب نے جہانگیر پارک کے چاروں طرف آدھ آدھ میل تک دفعہ ۱۴۴ نافذ کردی اور تمام شہر میں اعلانکرایا کہ احمدیہ جماعت کا جلسہ جہانگیر پارک میں بدستور منعقد ہوگا لیکن پارک کے اردگرد دفعہ ۱۴۴ نافذ کردی گئی ہے کوئی آدمی لاٹھی وغیرہ ساتھ لے کر نہ آئے اور پانچ سے زائد آدمی باہر جمع نہ ہوں۔ دوسرے دن کے جلسہ میں تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد حسب ذیل موضوعات پر تقاریر ہوئیں:۔
۱۔ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات
مولانا عبدالمالک خان صاحب
۲۔ آنحضرت~صل۱~ کے فیاص` احمدیہ نقطہ نگاہ سے
مولانا ابو العطاء صاحب
coll1] ga[t۳۔ اسلام زندہ مذہب ہے۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان
۴۔ مخالفین احمدیت کے اعتراضات کے جوابات۔
مولانا جلال الدین صاحب شمس
اجلاس دوم میں بھی شور و غوغا بلند کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی۔ بایں ہمہ جلسہ کی کارروائی بدستور جاری رہی۔ اس روز سامعین کی تعداد سات آٹھ ہزار کے قریبتھی جلسہ میں چیف کمشنر صاحب آئی جی پولیس ` سپرنٹنڈنٹ` ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس` ڈسٹرکٹ اور ایڈیشنل میجسٹریٹ وغیرہ اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر۵ شروع ہوتے ہی باہر کے لوگوں کو اندر آنے سے روک دیا گیا اور ان لوگوں کو جو ایک بھاری تعداد میں باہر جمع ہو کر نعرے لگارہے تھے اور شور مچارہے تھے` پولیس نے سمجھایا کہ دفعہ ۱۴۴ کے ماتحت ان کا وہان آنا خلاف قانون ہے لیکن اس کا الٹ نتیجہ برآمد ہوا اور غضب ناک ہجوم تشدد پر اتر آیا مجبوراً پولیس کو بھی کئی بار اشک آور گیس استعمال کرنا پڑی جس کے بعد بلوائیوں نے شیزان ہوٹل کو آگ لگادی` شاہنواز موٹر کے شوروم پر سنگباری کر کے شیشے توڑ دیئے اور نئی موٹروں کو نقصان پہنچایا ` احمدیہ فرنیچر ہائوس میں آگ لگادی۔ بلوائیوں نے بند روڈ پر احمدیہ لائبریری اور احمدیہ ہال )احمدیہ مسجد( کو بھی جلانے کی کوشش کی اور گو فائر بریگیڈ نے موقع پر پہنچ کر آگ بجھا دی لیکن اس کے باوجود ان مقامات پر ہزاروں روپے کا نقصان ہوگیا۔ اس وقت اکے دکے احمدیوں کو بھی ظلم کا تختہ مشق بنایا گیا۔ ایک نوجوان کے سر پر سخت چوٹیں آئیں۔ ایک احمدی نوجوان پر چاقو سے قاتلانہ حملہ کیا گیا مگر وہ خدا کے فضل سے محفوظ رہے۔
احمدیوں کا صبر و تحمل
0] [rtfاس نہایت دل آزار اور اشتعال انگیز فضا میں احمدیوں نے صبر و تحمل اور اطاعت و فرمانبرداری کا جو نمونہ دکھایا وہ اپنی نظیر آپ تھا فحش گوئی اور گالیوں کی بوچھاڑ میں بھی ہر احمدی نے قانون کا احترام ضروری سمجھا اور شروع سے آخر تک پورے وقار کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ کر قال اللہ اور قال الرسول کی اس پاکیزہ مجلس سے ہر ممکن استفادہ کیا۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی ایمان افروز تقریر
جلسہ کراچی کے موقعہ پر علماء سلسلہ کی تقاریر نہایت بلند پایہ اور پراز معلومات تھیں خصوصاً چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا خطاب بہت ایمان افروز تھا جس میں آپ نے علمی اور واقعاتی دلائل سے روز روشن کی طرح ثابت کیا کہ دنیا میں صرف اسلام ہی زندہ مذہب ہے آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم~صل۱~ کو نہ صرف صاحب شریعت نبی بنایا بلکہ آپ کو خاتم النبین کا بے مثال مقام عطا فرمایا اور وہ کتاب بخشی جو مختصر سی کتاب ہونے کے باوجود معانی و مطالب میں غیر محدود ہے اور ایک صحیفہ میں گویا کئی سمندر بند ہیں۔ ان حقائق پر روشنی ڈالنے کے بعد آپ نے قرآن مجی کی اس خصوصیت کو پیش کیا کہ خدا تعالیٰ نے اس کے نزول کے ساتھ ہی اس کی لفظی` لغوی اور معنوی ہر اعتبار سے حفاظت کا وعدہ فرمای جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:۔
انا نحن نزلنا الذکر ونالہ لحفظون ۷
میں نے ہی اس ذکر کو نازل کیا اور میں ہی اس کی حفاظت کروں گا۔
قرآن مجید کی معنوی حفاظت کے صمن میں آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے منظوم اور عارفانہ کلام میں سے متعدد اشعار پڑھے جن میں حضرت اقدس علیہ السلام نے نہایت وجد آفریں اور روح پرور انداز مین خدا تعالیٰ ` قرآن مجید` خاتم الانبیاء محمد مصطفٰے~صل۱~ اور اسلام کے فضائل و محاسن کا تذکرہ فرمایا ہے۔
چوہدری صاحب نے اپنی تقریر کے آخر میں واصح فرمایا کہ احمدیت خدا کا لگایا ہوا پودا ہے۔ یہ پودا قرآنی وعدہ کے عین مطابق اسلام کی حفاظت کے لئے لگایا گیا ہے اور اس غرض سے لگایا گیا ہے تا اس زمانہ میں بھی اسلام کا زندہ مذہب ہونا` قرآن کا زندہ کتاب ہونا اور خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ رسول ہونا پوری دنیا پر ظاہر ہوجائے۔
>تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں جلسہ کراچی کا ذکر
جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے رپورٹ تحقیقاتی عدالت ۱۹۵۳ء میں جلسہ کراچی اور چوہدری صاحب کی تقریر کا خاص طور رپ ذکر کیا ہے چنانچہ لکھا ہے:۔
>کراچی میں اشتہار دیا گیا کہ انجمن اہمدیہ کراچی کا ایک جلسہ۱۸۱۷ مئی ۱۹۵۲ء کو جہانگیر پارک میں منعقد ہوگا اور اس میں دوسرے مقررین کے علاوہ چوہدری ظفر اللہ خان بھی تقریر کریں گے اگرچہ یہ جلسہ انجمن احمدیہ کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا لیکن یہ جلسہ عام تھا جس میں جمہور کا کوئی فرد بھی تقریر سننے کیلئے شریک ہوسکتا تھا۔ اس جلسے سے چند روز پہلے کواجہ ناظم الدین وزیراعظم نے اس امر کے خلاف اپنی ناپسندی کا اظہار کیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان نے ایک فرقہ وار جلسہ عام میں شرکت کا ارادہ کیا ہے لیکن چوہدری ظفر اللہ نے خواجہ ناظم الدین سے کہا کہ میں انجمن سے وعدہ کر چکا ہوں اگر چند روز پہلے مجھی یہ مشورہ دیا جاتا تو میں جلسی میں شریک نہ ہوتا لیکن وعدہ کر لینے کے بعد میں اس جلسہ میں تقریر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اور اگر اس کے باوجود بھی وزیراعظم اس بات پر مصر ہوں کہ مجھے جلسے میں شامل نہ ہونا چاہئے تو میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کو تیار ہوں۔
اس جلسے کے پہلے اجلاس پر عوام کی طرف سے ناراضی کا مظاہرہ کیا گیا اور اجلاس کی کارروائی میں مداخلت کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن ۱۸ مئی کو قیام امن کیلئے خاص انتظامات کئے گئے اور چوہدری ظفر اللہ خان نے اس عنوان پر تقریر کی کہ >اسلام زندہ مذہب ہے۔< ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت سے اسلام کی برتری اور ختمیت کے مسئلے پر یہ ایک فاضلانہ تقریر تھی مقرر نے واضح کیا کہ قرآن آخری الہامی کتاب ہے جس میں عالم انسانیت کے لئے آخری ضابطہ حیات مہیا کیا گیا ہے کوئی بعد میں آنے والا ضابطہ اس کو موقوف نہیں کرسکتا پیغمبر اسلام صلعم خاتم النبین ہیں جنہوں نے عالم انسانی کو اللہ کا آخری پیغام پہنچایا ہے اور اس کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت کا حامل ہو یا قرآنی شریعت کے کسی قانون کو منسوخ کرسکے۔ احمدیوں کے مسلک کے متعلق پوری تقریر میں صرف اتنا اشارہ کیا گیا تھا کہ )رسول اللہ کے( وعدہ کے مطابق ایسے اشخاص آئے رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے خود لگایا ہے اور اب جڑ پکڑ گیا ہے تاکہ قرآن کے وعدے کی تکمیل میں اسلام کی حفاظت کا ضامن ہو۔4]< fts[۸
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا بیان
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اپنی خود نوشت سوانح عمری میں واقعہ کراچی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
۱۹۵۲ء کے جماعت احمدیہ کراچی کے سالانہ جلسے میں مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا گیا تھا میں نے اپنی تقریر کا عنوان >اسلام زندہ مذہب ہے< انتخاب کیا۔ جب جلسے کا دن قریب آیا تو بعض عناصر کی طرف سے جلسے کے خلاف اور خصوصاً میرے تقریر کرنے کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ جلسے کے دن تک یہ مخالفت بظا ایک منظم صورت اختیار کر گئی۔ میں نے تقریر کی۔ دوران تقریر میں کچھ فاصلے سے مشورہ شغب کے ذریعے جلسے کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش جاری رہی کچے آوازے بھی کئے گئے۔ تقریر کے بعد میں اپنے مکان پر واپس آگیا۔ جہاں تک علم ہے گو کسی قدر بدمزگی تو پیدا کی گئی۔ لیکن الحمدلل¶ہ کوئی فساد نہیں ہوا۔
وقتاً فوقتاً جماعت احمدیہ کے جلسوں یا دیگر سرگرمیوں کے خلاف مختلف مقامات پرجوش کا مظاہرہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں جہاں کہیں ایسی صورت پیدا ہوتی رہی جماعت کا ردعمل بفضل اللہ امن پسندی کا رہا۔ جماعت کی طرف سے کبھی خلاف وقار یا موجب اشتعال کارروائی یا حرکت ظہور میں نہیں آئی نتیجہ ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ وہ چار روز میں مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا۔ اس موقعہ پر خلاف معمولی ایک تو متعدد عناصر نے مل کر مخالفت کا ایک محاذ قائم کر لیا اور دوسرے مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑنے کی بجائے زور پکڑتا گیا اور بعض دوسرے مقامات پر بھی تائیدی مظاہرے شروع ہوگئے۔ رفتہ رفتہ اس محاذ کی طرف سے ایک فہرست مطالبات کی تیار کی گئی اور کثرت سے عوام کے دستخطوں کے ساتھ بذریعہ ڈاک حکومت کو پہنچائی جانے لگی یہ سلسلہ جاری تھا کہ میں اقوام متحدہ کی اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک چلا گیا۔ میری غیر حاضری میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل کا تو مجھے کوئی ذاتی علم نہیں کیونکہ اس نوع کی بہت کم کوئی خبر مجھے امریکہ پہنچی لیکن واپسی پر معلوم ہوا کہ یہ تحریک بہت زور پکڑ چکی ہے۔
امریکہ جانے سے پہلے بھی اور امریکہ سے واپسی کے بعد بھی میں نے خواجہ ناظم الدین صاحب کی خدمت میں گذارش کی کہ اگر میرے وزارت خارجہ سے علیحدہ ہوجانے سے آپ کیلئے سہولت ہوجاتی ہے تو میں آپ کی خدمت میں اپنا استعفٰے پیش کردیتا ہوں لیکن خواجہ صاحب نے اسے پسند نہ فرمایا بلکہ کہا کہ تمہارا استعفیٰ دینے سے مشکل حل نہیں ہوگی بلکہ اور بڑھے گی۔ جو صورت حال پیدا کردی گئی وہ ہر چند مجھ پر گراں تھی لیکن >اقامتہ فی امام اقام اللہ< )جہاں اللہ کھڑا کرے وہاں قائم رہنا( کا مقدس ارشاد اور فرض کی ادائیگی کا احساس ترک خدمت کے رستے میں روک تھے۔< ۹
جماعت احمدیہ کے خلاف تین مطالبات
تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب کے فاضل ججوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے >احراریوں نے اس موقعہ سے جس کا وہ مدت سے انتظار کررہے تھے خوب فائدہ اٹھایا۔۱۰ اس سلسلہ میں احرار نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ کراچی میں ہی مختلف علماء کو فوراً جمع کر کے خفیہ مشورہ کیا اور ۲ جون ۱۹۵۲ء کو ایک کانفرنس میں مندرجہ ذیل مطالبات تشکیل دیئے:۔
۱۔ احمدی غیر مسلم اقلیتی قرار دیئے جائیں۔
۲۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ کے عہدہ سے برطرف کئے جائیں۔
۳۔ احمدیوں کو تمام کلیدی آسامیوں سے ہٹا دیا جائے۔
پس منظر
جو مطالبات ایک اسلامی مملکت کے اندر آتش زنی` ہلڑ بازی اور قانون شکنی کی کوکھ سے جنم لیں ان کے صحیح خدوخال کا پہچاننا چنداں مشکل نہیں تاہم مذکورہ مطالبات کے حقیقی پس منظر کو سمجھنے کیلئے پاکستان کے ایک سوشلسٹ ادیب عبداللہ ملک صاحب کا مندرجہ ذیل تجزیہ بہت ممدو معاون ہوگا۔ آپ لکھتے ہیں:۔
>قادیانیوں کے خلاف مجلس احرار کی تحریک کو ایک مذہب تحریک کے طور پر سمجھنے کی کوشش ہمیشہ کی جاتی رہی ہے لیکن تمام تقدس کے باوجود یہ مذہبی تحریکیں سیاسی اور اقتصادی تقاضوں` خواہشات اور ضرورتوں کیلئے اپر کا خول ہوتی ہیں کبھی یہ تحریکیں عوامی خواہشات کا مظرہ بن جاتی ہیں تو کبھی یہ بدترین قسم کے رجعت پسند طبقون کے ہاتھ کا ہتھیار بن جاتی ہیں چنانچہ خود احرار کے قائد بھی اس تحریک کے سیاسی تقاضوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے۔< ۱۱
عبداللہ ملک صاحب کے اس نظریہ کی مکمل تائید خود زعمائے احرار کے مستقل عقیدہ و مسلک سے بھی ہوتی ہے چنانچہ مفکر احرار >چوہدری افضل حق صاحب >فتنہ قادیان< کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں:۔
>لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ احرار کو کیا ہوگیا کہ مذہب کی دل دل میں پھنس گئے یہاں پھنس کر کون نکلا جو یہ نکلیں گے؟ مگر یہ کون لوگ ہیں وہی جن کا دل غریبوں کی مصیبوں سے خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ مذہب اسلام سے بھی بیزار ہیں اس لئے کہ اس کی سار تاریخ شہنشاہیت اور جاگیرداری کی دردناک کہانی ہے۔ کسی کو کیا پڑی کہ وہ شہنشاہیت کے خس و خاشاک کے ڈھیر کی چھان بین کر کے اسلام کی سوئی کو ڈھونڈے تاکہ انسانیت کی چاک دامانی کارفو کرسکے۔ اس کے پاس کارل مارکس کے سائنٹفک سوشلزم کا ہتھیار موجود ہے وہ اس کے ذریعہ سے امراء اور سرمایہ داروں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اسے اسلام کی اتنی لمبی تاریخ سے چند سال کے اوراق کو ڈھونڈ کر اپنی زندگی کے پروگرام بنانے کی فرصت کہاں ؟ <۱۲
احراری لیڈروں نے اسی بناء پر متحدہ ہندوستان میں اعلان کیا تھا:۔
>اسلام کے باغی پاکستان سے نم اس ہندو ہندوستان کو پسند کریں گے جہاں نماز روزہ کی اجازت کے ساتھ اسلام کے باقی عدل و انصاف کے پوگرام کے مطابق نظام حکومت ہوگا یعنی ہر شخ کو صرف رسول کریم~صل۱~ اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ کی زندگی کی پیروی میں محض ضروریات زندگی مہیا کی جائیں گی اور کسی کو کسی دوسر پر سیاسی یا اقتصادی فوقیت نہ ہوگی۔<
>امراء اور سلاطین کو لوٹ کھسوٹ سے لوگوں کو بچانا پیغمبر~صل۱~ کا مشن تھا۔ پس اگر محمد علی جناح اسلام کے اقتصادی اور سیاسی نظام کے خلاف کسی سرمایہ داری کے نظام کو چلائے تو نفع کیا اور اگر جواہرالعل اور گاندھی خلفائے راسدین کی پیروی میں سوسائٹی میں نابرابری کے سارے نقوش کو مٹاتے چلے جائیں تو بطور مسلمان کے ہمیں نقصان کیا؟<۱۳
پھر لکھا:۔
>مجلس احرار کا ہر دستور عمل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کیا جاتا ہے اس لئے پاکستان کے مسئلے پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اسلام دنیا میں کسی قسم کی جغرافیائی تقسیم یا وطنوں کا تعین کرنے نہیں آیا ہم وطنی تقسیم کے قائل نہیں ہم تو صرف ایک ہی تقسیم کے قائل ہیں اور وہ ہے دولت کی منصفانہ تقسیم۔< ۱۴
چیف کمشنر کراچی کی پریس کانفرنس
مندرجہ بالا احراری مسلک و عقیدہ کی روشنی میں ہنگامہ کراچی کا اصولی پس منظر بیان کرنے کے عبد اب ہم اس کے اندرون و بیرون ملک ردعمل کی طرف آتے ہیں اور سب سے پہلے یہ بتاتے ہیں کہ جلسہ کے اگلے روز ۱۹ مئی کو کراچی کے چیف کمشنر مسٹر ابو طالب نقوی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:۔
>انجمن احمدیہ کراچی کے زیر انتظام دو جلسے ہوئے۔ پولیس کی اطلاع کے مطابق ان جلسوں میں گڑبڑ کا اندیشہ تھا اس لئے جہانگیر پارک میں پولیس کی جمعیت تعینات کردی گئی تھی۔ ۱۷ مئی کو حسب معمول گڑ بڑ ہوئی اور جو لوگ گڑ بڑ کے ذمہ دار تھے انہیں گرفتار کر کے تھانے پہنچا دیا گیا۔ اس رات کو جلسہ گاہ میں پتھرائو بھی ہوا تھا جس سے پولیس کے ۲۱ سپاہی زخمی ہوئے۔ گرفتار شدگان کو جلسہ ختم ہونے ے بعد رہا کردیاگیا تھا۔ ۱۸ مئی کو جلسہ گاہ سے باہر ہنگامہ ہوا اور ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کو حکم ہوا اور گیس استعمال کرنا پڑی۔ جس ہجوم کو پولیس نے جہانگیر پارک کے قریب منتشر کیا تھا اس نے شیزان ریسٹورنٹ کے شیشے وغیرہ توڑ ڈالے اور اندر گھس کر فرنیچر کو آگ لگانے کی ناکام کوشش کی۔ اس کے بعد ہجوم نے شاہ نواز موٹرز کمپنی کی دکان کے شیشے توڑے اور احمدیہ فرنیچر اسٹور کو آگ لگادی جس سے ایک ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ کل رات کے ہنگامہ میں کل ساٹھ آدمی گرفتار ہوئے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ہجوم کا رویہ بہت زیادہ قابل اعتراض تھا اور وہ اپنے اس رویہ کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکتے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر پاکستانی کو قانونی حدود میں رہت ہوئے اپنے مذہب اعتقادات پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ قادیانیوں کے ان دونوں جلسوں کی کارروائی پولیس کے رپورٹروں نے قلم بند کی ہے اور اگر مقررین نے اپنی تقاریر میں کوئی قابل اعتراض بات کہی ہے تو حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے گی لیکن کسی شہری کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرے۔ میں یہ تہیہ کرچکا ہوں کہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا چیف کمشنر نے بتایا کہ ان کے پاس جلسے سے کئی روز قبل اس قسم کے تار آئے تھے کہ جلسے میں گڑ بڑ ہوگی اور ان کا خیال تھا کہ اس گڑ بڑ میں کسی جماعت کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا گرفتار ہونے والوں میں مجلس احرار کے چند کارکن ہیں اور اس امر کی تحقیق ہورہی ہے کہ اور کسی جماعت اس میں ہاتھ ہے یا نہیں۔ مسٹر نقوی نے کہا >غنڈوں اور کرایہ کے آدمیون کے ذریعہ ہنگامہ کرایا گیا تھا انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جن اشخاص یا جماعتوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ لوگوں کو اس قسم کا ہنگامہ کرنے پر اکسایا تھا ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی چیف کمشنر نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر کراچی میں ہندو کوئی جلسہ کر کے اسلام پر تبصرہ کریں تو حکومت انہیں اس کی اجازت دے گی ؟ >کہا< ضرور بشرطیکہ وہ قانونی حدود سے باہر نہ جائیں۔< ۱۵
کراچی بار ایسوسی ایشن کا متفقہ بیان
کراچی بار ایسوسی ایشن کے ۴۷ وکلاء نے چیف کمشنر صاحب کراچی کی پالیسی کی تائید میں متفقہ طور پر حسب ذیل بیان جاری کیا:۔
>۱۔ ہم مندرجہ ذیل دستخط کنندگان ممبران انجمن وکلاء کراچی نے بعض معتصب افراد کے نہایت ہی افسوسناک اور ناخوشگوار رویہ اور اس سے پیدا شدہ غنڈہ گردی کے متعلق چیف کمشنر صاحب صوبہ کراچی و دیگر اداروں کے متعدد بیانات پر انتہائی غورو خوض کیا ہے۔
۲۔ پاکستان جو انجام کار ایک خالص اسلامی مملکت یا سیکولر سٹیٹ بنے` اس کا قیام اس بات کی ضمانت اور مسلم لیگ کی یقین دہانی پر ہوا تھا کہ پاکستان مختلف اقلیتوں اور فرقہ جات کے تمام جائز حقوق کی حفاظت کرے گا لٰہذا اب حکومت کا یہ مقدس فرض ہے کہ وہ ان تمام مواعید اور یقین دہانیوں پر کاربند رہے۔ کوئی مملکت اپنی ہستی کے قیام کا ثبوت جھوٹے بیانات اور بہانہ تراشیوں سے نہیں دے سکتی۔
۳۔ ہر قسم کی جمہوریت جس کا دستور تحریری ہو یا غیر تحریری۔ ہر شہری کو بلا لحاظ عقیدہ` رنگ ` مذہب اور ملت تقریر و تحریر جدوجہد اور مذہبی رسومات کی بجا آوری کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے اب ان وعدوں کا احترام نہ کرنا جو اس و قت کئے گئے جب پاکستان جملہ مسلم فرقوں کی متحدہ جدوجہد سے حاصل کیا جارہا تھا ایک اخلاقی اور مذہبی جرم ہے۔
۴۔ ہر اچھی حکومت کا سب سے مقدم کام یہ ہے کہ وہ اپنے آہنی اور مضبوط ذرائع سے لاقانونیت` غنڈہ گردی اور تباہ کن سرگرمیوں کا قلع قمع کرے۔ چاہے وہ کسی شکل میں یا کسی طبقہ سے نمودار ہوں ایسے اقدامات مملکت کے مختلف شہریوں کے دل میں اعلیٰ انتظام مملکت کی بابت اعتماد اور وثوق کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے اور بھی زیادہ ضروری ہیں۔
۵۔ ایک اعلیٰ حکومت کے بقاء کا انحصار صرف اس کے دلکش فلسفہ اور نظریات پر نہیں ہوتا جو اوراق پر مکتوب ہوں یا لاسلکی سے نشر کئے جائیں بلکہ اس کا انحصار ہر فرد چاہے وہ اقلیتی فرقہ سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہو` کے اس درجہ ایقان پر ہے جو اسے ملکی قوانین کی رو سے اپنے اظہار خیالات اور عملی جدوجہد کی ادائیگی کیلئے دیئے گئے قانونی حقوق کے متعلق حاصل ہے۔
۶۔ ہمیں علاقی دارالحکومت میں جو پاکستانی قوم اور اس کے احساس کا مظہر ہے کسی غنڈ گردی کو برداشت نہیں کرنا چاہئے۔
۷۔ اگر مختلف فرقوں کے درمیان جذبات منافرت کو پھیلانے کی اجازت دی گئی تو یہ مملکت کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
۸۔ یہ ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ وقت کی نزاکت اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستان کے شہریوں میں ایسی حالت میں جب کہ ہم دشمنوں سے گھرے ہوئے ہیں اتحاد کے جذبات کی ہمت افزائی کی جائے اور اندرون مملکت ایک مضبوط چٹان کی مانند یک جہتی پیدا کی جائے۔
۹۔ ہر گروہ سے جو کسی حیلہ سے پھوٹ پیدا کرے مذہبی اختلافات کی آگ کو ہوا دے کر انارکی پھیلائے مملکت کے انتہائی خطرناک دشمن کا سا سلوک کیا جائے۔
۱۰۔ ہم عوام سے مستدعی ہیں کہ وہ ہر گمراہ کن تحریک سے اجتناب کریں جو ملک کے اتحاد کو کمزور اور اس کی پرسکون فضا کو زہر آلود کرے۔
۱۱۔ ہم چیف کمشنر صاحب صوبہ کراچی کے امن اور قانون کی برقراری کے سلسلہ میں اختیار کئے گئے طرز عمل اور بیان کی پر زور حمایت کرتے ہیں جو انہوں نے اس مقصد پر قیام امن کے بارے میں دیا ہے۔
دستخط ایڈووکیٹ و وکلاء صاحبان
)۱( سید بشیر احمد رضوی )۲( ثروت حسین )۳( فاروقی صاحب )۴( محمد معجز علی )۵( ایم۔اے حسینی )۶( زیڈ ایچ نقوی )۷( ایس علی حسین )۸( عبدالحکیم خان )۹( ایم خان )۱۰( انعام الحق )۱۱( شیخ عبدالغنی )۱۲( اے` ایچ قریشی سیکرٹری )۱۳( ایس۔ ایم ۔ ایس حسینی )۱۴( ایس حسن علی رضوی )۱۵( آسانند جوشی )۱۶( ایس جعفر حسین )۱۷( ایم۔ آر ۔ عباسی )۱۸( پی` ایف کھلنانی۔ )۱۹( ایس۔ایم احمد )۲۰( مسٹر رضا )۲۱( سید ممتاز الدین )۲۲( قاضی خورشید علی )۲۳( شبیر حسین )۲۴( نصیر حسین )۲۵( آغا علی حیدر )۲۶( محمد علی خاں )۲۷( کبیر الدین خاں )۲۸( محمد جلال الدین )۲۹( فیض الجلیل )۳۰( مسٹر کرمانی )۳۱( پی اے مین والا )۳۲( محمد حسن صدیقی صدر )۳۳( ایس ایم نور الحسن )۳۴( افتخار الدین )۳۵( عبدالمجید )۳۶( حافظ محمد صدیقی )۳۷( ایم نجم الدین قریشی )۳۸( حیدر حسین )۳۹( محمد دائود )۴۰( سید اے رفیق سابق صدر )۴۱( حیات احمد خاں۔ )۴۲( ایم فصیح الدین )۴۳( ایم ایس قریشی )۴۴( عبدالمجید خاں )۴۵( عبدالرئوف )۴۶( سید معزز حسین )۴۷( کے اے قدوائی۔
حادثہ کراچی اور پاکستان کا محب وطن پریس
حادثہ کراچی اور کنونیشن کا ردعمل مغربی پاکستان کے محب وطن اور متین و سنجیدہ پریس پر بھی نہایت شدید ہوا اور نہ صرف کراچی بلکہ دوسری صوبوں کے اخبارات نے بھی اس کی پر زور مذمت کی بلکہ کراچی کے بعض اخبارات نے تو خدشہ ظاہر کیا کہ اس ہنگامہ آرائی کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ کام کررہا ہے اور کسی بیرونی سازش کا نتیجہ ہے۔
مشہور مسلم لیگی راہ نما سردار شوکت حیات کا کہنا ہے >تحریک ختم نبوت بھی ایک سازش کا نتیجہ تھی۔ یہ تحریک مرکزی حکومت کے سی ایس پی افسروں نے چلائی۔<۱۶
ذیل میں بطور نموننہ بعض >اخبارات و رسائل کے تبصرے درج کئے جاتے ہیں۔
کراچی
۱۔ کراچی کے ہفتہ وار اخبار >ایوننگ اسٹار< نے ۲۴ مئی ۱۹۵۲ء کو صفحہ اول پر ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا
Riots> Karachi Directed <Who )کراچی کا بلوہ میں کس کا ہاتھ تھا ؟(
اس مضمون کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
Hand Foreign
Riots Karachi Directed Who
Man)۔Karachi `STAR' (From
sporadic the behind hand foreign some sense here Observers resulted and Conference Ahmadia the greeted that disturbances feature a unpleasantness of much and injuries arrests, several in ۔calm characteristic Karachi's defaced never dah which
rather considered is demonstrations ugly such of time The inspired۔American obviously the after immediately۔۔significant۔flopped miserably so had Tamasha O P M
was O P M the way the about bitter very are Americans The Pakistan in press and public the by only not insulted and ignored to due considered was it of Much ۔Goverenment the by also but ۔Zatrullah ۔Ch Minister, Foreign the
opportunity better a got have not could Americans aggrieved The ۔Minister Foreign the dislike to public the induce to exploit to the of ruins the on almost held being is Conference Ahmadi The ۔dismantling of process the in only still is Pandal O P M The ۔۔O P M had has Zafrullah Chaudhri Park, Jehangir same the in here just And ۔life his in demonstration ever۔hostile۔most the perhaps face to
۔S۔U the perhaps that fact the of evidence increasing is There the playing۔ever are country this in missions and Offices recognsed interntionally the within play to entitled are they part had sah ۔S۔U weeks several last the During ۔diplomacy of sphere the in comment pleasant so not of stream increasing an face to ۔offcial semi or offcial be to considered is what particulary Press,
the at witness to had has Karachi that spectacle The ruliness۔un such was before Never ۔shocking been has Park beenJehangir have charges Lathi and gassing۔Tear ۔city this in seen۔town this to alien parcically
religious a was occasion the that is worse it makes What probably was, inspiration that fact eht from Apart ۔byconference disrupted being conference one of sight ugly the troubleforeign, off ward to vain in trying police and camp hostile another ۔country any of capital the to insult an was
1371 29, Shaban 1952 , 24 May 37, ۔No 2 ۔Vol ۔Exclusive `STAR'
احمدیہ کانفرنس کے دوران جو اکا دکا فسادات ہوئے اور جن کے نتیجہ میں کئی گرفتاریاں ہوئیں۔ کئی لوگ زخمی ہوئے اور ایسے ناخوشگوار اور حالات پیدا ہوئے جن سے کراچی کا پرسکون ماحول کبھی آلودہ نہ ہوا تھا مبصرین سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ کام کررہا ہے۔
ان بدنما مظاہروں کیلئے جو وقت منتخب کیا گیا وہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اور یہ وہ وقت تھا جب کہ امریکی شہ پر منعقدہ O P M تماشا بری طرح ناکام ہوچکا تھا۔
جس طریق پر O P M کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی تذلیل کی گئی۔ نہ صرف عوام اور پریس کی طرف سے بلکہ حکومت کی طرف سے بھی امریکنوں کو یہ بہت تلخ محسوس ہوا ہے۔ غالب خیال یہی کیا جاتا ہے کہ وزیر خارجہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کی وجہ سے ہوا ہے۔
زخم خوردہ امریکنوں کیلئے اس سے بہتر اور کوئی موقع نہ مل سکا کہ وہ عوام کو وزیر خارجہ کے خلاف بھڑکا سکیں۔
احمدیہ کانفرنس کلیت¶ہ O P M کے کھنڈرات پر منعقد ہورہی ہے۔ O P M کا پنڈال ابھی تک گرایا جارہا ہے اور اسی جہانگیر پارک میں ہی چوہدری ظفر اللہ خان کو اپنی زندگی کا بدترین مظاہرہ دیکھنا پڑا۔
اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ امریکن سفارت خانہ اور ان کے قونصل خانے اس ملک میں ہمیشہ وہی کردار ادا کرتے رہے ہیں جو بین الاقوامی سیاست کے حلقوں میں ادا کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے سے امریکنوں کو سرکاری یا نیم سرکاری پریس کی ناخوشگوار تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جہانگیر پارک میں کراچی کو جو نظارہ دیکھنا پڑا وہ سخت وحشت ناک تھا۔ شہر میں اس قدر بے لگامی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ آنسو گیس یا لاٹھی چارج اس شہر میں عملی طور پر کبھی دیکھنے میں نہیں آئے جو بات اسے اور بھی بدتر بنارہی ہے وہ یہ کہ یہ ایک مذہبی کانفرنس کا موقعہ تھا۔ باوجود اس امر کے کہ اس کے پیچھے ایک غیر ملکی ہاتھ تھا ایک بدنما داغ یہ ہے کہ ایک مخالف گروہ ایک کانفرنس درہم برہم کررہا ہے اور پولیس ہنگامہ کو فرد کرنے کی کوشش کررہی ہے جو ایک ملک کے دارالسلطنت کی توہین ہے۔ ۱۷
اسی اخبار نے ۱۹ جون ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں حسب ذیل اداریہ بھی لکھا:۔
ہم نہایت سختی سے ان تمام لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو جہانگیر پارک میں غنڈہ گردی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسلام کو خاص نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان اور پاکستانیوں کی یکجہتی کو برباد کرنا چاہا ہے۔
فرقہ وارانہ مذہبی اختلافات و فسادات اور بغیر مقصد مسلمان کے ہاتھوں مسلمانوں کی جان و مال کی تباہی نے ماضی میں اسلام اور مسلمانوں کو ایک مہیب نقصان پہنچایا ہے اور ایسا رویہ یقیناً ہماری عزیز آزادی کو خطرہ میں ڈال دے گا۔ اسلام نے کبھی بھی اجازت نہیں دی کہ کسی دوسرے پر اپنے خیالات جبر کے ساتھ ٹھونسے جائیں اور متضاد نظریوں کو دلائل اور بات چیس سے حل نہ کیا جائے۔ بدقسمتی سے لوگوں کے ایک طبقے نے تبلیغ کی اہمیت کو نظر انداز کردیا اور اسے ایک ثانوی حیثیت دے کر زیادہ زور عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے پر صرف کیا جارہا ہے۔ سیاسی معروضات اس طبقہ کو تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرنے دیتیں۔ یہ طبقہ دلائل کا جواب تشدد سے دینا چاہتا ہے یہ قابل مذمت ہے اور بدامنی اور قانون شکنی کو ہر گز برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ایسے آدمیوں میں جو خدا تعالیٰ کا پیغام مذہبی جماعتوں کے پلیٹ فارموں سے عوام کو سمجھاتے ہیں اور ان سیاسی گرگوں میں جو مذہبی پلیٹ فارموں کو اپنے مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں امتیاز کیا جائے۔ آخر الذکر لوگ عوام کے مذہبی جذبات کو خطرناک حد تک برکا کر ایسے کام ان سے کراتے ہیں جن سے اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کی عزت پر بٹہ لگتا ہے ایسے لوگوں کو مسلمانوں کو ہرگز کوئی پناہ نہیں دینی چاہئے۔۱۸
۲۔ ہفت روزہ>مسلم آواز< کراچی )۱۹ مئی ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>کل ایک ہفتہ وار میری نظروں سے گذرا جس میں فرقہ قادیانی کی مخالفت میں شرافت سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ مضمون نگار کے مضمون کو دیکھ کر ہر شخص یہ اندازہ لگاسکتا ہے کہ مضمون نگار کو ابھی یہ ہی نہیں معلوم کہ ارکان اسلام کیا کیا ہیں ایسی حالت میں کسی فرقہ کے خلاف قلم اٹھانا ہی نہایت واہیات طریقہ ہے۔ ہم مضمون نگار سے صاف صاف کہہ دینا بہتر سمجھتے ہیں کہ پاکستان تمام فرقوں کا ملک ہے۔ دوسروں پر انگشت نمائی کرنے سے بہتر ہے کہ وہ گریبان خود دیکھے یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے اور تمہارے مقابلہ میں اس فرقہ کا ہر فرد اپنے طریقہ مذہب کا سختی سے پابندی احکام خدا وندی کو بجا لانے والا ہے۔ ہم لوگ نہ تو نماز روزہ کے پابند ہیں۔ اور نہ کسی نیک کام کے عادی صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ باقی اللہ کا نام۔
اس گمراہ کن پراپیگنڈہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ۱۷ مئی کی رات کو جہانگیر پارک کے جلسہ میں ہنگامہ ہوا۔ اول تو ہمارے انڈے پراٹھے والے مولوی دوسرے ہم تعلیم یافتہ اخبار نویس حضرات بلاوجہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں نتائج سے بے خبر رہتے ہوئے ایسا خطرناک پراپیگنڈہ کرتے ہیں جو کسی وقت بھی بجائے فائدہ کے ملک و ملت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ پاکستان میں ہر شخص اور ہر فرقہ کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور رہے گی۔ کیا اچھا ہوتا کہ اگر اسلام کے تمام فرقے قائداعظم کے اصول عمل` اتحاد اور تنظیم پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوشش کریں۔<
۳۔ اخبار >ڈان< انگریزی نے مورخح ۲۰ مئی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
گذشتہ دنوں کراچی میں مسلسل دو روز تک تشدد کا جو شرمناک مظاہرہ ہوتا رہا ہے اسے محض اتفاقی حادثہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس سے تعصب اور قانون شکنی کے اس خطرناک رجحان کی نشان دہی ہوتی ہے جو ملک میں دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان کے مذہبی اور سیاسی زندگی میں مسلمہ خوبیوں کے انحطاط پذیر ہونے اور رواداری کی بجائے قریب قریب لاقانونیت کی سی کیفیت پیدا ہونے کی ذمہ داری ہمارے بہت سے مذہبی اور سیاسی لیڈروں پر عائد ہوتی ہے لیکن ان سے کہیں زیادہ اس صورتحال کی خود حکومت ذمہ دار ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی اصول اور اسلامی اتحاد کی ضرورت اور اس کی اہمیت بیان کنے میں لوگوں کی زبان نہیں تھکتی۔ لیکن عجب ستم ظریفی ہے کہ اس بارے میں کوئی جتنا زیادہ چرب زبان واقع ہوا ہے اتنا ہی وہ رواداری کے اصولوں کو خاک میں ملانے اور لوگوں کو خود تشدد پر اکسانے میں پیش پیش نظر آتا ہے۔ حالانکہ مذہبی آزادی اور رواداری کے جذبات ہی اسلام کی اصل روح ہے۔
رواداری کے اصول کو خاک میں ملنے والے یہ چرب زبان لوگ اسلام اسلام پکارنے کے باوجود مسلمانوں کے درمیان تشتت و افتراق کی خلیج دن بدن وسیع کررہے ہیں اور پھر اس پر استہزائیہ کہ ہماری حکومت جو اپنی ذات میں کلی اختیارات مجتمع کرنا چاہتی ہے ایسی شر پسند عناصر کے بروقت انسداد کے لئے معمولی اختیارات کے استعمال سے بھی گریزاں ہے۔
گزشتہ اتوار کو بے شک حکومت نے سخت قدم اٹھایا اور صورت حال کا مقابلہ کرنے کیلئے کراچی میں پولیس کی کافی جمعیت موجود تھی۔ لیکن اگر ہماری حکومت زیادہ مستعد ہوتی` یا سخت اقدام کیلئے بروقت جرات مندی سے کام لیتی تو یقیناً وہ فتنہ جسے روکنے کیلئے بالاخر یہ سب کچھ انتظامات کرنے پڑے بہت پہلے ہی دبا دیا جاتا۔ یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ حکام اس فتنہ سے جو اندر ہی اندر پرورش پارہا تھا بے خبر تھے یا ان کیلئے چند لوگوں ¶کی نشان دہی ممکن نہ تھی جو اعلانیہ یا درپردہ فتنہ پردازی کی مہم کو ہوا دینے میں مصروف تھے۔ ہمیں اس بحث سے کوئی واسطہ نہیں کہ مذہبی اعتبار سے کس فرقہ کا موقف زیادہ صحیح ہے اور کس کا کم لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک مہذب سوسائٹی میں کسی مذہب یا سیاسی جماعت کے اس حق کا احترام لازمی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کی تبلیغ کرسکے البتہ یہ ضروری ہوگا کہ ایسا کرنے میں مروجہ قانون اور عام ضابلہ کی خلاف ورزی نہ ہو۔
جہاں تک ایک قضیہ کا تعلق ہے` احمدیوں کو پبلک جلسے کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ان کے مخالفین کو ہے۔ اگر یہ حق استعمال کرنے میں ان دونوں میں سے کوئی ایک قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس بارے میں اصلاحی قدم اٹھانا حکومت کا کام ہے نہ عوام الناس کا۔ اسی طرح اگر دوسرے فرقوں کے لوگ بھی اسی طرح ایسے ہی جرم کا ارتکاب کریں تو بھی اصلاح حال کی یہی صورت ہوگی۔ برخلاف اس کے نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ کوئی فرقہ یا گروہ حقیقی یا محض خیال وجہ اشتعال کو آڑ بنا کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس طرح معاشرے کا وجود ہی معرض خطر میں پڑ جائے گا۔ لیکن کیا کیا جائے گا فی مکروہ حد تک پاکستان کے مختلف حصوں میں وایسا ہی کچچھ وقوع میں آتا رہا ہے۔ اس ہفتہ کے واقعات سے قطع نظر پہلے ہی ہم تعصب وعدم رواداری کے اس جذبہ کا بعض نمایاں اور واضح صورتوں میں مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ بعض لوگوں کو کھلم کھلا قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان کا زیادہ سے زیادہ تصور یہ تھا کہ انہوں نے مذہبی امور سے تعلق رکھنے والے معاملات میں اظہار خیال کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیا۔ اسی طرح تقریر و تحریر کے ذریعہ علی الاعلان تشدد کا پرچار کیا گیا لیکن حکومت کمال بے تعلقی سے اس صورتحال کا نظارہ کرتی رہی مذہب کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی بعض عناصر کی جرات کا یہ علام ہے کہ وہ تشدد سے کام لے کر قانون کے پرخچے اڑا سکتے ہیں اور حتیٰ کہ حیطہ اقتدار کو بھی تہ و بالا کرسکتے ہیں۔ کیا یہی وہ طریق ہے جس پر چل کر ہم اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ؟
اس تمام صورت حال کا علاج کیا ہے ؟ اس کا علاج خود معاشرے میں موجود ہے۔ ضروری ہے کہ ہر فرقہ کے افراد اس بڑھتے ہوئے خطرے کو جو ان کی پرامن زندگی کو دن بدن لاحق ہوتا جارہا ہے پوری شدت سے محسوس کریں اور ان عناصر کی قطعاً ہمت افزائی نہ کریں جو مذہب کے نام پر ناجائز انتفاع کی خاطر انہیں آلہ کار بنا رہے ہیں۔ ہمارا پریس اور بالخصوص اردو اور دوسری قومی زبانوں کے اخبارات اس گند کو روکنے میں بڑی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں اس کے سوا بھی چارہ نہیں کہ حکومت فتنہ پردازوں کے خلاف سخت اور موثر اقدامات کرے اور آئندہ اس امر کا انتظار ترک کردے کہ حالات نازک صورت اختیار کریں تو وہ حفاظتی سامان اشک آور گیس اور حکومتی رعب و داب کے نشانوں سے مسلح پولیس کی مدد سے حالات پر قابو پائے۔ یہ زریں دستور العمل کہ >قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں< کتبوں اور طغروں کی شکل میں لکھوا کر وزراء اور دیگر حکام کے کمروں میں آویزاں کر دینا چاہئے بعض لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اونچے منصب داروں اور بعض مذہب کے نام کو اچھال کر ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان ملی بھگت چل رہی ہے وہ تمام لوگ جو اپنے اپنے مخصوص حلقہ میں نمایاں شخصیت رکھتے ہیں یقیناً اس بات کے حق دار ہیں کہ معاشرے میں ان کی عزت و توقیر کو محفوظ رکھا جائے اور بالخصوص جہاں تک حقیقی علماء کا تعلق ہے کوئی ان کے احترام سی روگردانی نہیں کرسکتا۔
اگر ان میں سے کوئی عالم اور بالخصوص پیشہ ور قسم کے وہ ملاں جو روشن دماغی اور بیدار مغزی سے یکسر محروم ہیں اور جن کا کاروبار ہی لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ہے اگر انہیں اس بات کی اجازت دی گئی کہ از خود اقتدار اعلیٰ کی حیثیت اختیار کر لیں اور کوئی ان کے بہکائے ہوئے یا کرایہ پر ملازم رکھے ہوئے کتبوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے بغیر ان کے خلاب لب کشائی نہ کرسکے تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ بین الاقوامی لحاظ سے ہمارے وقار کو پہلے ہی کافی صدمہ پہنچا ہے اس ہفتہ کے واقعات اس میں اور اضافہ کا سبب ہوں گے۔ کیا ہم امید رکھیں کہ خواجہ ناظم الدین صاحب نے جہاں اور بہت سے معاملات کو سلجھا کر اپنے فہم و تدبر کا ثبوت بہم پہنچایا ہے اب بھی مملکت کی کشتی کو تعصب و تنفر کے متلاطم سمندر سے نکال کر امن و عافیت کی بندرگاہ پر جلد واپس آئیں گے۔<
>ڈان< نے ایک اور اشاعت میں لکھا:۔
گزشتہ ہفتہ کے شرمناک واقعات میں جو فتنہ پنہاں تھا وہ اب کسی نہ کسی شکل میں برابر سر اٹھا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بعض عناصر اپنی خطرناک سرگرمیوں سے ابھی دستکش نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی پبلک کو روزانہ مشورہ دینے والے بعض مشیروں )یعنی( اخبارات نے( معاملہ فہی اور سمجھ بوجھ کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ عوامی زندگی کے چشمے برابر زہر آلود کئے جارہے ہیں ان حرکات سے بیرونی ممالک بھی ہمارے قومی وقار کو سخت صدمہ پہنچ رہا ہے۔ کراچی کے چیف کمشنر نے فتنہ پردازوں کو زبردست تنبیہہ کی ہے اور ساتھ ہی حکومت کے اس عزم کا اعلان کیا ہے کہ ان شورش پسندوں کو فتنہ انگیزی کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی فی الحقیقت ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ گزشتہ اتوار کی شب کو سخت اقدامات کئے گئے ان کے متلعق سستی شہرت کے دلدادہ تقریر و تحریر کے ذریعہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ کہیں اس میں شک نہیں ان اقدامات نے ایک حد تک یہ اعتماد بحال کردیا ہے کہ حکومت میں حکمرانی کی صلاحیت موجود ہے لیکن جیسا کہ ہم نے گزشتہ مضمون میں بھی اشارہ کیا تھا یہی نہیں کہ حکومت کو بہت دیر میں ہوش آیا بلکہ خدشہ یہ ہے کہ اس کی یہ بیداری شررنا پائیدار کی طرح دیر پا ثابت نہ ہو۔
چیف کمشنر نے اپنے بیان میں اس امر کا اعتراف کیا کہ حالیہ فساد کرائے کے غنڈوں کے ذریعہ برباد ہوا تھا اگر یہ صحیح ہے تو پھر ضرور ایسے لوگ ہونے چاہئیں جنہوں نے کرایہ پر ان غنڈوں کی خدمات حاصل کیں۔ ہم پوچھتے ہیں ان لوگوں کی نشان دہی کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں ؟ اگر اگر ان کی نشان دہی ہوچکی ہے تو پھر ان کے خلاف کیا کارروائی عمل میں آئی ہے ؟ یہ خیال کرنا عبث ہے کہ ہر قسم کے ہنگامی اور غیر ہنگامی قوانین وضع کر لینے کے بعد حکومت میں اچانک ایک ایسا فطری تغیر رونما ہوا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال سے خود ہی کترانے لگی ہے حقیقت الامر یہ ہے کہ حکومت نے اب تک اس بارے میں کوئی معین پالیسی ہی وضع نہیں کی اور نہ ہی اس میں اتنی ہمت ہے ۔ ہمیں اس امکان بھی نظر آرہا ہے کہ کہیں حکومت ایک مرتبہ پھر بے تعلقی اور لاپرواہی کی اسی رو میں نہ بہہ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت پھر ملک کو لاقانونیت اور نراج سے ہمکنار کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی اور عوام الناس کے جذبات سے کھیلنے والوں کے حوصلے جو پہلے ہی کافی بڑھے ہوئے ہیں اور زیادہ بلند ہوجائیں گے۔ ہمارے نزدیک ایسے خطرناک رجحانات کا سدباب سخت قسم کی مثبت پالیسی سے ہی کیا جاسکتا ہے گاہے گاہے اشک آور گیس استعمال کرنے سے نہیں۔ اگر سردست خاص قسم کے مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں لے جانا اور معمول کے مطابق ان کے خلاف چارہ جوئی کرنا ممکن نہیں ہے تو متعلقہ تعزیری قوانین میں یقیناً ترمیم ہونی چاہئے۔ تعزیرات کا موجودہ مجموعہ برطانوی راج کی یادگار ہے اور ان ہی سے ہم کو ورثہ میں ملا ہے۔ اس میں سے بعض خطرناک جرائم کی سزا کا جنہوں نے بعد میں معین صورت اختیار کی ہے کوئی ذکر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس سے کسی کو اتفاق نہ ہوگا کہ ایسی تشدد آمیز دھمکیاں جن کا مقصد دوسروں پر خاص قسم کے مذہبی یا سیاسی نظریات ٹھونسنا ہو یا دوسرے طبقہ خیال کے لوگوں کو تحریر و تقریر اور تمدنی میل جول کی آزادی سے محروم کرنا ہو جرائم کی فہرست میں شمار ہونی چاہئیں اور وہ لوگ جو اعلانیہ طور پر جرم کا ارتکاب کئے بغیر بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسی لاقانونیتکو ہوا دیتے ہیں انہیں بھی ملزم گرداننا چاہئے۔ اگر موجودہ تعزیری قوانین میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ ان کے تحت ایسے لوگوں پر عدالت میں مقدمہ چلا جاسکے تو جرائم کی از سر نو وضاحت ہونی چاہئے یا نئے جرائم کی تعبین عمل میں آنی چاہئے تاکہ عدالتیں ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں۔ اس کام کیلئے ضروری نہیں کہ میکالے کو قبر سے نکال کر اسی پھر زندہ کیا جائے۔ خود اپنے ملک میں ایسے ماہر قانون دان موجود ہیں جو یہ کام باسانی کرسکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حکومت اس کام کو سرانجام دینے کا عزم کرلے۔ رہا عبوری دور سو اس کیلئے بھی حکومت اتنی بے بس نہیں ہے جتنا کہ اس کے بعض ترجمان اسے ظاہر کرتے ہیں۔
بعض مخصوص قسم کے مذہبی دیوانوں کے ہاتھوں پاکستان کا حال ہی میں مہلک قسم کاجو نقصان پہنچا ہے ان میں سے ایک ملک کے نامور وزیر خارجہ کے خلاف گند اچھالنے کی مہم ہے۔ حالانکہ جہاں تک بیرونی دنیا میں پاکستان کی شہرت اور وقار کو چار چاند لگانے کا سوال ہے موجودہ قائدین میں سے کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ان کو بدنام کرنے کی مہم اگر عاقبت ن اندیش مذہبی دیوانگی کی پیداور ہے تو یہ جذبہ قومی استحکام کیلئے اتنا ہی مضر ہے جتنا کہ یہ خود اسلام کی اصل روح کے منافی ہے۔ ہمارے موجودہ مقاصد کے پیش نظر یہ قطعی غیر ضروری ہے کہ مذہبی مناقشات کا دروازہ کھولا جائے۔ لیکن ہم پورے انشراح کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے الے سیاسی اغراض کے تحت ایسا کررہے ہیں اور مذہب کو محض روغ قاز کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاکہ ان کے اصل مقاصد پر پردہ پڑا رہے۔ کوئی ہوش مند پاکستانی یہ خیال نہیں کرسکتا کہ چوہدری محمد ظفر اللہہ خان کا کسی فرقہ سے تعلق ملک کی خارجہ پالیسی پر کوئی خفیف سے خفیف اثر بھی ڈال سکتا ہے۔ ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کی خارجہ پالیسی یا اس کی خامیون پر نکتہ چینی کرے اور اگرچہ خارجہ پالیسی اور اس کی جزئیات کی تمام تر ذمہ داری مجموعی طور پر کابینہ پر عائد ہوتی ہے پھر بھی وزیر خارجہ کی حیثیت میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو زیر تنقید لایا جاسکتا ہے لیکن ان کو بدنام کرنے والوں کا طرز عمل یہ نہیں ہے۔ وہ حملہ کرنے میں حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔ چوہدری صاحب کے اپنے خیالات خواہ کچھ ہی ہوں لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ امر ان کیلئے موجب اطیمنان ہوگا کہ ان کو بدنام کرنے والے اہل دانش کی نظر میں خود اس قابل نہیں ہیں کہ انہیں منہ لگایا جائے۔ قوم ان لوگوں کے حق میں جو پورے خلوص اور انہماک کے ساتھ اس کی خدمت کررہے ہیں اتنی ناشکر گزار نہیں ہوسکتی کہ وہ معدو دے چند رجعت پسندوں کی غوغہ آرائی سے گمراہ ہوجائے اور پھر ان گنے چنے لوگوں کی غوغہ آرائی سے جو جہالت کے محدود متعفن ماحول میں پھنسے ہوئے ہیں اور کنوئیں کے مینڈک کی طرح ساری کائنات کو اس تک ہی محدود سمجھتے ہیں۔<۱۹body] [tag
tav.13.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
جلسہ کراچی سے لیکر حضرت مصلح موعودؓ کے وضاحتی اعلان تک
۴۔ اخبار >سندھ آبزرور< )۲۰ مئی ۱۹۵۲ء( میں حسب ذیل نوٹ شائع ہوا:۔
>جماعت احمدیہ کے جلسہ سے بہت سے اہم امور ہمارے سامنے آگئے ہیں جن کا فیصلہ عوام کے ذہنوں سے الجھن دور کرنے اور ایسے واقعات کے سدباب کیلئے اسی وقت کرنا ضروری ہے۔ اس کی وجہ اس ضرورت سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری مجلس دستور ساز کی مقرر کردہ سب کمیٹی بنیادی اصول کی تدوین کررہی ہے۔ لٰہذا یہ فیصلے اس رہنمائی کیلئے بہت ممد ثابت ہوں گے۔ سہولت کیلئے ان امور کو دو حصوں میں منقسم کردینا چاہئے ایک وہ جو خاص اس وقعہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے جن کا اثر مستقبل پر پڑنے والا ہے۔ جہاں تک موجودہ حادثہ کا تعلق ہے دو نظریے ہمارے سامنے ہیں۔ جماعت احمدیہ کا دعویٰ ہے کہ قرار داد مقاصد کے مطابق )جس کی تشریح لیاقت علی مرحوم نے ۷ مارچ ۱۹۴۹ء کو کی( ان کو جلسے کرنے اور اپنے خیالات کے اظہار و اشاعت کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ جلسہ حکام متعلقہ کی اجازت کے ساتھ خاص پنڈال میں منعقد کیا گیا تھا۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ احمدیوں کے خیالات سے ان کے جذبات مجروح ہوں گے وہ جلسہ میں شرکت کیلئے مجبور نہ تھے چنانچہ ہجوم کا متشددانہ رویہ قانون کی خلاف ورزی ہے لٰہذا ان کے خالف موثر کارروائی ہونی چاہئے۔ برعکس اس کے علماء کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو اس قسم کے جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی۔ قادیانیوں کے عقائد مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں اور ان کی اشاعت سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں جلسہ میں جو تقریریں کی گئیں وہ اشتعال انگیز تھیں۔ پولیس کا اقدام اس اشتعال انگیزی میں اضافہ کا باعث ثابت ہوا۔ چند قادیانیوں کیلئے سولہ لاکھ مسلمانوں کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں اس لئے ان کو اقلیت قرار دیا جائے۔ گرفتار شدگان نے چونکہ مشتعمل ہو کر ہنگامہ برپا کیا اس لئے انکو رہا کیا جائے۔ ان ہر دو قسم کے خیالات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور ناقابل اتفاق ہیں۔ جہاں احمدی اپنے خیالات کو آزادانہ استعمال کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور تشدد کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کو ضروری خیال کرتے ہیں وہاں دوسری طرف علماء کا یہ فتویٰ ہے کہ احمدیوں کو عام جلسی کرنے اور اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں کیونکہ اس سے اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں لٰہذا جنہوں نے ان کے جلسہ میں تشدد کیا ہے ان کو رہا کیا جائے۔ ان حالات میں حکومت کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے:۔
۱۔ کیا وہ فرقے اور مذاہب جو اکثریت کے خلاف عقائد رکھتے ہیں اس بات کے مجاز ہیں کہ وہ اپنے عقائد کی آزادانہ تبلیغ کریں خواہ اس سے اکثریت کے دل مجروح ہی کیوں نہ ہوں ؟
۲۔ برعکس اس کے کیا اکثریت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقلیت کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اپنے خیالات` معتقدات کی اشاعت کریں۔
۳۔ حضرت رسول~صل۱~ کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو حکومت قانونی حیثیت دے گی اور جو نہ مانے گا اس کے خلاف تعزیری کارروائی کرے گی ؟
۴۔ کیا حکومت کا مذہب اسلام ہے اگر ایسا ہے تو وہ کس فرقہ سے اپنے آپ کو وابستہ اور کون سے فقہ پر عمل کرے گی۔ کیا وہ کسی خاص فرقہ اور فقہ کی تائید کرے گی ایسی صورت میں کیا مخالف فقہ رکھنے والوں کو ریاست کے فقہ کی آزادانہ مخالفت کرنے کا حق دیا جائے گا ؟
۵۔ کیا حکومت ایسے معاملات میں اکثریت کی اتباع کرے گی یا اپنے خیالات کو خواہ وہ اکثریت کے خیالات کے خلاف ہوں نافذ کرے گی ؟
۶۔ مذہب کے معاملہ میں قرار داد مقاصد کے تحت عطا کردہ حقوق کی کونسی حدود مقرر کی جائیں گی ؟
۷۔ متنازعہ فیہ امور کے تصفیہ کیلئے کونسا ذریعہ مقرر کیا جائے گا ؟
مندرجہ بالا امور کا فیصلہ صاف صاف ہونا چاہئے اور لوگوں کے حقوق شہریت کی حدود متین کردینی چاہئے۔ تذبدب اور قائل سے اور زیادہ الجھنیں پیدا ہوں گی جس سے بسا اوقات خود حکومت کی اپنی پوزیشن نازک ہوجائے گی۔ قرار داد مقاصد اور لیاقت علی خاں صاحب مرحوم کے بیان میں صرف اجمالی طور پر ان اصولوں کا خاکہ کھینچا گیا ہے اور تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ وہ خلاء ہے جس سے یہ تمام تر الجھنیں پیدا ہورہی ہیں جتنی جلدی اس خلا کو پورا کردیا جائے گا اتنا ہی ہماری مملکت کیلئے مفید ہوگا۔ بالاخر ہم پھر یہ تجویز کرتے ہیں کہ جہانگیر پارک میں جلسہ کے دوران میں جو ہنگامہ ہوا اس کی پوری پوری تحقیقات کی جائے اور قانون کے مطابق جو بھی اس کا ذمہ دار ہے خواہ وہ احمدی ہو یا غیر احدی اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ساتھ ہی جن لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور اشتعمال کے عذر کو عدالت کے فیصلے پر چھوڑا جائے۔
۵۔ >سول اینڈ ملٹری گزٹ< کراچی کے ۱۹ مئی ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں >سیہ کاری< کے تحت ایک مقالہ افتتاحیہ شائع ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے۔
)۱۷۔ مئی کو( ہفتہ کے روز ایک بے لگام ہجوم نے جہانگیر پارک میں احمدیوں کے جلسہ پر زبردست ہلہ بول دیا اور منہ میں کف لا لا کر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے خلاف نعرے لگائے۔ ان کے اس طرز عمل نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ مذہبی تعصب کا مکروہ جذبہ جو ذہنی اور روحانی آزادی کے حق میں زہر کا درجہ رکھتا ہے ظلم روا رکھنے میں کیا کچھ گل نہیں کھلا سکتا۔ ظاہر ہے کہ ہجوم نے تشدد اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ اس لئے کیا کہ وہ بعض مخصوص روحانی اور اخلاقی نظریات کے پبلک اظہار اور خارجہ پالیسی کا تعلق ہے ہمیں صف اول کی چند نامور ہستیوں میں سے ایک ہستی کی راہنمائی اور نگرانی حاصل ہے جس کو بجا طور پر ایشیا بھر میں علم و دانش اور فہم و فراست کا مظہر قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس سر پھرے ہجوم نے یہ نعرے بلند کئے کہ >قادیانی برطانیہ کے ایجنٹ ہیں< ظفر اللہ کو وزارت خارجہ سے الگ کردو< اور ساتھ ہی پرامن جلسہ پر پتھرائو بھی کیا۔ ان کی یہ نعرہ بازی اور شرہ پستی ان کے اس خوفناک رجحان کو بے نقاب کررہی تھی کہ وہ لوگوں کو اتنی بھی آزادی دینے کے روادار نہیں ہیں کہ وہ مظاہرین کے مخصوص عقائد و نظریات کے سوا کوئی اور عقیدہ یا نظریہ اختیار کرسکیں ہمیں احمدیت یا کسی دوسرے فرقے کے مذہبی معتقدات کے متعلق بحث کی ضرورت نہیں۔ البتہ مسلمہ طور پر ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جلسوں وغیرہ کے ذریعہ اپنے مخصوص مذہبی عقائد و نظریات کی تبلیغ کرسکے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ملائیت ہر قسم کی انفرادی اور اجتماعی آزادی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے پر کمر بستہ ہوچکی ہے اور اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اس نے ضروری خیال کیا ہے کہ پوری طرح مسلح ہو کر علی الاعلان میدان میں نکل آئے۔ ہمارے ملک میں ملا ازم کا فریب ان لوگوں پر باسانی چل جاتا ہے جو احیائے دین کے تو دل سے حامی ہیں لیکن ان کے ذہنوں میں اس کی ماہیت اور اہمیت کا صرف ایک مبہم سا تصور ہے۔ جہاں تک اس کے مالہ و ما علیہ کا تعلق ہے مذہبی تعصب نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے اور وہ اس کے صحیح جذبات سے بالکل عاری ہیں۔ ایک جمہوری حکومت شخصی آزادی کی اس حد تک اجازت نہیں دے سکتی کہ لوگ فساد برپا کر کے فرقہ دارانہ امن کو خاک میں ملا کر رکھ دیں۔ حکومت کے قیام کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ وہ امن کو برقرار رکھے۔ بالخصوص وہ اس ذمہ داری کو تو کبھی فراموش کر ہی نہیں سکتی کہ وہ مذہبی اور سیاسی اعتبار سے ہر طبقہ خیال کے لوگوں میں اعتماد پیدا کرے کہ وہ اپنے خیالات کا پوری آزادی اور بے باکی سے اظہار کرسکتے ہیں اور ایسا کرنے میں انہیں تشدد آمیز دھمکیوں اور مظاہروں کے خلاف قانون کی پوری پوری حمایت حاصل ہوگی۔ جمہوری خیالات کی صحت مند نشوونما کیلئے ضروری ہے کہ قانوناً شخصی آزادی کی حدود تعین کردی جائیں اور باقاعدہ ان کی وضاحت کر کے ہر قسم کا اوہام دور کردیا جائے۔
شخصی آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جاسکتا کہ انسان اپنے نظریات اور رجحانات کو دوسروں پر بالجبر ٹھونسنے کی کوشش کرے کسی کو بدگوئی اور تذلیل و تحقیر کی اجازت دینا جمہوری آزادی کے یکسر منافی ہے۔ اس سے جہاں دوسروں کی آزادی رخنہ پڑتا ہے وہاں جماعتی تحفظ اور مفاد عامہ کو بھی سخت نقصان پہنچتا ہے۔
مظاہرین نے ایک ایسی ہستی کو ہدف ملامت بنایا جو ان اسلامی نظریات پر صدق دل سے ایمان رکھنے میں کسی دوسرے سے پیچھے نہیں ہے جن کا یہ مظاہرین خود اپنے آپ کو علمبردار سمجھتے ہیں اور پھر اسے شاندار قومی و ملی خدمات کی وجہ سے بیرونی دنیا میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے ایسی قابل قدر شخصیت کے خلاف بدگوئی سے کام لے کر احسان فراموشی کا انتہائی شرمناک مظاہرہ کیا۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے جو اس وقت اقوام عالم میں دنیائے اسلام کے عظیم ترین سیاستدان تسلیم کئے جاتے ہیں پاکستان کی خدمت بجا لانے میں حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سامنے ملک کا معاملہ پیش کرنے کا سوال ہو یا مسلمان قوموں کے نظریات و مقاصد کو فروغ دینے کا مسئلہ امن عالم کے قیام کا تذکرہ ہو یا دنیا کی پسماندہ قوموں کے حق خود اختیاری کی تائید کا ذکر بہرحال جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے انہوں نے پاکستان کی عظمت و وقار میں وہ گرانقدر اضافہ کیا ہے کہ جس کی مثال ملنی محال ہے۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں اورنادر روزگار مدبرین میں سے ایک ہیں جن کی سیاسی پیش بنیوں میں روحانی بصیرت کا عنصر نمایاں طور پر غالب نظر آتا ہے۔ ایمان و یقین اور باطنی پاکیزگی کے باہمی امتزاج نے ان کے ضمیر اور قول و فعل میں کامل مطابقت پیدا کردی ہے وہ موجودہ وقت کے الجھے ہوئے سیاسی مسائل کو مذہبی عرفان کی مدد سے حل کرتے ہیں لیکن ان کی باطنی معرفت اور روحانی بصیرت نام نہاد صوفیاء کی کرامات اور فاسد قسم کے مذہبی جنون سے یکسر پاک ہے تاریخ کے گہرے مطالعہ اور دور بینی کی خداداد صلاحیت نے ان کے نقطہ نظر میں ایسا توازن پیدا کردیا ہے جو بلاشبہ کمال کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔
ایک ایسا شخص جس کی باطنی تربیت کا معیار بے حد بلند ہو جس میں عجز و انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو جس کی حب الوطنی اور جس کا جذبہ وفاداری حد درجہ پختہ اور مستحکم ہو اور جو کمال خاموشی سے تعمیر ملت میں ہمہ تن کصروف ہو ایسے شخص کیلئے دل میں محبت و اخلاص اور احسان مندی کے گہرے جذبات کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس پر >برطانیہ کا پٹھو< ہونے کا الزام لگانا حق و صداقت کا خون نہیں تو اور کیا ہے۔ )اس کے سوا کیا کہا جائے کہ( اس الزام تراشی کا کوئی فاسد اور بدنما داغ ہی مرتکب ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا واجب التعظیم شخص بھی حاسدوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکتا تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ پر ہونی صورت حال اس دور میں انسانی سیہ کاری کی انتہائی پست ہالت پر دلالت کرتی ہے۔<
۶۔ اخبار >نئی روشنی< نے اپنی ۲۵ مئی ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
>۱۷ مئی اور ۱۸ مئی کو کراچی میں فرقہ احمدی کے جلسے منعقد ہوئے۔ ان جلسوں میں جو ناخوشگوار واقعات پیش آئے اس قدر شرمناک ہیں کہ کوئی شخص تردید کی جرات نہیں کرسکتا۔
فرقہ احمدیہ آج سے نہیں برسوں سے اس برصغیر ہندو پاکستان میں موجود ہے اور اس فرقہ کے عالم وجود میں آنے سے لے کر آج تک سینکڑوں مناظرے احمدیوں اور عام مسلمانوں کے درمیان ہوئے۔ اختلافات پیدا ہوئے۔ سوال و جواب کے سلسلے جاری ہوئے لیکن کوئی غیر سنجیدہ اور تکلیف دہ قسم کا حادثہ پیش نہیں ایا بلکہ ہر موقعہ پر ضبط و نظم کا خیال رکھا گیا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
احمدیوں کے متذکرہ جلسہ سے کچھ ہی دن قبل رام باغ میں ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں فرقہ احمدیہ کے خلاف انتہائی زہر افشانی کی گئی تھی مگر انجلسوں میں کسی قسم کا کوئی ہنگامہ نہیں ہوا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو جلسہ کا نظم و نسق برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ احمدیوں نے انتہائی صبر و سکون کے ساتھ جلسہ کی کارروائیوں کو جاری رہنے دیا۔ کوشش یہ کی کہ ان کا کوئی فرد اس میں شریک نہ ہو اور اگر شریک ہو بھی نہایت صبر و سکون کے ساتھ جلسہ کی کارروائی کو سنے۔ اس کے برعکس احمدیوں کے جلسہ میں چند شر پسند عناصر نے مجمع کو اکٹھا کر کے ایسے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے کی کوشش کی جو انتہائی شرمناک متصور ہوتے ہیں۔ ہم ان حضرات سے براہ راست مخاطب ہو کر یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر ان میں مخالفانہ نظریات کو سننے کی جرات نہیں تھی تو وہ جلسہ گاہ میں شرکت کی غرض سے گئے کیوں ؟ اور یہ کہ کیا اختلافات کو مٹانے اور اپنے نظریات کو سمجھانے کا یہی طریقہ کار ہے ؟ کہ شہر میں بدامنی پھیلا دی جائے اور دکانوں اور ہوٹلوں کو آگ لگادی جائے ؟
اس ہنگامہ میں شیزان ریسٹورنٹ احمدیہ فرنیچر مارٹ اور شاہنواز لمٹیڈ کو آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سمجھ کر کہ یہ سارے ادارے احمدیوں کی ملکیت ہیں ان داروں کو آگ لگا کر عام مسلمانوں نے جس غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ حرکت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کی گئی ہے اور ہم وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس میں کسی کا ہاتھ ہے یا عوام نے خود ایسا کیا ہے؟ لیکن صرف اس قدر کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ ہوا نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ہمیں عوام کے جذبات کا احترام ہے لیکن ہم کسی ایسی حرکت کی اجازت نہیں دے سکتے جس سے پاکستان کا امن خطرے میں پڑے اور نہ ہی ہمیںیہ توقع رکھنا چاہئے کہ کوئی پاکستانی پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔
اس ناخوشگوار واقعہ سے کوئی اور نتیجہ برآمد ہو یا نہ ہو۔ یہ تلخ حقیقت ضرور سامنے آتی ہے کہ کراچی میں ایک بھی ایسی شخصیت نہیں ہے جو عوامکو ایسے موقعوں پر صحیح راہ دکھا سکے۔ کراچی میں عوام کے محبوب قائدین کا کال شہید ملت کی یاد کو اور تازہ کررہا ہے ہمیںیقین ہے کہ آج قائد ملت لیاقت علی خاں زندہ ہوتے تو پولیس کو اشک آور گیس اور لاٹھی چارج کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ان کا صرف ایک جملہ عوام کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کافی ہوتا۔ بلکہ ہم اس قدر کہنے کیلئے تیار ہیں کہ ان کی موجودگی میں ایسا واقعہ سرے سے رونما ہی نہ ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ ہمارے درمیان سے دانستہ طور پر ہٹا دیئے گئے جن کے بعد ایسا واقعہ پیش آگیا اور وہ بھی پاکستان کے دارالخلافہ میں جس کے متعلقہ یہ اندیشہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ آگ کہیں دوسرے شہروں میں نہ پہنچ جائے اس لئے کہ وہ جو چیز مرکز سے شروع ہوتی ہے وہ دوسرے شہروں میں ضرور پھلنے پھولنے کے مواقع تلاش کرتی ہے۔
ہمیں سب سے زیادہ حیرت تو اس امر پر ہے کہ مرکزی وزراء میں سے کسی نے اس واقعہ سے دلچسپی نہیں لی۔ یقیناً مرکزی کابینہ میں ایک دو شخصیتیں ایسی بھی موجود ہیں جن کی قدر و منزلت عوام کی نظر میں بے انتہا ہے اور جن کو عوام کا اعلیٰ ترین اعتماد حاصل ہے۔ اگر اس وقت مسلم لیگ زندہ ہوتی اور سرکاری جماعت نہ بن چکی ہوتی تو ایسے موقعوں پر صدر مسلم لیگ کے فرائض نہایت اہم مسلم لیگ کے پرانے کارکن۔ آج اگر میدان عمل میں ہوتے تو یقیناً پاکستان کی اس قدر بے عزتی نہ ہوتی۔ افسوس کہ علماء اسلام بھی اپنے گھروں میں بیٹھتے رہے بلکہ ہم تو اس خیال کے حامی ہیں کہ اس واقعہ نے مذہب اسلام کو بدنام کیا ہے کیونکہ آج عام مسلمانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی اختلافی نظریہ کو سننے کی اہلیت نہیں رکھتے اور مخالفین کیلئے کیچڑ اچھالنے کا موقعہ فراہم کردیا گیا ہے۔ کیا ہم اپنی حکومت سے توقع رکھیں کہ وہ اس ناخوشگوار واقعہ کے سلسلہ میں نہایت سخت اقدام سے بھی گریز نہیں کرے گی ؟ اور اس فتنہ کے اٹھانے والوں کو انتہائی عبرتناک سزائیں دے کر ملک میں اس آگ کو پھیلنے سے روک دے گی۔ ہمیں خواجہ ناطم الدین وزیراعظم پاکستان سی قوی توقع ہے کہ وہ اس شرر کو کچلنے کیلئے ہر ذریعہ استعمال کریں گے اور ان >مولویوں< کے فتنہ کا قلع قمع کردیں گے جنہوں نے غیر منقدم ہندوستان میں مسلمانوں کو آپس میں لڑائو کو مسلم خون کی ارزانی کا ثبوت دیا تھا۔ اگر پاکستان میں غیر مسلم ہندوستان کی فرقہ وارانہ روایات کو دہرایا گیا تو ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان تباہ ہوجائے گا۔
عام مسلمانوں کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے ان کو سوچنا چاہئے کہ جن شر پسندوں نے یہ حرکت کی ہے کیا انہوں نے احمدیت کے قلع قمع کرنے کا یہ صحیح راستہ اختیار کیا ہے۔ کہاں ہیں مفتی محمدشفیع صاحب` کدھر ہیں سید سلیمان ندوی ` مولانا احتشام الحق اور صدر پاکستان مسلم لیگ کہاں ہیں ؟ یہ سب کیوں نہیں اس موقعہ پر پہنچے ؟ اور کہاں ہیں کراچی مسلم لیگ کی صدارت کے امیدوار۔ اگر یہ سوچی سمجھی تجویز اور پروگرام نہیں ہے تو برانگیختہ مسلمانوں کو کیوں نہیں سمجھایا گیا کیا اسے عوام حکومت کے پاس گیس مارنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا۔ شرپسندوں کو سمجھانے کی ضرورت تھی اگر ان کو کوئی عوامی شخصیت سمجھانے ولای ہوتی تو یہ ہنگاہ اس قدر شدید صورت اختیار نہ کرتا۔ ہم ان افراد کی جنہوں نے اس میں حصہ لیا ہے یا جنہوں نے اس کا پروگرام بنایا ہے سخت مذمت کرتے ہیں۔<
۷۔ ہفت روز >پیام مشرق< )۸ جون ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>پاکستان کا باشعور طبقہ بہت عرصہ سے یہ سوچ رہا ہے کہ مملکت اسلامیہ دولت خداداد پاکستان کا کیا مفہوم ہے اور اسلامی حکومت کا نعرہ کمزور حکومت کے ایوانوں میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ کیا اسلامی حکومت سے مراد ایک ایسا نظام ہے جہاں صرف مولانا بدایوانی ہی شہریت کے پورے حقوق کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں یا قرار داد مقاصد کی چھائوں میں سوامی کلجگانند بھی پاکستان کے شہری ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں ؟
آج پانچ سال کے بعد یہ سوال اس وجہ سے اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ شہرت و اقتدار کے بھوکے پاکستان کے نام نہاد ملا اور مولوی پاکستان کی سالمیت کیلئے ایک مستقل خطرہ بن کر اس کے سامنے آگئے ہیں اور آج ہی ہمیںیہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس اجتماعی قومیت کو باقی رکھنے کیلئے ہمارا ¶آئندہ قدم کیا ہونا چاہئے۔
احمدیہ عقائد سے ہمیں شدید اختلاف ہے اور ہم کبھی بھی ان کے ہمنوا نہیں ہوسکتے لیکن پچھلے دنوں جہانگیر پارک کراچی میں سالانہ کانفرنس میں شر پسند عناصر نے اسلامی حکومت کا نام لے کر جس طرح قرار داد مقاصد کو ننگا کیا ہے ساری دنیا کی جمہوریت پسند انسانوں کی نگاہ میں اسلام ایک متعصب ملا کا ایک پرفریب سیاسی عقیدہ بن کر رہ گیا ہے۔
اسلام دنیا کے ہر انسان کیلئے امن اور خوشحالی کا پیغام لے کر آیا تھا۔ پاکستان کے ان تنگ نظر اور مفاد پرست ملائوں نے اس مقدس تعلیم کو محض کارخانوں اور وزارتوں کی ہوس میں بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ہے۔ ۲ جون ۱۹۵۲ء کو >آل مسلم پارٹیز کنونشن< کے نام سے تھیاسوفیکل ہال کراچی میں علماء کرام کا ایک جلسہ منعقد ہوا۔ کارکنان جلسہ میں بہت سے ایسے علماء کے نام بھی درج ہیں جن کی مذہبی خدمات آج کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں اور برصغیر پاک و ہند کا ہر مسلمان ان کا ذکر آنے پر عقیدہ سے سرجھکا دیتا ہے۔ ہم ان کے تقدس اور علمیت کا پورا احترام کرتے ہوئے ان سے یہ دریافت کرنے کی جرات ضرور کریں گے کہ احمدیوں کے مذہبی عقائد کچھ بھی ہوں لیکن وہ پاکستان کے آزاد شہری ہیں یا نہیں ؟
اگر اسلامی جمہوریت کے اصولوں کے تحت ابوسفیان اور اس کے ساتھیون کو فتح مکہ کے بعد مکہ کی آزاد شہریت فراغ دلی سے بخشی جاسکتی ہے تو احمدیہ عقائد کے پرو تو پھر بھی خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں۔ ویسے وہ بھی اگر سر ظفراللہ کی سرخ ٹوپی کو نعوذ باللہ خدا مان لیں تو بھی پاکستان دنیا کے نقشہ پر کعبہ بن کر نہیں بلکہ ایک آزاد جمہوریت بن کر ابھرا ہے۔
کسی پاکستان کے ٹھیکیدار یا مذہب کے رکھوالے کو یہ حق حاصل نہیںہے کہ ان کو محض احمدی ہونے کی بناء پر پاکستان کا غڈار قرار دے دے۔ پاکستان کے اصل غدار لمبی عبائیں قبائیںپہنے ہوئے وہ دشمنی اسلام افراد ہیں جو لاکھوں پاکستانی شہریوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کر کے انہیں پانچویں کالم والوں کی ایک بڑی فوج بنا دینا چاہتے ہیں۔
آل مسلم پارٹیز کنونشن نے ایک قرار داد کے ذریعہ مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان ممالک اسلامیہ اور کشمیر کے مفادات کے پیش نظر وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو کابینہ سے فوری علیحدہ کردیا جائے کیونکہ وہ پاکستان اور ہندوستان کو دوبارہ اکٹھا بنانے پر عقیدہ رکھتے ہیں۔
کیونکہ نہیں قائداعظم یا قائد ملت کی زندگی میں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ تمہارا انتخاب غلط ہے اور وزیر خارجہ کی وفاداری مشکوک ہے ؟ شاید وجہ یہ ہو کہ ان قائدین کے آہنی ہاتھوں کا شکنجہ مضبوط اور ایک مولانا چند ماہ جیل میں رہ کر اور انتہائی گریہ وزاری کے بعد معافی مانگ کر یہ سمجھ چکے تھے کہ بین الاقوامی سیاست اور ملائی ذہنیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن آنر بیل خواجہ ناظام الدین کی اس وزارت میں جہاں عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے` انہیں بدامنی کی تلقین کرنے اور امن کی بحالی پر پولیس کے رویہ پر قرار داد مذمت منظور کرنے والے شر پسند کو پاکستانی دشمن کے الزام میں گرفتار نہیں کیا جاتا وہاں قائداعظم کے زمانہ کا زمین و آسماں والا فرق خودبخود ایک سراب میں تبدیل ہوجانا چاہئے تھا چنانچہ آل پارٹیز کنونشن کی ساری قرار دادیں اس سراب ک پس منظر ہی پر پیش کی گئیں اور اگر حکومت کو اب بھی ہوش نہ آیا تو ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے اور خود مستفید ہونے کیلئے یہ نام نہاد علماء ایک اتنا بڑا ہنگامہ شروع کرادیں گے کہ پولیس کے اشک آور گیس کے گولے بھی کوئی مدد نہ کریں گے۔
پاکستان دشمن ملالئوں کی نظر میں سر محمد ظفر اللہ اور احمدیہ فرقہ کے لاتعداد پیرو محض اس وجہ سے پاکستان کے غدار قرار دیئے گئے ہیں کہ وہ آنحضرت~صل۱~ کی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے احمدیہ فرقہ کے مذہبی عقائد سے پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کو اختلاف ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ ہم اعلان کردیں کہوہ تمام فرقے جو ہمارے مذہبی عقائد کو تسلیم نہیں کرتے قابل گردن زدنی ہیں اور ان پر کسی طرح اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
کل یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ شیعہ فرقہ کے مذہبی عقائد سے پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کو اختلاف ہے لٰہذا ان کے کسی آدمی کو پاکستان کا کوئی اہم عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح آغا خانی` مہدوی ` ذکری` ہندو` عیسائی` پارسی اور وہ تمام لوگ جو اپنی اجتماعی جدوجہد اور پوری توانائی سے پاکستانقومیت کی تخلیق کررہے ہیں پاکستان کے غدار قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ ہم حکومت سے پر زور مطالبہکرتے ہیں کہ قبل اس کے کہ تعصب کی یہ آگ بھڑک کر اپنے ہی گھر کو جلا ڈالے اس کے خلاف سخت انسدادی تدابیر اختیار کی جائیں۔
سر چوہدری محمد ظفر اللہ وزیر خارجہ پاکستان کے خلاف عام طور پر انگریز نوازی کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے ہمیں انتہائی افسوس ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ کابینہ سے چوہدری سر ظفر اللہ کی علیحدگی کا پر زور مطالبہ کر کے یہ سمجھ لیتا ہے کہ سر ظفر اللہ کی علیحدگی سے انگریز نوازی ختم ہوجائے گی۔
سر ظفر اللہ کی خارجہ پالیسی خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ کی خارجہ پالیسی ہے۔ مرکزی حکومت جس حکتم عملی کا تعین کرتی ہے وزیر خارجہ پاکستان ان بنیادوں پر اپنی تقاریر کا خاکہ تیار کرتے ہیں۔
یہ تو انتہائی بچپن ہوگا کہ ہم سامنے کی چیزوں کو دیکھ کر بھڑک اٹھیں اور ان اندرونی دھاروں سے چشم پوشی اختیار کریں جو ان حالات کی اصل ذمہ دار ہیں۔
۷۔ ہفت روز >شیراز< )۲۶ مئی ۱۹۵۲ء( نے زیر عنوان >کراچی کا ہنگامہ< لکھا:۔
>قادیانی جماعت کے سالانہ اجتماعات کے موقع پر کراچی میں جو ہنگامہ ہوا ہے اس نے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو واضح کردیا کہ جب تک تنگ نظر متعصب مذہب باغیوں کو ڈھیل دی جاتی رہے گی پاکستان کی سالمیت خطرے میں رہے گی۔ کراچی کے بعض علمائے اسلام کا بیان ہے کہ اس ہنگامہ کا سبب قادیانی جماعت کی دل آزار اور اشتعال انگیز تقریریں تھیں۔ اور مسٹر ابو طالب نقوی چیف کمشنر کا اعلان یہ ہے کہ ہنگامہ ایک منظم سازش کے ماتحت کرایا گیا۔ اور اگر پولیس کی پوری طاقت استعمال نہ کی جاتی تو خدا جانے قادیانیوں کے خلاف یہ گڑ بڑ کیا رخ اختیار کرتی ؟ نقوی صاحب نے اپنے بیان میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ اس ہنگامہ کی وسعت اور اس کے پس منظر کی طرف اشارے کئے ہیں چیف کمشنر کے وضاحتی بیان کی تردید مفتی محمد شفیع مولانا احتشام الحق` مفتی جعفر حسین )رکن پارلیمنٹ( اور مولانا لال حسین اختر نے کی ہے اور اشتعال انگیزی کا سرچشمہ قادیانی جماعت کے مقرروں بلکہ خود چوہدری سر محمد ظفر اللہ صاحب کو قرار دیا ہے۔ ان متضاد بیانات کی موجودگی میں بیک وقت کسی قطعی نتیجہ تک پہنچنا مشکل ہے تاہم اگر سنجیدگی اور احتیاط کے ساتھ صورت حالات کا تجزیہ کیا جائے تو چند >واضح حقائق< تک پہنچنا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ بھلا اس بات سے کون واقف نہیں کہ پورے پاکستان میں قادیانی جماعت کی تعداد چند لاکھ )شاید یہ اندازہ بھی زیادہ ہے( سے زیادہ نہیں۔ اور اس قلیل تعدد کو ہمیشہ ایک عظیم ترین مخالفت سے دو چار رہنا پڑتا ہے مرزا غلام احمد صاحب کے متلعق قادیانیون کے کیا عقائد ہیں ؟ وہ ان کی مجدیت کے قائل ہیں یا نبوت کے ؟ وہ ختم رسالت کے عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں ؟ یہ تمام مباحث علمی اور تحقیقی نوعیت رکھتے ہیں اور یہ منصب علماء کا ہے کہ وہ ان عقائد کی تردید اور اصلاح کریں۔ اور جو گمراہ لوگ ختم رسالت کے عقیدے میں متذبذب ہیں ان کو راہ راست پر لائیں۔ لیکن یہ بحث و مباحثہ مناظرہ و مکالمہ کی حدود تک رہنا چاہئے۔ بے شک جو شخص >ختم رسالت< کے عقیدے کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں۔ اس باب میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں۔ لیکن قادیانی اپنی صفائی میں کیا کہتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ تحمل کے ساتھ اسے سنیں اور جہاں جہاں انہیں اعتقادی طور پر غلط پائیں نرمی کے ساتھ متنبہ اور محبت کے ساتھ خبردار کریں۔ یہ تو ہے اصلاح نفوس اور امر بالمعروف کا وہ طریقہ جو اسلام نے تسلیم کیا ہے اور قرآن مجید میں بار بار اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ غنڈہ گردی اور جہالت کا راستہ یہ ہے کہ لاٹھیاں لے کر مخالف عقیدہ رکھنے والوں پر دھاوا بول دیا جائے اور ڈنڈے کے زور سے ان کی اصلاح کی جائے۔ افسوس یہ ہے کہ بعض حلقوں نے قادیانیوں کی اصلاح کیلئے یہی دوسرا راستہ اختیار کررکھا ہے جس کے نتائج >جہانگیر پارک< کے جلسے میں ظاہر ہوگئے۔ ہم ہر گز اس الزام کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ قادیانیوں کے جلسہ میں اشتعال انگیزی کی گئی۔ مولانا احتشام الحق صاحب اور ان کے دوسرے رفقاء نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ >سو ڈیڑھ سو قادیانیوں کی خوشنودی کیلئے کراچی کے سولہ لاکھ باشندوں کو کچلا نہیں جاسکتا<۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جلسہ میں قادیانیوں کی تعداد سو ڈیڑھ سو سے زائد نہ تھی۔ انصاف کیجئے کہ مخالفت کے ایسے عظیم طوفان میں مٹھی بھر انسانوں کو اشتعال انگیزی اور بد زبانی کی جرات ہوسکتی ہے ؟ نہیں یہ الزام کوئی شخص تسلیم نہیں کرسکتا۔ اس سلسلہ میں چیف کمشنر نے جو وضاحت کی ہے صرف وہی قابل تسلیم ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کافی عرصہ سے قادیانیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر اشتعال انگیزی کی جاری ہے اور اس پرجوش مخالفت کے سبب پنجاب میں کہیں کہیں چند ناخوشگوار حوادث بھی پیش آئے چند ماہ قبل کراچی میں اینٹی قادیانی اجتماعات ہوئے تھے انہوں نے بھی مخالفانہ احساست کو کافی بھڑکایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے ایک مشتعل ہجوم نے پولیس سے مڈبھیڑ کے بعد شیزان ریسٹورنٹ` احمدیہ فرنیچر سٹور` احمدیہ لائبریری اور بعض دوسرے ایسے اداروں کو جن کے متعلق احمد ملکیت ہونے کا شبہ تھا آگ لگانے کی کوشش کی اور اگر کراچی ایڈمنسٹریشن اس موقع پر غیر معمولی احتیاطی تدابیر نہ اختیار کرتا اور پولیس وسیع پیمانے پر حرکت میں نہ لائی جاتی تو خدا جانے کراچی میں کیا کیا مناظر دیکھنے میں آتے ہم ایک طرف تو حضرت علماء کرام کے روشن خیال طبقہ سے درخواست کریں گے کہ وہ خدا اور رسولﷺ~ کیلئے میدان میں آئیں اور جاہلوں کو موقع نہ دیں کہ وہ دس لاکھ انسانوں کے خون سے خریدی ہوئی اس گراں مایہ مملکت کے اتحاد` سالمیت اور آزادی کو خطرہ میں ڈال دیں اور دوسری حکومت پاکستان کے اصرار کریں گے کہ >مذہبی اشتعال انگیزی< کے مقابل اس کا رویہ اب تک تحمل اور نرمی کا رہا ہے۔ یہ رویہ ایک دن پوری قوم کو خطرے میں ڈال دے گا جہاں تک قادیانیوں کا تعلق ہے ہم اس کے حامی ہیں کہ ان کے عقائد کی تردید موثر طور پر کی جانی چاہئے اس کا طریقہ یہ ہے کہ علماء اسلام تحقیق و علم کے میدان میں ان کا مقابلہ کریں لیکن یہ غنڈہ گردی یہ بلوے` یہ اشتعال انگیزیاں ! ہمیں صاف لفظوں میں اعلان کرنا چاہئے کہ پاکستان میں مذہبی مخالفت پر لاٹھیاں برسانے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔<
)۷( >شیراز< نے علماء کنونشن کے مطالبات پر حسب ذیل رائے کا اظہار کیا:۔
>کراچی میں >علمائے کراچم< اور مفتیان عظام< کے ایک کنونشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ۔
>چونکہ سر محمد ظفر اللہ قادیانی ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان سے کوئی دلچسپی اور ہمدردی نہیں ہوسکتی اس لئے انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے عہدے سے الگ کردیا جائے اور قادیانیوں کو پاکستان میں >مذہبی اقلیت< قرار دے دیا جائے۔<
حضرات علمائے کرام نے جس بناء پر چوہدری صاحب کی >برخواستگی< کا مطالبہ کیا ہے ہم اس بنیاد کو پاکستان کی سالمیت` خوشحالی` ترقی` اور اتحاد کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ ہمارے واجب الاحترام علماء نے اس کنونشن میں جو مطالبہ کیا ہے وہ ملک اور ملت کیلئے سخت تباہ کن ہے >قادیانیت< کو >پاکستانیت< کا حریف اور ہر قادیانی کو اینٹی پاکستان قرار دینا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے کوئی باشعور پاکستان اتفاق نہیں کرسکتا۔ اس موقع پر جب کہ ابھی ہم اپنے قومی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے ایک شدید جنگ لڑرہے ہیں مذہبی بنیادوں پر ایک اس قسم ے ہنگامے گرم کرنا اور سیاسیات کو خواہ مخواہ فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھنا گویا اجتماعی خودکشی کا سامان فراہم کرنا ہے۔ ہم اس ملک کے سمجھدار طبقے سے درخواست کریں گے کہ وہ میدان میں آئے اور بغیر کسی توقف اور قاتل کے اس قسم کے مضحکہ انگیز مطالبوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرے۔ حکومت کو بھی زیادہ عرصہ تک اس سلسلہ میں >مجہول پالیسی< اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کا فرض ہے کہ اور کسی سبب سے نہیں تو اپنے وزیر خارجہ کی پوزیشن کے تحفظ ہی کیلئے حرکت میں آئے اور ان مدعیان دین سے صاف الفاظ میں کہہ د کہ تم فقہی تاویلات کی بناء پر مسلمانوں کو کافر یا مومن بناتے رہو لیکن تمہیں یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ تم پوری قوم کے مفادات سے )اس قسم کے مطالبات کر کے( کھیلو۔< ۲۰
۸۔ ہفت روز >تارا< )۲۶ جون ۱۹۵۲ء( نے علماء کی کنونشن کی نسبت لکھا:۔
>کراچی میں حال میں > مفتیان عظام< اور علماء کرام کا ایک عظیم الشان کنونشن ہوا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ )خلاصہ یہ ہے(
>چونکہ سر ظفر اللہ قادیانی ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان سے کوئی دلچسپی اور ہمدردی نہیں اس لئے انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے عہدے سے الگ کردیا جائے اور قادیانیوں کو پاکستان میں ایک >مذہبی اقلیت< قرار دے دیا جائے۔< ~}~
ہنسی ہنسی میں بعض اوقات
طول پکڑ جاتی ہے بات
اس مطالبہ پر بحث کرنے اور لکھنے کیلئے تو بہت کچھ ہے مگر مختصراً ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ قومی حکومت کی خارجہ پالیسی سے نامطمئن ہو کر حضرات علماء کرام نے جن بنیادوں پر وزیر خارجہ کی برخواستگی طلب کی ہے وہ بنیادیں پاکستان کی سالمیت` خوشحالی` ترقی اور اتحاد کیلئے نشتر اور زہر ہلاہل کا حکم رکھتی ہیں۔ اور ہمارے واجب الاحترام علماء نے اس کنونشن میں جو مطالبہ کیا ہے وہ ملک اور ملت کیلئے انتہائی تباہ کن ہے۔ ہر قادیانی کو اینٹی پاکستان اور قادیانیت کو پاکستانیت کا تضاد ٹھہرانا ایک ایسی پالیسی ہے جس سے کوئی باشعور پاکستانی اتفاق نہیں کرسکتا۔ ایسے حالات میں جب ہمیں اپنا قومی وجود قائم رکھنے کیلئے زندگی کے ہر شعبہ میں ایک جنگ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے مذہبی بنیادوں پر اس قسم کے ہنگامے برپا کرنا اور سیاسیات کو مذہبی رنگ دے کر فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنا کہاں کی دانشمندی ہے بلکہ مضحکہ خیز ہے۔
ہم ملک کے دانشمند اور باشعور طبقہ سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ میدان عمل میں آئیں اور اس قسم کے مضحکہ انگیز مطالبات کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور بلاتامل و توقف حکومت کے اس >مجہول پالیسی< اختیار کرنے پر آداب سیاست کا خیال رکھتے ہوئے احتجاج کریں<۔۲۱
۹۔ سہ روز >رہبر< )۳۰ مئی ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
بہاولپور
>مجلس احرار جب سے قائم ہوئی ہے تب ہی سے بزرگان احرار نے مسلمانوں کے سودا اعظم` مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مخالفت کرنا اپنا شیوہ ملی قرار دے رکھا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد خیال تھا کہ یہ بزرگ اپنے رویہ میں خوشگوار تبدیلی کر کے ملت کا ساتھ دیں گے لیکن ملت کی بدنصیبی ہے کہ ایسے لوگوں سے کوئی بھلائی کی توقع کیونکر ہوسکتی ہے جنہوں نے جنم ہی ہندو کانگرس کی گود اور سیٹھ ڈالیا کی دولت کی تجوریوں میں لیا ہو اور جنہوں نے اس بات کی قسم کھا رکھی ہو کہ انہوں نے ہمیشہ لت کے خلاف ہی محاذ قائم کر کے ملت کی صفوں مین انتشار پیدا کرنا ہی اپنا فریصہ ملی تصور کر رکھا ہو۔ کہیں قادیانیوں کی مخالفت کے بہانے سے تبلیغی کانفرنس اور کہیں ختم نبوت کانفرنسوں کے نام پر بڑے بڑے اجتماع کر کے مسلمانوں میں وزیر خارجہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کی جاتی ہے اور کئی حیلے بہانے تلاش کر کے پاکستان کی وحدت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بزرگان احرار اگر تبلیغ اور تحفظ نبوت تک ہی اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھیں اور قادیانیوں کی مذہبی نقطہ نگاہ سے ہی مخالفت کریں تو ہم جیسے ہنفی العقیدہ لوگ بھی ان کا ضرور ساتھ دیں۔ لیکن قوم و ملک کی بدنصیبی ہے کہ اس احرار ٹولے کے یہ ڈرامہ صرف اپنے ان احراری زعماء کے ایماء پر )جو پاکستان کے قیام کے بعد بھارت میں اپنے ہندو آقائوں کو خوش کرنے کیلئے چلے گئے تھے اور بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کو ختم کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں( پاکستان کے مسلمانوں کو حکومت پاکستان کے خلاف اکھانے کیلئے کھیلنا شروع کررکھا ہے۔
حال ہی میں معاصر عزیز >نوائے وقت< لاہور کی ایک خبر کے مطابق احراری امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ بخاری نے یہ اعلان پشاور کے ایک عام اجتماع میں کیا ہے کہ >میں ہوں قائداعظم اور میرے مرکزی دفتر کے چپڑاسی کا نام بھی قائداعظم ہے< اور ساتھ ہی حکومت پاکستان کو چیلنج بھی دیا ہے کہ >اگر حکومت میں طاقت ہے تو توہین قائداعظم کے سلسلے میں میرے خلاف مقدمہ چلائے< قائداعظم مرحوم کی زندگی میں بھی یہ احراری بزرگ مرحوم کو >کافر اعظم< کے نام سے خطاب کرتے رہے لیکن پاکستان کے بانی کی وفات کے بعد ان لوگوں کو اتنی ہمت اور جرات ہوگئی ہے کہ وہ برسرعام مسلمانوں کے اجتماع میں پشاور جیسے غیور شہر میں قائداعظم مرحوم کی توہین کرنے کے بعد حکومت پاکستان کو چیلنج دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان میں واقعی کوئی غیرت اور طاقت ہے کہ وہ اپنے سب سے بڑے رہنما کی توہین کو خاموشی اور بے غیرتی سے برداشت کر لیتی ہے یا اس گستاخی کے خلاف کوئی عملی اقدام کرتی ہے تاکہ آئندہ کسی دوسرے شخص کو ایسی گستاخی اور ذلالت کی جرات ہی نہ ہو ورنہ یہ چنگاری جس کی داغ بیل احراری بزرگوں نے آج پشاور جیسے شہر میں رکھی کہیں پاکستان کے سارے خرمن امن کو جلا کر خاکستر نہ کردے۔ کیونکہ بھارتی حکومت صرف اسی وقت کے انتظار میں ہے کہ بانی پاکستان اور حکومت پاکستان کے خلاف پاکستانیوں کے جذبات کو ابھار ر پاکستان میں اختلاف پیدا کر کے حکومت پاکستان کے خلاف عوام میں جذبات نفرت پیدا کر کے پاکستان پر حملہ کر کے پاکستان کو خدانخواستہ ختم کردیا جائے ن کی ابتداء ہندوئوں کے دیرینہ زر خرید غلاموں اور ایجنٹوں نے پشاور سے کردی ہے۔ اس لئے حکومت پاکستان کو سختی سے اس فتنہ کو جلد سے جلد دبا دینا چاہئے ورنہ بعد میں پچھتانے سے کچھ نہ ہوگا۔ وما علینا الا البلاغ۔<۲۲
کوئٹہ
۱۰۔ کراچی کے فساد پر کوئٹہ کے پارسی اخبار >کوئٹہ ٹائمس< مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۵۲ء کا تبصرہ:۔
>ہنگامہ کراچی کے وہ مکروہ واقعات جو حال ہی میں رونما ہوئے ایک مہذب ملک کیلئے شرم کا باعث ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کی تہ میں مذہبی تعصب اور عدم رواداری کا جذبہ کار فرما ہے۔ یہ جہالت اور تعصب کی بدولت ہے کہ مذہب کے نام پر عدم رواداری کا بندبہ پروان چڑھتا ہے۔ تاریخ عالم پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے آپ کو باسانی معلوم ہوجائے گا جب کبھی کسی ملک میں مذہب کی آڑ میں ظلم اور ایذارسانی کا دور دورہ ہو تو ترقی کی راہیں اس ملک پر مسدود ہوگئیں۔
مذہب کے نام پر ظلم روا رکھنے سے انسانی فطرت مسخ ہوجاتی ہے اور جس ملک میں بھی یہ دور دورہ ہو وہ دنیا میں ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ تنگ نظری نے جہاں راہ پائی وہیں آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی۔ ایک مہذب اور روشن خیال قوم مذہبکے نام پر کبھی ظلم روا نہیں رکھتی۔ علم انسان کے نقطہ نظر میں وسعت پیدا کردیتا ہے اور انسان یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ ایک مقدس ماحول میں زندگی بسر کررہا ہے۔ پس ایک ایسی قوم ہی جو جہالت کی تاریکیوں میں رینگ رہی ہو مذہبی غلامی کو برداشت کرسکتی ہے۔ تاریخ ایسی واضح مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ نیک دل بادشاہوں نے رواداری کی بدولت بڑی مستحکم سلطنتیں قائم کیں اور بعد میں آنے والوں نے عدم رواداری کے ہاتھوں انہیں خاک میں ملا دیا۔
یہ کہتے ہوئے دشمنان اسلام کی زبان نہیں تھکتی کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے یا اس کی تبلیغ و اشاعت میں تلوار کا بہت بڑا دخل ہے۔ جو لوگ گزشتہ ہفتہ کے ہولناک واقعات کے ذمہ دار ہیں افسوس کہ انہوں نے اپنی حماقت سے ایسے دشمنان اسلام کی خود ہی تائید کر کے ان کے ہاتھ مضبوط کئے۔ رسول پاک~صل۱~ نے اپنے ماننے ولاوں کو بار بار تاکید کی ہے کہ وہ رواداری کے اوصاف سے اپنے آپ کو متصف کریں۔ لیکن کیا کیا جائے تعصب اور غیظ و غضب کی گرمی نے ان لوگوں کو اندھا کر رکھا ہے بانی اسلام~صل۱~ کی روشن دماغی کا یہ ایک بین ثبوت ہے کہ آپ نے ہمیشہ اشاعت دین کی راہ میں طاقت استعمال نہ کرنے کی تعلیم دی۔
یہ جھگڑا مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں کے درمیان نہیں ہے یہ جھگڑا ہے جہالت اور علم کے درمیان` نام نہاد مولویوں کے اندھے مقلدوں اور ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اسلام کی صحیح روح اپنے اندر جذب کی ہوئی ہے۔
جہاں تک مذہب اور مملکت کا تعلق ہے حکومت پر بعض فرائض عائد ہوتی ہیں۔ ایسے تعصب کے قلعے سر کرنے میں ہر ممکن امداد کرنی چاہئے۔ اگر کٹر اور متعصب لوگوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا گیا تو لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ حکومت بھی ان عناصر کی گردنیں اور اکڑ جائیں گے اور پھر آگے چل کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا آسان نہ رہے گا۔ امن برباد کرنے والون کے لئے ایک ہی قانون ہے قانون شکنی کرنے والوں میں سے کسی کو بھی اس کے نتائج بھگتنے سے مستثنیٰ قرار نہ دینا چاہئے۔<
۱۱۔ اخبار >تنظیم< پشاور )۲۰ مئی ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
پشاور
>حضرت قائداعظم اور مسلمانان پاکستان و ہند کے محبوب مطالبہ پاکستان کے وقت سے لے کر قیام پاکستان کے کافی عرصہ تک ہندوئوں کے اشارہ پر پاکستان` قائداعظم اور پاکستان کے حامی مسلمانوں کو جو بے نقطہ اور ان گنت گالیاں ۲۳]txet [tag جماعت احرار نے سنائی ہیں اعید ہے مسلمانان پاکستان ابھی تک انہیں نہ بھولے ہون گے۔ غرضیکہ پاکستان کے قیام کی مخالفت میں احرار بزرگوں کی ترکش کا زہر میں بجھا ہوا کوئی ایسا تیر باقی نہ رہا تھا جو انہوں نے استعمال نہ کیا ہو۔ پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔ پاکستان قائم ہو اور اب انشاء اللہ ٹھوس اور مستحکم بنیادوں پر اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ نامعلوم اب اللہ تعالیٰ پاکستان کے مسلمانوں سے ناراض ہوگئے ہیں کہ انہوں نے اب پاکستان کی تخریب کیلئے شاید ایک دوسرے >قائداعظم< پیدا کردیئے ہیں جن کا کام پہلے سرے سے پاکستان کے قیام کی مخالفت تھا اور اب ان کا کام پاکستان میں رہنے والوں کو آپس میں لڑا کر تخریب پاکستان ہے۔ پیر عطاء اللہ صاحب پاکستان کے ہر حصہ میں ختم نبوت کانفرنسیں منعقد کر کے اپنے آپ کو قائداعظم ظاہر کررہے ہیں حالانکہ ختم نبوت کے مسئلہ سے مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہے کہ حضور رسول~صل۱~ خاتم النبین ہیں۔ آپﷺ~ کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو وہ >غلط کار اور جھوٹا< ہے اور مسلمانوں سے نہیں۔ اگر >مرزائی کافر< ہندو کافروں سے کٹ کر پاکستان کے >مومن مسلمانوں< کے سایہ میں آگئے ہیں تو کیا ہمارا اسلام اور آئین ہمیں یہی اجازت دیتا ہے کہ اختلاف عقائد کی بنا پر ہم ایک فرقہ کی زندگی دوبھر کردیں۔
سادہ لوح جوشیلے مذہب اور اسلام کے نام پر کٹ مرنے اور مارنے والے مسلمانوں کو یہ جوش اور اشتعال دلاتے پھریں کہ مرزائیوں کو قتل کرنا عین ثواب اور اسلام دوستی ہے۔
مرزائیوں سے حضرت شاہ صاحب کو درحقیقت اتنی نفرت ہے یا نہیں البتہ پاکستان سے آپ کی دشمنی مسلمہ ۲۴ ہے۔ آپ لوگ پاکستان کو باہر کی مسلمان دنیا اور جمہوری ممالک میں بدنام ` تنگ نظر اور غیر اسلامی حکومت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو خود بخود قائداعظم بن کر تخریب پاکستان کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مرزائی کافر سہی لیکن پاکستان کے باشندے اور اپنے آپ کو وفادار شہری ظاہر کر رہے ہیں۔ اور حضرت قائداعظم نے احمدیوں کے وجود کو پاکستان کیلئے مفید پا کر اکثر موقعہ پر ان سے پاکستان کیلئے امداد دیں بھی حاصل کیں ہیں اور پاکستان سے اپنا تعلق و انس ثابت کرنے کیلئے اپنے مرکز کو چھوڑنے اور کروڑوں روپیہ کی جائیدادیں چھوڑ کر مرزائی کافروں نے اپنی جانیں پاکستان کی خدمت کیلئے پیش کی ہیں۔ حضرت قائداعظم نے سر ظفر اللہ کو ایک قابل وفادار پاکستانی سمجھتے ہوئے وزارت خارجہ کا ایک نہایت اہم اور ذمہ دار عہدہ پیش کیا تھا۔ چنانچہ اپنی بے نطیر دماغی صلاحیتوں اور قانونی قابلیتوں کے باعث نہ صرف خود ظفر اللہ اقوام عالم میں ہمہ گیر ہر دلعزیزی حاصل کرچکے ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کے وقار اور عزت کو بھی چار چاند لگادیئے ہیں۔ البتہ اگر حکومت کو اب ان کی خدمات کی ضرورت نہ ہو تو ان سے استعفے مانگا جاسکتا ہے اور مرزائیوں کو ایک علیحدہ اور اقلیتی فرقہ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی پاکستان کے مرزائیوں کو ان کے عقائد` جان و مال کے تحفظ اور دوسرے شہری و ملکی حقوق کی مراعات دینی ہوں گی۔ نامعلوم حکومت کن سیاسی مصلحتوں کی بناء پر خاموش نئے قائداعظم کے تخریبی پروگرام کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ ہمارے خیال میں اس موقعہ پر حکومت ناقابل تلافی سیاسی غلطیوں سے کام لے رہی ہے۔ یہی نیا قائداعظم کل کہے گا` جو اسلامی آئین ہم چاہتے ہیں پاکستان کے موجودہ حکمران صحیح اسلامی آئین نہیں بنا سکے۔ لٰہذا جس حکومت کا آئین اسلامی نہ ہو وہ مسلمان نہیں کہلا سکتی۔ >میں قائداعظم ہوں< کا خطاب حاصل کرنے کے باعث احرار مذہبی جھگڑوں کے ذریعہ تخریب پاکستان کے مواقع پیدا کررہی ہے اور وہ ایک مذہبی وہیں بہتے ہوئے مسلمانوں کے خیالات و عقائد کا جو احرار اس وقت ان میں پیدا کررہے ہیں مقابلہ نہ کرسکے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکومت اور مسلمانوں کو اسلامی اور اخلاقی شعور پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور چور دروازوں سے داخل ہونے کی بجائے احرار کیلئے بھی سیاسی اقتدار کی کوئی راہ نکالے تاکہ پاکستان تخریبی سرگرمیوں کا اڈہ بننے سے بچ سکے۔<
لاہور
۱۲۔ اخبار >امروز< )۲۲مئی ۱۹۵۲ء( نے >کراچی کا ہنگامہ< کے زیر عنوان حسب ذیل شذرہ سپرد قلم کیا:۔
>جہانگیر پارک کراچی میں جماعت احمدیہ کے جلسہ عام میں جو ہنگامہ ہوا وہ ہر اعتبار سے افسوسناک ہے اور ایک آزاد و مہذب قوم کے شایان شان نہیں۔ ذمہ دار قوموں کے افراد انتہائی اشتعال کے عالم میں بھی اپنے فرائض کا خیال رکھتے ہیں اور تہذیب و دمن کی حدود سے آگے نہیں بڑھتے کیونکہ جبر و تشدد کے ذریعہ نہ تو کوئی مسئلہ حل ہوسکت اہے اور نہ عقائد ہی میں کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے تاہم یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ اس فوری اشتعال کے اسباب و علل کیا ہیں کیونکہ جب تک ہم کو ملت نمائی کا علم نہ ہو ہم اس حادثے کے متعلق صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔
ہجوم کے طرز عمل سے یہ حقیقت بالکل آشکار ہوجاتی ہے کہ وہ انتہائی مشتعل تھا اور اس قدر بے قابو تھا کہ پولیس کے لاٹھی چارج کے باوجود اس نے جلسہ کو درہم بدرہم کرنے کی پیہم کوششیں کی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا خشت باری ہوئی۔ لوگوں کے چوٹیں آئیں۔ شامیانے پھٹے۔ کاروں لائوڈ سپیکروں اور روشنیوں کو نقصان پہنچا۔ گرفتاریاں ہوئیں منتظمین کا باہر نکلنا مشکل تھا۔ غرض یہ کہ سوا گیارہ بجے رات تک میدان کا رازر کا نقشہ جما رہا۔
قطع نظر اس سے کہ اس اشتعال کے اسباب کیا تھے ؟ کسی شہری کو اس کا حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے اس لئے اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ اگر ہر شخص اسی طرح عمل کرتا رہے تو نظم و نسق تباہ ہوجائے گا اور لاقانونیت اور نراج کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ رہا یہ سوال کہ یہ واقعہ پیش ہی کیوں آیا تو اس کی ظاہری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے جیسا کہ کراچی کے اخبارات میں مذکور ہے کہ جلسہ کی اجازت اس بناء پر دی گئی تھی کہ اس میں اختلافی امور پر کچھ نہ کہا جائے گا لیکن اس کے باوجود مقررین نے اختلافی مسائل پر تقریریں کیں۔ مجمع نے احتجاج کیا مگر انہوں نے اس کے جذبات و احساسات کا احترام نہیں کیا۔
اگر یہ واقعات صحیح ہیں تو ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ منتظمین اور مقررین جلسہ نے انتہائی غیر ذمہ داری اور فرض ناشناسی کا ثبوت دیا۔ اگر وہ حدود سے تجاوز نہ کرتے تو غالباً یہ افسوسناک واقعہ ظہور پذیر نہ ہوتا جس طرح مشتعمل ہجوم کو قانون شکنی کا حق نہیں تھا اسی طرح منتظمین و مقررین بھی اس کے مجاز نہیں تھے کہ وہ ان شرائط سے روگردانی کریں جو اس جلسے کے انعقاد کیلئے لازمی قرار دی جاچکی تھیں۔ لیکن اس سلسلے میں ہر شخص یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر منتظمین اور مقررین کی طرف سے عہد شکنی کا مظاہرہ ہوا تھا۔ حاضرین نے اعتراض کیا تھا اور مقررین نے اس کی پروا نہیں کی تھی تو نظم و نسق کے ذمہ دار خاموش کیوں رہے۔
اس واقعہ کا ایک پہلو جو ان سب سے زیادہ اہم اور نتیہ خیز ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کی آویزشات کی حوصلہ افزائی ہوئی تو اس سے قوم کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی جس سے ملک دشمن عناصر خوب فائدہ اٹھائیں گے اس لئے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔
پاکستان میں مختلف مذاہب کے پیرو اور مختلف عقائد رکھنے والے لوگ بستے ہیں انہیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب اور عقیدے پر چلیں۔ لیکن کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے فرقے کی دل آزاری کے ساتھ اپنے مذہب اور عقیدے پر چلیں لیکن کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے فرقے کی دل آزاری پر اتر آئے اور دوسرے فرقہ کے جذبات و احساسات کا خیال نہ رکھے کیونکہ اگر اس کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو پھر ملک میں ہنگاموں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا اور جدال وقتال کا بازار ہمیشہ گرم رہے گا جو ملک کے مستقبل کیلئے کسی طرح بھی مفید نہیں۔ اس لئے ہمیں یقین ہے کہ ملک کے تمام ذمہ دار سنجیدہ اور وطن دوست حضرات اس واقعہ کی مذمت کریں گے۔ ساتھ ہی ہم کراچی کے حکام کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہ اس ہنگامہ کی نہایت احتیاط سے تحقیقات کریں اور طرفین کے رویہ کا جائزہ لیں۔<۲۵
۱۳۔ روزنامہ >آفاق< )یکم جون ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>احمدیوں کے خلاف عام مسلمانوں کو جو شکایات ہیں ان میں سب سے بڑی شکایت تو یہی ہے کہ وہ حضرت سرور کائنات کے بعد اجرائے نبوت کے قائل ہیں حالانکہ خاتم النبین کا مطلب ۱۴۴۰ سال سے یہی سمجھا جارہا ہے کہ حضورﷺ~ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس کے علاوہ احمدیوں کا یہ شیوہ بھی مسلمانوں کو بہت ناگوار ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے سوا کسی دوسرے مسلمان کیلئے دعائے مغفرت نہیں کرتے نہ کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر جذبات کی ہنگامہ آرائی سے الگ ہو کر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو دوسرے مسلمان فرقوں کے اختلافات لبھی کچھ کم تکلیف نہیں ہیں۔ شیعہ حضرات صدیقؓ اکبر` فاروق اعظم` عثمان غنیؓ کو غاصب و ظالم کہہ کر ناگفتہ بہ کلمات سے یاد کرتے ہیں۔ سنیوں کے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی۔ گو وہ کسی وقت منافقت سے شامل صلٰوۃ ہو بھی جاویں یا کسی سنی کی نماز جنازہ بھی پڑھ لیں لیکن ان کے عقائد کا یہ تقاضا نہیں ہے۔ بریلوی عقیدے کے لوگ اہل حدیث کے نزدیک پرلے درجے کے مشرک ہیں جو انسانوں کی روحوں اور مردوں کی قبروں کو قبلہ ` مراد مانتے ہیں اور ایسے شمار ایسی رسوم کے پابند ہیں جن کی اصل دین میں موجود نہیں ہے۔ دنیائے اسلام میں بعض ایسے فرقے بھی مسلم معاشرے کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں جن کے عقائد سواد اعظم کے سخت خلاف ہیں۔ مثلاً آغا خانی` بہائی اور دروزی۔ لیکن ہندوستان` ایران` پاکستان ` شام وغیرہ میں وہ ملت اسلامی ہی سمجھے جاتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ احمدیوں کے بارے میں مسلمان صبر اور رواداری سے کامنہ لیں اور لکم دینکم ولی دین کہہ کر ان سے تعرض نہ کریں۔ اگر مذہبی فرقوں کے درمیان جنگ و شقاق کا ہنگامہ جاری رہا تو ظاہر ہے کہ اس سے کلمہ گویوں کے اتحاد کی بنیاد کمزور ہوجائے گی۔ میں ان جوشیلے حضرات سے متفق نہیں ہوں جو یہ کہنے کے عادی ہیں کہ احمدی ہندوئوں ` سکھوں` عیسائیوں` یہودیوں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو شخص توحید الٰہی` نبوت محمدی` حشر نشر` سزا` جزا` قرآن اور کعبہ کا` قائل ہے۔ اور نماز روزہ` زکٰوۃ حج اور تمام احکام فقہی میں سواد اعظم سے متشابہ ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ کفار سے زیادہ کیون کر برا ہوسکتا ہے اور ملت سے خارج کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ بڑے بڑے عظیم الشان آئمہ اسلام نے تو نہایت شدید اختلافات کی حالت میں بھی دوسروں سے انتہائی رواداری کا ثبوت دیاہے۔ اور خود امام ابوحنیفہ کا یہ ارشاد مشہور ہے کہ جس شخص میں ننانوے وجوہ کفر کی اور ایک وجہ اسلام کی بھی موجود ہو اس کو کافر کہنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ خیر مجھے مذہبی مسائل کی پیچیدگیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور نہ آج کل ان بھول بھلیوں میں اپنے آپ کو کھو دینے کا زمانہ ہے میں تو یہ کہتا ہون کہ پاکستان میں ملت اسلامیہ کے اندر فرقہ پرستی کی آگ کو ہو دینا ملت اور بہبود وطنکے خلاف ہوگا۔ جب پاکستان کے ہندوئوں` اچھوتوں` عیسائیوں پارسیوں کے شہری حقوق مسلمانوں کے برابر ہیں اور ان کے جان و مال و آبرو کی حفاظت اور تحریر و تقریر اجتماع کی آزادی کی ضامن و کفیل خود حکومت پاکستان ہے )بشرطیکہ وہ قانون ملکی کی خلاف ورزی نہ کریں( تو پھر اللہ اور رسول~صل۱~ کا کلمہ پڑھنے والی جماعتوں کو وہتمام حقوق اور آزادیاں کیون حاصل نہیں۔ عیسائیوں کو تو تبلیغی جماعتیں مثلاً مثن اسکول۔ وائی۔ ایم۔ سی۔ اے سالولیشن آرمی و مکتی فوج تک پاکستان میں اپنا کام آزادانہ طور پر کررہی ہیں اوف ان سے کوئی معترض نہیں ہوتا پھر مرزائیوں سے معترض کے کیا معنی ؟
بعض متعصب مولوی اور ان کے جوشیلے پیرو یہ کہنے کی تو جرات نہیں کرسکتے کہ فلاں فرقے کے تمام مردوں` عورتوں اور بچوں کو پاکستان بدر کردیا جائے اور اگر وہ ایسا مطالبہ بھی کریں تو اہل عقل میں سے کون ہے جو ان کا ہم زبان ہوسکے۔ پھر جب تمام حنفیوں` وہابیوں` بریلویوں` شیعوں` مرزائیوں` ہندوئوں ` عیسائیوں اور اچھوتوں کو اسی ملک میں رہنا اور یہیں مرنا گرنا ہے اور پاکستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے ان سب کے حقوق مساوی ہیں تو سمجھ مں نہیں آتا کہ ان قوموں اور فرقوں کی آپس میں ہنگامہ آرائی کرنا کس اعتبار سے پاکستان کیلئے مفید ہے۔
ہمارے بعض علماء کو اس امر کا اندازہ نہیں کہ کراچی میں مرزائیوں کے جلسے پر ہزاروں مسلمانوں کی یورش سے ہم دنیا بھر کے ممالک میں حد درجہ بدنام ہوئے ہیں اور حریت رائے اور جمہوریت کے بلند بانگ دعوئوں کی کس طرح قلعی کھلی ہے۔ خدا کیلئے اپنے وطن کو اقوام عالم میں بدنام و رسوا نہ کرو تم اپنے عقائد پر قائم رہو اور دوسروں کو اپنے عقائد پر قائم رہنے کا حق دو عیسیٰ بدین خود موسیٰ بدین خود۔ بعض علماء کا صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ >ہجوم نے جو کچھ کیا برا کیا ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔< علماء اسلامی شائستگی اور اخلاق کے امین ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اختلاف عقائد کو الگ رکھ کر عامتہ المسلمین کو اس طرح احتجاجی کی بنا پر سختی سے ڈانتیں اور ملک بھر کی مسجدوں سے یہ آواز بلند کریں کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ احکام اسلام ` وقار اسلام اور اخلاق اسلام کے منافی ہے اور اس سے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ مولوی کبھی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ یہ فتنہ فساد کا ہنگامہ اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور وہ خلوت میں اسی پر بغلیں بجا رہا ہے۔
قانون امن کی طاقتوں کو بلا خوف لومتہ لائمہ قانون و انتظام کو تباہ کرنے والوں کے خلاف شدید کارروائی کرنی چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ ہر صحیح ہر صحیح الدماغ اور ذمہ دار پاکستانی اس اقدام میں ان کا حامی ہوگا۔
حکومت کے صیغہ داخلہ کو مذہبی فرقہ آرائی کے ذمہ داروں اور اشتعال انگیز و اعظموں اور مقرروں پر نہایت کڑی نظر رکھنی چاہئے خواہ وہ کسی فرقہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں۔ احراری ہوں یا مرزائی جو بھی فتنہ انگیزی کے درپے ہو اس کے ساتھ قانونی سلوک ہونا چاہئے۔<
سرگودھا
>قارئین کو ریڈیو پاکستان اور روزانہ اخبارات کے ذریعہ سے معلوم ہوچکا ہوگا کہ ۱۷۔۱۸ مئی ۱۹۵۲ء کو کراچی کے جہانگیر پارک کے اندر >اسلام ایک زندہ مذہب< کہنے والے کے خلاف مردہ بار کے نعرے لگائے گئے جلسہ میں پتھرائو کیا گیا جس سے حالات کافی مخدوش ہوگئے۔
ہمارے ایک احراری بزرگ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہمارا لب و لہجہ احرار کے بارے میں نہایت تند و تلخ ہوتا ہے اس لئے ہم ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے نہایت نرم الفاظ میں کچھ گذارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
>مجلس احرار< یہ گرگٹ جماعت جو مرغ بادنما کی طرح اپنا رخ بدلتی رہتی ہے جسے کل اپنا آج کا مسلک غلط نظر آتا ہے اور پرسوں آج کا مسلک راست معلوم ہوتا ہے جسے خود یہ علم نہیں کہ وہ چاہتی کیا تھی اور چاہتی کیا ہے جس کے مقدس >لیڈر ان کرام< ۱۵ اگست تک سیاست کا رخ معلوم نہ کرسکے اور ان سے کس سمجھ بوجھ کی توقع رکھی جاسکتی ہے جس کا وجود ہی محض اس لئے معرض ظہور میں لایا گیا کہ کچھ خود غرض لوگ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کیلئے اس جماعت کو بطور >حربہ< استعمال کریں جس نے ہر موقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ غداری کی۔ جس نے نظریہ پاکستان کا مذاق اڑایا کبھی تو یہ جماعت سیاسی ہے کبھی مذہبی پر سیاسی ۔ پھر مذہبی۔ غرضیکہ مذہبیوں کی یہ جماعت گرگٹ کی طرح رنگ ہی بدلتی نظر آئی۔<
مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اور تخریبی کارروائیاں کرنا اس جماعت کا پرانا مشغلہ ہے جس پر نہایت استقلال کے ساتھ آج تک قائم ہے۔ کراچی کے تلخ واقعات بھی اس روش کا نتیجہ ہیں۔ آج قائداعظم علیہ الرحمتہ کی روح >مسلمانوں< سے پوچھ رہی ہے کہ کیا میں نے تمہیں اتحاد اور تنظیم کا یہی سبق دیا تھا ؟ ان کے جلسہ میں پتھرائو کیوں کیا گیا ؟ اس جلسہ میں موضوع تقریر یہی تھا >اسلام ایک زندہ مذہب ہے۔< کیا ان مفسیدن کو اس چیز سے اختلاف ہے ؟ آخر یہ متشددانہ رویہ کیوں اختیار کیا گیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ مسلمانوں سے دلچسپی ہے نہ اسلام سے انہیں صرف اپنے ہی موضوع سی دلچسپی ہے۔ فساد ! ان کی گزشتہ روایات بھی یہی کہتی ہیں۔ انہوں نے ہر اس موقعہ پر فساد کیا اور کرایا جہاں مسلمان آپس میں مل بیٹھے۔ کبھی شیعہ سنی فتنہکو ہوا دی گئی کبھی مدح صحابہ کی راگنی الاپی گئی۔ کبھی رد مرزائیت کے نام پر منہ میں جھاگ لا لا کر مظاہرے کئے گئے۔
اس وقت تو یہ تخریبی کارروائیاں انگریز کراتا تھا کیونکہ اس کا مفاد ہی اسی میں تھا کہ لڑائو اور حکومت کرو۔ مگر اب ۔۔ ؟
اب یہ نتیجہ ہے ہماری حکومت کی نرم پالیسی کا۔ ان بھیڑوں کے منہ کو انسان خون لگ چکا ہے یہ اب بھی برہ معصوم کی تلاش میں ہیں۔
ہم حکومت سے امن` اتحاد` تنظیم اور انسانیت کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ اس فتنہ کو فی الفور دبا دیا جائے ورنہ یہ آئے دن کے فسادات نہ صرف حکومت کیلئے درد سرکار موضوع ہیں بلکہ عامتہ الکمسلمین میں بھی بددلی ` تشکک اور عدم اعتماد کو ایک لہر پیدا کردیں گے جو قوم کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے ملی شیرازہ پارہ پارہ کرنے کا باعث ہوں گے۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ پاکستانی سورما بڑے بہادر ہیں۔ کاش ! حکومت ابھی سے ان کی فہرست مرتب کرے تاکہ جب کبھی جہاد کشمیر کا وقت آئے تو انہیں محاذ پر بھیج کر ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
حکومت پاکستان کے دل ` کراچی میں حکومت پاکستان کا متدین اور متقی وزیر خارجہ ایک جلسہ کے اندر اسلام کے افضلیت پر تقریر فرما رہا ہے اور اس جلسہ گاہ کے باہر چند شوریدہ سر کرایہ پر لائے ہو مفسد گڑ بڑ پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ ایک ایسے جلسہ میں جہاں اسلام کی فضیلت بیان کی جانی مقصود ہو غیر مسلم اور بیرونی ممالک کے سفر اور معززین بھی مدعو ہوں گے۔ صرف یہتصور کیجئے کہ جب ہمارا وزیر خارجہ یو۔ این او میں اور دیگر ممالک میں اپنی مدلل تقاریر سے ان لوگوں کو محو حیرت بنا کر خراج تحسین حاصل کرتا ہوگا۔ اور پھر ان ممالک کے معززین جو کراچی میں مقیم ہیں اور جلسہ کے اندر ہمارے وزیر خارجہ کی اس طرح گت بنتی دیکھتے ہوں گے تو ان کی مقبولیت کے متعلق ان کا تاثر کیا ہوگا؟
اگر ہمارے وزیر خارجہ کا وقار ان لوگوں کی نظروں کے سامنے خاک میں ملا دیا جائے تو کیا ہمارے ملک کا وقار قائم رہ سکتا ہے ؟ اگر یہ کوئی انتخابی جلسہ ہوتا یا الیکشن کے سلسلہ میں کوئی اجتماع ہوتا تو بھی مفسدین کی یہ حرکت قابل برداشت نہ ہوتی لیکن ۔۔۔ لیکن یہ ایک خالص مذہبی جلسہ تھا مفسدین کی روش یقیناً حد درجہ افسوسناک ہے۔
ہمیں اب یہ اندازہ لگانا ہوگا کہ آئندہ کیلئے حکومت اس سلسلہ میں کیا پالیسی مقرر کرتی ہے ؟ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت میں یہ معاملہ ملزمان کے سزا پانے یا بری ہوجانے پر ختم ہو جائے گا یا اس حادثہ کی روشنی میں آئندہ کیلئے اس قسم کی تخریبی سرگرمیوں کے استیصال کیلئے بھی حکومت کوئی اقدامات کرتی ہے< ؟ ۲۶
سیالکوٹ
۱۵۔ اخبار >درنجف< سیالکوٹ نے >حادثہ کراچی< کے زیر عنوان اپنی یکم جون ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
>۱۷۔۱۸ مئی کو جہانگیر پارک کراچی میں احمدیوں کے سالانہ اجتماع کے موقعہپر اکثریتی عوام نے جو نازیبا مظاہرہ کیا ہے وہ ہر حساس پاکستان کیلئے موجب مذمت ہے۔ مملکت پاکستان نئے جذبات اور بلند ترین قدروں کی اساس پر قائم ہوئی ہے جس کی صیانت اور مزید استحکام ہر محب وطن کا اولین فریضہ ہونا چاہئے ہمیں احمدیت سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ان کا کوئی مسئلہ ہمارے مسائل سے میل کھاتا ہے بلکہ بلاخوف تردید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعی مسلمات جس شدت سے احمدیت کی نفی کرتے ہیں مسلمانوں کے کسی فرقہ کے معتقدات میں اتنی سختی نہیں کیونکہ شیعہ عصمت انبیاء اور وجود امام عصر کا راسخ عقیدہ رکھتے ہیں۔ برخلاف اس کے دوسرے فرقوں میں یہ اصول کچی ٹہنی کی طرح لچکدار ہیں۔ لٰہذا مسلمانوں کے عام مکاتب تو کسی نہ کسی گنجائش کے سبب ممکن ہے برداشت بھی کر لیں مگر تشیع تو کسی صورت بھی احمدیت وغیرہ کو کوئی جگہ نہیں دے سکتا اس کے باوجود شیعہ علماء پریس اور عوام نے کسی لمحہ مخالفت میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہیںکیا جس سے شرمناک فرقہ واریت کی ہمت بڑھتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مجلس احرار )جس کا مقصد وحید احمدیت کا استیصال ہے( کا اسٹیج ایک عرصہ تک بد زبانی اور غیر مہذب طریق جدل کا اکھاڑہ بنا رہا مگر جب سے شیعہ علماء کو مدعو کیا جانے لگا اسی پلیٹ فارم پر مثالی شائستگی پیدا ہوگئی۔
شیعہ علماء وجادلھم بالتی ھی احسن کے قرآنی فلسفہ سے اچھی طرح واقف اور اس پر عامل ہین۔ اسی طرح شیعہ پریس بھی اپنی روایتی متانت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ عوام خواہ کسی فرقے کے ہوں ان ہی دو ذرائع سے اثر قبول کرتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثریت کے علماء اور پریس نے اپنے عوام کو اس درجہ اشتعال دلایا ہے کہ جب کبھی بھی انہیں موقعہ ملتا ہے دوسرے فرقوں کے مقابلہ کوہ آتش فشان کی طرح پھٹ پڑتے ہیں۔
جہانگیر پارک کا حادثہ یقیناً تکلیف دہ ہے لیکن ہم اس کی ذمہ داری کس پر عائد کئے بغیر تمام پاکستانی عوام کی خدمت میں عرض کریں گے کہ پاکستان کی تخلیق میں اقلیت کے مفہوم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس مملکت کے ارباب بست و کشاد کا دعویٰ بھی ہے کہ سبز پرچم کا سایہ اقلیتوں
tav.13.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
جہانگیر پارک کا حادثہ یقیناً تکلیف دہ ہے لیکن ہم اس کی ذمہ داری کس پر عائد کئے بغیر تمام پاکستانی عوام کی خدمت میں عرض کریں گے کہ پاکستان کی تخلیق میں اقلیت کے مفہوم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس مملکت کے ارباب بست و کشاد کا دعویٰ بھی ہے کہ سبز پرچم کا سایہ اقلیتوں کی آسودگی کا ضامن ہے لٰہذا کسی خام خیالی کے باعث غلط راہیں اختیار کر کے کوئی ایسی صورت پیدا کرنے کی کوشش نہ کرنا چاہئے جس سے ملک کی نیک نامی پر آنچ آئے جمہور کو چاہئے کہ وہ مسٹر طالب نقوی چیف کمشنر کراچی کے ان الفاظ پر توجہ دیں اور ہمیشہ کیلئے انہیں مشعل راہ بنائیں:۔
>مرزائی بھی پاکستانی ہیں اور انہیں بھی اجلاس منعقد کرنے کا حق اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک کہ وہ مروجہ قانونکی خلاف ورزی نہ کریں حکومت کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔<
ساتھی ہی علمائے کرام کی خدمت میں بھی گذارش پیش کریں گے کہ وہ >جو ازو عدم جواز< کی بحث چھیڑ کر جارحانہ ذہنیتوں کی حوصلہ افزائی نہ فرمائیں نیز پریس کو بھی اپنے واجبات اور ملک کے حالات کا احساس کرنا چاہئے۔
اس سلسلہ میں ۲۰ مئی کو کراچی میں مجلس ختم نبوت کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں طبقہ علماء نے جو بیان دیا ہے اسے ہم کم از کم پاکستان معیار کے علماء کے اذہان کا نتیجہ نہیں کر سکتے۔
اس کانفرنس میں ہمارے ذمہ دار عالم مولانا مفتی جعفر حسین صاحب قبلہ بھی شریک تھے اس اعتبار سے مولانائے موصوف بھی ایک حد تک مسئول ہیں جس کا ہمیں سخت ملال ہے۔ اور بصد ادب و احترام ہم قبلہ و کعبہ کی خدمت میں بلتجی ہیں کہ وہ آئندہ ایسی کسی نشست میں شمولیت نہیں فرمائیں گے جس میں شعوری طور پر قرار داد مقاصد کا پاس اور اقلیتوں کیلئے جذبہ احترام موجود نہ ہو۔ اس وقت سواد اعظم کے علماء صرف احمدیت کے خلاف اپنی جنبہ دارانہ ذہنیت کا استعمال کررہے ہیں مگر ان کے بگڑے ہوئے تیور شیعوں کو بھی للکار سکتے ہیں اور فضا اعلان کررہی ہے >آج کل وہ ہماری ہاری ہے۔<۲۷
مشرقی پاکستان
روزنامہ >آزاد< )مشرقی پاکستان( مورخہ ۲۰ مئی ۱۹۵۲ء نے لکھا:۔
معلوم ہوا ہے کہ مسلمانوں کا ایک فریق کراچی میں ایک جگہ متواتر دو دن سے اپنا )سالانہ( جلسہ کررہا ہے اور ایک اور فریق کے لوگ جلسہ گاہ پر حملہ کر کے روک ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسرے دن وزیر خارجہ پاکستان چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تقریر کررہے تھے کہ عین اس وقت دوسرے فریق نے گڑ بڑ ڈالنے کیلئے حملہ کردیا۔ اگر یہ خبر صہیح ہے تو اس سے بعض لوگوں کی بے صبری اور عدم رواداری ہی ثابت ہوتی ہے۔ کسی معاملہ میں خاص کر مذہبی معاملات میں عدم رواداری اسلامی تعلیم کی روح کے بالکل خلاف ہے۔ پاکستان اور اسلامی دنیا کے کسی کونہ میں بھی ایسی ذہنیت کا وجود بڑے اچنبھے کی بات ہے۔ ان دنوں جب کہ تمام اسلامی دنیا کے اتحاد کے خواب کو امر واقع اور حقیقت مشہودہ بنانے کی کوشش ہورہی ہیں۔ ایسے نازک وقت میں فرقہ وارانہ مناقشات کو ہوا دینا اتحاد و یگانگت کی تمام تدبیروں کو ملیامیٹ کرنے کا موجب ہوگا۔ جب مسلمان کیلئے غیر مذاہب کی لوگوں کو محض اختلاف عقائد کی بناء پر تکلیف دینا اسلامی شریعت میں ناجائز ہے تو خود کسی مسلمان کو اختلاف عقائد کی وجہ سیکوئی دکھ یا تکلیف دینا کہاں جائز ہوسکتا ہے ؟ اختلاف خواہ کسی وجہ سے بھی ہو جنگل کا قانون یعنی یہ دستور کہ اپنی داد رسی آپ ہی کر لو اور جس سے اختلاف ہو اس کو مار کر تباہ کر دو قومی ترقی کیلئے ایک بہت بڑی سدراہ ہے۔ آج پاکستان کے ہر مرد اور ہر عورت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مسلمان اپنے علم و عمل اور ریاضیت ہی کے ذریعہ سے دوسروں کو ختم کرسکتے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔< ۲۸ )ترجمہ(
بھارت کا پریس
0] f[rtاس حادثہ کی بازگشت بھارت میں بھی سنی گئی۔ ۱۔ چنانچہ اخبار >حقیقت< )لکھنئو( نے ۲۳ مئی ۱۹۵۲ء کے شمارہ میں ہنگامہ کراچی کی مذمت کرتے ہوئے لکھا:۔
>کراچی کا فرقہ وار فساد<
ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کے بنانے میں جن مسلم جماعتوں نے نمایاں حصہ لیا اور اس جدوجہد میں مسلم لیگ کی بہت زیادہ مدد کی ان میں پیش پیش جماعت احمدیہ قادیان بھی رہی ہے۔ اس جماعت کے افراد نے آنکھیں بند کر کے اور بغیر انجام پر غور کئے پاکستان بنائے جانے کی حمایت کی۔ آج اسی پاکستان میں اس کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور اس کو ایک غیر مسلم >اقلیت< قرار دیئے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ قادیانی جماعت کے مذہبی عقائد کیا ہیں > لیکن جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکسان میں ہر فرقہ کو یکساں مذہبی آزادی حاصل ہے تو پھر قادیانیوں پر اس قدر تشدد کیوں کیا جارہا ہے ؟ خاص کراچی میں پچھلے ہفتہ جو افسوسناک واقعہ پیش آیا اور جس کے نتیجہ میں ایک سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے اور جابہ آتشزدگی اور لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے۔ کیا یہ پاکستانیوں کے اس دعویٰ کی قطعی تردید نہیں ہے کہ وہاں ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے ؟ دیکھنا ہے کہ قادیانیوں کے بعد اور کس فرقہ پر پاکستان کے مذہبی دیوانوں کا نزلہ گرتا ہے؟< ۲۹
اخبار >حقیقت< کے اسی پرچہ میں درج ذیل خبر بھی شائع ہوئی:۔
>کراچی میں قادیانی ابھی تک اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلے آگ لگانے کی اکا دکا وارداتیں۔ پولیس کا وسیع انتظام<
کراچی ۲۲ مئی ۔ قادیانیوں میں ابھی تک خوف وہراس پھیلا ہوا ہے۔ وہ ابھی تک اپنے گھروں سے باہر نکلتے گھبراتے ہیں۔ ان کاروبار ابھی تک بند ہے۔ ان کی حفاظت کیلئے ان کے مکانوں پر پولیس بٹھا دی گئی ہے پھر بھی کہیں کہیں آگ لگانے کی اکا دکا واردات ہورہی ہے۔
جہانگیر پارک میں بلوہ کے سلسلہ میں جو تین سو اشخاص گرفتار کئے گئے تھے ان سے پولیس نے صرف ساٹھ اشخاص کو حراست میں رکھا ہے اور باقی کو چھوڑ دیا ہے۔ کل پولیس افسروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام صورت حالات پر غور کیا گیا۔ بندر روڈ پ احمدیہ ایسوسی ایشن کی لائبریری بالکل بند پڑی ہے اس کے باہر پولیس کا پہرہ ہے۔ کراچی کے کمشنر نے ایک بیان میں کہا کہ قادیانیوں اور غیر قادیانیوں کے درمیان سنیچر اور اتوار کو جو تصادم ہوا ہے اس کے پس پشت ایک آرگنائزیشن کام کررہی ہے۔ آپ نے کہا کہ حکومت کو اس بلوہ کا پہلے ہی علم تھا۔ حکام کو نامعلوم اشخاص کی طرف سے پہلے ہی مطلع کردیا گیا تھا کہ جلسوں میں جھگڑا کیا جائے۔<۳۰
۲۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنے ہفتہ وار اخبار >صدق جدید< لکھنئو )۲ جون ۱۹۵۳ء(
میں چوہدری صاحب کی اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے یہ نوٹ لکھا:۔
>تبلیغ غیروں کی مجلس میں<
سر ظفر الل خاں وزیر خارجہ پاکستان کا بیان ۲ جون کی پریس کانفرنس کراچی میں >میرے اوپر بارہا یہ اعتراض ہوچکا ہے کہ میں ملکی اور بین الملکی مسائل کو دینی سند مل جائے تو بہتر ہی ہوا کرے۔ چنانچہ اس وقت بھی اس اعتراض کا مزید خطرہ لے کر میں کہتا ہوں کہ ہمیں تو تعلیم اس کی ملی ہے کہ تعاونو اعلی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدون ۳۱۔ اور ہمارے پیغمبر کا قول ہے جسے میں پیرس میں جنرل اسمبلی میں پچھلے نومبر کو پیش بھی کرچکا ہوں کہ انصراخاک ظالما او مظلوما۳۲۔<
کاش یہی شیوہ عرب اور مصر اور عراق اور ایران اور شرق یردن اور شام اور افغانستان کے نمائندوں کا بھی ہوتا۔ کاش ان میں بھی جرات غیروں کے سامنے اپنے ہاں کی چیزوں کے پیش کرنے کی ہوتی ! اور ایک تو نمائندہ پاکستان اپنے منفرد ہونے کی بناء پر غیروں کی مجلس میں بے شک عجیب سا معلوم ہوتا ہوگا اور اسی لئے اس کا استحقاق اجر بھی کہیں بڑھ رہا ہوگا۔ غیروں کی مجلس مے بے باکانہ تبلیغ دین کی یہ سنت قائم کی ہوئی مولانا محمد علی کی ہے۔ اور ایک بار مرحوم وزیراعظم پاکستان نے بھی اس کا حق امریکہ میں ادا کیا تھا اور اب تو اونچے حلقوں میں یہ وزیر خارجہ پاکستان کے دم سے ہی قائم ہے۔ ۳۳
۳۔ رسالہ >مولوی< دہلی ظبابت ماہ جولائی ۱۹۵۳ء( نے اس واقعہ پر ایک درد انگیز مقابلہ سپرد اشاعت کیا جس کا متن یہ ہے:۔
>آپ اپنی تاریخ پر چاہے جتنا فخر کیجئے۔ آپ سلف صالحین کی حیات طیبہ پڑھ کر کتنا ہی رقص کیجئے مگر اس کی حیثیت پدرم سلطان بود سے ہرگز زیادہ نہ ہوگی۔ اسی اپنی گمشدہ متاع کو بروئے کار لانے اور اپنے بے چارگی کے بندھن توڑنے کیلئے تو اسے راہبران دین متین اور اے مجاہدین اسلام آپ نے تقسیم کی مانگ کی تھی اور خدا نے` اگر یہ اس کا فضل تھا تو آپ کو اس نے نواز دیا۔
آج پورے پانچ سال ہوگئے کہ آپ آزاد ہیں۔ آپ حاضر اور استقبال کے پورے مالک ہیں۔ آپ کے معاملات میں کوئی مداخلت کرنے ولا بھی نہیں ہے۔ اللہ کے واسطے بتایئے کہ آپ نے ہم پسماندہ بھارت کے مسلمانوں کی نسبت سے زیادہ کونسا قدم اسلام کی طرف اٹھایا اور وہ کونسی بات کی جس سے آپ کے دعویٰ کی ذرا سی بھی سچائی دنیا پر روشن ہوئی۔
الاہ ثم اہ: دہلی۔ یو۔پی۔سی۔ بمبئی۔مدراس کے مسلمانوں نے اپ کی ہمنوائی میں پورا پورا حصہ۔ یہ جان کر یہ بوجھ کر اس سے ہمیں مادی نفع تو درکنار ہماری غلامی کے طوق اور بوجھل ہوں گے۔ ہماری بیڑیاں اب سے ہزار درجہ گراں بار ہوں گی۔ ہماری دنیاوی عزتیں خاک میں ملیں گی۔ ہمارے اعزہ ہم سے جدا ہوں گے۔ ہماری پیٹھیں ہی تازیانوں سے زخمی نہ ہوں گی۔ ہم پر پیٹ کی ماریں بھی پڑیں گی۔ ہم رکوال اکثریت کی فیاضی سے بھی پوری طرح واقف تھے اور ان کی تنگ نظریاں بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل نہ تھیں۔ اور وہ مصیبت جو ہم پر آئی اورہی ہے اور شاید ابھی پوری نہ ہوئی ہو وہ ہماری توقع سے چاہے شدید ہو لیکن غیر متوقع ہرگز نہ تھی۔ پھر اسے سرفروشان اسلام ! یہ بربادی ہم نے کیوں قبول کی ؟ ہم پاگل تو نہ تھے صرف ایک لگن تھی اور وہ یہ کہ اس آزادی کے بعد یہ مجاہدین اور شیدایان اسلام قرون اولیٰ کا اسلام زندہ کریں گے۔ دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ ہدایت کے چشمے پھوٹ نکلیں گے۔ رشد کی چمکاہٹ غنی کی ظلمت کو نابود کردے گی۔ یہ ہمارا اسلامی وطن حرم محترم ہوگا۔ یہاں انسانی خون ہی نہیں اس کے پسینہ کا ہر قطرہ محترم ہوگا اور دنیا کو یہ بتا دینے کے پورے اسبابوسائل ہمارے ہاتھ میں ہوں گے کہ امن` ایٹم بموں۔ جراثیم بموں۔ زہر کی گیسوں سے قائم نہیں ہوسکتا کہ یہ سب شیطانی ہتھیار ہیں رحمانی ہتھیار تو ایثار ہے۔ انسانی ہمدردی ہے۔ انسانی برابری ہے۔ ادائے حقوق العباد ہے۔ اور دیکھو کہ ہم دنیا کی ہر مادی اتباع سے تہی دست ہیں لیکن پھر بھی پوری دنیا سے مالدار ہیں کہ خدا کی تائید ہے۔ اس کا فضل ہمارے ساتھ ہے۔ وکفی باللہ وکیلا
یہ تھا وہ خواب جس پر ہم نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ اے اونچے ایوانوں میں رہنے والے راہنمائو ! اے موفہ اور قالینوں کو زینت دینے والے مجاہدو ! اور اے کفن بردوش مسلمانو ! تم ہم سے کیا کہہ کر گئے تھے اور اب کیا کررہے ہو۔ ابتدائی صعوبات کے زمانہ کو چھوڑ کر جب خدا نے تم کو اپنے کرم سے بے خوف کیا۔ غنی کیا۔ تم کو حکومت دی تم نے اس کے افضال کا کونسا قرضہ چکایا؟
ہمارے دل کتنے درد مند ہیں ہم تم کو یہ نہیں بتا سکتے اور بتانا بھی نہیں چاہتے۔ ہم یہاں کتنے بے عزت ہیں اس کا استفسار بھی تم سے مقصود نہیں کہ اس بے عزتی کے ذمہ دار تم ہو اور تم سے گلہ بھی نہیں کرتے کہ تم اس کے اہل نہیں۔ تم سے کوئی مدد بھی نہیں چاہتے کہ تمہارے پاس دھرا کیا ہے ؟ تم نے متاع ایمان و اسلام کو ہی زنگ آلود بنادیا تو پھر تمہارے پاس کیا رکھا ہے جو ہماری مدد کرو گے ؟ ہم فاقوں کو برداشت کر لیتے ہیں کہ روزہ ہم کو اس پر صبر دلا دیتا ہے۔ ہم اس بے عزتی کو بھی سہار لیتے ہیں کہ بھارت کا فروتر غیر مسلم آج اس دور میں ہم سے زیادہ معزز ہے۔ آج ہمارے آگے ہاتھ پھیلانے والا ہم کو بے تکلف گالی دیتا ہے اور ہم خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہم معمولی سی چپقلش میں اکثریت اور اس کے بعد پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہیں۔ پھر جیل بھی ہم ہی جاتے ہیں۔ ہماری منقولہ متاع یہاں بنے بسنے والوں نے چھین لی اور غیر منقولہ محافظین جائیداد نے اپنی حفاظت میں لے لیں۔ ہم نہایت محنت شاقہ کے بعد مٹھی بھر آن جوں توں حاصل کر لیتے ہیں اور پیٹ کی آگ بھجا لیتے ہیں۔ ہمارے خاندان متفرق ہوئے۔ مائیں اولاد سے دور ہوئیں۔ خاوند بیویوں سے جدا ہوئے۔ بہنیں بھائیوں کی صورتوں کو ترس گئیں۔ بچے باپ کے جیتے جی یتیم ہوگئے۔ اس پر طرہ یہ کہ آنے جانے کے راستے ہم پر بند ہوگئے۔ ہم نے ان طبعی تلملاہٹوں اور فطری بے چینیوں کو نیچی نظروں سے قبول کر لیا۔ تمہاری طرف تو کیا دیکھتے ہم نے تو آسمان کی طرف نظر نہیں اٹھائی اور کھل کر آہ بھی نہ کی۔ یہ سب کہانیاں نہیں۔ کسی ڈرامہ کی ٹریجڈی کے ٹکڑے نہیں۔ اے مجاہدین ! اسلام حقیقت ہے اور اس کا بھارت کے مسلمان کا ہر دل گواہ ہے۔ یہ سب ہم نے برداشت کیا۔ جو نہیں برداشت ہوسکتا وہ یہ کہ ہمارے غیر مسلم بھائی ہمارے دل و دماغ میں بھالے چبھوتے ہیں کہ یہ ہے تمہارا پاکستان۔ اسی کیلئے تم نے ہم سے لڑائی مول لی۔ تم تو کہتے تھے کہ اسلام بڑا روا دار مذہب ہے اس میں انسانی خون اور آبرو کی بڑی عزت ہے۔ کیا یہی رواداری ہے کہ غیر مسلم تو کجا تو مسلم کے بھی تھوڑے سے اختلاف کو نہیں بخش سکتے۔ تمہارے بھائیوں نے اپنے ہی قوم اور وطن کے بھائیوں کو ذرا سے بل بوتے پر کیا ناچ نچایا۔ ان کے جلسہ گاہ میں پہنچ گئے جو انہوں نے تمہاری حکومت میں تمہاری اجازت لے کر کیا۔ تم نے ان کو رسوا کیا۔ ان کا جلسہ درہم برہم کیا۔ اس پر ہی بس نہیں ان کی دکانوں کو آگ لگائی۔ ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔ یہ وہ مرزائی ہیں جن کا تمہارا دینی اختلاف ہے۔ جب ان کی زیست حرام کرسکتے ہو تو غیر مسلموں پر کیا آفت نہ ڈھائو گے ؟ وہ تمہارا الزام اسلام پر لگاتے ہیں اور ان کو لگانا بھی چاہئے کیونکہ نہ انہوں نے قرآن پڑھا ہے نہ اسلامی تعلیم کا مطالعہ کیا۔ ہاں ان کو تمہارا وہ دعویٰ آج بھی یاد ہے کہ ہم بااختیار ہوئے تو ہماری حکومت کی تشکیل اسلامی ہوگی اور ان کا اب یہ سمجھنا کون غلط بتا سکتا ہے کہ جو کچھ تم کہتے ہو اور کرتے ہو اسلام نہیں ہے۔<۳۵۳۴
مسلم پریس کے علاوہ بھارت کے مشہور غیر مسلم صحافی سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون اخبار >ریاست دہلی )۲۶ مئی ۱۹۵۲ء( میں لکھا:۔
>چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں کے حالات اور ان کے کیریکٹر سے جو لوگ واقف ہیں وہ اقرار کریں گے کہ جہاں تک مذہبی خیالات کا سوال ہے پاکستان کی وزارت تو کیا دنیا کے تمام ممالک کی وزارتیں بھی ان کے پائوں میں لغزش پیدا نہیں کرسکتیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ اپنے خیالات کو چھوڑ دیں۔<
مصری لیڈر رالسید مصطفیٰ مومن کا بیان
مصر کی وفد پارٹی کے ایک راہنما اور شعوب المسلمین کے مندوب السید مصطفیٰ مومن نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری ظفر اللہ خان کی خدمات صرف پاکستان کے وزیر خارجہ کی نہیں بلکہ آپ مشرق وسطی اور بالخصوص مصر اور عرب دنیا کے بھی وزیر خارجہ ہیں۔ وہ بہت بڑے مدبر ہیں انہوں نے اقوام متحدہ میں تیونس` مراکش` ایران اور مصر کی حمایت کر کے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے۔ چوہدری صاحب پر حملہ پوری اسلامی دنیا پر حملہ ہوگا۔ ۳۶
چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے عہدہ وزارت کی خارجہ پالیسی کی نسبت چوہدری محمد علی صاحب سابق وزیراعظم پاکستان کا بیان ہے کہ:۔
>عالم اسلام کی آزادی` استحکام` خوشحالی اور اتحاد کیلئے کوشاں رہنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مستقل مقصد ہے۔ حکومت پاکستان کا ایک اولین اقدام یہ تھا کہ مشرق وسطیٰ کے ملکون میں ایک خیر سگالی وفد بھیجا گیا۔ پاکستان نے فلسطین میں عربوں کے حقوق کے حقوق کو اپنا مسئلہ سمجھا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں اس کے فصیح ترین ترجمان تھے۔ علاوہ ازیں انڈونیشیاء ملایا` سوڈان` لیبیاء تونس` مراکش` نائیجیریا اور الجزائر کی آزادی کی مکمل حمایت کی گئی۔ مغربی ایریان کے مسئلے پر پاکستان نے انڈونیشیا کا پورا ساتھ دیا۔ کئی مسلم ملکوں کے ساتھ دوستی کے معاہدے کئے گئے اور ثقافتی ارتباط کا انتظام کیا گیا ہے۔ موتمر عالم اسلامی کی تنظیم عمل میں لائی گئی۔ ۱۹۴۹ء میں کراچی میں بین الاقوامی اقتصادی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ۱۸ مسلم ملکوں کے نمائندے شامل ہوئے تھے۔ کانفرنس نے اتفاق رائے سے اسلامی ایوان ہائے صنعت و تجارت کا بین الاقوامی وفاق قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔< )ظہور پاکستان ۴۴۵(
اسی کتاب میں انہوں نے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کی خدمات کشمیر کا تذکرہ بایں الفاظ کیا ہے:۔
>سلامتی کونسل نے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو ہندوستان کی شکایت اور پاکستان کے جواب کی سماعت شروع کی۔ ظفر اللہ خاں نے مقدمہ کی ایسی اعلیٰ وکالت کی کہ سلامتی کونسل کو یقین آگیا کہ مسئلہ محض کشمیر سے نما نہاد حملہ آوروں کو نکال دینے کا نہیں ہے جیسا کہ ہندوستان کا نمائندہ اسے باور کرانا چاہتا تھا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے تعلقات کو منصفانہ اور پرامن اساس پر استوار کیا جائے اور تنازع کشمیر کو ریاست کے عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے۔<
)ظہور پاکستان از چوہدری محمد علی صاحب مترجمہ بشیر احمد صاحب ارشد۔ ناشر مکتب کارواں کچہری روڈ لاہور طبع ثانی ۱۹۷۲ء مسعود پرنٹرز لاہور صفحہ ۰۶۳(
فصل دوم
خدا زندہ تعلق کیلئے خصوصی دعائوں کی تحریک رسالہ پاکستان لاء ریویو )کراچی( میں حضرت مصلح موعودؓ کا مقالہ ایک فقہی مسئلہ میں حضرت مصلح موعودؓ کی واضح راہنمائی عروج احمدیت کی پیشگوئی صبر و صلٰوۃ کی پر زور تلقین
خدا سے زندہ تعلق کیلئے دعائوں کی خاص تحریک
آسمانی جماعتوں اور سلسلوں کیلئے ابتلائوں اور مخالفتوں کا زمانہ خدا سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا موسم ہوتا ہے۔ یہی وہ سنہری دور ہوتا ہے جس میں خدا کے سچے بندوں کا اپنے مولیٰ سے تعلق پختہ اور مستحکم ہوتا ہے اور سلسلہ احمدیہ میں یہ نظارے ابتداء سے اب تک مسلسل دکھائی دیتے ہیں۔ ~}~
عدو جب بڑھ گیا شورو فغاں میں
نہاں ہم ہوگئے یار نہاں میں
تحریک احمدیت کی اس مخصوص روایت کوی ۱۳۳۱ ہش/۱۹۵۲ء کے مصائب و آلام میں قائم رکھنا از بس ضروری تھا اسی حکمت کے پیش نظر حضرت مصلح موعودؓ نے اس سال رمضان المبارک کے آخری جمعتہ المبارک میں خاص تحریک فرمائی کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا زندہ تعلق پیدا ہوجائے۔ چنانچہ فرمایا:۔
>خدا تعالیٰ کی محبت` خدا تعالیٰ پر یقین اور وثوق پیدا کرنا اور اسے ملنے کی کوشش کرنا ایک طبعی جذبہ ہے لیکن کتنے نوجوان ہیں جو ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ فرمای تھا اس وقت ہر انسان کا ایک ہی مقصد تھا ک وہ آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کو ملے گا۔ وہ لوگ آگے بڑھتے تھے کیونکہ ان میں سے ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ اگر کسی چیز نے حضرت مسیح موعودؑ کو دوسرے علماء پر امتیاز دیا ہے تو وہ یہی چیز ہے کہ آپ کی پیروی کرنے سے خدا ملتا ہے۔ مسائل دوسرے علماء بھی جانتے ہیں۔ اگر آپ کی وجہ سے کوئی فرق پیدا ہوا ہے تو وہ یہی ہے کہ آپ کی پیروی سے خدا تعالیٰ ملتا ہے۔ اپ کا دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ کو ملنے کا دروازہ کھلا ہے بند نہیں لیئکن اب کتنے نوجوان ہیں جو خدا تعالیٰ کو ملنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ جتنا وقت دور ہوتا جاتا ہے لوگوں سے یہ خواہش مٹتی جاتی ہے۔ حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ ہمت اور کوشش سے اس جذبہ کو ابھارا جاتا۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو حضرت مسیح موعودؑ کا آنا بھی بیکار ہے۔
پس ان دنوں میں دعائیں کرو۔ نوجوان اپنے اندر یہ روح پیدا کریں کہ خدا تعالیٰ کا زندہ تعلق حاصل ہوجائے پہلے اگر ایک شخص جاتا تھا جسے خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا تھا تو اس کی جگہ کئی اور پیدا ہوجاتے تھے۔ بجائے اس کے کہ تم یہ کہو کہ اب ایسا کوئی شخص نہیں جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو یا جسے الہام ہوتا ہو۔ تم خود کوشش کرو کہ اگر ایک ایسا شخص مر جائے تو بیس اور ایسے آدمی پیدا ہوجائیں۔ اور اگر ۲۰ آدمی مرجائیں تو ۲۰۰ اور ایسے آدمی پیدا ہوجائیں۔ اگر ۲۰۰ مر جائیں تو ۲۰ ہزار اور ایسے آدمی پیدا ہوجائیں۔ یہ چیز ہے جو تمہارے حوصلوں کو بڑھائے گی اور دنیا کو مایوس کردینے والی ہوگی۔ دنیا مادی ہتھیاروں کی طرف دیکھتی ہے۔ اگر ¶ہزاروں لوگ ایسے پیدا ہوجائیں جو خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھنے والے ہوں پر یقین رکھنے والے ہوں اور اس کا ظہور اپنی ذات میں محسوس کرنے والے ہوں تو دوسرے لوگ خود۔ بخود مایوس ہوجائیں گے۔ کیونکہ دوسرے لوگ قصے سناتے ہیں اور یہ لوگ آپ بیتی سنائیں گے اور جگ بیتی آپ بیتی جیسی نہیں ہوتی۔ جب ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ پیدا ہوجائیں گے جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوگا تو جگ بیتی بھاگ جائے گی اور آپ بیتی غالب آجائے گی کیونکہ سنی سنائی بات دیکھی ہوئی بات پر غالب نہیں آسکتی۔<۳۷
پاکستان میں قانون کا مستقبل
سندھ مسلم لاء کالج نے ایک سہ ماہی رسالہ پاکستان لاء ریویو کے نام سے کراچی سے جاری کیا جس کے اگست ۱۹۵۲ء کے شمارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا رقم فرمودہ حسب ذیل مقالہ سپرد اشاعت ہوا:۔
>مجھے یہ معلوم کر کے ازحد مسرت ہوئی ہے کہ سندھ مسلم لاء کالج عنقریب ایک سہ ماہی رسالہ اس مقصد کیلئے جاری کررہا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو قانون کے سائنٹیفک طور پر مطالعہ کرنے کی طرف عموماً اور پاکستان میں قوانین کو بہتر بنانے کے متعلق امور پر بحث کرنے کی طرف خصوصاً رہنمائی کرسکے تاکہ اس طرح عام لوگوں اور ماہرین علم قانون کے نظریات اور خیالات میں یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور تاکہ ماہرین علم قانون اپنے اہم فرائض سے بہتر طریق پر زیادہ سہولت کے ساتھ عہدہ برآ ہوسکیں۔
اس میں شک نہیں کہ علم قانون دوسرے علوم کی طرح بلکہ ان میں سے اکثر سے کچھ زیادہ ہی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کو انسانی عمل اور تجربہ کی روشنی میں منضبط اور مرتب کیا جائے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی صحیح راہنمائی کرسکے۔ لیکن بدقسمتی سے ایشیاء کے باشندے کئی صدیون سے غیروں کی ماتحتی میں رہنے کی وجہ سے اس ضروری علم سے بالکل بے بہرہ ہوچکے ہیں۔ اب جب کہ کم از کم ایشیاء پر مکمل آزادی کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور اس کے باشندوں نے بھی دنیا کی آزاد اقوام کی طرح اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا ہے یہ امر اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کے مقابلہ پر علم قانون کے مطالعہ کیلئے زیادہ توجہ اور زیادہ وقت صرف کریں۔ دنیا کی آزاد اقوام نے علم قانون کیلئے مطالعہ اور تجربہ کے بعد آخر کار اپنے ممالک کے قوانین کیلئے ایک مخصوص راستہ اور پس منظر پیدا کر لیا ہے جو کامل طور پر ان کی شخصی اور اجتماعی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ علاوہ اس کے ان میں وسیع اور گہرا علم رکھنے والے ماہرین قانون موجود ہیں جو اپنے لوگوں کے پرانے اختیار کردہ راستہ کے مطابق نئے پیدا ہونے والے دشوار اور دقیق قانونی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ایشیائی لوگوںکیلئے بہرحال یہ مشکل ہے کہ ان میں جو لوگ قانون کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کا علم بھی رکھتے ہیں وہ کوئی گزشتہ تجربہ اور قومی روایات نہیں رکھتے جن سے انہیں قوانین بنانے میں مدد مل سکے۔ پس ان کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے لئے ایک نیا راستہ بنائیں اور پھر ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے ان پر قانو پائیں جو مبتدیوں کو پیش آتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کو اس راہ میں سب سے بڑی مشکل یہ پیش ائے گی کہ اس کے باشندوں میں ایک بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور پاکستان کی حکومت کسی فوجی یا ملکی فتح کے نتیجہ میں قائم نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک معاہدہ کے ذریعہ سے معرض وجود میں آئی ہے اس لئے اپنے قوانین بناتے ہوئے پاکستان کو باوجود اپنی وسیع مسلمان اکثریت کے اس معاہدہ کا لحاظ رکھنا پڑے گا اور نہ اس کو اس بات کا بجا طور پر ملزم گردانا جائے گا کہ اس نے ایک باہمی معاہدہ توڑ دیا۔ جوش اور ولولہ اگرچہ ایک قابل تعریف خصلت ہے لیکن اس کا حد سے بڑھ جانا بھی غلط اقدام کا باعث بن جاتا ہے۔ ترکی میں مذہب کا سیاست سے بالکل الگ کیا جانا دراصل اسی قسم کے غلط مذہبی جوش کا رد عمل تھا۔ اسلام سے محبت اور اپنے ملک میں اس کے قیام کی خواہش یقیناً بہت اعلیٰ جذبات ہیں۔ لیکن اگر ان ہی جذبات کو مناسب حدود سے تجاوز کرنے دیا جائے تو یہی ہمیں اسلام سے دور لے جانے کا باعث بن جائیں گے۔
ہمارے رسول پاک~صل۱~ نے بھی مکہ والون کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ میں بھی صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان کفر اختیار کر لے تو اسے مکہ جانے کا پورا اختیار ہوگا لیکن اس کے برعکس اگر کوئی کافر اسلام لے آئے تو اسے مدینہ کی اسلامی ریاست میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ اسے اس کے وارثوں اور رشتہ داروں کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا۔ یہ شرط مسلمانوں کیلئے بظاہر نقصان دہ اور ذلیل کن معلوم ہوتی تھی اور انہوں نے اس ہتک کو محسوس بھی کیا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ جیسے لیڈر بھی کچھ وقت کیلئے تذبذب میں پڑ گئے۔ ابھی اس معاہدہ پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ایک نوجوان جس کا نام ابوجندل تھا بیڑیوں میں جکڑا ہوا بمشکل تمام اس مجلس میں آ پہنچا جہاں اس کے باپ سہیل نے ابھی ابھی مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔ سہیل نے فوراً مطالبہ کیا کہ معاہدہ کے مطابق ابوجندل کو مکہ واپس کیا جائے۔ مسلمانوں نے جب اس معاہدہ کا عملی پہلو دیکھا تو اسے نہایت خطرناک اور ذلیل کن خیال کیا اور ابوجندل کی حفاظت میں فوراً کھینچ لیں لیکن رسول پاک~صل۱~ نے انہیں سمجھایا اور فرمایا:۔
>خدا کے رسول اپنا عہد کبھی توڑا نہیں کرتے< ۳۸
اور مسلمانوں کی جذبات انگیز درخواتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابوجندل کو اس کے باپ کے حوالہ کردیا۔ اس لئے ایک پاکستانی مسلمان خواہ کتنا ہی مخلص اور دینی جوش رکھنے والا ہو کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اسلام کی محبت اور خیر خواہی میں اتنا گداز ہے جتنا حضرت نبی~صل۱~ تھے اور رسول پاک~صل۱~ اس معاملہ میں ہمارے لئے خود ایک اعلیٰ نمونہ چھوڑ گئے ہیں۔ اگر ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی نظر میں ویسا ہی اچھا مسلمان ثابت ہونا چاہتا ہے جیسا کہ وہ خود گمان کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ لفظی اور معنوی طور پر ان تمام معاہدات اور وعدوں کو پورا کرے جو پاکستان بننے کے وقت اقلیتوں اور دوسری قوموں سے کئے گئے تھے اگر وہ ان وعدوں کے ایفاء سے ذرا بھی پہلو تہی کرتا ہے تو وہ درحقیقت اسلام سے دور جاتا ہے۔
پاکستان کے قوانین بناتے ہوئے ہمیں خاص خیال رکھنا ہوگا کہ:۔
الف۔ تعلیم اسلام کی روح ہمیشہ ہمارے مدنظر رہے
ب ۔ ہمارے قوانین فطرت انسانی کے ساتھ کامل مطابقت رکھتے ہوں۔
ج۔ ہم ان وعدوں کو ہر لحاظ سے پورا کریں جو اقلیتوں سے کئے گئے ہیں۔
آنحضرت~صل۱~ کے ایک ارشاد کے مطابق ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ )بخاری کتاب القدر(
اب اگر حضور کا یہ ارشاد صحیح اور سچا ہے اور حضو~صل۱~ سے زیادہ سچا کون ہوسکتا ہے تو پھر اسلام کے قوانین بھی انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہوسکتے اور نہ ہی انسانی فطرت قوانین اسلام کے خلاف ہوسکتی ہے۔ پس ہمارا یہ ایک مقدس فرض ہے کہ ہم مندرجہ بالا حدیث کو سامنے رکھیں اور اس حقیقت پر یقین رکھیں کہ اسلام نے جو کچھ سکھایا ہے فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اگر اسلام کی تعلیم کا وہ حصہ جسے ہم انسانی فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں واقعیانسانی فطرت کے خلاف ہے تو ظاہر ہے کہ ہم نے اس حصہ تعلیم کی روح کو اخذ نہیں کیا لیکن اگر ہم نے اسلامی تعلیم کو صحیح طور پر سمجھا ہے تو فطرت انسانی کبھی بھی اس کے خلاف نہیں ہوسکتی اور یقیناً کہیں پر ہماری ہی غلطی ہوگی۔ اس صورت میں ہمیں چاہئے کہ اس معاملہ پر زیادہ گہرے طور پر غور کریں اور مزید کوشش کر کے اصل حقیقت کو معلوم کریں۔ اگر ہم اس نہایت ہی مضبوط اصل کو سامنے رکھیں گے تو ہم یقیناً بہت جلد صداقت کو پالیں گے اور اپنے ملک کے بہترین قوانین بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے ملک کے ہر طبقہ یعنی مولویوں` مغربیت زدہ تعلیم یافتہ لوگوں` غریبوں اور امیروں کو پوری طرح مطمئن نہیں کرسکتے لیکن مندرجہ بالا دانشمندانہ اصول پر عمل کر کے ہم یقیناً انسانی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرسکیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے میں دعا کرتا ہوں کہ پاکستان کے قوانین بنانے والوں اوران پر عمل کرانے والوں کو۔ ان کے وکیلوں کو اور قوانین کی کتابیں لکھنے والوں کو اور ان کے شارحین کو اللہ تعالیٰ اسلام کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ مفید رسالہ جو کہ سندھ مسلم لاء کالج کی طرف سے جاری کیا جارہا ہے اس مقصد کے حصول کیلئے ایک مفید آلہ ثابت ہو۔< ز۳۹
احترام مساجد سے متعلق ایک فقہی مسئلہ اور حضرت مصلح موعودؓ کا موقف
پنجاب میں احمدیوں کے خلاف فرقہ وارانہ تقاریر سے صوبہ بھر کا امن و امان درہم برہم ہونے لگا تو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز
محمد خان دولتانہ نے ۱۱ جون ۱۹۵۲ء کو فرقہ وارانہ نوعیت کے تمام جلسوں پر پابندی لگادی اور تمام ڈسٹرکٹ میجسٹریٹوں کو ہدایت دی کہ جمعہ کے ایسے اجتماعات پر بھی نگاہ رکھیں جن کو خطیب فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے لئے استعمال کریں۔۴۰
حکومت پنجاب نے اس پابندی کی وضاحت میں حسب ذیل پریس نوٹ جاری کیا:۔
>حکومت پنجاب عوام کی اطلاع کیلئے ان واقعات کا پس منظر بنتانا چاہتی ہے جس کے پیش نظر صوبہ کے مختلف اضلاع میں ایک خاص نوعیت کے پبلک جلسوں کے انعقاد پر پابندی عائد کرنا پڑی۔
کچھ عرصہ سے صوبہ میں مجلس اخرار اور احمدیوں کے درمیان مناقشت نے پبلک جلسوں میں اشتعال انگیز تقاریر کی ناگوار صورت اختیار کر لی ہے۔ ان تقریروں میں اکثر مذہبی بحث و مناظرہ کی تمام جائز حدود کو نظر انداز کردیا گیا اور ان تقریروں سے زیادہ تر پاکستانی شہریوں کے دو طبقات کے درمیان نفرت اور کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اس طرح ماحول میں جو کشیدگی پیدا ہوئی اس کے باعث چند مقامات پر تشدد کے واقعات بھی پیش ائے جن سے جانی نقصان اور دوسرے نہایت افسوسناک نتائج برآمد ہوئے امن عامہ برقرار رکھنے کے اولین فریضہ کا خیال کرتے ہوئے حکومت اس صورت حال کے جاری رہنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی خصوصاً اس خطرہ کے پیش نظر کہ اگر تشدد کیلئے بالواسطہ اور بلاواسطہ اشتعال انگیزیوں کا موثر سدباب نہ کیا گیا تو حالات اور بھی ابتر ہوجائیں گے اور آبادی کے دو حصوں میں کھلم کھلا زبردست تصادم شروع ہوجائیں گے۔
نصرت انگیزی کے اس ماحول میں بعض لوگوں کے ذہنون کی افتاد کیا ہوگئی ؟ اس کی مثال ایک پوسٹر سے ملتی ہے جس کی کاپیاں متعلقہ جماعتوں میں سے ایک جماعت کے دفتر سے دستیاب ہوئی ہیں اس پوسٹر میں اعلانیہ تلقین کی گئی ہے کہ دوسری جماعت کے مبلغوں کو قتل کردیا جائے۔ اور ان کی مساجد پر جبراً قبضہ کر لیا جائے۔ اس پوسٹر میں ایک طبقہ کے مزارعین سے بھی کہا گیا ہے کہ دوسرے طبقہ سے تعلق رکھنے والے جاگیرداروں کو بٹائی بھی نہ دیں اور ان کی جائیداد کی ضبطی کو ایک جائز اقدام تصور کریں۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ حالات کو ابتر ہونے سے بچایا جاتا۔ چنانچہ پبلک جلسوں پر پابندی عائد کرنا ضروری سمجھا گیا تاکہ دونوں میں سے کوئی جماعت باہمی مناقشت کو جاری نہ رکھ سکے۔
حکومت اس ضمن میں اس امر کی پوری وضاحت کردینا چاہتی ہے کہ اس نے پوری پوری احتیاط کی ہے کہ یہ احکام کسی جگہ بھی عوام کی جائز مذہبی سرگرمیوں میں مداخلت یا ایسی مذہبی سرگرمیوں پر معمولی سی پابندی عائد کرنے کے بھی موجب نہ ہوں۔ حکومت صوبہ میں کسی جائز سیاسی یا سماجی سرگرمی کے رستہ میں بھی رکاوٹ حائل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی جلسوں پر پابندی کے احکام اسی سپرٹ پر عائد کئے گئے ہیں۔<۴۱
حکومت کے اس اقدام پر علماء کے حلقوں میں سخت تنقید کی گئی حتیٰ کہ اسے >مداخلت فی الدین< کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا گیا:۔
>خانہ خدا پر کسی سلطنت کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوسکتا مساجد حکومت کے قوانین سے مستثنیٰ ہوا کرتی ہیں۔<۴۲
اس پر حکومت پنجاب نے اعلان کیا:۔
>یہ بالکل غلط ہے کہ سرکاری احکام کسی قسم کے مذہبی اجتماعات یا مذہبی عبادات یا مساجد میں کسی مذہبی سرگرمی میں مخل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص قانون کے خلاف کوئی حرکت کرتا ہے تو اس سے یقیناً مواخذہ کیا جائے گا قطع نظر اس سے کہ اس سے یہ حرکت مسجد میں سرزد ہوئی ہے یا مسجد سے باہر۔<ز۴۳
احرار حکومت کی اس کشمکش سے عوام میں یہ سوال خودبخود ابھر آیا کہ کیا حکومت پنجاب نے ایسا حکم دے کر واقعی مداخلت فی الدین کا ارتکاب کیا ہے یا وہ اس کی شرعاً مجاز ہے۔
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے اس اہم فقہی مسئلہ پر راہنمائی کیلئے حسب ذیل مضمون سپرد قلم فرمایا:۔
>آج کل یہ سوال بڑے زور شور سے پیدا ہے کہ آیا حکومت کسی ایسے معاملہ میں دخل سکتی ہے جس کا فیصلہ یا جس کا انعقاد کسی مسجد میں ہوا ہو۔ اور آیا حکومت اگر ایسا کرے تو یہ تداخل فی الدین ہوگا یا نہیں ؟ اس سوال کے دو پہلو ہین۔ اول تو یہ کہ کیا مساجد منعقد ہونے والے جلسوں یا مساجد میں کئے گئے فیصلوں یا مساجد کی پناہ میں آنے والے لوگوں کو اسلامی شریعت نے قانون سے بالا سمجھا ہے۔ دوسرے یہ کہ کیا عقلاً یہ بات قابل قبول اور قابل عمل ہے ؟ ان دونوں سوالون کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے حکومت وقت یعنی رسول~صل۱~ اور آپﷺ~ کی جماعت کے خلاف کارروائیاں کرنے کیلئے ایک مسجد تیار کی تھی اور خود رسول کریم~صل۱~ کو اس میں آکر نماز پڑھنے اور دعا کرنے کی دعوت دی تھی۔ درحقیقت ان لوگوں کی غرض یہ تھی کہ اس جگہ پر جمع ہو کر بعض سیاسی امور کا تصفیہ کریں جو کہ رسول کریم~صل۱~ اور آپﷺ~ کی جماعت کی خلاف تھے غالباً ان لوگوں کا خیال بھی آج کل کے احرار ی طرح تھا کہ جو امر مسجد میں طے کیا جائے وہ قانون کی زد سے بالا ہوتا ہے اور جو کوئی اس معاملہ میں دخل اندازی کرے وہ مداخلت فی الدین کا موجب سمجھا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر کیا اور ان کے اس فعل کو ناجائز قرار دیا چنانچہ فرماتا ہے:۔
والذین اتحذوامجسدا اضرار وکفر و تفریقا بین المومنین وارصاد المن حارب اللہ و رسولہ من قبل ولیحلفن ان اردنا الا الحسنی واللہ یشھد انھم لکذبون لا لاتقم فیہ ابدا لمسجد اسس علی التوی من اول یوم احق ان تقوم فیہ فیہ رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المطھرین افمن اسس بنیانہ علی تقوی من اللہ و رضوان خیر ام من اسس بنیانہ علی شفا جرف ھارفانھا ربہ فی نارجھنم واللہ لایھدی القوم الظلمین لا یزال بنیانھم الذی بنواریبتہ فی قلوبھم الا ان تقطع قلوبھم واللہ علیم حکیم )التوبتہ ع(
ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ جو کوئی مسجد بناتے ہیں یا کسی مسجد کو اختیار کر لیتے ہیں اس لئے کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کو نقصان پہنچائیں اور نافرمانی کی تعلیم دیں اور مسلمانوں میں تفرقہ یدا کرنے کی کوشش کریں اور وہ لوگ جو کہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر لڑرہے ہیں ان کیلئے گھات میں بیٹھیں اور ان کے اوپر حملہ کریں اور بڑی شدت سے اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم اپنے افعال سے صرف نیکی اور بھلائی چاہتے ہیں۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ ایسے لوگ جھوٹے ہیں۔ اے خدا کے رسول تو ایسی مسجد میں مت کھڑا ہو۔ وہ مسجدیں جن کی بنیادی تقویٰ پر قائم کی گئی ہے ابتدائی دن سے وہ زیادہ حق دار ہیں کہ تو ان میں کھڑا ہو۔ ان مسجدوں میں ایسے لوگ جاتے ہیں جو کہ نفس کی پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی پاکیزہ نفس لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ کیا وہ لوگ جو مسجدوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تقویٰ پر رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی پر رکھتے ہیں وہ اچھے ہیں یا وہ لوگ جو مسجد کی بنیاد ایک ایسی کھوکھلی زمین ے کنارے پر رکھتے ہیں جو کہ گرنے والی ہے اور جو ان لوگوں کو دوزخ کی آگ میں گرا کر پھینک دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ظلم اور فساد کرنے والے لوگوں کو کبھی پسند نہیں فرماتا۔ جو لوگ اس قسم کی مسجدوں کی بنیادیں رکھتے ہیں )یعنی جن میں ضرر اور فتنہ کی کارروائیاں ہوتی ہیں ان کی یہ تعمیر ہمیشہ کے ان دلوں میں شک و شبہات ہی پیدا کرتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ بہت جاننے والا اور بہت حکمت والا ہے۔
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد اپنی ذات میں کسی شخص کو نہیں بچا سکتی۔ اگر مسجد میں کوئی برا کام کیا جائے گا تو اس کو برا سمجھا جائیگا اور اگر مسجد میں کوئی اچھا کام کیا جائے گا تو اس کو اچھا سمجھا جائے گا۔ اگر مسجد اپنی ذات میں ہر ای فعل کو بچا لیتی ہے اور مسجد میں کیا جانے والا فعل مذہبی کہلاتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ وہ منافق لوگ جن کا مذکورہ بالا آیات میں ذکر ہے اور جو مسجد میں اسلامی سیاست کے خلاف منصوبے کرتے تھے وہ بھی مسجد میں مجالس کرنے کی وجہ سے دینی افعال کرتے تھے اور ہر قسم کی گرفت سے بالا تھی بلکہ حکومت اگر ان کو پکڑتی تو وہ مداخلت فی الدین کی مرتکب ہوجاتی تھی اور اس صورت میں نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم~صل۱~ پر الزام آئے گا کہ آپﷺ~ نے جو مذکورہ مسجد کو گروا دیا اور اس کی جگہ کھاد کا ڈھیر لگوا دیا یہ فعل نعوذ باللہ ناجائز کیا۔ پس تعجب ہے ان لوگوں پر جو علمائے اسلام کہلاتے ہیں اور مسجد کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور پبلک کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اگر فعل کی نوعیت کو دیکھے بغیر صرف مسجد کے نام سے کوئی فعل مذہبی ہوجات اہے تو پھر یہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم کی اس مذکورہ بالا مسجد میں انجمنیں اور جلسے کرنے شروع کئے تھے انہیں کیوں حق بجانب نہ سمجھا جائے مگر کیا کوئی مسلمان کہلانے والا ایسا خیال بھی کرسکتا ہے کہ رسول اللہ~صل۱~ نے ایک درست فعل کرنے والے کو سزا دی۔ احرار اور ان کے ساتھی یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے جو فعل مسجد میں کیا وہ قانونی تھا۔ مسجد کے باہر بھی اگر وہ فعل ہم کرتے تو اس پر گرفت کرنی ناجائز تھی۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر فعل جو مسجد میں کیا جائے وہ مذہبی ہوتا ہے اور اگر ہر فعل جو مسجد میں کیا جاتا ہے وہ مذہبی نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دنیوی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خلاف قانون ہو تو مسجد کے اندر کئے گئے ایسے فعل پر گرفت بھی جائز ہوگی جیسا کہ رسول کریم~صل۱~ نے مذکورہ بالا مسجد میں فتنہ کرنے والے لوگوں پر گرفت کی اور ان کی مسجد کو توڑ دیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسجد کے اندر گرفتاریاں کرنی مداخلت فی الدین ہے اور اسی سے متاثر ہو کر حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری نے ایک اعلان بھی کیا ہے کہ ہم نے تو ہدایت دی ہوئی ہے کہ مسجد کے اندر کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔ لیکن احرار اور ان کے ساتھی علماء کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط اور خلاف اسلام ہے۔ رسول کریم~صل۱~ کا اپنا فعل ان کے اس دعویٰ کے خلاف ہے تمام کی تمام مساجد خانہ کعبہ اور مسجد نبویﷺ~ کے نمونہ پر بنائی گئی ہیں یعنی تمام مساجد ان کے اظلال ہیں۔ چونکہ ہر شخص خانہ کعبہ میں نہیں جاسکتا اور ہر شخص مسجد نبویﷺ~ میں نہیں جاسکتا اس لئے اجازت دی گئی ہے کہ ان کی نقل میں ہر جگہ پر مسجدیں بنالی جائیں۔ پس کسی مسجد کو وہ فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی جو خانہ کعبہ کو یا مسجد نبویﷺ~ کو حاصل ہے اور کسی مسجد کو وہ حفاظت حاصل نہیں ہوسکتی جو خانہ کعبہ یا مسجد نبویﷺ~ کو حاصل ہے لیکن رسول کریم~صل۱~ نے فتح مکہ کے موقعہ پر گیارہ افراد کے نام لے کر فرمایا کہ کعبہ بھی ان لوگوں کو پناہ نہیں دے گا اگر یہ کعبہ میں پائے جائیں تو وہاں بھی ان کو قتل کردیا جائے۔ بلکہ آپ~صل۳~ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر تم ان لوگوں کو خانہ کعبہ کے پردوں سے بھی لٹکا ہوا پائو تو وہاں بھی ان کو نہ چھوڑو۔ )سیرت ۴۴ الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۹۲(
اب یہ علماء کہلانے والے لوگ مجھے بتائیں کہ کیا یہ مسجدیں جن میں وہ سازشیں کرتے ہیں اور حکومت کے احکام کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں یہ خانہ کعبہ سے زیادہ معزز ہیں ؟ اگر بعض مجرموں کو رسول کریم~صل۱~ خانہ کعبہ میں بھی قتل کردینے یا پکڑ لینے کا حکم دیتے ہیں تو دوسری مسجدوں کی خانہ کعبہ کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے کہ ان میں خلاف آئین کام کرنے والے لوگوں کو قانون سے آزادی ملنی چاہئے قرآن کریم تو صاف فرماتا ہے کہ مساجد تقویٰ کے قیام کیلئے قائم کی گئی ہیں نہ کہ قانون شکنی کیلئے۔ اگر مسجدیں قانون شکنی کیلئے ہیں تو پھر شیطان کیلئے تو کوئی گھر بھی بند نہیں رہتا۔ جن گھروں کو خدا تعالیٰ نے امن کیلئے` تسکین کیلئے روحانیت کیلئے` تقویٰ کیلئے` تعاون کیلئے` اتحاد کیلئے بنایا تھا ان گھروں کو مسلمانوں میں فتنہ ڈالنے کا ذریعہ بنانا` ان گھروں کو حکومت سے بغاوت کا ذریعہ بنانا` ان گھروں کو فتنہ و فساد کی بنیاد رکھنے کی جگہ بنانا تو ایک خطرناک ظلم ہے۔ ان افعال کے مرتکب کو مسجدوں میں پکڑنے والا مسجدوں کی بے حرمتی نہیں کرتا وہ مسجدوں کی عزت کو قائم کرتا ہے اور مسجدوں میں ایسے افعال کے مرتکب لوگ اول درجہ کے بزدل ہیں کہ حکومت کے ڈر کے مارے مسجدوں کی پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولﷺ~ کے نام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں اور تقویٰ کے مقامات کو فساد اور گناہ کی جگمیں بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس اس کے سوا کیا زور ہے کہ وہ عوام الناس کو بھڑکا رہے ہیں لیکن عوام الناس کے مل جانے سے نہ قرآن بدل سکتا ہے` نہ محمد~صل۱~ کی تعلیم بدل سکتی ہے` نہ محمد~صل۱~ کا عمل بدل سکتا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ گو مسلمان عوام تعلیم اسلام سے بے بہرہ ہیں مگر محبت اسلام ان کے دلون میں باقی ہے اور وہ اس دھوکے میں نہ آئیں گے اور ان لوگوں سے پوچھیں گے کہ شہید گنج کی مسجد کے سوال پر تو تم کو مسجد کی حرمت کا خیال نہ آیا مگر اب مسجد کے نام سے اپنے آپ کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کرتے ہو آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک عالم کہلانے والے صاحب نے تاریخ اسلام میں سے ایک مثال مسجد کی حرمت کی پیش کی ہے۔ انہوں نے ایک عباسی خلیفہ کا ذکر کیا ہے کہ اس نے اپنی بیوی سے خفا ہو کر حکم دیا کہ شام سے پہلے پہلے وہ بغداد سے نکل جائے اگر وہ نہ گئی تو اسے سزا دی جائے گی لیکن بعد میں وہ اپنے حکم سے پچھتایا اور اس نے علماء س پوچھا کہ اب میں کیا کروں۔ سب علماء نے بے بسی کا اظہار کیا لیکن امام ابو یوسف نے کہا کہ اس کا علاج تو آسان ہے وہ مسجد میں چلی جائے اس طرح وہ بچ جائے گی۔ میں ان عالم سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہر چور اور ڈاکو اور قاتل اورزانی اگر مسجد میں چلا جائے تو اس کا پکڑا جانا ناجائز ہوجائے گا۔ کیا اگر کوئی شخص مسجد میں کھڑے ہو کر اسلام اور اس کے شعائر کو نعوذ باللہ گالیاں دینی شروع کردے تو اس کی گرفتاری ناجائز ہوجائے گی۔ اور چونکہ آپ لوگوں کے نزدیک جو جگہ ایک دفعہ مسجد بن جائے پھر وہ مسجد کی شرطوں سے باہر نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص مسجد میں کھڑے ہو کر مسجد کی عمارت ہی کو گرانے لگ جائے تو اس کو کوئی سزا نہیں مل سکتی کیونکہ وہ مسجد میں کھڑا ہے اور ایک دینی کام کررہا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک
امام ابو یوسف نے اگر یہ واقعہ صحیح ہے )جو بظاہر صحیح نہیں( تو بادشاہ کو ایک حیلہ بتاتا ہے کیونکہ جب بادشاہ اپنے کئے پر پچھتایا تو بادشاہ خود اس عورت کو بچانا چاہتا تھا اس لئے مسجد میں جا کر وہ عورت قانون شکنی کی مرتکب نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ قانون بنانے والے کی مرضی کو پورا کررہی تھی۔ پس ان دونوں باتوں کا جوڑ کیا ہے؟ اگر تو امام ابو یوسف یہ کہتے کہ مسجد میں گھس کے جو چاہے جرم کرے اس کی اجازت ہے تو بے شک ان کے فتویٰ کے یہ معنی لئے جاسکتے تھے مگر وہ تو بادشاہ کی تائید میں ایک فتویٰ پیش کرتے ہیں اس کے خلاف فتویٰ پیش نہیں کرتے۔ میں ان فتویٰ دینے والے مفتیوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر انہی مسجدوں میں اور ان کے جلسوں میں کھڑے ہو کر کوئی احمدی ان کے خلاف تقریر شروع کردے تو کیا وہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ مسجد میں کوئی فساد نہیں ہوگا اور کوئی اس آدمی کو مارے پیٹے گا نہیں اور کیا مسجد اس کو بھی پناہ دے گی جو احرار کے خلاف مسجد میں بولے یا صرف ان احرار کو پناہ دے گی جو حکومت کے خلاف مسجد میں بولیں ؟
یہ علماء یہ بھی تو سوچیں کہ اگر مسجد ہر عمل کو پاک کردیتی ہے تو جب پولیس مسجد کے اندر جا کر غیر آئینی کارروائی کرنے والے کو پکڑ لے تو اس کا یہ مسجد کے اندر کیا ہوا فعل کیون دینی قرار نہ دیا جائے۔ آخر یہ امتیاز کہاں سے نکالا گیا ہے کہ دوسرے لوگ مسجد میں کوئی بھی کام کریں تو وہ دینی ہوجاتا ہے لیکن اگر پولیس یا حکومت مسجد میں کوئی کام کرے تو وہ دینی نہیں ہوتا۔
آخر میں میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے ایک احراری اخبار نے لکھا ہے کہ قانون شکن لوگوں کو مسجد میں گرفتار کر کے پاکستان کی حکومت نے وہ ظالمانہ فعل کیا ہے کہ انگریز کی حکومت نے بھی ایسا نہ کیا تھا۔ اول تو ہوم سیکرٹری صاحب پنجاب نے اس امر کی تردید کی ہے اور بیان دیا ہے کہ حکومت نے مسجد کے اندر گرفتار کرنے سے حکام کو روکا ہوا ہے۔ لیکن فرض کرو یہ صحیح ہو تو کیا احرار اس واقعہ کو بھول گئے ہیں جب انگریزی حکومت نے مساجد میں گھس کر خاکساروں پر حملہ کیا تھا اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کا فعل اچھا تھا کیونکہ سارے واقعات میرے سامنے نہیں۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے پاس سے بات گھڑ کر اس کی بناء پر انگریزی حکومت کو پاکستان کی حکومت پر ترجیح دینا کیا محض فساد کی نیت سے نہیں ؟<۴۵
عروج احمدیت کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی
جماعت احمدیہ اپنے محبوب امام سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کی قیادت میں خارق عادت رنگ میں ترقی کرتے ہوئے اس مقام تک جاپہنچی تھی کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود تحریک احمدیت کی آخری منزل کو قریب سے قریب تر لانے اور عالمگیر اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لئے مزید ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت تھی۔
اس ضرورت کے پیش نظر حضورؓ نے ۲۷ احسان ۱۳۳۱ ہش / جون ۱۹۵۲ء کو بذریعہ خطبہ جمعہ ایک تو یہ اصولی راہنمائی فرمائی کہ جب قومین اپنے زمانہ جوانی میں داخل ہوتی ہیں تو ان کا ہر تغیر ان کیلئے ایک نیک نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ دوسرے یہ پیشگوئی فرمائی کہ غلبہ احمدیت میں جتنی دیر لگ رہی ہے اسی نسبت سے جماعت احمدیہ کی عظمت و شوکت کا زمانہ بھی لمبا ہوگا۔
حضور کے اس انقلاب انگیز خطبہ کے بعض ضروری حصے درج کئے جاتے ہیں۔:
>سلسلہ احمدیہ اور میری عمر ایک ہی ہے جس سال حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ کیا ہے اور بیعت لی ہے میں اسی سال پیدا ہوا تھا۔ گویا جتنی میری عمر ہے اتنی عمر سلسلہ کی ہے لیکن افراد کی عمروں اور قوم کی عمر میں فرق ہوتا ہے۔ ایک فرد اگر ۷۰ یا ۱۰۰ سال زندہ رہ سکتا ہے تو قومیں ۳۰۰` ۴۰۰ سال تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ اگر تین سو سال بھی کسی قوم کی زندگی رکھ لی جائے تو اس کی جوانی کا زمانہ اس کے چوتھے حصہ کے قریب سے شروع ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان کی عمر ۷۲`۷۴ سال فرض کر لی جائے تو اس کی عمر کے چوتھے حصہ سے جوانی شروع ہوتی ہے یعنی ۱۸۔۱۹ سال سے انسان جوانی کی عمر میں داخل ہوتا ہے۔ اس طرح اگر کسی قوم کی عمر ۳۰۰ سال قرار دے لی جائے تو اس کی جوانی ۷۵ سال کی عمر سے شروع ہوگی۔ تمہاری عمر تو ابھی ۶۳ سال کی ہے ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ابھی جوان بھی نہیں ہوئی۔ اس پر ابھی وہ زمانہ ہے جب انسان کچھ بھی کھالے تو وہ اسے ہضم ہوجاتا ہے۔ ہزاروں مخالفتیں ہوں` مصائب ہوں` ابتلاء ہوں۔ یہ اس کی قوت کو بڑھانے کا موجب ہونے چاہئیں کمزوری کا موجب نہیں۔ اگر تم اس چیز کو سمجھ لو تو یقیناً تمہارے حالات اچھے ہوجائیں گے۔ جو لوگ جسمانی بنائوٹ کے ماہر ہیں ان کا خیال ہے کہ انسانی جسم اس یقین کے ساتھ بڑھتا ہے کہ اس کی طاقت بڑھ رہی ہے` طاقت کا مشہور ماہر سینڈو گزار ہے اس نے طاقت کے کئی کرتب دکھائے ہیں اور کئی بادشاہوں کے پاس جا کر اس نے اپنی طاقت کے مظاہرے کئے ہیں۔ اس نے ایک رسالہ لکھا ہے کہ مجھے ورزش کا کہاں سے خیال پیدا ہوا اور میرا جسم کیسے مضبوط ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ مجھے ایسے رنگ میں کام کرنے کا موقعہ ملتا تھا کہ میرے باز و بنیان سے باہر رہتے تھے۔ میں نے ایک دن اپنے بازو دیکھ کر خیال کیا کہ میرے بازو مضبوط ہورہے ہیں۔ اس خیال کے انے کے بعد میں نے ورزش شروع کردی اور آہستہ آہستہ میرا جسم مضبوط ہوتا گیا۔ سینڈو کا یہ خیال تھا کہ ورزش لنگوٹا باندھ کر کرنی چاہئے تا ورزش کرنے والے کی نظر اس کے جسم کے مختلف حصوں پر پڑتی رہے اور اسے یہ خیال رہے کہ اس کا جسم بڑھ رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے لنگوٹا باندھ کر ورزش شروع کی۔ میں ہمیشہ یہ خیال کرتا تھا کہ میرے جسم کا فلاں حصہ بڑھ رہا ہے اور مجھ پر یہ اثر ہوا کہ صحت کی دوستی خیال کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ جب تک انسان کا خیال اس کی مدد نہیں کرتا اس کا جسم مضبوط نہیں ہوتا۔ اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ورزش کرنے والا اپنے جسم کو دیکھ رہا ہو۔ یہ نہایت کامیاب اصل ہے۔ ہزاروں نے اس کا رجربہ کیا اور اسے کامیاب پایا اور انہوں نے اپنے جسموں کو درست کیا۔ تمہیں بھی اٹھتے بیٹھتے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ تم ہمت محسوس کررہے ہو اور تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ تم تو ابھی جوان بھی نہیں ہوئے۔ تمہاری عمر ابھی ۶۳ سال کی ہے۔ اور اگر تمہاری عمر کم سے کم عمر بھی قرار دے لی جائے تو تم نے ۷۵ سال کے بعد جا کر جوان ہونا ہے اور پھر ۱۵۰۔۱۷۵ سال جوانی کے بھی گزرنے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم کی عمر کو لیا جائے تو اس کی جونای کی عمر ۵۰۰ سال کی تھی ۲۶۰ سال گزر جانے کے بعد ان کی جوانی کا وقت شروع ہوا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے ہیں ان کے مطابق ہماری جوانی پہلے شروع ہوگی۔ بہرحال ہماری ان سے کچھ مشابہت تو ہونی چاہئے ممکن ہے ہماری جوانی کا وقت ۱۰۰ یا سوا سو سال سے شروع ہو۔ اس صورت میں جونای کا زمانہ پونے دو سو سے اڑھائی سو سال تک کا ہوگا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جن کی جوانی میں دیر لگتی ہے ان کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں اور جن کی عمریں چھوٹی ہوتی ہیں ان کی جوانی بھی جلدی آتی ہے۔ جانوروں کو دیکھ لو جن جانوروں کی عمر چار پانچ سال کی ہوتی ہے ان کی جوانی مہینوں میں ہوتی ہے اور جو جانور ۲۷`۲۸ سال تک زندہ رہتے ہیں ان کی جوانی سالوں میں آتی ہے۔ گھوڑے کو لے لو اس کی عمر بیس پچیس سال کی ہوتی ہے اور اس کی جوانی کی عمر کہیں چار سال سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن بکری اور بلی چوتھے پانچویں ماہ جوان ہوجاتے ہیں۔ گویا جتنی کسی کی عمر چھوٹی ہوگہی اسی نسبت سے اس کی جوانی پہلے آئے گی اور جتنی کسی کی عمر لمبی ہوگی اسی نسبت سے اس کی جوانی بھی بعد میں آئے گی۔ تمہاری زندگی کا لمبا ہونا مقدر ہے۔ اور یہ نیک فال ہے کہ ابھی تمہاری جوانی کا وقت نہیں آیا۔ اگر تم ۶۳ سال کی عمر میں ابھی نیم جوانی کی حالت میں ہو تو معلوم ہوا کہ تمہاری عمر لمبی ہے۔ عمر اور جوانی میں کچھ نسبت ہوتی ہے۔ لمبی عمر ہو تو جوانی دیر سے آتی ہے اور اگر جوانی دیر سے آئے تو معلوم ہوا کہ عمر لمبی ہوگی۔ بہرحال اس زمانہ تک جماعت احمدیہ کا ترقی نہ کرنا حیرت کا موجب نہیں ۶۳ سال جماعت پر گز چکے ہیں اگر ۶۳ سال میں جماعت غالب نہیں آئی تو یہ خوشی کی بات ہے عیسائیوں پر پونے تین سو سال میں جوانی آئی اور اج تک وہ پھیلتے چلے جارہے ہیں۔ ایک لمبے عرصہ تک انہیں مصائب جھیلنے پڑے۔ تکالیف برداشت کرنی پڑیں اور وہ غور و فکر کرتے رہے جس کی وجہ سے انہیں ہر کام کے متعلق غور کرنے اور فکر کرنے کی عادت پڑ گئی اور اس کے نتیجہ میں انہوں نے بعد میں شاندار ترقی حاصل کی۔
پس ہماری جماعت پر جوانی کا وقت انے میں جو دیر لگی ہے اس کی وجہ سے ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے جوانی دیر سے آنے کے یہ معنے ہیں کہ جماعت کی عمر بھی لمبی ہوگی اور احمدیت دیر تک قائم رہے گی۔ یہ چیزیں تمہاری گھبراہٹ کا موجب نہیں ہونی چاہئیں بلکہ تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ جماعت کو لمبی عمر دینا چاہتا ہے۔ تم سوچنے اور فکر کرنے کی عادت ڈالو۔ تمہاری طاقت` تمہارا ایان` تمہاری قوت مقابلہ اور عقل سوچنے سے بڑھے گی۔< ۴۶
صبر و صلٰوۃ کی پر زور تحریک
ابتلائو اور آزمائشوں کے ان پرفتن ایام میں جب کہ مخالف عناصر کا سارا زور غیر اسلامی بلکہ غیر اخلاقی حربوں ۴۷ کے استعمال پر صرف ہورہا تھا` حضرت مصلح موعودؓ اپنے مستقل طریق کے مطابق قدم قدم پر خدا کی جماعت کو صبر و صلٰوۃ کی تاکیدی فرما رہے تھے۔
چنانچہ حضور نے ۴ وفا ۱۳۳۱ ہش/جولائی ۱۹۵۲ء کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:۔
>قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دعویٰ تو یہ کریں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن ان کو آزمائشوں اور ابتلائوں کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولو امنا وھم لایضلنون کیا یہ لوگ وہم بھی کرسکتے ہیں۔ کیا مسلمان اس قسم کے خیالات میں مبتلا ہیں کہ انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ انہیں آزمائشوں اور ابتلائوں کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے گا۔ انہیں تکالیف اور مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ انہیں ٹھوکریں نہیں لگیں گی حالانکہ وہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے۔ یہ قاعدہ کلیہ ہے جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اسے ابتلائوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ضرور ڈالا جاتا ہے۔ اگر یہ قاعدہ کلیہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ابتدائے اسلام میں یہ نہ فرماتا کہ تم کس طرح یہ خیال کرتے ہو کہ تم دعویٰ تو یہ کرو کہ ہم ایمان لائے لیکن تمہیں ابتلائوں اور آزمائشوں میں نہ ڈالا جائے۔ اسے ٹھوکریں نہ لگیں۔ وہ مخالفت کی آگ میں نہ پڑے۔
پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم ایک مامورمن اللہ کی آواز پر لبیک کہنے والے ہیں تو انہیں ابتلائوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں ڈالا جائے گا خدا تعالیٰ فرماتا ہے وھم لا یغتنون اگر یہ سچ ہے کہ تم ایمان لائے ہو تو یہ بات بھی سچ ہے کہ تمہیں ابتلائوں میں ڈالا جائے گا۔<
حضور نے یہ حقیقت ذہن نشین کرانے کے بعد ارشاد فرمایا:۔
>پس ہماری جماعت کو مشکلات کے مقابلہ میں دعا اور نماز کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ میرے تو وہم میں بھی یہ نہیں ایا کہ کوئی احمدی نماز چھوڑتا ہے۔ اگر کوئی ایسا احمدی ہے جو نماز کا پابند نہیں تو میں اسے کہوں گا کہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس وقت تم پر نماز گراں نہیں ہونی چاہئے۔ مصیبت کے وقت میں نماز گراں نہیں ہوتی مصیبت کے وقت لوگ دعائیں مانگتے ہیں گر یہ وزاریاں کرتے ہیں۔ ۱۹۰۵ء میں جب زلزلہ آیا تو اس وقت ہمارے ماموں میر محمد اسمعیل صاحبؓ لاہور میں پڑھتے تھے آپ ہسپتال میں ڈیوٹی پر تھے کہ زلزلہ آیا۔ آپ کے ساتھ ایک ہندو طالب علم بھی تھا جو دہریہ تھا اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق ہنسی اور مذاق کیا کرتا تھا۔ جب زلزلہ کا جھٹکا آیا تو وہ رام رام کر کے باہر بھاگ آیا جب زلزلہ رک گیا تو میر صاحب نے اسے کہا تم رام پر مذاق اڑایا کرتے تھے اب تمہیں رام کیسے یاد آگیا ؟ اس کے بعد خوف کی حالت جاتی رہی تھی۔ زلزلہ ہٹ گیا تھا۔ اس نے کہا یونہی عادت پڑی ہوئی ہے اور منہ سے یہ لفظ نکل جاتے ہیں۔ پس حقیقت یہ ہے کہ مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ یاد آجاتا ہے۔ جس شخص کو مصیبت کے وقت بھی خدا تعالیٰ یاد نہیں آتا سمجھ لو کہ اس کا دل بہت شقی ہے۔ وہ اب ایسا لاعلاج ہوگیا ہے کہ خطرہ کی حالت بھی اسے علاج کی طرف توجہ نہیں دلاتی پس اگر ایسے لوگ جماعت میں موجود ہیں جو نماز کے پابند نہیں تو میں انہیں کہتا ہوں کہ یہ وقت ایسا ہے کہ انہیں اپنی نمازوںکو پکا کرنا چاہئے اور جو نماز کے پابند ہیں میں انہیں کہتا ہوں آپ اپنی نمازیں سنوا دیں اور جو لوگ نماز سنوار کر پڑھنے کے عادی ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ بہتر وقت دعا کا تہجد کا وقت ہے نماز تہجد کی عادت ڈالیں۔ دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری مشکلات کو دور فرمائے اور لوگوں کو صداقت قبول کرنے کی توفیق دے۔ مجھے اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ دشمن کیا کہتا ہے۔ لیکن یہ ڈر ضرور ہے کہ جب اس قسم کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تو اکثر لوگ صداقت کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پس ہماری سب سے مقدم دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہماری مسکلات کو دور کردے۔ جو لوگوں کے صداقت قبول کرنے میں روک ہیں اور ان کی توجہ اس طرف پھیر رہی ہیں۔ ابتلاء مانگنا منع ہے لیکن اس کے دور ہونے کیلئے دعا مانگنا سنت ہے اس لئے یہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ وہ روکیں دور کردے جو لوگوں کو صداقت قبول کرنے سے ہٹا رہی ہیں اور ہماری فکر مندیوں کو دور کردے۔ ہاں وہ ہمیں ایسا بے فکر اور بے ایمان نہ بنائے کہ جس کی وجہ سے ہمارے ایمان میں خلل واقع ہو۔ درحقیقت ایمان کا کمال یہ ہے کہ انسان خوف اور امن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکے اگر کوئی شخص خوف اور امن دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے امن دیتا ہے۔ لیکن جو مومن خوف کی حالت میں خدا تعالیٰ کے سامنے جھکتا ہے امن کی حالت میں نہیں خدا تعالیٰ اس کیلئے ٹھوکریں پیدا کرتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ اسے مرتذ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کیلئے امن کی حالت پیدا کردیتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ سے دور ہوجاتا ہے۔ پس جو لوگ نماز کے پابند ہیں وہ نماز سنوار کر پڑھیں اور جو نماز سنوار کر پڑھنے کے عادی ہیں وہ تہجد کی عادت ڈالیں پھر نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیں پھر نہ صرف نوافل پڑھیں بلکہ دوسروں کوبھی نوافل پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ خدا تعالیٰ نے لوگوں کو روزہ کی عادت ڈالنے کیلئے ایک ماہ کے روز سے فرض کئے ہیں۔ روزے فرض ہونے کی وجہ سے ایک مسلمان ایک ماہ جاگتا ہے اور پھر اپنے ساتھیوں کو بھی جگاتا ہے ڈھول پٹتے ہیں اور اسی طرح تمام لوگ اس مہینہ میں تہجد کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اگر ایک ہمسایہ روزہ کیلئے نہ اٹھتا تو دوسرا بھی نہ اٹھتا۔ لیکن چونکہ ایک آدمی روزہ کیلئے اٹھتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرا بھی بیدار ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے اس طرح روزے فرض کرنے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ سب لوگوں کو اس عبادت کی عادت پڑ جائے پس اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ ربوہ کی جماعت کے افسران اور عہدیداران محلوں میں تہجد کی تحریک کریں اور جو لوگ تہجد پڑھنے کیلئے تیار ہوں اور یہ عہد کریں کہ وہ تہجد پڑھنے کے لئے تیار ہیں ا نکے نام لکھ لیں اور جب وہ چند دنوں کے بعد اپنے نفوس پر قابو صالیں تو انہیں تحریک کی جائے کہ وہ باقیوں کو بھی جگائیں۔ جب سارے لوگ اٹھنا شروع ہوجائیں۔ پیسے بچنے لگ جائیں تو کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا نماز پڑھنے کو دل تو چاہتا ہے لیکن نیند کے غلبہ کی وجہ سے بیدار نہیں ہوتے وہ بھی تہجد کیلئے اٹھ بیٹھیں گے رمضان میں لوگ اٹھ بیٹھتے ہیں اس لئے کہ اردگرد شور ہوتا ہے۔ اکیلے آدمی کو اٹھائیں تو وہ سوجاتا ہے لیکن رمضان میں وہ نہیں سوتا اس لئے کہ اردگرد آوازیں آتی ہیں۔ کوئی قرآن کریم پڑھتا ہے۔ کوئی دوسرے کو جگاتا ہے۔ کوئی دوسرے آدمی سے کہتا ہے کہ ہارے ہاں ماچس نہیں ذرا ماچس دے دو۔ ہمارے ہاں مٹی کا تیل نہیں تھوڑا سا مٹی کا تیل دو۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارے ہاں آگ نہیں آگ دو۔ کوئی کہتا ہے میں سحری کھانے کیلئے تیار ہوں روٹی تیار ہے ؟ یہ آوازیں اس کا سونا دوبھر کردیتی ہیں وہ کہتا ہے نیند تو آتی نہیں لیٹنا کیا ہے چلو چند نفل ہی پڑھ لو۔ رمضان بے شک برکت ہے لیکن رمضان میں جاگنے کا بڑا ذریعہ یہی ہوتا ہے کہ اردگرد سے آوازیں آتی ہیں اور وہ انسان کو جگادیتی ہیں۔ ایک آدمی آٹھ بجے سوتا ہے اور اسے دو بجے بھی جاگ نہیں آتی لیکن ایک آدمی بارہ بجے سوتا ہے لیکن تین بجے اٹھ بیٹھتا ہے اس لئے کہ اردگرد سے آوازیں آتی ہیں۔ ذکر الٰہی کرنے کی آوازیں آتی ہیں۔ قرآن کریم پڑھنے کی آوازیں آتی ہیں۔ کوئی کسی کو جگا رہا ہوتا ہے اور کوئی کھانا پکا رہا ہوتا ہے اور اس کی آواز اسے آتی ہے۔ اس لئے صرف تین گھنٹے سونے والا بھی اٹھ بیٹھتا ہے یہ ایک تدبیر ہے جس سے جاگنے کی عادت ہوجاتی ہے۔ پس مقامی عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ اس کا محلوں میں انتظام کریں اور پھر اسے باہر بھی پھیلایا جائے تا آہستہ آہستہ لوگ تہجد کی نماز کے عادی ہوجائیں پھر اگر کوئی تہجد کا مسئلہ پوچھے تو اسے کہو کہ اگر تہجد رہ جائے تو اشراق کی نماز پڑھو جو دو رکعت ہوتی ہے۔ وہ بھی رہجائے تو ضحیٰ پڑھو جو تہجد کی طرح دو سے آٹھ رکعت تک ہوتی ہے اس طرح تہجد اور نوافل کی عادت پڑ جائے گی۔ صلٰوۃ کے دو معنے ہیں نماز اور دعا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واستعینو بالصبر والصلوہ تم مدد مانگو صبر` نماز اور دعا سے۔ اور جو شخص خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ کوئی شخص اس پر غالب نہیں آسکتا۔ اگر خدا تعالیٰ ہے تو سیدھی بات ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں۔ اگر خدا تعالیٰ سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں یقیناً وہی شخص جیتے گا جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے۔ بے شک کسی کے ساتھ دنیا کی سب طاقتیں ہوں` جلسے ہوں` جلوس ہوں` نعرے ہوں` قتل و غارت ہو` قید خانے ہوں` پھانسیاں ہوں` *** و ملامت ہو لیکن جیتے گا وہی جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہے۔ دلوں کی حالت کے متعلق رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ ۴۹ خدا تعالیٰ ہی دلون کے بھید جانتا ہے وہی دلوں کو بدل سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان کے کیا خیالات ہیں اور ان کا ردعمل کیا ہے ؟ وہ دلوں کو جانتا ہے۔ وہ اعمال کو جانتا ہے اور ان کے ردعمل کو جانتا ہے۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو میری طرف آتا ہے اسے دلوں کی طرف ایک سرنگ مل جاتی ہے۔ آخر دلون کو بدلنے کا کونسا ذریعہ ہے سوائے اس کے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں۔ خدا تعالیٰ نے اس کا ذریعہ صبر و صلٰوۃ مقرر کردیا ہے۔ صبر کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے کامل محبت ہو۔ وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مقدم ہے اور باقی ہر چیز موخر ہے اس لئے وہ اس کیلئے ہر مشکل اور تکلیف کو برداشت کر لیتا ہے۔ گویا صبر میں جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ اور صلٰوۃ میں عشقیہ طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ صبر جبری محبت اور نماز طوعی محبت ہم کچھ کام جبری طور پر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑنا یہ چیز جبری ہے۔ مشکلات اور مصائب تم خود پیدا نہیں کرتے۔ دشمن مشکلات اور مصائب لاتا ہے اور تم انہیں برداشت کرتے ہو اور خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑتے لیکن نماز طوعی ہے نماز تمہیں کوئی اور نہیں پڑھاتا نماز تم خود پڑھتے ہو۔ پس تم صبر میں جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا ثبوت دیتے ہو اور نماز میں طوعی طور پر اس کا اظہار کرتے ہو اور یہ دونوں چیزیں مل جاتی ہیں تو محبت کامل ہوجاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا فیضان جاری ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فیضان کو حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس سے صبر و صلٰوۃ کے ساتھ مدد مانگو۔ خدا تعالیٰ کا دلوں پر قبضہ ہے وہ انہیں بدل دے گا۔ میں جب تم سے کہتا تھا کہ جماعت پر مصائب اور ابتلائوں کا زمانہ آنے والا ہے اس لئے تم بیدار ہوجائو اس وقت تم میری بات پر یقین نہیں کرتے تھے تم ہنسی اڑاتے تھے اور لکھتے تھے کہ آپ کہاں کی باتیں کرتے ہیں ہمیں تو یہ بات نظر نہیں آتی۔ اور جب کہ فتنہ آگیا ہے میں تمہیں دوسری خبر دیتا ہوں کہ جس طرح بگولا آتا ہے اور چلا جاتا ہے یہ فتنہ مٹ جائے گا یہ سب کارروائی ھباء منثواً ہوجائیں گی۔ خدا تعالیٰ کے فرشتے آئیں گے اور وہ ان مشکلات اور ابتلائوں کو جھاڑو دے کر صاف کردیں گے۔ لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ تم صبر اور صلٰوۃ کے ساتھ میری مدد مانگو تمہیں مدد دوں گا لیکن تم دو باتیں کرو اول مصائب اور ابتلائوں پر گھبرائو نہیں۔ انہیں برداشت کرو اور دوسرے نمازوں اور دعائوں پر زور مجھے پتہ لگ جائے کہ تمہاری محبت کامل ہوگئی ہے۔ اور جب تمہاری محبت کامل ہوجائے گی تو میں بھی ایسا بے وفا نہیں ہوں کہ میں اپنی محبت کا اظہار نہ کروں< ۵۰
tav.13.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
فصل سوم
>مسلمان فرقہ احمدیہ< کی تکفیر کا نیا دور مطالبہ >غیر مسلم اقلیت< پر مختلف مسلمان حلقوں کی طرف سے تشویش واضطراب احمدی علم کلام کی برتری کا اعتراف اور ایک دلچسپ تجویز۔
ماہ جولائی ۱۹۵۲ء کے شرع میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے نمائندہ خصوصی مقیم مصر نے یہ انکشاف کیا کہ مصر میں بھارت اور افغانستان مل کر اس قسم کی سازشیں کررہے ہیں کہ پاکستان کو عرب ممالک سے بالکل الگ کردیا جائے۔ پاکستان اور عرب ملکوں میں کشیدگی پیدا کرنے کی ایک عرصہ سی یہاں بھارتی اور افغان ایجنٹ منصوبے بنا رہے ہیں تاکہ عرب ممالک میں پاکستان کو بدنام کر کے عرب ملکوں کو بھارتی حلقہ اقتدار میں شامل کردیا جائے۔۵۱
جماعت احمدیہ کی تکفیر کا نیا دور
اس انکشاف کے چند روز بعد احرار کی کوشش سے ۱۳۔ جولائی ۱۹۵۲ء کو برکت علی محمڈن ہال لاہور میں ایک >آل پاکستان پارٹیز کنونیشن< منعقد ہوا جس میں مختلف مکاتب فکر کے سیاسی اور مذہبی راہنما اور دیگر مندوب کم و بیش سات سو کی تعداد میں جمع ہوئے اور احراری مطالبات کے حق میں زور شور سے پراپیگنڈا کرنے کا فیصلہ کیا ۵۲ جس کے بعد حکومت پاکستان اور جماعت احمدیہ کے خلاف جارحانہ سرگرمیاں تیز کردی گئیں اور >مسلمان فرقہ احمدیہ< یا احمدی مذہب کے مسلمانوں ۵۳]txet [tag کے خلاف تکفیر کا نیا دور شروع ہوا۔
جماعت احمدیہ اپنے قیام کے روز اول ہی سے روح کافر گری کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی بلکہ خود حضرت مسیح موعودؑ پر تو براہین احمدیہ جیسی عظیم الشان تصنیف اور علمی شاہکار کی پاداش میں ۱۸۸۴ء ہی سے فتویٰ کفر لگ چکا تھا اور اس میں مختلف فرقوں کے علماء حتیٰ کہ حرمین شریفین کے حنفی مسلک کے مفتیان بھی شامل ہوگئے تھے جیسا کہ نومبر ۱۸۸۸ء کے مطبوعہ رسالہ >نصرت الابرار< سے ثابت ہے۔ ۵۴
حضرت مسیح موعودؑ نے ایک بار فرمایا تھا:۔
>عجیب بات یہ ہے کہ جتنے اہل اللہ گذرے ان میں کوئی بھی تکفیر سے نہیں بچا۔ کیسے کیسے مقدس اور صاحب برکات تھے ۔۔۔۔۔۔ یہ تو کفر بھی مبارک ہے جو ہمیشہ اولیاء اور خدا تعالیٰ کے مقدس لوگوں کے حصہ میں ہی آتا رہا ہے۔< ۵۵
تکفیر کے قدیم و جدید دور میں ایک فرق
اس اعتبار سے ۱۹۵۲ء کا فتنہ تکفیر احمدیوں کے لئے کوئی انوکھی چیز نہ تھی نہ ہوسکتی تھی البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ تقسیم ملک سے قبل جو فتاویٰ کفر صادر کئے گئے ان سے انگریزی حکومت یا ہندوئوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ تقویت پہنچتی تھی مگر تکفیر کے اس نئے دور میں اس کا مقصد ایک اسلامی مملکت کو نقصان پہنچانا تھا۔
ملک محمد جعفر خان کا بیان
چنانچہ ملک محمد جعفر خاں )وزیر مملکت پاکستان برائے اقلیتی امور و سیاحت( فرماتے ہیں:۔
>پنجاب میں ختم نبوت کی ایجی ٹیشن میں سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ احمدیون کو سیاسی لحاظ سے ایک اقلیت کا درجہ دے دیا جائے۔ اس مطالبے کی تہ میں کوئی قابل ستائش ملک یا قومی مفاد نہ تھا۔<
>یہ بات تو انسانی فہم ہی سے بالا ہے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے ختم نبوت کا کیا تعلق ہے بہرحال تحریک جو کچھ تھی چلی اور خوب چلی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مملکت کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔< ۵۷۵۶
محض لفظی نزاع
ملک صاحب موصوف نے کھلے لفظوں میں اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت میں احمدی اور غیر احمدی علماء میں محض لفظی نزاع ہے اس لئے مخالف احمدیت علماء احمدیوں کو خارج از اسلام اور غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:۔
>ہمیں اس امر نے ہمیشہ حیران کیا ہے کہ جس ختم نبوت کے عقیدہ سے انکار کی بناء پر علماء جماعت احمدیہ کو اسلام سے کارج قرار دیتے ہیں اس کی روشنی میں یہ علماء اپنے پوزیشن پر کیوں غور نہیں کرتے ؟ اگر ختم نبوت سے یہ مراد ہے کہ محمد~صل۱~ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور ہمارے نزدیک یہی مراد ہے تو جماعت احمدیہ اور غیر احمدی علماء جو نزول مسیحؑ پر ایمان رکھتے ہیں دونوں ہی ختم نبوت کے منکر ہیں مسیح ابن مریمؑ کے نبی ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اور اگر ان کو رسول کریم~صل۱~ کے بعد آنا ہے تو نبی کریم خاتم النبین نہیں ہوسکتے۔ احمدیوں کے نزدیک مسیح ابن مریمؑ کو نہیں آنا بلکہ ان کے مثیل کو آنا تھا جو مرزا صاحب کی ذات میں آگیا۔ ساتھ ہی ان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ مثیل بھی نبی ان کے مثیل کو آنا تھا جو مرزا صاحب کی ذات میں اگیا۔ ساتھ ہی ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مثیل بھی نبی ہے بلکہ اپنی شان میں مسیح ناصری سے بڑھ کر ہے۔ اس طرح بنیادی لحاظ سے ان دو فریقوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے صرف اتنا فرق ہے کہ ایک فریق ایک نبی کے آنے کا منتظر ہے اور دوسرے کا خیال ہے کہ نبی آچکا ہے۔< ۵۸
>تحفظ ختم نبوت< کا ادعا اور اس کی حقیقت
ان لوگوں کو >ختم نبوت< اور اس کے تحفظ سے کہاں تک تعلق تھا ؟ اس کا اندازہ >امیر شریعت< ۵۹ احرار سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری کے مندرجہ ذیل بیان سے بخوبی لگ سکتا ہے جو انہوں نے ۶ جولائی ۱۹۵۲ء کو ملتان کے ایک معزز اجتماع میں دیا:۔
>میں ممتاز صاحب دولتانہ کو اس لئے اپنا لیڈر جانتا ہوں کہ ایک تو وہ صوبہ مسلم لیگ کے صدر ہیں اور دوسرے وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اگر دولتانہ صاحب کہہ دیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان لے آئوں گا اور مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خلیفتہ المسیح مان لوں گا۔ ۶۰
یہ وہی >امیر شریعت< تھے جنہوں نے قبل ازیں >ختم نبوت کانفرنس کراچی< میں یہ فرماتا تھا کہ :۔
>اگر خواجہ غریب نواز اجمیری` سید عبدالقادر جیلانی` امام ابوحنیفہ` امام بخاری` امام مالک` امام شافعی ` ابن تیمیہ` غزالی` حسن بصری` نبوت کا دعویٰ کرتے تو کیا ہم انہیں نبی مان لیتے۔ علیؓ دعویٰ کرتا کہ جسے تلوار حق نے دی اور بیٹی نبی نے دی۔ عثمان غنی دعویٰ کرتا` فاروق اعظم دعویٰ کرتا` ابوبکر صدیق دعویٰ کرتا تو کیا بخاری اسے نبی مان لیتا۔< ۶۱
حکومت پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی
آل مسلم پارٹیز کنونیشن کے انعقاد کے بعد عوام کو کس طرح کھلم کھلا تشدد اور بغاوت پر اکسایا جانے لگا اس کا صرف ایک نمونہ کافی ہے۔ احرار کے >مجاہد ملت< مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے اگست ۱۹۵۲ء میں ملتان کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:۔
>اگر حکومت نے کراچی کی طرح سنگینوں کے سائے میں مرزائیت کی جبری تبلیغ کروانی ہے تو پھر ہماری تمہاری جنگ ہے۔ اگر اظہار استبداد کے معنی بغاوت ہے۔ اگر مظلوم کی فریاد کے معنی بغاوت ہے۔ اگر بیزاری بیداد کے معنی بغاوت ہے تو پھر میں ایک باغ ہوں میرا مذہب بغاوت ہے۔<
>محمدﷺ~ ملک کے لئے نہیں ملک محمد کے لئے ہے اور ایسے کروڑوں خطہ ارضی محمد کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں۔ ۶۲]ydob [tag اپنی وزارتوں کے تحفظ کے لئے سیفٹی اور سیکیورٹی ایکٹ بنانے والو ! اس دن کے متلعق بھی سوچ لو جب حوض کوثر پر محمد~صل۱~ کوثر کا پیالہ ہاتھ میں لئے سوال کریں گے تمہاری وزارتوں میں میری نبوت کیوں کر رسوا ہوئی تو سوچ لو اس وقت تمہارا کیا جواب ہوگا؟<۶۳
محب وطن حلقوں میں تشویش واضطراب اور سیاسی ردعمل
یہ شعلہ نوائی جلد ہی رنگ لائی اور عوام میں اپنے حکمرانوں کے خلاف آتش انتقال سلگنے لگی۔ امن غارت ہونے لگا اور انتشار اور بدامنی اور بے اطیمنانی کا مہیب طوفان امڈتا دکھائی دینے لگا تو تمام محب وطن مسلمان حلقوں میں تشویش و اضطراب کی زبردست لہر پیدا ہوگئی۔ حتیٰ کہ وہ طبقہ بھی جو اب تک خاموش کھڑا اس معاملہ کو ایک دینی مسئلہ سمجھے بیٹھا تھا` احتجاج کرنے لگا۔
ملتان
ان دنوں اس تحریک کا اصل مرکز ملتان تھا جس کے بیس صحافیوں نے >تحریک ختم نبوت کا موجود دور< کے عنوان سے حسب ذیل اشتہار شائع کیا:۔
>تحریک ختم نبوت کی ابتداء جن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر کی گئی اس نے بلا امتیاز فرقہ ہر ایک مسلمان کا دل و دماغ اپنی طرف متوجہ کر لیا لیکن ہمیں افسوس ہے کہ یہ مقدس تحریک جس موجودہ دور سے گذر رہی ہے اور اس سے پاکستانی عوام` پاکستان کی سالمیت` سکون اور امن پر جو ہولناک حملے ہورہے ہیں اس نے ہر ایک ذی شعور مسلمان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ بانیان تحریک کون ہیں اور اس تحریک سے ان کا اصل مقصد کیا ہے ؟
ہم صحافیان ملتان نے دیگر صوبہ جات مملکت خدا داد پاکستان کے مسلمانوں کے خیالات کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ ہم نے حکومت کے اعلانات` بیانات اور انسدادی تدابیر پر بھی غور کیا ہے۔ ہم نے ان خیالات پر بھی دھیان دیا ہے جو دیگر ممالک کی صہافت نے اس تحریک کے متعلق ظاہر کئے ہیں۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ سمجھدار طبقہ اس تحریک کی موجودہ انتشار انگیز ضرر رساں شکل کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ مسلم عوام کا ایمان تازہ` ارادے مستقل اور قدم مضبوط ہیں اور وہ ہر ایسی تحریک سے دیوانہ وار منسلک ہوجاتے ہیں جو قوم` ملک اور مذہب کے نام پر چلائی جائے۔ لیکن اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ ان کی یہ قربانیاں ملک و ملت کے لئے مفید بھی ہیں یا نہیں ؟ اگر تحریک کے علمبردار پاکستان دشمنی` قوم کی تباہی اور دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے درپے ہوں تو فدیان ناموس رسولﷺ~ کا اولین فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے دشمنوں کے دھوکہ میں نہ آئیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے وقت میں قومی مفاد کے تحفظ کی ذمہ داری جہاں گونمنٹ پر عائد ہوتی ہے وہاں ملکی صحافت اور عوام پر بھی اسی طرح اس ذمہ داری کا بوجھ پڑتا ہے۔
ہم صحافیان ملتان پورے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ تحریک کو موجودہ انتہائی خطرناک اور غیر آئینی رنگ دینے میں یقیناً دشمنان پاکستانکا ہاتھ ہے اور وہ اس مقدس نعرہ کی آڑ لے کر ملک کی خوشحالی و امن و سکون کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ لٰہذا ہم صحافیان ملتان کو تحریک کے اصل پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے ان پر یہ واضح کردیں کہ تحریک کی موجودہ شکل کو تحریک ختم نبوت کا نام دینا ہی اس مقدس ترین نام کی توہین سے لٰہذا وہ اسے تحریک ختم نبوت کا نام نہ دیں بلکہ اسے دشمنان پاکستان کے ایجنٹوں کی تحریک سمجھیں۔
)شیخ( مظفر الدین ایڈیٹر روزنامہ >زمیندار سدھار< )چوہدری( محمد ظفر محزون ایڈیٹر رونامہ >کارزار< )صاحبزادہ ڈاکٹر( عبدالستار حامد ایڈیٹر ہفت روز >کلیم< )شیخ( عاشق حسین حسینی ایڈیٹر >روشن چراغ< )مولانا( منظور احمد اختر ایڈیٹر >الجیلان< )مسٹر( رسول بخش ارشد ملتان ایڈیٹر ہفت روزہ >صدائی حق< )مسٹر( امان اللہ غازی ایڈیٹر >جدت< )قاری( وحید الزمان رزمی ایڈیٹر ہفت روزہ >بیوپاری< )مولانا الحاج( محبوب احمد اویسی ایڈیٹر ہفت روزہ >محسن< )مولانا( خدا بخش اویسی ایڈیٹر ہفت روزہ >مقبول< )مسٹر( اختر رسول ایڈیٹر ہفت روزہ >طوفان< )شیخ( غلام علی ظفر حیدری ایڈیٹر >الکائنات< )شیخ( علائو الدین اختر ایڈیٹر >زمیندار سدھار< )خان( محمد اکرم خان ایڈیٹر روزنامہ ¶>شمس< بد )شیخ( منور دین ایڈیٹر سہ روزہ >نوائے عامہ< )خواجہ( عبدالکریم قاصف ایڈیٹر ہفت روزہ >ملتان کرانیکل< )چوہدری( نظر حسین نطر ایدیٹر ہفت روز >زلزلہ< )ڈاکٹر( احتشام الحق ایڈیٹر >ہومیوپیتھی< بیگم شمیم حسینی مدیرہ >شمیم< )ڈاکٹر حکیم( فاروق احمد اویسی جرنلسٹ۔ )خادم کاتب( )یونین پریس ملتان شہر<( ۴۶
لاہور
لاہور جہاں >آل مسلم پارٹیز کنونیشن< منعقد ہوئی اور جہاں سے >آزاد< اور >زمیندار< وغیرہ اخبارات شورش کو ہوا دینے میں سرگرم تھے۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ` امروز اور نوائے وقت جیسی وقیع اخبارات نے ڈٹ کر اس امن شکن تحریک کے خلاف آواز بلند کی۔ چنانچہ روزنامہ >نوائے وقت< لاہور نے ۲۳ جولائی ۱۹۵۲ء کے ایشوع میں مسلمانوں کی فرقہ وارانہ کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:۔
>ہم مسلمانوں کے پڑھے لکھے افراد سے یہ پوچھتے ہیں کہ آخر وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کو کیوں محسوس نہیں کرتے ؟ اور اپنے ان پڑھ اور سادہ لوح بھائیوں کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ اگر مسلمانوں میں یہ باہمی مناقشت اسی طرح جاری رہی تو مسلمانوں کا یہ نیا ملک پاکستان خدانخواستہ بالکل تباہ ہوجائے گا۔ کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ سپین میں مسلمانوں کی تاہی کا باعث ان کے باہمی جھگڑے ہی تھے؟ اور یہ ان جھگڑوں ہی کا نتیجہ ہے کہ آج سپین میں ایک مسلمان بھی نہیں ملتا حالانکہ مسلمانوں نے صدیوں اس ملک پر حکومت کی ہے۔ خلافت بغداد کی بربادی بھی مسلمانوں کے ان باہمی مناقشات کے باعث ہوئی اور آپ کے اپنے زمانہ میں سلطنت عثمانیہ مہض اس وجہ سے پارہ پارہ ہوئی کہ مسلمان مسلمان کا دشمن تھا۔ سپین` بغداد اورترکان عثمانی کی سلطنیں اپنے اپنے زمانہ میں دنیا کی طاقتور تر سلطنتوں میں شمار ہوتی تھیں اور ہم عصر یورپ ان کے دبدبہ اور ہئیت سے کانپنا تھا مگر آج ان عظیم الشان سلطنتوں کے صرف کھنڈر باقی رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں نے آپس میں لڑ بھھڑ کر اپنے ہاتھوں سے ان سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔
وطن عزیز پاکستان سے محبت اور عقیدت بجا` مگر ان سلطنتوں کے مقابلہ پر پاکستان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ اس بچہ نے تو ابھی گھٹنوں پر چلنا بھی نہیں سیکھا۔ اور ہم خود اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹنے کے درپے ہیں۔ کیا وطن سے محبت اور عقیدت کا یہ تقاضا نہیں کہ پڑھے لکھے لوگ مسلمان عوام کو اس مہیب خطرہ سے آغاہ کریں۔ ابھی پاکستان میں قومیت یا ملیت کا شعور یکسر ناپید ہے ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت` اخبار` سیاسی کارکن اور پڑھے لکھے لوگ عوام میں ملیت اور قومیت کا شعور پیدا کرتے اور ہر شخص میں یہ احساس پیدا کیا جاتا کہ وہ مسلمان اور پاکستانی ہے مگر ہماری قوم کن جھگڑوں میں الجھ گئی ہے ؟ اور ان جھگڑوں کا کیا انجام ہوگا ؟ جن خود غرضیوں کے منہ کو لہو لگ چکا ہے۔ کیا وہ اسی پر اکتفاء کریں گے ؟ جن کی دکان مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کی وجہ سے چلتی ہے۔ کیا وہ شیعہ سنی کو ایک دوسرے سے لڑانے کے بعد یہ دکان بند کردیں گے ؟ ہر گز نہیں آج شیعہ سنی جھگڑا ہے کل یہی لوگ سنیوں کو وہابیوں سے لڑائیں گے۔ پھر اہل حدیث اور اہل قرآن میں جنگ ہوگی۔ اور اگر یہی دلیل و نہار رہے تو کچھ عرصہ بعد پاکستان میں شیعہ سنی ` وہابی چکڑالوی بریلوی` دیو بندی تو بہت مل جائیں گے مگر سیدھے سادے مسلمان اور پاکستانی چراغ لے کر ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکیں گے۔
شکر ہے کہ ارباب اقتدار میں سے دو اصحاب کو اللہ نے توفیق دی کہ وہ اس مسئلہ پر لب کشائی کریں۔ میاں ممتاز دولتانہ نے پسرور میں کہا ہے کہ:۔
>فرقہ وارانہ نفرت پھیلانا پاکستان کے وجود کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ جب بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالا جارہا تھا تو کسی نے مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں کوئی تمیز روا نہ رکھی تھی۔ اس کے برعکس سبھی نشانہ ستم بنے محض اس لئے کہ وہ مسلمان تھے۔<
خان عبدالقیوم وزیراعلیٰ سرحد نے مانسہرہ میں یہ کہا ہے کہ:۔
>ماضی میں مسلمانوں کی سلطنتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ دوسروں نے ان مسلمان سلطنتوں میں انتشار کا بیج بو دیا۔ مسلمانان پاکستان کو ان تاریخی واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور انرونی انتشار پید اکر کے اپنی آزادی خطرے میں نہ ڈالنی چاہئے نئی اور پرانی سامراجی طاقتیں پاکستان کے وجود سے سخت ناخوش ہیں۔ وہ ہر ممکن ذریعہ سے اسے ختم کرنا چاہتی ہیں۔ بنگال میں زبان کا جھگڑا اسی قسم کا ایک بارود تھا۔ اب پنجاب میں اور دوسری جگہ حد درجہ بھک سے اڑ جانے والے بارودی جھگڑے کھڑے کردیئے گئے ہیں۔<
خدا کا شکر ہے کہ ارباب اقتدار اس خطرے سے آگاہ ہیں جو ملک و ملت کو درپیش ہے۔ پھر وہ اس کا استیصال کیوں نہیں کرتے ؟ اس معاملہ میں دوزخی یا نیم ملاناہ پالیسی ملک و ملت کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ ارباب اقتدار کا فرض ہے کہ حکومت کی مشینری کو اس خطرہ کے استیصال کے لئے استعمال کریں۔ تبلیغ اور تشہیر کے بے شمار ذرائع حکومت کے پاس ہیں یہ ذرائع اس کام آنے چاہئیں کہ مسلمان عوام کو یہ بتایا جائے کہ ماضے میں دنیا کے ہر خطہ میں مسلمانوں کے باہمی جھگڑے ہی ان کی تباہی و بربادی کا باعث بنے۔ اب پاکستان کو بھی )جیسا کہ قیوم صاحب اور دولتانہ صاحب دونوں نے فرمایا ہے( یہی خطرہ درپیش ہے۔ مسلمان عوام کو ملک و ملت کے ان دشمنوں سے خبردار رہنا چاہئے جو مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔
تبلیغ و تشہیر کے ذرائع کے علاوہ قانون کی قوت بھی حکومت کو حاصل ہے۔ آخر وہ قوت جائز اور نیک مقصد کے لئے کیوں استعمال نہیں کی جاتی ؟ دولتانہ صاحب نے بعض سرگرمیون کے متعلق صاف لفظوں میں یہ کہا ہے کہ وہ پاکستان کے وجود کے لئے تباہ کن ہیں۔ اور قیوم صاحب نے صرف یہی نہیں یہ بھی اشارہ کردیا ہے کہ بعض نئی اور پرانی سامراجی طاقتیں پاکستان کے وجود پر سخت ناخوش ہیں اور ہر ممکن ذریعہ سے اسے ختم کرنا چاہتی ہیں اور خطرناک سرگرمیاں اسی ناپاک مہم کے ہتھیار ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو ارباب اقتدار کے اختیارات ملک و ملت کے ان بدترین دشمنوں کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آتے جو ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جو خود ارباب اقتدار ے قول کے مطابق ملک کے لئے تباہ کن ہیں ؟
حیرت ہے کہ جائز سیاسی اختلاف کا اظہار کرنے پر تو زبان کٹتی ہو مگر ان عناصر کو جو ملک کو برباد کردینے والی سرگرمیوں میں مصروف ہوں کھلی چھٹی ہو۔ اس کی وجہ دو رخی ہے یا نیم دلی اور کمزوی ؟
خدارا اب بھی آنکھیں کھولئے ورنہ جب پانی سر سے گذر گیا تو پھر جاگنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا ملک اپنی زندگی کے ابتدائی چند سالوں بعد ہی تباہی کے موڑ پر پہنچ گیا ہے اور اس کے ذمہ دار ہمیں لوگ ہیں۔ یہ آگ ہم نے لگائی ہے اب اگر نیک نیتی کے ساتھ ملک کو بربادی سے بچانا مقصود ہے تو ہم سب کا۔۔ صرف حکومت کا نہیں۔۔ حکوتم` لیڈروں` اخبارات علمائے کرام` پڑھے لکھے افراد سب کا فرض ہے کہ وہ اس آگ کو بجھانے کی کوشش کریں ورنہ یاد رکھئے شیعہ` سنی ` وہابی کسی کا گھر محفوظ نہیں۔
>جو ڈوبی یہ نائو تو ڈو گے سارے<
روزنامہ >سول اینڈ ملٹری گزٹ< لاہور نے ایجی ٹیشن سے متاثر ہو کر حسب ذیل اداریہ لکھا:۔
عین اس وقت جب کہ مسئلہ کشمیر کے متعلق بات چیت انتہائی نازک مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے ظفر اللہ کے خلاف موجود ایجی ٹیشن اس یقینی کیفیت کا پتہ دیتی ہے کہ جب کہ کشمیر جل رہا ہے۔ علماء بنسریاں بجارہے ہیں۔ دو ہفتہ کے اندر اندر جینیوا میں کشمیر کے متعلق آخری بات چیت جس پر پاکستان کی موت و حیات کا دارومدار ہے شروع ہوجائے گی لیکن اسلام کے ان مقدس پاسبانوں نے >اسلام خطرے میں ہے۔< کا نعرہ لگا کر اس شخص کی فوری برطرفی کا مطالبہ شروع کردیا ہے جو پاکستان کی زندگی اور موت کی لڑائی لڑنے کے لئے جارہا ہے۔ اگر احرار شور و غوغا کریں تو یہ بات بڑی حد تک سمجھ میں آنے والی ہوسکتی ہے کہ وہ عین اس موقعہ پر جب کہ مسئلہ کشمیر اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے اور دو ٹوک فیصلہ کا وقت آچکا ہے اس مسئلہ سے لوگوں کی توجہ کو ہٹا کر اپنے آقائوں کا نمک حلال کررہے ہیں لیکن جب بعض علماء بھی دشمن کا کردار ادا کرنے لگیں تو ان کی سمجھ کی کمی پر ماتم کناں ہونے کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے ؟
بات چیت کے اس خطرناک مرحلہ پر ملک کو صرف ایک امر کا تہیہ کر لینا چاہئے تھا یعنی ہر قیمت پر کشمیریوں سے انصاف کرانا لیکن ب کہ کشمیر کا معاملہ تیزی سے بگڑتا جارہا ہے عوام کی طرف سے جو چند روز قبل گلے پھاڑ پھاڑ کر اس جنت ارضی کی خاطر اپنے خون کا خری قطرہ تک بہا دینے کا اعلان کیا کرتے تھے اب اس کے متلعق ایک آواز بھی نہیں اٹھتی۔ کیا اب بھی ملا کے نشہ اور نعرے >اسلام خطرے میں ہے< کا شکریہ ادا نہ کیا جائے ؟
قوم کو اس زبردست فریب پر جو مذہب کے نام پر اسلام اور پاکستان دونوں سے کھیلا گیا ہے ہوش میں آجانا چاہئے۔ اب یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ جہاں تک ظفر اللہ کے خلاف ایجی ٹیشن کے پیچھے اندرونی طاقتوں کا سوال ہے سب کچھ ذاتی اغراض اور خواہشات کو بروئے کار لانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی یک جہتی اور سلامتی کے لئے ذاتی اغراض کو پس پشت ڈال دیں۔ ہمیں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ اگر مذہب کا لبادہ اوڑھ کر قائداعظم کا ایک رفیق کار بھی محض ذاتی مقاصد کے لئے پاکستان کی یک جہتی قائم رکھنے کے اصول کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کررہا ہے تو پھر پاکستان کا خدا ہی حافظ ہے۔
ایک سے زائد بار ہم واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم قادیانیوں کی ختم نبوت کی تاویل کو قبول نہیں کرتے تاہم ایک سرکاری ملازم کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لئے اس کے مذہبی خیالات کو بیچ میں لانے کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں۔ مملکت کے کسی وزیر یا افسر کو پرکھنے کی واحد کسوٹی یہ ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ کیا اس کے ذریعہ ملک کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں اور اس کا وجود ملک کے لئے سود مند ہے یا کہ نہیں ؟ اس میزان پر جب ہم چوہدری ظفر اللہ خان کو جانچتے ہیں تو ملک میں اس کے متعلق دو مختلف رائیں نہیں ہوسکتیں کہ بحیثیت وزیر خارجہ کے چوہدری صاحب نے ایک عظیم الشان کام سرانجام دیا ہے اور اپنی ٹھوس خدمت کی وجہ سے ان کا شمار معمار ان پاکستان نے ایک عظیم الشان کام سرانجام دیا ہے اور اپنے ٹھوس خدمت کی وجہ سے ان کا شمار معمار ان پاکستان کی صف اولین میں ہونے کے قابل ہے۔ ہم قوم کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جب فضیلت ماب غلام محمد کو گورنر جنرل کا عہدہ تفویض کیا گیا اور آپ کی جگہ ممالک اسلامی کی اقتصادی کانفرنس کی صدارت کا گورنر جنرل کا عہدہ تفویض کیا گیا اور آپ کی جگہ ممالک اسلامی کی اقتصادی کانفرنس کی صدارت کا مسئلہ پیش ہوا تو ہر مسلم ملک نے بلا استثناء اعزاز کے لئے چوہدری ظفر اللہ خاں کا نام ہی تجویز کیا۔ اکیلا یہی امر اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ وزیر خارجہ کے خلاف پراپیگنڈہ کی جو کھڑی کی جارہی ہے اس کی حقیقت کیا ہے شاید لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ ظفر اللہ خاں نے کبھی کسی عہدے کے لئے درخواست نہیں کی۔ اور دو موقعوں پر جب پاکستان کی نیابت کا سوال اٹھا قائداعظم کی نظر آپ پر ہی پڑی۔ بائونڈری کمیشن کے سامنے پاکستان کی پیروی کرنے کے موقعہ پر اور بعد ازاں پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کرنے کے وقت۔ دونوں مواقع پر متحدہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے مسلم لیڈر کی معرفت آپ سے ان اہم ذمہ داریوں کو اٹھانے کی درخواست کی گئی۔ یہ لیڈر جن کا نام ہم بعض مخصوص وجوہات کی وجہ سے ظاہر نہیں کرسکتے ابھی تک بھارت میں مقیم ہیں۔ بائونڈری کمیشن کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کرنے کے معاملہ میں بھی آپ کو ہدف ملامت بنایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ ہی گورداسپور کو پاکستان کے ہاتھ سے کھو دینے کے ذمہ دار ہیں۔ ایک معمولی آدمی بھی اگر ذرا سی سمجھ بوجھ سے کام لے تو سمجھ سکتا ہے کہ اگر اس الزام میں رائی برابر بھی صداقت ہوتی تو قائداعظم آپ کو وزارت خارجہ جیسے اہم عہدہ کے لئے کسی صورت میں بھی نہ چن سکتے تھے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ظفر الل¶ہ خان نے اس عہدہ کو قبول کرنے میں بڑی ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ قائداعظم کی پیشکش کے جواب میں آپ نے کہا کہ اگر آپ کو میری قابلیت اور دیانت و امانت پر پورا اعتماد ہے تو میں وزارت کے علاوہ کسی اور صورت میں پاکستان کی خدمت کرنے کو تیار ہوں۔ اس پر قائداعظم نے یہ تاریخی جواب دیا >آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے مجھ سے ایسے جذبات کا اظہار کیا ہے مجھے پتہ ہے کہ آپ عہدوں کے بھوکے نہیں ہیں۔<
قائداعظم کا یہ جواب چوہدری صاحب کی قابلیت اور استبازی کا ایک روشن ثبوت ہے یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چوہدری صاحب کے مذہبی متقدات کے باوجود قائداعظم آپ کے ہاتھوں پاکستان کے مفادات کو پوری طرح محفوظ سمجھتے تھے۔ اس پاکستان میں جس کا تصور قائداعظم کے ذہن میں تھا عوام کے خادموں کو ان کی قابلیت اور دیانت و امانت کے پیمانہ سے ناپنا چاہئے نہ کہ ان کے مذہبی معتقدات کی بناء پر قائداعظم کے تصور میں ایسے پاکستان کا نقشہ تھا جس میں نہ مسلمان ہوگا` نہ ہندو نہ عیسائی مذہبی اعتقاد کی بناء پر نہیں بلکہ پاکستان کے شہری ہونے کی بناء پر۔ ۶۵
الحاج خواجہ ناظم الدین کو جن کے کندھوں پر قائداعظم کا بوجھ آپڑا ہے قائداعظم کے مقدس ترکہ >پاکستان< کی جسے علماء ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں پوری حفاظت کرنی چاہئے- حالات کی موجودہ رفتار سے پاکستان کی نوزائیدہ مملکت میں ابتری پیدا ہونے کا سخت خطرہ ہے۔ علماء جو پاکستان کو اپنے خود ساختہ مذہبی اصولوں کی بناء پر اپنی جائیداد سمجھتے ہیں موجودہ ایجی ٹیشن کو ملک میں اپنی قیادت قائم کرنے کا ایک ذریعہ بنارہے ہین۔ ان کا اصل مقصد طاقت حاصل کرنا ہے لیکن انتخابات کے سیدھے راستہ سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اب وہ مذہبی عصبیت کے چور دروازہ سے داخل ہو کر اپنی اغراض حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ مملکت نوزائیدہ پاکستان کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔
ہمیں یقین ہے کہ مرکزی کابینہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ وہ خلاء جو ظفر اللہ خاں کو ان کے عہدے سے ہٹانے سے پیدا ہوگا اس کا پر کرنا ناممکن ہوگا۔ چند روز قبل ان کے استعفے کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو روشن خیال عوام کو سخت دھکا پہنچا تھا۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے موجودہ کشتی بان خواجہ ناظم الدین جنہوں نے دلیر قیادت کی ایک مثال قائم کردی ہے اور قوم کی زندگی میں جن طوفانوں سے انہیں سابقہ پڑا ان کا انہوں نے دلیری سے مقابلہ کیا حالات کی نزاکت کو پوری طرح محسوس کریں گے اور ملک کی ایسی دلیرانہ قیادت کریں گے جس کا حالات تقاضا کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ کو جب کہ وہ اس آخری نازک مرحلہ پر پاکستان کی نیابت کرنے جنیوا تشریف لے جا رہے ہیں ملک کے واحد ترجمان کی حیثیت سے قوم کا پورا اعتماد حاصل ہونا چاہئے- دشمن کے جاسوسوں نے ایسے آدمی کے عزت و وقار اور اقتدار کو کھوکھلا کرنے کی کوشش میں جو ملک کی جنگ لڑنے باہر جارہا ہے۔ کشمیر کے معاملہ پر بھرپور ضرب لگائی ہے۔ اب یہ پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس نقصان کی تلافی ایک ایسے جرات مندانہ بیان سے کرے جس میں وزیر خارجہ کی قابلیت دیانت و امانت اور نمائندہ حیثیت پر پورا اعتماد ظاہر کیا گیا ہو۔ ۶۶ )ترجمہ(
اسی طرح سالار نیشنل گارڈ مسلم لیگ نے >امروز< کے ایک حقیقت افروز مضمون کی بناء پر حسب ذیل اشتہار دیا:۔
>بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم<
پاکستان کے دوست نما دشمنوں کو انتباہ
کراچی میں احرار نے یہ پوسٹر لگایا کہ >ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ سے ہٹا دو< اس کی بابت سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخری کیوں ہٹایا جائے ؟
کیا اس لئے کہ
چوہدری صاحب کو ہمارے محبوب رہنما بانی پاکستان حضرت قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی دور بین نگاہ نے وزارت خارجہ کے لئے منتخب کیا اور حضرت قائد ملت لیاقت علی خاں نے ان کے کام کی تعریف کی۔ حضرت قائد پاکستان الحاج خواجہ ناظم الدین وزیراعظم و صدر مسلم لیگ اور آپ کے رفقاء کار قائدین نے بار بار ان پر اعتماد کا اظہار فرمایا۔ تمام اسلامی ممالک کے مدبرین نے ان کی اسلامی خدمات کی تعریف کی اور آج بھی اسلام اور مسلمانوں کے ہمدرد نمائندوں نے انہیں اپنا مشیرو معاون بنا رکھا ہے۔
یا اس لئے کہ ؟
اس فتنہ کو کھڑا کرنے والے اور ہوا دینے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے شروع سے ہی ہمارے ان محبوب رہنمائوں پر اعتما نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے محبوب وطن پاکستان کی تعمیر میں حصہ لیا بلکہ شدید مخالفت اور پاکستان کو پلیدستان اور بیوقوفوں کی جنت بتایا اور آج بھی ان کی موجودہ روش سے یہی ظاہر ہے کہ وہ فرقہ وارانہ کشمکش پھیلا کر ہمارے زریں اصول
اتحاد تنظیم یقین محکم
کو برباد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط ہوں۔ وہ اپنی روش سے حضرت قائداعظم اور قائد ملت کی ارواح کو اذیت پہنچا رہے ہیں۔ ہم ان کو اپنے محبوب رہبر ملت جناب الحاج خواجہ ناظام الدین وزیراعظم پاکستان و صدر مسلم لیگ کا ارشاد پیش کر کے تنبیہہ کرتے ہیں کہ وہ انتشار پسندی اور فرقہ پرستی سے باز آجائیں۔ اپنے بے اعتمادی کے مرض کا علاج کریں اور قوم کا شیرازہ منتشر کر کے غرقابی کی طرف نہ دھکیلیں ورنہ یاد رکھیں کہ قوم ان باتوں کو ہر گز برداشت نہ کرے گی ہوشیار باش۔
رہبر ملت وزیراعظم کا ارشاد
ملک کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو ہماری آزادی پر بالواسطہ حملہ کر رہے ہیں تاکہ ملک کے لیڈڑوں اور حکومت ے ارکان کے متعلق عوام کے دلوں میں بے اعتمادی پیدا ہوجائے یہ صوبہ پرستی` فرقہ پرستی اور اسی قسم کے دوسرے امور چھیڑ کر پاکستانیوں کے درمیان نفاق و نفرت پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ تمام مسلم لیگی حضرات اور ہر وفادار پاکستانی کا فرض ہے کہ ان شر انگیز سرگرمیوں کی مخالفت کرے- انہیں رسوا کرنے میں کوئی کسر باقی نہ اٹھا رکھے۔ یہ وہی ہیں جو تقسیم سے پیشتر پاکستان کے عقیدے ہی کے خلاف تھے۔ اگرچہ ان میں سے بعض آج پاکستان اور اسلام کی حمایت کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن ہم ان پر ہرگز اعتبار نہیں کرسکتے۔< )اروز ۱۴ اکتوب۴ ۱۹۵۲ء(
)المشتھر:۔
سالار نیشنل گارڈ۔
مسلم لیگ لاہور( )ناظر پریس کراچی(
گوجرانوالہ
گوجرانوالہ بھی احراری تحریک کا ایک مضبوط مرکز بنا ہوا تھا۔ اس شہر کے اخبار >لاحول< نے اپنی ماہ ستمبر ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں احراری ایجی ٹیشن کو ملک و ملت کے مفاد کے لئے سخت مضرت رساں قرار دیتے ہوئے لکھا:۔
>گذشتہ تین ماہ حکومت عالیہ پاکستان کی آزمائش کے دن تھے۔ احرار جو کہا کرتے تھے کہ مسلمان کو پاکستان تو کیا اس کی >پ< بھی میسر نہ ائے گی ختم نبوت کی آڑ میں ملک میں شور و شر پھیلانے اور کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہین۔ اور حکومت یہ جانتی تھی کہ ان کی تار دہلی سے مولوی حبیب الرحمن بلارہے ہیں جو پنڈت نہرو کے معتمد خاص بنے ہوئے ہیں۔ ۶۷]4 [rtf اور حکومت یہ بھی جانتی تھی کہ احرار جو کام کرتے ہیں قوم یا اسلام کی خاطر نہیں کرتے بلکہ اپنے ذاتی وقار اور بگڑی ہوئی شہرت کو بنانے کے لئے کرتے ہیں۔ چنانچہ مسئلہ شہید گنج جو خالص قومی اور اسلامی مسئلہ تھا اور مسلمانوں کی موت و حیات کا سوال تھا اس کو احراری لیڈروں نے اس لئے ادھورا چھوڑ دیا اور عین موقعہ پر اس سے الگ ہوگئے کہ اگر یہ کامیاب ہوگیا تو نام فدائے ملت حضرت مولانا ظفر علی خاں کا ہوگا جو اس وقت اس تحریک کے قائد تھے- چنانچہ ایک جوٹی کے احراری لیڈر کے ایک خط کا عکس بھی اخبار زمیندار میں شائع ہوا تھا جس میں خود ساختہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو اس تحریک سے لیحدہ رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا اور صاف لکھا تھا کہ کام تو احرار کریں گے لیکن نام مولانا ظفر علی خاں کا ہوجائے گا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
یہ اس پارٹی کے لیڈروں کا کردار ہے کہ مسجد شہید گنج ایسے اہم مسئلہ کو جس پر لاہور کے مسلمانوں نے اپنی جانیں نچھاور کرردی تھیں اور یکی دروازہ کے باہر ان کے خون کی ندیاں بہہ گئی تھیں محض اس لئے ادھورا چھوڑ دیا کہ کام تو احرار کریں گے نام دوسروں کا ہوجائے گا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
اس کے بعد اس پارٹی نے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے لئے جتنے بھی ہتھکنڈے اختیار کئے وہ ناکام رہے۔ شہید گنج کے مسئلہ پر قوم کے ساتھ غداری کرنے والوں کو مسلمان کبھی بھی معاف نہیں کرسکتے چاہے وہ فرشتہ بن کر بھی آجائیں چنانچہ جب بھی احرار کوئی نئی تحریک شروع کرتے تھے تو اخبار زمیندار لکھا کرتا تھا کہ
ع نیا جال لائے پرانے شکاری
ع روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر
ع نمازی اپنے جوتوں سے رہیں ہوشیار
لیکن جوئندہ یا بندہ آخر وہ ایک ایسا مسئلہ تلاش کرہی لائے جس سے وہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی حاصل کر لیں اور دہلی کے مخالف پاکستانی آقائوں کو بھی خوش کر لیں اور یہ دونوں مقاصد اس پارٹی نے قریب قریب حاصل کر لئے ہیں۔ وقار تو خیر چند روزہ ہی ہے کیونکہ جونہی ان کا ساتھ دینے والوں پر یہ بھید کھل گیا کہ احرار کا دوسرا مقصد حاصل ہوچکا ہے اور وہ ملک میں بدامنی اور انتشار اور عوام اور حکومت میں بدظنی` غلط فہمی اور ایک حد تک نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں` جو ان کے دہلوی آقائوں کے مدنظر تھا` تو وہ ان سے الگ ہوجائیں گے۔
ملک چاروں طرف سے دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو گلے سے پکڑ رکھا ہے اور کشمیر ہضم کرنے کے لئے سرحدوں پر ساری فوج جمع کئے بیٹھا اور احرار حکومت کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور عوام سمجھنے لگے ہیں کہ حکومت دیدہ دانستہ ایک جماعت کا ساتھ دے رہی ہے اس کی پشت پناہی کررہی ہے اور اسے کشتی و گردی زدنی قرار دینے میں بہت لیت و لعل کررہی ہے۔ جو مسئلہ ختم نبوت میں ان کے ہم خیال نہیں اور اپنی تبلیغ کے وسیع وسائل اختیار کررہی ہے جس سے مسلمان اور خود ساختہ امیر شریعت کے ساتھی قطعاً غافل ہیں۔ ان کے پاس دلائل کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے اور اب وہ مجبور ہو کر دھینگا مشتی پر اتر آئے ہیں اور حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس جماعت کا حقہ پانی بند کردے۔ ان پر کاروبار اور ملازمت کے دروازے بند کردے اور پھر ان کو دیس نکالا دے۔ لاحول ولا قوہ۔
ایک مٹھی بھر جماعت سات کروڑ پاکستانی مسلمانوں کو خائف کرنے اور اس جماعت کی نامہ بندی کرنے میں احرار پوری طاقت خرچ کررہے ہیں حالانکہ صاف اور سیدھی سی بات ہے۔ اگر یہ جماعت باطل پر ہے تو کسمپرسی سے اپنی موت آپ مر جائے گی اسے اتنی اہمیت دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر وہ راستی پر ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کی ترقی` غلبہ اور قیام سلطنت کے منصوبہ کو نہیں روک سکتی۔
معلوم نہیں احرار کو پاکستان کی وفاداری کا بار بار اظہار کرنے کا مروڑ کب سے اٹھا ہے ؟ بانی پاکستان قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ ان کی روح پر لاکھ لاکھ رحمتیں نازل فرمائے( ان کے متلعق احرار جو کچھ کہا کرتے تھے فحاشی کی ڈکشنری م=بھی اس سے شرمسار ہوجاتی تھی۔ اور بھی چند ہی روز قبل کی باتہے سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری نے ایک تقیر کے دوران کہا تھا >میں قائداعظم ہوں جائو جو کچھ میرا کرسکتے ہو کر لو۔< اس پر بھی مسلمان ان کی پاکستان ہمدردی کے قائل ہوجائیں تو یہ ان کی بدقسمتی ہے۔ جب بھی ملک پر مصیبت آئے گی احرار کے ہاتھوں آئے گی۔ نوٹ کر لیں۔
مسئلہ ختم نبوت کی نوعیت اور اہمیت سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں لیکن اس کی باگ ڈور ایک ایسی پارٹی کے ہاتھ میں دینا جو اپنے وقار کے لئے سرگرم عمل ہو قرین دانشن و عقلمندی نہیں۔ مسلمانوں کو ٹھنڈے دل سے اس پر غور کرنا چاہئے اور حکومت اس سلسلہ میں جو کچھ کررہی ہے یا آئندہ کرے گی وہ مسلمانان پاکستان و مملکت پاکستان کے شایان شان ہوگا اور دنیا بھر مین اہمیت اور فوقیت حاصل کرنے والا پاکستان قرین انصاف و دانش طرز عمل اختیار کرے گا۔ حکومت کسی بھی جماعت کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کرسکتی۔ احرار کو تبلیغ کا جواب تبلیغ سے دینا چاہئے اور حکومت کو مجبور و پریشان کرنے یا عوام کو اس کے خالف اکسانے کا طرز عمل ترک کردینا چاہئے۔
مسلمان عوام نہایت صائب رائے اور دانشمند ہیں اور وہ ہر معاملہ میں حکومت کا ساتھ دیں گے اور پاکستانکی شہرت و سالمیت کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیں گے اور ہر معاملہ میں ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کریں گے اور وقتی جوش میں کوئی ایسا اقدام نہ کریں گے جو بعد میں انہیں کف افسوس ملنے پر مجبور کردے۔ وما علینا الا البلاغ۔<۶۸
صوبہ سرحد
صوبہ سرحد مغربی پاکستان کا واحد صوبہ تھا جہاں عبدالقیوم خاں صاحب کی مسلم لیگی وزارت کے ہاتھوں صورت حال مکمل طور پر قابو میں تھی۔ اس صوبہ کے اخبار >تنظیم< نے اس نام نہاد تحریک کو ختم پاکستان کی سازش قرار دیتے ہوئے لکھا:۔
>خدا کی شان آج وہی لوگ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے ارکان حکومت پر اس امر کا زور دے رہے ہیں کہ پاکستان کے مختلف العقائد مسلمانوں کو جن میں ایک جماعت احمدیہ بھی ہے اقلیت قرار دیا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو اور پاکستان کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اس مطالبہ کی تائید میں ان دونوں جماعتوں )مولانا موودی کی جماعت اسلامی اور امیر شریعت ر عطاء اللہ شاہ صاحب کی جماعت احرار( نے مسلم رائے عامہ کو بھی متاثرکررکھا ہے جو سرے سے پاکستان کے قیام کے ہی نہ صرف مخالف تھے بلکہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم اور ان کے دوزرے ساتھی مسلم لیگی زعماء بھی ان کے نزدیک صحیح مسلمان ہی نہ تھے۔ مطالبہ پاکستان کی مخالفت میں قائداعظم سمیت مسلم لیگی لیڈروں کو جو بڑی سے بڑی فحش کلامی ہوسکتی ہے سے یاد کیا۔
جماعت احمدیہ نے مالبہ پاکستان کی تائید میں ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہوئے اپنے مرکز اور لاکھوں روپیہ کی جائیداد کو چھوڑ کر اپنے کلمہ گو بھائیوں کے زیر سایہ آگئے ہیں مہر و محبت سے انہیں اپنے سینوں سے ملانے کے بجائے یہ کہاں کا انصاف اور اسلام ہے کہ اقتدار کے خواہش مند چند سیاسی لیڈروں کی خاطر ایک کلمہ گو فرقہ سے متعلق ہزاروں انسانوں کی زندگی دوبر کردی جائے ؟ حکومت کو پریشان کرنے اور مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کی خاطر ایک ایسا مطالبہ پیش کردیا گیا ہے جسے اگر آج تسلیم کر لیا جائے تو اس سے کل دوسرے مسلم فرقوں کو بھی اقلیت قرار دینے کی راہ صاف ہوجاتی ہے نیز حکومت اور مسلمانوں کے پاس اس امر کی کیا گارنٹی ہوسکتی ہے کہ جب اسلام کا دائرہ احرار کے نزدیک اس قدر تنگ ہے کہ کلمہ` نماز` روزہ` حج`زکٰوۃ پانچوں ارکان اسلام کی سختی سے پابندی کرنے والے ایک گروہ کو سرے سے ہی کافر اور غیر مسلم قرار دیا جارہا ہے خدانخواستہ` اگر ان کے ہاتھ اقتدار آجائے تو پاکستان کے دوسرے مسلمانوں سے جو کئی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اسلامی اور منصفانہ سلوک روا رکھیں گے دوسری صورت میں جب تک ان کے ہاتھ اقتدار نہیں آجاتا پھر بھی یہ لوگ اسی طرح پاکستان میں رہنے والے دوسرے فرقوں کو بھی اقلیت قرار دلوانے کے لئے پاکستان میں کسی نہ کسی وقت قومی جنگ کی ہولی گرم کر کے ہی دم لیں گے۔ جب یہ لوگ سرے سے ہی مسلم حکومت کے قیام کے مخالف تھے اور ہیں تو انہیں اس سے کیا غرض )اگر اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں آسکتا( تو مسلمانوں کی اس کمزوری سے خواہ ہندو فائدہ اٹھائیں یا روس لیکن یہ لوگ موجود حکومت کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہندو سے ان کا تعاون ہوسکتا ہے۔ انگریزی ڈپلومیسی کی یہ تائید کرسکتے ہیں اور ان کے اشتراک عمل سے بقول احرار` مرزا غلام احمد اگر انگریزوں کا خود ساختہ پودا تھا اور انگریزوں نے اس پودا کی کاشت بقلو احرار` مرزا غلام احمد اگر انگریزوں کا خود ساختہ پودا تھا اور انگریزوں نے اس پودا کی کاشت اس لئے کی کہ مرزا غلام احمد جہاد کا مخالف تھا اور اس نے حکومت وقت )یعنی انگریزوں( کے خلاف مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کے جذبہ کو مفقود کرنے کی کوشش کی لیکن ان مذہبی رہنمائوں )جماعت احرار و اسلامی( والوں کی تو جہاد کی حقیقت و اہمیت معلوم تھی کہ ایک غیر ملکی مشرک حکمران ان قوم کے خلاف جہاد روا بلکہ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے۔ آپ بتایئے آپ لوگوں نے کس حد تک انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے کام کیا کیا پاکستان میں شرعی آئین کے نفاذ کے یہ دعویدار )جماعت اسلامی اور احرار( ایک اسلامی سلطنت کے قیام کی مخالفت میں غداری کی جو سزا شرعی آئین پیش کرتا ہے اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے تو قیام پاکستان کے پہلے روز سے ہی پاکستان میں خود ہی شرعی آئین کے نفاذ کا اجراء ہوجاتا۔ غداری سے بڑھ کر اسلامی آئین میں کوئی جرم نہیں۔ جب یہ لوگ خود اسے بچ نکلے ہیں تو یہ پاکستانی عوام کے کونسے اتنے خیر خواہ ہیں جو ہندوئوں سے ان کی فروختگی کا سودا )متحدہ حندوستان کی صورت یں( کرنا چاہتے تھے- شرعی آئین کے قیام کے لئے زمین و آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ کیا شرعی آئین کے دعویدار یہ لوگ نہیں جب سکھوں کے قبضہ سے مسجد شہید گنج کو چھڑانے کے لئے ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے شہید گنج کے حصول کے لئے قربانیاں پیش کیں اس وقت بھی شہید گنج ایجی ٹیشن میں احرار بزرگوں نے فوج کی گولی سے ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی شہادت کو حرام موت اور کتے کی موت مرنے کا فتویٰ دیا تھا اور بجائے اس کے مسلمانوں کے ساتھ شہید گنج ایجی ٹیشن میں شریک ہوتے الٹا ان کی انگریزوں اور سکھوں سے ساز باز تھی۔ ہم حیران ہیں کہ جس جماعت نے ہر موقعہ پر مسلم رائے عامہ کے خلاف مشرکوں اور مرتدوں کا ساتھ دیا ہو وہ آج کس طرح پاکستان کو ضعف پہنچانے اور اپنے اقتدار کے لئے ایک کلمہ گو فرقہ کو اقلیت اور اقلیت بھی غیر مسلم قرار دلوانے کے لئے ایک بار پھر مذہبی روپ میں پاکستان کے سادہ لوح اور مذہب کے نام پر اپنا سب کچھ لٹا دینے والے غیور مسلمانوں کو اپنے ہمنواز بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے اور قوم ان کے سابقہ کارناموں کو جانتے بوجھتے ہوئے پھر ان کا آلہ کار بننے کے لئے ہوگئی ہے- باہمی خانہ جنگی کے ذریعہ بیرونی اقتدار کے ہاتھوں غلامی کے ایک ایسی گڑھے میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں سے نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ایک طویل عرصہ کی غلامی کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمان قوم کو قائداعظم کے اخلاص و استقلال کے ذریعہ ای آزاد ملک دیا تھا اور آج اس ملک کو دوبارہ غیر ملکی استبدادیت کے پنجہ میں دینے کی کوششیں شروع ہیں۔
چونکہ ہماری موجودہ حکومت ایک دفعہ خود مذہب کے نام پر پاکستان کے حصول میں قوم کو استعمال کرچکی ہے اور اس لئے اب وہ مسلم رائے عامہ کے جوش و خروش کا اپنے آپ میں مقابلہ کی تاب نہ پاتے ہوئے باوجود نتیجہ سے باخبر ہونے کے یہ کھیل دیکھ رہی ہے اور بے بس ہے یا نادانستہ طور پر پہلے اس تحریک کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اور اب پانی سر سے چڑھ چکا ہے اور ہمارے یہ مولوی جو پاکستان اور جو مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں۔ پاکستان کے دشمنون سے قیام پاکستان سے پہلے جو سودا کرچکے ہیں نصف قوم ہلاک اور تباہ برباد کرانے کے باوجود بھی اپنے اس سودا پر پوری ایمان داری سے قائم ہیں خواہ ملک اور ساری قوم اس سودا کی نذر ہوجائے۔ احمدی تو خوش قسمت ہیں کہ ہمارے احرار بزرگ خود انہیں سرکاری طور پر اقلیت قرار دلوا رہے ہین۔ اب جب کہ ان کو پاکستان کے کسی صوبہ میں آئین ساز اداروں یا لوکل باڈیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کوئی ایک نشست بھی مخصوص نہیں اور نہ ہی احرار نظریات کے رو سے ان کی جان و مال` عزت و آبرو محفوظ ہیں عیسائی مشتریوں کی طرح قانوناً انہیں بھی اپنے عقائد کی اشاعت یا تبلیغ کی اجازت مل گئی۔ احمدیوں کو اس رعایت کے لئے احرار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہیں پاکستان سے باہر نکالنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ نیز اگر احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں اور میں تو احرار کی طرف سے >غیر مسلم اقلیت< کا لیبل الٹا ان کے مفید ثابت ہوگا جب آپ عملاً قولاً اور فعلاً مسلمان ہوں گے تو >غیر مسلم اقلیت< کا ٹائیٹل آپ کے لئے مزید تقویت کا باعث ہوگا کیونکہ پاکستان کے مقتدر علماء کی تمام تر توجہ سیاسیات اور اقتدار کی طرف لگی ہوئی ہے اور ان کی سیاسیات کی راہ میں مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی اثر انداز ہوا اس کی بھی یہی سزا ہوگی جو آپ کے لئے تجویز کی گئی ہے۔
جہاں تک ہماری ناقص رائے کا تعلق ہے ملک افتراق و تشتت سے اسی صورت میں بچ سکتا ہے کہ موجودہ حکمران احرار اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کے حق میں دستبردار ہوجائیں ورنہ افتراق و تشتت کے بیج کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے نہایت موثر اور مدلل پراپیگنڈا کی ضرورت ہے جو پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں اور دلوں میں اس حقیقت کو جگہ دے سکے کہ ماضی میں مسلمانوں کی کئی شاندار حکومتیں فتویٰ ساز علماء کے ہاتھوں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں اور اگر یہاں پاکستان میں بھی جو کئی مسلم فرقوں کا ملک ہے فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دی گئی تو پاکستان اور پاکستان کے مسلمانوں کا بھی وہی حشر ہوگا جو ماضی میں کئی شاندار اسلامی سلطنتوں کا ہوچکا ہے۔ کابل اور امان اللہ کی مثال سامنے ہے۔
آخر میں ہم اس حقیقت کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ نہ احرار سے ہماری فی سبیل اللہ دشمنی اور نہ ہی ہم احمدی ہیں البتہ احرار اور احمدی جنگ کے نتیجہ میں پاکستان کو نقصان پہنچنا کسی حالت میں برداشت نہیں کرسکتے۔< ۶۹
کراچی
کراچی پریس نے بھی ان ملک دشمن سرگرمیوں پر تنقید کی چنانچہ ہفت روزہ >مسلم آواز< نے لکھا:۔
>یوں تو حقیقت مدتوں قبل بے نقاب ہوچکی بلکہ اسلامی دنیا کے علاوہ یورپ کے تمام ممالک کے سیاستدان تسلیم کرچکے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے تمام امور میں آج تک جو اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں ان کے ہر پہلو کے نقش و نگار کو دیکھ کر بڑے بڑے مدبرین وقت انگشت بدنداں ہیں۔
امور خارجہ میں سیادت تدبر کے اعتبار سے ایک طرف آپ سارے ایشیا کے لئے سرمایہ ناز و صد افتخار ہیں تو دوسری طرف اکناف عالم میں سیاسی دانش کے آئینہ دار بھی۔ وہ اوصاف اور قابلیت کے وہ جوہر ہیں جن کی قدر قائداعظم اور قائدملت کرتے تھے لیکن افسوس بھارتی ایجنٹ اور بعض احراری علماء جو کل تک کانگرس کی ہمنوائی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قائداعظم اور مسلم لیگ میں شریک ہونے والوں کو کفر کا فتویٰ دیتے تھے آج ایک طرف پاکستان کا لیبل لگا کر ملک اور ملت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف مذہب کی آڑ لے کر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
کہیں تو عوام کو قادیانی اور غیر قادیانی کا غلط فلسفہ سمجھا کر اپنے ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے اور کہیں خلیفہ جاعت احمدیہ کے خلاف عدالت میں استغاثہ پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کے دلوں میں فرقہ احمدیہ کے خلاف بدظنی قائم رہے اور وقت ضرورت یہ حضرات جہلا کو جلتی ہوئی آگ میں دھکیل دیں۔ ان حضرات کو غلط روش کی ایک زندہ مثال میرے پاس موجود ہے جو عنقریب ایک خاص ایڈیشن میں بمعہ نام عوام کے سامنے پیش کردیں گے۔
بولٹن مارکیٹ کے پاس نیو میمن مسجد زیر تعمیر تھی۔ چند علماء حضرات میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ حکیم صاحب آپ کے اخبار کے لئے دس ہزار روپیہ دلوانے کے لئے ہم ذمہ دار ہیں اگر آپ اس فتویٰ کو اپنے اخبار میں شائع کردیں۔
میں نے شائع کرنے کا وعدہ کر لیا اور فتویٰ ان حضرات سے لے لیا جس میں لکھا تھا کہ اس میمن مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اس فتویٰ پر تیرہ مقتدر علماء حضرت کے دستخط بمعہ ثبت ہیں۔ میں نے دوسرے ایڈیشن میں مختلف واقعات لکھتے ہوئے آخر میں لکھا تھا کہ اصل فتویٰ میرے پاس موجود ہے۔ ہر شخص میرے دفتر میں آکر دیکھ سکتا ہے۔
فتویٰ میں نے اس وجہ سے شائع نہیں کیا کہ مجھ کو یقین تھا کہ یہ علماء ہضرات قوم میں ٹکراہ پید اکرنے کی کوشش کررہے ہیں اور بعد میں چندے بازی سے جیبیں گرم کریں گے- آج یہی علماء حضرات جنہوں نے فتویٰ دیا تھا اسی نیو میمن مسجد میں خود نماز پڑھتے ہیں اور لمبے لمبے وعظ کرتے ہیں۔ ¶یہ حالت ہے ان حضرات کی۔<۷۰
ہفتہ وار >سٹار< کراچی ۲۳ اگست ۱۹۵۲ء نے اپنے اداریہ میں لکھا :۔
اب جب کہ احرری` احمدی تنازعہ سے پیدا شدہ شور و غوغا کچھ مدہم ہوگیا ہے تو آیئے ہم ایک لمحہ کے لئے بیٹھ کر غور کریں کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کو مرکزی وزارت سے علیحدہ کرنے کے جو مطالبات کئے جارہے ہیں ان کے سیاسی نتائج کیا ہوسکتے ہیں ؟ ؟
حکومت پاکستان نے حسب معمول نرم طریقے سے پوزیشن کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے اور چوہدری ظفر اللہ خاں نے بھی جنیوا جاتے ہوئے ایک بیان دیا ہے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک کسی نے اس سانپ کے سوراخ کو بند کرنے کی پوری کوشش نہیں کی اور نہ دلیری سے اس شورش کے خطرات کو واشگاف کیا ہے۔ ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے کہ ہم مسئلہ کے مذہبی پہلو پر بحث کریں کیونکہ سبمسلمان ختم نبوتپر متفق ہیں۔ ہمارے نزدیک جو خطرہ بڑا ہم ہے وہ یہ ہے کہ ایسی شورش پاکستان کو بطور ایک ایسی جدید قسم کی جمہوری ریاست کے سخت نقصانپہنچا سکتی ہے جو مشترک قومی ثقافت وکردار` مشترک تاریخ` مشترک رسم و رواج` مشترک مقاصد اور مطمح نظر مشترک معیار اور آرزوئوں سے باہم پیوست ہے۔ افسوس ہے کہ یہ تمام تنازعہ ایسی جذبات فضا میں ہوا ہے کہ کوئی آدمی عقل کی بات سننے کو تیار نہیں لیکن ہم عصر جدید کے تقاضوں اور پاکستان کو پیش آمدہ حالات سے آنکھیں بند نہیںکرسکتے۔ ہمارا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اگرچہ تعداد میں تھوڑے ہیں مگر ان میں آنکھیں کھول کر دیکھنے کی صلاحیت ابھی کچھ باقی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے فہمیدہ ناظرین ہمارے خیالات کو تسلیم کرنے سے پہلے حالات پر گہری اور دانشمندانہ نظر ڈالیں گے۔ کیا یہ مجرمانہ دیوانگی نہیں ہے کہ ہم اپنا وقت` قوت` جوش اور تعمیری فوائد ایسے معاملات پر ضائع کریں جو قوم کے وسیع مفادات کے مقابلہ میں نہایت حقیر اور بے وقعت ہیں۔
پاکستان ایسے ملک میں جہاں ابھی ہمیں اپنا دستور مکمل کرنا ہے جہاں ابھی ہمیں زندگی اور موت کے سوالات حاصل کرنے ہیں جہاں مہاجرین ابھی تک تباہ حال پڑے ہیں۔ جہاں فاقہ کش عورتیں بداخلاقی پر مجبور ہیں۔ جہاں گداگر اور معذور سینکڑوں کی تعداد میں آوارہ گردی کررہے ہیں۔ جہاں پر بیماریاں` بھوک اور جہاں گداگر اور معذور سینکڑوں کی تعداد میں آوارہ گردی کررہے ہیں۔ جہاں پر بیماریاں` بھوک اور جہالت مستولی ہیں کیا ہم ایسے تنازعات میں الجھ سکتے ہیں جو ہمارے قومی اتحاد کی جڑیں کھوکھلی کرسکتے ہیں۔ اور یہ تنازعہ بھی کیا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قادیانیت کے یہ مخالف مولوی جو اس وقت پیش پیش ہیں اس فریق کے نمائندہ ہیں جس کے ارکان نے ماضی میں قائداعظم اور علامہ اقبال تک کو بھی نہیں چھوڑا بلکہ مولانا ظفر علی خاں کو بھی نہیں چھوڑا جو اس تحریک کے سالہا سال تک قائد رہے ہیں۔
بات یہ ہے کہ ان مولویوں نے جس طریقے سے کفر کے فتوے صادر کئے ہیں اس نے ان کے موقف کے نیچے سے زمین نکال دی ہے۔ یہ فتوے اس طرح بے سوچے سمجھے دئے گئے ہیں کہ وہ عام مسلمانوں کے لئے کوئی اپیل نہیں رکھتے اور نہ ان کے کوئی معنے ہیں۔
دوئم:۔ اگر آج ہم قادیانیوں کو اقلیت قرار دیدیں تو کل ان پیشہ ور ملائوں کو یہ مطالبہ کرنے سے کون روک سکتا ہے کہ شیعوں` وہابیوں اور آغاخانیوں کو بھی غیر مسلم قرار دیا جائے۔ اخراج کا طریق اگر جاری رہا تو اس کے انجام کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ ہم تو اس خیال سے بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ کیا آپ بھی ؟
سوم:۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اگر کسی مذہبی فرقہ یا معاشی گروہ یا سیاسی پارٹی کو زبردستی دبا دیا جائے تو وہ مرتا نہیں ہے بلکہ زمین دوز ہو کر زیادہ خطرناک بن جاتا ہے۔ اگر ہم یہ فرض بھی کر لیں کہ قادیانی پاکستان کے لئے مفید نہیں تو ہمیں اس بات کا بھی پہلے سے اندازہ کر لینا چاہئے کہ انہیں مسلمانوں سے نکالنے کے بعد کیا ان کا سوال اور زیادہ پچیدہ نہ بن جائے گا ؟
چہارم-: اگر ہم تعصب سے اس طرح اقلیتیں پیدا کرتے جائیں تو کیا ہم دنیا کی نظرون میں بے وقوف اور مذہبی دیوانے نے سمجھے جائیں گے حالانکہ جمہوری رجحانات تو یہ ہیں کہ مختلف ثقافتی وحدتوں کو ملک میں یک جا کردیا جائے اور ذات پات اور رنگ کے اختلافات مٹا دیئے جائیں تاکہ ایک قوم کہلانے کے لئے لوگوں میں مشترکہ شہریت کا شعور پیدا ہوا۔
آئو ہم سوچیں کیا ہم پاکستان کا یہ نقسہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہب کو محض نمائشی رنگ دے دیا گیا ہے۔ جہاں مذہبی دیوانگی کا دور دورہ ہے اور جہاں قانون محض تعصب ہے۔
پنجم:۔ اگر ہم احراری مولویوں اور ان کے پٹھوئوں کے کہنے پر قادیانیوں کو اقلیت قرار دیدیں اور انہیں کلیدی آسامیوں سے محروم کردیں۔ پھر اگر بھارت بھی ہمارے نقش قدم پر چل کر بھارت کے مسلمانوں کو ایسی اقلیت قرار دیدے جس کے ارکان ملک میں کسی کلیدی عہدے پر نہیں لگائے جاسکتے تو ہم اس کو کس طرح محسوس کریں گے ؟؟ اگر ہم میں ذرا بھی دور اندیشی کا مادہ ہے اور ہم ایسی حرکت کے نتائج کا اندازہ کرسکتے ہیں تو ہمیں اپنے ملک میں حقائق کو بنظر غور دیکھنا شروع کردینا چاہئے۔
ششم:۔ ہمیں یاد ہوگا کہ کشمیر پر ہمارے دعویٰ کی بنیاد اس دلیل پر تھی کہ ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اور اگر ریڈ کلف اس علاقہ کو بدنیتی سے پاکستان سے علیحدہ نہ کردیتا تو ریاست کشمیر خودبخود پاکستان کا ایک حصہ بن جاتی۔ اگر ہم قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ کردیں تو کیا ہماری یہ دلیل بے اثر نہیں ہوجائے گی ؟
آخری سوال یہ ہے کہ چونکہ اس شورش کا مرکزی نشانہ چوہدری ظفر اللہ خان ہیں کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم پاکستان کے وزیر خارجہکو فی الفور وزارت سے علیدہ کردیں تو مشرق وسطیٰ اور مغرب کے اسلامی ممالک میں اس کا کیا ردعمل ہوگا ؟ سوال یہ نہیں ہوگا کہ وہ قادیانی ہیں یا نہیں بلکہ اس بات کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کا غیر ممالک میں بطور ایک پاکستانی ترجمان کے کیا مقام اور کیا مرتبہ ہے ؟ چونکہ اس کے متعلق دو رائیں نہیں ہوسکتیں اس لئے اگر ہم احراری مطالبہ مان لیں تو اس کے بین الاقوامی نتائج کے متعلق ہم کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے۔
ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آئو ہم غور کریں اور پھر غور کریں کہ اگر ہم نے پاگل بننے کا عزم بالجزم کر لیا ہے تو ہمارے پاگل پن میں بھی کچھ نہ کچھ نظرم تو ہونا چاہئے- ۷۱ )ترجمہ(
مشرقی پاکستان
مشرقی پاکستان پریس کی نظر میں احراری کی تحریک کے عزائم و مقاصد کس درجہ مکروہ اور ملک و ملت کے لئے تباہ کن تھے ؟ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل مندرجات باسانی لگ سکتا ہے:۔
۱- روزنامہ >ستیہ جوگ< ڈھاکہ نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۵۲ء میں احراری تحریک کو خالص سیاسی قرار دیتے ہوئے مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کیا:۔
کراچی ۱۹ جولائی۔ مغربی پاکستان کے سیاسی اور سماجی میدان میں ایک اشتعال پیدا ہو کر انتہاء کو پہنچ گیا ہے۔ ادھر قادیانیوں کے خلاف تحریک زوروں پر ہے اور ملتان میں فساد ہوا ہے ادھر )پاکستان کی( راجدھانی کراچی میں مزدوروں اور ملازمین نے ہڑتال کررکھی ہے۔ قادیانی فرقہ کے خلاف تحریک اور اس کے نتیجہ میں جو فسادات رونما ہوئے ہیں اس کی خبر اس سے پہلے اخباروں میں چھپ چکی ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قادیانیوں کے خلاف جو تحریک چلائی جارہی ہے اس کا پس منظر سیاسی ہے۔ ان دونوں یہ تحریک کچھ مدھم پڑ گئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی بلکہ خفیہ خفیہ اس کا پرچار جاری ہے۔ پاکستان کے سب سے پرانے روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کی ایک خبر سے ظاہر ہے کہ احراری پارٹی کے لوگوں مسجدوں میں گھوم گھام کر خلاف فرقہ قادیانیہ تحریک کے عام لوگوں کی امداد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بہت سے مقامات میں ان کی یہ کوشش ناکام ہوئی ہے۔
tav.13.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
لاہور کے قانون پیشہ لوگوں کا خیال ہے کہ احرار کی یہ تحریک اہل پاکستان کے اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی ایک خطرناک کوشش ہے- اسلامی دنیا کے لیڈر کی حیثیت سے ملک پاکستان کو دنیا میں جو مقام اور عزت حاصل ہے احراریوں کی یہ تحریک صرف اس مقام کو گنوانے اور عزت کو بٹہ لگانے کی خاطر جاری ہے وہ لوگ )یعنی لاہور کے قانون پیشہ( یہ امید رکھتے ہیں کہ رائے عامہ کا تعاون حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک آہستہ آہستہ اپنی طعبی موت مر جائے گی تاہم پاکستان میں اس قسم کے خود غرض لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اس قسم کی فساد انگریز تحریکات اور ذلیل اور ناجائز پروپیگنڈے کے سہارے سے اپنے ناجائز مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اس قسم کے لوگ اس طرح کے فسادوں کے لئے لوگوں کو اکساتے رہتے ہیں۔ حکومت اگر سختی سے ان فسادات کی روک تھام کا انتظام کرے تو حکومت اور عوام دونون کی خیر اسی میں ہے۔ ۷۲ )ترجمہ(
بنگال کے ہفت روزہ >شیی نیک< اپنی اشاعت مورخہ ۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء میں لکھتا ہے:۔
ان دنوں مغربی پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیتی قرار دینے کی تحریک کا بہت چرچا ہے افواہ ہے کہ مرکزی مجلس کے وزراء کے بعض ایسی ارکان نے جو اپنا اقتدار بڑھانا چاہتے ہیں غالباً اس تحریک کی بنیادی رکھی ہے۔ چوہدری ظفر اللہ کان جو مرکزی مجلس وزراء کے ممبر ہیں آئندہ ان کے وزیراعظم ہوجانے کا امکان ہے اسی ڈر سے ان کو مجلس وزراء سے کارج کرانے کے لئے غالباً احمدیت کے خلاف تحریک پیدا کی گئی ہے- یہ امر اس بات سے ظاہر ہے کہ ہر جگہ احمدیت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ چوہدری ظفر اللہ خان کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ ان دنوں مختلف مقامات پر اس بات پر فساتات بھی ہوئے ہیں اور ملتان میں اسی شورش کی وجہ سے پولیس لوگوں پر گولیاں چلانے پر بھی مجبور ہوئی۔ ۲۱ جولائی کو شہر بغداد الجدید )ریاست بہاولپور( سہروردی صاحب کی صدارت میں عوامی لیگ نے ایک جلسہ کیا اور اس میں احمدیوں کو اقلیتی قرار دیتے ہوئے ظفر اللہ خاں کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس قدر شور و غوغا کے ساتھ احمدیوں کی مخالفت کی اس وقت کیا ضرورت تھی ؟ خیال کیا جاتا ہے کہ چند خود غرض لوگ اپنی مطلب براری کے لئے یہ تحریک چلا کر عوا کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان ابھی اندرونی اور بیرونی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر ابھی حل ہونے میں نہیں آتا۔ افغانستان والے روزبروز دشمنی میں بڑھ رہے ہیں ان حالات میں خواہ مخواہ آپس میں الجھنے سے کیا ہوگا ؟
حصول پاکستان کی جنگ شیعہ` سنی` احمدی سبھی نے مل کر لڑی تھی۔ خود قائداعظم شیعہ تھے مگر ان کی قیادت پر کوئی اعتراض نہ اٹھا ظفر اللہ خاں احمدی ہیں لیکن قائداعظم کے وقت سے لے کر چار سال تک ان پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔ ایک صحیح العقل آدمی کے لئے اس بات کا سمجھنا ناممکن نہیں ہے کہ جو گندرناتھ جو غیر مسلم تھے ان کی وزارت پر گیر مسلم ہونے کی وجہ سے اعتراض نہیں اٹھایا گیا تو سر ظفر اللہ خاں کو غیر مسلم قرار دے کر وزارت سے برطرف کرنے کی تحریک کیوں کی جارہی ہے ؟
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ وزراء میں ظفر اللہ خاں بہترین قابلیت کے مالک ہیں۔ بعض دیگر وزراء کی نسبت بہت سی باتیں سنی جاتی ہیں لیکن ظفر اللہ خاں کے خلاف آج تک کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی۔ اہم عہدوں پر ناقابل لوگوں کے ہجوم سے پاکستان کے تباہی کی طرف جانے کا خطرہ ہے۔ اندریں حالات ظفر اللہ جیسے قابل ترین شخص کو وزارت سے برطرف کرنے کا مطالبہ قوم کے لئے مہلک ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی اہم ترین بھلائی کی خاطر اس قسم کی دیوانگی اور آپس کی توتو میں میں کو بند کردینا چاہئے۔ ۷۳ )ترجمہ(
روزنامہ >ملت< )ڈھاکہ( نے ۹ اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں چوہدری محمد ظفر اللہہ خاں صاحب کے استعفیٰ کی خبر پر حسب ذیل ریمارکس دیئے:۔
کراچی میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی استعفیٰ کی خبر غیر سرکاری طور پر جاری ہے۔ گزشتہ ۶ اگست کو یہ خبر اڑی کہ وزیر خارجہ نے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن وزیراعظم نے دوسرے وزراء سے مشورہ کر کے ان سے استعفیٰ واپس لینے کو کہا ہے۔
وزیر خارجہ کے استعفیٰ کی ابھی تک صرف افواہ ہی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا استعفیٰ دے دینا قرین قیاس بھی ہے اور اس سے جو نقصان ہوگا اس کے خیال سے پاکستان کے تمام بہی خواہوں کا پریشان ہونا ایک طبعی امر ہے۔ بین الاقوامی سیاست کے میدان میں پاکستان نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ صرف چوہدری ظفر اللہ خان کی جانفشانی اور مساعد جمیلہ ہی کا نتیجہ ہے۔ ایک قابل سیاستدان کی حیثیت سے انہوں نے تمام حکومتوں کی نگاہ تحسین و استعجاب کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ مصر` ٹیونیشیاء` ایران اور فلسطین کی جنگ آزادی میں ان کی گرانقدر امداد کی اہمیت سب کے نزدیک مسلم ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم جو باوجود طرفداری کے ارادے اور نیت کے ہندوستان کی جنبہ داری نہیں کرسکی تو اس کا موجب وہ براہین قاطعہ کے پہاڑ ہیں جو انہوں نے اپنے حسن خطابت سے ان کی راہ میں رکھ دیئے ہیں۔
ابھی تک مسئلہ کشمیر حال ہونے میں نہیںآیا اور ان دنوں یہ سوال ایک نازک مرحلے میں ہے اور انہی دنوں میں ہر سہ فریق خصومت کی مجلس )جنیوا میں( شروع ہونے والی ہے ایسی وقت میں چوہدری صاحب کے استعفیٰ کا امکان غایت درجہ تکلیف دہ ہے۔ اگر واقعی انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور وہ استعفیٰ منظور بھی کر لیا گیا تو مملکت پاکستان کو ایسا نقصان پہنچے گا کہ پھر تلافی نہ ہوسکے گی پاکستان کے سامنے جب کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی لاینحل ہے ایسے وقت میں ظفر اللہ خاں جیسے آدمی کو کھو دینا بڑی غلطی ہے۔ آخر پاکستان کے اعلیٰ عہوں پر بعض یورپین اور دوسرے غیر مسلم بھی تو کام کررہے ہیں اسی طرح اگر ظفر اللہ خاں سے بھی کام لیا جائے تو اس میں پاکستان کا کیا نقصان ہے ؟ ہمارے مسلمان بھائیوں کی اس تحریک نے تو فقط یہی ثابت کیا ہے کہ مخالف رائے کو برداشت کرنے کی تربیت ابھی ہمیں حاصل نہیں ہوئی۔ ۷۴ )ترجمہ(
بنگالی اخبار >انصاف< نے اپنے ۱۵ اگست ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں ایک اداریہ لکھا س کا آخری حصہ درج ذیل ہے:۔
چوہدری ظفر اللہ خاں کی مغرب زدہ خارجی پالیسی کو جو لوگ ناپسند کرتے ہیں وہ بھی ان کے خلاف افواہیں پھیلانے والے اخبارات اور ملک کی متعصب پارٹی کے غیر روادارانہرویے اور ناجائز پراپیگنڈے کو دیکھ کر دلی صدمہ محسوس کرتے ہیں۔ پاکستانکی سیاست میں یہ لوگ فرقہ پرستی کا زہر داخل کررہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کے لئے ایک ترقی یافتہ ملک بننا ممکن ہو جائے گا۔ آیا فرقہ قادیانیہ مسلمان ہے یا نہیں ؟ اس سولا کو اٹھا کر جو ان لوگوں نے وزیر خارجہ کے خلاف جنگ شروع کی ہے اس طبعاً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس قسم کی تفرقہ اندازی کو جتنی جلدی روکا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ۷۵ )ترجمہ(
Prompted India Agitation
Chief Ahmadiyya
necessary if up given be to lable Distinctive
of back the at is India of hand secret the that convinced am <I Din۔ud۔Bashir Mirza declared Agitation>, Ahmadiyya۔Anti present the ۔Mail Daily London the with interview an in sunday on Ahmad Mahmud
to prepared be would and possession his in proof positive dha He ۔added he time, proper the at Autborities proper the before it put
his declaring Pakistan in body authoritative the of event the In mandate a issuing is hesitation no have would he minority, a Muslims,community themselves call and Ahmadi of lable the drop to followers his to ۔declared Leader Ahmdiyya the
Ahmadiyya the of branch Qadiani the of head old year three۔Sixty an of course the in Ahmad, Mahmud Din۔ud۔Bashir Mirza ۔Community Mail Daily the of Shafi ۔Mohd Main with interview exclusive coup a planning was he that allegation the denied categorically ۔Pakistan In power political seize to d'etat
a is Ours ۔theory political a not is <Ahmadiyat said He Ahmadyas between tension present the With ۔movement religious pohitical seizing of think can man mad a only non-Ahmadyas and Ahmadis> for Power
tiny the argument, of sake the for if, Even added: He authority of seat the into getting in succeeds minority Ahmadiyya very the liquidated be to prepared be should it ,force by >۔non-Ahmadis hostile bitterly the of hands the at day next
the and you between conflict a of case In GovernmentQuestion: in Ahmadis that presume to correct it is Government, you to loyalty first their owe would Service
an is day the of Government the to <Loyalty conflictAnswer: such into entered I moment The ۔us with faith of GovernmentArticle in Ahmadis of loyalty the test the to put will presentwhich may of out thrown be to ready be should I <Weservice said: he Continuing >۔Khalifa the being of Governmentposition the against unconstitutional anything do never >shall۔law by established Country the of
Ahmadis declaring for agitation wide۔country tothe Referring it, dislike <I : said Shahib Mirza community, minority ita because but us, to harm any do to going is it because <Wenot : added he Explaining >۔Islam to name bad a bring ourwill of because and community growing۔internationally and are If ۔Muslims and Islam to kudos of lot bring we work restmissionary eth from separate community minority a branded are we be not will abroad activities missionary our Muslims, wholeof a as people Mslim the of behalf on effort an as willinterpreted This ۔community religious distinct a of work the as but and Ahmadis the between fulf unbridgeable an creat >also۔Muslim rothodox
<Wht : question a posed then leader religious shrewd mincrityThe Ahmadiyya proposed the of lines delimiting the be authoritativewill the of event the in that said He > wouldcommunity eh community, minority a as it declaring Pakistan in dropbody to followers his to mandate a issuing in hisitation no have۔only muslim themselves call and Ahmadi of label the
mandatory a not is Ahmadi of nomeclature <The : said sakeHe the for only was It ۔book religious our in declareprovisison to followers his asked had founder the that showing of in poerations census the during and in Ahmadis as >themselves۔lifetime his
Anjuman your declare Government the <Suppose : yourQuestion be will what it, bans then and organisation Political ofa name the change Will <I : said promptly He > >attitude۔Government the with conflict into come never but Anjuman, the
conflict inter-sectarian the of view in whether asked being ofOn establishment the advocate would he isues, religious n said he Pakistan, in State Islamic freedom> neligious complete a
Islam ۔freedom religious complete is there Stat Islamic an ><In۔ideals religious their to up live to non-Muslims even expects
the that dconvince am <I said emphatically then AhmadiyyaHe۔anti present the of back the at is India of hand wouldsecret and possession his in proof positive had He ۔agitation>۔time proper the at authorities proper the before it put to prepared be
of Ulema of convention a that like you <Would uponQustion: adjudicate to held be world the over fromall >Islam Islam of pale the outside declared be Ahmadis whether issue the
۔Convention proposed the to party a made are we provided Yes : onAnswer deralced are you vote majority a by <Suppose : inQuestion persist the even you Will ۔non-Muslims be to basis >dectrial۔Muslims are you that claiming
attached be to continue still, will Answer<Se۔Islam of brotherhood universal Lahoreto Gazette, Military & Civil The
1-3 Pages 1952 22, July Teusday,
بھارت کی بھڑکائی ہوئی شورش
از امام جماعت احمدیہ
اگر ضروری ہوا تو امتیازی شناخت کو ترک کردیا جائے گا۔
>مجھے اس بات کا یقین ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف موجودہ شورش کی پشت پر ہندوستان کا خفیہ ہاتھ ہے< اس بات کا واضح اعلان )حضرت( مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اتوار کے روز لندن کے اخبار >ڈیلی میل< سے ایک انٹرویو میں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس حتمی ثبوت موجودہے۔ اور وہ اسے مناسب وقت پر متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔
>اس صورت میں کہ پاکستان صا صاحب اقتدار طبقہ ان کی جماعت کو اقلیت قرار دے دے وہ اپنے پیروکاروں کو یہ حکم جاری کرنے سے دریغ نہیں کریں گے کہ وہ اپنی شناختی >احمدی< کو ترک کردیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہنے لگ جائیں<
سربراہ جماعت نے واضح الفاظ میں کہا۔
جماعت احمدیہ کی قادیانی شاخ کے تریسٹھ سالہ سربراہ مرزا بشیر الدین محمود احمدنے >ڈیلی میل< کے میان محمد شفیع سے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران اس الزام کی و ٹوک الفاظ میں تردید کی کہ وہ پاکستان میں سیاسی اقتدار پر قابض ہونے کے لئے کسی غیر آئینی انقلاب کا منصوبہ بنارہے ہیں۔
انہوں نے کہا >احمدیت کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے ہماری تحریک مذہبی ہے۔ احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان موجودہ کشمکش کے ہوتے ہوئے کوئی دیوانہ ہی ہوگا جو احمدیوں کے لئے سیاسی تسلط حاصل کرنے کا سوچے<
انہوں نے مزید کہا >اگر بغرض بحث مان بھی لیا جائے کہ قلیل التعداد جماعت احمدیہ بزور قوت سند اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اسے اگلے روز ہی شدید معانہ غیر احمدیوں کے ہاتھوں نیست و نابود ہوجانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔<
سوال-: آپ اور گورنمنٹ کے درمیان تصادم کی صورت میں کیا یہ قیاس کرنا درست ہوگا کہ جو احمدی گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں وہ آپ کے ساتھ وفاداری کو اولیت دیں گے ؟
جواب-: >حکومت وقت کے ساتھ وفاداری کرنا ہمارے نزدیک ایماں کا جزو ہے۔ عین اس لمحہ کہ میں ایسے تصادم میں حصہ دار بنوں جو کہ حکومت کی ملازمت میں شامل احمدیوں کی وفاداری کا ایک امتحان ہوگا میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ میں خلیفہ ہونے کے موجودہ منصب سے الگ کردیا جائوں۔< آپ نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا >ہم کبھی بھی ملک حکومت` جو قانونی طور پر معرض وجود میں آئی ہے کے خلاف کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کریں گے۔<
ملک بھر میں احمدیوں کو اقلیتی گروہ قرار دینے کے ہنگامہ کا ذکر کرتے ہوئے مرزا صاحب نے فرمایا >میں اسے پسند نہیں کرتا۔ اس لئے نہیں کہ اس سے ہمیں نقصان پہنچے گا بلکہ اس لئے کہ یہ اسلام کی بدنامی کا باعث ہوگا۔< اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا >ہم بین الاقوامی سطح پر ایک پھیلتی ہوئی جماعت ہیں اور ہم اپنے گبلیغی کام کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے بے پناہ افرام و احتشام کا موجب بنتے ہیں۔ اگر ہم پر باقی مسلمانوں سے الگ ایک اقلیتی گروہ ہونے کا دھبہ لگایا گیا تو بیرون ملک ہماری تبلیغی سرگرمیوں کو من حیث المجموع مسلمان قوم کی طرف سے مساعی قرار نہیں دیا جائے گا۔ بلکہ اس ایک علیحدہ مذہبی جماعت کا کام سمجھا جائے گا۔ نیز یہ احمدیوں اور کٹر مسلمانوں کے درمیان ناقابل عبور خلیج پیدا کرے گا۔<
اس کے بعد اس زیرک مذہبی رہنمائے ایک سوال داغ دیا< اس مجوزہ اقلیتی احمدیہ جماعت کی حدود و قیود کیا ہوں گی؟< انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صاحب اقتدار طبقہ کی طرف سے جماعت کو اقلیتی قرار دینے کی صورت میں وہ اپنے پیروکاروں کو یہ حکم جاری کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کریں گے کہ وہ اپنی شناخت >احمدی< تو ترک کردیں اور اپنے آپ کو صرف مسلمان کہنے لگ جائیں۔<
انہوں نے کہا >احمدی نام رکھنا ہماری مذہب کتب میں کوئی لازم شق نہیں ہے یہ صرف اس غرض کو ظاہر کرنے کے لئے تھا کہ )حضرت( بانی سلسلہ نے اپنی پیروکاروں کو یہ ارشاد فرمایا تھا کہ وہ ان کے زندگی میں ہونے والی مردم شماری کے عمل کے دوران اپنے آپ کو احمدی ظاہر کریں۔
سوال:۔ >فرض کیجئے کہ حکومت آپ کی انجمن کو ایک سیاسی تنظیم قرار دے دیتی ہے اور پھر اس پر پابندی عائد کردیتی ہے اس صورت میں آپ کا ردعمل کیا ہوگا ؟ >انہوں نے بلا تامل جواب دیا >میں انجمن کا نام بدل دوں گا لیکن حکومت کے ساتھ کبھی تصادم کی راہ اختیار نہیں کروں گا۔<
یہ دریافت کرنے پر کہ مذہبی مسائل کے بارہ میں مختلف فرقوں کے درمیان اختلافات کے پیش نظر کیا وہ اس امر کی حمایت کریں گے کہ اسلامی ریاست پاکستان میں مکمل مذہبی آزاد ہو۔
جواب:۔ >اسلامی ریاست میں پوری مذہبی آزادی ہوتی ہے۔ اسلام تو غیر مسلموں سے بھی توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی اقدار کے مطابق زندگی بسر کریں۔<
اس کے بعد انہوں نے زور دے کر کہا >مجھ یقین ہے کہ احمدیوں کے خلاف موجودہ شورش کی پست پر ہندوستان کا خفیہ ہاتھ ہے۔< ان کے پاس اس کا حتمی ثبوت موجود ہے اور وہ مناسب وقت پر اسے متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔
سوال:۔ >کیا آپ پسند کریں گے کہ دنیا بھر سے علمائے اسلام کا ایک اجتماع اس مسئلہ پر فیصلہ دینے کے لئے منعقد کیا جائے کہ کیا احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے۔<
جواب:۔ >جی ہاں بشرطیکہ مجوزہ اجتماع میں ہمیں ایک فریق بنایا جائے<
سوال:۔ >فرض کیجئے کہ اکثریتی ووٹ کے ذریعے آپ کو مذہبی تعلیمات کی بناء پر غیر مسلم قرار دے دیا جاتا ہے کیا آپ پھر بھی اس دعویٰ پر مصر ہوں گے کہ آپ مسلمان ہیں۔< ؟
جواب:۔ ہم پھر بھی اسلام کی عالمی برادری کے ساتھ وابستگی کوجاری رکھیں گے۔<
)سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور - منگل ۲۲ جولائی ۱۹۵۲ء ص ۱ تا ۳(
مطالبہ اقلیت کا مذہبی ردعمل
پاکستانی پریس کی طرف سے احراری تحریک کے سیاسی پہلوئوں پر جو ردعمل ہوا اس کا ذکر آچکا ہے اب یہ بتانا باقی ہے کہ جہاں تک اس مطالبہ کے >مذہبی< پہلو کا تعلق تھا اس زمانہ کے بعض سنجیدہ ` باوقار اور مذہبی اقدار کے علمبردار رسائل و اخبارات نے اسے فتنہ` تکفیر سے تعبیر کیا اور اس کی پر زور مذمت کی جس کے ثبوت میں حیدر آباد سندھ کے اخبار >ناظم< ` پشاور کے اخبار >تنظیم< اور کوئٹہ کے رسالہ >کوہسار< کے ادارتی نوٹ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ اخبار >ناظم حیدر آباد )سندھ( نے ۷۲ جولائی ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں اس فتنہ کو قلب پاکستان میں چھرا گھونپنے کی ناپاک سازش قرار دیتے ہوئے لکھا:۔
>کفر سازی:۔ ہمارے علماء کرام کو کفر سازی کا پورا ملکہ ہے تبلیغ دین کی بجائے کفر گری آج کل ان کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی بجائے خود مسلمانوں کو کافر بناتے ہیں۔ دیوبندی علماء کی تحریرات ملاحظہ کیجئے۔ بریلوی علماء کو کفر کی سند دیتے نظر آئیں گے اور بریلوی علماء کے دربار سے دیو بندیون کو کفر کا سرٹیفکیٹ ملے گا وغیرہ وغیرہ ` سنی` شیہ` مقلد ` غیر مقلد` وہابی` بدعتی خدا معلوم کتنے فرقے ان علماء کی بدولت پیدا ہوگئے اور کتنے پیدا ہوں گے۔ کمال یہ ہے کہ جن کے خلاف خود کفر کے فتاویٰ موجود ہوں وہ کس طرح دوسروں پر کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ ان ہی فرقہ بندیوں کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمانوں پر ادبار کی گھٹائیں رہیں۔ اور یہی فرقہ بندی اور عقائدی جنگ آج پاکستان کے مسلمانوں کی شیرازہ بندی کو ختم کرنے اور انہیں باہم متصادم کرنے کے لئے شروع کی جارہی ہے جس کو فتنہعظیم کہنا بے جانہ ہوگا۔جہاں تک عقائدی اختلافات کا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے- بڑے بڑے مصلحان دین اور برگزیدہ ہستیوں کی ان تھک کوششوں کے باوجود یہ اختلاف قائم رہے پھر بھلا یہ ہمارے موٹر نشین اور نرم گدوں پر استراحت کرنے والے علماء جو اپنے نفس کی فرمانبرداری کا کسی حد تک عہد کرچکے ہیں اور جن کا خود امن ملوث ہے کس طرح ان سے کوئی توقع کی جاسکتی ہے؟
ہوشیارباش-: آج پاکستان میں جس تحریک کا آغآز کیا جارہا ہے۔ جا بجا جلسے کر کے کمیٹیاں بنائی جارہی ہیں اور فنڈ اکٹھے کئے جارہے ہیں کیا اس تحریک کا مقصد خدمت اسلام ہے ؟ کیا اس تحریک سے مسلمانوں میں ختم نبوت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ؟ کیا اس سے پاکستانی مسلمانوں کی تنظیم پر ضرب نہیں لگتی ؟ کیا اس تحریک سے استحکام پاکستان پر چوٹ نہیں پڑتی ؟ آخر یہ اتنی مدت کے بعد باسی کڑھی میں کیوں ابال ہے ؟ کیا اس میں سیاسی اغراض پوشیدہ نہیں ہیں ؟ کیا اس طرح دشمنان پاکستان کے عزائم کو تقویت نہیں پہنچتی ؟ اور کیا یہ پاکستان اور پاکستانیوں سے غداری نہیں ہے ؟
مسلمان بالکل سادہ واقع ہوا ہے۔ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ آج جو معصومیت کا چولہ پہن کر ان کے سامنے آیا کل وہ کون تھا ؟ اور قوم کے لئے کس طرح عذاب بنا ہوا تھا ؟ یہی ہمارے احراری علماء کرام اور احراری بھائی قیام پاکستان کی مخالفت میں ہندو دوستوں کی آغوش میں بیٹھے ہوئے مسلمانوں کی پھتیاں اڑانے میں کونسی کسر چھوڑ رہے تھی۔ مسلم لیگیوں اور مسلم لیگ پر دشنام طرازی سے کس وقت چوکنے تھے ؟ کیا انہوں نے قائداعظم پر کفر کے فتوے نہیں جاری کئے ؟ کونسا برا لفظ تھا جو ان مولوی حضرات نے قائداعظم کی شان میں استعمال نہیں کیا ؟
پاکستان بن جانے پر طوعاً کرہاً ہمارے ان احراری بھائیون نے پاکستان بننا قبول کیا۔ کیونکہ بھارت کی زمین ان کے لئے تنگ تھی۔ ہندوئوں نے کہہ دیا کہ جب تم اپنے بھائیوں کے ہی نہ ہوئے تو ہمیں کیا توقع رکھنی چاہئے۔ ہماری جمعیتہ الماء پاکستان کے محترم صدر جو آج احراری بھائیوں کے دوش بدوش پاکستان میں عقائدی جنگ کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ برائے خدا اتنا تو بتادیں کہ قیام پاکستان سے قیا اور قبل پاکستان کے بعد انہوں نے قادیانیوں کے خلاف کتنے احتجاجات کئے ؟ کیا انہوں نے مسلم لیگ کے ذریعہ سے قادیانی امیدواروں کو اسمبلیوں میں کامیاب نہیں کیا ؟ کیا مسلم لیگی حکومت پاکستان نے جب چوہدری ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ مقرر کیا تو کوئی احتجاج کیا گیا ؟ جب دستور پاکستان کے لئے بنیادی حقوق کی کمیٹی میں چوہدری ظفر اللہ خاں کو لیا گیا تو کوئی احتجاج کیا گیا ؟ اور جب آپ نے اس کمیٹی سے علیحدگی کی خواہش ظاہر کی تو انہیں مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ اس کمیٹی سے الگ نہ ہوں >؟ اگر یہ سب حقائق ہیں تو پھر اس وقت راگنی کا مقصد کیا ہے؟
پاکستان سے غداری نہیں کی جاسکتی
ہر پاکستان جانتا ہے کہ استحکام پاکستان کے لئے تمام پاکستانیوں کا بلا لحاظ مذہب و ملت متحد و منظم رہنا ضروری ہے۔ اس وقت کی ذرا سی لغزش نہ صرف پاکستانیوں بلکہ پاکستان کے ساتھ غداری ہے۔ ایسی حالت میں فرقہ پرستی اور عقائدی جنگ کے حامی خواہ ان کی نیت صاف ہی کیوں نہ ہو سیاسی نوعیت سے پاکستان دوستی کا ہرگز ثبوت نہیں دے رہے بلکہ پاکستان کے قلب میں چھرا گھونپنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان عوام اس تحریک سے عدم دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں۔<۷۶
۲- ماہنامہ >کوہسار< کوئٹہ )ماہ اگست ۱۹۵۲ء( نے لکھا:۔
>پاکستان سے ہندوئوں اور سکھوں کے انخلاء کے بعد خیال ایسا تھا کہ اس ملک میں اب فرقہ وارانہ قضنیوں کے لئے کسی قسم کی گنجائش کا امکان نہیں ہوگا مگر یار لوگ بھلا کب چین سے بیٹھنے والے تھے ؟ فرقہ وارانہ ہنگامہ آرائی کے لئے آخر کار انہوں نے موقعہ تلاش کر ہی لیا۔ احمدیت اور غیر احمدیت کا مسئلہ آج کل پاکستان کے بعض حصوں میں خطراک حد تک نزاعی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس ضمن میں ہماری احراری دوست اور احمدیوں کا ایک طبقہ بہت پیش پیش نظر آتے ہیں۔
جہاں تک احمدیوں کے عقائد کا تعلق ہے کوئی مسلمان انہیں اسلامی اصولوں کے مطابق ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ اس سلسلہ میں علمائے اسلام کے فتاویٰ اور بیانات واضح ہیں مگر ان اختالفات کی بنا پر کسی انسان کو گردن زدنی قرار دینا نہ اسلام کی رو سے جائز ہے` نہ انسانیت کی رو سے احسن` اور نہ اختلافات کو ہوا دینے سے کسی فائدہ کی توقع ہوسکتی ہے۔ البتہ برخلاف اس کے ملی اور ملکی نقصان کے امکانات زیادہ ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد خود احمدیوں کا وطن اور اصلی مرکز ان سے اس بناء پر چھن گیا کہ انہیں بھی مسلمان سمجھا گیا تھا۔ اس لئے اس سرزمین میں رہنے اور بسنے کے لئے ان کے حقوق بھی ہمارے ساتھ ہوگئے ہیں۔ پاکستان سے پہلے احمدیوں کے خلاف تکفیر بازی کا فتویٰ دینے والے سات کروڑ کی اکثریت کے باوجود حکومت وقت سے یہ مطالبہ منوانے سے قاصر رہے کہ احمدی مسلمانوں سے علیحدہ ایک مختصر سی جماعت ہیں۔ آج پاکستان میں وہ ایک پناہ گزیں جماعت کی حیثیت سے مقیم ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے خلاف ہنگامہ آرائی کا جواز پیدا کرنا ہمارے نزدیک بین الانسانی اخلاق کے لحاظ سے بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہمارا اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ احمدیوں کو اپنے عقائد کی برسرعام اشاعت اور تبلیغ کے لئے کھلی چھٹی دے دی جائے۔ احمدی ہوں یا غیر احمدی کسی کو کسی کے جذبات کی بے احترامی کی اس سرزمین پر اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ امن اور رحمت کی سرزمین ہے جسے ہم نے لاکھوں جان` مالی اور آبروئی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ اس سرزمین پر اس قسم کی ہنگامہ آرائیوں کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ دشمنان وطن اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر ملک کی توجہ تعمیری کاموں سے ہٹا کر ہماری تباہی کا باعث بنیں اور بس۔ احمدیوں کے عقائد کی تردید اور مخالفت بوجہاحسن بھی ہوسکتی ہے وہ اس طرح کہ علمائے اسلام متفقہ طور پر ان صحیح عقائد سے مسلمانوں کو روشناس کرنے کی کوشش کریں جنہیں اچھی طرح سمجھ کر کوئی مسلمان احمدیون کے پھندے میں نہیں پھنس سکے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس موعظہ حسنہ سے بعض احمدی حضرات بھی آپ کے ہم خیال ہوجائیں۔ کسی کے عقیدہ کو طاقت اور قانون سے توڑنا کامیابی کی دلیل نہیں ہوسکتی۔<۷۷
مطالبہ غیر مسلم اقلیت اور برصغیر کی ممتاز مسلم شخصیتیں
ان دنوں >مطالبہ غیر اقلیتی< کی برصغیر پاک و ہند کی جن شخصیتوں نے زبردست مذمت کی ان کے نام یہ ہیں:۔
۱- دیو بندی عالم مولانا منور الدین صاحب۔ ۲۔ اہل حدیث عالم مولانا محی الدین صاحب قصوری ۳۔ ممتاز صحافی مولانا عبدالمجید سالک۔ ۴۔ صدق جدید لکھنئو کے ایڈیٹر مولانا عبدالماجد صاحب دریا آبادی ۔۵۔ مصور فطرت خواجہ حسن نظامی مدیر منادی دہلی۔۶۔ بھارتی مسلمانوں کے رسالہ >مولوی< کے مدیرمولوی عبدالحمیدی خاں صاحب۔
۱- مولانا منور الدین صاحب )معتقد مولانا حسین علی آف واں بھچراں ضلع میانوالی( نے اپنے رسلالہ >مکتوب بنام علماء< میں لکھا:۔
>حضرات میں یقیناً کہتا ہوں جس ڈھب سے تم لوگ مرزائیوں پر فتح پانا چاہتے ہوں اس میں تم ہر گز کامیاب نہ ہوسکو گے کیونکہ اعداء پر فتح پانے کی جو شرائط قرآن مجید نے بیان کی ہیں قرآن کو اٹھا کر پڑھو خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے انا لننصر رسلان والذین امنو۔<۷۸ادھر تمہارے لیڈروں کو ایمان کی خبر نہیں۔ خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے۔ انتم الاعلون ان کنتم مومنین۔۷۹ ادھر تمہاری تحریک میں اکثریت مشرکوں کی ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ومن یتول اللہ و رسولہ والذین امنوا فان حزباللہ ہم الغالبون۔۸۰ ادھر آپ کی nsk] [tagتولی والذین اشرکوا سے ہے خدا تعالیٰ کی ذات کو حاضر ناظر جانتے ہوئے آپ فرمائیں کیا یہ تحریک ساری کی ساری مجموعہ علماء سوء نہیں ؟ کیا اپ لوگ قلباً و صدراً ظفر علی خاں اور اختر علی جیسی ابناء الوقت کو دینی پیشواما نئے ہیں ؟ کیا تمہاری تحریک میں کوئی کامل اہل اللہ وارث علوم نبوی ہے > کیا تم میں کوئی حکیم الامت تھانوی جیسا ہے ؟ کیا تم میں کوئی اسمعیل شہید جیسا امام موجود ہے ؟ کیا تم میں کوئی جنید وقت حضرت مولانا حسین علی مرحوم جیسا کوئی موحد موجود ہے۔ ہاں لے دے کر آپ کے پاس ایک امیر شریعت موجود ہے جس کی شریعت کی حقیقت سے آپ لوگوں کے سینے تو واقف ہیں۔ لیکن کیا کہوں ان زبانوںکو جن پر آج مہریں لگ گئیں ہیں۔ ادھر خدا کے چند بندے جو خدا کی توحید سناتے تھے انہوں نے قسم اٹھالی کہ ہم کلمہ توحید ہرگز کسی کو نہسنائیں گے- گویا ان کے نزدیک ربانی حکم سبحو بکرہ واصیلا۸۱آج سے منسوخ ہوگیا ؟ جس کا یہ مطلب تھا کہ اے مومنو ! صبح شام خدا کی توحید بیان کرو اور اس کو شریکوں سے پاک کہو۔ سوچئے ! بھلا جس کشتی تحریک کے ایسے ناخداہوں کیا وہ ساحل تک پہنچ سکتی ہے ؟<
>حضرت تیر اصلاحاً کہتا ہوں کہ آپ کی تحریک کسی خدائی تحریک کے نقش قدم پر نہیں ہے کیونکہ آسمانی کتابیں گواہ ہیں کہ خدائی تحریکوں نے ابتداًء ہمیشہ دلائل سے کام لیا نہ کہ زور اور لاٹھیوں سے۔ ہاں باطل تحریکیں جب دلائل سے عاجز آجاتی ہیں تو کبھی اکثریت کے بل پر اقلیتوں کو ملک بدر کرنے کو تازیانہ دکھاتی ہیں جس طرح قوم لوط نے کہا لا لم تنتہ یا لوط لتکونن من المغرجین۔۸۲ اور کبھی واویلا کرتی ہیں کہ فلاں اقلیت ملک میں ارتدا پھیلنا چاہتی ہے اور ملک میں انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے جس طرح فرعون نے کہا انی اخاف ان یبدل دینکم او ان یظھر فی الارض الفساد۸۳ اور کبھی حکام کے پاس جا کر سچی اقلیتوں پر جھوٹے الزام لگاتی ہیں جن کی وجہ سے ہزاروں خدا کے پیارے بندوں کو بے جا آلام و مصائب کا شکار ہونا پڑتا ہے اسلامی تاریخ میں ذرا امام اعظم۔ امام احمد حنبل۔ امام ابن تیمیہ۔ مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہم کے حالات ملاحظہ فرمائے جائیں<
>اور باطل تحریکیں کبھی اکثریت کے نشہ میں اکر سچی اقلیتوں کو کچلنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں اور مملکت کے کونہ کونہ میں اپنے داعی بھیجتی ہیں جو عوام میں یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ فلاں اقلیت نے ہم کو تنگ کررکھا ہے آئو ہم سب اکٹھے ہو کر اس کا استیصال کردیں جس طرح فرعون نے کیا فارسل فرعون فی المدائن حشرین ان ھو لاء لشر ذمتہ قلیلون و انھم لنا لغائظون وانا لجمیع حذرون ۸۴
اس مقام پر میں حکومت پاکستان کے بااقتدار طبقہ کی روشن ضمیری پر بھی داد دیتا ہوں جنہوں نے خوب سمجھ لیا ہے کہ اگر بمطالبہ احرار آج مرزائیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تو کل دیو بندیوں کو اقلیت قرار دینا پڑے گا اور پرسوں اہلحدیثوں کو علی ہذا لقیاس۔ اور اس طرح سے ملت پاکستانیہ کا شیرازہ بکھر جائے گا اور نوزائیدہ مملکت کا وجود ہی سرے سے ختم ہوجائے گا۔ اور میں گورنر جنرل پاکستان کے ان الفاظ کی بہت قدر کرتا ہوں جو انہوں نے کراچی میں ایک کانفرنس میں کہے کہ گزشتہ ہزار سال میں شخصی حکومتوں اور ملائوں نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے<
>حضرت خدا اور انبیاء اور بعثت انبیاء اور آخرت کا واسطہ دیتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ تبلیغ توحید کو ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ کیا مشرکین سے الگ ہو کر ہم مرزائیوں کا رد نہیں کرسکتے۔ کیا علماء سوء کے تعاون کے )کے(۸۵ بغیر دین کا کام نہیں ہوسکتا ؟ کیا ختم نبوت کا مسئلہ ختم توحید کے بغیر حل نہ ہوسکتا تھا۔ مرزائیوں نے ایک فتنہ قلیلہ ہوتے ہوئے اتنی مخالفت کے باوجود اپنی تبلیغ کو نہ چھوڑا۔ اہل شرک و بدعت کے پیشوائوں نے یہ اعلان نہ کیا کہ آئندہ ہم عقائد شرکیہ کی تبلیغ نہ کریں گے مگر ہمارے موحد علماء نے سوچا کہ مصلحت وقت کا تقاضا ہے کہ مسئلہ توحید کو بند کردیا جائے کیونکہ تحریک کو نقصان پہنچتا ہے۔<
>میں پوچھتا ہوں اگر تحریک کے بااثر لوگ مشرک ہیں تو آپ لوگوں کو ان کی اطاعت کرنی ہوگی اور ان کی خوشامد کے لئے کتمان حق کرنا ہوگا جیسا کہ گجرات میں کیا گیا ہے تو پھر وان اطعتموھم انکم لمشرکون کے مصداق کون ہوں گے ؟ کیا مرزائیت کا دور ہمارے حضرت صاحب کی زندگی میں نہ تھا۔ کیا ان کی کوئی تحریر و تقریر ملتی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ جب تک مرزائیوں کو اقلیت قرار نہ دیا گیا میں گو لڑے والوں یا سیال والوں کے ساتھ مل کر دینی کام کروں گا ؟
خدارا سوچئے ! اگر کل ابوالحسنات` قمر دین سیالوی` پیرگولڑوی جن کے گھٹنوں پر تمہارے امیر شریعت نے لاہور میں سجدہ کیا یا شیعہ مجتہدین جیسے بزرگوں کے ہاتھ میں زمام حکومت آگئی اور قانون ان کے ہاتھ میں آگیا تو جیسے آج مرزائیوں کو اقلیت قرار دے رہے ہیں کل ہمیں اقلیت قرار دیں گے۔
اگر یہ لوگ برسراقتدار آگئے تو محمد بن عبدالوہاب` اسمعیل شہید` محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین تو ان کے ہاتھ نہ لگیں گے ہم ہی ہیں جو ان کی گولی کا اولین نشانہ بنیں گے۔
لٰہذا آخری التجا کرتا ہوں کہ ہم کو ان لوگوں سے کسی بھلائی کی امید نہ رکھنی چاہئے اور مرزائیوں سے بڑھ کر ان لوگوں کے عقائد شرکیہ کو دلائل سے رد کرنا چاہئے- اگر مرزائی اس وجہ سے کافرین سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک انسان میں وہ صفات اور کمالات ثابت کئے جو تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انسانوں میں پہلے پائے جاتے ہیں تو یہ لوگ جو ہزاروں انسانوں میں خدائی صفات ثابت کرتے ہیں یقیناً مشرک اور اصل ہیں۔
خدا کے لئے اپنے دلوں کو ٹٹولو اور ان سے پوچھو ان دونوں فتنوں میں کونسا بڑا فتنہ ہے<؟۸۶
۲- مولان محی الدین صاحب قصوری ممتاز اہلحدیث عالم نے لکھا:۔
>آب ذرا علمائے کرام کی حالت ملاحظہ فرمایئے:۔ ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ تمام ارکان اسلامی کا پابند ہے لیکن کسی ایک عقیدے یا عمل میں اس کا آپ سے اختالف ہے۔ بس وہ مرتد ہے۔ واجب القتل ہے۔ کوئی اگر ان سے کہہ دے کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص گمراہ ہے۔ اس کے بعد عقائد اسلام کے ٹھیٹھ عقائد کے خلاف ہیں۔ وہ فاسق ہے۔ لیکن خدارا آپ کس دلیل سے اسے مرتد کہتے ہیں۔ تو آپ خود >فھومنھم< کی بناء پر کافر` مرتد اور واجب القتل اور جہنمی ہیں۔ وزراء کے خلاف کچھ کہنے والا تو صرف یہاں چند مہینوں یا زیادہ سے زیادہ چند برسوں کے لئے محبوس کردیا جاتا ہے مگر ہمارے خدا فوجدار` خدائی جنت و دوزخ کے مالک ایسے آدمی کو اگلی دنیا میں بھی نہیں چھوڑتے۔
ہم نے صرف ان دو مثالوں پر اکتفاء کیا ہے۔ اگر زیادہ اطناب سے کام لیں تو صر فاس ایک موضوع پر پوری تصنیف تیار ہوجائے۔ بریلویوں کی طرف سے تمام اہل سنت والجماعت )اہل حدیث` دیوبندی` احناف وغیرہ( اور تمام شیعہ حضرات کی تکفیر` شیعہ صاحبان کی طرف سے تمام اہلت سنت و الجماعت اور بریلویوں کی بلکہ اہل سنت کے آئمہ ہدی خلفائے راشدین المحدثین کی تکفیر )نعوذ باللہ من ھذہ الاباطیل الکاذبہ : ان یقولون الا کذبا( اور پھر سب کی طرف سے )یعنی سنیوں اور شیعہ کے کل فرقوں کی طرف سے( مرزائیوں کی تکفیر کیا یہ اسی جہالت اور کبر و نخوت کا کرشمہ نہیں جو لوگوں کے دلوں میں نہ تو قرآن پاک کی وعید : ولا تقولو لمن القی الیکم السلم لست مومنا ۸۷ اور ان الذین فرقوا دینھم وکانو شیعا لست منھم فی شی۸۸ کا خوف پیدا ہونے دیتا ہے اور نہ ھل لا شققت قلبہ 4] fts[۸۹ کی تنبیہہ کی طرف انہیں وجہ ہونے دیتا ہے۔ کیا قران پاک اسی تحدید کا بالکل عملی نمونہ ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں پیش کرتا جو نبی اسرائیل کو ہوئی تھی؟ قالت الیھود لیست النصری علی شی وقالت النصری لیست الیھرد علی شی وھم یتلون الکتب۹۰ مجھے ذاتی طور سے علم ہے کہ لاہور کے دو نہایت جید دیوبندی علماء نے جن کی میرے دل میں عزت ہے برسرمجلس ایک جماعت کو مرتد کہہ کر اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا۔ لا یکادون یفقھون حدیثا۔<]4 [stf۹۱
۳- مولانا عبدالمجید خاں سالک نے تجویز پیش کی کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت تکفیر مسلمان کو قانوناً جرم قرار دے۔ ان کے الفاظ یہ تھے:۔
>اسلام کے بعد ایمان کا درجہ ہے اور قرآن مجید کے نزدیک ایمان یہ ہے کہ اللہ اس کے فرشتوں` پیغمبروں ` اس کی کتابوں ` حشر و نشر اور سزا و جزا کا اقرار کیا جائے۔ حدیث میں اسلام کے ارکان پانچ بیان کئے ہیں سہادت` نماز` روزہ` زکٰوۃ` حج
>صفت ایمان مفصل< اور ارکان اسلام پر عمل کا درجہ تو بعد میں آتا ہے اولین چیز توحید و رسالت کا اقرار ہے اور جو شخص یہ اقرار کرتا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت کا فر قرار نہیں دے سکتی۔ بخاری میں حدیث ہے۔ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں۔ ایک شخص نے حضورﷺ~ سے سوال کیا۔ اسلام کیا ہے؟ ارشاد ہوا اسلام یہ ہے کہ >تم اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو۔ نماز کو قائم کرو۔ رمضان میں روزہ رکھو اور زکٰوۃ۔< پھر جو شخص توحید و رسالت کا اقرار کرنے کے بعد حضور~صل۱~ کے ان احکام پر بھی عمل کرتا اس کو کون کا فرقرار دے سکتا ہے؟
قرآن حکیم کا حکم
سورۃ النساء میں الل¶ہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم بست مومنا جو شکص تم کو سلام کہے اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ یعنی اللہ کے نزدیک اس شخص کو کبھی کافر قرار نہیں دیا جاسکتا جو مسلمانوں کو >السلام علیکم< کہتا ہے۔ اس پر بعض شائقین تکفیر کہا کرتے ہیں کہ اگر کوئی عیسائی یا ہندو ہم کو سلام کہے تو کیا ہم اس کو بھی مسلمان مان لیں؟ اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ تمہارے اعتراض کا جواب ہم نہیں دے سکتے کیونکہ آیت صاف ہے اور اللہ کا حکم ہے اگر تم اللہ کے بندے ہو تو تمہیں اللہ کا حکم ماننا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ >لست مومنا< کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کسی مومن کو یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے جس حالت میں وہ تم کو مومنا نہ سلام کہتا ہے۔ غیر مسلم کا تو اس سے تعلق ہی نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ جو شخص مسلمان کہلاتا ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ ظاہر اخوت کا ثبوت )یعنی سلام و کلام بھی دیتا ہے اس کو کافر کہنا ازروئے قرآن ممنوع ہے۔
حدیث رسولﷺ~ کا حکم
عن ابن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذالک المسلک الذی لہ ذمتہ اللہ و ذمہ رسول اللہ فلا تخفر واللہ فی ذمتہ )بخاری کتاب الصلٰوہ(
انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں فرمایا رسول اللہ~صل۱~ جو شخص ہماری طرح نماز پڑھتا ہے` ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہے تو یہ شخص مسلم ہے جس کیلئے اللہ کا عہد ہے اور رسول اللہ کا عہد ہے پس اللہ کے عہد کو نہ توڑو حضورﷺ~ نے فرمایا جس نے لا الہ الا اللہ کہنے والون کی تکفیر کی وہ خود کفر سے زیادہ قریب ہے۔
ایسی حدیثیں متعدد ہیں جن میں حضورﷺ~ کے قول و عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص توحید کا اقرار کر لیتا تھا حضورﷺ~ اسے مسلمان سمجھتے تھے۔ اور اگر کوئی اعتراض کرتا تھا کہ فلاں شخص شاید ولی سے مسلمان نہ ہوا ہو تو حضورﷺ~ فرماتے کہ مجھے یہ حکم نہیں ملا کہ میں لوگوں کے دلوں کو پھاڑ کر دیکھوں۔ اسلام کے لئے اقرار کافی ہے۔
آئمہ اسلام اور تکفیر
ہمارے آئمہ کبارنے اہل قبلہ کی تکفیر کو ہمیشہ ناواجب ٹھہرایا ہے۔ امام ملحاوی نے کیا خوب بات کہی ہے کہ جس اقرار کے بعد کوئی مسلمان ہوتا ہے جب تک اس اقرار سے برگشتہ نہ ہو دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتا۹۲ )رد المحتار سوم صفحہ ۳۱۱(
ساری دنیا جانتی ہے کہ ایک کافر جس وقت کلمہ پڑھ کر توحید و رسالت کا اقرار کر لیتا ہے تو مسلمان ہوجاتا ہے اور تمام مسلم اور غیر مسلم اس کو مسلمان سمجھ لیتے ہیں۔ اب جب تک وہ اس اقرار کو واپس نہ لے یعنی توحید و رسالت سے منکر نہ ہوجائے اس کو کافر اور غیر مسلمکیونکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ حاکم نے اپنی کتاب منتفیٰ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ سے بیان کیا ہے کہ وہ اہل قبلہ میں سے کسی کو بھی کافر نہیں کہتے اور ابوبکر رازی نے امام کرخی سے بھی یہی روایات کی ہیں۔ )شرح مواقف(
شرح عقائد نفسی صفحہ ۱۲۱ میں لکھا ہے کہ اہل السنت والجماعت کے قواعد میں سے ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہ کی جائے۔
ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے وصال کے بعد مسلمانوں میں کئی امور پر اختلاف ہوا۔ وہ ایک دوسرے کو گمراہ کہنے لگے اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے لیکن اسلام ان سب کو یکجا کر کے اپنے دائرہ میں جمع کرتا ہے۔ >)مقالات الاسلامیین< ابوالحسن اشعری صفحہ ۱`۲(
مولانا احمد بن المصطفیٰ کہتے ہیں کہ حنفیوں` شافعیوں` مالکیوں اور اشعریوں کے معتمد علیہ اور مستند اماموں کی رائے یہی ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہا جاسکتا۔ )مفتاح دارالسعادۃ حصہ اول صفحہ ۴۶(
فقہ حنفی کی مستند ترین کتابوں سے صاف ظاہر ہے کہ اہل السنت کو تکفیر کی ممانعت کی گئی ہے۔ مثلاً ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
کسی مسلمان کی تکفیر نہ کی جائے جب تک اس کے کلافم کے کوئی اچھے معنی نہ لئے جاسکیں۔ )در مختار(
اگر کسی مسئلے میں ننانوے وجوہ کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفی کفر کا` تو قاضی و مفتی کا فرض ہے کہ اس احتمال کو اختیار کرے جو نفی کفر کا ہے۔ )شرح فقہ اکبر ملا علی قاری صفحہ ۱۴۶(
جب کسی مسئلے میں کئی وجوہ کفر کے ہوں اور ایک وجہ عدم تکفیر کی ہو تو مفتی پر واجب ہے کہ وہ حسن کی راہ سے اسی وجہ کو اختیار کرے جو تکفیر کی مانع ہے۔ )سل الحسام الہندی سید محمد عابدین صفحہ ۴۵(
ہم کسی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے۔ اگرچہ وہ بہت سی باتوں میں باطل پر ہی ہو۔ کیونکہ اقرار تو حید الٰہی تصدیق رسالت محمدیہ اور توجہ الی القبلہ کے بعد کوئی شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور آنحضرت~صل۱~ نے فرمایاکہ جو لوگ لا الہ الا اللہ انہیں کافر نہ کہو۔ )علم الکتاب میر درد صفحہ ۷۵(
حضرت شاہ اسمعیل شہید نے اپنی کتاب >منصب امامت< میں جہاں بعض سلاطین کو ان کے اعمال بد پر زجرو تو بیخ کی ہے وہاں یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ لوگ چونکہ ظاہری شعائر اسلامی مثلاً ختنہ` عیدین پر اظہار شکریہ` تجہیز و تکفین` نماز جنازہ وغیرہ کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔
>پس یہ دعویٰ اسلام جو ظاہر اطوار پر ان کی زبانوں سی صادر ہوتا ہے انہیں کفر صریح سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگرچہ آخرت کے مواخذہ کے لئے خفیہ کفر کافی ہے لیکن ظاہری اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے ساتھ دنیوی احکام میں مسلمانوں کا سا سلوک کیا جائے۔ اور معاملات کی حد تک انہیں بھی مسلمانوں میں ہی شمار کیا جائے۔<
ابو الحسن اشعری نے اپنی کتاب >مقالات الاسلامیین واختلاف المصلین< میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کا ذکر کیا ہے مثلاً شیعہ` خوارج` مرحبہ` معتزلہ وگیرہ پھر ان فرقوں کے اندرونی گروہون پربھی بحث کی ہے۔ مثلاً شیعہ کے تین گروہ ہیں غالیہ` رافضہ` زیدیہ` ان میں سے غالیہ کے پندرہ چھوٹے گروہ ہیں۔ اشعری کے نزدیک یہ بھی مسلمان ہیں یہاں تک کہ وہ غالیہ کو خارج از اسلام قرار نہیں دیتے حلانکہ وہ اپنے ایک سردار کو نبی کا رتبہ دیتے ہیں۔ مثلاً بیانیہ فرقہ کے لوگ ایک شخص بیان کو عبداللہ بن معاویہ کے پیرو اس کو اپنا خدا وند اور پیغمبر مانتے ہیں لیکن چونکہ یہ سب لوگ حضرت رسول کریم~صل۱~ کی نبوت اور قران مجید کا کلام الٰہی ہونا تسلیم کرتے ہیں اس لئے وہ خارج از اسلام قرار نہیں دیئے جاتے۔۹۴
مسلمانوں کو کافر نہ بنائو
غرض جہاں تک دیکھا جائے کتاب اللہ` حدیث رسول اللہ` تصانیف اہل ` السنت والجماعت میں تکفیر اہل قبلہ کو قطعی طور پر ناجائز قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ دین اسلام دنیا میں توحید و رسالت کا اقرار کرانے کے لئے آیا تھا اس لئے نہیں آیا کہ اچھے خاصے توحید و رسالت کے اقرار انسانوں کو جو مسلمان ہیں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور مسلمان ہی رہنا چاہتے ہیں زبردستی اسلام کے دائرہ سے نکال کر باہر کرے۔ یہ تکفیر کا مشغلہ پاکستان میں مسلمانوں کی وحدت کے لئے سخت مہلک ہے- اگر اس کو رائے عامہ نے اپنی قوت سے فوراً دبانہ دیا تو دین مقدس اور ملت پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
کفر کی دو قسمیں
ممکن ہے تکفیر کے بعض شوقیں بزرگان اسلام کی بعض تحریروں سے ایسے اقوال نقل کریں جن میں بعض مسائل پر >کفر< کی مہر لگائی گئی ہے اس لئے میں یہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کفر کی دو قسمیں ہیں جیسا کہ علامہ ابن اثیر اپنی کتاب >نہایہ< میں لکھتے ہیں:۔
کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک کفر تو وہ ہے جس میں خود دین کا انکار ہو )یعنی توحید و رسالت کا( اور دوسرا کفر یہ ہے جس میں کسی فرع کا انکار ہو۔ احکام اسلامی فروع کا حکم رکھتے ہیں ان میں سے کسی کے انکار سے کوئی شخص دین سے خارج نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں قتال بھی شروع کردیں جو صریحاً دین و ملت کے مقاصد کے خلاف ہے تو خود قرآن بھی ان کو کافر نہیں کہتا بلکہ ان کو >طائفتان من المومنین< قرار دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ یعنی وہ آپس میں لڑنے کے بعد بھی مومن ہی رہتے ہیں کافر نہیں ہوجاتے۔
علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ علامہ ازہری سے کسی نے پوچھا کہ آیا فلاں شخص فلاں قسم کی رائے ظاہر کرنے کی وجہ سے کافر ہوگیا جواب ملا کہ ایسی رائے کفر ہے۔ پوچھا گیا کیا وہ مسلمان رہا؟ آپ نے جواب دیا بعض اوقات مسلمان بھی کفر کا مرتکب ہوجاتا ہے۔۹۵
اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان کوئی کافرانہ عمل بھی کرے تو اس کو فاسق` عاصی ` گمراہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن کافر نہیں کہہ سکتے۔ جس طرح اگر کسی کافر سے کوئی مومنانہ عمل سرزد ہوجائے تو اس عمل کو تو مومنانہ کہہ سکتے ہیں لیکن وہ کافر محض اس عمل سے مومن و مسلم تسلیم نہیں کیا جاسکتا ¶کیونکہ مسلم اور کافر کے درمیان خط فاضل توحید اور رسالت کا اقرار ہے-
ہر مسلمان کہلانے والا مسلمان ہے
لٰہذا ہر شخص جو توحید و رسالت کا اقراری ہے وہ مسلمان ہے۔ باقی رہے اس کے اعمال تو اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ اگر شریعت ظاہری ان اعمال کو جرم سمجھے گی تو اسے سزا دے گی اور اگر وہ اعمال شریعت کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اسے عذاب دے گا ہمارا کام صرف اتنا ہی ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ہر قائل کو مسلمان سمجھیں اور مسلمانوں کی تکفیر کو ہمیشہ کے لئے ترک کردیں بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ اسلامی حکومت تکفیر مسلمین کو قانوناً جرم قرار دے تاکہ معاشرہ اسلامی اس *** سے ہمیشہ کے لئے پاک ہوجائے<۹۶
۴۔ مولانا عبدالمجاد صاحب دریا بادی مدیر >صدق جدید< کو ہمیشہ یہ خصوصیت حال رہی ہے کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کی تکفیر کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کی ہے اور ان ایام میں تو آپ نے مسلسل پر زور شدزرات سپرد قلم فرمائے- مثلاً ایک صاحب نے لائل پور سے مولانا عبدالماجد خاں صاحب دریا بادی کو بطور شکوہ لکھا کہ وہ >متفقہ مطالبہ تکفیر< کی مخالفت کیون کررہے ہیں ؟ آپ نے اس کا جواب حسب ذیل الفاظ میں دیا:۔
>یہ مطالبہ اگر مکتوب نگار صاحب اپنے دل میں سوچیں تو انہیں خود کچھ عجیب سا نظر آئے گا کہ مدیر >صدق< کے نزدیک تکفیر قادیانیہ کا فتویٰ غیر مدلل ہو۔ غیر تشقی بخش ہو پھر بھی اسے بولنے کا حق نہ تھا۔ اسے خاموشی ہی اختیار کر لینا تھی۔ گویا اظہار حق کا حق صرف اکثریت کو حاصل ہے۔ اور جو فرد اپنے کو اس درجہ میں حق پر سمجھتا ہے لیکن چونکہ اقلیت میں ہے اس لئے اسے اکثریت پر جرح کا بھی حق نہیں اور اس پر لازم ہے کہ اگر وہ بے چون و چرا سر اطاعت ختم نہیں کرتا تو کم از کم خاموش ہی رہے خواہ اس میںاپنے ضمیر و دیانت کا گلا ہی گھونٹ دینا پڑے۔
اکثریت کی یہ نازک مزاجی مکتوب نگار خود غور کریں کہ کسی حد تک معقول ہے۔ ~}~
ع کان ان کے نازم کہ گراں میری غزل بھی
مکتوب میں کوئی نئی اور مستقل دلیل تکفیر قادیانیہ پر پیش کرنے کی بجائے اکتفا صرف اس پر کیا گیا ہے کہ یہ چونکہ دنیائے اسلام کا فتویٰ ہے متفقہ فیصلہ ہے۔ فلاں فلاں بزرگوں کا اس پر اجماع ہوچکا ہے اس لئے یہ بہر صورت واجب التسلیم ہے۔ لیکن گزارش یہی ہے کہ اتفاق رائے کا یہ مظر >بے نظیر< آخر کیسے قرار دے لیا گیا ہے ؟ یہ اتفاق و اجماع کب اور کس فرقہ کی تکفیر سے متعلق ایسے ہی بزرگوں کا نہیں ہوچکا ہے ؟ کون فرقہ ایسا ہے۔ کس کی تکفیر کا اعلان بالجبر انہیں دلائل کے ماتحت اس جوش و قوت کے ساتھ بار بار نہیں کیا جاچکا ہے؟ کیا فرقہ شیعہ ؟ مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی مدظلہ ماشاء اللہ ابھی ہمارے درمیان بہ خیریت و عافیت موجود ہیں اور وہ یقیناً اہل سنت کے ایک بڑے اور ممتاز عالم دین ہیں ذرا انہیں سے دریافت فرمایا جائے ان کے قلم کا مرتب کیا ہوا >علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ )یہ لفظ یاد رہے( درباب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ< ابھی یاد میں تازہ ہے جس میں یہ تفریح موجود ہے کہ شیعوں کی تکفیر میں کسی کو اختلاف ہو ہی نہیں سکتا۔ اور تصریح در تصریح یہ کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام` ان سے مناکحت ناجائز` ان کا جنازہ پڑھنا ناجائز` انہیں اپنے جنازوں میں شریک کرنا ناجائز` ان کا چندہ اپنی مسجدوں میں لینا ناجائز۔ غرض یہ کہ ان سے کوئی سا بھی معاملہ مسلمانوں کا سا کرنا جائز نہیں۔ گویا سید کلب حسین اورلالہ گھگوان دین ایک سطح پر۔
اس فتویٰ کفر و ارتداد شیعہ پر آپ دستخط سنیں گے کہ کن کن بزرگوں کے ہیں۔ کہنا چاہئے کہ سارے دیوبند کے ` مولانا مرتضیٰ حسین` مولانا حسین احمد` مولانا محمد شفیع` مولانا اعزاز علی` مولانا اصغر حسین` مولانا عقیل احمد` مولانا محمد انور )عجب نہیں کہ یہ وہی مشہور فاضل عصر مولانا انور شاہ کاشمیری ہی ہوں( مولانا محمد طیب` مولانا مفتی مہدی حسنشاہجہانپوری` مولانا محمد چراغ )گوجرانوالہ( مولانا محمد منظور نعمانی وغیرہ۔ پھر اس نہلہ پر دہلہ جناب ناظام صاحب تعلیمات دیوبند کے قلم سے کہ >اور صرف مرتد اور کافر خارج از اسلام ہی نہیں ہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بھی اس درجہ میں ہیں کہ دوسرے فریق کم ہی نکلیں گے< اور اس متفقہ فتویٰ میں تائیدی حوالہ حضرت بحر العلوم فرنگی محلی کا بھی درج ہے۔ اور خود موجودہ امیر شریعت پنجاب آج سے چند سال قبل اپنی لکھنئو )احالہ شیخ شوکت علی( کی تقریروں میں فرقہ شیعہ کے باب میں جو کچھ فرما چکے ہیں اسے کوئی کیسے بھلا دے ؟
پھر انہیں حضرات کا فیصلہ ایسے ہی دلائل کی بناء پر اسماعیلیوں اور آغا خاں اور سارے آغا خانیوں کے کفر اور اسلام سے متعلق کیا ہے؟
اور خود بانی پاکستان قائداعظم کے عقائد مذہبی سے متعلق انہیں مقدمات ومبادی کو تسلیم کرنے کے بعد فتویٰ کیا مرتب ہوتا ہے ؟
سرسید کا زمانہ گزرے ابھی ایک ہی پشت ہوئی ہے۔ مکتوب نگار کے علم یا حافظہ میں یقیناً یہ حقیقت محفوظ نہیں رہی کہ >جمہور علماء< کے حلقہ میں ان کا استقبال کس روش و انداز سے ہوا تھا ؟ وہ >پیرنیچر< شائد مرزائے قادیان اور اس کے پیرو >نیچری< شائد قادیانیوں سے کچھ بڑھ چڑھ کر ہی تھے اور ان کے اسلام کا دعویٰ کرنا >خرق اجماع< کا مرتکب ہونا تھا۔ اپ اسے مبالغہ سمجھ رہے ہیں ؟ مولوی امداد العلی مرحوم کا رسالہ >امداد الافاق بہ رحم اہل النفاق< کسی لائبریری کے پرانے ذخیروں میں دبا دیا ہوا ضرور پڑا مل جائے گا۔ ذرا اسے ملاحظہ فرما لیا جائے یا اس زمانہ کے دوسرے اخبارات اور رسالوں کی فائلوں کو لکھنئو` دہلی` سہانپور` رام پور` ہندوستان کے ہر ہر شہر کے فقہاء کرام کا متفقہ فتویٰ اس شخص کے کفر و ارتداد اور اس کے کالج اس کی کانفرنس سب کی ملعونیت پر ناطق ملے گا۔ دہلوی فتویٰ آپ سنیں گے ؟
>ایسے مکان نااک کا نام مدرسہ رکھنا اور محل تعلیم و تحصیل سمجھنا آدمیت سے نکلنا ہے- اور زمرہ حیوانات میں داخل ہونا ہے صرف کرنا مال کا ایسے محل میں موجب کندہ ہونا جہنم` اور ایسے بے محل میں ساعی ہونا ہیمہ اور حطب بننا لازم۔< ۹۷
اور لکھنئوی فرنگی محلی فتویٰ:۔
>وجود شیطان اوراجنہ کا منصوص قطعی ہیں اور منکر اس کا شیطان ہے بلکہ اس سے بھی زائد کیونکہ خود شیطان کو بھی اپنے وجود سے انکار نہیں وہ شخص مخرب دین ابلیس لعین کے وسوسہ سے صورت اسلام میں تخریب دین محمدی کی فکر میں ہے۔< ۷۸
اور مفتیان حرم شریف حنفیہ` شافعیہ` مالکیہ` حنبلیہ چاروں مفتی صاحبان کے متفقہ فیصلہ کی تاب آپ آج لاسکیں گے ؟
>یہ شخص ضال و مضل ہے بلکہ ابلیس لعین کا خلیفہ ہے اس کا فتنہ یہود و نصارے کے فتنہ سے بھی بڑھ کر ہے خدا اس کو سمجھے۔ واجب ہے اولوالامر پر اس سے انتقال لینا اگر باز آوے تو بہتر ہے ورنہ ضرب اور جنس سے اس کی تادیب کرنی چاہئے۔< ۹۹
مدینہ منورہ کے مفتی احناف کا قلم کیوں پیچھے رہنے لگا تھا ؟
>یہ شخص یا تو ملحد ہے یا شرع سے کفر کی کسی جانب مائل ہوگیا ہے یا زندیق ہے کہ کوئی دین نہں رکھتا یا اباحی ہے کیونکہ متحنقہ کا کھانا مباح بتاتا ہے اور اہل مذہب )حنفیہ( کے بیانات سے مفہوم ہوتا ہے کہ ایسی لوگوں کی توبہ گرفتاری کے بعد قبول نہیں ہوتی ورنہ اس کا قتل واجب ہے دین کی حفاظت کے لئے اور ولاۃ امر پر واجب ہے کہ ایسا کریں۔< ۱۰۰
اور شیعہ نیچر یہ اسماعیلیہ کے علاوہ عام اہل اہوا و بدعت و خوارج اور >)وہابیہ تجدید(< اور تازہ ترین >مودودیہ< سے متعلق جوجو موتی قلم پروچکا ہے اگر ان سب کے اقتباسات نمونہ کے طور پر ہی نقل ہونے لگیں تو مقالہ رسالہ نہیں پوری ضخیم کتاب بن جائے۔ مغالطہ سب میں مشترک ہے بس یہی ہے کہ نصوص کی تاویل و تعبیر کو ہر جگہ انکار و تکذیب کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے اور تاویل و تعبیر میں ٹھوکر کھانے والوں کو جوش دینی سے مغلوب ہو کر منکرین و مکذبین کے حکم میں رکھ دیا گیا ہے۔ اس بے علم و بے عمل کے دل میں اپنے اکابر کی بحمد اللہ پوری عزت و رفعت عظمت و عقیدت موجود ہے لیکن انقیاد کامل کا رشتہ صرف ذات رسول معصوم کے ساتھ محدود و مخصوص ہے اور جو حضرات آج اپنے علماء و شیوخ کے ہر فیصلہ کو ناطق اور ان کے ہر قول کو
گفتہ او گفتہ اللہ بود
سمجھے ہوئے ہیں۔ وہ خوش عقیدگی کے غلو میں مبتلا ہیں اور نادانستہ و غیر شعوری طور پر سہی عملاً خود ختم نبوت کے منکر ہورہے ہیں کہ غیر معصوم کو معصوم کے درجہ پر رکھے ہوئے ہیں
آج سے ۳۰ ۔ ۱۳ سال پیشتر جب تحریک خلافت ہندوستان میں زور شور سے اٹھی ہر شہر ہر قریہ میں مجلس خلافت بننے لگی اور بوڑھے سے لے کر بچے تک پورے جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگے تو ایک بڑا اہم اور سنجیدہ مسئلہ یہی پیش ہو اتھا کہ آخر مسلمان سمجھا کس کو جائے گا ؟ اور کن کن فرقوں کو امت سے الگ رکھا جائے گا ؟ اس وقت پورے غور و خوض کے بعد بڑے بڑے علما و مفکرین امت کے مشورہ سے یہی فارمولا طے ہوا تھا کہ جو بھی اپنے کو مسلمان کہے اور توحید و رسالت کا قائل ہو پس اسے مسلمان سمجھا جائے گا اور اس کے دوسرے عقائد سے قطع نظر کر لی جائے گی۔ ان غلط و باطل عقائد پر جرح یقیناً بجائے خود جاری رہے گی لیکن کسی کلمہ گو کو بھی اسلام کی عام وسیع برادری سے خارج نہ کیا جائے گا۔۔ مجلس خلافت کے زمانہ میں غالباً سرکار کی طرف سے سوال اٹھا تھا کہ مسلمان کسے سمجھا جائے ؟ اس کا جوبا اس مرد ظریف و لطیف نے یہ دیا تھا کہ جو رائے شمار کے رجسٹر میں مسلمان لکھائے وحدت کلمہ کی یہ ضرورت جب اس وقت تھی تو موجودہ حالت ضعف و انتشار میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔
جن حضرات نے دین کے تحفظ کی خاطر اخلاص نیت سی کفر کے فتوے دئے ہیں یقیناً وہ عند اللہ ماجور ہوں گے لیکن دوسرے شائع معذور ہیں جنہوں نے اپنی فہم و بصیرت کے موافق اس قطع و برید و عمل اخراج کو امت کے حق میں زہر سمجھا ہے )اور ان ہی میں مولانا محمد علی اور شوکت علی اور خود قائداعظم سے لے کر آپ کے صوبہ کے مہر صاحب اور سالک صاحب شامل ہیں( انہیں بھی ¶اخلاص اسلامی اور درد ملی سے معرانہ سمجھ لیا جائے۔<۱۰۱
مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے ایک اور خط کے جواب میں لکھا:۔
tav.13.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۳
۱۹۵۱ء کے سالانہ جلسہ قادیان سے لیکر مصلح موعودؓ کے پیغام تک
>ختم نبوت اور ہم<
ایک طرف ایک ایسا شخص ہے جو ختم نبوت کا قولاً منکر ہے)؟( اب دوسری طرف ایک شخص ہے جو قولاً تو منکر نہیں ہے لیکن عملاً اس کی تکذیب کرتا ہے آپ اس کو مسلمان کہتے ہیں حالانکہ حقیقت میں دونوں ہی ختم نبوت کا انکار کررہے ہیں زبانی اقرار کی وجہ سے فقہی طور پر ہم اس کو کافر نہ کہیں یہ اور بات ہے لیکن آیا میزان عمل میں بھی کوئی قدر و قیمت و زن رکھے گا یا نہیں؟ قابل غور ہے۔
پھر ذرا سوچئے تو سہی کہ آج دنیا بھر کے مسلمانوں میں کتنے فیصدی ایسے ہیں کہ ختم نبوت کے عملاً معتقد ہیں؟ جاہلوں اور امیدوں ہی میں نہیں عالموں اور صوفیوں میں بھی قادیانیوں کو کافر کہنے والوں اور ظفر اللہ خان کو وزارت سے برطرف کرنے والون کو بھی ذرا اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر سوچنا چاہئے کہ کہیں خدانخواستہ ع
ہم الزام ان کو دیتے تھی قصور اپنا نکل آیا
والا معاملہ تو نہیں ہے؟ کیا ہم نے اپنے سیاست و معیشت` اخلاق و معاشرت` حکومت و عدالت سے اس عقیدہ کو عملاً خیر باد نہیں کہہ دیا ہے؟ کیا ہمارے مدرسے` خانقاہ بھی اب اس کی روح سے خالی ہوگئے ہیں۔ پھر ایک فریق ایک جرم کی وجہ سے کافر اور گردن زدنی اور دوسرا قریباً اسی جرم کا مجرم لیکن نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے۔ )الانصاف(۔< ۱۰۲
۵- خواجہ حسن نظامی صاحب نے اخبار >منادی< بابت ماہ جون ۱۹۵۲ء میں لکھا:۔
>میں نے مئی کے منادی میں قادیانی جماعت کرای کی نسبت لکھا تھا کہ اس جماعت کے جلسے کے خلاف جو ہنگامہ ہوا وہ مصلحت وقت کے خلاف تھا۔ میں نے قرآن مجید کی آیت بھی لکھی تھی کہ خدا نے فرمایا ہے کہ ہر شخص سے اس کے عمل کا حساب لیا جائے گا دوسروں کے اعمال کو پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور یہ بھی لکھا تھا کہ میں قادیانی جماعت کے عقائد کے ہمیشہ خلاف رہا ہوں اور اب بھی خلاف ہوں مگر موجودہ وقت ایسا نازک ہے کہ مسلمانوں کو شیعہ` سنی` مقلد` غیر مقلد کے اختلافات ترک کردینے چاہئیں۔
چوہدری ظفر اللہ خاں نے باوجود قادیانی ہونے کے پاکستان بننے کے بعد سے آج تک یورپ اور امریکہ اور اسلامی دنیا میں جو خدمات پاکستان کی انجام دی ہیں وہ بے مثل ہیں- اگر پاکستان کی تخت گاہ کراچی میں مسلمان ان کی مخالفت کریں گے تو امریکہ اور یورپ اور اسلامی ملکوں کے دلون سے پاکستان کا وقار جاتا رہے گا۔
مجھے یقین تھا کہ کراچی میں مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی اور مولانا سید سلیمان صاحب ندوی جیسے معاملہ فہم اور تاریخ کے ماہر موجود ہیں وہ عوام کی غلط فہمیاں دور کردیں گے اور یہ فتنہ زیادہ نہ بڑھے گا مگر یہ میرا خیال غلط ثابت ہوا اور اخباروں نے ایک ایسی کبر شائع کی کہ میرا دل پاش پاش ہوگیا یعنی اخباروں نے شائع کیا کہ مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی اور مولانا سید سلیمان صاحبندوی وغیرہ علماء نے جمع ہو کر ایک نیا جلسہ کیا جس میں سر ظفر اللہ خان کو وزارت سے خارجہ سے الگ کردینے کا مطالبہ کیا گیا۔ مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی کو جب کراچی میں نظر بند کیا گیا تھا تو میں نے کراچی جا کر حاجی خواجہ شہاب الدین صاحب وزیر داخلہ پاکستان سے کہا تھا کہ آپ نے ایسے عالم کو نظر بند یا ہے جس نے ساری عمر مسلم لیگ کی خدمات انجام دی ہیں اور خواجہ شہاب الدین صاحب نے اس کو تسلیم کر کے نظر بندی کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ان کو رہا کردیا تھا۔
اور مولانا سید سلیمان صاحب ندوی کی نسبت تو بھارت کے پانچ کروڑ مسلمانوں اور پاکستان کے سب چھوٹے بڑے مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آج بھارت اور پاکستان میں ان سے زیادہ گذشتہ تاریخ کے نیک و بد حالات کے نتائج پر کسی دوسرے مورخ کی نظر نہیں جاتی۔ پھر میں کیونکہ یقین کر لوں کہ جو کچھ اخباروں میں چھپا ہے وہ درست ہے؟ اخباروں میں بہت سی غلط باتیں شائع ہوجاتی ہیں۔ میں پچاس برس سے اخبار نویسی کرتا ہوں اور آج کل باوجود بینائی خراب ہوجانے کے ہندوئوں اور مسلمانوں کے سب روزانہ اخبار پڑھتا ہوں اور بھارت اور پاکستان کے عوام کے رجحان طبع اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے جب میں نے مذکورہ خبر پڑھی تو بے اختیار میری زبان سے نکلا غلط ہے۔ مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا سید سلیمان ندوی کبھی ایسی بے عقلی کا کام نہیں کرسکتے لیکن اب تک کسی نے اس خبر کی تردید نہیں کی۔ پاکستان کے اخباروں کو بھی پڑھا ریڈیو بھی سنے مگر اس خبر کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی۔
اگر سچ مچ علماء مذکور نے ایسا جلسہ کیا تھا تو مجھے خدا کے سامنے سجدے میں گر کر اور رو رو کر دعا کرنی چاہئے کہ وہ علماء مذکور کو اس غلط طرز عمل سے بچائے اور یا مجھ کو اس دنیا سے جلدی اٹھالے تاکہ میں اپنی مسلمان قوم کی تباہی اور پاکستان کی تباہی نہ دیکھوں جو ایسے غلط کاموں سے ہونی ضروری ہے۔< ۱۰۳
۶۔ مولوی عبدالحمید خاں صاحب مدیر رسالہ >مولوی< )دہلی( )ذوالحجہ ۱۳۷۱ھ مطابق ستمبر ۱۹۵۲ء نے حسب ذیل اداریہ سپرد اشاعت کیا:۔
>آب ذرا ان کو بھی دیکھئے۔ یہ بھی اسی بدنصیب بھارت کے مسلمانوں ے خوش نصیب بھائی ہیں جن پر خدا کا >فضل< ہوا۔ آزادی ملی مختار ہوئے` اپنے آپ حاکم بنے` اپنی قسمتوں کے مالک ہوئے۔ ہاں بھارت کے مسلمان آسمانی بلائوں` اپنے وطنی بھائیوں کی بے انصافیوں سے پامال نڈھال وہاں ان ہی کے صدقہ میں پاکستان والے چونچال ۱۰۴ نہال نہال اور خوش حال ہوئے۔ ہم نے فاقوں پر بھی بھوک سے واویلا نہ کی کہ اسلام صبر کی تلقین کرتا ہے۔ ہم نے اپنی بے عزتی پر بھی بین نہ کیا کیونکہ قرآن کافران تھا کہ >نہیں آتی تم پر کوئی مصیبت مگر تمہارے ہی ہاتھوں۔< اب بین کا موقعہ تھا نہ شکوہ کا وقت غم ہے تو یہ اور صرف یہ کہ مسلمان کہیں پیٹ کے ئے دین نہ بیچ دیں اور کمیونزم کے سیلاب میں نہ بہہ جائیں کہ اس سے بھوک تو مٹے گی۔ تن پوشی تو ہو ہوگی مگر بہت بڑی قیمت دے کر >ایمان< واسلام<۔
ہم سر جوڑ کر بیٹھنے کے سو سو جتن کرتے ہیں۔ لڑنا بھول گئے۔ ایک دوسرے کے آنسو پونچھتے ہیں کہ اللہ کو راضی کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے بلکہ شاید یہی ایک طریقہ ہے۔ جب سیلاب آتا ہے تو شیر اور بھیڑ دونوں برابر کھڑے ہوجاتے ہیں تو یہ تو مصائب کا مال ہے۔
ان کا حال جن کو اللہ نے بندوں سے بے خوفی دی یہ ہے کہ ان کو اللہ کا خوف نہ رہا اور وہ سب کچھ کیا جو اللہہ کے پسندیدہ دین اسلام کے یکسر خلاف تھا۔ منہایت قبول کرنے کے ساتھ وہ آپس میں بھی شدومد سے دست و گریبان ہونے لگے۔ اگر آنکھیں غافل نہ ہوتیں تو اللہ کی ایک ہلکی سی تنبیہہ کافی تھی کہ اللہ نے ان کا رزق کم کردیا۔ جو ملک دوسرے ممالک کو غلہ فراہم کرتا تھا آج اسے دوسروں سے مانگنا پڑا۔
سنی سنی سے لڑتا ہے۔ شیعہ سنی سے لڑتا ہے اب مرزائیوں اور سنیوں کا مقابلہ ہے اور مقابلہ بھی ایسا سخت کہ اب مرزائی مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم اقلیت اور کافروں سے بھی بدتر۔
یہ کاغذی مولوی فتویٰ دینے کے اہل نہ اس نے فتویٰ بازی کو اپنے صفحات میں جگہ دی۔ اس کو یہ دکھ ہے کہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے والے پاکستانی غیر مسلموں کو کیا منہ دکھائیں گے؟ غیر مسلم کہتے ہیں کہ >وہ کبھی مسلم حکومت میں بے خوف اور باعزت نہیں رہ سکتے ہیں۔ ہوگا اسلام صلح کل اور اسلام قران میں ہو تو ہو ۔ مسلمانون میں کم از کم نہیں ہے۔ تمہاری کتنی ہی چھوٹی بڑی حکومتوں میں ایک پاکستان ہی کا تو دعویٰ تھا کہ وہ اسلامی حکومت ہے اور اس کی بنیاد ہی اس پر رکھیگ ئی اور تم ناسمجھ بھارت کے مسلمانوں نے اس اسلامی حکومت کے لئے اپنی زندگی خراب کر لی۔ اچھا احمدی ہم ہی جیسے غیر مسلم سہی تو کیا اسلام کہتا ہے کہ اپنے غیر مسلم محکوموں کے جان لیوا بن جائو۔ ان کی عزتیں خاک میں ملائو۔ ان سے نوکریاں واپس لے لو ۔ پرستانہ ۱۰۵ کرے اگر ان کو پورا بنگال ` آسام اور پورا پنجاب مل جاتا تو ہمارا کیا بناتے۔ بتلایئے ہمارے پاس کیا جواب ہے؟ ہم شرم نے نیچی گردنیں کر لیتے ہیں وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم احراریون کو لیگیوں سے بدرجہا بہتر سمجھتے تھے لیکن یہ بھی حکومت ملتے ہی ننگے ہوئے اور ہندو مسلم بھائی بھائی کہتے نہ تھکنے والے آج مسلم مسلم قصائی قصائی بن رہے ہیں۔<
ایک تو ہم پر فاقوں کی بھرمار دوسرے بے عزت اور بے کار اس پر ان طعنوں کی بوچھاڑ ہمارا ہی دل گردہ ہے کہ یہ سب سہہ رہے ہیں۔
نعوش باللہ من شرور انفسنا کبھی کبھی تو ہمارے دل میں وسوسہ اٹھنے لگتا ہے کہ ہمارے غیر مسلم بھائی جو مسلمانوں کے عمل سے اسلام کو برا سمجھتے ہیں کہیں یہ سچ تو نہیں ہے۔
شیعہ` سنیوں` وہابی اور بدعتیوں میں پہلے ہی یہ انتشار کیا کم تھا کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھتے تھے۔ ایک دوسرے کے ہاں شادی نہ کرتے تھے اور یہی بیوپار قادیانیوں سے بھی تھا۔ یہ افتراق نجی تھا منظر عام پر نہ آتا تھا کہ ایسی ہلڑ بازی ہوتی تھی کہ غیر مسلموں کو طعنہ زنی اور نشتر چبھونے کا موقعہ ملتا۔ آج پاکستانیوں نے اس کو بھی اجاگر کر کے اور ہمارا جینا دوبر کردیا۔
مذہبی موشگافیاں فتویٰ سازوں کو مبارک۔ اس کاغذی مولوی کو اس میں دخل نہیں۔ میں یہاں اپنے غیر مسلم بھائیوں سے موقعہ بہ موقعہ اسلام کی رواداریوں اور خوبیوں کا بقدر استطاعت ذکر کرتا رہتا تھا اور چاہتا تھا وہ مسلمانوں کو چاہئے برا کہیں لیکن اسلام کی خوبیوں کا بقدر استطاعت ذکر کرتا رہتا تھا اور چاہتا تھا وہ مسلمانوں کو چاہئے برا کہیں لیکن اسلام کی خوبیوں کے قائل ہوجائیں- ان میں سے ایک بھائی میرے چڑانے کو کہیں سے الفضل کا خاتم النبین نمبر ۱۰۶ اٹھا لائے اور مجھ سے فرمایا۔ مولوی جی ذرا اس کا پہلا پیج پڑھنا۔ یہ آپ کے دکھانے کو لایا ہوں۔ دیکھئے اس میں لکھا ہے:۔
>ہم سچے مسلمان ہیں< جماعت احمدیہ کسی نئے مذہب کی پابند نہیں بلکہ اسلام اس کا مذہب ہے اور اس سے ایک قدم ادھر ادھر ہونا وہ حرام اور موجب شقاوت خیال کرتی ہے اس کا نیا نام اس کے نئے مذہب پر دلالتنہیں کرتا بلکہ اس کی صرف یہ غرض ہے کہ یہ جماعت ان دوسرے لوگوں سے جو اسی طرح اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ممتاز حیثیت سے دنا میں پیش ہوسکے غرض ہم لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں اور ہر ایک ایسی بات کو جس کا ماننا ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے مانتے ہیں اور ہر وہ بات جس کا رد کرنا ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے اسے رد کرتے ہیں اور وہ شخص جو باوجود تمام صداقتوں کی تصدیق کرنے کے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو ماننے کے ہم پر کفر کا الزام لگاتا ہے اور کسی نئے مذہب کا ماننے والا قرار دیتا ہے وہ ہم پر ظلم کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں جواب دہ ہے۔ انسان اپنے منہ کی بات سے پکڑا جاتا ہے نہ کہ اپنے ل کے خیال پر۔ کون کہہ سکتا ہے کہ کسی کے دل میں کیا ہے؟ جو شخص کسی دوسرے پر الزام لگاتا ہے کہ جو کچھ یہ منہ سے کہتا ہے وہ اس کے دل میں نہیں ہے وہ خدائی کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ دلوں کا حال جاننے والا صرف اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی کے دل میں کیا ہے۔< )دعوۃ الامیر ۱۰۷ صفحہ ۱`۲(
پھر فرمانے لگے کہ مولوی جی ہن دسو۔ اگر یہی بات پوری کی پوری میں کہوں تو کیا آپ مجھے مسلمان نہیں کہیں گے اور مجھے اپنا دینی بھائی نہیں جانیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر مجھ پر اتیاچار ہو اور یہ کہا جائے کہ تم مسلمان نہیں ہو تو کیا یہی اسلام کی تعلیم ہے؟ اور میں نے سنا ہے کہ غیر مسلم کو مسلمان کرتے وقت یہی تو اس سے کہلواتے ہیں۔ میں دم بخود رہ گیا۔ کیا شرما جی اس میں ایک بات یہ ہے کہ وہ ہمارے رسول کو خاتم الانبیاء نہیں مانتے۔ انہوں نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور کہا بھلا اس فقرے میں یہ بات نہیں آتی >اسلام کا مذہب ہے اور اس سے ایک قدم ادھر ادھر ہونا حرام اور موجوب شقاوت خیال کرتی ہے۔< کیا خاتم الانبیاء کی تصدیق کے لئے یہ کافی نہیں ہے اور جناب اس فقرے میں کیا خاتم الانبیاء کی تصدیق نہیں ہے۔< ہم لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں اور ہر ایک ایسی بات کو جو ایک سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے مانتے ہیں اور ہر وہ بات جس کا رد کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے اسے رد کرتے ہیں۔ اب میں خاموش تھا۔ کہنے لگے کہ اگر میں مسلمان ہونا چاہوں تو اتنی بات کہہ دینی مسلمان ہونے کے لئے کافی سمجھتا ہوں- پھر قہقہہ لگایا اور کہا دیکھئے اب کیا فرمائیں گے آپ جناب مولوی صاحب ! احمدیوں کے امام کے بیانات پر جو اسی پرچہ کے صفحہ ۷ ء ۸ پر درج ہیں۔ انہوں نے ۲۷ جگہ اقرار کیا ہے کہ آپ رسولﷺ~ خاتم الانبیاء ہیں- اور سرخی دیکھئے >مجھ کو خدا کی عزت و جلال کی قسم کہ میں ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے رسول حضرت محمدﷺ~ تمام رسولوں سے افضل اور خاتم الانبیاء ہیں۔<
ایک غیر مسلم کو سمجھانے کے لئے میرے پاس کیا تھا؟ پسینہ آگیا کہ آب یہ میرے مسلمان ہونے اور اسلام کے گن گانے پر ہمیشہ قہقہہ ہی لگائیں گے پھر میں کیونکر اسلام کی رواداری پر بحث کرسکوں گا۔ شرماجی کو تاریخ اسلام پڑھنے کی کیا ضرورت ان کے تو آنکھوں کے سامنے مملکت اسلامی پاکستان کی جیتی جاگتی تاریخ موجود ہے۔
ہمارے سورما بھائیوں اگر اس کی تہہ میں کوئی سیاسی جوڑ توڑ تھا تو ویسے ہی دائو پیچ کرتے` ہماری گردنیں تو یہاں کے غیر مسلموں کے سامنے خم نہ ہوتیں اور ہم ان کی زبان سے اسلام رسوا ہوتا نہ دیکھتے۔
یہ ہیں ہمارے ابتلاء اور یہ ہیں ہماری مشکلات جن سے ہم اور مایوس وہراس مند ہوجاتے ہیں اور اے پاکستانی بھائیو آپ کی ان باتوں کا کوئی ڈیفنس نہیں کرسکتے۔
ہم نے آپ کے لئے اپنی ساری آسودگیاں نذر تباہی کیں- ہر مشکل پر صابر و صابط رہے۔ آپ سے کوئی مدد نہیں چاہی۔ آپ سے کسی ہمدردی کی توقع نہیں رکھی۔ جو بچے` بیویاں` مائیں` بہنیں ہم سے جدا ہو کر آپ کے زیر نگیں آئیں ہم نے تو ان کے مصائب پر بھی آپ کو متوجہ نہیں کیا اور بس
مرا بخیر تو امید نیست ` بدمرساں۔<۱۰۸
احرار کا مطالبہ اقلیت اور شیعان پاکستان
احمدیوں کو غیر مسلم اقلیتی قرار دینے کے مطالبہ پر پاکستان میں اہل تشیع کے مشہور آرگن درنجف )۲۴ اگست ۱۹۵۲ء( میں ایک شیعہ دوست کا حسب ذیل مکتوب شائع ہوا:۔
>میں اتفاق بین المسلمین کا ہمیشہ حامی رہا ہوں اور ہوں۔ لیکن صرف معاملات معاشرت اور حدود سیاست تک۔ ہمارا مذہبی اتحاد نہ کسی فرقہ سے ممکن ہے نہ آج تک ہوسکا۔ جب ہمارے اصول دین ہی کسی سے متحد نہیں تو دینی اتحاد کے کوئی معنی نہیں۔ اس لئے گذارش ہے حدود پاکستان میں جو خلفشار سواد اعظم اور جماعت قادیانیہ کے درمیان اس وقت نظر آرہا ہے اور اہل سنت زعم اکثریت میں قادیانیوں پر حملے کررہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ ان کی پرانی روایات ہیں جن کا دہرانا اگر فرض نہیں تو سیرت شخین کے لحاظ سے سنت ضرور ہوگا۔ سواد اعظم نے جب جہان کسی کو کمزور دیکھا بڑھ گئے۔ دبالیا تو شیر ورنہ میدان چھوڑ بھاگے۔
قادیانی جماعت کوئی اجنبی جماعت نہیں۔ سواد اعظم کی ایک شاخ` عقائد و اعمال میں ہم خیال` توحید` رسالت` امامت۔ قیامت میں سارے معتقدات قریب قریب یکساں` عبادات ملتے جلتے ہیں فرقہ` حقہ امامیہ کو نہ ان سے واسطہ نہ ان سے مطلب۔ پھر قادیانیوں کے ویساور بھی یہی ہیں جتنا مال اٹھایا اسی منڈی سے۔ خدا کا شکر ہے ہماری جماعت پر نہ کسی فرقہ باطلہ کا اثر اب تک ہوسکا نہ آئندہ بتصدق ائمہ المہار علیہم السلام اندیشہ ہے۔
ان حالات میں علماء شیعہ کا ختم نبوت کے نام پر ان برادران یوسف سے تعاون عمل کیسا؟ کیا اطیمنان ہوگیا؟ یہ لوگ ہماری دوست بن گئے۔ ان کے دلوں سے فرقہ شیعہ کی عداوت دیرینہ نکل گئی؟ حکومت بنی امیہ و بنی عباس کے روایات دہرائے نہیں جاسکتے؟ قادیانیوں پر کفر کے فتوے شائع کرنے والے ہم کو مسلمان سجھنے لگے؟ انہوں نے اپنے سابقہ فتوئوں سے توبہ کر لی؟ ان کی غلطی کا اعتراف کرچکے؟ عزاداری سید الشہدائؑ کو بدعت کہنا چھوڑ دیا؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو آپ حضرات کا ان سے کسی معاملہ میں تعاون کیا معنی رکھتا ہے؟
تعجب ہے جو لوگ رسول خداﷺ~ پر طرح طرح کے الزامات` قسم قسم کے اتہامات لگاتے رہے پیغمبر اسلامﷺ~ کو )معاذ اللہ( خاطی` گنہگار وغیرہ وغیرہ قرار دے کر نبوت رسالتﷺ~ تو درکنار آپ کی شرافت و نجابت سے بھی انکار کرتے رہے خدا جانے آج اثبات ختم نبوت پر کس منہ سے تیار ہوئے ہیں؟ اور اس سے زیادہ تعجب خیر و حیرت انگیز علمائے شیعہ کا ان سے تعاون ہے۔ اگر ایک خاطی غیر معصوم جس کی حیثیت بڑھے بھائی سے زیادہ نہ ہو اس کی ختم نبوت تو درکنار اصل نبوت ہی ثابت نہ ہو تو کیا تعجب؟ بالخصوص جب کہ اس جماعت کے سرپرست مولوی عنایت اللہ شاہ بخاری` مولوی محمد علی صاحب جالندھری` مولوی لعل حسین اختر جیسے حضرات ہوں تو ہمارا تعاون حیرت بالائے حیرت ہے ۱۰۹ یہ ہرسہ حضرات تقریباً تین سال ہوئے جیلانی متصل بھریاروڈ )سندھ( آئے تو اپنی تقریر میں کہا خلفائے راشدین تو بڑی چیز ہیں اگر امیر معاویہؓ کی شان میں بھی کوئی شخص گستاخی کا کلمہ کہے تو کافر خارج از اسلام۔ اس پر سید امام علی شاہ صاحب رئیس بھریا سٹی سے بحث ہوئی۔ دوران بحث میں فدک کا ذکر آگیا تو انہی مولوی صاحبان نے برجستہ کہا >حضرت ابوبکرؓ حق پر تھے بی بی فاطمہ زہرا کی سخت غلطی تھی جو ناجائز دعویٰ لے کر ان کے پاس گئیں۔< ان خیالات اور ایسے دریدہ دہن لوگوں سے علماء شیعہ کا اتحاد کسی جگہ ممکن ہے؟ مولوی محمد علی صاحب جالندھری نے جامع مسجد خیر پور میرس میں اہلیت رسول علیہم السلام کی شان میں جس قدر سب دشتم کر کے شیعوں کی دلازاری کی اہل خیر پور ہی خوب واقف ہیں- بالخصوص معصومہ عالم کی ذات پر جو ناسزا الزامات لگائے بس خدا کی پناہ۔ آج تک اہالیان خیر پور بے چین ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی تعاون درست ہے؟ حضرات علماء کرام کو سمجھتے رہنا چاہئے کہ قادیانیوں سے ان کی ناچاقی ان کا گھریلو معاملہ ہے۔ کسی سیاسی مصلحت سے ناراض ہوگئے تو اپنی کمزور محسوس کر کے آپ حضرات کو اپنا ساتھی بنانے کی کوشش کی۔ آئو بھگت کر کے ریاکاری کا مکمل مظاہرہ کررہے ہیں جانتے ہیں کہ قادیانی علماء کا ہم مقابلہ نہیں کرسکتے ان کا منہ توڑ جواب اگر دے سکتے ہیں تو علمائے شیعہ اس لئے آپ کو ہر تدبیر سے ہمنوا بنا کر وقتی کام نکالنا چاہتے ہیں اور وقت نکل جانے پر حسب دستور قدیم آنکھیں پھر جائیں گی۔ غنیمت ہے اس وقت سواد اعظم اور ہمارے درمیان یہ قادیانی موجود ہیں اگر کبھی ان کو اس گروہ سے فرصت ملی تو دوسرا قدم ہمارے سروں پر رکھنے کی کوشش کریں گے- وہی ہتھیار جو آج قادیانیون کی گردن پر چلا رہے ہیں کل کو براہ راست دوبارہ تیز کر کے ہماری گردنوں پر چلائیں گے۔ جس طرح انکار خاتمیت کی وجہ سے قادیانیوں پر کفر کے فتوے لگائے جارہے ہیں کل کو انکار خلافت ثلاثہ کی وجہ سے ہم پر صادر ہو کر مطالبہ پیش کریں گے چونکہ روافض خلفائے راشدین سے حسن عقیدت نہیں رکھتے ان کی خلافت و امامت کے منکر ہیں اس لئے کافر ہیں ان کو غیر مسلم اقلیتی قرار دیا جائے۔
اس لئے بصد ادب التجا رہے کہ آپ اپنی اور اپنی پوری قوم کی حفاظت کی تدابیر پر غور کریں تاکہ برادران یوسف جب قادیانیوں سے فرصت پا کر ہماری طرف رخ کریں تو ہم بھی پوری طرح سے تیار ہوں-
آپ حضرات کے لئے یہ فرصت کا وقت اور اپنے تحفظ کے ذرائع پر غور کرنے کا قدرتی موقع ہے اور یہ کام موجود تعاون سے زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے۔ یہ لوگ جانیں ان کے بھائی قادیانی جانیں نہ ہم کو ان سے مطلب جنہوں نے سرہندی کو دوسری ہزار صدی کا مجدد مانا اور نہ ان سے واسطہ جنہوں نے مرزا غلام احمد کو چودھویں صدی کا مجدد مان لیا اور نہ ان سے تعلق جنہوں نے خاتم المرسلین کی نبوت کو جبریل امین کی طرفداری کا نتیجہ قرار دیا ورنہ حضرت ابوبکرؓ بنی ہوتے۔ نہ ایسے لوگوں سے غرض جو مرزا غلام احمد کو نبی جانتے ہیں۔ اصل یہ ہے سواد اعظم نے توہین رسول خدا میں کونسی کسر باقی رکھی جو قادیانی پوری کریں گے۔ فقط< ۱۱۰
احمدی علم کلام کی برتری کا بالواسطہ اعتراف اور دلچسپ تجویز
بزرگان امت محمدیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تحریرات سے چونکہ ختم نبوت کے ان معنوں کی تائید ہوتی تھی جو احمدی علم کلام نے پیش کئے ہیں` اس لئے ان دنوں بعض غیر احمدی اصحاب نے یہ دلچسپ تجویز پیش کی کہ ہمارے علماء کرام کو چاہئے کہ ہمارے ان بزرگوں کا لٹریچر ہی غائب کردیا جائے۔ یہ تجویز ایک ٹریکٹ کی شکل میں شائع کی گئی جس کا متن یہ تھا:۔
>یہ عمل کا وقت ہے خاموشی کا نہیں<
برادران !! احرار اسلام۔ مولوی عبدالحامد صاحب بدایونی` سید سلیمان صاحب ندوی اور مولوی احتشام الحق صاحب دیوبندی نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے ایک کشادہ راستہ کھول دیا ہے یعنی یہ کہ جو لوگ بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں لیکن اہل سنت و الجماعت کے عقائد سے یا بالفاظ دیگر اس وقت کے علماء سے اختلاف رکھتے ہیں انہیں اسلام سے باہر کیا جائے تا آئندہ اختلافات کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہے۔ نہ رہے گا بانس نہ باجے گی بانسریا۔ اس عمدہ نسخہ کے ذریعہ سے امید ہے کہ آئندہ مصلحت دیکھتے ہوئے مناسب وقت پر بعض اور فرقوں کو بھی اسلام )سے( باہر کرنے اور اختلاف کا نام و نشان مٹا دینے کی صورت نکلتی رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے بہت سے ممالک میں جہاں تک ہماری دسترس نہیں یہ کانٹا موجود رہے گا اوراسلام کے وہ معنی نہیں سمجھے جائیں گے جو یہاں کے علماء سمجھتے ہیں بلکہ وہی پرانے معنے جو امام ابوحنیفہؓ اور بعض دوسری بزرگوں کی طرف منسوب ہیں سمجھے جائیں گے لیکن اپنے ملک کو پاک کرنا یہان کے علماء کا کام ہے۔ باہر والے جانیں ان کا کام جانے۔
موجودہ موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ علماء کو پوری طرح گھر کی صفائی کردینی چاہئے مثلاً مرزائی لوگ کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے متعلق ہمارا وہی عقیدہ ہے جو مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا تھا جو دیوبند کے بانی تھے اور مولانا احتشام الحق صاحب اور مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے روحانی باپ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کتاب تحذیر الناس میں ایسے فقرات موجود ہیں جن کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مرزائی لکھ رہا ہے۔ جب تک یہ کتاب موجود ہے مرزائیوں کو دوسرے مسلمانوں پر غلبہ رہے گا اور موجودہ جدوجہد ناکام رہے گی- اس لئے ہمارے نزدیک وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے احرار اسلام اور مولانا احتشام الحق صاحب کو اس بات پر راضی ہوجانا چاہئے کہ نانوتوی صاحب کی یہ کتاب اور دوسری کتابیں جن میں اس وقت کا ذکر ہے پاکستان میں ممنوع الاشاعت قرار دی جائیں بے شک مولانا بخاری اور مولانا احتشام الحق کے لئے یہ گھونٹ پینا تلخ ہوگا لیکن اس بڑے کام کے پورا کرنے کے لئے جو انہوں نے شروع کیا ہے یہ تلخ گھونٹ پینا کوئی ایسا بڑا کارنامہ بھی نہیں۔ مرزائیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے تو ان علماء سے بھی کلی برات کا اظہار کیا جائے جنہوں نے مرزائی عقائد کی تائید کی ہے اور نادانستہ ان کی اشاعت میں ممد ثابت ہوئے ہیں۔ یہ پتھر تو سخت ہے مگر چاٹنا ہی پڑے گا ورنہ وہ مغرب زدہ مسلمان جو ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں وہ کمزور ایمان والے اپنی عقل کے برتے پر شور مچائیں گے کہ جب دیو بندی علماء یہی کہتے چلے آئے ہیں جو یہ مرزائی کہتے ہیں تو ان پر یہ فتویٰ کیوں نہیں لگایاجاتا۔ دلوں میں ان لوگوں کی بے شک عزت کی جائے مگر ظاہر میںبرات ضرور ظاہر کی جائے ورنہ یہ مہم ناکام رہے گی۔
ہاں ایک اور مشکل ہے اور وہ یہ کہ خالص حنفی طبقہ کے علماء نے بھی کچھ اسی قسم کی حرکات کی ہیں۔ ملا علی قاری جن کو عقائد کے بیان میں امام ابوحنیفہ صاحب سے کچھ ہی کم مرتبہ دیا جاتا ہے اور مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی نے جو احناف ہند کے لئے گویا شیخ المشائخ کا رتبہ رکھتے ہیں اسی قسم کے الفاظ اپنی کتابوں میں لکھ دیئے ہیں جو مرزائی کہتے ہیں اور مرزائی ان کتب کو دکھا دکھا کر کہتے ہیں کہ یہ لوگ ان عقیدوں کے باوجود بزرگ اور امام اور ہم کافر اور مرتد؟ آخر یہ فرق کیوں؟ اور یہ مغرب زدہ مسلمان اس دلیل کو سن کر متاثر ہوجاتے ہیں حالانکہ عقل انسان کو علماء کی تائید کے لئے ملی ہے نہ کہ ان کی مخالفت کے لئے۔ مگر بہرحال اس مغربیت کی مرض کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے اگر کسی نہ کسی رنگ میں ملا علی قاری اور مولانا عبدالحی فرنگی محلی کی کتب کو بھی ضبط کر لیا جائے تو یہ ایک بڑی دینی خدمت ہوگی اور اس سے احرار اسلام جیسے مجاہدین کو بڑی تقویت پہنچے گی۔
مگر ایک اور بات بڑی مشکل ہے اس کا علاج ذرا جان جوکھوں کا کام ہے۔ مگر احرار اسلام ارادہ کر لیں تو وہ بھی کوئی ایسی بڑی بات نہیں اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں پیروں فقیروں کا بہت زور ہے اور یہ لوگ محی الدین صاحب ابن عربی` معین الدین صاحب چشتی اور خواجہ میر درد صاحب کے ذرا ضرورت سے زیادہ معتقد ہوتے ہیں اور ان بزرگوں نے بھی اپنی کتب میں ویسی ہی باتیں لکھی ہوئی ہیں جیسے مرزائی کہتے ہیں- حضرت معین الدین صاحب چشتی نے تو اپنے آپ کو مسیح تک کہہ دیا ہے اور اپنے اوپر جبرائیل کے اترنے اور ان پر وحی نازل کرنے تک کا دعویٰ کردیا ہے۔ ان حوالوں سے مرزائیوں کو بہت تقویت ملتی ہے اور ان حوالوں کو سن کر صوفیوں کے شاگرد اور معتقد چلا اٹھتے ہیں کہ ان بزرگوں کو کافر کہیں یا مرزائیوں کو مسلمان اور پھر گھبرا کر کہہ اٹھتے ہیں کہ ان بزرگوں کو تو کافر کہنا مشکل ہے ان مرزائیوں کو ہی مسلمان سمجھ لیتے ہیں۔ اب اس شر کا ازالہ یہی ہے کہ کم سے کم مرزائی فتنہ کے استیصال تک ان بزرگوں کی کتب کو پاکستان میں ضبط کر لیا جائے اور داخلہ ممنوع قرار دیا جائے تاکہ مرزائی ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اور تمام مساجد میں علماء یہ خطبہ پڑھیں کہ بعض ضروری مصالح کی وجہ سے ان کتب کا پڑھنا ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ کم سے کم عقل کی مرض میں مبتلا ان کو ہرگز نہ دیکھیں۔ اس وقت مسلمانوں کی تو وہی حالت ہے کہ۔
ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
چند سال ہوئے ایک شخص نے شیخ شلتوت پروفیسر جامعہ ازہرو صدر مجلس افتاء سے پوچھا کہ قرآن کی رو سے مسیح زندہ ہیں یا فوت ہوگئے؟ تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ قرن کی رو سے مرد ہیں۔ ان کی توجہ جب اس طرف پھرائی گئی کہ مولانا علماء ہند تو متوفیک کے معنی موت کے نہیں کرتے تو انہوں نے اس اشارہ کو بھی نہ سمجھا اور صاف لکھ دیا کہ غیر عرب جو عربی نہیں جانتے )یہ ہتک کی ہمارے علماء کی( جو چاہیں معنے کریں ہم عرب لوگ جن کی مادری زبان عربی ہے متوفیک کے معنے وفات دینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ اس پر بھی جب فتویٰ پوچھنے والے نے کہا کہ اس فتوے سے مرازئیت کو تقویت پہنچتی ہے تو انہوں نے یہ جواب لکھ کر بھجوادیا کہ مجھے اس سے کیا کہ اس فتویٰ سے مرزائیت کو تقویت پہنچتی ہے میں نے تو وہ فتویٰ دیا ہے جو قرآن سے ثابت ہے۔ اگر موجودہ دور کے علماء بھی مصلحت وقت کو نہیں سمجھ سکتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں تو ان علماء سے اس دنیا میں کیا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
یہ وقت کام کا ہے ہمیں سب پرانے بزرگوں کا ایسا لٹریچر غائب کردینا چاہئے جس سے مرزائی فائدہ اٹھا سکیں۔ آخر ان بزرگوں سے ہم نے اب کیا فائدہ اٹھانا ہے؟ انہوں نے جو کچھ لکھنا تھا لکھ چکے اور فوت ہوگئے کام تو اب احرار اسلام آئیں گے۔ کوئی الیکشن لڑنا پڑا یا باہمی مناقشتوں میں استمداد کی ضرورت ہوئی تو آخر یہی کام دیں گے پس انہی کی تائید ہمیں کرنی چاہئے- اگر ایسا نہ کیا گیا تو موجودہ علماء کے فتووں سے مرزائیوں کا کچھ نہ بگڑے گا۔ مسلمان فطرتاً بہادر اور شریف الطبع واقع ہوا ہے وہ ان فتوئوں سے متاثر ہو کر اور زیادہ تحقیق کرنے لگ جائے گا اور مرزائیوں کے قتل اور ان کے بائیکاٹ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شریف اور بہادر مسلمان مظلوم کی حمایت کے جذبہ سے متاثر ہو کر کھڑا ہوجائے گا۔
پس اس وت کے انے سے پہلے سب ایسا لٹریچر غائب کردینا چاہئے۔ نہ وہ لٹریچر ہوگا نہ مرزائی اسے مسلمانوں کو دکھا سکیں گے۔
خاکسار
کامریڈ محمد حسین پریذیڈنٹ انجمن نوجوانان اسلام
پاکستان پنجاب لاہور
فصل چہارم
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا اخبار >لنڈن ڈیلی میل< کے نمائندہ کو اہم انٹرویو پنجاب مسلم لیگ کا اجلاس لاہور >اراکین پنجاب مسلم لیگ کی خدم میں چند معروضات< وزیراعلیٰ پنجاب کا احمدیوں سے متعلق موقف اور حضرت مصلح موعودؓ کا بیان
حضرت مصلح موعودؓ >ڈیلی میل< کو ایک اہم انٹرویو
احرار نے احمدیوں کے خلاف تحریک تو جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے اٹھائی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سی اسے جماعت احمدیہ کی تبلیغ اور اس کی عالمی شہرت میں اضافہ کا موجب بنادیا۔ چنانچہ جب مطالبہ اقلیت کا زور بڑھا اور احرار بعض مسلم لیگی عہدیداروں اور ممبروں کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو بیرونی پریس نے بھی دلچسپی لینا شروع کردی۔ اسی کی ایک کڑی اخبار >لنڈن ڈیلی میل< کے نمائندہ خصوصی )میاں محمد شفیع صاحب( کا اہم انٹرویو ہے جو انہوں نے ربوہ میں
جولائی ۱۹۵۲ء کے تیسرے عشرہ میں حضرت مصلح موعودؓ سے لیا۔
اصل انٹرویو انگریزی میں چھپا۔ انٹرویو کا مکمل متن حسب ذیل ہے
مرزا بشیر الدین محمود احمد نے لنڈن ڈیلی میل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اتوار کو فرمایا:۔۱۱۱>مجھے یقین ہے کہ احمدیوں کے خلاف موجودہ ایجی ٹیشن میں ہندوستان کا مخفی ہاتھ کام کر رہا ہے۔
آپ نے بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پاس اس کا حتمی ثبوت موجود ہے جسے متعلقہ حکام کو مناسب وقت پر پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔
اگر پاکستان کی ہائی کمان نے ان کی جماعت کو اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کردیا تو انہیں اپنی جماعت کو یہ حکم جاری کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو احمدی نہ کہیں بلکہ مسلم کہیں ڈیلی میل کے میاں محمد شفیع کو خصوصی بیان دیتے ہوئے جماعت احمدیہ کی قادیانی شاخ کے تریسٹھ سالہ سربراہ نے اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی کہ طاقت کے زور پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے انہوں نے کسی قسم کا کوئی منصوبہ بنایاہے۔
آپ نے فرمایا کہ احمدیت کو سیاسی نظریہ نہیں ہے ہماری جماعت تو مذہبی جماعت ہے۔ احمدیوں اور غیر احمدیوں کی موجودہ کشمکش کے پیش نظر صرف ایک دیوانہ ہی احمدیوں کے لئے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا سوچ سکتا ہے۔
آپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر بفرض محال یہ مان ہی لیا جائے کہ یہ چھوٹی سی اقلیت طاقت سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہے تو اگلے ہی دن غیر احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر اسے چھوڑنے کے لئے تیار بھی رہنا چاہئے۔
سوال:۔کیا یہ فرض کرنا صحیح ہوگا کہ حکومت کے ساتھ تصادم کے نتیجہ میں حکومت کے احمدی ملازم آپ کی اطاعت کو حکومت کے احکام پر ترجیح دیں گے؟
جواب:۔ حکومت وقت کے ساتھ وفاداری ہمارے مذہب کا جزو ہے۔ اگر کسی وقت بھی میرے ساتھ ایسے تصادم کا وقت آجائے جس سے احمدیوں کی حکومت وقت کے ساتھ اطاعت پر آزمائش آجائے تو اسی لمحہ بحیثیت خلیفہ اپنا موجودہ متمام چھوڑنے کے لئے مجھے تیار رہنا چاہئے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا ہم کسی ایسی ملکی حکومت کے خلاف کبھی کوئی غیر قانونی اقدام نہیں کریں گے جو قانون کے ذریعہ قائم کی گئی ہو۔
احمدیوں کے خلاف اس ملک گیر تحریک کے خلاف کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے مرزا صاحب نے فرمایا: >مجھے یہ پسند نہیں اور اس لئے پسند نہیں کہ ہمیں اس سے کوئی نقصان ہوگا بلکہ اس لئے کہ اس سے اسلام بدنام ہوجائے گا۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:۔
ہماری جماعت بین الاقومی طور پر ترقی پذیر جماعت ہے اور تبلیغی کاموں کی وجہ سے ہم اسلام اور مسلمانوں کے لئے کئی شاندار کام سرانجام دیتے ہیں۔ اگر ہمیں مسلمانوں سے علیحدہ ایک اقلیت قرار دے دیاجائے تو ممالک بیرون میں ہمارے کاموں میں روک پیدا ہوگی اور اسے مجموعی طور پر ایک مسلم قوم کی کوشش نہیں سمجھا جائے گا بلکہ یہ ایک علیحدہ مذہبی فرقہ کا کام سمجھا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج بھی پیدا ہوجائے گی۔
اس پر نہایت ذہین لیڈر نے یہ سوال کیا کہ پھر مجوزہ احمدی اقلیت کے لئے کون سی حدود مقرر کی جائیں گی؟
ہئیت حاکمہ نے اگر جماعت کو اقلیت قرار دیا تو میں یہ حکم جاری کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں کروں گا کہ ہم اپنے ساتھ احمدی کا نام ترک کردیں اور صرف مسلم کہلائیں۔
آپ نے فرمایا کہ ہماری مذہبی کتب میں لفظ احمدی ہمارے لئے قطعی )یا لازمی( نہیں۔ یہ نام بانی سلسلہ نے اپنے معتقدین کو مردم شماری کے لئے اپنی زندگی میں صرف امتیاز کے لئے استعمال کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔
فرض کریں کہ حکومت آپ کی انجمن کو سیاسی جماعت قرار دے کر غیر قانونی قرار دے دیتی ہے اس وقت آپ کا رویہ کیا ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں انجمن کا نام تبدیل کردوں گا لیکن حکومت کے ساتھ تصادم نہیں ہونے دوں گا۔
اسلامی مملکت پاکستان میں آپ سے دریافت کیا گیا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں بھی آپ مکمل مذہبی آزادی کی حمایت کریں گے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ایک اسلامی ریاست میں مکمل مذہبی آزادی ہوتی ہے۔ اسلام غیر مسلموں ¶سے بھی امید کرتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی اصولوں پر عمل کریں گے۔
آپ نے پھر فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ موجودہ احمدیہ ایجی ٹیشن میں ہندوستان کا مخفی ہاتھ کام کررہا ہے۔ ہمارے پاس اس کا حتمی ثبوت ہے جسے وقت آنے پر متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کے لئے ہم تیار ہوں گے۔
سوال:۔ کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ ساری دنیا کے علماء اسلام کا ایک کنونشن بلایا جائے جو احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے بارہ میں غور کرے۔
جواب:۔ ہاں بشرطیکہ ہمیں مجوزہ کنونشن میں نمائندگی دی جائے۔
سوال:۔ فرض کریں کہ اکثریت آپ کو عقائد کی بناء پر غیر مسلم قرار دیتی ہے تو کیا پھر بھی آپ اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر اصرار کریں گے؟
جواب:۔ ہاں ہم پھر بھی عالمی اسلامی برادری کے ساتھ منسلک رہیں گے۔۱۱۲
وضاحت
مندرجہ بالا انٹرویو کی اشاعت کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ایڈیٹر سول اینڈ ملٹری گزٹ کو وضاحت مکتوب لکھا جو جولائی ۱۹۵۲ء کے پرچہ میں شائع ہوا
Clarification
report a instant 22nd the Tuesday of issue your In ۔۔ ,riS interiewer The ۔published been has me with interview an of ۔person honest and experienced very a is Shafi Mohammad Mian and questions his to replies my recorded carefully most has He faithfully very has he discrepancies immaterial some from apart misunderstanding some been however has There ۔said I what reporduced somehow has Shafi Muhmmad Main ۔point one regarding definite of possession in already are we that impression the taken say to meant I What ۔India from help getting Ahrar the of sfproo they that persons certain by informed been had I that was other the from help getting Ahrar the about proof some possessed ۔it verify finally to power no had I that but border the of side some to as cluse important some had too we that said also I parties Indian certain from help receiving workers Ahrar the of when that added I ۔cluse those up following were we that and before them put would we conclusions definite some reached we that seems It ۔tie proper the at authorities proper the
and point the on clearly myself express not could I unfortunately ۔other each with intermixed got things two the
Ahmad Mahmud ۔B Mirza
Community Ahmadiyya the of Head
Lahore, Gazette Military & Civil (The
3) Page 1952, 25, July (Friday,
اس مکتوب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:۔
جناب عالی ! آپ کی بروز منگل ۲۲ ماہ حال کی اشاعت میں میرے ایک انٹرویو کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ میاں محمد شفیع صاحب جنہوں نے انٹرویو لیا ہے ایک آزمودہ کار اور دیانتدار شخص ہیں انہوں نے میرے جوابات کو نہایت احتیاط کے ساتھ ریکارڈ کیا ہے اور معمولی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے وہی چیز شائع کی ہے جو میں نے بیان کی۔ لیکن ایک امر کے بارہ میں کچھ غلط فہمی رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ میاں محمد شفیع صاحب نے یہ اثر لیا ہے کہ ہمارے پاس اس امر کا حتمی ثبوت موجود ہے کہ احرار کو ہندوستان سے مدد مل رہی ہے۔ لیکن میرا مطلب یہ تھا کہ مجھے بعض لوگوں نے بتایا ہے کہ ان کے پاس کچھ ثبوت موجود ہے کہ احرار کو سرحد پار سے کچھ مدد مل رہی ہے۔ لیکن میرے پاس اس کی تصدیق کے لئے کوئی طاقت نہیں ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے بعض لوگوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس کچھ ایسی اہم باتیں موجود ہیں کہ بعض احراری کارکنان بعض ہندوستانی پارٹیوں سے امداد حاصل کررہے ہیں۔ ہم ان کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور میں نے مزید کہا تھا کہ جب یقینی معلومات حاصل ہوجائیں گی تو ہم مناسب وقت پر یہ معلومات متعلقہ حکام کے سامنے پیش کردیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں بدقسمتی سے یہاں یہ بات واضح نہ کرسکا اور دونوں باتیں آپس میں غلط ملط ہوگئیں۔ ۱۱۳
]bsu [tagپنجاب مسلم لیگ کونسل کا اجلاس لاہور
۲۶-۲۷ جولائی ۱۹۵۲ء کو لاہور میں پنجاب مسلم لیگ کونسل کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں کونسل کے بعض ممبروں کی ان قرار دادوں کو زیر بحث لایا گیا جن میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے۔۱۱۴
اراکین پنجاب مسلم لیگ کی خدمت میں چند معروضات
اس موقعہ پر پنجاب پراونشل مسلم لیگ کونسل کے ممبر جناب اصغر بھٹی صاحب بی۔ اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ سرگودھا کی طرف سے بعنوان >اراکین پنجاب مسلم لیگ کی خدمت میں چند معروضات< ایک حقیقت افروز رسالہ شائع ہوا جس میں مطالبہ اقلیت کی حقیقت واضح کی گئی تھی۔ اس رسالہ کے دو اقتباسات ذیل میں نقل کئے جاتے ہیں:۔
۱- >میں تو ایک سیدھا سادھا مسلمان ہوں قران پاک نے اسلامی زندگی کی بنیاد چار باتوں پر رکھی ہے۔
ایمان۔ عمل صالح۔ توصیہ حق۔ توصیہ صبر
میں نہ قادیانی مرزائی ہوں اور نہ لاہوری۔نہ میرا شیعہ فرقہ سے تعلق ہے اور نہ ہی کسی اور فرقہ سے میں مہص مسلمان ہوں جس کا مسلک یہ ہونا چاہئے کہ وہ حق کے اعلان میں کسی سے نہ ڈرے- نہ تو دنیا کا کوئی لالچ اس پر غالب آئے اور نہ کوئی خوف۔ مسلمان اگر طمع بھی رکھے تو صرف خدا سے اور ڈرے بھی تو صرف خدا سے۔
پاکستان نوزائیدہ بچہ ہے جس کو معرض وجود میں آئے ابھی صرف پانچ سال ہوئے ہیں معمار ملت حضرت قائداعظم نے ہمیں اپنے اندر >اتحاد` یقین محکم عمل پیہم ` مبت فاتح عالم< کی صلاحیتیں پیدا کرنے کی ہدایت فرمائی تھی اور حکم دیا تھا کہ فرقہ پرستی کا چغہ اتار کر اسلام کے نام پر متحد رہیں تاکہ ہم عالم اسلام اور خود اپنے لئے ایک طاقت بن سکیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وہی سیاسی پارٹی جو قیام پاکستان کے خلاف تھی اور جس نے حضرت قائداعظم کو کافر قرار دیا تھا ایک نئے لیبل کے تحت ہماری ملی وحدت اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ ابھی حال ہی میں پاکستانی بنگال میں >بنگالی اردو< جھگڑا کھڑا کردیا گیا جس کو اگر حکمت علی سے نہ دبا دیا جاتا تو عین ممکن تھا کہ ہم ایک اندرونی خلفشار میں مبتلا ہوجاتے جس سے نکلنا اگرچہ ناممکن نہ تھا لیکن محال ضرور تھا۔ یہ سیاسی بساط کے پٹے ہوئے مہرے یعنی اراکین مجلس احرار بمصداق >نیادام لائے پرانے شکاری< نے ہمارے دیس پنجاب میں مرزائی اور غیر مرزائی کا نیا فتنہ کھڑا کردیا اور یہی نہیں بلکہ سادہ عوام کو گمراہ کر کے حکومت وقت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ >قادیانیوں کو پاکستان کی ایک اقلیت قرار دیا جائے۔<
سادہ لوح عوام احراریوں کی گزشتہ سیاسی زندگی سے کما حقہ` آگاہ ہونے کے باوجود جذبات کے سمندر میں بہے جارہے ہیں اور اس طرح نادانستہ نظام ملت کو پارہ پارہ کرنے میں ان کے ممدو معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ اعلائے کلمتہ الحق کا فرض ادا کیا جائے اور عامتہ المسلمین کو آنے والے خطرہ سے قبل از وقت آگاہ کردیا جائے ~}~
کھول کر آنکھ میرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
امتیاز حق و باطل کی طاقتیں خواہ کس قدر ماند پڑ گئی ہوں تاہم حقیقت ایک ایسی چیز ہے کہ اخلاص کے ساتھ موثر انداز میں جب بھی اس کو پیش کیا جائے گا تو سخت سے سخت طبائع بھی اس کے آگے سر تسلیم خم کردیں گی۔ ان حالات کے پیش نظر میں آپ سے مدوبانہ گذارش کرتا ہوں کہ مندرجہ ذیل کوائف کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کریں اور پھر جائزہ لیں کہ >احرار< اپنے اس مطالبہ میں کہاں تک حق بجانب ہیں۔ کیا ان کا کھڑا کیا ہوا فتنہ کہیں پاکستان کو نیست و نابود کرنے کا ایک دوسرا حیلہ تو نہیں ہے!
۱- مرزائیوں کو اقلیت بنا کر ہم کیا فائدہ اٹھالیں گے؟ کیا ہم سیاسی حقوق سے ان کو محروم کریں گے؟ کیا ہم ان کو تبلیغ سے روک دیں گے؟ کیا عیسائی تبلیغ نہیں کررہے؟ کیا آریہ سماج تبلیغ نہیں کررہے؟ کیا بہائی ہمارے ملک میں بیٹھے ہوئے تبلیغ نہیں کررہے؟ کراچی کے قریباً تمام ہوٹل ان کے قبضہ میں ہیں۔
وہ قرآن کریم کو منسوخ قرار دیتے ہیں اور بہاء اللہ کو خدا تعالیٰ کا مظہر قرار دیتے ہیں مگر وہ تبلیغ کررہے ہیں اور پاکستان ان کو نہیں روکتا۔ پارٹیشن کے بعد بھی کئی لوگ عیسائی ہوئے ہیں ان کو گورنمنٹ نہیں روکتی اور نہ روک سکتی ہے۔ خود ہم بھی تو ہر ملک میں اسلام کے لئے تبلیغ کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
۲- اگر مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہے تو ہمارا ان کو اقلیت قرار دینے سے بنتا ہی کیا ہے یا پھر ہمیں یہ قانون بنانا پڑے گا کہ کوئی شخص مولویوں کی اجازت کے بغیر اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا اور پھر اگر یہی جھگڑا جاری رہا تو اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ آئندہ سنیوں اور شیعوں اور حنفیوں اور دیوبندیوں کے خلاف ایسے ہی الزام نہیں لگائے جائیں گے اور ایسی ہی شورش نہیں کی جائے گی اور پاکستان میں فتنہ کی خلیج وسیع سے وسیع تر نہیں کی جائے گی؟
۳- پھر ایک یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر مرزائی اپنی آپ کو مسلمان کہنے پر اصرار کرتے رہے اور مسلمانون کے دین پر چلتے رہے تو آپ کو گورنر جنرل سے ایک ایسا آرڈی نینس نافذ کرانا پڑے گا کہ جس کی رو سے کوئی مرزائی اپنا نام مسلمانوں کا سانہ رکھے نہ ہی کلمہ پڑھے اگر پڑھے تو اس کی زبان گدی سے نکال لی جائے- قرآن کو ہاتھ لگائے تو ہاتھ کاٹ دیئے جائیں- اور اگر مسلمانوں کے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے بلکہ مسلمانون کی طرح نماز بھی پڑھے تو اس کو سخت سزا دی جائے۔ یا اور کوئی اسلامی کام کرے تو اس کو ازروئے قانون ماخوذ کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ کوئی مہذب حکومت ایسا قانون نافذ نہیں کرسکتی۔ اور جب یہ حقیقت ہے تو پھر خدارا سوچیں کہ ہم کہاں اور کس طرف جارہے ہیں۔ آخر دنیا ہمیں کیا کہے گی؟
۵- اس کے علاوہ ہمیں ایک قربانی اور دینی پڑے گی اور وہ ہے کشمیر کا ہندوستان سے الحاق۔ ضلع گوداسپور کی قبل تقسیم مسلم اور غیر مسلم آبادی کا تناسب کچھ اس قسم کا تھا کہ مسلمان نصف سے زیادہ تھے اور غیر مسلم جن میں ہندو` سکھ` اور عیسائی وغیرہ سب شامل تھے مل ملا کر مسلمانوں کے برابر نہ تھے۔ اس لحاظ سے یہ ضلع بحیثیت مجموعی مسلم اکثریت کا ضلع تھا۔ اس ضلع یں مرزائی کثرت سے آباد تھے ان کی آبادی کو الگ کر کے شمار کیا جاتا تو پھر مسلمان نصف سے کم رہ جاتے تھے اس صورت میں یہ ضلع غیر مسلم اکثریت کا ضلع ہو کر رہ جاتا تھا۔ چونکہ کانگرس کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی تھی اور اس راہ میں گورداسپور کا ضلع بری طرح حائل تھا کیونکہ ہندوستان کو کشمیر جانے کے لئے بہرحال گوداسپور ہو کر جانا پڑتا تھا اس لئے کانگرس نے پورا زور لگایا کہ ضلع گوداسپور بھی ہندوستان میں شامل ہوجائے چنانچہ اس نے گوداسپور کو غیر مسلم اکثریت کا ضلع ثابت کرنے کے لئے پوری کوشش کی۔ اس وقت احرار مسلم لیگ کے سخت مخالف بلکہ پاکستان کے نظریے ہی کے قائل نہ تھے اور بڑے سرگرم کانگرسی تھے اس لئے کانگرس نے ان سے خوب فائدہ اٹھایا اور ان کے پوسٹر اور لٹریچر وغیرہ کمیشن کے سامنے پیش کئے جن میں ثابت کیا گیا تھا کہ مرزائی مسلمانوں سے الگ فرقہ یعنی خود مسلمان مرزائیوں کو اپنا حصہ نہیں سمجھتے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ثابت ہونے سے مسلم لیگ کو ایک عظیم نقصان کا ڈر تھا چنانچہ اس وقت کے دوربین قائداعظم اور مسلم لیگ کے رہنمائوں نے اس سازش کو بروقت بھانپ لیا اور اس کے جواب کے طور پر خود قادیانیوں کی طرف سے ایک میمورنڈم ٹربیونل کے سامنے پیش یا اس میں قادیانیوں نے خود اس بات کو پیش کیا کہ وہ مسلمانوں کا ایک حصہ ہیں اور کوئی الگ فرقہ نہیں ہیں۔ یعنی >احرار نے ثابت کرنا چاہا کہ قادیانی الگ فرقہ ہیں اور مسلم لیگ نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کا حصہ ہیں< گو بعد میں ضلع گوداسپور پاکستان کو نہ مل سکا لیکن پاکستان کی یہ دلیل کہ ضلع گوداسپور مسلم اکثریت کا ضلع ہے قائم رہی اور یہ دلیل ایک ایسی مضبوط بنیاد تھی جس پر آئندہ مسئلہ کشمیر` نہروں اور بجلی وغیرہ کے مسائل میں پاکستان کے دلائل کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کردی جس کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر ہندوستان کی تمام دلیلیں ٹوٹتی پھوٹتی ہیں۔ آج بھی یہ دلیل قائم ہے اور پاکستان کے ہاتھ میں ایک زبردست ہتھیار ہے جس پر مسئلہ کشمیر کا دارومدار ہے۔
۵۔ ہندوستان میں اس وقت پانچ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ انتہائی کسمپرسی اور قابل رحم حالت مین ان کی زندگی کے دن گزررہے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں سے جس قسم کا سلوک ہوتا ہے اس کی طرف ان کی ملتجیانہ نگاہیں لگی رہتی ہیں۔ پاکستانیون کی ذرا سی لغزش ان کے لئے قیامت کا نمونہ بن سکتی ہے۔ اگر مرزائیوں کو محض اقلیت قرار دینے کی بات ہوتی تو کچھ نہ تھا لیکن آج کل خونی مولوی تو برملا اعلان پر اعلان کررہے ہیں کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دے کر اس ملک سے ہی نکال دیا جائے اور شاید ان کا پیٹ تو اس طرح بھی نہ بھرے گا خواہ ایسا کرنے سے پانچ کروڑ جانیں خطرہ میں پڑ جائیں۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر مرزائیوں کو آپ اقلیت قرار دے دیا تو آخر ان سے وہی سلوک ہوگا جو ہندوئوں سے۔ اور ہندو پاکستان میں دو کروڑ ہیں۔ یہ دو کروڑ ہندو کیا پانچ کروڑ مسلمانوں کو زندہ رہنے دے گا؟ کیا یہ دو کروڈ ہندو مسلمان کا اپنے میں سے علیحدہکئے ہوئے فرقہ پر ہوتا ہوا ظلم دیکھ کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھے گا؟ کیا وہ اس خدشہ پر ہی آفت نہ لے آئے گا۔ خدارا ذرا تو سوچئے کہ آیا آپ چند لاکھ مرزائیوں پر ظلم کر کے پاکستان کے وجود کو خطرے میں تو نہیں ڈال رہے؟ ~}~
تازہ خواہی داشتن گرد داغہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را<
۲- >کیا یہ حقیقت نہیں کہ مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ خدا ایک ہے اور رسول اکرمﷺ~ خدا کے آخری نبی ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں وہی نماز جس کی حقیقت ہم لوگوں نے کھودی ہے۔ زکٰوۃ ادا کرتے ہیں )جس کا ہم میں اخلاص باقی نہیں رہا( حج کرتے ہیں ہاں وہی حج جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے اور ان کے عقیدہ میں صرف لفظ >نبی< کا اختلاف ہے۔ وہ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں` ایسا نبی کہ جس کی نبوت رسول اکرمﷺ~ کی غلامی کی رہین منت ہے۔ ہمیں ان کے اس عقیدہ سے ایک بنیادی اختلاف ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ نبی کا لفظ سوائے رسول خداﷺ~ کے اور کسی پر استعمال نہیں ہوسکتا۔ وہی نبی آخر الزماں ہیں ان کے بعد نبوت کے دروازے ہمیشہ کے لئے مسدود ہوگئے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا محض عقیدہ کے اس اختلاف پر ہم ان کو خارج از اسلام قرار دے سکتے ہیں؟ مسلمانوں کے اس وقت بہتر فرقے ہیں ان میں سے ایسے بھی ہیں جو قرآن کے دس پاروں کو نہیں مانتے۔ بعض ایسے ہیں جو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایسے بھی ہیں جو قرآن کے دس پاروں کو نہیں مانتے۔ بعض ایسے ہیں جو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے چند ایک کو کالعدم قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلمان ہیں اور ہماری حکومت میں اور سوسائٹی میں ایک امتیازی درجہ حاصل کئے ہوئے ہیں اور ہمیں بجا طور پر ان سے کوئی پرخاش نہیں۔ اگر ایک آدمی اپنے آپ کو مسلمان کہے تو ازروئے قرآن پاک ہم اس کو خارج از اسلام نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں جس کے تحت ہم ان کو کافر بنا سکیں۔ مذہب کا تعلق دل سے ہے اور دل کے بھید سوائے حق تعالیٰ کے اور کسی کو معلوم نہیں ہوسکتے۔ ہاں اگر مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام سے ماوریٰ دعویٰ نبوت کیا ہوتا` قرآن سے انکار کیا ہوتا` کسی آیت قرآنی کو کالعدم قرار دیا ہوتا یا اس میں تبدیلی پیدا کی ہوتی` کوئی نئی شریعت لائے ہوتے` حضور سرور کائنات کی اطاعت سے آزاد ہو کر کسی نئی نبوت کا اعلان کیا ہوتا تو ہم حق بجانب تھے کہ ان کو غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے کارج قرار دیتے حالانکہ قرآن کا فیصلہ یہ ہے:۔
>جو لوگ پیغمبر اسلام پر ایمان لاچکے ہیں وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا نصاریٰ اور صابی ہوں کوئی ہو اور کسی گروہ بندی میں ہو لیکن کوئی بھی جو خدا پر اور اس کے آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان اور عمل کا اجرا اپنے پرودگار سے ضرور پائے گا۔ اس کے لئے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔<
میرا خطاب حضرات احرار سے ہے کہ خدارا پاکستان میں نیا فتنہ نہ پھیلائے۔ فساد کو اللہ کریم نے قرآن حکیم میں قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا ہے اور فتنہ و فساد سے ارض الٰہی کو پاک کرنے کے لئے تلوار سے مدد لینے تک کی اجازت دے دی ہے۔ آپ نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور اس وقت کی تھی جبکہ ہمیں آپ کی امداد کی اشد ضرورت تھی لیکن آپ جان بوجھ کر دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلے مسلمانوں کی من حیث القوم مخالفت کی۔ حضرت قائداعظم کو کافر قرار دیا اور ان کو طرح طرح کی گالیاں دیں۔ ہم نے یہ سب کچھ سنا اور سہا کیونکہ اس وقت ہمارا دشمن قوی تھا اور ہم میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ہم اپنوں کا مقابلہ کرتے۔ لیکن آپ کو اپنے عزائم میں شکست ہوئی اور خدا کے فضل و کرم سے پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ اب ہمیں ایک عظیم سلطنت کی بنیادوں کو مستحکم کرنا ہے۔ اسلام کے تمام فرقے اسلام کے نام پر متحد ہیں۔ آپ شیرازہ ملت کو پارہ پارہ کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور نہ لگایئے۔ مسلم لیگ اسلامی وحدت کی علمبردار ہے اس کو اللہ کریم نے اتنی طاقت بخشی ہے کہ آپ کے ان خطرناک ہتھکنڈوں کو یکسر ناکام بنادے۔
ہاں اگر آپ صدق دل سے مرزائیوں کو مسلمانوں کے لئے ایک فتنہ عظیم سمجھتے ہیں تو آپ تبلیغ فرمائیں وعظ کریں` اعلیٰ اخلاق پیش کریں تاکہ نئی پود مرزائیوں کے چنگل میں پھنسے اور پرانے مرزائی اپنے عقیدہ کو خیرباد کہہ کر آپ کی صفوں میں آملیں۔ آپ اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کردیں تاکہ ہندو` عیسائی اور دوسری خارج از اسلام جماعتیں اسلام کی لذتوں سے سرشار ہو کر مسلمان ہوجائیں۔
ایک تبلیغی مذہب کے پیرو صرف محبت اور اسوہ حسنہ پیش کر کے مخالفین کے دل موہ سکتے ہیں۔ نفرت اور حقارت کا آلہ استعمال کر کے کوئی مبلغ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ حضرات ! صوفیائے کرام کا طریقہ تبلیغ استعمال کریں کہ کس طرح غیر مسلموں سے بے پناہ محبت کرنے اور ان کو اپنے ہمہ گیر اخلاق حسنہ سے گرویدہ بنا کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیتے تھے اسوہ رسولﷺ~ کو مشعل راہ بنائیں۔ کیا اسلام تلوار سے پھیلا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر فرمائیں کہ کیا آپ کا یہ مطالبہ کہ مرزائیوں کو جا ببانگ دہل اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں قانون کے ذریعہ کافر قرار دیا جائے حق بجانب اور نیک نیتی پر مبنی ہے؟ وما علینا الاالبلاغ<۱۱۵
tav.13.12