تاریخ احمدیت ۔ جلد 20 ۔ یونی کوڈ
چھٹا باب
افریقہ کے معرکۂ حق و باطل سے لیکر
علّامہ نیازؔ فتحپوری ’’مدیرنگار‘‘کے سفرِ قادیان تک
فصل اوّل
ڈاکٹر بلی گراہم کا دورۂ ۱فریقہ‘ مغربی اور مشرقی افریقہ
کے مجاہدین احمدیت کی دعوتِ مقابلہ اور دینِ حق کی فتحِ عظیم خلافتِ ثانیہ کا چھیالیسواں سال ۱۳۳۹ ھش ؍ ۱۹۶۰ء
برِّ اعظم افریقہ میں احمدیہ مشن کے قیام کے بعد ھلال و صلیب اور حق و باطل کے درمیان جو عظیم معرکہ فروری ۱۹۲۱ء ۱ سے جاری تھا وہ ۱۹۶۰ء کے آغاز میں ایک نئے اور فیصلہ کن دور میں داخل ہو گیا جبکہ امریکہ کے شہرہ آفاق مسیحی منّاد اور شعلہ بیان لیکچرار ڈاکٹر بلی گراہم (BILLY GRAHAM)نے ۲ اس سال کے شروع میں افریقن ممالک کا وسیع پیمانہ پر دورہ کیا۔ انہوں نے عیسائیت کی منادی کے لئے چوبیس پبلک جلسوں سے خطاب کیا اس دورہ کی تیاریاں ۱۹۵۵ء سے کی جا رہی تھیں۔
لائبیریا‘ نائیجیریا اور مشرقی افریقہ کے مبشرین احمدیت نے جو نہایت بے تابی سے اس دورہ کے منتظر تھے اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اسے ایک جنگ مقدّس کی صورت دے دی اور اس عالمی شہرت کے حامل مناد کو پوری قوّت سے للکارا اور تبلیغی مقابلہ کرنے کی دعوت عام دی مگر تثلیث کا یہ مایہ ناز نمائندہ کا سر صلیب کے شاگردوں کے سامنے سراسر عاجز‘ بے بس بلکہ دم بخود ہو کے رہ گیا جسے افریقہ کی مذہبی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
لائبیریا :۔ڈاکٹر بلی گراہم اپنے طے شدہ پروگرام کے پہلے مرحلہ پر جنوری ۱۹۶۰ء میں امریکہ سے سیدھے لائبیریا کے دارالسلطنت منروویا میں پہنچے جہاں انہوں نے اپنی پبلک تقریر میں بائبل کا دیگر مذہبی کتب سے موازنہ کرتے ہوئے یہ چیلنج کیا کہ :۔
میں نے قرآن شریف کو شروع سے آخر تک پڑھا ہے اس میں کہیں انسان یادنیا کے مستقبل وغیرہ کے متعلق کوئی پیشگوئی نہیں اورنہ بعدالموت زندگی پر اس سے کوئی تسلی بخش روشنی پڑتی ہے درانحالیکہ بائبل سچی پیشگوئیوں سے بھری پڑی ہے اور انسان کی دنیوی اور اخروی دونوں زندگیوں کا معقول حل پیش کرتی ہے۔
یہ جلسہ لائبیریا کے صدر ڈاکٹر ولیم ٹب مین کی صدارت میں ہوا۔ اس تقریر کے معاً بعد مولانا محمدصدیق صاحب امرتسری انچارج احمدیہ مشن لائبیریا پریذیڈنٹ ٹب مین کی موجودگی میں ڈاکٹر بلی گراہم سے ملے اور انہیں بتایا کہ قرآن کریم کے متعلق آپ نے ابھی جو دعویٰ کیا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ آپ مجھے وقت دیں آپ جب چاہیں میں یہ ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں کہ قرآن کریم دنیا کے مستقبل کے متعلق پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے جن میں سے بے شمار پوری بھی ہو چکی ہیں۔ اسی طرح میں ثابت کروں گا کہ آخرت کے متعلق قرآن کریم کی تعلیم اور CONCEPTIONبائبل کے بیانات سے بہت زیادہ معقول اور اکمل ہے۔ اس پر ڈاکٹر بلی گراہم نے اگلی صبح گورنمنٹ ہاؤس میں قیامگاہ پر آنے اور بات چیت کرنے کی دعوت دی۔ اس دوران مولانا محمد صدیق صاحب نے راتوں رات ایک تبلیغی مکتوب اُن کے نام لکھا جس میں انہیں قرآن کریم کا سچے دل سے مطالعہ کرنے کی تحریک کی اور عیسائیت کے موجودہ عقائد کا بطلان ثابت کر کے آخر میں انہیں مناظرہ کا کھلا چیلنج دیا۔ اگلے روز آپ نے اُن سے ملاقات کی ۔ ڈاکٹر گراہم کے ساتھ اُن کے رپورٹر اور آٹھ امریکن پادری بھی موجود تھے۔ آپ نے موصوف کو ٹائپ شدہ کھلی چھٹی کے ساتھ قرآن کریم انگریزی ‘ٹیچنگ آف اسلام ‘ مسیح کہاں فوت ہوئے؟ اور دیگر پمفلٹ تحفۃً پیش کئے۔ یہ لٹریچر تو اُنہوں نے رسمی شکریہ کیساتھ قبول کر لیامگر مناظرہ سے بالکل انکار کر دیا اور اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور وقت نہ ہونے کا عذر کر کے دوسرے کمرے کی طرف چل دئے ۳
نائیجیریا
ڈاکٹربلی گراہم کے اس گریز پر لائبیریا پریس نے کوئی نوٹس نہ لیا اور وہ نائیجیریا آگئے۔ جہاں قدم رکھتے ہی احمدیہ مشن نائیجیریا کی دعوت مناظرہ
کا اخبارات میںغیرمعمولی چرچا شروع ہو گیا۔ اگرچہ مسیحی کلیسیا کے منتظمین قبل ازیں اس چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کر چکے تھے تاہم عوام اور خصوصاً مسلمانوں کو اُن کی آمد پر خاصی دلچسپی پیدا ہو گئی اور امید بندھی کہ اس علمی مقابلہ کی کوئی صورت نکل آئے گی لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ ڈاکٹر بلی گراہم سے آبادان کے اخبار نویس نے دریافت کیا کہ کیا وہ اسلام اور عیسائیت کے متعلق اس اہم چیلنج کو قبول کریں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اس سوال کا جواب دینے کیلئے تیار نہیں۔ یہ الفاظ انکی بے بسی اور بے چارگی کی منہ بولتی تصویر تھے۔
اس اجمال کی ایمان افروز تفصیل مولانا نسیم سیفی صاحب مبلغ نائیجیریا کے قلم سے درج ذیل ہے:۔
’’۱۹۵۵ء ہی کے جولائی‘ اگست میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یورپ‘ امریکہ اور افریقہ کے مبلغین کی لندن میں کانفرنس بلائی تھی اور حضور نے فرمایا تھا کہ میں قضیۂ زمین برسرزمین ہی طے کر دینا چاہتا ہوں۔ یہ کہ ڈاکٹر گراہم نے اس کانفرنس کے دو تین ماہ بعد ہی دورۂ افریقہ کے ارادے کااظہار کیا۔ یا یہ کہ نائیجیریا کی کرسچین کونسل نے اس کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لینے کی پیس کش کی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مبلغین کی لند ن والی کانفرنس فی الواقعہ قضیۂ زمین برسرزمین ہی چکا دینے والی بات تھی۔ بہر حال کسی نامعلوم وجہ کی بناء پر ڈاکٹر بلی گراہم مزید چار سال تک افریقہ کا دورہ نہ کر سکے۔
جنوری ۱۹۶۰ء میں ان کی آمد کا ایک دفعہ پھر چرچا ہؤا ۔ بڑے بڑے شہروں میں قد آدم پوسٹر لگائے گئے۔ اخبارات میں موٹرکاروں کے اشتہارات کی طرح اشتہار دیئے گئے۔ اورآخرکار ان کا ہر اول دستہ آ پہنچا اور لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اب تو وہ ضرور ہی آئیں گے۔
یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جب یہ دستہ فری ٹاؤن پہنچا تو خاکسار کے ایک پمفلٹ جس کا عنوان ہے ’’ یاد رکھنے کے قابل پانچ نکات‘‘ کی تلاش میں اس دستہ کے چند ایک افراد بوؔ (BO)بھی پہنچے اور وہاں سے اس پمفلٹ کی ایک کاپی لے کر پھر آگے روانہ ہوئے۔ بہر حال جب یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر بلی گراہم نائیجیریا کا ضرور دورہ کریں گے۔ تو خاکسار نے کرسچین کونسل کو مندرجہ ذیل خط لکھا:۔
’’مجھے اخبارات اور ریڈیو سے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ مشہور عالم عیسائی منّاد بلی گراہم جنوری ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا آ رہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کرسچین کونسل اس بات کے امکان پر غور کرے کہ بلی گراہم اور ملک کے مسلمان لیڈروں اور خاص طور پر لیگوس کے مسلمان لیڈروں کی ملاقات کا انتظام کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے سے اسلام اور عیسائیت جو کہ نائیجیریا میں دو اہم مذہب ہیں کے پیروکار وں کے آپس میں تعلقات بہت حد تک خوشگوار ہو جائیں گے۔ اور اس بات میں کسے شک ہو سکتا ہے کہ اس وقت نائیجیریا کی سب سے بڑی ضرورت بلکہ ساری دنیا کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے آپس میں تعلقات زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنائے جائیں۔
اگر تبادلۂ خیال کے لئے بلی گراہم اور مسلمان مبلغین کی میٹنگ کا انتظام کیا جا سکے تو یہ امر بھی نہایت ہی قابل تعریف سمجھا جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ عنقریب ہی میرے اس خط کا جواب دیں گے۔‘‘
مندرجہ بالا خط ۲؍نومبر ۱۹۵۹ء کو لکھا گیا تھا۔ اس خط کے جواب میں کرسچن کونسل کے سیکرٹری صاحب نے مجھے لکھا کہ انہیں افسوس ہے کہ بلی گراہم کے دورے کے انتظامات ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں لیکن تاہم وہ میرا خط اس کمیٹی کے سپرد کر دیں گے۔ جو اس دورے کے انتظامات کر رہی ہے۔
۶؍نومبر کو مجھے ایک صاحب JHON.E.MILLS کی طرف سے مندرجہ ذیل خط ملا:۔
’’ کرسچین کونسل آف نائیجیریا کے سیکرٹری صاحب نے مجھے آپ کا وہ خط ارسال کیا ہے جس میں آپ نے بلی گراہم اور مسلمان لیڈروں کی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ میں آپ کا یہ خط’’بلی گراہم مہم‘‘(CAMPAIGN)کی نیشنل ایگز یکٹو کمیٹی کو جس کی میٹنگ سوموار (۹؍نومبر) کے روز منعقد ہو رہی ہے دے دوں گا۔ میٹنگ کے بعد میں پھر آپ کو خط لکھونگا۔‘‘
اس کے بعد ۱۵؍جنوری کو انہوں نے پھر مجھے لکھا:۔
’’میںنے ڈاکٹر بلی گراہم سے آپ کی ملاقات کے بارے میں ڈاکٹر جیری بیون (JERRY BEAVEN)سے جو کہ ڈاکٹر گراہم کی آمد کے سلسلہ میں جملہ انتظامات کو آخری شکل دینے کے ذمہ دار ہیں‘سے گفتگو کی ہے وہ مجھ سے اس بات میں اتفاق رکھتے ہیں کہ آپ کی تجویز نہایت قابل قدر ہے لیکن انہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میں آپ تک ان کی خلوص دل سے معذوری کا اظہارکر دوں کہ جس قسم کی میٹنگ کی آپ نے تجویز پیش کی ہے اس کا انعقاد ناممکن ہے۔
’’ڈاکٹر گراہم ان ڈاکٹری ہدایات کے ماتحت جو گزشتہ اٹھارہ ماہ سے ان کے ڈاکٹر نے انہیں دے رکھی ہیں۔ افریقہ کے دورے کو نہایت مختصر کرنے پر مجبور ہیں ان کا وقت بڑے بڑے جلسوں میں تقاریر کرنے اور اپنے مشنریوں سے گفت و شنید میں ہی صرف ہو گا۔ اگر آپ ڈاکٹر گراہم کے عقائد کے متعلق واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ ان جلسوں میں شمولیت کریں جن میں کہ وہ تقاریر کریں گے۔ وہ نہ تو کوئی عالم دین ہیں اور نہ ہی ادبیات کے ماہر۔ بلکہ وہ ایک عیسائی مبلغ ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف یسوع مسیح کی انجیل کوپیش کرتے ہیں۔ اگر آپ عیسائیت کے متعلق مزید واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی یہ خواہش ہے کہ آپ اس سلسلہ میں طویل و مفصل گفت و شنید کریں تو میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ آپ لوکل عیسائی مبلغین سے بات چیت کریں جو کہ ایسی بات چیت کرنے کے لئے ہر وقت بخوشی تیار ہیں۔ میں ایک دفعہ پھر آپ کی دلچسپی کی داد دیتا ہوں۔
جب خاکسار نے دیکھا کہ ڈاکٹر بلی گراہم سے ملاقات اور مناظرہ کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر نہیں آتی تو خاکسار نے ایک خط ان کے نام لکھا جس کا متن درج ذیل ہے
’’میں احمدیہ جماعت کے جملہ احباب کی طرف سے جن کا مشنری انچارج ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے۔ آپ کو نائیجیریا میں آمد پرخوش آمدید کہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ جب آپ یہاں سے کسی اور جگہ جائیں تو آپ یہاں کی بہترین یادیں اپنے ساتھ لے کر جائیں۔
اس ملک میں دو بڑے اور اہم مذہب ہیں۔ اور وہ ہیں اسلام اور عیسائیت اور ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کیلئے یہ بات از حد اہم ہے کہ ان کے تعلقات استوار رہیں۔ اور تعلقات کی یہ استواری جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے ان کے لیڈروں کے رویہ پر منحصر ہے۔ میں نے اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کرسچین کونسل آف نائیجیریا کو یہ تجویزپیش کی تھی کہ آپ کی اور مسلمان لیڈروں کی ملاقات کا انتظام کیا جائے میری یہ تجویز ’’بلی گراہم مہم کمیٹی‘‘ جو کہ آپ کی آمد کے سلسلہ میں جملہ انتظام کر رہی ہے کے سامنے رکھ دی گئی تھی۔ لیکن میری اس تجویز کو کمیٹی نے اس عذر کے ساتھ رد کر دیا تھا کہ آپ اپنے دورہ کو نہایت مختصر کرنے پر مجبور ہیں اور اسکی وجہ ڈاکٹری ہدایات ہیں مجھے اس بات کا پورا پوار احساس ہے کہ آپ کا کام زیادہ تر عیسائیوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن یہ بات تو میرے خیال میں بھی نہیں آ سکتی کہ آپ کسی ایسے موقع کو ضائع ہونے دیناچاہیں گے۔ جو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لئے مہیّا کیا جا رہا ہو۔ خصوصًا جب کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات کی خوشگواری کا سوال پیدا ہوتا ہو۔
بہر حال آپ کی مذہبی پوزیشن کے پیش نظرمیں نے آپ کی خدمت میں چند ایک کتابیں ارسال کی ہیں جو مجھے امید ہے کہ آپ ضرور پڑھیں گے۔‘‘
یہ خط میں نے ستائیس جنوری کو لکھا تھا۔ یکم فروری کو ویسٹ افریقین احمدیہ نیوز ایجنسی نے اپنے ایک نمائندہ خصوصی کے حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کیا جس میں اس تمام خط و کتابت کا ذکر کیا گیا تھا اور خاکسار کے ان مضامین کا متن بھی درج کیا گیا ۔ جواس دوران خاکسار نے اپنے ہفتہ واری کالموں میں لکھے تھے ان میں سے ایک مضمون جو اخبار ڈیلی سروس میں چھپا تھا۔ اس مضمون کا حامل تھا کہ حضرت مسیح ناصری کی انجیل دراصل حضرت رسول کریم صلے اﷲ علیہ وسلم کی آمد ہی کی خبر تھی۔ اور وہ اسی بات کی منادی کرنے کیلئے دنیا میں تشریف لائے تھے۔
اس موقع پر خاکسار نے ڈاکٹر بلی گراہم کی ایک کتاب کا حوالہ دے کر ایک مختصر سی عبارت کے ساتھ ایک پوسٹر شائع کیا۔ پوسٹر کا مضمون یہ تھا:۔
’’ ڈاکٹر بلی گراہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو شروع سے آخر تک پڑھ جایئے اس میں کہیں بھی کسی پیشگوئی کا ذکر نہیں ہے اگر ڈاکٹر بلی گراہم کو اس بات کا یقین ہے کہ جو بات انہوں نے کہی ہے وہ درست ہے تو وہ ہم سے پبلک مناظرہ کر لیں۔‘‘
اس پوسٹر سے تو گویا یہ سارا معاملہ بھڑک اٹھا بیرونی اخبارات کے کثیر التعداد نمائندے احمدیہ مشن آئے اور سارے حالات سُن کر انہوں نے دنیا بھر کے اخباروں میں ہمارے چیلنج کی خبریں شائع کروائیں۔ اس چیلنج کا سب سے زیادہ پروپیگنڈہ امریکہ میں ہؤا۔ وہاں کے اخباروں اور رسالوں نے نہ صرف اس خبر کو جلی حروف میں شائع کیا بلکہ اس پرایڈیٹوریل بھی لکھے اور کھلم کھلا اس بات کا اظہار کیا کہ اگر عیسائی مشنری کسی بات کو کہہ کر اس بات پر قائم نہیں رہ سکتے تو ایسی بات کہتے ہی کیوں ہیں۔
دنیا کے سب سے زیادہ اشاعت والے ہفتہ وار ٹائم (TIME)ًَ ًَنے جو امریکہ سے شائع ہوتا ہے اس خبر کو دو کالموں میں لکھا۔ اور یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ہمارے ایک پمفلٹ کی تقسیم اور اس کے نفس مضمون کا نمایاں طورپر ذکر کیا۔ ٹائم میں شائع شدہ خبر کا ترجمہ درج ذیل ہے:۔
’’مسلمان اور بلی‘‘
گزشتہ ہفتہ سفید فام بلی گراہم نے جن کے متعلق نائیجیریا کے بعض باشندوں کا یہ کہنا تھا کہ ان کی کھال اڑی ہوئی ہوتی ہے اپنے افریقی مذہبی جہاد کو جاری رکھا‘ جہاں کہیں بھی وہ گئے بہت بڑے ہجوموں نے ان کی تقاریر کو سنا اور’’مسیح کے لئے‘‘فیصلے کئے۔ لیگوس میں جو کہ نائیجیریا کا درارالخلافہ ہے گراہم نے ایک لاکھ آدمیوں سے خطاب کیا۔ جس میں سے کم از کم دو ہزار اشخاص نے مسیح کیلئے فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ کا اظہار مکمل خاموشی میں کیا جاتا رہا۔ یہ خاموشی نائیجیریا میں جہاں کہ حد سے زیادہ شور و شغب ہوتا ہے۔ ایک نہایت عجیب چیز تھی ان کی تقریر سننے کے لئے مسلمان بھی کافی تعداد میں میدان تقریر میں پہنچے۔ کیونکہ یہ تمام ان مقررین سے مختلف تھے جن کو افریقیوں نے پہلے سنا ہؤا ہے۔ ایک مسلمان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا’’یہ شخص تو بالکل ہم جیسا ہی معمولی انسان ہے۔ اس کو ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ یہ کسی غیر معمولی طاقت کا مالک ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسا طریق بتاتا ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے نقش قدم پر چلنے میں آسانی پیدا کرتا ہو۔‘‘
لیکن مسلمانوں کی ایک کثیر تعداداور مسلمان جو کہ کل آبادی یعنی ساڑھے تین کروڑ کے نصف کے قریب ہیں۔ گراہم کی آمد سے خوش نہیں تھے۔ بلی گراہم کے نائیجیریا پہنچنے سے قبل مسلمانوں کے لیڈروں نے ان کے ساتھ ملاقات کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن ان کے ہراول دستہ نے اس تجویز کو رد کر دیا تھا اور رد کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ
(گراہم ) بہت مصروف ہیں جواب یہ دیا گیا تھا :۔
’’ڈاکٹر گراہم کے متعلق آپ ان کی تقاریر سُن کر واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
نائیجیریا کے مسلمان جو اس بات پر مغرور ہیں کہ دسمبر کے الیکشن میں ان کا مسلمان وزیر اعظم اپنے عہدے پر قائم رہا۔ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ دورہ اس لئے کروایا گیا ہے تاکہ عیسائیوں کو سیاسی طاقت حاصل کرنے میں مدد ملے (حالانکہ یہ دورہ کافی عرصہ سے زیر تجویز تھا)
گراہم کے جلسوں میں مسلمانوں کی طرف سے ایسے پمفلٹ تقسیم کئے گئے جن میں پانچ نکات پیش کئے گئے تھے۔ وہ پانچ نکات یہ ہیں:۔
۱۔ عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے نہیں تھے۔
۲۔ انہوں نے صلیب پر وفات نہیں پائی تھی۔
۳۔ وہ مردوں سے جی نہیں اٹھے تھے۔
۴۔ وہ آسمان پر اٹھائے نہیں گئے تھے۔
۵۔ وہ بذات خود واپس دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے۔
بلی نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن کچھ عرصہ کے لئے دونوں طرف طبائع کا پارہ چڑھتا رہا۔ اور دونوں طرفوں سے بیانات جاری ہوتے رہے۔ اس ہفتہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ کیونکہ عیسائی مناد گراہم آرام کرنے کے لئے اور ڈاکٹر البرٹ شویٹزر(ALBERT SHWEITZER)سے ملاقات کرنے کے لئے لمبا رینے (LAMBA RENE) چلے گئے۔‘‘
لائف (LIFE)۴ جو امریکہ کا مشہور ترین رسالہ ہے اس میں ڈاکٹر گراہم کے دورہ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو واضح الفاظ میں پیش کیا گیا کہ افریقہ کے سارے دورے میں ان کی سب سے زیادہ مؤثر مخالفت نائیجیریا میں ہوئی۔
نائیجیرین اخبارات نے توقع سے زیادہ ہمارے چیلنج کی طرف توجہ دی اور اس کے حق میں اور اس کے خلاف دل کھول کر اظہار رائے کیا۔ سب سے پہلے تو ہمارے چیلنج کو چھاپا پھر اس پر قارئین کے خطوط چھاپے گئے اور ایڈیٹوریل لکھے گئے۔ ایک اخبار نے پہلے صفحہ پر ’’مسلم اور عیسائیت‘‘ کے جلی عنوان سے ویسٹ افریقن احمدیہ نیوزایجنسی کاپریس ریلیز سارے صفحہ پر چھاپا اور اس کے ساتھ ہی ایڈ یٹوریل بھی لکھا جس میں نہ صرف قارئین کو وہ پریس ریلیز توجہ کے ساتھ پڑھنے کی تلقین کی۔ بلکہ ایک زخم خوردہ شیرنی کی طرح اس چیلنج کے خلاف دھاڑا بھی۔
ایڈیٹوریل کا ترجمہ درج ذیل ہے:۔
’’ ہم اپنے قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ وقت نکال کر ضرور بالضرور ہماری لیڈنگ سٹوری کو جو احمدیہ مشن سے لی گئی ہے پڑھیں ہم نے ارادۃً اس خبر کو اس قدر نمایاں جگہ دی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے پڑھ سکیں۔ اور اس پر غور کر سکیں۔
ہم نے خود اسے نہایت غور سے پڑھا ہے اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نائیجیریا میں احمدیہ مشن کے لیڈر مسٹر سیفی ہر حال میں اس بات کے فیصلہ کے لئے مناظرہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں مذاہب (اسلام اور عیسائیت ) میں سے کون سا مذہب دوسرے سے بہتر ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ایسے مناظرہ سے لوگوں کے تعلقات خوشگوار ہو سکیں گے۔ یہ بات غیر صحت مندانہ ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں ایک ختم نہ ہونے والی اور بدمزہ بحث چھڑ جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات اتنی ہی بُری ہے جتنی کہ ایک ایسی بحث جس کا مقصد یہ ہو کہ یہ ثابت کیا جائے کہ یوربا (YORUBA)اور ابوؔ (IBO)میں سے کونسا قبیلہ اچھا ہے یا ھاؤسا (HAUSA)اور ابوؔ (IBO)میں سے کس قبیلہ کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ احمدی لیڈر نے بھی گراہم کی آمد سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کی آمد ایسے وقت میں رکھی گئی ہے جب کہ مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہؤا ہے اور الحاج ابوبکرتافاوابالیوا پرائم منسٹر بن گئے ہیں۔ یہ بات نہایت ہی خطرناک ہے اور اس سے عیسائیوں کے دلوں پر ایک کاری زخم لگا ہے ۔ نہ صرف نائیجیریا کے عیسائیوں کے دلوں پر بلکہ ساری دنیا کے عیسائیوں کے دلوں پر زخم لگاہے۔
ہم مذہبی اختلافات کے بارے میں اپنا موقف دوبارہ پیش کر دینا چاہتے ہیں۔ نائیجیریا ایک ایسا خوش قسمت ملک ہے جہاں لوگوں کے مذہبی اختلافات ان کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالتے ۔ ہم ایک ایسے ملک کی تعمیر کر رہے جہاں مذہبی اختلافات لوگوں کے آپس کے تعلقات پر ہرگز اثر انداز نہ ہوں گے۔ ہمارا یقین ہے کہ تمام نائیجیرین چاہے وہ کس ہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں باہم مل کر کام کر سکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہر اس شخص یا اس گروہ کی مخالفت کرتے ہیں جو کہ مذہبی آگ کو ہوا دے۔ ہم نے دیگر ممالک میں ان باتوں کے بُرے نتیجے نکلتے دیکھے ہیں۔‘‘ (NORTERN STAR)
ایک اور اخبار نائیجیرین ٹربیون (NIGERIAN TRIBUNE)نے اپنے ۹؍فروری کے شمارے میں مندرجہ ذیل ایڈیٹوریل لکھا:۔
’’غصہ دلانے والی حرکات‘‘
’’ دوسرے ممالک کی طرح نائیجیریا بھی بعض مشکلات سے دوچار ہے لیکن برعکس دوسرے ممالک کے یہاں کی مشکلات بہت زیادہ ہیں اور بہت پیچیدہ ہیں‘ اقتصادی مشکلات ہیں‘ اقلیتوں کی مشکلات ہیں‘ قبیلوں کی مشکلات ہیں اور پھر زبان کی بھی مشکلات ہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں جس قدر قبیلے ہیں اور جس قدر زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں مشکلات بھی درپیش ہیں۔ دراصل یہ مشکلات بے شمار ہیں اور ہماری امید صرف اس بات پر قائم ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈر اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لیڈر بھی نفس پرستی سے بالا ہو کر نائیجیریا کے مفاد کے لئے زندگیاں بسر کریں۔ لیکن اگرچہ یہ مشکلات پیچیدہ ہیں نائیجیریا کے لوگ اپنے آپ کو اس لحاظ سے خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ یہاں نسلی اور مذہبی قسم کی مشکلات کالعدم ہیں۔ اور اس کے پیش نظر ہم ایسے شخص کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھ سکتے۔ جو نائیجیریا کی مشکلات میں اضافہ کا باعث ہو۔ اور اس طرح ہماری پریشانیوں میں اضافہ کرے ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے ہی نائیجیریا اتنی مشکلات سے دوچار ہے کہ اس کے لیڈر آئندہ پچاس سال تک انہی کو حل کرنے میں مصروف رہیں گے اور اس لئے ہم مغربی افریقہ کے رئیس التبلیغ کے اس ردّ عمل کو ناپسندیدہ سمجھتے ہیں جس کا انہوں نے ڈاکٹر گراہم کے نائیجیریا کے دورے کے سلسلے میں اظہار کیا ہے۔
یہ مسلمان مبلغ ڈاکٹر گراہم ہی کی طرح ‘ اگر سیاسی زبان میں بات کی جائے تو غیر ملکی ہیں یہ پاکستانی ہیں۔ جب کہ مشہور ڈاکٹر (گراہم) امریکن ہیں۔ لیکن ان دونوں کو نائیجیریا میں آنے کی دعوت نائیجیریا کے لوگوں نے دی ہے اور اسی وجہ سے ان کو صرف اس وقت تک خوش آمدید کہا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ اپنے مذہبی حلقہ کے اندر رہ کر اپنا مذہبی کام کریں۔ لیکن مولوی نسیم سیفی صاحب اس تمثیلی برتن کیطرح ہیں جو گراہم کیتلی کو کالا کہتے ہیں۔ مولوی سیفی صاحب کے ساتھیوں نے کیوں ڈاکٹر گراہم کے جلسوں میں شور و شر پیدا کرنے کی ضرورت سمجھی اور کیوں وہاں گراہم کے خلاف پمفلٹ تقسیم کئے۔ سیفی صاحب کو گراہم کے ساتھ مناظرہ کرنے میں بھلا کیا خوشی حاصل ہو سکتی تھی۔
ہم یہ بات کہنے کی جرأت کرتے ہیں کہ اس احمدی کی حرکات غصّہ دلانے والی ہیں۔ اور سراسر ناجائز ہیں۔ سیفی صاحب غیر معمولی طور پرجوش کا اظہار کرتے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ غیر معمولی جوش اختلافات کو برداشت نہ کر سکنے کے مترادف ہے۔ ہمیں اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ہم اس بات سے نفرت کرتے ہیں۔ اس بات کو یہاں ہرگز پیدا نہ ہونے دینا چاہیئے۔
نائیجیرین ٹربیون۔ نائیجیرین اتحاد کے پیش نظر تمام احمدیوں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کراتا ہے کہ وہ مولوی سیفی صاحب کو مشورہ دیں کہ وہ بے وجہ نائیجیرین عیسائیوں کے عمائدین پر حملے نہ کریں۔ سیفی صاحب جو کہ اتنے ہی زیادہ مناظر ہیں ان کے لئے نائیجیریا کوئی مناسب زمین نہیں الفابسریواپالارا (ALFA BISRIYU APALARA)کی یاد ابھی تازہ ہے (یہ صاحب ایک مسلمان مبلغ تھے جن کو تبلیغی لیکچر دیتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش کو لیگون (LAGOON)میں پھینک دیاگیا تھا اس قتل کے نتیجہ میں گیارہ اشخاص کو پھانسی ملی تھی (نسیم) ہمارا خیال ہے کہ مولوی سیفی صاحب کیساتھ تعلق رکھنے والے بعض احمدیوں کی حرکات ایسی ہیں کہ ان کے نتیجہ میں ملک میں مناقشت پیدا ہونے کے امکانات ہیںاور اس کا نقصان نائیجیریا ہی کو ہو گا۔‘‘
اس ایڈیٹوریل کی صحیح پوزیشن بالکل وہی ہے جسے تمثیلی طور پر یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ یہاں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ نہ خاکسار نے اور نہ ہی کسی اور احمدی دوست نے ڈاکٹر بلی گراہم کے جلسوں میں کوئی پمفلٹ تقسیم کئے تھے ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ ان ایّام میں اندرون شہر جماعت نے ایک پمفلٹ ’’یاد رکھنے کے قابل پانچ نکات‘‘ جس کا ذکر امریکہ کے ہفتہ وار اخبار ٹائم (TIME)نے بھی کیا تھا۔ ضرور تقسیم کیا تھا۔ لیکن یہ محض غلط بیانی تھی کہ ہم نے کوئی پمفلٹ گراہم کے جلسوں میں تقسیم کئے تھے یا ان جلسوں میں کسی قسم کا شوروشر پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔
مشرقی نائیجیریا کے گورنر سر فرانسس ابیام (SIR FRANCIS IBIAM)جوان دنوں سنٹرل بورڈ آف مشنز آف دی پریس بائٹیرین چرچ(PRESS BYTERIAN CHURCH) آف کینیڈا کے مہمان کے طور پر ٹورنٹو کا دورہ کر رہے تھے ان سے جب مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات اور کام کے متعلق سوالات کئے گئے تو انھوں نے پریس کو بتایا کہ اگرچہ نائیجیریا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان لوگوں کو اپنے اپنے مذہب میں داخل کرنے کے سلسلہ میں ایک بہت بڑا مقابلہ جاری ہے لیکن ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں میںآپس میں کوئی مناقشت نہیں ہے۔ ان سے یہ سوالات اس خبر کے سلسلہ میں کئے گئے تھے جو کہ وہاں کے مقامی اخباروں نے بلی گراہم کے دورے کے تعلق میں شائع کی تھی اور جس کا ملخص یہ تھا کہ مسلمان بلی گراہم کے دورے کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ نائیجیریا میں اخبار بین حضرات میں سے بعض کا خیال تھا کہ بلی گراہم کو چیلنج نہ دینا چاہیئے تھا۔ (اور یہ لوگ سب کے سب عیسائی تھے) اور بعض کا خیال تھا کہ چونکہ تبلیغ کا مطلب واضح الفاظ میں یہ ہے کہ اپنے مذہب کی برتری ثابت کر کے لوگوں کو اس میں داخل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لئے ہر وہ شخص جو تبلیغ کے میدان میں نکلتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے عقائد کی صحت کو ثابت کرنے کے لئے اور اپنے مخالف لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینے کیلئے تیار رہے چنانچہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلی گراہم کا فرض یہ تھا کہ وہ خاکسار کے چیلنج کو قبول کرتے۔
ڈیلی سروس (DAILY SERVICE)میں ایک صاحب نے
’’سیفی صاحب چپ رہیئے‘‘ کے عنوان سے ایک خط شائع کروایا۔ جس میں ان کا موضوعِ سخن یہ تھا کہ خاکسار نے اپنے ہفتہ واری کالم میں جو مضمون ’’گراہم کے لئے کتابیں‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مجھے عیسائیت سے کد ہے۔ انہوں نے اس خط میں یہ بھی کہا کہ سیفی صاحب کو یہ بھی خیال ہے کہ نبی دنیا میں لوگوں کی اصلاح کے لئے آتے ہیں نہ کہ اپنی جان دے کر لوگوں کے گناہوں کو اپنے سر پر اٹھانے کیلئے۔ اور کہ سیفی صاحب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ (محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) کی وفات عام انسانوں کی سی وفات ہونے کی وجہ سے ان کو کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی ۔
جب اخبارات کے نمائندوں نے ڈاکٹربلی گراہم سے خاکسار کے چیلنج کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر’’میں اس پر کوئی تبصرہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں‘‘ اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کی۔ نائیجیرین ٹربیون ؔ نے اس خبر کومندرجہ ذیل طریق پر شائع کیا۔ خبر کا عنوان تھا’’مسلمانوں کے چیلنج پر میں اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کرتا‘‘۔ ڈاکٹر بلی گراہم کہتا ہے۔ اور خبر کا متن تھا:۔
’’ ڈاکٹر بلی گراہم جو مشہور عالم عیسائی مناد ہیں اور جو سوموار کے روز ابادان (IBADAN)میں مذہبی مہم کے لئے وارد ہوئے ‘انہوں نے مسلمانوں کے ایک گروہ کے مناظرہ کے چیلنج کے متعلق کسی رائے کا اظہار کرنے سے انکار کر دیا ۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اس چیلنج کو قبول کر لیں گے یا نہیں تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ میں اس پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا‘‘۔
’’مغربی افریقہ میں احمدیہ موومنٹ کے لیڈر مولوی نسیم سیفی صاحب نے ان عیسائی مناد کو پبلک مناظرہ کا چیلنج دیا تھا۔ کیونکہ سیفی صاحب کا خیال ہے کہ اگر کسی مذہب کی تبلیغ کرنے والا حقیقی طور پر جانتا ہے کہ وہ کن عقائد کی تبلیغ کر رہا ہے تو ان عقائد کے متعلق پبلک مناظرہ ایک مفید مطلب چیز ہو سکتی ہے۔
ناردرن سٹار (روزنامہ) میں ایک صاحب نے لکھا کہ ’’مذہبی مناظرہ کسی طرح بھی غیر مفید نہیں ہو سکتا ‘‘اس عنوان سے انہوں نے لکھا کہ میں نے اخبار کی لیڈنگ سٹوری جس کا عنوان’’مسلمان اور عیسائیت ‘‘ہے بڑے شوق سے پڑھی ہے‘ اور اس کے ساتھ ہی آپ کا ایڈیٹوریل بھی شوق سے پڑھا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک نہایت سرعت کے ساتھ ترقی پذیر ہے اور یہ ترقی خاص طور پر سیاسی‘ معاشی ‘ اور اقتصادی شعبوں میں ہو رہی ہے۔ لیکن کیا روحانیت کی طرف بھی کوئی توجہ دی جا رہی ہے یا نہیں ۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس وقت دو بڑے اور اہم مذہب اسلام اور عیسائیت ہیں۔ جس طر ح ہم سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی ترقی کے خواہاں ہیں اس طرح ہمیں اس بات کی بھی لگن ہونی چاہیئے کہ ہم سب سے اچھے روحانی نظام کے ساتھ منسلک ہوں اور اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مختلف مذاہب کے لیڈر تبادلۂ خیالات کریں اور اپنے اپنے مذہب کے اچھے نکات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ اور اس سلسلہ میں وہ اپنی مقدس کتابوں کے حوالے بھی دیں۔ میں آپ (ایڈیٹر) سے اس بات پر متفق نہیں ہوں کہ ایسی مذہبی مجلس ایک نہ ختم ہونے والی بحث کا آغاز کر دے گی۔ اور یہ بحث بدمزگی پیدا کر دے گی۔‘‘
اس خط کے لکھنے والے صاحب نے خاکسار کے ایک خط کا حوالہ دیکر یہ ثابت کیا کہ اس ملاقات کا مقصد لوگوں کے تعلقات کو خوشگوار بنانا تھا نہ کہ ان کے درمیان مناقشت کی خلیج وسیع کرنا‘ اور اپنے خط کو اس بات پر ختم کیا کہ ’’میرا خیال تو یہ ہے کہ تمام سنجیدہ مسلمان میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ جس طرح مولوی سیفی صاحب نے تجویز کیا ہے عیسائی مناد اورمسلمان لیڈروں کی ملاقات کا انتظام ضرور ہونا چاہیئے۔‘‘ ایڈیٹر نے اس بات پر نوٹ دیا:۔
’’قارئین کے خیالات کو خوش آمدید کہا جائے گا‘‘۔
ایک اور صاحب نے ڈیلی سروس میں لکھا’’ اب اس غم و غصّہ کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے‘‘خط کا مضمون یہ تھا’’ آپ کے اخبار میں ایک صاحب نے لکھا ہے کہ مولوی نسیم سیفی صاحب اسلام کا دفاع کرنا چھوڑ دیں۔ یہ تجویز نہایت غیر ضروری ہے۔ جب انگلستان میں مقیم نائیجیریا کے کمشنر مسٹر مبو (MBU)نے عیسائیت کے متعلق نہایت حسین پیرائے میں ذکر کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی اسلام کے متعلق ناروا الفاظ ستعمال کئے تھے ہم مسلمان بالکل خاموش رہے تھے۔ جب سرفرانسس ابیام جو یونیورسٹی کالج سے تعلق رکھتے ہیں نے وسطی افریقہ میں عیسائیت کے متعلق تقریر کی تھی۔ ہم نے ان کو کسی رنگ میں بھی ملامت نہ کی تھی۔ جب اینگلی کن سناڈ (ANGLICAN SYNOD)نے اسلام کے خلاف خطرہ کی گھنٹی بجائی تھی۔ مسلمانوں نے کسی شور وغوغا سے آسمان سر پر نہ اٹھا لیا تھا۔ لیکن جب مولوی نسیم سیفی صاحب نے اپنے عقائد کے متعلق چند ایک باتیں کہیں تو عیسائیوں کا غضب بھڑک اٹھا۔ ہم مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عبادت اور تقریر کی آزادی ہر شخص کا پیدائشی حق ہے۔
ویسٹ افریقن پائلاٹ(WEST AFRICAN PILOT)روزنامہ میں ایک صاحب نے لکھا ’’مولوی نسیم سیفی صاحب ایک ہندوستانی (پاکستانی) مسلم مشنری ہیں۔ جو کہ نائیجیریا میں اپنے مذہب یعنی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عقائد کی تبلیغ کے لئے آئے ہوئے ہیں اور یہ ان کا جائز حق ہے۔ خصوصًا ایک ایسے ملک میں جہاں جمہوری نظام کا دور دورہ ہے مجھے اس بات کا یقین ہے کہ قرآن کریم میں علم اور حکمت کا ایک خزانہ موجود ہے جس کے متعلق یہ صاحب لوگوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں ۔ بجائے اس کے کہ بائیبل کے ایسے حوالوں پر زور دیا جائے جو متنازعہ فیہ ہیںاس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے خداوند یسوع مسیح کے متعلق ایسے کلمات کہے جائیں جو ہتک آمیز ہیں اور عیسائیت کو بھی رگیدا جائے۔
’’ قرآن کریم اور بائیبل کا موازنہ جو مبلغ اسلام کی طرف سے گاہے گاہے پیش کیا جاتا ہے وہ ایسا ہے کہ اس سے کسی وقت بھی جھگڑے کی بنیاد کھڑی کی جا سکتی ہے۔ خصوصًا ایسی صورت میں کہ ان کی باتوں کا جواب دینے کی کوشش کی جائے۔
مسلمان اور عیسائی ایک لمبے عرصہ سے نہایت امن و سکون کے ساتھ اس ملک نائیجیریا میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ اور مذہب ان کے آپس کے تعلقات میں کبھی حائل نہیں ہؤا۔ دوسرے مذہب کے متعلق باتیں کہنے کی بجائے ان صاحب کے پاس کافی مواد ہے جن کو وہ استعمال کر سکتے ہیں۔ میں مولوی نسیم سیفی صاحب سے اپیل کرتاہوں کہ وہ اپنی پبلک تقاریر‘ بیانات اور تحریروں کو قرآن کریم ہی کے دائرے میں محدود رکھیں۔ اسی طرح میں اینگلی کن چرچ کے بشپ کو بھی اپیل کرتا ہوں اور میتھو ڈسٹ چرچ کے چیئرمین اور عیسائیوں کی دیگر منظم جماعتوں کو بھی کہ وہ اس مبلغ اسلام کے عیسائیت پر حملوں کی روک تھام کریں‘‘۔
ناردرن سٹار نے اپنے پہلے صفحہ پر ویسٹ افریقن احمدیہ نیوز ایجنسی کے پریس ریلیز کے متعلق جو ایڈیٹوریل لکھا تھا۔ خاکسار نے اس کا جواب دیاجو اس پرچہ میں چھپا۔
اخبار والوں نے اس خبر پر یہ سرخی جمائی :۔
’’احمدیہ جماعت کے لیڈر کہتے ہیں کہ سٹار کی دلیل ایک ایسی منطق ہے جس کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
اور خبر یوں لکھی:۔
’’مولوی نسیم سیفی صاحب جو مغربی افریقہ میں احمدیہ مشن کے لیڈر ہیں نے ناردرن سٹار کی ایڈیٹو ریل تنقید کا جواب لکھا ہے۔ یہ ایڈیٹوریل احمدیہ مشن کے اس پریس ریلیز کے جواب میں تھا جس میں ڈاکٹر بلی گراہم سے ملاقات کے سلسلہ میں احمدیہ جماعت کے لیڈر کی کوششوں کا ذکر تھا۔ جس روز ہم نے یہ پریس ریلیز چھاپا تھا اُسی روز ہم نے اس پر تنقید بھی چھاپ دی تھی۔ ہمارا خیال ہے کہ نسیم سیفی صاحب کی یہ کوشش کہ ڈاکٹر بلی گراہم سے پبلک مناظرہ کیا جائے۔ غیر صحت مندانہ اقدام ہے۔ ہم نے اس بات کا انتباہ بھی کیا تھا کہ کوئی شخص مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش نہ کرے۔
ہم ذیل میں احمدیہ لیڈر کا جواب شائع کر رہے ہیں۔
’’میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہمارا پریس ریلیز شائع کر دیا اور اس بات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس پر تنقید بھی کی۔ مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ آپ نے اپنی تنقید پریس ریلیز کی مکمل اشاعت سے قبل ہی شائع کر دی (دراصل پریس ریلیز دو اشاعتوں میں چھپا تھا اور تنقیدی ایڈیٹوریل پہلی ہی اشاعت میں شائع کر دیا گیا تھا لیکن بہر حال یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے جس پر مجھے خاص طور پر زور دینے کی ضرورت محسوس ہو۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری اس بات سے ناراض نہ ہوں گے کہ آپ کی تنقید ۔اگرچہ یہ تنقید خلوصِ دل سے کی گئی ہے۔ نہایت ہی غیر منطقی ہے۔ آپ کو اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ ابوؔ (IBO)اور یوروبا (YORUBA)اور اسلام اور عیسائیت والی مثال ایسی ہے جس کا ایک دوسرے سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ قبائل کا تعلق وراثت سے ہے اور ہم ان کو کسی رنگ میں تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی ایک قبیلہ کے لوگ یہ تبلیغ کرتے پھرتے ہیں کہ دوسرے قبیلوں کے لوگ بھی اس قبیلہ کے لوگ بن جائیں لیکن مذہب کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ہم اس بات کا انتخاب کرتے ہیں۔ لوگ مذہب کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں اور یہی چیز ہے جسے مذہب کی منادی کرنا کہتے ہیں۔ ڈاکٹر بلی گراہم کا نائیجیریا آنے کا مقصد بھی یہی تھا۔
’’سرفرانسس ابیام نے حال ہی میں کینیڈا میںکہا تھا کہ اپنے اپنے مذہب میں شامل کرنے کے لئے یقینا مختلف مذاہب (خصوصًا اسلام اور عیسائیت) میں مقابلہ کی ایک خاص روح پائی جاتی ہے۔ آپ عیسائی کیوں ہیں؟ اس لئے کہ آپ کے خیال میں عیسائیت ہر دوسرے مذہب سے اچھی ہے۔ میں مسلمان کیوں ہوں؟ اِس لئے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام تما م مذاہب سے اچھا ہے۔ عیسائی یہ کوشش کررہے ہیں کہ لوگوں کو یہ بات سمجھائیں کہ عیسائیت سب مذاہب سے اچھی ہے۔ ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلام سب سے زیادہ اچھا مذہب ہے۔ مجھے امید ہے کہ اب آپ ضرور مجھ سے کلی اتفاق کریں گے کہ مذہب کی تبلیغ ضروری ہے۔صرف ایسے لوگ جو اچھے عیسائی نہیں ہیں مذہب کی تبلیغ کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور پھر یہ بھی تو سوچئے کہ میرا بلی گراہم سے کیا مطالبہ تھا؟ صرف یہ کہ وہ مسلمانوں سے ملیں۔ میں نے جو خط ان کو لکھا تھا اس کا آخری فقرہ یہ تھا ’’ایک ایسے شخص کے لئے جو کہ بہت بڑا مذہبی لیڈر ہے محبت اور تکریم کے جذبات کے ساتھ میں چند ایک کتابیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں مجھے امید ہے کہ آپ ان کتب کا ضرور مطالعہ کریں گے
’’کیا اب بھی آپ اس بات کو غیر صحت مندانہ کہتے ہیں؟‘‘ ۵
مشرقی افریقہ
ڈاکٹربلی گراہم مغربی افریقہ میں شکست فاش اٹھانے کے بعد مارچ کے اوائل میں مشرقی افریقہ کے شہر نیروبی پہنچے اور انہوں
نے بڑے بڑے عظیم الشان جلسوں سے خطاب کیا تومشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے رئیس التبلیغ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے اسلام کی طرف سے اُنہیں ایک چیلنج دیا۔ انہوں نے ڈاکٹر گراہم کے نام جو خط لکھا اور جو وہاں کے اخبارات میں بھی شائع ہؤا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے :۔
نیروبی ۳۔مارچ ۱۹۶۰ء
ڈیئر ڈاکٹر گراہم!
میں احمدیہ مسلم مشن مشرقی افریقہ کے ریئس التبلیغ کی حیثیت سے نیروبی میں آپ کی آمد پر بڑی مسرّت اور گرمجوشی کے ساتھ آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ عیسائیت کی تبلیغ کو اپنا مطمحِ نظر قرار دینے میں آپ نے جس رُوح اور جذبے کا اظہار کیا ہے وہ واقعی قابلِ قدر ہے اور میں آپ کے اس جذبہ اور رُوح کو سراہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا جس مقصد کے تحت آپ نے یہاں تشریف لانے کی زحمت اٹھائی ہے اس کو مدّنظر رکھتے ہوئے میرے لئے یہ اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ میں آپ کو دین حق کو طرف دعوت دوں اور اس کی بے نظیر تعلیم کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلاؤں۔
(۲) بلاشبہ آپ بخوبی واقف ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ انجیل کے بیان کے مطابق یسوع مسیح کا اپنا فرمان یہ ہے کہ’’درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے‘‘۔ اسی طرح یسوع مسیح نے یہ بھی کہا ہے کہ:۔
’’اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سِرک کروہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا۔ اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہو گی۔‘‘ ۶
پھر یہ بھی اسی کا فرمان ہے کہ :۔
’’جو کچھ تو خدا سے مانگے گا وہ تجھے دے گا‘‘ ۷
مسیح کے یہ اقوال ایک ایسے معیار کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی مدد سے کسی مذہب کی صداقت کو بآسانی پر کھا جا سکتا ہے۔ اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا اس معیار مذاہب کی صداقت کو پرکھنے کا اس سے بڑھ کر اور کوئی موقع ہو گا جبکہ آپ مشرقی افریقہ کے لوگوں کی بھلائی کی خاطر خود یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ آپ نے بڑے بڑے شاندار مقالے رقم فرمائے ہیں اورمروّجہ عیسائیت کی تائید میں بڑی زور دار اور گرما گرم تقاریر کی ہیں لیکن اگر خود یسوع مسیح کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق آپ کے اپنے مذہب کی صداقتعملاً دُنیا پر ظاہر ہونے کی صورت نکل آئے تو یہ بات آپ کی ان تمام مساعی پر جو اب تک آپ کر رہے ہیں سبقت لیجائیگی۔
(۳) اس کے بالمقابل میرا دعویٰ یہ ہے کہ آج روئے زمین پر صرف اور صرف اسلام ہی وہ ایک زندہ مذہب ہے جس پر عمل کر کے لوگ نجات یافتہ قرار پا سکتے ہیں۔ اور یہ کہ مروّجہ عیسائیت آسمانی تائید و نصرت اور انسانوں کی حقیقی رہنمائی کے وصف سے یکسر بے بہرہ ہے۔ لہذا میں عوام کی بھلائی کی خاطر پُوری عاجزی اور اخلاق کے ساتھ آپ کو ایک ایسے مقابلے کی دعوت دیتا ہوں جس کے ذریعہ ہم اپنے اپنے مذہب کی صداقت کو آشکار کر سکتے ہیں۔
(۴) مقابلے کا ایک طریق یہ ہے کہ تیس ایسے مریض لے لئے جائیں کہ جو میڈیکل سروسزکینیا کے ڈاکٹرصاحب کے نزدیک لاعلاج ہوں۔ ان تیس مریضوں میں سے دس یورپین‘ دس ایشیائی اور دس افریقن ہوں۔ انہیں قرعہ کے ذریعہ میرے اور آپ کے درمیان مساوی تعداد میں بانٹ لیا جائے۔ پھر دونوں مذاہب کے پیروؤں میں سے چھ چھ آدمی ہمارے ساتھ اور آ شامل ہوں اور ہم اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے مریضوں کی صحت یابی کے لئے خدا کے حضور دُعا کریں تاکہ اس امر کا فیصلہ ہو سکے کہ کس کو خدا کی تائید و نصرت حاصل ہے اور کس پر آسمان کے دروازے بند ہیں۔
(۵) مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ تجویز قبول کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ عین اُن اصولوں کے مطابق ہے جویسوع مسیح نے خود بیان فرمائے ہیں لیکن اگر آپ نے اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کیا تو دنیا پر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں اور دو اور دو چار کی طرح ثابت ہو جائے گی کہ صرف اور صرف اسلام ہی وہ زندہ مذہب ہے جو خدا کے ساتھ تعلق قائم کرنیکی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔
آپ کا مخلص (دستخط ) شیخ مبارک احمد
رئیس التبلیغ احمدیہ مسلم مشن مشرقی افریقہ (نیروبی)
اگرچہ ڈاکٹر گراہم نے شیخ مبارک احمد صاحب کے اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن جب وہاں کے اخبارات میں اس چیلنج کا خوب چرچا ہؤا اور اخبارات نے شیخ صاحب کافوٹو شائع کر کے آپ کے چیلنج کو اہمیت دی تو ایک شخص نے اس چیلنج سے متاثر ہو کر ڈاکٹر گراہم کے ایک پبلک لیکچر کے بعد ان سے سوال کیا کہ کیا وہ کوئی ایسی مجلس بھی منعقد کریں گے جس میں وہ بیماروں کو چنگا کرنے کے لئے خدا سے استمداد کریں۔ اس پر اُنہوں نے سراسر عجز کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ میرا کام محض وعظ کرنا ہے مریضوں کو چنگا کرنا نہیں۔
اس جواب پر نیروبی کے ناموراخبار دی سنڈے پوسٹ نے اپنی ۶؍مارچ ۱۹۶۰ء کی اشاعت کے صفحہ ۲۶ پر لکھا:۔
’’اسلام کا چیلنج‘‘
’’جلسے کے بعد ڈاکٹر گراہم نے بالواسطہ طور پر اس چیلنج کا جواب دیا جو انہیں اس امر کے فیصلے کیلئے دیا گیا تھا کہ اسلام اور عیسائیت میں سے کونسا مذہب سچّا ہے۔ یہ چیلنج احمدیہ مسلم مشن کے رئیس نے گزشتہ جمعہ کے روز دیا تھا۔‘‘
’’شیخ مبارک احمد نے تجویز پیش کی تھی کہ تیس لاعلاج مریض منتخب کئے جائیں ان میں سے دس افریقن ہوں۔ دس یورپین اور دس ایشیائی۔ ان مریضوں کے بارہ میں ڈائرکٹر آف میڈیکل سروسز کینیا باقاعدہ یہ تصدیق کریں کہ فی الواقع یہ لاعلاج ہیں۔ ان مریضوں کو پھر مبلغِ اسلام اور ڈاکٹر گراہم کے درمیان قرعہ کے ذریعہ تقسیم کر دیا جائے۔ شیخ مبارک احمد نے لکھا تھا کہ’’اس کے بعد دونوں مذاہب کے پیروؤں میں سے چھ چھ آدمی اور شامل ہوں گے۔ پھر ہم اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے مریضوں کی صحت یابی کے لئے خدا کے حضور دُعا کریں گے تاکہ اس امر کا فیصلہ ہو سکے کہ دونوں میں کس کو خدائی تائید و نصرت حاصل ہے اور کس پر آسمان کے دروازے بند ہیں۔‘‘
’’کسی کو چنگا نہیں کیا جائے گا‘‘
’’جلسے کے اختتام پر ایک ایشیائی ڈاکٹر گراہم کے پاس آیا اور اس نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کوئی ایسی مجلس بھی منعقد کریں گے کہ جس میں مریضوں کو چنگا کرنے کا انتظام کیا جائے۔‘‘
ڈاکٹر گراہم نے جواب دیا۔’’میرا منصب وعظ کرنا ہے چنگا کرنا نہیں ۔ میں صرف وعظ کرتاہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ خد کی مرضی پوری ہو‘‘
’’قبل ازیں شیخ مبارک احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر ڈاکٹر گراہم نے چیلنج قبول کرنے سے انکار کیا تو اس سے دُنیا پر ثابت ہو جائیگا کہ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو بندے کا خدا سے تعلق قائم کرنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے۔‘‘
شیخ مبارک احمد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود ذاتی طور پر دُعا کے ذریعے لوگوں کا علاج کیا ہے اور وہ شفایاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشرقی افریقہ میں ڈاکٹر گراہم عیسائیت کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اُلٹا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہاں عیسائی ہونے والے مسلمانوں کے مقابلہ میں خود عیسائی بہت زیادہ تعداد میں اسلام قبول کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ٹانگانیکامیں تقریباً پچاس لاکھ مسلمان ہیں۔‘‘ ۸
دنیائے عیسائیت میں زبردست اضطراب و تشویش
ڈاکٹر بلی گراہم نے قاہرہ پہنچ کر کہا کہ انہوں نے افریقہ میں عیسائی لیڈر شپ کو بہت مضبوط پایا اور کہ تعلیمیافتہ لوگوں کی اکثریت عیسائی مشن سکولوں کی فارغ التحصیل ہے اور کہ یہ بات نہایت حوصلہ افزا ہے لیکن اسلام بھی بڑی سرعت کے ساتھ ترقی کر رہا ہے۔ واپس امریکہ پہنچ کر ڈاکٹر موصوف نے اسلام کی ترقی پر فکر مندی کا ظہار کیا اور اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ نئے خطوط پر افریقہ میں عیسائیت کی تبلیغ کے انتظامات کیئے جائیں انہی خیالات کا اظہار انہوں نے صدر امریکہ جان ایف کینیڈی سے بھی کیا ۹
اس زبردست اضطراب کی بازگشت یورپ میں بھی سنائی دی گئی چنانچہ لنڈن کے بشپ نے افریقہ میں اسلام کی پیشقدمی پر سخت غم و غصّہ کا اظہار کیا اور عیسائیوں سے اسلام کے خلاف ایک متحدہ عیسائی محاذ قائم کرنے کی اپیل کی۔ چنانچہ انہی دنوں روزنامہ ’’ نئی روشنی‘‘ کراچی نے برطانوی نامہ نگار کے حوالہ سے حسبِ ذیل خبر شائع کی۔
’’لندن یکم اپریل (سمیع الدین نمائندہ نئی روشنی)لندن کے بشپ نے یہ شرانگیز تجویز پیش کی ہے کہ چونکہ افریقہ میں اسلامی مبلغین اور عیسائی مشنریوں کے درمیان لوگوں کو مشرف بہ اسلام کرنے اور عیسائی بنانے کی مہم میں زبردست مقابلہ ہو رہا ہے اور اسلام بڑی سرعت سے پھیل رہا ہے اس لئے ایک ادارہ اینٹی اسلام پروجیکٹ (یعنی ادارہ مخالفین اسلام) قائم کیا جائے بشپ مذکور بی بی ایس ریڈیو پر اسلام اور عیسائیت کے مقابلہ کے عنوان سے ایک پروگرام میں حصہ لے رہے تھے بشپ مذکور نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ’’درحقیقت پہلی بار اب عیسائیت اور اسلام کا مقابلہ ہو رہا ہے اور پاکستان کے مذہبی رہنما مغربی افریقہ میں بسنے والے افراد کو وسیع پیمانے پر مشرف بہ اسلام کر رہے ہیں حالانکہ عیسائی مشنری عرصہ سے اس علاقہ میں سرگرم ہیں لیکن ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے اور ان میں سخت مایوسی پھیلی ہوئی ہے عیسائی مشنریوں کو مایوسیوں اور ناکامیوں سے بچنے کے لئے آرک بشپ نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ عیسائی مشنری اسلام کی اشاعت کو (نعوذ باﷲ ) روکنے کیلئے اسلام دشمن پروجیکٹ بنایا جائے چنانچہ اس اسکیم کو عملی جامعہ پہنا دیا گیا اور اینٹی اسلام پروجیکٹ کے نام سے ایک ادارہ بنا دیا گیا ہے واضح رہے کہ ہر سال عیسائی مشنریوں کے ذریعہ کروڑوں روپیہ عیسائیت کی نشر و اشاعت پر خرچ ہوتا ہے۔ لندن کے بشپ نے افریقہ کے جنگلوں میں بسنے والے افراد کی امداد کے لئے چار لاکھ روپیہ کی رقم کا عطیہ دیا ہے لندن کے آرک بشپ کی طرف سے یہ شرانگیز اور اسلام دشمن مہم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آئے دن عیسائی مشنری مسلمانوں اور اسلام کو زک پہنچانے کے لئے طرح طرح کے دل آزاراور شرانگیز فتنے چھوڑتے رہتے ہیں ’’اینٹی اسلام پروجیکٹ‘‘ بھی اس فتنہ کی ایک کڑی ہے اور دین برحق پر پیسہ کے زور سے فتح حاصل کرنا چاہتے ہیںکیونکہ وہ راست بازی کے ذریعے تو افریقی عوام کا دل جیت نہیں سکے اب نقرئی و طلائی تھیلوں کا منہ کھول کر اسلام کے خلاف صف آراء ہو رہے ہیں ۔ جس میں انہیں ناکامی یقینی ہے کیونکہ اسلام کی سادہ تعلیمات صداقت پر مبنی ہیں اور اس میں رنگ و نسل کی تمیز ختم اور مساوات و عدل و انصاف کو اوّلیت دی گئی ہے۔ چنانچہ خود افریقی باشندے سفید فام عیسائی حکمرانوں کے تشدد و امتیاز نسلی کے مقابلہ میں جب اسلامی اخوت و مساوت کو پرکھتے ہیں تو ان کا دل حقانیت اسلام کا شیدا ہو جاتا ہے۔ ۱۰
بشپ صاحب کی اس اپیل کے بعد ایک مسیحی محقق مسٹر والراڈ پرائس (WILLRAD PRICE)نے اپنی کتاب "INCREDIABLE AFRICA"میں لکھا کہ ڈاکٹر بلی گراہم نے دورہ افریقہ سے واپسی پر یہ پیشگوئی کی ہے کہ برّاعظم افریقہ میں عیسائیت کا اثرونفوذکم ہوتاچلا جائے گا اور عیسائیوں کو اپنی جانوں کے محفو ظ رکھنے کے لئے غاروں میں چُھپنا پڑے گا۔ پرائس نے مزید لکھا کہ افریقہ میں اسلام کی ترقی عیسائیت کی نسبت تین گنا ہے جو افریقن کسی بیرونی ملک کے مذہب کو اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ اسلام کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کے پیش نظر افریقنوں کی جائدادوں پر قبضہ کرنا نہیں ہے اس کے مقابلہ میں یورپین عیسائیوں کے متعلق افریقن کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں بائبل دے کر ہماری زمینیں ہم سے چھین لی ہیں۔ ۱۱
ڈاکٹر بلی گراہم کے دورہ کے کچھ عرصہ بعد مسٹر لزلے رامزے(MR LISLE RAMSEY) ۱۲ نے امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سرپرستی میں افریقہ کے تیرہ ملکوں کا دورہ کرنے کے بعد یہ بیان دیا کہ اگر عیسائیوں نے غیر معمولی فراست کا ثبوت نہ دیا تو افریقہ سے عیسائیت ختم ہو جائے گی کیونکہ مسلمان عیسائیوں سے زیادہ کامیابی کے ساتھ تبلیغ کر رہے ہیں اور لوگ عیسائیت کے مقابل اسلام میں زیادہ تیزی کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں۔ ۱۳
روزنامہ نوائے وقت لاہور کے نمائندہ خصوصی متعیّن امریکہ کے تاثّرات
ڈاکٹر بلی گراہم کی پشت پر چرچ کا عالمی اثرو رسوخ اور امریکہ کی بے پناہ سیاسی قوت و شوکت اور سرمایہ تھا جس کے سامنے غریب اور کمزور افریقن مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہ تھی مگر اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجاہدین احمدیت نے مسلمانوں کی طرف سے ایسی کامیاب نمائندگی کی کہ صلیب پرستوں کا ناطقہ بند ہو گیا اور دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے اس فقیدالمثال کارنامہ کی دھاک بیٹھ گئی اور مسلمان عش عش کر اُٹھے۔
چنانچہ لاہور کے مؤقر اور کثیر الاشاعت روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے نمائندہ خصوصی متعین امریکہ۔ مسٹر حفیظ ملک۔ نے خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا:۔
’’افریقہ کے آزاد ہونے پر افریقی عوام ایک انتہائی مشکل نفسیاتی مصیبت میں پھنس رہے ہیں۔ افریقہ کے اکثر حصوں میں اب بھی انسان دھات اور پتھر کے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور جو زیادہ ترقی کر چکے ہیں۔ ایک شدید جذباتی‘ ایمان اور روحانی بحران میں مبتلا ہیں۔ افریقہ کے عوام میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ کبھی کوئی پیغمبر نازل نہیں ہوا۔ اب تک افریقہ ایام جہالت کا بہترین نمونہ ہے سوال یہ ہے کہ افریقہ میں عوام کا مذہب کیا ہو گا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ ا مریکی پادری اس پر بڑی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کے مشہور و معروف پادری بلی گراہم نے افریقہ کا دورہ کیا گذشتہ ہفتے انہوں نے صدر آئزن ہاور سے وائٹ ہاؤس میں ۴۰ منٹ کے لئے تبادلہ خیالات کیا اور صدر آئزن ہاور کو یہ مشورہ دیا کہ نائیجیریا کا دورہ کریں کیونکہ اکتوبر میں نائیجیریا انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا۔ پادری بلی گراہم نے رپورٹروں کو ملاقات کے بعد بتایا کہ امریکہ کیلئے لازم ہے کہ وہ افریقہ کے عوام کے نیشنلزم کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کرے۔ صدر آئزن ہاور کے ردِّ عمل پر بحث کرتے ہوئے بلی گراہم نے کہا کہ صدرآئزن ہاور نے نائیجیریا کے دورے کے مسئلہ پر غور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس خیرسگالی کے دورہ سے امریکہ کو جو فائدہ پہنچے گا وہ محتاج بیان نہیں۔ لیکن پادری بلی گراہم کو جو غم ہے۔ وہ کسی اور مسئلہ سے ہے۔ انہوں نے رپورٹروں کو بتایا کہ مسلمان مشنری افریقہ میں جب سات حبشیوں کو مسلمان بناتے ہیں تو عیسائی مشنری کہیں مشکل سے تین حبشیوں کو عیسائی بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اسلام کی ترقی کو روکنے کیلئے بلی گراہم ایک مشنری پروگرام وضع کر رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ امریکی حبشیوں کو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے مشنوں میں بھرتی کرنا چاہیئے جو اپنے افریقی بھائی بندوں کو آسانی سے عیسائی بنا سکیں گے۔ اس کے علاوہ بلی گراہم نے کہا کہ وہ ان مشنریوں کو اپنے مشن میں بھرتی کریں گے۔ جو علم نسلیات اور جناب رسالت مآبؐ کی تعلیمات سے آگاہ ہوں گے۔ تاکہ وہ اسلام کی کمزوریوں کو ’’افریقی‘‘ عوام پر واضح کر سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ افریقہ میں تہذیب اور علم و ہنر اور مذہب پھیلانے کی ذمہ داری کس حد تک پاکستانیوں پر عائد ہوتی ہے جہاں تک کہ ہمارے عرب بھائیوں کا تعلق ہے۔ وہ تو عرب نیشنلزم کے سوا بات نہیں کرتے۔ اسلام ان کے لئے ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ بھارت کے پاس کوئی ایسا مذہب نہیں جس کی تبلیغ کی جاسکے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت افریقہ میں ثقافتی تبلیغ کر رہا ہے۔ ہر سال افریقہ سے طلباء کی ایک خاص تعداد بھارتی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آتی ہے۔ صرف مشرقی افریقہ کو لے لیجئے۔ اب تک ۳۵۰ افریقی طلبہ بھارتی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ ۲۰۰ طلبہ واپس جا چکے ہیں۔ نیروبی کے ایسٹ افریقن ٹائمز (جو احمدیہ جماعت کا اخبار ہے) کے بیان کے مطابق ۱۹۵۹ ء میں بھارت نے ۸ وظیفے یوگنڈا کے حبشی طلبہ کو دیئے۔۱۰ کنیا کے طلبہ کو ۴ ٹانگا نیکا کے طلبہ کو اور ایک زنجبارکے طالب علم کو دیئے گئے۔ بھارت میں انڈین کلچرل کونسل ان طلبہ کو تمام سہولتیں مہیّا کرتی ہے۔ جہاں تک افریقی ممالک کا تعلق ہے افسوس ہے کہ ان کے متعلق مکمل فہرست حاصل نہ ہو سکی۔ لیکن اندازہ کیا جاتا ہے۔ کہ اس سال سینکڑوں طلبہ افریقہ سے بھارت میں تعلیم کی غرض سے آئے ہیں۔ یہی جو ان طلبہ کل ان افریقی ممالک کے لیڈر
ہو نگے اور ان کے توسط سے بھارت کو جو سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ اس کا آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی مذہبی مشنری کام کر رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے۔ مشرقی افریقہ میں مسلمانوں کی آبادی ۱۵ فیصد ہے جس میں ایسٹ افریقن ٹائمز کے بیان کے مطابق ۱۰۰۰۰افریقی لوگ احمدی ہیں۔ پرتگیزی مشرقی افریقہ میں تقریباً دس لاکھ افریقی مسلمان ہو چکے ہیں۔ جن میں سے غالب اکثریت احمدیوں کی ہے۔ کینیا کے سرحدی صوبوں میں اسلام کو فروغ ہو رہا ہے اور یہاں بھی غالب اکثریت احمدیوں کی ہے۔ نیروبی میں تو خیر احمدیوں نے ایک بہت بڑا مذہبی تبلیغی مرکز قائم کر رکھا ہے جو روزانہ انگریزی اخبار بھی شائع کرتا ہے۔ اور اس کے علاوہ تعلیم کے لئے اس سینٹر نے کالج وغیرہ بھی قائم کر رکھے ہیں۔
ہمیں احمدیت سے شدید اختلافات ہیں اور ہم قادیانی فرقہ کے تصورات کو بالکل باطل اور گمراہ سمجھتے ہیں اور سواداعظم کی طرح ان تصورات سے نفرت وبیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں ان کی مساعی کی داد دینی پڑتی ہے بلی گراہم جب اپنے حالیہ دورہ میں نیروبی گئے تو اسلام کی طرف سے اگر کسی جماعت نے انہیں مباحثہ کی دعوت دی تو وہ جماعت احمدیہ تھی۔ کینیا ‘ یوگنڈا اور ٹانگا نیکا میں اس وقت ۲۵۰۰۱۰۰۰ مسلمان آباد ہیں لیکن ان کی تعلیمی حالت بہت ہی کمزور ہے۔ عیسائی مشنری سکولوں اور کالجوں کے ذریعہ سے طلبا کوعیسائیت کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جماعت احمدیہ کے سوا پاکستان میں اور کوئی مذہبی جماعت موجود نہیں جو افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کے کام کو انجام دے سکے پاکستان میں جماعتِ اسلامی بہت ہی با اثر جماعت ہے۔ مولانا مودودی کے سیاسی خیالات سے ہمیں بہت زیادہ اختلافات ہیں ۔ لیکن ہمیں اس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ اگر وہ افریقہ میں مشنری کام کا بیڑہ اٹھائیں ۔ تو اس سے صرف اسلام کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے علاوہ انسانیت کی خدمت بھی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک غیر ممالک میں جتنا بھی اسلامی مشنری کام ہوا ہے وہ علماء نے اپنی ذاتی حیثیت میں ادا کیا ہے اب ضرورت ہے کہ تبلیغی کام کو منظم کیا جائے۔ اگر جماعت اسلامی سیاسی خواہشوں اور دفاتر کے خواب سے علیحدہ ہو کر افریقہ میں اسلامی تہذیب وتمدن پھیلانے کی کوشش کرے تو ہمیں توقع ہے کہ فروغ اسلام میں رکاوٹ ڈالنے سے متعلق بلی گراہم کے تمام ارادے ناکام ہو کر رہ جائینگے اسلئے کہ جماعت اسلامی میں جو علماء ممبر کی حیثیت سے شامل ہیں۔ وہ صیحح معنوں میں اسلام کے عالم ہیں اور ان کے توسط سے جو اسلام پھیلے گا۔ وہ افریقی لوگوں کو روحانیت کے سرچشموں سے فیضیاب کریگا۔ دراصل یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس پر حکومتِ پاکستان کو تبلیغی کام کرنیوالی جماعتوں کی اعانت کرنی چاہیئے ۔ کیا ہم مولانا مودودی سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ افریقہ میں تبلیغی کام کا بیڑا اٹھائیں گے؟ ہماری رائے میں تو ان سے بہتر انسان پاکستان میں اس کام کیلئے موجود نہیں۔‘‘ ۱۴
اخبار ’’رضاکار‘‘ لاہور کا حقیقت افروز تبصرہ
پاکستان کے مشہور شیعہ ہفت روزہ رضاکار نے نہ صرف اپنی یکم مئی ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں مندرجہ بالا مضمون شائع کیا بلکہ ۸؍مئی ۱۹۶۰ء کے پرچہ میں اس پر درج ذیل تبصرہ بھی سپرد اشاعت کیا:۔
’’ گزشتہ شمارہ میں ہم نے جناب حفیظ ملک صاحب نمائندہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور مقیم واشنگٹن (امریکہ) کا ایک مراسلہ ’’افریقہ میں تبلیغ اسلام ‘‘کے عنوان سے نوائے وقت لاہور سے نقل کیا تھا۔
محترم حفیظ ملک صاحب نے اپنے اس مراسلہ میں احمدی مبلغین اور عیسائی مشنریوں کی افریقہ میں تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے۔ اوراس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ احمدی مبلغین کس طرح عیسائی مشنریوں کا سر توڑ مقابلہ کر کے لاکھوں افریقیوں کو احمدی بنا رہے ہیں اختلاف عقائد کے باوجود حفیظ ملک نے احمدی مبلغین کی تبلیغی کوششوں کو سراہا ہے۔ اور انہیں خراج تحسین ادا کیا ہے‘‘۔
افریقہ آزاد ہو رہا ہے۔ لہذا مغربی ممالک اب افریقیوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کے لئے’’مذہب‘‘کو سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اور افریقہ میں وسیع پیمانے پر عیسائیت کی تبلیغ کر کے افریقیوں کے ساتھ روحانی اور نظریاتی رشتے استوار کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس وقت پورے براعظم افریقہ میں عیسائی مشنری پھیلے ہوئے ہیں ۔ اور عیسائیت کی تبلیغ پورے زور شور کے ساتھ جاری ہے۔اندریں حالات اس وقت افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک وسیع میدان موجود ہے۔ محترم حفیظ ملک صاحب نے اسلامیان پاکستان کی توجہ اسی طرف مبذول کرائی ہے اور اس ذیل میں جماعت اسلامی کو خصوصی دعوت دی ہے۔ کہ اس کے مبلغین افریقہ میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں۔ تو انہیں شاندار کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ ہماری آنکھیں تلاش کرتی رہیںکہ محترم حفیظ ملک کے مذکورہ مراسلہ میں اثنا عشری مبلغین کی تبلیغی خدمات کا بھی کہیں ضرور ذکر آئیگا۔لیکن ہمیں یہ دیکھ کر بے انتہا مایوسی ہوئی۔ کہ اس سلسلہ میں اثنا عشری مبلغین کا کہیں نام تک نہیں آیا۔
ہماری جماعت کے مایہ ناز مبلغ مولانا خواجہ محمد لطیف صاحب قبلہ انصاری گزشتہ دو سال سے افریقہ میں مقیم ہیں اور موصوف نے ’’رضا کار‘‘ میں متعدد اقساط میں افریقہ میں مذہب اثنا عشری کا مقام کے عنوان سے افریقہ کے خوجہ اثنا عشری شیعوں کے حالات پر بالتفصیل روشنی ڈالی ہے۔ محترم خواجہ صاحب کے ان مراسلات سے تو ہم نے یہ اندازہ لگایا تھا۔ کہ افریقہ میں شیعہ ہر لحاظ سے صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ پورے ملک کی صنعت و تجارت پر چھائے ہوئے ہیں۔ ہر مقام پر ان کی مساجد اور امام باڑے موجود ہیں۔ اور انہوں نے ہر جگہ تبلیغ دین کیلئے علماء کا انتظام کر رکھا ہے باوجود صاحبان ثروت ہونے کے ان کا دینی شغف قابل داد ہے۔ چنانچہ خود خواجہ صاحب نے یہ تحریر فرمایا تھا کہ افریقہ میں یہ مشہور ہے کہ ’’افریقہ میں اسلام تو عرب لائے تھے۔مگر اس ملک میں اسلام کو قائم رکھنے والے خوجہ اثنا عشری حضرات ہیں۔‘‘ افریقہ میں بسنے والے خوجہ اثنا عشری حضرات لاکھوں روپے سالانہ اپنے عبادت خانوں ‘مساجد اور امام باڑوں پر خرچ کرتے ہیں۔ پاک و بھارت سے بڑی بڑی تنخواہیں دے کر علماء کرام کو اپنے مذہبی مرکز میں تعینات کرتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت افریقہ کے تمام قابل ذکر شہروں میں شیعہ مبلغین موجود ہیں۔ لیکن جب ہم اپنے ان مبلغین کی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب ہم ان کا مقابلہ احمدی مبلغین سے کرتے ہیں۔ تو ندامت سے ہمارا سر جھک جاتاہے۔ تبلیغی میدان میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے… کیونکہ ان مبلغین کی پشت پر حکومتیں ہیں۔ جو لاکھوں اور کروڑوں روپے سے ان کی امداد کر رہی ہیں۔ لیکن احمدی مبلغین کی پشت پر نہ ہی کوئی حکومت ہے۔ اور نہ ہی کوئی سرمایہ دارطبقہ۔ ان کی پشت پر صرف ان کی جماعت ہے۔ جو انہیں معمولی تنخواہیں دیتی ہے۔ اور ایک محدود سرمایہ سے ان کی تبلیغی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتی ہے۔ان حالات میںاحمدی مبلغین کا عیسائی مبلغین سے مقابلہ کرنا اور اس مقابلہ میں ان سے بازی لے جانا یقینا خراج تحسین کا مستحق ہے۔ اور ہمارے مبلغین حضرات کے لئے تازیانہ عبرت ہے۔ جن کو افریقہ میں ایک سرمایہ دارطبقہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ اور تبلیغ دین کے سلسلہ میں انہی ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔
کاش ہمارے مبلغین حضرات بھی اپنے میں مشنری سپرٹ پیدا کرتے۔ یعنی آرام و آرائش کی زندگی کو خیر باد کہتے اور محنت و مشقت اپنا نصب العین بناتے۔ تو آج ان کا ذکر بھی تبلیغی مشن کے سلسلہ میں سرفہرست ہوتا۔ ہمیں اس تلخ نوائی سے معاف رکھنا چاہیئے ہمارے مبلغین آرام و آسائش کی زندگی گزارنے کے عادی بن چکے ہیں۔ کیونکہ ہمارے دینی مدارس کا ماحول ہی کچھ ایسا ہے۔ کہ انہیں آرام طلب بنا دیتا ہے۔ اور ان میں مشنری سپرٹ پیدا ہی نہیں ہوتی ہمارے چھوٹے دینی مدارس سے لے کر نجف اشرف کے دینی مدارس تک کی یہ حالت ہے کہ وہاں کوئی باقاعدگی اور نظام نہیں جب طلباء ایسے ماحول میں پروان چڑھیں گے۔ تو واضح ہے۔ کہ وہ آرام و آسائش کے عادی ہی بنیںگے ۔ لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ ایک مبلغ اور مشنری اس وقت تک بااحسن وجوہ خدمات انجام نہیں دے سکتا ۔ جب تک وہ محنت و مشقت کو اپنا نصب العین نہ بنائے۔
اس سلسلہ میں اپنے مبلغین حضرات کی خدمت میں کچھ عرض کرنا ہے تو گستاخی لیکن ہم یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کہ ہمارے مبلغین نے مذہب کی تبلیغ بس یہی سمجھ رکھی ہے۔ کہ اپنے مکان پر عزت اور آرام ‘ کم و بیش آسودگی کی زندگی بسر کریں۔ کبھی کبھی نماز پڑھا دیا کریں کوئی مسئلہ پوچھے تو فتویٰ دے دیںاور کہیںسے دعوت آئے تو مجلس پڑھ آئیں۔‘‘
حالانکہ مبلغین حضرات کو چاہیئے۔ کہ وہ اپنے مقام معزز کو چھوڑ کر اٹھیں۔ خدا کی دنیا اور خدا کے بندوں میں گھومیں پھریں۔ ان سے ملیں جلیں۔ افلاس۔ جہالت۔ تو ہم پرستی۔ بیماری اور ظلم و ناانصافی کے دردناک مناظر کو دیکھیں اور انہیں دور کرنے کے لئے اپناپسینہ بہائیں‘ لباس ‘ انداز گفتگو اور شانِ علم میں عزت نہیں‘ عزت تو خدمت میں ہے۔ لیکن خدمت سے ہمارے مبلغین کو واسطہ نہیں۔ حالانکہ مشنری اور خدمت لازم و ملزوم ہیں۔
کیا ہمارے ہادیان دین نے اشاعت دین اور اعلائے کلمتہ الحق کا فرض اس طرح انجام دیا تھا۔ جس طرح ہمارے آج کل کے علماء کرام اور مبلغین حضرات انجام دے رہے ہیں۔؟تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہادیان دین نے بے غرضی اور بے نفسی کے ساتھ لوگوں کی خدمت کی۔ غریبوں مزدوروں۔ مظلوموں۔ بیماروں محتاجوں اور بیکسوں کی داد رسی کی۔ ہر طرح کے خطروں اور آزمائشوں کو جھیل کر خدا کا پیغام سنایا اور ہر جگہ پہنچایا۔ اور اس فرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں جس قدر تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھانا پڑیں۔ اُن سب کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا ۔
ہمارے مبلغین حضرات کے لئے بھی یہی اسوۂ حسنہ قابل تقلید ہے لہذا ہم اپنے واجب التعظیم مبلغین کی خدمت میں یہ مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ تبلیغ دین‘ ایسی اہم اور مقدس خدمت انجام دینا چاہتے ہیں تو آرام و آسائش کی زندگی کو خیر باد کہہ دیں اور محنت و مشقّت کو اپنا نصب العین بنائیں۔ اس وقت افریقہ میں تبلیغ کا میدان بڑا وسیع ہے اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ افریقہ میں ہمیں اس سلسلہ میں ہر قسم کے وسائل بھی میسّر ہیں۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ افریقہ میں مقیم ہمارے مبلغین حضرات اپنے میں صیحح مشنری سپرٹ پیدا کریں اور یا علیؓ کہہ کراٹھ کھڑے ہوں۔ تو ہمیں یقین کامل ہے کہ ہمارے مبلغین دیکھتے ہی دیکھتے احمدی اور عیسائی مبلغین سے سبقت لے جائیں گے کیونکہ اسلام حقیقی کی نشرواشاعت کاجو بہترین ذریعہ ہمارے پاس ہے وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں ہے حسینؑ مظلوم کا درد بھرا قصہ ایسا ہے۔ جو اپنوں بیگانوں۔ گوروں ۔ کالوں۔ پڑھے لکھے جاہلوں سب کو اپنی طرف کھینچنے کی پوری پوری اہلیت رکھتا ہے اور یہی قصہ اسلام کی نشرواشاعت کا بہترین ذریعہ ہے۔ سیّدالشہداء حضرت امام حسینؑ نے تبلیغ مذہب اور حفاظت دین کے لئے جو بے بہا قربانیاں میدان کربلا میں پیش فرمائیں کیا اُن کا ذکر صرف اس لئے ہے کہ ہم چند آنسو بہا کر اپنے حسینی ہونے کا دعویٰ کرنے لگیں؟ یا اُن قربانیوں کا تذکرہ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم بھی اسوۂ حسینی کو اپنائیں اور سید الشہدا ء حضرت امام حسینؑ کے نقشِ قدم پر چل کر حفاظت دین اور تبلیغ اسلام کے لئے اپنا تن ‘ من ‘ دھن نچھاور کریں۔ اور اس راہ میں جو مصائب و تکالیف پیش آئیں انہیں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر کے اپنے سچا حسینی ہونے کا ثبوت فراہم کریں۔
اگر ہم آج بھی گوش حق نیوش سے سنیں تو ہمیں امام مظلومؑ کے استغاثہ کی وہ آواز صاف سنائی دے رہی ہے جو آج سے چودہ سو سال قبل حضور سید الشہداء ؑنے میدان کربلا میں بلند فرمائی تھی اور ہم آج بھی سید الشہداء ؑ کے اس استغاثہ کی آوازپر حسینیت یعنی اسلام حقیقی کی نشرواشاعت کر کے لبیک کہہ سکتے ہیں۔
آخر میں ہم مجاہد ملت مولاناخواجہ محمد لطیف صاحب قبلہ انصاری کی خدمت … میں یہ گذارش کریں گے کہ جہاں انہوں نے شیعیان افریقہ کی تنظیم کے سلسلہ میں اہم اور زریں خدمات انجام دی ہیں اب وہ افریقہ میں تبلیغی مہم کا بھی آغاز فرمائیں اور اس سلسلہ میں پوری سوچ بچار کے بعد ایک ایسا ٹھوس پروگرام مرتب فرمائیں کہ ہم بہت جلد حفیظ ملک نمائندہ نوائے وقت ہی کی زبان سے خوشخبری سنیں کہ افریقہ میں اثنا عشری مبلغین تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں نہایت ہی اہم اور شاندار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ‘‘ ۱۵
بھارت کے مسلم پریس میں چرچا
افریقہ کے اس معرکہ صلیب و ہلال کی گونج بھارت میں بھی سنائی دی چنانچہ بمبئی کے
مشہوراخبار ’’انقلاب‘‘ نے جولائی ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں حسب ذیل مقالہ افتتاحیہ لکھا:۔
’’…اگر مسلمانوں کو تبلیغ کی وہی سہولتیں حاصل ہوتیں جو عیسائیوں کو ہیں اور اگر مسلمان مبلّغوں کو اسی سطح پر تربیت دی جاتی جس سطح پر عیسائی مبلغوں کو دی جاتی ہے تو افریقہ میں مسلمانوں کی آبادی کہیں زیادہ ہوتی اور افریقہ مسلم براعظم کے نام سے یاد کیا جاتا بدقسمتی سے مولویوں اور ملاّؤںکی بہت بڑی اکثریت اس قابل نہیں کہ نئے ڈھنگ سے اسلام کی تبلیغ کر سکے شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نام نہاد مولویوں اور ملاّؤں کی وجہ سے اسلام کو فائدہ سے زیادہ نقصان پہونچ رہا ہے۔ اس وقت افریقہ میں تبلیغ کی خدمات صرف ایک احمدیہ مشن انجام دے رہا اگر مسلمانوں کے دوسرے تبلیغی مشن بھی افریقہ پہنچیں تو وہاں زیادہ تیزی کے ساتھ اسلام کی روشنی پھیلائی جا سکتی ہے۔
امریکہ کے ایک مشہور عیسائی مبلّغ ڈاکٹر بلی گراہم نے حال ہی میں افریقہ کا دورہ کرنے کے بعد ’’نیویارک ٹائمر‘‘کے ایک نمائندے کو ایک بیان دیا ہے جس کے دوران میں اُنہوں نے کہاکہ’’افریقہ میں اسلام اور عیسائیت کے مابین سخت مقابلہ ہو رہا ہے اور ایک دن ایسا آ سکتا ہے کہ جب سارا افریقہ حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائے۔‘‘
کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے ایک پادری نے لندن ریڈیو سے ایک تقریر نشر کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ’’ افریقہ میں اگر چار بت پرست عیسائی مذہب اختیار کرتے ہیں تو ان کے مقابلے میں سات بت پرست حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں…ایک بت پرست کو مسلمان بننے میں صرف چار منٹ لگتے ہیں۔ اس کے برعکس عیسائی بننے میںچار سال لگ جاتے ہیں۔‘‘ یہ ایک طرح سے عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کی سادگی کا اعتراف ہے اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ افریقہ کس طرف جا رہا ہے۔ ‘‘ ۱۶
فصل دوم
ڈاکٹر پروفیسر عبدالسلام صاحب کا یاد گار دورۂ بھارت
۷؍جنوری ۱۹۶۰ء کو بھارت کے شہربمبئی میں ۴۷ ویں آل انڈیا سائنس کانگرس منعقد ہو رہی تھی۔ مشہور عالم پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر محمد عبدالسلام
سے درخواست کی گئی کہ وہ اس بین الاقوامی کانگرس سے خطاب فرمائیں نیز بھارت کی یونیورسٹیوں کو بھی اپنے علمی لیکچروں سے نوازیں۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ درخواست قبول کر لی آپ لنڈن سے ۲۱؍دسمبر ۱۹۵۹ء کو بذریعہ ہوائی جہاز دہلی پہنچے اور اگلے روز ۲۲؍دسمبر کو دہلی یونیورسٹی میں لیکچر دیا جو ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔ اس موقع پر بھارت کے ممتاز سائنسدان ‘ ماہرین طبعیات‘ ممتاز سکالر اور دانشور موجود تھے۔ آپ کا تبّحرعلمی‘ خوداعتمادی اور موثّر انداز بیان اُن سے خراج تحسین وصول کئے بغیر نہ رہا۔موضوع خالص علمی تھا اور سائنسی سوالات کی بوچھاڑ تھی مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنے مدلّل ‘ برجستہ اور معلومات افروز جوابات سیسامعین کو مسحور کر دیا۔
۲؍جنوری ۱۹۶۰ء کو آپ بمبئی تشریف لے گئے اور ۷؍جنوری کو آپ نے آل انڈیا سائنس کانگرس میں معرکہ آرالیکچر دیا۔ کانفرنس میں تین ہزار مندوب شامل ہوئے جن میں ستّر سے زیادہ غیر ملکی نامور سائنسدان تھے۔ آپ کا انداز فاضلانہ اور طرزِادا بہت دلکش تھی۔ آپ نے حیرت انگیز ایمانی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا لیکچر قرآن مجید کی مبارک آیات پر ختم کیا۔ اسٹیج سے اترتے ہی آپ کو ایک جم غفیر نے گھیر لیا۔ حاضرین اس عظیم سائنسدان کی یہ مقبولیت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ بھارتی پریس نے بھی اگر کسی سائنسدان کا خصوصی ذکر کیا تو وہ آپ ہی تھے۔ چنانچہ اخبار ٹائمز آف انڈیا (بمبئی) نے ۸؍جنوری ۱۹۶۰ء کو صفحہ اوّل کے چوکھٹا میں نوٹ لکھا کہ ’’سائنسدان عوام میں غیر مقبول ہوتے ہیں مگر رات جب پروفیسر عبدالسلام صاحب تقریر کر کے سائنس کانگرس کے پنڈال سے اترے تو یہ بات غلط ثابت ہو گئی۔ سامعین نے آپ کی شخصیت سے گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور دیر تک آپ کو گھیرے رہے ہر شخص آٹو گراف لینا چاہتا تھا۔ آپ نے کسی کو مایوس نہیں کیا۔‘‘(ترجمہ) ۱۷
ڈاکٹر صاحب سائنس کانگرس میں شرکت کے بعد ۱۱؍جنوری کو پہلے مدراس پھر ۱۳؍جنوری کو مدراس سے حیدر آباد دکن پہنچے اور اسی روز ۳ سے ۵ بجے شام تک عثمانیہ یونیورسٹی سے پُراز علم خطاب فرمایا اور سوالوں کے جوابات دئے ۱۸ڈاکٹر صاحب نے وسطی و جنوبی ہند کے اس طویل سفر کے دوران مقامی احمدی جماعتوں سے مثالی رابطہ رکھا اور جماعتوں نے بھی آپ کے شایان شان اور پُرجوش استقبال میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی علاوہ ازیں آپ کے اعزاز میں تقاریب منعقد کیں جو تبلیغی‘ تربیتی اور تعلیمی اعتبار سے بہت مفید ثابت ہوئیں اور سلسلہ احمدیہ کی آواز ملک کے بااثر اور چوٹی کے علمی طبقوں تک پہنچی۔ داراسلطنت دہلی (۲۳؍دسمبر ۱۹۵۹ء) بمبئی (۷؍جنوری ۱۹۶۰ء) مدراس (۱۲؍جنوری ۱۹۶۰ء) اور حیدر آباد دکن (۱۳؍جنوری ۱۹۶۰ء) کی تقاریب کی مفصل رپورٹیں اخبار بدر قادیان میں بالترتیب مولانا محمد سلیم صاحب‘ مولوی سمیع اﷲ صاحب قیصر‘ؔ مولوی شریف احمد صاحب امینی ؔ اور محمد عبداﷲصاحب بی۔ایس۔سی۔ایل۔ایل۔بی حیدر آباد دکن کے قلم سے شائع شدہ ہیں۔ ۱۹ ان تقاریب میں احمدیہ مسلم مشن بمبئی کی شاندار تقریب سب سے کامیاب رہی جسمیں آپ نے ’’مغرب میں اسلام کا حال‘‘ کے عنوان پرایک پُر جوش لیکچر دیا نیز سوالوں پر جوابات دئے۔ اس تقریب کا پریس میں بہت چرچاہوا ۲۰ مثلاًروزنامہ ’’الجمعیت‘‘ دہلی نے ۱۳؍جنوری ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں ’’برطانیہ کے مسلمان ڈیلیگیٹ ڈاکٹر عبدالسلام کی تقریر‘‘ کے زیر عنوان لکھا:۔
’’سائنس کی ترقی اسلام کے اصولوں کے قطعاً خلاف نہیں۔ چنانچہ پندرھویں صدی عیسوی تک سائنسی غوروفکر پر مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ اور وہ دنیا پرچھائے رہے۔ جب انہوں نے سائنس کو چھوڑ دیا تو یورپ کی قوموں نے اسے اپنا لیا اور ترقی کرتے رہے جس کے نتیجہ میں وہ آج تک دنیا پر اور عالمی فکروخیال پرچھائے ہوئے ہیں۔ یہ باتیں امپیریل کالج لندن کے شعبہ ریاضیات کے صدر اور رائل سو سائٹی آف لندن کے پہلے پاکستانی مسلمان ممبر ڈاکٹر عبدالسلام نے جو ہندوستانی سائنس کانگریس کے اجلاس کے سلسلہ میں آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں احمدیہ مسلم مشن لائبریری کلب بیک روڈ میں ایک ضیافتی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہیں۔ جلسہ کی صدارت احمدیہ مسلم مشن کے انچارج جناب سمیع اﷲ صاحب نے کی۔ اسلام اور سائنس کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا کہ سائنس ایک زمانہ میں مسلمانوں کا فن تھا۔ انہوں نے یونانیوں سے بہت کچھ لیا تھا اور اس میں خود بھی بہت کچھ اضافہ کیا تھا۔ تُرکوں کے دور میں بھی مسلمان اپنے وقت کے بڑے سائنس دان اور ٹیکنالوجی ایٹ تھے جنکی مدد سے وہ اپنے سمندری بیڑے اور گولہ باری میں نت نئی جدتیں کیا کرتے تھے اور یورپ کی قومیں ان سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں۔ آج اس کے برعکس یورپ سائنس پر پوری طرح چھایا ہوا ہے اور مسلمان پیچھے ہیں۔
انہوں نے اپنے انگلستان اور پاکستان کے درس و تدریس کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے پورے وثوق کے ساتھ کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے طلباء کی صلاحیتوں اور انگلستان کے طلبہ کی صلاحیتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور بتایا کے اگر پوری قوم نے وقت کی اس ضرورت پر توجہ کی تو وہ دن دور نہیں کہ جب مسلمان بھی پہلے کی طرح سائنس کے میدان میں نہ صرف زمانہ سے پیچھے نہیں رہیں گے بلکہ باقی دنیا کی رہنمائی کے قابل ہو جائیں گے۔
باقی دنیا میں سائنس کی ترقی اور ہندوستان و پاکستان میں اس کی موجود ہ صورت حال کا تقابل کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ سائنس میں کام دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک نظریاتی اور دوسرے عملی۔ نظریاتی کام ایک مقررہ راستے پر ہوتے ہیں اور آدمی غوروفکر سے نئے خیالات پیش کرتا ہے جو خدا کی دین ہوتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا الہام ہے اور فرانس کے ایک مشہور سائنسدان کا قول ہے کہ ’’ قسمت کی دیوی انہیں لوگوں پر مہربان ہوتی ہے جو پہلے سے تیار ہوتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ خدا کی دین جب یہودی اور عیسائی سائنسدانوں کو نصیب ہوتی ہے توکوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ مسلمانوں کو نصیب نہ ہو انہوں نے بتایا کہ نظریاتی سائنس میں ہندوستان اور پاکستان میں اچھے سائنسدان موجود ہیں۔ البتہ عملی سائنس میں سوائے شری دی رامن اور کرشن کے کسی بھی سائنسدان نے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے۔ پھر بھی امید ہے کہ آئندہ بیس سال میں اس میدان میں ہمارے ملکوں کی حالت بہتر ہو جائے گی۔‘‘ ۲۱
شیخ امری عبیدی صاحب کا بطور میئرانتخاب
۱۵؍جنوری ۱۹۶۰ء کا دن مشرقی افریقہ کی احمدی جماعتوں کے اثر و نفوذ میں ایک نئے باب کے اضافہ کا موجب ثابت ہوا کیونکہ اس روز احمدیہ مشن دارالسلام ۲۲ کے مبلغ انچارج شیخ امری عبیدی صاحب
دارالسلام کے میئر منتخب ہوئے آپ پہلے افریقن تھے جو اس عہدہ پر فائز ہوئے۔ ۲۳ دارالسلام ہی وہ شہر تھا جہاں ایک زمانہ میں احمدیہ مشن کو شدید مخالفت سے دوچار ہونا پڑاچنانچہ جب شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے یہاں بیت الذکر بنانے کا فیصلہ کیا تو مقامی حکام کی طرف سے بار بار انتباہ کیا گیا اور بالخصوص دارالسلام کے میئر نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ احمدیوں کو زمین ہی نہ مل سکے تا یہاں اُن کے قدم ہی نہ جم سکیں۔ اس ناموافق ماحول میں خدا تعالیٰ نے نہایت با موقعہ زمین دی ۔ شیخ صاحب نے نہایت خاموشی اور سادگی سے چند مبشرین اور مخلصین جماعت کی موجودگی میں متضرّعانہ دعاؤں کے ساتھ بنیاد رکھی اور پھر سب خاموشی سے اپنی اپنی جگہوں پر چلے گئے۔ خدا تعالیٰ کا ایسا فضل شاملِ حال ہوا کہ خدا کا یہ گھر مع مشن ہاؤس کے پایہ تکمیل کو پہنچا اور اس کا شاندار افتتاح ہوا شیخ امری عبیدی صاحب اسی مشن ہاؤس میں مقیم تھے کہ آپ میئر منتخب ہوئے اور اسی میں میونسپلٹی کے کاغذات دستخطوں کے لئے آپ کی خدمت میں پیش ہونے شروع ہوئے اور پورے شہر سے مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ۲۴
صداقت احمدیت کا یہ ایک چمکتا ہوا نشان تھا جو سرزمین مشرقی افریقہ میں ظاہر ہوا جس سے حضرت مسیح موعود ؑکی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی کہ ’’کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے۔‘‘ ۲۵ سبحان اﷲ ! اس رباّنی وعدہ کے موافق افریقہ کی ’’چھوٹی‘‘ اقوام کے بڑے بننے کا عمل جاری ہو چکا تھا اور جن کو ادنیٰ خیال کیا جاتا تھا وہ عزت کے تخت پر بیٹھ رہے تھے اور جن کو روندا گیا وہ سرفراز ہو رہے تھے۔
نئے میئر کے انتخاب کے بعد دارالسلام میں افریقن نمائندوں کی ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ شیخ امری صاحب جونہی وہاں تشریف لے گئے افریقنوں کا ہزار ہا کا مجمع اُن کے احترام میں فرطِ عقیدت سے کھڑا ہو گیا اور اُن کو کندھوں پر اٹھالیا۔ اس انتخاب پر ہر طرف افریقن عوام میں خوشی کی زبردست لہر دوڑ گئی اور اسے ملک کی مکمل آزادی کا پیش خیمہ سمجھا جانے لگا۔ ۲۶ انگریزی اور سوا حیلی پریس نے اس خبر کو نمایاں رنگ میں شائع کیا۔ شیخ امری صاحب کا فوٹو دیا اور آپ کی تعلیمی ‘ تبلیغی اور علمی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا ان اخبارات میں دارالسلام کا ہفت روزہ سنڈے نیوز (SUNDAY NEWS)خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس اخبا رنے ۲۴؍جنوری ۱۹۶۰ء کے پرچہ میں شیخ امری عبیدی صاحب کے فوٹو کے ساتھ اس ہفتہ کی شخصیت کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ سپرد ِاشاعت کیا۔
’’ دارالسلام کا پہلا شہری :۔ شاعراورسیاست دان ‘ ماہرالسنہ اور مذہبی لیڈر۔ یہ ہیں چند خصوصیات جن کے حامل ہمارے دارالسلام کے پہلے افریقن میئر ہیں۔ہزور شپ شیخ کلوٹا امری عبیدی ان دو کونسلروں سے ایک ہیں جنہیں تھوڑا عرصہ ہوا کہ یاکوروارڈ سے بلا مقابلہ میونسپل کونسل کے لئے انتخاب کیا گیا تھا اور میونسپل کونسل کے ایک خاص اجلاس میں بہت سے ووٹوں کی کثرت سے میئر انتخاب کیا گیا۔ اس شہری عہدہ پر فائز ہونے والے یہ صاحب ایک باہمت انسان اور وسیع علم اور تجربے کے مالک ہیں۔
خوش مزاج انسان :۔ چھوٹے قد اور مضبوط جسم کے ساتھ وہ ایک خوش طبع انسان ہیں۔ جن کی زندگی کے تمام پہلو خواہ ذاتی ہوں یا مجلسی اور سیاسی ان کے مذہب اسلام سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں وہ ٹانگانیکا کے مغربی صوبہ کے ایک قصبہ اجیجی (UJIJI)میں ۱۹۲۴ء میں پیدا ہوئے اور اپنے دیہاتی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرتے رہے ۱۹۲۷ء میں وہ ٹبوراسکول میں داخل ہوئے اور ٹانگا نیکا افریقن یونین کے صدر (MR.NYRERE)کے ہم جماعت تھے۔ ۱۹۴۱ء میں وہ دارالسلام کے پوسٹل ٹریننگ سکول میں داخل ہوئے لیکن دو ہی سال کے بعد اسے ترک کر کے ٹبورا میں بطور مبلغ اسلام کام کرناشروع کر دیا۔ (مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے خاکسارکو بتایا ہے کہ محکمہ ڈاک خانہ جات دو سال کے عرصہ میں برادرم امری صاحب کو کام سکھاتا اور وظیفہ بھی دیتا رہا۔ اس عرصہ میں انہوں نے امری صاحب کو احمدیہ مشن میں اپنے ساتھ کام کرنے کو کہا۔ ان کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد مکرم شیخ صاحب نے محکمہ متعلقہ کو لکھا۔ انہوں نے بغیر کسی قسم کے خرچ کا مطالبہ کرنے کے انہیں فارغ کر دینے کا وعدہ کیا بشرطیکہ خود امری صاحب بھی اسکے خواہشمند ہوں۔ امری صاحب تو پہلے ہی تیار تھے۔ انہوں نے بھی لکھدیا اور اس طرح یہ دنیوی حکومت کی ملازمت سے دستبردار ہو کر آسمانی حکومت کے کارندے بن گئے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کی قربانی کا انہیں یہ صلہ دیا ہے کہ اب انہیں وہ اعزاز حاصل ہؤا جو سابقہ ملازمت کے دوران انہیں کبھی حاصل نہیں ہو سکتا تھا اور ان کے انتخاب پر بہت سے جاہ و دولت رکھنے والے رشک کر رہے ہیں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں اس سے بھی بلند عہدوں پر فائز کرے اور ان کی دنیوی ترقی ان کے لئے اور قوم و ملک اور اسلام و احمدیت کے لئے فخر کا باعث ہو۔ آمین ۔
اگلے دس سال میں انہوں نے ایک مشہور مسلمان عالم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سے مکمل طور پر دینی تربیت حاصل کی اور ۱۹۵۳ء میںوہ ربوہ مشنری ٹریننگ کالج۔ مغربی پاکستان میں داخل ہوئے۔ جہاں سے انہوں نے دینیات کی ڈگری حاصل کی ٹانگانیکا واپس آنے پر شیخ امری صاحب کو ۱۹۵۶ء میں احمدیہ مسلم مشن (دارالسلام)کا انچارج مقرر کیا گیا۔ اور وہ تمام مشرقی صوبہ اور ساحلی علاقہ کے نگران رہے۔ اس فرقہ میں ایشیائی بھی شامل ہیں۔ اور افریقن بھی۔
شاعر :۔ ۵۳ـ۔۱۹۵۰ء تک کے عرصہ میں اس بورڈکے اکیلے افریقن ممبر رہے جس نے قرآن مجید کا سواحیلی میں ترجمہ کیا ہے یہ ترجمہ جو ۱۹۵۳ء میں طبع ہوا معیاری سواحیلی زبان میں کیا گیا ہے۔ شیخ امری صاحب اردو ‘سواحیلی ‘ انگریزی اور عربی زبان بولتے ہیں سواحیلی میں یہ اٹھارہ سال کی عمر سے نظمیں لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ جن میں سیاست ۔ مذہب اور سوشل معاملات پرطبع آزمائی کی گئی ہے۔ ان کی نظموں کا مجموعہ ایک دیوان کی شکل میں چھپ چکا ہے۔ اور ایک دوسری تصنیف میں انہوں نے شاعری کیعام موضوع پر قلم کی روانی دکھائی ہے۔
مجلس شعرائے سواحیلی کے قابل ترین ممبران بورڈ میں سے ایک ہونے کے علاوہ وہ اس مجلس کے نائب صدر بھی ہیں اور ان کی نظمیں اور مضامین مقامی پریس میں باقاعدگی سے چھپتے رہتے ہیں۔
ان کا اہم ترین مشغلہ تعلیم ہے۔ افریقن نوجوانوں کو جوٹانگا نیکا کے مختلف حصّوں سے تعلق رکھتے ہیں تبلیغی تربیت دینے کے علاوہ وہ شام کو انہیں تعلیم دیتے ہیں۔ ان کلاسوں میں انگریزی عربی اور سواحیلی پڑھائی جاتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دارالسلام میں ایک سیکنڈری سکول کا ہونا لازمی امر ہے۔ اور امید رکھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں اس کی بنیاد رکھی جا سکے گی۔
ذمہ داری:۔ صبح پانچ بجے سے لے کر رات کے دس بجے تک کام کرنا ان کا معمول ہے درمیان میں دو تین گھنٹے کا وقفہ بھی ہوتا ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ بطور میئر کے ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ان کے مذہبی کام میں حارج نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا۔ ’’ایک مذہبی آدمی کا فرض ہے کہ وہ شہری اور سیاسی کاموں میں حصہ لے اور یہ بات خود قرآن مجید سے مستنبط ہوتی ہے۔ اسلام نے سیاسیات اور دوسرے قابل عمل اصولوں کی تعلیم دی ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ انہیں مذہبی لیڈر ہونے اور ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین کی مرکزی کمیٹی کا ممبر رہنے میں کوئی دشوار ی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ فرماتے ہیں کہ انسان خواہ کسی سیاسی یا سوشل تنظیم میں شامل ہو اسے اس میں بھی اپنے مذہب کی پیروی کرنی چاہیئے۔
دارالسلام کے کونسلروں نے ایک ایسے انسان جو اس کردار’’ ہمت اور قابلیت کا جامع ہے بطور میئر انتخاب کر کے ایک نہایت مستحسن کام کیا ہے۔۔‘‘
سنڈے نیوز
مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۶۰ء ۲۷
شیخ امری عبیدی صاحب کا
ایک ایمان افروز مکتوب
میئر منتخب ہونے کے بعد شیخ امری عبیدی صاحب نے اپنے ایک مفصل اور ایمان افروز مکتوب میں تحریر فرمایا:۔
’’ ۶۰؍۱؍۱۵ کو میں دارالسلام کا میئر منتخب
ہوا۔اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس انتخاب کی ہر طرف سے داد دی گئی۔ مسٹر نریرے جیسے قومی لیڈر نے قریباً بتیس ہزار کے ایک عظیم اجتماع میں میرے انتخاب کو سراہا اور ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین کے اراکین نے مجھے دلی مبارک باد پیش کی اور نہایت گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔ میرے میئر بننے کی وجہ سے مشن کو علاوہ دوسرے فوائد کے یہ فائدہ بھی حاصل ہؤا ہے کہ جو لوگ میری ملاقات کے لئے میرے پاس آتے ہیں۔ ان سے عموماً مشن کے دفتر میں ہی ملاقات کی جاتی ہے اور اس طرح تبلیغ کا ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے۔ لوگ احمدیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہ ہونے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ لوگوں نے اپنے بچوں کو اسلامی اور دینی تعلیم کی خاطر ہمارے سکول میں بھجوانا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ اس وقت تک آٹھ بچے داخل ہو چکے ہیں اور مزید درخواستیں وصول ہو رہی ہیں۔ مقامی اخبارات مجھ سے مذہبی امور کے متعلق پوچھتے ہیں اور مضامین لکھنے کے لئے کہتے ہیں۔ چنانچہ روزوں کے متعلق میرے دو مضامین اخبار میں شائع ہو چکے ہیں ۔
میرے میئر منتخب ہونے کی وجہ سے امریکہ۔ یونائیٹڈ کنگڈم‘ اسرائیل اور بعض دوسرے ممالک کے ممتاز نمائندگان بھی میری ملاقات کے لئے آتے رہے ہیں انہیں عموماً مشن کے دفتر میں اور کبھی کبھی میئر کے ملاقات کے کمرے میں ملتا ہوں اور اس ذریعہ سے ان تک تبلیغ اسلام پہنچانے کا نادر موقعہ ہاتھ آتا ہے۔
گو بعض لوگ اعتراضات بھی کرتے ہیں چنانچہ مس مرجوالی برہام نے جو یونائیٹڈ کنگڈم میں ایک یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں مجھے یہ کہا کہ یہ نامناسب ہے کہ ایک دینی ادارہ اور گروہ کا امیر میئر ہو کیونکہ اس میں تعصب کی جھلک ہو گی لیکن میرے اس جواب پر وہ خاموش ہو گئی کہ اگر یہ یوں ہی ہوتا تو کونسلرز کی اکثریت میرے حق میں ووٹ نہ دیتی۔
حالانکہ ان میں مسلمان‘ ہندو اور عیسائی سب موجود تھے۔ میں نے اس سے مذہب کے متعلق بھی بات چیت کی اور بتا یا کہ عیسائیت افریقہ میں ناکام ہو رہی ہے۔ میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ برطانیہ کی نوآبادیاتی پالیسی مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ اس ذریعہ سے وہ لوگوں کی مختلف جماعتوں میں انتشار اور افتراق پیدا کر رہے ہی۔ مس مرجوالی نے مجھ سے دریافت کیا کہ آیا میںنے قاہرہ میں تعلیم حاصل کی ہے (بعد میں ایک امریکن اخبار نویس نے بھی مجھ سے ایسا ہی سوال کیا) میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ سوال انہوں نے بعض سیاسی مصلحتوں کی بناء پر مجھ سے کیا تھا لیکن میں نے انہیں بتایا کہ میں نے پہلے تو مقامی طور پر تعلیم حاصل کی تھی اور بعد میں احمدیت کے مرکز پاکستان گیا۔ میں نے وہاں احمدیہ ادارہ جات سے تعلیم حاصل کی۔
میرے میئر منتخب ہونے سے احمدیت کے مخالفوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے عبدالکریم جی جیسے انسان بھی دوستی پر آمادہ نظر آ رہے ہیں۔ جو اپنے میئر ہونے کے زمانہ میں جماعت احمدیہ کو دارالسلام میں مسجد بنانے کی اجازت نہ دیئے جانے کی انتہائی کوشش میں مصروف رہے۔
۶۰؍۱؍۲۲ کو میں ٹیونس میں آل افریقن پیپلز کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے دارالسلام سے ٹیونس گیا۔ اس میٹنگ میں تمام افریقہ کے نمائندگان شامل تھے۔ میں نے ٹیونس میں مشن قائم کرنے کی بھی کوشش کی اور اس سلسلہ میں صدر حبیب بورقیہ کو ملنے کی کوشش کی۔ لیکن سیاسی مصروفیات کی وجہ سے مجھے افسوس ہے یہ موقع میسّر نہ آیا۔ البتہ مجھے یہ خوشی ہے کہ مجھے وہاں بھی تبلیغ کا موقعہ میسّر آیا۔ وہاں مجالس میں عموماً عام شربتوں کے علاوہ شراب کے جام بھی گردش میں تھے۔ اس پر میں نے ٹیونس کے بعض آدمیوں کو قرآن کریم کی ان آیات کی طرف توجہ منعطف کرائی جن میں شراب کی ممانعت کا ذکر ہے تو وہ بہت شرمندہ ہوئے اور حسن اتفاق سے اس کے بعد جس کانفرنس میں بھی میں نے شمولیت کی اس میں شراب نہ رکھی گئی۔
اس کے علاوہ بھی کئی مواقع ایسے میسّر آئے کہ میں اپنے فریضۂ تبلیغ کو صیحح طور پر
سرانجام دینے اور ایسے مواقع حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ چنانچہ برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے ایک نمائندہ نے مجھ سے ایک ٹیلی ویثرن انٹرویو میں دریافت کیا کہ کیا ایک مبلغ ہونے کے لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ٹانگانیکا میں برطانوی حکومت کے بعد اسلام زیادہ ترقی کرے گا۔ میں نے کہا ۔ برطانوی راج میں جب کہ نوآبادیاتی حکومتیں کھلے بندوں عیسائیت کی مدد کر رہی ہیں۔ اسلام میں ایک کے مقابل دس آدمی شامل ہو رہے ہیں۔ تو جب یہ حکومتیں اور ان کی واضح مدد ختم ہو جائیگی۔ تو یقینا اسلام انتہائی تیزی سے ترقی کرے گا۔
ٹیونس جاتے ہوئے راستے میں میں نے تین سیاسی لیڈروں کو سواحیلی ترجمہ قرآن کے نسخے پیش کئے ان میں دوٹانگانیکا کے تھے اور ایک زنجبارکا۔ مجھے راستے میں دیکھ کر بہت تعجب اور افسوس ہوا۔ کہ ٹانگانیکا اور زنجبار کے مسلمان دوست ایسا گوشت استعمال کر رہے ہیں جو صیحح طور پر ذبح نہیں کیا گیا۔ یہ وہی گوشت تھا جو پچیس یورپین ممالک میں اور ہوائی جہاز میں مہیا کیا جاتا تھا۔ جب میں نے ان کو اس امر کے متعلق بتلایا تو انہوں نے اس کی کچھ بھی پرواہ نہ کی۔ میں نے اس عرصہ میں سبزیوں پر ہی اکتفا کیا۔ ۲۸
ایک اور اعزاز :۔ جولائی کے آخر میں شیخ امری عبیدی کو ایک اور اعزاز ملا اور وہ یہ کہ میئر آف دارالسلام کے ممتاز عہدے پر فائز ہونے کے بعد آپ مغربی صوبے کے ضلع کیگاما کیطرف سے ٹانگا نیکا کونسل کے بلا مقابلہ رکن منتخب ہو گئے۔ ۲۹
جلسہ سالانہ ربوہ
( منعقدہ ۲۲۔۲۳۔۲۴ ؍جنوری ۱۹۶۰ء)
جلسہ سالانہ ۱۹۵۹ء سیدنا حضرت مصلح موعود کے فیصلہ کے مطابق ۲۲۔۲۳۔۲۴؍جنوری
۱۹۶۰ء کو ہونا قرار پایا تھا۔ چنانچہ انہی تاریخوں میں یہ عظیم الشان روحانی اجتماع سرزمین ربوہ میں منعقد ہوا جس میں ستّر ہزار عشّاقِ خلافت نے شرکت فرمائی۔ یہ جلسہ بھی سلسلہ احمدیہ کی روزافزوں ترقی اور وسعت کا آئینہ دار تھا اور حضرت مسیح موعود کے مندرجہ ذیل الہام کا عملی ظہور تھا ۔
’’ خدا تجھے بکّلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور اُن کے نفوس و اموال میں برکت دوں گااور ان میں کثرت بخشوں گا۔ ‘‘ ۳۰
حضرت مصلح موعودؒکا افتتاحی خطاب
سیدنا حضرت مصلح موعودؒ نے اپنے روح پرور افتتاحی خطاب میں دنیا پھر کے
احمدیوںکو خاص طور پر تلقین فرمائی کہ وہ اپنی نسلوں کے اندر دین حق اور احمدیت کی محبت پیدا کرتے چلے جائیں۔ یہاں تک کہ محمد رسول اﷲ صلّی اﷲعلیہ و آلہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر لہرانے لگے۔ حضور کا یہ خطاب قریباً پون گھنٹہ تک جاری رہا جسے نہایت توجہ‘ گہرے انہماک اور کمال درجہ کے اشتیاق اور انہماک کے ساتھ سناگیا۔ ۳۱
پہلے دن کی بقیہ کارروائی
حضور کی تقریر کے بعد مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ سابق صوبہ پنجاب کی زیر صدارت
بالترتیب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور مولانا قاضی محمد نذیر صاحب نے فاضلانہ تقاریر فرمائیں ازاں بعد خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمسؔنے خطبہ جمعہ دیا بعد ازاں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی صدارت میں میاں عطاء اﷲ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت راوالپنڈی اور مولوی عبدالمالک خاں صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کراچی نے تقاریر فرمائیں۔
دوسرا دن
دوسرے دن کا اجلاس حضرت چوہدری محمد ظفر اﷲ خاں صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ‘
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمسؔ نے خطاب فرمایا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی سیرت طیبہ سے متعلق تھی اور بہت ایمان افروز واقعات پر مشتمل تھی آپ کی پُر اثر اور پُر شکوہ آواز نے دلوں کو جِلا اور روحوں کو ایک نئی زندگی بخشی۔ آپ کی یہ تقریر بہت مقبول ہوئی اور جلدہی پہلے الفضل میں پھر کتابی شکل میں شائع کر دی گئی۔ اجلاس دوم میں شیخ بشیر احمد صاحب جج ہائیکورٹ لاہور صدر تھے جس میں پہلے خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری صاحب نے ایک پُر مغز اور مبسوط تقریر فرمائی پھر حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے سورہ فاتحہ کی نہایت لطیف اور پُر معارف تفسیر فرمائی۔ جو قرآنی حقائق و دقائق سے لبریز تھی۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مصلح موعود ؒکی شفایابی کے لئے نہایت دردانگیز انداز میں تحریک دعا کی آپ کی آواز میں ایسا سوز اور اثر تھا کہ ایک ایک فقرہ احباب کے دلوں میں اُترتا گیا۔ آپ کی درخواست پر حضرت مولانا راجیکی صاحب نے اجتماعی دعا کرائی یہ دعا اس درد و کرب سے مانگی گئی کہ جلسہ گاہ میں آہ و بُکا اور گریہ و زاری سے ایک حشر بپا ہو گیا ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل تڑپ رہا تھا۔ سوز و گداز کا یہ عالم بیس منٹ تک جاری رہا جس کے بعد حضرت مولانا صاحب نے بلند آواز سے آمین کہہ کر دعا کو ختم کیا اور صاحب صدر نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اجلاس کے اختتام کا اعلان فرمایا۔ ۳۲
تیسرا دن
جلسہ کے تیسرے روز کا پہلا اجلاس بھی شیخ بشیر احمد صاحب کی زیر صدارت ہوا جس میں ڈاکٹر چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر ایم اے پی ایچ ڈی
امریکہ‘ حضرت چوہدری محمد ظفر اﷲ خاں صاحب نائب صدر عالمی عدالت انصاف ہیگ اور مولانا ابوالعطاء صاحب نے فکر انگیز تقاریر فرمائیں۔
نماز ظہر و عصر مولانا جلال الدین صاحب شمسؔ نے جمع کر کے پڑھائیں۔ حضرت مصلح موعود کی متوقع آمد اور تقریر کے پیش نظر احباب کا اشتیاق عروج پر تھا۔ جلسہ گاہ وقت سے بہت پہلے بھر گئی اور ہر طرف ہجوم خلائق کا منظر دکھائی دیتا تھا اور تل دھرنے کو جگہ نہ رہی امام عالی مقام کی تشریف آوری سے قبل منتظمین جلسہ نے حضور کی جلسہ سالانہ ۱۹۵۳ء کے موقع کی پُر معارف تقریر کے ابتدائی حصہ کا ریکارڈ سنانے کا انتظام کیا جس سے پورے مجمع پر رقّت طاری ہو گئی۔
حضور سوا دو بجے کے قریب بذریعہ کار جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے اور جلسہ گاہ پُر جوش نعروں سے گونج اٹھا۔
حضرت مصلح موعودؒ کا بصیرت افروز اختتامی خطاب
حضور کے کرسی پر تشریف فرما ہونے
کے بعد حضرت ماسٹر فقیر اﷲ صاحب نے تلاوت فرمائی پھر جناب ثاقبؔ صاحب زیروی مدیر لاہور نے اپنی ایک دعائیہ نظم نہایت پُردرد لب و لہجہ میں پڑھ کر سنائی یہ نظم دعاؤں کی مزید تحریک کا موثّر ذریعہ بنی۔
تلاوت و نظم کے بعد حضور انور نے ایک نہایت بصیرت افروز خطاب فرمایا جو پون گھنٹہ تک جاری رہا۔ یہ تقریر ایک خاص رنگ کی حامل تھی اور جوش‘ ولولہ اور غیرتِ دینی کے جذبات سے پُر تھی جس کا خلاصہ حضور کے مبارک الفاظ میں یہ تھا کہ
’’ اﷲ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اس غرض کے لئے قائم کیا ہے کہ دنیا میں (دین حق) اور احمدیت کی اشاعت کی جائے۔ یہی ہمارے تمام کاموں کا نقطہ مرکزی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کو ہمیشہ جاری رکھیں یہانتک کہ دنیا کا کوئی ملک اور کوئی گوشہ ایسا نہ ہو جہاں (دین حق) اور محمد رسول اﷲ کی آواز نہ پہنچ جائے۔‘‘
اس ضمن میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان اور جملہ احباب جماعت سے عہد لیا کہ وہ قیامت تک خدمت دین کا سلسلہ جاری رکھیں گے چنانچہ فرمایا
ُ میں اس موقع پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام اولادکو خواہ وہ آپ کے بیٹے ہیں یا پوتے اور نواسے یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میرے سامنے اﷲ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو خدمتِ دین میں لگائے رکھیں گے اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی احمدیت کی تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے رہیں گے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سچے دل سے ایمان لانے والے تمام احمدی بھی خواہ کسی جگہ کے رہنے والے ہوں آپ کے روحانی بیٹے ہیں۔ اس لئے جماعت احمدیہ کے تما م دوستوں کو چاہیئے کہ وہ بھی اس عہدمیں شامل ہوں۔
مَیں اس وقت عہد کے الفاظ دہراؤں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے تمام افراد اور آپؑ کے روحانی بیٹے کھڑے ہو جائیں اور اس عہد کو دہرائیں۔اشھد ان لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ ہم اﷲتعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اِقرار کرتے ہیں کہ ہم (دین حق) اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسولؐ کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک (دین حق) کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اُونچا رکھیں گے۔
ہم اس بات کااقرار کرتے ہیں کہ ہم نظامِ خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافتِ احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ (دین حق) کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے۔ اے خدا تُو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔الھم آمین ۔الھم آمین۔الھم آمین۔
یہ اقرار جو اس وقت آپ لوگوں نے کیا ہے اگر اِس کے مطابق قیامت تک حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی جسمانی اور روحانی اولاد اشاعتِ دین کے کام میں مشغول رہے تو یقیناً احمدیت تمام دنیا پرچھا جائے گی اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے گا‘‘۔نیز آئیندہ خلفاء کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا
’’آئندہ خلفاء کو بھی وصیّت کرتا ہوں کہ جب تک دُنیا کے چپّہ چپّہ میں دین حق نہ پھیل جائے۔ اور دنیا کے تمام لوگ قبول نہ کرلیں۔ اُس وقت تک دین حق کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیّت ہے کہ وہ قیامت تک دین حق کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے چلے جائیں۔ کہ انہوں نے (دین حق)کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا۔ اور مرتے دم تک دین حق کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے۔
اسی مقصد کو پورا کرنے اور (دین حق ) کے نام کو پھیلانے کے لئے میں نے تحریک جدید جاری کی ہے ۔ جو پچیس سال سے جاری ہے۔ اور جس کے ماتحت آج دُنیا بھرکے تمام اہم ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مشن قائم ہیں۔ اور لاکھوں لوگوں تک خدا اور اس کے رسول کا نام پہنچایا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغی مراکز کو وسیع کرنے اور مبلغین کا جال پھیلانے میں ہمیں خدا تعالیٰ نیبڑی بھاری کامیابی عطا کی ہے مگر ابھی اس میں مزید ترقی کی بڑی گنجائش ہے۔ اور ابھی ہمیں ہزاروں واقفین زندگی کی ضرورت ہے جو دنیا کے چپّہ چپّہ پر دین حق کی اشاعت کریں۔ ہماری جماعت اب خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں ساٹھ ہزار واقفین زندگی کا میّسر آنا کوئی مشکل امر نہیں۔ اور اگر ایک آدمی سو احمدی بنائے تو ساٹھ ہزار واقفین زندگی کے ذریعہ سات لاکھ احمدی ہو سکتا ہے۔ پھر سات لاکھ میں سے چار پانچ لاکھ مبلّغ بن سکتا ہے۔ اور چار پانچ لاکھ مربی چار پانچ کروڑ احمدی بنا سکتا ہے اور چار پانچ کروڑ احمدی اگر زور لگائے تو وہ اپنی تعداد کو چار پانچ ارب تک پہنچا سکتا ہے جو ساری دنیا کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
ازاں بعد حضرت مسیح موعودؑ کے الہام ’’ ہے کرشن ردّر گوپال تیری مہماگیتا میں لکھی گئی ہے‘‘ ۳۳کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہندوستان میں اشاعت دین کو وسیع کرنا ہمارے لئے ضروری ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ہندوستان میں دین حق کی تبلیغ پر زور دیں۔ اس ملک کی ترقی اور عظمت کے قیام کے لئے مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک کوشش کی ہے اور ہندوستان کے چپّہ چپّہ پر اُن محبان وطن کی لاشیں مدفون ہیں جنہوں نے اس کی ترقی کے لئے اپنی عمریں خرچ کر دیں تھیںپس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دین حق کے خوبصورت اصول پیش کر کے ہندؤوں اور سکھوں کو بھی اپنا جز و بنانے کی کوشش کریں جب تک ہم ہندؤوں میں تبلیغ نہیں کریں گے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کرشن ثابت نہیں ہو سکتے۔
اپریل ۱۹۰۲ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ
’’دو دفعہ ہم نے رویاء میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جُھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں۔‘‘ ۳۴
حضرت مصلح موعود ؒنے یہ رویا ء بیان کرنے کے بعد اپنے روح پرور خطاب کے آخر میں فرمایا
’’ اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہندوؤں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت قائم ہو جائے گی اور سارا ہندوستان آپ کے کرشن ہونے کے لحاظ سے اور ساری دنیا محمد رسول اﷲصلّی اﷲ علیہ وسلم کا بروز ہونے کے لحاظ سے آپ کے تابع ہو جائے گی۔… اسی غرض کے لئے میں نے جماعت میں تحریک جدید کے علاوہ وقف جدید کی تحریک بھی جاری کی ہوئی ہے تاکہ سارے پاکستان میں ایسے معلّمیں کا جال بچھ جائے جو لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں۔ اور انہیں دین حق اور احمدیت کی تعلیم سے روشناس کریں مگر یہ کام صحیح طور پر تبھی ہو سکتا ہے جب کم از کم ایک ہزار معلّم ہوں اور ان کے لئے اخراجات کا اندازہ بارہ لاکھ روپے ہے۔ بارہ لاکھ روپیہ کی رقم مہیا کرنا جماعت کے لئے کوئی مشکل امر نہیں۔ کیونکہ اگر دو لاکھ افراد جماعت چھ روپے سالانہ فی کس کے لحاظ سے چندہ دیں بارہ لاکھ بن جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہماری جماعت تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔
پچھلے سال جماعت کی طرف سے صرف ستّر ہزار روّپے کے وعدے ہوئے تھے اور اس سال بھی اتنے ہی وعدے ہوئے جس سے صرف نوے معلّمیںرکھے جا سکے۔ اس سال پچھلے سال سے زیادہ اچھا کام ہؤا ہے۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں بھی کام شروع ہو گیا ہے اور وہاں بھی ایک انسپکٹر اور چار معلّم مقرر کئے جا چکے ہیں۔ پچھلے سال ان معلّمیںکی تعلیم و تربیت اور خدمتِ خلق کا جذبہ دیکھ کر پانچ سو نئے افراد نے بیعت کی تھی اس سال چھ سو اٹھائیس افراد نے بیعت کی ہے۔
پس میں احباب جماعت کو تاکید کرتا ہوںکہ وہ اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی طرف پوری توجہ کریں اور اس کو کامیاب بنانے میں پورا زور لگائیں اور کوشش کریں کہ کوئی فردِ جماعت ایسا نہ رہے جو صاحب استطاعت ہوتے ہوئے اس چندہ میں حصہ نہ لے۔
یہ امر یاد رکھو کہ قوم کی عمر انسان کی عمر سے بہت زیادہ ہوتی ہے پس آپ لوگ ایسی کوشش کریں کہ آپ کے زمانہ میں تمام دنیا میں احمدیت پھیل جائے۔ابھی تو ایک نسل بھی نہیں گذری کہ ہندوستان میں ہمارے سلسلہ کے شدید ترین مخالف بھی احمدیت کی خوبیوں کے قائل ہوتے جا رہے ہیںاور میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ادنیٰ خادم ہوں میری تفسیر کی وہ بہت تعریف کرتے ہیں۔ یہ انقلاب جو پیدا ہو رہا ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دعاؤں کی وجہ سے ہؤا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا کی تھی کہ ۳۵
ع
پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار
اوراﷲ تعالیٰ نے احمدیت کیطرف لوگوں کی توجہ پھیرنی شروع کر دی اورہمیں یقین ہے کہ اس دعا کے مطابق ایک دن ساری دنیا احمدیت میں داخل ہو جائے گی۔ دنیا کی آبادی اس وقت دو ارب سے زیادہ ہے اور اگلے بیس پچیس سال میں وہ تین ارب ہو جائیگی اور پھر تعجب نہیں کہ کئی سال میں وہ اس سے بھی زیادہ ہو جائے۔ مگر دنیا کی آبادی خواہ کتنی بڑھ جائے۔
اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ احمدیت کو ترقی دے گا اور اسے بڑھائے گا۔ یہاں تک کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی۔ بشرطیکہ جماعت اپنی تبلیغی سرگرمیاں ہندوستان میں بھی اور یورپ میں بھی جاری رکھے اور وکالتِ تبشیر اور اصلاح و ارشاد کے محکموں کے ساتھ پورا تعاون کرے۔‘‘ ۳۶اس ولولہ انگیز خطاب کے بعد حضور نے ایک
پُر سوز دعا کرائی جس کے بعد احباب جماعت تک یہ خصوصی پیغام پہنچانے کی ہدایت فرمائی کہ
’’ دوستوں کو چاہیئے کہ وہ کثرت کے ساتھ الفضل کا مطالعہ کیا کریں۔‘‘ ۳۷
جلسہ سے متعلق ایک مخلص
احمدی کے تاثرات
دعاؤں کے اس تاریخی جلسہ کی نسبت لاہور کے ایک مخلص احمدی جناب عبدالجلیل صاحب عشرتؔ (بی اے آنرز ) (برادر مولانا عبدالمجید سالک مرحوم) نے حسب ذیل تاثرات قلمبند کئے۔
’’ جلسہ کے شروع ہونے سے ایک دن پہلے جب ہم ربوہ پہنچے تو ایک ہلکا سا احساس ہؤا کہ شاید جلسہ کی تاریخوں کے التواء کی وجہ سے اس دفعہ شامل ہونے والوں کی تعداد کم ہو لیکن جلسہ کے پہلے اور پھر دوسرے دن دیکھتے ہی دیکھتے خدا کے نیک بندے جوق در جوق گذشتہ سالوں کی طرح آ پہنچے۔ اللہم زدفزد
۲۲؍جنوری کو جلسہ کے افتتاح سے پہلے ہزاروں احباب اپنے محبوب آقا کی زیارت کے لئے چشم براہ تھے حضور تشریف لائے لیکن حضور کی نقاہت اور ضعف کو دیکھ کر عشاق کی آنکھیں پُر نم اور دل غمزدہ ہو گئے حضور نے زندگی بھر میں پہلی دفعہ لکھی ہوئی افتتاحی تقریر پڑھی حضور کی آواز میں رقت تھی۔
حاضرین جلسہ بھی زارو قطار رو رہے تھے حضور کی تقریر کا موضوع وہی تھا جو ہمیشہ حضور کی زندگی کا نصب العین رہا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے نام اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کو دنیا کے کونے کونے میں جلد از جلد پہنچانے کا عزم بالخیر۔ اﷲ اﷲجسمانی کمزوری کایہ حال اور عزم اتنا بلند !! دوسرے دن حضور طبّی مشورہ کے مطابق جلسہ میں تشریف نہ لائے۔ یہ بھی حضور کی زندگی میں پہلا موقعہ تھا۔ عشاق تڑپ رہے تھے برادرم ثاقبؔزیروی نے حضور کی صحت کے متعلق اشعار سوز میں ڈوبی ہوئی آواز میں سنائے انہوں نے تڑپا دیا۔ پھر خداجزائے خیر دے مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب جج ہائی کورٹ کو کہ انہوں نے نہایت مبارک ساعت میں اور نہایت مؤثر الفاظ میں حضور کی صحت کے لئے اجتماعی دعا کرنے کے لئے تحریک کی ۔ جب حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کی اقتداہامیں دعا ہوئی۔ تو ہر آنکھ پُر نم تھی۔ اور دعا کرنے والوں کی آہ بکا کا یہ عالم تھا کہ دلدوز چیخوں کی آوازیں دور دور تک جاتی تھیں۔
تیسرے دن کے اجلاس اول میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ نے پہلی دفعہ تقریر فرمائی موضوع ’’ ذکر حبیب‘‘ تھا۔ تحریر کے تو آپ بادشاہ ہیں۔ لیکن تقریر نے بھی وہ لطف دیا۔ کہ لفظ لفظ پر حاضرین سر دھنتے تھے۔ آپ نے ایسے دلکش اور پُر کیف واقعات بیان کئے کہ دل کہتا تھا۔ کہ واقعی ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے۔
تیسرے دن حضرت اقدس وقت پر تشریف لائے۔ ضعف و نقاہت کا وہی عالم تھا۔ حاضرین کے دل بھرے ہوئے تھے تقریر پھر لکھی ہوئی تھی۔ موضوع وہی تھا کہ خدا کے دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤ رسول کریم صلے اﷲ علیہ وسلم کے دین کا جھنڈا ساری دنیا میں بلند کرو۔ تقریر کے بعد مختصر لیکن پرُدرد دعا ہوئی۔
میرا احساس ہے کہ حضور کی صحت کی کمزوری بہت تشویش کا موجب ہے۔ جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائے اور اس سے حضور کی صحت عاجل و کامل کے لئے انتہائی درد و الحاح سے دعائیں کرے اور کرتا چلا جائے یہاں تک کہ
ع
اجابت از در حق بہر استقبال می آید
اس وقت کہ حضور بیمار ہیں۔ حضور کی بھر پور زندگی کے بڑے بڑے واقعات یاد آتے ہیں تو دل غم سے بھر جاتا ہے ۔حضور کی عمر ۱۹ سال کی تھی جب آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عہد کیا تھا۔ کہ اگر ساری جماعت اور سب لوگ حضور کو چھوڑ جائیں تب بھی میں وفاداری کے ساتھ حضور کے مشن کی اشاعت کرتاچلا جاؤنگاپھر ۲۵ سال کی عمر میں خلافت کا بارگراں آپ کے کندھوں پر رکھا گیا۔ جماعت کے اکابر جماعت اور مرکز سے علیحدہ ہو گئے خزانے میں چند آنے رہ گئے لیکن اس اولوالعزم انسان کو ذرہ بھر گھبراہٹ نہ ہوئی۔ بڑے بڑے فتنے اٹھے۔ لیکن اس خدا کے شیر کے پائے استقلال متزلزل نہ ہوئے۔ جلسوں میں مسلسل چھ چھ گھنٹے بڑے بڑے علمی مسائل پر وہ وہ نکات بیان کئے کہ اپنے تو خیر۔ غیر بھی عش عش کر اٹھے۔ قرآن کریم کے علوم کے دریا بہادئے۔ تفسیریں لکھیں درس دیئے۔ جماعت کی تربیت کی۔ نگرانی کی۔ ہزارہا تقرریں اور خطبے دئے۔ کتابیں لکھیں۔ شعر لکھے۔ ساری دنیا میں تبلیغ (دین حق) کیلئے مبلغ بھیجے۔ جماعت کا مرکزی نظام قائم کیا۔ سکول کالج اور کئی علمی ادارے قائم کئے سیاست کے میدان میں بھی مسلمانانِ ہند کی رہنمائی فرمائی۔ کشمیر کی آزادی کے جہاد میں حصہ لیا۔ ۱۹۴۷ء کے قتل و غارت کے ایام میں قادیان سے جماعت کے ہزاروں افراد کو صحیح و سالم پاکستان پہنچایا۔ ربوہ شہر دیکھتے دیکھتے آباد کرا دیا۔ پھر دین کی خاطر اپنا قیمتی خون بھی دیا۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ حضور کو اپنی جماعت کے تمام افراد کے ساتھ ایک دلی لگاؤ اور ذاتی تعلق ہے۔ ہر ایک کے خاندان نجی حالات اور ذاتی معاملات کو جانتے ہیں۔ اور ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے حضور کو سب سے زیادہ تعلق اور محبت ہے ۔ ہم میں سے کون ہے۔ جس پر حضور کے ذاتی احسان اور نوازشات نہیں۔ ایسے قیمتی وجود کو آج بیمار دیکھ کر کون ہے جس کا دل بھر نہ آئے۔ آج ہم اس مقدس وجود کے گوناگوں فیوض سے محروم ہیں اور یہ ان وجودوں میں سے ایک وجود ہے۔ جو صدیوں کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔
ہمارا فرض ہے کہ دعائیں کریں۔ صدقے دیں اور اپنی سجدہ گاہوں کو رو رو کر تر کر دیں تاکہ خدا اپنے خاص اور بے پایاں رحم سے حضور کو دوبارہ صحت دے اور لمبی زندگی عطا کرے۔ رب اشف امامنا انت الشافی۔ آمین ‘‘ ۳۸
فصل سوم
کلکتہ عالمی کانفرنس میں
احمدی نمائندہ کی پُر اثر تقریر
کلکتہ میں مجلس ادیان عالم کے ز یر اہتمام ۲؍فروری سے ۹؍فروری۱۹۶۰ء تک ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس
میں مذہبی نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب کے نقطہ نگاہ سے مسئلہ قیام امن پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر مولوی بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ نے نہایت موثر لیکچر دیا۔
آپ نے بتایا کہ تمام گذشتہ مذاہب علاقائی تھے۔ عصر جدید کا سب سے اہم تقاضا عالمگیر امن کا قیام ہے اور اسے وہی مذہب پورا کر سکتاہے جو عالمگیر تعلیم پیش کرتا ہو اور جس کے اندر تمام قوموں کو یکجا کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ اُس کی ہمہ گیر تعلیم تمام شعبہ ہائے حیات پر حاوی ہے اور بالخصوص صلح و امن کے مسئلہ پر دوسروں کے مقابل پر اس کی تعلیم ممتاز ہے۔ آپ نے آیت للا نفرق بین احد منھم و نخن لہ مسلمون(البقرہ:۱۳۷)کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن مسلمانوں کو تاکیدی حکم فرماتا ہے کہ تمام نبیوں پر ایمان لاؤ۔ قرآن کے نزدیک ہر ایک قوم و ملک میں نبی گذرے ہیں اور سب کے سب واجب الاحترام ہیں یہ وہ نسخہء کیمیا ہے جس کے صحیح استعمال سے قوموں کے درمیان پیدا شدہ منافرت دور ہو سکتی ہے۔ لیکچر کے دوران جب مولانا صاحب نے وید اور گیتا کی شُرتیاں پڑھنا شروع کیں تو ہندوؤں پر وجد کی ایک کیفیت طاری ہو گئی۔ اکثر دوست ان شلوکوں کو دھیمی دھیمی آواز سے دہراتے جاتے تھے۔ بہت تھے جو اس لئے جُھوم رہے تھے کہ ابھی ان میں جو قرآنی آیات کو مجازی لَے سے پڑھ رہا تھا اب وہ آریہ ورت کے آکاش اُپدیشوں کو ہندی سُر میں سُنا رہا ہے۔ سامعین کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو زبان سے عدم واقفیت کے سبب خاموش تھا۔ لیکن جب پروفیسر چوپٹرہ صاحب
ایم ۔اے۔پی۔ ایچ ۔ڈی نے آپ کی تقریر کا انگریزی ترجمہ پیش کیا تو خاموش طبقہ بھی اُس وجدانی کیفیت سے حصّہ پا کر دادِسخن دینے لگا۔
اس اثر انگیز تقریر کے بعد لوگوں کے دلوں میں احمدیہ لڑیچر پڑھنے کا غیر معمولی اشتیاق پیدا ہو گیا۔ احمدی نوجوانوں نے اس موقعہ پر نہ صرف چودہ قسم کے انگریزی ٹریکٹ ڈیڑھ ہزار کی تعدا د میں تقسیم کیئے بلکہ اردو‘ ہندی‘ بنگلہ اور گورمکھی زبانوں کا لڑیچر بھی تقسیم کیا۔اسٹیج پر نمائندگانِ مذاہب کے علاوہ مدبّرین‘ مفکّرین و اکابرِ شہر تشریف فرما تھے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں دوسروں کا گذر محال تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ کا خاص فضل و کرم یہ ہوا کہ مستعداحمدی نوجوانوں نے اُسی حلقہ خاص میں پہنچ کر منا سب ٹریکٹ تقسیم کئے‘ جہاں دوسرے فرقوں کی اکثر کتابوں کی تقسیم کو حکماً روک دیا گیا مگر خدّام احمدیت کے لئے کوئی امتناعی حکم صادر نہ ہوا ممالکِ غیر کے نمائیندگان اور ہندوپاک کے مشاہیر کو ضخیم اور قیمتی کتب پیش کی گئیں۔
کانفرنس میں جناب محمد نور عالم صاحب ایم اے نے جماعت احمدیہ کلکتہ کی طرف سے پریس رپورٹر کے فرائض انجام دیئے۔ آپ کی مطبوعہ رپورٹ کے آخر میں لکھا ہے کہ۔
ٓٓ’’جلسہ کے اختتام پر مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری کو تاہ عملی و تغافل کیشی کو نظر انداز کر کے اور ہماری شکست سامانی پر ترس کھاتے ہوئے اس عالمی کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام تو غیروں کے سپرد کیا اور اس کے مقاصد کو ہمارے حق میں کر دیا ۔ اور اس طرح یہ کانفرنس کافی حد تک اسلام و احمدیت کی تبلیغ کا ذریعہ بنی رہی‘ ‘۔ ۳۹
سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر
’’ریاست‘‘ دہلی ربوہ میں
اس سال فروری کے تیسرے ہفتہ میں دہلی کے
مشہور ہفت روزہ ’’ ریاست‘‘ کے نامور ایڈیٹر سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون پاکستان تشریف لائے۔
۲۱؍ فروری کو دہلی سے لاہور پہنچے اور چند روزہ قیام کراچی کے بعد ۲؍مارچ ۱۹۶۰ء کی شام کو بذریعہ چناب ایکسپریس وارد ربوہ ہوئے اور تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس میں مقیم ہوئے۔اگلے روز صبح کو آپ نے سیدنا حضرت مصلح موعود سے شرف ملاقات حاصل کیا اور پھرحضرت مرزا بشیر احمد صاحب ‘ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب‘حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار ؔشاہجہانپوری اور حضرت ڈاکٹر حشمت اﷲ خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بعد ازاں فضل عمر ہسپتال‘ اخبار الفضل اور تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے مرکزی دفاتر دیکھنے کے علاوہ جامعہ احمدیہ‘ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج میں بھی گئے۔ کالج میں آپ نے ایک مختصر سی تقریربھی کی۔ سوا تین بجے کے قریب آپ بذریعہ موٹر کار اپنے آبائی وطن حافظ آباد (ضلع گوجرانوالہ) کی طرف روانہ ہو گئے۔ ۴۰
سردار دیوان سنگھ صاحب مفتونؔ نے ہندوستان پہنچتے ہی اپنے اس اہم سفر کے دلچسپ حالات قلمبند کر کے ایڈیٹر صاحب اخبار ’’بدر‘‘ قادیان کو ارسال فرما دیئے۔ جو درجِ ذیل کئے جاتے ہیں ۔:
’’احمدی جماعت کے مرکز ربوہ میں چند گھنٹے‘‘
’’جب ’’ریاست‘‘ جاری ہوا تو اس وقت میں نہ تو احمدی جماعت کے کسی شخص سے واقف تھا اور نہ اس جماعت کے متعلق کوئی کسی قسم کی واقفیت ہی تھی ریاست جاری ہونے کے پہلے سال میں ہی افغانستان میں احمدی جماعت کے ایک مبلغ کو افغان گورنمنٹ کے حکم سے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اور اس بیجارے کا جرم صرف یہ تھا کہ یہ احمدی خیالات کی تبلیغ کرتا تھا ۔ میں نے جب یہ اطلاع روزانہ اخبارات میں پڑھی تو میرے جسم میں ایک کپکپی سی پیدا ہوئی۔ کیونکہ میں جب بھی ظلم ہوتا دیکھتا ہوں تو میرا خون کھولنے لگ جاتا۔ اس اطلاع کو سن کر میں نے افغان گورنمنٹ اور کنگ امان اﷲ کے خلاف ایک سخت ایڈیٹوریل لکھا۔
اس ایڈیٹوریل لکھنے کا نتیجہ یہ ہوا۔ کہ چند احمدی حضرات مجھے اصل واقعات بتانے کے لئے میرے دفتر میں آئے۔ اور ادھر افغانستان کے قونصل جنرل مسٹر اکبر خاں آئے تاکہ وہ اپنی گورنمنٹ کی پوزیشن صاف کر سکیں یہ پہلا موقعہ تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی احمدی جماعت بھی ہے۔ جس کا شعار اپنے خیال کے مطابق اسلام کی تبلیغ ہے اور اس کا ہیڈ کوارٹر قادیان میں ہے کیونکہ میں زندگی بھر ہی مذہبی حلقوں سے قطعی بے تعلق رہا۔
اس واقعہ کے بعد مجھے کبھی کبھی احمدی جماعت کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا اور اس جماعت کے کئی بزرگوں مثلاً محمد ظفر اﷲ خان ڈاکڑ محمد اقبال صاحب مرحوم کے حقیقی بھتیجے مسٹر اعجاز احمد جو ایک زمانہ میں دہلی میں سب جج تھے۔ اور میاں محمد صادق جو دہلی میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے سے دوستانہ تعلقات بھی رہے احمدی جماعت کے لوگ جب کبھی ملتے ان کی تبلیغی باتیں میرے لیئے ناقابل برداشت حد تک ذہنی کوفت کا باعث ہوا کرتیں کیونکہ میں فطرتاً مذہبی دنیا سے قطعی الگ رہنا پسند کرتا ہوں مگر ان لوگوں کے ذاتی کیریکٹر اور بلندی کا بہت ہی مداح ہوں اور یہ واقعہ ہے کہ آج سے چند برس پہلے مجھے اپنے دفتر کیلئے جب کبھی کسی ایماندار شخص کی ضرورت ہوتی تو میں قادیان کے کسی دوست کو لکھتا کہ وہ اپنے ہاں سے کسی دیانتدار شخص کو ملازمت کے لئے بھیج دیں۔ کیونکہ میرا تجربہ تھا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ تو خدا سے ڈرتے ہیں۔ مگر احمدی جماعت کے لوگ خدا سے اس طرح بدکتے ہیں۔ جیسے گھوڑا سایہ سے بدکتا ہے۔ اور خدا سے خوفزدہ ہونے کے باعث یہ بددیانت ہو ہی نہیں سکتے۔ چنانچہ میں نے دفتر ریاست میں کئی احمدی مقرر کئے اور دفتر کے ان احمدی حضرات میں سے دو اصحاب کی زندگی کے واقعات تو مجھے اب تک یاد ہیں۔ ایک صاحب انشاء اﷲ خان اکونٹنٹ مقرر کئے گئے جو کئی برس دفتر ’’ریاست‘‘ میں رہے اور آج کل یہ پاکستان کی کسی بہت بڑی فرم میں آڈیٹر ہیں۔ یہ مسٹر انشاء اﷲ خان کبھی دفتر کا بغیر ٹکٹ کے پوسٹ کارڈ بھی استعمال نہ کرتے۔ اور اگر کوئی ضرورت ہوتی تو ڈاکخانہ سے پوسٹ کارڈ منگا کر لکھتے اور دوسرے صاحب کا نام یاد نہیں۔ یہ لڑکا بہت ہی شریف اور نیک تھا ۔ یہ دفتر سے کچھ روپیہ ایڈوانس لیتا رہا۔ اس کے ذمہ کچھ روپیہ باقی تھا تو یہ دفتر سے غائب ہو گیا۔ کچھ پتہ نہ تھا کہ یہ کہاں ہے چھ ماہ کے بعد اس کا منی آرڈر اور خط پہنچا۔ جس میں اس نے لکھا کہ وہ ذاتی حالات سے مجبورہو کر چلا آیا اور وہ رقم واپس کی جاتی ہے جو اس کے ذمہ ماہوار ایڈوانس تھی ۔ اس کا ایسا کرنا اس کے بلند کریکٹر ہونے کا ثبوت تھا۔ ورنہ راقم الحروف کو نہ تو رقم یاد تھی اور نہ ہی اس کا کوئی پتہ ہی معلوم تھا۔ احمدیوں اور راقم الحروف کے تعلقات صرف اس حد تک جاری تھے۔ کیونکہ مجھے آج تک کبھی قادیان جانے کا اتفاق نہیں ہوا حالانکہ یہ میری ہمیشہ خواہش رہی کہ میں ان کے ہیڈکوارٹر کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ ان معمولی تعلقات کی موجودگی میں احمدی حضرات کئی بار ظلم کا شکار ہوئے۔ اور ’’ریاست‘‘ نیظلم کے خلاف آواز پیدا کرنا اپنا فرض اور ایمان سمجھا کیونکہ ’’ریاست‘‘ ظلم کے خلاف آواز پیدا کرنے کے لئے عالمِ وجود میں آیا تھا اور خدا کا شکر ہے کہ وہ اپنے آخری لمحوں تک اپنے اس شعار پر قائم رہا چنانچہ جوں جوں ان پر کئے جا رہے مظالم کے خلاف ’’ ریاست‘‘ میں آواز پیدا کی جاتی میرے اور ان کے درمیان اخلاص کے تعلقات زیادہ ہوتے چلے گئے ان کے بعض لیڈروں سے خط و کتابت بھی ہوا کرتی۔ اور میری خواہش تھی کہ اگر میں کبھی پاکستان جاؤں تو اس نئی آبادی ربوہ کو بھی دیکھوں جہاں کہ یہ لوگ قادیان سے تباہ ہو کر بطور مہاجر آباد ہوئے ہیں۔ میں نے جب پاکستان جانے کا قصد کیا تو دوسرے دوستوں کے علاوہ ایک احمدی بزرگ گیانی عباد اﷲ( جو سکھ مذہب اور سکھ تاریخ پر ایک اتھارٹی تسلیم کئے جاتے ہیں)کو بھی لکھا کہ اگر ممکن ہوا اور میں گوجرانوالہ اور اپنے سابق وطن حافظ آباد گیا۔ تو دو تین گھنٹہ کے لئے ربوہ بھی آؤں گا۔ کیونکہ پنڈی بھٹیاں کے راستہ حافظ آباد سے ربوہ زیادہ دور نہیں ۔
میں ۲۰؍فروری ۱۹۶۰ء کی رات کو پاکستان کے لئے دہلی سے روانہ ہوا۔ اور ۲۱؍ کی دوپہر کو لاہور پہنچا۔ تو ۲۳؍فروری کو گیانی عباد اﷲ مجھ سے ملنے کے لئے لاہور نیڈوز ہوٹل میں آئے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ میں ان کے ساتھ ربوہ چلوں ۔ مگر میں نے کہا کہ میں کل کراچی جا رہا ہوں۔ وہاں سے واپس ہونے کے بعد ربوہ ضرور آؤں گا۔ میرے پاکستان کے دورہ کے حالات بہت ہی طویل اور دلچسپ ہیں۔ جو اس اخبار کے دس پندرہ صفحات سے کم جگہ میں نہیں آ سکتے اس لئے میں ان حالات میں سے اب صرف وہ لکھتا ہوں جس کا تعلق احمدی جماعت کے دوستوں سے ہے۔
میں جب کبھی بمبئی‘کلکتہ یا کسی دوسرے شہر میں جاتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ میری موجودگی کا میرے دوستوں کو علم نہ ہو اور میں آخری روز تمام دوستوں سے مل لیا کرتا ہوں چنانچہ میں جب کراچی پہنچا تو میں نے انتظام کیا تھا کہ میں ایسی جگہ قیام کروں جس کا کسی کو علم نہ ہو حالانکہ وہاں سے حضرت جوش ملیح آبادی وغیرہ درجنوں نے زور دیا تھا کہ میں جب کبھی وہاں جاؤں تو ان کے ہاں قیام کروں کراچی میں ایک پوشیدہ جگہ پر قیام کرنے کے بعد میں پہلے ر وز حضرت جوشؔ ملیح آبادی صاحب اور بھیا احسان الحق سے ملا۔ کیونکہ ان سے نہ ملنے کی صورت میں مجھے ذہنی کوفت محسوس ہوتی ان سے ملنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ اور لوگوں کو بھی کراچی میں میری موجودگی کا علم ہو گیا جمعہ کے روز کراچی کی احمدیوں کی مسجد میں جب نماز ہو چکی تو ایک احمدی نے دوسرے احمدی سے ذکر کر دیا کہ دیوان سنگھ کراچی میں ہے یہ بات چیت شیخ اعجاز احمد ( جو آج کل وہاں غالباً یونائٹڈ نیشنزکے فود ڈیپارٹمنٹ میں کسی اعلیٰ عہدہ پر ہیں اور دوہزار روپیہ کے قریب تنخواہ پاتے ہیں) نے بھی سُن لی انہوں نے پوچھا کہ دیوان سنگھ کہاں ہے تو اطلاع دینے والے نے کہا کہ اس کا اسے کچھ علم نہیں شیخ اعجاز احمد اور ان کے دو تین دوستوں نے کار میں میری تلاش شروع کی۔ یہ دو گھنٹہ کے قریب مختلف جگہوں سے دریافت کرتے رہے اور آخر ان کو غالباً مسٹر ظفر احمد ( جو پاکستان کے تمام دورہ میں میرے ساتھ تھے) کے گھر سے علم ہوا ۔ کہ میں فلاں بلڈنگ میں مقیم ہوں۔ چنانچہ یہ حضرات وہاں پہنچ گئے اور کچھ عرصہ بات چیت کرنے کے بعد انہوں نے خواہش کی کہ میں احمدی جماعت کے ہیڈکوارٹر میں ان کے ساتھ چائے پیئوں۔ میں نے بہت کوشش کی اور بار بار کہا کہ میں دن کے وقت کچھ نہیں کھایا کرتا مگر یہ نہ مانے اور شام کو مسٹر نذیر مجھے اپنی کار میں وہاں لے گئے۔ اس پارٹی میں پاکستان کی مرکزی گورنمنٹ کے ایک درجن کے قریب بڑے بڑے حکام موجود تھے کیونکہ احمدیوں میں آپس میں بہت ہی محبت اور اخلاص ہے ۔چائے کی میز پر مختلف باتیں ہوتی رہیں اور یہ پُر لطف صحبت ایک گھنٹہ کے قریب جاری رہی اور اس کے بعد میں جتنے روز کرچی میں رہا مسٹر نذیر کی کار میرے لئے وقف رہی۔اس کے اگلے روز میں اپنے ایک مرحوم احمدی دوست سید انعام اﷲ شاہ ایڈیٹر’’دور جدید‘‘ کے گھر گیا۔ وہاں مرحوم کی بیوی اور ایک لڑکی طلعت موجود تھیں۔ یہ لڑکی ایم اے میں پڑھتی ہیں۔ میرا وہاں خلاف توقع پہنچنا ان کے لئے انتہائی حیرانی اور مسرت کا باعث ہوا۔ کیونکہ ان کو علم نہ تھا کہ میں کراچی میں ہوں۔ مرحوم سید انعام اﷲ شاہ کی یہ لڑکی بہت ہی ذہین ہے مرحوم کی دو لڑکیاں شادی شدہ ہیں۔ وہ اپنے سسرال میں تھیں اور لڑکا محمود انعام سرکاری ملازم ہے وہ اپنے دفتر تھا۔ یہ ماں بیٹی ایسی مسرت محسوس کر رہی تھیں جیسے ان کو کوئی گمشدہ شے مل گئی ہو مجھے وہاں بیٹھے ابھی دو تین منٹ ہوئے تھے اور مرحوم انعام اﷲ شاہ کے اخلاص اور محبت کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں ۔ تو طلعت دوسرے کمرہ میں گئی اور وہاں پھلوں کا رس اور خشک اور تازہ پھل جمع کرنے میں مصروف ہو گئی اور یہ تمام سامان ایک چھوٹی میز پر لے آئی میں دن کو کچھ نہیں کھایا کرتا۔ اس روز یکم رمضان تھی اور پہلا روزہ تھا میں نے مذاقاً کہا ’’ تم روزہ داروں کے روزہ توڑنے کے گناہ کی مرتکب اور معاون ہو رہی ہو‘‘۔ لڑکی کھل کھلا کر ہنس پڑی۔ میں نے پھلوں کا رس پی لیا اور تھوڑی دیر بیٹھ کر اور باتیں کر کے واپس چلا آیا۔ رات کو جب دوستوں سے ملنے کے بعد اپنی قیام گاہ پر پہنچا تو مجھے ظفر صاحب نے بتایا کہ شام کو محمود انعام اپنے گھر پہنچے اور ان کو میرے آنے کا علم ہوا تو وہ اپنی دوسری بہنوں کے ساتھ قیام گاہ پر ملنے آئے تھے اور یہ بغیر ملے واپس جانا نہ چاہتے تھے مگر ظفر صاحب سے اس حلفیہ وعدہ پر کہ یہ مجھے ان کے مکان پر پھر لائیں گے وہ واپس چلے گئے۔ میں اگلے روز مغرب کے بعد پھر ان کے مکان پر گیا۔ ظفر میرے ساتھ تھے میں نے اطلاع کرنے کے لئے ظفر صاحب کو اوپر بھیجا۔تو تینوں لڑکیاں اور محمود بھاگ کر نیچے آ گئے یہ مجھے اپنے ساتھ اوپر لے گئے وہاں ایک لڑکی کے شوہر بھی موجود تھے ڈیرھ گھنٹہ کے قریب دلچسپ باتیں ہوئیں۔ ان لوگوں نے جس اخلاص اور محبت کا سلوک کیا۔ اسے میں زندگی میں کبھی بھول نہ سکوں گا۔
۲۸ ؍اور ۲۹؍فروری کو دوستوںسے ملتا رہا اور یکم مارچ کی شام کو چناب ایکسپریس میں ربوہ کے لئے روانہ ہوا۔ کیونکہ یہٹرینکراچی سے سیدھی ربوہ جاتی ہے۔ یہ گاڑی شام کے وقت لائلپور پہنچی۔ وہاں گیانی عباد اﷲ موجود تھے میں ان کے اور ظفر صاحب کے ہمراہ مغرب کے وقت ربوہ سٹیشن پر پہنچا وہاں دو سو کے قریب طلباء اور دوسرے دوست اور معترف موجود تھے یہ مجمع میرے لئے خلاف توقع تھا۔ کیونکہ میں ایسے مجمع کا عادی نہیں ہوں اور میں تمام زندگی ہی تنہائی میں لطف محسوس کرتا رہا ہوں۔ سٹیشن سے کار میں گیسٹ ہاؤس پہنچا۔ وہاں احمدی جماعت کی کئی اہم شخصیتیں میری منتظر تھیں۔ ان سے ملا۔ ان تمام دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد چند طلباء آئے۔ اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ کل میں ان کے سامنے تقریر کروں میں نے ان سے کہا کہ میں لیڈر کلاس میں سے نہیں ہوں نہ تو کبھی تقریر سننے جاتا ہو ں اور نہ زندگی میں کبھی کوئی تقریر کی۔ اور میں تو صرف ایک جنرنلسٹ ہوں۔ مگر آپ لوگوں سے ملنے آپ کے کالج ضرور آؤں گا۔ رات کو آرام سے سویا۔ صبح پانچ چھ بجے کے قریب اذان ہوئی میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی ایسی خوش الحانی کے ساتھ اذان نہ سنی تھی۔ چنانچہ میں نے صبح ایک دوست سے یہ دریافت کیا۔ کہ کیا اذان دینے والا عرب تھا۔ یا پاکستانی۔ تو معلوم ہوا کہ مؤذن ربوہ کا ہی ایک پاکستانی ہے نو بجے تک غسل وغیرہ سے فارغ ہوا۔ تو کا ر آ گئی۔ اور مجھے بتایا گیا کہ مجھے مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں ناشتہ پر جاناہے اس کار میں ان کے ہاں گیا۔ وہاں ایک درجن کے قریب احمدی لیڈر موجود تھے اور سب کے سب روزہ میں تھے اور صرف میں ہی روزہ سے محروم تھا۔ناشتہ کے لئے کئی اقسام کی اشیاء موجود تھیں۔ مگر میں دن کے وقت کچھ نہیں کھایا کرتا ۔ صرف ایک پیالی چائے پی۔ یہ لوگ محبت اور اخلاص کے مجسمہ ہیں مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے ان سے مذاقاً کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی جماعت کے لوگوں نے میرے خلاف ایک سازش کر رکھی ہے۔ اور آپ لوگوں نے فیصلہ کیا ہے۔ کہ آپ مجھے بغیر احمدیت کا کلمہ پڑھا نیکے واپس دہلی نہ جانے دیں گے کیونکہ لاہور کراچی میں احمدیوں کی محبت اور اخلاص کا شکار رہا۔ اور اب یہاں بھی یہی کیفیّت ہے ۔ یہاں باتیں کرنے اور ان کی محبت کا شکار ہونے کے بعد دوستوں کے ساتھ احمدی جماعت کے پیشوا حضرت صاحب کے مکان پر گیا۔ کیونکہ وہاں ساڑھے نو بجے کا وقت ملاقات کے لئے مقرر تھا۔ پرائیویٹ سیکرٹری کے کمرہ میں چند منٹ بیٹھنے کے بعد اوپر کی منزل میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ لیٹے ہوئے تھے اور بیمار تھے۔ انہوں نے انتہائی اخلاص اور محبت کے جذبات سے میرے وہاں جانے پر مسرت کا اظہار کیا۔ اور میں نے کہا کہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں آپ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہاں چند منٹ حاضری دینے کے بعد جب میں زینہ سے اُتر رہا تھا۔ تو ایک صاحب ایک تحفہ لائے جو پیکٹ کی صورت میں تھا۔…اور اس پیکٹ میں ایک رومال جرابوں کا ایک جوڑہ اور عطر کی ایک شیشی تھی یہ تحفہ میجر حبیب اﷲ شاہ صاحب کی بھتیجی کی طرف سے مجھے بھجوایا گیا تھا۔ جو میجر صاحب موصوف کے ساتھ میرے دیرینہ اور مخلصانہ مراسم کی بناء پر تھا۔
اس ملاقات سے فارغ ہونے کے بعد ہم لوگ کالجوں میں گئے کیونکہ وہاں طلباء منتظر تھے سب سے پہلے تبلیغی کالج کے ہال میں پہنچے مائیکر و فون پر میرا تعارف کرایا گیا۔ جس کیلئے میں نے شکریہ ادا کیا ۔اس کالج میں غیر ممالک میں بھیجنے کیلئے مبلغ تیار کئے جاتے ہیں اور طلباء میں کئی غیر ممالک مثلاًافریقہ اور جرمنی کے نوجوان بھی ہیں جو بے تکلف اردو بول سکتے تھے۔ ان طلباء نے مختلف قسم کے سوالات شروع کر دیئے۔مثلاً میں نے اخبار کیوں بند کر دیا۔ کتنے برس اخبار جاری رہا ۔ پاکستان کے متعلق کیا رائے ہے۔ کتنے روز پاکستان میں قیام ہو گا۔ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے ۔’’ہندوستان میں اردو زبان کا مستقبل کیسا ہے وغیرہ۔ میں ان سوالات کا جواب دیتا رہا تو ایک طالب علم نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ احمدی مذہب کیوں قبول نہیں کرتے‘‘اس سوال کا جواب تو میں نے یہ دیا کہ میں نے اس مسئلہ پر آج تک کبھی غور نہیں کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میری تو دعا ہے کہ خدا آپ کو بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں کامیابی نصیب نہ کرے اور اس دعا کی وجہ یہ ہے کہ احمدی جماعت میں جتنے نیک اور مخلص لوگ ملتے ہیں۔ دوسرے کسی مذہب میں نہیں مل سکتے اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ اس جماعت کا حلقہ محدود ہے اور میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کی تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجہ کے طور پر جب اس جماعت کو بھی بہت زیادہ وسعت نصیب ہو گی تو اس میں بھی بُرے لوگ شامل ہو جائیں گے۔ جیسے دوسرے بڑے مذاہب میں شامل ہیں۔ یعنی زیادہ کپوتوں کے مقابلہ پر چند سپوت زیادہ قابل قدر ہیں یا دوسری مثال یہ ہے کہ جب میں کسی چھوٹے سے خوبصورت اور معصوم بچہ کو دیکھتا ہوں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ یہ بچہ کبھی بھی بڑا نہ ہو۔ کیونکہ بڑا ہونے کی صورت میں یہ اپنے حسن اور اپنی معصومیت سے محروم ہو جائے گا۔ میرے اس جواب کو سن کر تمام لڑکے ہنس پڑے……اس تبلیغی کالج کے بعد میںدوسرے کالجوں میں گیا کیونکہ وہاں کے طلباء بھی میرے منتظر تھے وہاں اسی قسم کے سوالات ہوتے رہے اور میں جواب دیتا رہا۔ ایک بجے تک ان کالجوں میں رہا۔ ان سے فارغ ہونے کے بعد روزنامہ اخبار الفضل کے دفتر میں گیا کیونکہ اپنی صحافتی برادری کی حاضری بھی ضروری تھی ڈیڑھ بجے کے قریب ہم لوگ واپس گیسٹ ہاؤس پہنچے۔ وہاں کھانا تیار تھا۔ میں نے اور ظفر صاحب نے کھانا کھایا کیونکہ انکار کرنا مناسب نہ تھا۔ تین بجے کے قریب ہم لوگ ربوہ سے روانہ ہوئے۔ کار میں گیانی عباد اﷲ کے علاوہ ربوہ کے ایک دوسرے احمدی اور حافظ آباد کے ایک زمیندار احمدی تھے جو مجھے لینے کیلئے میرے وطن حافظ آباد سے ربوہ آئے تھے راستہ میں بہت دلچسپ باتیں ہوتی رہیں شام کو چھ بجے کے قریب ہم لوگ حافظ آباد پہنچے وہاں دو گھنٹے کے قریب قیام کیا اور پاسپورٹ کی خانہ پوری کرائی۔ نو بجے کے قریب ہم گوجرانوالہ پہنچے اور گیارہ بجے نیڈوز ہوٹل چھوڑنے کے بعد گیانی صاحب وغیرہ واپس ربوہ چلے گئے۔
ربوہ بہت وسیع علاقہ میں تعمیر کیا جا چکا ہے اور صرف دس برس کے عرصہ میں اتنے بڑے قصبہ یا شہر کا آباد ہونا ایک تعجب خیز امر ہے۔ کیونکہ احمدی جماعت کے لوگ عام طور پر غریب یا درمیانہ حیثیت کے ہیں جو اٌنی ضر وریات کی پروانہ کرتے ہوئے بھی اپنی فدا ہونے والی قابل قدر سپڑت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی جماعت کی خدمت کرنا اپنا ایمان اور فرص سمجھتے ہیں اور یہی سپرٹ احمدیت کے مذہبی جھنڈے کو ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ اکثر ممالک میں بھی بلند کرنے کا باعث ہے‘‘۔ ۴۱
آخری تین سورتوں کی پُرمعارف دعائیہ تفسیر
اس سال رمضان کے بابرکت ایام میں بیت
مبارک ربوہ میں حسب سابق پورے قرآن مجید کے جس خصوصی درس کا اہتمام کیا گیا تھا اس میں سورۂ احقاف سے سورۃ الناس تک درس حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے (آکسن) نے دیا۔ 28؍مارچ 1960ء مطابق 29؍رمضان المبارک 1379ھ کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے قرآن مجید کی آخری تین سورتوں یعنی سورۃالاخلاص‘ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی ایسی پُر معارف دعا ئیہ تفسیر بیان فرمائی کہ جسے سنکر سامعین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کی بیان فرمودہ یہ تفسیر اُن جامع دعاؤں پر مشتمل تھی جوان سورتوں سے مستنبط ہوتی ہیں۔ قرآن مجید روحانی علوم و معارف کے ایک
بحرِ ناپید اکنار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان تین سورتوں میں جو دعائیں سکھائی ہیں ۔ ایک ہی وقت میں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم یہ دعائیہ تفسیر مختصر ہونے کے باوجود اپنی ذات میں اس قدر لطیف اور جامع ہے کہ اس میں قریب قریب وہ تمام جماعتی دعائیں آجاتی ہیں جن سے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے افراد کو ان سورتوں میں بیان کردہ مضامین کے پیش نظر اپنی زبانوں کو ہر وقت تَر رکھنا چاہیئے۔ تا خدائی افضال اور رحمتوں کے وہ مورد بنے رہیں اور وہ روحانی انقلاب جس کا خدا نے وعدہ فرمایا ہے جلد دنیا میں ظاہر ہو کر دین حق کو پورے کرہ ارض پر غالب کر دے۔ یہ دعائیہ تفسیر درج ذیل الفاظ میں تھی۔
’’اے ہمارے اﷲ! اے ہمارے ربّ! تُو ازلی ابدی خدا ہے خالق و مالک اور حيّ و قیوم ہے۔ تُو اپنی ذات میں اکیلا اور منفرد ہے۔ ذات اور صفات میں کوئی تیرا ہمتا اور ہمسر نہیں۔ حقیقی مُحسن تُو ہی ہے اور تُو ہی سب تعریفوں کا حقیقی مستحق ہے۔ تُو بلند درجات والا اور غیر محدود ہے۔ تیری غیر محدود نعمتیں تیری اَن گنت مخلوق پر ہرآن اور ہر لحظہ جاری ہیں۔ تیرے قُرب کے دروازے غیر محدود ہیں۔ کوئی مقامِ قُرب ایسا نہیں جس سے آگے قرب کا کوئی اور مقام نہ ہو۔
اے صمد خدا! تو کسی کا محتاج نہیں اور سب مخلوق تیری محتاج ہے۔ ہم بھی تیرے ہی محتاج ہیں اور تیرے ہی سامنے اپنی ضرورتوں اور احتیاجوں کو پیش کرتے ہیں۔ اے لم یلد خدا!اے لم یولد خدا !تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ تُو نے اپنی صفات کسی سے ورثہ میں حاصل نہیں کیں اور نہ کوئی اور اِن صفات کو تجھ سے ورثہ میں حاصل کریگا۔ کوئی ہستی اور کوئی وجود تیرا مماثل اور مشابہ نہیں۔ اپنی ذات اور اپنی صفات میں تو یکتا ہے۔
اے ہمارے خدا !جوواحد و یگانہ ہے اے ہمارے ربّ جو ازلی اور ابدی ہے تُو نے ہی محمدؐ رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کو ایک کامل اور مکمل شریعت دیکر دُنیا کی طرف بھیجا ہے۔ تُو نے ہی آپکو روحانی دُنیا کے لئے سورج بنایا ہے۔ ہم تیرا واسطہ دے کر تجھ سے ہی یہ دعا کرتے ہیں کہ تُو ہمیں اپنی اس روشنی کی سب برکتوں سے مالا مال کر۔ اے خدا روحانی علوم کے یہ دریا اور دنیوی ترقیات کی یہ فراوانی ہمیں خودپسندی کی طرف نہ لے جائے اور عیش و عشرت میں نہ ڈبودے۔ اے خدا ! ہم پر ایسا فضل کر کہ جس طرح تُو اپنے سورج کو آہستہ آہستہ اور تبدریج نصف النہارتک لے جا رہا ہے۔ ہم بھی تیری صفتِ ربوبیت کے ماتحت آہستہ آہستہ اور بتدریج روحانی کمالات تک پہنچتے رہیں۔ اے خالق خدا‘ خیرو برکات کے جو سامان تُو نے پیدا کئے ہیں انسان اپنی غفلت اور سستی کی وجہ سے ان میں سے اپنے لئے کبھی شر کے سامان بھی پیدا کر لیتا ہے۔ اے خدا ‘ تو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے فضل اور تیری ہی رحمت سے ہر شر سے محفوظ رہیں اے خالق و مالک خدا دنیا والے آج دنیوی سہاروں اور دنیاوی سامانوں پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ اے ہمارے ربّ ‘ تُو ہماری پناہ بن جا‘ تُو ہمارا ملجا ہو جا‘ ہمارابھروسہ تیرے سوا اور کسی پر نہیں۔ اے خدا تُو نے اپنے قرآن میں نفع کی ہر بات اور ترقی کا ہر اصول رکھا ہے۔ تُو ہی ہمیں توفیق دے کہ ہم قرآنی تعلیم کو کبھی نہ چھوڑیں ‘ تا ایسا نہ ہو کہ یہ دونوں جہان ہمارے لئے جہنم بن جائیں۔
اے ہمارے ربّ ! تیرا مسیح ثریا سے ہمارے لئے علومِ قرآنی لے کر آیا اور تیرے خلیفہء اول نے ہمیں ان علوم کے سِکھانے میں اپنی زندگی بسر کی۔ اے خدا تیرے ہزاروں ہزار صلوٰۃ اور سلام ہوں ان پر۔ اور اے خدا تیرے خلیفہء ثانی نے تجھ سے الہام پا کر تیرے قرآن کے علوم کو سیکھا‘ اور دن رات ایک کر کے اور اپنے آرام کی گھڑیوں کو قربان کر کے علومِ قرآنی کے ان خزانوں سے ہماری جھولیاں بھریں اور ہمارے دل کو ان سے منوّرکیا۔ اے خدا‘ آج وہ بیمار ہیں اور ہم بے بس‘ مگر تُو تو شافی اور کافی خُدا ہے‘ تجھے تیرے ہی منہ کا واسطہ تُو ہمارے پیارے امام کو شفا دے اور بیماری کا کوئی حصّہ باقی نہ رہنے دے۔ آپ کی زندگی میں برکت ڈال اور آپ کی قیادت اور رہنمائی میں دنیا کے کناروں تک اپنے دین کی اشاعت کی ہمیں توفیق بخش اور ہم میں سے جو افراد اس وقت آپ کی خدمت کر رہے ہیں ان پر بھی اپنا فضل اور رحمت نازل فرما۔
اے محسن خدا! تُو نے ہی افراط و تفریط کی دو پہاڑیوں کے درمیان (دین حق) جیسا خوبصورت میدان بنایا ہے۔ اے خدا‘ ایسا کر کہ ہم (دین حق )کی تعلیم سے کبھی منحرف نہ ہوں ‘ ہمارا قدم اس میدان سے کبھی باہر نہ نکلے۔اے ہمارے ربّ ! روحانی فیوض تُو نے ہم پر موسلادھار بارش کی طرح برسائے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہی روحانیت ہم میں کبرونخوت کے جذبات پیدا کر کے ہمارے لئے ہلاکت کا باعث بن جائے۔ اے خُدا ‘ تو نے آسمان سے دودھ اتارا ہے۔ اے خُدا ہمارے پیالے اس دودھ سے ہمیشہ بھرے ہی رہیں۔ اے ہمارے ربّ‘ اُن وعدوں کے مطابق جو تو نے اپنے رسُول صلی اﷲ علیہ وسلّم سے کئے تھے تو نے اپنی تقدیر کی تاروں کو ہلانا شروع کیا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ( دین حق )کی لائی ہوئی تعلیم ساری دنیا میں پھیل جائے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلّم وسط آسمان میں سورج کی طرح چمک کر ساری دُنیا کو منّور کر دیں۔ اے خُدا ہمیں اعمالِ صالحہ کی توفیق دے ‘ ہماری دستگیری فرما اور اس روشنی سے زیادہ سے زیادہ متمتع فرما‘ اور ہمارے اُن بھائیوں کو جو تیری تعلیم کو پھیلانے کیلئے دُنیا کے کونے کونے اور ملک ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اپنی رحمتوں سے نواز‘ ان کے تقویٰ میں برکت دے۔ ان کی قلموں اور ان کی زبانوں پر اپنے انوار نازل کر اور ان کی کوششوں کو دجّال کے ہر دجَل اور شرّ سے محفوظ رکھ۔ اے خدا‘ ایسا کر کہ تیرے یہ کمزور بندے ہر فردِ بشر کے دل میں تیری توحید کی میخ اور محمد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلّم کا جھنڈا گاڑ دیں۔ اے خدا‘ اپنے فضل سے تو ایسے سامان پیدا کر کہ یہ انوار جو تیری طرف سے بنی نوعِ انسان کی ترقیات کے لئے نازل ہوئے ہیں دُنیا کی نظر سے کبھی اوجھل نہ ہوں اور تا ابد دُنیا کے ہر گھرا اور ان گھروں کے سب مکینوں کے دلوں سے لا الہ الّا اﷲ محمد رسُول اﷲکا نعرہ بلند ہوتا رہے۔ اے قدیر و حکیم خُدا‘ جس طرح تُو نے اپنے مسیح کے لئے چاند اور سورج کو گرہن لگایا ہے ایسا ہو کہ اسی طر ح تمام مذاہب باطلہ کے نقلی سورجوں اور چاندوں کو بھی گرہن لگ جائے۔
اے ہمارے رب! تو ہمیں مسیح موعود علیہ الصّلٰوۃ و السلام کے مددگاروں میں سے بنا اور اُن آفات اور عذابوں سے ہمیں ہمیشہ بچا جو آپ کے مخالفوں کے لئے مقدر ہو چکے ہیں۔ اور شرک اور بدعت اور ظلم کی ہر قید و بند سے ہمیں ہمیشہ محفوظ رکھ۔ اے خدا ہمیں نیکی اور تقویٰ پر ہمیشہ قائم رکھ اور بد خصلت وساوس پیدا کرنے والوں سے ہمیں ہمیشہ پناہ دے تا ہمارا بیعت کا تعلق اور غلامی کا رشتہ جو ہم نے تیرے رسول ‘ تیرے مسیح‘ اور تیرے خلفاء سے باندھا ہے وہ ہمیشہ مضبوطی سے قائم رہے۔
اے خدا! ہمارے بیماروں کو شفا دے‘ ہمارے کمزوروں کو طاقت بخش ‘ ہمارے غریبوں کو مالدار بنا‘ ہمارے ضرورتمندوں کی ہر ضرورت کو پورا کر اور ہمارے جاہلوں کی جھولیاں دینی اور دنیوی علوم سے بھر دے ۔ اے خُدا‘ ابتلاؤں میں ہمیں ثابت قدم رکھ اور کامیابیوں میں ہمیں مزاج کے منکسر اور طبیعت کے غریب بنا اے خدا تیرے اور تیرے رسُولؐ کے خلاف نہایت گندہ اور مکروہ اور ناقابل برداشت لٹریچر شائع ہو رہا ہے ہمیں اور ہماری نسلوںکو اس فتنہ سے محفوظ رکھ اور اس کے خلاف قلمی اور لسانی جہاد کی ہمیں توفیق دے اور اس میں ہمیں کامیاب فرما۔ اے خدا‘ ایسا نہ ہو کہ حاسدوں کی کوششیں ہمارے قومی شیرازہ کو بکھیر دیں اور ہم میں لا مرکزیت آ جائے۔ اے خدا‘ حاسد اپنے حسد میں جلتے ہی رہیں۔ ہمارا قومی شیرازہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلاجائے اور ہمارا مرکز تاابد بنی نوع انسان کی بھلائی اور خدمت کا مرکز بنا رہے۔ اے خدا‘ ہمارا قادیان ہمیں جلد کامیابی و کامرانی کے ساتھ واپس دلا۔ اے ہمارے اﷲ ! اے ہمارے رب! ہم تیرے ہی آستانہ پر جھکتے ہیں ‘ تجھ پر ہی ہمارا توکل ہے تو ہی ہمارا سہارا ہے‘ ہمیں بے سہارا نہ چھوڑیو یارب العالمین‘‘۔ ۴۲
فضل چہارم
جماعت احمدیہ کو حقیقی عید منانے کی تحریک
۲۹؍مارچ ۱۹۶۰ء کو حضرت مصلح موعود نے خطبہ عید الفطر کے دوران
دنیائے احمدیت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ۔
’’احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلے اﷲ علیہ وسلم عید کے موقعہ پر عیدگاہ میں آتے اور جاتے ہوئے اور پھر عیدگاہ میں تشریف رکھتے وقت بھی بڑی کثرت کے ساتھ یہ تکبیر پڑھا کرتے تھے کہ
اﷲ اکبر۔ اﷲ اکبر۔ لا الہ الا اﷲ و اﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد
رسول کریم صلے اﷲ علیہ وسلم کی یہ سنّت بتاتی ہے کہ مومنوں کی حقیقی عید اﷲ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کی عظمت کے بیان کرنے میں ہی ہے۔ پس اگر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عظمت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس کے نام کو پھیلادیں۔ اس کی بڑائی کو ثابت کر دیں۔ اور اپنی تمام کوششیں اور مساعی اس غرض کے لئے وقف کر دیں۔ کہ خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو۔ تو یقینا ہماری عید حقیقی عید کہلا سکتی ہے۔ لیکن اگر ہمیں اپنے فرائض کا احساس نہ ہو۔ اور خدا تعالیٰ کی توحید کی اشاعت اور اس کی عظمت کے قیام کے لئے اسلام جن قربانیوں کا ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ ان قربانیوں کے میدان میں ہمارا قدم سُست ہوتو پھر ہماری عید صحیح معنوں میں عید نہیں کہلا سکتی۔ پس آج میں اپنی جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اس عید کو حقیقی رنگ میں منانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اس ظاہری عید کو اُس عظیم الشان روحانی عید کے حصول کا ایک ذریعہ بنانا چاہیئے جس میں ساری دنیا خدا تعالیٰ کی بڑائی کی قائل ہو جائے اور (دین حق ) کے نیچے جمع ہو جائے اگر دنیا میںخدا تعالیٰ کی بڑائی قائم نہ ہو ۔ تو ہماری عید کوئی عید نہیں۔ لیکن اگر اس کی بڑائی قائم ہو جائے۔ اور دنیا محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو جائے۔ تو اسی میں ہماری حقیقی عید ہے‘‘۔ ۴۳
جامعہ احمدیہ کی نئی
عمارت کا سنگ بنیاد
جامعہ احمدیہ کا مرکزی ادارہ عرصہ سے ایک ایسی وسیع اور شایان شان عمارت سے محروم تھا جو اُس کی ضروریات کو صحیح رنگ میں پورا کر سکے ۲۹؍مارچ
۱۹۶۰ء کوعیدالفطر کی پُر مسرّت تقریب کے موقع پر ہی ۵بجے شام اس عظیم الشان درسگاہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔جس میں رفقائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر بزرگانِ سلسلہ کے علاوہ صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے ناظر و وکلاء صاحبان۔افسران صیغہ جات ‘ ربوہ کے تعلیمی اداروں کے ممبران۔ اسٹاف اور بہت سے دیگر مقامی احباب شامل تھے۔ سب سے پہلے حضرت مولاناغلام رسول صاحب راجیکی نے قادیان کے مقامات مقدسہ کی ایک اینٹ اپنے ہاتھ میں لے کر اس پر دیر تک دعا کی۔ دعا کے دوران آپ کی زبان پر یہ شعر جاری ہوا۔
؎
ما غریباں خاک بوسانِ حرم
ایں چنیں برکات کے یا بدامم
دعا سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے اس اینٹ کو بنیاد میں اپنے ہاتھ سے نصب فرمایا آپ کے بعد بعض اور ممتاز رفقاء اور دیگر بزرگانِ سلسلہ نے اینٹیں نصب کیں۔ ان میں حضر ت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے (آکسن) پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ‘حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ ‘حضرت قاضی محمد عبداﷲصاحب‘حضرت ڈاکٹر حشمت اﷲ خاں صاحب اور حضرت سیّد زین العابدین ولی اﷲ شاہ صاحب شامل تھے۔ ان اصحاب کے علاوہ میاں عبدالرحیم احمد صاحب وکیل التعلیم ‘ سیّد میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ اور اساتذہ جامعہ میں سے ماسٹر عطا محمدصاحب اور صاحبزادہ ابوالحسن صاحب قدسی ابن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے بھی ایک ایک اینٹ رکھی۔ مزید براں جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبہ کو بھی بنیاد میں اینٹیںرکھنے کا موقع دیا گیا۔ چنانچہ جن طلباء کے حصہ میں یہ سعادت آئی ان میں غانا مغربی افریقہ کے عبدالوہاب بن آدم صاحب ابراہیم محمد مینو صاحب اور مشرقی افریقہ کے یوسف عثمان صاحب۔ ابوطالب صاحب ۔ عمر جمعہ صاحب۔ احمد قادری صاحب اور چین کے محمد عثمان صاحب شامل تھے۔ بعد ازاں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے اجتماعی دعا کرائی۔ جس میں جملہ حاضرین شامل ہوئے دعاسے فارغ ہونے کے بعد جامعہ کی طرف سے تمام حاضرین کی خدمت میں شیرینی پیش کی گئی۔ ۴۴
سنگ بنیاد کے ایک ماہ بعد اساتذہ جامعہ کا ایک وفد کوئٹہ بھجوایا گیا تا اس عمارت کے لئے عطیات کی تحریک کر ے۔ کوئٹہ کے مخلصین نے اس پر نہایت گرمجوشی سے لبیک کہا علاوہ ازیں مرزا محمد امین صاحب آف کوئٹہ نے بعد میں ایک گرانقدر رقم بھجوائی جس کا خصوصی ذکر پرنسپل جامعہ احمدیہ سید داؤد احمد صاحب نے الفضل ۳۰؍اکتوبر ۱۹۶۰ء میں فرمایا ۴۵
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا
خطبہ صدارت جلسہ تقسیم انعامات میں
۳۰؍مارچ ۱۹۶۰ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے جلسہ تقسیم انعامات کی ایک
پُر وقار تقریب شام چار بجے سکول کی عمارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں سکول کے طلبہ اور اسٹاف کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظر و وکلا ء صاحبان ‘افسران صیغہ جات اور ربوہ کے تعلیمی اداروں کے ممبران اسٹاف نے بھی شرکت فرمائی علاوہ ازیں تحصیل چنیوٹ کے مقامی افسران اور دور و نزدیک کے متعدد ہائی سکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ایڈیشنل چیف سیکرٹری حکومت مغربی پاکستان تشریف لائے اور کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے۔تلاوت و نظم کے بعد سکول کے ہیڈماسٹر میاں محمد ابراہیم صاحب نے سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ہر میدان میں سکول کی روز افزوں ترقی پر روشنی ڈالی۔ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے اپنے خطاب میں سکول کی رفتار ترقی پر اظہار اطمینان کے رنگ میں فرمایا۔ میں تین باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اس سکول کے قیام اور اجراء سے قبل اور بہت سے ہائی سکول موجود تھے ہم دیکھتے ہیں اس کے باوجود اس سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ اس سکول کے قیام کی ایک خاص غرض اور ایک خاص مقصد تھا۔ وہ غرض یہ تھی کہ اس سکول میں طلبہ کو دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جائے تاکہ وہ صحیح معنوں میں دیندار بنیں اور اچھے شہری ثابت ہوں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ یہ غرض کماحقہ پوری ہوتی رہے اور اسے ہمیشہ ہی عام تعلیمی مقاصد پر نمایاں فوقیت حاصل رہے۔ اس غرض کو پورا کرنے سے ہی سکول اپنے خصوصی امتیاز کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ سکول کے قیام کی بنیادی غرض کو مقدم رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ عام تعلیمی مقاصد کو وہ اہمیت حاصل نہ ہو۔ جو انہیں لازمی طور پر حاصل ہونی چاہیئے۔ جس بنیادی غرض کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ اس کا لازمی اقتضا اور نتیجہ یہ ہونا چاہیئے کہ عام تعلیمی مقاصد کے حصول میں بھی تمام دوسرے سکولوں سے اس کا قدم آگے ہو۔ یعنی جن تعلیمی مقاصد کا حصول بلااستثناء تمام سکولوں کے درمیان باہم مشترک ہے ان میں بھی یہ سکول دوسروں کے بالمقابل ہر لحاظ سے فضیلت حاصل کرے اور اپنی اس فضیلت کو برقرار رکھے۔
تیسری بات یہ ہے کہ موجود زمانے میں سائنس کی بے انداز ترقی کے باعث انسانی زندگی جس نہج پر استوار ہو رہی ہے اور جو نئے مسائل ابھرا بھرکر سامنے آرہے ہیں ان کے پیشِ نظر یہ بات ناگزیر ہوتی جا رہی ہے کہ تمام سکولوں میں درسی علوم کے ساتھ ساتھ فنّی تعلیم کو بھی رائج کیا جائے اور طلبہ کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نہ صرف اچھے تعلیم یافتہ بنیںبلکہ اچھے فن کار بھی ثابت ہوں۔ مثال کے طور پر سکولوں میں زراعت اور کار پینٹری وغیرہ کے شعبے بآسانی قائم کئے جا سکتے ہیں۔ اور طلبہ کو ان فنوں کی عملی تربیت دی جا سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ فنّی تعلیم کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور اہمیت کے پیشِ نظر حکومت نے گزشتہ چند سال سے فنّی تعلیم کا ایک علیحدہ ڈائریکٹر مقرر کیا ہوا ہے۔ پس ہمارے سکولوں کو وقت کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرتے ہوئے فنّی تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہیئے۔ان اہم صدارتی ارشادات کے بعد جناب صاحبزادہ صاحب موصوف نے سکول کے طلبہ میں انعامات تقسیم فرمائے۔ ۴۶
جناب جمال عبدالناصر صدر جمہوریہ
متحدہ عرب کی خدمت میں پیغام حق
جناب جمال عبدالناصر دورہ بھارت کے دوران ۵؍اپریل ۱۹۶۰ء کو مدراس تشریف لائے۔ جماعت احمدیہ
مدراس نے انہیںخوش آمدیہ کہا اور اُن کی خدمت میں تبلیغی مکتوب اور سلسلہ کی طرف سے شائع شدہ عربی انگریزی لٹریچر ارسال کیا۔ مکتوب انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔ مولانا شریف احمد صاحب امینی ان دنوں احمدیہ مسلم مشن مدراس کے انچارج تھے۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
احمدیہ مسلم مشن عزت مآب جمال عبدالناصر
اسلامک سنٹر مدراس نمبر14 صدر جمہوریہ متحدہ عرب
5؍اپریل 1960ء نزیل راج بھون۔ مدراس
برادرِ اسلام! السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ
عالیجناب کی شہر مدراس میں تشریف آوری پر ہم جماعت احمدیہ کی طرف سے خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کی خدمت میں اھلاً وَّ سھلاًمرحبا کا تحفہ پیش کرتے ہیں۔
صدر محترم! احمدیہ تحریک آپ کے لئے کوئی عجیب و انوکھی چیز نہیں۔ اس کی شاخیں اکنافِ عالم میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اور آپ کے وطن عزیز جمہوریہ متحدہ عرب میں بھی قائم ہیں۔ آنمکرم کی ہمارے وطن ہندوستان میں تشریف آوری اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ اس سے قطع نظر کرتے اور اُفق سیاسیات سے بالا ہوتے ہوئے ہماری نظریں اُس
’’ گرانبہا خدمت‘‘پر پڑرہی ہیں۔ جو دنیائے عرب نے مذہب اسلام کے ذریعہ انسانیت اور تہذیب کی انجام دی ہے۔ باقی دنیا تو آپ کی شخصیت میں صرف مصر کی سیاسی آزادی۔ جمہوریہ عرب میں اصلاحات ملکی۔ اور معرکہ سویز کی فتحیابی کو دیکھ رہی ہے۔ مگر ہماری نگاہیں آپ کی ذات میں مستقبل میں اسلام کی سربلندی اور دنیائے عرب کی ترقی کو دیکھ رہی ہیں۔ مگر ہماے اس’’ مقصد اعلیٰ ‘‘ کا حصول اُس جذبے اور ولولہ پر منحصر ہے جس کو لے کر ترقی کی شاہراہ پر چلیں گے۔ اور ہم دیانتداری سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے صرف سیاسی بیداری ہی کافی نہیں۔ بلکہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی حکومت انسانی قلوب پر قائم نہ ہو جائے دنیا کو امن و سکون نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہم آنمکرم کی خدمت میں خلوص قلب سے عرض کرتے ہیں کہ ہندوستان اور دنیائے عرب کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے۔ صرف سیاسی حیثیت سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ پھر ہم اپنے ’’خدا‘‘ کو پا لیں۔
اس زمانہ میں جب کہ مادی طاقتیں اپنے عروج پر ہیں۔ یہ ایک فطرتی تمنا ہے کہ ہم جمہوریہ متحدہ عرب سے توقع رکھیں کہ وہ دنیا کی گمشدہ کڑی کو واپس لائے۔ وہ گمشدہ کڑی جو بندے اور اُس کے خالق و مالک سے تعلقات محبت کو از سر نو قائم کر دے۔ اور حقیقت میں یہی وہ عربی روایات ہیں جنہوں نے عربی نسل کو دنیا میں ایک اتحاد پیدا کرنے والی طاقت بنا دیا تھا ۔
صدر محترم! آپ نے علیگڑھ میں خطاب فرماتے ہوئے یہ امر بالکل بجا فرمایا تھا کہ
’’آئندہ سائنس کی اجارہ داری سرمایہ داری کی ایک نئی قسم ہو گی‘‘
سرمایہ داری کیا بلکہ مادیت کی نئی شکل و صورت ہو گی۔ ہم سرمایہ داری یا مادیت کی اس نئی شکل و صورت پر قابو نہیں پا سکتے جب تک کہ انسان کی سرمایہ دارانہ ذہنیت یا مادیت کی رگوں میں مذہب روحانیت کا ٹیکہ نہ لگائیں۔ پس اس الحادو مادیت کے قلع قمع اور روحانیت و انسانیت کے اُجاگر کرنے کے لئے ہی ’’تحریک احمدیت‘‘ خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کی گئی ہے۔ احمدیت کوئی انسانی تحریک نہیں۔ خالص خدا کی قائم کردہ ہے۔ اور اس کا قیام آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم کی اُن پیشگوئیوں کے عین مطابق عمل میں آیا ہے۔ جو اسلام کی نشئاۃ ثانیہ غلبہ دین کے لئے ظہور مہدی و مسیح موعود کی ذات سے وابستہ تھیں اور اشاعت اسلام کی جو شاندار خدمات اس جماعت نے ابتک انجام دی ہیں۔ وہ اظہر من الشمس ہیں۔
ہم آپ کی خدمت میں اسلامی اصول کی فلاسفی (جو کہ بانی ء سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور مہدی و معہود کی تالیف تصنیف ہے) کا عربی ترجمہ’’ الخطاب الجلیل‘‘ اور دوسرے لڑیچر کا ’’تحفہ ‘‘ ارسال کرنے میں خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ معمولی چیز ہے مگر حقیقت میں قیمتی موتی اور جواہر ہیں۔ امید ہے آپ ان کتب کا کا مطالعہ فرمائینگے۔ خدا آپ کا اور ہمارا ہادی اور حامی و ناصر ہو ۔آمین۔
آپکا خیر اندیش محمد کریم اﷲ نوجوان
سیکرٹری جماعت احمدیہ مدراس ۴۷
تقویٰ دعوت الی اﷲ اور وقف کی پُر زور تحریک
اس سال مجلس شوریٰ ۸۔۹؍اپریل ۱۹۶۰ء کوگذشتہ
سال کی طرح تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے وسیع و عریض ہال میں ہی منعقد ہوئی۔ سیدنا حضرت مصلح موعود کی طبیعت ایک عرصہ سے ناساز چلی آ رہی تھی مگر حضور نے خدام کی دلجوئی کے لئے اس سال بھی شمولیت فرمائی اور نمائندگان کی آراء سن کر ان کے بارے میں اپنے فیصلوں کا اعلان فرمایا۔ حضور کے ارشاد پر مشاورت کے اکثر اجلاسوں کی کارروائی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی زیر صدارت ہوئی۔
سیدنا حضرت مصلح موعود نے مشاورت کے اختتامی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے احباب جماعت کو پُرز ور تحریک فرمائی کہ وہ تقویٰ دعوت الی اﷲ اور وقف کی طرف خصوصی توجہ دیں چنانچہ فرمایا:
’’ حقیقت یہ ہے۔ کہ تقویٰ کے بغیر انسان کا کوئی عمل اُسے اﷲ تعالیٰ کا مقرب نہیں بنا سکتا یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ہر نماز میں بلکہ نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھمْ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا بھی الہام ہے کہ
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتّقاء ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
پس دوستوں کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اور بار بار قادیان جانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
پس تقویٰ اﷲ کے حصول کی کوشش کرو۔ اپنی آئندہ نسلوں میں دین کی محبت پیدا کرو۔ انہیں اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے وقف کرو۔ اشاعت احمدیہ کے لئے ہر قسم کی مالی اور جانی قربانیوں میں حصہ لو۔ اور اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو۔ کہ وہ ہماری ناچیز کوششوں میں برکت ڈالے۔ اور ہمارے کاموں کو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ نتیجہ خیز ثابت کرے۔ تاکہ ہم نے یہاں جو وقت صرف کیا ہے۔ وہ ضائع نہ ہو۔ اور ہم خدا تعالیٰ کے نزدیک جھگڑالو قرار نہ پائیں۔ تاکہ اس کے دین کے خدمت گذار اور اس کے احکام کی اطاعت کرنے والے ہوں۔ ا ﷲتعالیٰ ہمارے دلوں میں ایمان ۔ اخلاص۔ اور تقویٰ پیدا کرے۔ اور ہمارے قلوب میں ایسی محبت اور عشق بھر دے کہ بغیر اس کے مل جانے کے ہماری سوزش میں کمی واقع نہ ہو۔ ہماری گھبراہٹ دور نہ ہو۔ ہمارا جوش کم نہ ہو۔ اور ہماری راحت اور ہمارا چین سوائے اس کے کسی اور چیز میں نہ ہو۔ کہ ہمیں اس کا قرب حاصل ہو جائے۔ اور ہم اس کے وصال سے لُطف اندوز ہوں ہماری ہر قسم کی خوشی اور امید اس سے وابستہ ہو۔ اور ہماری محبت اور چین اس کے رسولوں خصوصاً محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ و السلام کے ساتھ وابستگی اور ان کی تعلیموں اور منشاء کے مطابق چلنے میں ہو۔ اور ہم ان کے نام کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اﷲ تعالیٰ ہماری مدد کرے۔ اور ہماری زبانوں میں برکت ڈالے۔ تاکہ ہم دوسرے لوگوں کو بھی خدائے واحد کے کلام کی طرف کھینچ سکیں۔ اور اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق دے۔ کہ ہم خدا تعالیٰ کے کلام سے محبت کرنے والے۔ اس کی تعلیم سے پیار کرنے والے۔ اس کے حکموں کو پھیلانے والے۔ اور اس کے بندوں سے محبت کرنے والے ہوں…حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک ایک سال میں تیس تیس ہزار احمدی ہوتا تھا۔ اب تو ۳۰۔۳۰۔۴۰۔ـ۴۰ لاکھ سالانہ احمدی ہونے چاہئیں۔ حضر ت مسیح ناصری کی امت نے۱۹۰۰سال کی عمر پائی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں۔ اور امید کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو ۱۹۰۰۰سال سے بھی زیادہ عمر دے گا۔ اور دنیا کے چپہ چپہ پر کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئیگی جہاں احمدیت اور (دین حق )کا نام نہ لیا جاتا ہو ‘‘۔۴۸
شاہ حسین اردن کا جماعت احمدیہ
نائیجیریاکی طرف سے شاندار استقبال
اسلامی مملکت اردن کے جلالۃ الملک شاہ حسین نے اس سال ایران ترکی اور سپین کے دورہ سے
واپسی پر ۹؍مئی۱۹۶۰ء کو لیگوس میں ایک روزقیام فرمایا ۔شاہ کی آمد اگرچہ غیر رسمی حیثیت کی تھی ‘ پھر بھی یہ موقعہ اس اعتبار سے بہت اہم تھا۔ کہ نائیجیریا جیسے اسلامی علاقہ میں پہلی دفعہ ایک عرب مسلمان بادشاہ وارد ہوا تھا شاہ کی آمد کا اعلان صرف ایک روز پہلے کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود احمدی احباب کو استقبالیہ کے لئے فوراً منظم کیا گیا۔ ایک سبز جھنڈے پر عربی میں اھلاً و سھلًا و مرحبا اورانگریزی میں ’’ خوش آمدید شاہ حسین لکھا ہوا تھا لیگوس کے احمدی احباب چودہ میل سفر کر کے لیگوس کے ہوائی اڈے پر پہنچے جملہ احباب نے ’’ احمدیہ مشن‘‘ کیطغرے (BADGES)لگا رکھے تھے۔ اس طرح استقبال کرنے والوں میں یہ ممتاز گروہ اخباری نمائیندوں ‘غیر ملکی اور ملکی پریس فوٹو گرافرزکے لیئے بالخصوص ایک خاص کشش کا موجب ہوا انہوں نے اس منظر کی متعد تصاویرلیں۔
جس وقت شاہ حسین کا طیارہ پہنچا احمدی احباب نے نعرہ تکبیر۔ اﷲاکبر اسلام زندہ باد جلالۃ الملک یعیش الملک حسین یعیش کے نعرے بلند کئے نائیجیریا کے قائم مقام گورنر جنرل اور استقبال کرنے والے دوسرے افسر مشرقی انداز کے اس استقبال سے بہت متاثر ہوئے۔ ہوائی اڈے پر جمع ہونے والے دوسرے لبنانی‘شامی اور دوسرے مسلمانوں نے بھی اس استقبال کو بہت سراہااور ان میں سے بعض نعرے بلند کرنے میں وہ احمدیوں کے ساتھ شامل بھی ہوئے۔ شاہ اردن کا لیگوس میں قیام صرف سولہ گھنٹے تھا۔ احمدیہ مشن کی طرف سے ایک روز قبل منعقد ہونے والی مسلم فیسٹول کمیٹی (MOSLIM FESTIVAL COMMITTEE)میں دوسری مسلمان جمعیتوں کے زعماء کو شاہ سے وفد کی صورت میں ملاقات کی تحریک کی گئی۔ اسی طرح گورنمنٹ ہاؤس سے ٹیلیفون پر ملاقات کی اجازت حاصل کرنے کی کوشس بھی کی گئی۔ لیکن اس وقت شاہ کا پروگرام معین طور پر معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اطلاع حاصل نہ ہو سکی۔ لیگوس کے مقامی حاکم (OBA)مسلمان تھے۔ جن کو جناب مولانا نسیم سیفی صاحب رئیس لتبلیغ مغربی افریقہ نے ٹیلیفون پر تحریک کی کہ وہ ملاقات کی کوشش کریں ان کی طرف سے کوشش کرنے پر صرف چار اصحاب کے لئے ملاقات کی اجازت حاصل ہو سکی چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے لیگوس کے مقامی حاکم ان کے ایک وزیر احمدیہ مشن کے رئیس التبلیغ مغربی افریقہ اور لیگوس شہر کے چیف امام پر مشتمل وفد نے گورنمنٹ ہاؤس میں شاہ سے ملاقات کی‘ جناب رئیس التبلیغ صاحب نے شاہ کو ہدیہ پیش کرنے کے لئے حسب ذیل کتب منتخب کی تھیں جو آپ نے شاہ کو پیس کیں۔
(۱) اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ الخطاب الجلیل مصنفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ ۔
(۲) لائف آف محمد تصنیف منیف حضرت مصلح موعود۔
(۳) ہمارے بیرونی مشن۔ انگریزی مصنفہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیرربوہ۔ شاہ حسین نے یہ تحفہ بہت خوشی سے قبول کیا۔ پریس کے نمائندوں نے اس موقعہ پر متعدد تصاویر لیں۔ لیگوس کے ممتاز ڈیلی ٹائمز اور ’’پائلاٹ‘‘ نے شاہ حسین کے کتب کا تحفہ قبول کرنے کی تصویر شائع کی۔
شاہ حسین نے اپنے قیام کے دوران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں جناب نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر اخبار ’’ٹروتھ‘‘ کی حیثیت سے شامل ہوئے۔
شاہ حسین کو مذکورہ کتب کے تحفہ کے ہمراہ احمدیہ مشن کی طرف سے جو مکتوب لکھا گیا تھا۔ اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔
جلالۃا لملک شاہ حسین السلام علیکم اھلاً و سھلاً و مرحباً
میں بصد ادب و احترام ملک نائیجیریا کے احمدیوں کی طرف سے اعلیٰ حضرت کو ہمارے ملک میں قدم رنجہ فرمانے پر دلی خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ ہر چند آپکی یہ زیارت مختصر حیثیت کی ہے۔ ہم آپ کے نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس میں ورود کے بہت قدر مند ہیں۔
جلالۃ الملک کے لئے ہمارے دلوں میں جو محبت جاگزیں ہے۔ اس کی ایک علامت کے طور پر آپ کی خدمت میں ’’لائف آف محمد‘‘کا تحفہ بھی پیش کر رہا ہوں ۔ جو ہماری جماعت کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی کی تصنیف ہے۔ ( الخطاب الجلیل اور ہمارے بیرونی مشن کتب بعد میں شامل کی گئیں تھیں)
اس امر کا ذکر یہاں بے تعلق نہ ہوگا کہ جلالۃالملک کے مرحوم دادا امیر عبداﷲ ہماری جماعت حیفا کے حق میں ہمیشہ مروت کا سلوک فرماتے رہے ہیں۔ جس کے لئے ہم ان کے احسان مند رہیں گے بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آپ پر اپنی برکات نازل فرماتا رہے آمین۔
والسلام نسیم سیفی رئیس التبلیغ مغربی افریقہ
برائے جماعت احمدیہ نائیجیریا ۴۹
علاّمہ نیازؔ فتحپوری کے تاثّرات
فضل عمر ڈسپنسریوں سے متعلق
علاّمہ نیازؔ فتحپوری ۲۱؍مئی ۱۹۶۰ء کو مارٹن روڈ اور گولیمار کراچی کی احمدیہ ڈسپنسریوں کی رفاہی خدمات کو دیکھ کر
بہت خوش ہوئے اور حسبِ ذیل الفاظ میں اپنے قلبی تاثرات قلمبند کیئے:-
عکس تحریر علامہ نیازؔ
فضل عمر ڈسپنسری دیکھنے کے بعد کسی کاصرف یہ کہہ دیناکہ اسے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ بڑا ناقص اعتراف ہے۔ اس عظیم خدمت انسانی کاجویہ ڈسپنسری انجام دے رہی ہے۔ مارٹن روڈ اور گولیمار کے دونوں شفاخانے جنہیں خدّام جماعت احمدیہ نے واقعتاً اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا ہے جذبہ خیر‘ جوش عمل اور جسم و روح کی بیداریوں کی ایسی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن سے ’’غضّںبصر‘‘ ممکن نہیں۔
ان شفاخانوں کا اصل مقصود خالصتاً ﷲ انسانی درد و دکھ میں شریک ہونا ہے اور اسی لئے دواؤں کے علاوہ یہاں تیماردارانہ غذائیں بھی مفت تقسیم کی جاتی ہیں اور دماغی محنت کے لئے دارالمطالعہ بھی قائم کر دیا گیا ہے اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے اس دور بے عملی میں جماعت احمدیہ کا یہ اقدام نوع انسانی کی اتنی بڑی خدمت ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور جس جماعت کی تعمیر اس ’’بنیان مرصوص‘‘ پر قائم ہو وہ کبھی فنا نہیں ہو سکتی۔
نیاز فتحپوری
۲۱؍ مئی ۱۹۶۰ء ۵۰
ملایا کے وزیر اعظم ٹنکو عبدالرحمن بیت احمدیہ ہیگ میں
۲۶؍ مئی ۱۹۶۰ء کو ہز ایکسی لینسی ٹنکو عبدالرحمن وزیر اعظم ملایا ہیگ کی بیت احمدیہ میں تشریف لائے۔ حضرت چوہدری محمد ظفر اﷲ خان صاحب
نائب صدر عالمی عدالت اور انچارج ہالینڈ مشن حافظ قدرت اﷲ صاحب نے آپ کا استقبال کیا۔ میٹنگ ہال میں آپ کا تعارف معزّزین سے کروایا گیا جو خاص طور پر اس تقریب میں شمولیت کے لیئے تشریف لائے تھے۔ ان معززّین میں عرب جمہوریہ کے سفیر‘ عالمی عدالت کے جج جناب بیضاوی (BADAWI)پاکستانی ایمبیسی کے کونسلر اور حکومت انڈونیشیا کا نمائندہ شامل تھے۔ چند ایک مقامی احمدی بھی اس موقعہ پر موجود تھے۔ جن میں ڈاکٹر ملاما آف ٹراپیکل انسٹی ٹیوٹ ایمسرڈم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
حضر ت چوہدری محمد ظفر اﷲ خان صاحب نے معزّز مہمان کا استقبال کرتے ہوئے مختصر طور پر ان شاندار خدمات کا تذکرہ کیا جوٹنکوعبدالرحمن نے انپے ملک کی ترقی اور بہبود کے سلسلہ میں آزادی حاصل کرنے سے قبل کیں اور اب تک سرانجام دے رہے تھے۔ حافظ قدرت اﷲ صاحب نے احمدیہ مشن کی طرف سے معزّز مہمان کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم بیت احمدیہ میں تشریف لائے۔ نیز کہا کہ آج کی محفل میں شریک ہونے والے اگرچہ مختلف ملکوں اور قوموں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اخوت دینی کا رشتہ انہیں یکجا کرنے کا باعث ہے۔ یہ درسِ اخوّت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم نے مسلمانوں کو سکھایا تھا اور اسی کے باعث وہ آج بھی ممتاز ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کی دعوت کا دائرہ دنیا کی تمام قوموں تک وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے عہد حاضر میں تمام دنیا میں اشاعت دین کا نظام قائم کر رکھا ہے۔
تقریر کے بعد آخر میں آپ نے عزت مآب وزیر اعظم ملایا کی خدمت میں انگریزی ترجمہ قرآن پیش کیا جِسے موصوف نے نہایت مسّرت سے قبول فرمایا۔ انہوں نے امام بیت ہالینڈ کا شکریہ ادا کیا اور حاضرین سے ملاقات پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ ۵۱
فصلِ پنجم
وزیر اعظم روس کا چیلنج اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
کا حقیقت افروز تبصرہ
اُن دنوں پوری دنیا روسی اور اینگلو امریکن بلاک میں بٹی ہوئی تھی۔ اور روس اور اسکی اشتراکی تحریک کا ایسا رعب تھا کہ امریکہ اور برطانیہ جیسی حکومتیں بھی لرزہ براندام تھیں۔ اس ماحول میں روس کے وزیر اعظم نکیتا سرگیوچ خروشیف (NIKITA SERGEYEVICH KHURUSHCHEV)نے اعلان کیا کہ عنقریب کُل جہان اشتراکی پرچم کے نیچے جمع ہو جائے گا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی غیرت ملّی نے اس موقع پر خاموش رہنا گوارانہ فرمایا اوراس کے جواب میں ایک نہایت پُر قوّت و شوکت مضمون سپرو قلم کیا۔ جس میں واضح طور پر بتایا کہ آخری عالمی غلبہ اشتراکیت کیلئے نہیں دینِ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقدر ہے چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا:-
’’آجکل اشتراکی روس کے وزیر اعظم مسٹرخروشیف خاص طور پر جوش میں آ کر گرج اور برس رہے ہیں ہمیں ان کے سیاسی نعروں سے کوئی سروکار نہیں وہ جانیں اور ان کے مغربی حریف برطانیہ اور امریکہ۔ گو طبعاًہمیں مغربی ممالک سے زیاہ ہمدردی ہے کیونکہ ایک تو وہ ہمارے اپنے ملک پاکستان کے حلیف ہیں اور دوسرے جہاں برطانیہ اور امریکہ کم از کم خدا کی ہستی کے قائل ہیں وہاں روس نہ صرف کٹّر قِسم کا دہریہ ہے بلکہ نعوذ باﷲ خدا پر ہنسی اڑاتا اور مذہب کے نام و نشان تک کو دنیا سے مٹانا چاہتا ہے۔
لیکن اِس وقت جو خاص بات میرے سامنے ہے وہ مسٹر خروشیف کا وہ اعلان ہے جو ۷؍جولائی ۱۹۶۰ء کے اخباروں میں شائع ہؤا ہے۔ اس اعلان میں مسٹر خروشیف اپنے مخصوص انداز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ بہت جلد اشتراکی جھنڈا ساری دنیا پر لہرانے لگے گااور اشتراکیت عالمگیر غلبہ حاصل کرے گی۔ چنانچہ اِس بارے میں اخباری رپورٹ کے الفاظ درج ذیل کئے جاتے ہیں:-
’’آسٹریلیا ۶؍جولائی۔ روسی وزیر اعظم مسٹر خروشیف نے منگل کے دن یہاں کہا کہ مجھے کمیونسٹ ملک کے سوا کسی دوسرے ملک میں جا کر کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ آپ نے مزید کہا کہ میں ساری دُنیا پر اشتراکی جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور مجھے اُسوقت تک زندہ رہنے کی خواہش ہے۔ مجھے توقع ہے کہ میری اس خواہش کی تکمیل کا دن دُور نہیں‘‘
(نوائے وقت لاہور ۷؍جولائی ۱۹۶۰ء)
خواہش کرنے کا ہر شخص کو حق ہے مگر ہم مسٹر خروشیف کو کُھلے الفاظ میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ انشاء اﷲ تعالیٰ ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔ مسٹر خروشیف ضرور تاریخ دان ہونگے اور انہوں نے لازماً تاریخ عالم کا مطالعہ کیا ہو گا کیا وہ ایک مثال بھی ایسی پیش کر سکتے ہیں کہ دنیا کے کسی حصہ میں اور تاریخ عالم کے کسی زمانہ میں توحید کے مقابلہ پر شرک یا دہریت نے غلبہ پایا ہو؟ وقتی اور عارضی غلبہ کا معاملہ جداگانہ ہے (کیونکہ وہ نہر کے پانی کی اس ٹھوکر کا رنگ رکھتا ہے ۔ جس کے بعد پانی اور بھی زیادہ تیزی سے چلنے لگتاہے) جیسا کہ حضرت سرور کائنات فخر رسل صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جنگ اُحد میں ہوا مگر لمبا یا مستقل غلبہ کبھی بھی توحید کے سچے علمبرداروں کے مقابل پر دہریت اور شرک کی طاقتوں کو حاصل نہیں ہوا اور نہ انشاء اﷲ کبھی ہو گا قرآن واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ:-
کتب اﷲ لا غلبن انا و رسلی
یعنی خدا نے یہ بات لکھ رکھی ہے کہ شرک اور دہریت کے مقابلہ پر اس کی توحید کے علمبردار رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔زیادہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں حضرت موسٰی ؑکی طرف دیکھو کہ وہ کس کمزوری کی حالت میں اُٹھے اور ان کے سامنے فرعون کی کتنی زبردست طاغوتی طاقتیں صف آرا تھیں مگر انجام کیا ہوا اس کے لئے لنڈن کے عجائب خانہ میں فرعون کی نعش ملاحظہ کرو۔ حضرت عیسٰیؑ کا یہ حال تھا کہ ایلی ایلی لماسبتقنی کہتے کہتے بظاہر رخصت ہو گئے مگر آج ان کے نام لیوا ساری دنیا پر سیلِ عظیم کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔ حضرت فخرِ رسل صلی اﷲعلیہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھاؤ کہ عرب کے بے آب و گیاہ ریگستان میں ایک یتیم الطرفین بچہ خدا کا نام لے کر اٹھتا ہے اور سارا عرب اس پر یوں ٹوٹ پڑتا ہے کہ ابھی بھسم کر ڈالے گا مگر دس سال کے قلیل عرصہ میںاس دُ رِّیتیم نے ملک کی کایا پلٹ کر رکھدی اور سارا عرب توحید کے دائمی نعروں سے گونج اٹھا۔
مگر ہمیں اس معاملہ میں گزشتہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں۔ مسٹر خروشیف نے ایک بول بولا ہے اور یہ بہت بڑا بول ہے ہم اس کے مقابل پر اس زمانہ کے مامور اور نائب رسولؐ اور خادم ِ(دین حق)حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہؐ کی ایک پیشگوئی درج کرتے ہیں جو آپ نے خدا سے الہام پا کر آج سے پچپن سال پہلے شائع فرمائی اور اس میں اپنے ذریعہ ہونے والے عالمگیر اسلامی غلبہ کا زور دار الفاظ میں اعلان فرمایا ۔
آپ فرماتے ہیں:۔
’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائیگا اور میرے سلسلہ (یعنی اسلام اور احمدیت ) کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کر دے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زورسے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاویگا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اورابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ سواَے سننے والو اِن باتوں کو یاد رکھو اور اِن پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔‘‘
(تجلیّات الٰہیہ صفحہ ۴)
دوسری جگہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:۔
’’اے تمام لوگو سُن رکھو کہ یہ اس خدا کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا… وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب (اسلام) اور اس سلسلہ میں فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائیگی۔ …دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا (یعنی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم) میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھُولے گا اور کوئی نہیں جو اس کوروک سکے‘‘
(تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۶۴)
اور تیسری جگہ روس کے مخصوص تعلق میں اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’میں نے دیکھاکہ زارِ روس کا سونٹا (عصا) میرے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ اس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں‘‘ (تذکرہ بحوالہ البدر ۲؍فروری ۱۹۰۳ء)
اس لطیف رؤیا میں روس کے متعلق یہ عظیم الشان بشارت دی گئی ہے کہ وہ خدا کے فضل سے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ و السّلام کی روحانی توجہ کے نتیجہ میں (دین حق) قبول کرے گا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی کا جُوا برضا و رغبت اپنی گردن پر رکھے گا اور اس طرح انشاء اﷲ اشتراکیت کے موجودہ گڑھ میں بھی دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ دین حق کا جھنڈا لہرائے گا اور یہ جو اس کشف میں ’’پوشیدہ نالیوں‘‘ کے الفاظ آتے ہیں ان میں اشتراکی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اس کشف کے سولہ سترہ سال بعد عالمِ وجود میں آیا اور اس کی پالیسی کی بنیاد آئرن کرٹن اور مخفی کارروائیوں پر رکھی گئی۔
اب مسٹر خروشیف کو چاہیئے کہ اپنے بلند و بالابولوں کے ساتھ ان خدائی پیشگوئیوں کو بھی نوٹ کر لے۔ انسانی زندگی محدود ہے مسٹر خروشیف نے ایک دن مرنا ہے اور میں بھی اس دنیوی زندگی کے خاتمہ پر خدا کی ابدی رحمت کا امیدوار ہوں مگر دنیا دیکھے گی اور ہم دونوں کی نسلیں دیکھیں گی کہ آخری فتح کس کے مقدر میں لکھی ہے۔ روس کا ملک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی دیکھ چکا ہے جو اِن ہیبت ناک الفاظ میں کی گئی تھی کہ :۔
’’زار بھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی باحالِ زار‘‘ (براھین احمدیہ حصہ پنجم)
اب (دین حق) کے دائمی غلبہ اور توحید کی سربلندی کا وقت آ رہا ہے اور دُنیا خود دیکھ لے گی کہ مسٹر خروشیف کا بول پورا ہوتا ہے یا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق(دین حق) کی فتح کا ڈنکا بجتا ہے‘‘۔ ۵۲
خدا کی قدرت دیکھئے۔ ساری دنیا میں اشترکیت کے تسلّط کا خواب دیکھنے والا یہ شخص جو سٹالن کے بعد روس کا مسلّمہ رہنما تھا۔ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۶۴ء کو کمیونسٹ پارٹی کے عدم اعتماد کی بناء پر معزول کر دیا گیا اور سات سال تک گوشہ گمنامی میں رہنے کے بعد ۱۱؍ستمبر ۱۹۷۱ء کو چل بسا اور کریملن میں ماسکو کے ایک عام قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ۵۳
اٹھارہ سال بعد ۹؍نومبر ۱۹۸۹ء کو برلن دیوار کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور نہ صرف مشرقی جرمنی بلکہ مشرقی یورپ کے سب اشتراکی ممالک روس کی استبدادی زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہوئے۔ روسی صدر گورباچوف ۲۴؍اگست ۱۹۹۰ء کو کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے ۔ روسی کمیونسٹ پارٹی توڑ دی گئی اور ۲۶؍اکتوبر ۱۹۹۱ء کو ماسکو شہر کی کونسل نے شہر سے اشتراکی انقلاب کے بانی لینن کا مجسمہ ہٹانے کا اعلان کر دیا۔ ۵۴
علاّمہ نیاز فتحپوریؔ کا سفر پاکستان اور
جماعت احمدیہ کا قریبی مطالعہ
علامہ نیاز فتحپوری صاحب ایڈیٹر ماہنامہ
’’ نگار‘‘ لکھنئو امسال مئی کے اوائل میں پاکستان تشریف لائے۔ جہاں آپ نے
وسط جونتک قیام فرمایااُس دوران میں آپ باوجود خواہش کے ربوہ تشریف نہ لا سکے۔ لیکن لاہور اور کراچی میں آپ کو احمدی احباب سے ملنے اور جماعت احمدیہ کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ نے واپس جا کر ’’ نگار‘‘ بابت جولائی ۱۹۶۰ء میں اپنے سفرِ پاکستان کے حالات سپرد قلم فرمائے۔ جس میں آ پ نے ’’ احمدی جماعت کا قریب تر مطالعہ‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت جماعت کی عظمتِ کردار اور بلندئ اخلاق کے بارہ میں اپنے قلبی تاثرات کا بھی ذکر فرمایا جو درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
احمدی جماعت کا قریب تر مطالعہ
’’ لکھنئوسے چلتے وقت ایک ذہنی یا جذباتی پروگرام میں نے یہ بھی بنایا تھا کہ اس سفر
کے دوران میں اگر قادیان نہیں تو ربوہ ضرور دیکھونگا جو سنا ہے کسی وقت وادئ غیر ذی زرع تھا اور اب احمدی مجاہدین نے اسے ایک متمدن شہر بنا دیا ہے۔ قادیان کا سوال اس لئے سامنے نہ تھا کہ پورا خاندان میرے ساتھ تھا اور ربوہ تو خیر میں کراچی سے تنہا بھی آ سکتا تھا لیکن افسوس ہے کہ میرا یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ میرے ویزا میں ربوہ درج نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ میری صحت اس کی متقاضی نہ تھی کہ موسم گرما میں سفر ریگستان کی جرأت کر سکوں لیکن میری اس پست ہمتی کی تلافی کسی نہ کسی حد تک اس طرح ہو گئی کہ بعض مخلصین سے امرتسر سٹیشن پر تبادلۂ نگاہ ہو گیا بعض سے لاہور میں یاد اﷲ ہو گئی اور جب کراچی پہونچا تو ایک سے زائد بار مجھے ان کو زیادہ قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ مل گیا۔
سب سے پہلی چیز جسے میں نے بیّن طور پر محسوس کیا ان کی متانت و سنجیدگی تھی ان کے ہنستے ہوئے چہرے ان کے بشاش قیافے اور ان کی بوئے خوشدلی تھی۔ دوسری بات جسنے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا یہ تھی کہ انہوں نے دوران گفتگو میں مجھ سے کوئی تبلیغی گفتگو نہیں کی ۔ کبھی کوئی ذکر تعلیم احمدیت کا نہیں چھیڑا۔ جو یقینا مجھے پسند نہ آتا۔ میرا مقصود ایک خاموش نفسیاتی مطالعہ کرنا تھا۔ اور یہ آج کی انتہائی ادا شناسی تھی کہ دعوتوں‘ عصرانوں میں انہوں نے مجھے اس مطالعہ کا پورا موقعہ دیا۔ اور کوئی بات ایسی نہیں چھیڑی کہ معاملہ نگاہ سے ہٹ کر زبان تک پہونچتا اور میرا زاویۂ نظر بدل جاتا۔
اس کا علم تو مجھے تھا کہ احمدی جماعت بڑی با عمل جماعت ہے لیکن یہ علم زیادہ سماعی و کتابی تھا۔ اور میں کبھی اس کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ اُ ن کی زندگی کی بنیاد ہی سعَی و عمل پر قائم ہے۔ اور جدوجہد ان کا قومی شعار بن گیاہے۔
اس سے ہر شخص واقف ہے کہ وہ ایک مشنری جماعت ہے اور ایک خاص مقصد کو سامنے رکھ کر آگے بڑھتی ہے اور ایسے ناقابل شکست عزم و حوصلہ کے ساتھ کہ تاریخ اسلام میں اس کی مثال قرون اولیٰ کے بعد کہیں نہیں ملتی۔
میں حیران رہ گیا یہ معلوم کر کے کہ ان کے دوشفاخانے جو انہوں نے یہیں کراچی کی دو غریب آبادیوں میں قائم کئے ہیں۔ محض ان کے چند نوجوان افراد کی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کی بنیاد کھو دی۔ ان کی دیواریں اٹھائیں۔ ان کی چھتیں استوار کیں۔ ان کا فرنیچر تیار کیا۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ ان شفاخانوں سے روزانہ سینکڑوں غرباء کو نہ صرف دوائیں بلکہ طبی غذائیں بھی مفت تقسیم کی جاتی ہیں اور عوام کی ذہنی تربیت کے لئے ریڈنگ روم اور کتب خانے بھی قائم ہیں۔
؎
دل شکستہ دراں کوچہ می کنند درست
چنانکہ خود نشناسی کہ از کجا بشکست
کراچی اور لاہور میں اس جماعت کے افراد پانچ پانچ ہزار سے زیادہ نہیں لیکن اپنی ’’ گراںما ئگی مستقبل‘‘ کے لحاظ سے وہ ایک ’’ بنیان مرصوص‘‘ ناقابل تزلزل ایک
حصار آہنی ہیں ناقابل تسخیر! اور کھلی ہوئی نشانیاں ہیں اس ’’ اسوۂ حسنہ‘‘ کی جس کاذ کر
محراب و منبر پر تو اکثر سنا جاتا ہے لیکن دیکھا کہیں نہیں جاتا۔
پھر سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے وہ کیا بات ہے جس نے انہیں یہ سوجھ بوجھ عطا کی اس کا جواب ابھری ہوئی جماعتوں کی تاریخ میں ہم کو صرف ایک ہی ملتا ہے۔ اور وہ عظمتِ کردار ! بلندئ اخلاق!
اس وقت مسلمانوں میں ان کو کافر و بے دین کہنے والے تو بہت ہیں لیکن مجھے تو
آج ان مدعیانِ اسلام کی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آتی جو اپنی پاکیزہ معاشرت اپنے اسلامی رکھ رکھاؤ اپنی تابِ مقاومت اور خوئے صبر و استقامت میں احمدیوں کے خاک ِپا کو بھی پہونچتی ہو!
ع
ایں آتشِ نیرنگ تہ سوز و ہمہ کس را
یہ امر مخفی نہیں کہ تحریک احمدیت کی تاریخ ۱۸۸۹ء سے شروع ہوتی ہے۔ جس کو کم و بیش ستّر سال سے زیادہ زمانہ نہیں گذرا‘ لیکن اسی قلیل مدت میں اس نے اتنی وسعت اختیار کر لی کہ آج لاکھوں نفوس اس سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ اور دنیا کا کوئی دورو دراز گوشہ ایسا نہیں جہاں یہ مردانِ خدا اسلام کی صحیح تعلیم انسانیت پرستی کی نشرو اشاعت میں مصروف نہ ہوں۔
آپ کو یہ سُن کر حیرت ہو گی کہ جب بانی ٔ احمدیت کی رحلت کے بعد ۱۹۳۴ء میں موجودہ امیر جماعت نے تحریک جدید کا آغاز کیا تو اس کا بجٹ صرف ۲۷ ہزار کا تھا لیکن ۲۵ سال کے بعد وہ بیس لاکھ ۸۰ ہزار تک پہونچ گیا۔ جو انتہائی احتیاط و نظم کیساتھ‘ تعلیمات اسلامی پر صرف ہو رہا ہے اور جب قادیان و ربوہ میں صدائے اﷲ اکبر بلند ہوتی ہے تو ٹھیک اسی وقت یورپ ‘ افریقہ و ایشیا کے ان بعید و تاریک گوشوں کی مسجدوں سے بھی یہی آواز بلند ہوتی ہے‘ جہاں سینکڑوں غریب الدیار احمدی خدا کی راہ میں دلیرانہ آگے قدم بڑھائے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔
باور کیجئے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ باوجود ان عظیم خدمات کے بھی اس بے ہمہ و باہمہ جماعت کو بُرا کہا جاتا ہے تو مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے اور مسلمانوں کی اس بے بصری پر حیرت ہوتی ہے۔
؎
مبیں حقیر گدایانِ عشق راکایں قوم
شہانِ بے کر و خسرو انِ بے کُلہ اند
جب سے میں نے طریق احمدیت پر اظہار خیال شروع کیا ہے۔ عجیب و غریب سوالات مجھ سے کئے جا رہے ہیں۔ بعض حضرات اس جماعت کے معتقدات کے بارے میں استفسار فرماتے ہیں۔ بعض براہ راست بانی احمدیت کے دعوائے مہدویت و نبوت کے متعلق سوال کرتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیںجو ان کے اخلاق کو داغدار ظاہر کر کے مجھے ان کی طرف سے متنفر کرنا چاہتے ہیں اور بعض توصاف صاف مجھ سے یہی پوچھ بیٹھتے ہیں ’’کیا میں احمدی ہو
گیا ہوں‘‘ یہ سب سنتا ہوں۔ اور خاموش ہو جاتا ہوں۔ کیونکہ وہ یہ تمام سوالات اس لئے کرتے ہیں کہ وہ مجھے بھی اپنا ہی جیسا مسلمان سمجھتے ہیں اور اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ :۔
؎
ہم کعبہ و ہم بتکدہ سنگ رہِ مابود
وفتیم و صنم برسر مہراب شکستیم
مذہب و اخلاق در اصل ایک ہی چیز ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ احمدی جماعت کی بنیاداسی احساس پر قائم ہے اور اسی لئے وہ مذہبی عصبیت سے کوسوں دور رہیں وہ تمام اخلاقی مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور جس حد تک خدمت خلق کا تعلق ہے‘ رنگ و نسل اور مسلک و ملت کا امتیاز ان کے یہاں کوئی چیز نہیں وہ ہمیشہ سادہ غذا استعمال کرتے سادے کپڑے پہنتے ہیں سگریٹ و مے نوشی وغیرہ کی مزموم عادتوں سے مبّرا ہیں‘ نہ تھیٹر و سنیما سے انہیں کوئی واسطہ ‘ نہ کسی اور لہو و لعب سے دلچسپی۔ انہوں نے اپنی زندگی کی ایک شاہرہ قائم کر لی ہے اور اسی پر نہایت متانت و سلامت روی کے ساتھ چلے جا رہے ہیں یہی حال ان کی عورتوں کا ہے اور اسی فضا میں ان کے بچے پرورش پا رہے ہیں مجھے مطلق اس سے بحث نہیں کہ ان کے معتقدات کیا ہیں۔ میں تو صرف انسان کی حیثیت سے ان کا مطالعہ کرتا ہوں اور ایک معیاری انسان کی حیثیت سے انکا احترام میرے دل میں ہے۔
اس وقت تک بانی ٔ احمدیت کا مطالعہ جو کچھ میں نے کیا ہے اور میں کیا جو کوئی خلوص و صداقت کے ساتھ ان کے حالات و کردار کا مطالعہ کرے گااسے تسلیم کرنا پڑیگا کہ وہ صحیح معنی میں عاشق رسولؐ تھے اور اسلام کا بڑا مخلصانہ درد اپنے دل میں رکھتے تھے۔ انہوں نے جو کچھ کہا یا کیا وہ نتیجہ تھا محض انکے بے اختیار انہ جذبٔہ خلوص اور داعیات حق و صداقت کا۔اس لئے سوال اُن کی نیت کا باقی نہیں رہتا۔ البتہ گفتگو اس میں ہو سکتی ہے کہ انہوں نے کن معتقدات کی طرف لوگوں کو دعوت دی ‘ سو اس پر روایتاً و درایتاً دونوںطرح غور و تامل ہو سکتا ہے‘ لیکن بے سود ‘ کیونکہ اس کا تعلق صرف ان کے ایہال و عواطف سے ہو گا نہ کہ عمل و کردار سے‘ اور اصل چیز عمل و کردار ہے۔ اب رہا سوال میرے احمدی ہونے یا نہ ہونے کا سو اسکے متعلق میں اسکے سواکیا کہہ سکتا ہوں کہ سرے سے میرا مسلمان ہونا ہی مشکوک ہے … چہ جائیکہ احمدی ہونا ۔ یہاں تو چیز صرف عمل ہے اوراس حیثیت سے میں اپنے آپ کو اور زیادہ نااہل پاتا ہوں۔
برہمن می شدم گرایں قدرزنار می بستم
اس لئے مناسب یہی ہے کہ مجھ سے اس قسم کا کوئی ذاتی سوال نہ کیا جائے نہ اس لحاظ سے کہ یہ بالکل بے نتیجہ سی بات ہے بلکہ اس خیال سے بھی کہ
دریغا آبروئے دیر گر غالب مسلماں شد
اس سلسلہ میں مجھے ایک بات اور عرض کرنا ہے ‘ وہ یہ کہ آج یا کل یقینا وہ وقت بھی آئے گا جب میں احمدی جماعت کے مذہبی لڑیچر پر ناقدانہ تبصرہ کرونگا‘ کیونکہ بغیر سمجھے ہوئے کسی بات کو مان لینا میرے فطری رجحان کے خلاف ہے اور احمدی جماعت کے معتقدات میں کئی باتیں مجھے ایسی بھی نظر آتی ہیں جواب تک میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ لیکن اس کا تعلق صرف میرے ذاتی و انفردی ردّ و قبول سے ہو گا نہ کہ احمدی جماعت کے وجود اجتماعی سے جس کی افادیت سے انکار کرنا گویا دن کو رات کہنا ہے اور دن کو رات میں نے کبھی نہیں کہا۔۵۵
حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب
کادورہ مغربی پاکستان و آزاد کشمیر
اس سال میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم تعلیم وقف جدید نے مغربی پاکستان اور
آزاد کشمیر کا نہایت کامیاب اصلاحی‘ تبلیغی و تربیتی دورہ فرمایا۔ آپ کی تشریف آوری پر احمدی جماعتوں نے پُرجوش خیر مقدم کیا‘ خاص تقاریب کا انعقاد کر کے غیر از جماعت معززین کو بھی مدعو کیا۔ آپ کے پُر اثر خطابات نے اپنوں اور بیگانوں کو بہت متاثر کیا اس دورہ میں مندرجہ ذیل مقامات پر آپ کی تقاریر ہوئیں:۔
۱۔قاضی احمد ضلع نواب شاہ۔ (مقامی جماعت کی طرف سے رئیس علی نوازخاں صاحب کے باغ میں دعوت عصرانہ کا انتظام مورخہ ۲؍جون) ۵۶ ۲۔موضع موہلنکی ضلع گوجرانوالہ (جلسہ عام میں شرکت مورخہ ۱۴ ؍ اکتوبر) ۳۵۷۔وزیر آباد (مقامی جماعت کے دعوت عصرانہ اور اجلاس عام سے موثر خطاب) ۴۵۸ـ۔کھاریاں (مورخہ ۱۹۔۲۰؍اکتوبر ۵۵۹۔مانسہرہ (مورخہ ۲۸؍اکتوبر ۶۰ ۶۔مظفر آباد(مورخہ ۲۹؍اکتوبر ۶۱ ۷۔باغ شہر (فاریسٹ ریسٹ ہاؤس میں قیام اور ڈاکڑ امام دین صاحب کے مکان پر احباب جماعت کو قیمتی نصائح سے نوازا) ۶۲ ۸۔میر پور آزادکشمیر( تقریر اور مجلس سوال و جواب) ۶۳
۹۔جہلم ۶۴
علاّمہ نیاز فتحپوری قادیان میں
۲۸۔۲۹ جولائی ۱۹۶۰ء کو علاّمہ نیاز فتحپوری نے زیارت قادیان کا شرف حاصل کیا اور مرکز احمدیت
کی روحانی فضا اور جماعت کی دینی خدمات سے بے حد متاثر ہوئے جس کا اظہار انہوں نے واپسی پر اپنے رسالہ ’’نگار‘‘(ستمبر ۱۹۶۰ء) کے ذریعہ درج ذیل الفاظ میں فرمایا:۔
۲۸ـ۔۲۹ جولائی کی وہ چند ساعتیں جو میں نے قادیانؔ بسر کیں‘ میری زندگی کی وہ گھڑیاں تھیں‘ جن کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
حیاتِ انسانی کا ہر لمحہ زندگی کا ایک نیا درس‘ ایک نیا تجربہ اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اگر زندگی نام صرف سانس کی آمد و شد کا نہیں بلکہ آنکھ کھول کر دیکھنے اور سمجھنے کا بھی ہے … اور … ان چند ساعتوں میں جو کچھ میں نے یہیں دیکھا وہ میری زندگی کا اتنا دلچسپ تجربہ تھا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں ۵۰ سال پیچھے ہٹ کر وہی زندگی شروع کرتا جو قادیانؔ کی احمدی جماعت میں مجھے نظر آئی ۔ لیکن
ع
حیف صد حیف کہ مادیر خبردار شدیم
میں انفرادی حیثیت سے ہمیشہ بے عمل انسان رہا ہوں‘ لیکن مسائلِ حیات کو (جن میں مذہب بھی شامل ہے) میں ہمیشہ اجتماعی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہوںاور یہ نقطۂ نظر میرے ذہن میں حرکت و عمل کے سوا کچھ نہیں …پھر یہ داستان بہت طویل ہے کہ پچھلی نصف صدی میں کتنی خانقاہیں‘ کتنے خانوادے‘ کتنے ادارے‘ کتنی درسگاہیںکتنے جلوہائے منبر و محراب میری نگاہ سے گزرے‘ اور میں کس طرح ان سے بے نیاز انہ گزر گیا۔ لیکن اب زندگی میں سب سے پہلی مرتبہ احمدی جماعت کی جیتی جاگتی تنظیم عمل دیکھ کر میں ایک جگہ ٹھٹک کر رہ گیا ہوں اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی زندگی کے اس نئے تجربہ و احساس کو کن الفاظ میں ظاہر کروں۔
میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور علماء اسلام کی بے عملی کی طرف سے اس قدر مایوس ہو چکا ہوں کہ میں اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا کہ ان میں کبھی آثارِ حیات پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اب احمدی جماعت کی جیتی جاگتی تنظیم عمل کو دیکھ کے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا
؎
غنچہ پھر لگا کھلنے‘ آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہؤا دیکھا گم کیا ہوا پایا
کیونکہ عالم اسلامی میں آج یہی ایک ادارہ ایسا ہے جو
ع
دعوتِ بر گے و نوائے کند
اور اسلام کا مفہوم میرے ذہن میں ’’ دعوتِ برگ و نوا‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں۔
لوگ منزل تک پہنچنے کے لئے راہیں ڈھونڈھتے ہیں۔ برسوں سرگرداں رہتے ہیں اور ان میں صرف چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو منزل کو پا لیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اُنہیں میں سے ایک مرزا غلام احمدؐ قادیانی بھی تھے۔ سو اب یہ فکرو جستجو کہ وہ کن راہوں سے گزر کر منزل تک پہنچے بالکل بے سود ہے۔ اصل چیز راہ پیمائی نہیں بلکہ منزل تک پہنچ جانا ہے۔ اور اگر میں احمدی جماعت کو پسند کرتا ہوں تو صرف اسی لئے کہ اس نے اپنی منزل پا لی ہے اور یہ منزل وہی ہے جس کی بانی ٔ اسلامؐ نے نشاندہی کی تھی۔ اس سے ہٹ کر میں اور کچھ نہیں سوچتا اور نہ سوچنے کی ضرورت۔
میرا قادیانؔ آنا بھی اسی سِلسلہ کی چیز تھی یعنی جس کی عملی زندگی کا ذکر میں سنتاچلا آ رہا تھا اسے آنکھوں سے بھی دیکھنا چاہتا تھا۔
ہر چند میں بہت کم وقت لے کر یہاں آیا‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نتیجہ تک پہنچنے کے لئے یہ قلیل فرصت بھی کم نہ تھی۔ کیونکہ اس جماعت کی زندگی ایک ایسا کُھلا ہوا صحیفۂ حیات ہے جس کے مطالعہ کیلئے نہ زیادہ وقت کی ضرورت ہے نہ کسی چون و چرا کی۔ اسی طرح ان کی دفتری تنظیم بھی گویا ایک شفاف آئینہ ہے جس میں زنگ کا نام تک نہیں۔ یکسر خلوص و اخلاق‘ یکسر حرکت و عمل۔
قادیانؔ میں احمدی جماعت کے افراد جو ’’ درویشانِ قادیان‘‘ کہلاتے ہیں‘ دو سَو سے زیادہ نہیں۔ جو قصبہ کے ایک گوشہ میں نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور ان کو دیکھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا
؎
یک چراغ ست دریں خانہ کہ از پر توِآں
ہر کجا می نگری‘ انجمنے ساختہ اند
یہی وہ مختصر سی جماعت ہے جس نے ۴۷ء کے خونیں دور میں اپنے آپکو ذبح و قتل کے لئے پیش کر دیا اور اپنے ہادی و مرشد کے مسقط الرأس کو ایک لمحہ کے لئے چھوڑنا گوارانہ کیا۔
؎
موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اُٹھ جائیں کیا؟
یہی وہ جماعت ہے جس نے محض اخلاق سے ہزاروں دشمنوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور اُن سے بھی قادیانؔ کو ’’دارالامان‘‘ تسلیم کرا لیا۔ یہی وہ جماعت ہے جو ہندوستان کے تمام احمدی اداروں کا سر رشتٔہ تنظیم اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اور یہی وہ دُورافتادہ مقام ہے جہاں سے تمام اکناف ہند میں اسلام و انسانیت کی عظیم خدمت انجام دی جا رہی ہے۔
آپ کو یہ سُن کر حیرت ہو گی کہ صرف پچھلے تین سال کے عرصہ میں انہوں نے تعلیم اسلامی‘ سیرت نبویؐ‘ ضرورت مذہب‘ خصوصیات قرآن وغیرہ متعدد مباحث پر ۴۳ کتابیں ہندی‘ اُردو‘ انگریزی اور گور مکھی زبان میں شائع کیں اور ان کی ۴۴۰۵۰۰ کاپیاں تقریباً مفت تقسیم کیں۔
اسی طرح تعلیمی و ظائف پر جن میں مُسلم و غیر مُسلم طلبہ دونوں برابر کے شریک ہیں ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء میں اس جماعت نے ۳۱ ہزار روپیہ صرف کیا ۔خود قادیانؔ میں ان کے تین مدرسے قائم ہیں۔ دو مڈل اسکول لڑکوں اور لڑکیوںکے لئے اور تیسرا مولوی فاضل کے نصاب تک۔ ان کے علاوہ تیرہ مدرسے ان کے ہندوستان کے مختلف مقامات میں ہیں جن پر جماعت کا ہزاروں روپیہ صرف ہو رہا ہے۔
اِسی سلسلہ میں ایک اَوربڑی خدمت جو صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہے وہ قادیانؔ کا شفاخانہ ہے اس میں ۱۹۴۸ء سے اس وقت تک ۳۴۶۳۰۰۰ مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں ۳۰ فی صدی مسلمان اور ۷۰ فیصدی غیر مسلم تھے۔
یہ ہیں وہ چند خدمات جماعت احمدیہ قادیانؔ کی جن سے متاثر ہو کر ۱۹۴۸ء سے لے کر اس وقت تک قریب قریب ڈیڑھ لاکھ آدمیوں نے یہاں کے حالات کا مطالعہ کرنے کی تکلیف گوارا کی۔
یہاں میں نے کالج اور دارالاقامہ کی ان عظیم الشان عمارتوں کو بھی دیکھا جنہیں بانی ٔ تحریک احمدیت نے بڑے اہتمام سے طیار کروایا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ان پر جائیداد متروکہ کی حیثیت سے حکومت نے قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن اب یہ عمارتیں جماعت احمدیہ کے حق میں واگزاشت کر دی گئی ہیں۔
جس وقت مَیں نے حضرت میرزا صاحب کے بیت الفکر‘ بیت الدعا‘ بیت الریاضت‘
مسجد نور‘ مسجد اقصیٰ اور منارۃ المسیح کو دیکھا تو ان کی وہ تمام خدمات سامنے آ گئیں جو تحفّظِ اسلام کے سلسلہ میں ایک غیر منقطع جدوجہد کے ساتھ ہزاروں مصائب جھیل کر انہوں نے انجام دی تھیں اور جن کے فیوض اس وقت بھی دنیا کے دور دراز گوشوں میں جاری ہیں۔
جس وقت مَیں قادیان پہنچا اتفاق سے ایک جرمن احمدی ولیمؔ ناصر بھی یہاں مقیم تھے۔ یہ ایک درویش صفت انسان ہیں جو مہینوں سے احمدیہ جماعت کے مختلف مرکزوں اور اداروں کے سیاحانہ مطالعہ میں مصروف ہیں۔ مَیں ان کو دیکھتا تھا اور حیرت کرتا تھا کہ جرمنی ایسے سرد ملک کا باشندہ ہندوستان کی شدید گرمی کو کس طرح خوش دلی سے برداشت کر رہا ہے۔ لیکن جب مَیں نے ان سے گفتگو کی تو معلوم ہؤا کہ ان کو شدائدِ سفر کا احساس تک نہیں ‘ سچ ہے۔
ع
عشق ہر جامی برد مارابہ ساماں می برد
مَیں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے عیسوی مذہب چھوڑ کر اسلام کیوں قبول کیا؟ تو اس کا سبب انہوں نے ’’ اسلام کی بلند اخلاقی تعلیم‘‘ ظاہر کیا جس کا علِم انہیں سب سے پہلے جرمنی کی جماعت احمدیہ کو دیکھ کر ہوا تھا۔ یہ بلاد مغرب و افریقہ میں جس جوش و انہماک کے ساتھ خدمتِ اسلام میں مصروف ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن پاک کے تراجم حد درجہ سلیقہ و اہتمام کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ چنانچہ انگریزی ‘ جرمنی اور ان کے اس عزم و ولولہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
مَیں نے یہاں سے رخصت ہوتے وقت اس قطعۂ زمین کو بھی دیکھا جہاں حضرت میرزا غلام احمد صاحب آسودۂ خواب ہیں اور ان کی وہ تمام مجاہدانہ زندگی سامنے آ گئی جس کی کوئی دوسری نظیر مجھے اِ س دَور میں تو کہیں نظر نہیں آتی۔
؎
کیست کز کوشش فرہاد نشاں باز د ہد
مگرآں نقش کہ از تیشہ بخارا ماند
۶۵
ایک معزّز غیر احمدی دوست کا خط اور
علّامہ صاحب کا خیال افروز جواب
مدیر’’ نگار‘‘ علامہ نیازؔ فتحپوری کے احمدیت سے متعلق مسلسل تائیدی قلم اٹھانے سے جہاں احمدیہ جماعت میں
اُن کے لئیجذبات تشکر پیدا ہوئے اور ہر طرف خوشی کی ایک لہر دور گئی وہاں غیراز جماعت
حلقوں میں دو زبردست ردّ عمل پیدا ہوئے۔ایک طبقہ احمدیت کی نسبت گہرا مطالعہ کرنے لگا مگر ایک طبقہ میں بے چینی کے آثار ظاہر ہو گئے۔ جناب سیّد نصیر حسین صاحب سہارنپوری دوسرے طبقہ میں شامل تھے جنہوں نے یہ مضامین پڑھ کر آپ کو ایک تنقیدی خط لکھا جس میں پروفیسر الیاس برنی صاحب کی ایک کتاب پڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔
علاّمہ موصوف نے اکتوبر ۱۹۶۰ء کے پرچہ میں یہ خط اور اس کا جواب شائع کر دیا جو نہایت خیال افروز تھا ذیل میں خط اور جواب دونوں کو بجنسہٖ درج کیا جاتا ہے۔
احمدی جماعت اور الیاس برنی
سید نصیر حسین سہارنپور
کچھ زمانہ سے آپ احمدی جماعت کی طرفداری
میں اظہار خیال کر رہے ہیں اور اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان سے بہت متاثر ہیں لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں کہ وہ غیر احمدی مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں۔ وہ اس حد تک متعصب ہیں کہ تمام مسلمانوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات بھی ناجائز سمجھتے ہیں اور ن کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ وہ اپنے سوا سب کو کافر کہتے ہیں اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اب رہا میرزا غلام احمد صاحب کا دعویٰ مہدویت و مسیحیت و نبوت۔ سو اس کی بابت میں مشورہ دونگا کہ آپ جناب الیاس برنی کی کتاب ’’فتنۂ قادیانیت‘‘ کا مطالعہ فرمائیے۔ اس کے پڑھنے پر آپکو معلوم ہو جائے گا کہ مرزا صاحب کے دعوے کتنے لغو و باطل تھے۔
نگار اس میں شک نہیں میں احمدی جماعت سے کافی متاثر ہوں اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ اس وقت ان تمام جماعتوں میں جو اپنے آپکو مسلمان کہتے ہیں صرف احمدی جماعت ہی ایک ایسی جماعت ہے۔ جس نے صحیح معنی میں اسلام کی حقیقت کو سمجھا ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کیا ساری دنیا نے اسلام کو مخصوص عقائد میں محدود کر دیا ہے۔ اور اس سے ہٹ کر کبھی یہ غور کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی کہ اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کے عروج کا تعلق صرف عقیدہ سے نہ تھا بلکہ انوارو کردار اور حرکت و عمل سے تھا۔
محض یہ عقیدہ کہ اﷲ ایک ہے اور رسول برحق اپنی جگہ بالکل بے معنیٰ بات ہے اگر ہماری اجتماعی زندگی متاثر نہیں ہوتی۔ اسی طرح مخصوص جہت میں مخصوص انداز سے عبادت کر لینا بھی بے سود ہے۔ اگر وہ ہماری ہیٔت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ تاریخ و عقل دونوں کا فیصلہ یہی ہے۔ پھر غور کیجئے کہ اس وقت احمدی جماعت کے علاوہ مسلمانوں کی وہ کونسی دوسری جماعت ایسی ہے جو زندگی کے صرف عملی پہلو کو اسلام سمجھتی ہو۔ اور محض عقائد کو مذہب کی بنیاد
قرار نہ دیتی ہو۔
میں نے جب سے آنکھ کھولی مسلمانوں کو باہم دست و گریبان ہی دیکھا۔ سنّی۔ شیعی۔ اہلِ قرآن۔ اہل حدیث‘ دیوبندی ۔غیر دیوبندی۔ وہابی۔ بدعتی اور خدا جانے کتنے ٹکڑے مسلمانوں کے ہو گئے۔ جن میں سے ہر ایک دوسرے کو کافر کہتا تھا۔ اور کوئی ایک شخص ایسا نہ تھا۔ جس کے مسلمان ہونے پر سب کو اتفاق ہو۔ ایک طرف خود مسلمانوں کے اندر اختلاف و تضاد کا یہ عالم تھا۔ اور دوسری طرف آریائی و عیسوی جماعتوں کا حملہ اسلامی لٹریچر اور اکابر اسلام پر کہ اسی زمانہ میں میرزا غلام احمد صاحب سامنے آئے اور انہوں نے تمام اختلافات سے بلند ہو کر دنیا کے سامنے اسلام کا وہ صحیح مفہوم پیش کیا جسے لوگوں نے بھلا دیا تھا یا غلط سمجھا تھا یہاں نہ ابوبکرؓ و علیؓ کا جھگڑا تھا نہ رفع یدین و آمین بالجہر کا اختلاف یہاں نہ عمل بالقرآن کی بحث تھی نہ استناد بالحدیث کی۔ اور صرف ایک نظریہ سامنے تھا اور وہ یہ کہ اسلام نام ہے۔ صرف اسوۂ رسول کی پابندی کا۔ اور اس عملی زندگی کا۔ اُس ایثار و قربانی کا۔ اس محبت و رأفت کا۔ اس اخوت و ہمدردی کا اور اس حرکت و عمل کا جو رسول اﷲ کے کردار کی تنہا خصوصیّت اور اسلام کی تنہا اساس و بنیاد تھی۔
میرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی مدافعت کی اور اس وقت کی۔ جب کوئی بڑے سے بڑا عالم دین بھی دشمنوں کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے سوتے ہوئے مسلمانوں کو جگایا اٹھایا اور چلایا یہاں تک کہ وہ چل پڑے۔ اور ایسا چل پڑے کہ آج روئے زمین کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ان کے نشاناتِ قدم سے خالی ہو۔ اور جہاں وہ اسلام کی صحیح تعلیم نہ پیش کر رہے ہوں۔
پھر ہو سکتا ہے کہ آپ ان حالات سے متاثر نہ ہوں ۔ لیکن میں تو یہ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں۔ کہ یقینا بہت بڑا انسان تھا وہ جس نے ایسے سخت وقت میں اسلام کی جانبازانہ مدافعت کی اور قرونِ اولیٰ کی اس تعلیم کو زندہ کیا ۔ جس کو دنیا بالکل فراموش کر چکی تھی۔
رہا یہ امر کہ مرزا صاحب ؐ نے خود اپنے آپ کو کیا ظاہر کیا۔ سو یہ چنداں قابل لحاظ نہیںکیونکہ اصل سوال یہ نہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو کیا کہا بلکہ صرف یہ کہ کیا کیا۔اور یہ اتنی بڑی بات ہے۔ کہ اس کے پیش نظر ( قطع نظر روایات واصطلاحات سے) میرزا صاحب کو حق پہنچتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو مہدی کہیں کیونکہ وہ ہدایت یافتہ تھے‘ مثیل مسیحؑ کہیں۔ کیونکہ وہ روحانی امراض کے معالج تھے‘ اَور ظل بنیؐ کہیں کیونکہ وہ رسولؐ کے قدم بہ قدم چلتے تھے۔
۲:۔ اب رہا یہ امر کہ غیر احمدی لوگوں میں وہ رشتہ مصاہرت قائم نہیں کرتے اور ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے۔ تو اس پر کسی کو کیوں اعتراض ہو۔ کیا آپ کسی ایسے خاندان میں شادی کرنا گوارا کریں گے جس کے افراد آپ کے مسلک کے مخالف ہیں اور کیا آپ ان لوگوں کی اقتداء کریں گے جو اپنے کردار کے لحاظ سے مقتدا بننے کے اہل نہیں ہیں۔
احمدی جماعت کا ایک خاص اُصولِ زندگی ہے ۔ جس پر ان کے مرد‘ ان کے بچے اور ان کی عورتیں سب یکساں کاربند ہیں۔ اس لئے اگر وہ کسی غیر احمدی مرد یا عورت سے رشتۂِ از دواج قائم کریں گے تو ان کی اجتماعیت یقینا اس سے متاثر ہو گی اور وہ یکرنگی وہم آہنگی جو اس جماعت کی خصوصیتِ کاخاصہ ہے ختم ہو جائے گی۔ آپ اس کو تعصب کہتے ہیں اور میں اس
کو اعتصام و فراست تدبیر۔
رہی برنی ؔ صاحب کی کتاب۔ سو اس کے متعلق اس سے زیادہ کیا کہوں کہ جس حد تک بانی ٔ احمدیت کی زندگی و تعلیم احمدیت کا تعلق ہے وہ تلبیس و کتمانِ حقیقت کے سوا کچھ نہیں۔ اور مجھے سخت افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ احمدیت کے مخالفین میرزا غلام احمد صاحب سے بہت سی ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو انہوں نے کبھی نہیں کہیں۔ خصوصیّت کے ساتھ مسئلہ ختم نبوت کہ عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ میرزا صاحب رسولؐ اﷲ کو خاتم النبییین نہیں سمجھتے تھے‘ حالانکہ وہ شدّت سے اس کے قائل تھے کہ شرعی نبوّت ہمیشہ کے لئے رسول اﷲ ؐ پر ختم ہو گئی۔ اور شریعت اسلام دنیا کی آخری شریعت ہے۔‘‘ ۶۶
حواشی
۱۔
افریقہ کے اوّلین احمدی مبلغ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرّ ۱۹؍فروری ۱۹۲۱ء کو سیرالیون میں پہنچے اور ۲۸؍فروری کو آپ نے گولڈ کوسٹ (غانا) کے ساحل پر قدم رکھا تھا (تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۲۷۶ طبع اول)
۲۔
۷؍نومبر ۱۹۱۸ء کو امریکہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۳ء میں "WHEATEN COLLEGE ILLINOIS" سے گریجویٹ ہوئے ۱۹۴۶ء میں "YOUTH FOR CHRIST INTERNATIONAL" کے وائس پریذیدنٹ منتخب ہوئے جس کے بعد انہوں نے دنیا بھر میں اشاعت عیسائیت کیلئے دورے شروع کر دئے۱۹۴۹ء تک وہ (روس کے علاوہ) قریباً تمام مشہور ممالک میں کامیاب لیکچر دے چکے تھے۔ عیسائی دنیا میں ان کی دھوم مچی ہوئی تھی اور اُن کا شمار صفِ اوّل کے ممتاز عالمی منادوں میں ہوتا تھا۔
۳۔
الفضل ۳؍ستمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۴ــ۔۵ (مضمون مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری)
۴۔
(اُس نے لکھا کہ مسٹر نسیم سیفی نے جو لیگس میں جماعت احمدیہ کے بڑے سرگرم مبلغ ہیں ڈاکٹر گراہم کی بیان کردہ ایک بات سے اختلاف کیا اور انہیں اس بارہ میں چیلنج کے رنگ میں پبلک مناظرہ کے لئے للکارا مسٹر گراہم اس دعوت کو پی گے (دی مسلم ورلڈجولائی ۱۹۶۰ء بحوالہ انصار اﷲ فروری ۱۹۶۱ء صفحہ ۴۲)
۵۔
’’میدان عمل ‘‘ صفحہ ۳۰۔۳۱ (از مولانا نسیم سیفی صاحب ) ایضاً الفضل ۲۸ تا ۳۰ جولائی ۱۹۶۴ء
۶۔
متی باب ۱۷ آیت ۲۰
۷۔
یوحنا باب ۱۱ آیت ۲۲
۸۔
الفرقان ربوہ مئی ۱۹۶۰ء صفحہ ۷۔۸۔۲۸۔۲۹
۹۔
الفضل ۳۰؍جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ۴
۱۰۔
روزنامہ ’’نئی روشنی کراچی ۲؍اپریل ۱۹۶۰ء بحوالہ الفضل ۷؍اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ۲
۱۱۔
الفضل ۳۰؍جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ۴
۱۲۔
صدر ریلجس ہیری ٹیج آف امریکہ(RELIGIOUS HERITAGE OF AMERICA)
۱۳۔
بحوالہ مضمون مولانا نسیم سیفی صاحب مطبوعہ الفضل ۳۰ؔ؍جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ۴
۱۴۔
اخبار ’’نوائے وقت‘‘ لاہور ۱۲ اپریل ۱۹۶۰ء بحوالہ الفضل ۲۶؍اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ۵
۱۵۔
اخبار رضاکار ۸؍مئی ۱۹۶۰ء بحوالہ الفضل ۲۶؍مئی ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۔۴
۱۶۔
بحوالہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۹
۱۷۔
اخبار بدر قادیان ۲۱؍جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۲
۱۸۔
ایضاً ۳؍مارچ ۱۹۶۰ء
۱۹۔
اخبار بدر قادیان ۲۱۔۲۸؍جنوری۔۲۵؍فروری۔۳؍مارچ ۱۹۶۰ء
۲۰۔
اس سلسلہ میں اخبار ’’ہندوستان‘‘ ۸؍جنوری ۱۹۶۰ء کے متن کے لئے ملاحظہ ہو بدر ۲۸؍جنوری۱۹۶۰ء صفحہ۱۰
۲۱۔
اخبار بدر قادیان ۲۱؍جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۴ (اس رپورٹ کا بیشتر حصہ اخبار ’’دعوت‘‘ دہلی مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۶۰ء نے بھی شائع کیا)
۲۲۔
تنزانیہ (سابق ٹانگانیکا) کا دارالسلطنت ۔ اُن دنوں اس کی آبادی ایک لاکھ تیس ہزار افراد پر مشتمل تھی سب سے زیادہ یورپین اور ایشیائی باشندے یہیں آباد تھے اور تجارتی مرکز ہونے کے باعث ان دونوں قوموں کا سب سے زیادہ سرمایہ اسی شہر میں لگا ہوا تھا۔
۲۳۔
الفضل ۲۱؍جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۲
۲۴۔
الفضل ۶؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵
۲۵۔
براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۸۷ طبع اوّل تالیف ۱۹۰۵ء
۲۶۔
الفضل ۶؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۴
۲۷۔
الفضل ۱۴؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵ (ترجمہ مولوی محمد منور صاحب سیکرٹری احمدیہ مسلم مشن نیروبی)
۲۸۔
الفضل ۷؍جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۴
۲۹۔
الفضل ۲۳؍جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۱
۳۰۔
اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء از مقام ہوشیارپور مشمولہ ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر یکم مارچ ۱۸۸۶ء صفحہ ۱۴۸
۳۱۔
الفضل ۲۸؍جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۱۔۸
۳۲۔
الفضل ۲؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵ـ۔۸
۳۳۔
’’لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۳۴ ‘‘ طبع اوّل ۱۹۰۴ء۔ تذکرہ طبع چہارم صفحہ ۳۸۰
۳۴۔
اکحکم ۲۴؍اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ۸ تذکرہ طبع چہارم صفحہ ۴۲۰
۳۵۔
براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۷ (طبع اوّل)
۳۶۔
الفضل ۱۶۔۱۷؍فروری ۱۹۶۰ء
۳۷۔
الفضل ۴؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۴
۳۸۔
الفضل ۵؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵
۳۹۔
اخبار بدر قادیان ۱۰ مارچ ۱۹۶۰ ء صفحہ ۱۰ــ۔۱۱
۴۰۔
الفضل ۶؍مارچ ۱۹۶۰ء صفحہ۱
۴۱۔
بدر ۳۱؍مارچ ۱۹۶۰ء صفحہ ۱۔۱۰۔الفضل ۱۲۔۱۳؍اپریل ۱۹۶۰ء
۴۲۔
الفضل یکم مئی۱۹۶۰ء صفحہ ۳۔۴
۴۳۔
الفضل ۵؍اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ۳
۴۴۔
الفضل یکم اپریل ـ۱۹۶۰ء صفحہ ۱۔۸
۴۵۔
الفضل ۳۰؍اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۴
۴۶۔
الفضل یکم؍ اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ۱۔۵
۴۷۔
اخبار بدر قادیان ۲۱؍اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ ۶
۴۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۰ء صفحہ ۵۹۔۶۰
۴۹۔
الفضل ۱۷؍جون۱۹۶۰ء صفحہ ۳
۵۰۔
سوونیئر مجلس خدّام الاحمدیہ کراچی ۱۹۶۰ء
۵۱۔
الفضل ۱۱؍جون ۱۹۶۰ء صفحہ۴
۵۲۔
الفرقان ربوہ اگست ۱۹۶۰ء صفحہ۶ تا ۸
۵۳۔
اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد اوّل زیر لفظ خروشیف صفحہ ۵۷۱۔ ناشر غلام علی اینڈ سنز لاہور اشاعت ۱۹۸۷ء
۵۴۔
عالمی واقفیت عامہ صفحہ ۴۳۲ تا ۴۴۱۔ از طارق محمود ڈوگر ایم اے ایل ایل بی۔ ناشر ڈوگر سنز سنت نگر ڈوگر آباد لاہور ۱۹۹۲ء
۵۵۔
بحوالہ الفضل ۱۵؍جولائی ۱۹۶۰ ء صفحہ۴
۵۶۔
الفضل ۶؍جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ۵
۵۷۔
الفضل ۱۴؍اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ۵
۵۸۔
الفضل ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ۶
۵۹۔
الفضل۶؍ نومبر ۱۹۶۰ء صفحہ۶
۶۰۔
الفضل۳۰؍۱۹۶۰ء صفحہ ۶
۶۱۔
الفضل ۲۲؍ نومبر ۱۹۶۰ صفحہ ۶
۶۲۔
الفضل ۲۲؍ نومبر ۱۹۶۰ صفحہ ۶
۶۳۔
الفضل ۱۸؍ نومبر ۱۹۶۰ صفحہ ۶
۶۴۔
الفضل ۱۱ ؍دسمبر ۱۹۶۰ صفحہ ۶
۶۵۔
رسالہ نگار لکھنؤ بابت ماہ ستمبر ۱۹۶۰ء بحوالہ’’الفرقان‘‘ اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۴۱۔۴۳
۶۶۔
رسالہ نگار لکھنٔو اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ۴۴۔۴۵ بحوالہ الفضل۲۹؍اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۔۴
ساتواں باب
احمدیہ مشن کا قیام اور اس کی عظیم الشان خدمات
فصل اوّل
جغرافیائی حالات
فجی ۳۲۰جزیروں پر مشتمل ایک مجمع الجزائر اور پارلیمانی ریاست ہے جو بحرالکاہل کے جنوب مغربی جزائر میں مرکزی
حیثیت رکھتی ہے۔اور اس شاہراہ پر واقع ہے جو آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ امریکہ اور کینیڈا کو ملاتی ہے۔ فجی کا سب سے بڑا جزیرہ وی ٹی لیوو(VITILEVU)ہے اور اسی میں دارالحکومت صوا(SUVA)ہے جو بلحاظ آبادی ملک کا سب سے اس شہر ‘ سب سے بڑی بندرگاہ اور بین الاقوامی ڈیٹ لائن کے عین مغربی کنارہ پر واقع ہے۔ فجی کا دوسرا بڑا مقام ناندی (NANDI)ہے جو وی ٹی لیووVITILEVU)) کے مغربی کنارے پر بین الاقوامی فضائی مستقرہے۔
آبادی
۱۹۷۴ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبای پانچ لاکھ ساٹھ ہزار تھی جو ۱۹۸۹ء میں سات لاکھ‘ستائیس ہزار نو سو دو تک پہنچ گئی۔ ۱
تقریباً نصف آبادی اُن مسلم و غیر مسلم ہندوستانیوں پر مشتمل ہے جن کے آباء واجداد کو بیسویں صدی کے وسط میں گنے کے کھیتوں کے مالکان نے یہاں لا کر آباد کیا۔ ہندوستانیوں کی اکثریت ہندو ہے۔ مقامی باشندے تمام تر مسیحی (میتھوڈسٹ) ہیں اور میلانیشین اور پولی نیشین نسل سے تعلق رکھتے ہیں ان کے علاوہ پندرہ ہزار کے لگ بھگ یورپی اور چھ ہزار کے قریب چینی بھی آباد ہیں:۔ فجی میں پہلی یورپی نوآبادی ۱۸۰۴ء میں قائم ہوئی۔ انگریز حاکموں کے پیچھے پیچھے پادری آئے جنہوں نے پوری مقامی آبادی کو عیسائی بنا دیا۔ ۱۸۷۴ء میں یہ مجمع الجزائر سلطنتِ برطانیہ کے زیر تسلط آگیا۔ ۱۹۶۵ء میں فجی کو حکومتِ خود اختیاری ملی اور۱۰؍اکتوبر ۱۹۷۲ء کو یہ ایک آزاد مملکت کی حیثیت میں ابھر آیا۔ ۲
ہندو مسلم کشمکش اور فجی مسلم لیگ کی بنیاد
ابتداء میں پردیس اور
غریب الوطنی نے ہندو اور
مسلمانوں کو شیرو شکر کر رکھا تھا۔ حتی کہ انتہائی محبت و مروت میں وہ بعض مذہبی قیود کوبھی خیر باد کہہ چکے تھے۔ ہندو عورتوں نے مسلمان مردوں سے اور مسلمان عورتوں نے ہندو مردوں سے باقاعدہ شادیاں کر لی تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کر کے امداد کر تے تھے اور ان میں کسی قسم کا فساد نہ تھا۔ کہ یکایک فجی کے آریوں نے ہندوستان سے پنڈت سری کرشن اور ٹھاکر کندن سنگھ جی کو بلوا کر ملک کی پُر سکون فضا مکدّر کر دی۔ سب سے پہلے سناتن دھرمیوں اور پھر عیسائیوں پربر سے بعد ازاں مسلمانوں کو آنکھیں دکھانا شروع کیں اور آریہ سماج تحریک ایک سیلاب کی طرح پھیلنے لگی جس کی زد میں بہت جلد مسلمان بھی آنے لگے۔ آریہ پنڈتوں نے مسلمانوں کو چیلنج پر چیلنج کرنا شروع کیئے جس پر ۱۹۲۶ء میں فجی مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی اور وائس پریذیڈنٹ عبدالغفور ساہو خاں تھے۔ فجی میں مسلمانوں کی یہ پہلی نمائندہ تنظیم تھی۔ جمعیت العماء ہند کو لکھا گیا کہ کوئی ایسے عالم بھیجے جو اسلام کے علاوہ آریہ مذہب سے بھی واقف ہوں تمام اخراجات فجی کے مسلمان برداشت کریں گے۔مگر جمعیت العلماء مسلمان فجی کے دکھ کا کوئی مداوا نہ کر سکی۔ اس مایوسی کے عالم میںمسلمانانِ فجی نے جناب سیّد غلام بھیک صاحب نیرنگؔ کو انبالہ لکھا۔ انہوں نے ایک صاحب مولوی تراب علی صاحب کو تیار بھی کیا مگر یہ صاحب مسلمانان فجی کے پچیس پونڈ وصول کرنے کے باوجود نہ خود فجی پہنچے نہ روپیہ واپس کیا۔ ۳ ابتک فجی کے مولوی عبدالکریم صاحب بانی اسلامیہ سکول ناصوری آریوں اور عیسائیوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی خدمات سے متاثر تھے۔ انہیں مسلم سکول کے لیئے ٹیچر کی ضرورت تھی انہوں نے انجمن مذکور سے رابطہ کر کے ایک صاحب ماسٹر محمد عبداﷲ کو فجی منگوالیا۔ ماسٹر صاحب ۲۶؍مارچ ۱۹۳۱ء ۔ ۴ کو بمبئی سے بذریعہ برطانوی جہاز روانہ ہو کر وسط اپریل ۱۹۳۱ء میں فجی پہنچ گئے۔ ماسٹر صاحب کی تحریک پر فجی مسلم لیگ کی طرف سے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے رابطہ کیا گیا اور متواتر ڈیڑھ سال تک انجمن کے ایک ممتاز عالم مرزا مظفر بیگ صاحب ساطعؔ کو درجنوں تاریںاوربہت سے خطوط پہنچے کہ فجی آ کر آریہ سماج اورعیسائیت کا مقابلہ کر کے مسلمانوں کی مدد کریں۔ ۵ جس پرجناب ساطع ؔ صاحب ۷؍اپریل ۱۹۳۳ء کی شب کو بذریعہ فرنٹیرمیل لاہور سے روانہ ہوئے۔مسلم لیگ فجی نے تمام اخراجات سفر بی اینڈ او کمپنی بمبئی کے پاس جمع کروا دئیے تھے اور کمپنی نے اطلاع دے دی تھی کہ فجی کے لیئے جہاز کولمبو سے ملے گا۔ ۱۵؍اپریل کو آپ کولمبو سے جہاز پر بیٹھے اور ۱۲؍مئی ۱۹۳۳ء کو آپ فجی پہنچ گئے۔ ۶ جناب ساطعؔ صاحب کو فجی میں قدم رکھے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ فجی مسلم لیگ نے احمدیت کی آڑ لے کر آپ کو جامع مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے سے روک دیا۔ ۷ آپ نے ساہو خانصاحب کے ہاں نماز پڑھنی شروع کر دی جہاں جامع مسجد کی نسبت کئی گنا حاضری ہوتی تھی۔ ۸ مرزا صاحب پہلے آٹھ ماہ صوا میں رہے پھر ۲۵؍دسمبر ۱۹۳۳ء کو ناندی آ گئے۔ ۹ اس دوران ۸؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کو آپ کا پادری سموئیل شرن سے کامیاب مناظرہ ہوا۔ پادری صاحب نے بے اختیار ساطعؔ صاحب کی نسبت کہا کہ واقعی آپ شیرہیںمگر انہوں نے جواب دیا کہ میںتو اسلام کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بڑا فوٹو دکھاتے ہوئے کہا یہ ہے شیر جسکو خدا تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کے واسطے بھیجا ہے محمدؐ کے شیروں کے آگے مسیح ؑکی بھیڑیں نہیں ٹھہر سکتیں!! یہ سنتے ہی مسلمانوں نے تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا ۔ ۱۰ اس مناظرے نے احمدیت کے بعض شیدائی پیدا کر دئیے چنانچہ ۲۶؍جنوری ۱۹۳۴ء کو جب کئی مفسدین نے آپ کی قیام گاہ پر حملہ کیا تو انہی لوگوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اسوقت جناب ساطع صاحب نے تحریک کی کہ اب تک آپ سب لوگ اپنے آپ کو فخر سے احمدی کہلانے اور احمدیت کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن جب تک باقاعدہ بیعت کر کے آپ حضرات جماعت احمدیہ میں شریک نہ ہو جائیں آپ کی حیثیت صرف معاونین کی ہے احمدی کی نہیں۔ انہوں نے یہ الفاظ اس جذبے سے کہے کہ اس مجلس میں موجود چھ حضرات نے انجمن اشاعت اسلام کے امیر مولانا محمدعلی صاحب کے نام بیعت نامہ لکھ کر دستخط کر دئیے۔ جن میں ضلع ناندی کے محمدرمضان خان صاحب اور ان کے بھائی عبداللطیف خاں صاحب ا ور محمد حکیم خاں صاحب (پسر محمدرمضان خاں صاحب ) بھی تھے۔ ۱۱
مرزا مظفر بیگ صاحب ساطعؔ نے لکھا:۔
’’ ضلع ناندی کے محمد اسحٰق خانصاحب و محمدرمضان خانصاحب نے استقلال اور آہنی عزم کا وہ نمونہ پیش کیا کہ اس زمانے میں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے‘ ان کی سپرٹ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی سپرٹ سے رنگین تھی۔ خطرناک سے خطرناک حالات میں بھی احمدیت کو کامیاب بنانا ان کا ہی کام تھا۔ معاندین سلسلہ کاہر رنگ میں مقابلہ کرنے والے یہی دو شیر مرد تھے خدا تعالیٰ نے انہیں جسمانی قوت بھی شیروں کی سی دی ہے اور سینوں میں دل بھی شیروں کے سے دئے‘‘۔ ۱۲ مرزا صاحب موصوف کم و بیش ساڑھے تین برس تک تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد ۱۶؍جنوری ۱۹۳۷ء کو کلکتہ اور۳۱؍جنوری ۱۹۳۷ء کو لاہور پہنچ گئے۔ ۱۳
فصل دوم
مستقل احمدیہ مشن کی بنیاد
سیدنا حضرت مصلح موعودکی دیرینہ خواہش تھی کہ فجی میں جماعتِ مبائعین کی طرف سے احمدیہ مشن کھو لا جائے
چنانچہ حضورنے ۱۹۵۶ء میں شیخ عبدالواحد صاحب سابق مبلغ چین و ایران کو ارشاد فرمایا کہ جزائر فجی کے لئے تیاری کریںاور کچھ ہندی پڑھ لیں۔ان جزائر میں پہلی بار احمدیت کا نام ۱۹۲۵ء کے قریب پہنچا تھا جبکہ (حضرت چوہدری غلام احمد خان صاحب آف کریام کے نسبتی بھائی) چوہدری کاکے خانصاحب مرحوم ۔ ۱۴ کے بڑے صاحبزادے چوہدری عبدالحکیم صاحب ۔۱۵ جنرل مرچنٹ کاروبار کے سلسلہ میں جالندھر اور ہوشیارپور کے دوستوں کے ساتھ فجی تشریف لے گئے اور ناندی میں قیام کیا۔ ان کی خط و کتابت حضرت مصلح موعودسے ہوتی رہی اور اُن کا چندہ پہلے قادیان اور پھر ربوہ میں براہ راست پہنچتا رہا اور’’ الفضل ‘‘اور دوسرا مختصر لٹریچر انہیں ملتا رہا جس سے نہایت محدود حلقہ میں سلسلسہ احمدیہ کے صحیح حالات پہنچا سکے اور گو فجی میں کوئی جماعت اُن کے ذریعہ قائم نہ ہو سکی۔ تا ہم وہ اخلاص سے جماعتی لٹریچر اور اخبار الفضل دوسروں کو دیتے رہتے تھے۔ ۱۶ اس ماحول میں فجی کے لئے شیخ عبدالواحد صاحب کو انٹری پرمٹ ملنا قریباً ناممکن تھا۔ کیونکہ قانونی طور پر کوئی رجسٹرڈ جماعتِ مبائعین ایسی نہ تھی جو ضمانت دے سکے۔ ان سراسر مخالف حالات میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے خلیفٔہ موعودکی قلبی آرزو کو پورا کرنے کا یہ سامان فرمایا کہ محمد رمضان خاں صاحب رئیس اعظم ناندو جو انجمن اشاعت اسلام کے پُر جوش اور سرکردہ ممبر تھے اور ان دنوں فجی کی انجمن کے پریذیڈیٹ تھے حج بیت اﷲ شریف اور زیارتِ مدینہ منورہ سے مشرّف ہو کر ۱۵؍ جولائی ۱۹۵۹ء کو مقامات مقدّسہ کی زیارت کے لئے قادیان گئے ان کے ہمراہ اُن کی بیگم صاحبہ اور پوتا عقیب خاں بھی تھا۱۸؍جولائی کو دیار حبیب کی برکات سے فیضیاب ہونے کے بعد لاہور پہنچے۔ ۱۷ اوراپنے داماد انوار رسول صاحب ( سپرنٹنڈنٹ سیکرٹریٹ) کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔ ۱۸ محترم انوار رسول صاحب کے بیان کے مطابق اُن کے رشتہ کی منظوری حضرت مصلح موعود نے دی اور فرمایا کہ شاید اس طرح اُس جگہ (یعنی جزائر فجی میں) ’’حقیقی احمدیت پھیل جائے‘‘ (مکتوب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ ۱۰؍جولائی ۱۹۵۴ء نمبر۲۵۷۰)۔
الحاج محمدرمضان صاحب ۱۴؍اگست کو اپنی صاحبزادی اور پوتے کے ساتھ ربوہ میں تشریف لائے اور تحقیق کی غرض سے ایک ہفتہ تک مرکزِاحمدیت میں قیام فرمارہے۔ ۱۹ آپ نے حضرت مصلح موعود کی ملاقات بھی کی اور جلد ہی خلیفہ موعود کی بیعت کا شرف حاصل کر لیا اسی طرح آپ کی بیگم صاحبہ اور محمد عقیب خاں صاحب بھی انوار خلافت سے مالا مال ہوئے۔ وکالت تبشیر ربوہ کی طرف سے ۲۹؍اکتوبر ۱۹۵۹ء کو چوہدری عبدالحکیم صاحب کے نام اطلاع دی گئی کہ الحاج محمد رمضان صاحب نے بیعت خلافت کر لی ہے۔
محترم حاجی محمد رمضان صاحب نے اپنے پوتے کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل کرا دیا اور خود ۱۹۶۰ء میں واپس وطن تشریف لائے اور چوہدری عبدالحکیمصاحب کے ساتھ مل کر زور شور سے حق کی منادی شروع کر دی لوگوں کے سامنے مرکز احمدیت ربوہ اور خلافت کی برکات سے متعلق اپنے ذاتی مشاہدات بیان فرمائے اور ہم خیال دوستوں سے بیعت خلافت کرانے کا آغاز کیا چنانچہ ۱۳؍مئی ۱۹۶۰ء تک ۱۵بیعتیں مرکز کو بھجوائیں ۱۹؍اپریل ۱۹۶۰ء تک ۳۰افراد پر مشتمل ایک جماعت تیار ہو گئی اس کے ساتھ ہی آپ نے مولانا شیخ عبدالواحد صاحب کے لیئے جولائی ۱۹۶۰ء میں پرمٹ ربوہ پہنچادیا جس پر شیخ صاحب موصوف۶؍اکتوبر۱۹۶۰ء کو مرکز احمدیت ربوہ سے ۔ ۲۰ عازم فجی ہوئے اور ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو بوقت دس بجے شب ناندی ایئر پورٹ پر قدم رکھا۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندے حضرت مصلح موعود کی دلی خواہش کی تکمیل کا غیبی سامان فرمایا اور اس کے فضل خاص سے احمدیہ مشن فجی کی بنیاد رکھی گئی۔
فجی کے بعض ابتدائی احمدیوں
کے ایمان افروز کوائف
فجی کے اوّلین احمدی چوہدری عبدالحکیم صاحب اور الحاج محمد رمضان خانصاحب (جو فجی مشن کے قیام کا موجب بنے) کا ذکر اوپر آ چکا ہے ان کے علاوہ بعض دیگر ابتدائی احمدیوں کا تفصیلی
تذکرہجناب شیخ عبدالواحد صاحب کے مکتوب مورخہ ۲۲؍ فروری ۱۹۶۸ء میں ملتا ہے فرماتے ہیں۔
۱۔ حاجی محمد رمضان خانصاحب کے زیر اثر حاجی صاحب کی والدہ کا خاندان اور حاجی صاحب کے والد کا خاندان انکے زیر تبلیغ تھا چنانچہ میرے پرمٹ کے ساتھ ہی حاجی صاحب نے بھائی محمدجان خان کی بیعت اور ان کے بھائیوں کی مردوں عورتوں کی بیعت ربوہ بھیج دی۔ حاجی صاحب کا خاندان بنگالی ہے اور انکی والدہ کا خاندان افغانی ہے میرے فجی پہنچنے سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ نے یہ ایک مختصر جماعت قائم کر دی اور مجھے بشارت دی کہ فجی میں ایک چھوٹی سی معمولی چھپر کی سی مسجد میں ایک چھوٹی سی جماعت جو بنگالی رنگ اور افغانی رنگ کے افراد پر مشتمل ہے میرا استقبال کر رہی ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا فضل ایسے ہی رنگ میں دکھایا اور میرے آنے پر جماعت کے ممبروں کا چناؤ ہوا اور ناندی کی جماعت کے سب سے پہلے پریذیڈنٹ بھائی محمد جان خان چنے گئے اور اِس وقت تک اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ان کو اس خدمت کا موقع مل رہا ہے۔
۲۔ حاجی محمدرمضان خانصاحب کے اثر اور تعلقات کاروباری و رشتہ داری کی برکت سے ماسٹر محمد شمس الدین صاحب جو ۱۹۶۰ء میں ناندی سے ۱۸میل آگے لَوتوکاٹاؤن میں رہتے تھے بیعت میں شامل ہو گئے۔ چونکہ سمجھدار اور پڑھے لکھے تھے اور کام کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے ۔ دوستوں نے متفقہ طور پر اُن کو جنرل سیکرٹری منتخب کر لیا۔ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے دل میں تبلیغ کا بہت شوق پیدا کر دیا۔ انہوں نے دور و نزدیک بہت سے دورے کئے۔ بہت سے متعلقین نے بیعت کی۔
۳۔ مولوی محمد قاسم خان صاحب آف مارو (ھنڈرونگا)۔ مولوی صاحب موصوف ناندی سے ۳۴میل کے فاصلہ پر مارو میں گنے کی کھیتی کرتے ہیں۔ نومبر ۱۹۶۰ء میں جب میں ناندی پہنچ چکا تھا اپنے صاحبزادہ جسکا نام انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی ہی رکھ دیا تھا ناندی مارکیٹ میں مجھ سے ملا جبکہ میں مکرم حاجی رمضان خانصاحب کے ساتھ اسی غرض کے لیئے مارکیٹ میں گھومنے کے لیئے آیا تھا کہ لوگوں سے تعارف ہو الحمدﷲکہ ان سے تعارف اور مختصر گفتگو ہوئی حاجی صاحب کے یہ چھوٹے بھائی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا حسب توفیق واستطاعت مطالعہ رکھتے ہیں۔ وہاں سے فارغ ہو کر دوپہر کو حاجی صاحب کے گھر پر آ کے خدا تعالیٰ کے فضل سے دونوں باپ بیٹے نے بیعت خلافت کر لی نہایت پر جوش جذبہ تبلیغ رکھتے ہیں اپنے گاؤں مجھے دو سال تک بلاتے رہے لوگوں کو دعوتیں دیتے خرچ کرتے لیکن نہ غیر احمدی اور نہ لاہوری خیال کے احباب بات سننے آتے بظاہر ان کی دعوت کی تیاری اور کھانا اور محنت ضائع ہی جاتی۔ آخر خدا تعالیٰ نے ان کے صبر اور دعاؤں پر رحم کیا ان دونوں بھائیوں کی متواتر تبلیغ سے ان کے عزیز رشتہ دار ماروؔ رحمت اﷲ خان میموریل سکول کے ہیڈماسٹر ماسٹر محمد حسین صاحب نے بیعت کر لی اور ان کے ساتھ مل کر تبلیغ کرنی شروع کی اور اپنے اثر و رسوخ سے اپنے متعلقین کو ہماری باتیں سننے کیلئے تیار کیا اور تین سال سے بویاہوا بیج ایک ایک دو دو پانچ پانچ ‘ دس دس کر کے اگنے لگا۔ الحمدﷲ کہ اب ماروؔ میں جماعت احمدیہ ہی قابل ذکر جماعت ہے جہاں ایک ۴۰ x۵۰ فٹ لمبی چوڑی بلڈنگ بیت محمود کے نام سے تیار ہو گئی ہے جسکی بنیاد حضرت بزرگوار چوہدری
سرظفر اﷲخا نصاحب نے۶۵۔۱۱۔۷کو رکھی تھی۔ مولوی محمد قاسم خانصاحب موصوف جو ہماری جماعت مارو کے امام الصلوٰۃ ہیں بہت جوشیلی اور پرُ اخلاص طبعیت رکھتے ہیں لیکن ایک نرالی اور قابل رشک بات ہے کہ جماعت کے مبلغ کے لیئے اتنی محبت اتنی غیرت اپنے دل میں رکھتے ہیں کہ اسکی طرف سے فیصلہ ہو جانے پر اپنے تمام خیالات چھوڑدیتے ہیں دوسرے اگر کچھ دیر کیلئے اختلاف کے وقت میں دل میں تنگدلی اور کشیدگی بھی یا شکر نجی بھی رکھیں اور بعد میں سمجھانے پر ٹھیک ہو جائیں گے ان میں ایسا مقابلہ نہیں پایابلکہ معاون اور اطاعت کرنے والا۔ اللھّم زدفزد۔
4۔ محمد صدیق خانصاحب (جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ فجی) نہایت سمجھدار اور نیک آدمی ہیں علم دین اور لڑیچر احمدیت سے واقفیت رکھتے ہیں ۱۹۶۰ء میں ہی میرے ساتھ ناندی میں ملاقات ہوئی پھر لوتوکا میں ان کے مکان پر پہنچ کر تبلیغ کرتا رہا۔ پہلے لاہوری پیغامی خیالات کو ہی ٹھیک سمجھتے تھے دسمبر۱۹۶۰ء میں ان کی بیگم صاحبہ جو بہت نیک عقلمند اور تبلیغ تربیت کرنے کا جوش رکھنے والی خاتون ہیں انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے مکان کے درازہ پر گلوب (بلب) تو لگا ہے لیکن جلتا نہیں خاکسار (شیخ عبدالواحد ) نے ہاتھ سے اسکو پھیر دیا ہے تو جلنے لگ گیا ہے دونوں میاں بیوی میرے پاس ملنے آئے اور خواب سنایا میں نے تعبیر بتائی کہ پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو پہنچ چکا ہے صرف منہ اس طرف پھیرنا باقی ہے چنانچہ دونوں نے بیعت کر لی چنانچہ اس وقت سے نہایت توجہ محنت اور اخلاص سے خدمت دین میں لگے رہتے ہیں۔ ٗگذشتہ سال تک آپ لوتوکا جماعت کے پریذیڈنٹ رہے اب گذشتہ سال سے ساری فجی جماعت کے جنرل پریذیڈنٹ چنے گئے ہیں ان کی بیگم صاحبہ لجنہ اماء اﷲ لوٹوکا کی پریذیڈنٹ ہیں اور دین کی خدمت کے شوق میں بڑھاپے میں اردو پڑھنا سیکھا ہے۔ ان کے بچے بھی دین کے کاموں میں جوش و شوق سے حصہ لیتے ہیں۔ فجز اھم اﷲ خیراً۔ ان کی تبلیغ و کوشش نیک اثر و نمونہ سے بہت سے متعلقین داخل سلسلہ ہوئے ہیں جن میں سے حاجی محمد حنیف ۔شاہ محمد صاحبان مالک پاپولر فرنیچرشاپ بھی ہیں جن کے متعلق مولوی احمد یار صاحب لاہوری مبلغ نے لکھا تھا کہ لوٹوکاکے بہت بڑے امیر گھرانہ کے پیغامی جماعت میں شامل ہونے کی امید ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ ایک ہفتہ پیغامی مبلغ کو اپنے گھر پر رکھنے انکی مہمان نوازی کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ خلافت کی بیعت سے ہی روحانی زندگی سے ہم بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ دو ہفتہ کے بعد اٹھارہ افراد خاندان کے ساتھ بیعت میں شامل ہو گئے۔ (الحمد لِلّٰہِ علیٰ ذالک)بیعت کے بعد جماعت احمدیہ لوٹوکا کے پریزیڈنٹ منتخب ہوئے۔ کوشش کر کے احمدیوں کی ایک ایجوکیشن کمیٹی بنائی۔ آپ اس ایجوکیشن سوسائٹی کے چیئرمین ہیں مکرم ڈاکٹرشوکت علی صاحب احمدی
ایم۔ اے ۔ پی۔ ایچ۔ ڈی اس کالج کے پرنسپل ہیں جو کہ کمیٹی ناندی میں چلاتی ہے۔ مکرم ڈاکٹر شوکت علی صاحب ۱۹۶۱ء کے آخر میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے پھر آپ کاٹھیاوار گجرات ہندوستان ڈاکٹریٹ کرنے گئے واپس آ کر اسلامیہ سیکنڈری سکول لوٹوکا کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ احمدیت کی مخالفت میں انکو ہمیشہ مقابلہ کرنا پڑا ۔ بالآخر محترم بزرگوار چوہدری سرمحمد ظفر اﷲ خانصاحب کے نومبر ۱۹۶۵ء میں فجی آنے پر ڈاکٹر صاحب کی احمدیت کی بہت مخالفت ہوئی جس کے نتیجہ میں وہاں سے نوکری چھوڑنی پڑی ۔ اﷲ تعالیٰ نے اچھا ہی کیا کہ اس تکلیف کے بدلہ اپنا کالج قائم ہو گیا۔ ۲۱
فصل سوم
فجی کی پہلی اور مرکزی بیت فضل عُمر کی تعمیر
جب اﷲ تعالیٰ نے ناندی اور لوٹو کا جیسے اہم شہروں میں مخلص
جماعتیں قائم فرمادیں تو شیخ عبدالواحد صاحب نے فجی کے دارالحکومت سووا شہر کا رُخ کیا۔ یہاں بھی اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور جون ۱۹۶۱ء میں ایک ہی دن ۱۲افراد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے اور پھر آہستہ آہستہ وہاں ایک مخلص‘ جوشیلی اور فعال جماعت قائم ہو گئی جس کے بعد علاقہ ساما بو لد میں ایک مکان کرایہ پر لے کر باقاعدہ مرکز قائم کر دیا گیا یہ مرکز ۸۲کنگز روڈ میں کھولا گیا ( اسی مرکز میں دسمبر ۱۹۶۲ء میں جزائر فجی کے احمدیوں کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں ۱۲۵ افراد شامل ہوئے)۔اگلی عیدالفطر کے موقع پر جماعت بڑھ جانے کی وجہ سے یہمکان اتنا ناکافی ثابت ہوا۔نہ جماعت کے احباب وہاں سما سکے اور نہ ان کی موٹریں وغیرہ کھڑی کرنے کیلئے کوئی جگہ تھی۔ عیدالفطر کے خطبہ میں شیخ عبدالواحد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام وسّع مکانک کا حوالہ دیکر تحریک کی کہ صووا (SUVA) شہر میں جماعتی مرکز کے لیئے کوئی وسیع مکان تلاش کر کے خریدنے کا انتطام کیا جائے۔چنانچہ احباب جماعت نے مناسب جگہ کی تلاْش شروع کر دی۔ اس دوران معلوم ہوا کہ ساتھ والا پلاٹ مع مکان قابل فروخت ہے جس کی بیوہ مالکہ تین ہزار پونڈ طلب کرتی ہے جماعت کی طرف سے دو ہزار پونڈ کی پیش کش کی گئی مگر وہ تین ہزار پونڈ سے کم فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئی۔ چونکہ وہ قطعہ زمین جماعت کے مرکز اور مسجد کے لیئے نہایت موزوں اور باموقعہ تھا اس لیئے جماعت نے اس عورت کے بعض رشتہ داروں کے ذریعہ اسے سمجھایا کہ اس کی زمین کسی تجارتی غرض کے لیئے نہیں بلکہ محض خانۂ خدا کی تعمیر اور تبلیغ اسلام کے مرکز کے لیئے لی جا رہی ہے چنانچہ آخر کار دو ہزار پونڈ قیمت پر اس قطعہ زمین اور مکان کو فروخت کرنے پر رضامند ہو گئی جس کے بعدوکیل کے ذریعہ تحریری معاہدہ کے علاوہ اسے بیعانہ بھی ادا کر دیا گیا یہ وسط ۱۹۶۲ء کی بات ہے۔ اس کے بعد جب اس عورت کے رشتہ داروں اور بعض لوکل تنظیموں کے سربراہوں اور کارندوں کو جو جماعت احمدیہ کے مخالفین میں سے تھے اس سودے کا پتہ چلا تو اُن سب نے مل کر اسکو ورغلایا کہ وہ اس سودا کو یہ کہہ کر فسخ کر دے کہ اس پر ناجائز دباؤ ڈال کر متعلقہ معاہدہ پر دستخط کرائے گئے ہیں حالانکہ یہ محض جھوٹ اور افتراء تھا تاہم اگرچہ وہ قانونی طور پر اس سودے کو کالعدم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی پھر بھی عرصہ تک جماعت کو پریشان کئے رکھا۔ اور جب اُسے اپنا کوئی حربہ کارگر ہوتا نظر نہ آیا اور وکیل کی معرفت ہماری جماعت نے اُسے حسب معاہدہ تین ماہ کے اندر اندر پوری رقم بھی ادا کر دی تو مخالفین کے اُکسانے پر وہ اس مکان میں بطور کرایہ دار رہنے پراصرار کرنے لگی اور مکان خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ ادھر شہر میں مخالفین یہ غلط اور جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے لگے کہ احمدی ایک کمزور بیوہ عورت کو قانونی پیچیدگیوں میں پھنسا کر اس کی جائیداد سے اُ سے بے دخل کر رہے ہیں حالانکہ اس عورت نے ہماری جماعت سے بات شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی وہ زمین اور مکان فروخت کرنے کا اعلان کر رکھا تھا اور ایک شراب خانے کا مالک اسے اس زمین و مکان کے لیئے تین ہزار پونڈ پیش کر چکا تھا مگر محلہ کے شرفا کی مخالفت کی وجہ سے وہ زمین شراب خانہ کے لیئے فروخت نہ کی گئی۔ آخر مالکہ زمین کو وکیل کے ذریعہ جماعت کی طرف سے ایک ماہ کے اندر اندر وہاں سے نکل جانے کا آخری نوٹس دیا گیا جس کے اختتام پر اس نے مجبور ہو کر عمارت بکلّی خالی کر دی اور اپنے بعض احمدی عزیزوں کے ہاں چلی گئی۔ چنانچہ پھر مزید تین صد پونڈ لگا کر اس عمارت کی مرمت کی گئی ایک حصّہ کو تبدیل کر کے اور باقاعدہ محراب وغیرہ بنا کر اُسے مسجد کی شکل دے دی گئی اور اس کا نام’’بیت فضل عمر‘‘ رکھا گیا۔ ایک حصہ احمدیہ لائبریری اور ریڈنگ روم اور آفس کے لیئے استعمال کے قابل بنا لیا گیا اور باقی حصہ میں کچھ تبدیلیاں کر کے اُسے مبلغین اور مہمانوں کے استعمال کے قابل بنایا گیا۔ اس مقصد کے لیئے احمدی مخلصین نے کئی بار وقار عمل کیا اور سارا سارا دن کام کرتے رہے۔ جماعتی مرکز اور دفاتر یکم اکتوبر ۱۹۶۰ء کو اسمیں منتقل کر دئیے گئے۔ ۲۲
پہلا مناظرہ اور رسالہ الاسلام کا اجراء
جناب شیخ عبدالواحد صاحب فاضل تحریر فرماتے ہیں:۔
’’پہلا مناظرہ جس میں لاہوری جماعت اور اہل سنت متفق ہو کر مقابلہ پر آئے ڈاکٹر محمدیوسف کی ڈسپنسری با میں لوٹوکا سے ۲۴میل کے فاصلہ پر ہوا۔ ناندی ‘ اور لوٹوکا(LAUTOKA)سے چار بڑی موٹریں بھر کر چوبیس اور چوالیس میل کا سفر کر کے احمدی وہاں جوش و خروش سے پہنچے خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی صداقت پر حقیقۃ الوحی سے دلائل پیش کئے پھر وفات مسیح پر مناظرہ ہوا خدا تعالیٰ کے فضل سے لیکچر اور مناظرہ کا بہت ہی اچھا اثر ہوا اور غیر مبائعین اور غیر احمدی مناظرمبہوت ہو گئے۔ کوئی بات نہ بن آتی تھی۔ ناندی اور لوٹو کا کے احمدی بھائی رات۱۱بجے بڑی خوشی اور کامیابی سے لوٹے۔ با ؔسے لوٹتے ہوئے بھائی محمد شمس الدین صاحب پر ایک وجد اور سرشاری کی کیفیت تھی حاضرین سے کہتے تھے کہ دین کی خدمت اور اسکی راہ میں جہاد بھی شراب کی سی مستی کی کیفیت رکھتاہے آج ایک کیف اور وجد آ گیا ہے۔ (فالحمد لِلّٰہِ علیٰ ذالک )۔ دوسرا انتظام اﷲ تعالیٰ نے بھائی محمد شمس الدین صاحب کے دل میں یہ ڈالا کہ دلائل سے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات و ملفوظات کی برکت سے معمور اور بھر پور ہیں لیکن غیر ہمارے خلاف اخباراور اشتہارات کے ذریعہ بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتا ہے ہم بھی ایک اردو و انگریزی میں ماہوار اخبار نکا لیں خوب جواب دیں اور تبلیغ کا حق ادا کر دیں ۔ ہم قرض لے کراقساط پر ایک سیکنڈ ہینڈ گیسٹیٹنر مشین لیکر اپنا پریس چلا دیں۔ اگرچہ سرمایہ نہ تھا لیکن عشق کی دیوانگی میں یہ قدم اٹھا لیا گیا اور مبائعین اور ہمدردوں نے قربانی کی دو دو چار چار پونڈ کر کے چندہ جمع کر کے آرم سٹرونگ سپرنگ ہال کمپنی سے گیسٹیٹز مشین اس کا سٹینڈ اور ایک ٹائپ رائٹر خرید کر مئی ۱۹۶۱ء میں نماز کی کتاب عربی اردو انگریزی ترجمہ کے ساتھچھاپ کر تبلیغ و تربیت کی ابتداء اور بسم اﷲ کر دی اور جون ۱۹۶۱ء میں ماہوار’’ الاسلام‘‘کا پہلا پرچہ اردو اور انگریزی میں گورنمنٹ سے اجازت لیکر نکال دیا جس سے ایک انقلاب شروع ہو گیا۔ اخبار تنظیم (اہلحدیث) اور اخبار ’’ آذان‘‘ اہلسنت دنگ ہو گئے۔ انکی ہر غلط پیش کی گئی بات کا جواب ملنے لگا اور غلطیوں کی وضاحت ہونے لگی۔ اہلحدیث کے اخبار نے لکھا مسلمانو! بیدار ہو یہ کیا انقلاب آ رہا ہے؟ چنانچہ ہمارے اخبار’’الاسلام‘‘ کے مقابلہ پر دونوں اخبار بند ہو گئے اور مسلمانوں نے یہ کہہ کر کہ تمہیں اخبار نہیں نکالنا آتا اسمیں کوئی قیمتی اور وزنی بات نہیں ہوتی۔ انہوں نے دلچسپی لینی چھوڑ دی۔ دوسرا ان اخبارں کے لیئے قربانی کرنے والے نہ تھے اور خریداروں کو دلچسپی نہ تھی۔ لیکن ہمارے اخبار کے لیئے احمدیہ جماعت کے افراد قربانی کرتے اور خریداروں کیلئے دلچسپی کا سامان اور قیمتی مضامین لکھتے اخبار میں اسلام کی ترقی نظر آتی تھی۔ ۲۳
ٹریکٹوں کا ابتدائی سلسلہ
محترم شیخ صاحب نے ابتداء ہی میں اشاعت حق کا یہ مؤثر ذریعہ اختیار فرمایا کہ ٹریکٹوں کی اشاعت کا
باقاعدہ سلسلہ جاری کر دیا۔ چنانچہ ۱۹۶۳ء تک آپ نے حسب ذیل ٹریکٹ ہزاروں کی تعداد میں شائع کر کے فجی میں پھیلا دئیے۔۱۔حضرت مسیح کشمیر میں ۲۔ بائیبل میں اختلافات اور قرآن مجید کی محفوظ حیثیت۳۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے متعلق بائیبل کی پیشگوئیاں۔۴۔خدا اور رسول کی محبت۵۔ پرائمر آف اسلام6۔ مسلمان اور عیسائی کی گفتگو
۲۴
فصل چہارم
حضرت چودھری محمدظفراﷲ خاں صاحب فجی میں
نومبر ۱۹۶۵ء کے ادائل میںچودھری
محمدظفر اﷲ خانصاحب امریکہ سے نیوزی لینڈتشریف لے جاتے ہوئے جزائر فجی میں ٹھہرے۔ فجی کے احمدی دوست آپ سے ملاقات کر کے ازحد خوش ہوئے اور آپ کی موجودگی سے کماحقہ‘ استفادہ کیا چودھری صاحب ’’تحدیث نعمت‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’اکتوبر ۱۹۶۵ء میں مجھے بعض امور کی سر انجام دہی کے لیئے امریکہ جانا ہوا وہاں سے فراغت پا کر میں سان فرانسسکو سے نیوزی لینڈ کے سفر پر روانہ ہوا۔ ہوائی جہاز دوسری صبح قبل فجر جزائر فجی کے بین الاقوامی مطار ناندی پہنچا میرا ارادہ چند دن جزائر فجی میں ٹھہرنے کا تھا۔ ہم سان فرانسسکو سے جمعرات کے دن روانہ ہوئے تھے دوسرے دن ناندی پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ہفتے کا دن ہے درمیان میں سے جمعہ کا دن غائب ہو گیا مطار پر شیخ عبدالواحد صاحب مبشر سلسلہ احمدیہ اور ناندی کے چند احباب تشریف لائے ہوئے تھے میں ان کے ہمراہ شہر چلا گیا اور آئندہ چھ دن یعنی ۵؍نومبرسے جمعہ ۱۱؍نومبرتک ان کے تجویز کردہ پروگرام کے مطابق ان کی خدمت میںحاضر و مشغول رہا۔ اس عرصہ میں مختلف مقامات پر حاضر ی کا موقع ملا لیکن زیادہ وقت جزائر کے صدر مقام سووا (SUVA)میں گذرا۔۱۹۶۵ء میں جزائر فجی کی مجموعی آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ تھی جن سے نصف سے کچھ زائد ہندوستانی اور پاکستانی نثراد تھے۔ اور نصف سے کچھ کم جزائر کے اصل باشندے تھے اول الذکر عنصر میں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ شامل تھے اس عنصر میں مسلمانوں کی نسبت ۲۰ فی صدتھی ۔ جزائر فجی میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ایک مخلص اور مستعد جماعت احمدیہ سرگرم عمل ہے جو جزائر کی آبادی میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ ۲۵
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ
کا روح پرور پیغام
۳۰؍مئی۱۹۶۶ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا جماعت فجی کے نام ایک ٹیپ شدہ روح پرور پیغام مکرم عبدالقدوس صاحب آف فجی آئی لینڈ کے
ذریعہ پہنچا جس میں حضور نے نہایت لطیف اور وجد
آفریں پیرایہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی منصب کی وضاحت فرمائی اور احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف پر زور طریق سے توجہ دلائی۔۲۶
رسالہ دی مسلم ہارینجر کا اجراء
مولوی نورالحق صاحب انورؔ کی کوششوں سے
جون ۱۹۶۷ء سے ایک سہ ماہی رسالہ
’’دی مسلم ہارینجر‘‘(منادی اسلام) جاری ہوا جو انگریزی‘فجیئن اور ہندی زبانوں پر مشتمل تھا رسالہ کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا۔ افسوس یہ مفید رسالہ چند سال بعد بند ہو گیا۔ ۲۷
مولوی نورالحق انور صاحب کی آمد
محترم شیخ صاحب فجی کی سر زمین میں پوری دلجمعی سے اعلاء کلمۃ اﷲ کے فریضہ
میں مصروف تھے کہ ۲۶؍فروری ۱۹۶۷ء کو مرکز سے مولوی نورالحق صاحب انورؔ سابق مجاہد مشرقی افریقہ و امریکہ بھی فجی تشریف لے آئے۔ ۶؍مارچ کو فجی ریڈیو سے آپ کا اردو اور انگریزی زبان میں انٹرویو نشر ہوا اور آپ کے استقبالیہ جلسوں میں شامل غیراحمدی معززین شدت سے محسوس کرنے لگے کہ آج دنیا میں اسلام کی خاطر صحیح قربانی دینے والی جماعت صرف جماعت احمدیہ ہے۔ ۲۸
بیت محمود کی تعمیر
مارو کی اکثریت احمدی نفوس پر مشتمل تھی حضرت چوہدری محمد ظفر اﷲ خانصاحب نے اپنے قیام فجی کے دوران ۷؍نومبر ۱۹۶۵ء کو یہاں
بیت محمود کی بنیاد رکھی اور شیخ عبدالواحد صاحب اور مولوی نورالحق صاحب انورؔکی نگرانی میں دو سال تک صووا اور ناندی کے مخلصین نے مزدوروں کی طرح کام کر کے خدا تعالیٰ کے اس گھر کو مکمل کیا اس تاریخی بیت الذکر کا افتتاح یکم جنوری ۱۹۶۸ء کو ہوا۔
بیت ناندی کی بنیاد اور تکمیل
۱۴؍جنوری ۱۹۶۸ء کو مولوی نورالحق صاحب انورؔ نے بیت ناندی کا سنگ بنیاد رکھا یہ بیت آخر
۱۹۷۱ئمیں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ ۲۹ اور اس کا افتتاح یکم جنوری ۱۹۷۲ء کو جلسہ سالانہ کی تقریب کے ساتھ عمل میں آیا۔
پادری عبدالحق صاحب
سے کامیاب مباحثہ
۶۔۷۔۸؍مئی۱۹۶۸ء کو مبلغ اسلام مولوی نورالحق صاحب نے مشہورعیسائی مناد پادری عبدالحق صاحب کو شکست فاش دی جس سے اسلام کو شاندار فتح نصیب
ہوئی۔ مولانا شیخ عبدالواحد صاحب اس ایمان افروز واقعہ کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’وسط اپریل ۱۹۶۸ء میں ہندوستان سے عیسائیوں کے مشہور پادری عبدالحق صاحب فجی کونسل اور چرچز کی دعوت پر جزائر فجی میں تشریف لائے اور یہاں لیکچروں اور پبلک تقریروں کا سلسلہ شروع کیا اس سلسلہ میں وہ جزیرہ ویتی لیوو کے مغربی علاقہ کے اہم قصبات میں گئے اور اپنی تقریروں میں جملہ مذاہب میں خصوصیت سے اسلام کے خلاف تقریریں کیں۔ اس پر غیر از جماعت اسلامی غیرت والے دوستوں نے برادرم مولانا نورالحق صاحب انورؔ سے جو حسن اتفاق سے انہیں ایام میں با ؔکے دورہ پر تشریف لے گئے تھے مل کر پُرز ور درخواست کی کہ اس مخالف اسلام پروپیگنڈا کا دفاع ضروری ہے اور یہ کہ یہ کام بفضل خدا احمدی ہی کر سکتے ہیں۔ پادری عبدالحق صاحب اس دوران میں لوتوکا میں مقیم تھے۔ اور حسن اتفاق سے انہوں نے خود ہی جماعت احمدیہ لوتوکا کے ایک دوست سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ فجی کے احمدیوں سے ملنا چاہتے ہیں جس پر ہمارے دو تین دوست جب اُن سے ملنے گئے تو پادری صاحب نے ابتداء ملاقات میں ہی چیلنج دے دیا کہ وہ ہر قسم کے بحث و مباحثہ کے لیئے تیار ہیں ہر وقت ہر مقام پر اور ہر شخص سے خواہ وہ سنّی ہو یا احمدی ہو۔ ہمارے دوستوں نے ان کے چیلنج کو قبول کیا ۔بایں ہمہ گفت و شنید کے بعد یہ طے پایا کہ مندرجہ ذیل آٹھ مضامین پر تحریری مناظرہ نورالحق صاحب انورؔ اور پادری عبدالحق صاحب عیسائی منّاد کے درمیان ہو۔
۱۔ توحید ۲۔ کیا مسیح ناصری ا لہٰ مجسم ہے؟ ۳۔ کیا بائیبل خدا کا کلام ہے؟ ۴۔ کیا قرآن شریف کامل الہامی کتاب ہے ؟ ۵۔ کیا مسیح ناصری صلیب پر فوت ہوئے؟ ۶۔ کیا حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود ہیں؟ ۷۔ کیا مسیح ناصری نجات دہندہ تھے؟۸۔ کیا اسلام میں نجات ہے؟ یہ بھی طے پایا کہ ہر مضمون پر سات سات پرچے ایک ایک گھنٹہ کے ہوں…بالآخر صووا ڈڈلی ہاؤس سکول میں ۶؍مئی ۱۹۶۸ء کی صبح سے مباحثہ شروع ہو گیا جس کا اعلان فجی ریڈیو اور اخبار فجی ٹائمز نے باقاعدہ طور پر کیا۔
طریق کار یہ تھا کہ فریقین صبح ساڑھے آٹھ بجے سے لے کر شام چھ بجے تک متواتر سوائے دوپہر کے مختصر وقفہ کے آمنے سامنے بیٹھ کر مقررہ مضمون پر پرچے لکھتے اور شام کو ساڑھے سات بجے ڈڈلی سکول کے ہال میں ہی یہ پرچیحاضرین کو جنکی تعداد ایک سو تک محدود کر دی گئی تھی سُنا دیئے جاتے۔ شرائط کے مطابق دونوں مناظروں کو کسی مددگار کے رکھنے کی اجازت نہ تھی بوقت تحریر مناظرہ صرف فریقین کی طرف سے ایک ایک نگران مقرر تھا۔ اہل اسلام کی طرف سے خاکسار ( شیخ عبدالواحد ) فاضل نگران رہا عیسائیوں کی طرف سے گو بیشتر وقت پادری سُمَرْوِلْ جوناگپور ہندوستان میں چار پانچ سال رہ چکے ہیں اور اردو پر عبور رکھتے ہیں اور بڑی مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک ہیں بطور نگران رہے لیکن ان کی مصروفیات کے باعث بعض دوسرے عیسائی حضرات بھی اس ڈیوٹی کو سرانجام دیتے رہے۔ ۶؍ مئی کی شام کو پہلے دن کے مباحثہ کی تحریر بخیر و خوبی ختم ہوئی موضوع مباحثہ تھے نمبر ۱ توحید نمبر۲ بایئبل کا الہام الٰہی ہونا ۔پادری عبدالحق صاحب نے توحید کے مضمون میں حسب معمول اپنی ساحرانہ فریب کاری سے کام لیا اور اپنی منطقیانہ ادق اصطلاحوں کی بھر مار سے حاضرین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گو یا وہ بہت بڑے فلاسفر اور علاّمہ دہرہیں گو حاضرین ان کی باتوں کو ذرّہ بھی نہسمجھتے تھے لیکن کسی حد تک ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پادری صاحب کا سحر سامری ناواقف پبلک پر چھا رہا ہے ہمارے مناظرنیبائیبل سے یہ پیش کیا کہ جس حکمت و فلسفہ پر تم اتنا ناز کرتے ہو اُسے تو انجیل میں بیوقوفی۔ چالاکی ۔ باطل خیالات‘ لاحاصل فریب اور دنیوی ابتدائی باتیں‘‘ کہا گیا ہے ( عہد نامہ جدید کی کتب کرنتھیوں اور کلسّیوں) تاہم اس روز بعض پادری صاحب کی چالاکی کا کسی حد تک شکار معلوم ہوتے تھے۔ لیکن دوسرے دن اﷲ تعالیٰ نے اس پُر فریب جادو کو محض اپنے فصل سے دھوئیں کی طرح اُڑا دیا۔ ۷؍مئی کو مباحثہ کے لیئے دو مضمون مقرر تھے نمبر۱ کیا مسیح ناصری الہٰ مجسم ہے؟ نمبر۲ کیا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود ہیں؟ چونکہ معلوم ہوتا ہے پادری صاحب کی کاپیوں میں محفوظ شدہ منطقیانہ نوٹ ختم ہو گئے تھے وہ کوئی خاص ٹھوس بات کرنے کی بجائے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔ گو بوقت تحریر بھی ان کا حال دیکھنے والا تھا جبکہ بلا مبالغہ ان کو ہوش نہ تھی کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں اور کسطرح لکھ رہے ہیں مگر شام کے اجلاس میں پرچے سناتے ہوئے تو نظارہ قابل دید تھا پادری صاحب کے واسطے اپنے ہاتھوں کا لکھا بھی پڑھنامشکل تھا وہ شکستہ دل کھڑے ہوئے ان کی زبان لڑکھڑاتی اور آواز لرزتی تھی۔ یہ مباحثہ بفضل خدا ایک خاص کامیابی اور فتح کا دن تھا۔ اسکی خاص الخاص خصوصیت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ حضور کے اپنے ہی مبارک الفاظ میں پیش کرنے کا موقع بلیغ احمدی مناظر کو اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ اسکی زبان میں برکت عطا فرمائی اور آواز میں شوکت دی جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پُرشوکت عبارت پڑھتے تو حاضرین پر ایک کیف طاری ہو جاتا۔ بہر حال الحمد ﷲ ثم الحمد ﷲکہ دوسرے دن کے مباحثہ میں پادری صاحب کا سارا طلسم ٹوٹ گیا اور حاضرین پر جوان کے علم کا اثر پڑا تھا وہ زائل ہو گیا۔ اختتام مباحثہ پر غیر مسلم حاضرین نے بھی اسلام اور احمدیت کے متعلق بہت اچھا اثر لینے کا اقرار کیا اور بوقت رخصت بلاتفریق مذہب و ملّت سب احمدی مناظر سے ہاتھ ملانے کیلئے ٹوٹ پڑتے تھے۔ اس ہجوم میں جب بعض غیر مسلم عورتوں نے بھی خراج تحسین کے طور پر احمدی مناظر محترم برادرم مولانا نور الحق صاحب انورؔ سے مصافحہ کی کوشش کی تو برادرم موصوف نے نہایت ملاطفت اور محبت سے یہ مسئلہ سمجھایا کہ اسلام میں عورتوں سے مصافحہ کی اجازت نہیں اور نہایت بااخلاق طور پر ہاتھ اٹھاکر ان کے سلام کا جواب دے دیا۔
۸؍مئی۱۹۶۸ء کو حسب معمول مباحثہ کا تیسرا دن شروع ہوا۔ اُس دن کے لیئے مضمون نمبر ۱ کیا مسیح ناصری صلیب پر فوت ہوئے؟ نمبر ۲ کیا قرآن شریف کامل الہامی کتاب ہے؟ قبل از دوپہر فریقین اطمینان سے پرچے لکھتے رہے گو گذشتہ دن کی شکست کا اثر پادری صاحب کو مضطرب کیئے ہوئے تھا جس کا اظہار ان کی حرکات و سکنات سے نمایاں ہو رہا تھا لیکن قبل از دوپہر کے آخری پرچہ میں جب احمدی مناظر نے قرآن شریف سے یہ ناقابل تردید ثبوت پیش کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کی *** موت کی بجائے اﷲ تعالیٰ کے وعدہ انّی متوفیکَ وَ رَافعکَ اِلّی (آل عمران :۵۶) یعنی طبعی معجزانہ موت کے وعدہ الٰہی کے مطابق دم واپسیں نہایت عزت اورا حترام سے کشمیر میں فوت ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کے فرمان ’’الحق من ربّکَ فلا تکونَنّ مِن الْممترین‘‘ (البقرہ :۱۴۸)کے مطابق یہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ کے اس ارشاد پر کہ نبتھلْ فنجعل لعنۃ اﷲ علی الکاذبین (آل عمران:۶۲)… ہمارے مناظر نے بڑی تحدّی سے یہ لکھا کہ خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق میں پادری عبدالحق صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اگر سچے ہیںتو نہایت تضرّع سے اپنے ساتھیوں سمیت میدان مباہلہ میں آئیں اور ہم سے مل کر اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ سچ اور جھوٹ کو ظاہر کردے ۔ پادری صاحب اب پیرانہ سالی میں ہیں اور میں بھی اب پچاس سال کی عمر کو پہنچنے والا ہوں۔ پادری صاحب مخلوقِ خدا پر رحم کریں وہ کہتے ہیں کہ اس پیرانہ سالی میں وہ آرام سے گھر بیٹھنے کی بجائے خدا کی خاطر ملک ملک گھوم رہے ہیں وہ اس خدا کی خاطر جس کے لیئے وہ آرام سے بے آرام ہو رہے ہیں آئیں اور اس انصاف والے یقینی رستہ کو اختیار کریں جس سے سچ اور جھوٹ میں امتیاز ہو سکتا ہے آئیں اور ہم دونوں اپنے اپنے ساتھیوں سمیت یہ دُعا کریں کہ اے اﷲ ہم دونوں فریق میں سے جو جھوٹ اختیار کر رہا ہے اسکو عبرتناک سزا دے اور اسپر *** ڈال اور اے خدا جو سچاہے اس کا حامی ہو اس کو عزت دے۔ تو اسے پڑھتے ہی پادری صاحب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے میں خود عینی گواہ ہوں اور اس نظارہ کو نہیں بھول سکتا کہ ان الفاظ کے پڑھتے ہی پادری صاحب کے چہرہ پر موت کی سی زردی چھائی معلوم ہونے لگی اور ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ ۳۰
فصل پنجم
فریضہ دعوت حق بجا لانیوالے
دوسرے مجاہدین احمدیت
بانیمشن مکرم شیخ عبدالواحد صاحب فجی میں قریباً پونے نو سال تک احمدیت کا پیغام حق پہنچانے کے بعد ۱۷؍جولائی ۱۹۶۸ء کو واپس مرکز
میںتشریف لائے۔آپ کی موجودگی یاآپ کے بعد جن مجاہدین احمدیت نے اس سر زمین میں فریضۂ تبلیغ بجا لانے کی سعادت حاصل کی ہے اور جماعت احمدیہ کے اثر و نفوذ میں غیر معمولی اضافہ کا موجب بنے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
۱۔ مولوی نورالحق انورؔ صاحب (تاریخ روانگی) ۲۶؍فروری ۱۹۶۷ء
(تاریخ واپسی) ۲؍جون۱۹۶۸ء
۲۔ ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب (تاریخ روانگی)۲۳؍جنوری ۱۹۶۸ء
(تاریخ واپسی) ۸؍نومبر ۱۹۷۰ء
۳۔ مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی (تاریخ روانگی) ۱۰؍جولائی ۱۹۷۰ء
(تاریخ واپسی)۳۰؍مارچ ۱۹۷۲ء
۴۔ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری (تاریخ روانگی) ۱۰؍جولائی ۱۹۷۰ء
(تاریخ واپسی)۲؍نومبر ۱۹۷۳ء
۵۔ مولوی غلام احمد فرخ صاحب (تاریخ روانگی) ۴؍جون ۱۹۷۲ء
(تاریخ واپسی) ۲۹؍اپریل ۱۹۷۶ء
۶۔ مولوی عبدالرشید صاحب رازیؔ (تاریخ روانگی) ۲۰؍نومبر ۱۹۷۳ء
(تاریخ واپسی) ۲۲؍جون ۱۹۷۷ء
۷۔ مولوی دین محمد صاحب شاہد (تاریخ روانگی) ۴؍ مئی ۱۹۷۷ء
(تاریخ واپسی) ۱۳؍نومبر ۱۹۷۹ء
۸۔ مکرم شیخ سجاد احمد صاحب خالدؔ ( تاریخ روانگی) ۴؍مئی ۱۹۷۷ء
(تاریخ واپسی) ۲۹؍ اپریل ۱۹۸۴ء
۹۔ مکرم حافظ عبدالحفیظ صاحب شہید (تاریخ روانگی) ۲۵؍فروری ۱۹۸۰ء آپ ۶؍اگست ۱۹۸۱ء کو کار کے ایک حادثہ میں جاں بحق ہو گئے اِنّا للّٰہ و اِنّا اِلیہِ راجعون۔ ۳۱
۱۰۔ مکرم مولوی عبدالعزیز صاحب وینس شاہد مع فیملی ۱۰؍مئی ۱۹۸۴ کو روانہ ہوئے
تاحال میدان عمل میں ہیں اور خدمات دینیہ بجا لارہے ہیں۔
۱۱۔ مکرم حافظ جبرائیل سعید صاحب غانین نے ۸۷۔۱۹۸۶ء میں ایک سال کام کیا اور پھر ۲۸؍ اگست ۱۹۸۷ء کو طوالو منتقل ہو گئے۔ ۳۲ ان مرکزی مبلغین کے علاوہ
۱۳؍اکتوبر ۱۹۸۳ء سے ماسٹر محمد حسین صاحب مقامی مبلغ مقرر ہیں۔
لوٹو کا میں پرائمری سکول کی بنیاد
۲۷؍دسمبر ۱۹۶۸ء کو سید ظہور احمد شاہ صاحب مبلغ فجی نے جماعت احمدیہ فجی کے
پہلے پرائمریسکول کی بنیاد لوٹوکا (LAUTOKA)شہر میں رکھی اس موقع پر ملک کے قدیم اخبار ’’فجی ٹائمز‘‘ کے رپورٹر اور محکمہ تعلیم کے افسران بھی موجود تھے یہ سکول مکرمی ماسٹر محمد حسین صاحب صدر حلقہ لوٹوکا کی زیر نگرانی قائم ہوا۔ ۳۳ اس سکول کا نام ’’تحریک جدید انجمن احمدیہ اورسیز فجی‘‘ رکھا گیا۔ اس کے علاوہ لوٹوکا میں جماعت نے ’’تعلیم الاسلام کنڈرگارٹن‘‘ سکول بھی قائم کیا۔ سکول بہت جلد ترقی کی منازل طے کرنے لگا اور چندسالوں میں ہی اس کے طلبہ کی تعداد ساڑھے تین سوسے زائد ہو گئی اور سٹاف میں دس اساتذہ خدمات بجا لانے لگے۔ سکول کمیٹی نے مزید دو کمرے دو منزلہ عمارت کی صورت میں تعمیر کئے جنکی افتتاحی تقریب ۱۵؍مارچ ۱۹۷۵ء کو منعقد ہوئی جس میں طلبہ کے والدین‘ مارو‘ ناندی اور لوٹو کا کے احمدیوں کے علاوہ محکمہ تعلیم کے ایجوکیشن آفیسر وی نائر صاحب (V.NAIR)نے شرکت فرمائی۔مولوی غلام احمد صاحب فرّخؔ نے دُعا کر کے نئے کمرے کا تالا کھول کے افتتاح کیا۔ سکول کی بنیاد اور افتتاح کی باتصویر رپورٹیں اخبار’’فجی ٹائمز‘‘ نے نمایاں طور پر شائع کیں۔ اب یہ سکول روزافزوں ترقی کر رہا ہے۔ ۳۴
ناندی میں بیت اقصٰی کی تعمیر
ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے زمانہ قیام میں
ناندی میں بیت اور مشنری کواٹر کی بنیاد رکھی۔اس وقت جماعت فجی ابتدائی دور میں سے گذر رہی تھی اور مالی حالت ہرگز ایسی مضبوط نہ تھی کہ ہزاروں ڈالر خرچ کر کے کوئی شاندار عمارت تعمیر کی جا سکتی مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا عظیم الشان نشاں دکھلایا اور مسجد اور مشنری کواٹرز کی شاندار عمارت تعمیر ہو گئی جسکا نام بیت اقصٰی رکھا گیا اور اس کا افتتاح یکم جنوری ۱۹۷۲ء کو سالانہ تبلیغی کانفرنس کے موقع پر مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری فاضل انچارج مشن جزائر فجی نے فرمایا اس افتتاحی تقریب کے لیئے حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒنے حسب ذیل برقیہ پیغام ارسال فرمایا۔
’’السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ۔ میری طرف سے آپ سبکو بیت اقصٰی ناندی کا افتتاح کرنا بہت بہت مبارک ہو۔ اﷲ تعالیٰ اس بیت کو اس علاقہ میں اسلام کی ترقی اور اشاعت کا کامیاب مرکز بنائے۔ خلافت سے وابستگی اور نظام جماعت کی پابندی اپنا شعار بناؤ‘۔‘ ۳۵
تائیدِ الہٰی کے ایک قہری نشان کا ظہور
مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری فرماتے ہیں :۔
’’جماعت احمدیہ نے فجی کے مشہور شہر با (BA)میں احمدیہ مشن کی برانچ کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیئے ایک مناسب حال مکان بھی خرید لیا تو اس شہر میں ہماری شدید مخالفت شروع ہو گئی۔ مخالفین کوشش کرنے لگے کہ جیسے بھی ہو تبلیغ اسلام کا یہ مشن ’’با‘‘ شہر میں کامیاب نہ ہونے پائے اور ہمارے قدم وہاں نہ جمیں۔ اس وقت وہاں ہمارے مخالفین کا سرغنہ وہاں کا ایک صاحب اقتدار شخص ابوبکر کویا نامی تھا۔ چنانچہ اس نے اور دیگر مخالفین نے شہر میں یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ احمدیوں کے ’’با‘‘ مشن کی عمارت کو جلا دیں گے۔ ۳۶
چنانچہ جس قدر ممکن ہو سکا ہم نے حفاظتی انتظامات کر لیئے اس عمارت کے سامنے پولیس اسٹیشن تھا انہیں بھی توجہ دلائی گئی پولیس نے ہمیں مشن ہاؤس کی حفاظت کا یقین بھی دلایا پھر بھی ایک رات کسی نہ کسی طرح مخالفین کو نقصان پہنچانے کا موقعہ مل گیا اور ان میں سے کسی نے ہمارے مشن ہاؤس کے ایکحصہ پر تیل ڈال کر آگ لگا دی اور یہ یقین کر کے کہ اب آگ ہر طرف پھیل جائے گی اور مشن ہاؤس کو خاک سیاہ کر دے گی۔ آگ لگاتے ہی آگ لگانے والا فوراً بھاگ گیا۔ لیکن خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہو کہ افراد جماعت کو پتہ لگنیسے پہلے ہی وہ آگ بغیر کوئی خاص نقصان کئے خود ہی بجھ گئی یا بجھا دی گئی۔ مخالفین نے عمارت کی اس طرف جہاں عمارت کا اکثر حصہ لکڑی کا تھا آگ لگائی تھی جس سے چند لکڑی کے تختے جل گئے مگر وہ آگ آگے بڑھنے سے قبل ہی بجھ گئی ۔ چنانچہ اسی روز اس کی مرمت کروا دی گئی۔ مگر آگ کے نقصان کا موقعہ پر جائزہ لیتے ہوئے اس وقت کے مبلغ انچارج ۳۷نے اس جلے ہوئے کمرے پر کھڑے ہو کر بڑے دکھ بھر ے انداز میں آہ بھر کر جو یہ کہا کہ جس نے خدا تعالیٰ کے دین اسلام کی اشاعت کا یہ مرکز جلانے کی کوشش کی ہے خدا تعالیٰ اس کے اپنے گھر کو راکھ کر دے۔ تو خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہو اکہ اس کے چند روز بعد اچانک ’’با‘‘ میں جماعت کے مخالفین کے سرغنہ ابوبکر کو یا کے گھر کو آگ لگ گئی اور باوجود بجھانے کی ہر کوشش کے وہ رہائشی مکان سارے کا سارا جل کر راکھ ہو گیا۔ فاعتبروا یاا ولی الابصار ۳۸
جزائر ٹونگا کے بادشاہ کو تبلیغ اسلام
اور قرآن کریم کی پیشکش
جناب مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کا بیان ہے کہ ’’نومبر ۱۹۷۱ء میں مجھے اخبارات کے ذریعہ علم ہوا کہ جزائر ٹونگا کے بادشاہ جو فجی میں قائم شدہ جنوبی
بحراوقیانوس کے جزائر کی واحدیونیورسٹی کے اعزازی چانسلر بھی ہیں عنقریب فجی آ رہے ہیں…جماعت کے ایک مخیّر دوست برادرم محمد شمس الدین صاحب … نے محض خیریت دریافت کرنے کے لیئے مجھے مغرب کے بعد فون کیا میں نے ضمنی طور پر ان سے ذکر کیا کہ جزائر ٹونگا کے بادشاہ اپنے شاہی قافلہ کے ساتھ فجی کے دارالحکومت میں اپنے چچاکے ہاں مقیم ہیں تاہم اُن سے تبلیغی ملاقات کے لیئے ہماری کوشش کارگر نہ ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ ’’شاہ ٹونگا کے چچاسر ایڈورڈ ڈاکمباؤ نائب وزیر اعظم فجی تو میرے سکول فیلو اور کرکٹ فیلو بھی رہے ہیں‘‘ اور تجویز کیا کہ کل صبح ہی ان سے دفتر میں ملیں گے۔ چنانچہ اگلے روز ہم دونوں اُ ن سے ملے۔ وہ بڑی خوش خلقی سے پیش آئے اور ہماری خواہش کے مطابق اسی وقت فون پر ہماری طرف سے شاہ ٹونگا سے ملاقات کی درخواست کر دی جو شاہ نے منظور کر لی چنانچہ اسی وقت سر ایڈورڈ نے ہمیں بتایا کہ آج ہی شام کے پانچ بجے ہزمیجسٹی نے ہمیں ملاقات کے لیئے آدھ گھنٹہ دیا ہے اور ہماری خواہش کے مطابق دوسرے سب شاہی مہمان موجود ہوں گے۔
چنانچہ اسی روز تین افراد پر مشتمل جماعت احمدیہ فجی کے تبلیغی وفد کی پریس فوٹوگرافرز اور اخباروں کے نمائندوں کی موجودگی میں شاہ ٹونگاسے ملاقات ہو گئی خاکسار نے انہیں جماعت کی طرف سے ایڈریس پیش کیا جس میں انہیں خوشآمدید کہنے کے علاوہ اسلام کی تعلیم سے آٗگاہ کیا گیا اور آخر میں قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی کتابیں بطور تحفہ پیش کی گیئں۔ شاہ ٹونگا نے کھڑے ہو کر قرآن کریم مجھ سے وصول کرنے کے بعد ہمارے ایڈریس کے جواب میں شکریہ کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا کہ
’’میرا ملک صد فی صد عیسائی ہے میں بھی پیدائشی عیسائی ہوں میں نے اس سے پہلے کبھی قران کریم دیکھا تک نہیں تھا نہ اسلام سے مجھے تعارف تھا۔ آپ نے یہ تقریب پیدا کر کے مجھے اس مذہب سے متعارف کروایا ہے جو میری والدہ کی قوم کا صدیوں سے مذہب چلا آتا ہے۔ میری والدہ انڈونیشین نسل سے ہیں آپ کی طرف سے پیش کردہ قرآن کریم اور کتب کا ضرور مطالعہ کروں گا آپ نے ایک عظیم روحانی خزانہ مجھے عطا کیا ہے آپ لوگ بڑے شکریہ کے مستحق ہیں‘‘
دوسرے روز لوکل اخبارو ں میں اس تقریب کی تصاویر کے علاوہ تما م روداد بھی شائع ہوئی اور ریڈیو پر بھی یہ خبر نشر کی گئی…اس واقعہ کی رپورٹ جب میں نے سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اﷲ تعالیٰ کی خدمت میں بھیجی تو حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور دُعا کے ساتھ یہ ہدایت بھی فرمائی کہ
’’بادشاہ سے لے کر ادنیٰ سے ادنیٰ انسان تک دن رات اسلام کا پیغام پہنچائیں‘‘
چنانچہ اگرچہ پہلے یہی حتی الوسع ہرموقع پر ادنیٰ و اعلیٰ سبکو تبلیغ کی جاتی تھی لیکن حضور کے اس تازہ ارشاد کے بعد ایک خاص تبلیغی مہم جاری کی گئی اور تقسیم کے لئے اپنا لٹریچر ٹیکسیوں اور بسوں میں رکھوایا گیا۔ نیز مارکیٹ میں تین چار احمدی سٹالوں پر بھی لٹریچر رکھوادیا۔حتیٰ کہ بیت اور مشن ہاؤس کے فَلَش پٹ اور کمپاؤنڈ کی صفائی کے لیئے آنے والے مزدوروں کی بھی چائے سے تواضع کر کے انہیں تبلیغ کی جاتی رہی اور اسلام کے متعلق لٹریچر پیش کیا جاتا رہا یہاں تک کہ بعد میں وہ غریب فجین باشندے ہمارا فجین زبان میں شائع شدہ لٹریچر ہم سے خود طلب کرنے لگے۔ ۳۹
جزیرہ واٹو الیوو اور وٹی لیوو میں تبلیغی جہاد
مولانا غلا م احمد صاحب بدوملہی کو فجی میں قریباً دو سال تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی آپ نے زیادہ وقت جزیرہ واٹوالیوو میں گزارا اور جماعتی تعلیم و تربیت کے علاوہ مختلف شہروں اور قصبوں میں سوال و جواب کی محفلیں
منعقد کر کے تبلیغ کی راہ ہموار کی ان دنوں اس جزیرہ میں مخالفت زوروں پر تھی مخالفین احمدیت نے وٹی لیوو سے ایک دوسرے جزیرہ کا رخ کیا مگر وہاں بھی انہیں شکست ہوئی اور مولانا صاحب اس جزیرہ میں ان کا تعاقب کرنے کے لیئے پہنچ گئے۔ مگر وہ مبلغ احمدیت کی علمی قابلیت اور ایمانی جرأت کی وجہ سے گفتگو کی جرأت نہ کر سکے اور بالآخر ایک شدید مخالف مولوی عبدالرحمان صاحب بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ صوا سے اس جزیرہ میں پانچ علماء کا ایک وفد پہنچا اور لیکچر دئیے مگر احمدیوں سے بات چیت پر آمادہ نہ ہوئے ۱۹۷۰ء کے آخر میں لمبا سہ کے مشہور وکیل ممتاز مقبول صاحب نے بیعت کر لی اور جماعتی کاموں میں بڑی دلچسپی لینے لگے۔ ۴۰
نور احمدیہ پریس
۱۹۷۱ ء میں جماعت احمدیہ فجی کو اﷲ تعالیٰ نے ایک پرنٹنگ مشین اوراسکے دیگر لوازمات خریدکراپنا پریس قائم کرنے کی توفیق عطا
فرمائی جس پر انگریزی اور ہندی زبانوں میں بڑی کثرت سے لٹریچر شائع ہونے لگا۔ ابتداء میں رضاکارانہ طور پر پریس کا کام محترم ماسٹر محمد حسین صاحب ہیڈماسٹر احمدیہ سکول لٹوکا
سر انجام دیتے تھے۔ ۴۱
جماعت فجی کی ملّی خدمت
۲۴؍اکتوبر۱۹۷۲ ء کو فجی میں ایک ہولناک سمندری طوفان آیا جس کی مثال فجی کی تاریخ میں نہیں
ملتی۔طوفان سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ۔اﷲ تعالیٰ کے فضل سے فجی کے احمدی احباب بڑی حد تک محفوظ رہے فجی کے احمدیوں نے اس موقع پر اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کی ہر طرح امداد کی ان کو کھانا کھلایا اور سامان بھی پیش کیا۔ علاوہ ازیں فجی کے ریلیف فنڈ میں نہ صرف حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے چارسو فجیئن ڈالر ارسال فرمائے بلکہ مقامی جماعت احمدیہ نے بھی چندہ دیا ۔ ۴۲
فصل ششم
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا روح پرور پیغام جماعت احمدیہ فجی کے نام
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ رحمہ اﷲ تعالیٰ نے ۱۹۷۲ء کے آخر میں فجی کے احمدیوں کے نام ایک روح پرور
پیغام ریکارڈ کرا کے ارسال فرمایا جسے فجی کی جماعتوں کے عام جلسوں اور دیگر تقاریب پر کئی بار احباب نے سُنا اور اپنے ایمانوں کو تازہ اور روح کو زندہ کیا۔ یہ پیغام حسب ذیل الفاظ میں تھا حضور نے تشہدو تعوذ کے بعد فرمایا:۔
ٓٓ’’فجی میں بسنے والے احمدی بھائیو! السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ‘
مرکز احمدیت سے آپ کے جزائر کا فاصلہ ہزاروں میل کا ہے لیکن صرف آپ ہی مرکز سے اتنے فاصلے پر نہیں مغربی افریقہ میں بسنے والے احمدی بھی ہزاروں میل کے فاصلہ پر ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں بسنے والے احمدی آپ سے بھی زیادہ فاصلہ پر بستے ہیں پس محض مرکز سے دوری اخلاص کی کمی اور ایثار اور قربانی سے بے پرواہی پر منتج نہیںہوتی بلکہ فاصلے محبت اور پیار سے اخلاص اور ایثار سے سکڑ جاتے اور زائل ہو جاتے ہیں جو محبت جو ایثار اور غلبہ اسلام کیلئے جو جوشمیں نے مغربی افریقہ کے افریقن احمدیوں میں پایا ہے اگر ویسا ہی اخلاص اور جوش ساری دنیا کے احمدیوں میں ہو جائے۔ آپس میں پیار کرنے لگیں بنی نوع انسان کی خدمت پر کمر بستہ ہو جائیں۔ اور اگر اﷲ تعالیٰ کے حقوق کو بھی اسی طرح ادا کریں جس طرح انہیں اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین اوروصیت کی گئی ہے تو غلبہ اسلام کی مہم جو اﷲ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جاری کی ہے اس کے اور بھی زیادہ خوشکن نتائج بہت جلدی ہماری آنکھوں کے سامنے آجائیں اور اپنی زندگیوں میں ہم غلبۂ اسلام کی آخری فتح اور آخری غلبہ کے ایام اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگیں ہماری روح انہیں محسوس کرنے لگے اور ہماری خوشیوں کی کوئی انتہاء نہ رہے کیونکہ اسی میںہماری خوشی اور مسرت ہے۔ یہ دنیا اور اس دنیا کے اموال اور دنیا کی مسرتیں اور لذتیں حقیقی نہیں ابدی بھی نہیں ہیں۔ ابدی اور حقیقی مسرت تو اﷲ تعالیٰ کے پیار میں انسان کو ملتی ہے اور اسی کی طرف رجوع کر کے اس کے پیار کو ہمیں حاصل کرنا چاہیئے۔ آج اس نے حضر ت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کر کے ہمیں یہ وعدہ دیا ہے کہ تم نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس موعود عظیم روحانی فرزند کی باتوں کو سنو اور غلبہ اسلام کی جو مہم اس نے جاری کی ہے۔ اس میں حصہ لو معمولی حصہ نہیں بلکہ انتہائی حصہ ساری دنیا کی لذتوں اور دولتوں کو بھول کر اس حقیقی لذت اور حقیقی دولت کی تلاش کرو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ پس اگر تم حقیقی معنیٰ میں پورے اخلاص کے ساتھ خدا کے محمد
(صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی طرف رجوع کرو گے اور توحید حقیقی پر پوری طرح قائم ہو جاؤ گے اور بے نفس محبت اسلام سے کرو گے اور قران کریم کی عظمت کو دلوں میں بٹھاؤ گے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے متلاشی رہو گے اور خدا تعالیٰ کے لیئے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت ساری دنیا کے دل میں بٹھانے کی کوشش کرو گے تو اپنے لیئے اﷲ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لو گے۔ اگر نہیں کرو گے تو دنیا تو تباہی کی طرف جارہی ہے تم اس قافلہ کے ساتھ کیوں شامل ہوناچاہتے ہو جس کے لیئے ہلاکت مقدر ہو چکی ہے تم اس جماعت میں پوری طرح اور اخلاص سے کیوں رہنا نہیں چاہتے کہ جس کے لیئے دنیا کی عزتیں اور آخرت کی عزت مقدر ہو چکی ہیں اور جو پیدا ہی اس لیئے کئے گئے ہیںکہ اﷲ تعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں سے اپنے فضلوں اور پیار سے نواز ے۔
خدا تعالیٰ آپ کو بھی اور ہمیں بھی اور دنیا میں ہر جگہ بسنے والے احمدیوں کو بھی یہ توفیق عطا کرے کہ سب احمدی انفرادی طور پر بھی اور جماعتی لحاظ سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں اور جو کام اﷲ تعالیٰ نے ان کے سپرد کیا ہے خدا تعالیٰ کی رضا کے لیئیوہ اس کام میں ہمہ تن مشغول رہیں اﷲ تعالیٰ کی رضا کو پائیں اور ابدی جنتوں کے وہ وارث ہوں آمین اﷲ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ السلام علیکم ‘‘ ۴۳
بیت مبارک کی بنیاد
جزائر فجی کا دوسرا بڑا جزیرہ وینوالیوو (VANUALEVU)ہے جس کا ہیڈ کوارٹر لمباسہ شہر ہے ۔۲۶؍نومبر۱۹۷۲ء کو اس شہر
میں مسجد مبارک کی بنیاد رکھی گئی۔ اس روز جزیزہ میں واقع تمام احمدی جماعتوں نے پر جوش وقار عمل منایا اجتماعی وقار عمل کا دلکش نظارہ ملکی شاہراہ پر آنے جانے والے ہر شخص کو متاثر کرتا تھا۔ پہلی اینٹ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے اور دوسری مولوی غلام احمد صاحب فرّخؔ نے رکھی۔ ۴۴
جزائر مشرقی بحرالکاہل میں
قرآن کریم کی وسیع اشاعت
حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ کی تحریک خاص کے مطابق جہاں دنیا بھر کے دوسرے احمدی مشنوں میں وسیع پیمانہ پر قرآن کریم کی اشاعت ہوئی وہاں فجی مشن کی طرف سے ۱۹۷۲ء سے بڑی
تعدادمیں چھوٹے بڑے سائز کے قرآن کریم سادہ اور مترجم اردو انگریزی میں مع تفسیر اور مقامی زبان میں بھی مفت اور برائے نام ھدیہ پر بکثرت تقسیم کئے گئے۔ فجی کے پانچ مشہور ہوٹلوں میں قرآن کریم انگریزی کے جو نسخے رکھوائے گئے ان کی تعداد ایک ہزار تھی۔ چنانچہ مولوی محمدصدیق صاحب نے اپنی ایک رپورٹ میں اطلاع دی کہ
’’آسٹریلیا ۔ نیوزی لینڈ۔ فجی ۔ جزائر ٹونگا۔ پاپوا۔ نیوگنی۔ جزائر کوک (COOK)مغربی اور مشرقی ساموا (SAMOA)جزائر نیوہر برڈیز اور ہونیارا وغیرہ ان سب ممالکِ بحر الکاہل کی یونیورسٹیوں‘ کالجوں‘ پبلک لائبریریوں ‘ سکولوں‘ ہوٹلوں‘ مختلف سوسائیٹیوں‘سوشل کلبوں اور نادیوں وغیرہ کی لائبریریوں کو قرآن کریم کے مختلف بڑے چھوٹے انگریزی ایڈیشن مفت پیش کئے گئے ہیں جو کہ شکریہ کے ساتھ قبول کئے گئے اور اب ان لائبریریوں کی الماریوں میں رکھے ہوئے ہیں اور پبلک ان سے فائدہ اٹھاتی ہے۔اس کے علاوہ بیسیوں نادار طالب علموں‘ یونیورسٹی کے پروفیسروں‘ ٹیچروں وغیرہ نے ہم سے خود بھی قرآن کریم طلب کئے اور کرتے رہتے ہیں اور بعض کو مفت پیش کیے گئے اور بعض نے خود پیشگی قیمتیں ادا کیں بعض خود آ کرلے جاتے ہیں۔ جزائر فجی میں باہر سے آنے والے بڑے بڑے شاہی اور معزز مہمانوں ‘ بادشاہوں چیفوں‘ گورنروں ‘وزرائے اعلیٰ اور پارلیمنٹوں کے مختلف ممبروں‘ ہائی کمشنروں‘ ملکی سفیروں میں سے اکثر کو خود بطور نمائندہ جماعت یا تبلیغی وفد کی صورت میں مل کر تبلیع اسلام کی گئی جس کے بعد انہیں قرآن کریم انگریزی سوانح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم‘ اسلامی اصول کی فلاسفی اور دیگر اسلامی کتب پیش کی جاتی رہیں جو کہ ہر ایک نے شکریہ کے ساتھ قبول کیںاور بعض نے اپنے ملک واپس جا کر شکریہ کے خطوط بھی لکھے ایسے اکثر اسلامی لٹریچر اور قرآن کریم کا مالی ہدیہ یا قیمت جماعت احمدیہ فجی کے بعض مخلص اور مخیّر احباب حصول ثو اب کی خاطر اپنی جیب سے مشن کو ادا فرماتے رہے ‘‘ ۴۵
گورنر جنرل فجی کو اسلامی لٹریچر
حمدیہ
۱۵؍فروری ۱۹۷۳ء کو مولانا محمد صدیق صاحب انچارج مبلغ فجی کی قیادت میں ایک
احمدیہ تبلیغی وفد نے گورنر جنرل سے ملاقات کی اس گفتگو کے بعد تبلیغی ایڈریس پڑھا اور ان کو قرآن کریم اور دیگر اسلامی لٹریچر کی پیس کش کی جس کا انہوں نے بہت شکریہ ادا کیا اور اس شدید خواہش کا اظہار بھی کیا کہ قرآن کریم کا فجین زبان میں ترجمہ جلد از جلد شائع کیا جائے۔ تاکہ ملک کے اصلی باشندے اسے خود بلاواسطہ پڑھ کر معلوم کر سکیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ یہ تقریب بخیروخوبی ختم ہوئی جس کے بعد مقامی اخبارات میں اسکی خبریں اور فوٹو بھی شائع ہوئے۔ ۴۶
۲۲؍اپریل۱۹۷۳ء کو احمدیہ بیت لوٹو کا کا افتتاح عمل میں آیا ۔ اس بیت کی تعمیر میں ماسٹر محمد حسین صاحب نے بڑی محنت سے دن رات کام کیا تھا ۔ مولانا غلام احمد صاحب فرخؔ نے اس تقریب پر احباب کو تعمیر بیت کے بعد انکی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ۴۷
۳؍اگست ۱۹۷۴ء کو لمباسہ شہر کی نئی بیت احمدیہ ’’بیت ناصر‘‘ کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر فجی کے تمام احمدی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ریڈیو فجی نے اس کے افتتاح کے بارہ میں اعلانات کئے اور روزنامہ فجی نے اس کے افتتاحکے دلکش فوٹو شائع کئے۔ ۴۸
۸۔۹۔۱۰۔۱۱؍اکتوبر ۱۹۷۴کو حکومت فجی کی طرف سے آزادی کا رسالہ اور حکومت برطانیہ سے الحاق کاسوسالہ جشن منایا گیا۔ اس موقعہ پر تقریبات میں حصہ لینے کے لیئے ملکہ برطانیہ نے اپنے فرزندپرنس چارلس کو بھیجا جو پرنس آف ویلز ہیں۔ مولوی غلام احمد صاحب فرخؔ نے جماعت احمدیہ فجی کی طرف سے انہیں ایک تبلیغی مکتوب لکھا نیز قرآن کریم کی انگریزی تفسیر کا تحفہ ارسال کیا جس کو انہوں نے جذبات تشکر کے ساتھ قبول کیا چنانچہ ان کی سینئرلیڈی سیکرٹری نے ان کی طرف سے بکنگھم پیلس سے شکریہ کا خط لکھا۔ ۴۹
ریڈیو فجی سے احمدیت کا چرچا
حکومتِ فجی نے مذہبی رواداری کی سنہری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیشہ پُرامن
مذہبی اداروں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مولوی غلام احمد صاحب فرّخؔ نے نومبر ۱۹۷۳ء میں ریڈیو فجی کے ڈائریکٹر سے ملاقات کر کے ریڈیو پر دوسرے فرقوں کے برابر وقت دیئے جانے کی درخواست کی جو انہوں نے فراخدلی سے منظور کر لی اور ۱۹۷۴ء سے احمدیہ مشن کو دوسرے فرقوں کے برابر صبح کے مذہبی پروگراموں اور دوسرے یادگاری مواقع پر تقاریر نشر کرنے کے مواقع دیئے جانے لگے اور یوم مسیح موعود‘یوم مصلح موعود‘ یوم خلافت‘ جلسہ سالانہ جماعت فجی‘ یوم سیرت النبیؐ‘ رمضان المبارک اور عیدین کے موقع پر مبلغین احمدیت کی تقریریں خبروں کے بعد نشر ہونے لگیں۔ اس طرح پورے ملک میں احمدیت کیآواز گو نجنے لگی۔ ۵۰
بیت مبارک کا افتتاح
۳ ؍ اگست ۱۹۷۴ء کو جزیرہ وینوالیوا (VANUALEVU)
کے دارالحکومت لمباسہ میںمولانا غلام احمد صاحب فرّخؔ
نے بیت مبارک کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بذریعہ ٹیلیگرام حسب ذیل پیغام عطا فرمایا ۵۱
’’ فجی میں اس احمدیہ بیت الذکرکے افتتاح کے موقعہ پر میری طرف سے تہ ِدل سے مبارکباد۔ خدا تعالیٰ اس مسجد کو اس علاقہ میں اسلام کی عظمت و شان اور مُسلمانوں کی مضبوطی کا موجب بنائے۔ اسلام اور احمدیت کی خدمت بے نفس ہو کر اخلاص کے ساتھ بجا لائیں اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کریں۔ میری طرف سے جملہ احباب کو جو اس تقریب میں شامل ہیں اور اسکی کامیابی کے لئے کوشاں ہیں السلام علیکم۔ اﷲ تعالیٰ آپ سب کو کامیاب فرمائے۔ ‘‘
یاساوا گروپ کے جزائر کا تبلیغی دورہ
مولوی عبدالرشید صاحب رازی نے ماہ نومبر ۱۹۷۴ء میں یا ساواگروپ
کے جزائر کا وسیع تبلیغی دورہ کیا اور انفرادی ملاقاتوں اور پبلک جلسہ کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا۔ ۵۲
فصل ہفتم
بیت فضل عمر کی بنیاد اور امام ھمام کا پیغام
۸ ؍دسمبر۱۹۷۴ء کو صوا میں جماعت احمدیہ کی بیت فضل اور مشن ہاؤس کے سنگ بنیاد کی تقریب عمل میں آئی۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے حسب ذیل ایمان افروز پیغام ارسال فرمایا:۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولٖہ الکریم و علیٰ عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کیساتھ
ھو الناصر
جان سے عزیز بھائیو!
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ‘
مجھے یہ معلوم کر کے از حد مسرت ہوئی کہ آپ نے بیت فضل عمر کی بنیادوں کی کھدائی کا کام اپنے ہاتھ سے خود کیا ہے۔ آج آپ اس کا سنگِ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ یہ دن نہ صرف جماعت ہائے احمدیہ فجی بلکہ جزائر فجی کے جملہ اہالیان کے لیئے ہر طرح بابرکت ثابت کرے۔ اس علاقہ میں اس بیت الذکرکو اعلاء کلمہ اسلام کے لیئے مرکز ثابت کرے اس طرح کہ اہالیان فجی کے دلوں میں انابت الی اﷲ اور خشیت اﷲ پیدا ہو جائے اور وہ اپنے دلوں کو پاک اور صاف کر کے خدائے واحد کے حضور جھک جائیں اور اس کے بندے بن جائیں۔ اے خدا ! تو ایسا ہی کر۔
اس کے ساتھ میں احبابِ جماعت کو یہ نصیحت کروں گا کہ ہماری بیوت ذکر الٰہی سے معمور رہنی چاہیں۔ نہ صرف پنجوقتہ نمازوں کے اوقات میں بلکہ دیگر اوقات میں بھی ہماری مساجد دعاؤں‘نوافل‘ تعلیم و تعلّمِ قرآن ‘ تبلیغ حق اور تربیت نفوس کے مراکز بنی رہنی چاہیں۔ اﷲ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جملہ احباب کو بیوت کے فیوض و برکات سے پوری طرح متمتع ہونے کی سعادت نصیب کرے۔ آمین
یہ دور ابتلاؤں اور آزمائشوں کا دور ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ اپنے فضل سے احباب جماعت کو ایمان پر استقامت بخشے‘ ثابت قدم رکھے۔ اور اس راہ میں ہر قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے قبول کرے۔آمین
مرزا ناصر احمد
خلیفۃالمسیح الثالث(۳؍دسمبر ۱۹۷۴ء ۔ ۱۳۵۳ ھش) ۵۳
جماعت احمدیہ فجی نے جنوری ۱۹۷۵ء میں ’’مسلم سن رائز‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا۔ ۵۴
اقوام متحدہ کی ایک اہم مسلمان شخصیت کی طرفسے مبارک باد
وسط ۱۹۷۷ء میں جنوبی بحرالکاہل میں واقع COOK ISLANDمیں اقوام متحدہ کی طرف سے متعین CENSUS ADVISERمسٹر محمد سراج الاسلام
دارلحکومت صوا میں تشریف لائے اور اس کیمشہور ہوٹل PACIFIC HOTELمیں قرآن مجید کا وہ انگریزی ترجمہ دیکھا جو جماعت احمدیہ فجی نے اشاعت قرآن کی مہم کے دوران دوسرے مقامات کے علاوہ یہاں بھی رکھوایا تھا۔ وہ اس ترجمہ سے از حد متاثر ہوئے اور واپس COOK ISLANDمیں آ کر احمدیہ مشن فجی کو قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر بھجوانے کی فرمائش کی جو انہیں ارسال کر دیا گیا۔ جسے پڑھکر انہوں نے جماعت احمدیہ کو مبارک باد پیش کی۔ چنانچہ انہوں نے مولوی دین محمد صاحب انچارج فجی مشن کے نام حسب ذیل مکتوب لکھا۔
(ترجمہ) ’’قرآن مجید کا ایک نسخہ اور دیگر اسلامی مطبوعات کو پا کر میں بہت خوش ہو اہوں۔ مجھے یہ معلوم کر کے بھی بہت خوشی ہوئی ہے کہ احمدیہ مشن اسلام کے حسین پیغام کی تبلیغ و اشاعت کا اہم فریضہ سرانجام دینے میں مصروف ہے۔ قرون اُولیٰ میں مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ہے۔ اور اُن کی ناقابل تسخیر قوّت اس بات میں تھی کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ۔ مگر افسوس کہ اب مسلمان اسلام کی تبلیغ و اشاعت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ غریب ‘ پسماندہ‘ شکست خوردہ اور ناپسندیدہ عنصر ہو کر رہ گئے ہیں۔ میں جماعت احمدیہ کو تبلیغ اسلام کی اہم خدمت کے سرانجام دینے پر مبارک باد کہتا ہوں‘‘۔
آپکا دلی دوست۔ محمد سراج الاسلام ۵۵
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ
کی دعا سے بارانِ رحمت
جناب مولوی شیخ سجاد احمد صاحب خالد تحریر فرماتے ہیں کہ
’’جب ۱۹۷۷ء میں خاکسار فجی پہنچا تو مجھے
معلوم ہوا ۔ کہ اس ملک کے باشندے اس سال بارش کی بڑی شدّت سے کمی محسوس کر رہے ہیں اورخشک سالی سے سخت پریشان ہیں۔ مُلک کے مولوی صاحبان بارش کے لئے دُعائیں کر چکے تھے۔ اور ہندو پنڈت کھلے میدانوں میں آگ جلا جلا کر بارش برسانے والے دیوتاؤں سے بارش کے لئے التجائیں کر چکے تھے۔ اس ملک کے ہندوؤں میں یہ رسم ہے کہ اگر حسبِ ضرورت بارش نہ ہو اور قحط سالی کا خطرہ ہو تو میدانوں میں نکل کر آگ جلاتے اور ڈھول بجا بجا کر اپنے دیوتاؤں کو بارش کی کمی کا احساس دلاتے ہیں۔ تاہم اس وقت ان کی سب رسمیں اور دیوتا بیکار اور بے جان ثابت ہوئے اور بارش نہ ہوئی۔ جس سے حکومتی حلقوں میں بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا کیونکہ یہ خشک سالی تقریباً سال بھر لمبی ہو گئی تھی۔ جو ملک کے لئے سخت نقصان دِہ تھی۔
اس دَوران ایک روز قصبہ مارو میں خاکسار برادرم مکرم ماسٹر محمد یونس خانصاحب کے مکان پر سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اﷲ تعالیٰ کی خدمت میں خط لکھ رہا تھا مکرم ماسٹر یونس صاحب کو جب یہ معلوم ہوا تو کہنے لگے کہ ابھی ابھی اسی وقت حضور کی خدمت میں خصوصی طور پر لکھیں کہ سال بھر سے سارے ملک فجی میں بارش کا فقدان اور خشک سالی تباہی کا موجب ہو رہی ہے اور ملک کے لوگوں کی اور ہماری دعائیں اور دیگر رسوم بھی سب بے کار ثابت ہو چکی ہیں۔ حضور اس ملک کے باشندوں پر رحم فرماتے ہوئے متواتر خاص دعا فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ جلد از جلد اس سر زمین کو حسبِ ضرورت بارش سے سیراب فرمائے نیز میری طرف سے یہ بھی خاص التجا کریں کہ اپنے ایک ادنیٰ مرید ماسٹر محمد یونس خان کیلئے دعا فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ اسے ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف سے شفا عطا فرمائے۔
خاکسار نے اسی وقت ان دونوں اہم امور کے لئے حضور کی خدمت میں خاص دعا کی درخواست لکھ کر روانہ کر دی۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سلسلہ میں حضور کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور خط کا جواب آنے سے پہلے پہلے سارے ملک میںاتنی شدید بارشیں ہوئیں کہ ہر طرف ہر یالا اور سبزی ہی سبزی ہو گئی اور ہر شخص کی زبان پر بلکہ لوکل اخباروں میں اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ کئی سالوں کے بعد ملک میں اتنی اچھی اور وسیع پیمانے پر بارشیں ہوئی ہیں۔ لیکن یہ بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ پاکستان کے دریائے چناب کے کنارے بسنے والے ایک مردِ با خدا حضرت امام جماعت احمدیہخلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اﷲ تعالیٰ کی مخلصانہ اور درد مندانہ دعائیں فجی میں اس بارانِ رحمت کے نزول کا موجب ہوئی ہیں۔ مکرم ماسٹر محمد یونس خانصاحب کی صحت کے لئے بھی اﷲ تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا وہ خدا کے فضل سے اب صحت یاب ہیں اور جماعتی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والے مخلص جوان ہیں۔فالحمد للہ تعالی۔ ۵۶
خوابوں کے ذریعہ رہنمائی اور قبولِت احمدیت
دنیا کے دوسر ے ممالک کی طرح جزائر فجی میں بھی بہت سے ایسے مخلص احمدی دوست موجود ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کے نتیجہ میں بذریعہ
خواب احمدیت کی صداقت کا انکشاف فرما کر انہیںجماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس سلسلہ میں بطور نمونہ صرف ایک خواب کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
ماروکے مکرم محمد بشیر خاں صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
’’جزائر فجّّّّی میں احمدیت کے چرچا اور احمدیہ مشن کے قیام سے پہلے وہاں عیسائیت کا بہت زور تھا۔ اور حضرت عیسٰیؑکی آسمان سے آمد کے عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح منتظر تھے جس کی وجہ سے یہ خیال میرے دل میں گھر کرنے لگا۔ کہ عیسائیت سچی ہے اور عیسائی ہو جانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے تاہم اﷲ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ میں ابھی عیسائی نہیں ہوا تھا بلکہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے خواب میں ایک نہایت بزرگ انسان ملے۔ انہوں نے بڑے جلال سے مجھے فرمایا‘‘ ۔ محمد بشیر ہوش کرو۔ جس شخص کی تمہیں تلاش ہے وہ عیسٰیؑ یا مسیح ناصریؑ نہیں ہے بلکہ وہ کوئی اور ہے اور دنیا میں ظاہر ہو چکا ہے۔ اس وقت جزائر فجی کے پہلے مبلغ جناب شیخ عبدالواحد صاحب فاضل فجی میں آ چکے تھے اور میرے والد محترم مولوی محمد قاسم صاحب بھی بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ لیکن میرا اس طرف رجحان نہیں تھا۔ تاہم مذکورہ بالا خواب دیکھنے کے بعد میرا رجحان احمدیت کی مبائعجماعت کی طرف ہو گیا اور میں نے بھی اپنے والد صاحب کی طرح شرحِ صدر سے بیعت کر لی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی … کی بیعت کر لینے کے بعد مجھے سلام سے ایسی محبت اور لگاؤ پیدا ہو گیا اور ایسے فہم و فراست سے اﷲ تعالیٰ نے سرفرازفرمایا کہ میں عیسائیوں کے سامنے نہایت جرأت اور یقین سے اسلام کی حقانیت اور عیسائیت کے موجودہ عقائد کا بطلان ثابت کرنے لگ گیا اور مَیں نے اﷲکا تہہ دل سے شکر ادا کیا کہ صداقت مجھ پر کُھل گئی اور مَیں محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کے سچّے اور حقیقی غلاموں میں شامل ہو گیا ہوں۔‘‘ ۵۷
فصل ہشتم
جلسہ سالانہ 1977ء اور بیت فضل عمر اور لائبریری کا افتتاح
۲۵۔۲۶دسمبر ۱۹۷۷ء کو سوا(SUVA)کی بیت فضل عمر میں جماعت احمدیہ جزائر فجی کا نہایت کامیاب سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ ملک بھر سے احباب جماعت ہوائی جہازوں‘ کاروں
اور سپیشل بسوں سے سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے 500کی تعداد میں شامل ہوئے۔ جلسہ میں شامل مہمانوں اور زائرین کے قیام و طعام کا انتظام جلسہ سالانہ ربوہ کی طرز پر نہایت منظم رنگ میں کیا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا حسب ذیل پیغام اس موقع پر مولوی دین محمد صاحب شاھد ایم اے نے پڑھ کر سنایا۔
’’ اﷲ تعالیٰ آپ کے جلسہ سالانہ کو بابرکت کرے۔ متحد رہو اور خلافت کے تقدّس کو ہمیشہ ملحوظ رکھو اور اسکی عزت کرو ۔ اﷲ تعالیٰ کے فضلوں کو دُعاؤں سے عاجزی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اور پوری فرمانبرداری اور اطاعت سے حاصل کرو‘‘۔
خلیفۃ المسیح الثالثؒ
اس موقع پر پندرہ ہزار فجین ڈالر کے خرچ سے تعمیر ہونے والی پُر شکوہ بیت فضل عمر اور اس سے ملحق احمدیہ لائبریری کا افتتاح بھی عمل میں آیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے حسب ذیل مبارک پیغام احمدیہ لائبریری کی افتتاحی تقریب پر ارسال فرمایا تھا۔
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران عزیر! السلام علیکم و رحمۃ اﷲ برکاتہ‘
’’مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ بیت فضل عمر (کے پہلے مرحلہ کی تکمیل پر) اور اس کے ساتھ ملحق لائبریری اور دارالمطالعہ کے افتتاح کی تقریب منعقد کر رہے ہیں۔
دین حق میں بیت الذکرایک مقدّس جگہ ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا گھر کہلاتا ہے۔ اور یہ خالص اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لیئے مخصوص ہے۔ یہ مقدّس جگہ لوگوں کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لیئے اور ان کی توجہ کو مذہب کی طرف بُلانے کے لیئے ہے۔ جو دنیا میں امن اور خوشحالی پیدا کرنے کا واحد ذریعہ اور ضمانت ہے۔ جب یہ صورت حال ہے تو اس بیت کے دروازے ہر اُس شخص کے لیئے کُھلے رہیں گے جو خدائے واحد و یگانہ سے دعا مانگنا اور اسکی عبادت کرنا جس طریق پر چاہے کر سکتا ہے بشرطیکہ
۱۔ وہ ان لوگوں کی عبادت میں مخل نہ ہو جنہوں نے اس بیت کو اپنی دینی ضروریات کے لئے بنایا ہے۔
۲۔ وہ اس بیت الذکر کے قواعد و قوانین کی پابندی کرے جو اس کے ٹرسٹیوں کی طرف سے بنائے گئے ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس طریق سے رواداری کی جو فضا پیدا ہو گی وہ آگے چل کر مختلف طبقوں کے درمیان باہمی نفرت جھگڑوں کو فسادوں کو دُور کر کے اُن کے درمیان خیر خواہی اور اچھے تعلقات اور محبت کی فصا پیدا کرنے کا موجب ہو گی۔
مجھے امید ہے۔ وہ دن دور نہیں جبکہ لوگ لڑائی اور فساد کے طریق کو نفرت سے دیکھیں گے اور دوسرے کے ساتھ امن اور سلامتی اور محبت سے رہنے کا سبق سیکھ لیں گے۔
میں اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ان تمام مردوں اور عورتوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے جنہوں نے اس بیت کی تعمیر کے لئے عطایا دیئے۔ میں دُعا کرتا ہوں کہ یہ بیت حضرت محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے جلیل القدر متبع حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر ہونے والی ہدایت اور روشنی کو پھیلانے کا مرکز اور ذریعہ بنے۔ ‘‘
والسلام
آپ کا دلی دوست مرزا ناصر احمدخلیفۃ المسیح الثالثؒ
مورخہ۷۷۔۱۱۔۱۰ ۵۸
ایک خاندان کے قبول احمدیت کی دلچسپ روداد
جناب شیخ سجّاد احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں۔
’’ جزائر فجی میں تبلیغ کے دوران اﷲ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بے شمار جلوے دیکھنے کا مجھے شرف حاصل ہوا۔ ۱۹۷۷ء کے آخر میں ایک مرتبہ اس ملک کے
جزیرہ لمباسہکے تبلیغی دور ے پر گیا۔ جس کے دوران قصبہ نصروانگا کے ایک مخلص احمدی بھائی نور شاہ صاحب نے پروگرام بنایا کہ وہاں سے ۴۰میل دور BUAڈسٹرکٹ میں اُن کے خسرعبدالغفور صاحب کے گھر پہنچ کر اُن کو تبلیغ کی جائے۔ وہ عرصہ سے زیر تبلیغ تھے۔ اور احمدیت کی سچائی کا اقرار کرنے کے باوجود جماعت میں شمولیت سے گریز کر رہے تھے۔
چنانچہ نور شاہ صاحب ‘ مکرم حامد حسین صاحب ‘ مکرم محمود شاہ صاحب ‘ مکرم محمود شاہد صاحب اور خاکسار پر مشتمل تبلیغی وفد ایک روز عبدالغفور صاحب کے گھر پہنچا۔ انکی بیگم صاحبہ کو ہمارا اس غرض کے لیئےآنا سخت ناگوار گذرا اور دیکھتے ہی کچن سے نکل کر ہمیں ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی اور کہنے لگیں کہ ان کے گھر میں احمدیت کے بارہ میں کوئی بات نہ کی جائے اور کچن میں واپس چلی گئیں ۔ ہم مکرم عبدالغفور صاحب کو تقریباً ایک گھنٹہ تبلیغ کرتے رہے۔ چنانچہ انہوں نے شرح صدر ہونے پر بخوشی بیعت فارم پُر کر دیا۔ دُعا کے بعد جب ان کی بیگم کو پتہ لگا کہ اُن کے خاوند نے بیعت کر لی ہے۔ تو بہت جُز بُز ہوئیں اور کمرے میں آتے ہی شور ڈالدیا کہ آپ نے ہمارے گھر میں فتنہ ڈالدیا ہے۔ میری بیٹی اور داماد پہلے ہی احمدی ہیں۔ اب آپ لوگوں نے میرے خاوند کو بھی احمدی بنا لیا ہے ابھی آپ فوراً یہاں سے چلے جائیں۔ اس پر خاکسار نے اُن کو بڑی نرمی اور عاجزی سے سمجھایا کہ ہم نے کوئی بُرا کام تو نہیں کیا۔ اﷲ تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ اور امام وقت کی بیعت ہی کرائی ہے۔ اور اب باقاعدہ الٰہی جماعت میں شمولیت سے ان کے اسلام کو چار چاندلگ گئے ہیں۔ اس پر وہ سنجیدہ ہو کر سوالات کرنے لگیں۔ جن کے خاکسار جواب دیتا رہا۔ حتّٰی کہ ان کے شکوک و شبہات بھی سب دور ہو گئے اور انہوں نے بھی اسی وقت بیعت کر لی۔ اس وقت کا ماحول روحانی لحاظ سے اتنا پیارا اور خوشگوار ہو گیا۔ کہ بیگم عبدالغفور صاحب خود ہی کہنے لگیں۔ کہ اگر بیعت کرناا ور امام وقت کی جماعت میں شامل ہونا نیکی کا کام ہے تو آپ میرے بیٹے محمد تقی کو بھی ضرور اس میں شامل کریں۔ تاکہ ہمارے کنبے میں کوئی اختلاف نہ رہے اس پر ہم سب اِن کے بیٹے محمد تقی صاحب کے گھر گئے میںنے انہیں کہا۔ کہ ہم آپ کے لیئے پاکستان سے ایک تحفہ لے کر آئے ہیں۔ وہ ہم اس شرط پر آپکو پیش کریں گے کہ آپ اسے ردّ نہ کریں چنانچہ دو گھنٹہ کی بحث کے بعد ان کی تسّلی ہو گئی اور انہوں نے بھی بیعت کر لی اور یوں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے یہ سارا خاندان ہدایت پا گیا۔ ۵۹
کسر صلیب کانفرنس کی بازگشت فجی میں
بین الاقوامی کسر صلیب کانفرنس لنڈن (منعقدہ ۲۔۳۔۴؍جون ۱۹۷۸ء )کی بازگشت فجی کے طول و عرض میں بھی سُنی گئی۔ چنانچہ ریڈیو فجی میں اس کانفرنس کی تفصیل نشر ہوئی۔ اور فجی کے کثیر الاشاعت اور بااثر انگریزی
اخبارات ’’ فجی ٹائمز‘‘ اور ’’فجی سن‘‘ ۶۰نے نہ صرف کانفرنس کی تفصیلات دیں بلکہ حضرت مسیح ناصریؑ کی صلیبی موت سے نجات اور قبر کشمیر کے بارہ میں نہایت دلچسپ‘ ایمان افروز اور مبسوط با تصویر مضامین سُپرد اشاعت کیئے۔ جس سے فجی کے علمی حلقوں پر انکشافات جدیدہ کی روشنی میں حضرت مسیح موعود ؑکے جدید علم کلام کی عظمت و برتری کا سکّہ بیٹھ گیا ۔
جلسہ سالانہ ۱۹۷۸ء کیلئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پیغام
۲۵۔۲۶؍دسمبر ۱۹۷۸ء کو جماعت احمدیہ جزائر فجی کا سالانہ جلسہ ملک کے داراکحکومت سوا (SUVA)میں منعقد ہوا۔ اس جلسے کیلئے حضرت خلیفۃ المسیح نے
حسب ذیل پیغام بذریعہ کیبل گرام ارسال فرمایا۔
" May Allah bless your 9th annual convention. Seek His help through humble prayers, submissions and prayers and set a high standard in the prctical life. Hold fast to the rope of Allah and make your lives living proof of the teachings of Islam. My thoughts and prayers are always with you, your ever loving KHALIFATUL MASIH"
ترجمہ:۔ اﷲ تعالیٰ آپ کے نویں سالانہ جلسہ کو بابرکت فرمائے عاجزانہ دعاؤں سے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اور پھر دعاؤں سے اﷲ تعالیٰ کی مدد و نصرت کو حاصل کرو۔ عملی زندگی میں کردار کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کرو۔ اﷲ تعالیٰ کی رسیّ کو مضبوطی سے پکڑو اور اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کا زندہ نمونہ بناؤ۔ میری توجہ اور دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔ آپ سے ہمیشہ پیار کرنے والا۔
خلیفۃ المسیح ۶۱
بیت بلال کا افتتاح
۳؍دسمبر ۱۹۷۸ء کوصبح دس بجے نساواکا کی ’’بیت بلال‘‘ کا افتتاح جناب مولوی دین محمد صاحب نے سیّدنا حضرت خلیفۃ
المسیح الثالثؒ کے مندرجہ ذیل مبارک پیغام سے کیا۔
’’ خدا تعالیٰ کے اس گھر سے ہمیشہ پیار کریں اور آباد رکھیں اﷲ تعالیٰ آپکو اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی اس گھر میں مقبول دعاؤں کی توفیق عطا فرماتا رہے‘‘۔ ۶۲
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پیغام خدام الاحمدیہ فجی کے نام
مجلس خدام الاحمدیہ جزائر فجی کا پہلا سالانہ تربیتی اجتماع ۱۱؍فروری ۱۹۷۹ء کو مارو میں منعقد ہوا۔ جزائر فجی کی تاریخ میں نوجوانوں کا ایسا بڑا خالص دینی اور اسلامی اجتماع پہلی دفعہ
منعقد ہوا۔ جس پر احمدی احباب بہت خوش تھے اس کامیاب افتتاح کا آغاز سیدنا حضرت خلیفۃ الثالث ؒکے درج ذیل ایمان افروز پیغام سے ہوا جو مولوی دین محمد صاحب شاھد ایم اے نے پڑھکر سنایا۔
اﷲ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھو الناصر
پیارے بھائیو ! اراکین خدام الاحمدیہ
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ‘
مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ فروری کے دوسرے ہفتہ میں اپنا عام اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔اﷲ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو بابرکت اور کامیاب بنائے (آمین)
اس موقع پر میں آپکو یاد دلاتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے ممبر ہونے کی حیثیت سے آپ کے کندھوں پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں۔ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا بنیادی مقصد ایک عالمی اسلامی نظام قائم کرنا تھا۔ اور یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا۔ جب تک ہم اپنی سوچ اور اپنے کاموں میں ایک مکمل تبدیلی نہ پیدا کر لیں ۔ لہذا ہمارے خدام کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سادہ زندگی اچھے اخلاق و اطوار‘ اسلامی اصول ونظریات کو اپنا مطمح نظر بنانے کی کوشش اور بلا امتیاز قوم و نسل انسان کی خدمت کے لیئے اپنی زندگی وقف کرنے کی ایک مثال قائم کر دیں ۔ لوگوں کے دلوں کو جیتنے کے لئے ہمیں گولیوں اور تلواروں کی ضرورت نہیں ہمارا اسلحہ خانہ تو تقویٰ ‘ دعاؤں نظم و ضبط اور اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے۔
خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام‘ قرآن کریم اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کی عزت کو دوبارہ قائم کرے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ اس کام کو کرنے کے لئے ہمیں ذاتی آرام کا خیال کیئے بغیر دیوانہ وار دن اور رات کام کرناہو گا۔ یہ بات واضح ہے کہ ہم احمدیت اور قرآن کریم کا پیغام اس وقت تک دوسروں تک نہیں پہنچا سکتے جب تک ہمیں خود ان کا پورا علم نہ ہو۔ اس لیے خدّام الاحمدیہ کو اپنا فرض قرار دے لینا چاہیے کہ وہ قرآن کریم کو اتنا اچھے طور پر سیکھیں جتنا اچھے طور پر وہ سیکھ سکتے ہیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتب جو دین حق کی صحیح تصویر پیش کرتی ہیں کا مطالعہ بھی کرنا ہے اور یہ بھی دیکھیں کہ کوئی احمدی (مرد ہو یا عورت ) ان پڑھ نہ رہے۔آپ کو اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا امتی نبی اور مہدی مبعوث کر کے اور خلافت کو دوبارہ قائم کر کے تمہارے دلوں کو متحد کر دیا ہے اور تم میں باہمی محبت پیدا کر دی ہے تمہیںنظام خلافت کے تقدس کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے تمہیں سب سے زیادہ فکر اس با ت کی ہونی چاہئے کہ امام وقت سے جو ہر وقت تمہاری بھلائی کے لئے کو شاں رہتا ہے اور متواتر تمہارے لئے دُعا کرتا ہے تمہارا ذاتی تعلق قائم ہو۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں عزم اور ہمت عطا کرے تا تم ایک سچے …کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکو۔ آمین ’’خلیفۃ المسیح الثالثؒ ‘‘ ۷۹۔۱۔۲۲ ۶۳
فصل نہم
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا روح پرور پیغام جلسہ سالانہ فجی ۱۹۷۹ء پر
جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ فجی کے موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ نے مندرجہ ذیل پیغام مرحمت فرمایا۔
Message of Hazrat Khalifatul Masih III
To The Ahmadies of Fiji Islands
I am glad to hear that the Jamaats in Fiji Islands are holding their annual Jalsa on 25th and 26th December, 1979, May Allah bless this Jalsa and its participants. May it prove to be a step towards the realization of our goal ________ the propagation of Islam in the world.
On the occasion of this Jalsa, I wish to draw your attention to the fact that in 1889 the Promised Messiah, under Divine guidance, established this Jammaat for the sole purpose of spreading Islam in the world and gathering togather under the banner of Islam, the peoples of all nations, of all countries and of all faiths. Ninety years have passed since then and the world of religion has undergone a lot of change in these ninety years. The message of Islam has now reached the four corners of the world and people of all countries and all nations are realizing the truth and are joining the Jamaat in large numbers.
I have told you on many occasions that the next century of our life as a Jamaat _______ beginning in 1989 _____ is the century of victory and triumph of Islam over all other faiths. Only ten years are now left. In these ten years we must prepare ourselves and our children to be able to welcome this century of the triumph of Islam in a befitting manner. And this lays a great responsibility on our shoulders. We must be able not only to understand the Islamic teaching but also to practise it in our own lives. So that when in the next century, people join the Jamaat in hosts, as foretold by the Promised Messiah, we and our children may be able to act as their guides and teachers in the Islamic faith and tradition.
It is for this reason that I placed before you the Ahmadiyya Centenary Jubilee Plan in my lecture on the last day of 1973 Annual Jalsa of Ahmadiyya Movement held at Rabwah. And in my Friday Sermon on February 8, 1974,referring to the proposed plan, I told you that the real thing is that this plan may find approval in the sight of Allah, the Almighty. For this purpose I called upon the members of the Jamaat to pray earnestly to bless this plan. I also put forth a special programme of prayers and worship to be followed by all Ahmadies for their spiritual betterment.
1. In the last week of every month a day should be fixed by the members of the local Jamaat in which all the members should keep fast.
2. Every member should daily offer two Rakaahs of Nafal (non-obligatory) prayers. These Nawafil should be offered after Zohar prayer or during the night, after the Isha prayer till the Fajar prayer. 3. Every Ahmadi should recite Sura Faiha seven times a day. 4. Every Ahmadi should glorify Allah and invoke His blessings on the Holy Prophet of Islam by reciting the following prayer thirty-three times a day. ۶۴
سبحان اﷲ و بحمدہ سبحان اﷲ العظیم -اللھم صل علی محمد و آل محمد
Glory be to Allah and His is the prasie! Glory be to Allah the great. O Allah bless Muhammad and his progeny.
5. Every Ahmadi should ask forgiveness for his sins and shortcomings from Allah the Almighty be repeating the following prayer thirty-three times a day:
استغفر ﷲ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ
I ask forgiveness from Allah my LOrd for all sins and
I incline to Him.
6. Every member of the Jamaat should repeat the following prayers at least eleven times daily:
ربنا افرغ علینا صبراً و ثبت اقدامنا و انصرنا علی القوم الکا فرین (A)
Our Lord! put forth on us steadfastness and make our steps firm and help us against the disbeliving enemy.
اللھم انا نجعلکٔ فی نحور ھم و نعوذبکٔ من شرورھم (B)
O Allah, we make thee a shield against their design and seek refuge with thee from their mischief.
I also called upon you that in addition to these prayers and Nawafil, you should also frequently pray to the Almighty in your own language to grant His approval to the proposed plan and to bless our efforts in the path of Allah and His Messenger, the Holy Prophet of Islam, peace and blessings of Allah be upon him.
I hope that you must be acting upon this programme of prayers and worship. I pray to Allah to grant you the strength and the energy required to carry out the plan according to the wishes of our Lord. I pray to Allah that he may grant you all that is good in this world and the next . I love you dearly and pray for you daily. May Allah bless you ! May Allah be with you always and help you in all your endeavours. Ameen !
Yours sincerely,
Mirza Nasir Ahmad
Khalifatul Masih III Rabwah : 16-12-1979
ترجمتہ القرآن بزبان کیویتی
مولانا شیخ عبدالواحد صاحب نے اپنے زمانہ قیام میں ایک عظیم الشان کارنامہ یہ سر انجام دیا
کہ ایک کیوتی دوست سے کیویتی زبان میں پورے قرآن مجید کا ترجمہ کروایا جس کا سارا خرچ مکرم حاجی محمد لطیف صاحب نے برداشت کیا ۱۹۸۰ء میں اس ترجمہ کی نظرثانی کیے لیئے مرکزی ہدایت کے مطابق امیر و مشنری انچار ج فجی اور جماعت کے مخلص بزرگ ماسٹر محمد حسین صاحب آف لٹو کا پر مشتمل قرآن بورڈ قائم کیا گیا۔ ۶۵
اب یہ ترجمہ قرآن ماسٹر صاحب کی مساعی سے منظر عام پر آ چکا ہے۔
جلسہ سالانہ ۱۹۸۰ء پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا اہم پیغام
جماعت احمدیہ فجی کا جلسہ سالانہ ۱۹۸۰ء صوا میں جماعت احمدیہ کی سب سے بڑی اور نئی مرکزی بیت میںمنعقد ہوا یہ بیت اور اس کی متصل شاندار عمارت فجی احمدیوں کے ایثار
و قربانی اور مالی جہاد کی ایک دائمی یادگار ہے۔ جلسہ سالانہ کی اس تقریب پر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ نے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا:۔
’’ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنا جلسہ سالانہ منعقد کر رہے ہیں اور یہ جلسہ آپ کی نئی تعمیر شدہ بیت میں ہو رہا ہے۔ میری دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے اس جلسہ کو اور نئی تعمیر شدہ بیت کو ہر اعتبار سے آپ کے اور دین حق کے لیئے مبارک ثابت کرے یہ نئی بیت فجی میں جماعت احمدیہ کی ترقی اوردین حق کی تبلیغ و اشاعت کا ایک مرکز بنے ایمان و اخلاص میں اضافہ کا موجب بنے اب ہم پندرھویں صدی ہجری میں قدم رکھ چکے ہیں یہ صدی انشاء اﷲ تعالیٰ غلبہ‘‘ حق کی صدی ہو گی یہ صدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دی ہوئی بشارت کو پورا کرنے والی صدی ہو گی۔
یقینا سمجھو کہ …اب زمانہ دین حق کی روحانی تلوار کا ہے۔ عنقریب اس لڑائی میں دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہو گا۔ اور دین حق فتح پائے گا … میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں۔ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۲۵۴ـ۔۲۵۵)
لیکن ہر بشارت اپنے ساتھ نئی ذمہ داریاں بھی لاتی ہے اور نئی قربانیوں کا تقاضا بھی کرتی ہے پس میرا پیغام آپ کے لیئے یہ ہے کہ آپ لا الہ الاّ اﷲ کا ورد کرتے ہوئے نئے عزم کے ساتھ اس صدی کے آغازمیںدین حق کے لیئے اپنی قربانیوں میں نمایاں اضافہ کر دیں اور اپنی اولادوں میں بھی یہی جذبہ پیدا کریں کہ ہمارا قادر و توانا خدا بڑی قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ ہماری حقیر مساعی کو اپنی برکتوں سے نوازتے ہوئے ضرور دین حق کو غلبہ عطا فرمائے گا۔‘‘ ۶۶
تجارتی میلہ میں کامیاب تبلیغی مہم
سال ہاسال کے دستور کے مطابق فجی کے مشہور شہر اور انٹر نیشنل ایئرپورٹ ناندی ۱۱تا۱۸؍جولائی ۱۹۸۱ء کو وسیع پیمانہ پر ایک تجارتی میلہ لگا۔ یہ ایام رمضان المبارک کے تھے۔ اس لیئے جماعت احمدیہ فجی میلے میں اپنا سٹال تو نہ لگا سکی البتہ میلہ کے آخری
روز جلوس میں شریک ہونے کافیصلہ کیا گیا۔ امیر صاحب فجی کی اجازت سے مبلغ فجی حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب نے اس جلوس میں شرکت کی اس غرض کیلئے ایک دوست کی وین حاصل کی گئی جس پر لکڑی کا بڑا سا فریم لگایا گیا۔ فریم کے اوپر جلی حروف سے لکھا تھا کہ
"THE PROMISED MESSIAH HAS COME"
نیچے دوسرے رنگ میں ان الفاظ کا مقامی کائیویتی زبان میں ترجمہ درج تھا جسکو کیویتی نوجوان بڑے زور کے ساتھ اونچی آواز میں پڑھتے تھے فریم میں مندرجہ ذیل الفاظ بھی درج تھے۔
"TEACHING OF PEACE THE HOLY QUARAN"
۶۷
"TEACHING OF PEACE MASTER PROPHET MOHAMMAD, PEACE AND BLESSINGS ON HIM"
۶۸
علاوہ ازیں ایک لمبے بینر پر کلمہ طیبہ لا الٰہ الاّ اﷲ ‘ محمّد رسول اﷲ کے مبارک الفاظ مع انگریزی ترجمہ کے لکھے تھے۔ وین کی دوسری طرف بھی متعدد پُرکشش تبلیغی فقرات سے مزین تھی۔جماعت احمدیہ کی اس وین کو ماسٹر محمد حسین صاحب آف لوتوکا چلا رہے تھے … یہ روحانی الفاظ ہزاروں افراد نے دیکھے جن میں سینکڑوں سیاح بھی تھے جنہوں نے گہری توجہ سے ان کو پڑھا بعض کی یہ حالت تھی کہ حیرانی کے عالم میں مبہوت ہو کر کھڑے تھے۔ حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب وین کے ساتھ شیروانی‘ شلوار اور ٹوپی میں ملبوس ساتھ ساتھ دُعا کرتے ہوئے پیدل چلتے رہے۔ آپ کے ہمراہ چند خدام اور اطفال بھی تھے جوفٹ پاتھ پر کھڑے لوگوں میں لٹریچر تقسیم کرتے جاتے تھے اس طرح قریباً دو ہزار افراد کو لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ یہ جلوس ایک سکول سے شروع ہوا اورشہر کی درمیانی بڑی سڑک سے ہوتا ہوا شہر کے دوسرے سرے تک جا پہنچا اور ایک بڑے وسیع میدان ’’ پرنس چارلس گراؤنڈ‘‘ میں آ کر ختم ہو گیا ایک میل کا یہ راستہ لوگوں سے پوری طرح اٹا پڑا تھا بعض جگہ اتنا ہجوم تھا کہ پولیس کو لوگ پیچھے ہٹانے پڑے ۔گراؤنڈ میں اختتامی کارروائی ہوئی انعامات تقسیم کئے گئے
نیز جلوس میں شرکت کرنے والی جماعت احمدیہ کی وین کو بھی سرٹیفکیٹ دیا گیا اور جلوس میں جماعت احمدیہ کی شمولیت پر خوشی کا اظہار کیا گیا قریباً سبھی حلقوں کی طرف سے حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات دیکھنے میں آئے۔
حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب نے اس کامیاب تبلیغی مہم کی مفصل رپورٹ مرکز میں بھجوائی جو الفضل ۹؍ستمبر ۱۹۸۱ء کے صفحہ نمبر۱‘۸میں وین کی تصویر کے ساتھ اشاعت پذیر ہوئی اس رپورٹ کے آخر میں آپ نے لکھا:۔
’’خاکسار پیدل چلتے ہوئے اپنے پیارے رب کریم کے حضور دُعا گو تھا کہ ہمارے پیارے اﷲ ! یہ لوگ تیری مخلوق ہیں لیکن یہ آج تجھے نہیں پہچانتے اور ہلاکت کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اپنی رحمت سے ان کی ہدایت کے سامان پیدا کر اور آسمان سے فرشتوں کی فوجیں اُتار جو ان کے دلوں میں دین حق کی محبت بھر دیں تا تیرا دین ساری دنیا پر غالب آئے اور تیری توحید کا علم اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا پر لہرائے۔‘‘
حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب کی المناک شہادت
۱۶؍اگست۱۹۸۱ء کا واقعہ ہے کہ مبلغ فجی محترم حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب ایک جماعتی دورے پر لمباسہ تشریف لے جارہے تھے کہ ہائی وے پر ایک ٹرک سے آپ کی کار ٹکرا گئی۔ جس کے نتیجہ
میں آپ شدیدزخمی ہو گئے۔ آپ کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں آپ نے اپنی جان مولائے حقیقی کے سپرد کی ۔ اِناّ ﷲ و اِنّا الیہ راجعون۔ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ارشاد پر مرحوم کا جسد خاکی فجی سے پاکستان لانے کا خصوصی انتظام کیا گیا چنانچہ جماعت فجی کے ایک نہایت مخلص نمائندہ جناب ظفر اﷲ خاں صاحب آپ کی نعش لے کر ۲۱؍اگست کی صبح کو بذریعہ ہوئی جہاز کراچی اور کراچی سے بوقت ۲بجے دوپہر ربوہ پہنچے اسی روز ساڑھے چھ بجے شام مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح و ارشاد نے بہشتی مقبرہ کے وسیع احاطہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں مقامی احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ قبر تیار ہونے پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے دُعا کرائی۔ حافظ صاحب مرحوم حضرت مولوی نظام الدین صاحب (یکے از رفقاء احمد) کے پوتے مکرم کریم بخش صاحب آف بہاول پور کے صاحبزادے اور محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب دیال گڑھی مربی سلسلہ احمدیہ (انچارج رشتہ ناطہ) کے داماد تھے۔ آپ ۱۹۴۳ء میں پیدا ہوئے جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری
حاصل کر کے ۱۹۷۴ء کے دوران میدان عمل میں قدم رکھا اور سب سے پہلے تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں ازاں بعد رحیم یار خاں اور مردان میں پیغام حق پہنچایا۔ ۲۵؍فروری۱۹۸۰ء کو آپ فجی تشریف لائے جہاں آپ تبلیغی جہاد میں ہمہ تن مصروف تھے کہ ایک طویل تبلیغی دورے پر جاتے ہوئے کار کے حادثہ میں شہید ہو گئے۔ ۶۹
مجلس انصار اﷲ و مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا اجتماع
جزائر فجی میں انصار اﷲ اور خدام الاحمدیہ کی مجالس کے پہلے سالانہ اجتماع ۸؍نومبر ۱۹۸۰ء کو لٹوکامیں منعقد ہوئے۔ صدارت کے فرائض مولوی سجاد احمد صاحب خالد نے انجام دیئے اس موقع پر حضرت
خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے حسب ذیل پیغام دیا۔
’’میں یہ سن کر بہت خوش ہوا ہوں کہ جزائر فجی کی مجلس انصار اﷲ اور مجلس خدام الاحمدیہ اپنے سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ جزائر فجی کے انصار اور خدام کو طاقت اور جرأت عطا کرے تا وہ اپنے فرائض کو دین حق کی تعلیم کے مطابق سر انجام دے سکیں۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور وہی اپنی برکات سے تمہیں نوازے‘‘۔ ۷۰
پہلی سالانہ تربیتی کلاس
جماعت احمدیہ فجی کی پہلی سالانہ تربیتی کلاس ۲۶؍اپریل تا یکم مئی ۱۹۸۱ء فجی کے دارالحکومت صووا کی بیت الذکر فضل
عمرمیں منعقد ہوئی جس میں پانچ جماعتوں کے ۶۳خدام و اطفال نے شرکت کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے پیغام میں کلاس کے طلبہ کو نصیحت فرمائی کہ
’’جو کچھ آپ کو پڑھایا سکھایا جائے اُسے توجہ اور غور سے سنیں اور اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیئے اپنے تئیں تیار کریں خدا کی باتیں پوری ہو کر رہیں گی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے مدد کے طالب بنیں۔۷۱
نگران اعلیٰ کے فرائض ماسٹر محمد حسین صاحب لٹوکا نے اور کھانے کے جملہ فرائض مکرم امتیاز احمد مقبول صاحب قائد صووا اور ان کی بیگم صاحبہ نے بڑی خندہ پیشانی سے ادا کئے۔ ۷۲ ریڈیو فجی نے اس سلسلہ میں ملک حافظ عبدالحفیظ صاحب ۔ ماسٹر محمد حسین صاحب اور بعض طلبہ کا انٹرویو بھی نشر کیا۔
فصل دہم
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا جماعت احمدیہ فجی کے نام آخری پیغام
جماعت احمدیہ فجی کا بارھواں سالانہ جلسہ ۲۶‘۲۷؍دسمبر ۱۹۸۱ء کو منعقد ہوا جس کے لیئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اﷲ تعالیٰ نے حسب ذیل
روح پرور پیغام دیاجو جماعت احمدیہ فجی کے نام حضور کا آخری پیغام تھا۔
’’برادرانِ جماعت احمدیہ فجی! السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ‘
مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنی نئی تعمیر شدہ بیت الذکر کی عظیم الشان عمارت میں یہ جلسہ منعقد کر رہے ہیں۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ یہ نئی تعمیر شدہ بیت الذکراور یہ جلسہ آپ سب کیلئے اوردین حق کے لئے مبارک ہو۔ یہ مقام ادین حق کی اشاعت کا مرکز بنے۔ اور یہ جلسہ دین حق اور احمدیت کی تازگی کا موجب بنے۔ آمین ۔ ہمیں یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم پندرھویں صدی ہجری میں داخل ہو چکے ہیں اور یہ صدی اسلامی فتوحات کی صدی ہے۔یہ صدی حضرت (اقدس…ناقل) کی صداقت کو قائم اور مستحکم کرنے والی ہے…‘‘
حضور نے اپنے پیغام میں مزید بتایا کہ
’’تمام پیشگوئیاں اپنے ساتھ کچھ ذمہ داریاں اور قربانیوں کا مطالبہ رکھتی ہیں اور میرا پیغام تمہارے لئے یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلّا اﷲ اور دعاؤں کے ساتھ دین حق کی بہتری کے لئے ترقی کی منازل طے کرتے چلے جاؤ۔
علاوہ ازیں اپنے بچوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگین کرتے ہوئے ایسی عمدہ تربیت دو کہ وہ صبر اور آزمائش کے وقت تمہارے ساتھ رہیں۔ خدا کی راہ میں تمہارے قدم ثابت رہیں۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ ہماری قربانیاں قبول فرمائے اور ہم اپنے ہی دور میں دین حق کی عظیم فتح مبین کو مستقبل قریب میں اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں۔‘‘ (الفضل ۲۹؍جون ۱۹۸۲ء صفحہ ۱)
عہد خلافت ثالثہ میں فجی مشن کی مطبوعات
قرآن مجید کا فجین ترجمہ کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ فجی مشن کی
طرف سے دسمبر 1982ء تک مندرجہ ذیل اسلامی لٹریچر شائع کیا گیا ۔(انگریزی)
1. What is Ahmadiyyat?
2. Islam and its message.
3. Promised messiah has come.
4. What is Islam?
5. Message of peace and word of warning.
6. Muslim prayer book.
7. General knowledge Q.A.
8. Jesus in Kashmir.
9. We are Muslims.
10.Welcome to Fiji Islands.
11.Manzoom Kalam Hazrat Massihe Maood in Roman English.
12. LA-ELAHA ILLALAHO (in six Languages)
ٹونگا۔ رومن۔ ہندی۔ کائیویتی۔ انگلش۔ وَانُووَاتُو
13. A Report on London Conference.
14. The proposed Century Ahmadiyya Juiblee (in1989)
کائیویتی (KAIVITI)زبان میں
1. NA CAVE NA AHMADIYYAT.
(احمدیت کیا ہے)
2. NA I TUKUTUKU NI YEIVINAKATI KE NA VOSA VAKARO.
(ترجمہ امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ)
3. JISU NA KASHMIR.
(مسیح کشمیر میں)
4. NA PAROFISAI NAI VOCA TABU VOU.
(محمد رسول اﷲ عہد نامہ جدید میں )
5. NA PAROFISAI KA VOLAI E NAI VAKARUA " JOVA, KA TUCAKE ULE-NVANUA KO PERANA".
( باب استثناء کی پیشگوئی خداوندا خدا کا فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہونا)
6. Teaching of Islam.
فجیئن زبان میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘
7. The Holy Quran Part I and II
(with Fijian Translation)
(مسیح موعودؑ آ گئے فجی میں رہنے والے اور ملک میں آنے والوں کو ماننے کی دعوت (خوش آمدید) )
ہندی زبان میں ـــــــــــــ---------------------بابا نانک اور اسلام ۷۳
فجی کے نیشنل پریذیڈنٹ
حاجی عبداللطیف صاحب 1964-1962
واجد کمال الدین صاحب 1965-1964
محمد صادق خاں صاحب 1967-1966
عبداللطیف مقبول صاحب 1986-1983
فجی کے نیشنل جنرل سیکرٹری
امام کمال الدین صاحب 1966-1962
محبوب یوسف خاں صاحب 1967 ۷۴
صداقت احمدیت کا چمکتا ہوا نشان
اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۹۸ء میں بشارت دی تھی کہ :۔
’’ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ ۷۵
فجی بین الاقوامی ڈیٹ لائن کے عین مغربی کنارے پر واقع ہے اس سرزمین میں جماعت احمدیہ کے مشن کا قیام اور اس کے طول و عرض میںاحمدیت کی شاندار ترقیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا چمکتا ہوا نشان ہیں۔ حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ و اوحی الی ربی و و عدنی انہ‘ سینصرنی حتی یبلغ امری مشارق الارض و مغاربھا۔ وتتموج بحور الحق حتی یعجب الناس حباب غوار بھا‘‘۔
(ٖلجۃ النُّوْر صفحہ ۶۷)
ترجمہ ۔ میرے رب نے میری طرف وحی بھیجی اور وعدہ فرمایا کہ وہ مجھے مدد دے گا۔ یہاں تک کہ میرا کلام مشرق و مغرب میں پہنچ جائے گا اور راستی کے دریا موج میں آئیں گے یہاں تک کہ اس کی موجوں کے حباب لوگوں کو تعجب میں ڈالیں گے۔
ع
چھٹا باب
افریقہ کے معرکۂ حق و باطل سے لیکر
علّامہ نیازؔ فتحپوری ’’مدیرنگار‘‘کے سفرِ قادیان تک
فصل اوّل
ڈاکٹر بلی گراہم کا دورۂ ۱فریقہ‘ مغربی اور مشرقی افریقہ
کے مجاہدین احمدیت کی دعوتِ مقابلہ اور دینِ حق کی فتحِ عظیم خلافتِ ثانیہ کا چھیالیسواں سال ۱۳۳۹ ھش ؍ ۱۹۶۰ء
برِّ اعظم افریقہ میں احمدیہ مشن کے قیام کے بعد ھلال و صلیب اور حق و باطل کے درمیان جو عظیم معرکہ فروری ۱۹۲۱ء ۱ سے جاری تھا وہ ۱۹۶۰ء کے آغاز میں ایک نئے اور فیصلہ کن دور میں داخل ہو گیا جبکہ امریکہ کے شہرہ آفاق مسیحی منّاد اور شعلہ بیان لیکچرار ڈاکٹر بلی گراہم (BILLY GRAHAM)نے ۲ اس سال کے شروع میں افریقن ممالک کا وسیع پیمانہ پر دورہ کیا۔ انہوں نے عیسائیت کی منادی کے لئے چوبیس پبلک جلسوں سے خطاب کیا اس دورہ کی تیاریاں ۱۹۵۵ء سے کی جا رہی تھیں۔
لائبیریا‘ نائیجیریا اور مشرقی افریقہ کے مبشرین احمدیت نے جو نہایت بے تابی سے اس دورہ کے منتظر تھے اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اسے ایک جنگ مقدّس کی صورت دے دی اور اس عالمی شہرت کے حامل مناد کو پوری قوّت سے للکارا اور تبلیغی مقابلہ کرنے کی دعوت عام دی مگر تثلیث کا یہ مایہ ناز نمائندہ کا سر صلیب کے شاگردوں کے سامنے سراسر عاجز‘ بے بس بلکہ دم بخود ہو کے رہ گیا جسے افریقہ کی مذہبی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
لائبیریا :۔ڈاکٹر بلی گراہم اپنے طے شدہ پروگرام کے پہلے مرحلہ پر جنوری ۱۹۶۰ء میں امریکہ سے سیدھے لائبیریا کے دارالسلطنت منروویا میں پہنچے جہاں انہوں نے اپنی پبلک تقریر میں بائبل کا دیگر مذہبی کتب سے موازنہ کرتے ہوئے یہ چیلنج کیا کہ :۔
میں نے قرآن شریف کو شروع سے آخر تک پڑھا ہے اس میں کہیں انسان یادنیا کے مستقبل وغیرہ کے متعلق کوئی پیشگوئی نہیں اورنہ بعدالموت زندگی پر اس سے کوئی تسلی بخش روشنی پڑتی ہے درانحالیکہ بائبل سچی پیشگوئیوں سے بھری پڑی ہے اور انسان کی دنیوی اور اخروی دونوں زندگیوں کا معقول حل پیش کرتی ہے۔
یہ جلسہ لائبیریا کے صدر ڈاکٹر ولیم ٹب مین کی صدارت میں ہوا۔ اس تقریر کے معاً بعد مولانا محمدصدیق صاحب امرتسری انچارج احمدیہ مشن لائبیریا پریذیڈنٹ ٹب مین کی موجودگی میں ڈاکٹر بلی گراہم سے ملے اور انہیں بتایا کہ قرآن کریم کے متعلق آپ نے ابھی جو دعویٰ کیا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ آپ مجھے وقت دیں آپ جب چاہیں میں یہ ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں کہ قرآن کریم دنیا کے مستقبل کے متعلق پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے جن میں سے بے شمار پوری بھی ہو چکی ہیں۔ اسی طرح میں ثابت کروں گا کہ آخرت کے متعلق قرآن کریم کی تعلیم اور CONCEPTIONبائبل کے بیانات سے بہت زیادہ معقول اور اکمل ہے۔ اس پر ڈاکٹر بلی گراہم نے اگلی صبح گورنمنٹ ہاؤس میں قیامگاہ پر آنے اور بات چیت کرنے کی دعوت دی۔ اس دوران مولانا محمد صدیق صاحب نے راتوں رات ایک تبلیغی مکتوب اُن کے نام لکھا جس میں انہیں قرآن کریم کا سچے دل سے مطالعہ کرنے کی تحریک کی اور عیسائیت کے موجودہ عقائد کا بطلان ثابت کر کے آخر میں انہیں مناظرہ کا کھلا چیلنج دیا۔ اگلے روز آپ نے اُن سے ملاقات کی ۔ ڈاکٹر گراہم کے ساتھ اُن کے رپورٹر اور آٹھ امریکن پادری بھی موجود تھے۔ آپ نے موصوف کو ٹائپ شدہ کھلی چھٹی کے ساتھ قرآن کریم انگریزی ‘ٹیچنگ آف اسلام ‘ مسیح کہاں فوت ہوئے؟ اور دیگر پمفلٹ تحفۃً پیش کئے۔ یہ لٹریچر تو اُنہوں نے رسمی شکریہ کیساتھ قبول کر لیامگر مناظرہ سے بالکل انکار کر دیا اور اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور وقت نہ ہونے کا عذر کر کے دوسرے کمرے کی طرف چل دئے ۳
نائیجیریا
ڈاکٹربلی گراہم کے اس گریز پر لائبیریا پریس نے کوئی نوٹس نہ لیا اور وہ نائیجیریا آگئے۔ جہاں قدم رکھتے ہی احمدیہ مشن نائیجیریا کی دعوت مناظرہ
کا اخبارات میںغیرمعمولی چرچا شروع ہو گیا۔ اگرچہ مسیحی کلیسیا کے منتظمین قبل ازیں اس چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کر چکے تھے تاہم عوام اور خصوصاً مسلمانوں کو اُن کی آمد پر خاصی دلچسپی پیدا ہو گئی اور امید بندھی کہ اس علمی مقابلہ کی کوئی صورت نکل آئے گی لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ ڈاکٹر بلی گراہم سے آبادان کے اخبار نویس نے دریافت کیا کہ کیا وہ اسلام اور عیسائیت کے متعلق اس اہم چیلنج کو قبول کریں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اس سوال کا جواب دینے کیلئے تیار نہیں۔ یہ الفاظ انکی بے بسی اور بے چارگی کی منہ بولتی تصویر تھے۔
اس اجمال کی ایمان افروز تفصیل مولانا نسیم سیفی صاحب مبلغ نائیجیریا کے قلم سے درج ذیل ہے:۔
’’۱۹۵۵ء ہی کے جولائی‘ اگست میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یورپ‘ امریکہ اور افریقہ کے مبلغین کی لندن میں کانفرنس بلائی تھی اور حضور نے فرمایا تھا کہ میں قضیۂ زمین برسرزمین ہی طے کر دینا چاہتا ہوں۔ یہ کہ ڈاکٹر گراہم نے اس کانفرنس کے دو تین ماہ بعد ہی دورۂ افریقہ کے ارادے کااظہار کیا۔ یا یہ کہ نائیجیریا کی کرسچین کونسل نے اس کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لینے کی پیس کش کی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مبلغین کی لند ن والی کانفرنس فی الواقعہ قضیۂ زمین برسرزمین ہی چکا دینے والی بات تھی۔ بہر حال کسی نامعلوم وجہ کی بناء پر ڈاکٹر بلی گراہم مزید چار سال تک افریقہ کا دورہ نہ کر سکے۔
جنوری ۱۹۶۰ء میں ان کی آمد کا ایک دفعہ پھر چرچا ہؤا ۔ بڑے بڑے شہروں میں قد آدم پوسٹر لگائے گئے۔ اخبارات میں موٹرکاروں کے اشتہارات کی طرح اشتہار دیئے گئے۔ اورآخرکار ان کا ہر اول دستہ آ پہنچا اور لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اب تو وہ ضرور ہی آئیں گے۔
یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جب یہ دستہ فری ٹاؤن پہنچا تو خاکسار کے ایک پمفلٹ جس کا عنوان ہے ’’ یاد رکھنے کے قابل پانچ نکات‘‘ کی تلاش میں اس دستہ کے چند ایک افراد بوؔ (BO)بھی پہنچے اور وہاں سے اس پمفلٹ کی ایک کاپی لے کر پھر آگے روانہ ہوئے۔ بہر حال جب یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر بلی گراہم نائیجیریا کا ضرور دورہ کریں گے۔ تو خاکسار نے کرسچین کونسل کو مندرجہ ذیل خط لکھا:۔
’’مجھے اخبارات اور ریڈیو سے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ مشہور عالم عیسائی منّاد بلی گراہم جنوری ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا آ رہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کرسچین کونسل اس بات کے امکان پر غور کرے کہ بلی گراہم اور ملک کے مسلمان لیڈروں اور خاص طور پر لیگوس کے مسلمان لیڈروں کی ملاقات کا انتظام کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے سے اسلام اور عیسائیت جو کہ نائیجیریا میں دو اہم مذہب ہیں کے پیروکار وں کے آپس میں تعلقات بہت حد تک خوشگوار ہو جائیں گے۔ اور اس بات میں کسے شک ہو سکتا ہے کہ اس وقت نائیجیریا کی سب سے بڑی ضرورت بلکہ ساری دنیا کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ دنیا کے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے آپس میں تعلقات زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنائے جائیں۔
اگر تبادلۂ خیال کے لئے بلی گراہم اور مسلمان مبلغین کی میٹنگ کا انتظام کیا جا سکے تو یہ امر بھی نہایت ہی قابل تعریف سمجھا جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ عنقریب ہی میرے اس خط کا جواب دیں گے۔‘‘
مندرجہ بالا خط ۲؍نومبر ۱۹۵۹ء کو لکھا گیا تھا۔ اس خط کے جواب میں کرسچن کونسل کے سیکرٹری صاحب نے مجھے لکھا کہ انہیں افسوس ہے کہ بلی گراہم کے دورے کے انتظامات ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں لیکن تاہم وہ میرا خط اس کمیٹی کے سپرد کر دیں گے۔ جو اس دورے کے انتظامات کر رہی ہے۔
۶؍نومبر کو مجھے ایک صاحب JHON.E.MILLS کی طرف سے مندرجہ ذیل خط ملا:۔
’’ کرسچین کونسل آف نائیجیریا کے سیکرٹری صاحب نے مجھے آپ کا وہ خط ارسال کیا ہے جس میں آپ نے بلی گراہم اور مسلمان لیڈروں کی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ میں آپ کا یہ خط’’بلی گراہم مہم‘‘(CAMPAIGN)کی نیشنل ایگز یکٹو کمیٹی کو جس کی میٹنگ سوموار (۹؍نومبر) کے روز منعقد ہو رہی ہے دے دوں گا۔ میٹنگ کے بعد میں پھر آپ کو خط لکھونگا۔‘‘
اس کے بعد ۱۵؍جنوری کو انہوں نے پھر مجھے لکھا:۔
’’میںنے ڈاکٹر بلی گراہم سے آپ کی ملاقات کے بارے میں ڈاکٹر جیری بیون (JERRY BEAVEN)سے جو کہ ڈاکٹر گراہم کی آمد کے سلسلہ میں جملہ انتظامات کو آخری شکل دینے کے ذمہ دار ہیں‘سے گفتگو کی ہے وہ مجھ سے اس بات میں اتفاق رکھتے ہیں کہ آپ کی تجویز نہایت قابل قدر ہے لیکن انہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میں آپ تک ان کی خلوص دل سے معذوری کا اظہارکر دوں کہ جس قسم کی میٹنگ کی آپ نے تجویز پیش کی ہے اس کا انعقاد ناممکن ہے۔
’’ڈاکٹر گراہم ان ڈاکٹری ہدایات کے ماتحت جو گزشتہ اٹھارہ ماہ سے ان کے ڈاکٹر نے انہیں دے رکھی ہیں۔ افریقہ کے دورے کو نہایت مختصر کرنے پر مجبور ہیں ان کا وقت بڑے بڑے جلسوں میں تقاریر کرنے اور اپنے مشنریوں سے گفت و شنید میں ہی صرف ہو گا۔ اگر آپ ڈاکٹر گراہم کے عقائد کے متعلق واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ ان جلسوں میں شمولیت کریں جن میں کہ وہ تقاریر کریں گے۔ وہ نہ تو کوئی عالم دین ہیں اور نہ ہی ادبیات کے ماہر۔ بلکہ وہ ایک عیسائی مبلغ ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف یسوع مسیح کی انجیل کوپیش کرتے ہیں۔ اگر آپ عیسائیت کے متعلق مزید واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی یہ خواہش ہے کہ آپ اس سلسلہ میں طویل و مفصل گفت و شنید کریں تو میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ آپ لوکل عیسائی مبلغین سے بات چیت کریں جو کہ ایسی بات چیت کرنے کے لئے ہر وقت بخوشی تیار ہیں۔ میں ایک دفعہ پھر آپ کی دلچسپی کی داد دیتا ہوں۔
جب خاکسار نے دیکھا کہ ڈاکٹر بلی گراہم سے ملاقات اور مناظرہ کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر نہیں آتی تو خاکسار نے ایک خط ان کے نام لکھا جس کا متن درج ذیل ہے
’’میں احمدیہ جماعت کے جملہ احباب کی طرف سے جن کا مشنری انچارج ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے۔ آپ کو نائیجیریا میں آمد پرخوش آمدید کہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ جب آپ یہاں سے کسی اور جگہ جائیں تو آپ یہاں کی بہترین یادیں اپنے ساتھ لے کر جائیں۔
اس ملک میں دو بڑے اور اہم مذہب ہیں۔ اور وہ ہیں اسلام اور عیسائیت اور ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کیلئے یہ بات از حد اہم ہے کہ ان کے تعلقات استوار رہیں۔ اور تعلقات کی یہ استواری جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے ان کے لیڈروں کے رویہ پر منحصر ہے۔ میں نے اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کرسچین کونسل آف نائیجیریا کو یہ تجویزپیش کی تھی کہ آپ کی اور مسلمان لیڈروں کی ملاقات کا انتظام کیا جائے میری یہ تجویز ’’بلی گراہم مہم کمیٹی‘‘ جو کہ آپ کی آمد کے سلسلہ میں جملہ انتظام کر رہی ہے کے سامنے رکھ دی گئی تھی۔ لیکن میری اس تجویز کو کمیٹی نے اس عذر کے ساتھ رد کر دیا تھا کہ آپ اپنے دورہ کو نہایت مختصر کرنے پر مجبور ہیں اور اسکی وجہ ڈاکٹری ہدایات ہیں مجھے اس بات کا پورا پوار احساس ہے کہ آپ کا کام زیادہ تر عیسائیوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن یہ بات تو میرے خیال میں بھی نہیں آ سکتی کہ آپ کسی ایسے موقع کو ضائع ہونے دیناچاہیں گے۔ جو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لئے مہیّا کیا جا رہا ہو۔ خصوصًا جب کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات کی خوشگواری کا سوال پیدا ہوتا ہو۔
بہر حال آپ کی مذہبی پوزیشن کے پیش نظرمیں نے آپ کی خدمت میں چند ایک کتابیں ارسال کی ہیں جو مجھے امید ہے کہ آپ ضرور پڑھیں گے۔‘‘
یہ خط میں نے ستائیس جنوری کو لکھا تھا۔ یکم فروری کو ویسٹ افریقین احمدیہ نیوز ایجنسی نے اپنے ایک نمائندہ خصوصی کے حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کیا جس میں اس تمام خط و کتابت کا ذکر کیا گیا تھا اور خاکسار کے ان مضامین کا متن بھی درج کیا گیا ۔ جواس دوران خاکسار نے اپنے ہفتہ واری کالموں میں لکھے تھے ان میں سے ایک مضمون جو اخبار ڈیلی سروس میں چھپا تھا۔ اس مضمون کا حامل تھا کہ حضرت مسیح ناصری کی انجیل دراصل حضرت رسول کریم صلے اﷲ علیہ وسلم کی آمد ہی کی خبر تھی۔ اور وہ اسی بات کی منادی کرنے کیلئے دنیا میں تشریف لائے تھے۔
اس موقع پر خاکسار نے ڈاکٹر بلی گراہم کی ایک کتاب کا حوالہ دے کر ایک مختصر سی عبارت کے ساتھ ایک پوسٹر شائع کیا۔ پوسٹر کا مضمون یہ تھا:۔
’’ ڈاکٹر بلی گراہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو شروع سے آخر تک پڑھ جایئے اس میں کہیں بھی کسی پیشگوئی کا ذکر نہیں ہے اگر ڈاکٹر بلی گراہم کو اس بات کا یقین ہے کہ جو بات انہوں نے کہی ہے وہ درست ہے تو وہ ہم سے پبلک مناظرہ کر لیں۔‘‘
اس پوسٹر سے تو گویا یہ سارا معاملہ بھڑک اٹھا بیرونی اخبارات کے کثیر التعداد نمائندے احمدیہ مشن آئے اور سارے حالات سُن کر انہوں نے دنیا بھر کے اخباروں میں ہمارے چیلنج کی خبریں شائع کروائیں۔ اس چیلنج کا سب سے زیادہ پروپیگنڈہ امریکہ میں ہؤا۔ وہاں کے اخباروں اور رسالوں نے نہ صرف اس خبر کو جلی حروف میں شائع کیا بلکہ اس پرایڈیٹوریل بھی لکھے اور کھلم کھلا اس بات کا اظہار کیا کہ اگر عیسائی مشنری کسی بات کو کہہ کر اس بات پر قائم نہیں رہ سکتے تو ایسی بات کہتے ہی کیوں ہیں۔
دنیا کے سب سے زیادہ اشاعت والے ہفتہ وار ٹائم (TIME)ًَ ًَنے جو امریکہ سے شائع ہوتا ہے اس خبر کو دو کالموں میں لکھا۔ اور یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ہمارے ایک پمفلٹ کی تقسیم اور اس کے نفس مضمون کا نمایاں طورپر ذکر کیا۔ ٹائم میں شائع شدہ خبر کا ترجمہ درج ذیل ہے:۔
’’مسلمان اور بلی‘‘
گزشتہ ہفتہ سفید فام بلی گراہم نے جن کے متعلق نائیجیریا کے بعض باشندوں کا یہ کہنا تھا کہ ان کی کھال اڑی ہوئی ہوتی ہے اپنے افریقی مذہبی جہاد کو جاری رکھا‘ جہاں کہیں بھی وہ گئے بہت بڑے ہجوموں نے ان کی تقاریر کو سنا اور’’مسیح کے لئے‘‘فیصلے کئے۔ لیگوس میں جو کہ نائیجیریا کا درارالخلافہ ہے گراہم نے ایک لاکھ آدمیوں سے خطاب کیا۔ جس میں سے کم از کم دو ہزار اشخاص نے مسیح کیلئے فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ کا اظہار مکمل خاموشی میں کیا جاتا رہا۔ یہ خاموشی نائیجیریا میں جہاں کہ حد سے زیادہ شور و شغب ہوتا ہے۔ ایک نہایت عجیب چیز تھی ان کی تقریر سننے کے لئے مسلمان بھی کافی تعداد میں میدان تقریر میں پہنچے۔ کیونکہ یہ تمام ان مقررین سے مختلف تھے جن کو افریقیوں نے پہلے سنا ہؤا ہے۔ ایک مسلمان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا’’یہ شخص تو بالکل ہم جیسا ہی معمولی انسان ہے۔ اس کو ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ یہ کسی غیر معمولی طاقت کا مالک ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسا طریق بتاتا ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے نقش قدم پر چلنے میں آسانی پیدا کرتا ہو۔‘‘
لیکن مسلمانوں کی ایک کثیر تعداداور مسلمان جو کہ کل آبادی یعنی ساڑھے تین کروڑ کے نصف کے قریب ہیں۔ گراہم کی آمد سے خوش نہیں تھے۔ بلی گراہم کے نائیجیریا پہنچنے سے قبل مسلمانوں کے لیڈروں نے ان کے ساتھ ملاقات کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن ان کے ہراول دستہ نے اس تجویز کو رد کر دیا تھا اور رد کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ
(گراہم ) بہت مصروف ہیں جواب یہ دیا گیا تھا :۔
’’ڈاکٹر گراہم کے متعلق آپ ان کی تقاریر سُن کر واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
نائیجیریا کے مسلمان جو اس بات پر مغرور ہیں کہ دسمبر کے الیکشن میں ان کا مسلمان وزیر اعظم اپنے عہدے پر قائم رہا۔ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ دورہ اس لئے کروایا گیا ہے تاکہ عیسائیوں کو سیاسی طاقت حاصل کرنے میں مدد ملے (حالانکہ یہ دورہ کافی عرصہ سے زیر تجویز تھا)
گراہم کے جلسوں میں مسلمانوں کی طرف سے ایسے پمفلٹ تقسیم کئے گئے جن میں پانچ نکات پیش کئے گئے تھے۔ وہ پانچ نکات یہ ہیں:۔
۱۔ عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے نہیں تھے۔
۲۔ انہوں نے صلیب پر وفات نہیں پائی تھی۔
۳۔ وہ مردوں سے جی نہیں اٹھے تھے۔
۴۔ وہ آسمان پر اٹھائے نہیں گئے تھے۔
۵۔ وہ بذات خود واپس دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے۔
بلی نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن کچھ عرصہ کے لئے دونوں طرف طبائع کا پارہ چڑھتا رہا۔ اور دونوں طرفوں سے بیانات جاری ہوتے رہے۔ اس ہفتہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ کیونکہ عیسائی مناد گراہم آرام کرنے کے لئے اور ڈاکٹر البرٹ شویٹزر(ALBERT SHWEITZER)سے ملاقات کرنے کے لئے لمبا رینے (LAMBA RENE) چلے گئے۔‘‘
لائف (LIFE)۴ جو امریکہ کا مشہور ترین رسالہ ہے اس میں ڈاکٹر گراہم کے دورہ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو واضح الفاظ میں پیش کیا گیا کہ افریقہ کے سارے دورے میں ان کی سب سے زیادہ مؤثر مخالفت نائیجیریا میں ہوئی۔
نائیجیرین اخبارات نے توقع سے زیادہ ہمارے چیلنج کی طرف توجہ دی اور اس کے حق میں اور اس کے خلاف دل کھول کر اظہار رائے کیا۔ سب سے پہلے تو ہمارے چیلنج کو چھاپا پھر اس پر قارئین کے خطوط چھاپے گئے اور ایڈیٹوریل لکھے گئے۔ ایک اخبار نے پہلے صفحہ پر ’’مسلم اور عیسائیت‘‘ کے جلی عنوان سے ویسٹ افریقن احمدیہ نیوزایجنسی کاپریس ریلیز سارے صفحہ پر چھاپا اور اس کے ساتھ ہی ایڈ یٹوریل بھی لکھا جس میں نہ صرف قارئین کو وہ پریس ریلیز توجہ کے ساتھ پڑھنے کی تلقین کی۔ بلکہ ایک زخم خوردہ شیرنی کی طرح اس چیلنج کے خلاف دھاڑا بھی۔
ایڈیٹوریل کا ترجمہ درج ذیل ہے:۔
’’ ہم اپنے قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ وقت نکال کر ضرور بالضرور ہماری لیڈنگ سٹوری کو جو احمدیہ مشن سے لی گئی ہے پڑھیں ہم نے ارادۃً اس خبر کو اس قدر نمایاں جگہ دی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے پڑھ سکیں۔ اور اس پر غور کر سکیں۔
ہم نے خود اسے نہایت غور سے پڑھا ہے اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نائیجیریا میں احمدیہ مشن کے لیڈر مسٹر سیفی ہر حال میں اس بات کے فیصلہ کے لئے مناظرہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں مذاہب (اسلام اور عیسائیت ) میں سے کون سا مذہب دوسرے سے بہتر ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ایسے مناظرہ سے لوگوں کے تعلقات خوشگوار ہو سکیں گے۔ یہ بات غیر صحت مندانہ ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں ایک ختم نہ ہونے والی اور بدمزہ بحث چھڑ جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات اتنی ہی بُری ہے جتنی کہ ایک ایسی بحث جس کا مقصد یہ ہو کہ یہ ثابت کیا جائے کہ یوربا (YORUBA)اور ابوؔ (IBO)میں سے کونسا قبیلہ اچھا ہے یا ھاؤسا (HAUSA)اور ابوؔ (IBO)میں سے کس قبیلہ کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ احمدی لیڈر نے بھی گراہم کی آمد سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کی آمد ایسے وقت میں رکھی گئی ہے جب کہ مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہؤا ہے اور الحاج ابوبکرتافاوابالیوا پرائم منسٹر بن گئے ہیں۔ یہ بات نہایت ہی خطرناک ہے اور اس سے عیسائیوں کے دلوں پر ایک کاری زخم لگا ہے ۔ نہ صرف نائیجیریا کے عیسائیوں کے دلوں پر بلکہ ساری دنیا کے عیسائیوں کے دلوں پر زخم لگاہے۔
ہم مذہبی اختلافات کے بارے میں اپنا موقف دوبارہ پیش کر دینا چاہتے ہیں۔ نائیجیریا ایک ایسا خوش قسمت ملک ہے جہاں لوگوں کے مذہبی اختلافات ان کی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالتے ۔ ہم ایک ایسے ملک کی تعمیر کر رہے جہاں مذہبی اختلافات لوگوں کے آپس کے تعلقات پر ہرگز اثر انداز نہ ہوں گے۔ ہمارا یقین ہے کہ تمام نائیجیرین چاہے وہ کس ہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں باہم مل کر کام کر سکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہر اس شخص یا اس گروہ کی مخالفت کرتے ہیں جو کہ مذہبی آگ کو ہوا دے۔ ہم نے دیگر ممالک میں ان باتوں کے بُرے نتیجے نکلتے دیکھے ہیں۔‘‘ (NORTERN STAR)
ایک اور اخبار نائیجیرین ٹربیون (NIGERIAN TRIBUNE)نے اپنے ۹؍فروری کے شمارے میں مندرجہ ذیل ایڈیٹوریل لکھا:۔
’’غصہ دلانے والی حرکات‘‘
’’ دوسرے ممالک کی طرح نائیجیریا بھی بعض مشکلات سے دوچار ہے لیکن برعکس دوسرے ممالک کے یہاں کی مشکلات بہت زیادہ ہیں اور بہت پیچیدہ ہیں‘ اقتصادی مشکلات ہیں‘ اقلیتوں کی مشکلات ہیں‘ قبیلوں کی مشکلات ہیں اور پھر زبان کی بھی مشکلات ہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں جس قدر قبیلے ہیں اور جس قدر زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں مشکلات بھی درپیش ہیں۔ دراصل یہ مشکلات بے شمار ہیں اور ہماری امید صرف اس بات پر قائم ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈر اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لیڈر بھی نفس پرستی سے بالا ہو کر نائیجیریا کے مفاد کے لئے زندگیاں بسر کریں۔ لیکن اگرچہ یہ مشکلات پیچیدہ ہیں نائیجیریا کے لوگ اپنے آپ کو اس لحاظ سے خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ یہاں نسلی اور مذہبی قسم کی مشکلات کالعدم ہیں۔ اور اس کے پیش نظر ہم ایسے شخص کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھ سکتے۔ جو نائیجیریا کی مشکلات میں اضافہ کا باعث ہو۔ اور اس طرح ہماری پریشانیوں میں اضافہ کرے ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے ہی نائیجیریا اتنی مشکلات سے دوچار ہے کہ اس کے لیڈر آئندہ پچاس سال تک انہی کو حل کرنے میں مصروف رہیں گے اور اس لئے ہم مغربی افریقہ کے رئیس التبلیغ کے اس ردّ عمل کو ناپسندیدہ سمجھتے ہیں جس کا انہوں نے ڈاکٹر گراہم کے نائیجیریا کے دورے کے سلسلے میں اظہار کیا ہے۔
یہ مسلمان مبلغ ڈاکٹر گراہم ہی کی طرح ‘ اگر سیاسی زبان میں بات کی جائے تو غیر ملکی ہیں یہ پاکستانی ہیں۔ جب کہ مشہور ڈاکٹر (گراہم) امریکن ہیں۔ لیکن ان دونوں کو نائیجیریا میں آنے کی دعوت نائیجیریا کے لوگوں نے دی ہے اور اسی وجہ سے ان کو صرف اس وقت تک خوش آمدید کہا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ اپنے مذہبی حلقہ کے اندر رہ کر اپنا مذہبی کام کریں۔ لیکن مولوی نسیم سیفی صاحب اس تمثیلی برتن کیطرح ہیں جو گراہم کیتلی کو کالا کہتے ہیں۔ مولوی سیفی صاحب کے ساتھیوں نے کیوں ڈاکٹر گراہم کے جلسوں میں شور و شر پیدا کرنے کی ضرورت سمجھی اور کیوں وہاں گراہم کے خلاف پمفلٹ تقسیم کئے۔ سیفی صاحب کو گراہم کے ساتھ مناظرہ کرنے میں بھلا کیا خوشی حاصل ہو سکتی تھی۔
ہم یہ بات کہنے کی جرأت کرتے ہیں کہ اس احمدی کی حرکات غصّہ دلانے والی ہیں۔ اور سراسر ناجائز ہیں۔ سیفی صاحب غیر معمولی طور پرجوش کا اظہار کرتے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ غیر معمولی جوش اختلافات کو برداشت نہ کر سکنے کے مترادف ہے۔ ہمیں اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ہم اس بات سے نفرت کرتے ہیں۔ اس بات کو یہاں ہرگز پیدا نہ ہونے دینا چاہیئے۔
نائیجیرین ٹربیون۔ نائیجیرین اتحاد کے پیش نظر تمام احمدیوں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کراتا ہے کہ وہ مولوی سیفی صاحب کو مشورہ دیں کہ وہ بے وجہ نائیجیرین عیسائیوں کے عمائدین پر حملے نہ کریں۔ سیفی صاحب جو کہ اتنے ہی زیادہ مناظر ہیں ان کے لئے نائیجیریا کوئی مناسب زمین نہیں الفابسریواپالارا (ALFA BISRIYU APALARA)کی یاد ابھی تازہ ہے (یہ صاحب ایک مسلمان مبلغ تھے جن کو تبلیغی لیکچر دیتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش کو لیگون (LAGOON)میں پھینک دیاگیا تھا اس قتل کے نتیجہ میں گیارہ اشخاص کو پھانسی ملی تھی (نسیم) ہمارا خیال ہے کہ مولوی سیفی صاحب کیساتھ تعلق رکھنے والے بعض احمدیوں کی حرکات ایسی ہیں کہ ان کے نتیجہ میں ملک میں مناقشت پیدا ہونے کے امکانات ہیںاور اس کا نقصان نائیجیریا ہی کو ہو گا۔‘‘
اس ایڈیٹوریل کی صحیح پوزیشن بالکل وہی ہے جسے تمثیلی طور پر یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ یہاں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ نہ خاکسار نے اور نہ ہی کسی اور احمدی دوست نے ڈاکٹر بلی گراہم کے جلسوں میں کوئی پمفلٹ تقسیم کئے تھے ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ ان ایّام میں اندرون شہر جماعت نے ایک پمفلٹ ’’یاد رکھنے کے قابل پانچ نکات‘‘ جس کا ذکر امریکہ کے ہفتہ وار اخبار ٹائم (TIME)نے بھی کیا تھا۔ ضرور تقسیم کیا تھا۔ لیکن یہ محض غلط بیانی تھی کہ ہم نے کوئی پمفلٹ گراہم کے جلسوں میں تقسیم کئے تھے یا ان جلسوں میں کسی قسم کا شوروشر پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔
مشرقی نائیجیریا کے گورنر سر فرانسس ابیام (SIR FRANCIS IBIAM)جوان دنوں سنٹرل بورڈ آف مشنز آف دی پریس بائٹیرین چرچ(PRESS BYTERIAN CHURCH) آف کینیڈا کے مہمان کے طور پر ٹورنٹو کا دورہ کر رہے تھے ان سے جب مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات اور کام کے متعلق سوالات کئے گئے تو انھوں نے پریس کو بتایا کہ اگرچہ نائیجیریا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان لوگوں کو اپنے اپنے مذہب میں داخل کرنے کے سلسلہ میں ایک بہت بڑا مقابلہ جاری ہے لیکن ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں میںآپس میں کوئی مناقشت نہیں ہے۔ ان سے یہ سوالات اس خبر کے سلسلہ میں کئے گئے تھے جو کہ وہاں کے مقامی اخباروں نے بلی گراہم کے دورے کے تعلق میں شائع کی تھی اور جس کا ملخص یہ تھا کہ مسلمان بلی گراہم کے دورے کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ نائیجیریا میں اخبار بین حضرات میں سے بعض کا خیال تھا کہ بلی گراہم کو چیلنج نہ دینا چاہیئے تھا۔ (اور یہ لوگ سب کے سب عیسائی تھے) اور بعض کا خیال تھا کہ چونکہ تبلیغ کا مطلب واضح الفاظ میں یہ ہے کہ اپنے مذہب کی برتری ثابت کر کے لوگوں کو اس میں داخل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لئے ہر وہ شخص جو تبلیغ کے میدان میں نکلتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے عقائد کی صحت کو ثابت کرنے کے لئے اور اپنے مخالف لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینے کیلئے تیار رہے چنانچہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلی گراہم کا فرض یہ تھا کہ وہ خاکسار کے چیلنج کو قبول کرتے۔
ڈیلی سروس (DAILY SERVICE)میں ایک صاحب نے
’’سیفی صاحب چپ رہیئے‘‘ کے عنوان سے ایک خط شائع کروایا۔ جس میں ان کا موضوعِ سخن یہ تھا کہ خاکسار نے اپنے ہفتہ واری کالم میں جو مضمون ’’گراہم کے لئے کتابیں‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مجھے عیسائیت سے کد ہے۔ انہوں نے اس خط میں یہ بھی کہا کہ سیفی صاحب کو یہ بھی خیال ہے کہ نبی دنیا میں لوگوں کی اصلاح کے لئے آتے ہیں نہ کہ اپنی جان دے کر لوگوں کے گناہوں کو اپنے سر پر اٹھانے کیلئے۔ اور کہ سیفی صاحب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ (محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) کی وفات عام انسانوں کی سی وفات ہونے کی وجہ سے ان کو کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی ۔
جب اخبارات کے نمائندوں نے ڈاکٹربلی گراہم سے خاکسار کے چیلنج کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر’’میں اس پر کوئی تبصرہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں‘‘ اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کی۔ نائیجیرین ٹربیون ؔ نے اس خبر کومندرجہ ذیل طریق پر شائع کیا۔ خبر کا عنوان تھا’’مسلمانوں کے چیلنج پر میں اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کرتا‘‘۔ ڈاکٹر بلی گراہم کہتا ہے۔ اور خبر کا متن تھا:۔
’’ ڈاکٹر بلی گراہم جو مشہور عالم عیسائی مناد ہیں اور جو سوموار کے روز ابادان (IBADAN)میں مذہبی مہم کے لئے وارد ہوئے ‘انہوں نے مسلمانوں کے ایک گروہ کے مناظرہ کے چیلنج کے متعلق کسی رائے کا اظہار کرنے سے انکار کر دیا ۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اس چیلنج کو قبول کر لیں گے یا نہیں تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ میں اس پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا‘‘۔
’’مغربی افریقہ میں احمدیہ موومنٹ کے لیڈر مولوی نسیم سیفی صاحب نے ان عیسائی مناد کو پبلک مناظرہ کا چیلنج دیا تھا۔ کیونکہ سیفی صاحب کا خیال ہے کہ اگر کسی مذہب کی تبلیغ کرنے والا حقیقی طور پر جانتا ہے کہ وہ کن عقائد کی تبلیغ کر رہا ہے تو ان عقائد کے متعلق پبلک مناظرہ ایک مفید مطلب چیز ہو سکتی ہے۔
ناردرن سٹار (روزنامہ) میں ایک صاحب نے لکھا کہ ’’مذہبی مناظرہ کسی طرح بھی غیر مفید نہیں ہو سکتا ‘‘اس عنوان سے انہوں نے لکھا کہ میں نے اخبار کی لیڈنگ سٹوری جس کا عنوان’’مسلمان اور عیسائیت ‘‘ہے بڑے شوق سے پڑھی ہے‘ اور اس کے ساتھ ہی آپ کا ایڈیٹوریل بھی شوق سے پڑھا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک نہایت سرعت کے ساتھ ترقی پذیر ہے اور یہ ترقی خاص طور پر سیاسی‘ معاشی ‘ اور اقتصادی شعبوں میں ہو رہی ہے۔ لیکن کیا روحانیت کی طرف بھی کوئی توجہ دی جا رہی ہے یا نہیں ۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس وقت دو بڑے اور اہم مذہب اسلام اور عیسائیت ہیں۔ جس طر ح ہم سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی ترقی کے خواہاں ہیں اس طرح ہمیں اس بات کی بھی لگن ہونی چاہیئے کہ ہم سب سے اچھے روحانی نظام کے ساتھ منسلک ہوں اور اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مختلف مذاہب کے لیڈر تبادلۂ خیالات کریں اور اپنے اپنے مذہب کے اچھے نکات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ اور اس سلسلہ میں وہ اپنی مقدس کتابوں کے حوالے بھی دیں۔ میں آپ (ایڈیٹر) سے اس بات پر متفق نہیں ہوں کہ ایسی مذہبی مجلس ایک نہ ختم ہونے والی بحث کا آغاز کر دے گی۔ اور یہ بحث بدمزگی پیدا کر دے گی۔‘‘
اس خط کے لکھنے والے صاحب نے خاکسار کے ایک خط کا حوالہ دیکر یہ ثابت کیا کہ اس ملاقات کا مقصد لوگوں کے تعلقات کو خوشگوار بنانا تھا نہ کہ ان کے درمیان مناقشت کی خلیج وسیع کرنا‘ اور اپنے خط کو اس بات پر ختم کیا کہ ’’میرا خیال تو یہ ہے کہ تمام سنجیدہ مسلمان میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ جس طرح مولوی سیفی صاحب نے تجویز کیا ہے عیسائی مناد اورمسلمان لیڈروں کی ملاقات کا انتظام ضرور ہونا چاہیئے۔‘‘ ایڈیٹر نے اس بات پر نوٹ دیا:۔
’’قارئین کے خیالات کو خوش آمدید کہا جائے گا‘‘۔
ایک اور صاحب نے ڈیلی سروس میں لکھا’’ اب اس غم و غصّہ کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے‘‘خط کا مضمون یہ تھا’’ آپ کے اخبار میں ایک صاحب نے لکھا ہے کہ مولوی نسیم سیفی صاحب اسلام کا دفاع کرنا چھوڑ دیں۔ یہ تجویز نہایت غیر ضروری ہے۔ جب انگلستان میں مقیم نائیجیریا کے کمشنر مسٹر مبو (MBU)نے عیسائیت کے متعلق نہایت حسین پیرائے میں ذکر کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی اسلام کے متعلق ناروا الفاظ ستعمال کئے تھے ہم مسلمان بالکل خاموش رہے تھے۔ جب سرفرانسس ابیام جو یونیورسٹی کالج سے تعلق رکھتے ہیں نے وسطی افریقہ میں عیسائیت کے متعلق تقریر کی تھی۔ ہم نے ان کو کسی رنگ میں بھی ملامت نہ کی تھی۔ جب اینگلی کن سناڈ (ANGLICAN SYNOD)نے اسلام کے خلاف خطرہ کی گھنٹی بجائی تھی۔ مسلمانوں نے کسی شور وغوغا سے آسمان سر پر نہ اٹھا لیا تھا۔ لیکن جب مولوی نسیم سیفی صاحب نے اپنے عقائد کے متعلق چند ایک باتیں کہیں تو عیسائیوں کا غضب بھڑک اٹھا۔ ہم مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عبادت اور تقریر کی آزادی ہر شخص کا پیدائشی حق ہے۔
ویسٹ افریقن پائلاٹ(WEST AFRICAN PILOT)روزنامہ میں ایک صاحب نے لکھا ’’مولوی نسیم سیفی صاحب ایک ہندوستانی (پاکستانی) مسلم مشنری ہیں۔ جو کہ نائیجیریا میں اپنے مذہب یعنی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عقائد کی تبلیغ کے لئے آئے ہوئے ہیں اور یہ ان کا جائز حق ہے۔ خصوصًا ایک ایسے ملک میں جہاں جمہوری نظام کا دور دورہ ہے مجھے اس بات کا یقین ہے کہ قرآن کریم میں علم اور حکمت کا ایک خزانہ موجود ہے جس کے متعلق یہ صاحب لوگوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں ۔ بجائے اس کے کہ بائیبل کے ایسے حوالوں پر زور دیا جائے جو متنازعہ فیہ ہیںاس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے خداوند یسوع مسیح کے متعلق ایسے کلمات کہے جائیں جو ہتک آمیز ہیں اور عیسائیت کو بھی رگیدا جائے۔
’’ قرآن کریم اور بائیبل کا موازنہ جو مبلغ اسلام کی طرف سے گاہے گاہے پیش کیا جاتا ہے وہ ایسا ہے کہ اس سے کسی وقت بھی جھگڑے کی بنیاد کھڑی کی جا سکتی ہے۔ خصوصًا ایسی صورت میں کہ ان کی باتوں کا جواب دینے کی کوشش کی جائے۔
مسلمان اور عیسائی ایک لمبے عرصہ سے نہایت امن و سکون کے ساتھ اس ملک نائیجیریا میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ اور مذہب ان کے آپس کے تعلقات میں کبھی حائل نہیں ہؤا۔ دوسرے مذہب کے متعلق باتیں کہنے کی بجائے ان صاحب کے پاس کافی مواد ہے جن کو وہ استعمال کر سکتے ہیں۔ میں مولوی نسیم سیفی صاحب سے اپیل کرتاہوں کہ وہ اپنی پبلک تقاریر‘ بیانات اور تحریروں کو قرآن کریم ہی کے دائرے میں محدود رکھیں۔ اسی طرح میں اینگلی کن چرچ کے بشپ کو بھی اپیل کرتا ہوں اور میتھو ڈسٹ چرچ کے چیئرمین اور عیسائیوں کی دیگر منظم جماعتوں کو بھی کہ وہ اس مبلغ اسلام کے عیسائیت پر حملوں کی روک تھام کریں‘‘۔
ناردرن سٹار نے اپنے پہلے صفحہ پر ویسٹ افریقن احمدیہ نیوز ایجنسی کے پریس ریلیز کے متعلق جو ایڈیٹوریل لکھا تھا۔ خاکسار نے اس کا جواب دیاجو اس پرچہ میں چھپا۔
اخبار والوں نے اس خبر پر یہ سرخی جمائی :۔
’’احمدیہ جماعت کے لیڈر کہتے ہیں کہ سٹار کی دلیل ایک ایسی منطق ہے جس کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
اور خبر یوں لکھی:۔
’’مولوی نسیم سیفی صاحب جو مغربی افریقہ میں احمدیہ مشن کے لیڈر ہیں نے ناردرن سٹار کی ایڈیٹو ریل تنقید کا جواب لکھا ہے۔ یہ ایڈیٹوریل احمدیہ مشن کے اس پریس ریلیز کے جواب میں تھا جس میں ڈاکٹر بلی گراہم سے ملاقات کے سلسلہ میں احمدیہ جماعت کے لیڈر کی کوششوں کا ذکر تھا۔ جس روز ہم نے یہ پریس ریلیز چھاپا تھا اُسی روز ہم نے اس پر تنقید بھی چھاپ دی تھی۔ ہمارا خیال ہے کہ نسیم سیفی صاحب کی یہ کوشش کہ ڈاکٹر بلی گراہم سے پبلک مناظرہ کیا جائے۔ غیر صحت مندانہ اقدام ہے۔ ہم نے اس بات کا انتباہ بھی کیا تھا کہ کوئی شخص مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش نہ کرے۔
ہم ذیل میں احمدیہ لیڈر کا جواب شائع کر رہے ہیں۔
’’میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہمارا پریس ریلیز شائع کر دیا اور اس بات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس پر تنقید بھی کی۔ مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ آپ نے اپنی تنقید پریس ریلیز کی مکمل اشاعت سے قبل ہی شائع کر دی (دراصل پریس ریلیز دو اشاعتوں میں چھپا تھا اور تنقیدی ایڈیٹوریل پہلی ہی اشاعت میں شائع کر دیا گیا تھا لیکن بہر حال یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے جس پر مجھے خاص طور پر زور دینے کی ضرورت محسوس ہو۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری اس بات سے ناراض نہ ہوں گے کہ آپ کی تنقید ۔اگرچہ یہ تنقید خلوصِ دل سے کی گئی ہے۔ نہایت ہی غیر منطقی ہے۔ آپ کو اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ ابوؔ (IBO)اور یوروبا (YORUBA)اور اسلام اور عیسائیت والی مثال ایسی ہے جس کا ایک دوسرے سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ قبائل کا تعلق وراثت سے ہے اور ہم ان کو کسی رنگ میں تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی ایک قبیلہ کے لوگ یہ تبلیغ کرتے پھرتے ہیں کہ دوسرے قبیلوں کے لوگ بھی اس قبیلہ کے لوگ بن جائیں لیکن مذہب کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ہم اس بات کا انتخاب کرتے ہیں۔ لوگ مذہب کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں اور یہی چیز ہے جسے مذہب کی منادی کرنا کہتے ہیں۔ ڈاکٹر بلی گراہم کا نائیجیریا آنے کا مقصد بھی یہی تھا۔
’’سرفرانسس ابیام نے حال ہی میں کینیڈا میںکہا تھا کہ اپنے اپنے مذہب میں شامل کرنے کے لئے یقینا مختلف مذاہب (خصوصًا اسلام اور عیسائیت) میں مقابلہ کی ایک خاص روح پائی جاتی ہے۔ آپ عیسائی کیوں ہیں؟ اس لئے کہ آپ کے خیال میں عیسائیت ہر دوسرے مذہب سے اچھی ہے۔ میں مسلمان کیوں ہوں؟ اِس لئے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام تما م مذاہب سے اچھا ہے۔ عیسائی یہ کوشش کررہے ہیں کہ لوگوں کو یہ بات سمجھائیں کہ عیسائیت سب مذاہب سے اچھی ہے۔ ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلام سب سے زیادہ اچھا مذہب ہے۔ مجھے امید ہے کہ اب آپ ضرور مجھ سے کلی اتفاق کریں گے کہ مذہب کی تبلیغ ضروری ہے۔صرف ایسے لوگ جو اچھے عیسائی نہیں ہیں مذہب کی تبلیغ کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور پھر یہ بھی تو سوچئے کہ میرا بلی گراہم سے کیا مطالبہ تھا؟ صرف یہ کہ وہ مسلمانوں سے ملیں۔ میں نے جو خط ان کو لکھا تھا اس کا آخری فقرہ یہ تھا ’’ایک ایسے شخص کے لئے جو کہ بہت بڑا مذہبی لیڈر ہے محبت اور تکریم کے جذبات کے ساتھ میں چند ایک کتابیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں مجھے امید ہے کہ آپ ان کتب کا ضرور مطالعہ کریں گے
’’کیا اب بھی آپ اس بات کو غیر صحت مندانہ کہتے ہیں؟‘‘ ۵
مشرقی افریقہ
ڈاکٹربلی گراہم مغربی افریقہ میں شکست فاش اٹھانے کے بعد مارچ کے اوائل میں مشرقی افریقہ کے شہر نیروبی پہنچے اور انہوں
نے بڑے بڑے عظیم الشان جلسوں سے خطاب کیا تومشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے رئیس التبلیغ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے اسلام کی طرف سے اُنہیں ایک چیلنج دیا۔ انہوں نے ڈاکٹر گراہم کے نام جو خط لکھا اور جو وہاں کے اخبارات میں بھی شائع ہؤا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے :۔
نیروبی ۳۔مارچ ۱۹۶۰ء
ڈیئر ڈاکٹر گراہم!
میں احمدیہ مسلم مشن مشرقی افریقہ کے ریئس التبلیغ کی حیثیت سے نیروبی میں آپ کی آمد پر بڑی مسرّت اور گرمجوشی کے ساتھ آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ عیسائیت کی تبلیغ کو اپنا مطمحِ نظر قرار دینے میں آپ نے جس رُوح اور جذبے کا اظہار کیا ہے وہ واقعی قابلِ قدر ہے اور میں آپ کے اس جذبہ اور رُوح کو سراہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا جس مقصد کے تحت آپ نے یہاں تشریف لانے کی زحمت اٹھائی ہے اس کو مدّنظر رکھتے ہوئے میرے لئے یہ اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ میں آپ کو دین حق کو طرف دعوت دوں اور اس کی بے نظیر تعلیم کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلاؤں۔
(۲) بلاشبہ آپ بخوبی واقف ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ انجیل کے بیان کے مطابق یسوع مسیح کا اپنا فرمان یہ ہے کہ’’درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے‘‘۔ اسی طرح یسوع مسیح نے یہ بھی کہا ہے کہ:۔
’’اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سِرک کروہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا۔ اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہو گی۔‘‘ ۶
پھر یہ بھی اسی کا فرمان ہے کہ :۔
’’جو کچھ تو خدا سے مانگے گا وہ تجھے دے گا‘‘ ۷
مسیح کے یہ اقوال ایک ایسے معیار کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی مدد سے کسی مذہب کی صداقت کو بآسانی پر کھا جا سکتا ہے۔ اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا اس معیار مذاہب کی صداقت کو پرکھنے کا اس سے بڑھ کر اور کوئی موقع ہو گا جبکہ آپ مشرقی افریقہ کے لوگوں کی بھلائی کی خاطر خود یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ آپ نے بڑے بڑے شاندار مقالے رقم فرمائے ہیں اورمروّجہ عیسائیت کی تائید میں بڑی زور دار اور گرما گرم تقاریر کی ہیں لیکن اگر خود یسوع مسیح کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق آپ کے اپنے مذہب کی صداقتعملاً دُنیا پر ظاہر ہونے کی صورت نکل آئے تو یہ بات آپ کی ان تمام مساعی پر جو اب تک آپ کر رہے ہیں سبقت لیجائیگی۔
(۳) اس کے بالمقابل میرا دعویٰ یہ ہے کہ آج روئے زمین پر صرف اور صرف اسلام ہی وہ ایک زندہ مذہب ہے جس پر عمل کر کے لوگ نجات یافتہ قرار پا سکتے ہیں۔ اور یہ کہ مروّجہ عیسائیت آسمانی تائید و نصرت اور انسانوں کی حقیقی رہنمائی کے وصف سے یکسر بے بہرہ ہے۔ لہذا میں عوام کی بھلائی کی خاطر پُوری عاجزی اور اخلاق کے ساتھ آپ کو ایک ایسے مقابلے کی دعوت دیتا ہوں جس کے ذریعہ ہم اپنے اپنے مذہب کی صداقت کو آشکار کر سکتے ہیں۔
(۴) مقابلے کا ایک طریق یہ ہے کہ تیس ایسے مریض لے لئے جائیں کہ جو میڈیکل سروسزکینیا کے ڈاکٹرصاحب کے نزدیک لاعلاج ہوں۔ ان تیس مریضوں میں سے دس یورپین‘ دس ایشیائی اور دس افریقن ہوں۔ انہیں قرعہ کے ذریعہ میرے اور آپ کے درمیان مساوی تعداد میں بانٹ لیا جائے۔ پھر دونوں مذاہب کے پیروؤں میں سے چھ چھ آدمی ہمارے ساتھ اور آ شامل ہوں اور ہم اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے مریضوں کی صحت یابی کے لئے خدا کے حضور دُعا کریں تاکہ اس امر کا فیصلہ ہو سکے کہ کس کو خدا کی تائید و نصرت حاصل ہے اور کس پر آسمان کے دروازے بند ہیں۔
(۵) مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ تجویز قبول کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ عین اُن اصولوں کے مطابق ہے جویسوع مسیح نے خود بیان فرمائے ہیں لیکن اگر آپ نے اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کیا تو دنیا پر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں اور دو اور دو چار کی طرح ثابت ہو جائے گی کہ صرف اور صرف اسلام ہی وہ زندہ مذہب ہے جو خدا کے ساتھ تعلق قائم کرنیکی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔
آپ کا مخلص (دستخط ) شیخ مبارک احمد
رئیس التبلیغ احمدیہ مسلم مشن مشرقی افریقہ (نیروبی)
اگرچہ ڈاکٹر گراہم نے شیخ مبارک احمد صاحب کے اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن جب وہاں کے اخبارات میں اس چیلنج کا خوب چرچا ہؤا اور اخبارات نے شیخ صاحب کافوٹو شائع کر کے آپ کے چیلنج کو اہمیت دی تو ایک شخص نے اس چیلنج سے متاثر ہو کر ڈاکٹر گراہم کے ایک پبلک لیکچر کے بعد ان سے سوال کیا کہ کیا وہ کوئی ایسی مجلس بھی منعقد کریں گے جس میں وہ بیماروں کو چنگا کرنے کے لئے خدا سے استمداد کریں۔ اس پر اُنہوں نے سراسر عجز کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ میرا کام محض وعظ کرنا ہے مریضوں کو چنگا کرنا نہیں۔
اس جواب پر نیروبی کے ناموراخبار دی سنڈے پوسٹ نے اپنی ۶؍مارچ ۱۹۶۰ء کی اشاعت کے صفحہ ۲۶ پر لکھا:۔
’’اسلام کا چیلنج‘‘
’’جلسے کے بعد ڈاکٹر گراہم نے بالواسطہ طور پر اس چیلنج کا جواب دیا جو انہیں اس امر کے فیصلے کیلئے دیا گیا تھا کہ اسلام اور عیسائیت میں سے کونسا مذہب سچّا ہے۔ یہ چیلنج احمدیہ مسلم مشن کے رئیس نے گزشتہ جمعہ کے روز دیا تھا۔‘‘
’’شیخ مبارک احمد نے تجویز پیش کی تھی کہ تیس لاعلاج مریض منتخب کئے جائیں ان میں سے دس افریقن ہوں۔ دس یورپین اور دس ایشیائی۔ ان مریضوں کے بارہ میں ڈائرکٹر آف میڈیکل سروسز کینیا باقاعدہ یہ تصدیق کریں کہ فی الواقع یہ لاعلاج ہیں۔ ان مریضوں کو پھر مبلغِ اسلام اور ڈاکٹر گراہم کے درمیان قرعہ کے ذریعہ تقسیم کر دیا جائے۔ شیخ مبارک احمد نے لکھا تھا کہ’’اس کے بعد دونوں مذاہب کے پیروؤں میں سے چھ چھ آدمی اور شامل ہوں گے۔ پھر ہم اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے مریضوں کی صحت یابی کے لئے خدا کے حضور دُعا کریں گے تاکہ اس امر کا فیصلہ ہو سکے کہ دونوں میں کس کو خدائی تائید و نصرت حاصل ہے اور کس پر آسمان کے دروازے بند ہیں۔‘‘
’’کسی کو چنگا نہیں کیا جائے گا‘‘
’’جلسے کے اختتام پر ایک ایشیائی ڈاکٹر گراہم کے پاس آیا اور اس نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کوئی ایسی مجلس بھی منعقد کریں گے کہ جس میں مریضوں کو چنگا کرنے کا انتظام کیا جائے۔‘‘
ڈاکٹر گراہم نے جواب دیا۔’’میرا منصب وعظ کرنا ہے چنگا کرنا نہیں ۔ میں صرف وعظ کرتاہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ خد کی مرضی پوری ہو‘‘
’’قبل ازیں شیخ مبارک احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر ڈاکٹر گراہم نے چیلنج قبول کرنے سے انکار کیا تو اس سے دُنیا پر ثابت ہو جائیگا کہ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو بندے کا خدا سے تعلق قائم کرنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے۔‘‘
شیخ مبارک احمد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود ذاتی طور پر دُعا کے ذریعے لوگوں کا علاج کیا ہے اور وہ شفایاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشرقی افریقہ میں ڈاکٹر گراہم عیسائیت کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اُلٹا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہاں عیسائی ہونے والے مسلمانوں کے مقابلہ میں خود عیسائی بہت زیادہ تعداد میں اسلام قبول کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ٹانگانیکامیں تقریباً پچاس لاکھ مسلمان ہیں۔‘‘ ۸
دنیائے عیسائیت میں زبردست اضطراب و تشویش
ڈاکٹر بلی گراہم نے قاہرہ پہنچ کر کہا کہ انہوں نے افریقہ میں عیسائی لیڈر شپ کو بہت مضبوط پایا اور کہ تعلیمیافتہ لوگوں کی اکثریت عیسائی مشن سکولوں کی فارغ التحصیل ہے اور کہ یہ بات نہایت حوصلہ افزا ہے لیکن اسلام بھی بڑی سرعت کے ساتھ ترقی کر رہا ہے۔ واپس امریکہ پہنچ کر ڈاکٹر موصوف نے اسلام کی ترقی پر فکر مندی کا ظہار کیا اور اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ نئے خطوط پر افریقہ میں عیسائیت کی تبلیغ کے انتظامات کیئے جائیں انہی خیالات کا اظہار انہوں نے صدر امریکہ جان ایف کینیڈی سے بھی کیا ۹
اس زبردست اضطراب کی بازگشت یورپ میں بھی سنائی دی گئی چنانچہ لنڈن کے بشپ نے افریقہ میں اسلام کی پیشقدمی پر سخت غم و غصّہ کا اظہار کیا اور عیسائیوں سے اسلام کے خلاف ایک متحدہ عیسائی محاذ قائم کرنے کی اپیل کی۔ چنانچہ انہی دنوں روزنامہ ’’ نئی روشنی‘‘ کراچی نے برطانوی نامہ نگار کے حوالہ سے حسبِ ذیل خبر شائع کی۔
’’لندن یکم اپریل (سمیع الدین نمائندہ نئی روشنی)لندن کے بشپ نے یہ شرانگیز تجویز پیش کی ہے کہ چونکہ افریقہ میں اسلامی مبلغین اور عیسائی مشنریوں کے درمیان لوگوں کو مشرف بہ اسلام کرنے اور عیسائی بنانے کی مہم میں زبردست مقابلہ ہو رہا ہے اور اسلام بڑی سرعت سے پھیل رہا ہے اس لئے ایک ادارہ اینٹی اسلام پروجیکٹ (یعنی ادارہ مخالفین اسلام) قائم کیا جائے بشپ مذکور بی بی ایس ریڈیو پر اسلام اور عیسائیت کے مقابلہ کے عنوان سے ایک پروگرام میں حصہ لے رہے تھے بشپ مذکور نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ’’درحقیقت پہلی بار اب عیسائیت اور اسلام کا مقابلہ ہو رہا ہے اور پاکستان کے مذہبی رہنما مغربی افریقہ میں بسنے والے افراد کو وسیع پیمانے پر مشرف بہ اسلام کر رہے ہیں حالانکہ عیسائی مشنری عرصہ سے اس علاقہ میں سرگرم ہیں لیکن ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے اور ان میں سخت مایوسی پھیلی ہوئی ہے عیسائی مشنریوں کو مایوسیوں اور ناکامیوں سے بچنے کے لئے آرک بشپ نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ عیسائی مشنری اسلام کی اشاعت کو (نعوذ باﷲ ) روکنے کیلئے اسلام دشمن پروجیکٹ بنایا جائے چنانچہ اس اسکیم کو عملی جامعہ پہنا دیا گیا اور اینٹی اسلام پروجیکٹ کے نام سے ایک ادارہ بنا دیا گیا ہے واضح رہے کہ ہر سال عیسائی مشنریوں کے ذریعہ کروڑوں روپیہ عیسائیت کی نشر و اشاعت پر خرچ ہوتا ہے۔ لندن کے بشپ نے افریقہ کے جنگلوں میں بسنے والے افراد کی امداد کے لئے چار لاکھ روپیہ کی رقم کا عطیہ دیا ہے لندن کے آرک بشپ کی طرف سے یہ شرانگیز اور اسلام دشمن مہم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آئے دن عیسائی مشنری مسلمانوں اور اسلام کو زک پہنچانے کے لئے طرح طرح کے دل آزاراور شرانگیز فتنے چھوڑتے رہتے ہیں ’’اینٹی اسلام پروجیکٹ‘‘ بھی اس فتنہ کی ایک کڑی ہے اور دین برحق پر پیسہ کے زور سے فتح حاصل کرنا چاہتے ہیںکیونکہ وہ راست بازی کے ذریعے تو افریقی عوام کا دل جیت نہیں سکے اب نقرئی و طلائی تھیلوں کا منہ کھول کر اسلام کے خلاف صف آراء ہو رہے ہیں ۔ جس میں انہیں ناکامی یقینی ہے کیونکہ اسلام کی سادہ تعلیمات صداقت پر مبنی ہیں اور اس میں رنگ و نسل کی تمیز ختم اور مساوات و عدل و انصاف کو اوّلیت دی گئی ہے۔ چنانچہ خود افریقی باشندے سفید فام عیسائی حکمرانوں کے تشدد و امتیاز نسلی کے مقابلہ میں جب اسلامی اخوت و مساوت کو پرکھتے ہیں تو ان کا دل حقانیت اسلام کا شیدا ہو جاتا ہے۔ ۱۰
بشپ صاحب کی اس اپیل کے بعد ایک مسیحی محقق مسٹر والراڈ پرائس (WILLRAD PRICE)نے اپنی کتاب "INCREDIABLE AFRICA"میں لکھا کہ ڈاکٹر بلی گراہم نے دورہ افریقہ سے واپسی پر یہ پیشگوئی کی ہے کہ برّاعظم افریقہ میں عیسائیت کا اثرونفوذکم ہوتاچلا جائے گا اور عیسائیوں کو اپنی جانوں کے محفو ظ رکھنے کے لئے غاروں میں چُھپنا پڑے گا۔ پرائس نے مزید لکھا کہ افریقہ میں اسلام کی ترقی عیسائیت کی نسبت تین گنا ہے جو افریقن کسی بیرونی ملک کے مذہب کو اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ اسلام کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کے پیش نظر افریقنوں کی جائدادوں پر قبضہ کرنا نہیں ہے اس کے مقابلہ میں یورپین عیسائیوں کے متعلق افریقن کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں بائبل دے کر ہماری زمینیں ہم سے چھین لی ہیں۔ ۱۱
ڈاکٹر بلی گراہم کے دورہ کے کچھ عرصہ بعد مسٹر لزلے رامزے(MR LISLE RAMSEY) ۱۲ نے امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سرپرستی میں افریقہ کے تیرہ ملکوں کا دورہ کرنے کے بعد یہ بیان دیا کہ اگر عیسائیوں نے غیر معمولی فراست کا ثبوت نہ دیا تو افریقہ سے عیسائیت ختم ہو جائے گی کیونکہ مسلمان عیسائیوں سے زیادہ کامیابی کے ساتھ تبلیغ کر رہے ہیں اور لوگ عیسائیت کے مقابل اسلام میں زیادہ تیزی کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں۔ ۱۳
روزنامہ نوائے وقت لاہور کے نمائندہ خصوصی متعیّن امریکہ کے تاثّرات
ڈاکٹر بلی گراہم کی پشت پر چرچ کا عالمی اثرو رسوخ اور امریکہ کی بے پناہ سیاسی قوت و شوکت اور سرمایہ تھا جس کے سامنے غریب اور کمزور افریقن مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہ تھی مگر اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجاہدین احمدیت نے مسلمانوں کی طرف سے ایسی کامیاب نمائندگی کی کہ صلیب پرستوں کا ناطقہ بند ہو گیا اور دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے اس فقیدالمثال کارنامہ کی دھاک بیٹھ گئی اور مسلمان عش عش کر اُٹھے۔
چنانچہ لاہور کے مؤقر اور کثیر الاشاعت روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے نمائندہ خصوصی متعین امریکہ۔ مسٹر حفیظ ملک۔ نے خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا:۔
’’افریقہ کے آزاد ہونے پر افریقی عوام ایک انتہائی مشکل نفسیاتی مصیبت میں پھنس رہے ہیں۔ افریقہ کے اکثر حصوں میں اب بھی انسان دھات اور پتھر کے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور جو زیادہ ترقی کر چکے ہیں۔ ایک شدید جذباتی‘ ایمان اور روحانی بحران میں مبتلا ہیں۔ افریقہ کے عوام میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ کبھی کوئی پیغمبر نازل نہیں ہوا۔ اب تک افریقہ ایام جہالت کا بہترین نمونہ ہے سوال یہ ہے کہ افریقہ میں عوام کا مذہب کیا ہو گا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ ا مریکی پادری اس پر بڑی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کے مشہور و معروف پادری بلی گراہم نے افریقہ کا دورہ کیا گذشتہ ہفتے انہوں نے صدر آئزن ہاور سے وائٹ ہاؤس میں ۴۰ منٹ کے لئے تبادلہ خیالات کیا اور صدر آئزن ہاور کو یہ مشورہ دیا کہ نائیجیریا کا دورہ کریں کیونکہ اکتوبر میں نائیجیریا انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا۔ پادری بلی گراہم نے رپورٹروں کو ملاقات کے بعد بتایا کہ امریکہ کیلئے لازم ہے کہ وہ افریقہ کے عوام کے نیشنلزم کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کرے۔ صدر آئزن ہاور کے ردِّ عمل پر بحث کرتے ہوئے بلی گراہم نے کہا کہ صدرآئزن ہاور نے نائیجیریا کے دورے کے مسئلہ پر غور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس خیرسگالی کے دورہ سے امریکہ کو جو فائدہ پہنچے گا وہ محتاج بیان نہیں۔ لیکن پادری بلی گراہم کو جو غم ہے۔ وہ کسی اور مسئلہ سے ہے۔ انہوں نے رپورٹروں کو بتایا کہ مسلمان مشنری افریقہ میں جب سات حبشیوں کو مسلمان بناتے ہیں تو عیسائی مشنری کہیں مشکل سے تین حبشیوں کو عیسائی بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اسلام کی ترقی کو روکنے کیلئے بلی گراہم ایک مشنری پروگرام وضع کر رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ امریکی حبشیوں کو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے مشنوں میں بھرتی کرنا چاہیئے جو اپنے افریقی بھائی بندوں کو آسانی سے عیسائی بنا سکیں گے۔ اس کے علاوہ بلی گراہم نے کہا کہ وہ ان مشنریوں کو اپنے مشن میں بھرتی کریں گے۔ جو علم نسلیات اور جناب رسالت مآبؐ کی تعلیمات سے آگاہ ہوں گے۔ تاکہ وہ اسلام کی کمزوریوں کو ’’افریقی‘‘ عوام پر واضح کر سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ افریقہ میں تہذیب اور علم و ہنر اور مذہب پھیلانے کی ذمہ داری کس حد تک پاکستانیوں پر عائد ہوتی ہے جہاں تک کہ ہمارے عرب بھائیوں کا تعلق ہے۔ وہ تو عرب نیشنلزم کے سوا بات نہیں کرتے۔ اسلام ان کے لئے ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ بھارت کے پاس کوئی ایسا مذہب نہیں جس کی تبلیغ کی جاسکے۔ لیکن اس کے باوجود بھارت افریقہ میں ثقافتی تبلیغ کر رہا ہے۔ ہر سال افریقہ سے طلباء کی ایک خاص تعداد بھارتی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آتی ہے۔ صرف مشرقی افریقہ کو لے لیجئے۔ اب تک ۳۵۰ افریقی طلبہ بھارتی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ ۲۰۰ طلبہ واپس جا چکے ہیں۔ نیروبی کے ایسٹ افریقن ٹائمز (جو احمدیہ جماعت کا اخبار ہے) کے بیان کے مطابق ۱۹۵۹ ء میں بھارت نے ۸ وظیفے یوگنڈا کے حبشی طلبہ کو دیئے۔۱۰ کنیا کے طلبہ کو ۴ ٹانگا نیکا کے طلبہ کو اور ایک زنجبارکے طالب علم کو دیئے گئے۔ بھارت میں انڈین کلچرل کونسل ان طلبہ کو تمام سہولتیں مہیّا کرتی ہے۔ جہاں تک افریقی ممالک کا تعلق ہے افسوس ہے کہ ان کے متعلق مکمل فہرست حاصل نہ ہو سکی۔ لیکن اندازہ کیا جاتا ہے۔ کہ اس سال سینکڑوں طلبہ افریقہ سے بھارت میں تعلیم کی غرض سے آئے ہیں۔ یہی جو ان طلبہ کل ان افریقی ممالک کے لیڈر
ہو نگے اور ان کے توسط سے بھارت کو جو سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ اس کا آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی مذہبی مشنری کام کر رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے۔ مشرقی افریقہ میں مسلمانوں کی آبادی ۱۵ فیصد ہے جس میں ایسٹ افریقن ٹائمز کے بیان کے مطابق ۱۰۰۰۰افریقی لوگ احمدی ہیں۔ پرتگیزی مشرقی افریقہ میں تقریباً دس لاکھ افریقی مسلمان ہو چکے ہیں۔ جن میں سے غالب اکثریت احمدیوں کی ہے۔ کینیا کے سرحدی صوبوں میں اسلام کو فروغ ہو رہا ہے اور یہاں بھی غالب اکثریت احمدیوں کی ہے۔ نیروبی میں تو خیر احمدیوں نے ایک بہت بڑا مذہبی تبلیغی مرکز قائم کر رکھا ہے جو روزانہ انگریزی اخبار بھی شائع کرتا ہے۔ اور اس کے علاوہ تعلیم کے لئے اس سینٹر نے کالج وغیرہ بھی قائم کر رکھے ہیں۔
ہمیں احمدیت سے شدید اختلافات ہیں اور ہم قادیانی فرقہ کے تصورات کو بالکل باطل اور گمراہ سمجھتے ہیں اور سواداعظم کی طرح ان تصورات سے نفرت وبیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں ان کی مساعی کی داد دینی پڑتی ہے بلی گراہم جب اپنے حالیہ دورہ میں نیروبی گئے تو اسلام کی طرف سے اگر کسی جماعت نے انہیں مباحثہ کی دعوت دی تو وہ جماعت احمدیہ تھی۔ کینیا ‘ یوگنڈا اور ٹانگا نیکا میں اس وقت ۲۵۰۰۱۰۰۰ مسلمان آباد ہیں لیکن ان کی تعلیمی حالت بہت ہی کمزور ہے۔ عیسائی مشنری سکولوں اور کالجوں کے ذریعہ سے طلبا کوعیسائیت کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جماعت احمدیہ کے سوا پاکستان میں اور کوئی مذہبی جماعت موجود نہیں جو افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کے کام کو انجام دے سکے پاکستان میں جماعتِ اسلامی بہت ہی با اثر جماعت ہے۔ مولانا مودودی کے سیاسی خیالات سے ہمیں بہت زیادہ اختلافات ہیں ۔ لیکن ہمیں اس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ اگر وہ افریقہ میں مشنری کام کا بیڑہ اٹھائیں ۔ تو اس سے صرف اسلام کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے علاوہ انسانیت کی خدمت بھی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک غیر ممالک میں جتنا بھی اسلامی مشنری کام ہوا ہے وہ علماء نے اپنی ذاتی حیثیت میں ادا کیا ہے اب ضرورت ہے کہ تبلیغی کام کو منظم کیا جائے۔ اگر جماعت اسلامی سیاسی خواہشوں اور دفاتر کے خواب سے علیحدہ ہو کر افریقہ میں اسلامی تہذیب وتمدن پھیلانے کی کوشش کرے تو ہمیں توقع ہے کہ فروغ اسلام میں رکاوٹ ڈالنے سے متعلق بلی گراہم کے تمام ارادے ناکام ہو کر رہ جائینگے اسلئے کہ جماعت اسلامی میں جو علماء ممبر کی حیثیت سے شامل ہیں۔ وہ صیحح معنوں میں اسلام کے عالم ہیں اور ان کے توسط سے جو اسلام پھیلے گا۔ وہ افریقی لوگوں کو روحانیت کے سرچشموں سے فیضیاب کریگا۔ دراصل یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس پر حکومتِ پاکستان کو تبلیغی کام کرنیوالی جماعتوں کی اعانت کرنی چاہیئے ۔ کیا ہم مولانا مودودی سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ افریقہ میں تبلیغی کام کا بیڑا اٹھائیں گے؟ ہماری رائے میں تو ان سے بہتر انسان پاکستان میں اس کام کیلئے موجود نہیں۔‘‘ ۱۴
اخبار ’’رضاکار‘‘ لاہور کا حقیقت افروز تبصرہ
پاکستان کے مشہور شیعہ ہفت روزہ رضاکار نے نہ صرف اپنی یکم مئی ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں مندرجہ بالا مضمون شائع کیا بلکہ ۸؍مئی ۱۹۶۰ء کے پرچہ میں اس پر درج ذیل تبصرہ بھی سپرد اشاعت کیا:۔
’’ گزشتہ شمارہ میں ہم نے جناب حفیظ ملک صاحب نمائندہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور مقیم واشنگٹن (امریکہ) کا ایک مراسلہ ’’افریقہ میں تبلیغ اسلام ‘‘کے عنوان سے نوائے وقت لاہور سے نقل کیا تھا۔
محترم حفیظ ملک صاحب نے اپنے اس مراسلہ میں احمدی مبلغین اور عیسائی مشنریوں کی افریقہ میں تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے۔ اوراس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ احمدی مبلغین کس طرح عیسائی مشنریوں کا سر توڑ مقابلہ کر کے لاکھوں افریقیوں کو احمدی بنا رہے ہیں اختلاف عقائد کے باوجود حفیظ ملک نے احمدی مبلغین کی تبلیغی کوششوں کو سراہا ہے۔ اور انہیں خراج تحسین ادا کیا ہے‘‘۔
افریقہ آزاد ہو رہا ہے۔ لہذا مغربی ممالک اب افریقیوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کے لئے’’مذہب‘‘کو سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اور افریقہ میں وسیع پیمانے پر عیسائیت کی تبلیغ کر کے افریقیوں کے ساتھ روحانی اور نظریاتی رشتے استوار کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس وقت پورے براعظم افریقہ میں عیسائی مشنری پھیلے ہوئے ہیں ۔ اور عیسائیت کی تبلیغ پورے زور شور کے ساتھ جاری ہے۔اندریں حالات اس وقت افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک وسیع میدان موجود ہے۔ محترم حفیظ ملک صاحب نے اسلامیان پاکستان کی توجہ اسی طرف مبذول کرائی ہے اور اس ذیل میں جماعت اسلامی کو خصوصی دعوت دی ہے۔ کہ اس کے مبلغین افریقہ میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں۔ تو انہیں شاندار کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ ہماری آنکھیں تلاش کرتی رہیںکہ محترم حفیظ ملک کے مذکورہ مراسلہ میں اثنا عشری مبلغین کی تبلیغی خدمات کا بھی کہیں ضرور ذکر آئیگا۔لیکن ہمیں یہ دیکھ کر بے انتہا مایوسی ہوئی۔ کہ اس سلسلہ میں اثنا عشری مبلغین کا کہیں نام تک نہیں آیا۔
ہماری جماعت کے مایہ ناز مبلغ مولانا خواجہ محمد لطیف صاحب قبلہ انصاری گزشتہ دو سال سے افریقہ میں مقیم ہیں اور موصوف نے ’’رضا کار‘‘ میں متعدد اقساط میں افریقہ میں مذہب اثنا عشری کا مقام کے عنوان سے افریقہ کے خوجہ اثنا عشری شیعوں کے حالات پر بالتفصیل روشنی ڈالی ہے۔ محترم خواجہ صاحب کے ان مراسلات سے تو ہم نے یہ اندازہ لگایا تھا۔ کہ افریقہ میں شیعہ ہر لحاظ سے صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ پورے ملک کی صنعت و تجارت پر چھائے ہوئے ہیں۔ ہر مقام پر ان کی مساجد اور امام باڑے موجود ہیں۔ اور انہوں نے ہر جگہ تبلیغ دین کیلئے علماء کا انتظام کر رکھا ہے باوجود صاحبان ثروت ہونے کے ان کا دینی شغف قابل داد ہے۔ چنانچہ خود خواجہ صاحب نے یہ تحریر فرمایا تھا کہ افریقہ میں یہ مشہور ہے کہ ’’افریقہ میں اسلام تو عرب لائے تھے۔مگر اس ملک میں اسلام کو قائم رکھنے والے خوجہ اثنا عشری حضرات ہیں۔‘‘ افریقہ میں بسنے والے خوجہ اثنا عشری حضرات لاکھوں روپے سالانہ اپنے عبادت خانوں ‘مساجد اور امام باڑوں پر خرچ کرتے ہیں۔ پاک و بھارت سے بڑی بڑی تنخواہیں دے کر علماء کرام کو اپنے مذہبی مرکز میں تعینات کرتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت افریقہ کے تمام قابل ذکر شہروں میں شیعہ مبلغین موجود ہیں۔ لیکن جب ہم اپنے ان مبلغین کی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب ہم ان کا مقابلہ احمدی مبلغین سے کرتے ہیں۔ تو ندامت سے ہمارا سر جھک جاتاہے۔ تبلیغی میدان میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے… کیونکہ ان مبلغین کی پشت پر حکومتیں ہیں۔ جو لاکھوں اور کروڑوں روپے سے ان کی امداد کر رہی ہیں۔ لیکن احمدی مبلغین کی پشت پر نہ ہی کوئی حکومت ہے۔ اور نہ ہی کوئی سرمایہ دارطبقہ۔ ان کی پشت پر صرف ان کی جماعت ہے۔ جو انہیں معمولی تنخواہیں دیتی ہے۔ اور ایک محدود سرمایہ سے ان کی تبلیغی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتی ہے۔ان حالات میںاحمدی مبلغین کا عیسائی مبلغین سے مقابلہ کرنا اور اس مقابلہ میں ان سے بازی لے جانا یقینا خراج تحسین کا مستحق ہے۔ اور ہمارے مبلغین حضرات کے لئے تازیانہ عبرت ہے۔ جن کو افریقہ میں ایک سرمایہ دارطبقہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ اور تبلیغ دین کے سلسلہ میں انہی ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔
کاش ہمارے مبلغین حضرات بھی اپنے میں مشنری سپرٹ پیدا کرتے۔ یعنی آرام و آرائش کی زندگی کو خیر باد کہتے اور محنت و مشقت اپنا نصب العین بناتے۔ تو آج ان کا ذکر بھی تبلیغی مشن کے سلسلہ میں سرفہرست ہوتا۔ ہمیں اس تلخ نوائی سے معاف رکھنا چاہیئے ہمارے مبلغین آرام و آسائش کی زندگی گزارنے کے عادی بن چکے ہیں۔ کیونکہ ہمارے دینی مدارس کا ماحول ہی کچھ ایسا ہے۔ کہ انہیں آرام طلب بنا دیتا ہے۔ اور ان میں مشنری سپرٹ پیدا ہی نہیں ہوتی ہمارے چھوٹے دینی مدارس سے لے کر نجف اشرف کے دینی مدارس تک کی یہ حالت ہے کہ وہاں کوئی باقاعدگی اور نظام نہیں جب طلباء ایسے ماحول میں پروان چڑھیں گے۔ تو واضح ہے۔ کہ وہ آرام و آسائش کے عادی ہی بنیںگے ۔ لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ ایک مبلغ اور مشنری اس وقت تک بااحسن وجوہ خدمات انجام نہیں دے سکتا ۔ جب تک وہ محنت و مشقت کو اپنا نصب العین نہ بنائے۔
اس سلسلہ میں اپنے مبلغین حضرات کی خدمت میں کچھ عرض کرنا ہے تو گستاخی لیکن ہم یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کہ ہمارے مبلغین نے مذہب کی تبلیغ بس یہی سمجھ رکھی ہے۔ کہ اپنے مکان پر عزت اور آرام ‘ کم و بیش آسودگی کی زندگی بسر کریں۔ کبھی کبھی نماز پڑھا دیا کریں کوئی مسئلہ پوچھے تو فتویٰ دے دیںاور کہیںسے دعوت آئے تو مجلس پڑھ آئیں۔‘‘
حالانکہ مبلغین حضرات کو چاہیئے۔ کہ وہ اپنے مقام معزز کو چھوڑ کر اٹھیں۔ خدا کی دنیا اور خدا کے بندوں میں گھومیں پھریں۔ ان سے ملیں جلیں۔ افلاس۔ جہالت۔ تو ہم پرستی۔ بیماری اور ظلم و ناانصافی کے دردناک مناظر کو دیکھیں اور انہیں دور کرنے کے لئے اپناپسینہ بہائیں‘ لباس ‘ انداز گفتگو اور شانِ علم میں عزت نہیں‘ عزت تو خدمت میں ہے۔ لیکن خدمت سے ہمارے مبلغین کو واسطہ نہیں۔ حالانکہ مشنری اور خدمت لازم و ملزوم ہیں۔
کیا ہمارے ہادیان دین نے اشاعت دین اور اعلائے کلمتہ الحق کا فرض اس طرح انجام دیا تھا۔ جس طرح ہمارے آج کل کے علماء کرام اور مبلغین حضرات انجام دے رہے ہیں۔؟تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہادیان دین نے بے غرضی اور بے نفسی کے ساتھ لوگوں کی خدمت کی۔ غریبوں مزدوروں۔ مظلوموں۔ بیماروں محتاجوں اور بیکسوں کی داد رسی کی۔ ہر طرح کے خطروں اور آزمائشوں کو جھیل کر خدا کا پیغام سنایا اور ہر جگہ پہنچایا۔ اور اس فرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں جس قدر تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھانا پڑیں۔ اُن سب کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا ۔
ہمارے مبلغین حضرات کے لئے بھی یہی اسوۂ حسنہ قابل تقلید ہے لہذا ہم اپنے واجب التعظیم مبلغین کی خدمت میں یہ مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ تبلیغ دین‘ ایسی اہم اور مقدس خدمت انجام دینا چاہتے ہیں تو آرام و آسائش کی زندگی کو خیر باد کہہ دیں اور محنت و مشقّت کو اپنا نصب العین بنائیں۔ اس وقت افریقہ میں تبلیغ کا میدان بڑا وسیع ہے اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ افریقہ میں ہمیں اس سلسلہ میں ہر قسم کے وسائل بھی میسّر ہیں۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ افریقہ میں مقیم ہمارے مبلغین حضرات اپنے میں صیحح مشنری سپرٹ پیدا کریں اور یا علیؓ کہہ کراٹھ کھڑے ہوں۔ تو ہمیں یقین کامل ہے کہ ہمارے مبلغین دیکھتے ہی دیکھتے احمدی اور عیسائی مبلغین سے سبقت لے جائیں گے کیونکہ اسلام حقیقی کی نشرواشاعت کاجو بہترین ذریعہ ہمارے پاس ہے وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں ہے حسینؑ مظلوم کا درد بھرا قصہ ایسا ہے۔ جو اپنوں بیگانوں۔ گوروں ۔ کالوں۔ پڑھے لکھے جاہلوں سب کو اپنی طرف کھینچنے کی پوری پوری اہلیت رکھتا ہے اور یہی قصہ اسلام کی نشرواشاعت کا بہترین ذریعہ ہے۔ سیّدالشہداء حضرت امام حسینؑ نے تبلیغ مذہب اور حفاظت دین کے لئے جو بے بہا قربانیاں میدان کربلا میں پیش فرمائیں کیا اُن کا ذکر صرف اس لئے ہے کہ ہم چند آنسو بہا کر اپنے حسینی ہونے کا دعویٰ کرنے لگیں؟ یا اُن قربانیوں کا تذکرہ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم بھی اسوۂ حسینی کو اپنائیں اور سید الشہدا ء حضرت امام حسینؑ کے نقشِ قدم پر چل کر حفاظت دین اور تبلیغ اسلام کے لئے اپنا تن ‘ من ‘ دھن نچھاور کریں۔ اور اس راہ میں جو مصائب و تکالیف پیش آئیں انہیں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر کے اپنے سچا حسینی ہونے کا ثبوت فراہم کریں۔
اگر ہم آج بھی گوش حق نیوش سے سنیں تو ہمیں امام مظلومؑ کے استغاثہ کی وہ آواز صاف سنائی دے رہی ہے جو آج سے چودہ سو سال قبل حضور سید الشہداء ؑنے میدان کربلا میں بلند فرمائی تھی اور ہم آج بھی سید الشہداء ؑ کے اس استغاثہ کی آوازپر حسینیت یعنی اسلام حقیقی کی نشرواشاعت کر کے لبیک کہہ سکتے ہیں۔
آخر میں ہم مجاہد ملت مولاناخواجہ محمد لطیف صاحب قبلہ انصاری کی خدمت … میں یہ گذارش کریں گے کہ جہاں انہوں نے شیعیان افریقہ کی تنظیم کے سلسلہ میں اہم اور زریں خدمات انجام دی ہیں اب وہ افریقہ میں تبلیغی مہم کا بھی آغاز فرمائیں اور اس سلسلہ میں پوری سوچ بچار کے بعد ایک ایسا ٹھوس پروگرام مرتب فرمائیں کہ ہم بہت جلد حفیظ ملک نمائندہ نوائے وقت ہی کی زبان سے خوشخبری سنیں کہ افریقہ میں اثنا عشری مبلغین تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں نہایت ہی اہم اور شاندار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ‘‘ ۱۵
بھارت کے مسلم پریس میں چرچا
افریقہ کے اس معرکہ صلیب و ہلال کی گونج بھارت میں بھی سنائی دی چنانچہ بمبئی کے
مشہوراخبار ’’انقلاب‘‘ نے جولائی ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں حسب ذیل مقالہ افتتاحیہ لکھا:۔
’’…اگر مسلمانوں کو تبلیغ کی وہی سہولتیں حاصل ہوتیں جو عیسائیوں کو ہیں اور اگر مسلمان مبلّغوں کو اسی سطح پر تربیت دی جاتی جس سطح پر عیسائی مبلغوں کو دی جاتی ہے تو افریقہ میں مسلمانوں کی آبادی کہیں زیادہ ہوتی اور افریقہ مسلم براعظم کے نام سے یاد کیا جاتا بدقسمتی سے مولویوں اور ملاّؤںکی بہت بڑی اکثریت اس قابل نہیں کہ نئے ڈھنگ سے اسلام کی تبلیغ کر سکے شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نام نہاد مولویوں اور ملاّؤں کی وجہ سے اسلام کو فائدہ سے زیادہ نقصان پہونچ رہا ہے۔ اس وقت افریقہ میں تبلیغ کی خدمات صرف ایک احمدیہ مشن انجام دے رہا اگر مسلمانوں کے دوسرے تبلیغی مشن بھی افریقہ پہنچیں تو وہاں زیادہ تیزی کے ساتھ اسلام کی روشنی پھیلائی جا سکتی ہے۔
امریکہ کے ایک مشہور عیسائی مبلّغ ڈاکٹر بلی گراہم نے حال ہی میں افریقہ کا دورہ کرنے کے بعد ’’نیویارک ٹائمر‘‘کے ایک نمائندے کو ایک بیان دیا ہے جس کے دوران میں اُنہوں نے کہاکہ’’افریقہ میں اسلام اور عیسائیت کے مابین سخت مقابلہ ہو رہا ہے اور ایک دن ایسا آ سکتا ہے کہ جب سارا افریقہ حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائے۔‘‘
کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے ایک پادری نے لندن ریڈیو سے ایک تقریر نشر کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ’’ افریقہ میں اگر چار بت پرست عیسائی مذہب اختیار کرتے ہیں تو ان کے مقابلے میں سات بت پرست حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں…ایک بت پرست کو مسلمان بننے میں صرف چار منٹ لگتے ہیں۔ اس کے برعکس عیسائی بننے میںچار سال لگ جاتے ہیں۔‘‘ یہ ایک طرح سے عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کی سادگی کا اعتراف ہے اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ افریقہ کس طرف جا رہا ہے۔ ‘‘ ۱۶
فصل دوم
ڈاکٹر پروفیسر عبدالسلام صاحب کا یاد گار دورۂ بھارت
۷؍جنوری ۱۹۶۰ء کو بھارت کے شہربمبئی میں ۴۷ ویں آل انڈیا سائنس کانگرس منعقد ہو رہی تھی۔ مشہور عالم پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر محمد عبدالسلام
سے درخواست کی گئی کہ وہ اس بین الاقوامی کانگرس سے خطاب فرمائیں نیز بھارت کی یونیورسٹیوں کو بھی اپنے علمی لیکچروں سے نوازیں۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ درخواست قبول کر لی آپ لنڈن سے ۲۱؍دسمبر ۱۹۵۹ء کو بذریعہ ہوائی جہاز دہلی پہنچے اور اگلے روز ۲۲؍دسمبر کو دہلی یونیورسٹی میں لیکچر دیا جو ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔ اس موقع پر بھارت کے ممتاز سائنسدان ‘ ماہرین طبعیات‘ ممتاز سکالر اور دانشور موجود تھے۔ آپ کا تبّحرعلمی‘ خوداعتمادی اور موثّر انداز بیان اُن سے خراج تحسین وصول کئے بغیر نہ رہا۔موضوع خالص علمی تھا اور سائنسی سوالات کی بوچھاڑ تھی مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنے مدلّل ‘ برجستہ اور معلومات افروز جوابات سیسامعین کو مسحور کر دیا۔
۲؍جنوری ۱۹۶۰ء کو آپ بمبئی تشریف لے گئے اور ۷؍جنوری کو آپ نے آل انڈیا سائنس کانگرس میں معرکہ آرالیکچر دیا۔ کانفرنس میں تین ہزار مندوب شامل ہوئے جن میں ستّر سے زیادہ غیر ملکی نامور سائنسدان تھے۔ آپ کا انداز فاضلانہ اور طرزِادا بہت دلکش تھی۔ آپ نے حیرت انگیز ایمانی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا لیکچر قرآن مجید کی مبارک آیات پر ختم کیا۔ اسٹیج سے اترتے ہی آپ کو ایک جم غفیر نے گھیر لیا۔ حاضرین اس عظیم سائنسدان کی یہ مقبولیت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ بھارتی پریس نے بھی اگر کسی سائنسدان کا خصوصی ذکر کیا تو وہ آپ ہی تھے۔ چنانچہ اخبار ٹائمز آف انڈیا (بمبئی) نے ۸؍جنوری ۱۹۶۰ء کو صفحہ اوّل کے چوکھٹا میں نوٹ لکھا کہ ’’سائنسدان عوام میں غیر مقبول ہوتے ہیں مگر رات جب پروفیسر عبدالسلام صاحب تقریر کر کے سائنس کانگرس کے پنڈال سے اترے تو یہ بات غلط ثابت ہو گئی۔ سامعین نے آپ کی شخصیت سے گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور دیر تک آپ کو گھیرے رہے ہر شخص آٹو گراف لینا چاہتا تھا۔ آپ نے کسی کو مایوس نہیں کیا۔‘‘(ترجمہ) ۱۷
ڈاکٹر صاحب سائنس کانگرس میں شرکت کے بعد ۱۱؍جنوری کو پہلے مدراس پھر ۱۳؍جنوری کو مدراس سے حیدر آباد دکن پہنچے اور اسی روز ۳ سے ۵ بجے شام تک عثمانیہ یونیورسٹی سے پُراز علم خطاب فرمایا اور سوالوں کے جوابات دئے ۱۸ڈاکٹر صاحب نے وسطی و جنوبی ہند کے اس طویل سفر کے دوران مقامی احمدی جماعتوں سے مثالی رابطہ رکھا اور جماعتوں نے بھی آپ کے شایان شان اور پُرجوش استقبال میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی علاوہ ازیں آپ کے اعزاز میں تقاریب منعقد کیں جو تبلیغی‘ تربیتی اور تعلیمی اعتبار سے بہت مفید ثابت ہوئیں اور سلسلہ احمدیہ کی آواز ملک کے بااثر اور چوٹی کے علمی طبقوں تک پہنچی۔ داراسلطنت دہلی (۲۳؍دسمبر ۱۹۵۹ء) بمبئی (۷؍جنوری ۱۹۶۰ء) مدراس (۱۲؍جنوری ۱۹۶۰ء) اور حیدر آباد دکن (۱۳؍جنوری ۱۹۶۰ء) کی تقاریب کی مفصل رپورٹیں اخبار بدر قادیان میں بالترتیب مولانا محمد سلیم صاحب‘ مولوی سمیع اﷲ صاحب قیصر‘ؔ مولوی شریف احمد صاحب امینی ؔ اور محمد عبداﷲصاحب بی۔ایس۔سی۔ایل۔ایل۔بی حیدر آباد دکن کے قلم سے شائع شدہ ہیں۔ ۱۹ ان تقاریب میں احمدیہ مسلم مشن بمبئی کی شاندار تقریب سب سے کامیاب رہی جسمیں آپ نے ’’مغرب میں اسلام کا حال‘‘ کے عنوان پرایک پُر جوش لیکچر دیا نیز سوالوں پر جوابات دئے۔ اس تقریب کا پریس میں بہت چرچاہوا ۲۰ مثلاًروزنامہ ’’الجمعیت‘‘ دہلی نے ۱۳؍جنوری ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں ’’برطانیہ کے مسلمان ڈیلیگیٹ ڈاکٹر عبدالسلام کی تقریر‘‘ کے زیر عنوان لکھا:۔
’’سائنس کی ترقی اسلام کے اصولوں کے قطعاً خلاف نہیں۔ چنانچہ پندرھویں صدی عیسوی تک سائنسی غوروفکر پر مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ اور وہ دنیا پرچھائے رہے۔ جب انہوں نے سائنس کو چھوڑ دیا تو یورپ کی قوموں نے اسے اپنا لیا اور ترقی کرتے رہے جس کے نتیجہ میں وہ آج تک دنیا پر اور عالمی فکروخیال پرچھائے ہوئے ہیں۔ یہ باتیں امپیریل کالج لندن کے شعبہ ریاضیات کے صدر اور رائل سو سائٹی آف لندن کے پہلے پاکستانی مسلمان ممبر ڈاکٹر عبدالسلام نے جو ہندوستانی سائنس کانگریس کے اجلاس کے سلسلہ میں آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں احمدیہ مسلم مشن لائبریری کلب بیک روڈ میں ایک ضیافتی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہیں۔ جلسہ کی صدارت احمدیہ مسلم مشن کے انچارج جناب سمیع اﷲ صاحب نے کی۔ اسلام اور سائنس کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا کہ سائنس ایک زمانہ میں مسلمانوں کا فن تھا۔ انہوں نے یونانیوں سے بہت کچھ لیا تھا اور اس میں خود بھی بہت کچھ اضافہ کیا تھا۔ تُرکوں کے دور میں بھی مسلمان اپنے وقت کے بڑے سائنس دان اور ٹیکنالوجی ایٹ تھے جنکی مدد سے وہ اپنے سمندری بیڑے اور گولہ باری میں نت نئی جدتیں کیا کرتے تھے اور یورپ کی قومیں ان سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں۔ آج اس کے برعکس یورپ سائنس پر پوری طرح چھایا ہوا ہے اور مسلمان پیچھے ہیں۔
انہوں نے اپنے انگلستان اور پاکستان کے درس و تدریس کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے پورے وثوق کے ساتھ کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے طلباء کی صلاحیتوں اور انگلستان کے طلبہ کی صلاحیتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور بتایا کے اگر پوری قوم نے وقت کی اس ضرورت پر توجہ کی تو وہ دن دور نہیں کہ جب مسلمان بھی پہلے کی طرح سائنس کے میدان میں نہ صرف زمانہ سے پیچھے نہیں رہیں گے بلکہ باقی دنیا کی رہنمائی کے قابل ہو جائیں گے۔
باقی دنیا میں سائنس کی ترقی اور ہندوستان و پاکستان میں اس کی موجود ہ صورت حال کا تقابل کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ سائنس میں کام دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک نظریاتی اور دوسرے عملی۔ نظریاتی کام ایک مقررہ راستے پر ہوتے ہیں اور آدمی غوروفکر سے نئے خیالات پیش کرتا ہے جو خدا کی دین ہوتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا الہام ہے اور فرانس کے ایک مشہور سائنسدان کا قول ہے کہ ’’ قسمت کی دیوی انہیں لوگوں پر مہربان ہوتی ہے جو پہلے سے تیار ہوتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ خدا کی دین جب یہودی اور عیسائی سائنسدانوں کو نصیب ہوتی ہے توکوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ مسلمانوں کو نصیب نہ ہو انہوں نے بتایا کہ نظریاتی سائنس میں ہندوستان اور پاکستان میں اچھے سائنسدان موجود ہیں۔ البتہ عملی سائنس میں سوائے شری دی رامن اور کرشن کے کسی بھی سائنسدان نے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے۔ پھر بھی امید ہے کہ آئندہ بیس سال میں اس میدان میں ہمارے ملکوں کی حالت بہتر ہو جائے گی۔‘‘ ۲۱
شیخ امری عبیدی صاحب کا بطور میئرانتخاب
۱۵؍جنوری ۱۹۶۰ء کا دن مشرقی افریقہ کی احمدی جماعتوں کے اثر و نفوذ میں ایک نئے باب کے اضافہ کا موجب ثابت ہوا کیونکہ اس روز احمدیہ مشن دارالسلام ۲۲ کے مبلغ انچارج شیخ امری عبیدی صاحب
دارالسلام کے میئر منتخب ہوئے آپ پہلے افریقن تھے جو اس عہدہ پر فائز ہوئے۔ ۲۳ دارالسلام ہی وہ شہر تھا جہاں ایک زمانہ میں احمدیہ مشن کو شدید مخالفت سے دوچار ہونا پڑاچنانچہ جب شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے یہاں بیت الذکر بنانے کا فیصلہ کیا تو مقامی حکام کی طرف سے بار بار انتباہ کیا گیا اور بالخصوص دارالسلام کے میئر نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ احمدیوں کو زمین ہی نہ مل سکے تا یہاں اُن کے قدم ہی نہ جم سکیں۔ اس ناموافق ماحول میں خدا تعالیٰ نے نہایت با موقعہ زمین دی ۔ شیخ صاحب نے نہایت خاموشی اور سادگی سے چند مبشرین اور مخلصین جماعت کی موجودگی میں متضرّعانہ دعاؤں کے ساتھ بنیاد رکھی اور پھر سب خاموشی سے اپنی اپنی جگہوں پر چلے گئے۔ خدا تعالیٰ کا ایسا فضل شاملِ حال ہوا کہ خدا کا یہ گھر مع مشن ہاؤس کے پایہ تکمیل کو پہنچا اور اس کا شاندار افتتاح ہوا شیخ امری عبیدی صاحب اسی مشن ہاؤس میں مقیم تھے کہ آپ میئر منتخب ہوئے اور اسی میں میونسپلٹی کے کاغذات دستخطوں کے لئے آپ کی خدمت میں پیش ہونے شروع ہوئے اور پورے شہر سے مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ۲۴
صداقت احمدیت کا یہ ایک چمکتا ہوا نشان تھا جو سرزمین مشرقی افریقہ میں ظاہر ہوا جس سے حضرت مسیح موعود ؑکی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی کہ ’’کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے۔‘‘ ۲۵ سبحان اﷲ ! اس رباّنی وعدہ کے موافق افریقہ کی ’’چھوٹی‘‘ اقوام کے بڑے بننے کا عمل جاری ہو چکا تھا اور جن کو ادنیٰ خیال کیا جاتا تھا وہ عزت کے تخت پر بیٹھ رہے تھے اور جن کو روندا گیا وہ سرفراز ہو رہے تھے۔
نئے میئر کے انتخاب کے بعد دارالسلام میں افریقن نمائندوں کی ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ شیخ امری صاحب جونہی وہاں تشریف لے گئے افریقنوں کا ہزار ہا کا مجمع اُن کے احترام میں فرطِ عقیدت سے کھڑا ہو گیا اور اُن کو کندھوں پر اٹھالیا۔ اس انتخاب پر ہر طرف افریقن عوام میں خوشی کی زبردست لہر دوڑ گئی اور اسے ملک کی مکمل آزادی کا پیش خیمہ سمجھا جانے لگا۔ ۲۶ انگریزی اور سوا حیلی پریس نے اس خبر کو نمایاں رنگ میں شائع کیا۔ شیخ امری صاحب کا فوٹو دیا اور آپ کی تعلیمی ‘ تبلیغی اور علمی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا ان اخبارات میں دارالسلام کا ہفت روزہ سنڈے نیوز (SUNDAY NEWS)خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس اخبا رنے ۲۴؍جنوری ۱۹۶۰ء کے پرچہ میں شیخ امری عبیدی صاحب کے فوٹو کے ساتھ اس ہفتہ کی شخصیت کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ سپرد ِاشاعت کیا۔
’’ دارالسلام کا پہلا شہری :۔ شاعراورسیاست دان ‘ ماہرالسنہ اور مذہبی لیڈر۔ یہ ہیں چند خصوصیات جن کے حامل ہمارے دارالسلام کے پہلے افریقن میئر ہیں۔ہزور شپ شیخ کلوٹا امری عبیدی ان دو کونسلروں سے ایک ہیں جنہیں تھوڑا عرصہ ہوا کہ یاکوروارڈ سے بلا مقابلہ میونسپل کونسل کے لئے انتخاب کیا گیا تھا اور میونسپل کونسل کے ایک خاص اجلاس میں بہت سے ووٹوں کی کثرت سے میئر انتخاب کیا گیا۔ اس شہری عہدہ پر فائز ہونے والے یہ صاحب ایک باہمت انسان اور وسیع علم اور تجربے کے مالک ہیں۔
خوش مزاج انسان :۔ چھوٹے قد اور مضبوط جسم کے ساتھ وہ ایک خوش طبع انسان ہیں۔ جن کی زندگی کے تمام پہلو خواہ ذاتی ہوں یا مجلسی اور سیاسی ان کے مذہب اسلام سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں وہ ٹانگانیکا کے مغربی صوبہ کے ایک قصبہ اجیجی (UJIJI)میں ۱۹۲۴ء میں پیدا ہوئے اور اپنے دیہاتی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرتے رہے ۱۹۲۷ء میں وہ ٹبوراسکول میں داخل ہوئے اور ٹانگا نیکا افریقن یونین کے صدر (MR.NYRERE)کے ہم جماعت تھے۔ ۱۹۴۱ء میں وہ دارالسلام کے پوسٹل ٹریننگ سکول میں داخل ہوئے لیکن دو ہی سال کے بعد اسے ترک کر کے ٹبورا میں بطور مبلغ اسلام کام کرناشروع کر دیا۔ (مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے خاکسارکو بتایا ہے کہ محکمہ ڈاک خانہ جات دو سال کے عرصہ میں برادرم امری صاحب کو کام سکھاتا اور وظیفہ بھی دیتا رہا۔ اس عرصہ میں انہوں نے امری صاحب کو احمدیہ مشن میں اپنے ساتھ کام کرنے کو کہا۔ ان کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد مکرم شیخ صاحب نے محکمہ متعلقہ کو لکھا۔ انہوں نے بغیر کسی قسم کے خرچ کا مطالبہ کرنے کے انہیں فارغ کر دینے کا وعدہ کیا بشرطیکہ خود امری صاحب بھی اسکے خواہشمند ہوں۔ امری صاحب تو پہلے ہی تیار تھے۔ انہوں نے بھی لکھدیا اور اس طرح یہ دنیوی حکومت کی ملازمت سے دستبردار ہو کر آسمانی حکومت کے کارندے بن گئے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کی قربانی کا انہیں یہ صلہ دیا ہے کہ اب انہیں وہ اعزاز حاصل ہؤا جو سابقہ ملازمت کے دوران انہیں کبھی حاصل نہیں ہو سکتا تھا اور ان کے انتخاب پر بہت سے جاہ و دولت رکھنے والے رشک کر رہے ہیں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں اس سے بھی بلند عہدوں پر فائز کرے اور ان کی دنیوی ترقی ان کے لئے اور قوم و ملک اور اسلام و احمدیت کے لئے فخر کا باعث ہو۔ آمین ۔
اگلے دس سال میں انہوں نے ایک مشہور مسلمان عالم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سے مکمل طور پر دینی تربیت حاصل کی اور ۱۹۵۳ء میںوہ ربوہ مشنری ٹریننگ کالج۔ مغربی پاکستان میں داخل ہوئے۔ جہاں سے انہوں نے دینیات کی ڈگری حاصل کی ٹانگانیکا واپس آنے پر شیخ امری صاحب کو ۱۹۵۶ء میں احمدیہ مسلم مشن (دارالسلام)کا انچارج مقرر کیا گیا۔ اور وہ تمام مشرقی صوبہ اور ساحلی علاقہ کے نگران رہے۔ اس فرقہ میں ایشیائی بھی شامل ہیں۔ اور افریقن بھی۔
شاعر :۔ ۵۳ـ۔۱۹۵۰ء تک کے عرصہ میں اس بورڈکے اکیلے افریقن ممبر رہے جس نے قرآن مجید کا سواحیلی میں ترجمہ کیا ہے یہ ترجمہ جو ۱۹۵۳ء میں طبع ہوا معیاری سواحیلی زبان میں کیا گیا ہے۔ شیخ امری صاحب اردو ‘سواحیلی ‘ انگریزی اور عربی زبان بولتے ہیں سواحیلی میں یہ اٹھارہ سال کی عمر سے نظمیں لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ جن میں سیاست ۔ مذہب اور سوشل معاملات پرطبع آزمائی کی گئی ہے۔ ان کی نظموں کا مجموعہ ایک دیوان کی شکل میں چھپ چکا ہے۔ اور ایک دوسری تصنیف میں انہوں نے شاعری کیعام موضوع پر قلم کی روانی دکھائی ہے۔
مجلس شعرائے سواحیلی کے قابل ترین ممبران بورڈ میں سے ایک ہونے کے علاوہ وہ اس مجلس کے نائب صدر بھی ہیں اور ان کی نظمیں اور مضامین مقامی پریس میں باقاعدگی سے چھپتے رہتے ہیں۔
ان کا اہم ترین مشغلہ تعلیم ہے۔ افریقن نوجوانوں کو جوٹانگا نیکا کے مختلف حصّوں سے تعلق رکھتے ہیں تبلیغی تربیت دینے کے علاوہ وہ شام کو انہیں تعلیم دیتے ہیں۔ ان کلاسوں میں انگریزی عربی اور سواحیلی پڑھائی جاتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دارالسلام میں ایک سیکنڈری سکول کا ہونا لازمی امر ہے۔ اور امید رکھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں اس کی بنیاد رکھی جا سکے گی۔
ذمہ داری:۔ صبح پانچ بجے سے لے کر رات کے دس بجے تک کام کرنا ان کا معمول ہے درمیان میں دو تین گھنٹے کا وقفہ بھی ہوتا ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ بطور میئر کے ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ان کے مذہبی کام میں حارج نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا۔ ’’ایک مذہبی آدمی کا فرض ہے کہ وہ شہری اور سیاسی کاموں میں حصہ لے اور یہ بات خود قرآن مجید سے مستنبط ہوتی ہے۔ اسلام نے سیاسیات اور دوسرے قابل عمل اصولوں کی تعلیم دی ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ انہیں مذہبی لیڈر ہونے اور ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین کی مرکزی کمیٹی کا ممبر رہنے میں کوئی دشوار ی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ فرماتے ہیں کہ انسان خواہ کسی سیاسی یا سوشل تنظیم میں شامل ہو اسے اس میں بھی اپنے مذہب کی پیروی کرنی چاہیئے۔
دارالسلام کے کونسلروں نے ایک ایسے انسان جو اس کردار’’ ہمت اور قابلیت کا جامع ہے بطور میئر انتخاب کر کے ایک نہایت مستحسن کام کیا ہے۔۔‘‘
سنڈے نیوز
مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۶۰ء ۲۷
شیخ امری عبیدی صاحب کا
ایک ایمان افروز مکتوب
میئر منتخب ہونے کے بعد شیخ امری عبیدی صاحب نے اپنے ایک مفصل اور ایمان افروز مکتوب میں تحریر فرمایا:۔
’’ ۶۰؍۱؍۱۵ کو میں دارالسلام کا میئر منتخب
ہوا۔اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس انتخاب کی ہر طرف سے داد دی گئی۔ مسٹر نریرے جیسے قومی لیڈر نے قریباً بتیس ہزار کے ایک عظیم اجتماع میں میرے انتخاب کو سراہا اور ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین کے اراکین نے مجھے دلی مبارک باد پیش کی اور نہایت گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔ میرے میئر بننے کی وجہ سے مشن کو علاوہ دوسرے فوائد کے یہ فائدہ بھی حاصل ہؤا ہے کہ جو لوگ میری ملاقات کے لئے میرے پاس آتے ہیں۔ ان سے عموماً مشن کے دفتر میں ہی ملاقات کی جاتی ہے اور اس طرح تبلیغ کا ایک نیا دروازہ کھل گیا ہے۔ لوگ احمدیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہ ہونے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ لوگوں نے اپنے بچوں کو اسلامی اور دینی تعلیم کی خاطر ہمارے سکول میں بھجوانا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ اس وقت تک آٹھ بچے داخل ہو چکے ہیں اور مزید درخواستیں وصول ہو رہی ہیں۔ مقامی اخبارات مجھ سے مذہبی امور کے متعلق پوچھتے ہیں اور مضامین لکھنے کے لئے کہتے ہیں۔ چنانچہ روزوں کے متعلق میرے دو مضامین اخبار میں شائع ہو چکے ہیں ۔
میرے میئر منتخب ہونے کی وجہ سے امریکہ۔ یونائیٹڈ کنگڈم‘ اسرائیل اور بعض دوسرے ممالک کے ممتاز نمائندگان بھی میری ملاقات کے لئے آتے رہے ہیں انہیں عموماً مشن کے دفتر میں اور کبھی کبھی میئر کے ملاقات کے کمرے میں ملتا ہوں اور اس ذریعہ سے ان تک تبلیغ اسلام پہنچانے کا نادر موقعہ ہاتھ آتا ہے۔
گو بعض لوگ اعتراضات بھی کرتے ہیں چنانچہ مس مرجوالی برہام نے جو یونائیٹڈ کنگڈم میں ایک یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں مجھے یہ کہا کہ یہ نامناسب ہے کہ ایک دینی ادارہ اور گروہ کا امیر میئر ہو کیونکہ اس میں تعصب کی جھلک ہو گی لیکن میرے اس جواب پر وہ خاموش ہو گئی کہ اگر یہ یوں ہی ہوتا تو کونسلرز کی اکثریت میرے حق میں ووٹ نہ دیتی۔
حالانکہ ان میں مسلمان‘ ہندو اور عیسائی سب موجود تھے۔ میں نے اس سے مذہب کے متعلق بھی بات چیت کی اور بتا یا کہ عیسائیت افریقہ میں ناکام ہو رہی ہے۔ میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ برطانیہ کی نوآبادیاتی پالیسی مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ اس ذریعہ سے وہ لوگوں کی مختلف جماعتوں میں انتشار اور افتراق پیدا کر رہے ہی۔ مس مرجوالی نے مجھ سے دریافت کیا کہ آیا میںنے قاہرہ میں تعلیم حاصل کی ہے (بعد میں ایک امریکن اخبار نویس نے بھی مجھ سے ایسا ہی سوال کیا) میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ سوال انہوں نے بعض سیاسی مصلحتوں کی بناء پر مجھ سے کیا تھا لیکن میں نے انہیں بتایا کہ میں نے پہلے تو مقامی طور پر تعلیم حاصل کی تھی اور بعد میں احمدیت کے مرکز پاکستان گیا۔ میں نے وہاں احمدیہ ادارہ جات سے تعلیم حاصل کی۔
میرے میئر منتخب ہونے سے احمدیت کے مخالفوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے عبدالکریم جی جیسے انسان بھی دوستی پر آمادہ نظر آ رہے ہیں۔ جو اپنے میئر ہونے کے زمانہ میں جماعت احمدیہ کو دارالسلام میں مسجد بنانے کی اجازت نہ دیئے جانے کی انتہائی کوشش میں مصروف رہے۔
۶۰؍۱؍۲۲ کو میں ٹیونس میں آل افریقن پیپلز کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے دارالسلام سے ٹیونس گیا۔ اس میٹنگ میں تمام افریقہ کے نمائندگان شامل تھے۔ میں نے ٹیونس میں مشن قائم کرنے کی بھی کوشش کی اور اس سلسلہ میں صدر حبیب بورقیہ کو ملنے کی کوشش کی۔ لیکن سیاسی مصروفیات کی وجہ سے مجھے افسوس ہے یہ موقع میسّر نہ آیا۔ البتہ مجھے یہ خوشی ہے کہ مجھے وہاں بھی تبلیغ کا موقعہ میسّر آیا۔ وہاں مجالس میں عموماً عام شربتوں کے علاوہ شراب کے جام بھی گردش میں تھے۔ اس پر میں نے ٹیونس کے بعض آدمیوں کو قرآن کریم کی ان آیات کی طرف توجہ منعطف کرائی جن میں شراب کی ممانعت کا ذکر ہے تو وہ بہت شرمندہ ہوئے اور حسن اتفاق سے اس کے بعد جس کانفرنس میں بھی میں نے شمولیت کی اس میں شراب نہ رکھی گئی۔
اس کے علاوہ بھی کئی مواقع ایسے میسّر آئے کہ میں اپنے فریضۂ تبلیغ کو صیحح طور پر
سرانجام دینے اور ایسے مواقع حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ چنانچہ برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے ایک نمائندہ نے مجھ سے ایک ٹیلی ویثرن انٹرویو میں دریافت کیا کہ کیا ایک مبلغ ہونے کے لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ٹانگانیکا میں برطانوی حکومت کے بعد اسلام زیادہ ترقی کرے گا۔ میں نے کہا ۔ برطانوی راج میں جب کہ نوآبادیاتی حکومتیں کھلے بندوں عیسائیت کی مدد کر رہی ہیں۔ اسلام میں ایک کے مقابل دس آدمی شامل ہو رہے ہیں۔ تو جب یہ حکومتیں اور ان کی واضح مدد ختم ہو جائیگی۔ تو یقینا اسلام انتہائی تیزی سے ترقی کرے گا۔
ٹیونس جاتے ہوئے راستے میں میں نے تین سیاسی لیڈروں کو سواحیلی ترجمہ قرآن کے نسخے پیش کئے ان میں دوٹانگانیکا کے تھے اور ایک زنجبارکا۔ مجھے راستے میں دیکھ کر بہت تعجب اور افسوس ہوا۔ کہ ٹانگانیکا اور زنجبار کے مسلمان دوست ایسا گوشت استعمال کر رہے ہیں جو صیحح طور پر ذبح نہیں کیا گیا۔ یہ وہی گوشت تھا جو پچیس یورپین ممالک میں اور ہوائی جہاز میں مہیا کیا جاتا تھا۔ جب میں نے ان کو اس امر کے متعلق بتلایا تو انہوں نے اس کی کچھ بھی پرواہ نہ کی۔ میں نے اس عرصہ میں سبزیوں پر ہی اکتفا کیا۔ ۲۸
ایک اور اعزاز :۔ جولائی کے آخر میں شیخ امری عبیدی کو ایک اور اعزاز ملا اور وہ یہ کہ میئر آف دارالسلام کے ممتاز عہدے پر فائز ہونے کے بعد آپ مغربی صوبے کے ضلع کیگاما کیطرف سے ٹانگا نیکا کونسل کے بلا مقابلہ رکن منتخب ہو گئے۔ ۲۹
جلسہ سالانہ ربوہ
( منعقدہ ۲۲۔۲۳۔۲۴ ؍جنوری ۱۹۶۰ء)
جلسہ سالانہ ۱۹۵۹ء سیدنا حضرت مصلح موعود کے فیصلہ کے مطابق ۲۲۔۲۳۔۲۴؍جنوری
۱۹۶۰ء کو ہونا قرار پایا تھا۔ چنانچہ انہی تاریخوں میں یہ عظیم الشان روحانی اجتماع سرزمین ربوہ میں منعقد ہوا جس میں ستّر ہزار عشّاقِ خلافت نے شرکت فرمائی۔ یہ جلسہ بھی سلسلہ احمدیہ کی روزافزوں ترقی اور وسعت کا آئینہ دار تھا اور حضرت مسیح موعود کے مندرجہ ذیل الہام کا عملی ظہور تھا ۔
’’ خدا تجھے بکّلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور اُن کے نفوس و اموال میں برکت دوں گااور ان میں کثرت بخشوں گا۔ ‘‘ ۳۰
حضرت مصلح موعودؒکا افتتاحی خطاب
سیدنا حضرت مصلح موعودؒ نے اپنے روح پرور افتتاحی خطاب میں دنیا پھر کے
احمدیوںکو خاص طور پر تلقین فرمائی کہ وہ اپنی نسلوں کے اندر دین حق اور احمدیت کی محبت پیدا کرتے چلے جائیں۔ یہاں تک کہ محمد رسول اﷲ صلّی اﷲعلیہ و آلہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر لہرانے لگے۔ حضور کا یہ خطاب قریباً پون گھنٹہ تک جاری رہا جسے نہایت توجہ‘ گہرے انہماک اور کمال درجہ کے اشتیاق اور انہماک کے ساتھ سناگیا۔ ۳۱
پہلے دن کی بقیہ کارروائی
حضور کی تقریر کے بعد مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ سابق صوبہ پنجاب کی زیر صدارت
بالترتیب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور مولانا قاضی محمد نذیر صاحب نے فاضلانہ تقاریر فرمائیں ازاں بعد خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمسؔنے خطبہ جمعہ دیا بعد ازاں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی صدارت میں میاں عطاء اﷲ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت راوالپنڈی اور مولوی عبدالمالک خاں صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کراچی نے تقاریر فرمائیں۔
دوسرا دن
دوسرے دن کا اجلاس حضرت چوہدری محمد ظفر اﷲ خاں صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ‘
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمسؔ نے خطاب فرمایا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی سیرت طیبہ سے متعلق تھی اور بہت ایمان افروز واقعات پر مشتمل تھی آپ کی پُر اثر اور پُر شکوہ آواز نے دلوں کو جِلا اور روحوں کو ایک نئی زندگی بخشی۔ آپ کی یہ تقریر بہت مقبول ہوئی اور جلدہی پہلے الفضل میں پھر کتابی شکل میں شائع کر دی گئی۔ اجلاس دوم میں شیخ بشیر احمد صاحب جج ہائیکورٹ لاہور صدر تھے جس میں پہلے خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری صاحب نے ایک پُر مغز اور مبسوط تقریر فرمائی پھر حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے سورہ فاتحہ کی نہایت لطیف اور پُر معارف تفسیر فرمائی۔ جو قرآنی حقائق و دقائق سے لبریز تھی۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مصلح موعود ؒکی شفایابی کے لئے نہایت دردانگیز انداز میں تحریک دعا کی آپ کی آواز میں ایسا سوز اور اثر تھا کہ ایک ایک فقرہ احباب کے دلوں میں اُترتا گیا۔ آپ کی درخواست پر حضرت مولانا راجیکی صاحب نے اجتماعی دعا کرائی یہ دعا اس درد و کرب سے مانگی گئی کہ جلسہ گاہ میں آہ و بُکا اور گریہ و زاری سے ایک حشر بپا ہو گیا ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل تڑپ رہا تھا۔ سوز و گداز کا یہ عالم بیس منٹ تک جاری رہا جس کے بعد حضرت مولانا صاحب نے بلند آواز سے آمین کہہ کر دعا کو ختم کیا اور صاحب صدر نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اجلاس کے اختتام کا اعلان فرمایا۔ ۳۲
تیسرا دن
جلسہ کے تیسرے روز کا پہلا اجلاس بھی شیخ بشیر احمد صاحب کی زیر صدارت ہوا جس میں ڈاکٹر چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر ایم اے پی ایچ ڈی
امریکہ‘ حضرت چوہدری محمد ظفر اﷲ خاں صاحب نائب صدر عالمی عدالت انصاف ہیگ اور مولانا ابوالعطاء صاحب نے فکر انگیز تقاریر فرمائیں۔
نماز ظہر و عصر مولانا جلال الدین صاحب شمسؔ نے جمع کر کے پڑھائیں۔ حضرت مصلح موعود کی متوقع آمد اور تقریر کے پیش نظر احباب کا اشتیاق عروج پر تھا۔ جلسہ گاہ وقت سے بہت پہلے بھر گئی اور ہر طرف ہجوم خلائق کا منظر دکھائی دیتا تھا اور تل دھرنے کو جگہ نہ رہی امام عالی مقام کی تشریف آوری سے قبل منتظمین جلسہ نے حضور کی جلسہ سالانہ ۱۹۵۳ء کے موقع کی پُر معارف تقریر کے ابتدائی حصہ کا ریکارڈ سنانے کا انتظام کیا جس سے پورے مجمع پر رقّت طاری ہو گئی۔
حضور سوا دو بجے کے قریب بذریعہ کار جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے اور جلسہ گاہ پُر جوش نعروں سے گونج اٹھا۔
حضرت مصلح موعودؒ کا بصیرت افروز اختتامی خطاب
حضور کے کرسی پر تشریف فرما ہونے
کے بعد حضرت ماسٹر فقیر اﷲ صاحب نے تلاوت فرمائی پھر جناب ثاقبؔ صاحب زیروی مدیر لاہور نے اپنی ایک دعائیہ نظم نہایت پُردرد لب و لہجہ میں پڑھ کر سنائی یہ نظم دعاؤں کی مزید تحریک کا موثّر ذریعہ بنی۔
تلاوت و نظم کے بعد حضور انور نے ایک نہایت بصیرت افروز خطاب فرمایا جو پون گھنٹہ تک جاری رہا۔ یہ تقریر ایک خاص رنگ کی حامل تھی اور جوش‘ ولولہ اور غیرتِ دینی کے جذبات سے پُر تھی جس کا خلاصہ حضور کے مبارک الفاظ میں یہ تھا کہ
’’ اﷲ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اس غرض کے لئے قائم کیا ہے کہ دنیا میں (دین حق) اور احمدیت کی اشاعت کی جائے۔ یہی ہمارے تمام کاموں کا نقطہ مرکزی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کو ہمیشہ جاری رکھیں یہانتک کہ دنیا کا کوئی ملک اور کوئی گوشہ ایسا نہ ہو جہاں (دین حق) اور محمد رسول اﷲ کی آواز نہ پہنچ جائے۔‘‘
اس ضمن میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان اور جملہ احباب جماعت سے عہد لیا کہ وہ قیامت تک خدمت دین کا سلسلہ جاری رکھیں گے چنانچہ فرمایا
ُ میں اس موقع پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام اولادکو خواہ وہ آپ کے بیٹے ہیں یا پوتے اور نواسے یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میرے سامنے اﷲ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو خدمتِ دین میں لگائے رکھیں گے اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی احمدیت کی تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے رہیں گے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سچے دل سے ایمان لانے والے تمام احمدی بھی خواہ کسی جگہ کے رہنے والے ہوں آپ کے روحانی بیٹے ہیں۔ اس لئے جماعت احمدیہ کے تما م دوستوں کو چاہیئے کہ وہ بھی اس عہدمیں شامل ہوں۔
مَیں اس وقت عہد کے الفاظ دہراؤں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے تمام افراد اور آپؑ کے روحانی بیٹے کھڑے ہو جائیں اور اس عہد کو دہرائیں۔اشھد ان لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ ہم اﷲتعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اِقرار کرتے ہیں کہ ہم (دین حق) اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسولؐ کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک (دین حق) کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اُونچا رکھیں گے۔
ہم اس بات کااقرار کرتے ہیں کہ ہم نظامِ خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافتِ احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ (دین حق) کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے۔ اے خدا تُو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔الھم آمین ۔الھم آمین۔الھم آمین۔
یہ اقرار جو اس وقت آپ لوگوں نے کیا ہے اگر اِس کے مطابق قیامت تک حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی جسمانی اور روحانی اولاد اشاعتِ دین کے کام میں مشغول رہے تو یقیناً احمدیت تمام دنیا پرچھا جائے گی اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے گا‘‘۔نیز آئیندہ خلفاء کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا
’’آئندہ خلفاء کو بھی وصیّت کرتا ہوں کہ جب تک دُنیا کے چپّہ چپّہ میں دین حق نہ پھیل جائے۔ اور دنیا کے تمام لوگ قبول نہ کرلیں۔ اُس وقت تک دین حق کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیّت ہے کہ وہ قیامت تک دین حق کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے چلے جائیں۔ کہ انہوں نے (دین حق)کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا۔ اور مرتے دم تک دین حق کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے۔
اسی مقصد کو پورا کرنے اور (دین حق ) کے نام کو پھیلانے کے لئے میں نے تحریک جدید جاری کی ہے ۔ جو پچیس سال سے جاری ہے۔ اور جس کے ماتحت آج دُنیا بھرکے تمام اہم ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مشن قائم ہیں۔ اور لاکھوں لوگوں تک خدا اور اس کے رسول کا نام پہنچایا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغی مراکز کو وسیع کرنے اور مبلغین کا جال پھیلانے میں ہمیں خدا تعالیٰ نیبڑی بھاری کامیابی عطا کی ہے مگر ابھی اس میں مزید ترقی کی بڑی گنجائش ہے۔ اور ابھی ہمیں ہزاروں واقفین زندگی کی ضرورت ہے جو دنیا کے چپّہ چپّہ پر دین حق کی اشاعت کریں۔ ہماری جماعت اب خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں ساٹھ ہزار واقفین زندگی کا میّسر آنا کوئی مشکل امر نہیں۔ اور اگر ایک آدمی سو احمدی بنائے تو ساٹھ ہزار واقفین زندگی کے ذریعہ سات لاکھ احمدی ہو سکتا ہے۔ پھر سات لاکھ میں سے چار پانچ لاکھ مبلّغ بن سکتا ہے۔ اور چار پانچ لاکھ مربی چار پانچ کروڑ احمدی بنا سکتا ہے اور چار پانچ کروڑ احمدی اگر زور لگائے تو وہ اپنی تعداد کو چار پانچ ارب تک پہنچا سکتا ہے جو ساری دنیا کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
ازاں بعد حضرت مسیح موعودؑ کے الہام ’’ ہے کرشن ردّر گوپال تیری مہماگیتا میں لکھی گئی ہے‘‘ ۳۳کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہندوستان میں اشاعت دین کو وسیع کرنا ہمارے لئے ضروری ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ہندوستان میں دین حق کی تبلیغ پر زور دیں۔ اس ملک کی ترقی اور عظمت کے قیام کے لئے مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک کوشش کی ہے اور ہندوستان کے چپّہ چپّہ پر اُن محبان وطن کی لاشیں مدفون ہیں جنہوں نے اس کی ترقی کے لئے اپنی عمریں خرچ کر دیں تھیںپس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دین حق کے خوبصورت اصول پیش کر کے ہندؤوں اور سکھوں کو بھی اپنا جز و بنانے کی کوشش کریں جب تک ہم ہندؤوں میں تبلیغ نہیں کریں گے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کرشن ثابت نہیں ہو سکتے۔
اپریل ۱۹۰۲ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ
’’دو دفعہ ہم نے رویاء میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جُھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں۔‘‘ ۳۴
حضرت مصلح موعود ؒنے یہ رویا ء بیان کرنے کے بعد اپنے روح پرور خطاب کے آخر میں فرمایا
’’ اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہندوؤں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت قائم ہو جائے گی اور سارا ہندوستان آپ کے کرشن ہونے کے لحاظ سے اور ساری دنیا محمد رسول اﷲصلّی اﷲ علیہ وسلم کا بروز ہونے کے لحاظ سے آپ کے تابع ہو جائے گی۔… اسی غرض کے لئے میں نے جماعت میں تحریک جدید کے علاوہ وقف جدید کی تحریک بھی جاری کی ہوئی ہے تاکہ سارے پاکستان میں ایسے معلّمیں کا جال بچھ جائے جو لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں۔ اور انہیں دین حق اور احمدیت کی تعلیم سے روشناس کریں مگر یہ کام صحیح طور پر تبھی ہو سکتا ہے جب کم از کم ایک ہزار معلّم ہوں اور ان کے لئے اخراجات کا اندازہ بارہ لاکھ روپے ہے۔ بارہ لاکھ روپیہ کی رقم مہیا کرنا جماعت کے لئے کوئی مشکل امر نہیں۔ کیونکہ اگر دو لاکھ افراد جماعت چھ روپے سالانہ فی کس کے لحاظ سے چندہ دیں بارہ لاکھ بن جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہماری جماعت تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔
پچھلے سال جماعت کی طرف سے صرف ستّر ہزار روّپے کے وعدے ہوئے تھے اور اس سال بھی اتنے ہی وعدے ہوئے جس سے صرف نوے معلّمیںرکھے جا سکے۔ اس سال پچھلے سال سے زیادہ اچھا کام ہؤا ہے۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں بھی کام شروع ہو گیا ہے اور وہاں بھی ایک انسپکٹر اور چار معلّم مقرر کئے جا چکے ہیں۔ پچھلے سال ان معلّمیںکی تعلیم و تربیت اور خدمتِ خلق کا جذبہ دیکھ کر پانچ سو نئے افراد نے بیعت کی تھی اس سال چھ سو اٹھائیس افراد نے بیعت کی ہے۔
پس میں احباب جماعت کو تاکید کرتا ہوںکہ وہ اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی طرف پوری توجہ کریں اور اس کو کامیاب بنانے میں پورا زور لگائیں اور کوشش کریں کہ کوئی فردِ جماعت ایسا نہ رہے جو صاحب استطاعت ہوتے ہوئے اس چندہ میں حصہ نہ لے۔
یہ امر یاد رکھو کہ قوم کی عمر انسان کی عمر سے بہت زیادہ ہوتی ہے پس آپ لوگ ایسی کوشش کریں کہ آپ کے زمانہ میں تمام دنیا میں احمدیت پھیل جائے۔ابھی تو ایک نسل بھی نہیں گذری کہ ہندوستان میں ہمارے سلسلہ کے شدید ترین مخالف بھی احمدیت کی خوبیوں کے قائل ہوتے جا رہے ہیںاور میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ادنیٰ خادم ہوں میری تفسیر کی وہ بہت تعریف کرتے ہیں۔ یہ انقلاب جو پیدا ہو رہا ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دعاؤں کی وجہ سے ہؤا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا کی تھی کہ ۳۵
ع
پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار
اوراﷲ تعالیٰ نے احمدیت کیطرف لوگوں کی توجہ پھیرنی شروع کر دی اورہمیں یقین ہے کہ اس دعا کے مطابق ایک دن ساری دنیا احمدیت میں داخل ہو جائے گی۔ دنیا کی آبادی اس وقت دو ارب سے زیادہ ہے اور اگلے بیس پچیس سال میں وہ تین ارب ہو جائیگی اور پھر تعجب نہیں کہ کئی سال میں وہ اس سے بھی زیادہ ہو جائے۔ مگر دنیا کی آبادی خواہ کتنی بڑھ جائے۔
اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ احمدیت کو ترقی دے گا اور اسے بڑھائے گا۔ یہاں تک کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی۔ بشرطیکہ جماعت اپنی تبلیغی سرگرمیاں ہندوستان میں بھی اور یورپ میں بھی جاری رکھے اور وکالتِ تبشیر اور اصلاح و ارشاد کے محکموں کے ساتھ پورا تعاون کرے۔‘‘ ۳۶اس ولولہ انگیز خطاب کے بعد حضور نے ایک
پُر سوز دعا کرائی جس کے بعد احباب جماعت تک یہ خصوصی پیغام پہنچانے کی ہدایت فرمائی کہ
’’ دوستوں کو چاہیئے کہ وہ کثرت کے ساتھ الفضل کا مطالعہ کیا کریں۔‘‘ ۳۷
جلسہ سے متعلق ایک مخلص
احمدی کے تاثرات
دعاؤں کے اس تاریخی جلسہ کی نسبت لاہور کے ایک مخلص احمدی جناب عبدالجلیل صاحب عشرتؔ (بی اے آنرز ) (برادر مولانا عبدالمجید سالک مرحوم) نے حسب ذیل تاثرات قلمبند کئے۔
’’ جلسہ کے شروع ہونے سے ایک دن پہلے جب ہم ربوہ پہنچے تو ایک ہلکا سا احساس ہؤا کہ شاید جلسہ کی تاریخوں کے التواء کی وجہ سے اس دفعہ شامل ہونے والوں کی تعداد کم ہو لیکن جلسہ کے پہلے اور پھر دوسرے دن دیکھتے ہی دیکھتے خدا کے نیک بندے جوق در جوق گذشتہ سالوں کی طرح آ پہنچے۔ اللہم زدفزد
۲۲؍جنوری کو جلسہ کے افتتاح سے پہلے ہزاروں احباب اپنے محبوب آقا کی زیارت کے لئے چشم براہ تھے حضور تشریف لائے لیکن حضور کی نقاہت اور ضعف کو دیکھ کر عشاق کی آنکھیں پُر نم اور دل غمزدہ ہو گئے حضور نے زندگی بھر میں پہلی دفعہ لکھی ہوئی افتتاحی تقریر پڑھی حضور کی آواز میں رقت تھی۔
حاضرین جلسہ بھی زارو قطار رو رہے تھے حضور کی تقریر کا موضوع وہی تھا جو ہمیشہ حضور کی زندگی کا نصب العین رہا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے نام اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کو دنیا کے کونے کونے میں جلد از جلد پہنچانے کا عزم بالخیر۔ اﷲ اﷲجسمانی کمزوری کایہ حال اور عزم اتنا بلند !! دوسرے دن حضور طبّی مشورہ کے مطابق جلسہ میں تشریف نہ لائے۔ یہ بھی حضور کی زندگی میں پہلا موقعہ تھا۔ عشاق تڑپ رہے تھے برادرم ثاقبؔزیروی نے حضور کی صحت کے متعلق اشعار سوز میں ڈوبی ہوئی آواز میں سنائے انہوں نے تڑپا دیا۔ پھر خداجزائے خیر دے مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب جج ہائی کورٹ کو کہ انہوں نے نہایت مبارک ساعت میں اور نہایت مؤثر الفاظ میں حضور کی صحت کے لئے اجتماعی دعا کرنے کے لئے تحریک کی ۔ جب حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کی اقتداہامیں دعا ہوئی۔ تو ہر آنکھ پُر نم تھی۔ اور دعا کرنے والوں کی آہ بکا کا یہ عالم تھا کہ دلدوز چیخوں کی آوازیں دور دور تک جاتی تھیں۔
تیسرے دن کے اجلاس اول میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ نے پہلی دفعہ تقریر فرمائی موضوع ’’ ذکر حبیب‘‘ تھا۔ تحریر کے تو آپ بادشاہ ہیں۔ لیکن تقریر نے بھی وہ لطف دیا۔ کہ لفظ لفظ پر حاضرین سر دھنتے تھے۔ آپ نے ایسے دلکش اور پُر کیف واقعات بیان کئے کہ دل کہتا تھا۔ کہ واقعی ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے۔
تیسرے دن حضرت اقدس وقت پر تشریف لائے۔ ضعف و نقاہت کا وہی عالم تھا۔ حاضرین کے دل بھرے ہوئے تھے تقریر پھر لکھی ہوئی تھی۔ موضوع وہی تھا کہ خدا کے دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤ رسول کریم صلے اﷲ علیہ وسلم کے دین کا جھنڈا ساری دنیا میں بلند کرو۔ تقریر کے بعد مختصر لیکن پرُدرد دعا ہوئی۔
میرا احساس ہے کہ حضور کی صحت کی کمزوری بہت تشویش کا موجب ہے۔ جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائے اور اس سے حضور کی صحت عاجل و کامل کے لئے انتہائی درد و الحاح سے دعائیں کرے اور کرتا چلا جائے یہاں تک کہ
ع
اجابت از در حق بہر استقبال می آید
اس وقت کہ حضور بیمار ہیں۔ حضور کی بھر پور زندگی کے بڑے بڑے واقعات یاد آتے ہیں تو دل غم سے بھر جاتا ہے ۔حضور کی عمر ۱۹ سال کی تھی جب آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عہد کیا تھا۔ کہ اگر ساری جماعت اور سب لوگ حضور کو چھوڑ جائیں تب بھی میں وفاداری کے ساتھ حضور کے مشن کی اشاعت کرتاچلا جاؤنگاپھر ۲۵ سال کی عمر میں خلافت کا بارگراں آپ کے کندھوں پر رکھا گیا۔ جماعت کے اکابر جماعت اور مرکز سے علیحدہ ہو گئے خزانے میں چند آنے رہ گئے لیکن اس اولوالعزم انسان کو ذرہ بھر گھبراہٹ نہ ہوئی۔ بڑے بڑے فتنے اٹھے۔ لیکن اس خدا کے شیر کے پائے استقلال متزلزل نہ ہوئے۔ جلسوں میں مسلسل چھ چھ گھنٹے بڑے بڑے علمی مسائل پر وہ وہ نکات بیان کئے کہ اپنے تو خیر۔ غیر بھی عش عش کر اٹھے۔ قرآن کریم کے علوم کے دریا بہادئے۔ تفسیریں لکھیں درس دیئے۔ جماعت کی تربیت کی۔ نگرانی کی۔ ہزارہا تقرریں اور خطبے دئے۔ کتابیں لکھیں۔ شعر لکھے۔ ساری دنیا میں تبلیغ (دین حق) کیلئے مبلغ بھیجے۔ جماعت کا مرکزی نظام قائم کیا۔ سکول کالج اور کئی علمی ادارے قائم کئے سیاست کے میدان میں بھی مسلمانانِ ہند کی رہنمائی فرمائی۔ کشمیر کی آزادی کے جہاد میں حصہ لیا۔ ۱۹۴۷ء کے قتل و غارت کے ایام میں قادیان سے جماعت کے ہزاروں افراد کو صحیح و سالم پاکستان پہنچایا۔ ربوہ شہر دیکھتے دیکھتے آباد کرا دیا۔ پھر دین کی خاطر اپنا قیمتی خون بھی دیا۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ حضور کو اپنی جماعت کے تمام افراد کے ساتھ ایک دلی لگاؤ اور ذاتی تعلق ہے۔ ہر ایک کے خاندان نجی حالات اور ذاتی معاملات کو جانتے ہیں۔ اور ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے حضور کو سب سے زیادہ تعلق اور محبت ہے ۔ ہم میں سے کون ہے۔ جس پر حضور کے ذاتی احسان اور نوازشات نہیں۔ ایسے قیمتی وجود کو آج بیمار دیکھ کر کون ہے جس کا دل بھر نہ آئے۔ آج ہم اس مقدس وجود کے گوناگوں فیوض سے محروم ہیں اور یہ ان وجودوں میں سے ایک وجود ہے۔ جو صدیوں کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔
ہمارا فرض ہے کہ دعائیں کریں۔ صدقے دیں اور اپنی سجدہ گاہوں کو رو رو کر تر کر دیں تاکہ خدا اپنے خاص اور بے پایاں رحم سے حضور کو دوبارہ صحت دے اور لمبی زندگی عطا کرے۔ رب اشف امامنا انت الشافی۔ آمین ‘‘ ۳۸
فصل سوم
کلکتہ عالمی کانفرنس میں
احمدی نمائندہ کی پُر اثر تقریر
کلکتہ میں مجلس ادیان عالم کے ز یر اہتمام ۲؍فروری سے ۹؍فروری۱۹۶۰ء تک ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس
میں مذہبی نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب کے نقطہ نگاہ سے مسئلہ قیام امن پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر مولوی بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ نے نہایت موثر لیکچر دیا۔
آپ نے بتایا کہ تمام گذشتہ مذاہب علاقائی تھے۔ عصر جدید کا سب سے اہم تقاضا عالمگیر امن کا قیام ہے اور اسے وہی مذہب پورا کر سکتاہے جو عالمگیر تعلیم پیش کرتا ہو اور جس کے اندر تمام قوموں کو یکجا کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ اُس کی ہمہ گیر تعلیم تمام شعبہ ہائے حیات پر حاوی ہے اور بالخصوص صلح و امن کے مسئلہ پر دوسروں کے مقابل پر اس کی تعلیم ممتاز ہے۔ آپ نے آیت للا نفرق بین احد منھم و نخن لہ مسلمون(البقرہ:۱۳۷)کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن مسلمانوں کو تاکیدی حکم فرماتا ہے کہ تمام نبیوں پر ایمان لاؤ۔ قرآن کے نزدیک ہر ایک قوم و ملک میں نبی گذرے ہیں اور سب کے سب واجب الاحترام ہیں یہ وہ نسخہء کیمیا ہے جس کے صحیح استعمال سے قوموں کے درمیان پیدا شدہ منافرت دور ہو سکتی ہے۔ لیکچر کے دوران جب مولانا صاحب نے وید اور گیتا کی شُرتیاں پڑھنا شروع کیں تو ہندوؤں پر وجد کی ایک کیفیت طاری ہو گئی۔ اکثر دوست ان شلوکوں کو دھیمی دھیمی آواز سے دہراتے جاتے تھے۔ بہت تھے جو اس لئے جُھوم رہے تھے کہ ابھی ان میں جو قرآنی آیات کو مجازی لَے سے پڑھ رہا تھا اب وہ آریہ ورت کے آکاش اُپدیشوں کو ہندی سُر میں سُنا رہا ہے۔ سامعین کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو زبان سے عدم واقفیت کے سبب خاموش تھا۔ لیکن جب پروفیسر چوپٹرہ صاحب
ایم ۔اے۔پی۔ ایچ ۔ڈی نے آپ کی تقریر کا انگریزی ترجمہ پیش کیا تو خاموش طبقہ بھی اُس وجدانی کیفیت سے حصّہ پا کر دادِسخن دینے لگا۔
اس اثر انگیز تقریر کے بعد لوگوں کے دلوں میں احمدیہ لڑیچر پڑھنے کا غیر معمولی اشتیاق پیدا ہو گیا۔ احمدی نوجوانوں نے اس موقعہ پر نہ صرف چودہ قسم کے انگریزی ٹریکٹ ڈیڑھ ہزار کی تعدا د میں تقسیم کیئے بلکہ اردو‘ ہندی‘ بنگلہ اور گورمکھی زبانوں کا لڑیچر بھی تقسیم کیا۔اسٹیج پر نمائندگانِ مذاہب کے علاوہ مدبّرین‘ مفکّرین و اکابرِ شہر تشریف فرما تھے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں دوسروں کا گذر محال تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ کا خاص فضل و کرم یہ ہوا کہ مستعداحمدی نوجوانوں نے اُسی حلقہ خاص میں پہنچ کر منا سب ٹریکٹ تقسیم کئے‘ جہاں دوسرے فرقوں کی اکثر کتابوں کی تقسیم کو حکماً روک دیا گیا مگر خدّام احمدیت کے لئے کوئی امتناعی حکم صادر نہ ہوا ممالکِ غیر کے نمائیندگان اور ہندوپاک کے مشاہیر کو ضخیم اور قیمتی کتب پیش کی گئیں۔
کانفرنس میں جناب محمد نور عالم صاحب ایم اے نے جماعت احمدیہ کلکتہ کی طرف سے پریس رپورٹر کے فرائض انجام دیئے۔ آپ کی مطبوعہ رپورٹ کے آخر میں لکھا ہے کہ۔
ٓٓ’’جلسہ کے اختتام پر مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری کو تاہ عملی و تغافل کیشی کو نظر انداز کر کے اور ہماری شکست سامانی پر ترس کھاتے ہوئے اس عالمی کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام تو غیروں کے سپرد کیا اور اس کے مقاصد کو ہمارے حق میں کر دیا ۔ اور اس طرح یہ کانفرنس کافی حد تک اسلام و احمدیت کی تبلیغ کا ذریعہ بنی رہی‘ ‘۔ ۳۹
سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر
’’ریاست‘‘ دہلی ربوہ میں
اس سال فروری کے تیسرے ہفتہ میں دہلی کے
مشہور ہفت روزہ ’’ ریاست‘‘ کے نامور ایڈیٹر سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون پاکستان تشریف لائے۔
۲۱؍ فروری کو دہلی سے لاہور پہنچے اور چند روزہ قیام کراچی کے بعد ۲؍مارچ ۱۹۶۰ء کی شام کو بذریعہ چناب ایکسپریس وارد ربوہ ہوئے اور تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس میں مقیم ہوئے۔اگلے روز صبح کو آپ نے سیدنا حضرت مصلح موعود سے شرف ملاقات حاصل کیا اور پھرحضرت مرزا بشیر احمد صاحب ‘ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب‘حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار ؔشاہجہانپوری اور حضرت ڈاکٹر حشمت اﷲ خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بعد ازاں فضل عمر ہسپتال‘ اخبار الفضل اور تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے مرکزی دفاتر دیکھنے کے علاوہ جامعہ احمدیہ‘ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج میں بھی گئے۔ کالج میں آپ نے ایک مختصر سی تقریربھی کی۔ سوا تین بجے کے قریب آپ بذریعہ موٹر کار اپنے آبائی وطن حافظ آباد (ضلع گوجرانوالہ) کی طرف روانہ ہو گئے۔ ۴۰
سردار دیوان سنگھ صاحب مفتونؔ نے ہندوستان پہنچتے ہی اپنے اس اہم سفر کے دلچسپ حالات قلمبند کر کے ایڈیٹر صاحب اخبار ’’بدر‘‘ قادیان کو ارسال فرما دیئے۔ جو درجِ ذیل کئے جاتے ہیں ۔:
’’احمدی جماعت کے مرکز ربوہ میں چند گھنٹے‘‘
’’جب ’’ریاست‘‘ جاری ہوا تو اس وقت میں نہ تو احمدی جماعت کے کسی شخص سے واقف تھا اور نہ اس جماعت کے متعلق کوئی کسی قسم کی واقفیت ہی تھی ریاست جاری ہونے کے پہلے سال میں ہی افغانستان میں احمدی جماعت کے ایک مبلغ کو افغان گورنمنٹ کے حکم سے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اور اس بیجارے کا جرم صرف یہ تھا کہ یہ احمدی خیالات کی تبلیغ کرتا تھا ۔ میں نے جب یہ اطلاع روزانہ اخبارات میں پڑھی تو میرے جسم میں ایک کپکپی سی پیدا ہوئی۔ کیونکہ میں جب بھی ظلم ہوتا دیکھتا ہوں تو میرا خون کھولنے لگ جاتا۔ اس اطلاع کو سن کر میں نے افغان گورنمنٹ اور کنگ امان اﷲ کے خلاف ایک سخت ایڈیٹوریل لکھا۔
اس ایڈیٹوریل لکھنے کا نتیجہ یہ ہوا۔ کہ چند احمدی حضرات مجھے اصل واقعات بتانے کے لئے میرے دفتر میں آئے۔ اور ادھر افغانستان کے قونصل جنرل مسٹر اکبر خاں آئے تاکہ وہ اپنی گورنمنٹ کی پوزیشن صاف کر سکیں یہ پہلا موقعہ تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی احمدی جماعت بھی ہے۔ جس کا شعار اپنے خیال کے مطابق اسلام کی تبلیغ ہے اور اس کا ہیڈ کوارٹر قادیان میں ہے کیونکہ میں زندگی بھر ہی مذہبی حلقوں سے قطعی بے تعلق رہا۔
اس واقعہ کے بعد مجھے کبھی کبھی احمدی جماعت کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا اور اس جماعت کے کئی بزرگوں مثلاً محمد ظفر اﷲ خان ڈاکڑ محمد اقبال صاحب مرحوم کے حقیقی بھتیجے مسٹر اعجاز احمد جو ایک زمانہ میں دہلی میں سب جج تھے۔ اور میاں محمد صادق جو دہلی میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے سے دوستانہ تعلقات بھی رہے احمدی جماعت کے لوگ جب کبھی ملتے ان کی تبلیغی باتیں میرے لیئے ناقابل برداشت حد تک ذہنی کوفت کا باعث ہوا کرتیں کیونکہ میں فطرتاً مذہبی دنیا سے قطعی الگ رہنا پسند کرتا ہوں مگر ان لوگوں کے ذاتی کیریکٹر اور بلندی کا بہت ہی مداح ہوں اور یہ واقعہ ہے کہ آج سے چند برس پہلے مجھے اپنے دفتر کیلئے جب کبھی کسی ایماندار شخص کی ضرورت ہوتی تو میں قادیان کے کسی دوست کو لکھتا کہ وہ اپنے ہاں سے کسی دیانتدار شخص کو ملازمت کے لئے بھیج دیں۔ کیونکہ میرا تجربہ تھا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ تو خدا سے ڈرتے ہیں۔ مگر احمدی جماعت کے لوگ خدا سے اس طرح بدکتے ہیں۔ جیسے گھوڑا سایہ سے بدکتا ہے۔ اور خدا سے خوفزدہ ہونے کے باعث یہ بددیانت ہو ہی نہیں سکتے۔ چنانچہ میں نے دفتر ریاست میں کئی احمدی مقرر کئے اور دفتر کے ان احمدی حضرات میں سے دو اصحاب کی زندگی کے واقعات تو مجھے اب تک یاد ہیں۔ ایک صاحب انشاء اﷲ خان اکونٹنٹ مقرر کئے گئے جو کئی برس دفتر ’’ریاست‘‘ میں رہے اور آج کل یہ پاکستان کی کسی بہت بڑی فرم میں آڈیٹر ہیں۔ یہ مسٹر انشاء اﷲ خان کبھی دفتر کا بغیر ٹکٹ کے پوسٹ کارڈ بھی استعمال نہ کرتے۔ اور اگر کوئی ضرورت ہوتی تو ڈاکخانہ سے پوسٹ کارڈ منگا کر لکھتے اور دوسرے صاحب کا نام یاد نہیں۔ یہ لڑکا بہت ہی شریف اور نیک تھا ۔ یہ دفتر سے کچھ روپیہ ایڈوانس لیتا رہا۔ اس کے ذمہ کچھ روپیہ باقی تھا تو یہ دفتر سے غائب ہو گیا۔ کچھ پتہ نہ تھا کہ یہ کہاں ہے چھ ماہ کے بعد اس کا منی آرڈر اور خط پہنچا۔ جس میں اس نے لکھا کہ وہ ذاتی حالات سے مجبورہو کر چلا آیا اور وہ رقم واپس کی جاتی ہے جو اس کے ذمہ ماہوار ایڈوانس تھی ۔ اس کا ایسا کرنا اس کے بلند کریکٹر ہونے کا ثبوت تھا۔ ورنہ راقم الحروف کو نہ تو رقم یاد تھی اور نہ ہی اس کا کوئی پتہ ہی معلوم تھا۔ احمدیوں اور راقم الحروف کے تعلقات صرف اس حد تک جاری تھے۔ کیونکہ مجھے آج تک کبھی قادیان جانے کا اتفاق نہیں ہوا حالانکہ یہ میری ہمیشہ خواہش رہی کہ میں ان کے ہیڈکوارٹر کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ ان معمولی تعلقات کی موجودگی میں احمدی حضرات کئی بار ظلم کا شکار ہوئے۔ اور ’’ریاست‘‘ نیظلم کے خلاف آواز پیدا کرنا اپنا فرض اور ایمان سمجھا کیونکہ ’’ریاست‘‘ ظلم کے خلاف آواز پیدا کرنے کے لئے عالمِ وجود میں آیا تھا اور خدا کا شکر ہے کہ وہ اپنے آخری لمحوں تک اپنے اس شعار پر قائم رہا چنانچہ جوں جوں ان پر کئے جا رہے مظالم کے خلاف ’’ ریاست‘‘ میں آواز پیدا کی جاتی میرے اور ان کے درمیان اخلاص کے تعلقات زیادہ ہوتے چلے گئے ان کے بعض لیڈروں سے خط و کتابت بھی ہوا کرتی۔ اور میری خواہش تھی کہ اگر میں کبھی پاکستان جاؤں تو اس نئی آبادی ربوہ کو بھی دیکھوں جہاں کہ یہ لوگ قادیان سے تباہ ہو کر بطور مہاجر آباد ہوئے ہیں۔ میں نے جب پاکستان جانے کا قصد کیا تو دوسرے دوستوں کے علاوہ ایک احمدی بزرگ گیانی عباد اﷲ( جو سکھ مذہب اور سکھ تاریخ پر ایک اتھارٹی تسلیم کئے جاتے ہیں)کو بھی لکھا کہ اگر ممکن ہوا اور میں گوجرانوالہ اور اپنے سابق وطن حافظ آباد گیا۔ تو دو تین گھنٹہ کے لئے ربوہ بھی آؤں گا۔ کیونکہ پنڈی بھٹیاں کے راستہ حافظ آباد سے ربوہ زیادہ دور نہیں ۔
میں ۲۰؍فروری ۱۹۶۰ء کی رات کو پاکستان کے لئے دہلی سے روانہ ہوا۔ اور ۲۱؍ کی دوپہر کو لاہور پہنچا۔ تو ۲۳؍فروری کو گیانی عباد اﷲ مجھ سے ملنے کے لئے لاہور نیڈوز ہوٹل میں آئے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ میں ان کے ساتھ ربوہ چلوں ۔ مگر میں نے کہا کہ میں کل کراچی جا رہا ہوں۔ وہاں سے واپس ہونے کے بعد ربوہ ضرور آؤں گا۔ میرے پاکستان کے دورہ کے حالات بہت ہی طویل اور دلچسپ ہیں۔ جو اس اخبار کے دس پندرہ صفحات سے کم جگہ میں نہیں آ سکتے اس لئے میں ان حالات میں سے اب صرف وہ لکھتا ہوں جس کا تعلق احمدی جماعت کے دوستوں سے ہے۔
میں جب کبھی بمبئی‘کلکتہ یا کسی دوسرے شہر میں جاتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ میری موجودگی کا میرے دوستوں کو علم نہ ہو اور میں آخری روز تمام دوستوں سے مل لیا کرتا ہوں چنانچہ میں جب کراچی پہنچا تو میں نے انتظام کیا تھا کہ میں ایسی جگہ قیام کروں جس کا کسی کو علم نہ ہو حالانکہ وہاں سے حضرت جوش ملیح آبادی وغیرہ درجنوں نے زور دیا تھا کہ میں جب کبھی وہاں جاؤں تو ان کے ہاں قیام کروں کراچی میں ایک پوشیدہ جگہ پر قیام کرنے کے بعد میں پہلے ر وز حضرت جوشؔ ملیح آبادی صاحب اور بھیا احسان الحق سے ملا۔ کیونکہ ان سے نہ ملنے کی صورت میں مجھے ذہنی کوفت محسوس ہوتی ان سے ملنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ اور لوگوں کو بھی کراچی میں میری موجودگی کا علم ہو گیا جمعہ کے روز کراچی کی احمدیوں کی مسجد میں جب نماز ہو چکی تو ایک احمدی نے دوسرے احمدی سے ذکر کر دیا کہ دیوان سنگھ کراچی میں ہے یہ بات چیت شیخ اعجاز احمد ( جو آج کل وہاں غالباً یونائٹڈ نیشنزکے فود ڈیپارٹمنٹ میں کسی اعلیٰ عہدہ پر ہیں اور دوہزار روپیہ کے قریب تنخواہ پاتے ہیں) نے بھی سُن لی انہوں نے پوچھا کہ دیوان سنگھ کہاں ہے تو اطلاع دینے والے نے کہا کہ اس کا اسے کچھ علم نہیں شیخ اعجاز احمد اور ان کے دو تین دوستوں نے کار میں میری تلاش شروع کی۔ یہ دو گھنٹہ کے قریب مختلف جگہوں سے دریافت کرتے رہے اور آخر ان کو غالباً مسٹر ظفر احمد ( جو پاکستان کے تمام دورہ میں میرے ساتھ تھے) کے گھر سے علم ہوا ۔ کہ میں فلاں بلڈنگ میں مقیم ہوں۔ چنانچہ یہ حضرات وہاں پہنچ گئے اور کچھ عرصہ بات چیت کرنے کے بعد انہوں نے خواہش کی کہ میں احمدی جماعت کے ہیڈکوارٹر میں ان کے ساتھ چائے پیئوں۔ میں نے بہت کوشش کی اور بار بار کہا کہ میں دن کے وقت کچھ نہیں کھایا کرتا مگر یہ نہ مانے اور شام کو مسٹر نذیر مجھے اپنی کار میں وہاں لے گئے۔ اس پارٹی میں پاکستان کی مرکزی گورنمنٹ کے ایک درجن کے قریب بڑے بڑے حکام موجود تھے کیونکہ احمدیوں میں آپس میں بہت ہی محبت اور اخلاص ہے ۔چائے کی میز پر مختلف باتیں ہوتی رہیں اور یہ پُر لطف صحبت ایک گھنٹہ کے قریب جاری رہی اور اس کے بعد میں جتنے روز کرچی میں رہا مسٹر نذیر کی کار میرے لئے وقف رہی۔اس کے اگلے روز میں اپنے ایک مرحوم احمدی دوست سید انعام اﷲ شاہ ایڈیٹر’’دور جدید‘‘ کے گھر گیا۔ وہاں مرحوم کی بیوی اور ایک لڑکی طلعت موجود تھیں۔ یہ لڑکی ایم اے میں پڑھتی ہیں۔ میرا وہاں خلاف توقع پہنچنا ان کے لئے انتہائی حیرانی اور مسرت کا باعث ہوا۔ کیونکہ ان کو علم نہ تھا کہ میں کراچی میں ہوں۔ مرحوم سید انعام اﷲ شاہ کی یہ لڑکی بہت ہی ذہین ہے مرحوم کی دو لڑکیاں شادی شدہ ہیں۔ وہ اپنے سسرال میں تھیں اور لڑکا محمود انعام سرکاری ملازم ہے وہ اپنے دفتر تھا۔ یہ ماں بیٹی ایسی مسرت محسوس کر رہی تھیں جیسے ان کو کوئی گمشدہ شے مل گئی ہو مجھے وہاں بیٹھے ابھی دو تین منٹ ہوئے تھے اور مرحوم انعام اﷲ شاہ کے اخلاص اور محبت کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں ۔ تو طلعت دوسرے کمرہ میں گئی اور وہاں پھلوں کا رس اور خشک اور تازہ پھل جمع کرنے میں مصروف ہو گئی اور یہ تمام سامان ایک چھوٹی میز پر لے آئی میں دن کو کچھ نہیں کھایا کرتا۔ اس روز یکم رمضان تھی اور پہلا روزہ تھا میں نے مذاقاً کہا ’’ تم روزہ داروں کے روزہ توڑنے کے گناہ کی مرتکب اور معاون ہو رہی ہو‘‘۔ لڑکی کھل کھلا کر ہنس پڑی۔ میں نے پھلوں کا رس پی لیا اور تھوڑی دیر بیٹھ کر اور باتیں کر کے واپس چلا آیا۔ رات کو جب دوستوں سے ملنے کے بعد اپنی قیام گاہ پر پہنچا تو مجھے ظفر صاحب نے بتایا کہ شام کو محمود انعام اپنے گھر پہنچے اور ان کو میرے آنے کا علم ہوا تو وہ اپنی دوسری بہنوں کے ساتھ قیام گاہ پر ملنے آئے تھے اور یہ بغیر ملے واپس جانا نہ چاہتے تھے مگر ظفر صاحب سے اس حلفیہ وعدہ پر کہ یہ مجھے ان کے مکان پر پھر لائیں گے وہ واپس چلے گئے۔ میں اگلے روز مغرب کے بعد پھر ان کے مکان پر گیا۔ ظفر میرے ساتھ تھے میں نے اطلاع کرنے کے لئے ظفر صاحب کو اوپر بھیجا۔تو تینوں لڑکیاں اور محمود بھاگ کر نیچے آ گئے یہ مجھے اپنے ساتھ اوپر لے گئے وہاں ایک لڑکی کے شوہر بھی موجود تھے ڈیرھ گھنٹہ کے قریب دلچسپ باتیں ہوئیں۔ ان لوگوں نے جس اخلاص اور محبت کا سلوک کیا۔ اسے میں زندگی میں کبھی بھول نہ سکوں گا۔
۲۸ ؍اور ۲۹؍فروری کو دوستوںسے ملتا رہا اور یکم مارچ کی شام کو چناب ایکسپریس میں ربوہ کے لئے روانہ ہوا۔ کیونکہ یہٹرینکراچی سے سیدھی ربوہ جاتی ہے۔ یہ گاڑی شام کے وقت لائلپور پہنچی۔ وہاں گیانی عباد اﷲ موجود تھے میں ان کے اور ظفر صاحب کے ہمراہ مغرب کے وقت ربوہ سٹیشن پر پہنچا وہاں دو سو کے قریب طلباء اور دوسرے دوست اور معترف موجود تھے یہ مجمع میرے لئے خلاف توقع تھا۔ کیونکہ میں ایسے مجمع کا عادی نہیں ہوں اور میں تمام زندگی ہی تنہائی میں لطف محسوس کرتا رہا ہوں۔ سٹیشن سے کار میں گیسٹ ہاؤس پہنچا۔ وہاں احمدی جماعت کی کئی اہم شخصیتیں میری منتظر تھیں۔ ان سے ملا۔ ان تمام دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد چند طلباء آئے۔ اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ کل میں ان کے سامنے تقریر کروں میں نے ان سے کہا کہ میں لیڈر کلاس میں سے نہیں ہوں نہ تو کبھی تقریر سننے جاتا ہو ں اور نہ زندگی میں کبھی کوئی تقریر کی۔ اور میں تو صرف ایک جنرنلسٹ ہوں۔ مگر آپ لوگوں سے ملنے آپ کے کالج ضرور آؤں گا۔ رات کو آرام سے سویا۔ صبح پانچ چھ بجے کے قریب اذان ہوئی میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی ایسی خوش الحانی کے ساتھ اذان نہ سنی تھی۔ چنانچہ میں نے صبح ایک دوست سے یہ دریافت کیا۔ کہ کیا اذان دینے والا عرب تھا۔ یا پاکستانی۔ تو معلوم ہوا کہ مؤذن ربوہ کا ہی ایک پاکستانی ہے نو بجے تک غسل وغیرہ سے فارغ ہوا۔ تو کا ر آ گئی۔ اور مجھے بتایا گیا کہ مجھے مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں ناشتہ پر جاناہے اس کار میں ان کے ہاں گیا۔ وہاں ایک درجن کے قریب احمدی لیڈر موجود تھے اور سب کے سب روزہ میں تھے اور صرف میں ہی روزہ سے محروم تھا۔ناشتہ کے لئے کئی اقسام کی اشیاء موجود تھیں۔ مگر میں دن کے وقت کچھ نہیں کھایا کرتا ۔ صرف ایک پیالی چائے پی۔ یہ لوگ محبت اور اخلاص کے مجسمہ ہیں مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے ان سے مذاقاً کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی جماعت کے لوگوں نے میرے خلاف ایک سازش کر رکھی ہے۔ اور آپ لوگوں نے فیصلہ کیا ہے۔ کہ آپ مجھے بغیر احمدیت کا کلمہ پڑھا نیکے واپس دہلی نہ جانے دیں گے کیونکہ لاہور کراچی میں احمدیوں کی محبت اور اخلاص کا شکار رہا۔ اور اب یہاں بھی یہی کیفیّت ہے ۔ یہاں باتیں کرنے اور ان کی محبت کا شکار ہونے کے بعد دوستوں کے ساتھ احمدی جماعت کے پیشوا حضرت صاحب کے مکان پر گیا۔ کیونکہ وہاں ساڑھے نو بجے کا وقت ملاقات کے لئے مقرر تھا۔ پرائیویٹ سیکرٹری کے کمرہ میں چند منٹ بیٹھنے کے بعد اوپر کی منزل میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ لیٹے ہوئے تھے اور بیمار تھے۔ انہوں نے انتہائی اخلاص اور محبت کے جذبات سے میرے وہاں جانے پر مسرت کا اظہار کیا۔ اور میں نے کہا کہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں آپ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہاں چند منٹ حاضری دینے کے بعد جب میں زینہ سے اُتر رہا تھا۔ تو ایک صاحب ایک تحفہ لائے جو پیکٹ کی صورت میں تھا۔…اور اس پیکٹ میں ایک رومال جرابوں کا ایک جوڑہ اور عطر کی ایک شیشی تھی یہ تحفہ میجر حبیب اﷲ شاہ صاحب کی بھتیجی کی طرف سے مجھے بھجوایا گیا تھا۔ جو میجر صاحب موصوف کے ساتھ میرے دیرینہ اور مخلصانہ مراسم کی بناء پر تھا۔
اس ملاقات سے فارغ ہونے کے بعد ہم لوگ کالجوں میں گئے کیونکہ وہاں طلباء منتظر تھے سب سے پہلے تبلیغی کالج کے ہال میں پہنچے مائیکر و فون پر میرا تعارف کرایا گیا۔ جس کیلئے میں نے شکریہ ادا کیا ۔اس کالج میں غیر ممالک میں بھیجنے کیلئے مبلغ تیار کئے جاتے ہیں اور طلباء میں کئی غیر ممالک مثلاًافریقہ اور جرمنی کے نوجوان بھی ہیں جو بے تکلف اردو بول سکتے تھے۔ ان طلباء نے مختلف قسم کے سوالات شروع کر دیئے۔مثلاً میں نے اخبار کیوں بند کر دیا۔ کتنے برس اخبار جاری رہا ۔ پاکستان کے متعلق کیا رائے ہے۔ کتنے روز پاکستان میں قیام ہو گا۔ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے ۔’’ہندوستان میں اردو زبان کا مستقبل کیسا ہے وغیرہ۔ میں ان سوالات کا جواب دیتا رہا تو ایک طالب علم نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ احمدی مذہب کیوں قبول نہیں کرتے‘‘اس سوال کا جواب تو میں نے یہ دیا کہ میں نے اس مسئلہ پر آج تک کبھی غور نہیں کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میری تو دعا ہے کہ خدا آپ کو بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں کامیابی نصیب نہ کرے اور اس دعا کی وجہ یہ ہے کہ احمدی جماعت میں جتنے نیک اور مخلص لوگ ملتے ہیں۔ دوسرے کسی مذہب میں نہیں مل سکتے اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ اس جماعت کا حلقہ محدود ہے اور میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کی تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجہ کے طور پر جب اس جماعت کو بھی بہت زیادہ وسعت نصیب ہو گی تو اس میں بھی بُرے لوگ شامل ہو جائیں گے۔ جیسے دوسرے بڑے مذاہب میں شامل ہیں۔ یعنی زیادہ کپوتوں کے مقابلہ پر چند سپوت زیادہ قابل قدر ہیں یا دوسری مثال یہ ہے کہ جب میں کسی چھوٹے سے خوبصورت اور معصوم بچہ کو دیکھتا ہوں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ یہ بچہ کبھی بھی بڑا نہ ہو۔ کیونکہ بڑا ہونے کی صورت میں یہ اپنے حسن اور اپنی معصومیت سے محروم ہو جائے گا۔ میرے اس جواب کو سن کر تمام لڑکے ہنس پڑے……اس تبلیغی کالج کے بعد میںدوسرے کالجوں میں گیا کیونکہ وہاں کے طلباء بھی میرے منتظر تھے وہاں اسی قسم کے سوالات ہوتے رہے اور میں جواب دیتا رہا۔ ایک بجے تک ان کالجوں میں رہا۔ ان سے فارغ ہونے کے بعد روزنامہ اخبار الفضل کے دفتر میں گیا کیونکہ اپنی صحافتی برادری کی حاضری بھی ضروری تھی ڈیڑھ بجے کے قریب ہم لوگ واپس گیسٹ ہاؤس پہنچے۔ وہاں کھانا تیار تھا۔ میں نے اور ظفر صاحب نے کھانا کھایا کیونکہ انکار کرنا مناسب نہ تھا۔ تین بجے کے قریب ہم لوگ ربوہ سے روانہ ہوئے۔ کار میں گیانی عباد اﷲ کے علاوہ ربوہ کے ایک دوسرے احمدی اور حافظ آباد کے ایک زمیندار احمدی تھے جو مجھے لینے کیلئے میرے وطن حافظ آباد سے ربوہ آئے تھے راستہ میں بہت دلچسپ باتیں ہوتی رہیں شام کو چھ بجے کے قریب ہم لوگ حافظ آباد پہنچے وہاں دو گھنٹے کے قریب قیام کیا اور پاسپورٹ کی خانہ پوری کرائی۔ نو بجے کے قریب ہم گوجرانوالہ پہنچے اور گیارہ بجے نیڈوز ہوٹل چھوڑنے کے بعد گیانی صاحب وغیرہ واپس ربوہ چلے گئے۔
ربوہ بہت وسیع علاقہ میں تعمیر کیا جا چکا ہے اور صرف دس برس کے عرصہ میں اتنے بڑے قصبہ یا شہر کا آباد ہونا ایک تعجب خیز امر ہے۔ کیونکہ احمدی جماعت کے لوگ عام طور پر غریب یا درمیانہ حیثیت کے ہیں جو اٌنی ضر وریات کی پروانہ کرتے ہوئے بھی اپنی فدا ہونے والی قابل قدر سپڑت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی جماعت کی خدمت کرنا اپنا ایمان اور فرص سمجھتے ہیں اور یہی سپرٹ احمدیت کے مذہبی جھنڈے کو ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ اکثر ممالک میں بھی بلند کرنے کا باعث ہے‘‘۔ ۴۱
آخری تین سورتوں کی پُرمعارف دعائیہ تفسیر
اس سال رمضان کے بابرکت ایام میں بیت
مبارک ربوہ میں حسب سابق پورے قرآن مجید کے جس خصوصی درس کا اہتمام کیا گیا تھا اس میں سورۂ احقاف سے سورۃ الناس تک درس حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے (آکسن) نے دیا۔ 28؍مارچ 1960ء مطابق 29؍رمضان المبارک 1379ھ کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے قرآن مجید کی آخری تین سورتوں یعنی سورۃالاخلاص‘ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی ایسی پُر معارف دعا ئیہ تفسیر بیان فرمائی کہ جسے سنکر سامعین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کی بیان فرمودہ یہ تفسیر اُن جامع دعاؤں پر مشتمل تھی جوان سورتوں سے مستنبط ہوتی ہیں۔ قرآن مجید روحانی علوم و معارف کے ایک
بحرِ ناپید اکنار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان تین سورتوں میں جو دعائیں سکھائی ہیں ۔ ایک ہی وقت میں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم یہ دعائیہ تفسیر مختصر ہونے کے باوجود اپنی ذات میں اس قدر لطیف اور جامع ہے کہ اس میں قریب قریب وہ تمام جماعتی دعائیں آجاتی ہیں جن سے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے افراد کو ان سورتوں میں بیان کردہ مضامین کے پیش نظر اپنی زبانوں کو ہر وقت تَر رکھنا چاہیئے۔ تا خدائی افضال اور رحمتوں کے وہ مورد بنے رہیں اور وہ روحانی انقلاب جس کا خدا نے وعدہ فرمایا ہے جلد دنیا میں ظاہر ہو کر دین حق کو پورے کرہ ارض پر غالب کر دے۔ یہ دعائیہ تفسیر درج ذیل الفاظ میں تھی۔
’’اے ہمارے اﷲ! اے ہمارے ربّ! تُو ازلی ابدی خدا ہے خالق و مالک اور حيّ و قیوم ہے۔ تُو اپنی ذات میں اکیلا اور منفرد ہے۔ ذات اور صفات میں کوئی تیرا ہمتا اور ہمسر نہیں۔ حقیقی مُحسن تُو ہی ہے اور تُو ہی سب تعریفوں کا حقیقی مستحق ہے۔ تُو بلند درجات والا اور غیر محدود ہے۔ تیری غیر محدود نعمتیں تیری اَن گنت مخلوق پر ہرآن اور ہر لحظہ جاری ہیں۔ تیرے قُرب کے دروازے غیر محدود ہیں۔ کوئی مقامِ قُرب ایسا نہیں جس سے آگے قرب کا کوئی اور مقام نہ ہو۔
اے صمد خدا! تو کسی کا محتاج نہیں اور سب مخلوق تیری محتاج ہے۔ ہم بھی تیرے ہی محتاج ہیں اور تیرے ہی سامنے اپنی ضرورتوں اور احتیاجوں کو پیش کرتے ہیں۔ اے لم یلد خدا!اے لم یولد خدا !تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ تُو نے اپنی صفات کسی سے ورثہ میں حاصل نہیں کیں اور نہ کوئی اور اِن صفات کو تجھ سے ورثہ میں حاصل کریگا۔ کوئی ہستی اور کوئی وجود تیرا مماثل اور مشابہ نہیں۔ اپنی ذات اور اپنی صفات میں تو یکتا ہے۔
اے ہمارے خدا !جوواحد و یگانہ ہے اے ہمارے ربّ جو ازلی اور ابدی ہے تُو نے ہی محمدؐ رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کو ایک کامل اور مکمل شریعت دیکر دُنیا کی طرف بھیجا ہے۔ تُو نے ہی آپکو روحانی دُنیا کے لئے سورج بنایا ہے۔ ہم تیرا واسطہ دے کر تجھ سے ہی یہ دعا کرتے ہیں کہ تُو ہمیں اپنی اس روشنی کی سب برکتوں سے مالا مال کر۔ اے خدا روحانی علوم کے یہ دریا اور دنیوی ترقیات کی یہ فراوانی ہمیں خودپسندی کی طرف نہ لے جائے اور عیش و عشرت میں نہ ڈبودے۔ اے خدا ! ہم پر ایسا فضل کر کہ جس طرح تُو اپنے سورج کو آہستہ آہستہ اور تبدریج نصف النہارتک لے جا رہا ہے۔ ہم بھی تیری صفتِ ربوبیت کے ماتحت آہستہ آہستہ اور بتدریج روحانی کمالات تک پہنچتے رہیں۔ اے خالق خدا‘ خیرو برکات کے جو سامان تُو نے پیدا کئے ہیں انسان اپنی غفلت اور سستی کی وجہ سے ان میں سے اپنے لئے کبھی شر کے سامان بھی پیدا کر لیتا ہے۔ اے خدا ‘ تو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے فضل اور تیری ہی رحمت سے ہر شر سے محفوظ رہیں اے خالق و مالک خدا دنیا والے آج دنیوی سہاروں اور دنیاوی سامانوں پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ اے ہمارے ربّ ‘ تُو ہماری پناہ بن جا‘ تُو ہمارا ملجا ہو جا‘ ہمارابھروسہ تیرے سوا اور کسی پر نہیں۔ اے خدا تُو نے اپنے قرآن میں نفع کی ہر بات اور ترقی کا ہر اصول رکھا ہے۔ تُو ہی ہمیں توفیق دے کہ ہم قرآنی تعلیم کو کبھی نہ چھوڑیں ‘ تا ایسا نہ ہو کہ یہ دونوں جہان ہمارے لئے جہنم بن جائیں۔
اے ہمارے ربّ ! تیرا مسیح ثریا سے ہمارے لئے علومِ قرآنی لے کر آیا اور تیرے خلیفہء اول نے ہمیں ان علوم کے سِکھانے میں اپنی زندگی بسر کی۔ اے خدا تیرے ہزاروں ہزار صلوٰۃ اور سلام ہوں ان پر۔ اور اے خدا تیرے خلیفہء ثانی نے تجھ سے الہام پا کر تیرے قرآن کے علوم کو سیکھا‘ اور دن رات ایک کر کے اور اپنے آرام کی گھڑیوں کو قربان کر کے علومِ قرآنی کے ان خزانوں سے ہماری جھولیاں بھریں اور ہمارے دل کو ان سے منوّرکیا۔ اے خدا‘ آج وہ بیمار ہیں اور ہم بے بس‘ مگر تُو تو شافی اور کافی خُدا ہے‘ تجھے تیرے ہی منہ کا واسطہ تُو ہمارے پیارے امام کو شفا دے اور بیماری کا کوئی حصّہ باقی نہ رہنے دے۔ آپ کی زندگی میں برکت ڈال اور آپ کی قیادت اور رہنمائی میں دنیا کے کناروں تک اپنے دین کی اشاعت کی ہمیں توفیق بخش اور ہم میں سے جو افراد اس وقت آپ کی خدمت کر رہے ہیں ان پر بھی اپنا فضل اور رحمت نازل فرما۔
اے محسن خدا! تُو نے ہی افراط و تفریط کی دو پہاڑیوں کے درمیان (دین حق) جیسا خوبصورت میدان بنایا ہے۔ اے خدا‘ ایسا کر کہ ہم (دین حق )کی تعلیم سے کبھی منحرف نہ ہوں ‘ ہمارا قدم اس میدان سے کبھی باہر نہ نکلے۔اے ہمارے ربّ ! روحانی فیوض تُو نے ہم پر موسلادھار بارش کی طرح برسائے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہی روحانیت ہم میں کبرونخوت کے جذبات پیدا کر کے ہمارے لئے ہلاکت کا باعث بن جائے۔ اے خُدا ‘ تو نے آسمان سے دودھ اتارا ہے۔ اے خُدا ہمارے پیالے اس دودھ سے ہمیشہ بھرے ہی رہیں۔ اے ہمارے ربّ‘ اُن وعدوں کے مطابق جو تو نے اپنے رسُول صلی اﷲ علیہ وسلّم سے کئے تھے تو نے اپنی تقدیر کی تاروں کو ہلانا شروع کیا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ( دین حق )کی لائی ہوئی تعلیم ساری دنیا میں پھیل جائے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلّم وسط آسمان میں سورج کی طرح چمک کر ساری دُنیا کو منّور کر دیں۔ اے خُدا ہمیں اعمالِ صالحہ کی توفیق دے ‘ ہماری دستگیری فرما اور اس روشنی سے زیادہ سے زیادہ متمتع فرما‘ اور ہمارے اُن بھائیوں کو جو تیری تعلیم کو پھیلانے کیلئے دُنیا کے کونے کونے اور ملک ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اپنی رحمتوں سے نواز‘ ان کے تقویٰ میں برکت دے۔ ان کی قلموں اور ان کی زبانوں پر اپنے انوار نازل کر اور ان کی کوششوں کو دجّال کے ہر دجَل اور شرّ سے محفوظ رکھ۔ اے خدا‘ ایسا کر کہ تیرے یہ کمزور بندے ہر فردِ بشر کے دل میں تیری توحید کی میخ اور محمد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلّم کا جھنڈا گاڑ دیں۔ اے خدا‘ اپنے فضل سے تو ایسے سامان پیدا کر کہ یہ انوار جو تیری طرف سے بنی نوعِ انسان کی ترقیات کے لئے نازل ہوئے ہیں دُنیا کی نظر سے کبھی اوجھل نہ ہوں اور تا ابد دُنیا کے ہر گھرا اور ان گھروں کے سب مکینوں کے دلوں سے لا الہ الّا اﷲ محمد رسُول اﷲکا نعرہ بلند ہوتا رہے۔ اے قدیر و حکیم خُدا‘ جس طرح تُو نے اپنے مسیح کے لئے چاند اور سورج کو گرہن لگایا ہے ایسا ہو کہ اسی طر ح تمام مذاہب باطلہ کے نقلی سورجوں اور چاندوں کو بھی گرہن لگ جائے۔
اے ہمارے رب! تو ہمیں مسیح موعود علیہ الصّلٰوۃ و السلام کے مددگاروں میں سے بنا اور اُن آفات اور عذابوں سے ہمیں ہمیشہ بچا جو آپ کے مخالفوں کے لئے مقدر ہو چکے ہیں۔ اور شرک اور بدعت اور ظلم کی ہر قید و بند سے ہمیں ہمیشہ محفوظ رکھ۔ اے خدا ہمیں نیکی اور تقویٰ پر ہمیشہ قائم رکھ اور بد خصلت وساوس پیدا کرنے والوں سے ہمیں ہمیشہ پناہ دے تا ہمارا بیعت کا تعلق اور غلامی کا رشتہ جو ہم نے تیرے رسول ‘ تیرے مسیح‘ اور تیرے خلفاء سے باندھا ہے وہ ہمیشہ مضبوطی سے قائم رہے۔
اے خدا! ہمارے بیماروں کو شفا دے‘ ہمارے کمزوروں کو طاقت بخش ‘ ہمارے غریبوں کو مالدار بنا‘ ہمارے ضرورتمندوں کی ہر ضرورت کو پورا کر اور ہمارے جاہلوں کی جھولیاں دینی اور دنیوی علوم سے بھر دے ۔ اے خُدا‘ ابتلاؤں میں ہمیں ثابت قدم رکھ اور کامیابیوں میں ہمیں مزاج کے منکسر اور طبیعت کے غریب بنا اے خدا تیرے اور تیرے رسُولؐ کے خلاف نہایت گندہ اور مکروہ اور ناقابل برداشت لٹریچر شائع ہو رہا ہے ہمیں اور ہماری نسلوںکو اس فتنہ سے محفوظ رکھ اور اس کے خلاف قلمی اور لسانی جہاد کی ہمیں توفیق دے اور اس میں ہمیں کامیاب فرما۔ اے خدا‘ ایسا نہ ہو کہ حاسدوں کی کوششیں ہمارے قومی شیرازہ کو بکھیر دیں اور ہم میں لا مرکزیت آ جائے۔ اے خدا‘ حاسد اپنے حسد میں جلتے ہی رہیں۔ ہمارا قومی شیرازہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلاجائے اور ہمارا مرکز تاابد بنی نوع انسان کی بھلائی اور خدمت کا مرکز بنا رہے۔ اے خدا‘ ہمارا قادیان ہمیں جلد کامیابی و کامرانی کے ساتھ واپس دلا۔ اے ہمارے اﷲ ! اے ہمارے رب! ہم تیرے ہی آستانہ پر جھکتے ہیں ‘ تجھ پر ہی ہمارا توکل ہے تو ہی ہمارا سہارا ہے‘ ہمیں بے سہارا نہ چھوڑیو یارب العالمین‘‘۔ ۴۲
فضل چہارم
جماعت احمدیہ کو حقیقی عید منانے کی تحریک
۲۹؍مارچ ۱۹۶۰ء کو حضرت مصلح موعود نے خطبہ عید الفطر کے دوران
دنیائے احمدیت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ۔
’’احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلے اﷲ علیہ وسلم عید کے موقعہ پر عیدگاہ میں آتے اور جاتے ہوئے اور پھر عیدگاہ میں تشریف رکھتے وقت بھی بڑی کثرت کے ساتھ یہ تکبیر پڑھا کرتے تھے کہ
اﷲ اکبر۔ اﷲ اکبر۔ لا الہ الا اﷲ و اﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد
رسول کریم صلے اﷲ علیہ وسلم کی یہ سنّت بتاتی ہے کہ مومنوں کی حقیقی عید اﷲ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کی عظمت کے بیان کرنے میں ہی ہے۔ پس اگر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عظمت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس کے نام کو پھیلادیں۔ اس کی بڑائی کو ثابت کر دیں۔ اور اپنی تمام کوششیں اور مساعی اس غرض کے لئے وقف کر دیں۔ کہ خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو۔ تو یقینا ہماری عید حقیقی عید کہلا سکتی ہے۔ لیکن اگر ہمیں اپنے فرائض کا احساس نہ ہو۔ اور خدا تعالیٰ کی توحید کی اشاعت اور اس کی عظمت کے قیام کے لئے اسلام جن قربانیوں کا ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ ان قربانیوں کے میدان میں ہمارا قدم سُست ہوتو پھر ہماری عید صحیح معنوں میں عید نہیں کہلا سکتی۔ پس آج میں اپنی جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اس عید کو حقیقی رنگ میں منانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اس ظاہری عید کو اُس عظیم الشان روحانی عید کے حصول کا ایک ذریعہ بنانا چاہیئے جس میں ساری دنیا خدا تعالیٰ کی بڑائی کی قائل ہو جائے اور (دین حق ) کے نیچے جمع ہو جائے اگر دنیا میںخدا تعالیٰ کی بڑائی قائم نہ ہو ۔ تو ہماری عید کوئی عید نہیں۔ لیکن اگر اس کی بڑائی قائم ہو جائے۔ اور دنیا محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو جائے۔ تو اسی میں ہماری حقیقی عید ہے‘‘۔ ۴۳
جامعہ احمدیہ کی نئی
عمارت کا سنگ بنیاد
جامعہ احمدیہ کا مرکزی ادارہ عرصہ سے ایک ایسی وسیع اور شایان شان عمارت سے محروم تھا جو اُس کی ضروریات کو صحیح رنگ میں پورا کر سکے ۲۹؍مارچ
۱۹۶۰ء کوعیدالفطر کی پُر مسرّت تقریب کے موقع پر ہی ۵بجے شام اس عظیم الشان درسگاہ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔جس میں رفقائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر بزرگانِ سلسلہ کے علاوہ صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے ناظر و وکلاء صاحبان۔افسران صیغہ جات ‘ ربوہ کے تعلیمی اداروں کے ممبران۔ اسٹاف اور بہت سے دیگر مقامی احباب شامل تھے۔ سب سے پہلے حضرت مولاناغلام رسول صاحب راجیکی نے قادیان کے مقامات مقدسہ کی ایک اینٹ اپنے ہاتھ میں لے کر اس پر دیر تک دعا کی۔ دعا کے دوران آپ کی زبان پر یہ شعر جاری ہوا۔
؎
ما غریباں خاک بوسانِ حرم
ایں چنیں برکات کے یا بدامم
دعا سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے اس اینٹ کو بنیاد میں اپنے ہاتھ سے نصب فرمایا آپ کے بعد بعض اور ممتاز رفقاء اور دیگر بزرگانِ سلسلہ نے اینٹیں نصب کیں۔ ان میں حضر ت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے (آکسن) پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ‘حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ ‘حضرت قاضی محمد عبداﷲصاحب‘حضرت ڈاکٹر حشمت اﷲ خاں صاحب اور حضرت سیّد زین العابدین ولی اﷲ شاہ صاحب شامل تھے۔ ان اصحاب کے علاوہ میاں عبدالرحیم احمد صاحب وکیل التعلیم ‘ سیّد میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ اور اساتذہ جامعہ میں سے ماسٹر عطا محمدصاحب اور صاحبزادہ ابوالحسن صاحب قدسی ابن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے بھی ایک ایک اینٹ رکھی۔ مزید براں جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبہ کو بھی بنیاد میں اینٹیںرکھنے کا موقع دیا گیا۔ چنانچہ جن طلباء کے حصہ میں یہ سعادت آئی ان میں غانا مغربی افریقہ کے عبدالوہاب بن آدم صاحب ابراہیم محمد مینو صاحب اور مشرقی افریقہ کے یوسف عثمان صاحب۔ ابوطالب صاحب ۔ عمر جمعہ صاحب۔ احمد قادری صاحب اور چین کے محمد عثمان صاحب شامل تھے۔ بعد ازاں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے اجتماعی دعا کرائی۔ جس میں جملہ حاضرین شامل ہوئے دعاسے فارغ ہونے کے بعد جامعہ کی طرف سے تمام حاضرین کی خدمت میں شیرینی پیش کی گئی۔ ۴۴
سنگ بنیاد کے ایک ماہ بعد اساتذہ جامعہ کا ایک وفد کوئٹہ بھجوایا گیا تا اس عمارت کے لئے عطیات کی تحریک کر ے۔ کوئٹہ کے مخلصین نے اس پر نہایت گرمجوشی سے لبیک کہا علاوہ ازیں مرزا محمد امین صاحب آف کوئٹہ نے بعد میں ایک گرانقدر رقم بھجوائی جس کا خصوصی ذکر پرنسپل جامعہ احمدیہ سید داؤد احمد صاحب نے الفضل ۳۰؍اکتوبر ۱۹۶۰ء میں فرمایا ۴۵
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا
خطبہ صدارت جلسہ تقسیم انعامات میں
۳۰؍مارچ ۱۹۶۰ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے جلسہ تقسیم انعامات کی ایک
پُر وقار تقریب شام چار بجے سکول کی عمارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں سکول کے طلبہ اور اسٹاف کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے ناظر و وکلا ء صاحبان ‘افسران صیغہ جات اور ربوہ کے تعلیمی اداروں کے ممبران اسٹاف نے بھی شرکت فرمائی علاوہ ازیں تحصیل چنیوٹ کے مقامی افسران اور دور و نزدیک کے متعدد ہائی سکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ایڈیشنل چیف سیکرٹری حکومت مغربی پاکستان تشریف لائے اور کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے۔تلاوت و نظم کے بعد سکول کے ہیڈماسٹر میاں محمد ابراہیم صاحب نے سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ہر میدان میں سکول کی روز افزوں ترقی پر روشنی ڈالی۔ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے اپنے خطاب میں سکول کی رفتار ترقی پر اظہار اطمینان کے رنگ میں فرمایا۔ میں تین باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اس سکول کے قیام اور اجراء سے قبل اور بہت سے ہائی سکول موجود تھے ہم دیکھتے ہیں اس کے باوجود اس سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ اس سکول کے قیام کی ایک خاص غرض اور ایک خاص مقصد تھا۔ وہ غرض یہ تھی کہ اس سکول میں طلبہ کو دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جائے تاکہ وہ صحیح معنوں میں دیندار بنیں اور اچھے شہری ثابت ہوں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ یہ غرض کماحقہ پوری ہوتی رہے اور اسے ہمیشہ ہی عام تعلیمی مقاصد پر نمایاں فوقیت حاصل رہے۔ اس غرض کو پورا کرنے سے ہی سکول اپنے خصوصی امتیاز کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ سکول کے قیام کی بنیادی غرض کو مقدم رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ عام تعلیمی مقاصد کو وہ اہمیت حاصل نہ ہو۔ جو انہیں لازمی طور پر حاصل ہونی چاہیئے۔ جس بنیادی غرض کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ اس کا لازمی اقتضا اور نتیجہ یہ ہونا چاہیئے کہ عام تعلیمی مقاصد کے حصول میں بھی تمام دوسرے سکولوں سے اس کا قدم آگے ہو۔ یعنی جن تعلیمی مقاصد کا حصول بلااستثناء تمام سکولوں کے درمیان باہم مشترک ہے ان میں بھی یہ سکول دوسروں کے بالمقابل ہر لحاظ سے فضیلت حاصل کرے اور اپنی اس فضیلت کو برقرار رکھے۔
تیسری بات یہ ہے کہ موجود زمانے میں سائنس کی بے انداز ترقی کے باعث انسانی زندگی جس نہج پر استوار ہو رہی ہے اور جو نئے مسائل ابھرا بھرکر سامنے آرہے ہیں ان کے پیشِ نظر یہ بات ناگزیر ہوتی جا رہی ہے کہ تمام سکولوں میں درسی علوم کے ساتھ ساتھ فنّی تعلیم کو بھی رائج کیا جائے اور طلبہ کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نہ صرف اچھے تعلیم یافتہ بنیںبلکہ اچھے فن کار بھی ثابت ہوں۔ مثال کے طور پر سکولوں میں زراعت اور کار پینٹری وغیرہ کے شعبے بآسانی قائم کئے جا سکتے ہیں۔ اور طلبہ کو ان فنوں کی عملی تربیت دی جا سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ فنّی تعلیم کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور اہمیت کے پیشِ نظر حکومت نے گزشتہ چند سال سے فنّی تعلیم کا ایک علیحدہ ڈائریکٹر مقرر کیا ہوا ہے۔ پس ہمارے سکولوں کو وقت کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرتے ہوئے فنّی تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہیئے۔ان اہم صدارتی ارشادات کے بعد جناب صاحبزادہ صاحب موصوف نے سکول کے طلبہ میں انعامات تقسیم فرمائے۔ ۴۶
جناب جمال عبدالناصر صدر جمہوریہ
متحدہ عرب کی خدمت میں پیغام حق
جناب جمال عبدالناصر دورہ بھارت کے دوران ۵؍اپریل ۱۹۶۰ء کو مدراس تشریف لائے۔ جماعت احمدیہ
مدراس نے انہیںخوش آمدیہ کہا اور اُن کی خدمت میں تبلیغی مکتوب اور سلسلہ کی طرف سے شائع شدہ عربی انگریزی لٹریچر ارسال کیا۔ مکتوب انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔ مولانا شریف احمد صاحب امینی ان دنوں احمدیہ مسلم مشن مدراس کے انچارج تھے۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
احمدیہ مسلم مشن عزت مآب جمال عبدالناصر
اسلامک سنٹر مدراس نمبر14 صدر جمہوریہ متحدہ عرب
5؍اپریل 1960ء نزیل راج بھون۔ مدراس
برادرِ اسلام! السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ
عالیجناب کی شہر مدراس میں تشریف آوری پر ہم جماعت احمدیہ کی طرف سے خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کی خدمت میں اھلاً وَّ سھلاًمرحبا کا تحفہ پیش کرتے ہیں۔
صدر محترم! احمدیہ تحریک آپ کے لئے کوئی عجیب و انوکھی چیز نہیں۔ اس کی شاخیں اکنافِ عالم میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اور آپ کے وطن عزیز جمہوریہ متحدہ عرب میں بھی قائم ہیں۔ آنمکرم کی ہمارے وطن ہندوستان میں تشریف آوری اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ اس سے قطع نظر کرتے اور اُفق سیاسیات سے بالا ہوتے ہوئے ہماری نظریں اُس
’’ گرانبہا خدمت‘‘پر پڑرہی ہیں۔ جو دنیائے عرب نے مذہب اسلام کے ذریعہ انسانیت اور تہذیب کی انجام دی ہے۔ باقی دنیا تو آپ کی شخصیت میں صرف مصر کی سیاسی آزادی۔ جمہوریہ عرب میں اصلاحات ملکی۔ اور معرکہ سویز کی فتحیابی کو دیکھ رہی ہے۔ مگر ہماری نگاہیں آپ کی ذات میں مستقبل میں اسلام کی سربلندی اور دنیائے عرب کی ترقی کو دیکھ رہی ہیں۔ مگر ہماے اس’’ مقصد اعلیٰ ‘‘ کا حصول اُس جذبے اور ولولہ پر منحصر ہے جس کو لے کر ترقی کی شاہراہ پر چلیں گے۔ اور ہم دیانتداری سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے صرف سیاسی بیداری ہی کافی نہیں۔ بلکہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی حکومت انسانی قلوب پر قائم نہ ہو جائے دنیا کو امن و سکون نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہم آنمکرم کی خدمت میں خلوص قلب سے عرض کرتے ہیں کہ ہندوستان اور دنیائے عرب کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے۔ صرف سیاسی حیثیت سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ پھر ہم اپنے ’’خدا‘‘ کو پا لیں۔
اس زمانہ میں جب کہ مادی طاقتیں اپنے عروج پر ہیں۔ یہ ایک فطرتی تمنا ہے کہ ہم جمہوریہ متحدہ عرب سے توقع رکھیں کہ وہ دنیا کی گمشدہ کڑی کو واپس لائے۔ وہ گمشدہ کڑی جو بندے اور اُس کے خالق و مالک سے تعلقات محبت کو از سر نو قائم کر دے۔ اور حقیقت میں یہی وہ عربی روایات ہیں جنہوں نے عربی نسل کو دنیا میں ایک اتحاد پیدا کرنے والی طاقت بنا دیا تھا ۔
صدر محترم! آپ نے علیگڑھ میں خطاب فرماتے ہوئے یہ امر بالکل بجا فرمایا تھا کہ
’’آئندہ سائنس کی اجارہ داری سرمایہ داری کی ایک نئی قسم ہو گی‘‘
سرمایہ داری کیا بلکہ مادیت کی نئی شکل و صورت ہو گی۔ ہم سرمایہ داری یا مادیت کی اس نئی شکل و صورت پر قابو نہیں پا سکتے جب تک کہ انسان کی سرمایہ دارانہ ذہنیت یا مادیت کی رگوں میں مذہب روحانیت کا ٹیکہ نہ لگائیں۔ پس اس الحادو مادیت کے قلع قمع اور روحانیت و انسانیت کے اُجاگر کرنے کے لئے ہی ’’تحریک احمدیت‘‘ خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کی گئی ہے۔ احمدیت کوئی انسانی تحریک نہیں۔ خالص خدا کی قائم کردہ ہے۔ اور اس کا قیام آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم کی اُن پیشگوئیوں کے عین مطابق عمل میں آیا ہے۔ جو اسلام کی نشئاۃ ثانیہ غلبہ دین کے لئے ظہور مہدی و مسیح موعود کی ذات سے وابستہ تھیں اور اشاعت اسلام کی جو شاندار خدمات اس جماعت نے ابتک انجام دی ہیں۔ وہ اظہر من الشمس ہیں۔
ہم آپ کی خدمت میں اسلامی اصول کی فلاسفی (جو کہ بانی ء سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور مہدی و معہود کی تالیف تصنیف ہے) کا عربی ترجمہ’’ الخطاب الجلیل‘‘ اور دوسرے لڑیچر کا ’’تحفہ ‘‘ ارسال کرنے میں خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ معمولی چیز ہے مگر حقیقت میں قیمتی موتی اور جواہر ہیں۔ امید ہے آپ ان کتب کا کا مطالعہ فرمائینگے۔ خدا آپ کا اور ہمارا ہادی اور حامی و ناصر ہو ۔آمین۔
آپکا خیر اندیش محمد کریم اﷲ نوجوان
سیکرٹری جماعت احمدیہ مدراس ۴۷
تقویٰ دعوت الی اﷲ اور وقف کی پُر زور تحریک
اس سال مجلس شوریٰ ۸۔۹؍اپریل ۱۹۶۰ء کوگذشتہ
سال کی طرح تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے وسیع و عریض ہال میں ہی منعقد ہوئی۔ سیدنا حضرت مصلح موعود کی طبیعت ایک عرصہ سے ناساز چلی آ رہی تھی مگر حضور نے خدام کی دلجوئی کے لئے اس سال بھی شمولیت فرمائی اور نمائندگان کی آراء سن کر ان کے بارے میں اپنے فیصلوں کا اعلان فرمایا۔ حضور کے ارشاد پر مشاورت کے اکثر اجلاسوں کی کارروائی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کی زیر صدارت ہوئی۔
سیدنا حضرت مصلح موعود نے مشاورت کے اختتامی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے احباب جماعت کو پُرز ور تحریک فرمائی کہ وہ تقویٰ دعوت الی اﷲ اور وقف کی طرف خصوصی توجہ دیں چنانچہ فرمایا:
’’ حقیقت یہ ہے۔ کہ تقویٰ کے بغیر انسان کا کوئی عمل اُسے اﷲ تعالیٰ کا مقرب نہیں بنا سکتا یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ہر نماز میں بلکہ نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھمْ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا بھی الہام ہے کہ
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتّقاء ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
پس دوستوں کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اور بار بار قادیان جانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
پس تقویٰ اﷲ کے حصول کی کوشش کرو۔ اپنی آئندہ نسلوں میں دین کی محبت پیدا کرو۔ انہیں اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے وقف کرو۔ اشاعت احمدیہ کے لئے ہر قسم کی مالی اور جانی قربانیوں میں حصہ لو۔ اور اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو۔ کہ وہ ہماری ناچیز کوششوں میں برکت ڈالے۔ اور ہمارے کاموں کو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ نتیجہ خیز ثابت کرے۔ تاکہ ہم نے یہاں جو وقت صرف کیا ہے۔ وہ ضائع نہ ہو۔ اور ہم خدا تعالیٰ کے نزدیک جھگڑالو قرار نہ پائیں۔ تاکہ اس کے دین کے خدمت گذار اور اس کے احکام کی اطاعت کرنے والے ہوں۔ ا ﷲتعالیٰ ہمارے دلوں میں ایمان ۔ اخلاص۔ اور تقویٰ پیدا کرے۔ اور ہمارے قلوب میں ایسی محبت اور عشق بھر دے کہ بغیر اس کے مل جانے کے ہماری سوزش میں کمی واقع نہ ہو۔ ہماری گھبراہٹ دور نہ ہو۔ ہمارا جوش کم نہ ہو۔ اور ہماری راحت اور ہمارا چین سوائے اس کے کسی اور چیز میں نہ ہو۔ کہ ہمیں اس کا قرب حاصل ہو جائے۔ اور ہم اس کے وصال سے لُطف اندوز ہوں ہماری ہر قسم کی خوشی اور امید اس سے وابستہ ہو۔ اور ہماری محبت اور چین اس کے رسولوں خصوصاً محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ و السلام کے ساتھ وابستگی اور ان کی تعلیموں اور منشاء کے مطابق چلنے میں ہو۔ اور ہم ان کے نام کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اﷲ تعالیٰ ہماری مدد کرے۔ اور ہماری زبانوں میں برکت ڈالے۔ تاکہ ہم دوسرے لوگوں کو بھی خدائے واحد کے کلام کی طرف کھینچ سکیں۔ اور اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق دے۔ کہ ہم خدا تعالیٰ کے کلام سے محبت کرنے والے۔ اس کی تعلیم سے پیار کرنے والے۔ اس کے حکموں کو پھیلانے والے۔ اور اس کے بندوں سے محبت کرنے والے ہوں…حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک ایک سال میں تیس تیس ہزار احمدی ہوتا تھا۔ اب تو ۳۰۔۳۰۔۴۰۔ـ۴۰ لاکھ سالانہ احمدی ہونے چاہئیں۔ حضر ت مسیح ناصری کی امت نے۱۹۰۰سال کی عمر پائی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں۔ اور امید کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو ۱۹۰۰۰سال سے بھی زیادہ عمر دے گا۔ اور دنیا کے چپہ چپہ پر کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئیگی جہاں احمدیت اور (دین حق )کا نام نہ لیا جاتا ہو ‘‘۔۴۸
شاہ حسین اردن کا جماعت احمدیہ
نائیجیریاکی طرف سے شاندار استقبال
اسلامی مملکت اردن کے جلالۃ الملک شاہ حسین نے اس سال ایران ترکی اور سپین کے دورہ سے
واپسی پر ۹؍مئی۱۹۶۰ء کو لیگوس میں ایک روزقیام فرمایا ۔شاہ کی آمد اگرچہ غیر رسمی حیثیت کی تھی ‘ پھر بھی یہ موقعہ اس اعتبار سے بہت اہم تھا۔ کہ نائیجیریا جیسے اسلامی علاقہ میں پہلی دفعہ ایک عرب مسلمان بادشاہ وارد ہوا تھا شاہ کی آمد کا اعلان صرف ایک روز پہلے کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود احمدی احباب کو استقبالیہ کے لئے فوراً منظم کیا گیا۔ ایک سبز جھنڈے پر عربی میں اھلاً و سھلًا و مرحبا اورانگریزی میں ’’ خوش آمدید شاہ حسین لکھا ہوا تھا لیگوس کے احمدی احباب چودہ میل سفر کر کے لیگوس کے ہوائی اڈے پر پہنچے جملہ احباب نے ’’ احمدیہ مشن‘‘ کیطغرے (BADGES)لگا رکھے تھے۔ اس طرح استقبال کرنے والوں میں یہ ممتاز گروہ اخباری نمائیندوں ‘غیر ملکی اور ملکی پریس فوٹو گرافرزکے لیئے بالخصوص ایک خاص کشش کا موجب ہوا انہوں نے اس منظر کی متعد تصاویرلیں۔
جس وقت شاہ حسین کا طیارہ پہنچا احمدی احباب نے نعرہ تکبیر۔ اﷲاکبر اسلام زندہ باد جلالۃ الملک یعیش الملک حسین یعیش کے نعرے بلند کئے نائیجیریا کے قائم مقام گورنر جنرل اور استقبال کرنے والے دوسرے افسر مشرقی انداز کے اس استقبال سے بہت متاثر ہوئے۔ ہوائی اڈے پر جمع ہونے والے دوسرے لبنانی‘شامی اور دوسرے مسلمانوں نے بھی اس استقبال کو بہت سراہااور ان میں سے بعض نعرے بلند کرنے میں وہ احمدیوں کے ساتھ شامل بھی ہوئے۔ شاہ اردن کا لیگوس میں قیام صرف سولہ گھنٹے تھا۔ احمدیہ مشن کی طرف سے ایک روز قبل منعقد ہونے والی مسلم فیسٹول کمیٹی (MOSLIM FESTIVAL COMMITTEE)میں دوسری مسلمان جمعیتوں کے زعماء کو شاہ سے وفد کی صورت میں ملاقات کی تحریک کی گئی۔ اسی طرح گورنمنٹ ہاؤس سے ٹیلیفون پر ملاقات کی اجازت حاصل کرنے کی کوشس بھی کی گئی۔ لیکن اس وقت شاہ کا پروگرام معین طور پر معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اطلاع حاصل نہ ہو سکی۔ لیگوس کے مقامی حاکم (OBA)مسلمان تھے۔ جن کو جناب مولانا نسیم سیفی صاحب رئیس لتبلیغ مغربی افریقہ نے ٹیلیفون پر تحریک کی کہ وہ ملاقات کی کوشش کریں ان کی طرف سے کوشش کرنے پر صرف چار اصحاب کے لئے ملاقات کی اجازت حاصل ہو سکی چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے لیگوس کے مقامی حاکم ان کے ایک وزیر احمدیہ مشن کے رئیس التبلیغ مغربی افریقہ اور لیگوس شہر کے چیف امام پر مشتمل وفد نے گورنمنٹ ہاؤس میں شاہ سے ملاقات کی‘ جناب رئیس التبلیغ صاحب نے شاہ کو ہدیہ پیش کرنے کے لئے حسب ذیل کتب منتخب کی تھیں جو آپ نے شاہ کو پیس کیں۔
(۱) اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ الخطاب الجلیل مصنفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ ۔
(۲) لائف آف محمد تصنیف منیف حضرت مصلح موعود۔
(۳) ہمارے بیرونی مشن۔ انگریزی مصنفہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیرربوہ۔ شاہ حسین نے یہ تحفہ بہت خوشی سے قبول کیا۔ پریس کے نمائندوں نے اس موقعہ پر متعدد تصاویر لیں۔ لیگوس کے ممتاز ڈیلی ٹائمز اور ’’پائلاٹ‘‘ نے شاہ حسین کے کتب کا تحفہ قبول کرنے کی تصویر شائع کی۔
شاہ حسین نے اپنے قیام کے دوران میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا جس میں جناب نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر اخبار ’’ٹروتھ‘‘ کی حیثیت سے شامل ہوئے۔
شاہ حسین کو مذکورہ کتب کے تحفہ کے ہمراہ احمدیہ مشن کی طرف سے جو مکتوب لکھا گیا تھا۔ اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔
جلالۃا لملک شاہ حسین السلام علیکم اھلاً و سھلاً و مرحباً
میں بصد ادب و احترام ملک نائیجیریا کے احمدیوں کی طرف سے اعلیٰ حضرت کو ہمارے ملک میں قدم رنجہ فرمانے پر دلی خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ ہر چند آپکی یہ زیارت مختصر حیثیت کی ہے۔ ہم آپ کے نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس میں ورود کے بہت قدر مند ہیں۔
جلالۃ الملک کے لئے ہمارے دلوں میں جو محبت جاگزیں ہے۔ اس کی ایک علامت کے طور پر آپ کی خدمت میں ’’لائف آف محمد‘‘کا تحفہ بھی پیش کر رہا ہوں ۔ جو ہماری جماعت کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی کی تصنیف ہے۔ ( الخطاب الجلیل اور ہمارے بیرونی مشن کتب بعد میں شامل کی گئیں تھیں)
اس امر کا ذکر یہاں بے تعلق نہ ہوگا کہ جلالۃالملک کے مرحوم دادا امیر عبداﷲ ہماری جماعت حیفا کے حق میں ہمیشہ مروت کا سلوک فرماتے رہے ہیں۔ جس کے لئے ہم ان کے احسان مند رہیں گے بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آپ پر اپنی برکات نازل فرماتا رہے آمین۔
والسلام نسیم سیفی رئیس التبلیغ مغربی افریقہ
برائے جماعت احمدیہ نائیجیریا ۴۹
علاّمہ نیازؔ فتحپوری کے تاثّرات
فضل عمر ڈسپنسریوں سے متعلق
علاّمہ نیازؔ فتحپوری ۲۱؍مئی ۱۹۶۰ء کو مارٹن روڈ اور گولیمار کراچی کی احمدیہ ڈسپنسریوں کی رفاہی خدمات کو دیکھ کر
بہت خوش ہوئے اور حسبِ ذیل الفاظ میں اپنے قلبی تاثرات قلمبند کیئے:-
عکس تحریر علامہ نیازؔ
فضل عمر ڈسپنسری دیکھنے کے بعد کسی کاصرف یہ کہہ دیناکہ اسے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ بڑا ناقص اعتراف ہے۔ اس عظیم خدمت انسانی کاجویہ ڈسپنسری انجام دے رہی ہے۔ مارٹن روڈ اور گولیمار کے دونوں شفاخانے جنہیں خدّام جماعت احمدیہ نے واقعتاً اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا ہے جذبہ خیر‘ جوش عمل اور جسم و روح کی بیداریوں کی ایسی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن سے ’’غضّںبصر‘‘ ممکن نہیں۔
ان شفاخانوں کا اصل مقصود خالصتاً ﷲ انسانی درد و دکھ میں شریک ہونا ہے اور اسی لئے دواؤں کے علاوہ یہاں تیماردارانہ غذائیں بھی مفت تقسیم کی جاتی ہیں اور دماغی محنت کے لئے دارالمطالعہ بھی قائم کر دیا گیا ہے اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے اس دور بے عملی میں جماعت احمدیہ کا یہ اقدام نوع انسانی کی اتنی بڑی خدمت ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور جس جماعت کی تعمیر اس ’’بنیان مرصوص‘‘ پر قائم ہو وہ کبھی فنا نہیں ہو سکتی۔
نیاز فتحپوری
۲۱؍ مئی ۱۹۶۰ء ۵۰
ملایا کے وزیر اعظم ٹنکو عبدالرحمن بیت احمدیہ ہیگ میں
۲۶؍ مئی ۱۹۶۰ء کو ہز ایکسی لینسی ٹنکو عبدالرحمن وزیر اعظم ملایا ہیگ کی بیت احمدیہ میں تشریف لائے۔ حضرت چوہدری محمد ظفر اﷲ خان صاحب
نائب صدر عالمی عدالت اور انچارج ہالینڈ مشن حافظ قدرت اﷲ صاحب نے آپ کا استقبال کیا۔ میٹنگ ہال میں آپ کا تعارف معزّزین سے کروایا گیا جو خاص طور پر اس تقریب میں شمولیت کے لیئے تشریف لائے تھے۔ ان معززّین میں عرب جمہوریہ کے سفیر‘ عالمی عدالت کے جج جناب بیضاوی (BADAWI)پاکستانی ایمبیسی کے کونسلر اور حکومت انڈونیشیا کا نمائندہ شامل تھے۔ چند ایک مقامی احمدی بھی اس موقعہ پر موجود تھے۔ جن میں ڈاکٹر ملاما آف ٹراپیکل انسٹی ٹیوٹ ایمسرڈم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
حضر ت چوہدری محمد ظفر اﷲ خان صاحب نے معزّز مہمان کا استقبال کرتے ہوئے مختصر طور پر ان شاندار خدمات کا تذکرہ کیا جوٹنکوعبدالرحمن نے انپے ملک کی ترقی اور بہبود کے سلسلہ میں آزادی حاصل کرنے سے قبل کیں اور اب تک سرانجام دے رہے تھے۔ حافظ قدرت اﷲ صاحب نے احمدیہ مشن کی طرف سے معزّز مہمان کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم بیت احمدیہ میں تشریف لائے۔ نیز کہا کہ آج کی محفل میں شریک ہونے والے اگرچہ مختلف ملکوں اور قوموں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اخوت دینی کا رشتہ انہیں یکجا کرنے کا باعث ہے۔ یہ درسِ اخوّت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم نے مسلمانوں کو سکھایا تھا اور اسی کے باعث وہ آج بھی ممتاز ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کی دعوت کا دائرہ دنیا کی تمام قوموں تک وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے عہد حاضر میں تمام دنیا میں اشاعت دین کا نظام قائم کر رکھا ہے۔
تقریر کے بعد آخر میں آپ نے عزت مآب وزیر اعظم ملایا کی خدمت میں انگریزی ترجمہ قرآن پیش کیا جِسے موصوف نے نہایت مسّرت سے قبول فرمایا۔ انہوں نے امام بیت ہالینڈ کا شکریہ ادا کیا اور حاضرین سے ملاقات پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ ۵۱
فصلِ پنجم
وزیر اعظم روس کا چیلنج اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
کا حقیقت افروز تبصرہ
اُن دنوں پوری دنیا روسی اور اینگلو امریکن بلاک میں بٹی ہوئی تھی۔ اور روس اور اسکی اشتراکی تحریک کا ایسا رعب تھا کہ امریکہ اور برطانیہ جیسی حکومتیں بھی لرزہ براندام تھیں۔ اس ماحول میں روس کے وزیر اعظم نکیتا سرگیوچ خروشیف (NIKITA SERGEYEVICH KHURUSHCHEV)نے اعلان کیا کہ عنقریب کُل جہان اشتراکی پرچم کے نیچے جمع ہو جائے گا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی غیرت ملّی نے اس موقع پر خاموش رہنا گوارانہ فرمایا اوراس کے جواب میں ایک نہایت پُر قوّت و شوکت مضمون سپرو قلم کیا۔ جس میں واضح طور پر بتایا کہ آخری عالمی غلبہ اشتراکیت کیلئے نہیں دینِ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقدر ہے چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا:-
’’آجکل اشتراکی روس کے وزیر اعظم مسٹرخروشیف خاص طور پر جوش میں آ کر گرج اور برس رہے ہیں ہمیں ان کے سیاسی نعروں سے کوئی سروکار نہیں وہ جانیں اور ان کے مغربی حریف برطانیہ اور امریکہ۔ گو طبعاًہمیں مغربی ممالک سے زیاہ ہمدردی ہے کیونکہ ایک تو وہ ہمارے اپنے ملک پاکستان کے حلیف ہیں اور دوسرے جہاں برطانیہ اور امریکہ کم از کم خدا کی ہستی کے قائل ہیں وہاں روس نہ صرف کٹّر قِسم کا دہریہ ہے بلکہ نعوذ باﷲ خدا پر ہنسی اڑاتا اور مذہب کے نام و نشان تک کو دنیا سے مٹانا چاہتا ہے۔
لیکن اِس وقت جو خاص بات میرے سامنے ہے وہ مسٹر خروشیف کا وہ اعلان ہے جو ۷؍جولائی ۱۹۶۰ء کے اخباروں میں شائع ہؤا ہے۔ اس اعلان میں مسٹر خروشیف اپنے مخصوص انداز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ بہت جلد اشتراکی جھنڈا ساری دنیا پر لہرانے لگے گااور اشتراکیت عالمگیر غلبہ حاصل کرے گی۔ چنانچہ اِس بارے میں اخباری رپورٹ کے الفاظ درج ذیل کئے جاتے ہیں:-
’’آسٹریلیا ۶؍جولائی۔ روسی وزیر اعظم مسٹر خروشیف نے منگل کے دن یہاں کہا کہ مجھے کمیونسٹ ملک کے سوا کسی دوسرے ملک میں جا کر کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ آپ نے مزید کہا کہ میں ساری دُنیا پر اشتراکی جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور مجھے اُسوقت تک زندہ رہنے کی خواہش ہے۔ مجھے توقع ہے کہ میری اس خواہش کی تکمیل کا دن دُور نہیں‘‘
(نوائے وقت لاہور ۷؍جولائی ۱۹۶۰ء)
خواہش کرنے کا ہر شخص کو حق ہے مگر ہم مسٹر خروشیف کو کُھلے الفاظ میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ انشاء اﷲ تعالیٰ ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔ مسٹر خروشیف ضرور تاریخ دان ہونگے اور انہوں نے لازماً تاریخ عالم کا مطالعہ کیا ہو گا کیا وہ ایک مثال بھی ایسی پیش کر سکتے ہیں کہ دنیا کے کسی حصہ میں اور تاریخ عالم کے کسی زمانہ میں توحید کے مقابلہ پر شرک یا دہریت نے غلبہ پایا ہو؟ وقتی اور عارضی غلبہ کا معاملہ جداگانہ ہے (کیونکہ وہ نہر کے پانی کی اس ٹھوکر کا رنگ رکھتا ہے ۔ جس کے بعد پانی اور بھی زیادہ تیزی سے چلنے لگتاہے) جیسا کہ حضرت سرور کائنات فخر رسل صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جنگ اُحد میں ہوا مگر لمبا یا مستقل غلبہ کبھی بھی توحید کے سچے علمبرداروں کے مقابل پر دہریت اور شرک کی طاقتوں کو حاصل نہیں ہوا اور نہ انشاء اﷲ کبھی ہو گا قرآن واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ:-
کتب اﷲ لا غلبن انا و رسلی
یعنی خدا نے یہ بات لکھ رکھی ہے کہ شرک اور دہریت کے مقابلہ پر اس کی توحید کے علمبردار رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔زیادہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں حضرت موسٰی ؑکی طرف دیکھو کہ وہ کس کمزوری کی حالت میں اُٹھے اور ان کے سامنے فرعون کی کتنی زبردست طاغوتی طاقتیں صف آرا تھیں مگر انجام کیا ہوا اس کے لئے لنڈن کے عجائب خانہ میں فرعون کی نعش ملاحظہ کرو۔ حضرت عیسٰیؑ کا یہ حال تھا کہ ایلی ایلی لماسبتقنی کہتے کہتے بظاہر رخصت ہو گئے مگر آج ان کے نام لیوا ساری دنیا پر سیلِ عظیم کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔ حضرت فخرِ رسل صلی اﷲعلیہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھاؤ کہ عرب کے بے آب و گیاہ ریگستان میں ایک یتیم الطرفین بچہ خدا کا نام لے کر اٹھتا ہے اور سارا عرب اس پر یوں ٹوٹ پڑتا ہے کہ ابھی بھسم کر ڈالے گا مگر دس سال کے قلیل عرصہ میںاس دُ رِّیتیم نے ملک کی کایا پلٹ کر رکھدی اور سارا عرب توحید کے دائمی نعروں سے گونج اٹھا۔
مگر ہمیں اس معاملہ میں گزشتہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں۔ مسٹر خروشیف نے ایک بول بولا ہے اور یہ بہت بڑا بول ہے ہم اس کے مقابل پر اس زمانہ کے مامور اور نائب رسولؐ اور خادم ِ(دین حق)حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہؐ کی ایک پیشگوئی درج کرتے ہیں جو آپ نے خدا سے الہام پا کر آج سے پچپن سال پہلے شائع فرمائی اور اس میں اپنے ذریعہ ہونے والے عالمگیر اسلامی غلبہ کا زور دار الفاظ میں اعلان فرمایا ۔
آپ فرماتے ہیں:۔
’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائیگا اور میرے سلسلہ (یعنی اسلام اور احمدیت ) کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کر دے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زورسے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاویگا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اورابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ سواَے سننے والو اِن باتوں کو یاد رکھو اور اِن پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔‘‘
(تجلیّات الٰہیہ صفحہ ۴)
دوسری جگہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:۔
’’اے تمام لوگو سُن رکھو کہ یہ اس خدا کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا… وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب (اسلام) اور اس سلسلہ میں فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائیگی۔ …دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا (یعنی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ سلم) میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھُولے گا اور کوئی نہیں جو اس کوروک سکے‘‘
(تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۶۴)
اور تیسری جگہ روس کے مخصوص تعلق میں اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’میں نے دیکھاکہ زارِ روس کا سونٹا (عصا) میرے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ اس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں‘‘ (تذکرہ بحوالہ البدر ۲؍فروری ۱۹۰۳ء)
اس لطیف رؤیا میں روس کے متعلق یہ عظیم الشان بشارت دی گئی ہے کہ وہ خدا کے فضل سے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ و السّلام کی روحانی توجہ کے نتیجہ میں (دین حق) قبول کرے گا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی کا جُوا برضا و رغبت اپنی گردن پر رکھے گا اور اس طرح انشاء اﷲ اشتراکیت کے موجودہ گڑھ میں بھی دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ دین حق کا جھنڈا لہرائے گا اور یہ جو اس کشف میں ’’پوشیدہ نالیوں‘‘ کے الفاظ آتے ہیں ان میں اشتراکی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اس کشف کے سولہ سترہ سال بعد عالمِ وجود میں آیا اور اس کی پالیسی کی بنیاد آئرن کرٹن اور مخفی کارروائیوں پر رکھی گئی۔
اب مسٹر خروشیف کو چاہیئے کہ اپنے بلند و بالابولوں کے ساتھ ان خدائی پیشگوئیوں کو بھی نوٹ کر لے۔ انسانی زندگی محدود ہے مسٹر خروشیف نے ایک دن مرنا ہے اور میں بھی اس دنیوی زندگی کے خاتمہ پر خدا کی ابدی رحمت کا امیدوار ہوں مگر دنیا دیکھے گی اور ہم دونوں کی نسلیں دیکھیں گی کہ آخری فتح کس کے مقدر میں لکھی ہے۔ روس کا ملک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی دیکھ چکا ہے جو اِن ہیبت ناک الفاظ میں کی گئی تھی کہ :۔
’’زار بھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی باحالِ زار‘‘ (براھین احمدیہ حصہ پنجم)
اب (دین حق) کے دائمی غلبہ اور توحید کی سربلندی کا وقت آ رہا ہے اور دُنیا خود دیکھ لے گی کہ مسٹر خروشیف کا بول پورا ہوتا ہے یا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق(دین حق) کی فتح کا ڈنکا بجتا ہے‘‘۔ ۵۲
خدا کی قدرت دیکھئے۔ ساری دنیا میں اشترکیت کے تسلّط کا خواب دیکھنے والا یہ شخص جو سٹالن کے بعد روس کا مسلّمہ رہنما تھا۔ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۶۴ء کو کمیونسٹ پارٹی کے عدم اعتماد کی بناء پر معزول کر دیا گیا اور سات سال تک گوشہ گمنامی میں رہنے کے بعد ۱۱؍ستمبر ۱۹۷۱ء کو چل بسا اور کریملن میں ماسکو کے ایک عام قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ۵۳
اٹھارہ سال بعد ۹؍نومبر ۱۹۸۹ء کو برلن دیوار کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور نہ صرف مشرقی جرمنی بلکہ مشرقی یورپ کے سب اشتراکی ممالک روس کی استبدادی زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہوئے۔ روسی صدر گورباچوف ۲۴؍اگست ۱۹۹۰ء کو کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے ۔ روسی کمیونسٹ پارٹی توڑ دی گئی اور ۲۶؍اکتوبر ۱۹۹۱ء کو ماسکو شہر کی کونسل نے شہر سے اشتراکی انقلاب کے بانی لینن کا مجسمہ ہٹانے کا اعلان کر دیا۔ ۵۴
علاّمہ نیاز فتحپوریؔ کا سفر پاکستان اور
جماعت احمدیہ کا قریبی مطالعہ
علامہ نیاز فتحپوری صاحب ایڈیٹر ماہنامہ
’’ نگار‘‘ لکھنئو امسال مئی کے اوائل میں پاکستان تشریف لائے۔ جہاں آپ نے
وسط جونتک قیام فرمایااُس دوران میں آپ باوجود خواہش کے ربوہ تشریف نہ لا سکے۔ لیکن لاہور اور کراچی میں آپ کو احمدی احباب سے ملنے اور جماعت احمدیہ کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ نے واپس جا کر ’’ نگار‘‘ بابت جولائی ۱۹۶۰ء میں اپنے سفرِ پاکستان کے حالات سپرد قلم فرمائے۔ جس میں آ پ نے ’’ احمدی جماعت کا قریب تر مطالعہ‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت جماعت کی عظمتِ کردار اور بلندئ اخلاق کے بارہ میں اپنے قلبی تاثرات کا بھی ذکر فرمایا جو درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
احمدی جماعت کا قریب تر مطالعہ
’’ لکھنئوسے چلتے وقت ایک ذہنی یا جذباتی پروگرام میں نے یہ بھی بنایا تھا کہ اس سفر
کے دوران میں اگر قادیان نہیں تو ربوہ ضرور دیکھونگا جو سنا ہے کسی وقت وادئ غیر ذی زرع تھا اور اب احمدی مجاہدین نے اسے ایک متمدن شہر بنا دیا ہے۔ قادیان کا سوال اس لئے سامنے نہ تھا کہ پورا خاندان میرے ساتھ تھا اور ربوہ تو خیر میں کراچی سے تنہا بھی آ سکتا تھا لیکن افسوس ہے کہ میرا یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ میرے ویزا میں ربوہ درج نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ میری صحت اس کی متقاضی نہ تھی کہ موسم گرما میں سفر ریگستان کی جرأت کر سکوں لیکن میری اس پست ہمتی کی تلافی کسی نہ کسی حد تک اس طرح ہو گئی کہ بعض مخلصین سے امرتسر سٹیشن پر تبادلۂ نگاہ ہو گیا بعض سے لاہور میں یاد اﷲ ہو گئی اور جب کراچی پہونچا تو ایک سے زائد بار مجھے ان کو زیادہ قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ مل گیا۔
سب سے پہلی چیز جسے میں نے بیّن طور پر محسوس کیا ان کی متانت و سنجیدگی تھی ان کے ہنستے ہوئے چہرے ان کے بشاش قیافے اور ان کی بوئے خوشدلی تھی۔ دوسری بات جسنے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا یہ تھی کہ انہوں نے دوران گفتگو میں مجھ سے کوئی تبلیغی گفتگو نہیں کی ۔ کبھی کوئی ذکر تعلیم احمدیت کا نہیں چھیڑا۔ جو یقینا مجھے پسند نہ آتا۔ میرا مقصود ایک خاموش نفسیاتی مطالعہ کرنا تھا۔ اور یہ آج کی انتہائی ادا شناسی تھی کہ دعوتوں‘ عصرانوں میں انہوں نے مجھے اس مطالعہ کا پورا موقعہ دیا۔ اور کوئی بات ایسی نہیں چھیڑی کہ معاملہ نگاہ سے ہٹ کر زبان تک پہونچتا اور میرا زاویۂ نظر بدل جاتا۔
اس کا علم تو مجھے تھا کہ احمدی جماعت بڑی با عمل جماعت ہے لیکن یہ علم زیادہ سماعی و کتابی تھا۔ اور میں کبھی اس کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ اُ ن کی زندگی کی بنیاد ہی سعَی و عمل پر قائم ہے۔ اور جدوجہد ان کا قومی شعار بن گیاہے۔
اس سے ہر شخص واقف ہے کہ وہ ایک مشنری جماعت ہے اور ایک خاص مقصد کو سامنے رکھ کر آگے بڑھتی ہے اور ایسے ناقابل شکست عزم و حوصلہ کے ساتھ کہ تاریخ اسلام میں اس کی مثال قرون اولیٰ کے بعد کہیں نہیں ملتی۔
میں حیران رہ گیا یہ معلوم کر کے کہ ان کے دوشفاخانے جو انہوں نے یہیں کراچی کی دو غریب آبادیوں میں قائم کئے ہیں۔ محض ان کے چند نوجوان افراد کی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کی بنیاد کھو دی۔ ان کی دیواریں اٹھائیں۔ ان کی چھتیں استوار کیں۔ ان کا فرنیچر تیار کیا۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ ان شفاخانوں سے روزانہ سینکڑوں غرباء کو نہ صرف دوائیں بلکہ طبی غذائیں بھی مفت تقسیم کی جاتی ہیں اور عوام کی ذہنی تربیت کے لئے ریڈنگ روم اور کتب خانے بھی قائم ہیں۔
؎
دل شکستہ دراں کوچہ می کنند درست
چنانکہ خود نشناسی کہ از کجا بشکست
کراچی اور لاہور میں اس جماعت کے افراد پانچ پانچ ہزار سے زیادہ نہیں لیکن اپنی ’’ گراںما ئگی مستقبل‘‘ کے لحاظ سے وہ ایک ’’ بنیان مرصوص‘‘ ناقابل تزلزل ایک
حصار آہنی ہیں ناقابل تسخیر! اور کھلی ہوئی نشانیاں ہیں اس ’’ اسوۂ حسنہ‘‘ کی جس کاذ کر
محراب و منبر پر تو اکثر سنا جاتا ہے لیکن دیکھا کہیں نہیں جاتا۔
پھر سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے وہ کیا بات ہے جس نے انہیں یہ سوجھ بوجھ عطا کی اس کا جواب ابھری ہوئی جماعتوں کی تاریخ میں ہم کو صرف ایک ہی ملتا ہے۔ اور وہ عظمتِ کردار ! بلندئ اخلاق!
اس وقت مسلمانوں میں ان کو کافر و بے دین کہنے والے تو بہت ہیں لیکن مجھے تو
آج ان مدعیانِ اسلام کی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آتی جو اپنی پاکیزہ معاشرت اپنے اسلامی رکھ رکھاؤ اپنی تابِ مقاومت اور خوئے صبر و استقامت میں احمدیوں کے خاک ِپا کو بھی پہونچتی ہو!
ع
ایں آتشِ نیرنگ تہ سوز و ہمہ کس را
یہ امر مخفی نہیں کہ تحریک احمدیت کی تاریخ ۱۸۸۹ء سے شروع ہوتی ہے۔ جس کو کم و بیش ستّر سال سے زیادہ زمانہ نہیں گذرا‘ لیکن اسی قلیل مدت میں اس نے اتنی وسعت اختیار کر لی کہ آج لاکھوں نفوس اس سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ اور دنیا کا کوئی دورو دراز گوشہ ایسا نہیں جہاں یہ مردانِ خدا اسلام کی صحیح تعلیم انسانیت پرستی کی نشرو اشاعت میں مصروف نہ ہوں۔
آپ کو یہ سُن کر حیرت ہو گی کہ جب بانی ٔ احمدیت کی رحلت کے بعد ۱۹۳۴ء میں موجودہ امیر جماعت نے تحریک جدید کا آغاز کیا تو اس کا بجٹ صرف ۲۷ ہزار کا تھا لیکن ۲۵ سال کے بعد وہ بیس لاکھ ۸۰ ہزار تک پہونچ گیا۔ جو انتہائی احتیاط و نظم کیساتھ‘ تعلیمات اسلامی پر صرف ہو رہا ہے اور جب قادیان و ربوہ میں صدائے اﷲ اکبر بلند ہوتی ہے تو ٹھیک اسی وقت یورپ ‘ افریقہ و ایشیا کے ان بعید و تاریک گوشوں کی مسجدوں سے بھی یہی آواز بلند ہوتی ہے‘ جہاں سینکڑوں غریب الدیار احمدی خدا کی راہ میں دلیرانہ آگے قدم بڑھائے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔
باور کیجئے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ باوجود ان عظیم خدمات کے بھی اس بے ہمہ و باہمہ جماعت کو بُرا کہا جاتا ہے تو مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے اور مسلمانوں کی اس بے بصری پر حیرت ہوتی ہے۔
؎
مبیں حقیر گدایانِ عشق راکایں قوم
شہانِ بے کر و خسرو انِ بے کُلہ اند
جب سے میں نے طریق احمدیت پر اظہار خیال شروع کیا ہے۔ عجیب و غریب سوالات مجھ سے کئے جا رہے ہیں۔ بعض حضرات اس جماعت کے معتقدات کے بارے میں استفسار فرماتے ہیں۔ بعض براہ راست بانی احمدیت کے دعوائے مہدویت و نبوت کے متعلق سوال کرتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیںجو ان کے اخلاق کو داغدار ظاہر کر کے مجھے ان کی طرف سے متنفر کرنا چاہتے ہیں اور بعض توصاف صاف مجھ سے یہی پوچھ بیٹھتے ہیں ’’کیا میں احمدی ہو
گیا ہوں‘‘ یہ سب سنتا ہوں۔ اور خاموش ہو جاتا ہوں۔ کیونکہ وہ یہ تمام سوالات اس لئے کرتے ہیں کہ وہ مجھے بھی اپنا ہی جیسا مسلمان سمجھتے ہیں اور اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ :۔
؎
ہم کعبہ و ہم بتکدہ سنگ رہِ مابود
وفتیم و صنم برسر مہراب شکستیم
مذہب و اخلاق در اصل ایک ہی چیز ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ احمدی جماعت کی بنیاداسی احساس پر قائم ہے اور اسی لئے وہ مذہبی عصبیت سے کوسوں دور رہیں وہ تمام اخلاقی مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور جس حد تک خدمت خلق کا تعلق ہے‘ رنگ و نسل اور مسلک و ملت کا امتیاز ان کے یہاں کوئی چیز نہیں وہ ہمیشہ سادہ غذا استعمال کرتے سادے کپڑے پہنتے ہیں سگریٹ و مے نوشی وغیرہ کی مزموم عادتوں سے مبّرا ہیں‘ نہ تھیٹر و سنیما سے انہیں کوئی واسطہ ‘ نہ کسی اور لہو و لعب سے دلچسپی۔ انہوں نے اپنی زندگی کی ایک شاہرہ قائم کر لی ہے اور اسی پر نہایت متانت و سلامت روی کے ساتھ چلے جا رہے ہیں یہی حال ان کی عورتوں کا ہے اور اسی فضا میں ان کے بچے پرورش پا رہے ہیں مجھے مطلق اس سے بحث نہیں کہ ان کے معتقدات کیا ہیں۔ میں تو صرف انسان کی حیثیت سے ان کا مطالعہ کرتا ہوں اور ایک معیاری انسان کی حیثیت سے انکا احترام میرے دل میں ہے۔
اس وقت تک بانی ٔ احمدیت کا مطالعہ جو کچھ میں نے کیا ہے اور میں کیا جو کوئی خلوص و صداقت کے ساتھ ان کے حالات و کردار کا مطالعہ کرے گااسے تسلیم کرنا پڑیگا کہ وہ صحیح معنی میں عاشق رسولؐ تھے اور اسلام کا بڑا مخلصانہ درد اپنے دل میں رکھتے تھے۔ انہوں نے جو کچھ کہا یا کیا وہ نتیجہ تھا محض انکے بے اختیار انہ جذبٔہ خلوص اور داعیات حق و صداقت کا۔اس لئے سوال اُن کی نیت کا باقی نہیں رہتا۔ البتہ گفتگو اس میں ہو سکتی ہے کہ انہوں نے کن معتقدات کی طرف لوگوں کو دعوت دی ‘ سو اس پر روایتاً و درایتاً دونوںطرح غور و تامل ہو سکتا ہے‘ لیکن بے سود ‘ کیونکہ اس کا تعلق صرف ان کے ایہال و عواطف سے ہو گا نہ کہ عمل و کردار سے‘ اور اصل چیز عمل و کردار ہے۔ اب رہا سوال میرے احمدی ہونے یا نہ ہونے کا سو اسکے متعلق میں اسکے سواکیا کہہ سکتا ہوں کہ سرے سے میرا مسلمان ہونا ہی مشکوک ہے … چہ جائیکہ احمدی ہونا ۔ یہاں تو چیز صرف عمل ہے اوراس حیثیت سے میں اپنے آپ کو اور زیادہ نااہل پاتا ہوں۔
برہمن می شدم گرایں قدرزنار می بستم
اس لئے مناسب یہی ہے کہ مجھ سے اس قسم کا کوئی ذاتی سوال نہ کیا جائے نہ اس لحاظ سے کہ یہ بالکل بے نتیجہ سی بات ہے بلکہ اس خیال سے بھی کہ
دریغا آبروئے دیر گر غالب مسلماں شد
اس سلسلہ میں مجھے ایک بات اور عرض کرنا ہے ‘ وہ یہ کہ آج یا کل یقینا وہ وقت بھی آئے گا جب میں احمدی جماعت کے مذہبی لڑیچر پر ناقدانہ تبصرہ کرونگا‘ کیونکہ بغیر سمجھے ہوئے کسی بات کو مان لینا میرے فطری رجحان کے خلاف ہے اور احمدی جماعت کے معتقدات میں کئی باتیں مجھے ایسی بھی نظر آتی ہیں جواب تک میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ لیکن اس کا تعلق صرف میرے ذاتی و انفردی ردّ و قبول سے ہو گا نہ کہ احمدی جماعت کے وجود اجتماعی سے جس کی افادیت سے انکار کرنا گویا دن کو رات کہنا ہے اور دن کو رات میں نے کبھی نہیں کہا۔۵۵
حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب
کادورہ مغربی پاکستان و آزاد کشمیر
اس سال میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم تعلیم وقف جدید نے مغربی پاکستان اور
آزاد کشمیر کا نہایت کامیاب اصلاحی‘ تبلیغی و تربیتی دورہ فرمایا۔ آپ کی تشریف آوری پر احمدی جماعتوں نے پُرجوش خیر مقدم کیا‘ خاص تقاریب کا انعقاد کر کے غیر از جماعت معززین کو بھی مدعو کیا۔ آپ کے پُر اثر خطابات نے اپنوں اور بیگانوں کو بہت متاثر کیا اس دورہ میں مندرجہ ذیل مقامات پر آپ کی تقاریر ہوئیں:۔
۱۔قاضی احمد ضلع نواب شاہ۔ (مقامی جماعت کی طرف سے رئیس علی نوازخاں صاحب کے باغ میں دعوت عصرانہ کا انتظام مورخہ ۲؍جون) ۵۶ ۲۔موضع موہلنکی ضلع گوجرانوالہ (جلسہ عام میں شرکت مورخہ ۱۴ ؍ اکتوبر) ۳۵۷۔وزیر آباد (مقامی جماعت کے دعوت عصرانہ اور اجلاس عام سے موثر خطاب) ۴۵۸ـ۔کھاریاں (مورخہ ۱۹۔۲۰؍اکتوبر ۵۵۹۔مانسہرہ (مورخہ ۲۸؍اکتوبر ۶۰ ۶۔مظفر آباد(مورخہ ۲۹؍اکتوبر ۶۱ ۷۔باغ شہر (فاریسٹ ریسٹ ہاؤس میں قیام اور ڈاکڑ امام دین صاحب کے مکان پر احباب جماعت کو قیمتی نصائح سے نوازا) ۶۲ ۸۔میر پور آزادکشمیر( تقریر اور مجلس سوال و جواب) ۶۳
۹۔جہلم ۶۴
علاّمہ نیاز فتحپوری قادیان میں
۲۸۔۲۹ جولائی ۱۹۶۰ء کو علاّمہ نیاز فتحپوری نے زیارت قادیان کا شرف حاصل کیا اور مرکز احمدیت
کی روحانی فضا اور جماعت کی دینی خدمات سے بے حد متاثر ہوئے جس کا اظہار انہوں نے واپسی پر اپنے رسالہ ’’نگار‘‘(ستمبر ۱۹۶۰ء) کے ذریعہ درج ذیل الفاظ میں فرمایا:۔
۲۸ـ۔۲۹ جولائی کی وہ چند ساعتیں جو میں نے قادیانؔ بسر کیں‘ میری زندگی کی وہ گھڑیاں تھیں‘ جن کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
حیاتِ انسانی کا ہر لمحہ زندگی کا ایک نیا درس‘ ایک نیا تجربہ اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اگر زندگی نام صرف سانس کی آمد و شد کا نہیں بلکہ آنکھ کھول کر دیکھنے اور سمجھنے کا بھی ہے … اور … ان چند ساعتوں میں جو کچھ میں نے یہیں دیکھا وہ میری زندگی کا اتنا دلچسپ تجربہ تھا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں ۵۰ سال پیچھے ہٹ کر وہی زندگی شروع کرتا جو قادیانؔ کی احمدی جماعت میں مجھے نظر آئی ۔ لیکن
ع
حیف صد حیف کہ مادیر خبردار شدیم
میں انفرادی حیثیت سے ہمیشہ بے عمل انسان رہا ہوں‘ لیکن مسائلِ حیات کو (جن میں مذہب بھی شامل ہے) میں ہمیشہ اجتماعی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہوںاور یہ نقطۂ نظر میرے ذہن میں حرکت و عمل کے سوا کچھ نہیں …پھر یہ داستان بہت طویل ہے کہ پچھلی نصف صدی میں کتنی خانقاہیں‘ کتنے خانوادے‘ کتنے ادارے‘ کتنی درسگاہیںکتنے جلوہائے منبر و محراب میری نگاہ سے گزرے‘ اور میں کس طرح ان سے بے نیاز انہ گزر گیا۔ لیکن اب زندگی میں سب سے پہلی مرتبہ احمدی جماعت کی جیتی جاگتی تنظیم عمل دیکھ کر میں ایک جگہ ٹھٹک کر رہ گیا ہوں اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی زندگی کے اس نئے تجربہ و احساس کو کن الفاظ میں ظاہر کروں۔
میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور علماء اسلام کی بے عملی کی طرف سے اس قدر مایوس ہو چکا ہوں کہ میں اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا کہ ان میں کبھی آثارِ حیات پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اب احمدی جماعت کی جیتی جاگتی تنظیم عمل کو دیکھ کے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا
؎
غنچہ پھر لگا کھلنے‘ آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہؤا دیکھا گم کیا ہوا پایا
کیونکہ عالم اسلامی میں آج یہی ایک ادارہ ایسا ہے جو
ع
دعوتِ بر گے و نوائے کند
اور اسلام کا مفہوم میرے ذہن میں ’’ دعوتِ برگ و نوا‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں۔
لوگ منزل تک پہنچنے کے لئے راہیں ڈھونڈھتے ہیں۔ برسوں سرگرداں رہتے ہیں اور ان میں صرف چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو منزل کو پا لیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اُنہیں میں سے ایک مرزا غلام احمدؐ قادیانی بھی تھے۔ سو اب یہ فکرو جستجو کہ وہ کن راہوں سے گزر کر منزل تک پہنچے بالکل بے سود ہے۔ اصل چیز راہ پیمائی نہیں بلکہ منزل تک پہنچ جانا ہے۔ اور اگر میں احمدی جماعت کو پسند کرتا ہوں تو صرف اسی لئے کہ اس نے اپنی منزل پا لی ہے اور یہ منزل وہی ہے جس کی بانی ٔ اسلامؐ نے نشاندہی کی تھی۔ اس سے ہٹ کر میں اور کچھ نہیں سوچتا اور نہ سوچنے کی ضرورت۔
میرا قادیانؔ آنا بھی اسی سِلسلہ کی چیز تھی یعنی جس کی عملی زندگی کا ذکر میں سنتاچلا آ رہا تھا اسے آنکھوں سے بھی دیکھنا چاہتا تھا۔
ہر چند میں بہت کم وقت لے کر یہاں آیا‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نتیجہ تک پہنچنے کے لئے یہ قلیل فرصت بھی کم نہ تھی۔ کیونکہ اس جماعت کی زندگی ایک ایسا کُھلا ہوا صحیفۂ حیات ہے جس کے مطالعہ کیلئے نہ زیادہ وقت کی ضرورت ہے نہ کسی چون و چرا کی۔ اسی طرح ان کی دفتری تنظیم بھی گویا ایک شفاف آئینہ ہے جس میں زنگ کا نام تک نہیں۔ یکسر خلوص و اخلاق‘ یکسر حرکت و عمل۔
قادیانؔ میں احمدی جماعت کے افراد جو ’’ درویشانِ قادیان‘‘ کہلاتے ہیں‘ دو سَو سے زیادہ نہیں۔ جو قصبہ کے ایک گوشہ میں نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور ان کو دیکھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا
؎
یک چراغ ست دریں خانہ کہ از پر توِآں
ہر کجا می نگری‘ انجمنے ساختہ اند
یہی وہ مختصر سی جماعت ہے جس نے ۴۷ء کے خونیں دور میں اپنے آپکو ذبح و قتل کے لئے پیش کر دیا اور اپنے ہادی و مرشد کے مسقط الرأس کو ایک لمحہ کے لئے چھوڑنا گوارانہ کیا۔
؎
موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اُٹھ جائیں کیا؟
یہی وہ جماعت ہے جس نے محض اخلاق سے ہزاروں دشمنوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور اُن سے بھی قادیانؔ کو ’’دارالامان‘‘ تسلیم کرا لیا۔ یہی وہ جماعت ہے جو ہندوستان کے تمام احمدی اداروں کا سر رشتٔہ تنظیم اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اور یہی وہ دُورافتادہ مقام ہے جہاں سے تمام اکناف ہند میں اسلام و انسانیت کی عظیم خدمت انجام دی جا رہی ہے۔
آپ کو یہ سُن کر حیرت ہو گی کہ صرف پچھلے تین سال کے عرصہ میں انہوں نے تعلیم اسلامی‘ سیرت نبویؐ‘ ضرورت مذہب‘ خصوصیات قرآن وغیرہ متعدد مباحث پر ۴۳ کتابیں ہندی‘ اُردو‘ انگریزی اور گور مکھی زبان میں شائع کیں اور ان کی ۴۴۰۵۰۰ کاپیاں تقریباً مفت تقسیم کیں۔
اسی طرح تعلیمی و ظائف پر جن میں مُسلم و غیر مُسلم طلبہ دونوں برابر کے شریک ہیں ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء میں اس جماعت نے ۳۱ ہزار روپیہ صرف کیا ۔خود قادیانؔ میں ان کے تین مدرسے قائم ہیں۔ دو مڈل اسکول لڑکوں اور لڑکیوںکے لئے اور تیسرا مولوی فاضل کے نصاب تک۔ ان کے علاوہ تیرہ مدرسے ان کے ہندوستان کے مختلف مقامات میں ہیں جن پر جماعت کا ہزاروں روپیہ صرف ہو رہا ہے۔
اِسی سلسلہ میں ایک اَوربڑی خدمت جو صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہے وہ قادیانؔ کا شفاخانہ ہے اس میں ۱۹۴۸ء سے اس وقت تک ۳۴۶۳۰۰۰ مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں ۳۰ فی صدی مسلمان اور ۷۰ فیصدی غیر مسلم تھے۔
یہ ہیں وہ چند خدمات جماعت احمدیہ قادیانؔ کی جن سے متاثر ہو کر ۱۹۴۸ء سے لے کر اس وقت تک قریب قریب ڈیڑھ لاکھ آدمیوں نے یہاں کے حالات کا مطالعہ کرنے کی تکلیف گوارا کی۔
یہاں میں نے کالج اور دارالاقامہ کی ان عظیم الشان عمارتوں کو بھی دیکھا جنہیں بانی ٔ تحریک احمدیت نے بڑے اہتمام سے طیار کروایا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ان پر جائیداد متروکہ کی حیثیت سے حکومت نے قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن اب یہ عمارتیں جماعت احمدیہ کے حق میں واگزاشت کر دی گئی ہیں۔
جس وقت مَیں نے حضرت میرزا صاحب کے بیت الفکر‘ بیت الدعا‘ بیت الریاضت‘
مسجد نور‘ مسجد اقصیٰ اور منارۃ المسیح کو دیکھا تو ان کی وہ تمام خدمات سامنے آ گئیں جو تحفّظِ اسلام کے سلسلہ میں ایک غیر منقطع جدوجہد کے ساتھ ہزاروں مصائب جھیل کر انہوں نے انجام دی تھیں اور جن کے فیوض اس وقت بھی دنیا کے دور دراز گوشوں میں جاری ہیں۔
جس وقت مَیں قادیان پہنچا اتفاق سے ایک جرمن احمدی ولیمؔ ناصر بھی یہاں مقیم تھے۔ یہ ایک درویش صفت انسان ہیں جو مہینوں سے احمدیہ جماعت کے مختلف مرکزوں اور اداروں کے سیاحانہ مطالعہ میں مصروف ہیں۔ مَیں ان کو دیکھتا تھا اور حیرت کرتا تھا کہ جرمنی ایسے سرد ملک کا باشندہ ہندوستان کی شدید گرمی کو کس طرح خوش دلی سے برداشت کر رہا ہے۔ لیکن جب مَیں نے ان سے گفتگو کی تو معلوم ہؤا کہ ان کو شدائدِ سفر کا احساس تک نہیں ‘ سچ ہے۔
ع
عشق ہر جامی برد مارابہ ساماں می برد
مَیں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے عیسوی مذہب چھوڑ کر اسلام کیوں قبول کیا؟ تو اس کا سبب انہوں نے ’’ اسلام کی بلند اخلاقی تعلیم‘‘ ظاہر کیا جس کا علِم انہیں سب سے پہلے جرمنی کی جماعت احمدیہ کو دیکھ کر ہوا تھا۔ یہ بلاد مغرب و افریقہ میں جس جوش و انہماک کے ساتھ خدمتِ اسلام میں مصروف ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن پاک کے تراجم حد درجہ سلیقہ و اہتمام کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ چنانچہ انگریزی ‘ جرمنی اور ان کے اس عزم و ولولہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
مَیں نے یہاں سے رخصت ہوتے وقت اس قطعۂ زمین کو بھی دیکھا جہاں حضرت میرزا غلام احمد صاحب آسودۂ خواب ہیں اور ان کی وہ تمام مجاہدانہ زندگی سامنے آ گئی جس کی کوئی دوسری نظیر مجھے اِ س دَور میں تو کہیں نظر نہیں آتی۔
؎
کیست کز کوشش فرہاد نشاں باز د ہد
مگرآں نقش کہ از تیشہ بخارا ماند
۶۵
ایک معزّز غیر احمدی دوست کا خط اور
علّامہ صاحب کا خیال افروز جواب
مدیر’’ نگار‘‘ علامہ نیازؔ فتحپوری کے احمدیت سے متعلق مسلسل تائیدی قلم اٹھانے سے جہاں احمدیہ جماعت میں
اُن کے لئیجذبات تشکر پیدا ہوئے اور ہر طرف خوشی کی ایک لہر دور گئی وہاں غیراز جماعت
حلقوں میں دو زبردست ردّ عمل پیدا ہوئے۔ایک طبقہ احمدیت کی نسبت گہرا مطالعہ کرنے لگا مگر ایک طبقہ میں بے چینی کے آثار ظاہر ہو گئے۔ جناب سیّد نصیر حسین صاحب سہارنپوری دوسرے طبقہ میں شامل تھے جنہوں نے یہ مضامین پڑھ کر آپ کو ایک تنقیدی خط لکھا جس میں پروفیسر الیاس برنی صاحب کی ایک کتاب پڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔
علاّمہ موصوف نے اکتوبر ۱۹۶۰ء کے پرچہ میں یہ خط اور اس کا جواب شائع کر دیا جو نہایت خیال افروز تھا ذیل میں خط اور جواب دونوں کو بجنسہٖ درج کیا جاتا ہے۔
احمدی جماعت اور الیاس برنی
سید نصیر حسین سہارنپور
کچھ زمانہ سے آپ احمدی جماعت کی طرفداری
میں اظہار خیال کر رہے ہیں اور اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان سے بہت متاثر ہیں لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں کہ وہ غیر احمدی مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں۔ وہ اس حد تک متعصب ہیں کہ تمام مسلمانوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات بھی ناجائز سمجھتے ہیں اور ن کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ وہ اپنے سوا سب کو کافر کہتے ہیں اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اب رہا میرزا غلام احمد صاحب کا دعویٰ مہدویت و مسیحیت و نبوت۔ سو اس کی بابت میں مشورہ دونگا کہ آپ جناب الیاس برنی کی کتاب ’’فتنۂ قادیانیت‘‘ کا مطالعہ فرمائیے۔ اس کے پڑھنے پر آپکو معلوم ہو جائے گا کہ مرزا صاحب کے دعوے کتنے لغو و باطل تھے۔
نگار اس میں شک نہیں میں احمدی جماعت سے کافی متاثر ہوں اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ اس وقت ان تمام جماعتوں میں جو اپنے آپکو مسلمان کہتے ہیں صرف احمدی جماعت ہی ایک ایسی جماعت ہے۔ جس نے صحیح معنی میں اسلام کی حقیقت کو سمجھا ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کیا ساری دنیا نے اسلام کو مخصوص عقائد میں محدود کر دیا ہے۔ اور اس سے ہٹ کر کبھی یہ غور کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی کہ اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کے عروج کا تعلق صرف عقیدہ سے نہ تھا بلکہ انوارو کردار اور حرکت و عمل سے تھا۔
محض یہ عقیدہ کہ اﷲ ایک ہے اور رسول برحق اپنی جگہ بالکل بے معنیٰ بات ہے اگر ہماری اجتماعی زندگی متاثر نہیں ہوتی۔ اسی طرح مخصوص جہت میں مخصوص انداز سے عبادت کر لینا بھی بے سود ہے۔ اگر وہ ہماری ہیٔت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ تاریخ و عقل دونوں کا فیصلہ یہی ہے۔ پھر غور کیجئے کہ اس وقت احمدی جماعت کے علاوہ مسلمانوں کی وہ کونسی دوسری جماعت ایسی ہے جو زندگی کے صرف عملی پہلو کو اسلام سمجھتی ہو۔ اور محض عقائد کو مذہب کی بنیاد
قرار نہ دیتی ہو۔
میں نے جب سے آنکھ کھولی مسلمانوں کو باہم دست و گریبان ہی دیکھا۔ سنّی۔ شیعی۔ اہلِ قرآن۔ اہل حدیث‘ دیوبندی ۔غیر دیوبندی۔ وہابی۔ بدعتی اور خدا جانے کتنے ٹکڑے مسلمانوں کے ہو گئے۔ جن میں سے ہر ایک دوسرے کو کافر کہتا تھا۔ اور کوئی ایک شخص ایسا نہ تھا۔ جس کے مسلمان ہونے پر سب کو اتفاق ہو۔ ایک طرف خود مسلمانوں کے اندر اختلاف و تضاد کا یہ عالم تھا۔ اور دوسری طرف آریائی و عیسوی جماعتوں کا حملہ اسلامی لٹریچر اور اکابر اسلام پر کہ اسی زمانہ میں میرزا غلام احمد صاحب سامنے آئے اور انہوں نے تمام اختلافات سے بلند ہو کر دنیا کے سامنے اسلام کا وہ صحیح مفہوم پیش کیا جسے لوگوں نے بھلا دیا تھا یا غلط سمجھا تھا یہاں نہ ابوبکرؓ و علیؓ کا جھگڑا تھا نہ رفع یدین و آمین بالجہر کا اختلاف یہاں نہ عمل بالقرآن کی بحث تھی نہ استناد بالحدیث کی۔ اور صرف ایک نظریہ سامنے تھا اور وہ یہ کہ اسلام نام ہے۔ صرف اسوۂ رسول کی پابندی کا۔ اور اس عملی زندگی کا۔ اُس ایثار و قربانی کا۔ اس محبت و رأفت کا۔ اس اخوت و ہمدردی کا اور اس حرکت و عمل کا جو رسول اﷲ کے کردار کی تنہا خصوصیّت اور اسلام کی تنہا اساس و بنیاد تھی۔
میرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی مدافعت کی اور اس وقت کی۔ جب کوئی بڑے سے بڑا عالم دین بھی دشمنوں کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے سوتے ہوئے مسلمانوں کو جگایا اٹھایا اور چلایا یہاں تک کہ وہ چل پڑے۔ اور ایسا چل پڑے کہ آج روئے زمین کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ان کے نشاناتِ قدم سے خالی ہو۔ اور جہاں وہ اسلام کی صحیح تعلیم نہ پیش کر رہے ہوں۔
پھر ہو سکتا ہے کہ آپ ان حالات سے متاثر نہ ہوں ۔ لیکن میں تو یہ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں۔ کہ یقینا بہت بڑا انسان تھا وہ جس نے ایسے سخت وقت میں اسلام کی جانبازانہ مدافعت کی اور قرونِ اولیٰ کی اس تعلیم کو زندہ کیا ۔ جس کو دنیا بالکل فراموش کر چکی تھی۔
رہا یہ امر کہ مرزا صاحب ؐ نے خود اپنے آپ کو کیا ظاہر کیا۔ سو یہ چنداں قابل لحاظ نہیںکیونکہ اصل سوال یہ نہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو کیا کہا بلکہ صرف یہ کہ کیا کیا۔اور یہ اتنی بڑی بات ہے۔ کہ اس کے پیش نظر ( قطع نظر روایات واصطلاحات سے) میرزا صاحب کو حق پہنچتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو مہدی کہیں کیونکہ وہ ہدایت یافتہ تھے‘ مثیل مسیحؑ کہیں۔ کیونکہ وہ روحانی امراض کے معالج تھے‘ اَور ظل بنیؐ کہیں کیونکہ وہ رسولؐ کے قدم بہ قدم چلتے تھے۔
۲:۔ اب رہا یہ امر کہ غیر احمدی لوگوں میں وہ رشتہ مصاہرت قائم نہیں کرتے اور ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے۔ تو اس پر کسی کو کیوں اعتراض ہو۔ کیا آپ کسی ایسے خاندان میں شادی کرنا گوارا کریں گے جس کے افراد آپ کے مسلک کے مخالف ہیں اور کیا آپ ان لوگوں کی اقتداء کریں گے جو اپنے کردار کے لحاظ سے مقتدا بننے کے اہل نہیں ہیں۔
احمدی جماعت کا ایک خاص اُصولِ زندگی ہے ۔ جس پر ان کے مرد‘ ان کے بچے اور ان کی عورتیں سب یکساں کاربند ہیں۔ اس لئے اگر وہ کسی غیر احمدی مرد یا عورت سے رشتۂِ از دواج قائم کریں گے تو ان کی اجتماعیت یقینا اس سے متاثر ہو گی اور وہ یکرنگی وہم آہنگی جو اس جماعت کی خصوصیتِ کاخاصہ ہے ختم ہو جائے گی۔ آپ اس کو تعصب کہتے ہیں اور میں اس
کو اعتصام و فراست تدبیر۔
رہی برنی ؔ صاحب کی کتاب۔ سو اس کے متعلق اس سے زیادہ کیا کہوں کہ جس حد تک بانی ٔ احمدیت کی زندگی و تعلیم احمدیت کا تعلق ہے وہ تلبیس و کتمانِ حقیقت کے سوا کچھ نہیں۔ اور مجھے سخت افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ احمدیت کے مخالفین میرزا غلام احمد صاحب سے بہت سی ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو انہوں نے کبھی نہیں کہیں۔ خصوصیّت کے ساتھ مسئلہ ختم نبوت کہ عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ میرزا صاحب رسولؐ اﷲ کو خاتم النبییین نہیں سمجھتے تھے‘ حالانکہ وہ شدّت سے اس کے قائل تھے کہ شرعی نبوّت ہمیشہ کے لئے رسول اﷲ ؐ پر ختم ہو گئی۔ اور شریعت اسلام دنیا کی آخری شریعت ہے۔‘‘ ۶۶
حواشی
۱۔
افریقہ کے اوّلین احمدی مبلغ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرّ ۱۹؍فروری ۱۹۲۱ء کو سیرالیون میں پہنچے اور ۲۸؍فروری کو آپ نے گولڈ کوسٹ (غانا) کے ساحل پر قدم رکھا تھا (تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۲۷۶ طبع اول)
۲۔
۷؍نومبر ۱۹۱۸ء کو امریکہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۳ء میں "WHEATEN COLLEGE ILLINOIS" سے گریجویٹ ہوئے ۱۹۴۶ء میں "YOUTH FOR CHRIST INTERNATIONAL" کے وائس پریذیدنٹ منتخب ہوئے جس کے بعد انہوں نے دنیا بھر میں اشاعت عیسائیت کیلئے دورے شروع کر دئے۱۹۴۹ء تک وہ (روس کے علاوہ) قریباً تمام مشہور ممالک میں کامیاب لیکچر دے چکے تھے۔ عیسائی دنیا میں ان کی دھوم مچی ہوئی تھی اور اُن کا شمار صفِ اوّل کے ممتاز عالمی منادوں میں ہوتا تھا۔
۳۔
الفضل ۳؍ستمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۴ــ۔۵ (مضمون مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری)
۴۔
(اُس نے لکھا کہ مسٹر نسیم سیفی نے جو لیگس میں جماعت احمدیہ کے بڑے سرگرم مبلغ ہیں ڈاکٹر گراہم کی بیان کردہ ایک بات سے اختلاف کیا اور انہیں اس بارہ میں چیلنج کے رنگ میں پبلک مناظرہ کے لئے للکارا مسٹر گراہم اس دعوت کو پی گے (دی مسلم ورلڈجولائی ۱۹۶۰ء بحوالہ انصار اﷲ فروری ۱۹۶۱ء صفحہ ۴۲)
۵۔
’’میدان عمل ‘‘ صفحہ ۳۰۔۳۱ (از مولانا نسیم سیفی صاحب ) ایضاً الفضل ۲۸ تا ۳۰ جولائی ۱۹۶۴ء
۶۔
متی باب ۱۷ آیت ۲۰
۷۔
یوحنا باب ۱۱ آیت ۲۲
۸۔
الفرقان ربوہ مئی ۱۹۶۰ء صفحہ ۷۔۸۔۲۸۔۲۹
۹۔
الفضل ۳۰؍جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ۴
۱۰۔
روزنامہ ’’نئی روشنی کراچی ۲؍اپریل ۱۹۶۰ء بحوالہ الفضل ۷؍اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ۲
۱۱۔
الفضل ۳۰؍جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ۴
۱۲۔
صدر ریلجس ہیری ٹیج آف امریکہ(RELIGIOUS HERITAGE OF AMERICA)
۱۳۔
بحوالہ مضمون مولانا نسیم سیفی صاحب مطبوعہ الفضل ۳۰ؔ؍جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ۴
۱۴۔
اخبار ’’نوائے وقت‘‘ لاہور ۱۲ اپریل ۱۹۶۰ء بحوالہ الفضل ۲۶؍اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ۵
۱۵۔
اخبار رضاکار ۸؍مئی ۱۹۶۰ء بحوالہ الفضل ۲۶؍مئی ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۔۴
۱۶۔
بحوالہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۹
۱۷۔
اخبار بدر قادیان ۲۱؍جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۲
۱۸۔
ایضاً ۳؍مارچ ۱۹۶۰ء
۱۹۔
اخبار بدر قادیان ۲۱۔۲۸؍جنوری۔۲۵؍فروری۔۳؍مارچ ۱۹۶۰ء
۲۰۔
اس سلسلہ میں اخبار ’’ہندوستان‘‘ ۸؍جنوری ۱۹۶۰ء کے متن کے لئے ملاحظہ ہو بدر ۲۸؍جنوری۱۹۶۰ء صفحہ۱۰
۲۱۔
اخبار بدر قادیان ۲۱؍جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۴ (اس رپورٹ کا بیشتر حصہ اخبار ’’دعوت‘‘ دہلی مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۶۰ء نے بھی شائع کیا)
۲۲۔
تنزانیہ (سابق ٹانگانیکا) کا دارالسلطنت ۔ اُن دنوں اس کی آبادی ایک لاکھ تیس ہزار افراد پر مشتمل تھی سب سے زیادہ یورپین اور ایشیائی باشندے یہیں آباد تھے اور تجارتی مرکز ہونے کے باعث ان دونوں قوموں کا سب سے زیادہ سرمایہ اسی شہر میں لگا ہوا تھا۔
۲۳۔
الفضل ۲۱؍جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۲
۲۴۔
الفضل ۶؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵
۲۵۔
براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۸۷ طبع اوّل تالیف ۱۹۰۵ء
۲۶۔
الفضل ۶؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۴
۲۷۔
الفضل ۱۴؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵ (ترجمہ مولوی محمد منور صاحب سیکرٹری احمدیہ مسلم مشن نیروبی)
۲۸۔
الفضل ۷؍جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۴
۲۹۔
الفضل ۲۳؍جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ ۱
۳۰۔
اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء از مقام ہوشیارپور مشمولہ ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر یکم مارچ ۱۸۸۶ء صفحہ ۱۴۸
۳۱۔
الفضل ۲۸؍جنوری ۱۹۶۰ء صفحہ ۱۔۸
۳۲۔
الفضل ۲؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵ـ۔۸
۳۳۔
’’لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۳۴ ‘‘ طبع اوّل ۱۹۰۴ء۔ تذکرہ طبع چہارم صفحہ ۳۸۰
۳۴۔
اکحکم ۲۴؍اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ۸ تذکرہ طبع چہارم صفحہ ۴۲۰
۳۵۔
براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۷ (طبع اوّل)
۳۶۔
الفضل ۱۶۔۱۷؍فروری ۱۹۶۰ء
۳۷۔
الفضل ۴؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۴
۳۸۔
الفضل ۵؍فروری ۱۹۶۰ء صفحہ ۵
۳۹۔
اخبار بدر قادیان ۱۰ مارچ ۱۹۶۰ ء صفحہ ۱۰ــ۔۱۱
۴۰۔
الفضل ۶؍مارچ ۱۹۶۰ء صفحہ۱
۴۱۔
بدر ۳۱؍مارچ ۱۹۶۰ء صفحہ ۱۔۱۰۔الفضل ۱۲۔۱۳؍اپریل ۱۹۶۰ء
۴۲۔
الفضل یکم مئی۱۹۶۰ء صفحہ ۳۔۴
۴۳۔
الفضل ۵؍اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ۳
۴۴۔
الفضل یکم اپریل ـ۱۹۶۰ء صفحہ ۱۔۸
۴۵۔
الفضل ۳۰؍اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۴
۴۶۔
الفضل یکم؍ اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ۱۔۵
۴۷۔
اخبار بدر قادیان ۲۱؍اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ ۶
۴۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۰ء صفحہ ۵۹۔۶۰
۴۹۔
الفضل ۱۷؍جون۱۹۶۰ء صفحہ ۳
۵۰۔
سوونیئر مجلس خدّام الاحمدیہ کراچی ۱۹۶۰ء
۵۱۔
الفضل ۱۱؍جون ۱۹۶۰ء صفحہ۴
۵۲۔
الفرقان ربوہ اگست ۱۹۶۰ء صفحہ۶ تا ۸
۵۳۔
اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد اوّل زیر لفظ خروشیف صفحہ ۵۷۱۔ ناشر غلام علی اینڈ سنز لاہور اشاعت ۱۹۸۷ء
۵۴۔
عالمی واقفیت عامہ صفحہ ۴۳۲ تا ۴۴۱۔ از طارق محمود ڈوگر ایم اے ایل ایل بی۔ ناشر ڈوگر سنز سنت نگر ڈوگر آباد لاہور ۱۹۹۲ء
۵۵۔
بحوالہ الفضل ۱۵؍جولائی ۱۹۶۰ ء صفحہ۴
۵۶۔
الفضل ۶؍جولائی ۱۹۶۰ء صفحہ۵
۵۷۔
الفضل ۱۴؍اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ۵
۵۸۔
الفضل ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ۶
۵۹۔
الفضل۶؍ نومبر ۱۹۶۰ء صفحہ۶
۶۰۔
الفضل۳۰؍۱۹۶۰ء صفحہ ۶
۶۱۔
الفضل ۲۲؍ نومبر ۱۹۶۰ صفحہ ۶
۶۲۔
الفضل ۲۲؍ نومبر ۱۹۶۰ صفحہ ۶
۶۳۔
الفضل ۱۸؍ نومبر ۱۹۶۰ صفحہ ۶
۶۴۔
الفضل ۱۱ ؍دسمبر ۱۹۶۰ صفحہ ۶
۶۵۔
رسالہ نگار لکھنؤ بابت ماہ ستمبر ۱۹۶۰ء بحوالہ’’الفرقان‘‘ اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۴۱۔۴۳
۶۶۔
رسالہ نگار لکھنٔو اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ۴۴۔۴۵ بحوالہ الفضل۲۹؍اکتوبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۔۴
ساتواں باب
احمدیہ مشن کا قیام اور اس کی عظیم الشان خدمات
فصل اوّل
جغرافیائی حالات
فجی ۳۲۰جزیروں پر مشتمل ایک مجمع الجزائر اور پارلیمانی ریاست ہے جو بحرالکاہل کے جنوب مغربی جزائر میں مرکزی
حیثیت رکھتی ہے۔اور اس شاہراہ پر واقع ہے جو آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ امریکہ اور کینیڈا کو ملاتی ہے۔ فجی کا سب سے بڑا جزیرہ وی ٹی لیوو(VITILEVU)ہے اور اسی میں دارالحکومت صوا(SUVA)ہے جو بلحاظ آبادی ملک کا سب سے اس شہر ‘ سب سے بڑی بندرگاہ اور بین الاقوامی ڈیٹ لائن کے عین مغربی کنارہ پر واقع ہے۔ فجی کا دوسرا بڑا مقام ناندی (NANDI)ہے جو وی ٹی لیووVITILEVU)) کے مغربی کنارے پر بین الاقوامی فضائی مستقرہے۔
آبادی
۱۹۷۴ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبای پانچ لاکھ ساٹھ ہزار تھی جو ۱۹۸۹ء میں سات لاکھ‘ستائیس ہزار نو سو دو تک پہنچ گئی۔ ۱
تقریباً نصف آبادی اُن مسلم و غیر مسلم ہندوستانیوں پر مشتمل ہے جن کے آباء واجداد کو بیسویں صدی کے وسط میں گنے کے کھیتوں کے مالکان نے یہاں لا کر آباد کیا۔ ہندوستانیوں کی اکثریت ہندو ہے۔ مقامی باشندے تمام تر مسیحی (میتھوڈسٹ) ہیں اور میلانیشین اور پولی نیشین نسل سے تعلق رکھتے ہیں ان کے علاوہ پندرہ ہزار کے لگ بھگ یورپی اور چھ ہزار کے قریب چینی بھی آباد ہیں:۔ فجی میں پہلی یورپی نوآبادی ۱۸۰۴ء میں قائم ہوئی۔ انگریز حاکموں کے پیچھے پیچھے پادری آئے جنہوں نے پوری مقامی آبادی کو عیسائی بنا دیا۔ ۱۸۷۴ء میں یہ مجمع الجزائر سلطنتِ برطانیہ کے زیر تسلط آگیا۔ ۱۹۶۵ء میں فجی کو حکومتِ خود اختیاری ملی اور۱۰؍اکتوبر ۱۹۷۲ء کو یہ ایک آزاد مملکت کی حیثیت میں ابھر آیا۔ ۲
ہندو مسلم کشمکش اور فجی مسلم لیگ کی بنیاد
ابتداء میں پردیس اور
غریب الوطنی نے ہندو اور
مسلمانوں کو شیرو شکر کر رکھا تھا۔ حتی کہ انتہائی محبت و مروت میں وہ بعض مذہبی قیود کوبھی خیر باد کہہ چکے تھے۔ ہندو عورتوں نے مسلمان مردوں سے اور مسلمان عورتوں نے ہندو مردوں سے باقاعدہ شادیاں کر لی تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کر کے امداد کر تے تھے اور ان میں کسی قسم کا فساد نہ تھا۔ کہ یکایک فجی کے آریوں نے ہندوستان سے پنڈت سری کرشن اور ٹھاکر کندن سنگھ جی کو بلوا کر ملک کی پُر سکون فضا مکدّر کر دی۔ سب سے پہلے سناتن دھرمیوں اور پھر عیسائیوں پربر سے بعد ازاں مسلمانوں کو آنکھیں دکھانا شروع کیں اور آریہ سماج تحریک ایک سیلاب کی طرح پھیلنے لگی جس کی زد میں بہت جلد مسلمان بھی آنے لگے۔ آریہ پنڈتوں نے مسلمانوں کو چیلنج پر چیلنج کرنا شروع کیئے جس پر ۱۹۲۶ء میں فجی مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی اور وائس پریذیڈنٹ عبدالغفور ساہو خاں تھے۔ فجی میں مسلمانوں کی یہ پہلی نمائندہ تنظیم تھی۔ جمعیت العماء ہند کو لکھا گیا کہ کوئی ایسے عالم بھیجے جو اسلام کے علاوہ آریہ مذہب سے بھی واقف ہوں تمام اخراجات فجی کے مسلمان برداشت کریں گے۔مگر جمعیت العلماء مسلمان فجی کے دکھ کا کوئی مداوا نہ کر سکی۔ اس مایوسی کے عالم میںمسلمانانِ فجی نے جناب سیّد غلام بھیک صاحب نیرنگؔ کو انبالہ لکھا۔ انہوں نے ایک صاحب مولوی تراب علی صاحب کو تیار بھی کیا مگر یہ صاحب مسلمانان فجی کے پچیس پونڈ وصول کرنے کے باوجود نہ خود فجی پہنچے نہ روپیہ واپس کیا۔ ۳ ابتک فجی کے مولوی عبدالکریم صاحب بانی اسلامیہ سکول ناصوری آریوں اور عیسائیوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی خدمات سے متاثر تھے۔ انہیں مسلم سکول کے لیئے ٹیچر کی ضرورت تھی انہوں نے انجمن مذکور سے رابطہ کر کے ایک صاحب ماسٹر محمد عبداﷲ کو فجی منگوالیا۔ ماسٹر صاحب ۲۶؍مارچ ۱۹۳۱ء ۔ ۴ کو بمبئی سے بذریعہ برطانوی جہاز روانہ ہو کر وسط اپریل ۱۹۳۱ء میں فجی پہنچ گئے۔ ماسٹر صاحب کی تحریک پر فجی مسلم لیگ کی طرف سے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے رابطہ کیا گیا اور متواتر ڈیڑھ سال تک انجمن کے ایک ممتاز عالم مرزا مظفر بیگ صاحب ساطعؔ کو درجنوں تاریںاوربہت سے خطوط پہنچے کہ فجی آ کر آریہ سماج اورعیسائیت کا مقابلہ کر کے مسلمانوں کی مدد کریں۔ ۵ جس پرجناب ساطع ؔ صاحب ۷؍اپریل ۱۹۳۳ء کی شب کو بذریعہ فرنٹیرمیل لاہور سے روانہ ہوئے۔مسلم لیگ فجی نے تمام اخراجات سفر بی اینڈ او کمپنی بمبئی کے پاس جمع کروا دئیے تھے اور کمپنی نے اطلاع دے دی تھی کہ فجی کے لیئے جہاز کولمبو سے ملے گا۔ ۱۵؍اپریل کو آپ کولمبو سے جہاز پر بیٹھے اور ۱۲؍مئی ۱۹۳۳ء کو آپ فجی پہنچ گئے۔ ۶ جناب ساطعؔ صاحب کو فجی میں قدم رکھے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ فجی مسلم لیگ نے احمدیت کی آڑ لے کر آپ کو جامع مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے سے روک دیا۔ ۷ آپ نے ساہو خانصاحب کے ہاں نماز پڑھنی شروع کر دی جہاں جامع مسجد کی نسبت کئی گنا حاضری ہوتی تھی۔ ۸ مرزا صاحب پہلے آٹھ ماہ صوا میں رہے پھر ۲۵؍دسمبر ۱۹۳۳ء کو ناندی آ گئے۔ ۹ اس دوران ۸؍اکتوبر ۱۹۳۳ء کو آپ کا پادری سموئیل شرن سے کامیاب مناظرہ ہوا۔ پادری صاحب نے بے اختیار ساطعؔ صاحب کی نسبت کہا کہ واقعی آپ شیرہیںمگر انہوں نے جواب دیا کہ میںتو اسلام کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بڑا فوٹو دکھاتے ہوئے کہا یہ ہے شیر جسکو خدا تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کے واسطے بھیجا ہے محمدؐ کے شیروں کے آگے مسیح ؑکی بھیڑیں نہیں ٹھہر سکتیں!! یہ سنتے ہی مسلمانوں نے تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا ۔ ۱۰ اس مناظرے نے احمدیت کے بعض شیدائی پیدا کر دئیے چنانچہ ۲۶؍جنوری ۱۹۳۴ء کو جب کئی مفسدین نے آپ کی قیام گاہ پر حملہ کیا تو انہی لوگوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اسوقت جناب ساطع صاحب نے تحریک کی کہ اب تک آپ سب لوگ اپنے آپ کو فخر سے احمدی کہلانے اور احمدیت کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن جب تک باقاعدہ بیعت کر کے آپ حضرات جماعت احمدیہ میں شریک نہ ہو جائیں آپ کی حیثیت صرف معاونین کی ہے احمدی کی نہیں۔ انہوں نے یہ الفاظ اس جذبے سے کہے کہ اس مجلس میں موجود چھ حضرات نے انجمن اشاعت اسلام کے امیر مولانا محمدعلی صاحب کے نام بیعت نامہ لکھ کر دستخط کر دئیے۔ جن میں ضلع ناندی کے محمدرمضان خان صاحب اور ان کے بھائی عبداللطیف خاں صاحب ا ور محمد حکیم خاں صاحب (پسر محمدرمضان خاں صاحب ) بھی تھے۔ ۱۱
مرزا مظفر بیگ صاحب ساطعؔ نے لکھا:۔
’’ ضلع ناندی کے محمد اسحٰق خانصاحب و محمدرمضان خانصاحب نے استقلال اور آہنی عزم کا وہ نمونہ پیش کیا کہ اس زمانے میں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے‘ ان کی سپرٹ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی سپرٹ سے رنگین تھی۔ خطرناک سے خطرناک حالات میں بھی احمدیت کو کامیاب بنانا ان کا ہی کام تھا۔ معاندین سلسلہ کاہر رنگ میں مقابلہ کرنے والے یہی دو شیر مرد تھے خدا تعالیٰ نے انہیں جسمانی قوت بھی شیروں کی سی دی ہے اور سینوں میں دل بھی شیروں کے سے دئے‘‘۔ ۱۲ مرزا صاحب موصوف کم و بیش ساڑھے تین برس تک تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد ۱۶؍جنوری ۱۹۳۷ء کو کلکتہ اور۳۱؍جنوری ۱۹۳۷ء کو لاہور پہنچ گئے۔ ۱۳
فصل دوم
مستقل احمدیہ مشن کی بنیاد
سیدنا حضرت مصلح موعودکی دیرینہ خواہش تھی کہ فجی میں جماعتِ مبائعین کی طرف سے احمدیہ مشن کھو لا جائے
چنانچہ حضورنے ۱۹۵۶ء میں شیخ عبدالواحد صاحب سابق مبلغ چین و ایران کو ارشاد فرمایا کہ جزائر فجی کے لئے تیاری کریںاور کچھ ہندی پڑھ لیں۔ان جزائر میں پہلی بار احمدیت کا نام ۱۹۲۵ء کے قریب پہنچا تھا جبکہ (حضرت چوہدری غلام احمد خان صاحب آف کریام کے نسبتی بھائی) چوہدری کاکے خانصاحب مرحوم ۔ ۱۴ کے بڑے صاحبزادے چوہدری عبدالحکیم صاحب ۔۱۵ جنرل مرچنٹ کاروبار کے سلسلہ میں جالندھر اور ہوشیارپور کے دوستوں کے ساتھ فجی تشریف لے گئے اور ناندی میں قیام کیا۔ ان کی خط و کتابت حضرت مصلح موعودسے ہوتی رہی اور اُن کا چندہ پہلے قادیان اور پھر ربوہ میں براہ راست پہنچتا رہا اور’’ الفضل ‘‘اور دوسرا مختصر لٹریچر انہیں ملتا رہا جس سے نہایت محدود حلقہ میں سلسلسہ احمدیہ کے صحیح حالات پہنچا سکے اور گو فجی میں کوئی جماعت اُن کے ذریعہ قائم نہ ہو سکی۔ تا ہم وہ اخلاص سے جماعتی لٹریچر اور اخبار الفضل دوسروں کو دیتے رہتے تھے۔ ۱۶ اس ماحول میں فجی کے لئے شیخ عبدالواحد صاحب کو انٹری پرمٹ ملنا قریباً ناممکن تھا۔ کیونکہ قانونی طور پر کوئی رجسٹرڈ جماعتِ مبائعین ایسی نہ تھی جو ضمانت دے سکے۔ ان سراسر مخالف حالات میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے خلیفٔہ موعودکی قلبی آرزو کو پورا کرنے کا یہ سامان فرمایا کہ محمد رمضان خاں صاحب رئیس اعظم ناندو جو انجمن اشاعت اسلام کے پُر جوش اور سرکردہ ممبر تھے اور ان دنوں فجی کی انجمن کے پریذیڈیٹ تھے حج بیت اﷲ شریف اور زیارتِ مدینہ منورہ سے مشرّف ہو کر ۱۵؍ جولائی ۱۹۵۹ء کو مقامات مقدّسہ کی زیارت کے لئے قادیان گئے ان کے ہمراہ اُن کی بیگم صاحبہ اور پوتا عقیب خاں بھی تھا۱۸؍جولائی کو دیار حبیب کی برکات سے فیضیاب ہونے کے بعد لاہور پہنچے۔ ۱۷ اوراپنے داماد انوار رسول صاحب ( سپرنٹنڈنٹ سیکرٹریٹ) کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔ ۱۸ محترم انوار رسول صاحب کے بیان کے مطابق اُن کے رشتہ کی منظوری حضرت مصلح موعود نے دی اور فرمایا کہ شاید اس طرح اُس جگہ (یعنی جزائر فجی میں) ’’حقیقی احمدیت پھیل جائے‘‘ (مکتوب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ ۱۰؍جولائی ۱۹۵۴ء نمبر۲۵۷۰)۔
الحاج محمدرمضان صاحب ۱۴؍اگست کو اپنی صاحبزادی اور پوتے کے ساتھ ربوہ میں تشریف لائے اور تحقیق کی غرض سے ایک ہفتہ تک مرکزِاحمدیت میں قیام فرمارہے۔ ۱۹ آپ نے حضرت مصلح موعود کی ملاقات بھی کی اور جلد ہی خلیفہ موعود کی بیعت کا شرف حاصل کر لیا اسی طرح آپ کی بیگم صاحبہ اور محمد عقیب خاں صاحب بھی انوار خلافت سے مالا مال ہوئے۔ وکالت تبشیر ربوہ کی طرف سے ۲۹؍اکتوبر ۱۹۵۹ء کو چوہدری عبدالحکیم صاحب کے نام اطلاع دی گئی کہ الحاج محمد رمضان صاحب نے بیعت خلافت کر لی ہے۔
محترم حاجی محمد رمضان صاحب نے اپنے پوتے کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل کرا دیا اور خود ۱۹۶۰ء میں واپس وطن تشریف لائے اور چوہدری عبدالحکیمصاحب کے ساتھ مل کر زور شور سے حق کی منادی شروع کر دی لوگوں کے سامنے مرکز احمدیت ربوہ اور خلافت کی برکات سے متعلق اپنے ذاتی مشاہدات بیان فرمائے اور ہم خیال دوستوں سے بیعت خلافت کرانے کا آغاز کیا چنانچہ ۱۳؍مئی ۱۹۶۰ء تک ۱۵بیعتیں مرکز کو بھجوائیں ۱۹؍اپریل ۱۹۶۰ء تک ۳۰افراد پر مشتمل ایک جماعت تیار ہو گئی اس کے ساتھ ہی آپ نے مولانا شیخ عبدالواحد صاحب کے لیئے جولائی ۱۹۶۰ء میں پرمٹ ربوہ پہنچادیا جس پر شیخ صاحب موصوف۶؍اکتوبر۱۹۶۰ء کو مرکز احمدیت ربوہ سے ۔ ۲۰ عازم فجی ہوئے اور ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو بوقت دس بجے شب ناندی ایئر پورٹ پر قدم رکھا۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندے حضرت مصلح موعود کی دلی خواہش کی تکمیل کا غیبی سامان فرمایا اور اس کے فضل خاص سے احمدیہ مشن فجی کی بنیاد رکھی گئی۔
فجی کے بعض ابتدائی احمدیوں
کے ایمان افروز کوائف
فجی کے اوّلین احمدی چوہدری عبدالحکیم صاحب اور الحاج محمد رمضان خانصاحب (جو فجی مشن کے قیام کا موجب بنے) کا ذکر اوپر آ چکا ہے ان کے علاوہ بعض دیگر ابتدائی احمدیوں کا تفصیلی
تذکرہجناب شیخ عبدالواحد صاحب کے مکتوب مورخہ ۲۲؍ فروری ۱۹۶۸ء میں ملتا ہے فرماتے ہیں۔
۱۔ حاجی محمد رمضان خانصاحب کے زیر اثر حاجی صاحب کی والدہ کا خاندان اور حاجی صاحب کے والد کا خاندان انکے زیر تبلیغ تھا چنانچہ میرے پرمٹ کے ساتھ ہی حاجی صاحب نے بھائی محمدجان خان کی بیعت اور ان کے بھائیوں کی مردوں عورتوں کی بیعت ربوہ بھیج دی۔ حاجی صاحب کا خاندان بنگالی ہے اور انکی والدہ کا خاندان افغانی ہے میرے فجی پہنچنے سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ نے یہ ایک مختصر جماعت قائم کر دی اور مجھے بشارت دی کہ فجی میں ایک چھوٹی سی معمولی چھپر کی سی مسجد میں ایک چھوٹی سی جماعت جو بنگالی رنگ اور افغانی رنگ کے افراد پر مشتمل ہے میرا استقبال کر رہی ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا فضل ایسے ہی رنگ میں دکھایا اور میرے آنے پر جماعت کے ممبروں کا چناؤ ہوا اور ناندی کی جماعت کے سب سے پہلے پریذیڈنٹ بھائی محمد جان خان چنے گئے اور اِس وقت تک اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ان کو اس خدمت کا موقع مل رہا ہے۔
۲۔ حاجی محمدرمضان خانصاحب کے اثر اور تعلقات کاروباری و رشتہ داری کی برکت سے ماسٹر محمد شمس الدین صاحب جو ۱۹۶۰ء میں ناندی سے ۱۸میل آگے لَوتوکاٹاؤن میں رہتے تھے بیعت میں شامل ہو گئے۔ چونکہ سمجھدار اور پڑھے لکھے تھے اور کام کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے ۔ دوستوں نے متفقہ طور پر اُن کو جنرل سیکرٹری منتخب کر لیا۔ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے دل میں تبلیغ کا بہت شوق پیدا کر دیا۔ انہوں نے دور و نزدیک بہت سے دورے کئے۔ بہت سے متعلقین نے بیعت کی۔
۳۔ مولوی محمد قاسم خان صاحب آف مارو (ھنڈرونگا)۔ مولوی صاحب موصوف ناندی سے ۳۴میل کے فاصلہ پر مارو میں گنے کی کھیتی کرتے ہیں۔ نومبر ۱۹۶۰ء میں جب میں ناندی پہنچ چکا تھا اپنے صاحبزادہ جسکا نام انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی ہی رکھ دیا تھا ناندی مارکیٹ میں مجھ سے ملا جبکہ میں مکرم حاجی رمضان خانصاحب کے ساتھ اسی غرض کے لیئے مارکیٹ میں گھومنے کے لیئے آیا تھا کہ لوگوں سے تعارف ہو الحمدﷲکہ ان سے تعارف اور مختصر گفتگو ہوئی حاجی صاحب کے یہ چھوٹے بھائی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا حسب توفیق واستطاعت مطالعہ رکھتے ہیں۔ وہاں سے فارغ ہو کر دوپہر کو حاجی صاحب کے گھر پر آ کے خدا تعالیٰ کے فضل سے دونوں باپ بیٹے نے بیعت خلافت کر لی نہایت پر جوش جذبہ تبلیغ رکھتے ہیں اپنے گاؤں مجھے دو سال تک بلاتے رہے لوگوں کو دعوتیں دیتے خرچ کرتے لیکن نہ غیر احمدی اور نہ لاہوری خیال کے احباب بات سننے آتے بظاہر ان کی دعوت کی تیاری اور کھانا اور محنت ضائع ہی جاتی۔ آخر خدا تعالیٰ نے ان کے صبر اور دعاؤں پر رحم کیا ان دونوں بھائیوں کی متواتر تبلیغ سے ان کے عزیز رشتہ دار ماروؔ رحمت اﷲ خان میموریل سکول کے ہیڈماسٹر ماسٹر محمد حسین صاحب نے بیعت کر لی اور ان کے ساتھ مل کر تبلیغ کرنی شروع کی اور اپنے اثر و رسوخ سے اپنے متعلقین کو ہماری باتیں سننے کیلئے تیار کیا اور تین سال سے بویاہوا بیج ایک ایک دو دو پانچ پانچ ‘ دس دس کر کے اگنے لگا۔ الحمدﷲ کہ اب ماروؔ میں جماعت احمدیہ ہی قابل ذکر جماعت ہے جہاں ایک ۴۰ x۵۰ فٹ لمبی چوڑی بلڈنگ بیت محمود کے نام سے تیار ہو گئی ہے جسکی بنیاد حضرت بزرگوار چوہدری
سرظفر اﷲخا نصاحب نے۶۵۔۱۱۔۷کو رکھی تھی۔ مولوی محمد قاسم خانصاحب موصوف جو ہماری جماعت مارو کے امام الصلوٰۃ ہیں بہت جوشیلی اور پرُ اخلاص طبعیت رکھتے ہیں لیکن ایک نرالی اور قابل رشک بات ہے کہ جماعت کے مبلغ کے لیئے اتنی محبت اتنی غیرت اپنے دل میں رکھتے ہیں کہ اسکی طرف سے فیصلہ ہو جانے پر اپنے تمام خیالات چھوڑدیتے ہیں دوسرے اگر کچھ دیر کیلئے اختلاف کے وقت میں دل میں تنگدلی اور کشیدگی بھی یا شکر نجی بھی رکھیں اور بعد میں سمجھانے پر ٹھیک ہو جائیں گے ان میں ایسا مقابلہ نہیں پایابلکہ معاون اور اطاعت کرنے والا۔ اللھّم زدفزد۔
4۔ محمد صدیق خانصاحب (جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ فجی) نہایت سمجھدار اور نیک آدمی ہیں علم دین اور لڑیچر احمدیت سے واقفیت رکھتے ہیں ۱۹۶۰ء میں ہی میرے ساتھ ناندی میں ملاقات ہوئی پھر لوتوکا میں ان کے مکان پر پہنچ کر تبلیغ کرتا رہا۔ پہلے لاہوری پیغامی خیالات کو ہی ٹھیک سمجھتے تھے دسمبر۱۹۶۰ء میں ان کی بیگم صاحبہ جو بہت نیک عقلمند اور تبلیغ تربیت کرنے کا جوش رکھنے والی خاتون ہیں انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے مکان کے درازہ پر گلوب (بلب) تو لگا ہے لیکن جلتا نہیں خاکسار (شیخ عبدالواحد ) نے ہاتھ سے اسکو پھیر دیا ہے تو جلنے لگ گیا ہے دونوں میاں بیوی میرے پاس ملنے آئے اور خواب سنایا میں نے تعبیر بتائی کہ پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو پہنچ چکا ہے صرف منہ اس طرف پھیرنا باقی ہے چنانچہ دونوں نے بیعت کر لی چنانچہ اس وقت سے نہایت توجہ محنت اور اخلاص سے خدمت دین میں لگے رہتے ہیں۔ ٗگذشتہ سال تک آپ لوتوکا جماعت کے پریذیڈنٹ رہے اب گذشتہ سال سے ساری فجی جماعت کے جنرل پریذیڈنٹ چنے گئے ہیں ان کی بیگم صاحبہ لجنہ اماء اﷲ لوٹوکا کی پریذیڈنٹ ہیں اور دین کی خدمت کے شوق میں بڑھاپے میں اردو پڑھنا سیکھا ہے۔ ان کے بچے بھی دین کے کاموں میں جوش و شوق سے حصہ لیتے ہیں۔ فجز اھم اﷲ خیراً۔ ان کی تبلیغ و کوشش نیک اثر و نمونہ سے بہت سے متعلقین داخل سلسلہ ہوئے ہیں جن میں سے حاجی محمد حنیف ۔شاہ محمد صاحبان مالک پاپولر فرنیچرشاپ بھی ہیں جن کے متعلق مولوی احمد یار صاحب لاہوری مبلغ نے لکھا تھا کہ لوٹوکاکے بہت بڑے امیر گھرانہ کے پیغامی جماعت میں شامل ہونے کی امید ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ ایک ہفتہ پیغامی مبلغ کو اپنے گھر پر رکھنے انکی مہمان نوازی کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ خلافت کی بیعت سے ہی روحانی زندگی سے ہم بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ دو ہفتہ کے بعد اٹھارہ افراد خاندان کے ساتھ بیعت میں شامل ہو گئے۔ (الحمد لِلّٰہِ علیٰ ذالک)بیعت کے بعد جماعت احمدیہ لوٹوکا کے پریزیڈنٹ منتخب ہوئے۔ کوشش کر کے احمدیوں کی ایک ایجوکیشن کمیٹی بنائی۔ آپ اس ایجوکیشن سوسائٹی کے چیئرمین ہیں مکرم ڈاکٹرشوکت علی صاحب احمدی
ایم۔ اے ۔ پی۔ ایچ۔ ڈی اس کالج کے پرنسپل ہیں جو کہ کمیٹی ناندی میں چلاتی ہے۔ مکرم ڈاکٹر شوکت علی صاحب ۱۹۶۱ء کے آخر میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے پھر آپ کاٹھیاوار گجرات ہندوستان ڈاکٹریٹ کرنے گئے واپس آ کر اسلامیہ سیکنڈری سکول لوٹوکا کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ احمدیت کی مخالفت میں انکو ہمیشہ مقابلہ کرنا پڑا ۔ بالآخر محترم بزرگوار چوہدری سرمحمد ظفر اﷲ خانصاحب کے نومبر ۱۹۶۵ء میں فجی آنے پر ڈاکٹر صاحب کی احمدیت کی بہت مخالفت ہوئی جس کے نتیجہ میں وہاں سے نوکری چھوڑنی پڑی ۔ اﷲ تعالیٰ نے اچھا ہی کیا کہ اس تکلیف کے بدلہ اپنا کالج قائم ہو گیا۔ ۲۱
فصل سوم
فجی کی پہلی اور مرکزی بیت فضل عُمر کی تعمیر
جب اﷲ تعالیٰ نے ناندی اور لوٹو کا جیسے اہم شہروں میں مخلص
جماعتیں قائم فرمادیں تو شیخ عبدالواحد صاحب نے فجی کے دارالحکومت سووا شہر کا رُخ کیا۔ یہاں بھی اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور جون ۱۹۶۱ء میں ایک ہی دن ۱۲افراد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے اور پھر آہستہ آہستہ وہاں ایک مخلص‘ جوشیلی اور فعال جماعت قائم ہو گئی جس کے بعد علاقہ ساما بو لد میں ایک مکان کرایہ پر لے کر باقاعدہ مرکز قائم کر دیا گیا یہ مرکز ۸۲کنگز روڈ میں کھولا گیا ( اسی مرکز میں دسمبر ۱۹۶۲ء میں جزائر فجی کے احمدیوں کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں ۱۲۵ افراد شامل ہوئے)۔اگلی عیدالفطر کے موقع پر جماعت بڑھ جانے کی وجہ سے یہمکان اتنا ناکافی ثابت ہوا۔نہ جماعت کے احباب وہاں سما سکے اور نہ ان کی موٹریں وغیرہ کھڑی کرنے کیلئے کوئی جگہ تھی۔ عیدالفطر کے خطبہ میں شیخ عبدالواحد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام وسّع مکانک کا حوالہ دیکر تحریک کی کہ صووا (SUVA) شہر میں جماعتی مرکز کے لیئے کوئی وسیع مکان تلاش کر کے خریدنے کا انتطام کیا جائے۔چنانچہ احباب جماعت نے مناسب جگہ کی تلاْش شروع کر دی۔ اس دوران معلوم ہوا کہ ساتھ والا پلاٹ مع مکان قابل فروخت ہے جس کی بیوہ مالکہ تین ہزار پونڈ طلب کرتی ہے جماعت کی طرف سے دو ہزار پونڈ کی پیش کش کی گئی مگر وہ تین ہزار پونڈ سے کم فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئی۔ چونکہ وہ قطعہ زمین جماعت کے مرکز اور مسجد کے لیئے نہایت موزوں اور باموقعہ تھا اس لیئے جماعت نے اس عورت کے بعض رشتہ داروں کے ذریعہ اسے سمجھایا کہ اس کی زمین کسی تجارتی غرض کے لیئے نہیں بلکہ محض خانۂ خدا کی تعمیر اور تبلیغ اسلام کے مرکز کے لیئے لی جا رہی ہے چنانچہ آخر کار دو ہزار پونڈ قیمت پر اس قطعہ زمین اور مکان کو فروخت کرنے پر رضامند ہو گئی جس کے بعدوکیل کے ذریعہ تحریری معاہدہ کے علاوہ اسے بیعانہ بھی ادا کر دیا گیا یہ وسط ۱۹۶۲ء کی بات ہے۔ اس کے بعد جب اس عورت کے رشتہ داروں اور بعض لوکل تنظیموں کے سربراہوں اور کارندوں کو جو جماعت احمدیہ کے مخالفین میں سے تھے اس سودے کا پتہ چلا تو اُن سب نے مل کر اسکو ورغلایا کہ وہ اس سودا کو یہ کہہ کر فسخ کر دے کہ اس پر ناجائز دباؤ ڈال کر متعلقہ معاہدہ پر دستخط کرائے گئے ہیں حالانکہ یہ محض جھوٹ اور افتراء تھا تاہم اگرچہ وہ قانونی طور پر اس سودے کو کالعدم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی پھر بھی عرصہ تک جماعت کو پریشان کئے رکھا۔ اور جب اُسے اپنا کوئی حربہ کارگر ہوتا نظر نہ آیا اور وکیل کی معرفت ہماری جماعت نے اُسے حسب معاہدہ تین ماہ کے اندر اندر پوری رقم بھی ادا کر دی تو مخالفین کے اُکسانے پر وہ اس مکان میں بطور کرایہ دار رہنے پراصرار کرنے لگی اور مکان خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ ادھر شہر میں مخالفین یہ غلط اور جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے لگے کہ احمدی ایک کمزور بیوہ عورت کو قانونی پیچیدگیوں میں پھنسا کر اس کی جائیداد سے اُ سے بے دخل کر رہے ہیں حالانکہ اس عورت نے ہماری جماعت سے بات شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی وہ زمین اور مکان فروخت کرنے کا اعلان کر رکھا تھا اور ایک شراب خانے کا مالک اسے اس زمین و مکان کے لیئے تین ہزار پونڈ پیش کر چکا تھا مگر محلہ کے شرفا کی مخالفت کی وجہ سے وہ زمین شراب خانہ کے لیئے فروخت نہ کی گئی۔ آخر مالکہ زمین کو وکیل کے ذریعہ جماعت کی طرف سے ایک ماہ کے اندر اندر وہاں سے نکل جانے کا آخری نوٹس دیا گیا جس کے اختتام پر اس نے مجبور ہو کر عمارت بکلّی خالی کر دی اور اپنے بعض احمدی عزیزوں کے ہاں چلی گئی۔ چنانچہ پھر مزید تین صد پونڈ لگا کر اس عمارت کی مرمت کی گئی ایک حصّہ کو تبدیل کر کے اور باقاعدہ محراب وغیرہ بنا کر اُسے مسجد کی شکل دے دی گئی اور اس کا نام’’بیت فضل عمر‘‘ رکھا گیا۔ ایک حصہ احمدیہ لائبریری اور ریڈنگ روم اور آفس کے لیئے استعمال کے قابل بنا لیا گیا اور باقی حصہ میں کچھ تبدیلیاں کر کے اُسے مبلغین اور مہمانوں کے استعمال کے قابل بنایا گیا۔ اس مقصد کے لیئے احمدی مخلصین نے کئی بار وقار عمل کیا اور سارا سارا دن کام کرتے رہے۔ جماعتی مرکز اور دفاتر یکم اکتوبر ۱۹۶۰ء کو اسمیں منتقل کر دئیے گئے۔ ۲۲
پہلا مناظرہ اور رسالہ الاسلام کا اجراء
جناب شیخ عبدالواحد صاحب فاضل تحریر فرماتے ہیں:۔
’’پہلا مناظرہ جس میں لاہوری جماعت اور اہل سنت متفق ہو کر مقابلہ پر آئے ڈاکٹر محمدیوسف کی ڈسپنسری با میں لوٹوکا سے ۲۴میل کے فاصلہ پر ہوا۔ ناندی ‘ اور لوٹوکا(LAUTOKA)سے چار بڑی موٹریں بھر کر چوبیس اور چوالیس میل کا سفر کر کے احمدی وہاں جوش و خروش سے پہنچے خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی صداقت پر حقیقۃ الوحی سے دلائل پیش کئے پھر وفات مسیح پر مناظرہ ہوا خدا تعالیٰ کے فضل سے لیکچر اور مناظرہ کا بہت ہی اچھا اثر ہوا اور غیر مبائعین اور غیر احمدی مناظرمبہوت ہو گئے۔ کوئی بات نہ بن آتی تھی۔ ناندی اور لوٹو کا کے احمدی بھائی رات۱۱بجے بڑی خوشی اور کامیابی سے لوٹے۔ با ؔسے لوٹتے ہوئے بھائی محمد شمس الدین صاحب پر ایک وجد اور سرشاری کی کیفیت تھی حاضرین سے کہتے تھے کہ دین کی خدمت اور اسکی راہ میں جہاد بھی شراب کی سی مستی کی کیفیت رکھتاہے آج ایک کیف اور وجد آ گیا ہے۔ (فالحمد لِلّٰہِ علیٰ ذالک )۔ دوسرا انتظام اﷲ تعالیٰ نے بھائی محمد شمس الدین صاحب کے دل میں یہ ڈالا کہ دلائل سے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات و ملفوظات کی برکت سے معمور اور بھر پور ہیں لیکن غیر ہمارے خلاف اخباراور اشتہارات کے ذریعہ بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتا ہے ہم بھی ایک اردو و انگریزی میں ماہوار اخبار نکا لیں خوب جواب دیں اور تبلیغ کا حق ادا کر دیں ۔ ہم قرض لے کراقساط پر ایک سیکنڈ ہینڈ گیسٹیٹنر مشین لیکر اپنا پریس چلا دیں۔ اگرچہ سرمایہ نہ تھا لیکن عشق کی دیوانگی میں یہ قدم اٹھا لیا گیا اور مبائعین اور ہمدردوں نے قربانی کی دو دو چار چار پونڈ کر کے چندہ جمع کر کے آرم سٹرونگ سپرنگ ہال کمپنی سے گیسٹیٹز مشین اس کا سٹینڈ اور ایک ٹائپ رائٹر خرید کر مئی ۱۹۶۱ء میں نماز کی کتاب عربی اردو انگریزی ترجمہ کے ساتھچھاپ کر تبلیغ و تربیت کی ابتداء اور بسم اﷲ کر دی اور جون ۱۹۶۱ء میں ماہوار’’ الاسلام‘‘کا پہلا پرچہ اردو اور انگریزی میں گورنمنٹ سے اجازت لیکر نکال دیا جس سے ایک انقلاب شروع ہو گیا۔ اخبار تنظیم (اہلحدیث) اور اخبار ’’ آذان‘‘ اہلسنت دنگ ہو گئے۔ انکی ہر غلط پیش کی گئی بات کا جواب ملنے لگا اور غلطیوں کی وضاحت ہونے لگی۔ اہلحدیث کے اخبار نے لکھا مسلمانو! بیدار ہو یہ کیا انقلاب آ رہا ہے؟ چنانچہ ہمارے اخبار’’الاسلام‘‘ کے مقابلہ پر دونوں اخبار بند ہو گئے اور مسلمانوں نے یہ کہہ کر کہ تمہیں اخبار نہیں نکالنا آتا اسمیں کوئی قیمتی اور وزنی بات نہیں ہوتی۔ انہوں نے دلچسپی لینی چھوڑ دی۔ دوسرا ان اخبارں کے لیئے قربانی کرنے والے نہ تھے اور خریداروں کو دلچسپی نہ تھی۔ لیکن ہمارے اخبار کے لیئے احمدیہ جماعت کے افراد قربانی کرتے اور خریداروں کیلئے دلچسپی کا سامان اور قیمتی مضامین لکھتے اخبار میں اسلام کی ترقی نظر آتی تھی۔ ۲۳
ٹریکٹوں کا ابتدائی سلسلہ
محترم شیخ صاحب نے ابتداء ہی میں اشاعت حق کا یہ مؤثر ذریعہ اختیار فرمایا کہ ٹریکٹوں کی اشاعت کا
باقاعدہ سلسلہ جاری کر دیا۔ چنانچہ ۱۹۶۳ء تک آپ نے حسب ذیل ٹریکٹ ہزاروں کی تعداد میں شائع کر کے فجی میں پھیلا دئیے۔۱۔حضرت مسیح کشمیر میں ۲۔ بائیبل میں اختلافات اور قرآن مجید کی محفوظ حیثیت۳۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے متعلق بائیبل کی پیشگوئیاں۔۴۔خدا اور رسول کی محبت۵۔ پرائمر آف اسلام6۔ مسلمان اور عیسائی کی گفتگو
۲۴
فصل چہارم
حضرت چودھری محمدظفراﷲ خاں صاحب فجی میں
نومبر ۱۹۶۵ء کے ادائل میںچودھری
محمدظفر اﷲ خانصاحب امریکہ سے نیوزی لینڈتشریف لے جاتے ہوئے جزائر فجی میں ٹھہرے۔ فجی کے احمدی دوست آپ سے ملاقات کر کے ازحد خوش ہوئے اور آپ کی موجودگی سے کماحقہ‘ استفادہ کیا چودھری صاحب ’’تحدیث نعمت‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’اکتوبر ۱۹۶۵ء میں مجھے بعض امور کی سر انجام دہی کے لیئے امریکہ جانا ہوا وہاں سے فراغت پا کر میں سان فرانسسکو سے نیوزی لینڈ کے سفر پر روانہ ہوا۔ ہوائی جہاز دوسری صبح قبل فجر جزائر فجی کے بین الاقوامی مطار ناندی پہنچا میرا ارادہ چند دن جزائر فجی میں ٹھہرنے کا تھا۔ ہم سان فرانسسکو سے جمعرات کے دن روانہ ہوئے تھے دوسرے دن ناندی پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ہفتے کا دن ہے درمیان میں سے جمعہ کا دن غائب ہو گیا مطار پر شیخ عبدالواحد صاحب مبشر سلسلہ احمدیہ اور ناندی کے چند احباب تشریف لائے ہوئے تھے میں ان کے ہمراہ شہر چلا گیا اور آئندہ چھ دن یعنی ۵؍نومبرسے جمعہ ۱۱؍نومبرتک ان کے تجویز کردہ پروگرام کے مطابق ان کی خدمت میںحاضر و مشغول رہا۔ اس عرصہ میں مختلف مقامات پر حاضر ی کا موقع ملا لیکن زیادہ وقت جزائر کے صدر مقام سووا (SUVA)میں گذرا۔۱۹۶۵ء میں جزائر فجی کی مجموعی آبادی تین لاکھ کے لگ بھگ تھی جن سے نصف سے کچھ زائد ہندوستانی اور پاکستانی نثراد تھے۔ اور نصف سے کچھ کم جزائر کے اصل باشندے تھے اول الذکر عنصر میں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ شامل تھے اس عنصر میں مسلمانوں کی نسبت ۲۰ فی صدتھی ۔ جزائر فجی میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ایک مخلص اور مستعد جماعت احمدیہ سرگرم عمل ہے جو جزائر کی آبادی میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ ۲۵
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ
کا روح پرور پیغام
۳۰؍مئی۱۹۶۶ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا جماعت فجی کے نام ایک ٹیپ شدہ روح پرور پیغام مکرم عبدالقدوس صاحب آف فجی آئی لینڈ کے
ذریعہ پہنچا جس میں حضور نے نہایت لطیف اور وجد
آفریں پیرایہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی منصب کی وضاحت فرمائی اور احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف پر زور طریق سے توجہ دلائی۔۲۶
رسالہ دی مسلم ہارینجر کا اجراء
مولوی نورالحق صاحب انورؔ کی کوششوں سے
جون ۱۹۶۷ء سے ایک سہ ماہی رسالہ
’’دی مسلم ہارینجر‘‘(منادی اسلام) جاری ہوا جو انگریزی‘فجیئن اور ہندی زبانوں پر مشتمل تھا رسالہ کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا۔ افسوس یہ مفید رسالہ چند سال بعد بند ہو گیا۔ ۲۷
مولوی نورالحق انور صاحب کی آمد
محترم شیخ صاحب فجی کی سر زمین میں پوری دلجمعی سے اعلاء کلمۃ اﷲ کے فریضہ
میں مصروف تھے کہ ۲۶؍فروری ۱۹۶۷ء کو مرکز سے مولوی نورالحق صاحب انورؔ سابق مجاہد مشرقی افریقہ و امریکہ بھی فجی تشریف لے آئے۔ ۶؍مارچ کو فجی ریڈیو سے آپ کا اردو اور انگریزی زبان میں انٹرویو نشر ہوا اور آپ کے استقبالیہ جلسوں میں شامل غیراحمدی معززین شدت سے محسوس کرنے لگے کہ آج دنیا میں اسلام کی خاطر صحیح قربانی دینے والی جماعت صرف جماعت احمدیہ ہے۔ ۲۸
بیت محمود کی تعمیر
مارو کی اکثریت احمدی نفوس پر مشتمل تھی حضرت چوہدری محمد ظفر اﷲ خانصاحب نے اپنے قیام فجی کے دوران ۷؍نومبر ۱۹۶۵ء کو یہاں
بیت محمود کی بنیاد رکھی اور شیخ عبدالواحد صاحب اور مولوی نورالحق صاحب انورؔکی نگرانی میں دو سال تک صووا اور ناندی کے مخلصین نے مزدوروں کی طرح کام کر کے خدا تعالیٰ کے اس گھر کو مکمل کیا اس تاریخی بیت الذکر کا افتتاح یکم جنوری ۱۹۶۸ء کو ہوا۔
بیت ناندی کی بنیاد اور تکمیل
۱۴؍جنوری ۱۹۶۸ء کو مولوی نورالحق صاحب انورؔ نے بیت ناندی کا سنگ بنیاد رکھا یہ بیت آخر
۱۹۷۱ئمیں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ ۲۹ اور اس کا افتتاح یکم جنوری ۱۹۷۲ء کو جلسہ سالانہ کی تقریب کے ساتھ عمل میں آیا۔
پادری عبدالحق صاحب
سے کامیاب مباحثہ
۶۔۷۔۸؍مئی۱۹۶۸ء کو مبلغ اسلام مولوی نورالحق صاحب نے مشہورعیسائی مناد پادری عبدالحق صاحب کو شکست فاش دی جس سے اسلام کو شاندار فتح نصیب
ہوئی۔ مولانا شیخ عبدالواحد صاحب اس ایمان افروز واقعہ کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’وسط اپریل ۱۹۶۸ء میں ہندوستان سے عیسائیوں کے مشہور پادری عبدالحق صاحب فجی کونسل اور چرچز کی دعوت پر جزائر فجی میں تشریف لائے اور یہاں لیکچروں اور پبلک تقریروں کا سلسلہ شروع کیا اس سلسلہ میں وہ جزیرہ ویتی لیوو کے مغربی علاقہ کے اہم قصبات میں گئے اور اپنی تقریروں میں جملہ مذاہب میں خصوصیت سے اسلام کے خلاف تقریریں کیں۔ اس پر غیر از جماعت اسلامی غیرت والے دوستوں نے برادرم مولانا نورالحق صاحب انورؔ سے جو حسن اتفاق سے انہیں ایام میں با ؔکے دورہ پر تشریف لے گئے تھے مل کر پُرز ور درخواست کی کہ اس مخالف اسلام پروپیگنڈا کا دفاع ضروری ہے اور یہ کہ یہ کام بفضل خدا احمدی ہی کر سکتے ہیں۔ پادری عبدالحق صاحب اس دوران میں لوتوکا میں مقیم تھے۔ اور حسن اتفاق سے انہوں نے خود ہی جماعت احمدیہ لوتوکا کے ایک دوست سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ فجی کے احمدیوں سے ملنا چاہتے ہیں جس پر ہمارے دو تین دوست جب اُن سے ملنے گئے تو پادری صاحب نے ابتداء ملاقات میں ہی چیلنج دے دیا کہ وہ ہر قسم کے بحث و مباحثہ کے لیئے تیار ہیں ہر وقت ہر مقام پر اور ہر شخص سے خواہ وہ سنّی ہو یا احمدی ہو۔ ہمارے دوستوں نے ان کے چیلنج کو قبول کیا ۔بایں ہمہ گفت و شنید کے بعد یہ طے پایا کہ مندرجہ ذیل آٹھ مضامین پر تحریری مناظرہ نورالحق صاحب انورؔ اور پادری عبدالحق صاحب عیسائی منّاد کے درمیان ہو۔
۱۔ توحید ۲۔ کیا مسیح ناصری ا لہٰ مجسم ہے؟ ۳۔ کیا بائیبل خدا کا کلام ہے؟ ۴۔ کیا قرآن شریف کامل الہامی کتاب ہے ؟ ۵۔ کیا مسیح ناصری صلیب پر فوت ہوئے؟ ۶۔ کیا حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود ہیں؟ ۷۔ کیا مسیح ناصری نجات دہندہ تھے؟۸۔ کیا اسلام میں نجات ہے؟ یہ بھی طے پایا کہ ہر مضمون پر سات سات پرچے ایک ایک گھنٹہ کے ہوں…بالآخر صووا ڈڈلی ہاؤس سکول میں ۶؍مئی ۱۹۶۸ء کی صبح سے مباحثہ شروع ہو گیا جس کا اعلان فجی ریڈیو اور اخبار فجی ٹائمز نے باقاعدہ طور پر کیا۔
طریق کار یہ تھا کہ فریقین صبح ساڑھے آٹھ بجے سے لے کر شام چھ بجے تک متواتر سوائے دوپہر کے مختصر وقفہ کے آمنے سامنے بیٹھ کر مقررہ مضمون پر پرچے لکھتے اور شام کو ساڑھے سات بجے ڈڈلی سکول کے ہال میں ہی یہ پرچیحاضرین کو جنکی تعداد ایک سو تک محدود کر دی گئی تھی سُنا دیئے جاتے۔ شرائط کے مطابق دونوں مناظروں کو کسی مددگار کے رکھنے کی اجازت نہ تھی بوقت تحریر مناظرہ صرف فریقین کی طرف سے ایک ایک نگران مقرر تھا۔ اہل اسلام کی طرف سے خاکسار ( شیخ عبدالواحد ) فاضل نگران رہا عیسائیوں کی طرف سے گو بیشتر وقت پادری سُمَرْوِلْ جوناگپور ہندوستان میں چار پانچ سال رہ چکے ہیں اور اردو پر عبور رکھتے ہیں اور بڑی مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک ہیں بطور نگران رہے لیکن ان کی مصروفیات کے باعث بعض دوسرے عیسائی حضرات بھی اس ڈیوٹی کو سرانجام دیتے رہے۔ ۶؍ مئی کی شام کو پہلے دن کے مباحثہ کی تحریر بخیر و خوبی ختم ہوئی موضوع مباحثہ تھے نمبر ۱ توحید نمبر۲ بایئبل کا الہام الٰہی ہونا ۔پادری عبدالحق صاحب نے توحید کے مضمون میں حسب معمول اپنی ساحرانہ فریب کاری سے کام لیا اور اپنی منطقیانہ ادق اصطلاحوں کی بھر مار سے حاضرین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گو یا وہ بہت بڑے فلاسفر اور علاّمہ دہرہیں گو حاضرین ان کی باتوں کو ذرّہ بھی نہسمجھتے تھے لیکن کسی حد تک ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پادری صاحب کا سحر سامری ناواقف پبلک پر چھا رہا ہے ہمارے مناظرنیبائیبل سے یہ پیش کیا کہ جس حکمت و فلسفہ پر تم اتنا ناز کرتے ہو اُسے تو انجیل میں بیوقوفی۔ چالاکی ۔ باطل خیالات‘ لاحاصل فریب اور دنیوی ابتدائی باتیں‘‘ کہا گیا ہے ( عہد نامہ جدید کی کتب کرنتھیوں اور کلسّیوں) تاہم اس روز بعض پادری صاحب کی چالاکی کا کسی حد تک شکار معلوم ہوتے تھے۔ لیکن دوسرے دن اﷲ تعالیٰ نے اس پُر فریب جادو کو محض اپنے فصل سے دھوئیں کی طرح اُڑا دیا۔ ۷؍مئی کو مباحثہ کے لیئے دو مضمون مقرر تھے نمبر۱ کیا مسیح ناصری الہٰ مجسم ہے؟ نمبر۲ کیا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود ہیں؟ چونکہ معلوم ہوتا ہے پادری صاحب کی کاپیوں میں محفوظ شدہ منطقیانہ نوٹ ختم ہو گئے تھے وہ کوئی خاص ٹھوس بات کرنے کی بجائے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔ گو بوقت تحریر بھی ان کا حال دیکھنے والا تھا جبکہ بلا مبالغہ ان کو ہوش نہ تھی کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں اور کسطرح لکھ رہے ہیں مگر شام کے اجلاس میں پرچے سناتے ہوئے تو نظارہ قابل دید تھا پادری صاحب کے واسطے اپنے ہاتھوں کا لکھا بھی پڑھنامشکل تھا وہ شکستہ دل کھڑے ہوئے ان کی زبان لڑکھڑاتی اور آواز لرزتی تھی۔ یہ مباحثہ بفضل خدا ایک خاص کامیابی اور فتح کا دن تھا۔ اسکی خاص الخاص خصوصیت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ حضور کے اپنے ہی مبارک الفاظ میں پیش کرنے کا موقع بلیغ احمدی مناظر کو اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ اسکی زبان میں برکت عطا فرمائی اور آواز میں شوکت دی جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پُرشوکت عبارت پڑھتے تو حاضرین پر ایک کیف طاری ہو جاتا۔ بہر حال الحمد ﷲ ثم الحمد ﷲکہ دوسرے دن کے مباحثہ میں پادری صاحب کا سارا طلسم ٹوٹ گیا اور حاضرین پر جوان کے علم کا اثر پڑا تھا وہ زائل ہو گیا۔ اختتام مباحثہ پر غیر مسلم حاضرین نے بھی اسلام اور احمدیت کے متعلق بہت اچھا اثر لینے کا اقرار کیا اور بوقت رخصت بلاتفریق مذہب و ملّت سب احمدی مناظر سے ہاتھ ملانے کیلئے ٹوٹ پڑتے تھے۔ اس ہجوم میں جب بعض غیر مسلم عورتوں نے بھی خراج تحسین کے طور پر احمدی مناظر محترم برادرم مولانا نور الحق صاحب انورؔ سے مصافحہ کی کوشش کی تو برادرم موصوف نے نہایت ملاطفت اور محبت سے یہ مسئلہ سمجھایا کہ اسلام میں عورتوں سے مصافحہ کی اجازت نہیں اور نہایت بااخلاق طور پر ہاتھ اٹھاکر ان کے سلام کا جواب دے دیا۔
۸؍مئی۱۹۶۸ء کو حسب معمول مباحثہ کا تیسرا دن شروع ہوا۔ اُس دن کے لیئے مضمون نمبر ۱ کیا مسیح ناصری صلیب پر فوت ہوئے؟ نمبر ۲ کیا قرآن شریف کامل الہامی کتاب ہے؟ قبل از دوپہر فریقین اطمینان سے پرچے لکھتے رہے گو گذشتہ دن کی شکست کا اثر پادری صاحب کو مضطرب کیئے ہوئے تھا جس کا اظہار ان کی حرکات و سکنات سے نمایاں ہو رہا تھا لیکن قبل از دوپہر کے آخری پرچہ میں جب احمدی مناظر نے قرآن شریف سے یہ ناقابل تردید ثبوت پیش کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کی *** موت کی بجائے اﷲ تعالیٰ کے وعدہ انّی متوفیکَ وَ رَافعکَ اِلّی (آل عمران :۵۶) یعنی طبعی معجزانہ موت کے وعدہ الٰہی کے مطابق دم واپسیں نہایت عزت اورا حترام سے کشمیر میں فوت ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کے فرمان ’’الحق من ربّکَ فلا تکونَنّ مِن الْممترین‘‘ (البقرہ :۱۴۸)کے مطابق یہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ کے اس ارشاد پر کہ نبتھلْ فنجعل لعنۃ اﷲ علی الکاذبین (آل عمران:۶۲)… ہمارے مناظر نے بڑی تحدّی سے یہ لکھا کہ خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق میں پادری عبدالحق صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اگر سچے ہیںتو نہایت تضرّع سے اپنے ساتھیوں سمیت میدان مباہلہ میں آئیں اور ہم سے مل کر اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ سچ اور جھوٹ کو ظاہر کردے ۔ پادری صاحب اب پیرانہ سالی میں ہیں اور میں بھی اب پچاس سال کی عمر کو پہنچنے والا ہوں۔ پادری صاحب مخلوقِ خدا پر رحم کریں وہ کہتے ہیں کہ اس پیرانہ سالی میں وہ آرام سے گھر بیٹھنے کی بجائے خدا کی خاطر ملک ملک گھوم رہے ہیں وہ اس خدا کی خاطر جس کے لیئے وہ آرام سے بے آرام ہو رہے ہیں آئیں اور اس انصاف والے یقینی رستہ کو اختیار کریں جس سے سچ اور جھوٹ میں امتیاز ہو سکتا ہے آئیں اور ہم دونوں اپنے اپنے ساتھیوں سمیت یہ دُعا کریں کہ اے اﷲ ہم دونوں فریق میں سے جو جھوٹ اختیار کر رہا ہے اسکو عبرتناک سزا دے اور اسپر *** ڈال اور اے خدا جو سچاہے اس کا حامی ہو اس کو عزت دے۔ تو اسے پڑھتے ہی پادری صاحب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے میں خود عینی گواہ ہوں اور اس نظارہ کو نہیں بھول سکتا کہ ان الفاظ کے پڑھتے ہی پادری صاحب کے چہرہ پر موت کی سی زردی چھائی معلوم ہونے لگی اور ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ ۳۰
فصل پنجم
فریضہ دعوت حق بجا لانیوالے
دوسرے مجاہدین احمدیت
بانیمشن مکرم شیخ عبدالواحد صاحب فجی میں قریباً پونے نو سال تک احمدیت کا پیغام حق پہنچانے کے بعد ۱۷؍جولائی ۱۹۶۸ء کو واپس مرکز
میںتشریف لائے۔آپ کی موجودگی یاآپ کے بعد جن مجاہدین احمدیت نے اس سر زمین میں فریضۂ تبلیغ بجا لانے کی سعادت حاصل کی ہے اور جماعت احمدیہ کے اثر و نفوذ میں غیر معمولی اضافہ کا موجب بنے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
۱۔ مولوی نورالحق انورؔ صاحب (تاریخ روانگی) ۲۶؍فروری ۱۹۶۷ء
(تاریخ واپسی) ۲؍جون۱۹۶۸ء
۲۔ ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب (تاریخ روانگی)۲۳؍جنوری ۱۹۶۸ء
(تاریخ واپسی) ۸؍نومبر ۱۹۷۰ء
۳۔ مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی (تاریخ روانگی) ۱۰؍جولائی ۱۹۷۰ء
(تاریخ واپسی)۳۰؍مارچ ۱۹۷۲ء
۴۔ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری (تاریخ روانگی) ۱۰؍جولائی ۱۹۷۰ء
(تاریخ واپسی)۲؍نومبر ۱۹۷۳ء
۵۔ مولوی غلام احمد فرخ صاحب (تاریخ روانگی) ۴؍جون ۱۹۷۲ء
(تاریخ واپسی) ۲۹؍اپریل ۱۹۷۶ء
۶۔ مولوی عبدالرشید صاحب رازیؔ (تاریخ روانگی) ۲۰؍نومبر ۱۹۷۳ء
(تاریخ واپسی) ۲۲؍جون ۱۹۷۷ء
۷۔ مولوی دین محمد صاحب شاہد (تاریخ روانگی) ۴؍ مئی ۱۹۷۷ء
(تاریخ واپسی) ۱۳؍نومبر ۱۹۷۹ء
۸۔ مکرم شیخ سجاد احمد صاحب خالدؔ ( تاریخ روانگی) ۴؍مئی ۱۹۷۷ء
(تاریخ واپسی) ۲۹؍ اپریل ۱۹۸۴ء
۹۔ مکرم حافظ عبدالحفیظ صاحب شہید (تاریخ روانگی) ۲۵؍فروری ۱۹۸۰ء آپ ۶؍اگست ۱۹۸۱ء کو کار کے ایک حادثہ میں جاں بحق ہو گئے اِنّا للّٰہ و اِنّا اِلیہِ راجعون۔ ۳۱
۱۰۔ مکرم مولوی عبدالعزیز صاحب وینس شاہد مع فیملی ۱۰؍مئی ۱۹۸۴ کو روانہ ہوئے
تاحال میدان عمل میں ہیں اور خدمات دینیہ بجا لارہے ہیں۔
۱۱۔ مکرم حافظ جبرائیل سعید صاحب غانین نے ۸۷۔۱۹۸۶ء میں ایک سال کام کیا اور پھر ۲۸؍ اگست ۱۹۸۷ء کو طوالو منتقل ہو گئے۔ ۳۲ ان مرکزی مبلغین کے علاوہ
۱۳؍اکتوبر ۱۹۸۳ء سے ماسٹر محمد حسین صاحب مقامی مبلغ مقرر ہیں۔
لوٹو کا میں پرائمری سکول کی بنیاد
۲۷؍دسمبر ۱۹۶۸ء کو سید ظہور احمد شاہ صاحب مبلغ فجی نے جماعت احمدیہ فجی کے
پہلے پرائمریسکول کی بنیاد لوٹوکا (LAUTOKA)شہر میں رکھی اس موقع پر ملک کے قدیم اخبار ’’فجی ٹائمز‘‘ کے رپورٹر اور محکمہ تعلیم کے افسران بھی موجود تھے یہ سکول مکرمی ماسٹر محمد حسین صاحب صدر حلقہ لوٹوکا کی زیر نگرانی قائم ہوا۔ ۳۳ اس سکول کا نام ’’تحریک جدید انجمن احمدیہ اورسیز فجی‘‘ رکھا گیا۔ اس کے علاوہ لوٹوکا میں جماعت نے ’’تعلیم الاسلام کنڈرگارٹن‘‘ سکول بھی قائم کیا۔ سکول بہت جلد ترقی کی منازل طے کرنے لگا اور چندسالوں میں ہی اس کے طلبہ کی تعداد ساڑھے تین سوسے زائد ہو گئی اور سٹاف میں دس اساتذہ خدمات بجا لانے لگے۔ سکول کمیٹی نے مزید دو کمرے دو منزلہ عمارت کی صورت میں تعمیر کئے جنکی افتتاحی تقریب ۱۵؍مارچ ۱۹۷۵ء کو منعقد ہوئی جس میں طلبہ کے والدین‘ مارو‘ ناندی اور لوٹو کا کے احمدیوں کے علاوہ محکمہ تعلیم کے ایجوکیشن آفیسر وی نائر صاحب (V.NAIR)نے شرکت فرمائی۔مولوی غلام احمد صاحب فرّخؔ نے دُعا کر کے نئے کمرے کا تالا کھول کے افتتاح کیا۔ سکول کی بنیاد اور افتتاح کی باتصویر رپورٹیں اخبار’’فجی ٹائمز‘‘ نے نمایاں طور پر شائع کیں۔ اب یہ سکول روزافزوں ترقی کر رہا ہے۔ ۳۴
ناندی میں بیت اقصٰی کی تعمیر
ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے زمانہ قیام میں
ناندی میں بیت اور مشنری کواٹر کی بنیاد رکھی۔اس وقت جماعت فجی ابتدائی دور میں سے گذر رہی تھی اور مالی حالت ہرگز ایسی مضبوط نہ تھی کہ ہزاروں ڈالر خرچ کر کے کوئی شاندار عمارت تعمیر کی جا سکتی مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا عظیم الشان نشاں دکھلایا اور مسجد اور مشنری کواٹرز کی شاندار عمارت تعمیر ہو گئی جسکا نام بیت اقصٰی رکھا گیا اور اس کا افتتاح یکم جنوری ۱۹۷۲ء کو سالانہ تبلیغی کانفرنس کے موقع پر مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری فاضل انچارج مشن جزائر فجی نے فرمایا اس افتتاحی تقریب کے لیئے حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒنے حسب ذیل برقیہ پیغام ارسال فرمایا۔
’’السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ۔ میری طرف سے آپ سبکو بیت اقصٰی ناندی کا افتتاح کرنا بہت بہت مبارک ہو۔ اﷲ تعالیٰ اس بیت کو اس علاقہ میں اسلام کی ترقی اور اشاعت کا کامیاب مرکز بنائے۔ خلافت سے وابستگی اور نظام جماعت کی پابندی اپنا شعار بناؤ‘۔‘ ۳۵
تائیدِ الہٰی کے ایک قہری نشان کا ظہور
مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری فرماتے ہیں :۔
’’جماعت احمدیہ نے فجی کے مشہور شہر با (BA)میں احمدیہ مشن کی برانچ کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیئے ایک مناسب حال مکان بھی خرید لیا تو اس شہر میں ہماری شدید مخالفت شروع ہو گئی۔ مخالفین کوشش کرنے لگے کہ جیسے بھی ہو تبلیغ اسلام کا یہ مشن ’’با‘‘ شہر میں کامیاب نہ ہونے پائے اور ہمارے قدم وہاں نہ جمیں۔ اس وقت وہاں ہمارے مخالفین کا سرغنہ وہاں کا ایک صاحب اقتدار شخص ابوبکر کویا نامی تھا۔ چنانچہ اس نے اور دیگر مخالفین نے شہر میں یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ احمدیوں کے ’’با‘‘ مشن کی عمارت کو جلا دیں گے۔ ۳۶
چنانچہ جس قدر ممکن ہو سکا ہم نے حفاظتی انتظامات کر لیئے اس عمارت کے سامنے پولیس اسٹیشن تھا انہیں بھی توجہ دلائی گئی پولیس نے ہمیں مشن ہاؤس کی حفاظت کا یقین بھی دلایا پھر بھی ایک رات کسی نہ کسی طرح مخالفین کو نقصان پہنچانے کا موقعہ مل گیا اور ان میں سے کسی نے ہمارے مشن ہاؤس کے ایکحصہ پر تیل ڈال کر آگ لگا دی اور یہ یقین کر کے کہ اب آگ ہر طرف پھیل جائے گی اور مشن ہاؤس کو خاک سیاہ کر دے گی۔ آگ لگاتے ہی آگ لگانے والا فوراً بھاگ گیا۔ لیکن خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہو کہ افراد جماعت کو پتہ لگنیسے پہلے ہی وہ آگ بغیر کوئی خاص نقصان کئے خود ہی بجھ گئی یا بجھا دی گئی۔ مخالفین نے عمارت کی اس طرف جہاں عمارت کا اکثر حصہ لکڑی کا تھا آگ لگائی تھی جس سے چند لکڑی کے تختے جل گئے مگر وہ آگ آگے بڑھنے سے قبل ہی بجھ گئی ۔ چنانچہ اسی روز اس کی مرمت کروا دی گئی۔ مگر آگ کے نقصان کا موقعہ پر جائزہ لیتے ہوئے اس وقت کے مبلغ انچارج ۳۷نے اس جلے ہوئے کمرے پر کھڑے ہو کر بڑے دکھ بھر ے انداز میں آہ بھر کر جو یہ کہا کہ جس نے خدا تعالیٰ کے دین اسلام کی اشاعت کا یہ مرکز جلانے کی کوشش کی ہے خدا تعالیٰ اس کے اپنے گھر کو راکھ کر دے۔ تو خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہو اکہ اس کے چند روز بعد اچانک ’’با‘‘ میں جماعت کے مخالفین کے سرغنہ ابوبکر کو یا کے گھر کو آگ لگ گئی اور باوجود بجھانے کی ہر کوشش کے وہ رہائشی مکان سارے کا سارا جل کر راکھ ہو گیا۔ فاعتبروا یاا ولی الابصار ۳۸
جزائر ٹونگا کے بادشاہ کو تبلیغ اسلام
اور قرآن کریم کی پیشکش
جناب مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کا بیان ہے کہ ’’نومبر ۱۹۷۱ء میں مجھے اخبارات کے ذریعہ علم ہوا کہ جزائر ٹونگا کے بادشاہ جو فجی میں قائم شدہ جنوبی
بحراوقیانوس کے جزائر کی واحدیونیورسٹی کے اعزازی چانسلر بھی ہیں عنقریب فجی آ رہے ہیں…جماعت کے ایک مخیّر دوست برادرم محمد شمس الدین صاحب … نے محض خیریت دریافت کرنے کے لیئے مجھے مغرب کے بعد فون کیا میں نے ضمنی طور پر ان سے ذکر کیا کہ جزائر ٹونگا کے بادشاہ اپنے شاہی قافلہ کے ساتھ فجی کے دارالحکومت میں اپنے چچاکے ہاں مقیم ہیں تاہم اُن سے تبلیغی ملاقات کے لیئے ہماری کوشش کارگر نہ ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ ’’شاہ ٹونگا کے چچاسر ایڈورڈ ڈاکمباؤ نائب وزیر اعظم فجی تو میرے سکول فیلو اور کرکٹ فیلو بھی رہے ہیں‘‘ اور تجویز کیا کہ کل صبح ہی ان سے دفتر میں ملیں گے۔ چنانچہ اگلے روز ہم دونوں اُ ن سے ملے۔ وہ بڑی خوش خلقی سے پیش آئے اور ہماری خواہش کے مطابق اسی وقت فون پر ہماری طرف سے شاہ ٹونگا سے ملاقات کی درخواست کر دی جو شاہ نے منظور کر لی چنانچہ اسی وقت سر ایڈورڈ نے ہمیں بتایا کہ آج ہی شام کے پانچ بجے ہزمیجسٹی نے ہمیں ملاقات کے لیئے آدھ گھنٹہ دیا ہے اور ہماری خواہش کے مطابق دوسرے سب شاہی مہمان موجود ہوں گے۔
چنانچہ اسی روز تین افراد پر مشتمل جماعت احمدیہ فجی کے تبلیغی وفد کی پریس فوٹوگرافرز اور اخباروں کے نمائندوں کی موجودگی میں شاہ ٹونگاسے ملاقات ہو گئی خاکسار نے انہیں جماعت کی طرف سے ایڈریس پیش کیا جس میں انہیں خوشآمدید کہنے کے علاوہ اسلام کی تعلیم سے آٗگاہ کیا گیا اور آخر میں قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی کتابیں بطور تحفہ پیش کی گیئں۔ شاہ ٹونگا نے کھڑے ہو کر قرآن کریم مجھ سے وصول کرنے کے بعد ہمارے ایڈریس کے جواب میں شکریہ کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا کہ
’’میرا ملک صد فی صد عیسائی ہے میں بھی پیدائشی عیسائی ہوں میں نے اس سے پہلے کبھی قران کریم دیکھا تک نہیں تھا نہ اسلام سے مجھے تعارف تھا۔ آپ نے یہ تقریب پیدا کر کے مجھے اس مذہب سے متعارف کروایا ہے جو میری والدہ کی قوم کا صدیوں سے مذہب چلا آتا ہے۔ میری والدہ انڈونیشین نسل سے ہیں آپ کی طرف سے پیش کردہ قرآن کریم اور کتب کا ضرور مطالعہ کروں گا آپ نے ایک عظیم روحانی خزانہ مجھے عطا کیا ہے آپ لوگ بڑے شکریہ کے مستحق ہیں‘‘
دوسرے روز لوکل اخبارو ں میں اس تقریب کی تصاویر کے علاوہ تما م روداد بھی شائع ہوئی اور ریڈیو پر بھی یہ خبر نشر کی گئی…اس واقعہ کی رپورٹ جب میں نے سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اﷲ تعالیٰ کی خدمت میں بھیجی تو حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور دُعا کے ساتھ یہ ہدایت بھی فرمائی کہ
’’بادشاہ سے لے کر ادنیٰ سے ادنیٰ انسان تک دن رات اسلام کا پیغام پہنچائیں‘‘
چنانچہ اگرچہ پہلے یہی حتی الوسع ہرموقع پر ادنیٰ و اعلیٰ سبکو تبلیغ کی جاتی تھی لیکن حضور کے اس تازہ ارشاد کے بعد ایک خاص تبلیغی مہم جاری کی گئی اور تقسیم کے لئے اپنا لٹریچر ٹیکسیوں اور بسوں میں رکھوایا گیا۔ نیز مارکیٹ میں تین چار احمدی سٹالوں پر بھی لٹریچر رکھوادیا۔حتیٰ کہ بیت اور مشن ہاؤس کے فَلَش پٹ اور کمپاؤنڈ کی صفائی کے لیئے آنے والے مزدوروں کی بھی چائے سے تواضع کر کے انہیں تبلیغ کی جاتی رہی اور اسلام کے متعلق لٹریچر پیش کیا جاتا رہا یہاں تک کہ بعد میں وہ غریب فجین باشندے ہمارا فجین زبان میں شائع شدہ لٹریچر ہم سے خود طلب کرنے لگے۔ ۳۹
جزیرہ واٹو الیوو اور وٹی لیوو میں تبلیغی جہاد
مولانا غلا م احمد صاحب بدوملہی کو فجی میں قریباً دو سال تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی آپ نے زیادہ وقت جزیرہ واٹوالیوو میں گزارا اور جماعتی تعلیم و تربیت کے علاوہ مختلف شہروں اور قصبوں میں سوال و جواب کی محفلیں
منعقد کر کے تبلیغ کی راہ ہموار کی ان دنوں اس جزیرہ میں مخالفت زوروں پر تھی مخالفین احمدیت نے وٹی لیوو سے ایک دوسرے جزیرہ کا رخ کیا مگر وہاں بھی انہیں شکست ہوئی اور مولانا صاحب اس جزیرہ میں ان کا تعاقب کرنے کے لیئے پہنچ گئے۔ مگر وہ مبلغ احمدیت کی علمی قابلیت اور ایمانی جرأت کی وجہ سے گفتگو کی جرأت نہ کر سکے اور بالآخر ایک شدید مخالف مولوی عبدالرحمان صاحب بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ صوا سے اس جزیرہ میں پانچ علماء کا ایک وفد پہنچا اور لیکچر دئیے مگر احمدیوں سے بات چیت پر آمادہ نہ ہوئے ۱۹۷۰ء کے آخر میں لمبا سہ کے مشہور وکیل ممتاز مقبول صاحب نے بیعت کر لی اور جماعتی کاموں میں بڑی دلچسپی لینے لگے۔ ۴۰
نور احمدیہ پریس
۱۹۷۱ ء میں جماعت احمدیہ فجی کو اﷲ تعالیٰ نے ایک پرنٹنگ مشین اوراسکے دیگر لوازمات خریدکراپنا پریس قائم کرنے کی توفیق عطا
فرمائی جس پر انگریزی اور ہندی زبانوں میں بڑی کثرت سے لٹریچر شائع ہونے لگا۔ ابتداء میں رضاکارانہ طور پر پریس کا کام محترم ماسٹر محمد حسین صاحب ہیڈماسٹر احمدیہ سکول لٹوکا
سر انجام دیتے تھے۔ ۴۱
جماعت فجی کی ملّی خدمت
۲۴؍اکتوبر۱۹۷۲ ء کو فجی میں ایک ہولناک سمندری طوفان آیا جس کی مثال فجی کی تاریخ میں نہیں
ملتی۔طوفان سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ۔اﷲ تعالیٰ کے فضل سے فجی کے احمدی احباب بڑی حد تک محفوظ رہے فجی کے احمدیوں نے اس موقع پر اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کی ہر طرح امداد کی ان کو کھانا کھلایا اور سامان بھی پیش کیا۔ علاوہ ازیں فجی کے ریلیف فنڈ میں نہ صرف حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے چارسو فجیئن ڈالر ارسال فرمائے بلکہ مقامی جماعت احمدیہ نے بھی چندہ دیا ۔ ۴۲
فصل ششم
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا روح پرور پیغام جماعت احمدیہ فجی کے نام
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ رحمہ اﷲ تعالیٰ نے ۱۹۷۲ء کے آخر میں فجی کے احمدیوں کے نام ایک روح پرور
پیغام ریکارڈ کرا کے ارسال فرمایا جسے فجی کی جماعتوں کے عام جلسوں اور دیگر تقاریب پر کئی بار احباب نے سُنا اور اپنے ایمانوں کو تازہ اور روح کو زندہ کیا۔ یہ پیغام حسب ذیل الفاظ میں تھا حضور نے تشہدو تعوذ کے بعد فرمایا:۔
ٓٓ’’فجی میں بسنے والے احمدی بھائیو! السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ‘
مرکز احمدیت سے آپ کے جزائر کا فاصلہ ہزاروں میل کا ہے لیکن صرف آپ ہی مرکز سے اتنے فاصلے پر نہیں مغربی افریقہ میں بسنے والے احمدی بھی ہزاروں میل کے فاصلہ پر ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں بسنے والے احمدی آپ سے بھی زیادہ فاصلہ پر بستے ہیں پس محض مرکز سے دوری اخلاص کی کمی اور ایثار اور قربانی سے بے پرواہی پر منتج نہیںہوتی بلکہ فاصلے محبت اور پیار سے اخلاص اور ایثار سے سکڑ جاتے اور زائل ہو جاتے ہیں جو محبت جو ایثار اور غلبہ اسلام کیلئے جو جوشمیں نے مغربی افریقہ کے افریقن احمدیوں میں پایا ہے اگر ویسا ہی اخلاص اور جوش ساری دنیا کے احمدیوں میں ہو جائے۔ آپس میں پیار کرنے لگیں بنی نوع انسان کی خدمت پر کمر بستہ ہو جائیں۔ اور اگر اﷲ تعالیٰ کے حقوق کو بھی اسی طرح ادا کریں جس طرح انہیں اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین اوروصیت کی گئی ہے تو غلبہ اسلام کی مہم جو اﷲ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جاری کی ہے اس کے اور بھی زیادہ خوشکن نتائج بہت جلدی ہماری آنکھوں کے سامنے آجائیں اور اپنی زندگیوں میں ہم غلبۂ اسلام کی آخری فتح اور آخری غلبہ کے ایام اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگیں ہماری روح انہیں محسوس کرنے لگے اور ہماری خوشیوں کی کوئی انتہاء نہ رہے کیونکہ اسی میںہماری خوشی اور مسرت ہے۔ یہ دنیا اور اس دنیا کے اموال اور دنیا کی مسرتیں اور لذتیں حقیقی نہیں ابدی بھی نہیں ہیں۔ ابدی اور حقیقی مسرت تو اﷲ تعالیٰ کے پیار میں انسان کو ملتی ہے اور اسی کی طرف رجوع کر کے اس کے پیار کو ہمیں حاصل کرنا چاہیئے۔ آج اس نے حضر ت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کر کے ہمیں یہ وعدہ دیا ہے کہ تم نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس موعود عظیم روحانی فرزند کی باتوں کو سنو اور غلبہ اسلام کی جو مہم اس نے جاری کی ہے۔ اس میں حصہ لو معمولی حصہ نہیں بلکہ انتہائی حصہ ساری دنیا کی لذتوں اور دولتوں کو بھول کر اس حقیقی لذت اور حقیقی دولت کی تلاش کرو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ پس اگر تم حقیقی معنیٰ میں پورے اخلاص کے ساتھ خدا کے محمد
(صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی طرف رجوع کرو گے اور توحید حقیقی پر پوری طرح قائم ہو جاؤ گے اور بے نفس محبت اسلام سے کرو گے اور قران کریم کی عظمت کو دلوں میں بٹھاؤ گے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے متلاشی رہو گے اور خدا تعالیٰ کے لیئے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت ساری دنیا کے دل میں بٹھانے کی کوشش کرو گے تو اپنے لیئے اﷲ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لو گے۔ اگر نہیں کرو گے تو دنیا تو تباہی کی طرف جارہی ہے تم اس قافلہ کے ساتھ کیوں شامل ہوناچاہتے ہو جس کے لیئے ہلاکت مقدر ہو چکی ہے تم اس جماعت میں پوری طرح اور اخلاص سے کیوں رہنا نہیں چاہتے کہ جس کے لیئے دنیا کی عزتیں اور آخرت کی عزت مقدر ہو چکی ہیں اور جو پیدا ہی اس لیئے کئے گئے ہیںکہ اﷲ تعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں سے اپنے فضلوں اور پیار سے نواز ے۔
خدا تعالیٰ آپ کو بھی اور ہمیں بھی اور دنیا میں ہر جگہ بسنے والے احمدیوں کو بھی یہ توفیق عطا کرے کہ سب احمدی انفرادی طور پر بھی اور جماعتی لحاظ سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں اور جو کام اﷲ تعالیٰ نے ان کے سپرد کیا ہے خدا تعالیٰ کی رضا کے لیئیوہ اس کام میں ہمہ تن مشغول رہیں اﷲ تعالیٰ کی رضا کو پائیں اور ابدی جنتوں کے وہ وارث ہوں آمین اﷲ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ السلام علیکم ‘‘ ۴۳
بیت مبارک کی بنیاد
جزائر فجی کا دوسرا بڑا جزیرہ وینوالیوو (VANUALEVU)ہے جس کا ہیڈ کوارٹر لمباسہ شہر ہے ۔۲۶؍نومبر۱۹۷۲ء کو اس شہر
میں مسجد مبارک کی بنیاد رکھی گئی۔ اس روز جزیزہ میں واقع تمام احمدی جماعتوں نے پر جوش وقار عمل منایا اجتماعی وقار عمل کا دلکش نظارہ ملکی شاہراہ پر آنے جانے والے ہر شخص کو متاثر کرتا تھا۔ پہلی اینٹ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے اور دوسری مولوی غلام احمد صاحب فرّخؔ نے رکھی۔ ۴۴
جزائر مشرقی بحرالکاہل میں
قرآن کریم کی وسیع اشاعت
حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ کی تحریک خاص کے مطابق جہاں دنیا بھر کے دوسرے احمدی مشنوں میں وسیع پیمانہ پر قرآن کریم کی اشاعت ہوئی وہاں فجی مشن کی طرف سے ۱۹۷۲ء سے بڑی
تعدادمیں چھوٹے بڑے سائز کے قرآن کریم سادہ اور مترجم اردو انگریزی میں مع تفسیر اور مقامی زبان میں بھی مفت اور برائے نام ھدیہ پر بکثرت تقسیم کئے گئے۔ فجی کے پانچ مشہور ہوٹلوں میں قرآن کریم انگریزی کے جو نسخے رکھوائے گئے ان کی تعداد ایک ہزار تھی۔ چنانچہ مولوی محمدصدیق صاحب نے اپنی ایک رپورٹ میں اطلاع دی کہ
’’آسٹریلیا ۔ نیوزی لینڈ۔ فجی ۔ جزائر ٹونگا۔ پاپوا۔ نیوگنی۔ جزائر کوک (COOK)مغربی اور مشرقی ساموا (SAMOA)جزائر نیوہر برڈیز اور ہونیارا وغیرہ ان سب ممالکِ بحر الکاہل کی یونیورسٹیوں‘ کالجوں‘ پبلک لائبریریوں ‘ سکولوں‘ ہوٹلوں‘ مختلف سوسائیٹیوں‘سوشل کلبوں اور نادیوں وغیرہ کی لائبریریوں کو قرآن کریم کے مختلف بڑے چھوٹے انگریزی ایڈیشن مفت پیش کئے گئے ہیں جو کہ شکریہ کے ساتھ قبول کئے گئے اور اب ان لائبریریوں کی الماریوں میں رکھے ہوئے ہیں اور پبلک ان سے فائدہ اٹھاتی ہے۔اس کے علاوہ بیسیوں نادار طالب علموں‘ یونیورسٹی کے پروفیسروں‘ ٹیچروں وغیرہ نے ہم سے خود بھی قرآن کریم طلب کئے اور کرتے رہتے ہیں اور بعض کو مفت پیش کیے گئے اور بعض نے خود پیشگی قیمتیں ادا کیں بعض خود آ کرلے جاتے ہیں۔ جزائر فجی میں باہر سے آنے والے بڑے بڑے شاہی اور معزز مہمانوں ‘ بادشاہوں چیفوں‘ گورنروں ‘وزرائے اعلیٰ اور پارلیمنٹوں کے مختلف ممبروں‘ ہائی کمشنروں‘ ملکی سفیروں میں سے اکثر کو خود بطور نمائندہ جماعت یا تبلیغی وفد کی صورت میں مل کر تبلیع اسلام کی گئی جس کے بعد انہیں قرآن کریم انگریزی سوانح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم‘ اسلامی اصول کی فلاسفی اور دیگر اسلامی کتب پیش کی جاتی رہیں جو کہ ہر ایک نے شکریہ کے ساتھ قبول کیںاور بعض نے اپنے ملک واپس جا کر شکریہ کے خطوط بھی لکھے ایسے اکثر اسلامی لٹریچر اور قرآن کریم کا مالی ہدیہ یا قیمت جماعت احمدیہ فجی کے بعض مخلص اور مخیّر احباب حصول ثو اب کی خاطر اپنی جیب سے مشن کو ادا فرماتے رہے ‘‘ ۴۵
گورنر جنرل فجی کو اسلامی لٹریچر
حمدیہ
۱۵؍فروری ۱۹۷۳ء کو مولانا محمد صدیق صاحب انچارج مبلغ فجی کی قیادت میں ایک
احمدیہ تبلیغی وفد نے گورنر جنرل سے ملاقات کی اس گفتگو کے بعد تبلیغی ایڈریس پڑھا اور ان کو قرآن کریم اور دیگر اسلامی لٹریچر کی پیس کش کی جس کا انہوں نے بہت شکریہ ادا کیا اور اس شدید خواہش کا اظہار بھی کیا کہ قرآن کریم کا فجین زبان میں ترجمہ جلد از جلد شائع کیا جائے۔ تاکہ ملک کے اصلی باشندے اسے خود بلاواسطہ پڑھ کر معلوم کر سکیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ یہ تقریب بخیروخوبی ختم ہوئی جس کے بعد مقامی اخبارات میں اسکی خبریں اور فوٹو بھی شائع ہوئے۔ ۴۶
۲۲؍اپریل۱۹۷۳ء کو احمدیہ بیت لوٹو کا کا افتتاح عمل میں آیا ۔ اس بیت کی تعمیر میں ماسٹر محمد حسین صاحب نے بڑی محنت سے دن رات کام کیا تھا ۔ مولانا غلام احمد صاحب فرخؔ نے اس تقریب پر احباب کو تعمیر بیت کے بعد انکی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ۴۷
۳؍اگست ۱۹۷۴ء کو لمباسہ شہر کی نئی بیت احمدیہ ’’بیت ناصر‘‘ کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر فجی کے تمام احمدی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ریڈیو فجی نے اس کے افتتاح کے بارہ میں اعلانات کئے اور روزنامہ فجی نے اس کے افتتاحکے دلکش فوٹو شائع کئے۔ ۴۸
۸۔۹۔۱۰۔۱۱؍اکتوبر ۱۹۷۴کو حکومت فجی کی طرف سے آزادی کا رسالہ اور حکومت برطانیہ سے الحاق کاسوسالہ جشن منایا گیا۔ اس موقعہ پر تقریبات میں حصہ لینے کے لیئے ملکہ برطانیہ نے اپنے فرزندپرنس چارلس کو بھیجا جو پرنس آف ویلز ہیں۔ مولوی غلام احمد صاحب فرخؔ نے جماعت احمدیہ فجی کی طرف سے انہیں ایک تبلیغی مکتوب لکھا نیز قرآن کریم کی انگریزی تفسیر کا تحفہ ارسال کیا جس کو انہوں نے جذبات تشکر کے ساتھ قبول کیا چنانچہ ان کی سینئرلیڈی سیکرٹری نے ان کی طرف سے بکنگھم پیلس سے شکریہ کا خط لکھا۔ ۴۹
ریڈیو فجی سے احمدیت کا چرچا
حکومتِ فجی نے مذہبی رواداری کی سنہری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیشہ پُرامن
مذہبی اداروں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مولوی غلام احمد صاحب فرّخؔ نے نومبر ۱۹۷۳ء میں ریڈیو فجی کے ڈائریکٹر سے ملاقات کر کے ریڈیو پر دوسرے فرقوں کے برابر وقت دیئے جانے کی درخواست کی جو انہوں نے فراخدلی سے منظور کر لی اور ۱۹۷۴ء سے احمدیہ مشن کو دوسرے فرقوں کے برابر صبح کے مذہبی پروگراموں اور دوسرے یادگاری مواقع پر تقاریر نشر کرنے کے مواقع دیئے جانے لگے اور یوم مسیح موعود‘یوم مصلح موعود‘ یوم خلافت‘ جلسہ سالانہ جماعت فجی‘ یوم سیرت النبیؐ‘ رمضان المبارک اور عیدین کے موقع پر مبلغین احمدیت کی تقریریں خبروں کے بعد نشر ہونے لگیں۔ اس طرح پورے ملک میں احمدیت کیآواز گو نجنے لگی۔ ۵۰
بیت مبارک کا افتتاح
۳ ؍ اگست ۱۹۷۴ء کو جزیرہ وینوالیوا (VANUALEVU)
کے دارالحکومت لمباسہ میںمولانا غلام احمد صاحب فرّخؔ
نے بیت مبارک کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بذریعہ ٹیلیگرام حسب ذیل پیغام عطا فرمایا ۵۱
’’ فجی میں اس احمدیہ بیت الذکرکے افتتاح کے موقعہ پر میری طرف سے تہ ِدل سے مبارکباد۔ خدا تعالیٰ اس مسجد کو اس علاقہ میں اسلام کی عظمت و شان اور مُسلمانوں کی مضبوطی کا موجب بنائے۔ اسلام اور احمدیت کی خدمت بے نفس ہو کر اخلاص کے ساتھ بجا لائیں اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کریں۔ میری طرف سے جملہ احباب کو جو اس تقریب میں شامل ہیں اور اسکی کامیابی کے لئے کوشاں ہیں السلام علیکم۔ اﷲ تعالیٰ آپ سب کو کامیاب فرمائے۔ ‘‘
یاساوا گروپ کے جزائر کا تبلیغی دورہ
مولوی عبدالرشید صاحب رازی نے ماہ نومبر ۱۹۷۴ء میں یا ساواگروپ
کے جزائر کا وسیع تبلیغی دورہ کیا اور انفرادی ملاقاتوں اور پبلک جلسہ کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا۔ ۵۲
فصل ہفتم
بیت فضل عمر کی بنیاد اور امام ھمام کا پیغام
۸ ؍دسمبر۱۹۷۴ء کو صوا میں جماعت احمدیہ کی بیت فضل اور مشن ہاؤس کے سنگ بنیاد کی تقریب عمل میں آئی۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے حسب ذیل ایمان افروز پیغام ارسال فرمایا:۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولٖہ الکریم و علیٰ عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کیساتھ
ھو الناصر
جان سے عزیز بھائیو!
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ‘
مجھے یہ معلوم کر کے از حد مسرت ہوئی کہ آپ نے بیت فضل عمر کی بنیادوں کی کھدائی کا کام اپنے ہاتھ سے خود کیا ہے۔ آج آپ اس کا سنگِ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ یہ دن نہ صرف جماعت ہائے احمدیہ فجی بلکہ جزائر فجی کے جملہ اہالیان کے لیئے ہر طرح بابرکت ثابت کرے۔ اس علاقہ میں اس بیت الذکرکو اعلاء کلمہ اسلام کے لیئے مرکز ثابت کرے اس طرح کہ اہالیان فجی کے دلوں میں انابت الی اﷲ اور خشیت اﷲ پیدا ہو جائے اور وہ اپنے دلوں کو پاک اور صاف کر کے خدائے واحد کے حضور جھک جائیں اور اس کے بندے بن جائیں۔ اے خدا ! تو ایسا ہی کر۔
اس کے ساتھ میں احبابِ جماعت کو یہ نصیحت کروں گا کہ ہماری بیوت ذکر الٰہی سے معمور رہنی چاہیں۔ نہ صرف پنجوقتہ نمازوں کے اوقات میں بلکہ دیگر اوقات میں بھی ہماری مساجد دعاؤں‘نوافل‘ تعلیم و تعلّمِ قرآن ‘ تبلیغ حق اور تربیت نفوس کے مراکز بنی رہنی چاہیں۔ اﷲ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جملہ احباب کو بیوت کے فیوض و برکات سے پوری طرح متمتع ہونے کی سعادت نصیب کرے۔ آمین
یہ دور ابتلاؤں اور آزمائشوں کا دور ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ اپنے فضل سے احباب جماعت کو ایمان پر استقامت بخشے‘ ثابت قدم رکھے۔ اور اس راہ میں ہر قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے قبول کرے۔آمین
مرزا ناصر احمد
خلیفۃالمسیح الثالث(۳؍دسمبر ۱۹۷۴ء ۔ ۱۳۵۳ ھش) ۵۳
جماعت احمدیہ فجی نے جنوری ۱۹۷۵ء میں ’’مسلم سن رائز‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا۔ ۵۴
اقوام متحدہ کی ایک اہم مسلمان شخصیت کی طرفسے مبارک باد
وسط ۱۹۷۷ء میں جنوبی بحرالکاہل میں واقع COOK ISLANDمیں اقوام متحدہ کی طرف سے متعین CENSUS ADVISERمسٹر محمد سراج الاسلام
دارلحکومت صوا میں تشریف لائے اور اس کیمشہور ہوٹل PACIFIC HOTELمیں قرآن مجید کا وہ انگریزی ترجمہ دیکھا جو جماعت احمدیہ فجی نے اشاعت قرآن کی مہم کے دوران دوسرے مقامات کے علاوہ یہاں بھی رکھوایا تھا۔ وہ اس ترجمہ سے از حد متاثر ہوئے اور واپس COOK ISLANDمیں آ کر احمدیہ مشن فجی کو قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر بھجوانے کی فرمائش کی جو انہیں ارسال کر دیا گیا۔ جسے پڑھکر انہوں نے جماعت احمدیہ کو مبارک باد پیش کی۔ چنانچہ انہوں نے مولوی دین محمد صاحب انچارج فجی مشن کے نام حسب ذیل مکتوب لکھا۔
(ترجمہ) ’’قرآن مجید کا ایک نسخہ اور دیگر اسلامی مطبوعات کو پا کر میں بہت خوش ہو اہوں۔ مجھے یہ معلوم کر کے بھی بہت خوشی ہوئی ہے کہ احمدیہ مشن اسلام کے حسین پیغام کی تبلیغ و اشاعت کا اہم فریضہ سرانجام دینے میں مصروف ہے۔ قرون اُولیٰ میں مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ہے۔ اور اُن کی ناقابل تسخیر قوّت اس بات میں تھی کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ۔ مگر افسوس کہ اب مسلمان اسلام کی تبلیغ و اشاعت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ غریب ‘ پسماندہ‘ شکست خوردہ اور ناپسندیدہ عنصر ہو کر رہ گئے ہیں۔ میں جماعت احمدیہ کو تبلیغ اسلام کی اہم خدمت کے سرانجام دینے پر مبارک باد کہتا ہوں‘‘۔
آپکا دلی دوست۔ محمد سراج الاسلام ۵۵
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ
کی دعا سے بارانِ رحمت
جناب مولوی شیخ سجاد احمد صاحب خالد تحریر فرماتے ہیں کہ
’’جب ۱۹۷۷ء میں خاکسار فجی پہنچا تو مجھے
معلوم ہوا ۔ کہ اس ملک کے باشندے اس سال بارش کی بڑی شدّت سے کمی محسوس کر رہے ہیں اورخشک سالی سے سخت پریشان ہیں۔ مُلک کے مولوی صاحبان بارش کے لئے دُعائیں کر چکے تھے۔ اور ہندو پنڈت کھلے میدانوں میں آگ جلا جلا کر بارش برسانے والے دیوتاؤں سے بارش کے لئے التجائیں کر چکے تھے۔ اس ملک کے ہندوؤں میں یہ رسم ہے کہ اگر حسبِ ضرورت بارش نہ ہو اور قحط سالی کا خطرہ ہو تو میدانوں میں نکل کر آگ جلاتے اور ڈھول بجا بجا کر اپنے دیوتاؤں کو بارش کی کمی کا احساس دلاتے ہیں۔ تاہم اس وقت ان کی سب رسمیں اور دیوتا بیکار اور بے جان ثابت ہوئے اور بارش نہ ہوئی۔ جس سے حکومتی حلقوں میں بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا کیونکہ یہ خشک سالی تقریباً سال بھر لمبی ہو گئی تھی۔ جو ملک کے لئے سخت نقصان دِہ تھی۔
اس دَوران ایک روز قصبہ مارو میں خاکسار برادرم مکرم ماسٹر محمد یونس خانصاحب کے مکان پر سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اﷲ تعالیٰ کی خدمت میں خط لکھ رہا تھا مکرم ماسٹر یونس صاحب کو جب یہ معلوم ہوا تو کہنے لگے کہ ابھی ابھی اسی وقت حضور کی خدمت میں خصوصی طور پر لکھیں کہ سال بھر سے سارے ملک فجی میں بارش کا فقدان اور خشک سالی تباہی کا موجب ہو رہی ہے اور ملک کے لوگوں کی اور ہماری دعائیں اور دیگر رسوم بھی سب بے کار ثابت ہو چکی ہیں۔ حضور اس ملک کے باشندوں پر رحم فرماتے ہوئے متواتر خاص دعا فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ جلد از جلد اس سر زمین کو حسبِ ضرورت بارش سے سیراب فرمائے نیز میری طرف سے یہ بھی خاص التجا کریں کہ اپنے ایک ادنیٰ مرید ماسٹر محمد یونس خان کیلئے دعا فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ اسے ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف سے شفا عطا فرمائے۔
خاکسار نے اسی وقت ان دونوں اہم امور کے لئے حضور کی خدمت میں خاص دعا کی درخواست لکھ کر روانہ کر دی۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سلسلہ میں حضور کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور خط کا جواب آنے سے پہلے پہلے سارے ملک میںاتنی شدید بارشیں ہوئیں کہ ہر طرف ہر یالا اور سبزی ہی سبزی ہو گئی اور ہر شخص کی زبان پر بلکہ لوکل اخباروں میں اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ کئی سالوں کے بعد ملک میں اتنی اچھی اور وسیع پیمانے پر بارشیں ہوئی ہیں۔ لیکن یہ بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ پاکستان کے دریائے چناب کے کنارے بسنے والے ایک مردِ با خدا حضرت امام جماعت احمدیہخلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اﷲ تعالیٰ کی مخلصانہ اور درد مندانہ دعائیں فجی میں اس بارانِ رحمت کے نزول کا موجب ہوئی ہیں۔ مکرم ماسٹر محمد یونس خانصاحب کی صحت کے لئے بھی اﷲ تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا وہ خدا کے فضل سے اب صحت یاب ہیں اور جماعتی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والے مخلص جوان ہیں۔فالحمد للہ تعالی۔ ۵۶
خوابوں کے ذریعہ رہنمائی اور قبولِت احمدیت
دنیا کے دوسر ے ممالک کی طرح جزائر فجی میں بھی بہت سے ایسے مخلص احمدی دوست موجود ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کے نتیجہ میں بذریعہ
خواب احمدیت کی صداقت کا انکشاف فرما کر انہیںجماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس سلسلہ میں بطور نمونہ صرف ایک خواب کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
ماروکے مکرم محمد بشیر خاں صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
’’جزائر فجّّّّی میں احمدیت کے چرچا اور احمدیہ مشن کے قیام سے پہلے وہاں عیسائیت کا بہت زور تھا۔ اور حضرت عیسٰیؑکی آسمان سے آمد کے عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح منتظر تھے جس کی وجہ سے یہ خیال میرے دل میں گھر کرنے لگا۔ کہ عیسائیت سچی ہے اور عیسائی ہو جانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے تاہم اﷲ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ میں ابھی عیسائی نہیں ہوا تھا بلکہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے خواب میں ایک نہایت بزرگ انسان ملے۔ انہوں نے بڑے جلال سے مجھے فرمایا‘‘ ۔ محمد بشیر ہوش کرو۔ جس شخص کی تمہیں تلاش ہے وہ عیسٰیؑ یا مسیح ناصریؑ نہیں ہے بلکہ وہ کوئی اور ہے اور دنیا میں ظاہر ہو چکا ہے۔ اس وقت جزائر فجی کے پہلے مبلغ جناب شیخ عبدالواحد صاحب فاضل فجی میں آ چکے تھے اور میرے والد محترم مولوی محمد قاسم صاحب بھی بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ لیکن میرا اس طرف رجحان نہیں تھا۔ تاہم مذکورہ بالا خواب دیکھنے کے بعد میرا رجحان احمدیت کی مبائعجماعت کی طرف ہو گیا اور میں نے بھی اپنے والد صاحب کی طرح شرحِ صدر سے بیعت کر لی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی … کی بیعت کر لینے کے بعد مجھے سلام سے ایسی محبت اور لگاؤ پیدا ہو گیا اور ایسے فہم و فراست سے اﷲ تعالیٰ نے سرفرازفرمایا کہ میں عیسائیوں کے سامنے نہایت جرأت اور یقین سے اسلام کی حقانیت اور عیسائیت کے موجودہ عقائد کا بطلان ثابت کرنے لگ گیا اور مَیں نے اﷲکا تہہ دل سے شکر ادا کیا کہ صداقت مجھ پر کُھل گئی اور مَیں محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کے سچّے اور حقیقی غلاموں میں شامل ہو گیا ہوں۔‘‘ ۵۷
فصل ہشتم
جلسہ سالانہ 1977ء اور بیت فضل عمر اور لائبریری کا افتتاح
۲۵۔۲۶دسمبر ۱۹۷۷ء کو سوا(SUVA)کی بیت فضل عمر میں جماعت احمدیہ جزائر فجی کا نہایت کامیاب سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ ملک بھر سے احباب جماعت ہوائی جہازوں‘ کاروں
اور سپیشل بسوں سے سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے 500کی تعداد میں شامل ہوئے۔ جلسہ میں شامل مہمانوں اور زائرین کے قیام و طعام کا انتظام جلسہ سالانہ ربوہ کی طرز پر نہایت منظم رنگ میں کیا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا حسب ذیل پیغام اس موقع پر مولوی دین محمد صاحب شاھد ایم اے نے پڑھ کر سنایا۔
’’ اﷲ تعالیٰ آپ کے جلسہ سالانہ کو بابرکت کرے۔ متحد رہو اور خلافت کے تقدّس کو ہمیشہ ملحوظ رکھو اور اسکی عزت کرو ۔ اﷲ تعالیٰ کے فضلوں کو دُعاؤں سے عاجزی کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اور پوری فرمانبرداری اور اطاعت سے حاصل کرو‘‘۔
خلیفۃ المسیح الثالثؒ
اس موقع پر پندرہ ہزار فجین ڈالر کے خرچ سے تعمیر ہونے والی پُر شکوہ بیت فضل عمر اور اس سے ملحق احمدیہ لائبریری کا افتتاح بھی عمل میں آیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے حسب ذیل مبارک پیغام احمدیہ لائبریری کی افتتاحی تقریب پر ارسال فرمایا تھا۔
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
برادران عزیر! السلام علیکم و رحمۃ اﷲ برکاتہ‘
’’مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ بیت فضل عمر (کے پہلے مرحلہ کی تکمیل پر) اور اس کے ساتھ ملحق لائبریری اور دارالمطالعہ کے افتتاح کی تقریب منعقد کر رہے ہیں۔
دین حق میں بیت الذکرایک مقدّس جگہ ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا گھر کہلاتا ہے۔ اور یہ خالص اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لیئے مخصوص ہے۔ یہ مقدّس جگہ لوگوں کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لیئے اور ان کی توجہ کو مذہب کی طرف بُلانے کے لیئے ہے۔ جو دنیا میں امن اور خوشحالی پیدا کرنے کا واحد ذریعہ اور ضمانت ہے۔ جب یہ صورت حال ہے تو اس بیت کے دروازے ہر اُس شخص کے لیئے کُھلے رہیں گے جو خدائے واحد و یگانہ سے دعا مانگنا اور اسکی عبادت کرنا جس طریق پر چاہے کر سکتا ہے بشرطیکہ
۱۔ وہ ان لوگوں کی عبادت میں مخل نہ ہو جنہوں نے اس بیت کو اپنی دینی ضروریات کے لئے بنایا ہے۔
۲۔ وہ اس بیت الذکر کے قواعد و قوانین کی پابندی کرے جو اس کے ٹرسٹیوں کی طرف سے بنائے گئے ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس طریق سے رواداری کی جو فضا پیدا ہو گی وہ آگے چل کر مختلف طبقوں کے درمیان باہمی نفرت جھگڑوں کو فسادوں کو دُور کر کے اُن کے درمیان خیر خواہی اور اچھے تعلقات اور محبت کی فصا پیدا کرنے کا موجب ہو گی۔
مجھے امید ہے۔ وہ دن دور نہیں جبکہ لوگ لڑائی اور فساد کے طریق کو نفرت سے دیکھیں گے اور دوسرے کے ساتھ امن اور سلامتی اور محبت سے رہنے کا سبق سیکھ لیں گے۔
میں اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ان تمام مردوں اور عورتوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے جنہوں نے اس بیت کی تعمیر کے لئے عطایا دیئے۔ میں دُعا کرتا ہوں کہ یہ بیت حضرت محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے جلیل القدر متبع حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر ہونے والی ہدایت اور روشنی کو پھیلانے کا مرکز اور ذریعہ بنے۔ ‘‘
والسلام
آپ کا دلی دوست مرزا ناصر احمدخلیفۃ المسیح الثالثؒ
مورخہ۷۷۔۱۱۔۱۰ ۵۸
ایک خاندان کے قبول احمدیت کی دلچسپ روداد
جناب شیخ سجّاد احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں۔
’’ جزائر فجی میں تبلیغ کے دوران اﷲ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بے شمار جلوے دیکھنے کا مجھے شرف حاصل ہوا۔ ۱۹۷۷ء کے آخر میں ایک مرتبہ اس ملک کے
جزیرہ لمباسہکے تبلیغی دور ے پر گیا۔ جس کے دوران قصبہ نصروانگا کے ایک مخلص احمدی بھائی نور شاہ صاحب نے پروگرام بنایا کہ وہاں سے ۴۰میل دور BUAڈسٹرکٹ میں اُن کے خسرعبدالغفور صاحب کے گھر پہنچ کر اُن کو تبلیغ کی جائے۔ وہ عرصہ سے زیر تبلیغ تھے۔ اور احمدیت کی سچائی کا اقرار کرنے کے باوجود جماعت میں شمولیت سے گریز کر رہے تھے۔
چنانچہ نور شاہ صاحب ‘ مکرم حامد حسین صاحب ‘ مکرم محمود شاہ صاحب ‘ مکرم محمود شاہد صاحب اور خاکسار پر مشتمل تبلیغی وفد ایک روز عبدالغفور صاحب کے گھر پہنچا۔ انکی بیگم صاحبہ کو ہمارا اس غرض کے لیئےآنا سخت ناگوار گذرا اور دیکھتے ہی کچن سے نکل کر ہمیں ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی اور کہنے لگیں کہ ان کے گھر میں احمدیت کے بارہ میں کوئی بات نہ کی جائے اور کچن میں واپس چلی گئیں ۔ ہم مکرم عبدالغفور صاحب کو تقریباً ایک گھنٹہ تبلیغ کرتے رہے۔ چنانچہ انہوں نے شرح صدر ہونے پر بخوشی بیعت فارم پُر کر دیا۔ دُعا کے بعد جب ان کی بیگم کو پتہ لگا کہ اُن کے خاوند نے بیعت کر لی ہے۔ تو بہت جُز بُز ہوئیں اور کمرے میں آتے ہی شور ڈالدیا کہ آپ نے ہمارے گھر میں فتنہ ڈالدیا ہے۔ میری بیٹی اور داماد پہلے ہی احمدی ہیں۔ اب آپ لوگوں نے میرے خاوند کو بھی احمدی بنا لیا ہے ابھی آپ فوراً یہاں سے چلے جائیں۔ اس پر خاکسار نے اُن کو بڑی نرمی اور عاجزی سے سمجھایا کہ ہم نے کوئی بُرا کام تو نہیں کیا۔ اﷲ تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ اور امام وقت کی بیعت ہی کرائی ہے۔ اور اب باقاعدہ الٰہی جماعت میں شمولیت سے ان کے اسلام کو چار چاندلگ گئے ہیں۔ اس پر وہ سنجیدہ ہو کر سوالات کرنے لگیں۔ جن کے خاکسار جواب دیتا رہا۔ حتّٰی کہ ان کے شکوک و شبہات بھی سب دور ہو گئے اور انہوں نے بھی اسی وقت بیعت کر لی۔ اس وقت کا ماحول روحانی لحاظ سے اتنا پیارا اور خوشگوار ہو گیا۔ کہ بیگم عبدالغفور صاحب خود ہی کہنے لگیں۔ کہ اگر بیعت کرناا ور امام وقت کی جماعت میں شامل ہونا نیکی کا کام ہے تو آپ میرے بیٹے محمد تقی کو بھی ضرور اس میں شامل کریں۔ تاکہ ہمارے کنبے میں کوئی اختلاف نہ رہے اس پر ہم سب اِن کے بیٹے محمد تقی صاحب کے گھر گئے میںنے انہیں کہا۔ کہ ہم آپ کے لیئے پاکستان سے ایک تحفہ لے کر آئے ہیں۔ وہ ہم اس شرط پر آپکو پیش کریں گے کہ آپ اسے ردّ نہ کریں چنانچہ دو گھنٹہ کی بحث کے بعد ان کی تسّلی ہو گئی اور انہوں نے بھی بیعت کر لی اور یوں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے یہ سارا خاندان ہدایت پا گیا۔ ۵۹
کسر صلیب کانفرنس کی بازگشت فجی میں
بین الاقوامی کسر صلیب کانفرنس لنڈن (منعقدہ ۲۔۳۔۴؍جون ۱۹۷۸ء )کی بازگشت فجی کے طول و عرض میں بھی سُنی گئی۔ چنانچہ ریڈیو فجی میں اس کانفرنس کی تفصیل نشر ہوئی۔ اور فجی کے کثیر الاشاعت اور بااثر انگریزی
اخبارات ’’ فجی ٹائمز‘‘ اور ’’فجی سن‘‘ ۶۰نے نہ صرف کانفرنس کی تفصیلات دیں بلکہ حضرت مسیح ناصریؑ کی صلیبی موت سے نجات اور قبر کشمیر کے بارہ میں نہایت دلچسپ‘ ایمان افروز اور مبسوط با تصویر مضامین سُپرد اشاعت کیئے۔ جس سے فجی کے علمی حلقوں پر انکشافات جدیدہ کی روشنی میں حضرت مسیح موعود ؑکے جدید علم کلام کی عظمت و برتری کا سکّہ بیٹھ گیا ۔
جلسہ سالانہ ۱۹۷۸ء کیلئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پیغام
۲۵۔۲۶؍دسمبر ۱۹۷۸ء کو جماعت احمدیہ جزائر فجی کا سالانہ جلسہ ملک کے داراکحکومت سوا (SUVA)میں منعقد ہوا۔ اس جلسے کیلئے حضرت خلیفۃ المسیح نے
حسب ذیل پیغام بذریعہ کیبل گرام ارسال فرمایا۔
" May Allah bless your 9th annual convention. Seek His help through humble prayers, submissions and prayers and set a high standard in the prctical life. Hold fast to the rope of Allah and make your lives living proof of the teachings of Islam. My thoughts and prayers are always with you, your ever loving KHALIFATUL MASIH"
ترجمہ:۔ اﷲ تعالیٰ آپ کے نویں سالانہ جلسہ کو بابرکت فرمائے عاجزانہ دعاؤں سے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اور پھر دعاؤں سے اﷲ تعالیٰ کی مدد و نصرت کو حاصل کرو۔ عملی زندگی میں کردار کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کرو۔ اﷲ تعالیٰ کی رسیّ کو مضبوطی سے پکڑو اور اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کا زندہ نمونہ بناؤ۔ میری توجہ اور دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔ آپ سے ہمیشہ پیار کرنے والا۔
خلیفۃ المسیح ۶۱
بیت بلال کا افتتاح
۳؍دسمبر ۱۹۷۸ء کوصبح دس بجے نساواکا کی ’’بیت بلال‘‘ کا افتتاح جناب مولوی دین محمد صاحب نے سیّدنا حضرت خلیفۃ
المسیح الثالثؒ کے مندرجہ ذیل مبارک پیغام سے کیا۔
’’ خدا تعالیٰ کے اس گھر سے ہمیشہ پیار کریں اور آباد رکھیں اﷲ تعالیٰ آپکو اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی اس گھر میں مقبول دعاؤں کی توفیق عطا فرماتا رہے‘‘۔ ۶۲
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پیغام خدام الاحمدیہ فجی کے نام
مجلس خدام الاحمدیہ جزائر فجی کا پہلا سالانہ تربیتی اجتماع ۱۱؍فروری ۱۹۷۹ء کو مارو میں منعقد ہوا۔ جزائر فجی کی تاریخ میں نوجوانوں کا ایسا بڑا خالص دینی اور اسلامی اجتماع پہلی دفعہ
منعقد ہوا۔ جس پر احمدی احباب بہت خوش تھے اس کامیاب افتتاح کا آغاز سیدنا حضرت خلیفۃ الثالث ؒکے درج ذیل ایمان افروز پیغام سے ہوا جو مولوی دین محمد صاحب شاھد ایم اے نے پڑھکر سنایا۔
اﷲ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھو الناصر
پیارے بھائیو ! اراکین خدام الاحمدیہ
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ‘
مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ فروری کے دوسرے ہفتہ میں اپنا عام اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔اﷲ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو بابرکت اور کامیاب بنائے (آمین)
اس موقع پر میں آپکو یاد دلاتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے ممبر ہونے کی حیثیت سے آپ کے کندھوں پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں۔ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا بنیادی مقصد ایک عالمی اسلامی نظام قائم کرنا تھا۔ اور یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا۔ جب تک ہم اپنی سوچ اور اپنے کاموں میں ایک مکمل تبدیلی نہ پیدا کر لیں ۔ لہذا ہمارے خدام کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سادہ زندگی اچھے اخلاق و اطوار‘ اسلامی اصول ونظریات کو اپنا مطمح نظر بنانے کی کوشش اور بلا امتیاز قوم و نسل انسان کی خدمت کے لیئے اپنی زندگی وقف کرنے کی ایک مثال قائم کر دیں ۔ لوگوں کے دلوں کو جیتنے کے لئے ہمیں گولیوں اور تلواروں کی ضرورت نہیں ہمارا اسلحہ خانہ تو تقویٰ ‘ دعاؤں نظم و ضبط اور اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے۔
خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام‘ قرآن کریم اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کی عزت کو دوبارہ قائم کرے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ اس کام کو کرنے کے لئے ہمیں ذاتی آرام کا خیال کیئے بغیر دیوانہ وار دن اور رات کام کرناہو گا۔ یہ بات واضح ہے کہ ہم احمدیت اور قرآن کریم کا پیغام اس وقت تک دوسروں تک نہیں پہنچا سکتے جب تک ہمیں خود ان کا پورا علم نہ ہو۔ اس لیے خدّام الاحمدیہ کو اپنا فرض قرار دے لینا چاہیے کہ وہ قرآن کریم کو اتنا اچھے طور پر سیکھیں جتنا اچھے طور پر وہ سیکھ سکتے ہیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتب جو دین حق کی صحیح تصویر پیش کرتی ہیں کا مطالعہ بھی کرنا ہے اور یہ بھی دیکھیں کہ کوئی احمدی (مرد ہو یا عورت ) ان پڑھ نہ رہے۔آپ کو اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا امتی نبی اور مہدی مبعوث کر کے اور خلافت کو دوبارہ قائم کر کے تمہارے دلوں کو متحد کر دیا ہے اور تم میں باہمی محبت پیدا کر دی ہے تمہیںنظام خلافت کے تقدس کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے تمہیں سب سے زیادہ فکر اس با ت کی ہونی چاہئے کہ امام وقت سے جو ہر وقت تمہاری بھلائی کے لئے کو شاں رہتا ہے اور متواتر تمہارے لئے دُعا کرتا ہے تمہارا ذاتی تعلق قائم ہو۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں عزم اور ہمت عطا کرے تا تم ایک سچے …کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکو۔ آمین ’’خلیفۃ المسیح الثالثؒ ‘‘ ۷۹۔۱۔۲۲ ۶۳
فصل نہم
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا روح پرور پیغام جلسہ سالانہ فجی ۱۹۷۹ء پر
جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ فجی کے موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ نے مندرجہ ذیل پیغام مرحمت فرمایا۔
Message of Hazrat Khalifatul Masih III
To The Ahmadies of Fiji Islands
I am glad to hear that the Jamaats in Fiji Islands are holding their annual Jalsa on 25th and 26th December, 1979, May Allah bless this Jalsa and its participants. May it prove to be a step towards the realization of our goal ________ the propagation of Islam in the world.
On the occasion of this Jalsa, I wish to draw your attention to the fact that in 1889 the Promised Messiah, under Divine guidance, established this Jammaat for the sole purpose of spreading Islam in the world and gathering togather under the banner of Islam, the peoples of all nations, of all countries and of all faiths. Ninety years have passed since then and the world of religion has undergone a lot of change in these ninety years. The message of Islam has now reached the four corners of the world and people of all countries and all nations are realizing the truth and are joining the Jamaat in large numbers.
I have told you on many occasions that the next century of our life as a Jamaat _______ beginning in 1989 _____ is the century of victory and triumph of Islam over all other faiths. Only ten years are now left. In these ten years we must prepare ourselves and our children to be able to welcome this century of the triumph of Islam in a befitting manner. And this lays a great responsibility on our shoulders. We must be able not only to understand the Islamic teaching but also to practise it in our own lives. So that when in the next century, people join the Jamaat in hosts, as foretold by the Promised Messiah, we and our children may be able to act as their guides and teachers in the Islamic faith and tradition.
It is for this reason that I placed before you the Ahmadiyya Centenary Jubilee Plan in my lecture on the last day of 1973 Annual Jalsa of Ahmadiyya Movement held at Rabwah. And in my Friday Sermon on February 8, 1974,referring to the proposed plan, I told you that the real thing is that this plan may find approval in the sight of Allah, the Almighty. For this purpose I called upon the members of the Jamaat to pray earnestly to bless this plan. I also put forth a special programme of prayers and worship to be followed by all Ahmadies for their spiritual betterment.
1. In the last week of every month a day should be fixed by the members of the local Jamaat in which all the members should keep fast.
2. Every member should daily offer two Rakaahs of Nafal (non-obligatory) prayers. These Nawafil should be offered after Zohar prayer or during the night, after the Isha prayer till the Fajar prayer. 3. Every Ahmadi should recite Sura Faiha seven times a day. 4. Every Ahmadi should glorify Allah and invoke His blessings on the Holy Prophet of Islam by reciting the following prayer thirty-three times a day. ۶۴
سبحان اﷲ و بحمدہ سبحان اﷲ العظیم -اللھم صل علی محمد و آل محمد
Glory be to Allah and His is the prasie! Glory be to Allah the great. O Allah bless Muhammad and his progeny.
5. Every Ahmadi should ask forgiveness for his sins and shortcomings from Allah the Almighty be repeating the following prayer thirty-three times a day:
استغفر ﷲ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ
I ask forgiveness from Allah my LOrd for all sins and
I incline to Him.
6. Every member of the Jamaat should repeat the following prayers at least eleven times daily:
ربنا افرغ علینا صبراً و ثبت اقدامنا و انصرنا علی القوم الکا فرین (A)
Our Lord! put forth on us steadfastness and make our steps firm and help us against the disbeliving enemy.
اللھم انا نجعلکٔ فی نحور ھم و نعوذبکٔ من شرورھم (B)
O Allah, we make thee a shield against their design and seek refuge with thee from their mischief.
I also called upon you that in addition to these prayers and Nawafil, you should also frequently pray to the Almighty in your own language to grant His approval to the proposed plan and to bless our efforts in the path of Allah and His Messenger, the Holy Prophet of Islam, peace and blessings of Allah be upon him.
I hope that you must be acting upon this programme of prayers and worship. I pray to Allah to grant you the strength and the energy required to carry out the plan according to the wishes of our Lord. I pray to Allah that he may grant you all that is good in this world and the next . I love you dearly and pray for you daily. May Allah bless you ! May Allah be with you always and help you in all your endeavours. Ameen !
Yours sincerely,
Mirza Nasir Ahmad
Khalifatul Masih III Rabwah : 16-12-1979
ترجمتہ القرآن بزبان کیویتی
مولانا شیخ عبدالواحد صاحب نے اپنے زمانہ قیام میں ایک عظیم الشان کارنامہ یہ سر انجام دیا
کہ ایک کیوتی دوست سے کیویتی زبان میں پورے قرآن مجید کا ترجمہ کروایا جس کا سارا خرچ مکرم حاجی محمد لطیف صاحب نے برداشت کیا ۱۹۸۰ء میں اس ترجمہ کی نظرثانی کیے لیئے مرکزی ہدایت کے مطابق امیر و مشنری انچار ج فجی اور جماعت کے مخلص بزرگ ماسٹر محمد حسین صاحب آف لٹو کا پر مشتمل قرآن بورڈ قائم کیا گیا۔ ۶۵
اب یہ ترجمہ قرآن ماسٹر صاحب کی مساعی سے منظر عام پر آ چکا ہے۔
جلسہ سالانہ ۱۹۸۰ء پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا اہم پیغام
جماعت احمدیہ فجی کا جلسہ سالانہ ۱۹۸۰ء صوا میں جماعت احمدیہ کی سب سے بڑی اور نئی مرکزی بیت میںمنعقد ہوا یہ بیت اور اس کی متصل شاندار عمارت فجی احمدیوں کے ایثار
و قربانی اور مالی جہاد کی ایک دائمی یادگار ہے۔ جلسہ سالانہ کی اس تقریب پر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ نے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا:۔
’’ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنا جلسہ سالانہ منعقد کر رہے ہیں اور یہ جلسہ آپ کی نئی تعمیر شدہ بیت میں ہو رہا ہے۔ میری دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے اس جلسہ کو اور نئی تعمیر شدہ بیت کو ہر اعتبار سے آپ کے اور دین حق کے لیئے مبارک ثابت کرے یہ نئی بیت فجی میں جماعت احمدیہ کی ترقی اوردین حق کی تبلیغ و اشاعت کا ایک مرکز بنے ایمان و اخلاص میں اضافہ کا موجب بنے اب ہم پندرھویں صدی ہجری میں قدم رکھ چکے ہیں یہ صدی انشاء اﷲ تعالیٰ غلبہ‘‘ حق کی صدی ہو گی یہ صدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دی ہوئی بشارت کو پورا کرنے والی صدی ہو گی۔
یقینا سمجھو کہ …اب زمانہ دین حق کی روحانی تلوار کا ہے۔ عنقریب اس لڑائی میں دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہو گا۔ اور دین حق فتح پائے گا … میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں۔ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۲۵۴ـ۔۲۵۵)
لیکن ہر بشارت اپنے ساتھ نئی ذمہ داریاں بھی لاتی ہے اور نئی قربانیوں کا تقاضا بھی کرتی ہے پس میرا پیغام آپ کے لیئے یہ ہے کہ آپ لا الہ الاّ اﷲ کا ورد کرتے ہوئے نئے عزم کے ساتھ اس صدی کے آغازمیںدین حق کے لیئے اپنی قربانیوں میں نمایاں اضافہ کر دیں اور اپنی اولادوں میں بھی یہی جذبہ پیدا کریں کہ ہمارا قادر و توانا خدا بڑی قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ ہماری حقیر مساعی کو اپنی برکتوں سے نوازتے ہوئے ضرور دین حق کو غلبہ عطا فرمائے گا۔‘‘ ۶۶
تجارتی میلہ میں کامیاب تبلیغی مہم
سال ہاسال کے دستور کے مطابق فجی کے مشہور شہر اور انٹر نیشنل ایئرپورٹ ناندی ۱۱تا۱۸؍جولائی ۱۹۸۱ء کو وسیع پیمانہ پر ایک تجارتی میلہ لگا۔ یہ ایام رمضان المبارک کے تھے۔ اس لیئے جماعت احمدیہ فجی میلے میں اپنا سٹال تو نہ لگا سکی البتہ میلہ کے آخری
روز جلوس میں شریک ہونے کافیصلہ کیا گیا۔ امیر صاحب فجی کی اجازت سے مبلغ فجی حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب نے اس جلوس میں شرکت کی اس غرض کیلئے ایک دوست کی وین حاصل کی گئی جس پر لکڑی کا بڑا سا فریم لگایا گیا۔ فریم کے اوپر جلی حروف سے لکھا تھا کہ
"THE PROMISED MESSIAH HAS COME"
نیچے دوسرے رنگ میں ان الفاظ کا مقامی کائیویتی زبان میں ترجمہ درج تھا جسکو کیویتی نوجوان بڑے زور کے ساتھ اونچی آواز میں پڑھتے تھے فریم میں مندرجہ ذیل الفاظ بھی درج تھے۔
"TEACHING OF PEACE THE HOLY QUARAN"
۶۷
"TEACHING OF PEACE MASTER PROPHET MOHAMMAD, PEACE AND BLESSINGS ON HIM"
۶۸
علاوہ ازیں ایک لمبے بینر پر کلمہ طیبہ لا الٰہ الاّ اﷲ ‘ محمّد رسول اﷲ کے مبارک الفاظ مع انگریزی ترجمہ کے لکھے تھے۔ وین کی دوسری طرف بھی متعدد پُرکشش تبلیغی فقرات سے مزین تھی۔جماعت احمدیہ کی اس وین کو ماسٹر محمد حسین صاحب آف لوتوکا چلا رہے تھے … یہ روحانی الفاظ ہزاروں افراد نے دیکھے جن میں سینکڑوں سیاح بھی تھے جنہوں نے گہری توجہ سے ان کو پڑھا بعض کی یہ حالت تھی کہ حیرانی کے عالم میں مبہوت ہو کر کھڑے تھے۔ حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب وین کے ساتھ شیروانی‘ شلوار اور ٹوپی میں ملبوس ساتھ ساتھ دُعا کرتے ہوئے پیدل چلتے رہے۔ آپ کے ہمراہ چند خدام اور اطفال بھی تھے جوفٹ پاتھ پر کھڑے لوگوں میں لٹریچر تقسیم کرتے جاتے تھے اس طرح قریباً دو ہزار افراد کو لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ یہ جلوس ایک سکول سے شروع ہوا اورشہر کی درمیانی بڑی سڑک سے ہوتا ہوا شہر کے دوسرے سرے تک جا پہنچا اور ایک بڑے وسیع میدان ’’ پرنس چارلس گراؤنڈ‘‘ میں آ کر ختم ہو گیا ایک میل کا یہ راستہ لوگوں سے پوری طرح اٹا پڑا تھا بعض جگہ اتنا ہجوم تھا کہ پولیس کو لوگ پیچھے ہٹانے پڑے ۔گراؤنڈ میں اختتامی کارروائی ہوئی انعامات تقسیم کئے گئے
نیز جلوس میں شرکت کرنے والی جماعت احمدیہ کی وین کو بھی سرٹیفکیٹ دیا گیا اور جلوس میں جماعت احمدیہ کی شمولیت پر خوشی کا اظہار کیا گیا قریباً سبھی حلقوں کی طرف سے حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات دیکھنے میں آئے۔
حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب نے اس کامیاب تبلیغی مہم کی مفصل رپورٹ مرکز میں بھجوائی جو الفضل ۹؍ستمبر ۱۹۸۱ء کے صفحہ نمبر۱‘۸میں وین کی تصویر کے ساتھ اشاعت پذیر ہوئی اس رپورٹ کے آخر میں آپ نے لکھا:۔
’’خاکسار پیدل چلتے ہوئے اپنے پیارے رب کریم کے حضور دُعا گو تھا کہ ہمارے پیارے اﷲ ! یہ لوگ تیری مخلوق ہیں لیکن یہ آج تجھے نہیں پہچانتے اور ہلاکت کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اپنی رحمت سے ان کی ہدایت کے سامان پیدا کر اور آسمان سے فرشتوں کی فوجیں اُتار جو ان کے دلوں میں دین حق کی محبت بھر دیں تا تیرا دین ساری دنیا پر غالب آئے اور تیری توحید کا علم اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا پر لہرائے۔‘‘
حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب کی المناک شہادت
۱۶؍اگست۱۹۸۱ء کا واقعہ ہے کہ مبلغ فجی محترم حافظ ملک عبدالحفیظ صاحب ایک جماعتی دورے پر لمباسہ تشریف لے جارہے تھے کہ ہائی وے پر ایک ٹرک سے آپ کی کار ٹکرا گئی۔ جس کے نتیجہ
میں آپ شدیدزخمی ہو گئے۔ آپ کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں آپ نے اپنی جان مولائے حقیقی کے سپرد کی ۔ اِناّ ﷲ و اِنّا الیہ راجعون۔ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ارشاد پر مرحوم کا جسد خاکی فجی سے پاکستان لانے کا خصوصی انتظام کیا گیا چنانچہ جماعت فجی کے ایک نہایت مخلص نمائندہ جناب ظفر اﷲ خاں صاحب آپ کی نعش لے کر ۲۱؍اگست کی صبح کو بذریعہ ہوئی جہاز کراچی اور کراچی سے بوقت ۲بجے دوپہر ربوہ پہنچے اسی روز ساڑھے چھ بجے شام مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح و ارشاد نے بہشتی مقبرہ کے وسیع احاطہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں مقامی احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ قبر تیار ہونے پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے دُعا کرائی۔ حافظ صاحب مرحوم حضرت مولوی نظام الدین صاحب (یکے از رفقاء احمد) کے پوتے مکرم کریم بخش صاحب آف بہاول پور کے صاحبزادے اور محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب دیال گڑھی مربی سلسلہ احمدیہ (انچارج رشتہ ناطہ) کے داماد تھے۔ آپ ۱۹۴۳ء میں پیدا ہوئے جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری
حاصل کر کے ۱۹۷۴ء کے دوران میدان عمل میں قدم رکھا اور سب سے پہلے تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں ازاں بعد رحیم یار خاں اور مردان میں پیغام حق پہنچایا۔ ۲۵؍فروری۱۹۸۰ء کو آپ فجی تشریف لائے جہاں آپ تبلیغی جہاد میں ہمہ تن مصروف تھے کہ ایک طویل تبلیغی دورے پر جاتے ہوئے کار کے حادثہ میں شہید ہو گئے۔ ۶۹
مجلس انصار اﷲ و مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا اجتماع
جزائر فجی میں انصار اﷲ اور خدام الاحمدیہ کی مجالس کے پہلے سالانہ اجتماع ۸؍نومبر ۱۹۸۰ء کو لٹوکامیں منعقد ہوئے۔ صدارت کے فرائض مولوی سجاد احمد صاحب خالد نے انجام دیئے اس موقع پر حضرت
خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے حسب ذیل پیغام دیا۔
’’میں یہ سن کر بہت خوش ہوا ہوں کہ جزائر فجی کی مجلس انصار اﷲ اور مجلس خدام الاحمدیہ اپنے سالانہ اجتماع منعقد کر رہی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ جزائر فجی کے انصار اور خدام کو طاقت اور جرأت عطا کرے تا وہ اپنے فرائض کو دین حق کی تعلیم کے مطابق سر انجام دے سکیں۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور وہی اپنی برکات سے تمہیں نوازے‘‘۔ ۷۰
پہلی سالانہ تربیتی کلاس
جماعت احمدیہ فجی کی پہلی سالانہ تربیتی کلاس ۲۶؍اپریل تا یکم مئی ۱۹۸۱ء فجی کے دارالحکومت صووا کی بیت الذکر فضل
عمرمیں منعقد ہوئی جس میں پانچ جماعتوں کے ۶۳خدام و اطفال نے شرکت کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے پیغام میں کلاس کے طلبہ کو نصیحت فرمائی کہ
’’جو کچھ آپ کو پڑھایا سکھایا جائے اُسے توجہ اور غور سے سنیں اور اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیئے اپنے تئیں تیار کریں خدا کی باتیں پوری ہو کر رہیں گی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے مدد کے طالب بنیں۔۷۱
نگران اعلیٰ کے فرائض ماسٹر محمد حسین صاحب لٹوکا نے اور کھانے کے جملہ فرائض مکرم امتیاز احمد مقبول صاحب قائد صووا اور ان کی بیگم صاحبہ نے بڑی خندہ پیشانی سے ادا کئے۔ ۷۲ ریڈیو فجی نے اس سلسلہ میں ملک حافظ عبدالحفیظ صاحب ۔ ماسٹر محمد حسین صاحب اور بعض طلبہ کا انٹرویو بھی نشر کیا۔
فصل دہم
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا جماعت احمدیہ فجی کے نام آخری پیغام
جماعت احمدیہ فجی کا بارھواں سالانہ جلسہ ۲۶‘۲۷؍دسمبر ۱۹۸۱ء کو منعقد ہوا جس کے لیئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اﷲ تعالیٰ نے حسب ذیل
روح پرور پیغام دیاجو جماعت احمدیہ فجی کے نام حضور کا آخری پیغام تھا۔
’’برادرانِ جماعت احمدیہ فجی! السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ‘
مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنی نئی تعمیر شدہ بیت الذکر کی عظیم الشان عمارت میں یہ جلسہ منعقد کر رہے ہیں۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ یہ نئی تعمیر شدہ بیت الذکراور یہ جلسہ آپ سب کیلئے اوردین حق کے لئے مبارک ہو۔ یہ مقام ادین حق کی اشاعت کا مرکز بنے۔ اور یہ جلسہ دین حق اور احمدیت کی تازگی کا موجب بنے۔ آمین ۔ ہمیں یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم پندرھویں صدی ہجری میں داخل ہو چکے ہیں اور یہ صدی اسلامی فتوحات کی صدی ہے۔یہ صدی حضرت (اقدس…ناقل) کی صداقت کو قائم اور مستحکم کرنے والی ہے…‘‘
حضور نے اپنے پیغام میں مزید بتایا کہ
’’تمام پیشگوئیاں اپنے ساتھ کچھ ذمہ داریاں اور قربانیوں کا مطالبہ رکھتی ہیں اور میرا پیغام تمہارے لئے یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلّا اﷲ اور دعاؤں کے ساتھ دین حق کی بہتری کے لئے ترقی کی منازل طے کرتے چلے جاؤ۔
علاوہ ازیں اپنے بچوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگین کرتے ہوئے ایسی عمدہ تربیت دو کہ وہ صبر اور آزمائش کے وقت تمہارے ساتھ رہیں۔ خدا کی راہ میں تمہارے قدم ثابت رہیں۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ ہماری قربانیاں قبول فرمائے اور ہم اپنے ہی دور میں دین حق کی عظیم فتح مبین کو مستقبل قریب میں اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں۔‘‘ (الفضل ۲۹؍جون ۱۹۸۲ء صفحہ ۱)
عہد خلافت ثالثہ میں فجی مشن کی مطبوعات
قرآن مجید کا فجین ترجمہ کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ فجی مشن کی
طرف سے دسمبر 1982ء تک مندرجہ ذیل اسلامی لٹریچر شائع کیا گیا ۔(انگریزی)
1. What is Ahmadiyyat?
2. Islam and its message.
3. Promised messiah has come.
4. What is Islam?
5. Message of peace and word of warning.
6. Muslim prayer book.
7. General knowledge Q.A.
8. Jesus in Kashmir.
9. We are Muslims.
10.Welcome to Fiji Islands.
11.Manzoom Kalam Hazrat Massihe Maood in Roman English.
12. LA-ELAHA ILLALAHO (in six Languages)
ٹونگا۔ رومن۔ ہندی۔ کائیویتی۔ انگلش۔ وَانُووَاتُو
13. A Report on London Conference.
14. The proposed Century Ahmadiyya Juiblee (in1989)
کائیویتی (KAIVITI)زبان میں
1. NA CAVE NA AHMADIYYAT.
(احمدیت کیا ہے)
2. NA I TUKUTUKU NI YEIVINAKATI KE NA VOSA VAKARO.
(ترجمہ امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ)
3. JISU NA KASHMIR.
(مسیح کشمیر میں)
4. NA PAROFISAI NAI VOCA TABU VOU.
(محمد رسول اﷲ عہد نامہ جدید میں )
5. NA PAROFISAI KA VOLAI E NAI VAKARUA " JOVA, KA TUCAKE ULE-NVANUA KO PERANA".
( باب استثناء کی پیشگوئی خداوندا خدا کا فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہونا)
6. Teaching of Islam.
فجیئن زبان میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘
7. The Holy Quran Part I and II
(with Fijian Translation)
(مسیح موعودؑ آ گئے فجی میں رہنے والے اور ملک میں آنے والوں کو ماننے کی دعوت (خوش آمدید) )
ہندی زبان میں ـــــــــــــ---------------------بابا نانک اور اسلام ۷۳
فجی کے نیشنل پریذیڈنٹ
حاجی عبداللطیف صاحب 1964-1962
واجد کمال الدین صاحب 1965-1964
محمد صادق خاں صاحب 1967-1966
عبداللطیف مقبول صاحب 1986-1983
فجی کے نیشنل جنرل سیکرٹری
امام کمال الدین صاحب 1966-1962
محبوب یوسف خاں صاحب 1967 ۷۴
صداقت احمدیت کا چمکتا ہوا نشان
اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۹۸ء میں بشارت دی تھی کہ :۔
’’ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ ۷۵
فجی بین الاقوامی ڈیٹ لائن کے عین مغربی کنارے پر واقع ہے اس سرزمین میں جماعت احمدیہ کے مشن کا قیام اور اس کے طول و عرض میںاحمدیت کی شاندار ترقیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا چمکتا ہوا نشان ہیں۔ حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ و اوحی الی ربی و و عدنی انہ‘ سینصرنی حتی یبلغ امری مشارق الارض و مغاربھا۔ وتتموج بحور الحق حتی یعجب الناس حباب غوار بھا‘‘۔
(ٖلجۃ النُّوْر صفحہ ۶۷)
ترجمہ ۔ میرے رب نے میری طرف وحی بھیجی اور وعدہ فرمایا کہ وہ مجھے مدد دے گا۔ یہاں تک کہ میرا کلام مشرق و مغرب میں پہنچ جائے گا اور راستی کے دریا موج میں آئیں گے یہاں تک کہ اس کی موجوں کے حباب لوگوں کو تعجب میں ڈالیں گے۔
ع