تاریخ احمدیت ۔ جلد 6 ۔ یونی کوڈ
tav.5.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
حصہ اول
۱۹۲۸ء تا ۱۹۳۱ء
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب )فصل اول(
جلسہ ہائے سیرت النبی کی تجویز و انعقاد
سے لے کر تقریر >فضائل القرآن< تک
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
)جنوری ۱۹۲۸ء تا دسمبر ۱۹۲۸ء بمطابق رجب ۱۳۴۶ھ تا رجب ۱۳۴۷ھ(
خلافت ثانیہ کا نیا دور
الحمد لل¶ہ کہ ہم کو اس جلد سے خلافت ثانیہ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کی توفیق عطا ہوئی ہے یہ نیا دور ۱۹۲۸ء سے شروع ہوتا ہے جس میں ایک طرف تحفظ ناموس رسول کی وہ تحریک خاص جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۷ء سے جاری کر رکھی تھی۔ >سیرت النبیﷺ<~ کے عالمگیر جلسوں کی صورت میں نقطہ عروج تک پہنچ گئی اور دوسری طرف جماعت احمدیہ نے ہندوستان کے سیاسی حقوق سے متعلق برطانوی حکومت کے مقرر کردہ۔۔ سائمن کمیشن سے تعاون کر کے مسلمانان ہند کے قومی و سیاسی مطالبات کی تکمیل کے لئے ایک نئے رنگ کی آئینی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان بیرونی تحریکات میں راہ نمائی کا فرض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت کی اندرونی اصلاح و تربیت کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول فرمائی۔ چنانچہ آپ نے ۱۹۲۸ء ہی میں احمدیوں میں قرآن مجید کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے ۱۹۱۷ء اور ۱۹۲۲ء کے درسوں کی طرح مسلسل ایک ماہ تک قادیان میں درس قرآن دیا یہ وہی معرکتہ الاراء درس تھا جو بعد کو تفسیر کبیر جلد سوم کی صورت میں شائع ہوا اور جس نے دنیائے تفسیر میں ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا۔
مسلمانان عالم خصوصاً مسلمانان ہند اس زمانے میں بڑے نازک دور میں سے گذر رہے تھے۔ اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی قیادت ہی اس رنگ میں فرما رہے تھے کہ پوری جماعت مسلمانوں کے عمومی مفاد کے لئے زندہ اور متحرک مرکز بن جائے اس غرض کے لئے آپ نے ۱۹۲۷ء میں ۲۵ لاکھ کا ایک ریزرو فنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی۔۲تا سلسلہ کے عام بجٹ پر بوجھ ڈالے بغیر ہی دیگر مسلمانوں کی ترقی و بہبود کا فرض بخوبی ادا ہوتا رہے اور اخراجات کی کمی کے باعث مفید اور اہم تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی رفتار سست نہ ہو جائے۔ چنانچہ اس سال یعنی ۱۹۲۸ء میں حضور نے جماعت احمدیہ کے سامنے جو سالانہ پروگرام رکھا اس میں تیسرے نمبر پر ریزرو فنڈ کو بھی شامل فرمایا۔
ان خصوصیات کے علاوہ ۱۹۲۸ء کو کئی اور پہلوئوں سے بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ مثلاً اسی سال جامعہ احمدیہ کا افتتاح ہوا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب )خلف اکبر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام( نے قبول احمدیت کا اعلان کیا۔ قادیان میں ریل آئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قلم سے نہرو رپورٹ پر تبصرہ شائع ہوا۔ اور >فضائل القرآن< کے موضوع پر سالانہ جلسہ میں تقاریر کا ایمان افروز سلسلہ جاری کیا گیا۔
۱۹۲۸ء کے واقعات کا سرسری جائزہ لینے کے بعد اب ہم اس سال کے حالات پر بالتفصیل روشنی ڈالتے ہیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اخلاق عالیہ کاایک یادگار واقعہ
تاریخ اسلام خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم کی اسلامی مساوات کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ چونکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی سلسلہ خلافت کے ایک ممتاز اور مبارک فرد ہیں اس لئے آپ کی سیرت مقدسہ بھی عہد اول کی یاد تازہ کر دیتی ہے اور آپ کی ذات میں ان مقدس بزرگوں کے اخلاق محمدی کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔
۲۷ / جنوری ۱۹۲۸ء کا واقعہ ہے کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کے ہاں دعوت ولیمہ تھی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور جماعت کے بہت سے معززین مدعو تھے۔ جس کمرے میں بیٹھنے کا انتظام تھا وہاں لکڑی کے دو تخت بچھے تھے جن پر حضور کے لئے نشست گاہ بنائی گئی تھی۔ اور چونکہ وہ کافی لمبے چوڑے تھے اس لئے حضور کے ساتھ اور بھی کئی اصحاب بیٹھ سکتے تھے۔ باقی کمرہ میں دیگر اصحاب کے بیٹھنے کے لئے فرش پر ہی انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن حضور جب کمرہ میں تشریف لائے اور اس جگہ رونق افروز ہونے کی درخواست کی گئی تو حضور نے اس وجہ سے کہ وہ جگہ کمرے کے دوسرے فرش سے کسی قدر اونچی ہے وہاں بیٹھنا گوارا نہ کیا اور فرمایا کہ اور دوست نیچے بیٹھیں تو میں اوپر کیسے بیٹھ سکتا ہوں اور آپ نیچے فرش پر بیٹھ گئے۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اور دوست وہاں بیٹھ جائیں مگر کسی خادم کو یہ جرات نہ ہوئی کہ ایسی حالت میں جبکہ اس کا پیارا آقا نیچے فرش پر بیٹھا ہے اونچے حصہ پر جا بیٹھے۔ لیکن جب یہ کمرہ بھر گیا اور جگہ تنگ ہوگئی اور بارش کی وجہ سے کوئی اور انتظام بھی ممکن نہ ہو سکا تو اس جگہ چھوٹے بچے بٹھا دئیے گئے اس پر حضور نے ازراہ مزاح فرمایا ان بچوں کی نگرانی کے لئے چند بڑے بھی ان کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ چونکہ بچوں کو اس جگہ بٹھا دینے کے باوجود جگہ کی قلت دور نہیں ہوئی تھی اس لئے بعض اور اصحاب نے بھی وہاں بیٹھ کر کھانا کھایا۔۳
سائمن کمیشن کی آمد اور جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات
>تاریخ احمدیت< کی جلد پنجم میں سرسری طور پر یہ ذکر کیا جا چکا ہے۴کہ برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کو مزید سیاسی حقوق دینے اور دوسرے اہم ملکی مسائل کا جائزہ لینے کے لئے ۱۹۲۷ء کے آخر میں ایک کمیشن بھجوانے کا اعلان کیا تھا جس کے پریذیڈنٹ انگلستان کے بیرسٹر سرجان سائمن مقرر کئے گئے۔ کمیشن کے فرائض میں یہ داخل تھا کہ وہ ہندوستان آکر مرکزی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں اور کونسل آف سٹیٹ کے نمائندوں اور حکومت کے افسروں سے مشورے کرنے کے علاوہ مختلف ہندوستانی جماعتوں کے خیالات بھی دریافت کرے اور مختلف شہادتوں کو قلمبند کر کے اور متعلقہ امور کی تحقیقات کر کے دو سال تک اپنی رپورٹ برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دے تا آئندہ دستور اساسی کی تیاری میں اس سے مدد مل سکے۔
کمیشن کا اعلان ہوتے ہی آل انڈیا نیشنل کانگریس نے اس بناء پر کہ کمیشن میں کوئی ہندوستانی ممبر شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرلیا۔ ۵اور مسلمانوں کے بعض قوم پرور اور ذہین لیڈر اور صف اول کے سیاستدان جیسے جناب محمد علی جناح` سر عبدالرحیم اور مولانا محمد علی جوہر بھی اس فیصلہ کی تائید میں ہوگئے۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اس نازک ترین موقعہ پر مسلمانوں کی قیادت کے لئے پھر میدان عمل میں آئے اور آپ نے مسلمانوں کو بتایا کہ کمیشن کا بائیکاٹ ہندوئوں کی ایک خطرناک چال ہے انہوں نے انگریزوں سے تعلقات قائم کر کے انہیں اپنے مطالبات کی معقولیت منوانے کی مہم سالہا سال سے جاری کر رکھی ہے۔ اور انگلستان کے با اثر لیڈروں سے ان کے گہرے تعلقات ہیں اس کے مقابل مسلمانوں میں بہت ہی کم انگریز لیڈروں کے روشناس ہیں نتیجہ یہ ہے کہ انگریز ہندوستان کے مطالبات وہی سمجھتے ہیں جو ہندوئوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اب ہندو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے اپنے مطالبات پیش کرنے کا جو موقعہ پیدا ہوا ہے وہ بھی ان کے بائیکاٹ میں شامل ہو کر ضائع کر دین۔ ان حالات میں مسلمانوں کا بھی کمیشن کے بائیکاٹ میں شریک ہونا مسلم مفاد کے سراسر خلاف اور سخت ضرر رساں اور مہلک ثابت ہوگا۔۶ لہذا آپ نے تمام مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اس اہم موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حقوق کو بالوضاحت کمیشن کے سامنے پیش کریں اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل اہم مسائل کی تیاری کا مشورہ دیا۔
اول : انگریزوں کے نزدیک اقلیتوں کی حفاظت کا سوال چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہاں پارٹیوں کی بنیاد سیاسی خیالات پر ہے جو بدلتے رہتے ہیں مگر ہندوستان کی پارٹیوں کی بنیاد مذہب ہے جو بہت کم بدلتا ہے پس انگلستان اور ہندوستان کے فرق کو سمجھا کر کمیشن کے پرانے تعصب کو جسے ہندوئوں کے بیانات نے اور بھی بڑھا دیا ہے۔ دور کرنا چاہیئے اور اقلیتوں کے تحفظ حقوق کے متعلق اپنے مطالبات اور دلائل کا ذخیرہ جمع کرلینا چاہیئے۔
دوم : اس وقت تک ہندوئوں کو مسلمانوں پر غلبہ ادنیٰ اقوام کی وجہ سے ہے ہندو لوگ چوہڑوں وغیرہ کو حق تو کوئی نہیں دیتے لیکن انہیں ہندو قرار دے کر ان کے بدلہ میں خود اپنے لئے سیاسی حقوق لے لیتے ہیں مسلمانوں کا فرض ہے کہ انہیں ابھاریں ان کی تنظیم میں مدد دیں اور کمیشن کے سامنے ان کے معاملہ کو پیش کرنے میں مدد دیں۔
سوم : ہندوستان کے مخصوص حالات میں مسلمانوں کے جداگانہ انتخاب کی سخت ضرورت ہے پس اس امر پر زور دینا چاہیئے کہ اس حق کو ہندوستان کے اساسی قانون میں داخل کیا جائے اور جب تک مسلمان قوم بہ حیثیت قوم راضی نہ ہو اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔۷
چہارم : پنجاب اور بنگال اور جو آئندہ مسلم اکثریت کے صوبے بنیں ان میں مسلمانوں کو اس قدر حقوق دئیے جائیں کہ ان کی کثرت قلت میں نہ بدل جائے اس وقت بنگال کے چھپن فیصدی مسلمانوں کو چالیس فیصدی حق ملا ہوا ہے اور پنجاب کے پچپن فیصدی کو قریباً پینتالیس فیصدی` اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان کسی صوبے کو بھی اپنا نہیں کہہ سکتے اور آزاد ترقی کے لئے کوئی بھی راستہ کھلا نہیں۔
پنجم : صوبہ سرحد میں اصلاحی طریق حکومت کے لئے کوشش ہونی چاہیئے۔ اور سندھ کے متعلق یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ وہ بمبئی سے الگ ایک مستقل صوبہ قرار دیا جائے۔
ششم : body] g[taاس امر کو اساسی قانون میں داخل کرنا چاہیئے کہ کوئی دوسری قوم آزادی کے کسی مرتبہ پر بھی کسی ایسے امر کو جو کسی دوسری قوم کی مذہبی آزادی سے تعلق رکھتا ہو محدود نہیں کر سکے گی۔ خواہ براہ راست مذہبی اصلاح کے نام سے خواہ تمدنی اور اقتصادی اصلاح کے نام سے
ہفتم : تبلیغ ہر وقت اور ہر زمانہ میں قیود سے آزاد رہے گی۔
ہشتم : زبان کا سوال کسی قوم کی ترقی کے لئے اہم سوال ہوتا ہے پس یہ فیصلہ ہونا چاہیئے۔ کہ مسلمانوں کو اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی پوری اجازت ہوگی۔ اور جن صوبوں میں اردو رائج ہے ان میں اردو زبان قانونی زبان کی حیثیت سے ہمیشہ کے لئے قائم رہے گی۔۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ نقطہ نگاہ رسالہ >مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت< کی صورت میں اردو اور انگریزی زبان میں شائع فرما دیا اور اسے وسیع پیمانہ پر پھیلا کر ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اس تنظیم و کثرت کے ساتھ پہنچا دیا کہ مسلمانوں کا کثیر طبقہ جو کانگریس کی تحریک مقاطعہ سے متفق ہو چکا تھا کمیشن سے تعاون کو ضروری سمجھنے لگا۔۹اور گو جناب محمد علی جناح بدستور بائیکاٹ کی پالیسی پر دیانتداری سے ڈٹے رہے۔ مگر مسلم لیگ میں شامل مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے سر شفیع کی قیادت میں اپنی الگ تنظیم قائم کر کے کمیشن سے تعاون کا فیصلہ کرلیا۔ اس نئی لیگ کے صدر سر شفیع صاحب بنے اور سیکرٹری ڈاکٹر سر محمد اقبال۔ ۱۰جنہوں نے کمیشن کے بائیکاٹ کی پر زور مخالفت کی۔۱۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس بروقت رہنمائی ہی کا نتیجہ تھا کہ ۳ / فروری ۱۹۲۸ء کو سائمن کمیشن ساحل بمبئی پر وارد ہوا تو کانگریس کے احتجاجی مظاہروں اور اس کی کوششوں کے باوجود مسلمانوں نے عموماً اس کمیشن سے تعاون ہی کو ترجیح دی چنانچہ کلکتہ` دہلی اور بمبئی میں مسلمانوں کی اکثریت ہڑتالیوں سے الگ رہی۔ شمالی ہندوستان میں جہاں مسلم اکثریت کو بائیکاٹ میں شامل کرنے کے لئے کانگریسی خیال کے علماء مثلاً مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر >زمیندار< بہت زور لگا رہے تھے<۔۱۲ >انقلاب< جیسا اخبار پشت پناہی کرنے لگا تھا10] [p۱۳اور مولانا محمد علی صاحب جوہر` ابوالکلام صاحب آزاد` ڈاکٹر انصاری صاحب اور لالہ لاجپت رائے جیسے لیڈر صوبہ کا دورہ کر رہے تھے اور بڑی جوشیلی تقریروں سے لوگوں کو بائیکاٹ پر اکسا رہے تھے۔ مگر یہاں بھی کانگریسی پروگرام ناکام رہا۔ اور دارالسلطنت لاہور میں تو اسے عبرتناک ناکامی ہوئی چنانچہ ہندو اخبار >ملاپ< لاہور )۵ / فروری ۱۹۲۸ء( نے اقرار کیا کہ >صرف چند دکانیں بند تھیں جو انگلیوں پر شمار کی جا سکتی ہیں<۔۱۴اور ممکن ہے یہ چند دکانین بھی دکانداروں کی کسی مصروفیت یا بیماری کی وجہ سے ہی بند ہوں۔ اخبار >ملاپ< نے اس ناکامی کی وجہ یہ بتائی کہ لوگوں کو اپنے لیڈروں پر اعتماد نہیں رہا۔ چنانچہ اس کے الفاظ یہ تھے >لاہور کے ہندو بھی اور مسلمان بھی ایسے لیڈروں سے بہت بیزار ہو چکے ہیں<۔۱۵
جناب عبدالمجید صاحب۔ سالک نے سائمن کمیشن کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کا ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ >بائیکاٹ ہوا بھی اور نہ بھی ہوا جن لوگوں کو اس کمیشن کے سامنے شہادتیں دینی تھیں۔ وہ دے بھی آئے اور سنا ہے کہ خود کانگریس نے بھی نہرو رپورٹ کی ایک کاپی خفیہ طور پر کمیشن کو بھیج دی تھی۔ تا کہ مبادا کمیشن کانگریس کے نقطہ نگاہ سے بے خبر رہے<۔۱۶
پنجاب کونسل کے ممبروں نے بھی کمیشن سے تعاون کیا اور کمیشن سے تعاون کے لئے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی۔ کمیٹی کے مسلمان ممبروں میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل تھے۔ جنہوں نے حسب سابق قومی اور ملی مطالبات کو کمیشن تک پہنچانے اور شہادتوں پر جرح کرنے میں نمایاں حصہ لیا۔ چنانچہ لاہور کے انگریزی اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )۵ / نومبر ۱۹۲۸ء( نے لکھا۔ >ہمارا سیاسی نمائندہ جو سائمن کمیشن کے ساتھ ہے ہندوستانی ممبروں کی مختلف النوع شخصیتوں سے بہت ہی متاثر ہوا ہے سر شنکرن نائروجاہت اور علیحدگی پسند ہیں سر سکندر حیات خان صاحب خوش گفتار اور اپنی طرف مائل کر لینے والے ہیں۔ مسٹر راجہ اچھوت اقوام کے نمائندے ہیں۔ مسٹر ارون رابرٹس ہوشیار اور چوکس ہیں سر ذوالفقار علی خاں صاحب فاضل ہیں اور دل نشین طرز میں گفتگو کرنے والے ہیں شہادت دینے والوں پر جرح کرنے کے باب میں ایک نمایاں شخصیت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ہے آپ داڑھی رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کوئی دور ازکار بات نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ مطلب کی بات کہتے ہیں اور اس لحاظ سے آپ سر آرتھر فروم سے مشابہ ہیں یعنی آپ کی آواز پر شوکت ہے اور نہایت بر جستہ تقریر کرنے والے ہیں<۔۱۷
اگرچہ پنجاب کونسل کی پہلی سائمن کمیٹی میں ہندوئوں کی ہوشیاری اور بعض مسلمانوں کی خود غرضی کے باعث مسلمانوں کو جو صوبہ میں پچپن فی صدی تھے تیس فیصدی سے بھی کم نمائندگی ملی۱۸جس کے خلاف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی احتجاجاً آواز بلند فرمائی۔ تاہم کمیٹی کی اکثریت نے )جو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب` کپتان سردار حیات خان۔ رائے صاحب چوہدری چھوٹو رام اور مسٹر رابرٹس پر مشتمل تھی( آئندہ اصلاحات سے متعلق اس نے سفارش کی کہ کونسل کے تمام ممبر منتخب شدہ ہوں جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب قائم رہیں۔ اور تمام صوبے اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار ہوں۔ ۱۹وغیرہ وغیرہ۔
کمیشن کے سامنے دو دفعہ جماعت احمدیہ کا وفد بھی پیش ہوا۔ ایک بار گورداسپور میں دوسری بار لاہور میں۔ گورداسپور کے وفد میں ضلع کے بعض معزز ممبروں کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب` حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے۔۲۰لاہور کے وفد میں پنجاب کے مختلف حصوں سے ۱۶ نمائندے شامل ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب` حضرت نواب محمد علی خان صاحب۔ سردار امیر احمد خان صاحب تمندار کوٹ قیصرانی۔ جنرل اوصاف علی خان صاحب مالیر کوٹلہ- کپتان غلام محمد صاحب دوالمیال۔ لیفٹینٹ تاج محمد خان صاحب اسماعیلیہ )مردان( چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر ممبر لیجسلیٹو کونسل پنجاب` قاضی محمد شفیق صاحب ایم۔ اے ایل ایل بی۔ چار سدہ۔ چوہدری سلطان احمد صاحب ذیلدار گجرات۔ چوہدری غلام حسین صاحب سفید پوش لائل پور` حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب ناظر اعلیٰ` حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے` حضرت مفتی محمد صادق صاحب۔۲۱
اس وفد نے احمدی نقطہ خیال سے سیاسی امور پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اور تمام ممبران کمیشن کو سلسلہ کی کتابیں دی گئیں اور سیاسی امور سے قبل سلسلہ کے حالات اختصاراً سنائے۔ صدر کمیشن نے کہا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کی اہمیت کے قائل ہیں اور رائے دہی اور تعاون کے شکر گزار۔ وفد نے اپنا میموریل ۵ لاکھ دستخطوں کے ساتھ پیش کیا۔۲۲
مسلمانوں کو صحیح طریق عمل اختیار کرنے کی دعوت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کی کامیابی کے ذرائع پر غور و فکر فرماتے رہتے تھے۔ اسی ضمن میں حضور نے ۱۰ فروری ۱۹۲۸ء کو ایک خطبہ جمعہ دیا جس میں بتایا کہ دوسرے مسلمان قربانیاں بھی کرتے ہیں مگر ان کے اعلیٰ نتائج نہیں نکلتے اس کے مقابل جماعت احمدیہ میں نصرت اور تائید الٰہی کا عجیب نظارہ نظر آتا ہے جس کی صرف یہی وجہ ہے کہ صحیح راستہ اختیار کئے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی۔۲۳
اس خطبہ پر اخبار >تنظیم< )۲۸ / فروری ۱۹۲۸ء نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا<۔ صاحبو! مرزا صاحب کی تقریر کا ایک ایک لفظ صحیح ہے اگر مجھ سے پوچھو تو میں عرض کروں گا کہ اس وقت مسلمانوں میں نیک نیت مجاہد` ایثار پیشہ کار گذار اور مقاصد کو سمجھنے والے تو ہزاروں موجود ہیں مگر >طریق کار< مرتب کرنے والے بہت کم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جس قدر عمل و خدمت اور ایثار و قربانی کر رہے ہیں اسی قدر اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کی ہے اور ہماری انجمنیں اور اخبار جس قدر تیز دوڑ رہے ہیں اسی قدر قوم اپنے نصب العین سے دور جا رہی ہے اس لئے کہ راستہ صحیح نہیں۔ احمدیہ جماعت نے ہم سے بہت پیچھے اپنا سفر شروع کیا ہے۔ لیکن آج ہم اس جماعت کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے دنیا کے ہر گوشہ میں اس جماعت کے نام اور کام کی دھوم ہے ہم بھی کام کے مدعی ہیں لیکن اے غافل مسلمانو! سوچو کہ ہم نے عملی طور پر کیا کیا؟<۔۲۴
حافظ روشن علی صاحب کی تبلیغ حق
فروری ۱۹۲۸ء میں حضرت حافظ روشن علی صاحب )حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب کے فرزند رشید( )پروفیسر( حبیب اللہ خان صاحب کی برات کے ساتھ میرٹھ تشریف لے گئے۔ اس سفر کے لئے حضرت خان صاحب ہی نے تحریک فرمائی تھی آپ کا منشا یہ تھا کہ اس موقعہ پر جناب محمد علی صاحب جوہر شریک ہوں گے حضرت حافظ صاحب کے ذریعہ ان کو تبلیغ کا موقعہ مل سکے گا۔ اعلائے کلمہ حق کی خاطر حضرت حافظ صاحب نے یہ بات منظور فرمائی تھی اور آپ کا یہ سفر بہت بابرکت ثابت ہوا۔ جناب محمد علی صاحب جوہر آپ کے تبحر علمی سے بہت متاثر ہوئے۔ نیز دوسرے افراد خاندان نے سلسلہ احمدیہ کی عظمت کا اقرار کیا۔۲۵
مرکزی اور بیرونی درسگاہیں
۱۹۲۸ء میں نظارت تعلیم و تربیت قادیان کے تحت مندرجہ ذیل مرکزی درسگاہیں قائم تھیں۔ مدرسہ احمدیہ قادیان۔ مبلغین کلاس قادیان` تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان۔ مدرسہ البنات قادیان۔ مدرسہ خواتین قادیان متفرق کلاس قادیان۔ درزی خانہ قادیان۔ احمدیہ ہوسٹل لاہور۔۲۶]4 [rtf
ان آٹھ باقاعدہ درسگاہوں کے علاوہ جن کے اخراجات کی ذمہ داری صدر انجمن احمدیہ قادیان پر تھی۔ بعض درسگاہیں مقامی جماعتوں نے اپنے طور پر بھی جاری کر رکھی تھیں۔ ان میں دو احمدیہ مڈل سکول تھے ایک گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں اور دوسرا کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور میں۔۲۷گھٹیالیاں کا سکول مقامی جماعت نے اخراجات کی مشکلات کے باعث ان دنوں ڈسٹرکٹ بورڈ ضلع سیالکوٹ کے سپرد کر دیا تھا۔ اور کاٹھ گڑھ کا سکول چوہدری عبدالسلام خان صاحب کی محنت` توجہ اور مساعی سے مالی تنگی کے باوجود بھی کامیابی سے چل رہا تھا۔
اس کے علاوہ سیکھواں` دنجواں` فیض اللہ چک )ضلع گورداسپور( کتھووالی` بھدرک )کشمیر( اجمیر )ہوشیارپور( سہارنپور وغیرہ میں مردانہ پرائمری سکول اور سیکھواں` کاٹھ گڑھ` علی پور` بنگہ اور سیالکوٹ میں زنانہ مدارس قائم تھے۔
موخر الذکر سکول کا قیام لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ اور بابو روشن دین صاحب ۲۸)سیکرٹری تعلیم و تربیت( کا خصوصاً اور میر عبدالسلام صاحب` بابو قاسم الدین صاحب اور مستری نظام الدین صاحب کی مساعی کا عمومی نتیجہ تھا۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ سیالکوٹ شہر انگریزی عہد اقتدار کے زمانہ میں پادریوں کا بھاری مرکز رہا ہے جہاں عیسائیوں نے مسلمان بچوں اور بچیوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے شروع ہی سے کئی سکول کھول رکھے تھے۔ جماعت احمدیہ سیالکوٹ نے مسلمان بچیوں کو ان کے اثر سے بچانے کے لئے آنریری استانیوں کی خدمات حاصل کر کے ایک گرلز سکول کی بنیاد رکھی۔ یہ سکول ابتداء ایک عارضی عمارت میں کھولا گیا۔ مگر لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ کی کوشش اور جماعت احمدیہ سیالکوٹ کے تعاون سے احمدیہ مسجد کبوتراں والی کے شمالی جانب مدرسہ کی مستقل عمارت تعمیر کی گئی جو شہر بھر میں مسلمانوں کی پہلی درسگاہ تھی۔ ۱۹ / فروری ۱۹۲۸ء کو اس درسگاہ کا افتتاح نظارت تعلیم و تربیت قادیان کے نمائندہ خصوصی حضرت الحاج مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ )سابق مبلغ انگلستان و افریقہ( نے فرمایا۔۲۹
یہ درسگاہ ترقی کر کے ہائی سکول تک پہنچ گئی اور اب بابو قاسم الدین صاحب )امیر جماعت احمدیہ ضلع سیالکوٹ( کی نگرانی میں چل رہی ہے۔ سیالکوٹ کی مسلمان بچیوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے میں اس کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ایک مکتوب پردہ سے متعلق
ایک صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ۲۳ / فروری ۱۹۲۸ء کو پردہ سے متعلق بذریعہ خط استفسار کیا جس میں حضور نے ایک مفصل مکتوب تحریر فرمایا جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح اسلامی پردہ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ معتدل مسلک پیش فرمایا کہ :
>پردے کا قرآن کریم نے ایک اصل بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت کے لئے پردہ ضروری ہے الا ما ظھر منھا۳۰)یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو( آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں تو دو ہیں یعنی قد اور جسم لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا دقت کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں۔۔ چنانچہ اسی حکم کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے اگر منہ پر کوئی جلدی بیماری ہے تو طبیب منہ بھی دیکھے گا۔ اگر اندرونی بیماری ہے تو زبان دیکھے گا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک جنگ میں ہم پانی پلاتی تھیں۔ اور ہماری پنڈلیاں ننگی ہو جاتی تھیں۔ اس وقت پنڈلیوں کا ننگا ہونا قرآن کریم کے خلاف نہ تھا بلکہ اس قرآنی حکم کے مطابق تھا۔ جنگی ضرورت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ عورتیں کام کرتیں۔۔۔۔۔۔۔ اسی اصل کے ماتحت اگر کسی گھرانے کے شغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں پر یا میدانوں میں کام کرنا پڑے۔ تو ان کے لئے آنکھوں اور ان کے اردگرد کا علاقہ کھلا ہونا نہایت ضروری ہوگا۔ پس الا ما ظھر منھا کے تحت ماتھے سے لے کر منہ تک کا حصہ کھولنا ان کے لئے بالکل جائز ہوگا اور پردہ کے حکم کے مطابق بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کر سکتیں اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریات مصیبت کے لئے کھولنا پڑتا ہے بشرطیکہ وہ مصیبت جائز ہو اس کا کھولنا پردے کے حکم میں شامل ہی ہے۔ لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اس کا منہ اس کے پردے میں شامل ہے<۔۳۱
معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مختلف حلقوں میں اسلامی پردہ کا سوال زیادہ زور کے ساتھ اٹھا ہوا تھا چنانچہ انہی دنوں شیخ عبدالغفور صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ نے )۲۹ / جون ۱۹۲۸ء کو( اور جناب مشرف حسین صاحب ایم۔ اے دہلوی انسپکٹر ڈاکخانہ جات نے )۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو( حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر خاص طور پر اسلامی پردہ کی نسبت آپ کی رائے دریافت کی۔ جس پر حضور کو پردہ کی مزید تشریح و توضیع کرنا پڑی۔۳۲
گھروں میں درس جاری کرنے کی تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء پر جماعت کے دوستوں سے ارشاد فرمایا کہ وہ قرآن مجید حدیث شریف اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں اور جہاں روزانہ درس نہ ہو سکے۔ وہاں ہفتہ میں دو بار یا کم از کم ہفتہ میں ایک ہی بار درس کا انتظام کر دیا جائے جس پر اس سال بہت سی نئی جگہوں میں درس جاری ہوگئے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی حضور کے ارشاد پر وسط مارچ ۱۹۲۸ء میں ناظر تعلیم و تربیت کی حیثیت سے عہدیداران جماعت کو مزید توجہ دلائی کہ جہاں جہاں ابھی تک سلسلہ درس شروع نہیں ہوا اس کی طرف فوراً توجہ دیں۔ نیز گھروں میں بھی درس جاری کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :
>ہمارے احباب کو چاہیئے کہ علاوہ مقامی درس کے اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں۔ اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہیئے۔ اس کے لئے بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے۔ اس درس کے موقعہ پر گھر کے سب لوگ مرد` عورتیں لڑکے لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے۔ اور درس کا وقت بھی پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو تا کہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو۔ اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے اور اس کی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہو جائیں۔ تو علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کے لئے بھی بہت مفید و بابرکت ہو سکتا ہے<۔۳۳
احمدیت کا حال اور مستقبل
۶ / اپریل ۱۹۲۸ء کو جمعہ تھا اس روز احباب مجلس مشاورت کے سلسلہ میں کثرت سے قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد نور کے متصل بڑ کے درخت کے نیچے ایک ولولہ انگیز خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ :
ہم بڑ کے درخت کے نیچے یہ مشورے کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں کہ دنیا کس طرح فتح کی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھیں آج جو سرگوشیاں ہو رہی ہیں ان کا ایسا نتیجہ نکلے گا کہ ساری دنیا پر احمدیت کا جھنڈا لہرائے گا۔ لیکن آج کے منظر کی تصویر اگر لے لی جائے اور اسے کوئی آج سے چھ سات سو سال بعد شائع کرے تو اس وقت کے لوگ انکار کریں گے کہ یہ ہمارے بڑوں کی حالت کی تصویر ہے وہ کہیں گے ہم نہیں مان سکتے کہ وہ ایسے کمزور تھے۔ اس پر یقین کرنے کے لئے ایک تیز قوت واہمہ کی ضرورت ہوگی۔ مگر میں جماعت سے کہتا ہوں ان وعدوں کا مستحق بننے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اور اس کے لئے دعائوں پر بہت زور دینا چاہیئے۔ معاملات میں صفائی رکھنی چاہیئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیئے۔ اپنے نفسوں کو قابو میں رکھنا چاہیئے۔ آپس میں محبت اور اتحاد کا سلوک کرنا چاہیئے<۔۳۴
تعلیم نسواں کے لئے خاص تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو آغاز خلافت ہی سے احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی و بہبود کا خیال رہا ہے مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر حضور نے نمائندگان جماعت کے سامنے تعلیم نسواں کے لئے خاص تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :۳۵
>میرے نزدیک عورتوں کی تعلیم ایسا اہم سوال ہے کہ کم از کم میں تو اس پر غور کرتے وقت حیران رہ جاتا ہوں ایک طرف اس بات کی اہمیت اتنی بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ دنیا میں جو تغیرات ہو رہے ہیں یا آئندہ ہوں گے جن کی قرآن سے خبر معلوم ہوتی ہے ان کی وجہ سے وہ خیال مٹ رہا ہے جو عورت کے متعلق تھا کہ عورت شغل کے طور پر پیدا کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کا میدان عمل مرد کے میدان سے بالکل علیحدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ایک طرف عورتوں کی تعلیم کی اہمیت اور دوسری طرف یہ حالت کہ ان کا میدان عمل جداگانہ ہے یہ ایسے امور ہیں جن پر غور کرتے ہوئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے دوسروں کا نقال نہیں بنایا۔ بلکہ دنیا کے لئے راہ نما بنایا ہے۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم دنیا کی راہ نمائی کریں نہ یہ کہ دوسروں کی نقل کریں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم غور کریں عورتوں کو کیسی تعلیم کی ضرورت ہے ہمیں ہر قدم پر سوچنا اور احتیاط سے کام لینا چاہیئے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہیئے کرنا چاہیئے اور ضرور کرنا چاہیئے مگر غور اور فکر سے کام لینا چاہیئے۔ اب تک ہماری طرف سے سستی ہوئی ہے ہمیں اب سے بہت پہلے غور کرنا چاہیئے تھا۔ اور اس کے لئے پروگرام تیار کرنا چاہیئے تھا گو وہ پروگرام مکمل نہ ہوتا اور مکمل تو یکلخت قرآن شریف بھی نہیں ہوگیا تھا پس یکلخت تو قدم اوپر نہیں جا سکتا مگر قدم رکھنا ضرور چاہیئے تھا۔ میں اس بات کی زیادہ ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ پہلے اس بات پر غور ہونا چاہیئے۔ کہ عورتوں کو تعلیم کیسی دینی چاہیئے مختلف زبانیں سکھانا تو ضروری بات ہے باقی امور میں ضروری نہیں کہ عورتوں کو اس رستے پر لے جائیں جس پر دوسرے لوگ لے جا رہے ہیں اعلیٰ تعلیم وہی نہیں جو یورپ دے رہا ہے مسلمانوں میں بھی اعلیٰ تعلیم تھی مسلمان عورتیں بھی پڑھتی پڑھاتی تھیں<۔
>عورتوں کی تعلیم کا جس قدر جلد سے جلد مکمل انتظام کیا جائے گا۔ اتنا ہی مفید ہوگا۔ مسلمانوں نے اس بات کو مدنظر نہیں رکھا اور بہت نقصان اٹھا رہے ہیں عورتوں کی تعلیم کئی لحاظ سے فائدہ پہنچاتی ہے اور اس کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں نے بڑا نقصان اٹھایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے شملہ میں محسوس کیا کہ ہندوئوں کے اثر اور رسوخ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انگریز عورتوں سے ہندو عورتوں کا تعلق ہے مگر مسلمان عورتوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ایک زنانہ دعوت میں میری ایک بیوی شامل ہوئیں میں نے ان سے مسلمان عورتوں کے حالات پوچھے وہ یہی کہتیں کہ ہر بات میں مسلمان عورتیں پیچھے ہی رہتی تھیں اور کسی کام میں دخل نہ دیتی تھیں۔ میری بیوی انگریزی میں گفتگو نہ کر سکتی تھیں ایک انگریز عورت نے ان سے گفتگو کرنے کی خواہش بھی کی مگر وہ نہ کر سکیں غرض مسلمانوں کا سوشل اثر اسی لئے بہت کم ہے کہ مسلمان عورتیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور ان کے تعلقات بڑے سرکاری عہدیداران کی بیویوں سے نہیں ہیں اور یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت میں عورتوں کا دخل نہیں ہے بہت بڑا دخل ہے اور جن عورتوں کا آپس میں تعلق ہو ان کے مردوں کا خودبخود ہو جاتا ہے اس طرح مسلمانوں کو بہت سا سیاسی نقصان پہنچ رہا ہے جس کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔ پھر تبلیغ کے لحاظ سے بھی عورتوں کی تعلیم نہایت ضروری ہے ہندو اور عیسائی عورتیں تعلیم میں بہت بڑھ رہی ہیں ہماری عورتیں تعلیم حاصل کر کے نہ صرف ان کے حملوں سے بچ سکتی ہیں بلکہ ان کو تبلیغ بھی کر سکتی ہیں<۔۳۶
پہلے تحقیقاتی کمیشن کا تقرر
یکم جنوری ۱۹۱۹ء میں نظارتوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اگرچہ نظارتیں اپنے ماتحت دفاتر کی نگرانی کے فرائض انجام دے رہی تھیں لیکن )خلیفہ وقت کے علاوہ( خود نظارتوں کے کام کی نگرنی کرنے والا کوئی ادارہ نہ تھا۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپریل ۱۹۲۸ء میں پہلی بار ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا۔ جو چوہدری نعمت اللہ خان صاحب سب جج دہلی۔ پیر اکبر علی صاحب وکیل فیروزپور اور چوہدری غلام حسین صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس کرنال پر مشتمل تھا۔ اور اس کے ذمہ یہ کام کیا کہ وہ سارے دفاتر کا معائنہ کر کے رپورٹ کرے کہ >دفاتر کا عملہ کم ہے اور کام زیادہ ہے یا عملہ زیادہ اور کام کم ہے نظارتوں کے فرائض پورے طور پر ادا ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور ارشاد فرمایا کہ >یہ دوست معائنہ کرنے کے لئے اپنی فرصت اور سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے خود تاریخ مقرر کرلیں۔ اور اس کی اطلاع نظارتوں کو دے دیں۔ چوہدری نعمت اللہ خان صاحب کو اس کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا جاتا ہے وہ مناسب موقع پر دوسروں کو جمع کرلیں لیکن جب کسی دفتر کا معائنہ کرنا ہو تو اسے لکھ دیں۔ تا کہ وہ تیاری کرے<۔۳۷
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے فرمان مبارک کے مطابق اس کمیشن کو جنوری ۱۹۲۹ء کے آخر میں ایک ہفتہ معائنہ کر کے رپورٹ پیش کر دینا چاہیئے تھا مگر کمیشن نے اس پر کوئی کارروائی نہ کی۔ لہذا حضور نے ۱۹۲۹ء میں دوبارہ کمیشن مقرر فرمایا۔ اور پہلے ممبران ہی کو اس کا رکن تجویز فرمایا۔ تا وہ اپنی کوتاہی کا کفارہ کر سکیں۔ اور اسے معائنہ کے لئے پانچ اہم ہدایات دیں۔
۱۔
کمیشن تحقیقات کرے کہ ناظر اپنے مقررہ فرائض منظور شدہ رقم میں پوری طرح ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟
۲۔
کیا نظارتیں ان قواعد کی جو پاس کرتی ہیں اور ان ہدایتوں کی جو انہیں دی جاتی ہیں پابندی کرتی اور کراتی ہیں یا نہیں؟
۳۔
کیا نظارتیں مجلس شوریٰ کے فیصلوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا نہیں؟
۴۔
انجمن کے کارکن اپنے اختیارات ایسے طور پر تو استعمال نہیں کرتے کہ لوگوں کے حقوق ضائع ہوں؟
۵۔
کوئی صیغہ اخراجات کے بارے میں اسراف سے تو کام نہیں لے رہا۔۳۸`۳۹
چنانچہ ارکان کمیشن نے اس کام میں کافی وقت صرف کیا وہ دو بار محض اسی غرض کے لئے قادیان آئے جہاں انہوں نے لمبی لمبی شہادتیں لیں جو ہزار صفحات سے بھی متجاوز تھیں اور بالاخر بہت چھان بین اور بڑے غور و فکر کے بعد ایک مفصل اور ضخیم رپورٹ لکھی جس میں ۲۷ سفارشات پیش کیں۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس رپورٹ کی بعض اغلاط۴۰اور نقائص کے باوجود مشاورت ۱۹۳۰ء کے سامنے کمیٹی کی محنت و کاوش پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
>جو کام انہوں نے کیا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ پہلی دفعہ یہ کام کیا گیا ہے جس کے لئے انہوں نے پوری محنت کی ہے کافی وقت صرف کیا ہے اور ایک لمبی رپورٹ مرتب کی ہے جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں اور دوسروں کے لئے نمونہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض کمیشن نے بہت قابل تعریف اور مفید کام کیا ہے اور کسی ممبر کی غلطی سے اس کام پر پانی نہیں پھیرا جا سکتا۔ کمیشن کا کام باعث خوشی ہے اور میں اس پر خوشی اور امتنان کا اظہار کرتا ہوں<۔۴۱
اس کے ساتھ ہی حضور نے صاف لفظوں میں یہ وضاحت فرما دی :
>یہ۔۔۔۔۔۔ کمیشن ۔۔۔۔۔۔ مجلس شوریٰ کا قائم مقام نہیں ہے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے اور خود کمیشن کے بعض ممبروں کو بھی غلط فہمی ہوئی ہے کہ انہوں نے کمیشن کو مجلس شوریٰ کا قائمقام سمجھا ہے۔ حالانکہ مجلس شوریٰ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی وہ میرے بلانے پر آتی اور آکر مشورہ دیتی ہے اور ہمیشہ خلیفہ کے بلانے پر آئے گی اور اسے مشورہ دے گی۔ ورنہ وہ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی۔ کہ مشورہ دے۔ اور کمیشن خلیفہ نے مقرر کیا ہے تا کہ وہ اس کام کا معائنہ کرے جو کارکن کر رہے ہیں۔ اور جس کی نگرانی خلیفہ کا کام ہے خلیفہ چونکہ اس قدر فرصت نہیں رکھتا کہ خود تمام کاموں کی نگرانی کر سکے اس لئے اس نے اپنی تسلی کے لئے کمیشن مقرر کیا تا کہ وہ دیکھے کہ کارکنوں کے سپرد جو کام ہے اسے وہ کس طرح کر رہے ہیں؟<۔ ۴۲
سیٹھ علی محمد صاحب کی کامیابی سے متعلق آسمانی بشارت
حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد کا بیان ہے کہ >حضرت امیر المومنین کے ارشاد کے مطابق میں نے اپنے لڑکے علی محمد صاحب کو آئی۔ سی۔ ایس S)۔C۔(I کے لئے لندن روانہ کیا۔ وہاں ان کو پہلے ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کرنی ضروری تھی۔ مگر ایم۔ اے میں اس قدر دیر ہوگئی کہ آئی۔ سی۔ ایس کے لئے موقعہ نہ رہا۔ ایم۔ اے کے سات مضامین میں سے چھ تو انہوں نے پاس کرلئے مگر آخری مضمون Law) )(Constitutinalقوانین آئین سازی( اور History) )(Consitutuionalتاریخ آئین سازی( میں متواتر فیل ہوتے گئے اس لئے وہ نا امید ہوکر واپس چلے آنا چاہتے تھے ان کو سات سال کا عرصہ ہوتا تھا اس لئے میں نے حضرت امیر المومنین سے ان کو واپس بلا لینے کی اجازت چاہی مگر حضور نے فرمایا کہ میں نے خواب میں ان کا نام پاس ہونے والوں کی فہرست میں دیکھا ہے اس لئے انشاء اللہ وہ یقیناً پاس ہوکر آئیں گے۔ اس لئے میں نے ان کو یہ کیفیت لکھی اور پھر کوشش کرنے کو کہا۔ انہوں نے پھر ایک بار کوشش کی مگر پھر بھی فیل ہوگئے یہ پریشان حالی میں تھے کہ اب آئندہ کیا کیا جائے۔ ان کے استاد کو جب معلوم ہوا کہ پھر فیل ہوگئے تو اس نے تحقیق کی۔ معلوم نہیں خدا تعالیٰ کا وہاں کیا کرشمہ ہوا کہ ایک دو روز میں ان کو )ایڈنبرا( یونیورسٹی کی طرف سے اطلاع ملی کہ آپ کے فیل ہونے کی خبر غلط تھی آپ پاس ہوگئے ہیں۔ یہ بہت خوش ہوئے اور سمجھ گئے یہ محض خدا تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کا خواب پورا کرنے کے لئے ان پر فضل کیا ہے۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حج کا موقعہ تھا اس لئے واپس ہوتے ہوئے حج کر کے الحاج علی محمد ایم۔ اے بن کر ہم کو آملے۔ الحمد لل¶ہ ثم الحمدلل¶ہ۔< ۴۳
امتحان میں کامیابی کا یہ ایمان افروز واقعہ اوائل ۱۹۲۸ء کا ہے۔۴۴
جمات کوحفاظت اسلام کیلئے اورزیادہ چوکس ہوجانے کاارشاد
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بھی اسلام کی مشکلات کا غم ستائے جا رہا تھا اور ان نازک ایام میں جماعت کو بیدار اور ہوشیار کرنے کی ہر لمحہ فکر رہتی تھی اگرچہ ۱۹۲۷ء میں جماعت کو اپنی ذمہ داری کا زبردست احساس پیدا ہو چکا تھا تاہم حضور نے مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر نمائندگان مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنے فرائض منصبی کی طرف خاص توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
>اس وقت اسلام ایسی مشکلات میں گھرا ہوا ہے کہ ہم ان مشکلات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ اور جب جزوی طور پر اندازہ کرتے ہیں تو اس کا ایسا اثر دماغ پر پڑتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو جنون ہو جائے اس حالت میں صرف اس بات سے آرام حاصل ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام کہتا ہے کہ ان مشکلات کا انجام برا نہیں ہوگا۔ اور تم کامیاب ہو جائو گے۔۔۔۔۔۔۔ سوائے اس کے کوئی سہارا نہیں نہ ہمارے پاس مال ہے نہ تربیت ہے نہ تعداد کے لحاظ سے دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں جب یہ حالت ہے تو سوچ لو کہ کس قدر خشیت اور ڈرنے کا مقام ہے اور پھر کس قدر کوشش کتنے ایثار اور کیسے توکل کی ضرورت ہے<۔
>صرف ہندوستان میں اسلام کے متعلق اگر کسی کو جوش اور تڑپ کا دعویٰ ہے تو وہ ہماری جماعت ہے ایسی خطرناک حالت میں اگر ہماری جماعت کی سی کمزور جماعت بھی پوری توجہ اسلام کی حفاظت کے لئے نہ کرے تو بتائو پھر اسلام کی حفاظت کا اور کیا ذریعہ ہے اس میں شبہ نہیں کہ ہدایت خدا تعالیٰ ہی پھیلاتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہدایت پھیلانے کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں آیا کرتے انسان ہی یہ کام کیا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بدر کی جنگ کے موقعہ پر رسول کریم~صل۱~ نے یہ دعا کی تھی کہ مسلمان مٹھی بھر ہیں اگر یہ تباہ ہوگئے تو پھر اسلام کا کیا بنے گا پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری کوئی طاقت نہیں ہے مگر خدا تعالیٰ انسانوں سے ہی اپنے دین کی اشاعت کراتا ہے اگر ہم بھی توجہ نہ کریں تو پھر اسلام کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہوگا جہاں کوئی اور بھی کام کرنے والا ہو وہاں کوئی سستی بھی کر سکتا ہے لیکن جہاں ایک ہی کام کرنے والا ہو اس کی سستی کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوتا اس وقت یہ موقعہ نہیں ہے کہ مختلف جماعتیں اسلام کا کام کر رہی ہیں اسلام کی ترقی کا انحصار صرف احمدیہ جماعت پر ہے اور حالات نازک سے نازک تر ہوتے جا رہے ہیں-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے >آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے<۔ ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ مصائب اور آفات آپ کی جماعت کو تباہ نہ کریں گے مگر اس کے ایک اور معنی بھی ہیں۔ آگ کا لفظ مختلف معنی رکھتا ہے آگ مصائب کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے اور محبت کے معنوں میں بھی۔ پس اس الہام میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کیمصائب ہمارا کچھ نہیں بگار سکتے۔ آگ ہمارا کام کر رہی ہے یعنی عشق الٰہی کی آگ ہماری کمزوریوں کو جلا رہی ہے اور جب دلوں میں عشق الٰہی کی آگ جل جاتی ہے۔ تو پھر اس کی علامات مونہوں سے بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں پس ہماری جماعت کے ہر فرد کے دل میں محبت الٰہی کا ایسا شعلہ ہوکہ مونہہ سے بھی نکلتا ہو اور ہر احمدی اس آگ کو اس طرح بھڑکائے کہ اس کا چہرہ دیکھ کر لوگ سمجھ جائیں کہ یہ اسلام کا سچا عاشق ہے جو اسلام کے لئے جان بھی دے دے گا۔ مگر قدم پیچھے نہ ہٹائے گا۔
میں نے دیکھا ہے کہ پچھلی مجلس مشاورت سے احباب نے ہر رنگ میں ترقی کی ہے اور مالی اور دوسری مشکلات کے متعلق کسی قدر تسلی ہوئی ہے اور اس وجہ سے چند راتیں میں نے بھی آرام سے بسر کی ہیں۔ مگر اتنی ترقی کافی نہیں ہے ہمیں اپنے تمام کاموں میں استقلال دکھانا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔پس میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ اب بھی بیدار ہوں اورپچھلی دفعہ جو عہد کیا گیا تھا اسے پھر یاد دلاتا ہوں۔۴۵جو دوست پچھلے سال نہ آئے تھے وہ آج سے عہد کریں کہ واپس جاکر ان لوگوں کا اخلاص بڑھائیں گے جن میں اخلاص ہے۔ اور جن میں نہیں ان میں پیدا کریں گے اسلام کی محبت پھیلانے اور اسلام کی اشاعت کرنے میں لگ جائیں اور قرآن کریم کی روشنی جو مٹ رہی ہے اسے قائم کریں میں نے بتایا ہے دوستوں میں پہلے کی نسبت بہت تغیر ہے اور یہ بہت خوشی کی بات ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے رہیں۔ اور دیکھیں ہر روز ہمارا قدم آگے بڑھ رہا ہے یا نہیں پس میں دوستوں سے ایک بات تو یہ کہتا ہوں کہ ہر روز قدم آگے بڑھائیں۔ اخلاص و محبت بڑھائیں اور دوسرے بھائیوں میں بھی پیدا کریں<۔۴۶
حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب گوہر کا جوش دینی و حرارت ایمانی
رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کی دختر کے نکاح کی تقریب مئی ۱۹۲۸ء کے دوسرے ہفتہ میں ہوئی جس میں شمولیت کے لئے مولانا جوہر کے
برادر اکبر حضرت خان ذوالفقار علی خاں ایک ہفتہ کی رخصت لے کر قادیان سے دہلی تشریف لے گئے<۔۴۷
دہلی میں آپ کو تبلیغ اسلام کا ایک موقعہ ملا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے اس درجہ جوش دینی اور حرارت ایمانی کا ثبوت دیا کہ مشہور مسلم لیڈر جناب عبدالماجد صاحب دریا آبادی مدیر >صدق< لکھنئو نے آپ کی وفات پر >صدق جدید< میں لکھا۔ کہ >مئی ۱۹۲۸ء کا ذکر ہے کہ مولانا محمد علی کی منجھلی صاحبزادی کا عقد دہلی میں تھا۔ اس تقریب میں یہ بھی آئے ہوئے تھے۔ ایک روز دوپہر کی تنہائی میں دو معزز مہمانوں نے مسائل اسلامی پر کچھ طنز و تمسخر شروع کیا )دونوں بیرسٹر تھے( اور لا مذہب نہیں بلکہ اچھے خاصے مسلمان اور ایک صاحب ماشاء اللہ ابھی موجود ہیں( مخاطب >سچ< )سابق صدق( کا ایڈیٹر تھا لیکن قبل اس کے کہ وہ کچھ بھی بول سکے ایک اور صاحب نے جو اس وسیع کمرے کے کسی گوشے میں لیٹے ہوئے تھے کڑک کر ایک ایک اعتراض کا جواب دینا شروع کر دیا اور وہ جوابات اتنے کافی بلکہ شافی نکلے کہ مخاطب اصلی کو بولنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ یہ نصرت اسلام میں تقریر کر ڈالنے والے بھی ذوالفقار علی خان تھے اس جوش دینی و حرارت ایمانی رکھنے والے سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نرمی اور رافت ہی کا معاملہ فرمائیں اور اس کی لغزشوں کو سرے سے درگذر فرمائیں<۔ )صدق جدید لکھنئو(۴۸
جامعہ احمدیہ )عربی کالج( کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو شروع خلافت سے یہ خیال تھا کہ جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی ضروریات کے لئے مدرسہ احمدیہ کو ترقی دے کر اسے ایک عربی کالج تک پہنچانا ضروری ہے اس مقصد کی تکمیل کے لئے حضور نے ۱۹۱۹ء میں پہلا قدم یہ اٹھایا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے` حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت میر محمد اسحاق صاحب` حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے` حضرت مولوی محمد دین صاحب` ماسٹر نواب دین صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس نے مختلف پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد ایک سکیم تیار کی۔۴۹
کمیٹی کی رپورٹ
اس اہم کمیٹی اور اس کی سکیم کا ذکر صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹ ۲۰۔۱۹۱۹ء میں ان الفاظ میں آتا ہے کہ امسال مدرسہ احمدیہ میں بہت بڑا تغیر واقع ہوا ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے جماعت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے اور یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان ضروریات کو سوائے مدرسہ احمدیہ کے اور کوئی انسٹی ٹیوشن پورا نہیں کر سکتی اس کی طرف خاص توجہ فرمائی اور اس مدرسہ کی موجودہ حالت کو ترقی دینے اور اس کو جماعت کے لئے ایک نہایت کارآمد وجود بنانے کے لئے اس کی پہلی سکیم پر غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنا دی )آگے ممبران کمیٹی کے نام دینے کے بعد لکھا ہے۔ ناقل( اور اس کمیٹی کو حکم دیا کہ وہ اس کی سکیم پر پورا غور کرے اور اس میں مناسب تغیر و تبدل کر کے اس کو ایسی لائنوں پر چلائے جن پر چل کر مدرسہ ایسے طالب علم نکال سکے جو صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ تمام بیرونی ممالک ولایت وغیرہ میں بھی تبلیغ کر سکیں اور تعلیم مدرسہ تک ہی محدود نہ رکھی جائے۔ بلکہ اس کے ساتھ ایک کالج بھی کھول دیا جائے چنانچہ حضور کی ہدایت کے مطابق اس کمیٹی نے کامل دو ماہ غور کرنے کے بعد ایک سکیم تیار کرکے حضور کی خدمت میں پیش کردی اور حضور نے اس میں مناسب اصلاح کر کے اسے جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اور وہ سکیم اس سال مدرسہ احمدیہ میں جاری کر دی گئی۔ لیکن چونکہ اس سکیم اور پرانی سکیم میں بہت فرق تھا۔ اگر یہ سارے مدرسہ میں جاری کر دی جاتی تو پہلے طالب علموں کی تعلیم میں بہت نقص وارد ہونے کااندیشہ تھا۔ اس لئے فی الحال یہ صرف پہلی تین جماعتوں میں رائج کی گئی۔ اور گویا اب مدرسہ میں دو سکیمیں کام کر رہی ہیں۔ پہلی تین جماتیں نئی سکیم کے مطابق تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور آخری چار جماعتیں پرانی سکیم کے مطابق اور اس کے علاوہ ایک جماعت مدرسہ احمدیہ کے ساتھ اور بھی ہے جو مولوی فاضل کلاس کہلاتی ہے اس کا کورس یونیورسٹی کے کورس کے مطابق ہے۔۵۰
جامعہ احمدیہ کے انتظام کا فیصلہ
حضور نے اس سکیم کے مطابق ۱۹۲۴ء میں صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ مدرسہ کو کالج تک ترقی دینے کے لئے عملی اقدام کرے۔۵۱چنانچہ کئی مراحل طے ہونے کے بعد صدر انجمن احمدیہ نے ۱۵ / اپریل ۱۹۲۸ء کو جامعہ احمدیہ کے نام سے ایک مستقل ادارہ کے قیام کا فیصلہ کر دیا جس کے مطابق مدرسہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس اس عربی کالج کی پہلی دو جماعتیں قرار دے دی گئی۔ اور جماعت مبلغین )جس کے واحد انچارج یا پروفیسر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب ہی تھے(۔۵۲دو جماعتوں میں تقسیم کر کے جامعہ کے ساتھ ملحق کر دی گئی اس طرح ابتداء میں جامعہ احمدیہ کی چار جماعتیں کھولی گئیں درجہ اولیٰ و درجہ ثانیہ )مدرسہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس(۵۳اور درجہ ثالثہ ورابعہ )جماعت مبلغین(
نئی درسگاہ کی عمارت کے لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے احاطہ کی وہ کوٹھی مخصوص کی گئی۔ جو گیسٹ ہائوس کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی۔ اور جس میں خلافت ثانیہ کے اوائل تک جناب مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے )سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ قادیان( قیام رکھتے تھے۔۵۴جامعہ احمدیہ کے بورڈر طلباء کا انتظام کسی موزوں عمارت کے نہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ ہی میں رہا۔
جامعہ احمدیہ کی جماعتوں کے لئے مدرسہ احمدیہ کا وہ سامان جو اس وقت تک عملاً مدرسہ کی مولوی فاضل کلاس کے استعمال میں تھا۔ جامعہ احمدیہ میں منتقل کر دیا گیا اور دیگر ضروری ابتدائی سامان کے لئے مبلغ ایک سو روپیہ کی منظوری دی گئی۔ اور سائر کا باقی بجٹ حصہ رسدی مدرسہ اور جامعہ میں تقسیم کر کے جامعہ احمدیہ کو اس کا دسواں حصہ )دہاکے کی کسر چھوڑ کر( بطور پیشگی حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔
جامعہ احمدیہ کے اساتذہ
اس سلسلہ میں سب سے اہم مسئلہ جامعہ احمدیہ کے سٹاف کا تھا۔ سو اس کے پہلے پرنسپل حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور پروفیسر حضرت حافظ روشن علی صاحب` حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب مقرر کئے گئے۔۵۵
جامعہ احمدیہ کے ان اولین قدیم ترین پروفیسروں کے بعد ۱۹۴۷ء یعنی تقسیم ہند تک مندرجہ ذیل اساتذہ وقتاً فوقتاً اس دینی درسگاہ میں تعلیمی فرائض بجا لاتے رہے۔۵۶مولوی ارجمند خان صاحب۔۵۷مولوی محمد یار صاحب عارف۔ حافظ مبارک احمد صاحب۔۵۸حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزاروی۔۵۹سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان۔ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری۔ صاحبزادہ مولوی سید ابوالحسن صاحب قدسی )خلف الصدق حضرت صاحبزادہ مولوی سید عبداللطیف صاحب شہیدؓ( مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی۔ شیخ محبوب عالم صاحب خالد۔ مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب فاضل سنسکرت۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے۔ مرزا احمد شفیع صاحب مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری۔ ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے۔ بی ٹی۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری۔ مولوی عبدالمنان صاحب عمر۔ مولوی ظفر محمد صاحب مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب )جون ۱۹۴۷ء(۔4] ft[s۶۰
جامعہ احمدیہ کا افتتاح اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی قیمتی نصائح
اساتذہ کرام کی فہرست دیتے ہوئے ہم ۱۹۴۷ء کے آخر تک پہنچ گئے تھے اب پھر ضروری ابتدائی حالات کی طرف آتے ہیں۔ جامعہ احمدیہ کی داغ بیل پڑنے کے بعد جب اس نئی درسگاہ کے ابتدائی انتظامات پایہ تکمیل کو پہنچ گئے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۰ / مئی ۱۹۲۸ء کو اس کا افتتاح فرمایا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریب پر جو تقریر فرمائی وہ الفضل ۱۴۔ اگست ۱۹۲۸ء میں شائع ہوچکی ہے۔ حضور نے تقریر میں اس نئے ادارہ کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا :
>خدا تعالیٰ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد اور ہدایت کے ماتحت مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا تاکہ اس میں ایسے لوگ تیار ہوں جوولتکن منکم امہ یدعون الی الخیر الخ کے منشاء کو پورا کرنے والے لوگ ہوں۔ بے شک اس مدرسہ سے نکلنے والے بعض نوکریاں بھی کرتے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص ایک ہی کام کا اہل نہیں ہوتا۔ انگریزوں میں سے بہت سے لوگ قانون پڑھتے ہیں مگر لاء کالج سے نکل کر سارے کے سارے بیرسٹری کا کام نہیں کرتے بلکہ کئی ایک اور کاروبار کرتے ہیں تو اس مدرسہ سے پڑھ کر نکلنے والے کئی ایسے ہوتے ہیں جو ملازمتیں کرتے ہیں۔ مگر یہ اس لئے نہیں بنایا گیا کہ اس سے تعلیم حاصل کرنے والے نوکریاں کریں بلکہ اصل مقصد یہی ہے کہ مبلغ بنیں اب یہ دوسری کڑی ہے کہ ہم اس مدرسہ کو کالج کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ تبلیغ کے لحاظ سے یہ کالج ایسا ہونا چاہیئے کہ اس میں نہ صرف دینی علوم پڑھائے جائیں بلکہ دوسری زبانیں بھی پڑھانی ضروری ہیں ہمارے جامعہ میں بعض کو انگریزی بعض کو جرمنی بعض کو سنسکرت بعض کو فارسی بعض کو روسی بعض کو سپینش وغیرہ زبانوں کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہیئے۔ کیونکہ جن ملکوں میں مبلغوں کو بھیجا جائے ان کی زبان جاننا ضروری ہے بظاہر یہ باتیں خواب و خیال نظر آتی ہیں۔ مگر ہم اس قسم کی خوابوں کا پورا ہونا اتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو ظاہری باتوں کے پورے ہونے پر جس قدر اعتماد ہوتا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں ان خوابوں کے پورے ہونے پر یقین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تو ہم اس کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ کے ساتھ بھی مبلغین کی کلاس تھی مگر ¶اس میں شبہ نہیں کہ ہر چیز اپنی زمین میں ہی ترقی کرتی ہے جس طرح بڑے درخت کے نیچے چھوٹے پودے ترقی نہیں کرتے اسی طرح کوئی نئی تجویز دیرینہ انتظام کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتی۔ اس وجہ سے جامعہ کے لئے ضروری تھا کہ اسے علیحدہ کیا جائے۔ اس سے متعلق میں نے ۱۹۲۴ء میں صدر انجمن احمدیہ کو لکھا تھا کہ کالج کی کلاسوں کو علیحدہ کیا جائے۔ اور اسے موقعہ دیا جائے کہ اپنے ماحول کے مطابق ترقی کرے۔ آج وہ خیال پورا ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہی چھوٹی سی بنیاد ترقی کرکے دنیا کے سب سے بڑے کالجوں میں شمار ہوگی<۔
نیز طلباء جامعہ کو ان کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ :
>وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ان کے سامنے عظیم الشان کام اور بہت بڑا مستقبل ہے وہ عظیم الشان عمارت کی پہلی اینٹیں ہیں اور پہلی اینٹوں پر ہی بہت کچھ انحصار ہوتا ہے ایک شاعر نے کہا تھا۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا مے رود دیوار کج
اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھے تو ثریا تک دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی۔ جتنی اونچی دیوار کرتے جائیں اتنی ہی زیادہ ٹیڑھی ہوگی گو کالج میں داخل ہونے والے طالب علم ہیں اور نظام کے لحاظ سے ان کی ہستی ماتحت ہستی ہے۔ لیکن نتائج کے لحاظ سے اس جامعہ کی کامیابی یا ناکامی میں ان کا بہت بڑا دخل ہے یہ تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے کام ترقی کرتے جائیں گے۔ مگر ان طلباء کا ان میں بڑا دخل ہوگا۔ اس لئے انہیں چاہیئے کہ اپنے جوش اپنے اعمال اور اپنی قربانیوں سے ایسی بنیاد رکھیں کہ آئندہ جو عمارت تعمیر ہو اس کی دیواریں سیدھی ہوں ان میں کجی نہ ہو ان کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی غایت ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا اعلاء ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کا یہی موٹو ہونا چاہیئے۔ کہ و التکن منکم امہ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولئک ھم المفلحون۶۱اور وما کان المئومنون لینفروا کافہ فلو لا نفر من کل فرقہ منھم طائفہ لیتفقھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون ۶۲میرے نزدیک ان آیتوں کو لکھ کر کالج میں لٹکا دینا چاہیئے۔ تاکہ طالب علموں کی توجہ ان کی طرف رہے اور انہیں معلوم رہے کہ ان کا مقصد اور مدعا کیا ہے۔۶۳`۶۴
جامعہ احمدیہ کا دور اول
جامعہ احمدیہ کا ابتدائی دور کئی قسم کی مشکلات میں سے گذرا۔ پہلے سال کے شروع میں ہی جامعہ احمدیہ کے اولین استاد اور جماعت مبلغین کے شفیق استاد حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب تشویشناک طور پر بیمار ہوگئے اور پھر اچانک ۲۹ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو آپ پر فالج کا حملہ ہوا۔۶۵ اور بالاخر آپ ۲۳ / جون ۱۹۲۹ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۶۶]4 [rtfحضرت حافظ صاحبؓ کے انتقال سے نہ صرف جماعت احمدیہ اپنے ایک جلیل القدر و عظیم المرتبت عالم بے بدل فاضل اجل سے محروم ہوگئی بلکہ جامعہ احمدیہ کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحبؓ کی لمبی بیماری نے بھی تعلیم پر ناگوار اثر ڈالا۔۶۷اسی طرح شروع شروع میں متعدد دقتوں اور دشواریوں سے دو چار ہونا پڑا۔ طلباء جامعہ احمدیہ کی عمارت بھی ناقص تھی۔ اور اس کا علیحدہ ہوسٹل نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بعض طلباء مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں رہتے تھے اور بعض ہائی سکول کے بورڈنگ میں اور بعض نے اپنے قیام کا پرائیویٹ انتظام کر رکھا تھا۔
جامعہ احمدیہ کے ابتدائی کوائف` اس کے اساتذہ اور افتتاح کا عمومی تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم اس درسگاہ کے بعض دوسرے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں-
۱۹۲۹ء میں جامعہ احمدیہ کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق ہوا۔۱۹۳۰۶۸ء میں جامعہ کے طلباء کی ورزش کے لئے گرائونڈ کا انتظام ہوا۔۶۹اپریل ۱۹۳۰ء میں ایک سہ ماہی رسالہ >جامعہ احمدیہ< جاری ہوا۔ جامعہ احمدیہ کے پاس اپنی کوئی لائبریری نہ تھی اور طلباء کو مرکزی لائبریری میں جو اندرون شہر واقع تھی۔ جانا پڑتا تھا۔ ۳۱۔۱۹۳۰ء میں بعض کتب منگوانے کا انتظام شروع ہوا۔۷۰چنانچہ ۱۹۴۷ء تک جامعہ احمدیہ کی ایک اچھی خاصی لائبریری تیار ہوگئی تھی۔ ۱۹۳۲ء میں قادیان علوم شرقیہ کے امتحان کا سنٹر منظور ہوا۔ اسی سال جامعہ کے اندرونی انتظام کو باقاعدہ بنانے کے لئے اس کے سٹاف کی ایک کونسل بنائی گئی جس کے صدر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور سیکرٹری حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب مقرر ہوئے اور چہار شنبہ کو ہفتہ وار اجلاس منعقد ہونا قرار پایا۔۷۱
نومبر ۱۹۳۲ء میں جامعہ احمدیہ کے ایک وفد نے جو انتیس افراد پر مشتمل تھا مولوی ارجمند خان صاحب کی قیادت میں ہندوستان کے متعدد شہروں کا ایک کامیاب تبلیغی و تفریحی دورہ کیا۔۷۲
اسی زمانہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک ارشاد کی روشنی میں یہ قاعدہ بنا دیا گیا کہ جامعہ احمدیہ میں صرف وہی طلباء داخل کئے جائیں گے جو مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل ہوں گے ان کے سوا کوئی طالب علم جامعہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ البتہ جہاں تک جامعہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس کا تعلق ہے صدر انجمن احمدیہ کی خاص اجازت سے استثنائی طور پر مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباء کے علاوہ دوسرے بھی داخل ہو سکیں گے۔ مگر ضروری ہوگا کہ انجمن اپنے فیصلہ میں استثناء کی وجوہ بیان کر کے منظوری دے اور مبلغین کلاس میں بہر صورت کوئی دوسرا طالب علم داخل نہیں ہو سکے گا-۷۳اس قاعدے سے مولوی فاضل کا امتحان دینے والے دوسرے احمدی طلباء کو جامعہ میں داخلہ کی صورت میسر آگئی بلکہ کئی غیر احمدی طلباء بھی استفادہ کرتے رہے اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔
tav.5.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
طلباء جامعہ احمدیہ پر تعلیمی و اخلاقی لحاظ سے بہت زیادہ اثر انداز ہونے والی دقت یہ تھی کہ ان کے لئے کوئی الگ ہوسٹل نہیں تھا۔ آخر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دو سالہ توجہ سے ۱۹۳۴ء میں یہ پیچیدہ معاملہ بھی حل ہوگیا اور بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے جنوبی جانب ایک عمارت میں جہاں پہلے پرائمری کے طلباء تعلیم پاتے تھے جامعہ احمدیہ کا دارالاقامہ )ہوسٹل( قائم ہوا۔ اور ۲۰ / نومبر ۱۹۳۴ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کا افتتاح فرمایا- اس تقریب پر حضور نے فرمایا :
>جامعہ کی کامیابی کے لئے اس کا قیام ضروری ہے تا صحیح اخلاق اور دینی خدمت کے لئے جوش پیدا ہو اور نوجوان ایمان و ایقان میں اور قربانی و ایثار کی روح میں دوسروں سے بڑھ کر ہوں ان کی نمازیں اور دعائیں دوسروں کی نمازوں اور دعائوں سے فرق رکھتی ہوں۔ ایسے برگزیدہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ خود علم سکھلاتا ہے نئے نئے جواب سکھاتا ہے<۔ الخ۷۴`۷۵
جب مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحب بنارس وغیرہ سے سنسکرت کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد واپس آئے تو مئی ۱۹۳۹ء سے جامعہ احمدیہ میں سنسکرت کلاس بھی کھول دی گئی جو دسمبر ۱۹۴۴ء تک جاری رہی۔ اس کے بعد پروفیسر ناصر الدین نظارت تالیف و تصنیف میں منتقل ہوگئے۔۷۶
دور اول میں تعلیم پانے والے علماء
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اپریل ۱۹۳۹ء تک جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے اور آپ کی قیادت میں جامعہ احمدیہ نے ایک مثالی درسگاہ کی حیثیت سے بہت ترقی کی اور مسلمہ طور پر بڑا عروج پایا۔ اور آپ کے زمانہ میں اس چشمہ علم و حکمت سے متعدد فاضل و محقق` واعظ و مبلغ` صحافی و مصنف اور مناظر ومقرر پیدا ہوئے۔
جامعہ احمدیہ میں دور اول کے تعلیم پانے والوں کی فہرست بہت طویل ہے بعض ممتاز نام درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ مگر یہ نام فارغ التحصیل ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف داخلہ کی ترتیب سے درج کئے گئے ہیں لہذا یہ خیال کرنا ہرگز صحیح نہیں ہوگا کہ ان حضرات نے مولوی فاضل یا مبلغین کلاس بھی اسی ترتیب سے پاس کی ہوگی۔ )تواریخ ولادت جامعہ احمدیہ کے ریکارڈ سے ماخوذ ہیں(
۱۹۲۷ء۷۷
مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی )تاریخ ولادت ۷ / دسمبر ۱۹۰۲ء(
مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر )تاریخ ولادت ۱۵ / اپریل ۱۹۰۸ء(
صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )تاریخ ولادت یکم نومبر ۱۹۰۹ء(۷۸
مولوی ظفر محمد صاحب )تاریخ ولادت ۹ / اپریل ۱۹۰۸ء(
مولوی غلام حسین صاحب ایاز )تاریخ ولادت یکم مئی ۱۹۰۵ء(
قریشی محمد نذیر صاحب )تاریخ ولادت یکم جولائی ۱۹۱۰ء(
مولوی احمد خاں صاحب نسیم )تاریخ ولادت ۱۸ / مئی ۱۹۰۸ء(
مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری )تاریخ ولادت ۱۳ / اکتوبر ۱۹۰۸ء(
مولوی احمد نور الدین صاحب سماٹری )تاریخ ولادت ۶ / مئی ۱۹۰۶ء(
مولوی ولیداد خان صاحب شہید افغانستان )تاریخ ولادت ۱۷ / مئی ۱۹۰۴ء(
مولوی زین العابدین ذینی دہلان سماٹری )تاریخ ولادت ۱۴ / جون ۱۹۰۵ء(
مولوی محمد صادق صاحب چغتائی )تاریخ ولادت ۴ / اپریل ۱۹۰۹ء(
۱۹۲۸ء
مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب۷۹)تاریخ ولادت ۱۵ / جون ۱۹۱۱ء(
مولوی نذیر احمد صاحب مبشر )تاریخ ولادت ۱۵ / اگست ۱۹۰۹ء(
شیخ مبارک احمد صاحب )تاریخ ولادت یکم مارچ ۱۹۱۱ء(
مہاشہ محمد عمر صاحب )تاریخ ولادت ۱۷ / نومبر ۱۹۰۴ء(
مولوی عبدالواحد صاحب ناسنور کشمیر )تاریخ ولادت (
مولوی عبدالرحمن صاحب انور بوتالوی )تاریخ ولادت ۲۷ / مئی ۱۹۰۸ء(
مولوی چراغ الدین صاحب )تاریخ ولادت ۴ / اکتوبر ۱۹۰۶ء(
۱۹۲۹ء
مولوی عبدالغفور صاحب جالندھری )تاریخ ولادت ۱۳ / مئی ۱۹۱۳ء(
شیخ محبوب عالم صاحب خالد )تاریخ ولادت ۱۳ / اپریل ۱۹۰۹ء(
شیخ عبدالقادر صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / اگست ۱۹۰۹ء(
ملک صلاح الدین صاحب )تاریخ ولادت ۲۰ / مارچ ۱۹۱۵ء(۸۰
مولوی محمد سلیم صاحب )تاریخ ولادت ۱۲ / دسمبر ۱۹۱۰ء(
چوہدری محمد شریف صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۳ء(
۱۹۳۰
شیخ عبدالواحد صاحب )تاریخ ولادت ۱۵ / اگست ۱۹۱۳ء(
مولوی محمد احمد صاحب جلیل )تاریخ ولادت ۵ / جولائی ۱۹۱۱ء(
مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری )تاریخ ولادت ۶ / ستمبر ۱۹۰۸ء(
مولوی عبدالرحیم صاحب عارف )تاریخ ولادت ۸ / اگست ۱۹۰۸ء(
v1] g[ta۱۹۳۱ء
مولوی امام الدین صاحب )تاریخ ولادت ۹ / جون ۱۹۱۲ء(
مولوی محمد اسماعیل صاحب یادگیری )تاریخ ولادت ۸ / اپریل ۱۹۱۴ء(
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب )تاریخ ولادت ۹ / مئی ۱۹۱۴ء(
مولوی محمد اسماعیل صاحب دیال گڑھی )تاریخ ولادت ۱۵ / اپریل ۱۹۱۳ء(
مولوی عبدالخالق صاحب )تاریخ ولادت ۱۵ / فروری ۱۹۱۰ء(
مولوی رمضان علی صاحب )تاریخ ولادت ۱۲ / اگست ۱۹۱۳ء(۸۱
مولوی عبدالمالک خان صاحب ۲۵ / نومبر ۱۹۱۱ء(۸۲
۱۹۳۲ء
سید احمد علی صاحب )تاریخ ولادت ۹ / دسمبر ۱۹۱۱ء(
قریشی محمد افضل صاحب )تاریخ ولادت ۵ / اکتوبر ۱۹۱۴ء(
۱۹۳۳ء
چوہدری محمد صدیق صاحب )تاریخ ولادت ۵ / مارچ ۱۹۱۶ء(
مولوی روشن دین صاحب )تاریخ ولادت ۷ / اپریل ۱۹۱۳ء(
حافظ محمد رمضان صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / اگست ۱۹۱۰ء(
۱۹۳۴ء
مولوی غلام احمد صاحب فرخ )تاریخ ولادت ۱۲ / اپریل ۱۹۱۶ء(
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری )تاریخ ولادت ۱۲ / اکتوبر ۹۱۵ء(
۱۹۳۵ء
مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر )تاریخ ولادت ۵ / فروری ۱۹۱۳ء(
۱۹۳۶ء
مولوی شریف احمد صاحب امینی )تاریخ ولادت ۱۹ / نومبر ۱۹۱۷ء(۸۳
مولوی )ابوالمنیر( نور الحق صاحب )تاریخ ولادت ۱۷ / دسمبر ۱۹۱۸ء(
مرزا منور احمد صاحب شہید امریکہ )تاریخ ولادت ۲۰ / اپریل ۱۹۱۹ء(
مولوی صدر الدین صاحب )تاریخ ولادت ۱۲ / جون ۱۹۱۷ء(
مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل )تاریخ ولادت ۲۵ / جولائی ۱۹۱۴ء(
سید اعجاز احمد صاحب بنگالی )تاریخ ولادت قریباً ۱۹۱۶ء(
۱۹۳۷ء
حافظ قدرت اللہ صاحب )تاریخ ولادت ۲۲ / فروری ۱۹۱۷ء(
مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری )تاریخ ولادت ۱۴ / اگست ۱۹۲۰ء(
عبدالغفار صاحب ڈار )تاریخ ولادت مارچ ۱۹۱۶ء(
مولوی محمد احمد صاحب ثاقب )تاریخ ولادت ۱۵ / مئی ۱۹۱۸ء(
۱۹۳۸ء
مولوی نور الحق صاحب انور )تاریخ ولادت دسمبر ۱۹۲۰ء(
مولوی رشید احمد صاحب چغتائی )تاریخ ولادت ۲۷ / جولائی ۱۹۱۹ء(
شیخ نور احمد صاحب منیر )تاریخ ولادت ۸ / اکتوبر ۱۹۱۹ء(۸۴
جامعہ احمدیہ کا دور ثانی
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے بعد مئی ۱۹۳۹ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے پرنسپل مقرر ہوئے اور جامعہ کا دوسرا دور شروع ہوا۔ آپ کے زمانہ میں بھی امتحان مولوی فاضل کے نتائج بہت اچھے رہے مگر لوگوں کے اس عام رجحان کی وجہ سے کہ دینی تعلیم پر دنیاوی تعلیم کو فوقیت حاصل ہے مبلغین کلاس میں داخل ہونے والے طلباء کی تعداد میں کمی آگئی۔ آپ کے دور میں جامعہ کے اندرونی نظام میں بعض اصلاحات بھی ہوئیں مثلاً تقریروں کی مشق کے لئے ایک مجلس طلباء بنائی گئی۔ لائبریری جامعہ احمدیہ کی کتابیں از سر نو مرتب کر کے دو حصوں میں تقسیم کی گئیں۔ ایک حصہ میں نصاب کی کتابیں اور دوسرے میں کتب سلسلہ کے لئے دوسرا علمی اور ادبی لٹریچر رکھا گیا۔ اس کے علاوہ دارالاقامہ میں بھی ایک لائبریری قائم ہوئی۔۸۵
دور ثانی میں تعلیم پانے والے علماء
آپ کے زمانہ میں جن علماء و مبلغین نے اکتساب علم کیا ان میں سے بعض قابل ذکر یہ ہیں :
۱۹۴۰ء
مولوی غلام باری صاحب سیف )تاریخ ولادت یکم اکتوبر ۱۹۲۰ء(
مولوی جلال الدین صاحب قمر )تاریخ ولادت ۵ / مئی ۱۹۲۳ء(
شیخ نصیر الدین احمد صاحب )تاریخ ولادت ۱۵ / مارچ ۱۹۲۳ء(
حافظ بشیر الدین صاحب )تاریخ ولادت ۴ / اکتوبر ۱۹۲۲ء(
مولوی محمد منور صاحب )تاریخ ولادت ۱۳ / فروری ۱۹۲۳ء(
۱۹۴۱ء
ملک مبارک احمد صاحب )تاریخ ولادت ۱۹۲۲ء(
مولوی خورشید احمد صاحب شاد ۸۶)تاریخ ولادت ۲۴ / ستمبر ۱۹۲۰ء(
مولوی محمد عثمان صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / جون ۱۹۲۲ء(
مولوی بشارت احمد صاحب امروہوی )تاریخ ولادت ۸ / اگست ۱۹۱۷ء(
۱۹۴۲ء
مولوی بشارت احمد صاحب بشیر )تاریخ ولادت ۱۰ / جون ۱۹۲۳ء(
۱۹۴۳ء
مولوی محمد زہدی صاحب )تاریخ ولادت ۷ / نومبر ۱۹۱۸ء(
صوفی محمد اسحاق صاحب )تاریخ ولادت یکم مارچ ۱۹۲۳ء(
جامعہ احمدیہ کے دور ثالث کا آغاز
صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مئی ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور ۲۴ مئی ۱۹۴۴ء کو مولانا ابو العطاء صاحب فاضل جالندھری نے جامعہ احمدیہ کا چارج سنبھال لیا۔۸۷اس طرح جامعہ احمدیہ کی زندگی کے تیسرے دور کا آغاز ہوا۔
اوائل ۱۹۴۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی جامعہ احمدیہ کی طرف خاص توجہ فرمائی اور جماعت کو وقف زندگی کی تحریک کی۔ جس پر کئی مخلص نوجوانوں نے لبیک کہا۔ اور میٹرک پاس طلباء کے لئے جامعہ احمدیہ میں ایک سپیشل کلاس جاری کی گئی۔ اس کے علاوہ دوسرے طلباء میں بھی اضافہ ہوا۔ اور جامعہ احمدیہ میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہوئی۔ جامعہ احمدیہ اور اس کا ہوسٹل محلہ دارالانوار کے نئے گیسٹ ہائوس میں منتقل کر دیا گیا۔ اور طلباء کو رہائش کی سہولتیں میسر آئیں۔ یہ ادارہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا کہ تقسیم ہند کا سانحہ پیش آگیا۔ اور اس کے اساتذہ و طلباء ۱۰ نومبر ۱۹۴۷ء کو کانوائے کے ذریعہ قادیان سے لاہور آگئے۔۸۸جہاں نئی صورت حال کے پیش نظر مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کا مخلوط ادارہ جاری ہوا۔ جس کے پرنسپل بھی آپ ہی مقرر ہوئے۔ اور یکم جولائی ۱۹۵۳ء تک اس ادارہ کو کامیابی سے چلانے کے بعد پرنسپل کی حیثیت سے جامعتہ المبشرین میں منتقل ہوگئے۔
جامعہ احمدیہ کے دور ثالث اور اس سے نکلنے والے علماء و مبلغین کا مفصل تزکرہ تو انشاء اللہ اپنے مقام پر آئے گا۔ مگر یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ اس دور کے تعلیم پانے والوں میں صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب` سید مسعود احمد صاحب اور سید محمود احمد صاحب ناصر بھی شامل ہیں۔
سفر لاہور
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جون ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں لاہور تشریف لے گئے۔ آپ کے حرم ثالث حضرت سارہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری` صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ عبدالسلام صاحب )ابن حضرت خلیفہ اولؓ( ادیب فاضل وغیرہ کا امتحان دے رہے تھے اور یہ سفر اسی سلسلہ میں تھا۔۸۹
)فصل دوم(
>سیرت النبیﷺ<~ کے بابرکت جلسوں کا انعقاد
مجالس سیرت النبیﷺ~ کی تجویز اور اس کا پس منظر
۱۹۲۸ء کا نہایت مہتم بالشان اور تاریخ عالم میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھوں سیرت النبی کے جلسوں کی بنیاد ہے جس نے برصغیر ہند و پاک کی ¶مذہبی تاریخ پر خصوصاً اور دنیا بھر میں عموماً بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ اور جو اب ایک عالمگیر تحریک کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس اہم تحریک کی تجویز حضور کے دل میں ۱۹۲۷ء کے آخر میں اس وقت القا فرمائی- جبکہ ہندوئوں کی طرف سے کتاب >رنگیلا رسول< اور رسالہ >ورتمان< میں آنحضرت~صل۱~ کی شان مبارک کے خلاف گستاخیاں انتہا کو پہنچ گئیں۔ اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی نہایت خطرناک شکل اختیار کر گئی۔ حضور نے اس مرحلہ پر آنحضرت~صل۱~ کی ناموس و حرمت کی حفاظت کے لئے ملکی سطح پر جو کامیاب مہم شروع فرمائی۔ اس کی تفصیل پچھلی جلد میں گذر چکی ہے۔ یہ مہم اسلامی دفاع کا ایک شاندار نمونہ تھی۔ جس نے نہ صرف مخالفین اسلام کی چیرہ دستیوں کا سدباب کرنے میں مضبوط دیوار کا کام دیا۔ بلکہ نبی کریم~صل۱~ کے نام لیوائوں کو عشق رسول کے عظیم الشان جذبہ سے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر دیا۔ مگر حضور کے مضطرب اور درد آشنا دل نے اسی پر قناعت کرنا گوارا نہ کیا۔ اور آپ سب وشتم کی گرم بازاری کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک آنحضرت~صل۱~ کی مقدس زندگی کے حالات اور آپﷺ~ کے عالمگیر احسانات کے تذکروں سے ہر ملک کا گوشہ گوشہ گونج نہیں اٹھے گا۔ اس وقت تک مخالفین اسلام کی قلعہ محمدی پر موجودہ یورش بدستور جاری رہے گی۔ اور دراصل یہی خیال تھا۔ جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ نے >سیرت النبیﷺ<~ کے جلسوں کی تجویز فرمائی۔ چنانچہ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں :
>لوگوں کو آپ پر )یعنی آنحضرت رسول کریم~صل۱~ پر ناقل( حملہ کرنے کی جرات اسی لئے ہوتی ہے۔ کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں۔ یا اسی لئے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے۔ جو یہ ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دئیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپﷺ~ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے۔ اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرات نہ رہے جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر دے گا۔ پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم~صل۱~ کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے۔ اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے۔ تا کہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہو جائیں<۔۹۰
نیز فرمایا :
>آنحضرت~صل۱~ ان وجودوں میں سے ہیں جن کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے کہ ع
آفتاب آمد دلیل آفتاب
سورج کے چڑھنے کی دلیل کیا ہے؟ یہ کہ سورج چڑھا ہوا ہے کوئی پوچھے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے تو اسے کہا جائے گا۔ دیکھ لو سورج چڑھا ہوا ہے۔ تو کئی ایسے وجود ہوتے ہیں کہ ان کی ذات ہی ان کا ثبوت ہوتی ہے اور رسول کریم~صل۱~ کی ذات ستودہ صفات انہی وجودوں میں سے ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ اس وقت تک جو انسان پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب کے سب رسول کریم~صل۱~ سے نیچے ہیں اور آپﷺ~ سب پر فوقیت رکھتے ہیں ایسے انسان کی زندگی پر اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اس کی زندگی کو بگاڑ کر ہی کر سکتا ہے اور بگاڑے ہوئے حالات سے وہی متاثر ہو سکتا ہے جسے صحیح حالات کا علم نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول کریم~صل۱~ کی ذات پر اسی طرح حملے کئے جاتے ہیں ایسے حملوں کے اندفاع کا بہترین طریق یہ نہیں ہے کہ ان کا جواب دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کے حالات خود پڑھیں اور ان سے صحیح طور پر واقفیت حاصل کریں۔ جب وہ آپﷺ~ کے حالات پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی ذات نور ہی نور ہے اور اس ذات پر اعتراض کرنے والا خود اندھا ہے<۔ ۹۱
وسیع سکیم
اس اہم قومی و ملی مقصد کی تکمیل کے لئے آپ نے ایک وسیع پروگرام تجویز فرمایا جس کے اہم پہلو مندرجہ ذیل تھے :
اول :ہر سال آنحضرت~صل۱~ کی مقدس سوانح میں سے بعض اہم پہلوئوں کو منتخب کر کے ان پر خاص طور سے روشنی ڈالی جائے۔ ۱۹۲۸ء کے پہلے >سیرت النبیﷺ<~ کے جلسے کے لئے آپ نے تین عنوانات تجویز فرمائے۔ )۱( رسول کریم~صل۱~ کی بنی نوع انسان کے لئے قربانیاں۔ )۲( رسول کریم~صل۱~ کی پاکیزہ زندگی )۳( رسول کریم~صل۱~ کے دنیا پر احسانات۔
دوم :ان مضامین پر لیکچر دینے کے لئے آپ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء پر ایسے ایک ہزار فدائیوں کا مطالبہ کیا۔ جو لیکچر دینے کے لئے آگے آئیں تا انہیں مضامین کی تیاری کے لئے ہدایات دی جا سکیں اور وہ لیکچروں کے لئے تیار کئے جا سکیں۔ جلسوں کے اثرات سے قطع نظر صرف یہی بہت بڑا اور غیر معمولی کام تھا کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سیرت پر روشنی ڈالنے والے ہزار لیکچرار تیار کر دئیے جائیں۔
سوم :سیرت النبیﷺ~ پر تقریر کرنے کے لئے آپ نے مسلمان ہونے کی شرط اڑا دی اور فرمایا رسول کریم~صل۱~ کے احسانات سب دنیا پر ہیں اس لئے مسلمانوں کے علاوہ وہ لوگ جن کو ابھی تک یہ توفیق تو نہیں ملی کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کے اس تعلق کو محسوس کر سکیں۔ جو آپ کو خدا تعالیٰ کے ساتھ تھا۔ مگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قربانیوں سے بنی نوع انسان پر بہت احسان کئے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں ان کی زبانی رسول کریم~صل۱~ کے احسانات کا ذکر زیادہ دلچسپ اور زیادہ پیارا معلوم ہوگا۔ پس اگر غیر مسلموں میں سے بھی کوئی اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کریں گے تو انہیں شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور ان کی اس خدمت کی قدر کی جائے گی۔۹۲
چہارم :غیر مسلموں کو سیرت رسولﷺ~ کے موضوع سے وابستگی کا شوق پیدا کرنے کے لئے یہ اعلان کیا گیا کہ جو غیر مسلم اصحاب ان جلسوں میں تقریریں کرنے کی تیاری کریں گے اور اپنے مضامین ارسال کریں گے ان میں سے اول` دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو علی الترتیب سو` پچاس اور پچیس روپے کے نقد انعامات بھی دئیے جائیں گے۔۹۳
پنجم :حضور کے سامنے چونکہ >میلاد النبیﷺ<~ کے معروف رسمی اور بے اثر اور محدود جلسوں کے مخصوص اغراض کی بجائے >سیرت النبیﷺ<~ کے خالص علمی اور ہمہ گیر جلسوں کا تصور تھا اس لئے آپ نے ان کے انعقاد کے لئے ۱۲ / ربیع الاول کے دن کی بجائے )جو عموماً ولادت نبوی کی تاریخ تسلیم کی جاتی ہے( دوسرے دنوں کو زیادہ مناسب قرار دیا۔۹۴چنانچہ ۱۹۲۸ء میں آپ نے یکم محرم ۱۳۴۷ھ بمطابق ۲۰/ جون کو یوم سیرت منانے کا اعلان کیا۔ جسے شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی باسانی شمولیت کے پیش نظر ۱۷ / جون میں تبدیل کر دیا۔۹۵`۹۶
حضور نے اس عظیم الشان پروگرام کے شایان شان جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کو تیاری کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور اس بارے میں کئی اہم مشورے دئیے مثلاً اصل جلسوں کی اہمیت بتانے کے لئے مختلف موقعوں پر مختلف محلوں میں جلسے کریں` جلسہ کی صدارت کے لئے با رسوخ اور سربرآوردہ لوگ منتخب کئے جائیں جلسہ گاہ کا ابھی سے مناسب انتظام کرلیں۔ اسی طرح جلسہ کے لئے منادی اور اعلان کے متعلق ابھی سے تیاری شروع کر دیں۔ اور یہ ذمہ اٹھائیں کہ وہ اپنے ماحول میں دو دو تین تین گائوں میں جلسے منعقد کرائیں گے۔۹۷
لیکچراروں کی فراہمی کا مسئلہ
اس ضمن میں مشکل ترین کام یہ تھا کہ ملک کے عرض و طول میں تقریر کرنے والے ایک ہزار لیکچرار مہیا اور تیار کئے جائیں۔ شروع شروع میں یہ کام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے سپرد فرمایا مگر ۱۴ / مارچ ۱۹۲۸ء کو اس کی نگرانی صیغہ ترقی اسلام کے سیکرٹری چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کے سپرد فرما دی۔۹۸
حضرت چوہدری صاحب نے ملکانہ تحریک کی طرح اس معاملہ میں بھی انتہائی مستعدی فرض شناسی اور فدائیت کا ثبوت دیا اور زبردست سعی و جدوجہد سے ہزار سے زیادہ یعنی چودہ سو انیس لیکچرار فراہم ہوگئے یہ لیکچرار وہ تھے۔ جن کے نام رجسٹر میں درج تھے ورنہ ۱۷ / جون کے مقررین تعداد میں اس سے بھی بہت زیادہ۔ یہاں زیادہ مناسب ہوگا۔ کہ چوہدری صاحب کے قلم سے ان مخلصانہ مساعی کا نقشہ پیش کر دیا جائے- فرماتے ہیں :
>۱۴ / مارچ کو میں نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لے کر مبلغین میں سے ایک صاحب کو اس کام کے لئے فارغ کر دیا۔ جس کے ساتھ عملہ دفتر دعوۃ و تبلیغ بھی بطور معاون کام کرتا رہا۔ لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اسلامی انجمنوں` اسلامیہ سکولوں` ائمہ مساجد علماء و سجادہ نشینان` ممبران ترقی اسلام ایڈیٹران اخبارات` ممبران لیجسلیٹو کونسلز واسمبلی اور ہندو معززین و تھیوسافیکل سوسائٹیوں سے خط و کتابت کی گئی اور اس کے علاوہ متعدد اسلامی اخبارات میں پے در پے تحریکات شائع کرنے کے ساتھ صوبجات بنگال` مدراس اور بمبئی کی انگریزی اخبارات میں لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اجرت پر اشتہارات دئیے گئے۔ ہندوستان کے علاوہ ممالک خارجہ انگلینڈ` نائجیریا` گولڈ کوسٹ` نیروبی و دیگر حﷺ افریقہ اور شام` ماریشس` ایران` سماٹرا` آسٹریلیا میں بھی مبلغین اور بعض دیگر احباب کو بھی خطوط لکھے گئے۔ ۱۷ / جون کے جلسہ سے چند دن قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا رقم فرمودہ ایک پوسٹر ۱۵ ہزار کی تعداد میں چھپوا کر ہندوستان کے تمام حصوں میں بھیجا گیا جس میں مسلمانوں کو ہر جگہ ۱۷ / جون کے دن جلسہ کرنے کی تحریک کی گئی۔ ہمارا مطالبہ تمام ہندوستان سے ایک ہزار لیکچرار مہیا کرنے کا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۶/ جون کو ممالک خارجہ اور ہندوستان کے لیکچراروں کی تعداد درج رجسٹر ۱۴۱۹ تھی۔ گویا مطالبہ سے ۴۱۹ زیادہ لیکچرار تھے۔ اور پھر خصوصیت اس میں یہ تھی کہ مختلف علاقوں سے ہمیں ۲۵ غیر مسلم لیکچرار اصحاب کے نام ملے۔ اگرچہ ۱۷ / جون کے دن غیر مسلم لیکچراروں کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی جو بروقت مقامی طور پر جلسوں میں بخوشی حصہ لینے کے لئے تیار ہوگئے۔ غرض لیکچراروں کے حصول میں ہمیں امید سے بڑھ کر کامیابی ہوئی<۔۹۹
لیکچراروں کی رہنمائی کے لئے مفصل نوٹوں کی طباعت اور الفضل کے >خاتم النبیین نمبر< کی اشاعت
جہاں تک لیکچراروں کو مواد فراہم کرنے کا تعلق تھا اس کے لئے حضرت چوہدری صاحب نے یہ انتظام فرمایا۔ کہ مجوزہ مضامین کے متعلق مفصل نوٹ تیار کرائے اور وہ )پانچ ہزار کی تعداد میں(
طبع کرا کے لیکچراروں کو بھجوا دئیے۔۱۰۰جس سے ان کو بہت مدد ملی۔ علاوہ بریں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر ادارہ >۔الفضل< نے پانچ روز قبل ۱۲ / جون ۱۹۲۸ء کو ۷۲ صفحات پر مشتمل نہایت شاندار ۔خاتم النبیین نمبر< شائع کیا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور دوسرے ممتاز بزرگان احمدیت و علماء سلسلہ۱۰۱اور احمدی مستورات۱۰۲کے علاوہ بعض مشہور غیر احمدی زعماء۱۰۳اور غیر مسلم اصحاب۱۰۴کے نہایت بلند پایہ مضامین تھے۔ آنحضرت~صل۱~ کی شان اقدس میں متعدد نعتیں۱۰۵ بھی شامل اشاعت تھیں جن میں سے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کا >سلام بحضور سید الانام< اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی نظم بعنوان >پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار< کو اپنوں اور بیگانوں میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ >خاتم النبیین نمبر< سات ہزار چھاپا گیا۔ جو چند روز میں ختم ہوگیا اور دوستوں کے اشتیاق پر دوبارہ شائع کیا گیا-۱۰۶
تحریک سے متعلق عجیب وغریب غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش
یہ تحریک تمام اقوام عالم کے لئے عموماً اور مسلمانوں کے لئے نہایت مفید و بابرکت تحریک تھی۔ لیکن تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم حلقوں میں شروع ہی سے اس کی مخالفت میں آواز اٹھائی گئی اور اس کے متعلق عجیب و غریب اعتراضات کئے گئے مثلاً بعض نے کہا یہ تحریک حکومت کے منشاء کے تحت اور حکومت سے تعاون کرنے کی تلقین کے لئے کی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان جلسوں میں چندہ جمع کیا جائے گا۔ بعض نے کہا کہ احمدی اس طرح اپنے عقائد کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور یہ تحریک خود غرضی پر مبنی ہے۔۱۰۷ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ مذہبی معاملہ میں غیر مسلم کیوں شریک کئے گئے۔
مخالفت کرنے والی جماعتوں میں سے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور` خلافت کمیٹی اور مسلم اخبارات میں سے اخبار >پیغام صلح< اور اخبار >زمیندار< نے تحریک کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ خلافت کمیٹی کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے تو آخر ملک اور عام پبلک کا رجحان اس تحریک کی طرف دیکھ کر اس سے عدم تعاون کی پالیسی ترک کر دی )سوائے چند جگہوں کے( لیکن احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے امیر۱۰۸اور اخبار >پیغام صلح< و >زمیندار< نے آخر دم تک مخالفت جاری رکھی۔ حتیٰ کہ ۱۷ / جون سے پہلے اور عین اس دن اکثر مقامات پر اس قسم کی تحریریں چھپوا کر شائع کیں جن کا نہایت برا اثر پڑ سکتا تھا۔
سیرت النبی کے کامیاب جلسوں کا روح پرور نظارہ
لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس عظیم الشان مہم کے پیچھے کام کر رہی تھی اس لئے یہ تمام کوششیں اکارت گئیں اور ہندوستان کے عرض و طول میں ۱۷ / جون کو نہایت تزک و احتشام سے یوم سیرت النبی منایا گیا۔ اور نہایت شاندار جلسے منعقد کئے گئے۔ اور ایک ہی سٹیج پر ہر فرقہ کے مسلمانون نے سیرت رسولﷺ~ پر اپنے دلی جذبات عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے تقریریں کیں۔ چنانچہ متعدد مقامی احمدیوں نے لیکچر دئیے مرکز سے قریباً پچاس کے قریب لیکچرار ملک کے مختلف جلسوں میں شامل ہوئے۔ بعض ممتاز احمدی مقررین کے نام یہ ہیں : حضرت میر محمد اسحاق صاحب` مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری۔۱۰۹مولوی محمد یار صاحب عارف` چوہدری ظفر اللہ خان صاحب` حضرت حافظ روشن علی صاحب` شیخ محمود احمد صاحب عرفانی` قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادم۔حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر۔ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق۱۱۰` پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم۔ اے اسلامیہ کالج کلکتہ۔ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور۔ حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر >فاروق< قادیان۔ مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر گورداسپور` مولوی محمد صادق صاحب۔ مولوی کرم داد صاحب دو المیال۔ مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل۔ مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی- قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری` حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری۔ مولوی ابوالبشارت عبدالغفور صاحب مولوی فاضل۔ ڈاکٹر شفیع احمد ایڈیٹر اخبار >زلزلہ< دہلی۔۱۱۱حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی۔ مولوی ظہور حسین صاحب۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی۔ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم۔ مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر۔ قریشی محمد حنیف صاحب اڑیسہ۔
دوسرے مسلمانوں میں سے تقریر کرنے والوں یا نظم پڑھنے والوں یا صدارت کرنے والوں میں کئی نمایاں شخصیتیں شامل تھیں۔ مثلاً ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری` مولوی مرزا احمد علی صاحب امرت سری` مولوی عبدالمجید صاحب قرشی اسسٹنٹ ایڈیٹر >تنظیم< امرت سر۔ مولوی صبغتہ اللہ صاحب فرنگی محلی لکھنئو۔ شاہ سلیمان صاحب پھلواری۔ شمس العلماء سید سبط حسن صاحب۔ سید حبیب صاحب مدیر >سیاست< لاہور۔ مولوی محمد بخش صاحب مسلم بی۔ اے لاہور۔ سید معین الدین صاحب صدر الصدور امور مذہبی سرکار آصفیہ حیدر آباد دکن۔ شیخ عبدالقادر صاحب ایم۔ اے۔ خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی۔ نواب ذوالقدر جنگ بہادر ہوم سیکرٹری ریاست حیدر آباد دکن۔ خان بہادر مخدوم سید صدر الدین صاحب ملتان۔ نواب سر عمر حیات خاں صاحب ٹوانہ۔ نواب صدر یار جنگ ناظم امور مذہبیہ ریاست حیدر آباد۔ خواجہ سجاد حسین صاحب بی۔ اے )خلف شمس العلماء مولوی الطاف حسین صاحب حالی( مسٹر محمود سہروردی صاحب ممبر کونسل آف اسٹیٹ دہلی۔
مسلمانوں کے علاوہ ہندو` سکھ` عیسائی` جینی اصحاب نے بھی آنحضرت~صل۱~ کی پاکیزہ سیرت` بیش بہا قربانیوں اور عدیم النظیر احسانات کا ذکر کیا۔۱۱۲ اور نہ صرف ان جلسوں میں بخوشی شامل ہوئے بلکہ کئی مقامات پر انہوں نے ان کے انعقاد میں بڑی مدد بھی دی۔۱۱۳جلسہ گاہ کے لئے اپنے مکانات دئیے` ضروری سامان مہیا کیا` سامعین کی شربت وغیرہ سے خدمت کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑے بڑے معزز اور مشہور لیڈروں نے جلسوں میں شامل ہو کر تقریریں کیں چنانچہ لاہور کے جلسہ میں لالہ بہاری لال صاحب انند ایم اے پروفیسر دیال سنگھ کالج اور لالہ امر ناتھ صاحب چوپڑہ بی۔ اے ایل ایل۔ بی نے دہلی کے جلسہ میں رائے بہادر لالہ پارس داس آنریری مجسٹریٹ اور لالہ گردھاری لال صاحب نے انبالہ میں مشہور کانگریسی لیڈر لالہ دنی چند صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل۔ بی نے تقاریر کیں مسٹر ایس کے بھٹہ چارجی نے سیدپور )بنگال( کے جلسہ کی اور مشہور لیڈر مسٹر ایس جے ہر دیال ناگ نے چاند پور کے جلسوں کی صدارت کی۔ بابو بنکا چندر سین صاحب بابو مکیتار سینا بھوش صاحب` بابو للت موہن صاحبان برہمن بڑیہ کے جلسہ میں شریک ہوئے۔ بنگال کے معزز لیڈر سر پی سی رائے صاحب کلکتہ کے جلسہ کے صدر تھے۔۱۱۴اور ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مانرو )یامورنیو( صاحب اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر` بنگال کے لیڈر بابو بپن چندر پال صاحب۔۱۱۵مشہور بنگالی مقرر مسز نیرا بھردبھا چکراورتی صاحب نے کلکتہ کے جلسہ میں بہت دلچسپ تقریریں کیں۔ رنگپور کے جلسہ میں بدہن رانجھن لاہری ایم۔ اے۔ بی ایل صاحب )مشہور اور بنگالی لیکچرار( نے ایک فصیح تقریر کی۔ مدراس میں وہاں کے مشہور اخبار جسٹس کے قابل ایڈیٹر صاحب نے جلسہ کی صدارت کی اور نہایت پر زور تقریر کی۔ بانکی پور میں مسٹر پی کے سین صاحب بیرسٹر سابق جج ہائیکورٹ پٹنہ اور بابو بلدیو سہائے صاحب ممبر لیجسلیٹو کونسل نے تقریریں کیں۔ بھاگلپور میں مشہور ہندو لیڈر بابو اننت پرشاد صاحب وکیل نے جلسہ کی صدارت کی۔ امرائوتی میں آنریبل سرجی ایس کھپارڈے صاحب ممبر کونسل آف سٹیٹ کی صدارت میں جلسہ منعقد ہوا۔ بنگلور میں مسٹر کے سیمپت گری رائو صاحب ایم۔ اے نے تقریر کی۔ حیدر آباد دکن کے جلسہ کے لئے راجہ سر کرشن پرشاد صاحب نے نعتیں بھیجیں` بہائونگر کاٹھیا واڑ کے جلسہ میں جناب کیپل رائے صاحب بی۔ اے بی ٹی نے تقریر کی جو کاٹھیا واڑ میں ایک ممتاز علمی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ سینکڑوں غیر مسلم معززین اور غیر مسلم تعلیم یافتہ خواتین بھی جلسوں میں شریک ہوئیں۔ اور دنیا کے سب سے بڑے محسن سب سے بڑے پاکباز اور سب سے بڑے ہمدرد کے متعلق اپنی عقیدت اور اخلاص کا اظہار کیا۔ یہ ایسا روح پرور نظارہ تھا جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اور جس کی یاد دیکھنے والوں کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔۱۱۶
ہندوستان کے علاوہ سماٹرا` آسٹریلیا` سیلون` ماریشس` ایران` عراق` عرب` دمشق )شام( حیفا )فلسطین( گولڈ کوسٹ )غانا( نائجیریا` جنجہ` ممباسہ )مشرقی افریقہ( اور لندن میں بھی سیرت النبیﷺ~ کے جلسے ہوئے۔۱۱۷اس طرح خدا کے فضل سے عالمگیر پلیٹ فارم سے آنحضرت~صل۱~ کی شان میں محبت و عقیدت کے ترانے گائے گئے اور سپین کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کی اس پیشگوئی کا ایک پہلو کہ آنحضرتﷺ~ کے مقام محمود کا ظہور حضرت امام مہدی کے ذریعہ سے ہوگا۔۱۱۸امام مہدی کے خلیفہ برحق کے زمانہ میں )جس کا نام خدائے ذوالعرش نے محمود رکھا تھا( پوری ہوگئیو لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا۔
جلسوں کی کامیابی پر تبصرے
مجالس سیرت النبیﷺ~ کی کامیابی ایسے شاندار رنگ میں ہوئی کہ بڑے بڑے لیڈر دنگ رہ گئے اور اخباروں نے اس پر بڑے عمدہ تبصرے شائع کئے۔ اور اس کی غیر معمولی کامیابی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو مبارکباد دی مثلاً :
اخبار مشرق
۱۔ اخبار مشرق گورکھپور )۲۱ / جون ۱۹۲۸ء( نے لکھا :
>ہندوستان میں یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس لئے کہ اس تاریخ میں اعلیٰ حضرت آقائے دو جہاں سردار کون و مکان محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ذکر خیر کسی نہ کسی پیرایہ میں مسلمانوں کے ہر فرقہ نے کیا۔ اور ہر شہر میں یہ کوشش کی گئی کہ اول درجے پر ہمارا شہر رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن اصحاب نے اس موقعہ پر تفرقہ و فتنہ پردازی کے لئے پوسٹر لکھے اور تقریریں لکھ کر ہمارے پاس بھیجیں وہ بہت احمق ہیں جو ہمارے عقیدے سے واقف نہیں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ body] g[taپر ایمان رکھے وہ ناجی ہے بہرحال ۱۷ / جون کو جلسے کی کامیابی پر ہم امام جماعت احمدیہ جناب مرزا محمود احمد کو مبارکباد دیتے ہیں اگر شیعہ و سنی اور احمدی اسی طرح سال بھر میں دو وچار مرتبہ ایک جگہ جمع ہو جایا کریں گے تو پھر کوئی قوت اسلام کا مقابلہ اس ملک میں نہیں کر سکتی<۔۱۱۹
اخبار >مخبر< )اودھ(
۲۔ >مخبر< اودھ نے >انسان اعظم حضرت رسول اکرم~صل۱~ کی سیرت پر شاندار لیکچر< اور >ہندوستان میں جلسے< کے دوہرے عنوان سے ایک مفصل مضمون شائع کیا۔ جس میں لکھا :
>دور حاضرہ کے مسلمانوں میں جماعت احمدیہ ایک پرجوش جماعت ہے جس کے زبردست لیکچروں کی آواز یورپ سے امریکہ تک گونج رہی ہے اور یہ ہر موقع پر معترضین اسلام کی تسلی کرنے کو آمادہ رہی ہے اس طبقہ نے بحث و مباحثہ کے ضمن میں بہترین خدمات انجام دئیے ہیں اور علم کلام میں جو عظیم الشان تبدیلیاں پیدا کی ہیں ان سے کسی انصاف پسند کو انکار نہیں۔ کچھ دنوں سے غیر اقوام کے مقررین اور جرائد و رسائل نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ حضرت نبی کریم~صل۱~ کے متعلق اپنے جلسوں میں ایسے حالات بیان کرتے ہیں جن کا مستند تواریخ میں پتہ نہیں اور اپنے اخبارات میں ان غلط روایات پر الٹی سیدھی رائے زنی کرتے ہیں جن سے سیرت نبویﷺ~ کا لٹریچر نا آشنا ہے جماعت احمدیہ نے اس بات کا بیڑہ اٹھایا کہ ۱۷ / جون کو ہندوستان کے ہر حصہ میں مسلمانوں کے عام جلسے کئے جائیں۔ جن میں آنحضرتﷺ~ کی سیرت مبارک پر شاندار لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں نہ صرف ہر فرقہ اسلامیہ کے ممتاز افراد شریک ہوں بلکہ غیر مذاہب کے اشخاص کو بھی دعوت دی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۷ / جون کو ہندوستان کے مشہور مقامات پر جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام شاندار جلسے ہوئے کلکتہ کے جلسہ میں اینگلو انڈین طبقہ کے معزز ممبر ڈاکٹر مورینو صاحب نے شریک ہو کر اس کے اغراض پر شادمانی کا اظہار کیا۔ بابو بپن چندر پال نے بھی اپنی تقریر میں اس کے مقاصد کو بہترین قرار دیا اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کامیاب بنانے میں کوشاں ہوں گے۔ لاہور میں سر عبدالقادر صاحب کے زیر صدارت جلسہ ہوا جس میں پروفیسر بہاری لال اور لالہ امر ناتھ صاحب ایڈووکیٹ نے آنحضرتﷺ~ کی خوبیاں بیان کیں۔ اگر برادران وطن اسی طرح اسلامی جلسوں میں پیغمبر اسلام کے کمالات اور پاک زندگی کی فضیلت ظاہر کرتے رہے تو جملہ مذاہب میں یگانگت پیدا ہو جائے گی<۔۱۲۰
اخبار >سلطان< کلکتہ
۳۔ کلکتہ کے ایک بنگالی اخبار >سلطان< )۲۱ / جون نے لکھا :
>جماعت احمدیہ نے ۱۷ / جون کو رسول کریم~صل۱~ کی سیرت بیان کرنے کے لئے ہندوستان بھر میں جلسے منعقد کئے ہمیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ تقریباً سب جگہ کامیاب جلسے ہوئے اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اس نواح میں احمدیوں کو ایسی عظیم الشان کامیابی ہوئی ہے کہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ روز بروز طاقتور ہو رہی ہے۔ اور لوگوں کے دلوں میں جگہ حاصل کر رہی ہے ہم خود بھی ان کی طاقت کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے متمنی ہیں<۔۱۲۱
اخبار >کشمیری< لاہور
۴۔ اخبار >کشمیری< لاہور )۲۸ / جون ۱۹۲۸ء( نے >۱۷ / جون کی شام< کے عنون سے یہ تبصرہ شائع کیا :
>مرزا بشیر الدین محمود احمد جماعت احمدیہ قادیان کے خلیفتہ المسیح کی یہ تجویز کہ ۱۷ / جون کو آنحضرت~صل۱~ کی پاک سیرت پر ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں لیکچر اور وعظ کئے جائیں باوجود اختلافات عقائد کے نہ صرف مسلمانوں میں مقبول ہوئی بلکہ بے تعصب امن پسند صلح جو غیر مسلم اصحاب نے ۱۷ / جون کے جلسوں میں عملی طور پر حصہ لے کر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ ۱۷ / جون کی شام کیسی مبارک شام تھی کہ ہندوستان کے ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر بہ یک وقت و بہ یک ساعت ہمارے برگزیدہ رسول کی حیات اقدس ان کی عظمت ان کے احسانات و اخلاق اور ان کی سبق آموز تعلیم پر ہندو مسلمان اور سکھ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ اگر اس قسم کے لیکچروں کا سلسلہ برابر جاری رکھا جائے تو مذہبی تنازعات و فسادات کا فوراً انسداد ہو جائے۔
۱۷ / جون کی شام صاحبان بصیرت و بصارت کے لئے اتحاد بین الاقوام کا بنیادی پتھر تھی ہندو اور سکھ مسلمانوں کے پیارے نبی کے اخلاق بیان کر کے ان کو ایک عظیم الشان ہستی اور کامل انسان ثابت کر رہے تھے۔ بلکہ بعض ہندو لیکچرار تو بعض منہ پھٹ معترضین کے اعتراضات کا جواب بھی بدلائل قاطع دے رہے تھے۔
آریہ صاحبان عام طور پر نفاق و فساد کے بانی بتائے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ یہی گروہ آنحضرت~صل۱~ کی مقدس زندگی پر اعتراض کیا کرتا ہے۔ لیکن ۱۷ / جون کی شام کو پانی پت` انبالہ اور بعض اور مقامات میں چند ایک آریہ اصحاب نے ہی حضورﷺ~ کی پاک زندگی کے مقدس مقاصد پر دل نشین تقریریں کر کے بتا دیا۔ کہ اس فرقہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسسرے مذاہب کے بزرگوں کا ادب و احترام اور ان کی تعلیمات کے فوائد کا اعتراف کر کے اپنی بے تعصبی اور امن پسندی کا ثبوت دے سکتے ہیں-
۱۷ / جون کی مبارک شام کو جن مقامات پر ہندو اور سکھ اصحاب نے ہمارے رسول پاک~صل۱~ کی شان میں نعتیں پڑھیں یا جلسوں کی صدارت کی یا اہل جلسہ کے لئے شربت کی سبیلیں لگائیں یا اپنی تقریروں میں آنحضرت~صل۱~ کو ان کی پاکیزہ تعلیم اور ان کے اعلیٰ اخلاق و فضائل کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا محسن ظاہر کیا۔ ان میں مقامات ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مردان` پانی پت` بہائونگر` مونگیر` حیدر آباد دکن` لاہور` امرت سر` دہلی` کبیر والا )ملتان( قلعہ شب قدر )سرحد( میانی` ڈیرہ دون` بانکی پور۔ سہسرام` گورداسپور` کھاریاں` امرائوتی` دھرگ )سیالکوٹ( دھرم کوٹ بگہ<۔۱۲۲
>اردو اخبار< ناگپور
۵۔ >اردو اخبار< ناگپور )۵ / جولائی ۱۹۲۸ء( نے >جمات احمدیہ کی قابل قدر خدمات< کی سرخی دے کر مندرجہ ذیل نوٹ لکھا :
>جماعت احمدیہ ایک عرصہ سے جس سرگرم سے اسلامی خدمات بجا لا رہی ہے وہ اپنے زریں کارناموں کی بدولت محتاج بیان نہیں ہے یورپ کے اکثر ممالک میں جس عمدگی کے ساتھ اس نے تبلیغی خدمات انجام دیں اور دے رہی ہے سچ یہ ہے کہ یہ اسی کا کام ہے پچھلے دنوں جبکہ یکایک شدھی کا ایک طوفان عظیم امنڈ آیا تھا۔ اور جس نے ایک دو آدمیوں کو نہیں بلکہ گائوں کے گائوں مسلمانوں کو متاثر بنا کر مرتد کرلیا تھا۔ یہی ایک جماعت تھی جس نے سب سے پہلے سینہ سپر ہو کر اس کا مقابلہ کیا اور وہ کچھ خدمات انجام دیں اور کامیابی حاصل کی کہ دشمنان اسلام انگشت بدنداں رہ گئے۔ اور ان کے بڑھے ہوئے حوصلے پست ہوگئے۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ واقع ہے کہ جس ایثار و انہماک سے یہ مختصر سی جماعت اسلام کی خدمت انجام دے رہی ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے اور بلاشبہ اس کے یہ تمام کارنامے تاریخی صفحات پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں پچھلے دنوں اس کی یہ تحریک کہ حضور سرور کائنات~صل۱~ کی سیرت پر ۱۷ / جون کو ہندوستان کے ہر مقام پر عام مجمع میں جس میں مسلم وغیرمسلم دونوں شامل ہوں تقریریں کی جائیں اور جس کے لئے اس نے صرف تحریک ہی پیش نہیں کی بلکہ صدہا روپے بھی خرچ کرکے مقررین کے لئے ہزارہا کی تعداد میں لیکچرز طبع کراکر مفت تقسیم کئے۔ اور جس کا اثر یہ ہوا کہ 17۔ جون کو مسلم اور غیر مسلم دونوں جماعتوں نے شاندار جلسے کر کے سیرت نبویﷺ~ پر کمال حسن و خوبی سے اظہار خیالات کئے ہمارا تو خیال ہے کہ اگر اس تحریک پر آئندہ بھی برابر عمل کیا گیا تو یقیناً وہ ناپاک حملے جو آج برابر غیر مسلم اقوام ذات فخر موجودات پر کرتی رہتی ہیں ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے۔ اور وہ ناگوار واقعات جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں اس مبارک تحریک کی بدولت نیست و نابود ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس شاندار کامیابی پر حضرت امام جماعت احمدیہ مدظلہ کی خدمت میں دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اور یقین دلاتے ہیں کہ آپ کی اس مبارک تحریک نے مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک مرکز پر کھڑا کر کے اتحاد کا عجیب و غریب سبق دیا ہے<۔۱۲۳
اخبار >پیشوا< دہلی
۶۔ اخبار >پیشوا< دہلی )۸ / جولائی ۱۹۲۸ء( نے ۱۷ / جون کے جلسوں کی کامیابی پر خوشی اور اس کے مخالفین پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا :
>۱۷ / جون کو قادیانی جمات کے زیر اہتمام تمام ہندوستان میں فخر کائنات کی سیرت پر ہندوستان کے ہر خیال اور ہر طبقہ کے باشندوں نے لیکچر دئیے اور خوشی کا مقام ہے کہ مسلمان اخبارات۱۲۴نے سوائے زمیندار اور الجمعیت اور الانصار کے متفقہ طور سے ان جلسوں کی کامیابی میں حصہ لیا۔ مگر افسوس کہ علماء دیوبند نے ذکر رسول کی مخالفت اس لئے کی کہ ان کو قادیانی عقائد سے اختلاف ہے<۔۱۲۵
>حالانکہ مجھے ذاتی طور سے علم ہے کہ جناب مولانا کفایت اللہ صاحب سے )جو دیوبندی علماء میں بہت سمجھدار عالم مانے جاتے ہیں( جب ایک قادیانی بھائی نے دہلی کے جلسہ کی صدارت کے لئے درخواست کی اور مولانا نے انکار کیا تو انہی قادیانی بھائی نے عرض کیا کہ جناب ہم کو کافر سمجھ کر جلسہ کی صدارت اس طرح قبول کیجئے۔ کہ اپنے معتقدات کے خلاف کسی کو بولنے کی اجازت نہ دیجئے۔ کیا اس جلسہ میں جو ذکر رسالت پناہ کے لئے کوئی غیر مسلم کرے شریک نہ ہوں گے؟ اس معقول درخواست کا جواب مفتی صاحب نے یہ دیا کہ میں آپ سے بحث نہیں کرنی چاہتا۔ اور نہ میں آپ کے جلسہ میں کسی حال میں شریک ہوں گا<۔ ۱۲۶
>مجھے بے حد افسوس ہے کہ زمانہ نے ابھی علماء کی آنکھین نہیں کھولیں اور ان کی تنگ نظری کی ذہنیت ابھی تبدیل نہیں ہوئی۔ قادیانی عقائد کا جہاں تک تعلق ہے میں ان کے ایک ایک حرف سے اختلاف رکھتا ہوں مگر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ مسلمان سناتن دھرم` جین دھرم بدھ دھرم اور خدا معلوم کیا کیا مت کے پیروئوں کو ہندو سنگٹھن کی تحریک میں جو خالص آریہ سماجی تحریک ہے مدغم دیکھ کر اپنے بھولے ہوئے سبق اتحاد بین المسلمیں کو یاد کرنے کے لئے واعتصموا بحبل اللہ اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑیں۔ اور جزوی اختلافات کو پس پشت ڈال کر دشمنوں کو ناخوش اور دوستوں کو خوش کرنے کے لئے نہیں بلکہ عزت کی زندگی بسر کرنے کے لئے متحد ہو جائیں میرا خیال ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمان معتقدات کی جزئیات سے آزاد ہوکر اتحاد اسلام کے لئے تیار ہیں مگر ملت اسلام کی اس زبردست تنظیم میں خودپرست اور غرض مند ملا اسلام کی آڑ لے کر حارج ہوتے ہیں جن کو اسلامی تعلیم سے ذرہ برابر واسطہ نہیں اس لئے ضرورت ہے کہ غرض مند ملائوں سے مسلمانوں کو بچایا جائے<۔۱۲۷
جلسوں کے عظیم الشان فوائد
سیرت النبیﷺ~ کے جلسوں نے ملک کے عرض و طول میں ایک اتحاد و اتفاق اور محبت و آشتی کی ایک نئی روح پھونک دی اور اس سے ملک کو کئی فوائد حاصل ہوئے۔ چنانچہ
پہلا فائدہ : یہ ہوا کہ ہندوستان کے مختلف گوشوں کے ہزار ہا افراد نے وہ لٹریچر پڑھا جو آنحضرت~صل۱~ کے مقدس حالات پر شائع کیا گیا تھا۔
دوسرا فائدہ : یہ ہوا کہ ممتاز غیر مسلموں نے جن میں ہندو سکھ عیسائی سب شامل تھے آنحضرت~صل۱~ کی خوبیوں کا علی الاعلان اقرار کیا۔ اور آپﷺ~ کو محسن اعظم تسلیم کیا۔
تیسرا فائدہ : یہ ہوا کہ بعض ہندو لیڈروں نے آنحضرت~صل۱~ کی صرف تعریف و توصیف ہی نہیں کی۔ بلکہ ان پر آپﷺ~ کے حالات سن کر اتنا اثر ہوا۔ کہ انہوں نے کہا ہم آپ کو نہ صرف خدا کا پیارا سمجھتے ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر اعلیٰ انسان یقین کرتے ہیں کیونکہ آپ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ محفوظ ہے مگر دوسرے مذہبی راہنمائوں کی زندگی کا کوئی پتہ نہیں لگتا۔
چوتھا فائدہ : یہ ہوا کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو ایک مشترک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقعہ مل گیا اور ہر فرقہ کے لوگوں نے نہایت اخلاص اور جوش سے متحدہ طور پر ان جلسوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ خصوصاً شیعہ اصحاب نے ہر جگہ اور ہر مقام پر جس طرح اتحاد عمل کا ثبوت دیا۔ وہ نہایت ہی قابل تعریف تھا۔ اہلسنت و الجماعت مسلمانوں نے بھی حتی الامکان پوری امداد دی اہلحدیث نے بھی ان کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ سنی علماء میں سے فرنگی محل لکھنئو کے علماء خاص طور پر قابل ذکر تھے۔ اگرچہ بعض مقامات پر بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے مخالفت بھی ہوئی۔ لیکن اکثر مسلمانوں نے بہت شاندار خدمات سر انجام دیں۔ اور بعض جگہ تو ان کی مساعی اس قدر بڑھی ہوئی تھیں۔ کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں انہوں نے احمدیوں سے بھی زیادہ کام کیا۔ مثلاً امرت سر` لکھنئو` مدراس` پٹنہ وغیرہ مقامات میں دوسرے فرقوں کے مسلمانوں نے جلسوں کو کامیاب بنانے میں نہایت قابل تعریف کام کیا۔ اور دہلی لاہور اور پشاور وغیرہ مقامات میں بھی بڑی امداد دی۔
پانچواں فائدہ : یہ ہوا کہ پبلک پر یہ بات کھل گئی کہ ہندوئوں کا ایک بڑا طبقہ بانی اسلام کے خلاف ناپاک لٹریچر کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور بانی اسلام کو دنیا کا بہت بڑا مصلح تسلیم کرتا ہے۔
چھٹا فائدہ : یہ ہوا کہ بعض مقامات کے لوگوں نے لیکچروں کو اتنا مفید اور موثر پایا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ پندرہ روزہ یا ماہوار یا سہ ماہی یا ششماہی ایسے جلسے ہوا کریں۔ ایک جگہ ایک مسلمان رئیس نے کہا کہ آج تک ہم مسلمانوں کا ایمان رسول اللہ~صل۱~ کی نسبت ورثہ کا تھا اب آپﷺ~ کے حالات زندگی سن کر ایمان کامل حاصل ہوا۔ بعض غیر مسلم اصحاب نے بھی کہا کہ >ہمیں علم نہ تھا کہ بانی اسلام میں ایسے کمالات ہیں اب معلوم ہوا ہے کہ وہ بے نظیر انسان تھے<۔
ساتواں فائدہ : ان جلسوں کا یہ ہوا کہ اس سے ملکی اتحاد پر نہایت خوشگوار اثر پڑا۔ اور یہ ایسی واضح حقیقت تھی کہ بعض مشہور مسلم و غیر مسلم لیڈروں نے اس کا اقرار کیا۔ چنانچہ سر شیخ عبدالقادر صاحب نے لاہور کے جلسہ کی صدارتی تقریر میں حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حاضرین کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔ >یہ مبارک تحریک نہایت مفید ہے جس سے ہندوستان کی مختلف اقوام میں رواداری پیدا ہو کر باہمی دوستانہ تعلقات پیدا ہوں گے اور ملک میں امن و اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے<۔ کلکتہ میں سر پی سی رائے صاحب نے بحیثیت صدر تقریر کرتے ہوئے کہا >ایسے جلسے جیسا کہ یہ جلسہ ہے ہندوستان کی مختلف اقوام میں محبت اور اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں<۔ اسی طرح اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر ڈاکٹر ایچ بی مانروا صاحب نے کہا۔ >میں نے باوجود اپنی بے حد مصروفیتوں کے اس جلسہ میں آنا ضروری سمجھا کیونکہ اس قسم کے جلسے ہی اس اہم سوال کو جو اس وقت ہندوستان کے سامنے ہے )یعنی ملک کی مختلف اقوام میں اتحاد( صحیح طور پر حل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور اسلام میں متحد کرنے کی طاقت ایک تاریخی بات ہے غرضکہ ہندو مسلم اور عیسائی لیڈروں نے تسلیم کیا کہ اقوام ہند میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے جلسے نہایت مفید ہیں۔۱۲۸
سیرت النبیﷺ~ کے شاندار جلسوں کی تفصیلات پر روشنی ڈالنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض دوسرے امور کو جن کا ذکر ابھی تک اجمالی صورت میں آیا ہے مزید وضاحت کے ساتھ کر دیا جائے۔
قادیان میں جلسہ سیرت النبیﷺ~
جماعت احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے قادیان کا جلسہ اپنے اندر مرکزی شان رکھتا تھا۔ جس میں احمدی اصحاب کے علاوہ غیر احمدی مسلمان` ہندو` سکھ اور عیسائی لوگ بڑی کثرت سے شامل ہوئے جلسہ گاہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سامنے کھلے میدان میں شامیانے نصب کر کے بنائی گئی۔ جس میں دلاویز قطعات آویزاں تھے اور جسے اچھی طرح سجایا گیا تھا عورتوں کے لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں جلسہ کا علیحدہ انتظام تھا۔ جو حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی صدارت میں بڑی کامیابی سے ہوا۔ شائع شدہ پروگرام کے مطابق صبح ایک جلوس مرتب کیا گیا جو قریباً دس پارٹیوں پر مشتمل تھا۔ غیر احمدی مسلمانوں کی الگ پارٹیاں تھیں اور ایک پارٹی جاوی اور سماٹری طلبہ کی تھی جو حضرت مسیح موعودؑ کا عربی نعتیہ کلام پڑھ رہی تھی باقی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اردو نظمیں اور ہندو شعراء کی نعتیں پڑھ رہی تھیں۔ یہ شاندار جلوس ۷ بجے کے قریب تعلیم الاسلام ہائی سکول کے میدان سے روانہ ہوا۔ اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے گذر کر دارالعلوم کی سڑک پر سے ہوتا ہوا ہندو بازار میں آیا۔ اور چوک سے غربی جانب مڑ کر اور دوسرے بازار سے ہوتا ہوا احمدیہ بازار میں پہنچا جلوس کی پارٹیاں نعتیہ اشعار اور درود خوش الحانی اور بلند آواز سے پڑھ رہی تھیں اس جلوس کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے زیر نگرانی مقامی سیکرٹری تبلیغ ملک فضل حسین صاحب مہاجر کے سپرد تھا۔ ۱۲۹اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے افراد اور بزرگ اس میں شامل تھے۔ جلوس محلہ دارالفضل والی سڑک کے راستہ جلسہ گاہ میں پہنچ کر ختم ہوگیا۔
جلسہ گاہ میں سب سے پہلے بچوں کا اجلاس ہوا جس کا صدر بھی ایک چھوٹا لڑکا مقرر ہوا۔ اور جس میں پریذیڈنٹ کے علاوہ بیس طلباء نے آنحضرت~صل۱~ کے وہ احسانات بیان کئے جو براہ راست بچوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض بچوں کی تقریروں سے خوش ہو کر حکیم محمد عمر صاحب نے نقد انعامات دئیے ایک بچہ نے جسے دو روپے انعام ملا تھا انعام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ روپے ترقی اسلام کی مد میں دے دئیے۔ اس پر اسے ایک روپیہ اور انعام دیا گیا مگر اس نے وہ بھی اشاعت اسلام میں دے دیا۔
بچوں کے اجلاس کے بعد چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کی صدارت میں جامعہ احمدیہ مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے بڑے طلباء کی تقریریں ہوئیں۔ اور اجلاس کھانے اور نماز کے لئے برخاست ہوا۔
نماز ظہر کے بعد پھر اجلاس ہوا۔ جس میں جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول کے ایک ایک طالب علم کی تقریروں کے بعد مشاعرہ ہوا۔ اور مقامی شعراء کی سات نظموں کے علاوہ ہندو شعراء کی دو نعتیں بھی خوش الحانی سے پڑھی گئیں مشاعرہ کے اختتام پر پہلے ڈاکٹر گور بخش سنگھ صاحب ممبر سمال ٹائون کمیٹی قادیان نے آنحضرت~صل۱~ کی سیرت پر روشنی ڈالی اور پھر چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے حضورﷺ~ کی سیرت مقدسہ کی خصوصیات بیان کیں اور اجلاس نماز عصر کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تقریر
ساڑھے پانچ بجے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی پر معارف تقریر >دنیا کا محسن< کے عنوان سے شروع ہوئی۔ اس تقریر میں حضور نے آنحضرت~صل۱~ کی پاکیزہ سیرت` بیش بہا احسانات اور عدیم المثال قربانیوں کا نہایت ہی مدلل پاکیزہ اور اچھوتے طرز میں ذکر فرمایا۔ اور دلائل و واقعات کی بناء پر ان اعتراضوں کا بھی اصولی رنگ میں جواب دیا۔ جو حضور کی مقدس زندگی پر کئے جاتے ہیں- یہ تقریر آٹھ بجے ختم ہوئی۔ اور حضور نے دعا کے بعد جلسہ کا اختتام فرمایا۔ ۱۳۰حضور کا یہ لیکچر بہت مقبول ہوا اور اس کا پہلا ایڈیشن جو پانچ ہزار ۱۳۱کی تعداد میں شائع کیا گیا بہت جلد ختم ہوگیا اور اسے دوبارہ چھپوانا پڑا۔ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے نے اس لیکچر کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو ریویو آف ریلیجنز )انگریزی( میں بھی شائع ہوگیا۔۱۳۲
]0 [stfانعامات لینے والے غیر مسلم
اوپر ذکر آ چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اعلان کیا گیا تھا کہ جو غیر مسلم سیرت النبیﷺ~ پر مضمون بھیجیں گے ان میں سے درجہ اول و دوم و سوم کو انعامات تقسیم کئے جائیں گے۔ اس وعدہ کے مطابق درجہ اول کا انعام رائے بہادر لالہ پارس داس صاحب آنریری مجسٹریٹ دہلی کو درجہ دوم کا انعام بھائی گیانی کرتا سنگھ صاحب ساکن کھاریاں ضلع گجرات کو اور درجہ سوم کا انعام لالہ بھگت رام صاحب جیودیا پرچارک چھائونی فیروز پور نے حاصل کیا۔۱۳۳دراصل انعام کا اعلان کرتے ہوئے یہ خیال کیا گیا تھا کہ غریب طبقہ کے لوگ اس تحریک میں حصہ لیں گے اس لئے انعام کی رقم بھی مقرر کر دی تھی مگر خدا کے فضل سے اس تحریک میں دس۱۳۴بڑے بڑے معزز لوگوں نے حصہ لیا اور سب سے اول انعام جسے ملا وہ آنریری مجسٹریٹ اور بہت معزز آدمی تھے اس لئے اس رقم کو تحفہ کی صورت میں بدلنا پڑا۔
آنحضرتﷺ~ کے خاتم النبیین ہونے پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا حلفیہ بیان 0] ft[r
مسلم اخبارات نے سیرت النبیﷺ~ کے جلسوں کے مخالفین پر سخت تنقید کی تھی۔ مگر یہ اصحاب اپنی روش کو بدلنے پر آمادہ نہ ہوئے اور
انہوں نے اپنے تئیں حق بجانب ثابت کرنے کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کے خلاف اپنا یہ الزام پھر دہرایا کہ دراصل آپ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ لہذا ان کا یوم خاتم النبین منانا دنیاکو دھوکہ دینا ہے۔۱۳۵اس افسوسناک غلط فہمی کے پھیلانے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۳ / اگست ۱۹۲۸ء کے الفضل میں مفصل مضمون شائع کیا۔ جس میں آنحضرت~صل۱~ کے خاتم النبیین ہونے پر مندرجہ ذیل حلفیہ بیان شائع فرمایا۔
>میں رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبیینﷺ~ یقین کرتا ہوں اور اس پر میرا ایمان ہے قرآن شریف کے ایک ایک شوشہ کو میں صحیح سمجھتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ اس میں کسی قسم کا تغیر ناممکن ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو منسوخ قرار دیں یا اس کی تعلیم کو منسوخ قرار دیں میں انہیں کافر سمجھتا ہوں میرے نزدیک رسول کریم~صل۱~ خاتم النبیین ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میرا یہی عقیدہ ہے اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ موت تک اس عقیدہ پر قائم رہوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے محمد رسول اللہ~صل۱~ کے خدام کے زمرہ میں کھڑا کرے گا اور میں اس دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی غلیظ سے غلیظ قسم کھاتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ اگر میں دل میں یا ظاہر میں رسول کریم~صل۱~ کے خاتم النبیین ہونے کا منکر ہوں اور لوگوں کو دکھانے کے لئے اور انہیں دھوکہ دینے کے لئے ختم نبوت پر ایمان ظاہر کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی *** مجھ پر اور میری اولاد پر ہو اور اللہ تعالیٰ اس کام کو جو میں نے شروع کیا ہوا ہے تباہ و برباد کر دے۔ میں یہ اعلان آج نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ میں نے اس عقیدہ کا اعلان کیا ہے اور سب سے بڑا ثبوت اس کا یہ ہے کہ میں بیعت کے وقت ہر مبائع سے اقرار لیتا ہوں کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبیین یقین کرے گا۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب۱۳۶یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو نبی مانتا ہوں اس لئے ثابت ہوا کہ میں رسول کریم~صل۱~ کے خاتم النبیین ہونے کا منکر ہوں کیونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا نبی ہرگز نہیں مانتا کہ ان کے آنے سے رسول کریم~صل۱~ کی نبوت ختم ہوگئی ہو۔ اور آپ کی شریعت منسوخ ہوگئی ہو بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے اور ہر ایک جس نے میری کتب کو پڑھا ہے یا میرے عقیدہ کے متعلق مجھ سے زبانی گفتگو کی ہے جانتا ہے کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو رسول کریم~صل۱~ کا ایک امتی مانتا ہوں اور آپ کو رسول کریم~صل۱~ کی شریعت اور آپﷺ~ کے احکامات کے ایسا ہی ماتحت مانتا ہوں جیسا کہ اپنے آپ کو یا کسی اور مسلمان کو بلکہ میرا یہ یقین ہے کہ مرزا صاحب رسول کریم~صل۱~ کے احکامات کے جس قدر تابع اور فرمانبردار تھے اس کا ہزارواں حصہ اطاعت بھی دوسرے لوگوں میں نہیں ہے اور آپ کی نبوت ظلی اور تابع نبوت تھی۔ جو آپ کو امتی ہونے سے ہرگز باہر نہیں نکالتی تھی۔ اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ آپ کو جو کچھ ملا تھا وہ رسول کریم~صل۱~ کے ذریعہ اور آپ کے فیض سے ملا تھا۔ پس باوجود اس عقیدہ کے میری نسبت یہ کہنا کہ میں چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتا ہوں اس لئے گو منہ سے کہوں کہ رسول کریم~صل۱~ خاتم النبیین ہیں میں جھوٹا اور دھوکہ باز ہوں۔ خود ایک دھوکہ ہے۔۱۳۷body] ga[t
حضور نے اپنے اس مضمون کے آخر میں لکھا :
>حق یہ ہے کہ گو ہم میں سے ہر ایک کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے کی نسبت یہ کہہ دے کہ اس کا عقیدہ حقیقت ختم نبوت کے منافی ہے لیکن جو شخص کہتا ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی فرقہ بھی ایسا ہے کہ وہ ختم نبوت کا ایسے رنگ میں منکر ہے کہ اس کا حق ہی نہیں کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے مل کر
tav.5.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
رسول کریم~صل۱~ کی عظمت کے قیام کے لئے کوشش کر سکے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔۱۳۸
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کا یہ عقیدہ تھا کہ غیر احمدی اصحاب ختم نبوت کے منکر ہیں۔ اور یہ کہ نئے اور پرانے نبی کی آمد کے عقیدوں میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے رسالہ >دعوۃ عمل< میں لکھا تھا۔
>قرآن شریف تو نبوت کو آنحضرت~صل۱~ پر ختم کرتا ہے مگر مسلمانوں نے اس اصولی عقیدہ کے بالمقابل یہ خیال کر لیا کہ ابھی آنحضرت~صل۱~ کے بعد حضرت عیسیٰؑ جو نبی ہیں۔ وہ آئیں گے اور یہ بھی نہ سوچا کہ جب نبوت کا کام تکمیل کو پہنچ چکا اور اسی لئے نبوت ختم ہو چکی تو اب آنحضرت~صل۱~ کے بعد کوئی نبی کس طرح آ سکتا ہے خواہ پرانا ہو یا نیا۔ نبی جب آئے گا نبوت کے کام کے لئے آئے گا۔ اور جب نبوت کا کام ختم ہوگیا تو نبی بھی نہیں آ سکتا پرانے اور نئے سے کچھ فرق نہیں پڑتا<۔
پھر لکھا :
>مسلمانوں نے عقیدہ بنالیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنہوں نے آنحضرت~صل۱~ سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ اس امت کے معلم بنیں گے اور یوں آنحضرت~صل۱~ کی شاگردی سے یہ امت نکل جائے گی۔ >)دعوت عمل< صفحہ ۱۲۔۱۳ شائع کردہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور(
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ اقتباس درج کرنے کے بعد مندرجہ بالا مضمون میں تحریر فرمایا :
>اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اول مولوی صاحب کے نزدیک عام مسلمانوں کا عقیدہ ختم نبوت کے عقیدہ کے مقابل پر ہے یعنی متضاد اور مخالف ہے دوم مولوی صاحب کے نزدیک یہ عقیدہ کہ کوئی پرانا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی نیا نبی آئے گا دونوں میں کچھ فرق نہیں یہ دونوں عقیدے عملاً۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم نبوت کے عقیدہ کو رد کرنے والے ہیں سوم مسلمانوں کے عقیدہ نزول مسیح کے رو سے امت محمدیہ امت محمدیہ نہ رہے گی۔ یعنی رسول کریم~صل۱~ کی نبوت ختم ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ غضب نہیں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تو مولوی صاحب کے نزدیک تمام مسلمان ختم نبوت کے منکر تھے۔ اور ان کے عقائد امت محمدیہ کو آنحضرتﷺ~ کی امت سے نکال رہے تھے لیکن ۱۷ / جون کے جلسہ کی تحریک کا ہونا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ سب مسلمان تو ختم نبوت کے قائل ہیں اور یہ مبائع احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں<۔۱۳۹
۱۹۲۹ء کے ایک اشتہار کا نمونہ
دنیا کا محسن
>کسی اہل بصیرت مسلمان سے پوشیدہ نہیں کہ فی زمانہ کچھ ہماری غفلتوں اور علمی و عملی کمزوریوں کے باعث اور کچھ مخالف کے خلاف واقعہ طرز عمل کے ماتحت امام المتقین سید المعصومین حضرت محمد رسول اللہ~صل۱~ کی پاک سیرت نہ صرف دوسرے اہل مذہب بلکہ خود مسلمانوں کی آنکھوں سے بھی اوجھل ہو چکی ہے۔ اس لئے اشد ضرورت اس بات کی ہے۔ کہ حضور سرور عالمﷺ~ کی سیرت صحیحہ سے دنیا جہان والوں کو آگاہ کیا جاوے۔ تاکہ وہ حقیقت کو پاکر اتباع ظن کے گناہ اور اس کے زہر سے محفوظ ہو جاویں۔
اسی غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ سال حضرت امام جماعت احمدیہ نے یہ مبارک تحریک کی تھی۔ کہ ایک ہی تاریخ مقررہ پر ہندوستان کے گوشے گوشے میں جلسے منعقد کر کے آنحضرتﷺ~ کی پاکیزہ زندگی حضورﷺ~ کے دنیا پر احسانات اور آپﷺ~ کی قربانیاں قرآن کریم اور صحیح تاریخ سے بیان کی جائیں۔ چنانچہ یہ تحریک بڑی حد تک کامیاب اور مفید ثابت ہوئی۔
توکل کرتے ہوئے امسال یہ ایک مزید تجویز کی گئی ہے۔ کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ممالک غیر یورپ۔ امریکہ۔ افریقہ وغیرہ وغیرہ میں بھی ۲ / جون ۱۹۲۹ء کو ایسے جلسے منعقد کئے جائیں اسی دن تمام دنیا میں مختلف زبانوں میں آنحضرتﷺ~ کی پاک سیرت پر لیکچر ہوں۔
پس اسی اصول پر انتظام کیا گیا ہے۔ کہ جہلم میں ۲ / جون ۱۹۲۹ء کو بوقت پانچ بجے شام بمقام حویلی گہاٹ ایک جلسہ زیر صدارت جناب میجر نواب ملک طالب مہدی خان صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر منعقد ہوگا۔ جس میں مسلم۔ اور غیر مسلم اصحاب دو مضامین یعنی
)۱( >رسول کریمﷺ~ کا غیر مذاہب سے معاملہ بلحاظ تعلیم و تعامل<۔
)۲( توحید باری تعالیٰ کے متعلق رسول کریمﷺ~ کی تعلیم<
پر لیکچر دیں گے۔ امید ہے کہ رواداری اور وسیع النظری سے کام لے کر ہر علمی مذاق کا شائق طبقہ جلسہ میں شامل ہو کر اپنی بہتری اور بہبود کے ذرائع پر غور کرے گا۔
ان جلسوں کی غرض و غایت یہ ہے کہ لیکچروں اور خوش آئند تقریروں کے ذریعہ لاکھوں ان پڑھ یا غفلت اور سستی کی وجہ سے خود مطالعہ سے معذور مسلمان اس دن تھوڑا سا وقت صرف کر کے رسول کریمﷺ~ کی ذات والا صفات کے متعلق کافی واقفیت حاصل کرلیں گے۔ اور ضمناً غیر مسلم صاحبان پر جب آنحضرتﷺ~ کے صحیح حالات واضح ہوں گے تو سلیم الفطرت اور شریف الطبع اصحاب اپنے ایسے ہم مذہبوں کو جو تعصب سے اندھے ہو رہے ہیں گالیاں دینے سے روکیں گے۔ اسی طرح بعض مفسد جو رسول کریمﷺ~ کی شان میں خلاف واقعہ اور گندے مضامین لکھ لکھ کر آئے دن ملک کا امن برباد کر رہے ہیں۔ اپنے کئے پر پشیمان ہو کر آئندہ کے لئے اصلاح پا جائیں گے۔ اور ہندو مسلم اتحاد کے راستہ سے جس کے بغیر ملک کی ترقی سراسر محال ہے۔ ایک بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی۔
المشتہرین
>مولوی< محمد اکرم خان بیرسٹر ایٹ لاء و گورنمنٹ ایڈووکیٹ جہلم
>مستری عبدالرحمن میونسپل کمشنروپریذیڈنٹ اہلحدیث جہلم<
>چوہدری< ذکاء اللہ خان ایم اے۔ ایل ایل۔ بی پلیڈر جہلم
>شیخ عمر بخش متولی مسجد خانساماں جہلم
>پنڈت< عبدالقادر بی۔ اے آرنرز بیرسٹر ایٹ لاء جہلم
>شیخ محمد حسین میونسپل کمشنر جہلم
>چوہدری فیروز الدین بی۔ اے ایل ایل بی پلیڈر جہلم
>حکیم جمشید علی خان پریذیڈنٹ انجمن امامیہ جہلم
>شیخ محمد شفیع بی اے ایل ایل بی پلیڈر جہلم
>ڈاکٹر نذر محمد میڈیکل پریکٹیشنر و پریذیڈنٹ خلافت کمیٹی جہلم
شیخ بشیر علی بی۔ اے` ایل ایل بی پلیڈر جہلم
>حافظ نور محمد میونسپل کمشنر و پریذیڈنٹ اہل السنت والجماعت جہلم
فصل سوم
سفر ڈلہوزی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پہلی بار امیر مقامی مقرر ہونا
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی بحالی صحت کے لئے عموماً ہر سال کسی صحت افزا مقام کی طرف تشریف لے جایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس
سال بھی حضور ۲۱ / جون ۱۹۲۸ء کو ڈلہوزی تشریف لے گئے اور حضور نے اپنے بعد پہلی بار حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو امیر مقامی مقرر فرمایا۔۱۴۰ اس موقعہ پر حضرت میاں صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ >میں اپنی بہت سی کمزوریوں کی وجہ سے اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں<۔ مگر حضور نے اپنے فیصلہ میں تبدیلی مناسب نہ سمجھی اور یہ بار آپ ہی کو اٹھانا پڑا۔
اپنے زمانہ امارت میں آپ کو بعض احباب کی طرف سے ایسی درخواستیں موصول ہوئیں کہ فلاں ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے اسے منسوخ کیا جائے یا مجلس معتمدین کا فلاں ریزولیوشن قابل منسوخی ہے یا یہ کہ فلاں معاملہ میں یہ حکم جاری کیا جائے حالانکہ وہ ایسا معاملہ تھا جس میں صرف ناظر متعلقہ یا مجلس یا خلیفہ وقت ہی حکم صادر فرما سکتے تھے۔
اس قسم کی باتوں سے آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ابھی تک جماعت کو مقامی امیر کی پوزیشن کا صحیح علم نہیں ہے لہذا آپ نے ایک مفصل اعلان شائع کیا جس میں احباب کی اس غلط فہمی کا ازالہ کر کے پوری وضاحت فرمائی کہ مقامی امیر اگرچہ اپنے حلقہ میں حضرت امام کا قائم مقام ہوتا ہے۔ مگر اس کی پوزیشن ایسی ہے` جیسے کہ دوسرے مقامات کے مقامی امیروں کی ہوتی ہے۔ گو مرکز کی اہمیت کی وجہ سے اس کی ذمہ داری دوسرے امراء سے زیادہ ہے لیکن بہرحال وہ ایک مقامی امیر ہے جو ناظران سلسلہ ہی کے ماتحت ہوتا ہے اس کا حلقہ امارت صرف مرکزی جماعت تک ہے دوسری جماعتوں کے ساتھ اس کا کوئی انتظامی تعلق نہیں ہوتا۔۱۴۱
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۱۹۲۸ء کے بعد بھی کئی بار امیر مقامی مقرر ہوئے اور آپ نے نہ صرف اپنے زمانہ امارت میں بلکہ پوری زندگی میں ہمیشہ اطاعت امام کا ایک بے مثال نمونہ دکھایا۔ چنانچہ آپ کے سوانح نگار محترم شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تالیف >حایت بشیر< کے تیسرے باب میں آپ کی مقدس زندگی کے متعدد واقعات درج کئے ہیں جن سے قطعی طور پر یہ شہادت ملتی ہے۔ کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو وابستگی خلافت اور اطاعت امام کے لحاظ سے جو بلند مقام خلافت اولیٰ میں حاصل تھا وہ خلافت ثانیہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور متابعت کے رنگ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو نصیب ہوا۔۱۴۲اس سلسلہ میں مکرم مرزا مظفر احمد صاحب کا مندرجہ ذیل بیان خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ فرماتے ہیں :
>ابا جانؓ< حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی بے حد محبت کرتے تھے۔ اور حضور کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنا جسمانی رشتہ اپنے نئے روحانی رشتہ کے ہمیشہ تابع رکھا دینی معاملات کا تو خیر سوال ہی کیا تھا دنیاوی امور میں بھی یہی کوشش فرماتے تھے کہ حضور کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔ حضور کی تکریم کے علاوہ کمال درجہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ پیش کرتے تھے۔ میں نے اس کی جھلکیاں بہت قریب سے گھریلو ماحول میں دیکھی ہیں آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کا رنگ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ نبض دل کے تابع ہو عمر بھر اس تعلق کو کمال وفاداری سے نبھایا اور اس کیفیت میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہ ہونے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور کا سلوک بھی اباجان سے بہت شفقت کا تھا اور ہمیشہ خاص خیال رکھتے تھے اور اہم معاملات میں مشورہ بھی لیتے تھے۔ ضروری تحریرات خصوصاً جو گورنمنٹ کو جانی ہوتی تھیں ان کے مسودات اباجان کو بھی دکھاتے تھے۔ اور اس کے علاوہ اہم فیصلہ جات اور سکیم پر عمل درآمد کا کام اکثر اباجان کے سپرد کرتے تھے۔ اور اس بات پر مطمئن ہوتے تھے کہ یہ کام حسب منشاء اور خوش اسلوبی سے ہو جائے گا<۔۱۴۳
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی اطاعت امام سے متعلق ایک مختصر نوٹ دینے کے بعد اب ہم سفر ڈلہوزی کی طرف آتے ہیں۔ یہ سفر جو بظاہر آب و ہوا کی تبدیلی کی غرض سے حسب معمول گوناگوں مصروفیات میں گزرا۔ اوسطاً ڈیڑھ دو سو خطوط کا روزانہ پڑھنا اور اس کا جواب لکھوانا۔۱۴۴سلسلہ کے انتظامات و معاملات کی نسبت ہدایات جاری کرنا` خطبات جمعہ` علمی تحقیق ۱۴۵کا کام غرضکہ جس پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ زمانہ علمی سرگرمیوں کا زمانہ تھا۔ اس سلسلہ میں بعض اہم واقعات کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔
۳۰ / جون ۱۹۲۸ء کو حضور نے پہلی دفعہ ۴۵ کے قریب عربی اشعار کہے۔ ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو اخبار ٹائمز آف انڈیا کے نام ایک چٹھی لکھوائی جس میں اخبار کے ایک دلازار فقرہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے معذرت شائع کرنے اور آئندہ ازواج النبی~صل۱~ کی نسبت احتیاط سے قلم اٹھانے کی تاکید فرمائی۔۱۴۶
۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک انگریز مسٹر مروین نے حضور سے ملاقات کی۔ مسٹر مروین نے پوچھا کہ کیا لندن مسجد میں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی داخل ہو سکتے ہیں حضور نے فرمایا۔ یہ اعلان تو ہم نے افتتاح مسجد کے موقعہ ہی پر کر دیا تھا کہ مسجد کا دروازہ سبھی کے لئے کھلا ہے اس ضمن میں حضور نے تاریخ اسلام کا یہ مشہور واقعہ بھی بیان فرمایا کہ کس طرح آنحصرت~صل۱~ نے ۹ھ میں نجران۱۴۷کے ساٹھ عیسائیوں کو مسجد نبویﷺ~ میں اتارا۔ ان سے گفتگو فرمائی اور ان کو مسجد ہی میں عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ چنانچہ ان لوگوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی نماز ادا کی۔۱۴۸`۱۴۹
۹ / جولائی ۱۹۲۸ء کو بابو شیخ محمد صاحب وکیل گورداسپور ملاقات کے لئے آئے۔ جن سے تحصیل شکرگڑھ کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت اور اچھوت اقوام میں تبلیغ سے متعلق گفتگو ہوئی ان رکاوٹوں کا ذکر کیا جو کچھ عرصہ ہوا احمدی مبلغوں کو اس علاقہ کی اچھوت اقوام میں تبلیغ کرتے وقت خود مسلمانوں کی طرف سے پیش آئی تھیں۔
اسی روز مشرف حسین صاحب ایم۔ اے دہلوی انسپکٹر ڈاک خانہ جات سے دہلی کے شاہی خاندانوں کی تباہی اور پرانے اہل علم گھرانوں کی نسبت بہت گفتگو ہوئی۔ اس صمن میں حضور نے اسلامی پردہ کی وضاحت بھی فرمائی۔۱۱۱۵۰ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسٹر اے۔ اے لین رابرٹس ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع گورداسپور اور مسٹر انڈرسن سشن جج صاحب گورداسپور کو اپنی کوٹھی پر چائے کی دعوت دی اور ایک گھنٹہ کے قریب سلسلہ احمدیہ کے معاملات سے متعلق انگریزی میں گفتگو فرمائی۔
۱۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو جنرل کک صاحب افسر افواج کے اعزاز میں سردار مکھن سنگھ صاحب رئیس نے ایک پارٹی سٹفل ہوٹل میں دی۔ جس میں معززین شہر کے ساتھ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی )مع حضرت مفتی محمد صادق صاحب و شیخ یوسف علی صاحب( بھی مدعو تھے۔ اس پارٹی میں کئی ایک ہندوستانی شرفاء اور انگریز حکام سے سلسلہ احمدیہ اور دیگر امور پر گفتگو ہوتی رہی۔
پارٹی کے بعد میاں حق نواز صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور اور ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب۱۵۱ممبر یو۔ پی کونسل حضور کی ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ ان اصحاب نے احمدیہ مشن لندن کی تبلیغی مساعی کی بہت تعریف کی اور پھر سیاسیات ہند کی نسبت حضور سے گفتگو کی۔ اسی روز سردار ہر چند سنگھ صاحب جے جی رئیس و جاگیردار ریاست پٹیالہ بھی حضور کی ملاقات کے لئے آئے۔
۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک سکھ سردار ٹکہفتح جنگ صاحب آف سدھووال آئے۔ اور بہت دیر تک حضور سے گفتگو کرتے رہے انہون نے پوچھا۔ آپ تو ہر سال خوب سفر کرتے ہوں گے۔ حضور نے فرمایا۔ ہماری جماعت کا انتظام دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہے۔ ہر کام کے صیغے مقرر ہیں۔ دفتری کاموں سے متعلق کارکن مجھ سے مشورہ لیتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ دیر تک مرکز سے باہر رہنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح بیرونی جماعتیں نہ صرف جماعتی کاموں سے متعلق بلکہ اپنے پرائیویٹ معاملات کے متعلق بھی مشورے لیتی ہیں ڈیڑھ دو سو کے قریب روزانہ خطوط آتے ہیں ان حالات میں بمشکل دو ایک ماہ تبدیلی آب و ہوا کے لئے باہر رہ سکتا ہوں۔ باہر سے بھی ضروری کاموں کے متعلق ہدایات دیتا رہتا ہوں اور ضروری کاغذات یہاں بھی آتے ہیں۔ ٹکہ صاحب نے حضور سے مختلف نوعیت کے مذہبی و سیاسی سوالات کئے۔ مثلاً احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کیا فرق ہے؟ ہندو مسلمانوں میں اتحاد کیونکر ہو سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ حضور نے ان کے مفصل جوابات دئیے۔ اسی روز نماز عصر کے بعد سردار حبیب اللہ صاحب بیرسٹر ایٹ لاء کو چائے کی دعوت پر بلایا گیا تھا۔ حضور نے مسلم اتہاد کی نسبت اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا جب تک مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد اس بات پر رکھی جائے گی کہ ان سے )جبراً( کچھ باتیں چھڑائی جائیں اور سب کو ایک جیسے عقائد پر جمع کیا جائے اس وقت تک اتحاد نہ ہوگا۔ اتحاد کی واحد صورت یہ ہے کہ رواداری سے کام لیا جائے۔ کسی کے مذہبی عقائد سے تعرض نہ کیا جائے اور مشترکہ مسائل میں مل کر کام کیا جائے۔۱۵۲
۱۵ / جولائی ۱۹۲۸ء کو بابو ابو سعید صاحب احمدی ریڈر سشن جج گورداسپور نے حضور کے اعزاز میں حضور ہی کے جائے قیام پر چائے کی دعوت دی۔ دعوت میں ۲۰۔۲۵ کے قریب معززین شامل تھے۔ جن سے حضور نے پردہ` ترکوں کا اسلام سے تعلق` شاہ کابل کا سفر یورپ اور دیگر ممالک میں تبلیغ اسلام وغیرہ مسائل پر گفتگو فرمائی۔ ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کو چوہدری سر شہاب الدین صاحب پریذیڈنٹ لیجسلیٹو کونسل پنجاب نے حضور کو مع رفقاء اپنی کوٹھی میں دعوت دی جس میں بعض اور معززین بھی مدعو تھے۔ حضور چوہدری شہاب الدین صاحب` شیخ اصغر علی صاحب کمشنر ملتان سے مسلمانوں کی موجودہ حالت اور اس کی اصلاح کے متعلق گفتگو فرماتے رہے۔۱۵۳
۱۸ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک کشمیری پیر حضور سے ملنے کے لئے تشریف لائے جو پہاڑی ریاستوں میں مسلمانوں کی افسوسناک حالت اور ریاستوں کے مظالم کا زکر کرتے رہے اور عرض کیا کہ اسلام کو اس زمانہ میں سب سے زیادہ نقصان خود علماء پہنچا رہے ہیں۔ آپ ہی کی جماعت ہے جو اس وقت مسلمانوں کو بچا سکتی ہے۔ آپ ضرور ان علاقوں کے مسلمانوں کے لئے بھی کوئی انتظام فرمائیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا۔ >ہم مسلمانوں کی ہر طرح امداد کرنے کے لئے تیار ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان علاقوں میں اگر کوئی مبلغ بھیجا جائے۔ تو حکام اسے نکال دیتے ہیں۔ تھوڑا ہی عرصہ ہوا۔ ہم نے اپنا ایک مبلغ ایک علاقہ میں بھیجا۔ اسے ایک بڑے ریاستی افسر نے کہا تم یہاں سے چلے جائو مبلغ نے مجھے لکھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ میں نے جواب دیا آپ تحریری حکم مانگیں اور جب تک تحریری طور پر نکلنے کے لئے نہ کہا جائے نہ نکلیں جب یہ بات اس مبلغ نے اس حاکم سے کہی تو اس نے کہا جس غرض سے تم تحریر مانگتے ہو وہ ہم بھی جانتے ہیں تحریر کوئی نہیں دی جا سکتی۔ اگر تم نہ نکلو گے تو کسی اور الزام میں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ ایسی حالت میں اس مبلغ کو واپس آجانا پڑا۔ ان علاقوں کے مسلمانوں کی اصلاح کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ وہاں کے ہوشیار اور ذہین طلباء کو تعلیم دی جائے اور پھر وہ اپنے علاقہ میں مسلمانون کی اصلاح کریں۔ وہ چونکہ اسی جگہ کے باشندے ہوں گے ان کو حکام نہیں نکال سکیں گے۔ اگر آپ ایسے لڑکے بھجوائیں تو ہم ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کر دیں گے۔
۱۹ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور کی طرف سے میاں فیملی باغبانپورہ کے ان اصحاب کو جو ڈلہوزی میں تھے چائے کی دعوت دی جس میں میاں شاہنواز صاحب بیرسٹر ایٹ لاء ممبر اسمبلی میاں بشیر احمد صاحب بی اے بیرسٹر ایٹ لاء میاں رفیع احمد صاحب خلف سر میاں محمد شفیع صاحب اور میاں افتخار احمد صاحب شریک ہوئے۔ جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات ہندوستان کی ادنیٰ اقوام میں تبلیغ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق گفتگو ہوتی رہی جس میں سب اصحاب نے بہت دلچسپی لی۔۱۵۴
۲۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو افواج علاقہ جالندھر چھائونی کے کمانڈنگ افسر صاحب بریگیڈیر جنرل ٹوس صاحب نے حضور کی ملاقات کی اور دو گھنٹہ تک مختلف امور پر حضور سے گفتگو کرتے رہے۔ اور سلسلہ کے حالات` حضور کے سفر شام` مصر اور یورپ کے حالات سنتے رہے حضور کی وسیع معلومات اور صائب رائے کا اثر کمانڈنگ آفیسر صاحب کے چہرہ سے اثنائے گفتگو میں نمایاں ہو رہا تھا۔ اسی دن شیخ اصغر علی صاحب کمشنر ملتان سے حضور نے اسلامی ممالک کے حالات اور بعض دوسرے امور کے متعلق گفتگو فرمائی۔
۲۳ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حرم محترمہ نے مختلف اقوام و مذاہب کی خواتین کو چائے کی دعوت دی۔ ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء کو مسٹر کارنیلیس اسسٹنٹ کمشنر گورداسپور حضور کی ملاقات کے لئے آئے۔۲۹۱۵۵ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور نے صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے کو انگلستان روانہ کرنے سے قبل لمبی دعا کے بعد رخصت کیا اور احباب دور تک انہیں الوداع کہنے کے لئے ان کے ساتھ گئے۔ حضور ۵ / اگست ۱۹۲۸ء کو واپس قادیان تشریف لائے۔۱۵۶
جہاد بالقرآن کی اہم تحریک
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جولائی ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں مسلمانان عالم کو اس طرف توجہ دلائی کہ ان کی ترقی و سربلندی کا اصل راز قرآن مجید کے سمجھنے اور اس پر کاربند ہونے میں مضمر ہے چنانچہ حضور نے ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
>ہر مسلمان کو چاہیئے کہ قرآن کریم کو پڑھے۔ اگر عربی نہ جانتا ہو تو اردو ترجمہ اور تفسیر ساتھ پڑھے عربی جاننے والوں پر قرآن کے بڑے بڑے مطالب کھلتے ہیں مگر یہ مشہور بات ہے کہ جو ساری چیز نہ حاصل کر سکے اسے تھوڑی نہیں چھوڑ دینی چاہیئے۔ کیا ایک شخص جو جنگل میں بھوکا پڑا ہو اسے ایک روٹی ملے تو اسے اس لئے چھوڑ دینی چاہیئے کہ اس سے اس کی ساری بھوک دور نہ ہوگی۔ پس جتنا کوئی پڑھ سکتا ہو پڑھ لے۔ اور اگر خود نہ پڑھ سکتا ہو تو محلہ میں جو قرآن جانتا ہو اس سے پڑھ لینا چاہیئے۔ جب ایک شخص بار بار قرآن پڑھے گا اور اس پر غور کرے گا تو اس میں قرآن کریم کے سمجھنے کا ملکہ پیدا ہو جائے گا۔ پس مسلمانوں کی ترقی کا راز قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے جب تک مسلمان اس کے سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے کامیاب نہ ہوں گے۔ کہا جاتا ہے دوسری قومیں جو قرآن کو نہیں مانتیں وہ ترقی کر رہی ہیں پھر مسلمان کیوں ترقی نہیں کر سکتے۔ بے شک عیسائی اور ہندو اور دوسری قومیں ترقی کر سکتی ہیں لیکن مسلمان قرآن کو چھوڑ کر ہرگز نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی اس بات پر ذرا بھی غور کرے تو اسے اس کی وجہ معلوم ہو سکتی ہے اگر یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ ہمیشہ دنیا کو ہدایت دینے کے لئے قائم رہے گی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اگر قرآن کو خدا کی کتاب ماننے والے بھی اس کو چھوڑ کر ترقی کر سکیں تو پھر کوئی قرآن کو نہ مانے گا پس قرآن کی طرف مسلمانوں کو توجہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ترقی کا انحصار قرآن کریم ہو<۔۱۵۷
چندہ خاص کی دوسری تحریک
جماعت احمدیہ کے لئے یہ زمانہ مالی لحاظ سے بڑی تنگی کا زمانہ تھا۔ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بار بار مالی مطالبات پر زور دینا پڑتا تھا چنانچہ ۱۹۲۷ء میں حضور نے چندہ خاص کی تحریک فرمائی جس پر مخلصین جماعت کو خدا تعالیٰ نے ایسی توفیق بخشی کہ نہ صرف پچھلا بہت سا قرضہ اتر گیا بلکہ اگلے سال کا بجٹ پورا کرنے کے لئے بھی خاصی رقم جمع ہوگئی لیکن سلسلہ احمدیہ کا خزانہ چونکہ ابھی خطرہ سے پوری طرح باہر نہیں تھا۔ اور جماعت کے لئے ضروری تھا کہ جب تک یہ نازک صورت حال ختم نہ ہو جائے معمولی چندوں کے علاوہ چندہ خاص بھی دیا کریں تا معمولی چندوں کی کمی اس سے پوری ہو جائے۔ اور سلسلہ کے کاموں میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔
چنانچہ حضور نے اس ضرورت کے پیش نظر صدر انجمن احمدیہ کے نئے مالی سال کے شروع ہونے پر احباب جماعت کے نام چندہ خاص کی دوسری تحریک فرمائی۔ یہ اپیل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کے اخبار الفضل میں شائع ہوئی اور اس کا عنوان تھا۔ >اے عباد اللہ میری طرف آئو<۔ چنانچہ حضور نے اعلان فرمایا کہ :
>اس سال بھی حسب معمول تمام دوست اپنی آمد میں سے ایک معین رقم چندہ خاص میں ادا کریں۔ اور چاہیئے کہ وہ رقم ستمبر کے آخر تک پوری کی پوری وصول ہو جائے۔ اور یہ بھی کوشش رہے کہ اس کا اثر چندہ عام پر ہرگز نہ پڑے۔ بلکہ چندہ عام پچھلے سال سے بھی زیادہ ہو۔ کیونکہ مومن کا قدم ہر سال آگے ہی آگے پڑتا ہے اور وہ ایک جگہ پر ٹھہرنا پسند نہیں کرتا<۔
اپنے اعلان کے آخر میں حضور نے جماعت کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
>اے میرے پیارے دوستو! میں کس طرح آپ لوگوں کو یقین دلائوں کہ خدا تعالیٰ دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرنے والا ہے۔ پس پہلے سے تیار ہو جائو تا موقعہ ہاتھ سے کھو نہ بیٹھو۔ یاد رکھو۔ کہ خدا تعالیٰ کے کام اچانک ہوا کرتے ہیں اور جس طرح اس کے عذاب یکدم آتے ہیں اس کے فضل بھی یکدم آتے ہیں۔ پس بیدار ہو جائو اور آنکھیں کھول کر اس کے افعال کی طرف نگاہ رکھو کہ اس کا غیب غیر معمولی امور کو پوشیدہ کئے ہوئے ہے جو ظاہر ہو کر رہیں گے اور دنیا ان کو چھپانے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکے گی آپ لوگ اس کے فضل کے وارث ہوکر رہیں گے خواہ دنیا اسے پسند کرے یا نہ کرے<۔
پھر فرمایا :
>میں اس امر کی طرف بھی آپ کی توجہ پھرانی چاہتا ہوں۔ کہ اس سال بعض اضلاع میں گیہوں کی فصل خراب ہوگئی ہے اور اس کا اثر چندوں پر پڑنا بعید نہیں۔ پس چاہیئے کہ احباب اس امر کا بھی خیال رکھیں اور اس کو پورا کرنے کی بھی کوشش کریں۔ اور ان اضلاع کے دوستوں کو بھی جہاں نقصان ہوا ہے میں کہتا ہوں کہ لا تخش عن ذی العرش افلاسا۔ خدا تعالیٰ سے کمی کا خوف نہ کرو اور اس کے دین کی راہ میں قربانی سے نہ گھبرائو کہ خدا تعالیٰ اس کا بدلہ آپ کو آئندہ موسم میں دے دے گا۔ اور آپ کی ترقی کے بیسیوں سامان پیدا کر دے گا<۔۱۵۸
خلیفتہ وقت کے اس ارشاد پر مخلصین نے لبیک کہا اور کئی جماعتوں نے اپنے وعدے پورے کر دئیے<۔۱۵۹
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ایک اصولی ارشاد مخالف اخبارات سے متعلق
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلم اتحاد کو ترقی دینے کے لئے قبل ازیں یہ تحریک فرما رکھی تھی کہ مسلمان متحدہ مسائل میں
مل کر کام کریں۔ اور مسلم پریس ایسی باتوں کی اشاعت سے احتراز کرے جو باہمی منافرت کا موجب ہوں اور اسی وجہ سے احمدیہ پریس نے ایک عرصہ سے مسلمان اخبارات کے خلاف لکھنا ترک کر دیا تھا۔ مگر افسوس حضور کی ذات اور احمدیوں کے خلاف >زمیندار< وغیرہ اخبارات نے اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہ کی اور سراسر بے بنیاد پراپیگنڈا جاری رکھا۔ اس لئے ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ )چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے( نے ۱۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور کی خدمت میں لکھا کہ حضور اجازت مرحمت فرمائیں کہ ایسے الزامات اور جگر سوز تحریروں کا معقولیت کے ساتھ جواب دیا جائے۔
اس درخواست پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ
>میں آپ سے متفق ہوں کہ ہماری خاموشی سے سلسلہ کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور باوجود بار بار توجہ دلانے کے کہ ہم صرف اسلام کی خاطر خاموش ہیں انہوں نے نصیحت حاصل نہیں کی۔ اور محض ذاتی بغض پر اسلام کے فوائد کو قربان کر دیا ہے۔ اب یہ ذاتی عداوت ایسا رنگ اختیار کر رہی ہے کہ اس کا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اور وہ تحریک اتحاد جسے میں نے بصد کوشش جاری کیا تھا اس سے متاثر ہونے کے خطرہ میں ہے پس اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس امر کی اجازت دیتا ہوں اور بادل نخواستہ دیتا ہوں کہ صاحبان جرائد اور مصنفین سلسلہ کو اجازت دی جائے کہ وہ ایسے اعتراضات کے جواب دے دیا کریں جن کا اسلام یا سلسلہ کے کاموں پر بد اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔ لیکن سخت الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا کریں۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکے ذاتیات کی بحثوں میں نہ پڑا کریں۔ کہ ان بحثوں میں پڑنے سے فساد کے بند ہو جانے کا احتمال بہت کمزور ہو جاتا ہے<۔۱۶۰
>پیغام صلح< کا پیغام جنگ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا اہم فرمان
>پیغام صلح< نے ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا- >ان کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں کریں صلح کریں یا جنگ کریں ہم دونوں حالتوں میں ان کے عقائد کے خلاف جو اسلام میں خطرناک تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں ہر حال میں جنگ کریں گے<۔۱۶۱
حضور نے اس پر ۱۸ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک مفصل مضمون سپرد قلم فرمایا۔ جس میں احباب جماعت کو ہوشیار کرتے ہوئے لکھا :
>حضرت خلیفہ اولؓ نے ایک دفعہ تحریر فرمایا تھا کہ پیغام صلح نہیں وہ پیغام جنگ ہے اور آج کھلے لفظوں میں پیغام صلح نے ہمیں پیغام جنگ دیا ہے اور صرف اس بات پر چڑ کر کہ کیوں ہم نے رسول کریم~صل۱~ کی حفاظت کے لئے اور آپ کے خلاف گالیوں کا سدباب کرنے کے لئے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر ایک ہی دن سینکڑوں جلسوں کا انعقاد کیا ہے۔ میں اس جرم کا مجرم بے شک ہوں اور اس جرم کے بدلہ میں ہر ایک سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں اور چونکہ اس اعلان جنگ کا موجب ہمارے عقائد نہیں کیونکہ انہی عقائد کے معتقد خود مولوی محمد علی صاحب بھی رہے ہیں اور سب فرقہ ہائے اسلام ان کے معتقد ہیں بلکہ ہماری خدمات اسلام ہیں اس لئے میں اس چیلنج کو خوشی سے منظور کرتا ہوں اور اپنی جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دماغوں پر اس اعلان جنگ کو لکھ لیں۔ >پیغام< ہم سے آخری دم تک جنگ کرنے کا اعلان کرتا ہے اب ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس جنگ کی دفاع کے لئے تیار ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے یہ لوگ دنیا میں قائم رکھے جائیں گے تاکہ آپ لوگ ہمیشہ ہوشیار رہیں۔ لیکن جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ آپ لوگ اس کے فضل سے ان پر غالب رہیں گے اور وہ ہمیشہ آپ کی مدد کرے گا۔ پس خدا تعالیٰ کے لئے نہ کہ اپنے نفسوں کے لئے ان صداقتوں کے پھیلانے کے لئے مستعد ہو جائو۔ جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں اور اس بغض اور کینہ کو انصاف اور عدل کے ساتھ مٹانے کی کوشش کرو جس کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی ہے اور اس فتنہ اور لڑائی کا سدباب کرو جس کا دروازہ انہوں نے کھولا ہے اور کوشش کرو۔ کہ مسلمانوں کے اندر اس صحیح اتحاد کی بنیاد پڑ جائے۔ جس کے بغیر آج مسلمانوں کا بچائو مشکل ہے اور جسے صرف اپنی ذاتی اغراض کے قیام کے لئے یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں اور کوشش کرو کہ ان میں انصاف پسند روحیں اپنی غلطی کو محسوس کر کے آپ لوگوں میں آ شامل ہوں تاکہ جس قدر بھی ہو سکے اس اختلاف کی شدت کو کم کیا جا سکے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو<۔]10 [p۱۶۲
شرفاء سے دردمندانہ اپیل
جہاں تک غیر مبایعین کے ذاتی حملوں کا تعلق تھا۔ حضور نے نہایت درد بھرے الفاظ میں شریف و متین طبقوں سے اپیل کی۔ کہ وہ اس جنگ میں فریقین کے طرز عمل اور رویے کا فرق ملحوظ رکھیں۔ اور اس پر گواہ رہیں۔ چنانچہ حضور نے لکھا :
>میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر فرقہ اور ہر مذہب کے شریف لوگ جو ہمارے لٹریچر کو اخباری یا علمی ضرورتوں کی وجہ سے پڑھتے ہیں اس امر پر گواہی دیں گے کہ بلاوجہ اور متواتر مجھ پر ظلم کیا گیا ہے۔ میرے خلاف اتہامات لگائے گئے ہیں اور مجھ پر حملے کئے گئے ہیں آج میری زندگی میں شاید معاصرت کی وجہ سے لوگ اس فرق کو اس قدر محسوس نہ کریں۔ اور شاید گواہی دینا غیر ضروری سمجھیں یا اس کے بیان کرنے سے ہچکچائیں لیکن دنیا کا کوئی شخص بھی خالد اور ہمیشہ زندہ رہنے والا نہیں۔ نہ معلوم چند دن کو نہ معلوم چند ماہ کو نہ معلوم چند سال کو جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جائوں گا۔ جب لوگ میرے کاموں کی نسبت ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں گے۔ جب سخت سے سخت دل انسان بھی جو اپنے دل میں شرافت کی گرمی محسوس کرتا ہوگا۔ ماضی پر نگاہ ڈالے گا۔ جب وہ زندگی کی ناپائیداری کو دیکھے گا اور اس کا دل ایک نیک اور پاک افسردگی کی کیفیت سے لبریز ہو جائے گا اس وقت وہ یقیناً محسوس کرے گا کہ مجھ پر ظلم پر ظلم کیا گیا اور میں نے صبر سے کام لیا۔ حملہ پر حملہ کیا گیا لیکن میں نے شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اور اگر اپنی زندگی میں مجھے اس شہادت کے سننے کا موقعہ میسر نہ آیا تو میرے مرنے کے بعد بھی یہ گواہی میرے لئے کم لذیذ نہ ہوگی یہ بہترین بدلہ ہوگا جو آنے والا زمانہ اور جو آنے والی نسلیں میری طرف سے ان لوگوں کو دیں گی اور ایک قابل قدر انعام ہوگا۔ جو اس صورت میں مجھے ملے گا پس میں بجائے اس کے کہ ان لوگوں کے حملہ کا جواب سختی سے دوں بجائے اس کے کہ گالی کے بدلہ میں گالی دوں تمام ان شریف الطبع لوگوں کی شرافت اور انسانیت سے اپیل کرتا ہوں جو اس جنگ سے آگاہ ہیں کہ وہ اس اختلاف کے گواہ رہیں وہ اس فرق کو مدنظر رکھیں اور اگر سب دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو بھی ان لوگوں کی نیک ظنی جو خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں لیکن ایک غیر متعصب دل ان کے سینہ میں ہو ان بہترین انعاموں میں ہوگا۔ جن کی کوئی شخص امید کر سکتا ہے۔10] [p۱۶۳
ہائی کورٹ کا انتظام
مسلمان ان دنوں ہندوئوں کے فرقہ وارانہ تعصب کا ہر جگہ شکار ہو رہے تھے۔ حتیٰ کہ پنجاب ہائی کورٹ کے انتظامیہ میں بھی ان کے حقوق پامال ہونے لگے۔ جس پر ابتداء اخبار >مسلم آئوٹ لک< نے پھر اخبار >زمیندار< نے احتجاج کیا۔ اور گو ان اخبارات نے جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ~ کے سلسلہ میں عدم تعاون کا مظاہرہ کیا تھا مگر چونکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے تحفظ حقوق کا تھا۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس کے حق میں آواز بلند کی۔ اور لکھا : >ہم مسلمانوں کی جس طرح مناسب سمجھیں گے حفاظت کریں گے اور انشاء اللہ کسی کی مخالفت کے خیال سے اس میں کوتاہی نہیں کریں گے اور نہ یہ دیکھیں گے کہ ایک مفید تحریک کرنے والا ہمارا دشمن ہے بلکہ اگر کوئی مفید تحریک ہوگی تو خواہ وہ >زمیندار< ہی کی طرف سے کیوں نہ ہو۔ جس نے ہماری مخالفت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ تب بھی ہم اس کی تائید سے اور پرزور تائید سے انشاء اللہ دریغ نہیں کریں گے اور اس بات سے نہیں شرمائیں گے کہ اس تحریک کا سہرا >زمیندار< کے سربندھتا ہے۔۱۶۴4] [rtf
فصل چہارم
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا درس القرآن
۸ / اگست تا ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے مبارک ایام
قرآنی علوم و معارف اور اسرار و نکات کی اشاعت کے لحاظ سے ۸ / اگست ۱۹۲۸ء تا ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے مبارک ایام ہمیشہ یادگار رہیں گے کیونکہ ان میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ میں سورئہ یونس سے سورئہ کہف تک پانچ پاروں کا روح پرور درس دیا۔]4 [stf۱۶۵
حضور کی غیر معمولی محنت و کاوش
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو ناسازئی طبع کے باوجود بہت محنت و مشقت کرنا پڑی۔ درس القرآن کو علمی اور تحقیقی پہلو سے مکمل کرنے کے لئے حضور گرمی کے تکلیف دہ موسم میں رات کے بارہ بارہ بجے تک کتب کا مطالعہ کر کے نوٹ تیار کرنے میں مصروف رہتے اور پھر دن میں سلسلہ کے اہم اور ضروری معاملات کی سر انجام دہی کے علاوہ روزانہ چار پانچ گھنٹہ تک سینکڑوں کے اجتماع میں بلند آواز سے درس دیتے۔ ۱۶۶text] g[taجس قدر وقت میسر آ سکا اسے کلام اللہ پر غور کرنے اور اس کے حقائق و معارف بیان کرنے میں صرف فرماتے۔۱۶۷
حضور کے اس عظیم مجاہدہ کا ذکر کرنے کے بعد جو آپ نے محض اشاعت علوم قرآن کی خاطر اختیار فرمایا۔ اب ہم درس القرآن کے دوسرے اہم کوائف بیان کرتے ہیں۔
دوستوں کا قادیان میں اجتماع
یہ درس چونکہ ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس لئے احباب جماعت کو متعدد بار تحریک کی گئی۱۶۸ کہ اس موقعہ سے نہ صرف خود پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے بلکہ دوسرے اہل علم مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی لانے کی کوشش کریں۔۱۶۹چنانچہ ۷ / اگست ۱۹۲۸ء تک بہت سے دوست مرکز احمدیت قادیان میں جمع ہوگئے۔ درس کے پہلے ہفتہ میں بیرونی احباب کی تعداد قریباً ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی۔ ان احباب کی اکثریت گرایجوایٹ وکلاء` کالجوں کے طلباء اور حکومت کے معزز عہدیداروں اور رئوساء پر مشتمل تھی۔۱۷۰ اور ان کے قیام کا انتظام مدرسہ احمدیہ میں کیا گیا تھا۔
پروگرام کے مطابق ۸ / اگست ۱۹۲۸ء کو مسجد اقصیٰ میں نماز ظہر کے بعد درس کا آغاز ہوا۔۱۷۱
درس نوٹ کرنے والے علماء اور زودنویس
درس محفوظ کرنے کے لئے حضور نے پہلے دن سے سلسلہ کے جید علماء اور زود نویسوں کی ایک جماعت متعین فرما دی تھی جو مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل تھی۱۷۲حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاہب` مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ۔ مولوی ارجمند خان صاحب` مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی` مولوی ظہور حسین صاحب۔ مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی` ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب` مولوی محمد یار صاحب عارف` مولوی عبدالرحمن صاحب مصری` مولوی ظفر الاسلام صاحب` سردار مصباح الدین صاحب` مولوی علی محمد صاحب اجمیری` شیخ چراغ الدین صاحب۱۷۳
مسجلین کا تقرر
ان کے علاوہ سامعین میں سے )جن کی تعداد بعض اوقات پانچ سو سے بھی زیادہ ہو جاتی تھی۱۷۴اور جن میں مقامی احباب بھی شامل تھے( ۸۱ کے قریب اصحاب کا نام ایک رجسٹر میں درج کرلیا گیا اور ان کا نام مسجلین رکھا جنہیں حضور کے قریب جگہ دی جاتی تھی۔ اور ان کی روزانہ درس سے قبل حاضری ہوتی تھی اور ۱۲ / اگست سے تو ان کا امتحان بھی لیا جانے لگا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی درس شروع کرنے سے پیشتر سوالات لکھوا دیتے اور پھر جواب لکھنے کے بعد پرچے لے لیتے۔ اور دوسرے دن نتیجے کا اعلان فرما دیتے پہلے امتحان میں بابو محمد امیر صاحب امیر جماعت کوئٹہ اول` صوفی صالح محمد صاحب قصور دوم اور مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیان سوم رہے۔ اس کے بعد نتائج میں پانچ درجوں تک کا اعلان ہوتا تھا جب مسجلین کی تعداد ایک سو سات تک پہنچ گئی تو مسجد میں ان کی نشستیں مقرر کر دی گئین۔ تا ان کو بیٹھنے میں آسانی ہو۔۱۷۵ درس القرآن کے عام اوقات اڑھائی بجے سے پانچ بجے تک اور پھر نماز عصر کے بعد ۶ بجے سے ۷ بجے تک مقرر تھے۔ لیکن عام طور پر اس سے زیادہ وقت صرف کیا جاتا۔۱۷۶
درس القرآن سننے والوں سے خطاب
۳۱ / اگست ۱۹۲۸ء کو حضور نے خطبہ جمعہ میں درس القرآن سننے والوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں نصیحت فرمائی کہ :
>درس جب انہوں نے تکلیف اٹھا کر سنا ہے تو اس سے فائدہ بھی اٹھائیں اور وہ اس طرح کہ قرآن کریم کو دنیا تک پہنچائیں۔ قرآن دنیا میں غلافوں میں رکھنے یا جھوٹی قسمیں کھانے کے لئے نہیں آیا۔ بلکہ اس لئے آیا ہے کہ منبروں پر سنایا جائے۔ مناروں پر اس کی منادی کی جائے اور بازاروں میں اس کا وعظ کیا جائے۔ وہ اس لئے آیا ہے کہ پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ خدا تعالیٰ نے اس کا نام پانی رکھا ہے اور پانی جب پہاڑوں پر گرتا ہے تو ان میں بھی غاریں پیدا کر دیتا ہے وہ نرم چیز ہے مگر گرتے گرتے سخت سے سخت پتھروں پر بھی نشان بنا دیتا ہے۔ اور اگر جسمانی پانی اس قدر اثر رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کا نازل کیا ہوا روحانی پانی دلوں پر اثر نہ کرے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بار بار سنایا جائے اور اپنے عمل سے نیک نمونہ پیش کیا جائے<۔۱۷۷
۳ / ستمبر سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجوزہ درس بروقت ختم کرنے کے لئے صبح آٹھ بجے سے قریباً ساڑھے گیارہ بجے تک اور پھر ظہر کے بعد عصر تک دینا شروع فرما دیا۔۱۷۸
دار مسیح موعودؑ میں دعوت طعام
۶ / ستمبر کو حضور نے درس میں شامل ہونے والے اصحاب کو دار مسیح موعود علیہ السلام میں دعوت طعام دی جس میں بہت سے مقامی اصحاب کو بھی شمولیت کا فخر بخشا۔ اخبار الفضل نے اس دعوت پر یہ نوٹ لکھا۔ >اس دعوت کی قدر و قیمت وہی اصحاب جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کے سوکھے ٹکڑے بطور تبرک لے جاتے ہیں اور اپنے عزیزوں میں بطور تحفہ تقسیم کرتے ہیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دعوت دینے والے ہوں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے نونہال دعوت کھلانے والوں میں ہوں اور دار مسیح موعود میں بیٹھ کر دعوت کھانے کا موقعہ نصیب ہو۔ اس سے بڑھ کر ایک احمدی کے لئے کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے مبارک ہو ان اصحاب کو جنہیں یہ موقعہ میسر آیا اور خوش قسمت ہیں وہ انسان جنہیں روحانی مائدہ کے ساتھ اس دعوت میں بھی شریک ہونے کا فخر حاصل ہوا<۔۱۷۹
الوداعی تقریر اور خطبہ جمعہ
text] ga[tچونکہ کئی اصحاب کو بعض مجبوریوں کے باعث واپس جانا ضروری تھا اس لئے حضور نے اگلے روز ۷ / ستمبر کو گیارہ بجے تک درس دینے کے بعد جانے والے اصحاب کے لئے ایک مختصر سی الوداعی تقریر فرمائی۔ جس میں تبلیغ اسلام کرنے` قرآن مجید کے حقائق و معارف پھیلانے اور قلمی جہاد کرنے کی نصیحت کرنے کے بعد حاضرین سمیت نہایت خشوع خضوع سے لمبی دعا فرمائی دوران دعا گریہ و بکا سے مسجد میں گونج پیدا ہوگئی۔ خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۱۸۰
اسی روز آپ نے خطبہ جمعہ میں بیرونی احباب کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے اپنے مقام پر جاکر جماعتوں کو سنبھالنے اور چست بنانے کی کوشش کریں۔ اور ان میں زندگی کی روح پیدا کریں اور انہیں بتائیں کہ ان کا معیار آگے والے کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ دنیا دار قربانی کرتے وقت پیچھے کی طرف دیکھتا ہے اور شکریہ کے وقت آگے کی طرف پھر ارشاد فرمایا کہ >آپ لوگوں نے قرآن کریم کا جو حصہ پڑھا ہے۔ اسے ضبط کریں۔ اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اور دوسروں سے عمل کرانے کی کوشش کریں تاکہ جو مشکلات دین پر آ رہی ہیں وہ دور ہوں اور خدا تعالیٰ اپنے فضل سے دین کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اس کے دین کو نقصان نہ پہنچے<۔۱۸۱
درس کا فوٹو
جمعہ و عصر کے بعد پھر درس ہوا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں پورے مجمع کا فوٹو لیا گیا۔۸۱۸۲ / ستمبر درس القرآن کا آخری دن تھا اس روز صبح سے درس شروع ہوا جو دو بجے دوپہر تک مسلسل جاری رہا۔
دوبارہ اجتماعی دعا صدقہ اور تقسیم انعامات
درس کے خاتمہ پر حضور نے دوبارہ اجتماعی دعا کرائی اور ماسٹر فقیر اللہ صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس کی طرف سے حاضرین میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اس موقعہ پر حضور نے فرمایا۔ کہ چونکہ رسول کریم~صل۱~ کے متعلق آتا ہے کہ حضور علیہ السلام رمضان کے دنوں میں جبکہ قرآن نازل ہوتا تھا بہت صدقہ دیا کرتے تھے اس لئے میں بھی اس موقعہ پر اپنی طرف سے دس روپے بطور صدقہ دیتا ہوں اور بھی جن دوستوں کو توفیق ہو قادیان کے غرباء کے لئے صدقہ دیں اس پر قریباً دو سو روپے اس وقت جمع ہوگئے۔
آخر میں حضور نے اپنے دست مبارک سے درس کے سب امتحانات میں نتائج کے لحاظ سے اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعامات عطا فرمائے۔ اول انعام حافظ عبدالسلام صاحب شملوی۱۸۳نے دوسرا صالح محمد صاحب قصور نے۔ تیسرا نذیر احمد صاحب متعلم بی۔ ایس سی نے اور چوتھا فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر نے اور پانچواں شیخ عبدالقادر صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ )حال مربی سلسلہ احمدیہ( نے حاصل کیا۔ تقسیم انعامات کے بعد یہ مقدس و مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
عورتوں کی عزت کے قیام کے لئے خطبہ جمعہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ دیا۔ جس میں جماعت کو ہدایت فرمائی کہ عورتوں کی عزت کی حفاظت کرو۔ خواہ تمہارے دشمنوں کی عورتیں ہیں۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>عورت کی عزت کی حفاظت خواہ وہ دشمن کی ہو۔ انسانیت کا ادنیٰ فرض ہے۔ اور بہادر آدمی کا کام ہے کہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کی عورت کی عزت کی حفاظت کے لئے خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتی ہو اگر اسے جان بھی دینی پڑے تو قطعاً دریغ نہ کرے پس تم بہادر بنو اور عورت کی عزت کی حفاظت کرو۔ عورت کی عزت کو خدا نے قائم کیا ہے اور شعائر اللہ میں سے ہے<۔۱۸۴
دارالتبلیغ لنڈن کے لئے خواتین احمدیت کی مزید قربانی
مسجد لنڈن کی تعمیر کے بعد انگلستان میں تبلیغ اسلام کا کام روز بروز بڑھ رہا تھا چنانچہ مبلغ انگلستان خان صاحب فرزند علی صاحب کی طرف سے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں یہ درخواست پہنچی کہ کام زیادہ ہے اور عملہ بڑھانے کی ضرورت ہے اس کی تائید حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بھی ولایت کے دوران قیام میں کی تھی۔ اس لئے حضور نے فیصلہ صادر فرمایا کہ ایک مبلغ کا وہاں اضافہ کر دیا جائے اور بجائے ہندوستان سے کوئی نیا مبلغ بھیجنے کے خود انگلستان کے کسی نو مسلم کو اس کام پر مقرر کیا جائے۔ صدر انجمن کے بجٹ میں چونکہ اس کی گنجائش نہیں تھی اور احمدی خواتین کو بھی تبلیغی کاموں میں مناسب حصہ لینا چاہیئے۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ یہ مسجد انہی کے چندوں سے بنی ہے۔ لہذا حضور نے خواتین احمدیت کو تحریک فرمائی کہ وہ مشن کا زائد خرچ اٹھائیں اور جو کچھ دیں اپنے پاس سے دیں نہ کہ ¶مردوں کی جیب سے لے کر۔۱۸۵
چنانچہ احمدی مستورات نے حسب سابق حضور کے اس مطالبہ پر پورے اخلاص سے لبیک کہا۔ اور قادیان۔۱۸۶امرت سر` لدھیانہ` کراچی`۱۸۷گوجرانوالہ` سنتو کداس`۱۸۸سیالکوٹ` کیمبل پور` لاہور` فیروزپور` لالہ موسیٰ`۱۸۹گھٹیالیاں` میلسی` ملتان`۱۹۰میرٹھ` دہلی`۱۹۱نوشہرہ چھائونی` ایبٹ آباد` فیض اللہ چک ضلع گورداسپور`۱۹۲ضلع محبوب نگر` ڈیرہ غازی خاں` جہلم` بھیرہ` چکوال` کتھو والی چک ۳۱۲`۱۹۳کوہاٹ اور راولپنڈی۱۹۴ وغیرہ مقامات کی مستورات نے اس مالی قربانی میں نہایت اخلاص سے حصہ لیا۔ بیرونی ممالک میں سے ماریشس کی احمدی عورتوں نے بھی چندہ دے کر اپنے اخلاص کا ثبوت دیا۔ ۱۹۵
فصل پنجم
]1daeh >[tagنہرو رپورٹ، پر مفصل تبصرہ
اور اس کے خلاف زبردست احتجاج
>نہرو کمیٹی< کا قیام اور مسلم حقوق کی پامالی
سائمن کمیشن کی تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلہ پر تھی۔ کہ مسٹر بروکن ہیڈ )وزیر ہند( نے ایک بیان دیا کہ ہندوستانی اس درجہ منقسم` مختلف اور ایک دوسرے سے بیزار ہیں کہ وہ ایک متحدہ دستور اساسی بھی نہیں بنا سکتے۔ اور کہا کہ اگر وہ حکومت کے مقرر کردہ کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو خود ہی ہندوستان کے لئے ایک مناسب دستور کا خاکہ تیار کر کے دکھادیں۔4] ft[s۱۹۶
کانگریس نے جو شروع سے سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھی۔ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ۱۹ / مئی ۱۹۲۸ء کو آل پارٹیز کانفرنس کا ایک اجلاس بمبئی میں منعقد کیا۔ جس میں ہندوستان کا دستور اساسی تشکیل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اصحاب کی ایک سب کمیٹی مقرر کی۔ )۱( پنڈت موتی لال نہرو )۲( مسٹر سبھاش چندر بوس )نمائندہ کانگریس( )۳( مسٹر اینی )۴( مسٹر جیاکار )نمائندہ ہندو مہاسبھا )۵( سرتیج بہادر سپرو نمائندہ لیبرل فیڈریشن )۶( مسٹر پردھان )غیر برہمنوں کے نمائندہ( )۷( سر علی امام )۸( مسٹر شعیب قریشی )نمائندہ مسلمانان ہند( )۹( سردار منگل سنگھ )سکھ لیگ کے نمائندہ( )۱۰( مسٹر جوشی )مزدوروں کی طرف سے(
بالفاظ دیگر دس ممبروں میں سے صرف دو مسلمان مسلم نقطہ نگاہ کے اظہار کے لئے نامزد ہوئے جن میں سے سر علی امام بوجہ بیماری صرف ایک اجلاس میں شریک ہو سکے۔ اور گو جناب شعیب قریشی نے شرکت جاری رکھی۔۱۹۷لیکن اسی اثناء میں انہیں یہ معلوم کر کے بہت مایوسی ہوئی کہ ایک ایسا دستور وضع کیا جا رہا ہے جس میں ہندو اکثریت کو سب کچھ مل جائے گا۔ اور مسلم اقلیت بالکل محروم رہ جائے گی حتیٰ کہ مسلم لیگ کے وہ مطالبات جنہیں کانگریس منظور کر چکی تھی۔ پنڈت موتی لال نہرو نے رد کر دئیے اور کمیٹی نے خود کانگریس کی طے شدہ پالیسی پر خط تنسیخ کھینچ دیا۔ یہ رنگ دیکھ کر جناب شعیب قریشی صاحب الگ ہوکر بیٹھ رہے اور انہوں نے رپورٹ پر دستخط تک نہیں کئے۔۱۹۸`۱۹۹پنڈت موتی لال صاحب نہرو نے` ان کی جگہ چوہدری خلیق الزماں صاحب اور تصدق احمد خان صاحب شردانی لے لیئے۔۲۰۰یہ تھی نہرو رپورٹ جو آل پارٹیز کانفرنس لکھنئو میں پاس کی گئی اور جسے کانگریس کی طرف سے ۱۲ / اگست ۱۹۲۸ء کو سارے ہندوستان کے نمائندہ دستور کی حیثیت سے شائع کیا گیا۔
حق یہ ہے کہ نہرو رپورٹ صرف اور صرف ہندوئوں کی نیابت کرتی تھی۔ چند آدمی اپنی مرضی سے ایک جگہ جمع ہوگئے جن میں کئی لوگ ایسے تھے۔ کہ جنہوں نے اپنے تئیں خود ہی لیڈر قرار دے لیا تھا نہ مسلمان سیاسی جماعتوں کی نمائندگی اس میں ہوئی نہ مختلف صوبوں کی نمائندگی۔ حالانکہ جن مسائل میں اختلاف زیادہ بھیانک صورت میں نمایاں ہوتا تھا وہ صوبائی مسائل تھے نہ کہ آل انڈیا مسائل۔۲۰۱4] f[rt پھر جہاں تک مسلم مطالبات کا تعلق تھا وہ تقریباً نظر انداز کر دئیے گئے۔ اور جو باقی رکھے گئے ان پر ایسے پیرایہ بیان میں بحث کی گئی جو نہایت حوصلہ شکن تھا۔ اور صاف طور پر بیان کیا گیا کہ مطالبات فرقہ وارانہ ہیں اور مفاہمت ممکن نہیں۔ نیز بنگال و پنجاب کی مسلم اکثریت کو بھی خطرہ میں ڈال دیا اور محمد امین زبیری مارہروی کے الفاظ میں >رپورٹ دراصل اس خطرہ کی گھنٹی تھی کہ ہندوستان میں دوہری حکومت قائم ہو۔ جس میں فوجی اور خارجی اختیار انگریزوں کے ہاتھ میں رہے اور ملکی و انتظامی اختیارات ہندو اکثریت کے ہاتھ میں آجائیں تا برطانوی سنگینوں سے مسلمانوں کو غلام بنا لیا جائے اور بقول مولانا محمد علی جوہر کہ >جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں منادی کی جاتی تھی تو مناد پکارتا تھا کہ خلقت خدا کی ملک بادشاہ کا حکم کمپنی بہادر کا لیکن نہرو رپورٹ کا ملخص یہ ہے کہ خلقت خدا کی ملک وائسرائے یا پارلیمنٹ کا اور حکم مہاسبھا کا<۔۲۰۲
کانگریس نواز حلقوں کی طرف سے نہرو رپورٹ کی تائید
ہندوئوں کو تو اس رپورٹ کا حامی ہونا چاہیئے تھا لیکن حیرت یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بھی ایک خاصہ با رسوخ طبقہ اس کی بے سوچے تائید میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اور مولوی ابوالکلام صاحب آزاد اس کے سرخیل تھے جنہوں نے شروع ہی سے مسلمانوں کو یہ دلاسا دینے کی کوشش کی تھی کہ ہندو اکثریت کا خطرہ محض >شیطانی وسوسہ< ہے۔۲۰۳انہیں مسلم تھا کہ >ہندوئوں کا جماعتی وصف تنگ دلی اور کوتاہ دستی ہے۔ وہ چیز جسے دل کا کھلا ہونا اور طبیعت کی فیاضی کہتے ہیں ہمارے ہندو بھائیوں میں پیدا نہ ہو سکی<۔۲۰۴باین ہمہ وہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ وہ بے اعتمادی کا مظاہرہ کر کے >چند نشستوں< اور >نام نہاد ضمانتوں< کو جو >گناہ بے لذت< سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اور جنہیں ہندو >خاص رعایت سے< تعبیر کر سکتے ہیں چھوڑ دینا چاہئے۔۲۰۵اور ان کا کہنا تھا کہ >یہ باتیں خاص رعایت نہ تھیں اگر دوسری جماعت میں فیاضی اور کشادہ دلی کی اسپرٹ موجود ہوتی مگر جب موجود نہیں ہے اور ہمارے تحفظ کے لئے یہ باتیں کوئی قیمت بھی نہیں رکھتیں تو پھر یقیناً ہماری خودداری اور غیرت کا تقاضا یہی ہونا چاہیئے کہ اس قسم کے مطالبوں سے خود ہی دستبردار ہو جائیں اور اپنے مستقبل کا دامن غیرت اپنے تنگ دل بھائیوں کے منت کرم داشتن سے آلودہ نہ ہونے دیں<۔۲۰۶
یہی نہیں ان کا نعرہ ہمیشہ یہ رہا کہ >اگر ایسے مسلمان دماغ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنی گزری ہوئی تہذیب و معاشرت کو پھر تازہ کریں جو وہ ایک ہزار برس پہلے ایران اور وسط ایشیا سے لائے تھے تو میں ان سے یہ بھی کہوں گا کہ اس خواب سے جس قدر جلد بیدار ہو جائیں بہتر ہے کیونکہ یہ ایک قدرتی تخیل ہے اور حقیقت کی سرزمین میں ایسے خیالات اگ نہیں سکتے۔۲۰۷
دراصل مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کے اس مسلک کے پیچھے صرف ایک جذبہ سب سے نمایاں کارفرما تھا یعنی گاندھی جی کی اطاعت۔ چنانچہ انہوں نے کہا۔ >ہماری کامیابیوں کا دارومدار تین چیزوں پر ہے اتحاد۔ ڈسپلن (Discipline) اور مہاتما گاندھی کی راہنمائی پر اعتماد۔ یہی ایک راہنمائی ہے جس نے ہماری تحریک کا شاندار ماصی تیار کیا۔ اور صرف اس سے ہم ایک فتح مند مستقبل کی توقع کر سکتے ہیں۔۲۰۸
مولوی ابوالکلام صاحب آزاد )جن کی پشت پر کانگریس اور ہندوئوں کی طاقت و ثروت تھی( کے ہمنوائوں کی کثیر تعداد نہرو رپورٹ کی سرگرم موید تھی جو ہندوستان میں ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے حتی کہ پنجاب میں بھی جو مسلم اکثریت کا صوبہ ہونے کی وجہ سے فرقہ وارانہ مسائل کا بنگال سے بڑھ کر آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ خلافت کمیٹی کے سابق ارکان )مثلاً چودھری افضل حق صاحب`سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اور مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانولی وغیرہ( جنہوں نے دسمبر ۱۹۲۹ء میں مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی۔۲۰۹نہرو رپورٹ کی حمایت کر رہے تھے۔ چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب کی نسبت )جنہیں اس مجلس کے دماغ کی حیثیت حاصل تھی۔۲۱۰ اور جنہیں بعد کو قائد و مفکر اور مصلح و مجدد کے نام سے بھی پکارا گیا۲۱۱ان کے رفقاء کا کہنا ہے کہ ۱۹۲۸ء میں نہرو رپورٹ مرتب ہوئی تو اس سکیم کی حمایت کی قصر برطانیہ کے وہ ستون جنہوں نے چند سنہری سکوں کی جھلک کی خاطر ضمیر فروشی کر رکھی تھی آپ کے خلاف ہوگئے۔۲۱۲ ان حضرت کا اس بارے میں غلو و تشدد جس انتہا تک پہنچ گیا اس کا کسی قدر اندازہ مندرجہ عبارت سے ہو سکتا ہے کہ وہ رپورٹ پر تنقید کرنے والوں کو برطانوی ایجنٹ تک قرار دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ خود چوہدری افضل حق صاحب نے اپنی کتاب >تاریخ احرار< میں محتاط الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ احرار نے نہرو رپورٹ کو مسلمانوں میں مقبول بنانے کے لئے زبردست جدوجہد کی اور اس کے لئے قربانیاں دیں۔۲۱۳
احرار پنجاب کے دوش بدوش مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر >زمیندار< لاہور بھی رپورٹ کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ اور ان کا اخبار اس کی حمایت میں وقف تھا۔۲۱۴ بلکہ انہوں نے آگے چل کر مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لکھنئو میں ایک ریزولیوشن بھی پیش کیا جس میں اس کے اصول کو پسند کرتے ہوئے اس کے مرتب کرنے والوں کی محنت و کاوش کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ اور جزئیات کو طے کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی بنانے کی رائے دی گئی تھی۔ ۲۱۵مذہبی لیڈروں میں سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری اور ان کے متعدد رفقاء بھی حق میں تھے۔۲۱۶
0] fts[نہرو رپورٹ کے مخالف مسلمانوں کا طبقہ
ان تفصیلات سے ظاہر ہے کہ ہندوستان خصوصاً پنجاب میں خود مسلمانوں کا ایک حصہ نہرو رپورٹ کی حمایت میں وقف اور اس کی تبلیغ کر رہا تھا۔ اس کے مقابل بلاشبہ کئی دردمند دل رکھنے والے مسلمانوں کو جن میں سر محمد شفیع` مولانا محمد علی جوہر` سر محمد اقبال جیسے مسلمان لیڈر بھی شامل تھے۔ اس رپورٹ سے سخت اختلاف تھا مگر وہ اپنے اختلاف کے ساتھ ایسے وزنی اور واقعاتی دلائل نہ پیش کرتے تھے۔ جو دوسرے مسلمانوں کو رپورٹ کی مضرتوں سے آگاہ کر کے اس کی کھلی مخالفت پر آمادہ کر دیں اور نہ یہ حضرات کسی منظم رنگ میں نہرو رپورٹ میں بے نقاب کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے بلکہ ڈاکٹر سر محمد اقبال تو مایوس ہوکر پنجاب کونسل میں اس نظریہ کا اظہار کر چکے تھے کہ >ہندوستان میں حکومت کے لائق نہ مسلمان ہیں نہ ہندو اور یہ کہ میں ہندو مسلم افسران کی بجائے انگریز افسروں کا خیر مقدم کروں گا<۔۲۱۷`۲۱۸
ان حالات میں مسلمانان ہند کو ایک ایسے قائد و راہ نما کی ضرورت تھی جو میدان عمل میں آئے اور نہ صرف نہرو رپورٹ کا علمی و عملی رنگ میں تجزیہ کر کے انہیں اس کی مخالفت میں مضبوط چٹان پر کھڑا کر دے۔ تا وہ اکثریت کے ناپاک عزائم سے محفوظ رہ کر اپنی قومی زندگی کو محفوظ کر سکیں۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے مدلل مسکت تبصرہ
جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ۸ / اگست ۱۹۲۸ء سے ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء تک درس القرآن میں مصروف تھے۔ اس کے بعد چند دن گذشتہ ماہ کے جمع شدہ کام کے نکالنے میں لگے جب فارغ ہوئے تو نہرو رپورٹ کی تلاش کی۔ لیکن تلاش کے باوجود اس کی کوئی کاپی میسر نہ آئی اور آخری اطلاع لاہور سے یہی پہنچی کہ تیسرا ایڈیشن چھپنے پر ہی یہ کتاب دستیاب ہو سکے گی چونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی۔ آپ کو اس کا بہت افسوس ہوا۔ اسی اثناء میں آپ کے اہل و عیال شملہ سے واپس آئے تو آپ انہیں لینے کے لئے امرت سر تشریف لے گئے۔ جہاں آپ کو اسٹیشن کے بک سٹال سے اس کے دو نسخے مل گئے اس طرح ۲۱ / ستمبر کو یہ رپورٹ فراہم ہوئی اور اسی وقت سے آپ نے اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اور چونکہ پہلے ہی دیر ہو چکی تھی اس لئے آپ نے الفضل کے ذریعہ اس کے متعلق اپنی رائے کا باقساط اظہار شروع کردیا۔۲۱۹جو >نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح< کے عنوان سے ۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء سے ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء تک سات قسطوں میں مکمل ہوا۔
تبصرہ کے مضامین پر طائرانہ نظر
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تبصرہ کے آغاز میں رپورٹ کی اندرونی شہادتوں سے ثابت کرنے کے بعد کہ نہرو کمیٹی کسی صورت میں بھی ہندوستان کی نمائندہ نہیں کہلا سکتی۔ سب سے پہلے مسلمانوں کے اصولی مطالبات پر روشنی ڈالی جو یہ تھے۔
۱۔
ind] ga[tحکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبوں کو اندرونی طور پر کامل خود مختاری حاصل ہو۔
۲۔
نیابت سے متعلق یہ اصل تسلیم کیا جائے کہ جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے اسے اپنے حق سے زیادہ ممبریاں دی جائیں لیکن جن میں اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں ان کی اصلی تعداد کے مطابق ہی حق نیابت حاصل ہو۔
۳۔
جب تک ہندوئوں اور مسلمانوں میں باہمی اعتماد قائم نہ ہو جائے اس وقت تک سب صوبوں میں اور کم سے کم پنجاب اور بنگال میں جداگانہ طریق انتخاب جاری رہے۔
۴۔
صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی اختیارات تفویض کئے جائیں۔
۵۔
کسی صوبہ میں بھی اکثریت کو اقلیت کی زبان یا اس کے طرز تحریر میں مداخلت کا حق حاصل نہ ہو۔
۶۔
حکومت مذہب یا مذہب کی تبلیغ میں دخل دینے کی مجاز نہ ہو۔
۷۔
)حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے( ساتواں مطالبہ یہ بھی پیش ہو رہا تھا کہ ان حقوق کو قانون اساسی میں داخل کیا جائے اور قانون اساسی اس وقت تک نہ بدلا جا سکے جب تک کہ منتخب شدہ ممبروں میں سے ۳/۲ اس کے بدلنے کی رائے نہ دیں۔ اور تین دفعہ کی متواتر منتخب شدہ مجالس آئینی پے در پے ۳/۲ رائے سے اس کے بدلنے کا فیصلہ کریں اور قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو وہ اس وقت تک تبدیل نہ کیا جائے جب تک اس شرط کے ساتھ کہ اس قوم کے ۳/۲ ممبر اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اور جب تک تین متواتر طور پر منتخب شدہ کونسلوں میں وہ اس تبدیلی کے حق میں ووٹ نہ دیں اسے پاس نہ سمجھا جائے۔۲۲۰4] ft[r
اکثر و بیشتر یہ ان مطالبات کا خلاصہ تھا جو عموماً شفیع لیگ کی طرف سے پیش کئے گئے۔ اس کے مقابل کلکتہ لیگ کے مطالبات تھے جس کے بانی` صدر اور روح رواں جناب محمد علی جناح تھا۔ مگر اول تو انہیں خود اقرار تھا۔ کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی اکثریت ان کی تائید میں نہیں تھی۔۲۲۱دوسرے شفیعلیگ سے ان کا اصولی اختلاف اس مرحلے پر بنیادی حیثیت سے دو ایک امور پر تھا۔ جن کی وضاحت حضور نے فرمائی اور اس کے بعد مسلمانوں کا ایک ایک مطالبہ بیان کر کے نہرو رپورٹ کی روشنی میں ثابت کیا کہ اس نے مسلم مطالبات کو پورا کرنا تو رہا ایک طرف ان کے موجودہ حاصل شدہ حقوق بھی غصب کرنے کی کوشش کی ہے اتحادی طریق حکومت System) (Federal کی بجائے اس نے ایک قسم کی وحدانی طرز حکومت System) (Unitaryکی تجویز کی۔ اقلیتوں کی نسبت اس نے فیصلہ دیا کہ انہیں کسی جگہ زائد حق نہ دیا جائے۔ جداگانہ انتخاب کا مطالبہ اس نے پورا کرنے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ صوبہ سرحد کے لئے نیابتی حکومت قبول کرلی۔ مگر بلوچستان کو مشتبہ چھوڑ دیا اور سندھ کو الگ صوبہ بنانے کے لئے غیر معقولی شرطیں لگا دیں۔ زبان کا معاملہ نظر انداز کر دیا۔ مذہبی اور اقتصادی دست اندازی سے روکنے کے مطالبہ کی اہمیت و وسعت لفظوں کے ہیر پھیر میں دبا دی گئی۔ اسی طرح جہاں تک اقلیتوں کی حفاظت کی دفعات کا ایسے رنگ میں قانون اساسی میں شامل کرنے کا تعلق تھا۔ کہ ان کا بدلنا آسان کام نہ ہو۔ اسے بھی نہرو کمیٹی نے نظر انداز کر دیا۔
مسلمانوں کو بروقت انتباہ
مسلمانوں کے مطالبات اور نہرو رپورٹ پر تفصیلی نظر ڈالتے ہوئے آپ نے پہلے مسلمانوں کو خاص حفاظت کی ضرورت کے سات اہم وجوہ بیان فرمائے۔ اور پھر مسلمانوں کے ہر مطالبہ کی معقولیت روز روشن کی طرح ثابت کر دکھائی اور مسلمانوں کو بروقت انتباہ کیا کہ وہ یہ خیال چھوڑ دیں کہ اب جو کچھ بھی فیصلہ ہو جائے بعد میں اگر اس میں نقص معلوم ہوگا تو اسے بدل دیا جائے گا کیونکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے آج انہیں اپنے مطالبات کا منوانا زیادہ آسان ہے لیکن سوراج کے ملنے کے بعد ان کا منوانا بالکل ناممکن ہوگا اس وقت مرکزی حکومت پر ہندو اکثریت چھائی ہوئی ہوگی اس لئے مسلمان اسمبلیوں میں بھی حق نہ حاصل کر سکیں گے۔ پھر مسلمان اقلیت کے قوت و طاقت سے اپنے حقوق بزور منوانے کا امکان نہیں ہے اور نہ بیرونی طاقتوں اور ملکوں پر انحصار کرنا صحیح ہو سکتا ہے لہذا ملک میں اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی
tav.5.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
واحد صورت یہی ہے کہ ہندوستان کو خود و مختار حکومت ملنے سے پہلے مسلم اقلیت اپنے حقوق منوالے چنانچہ آپ نے کانگریسی مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے شدید اختلاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو صاف صاف بتا دیا۔
>میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کوشش نہ کرو اب جبکہ انگلستان نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا حق ہے اس کے لئے جو جائز کوشش کی جائے میں اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شریک ہوں مگر جو چیز مجھ پر گراں ہے اور میرے دل کو بٹھائے دیتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریق حکومت پر راضی ہو جائیں۔ اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جب تک کہ دونوں مسلم لیگز کی پیش کردہ تجاویز کو قبول نہ کرلیا جائے۔ اس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پر راضی نہ ہوں ورنہ جو خطرناک صورت پیدا ہوگی اس کا تصور کر کے بھی دل کانپتا ہے-<۲۲۲
مسلمانوں کے لئے آئندہ طریق عمل کی راہنمائی
تبصرہ کے آخر میں حضور نے مسلمانوں کے سامنے طریق عمل رکھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش فرمائیں :
اول :مسلمان اپنے مطالبات میں بعض اہم باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن پر انہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے غور کرنا ضروری ہے۔ مثلاً رائے دہندگی میں عورتوں کا حق` خارجی معاملات` احترام جمعتہ المبارک` اہلی اور عائلی معاملات میں اسلامی قانون کے نفاذ پر زور` ہائیکورٹوں کے ججوں کا تقرر` صوبوں کی طرف سے تقرر` ریاستوں کا سوال خلاصہ یہ کہ انہیں نہرو کمیٹی پر مزید غور کرنا چاہئے اور اس کے لئے اول تو ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو جس پر ہر خیال کے مسلمانوں کو اظہار خیال کا موقعہ دیا جائے اور اصولی غور کرنے کے بعد ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو نہرو کمیٹی پر تفصیلی اور باریک نگاہ ڈالے اور اس کی خامیوں کو دور اور اس کی کمیوں میں اضافہ کر کے ایک مکمل قانون اساسی پیش کرے۔
دوم :نہرو کمیٹی گورنمنٹ کے حلقوں میں ایک خاص جنبش پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر شہر اور ہر قصبے میں جلسے کر کے یہ ریزولیوشن پاس کئے جائیں کہ ہم نہرو کمیٹی کی رپورٹ سے متفق نہیں اور ان جلسوں کی رپورٹیں گورنمنٹ کے پاس بھی بھیجی جائیں۔
سوم :جمہور مسلمانوں کو نہرو رپورٹ کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے اور ہر شہر ہر قصبے اور ہر گائوں میں اس کے لئے جلسے منعقد ہوں اس تحریک کی کامیابی کے لئے جمہور کا پشت پر ہونا ضروری ہے۔
چہارم :انگلستان کی رائے عامہ پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تا اسے معلوم ہو کہ نہرو رپورٹ لکھنے والے فرقہ وارانہ تعصب سے بالا نہیں رہ سکے۔
حضور نے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ >میں اور احمدیہ جماعت اس معاملہ میں باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں اور میں احمدیہ جماعت کے وسیع اور مضبوط نظام کو اس اسلامی کام کی اعانت کے لئے تمام جائز صورتوں میں لگا دینے کا وعدہ کرتا ہوں<۔۲۲۳
تبصرہ کی وسیع اشاعت اور مقبولیت
]txet [tagحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ بے نظیر تبصرہ >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< کے نام سے معاً بعد کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا اور کلکتہ اور دہلی میں )جو ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کے مرکز تھے اور جہاں کانگریس` مسلم لیگ` مجلس خلافت اور دوسری جماعتوں کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے( اس کی خاص طور پر اشاعت کی گئی۔ حضور کی اس بروقت رہنمائی سے مسلمانوں کے اونچے طبقے بہت ممنون ہوئے اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں اسے نہایت پسند کیا گیا۔ اور بڑے بڑے مسلم لیڈروں نے تعریفی الفاظ میں اسے سراہا اور شکریہ ادا کیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کی نہایت ضرورت کے وقت دستگیری کی ہے۔ چنانچہ کئی اصحاب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کہا کہ >اصلی اور عملی کام تو آپ کی جماعت ہی کر رہی ہے اور جو تنظیم آپ کی جماعت میں ہے وہ اور کہیں نہیں دیکھی جاتی<۔ کلکتہ کے مخلص احمدی مسٹر دولت احمد خاں صاحب بی۔ اے ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< نے تبصرہ کو بنگالی میں ترجمہ کر کے اور ایک چھوٹی سی خوبصورت کتاب کی شکل میں ترتیب دے کر شائع کیا اور اہل بنگال میں اس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔۲۲۴
ایک معزز تعلیم یافتہ غیر احمدی نہرو رپورٹ پر تبصرہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے سیکرٹری ترقی اسلام کے نام ایک خط میں لکھا۔ >میری طبیعت بہت چاہتی ہے کہ حضرت خلیفہ صاحب کو دیکھوں اور ان کی زیارت کروں۔ کیونکہ میرے دل میں ان کی بہت وقعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ براہ مہربانی حضرت صاحب کی خدمت میں اس احقر کا سلام عرض کر دیجئے اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ ایک خادم کی طرف سے مبارکباد منظور فرمائیں کہ آپ نہایت خوش اسلوبی سے ایسے خطرناک حالات میں جن سے اسلام اس وقت گزر رہا ہے اس کو بچا رہے ہیں اور نہ صرف مذہبی خبر گیری کر رہے ہیں بلکہ سیاسی معاملات میں بھی مسلمانوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ میں نے جناب والا کے خیالات کو نہرو رپورٹ کے متعلق پڑھا جس نے آپ کی وقعت کو میری آنکھوں میں اور بھی بڑھا دیا۔ اور میں جہاں آپ کو ایک زبردست مذہبی عالم سمجھتا ہوں اس کے ساتھ ہی ایک ماہر سیاست دان بھی سمجھنے لگا ہوں<۔۲۲۵
برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں اور انگلستان کے اہل الرائے طبقہ تک مسلم نقطہ نگاہ پہنچانے کے لئے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر کے بھیجا گیا۔ ۲۲۶
مسلمانان ہندکی طرف سے رپورٹ کے خلاف کامیاب احتجاج
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانان ہند سے ملی و قومی مفاد کی خاطر پورے نظام جماعت کو مصروف عمل کرنے کا جو وعدہ فرمایا۔ وہ آپ نے پورا کر دیا۔ چنانچہ حضور نے ۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کے خطبہ جمعہ میں ہندوستان کے تمام احمدیوں کو حکم دیا کہ وہ ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گائوں میں دوسرے لوگوں سے مل کر جلد سے جلد ایسی کمیٹیاں بنائیں جو نہرو کمیٹی کے خلاف جلسے کر کے لوگوں کو اس کی پیش کردہ تجاویز کے بد اثرات سے آگاہ کریں اور ریزولیوشن پاس کر کے ان کی نقول لاہور اور کلکتہ کی مسلم لیگوں` مقامی حکومت` حکومت ہند` سائمن کمیشن اور تمام سیاسی انجمنوں اور پریس کو بھیجیں اور حکومت کو آگاہ کر دیا جائے کہ نہرو رپورٹ میں ہمارے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہئے۔ جب تک ان باتوں کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ نیز فرمایا :
>خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نظام ہے اس لئے ایک جگہ سے جو آواز اٹھتی ہے وہی پشاور سے لے کر آسام تک اور منصوری سے لے کر راس کماری تک ہر جگہ سے بلند ہوتی ہے۔ اور سارے ملک میں شور بپا ہو جاتا ہے ایسا نظام اگر انسان خود پیدا کرنے کی کوشش کریں تو سینکڑوں سالوں میں بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مامور بھیج کر ہم پر احسان کیا کہ ایسا زبردست نظام منٹوں میں پیدا کر دیا۔ اور جو کام کروڑوں مسلمان سالہا سال میں نہیں کر سکتے تھے وہ خدا کے فضل سے ہم نے کئے ہیں۔۔۔۔۔۔ پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس نظام کو کام میں لاکر تحریک کریں تاکہ اس رپورٹ کے بداثرات سے مسلمانوں اور گورنمنٹ کو متنبہ کیا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔ اور تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا مطلع پیدا کر دیا جائے جو اس غبار سے جو اس وقت اٹھ رہا ہے پاک و صاف ہو<۔۲۲۷
چنانچہ جماعتوں نے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں مسلمانوں کو بیدار کر دیا اور ملک کے چپہ چپہ میں احتجاجی جلسے کئے۔۲۲۸اور ہندوستان کے مسلمان ایک بار پھر اسی جوش و خروش سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے جس طرح حضرت امام جماعت احمدیہ کی سرفروشانہ جدوجہد نے انہیں ۱۹۲۷ء میں تحریک تحفظ ناموس رسول میں متحد و منسلک کر دیا تھا۔
بالاخر گاندھی جی جیسے کانگریسی راہنما کو اجلاس منعقدہ الہ آباد میں نہایت صاف گوئی سے اقرار کرنا پڑا کہ >ہم یہ کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ کہ نہرو رپورٹ کو ردی کے کاغذ کے برابر بھی وقعت نہیں دی گئی<۔۲۲۹
ایک اہم مکتوب
ہندوئوں کی سازش جماعت احمدیہ کے خلاف
احمدی وکیل فضل کریم صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ :
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
حضور کو قبل اس کے ہندوئوں کی مخالفت اور بعض کے متعلق کافی علم ہے۔ مگر کل ہی مجھے ایک مسلمان وکیل دوست سے ایک ایسے امر کے متعلق علم ہوا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہندوئوں نے Organizedہمارا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اس کی طرف اپنے عوام کو بھی توجہ دلا دلا کر تیار کر رہے ہیں۔ خصوصیت سے گزشتہ ایک دو سال اور موجود ہندو رپورٹ کی ہماری طرف سے مخالفت نے آگ لگا دی ہے۔ اس دوست نے مجھے بتلایا کہ ایک ہندو نے مجھے بتلایا ہے کہ احمدی ملکی ترقی میں ایک زبردست روک ہیں اس لئے ہم انہیں Crushکر کے چھوڑیں گے اور سارے ملک کے ہندوئوں نے یہ ٹھان لیا ہے اور اس کے لئے روپیہ کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ میں نے دوست سے دریافت کیا کہ وہ کس حیثیت کا انسان ہے تو انہوں نے بتایا کہ معمولی سا آدمی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہے کہ عوام میں بھی ہماری مخالفت اور مقابلہ کی روح پھونکی جا رہی ہے۔
میں انشاء اللہ العزیز مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کروں گا مجھے تو یہ سن کر ایک پہلو سے خوشی ہوئی اور ایک پہلو سے فکر پیدا ہوئی خوشی تو اس لئے کہ ملک کی ایک زبردست قوم بھی سلسلہ کی طاقت کو مان گئی اور روز افزوں ترقی سے گھبرا رہی ہے فکر اپنی کمزوریوں کا ہے کہ مقابلہ کی طاقت نہیں اللہ تعالیٰ ہی قوت عطا کرے گا۔ خادم کو دعائوں میں یاد فرمائیں۔
خاکسار فضل کریم
بنگالی مسلمانوں کی بیداری کے لئے ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا دورہ
بنگال اگرچہ مسلم اکثریت کا صوبہ تھا مگر پورے بنگال پر ہندو سرمایہ دار چھائے ہوئے تھے اور وہی زیادہ تر تعلیم یافتہ بھی تھے اس
نازک صورت حال کے پیش نظر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے )سابق مبلغ جرمنی و انگلستان( کو بنگال میں بھجوایا اور ارشاد فرمایا کہ نہرو رپورٹ کے خلاف بنگالی مسلمانوں میں تحریک پیدا کر دیں۔
ملک صاحب نے کلکتہ` چاٹگام` اکھوڑہ` برہمن بڑیہ` بوگرہ` رنگپورہ` جلپاگوری` کاکورہ` مالدہ` جمشیدپور وغیرہ مشہور مقامات کا دورہ کیا اور کئی مقامات پر زور دار لیکچر دئیے۔ چنانچہ اکھوڑہ میں >حالات حاضرہ اور ان کا علاج< کے موضوع پر انگریزی زبان میں تقریر کی جو بہت پسند کی گئی بوگرہ میں آپ نے مقامی اخبارات کے لئے نہرو رپورٹ کے متعلق مضامین لکھے۔ جن کو مقامی پریس کے علاوہ بنگال کے دوسرے اخبارات نے بھی شائع کیا۔ رنگپورہ میں آپ نے ایک مقامی رئیس کی صدارت میں نہرو رپورٹ پر لیکچر دیا۔ جلسہ میں قراردادیں پاس ہوئیں جو کلکتہ کے مشہور اخبارات فارورڈ اور انگلش میں میں بھی شائع ہوگئیں۔ علاوہ ازیں فری پریس کو بھی تار دیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ میٹنگ بہت کامیاب ہوئی۔ یہاں آپ نے بعض رئوساء سے انفرادی ملاقاتیں بھی کیں۔ اور مسلمانوں کی اقتصادی و تعلیمی پستی کے متعلق تبادلہ خیالات کیا۔ جلپاگوری میں بھی نہرو رپورٹ پر آپ کا لیکچر ہوا۔ یہ مقام چونکہ کمشنری کا ہیڈ کوارٹر تھا اس لئے تعلیم یافتہ اصحاب بڑی کثرت سے شامل اجلاس ہوئے خان بہادر ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب صدر جلسہ تھے۔ یہاں بھی ریزولیوشن پاس کر کے اخبارات کو بھیجے گئے لوگوں پر آپ کی تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا۔۲۳۰
ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا خود نوشت بیان ہے کہ :
>میں اکتوبر ۱۹۲۸ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے بنگال کے دورہ پر گیا۔ چلتے وقت حضور نے خصوصیت سے مجھے فرمایا کہ آپ نے صرف سیاسی تقریریں کرنی ہیں۔ مذہبی تقریروں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے وہاں برہمن بڑیہ` کلکتہ` ٹاٹانگر` رنگپور` جلپاگوری` بوگرہ وغیرہ میں نہرو رپورٹ کے خلاف حضور کے تحریر کردہ دلائل کو اپنی زبان میں پیش کیا۔ میرے وہ لیکچر بہت ہی مقبول ہوئے۔ وہ میرے کیا لیکچر تھے زبان میری تھی دلائل حضور کے تھے میں اب ان لوگوں کے نام تو نہیں جانتا۔ کہ یہ ۳۷ سال پہلے کی بات ہے۔ لیکن بوگرہ میں کئی خان بہادروں نے مجھے کہا کہ ہمارے تو وہم میں بھی یہ دلائل نہ آئے تھے۔ اور ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا کیسے مقابلہ کریں۔ آپ نے یہ دلائل کہاں سے سیکھے۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی وہ حیران تھے کہ ایک نوجوان ہندوستان کے اہم ترین سیاسی مسئلہ پر اس قابلیت سے کیسے اظہار کر رہا ہے اور کس قابلیت سے اس نے نہرو رپورٹ کے بخیے ادھیڑ دئیے ہیں جس کے مقابلہ میں ہم عاجز تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ دلائل تو احمدیہ جماعت کے امام کے دئیے ہوئے ہیں میں تو ان کا ایک خادم ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جلپاگوری میں میری مولوی تمیز الدین صاحب سے ملاقات ہوئی اور غالباً وہاں انہوں نے ہی میرے لیکچر کا انتظام کیا۔ مجھے ابھی تک ان کی مشترکہ انتخاب کے خلاف اور ہندوئوں کے خلاف شدید غضب کا احساس ہے جس شدت سے میں نے مشترکہ انتخاب کی مخالفت اور جداگانہ انتخاب کی تائید کی اس سے کہیں زیادہ اس بارے میں مولوی تمیز الدین صاحب متشدد تھے۔ انہوں نے میرے سامنے ہندوئوں کو گالیاں بھی دیں۔ اور کہا کہ یہ مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں مجھے اس وقت سے یہ احساس ہے کہ مولوی صاحب ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف چالوں کو خوب جانتے تھے۔ اور ان کے سخت دشمن تھے اور ہندوئوں کی نظر میں بھی وہ ایک کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔ ٹاٹانگر میں میں نے ایک بڑے ہندوئوں اور مسلمانوں کے اجتماع میں جس میں ہندوئوں کی بہت زیادہ کثرت تھی اسلام کے صلح کل مذہب ہونے پر تقریر کی۔ اس تقریر کے صدر بہار کے ایک بہت بڑے کانگریسی لیڈر تھے جن کا نام اس وقت پورا تو مجھے یاد نہیں۔ لیکن ان کے نام کا ایک حصہ کنٹھ تھا۔ میری اس تقریر کو بہت پسند کیا گیا اور مسٹر کنٹھ نے تو بڑے تعجب اور بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ اسلام اس محبت صلح اور آشتی کے پیغام کو لے کر دنیا میں آیا ہے۔ سب بڑے بڑے شہروں میں میں نے تقریریں کیں اور میری ان تقاریر کی رپورٹیں کلکتہ کے اخبارات انگلش مین Man) (Englishاور سٹیٹسمین (Statesman) میں چھپتی رہیں۔ سٹیٹسمین (Statesman)ان دنوں کلکتہ سے نکلتا تھا۔ میں ان رپورٹوں کی نقول حضرت صاحب کو بھجواتا رہا۔ جب میں واپس قادیان پہنچا تو حضرت صاحب میرے اس دورہ سے بہت خوش تھے۔ جب میں نے اپنی رپورٹ عرض کرنی چاہی تو آپ نے بہت خوشی سے فرمایا۔ کہ ہمیں آپ کی تقریروں کی سب رپورٹیں پہنچ چکی ہیں<۔۲۳۱
الغرض یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور مسلمانان بنگال بھی نہرو رپورٹ کی نقصان دہ سکیم سے واقف ہوکر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
آل مسلم کانفرنس پٹنہ کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مطالبات کی تائید
نہرو رپورٹ پر غور کرنے کے لئے مولانا محمد علی صاحب جوہر کی زیر صدارت پہلی آل مسلم کانفرنس پٹنہ میں منعقد ہوئی کانفرنس میں اگرچہ
نمائندگان کی ایک بڑی تعداد کسی صورت میں بھی مخلوط انتخاب کو منظور کرنے کے لئے تیار نہ تھی۔ لیکن کثرت آراء کی تائید سے مخلوط انتخاب کو شرائط کے ماتحت منظور کرلینے کی قرارداد پاس کی گئی۔ آل مسلم کانفرنس نے مسلمانوں کی طرف سے مخلوط انتخابات تسلیم کرنے کے لئے جو آٹھ مطالبات پیش کئے ان کا بڑا حصہ انہی امور پر مشتمل تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں درج فرمائے تھے۔
۱۔
چنانچہ حضور نے پہلا مطالبہ یہ فرمایا کہ >حکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبہ جات کامل طور پر خود مختار سمجھے جائیں<۔ ۲۳۲آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا۔ >صوبہ جاتی حکومتیں تمام اندرونی معاملات میں آزاد ہوں<۔
۲۔
دوسرا مطالبہ حضور کا یہ تھا کہ >جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے ان میں اس کے ہر قسم کے خیالات کے لوگوں اور ہر قسم کے فوائد کی نیابت کا راستہ کھولنے کے لئے جس قدر ممبریوں کا اسے حق ہو اس سے زیادہ ممبریاں اسے دے دی جائیں۔ لیکن جن صوبوں میں کہ اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں انہیں ان کی اصلی تعداد کے مطابق حق نیابت دیا جائے۔ کیونکہ ان صوبوں میں اگر اقلیت کو زیادہ حقوق دئیے گئے تو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی<۔۲۳۳کانفرنس نے اس سلسلہ میں یہ تجویز منظور کی۔ >بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے لئے مرکزی اور صوبہ جاتی دونوں مجالس قانون ساز میں ۲۵ فیصدی نیابت مخصوص کی جائے اور اسی طرح دوسرے صوبہ جات کی مسلم اور غیر مسلم اقلیت کو بھی جس کا تناسب آبادی ۱۵ فیصدی سے زیادہ نہ ہو تناسب آبادی سے زیادہ نشستیں دی جائیں لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی اکثریت اقلیت میں منتقل نہ ہو جائے<۔
۳۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تیسرا مطالبہ یہ پیش فرمایا تھا کہ >چونکہ کل ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صرف پچیس فیصدی ہے اس لئے انہیں مرکزی حکومت میں کم سے کم ۳۳ فیصدی نیابت کا حق دیا جائے<۔ چنانچہ آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ >مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کو کم از کم ۳/۱ نشستیں دی جائیں<۔
۴۔
چوتھا مطالبہ یہ تھا کہ >صوبہ سرحد اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی حکومت دی جائے<۔ اس بارہ میں کانفرنس کا فیصلہ یہ تھا۔ >سندھ کو حقیقی معنوں میں علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے۔ صوبہ شمال مغربی سرحد اور بلوچستان میں مکمل اصلاحات نافذ کی جائیں<۔
۵۔
پانچواں مطالبہ یہ تھا کہ >قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو اس کے متعلق یہ شرط ہو کہ جب تک اس قوم کے ۳/۲ ممبر جس کے حقوق کی حفاظت اس قانون میں تھی اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اسے پاس نہ سمجھا جائے<۔
آل مسلم کانفرنس نے اس بارے میں یہ قرارداد پاس کی کہ >اگر کسی قوم کے ۴/۳ ارکان اپنی قوم کے مفاد کے منافی سمجھ کر کسی مسودہ قانون یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد کی مخالفت کریں تو ایسا مسودہ قانون` ¶یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد مجلس وضع قوانین میں پیش نہ ہو سکے نہ اس پر بحث کی جائے اور نہ یہ منظوری حاصل کر سکے۔
اس مختصر سے تقابل سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لئے جو مطالبات ضروری سمجھے اور جنہیں اچھی طرح واضح فرمایا ان کی اہمیت کو آل مسلم کانفرنس پٹنہ نے بھی تسلیم کیا۔ اور اسی طرح ان مطالبات کو ان مسلمانوں کی تائید حاصل ہوگئی جو اپنے قومی حقوق کی ہر حال میں حفاظت کرنا ضروری سمجھتے اور ہندو سیاست کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا اپنی قومی موت کے مترادف یقین کرتے اور مسلمانوں کو فروخت کرنا قومی غداری قرار دیتے تھے۔۲۳۴`۲۳۵
آل انڈیا مسلم لیگ اور نہرو رپورٹ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے نہرو رپورٹ پر تبصرہ نے مسلمانان ہند میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک زبردست جنبش پیدا کر دی۔ مگر افسوس کانگریسی علماء ہندوئوں کا آلئہ کار ہونے کی وجہ سے اور مخلص مسلم لیگی زعماء اپنی خوش فہمی کے باعث ابھی تک اس کی پورے زور سے حمایت کئے جا رہے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگ کے مورخ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں :
>دسمبر ۱۹۲۸ء میں کلکتہ قومی اجتماعات کا مرکز قرار پایا- کانگریس مسلم لیگ مجلس خلافت سب کے سالانہ اجلاس یہیں ہو رہے تھے انہی اجلاسوں میں نہرو رپورٹ کے رد و قبول کا مسئلہ طے ہونا تھا۔ اب مسٹر جناح بھی واپس آ چکے تھے وہ دیکھ رہے تھے اس رپورٹ نے ان کے چودہ نکات کا قتل عام کر دیا ہے۔ پھر بھی وہ نہرو رپورٹ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے بلکہ حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لئے مولانا محمد علی کا نام مولانا شوکت علی نے مسلم لیگ کونسل میں پیش کیا لیکن جناح نے راجہ صاحب محمود آباد سر علی محمد خاں کے نام کی حمایت کی اس لئے نہیں کہ وہ محمد علی کے مخالف تھے۔ اور علی محمد کے دوست تھے۔ اس لئے کہ محمد علی نہرو رپورٹ کے علانیہ مخالف تھے اور علی محمد نہرو رپورٹ کے علانیہ حامی تھے جناح نہرو رپورٹ کے مخالف کو لیگ کے اجلاس کا صدر نہیں بنانا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا حامی مسلم لیگ کی صدارت کرے اور رپورٹ پر آخری غور و فکر کے لئے کانگریس کی طرف سے جو کنوینشن منعقد ہونے والی ہے اس میں دوستانہ اور مخلصانہ طور پر چند معمولی ترمیمات منظور کرا کے مسلمانوں کو نہرو رپورٹ منطور کرلینے پر آمادہ کرے تاکہ حکومت برطانیہ کے سامنے ہندوستان اپنا متحدہ مطالبہ پیش کر سکے۔ متحدہ مطالبہ` متحدہ محاذ` متحدہ دستور جناح کو اس قدر عزیز تھا کہ انہون نے چودہ نکات سے بھی دست برداری اختیار کرلی۔ اب وہ صرف چند مطالبات کانگریس سے منطور کرانا چاہتے تھے اور اس کے بعد پوری قوت کے ساتھ نہرو رپورٹ کی تبلیغ و حمایت کے لئے وقف ہو جانا چاہتے تھے<۔۲۳۶
sub] ga[tکلکتہ میں آل پارٹیز کنوینشن کا انعقاد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مسلسل جدوجہد اور دوسرے مسلمانوں کی پیہم چیخ پکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈت موتی لال نہرو صدر کانگریس نے اعلان کر دیا۔ کہ ایک نیشنل کنوینشن بلائی جائے گی۔ چنانچہ اس اعلان کے مطابق ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو کلکتہ میں ایک آل پارٹیز کانفرنس نہرو رپورٹ پر غور کرنے` ترمیمیں پیش کرنے اور آخری فیصلہ کرنے کے لئے منعقد ہوئی جس میں ہندوستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو دعوت دی گئی۔ چنانچہ اجلاس میں آزاد خیال معتدل` کانگریسی` سوراجی` ترک موالات کے علمبردار اور حامی موالات غرضکہ ہر خیال میں مسلک کے لوگ شامل ہوئے۔ خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند نے متفقہ طور پر اپنا نمائندہ مولانا محمد علی جوہر کو نامزد کیا۔ اور وہ اس میں شرکت کے لئے آئے۔۲۳۷مسلم لیگ کی طرف ے جناب محمد علی صاحب جناح )۲۲ نامور مسلم لیگی نمائندوں سمیت( تشریف لائے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ( اور مسٹر دولت احمد خان صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< کلکتہ نے شمولیت فرمائی۔۲۳۸
کنوینشن میں مباحثہ کا آغاز ہوا۔ اور غالباً سب سے پہلے یہ نکتہ زیر بحث آیا۔ کہ کانگریس ہندوستان کے لئے درجہ نو آبادیات چاہتی ہے یا کامل آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔۲۳۹
مولانا محمد علی صاحب جوہر نے درجہ نو آبادیات کے مطالبہ کی مخالفت میں تقریر شروع کی۔ اس دوران میں ان کے منہ سے یہ بھی نکل گیا۔ کہ جو لوگ آزادی کامل کے مخالف اور درجہ مستعمرات کے حامی ہیں وہ ملک کے بہادر فرزند نہیں ہیں بلکہ بزدل ہیں۔ اس لفظ کا منہ سے نکلنا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور مطالبہ کیا گیا کہ بیٹھ جائو ہم نہیں سننا چاہتے۔ >مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< کے مولف جناب محمد مرزا صاحب دہلوی اس واقعہ کی تفصیل میں لکھتے ہیں۔ >اس بحث کے دوران میں کانگریس کے ہندو ممبروں کی ذہنیت کا جو مظاہرہ ہوا اس نے مولانا محمد علی مرحوم کو بد دل کر دیا تھا- اور وہ کنوینشن کے اجلاس سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ یہ ذہنیت کیا تھی۔ عقیدہ رکھا جائے آزادی کامل کا۔ لیکن اگر حکومت کی طرف سے ڈومینین اسٹیٹس کا ابتدائی درجہ بھی مل جائے تو اسے قبول کرلیا جائے۔۲۴۰
مولانا محمد علی صاحب جوہر کا یہ موقف کہاں تک درست تھا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے محمد مرزا دہلوی لکھتے ہیں۔ >کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ قبول کرلینے کے بعد بھی حکومت سے نہرو رپورٹ کے ذریعہ جس طرز حکومت کا مطالبہ کیا تھا اور اس کی جو تاویل صاحب رپورٹ نے کانگریس کے اجلاس میں پیش کی تھی وہ یہ تھی کہ عقیدہ تو بے شک ہمارا آزادی کامل ہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے ابتدائی سیڑھیاں بھی ہمیں طے کرنے کی ضرورت ہے اور نہرو رپورٹ ان ابتدائی سیڑھیوں میں سے ایک ہے اس تاویل کے صاف معنی یہ ہیں کہ کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ تو قبول کرلیا ہے لیکن ملک ابھی اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور فی الحقیقت اس وقت کے حالات کے اعتبار سے یہ بہت صحیح رائے تھی لیکن بعض انتہا پسند اور جوشیلے افراد جن میں ہندو کم اور مسلمان زیادہ تھے کانگریس کے ساتھ محض اس لئے ہوگئے تھے کہ آزادی کامل اس کا مطمح نظر ہے اور اس کی سیاسی جدوجہد کا مفہوم صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح ملک سے بدیشی حکومت کو نکال باہر کرے حالانکہ بدیشی حکومت کو فی الفور ہندوستان سے باہر کر دینے کا اس وقت تک کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ جب تک ہندوستانی حکومت کے ہر شعبہ کو چلانے اور بیرونی حملوں سے ملک کی مدافعت کرنے کے قابل نہ ہو جائیں اور یہ قابلیت ان میں سیاسی بصیرت اور متواتر تجربوں ہی سے آ سکتی تھی۔ اور اس قسم کا موقع انہیں اس وقت مل سکتا تھا جب ہندوستان کی ساری قومیں اس پر متحد ہو جائیں<۔۲۴۱
یہ ضمنی بحث ختم کر کے ہم پہلے مضمون کی طرف آتے ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ مولانا محمد علی صاحب جوہر درجہ نو آبادیات سے متعلق ابتدائی بحث ہی میں کنوینشن سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ جس پر بعد کو بڑی شد و مد سے تنقید کی گئی۔ کہ انہیں کنوینشن میں اپنے مطالبات پیش ضرور کرنے چاہئے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو بہت بڑی امید تھی کہ مطالبات منظور ہو جاتے اور یہ اختلاف و افتراق وہیں ختم ہو جاتا۔ مگر چونکہ انہوں نے دوبارہ شرکت نہیں کی اس لئے اختلاف کی خلیج اور زیادہ وسیع ہوتی گئی۔ ان کے سیرت نگار سید رئیس احمد صاحب جعفری نے اس اعتراض کا خاص طور پر ذکر کر کے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ >بادی النظر میں یہ اعتراض وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن بہ تامل خفیف یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ محمد علی نے جو کچھ کیا وہی اچھا تھا ڈومینین اسٹیٹس میں ان کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا گیا وہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی خوشگوار امید قائم کرنے میں مدد دیتا۔ اس کے علاوہ اختلافات کے آغاز سے اس وقت تک ہندو زعماء کا جو بے نیازانہ طرز عمل ہوگیا تھا۔ وہ بھی ایک خوددار اور شریف آدمی کو >طواف کوئے ملامت< کی اجازت نہیں دے سکتا تھا<۔۲۴۲
کنوینشن سے بائیکاٹ کی یہ دونوں وجوہ کس درجہ معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ کر ہم کنوینشن کی بقیہ روداد پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے چلے جانے کے بعد مسلم لیگی لیڈر مسٹر محمد علی صاحب جناح نے حالات کی نزاکت` ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت آزادی و حریت کی قدر و قیمت اور مسلم مطالبات کی معقولیت پر ایک شستہ اور منجھی ہوئی تقریر کی اور اپیل کی کہ محبت و اخوت کے جذبات کے ساتھ ان تجاویز پر غور کیجئے اور انہیں منظور کر کے اختلافات کا خاتمہ کر دیجئے کہ اس وقت قوم کی ضروریات کا تقاضا یہی ہے۔۲۴۳
مسٹر جناح کی تقریر پر نہرو کمیٹی کے ممبر سر تیج بہادر سپرو نے کہا۔ >ہم یہاں صرف ایک تمنا لے کر آئے ہیں کہ جس طرح ہو آپس میں سمجھوتہ ہو جائے۔ اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کا تناسب ۲۷ فیصدی ہے اور مسٹر جناح ۳۳ فیصدی مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نہ جناب صدر کا غیر وفادار ہوں نہ نہرو رپورٹ کا لیکن میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اس مرحلہ پر ہمیں مفاہمت سے اعراض نہیں کرنا چاہئے۔ میں اپنی ہر دلعزیزی کو خطرہ میں ڈال کر بھی یہ کہوں گا کہ ہر قیمت پر ہمیں سمجھوتہ کر لینا چاہئے۔ یہی اس کانفرنس کا مقصد ہے<۔۲۴۴
سر سپرو کی مدلل تقریر نے حاضرین پر ایک حد تک اثر کیا لیکن مشہور مہا سبھائی لیڈر مسٹر جیکر نے کھڑے ہو کر یہ طلسم توڑ دیا۔ انہوں نے کہا :
>ہمارے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد` ڈاکٹر انصاری` سر علی امام` راجہ صاحب محمود آباد اور ڈاکٹر کچلو جیسے محب وطن موجود ہیں۔ یہ سب حضرات نہرو رپورٹ سے بالکلیہ متفق ہیں خود مسلم لیگ کے بہت سے ممبر نہرو رپورٹ کے حامی ہیں اب اگر مسٹر جناح کسی کی نمائندگی کرتے ہیں تو صرف چند لوگوں کی۔ یہ بھی یاد رکھئے مسٹر جناح کا مطالبہ مسلم قوم کا مطالبہ نہیں ہے ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی سرشفیع کے ساتھ ہے جو مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں ایک دوسرا طبقہ مسلمانوں کا مسٹر فضل ابراہیم رحمت اللہ کے ساتھ ہے جو دہلی میں ایک مسلم کانفرنس )زیر صدارت آغا خاں( کر رہے ہیں۔ مسٹر جناح کا مطالبہ نہ مسلم قوم کا مطالبہ ہے نہ مسلم اکثریت کا<۔۲۴۵
اس تقریر کے بعد ووٹ لئے گئے تو کنوینشن نے مسٹر جیکر کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا اور مسلم لیگ کے مطالبات جو پہلے ہی مختصر سے تھے رد کر دئیے گئے۔ مسٹر چھاگلہ )جج ہائیکورٹ بمبئی۔ مسلم لیگ کے ایک سرگرم کارکن( نے اس واقعہ شکست کی نسبت ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء کو ایسوشی ایٹڈ پریس کو بیان دیتے ہوئے کہا :
>کنوینشن کے اجلاس کے سامنے لیگ کی نمائندگی اس لئے کی گئی تھی کہ مسلمان چند ضروری ترمیمات کے بعد نہرو رپورٹ کو منظور کر سکیں گے۔ میں نہایت افسوس کے ساتھ اس امر کا اعادہ کرتا ہوں کہ کنوینشن کو مسلم مطالبات پر نہایت فراخ دلی سے غور کرنا چاہئے تھا بجائے اس کے وہ ہندو مہاسبھا کے زیر اثر اور اس کی دھمکی میں آکر یہ صورت اختیار کرتا۔ میں یہ امر ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ کے نمائندوں کی اکثریت کنوینشن کے اجلاس میں شریک ہوئی تھی۔ اور جنہوں نے مسلمانوں کے جائز مطالبات کو پیش کیا تھا۔ نہرو رپورٹ کے حامیوں میں سے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی ملت کے ساتھ جنگ کی بلکہ اپنی جماعت )مسلم لیگ( محض نہرو رپورٹ کی تائید کرنے کے سلسلہ میں برائی حاصل کی۔ اگر کنوینشن ان ۳۳ منتخب نمائندوں کے ساتھ کسی امر پر گفتگو کرنے سے قاصر ہے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ ہندوستان کے کسی مسلمان سے بھی فیصلہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ اگر ان ۳۳ نمائندوں کو فرقہ پرست سمجھ کر ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا گیا تو سمجھ لو کہ ہندوستان میں ایک بھی مسلم قوم پرور موجود نہیں<۔۲۴۶
اس صورت حال کے بعد مسٹر محمد علی جناح کانگریس اور اس کے لیڈروں سے بالکل دل برداشتہ ہوگئے اور آخر مسلم لیگ نے بھی ۳۰ / مارچ ۱۹۲۹ء کو روشن تھیٹر دہلی میں مسٹر جناح کی زیر صدارت یہ فیصلہ کیا کہ >چونکہ پنڈت نہرو نے مسلم لیگ کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے لہذا مسلم لیگ بھی نہرو رپورٹ منظور کرنے سے قاصر ہے<۔۲۴۷
کلکتہ کنوینشن میں جہاں مسلم لیگی نمائندے نہرو رپورٹ کے حامی کی صورت میں آئے وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ نمائندہ جماعت احمدیہ( نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ہم نہرو رپورٹ کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف ہمارے رسالے اور مضامین شائع ہوئے لیکچر دئیے گئے` مجالس قائم کی گئیں مگر اس کے باوجود ہم نے کنوینشن کی دعوت قبول کی اور اس میں شامل ہوئے کیونکہ ہم بائیکاٹ کے قائل نہیں ہماری رائے ہے کہ سب سے ملنا چاہئے پھر خواہ ہماری بات تسلیم ہو۔ یا رد کر دی جائے لیکن سب کے خیالات کو سن لینا ضروری ہے۔
نہرو رپورٹ میں ترمیم کے لئے احمدی نمائندہ نے دس ریزولیوشن پیش کئے جن کو ایجنڈا میں شائع کیا گیا اور وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر پیش ہوئے اور ان کے موافق و مخالف تقریریں بھی ہوئیں لیکن جس کنوینشن میں مسلم لیگی مطالبات کو کانگریسی ذہنیت کے سامنے شکست اٹھانا پڑی وہاں احمدی نمائندے کیونکر کامیاب ہو سکتے تھے۔ تاہم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ کنوینشن 1] [lrmکے سب حلقوں کے سامنے جماعت احمدیہ کے سیاسی خیالات خوب واضح ہوگئے۔۲۴۸
آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی اور نہرو رپورٹ
کانگریس کی منعقدہ کنوینشن میں مسلم مطالبات کی پامالی دیکھ کر مسلمانوں کی تمام مشہور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے دہلی میں جمع ہوئے اور ۳۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء سے ۲ / جنوری ۱۹۲۹ء تک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
یہ کانفرنس جو سر آغا خاں کی صدارت میں شروع ہوئی مسلمانان ہند کی اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جس میں کونسلوں اسمبلی اور کونسل آف اسٹیٹ کے علاوہ مسلم لیگ` خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند کے نمائندے اور سربرآوردہ ارکان بھی شامل تھے۔۲۴۹سر شفیع کے الفاظ میں یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی پوری نمائندہ تھی۔۲۵۰اور برصغیر پاک و ہند کے صحافی جناب عبدالمجید صاحب سالک کا جو اس کانفرنس میں موجود تھے بیان ہے کہ :
>میں اس کانفرنس کو ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں بے نظیر سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کی جس قدر زیادہ نمائندگی اس کانفرنس میں مہیا ہوئی اتنی اور کسی اجتماع میں دکھائی نہیں دی یہاں تک کہ اس کانفرنس میں بیس قادیانی ممبر بھی شامل کر لئے گئے تھے تاکہ اس جماعت کو بھی نقصان نیابت کی شکایت نہ ہو<۔۲۵۱
جیسا کہ سالک صاحب نے اشارہ کیا ہے متعدد احمدی مختلف صوبوں سے منتخب ہو کر کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔ مثلاً بنگال سے جناب حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ` بہار سے جناب حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری` پنجاب سے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب دہلی سے بابو اعجاز حسین صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ دہلی اور مرکز کی طرف سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب۔
کانفرنس کے آغاز میں سر شفیع نے ایک پر جوش تقریر کے ساتھ کانفرنس کا اصل ریزولیوشن پیش کیا جو اکثر و بیشتر ان خطوط پر مرتب کیا گیا تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں تجویز فرمائے تھے۔
اس قرارداد کی تائید میں مسٹر اے۔ کے غزنوی` مولوی شفیع دائودی` ڈاکٹر سر محمد اقبال` مسٹر شرف الدین سی۔ پی` حافظ ہدایت حسین کانپور` مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی دہلی۔ مسٹر عبدالعزیز پشاوری` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` دائود صالح بھائی` حاجی عبداللہ ہارون` مولوی عبدالماجد بدایونی` مولوی کفایت اللہ` مولوی آزاد سبحانی اور مولانا محمد علی صاحب جوہر نے بالترتیب تقریریں کیں اور یہ قرارداد پر زور تائید سے منظور ہوئی۔۲۵۲
یہی وہ اہم قرارداد تھی جس پر آئندہ چل کر مسٹر محمد علی جناح نے اپنے مشہور چودہ نکات تجویز کئے۔ چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب >ذکر اقبال< میں لکھتے ہیں :
>اس کانفرنس میں مسلمانوں کے تمام سیاسی مطالبات کے متعلق ایک قرار داد منظور ہوئی جس کا چرچا ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں ہوا اور بعد میں مسٹر محمد علی جناح نے بھی اپنے چودہ نکات اسی قرارداد کے اصول پر مرتب کئے<۔۲۵۳
اسی طرح محمد مرزا دہلوی مسلم لیگ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
>مسلم کانفرنس کے اس اجلاس کے بعد مارچ ۱۹۲۹ء میں مسلمانوں کے مطالبات کو منظم صورت میں حکومت اور کانگریس کے آگے پیش کرنے کے لئے دہلی میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اجلاس میں جناب محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ پر نہایت سخت تنقید کی اور اسے مسلم تجاویز دہلی کے مقابلہ میں ہندو تجاویز سے تعبیر کیا۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر بڑی تفصیل اور جامعیت سے روشنی ڈالی اور مستقبل کے ہندوستان میں مسلم انفرادیت کے تحفظ کے لئے ایک طویل تجویز میں وہ مشہور چودہ نکات پیش کئے جو آج تک مسلمانوں کے قومی مطالبات سمجھے جاتے ہیں<۔۲۵۴
اس کانفرنس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی دو تقریریں ہوئیں ایک سبجیکٹ کمیٹی میں اور دوسری کھلے اجلاس میں۔ آپ نے اپنی تقریروں میں واضح کیا کہ کس طرح نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے حقوق تلف کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس سلسلہ میں آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے تبصرہ رپورٹ کا تذکرہ بھی کیا۔ جس میں رپورٹ کی خامیوں پر مدلل بحث تھی۔ آپ نے مولانا شوکت علی کے ایک ریزولیوشن کی تائید کرتے ہوئے فرمایا۔ مسلمانوں کو خصوصیت سے علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کرنا چاہئے۔ مسئلہ گائوکشی کے ذکر پر آپ نے بتایا۔ کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے سب سے پہلے اس بات کو ہندوئوں کے سامنے پیش کیا تھا کہ اگر ہندو اس وجہ سے ناراض ہیں کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں تو ہم ان کی خاطر ایک جائز اور حلال چیز کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ بھی ہماری خاطر ایک چھوٹی سی قربانی کریں اور وہ یہ ہے کہ پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آپ کے خلاف بدزبانی سے باز آجائیں۔ کانفرنس کے تمام ممبروں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اس موقعہ پر اکثر مسلم زعماء حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بروقت سیاسی رہنمائی` جماعت احمدیہ کی زبردست تنظیم اور اس کے عظیم الشان کارناموں کے مداح پائے گئے۔۲۵۵
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی سیاست میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک نے اس کے ملک گیر اثر و نفوذ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے >اب سارا مسلم پریس` تمام مسلم ادارات اور جماعتیں ان مطالبات کی حمایت کر رہی تھیں۔ جو دہلی مسلم کانفرنس میں پیش کئے گئے تھے۔ تمام مخالف جماعتیں دب گئی تھیں اور حقیقت میں اس قرارداد کا مخالف کوئی بھی نہ تھا خود کانگرسی مسلمان بھی اس کی کامیابی کے خواہاں تھے گوڈر کے مارے زبان سے اقرار نہ کرتے ہوں<۔4] fts[۲۵۶
فصل ششم
قادیان کی ترقی کا نیا دور اور ریل کی آمد
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< کی دوسری جلد کے شروع میں ہم بتا چکے ہیں کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خدا سے حکم پاکر دعویٰ ماموریت فرمایا تھا۔ قادیان ایک بہت چھوٹا سا گمنام گائوں تھا اس وقت قادیان کی آبادی دو ہزار نفوس سے زیادہ نہ ہوگی۔ اس کے اکثر گھر ویران نظر آتے تھے۔ اور ضروری استعمال کی معمولی معمولی چیزوں کی خرید کے لئے بھی باہر جانا پڑتا تھا۔ اسی طرح اس وقت قادیان کی بستی تار اور ریل وغیرہ سے بھی محروم تھی۔ اور دنیا سے بالکل منقطع حالت میں پڑی تھی۔ قادیان کا ریلوے سٹیشن بٹالہ تھا۔ جو قادیان سے ۱۲ میل مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس کے اور قادیان کے درمیان ایک ٹوٹی پھوٹی کچی سڑک تھی۔۲۵۷ جس پر نہ صرف پیدل چلنے والے تھک کر چور چور ہو جاتے تھے بلکہ یکے میں سفر کرنے والوں کو بھی بہت تکلیف اٹھانا پڑتی تھی۔
چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور بعض دوسرے بزرگوں کے چشم دید واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں سب سے پہلی مشکل تو اس بستی کی گمنامی کی وجہ سے اس کی تلاش تھی اور دوسرا بڑا بھاری مرحلہ قادیان پہنچنے کا تھا۔ آمد و رفت کے ذرائع کی اتنی کمی تھی کہ سواری بڑی مشکل سے ملتی تھی اور اس زمانے کی سواریاں بھی کیا تھیں۔ بیل گاڑی` ریڑھو` گڈا` اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی یکہ۔ چلنے میں جھٹکوں کی کثرت سے پسلیاں دکھ جایا کرتیں` پیٹ میں درد اٹھنے لگتا اور جسم ایسا ہو جاتا کہ گویا کوٹا گیا ہے۔ یکہ مل جانے کے بعد دوسری مشکل یہ ہوا کرتی تھی کہ یکہ بان غائب ہو جاتا۔ ¶وہ نہار لینے چلا جایا کرتا۔ اور جب تک کئی مسافر ہاتھ نہ آجاتے اس کی نہاری تیار نہ ہو سکتی اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جایا کرتا۔ سڑک کی کیفیت لکھنے کی تو ضرورت نہیں کیونکہ اس کی تفصیل خود خداوند عالم الغیب نے فج عمیق کے کلام میں فرما دی ہے۔ اس کی خرابی تو روز بروز بڑھتی رہتی مگر مرمت کی نوبت مدتوں تک نہ آتی۔ چونکہ غلہ اور دوسری تمام ضروری چیزیں گڈوں ہی کے ذریعہ سے آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے سڑک اور بھی خستہ و خراب رہتی تھی۔ یکہ کی ہیئت ترکیبی کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ اچھے خاصے تازے گھوڑے کا حال بھی چند ہی روز جوتے جانے پر ایسا پتلا ہو جاتا کہ دیکھنے والوں کے دل رحم سے بھر جاتے۔ )کبھی یکہ سواریوں کو لے کر چلتا اور کبھی سواریاں یکہ کو لے کر۔ حضرت مولانا انوار حسین خاں رئیس شاہ آباد ضلع ہر دوئی جو سابقون الاولون میں سے تھے۔ یکہ تو کرایہ پر لے لیتے مگر صرف بستر اس کے پیچھے بندھوا دیتے۔ اور دوسرے لوگوں کو بٹھا دیتے اور خود تمام راستہ پیدل ہی طے فرما کر قادیان پہنچتے۔ یکہ میں بیٹھ کر سفر کا کوئی حصہ تو شاید ہی کبھی آپ نے طے کیا ہو۔ سفر کا زیادہ حصہ تو اور حضرات کو بھی پیدل ہی طے کرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں تو خدا کی پناہ۔ ۲۵۸بعض اوقات سارا سارا دن چلنے پر بھی قادیان پہنچ جانا ممکن نہ تھا۔ یکے دلدل میں پھنس جانے پر تو ایسی مصیبت پیش آتی جو برداشت سے باہر ہو جاتی۔ سامان مزدوروں کے سر پر آتا اور سواریاں بدقت پیدل چل کر!! یکہ بان مجبور ہوکر گھوڑا اپنے ساتھ لے آتا اور یکہ سڑک پر کھڑا رہ جاتا۔
قادیان کی بستی نشیب میں واقع ہے۔ برسات میں چاروں طرف سے پانی کا سیلاب آیا کرتا جس سے گائوں کے اردگرد کی ڈھابیں` کھائیاں اور خندقیں پانی سے بھر جایا کرتیں اور زائد پانی قریباً ڈیڑھ میل تک بٹالہ قادیان کی سڑک میں سے ہی گذرا کرتا جو بعض اوقات اتنا گہرا اور تیز رو ہو جاتا کہ اس میں سے سلامت گذر جانا بہت ہی دشوار ہو جاتا اور گائوں صحیح معنوں میں ایک جزیرہ بن جایا کرتا۔۲۵۹
یہ تھے وہ حالات جن میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلسلہ کی ترقی اور قادیان کی ترقی کے بارے میں بشارتیں دی گئیں۔ چنانچہ ۱۹۰۲ء میں آپ کو عالم کشف میں دکھایا گیا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائے نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے الخ۔ ۲۶۰پھر اپریل ۱۹۰۵ء میں حضور نے رئویا میں دیکھا کہ >میں قادیان کے بازار میں ہوں اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے<۔۲۶۱
قادیان میں ریل گاڑی کے پہنچنے کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ایک مشہور پیشگوئی ہے۔ کئی صحابہ نے اسے خود حضور کی زبان مبارک سے سنا تھا حتیٰ کہ انہیں حضور نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ قادیان کی ریلوے لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی۔ چنانچہ روایات صحابہ میں مرزا قدرت اللہ صاحب ساکن محلہ چابک سواراں لاہور` شاہ محمد صاحب ساکن قادیان اور میاں چراغ دین صاحب ولد میاں صدر الدین صاحب قادیان کی شہادتیں ملتی ہیں۔۲۶۲
ان غیبی خبروں کے پورا ہونے کا بظاہر کوئی سامان نظر نہیں آتا تھا بلکہ حکومت کی بے اعتنائی کا تو یہ عالم تھا کہ ریلوے لائن بچھوانے کا تو کیا ذکر صرف اتنی بات کی منظوری کے لئے کہ قادیان سے بٹالہ تک سڑک پختہ کر دی جائے اور اس کے لئے سالہا سال کوشش بھی جاری رکھی گئی تھی حکام وقت نے عملاً انکار کر دیا تھا بحالیکہ دوسرے راستے اور سڑکیں آئے دن درست ہوتی رہتی تھیں لیکن اگر آخر تک بھی نوبت نہ آئی تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی جو بٹالہ اور قادیان کے درمیان تھا۔۲۶۳اور جیسا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی مشہور کتاب >سلسلہ احمدیہ< میں تحریر فرمایا ہے ہرگز امید نہ تھی کہ قادیان میں اس قدر جلد ریل آجائے گی۔۲۶۴لیکن خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ جماعتی کوشش کے بغیر اچانک یہ بات معلوم ہوئی کہ ریلوے بورڈ کے زیر غور بٹالہ اور بیاس کے درمیان ایک برانچ لائن کی تجویز ہے۔ ۲۶۵مگر پھر پتہ چلا کہ محکمہ ریل کے ذمہ دار افسروں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ریلوے جسے بعد کو بٹالہ بوٹاری ریلوے کا نام دیا گیا ۱۹۳۰ء تک بھی تیار نہیں ہو سکتی۔۲۶۶مگر چونکہ خدا کی مشیت میں اب وقت آچکا تھا۔ کہ قادیان کا مرکز احمدیت ریل کے ذریعہ پورے ملک سے ملا دیا جائے اس لئے ریلوے بورڈ نے ۱۹۲۷ء کے آخر میں قادیان بوٹاری ریلوے کی منظوری دے دی اور شروع ۱۹۲۸ء میں محکمہ اطلاعات حکومت پنجاب کی طرف سے سرکاری طور پر یہ اعلان کر دیا گیا کہ ریلوے بورڈ نے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے زیر انتظام پانچ فٹ چھ انچ پٹڑی کی بٹالہ سے بوٹاری تک ۴۲ میل لمبی ریلوے لائن بنانے کی منظوری دے دی ہے اس منصوبہ کا نام بٹالہ بوٹاری ریلوے ہوگا ساتھ ہی گورنمنٹ گزٹ میں اعلان ہوا کہ سروے ہو چکا ہے اور لائن بچھانے کا کام جلد شروع ہونے والا ہے۔۲۶۷چنانچہ عملاً یہ کام نہایت تیزی سے جاری ہوگیا۔ اور شب و روز کی زبردست کوشش کے بعد بالاخر ۱۴ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریل کی پٹڑی قادیان کی حد میں پہنچ گئی۔ اس دن سکولوں اور دفتروں میں تعطیل عام کر دی گئی اور لوگ جوق در جوق ریلوے لائن دیکھنے کے لئے جاتے رہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ نئے راستے کھلنے پر کئی قسم کی مکروہات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس لئے ساری جماعت اور مرکز سلسلہ کے لئے ریل کے مفید اور بابرکت ہونے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور صدقہ دینا چاہئے۔ چنانچہ قادیان کی تمام مساجد میں دعائیں کی گئیں اور غرباء و مساکین میں صدقہ تقسیم کیا گیا۔ ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریلوے لائن قادیان کے سٹیشن تک عین اس وقت پہنچی جبکہ جمعہ کی نماز ہو رہی تھی۔ نماز کے بعد مرد عورتیں اور بچے اسٹیشن پر جمع ہونے شروع ہوگئے اور قریباً دو اڑھائی ہزار کا مجمع ہوگیا۔ ریلوے کے مزدوروں اور ملازمین کے کام ختم کرنے پر ان میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ جس کا انتظام مقامی چندہ سے کیا گیا تھا۔۲۶۸
اب صرف اسٹیشن کی تعمیر اور ریلوے لائن کی تکمیل کا کام باقی تھا۔۲۶۹جو دن رات ایک کر کے مکمل کر دیا گیا۔ قادیان کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر بابو فقیر علی صاحب مقرر ہوئے۔۲۷۰اور اسٹیشن کا نام >قادیان مغلاں< تجویز کیا گیا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ لائن کے بوٹاری تک جانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر ابھی لائن قادیان کے حدود تک نہیں پہنچی تھی کہ ریلوے حکام نے قادیان سے آگے لائن بچھانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ اور نہ صرف اگلے حصہ کی تعمیر رک گئی۲۷۱بلکہ آگے بچھی ہوئی ریلوے لائن اکھاڑ بھی دی گئی۔ اور جو اراضی اس کے لئے مختلف مالکوں سے خریدی گئی تھیں وہ اخیر میں نیلام عام کے ذریعہ فروخت کر دی گئی۔
ان حالات سے ظاہر ہے کہ یہ لائن خالص خدائی تصرف کے تحت محض قادیان کے لئے تیار ہوئی۔ منشی محمد دین صاحب سابق مختار عام )والد ماجد شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ( کا بیان ہے کہ جب ریلوے لائن بچھ گئی۔ تو متعلقہ یورپین ریلوے افسر کی پرتکلف دعوت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی میں کی گئی۔ سروے کا عملہ بھی شامل تھا۔ اور جماعت کے کئی معززین بھی شامل تھے۔ اس موقعہ پر اس یورپین افسر نے یہ بات ظاہر کی کہ میرے اندر کوئی ایسی طاقت پیدا ہوگئی تھی جو مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی۔ اور یہی تحریک ہوتی تھی کہ جلد لائن مکمل ہو۔۲۷۲
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ سلسلہ کے مفاد` قادیان کی ترقی اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ لائن قادیان کے شمال کی طرف سے ہوکر گذرے مگر ریلوے حکام اور علاقہ کی غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی اسے جنوب سے گذارے جانے کے لئے انتہائی جوش اور پوری سرگرمی سے کوشش کر رہی تھی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی فراست و بصیرت سے اس صورت حال کو پہلے سے معلوم کرلیا اور اس کی روک تھام کے لئے ابتدا ہی میں خاص انتظام سے ایک زبردست مہم شروع کرا دی یہ مہم کیا تھی اس میں کن بزرگوں نے حصہ لیا۔ اور کس طرح کامیابی ہوئی اس کی تفصیل شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام کے بیان کے مطابق درج ذیل ہے فرماتے ہیں : غالباً ۱۹۲۸ء کی ابتداء یا ۱۹۲۷ء کے آکر کا واقعہ ہے کہ کسی اخبار میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے ایک سرکاری اعلان پڑھا جس میں اس قسم کا کوئی ذکر تھا کہ ریلوے امرت سر سے بیاس تک ملائی جائے اس پر حضور نے فوراً مولوی عبدالمغنی خان صاحب کو ناظر خاص مقرر فرمایا` حکام سے رابطہ کے لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو اس وقت ناظر امور خارجہ تھے مقرر کئے گئے۔ میں اور منشی امام الدین صاحب۲۷۳)والد ماجد چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ( ان دونوں بزرگوں کے لئے بطور معاون تجویز ہوئے۔ ہماری تجویز یہ تھی کہ یہ ریلوے بٹالہ کے شمال کی طرف سے آئے اور قادیان کے شمالی جانب سے ہوتی ہوئی سری گوبند پور پہنچے۔ مگر محکمہ ریلوے اور علاقہ کے غیر مسلموں اور دوسرے مخالفین کی تجویز یہ تھی۔ کہ ریل بٹالہ کے جنوب سے ہوتی ہوئی قادیان کے جنوب مقبرہ بہشتی کی طرف جائے وہاں سے سری گوبند پور سے ہوتی ہوئی بیاس تک پہنچائی جائے۔ ہماری طرف سے حکام کو بتایا گیا کہ بٹالہ کے جنوب کی اراضیات زیادہ زرخیز اور قیمتی ہیں اور شمالی جانب کی اراضیات کم قیمت کی ہیں۔ چنانچہ ریلوے نے ہماری یہ تجویز مان لی۔ اور سروے شروع ہوگیا۔ ریلوے نے اس ٹکڑہ پر ریلوے لائن بچھانے کے لئے ایک یورپین افسر مقرر کیا تھا جو بہت ہوشیار نوجوان تھا۔ سروے کرنے والا سارا عملہ مسلمان تھا اور اس عملہ کے افسر معراج دین صاحب اوورسیر تھے۔ میری یہ ڈیوٹی تھی کہ میں اس عملہ کے ساتھ دن رات رہوں اور جماعتی مفاد کے مطابق اوورسیر معراج دین صاحب کو بتائوں کہ ریلوے لائن بٹالہ کے شمال سے ہوتی ہوئی اس اس طریق سے آئے۔ چنانچہ جب سروے لائن نہر تتلے والی کے قریب پہنچ گئی تو مخالف عنصر نے جس میں قادیان کے مسلمان اور سکھ وغیرہ بھی شامل تھے پھر زور لگایا کہ ریلوے لائن قادیان کی جنوبی جانب سے پہنچے اس مرحلہ پر یورپین افسر نے حکم دیا کہ سروے کر کے معلوم کیا جائے کہ شمالی اور جنوبی جانب سے خرچ میں کس قدر تفاوت ہوگا۔ بظاہر حالات شمالی جانب خرچ قریباً لاکھ ڈیڑھ لاکھ زیادہ تھا۔ مگر ریلوے اوورسیر نے جب شمالی اور جنوبی جانب کا خرچ پیش کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں فرق خفیف سا ہے ) جس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ قادیان کی جنوبی جانب پست تھی اور سیلاب کا پانی وہاں جمع رہتا تھا۔ جس سے بچائو کے لئے بھرتی ڈال کر لائن بچھانے کے اخراجات بھی اس میں شامل کرنے پڑتے تھے۔ مولف( بنابریں یورپین افسر نے ریلوے کے افسران بالا سے بھی یہی منظوری لے لی کہ لائن قادیان کے شمال ہی کی طرف سے گذاری جائے۔ چنانچہ لائن قادیان کے شمالی جانب سے تعمیر کی گئی۔ بلکہ اسی خسرہ نمبر سے آئی اور اسی مجوزہ جگہ پر اسٹیشن بنا جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب پہلے سے تجویز فرما چکے تھے۔۲۷۴
المختصر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات پوری ہوئی کہ قادیان میں لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی اور اس طرح قادیان میں گاڑی کا آنا سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان بن گیا۔ اور قادیان کے ریلوے نظام سے وابستہ ہونے کے بعد سلسلہ کی ترقی کا میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔nsk] [tagفالحمد للہ علی ذلک۔
مسلم حکومتوں کو انتباہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جس میں مسلمان حکومتوں کو ان کی دین سے بے اعتنائی پر انتباہ کیا اور بتایا کہ ترک یورپین اثر سے آزاد ہوئے تو ہر مسلمان کو اس پر خوشی تھی۔ مگر تھوڑے ہی دنوں بعد انہوں نے آہستہ آہستہ مذہب اور حکومت کے تعلق کو توڑنا شروع کیا۔ پھر عربی حروف چھوڑ کر ترکی الفاظ کو انگریزی الفاظ میں لکھنا شروع کیا۔ جس کا نتیجہ یہی ہوگا۔ کہ جس آسانی سے وہ پہلے قرآن شریف پڑھ سکتے تھے اب نہیں پڑھ سکیں گے۔ اور اسلام سے تعلق کم ہوتا جائے گا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی یہ حرکت محض نقل سے زیادہ کچھ نہیں اب یہ مرض دوسرے ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں ہیٹ اور انگریزی لباس پہننے اور داڑھی منڈانے کا حکم دیا گیا ہے اب ایران میں بھی حکومت اس قسم کے قواعد بنا رہی ہے جس سے افسروں کے لئے انگریزی لباس پہننا ضروری ہوگا۔ اور جو نہ پہنے وہ سزا کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح یہ سکیم بھی زیر غور ہے کہ قدیم ایرانی حروف اختیار کرلئے جائیں۔ نہ معلوم عربی نے کیا قصور کیا ہے۔ حالانکہ ان کے آباء کا سارا لٹریچر اسی زبان میں ہے قوموں کی ترقی ان کے آباء کی روایتوں پر منحصر ہوتی ہے ان کی کتابیں عربی حروف میں لکھی ہوئی ہیں اب اگر عربی حروف کو مٹا دیا گیا۔ تو آئندہ نسلیں ان کتابوں کو نہیں پڑھ سکیں گی اور اس طرح قرآن کریم سے وابستگی بھی کم ہو جائے گی۔ اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ :
>میں نے پہلے امور کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہ ترکوں پر مخالفین کے حملے ہیں۔ مگر جب تصدیق ہوئی تو پھر میں سمجھا کہ شاید یہ وباء ترکوں تک ہی محدود رہے مگر اب دوسروں تک اس کے اثر کو دیکھ کر میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی رائے اس کے متعلق بیان کردوں اور جہاں جہاں تک ہماری آواز سنی جائے ہم بتا دیں۔ کہ یہ راستے ترقی کے نہیں۔ ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے اور اسلام میں جو ظاہری اتحاد ہے اسے مٹانا کسی مسلمان حکومت کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اسلامی حکومتوں میں سے سوائے نجد کے کہیں اسلام نظر نہیں آتا۔ میں نجدیوں کے مقابر کو گرانے یا دوسرے مظالم کو کٹر حنفیوں کی طرح ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر بہرحال سنت اسلام کو قائم اور برقرار رکھنے کے لئے ان کی کوشش ضرور قابل قدر ہے مخالفین ہنس رہے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کے معنوں پر عمل تو پہلے ہی چھوڑ رکھا تھا اب اس کے الفاظ کو بھی چھوڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ اپنی غلطیوں کو سمجھ سکیں اور ان کے بد نتائج سے محفوظ رہ سکیں<۔۲۷۵
امرتسر قادیان ریلوے کا افتتاح اور گاڑی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مع خدام سفر
ریلوے پروگرام کے مطابق چونکہ ۱۹ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو امرت سر سے قادیان جانے والی پہلی ریل گاڑی روانہ ہونی تھی۔ اس لئے قادیان
سے بہت سے مرد عورتیں اور بچے اس تاریخ کو امرت سر پہنچ گئے- نیز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس ۳ بجے بعد دوپہر امرت سر تشریف لے آئے۔ تا قادیان ریلوے کے افتتاح کی تقریب پر اس خدائے قدوس کے آگے دست دعا بلند کریں۔ جس نے محض اپنے فضل و کرم سے موجودہ زمانے کی اہم ایجاد کو خدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آرام و آسائش کے لئے مرکز احمدیت تک پہنچا دیا۔
حضور کے امرت سر اسٹیشن پر تشریف لاتے ہی ہجوم بہت زیادہ ہوگیا کیونکہ قادیان کے دوستوں کے علاوہ گوجرانوالہ` لاہور` امرت سر اور بعض در دراز مقامات کے احباب بھی آگئے اور گاڑی روانہ ہونے سے قبل قادیان جانے والوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ ریلوے والوں کو پہلی تجویز کردہ گاڑیوں میں اور ڈبوں کا اضافہ کرنا پڑا۔
گاڑی کے پاس ہی اذان کہی گئی اور حضور نے ظہر و عصر کی نمازیں ایک بہت بڑے مجمع کو باجماعت پڑھائیں اس کے بعد حضور نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ پھر حضور گاڑی کے دروازہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ریل کا قادیان میں آنا مبارک کرے۔ یہ کہہ کر حضور نے مجمع سمیت چند منٹ تک نہایت توجہ اور الحاح سے دعا کرائی اور پھر سب احباب گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے ریل گاڑی کے جاری ہونے سے متعلق چار صفحہ کا ایک بہت عمدہ اور موثر ٹریکٹ تیار کر کے گاڑی چلنے کے موقعہ پر تقسیم کر دیا۔ ۲۷۶جس میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اوائل زمانہ کی مشکلات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ثابت کیا کہ ریل کا کسی حصہ ملک میں جاری ہو جانا معمولی بات ہے مگر قادیان کی ریل خاص تائید الٰہی میں سے ہے اور اس کی تقدیر خاص کے ماتحت تیار ہوئی ہے اور ان عظیم الشان نشانوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائید کے لئے ظاہر فرماتا ہے۔۲۷۷
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے رونق افروز ہونے کے بعد جتنی دیر تک گاڑی اسٹیشن پر کھڑی رہی۔ مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس۲۷۸نہایت خوش الحانی سے اردو اور پنجابی نظمیں پڑھتے رہے اور انہوں نے چند آیات و الہامات سے جو سرخ رنگ کے کپڑوں پر چسپاں تھیں گاڑی بھی خوب سجائی اور جاذب نظر بنالی تھی۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
الا ان روح اللہ قریب۔ الا ان نصر اللہ قریب۔ یاتون من کل فج عمیق۔ یاتیک من کل فج عمیق )۲( و اذا العشار عطلت و اذا النفوس زوجت )۳( دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ )۴( اھلا و سھلا و مرحبا )۵( خوش آمدید )۶( غلام احمد کی جے۔
)۷( یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے
یہ میرے صدق دعویٰ پر مہر الٰہ ہے
گاڑی نے اپنے مقررہ وقت ۳ بج کر ۴۲ منٹ پر حرکت کی اور ساتھ ہی اللہ اکبر کا نہایت بلند اور پر زور نعرہ بلند ہوا جو گاڑی کے ریلوے یارڈ سے نکلنے تک برابر بلند ہوتا رہا۔ گاڑی دیکھنے کے لئے آدمیوں کے گذرنے کے پل پر بڑا ہجوم تھا۔ اللہ اکبر اور >غلام احمد کی جے< کے نعرے راستہ کے ہر
tav.5.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
واحد صورت یہی ہے کہ ہندوستان کو خود و مختار حکومت ملنے سے پہلے مسلم اقلیت اپنے حقوق منوالے چنانچہ آپ نے کانگریسی مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے شدید اختلاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو صاف صاف بتا دیا۔
>میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کوشش نہ کرو اب جبکہ انگلستان نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا حق ہے اس کے لئے جو جائز کوشش کی جائے میں اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شریک ہوں مگر جو چیز مجھ پر گراں ہے اور میرے دل کو بٹھائے دیتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریق حکومت پر راضی ہو جائیں۔ اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جب تک کہ دونوں مسلم لیگز کی پیش کردہ تجاویز کو قبول نہ کرلیا جائے۔ اس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پر راضی نہ ہوں ورنہ جو خطرناک صورت پیدا ہوگی اس کا تصور کر کے بھی دل کانپتا ہے-<۲۲۲
مسلمانوں کے لئے آئندہ طریق عمل کی راہنمائی
تبصرہ کے آخر میں حضور نے مسلمانوں کے سامنے طریق عمل رکھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش فرمائیں :
اول :مسلمان اپنے مطالبات میں بعض اہم باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن پر انہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے غور کرنا ضروری ہے۔ مثلاً رائے دہندگی میں عورتوں کا حق` خارجی معاملات` احترام جمعتہ المبارک` اہلی اور عائلی معاملات میں اسلامی قانون کے نفاذ پر زور` ہائیکورٹوں کے ججوں کا تقرر` صوبوں کی طرف سے تقرر` ریاستوں کا سوال خلاصہ یہ کہ انہیں نہرو کمیٹی پر مزید غور کرنا چاہئے اور اس کے لئے اول تو ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو جس پر ہر خیال کے مسلمانوں کو اظہار خیال کا موقعہ دیا جائے اور اصولی غور کرنے کے بعد ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو نہرو کمیٹی پر تفصیلی اور باریک نگاہ ڈالے اور اس کی خامیوں کو دور اور اس کی کمیوں میں اضافہ کر کے ایک مکمل قانون اساسی پیش کرے۔
دوم :نہرو کمیٹی گورنمنٹ کے حلقوں میں ایک خاص جنبش پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر شہر اور ہر قصبے میں جلسے کر کے یہ ریزولیوشن پاس کئے جائیں کہ ہم نہرو کمیٹی کی رپورٹ سے متفق نہیں اور ان جلسوں کی رپورٹیں گورنمنٹ کے پاس بھی بھیجی جائیں۔
سوم :جمہور مسلمانوں کو نہرو رپورٹ کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے اور ہر شہر ہر قصبے اور ہر گائوں میں اس کے لئے جلسے منعقد ہوں اس تحریک کی کامیابی کے لئے جمہور کا پشت پر ہونا ضروری ہے۔
چہارم :انگلستان کی رائے عامہ پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تا اسے معلوم ہو کہ نہرو رپورٹ لکھنے والے فرقہ وارانہ تعصب سے بالا نہیں رہ سکے۔
حضور نے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ >میں اور احمدیہ جماعت اس معاملہ میں باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں اور میں احمدیہ جماعت کے وسیع اور مضبوط نظام کو اس اسلامی کام کی اعانت کے لئے تمام جائز صورتوں میں لگا دینے کا وعدہ کرتا ہوں<۔۲۲۳
تبصرہ کی وسیع اشاعت اور مقبولیت
]txet [tagحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ بے نظیر تبصرہ >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< کے نام سے معاً بعد کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا اور کلکتہ اور دہلی میں )جو ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کے مرکز تھے اور جہاں کانگریس` مسلم لیگ` مجلس خلافت اور دوسری جماعتوں کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے( اس کی خاص طور پر اشاعت کی گئی۔ حضور کی اس بروقت رہنمائی سے مسلمانوں کے اونچے طبقے بہت ممنون ہوئے اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں اسے نہایت پسند کیا گیا۔ اور بڑے بڑے مسلم لیڈروں نے تعریفی الفاظ میں اسے سراہا اور شکریہ ادا کیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کی نہایت ضرورت کے وقت دستگیری کی ہے۔ چنانچہ کئی اصحاب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کہا کہ >اصلی اور عملی کام تو آپ کی جماعت ہی کر رہی ہے اور جو تنظیم آپ کی جماعت میں ہے وہ اور کہیں نہیں دیکھی جاتی<۔ کلکتہ کے مخلص احمدی مسٹر دولت احمد خاں صاحب بی۔ اے ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< نے تبصرہ کو بنگالی میں ترجمہ کر کے اور ایک چھوٹی سی خوبصورت کتاب کی شکل میں ترتیب دے کر شائع کیا اور اہل بنگال میں اس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔۲۲۴
ایک معزز تعلیم یافتہ غیر احمدی نہرو رپورٹ پر تبصرہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے سیکرٹری ترقی اسلام کے نام ایک خط میں لکھا۔ >میری طبیعت بہت چاہتی ہے کہ حضرت خلیفہ صاحب کو دیکھوں اور ان کی زیارت کروں۔ کیونکہ میرے دل میں ان کی بہت وقعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ براہ مہربانی حضرت صاحب کی خدمت میں اس احقر کا سلام عرض کر دیجئے اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ ایک خادم کی طرف سے مبارکباد منظور فرمائیں کہ آپ نہایت خوش اسلوبی سے ایسے خطرناک حالات میں جن سے اسلام اس وقت گزر رہا ہے اس کو بچا رہے ہیں اور نہ صرف مذہبی خبر گیری کر رہے ہیں بلکہ سیاسی معاملات میں بھی مسلمانوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ میں نے جناب والا کے خیالات کو نہرو رپورٹ کے متعلق پڑھا جس نے آپ کی وقعت کو میری آنکھوں میں اور بھی بڑھا دیا۔ اور میں جہاں آپ کو ایک زبردست مذہبی عالم سمجھتا ہوں اس کے ساتھ ہی ایک ماہر سیاست دان بھی سمجھنے لگا ہوں<۔۲۲۵
برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں اور انگلستان کے اہل الرائے طبقہ تک مسلم نقطہ نگاہ پہنچانے کے لئے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر کے بھیجا گیا۔ ۲۲۶
مسلمانان ہندکی طرف سے رپورٹ کے خلاف کامیاب احتجاج
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانان ہند سے ملی و قومی مفاد کی خاطر پورے نظام جماعت کو مصروف عمل کرنے کا جو وعدہ فرمایا۔ وہ آپ نے پورا کر دیا۔ چنانچہ حضور نے ۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کے خطبہ جمعہ میں ہندوستان کے تمام احمدیوں کو حکم دیا کہ وہ ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گائوں میں دوسرے لوگوں سے مل کر جلد سے جلد ایسی کمیٹیاں بنائیں جو نہرو کمیٹی کے خلاف جلسے کر کے لوگوں کو اس کی پیش کردہ تجاویز کے بد اثرات سے آگاہ کریں اور ریزولیوشن پاس کر کے ان کی نقول لاہور اور کلکتہ کی مسلم لیگوں` مقامی حکومت` حکومت ہند` سائمن کمیشن اور تمام سیاسی انجمنوں اور پریس کو بھیجیں اور حکومت کو آگاہ کر دیا جائے کہ نہرو رپورٹ میں ہمارے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہئے۔ جب تک ان باتوں کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ نیز فرمایا :
>خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نظام ہے اس لئے ایک جگہ سے جو آواز اٹھتی ہے وہی پشاور سے لے کر آسام تک اور منصوری سے لے کر راس کماری تک ہر جگہ سے بلند ہوتی ہے۔ اور سارے ملک میں شور بپا ہو جاتا ہے ایسا نظام اگر انسان خود پیدا کرنے کی کوشش کریں تو سینکڑوں سالوں میں بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مامور بھیج کر ہم پر احسان کیا کہ ایسا زبردست نظام منٹوں میں پیدا کر دیا۔ اور جو کام کروڑوں مسلمان سالہا سال میں نہیں کر سکتے تھے وہ خدا کے فضل سے ہم نے کئے ہیں۔۔۔۔۔۔ پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس نظام کو کام میں لاکر تحریک کریں تاکہ اس رپورٹ کے بداثرات سے مسلمانوں اور گورنمنٹ کو متنبہ کیا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔ اور تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا مطلع پیدا کر دیا جائے جو اس غبار سے جو اس وقت اٹھ رہا ہے پاک و صاف ہو<۔۲۲۷
چنانچہ جماعتوں نے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں مسلمانوں کو بیدار کر دیا اور ملک کے چپہ چپہ میں احتجاجی جلسے کئے۔۲۲۸اور ہندوستان کے مسلمان ایک بار پھر اسی جوش و خروش سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے جس طرح حضرت امام جماعت احمدیہ کی سرفروشانہ جدوجہد نے انہیں ۱۹۲۷ء میں تحریک تحفظ ناموس رسول میں متحد و منسلک کر دیا تھا۔
بالاخر گاندھی جی جیسے کانگریسی راہنما کو اجلاس منعقدہ الہ آباد میں نہایت صاف گوئی سے اقرار کرنا پڑا کہ >ہم یہ کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ کہ نہرو رپورٹ کو ردی کے کاغذ کے برابر بھی وقعت نہیں دی گئی<۔۲۲۹
ایک اہم مکتوب
ہندوئوں کی سازش جماعت احمدیہ کے خلاف
احمدی وکیل فضل کریم صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ :
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
حضور کو قبل اس کے ہندوئوں کی مخالفت اور بعض کے متعلق کافی علم ہے۔ مگر کل ہی مجھے ایک مسلمان وکیل دوست سے ایک ایسے امر کے متعلق علم ہوا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہندوئوں نے Organizedہمارا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اس کی طرف اپنے عوام کو بھی توجہ دلا دلا کر تیار کر رہے ہیں۔ خصوصیت سے گزشتہ ایک دو سال اور موجود ہندو رپورٹ کی ہماری طرف سے مخالفت نے آگ لگا دی ہے۔ اس دوست نے مجھے بتلایا کہ ایک ہندو نے مجھے بتلایا ہے کہ احمدی ملکی ترقی میں ایک زبردست روک ہیں اس لئے ہم انہیں Crushکر کے چھوڑیں گے اور سارے ملک کے ہندوئوں نے یہ ٹھان لیا ہے اور اس کے لئے روپیہ کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ میں نے دوست سے دریافت کیا کہ وہ کس حیثیت کا انسان ہے تو انہوں نے بتایا کہ معمولی سا آدمی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہے کہ عوام میں بھی ہماری مخالفت اور مقابلہ کی روح پھونکی جا رہی ہے۔
میں انشاء اللہ العزیز مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کروں گا مجھے تو یہ سن کر ایک پہلو سے خوشی ہوئی اور ایک پہلو سے فکر پیدا ہوئی خوشی تو اس لئے کہ ملک کی ایک زبردست قوم بھی سلسلہ کی طاقت کو مان گئی اور روز افزوں ترقی سے گھبرا رہی ہے فکر اپنی کمزوریوں کا ہے کہ مقابلہ کی طاقت نہیں اللہ تعالیٰ ہی قوت عطا کرے گا۔ خادم کو دعائوں میں یاد فرمائیں۔
خاکسار فضل کریم
بنگالی مسلمانوں کی بیداری کے لئے ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا دورہ
بنگال اگرچہ مسلم اکثریت کا صوبہ تھا مگر پورے بنگال پر ہندو سرمایہ دار چھائے ہوئے تھے اور وہی زیادہ تر تعلیم یافتہ بھی تھے اس
نازک صورت حال کے پیش نظر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے )سابق مبلغ جرمنی و انگلستان( کو بنگال میں بھجوایا اور ارشاد فرمایا کہ نہرو رپورٹ کے خلاف بنگالی مسلمانوں میں تحریک پیدا کر دیں۔
ملک صاحب نے کلکتہ` چاٹگام` اکھوڑہ` برہمن بڑیہ` بوگرہ` رنگپورہ` جلپاگوری` کاکورہ` مالدہ` جمشیدپور وغیرہ مشہور مقامات کا دورہ کیا اور کئی مقامات پر زور دار لیکچر دئیے۔ چنانچہ اکھوڑہ میں >حالات حاضرہ اور ان کا علاج< کے موضوع پر انگریزی زبان میں تقریر کی جو بہت پسند کی گئی بوگرہ میں آپ نے مقامی اخبارات کے لئے نہرو رپورٹ کے متعلق مضامین لکھے۔ جن کو مقامی پریس کے علاوہ بنگال کے دوسرے اخبارات نے بھی شائع کیا۔ رنگپورہ میں آپ نے ایک مقامی رئیس کی صدارت میں نہرو رپورٹ پر لیکچر دیا۔ جلسہ میں قراردادیں پاس ہوئیں جو کلکتہ کے مشہور اخبارات فارورڈ اور انگلش میں میں بھی شائع ہوگئیں۔ علاوہ ازیں فری پریس کو بھی تار دیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ میٹنگ بہت کامیاب ہوئی۔ یہاں آپ نے بعض رئوساء سے انفرادی ملاقاتیں بھی کیں۔ اور مسلمانوں کی اقتصادی و تعلیمی پستی کے متعلق تبادلہ خیالات کیا۔ جلپاگوری میں بھی نہرو رپورٹ پر آپ کا لیکچر ہوا۔ یہ مقام چونکہ کمشنری کا ہیڈ کوارٹر تھا اس لئے تعلیم یافتہ اصحاب بڑی کثرت سے شامل اجلاس ہوئے خان بہادر ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب صدر جلسہ تھے۔ یہاں بھی ریزولیوشن پاس کر کے اخبارات کو بھیجے گئے لوگوں پر آپ کی تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا۔۲۳۰
ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا خود نوشت بیان ہے کہ :
>میں اکتوبر ۱۹۲۸ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے بنگال کے دورہ پر گیا۔ چلتے وقت حضور نے خصوصیت سے مجھے فرمایا کہ آپ نے صرف سیاسی تقریریں کرنی ہیں۔ مذہبی تقریروں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے وہاں برہمن بڑیہ` کلکتہ` ٹاٹانگر` رنگپور` جلپاگوری` بوگرہ وغیرہ میں نہرو رپورٹ کے خلاف حضور کے تحریر کردہ دلائل کو اپنی زبان میں پیش کیا۔ میرے وہ لیکچر بہت ہی مقبول ہوئے۔ وہ میرے کیا لیکچر تھے زبان میری تھی دلائل حضور کے تھے میں اب ان لوگوں کے نام تو نہیں جانتا۔ کہ یہ ۳۷ سال پہلے کی بات ہے۔ لیکن بوگرہ میں کئی خان بہادروں نے مجھے کہا کہ ہمارے تو وہم میں بھی یہ دلائل نہ آئے تھے۔ اور ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا کیسے مقابلہ کریں۔ آپ نے یہ دلائل کہاں سے سیکھے۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی وہ حیران تھے کہ ایک نوجوان ہندوستان کے اہم ترین سیاسی مسئلہ پر اس قابلیت سے کیسے اظہار کر رہا ہے اور کس قابلیت سے اس نے نہرو رپورٹ کے بخیے ادھیڑ دئیے ہیں جس کے مقابلہ میں ہم عاجز تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ دلائل تو احمدیہ جماعت کے امام کے دئیے ہوئے ہیں میں تو ان کا ایک خادم ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جلپاگوری میں میری مولوی تمیز الدین صاحب سے ملاقات ہوئی اور غالباً وہاں انہوں نے ہی میرے لیکچر کا انتظام کیا۔ مجھے ابھی تک ان کی مشترکہ انتخاب کے خلاف اور ہندوئوں کے خلاف شدید غضب کا احساس ہے جس شدت سے میں نے مشترکہ انتخاب کی مخالفت اور جداگانہ انتخاب کی تائید کی اس سے کہیں زیادہ اس بارے میں مولوی تمیز الدین صاحب متشدد تھے۔ انہوں نے میرے سامنے ہندوئوں کو گالیاں بھی دیں۔ اور کہا کہ یہ مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں مجھے اس وقت سے یہ احساس ہے کہ مولوی صاحب ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف چالوں کو خوب جانتے تھے۔ اور ان کے سخت دشمن تھے اور ہندوئوں کی نظر میں بھی وہ ایک کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔ ٹاٹانگر میں میں نے ایک بڑے ہندوئوں اور مسلمانوں کے اجتماع میں جس میں ہندوئوں کی بہت زیادہ کثرت تھی اسلام کے صلح کل مذہب ہونے پر تقریر کی۔ اس تقریر کے صدر بہار کے ایک بہت بڑے کانگریسی لیڈر تھے جن کا نام اس وقت پورا تو مجھے یاد نہیں۔ لیکن ان کے نام کا ایک حصہ کنٹھ تھا۔ میری اس تقریر کو بہت پسند کیا گیا اور مسٹر کنٹھ نے تو بڑے تعجب اور بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ اسلام اس محبت صلح اور آشتی کے پیغام کو لے کر دنیا میں آیا ہے۔ سب بڑے بڑے شہروں میں میں نے تقریریں کیں اور میری ان تقاریر کی رپورٹیں کلکتہ کے اخبارات انگلش مین Man) (Englishاور سٹیٹسمین (Statesman) میں چھپتی رہیں۔ سٹیٹسمین (Statesman)ان دنوں کلکتہ سے نکلتا تھا۔ میں ان رپورٹوں کی نقول حضرت صاحب کو بھجواتا رہا۔ جب میں واپس قادیان پہنچا تو حضرت صاحب میرے اس دورہ سے بہت خوش تھے۔ جب میں نے اپنی رپورٹ عرض کرنی چاہی تو آپ نے بہت خوشی سے فرمایا۔ کہ ہمیں آپ کی تقریروں کی سب رپورٹیں پہنچ چکی ہیں<۔۲۳۱
الغرض یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور مسلمانان بنگال بھی نہرو رپورٹ کی نقصان دہ سکیم سے واقف ہوکر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
آل مسلم کانفرنس پٹنہ کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مطالبات کی تائید
نہرو رپورٹ پر غور کرنے کے لئے مولانا محمد علی صاحب جوہر کی زیر صدارت پہلی آل مسلم کانفرنس پٹنہ میں منعقد ہوئی کانفرنس میں اگرچہ
نمائندگان کی ایک بڑی تعداد کسی صورت میں بھی مخلوط انتخاب کو منظور کرنے کے لئے تیار نہ تھی۔ لیکن کثرت آراء کی تائید سے مخلوط انتخاب کو شرائط کے ماتحت منظور کرلینے کی قرارداد پاس کی گئی۔ آل مسلم کانفرنس نے مسلمانوں کی طرف سے مخلوط انتخابات تسلیم کرنے کے لئے جو آٹھ مطالبات پیش کئے ان کا بڑا حصہ انہی امور پر مشتمل تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں درج فرمائے تھے۔
۱۔
چنانچہ حضور نے پہلا مطالبہ یہ فرمایا کہ >حکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبہ جات کامل طور پر خود مختار سمجھے جائیں<۔ ۲۳۲آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا۔ >صوبہ جاتی حکومتیں تمام اندرونی معاملات میں آزاد ہوں<۔
۲۔
دوسرا مطالبہ حضور کا یہ تھا کہ >جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے ان میں اس کے ہر قسم کے خیالات کے لوگوں اور ہر قسم کے فوائد کی نیابت کا راستہ کھولنے کے لئے جس قدر ممبریوں کا اسے حق ہو اس سے زیادہ ممبریاں اسے دے دی جائیں۔ لیکن جن صوبوں میں کہ اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں انہیں ان کی اصلی تعداد کے مطابق حق نیابت دیا جائے۔ کیونکہ ان صوبوں میں اگر اقلیت کو زیادہ حقوق دئیے گئے تو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی<۔۲۳۳کانفرنس نے اس سلسلہ میں یہ تجویز منظور کی۔ >بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے لئے مرکزی اور صوبہ جاتی دونوں مجالس قانون ساز میں ۲۵ فیصدی نیابت مخصوص کی جائے اور اسی طرح دوسرے صوبہ جات کی مسلم اور غیر مسلم اقلیت کو بھی جس کا تناسب آبادی ۱۵ فیصدی سے زیادہ نہ ہو تناسب آبادی سے زیادہ نشستیں دی جائیں لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی اکثریت اقلیت میں منتقل نہ ہو جائے<۔
۳۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تیسرا مطالبہ یہ پیش فرمایا تھا کہ >چونکہ کل ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صرف پچیس فیصدی ہے اس لئے انہیں مرکزی حکومت میں کم سے کم ۳۳ فیصدی نیابت کا حق دیا جائے<۔ چنانچہ آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ >مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کو کم از کم ۳/۱ نشستیں دی جائیں<۔
۴۔
چوتھا مطالبہ یہ تھا کہ >صوبہ سرحد اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی حکومت دی جائے<۔ اس بارہ میں کانفرنس کا فیصلہ یہ تھا۔ >سندھ کو حقیقی معنوں میں علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے۔ صوبہ شمال مغربی سرحد اور بلوچستان میں مکمل اصلاحات نافذ کی جائیں<۔
۵۔
پانچواں مطالبہ یہ تھا کہ >قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو اس کے متعلق یہ شرط ہو کہ جب تک اس قوم کے ۳/۲ ممبر جس کے حقوق کی حفاظت اس قانون میں تھی اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اسے پاس نہ سمجھا جائے<۔
آل مسلم کانفرنس نے اس بارے میں یہ قرارداد پاس کی کہ >اگر کسی قوم کے ۴/۳ ارکان اپنی قوم کے مفاد کے منافی سمجھ کر کسی مسودہ قانون یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد کی مخالفت کریں تو ایسا مسودہ قانون` ¶یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد مجلس وضع قوانین میں پیش نہ ہو سکے نہ اس پر بحث کی جائے اور نہ یہ منظوری حاصل کر سکے۔
اس مختصر سے تقابل سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لئے جو مطالبات ضروری سمجھے اور جنہیں اچھی طرح واضح فرمایا ان کی اہمیت کو آل مسلم کانفرنس پٹنہ نے بھی تسلیم کیا۔ اور اسی طرح ان مطالبات کو ان مسلمانوں کی تائید حاصل ہوگئی جو اپنے قومی حقوق کی ہر حال میں حفاظت کرنا ضروری سمجھتے اور ہندو سیاست کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا اپنی قومی موت کے مترادف یقین کرتے اور مسلمانوں کو فروخت کرنا قومی غداری قرار دیتے تھے۔۲۳۴`۲۳۵
آل انڈیا مسلم لیگ اور نہرو رپورٹ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے نہرو رپورٹ پر تبصرہ نے مسلمانان ہند میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک زبردست جنبش پیدا کر دی۔ مگر افسوس کانگریسی علماء ہندوئوں کا آلئہ کار ہونے کی وجہ سے اور مخلص مسلم لیگی زعماء اپنی خوش فہمی کے باعث ابھی تک اس کی پورے زور سے حمایت کئے جا رہے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگ کے مورخ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں :
>دسمبر ۱۹۲۸ء میں کلکتہ قومی اجتماعات کا مرکز قرار پایا- کانگریس مسلم لیگ مجلس خلافت سب کے سالانہ اجلاس یہیں ہو رہے تھے انہی اجلاسوں میں نہرو رپورٹ کے رد و قبول کا مسئلہ طے ہونا تھا۔ اب مسٹر جناح بھی واپس آ چکے تھے وہ دیکھ رہے تھے اس رپورٹ نے ان کے چودہ نکات کا قتل عام کر دیا ہے۔ پھر بھی وہ نہرو رپورٹ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے بلکہ حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لئے مولانا محمد علی کا نام مولانا شوکت علی نے مسلم لیگ کونسل میں پیش کیا لیکن جناح نے راجہ صاحب محمود آباد سر علی محمد خاں کے نام کی حمایت کی اس لئے نہیں کہ وہ محمد علی کے مخالف تھے۔ اور علی محمد کے دوست تھے۔ اس لئے کہ محمد علی نہرو رپورٹ کے علانیہ مخالف تھے اور علی محمد نہرو رپورٹ کے علانیہ حامی تھے جناح نہرو رپورٹ کے مخالف کو لیگ کے اجلاس کا صدر نہیں بنانا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا حامی مسلم لیگ کی صدارت کرے اور رپورٹ پر آخری غور و فکر کے لئے کانگریس کی طرف سے جو کنوینشن منعقد ہونے والی ہے اس میں دوستانہ اور مخلصانہ طور پر چند معمولی ترمیمات منظور کرا کے مسلمانوں کو نہرو رپورٹ منطور کرلینے پر آمادہ کرے تاکہ حکومت برطانیہ کے سامنے ہندوستان اپنا متحدہ مطالبہ پیش کر سکے۔ متحدہ مطالبہ` متحدہ محاذ` متحدہ دستور جناح کو اس قدر عزیز تھا کہ انہون نے چودہ نکات سے بھی دست برداری اختیار کرلی۔ اب وہ صرف چند مطالبات کانگریس سے منطور کرانا چاہتے تھے اور اس کے بعد پوری قوت کے ساتھ نہرو رپورٹ کی تبلیغ و حمایت کے لئے وقف ہو جانا چاہتے تھے<۔۲۳۶
sub] ga[tکلکتہ میں آل پارٹیز کنوینشن کا انعقاد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مسلسل جدوجہد اور دوسرے مسلمانوں کی پیہم چیخ پکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈت موتی لال نہرو صدر کانگریس نے اعلان کر دیا۔ کہ ایک نیشنل کنوینشن بلائی جائے گی۔ چنانچہ اس اعلان کے مطابق ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو کلکتہ میں ایک آل پارٹیز کانفرنس نہرو رپورٹ پر غور کرنے` ترمیمیں پیش کرنے اور آخری فیصلہ کرنے کے لئے منعقد ہوئی جس میں ہندوستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو دعوت دی گئی۔ چنانچہ اجلاس میں آزاد خیال معتدل` کانگریسی` سوراجی` ترک موالات کے علمبردار اور حامی موالات غرضکہ ہر خیال میں مسلک کے لوگ شامل ہوئے۔ خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند نے متفقہ طور پر اپنا نمائندہ مولانا محمد علی جوہر کو نامزد کیا۔ اور وہ اس میں شرکت کے لئے آئے۔۲۳۷مسلم لیگ کی طرف ے جناب محمد علی صاحب جناح )۲۲ نامور مسلم لیگی نمائندوں سمیت( تشریف لائے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ( اور مسٹر دولت احمد خان صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< کلکتہ نے شمولیت فرمائی۔۲۳۸
کنوینشن میں مباحثہ کا آغاز ہوا۔ اور غالباً سب سے پہلے یہ نکتہ زیر بحث آیا۔ کہ کانگریس ہندوستان کے لئے درجہ نو آبادیات چاہتی ہے یا کامل آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔۲۳۹
مولانا محمد علی صاحب جوہر نے درجہ نو آبادیات کے مطالبہ کی مخالفت میں تقریر شروع کی۔ اس دوران میں ان کے منہ سے یہ بھی نکل گیا۔ کہ جو لوگ آزادی کامل کے مخالف اور درجہ مستعمرات کے حامی ہیں وہ ملک کے بہادر فرزند نہیں ہیں بلکہ بزدل ہیں۔ اس لفظ کا منہ سے نکلنا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور مطالبہ کیا گیا کہ بیٹھ جائو ہم نہیں سننا چاہتے۔ >مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< کے مولف جناب محمد مرزا صاحب دہلوی اس واقعہ کی تفصیل میں لکھتے ہیں۔ >اس بحث کے دوران میں کانگریس کے ہندو ممبروں کی ذہنیت کا جو مظاہرہ ہوا اس نے مولانا محمد علی مرحوم کو بد دل کر دیا تھا- اور وہ کنوینشن کے اجلاس سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ یہ ذہنیت کیا تھی۔ عقیدہ رکھا جائے آزادی کامل کا۔ لیکن اگر حکومت کی طرف سے ڈومینین اسٹیٹس کا ابتدائی درجہ بھی مل جائے تو اسے قبول کرلیا جائے۔۲۴۰
مولانا محمد علی صاحب جوہر کا یہ موقف کہاں تک درست تھا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے محمد مرزا دہلوی لکھتے ہیں۔ >کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ قبول کرلینے کے بعد بھی حکومت سے نہرو رپورٹ کے ذریعہ جس طرز حکومت کا مطالبہ کیا تھا اور اس کی جو تاویل صاحب رپورٹ نے کانگریس کے اجلاس میں پیش کی تھی وہ یہ تھی کہ عقیدہ تو بے شک ہمارا آزادی کامل ہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے ابتدائی سیڑھیاں بھی ہمیں طے کرنے کی ضرورت ہے اور نہرو رپورٹ ان ابتدائی سیڑھیوں میں سے ایک ہے اس تاویل کے صاف معنی یہ ہیں کہ کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ تو قبول کرلیا ہے لیکن ملک ابھی اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور فی الحقیقت اس وقت کے حالات کے اعتبار سے یہ بہت صحیح رائے تھی لیکن بعض انتہا پسند اور جوشیلے افراد جن میں ہندو کم اور مسلمان زیادہ تھے کانگریس کے ساتھ محض اس لئے ہوگئے تھے کہ آزادی کامل اس کا مطمح نظر ہے اور اس کی سیاسی جدوجہد کا مفہوم صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح ملک سے بدیشی حکومت کو نکال باہر کرے حالانکہ بدیشی حکومت کو فی الفور ہندوستان سے باہر کر دینے کا اس وقت تک کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ جب تک ہندوستانی حکومت کے ہر شعبہ کو چلانے اور بیرونی حملوں سے ملک کی مدافعت کرنے کے قابل نہ ہو جائیں اور یہ قابلیت ان میں سیاسی بصیرت اور متواتر تجربوں ہی سے آ سکتی تھی۔ اور اس قسم کا موقع انہیں اس وقت مل سکتا تھا جب ہندوستان کی ساری قومیں اس پر متحد ہو جائیں<۔۲۴۱
یہ ضمنی بحث ختم کر کے ہم پہلے مضمون کی طرف آتے ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ مولانا محمد علی صاحب جوہر درجہ نو آبادیات سے متعلق ابتدائی بحث ہی میں کنوینشن سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ جس پر بعد کو بڑی شد و مد سے تنقید کی گئی۔ کہ انہیں کنوینشن میں اپنے مطالبات پیش ضرور کرنے چاہئے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو بہت بڑی امید تھی کہ مطالبات منظور ہو جاتے اور یہ اختلاف و افتراق وہیں ختم ہو جاتا۔ مگر چونکہ انہوں نے دوبارہ شرکت نہیں کی اس لئے اختلاف کی خلیج اور زیادہ وسیع ہوتی گئی۔ ان کے سیرت نگار سید رئیس احمد صاحب جعفری نے اس اعتراض کا خاص طور پر ذکر کر کے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ >بادی النظر میں یہ اعتراض وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن بہ تامل خفیف یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ محمد علی نے جو کچھ کیا وہی اچھا تھا ڈومینین اسٹیٹس میں ان کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا گیا وہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی خوشگوار امید قائم کرنے میں مدد دیتا۔ اس کے علاوہ اختلافات کے آغاز سے اس وقت تک ہندو زعماء کا جو بے نیازانہ طرز عمل ہوگیا تھا۔ وہ بھی ایک خوددار اور شریف آدمی کو >طواف کوئے ملامت< کی اجازت نہیں دے سکتا تھا<۔۲۴۲
کنوینشن سے بائیکاٹ کی یہ دونوں وجوہ کس درجہ معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ کر ہم کنوینشن کی بقیہ روداد پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے چلے جانے کے بعد مسلم لیگی لیڈر مسٹر محمد علی صاحب جناح نے حالات کی نزاکت` ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت آزادی و حریت کی قدر و قیمت اور مسلم مطالبات کی معقولیت پر ایک شستہ اور منجھی ہوئی تقریر کی اور اپیل کی کہ محبت و اخوت کے جذبات کے ساتھ ان تجاویز پر غور کیجئے اور انہیں منظور کر کے اختلافات کا خاتمہ کر دیجئے کہ اس وقت قوم کی ضروریات کا تقاضا یہی ہے۔۲۴۳
مسٹر جناح کی تقریر پر نہرو کمیٹی کے ممبر سر تیج بہادر سپرو نے کہا۔ >ہم یہاں صرف ایک تمنا لے کر آئے ہیں کہ جس طرح ہو آپس میں سمجھوتہ ہو جائے۔ اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کا تناسب ۲۷ فیصدی ہے اور مسٹر جناح ۳۳ فیصدی مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نہ جناب صدر کا غیر وفادار ہوں نہ نہرو رپورٹ کا لیکن میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اس مرحلہ پر ہمیں مفاہمت سے اعراض نہیں کرنا چاہئے۔ میں اپنی ہر دلعزیزی کو خطرہ میں ڈال کر بھی یہ کہوں گا کہ ہر قیمت پر ہمیں سمجھوتہ کر لینا چاہئے۔ یہی اس کانفرنس کا مقصد ہے<۔۲۴۴
سر سپرو کی مدلل تقریر نے حاضرین پر ایک حد تک اثر کیا لیکن مشہور مہا سبھائی لیڈر مسٹر جیکر نے کھڑے ہو کر یہ طلسم توڑ دیا۔ انہوں نے کہا :
>ہمارے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد` ڈاکٹر انصاری` سر علی امام` راجہ صاحب محمود آباد اور ڈاکٹر کچلو جیسے محب وطن موجود ہیں۔ یہ سب حضرات نہرو رپورٹ سے بالکلیہ متفق ہیں خود مسلم لیگ کے بہت سے ممبر نہرو رپورٹ کے حامی ہیں اب اگر مسٹر جناح کسی کی نمائندگی کرتے ہیں تو صرف چند لوگوں کی۔ یہ بھی یاد رکھئے مسٹر جناح کا مطالبہ مسلم قوم کا مطالبہ نہیں ہے ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی سرشفیع کے ساتھ ہے جو مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں ایک دوسرا طبقہ مسلمانوں کا مسٹر فضل ابراہیم رحمت اللہ کے ساتھ ہے جو دہلی میں ایک مسلم کانفرنس )زیر صدارت آغا خاں( کر رہے ہیں۔ مسٹر جناح کا مطالبہ نہ مسلم قوم کا مطالبہ ہے نہ مسلم اکثریت کا<۔۲۴۵
اس تقریر کے بعد ووٹ لئے گئے تو کنوینشن نے مسٹر جیکر کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا اور مسلم لیگ کے مطالبات جو پہلے ہی مختصر سے تھے رد کر دئیے گئے۔ مسٹر چھاگلہ )جج ہائیکورٹ بمبئی۔ مسلم لیگ کے ایک سرگرم کارکن( نے اس واقعہ شکست کی نسبت ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء کو ایسوشی ایٹڈ پریس کو بیان دیتے ہوئے کہا :
>کنوینشن کے اجلاس کے سامنے لیگ کی نمائندگی اس لئے کی گئی تھی کہ مسلمان چند ضروری ترمیمات کے بعد نہرو رپورٹ کو منظور کر سکیں گے۔ میں نہایت افسوس کے ساتھ اس امر کا اعادہ کرتا ہوں کہ کنوینشن کو مسلم مطالبات پر نہایت فراخ دلی سے غور کرنا چاہئے تھا بجائے اس کے وہ ہندو مہاسبھا کے زیر اثر اور اس کی دھمکی میں آکر یہ صورت اختیار کرتا۔ میں یہ امر ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ کے نمائندوں کی اکثریت کنوینشن کے اجلاس میں شریک ہوئی تھی۔ اور جنہوں نے مسلمانوں کے جائز مطالبات کو پیش کیا تھا۔ نہرو رپورٹ کے حامیوں میں سے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی ملت کے ساتھ جنگ کی بلکہ اپنی جماعت )مسلم لیگ( محض نہرو رپورٹ کی تائید کرنے کے سلسلہ میں برائی حاصل کی۔ اگر کنوینشن ان ۳۳ منتخب نمائندوں کے ساتھ کسی امر پر گفتگو کرنے سے قاصر ہے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ ہندوستان کے کسی مسلمان سے بھی فیصلہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ اگر ان ۳۳ نمائندوں کو فرقہ پرست سمجھ کر ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا گیا تو سمجھ لو کہ ہندوستان میں ایک بھی مسلم قوم پرور موجود نہیں<۔۲۴۶
اس صورت حال کے بعد مسٹر محمد علی جناح کانگریس اور اس کے لیڈروں سے بالکل دل برداشتہ ہوگئے اور آخر مسلم لیگ نے بھی ۳۰ / مارچ ۱۹۲۹ء کو روشن تھیٹر دہلی میں مسٹر جناح کی زیر صدارت یہ فیصلہ کیا کہ >چونکہ پنڈت نہرو نے مسلم لیگ کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے لہذا مسلم لیگ بھی نہرو رپورٹ منظور کرنے سے قاصر ہے<۔۲۴۷
کلکتہ کنوینشن میں جہاں مسلم لیگی نمائندے نہرو رپورٹ کے حامی کی صورت میں آئے وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ نمائندہ جماعت احمدیہ( نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ہم نہرو رپورٹ کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف ہمارے رسالے اور مضامین شائع ہوئے لیکچر دئیے گئے` مجالس قائم کی گئیں مگر اس کے باوجود ہم نے کنوینشن کی دعوت قبول کی اور اس میں شامل ہوئے کیونکہ ہم بائیکاٹ کے قائل نہیں ہماری رائے ہے کہ سب سے ملنا چاہئے پھر خواہ ہماری بات تسلیم ہو۔ یا رد کر دی جائے لیکن سب کے خیالات کو سن لینا ضروری ہے۔
نہرو رپورٹ میں ترمیم کے لئے احمدی نمائندہ نے دس ریزولیوشن پیش کئے جن کو ایجنڈا میں شائع کیا گیا اور وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر پیش ہوئے اور ان کے موافق و مخالف تقریریں بھی ہوئیں لیکن جس کنوینشن میں مسلم لیگی مطالبات کو کانگریسی ذہنیت کے سامنے شکست اٹھانا پڑی وہاں احمدی نمائندے کیونکر کامیاب ہو سکتے تھے۔ تاہم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ کنوینشن 1] [lrmکے سب حلقوں کے سامنے جماعت احمدیہ کے سیاسی خیالات خوب واضح ہوگئے۔۲۴۸
آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی اور نہرو رپورٹ
کانگریس کی منعقدہ کنوینشن میں مسلم مطالبات کی پامالی دیکھ کر مسلمانوں کی تمام مشہور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے دہلی میں جمع ہوئے اور ۳۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء سے ۲ / جنوری ۱۹۲۹ء تک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
یہ کانفرنس جو سر آغا خاں کی صدارت میں شروع ہوئی مسلمانان ہند کی اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جس میں کونسلوں اسمبلی اور کونسل آف اسٹیٹ کے علاوہ مسلم لیگ` خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند کے نمائندے اور سربرآوردہ ارکان بھی شامل تھے۔۲۴۹سر شفیع کے الفاظ میں یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی پوری نمائندہ تھی۔۲۵۰اور برصغیر پاک و ہند کے صحافی جناب عبدالمجید صاحب سالک کا جو اس کانفرنس میں موجود تھے بیان ہے کہ :
>میں اس کانفرنس کو ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں بے نظیر سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کی جس قدر زیادہ نمائندگی اس کانفرنس میں مہیا ہوئی اتنی اور کسی اجتماع میں دکھائی نہیں دی یہاں تک کہ اس کانفرنس میں بیس قادیانی ممبر بھی شامل کر لئے گئے تھے تاکہ اس جماعت کو بھی نقصان نیابت کی شکایت نہ ہو<۔۲۵۱
جیسا کہ سالک صاحب نے اشارہ کیا ہے متعدد احمدی مختلف صوبوں سے منتخب ہو کر کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔ مثلاً بنگال سے جناب حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ` بہار سے جناب حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری` پنجاب سے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب دہلی سے بابو اعجاز حسین صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ دہلی اور مرکز کی طرف سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب۔
کانفرنس کے آغاز میں سر شفیع نے ایک پر جوش تقریر کے ساتھ کانفرنس کا اصل ریزولیوشن پیش کیا جو اکثر و بیشتر ان خطوط پر مرتب کیا گیا تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں تجویز فرمائے تھے۔
اس قرارداد کی تائید میں مسٹر اے۔ کے غزنوی` مولوی شفیع دائودی` ڈاکٹر سر محمد اقبال` مسٹر شرف الدین سی۔ پی` حافظ ہدایت حسین کانپور` مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی دہلی۔ مسٹر عبدالعزیز پشاوری` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` دائود صالح بھائی` حاجی عبداللہ ہارون` مولوی عبدالماجد بدایونی` مولوی کفایت اللہ` مولوی آزاد سبحانی اور مولانا محمد علی صاحب جوہر نے بالترتیب تقریریں کیں اور یہ قرارداد پر زور تائید سے منظور ہوئی۔۲۵۲
یہی وہ اہم قرارداد تھی جس پر آئندہ چل کر مسٹر محمد علی جناح نے اپنے مشہور چودہ نکات تجویز کئے۔ چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب >ذکر اقبال< میں لکھتے ہیں :
>اس کانفرنس میں مسلمانوں کے تمام سیاسی مطالبات کے متعلق ایک قرار داد منظور ہوئی جس کا چرچا ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں ہوا اور بعد میں مسٹر محمد علی جناح نے بھی اپنے چودہ نکات اسی قرارداد کے اصول پر مرتب کئے<۔۲۵۳
اسی طرح محمد مرزا دہلوی مسلم لیگ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
>مسلم کانفرنس کے اس اجلاس کے بعد مارچ ۱۹۲۹ء میں مسلمانوں کے مطالبات کو منظم صورت میں حکومت اور کانگریس کے آگے پیش کرنے کے لئے دہلی میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اجلاس میں جناب محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ پر نہایت سخت تنقید کی اور اسے مسلم تجاویز دہلی کے مقابلہ میں ہندو تجاویز سے تعبیر کیا۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر بڑی تفصیل اور جامعیت سے روشنی ڈالی اور مستقبل کے ہندوستان میں مسلم انفرادیت کے تحفظ کے لئے ایک طویل تجویز میں وہ مشہور چودہ نکات پیش کئے جو آج تک مسلمانوں کے قومی مطالبات سمجھے جاتے ہیں<۔۲۵۴
اس کانفرنس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی دو تقریریں ہوئیں ایک سبجیکٹ کمیٹی میں اور دوسری کھلے اجلاس میں۔ آپ نے اپنی تقریروں میں واضح کیا کہ کس طرح نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے حقوق تلف کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس سلسلہ میں آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے تبصرہ رپورٹ کا تذکرہ بھی کیا۔ جس میں رپورٹ کی خامیوں پر مدلل بحث تھی۔ آپ نے مولانا شوکت علی کے ایک ریزولیوشن کی تائید کرتے ہوئے فرمایا۔ مسلمانوں کو خصوصیت سے علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کرنا چاہئے۔ مسئلہ گائوکشی کے ذکر پر آپ نے بتایا۔ کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے سب سے پہلے اس بات کو ہندوئوں کے سامنے پیش کیا تھا کہ اگر ہندو اس وجہ سے ناراض ہیں کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں تو ہم ان کی خاطر ایک جائز اور حلال چیز کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ بھی ہماری خاطر ایک چھوٹی سی قربانی کریں اور وہ یہ ہے کہ پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آپ کے خلاف بدزبانی سے باز آجائیں۔ کانفرنس کے تمام ممبروں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اس موقعہ پر اکثر مسلم زعماء حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بروقت سیاسی رہنمائی` جماعت احمدیہ کی زبردست تنظیم اور اس کے عظیم الشان کارناموں کے مداح پائے گئے۔۲۵۵
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی سیاست میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک نے اس کے ملک گیر اثر و نفوذ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے >اب سارا مسلم پریس` تمام مسلم ادارات اور جماعتیں ان مطالبات کی حمایت کر رہی تھیں۔ جو دہلی مسلم کانفرنس میں پیش کئے گئے تھے۔ تمام مخالف جماعتیں دب گئی تھیں اور حقیقت میں اس قرارداد کا مخالف کوئی بھی نہ تھا خود کانگرسی مسلمان بھی اس کی کامیابی کے خواہاں تھے گوڈر کے مارے زبان سے اقرار نہ کرتے ہوں<۔4] fts[۲۵۶
فصل ششم
قادیان کی ترقی کا نیا دور اور ریل کی آمد
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< کی دوسری جلد کے شروع میں ہم بتا چکے ہیں کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خدا سے حکم پاکر دعویٰ ماموریت فرمایا تھا۔ قادیان ایک بہت چھوٹا سا گمنام گائوں تھا اس وقت قادیان کی آبادی دو ہزار نفوس سے زیادہ نہ ہوگی۔ اس کے اکثر گھر ویران نظر آتے تھے۔ اور ضروری استعمال کی معمولی معمولی چیزوں کی خرید کے لئے بھی باہر جانا پڑتا تھا۔ اسی طرح اس وقت قادیان کی بستی تار اور ریل وغیرہ سے بھی محروم تھی۔ اور دنیا سے بالکل منقطع حالت میں پڑی تھی۔ قادیان کا ریلوے سٹیشن بٹالہ تھا۔ جو قادیان سے ۱۲ میل مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس کے اور قادیان کے درمیان ایک ٹوٹی پھوٹی کچی سڑک تھی۔۲۵۷ جس پر نہ صرف پیدل چلنے والے تھک کر چور چور ہو جاتے تھے بلکہ یکے میں سفر کرنے والوں کو بھی بہت تکلیف اٹھانا پڑتی تھی۔
چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور بعض دوسرے بزرگوں کے چشم دید واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں سب سے پہلی مشکل تو اس بستی کی گمنامی کی وجہ سے اس کی تلاش تھی اور دوسرا بڑا بھاری مرحلہ قادیان پہنچنے کا تھا۔ آمد و رفت کے ذرائع کی اتنی کمی تھی کہ سواری بڑی مشکل سے ملتی تھی اور اس زمانے کی سواریاں بھی کیا تھیں۔ بیل گاڑی` ریڑھو` گڈا` اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی یکہ۔ چلنے میں جھٹکوں کی کثرت سے پسلیاں دکھ جایا کرتیں` پیٹ میں درد اٹھنے لگتا اور جسم ایسا ہو جاتا کہ گویا کوٹا گیا ہے۔ یکہ مل جانے کے بعد دوسری مشکل یہ ہوا کرتی تھی کہ یکہ بان غائب ہو جاتا۔ ¶وہ نہار لینے چلا جایا کرتا۔ اور جب تک کئی مسافر ہاتھ نہ آجاتے اس کی نہاری تیار نہ ہو سکتی اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جایا کرتا۔ سڑک کی کیفیت لکھنے کی تو ضرورت نہیں کیونکہ اس کی تفصیل خود خداوند عالم الغیب نے فج عمیق کے کلام میں فرما دی ہے۔ اس کی خرابی تو روز بروز بڑھتی رہتی مگر مرمت کی نوبت مدتوں تک نہ آتی۔ چونکہ غلہ اور دوسری تمام ضروری چیزیں گڈوں ہی کے ذریعہ سے آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے سڑک اور بھی خستہ و خراب رہتی تھی۔ یکہ کی ہیئت ترکیبی کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ اچھے خاصے تازے گھوڑے کا حال بھی چند ہی روز جوتے جانے پر ایسا پتلا ہو جاتا کہ دیکھنے والوں کے دل رحم سے بھر جاتے۔ )کبھی یکہ سواریوں کو لے کر چلتا اور کبھی سواریاں یکہ کو لے کر۔ حضرت مولانا انوار حسین خاں رئیس شاہ آباد ضلع ہر دوئی جو سابقون الاولون میں سے تھے۔ یکہ تو کرایہ پر لے لیتے مگر صرف بستر اس کے پیچھے بندھوا دیتے۔ اور دوسرے لوگوں کو بٹھا دیتے اور خود تمام راستہ پیدل ہی طے فرما کر قادیان پہنچتے۔ یکہ میں بیٹھ کر سفر کا کوئی حصہ تو شاید ہی کبھی آپ نے طے کیا ہو۔ سفر کا زیادہ حصہ تو اور حضرات کو بھی پیدل ہی طے کرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں تو خدا کی پناہ۔ ۲۵۸بعض اوقات سارا سارا دن چلنے پر بھی قادیان پہنچ جانا ممکن نہ تھا۔ یکے دلدل میں پھنس جانے پر تو ایسی مصیبت پیش آتی جو برداشت سے باہر ہو جاتی۔ سامان مزدوروں کے سر پر آتا اور سواریاں بدقت پیدل چل کر!! یکہ بان مجبور ہوکر گھوڑا اپنے ساتھ لے آتا اور یکہ سڑک پر کھڑا رہ جاتا۔
قادیان کی بستی نشیب میں واقع ہے۔ برسات میں چاروں طرف سے پانی کا سیلاب آیا کرتا جس سے گائوں کے اردگرد کی ڈھابیں` کھائیاں اور خندقیں پانی سے بھر جایا کرتیں اور زائد پانی قریباً ڈیڑھ میل تک بٹالہ قادیان کی سڑک میں سے ہی گذرا کرتا جو بعض اوقات اتنا گہرا اور تیز رو ہو جاتا کہ اس میں سے سلامت گذر جانا بہت ہی دشوار ہو جاتا اور گائوں صحیح معنوں میں ایک جزیرہ بن جایا کرتا۔۲۵۹
یہ تھے وہ حالات جن میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلسلہ کی ترقی اور قادیان کی ترقی کے بارے میں بشارتیں دی گئیں۔ چنانچہ ۱۹۰۲ء میں آپ کو عالم کشف میں دکھایا گیا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائے نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے الخ۔ ۲۶۰پھر اپریل ۱۹۰۵ء میں حضور نے رئویا میں دیکھا کہ >میں قادیان کے بازار میں ہوں اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے<۔۲۶۱
قادیان میں ریل گاڑی کے پہنچنے کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ایک مشہور پیشگوئی ہے۔ کئی صحابہ نے اسے خود حضور کی زبان مبارک سے سنا تھا حتیٰ کہ انہیں حضور نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ قادیان کی ریلوے لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی۔ چنانچہ روایات صحابہ میں مرزا قدرت اللہ صاحب ساکن محلہ چابک سواراں لاہور` شاہ محمد صاحب ساکن قادیان اور میاں چراغ دین صاحب ولد میاں صدر الدین صاحب قادیان کی شہادتیں ملتی ہیں۔۲۶۲
ان غیبی خبروں کے پورا ہونے کا بظاہر کوئی سامان نظر نہیں آتا تھا بلکہ حکومت کی بے اعتنائی کا تو یہ عالم تھا کہ ریلوے لائن بچھوانے کا تو کیا ذکر صرف اتنی بات کی منظوری کے لئے کہ قادیان سے بٹالہ تک سڑک پختہ کر دی جائے اور اس کے لئے سالہا سال کوشش بھی جاری رکھی گئی تھی حکام وقت نے عملاً انکار کر دیا تھا بحالیکہ دوسرے راستے اور سڑکیں آئے دن درست ہوتی رہتی تھیں لیکن اگر آخر تک بھی نوبت نہ آئی تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی جو بٹالہ اور قادیان کے درمیان تھا۔۲۶۳اور جیسا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی مشہور کتاب >سلسلہ احمدیہ< میں تحریر فرمایا ہے ہرگز امید نہ تھی کہ قادیان میں اس قدر جلد ریل آجائے گی۔۲۶۴لیکن خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ جماعتی کوشش کے بغیر اچانک یہ بات معلوم ہوئی کہ ریلوے بورڈ کے زیر غور بٹالہ اور بیاس کے درمیان ایک برانچ لائن کی تجویز ہے۔ ۲۶۵مگر پھر پتہ چلا کہ محکمہ ریل کے ذمہ دار افسروں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ریلوے جسے بعد کو بٹالہ بوٹاری ریلوے کا نام دیا گیا ۱۹۳۰ء تک بھی تیار نہیں ہو سکتی۔۲۶۶مگر چونکہ خدا کی مشیت میں اب وقت آچکا تھا۔ کہ قادیان کا مرکز احمدیت ریل کے ذریعہ پورے ملک سے ملا دیا جائے اس لئے ریلوے بورڈ نے ۱۹۲۷ء کے آخر میں قادیان بوٹاری ریلوے کی منظوری دے دی اور شروع ۱۹۲۸ء میں محکمہ اطلاعات حکومت پنجاب کی طرف سے سرکاری طور پر یہ اعلان کر دیا گیا کہ ریلوے بورڈ نے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے زیر انتظام پانچ فٹ چھ انچ پٹڑی کی بٹالہ سے بوٹاری تک ۴۲ میل لمبی ریلوے لائن بنانے کی منظوری دے دی ہے اس منصوبہ کا نام بٹالہ بوٹاری ریلوے ہوگا ساتھ ہی گورنمنٹ گزٹ میں اعلان ہوا کہ سروے ہو چکا ہے اور لائن بچھانے کا کام جلد شروع ہونے والا ہے۔۲۶۷چنانچہ عملاً یہ کام نہایت تیزی سے جاری ہوگیا۔ اور شب و روز کی زبردست کوشش کے بعد بالاخر ۱۴ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریل کی پٹڑی قادیان کی حد میں پہنچ گئی۔ اس دن سکولوں اور دفتروں میں تعطیل عام کر دی گئی اور لوگ جوق در جوق ریلوے لائن دیکھنے کے لئے جاتے رہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ نئے راستے کھلنے پر کئی قسم کی مکروہات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس لئے ساری جماعت اور مرکز سلسلہ کے لئے ریل کے مفید اور بابرکت ہونے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور صدقہ دینا چاہئے۔ چنانچہ قادیان کی تمام مساجد میں دعائیں کی گئیں اور غرباء و مساکین میں صدقہ تقسیم کیا گیا۔ ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریلوے لائن قادیان کے سٹیشن تک عین اس وقت پہنچی جبکہ جمعہ کی نماز ہو رہی تھی۔ نماز کے بعد مرد عورتیں اور بچے اسٹیشن پر جمع ہونے شروع ہوگئے اور قریباً دو اڑھائی ہزار کا مجمع ہوگیا۔ ریلوے کے مزدوروں اور ملازمین کے کام ختم کرنے پر ان میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ جس کا انتظام مقامی چندہ سے کیا گیا تھا۔۲۶۸
اب صرف اسٹیشن کی تعمیر اور ریلوے لائن کی تکمیل کا کام باقی تھا۔۲۶۹جو دن رات ایک کر کے مکمل کر دیا گیا۔ قادیان کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر بابو فقیر علی صاحب مقرر ہوئے۔۲۷۰اور اسٹیشن کا نام >قادیان مغلاں< تجویز کیا گیا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ لائن کے بوٹاری تک جانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر ابھی لائن قادیان کے حدود تک نہیں پہنچی تھی کہ ریلوے حکام نے قادیان سے آگے لائن بچھانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ اور نہ صرف اگلے حصہ کی تعمیر رک گئی۲۷۱بلکہ آگے بچھی ہوئی ریلوے لائن اکھاڑ بھی دی گئی۔ اور جو اراضی اس کے لئے مختلف مالکوں سے خریدی گئی تھیں وہ اخیر میں نیلام عام کے ذریعہ فروخت کر دی گئی۔
ان حالات سے ظاہر ہے کہ یہ لائن خالص خدائی تصرف کے تحت محض قادیان کے لئے تیار ہوئی۔ منشی محمد دین صاحب سابق مختار عام )والد ماجد شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ( کا بیان ہے کہ جب ریلوے لائن بچھ گئی۔ تو متعلقہ یورپین ریلوے افسر کی پرتکلف دعوت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی میں کی گئی۔ سروے کا عملہ بھی شامل تھا۔ اور جماعت کے کئی معززین بھی شامل تھے۔ اس موقعہ پر اس یورپین افسر نے یہ بات ظاہر کی کہ میرے اندر کوئی ایسی طاقت پیدا ہوگئی تھی جو مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی۔ اور یہی تحریک ہوتی تھی کہ جلد لائن مکمل ہو۔۲۷۲
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ سلسلہ کے مفاد` قادیان کی ترقی اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ لائن قادیان کے شمال کی طرف سے ہوکر گذرے مگر ریلوے حکام اور علاقہ کی غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی اسے جنوب سے گذارے جانے کے لئے انتہائی جوش اور پوری سرگرمی سے کوشش کر رہی تھی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی فراست و بصیرت سے اس صورت حال کو پہلے سے معلوم کرلیا اور اس کی روک تھام کے لئے ابتدا ہی میں خاص انتظام سے ایک زبردست مہم شروع کرا دی یہ مہم کیا تھی اس میں کن بزرگوں نے حصہ لیا۔ اور کس طرح کامیابی ہوئی اس کی تفصیل شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام کے بیان کے مطابق درج ذیل ہے فرماتے ہیں : غالباً ۱۹۲۸ء کی ابتداء یا ۱۹۲۷ء کے آکر کا واقعہ ہے کہ کسی اخبار میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے ایک سرکاری اعلان پڑھا جس میں اس قسم کا کوئی ذکر تھا کہ ریلوے امرت سر سے بیاس تک ملائی جائے اس پر حضور نے فوراً مولوی عبدالمغنی خان صاحب کو ناظر خاص مقرر فرمایا` حکام سے رابطہ کے لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو اس وقت ناظر امور خارجہ تھے مقرر کئے گئے۔ میں اور منشی امام الدین صاحب۲۷۳)والد ماجد چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ( ان دونوں بزرگوں کے لئے بطور معاون تجویز ہوئے۔ ہماری تجویز یہ تھی کہ یہ ریلوے بٹالہ کے شمال کی طرف سے آئے اور قادیان کے شمالی جانب سے ہوتی ہوئی سری گوبند پور پہنچے۔ مگر محکمہ ریلوے اور علاقہ کے غیر مسلموں اور دوسرے مخالفین کی تجویز یہ تھی۔ کہ ریل بٹالہ کے جنوب سے ہوتی ہوئی قادیان کے جنوب مقبرہ بہشتی کی طرف جائے وہاں سے سری گوبند پور سے ہوتی ہوئی بیاس تک پہنچائی جائے۔ ہماری طرف سے حکام کو بتایا گیا کہ بٹالہ کے جنوب کی اراضیات زیادہ زرخیز اور قیمتی ہیں اور شمالی جانب کی اراضیات کم قیمت کی ہیں۔ چنانچہ ریلوے نے ہماری یہ تجویز مان لی۔ اور سروے شروع ہوگیا۔ ریلوے نے اس ٹکڑہ پر ریلوے لائن بچھانے کے لئے ایک یورپین افسر مقرر کیا تھا جو بہت ہوشیار نوجوان تھا۔ سروے کرنے والا سارا عملہ مسلمان تھا اور اس عملہ کے افسر معراج دین صاحب اوورسیر تھے۔ میری یہ ڈیوٹی تھی کہ میں اس عملہ کے ساتھ دن رات رہوں اور جماعتی مفاد کے مطابق اوورسیر معراج دین صاحب کو بتائوں کہ ریلوے لائن بٹالہ کے شمال سے ہوتی ہوئی اس اس طریق سے آئے۔ چنانچہ جب سروے لائن نہر تتلے والی کے قریب پہنچ گئی تو مخالف عنصر نے جس میں قادیان کے مسلمان اور سکھ وغیرہ بھی شامل تھے پھر زور لگایا کہ ریلوے لائن قادیان کی جنوبی جانب سے پہنچے اس مرحلہ پر یورپین افسر نے حکم دیا کہ سروے کر کے معلوم کیا جائے کہ شمالی اور جنوبی جانب سے خرچ میں کس قدر تفاوت ہوگا۔ بظاہر حالات شمالی جانب خرچ قریباً لاکھ ڈیڑھ لاکھ زیادہ تھا۔ مگر ریلوے اوورسیر نے جب شمالی اور جنوبی جانب کا خرچ پیش کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں فرق خفیف سا ہے ) جس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ قادیان کی جنوبی جانب پست تھی اور سیلاب کا پانی وہاں جمع رہتا تھا۔ جس سے بچائو کے لئے بھرتی ڈال کر لائن بچھانے کے اخراجات بھی اس میں شامل کرنے پڑتے تھے۔ مولف( بنابریں یورپین افسر نے ریلوے کے افسران بالا سے بھی یہی منظوری لے لی کہ لائن قادیان کے شمال ہی کی طرف سے گذاری جائے۔ چنانچہ لائن قادیان کے شمالی جانب سے تعمیر کی گئی۔ بلکہ اسی خسرہ نمبر سے آئی اور اسی مجوزہ جگہ پر اسٹیشن بنا جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب پہلے سے تجویز فرما چکے تھے۔۲۷۴
المختصر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات پوری ہوئی کہ قادیان میں لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی اور اس طرح قادیان میں گاڑی کا آنا سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان بن گیا۔ اور قادیان کے ریلوے نظام سے وابستہ ہونے کے بعد سلسلہ کی ترقی کا میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔nsk] [tagفالحمد للہ علی ذلک۔
مسلم حکومتوں کو انتباہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جس میں مسلمان حکومتوں کو ان کی دین سے بے اعتنائی پر انتباہ کیا اور بتایا کہ ترک یورپین اثر سے آزاد ہوئے تو ہر مسلمان کو اس پر خوشی تھی۔ مگر تھوڑے ہی دنوں بعد انہوں نے آہستہ آہستہ مذہب اور حکومت کے تعلق کو توڑنا شروع کیا۔ پھر عربی حروف چھوڑ کر ترکی الفاظ کو انگریزی الفاظ میں لکھنا شروع کیا۔ جس کا نتیجہ یہی ہوگا۔ کہ جس آسانی سے وہ پہلے قرآن شریف پڑھ سکتے تھے اب نہیں پڑھ سکیں گے۔ اور اسلام سے تعلق کم ہوتا جائے گا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی یہ حرکت محض نقل سے زیادہ کچھ نہیں اب یہ مرض دوسرے ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں ہیٹ اور انگریزی لباس پہننے اور داڑھی منڈانے کا حکم دیا گیا ہے اب ایران میں بھی حکومت اس قسم کے قواعد بنا رہی ہے جس سے افسروں کے لئے انگریزی لباس پہننا ضروری ہوگا۔ اور جو نہ پہنے وہ سزا کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح یہ سکیم بھی زیر غور ہے کہ قدیم ایرانی حروف اختیار کرلئے جائیں۔ نہ معلوم عربی نے کیا قصور کیا ہے۔ حالانکہ ان کے آباء کا سارا لٹریچر اسی زبان میں ہے قوموں کی ترقی ان کے آباء کی روایتوں پر منحصر ہوتی ہے ان کی کتابیں عربی حروف میں لکھی ہوئی ہیں اب اگر عربی حروف کو مٹا دیا گیا۔ تو آئندہ نسلیں ان کتابوں کو نہیں پڑھ سکیں گی اور اس طرح قرآن کریم سے وابستگی بھی کم ہو جائے گی۔ اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ :
>میں نے پہلے امور کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہ ترکوں پر مخالفین کے حملے ہیں۔ مگر جب تصدیق ہوئی تو پھر میں سمجھا کہ شاید یہ وباء ترکوں تک ہی محدود رہے مگر اب دوسروں تک اس کے اثر کو دیکھ کر میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی رائے اس کے متعلق بیان کردوں اور جہاں جہاں تک ہماری آواز سنی جائے ہم بتا دیں۔ کہ یہ راستے ترقی کے نہیں۔ ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے اور اسلام میں جو ظاہری اتحاد ہے اسے مٹانا کسی مسلمان حکومت کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اسلامی حکومتوں میں سے سوائے نجد کے کہیں اسلام نظر نہیں آتا۔ میں نجدیوں کے مقابر کو گرانے یا دوسرے مظالم کو کٹر حنفیوں کی طرح ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر بہرحال سنت اسلام کو قائم اور برقرار رکھنے کے لئے ان کی کوشش ضرور قابل قدر ہے مخالفین ہنس رہے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کے معنوں پر عمل تو پہلے ہی چھوڑ رکھا تھا اب اس کے الفاظ کو بھی چھوڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ اپنی غلطیوں کو سمجھ سکیں اور ان کے بد نتائج سے محفوظ رہ سکیں<۔۲۷۵
امرتسر قادیان ریلوے کا افتتاح اور گاڑی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مع خدام سفر
ریلوے پروگرام کے مطابق چونکہ ۱۹ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو امرت سر سے قادیان جانے والی پہلی ریل گاڑی روانہ ہونی تھی۔ اس لئے قادیان
سے بہت سے مرد عورتیں اور بچے اس تاریخ کو امرت سر پہنچ گئے- نیز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس ۳ بجے بعد دوپہر امرت سر تشریف لے آئے۔ تا قادیان ریلوے کے افتتاح کی تقریب پر اس خدائے قدوس کے آگے دست دعا بلند کریں۔ جس نے محض اپنے فضل و کرم سے موجودہ زمانے کی اہم ایجاد کو خدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آرام و آسائش کے لئے مرکز احمدیت تک پہنچا دیا۔
حضور کے امرت سر اسٹیشن پر تشریف لاتے ہی ہجوم بہت زیادہ ہوگیا کیونکہ قادیان کے دوستوں کے علاوہ گوجرانوالہ` لاہور` امرت سر اور بعض در دراز مقامات کے احباب بھی آگئے اور گاڑی روانہ ہونے سے قبل قادیان جانے والوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ ریلوے والوں کو پہلی تجویز کردہ گاڑیوں میں اور ڈبوں کا اضافہ کرنا پڑا۔
گاڑی کے پاس ہی اذان کہی گئی اور حضور نے ظہر و عصر کی نمازیں ایک بہت بڑے مجمع کو باجماعت پڑھائیں اس کے بعد حضور نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ پھر حضور گاڑی کے دروازہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ریل کا قادیان میں آنا مبارک کرے۔ یہ کہہ کر حضور نے مجمع سمیت چند منٹ تک نہایت توجہ اور الحاح سے دعا کرائی اور پھر سب احباب گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے ریل گاڑی کے جاری ہونے سے متعلق چار صفحہ کا ایک بہت عمدہ اور موثر ٹریکٹ تیار کر کے گاڑی چلنے کے موقعہ پر تقسیم کر دیا۔ ۲۷۶جس میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اوائل زمانہ کی مشکلات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ثابت کیا کہ ریل کا کسی حصہ ملک میں جاری ہو جانا معمولی بات ہے مگر قادیان کی ریل خاص تائید الٰہی میں سے ہے اور اس کی تقدیر خاص کے ماتحت تیار ہوئی ہے اور ان عظیم الشان نشانوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائید کے لئے ظاہر فرماتا ہے۔۲۷۷
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے رونق افروز ہونے کے بعد جتنی دیر تک گاڑی اسٹیشن پر کھڑی رہی۔ مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس۲۷۸نہایت خوش الحانی سے اردو اور پنجابی نظمیں پڑھتے رہے اور انہوں نے چند آیات و الہامات سے جو سرخ رنگ کے کپڑوں پر چسپاں تھیں گاڑی بھی خوب سجائی اور جاذب نظر بنالی تھی۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
الا ان روح اللہ قریب۔ الا ان نصر اللہ قریب۔ یاتون من کل فج عمیق۔ یاتیک من کل فج عمیق )۲( و اذا العشار عطلت و اذا النفوس زوجت )۳( دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ )۴( اھلا و سھلا و مرحبا )۵( خوش آمدید )۶( غلام احمد کی جے۔
)۷( یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے
یہ میرے صدق دعویٰ پر مہر الٰہ ہے
گاڑی نے اپنے مقررہ وقت ۳ بج کر ۴۲ منٹ پر حرکت کی اور ساتھ ہی اللہ اکبر کا نہایت بلند اور پر زور نعرہ بلند ہوا جو گاڑی کے ریلوے یارڈ سے نکلنے تک برابر بلند ہوتا رہا۔ گاڑی دیکھنے کے لئے آدمیوں کے گذرنے کے پل پر بڑا ہجوم تھا۔ اللہ اکبر اور >غلام احمد کی جے< کے نعرے راستہ کے ہر
tav.5.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
گائوں اور اسٹیشن پر بلند ہوتے آئے اگرچہ گاڑی امرتسر ہی سے بالکل پر ہوگئی تھی اور ہر ایک درجہ میں بہت کثرت سے آدمی بیٹھے تھے۔ لیکن بٹالہ اسٹیشن پر تو ایسا اژدحام ہوگیا تھا کہ بہت لوگ گاڑی میں بیٹھ نہ سکے اور بہت سے بمشکل پائدانوں پر کھڑے ہو سکے۔ کچھ قادیان سے پہلے اسٹیشن وڈالہ گرنتھیاں پر بھی جہاں اردگرد کے بہت سے احمدی مرد و عورتیں جمع تھیں چند ہی اصحاب بدقت بیٹھ سکے۔ آخر گاڑی اپنے وقت پر ۶ بجے شام کو قادیان کے پلیٹ فارم پر پہنچی یہاں بھی قرب و جوار کے بہت سے دوستوں کا ہجوم تھا سٹیشن جھنڈیوں اور گملوں سے خوب آراستہ تھا۔ فضا بہت دیر تک اللہ اکبر اور >غلام احمد کی جے< کے پرجوش نعروں سے خوب گونجتی رہی۔ کچھ عجیب ہی شان نظر آ رہی تھی۔ گذشتہ سال انہی ایام میں کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اس مقام پر اتنی رونق اور ایسی چہل پہل ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قلیل ہی عرصہ میں ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ بالکل نیا نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ فالحمد للہ علی ذالک۔
اس سفر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضور کے اہل بیت کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے کئی نونہال بھی اس گاڑی میں تشریف لائے تھے۔ اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب` حضرت مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت مولانا مولوی شیر علی صاحب` حضرت عرفانی کبیر شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم` حضرت مولوی میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر >فاروق< حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور کئی اور مقامی بزرگوں کو بھی اس گاڑی میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔۲۷۹`۲۸۰
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا اعلان احمدیت
اس سال کے اہم واقعات میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا اعلان احمدیت ہے۔ جیسا کہ متعدد واقعات و شواہد سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچتا ہے۔۲۸۱4] ft[rحضرت صاحبزادہ صاحب کو دراصل شروع ہی سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ بے حد عقیدت و شیفتگی تھی اور آپ حضرت اقدس علیہ السلام کو بے مثال عاشق رسول اللہ~صل۱~ سمجھتے اور آپ کے دعاوی کو برحق تسلیم کرتے تھے۔ اور آپ کی روح تحریک احمدیت کو قبول کر چکی تھی مگر آپ کو اس کے اظہار و اعلان میں بہت تامل تھا اور اس بات کا علم حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بھی تھا۔ اور حضور ہمیشہ ان کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ جون ۱۹۲۴ء میں حضور نے ان کے فرزند مرزا رشید احمد صاحب کا خطبہ نکاح پڑھا تو ایجاب و قبول کے بعد ارشاد فرمایا :
>ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام لائے ان کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے میں سنتا رہتا ہوں کہ وہ احمدیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس روک کو ہٹا دے۔ آمین<۔۲۸۲
الحمد لل¶ہ خدا کے خلیفہ برحق کی دعا درگاہ عالی میں مقبول ہوئی اور آخر اکتوبر ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مرزا سلطان احمد نے اعلان احمدیت کر دیا اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل بیان الفضل میں شائع کرایا۔
>تمام احباب کی اطلاع کے لئے میں یہ چند سطور شائع کرتا ہوں کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے سب دعوئوں پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق اور راستباز تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے جیسا کہ میرے ان مضامین سے آپ لوگوں پر ظاہر ہو چکا ہوگا۔ جو سلسلہ احمدیہ کی خدمات کے متعلق میں شائع کرتا رہا ہوں مگر اس وقت تک بوجہ بیماری اور ضعف کے میں ان مسائل کے متعلق پورا غور نہیں کر سکا۔ جن کے بارے میں قادیان اور لاہوری احمدیوں میں اختلاف ہے اور اسی وجہ سے اب تک اپنی احمدیت کا اعلان نہیں کر سکا۔ مگر اب میں نے سوچا ہے کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے میں اس امر کا سردست اعلان کر دوں کہ میں دل سے احمدی ہوں جب مجھے اللہ توفیق دے گا تو میں اختلافی مسائل پر غور کر کے اس امر کا بھی فیصلہ کر سکوں گا۔ کہ میں دونوں جماعتوں میں سے کس کو حق پر سمجھتا ہوں۔ پس سر دست اپنے احمدی ہونے کا اعلان ان چند سطور کے ذریعہ سے کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے سوال کے متعلق بھی اپنے پاس سے ہدایت فرمائے اور وہ راہ دکھائے جو اس کے نزدیک درست ہو- آمین-
)خان بہادر( مرزا سلطان احمد )خلف اکبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام( ۲۸۳
اس اعلان کے علاوہ آپ نے ایک ٹریکٹ >الصلح خیر< نامی شائع کیا جس میں تحریر فرمایا :
>میری عقیدت حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ نہ صرف اس وقت سے ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کا دعویٰ کیا بلکہ ان ایام سے میں عقیدت رکھتا ہون کہ جبکہ میری عمر بارہ تیرہ برس کی تھی۔ میں تصدیق کرتا ہوں اور صدق دل سے مانتا ہوں کہ میرے والد صاحب مرحوم کی ہستی ایسی عظیم الشان تھی جو اسلام کے واسطے ایک قدرتی انعام تھا۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے والد صاہب مرحوم مرزا غلام احمد صاحب کو ایک سچا انسان اور پکا مسلمان الموسوم مسیح موعود علیہ السلام سمجھتا ہوں۔ اور ان کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اپنے آپ کو اس رنگ میں ایک احمدی سمجھتا ہوں۔ آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیوں حضرت مولوی نور الدین صاحب یا میاں محمود احمد صاحب یا مولوی محمد علی صاحب کی بیعت نہیں کی۔ اس کا جواب یہ ہے میں نے کبھی اپنی زندگی میں باوجود اس کے کہ میرے والد صاحب مرحوم میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے میرے فائدہ کے لئے مجھ پر ناراض بھی تھے۔ اور میں اب صدق دل سے یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ ان کی ناراضگی واجبی اور حق تھی۔ باوجود ان کی ناراضگی کے بھی میں نے کبھی اخیر تک بھی ان کے دعاوی اور ان کی صداقت اور سچائی کی نسبت کبھی کوئی مخالفانہ حصہ نہیں لیا۔ جس کو میرے احمدی اور غیر احمدی دوست بخوبی جانتے ہیں جو قریباً ۳۰ سال سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا میری صداقت ہوگی اور بایں حالات کون کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا مخالف یا ان کے دعاوی کا منکر ہوں۔ جب یہ حالت ہے تو مجھے کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا کہ میں ان کا منکر تھا یا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
بیعت کیا چیز ہے ایک یقین اور صداقت کے ساتھ ایک مقدس انسان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور اس کے ساتھ ہی صدق دل سے خدا کو اس امر پر شاہد کرنا۔ پس میں اب تک اپنے والد صاحب مرحوم کو سچا مسیح موعود مانتا ہوں اور میرا خدا اس پر شاہد ہے میں اعلان اور اظہار کو بیعت یقین کرتا ہوں<۔۲۸۴`۲۸۵قبول احمدیت کا اعلان کر دینے کے بعد بعت خلافت کا جو نازک ترین مرحلہ باقی تھا وہ بفضلہ تعالیٰ ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۰ء کو بخیر و خوبی طے ہوا۔ جیسا کہ آگے بالتفصیل ذکر آئے گا۔
سالانہ جلسہ ۱۹۲۸ء
سالانہ جلسہ ۱۹۲۸ء ۲۶ / دسمبر سے شروع ہو کر ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو بخیر و خوبی ختم ہوا۔ ریل کے جاری ہونے کی وجہ سے اس سال مہمانوں کی تعداد میں پہلے کی نسبت غیر معمولی اضافہ ہوا۔ مہمانوں کی ایک خاصی تعداد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں ۱۹ / دسمبر کو جبکہ پہلی گاڑی قادیان پہنچی مرکز میں آگئے اور ۲۳ / دسمبر کے بعد قادیان آنے والوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ محکمہ ریلوے کو معمول کے مطابق گاڑیوں کے علاوہ ایک اسپیشل ٹرین روزانہ چلانا پڑی جو ۲۸ / دسمبر تک جاری رہی۔
اس دفعہ نہ صرف بہت سی عورتیں بچے اور بہت سے ضعیف اور کمزور لوگ شامل جلسہ ہوئے جو پہلے نہ آ سکے تھے۔ بلکہ بہت سے غیر مبائع` غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب بھی دور دراز مقامات سے تشریف لائے۔ ضعیف العمر لوگوں میں سے چنگا بنگیال ضلع جہلم کی ایک خاتون بھی تھیں جن کی عمر سو سال سے زیادہ تھی۔ اور جو اپنی وضع کی اتنی پابند تھیں کہ انہوں نے اپنے گھر کے سوا کبھی کسی دوسری جگہ رات بسر نہیں کی تھی اور پہلی بار ہی ریل گاڑی دیکھی تھی۔ جس میں وہ قادیان آئی تھیں۔ پنجاب کے تمام اضلاع اور ہندوستان کے مختلف حصوں کے علاوہ مالابار` کابل اور ماریشس سے بھی کچھ احباب تشریف لائے تھے۔ غیر احمدی اصحاب جن میں بڑے بڑے سرکاری عہدیدار مجسٹریٹ` وکلاء` بیرسٹرز` رئوساء علی گڑھ اور اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر شامل تھے۔ بڑی کثیر تعداد میں آئے۔ مثلاً شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی کے فرزند ارجمند خواجہ سجاد حسین صاحب بی۔ اے اور خان بہادر چوہدری )نواب( محمد دین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر`غیر مسلموں میں بنارس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر مکھ راج قابل ذکر تھے۔۲۸۶
جلسہ کے منتظم اعلیٰ اور ناظر ضیافت حضرت میر محمد اسحاق صاحب تھے۔ آپ کے زیر انتظام اندرون قصبہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور بیرون قصبہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب انچارج تھے۔ اور حسب معمول ہر اہم صیغہ کے علیحدہ علیحدہ انچارج اور ان کے مددگار مقرر تھے۔ جلسہ پر قریباً تین سو مردوں نے بیعت کی۔ بیعت ہونے والی مستورات کی تعداد مزید برآں تھی۔۲۸۷
>فضائل القرآن< پر سلسلہ تقاریر کا آغاز
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ابتداء خلافت سے یہ دستور رہا ہے کہ حضور سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ہمیشہ ایک خالص علمی موضوع پر تقریر فرمایا کرتے ہیں۔ چنانچہ ۱۹۲۸ء کے جلسہ پر حضور نے >فضائل القرآن< کے عنوان پر ایک اہم سلسلہ تقاریر کا آغاز فرمایا۔ جو )۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۵ء کو مستثنیٰ کر کے( ۱۹۳۶ء کے جلسہ تک جاری رہا۔ حضور کا منشاء مبارک دراصل یہ تھا کہ قرآن کریم کی فضیلت سے متعلق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں جو تین سو دلائل لکھنے کا وعدہ فرمایا تھا وہ اگرچہ حضور ہی کی دوسری تصنیفات میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ مگر وہ ظاہری طور پر بھی پورا کر دیا جائے۔۲۸۸مگر مشیت ایزدی کے مطابق صرف چھ لیکچر ہو سکے۔4] f[st۲۸۹
>فضائل القرآن< کے لیکچروں کے اس بیش بہا مجموعہ میں جو ۴۴۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ حضور نے قرآن مجید کے دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں پر فضیلت کے متعدد دلائل دئیے ہیں اور قرآن مجید کے بہت سے مشکل مقامات کو نہایت خوبی و نفاست سے حل کیا ہے۔ اور مستشرقین کے اعتراضات کا ایسے موثر رنگ میں جواب دیا ہے کہ انسان عش عش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اس سلسلہ کی چھٹی تقریر حضور کے ایک ایسے چیلنج پر ختم ہوتی ہے جس کو قبول کرنے کی جرات آج تک کسی غیر مسلم مفکر کو نہیں ہوئی۔ یہ چیلنج ان الفاظ میں تھا:
>قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی توریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں استعارہ سمجھوں پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی پیش نہ کردوں تو وہ بے شک مجھے اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کردوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں<۔۲۹۰
۱۹۲۸ء میں رحلت پانے والے بزرگ
سلسلہ احمدیہ کے قدیم بزرگ اب بڑی تیزی سے رخصت ہوتے جا رہے تھے۔ چنانچہ اس سال مندرجہ ذیل بزرگوں کا انتقال ہوا۔
)۱( حضرت صوفی مولا بخش صاحب )تاریخ وفات ۱۴ / فروری ۱۹۲۸ء(۲۹۱)۲( حضرت شہزادہ عبدالمجید خان صاحب لدھیانوی مبلغ ایران )تاریخ وفات ۲۲ / فروری ۱۹۲۸ء(۲۹۲)۳( حضرت شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند امرت سر )تاریخ وفات ۸ / جون ۱۹۲۸ء(۲۹۳)۴( حضرت میاں سراج الدین صاحب )تاریخ وفات ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء(۲۹۴)۵( حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ امرت سری )تاریخ وفات ۱۰ / اگست ۱۹۲۸ء(۲۹۵ )۶( حضرت حافظ نور احمد صاحب لدھیانوی )تاریخ وفات ۲۸ / اکتوبر ۱۹۲۸ء(۲۹۶
ان صحابہ کے علاوہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ کے ماموں حضرت سیٹھ الہ دین بھائی ابراہیم صاحب سکندر آباد دکن بھی )پچاس سال کی عمر میں( بتاریخ ۲۰ / فروری ۱۹۲۸ء وفات پاگئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ >احمدیہ جماعتیں ان کا جنازہ پڑھیں اور دعاء مغفرت کریں<۔۲۹۷`۲۹۸
بیرون ملک بھی بعض ممتاز احمدیوں کا انتقال ہوا۔ مثلاً نائجیریا میں سلسلہ احمدیہ کے ایک قدیم فدائی امام محمد بیضا ڈوبری چیف امام شہر لیگوس قریباً ستر برس کی عمر میں وفات پاگئے۔۲۹۹آپ ۶ / جون ۱۹۲۱ء کو اپنے چالیس ساتھیوں سمیت مولانا عبدالرحیم صاہب نیر کے ذریعہ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے۔ بیعت کے بعد ان پر بہت ابتلاء آئے گالیاں دی گئیں مقدمات کئے گئے مگر ان کے استقلال میں ذرا فرق نہ آیا۔۳۰۰
فصل ہفتم
۱۹۲۸ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں ترقی
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاں )۱۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو( مرزا طاہر احمد صاحب۳۰۱اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں )۱۷ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو( امتہ الباری صاحبہ کی ولادت ہوئی۔۳۰۲
امتحان میں نمایاں کامیابی
حضرت سارہ بیگم صاحبہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ادیب کا امتحان پاس کیا۔ آپ صوبہ بھر کی خواتین میں اول آئیں اور یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔۳۰۳text] g[taاس کامیابی میں موصوفہ کی محنت اور کوشش کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تعلیم خواتین میں دلچسپی کا بھی دخل تھا۔ حضور کے پیش نظر خواتین کی تعلیم کے انتظام کو زیادہ بہتر بنانے کی جو تجاویز تھیں ان کو کامیاب بنانے کے لئے حضور کی نظر انتخاب حضرت امتہ الحئی صاحبہ کے بعد حضرت سارہ بیگم صاحبہ پر ہی تھی۔ آپ کے علاوہ حضرت ام دائود صالحہ بی صاحبہ )اہلیہ محترمہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب( پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مولوی میں اول رہیں۔۳۰۴
امتحان کتب مسیح موعودؑ میں انعام
مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنے دست مبارک سے ملک عزیز احمد صاحب راولپنڈی کو امتحان کتب حضرت مسیح موعودؑ میں اول آنے پر >حقیقتہ الوحی< بطور انعام مرحمت فرمائی۔۳۰۵
تحریک وقف زندگی
سلسلہ کی تبلیغی جدوجہد کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے لئے حضور نے دسمبر ۱۹۱۷ء۳۰۶میں پہلی بار وقف زندگی کی تحریک فرمائی تھی۔ اور اس سال آپ نے ۴ / مئی ۱۹۲۸ء کو جماعت کے نوجوانوں سے دوسری بار وقف زندگی کا مطالبہ فرمایا۔۳۰۷جس پر مدرسہ احمدیہ کے بیس سے زیادہ طالب علموں نے لبیک کہا۔۳۰۸
حج بیت اللہ کی طرف جماعت احمدیہ کی خاص توجہ
اس زمانہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ کی توجہ فریضہ حج کی طرف بڑھ گئی۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء میں پچاس ساٹھ کے قریب احمدی حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔۳۰۹اور ۱۹۲۸ء میں بھی یہ رجحان ترقی پذیر رہا۔۳۱۰
کتابوں کی اشاعت کے متعلق اہم فیصلہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی منظوری سے مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ قادیان نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ سلسلہ کی طرف سے کوئی کتاب ٹریکٹ یا رسالہ وغیرہ نظارت تالیف و تصنیف کی منظوری کے بغیر نہ چھپ سکتی ہے نہ شائع ہو سکتی ہے۔ ۲۸ / اگست ۱۹۲۸ء کو اس فیصلہ کا الفضل میں باضابطہ اعلان کر دیا گیا۳۱۱مسودات کی نگرانی کا کام شروع شروع میں زیادہ تر مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر کرتے تھے جو ان دنوں نظارت تالیف و تصنیف کی مرکزی لائبریری کے نگران اور نظارت امور عامہ کے قانونی مشیر تھے۔۳۱۲
اخبار >لائٹ< کا مقدمہ اور اس کی پیروی
مولوی محمد یعقوب خاں صاحب ایڈیٹر اخبار >لائٹ< لاہور نے اخبار الفضل کے ایڈیٹر )خواجہ غلام نبی صاحب( اور پرنٹر )حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی( پر ازالہ حیثیت کا مقدمہ دائر کیا۔۳۱۳اس مقدمہ کی پیروی میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے خاص توجہ فرمائی۔ مولوی فضل الدین صاحب وکیل اس کے انتظام اور ضروری تیاری میں مصروف رہے۔۳۱۴
دستکاری کی نمائش اور انعام
لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی زیر نگرانی ۱۹۲۷ء سے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر دستکاری کی نمائش کا انتظام جاری تھا جس میں اصل لاگت لجنات کو واپس کر دی جاتی تھی اور منافع اشاعت اسلام میں جمع کر دیا جاتا تھا۔ دستکاری کے کام کو زیادہ کامیاب بنانے کے لئے ۱۹۲۸ء میں ایک انعامی تمغے کا اعلان کیا گیا۔ جو اہلیہ صاحبہ ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی کو ملا۔۳۱۵
خطبات نکاح
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مندرجہ ذیل اصحاب کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے پر معارف خطبات نکاح ارشاد فرمائے :
)۱( چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے )مورخہ ۲ / جنوری ۱۹۲۸ء(۳۱۶)۲( صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے مبلغ ماریشس )مورخہ ۱۴ / مارچ ۱۹۲۸ء(۳۱۷4] f)[rt۳( صاحبزادہ عبدالسلام صاحب عمر خلف سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ )مورخہ ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء(۳۱۸
سیدنا حضرت فضل عمر کو اللہ تعالیٰ نے وہ علوم و معارف عطا فرمائے کہ ایک بار حضور نے فرمایا۔
>میں نے دیکھا ہے جب میں خطبہ نکاح کے لئے کھڑا ہوا ہوں نئے سے نیا نکتہ سوجھا ہے اگر کوئی غور کرنے والا ہو تو یہی معجزہ اسلام کی سچائی کے لئے زبردست ثبوت ہے تین آیتیں رسول کریم~صل۱~ نے تجویز فرمائیں۔ اور ان تینوں آیتوں کی تفسیر ختم نہین ہو سکتی<۔۳۱۹ملک فضل حسین صاحب نے حضور کے خطبات النکاح کی دو جلدیں عرصہ ہوا شائع کر دی ہیں جن کو دیکھ کر اس علمی نشان کا پتہ چلتا ہے جن کے متعلق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ولادت سے قبل ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔
بیرونی مشنوں کے بعض واقعات
نائیجیریا ۔ لیگوس میں مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی شاندار عمارت مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ء کو یورپین اور افریقن آبادی کے بہترین نمائندوں کی موجودگی میں بڑی شان کے ساتھ ہوا۔ تقریر کرنے والوں میں مسٹر گرائر ایم۔ اے ڈائریکٹر محکمہ تعلیم اور مسٹر ہنری کار ایم۔ اے۔ بی۔ سی۔ ایل ریذیڈنٹ لیگوس تھے ان کے علاوہ یورپین مسیحی مشنری اور مدارس کے پرنسپل بھی موجود تھے۔ تمام مقررین نے نہایت عزت کے الفاظ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ اور مبلغ سلسلہ مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کا ذکر کیا۔ مسٹر ہنری کار نے لیگوس میں اشاعت اسلام اور مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ باقاعدہ طور پر تعلیم کے لئے کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ جب تک کہ احمدی جماعت نے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کے زیر ہدایت اپنا مدرسہ لیگوس میں نہیں کھولا۔۳۲۰
گولڈ کوسٹ ۔ اپریل ۱۹۲۸ء میں گولڈ کوسٹ مشن کے شہر کالی میں حکیم فضل الرحمن صاحب اور غیر احمدی علماء میں مناظرہ ہوا۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو نمایاں فتح دی۔ اس مناظرہ کی خصوصیت یہ تھی کہ حکومت کے اعلیٰ افسر حتیٰ کہ پراونشل کمشنر بھی اس میں موجود تھے۔۳۲۱
مشرقی افریقہ ۔ ملک محمد حسین صاحب بیرسٹر و ممبر میونسپل کونسل نیروبی کی کونسل سے مسجد احمدیہ نیروبی کی تعمیر کے لئے میونسپل کارپوریشن کی طرف سے تین چار ایکڑ کا ایک با موقعہ قطعہ مفت ملا- جس پر جماعت احمدیہ نیروبی نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مندرجہ ذیل احباب پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کر دی۔ ملک احمد حسین صاحب چیئرمین مسجد کمیٹی عبدالحکیم صاحب جان سیکرٹری سیٹھ محمد عثمان یعقوب صاحب` ڈاکٹر عمر دین صاحب سید معراج دین صاحب۔۳۲۲
سماٹرا ۔ جماعت احمدیہ پاڈانگ سماٹرا نے مارچ ۱۹۲۸ء سے تبلیغی ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جو مفت تقسیم ہوتے تھے اور تاپاتوان میں بھی بھیجے جاتے تھے۔۳۲۳
شام و فلسطین ۔ شامی علماء و مشائخ کا ایک وفد شام کی فرانسیسی حکومت کے رئیس الوزراء شیخ تاج الدین صاحب کے پاس پہنچا کہ احمدی مبلغ کو دمشق سے نکال دینا چاہئے۔ چنانچہ فرانسیسی حکومت نے بتاریخ ۹ / مارچ ۱۹۲۸ء علامہ جلال الدین صاحب شمس کو ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر شام سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ جس پر آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں تار بھیجا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ حضور نے جواباً ارشاد فرمایا۔ کہ حیفا چلے جائیں۔ اس ارشاد عالی کی تعمیل میں آپ نے بتاریخ ۱۵ / مارچ ۱۹۲۸ء السید منیر الحصنی صاحب کو دمشق میں اپنا قائم مقام بنایا اور ۱۷ / مارچ کو حیفا تشریف لے گئے۔ اور فلسطین مشن کی بنیاد رکھی۔۳۲۴مولانا شمس صاحب ۳ / جون ۱۹۲۸ء کو فلسطین کی وادی السیاح میں تشریف لے گئے۔ اتفاقاً شیخ محمد المغربی الطرابلسی سے ملاقات ہوگئی معلوم ہوا کہ یہ بزرگ در پردہ ۲۳ سال سے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر چکے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد آپ اپنے شاگردوں سمیت علانیہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔۳۲۵
آسٹریلیا ۔ آسٹریلیا میں ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ منعقد ہوا جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمان بھی شامل ہوئے۔ صوفی محمد حسن موسیٰ خاں صاحب آنریری مبلغ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعاوی اور سلسلہ کے حالات سنائے جس کا خدا کے فضل سے اچھا اثر ہوا۔ یہ جلسہ احمدیت کے لئے آسٹریلیا میں آئندہ جلسوں کے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا تھا۔۳۲۶
مبلغین احمدیت کی ممالک غیر کو روانگی اور واپسی
۱۔ خان صاحب فرزند علی خاں صاحب )۲۲۔ اپریل ۱۹۲۸ء کو(۳۲۷اور صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز )۳/ اگست ۱۹۲۸ء کو(۳۲۸انگلستان میں اور صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی )۲۱ مئی ۱۹۲۸ء(۳۲۹کو امریکہ میں تبلیغ اسلام کے لئے قادیان سے روانہ ہوئے۔
۲۔ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد انگلستان میں کئی سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دینے کے بعد بالترتیب ۸ / جولائی ۱۹۲۸ء اور ۲۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو واپس تشریف لے آئے۔۳۳۰ان مبلغین نے واپسی پر سمرنا` قسطنطنیہ` دمشق` بغداد میں بھی پیغام حق پہنچایا۔۳۳۱حضرت خلیفتہ المسیح الثانی درد صاحب کے استقبال کے لئے دوسرے احباب قادیان کے ساتھ پا پیادہ شہر سے قریباً اڑھائی تین میل باہر بٹالہ کی سڑک کے موڑ پر تشریف لے گئے۔ اور معانقہ کیا۔۳۳۲
]bus [tagمصنفین سلسلہ کی نئی مطبوعات
سیرت مسیح موعودؑ حصہ سوم۳۳۳)از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی( رسالہ >درود شریف< )از حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری( >نور ہدایت )از سید عبدالمجید صاحب منصوری( >احسانات مسیح موعود< )لیکچر مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری( >اصل طبی بیاض حصہ اول )حکیم الامت حضرت مولانا حافظ حکیم نور الدین خلیفتہ المسیح الاول کی طبی بیاض جسے زیادہ عام فہم اور مفید بنانے کے لئے حضرت مولانا حکیم عبید اللہ صاحب بسمل کی خدمات حاصل کی گئیں اور جسے صاحبزادہ عبدالسلام صاحب عمر نے شائع کیا۔۳۳۴>بخار دل< )حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ کی عارفانہ نظموں کا مجموعہ جو شیخ محمد اسماعیل صاحب مینجر حالی بک ڈپو پانی پت نے شائع کیا(
>برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول<۳۳۵)از ملک فضل حسین صاحب( >نیر صداقت<۳۳۶)از ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ( >قول سدید< )ختم نبوت سے متعلق ایک رسالہ جو ڈاکٹر سید شفیع احمد صاحب پی۔ ایچ۔ ڈی۔ محقق دہلوی نے شائع کیا۔ اور جس کی خریداری کی خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سفارش فرمائی-۳۳۷
اندرون ملک کے مشہور مباحثے
مباحثہ گجرات ۔ )یہ مباحثہ مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی کا پادری عبدالحق صاحب سے چار دن تک ہوتا رہا تھا۔ موضوع بحث یہ تھے۔ باطل مذہب` کلام الٰہی` تحریف بائبل- مسیحؑ کی آمد ثانی(۳۳۸text] [tag
مباحثہ رائے کوٹ ۔ )مابین مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی و پادری عبدالحق صاحب(۳۳۹
مباحثہ دینا نگر ۔ )ضلع گورداسپور( )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل و پنڈت دھرم بھکشو(۳۴۰
مباحثہ دہلی ۔ یہ مباحثہ ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے آریہ سماج کے سالانہ جلسہ کے موقع پر آریہ مناظر پنڈت جگدمبا پرشاد لکھنوی سے نجات کے موضوع پر کیا۔۳۴۱
20] p[مباحثہ گھرینڈا متصل بھڈیار ضلع امرت سر۔ اس مباحثہ کے مناظر مولوی قمر الدین صاحب مولوی فاضل اور امرت سر کے ایک غیر احمدی عالم صاحب تھے۔۳۴۲
مباحثہ شیخوپورہ ۔ )مولوی محمد یار صاحب عارف اور اہلحدیث مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی کے درمیان(۳۴۳
مباحثہ ڈچکوٹ ضلع لائلپور ۔ )مابین حضرت مولوی میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق اور ستیہ دیو اپدیشک آریہ پرتی ندھا سبھا(۳۴۴body] [tag
مباحثہ ہریال تحصیل شکر گڑھ ۔ یہ مباحثہ دو مضمونوں پر تھا پہلا مضمون >کیا وید الہامی کتاب ہے< اور دوسرا مضمون >کیا قرآن مجید الہامی کتاب ہے<۔ تھا پہلے مضمون میں مہاشہ محمد عمر صاحب اور دوسرے میں ملک عبدالرحمن صاحب خادم مناطر تھے۔ آریہ سماج کی طرف سے پنڈت ستیہ دیو آریہ سماجی پیش ہوئے۔ ۳۴۵
مباحثہ مومیونوال ضلع جالندھر ۔ مولوی محمد یار صاحب عارف نے ختم نبوت کے موضوع پر مباحثہ کیا۔۳۴۶
20] [pمباحثہ پاک پٹن ۔ )احمدی مناظر غلام احمد خاں ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ پاک پٹن اور غیر احمدی مناظر حکیم عبدالعزیز صاحب تھے اور مسئلہ زیر بحث حیات و وفات مسیح ناصری علیہ السلام(۳۴۷
مباحثہ لائل پور ۔ )مابین مولانا ابو العطاء صاحب فاضل و پنڈت کالی چرن صاحب و مہاشہ چرنجی لال صاحب پریم(۳۴۸
مباحثہ امرال ضلع سیالکوٹ۔)مابین مولوی ظہور حسین صاحب و مولوی محمد شفیع صاحب موضوع بحث وفات مسیح اور صداقت مسیح موعودؑ تھے(۔۳۴۹
مباحثہ امرت سر ۔ اس مباحثہ کے دو موضوع تھے۔ >کیا وید ایشور کا گیان ہے<۔ دوسرا >کیا قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے<۔ پہلے میں مولوی مہاشہ محمد عمر صاحب اور پنڈت دھرم بھکشو مناظر تھے۔ دوسرے میں مولوی علی محمد صاحب اور پنڈت دھرم بھکشو صاحب۔۳۵۰
مباحثہ ماڑی بچیاں ضلع گورداسپور ۔ )مولانا ابو العطاء صاحب فاضل اور مولوی محمد امین صاحب واعظ کے درمیان ہوا۔ موضوع بحث یہ تھا۔ >کیا حضرت مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰؑ کو یوسف نجار کا بیٹا قرار دیا ہے(۔۳۵۱
مباحثہ گوجرانوالہ ۔ )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل اور مولوی نور حسین صاحب اہلحدیث گرجاکھی زیر صدارت حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ(۳۵۲
مباحثہ پٹھانکوٹ ۔ اس مباحثہ کا موضوع صداقت مسیح موعودؑ تھا جو ۲۴ ۔ ۲۵ نومبر ۱۹۲۸ء کو چار اجلاسوں میں تھا۔ پہلے اجلاس میں مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور مولوی کرم دین صاحب ساکن بھیں مناظر تھے۔ دوسرے اجلاس میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور حافظ محمد شفیع صاحب تیسرے اور چوتھے اجلاس میں بھی مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مناظر رہے۔ مگر غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری پھر مولوی کرم دین صاحب ساکن بھیں پیش ہوئے تھے۔۳۵۳
مباحثہ گجرات ۔ )ملک عبدالرحمن صاحب خادم اور آریہ سماجی مناظر پنڈت کالی چرن صاحب کے درمیان۔۳۵۴
2] mrl[حواشی )پہلا باب(
۱۔
اس سلسلہ میں ابتدائی تعارف کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۵ ۔ ۶۲۶
۲۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۳۰
۳۔
الفضل ۳۱ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱۔۲
۴۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۵ ۔ ۶۲۶
۵۔
اسی بناء پر سیاسی لیڈروں نے یہاں تک کہا کہ کمیشن میں کسی ہندوستانی کو شامل نہ کر کے ہندوستانیوں کی ہتک کی گئی ہے حالانکہ جب کمیشن صرف برطانوی حکومت کی پارلیمنٹ کے ممبروں پر مشتمل تھا تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ نے اپنے ارکان کا نام اس سے الگ کر کے اپنے ارکان کی توہین کا ارتکاب کیا ہے۔
۶۔
پنجاب کے کانگریسی لیڈر لالہ لاجپت رائے نے مرکزی اسمبلی میں ان دنوں بائیکاٹ کی تائید میں ایک ہنگامہ خیز تقریر کی جس سے ہندو قوم کی سیاست کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ انہوں نے ایک طرف تو کہا کہ >ہندوستان کے مسائل اتنے وسیع اور پیچیدہ ہیں کہ اگر دیوتا لوگ بھی سورگ )بہشت( سے اتر کر یہاں آئیں تو وہ انہیں سمجھ نہیں سکیں گے۔<۔ دوسری طرف کہا >اگر انگریز ہندوستان سے چلے جائیں تو میرے خیال میں موجودہ قانون سے زیادہ انارکی و فساد۔ خرابی پیدا نہیں ہوگی<۔ تیسری طرف کہا >میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کا سوال ایسا نہیں کہ جس کا فیصلہ ایک کمیشن کر سکتا ہے بلکہ اس کا فیصلہ گفتگوئے مصالحت اور سمجھوتہ سے ہو سکتا ہے<۔ )اہلحدیث ۲۴ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۳( اس رویہ کا اس کے سوا کیا مقصد ہو سکتا تھا کہ انگریز اس ملک کی باگ ڈور ہندو اکثریت کو دے کر رخصت ہو جائین۔ اور اگر وہ ان مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو کانگریس سے مصالحت اور سمجھوتہ کر کے حل کر سکتے ہیں اسے کمیشن کے ذریعہ ہندوستان کی تمام جماعتوں اور افراد سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔
۷۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ نے متحدہ ہندوستان میں ہمیشہ ہی مخلوط انتخاب کی مخالفت کی ہے۔ اور جداگانہ انتخاب کو مسلمانوں کی قومی زندگی کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ بمبئی کے اخبار >خلافت< نے اسے ایک کارنامہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ >قادیانیوں کو خواہ کافر کہا جائے خواہ مرتد اور سچی بات یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو ان سے اصولی اختلافات بھی ہیں لیکن ان کو اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہئے کہ ان عام اور مشہور اختلافات کے باوجود انہوں نے یہ کبھی نہیں کیا کہ تخصیص نشست چاہی ہو یا مشترک انتخاب کا مطالبہ کیاہو- حالانکہ اگر وہ چاہتے تو اپنے سرکاری اثر و نفوذ کے سبب ایسا کر سکتے تھے۔ ان کا یہ کارنامہ تاریخ اپنے اندر محفوظ رکھے گی۔ اور انہیں ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد کرے گی<۔ )اہلحدیث ۲۹ / جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۵(
۸۔
>مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت< الفضل ۱۶ / دسمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۸۔
۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء میں صیغہ ترقی اسلام کی رپورٹ میں اس کی تفصیلات بایں الفاظ ملتی ہیں >مجھے اس ٹریکٹ کا ذکر خاص طور پر کر دینا چاہئے جو سائمن کمیشن کے ورود ہندوستان سے قبل مسلمانان ہند کے مفاد کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے لکھا۔ اور صیغہ ترقی اسلام نے پندرہ ہزار کی تعداد میں اردو میں ہندوستان کے تمام حصوں میں بکثرت شائع کیا۔ اور علاوہ ازیں دو ہزار کی تعداد میں یہی مضمون چھپوا کر وائسرائے` تمام صوبوں کے گورنروں چیف کمشنروں` اور ڈپٹی کمشنروں کے علاوہ افسران پولیس` اعلیٰ عہدیداران میڈیکل ڈیپارٹمنٹ` انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ وغیرہ غرض حکومت کے ہر طبقہ کے اعلیٰ افسروں کے نام بھیجا گیا۔ اسی رسالہ کا اثر تھا کہ سائمن کمیشن کے ورود ہندوستان پر مسلمانان ہند نے ہڑتال نہ کی<۔ )صفحہ ۲۱۲ ۔ ۲۱۳(
۱۰۔
>مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۱۸ )از محمد مرزا دہلوی(
۱۱۔
>ذکر اقبال< صفحہ ۱۳۷ )از عبدالمجید سالک(
۱۲۔
مولوی ظفر علی خان صاحب سائمن کمیشن سے بائیکاٹ کرنے کے خیال میں جس قدر متشدد اور غالی ہوگئے تھے اس کا اندازہ آپ کی ایک تقریر سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے ایک تبلیغی کانفرنس میں کی۔ اخبار تیج )دہلی( کا نامہ نگار لکھتا ہے۔ >آپ تقریر کر رہے تھے جس میں آپ نے سائمن کمیشن کے مقاطعہ کا دو مرتبہ تذکرہ کیا۔ اور دونوں مرتبہ صدر نے آپ کو ٹوکا آپ سے کہا گیا کہ تبلیغی کانفرنس کا سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں ہے اس پر مولانا نے طنزاً کہا کہ ایک غلام ملک میں کوئی تبلیغ نہیں ہو سکتی ہے صاحب صدر نے دوسری مرتبہ مداخلت کی تو مولانا نے حاضرین سے درخواست کی کہ وہ پنڈال کو خالی کر دیں<۔ اخبار >انقلاب< نے اس رپورٹ پر لکھا >اس کا مطلب یہ ہے کہ انگریزی حکومت کے تسلط کے بعد سے اب تک تبلیغ کی جتنی انجمنیں بنیں اور انہوں نے جو کام کیا وہ از سر تا پا غلط تھا۔ مولانا محی الدین احمد قصوری اور مولانا محمد عبداللہ صاحب کی جمعیت دعوۃ و تبلیغ عبث ہے مولانا محمد علی صاحب ایم۔ اے کینٹ تاجر چرم بمبئی نے اپنی کمائی میں سے جو ستر اسی ہزار روپیہ اس کام پر صرف کیا وہ بالکل لاحاصل ضائع ہوا۔ میر غلام بھیک صاحب نیرنگ گذشتہ چار پانچ سال سے جو محنت و مشقت برداشت کرتے رہے اور کر رہے ہیں وہ بیکار تھی اسی لئے کہ یہ سب کچھ ایک غلام ملک میں ہوا۔ پھر قادیانی احمدیوں کی انجمن لاہوری احمدیوں کی انجمن دوسری صدہا تبلیغی انجمنیں خواجہ کمال الدین ووکنگ مشن غرض تمام ادارے اور نظام فضول تھے۔ فضول ہیں اور انہیں جلد سے جلد بند کر دینا چاہئے<۔ )انقلاب ۲۶ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۳(
۱۳۔
عبدالمجید سالک >سرگزشت< میں لکھتے ہیں۔ اس مقاطعہ کو موثر بنانے کے لئے کانگریس کی پوری مشینری حرکت میں آگئی۔ انقلاب کا رویہ یہ تھا کہ سائمن کمیشن سے مقاطعہ بالکل مناسب ہے<۔ )صفحہ ۲۴۷(
۱۴۔
بحوالہ الفضل ۱۰ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۱ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۳-۴(
۱۵۔
ایضاً
۱۶۔
>سرگزشت< صفحہ ۲۴۹ ۔
۱۷۔
بحوالہ الفضل ۹ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس حق تلفی پر الفضل ۲۹ / مئی ۱۹۲۸ء میں ایک اہم مضمون بھی سپرد قلم فرمایا تھا۔ اور مسلمانوں کو اس کے تدارک کے لئے قیمتی مشورے دئیے تھے جسے اخبار انقلاب نے بھی ۲ / جون ۱۹۲۸ء کو شائع کیا۔ حضور نے تجویز پیش فرمائی تھی کہ اس صورت حال پر غور کرنے کے لئے مختلف الخیال لوگوں کا ایک جلسہ کیا جائے جس میں کونسل اور مقتدر اسلامی اخبارات کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ اخبار انقلاب )۸ / جون ۱۹۲۸ء( نے اس سے اتفاق رائے کرتے ہوئے لکھا۔ >مرزا صاحب کو چاہئے کہ وہ خود اپنے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھا کر ایسا جلسہ جلد سے جلد منعقد کرنے کی سعی فرمائیں<۔
۱۹۔
الفضل ۲۹ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۳
۲۰۔
الفضل ۲۰ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۲۱۔
الفضل ۲۳ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۲۲۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۹۹
]1h [tag۲۳۔
الفضل ۱۷ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۔۶
۲۴۔
اخبار >تنظیم< )امرت سر( ۲۸ / فروری ۱۹۲۸ء بحوالہ الفضل ۸ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۸
۲۵۔
>فرقان< دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۵۵ )مضمون مولوی عبدالمالک خان صاحب مربی سلسلہ احمدیہ مقیم کراچی(
۲۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۲۹
۲۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۵۳
۲۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۵۳ ۔ ۲۵۴
۲۹۔
الفضل ۶ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۳۰۔
سورۃ نور ع ۴ ۔ آیت ۳۱
۳۱۔
اخبار >مصباح< )قادیان( یکم اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۵۔۱۶
۳۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴۔۵ و >الفضل< ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷(
۳۳۔
الفضل ۱۶ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۳۴۔
الفضل ۱۷ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۷
۳۵۔
دراصل اس مشاورت کے سامنے مرکز میں زنانہ ہوسٹل کے قیام کی تجویز زیر غور تھی۔ حضور نے اس تجویز کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے مندرجہ بالا تحریک فرمائی بعض نمائندوں کی رائے تھی کہ حضرت ام المومنینؓ کی طرف سے زنانہ ہوسٹل کے چندہ کی اپیل ہو اور عورتیں چندہ دیں۔ مگر حضور نے اسے سختی سے رد کردیا۔ اور فرمایا۔ >یہ اپیل میری طرف سے ہو اور مرد چندہ دیں اگر یہ چندہ عورتوں پر رکھا گیا تو یہ بات آئندہ ہماری ترقی میں حائل ہو جائے گی اور ہمارے گھروں کا امن برباد کر دے گی۔ اور یہ احساس پیدا ہوگا کہ مرد عورتوں کے لئے کچھ نہیں کر رہے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں اس قسم کا احساس اپنی جماعت کی عورتوں میں پیدا کرنا پسند نہیں کرتا۔ ہم خود اپنے چندہ سے عورتوں کی تعلیم کا انتظام کریں گے اور اس کے لئے ایک پیسہ بھی عورتوں سے نہ مانگیں گے<۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۶۱(
۳۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۹ تا ۶۰
۳۷۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۹
۳۸۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رپورٹ مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵۳ تا ۱۵۵
۳۹۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۸ ۔ ۶۹
۴۰۔
مثلاً کمیشن نے ہر کاغذ نمبر دے کر شامل مسل نہیں کیا۔ بعض کارکنوں کے خلاف اس نے ایک رائے قائم کی۔ مگر ان کو جواب دہی کا موقعہ نہیں دیا وغیرہ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۱۔۱۲( کمیشن کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنی اٹھارہویں سفارش میں نادانستہ طور پر ایک ایسی تجویز پیش کی جس پر براہ راست منصب خلافت پر زد پڑتی تھی۔ اور اس کے ادب و احترام کے سراسر منافی تھی اس سفارش کی تفصیل اور اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا مفصل فیصلہ ۱۹۳۰ء کے حالات میں آئے گا۔
۴۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۹۔۱۲
۴۲۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۲۔۱۳
۴۳۔
>بشارات رحمانیہ< )مولفہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل( حصہ اول صفحہ ۲۰۲ ۔ ۲۰۳
۴۴۔
الفضل ۱۳ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم۳
۴۵۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۵۶۸ ۔ ۵۶۹ پر تبلیغ اسلام سے متعلق اس عہد کا ذکر آ چکا ہے۔
۴۶۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۳۸ ۔ ۱۴۳
۴۷۔
الفضل ۸ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و ۱۵ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۴۸۔
روزنامہ >ملت< لاہور مورخہ ۱۹ / مارچ ۱۹۵۴ء بحوالہ الفضل ۲ / اپریل ۱۹۵۴ء صفحہ ۵ کالم ۱۔۲
۴۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۲۰۔۱۹۱۹ء صفحہ ۵۹
۵۰۔
رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۲۰۔۱۹۱۹ء صفحہ ۵۹ ۔ ۶۰
۵۱۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء
۵۲۔
چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ و گیمبیاکا بیان ہے کہ مبلغین کلاس کا مدرسہ احمدیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا اس کلاس کی پڑھائی حضرت حافظ صاحب کے مکان میں بھی اور مسجد اقصیٰ میں بھی ہوا کرتی تھی کوئی میز کرسی وغیرہ نہ ہوا کرتا تھا<۔
۵۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء میں لکھا ہے >ساتویں جماعت سے اوپر یعنی مولوی فاضل کی دونوں جماعتیں جو پہلے مدرسہ کے ساتھ ہوا کرتی تھیں اب کالج میں منتقل کر دی گئی ہیں۔۔۔۔۔۔ ۴۲ لڑکے کالج کی طرف منتقل ہوئے ہیں )صفحہ ۲۱۰(
۵۴۔
بعض اصحاب کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی اور حضرت مولوی محمد دین صاحب بھی اس میں رہتے رہے ہیں۔
۵۵۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۸ء جامعہ احمدیہ کے یہ اولین اساتذہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اور تاریخ احمدیت میں ان بزرگوں کا کئی بار تذکرہ آ چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا۔ یہاں مختصراً یہ بتانا مناسب ہوگا۔ )۱( ضیغم احمدیت حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب ۱۰ / ستمبر ۱۸۷۳ء کو پیدا ہوئے۔ ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء سے قبل حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی اور اپریل ۔ مئی ۱۹۰۱ء میں مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے یکم مئی ۱۹۰۱ء سے سلسلہ کی باقاعدہ ملازمت اختیار کی اور تعلیم الاسلام ہائی سکول اور پھر مدرسہ احمدیہ میں لمبے عرصہ تک عظیم الشان تعلیمی و تربیتی خدمات بجا لانے کے بعد جامعہ احمدیہ کے پرنسپل بنے )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو >اصحاب احمد< جلد ۵ ہر سہ حﷺ مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان دارالامان۔
)۲( عبدالکریم ثانی حضرت حافظ روشن علی صاحب کے سوانح تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۱۶۸ و ۱۶۹ میں مندرج ہیں جامعہ احمدیہ میں منتقل ہونے سے قبل آپ جماعت مبلغین کے نگران تھے۔
)۳( حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری ۱۳ / اپریل ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے اور ۲۸ / جنوری ۱۹۰۹ء سے مستقل طور پر دیار حبیب میں آگئے۔ یہاں حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ آپ تفسیر` حدیث` فقہ` منطق` فلسفہ` صرف و نحو اور ادب عربی کے نہایت بلند پایہ عالم تھے۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب و ملفوظات کے تو گویا حافظ تھے۔
)۴( حضرت میر محمد اسحاق صاحب )خلف الصدق حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ( ۸ / ستمبر ۱۸۹۰ء کو بمقام لدھیانہ پیدا ہوئے غالباً ۱۸۹۴ء کے بعد سے قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اور >الدار< میں قیام کا شرف حاصل ہوا۔ بچپن سے ۱۸ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعودؑ کے روز و شب کے حالات مشاہدہ کئے اور آخر دم تک قریباً اسی طرح ذہن میں محفوظ رہے کئی سفروں میں ہمرکاب ہونے کا فخر حاصل کیا۔ آخری بیماری کی ابتداء سے وصال تک حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کے پاس رہے حضور علیہ السلام نے متعدد مرتبہ آپ سے لوگوں کے خطوط کے جوابات لکھوائے۔ اور حقیقتہ الوحی کا مسودہ بھی۔ حضور نے اپنی کتابوں میں بیسیوں دفعہ آپ کا ذکر فرمایا۔ بہت سے نشانوں کے عینی گواہ اور مورد بھی تھے۔ بے قاعدہ اور باقاعدہ طور پر حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب` مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل سے عربی علوم پڑھے ۱۹۱۰ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا ۱۹۱۲ء میں صدر انجمن کی ملازمت میں آئے۔ جامعہ احمدیہ کے قیام سے قبل مدرسہ احمدیہ میں مدرس تھے۔ )رسالہ جامعہ احمدیہ سالنامہ صفحہ ۷۴( جامعہ میں آپ اپنے مفوضہ نصاب پڑھانے کے علاوہ ہمیشہ طلباء میں خاص اہتمام سسے تقریر کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے جامعہ احمدیہ اور مہمان خانہ میں تقریر کراتے اور بیرونی مقامات میں جلسوں اور مناظروں میں لے جاتے جس سے ان میں تقریر کی غیر معمولی قوت پیدا ہو جاتی تھی۔
]h1 [tag۵۶۔
یاد رہے کہ اس جلد میں جامعہ احمدیہ سے متعلق حالات تقسیم ہند ۱۹۴۷ء تک لکھے گئے ہیں بعد کے واقعات پاکستانی دور کی تاریخ میں آئیں گے۔
۵۷۔
۱۸۹۴ء میں مہمند قبیلہ کے ایک ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم پشاور کی بعض درسگاہوں میں پائی دریں اثناء صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب احمدی ساکن بازید خیل ضلع پشاور کے حلقہ درس میں آپ کو شمولیت کا موقعہ ملا۔ اور آپ اسی اثر کے ماتحت مارچ ۱۹۱۰ء کے سالانہ جلسہ پر قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفہ اولؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی ۱۹۱۷ء میں آپ نے مدرسہ احمدیہ سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا جون ۱۹۱۸ء میں مدرسہ احمدیہ میں استاد مقرر ہوئے ۱۹۲۹ء میں ترقی پاکر جامعہ احمدیہ میں منتقل ہوئے اور تعلیمی و تربیتی فرائض ادا کرنے کے بعد ۱۹۴۹ء میں بطور پروفیسر تعلیم الاسلام کالج میں منتقل ہوئے )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو >جامعہ احمدیہ< سالنامہ نمبر صفحہ ۷۴ و اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۴۹ تا ۵۵۔
۵۸۔
کھیوا تحصیل چکوال ضلع جہلم آپ کی جائے پیدائش ہے آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولوی عبدالرحمن صاحب اور جناب مولوی محمد خلیل الرحمن صاحب بھیروی اور مولوی فضل الٰہی صاحب سے پائی پھر چند سال مدرسہ احمدیہ میں دینیات کا علم حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب سے حاصل کیا۔ معقولات سے متعلق علامہ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب سے شرف تلمذ حاصل کیا ۱۹۲۷ء میں بمقام شملہ قرآن مجید حفظ کیا اور حافظ و قاری محمد یوسف صاحب سہارنپوری کو سنایا۔
۵۹۔
یہ حضرت خلیفہ اولؓ کے قابل شاگردوں میں سے ہیں >تسہیل العربیہ< )کا عربی اردو حصہ( اور ترجمہ >مفردات امام راغب< آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں
۶۰۔
ان کے علاوہ ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کچھ عرصہ تک طب کی تعلیم دیتے رہے حافظ فتح محمد صاحب قاری جامعہ احمدیہ قادیان کے آخری دور میں معلم تجوید رہے اور سید احمد صاحب فزیکل انسٹرکٹر۔
۶۱۔
قرآن مجید سورۃ آل عمران آیت ۱۰۵
۶۲۔
قرآن مجید سورۃ التوبتہ آیت ۱۲۲
۶۳۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ - ۷
۶۴۔
حضور ایدہ اللہ نے اس سال ۲۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے اعزاز میں دی گئی ایک پارٹی میں دوبارہ جامعہ احمدیہ میں تشریف لائے۔ اور طلباء جامعہ احمدیہ کو پرزور تلقین فرمائی کہ وہ مختلف موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھیں اس سے نہ صرف ان کی علمی ترقی ہوگی اور جامعہ احمدیہ کو تقویت پہنچے گی بلکہ جماعت احمدیہ کی شہرت دوبالا ہو جائے گی )ملخصا از الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ تا ۷(
۶۵۔
الفضل ۴ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰
۶۶۔
الفضل ۲۸ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ اس حادثہ کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔
۶۷۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۳
۶۸۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۳
۶۹۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۱۲ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔۱۹۳۱ء صفحہ ۴۶
۷۰۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۱۔۱۹۳۰ء صفحہ ۲۶۔ اس لائبریری کے ۱۹۴۷ء تک وقتاً فوقتاً کئی پروفیسر نگران رہے مثلاً حافظ مبارک احمد صاحب۔ شیخ محبوب عالم صاحب خالد۔ لائبریری میں ۱۹۴۷ء تک گاہے گاہے جو اخبارات و رسائل منگوائے گئے ان کی فہرست حسب ذیل ہے۔ انقلاب )لاہور( پیغام صلح )لاہور( ام القریٰ )مکہ مکرمہ( ماہنامہ ادبی دنیا )لاہور( عالمگیر۔ ریویو آف ریلیجنز اردو انگریزی )قادیان( معارف )اعظم گڑھ( میگزین تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان۔ نیرنگ خیال )لاہور( الضیاء نہر ہائی عربی۔ اہلحدیث )امرت سر( احسان )لاہور( پرتاپ )لاہور( ہمایوں )لاہور( الاستقلال عربی )ارجنٹائن( روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ )لاہور( اخبار ریاست )دہلی( فرقان )قادیان(
۷۱۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔۱۹۳۱ء صفحہ ۴۴۔۴۶
۷۲۔
الفضل ۱۳ / دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔ تفصیل ۱۹۳۲ء کے حالات میں آئے گی۔
۷۳۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔۱۹۳۲ء صفحہ ۳۴
۷۴۔
الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۳۴ء
۷۵۔
۱۹۴۷ء تک مندرجہ ذیل اصحاب مختلف اوقات میں ہوسٹل جامعہ احمدیہ کے سپرنٹنڈنٹ رہے۔ سردار مصباح الدین صاحب۔ شیخ محبوب عالم صاحب خالد صاحبزادہ مولوی ابوالحسن صاحب قدسی۔ مولوی ارجمند خان صاحب۔
۷۶۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۵۔۱۹۴۴ء صفحہ ۳۵ ۔ اسی کلاس سے مولوی بشیر احمد صاحب )حال مبلغ و امیر کلکتہ( نے سنسکرت کا نصاب پاس کیا۔
۷۷۔
گو جامعہ احمدیہ کا افتتاح مئی ۱۹۲۸ء میں ہوا مگر جیسا کہ جامعہ احمدیہ کے قدیم ریکارڈ )رجسٹر داخل خارج طلبہ( سے ثابت ہے طلبہ کا داخلہ ۱۹ / نومبر ۱۹۲۷ء سے شروع کر دیا گیا تھا تا نئے تعلیمی سال یکم مئی ۱۹۲۸ء سے باقاعدہ جامعہ احمدیہ کا اجراء ہو سکے۔
۷۸۔
صحیح تاریخ ولادت ۱۶ / نومبر ۱۹۰۹ء
۷۹۔
مولوی فاضل کے امتحان میں اول آئے تھے۔
۸۰۔
صحیح تاریخ ولادت ۱۱ جنوری ۱۹۱۳ء
۸۱۔
۱۹۳۳ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔
۸۲۔
آپ پہلی بار ۱۹۲۹ء میں داخل جامعہ ہوئے مگر دو سال کے لئے چلے گئے۔ اور دوبارہ داخلہ ۱۹۳۱ء میں لیا۔
۸۳۔
امتحان مولوی فاضل میں دوم آئے۔
۸۴۔
جامعہ احمدیہ کے قدیم ریکارڈ سے ماخوذ۔ مفصل فہرست شاگردان حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم میں موجود ہے۔ البتہ اس میں ملک غلام فرید صاحب کا نام سہواً لکھا گیا ہے۔
۸۵۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۴۰۔۱۹۳۹ء صفحہ ۱۲۱۔۱۲۲ و رپورٹ سالانہ ۴۳۔۱۹۴۲ء صفحہ ۲۰ و رپورٹ سالانہ ۴۵۔۱۹۴۴ء صفحہ ۳۶۔
۸۶۔
پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مولوی فاضل میں اول رہے۔
۸۷۔
مولانا ابوالعطاء صاحب کے پرنسپل بننے سے چند ماہ قبل خان صاحب مولوی ارجمند خان صاحب قائم مقام پرنسپل کے فرائض انجام دیتے رہے۔
۸۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۸۔۱۹۴۷ء صفحہ ۱۵
۸۹۔
>فاروق< ۶ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و فاروق ۱۳ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۹۰۔
الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲ )تقریر سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء(
۹۱۔
الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷ / اپریل ۱۹۲۸ء(
۹۲۔
الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲
۹۳۔
الفضل ۵ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۹۴۔
یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کہ منشی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر >پیسہ اخبار< لاہور نے اپنی کتاب >اسلامی سائیکلوپیڈیا< میں ۱۲ / ربیع الاول کی مجالس میلاد النبی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا۔ >مرزا غلام احمد قادیانی جو مسیح موعود ہونے کے مدعی تھے ان کے پیرو اس روز خاص جلسہ کیا کرتے ہیں جس سے ان کا مدعا اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ آج کے دن نبی~صل۱~ نے وفات پائی ہے۔ مگر نبوت نے وفات نہیں پائی نبی ہمیشہ آتے رہیں گے چنانچہ ایک نبی مرزا صاحب بھی آ چکے ہیں<۔ )حصہ اول صفحہ ۱۳۱(
۹۵۔
تعجب کی بات یہ تھی کہ پہلی تاریخ بدلنے کا سوال اہلسنت و الجماعت کے بعض اصحاب میں پیدا ہوا حالانکہ اس دن لیکچر دینے والوں میں کئی شیعہ حضرات نے بھی نام لکھوایا تھا اور جلسہ کو کامیاب بنانے میں ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی تھی اور گو کسی شیعہ کو شہیدان کربلا کے دردناک حالات کے ساتھ سیرت رسولﷺ~ پر روشنی ڈالنے سے اعتراض نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر حضور نے محض اس وجہ سے کہ محرم کے دنوں میں فسادات رونما ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور حکومت امن و امان کی بحالی کے لئے بعض جگہ جلسوں کی ممانعت کر دیتی ہے۔ ۱۷ / جون کا دن جلسوں کے لئے مقر فرما دیا۔ )الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶(
۹۶۔
الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء۔
۹۷۔
الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸
۹۸۔
]h2 [tagرپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۵
۹۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۵
۱۰۰۔
الفضل ۳ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ و رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۷
۱۰۱۔
مثلاً حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت میر محمد اسماعیل صاحب` حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب۔ حضرت مولوی ذوالفقار علی صاحب` حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی۔ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب۔ مولوی عبدالحمید صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ دہلی شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر۔ حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب سابق سردار جگت سنگھ۔ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل۔ قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری۔ مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری۔ خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر >الفضل<۔
tav.5.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
۱۰۲۔
مثلاً فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک کرم الٰہی صاحب ضلع دار۔ مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ ایڈیٹر الفضل۔ سکنیتہ النساء بیگم صاحبہ قادیان۔ نسیم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کیمبل پور۔ عزیزہ رضیہ صاحبہ اہلیہ مرزا گل محمد صاحب۔ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر گوہر الدین صاحب مانڈلے برما۔ امتہ الحق صاحبہ بنت حضرت حافظ روشن علی صاحب۔
۱۰۳۔
مثلاً حکیم برہم صاحب ایڈیٹر اخبار >مشرق< گورکھپور۔ جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی ایڈیٹر >منادی<۔
۱۰۴۔
لالہ دنی چند صاحب ایڈووکیٹ انبالہ۔
۱۰۵۔
بعض نعت لکھنے والے حضرت منشی قاسم علی صاحب رامپوری۔ مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ۔ حضرت خان صاحب مولوی ذوالفقار علی خان صاحب۔ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر بی۔اے۔ ایل ایل بی وکیل کپورتھلوی۔
h1] ga[t۱۰۶۔
اخبار >مشرق< )گورکھپور( نے اس نمبر پر یہ ریویو کیا کہ >اس میں حضرت رسول کریم~صل۱~ کے سوانح حیات و واقعات نبوت پر بہت کثرت سے مختلف اوضاع و انواع کے مضامین ہیں اور ہر مضمون پڑھنے کے قابل ہے ایک خصوصیت اس نمبر میں یہ ہے کہ ہندو اصحاب نے بھی اپنے خیالات عالیہ کا اظہار فرمایا ہے جو سب سے بہتر چیز ہندوستان میں بین الاقوامی اتحاد پیدا کرنے کی ہے دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مردوں سے زیادہ عورتوں نے اپنے پیغمبر کے حالات پر بہت کچھ لکھا ہے<۔ )۲۱ / جون ۱۹۲۸ء )بحوالہ الفضل ۳ / جولائی ۱۹۲۸ء( صفحہ ۳ کالم۳(
۱۰۷۔
یہ تینوں باتیں غلط تھیں اور واقعات نے ان کا غلط ہونا ثابت کر دیا )۱( مولوی ابوالکلام صاحب آزاد ڈاکٹر کچلو صاحب۔ ڈاکٹر مختار صاحب انصاری اور سردار کھڑک سنگھ صاحب جیسے کانگریسی لیڈر یا تو بعض جلسوں کے پریذیڈنٹ ہوئے یا اس کے داعی بنے جس سے ظاہر ہے۔ کہ حکومت کے ساتھ اس تحریک کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ )۲( ان جلسوں پر جماعت احمدیہ کا پندرہ ہزار کے قریب روپیہ صرف ہوا۔ لیکن جماعت نے کسی ایک پیسہ کا بھی چندہ نہ مانگا البتہ لکھنئو اور کئی دوسرے مقامات میں مسلمانوں نے خود جلسہ کے انعقاد کے لئے رقوم بھیجیں جو انہیں کے انتظام کے ماتحت اس کام پر خرچ ہوئیں )۳( سارے ہندوستان میں منعقد ہونے والے جلسوں میں سے صرف ایک تقریر کے متعلق کہا گیا کہ اس میں احمدیت کی تبلیغ کی گئی مگر وہ تقریر بھی ہندوئوں کے خلاف تھی۔ پھر ان جلسوں میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری` حیدر آباد دکن کے صدر الصدور مولوی حبیب الرحمن خان صاحب شروانی` علماء فرنگی محل اور جناب ابوالکلام صاحب آزاد کا کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لینا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں ایسے جلسوں میں احمدیت کے مخصوص عقائد کی تبلیغ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ )الفضل ۲۴/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۔۶ کالم۲۔۳(
۱۰۸۔
چنانچہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے خود اقرار کیا کہ >ان جلسوں میں میاں صاحب کے ساتھ ہم نے اشتراک عمل نہیں کیا<۔ )پیغام صلح یکم ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲( اس کے مقابل ان کا گذشتہ طرز عمل یہ تھا کہ انہوں نے ایک عرصہ قبل کانگریس کے لیڈر مسٹر گاندھی کی قیادت میں چلائی ہوئی تحریک خلافت کے ساتھ وابستگی ضروری خیال کی چنانچہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے موجودہ امیر جناب مولوی صدر الدین صاحب کا بیان ہے کہ >میں نے انگریزی راج کے خلاف ہندوستان میں اور خود انگلستان میں متعدد لیکچر دئیے تھے اور سالہا سال تک کانگریس اور تحریک خلافت سے تعاون کرتے ہوئے کھدر پوش بنا رہا<۔ )کامیاب زندگی کا تصور صفحہ ۱۱۲ مولف پروفیسر انورول شائع کردہ مکتبہ جدید لاہور سن طبع اول مارچ ۱۹۶۴ء۔
افسوس ان حضرات کو سیرت النبی~صل۱~ کی عالمگیر تحریک بھی جماعت احمدیہ قادیان سے اتحاد عمل پر آمادہ نہ کر سکی۔ اور بعض غیر مبایعین نے بیان کیا کہ ہمیں انجمن نے ان میں حصہ لینے سے روکا ہے اور دو چار مقامات کے سوا بحیثیت قوم فریق لاہور نے اس کا بائیکاٹ ہی کیا۔ جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس تحریک کے بانی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی تھے اور یہ آواز قادیان سے بلند ہوئی تھی۔ مگر چونکہ غیر مسلموں کو اسلام تک لانے کی موثر ترین صورت یہی تھی جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے تجویز فرمائی تھی اس لئے بالاخر ان کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ کسی موقعہ پر یہ آواز بلند کر دینے سے کہ فلاں شخص نے رسول اللہ~صل۱~ کی شان میں گستاخی کر کے ہمارا دل دکھایا ہے حقیقتاً کوئی اصلاہ نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات اپنے غیظ و غضب کے اظہار سے بڑھ کر اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ان گستاخیوں کا سدباب کرنا ہے اگر اس ملک میں اشاعت اسلام کے لئے کوئی عملی راستہ کھولنا ہے تو اس کے لئے سب سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ آنحضرتﷺ~ کے صحیح حالات کو ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچایا جائے<۔ )پیغام صلح ضمیمہ ۳۰ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم۳(
۱۰۹۔
اخبار مخبر اودھ نے جلسہ لکھنئو کے موقعہ پر آپ کی تقریر کے بارے میں لکھا۔ >پھر مولوی اللہ دتہ صاحب احمدی پلیٹ فارم پر تشریف لائے آپ نے موثر طریقہ سے حضور کی زندگی کا شاندار پہلو دکھایا پرانے خیالات کے بزرگ اور ینگ پارٹی کے نوجوان مسلمان آپ کی تقریر سے نہایت خوش ہوئے۔ آپ نے ثابت کر دیا کہ آنحضرت~صل۱~ دنیا کے لئے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ اور خدا کی رحمت تھے اہل مجلس کی استدعا پر آپ کو مزی وقت دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔ جس روز مولوی اللہ دتہ صاحب لکھنئو سے قادیان تشریف لے جا رہے تھے تو احمدیوں کے علاوہ دیگر فرقوں کے مسلمان بھی اسٹیشن پر موجود تھے جنہوں نے رخصت کے وقت آپ سے مصافحہ کیا< )مخبر اودھ ۲۶ / جون ۱۹۲۸ء بحوالہ الفضل ۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم۳(
۱۱۰۔
h2] gat[کلکتہ کے اخبار >دی انگلشن مین< )۱۸ / جون ۱۹۲۸ء( نے اور >دی امرت بازار پترکا< )۱۹ / جون( نے جلسہ سیرت النبیﷺ~ کلکتہ کی رپورٹ شائع کی جس میں آپ کی تقریر کا بھی ذکر کیا۔ )ملاحظہ ہو الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۱(
۱۱۱۔
آپ نے ۱۷ / جون کا جلسہ ریل گاڑی میں کیا۔ جس کی دلچسپ تفصیل آپ کے الفاظ میں یہ ہے کہ >۱۷ / جون ۱۹۲۸ء کو میں کراچی میں تھا۔ اس دن وہاں کے اس جلسہ میں شریک ہونے کو دل چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر مجبوری تھی ٹھہرنا مشکل تھا آخر ۳ بجے کی گاڑی میں سوار ہوگیا اور اپنی سیٹ پر کھڑے ہوکر حضرت رسول کریم~صل۱~ خاتم النبیینﷺ~ کی سیرت پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ جب دوسرا اسٹیشن آیا تو اس کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ میں جا پہنچا اور وہاں لیکچر کر دیا۔ غرضیکہ اسی طرح بفضلہ تعالیٰ سات گاڑیوں میں پہنچ کر ۱۷ / جون کو ۳ بجے سے ۱۲ بجے تک میں نے لیکچر دئیے جن کو ہندو` مسلمان` سکھ` عیسائی غرضکہ ہر طبقہ نے پسند کیا۔ )الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم۱(
۱۱۲۔
ملک فضل حسین صاحب نے جو >بک ڈپو تالیف و اشاعت< کے مینجر کے فرائص سر انجام دے رہے تھے غیر مسلم اصحاب کی بعض تقاریر >دنیا کا ہادی اعظم غیروں کی نظر میں< کے نام سے دسمبر ۱۹۲۸ء میں شائع کر دیں۔
۱۱۳۔
جنوبی ہندوستان میں ایک تھیوسافیکل سوسائٹی کے ذریعہ اسی کے حلقہ اثر کے اندر ۳۰ کے قریب جلسے ہوئے )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۶(
۱۱۴۔
آپ نے تحریک کی افادیت پر روشنی ڈالی اور کہا مین مسٹر سی آر داس کی برسی کے جلسہ کا بھی صدر تھا مگر وہاں اتنی حاضری نہ تھی۔ جتنی یہاں ہے۔
۱۱۵۔
آپ نے کہا کہ میں بہت ضروری کام چھوڑ کر آیا ہوں۔ کیونکہ اس میں شمولیت سب سے ضروری تھی آئندہ بھی اگر ایسے جلسے منعقد ہوں گے تو خواہ کتنا ہی کام مجھے درپیش ہوگا میں اس پر ایسے جلسہ میں شمولیت کو مقدم کروں گا۔ )الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴(
۱۱۶۔
الفضل ۲۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴۔ تفصیل رپورٹوں کے لئے ملاحظہ ہو۔ الفضل ۲۲ / جون` ۲۶ / جون ` ۳/ جولائی ` ۶ / جولائی` ۱۰ / جولائی` ۱۷۔۲۴ جولائی ۱۹۲۸ء۔
۱۱۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۶
۱۱۸۔
ملاحظہ ہو تفسیر حضرت محی الدین ابن عربی سورہ بنی اسرائیل ]nsk1 )[tagزیر آیت عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا(
۱۱۹۔
بحوالہ الفضل ۲۹ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۶
۱۲۰۔
بحوالہ الفضل ۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۱۲۱۔
بحوالہ الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۲
۱۲۲۔
بحوالہ الفضل ۱۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۱
۱۲۳۔
بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۱۲۴۔
مثلاً اخبار ہمدم )لکھنئو( وکیل )امرت سر( مشرق )گورکھپور( کشمیری گزٹ )لاہور( >حقیقت`< خادم المومنین< >منادی< )دہلی( >اردو اخبار< )ناگپور( >پیشوا< اور >حق< ` >مخبر< )اودھ( >توحید< )کراچی( اس کے علاوہ جزوی طور پر غیر مسلم اخبارات نے بھی جلسہ کی رپورٹیں شائع کیں۔ مثلاً اخبار >دی انگلش مین< )کلکتہ( >دی امرت بازار پترکا< )کلکتہ( >انقلاب< )لاہور( >سیاست< )لاہور( >تنظیم< )امرت سر(۔ مقدم الذکر دو اخبارات نے تو جلسوں کے انعقاد سے قبل اس کی افادیت و اہمیت پر زور دار نوٹ لکھئے۔ )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۵ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۹(
۱۲۵۔
روزنامہ >حقیقت< لکھنئو )۲۴ / جون ۱۹۲۸ء( نے علماء کی ذہنیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا۔ >جو لوگ اتفاق کی چلتی ہوئی گاڑی میں روڑا اٹکانا چاہتے ہیں انہیں ان کی رائے مبارک رہے خادمان ملک و ملت کو ان کی آواز پر کان نہیں دھرنا چاہئے<۔ )بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵(
۱۲۶۔
مولوی کفایت اللہ صاحب کے اس عدم تعاون بلکہ صریح بائیکاٹ کے باوجود جلسہ دہلی بہت کامیاب ہوا۔ چنانچہ اخبار >منادی< دہلی )۲۳ ۔ جون ۱۹۲۸ء( نے لکھا کہ >سوا نو بجے رات کو پریڈ کے میدان میں سیرت رسول کی نسبت جلسہ ہوا۔ دس ہزار کا مجمع تھا۔ ہندو مسلمان کی نہایت عمدہ تقریریں ہوئیں جلسہ بہت کامیاب ہوا۔ بارہ بجے تک رہا۔ آج تک دہلی میں کوئی مشترکہ جلسہ ایسی کامیابی سے نہ ہوا ہوگا<۔ )بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷(
۱۲۷۔
بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۱۲۸۔
مضمون چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے۔ مطبوعہ الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴۔۵ سے ماخوذ مع تلخیص۔
۱۲۹۔
الفضل ۲۲ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴ ۔ مقامی جماعت میں سے ملک صاحب کے ساتھ گہرا تعاون کرنے والے حضرات۔ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل` منشی محی الدین صاحب ملتان )سابق مختار عام( چوہدری برکت علی صاحب` ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے۔ بی ٹی۔ چوہدری ظہور احمد صاحب مولوی عطا محمد صاحب اور مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سکائوٹس )الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲(
۱۳۰۔
الفضل ۲۲ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴
۱۳۱۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ اگست ستمبر ۱۹۲۸ء۔
۱۳۲۔
ملاحظہ ہو >ریویو آف ریلیجنز< انگریزی جولائی تا اکتوبر ۱۹۳۲ء۔ ملک صاحب کے قلم سے حضور کے لیکچر >اسلام میں اختلافات کا آغاز< کا انگریزی ترجمہ بھی ریویو آف ریلیجنز میں شائع شدہ ہے۔
۱۳۳۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۷۔۲۰۸
۱۳۴۔
دوسرے غیر مسلم مضمون نگاروں کے نام یہ تھے سردار جوند سنگھ صاحب سعد اللہ پور ضلع گجرات پنڈت مہر چند صاحب لدھیانہ` لالہ دنی چند صاہب کپور آنریری پرچارک شادی بیوگان سرہند۔ پنڈت گیانیندر دیو شرما صاحب شاستری گورکھپور` لالہ سرداری لعل صاہب ودوان حجرہ شاہ مقیم منٹگمری۔ سردار جسونت سنگھ دریا رام ضلع ہوشیارپور بابو اتنت پرشاد صاحب بی۔ اے` ایل ایل بی` وکیل وریٹس بھاگلپور۔ یہ مضامین ملک فضل حسین صاحب منیجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے >دنیا کا ہادی اعظم غیروں کی نظر میں< کے نام سے عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ دسمبر ۱۹۲۸ء میں شائع کر دی تھیں۔ ملک صاحب موصوف کی خدمات کا کئی مقام پر ذکر آئے گا لہذا ضمناً یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ملک صاحب نے بکڈپو تالیف و اشاعت صدر انجمن احمدیہ کے مینجر ہونے کی حیثیت سے اس قومی ادارہ کو سالہا سال تک نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالا۔ اور آپ کے زمانہ اہتمام میں سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کی خوب اشاعت ہوئی ہے۔
۱۳۵۔
پیغام صلح ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ )مضمون مولوی محمد علی صاحب پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور(
۱۳۶۔
مولوی محمد علی صاحب۔ ناقل
۱۳۷۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم۱
۱۳۸۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۷
۱۳۹۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۷(
۱۴۰۔
الفضل ۲۶ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۱۴۱۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ کالم ۱۔۲
۱۴۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب >حیات بشیر< طبع اول صفحہ ۲۷۲۔۲۸۳ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل مربی سلسلہ احمدیہ( کتاب >نبیوں کا چاند< طبع اول صفحہ ۶۶۔۷۳ )مولفہ فضل الرحمن صاحب نعیم( شائع کردہ اتالیق منزل ربوہ۔
۱۴۳۔
الفضل ۲۰ / نومبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۴۔۵
۱۴۴۔
الفضل ۲۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۲ ۔ الفضل ۱۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۱
۱۴۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں مولوی غلام احمد صاہب بدوملہوی )حال مبلغ گیمبیا( ایک ماہ تک حوالہ جات وغیرہ نکالنے کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر رہے۔
۱۴۶۔
ٹائمز آف انڈیا نے ۲۴ / جون ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں آنحضرت~صل۱~ کے حرم پاک کا ذکر نہایت گرے ہوئے الفاظ میں کیا تھا۔ جس پر حضور نے چٹھی لکھی اور اس کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ایس جیسن کو تحریری معذرت کرنا پڑی حضرت اقدس کی چٹھی اور اس معذرت نامہ کا متن الفضل ۲۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ پر شائع شدہ ہے۔
۱۴۷۔
نجران مکہ معظمہ سے یمن کی طرف سات منزل پر ایک وسیع علاقہ کا نام ہے جہاں عیسائیوں کا ایک عظیم الشان کلیسا تھا جس کو وہ کعبہ کہتے تھے اور حرم کعبہ کا جواب سمجھتے تھے۔ تفصیلات معجم البلدان اور فتح الباری میں موجود ہیں۔ )بحوالہ سیرت النبی~صل۱~ حصہ اول جلد دوم صفحہ ۳۷۔۳۸۔ از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی مرحوم(
۱۴۸۔
زاد المعاد ابن قیم~رح~ )بحوالہ سیرت النبیﷺ~ حصہ اول جلد دوم صفحہ ۳۸۔ از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی مرحوم(
۱۴۹۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶
۱۵۰۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۱۔۲
۱۵۱۔
ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کے مشہور لیڈر تھے جو ۱۹۲۷ء میں آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ مسلم حقوق و مطالبات کی نمائندگی کے لئے انگلستان گئے تھے۔
۱۵۲۔
الفضل ۲۱ /جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ تا۷
۱۵۳۔
الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۲
۱۵۴۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ کالم ۱۔۲
۱۵۵۔
الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۱۵۶۔
الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱ ۔ حضور قبل ازیں قریباً دو ہفتہ تک ڈلہوزی میں قیام پذیر ہونے کے بعد ۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کو قادیان بھی تشریف لے گئے اور ۹ / جولائی ۱۹۲۸ء کو واپس ڈلہوزی آگئے )الفضل ۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۱۵۷۔
الفضل ۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۳
۱۵۸۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴
۱۵۹۔
جن جماعتوں نے چندہ خاص کے وعدے پورے کر دئیے ان کے نام رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۹۳ پر شائع شدہ ہیں۔
۱۶۰۔
الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲
۱۶۱۔
اخبار >پیغام صلح< لاہور ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۲
۱۶۲۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۱۔۲
۱۶۳۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴
۱۶۴۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲
۱۶۵۔
یہ درس حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نظر ثانی ترمیم و اصلاح اور بہت سے اضافوں کے بعد ۱۹۴۰ء میں تفسیر کبیر جلد سوم کی صورت میں شائع ہوا جس کی تفصیل اگلی جلد میں آ رہی ہے۔
۱۶۶۔
اس وقت تک ابھی مائیکروفون کا استعمال قادیان میں شروع نہیں ہوا تھا۔
۱۶۷۔
الفضل ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲
۱۶۸۔
اس بارے میں پہلا اعلان الفضل ۳ / اپریل ۱۹۲۸ء میں اور دوسرا الفضل ۲۲ / مئی ۱۹۲۸ء میں ہوا۔ اس کے بعد ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء سے ۷ / اگست ۱۹۲۸ء کے الفضل میں۔
۱۶۹۔
الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء تا ۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۷۰۔
مثلاً حافظ عبدالسلام صاحب شملہ` مرزا عبدالحق صاحب بی۔ اے ایل ایل بی گورداسپور` چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل لائلپور۔ منشی قدرت اللہ صاحب سنوری۔ صالح محمد صاحب قصور` نذیر احمد صاحب متعلم بی ایس سی بابو عبدالحمید صاحب شملہ` قریشی رشید احمد صاحب بی۔ ایس سی۔ میرٹھ ۔ بابو فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر کیمل پور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجرات۔ سید محمد اقبال حسین صاحب ہیڈ ماسٹر نور محل` بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ` ماسٹر فقیر اللہ صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس۔
۱۷۱۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۷۲۔
مولوی ارجمند خان صاحب کی روایت ہے کہ >ایک دفعہ میں نے اختتام درس پر حضرت مولانا )سید محمد سرور شاہ صاحب۔ ناقل( سے عرض کیا آپ لکھنے کی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں۔ آپ کو قرآن مجید کے علوم سے واقفیت اور پورا عبور حاصل ہے آپ نے جواباً فرمایا ایک تو میں حضرت صاحب کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں دوسرے یہ کہ اگرچہ میں حضور کو خلافت سے قبل پڑھاتا رہا ہوں لیکن منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ پر معارف اور حقائق قرآنیہ کا ایسا دروازہ کھولا ہے کہ میرا فہم ان علوم سے قاصر ہے اور میں حضور کا شاگرد ہوں استاد نہیں<۔ )اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۵۴ طبع اول(
h1] ga[t۱۷۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۸۔ >اصحاب احمد< جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۵۴ )مرتبہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان( تاریخ اشاعت ستمبر ۱۹۶۴ء ناشر احمدیہ بکڈپور ربوہ طبع اول۔
۱۷۴۔
دو اڑھائی سو مستورات بھی پردہ میں بیٹھ کر استفادہ کرتی تھیں )الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱(
۱۷۵۔
الفضل ۱۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔۲
۱۷۶۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۱۷۷۔
الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۳
h1] ga[t۱۷۸۔
الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۷۹۔
الفضل ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱
۱۸۰۔
الفضل ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم۱۔۲
۱۸۱۔
الفضل ۱۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۳
۱۸۲۔
افسوس یہ تاریخی فوٹو اب قریباً ناپید ہے اور باوجود تلاش کے >شعبہ تاریخ احمدیت< ربوہ کو اب تک دستیاب نہیں ہو سکا۔ الفضل ۱۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ میں مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور )حال امیر صوبائی مغربی پاکستان( کے قلم سے >درس کے اجتماع کا فوٹو< کے عنوان سے اس فوٹو کا یوں ذکر ملتا ہے کہ >جن دوستوں نے درس کے موقعہ پر فوٹو کی قیمت ادا کی تھی ان کی خدمت میں اطلاعاً عرض ہے کہ وہ اپنی کاپی مولوی عبدالرحمن صاحب مولوی فاضل مدرسہ احمدیہ قادیان سے محصول ڈاک بھیج کر منگوا سکتے ہیں<۔
۱۸۳۔
ولادت ستمبر ۱۸۹۲ء بیعت ۱۹۱۲ء۔ ۱۹۳۲ سے ۱۹۴۲ء تک جماعت احمدیہ نئی دہلی و شملہ کے امیر رہے اور ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک نئی دہلی کی جماعت احمدیہ کے امیر اور مشترکہ جماعت دہلی و نئی دہلی کے نائب امیر کی حیثیت سے خدمات بجا لاتے رہے۔ ۱۹۵۲ء میں پنشن پانے کے بعد زندگی وقف کی اور سالہا سال تک تحریک جدید میں وکیل الدیوان اور وکیل اعلیٰ کے عہدوں پر فائز رہے اور ان دنوں وکیل المال ثانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
۱۸۴۔
الفضل ۱۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۲
۱۸۵۔
الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳ و صفحہ ۷۔۸
۱۸۶۔
الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳ و صفحہ ۷۔۸
۱۸۷۔
الفضل ۱۶۔۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۸۸۔
الفضل ۲۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۸۹۔
h2] ga[tالفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۹۰۔
الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۱۹۱۔
الفضل ۷ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۹۲۔
الفضل ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۹۳۔
الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱
۱۹۴۔
الفضل ۲۹ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲
۱۹۵۔
الفضل ۱۶ / جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷
۱۹۶۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۴<۔ مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۱۸۔۱۱۹
۱۹۷۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۲۔۴ )از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ(
۱۹۸۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۴۔
۱۹۹۔
مرزا محمد دہلوی کی کتاب >مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۰۔۱۲۱ سے اس کی مزید تفصیلات کا پتہ چلتا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ >سوال ہوا کہ اس رپورٹ ساز کمیٹی کے مسلم اراکین آخر کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس رپورٹ پر کیوں دستخط کر دئیے اس وقت یہ عقدہ کھلا کہ اس کمیٹی کے دو مسلم ارکان میں سے ایک شعیب قریشی نے >مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حمایت کرتے ہوئے نہایت قابلیت` معقولیت اور جرات کے ساتھ پنڈت موتی لال نہرو کی تجاویز سے اختلاف کیا تھا لیکن جب پندت جی نے ان کو نہ مانا تو وہ پھر کمیٹی کے کسی جلسہ میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ اور فوراً الٰہ آباد سے بمبئی واپس چلے گئے انہوں نے کمیٹی سے اختلاف کرتے ہوئے ایک بیان بھی لکھا تھا لیکن پنڈت موتی لال نہرو نے وہ اختلافی بیان رپورٹ کے ساتھ شائع نہیں کیا اور مولانا کفایت اللہ صاحب اس سے بھی زیادہ صفائی کے ساتھ اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسٹر شعیب قریشی نے ان سے کہا تھا کہ انہوں نے )یعنی شعیب قریشی نے( نہرو رپورٹ پر اپنے دستخط نہیں کئے ہیں لیکن اس کے متعلق انہوں نے اپنے لبوں پر اس لئے مہر سکوت قائم رکھی کہ ایسا نہ کرنے سے رپورٹ کی اہمیت ختم ہو جاتی تھی۔ اور سر علی امام کے متعلق جو اس رپورٹ ساز کمیٹی کے دوسرے مسلم ممبر تھے۔ مولانا کفایت اللہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رپورٹ پر دستخط تو کر دئیے تھے لیکن اسے پڑھا نہ تھا۔ چنانچہ لکھنئو میں جب یہ رپورٹ آل پارٹیز کانفرنس کے اجلاس میں پیش ہوئی تو سر علی امام نے اس کی حمایت میں جو تقریر کی اس کا بڑا حصہ ان تجاویز سے مختلف تھا جو مسلمانوں کے متعلق نہرو رپورٹ میں شائع کی گئی تھیں<۔ )دی کیس آف دی مسلم صفحہ ۴(
۲۰۰۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۴ ۔ ۱۷۵۔
۲۰۱۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۵ ۔ )از سیدناحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ(
۲۰۲۔
>سیاست ملیہ< صفحہ ۲۲۶ )محمد امین زبیری مارہروی( مطبوعہ عزیزی پریس آگرہ مارچ ۱۹۴۱ء صفر ۱۳۶۰ھ
۲۰۳۔
>تحریک آزادی< )مرتبہ انور عارف( صفحہ ۱۸ ناشر انور عارف مالک مطبع ماحول کراچی طبع دوم نومبر ۱۹۵۹ء آپ نے ایک مقام پر مسئلہ اقلیت کی نسبت یہ بھی لکھا ہے۔ >میں ایک لمحہ کے لئے یہ باور نہیں کر سکتا کہ ہندوستان کے مستقبل کے نقشے میں ان اندیشوں کے لئے کوئی جگہ نکل سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ان اندیشوں کا صرف ایک ہی علاج ہے ہمیں دریا میں بے خوف و خطر کود جانا چاہیئے۔ جوں ہی ہم نے ایسا کیا ہم معلوم کرلیں گے کہ ہمارے تمام اندیشے بے بنیاد تھے<۔ >)خطبات ابو الکلام آزاد< طبع اول صفحہ ۳۱۴(
۲۰۴۔
ایضاً صفحہ ۱۱۱۔
۲۰۵۔
ایضاً صفحہ ۱۱۰ و صفحہ ۱۱۲
۲۰۶۔
تحریک آزادی )مرتبہ انور عارف( صفحہ ۱۱۲۔۱۱۳
۲۰۷۔
>خطبات ابو الکلام آزاد< صفحہ ۳۱۹ ناشر ایم ثناء اللہ خاں اینڈ سنز ۲۶ ریلوے روڈ لاہور
۲۰۸۔
ایضاً صفحہ ۳۱۹ ۔ ۳۲۰(
۲۰۹۔
>تاریخ احرار< )از چوہدری افضل حق( صفحہ ۹ طبع اول۔ >سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری< )از جناب شورش کاشمیری( صفحہ ۸۵ طبع اول
۲۱۰۔
مجلس احرار اسلام کا آرگن >آزاد< ۳۱ / جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۹
۲۱۱۔
ایضاً ۱۰ ` ۱۲
۲۱۲۔
ایضاً صفحہ ۱۰
۲۱۳۔
>تاریخ احرار< صفحہ ۲۷ )از چوہدری افضل حق صاحب( ناشر زمزم بک ایجنسی بیرون موری دروازہ لاہور۔
۲۱۴۔
اہلحدیث ۵ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۳
۲۱۵۔
روزنامہ >ہمدم< لکھنئو ۱۴ / نومبر ۱۹۲۸ء
۲۱۶۔
ملاحطہ ہو >اہلحدیث< )امرت سر( ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۵ کالم ۲۔۳ و >اہلحدیث< امرت سر ۵ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۳
۲۱۷۔
>تحریک آزادی< )مرتبہ انور عارف( صفحہ ۱۱۳ و >سیرت محمد علی< صفحہ ۴۱۶
۲۱۸۔
تصدق احمد صاحب شروانی ممبر مجلس وضع آئین و قوانین ہند نے انہی دنوں اخبار زمیندار )۲۹ / ستمبر ۱۹۲۸ء( میں لکھا تھا۔ >نہرو رپورٹ کے شائع ہونے اور آل پارٹیز کانفرنس لکھنئو میں اس کے منظور ہو جانے کے بعد بھی اخبارات میں اس کے متعلق مخالف اور موافق متعدد مضامین شائع ہو رہے ہیں جہاں تک میری نظر سے اردو اخبارات گذرے ہیں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی اخبار میں میں نے کوئی تنقید یا تبصرہ اس رپورٹ کے متعلق نہیں دیکھا۔ اجمالی طور پر اس رپورٹ کی موافقت یا مخالفت کی گئی ہے<۔ )بحوالہ الفضل ۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم۲(
۲۱۹۔
کتاب >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ<
۲۲۰۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۱۰۔۱۴
۲۲۱۔
چنانچہ مسٹر جناح نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا >ہمیں )کلکتہ لیگ کے بانیوں کو( اس کمرہ میں اکثریت حاصل ہے۔ لیکن کیا ہمیں ملک میں بھی اکثریت حاصل ہوگی؟ )اس پر لوگوں نے کہا۔ ہاں( مسٹر جناح نے کہا کہ میرے لئے اس سے زیادہ کوئی امر خوشکن نہ ہوگا۔ مگر انصاف یہ چاہتا ہے کہ میں اقرار کروں کہ مجھے اس پر اطمینان حاصل نہیں ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت ہماری تائید میں ہے<۔ )سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲/ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۳( بحوالہ >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ صفحہ ۱۶
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کے لئے ایک تہائی نیابت ملنے کی شرط پر مخلوط انتخاب کے حامی ہوگئے تھے۔ لیکن سر شفیع اور ان کے رفقاء نے مسٹر جناح کی اس پالیسی سے اختلاف کیا اور لیگ دو حصوں میں بٹ گئی ایک کے صدر مسٹر جناح اور سیکرٹری ڈاکٹر کچلو اور دوسری کے صدر سر شفیع اور سیکرٹری سر محمد اقبال قرار پائے< >)ذکر اقبال< صفحہ ۱۳۹( حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور جماعت کا تعاون اس مرحلہ پر شفیع لیگ کو حاصل تھا۔
۲۲۲۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۳۵۔۳۶
۲۲۳۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ<صفحہ ۱۱۶
۲۲۴۔
الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ ۔ رورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۵۷
۲۲۵۔
الفضل ۲۰ / اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۸
۲۲۶۔
رپورٹ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۱۔۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰۸
۲۲۷۔
الفضل ۱۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸۔۹
۲۲۸۔
بطور ثبوت ملاحظہ ہو الفضل ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷` ۶ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۰` ۹ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ و صفحہ ۶` ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲` ۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ و صفحہ ۱۰` ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۰` ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷` ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲`۸ ` ۱۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۲۲۹۔
سیاست ۳۱ / جولائی ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۹ / اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶
۲۳۰۔
الفضل ۱۴ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۲۔۳ ۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱۔۱۲ و الفضل ۷ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ ۔ الفضل ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸
۲۳۱۔
اقتباس از مکتوب ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے )دفتر تفسیر القرآن انگریزی ٹمپل روڈ لاہور(
۲۳۲۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ طبع اول صفحہ ۱۰
۲۳۳۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< طبع اول صفحہ ۱۲
۲۳۴۔
الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۴
۲۳۵۔
جناب عبدالمجید صاحب سالک اور محمد مرزا دہلوی کے نظریہ کے مطابق جناب محمد علی جناح نے چودہ نکات مسلم کنوینشن دہلی کے انعقاد کے بعد پیش کئے جیسا کہ آگے ذکر آ رہا ہے۔
۲۳۶۔
حیات محمد علی جناح صفحہ ۱۷۵ ۔ ۱۷۶
۲۳۷۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۲۵ )از رئیس احمد جعفری( طبع دوم ۱۹۵۰ء
۲۳۸۔
الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ ۔ مسلم لیگی وفد میں شامل دوسرے ممبران میں سے بعض کے نام راجہ صاحب محمود آباد صدر اجلاس` ڈاکٹر سیف الدین صاحب کچلو۔ مسٹر چاگلا۔ ڈاکٹر سید محمود صاحب` مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار۔ نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب۔ چوہدری خلیق الزمان صاحب۔ مسٹر عبداللہ صاحب بریلوی )حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۷(
۲۳۹۔
سیرت محمد علی صفحہ ۵۲۵
۲۴۰۔
>مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۷ ۔ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری اپنی کتاب >سیرت محمد علی< میں لکھتے ہیں۔ >ان )یعنی مولانا محمد علی جوہر ۔ ناقل( کی تقریر کے بعد دوسرے بزرگوں نے اسی موضوع پر تقریر کی اور ان کے نظریہ کی مخالفت اور درجہ مستعمرات کی حمایت کی مباحثہ ابھی اسی موضوع پر جاری ہی تھا کہ مغرب کی نماز کا وقت آگیا اور محمد علی مغرب کی نماز پڑھنے باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ نماز پڑھ کر واپس آ رہے تھے لیکن ابھی ڈائس تک پہنچے تھے کہ کسی نے ان سے کہہ دیا درجہ مستعمرات تو پاس ہوگیا اور اس پر مباحثہ بھی ختم ہوگیا۔ سنتے ہی محمد علی نا انا لل¶ہ پڑھا اور الٹے پائوں واپس آگئے پھر انہوں نے کنوینشن میں شرکت نہیں کی اگرچہ زور بہت ڈالا گیا<۔ )صفحہ ۵۲۷(
۲۴۱۔
مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۸
۲۴۲۔
h2] gat>[سیرت محمد علی< طبع دوم ۱۹۵۰ء صفحہ ۵۲۸۔۵۲۹ )از رئیس احمد جعفری( کتاب منزل لاہور۔
۲۴۳۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۲۹۔۵۳۰
۲۴۴۔
>حیات محمد علی جناح< طبع اول صفحہ ۱۷۹۔۱۸۰
۲۴۵۔
حیات محمد علی جناح صفحہ ۱۸۱
۲۴۶۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۳۰۔۵۳۱
۲۴۷۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۸۳
۲۴۸۔
تفصیل کے لئے ملاحطہ ہو الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰
۲۴۹۔
کانفرنس میں شریک ہونے والے بعض اصحاب کے نام : سر آغا خاں` مولانا محمد علی جوہر` سر ابراہیم رحمت اللہ سر شفیع` سر محمد اقبال` سر ذوالفقار علی خاں` مسٹر اے کے غزنوی` مسٹر شرف الدین` مولوی شفیع دائودی` سیٹھ عبداللہ ہارون` نواب محمد اسماعیل خان` نواب محمد یوسف` مولوی محمد یعقوب ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی` مسٹر محمود سہروردی` سید رضا علی` صاحبزادہ سلطان احمد` ڈاکٹر ضیاء الدین` دائود صالح بھائی` عبدالماجد بدایونی` حسرت موہانی` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` خان بہادر ہدایت حسین` مولوی آزاد سبحانی مولوی کفایت اللہ` مولوی محمد عرفان` ڈاکٹر ذاکر حسین خاں` عبدالمجید سالک` غلام رسول مہر۔ )الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء و سرگزشت )از عبدالمجید صاحب سالک( صفحہ ۲۵۷
۲۵۰۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۳۵۔۵۳۶
۲۵۱۔
>سرگزشت< )از عبدالمجید سالک( طبع اول صفحہ ۲۵۷
۲۵۲۔
الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲ و الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۳
۲۵۳۔
>ذکر اقبال< صفحہ ۱۴۳
۲۵۴۔
>مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۲۔۱۲۳
۲۵۵۔
الفضل ۱۱ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱
۲۵۶۔
>سرگزشت< )از عبدالمجید سالک( صفحہ ۲۶۰
۲۵۷۔
>سلسلہ احمدیہ< صفحہ ۳۹۸۔۳۹۹ )مولفہ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۲۵۸۔
خطوط وحدانی کا حصہ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے اپنے قلم سے اضافہ فرمایا ہے )المولف(
۲۵۹۔
>مرکز احمدیت قادیان< صفحہ ۴۹ ۔ ۵۱ )مولفہ شیخ محمود احمد عرفانی مرحوم مجاہد بلاد عربیہ(
۲۶۰۔
الحکم ۲۰ / اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۲۔۱۳ )بحوالہ تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۳۳۔۴۳۴۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہاں تک دکھایا گیا کہ قادیان کی آبادی دریائے بیاس تک پہنچ جائے گی )الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۶۔ کالم۳ و تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۷۹( مگر اس کے ساتھ ہی آپ کو یہ بھی اطلاع دی گئی کہ اس قادیان کی اس پر رونق اور وسیع آبادی سے قبل قادیان کو ابتلائوں کے ایک سلسلہ میں سے گذرنا پڑے گا۔ مثلاً آپ کو دکھایا گیا قادیان آنے کا راستہ حضور پر بند ہے )تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۶۳( الدار کے اردگرد ایک دیوار کھینچی جا رہی ہے جو فصیل شہر کے رنگ میں ہے )ایضاً صفحہ ۴۴۰۔۴۴۳( قادیان کے راہ میں سخت اندھیرا ہے مگر آپ ایک غیبی ہاتھ کی مدد سے کشمیری محلہ سے ہوتے ہوئے پہنچ گئے ہیں )ایضاً ۸۳۳۔۸۳۴( اس سلسلہ میں حضور کو یہ الہام بھی ہوا کہ ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد یعنی وہ قادر خدا جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا۔ )تریاق القلوب صفحہ ۹۱۔ تذکرہ طبع دوم صفحہ ۳۱۳(
۲۶۱۔
الحکم ۱۷ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲ ۔ بحوالہ تذکرہ صفحہ ۵۳۴
۲۶۲۔
تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۸۰۔۷۸۱۔۸۰۹
۲۶۳۔
h2] gat[الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۲
۲۶۴۔
>سلسلہ احمدیہ< )صفحہ ۳۹۹( طبع اول۔
۲۶۵۔
یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ قبل ازیں آخر ۱۹۱۴ء میں گورداسپور سے بوٹاری تک لائن بچھانے کی تجویز بھی زیر غور آئی تھی اور حکومت نے اس کی پیمائش کی ابتدائی منظوری بھی دے دی تھی۔ اور گویہ قطعی بات نہ تھی کہ یہ لائن قادیان سے ہوکر گذرے مگر درمیانی حصہ میں اہم ترین مقام قادیان ہی تھا اس لئے قرین قیاس یہی تھا کہ یہ قادیان کے راستہ سے بوٹاری تک پہنچے گی۔ لیکن یہ تجویز ابتدائی مرحلہ پر ہی ملتوی ہوگئی اور تیرہ سال تک معرض التواء میں پڑ گئی اس بات کا علم بابو قریشی محمد عثمان احمدی ہیڈ ڈرافٹسمین دفتر چیف انجینئر نارتھ ویسٹرن ریلوے لاہور کے ایک خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے ۸ / نومبر ۱۹۱۴ء کو حضرت مولوی محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نام لکھا تھا۔ اور جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں محفوظ ہے بابو صاحب نے اس خط میں لکھا۔ >نئی لائنوں کی بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ منظوری گورنمنٹ کی تعمیر کے لئے نہیں بلکہ پیمائش کرنے کے لئے ہے چنانچہ اس کی پیمائش عنقریب شروع ہونے والی ہے پھر یہ خیال ہوا کہ جب گورنمنٹ نے لائنوں کی لمبائی وغیرہ دی ہے تو پیمائش ابتدائی کے نقشے دفتر میں ہوں گے۔ مگر ابتدائی پیمائش ہی نہیں ہوئی صرف سرسری (Rangl) لمبائی نقشہ سے ناپ لی گئی ہے اور اس کی منظوری دے دی گئی۔ گورداسپور ڈسٹرکٹ کا نقشہ (map) دیکھنے سے معلوم ہوا کہ قادیان اس لائن پر آتا ہے جو گورداسپور سے بوٹاری تک منظور ہوئی جس کی لمبائی قریباً ۳۷ میل ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ لائن گورداسپور سے سیدھی بوٹاری جاوے تو قادیان قریباً ساڑھے تین میل رہ جاتا ہے۔ اگر قادیان ہی ہو کر جاوے تو مطلب حاصل ہے زیادہ قرینہ قوی اس بات کا ہے کہ لائن قادیان ہو کر گزرے کیونکہ اس کے گردونواح میں قادیان سب سے بڑی جگہ ہے اور لائن منظور شدہ کی لمبائی Miles) (37 ہی اس وقت درست آتی ہے جبکہ لائن قادیان ہوکر گذرے<۔ اگر اس تجویز کے مطابق لائن بچھائی جاتی تو اس کا سرسری نقشہ حسب ذیل ہوتا :
۲۶۶۔
الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۲
۲۶۷۔
الفضل ۱۷ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۲
۲۶۸۔
الفضل ۱۶۔۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔۲
۲۶۹۔
الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۲۷۰۔
الفضل ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۲۷۱۔
الفضل ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ ایضاً رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۵۰
۲۷۲۔
مکتوب شیخ محمد دین صاحب محررہ ۲۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ )بنام مولف کتاب(
۲۷۳۔
>اصحاب احمد< جلد اول صفحہ ۱۰۴ میں لکھا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے منشی صاحب~رضی۱~ کو حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب کا نائب فرمایا اور منشی صاحب کئی ماہ تک سارا سارا دن پیدل سفر کر کے تندہی سے کام کرتے رہے۔
۲۷۴۔
ماخوذ از مکتوب جناب شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام ۲۰ / جولائی و ۲۷ / جولائی ۱۹۶۵ء
۲۷۵۔
الفضل ۲۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷
۲۷۶۔
اس کا مکمل متن الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸ میں چھپا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قادیان میں گاڑی آنے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ہمرکاب سفر کرنے کی نسبت ایک مبشر خواب بھی دیکھا تھا جس کا ذکر آپ نے اس ٹریکٹ میں بھی کر دیا ہے۔
۲۷۷۔
ایضاً صفحہ ۷
۲۷۸۔
مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس کی تنظیم ان دنوں بہت مستعد اور سرگرم عمل تھی۔ اس تنظیم کا ایک کارنامہ یاد رہے گا۔ اور وہ یہ کہ جب ۲۷ / دسمبر کے جلسہ میں بہت سے لوگوں کو پنڈال کی کوتاہی کی وجہ سے بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اظہار ناراضگی فرمایا۔ جس پر مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس دوسرے احباب کے ساتھ حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت کی نگرانی میں رات کے گیارہ بجے سے لے کر فجر کی نماز سے کچھ پہلے تک نہایت محنت` غیر معمولی تدبر اور پوری تندہی سے بغیر ایک منٹ کے وقفہ اور آرام کے شہتیریاں اٹھانے اور اینٹیں اور گارا بہم پہنچانے کا کام کرتے رہے اور جلسہ کی جگہ کافی وسیع ہوگئی اور اس کے احاطہ میں تین ہزار کے قریب زیادہ نشستوں کی گنجائش پیدا ہوگئی۔ کام کرنے والوں میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی شامل تھے۔ غرض یہ کام اس خاموشی اور عمدگی سے انجام پایا کہ دوسرے روز دوسری تقریر کے وقت حضور نے اس کام پر اظہار خوشنودی فرمایا۔ اور سکائوٹس اور دوسرے لوگوں کو اپنے دست مبارک سے بطور یادگار تمغے عنایت فرمائے۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۷۵۔۱۷۶ و الفضل ۳ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲( قادیان کے رسالہ >جامعہ احمدیہ< کے سالنامہ )صفحہ ۴۳( پر ان سکائوٹس کی تصویر شائع شدہ ہے۔
۲۷۹۔
الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء
۲۸۰۔
اس پہلی گاڑی کے گارڈ کا نام بابو ولی محمد صاحب اور ڈرائیور کا نام بابو عمر دین صاحب تھا گاڑی امرت سر سے بٹالہ تک ۲۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بٹالہ تا قادیان ۱۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آئی جس میں پانچ بوگیاں تین سنگل گاڑیاں اور دو بریک وان تھیں۔ انجن Class T۔S اور ۷۰۹ نمبر کا تھا۔ اس پہلی گاڑی کو جو امرت سر سے قادیان جانی تھی دیکھنے اور اس میں سفر کرنے کے لئے دور ترین فاصلہ سے جو پہلے ٹکٹ خریدے گئے وہ مکرم شیخ احمد اللہ صاحب ہیڈ کلرک کنٹونمنٹ بورڈ نوشہرہ اور ان کی ہمشیرزادی زبیدہ خاتون صاحبہ کے نوشہرہ چھائونی سے قادیان تک کے تھے یہ گاڑی رات کو ۲/۱ ۶ بجے امرت سر چلی گئی جس میں بٹالہ` امرت سر اور لاہور کے بہت سے اصحاب واپس ہوگئے۔ ریل کے افتتاح پر احمدیان مالابار اور احمدیہ ایسوسی ایشن میمو )برما( نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حضور مبارکباد کے تار ارسال کئے اور اپنی عدم شمولیت پر اظہار افسوس کیا۔
۲۸۱۔
>تاریخ احمدیت< جلد سوم )صفحہ ۵۵۷۔۵۵۸۔۵۸۰( اور تاریخ احمدیت جلد چہارم )صفحہ ۲۱۴۔۲۱۵( پر اس حقیقت کی تائید میں متعدد شواہد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملاحظہ ہو حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کا مضمون مطبوعہ الفضل ۲۵ / ستمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۵(
۲۸۲۔
الفضل ۶ / جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ کالم ۲
۲۸۳۔
الفضل ۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۲
۲۸۴۔
ٹریکٹ >الصلح خیر< صفحہ ۲۔۳
۲۸۵۔
تفصیل ۱۹۳۰ء کے حالات میں آئے گی۔
۲۸۶۔
الفضل ۴ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲
۲۸۷۔
الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔۲۔۱۱۔۱۲
۲۸۸۔
>فضائل القرآن< طبع اول صفحہ ۱۳۴۔۱۳۵
۲۸۹۔
اس سلسلہ کے پانچ ابتدائی لیکچر خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم ایڈیٹر >الفضل< نے قلمبند کئے اور آخری تقریر مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم نے لکھی۔ ان سب تقریروں کا مجموعہ الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ نے >فضائل القرآن< ہی کے نام سے دسمبر ۱۹۶۳ء میں شائع کر دیا ہے۔
۲۹۰۔
>فضائل القرآن< طبع اول صفحہ ۴۳۹
۲۹۱۔
الفضل ۲ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے حقیقی چچا تھے آپ نے ۱۸۹۱ء میں تحریری اور فروری ۱۸۹۲ء میں دستی بیعت کی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اہل بیت سے بہت اخلاص رکھتے تھے اور خلافت سے وابستگی تو ان کے ایمان کا جزو تھا۔ )الفضل ۱۳ / مارچ ۱۹۲۸ء(
۲۹۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۴۴۰ ۔ ۴۴۲( ۳۱۳ کی فہرست میں آپ کا نام ۴۷ نمبر پر لکھا ہے۔
۲۹۳۔
بعمر ۸۹ سال )ریکارڈ بہشتی مقبرہ قادیان( ۳۱۳ ۔ اصحاب میں ان کا نام ۵۹ نمبر پر درج ہے۔
۲۹۴۔
حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ رئیس لاہور کے چھوٹے بھائی اور حضرت میاں محمد شریف صاحب ای۔ اے۔ سی کے والد۔ سلسلہ احمدیہ کے آغاز ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام میں شریک ہوئے اور نہایت اخلاص سے زندگی بسر کی )الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲( و )الفضل ۲۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۱(
۲۹۵۔
ولادت ۱۸۴۸ء سن بیعت ۱۸۹۸ء۔ شروع عہد خلافت ثانیہ سے معتمد صدر انجمن احمدیہ تھے۔ ۱۹۲۱ء میں جب امراء کا نظام قائم ہوا تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جماعت امرتسر کا امیر مقرر فرمایا۔ )الفضل ۳۰ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۶-۷(
۲۹۶۔
غلام حسین صاحب لدھیانوی کا بیان ہے کہ میں نے حافظ صاحب سے دریافت کیا کہ آپ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں کس طرح داخل ہوئے۔ آپ نے فرمایا۔ جب حضور )پہلی بار( لدھیانہ تشریف لائے تو میں نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ لدھیانہ تشریف لائے ہیں اور خواب ہی میں اس محلہ اور مکان کا پتہ بھی دیا گیا میں تلاش میں نکلا تو بعینہ حضرت صاحب کی زیارت ہوئی۔ اور میں حضور کی مجلس میں حاصر ہوتا رہا۔ اس کے بعد بیعت اولیٰ کے موقعہ پر حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب کے مکان پر جاکر بیعت کرلی۔ بیعت کنندگان کی فہرست میں آپ کا اس وقت چودھواں نمبر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام حصہ اول طبع اول کے صفحہ ۸۱۷ پر آپ کا ذکر خیر ان الفاظ میں کیا ہے۔ >حافظ صاحب جوان صالح بڑے محب اور مخلص اور اول درجہ کا اعتقاد رکھنے والے ہیں ہمیشہ اپنے مال سے خدمت کرتے رہتے ہیں جزاہم اللہ خیر الجزا<۔ ۳۱۳ اصحاب کبار کی فہرست میں آپ کا نام ۱۷۸ نمبر پر مرقوم ہے۔ )الفضل ۱۱ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲(
۲۹۷۔
الفضل ۲۴ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔ ان کے مفصل حالات حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے قلم سے الفضل ۳ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۸۔۹ پر شائع شدہ ہیں۔
۲۹۸۔
خواتین میں سے اہلیہ حضرت مولوی صوفی حافظ غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس ۱۶ / جنوری ۱۹۲۸ء کو اور محمودہ بیگم صاحبہ )اہلیہ مولوی عبدالسلام صاحب عمر( ۲۶ / مئی ۱۹۲۸ء کو اور آخر مئی ۱۹۲۸ء میں اہلیہ صاحبہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو والدہ محترمہ خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کا انتقال ہوا )الفضل ۲۰ / جنوری ۱۹۲۸ء و ۲۹ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و ۵ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔
۲۹۹۔
الفضل ۱۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲
۳۰۰۔
الفضل ۱۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲
۳۰۱۔
الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۰۲۔
h2] gat[الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۳۰۳۔
الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۳۰۴۔
الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۳۰۵۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۶
۳۰۶۔
ملاحظہ ہو >تاریخ احمدیت< جلد پنجم صفحہ ۲۲۸
۳۰۷۔
الفضل ۱۵ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸
۳۰۸۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۲
۳۰۹۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۶۵
۳۱۰۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۲۱
۳۱۱۔
الفضل ۲۸ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱
۳۱۲۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۱۹ء صفحہ ۲۶۹
۳۱۳۔
یہ دعویٰ الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے ایک مضمون بعنوان >احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا کچا چٹھا< پر کیا گیا۔
۳۱۴۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۳۳۔ پیغام صلح ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔ الفضل ۲۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۱۵۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۲۷
۳۱۶۔
الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ صفحہ ۲
۳۱۷۔
الفضل ۳ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۷
۳۱۸۔
الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۹۔۱۰
۳۱۹۔
الفضل ۱۷ / جنوری ۱۹۲۱ء
۳۲۰۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۸۸
۳۲۱۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۲
۳۲۲۔
الفضل ۴ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۸ کالم ۲۔۳
۳۲۳۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۶
۳۲۴۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۳ و >تاریخ احمدیت< جلد پنجم صفحہ ۴۹۹
۳۲۵۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۷
۳۲۶۔
الفضل ۲۵ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱
۳۲۷۔
الفضل ۲۷۔ اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۲۸۔
الفضل ۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۳۲۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۴۔
۳۳۰۔
الفضل ۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۳۱۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۲
۳۳۲۔
الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۳۳۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۸ء پر اس کی نسبت ارشاد فرمایا۔ کہ >ہر ایک احمدی کا فرض ہے کہ خرید کر اپنے پاس رکھے< الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲ کالم ۳(
۳۳۴۔
الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۹۔
۳۳۵۔
اس کتاب کے چار حصے شائع ہوئے پہلا دوسرا ۱۹۲۸ء میں اور تیسرا چوتھا ۱۹۲۹ء میں۔
۳۳۶۔
میر مدثر شاہ صاحب غیر مبائع مبلغ کے ٹریکٹ >تناقضات مابین اقوال حضرت صاحب و میاں صاحب< کا جواب۔
h1] [tag۳۳۷۔
الفضل ۲۴ / دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۳
۳۳۸۔
الفضل ۲۰ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۸ )تاریخ مباحثہ ۲۶ تا ۲۸ فروری ۱۹۲۸ء(
۳۳۹۔
الفضل ۲۷ / اپریل ۱۹۲۸ء )تاریخ مباحثہ ۱۸ / مارچ ۱۹۲۸ء(
۳۴۰۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء )تاریخ مباحثہ ۲۹ / جولائی ۱۹۲۸ء(
۳۴۱۔
الفضل ۲ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲ )تاریخ مناظرہ ۱۳/ فروری ۱۹۲۸ء(
۳۴۲۔
الفضل ۱۳ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲ پر اس مناظرہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولوی صاحب نے ہر سوال کا جواب قرآن سے دیا جسے سن کر لوگ عش عش کر اٹھے )تاریخ مناظرہ مارچ ۱۹۲۸ء(
۳۴۳۔
یہ مباحثہ ۶۔۷۔۸ / اپریل ۱۹۲۸ء تین روز جاری رہا۔ احمدی مناظر نے اپنے دلائل اس خوبی اور عمدگی سے بیان کئے کہ غیر احمدی بلکہ غیر مسلم تک نے خراج تحسین ادا کیا )الفض ۲۲ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲(
۳۴۴۔
مناظرہ کا موضوع >نیوگ< تھا آریہ مناظر نے علی الاعلان تسلیم کیا۔ کہ نیوگ آریوں کا دھرم نہیں۔ ایک ہندو اس موقعہ پر اسلام لایا۔ )فاروق ۱۳ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱(
۳۴۵۔
فاروق ۲۰ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۱۔ یہ مباحثہ ۱۳ / اگست ۱۹۲۸ء کو ہوا۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادم ابھی سترہ منٹ تقریر کرنے پائے تھے کہ آریوں نے آپ کی ٹھوس اور مدلل تقریر کی تاب نہ لا کر ہنگامہ اٹھا دیا اس لئے پولیس نے مداخلت کر کے مناظرہ بند کرا دیا اور آریہ سماجی اسے غنیمت سمجھتے ہوئے میدان سے اٹھ کر چل دئیے۔
۳۴۶۔
الفضل ۱۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ )تاریخ مناظرہ ۲۲ / جولائی ۱۹۲۸ء(
۳۴۷۔
الفضل ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸ کالم ۳ )تاریخ مباحثہ ۲۱ / اکتوبر ۱۹۲۸ء(
۳۴۸۔
الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸ کالم ۳۔ آریہ سماج لائل پور نے جماعت احمدیہ سے ۲۹ / اکتوبر لغایت ۳ / نومبر ۱۹۲۸ء چھ مختلف مضامین پر مباحثہ طے کیا تھا۔ مگر آریہ مناظر ۳۰ / اکتوبر کو پہنچے اس روز مسئلہ تناسخ پر مباحثہ ہوا۔ قریباً ایک گھنٹہ باقی تھا۔ کہ آریہ سماج کے مناظر کا گلابند ہوگیا۔ صاحب صدر لالہ بھگت رام صاحب ساہنی کی درخواست پر بقیہ وقت ایک گھنٹہ ۳۱ / اکتوبر پر ملتوی کر دیا گیا۔ دوسرے دن آریہ سماج کے دوسرے مناظر میدان میں آئے۔ جنہوں نے بمشکل تمام ایک گھنٹہ پورا کیا۔ اور تناسخ کی بجائے قرآن مجید پر اعتراضات شروع کر دئیے۔ جن کے مسکت جواب دئیے گئے۔ اس کے بعد آریہ سماج کو کسی اور موضوع پر مباحثہ کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔
۳۴۹۔
الفضل ۶ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱ )تاریخ مباحثہ ۲۳۔۲۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء
۳۵۰۔
الفضل ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء ۔ تاریخ مباحثہ ۳۱ / اکتوبر و یکم نومبر ۱۹۲۸ء بمقام مندر آریہ سماج لوہگڈھ(
۳۵۱۔
الفضل ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء )تاریخ مباحثہ ۷ / نومبر ۱۹۲۸ء(
۳۵۲۔
الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ )تاریخ مناظرہ ۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء مقام مناظرہ باغ مہاں سنگھ(
۳۵۳۔
اس مناظرہ میں صدارت کے فرائض مرزا عبدالحق صاحب بی۔ اے ایل ایل بی نے انجام دئیے۔ اور انجمن نظام المسلمین نے ہر ممکن طریقہ سے مباحثہ کا انتظام کیا۔ دونوں دن غیر احمدی مناظر بطور معترض پیش ہوئے مگر خدا کے فضل سے دونوں روز احمدیت کو کھلا غلبہ حاصل ہوا۔ اور بفضلہ تعالیٰ حاضرین پر احمدی دلائل کا سکہ بیٹھ گیا۔ فالحمد للہ )الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸(
۳۵۴۔
]2h [tagتاریخ مباحثہ ۳۰ / دسمبر ۱۹۲۸ء۔ مضمون مباحثہ >عالمگیر مذہب< تھا۔ شروع میں آریہ سماجی مناظر نے ایک گھنٹہ تک تقریر کی کہ آئندہ دنیا کا مذہب آریہ دھرم ہوگا۔ خادم صاحب نے آریہ سماجی مناظر کی تقریر کے ۱۵ منٹ میں ایسے مسکت اور مدلل جواب دئیے کہ پنڈت صاحب اصل مبحث کو چھوڑ کر قرآن مجید پر اعتراضات کرنے لگے۔ خادم صاحب نے ان کا بھی اچھی طرح تجزیہ کر دینے کے بعد اپنے مطالبات کے جواب کا مطالبہ کیا۔ مگر وہ آخر وقت تک ان کا جواب نہ دے سکے۔ حتیٰ کہ ایک معزز ہندو وکیل پنڈت صاحب کی تقریر کے دوران بول اٹھے کہ جواب کیوں نہیں دیتے۔ مگر پنڈت صاحب جواب لاتے کہاں سے۔ )الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲(
tav.5.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل اول(
انقلاب افغانستان پر تبصرہ اور راہنمائی سے لے کر
مسلمانان ہند کے تحفظ حقوق کی نئی مہم تک
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
)جنوری ۱۹۲۹ء تا دسمبر ۱۹۲۹ء بمطابق رجب ۱۳۴۷ھ تا رجب ۱۳۴۸ھ تک(
سفر لاہور
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۲/ جنوری ۱۹۲۹ء کو بذریعہ موٹر لاہور تشریف لے گئے۱`۲۔ اور اپنے برادر نسبتی ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب کے ہاں قیام فرمایا۔ اگلے روز )۱۳/ جنوری کو( حضور نے احمدیہ ہوسٹل میں مختلف کالجوں کے احمدی اور غیر احمدی طلباء کے علاوہ بعض دوسرے اصحاب کو بھی شرف ملاقات بخشا۳۔
۱۴/ جنوری کو آپ نے گورنر صاحب پنجاب )سرجیفری ڈی مانٹ مورنسی( سے ملاقات کی]4 [stf۴ اس کے بعد مسجد احمدیہ بیرون دہلی دروازہ میں تشریف لے گئے اور ایک پر معارف تقریر فرمائی جس میں آیت لا یمسہ الا المطھرون کی نہایت لطیف تفسیر فرمائی اور بتایا کہ قرآن کریم کے اعلیٰ معارف اور نکات انہیں لوگوں پر کھولے جاتے ہیں جنہیں روحانیت حاصل ہو اور جو خدا تعالیٰ کے مقرب ہوں اور یہ قرآن کریم کے کلام الہیٰ ہونے کا ایک ثبوت ہے۔
اسی سلسلہ میں حضور نے بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا جو علم دیا وہ کسی اور کو حاصل نہ تھا۔ حالانکہ اور لوگ ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت بڑھ کر تھے اسی طرح مجھے بھی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایسے معارف سمجھائے ہیں کہ خواہ کوئی ظاہری علوم میں کتنا بڑھا ہوا ہو اگر قرآن کریم کے حقائق بیان کرنے میں مقابلہ کرے گا تو ناکام رہے گا۵۔ یہ تقریر تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔
۱۵/ جنوری کو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے حضور کے اعزاز میں سٹفل ہوٹل میں چائے کی دعوت دی جس میں سر شیخ عبدالقادر صاحب` خلیفہ شجاع الدین صاحب` سید محسن شاہ صاحب` مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری` شیخ نیاز علی صاحب کے علاوہ اور بھی کئی اصحاب شامل ہوئے اور مسائل حاضرہ پر گفتگو ہوتی رہی اس کے بعد حضور چوہدری صاحب کی کوٹھی میں تشریف لے گئے اور احمدی اور غیر احمدی دوستوں نے ملاقاتیں کیں۔
۱۶/ جنوری کو سر شیخ عبدالقادر صاحب نے اپنی کوٹھی پر حضور اور حضور کے رفقاء کو چائے کی دعوت دی۔ اس سے فارغ ہو کر حضور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاں تشریف لے گئے اور بہت سے اصحاب کو شرف ملاقات بخشا۔ ۱۷/ جنوری کو حضور نے بعض سربرآوردہ مسلمانوں سے ملاقات کی اور معاملات حاضرہ پر گفتگو فرماتے رہے۔
۱۸/ جنوری کی صبح کو حضور بذریعہ موٹر لاہور سے بٹالہ آئے اور بٹالہ سے ٹرین پر سوار ہو کر جمعہ سے قبل قادیان پہنچے اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۶۔
انقلاب افغانستان پر تبصرہ اور رہنمائی
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۹۲۸ء کے آخر میں مسلم ممالک خصوصاً ترکی اور افغانستان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ دین سے بے اعتنائی چھوڑ دیں اور غیر اسلامی رجحانات کا دروازہ بند کر دیں کہ یہ راستے ترقی کے نہیں ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
شاہ افغانستان امیر اللہ خان نے جو سیاحت یورپ کے دوران مغربی تہذیب و تمدن پر بے حد فریفتہ ہو گئے تھے۔ کابل واپس پہنچتے ہی مغربیت کی ترویج و اشاعت کے لئے احکام نافذ کر دیئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۳/ جنوری ۱۹۲۹ء کو افغانوں نے ایک معمولی انسان حبیب اللہ )عرف بچہ سقہ( کی سرکردگی میں مسلح بغاوت کر دی۔ امیر امان اللہ خان نے قندھار کو مرکز بنا کر کابل پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی لیکن قبائلی سرداروں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور وہ افغانستان سے بھاگ کر ہندوستان کی راہ سے اٹلی چلے گئے۔
ابھی امیر امان اللہ خاں اپنے ملک میں ہی تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۵/ جنوری ۱۹۲۹ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں افغانستان کی شورش پر مفصل تبصرہ کیا اور اپنے موقف کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اعلان فرمایا۔
>آئندہ کے متعلق ہمارا مسلک یہی ہے کہ ہمیں کسی خاص شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو بھی حکومت کسی ملک میں قائم ہو اس کی اطاعت فرض اور اس سے بغاوت گناہ ہے ہم نے عام فائدہ اسلام کا دیکھنا ہے۔ میرے نزدیک سیاسی لحاظ سے اسلام کو )حقیقی اسلام کو نہیں کیونکہ وہ تو خود اپنی ذات سے قائم ہے۔ اسے اپنے قیام کے لئے کسی ایسے سہارے کی ضرورت نہیں( ہاں سیاسی لحاظ سے اسلام کو ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں زبردست آزاد اور مضبوط حکومتیں ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ باوجود اس کے کہ شریف حسین کے زمانہ میں ہم اس کی حکومت کو جائز سمجھتے اور اس کے خلاف بغاوت کرنا جائز قرار دیتے تھے لیکن جب سلطان ابن سعود نے پوری طرح وہاں اپنا تسلط جما لیا اور اس کی حکومت قائم ہو گئی تو اب ہم اس کو جائز سمجھتے اور اس کے خلاف بغاوت کو ناجائز قرار دیتے ہیں اب اگر شریف بھی اس پر حملہ کرے گا۔ تو ہمیں برا لگے گا۔ اس لئے ہم بچہ سقہ کو بھی برا سمجھتے ہیں کہ اس نے ایک آزاد اسلامی حکومت کو ضعف پہنچایا۔ جب تک وہ خود وہاں حکومت قائم نہ کر لے ہم اسے برا ہی کہیں گے۔ اب وہاں خواہ کوئی بادشاہ ہو جائے امان اللہ خاں ہو یا عنایت اللہ خاں نادر خاں ہو۔ یا علی احمد جان یا بچہ سقہ جو بھی وہاں ایسی حکومت قائم کر لے گا۔ جو سارے افغانستان پر حاوی ہو گی۔ بالکل آزاد ہو گی` کسی دوسری سلطنت کے ماتحت نہ ہو گی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوشش کرے گی` اس کے ہم ایسے ہی خیر خواہ ہوں گے جیسے ان اسلامی حکومتوں کے ہیں جو اپنے ممالک میں مسلمانوں کی ترقی کی کوشش کر رہی ہیں۔ پس ہمارے آئندہ کے متعلق احساسات یہ ہیں کہ وہاں ایسی حکومت قائم ہو جو بالکل آزاد ہو۔ وہ نہ انگریزوں کے ماتحت ہو نہ روسیوں کے نہ کسی اور کے ہم اسے بھی پسند نہیں کرتے کہ افغانستان ایک دفعہ کامل آزادی حاصل کرنے کے بعد تھوڑا بہت ہی انگریزوں کے ماتحت ہو ہم اسے اس طرح دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ آزاد ہو۔ مضبوط ہو ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو اور نہ کسی کے ماتحت یا زیر اثر ہو۔ اگر وہاں ایسی حکومت قائم ہو جائے تو حکمران خواہ کوئی ہو ایسی حکومت اسلام کے لئے مفید ہو گی ۔۔۔۔۔۔ ہم اسے سخت ناپسند کرتے ہیں کہ افغانستان کے معاملات میں کسی قسم کا دخل دیا جائے اور ہم امید رکھتے ہیں گورنمنٹ اس بات کی احتیاط کرے گی کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں ہرگز مداخلت نہ کی جائے اور جیسے وہ پہلے آزاد تھا ویسے ہی اب بھی رہے۔ میرے نزدیک مسلمانوں کو صرف اس بات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور انجمنوں کو بالاتفاق پورے زور کے ساتھ یہ اعلان کر دینا چاہئے کہ ہم اسے سخت ناپسند کرتے ہیں کہ افغانستان کے فسادات کے نتیجہ میں کوئی غیر قوم خواہ وہ انگریز ہی ہوں اس ملک پر کسی قسم کا تصرف کرے افغانستان اسی طرح آزاد ہونا چاہئے جیسے پہلے تھا ۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو جو پہلے ہی کمزور ہے مزید نقصان نہ پہنچے۷۔
مذاہب کانفرنس کلکتہ
۲۷۔ ۲۸/ جنوری ۱۹۲۹ء کو برہمو سماج کے زیر انتظام کلکتہ یونیورسٹی کے سینٹ ہال میں مذاہب کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں مولوی دولت احمد خاں بی۔ ایل ایڈیٹر رسالہ >احمدی< نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قائم مقام کی حیثیت میں مضمون پڑھا اور مولوی عبدالقادر صاحب ایم۔ اے مولوی فاضل احمدی پروفیسر اسلامیہ کالج کلکتہ نے بتایا کہ دنیا میں اسلامی اصولوں کی تعلیم و ترویج بین الاقوامی طور پر ہمدردانہ جذبات پیدا کرنے کا موجب ہو گی کیونکہ آنحضرت~صل۱~ نے غیر مشتبہ الفاظ میں اخوت انسانی کی تعلیم دی ہے۸۔
طلبہ میں تقسیم انعامات کا مشترکہ جلسہ
لڑکوں اور لڑکیوں میں عملی ذوق و شوق برھانے کے لئے ۲۸/ جنوری ۱۹۲۹ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہال میں قادیان کے مرکزی اداروں کا تقسیم انعامات کا مشترکہ جلسہ ہوا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے انعامات تقسیم فرمائے۹ اور تقریر بھی فرمائی جس کے شروع میں فرمایا کہ >جلسہ تقسیم اسناد میرے نزدیک ایک ایسا فنکشن )تقریب( ہے جو سکول کی زندگی کو زیادہ دلچسپ بنانے میں بہت مفید ہو سکتا ہے اور ہم صرف ایک ضرورت کو آج پورا نہیں کر رہے۔ بلکہ اس ضرورت کو اس کے وقت سے بہت پیچھے پورا کر رہے ہیں<۔
اس کے بعد حضور نے ہدایت فرمائی کہ >میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ انعاموں کو ہمیشہ طالب علم کے سامنے رکھنے کا انتظام ہونا چاہیئے جب تک انعامات ایک لمبے سلسلے کے ساتھ واستہ نہ کر دیئے جائیں وہ ایسے دلچسپ اور مفید نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک ضروری بات ہے جسے پورا کرنا ہمارے منتظمین کا فرض ہونا چاہیئے۔ ٹورنا منٹ کے انعاموں کے متعلق بھی ایسا انتظام ہونا چاہیئے کہ وہ سارا سال ورزش کا شوق دلانے میں ممد ثابت ہو سکیں اور علوم کے انعامات کے متعلق بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے اگر زمانہ امتحان میں پڑھائی کا شوق پیدا کیا جائے تو یہ اتنا مفید نہیں ہو سکتا جتنا سارا سال محنت کرنے کا ہو گا<۱۰۔
یہ مرکز احمدیت میں اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ تھا۔
گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس
۳۱/ جنوری ۱۹۲۹ء کو پنجاب کے نمائندگان جماعت احمدیہ نے گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا۔ جس میں جماعت کی تاریخ اس کی علمی و دینی خدمات اور تعلیمی ترقی پر روشنی ڈالنے کے بعد مسلمانوں کے چھ متفقہ مطالبات پیش کئے۱۱ اور افغانستان کے سیاسی تغیرات کی نسبت یہ درخواست کی کہ مرکزی حکومت پر زور دیا جائے کہ نہ صرف یہ کہ افغانستان کے متعلق عدم مداخلت کی پالیسی برقرار رکھی جائے بلکہ جہاں تک ہوسکے اسے کامل آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے میں مدد دی جائے۱۲۔
ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب نے اس ایڈریس کے جواب میں جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز علمی ترقی کو سراہا اور یقین دلایا کہ آپ کی جماعت کے خیالات پر احتیاط و توجہ کے ساتھ غور کیا جائے گا۔ افغانستان کے اندرونی خلفشار کی نسبت اس بات کا اظہار کیا کہ گورنمنٹ کی پالیسی انتہا درجہ غیر جانبدارانہ ہے اور رہی ہے اور ہمیں مخلصانہ امید ہے کہ اس ملک کے طول و عرض میں پھر سے امن کا دور دورہ ہو جائے اور ہندوستان کے شمال مغرب میں اس کا ہمسایہ ملک ایک دفعہ پھر ایک مضبوط اور ایک متحدہ ملک بن جائے۱۳۔
مسلم خبر رساں ایجنسی کے قیام کی تحریک
>الفضل< نے ۱۹/ فروری ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں مسلمانان ہند کو توجہ دلائی کہ وہ جلد سے جلد کوئی اپنی خبر رساں ایجنسی قائم کریں اور اس کی ہر طرح حوصلہ افزائی کریں کہ قوموں کی زندگی کے لئے یہ نہایت ضروری چیز ہے۱۴۔
اشاعت لٹریچر سے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اہم ارشادات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۲/ مارچ ۱۹۲۹ء کو ارشاد فرمایا کہ >یہ زمانہ نشر و اشاعت کا ہے جس ذریعہ سے ہم آج اسلام کی مدد کر
سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ صحف و کتب کی اشاعت پر خاص زور دیں اگر ہر جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی ایجنسیاں قائم ہو جائیں تو یقیناً بہت فائدہ ہو سکتا ہے<۱۵4] [rtf۔
نیز ہدایت فرمائی کہ >عام طور پر ہماری کتابیں گراں ہوتی ہیں اور اس وجہ سے لوگ ان کی اشاعت نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ایک طرف تو میں نظارت۱۶ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کتابوں کی قیمتوں پر نظر ثانی کرے اور قیمتیں اس حدپر لے کر آئے کہ ان انجمنوں کو جو ایجنسیاں لیں کافی معاوضہ بھی دیا جا سکے اور نقصان بھی نہ ہو اور دوسری طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی اس بارے میں فرض شناسی کا ثبوت دیں<۔
اس کے علاوہ سلسلہ کے اخبارات کی توسیع کی طرف بھی خاص توجہ دلائی۱۷۔
دہلی میں انجمن احمدیہ کا سالانہ جلسہ
انجمن احمدیہ دہلی کا آٹھواں سالانہ جلسہ ۲۳ تا ۲۶/ مارچ ۱۹۲۹ء منعقد ہوا۔ جس میں حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ` حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے` حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر` مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری وغیرہ علمائے سلسلہ نے تقریریں کیں۔ اور بابو اعجاز حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ دہلی` چوہدری نعمت خاں صاحب سینئر جج دہلی` مولوی اکبر علی صاحب انسپکٹر آف ورکس ریلوے` خان صاحب برکت علی صاحب امیر جماعت احمدیہ شملہ` مولوی حاجی حکیم امجد علی صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس دہلی` کرنل اوصاف علی خان صاحب سی آئی ای سابق کمانڈر انچیف نابھہ اسٹیٹ` مولوی محمد شفیع صاحب دائودی ممبر لیجسلیٹو اسمبلی دہلی اور خواجہ حسن نظامی صاحب نے مختلف اجلاسوں میں صدارت فرمائی۔ اس جلسہ میں خواجہ صاحب نے رائے بہادر لالہ پارس داس رئیس دہلی کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ امام جماعت احمدیہ کی طرف سے سیرت النبیﷺ~ کے مضمون۱۸ بطور انعام ایک طلائی تمغہ اور گھڑی پیش کی۱۹۔
جناح لیگ اورشفیع لیگ کے الحاق کی کوشش اور کامیابی
سائمن کمیشن سے بائیکاٹ کے مسئلہ پر مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ حضرت خلیفتہ السمیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں جناب محمد علی صاحب جناح کی سیاسی خدمات کی بہت قدر و منزلت تھی۔ اس لئے آپ دل سے چاہتے تھے کہ سر شفیع اور جناح میں مفاہمت ہو جائے۔
چنانچہ حضور نے ڈاکٹر سر محمد اقبال )سیکرٹری شفیع لیگ( اور جناب محمد علی جناح دونوں کو خطوط لکھے۔ جن کا ذکر ان ہر دو اصحاب نے بعض مجالس میں بھی کیا اور مصالحت کی امید پیدا ہو گئی شروع مارچ ۱۹۲۹ء کو سفر محمد شفیع اور جناب محمد علی صاحب جناح۲۰ کی ملاقات ہوئی۔ اس وقت جماعت احمدیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ( بھی موجود تھے۔ دونوں لیڈر گفت و شنید کے بعد باہمی اتحاد پر آمادہ ہو گئے اور ۲۸۔ ۲۹۔ ۳۰/ مارچ کا اجلاس مسلم لیگ دہلی میں قرار پایا۔ اس اجلاس کے دعوتی خطوط۲۱4] ft[r حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھی بھیجے گئے کہ آپ بھی تشریف لائیں۔ مسلمانوں کے درمیان مصالحت کے لئے سعی فرمائیں۔ حضور خود تو مجلس مشاورت کی وجہ سے تشریف نہ لے جا سکے اس لئے حضور نے اپنی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو دہلی بھیجا علاوہ ازیں بہار سے حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری بھی آگئے۔ حضرت مفتی صاحب مصالحت میں کامیابی کے بہت پرامید تھے۲۲۔ اور انہوں نے اس کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ مگر سر محمد شفیع تو بیماری کی وجہ سے نہ آسکے اور ان کے رفقاء لیت و لعل میں رہے جناح صاحب نے ہر طرح کوشش کی کہ شفیع لیگ کے تمام اصحاب لیگ میں شامل کر لئے جائیں۔ مگر لیگ کے ممبروں نے ان کی سخت مخالفت کی اور مسٹر جناح کی کوئی اپیل قبول نہ کی۔ مسلم لیگ کے اس اجلاس میں سبجیکٹ کمیٹی کے سامنے تین ریزولیوشن پیش ہوئے ایک مسودہ جناح صاحب کا تیار کیا ہوا تھا۔ جس میں نہرو رپورٹ رد کر دی گئی تھی یہ ریزولیوشن راجہ عضنفر علی صاحب نے پیش کیا اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اس کی تائید کی۔ دوسرا اور تیسرا مسودہ غازی عبدالرحمن صاحب نے اور شیردانی صاحب نے پیش کیا۔ موخر الذکر واپس لے لیا گیا دونوں مسودے سبجیکٹ کمیٹی میں پاس ہو کر کھلے اجلاس میں پیش ہونے والے تھے کہ ڈاکٹر عالم صاحب کی صدارت پر زبردست ہنگامہ بپا ہو گیا۔ اس اثناء میں مسٹر جناح بھی تشریف لے آئے اور انہوں نے کارروائی بند کرا دی اور مسلم لیگ کا اجلاس کوئی ریزولیوشن پاس ہوئے بغیر ملتوی ہو گیا۲۳۔ لیکن حضرت مفتی صاحب نے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں۲۴۔ جو بالاخر بارآور ہوئیں۔
چنانچہ ۲۸/ فروری ۱۹۳۰ء کو مسٹر جناح کی زیر صدارت مسلم لیگ کونسل کاا اہم اجلاس دہلی میں منعقد ہوا۔ لیگ کی دونوں شاخوں کے پچاس سے زیادہ اصحاب شریک اجلاس تھے۔ سر شفیع بھی موجود تھے اور تالیوں کی گونج میں اعلان کیا گیا کہ لیگ کی دونوں شاخوں کو ملا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد مسٹر جناح اور سر شفیع ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے۲۵۔ اور دونوں مسلم لیگیں ایک ہو گئیں۔
نظارت امور خارجہ قادیان کی مطبوعہ رپورٹ ۳۰۔ ۱۹۲۹ء میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ >دہلی کی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اس سال آخری جلسہ میں ہر دو مسلم پارٹیوں کی مصالحت ہوئی جو مدت بعد عمل میں آئی اور اس مصالحت کے کرانے میں ہماری طرف سے بہت کوشش ہوتی رہی فالحمدلل¶ہ امید ہے کہ اب انشاء اللہ سب مسلمان مل کر اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے سربکف ہو سکیں گے<۲۶۔
سلسلہ احمدیہ کے ترجمان اخبار >الفضل< نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا۔
>یہ نہایت افسوسناک بات تھی کہ مسلمانوں کی واحد سیاسی انجمن مسلم لیگ میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہ صورت دردمندان قوم کے لئے بے حد تکلیف دہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ دونوں کو متحد دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ حال میں مسلم لیگ کے اجلاس کا ایجنڈا جب ہمیں بغرض اشاعت موصول ہوا تو ہم نے اسے شائع کرتے ہوئے ذمہ دار ارکان کو متحد ہونے کی ضرورت بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ سب سے اول اتحاد پیدا کرنا چاہئے اور پھر مل کر اسلامی حقوق کی حفاظت میں لگ جانا چاہئے<۔ )الفضل ۴/ فروری( اب ہمیں یہ معلوم ہو کر بہت خوشی ہوئی کہ ہماری یہ خواہش بر آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب لیگ کا فرض ہے کہ پوری طرح مسلم حقوق کی حفاظت میں لگ جائے اور پوری کوشش و جدوجہد سے مسلم لیگ کو اس مقام پر لے آئے کہ وہ صحیح معنوں میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کا حق ادا کر سکے۔ مسلم لیگ نے بہت وقت غفلت اور اندرونی کشمکش میں کھو دیا ہے اسے نہ صرف گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی کرنی چاہئے بلکہ آئندہ پوری تندہی سے کام کرنا چاہئے<۲۷`۲۸۔
راجپال کا قتل اور اسمبلی میں بم کا واقعہ
ایسے وقت میں جبکہ ملک میں کانگریس کی سیاسی تحریک زوروں پر تھی اپریل ۱۹۲۹ء کے شروع میں دو نہایت اہم واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ملکی فضا پر بہت ناگوار اثر ڈالا۔
پہلا واقعہ کتاب >رنگیلا رسول< کے دریدہ دہن اور بدباطن مصنف >راجپال< کا قتل تھا۔ جو پچیس چھبیس سال کے ایک پرجوش مسلمان نوجوان علم الدین کے ہاتھوں ۶/ اپریل کو لاہور میں ہوا۲۹۔ مسلمان علماء نے جن میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی شامل تھے۔ اس قتل پر اظہار بیزاری کیا اور کہا کہ راجپال کا قتل شرع اسلام کی رو سے ناجائز ہے اور ملک کی سیاسی حالت کے لئے سخت مضر ہے اور اگر کسی مسلمان نے ایسا کیا ہے تو اس فعل کا وہ خود ذمہ دار ہے لیکن آریہ اخباروں نے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ >حالات بتلا رہے ہیں کہ ملک میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک یہ سازش پھیلی ہوئی ہے<۳۰`۳۱۔ ایک آریہ مقرر نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔ یہ قلمی جنگ ہے جو شخص حجت اور دلائل سے گزر کر اس قسم کی باتوں پر اتر آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مذہب میں تحریر و دلائل کی طاقت نہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اسلام کا اس قدر دیوالہ نکل چکا ہے<۳۲۔ دوسرا واقعہ ۸/ اپریل کو نئی دہلی میں ہوا۔ جبکہ لیجسلیٹو اسمبلی کے کونسل چیمبر میں جب سپیکر )صدر اسمبلی( رولنگ دینے کے لئے کھڑا ہوا تو گیلری سے سرکاری بنچوں پر دو بم پھینکے گئے۳۳۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء کے خطبہ جمعہ میں ان ہر دو واقعات کے پس پردہ اسباب و عوامل پر قرآن نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ۔
>قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے راستہ جو روکیں ہوتی ہیں۔ ان کے متعلق ایک گر بتایا ہے اور وہ گر یہ ہے کہ ناکام رہنے والے لوگوں کی ناکامی کا سببnsk] gat[ یحبون العاجلہ و یذرون ورآئھم یوما ثقیلا ہوتا ہے۔ وہ نہایت ہی محدود نگاہ سے معاملات کو دیکھتے ہیں قریب ترین نتائج ان کے نزدیک محبوب ہوتے ہیں اور حقیقی اور اصلی غیر متبدل اور دائمی اثرات و نتائج ان کے پیش نظر نہیں ہوتے دنیا میں جس قدر لڑائیاں` فسادات اور جھگڑا پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان کے اسباب پر غور کیا جائے تو ننانوے فیصدی ایسے نکلیں گے جن کا سبب فریقین میں سے کسی نہ کسی کا یا دونوں کا بغیر کافی غور و فکر کے جلدی سے کسی نتیجہ پر پہنچ جانا اور ایک عاجل نتیجہ پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہو گا اگر انسان اپنے جوشوں کو دبائے رکھے اور اگر وہ یہ دیکھے کہ میرے اعمال کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ تو بہت سی لڑائیاں دور ہو جائیں بہت سے جھگڑے بند ہو جائیں اور بہت سے فسادات مٹ جائیں میں دیکھتا ہوں ہندوستان میں اس وقت متواتر کئی سال سے فساد شروع ہے قوموں میں اختلاف ہے مذہب میں تفرقہ ہے حکومت اور رعایا میں کشمکش جاری ہے ان سب کی وجہ یحبون العاجلہ و یذرون ورآئھم یوما ثقیلا ہی ہے عاجل نتیجہ کو لوگ پسند کر رہے ہیں اور ایک بھاری آنے والے دن کو نظر انداز کر رہے ہیں<۔
قیام امن کے اس سنہری اصول کی روشنی میں حضور نے حکومت اور رعایا دونوں کو قصور وار ٹھہرایا حکومت کو بتایا کہ۔
>حکام گورنمنٹ ابھی تک اسی پرانے اثر کے ماتحت ہیں جبکہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کی آواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی وہ ابھی اسی خیال میں ہیں کہ ہمیں خدائی قدرت حاصل ہے جس چیز کو ہم درست سمجھیں نہ صرف یہ کہ اسے درست سمجھا جائے بلکہ واقعہ میں وہ درست ہی ہے اور جسے ہم غلط سمجھیں نہ صرف یہ کہ اسے غلط سمجھا جائے بلکہ فی الواقعہ وہ غلط ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بسا اوقات ان کا لہجہ ایسا ہتک آمیز ہوتا ہے کہ ایک آزاد خیال انسان کے دل میں اس کی قومی عزت کا جوش ابال مارتا ہے اور وہ فوراً مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستانیوں میں اس وقت ایک رو پیدا ہو رہی ہے۔ اور ہندوستانی برابری کے مدعی ہیں۔ وہ قوم کے اعزاز اور وقار کو محسوس کرنے لگ گئے ہیں۔ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم بھیڑ بکریاں نہیں کہ ریوڑ کی طرح جدھر چاہے ہانک دیا جائے ہم بچے نہیں کہ ہماری نگرانی کی جائے وہ اپنے ملک میں ملکی علوم ملکی تہذیب اور ملکی تمدن کو جاری کرنا چاہتے ہیں پس ان حالات میں اگر انگلستان ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے تو اس کے افسروں کو اپنے رویہ میں تبدیلی کرنی پڑے گی کوئی ملک خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو جب اس میں آزادی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ تو وہ یقیناً آزادی حاصل کرکے رہتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی مثال ایسی نہیں ملتی کی کوئی چھوٹے سے چھوٹا ملک جس کی آبادی خواہ چند ہزار ہی ہو ہمیشہ کے لئے کسی کا غلام رہا ہو۔ پھر یہ ہندوستان کے ۳۳ کروڑ انسان کہاں ہمیشہ کے لئے غلامی میں رہ سکتے ہیں<۔
ہندوستان کے سیاسی لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
>دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں ملک کی آزادی کا جوش ہے۔ میں اس کی بہت قدر کرتا ہوں اور آزادی و حریت کا جوش جو میرے اندر ہے میں سمجھتا ہوں اگر احمدیت اسے اپنے رنگ میں نہ ڈھال دیتی۔ تو میں بھی ملک کی آزادی کے لئے کام کرنے والے انہی لوگوں میں سے ہوتا لیکن خدا کے دین نے ہمیں بتا دیا کہ عاجلہ کو مدنظر نہیں رکھنا چاہئے میں ان لوگوں کی کوششوں کو پسند کرتا ہوں مگر بعض دفعہ وہ ایسا رنگ اختیار کر لیتی ہیں کہ انگریزوں کو نقصان پہنچانے کے خیال میں وہ اپنی قوم کے اخلاق اور اس روح کو جو حکومت کے لئے ضروری ہوتی ہے تباہ کر دیتی ہے ایسے بہت خطرناک ہوتے ہیں گورنمنٹ کی خوشامد کرنے والا بے شک غدار ہو سکتا ہے لیکن اس کی عداری اس کے اپنے نفس کے لئے ہوتی ہے۔ جو شخص کسی عہدہ یا دنیاوی مطلب کے حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ کی خوشامد کرتا ہے وہ بے شک غدار ہے لیکن جو شخص ملک کے اخلاق کو برباد کرتا اور بگاڑتا ہے وہ اس سے بڑھ کر غدار ہے پہلے شخص کی غداری کا اثر اس کی اپنی ذات پر ہوتا ہے لیکن دوسرے کی غداری تمام قوم کے لئے تباہی کا موجب ہوتی ہے<۔
قتل راجپال کے سلسلہ میں حضور نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ۔
>وہ عاجل باتوں کی طرف نہ جائیں مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ چاند پر تھوکنے سے اپنے ہی منہ پر آکر تھوک پڑتا ہے۔ مخالف خواہ کتنی ہی کوشش کریں۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نور کو گردوغبار سے نہیں چھپا سکتے اس نور کی شعاعیں دور دور پھیل رہی ہیں تم یہ مت خیال کرو کہ کسی کے چھپانے سے یہ چھپ سکے گا۔ ایک دنیا اس کی معتقد ہو رہی ہے پادریوں کی بڑی بڑی سوسائٹیوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ اسلام سے ہے کیونکہ اسلام کی سوشل تعلیم کی خوبیوں کے مقابلہ میں اور کوئی مذہب نہیں ٹھہر سکتا۔ اسلام کا تمدن یورپ کو کھائے چلا جا رہا ہے اور بڑے بڑے متعصب اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اسلام کو گالی دینے سے اسلام کی ہتک ہو گی وہ اگر عیسائی ہے تو عیسائی مذہب کا دشمن ہے اگر سکھ ہے تو سکھ مذہب کا دشمن ہے اور اگر ہندو ہے تو ہندو دھرم کا دشمن۔ ہتک تو دراصل گالی دینے والے کی ہوتی ہے جسے گالی دی جائے اس کی کیا ہتک ہو گی۔ ہتک تو اخلاق کی بناء پر ہوتی ہے اگر کوئی شخص مجھے گالیاں دیتا ہے تو وہ اپنی بداخلاقی کا اظہار کرتا ہے۔ اور اس طرح خود اپنی ہتک کرتا ہے۔ میں گالیاں سنتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں تو اپنے بلند اخلاق کا اظہار کرتا ہوں جو میری عزت ہے۔ وہ مذہبی لیڈر جنہوں نے قوموں کی ترقی کے لئے کام کیا خواہ کسی بڑے طبقہ میں یا ایک بہت ہی محدود طبقہ میں کیا ہو وہ قابل عزت ہیں اور انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی عزت کی جائے جو قوم ایسا نہ کرنے والوں کی مدد کرتی ہے وہ خود اپنی تباہی کا سامان پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ وہ بھی مجرم ہیں۔ اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جو ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے۔ میرے نزدیک تو اگر یہی شخص قاتل ہے تو اس کا سب سے بڑا خیر خواہ وہی ہو سکتا ہے جو اس کے پاس جائے اور اسے سمجھائے کہ دنیاوی سزا تو تمہیں اب ملے گی ہی لیکن قبل اس کے کہ وہ ملے تمہیں چاہئے کہ خدا سے صلح کر لو اس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ اسے بتایا جائے تم سے غلطی ہوئی ہم تمہارے جرم کو تو کم نہیں کر سکتے لیکن بوجہ اس کے کہ تم ہمارے بھائی ہو تمہیں مشورہ دیتے ہیں کہ توبہ کرو۔ گرویہ و زاری کرو۔ خدا کے حضور گڑگڑائو۔ یہ احساس ہے جو اگر اس کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ خدا کی سزا سے بچ سکتا ہے اور اصل سزا وہی ہے<۔
حضور نے حکومت` عوام اور مسلمانوں کو قیمتی مشورے دینے کے علاوہ ہندو اور مسلمان دونوں سے اپیل کی کہ ایک دوسرے کے بزرگوں کا احترام کریں کہ یہی طریق قیام امن کا موجب ہو سکتا ہے۳۴۔
tav.5.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل دوم(
جلسہ سیرت النبیﷺ~ اور الفضل کا >خاتم النبیینﷺ~ نمبر<
۲/ جون ۱۹۲۹ء پچھلے سال کی طرح اندرون اور بیرون ملک میں جماعت احمدیہ کے زیر انتظام وسیع پیمانے پر سیرت النبیﷺ~ کے جلسے منعقد ہوئے۔ جو شان و شوکت میں آپ ہی اپنی نظیر تھے اس سال آنحضرت~صل۱~ کی مقدس زندگی کے مندرجہ ذیل پہلوئوں پر بالخصوص روشنی ڈالی گئی۔
۱۔
رسول کریم~صل۱~ کا غیر مذاہب سے معاملہ بلحاظ تعلیم اور تعامل۔
۲۔
توحید باری تعالیٰ پر رسول کریم~صل۱~ کی تعلیم اور زور۳۵
پچھلے سال کے جلسوں نے مسلمانوں میں اس کی عظمت و اہمیت کا سکہ بٹھا دیا تھا اس لئے اس دفعہ اسلامی پریس نے اس تقریب کے آنے سے کئی روز پہلے ہی اس کو کامیاب بنانے کی مہم شروع کر دی۔ چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے اخبار >منادی< )۲۴/ مئی ۱۹۲۹ء( میں لکھا۔
>ربیع الاول کے جشن خالص مذہبی تقریب کی صورت میں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسری جون کے جلسے اس طرز کے ہوں گے جن میں عیسائی اور ہندو وغیرہ وغیرہ بھی شریک ہو سکیں اور سیرت پاک رسول مقبول~صل۱~ کو سن کر اپنے ان خیالات کی اصلاح کر سکیں جو غلط پراپیگنڈا نے غیر مسلمین کے دلوں میں جما دیئے ہیں۔ لہذا میرے تمام رفیقوں اور مریدوں کو ان جلسوں کی تیاری و تعمیل میں پوری جدوجہد کرنی چاہئے<۳۶۔
اخبار >محسن< ملتان )۲۳/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>یہ امر قابل صدر ہزار ستائش ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے امام صاحب نے اس مبارک تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے ہر مذہب و ملت کے پیروئوں کو مدعو کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر بین نظریں اس کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتیں۔ لیکن اگر بنظر امعان دیکھا جائے تو اس کی تہہ میں ایک بہت بڑا اسلامی تبلیغی راز مضمر ہے<۳۷۔
اخبار >پیغام عمل< فیروزپور )۲۴/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>ہم مسلمانوں کو خصوصاً و دیگر انصاف پسند اصحاب کی خدمت میں عموماً نہایت ادب و نیاز سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ فی الواقعہ ان ہر دو قوموں )مسلم و ہندو۔ ناقل( کے مابین صلح و آشتی چاہتے ہیں نیز دنیا کے ہادیان دین کی عزت و احترام کو اپنا فرض اولین یقین کرتے ہیں تو آئو حضرت امام جماعت احمدیہ کی اس مبارک تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اس کو ہر ممکن سے ممکن طریق سے کامیاب بنانے کی سعی کریں<۳۸۔
اخبار >مسلم راجپوت< نے ۱۵/ مئی ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں لکھا۔
>عہد حاضرہ میں ترقی اسلام کا یہ سب سے بڑا گر ہے کہ حضور سرور عالم کے اقوال و اعمال کو صحیح رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور ہماری رائے میں اہل قادیان کی یہ تحریک نہایت مبارک اور ہر اعتبار سے لائق تائید ہے اور تمام ان مسلمانوں کو جو حقیقت میں دین الفطرت کے چمن کو سرسبز اور شاداب دیکھنا چاہتے ہیں نہ صرف ان جلسوں کی تائید کرنی چاہئے بلکہ ان میں عملی حصہ لینا چاہئے۔
کوئی شخص ایسے جلسوں کی جس میں پیغمبر اسلام ~)صل۱(~ کی پاک زندگی کے حالات بیان کئے جائیں مخالفت کرے اور اس پر حمایت و تائید اسلام کا دم بھرے یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں بدقسمتی سے مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی ہے جو اس نیک تحریک کی مخالفت کو بھی اپنا ایمان سمجھتی ہے۔ اس جماعت کو سب سے بڑے دو اعتراض ہیں۔ )۱( حضرات قادیان اس میں اپنے مخصوص فرقہ وارانہ خیالات کی اشاعت کرتے ہیں اور )۲( وہ اپنے اغراض کی اشاعت کے لئے دوسرے مسلمانوں سے روپیہ وصول کرتے ہیں لیکن گزشتہ سال کے جلسوں پر اس قسم کی کوئی بات دیکھنے میں نہیں آئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہر دو الزامات غلط ہیں اور محض ایک مفید کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ ان خواہ مخواہ کے مخالفین کی باتوں پر کان نہ دھریں<۳۹4] [rtf۔
اخبار >مشرق< گورکھپور )۹/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>مسلمانوں میں احمدی جماعت جس خلوص کے ساتھ قومی خدمات انجام دے رہی ہے دوسری جماعتیں اس خلوص کے ساتھ یہ خدمات انجام نہیں دیتیں۔ ہم کو اس کا اعتراف ہے یہ احمدی وہی لوگ ہیں جن کو کمزور سمجھ کر دوسرے مسلمان اپنی قوت کے زور پر سنگسار کراتے ہیں افسوس معلوم نہیں لا اکراہ فی الدین کے عامل اس قسم کے جبر و تشدد اور عقیدہ پرستی کہاں سے سیکھ کر آئے ہیں اس ہی احمدی جماعت کے مخلص ممبروں نے پچھلے سال میں اپنی محنت اور خلوص سے آنحضرت~صل۱~ کے مقدس حالات جو غیر مسلموں میں تاریکی کے اندر پڑے ہیں خود غیر مسلموں سے پلیٹ فارموں پر بلا کر ظاہر کرائے ہیں اس ہی جماعت کے اراکین کی جدوجہد سے امسال پھر ۲/ جون ۱۹۲۹ء کو حضور کے حالات ملک کے گوشتہ گوشتہ میں بیان کئے جائیں گے۴۰۔
اخبار >ہمت< لکھنئو )۳/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>جناب امام جماعت احمدیہ کی یہ مبارک تجویز بے حد مقبول ہو رہی ہے کہ مختلف اور مخصوص مقامات پر اس طرح کے جلسے منعقد کئے جائیں جن میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے علماء اور لیکچرار بالاتفاق سیرت نبویﷺ~ پر اظہار خیالات فرمائیں اور ان جلسوں میں دوسرے فرقوں کے افراد کو بھی شرکت کی دعوت اور ان کی نشست وغیرہ کا انتظام کیا جائے جماعت احمدیہ کی سنجیدہ اور ٹھوس تبلیغی سرگرمیاں ہر حیثیت سے مستحق مبارکباد ہیں اور ہمارے نزدیک مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس نہایت مفید اور اہم تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پوری سعی سے کام لیں<۴۱۔
حکیم مولوی امجد علی صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس دہلی نے کہا۔
>۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نازک وقت میں جبکہ ہندوستان میں چاروں طرف آگ لگی ہوئی تھی حضرت امام جماعت احمدیہ نے ان پاک جلسوں کی بنیاد رکھ کر ہم پر بڑا احسان کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہامی تحریک تھی<۴۲۔
اسلامی پریس نے امسال بھی ان جلسوں پر مفصل تبصرہ کیا اور ان کی افادیت کا اقرار کیا۔ چنانچہ >انقلاب< )لاہور( >کشمیری گزٹ< )لاہور( >مدینہ< )بجنور( >تعمیر< )فیض آباد( >محسن< )ملتان( >سیاست< )لاہور( >صحیفہ< )حیدر آباد دکن( >حقیقت`< >ہمدم`< )ہمت( )لکھنئو( اور بنگال کے متعدد انگریزی` اردو` بنگالی اخبارات کے علاوہ بیرونی ممالک میں >ڈیلی نیوز< شکاگو اور افریقہ کے متعدد اخبارات نے اپنے اپنے رنگ میں اس تحریک کی پرزور تائید کی اور بعض نے جلسوں کی روئیدادیں بھی شائع کیں۴۳۔
اس کے مقابل سیرت النبیﷺ~ کے جلسوں کی سب سے زیادہ مخالفت اخبار >زمیندار< کے ایڈیٹر مولوی ظفر علی خاں کی طرف سے کی گئی جس کی وجہ سے ملتان` فیض آباد` انبالہ` لاہور اور پشاور وغیرہ مقامات میں افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی۔ غیر جانبدار اسلامی پریس مثلاً اخبار >تعمیر< فیض آباد )۴/ جون ۱۹۲۹ء( اخبار >محسن< ملتان )۶/ جون ۱۹۲۹ء( اور اخبار >سیاست< لاہور )۸/ جون ۱۹۲۹ء( نے اس پر زبردست تنقید کی چنانچہ موخر الذکر اخبار نے خصوصاً پشاور کے مخالفین کے متعلق لکھا۔
>سب سے زیادہ اندوہناک مداخلت پشاور میں رونما ہوئی۔ پشاور لاہور سے بہت دور ہے اور وہاں کے نوجوان اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ گدائے لم یزل۴۴ کی مخالفت و موافقت کبھی بھی فی سبیل اللہ نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اس کی شریرانہ تحریروں سے متاثر ہو کر جلسہ میں گدھے چھوڑ دیئے اور اس طرح پشاور کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا نہیں نہیں صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ہادی و رہنما )فداہ ابی( کی یاد کے جلسے کو برباد کرکے اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کر دیا اور مخالفین کو یہ کہنے کا موقعہ دیا کہ مسلمان سچے دل سے رسول اللہ~صل۱~ کی قدر نہیں کرتے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس شرارت کے ذمہ دار چند جاہل لونڈے ہوں گے ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم انہیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے<۴۵۔
گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی >الفضل< نے ۳۱/ مئی ۱۹۲۹ء کو شاندار خاتم النبیینﷺ~ نمبر شائع کیا۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے علاوہ جماعت احمدیہ کے مشہور اور جید علماء و فضلا )اور احمدی خواتین( نے مضمون لکھے۔ غیر احمدی مضمون نگاروں میں سے مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ لیجسلیٹو اسمبلی دہلی` سید حبیب صاحب ایڈیٹر روزنامہ >سیاست< لاہور` ملا رموزی صاحب` خواجہ حسن نظامی صاحب دہلی اور غیر مسلم مضمون نگاروں میں سے لالہ رام چند صاحب منچندہ بی۔ اے۔ ایل ایل بی وکیل لاہور` پنڈت ٹھاکر دت صاحب شرما` موجدامرت دھارا` لالہ جگن ناتھ صاحب بی اے۔ ایل ایل بی وکیل کبیر والہ )ضلع ملتان( پروفیسر ایچ۔ سی۔ کمار صاحب بی۔ اے اور پادری غلام مسیح صاحب لاہور خاص طور پر قابل ذکر تھے۔ اس نمبر کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ احمدی غیر احمدی اور غیر مسلم شعراء نے اپنے نعتیہ کلام اس کے لئے بھیجا تھا۔ مثلاً حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری` ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب` حضرت میر محمد اسمعیل صاحب` حضرت مولوی ذوالفقار علی صاحب` جناب حکیم سید علی صاحب آشفتہ لکھنوی` لسان الملک ریاض خیر آبادی` لسان الہند مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی` منشی لچھمن نرائن صاحب سنہا بی۔ اے` لسان القوم صفی لکھنوی` اعتبار الملک حکیم مولوی ضمیر حسن خان صاحب دل شاہ جہانپوری۔
الفضل کے اس خصوصی نمبر پر غیر مسلم اور مسلم دونوں حلقوں نے عمدہ آراء کا اظہار کیا۔
۱۔
چنانچہ لالہ رام چند صاحب منچندہ بی اے۔ ایل ایل بی۔ ایڈووکیٹ لاہور نے لکھا۔
>میں نے اہل قلم کے قیمتی مضامین کو جو تمام کے تمام حضرت رسول اللہ کی پاک ذات اور سوانح عمری کے متعلق ہے نہایت ہی مسرت اور دلچسپی سے پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔ اگر استقلال کے ساتھ اس کو جاری رکھا گیا تو آج سے تیس سال بعد کئی ہندو گھرانوں میں پیغمبر صاحب کی برسی منائی جائے گی۔ اور جو کام مسلم بادشاہ ہندوئوں سے نہیں کرا سکے وہ آپ کرا سکیں گے` ملک میں امن ہو گا` خوشحالی ہو گی` ترقی اور آزادی ہو گی اور ہندو مسلم باوجود اختلافات کے بھائیوں کی طرح رہیں گے<۴۶۔
۲۔
اخبار >کشمیری< لاہور )۱۴/ جون ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>الفضل کے خاتم النبیین نمبر کی کئی دنوں سے دھوم تھی آخر ۳۱/ مئی کو یہ نمبر دیدہ زیب جاذب توجہ شکل اور صوری و معنوی خوبیوں کے ساتھ شائع ہو گیا<۔ الخ4] ft[s۴۷۔
۳۔
اخبار >سیاست< )۱۶/ جون ۱۹۲۹ء( لاہور نے لکھا۔
>یہ نمبر ہماری نظر سے گزارا ہے اس میں ملک کے بہترین انشاء پردازوں کے قلم سے اسوہ حسنہ رسول پاک کے متعلق مضامین موجود ہیں۔ ہر مضمون اس قابل ہے کہ موتیوں سے تولا جائے<۴۸۔
۴۔
اخبار >منادی< )دہلی( )۲۱/ جون ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>اس سال بھی اخبار الفضل کا خاتم النبیین نمبر نہایت قابلیت اور عرقریزی سے مرتب کیا گیا ۔۔۔۔۔۔ جس کا مطالعہ سے گو ناگوں معلومات کے حصول کے علاوہ ایمان بھی تازہ ہوتا ہے ہمارے نزدیک اس اخبار کا یہ نمبر اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس کا مطالعہ کرے<۴۹۔
ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری قادیان میں
جون ۱۹۲۹ء کے شروع میں ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری قادیان تشریف لائے۔ ان کی آمد پر تعلیم الاسلام ہائی سکول کی گرائونڈ میں ایک مجلس مشاعرہ منعقد ہوئی جس میں دوسرے اصحاب کے علاوہ ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری نے جو ابھی نوجوان ہی تھے اور >شاہنامہ اسلام< کی اشاعت کے لئے کوشاں تھے۔ >شاہنامہ اسلام< کے بعض حصے اپنی مخصوص طرز میں پڑھ کر سنائے اس مجلس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی شمولیت فرمائی۵۰۔
حفیظ صاحب نے >شاہنامہ اسلام< کی اشاعت سے پہلے اس کے بعض حصے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بھی دکھائے تھے اور حضور کے ارشاد پر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے اس کی سو کاپیاں پیشگی قیمت پر خریدی تھیں۵۱۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا سفر کشمیر
۱۹۲۹ء کا نہایت اہم اور قابل ذکر واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کا سفر کشمیر ہے جو ۵/ جون ۱۹۲۹ء۵۲ سے شروع ہو کر ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء۵۳ کو ختم ہوا۔ حضور کے اہل بیت و صاحبزادگان کے علاوہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلالپوری` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور مولوی قمر الدین صاحب بھی رفیق سفر تھے۔ آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی سری نگر تشریف لے گئے10] [p۵۴۔ سری نگر میں حضور نے ہائوس بوٹ میں قیام فرمایا۔
اس سفر کی )جو کشمیر کا اس وقت تک آخری سفر ہے( نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ حضور نے دوران قیام میں ریاست کشمیر و جموں کی جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کو اپنی تقریروں اور خطبوں میں ایمان کے ساتھ عمل صالح اختیار کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور مختلف طریقوں اور پیرایوں سے ان کو اخلاقی` ذہنی اور روحانی تغیر پیدا کرنے کی انقلاب انگیز دعوت دی اور خصوصاً کشمیری احمدیوں کو ان کی تنظیمی اور تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا۔
اس سلسلہ میں حضور کے خطبات و تقاریر کے بعض اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ >یہاں کی جماعت تنظیم کی طرف توجہ نہیں کرتی۔ اگر وہ منظم جماعت کی صورت میں ہو اور تبلیغی کوششوں میں لگ جائے تو ریاست میں اچھا اثر پڑے۔ اس علاقہ میں جماعتیں تو موجود ہیں اور اچھی جماعتیں ہیں مگر چونکہ ان کی کوئی تنظیم نہیں اس لئے علاقہ پر اثر نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔ اگر ایسا ہو جائے تو مسلمان ترقی کر سکتے ہیں<۔ )فرمودہ ۲۷/ جون ۱۹۲۹ء( )بمقام سرینگر۵۵(۲۔ >صحیح طریق یہ ہے کہ انسان ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جس قدر کسی کی طاقت ہو۔ اس قدر کرے اس سے وہ اپنی حالت میں ایک پورا درخت ہو جائے گا جو کم و بیش دوسروں کے لئے فائدہ کا موجب ہو گا اس کے اندر حسن سلوک کی عادت احسان کرنے کا مادہ ہو` لوگوں کی مدد کرنے اور بھلائی کرنے کی عادت ہو الغرض تمام قسم کی نیکیاں کم و بیش اس کے اندر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ تب ہی اس کے اندر سرسبز درخت والی خوبصورتی پیدا ہو گی<۵۶۔ )فرمودہ ۲۱/ جون ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر(
۳۔ >جو باتیں مسلمانوں نے چھوڑ دی ہیں جب تک وہ دوبارہ ان میں پائی نہ جائیں کبھی اور کسی حال میں ترقی نہیں کر سکتے۔ محنت کی عادت ڈالیں` دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں` خدمت خلق کو اپنا فرض سمجھیں تب وہ ترقی کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام چونکہ اچھی چیز تھی اس وقت تک اس ملک میں اسلام کی خوبیوں کا نقش موجود ہے۔ گو مسلمان اپنی غفلت کی وجہ سے مٹا دیئے گئے یہاں کشمیر میں بھی یہی مرض پایا جاتا ہے اس لئے میں نے اپنے خطبے اس طرز کے بیان کرنے شروع کئے ہیں کہ مسلمانوں میں عمل نہ کرنے کی وجہ سے جو پستی ہے اس میں تبدیلی پیدا ہو۔ کیونکہ مسلمان اپنی مدد آپ نہ کریں گے محنت نہ کریں گے دیانتداری سے کام نہ کریں گے اپنے آپ کو مفید نہ بنائیں گے تب تک ترقی نہ ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کو چاہئے خدا تعالیٰ کی امداد کے طالب ہوں۔ دوسروں پر توکل نہ کریں بلکہ خود عمل کریں اور خدا تعالیٰ کے ماننے والوں میں سے ہوں<۵۷۔ )فرمودہ ۵/ جولائی ۱۹۳۰ء بمقام سرینگر(
۴۔ >بعض قربانیاں ایسی کرنی پڑتی ہیں جن کا نفع فوری طور پر نظر نہیں آتا مگر اس کے پس پردہ بہت عظیم الشان فوائد ہوتے ہیں انبیاء کے حقیقی متبعین بھی قربانیاں کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ بلحاظ ایمان کے پتھر کی چٹان کی طرح ثابت ہوں ۔۔۔۔۔۔ ماموروں کا کام نئی زندگی پیدا کرنا ہوتا ہے انبیاء کی جماعتوں کے ہر فرد کو سمجھنا چاہئے کہ میرے ہی ذریعہ دنیا کی نجات ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس قسم کے چالیس مومنوں کی خواہش رکھتے تھے کہ اگر ہماری جماعت میں پیدا ہو جائیں تو پھر تمام دنیا کا فتح کرنا آسان ہو جاتا ہے<۵۸۔ )فرمودہ ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر(
۵۔ >ان اصول کے ذریعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیش فرمائے ہیں قرآن اور حدیث کے مطالب حل کرنا ایک کھلی بات ہوگئی ہے اور ہمارے دوستوں کے لئے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث پر تدبر کریں اور خصوصاً نوجوانوں کو بہت زیادہ توجہ کرنی چاہئے کیونکہ ہر ایک قوم نواجونوں کی کوشش سے ترقی کرتی ہے<۔ )فرمودہ ۲/ اگست ۱۹۲۹ء بمقام آڑو کشمیر۵۹(
۶۔ اھدنا الصراط المستقیم میں یہ سکھایا گیا ہے کہ اے خدا ہمیں کام کے مسلمان بنا ہم نام کے مسلمان نہ ہوں کیونکہ نام کی کچھ حقیقت نہیں اصل چیز کام ہے<۶۰۔ )فرمودہ ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر(
۷۔ >پاک لوگوں کا دل خدا تعالیٰ کی محبت اور الفت میں اس قدر گداز ہوتا ہے کہ گویا اس کے مقابلہ میں جس نے کچھ کیا ہی نہیں ہوتا۔ یہی وہ درجہ ہے جس کے لئے ہر ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے اسی کے لئے رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے۔ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو گیا اور اگر وہ خراب ہوگیا تو سارا جسم خراب ہوگیا۔ الا وھی القلب۔ سنو وہ دل ہے پس اصل چیز انسان کے دل کی پاکیزگی ہے<۶۱۔ )فرمودہ ۹/ اگست ۱۹۲۹ء بمقام پہلگام(
ان سات مختصر اقتباسات سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کشمیر اور دوسرے مسلمانوں کو بیدار کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ ریاست کے مسلمانوں میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہو جائے۔
سفر کشمیر کے دوسرے قابل ذکر واقعات
اس خصوصی مہم کے علاوہ سفر کشمیر کے کئی اور قابل ذکر واقعات بھی ہیں جن کا بیان کرنا ضروری ہے۔ مثلاً
عیادت خواجہ کمال الدین صاحب: حضور ۱۹۲۹ء کو بذریعہ موٹر ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ساتھ لے کر خواجہ کمال الدین صاحب کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے جو نشاط باغ کے آگے سرینگر سے ۵۰۰ فٹ کی بلندی پر خیمہ میں رہائش پذیر تھے۔ حضور ایک گھنٹہ تک خواجہ صاحب کے پاس تشریف فرما رہے۶۲۔
حضور اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔ >اسلامی سنت کو پورا کرنے کے لئے اور اس وجہ سے کہ میں چھوٹا تھا اور مدرسہ میں پڑھتا تھا خواجہ صاحب نے تین چار دن مجھے حساب پڑھایا تھا اور اس طرح وہ میرے استاد ہیں میں ان کی عیادت کے لئے گیا تھا۔ موقع کے لحاظ سے ان کی بیماری کے متعلق باتیں ہوتی رہیں<۶۳۔
یاڑی پورہ کے جلسہ میں شرکت: ۱۵/ اگست ۱۹۲۹ء کو جماعت احمدیہ یاڑی پورہ کا جلسہ منعقد ہوا جس میں حضور معہ مولانا محمد اسمعیل صاحب ہلالپوری` مولوی قمر الدین صاحب۶۴` مولوی عبدالرحیم صاحب درد بذریعہ موٹر تشریف لے گئے۔ احباب جماعت نے حضور کا شاندار استقبال کیا جلسہ گاہ میں جو مسجد احمدیہ کے صحن میں بنائی گئی تھی۔ خوب آراستہ کی گئی تھی۔ نماز ظہر و عصر پڑھانے کے بعد حضور نے ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے کئے جاتے ہیں اور بڑے چھوٹے۔ تقریر میں صحابہ کرام کی مثالیں پیش کرکے احمدی احباب کو خدمت اسلام تبلیغ احمدیت اور بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی۶۵۔ اور آخر میں ارشاد فرمایا۔
>میں جماعت کے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں خواہ کوئی تاجر ہو یا واعظ` زمیندار ہو یا گورنمنٹ کا ملازم خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک کو سب سے اول اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے اور لوگوں کے سامنے اپنا ایسا نمونہ پیش کرنا چاہئے کہ جو کوئی دیکھے پکار اٹھے خدا رسیدہ لوگ ایسے ہوتے ہیں اگر ایسی حالت ہو جائے تو پھر دیکھ لو احمدیت کی ترقی کے لئے کس طرح رستہ کھل جاتا ہے<۶۶۔
یاڑی پورہ میں قریباً چونسٹھ افراد نے بیعت کی۔
جموں میں تقریر: سرینگر سے واپسی پر حضور نے ایک روز جموں میں قیام فرمایا۔ جہاں ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو آپ نے ایک اہم تبلیغی تقریر فرمائی جس میں طالبان حق کو بڑے پرجوش الفاظ میں توجہ دلائی کہ وہ سچے مذہب اور سچی جماعت کی تلاش میں خدا تعالیٰ سے بذریعہ دعا رہنمائی طلب کریں۶۷۔
tav.5.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل سوم(
حضرت حافظ روشن علی صاحب >عبدالکریم ثانی< کی وفات
علامہ حضرت حافظ روشن علیؓ کی وفات
۱۹۲۹ء کا روح فرسا واقعہ حضرت حافظ روشن علیؓ جیسے مثالی عالم ربانی کی وفات ہے جو ۲۳/ جون ۱۹۲۹ء کی شام کو واقع ہوئی۶۸۔ حضرت میر محمد اسحاقؓ کے الفاظ میں >حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور حضرت نور الدینؓ اعظم کو چھوڑ کر سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحومؓ کی وفات کے بعد کوئی حادثہ حافظ صاحب مرحوم کے حادثہ جیسا نہیں ہوا۶۹۔
جماعت احمدیہ نے یہ عظیم صدمہ کتنی شدت سے محسوس کیا اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ حضرت حافظ صاحب کی یاد میں کئی ماہ تک مضامین شائع ہوتے رہے۷۰۔ سلسلہ کے بزرگوں اور شاعروں۷۱ نے عربی اردو اور فارسی میں دردناک مرثیے کہے اور آپ کے شاگردوں اور مرکزی اداروں اور بیرونی جماعتوں کی طرف سے تعزیتی قراردادیں پاس کی گئیں۔ حتیٰ کی سلسلہ کے مشہور مخالف جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار >اہلحدیث< میں لکھا۔
>حافظ روشن علی قادیانی جماعت میں ایک قابل آدمی تھے۔ قطع نظر اختلاف رائے کے ہم کہتے ہیں کہ موصوف خوش قرات خوش گو تھے۔ مناظرے میں متین اور غیر دلازار تھے۔ مرزا صاحب کے راسخ مرید تھے۔ ہمیں ان کی وفات میں ان کے متعلقین سے ہمدردی ہے<۷۲۔
اخبار >پیغام صلح< لاہور نے لکھا۔
>حافظ روشن علی صاحب ایک متشدد محمودی تھے۔ محمودیت کی حمایت میں انہوں نے ہمیشہ غالیانہ سپرٹ کا اظہار کیا۔ تاہم ان میں بعض خوبیاں بھی تھیں جن کی وجہ سے ان کی موت باعث افسوس ہے حافظ صاحب حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ مرحوم کے شاگردوں میں سے تھے نہایت ذہین` خوش بیان` خوش الحان اور عالم آدمی تھے۔ نہ صرف علوم اسلامیہ پر کافی عبور تھا بلکہ غیر مذاہب سے بھی خاصی واقفیت رکھتے تھے اور آریہ سماج کے ساتھ کئی مناظرے انہوں نے کئے<۷۳۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت حافظ صاحب کی وفات کے وقت چونکہ سرینگر میں مقیم تھے۔ اس لئے امیر مقامی حضرت مولوی شیر علی صاحب نے حضور کو بذریعہ تار اطلاع دی۔ جس پر حضور نے تعزیت کا مندرجہ ذیل تار ارسال فرمایا۔
>۲۴/ جون محمود آباد۔ سرینگر
مولوی شیر علی صاحب کا تار حافظ روشن علی صاحب کی وفات کے متعلق ملا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں تاکہ اس قابل قدر دوست اور زبردست حامی اسلام کی نماز جنازہ خود پڑھا سکوں۔ حافظ صاحب مولوی عبدالکریم صاحب ثانی تھے۷۴۔ اور اس بات کے مستحق تھے کہ ہر ایک احمدی انہیں نہایت عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے۔ انہوں نے اسلام کی بڑی بھاری خدمت سرانجام دی ہے اور جب تک یہ مقدس سلسلہ دنیا میں قائم ہے انشاء اللہ ان کا کام کبھی نہیں بھولے گا۔ ان کی وفات ہمارے سلسلہ اور اسلام کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے لیکن ہمیشہ ایسے ہی صدمے ہوتے ہیں جنہیں اگر صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب بن جاتے ہیں ہم سب فانی ہیں لیکن جس کام کے لئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو موت و حیات کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ غیر معلوم اسباب کے ذریعہ اپنے کام کی تائید کرے گا۔ چونکہ ہماری جماعت ہمارے پیارے اور معزز بھائی کی خدمات کی بہت ممنون ہے اس لئے میں درخواست کرتا ہوں کہ تمام دنیا بھر کی احمدیہ جماعتیں آپ کا جنازہ پڑھیں۔ یہ آخری خدمت ہے جو ہم اپنے مرحوم بھائی کی ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بدلہ ان بیش قیمت خدمات کے مقابلہ میں جو انہوں نے اسلام کے لئے کیں کیا حقیقت رکھتا ہے۔
میں احباب کے ساتھ سرینگر میں نماز جنازہ پڑھوں گا۔ اگر لاش کے متغیر ہو جانے کا خوف نہ ہوتا تو التوائے تدفین کی ہدایت دے کر میں اس آخری فرض کو ادا کرنے کے لئے خود قادیان آتا اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر جو ہم سے رخصت ہو گئے ہیں اور ان پر بھی جو زندہ ہیں اپنی رحمتیں نازل فرمائے<۷۵۔
چنانچہ یہ تار پہنچنے کے بعد قادیان میں ۲۴/ جون کو ۱۱ بجے کے قریب حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی سے جہاں ایام علالت میں آپ مقیم ¶تھے آپ کا جنازہ اٹھایا گیا۔ جنازہ کے ہمراہ ایک انبوہ کثیر تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے باغ میں حضرت مولوی شیر علی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور یہ مقدس اور خدانما وجود مقبرہ بہشتی میں دفن کر دیا گیا۷۶۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سرینگر میں نماز جنازہ پڑھائی اور دوسرے مقامات کی احمدی جماعتوں نے حضور کے حکم کے مطابق اپنی اپنی جگہ غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔
حضرت امیر المومنین نے ۲۸/ دسمبر ۱۹۲۹ء سالانہ جلسہ کے موقعہ پر حافظ صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا۔
>میں سمجھتا ہوں میں ایک نہایت وفادار دوست کی نیک یاد کے ساتھ بے انصافی کروں گا اگر اس موقعہ پر حافظ روشن علی صاحب کی وفات پر اظہار رنج و افسوس نہ کروں۔ حافظ صاحب مرحوم نہایت ہی مخلص اور بے نفس انسان تھے۔ میں نے ان کے اندر وہ روح دیکھی۔ جسے اپنی جماعت میں پیدا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو خواہش تھی۔ ان میں تبلیغ کے متعلق ایسا جوش تھا کہ وہ کچھ کہلوانے کے محتاج نہ تھے۔ بہت لوگ مخلص ہوتے ہیں کام بھی اچھا کرتے ہیں مگر اس امر کے محتاج ہوتے ہیں کہ دوسرے انہیں کہیں کہ یہ کام کرو تو وہ کریں۔ حافظ صاحب مرحوم کو میں نے دیکھا وہ سمجھتے تھے گو خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا ہے۔ مگر ہر مومن کا فرض ہے کہ ہر کام کی نگہداشت کرے اور اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ایسا ہی ذمہ دار سمجھتے تھے جیسا اگر کوئی مسلمان بالکل اکیلا رہ جائے اور )وہ اپنے آپ کو ذمہ دار( سمجھے یہ ان میں ایک نہایت ہی قابل قدر خوبی تھی اور اس کا انکار ناشکری ہو گا یہ خوبی پیدا کئے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی کہ ہر شخص محسوس کرے کہ سب کام مجھے کرنا ہے۔ اور تمام کاموں کا میں ذمہ دار ہوں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے ہی لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہا گر مجھے چالیس مومن میسر آجائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کر لوں۔ یعنی ان میں سے ہر ایک محسوس کرے کہ مجھ پر ہی جماعت کی ساری ذمہ داری ہے اور میرا فرض ہے کہ ساری دنیا کو فتح کروں<۷۷۔
حضرت حافظ صاحب کے جانشین
حضرت حافظ روشن علی صاحب کی وفات سے جماعت کے تبلیغی کاموں میں جو خلا پیدا ہو گیا اس کا پر ہونا بہت مشکل نظر آتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعض نامور شاگردوں کو جنہیں آپ نے مرض الموت میں وصیت فرمائی تھی کہ >میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں<۷۸ اس خلا کے پر کرنے کے لئے آگے بڑھا دیا اور انہوں نے تبلیغ و اشاعت دین کے میدان میں ایسی ایسی خدمات سر انجام دیں کہ وہ حضرت حافظ روشن علی ثانی بن گئے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
>کچھ عرصہ کے بعد جب ادھر میر محمد اسحاق صاحب کو انتظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہو گئی اور ادھر حافظ روشن علی صاحب وفات پا گئے تو ۔۔۔۔۔۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں<۷۹۔
حضرت حافظ روشن علیؓ کی وفات کے بعد افتاء کی اکثر و بیشتر ذمہ داری۸۰ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب کے کندھوں پر آپڑی جسے آپ عمر بھر کمال خوبی و خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۸۱۔ حضرت مولانا کا طریق تھا کہ آپ جامعہ احمدیہ کے طلبہ کو بھی استفتاء کا جواب دینے کے لئے ارشاد فرماتے اور ساتھ ہی کتابوں کی بھی رہنمائی فرماتے اور پھر اس پر نظر ثانی کرکے بھجواتے اس طرح آپ کی رہنمائی اور نگرانی میں آپ کے شاگردوں کو بھی فقہی مسائل میں دسترس حاصل ہو جاتی۸۲۔
>جواب مباہلہ<
اخبار >مباہلہ<۸۳ دسمبر ۱۹۲۸ء سے نہایت ناپاک اور شرمناک پراپیگنڈا کر رہا تھا۔ جس کے تحقیقی اور مدلل جواب کے لئے مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری سیکرٹری انجمن انصار خلافت لاہور نے >جواب مباہلہ< کے نام سے ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ جاری کیا۔ اس سلسلہ میں پہلا ٹریکٹ ۳۰/ جون ۱۹۲۹ء کو لاہور سے شائع ہوا۔
مولوی ابوالعطاء صاحب نے اس سلسلہ کے شروع کرنے سے پہلے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے اجازت بھی چاہی اور ضروری ہدایات کی بھی درخواست کی۔ حضور نے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل نہایت پرزور اور بصیرت افروز جواب تحریر فرمایا جو پہلے ٹریکٹ میں بھی شائع کر دیا گیا۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ط
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مکرمی۔ السلام علیکم۔ بے شک اس کام کو شروع کریں اللہ تعالیٰ نے آپ کا مددگار اور ناصر ہو۔ میں تو خود ان امور کا جواب دینا شرعاً اور بعض رئویا کی بنا پر مناسب نہیں سمجھتا لیکن ایک ادنیٰ تدبر سے انسان ان لوگوں کے مفتریانہ بیانات کی حقیقت کو پا سکتا ہے۔ میرا جواب تو میرا رب ہے میں اسی کو اپنا گواہ بناتا ہوں وہ سب کھلی اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور اسی کا فیصلہ درست اور راست ہے وہ اس امر پر گواہ ہے کہ اخبار مباہلہ والوں نے سر تا پا جھوٹ بلکہ افترا سے کام لیا ہے اور انشاء اللہ وہ گواہ رہے گا۔ میں اسی کے فضل کا امیدوار اور اسی کی نصرت کا طالب ہوں رب انی مغلوب فانتصر میں ان لوگوں کے بیانات پر جو اخبارات میں شائع ہوئے ہیں سوائے اس کے یہ کہوں کہ انہیں خدا تعالیٰ کی *** سے ڈرنا چاہئے کہ سر تا پا کذب و بہتان سے کام لے رہے ہیں اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا اگر میرا رب مجھ سے کام لینا چاہتا ہے تو وہ خود میرا محافظ ہو گا اور اگر وہی مجھ سے کام نہیں لینا چاہتا تو لوگوں کی تعریفیں میرا کچھ نہیں بنا سکتیں۔ باقی رہیں ہدایات۔ سو میرے نزدیک ہر ایک عقلمند انسان جو شریعت کے امور سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہو ان لوگوں کے غلط طریق سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ ہاں ایک سوال ہے جس کا شائد آپ جواب نہ دے سکیں اور وہ یہ ہے کہ بعض نادان اور شکوک و شبہات میں پڑے ہوئے لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ مباہلہ نہ کرنا اس سبب سے نہیں کہ مباہلہ کو میں جائز نہیں سمجھتا بلکہ اس سبب سے ہے کہ میں مباہلہ کرنا نہیں چاہتا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو مباہلہ بھی ہر شخص سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے بھی شرائط ہیں مگر اس قسم کے امور کے لئے کہ جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خاص طریق مذکور ہیں مباہلہ چھوڑ کر قسم بھی جائز نہیں اور ہرگز درست نہیں کہ کسی شخص )الزام دہندہ( کو ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کی اجازت دی جائے یا مطالبہ پر مباہلہ کو منظور کر لیا جائے مجھے یہ کامل یقین ہے اور ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ ایسے امور کے متعلق مباہلہ کا مطالبہ کرنا یا ایسے مطالبہ کو منظور کرنا ہرگز درست نہیں بلکہ شریعت کی ہتک ہے اور میں ہر مذہبی جماعت کے لیڈروں یا مقتدر اصحاب سے جو اس امر کا انکار کریں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اگر مولوی محمد علی صاحب یا ان کے ساتھ جو مباہلہ کی اشاعت میں یا اس قسم کے اشتہارات کی اشاعت میں خاص حصہ لے رہے ہیں۔ مجھ سے متفق نہیں بلکہ ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کا یہ یقین ہے کہ جو شخص ایسے مطالبہ کو منظور نہیں کرتا وہ گویا اپنے جرم کا ثبوت دیتا ہے تو ان کو چاہئے کہ اس امر پر مجھ سے مباہلہ کر لیں۔ پھر اللہ تعالیٰ حق و باطل میں خود فرق کر دے گا۔
خاکسار مرزا محمود احمد4] [stf۸۴ ۲۹/۶ ۱۵
اس باطل شکن چیلنج کو قبول کرنے اور میدان مباہلہ میں آنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی۔
مذبح قادیان کے انہدام کا واقعہ
قادیان کے احمدی اور دوسرے مسلمان اپنی ضروریات کے لئے عید اور دوسرے موقعوں پر گائے ذبح کیا کرتے تھے لیکن جب حکومت نے یہاں سمال ٹائون کمیٹی قائم کی تو اس عمل کو ایک باضابطہ شکل میں لانے کے لئے کمیٹی کی معرفت مذبح کی درخواست دی گئی۔ جو ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور نے منظور کر لی اور کمیٹی نے بھینی متصل قادیان میں منظور شدہ جگہ پر مذبح تعمیر کیا اور جولائی میں اس کے کھلنے کی اجازت ملی اور جونہی اس میں باقاعدہ کام شروع ہوا۔ قادیان کے فتنہ پرداز ہندوئوں اور سکھوں نے اردگرد کے سادہ مزاج اور دیہاتی سکھوں کو بھڑکانا شروع کیا اور ۷/ اگست ۱۹۲۹ء کو کئی سو سکھوں کے شوریدہ سر ہجوم کے ذریعہ پولیس کی موجودگی میں پندرہ منت کے اندر اندر مذبح مسمار کرا دیا۸۵۔ اور پھر سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف آلہ کار بنانے کے بعد ڈپٹی کمشنر کے فیصلہ کے بعد۸۶ کمشنر صاحب کے پاس اپیل دائر کر دی اور اس فتنہ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے مرعوب ہو کر مذبح کا لائسنس منسوخ کر دیا۔
اس واقعہ نے سارے ہندوستان کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی زبردست لہر دوڑا دی۔ اور مسلم پریس نے ایسا متحدہ احتجاج کیا جس کی نظیر نہیں ملتی چنانچہ >انقلاب< )لاہور( >مدینہ< )بجنور( >پیغام صلح< )لاہور( >منادی< )دہلی( >الجمعیتہ< )دہلی( >دور جدید< )لاہور( >تازیانہ< )لاہور( >مسلم آئوٹ لک< )لاہور( >وکیل< )امرتسر( >مونس< )اٹاوہ( >اہلحدیث< )امرتسر( >زمیندار< )لاہور( >الامان< )دہلی( >شہاب< )راولپنڈی( >حقیقت< )لکھنئو( >ہمت< )لکھنئو( نے مذبح کی تائید و حمایت میں پرزور اداریے لکھے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ )امرتسر و گورداسپور( >مجلس خلافت پنجاب< نے ریزولیوشن پاس کئے۔
جس زمانہ میں مذبح سے متعلق یہ فتنہ برپا کیا گیا ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سری نگر میں تشریف فرما تھے اور حضور معاملہ کے آغاز ہی سے اس میں غیر معمولی دلچسپی لیتے اور ہدایات دیتے رہے تھے اور سری نگر سے واپسی کے بعد تو آپ نے ایک طرف تو ملی و قومی حق کے حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ میں زبردست جوش و خروش پیدا کر دیا اور دوسری طرف ۹/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو مسئلہ ذبیحہ گائے سے متعلق ہندو` سکھ اور مسلم لیڈروں کے نام مفصل مکتوب لکھا۔ جو الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء میں شائع ہوا۔ جس کے جواب میں سردار جوگندر سنگھ صاحب` سردار تارا سنگھ صاحب` بھائی پرمانند صاحب دیانند کالج جالندھر اور بعض مسلمان لیڈروں کے خطوط موصول ہوئے۔ چونکہ کمشنر صاحب لاہور کی عدالت میں مذبح قادیان سے متعلق اپیل کی سماعت ہونے والی تھی اس لئے سب سے بڑی ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلمانوں کا کیس صحیح صورت میں رکھا جائے۔ یہ اہم کام چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے سپرد ہوا۔ جنہوں نے ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو چوٹی کے ہندو وکلاء کے دلائل کی زبردست تردید کرتے ہوئے مذبح کی ضرورت واضح کی۔ ہندو وکلاء آپ کی بحث کے سامنے کوئی ایسی معقول دلیل نہ پیش کر سکے جسے مسلمانوں کو اپنے مذہبی اور اقتصادی حق سے محروم کر دینے کے لئے وجہ جواز قرار دیا جا سکے۸۷`۸۸۔
آخر ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو کمشنر صاحب نے )باوجود یہ کہ ان کا رویہ قبل ازیں غیر مصنفانہ اور دلازار نظر آتا تھا( ہندوئوں کی اپیل خارج کر دی اور فیصلہ کیا کہ حکم امتناعی اس وقت تک قائم رہے گا جب تک ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور ذبیحہ گائے کے لائسنس کی تجدید کریں۸۹۔
پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ
پنجاب کے سائمن کمیشن کمیٹی میں مسلمانوں کو اپنی غفلت اور بے حسی کی وجہ سے اپنے تناسب کے لحاظ سے بہت کم نمائندگی ملی۔ مزید براں الجھن یہ پیدا ہو گئی کہ کمیٹی کے مسلمان ممبروں نے تعاون کے پیش نظر یہ تجویز قبول کر لی کہ پنجاب کونسل میں کل ایک سو پینسٹھ ممبر ہوں جن میں سے ۸۳ ممبر مسلمان ہوں` باقی ہندو سکھ اور مسیحی وغیرہ چونکہ اس تجویز کے نتیجہ میں مسلمانوں کے پچپن فیصدی کی اکثریت اکاون فیصدی میں بدل جاتی تھی اور مسلمانان پنجاب کے سیاسی مفاد کو نقصان پہنچتا تھا اس لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی رائے کے خلاف الفضل )۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء( میں آواز اٹھائی اور ان ممبروں کی چار اصولی غلط فہمیوں کی نشاندہی فرمائی۔ جن کا ردعمل موجودہ تجویز کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ اور پھران کے ازالہ کی تین صورتیں تحریر فرمائیں۹۰۔
حضور کا یہ مضمون اخبار >سیاست< اور >دور جدید< میں شائع ہوا تو ضلع میانوالی کے ایک غیر احمدی محمد حیات خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس پنشنر نے ۸/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو حضور کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا۔
>بخدمت مکرم و معظم بندہ جناب والا شان حضرت خلیفہ صاحب قادیان بعد السلام علیکم و آداب و تسلیمات گزارش ہے کہ جناب کا مضمون ۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھ کر جس اعلیٰ قابلیت و باریکی سے آپ نے نقائص اور ان کے علاج بتائے ہیں ان کی داد دینی پڑتی ہے۔ اگر چند اخبارات نے بھی ہوشیاری سے نقائص و علاج لکھے ہیں مگر حضور کی باریکی کو نہیں پہنچ سکے ۔۔۔۔۔۔۔ دیگر جس مسلمان نے بھی ۔۔۔۔۔۔۔ اس مضمون کو پڑھا ہے میری تائید کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کی جزائے خیر دے الخ<
مسلمانان فلسطین پر یہودی یورش کے خلاف احتجاج
برطانوی حکومت نے جن عرب ملکوں کو پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکوں کے اقتدار سے آزاد کرانے کا تحریر معاہدہ کیا تھا ان میں فلسطین بھی شامل تھا لیکن اس کے ساتھ ہی برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کی ایجنسی سے یہ خفیہ وعدہ کر لیا تھا کہ جنگ کے بعد یہودیوں کے لئے فلسطین ایک قومی گھر بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ عربوں سے کئے ہوئے وعدے سے تو پس پشت ڈال دیئے گئے اور یہودیوں کی آباد کرنے کی مہم بڑے زور شور سے شروع کر دی۔ اور یہودیوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے مسلمانان فلسطین کو نشانہ ظلم و ستم بنانا شروع کر دیا۔
ان مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب کی صدارت میں ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو ایک غیر معمولی جلسہ ہوا۔ جس میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کی قرارداد پیش کرکے ایک مفصل تقریر فرمائی اور اپنے چشم دید حالات و واقعات کا ذکر کرکے بتایا کہ یہود کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کے لئے بہت خطرناک چال چلی جا رہی ہے۔ ان کے علاوہ شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار >نور< شیخ محمود احمد صاحب عرفانی` سید محمود اللہ شاہ صاحب اور چودھری ظہور احمد صاحب نے حفاظت حقوق مسلمانان فلسطین کی طرف حکومت کو توجہ دلانے اور یہود کو مظالم سے باز رکھے جانے کے لئے ریزولیوشن پیش کئے جو اتفاق رائے سے پاس ہوئے۹۱۔
شاردابل اور حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ
اجمیر کے مسٹر ہربلاس شاردا نے اسمبلی میں تجویز پیش کی کہ ہندوئوں میں کم سن بچوں کی شادی کی عادت پائی جاتی ہے جس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما` اخلاق و عادات اور صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے لہذا ایک قانون نافذ کیا جائے جس سے اس رسم کا انسداد ہو سکے۔ یہ تجویز شاردابل کے نام سے موسوم ہوئی اور اسے وائسرائے ہند کی منظوری سے پورے ہندوستان پر نافذ کر دیا گیا۹۲۔
امیر المومنین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس قانون سے متعلق حکومت ہند کو ایک مفصل بیان ارسال فرمایا جس میں بتایا کہ بچپن کی شادی پر قانوناً پابندی عائد کرنا درست نہیں تعلیم اور وعظ کے ذریعہ اس کی روک تھام کرنی چاہئے۔ قانون بنا دینے سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ صحیح طریق یہ ہے کہ بچوں کو بالغ ہونے پر فسخ نکاح کا حق دیا جائے اس حق سے تمام نقائص دور ہو سکتے ہیں بلاشبہ فسخ نکاح کے معاملہ میں دوسرے مذاہب کا اسلامی تعلیم سے اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ عقل و فہم سے بالا امر ہے کہ مسلمانوں کو کیوں ایسے تمدنی حالات میں دوسرے مذاہب کے تابع کیا جائے جن میں ہماری شریعت نے ہمارے لئے معقول صورت پیدا کر دی ہے لیکن ان کے ہاں کوئی علاج نہیں۔ شرعاً ایسے قانون کی ہماری نزدیک ممانعت نہیں بشرطیکہ اس کا فیصلہ مسلمانوں کی رائے پر ہو۹۳۔
انہی دنوں حضور سے سوال کیا گیا کہ یہ مداخلت فی الدین ہے؟ حضور نے فرمایا۔ نہیں۔ ہمارے نزدیک مداخلت فی الدین وہ ہے جس پر جہاد کرنا فرض ہو جائے اسے ہم تمدنیات میں مداخلت سمجھتے ہیں اور اسی بناء پر اس کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ کسی قوم کو دوسروں کے تمدن میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ تمدنی طور پر جن باتوں کی اسلام نے اجازت دی ہے ان سے روکنے کا حق کسی کو نہیں۔ ہاں اگر مسلمان آپس میں فیصلہ کرکے ایسا کر لیتے تو اس کے معنیٰ یہ ہوتے کہ یہ عارضی انتظام ہے جو ایک جائز بات میں عیب پیدا ہونے کی وجہ سے اسے روکنے کے لئے کیا گیا ہے لیکن دوسروں کا اس سے روکنا مستقل طور پر ہے اور رسول کریم~صل۱~ پر حملہ ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا<۹۴۔
سفر لاہور
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ درد شکم کے علاج کی غرض سے ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو لاہور تشریف لے گئے۹۵۔ اور کرنل باٹ صاحب سے طبی مشورہ لینے کے علاوہ نماز جمعہ پڑھانے اور احمدیہ انٹر کالجئیٹ ایسوسی ایشن کی ایک دعوت میں تقریر فرمانے کے بعد ۴/ نومبر کی شام کو قادیان واپس تشریف لے آئے۹۶۔
اس سفر کی نسبت حضور کا تاثر یہ تھا کہ۔
>مسلمانوں کا ارادہ سیاسیات کے متعلق کچھ کرنے کا معلوم نہیں ہوتا۔ اب کے لاہور جا کر میں نے پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ کہیں زندگی دکھائی نہیں دیتی۔ مردنی چھائی ہوئی ہے ہاں اتنا ہے کہ انہیں اپنی اس حالت کا احساس ضرور ہے۔ ایک معزز مسلمان نے کہا۔ اب تو کوئی انسان پیدا ہی ہو گا تو مسلمان بچ سکیں گے۔ میں نے کہا۔ پیدا تو ہوا تھا مگر مسلمانوں نے پہچانا نہیں<۹۷۔
tav.5.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل چہارم(
سلطنت برطانیہ کے آثار زوال
اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ۱۸۹۱ء۹۸ میں جبکہ برطانوی سلطنت کا آفتاب بڑی آب و تاب سے چمک رہا تھا الہام ہوا ~}~
poet] gat[سلطنت برطانیہ تا ہشت سال
بعد ازاں ضعف و فساد و اختلال
چنانچہ ۲۲/ جنوری ۱۹۰۱ء کو ملک وکٹوریہ انتقال کر گئیں ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم ہوئی جس نے اتحادیوں کی طاقت پر بڑی ضرب لگائی۔ ۱۹۱۸ء میں انگریز ہندوستان کو سیاسی حقوق دینے کے اعلان پر مجبور ہو گئے۔ ۱۹۲۸ء میں ہندوستان کو مزید اختیارات دینے کے لئے انگلستان سے مشن آیا اور >سلطنت برطانیہ تا ہشت سال< کی صداقت کے آثار نمایاں ہونے لگے۔
یہ حقیقت بین الاقوامی حیثیت سے بھی اب ایسی واضح نظر آرہی تھی کہ سر ونسٹن چرچل جیسے برطانوی مفکر نے انہی دنوں >کیا برطانوی سلطنت کا خاتمہ قریب ہے<۔ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں کھلا اقرار کیا کہ اس میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ موجودہ صدی سلطنت برطانیہ کے لئے فائدہ بخش نظر نہیں آتی۔ سلطنت کو گزشتہ صدی سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے انیسویں صدی میں اس کو دوسری حکومتوں پر جو تفوق حاصل تھا وہ کم ہو رہا ہے۔ برطانیہ کو اپنی بحری طاقت پر ناز تھا۔ لیکن ہوائی قوت اس کے لئے مہلک ثابت ہوئی ہے اور بے نظیر بحری قوت کے گھمنڈ کا خاتمہ ہو گیا ہے مالی لحاظ سے جو فوقیت انگلستان کو حاصل تھا وہ بھی ختم ہو گئی۔ اس سے قبل جو قومیں اور ملک ہمارے مطیع و فرمانبردار تھے ان میں اب بیداری پیدا ہو چکی ہے اور حکومت خود اختیاری حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک وہ ہے جو گورنمنٹ کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اس تحریک کے پیرو ہر ایسے رکن کو جو انسانوں کے اس وسیع سمندر میں انتظام و انصرام کے لئے جاتا ہے۔ ناقابل التفات سمجھتے ہیں۔ )تلخیص و ترجمہ۹۹(
میاں علم دین صاحب کی لاش اورحکومت کوغیر دانشمندانہ رویہ
حکومت نے دشمن اسلام راجپال کے قاتل علم دین کو میانوالی جیل میں پھانسی کی سزا دی۱۰۰۔ مگر ان کی لاش مسلمانوں کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا جس پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہو گیا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کے اس غیر دانشمندانہ رویہ پر سخت تنقید کی اور فرمایا۔ اس سے فساد بڑھے گا۔ جب ایک شخص مر گیا اور قانون کی حد ختم ہو گئی۔ تو اس سے آگے قدم بڑھانا فتنہ پیدا کرنا ہے یہ بہت ہی نامعقول حرکت ہے جو حکومت سے سرزد ہوئی یہ تو خواہ مخواہ مسلمانوں کو چڑانے والی بات ہے پھر اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنے دیا گیا۔ حالانکہ یہ ہر مسلمان کا مذہبی حق ہے جس سے محروم کرنا بہت بیہودہ بات ہے۱۰۱۔
آخر حکومت کو مسلمانوں کے سامنے جھکنا پڑا اور لاش مسلمانوں کے حوالہ کر دی گئی۔ لاہور میں اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔ حضور کو اطلاع ملی کہ جنازہ میں مسلمانوں کا بڑا ہجوم تھا۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ >یہ ایک مظاہرہ کی اچھی صورت تھی اس کا یہ اثر ہو گا کہ آئندہ کسی شخص کو ایسی امن شکن حرکات کی کم جرات ہو گی جیسے راجپال نے کی تھی۔ ملکی ترقی کے لئے اتحاد نہایت ضروری ہے اور اتحاد ترقی نہیں کر سکتا جب تک فتنہ انگیز حرکات کا انسداد نہ ہو<۱۰۲۔ اور فرمایا >اتنے بڑے مجمع کا ایسی حالت میں مسلمانوں نے بہت اچھا انتظام کیا اور کوئی ناگوار واقعہ رونما نہ ہوا۔ ایسے انتظامات سے قوم کی اچھی ٹریننگ ہو سکتی ہے<۱۰۳۔
سالانہ جلسہ کے لئے چندہ کی تحریک
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۵/ نومبر ۱۹۲۹ء۱۰۴text] gat[ کے خطبہ جمعہ میں پوری جماعت کو اور پھر مکتوب۱۰۵ کے ذریعہ اس کے کارکنوں کو سالانہ جلسہ کے چندے کی فوری وصولی کے لئے تحریک فرمائی۔ یہ تحریک نہایت ہی تنگ وقت میں شائع ہوئی لیکن جماعت نے حیرت انگیز جوش سے اس کا استقبال کیا۔ بعض جماعتوں اور احباب نے مقررہ چندہ سے ڈیوڑھا دوگنا بلکہ اس سے بھی زیادہ چندہ بھیج دیا۔ جس پر حضور نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۱۰۶۔
دیوانہ وار تبلیغ کرنے کا ارشاد
۲۲/ نومبر ۱۹۲۹ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت سے بذریعہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا کہ دیوانہ وار تبلیغ احمدیت میں لگ جائو ورنہ آئندہ نسلیں بھی کمزور ہو جائیں گی۱۰۷۔
مبلغین کو خاص ہدایت
حضور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے ملک میں تبلیغ احمدیت کا دائرہ وسیع تر کرنے کے لئے ۴/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو ہدایت فرمائی کہ مبلغین خاص طور پر ان مقامات میں بھجوائے جائیں۔ جہاں ابھی تک کوئی جماعت قائم نہیں ہوئی چنانچہ فرمایا۔
>ہماری تبلیغ میں ایک روک ہے عام طور پر ہمارے مبلغین انہی مقامات پر جاتے ہیں جہاں پہلے ہی جماعتیں موجود ہیں میں نے سوچا ہے ہر مبلغ کے لئے ایسے مقامات کے دورے لازمی کر دیئے جائیں جہاں پہلے کوئی احمدی نہیں۔ تا نئی جماعتیں قائم ہوں جس جگہ پہلے ہی کچھ احمدی ہوتے ہیں وہاں پھر جماعت ترقی نہیں کرتی۔ کیونکہ لوگوں میں ضد پیدا ہو جاتی ہے لیکن اگر مبلغین کو نئے مقامات پر بھیجا جائے تو ہر ایک کے لئے ماہ ڈیڑھ ماہ میں پانچ سات نئے آدمی جماعت میں داخل کرنا کچھ مشکل نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح پہلی جماعتوں میں بھی از سر نو جوش پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ جب ان کے قرب و جوار میں نئی جماعتیں قائم ہو جائیں تو وہ بھی زیادہ جوش اور سرگرمی سے کام کریں گے<۱۰۸۔
پادری کریمر ڈچ مشنری قادیان میں
ہالینڈ کے ایک مشنری پادری ڈاکٹر کریمر ہالینڈ سے جاوا جاتے ہوئے ۱۵/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو قادیان آئے حضور سے ملاقات کی اور سلسلہ کے مدارس اور دفاتر دیکھتے۱۰۹۔ اور شام کو واپس چلے گئے ڈاکٹر کریمر جماعت کی تنظیم اور جذبہ تبلیغ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے >مسلم ورلڈ< )اپریل ۱۹۳۱ء( میں اپنے تاثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع کئے۔
جماعت احمدیہ مسلمانوں میں ایسی ہی جماعت ہے۔ جیسی کہ ہندوئوں میں آریہ سماجی۔ ان دونوں جماعتوں کا عیسائیت کے ساتھ خاص تعلق ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں ہندوستان میں توسیع عیسائیت کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں پر عام طور پر مایوسی کا عالم طاری ہے برخلاف اس کے جماعت احمدیہ میں نئی زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ جماعت قابل توجہ ہے۔ یہ لوگ اپنی تمام توجہ اور طاقت تبلیغ اسلام پر خرچ کر رہے ہیں اور سیاست میں حصہ نہیں لیتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ انسان جس حکومت کے ماتحت ہو اس سے وفادار رہے۔ اور وہ صرف اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ کونسی حکومت کے ماتحت ان کو تبلیغ اسلام کے مواقع اور سہولتیں حاصل ہیں۔ اور وہ اسلام کو ایک مذہبی گروہ یا سیاسی نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ اس کو محض صداقت اور خالص حق سمجھ کر تبلیغ کے لئے کوشاں ہیں اس لحاظ سے یہ جماعت فی زمانہ مسلمانوں کی نہایت عجیب جماعت ہے اور مسلمانوں میں صرف یہی ایک جماعت ہے جس کا واحد مقصد صرف تبلیغ اسلام ہے۔ اگرچہ ان کی طرز تبلیغ میں کسی قدر سختی پائی جاتی ہے تاہم ان لوگوں میں قربانی کی روح اور تبلیغ اسلام کا جوش اور اسلام کے لئے سچی محبت کو دیکھ کر بے تحاشا صد آفرین نکلتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب ایک زبردست شخصیت کے آدمی تھے۔ وہ فریق جو ان کو نبی مانتا ہے اس کا مرکز قادیان ہے۔ میں جب قادیان گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں لوگ اسلام کے لئے جوش اور اسلام کی آئندہ کامیابی کی امیدوں سے سرشار ہیں اپنے آپ کو وہ غریبانہ طور پر پیغام پہنچانے والے نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان کو اس بات پر ناز ہے کہ وہ دنیا میں سچائی کا اعلان کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اور وہ اسلام کی محبت میں اس قدر اندھے اور مجنون ہو رہے ہیں کہ جس قدر انسانی قلب کے لئے ممکن ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ یہ لوگ دیگر مذاہب کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں )؟( لیکن وہ اس بات کے تکرار سے بھی کبھی نہیں تھکتے کہ اسلام بنی نوع انسان کی مساوات` امن و امان اور مذہبی آزادی کا سبق دیتا ہے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس بات میں یہ لوگ سچے ہیں کیونکہ ان لوگوں کی تمام طاقت اس بات کے پیش کرنے پر خرچ ہو رہی ہے۔ کہ اسلام اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ تمدن کی تعلیم دیتا ہے۔ اس جماعت کا اثر اس کے اعداد و شمار سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ مذہب میں ان کا طرز استدلال بہت سے تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اختیار کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے احمدیوں کا علم کلام عقلاً ماننا پڑتا ہے<۱۱۰۔
چھپن فیصدی کمیٹی کا وفد قادیان میں
پنجاب میں مسلم آبادی چھپن فیصدی تھی اس مناسب سے ۱۹/ نومبر ۱۹۲۹ء کو جناب عبدالمجید صاحب سالک مدیر انقلاب کی تحریک پر دفتر >انقلاب< لاہور میں >چھپن فیصدی کمیٹی< کے نام سے پروفیسر سید عبدالقادر صاحب کی صدارت میں ایک انجمن قائم ہوئی۔ جس کا مقصد مسلمانان پنجاب کے سیاسی حقوق کی حفاظت تھا۔ ملک لال دین صاحب قیصر اور مولوی عبدالمجید صاحب قرشی کمیٹی کے نمایاں ممبر تھے۱۱۱۔ کمیٹی کے ساتھ ہی >چھپن فیصدی کور< کی بھی بنیاد ڈالی گئی۔
اس کمیٹی کا ایک وفد جو مولوی عبدالمجید صاہب قرشی اور مولوی محمد شریف صاحب پر مشتمل تھا۔ ۱۷/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو قادیان آیا اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملا۔ حضور نے بتایا کہ ہم تو ۱۹۱۷ء سے برابر مسلمانان پنجاب و بنگال کے متعلق یہ معاملہ پیش کر رہے ہیں۔ ہم آپ کی ہر قسم کی مدد کریں گے۔ آپ اپنے خیالات ہماری جماعت کے سامنے پیش کریں اور یہاں قادیان ہی سے یہ کام شروع کر دیں اور اس کے ساتھ بعض اہم اور قیمتی ہدایات بھی دیں۔
حضور سے اجازت حاصل ہونے پر مولوی ذوالفقار علی خان صاحب کی زیر صدارت قادیان میں ایک پبلک جلسہ منعقد ہوا جس میں سب سے پہلے خان صاحب نے ۵۶ فیصدی سے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کی مساعی جمیلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کس طرح مسٹر مانٹیگو وزیر ہند کی ہندوستان میں آمد کے وقت سے اس کے لئے ہم آواز بلند کر رہے ہیں اور اب سائمن کمیشن کے سامنے بھی اس حق پر زور دیا ہے پس چونکہ یہ معاملہ ہمیشہ ہماری ہی طرف سے اٹھتا رہا ہے اس لئے ہم دل و جان سے اس کے حامی ہیں اور ہر جائز امداد کے لئے تیار ہیں۔
خان صاحب کے بعد قرشی صاحب نے نہایت موثر پیرایہ میں کمیٹی کا نقطہ نگاہ واضح کیا اور اس جدوجہد میں شامل ہونے کی اپیل کی۔ اس تقریر کے بعد لوکل انجمن احمدیہ قادیان کے پریذیڈنٹ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پرجوش تقریر کرکے یہ ریزولیوشن پیش کیا۔ جو باتفاق رائے پاس ہوا۔
>لوکل جماعت احمدیہ قادیان پنجاب میں مسلمانوں کو چھپن فیصدی حقوق کے ملنے کی حامی ہے۔ کیونکہ حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان ہمیشہ سے یہ مطالبہ مسلمانان پنجاب کے لئے پیش کرتے رہے ہیں۔ بحیثیت ایک مستقل منظم جماعت کے یہ جماعت اپنے امام کی ہدایات کے ماتحت ۵۶ فیصدی کمیٹی کی ہر قسم کی جائز امداد کرے گی۔ اور ہر وقت تعاون کے لئے تیار رہے گی<۱۱۲۔
کانگریس کااجلاس لاہور اورمجلس احراراسلام کی بنیاد
کانگریس نے >نہرو رپورٹ< کے تسلیم کئے جانے کی نسبت اجلاس کلکتہ )دسمبر ۱۹۲۸ء( میں حکومت کو ایک سال کا جو نوٹس دے رکھا تھا اس کی معیاد دسمبر ۱۹۲۹ء تک تھی اس دوران میں کانگریس سول نافرمانی کی خفیہ اور علانیہ تیاریاں کرتی اور مسلمانوں اور حکومت دونوں کو دھمکیاں دیتی رہی۔ اور بالاخر مہلت ختم ہوتے اس نے ۲۱/ دسمبر ۱۹۲۹ء کے اجلاس لاہور میں اعلان کر دیا۔ کہ چونکہ >نہرو رپورٹ< منظور نہیں ہوئی اس لئے اب سول نافرمانی کا پروگرام عمل میں لایا جائے۔ اور اب ہم درجہ نو آبادیات پر بھی قناعت نہیں کریں گے۔ آزادی کامل حاصل کریں گے۔ یہ اعلان پنڈت جواہر لال نہرو کی صدارت میں گاندھی جی نے کیا۔
اس موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی چٹھی بعنوان Hindu to Appeal <An Leaders> )ہندوئوں کے نام اپیل( تقسیم کی گئی جس میں حضور نے انہیں مسلم حقوق کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا۔ >مسلمانوں کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ وہ ملکی مفاد کی خاطر آئندہ مصائب کا اطمینان اور محفوظ ہونے کے احساس کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں ہر اکثریت کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرے بلکہ انہیں ہر طرح مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔ مسلمان حب وطن اور اس کے استخلاص میں جدوجہد کے لحاظ سے برادران وطن سے کسی طرح بھی پیچھے نہیں۔ لیکن اقلیت میں ہونے کی وجہ سے وہ ملک کے آئندہ نظام میں اپنی پوزیشن کے متعلق طبعاً مشوش ہیں الخ<۱۱۳۔
اس اپیل پر کانگریس کے لیڈروں نے بالکل التفات نہ کی اور مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز کرکے >آزادی کامل< کی قرار داد پاس کر دی جس کے معنے اور کچھ نہیں تھے کہ وہ بدیشی حکومت کو مسلمان سے تصفیہ حقوق کے بغیر ہی ملک سے نکال باہر کرنا چاہتی تھی حالانکہ اس مقصد کے حصول سے پہلے ہندوستانی قوموں کی سیاسی انفرادیت کی محافظت کی ضمانت ضروری تھی اس لئے کہ آزادی کامل تک پہنچنے کے لئے راہ میں جو منزلیں آتی تھیں وہ سب آئینی تھیں۔ لہذا ان آئینی منزلوں تک کا راستہ بالکل آئینی حیثیت سے طے ہونا چاہئے تھا اور ابتداء ہی میں ان مختلف اقوام کو جو اس راہ پر گامزن ہونے والی تھیں آئینی حیثیت سے یہ اطمینان مل جانا چاہئے تھا کہ اس راہ کی آخری منزل تک پہنچتے پہنچتے ہر قوم کی انفرادیت اور اس کا سیاسی مفاد ہر طرح محفوظ رہے۔ مگر یہ ضمانت ابھی تک ہندوستانی اقلیتوں کو نہیں ملی تھی۔ بلکہ ابتدائی آئینی منزل )نہرو رپورٹ( میں بھی مختلف قوموں کو جو ہم سفر تھیں بالکل نظر انداز کر دیا گیا تھا جس کے باعث ملک میں شدید بے چینی اور انتشار پیدا ہوا۔ اور ساری جدوجہد آزادی ایک مخصوص )ہندو( قوم کی کشمکش اقتدار بن کر رہ گئی۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شروع سے یہ آواز اٹھاتے آرہے تھے کہ آزادی کامل سے پہلے ہندو اکثریت سے جو آل انڈیا نیشنل کانگریس پر قابض ہے حقوق کے تصفیہ کی اشد ضرورت ہے ورنہ حکومت حاصل ہو جانے کے بعد سب کچھ اکثریت کے ہاتھ میں چلا جائے گا۱۱۴۔ یہ آواز ابتداء میں بہت کمزور تھی مگر نہرو رپورٹ کے بعد ملک کے گوشہ گوشہ سے اس زور کے ساتھ بلند ہوئی کہ مسلمانوں کی اکثریت نے >آزادی کامل< کے لفظ کے پیچھے پوشیدہ خطرے کو محسوس کر لیا اور اس بظاہر دلکش و دلفریب مگر حقیقت میں مہلک اور خطرناک نعرہ میں کانگریس کی تائید کرنے سے صاف انکار کر دیا۱۱۵۔
مسلمانوں کے سواد اعظم کے مقابل بعض انتہا پسند اور جوشیلے مسلمان جو کانگریس کی مہا سبھائی ذہنیت کا متعدد بار تجربہ کرنے کے باوجود کانگریس سے چمٹے ہوئے تھے اور >نیشنلسٹ< اور >خدائی خدمت گار< کہلاتے تھے یا >جمعیتہ العلماء ہند< سے منسلک تھے >آزادی کامل< کی قرارداد پر کانگریس کے اور بھی پرجوش حامی بن گئے۔ ان جماعتوں کے علاوہ جو کانگریس کے دوش بدوش مسلمانوں میں کام کر رہی تھیں >آزادی کامل< کی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے اور اس کی تحریک کو مسلمانوں تک پھیلانے کے لئے دسمبر ۱۹۲۹ء میں یعنی کانگریس کے اجلاس لاہور ہی کے دنوں میں لاہور ہی میں مجلس احرار اسلام کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد پڑی۔ جس کے لیڈر اگرچہ شروع ہی سے ہر معاملہ میں کانگریس کی پرزور حمایت کرتے آرہے تھے مگر اب ایک نئے نام اور نئے پلیٹ فارم سے اپنی پہلی سرگرمیوں کو تیز تر کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب لکھتے ہیں۔ >مجلس احرار کا سب سے پہلا جلسہ ۲۹/ دسمبر ۱۹۲۹ء کانگریس کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ہوا۔ جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری۱۱۶ نے میری صدارت میں تقریر کی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان ہندوستان کی آزادی کا ہرا دل ثابت ہوں۔ آزادی کے حصول کا فخر ہمارے حصہ میں آئے۔ اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد سول نافرمانی کا آغاز ہوا۔ اور کانگریس کے جھنڈے تلے سب نے مل کر قربانیاں پیش کیں<۱۱۶۔
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے ایک سوانح نگار لکھتے ہیں۔ > دسمبر ۱۹۲۹ء میں کانگریس نے مکمل آزادی کا ریزولیوشن پاس کیا اور اپریل ۱۹۳۰ء میں نمکین ستیہ گرہ کا آغاز کر دیا۔ احرار ذہناً کانگریس کے ساتھ تھے انہوں نے اپنی تنظیم کو ادھورا چھوڑا اور کانگریس میں شریک ہو کر سول نافرمانی میں حصہ لینے لگے]10 [p۱۱۷۔
اس کی تفصیل میں شاہ جی کے ایک اور سوانح نویس نے لکھا ہے کہ۔
>انڈین نیشنل کانگریس نے ۱۹۲۹ء کے اجلاس میں بمقام لاہور جب آزادی کامل کی قرار داد منظور کی تو اس کی تائید و اشاعت میں آپ نے نہایت انہماک اور سرگرمی سے حصہ لیا اور جب مہاتما گاندھی کی قیادت میں آزادی کا بگل بجایا گیا اور نمکین سول نافرمانی کا ملک میں آغاز ہوا تو آپ پیش پیش رہے اور تمام ہندوستان میں کانگریس کے پروگرام کی اشاعت کے لئے طوفانی دورے کئے۱۱۸۔
ایک احراری لیڈر جناب مظہر علی صاحب اظہر کا بیان ہے کہ۔
>مجلس احرار کے قیام کے وقت کانگریس سے کوئی اختلاف نہ تھا بلکہ ہمارے بہترین کارکن ۱۹۳۰ء کی سول نافرمانی کی تحریک میں قید کاٹ چکے تھے۔ جن میں سے سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی` چوہدری افضل حق صاحب اور شیخ حسام الدین صاحب کے نام بیان کر دینا مناسب ہے اس کے علاوہ ہمارے رضا کاروں نے تحریک سول نافرمانی میں حصہ لیا<۱۱۹۔
مجلس احرار کے صدر جناب سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا اپنے متعلق واضح طور پر اعلان تھا کہ >سر سے پائوں تک سیاسی آدمی ہوں<۱۲۰۔ لہذا مجلس احرار۱۲۱ بنیادی حیثیت سے خالص ایک سیاسی جماعت تھی جس کا اصولی و بنیادی مقصد وحید مسلمانوں کو اپنے جوش خطابت سے کانگریس کی پالیسی پر گامزن اور اس کی تحریک پر کاربند کرنا تھا اور کانگریس کے چوٹی کے لیڈر ان دنوں جماعت احمدیہ کو تمام اسلامی جماعتوں میں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے تھے۔ اور اس کی زبردست تنظیم اور فدائیت کا بے نظیر جذبہ ان کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹک رہا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر سید محمود جنرل سیکرٹری آل انڈیا نیشنل کانگریس اپریل ۱۹۳۰ء میں قادیان آئے۔ انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو ایک ملاقات میں بتایا کہ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو جب یورپ کے سفر سے )دسمبر ۱۹۲۷ء( میں واپس آئے تو انہوں نے اسٹیش پر اتر کر جو باتیں سب سے پہلے کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ میں نے اس سفر یورپ سے یہ سبق حاصل کیا ہے۔ کہ اگر انگریزی حکومت کو ہم کمزور کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس سے پہلے احمدیہ جماعت کو کمزور کیا جائے۱۲۲body] gat[۔
چنانچہ مجلس احرار اسلام نے اس نقطہ کو بھی اپنی تحریک کا جزو لاینفک بنا لیا اور جس طرح انہوں نے اس سے پہلے >نہرو رپورٹ< کے مخالفین کو قصر برطانیہ۱۲۳ کے ستون مشہور کر رکھا تھا اور آئندہ چل کر مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کو انگریزی ایجنٹ اور دام فرنگ کے نام سے موسوم کیا۱۲۴۔ جماعت احمدیہ کو >برطانوی ایجنٹ< قرار دے کر اس عظیم الشان اسلامی تنظیم کے خلاف برسر پیکار ہو گئے۔ جو کانگریسی ذہن کے عین مطابق تھا۔ چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب >تاریخ احرار< میں صاف لکھتے ہیں >کانگرسی مسلمانوں کا ذہن بے حد متشکک اور متشدد ہے ۱۹۳۵ء سے پہلے تو لوگوں کو سی۔ آئی۔ ڈی اور انگریز کے ایجنٹ کا الزام لگانا عام تھا۔ کانگریسی مسلمان اپنے دعویٰ اور عمل میں مخلص ہوتے ہیں مگر وہ دوسروں کو ہمیشہ بدعقل اور دوسروں کا آلہ کار سمجھتے ہیں۱۲۵۔ مجلس احرارکا ترجمان اخبار >آزاد< )لاہور( اسی بناء پر لکھتا ہے۔
>جب حجتہ الاسلام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کاشمیری` حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور حضرت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری وغیرہ ھم رحمہم اللہ کے علمی اسلحہ فرنگی کی اس کاشتہ داشتہ >نبوت< کو موت کے گھاٹ نہ اتار سکے تو مجلس احرار اسلام کے مفکر اکابر نے جنگ کا رخ بدلا۔ نئے ہتھیار لئے اور علمی بحث و نظر کے میدان سے ہٹک کر سیاست کی راہ سے فرنگی سیاست کے شاہکار پر حملہ آور ہو گئے<۱۲۶۔
اس اہم ترین سیاسی مقصد کے علاوہ )جو دراصل کانگریس کے پروگرام کی تکمیل کے لئے از حد ضروری تھی( تحریک احمدیت کی مخالفت میں بعض اور عوامل بھی کار فرما تھے۔ مثلاً نہر رپورٹ کی اندھا دھند تائید کی وجہ سے اس گروہ کے وقار اور عظمت کو سخت ٹھیس پہنچی تھی۱۲۷۔ جس کے ازالہ اور دوبارہ مسلمانوں میں نفوذ و مقبولیت کے لئے احمدیت کی مخالفت ایک کارگر ہتھیار تھا۔ جو غیر احمدی علماء اپنی شہرت و عزت کی دکان چمکانے کے لئے ابتدا سے استعمال کرتے آرہے تھے۔
جماعت احمدیہ سے مخالفت کی ایک اہم وجہ مولوی ظفر علی خاں کے اخبار >زمیندار< کے نزدیک مسلمانوں سے >مالی منفعت< کا حصول تھا۱۲۸۔ چنانچہ اس نے لکھا۔ >بتدریج یہ حقیقت زمانے نے مولانا حبیب الرحمن اور چودھری افضل حق پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح کر دی کہ کیا خدمت دین کے اعتبار سے اور کیا مالی منفعت کے لحاظ سے قادیانیت کی مخالفت موثر ترین ہے<۔ یہ نظریہ اس لحاظ سے خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری >امیر شریعت< احرار کو مسلم تھا کہ رداحمدیت کے فن میں مولوی صاحب موصوف ان کے قائد ہیں چنانچہ ان کا بیان ہے کہ >میری صدارت میرے دوستوں کا عطیہ ہے ورنہ اس منصب کے حقدار مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار ہیں۔ جنہوں نے روز اول سے مرزائیت کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہے وہ اس فن میں ہمارے استاد ہیں<۱۲۹۔
اس مقام پر مجلس احرار کی صرف ابتدائی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالنا مقصود تھا جس سے الحمدلل¶ہ ہم فارغ ہو چکے ہیں۔ البتہ ہم آگے جانے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مجلس کے سیاسی نظریات اور اس کے سیاسی مزاج کی نسبت اس کے قائدین اور مخالفین دونوں کی بعض آراء و مقتبسات بطور نمونہ درج کر دیں تا ان واقعات و حوادث کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملے جو آئندہ مجلس احرار کی سیاسی پالیسی اور انتہاء پسندانہ روش کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف رونما ہوئے اور جنہوں نے برصغیر پاک و ہند کی سیاسی و مذہبی فضا پر خطرناک اثر ڈالا۔
امیر شریعت احرار کی رائے
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے آزادی ہند سے متعلق اپنا مثبت نظریہ بتاتے ہوئے فرمایا۔
>ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ غیر ملکی طاقت سے گلو خلاصی حاصل ہو اس ملک سے انگریز نکلیں یا نکالے جائیں تب دیکھا جائے گا کہ آزادی کے خطوط کیا ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اس مہم میں سئور بھی میری مدد کریں گے تو میں ان کا منہ چوم لوں گا<۱۳۰۔
sub] gat[جنرل سیکرٹری مجلس احرار کا بیان
احرار کے ایک سابق جنرل سیکرٹری لکھتے ہیں۔
>احرار پنجاب کے ادنیٰ متوسط طبقے کے شہریوں کی ایک ایسی تحریک تھے۔ جس میں جوش و جذبہ وافر تھا۔ وہ لیگ کے ہمہ گیر سیاسی ذہن کے مقابلہ میں ایک مذہبی جماعت تھے اور کانگریس کی ہمہ گیر تنظیم کے مقابلہ میں ایک محدود سیاسی ذہن ۔۔۔۔۔۔ خود داخلی طور پر متضاد الخیال تھے۔ لیکن اینٹی برٹش ذہن کی مشترکہ چھاپ نے انہیں ایک کر رکھا تھا۔ جن طاقتوں کے خلاف صف آراء تھے ان کی مختلف الاصل جارحیت کے خلاف مذہبی زبان میں سیاسی اثر پیدا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اکابر احرار میں سے بیشتر کانگریس اور جمعیتہ العلماء کے ذہن کی سفارت کرتے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی سے ایک گونہ عقیدت رکھتے اور ان کی ذات کے لئے نبردآزما ہوتے تھے گویا سیاست و مذہب کے میدان میں انہیں اپنے ثانوی ہونے کا اقرار تھا ۔۔۔۔۔۔ احرار کسی تخلیقی فکر کے مظہر نہ تھے مگر ایجی ٹیشن اور پراپیگنڈا کے فن میں بے مثال تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ احرار میں قربانی` احتجاج` حوصلہ اور خطابت کا جوہر وافر تھا۔ لیکن فکر نظر کسوٹی اور قیادت کا تناسب مقابلتاً کمتر تھا<۱۳۱۔
مجلس احرار کے اخبار >آزاد< کی رائے
>یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار کے خطبوں میں جذباتیت پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی۱۳۲ کا عنصر عالب ہوتا ہے یہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ ذرا حقیقت پسند` سنجیدہ اور متین بن جائیں پھر آپ مسلمانوں میں مقبول ہو جائیں اور کوئی تعمیری و اصلاحی کام کر لیں تو ہمارا ذمہ۔ یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق و واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے صرف جذبات سے کام نکالتے ہیں اسی طرح اشتعال انگیزی بھی ہماری تحریکوں` جماعتوں اور قائدوں کی جان ہے۔ آپ بڑے بڑے دیندار` بااخلاق اور سنجیدہ اور متین پہاڑوں کو کھودیں تو اشتعال کا چوہا نکلے گا۔ الیکشن بازی میں تو دیندار اور بے دین سب کے سب اشتعال انگیزی ہی سے کام لیتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کوئی کم لیتا ہے اور کوئی زیادہ ہمارے احراری بزرگ اس میں سب سے آگے ہیں اس لئے وہ رشک و حسد کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں<۱۳۳4] f[rt۔
امریکہ کے ایک مشہور مصنف کی رائے
امریکہ کے ایک نامور مصنف مسٹر جان گنتھر لکھتے ہیں۔ >احرار پنجاب میں بایاں بازو ہیں اور وہ کانگریس کے ساتھ ہیں وہ عجیب مجموعہ اضداد ہیں ایک طرف وہ مذہبی اعتبار سے فرقہ پسند فدائی ہیں اور دوسری طرف سیاسی انتہا پسند<۱۳۴۔
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کے علاوہ )جن کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے( ۱۹۲۹ء میں کئی اور جلیل القدر صحابہ کا انتقال ہوا جن کے نام یہ ہیں۔
۱۔
حضرت مولوی محمد صاحب مزنگ لاہور )تاریخ وفات ۲/ جنوری ۱۹۲۹ء(
۲۔
حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب۱۳۵ )تاریخ وفات ۱۲/ جنوری ۱۹۲۹ء(
۳۔
حضرت شہامت خاں صاحب نادون ضلع کانگڑہ )والد ماجد ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب(
۴۔
حضرت بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ )تاریخ وفات ۲۴/ جنوری ۱۹۲۹ء۱۳۶(
۵۔
شاہ جہاں بی بی اہلیہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ )تاریخ وفات یکم نومبر ۱۹۲۹ء۱۳۷(
۶۔
صوفی بابا شیر محمد صاحب آف بنگہ ضلع جالندھر۱۳۸۔
tav.5.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل پنجم(
متفرق و اھم واقعات
خاندان حضرت مسیح موعودؑ میں ترقی
)۱( حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی حرم رابع سارہ بیگم صاحبہ کے ہاں ۱۳/ اپریل ۱۹۲۹ء کو صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں۱۳۹۔
)۲( حضرت نواب محمد علی خاں کے ہاں ۱۲/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو صاحبزادی آصفہ مسعودہ بیگم پیدا ہوئیں۱۴۰۔
مدیر >مشرق< کی وفات
حکیم برہم صاحب ایڈیٹر >مشرق< گورکھپور ۲۴/ جنوری ۱۹۲۹ء کو وفات پا گئے۱۴۱۔ آپ مسلمانوں کی فلاح کے لئے کوشش کرنے والوں میں ایک ممتاز و بااصول اخبار نویس تھے اور اس لئے جماعت احمدیہ کے دینی اور مذہبی خدمات کا کھلے الفاظ میں اقرار کرکے دلی بشاشت سے اسے سراہنے ہی پر بس نہ کرتے بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں اس کے کاموں کی قدر و منزلت پیدا کرنے کے لئے پرزور مضامین بھی شائع فرمایا کرتے تھے۔
چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میں جو آخری پرچہ >مشرق< تیار کیا اور جو آپ کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ اس میں بھی مندرجہ ذیل نوٹ لکھا۔
>ہندوستان میں صداقت اور اسلامی سپرٹ صرف اس لئے باقی ہے کہ یہاں روحانی پیشوائوں کے تصرفات باطنی اپنا کام برابر کر رہے ہیں اور کچھ عالم بھی اس شان کے ہیں جو عبدالدراہم نہیں ہیں اور سچ پوچھو تو اس وقت یہ کام جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے حلقہ بگوش اسی طرح انجام دے ہیں جس طرح قرون اولیٰ کے مسلمان انجام دیا کرتے تھے<۱۴۲۔
حیدر آباد میں انجمن ترقی اسلام کی بنیاد
یکم فروری ۱۹۲۹ء سے انجمن ترقی اسلام حیدر آباد )دکن( کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔ انجمن کی انتظامیہ کے ایک ممبر مولوی عبدالرحیم صاحب نیر بھی تھے جو ۱۹۲۸ء سے جنوبی ہند میں بحیثیت مبلغ بڑے شوق و جوش سے مصروف کار تھے اور انجمن ترقی اسلام کا نمایاں کام ریاست کی اچھوت اقوام میں مدارس کا قیام اور ان میں تبلیغ اسلام کرنا تھا۔ چنانچہ موضع بوئے پلی۔ دینا چڑ اور محبوب نگر میں مدرسے قائم ہو گئے جن میں ایک سو سے زائد طالب علم تعلیم پاتے تھے۔ ان مدرسوں کے اخراجات انجمن ترقی اسلام کے مقامی ریزرو فنڈ سے ادا کئے جاتے تھے۱۴۳۔
مقدمہ شاہ جہانپور کا فیصلہ
مقدمہ احمدیہ مسجد شاہ جہانپور کی اپیل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں دائر تھی۔ شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ اور مولوی فضل الدین صاحب مشیر قانونی نے پیروی کی۔ بالاخر مقدمہ ججی شاہ جہان پور سے احمدیوں کے حق میں فیصل ہوا تھا۱۴۴۔
احمدی خواتین کی عربی امتحان میں کامیابی
اس سال جماعت احمدیہ کی سات خواتین نے >مولوی< کا عربی امتحان پاس کیا۔ جن میں سے محترمہ امتہ السلام بیگم صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب یونیورسٹی میں خواتین میں اول اور حضرت سارہ بیگم صاحبہ سوم رہیں۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ اتنی احمدی مستورات اس امتحان میں پاس ہوئیں۱۴۵۔][ایک احمدی پر قاتلانہ حملہ
ستمبر ۱۹۲۹ء کا واقعہ ہے کہ جماعت احمدیہ پشاور کے ایک مخلص احمدی میاں محمد یوسف صاحب پر قصہ خوانی بازار میں ایک شخص نے پشاور میں چاقو سے محض اس لئے قاتلانہ حملہ کر دیا کہ اس کا بھائی ان کے ذریعہ سے داخل سلسلہ احمدیہ ہو چکا تھا۔ اور کسی موقع پر میاں محمد یوسف صاحب نے اسے بھی قبول احمدیت کی دعوت دی تھی۱۴۶۔ مجرم اسی وقت گرفتار کر لیا گیا اور عدالت نے دو سال قید بامشقت کی سزا دی۱۴۷4] ft[r۔
بیرونی مشنوں کے بعض ضروری واقعات
ماریشس: حافظ جمال احمد صاحب نے آریہ سماجیوں کے خلاف مسلمانوں کے مشترکہ جلسوں میں کامیاب تقریرں کیں اور وہاں کے مسلمان سیٹھوں نے اقرار کیا کہ اسلام کی فتح احمدیوں کے ہاتھ پر ہوئی ہے۱۴۸۔
سماٹرا: یکم رمضان کو پاڈانگ میں مسئلہ معراج پر ایک غیر احمدی مولوی صاحب سے مناظرہ ہوا۔ مشتعل ہجوم نے مناظرہ کے دوسرے دن مولوی رحمت علی صاحب اور حاجی محمود صاحب کو گالیاں دیں اور احمدیہ مشن ہائوس پر پتھر پھینکے۔ دو گھنٹے تک یہ ہنگامہ جاری رہا۔ جسے دیکھ کر اسی جگہ دو احباب داخل سلسلہ احمدیہ ہو گئے۱۴۹۔
پیننگ )سٹریٹ سیٹلمنٹ
میں ۳۔ ۴/ جولائی ۱۹۲۹ء کو علی الترتیب وفات مسیح اور ختم نبوت پر کامیاب مباحثات ہوئے پہلا مباحثہ احمد نور الدین صاحب نے اور دوسرا ذینی دحلان صاحب نے کیا۱۵۰۔
نائیجیریا )مغربی افریقہ( حکیم فضل الرحمن صاحب نے ۲۲/ فروری ۱۹۲۹ء کو مسجد ایکرافول کا سنگ بنیاد رکھا۔ حکیم صاحب اس سے پیشتر افریقہ کی کئی احمدی مساجد کا افتتاح کر چکے تھے۔ مگر یہ پہلی مسجد تھی جس کی بنیاد آپ کے ہاتھوں رکھی گئی۱۵۱۔
مبلغین احمدیت کی روانگی اور واپسی
)۱( مولوی نذیر احمد علی صاحب ۲۲/ فروری ۱۹۲۹ء کو سیرالیون مغربی افریقہ میں فریضہ تبلیغ بجالانے کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ پہلے مبلغ تھے جو قادیان سے ریل گاڑی میں روانہ ہوئے۱۵۲۔
]body )[tag۲( مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا۔ ابوبکر صاحب بگنڈا اور ادریس داتو صاحب سماٹری کو ساتھ لے کر ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو پہلی بار قادیان تشریف لائے۱۵۳۔
نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل کتب سلسلہ شائع ہوئیں۔ )۱( >مکتوبات احمدیہ< جلد پنجم نمبر ۳ یعنی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مکتوبات بنام چوہدری رستم علی صاحبؓ مرتبہ )حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی(
)۲( >تحفتہ النصاریٰ< حصہ اول )مولفہ چوہدری غلام احمد صاحب امیر جماعت پاکپٹن(
اندرون ملک کے بعض مشہور مباحثے
)۱( مباحثہ گجرات: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب و آریہ مناظر( یہ مباحثہ ۱۵/ جنوری ۱۹۲۹ء کی شام کو آریہ سماج کے مندر میں ہوا موضوع بحث مسئلہ تناسخ تھا۔ مولانا ابوالعطاء صاحب نے آریہ مناظر سے مطالبہ کیا کہ وہ ثابت کریں کہ انسان ہونے سے پہلے وہ کن کن جونوں کے چکر میں مقید رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ تھوڑی مدت کے گناہوں کی سزا آریوں کی مسلمہ کتب کے مطابق عرصہ دراز تک کیوں دی جائے گی۔ مولانا صاحب کے مطالبہ کا کوئی معقول جواب آریہ مناظر نہ دے سکا تو آریوں نے جناب مولانا کے خلاف بولنے کے لئے اہل قرآن کے ایک مولوی صاحب کو کھڑا کر دیا۔ آریہ سماج کو توجہ دلائی گئی کہ اگر یہ صاحب اسلام کے نمائندے ہیں تو آریہ مناظر سے بحث کریں۔ اگر نہیں تو آریوں کی طرف سے کھڑے ہوں آخر جب مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا کہ شاہ جی آریوں کی امداد کے لئے تشریف لائے ہیں تو انہوں نے ان کو مقام مباحثہ سے باہر نکال دیا۔ جب سیکرٹری آریہ سماج نے دیکھا۱۵۴۔ کہ اب مناظرہ کرنا ہی پڑے گا تو ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنے کی کوشش شروع کر دی اور پھر لیمپ بجھا دیا اور مناظرہ ختم ہو گیا۔
)۲(
مباحثہ میمو )برما( )مابین سید عبداللطیف صاحب احمدی آف رنگون اور مولوی غلام علی شاہ صاحب آف مانڈلے( یہ مناظرہ ۲۳/ جون ۱۹۲۹ء کو جامع مسجد میں چھ گھنٹہ تک جاری رہا۔ قریباً ایک ہزار افراد اس میں شامل ہوئے احمدی مناظر نے صداقت حضرت مسیح موعودؑ اور ختم نبوت پر آیات قرآنی سے اپنے دعوے کے دلائل پیش کرکے چیلنج کیا کہ مولوی صاحب انہیں توڑیں مگر غیر احمدی مولوی صاحب جو قریباً ایک درجن علماء کی معیت میں آئے ہوئے تھے آخر تک کسی دلیل کو توڑ نہ سکے۱۵۵۔
)۳(
مباحثہ گجرات: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و پنڈت ست دیو صاحب آریہ سماجی مناظر( تاریخ مناظرہ ۲۴/ مارچ ۱۹۲۹ء تھی اور موضوع بحث یہ تھا کہ >وید کامل الہامی کتاب ہے یا قرآن شریف<؟ مولانا ابوالعطاء صاحب نے آریہ مناظر کے رد میں ستیارتھ پرکاش سے اہم حوالہ جات پیش کئے اور قرآن شریف کے الہامی ہونے کے بارے میں تو ایسی لاجواب دلکش تقریر فرمائی کہ سامعین عالم وجد میں تھے۱۵۶۔
)۴(
مباحثہ دینانگر ضلع گورداسپور: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و پنڈت رام چند صاحب دہلوی( تاریخ مباحثہ ۲۶/ جولائی ۱۹۲۹ء۔ موضوع بحث >نماز اور سندھیا< تھا۔ آریہ مناظرہ کو ایسا زچ ہونا پڑا کہ آریوں پر مردنی سی چھا گئی۱۵۷۔
)۵(
مباحثہ ڈنڈوت: تحصیل پنڈ دادن خاں ضلع جہلم )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مولوی محمد احسن صاحب( تاریخ مناظرہ ۹/ اگست ۱۹۲۹ء۔ موضوع بحث >صداقت حضرت مسیحموعودؑ تھا۱۵۸۔
)۶(
مباحثہ چھنمبی : تحصیل پنڈ دادن خاں ضلع جہلم )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مولوی سید لال شاہ صاحب( تاریخ مناظرہ ۱۲/ اگست ۱۹۲۹ء۔ موضوع بحث >صداقت مسیح موعودؑ< اور >حیات و وفات مسیح ناصری علیہ السلام<۔ ملک صاحب نے دوران مناظرہ میں اپنے استنباط کی تائید میں بار بار انعامی چیلنج دیئے مگر غیر احمدی مناظر صاحب کو ان کے قبول کرنے کی جرات نہ ہو سکی۱۵۹۔
)۷(
مباحثہ موضع میانوالی ضلع سیالکوٹ: )مابین مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی و مولوی عبدالرحیم شاہ صاحب( تاریخ مباحثہ ۲۲/ اگست ۱۹۲۹ء۔ موضوع مباحثہ >حیات و وفات حضرت مسیحؑ< و >صداقت حضرت مسیح موعودؑ<۔ غیر احمدی مناظر صاحب لا جواب ہو کر سخت کلامی پر اتر آئے۔ جس پر غیر احمدیوں کے صدر نے بھی اظہار افسوس کیا۱۶۰۔
)۸(
مباحثہ مریind]: [tag )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب غیر مبائع( تاریخ مباحثہ ۲۳/ اگست ۱۹۲۹ء تھی اور موضوع مباحثہ >امکان نبوت از روئے قرآن و حدیث <!! اس مناظرے میں ڈاکٹر صاحب نے ایسی روش اختیار کی جس کی وجہ سے غیر احمدی حضرات کو جو جلسہ میں موجود تھے۔ یہ یقین ہو گیا کہ آپ احمدیت سے دست بردار ہو گئے ہیں انہوں نے پر شوق و جوش ڈاکٹر صاحب سے معانقہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ آپ جمعہ کی نماز ہمارے ساتھ ہی ادا کریں اس موقعہ پر تو آپ نے کچھ ایسا ہی انداز ظاہر کیا تھا کہ گویا آپ رضامند ہیں مگر بعد کو انکار کر دیا۔ اس موضوع کے بعد دعویٰ نبوت از روئے تحریرات مسیح موعود پر مباحثہ کا فیصلہ ہو چکا تھا بلکہ شرائط بھی طے ہو چکی تھیں لیکن غیر مبایعین نے ڈاکٹر صاحب کو کہلا بھیجا کہ اگر آپ نے مناظرہ کیا تو ہم آپ سے الگ ہو جائیں گے۱۶۱۔
)۹(
مباحثہ ترگڑی: )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مولوی سراج دین صاحب( یہ مباحثہ ۹/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو ہوا۔ موضوع بحث حیات و وفات مسیحؑ تھا۱۶۲۔])[۱۰(
مباحثہ سرینگر: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و میر مدثر شاہ صاحب غیر مبائع( یہ مباحثہ ۱۲۔ ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو منعقد ہوا۔ موضوع >امت محمدیہ میں نبوت< تھا۱۶۳۔
)۱۱(
مباحثہ رنگون: )مابین سید محمد لطیف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ رنگون و سید علی شاہ صاحب( تاریخ مباحثہ ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء اور موضوع بحث >وفات مسیح و صداقت مسیح موعود< تھا۔ احمدی مناظر نے غیر احمدی مناظر کو بار بار قرآن و حدیث پیش کرکے جواب کا مطالبہ کیا۔ مگر وہ اٹھ کر روانہ ہو گئے۱۶۴۔
)۱۲(
مباحثہ انچولی ضلع میرٹھ: )مابین مولانا ظہور حسین صاحب و مولوی محمد منظور صاحب سنبلی مراد آبادی و مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی و مولوی عبدالشکور صاحب لکھنوی( احمدی مناظرین نے اس مناظرے میں دیو بندی علماء سے سولہ مطالبات کئے جن کا کوئی جواب نہ دیا گیا نواب مہربان علی صاحب سپیشل مجسٹریٹ اور دیگر رئوساء نے اسٹیج پر اس کا کھلا اقرار کیا۱۶۵4] f[rt۔
)۱۳(
مباحثہ لالہ موسیٰ۱۶۶: )ضلع گجرات( مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مناظر اہلحدیث حافظ فضل الرحمن صاحب۔ تاریخ مباحثہ ۳/ اکتوبر ۱۹۲۹ء۔ موضوع نمبر ۱ بحث حیات و وفات مسیح ناصری نمبر ۲ صداقت مسیح موعودؑ۔ غیر احمدی مناظر دوسری بحث میں اختتام مناظرہ سے ایک گھنٹہ قبل ہی میدان مناظرہ سے اٹھ کر چل دیئے۔
)۱۴(
مباحثہ چک نمبر ۵۶۵: ضلع لائلپور )مابین ابوالعطاء صاحب و علماء اہل سنت( یہ مناظرہ وسط اکتوبر ۱۹۲۹ء میں صداقت مسیح موعود اور ختم نبوت کے موضوع پر ہوا۔ غیر احمدیوں نے ۳۰ کے قریب حنفی و اہلحدیث علماء جمع کر رکھے تھے۔ مناظرہ ہونے پر یہ بہت بے دل ہوگئے۔ حتیٰ کہ آپس میں الجھ پڑے کہ فلاں بات کیوں پیش نہ کی۔ میں ہوتا تو یہ پیش کرتا۱۶۷۔
)۱۵(
مباحثہ موضع کالشیما: ضلع بنگال )احمدی مناظر مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی( یہ مباحثہ آخر اکتوبر ۱۹۲۹ء میں ہوا۔ موضوع بحث بقائے نبوت اور صداقت مسیح موعود تھا۔ اطراف و جوانب کے ہزاروں آدمی کارروائی دیکھنے کے لئے شامل ہوئے تھے۱۶۸۔
خان بہادر نواب محمد دین صاحب کی بیعت
خان بہادر چوہدری نواب محمد دین صاحب باجوہ ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر۱۶۹ تلونڈی عنایت ضلع سیالکوٹ کے ایک نامور رئیس تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ محترمہ بہشت بی بی صاحبہ اور آپ کے برادر اکبر چوہدری محمد حسین صاحب اور آپ کے فرزند ارجمند چوہدری محمد شریف صاحب )ایڈووکیٹ منٹگمری( تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی صحابیت کا شرف پا چکے تھے لیکن باوجود یہ کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانے ہی سے حضور کی گہری عقیدت حاصل تھی۱۷۰۔ تاہم آپ ابھی تک بیعت سے مشرف نہیں ہوئے تھے۔ آخر اس سال یعنی ۱۹۲۹ء۱۷۱ میں آپ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہو گئے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کی بیعت کا دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
body] >[tagمجھے یاد ہے جب انہوں نے بیعت کی تو ساتھ یہ درخواست کی کہ میری بیعت ابھی مخفی رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ریٹائر ہو چکا ہوں اور اب ملازمتیں ریاستوں میں ہی مل سکتی ہیں۔ اس لئے اگر میری بیعت ظاہر نہ ہو تو ملازمت حاصل کرنے میں سہولت رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چند دنوں کے لئے شملہ گیا اور انہوں نے مجھے دعوت پر بلایا اور کہا اور تو میں کوئی خدمت نہیں کر سکتا لیکن یہ تو کر سکتا ہوں کہ دعوت پر بڑے بڑے آدمیوں کو بلا لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ثواب مل جائے گا۔ میں دعوت پر چلا گیا انہوں نے بڑے بڑے آدمی بلائے ہوئے تھے۔ میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اعتراض کرے اور میں اس کا جواب دوں کہ وہ کھڑے ہوئے اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقریر میں انہوں نے کہا بڑی خوشی کی بات ہے کہ امام جماعت احمدیہ یہاں تشریف لائے ہیں جو شخص کسی قوم کا لیڈر ہوتا ہے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو تین منٹ کے بعد وہ تقریر کرتے ہوئے یکدم جوش میں آگئے اور کہنے لگے اس زمانہ میں ایک شخص آیا اور وہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں۔ اگر آپ لوگ اسے نہیں مانیں گے تو آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب آجائے گا۔ جب وہ تقریر کرکے بیٹھ گئے تو میں نے کہا۔ دیکھئے نواب صاحب میں نے تو ظاہر نہیں کیا کہ آپ احمدی ہیں آپ نے تو خود ہی ظاہر کر دیا ہے وہ کہنے لگے مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے کہا میں پہلے ہی سمجھتا تھا کہ سچی احمدیت چھپی نہیں رہتی آپ خواہ کتنا بھی چھپائیں یہ ظاہر ہو کر رہے گی<۱۷۲۔
tav.5.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
حواشی حصہ اول )دوسرا باب(
۱۔
الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۲۔
رستہ میں ایک جگہ موٹر خراب ہو گئی وہاں قریب ہی کرکٹ کی کھیل ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کی خواہش پر حضور کھیل کے میدان میں چلے گئے۔ وہاں ہندوستان کے ایک مشہور مسلم لیڈر آگئے اور حضور کو دیکھ کر حیرانی سے کہنے لگے کہ آپ بھی یہاں آگئے۔ حضور نے فرمایا۔ یہاں آنے میں کیا حرج ہے۔ کہنے لگے یہاں کھیل ہو رہی ہے آپ نے جواب دیا۔ میں خود ٹورنا منٹ کراتا ہوں اور کھیلنے بھی جاتا ہوں۔ پہلے فٹ بال بھی کھیلا کرتا تھا مگر اب صحت اسے برداشت نہیں کرتی۔ انہیں یہ باتیں سن کر بہت تعجب ہوا۔ گویا پڑھے لکھے مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال ہے کہ دین اور ورزش ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء(
۳۔
الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۴۔
آپ آخر ۱۹۲۸ء میں آئے تھے اور یکم دسمبر ۱۹۲۸ء کو انجمن حمایت اسلام لاہور نے ان کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا تھا۔ یہ گورنر صاحب جماعت احمدیہ کی تعلیمی ترقی سے بہت متاثر تھے چنانچہ انہوں نے غالباً اسی ملاقات کے دوران میں یا کسی اور موقعہ پر کہا۔
>ایک ایسی جماعت نے جو مقابلتاً قلیل ہے اور جس کے مالی محدود ذرائع ہیں تعلیمی اعتبار سے نمایاں ترقی کی ہے اور یہ امر بذات خود تمام ملت اسلامیہ کے لئے من حیث الجماعت ایک تعجب انگیز نمونہ ہے جن اصحاب نے اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کی اور جنہوں نے اس کی تائید اور معاونت کی میرے پاس ان کی تحسین کے لئے کافی کلمات نہیں ہیں<۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۸(
۵۔
مفصل تقریر الفضل ۵/ فروری ۱۹۲۵ء میں چھپ چکی ہے۔
۶۔
الفضل ۲۲/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۷۔
الفضل یکم فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۸۔
۸۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۹۔
خواتین اور طالبات کے لئے پردے کا انتظام تھا۔ جو انعامات دیئے گئے ان میں سے تقریر اور مضمون نگاری کے انعام حاصل کرنے والے طلبائے جامعہ و مدرسہ کے نام یہ ہیں۔ )جامعہ احمدیہ( مولوی محمد صادق صاحب` عبدالمنان صاحب عمر )مدرسہ احمدیہ( مولوی محمد سلیم صاحب۔ شیخ عبدالقادر صاحب۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۷(
۱۰۔
الفضل یکم فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۳ و صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۱۔
یعنی )۱( ہندوستان میں فیڈرل طرز کی حکومت ہو جس میں صوبوں کو مکمل خود اختیاری حاصل ہو۔ )۲( جداگانہ انتخاب کو اس وقت تک قائم رکھا جائے جب تک کہ سیاسی میدان سے فرقہ وارانہ جذبات معدوم نہ ہو جائیں۔ )۳( اسی دوران میں مختلف اقوام کے لئے تناسب آبادی کے لحاظ سے صوبجاتی مجالس قانون ساز میں نشستیں مخصوص کر دی جائیں۔ اقلیتوں کو بے شک کچھ زائد مراعات دی جائیں لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایسا کرنے سے کوئی کثرت اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائے۔ )۴( سندھ کو مستقل صوبہ بنا دیا جائے۔ )۵( صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصطلاحات نافذ کر دی جائیں۔ )۶( تمام مذاہب کے لئے کامل آزادی کا اصول تسلیم کیا جائے اور یہ بات سابقہ تمام باتوں کے ساتھ ملکی دستور میں داخل سمجھی جائے۔
]h1 [tag۱۲۔
الفضل ۱۲/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔
۱۳۔
الفضل ۱۲/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۱۴۔
الفضل ۱۹/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔
۱۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۷۔
۱۶۔
تالیف و تصنیف۔
۱۷۔
الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۱۸۔
جس کا ذکر قبل ازیں ۱۹۲۸ء کے حالات میں گزر چکا ہے۔
۱۹۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۔
۲۰۔
مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ہمدرد ۵/ مارچ ۱۹۲۹ء میں ملاقات کا ذکر کیا تھا۔ )مولانا محمد علی بحیثیت تاریخ اور تاریخ ساز( صفحہ ۴۳۶ شائع کردہ سندھ ساگر اکاومی لاہور طبع اول جنوری ۱۹۶۲ء۔
۲۱۔
مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۲/ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۹۔
۲۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۸۔ چنانچہ انہوں نے ۲۶/ مارچ ۱۹۲۹ء کو لکھا۔ مسلمانوں کے مشہور لیڈروں کے درمیان جو باہمی اختلافات اور نزاع پیدا ہو گیا تھا اس کے دور کرنے کے واسطے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ الل¶ہ تعالیٰ بنصرہ نے جو سعی فرمائی تھی وہ بھی بفضلہ تعالیٰ بار آور ہو رہی ہے چنانچہ جس وقت یہ رپورٹ مجلس مشاورت میں پیش ہو گی اس وقت راقم الحروف دہلی میں مسلمانوں کے دو بڑے لیڈروں مسٹر جناح اور سر شفیع اور ان کے رفقاء کی باہمی مصالحت میں انشاء اللہ کامیابی دیکھ رہا ہو گا۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۸(
۲۳۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۷۔
۲۴۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲ کالم ۲۔
۲۵۔
الفضل ۷/ مارچ ۱۹۳۰ء۔
۲۶۔
h2] ga[t رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۵۷۔
۲۷۔
الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۸۔
عبدالمجید صاحب سالک نے مسلم لیگ کے الحاق کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی سر گزشت میں لکھا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مسلمانوں کی مصلحت کو خوب جانتے تھے اور انہوں نے ہندوئوں کے سامنے اتمام حجت کر دیا اور پھر غصے میں بمبئی چلے گئے۔ پھر خیال آیا ہو گا کہ دو لیگوں کا قائم رہنا خالص حماقت ہے خصوصاً جبکہ آل پارٹیز کانفرنس ملک بھر میں گونج اور گرج رہی ہے اور مسلم لیگ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ )صفحہ ۲۶۰۔ ۲۶۱(
۲۹۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲۔
۳۰۔
اخبار تیج )دہلی( ۱۰/ اپریل ۱۹۲۹ء بحوالہ اہلحدیث امرتسر ۱۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۴۔ ۱۵۔
۳۱۔
بعض شریف اور غیر متعصب ہندوئوں نے اس موقعہ پر یہ بھی اقرار کیا کہ >اگرچہ بعض ہندو جرائد قتل راجپال کی آڑ میں مذہب اسلام اور اس کے بانی حضرت محمد صاحب کی ذات بابرکات کے خلاف نہایت کمینے الزامات تراشنے میں مصروف ہیں لیکن مسلمان لیڈروں کی صاف دلی ملاحظہ ہو کہ وہ ان ناقابل برداشت حملوں کو سنتے ہوئے بھی قتل راجپال میں ان کے ساتھ نہایت خلوص دلی سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں۔ ہم مسلمان بھائیوں کا اس صاف دلی اور اظہار ہمدردی کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ >اخبار رشی امرتسر ۱۸/ اپریل ۱۹۲۹ء( بحوالہ الفضل ۳۰/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔
۳۲۔
تیج )دہلی( ۱۰/ اپریل ۱۹۲۹ء بحوالہ اہلحدیث امرتسر صفحہ ۱۵ کالم ۳۔
۳۳۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲۔
۳۴۔
الفضل ۱۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ تا ۸۔
۳۵۔
الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔
۳۶۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۳۷۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۳۸۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۳۹۔
الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۴۰۔
مشرق ۹/ مئی ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔
۴۱۔
اخبار ہمت لکھنئو ۳/ مئی ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔
۴۲۔
]2h [tag الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۴۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۰۰۔
۴۴۔
مراد مولوی ظفر علی خاں صاحب ہیں۔ ناقل۔
۴۵۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۴۶۔
بحوالہ الفضل ۱۱/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۴۷۔
بحوالہ الفضل ۲۱/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۴۸۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۴۹۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۵۰۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۱۔
الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۵۲۔
الفضل ۱۸۔ ۲۱/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۳۔
الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۵۴۔
الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۵۵۔
الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱ کالم ۱۔
۵۶۔
الفضل ۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۵۷۔
الفضل ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔
۵۸۔
الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۵۹۔
الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۶۰۔
الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۶۱۔
الفضل ۲۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۶۲۔
الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱ کالم ۲۔
۶۳۔
الفضل ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۶۴۔
یاد رہے کہ سفر کشمیر کے اکثر و بیشتر خطبات آپ نے اور بعض ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب و محمد افضل صاحب نے مرتب کرکے الفضل کو بھجوائے جو شائع شدہ ہیں۔
۶۵۔
الفضل ۲۲/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۶۶۔
الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۶۷۔
الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷۔
۶۸۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۶۹۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۷۰۔
خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل` حضرت میر محمد اسحاق صاحب` مولانا ابوالعطاء صاحب` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر` مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب کے مضامین الفضل میں شائع شدہ ہیں۔
۷۱۔
مرثیہ کہنے والوں میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب` حضرت خان صاحب` ذوالفقار علی صاحب` حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی` نواب خان صاحب` ثاقب میرزا خانی` ملک عبدالرحمن صاحب خادم` مولانا جلال الدین صاحب شمس` مولوی غلام احمد صاحب اختر اوچ شریف` مولوی عبداللہ صاحب مالا باری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
۷۲۔
اخبار اہلحدیث ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۲۔
۷۳۔
اخبار پیغام صلح ۹/ جولائی ۱۹۲۹ء۔
۷۴۔
حضور نے اس ایک فقرہ میں حضرت حافظ صاحبؓ کی پوری زندگی کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ چنانچہ جب ہم حضرت مولوی عبدالکریمؓ اور آپ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو دونوں بزرگوں میں متعدد مماثلتیں اور مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں اپنے زمانے میں صف اول کے علماء میں شمار ہوتے تھے۔ دونوں خوش الحان واعظ مقرر تھے۔ دونوں کی علمی و دینی خدمات کا سلسلہ آخر دم تک جاری رہا۔ دونوں سنتالیس سال کی عمر میں اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے۔
۷۵۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء۔
۷۶۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۷۷۔
الفضل ۷/ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۳ کالم ۱` ۲۔
۷۸۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء۔
۷۹۔
الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۴۰ء۔
۸۰۔
یاد رہے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جنوری ۱۹۱۹ء میں جب نظارتوں کا قیام فرمایا تو اعلان فرمایا کہ میں نے جماعت کی ضروریات افتاء کو مدنظر رکھ کر مکرمی مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب` مکرمی مولوی محمد اسمعیل صاحب اور مکرمی حافظ روشن علی صاحب کو مقرر کیا ہے۔ )الفضل ۴/ جون ۱۹۱۹ء صفحہ ۱ کالم ۳(
۸۱۔
ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے جنہوں نے اصحاب احمد کی تین جلدوں میں آپ کی مفصل سوانح لکھی ہے بطور نمونہ آپ کے پچپن فتاوی بھی شائع کئے ہیں جن سے حضرت مولانا کی تبحر علمی` باریک نظری اور دینی بصیرت کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔
۸۲۔
اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم میں اس کا کئی مقامات پر ذکر آتا ہے نیز رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔ ۱۹۳۲ء کے صفحہ ۳۱ پر لکھا ہے۔ مفتی صاحب سلسلہ ان طلباء سے فتویٰ کا کام بھی لے کر مشق کرواتے رہتے ہیں۔
۸۳۔
اخبار مباہلہ جاری کرنے والے کون تھے؟ اس کا تذکرہ تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۱ تا ۶۲۵ میں گزر چکا ہے۔
۸۴۔
اخبار جواب مباہلہ نمبر ۱ صفحہ ۲۔
۸۵۔
الفضل ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ و الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۶۔
اخبار ملاپ )۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء( نے لکھا کہ سکھوں سے پوچھا گیا کہ تمہیں بوچڑ خانہ پر اعتراض تو نہیں تو انہوں نے بھی کہا کہ نہیں پس ڈپٹی کمشنر صاحب نے سمجھا کہ فیصلہ ہو گیا۔ اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں تک مذبح کا تعلق ہے سکھ مذبح کے خلاف نہیں تھے۔ اس کے بعد انہیں پہلے اقرار پر قائم نہ رہنے دینے میں کسی اور فریق کا ہاتھ تھا اور یہ فریق ہندوئوں کے سوا اور کون ہو سکتا تھا۔ چنانچہ سکھوں کے مشہور اخبار اکالی )امرتسر( نے تو صاف لکھا کہ گائے کی مذہبی عظمت کا سوال خالص ہندو سوال ہے اور سکھ جہاں جھٹکہ پر کسی قسم کی بندش برداشت نہیں کر سکتے وہاں دوسروں کو بھی کوئی خوراک کھانے سے نہیں روکنا چاہئے۔ اسی طرح سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے اپنے اخبار ریاست )۲۴/ اگست ۱۹۲۹ء( میں لکھا۔ جہاں تک کسی جانور کے مارنے کا سوال ہے ایڈیٹر ریاست کے ذاتی خیال کے مطابق گائے اور بکری یہاں تک کہ گائے اور ایک مکھی میں بھی کوئی فرق نہیں۔ گائے سے متعلق سکھ قوم کی یہ رائے ہندوئوں سے پوشیدہ نہیں تھی۔ جیسا کہ اخبار گورو گھنٹال )۳۱/ اگست ۱۹۲۹ء( نے اقرار کیا کہ سکھوں میں اب کچھ عرصہ سے بعض من چلے لوگ ایسے بھی پیدا ہو چکے ہیں کہ جو نہ صرف یہ کہ گائے کی عظمت کے قائل نہیں رہے بلکہ وہ سور اور گائے میں بھی کوئی تمیز کرنے کے لئے تیار نہیں۔ )بحوالہ الفضل ۳/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۔ ۴(
۸۷۔
یاد رہے کمشنر صاحب کی عدالت میں مذبح کے خلاف قادیان کے ہندوئوں کی اپیل پیش ہوئی تھی کوئی سکھ ان کے ساتھ شامل نہ تھا۔
۸۸۔
الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ و الفضل یکم اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۸۹۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ یاد رہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس فیصلہ کے بعد مذبح کی اجازت ملتوی کر دی تھی۔ مگر گوشت کی دکان موجود رہی۔ اور آخر ۱۵/ جون ۱۹۳۱ء کو محلہ دارالعلوم میں نئے ¶تعمیر شدہ مذبح کا افتتاح ہوا۔ )الفضل ۱۶/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۱(
۹۰۔
الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۵۔
۹۱۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۹۲۔
شاردابل کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو۔ زمیندار ۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۸/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۹۳۔
الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۹۴۔
ایضاً صفحہ ۶ کالم ۳۔
tav.5.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
حصہ اول
۱۹۲۸ء تا ۱۹۳۱ء
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب )فصل اول(
جلسہ ہائے سیرت النبی کی تجویز و انعقاد
سے لے کر تقریر >فضائل القرآن< تک
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
)جنوری ۱۹۲۸ء تا دسمبر ۱۹۲۸ء بمطابق رجب ۱۳۴۶ھ تا رجب ۱۳۴۷ھ(
خلافت ثانیہ کا نیا دور
الحمد لل¶ہ کہ ہم کو اس جلد سے خلافت ثانیہ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کی توفیق عطا ہوئی ہے یہ نیا دور ۱۹۲۸ء سے شروع ہوتا ہے جس میں ایک طرف تحفظ ناموس رسول کی وہ تحریک خاص جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۷ء سے جاری کر رکھی تھی۔ >سیرت النبیﷺ<~ کے عالمگیر جلسوں کی صورت میں نقطہ عروج تک پہنچ گئی اور دوسری طرف جماعت احمدیہ نے ہندوستان کے سیاسی حقوق سے متعلق برطانوی حکومت کے مقرر کردہ۔۔ سائمن کمیشن سے تعاون کر کے مسلمانان ہند کے قومی و سیاسی مطالبات کی تکمیل کے لئے ایک نئے رنگ کی آئینی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان بیرونی تحریکات میں راہ نمائی کا فرض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت کی اندرونی اصلاح و تربیت کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول فرمائی۔ چنانچہ آپ نے ۱۹۲۸ء ہی میں احمدیوں میں قرآن مجید کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے ۱۹۱۷ء اور ۱۹۲۲ء کے درسوں کی طرح مسلسل ایک ماہ تک قادیان میں درس قرآن دیا یہ وہی معرکتہ الاراء درس تھا جو بعد کو تفسیر کبیر جلد سوم کی صورت میں شائع ہوا اور جس نے دنیائے تفسیر میں ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا۔
مسلمانان عالم خصوصاً مسلمانان ہند اس زمانے میں بڑے نازک دور میں سے گذر رہے تھے۔ اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی قیادت ہی اس رنگ میں فرما رہے تھے کہ پوری جماعت مسلمانوں کے عمومی مفاد کے لئے زندہ اور متحرک مرکز بن جائے اس غرض کے لئے آپ نے ۱۹۲۷ء میں ۲۵ لاکھ کا ایک ریزرو فنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی۔۲تا سلسلہ کے عام بجٹ پر بوجھ ڈالے بغیر ہی دیگر مسلمانوں کی ترقی و بہبود کا فرض بخوبی ادا ہوتا رہے اور اخراجات کی کمی کے باعث مفید اور اہم تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی رفتار سست نہ ہو جائے۔ چنانچہ اس سال یعنی ۱۹۲۸ء میں حضور نے جماعت احمدیہ کے سامنے جو سالانہ پروگرام رکھا اس میں تیسرے نمبر پر ریزرو فنڈ کو بھی شامل فرمایا۔
ان خصوصیات کے علاوہ ۱۹۲۸ء کو کئی اور پہلوئوں سے بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ مثلاً اسی سال جامعہ احمدیہ کا افتتاح ہوا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب )خلف اکبر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام( نے قبول احمدیت کا اعلان کیا۔ قادیان میں ریل آئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قلم سے نہرو رپورٹ پر تبصرہ شائع ہوا۔ اور >فضائل القرآن< کے موضوع پر سالانہ جلسہ میں تقاریر کا ایمان افروز سلسلہ جاری کیا گیا۔
۱۹۲۸ء کے واقعات کا سرسری جائزہ لینے کے بعد اب ہم اس سال کے حالات پر بالتفصیل روشنی ڈالتے ہیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اخلاق عالیہ کاایک یادگار واقعہ
تاریخ اسلام خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم کی اسلامی مساوات کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ چونکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی سلسلہ خلافت کے ایک ممتاز اور مبارک فرد ہیں اس لئے آپ کی سیرت مقدسہ بھی عہد اول کی یاد تازہ کر دیتی ہے اور آپ کی ذات میں ان مقدس بزرگوں کے اخلاق محمدی کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔
۲۷ / جنوری ۱۹۲۸ء کا واقعہ ہے کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کے ہاں دعوت ولیمہ تھی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور جماعت کے بہت سے معززین مدعو تھے۔ جس کمرے میں بیٹھنے کا انتظام تھا وہاں لکڑی کے دو تخت بچھے تھے جن پر حضور کے لئے نشست گاہ بنائی گئی تھی۔ اور چونکہ وہ کافی لمبے چوڑے تھے اس لئے حضور کے ساتھ اور بھی کئی اصحاب بیٹھ سکتے تھے۔ باقی کمرہ میں دیگر اصحاب کے بیٹھنے کے لئے فرش پر ہی انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن حضور جب کمرہ میں تشریف لائے اور اس جگہ رونق افروز ہونے کی درخواست کی گئی تو حضور نے اس وجہ سے کہ وہ جگہ کمرے کے دوسرے فرش سے کسی قدر اونچی ہے وہاں بیٹھنا گوارا نہ کیا اور فرمایا کہ اور دوست نیچے بیٹھیں تو میں اوپر کیسے بیٹھ سکتا ہوں اور آپ نیچے فرش پر بیٹھ گئے۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اور دوست وہاں بیٹھ جائیں مگر کسی خادم کو یہ جرات نہ ہوئی کہ ایسی حالت میں جبکہ اس کا پیارا آقا نیچے فرش پر بیٹھا ہے اونچے حصہ پر جا بیٹھے۔ لیکن جب یہ کمرہ بھر گیا اور جگہ تنگ ہوگئی اور بارش کی وجہ سے کوئی اور انتظام بھی ممکن نہ ہو سکا تو اس جگہ چھوٹے بچے بٹھا دئیے گئے اس پر حضور نے ازراہ مزاح فرمایا ان بچوں کی نگرانی کے لئے چند بڑے بھی ان کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ چونکہ بچوں کو اس جگہ بٹھا دینے کے باوجود جگہ کی قلت دور نہیں ہوئی تھی اس لئے بعض اور اصحاب نے بھی وہاں بیٹھ کر کھانا کھایا۔۳
سائمن کمیشن کی آمد اور جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات
>تاریخ احمدیت< کی جلد پنجم میں سرسری طور پر یہ ذکر کیا جا چکا ہے۴کہ برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کو مزید سیاسی حقوق دینے اور دوسرے اہم ملکی مسائل کا جائزہ لینے کے لئے ۱۹۲۷ء کے آخر میں ایک کمیشن بھجوانے کا اعلان کیا تھا جس کے پریذیڈنٹ انگلستان کے بیرسٹر سرجان سائمن مقرر کئے گئے۔ کمیشن کے فرائض میں یہ داخل تھا کہ وہ ہندوستان آکر مرکزی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں اور کونسل آف سٹیٹ کے نمائندوں اور حکومت کے افسروں سے مشورے کرنے کے علاوہ مختلف ہندوستانی جماعتوں کے خیالات بھی دریافت کرے اور مختلف شہادتوں کو قلمبند کر کے اور متعلقہ امور کی تحقیقات کر کے دو سال تک اپنی رپورٹ برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دے تا آئندہ دستور اساسی کی تیاری میں اس سے مدد مل سکے۔
کمیشن کا اعلان ہوتے ہی آل انڈیا نیشنل کانگریس نے اس بناء پر کہ کمیشن میں کوئی ہندوستانی ممبر شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرلیا۔ ۵اور مسلمانوں کے بعض قوم پرور اور ذہین لیڈر اور صف اول کے سیاستدان جیسے جناب محمد علی جناح` سر عبدالرحیم اور مولانا محمد علی جوہر بھی اس فیصلہ کی تائید میں ہوگئے۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اس نازک ترین موقعہ پر مسلمانوں کی قیادت کے لئے پھر میدان عمل میں آئے اور آپ نے مسلمانوں کو بتایا کہ کمیشن کا بائیکاٹ ہندوئوں کی ایک خطرناک چال ہے انہوں نے انگریزوں سے تعلقات قائم کر کے انہیں اپنے مطالبات کی معقولیت منوانے کی مہم سالہا سال سے جاری کر رکھی ہے۔ اور انگلستان کے با اثر لیڈروں سے ان کے گہرے تعلقات ہیں اس کے مقابل مسلمانوں میں بہت ہی کم انگریز لیڈروں کے روشناس ہیں نتیجہ یہ ہے کہ انگریز ہندوستان کے مطالبات وہی سمجھتے ہیں جو ہندوئوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اب ہندو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے اپنے مطالبات پیش کرنے کا جو موقعہ پیدا ہوا ہے وہ بھی ان کے بائیکاٹ میں شامل ہو کر ضائع کر دین۔ ان حالات میں مسلمانوں کا بھی کمیشن کے بائیکاٹ میں شریک ہونا مسلم مفاد کے سراسر خلاف اور سخت ضرر رساں اور مہلک ثابت ہوگا۔۶ لہذا آپ نے تمام مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اس اہم موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حقوق کو بالوضاحت کمیشن کے سامنے پیش کریں اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل اہم مسائل کی تیاری کا مشورہ دیا۔
اول : انگریزوں کے نزدیک اقلیتوں کی حفاظت کا سوال چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہاں پارٹیوں کی بنیاد سیاسی خیالات پر ہے جو بدلتے رہتے ہیں مگر ہندوستان کی پارٹیوں کی بنیاد مذہب ہے جو بہت کم بدلتا ہے پس انگلستان اور ہندوستان کے فرق کو سمجھا کر کمیشن کے پرانے تعصب کو جسے ہندوئوں کے بیانات نے اور بھی بڑھا دیا ہے۔ دور کرنا چاہیئے اور اقلیتوں کے تحفظ حقوق کے متعلق اپنے مطالبات اور دلائل کا ذخیرہ جمع کرلینا چاہیئے۔
دوم : اس وقت تک ہندوئوں کو مسلمانوں پر غلبہ ادنیٰ اقوام کی وجہ سے ہے ہندو لوگ چوہڑوں وغیرہ کو حق تو کوئی نہیں دیتے لیکن انہیں ہندو قرار دے کر ان کے بدلہ میں خود اپنے لئے سیاسی حقوق لے لیتے ہیں مسلمانوں کا فرض ہے کہ انہیں ابھاریں ان کی تنظیم میں مدد دیں اور کمیشن کے سامنے ان کے معاملہ کو پیش کرنے میں مدد دیں۔
سوم : ہندوستان کے مخصوص حالات میں مسلمانوں کے جداگانہ انتخاب کی سخت ضرورت ہے پس اس امر پر زور دینا چاہیئے کہ اس حق کو ہندوستان کے اساسی قانون میں داخل کیا جائے اور جب تک مسلمان قوم بہ حیثیت قوم راضی نہ ہو اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔۷
چہارم : پنجاب اور بنگال اور جو آئندہ مسلم اکثریت کے صوبے بنیں ان میں مسلمانوں کو اس قدر حقوق دئیے جائیں کہ ان کی کثرت قلت میں نہ بدل جائے اس وقت بنگال کے چھپن فیصدی مسلمانوں کو چالیس فیصدی حق ملا ہوا ہے اور پنجاب کے پچپن فیصدی کو قریباً پینتالیس فیصدی` اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان کسی صوبے کو بھی اپنا نہیں کہہ سکتے اور آزاد ترقی کے لئے کوئی بھی راستہ کھلا نہیں۔
پنجم : صوبہ سرحد میں اصلاحی طریق حکومت کے لئے کوشش ہونی چاہیئے۔ اور سندھ کے متعلق یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ وہ بمبئی سے الگ ایک مستقل صوبہ قرار دیا جائے۔
ششم : body] g[taاس امر کو اساسی قانون میں داخل کرنا چاہیئے کہ کوئی دوسری قوم آزادی کے کسی مرتبہ پر بھی کسی ایسے امر کو جو کسی دوسری قوم کی مذہبی آزادی سے تعلق رکھتا ہو محدود نہیں کر سکے گی۔ خواہ براہ راست مذہبی اصلاح کے نام سے خواہ تمدنی اور اقتصادی اصلاح کے نام سے
ہفتم : تبلیغ ہر وقت اور ہر زمانہ میں قیود سے آزاد رہے گی۔
ہشتم : زبان کا سوال کسی قوم کی ترقی کے لئے اہم سوال ہوتا ہے پس یہ فیصلہ ہونا چاہیئے۔ کہ مسلمانوں کو اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی پوری اجازت ہوگی۔ اور جن صوبوں میں اردو رائج ہے ان میں اردو زبان قانونی زبان کی حیثیت سے ہمیشہ کے لئے قائم رہے گی۔۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ نقطہ نگاہ رسالہ >مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت< کی صورت میں اردو اور انگریزی زبان میں شائع فرما دیا اور اسے وسیع پیمانہ پر پھیلا کر ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اس تنظیم و کثرت کے ساتھ پہنچا دیا کہ مسلمانوں کا کثیر طبقہ جو کانگریس کی تحریک مقاطعہ سے متفق ہو چکا تھا کمیشن سے تعاون کو ضروری سمجھنے لگا۔۹اور گو جناب محمد علی جناح بدستور بائیکاٹ کی پالیسی پر دیانتداری سے ڈٹے رہے۔ مگر مسلم لیگ میں شامل مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے سر شفیع کی قیادت میں اپنی الگ تنظیم قائم کر کے کمیشن سے تعاون کا فیصلہ کرلیا۔ اس نئی لیگ کے صدر سر شفیع صاحب بنے اور سیکرٹری ڈاکٹر سر محمد اقبال۔ ۱۰جنہوں نے کمیشن کے بائیکاٹ کی پر زور مخالفت کی۔۱۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس بروقت رہنمائی ہی کا نتیجہ تھا کہ ۳ / فروری ۱۹۲۸ء کو سائمن کمیشن ساحل بمبئی پر وارد ہوا تو کانگریس کے احتجاجی مظاہروں اور اس کی کوششوں کے باوجود مسلمانوں نے عموماً اس کمیشن سے تعاون ہی کو ترجیح دی چنانچہ کلکتہ` دہلی اور بمبئی میں مسلمانوں کی اکثریت ہڑتالیوں سے الگ رہی۔ شمالی ہندوستان میں جہاں مسلم اکثریت کو بائیکاٹ میں شامل کرنے کے لئے کانگریسی خیال کے علماء مثلاً مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر >زمیندار< بہت زور لگا رہے تھے<۔۱۲ >انقلاب< جیسا اخبار پشت پناہی کرنے لگا تھا10] [p۱۳اور مولانا محمد علی صاحب جوہر` ابوالکلام صاحب آزاد` ڈاکٹر انصاری صاحب اور لالہ لاجپت رائے جیسے لیڈر صوبہ کا دورہ کر رہے تھے اور بڑی جوشیلی تقریروں سے لوگوں کو بائیکاٹ پر اکسا رہے تھے۔ مگر یہاں بھی کانگریسی پروگرام ناکام رہا۔ اور دارالسلطنت لاہور میں تو اسے عبرتناک ناکامی ہوئی چنانچہ ہندو اخبار >ملاپ< لاہور )۵ / فروری ۱۹۲۸ء( نے اقرار کیا کہ >صرف چند دکانیں بند تھیں جو انگلیوں پر شمار کی جا سکتی ہیں<۔۱۴اور ممکن ہے یہ چند دکانین بھی دکانداروں کی کسی مصروفیت یا بیماری کی وجہ سے ہی بند ہوں۔ اخبار >ملاپ< نے اس ناکامی کی وجہ یہ بتائی کہ لوگوں کو اپنے لیڈروں پر اعتماد نہیں رہا۔ چنانچہ اس کے الفاظ یہ تھے >لاہور کے ہندو بھی اور مسلمان بھی ایسے لیڈروں سے بہت بیزار ہو چکے ہیں<۔۱۵
جناب عبدالمجید صاحب۔ سالک نے سائمن کمیشن کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کا ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ >بائیکاٹ ہوا بھی اور نہ بھی ہوا جن لوگوں کو اس کمیشن کے سامنے شہادتیں دینی تھیں۔ وہ دے بھی آئے اور سنا ہے کہ خود کانگریس نے بھی نہرو رپورٹ کی ایک کاپی خفیہ طور پر کمیشن کو بھیج دی تھی۔ تا کہ مبادا کمیشن کانگریس کے نقطہ نگاہ سے بے خبر رہے<۔۱۶
پنجاب کونسل کے ممبروں نے بھی کمیشن سے تعاون کیا اور کمیشن سے تعاون کے لئے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی۔ کمیٹی کے مسلمان ممبروں میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل تھے۔ جنہوں نے حسب سابق قومی اور ملی مطالبات کو کمیشن تک پہنچانے اور شہادتوں پر جرح کرنے میں نمایاں حصہ لیا۔ چنانچہ لاہور کے انگریزی اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )۵ / نومبر ۱۹۲۸ء( نے لکھا۔ >ہمارا سیاسی نمائندہ جو سائمن کمیشن کے ساتھ ہے ہندوستانی ممبروں کی مختلف النوع شخصیتوں سے بہت ہی متاثر ہوا ہے سر شنکرن نائروجاہت اور علیحدگی پسند ہیں سر سکندر حیات خان صاحب خوش گفتار اور اپنی طرف مائل کر لینے والے ہیں۔ مسٹر راجہ اچھوت اقوام کے نمائندے ہیں۔ مسٹر ارون رابرٹس ہوشیار اور چوکس ہیں سر ذوالفقار علی خاں صاحب فاضل ہیں اور دل نشین طرز میں گفتگو کرنے والے ہیں شہادت دینے والوں پر جرح کرنے کے باب میں ایک نمایاں شخصیت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ہے آپ داڑھی رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کوئی دور ازکار بات نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ مطلب کی بات کہتے ہیں اور اس لحاظ سے آپ سر آرتھر فروم سے مشابہ ہیں یعنی آپ کی آواز پر شوکت ہے اور نہایت بر جستہ تقریر کرنے والے ہیں<۔۱۷
اگرچہ پنجاب کونسل کی پہلی سائمن کمیٹی میں ہندوئوں کی ہوشیاری اور بعض مسلمانوں کی خود غرضی کے باعث مسلمانوں کو جو صوبہ میں پچپن فی صدی تھے تیس فیصدی سے بھی کم نمائندگی ملی۱۸جس کے خلاف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی احتجاجاً آواز بلند فرمائی۔ تاہم کمیٹی کی اکثریت نے )جو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب` کپتان سردار حیات خان۔ رائے صاحب چوہدری چھوٹو رام اور مسٹر رابرٹس پر مشتمل تھی( آئندہ اصلاحات سے متعلق اس نے سفارش کی کہ کونسل کے تمام ممبر منتخب شدہ ہوں جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب قائم رہیں۔ اور تمام صوبے اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار ہوں۔ ۱۹وغیرہ وغیرہ۔
کمیشن کے سامنے دو دفعہ جماعت احمدیہ کا وفد بھی پیش ہوا۔ ایک بار گورداسپور میں دوسری بار لاہور میں۔ گورداسپور کے وفد میں ضلع کے بعض معزز ممبروں کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب` حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے۔۲۰لاہور کے وفد میں پنجاب کے مختلف حصوں سے ۱۶ نمائندے شامل ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب` حضرت نواب محمد علی خان صاحب۔ سردار امیر احمد خان صاحب تمندار کوٹ قیصرانی۔ جنرل اوصاف علی خان صاحب مالیر کوٹلہ- کپتان غلام محمد صاحب دوالمیال۔ لیفٹینٹ تاج محمد خان صاحب اسماعیلیہ )مردان( چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر ممبر لیجسلیٹو کونسل پنجاب` قاضی محمد شفیق صاحب ایم۔ اے ایل ایل بی۔ چار سدہ۔ چوہدری سلطان احمد صاحب ذیلدار گجرات۔ چوہدری غلام حسین صاحب سفید پوش لائل پور` حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب ناظر اعلیٰ` حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے` حضرت مفتی محمد صادق صاحب۔۲۱
اس وفد نے احمدی نقطہ خیال سے سیاسی امور پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اور تمام ممبران کمیشن کو سلسلہ کی کتابیں دی گئیں اور سیاسی امور سے قبل سلسلہ کے حالات اختصاراً سنائے۔ صدر کمیشن نے کہا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کی اہمیت کے قائل ہیں اور رائے دہی اور تعاون کے شکر گزار۔ وفد نے اپنا میموریل ۵ لاکھ دستخطوں کے ساتھ پیش کیا۔۲۲
مسلمانوں کو صحیح طریق عمل اختیار کرنے کی دعوت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کی کامیابی کے ذرائع پر غور و فکر فرماتے رہتے تھے۔ اسی ضمن میں حضور نے ۱۰ فروری ۱۹۲۸ء کو ایک خطبہ جمعہ دیا جس میں بتایا کہ دوسرے مسلمان قربانیاں بھی کرتے ہیں مگر ان کے اعلیٰ نتائج نہیں نکلتے اس کے مقابل جماعت احمدیہ میں نصرت اور تائید الٰہی کا عجیب نظارہ نظر آتا ہے جس کی صرف یہی وجہ ہے کہ صحیح راستہ اختیار کئے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی۔۲۳
اس خطبہ پر اخبار >تنظیم< )۲۸ / فروری ۱۹۲۸ء نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا<۔ صاحبو! مرزا صاحب کی تقریر کا ایک ایک لفظ صحیح ہے اگر مجھ سے پوچھو تو میں عرض کروں گا کہ اس وقت مسلمانوں میں نیک نیت مجاہد` ایثار پیشہ کار گذار اور مقاصد کو سمجھنے والے تو ہزاروں موجود ہیں مگر >طریق کار< مرتب کرنے والے بہت کم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جس قدر عمل و خدمت اور ایثار و قربانی کر رہے ہیں اسی قدر اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کی ہے اور ہماری انجمنیں اور اخبار جس قدر تیز دوڑ رہے ہیں اسی قدر قوم اپنے نصب العین سے دور جا رہی ہے اس لئے کہ راستہ صحیح نہیں۔ احمدیہ جماعت نے ہم سے بہت پیچھے اپنا سفر شروع کیا ہے۔ لیکن آج ہم اس جماعت کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے دنیا کے ہر گوشہ میں اس جماعت کے نام اور کام کی دھوم ہے ہم بھی کام کے مدعی ہیں لیکن اے غافل مسلمانو! سوچو کہ ہم نے عملی طور پر کیا کیا؟<۔۲۴
حافظ روشن علی صاحب کی تبلیغ حق
فروری ۱۹۲۸ء میں حضرت حافظ روشن علی صاحب )حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب کے فرزند رشید( )پروفیسر( حبیب اللہ خان صاحب کی برات کے ساتھ میرٹھ تشریف لے گئے۔ اس سفر کے لئے حضرت خان صاحب ہی نے تحریک فرمائی تھی آپ کا منشا یہ تھا کہ اس موقعہ پر جناب محمد علی صاحب جوہر شریک ہوں گے حضرت حافظ صاحب کے ذریعہ ان کو تبلیغ کا موقعہ مل سکے گا۔ اعلائے کلمہ حق کی خاطر حضرت حافظ صاحب نے یہ بات منظور فرمائی تھی اور آپ کا یہ سفر بہت بابرکت ثابت ہوا۔ جناب محمد علی صاحب جوہر آپ کے تبحر علمی سے بہت متاثر ہوئے۔ نیز دوسرے افراد خاندان نے سلسلہ احمدیہ کی عظمت کا اقرار کیا۔۲۵
مرکزی اور بیرونی درسگاہیں
۱۹۲۸ء میں نظارت تعلیم و تربیت قادیان کے تحت مندرجہ ذیل مرکزی درسگاہیں قائم تھیں۔ مدرسہ احمدیہ قادیان۔ مبلغین کلاس قادیان` تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان۔ مدرسہ البنات قادیان۔ مدرسہ خواتین قادیان متفرق کلاس قادیان۔ درزی خانہ قادیان۔ احمدیہ ہوسٹل لاہور۔۲۶]4 [rtf
ان آٹھ باقاعدہ درسگاہوں کے علاوہ جن کے اخراجات کی ذمہ داری صدر انجمن احمدیہ قادیان پر تھی۔ بعض درسگاہیں مقامی جماعتوں نے اپنے طور پر بھی جاری کر رکھی تھیں۔ ان میں دو احمدیہ مڈل سکول تھے ایک گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں اور دوسرا کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور میں۔۲۷گھٹیالیاں کا سکول مقامی جماعت نے اخراجات کی مشکلات کے باعث ان دنوں ڈسٹرکٹ بورڈ ضلع سیالکوٹ کے سپرد کر دیا تھا۔ اور کاٹھ گڑھ کا سکول چوہدری عبدالسلام خان صاحب کی محنت` توجہ اور مساعی سے مالی تنگی کے باوجود بھی کامیابی سے چل رہا تھا۔
اس کے علاوہ سیکھواں` دنجواں` فیض اللہ چک )ضلع گورداسپور( کتھووالی` بھدرک )کشمیر( اجمیر )ہوشیارپور( سہارنپور وغیرہ میں مردانہ پرائمری سکول اور سیکھواں` کاٹھ گڑھ` علی پور` بنگہ اور سیالکوٹ میں زنانہ مدارس قائم تھے۔
موخر الذکر سکول کا قیام لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ اور بابو روشن دین صاحب ۲۸)سیکرٹری تعلیم و تربیت( کا خصوصاً اور میر عبدالسلام صاحب` بابو قاسم الدین صاحب اور مستری نظام الدین صاحب کی مساعی کا عمومی نتیجہ تھا۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ سیالکوٹ شہر انگریزی عہد اقتدار کے زمانہ میں پادریوں کا بھاری مرکز رہا ہے جہاں عیسائیوں نے مسلمان بچوں اور بچیوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے شروع ہی سے کئی سکول کھول رکھے تھے۔ جماعت احمدیہ سیالکوٹ نے مسلمان بچیوں کو ان کے اثر سے بچانے کے لئے آنریری استانیوں کی خدمات حاصل کر کے ایک گرلز سکول کی بنیاد رکھی۔ یہ سکول ابتداء ایک عارضی عمارت میں کھولا گیا۔ مگر لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ کی کوشش اور جماعت احمدیہ سیالکوٹ کے تعاون سے احمدیہ مسجد کبوتراں والی کے شمالی جانب مدرسہ کی مستقل عمارت تعمیر کی گئی جو شہر بھر میں مسلمانوں کی پہلی درسگاہ تھی۔ ۱۹ / فروری ۱۹۲۸ء کو اس درسگاہ کا افتتاح نظارت تعلیم و تربیت قادیان کے نمائندہ خصوصی حضرت الحاج مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ )سابق مبلغ انگلستان و افریقہ( نے فرمایا۔۲۹
یہ درسگاہ ترقی کر کے ہائی سکول تک پہنچ گئی اور اب بابو قاسم الدین صاحب )امیر جماعت احمدیہ ضلع سیالکوٹ( کی نگرانی میں چل رہی ہے۔ سیالکوٹ کی مسلمان بچیوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے میں اس کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ایک مکتوب پردہ سے متعلق
ایک صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ۲۳ / فروری ۱۹۲۸ء کو پردہ سے متعلق بذریعہ خط استفسار کیا جس میں حضور نے ایک مفصل مکتوب تحریر فرمایا جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح اسلامی پردہ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ معتدل مسلک پیش فرمایا کہ :
>پردے کا قرآن کریم نے ایک اصل بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت کے لئے پردہ ضروری ہے الا ما ظھر منھا۳۰)یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو( آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں تو دو ہیں یعنی قد اور جسم لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا دقت کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں۔۔ چنانچہ اسی حکم کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے اگر منہ پر کوئی جلدی بیماری ہے تو طبیب منہ بھی دیکھے گا۔ اگر اندرونی بیماری ہے تو زبان دیکھے گا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک جنگ میں ہم پانی پلاتی تھیں۔ اور ہماری پنڈلیاں ننگی ہو جاتی تھیں۔ اس وقت پنڈلیوں کا ننگا ہونا قرآن کریم کے خلاف نہ تھا بلکہ اس قرآنی حکم کے مطابق تھا۔ جنگی ضرورت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ عورتیں کام کرتیں۔۔۔۔۔۔۔ اسی اصل کے ماتحت اگر کسی گھرانے کے شغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں پر یا میدانوں میں کام کرنا پڑے۔ تو ان کے لئے آنکھوں اور ان کے اردگرد کا علاقہ کھلا ہونا نہایت ضروری ہوگا۔ پس الا ما ظھر منھا کے تحت ماتھے سے لے کر منہ تک کا حصہ کھولنا ان کے لئے بالکل جائز ہوگا اور پردہ کے حکم کے مطابق بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کر سکتیں اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریات مصیبت کے لئے کھولنا پڑتا ہے بشرطیکہ وہ مصیبت جائز ہو اس کا کھولنا پردے کے حکم میں شامل ہی ہے۔ لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اس کا منہ اس کے پردے میں شامل ہے<۔۳۱
معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مختلف حلقوں میں اسلامی پردہ کا سوال زیادہ زور کے ساتھ اٹھا ہوا تھا چنانچہ انہی دنوں شیخ عبدالغفور صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ نے )۲۹ / جون ۱۹۲۸ء کو( اور جناب مشرف حسین صاحب ایم۔ اے دہلوی انسپکٹر ڈاکخانہ جات نے )۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو( حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر خاص طور پر اسلامی پردہ کی نسبت آپ کی رائے دریافت کی۔ جس پر حضور کو پردہ کی مزید تشریح و توضیع کرنا پڑی۔۳۲
گھروں میں درس جاری کرنے کی تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء پر جماعت کے دوستوں سے ارشاد فرمایا کہ وہ قرآن مجید حدیث شریف اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں اور جہاں روزانہ درس نہ ہو سکے۔ وہاں ہفتہ میں دو بار یا کم از کم ہفتہ میں ایک ہی بار درس کا انتظام کر دیا جائے جس پر اس سال بہت سی نئی جگہوں میں درس جاری ہوگئے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی حضور کے ارشاد پر وسط مارچ ۱۹۲۸ء میں ناظر تعلیم و تربیت کی حیثیت سے عہدیداران جماعت کو مزید توجہ دلائی کہ جہاں جہاں ابھی تک سلسلہ درس شروع نہیں ہوا اس کی طرف فوراً توجہ دیں۔ نیز گھروں میں بھی درس جاری کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :
>ہمارے احباب کو چاہیئے کہ علاوہ مقامی درس کے اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس جاری کریں۔ اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہیئے۔ اس کے لئے بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے۔ اس درس کے موقعہ پر گھر کے سب لوگ مرد` عورتیں لڑکے لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے۔ اور درس کا وقت بھی پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو تا کہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو۔ اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے اور اس کی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہو جائیں۔ تو علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کے لئے بھی بہت مفید و بابرکت ہو سکتا ہے<۔۳۳
احمدیت کا حال اور مستقبل
۶ / اپریل ۱۹۲۸ء کو جمعہ تھا اس روز احباب مجلس مشاورت کے سلسلہ میں کثرت سے قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد نور کے متصل بڑ کے درخت کے نیچے ایک ولولہ انگیز خطبہ دیا جس میں فرمایا کہ :
ہم بڑ کے درخت کے نیچے یہ مشورے کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں کہ دنیا کس طرح فتح کی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھیں آج جو سرگوشیاں ہو رہی ہیں ان کا ایسا نتیجہ نکلے گا کہ ساری دنیا پر احمدیت کا جھنڈا لہرائے گا۔ لیکن آج کے منظر کی تصویر اگر لے لی جائے اور اسے کوئی آج سے چھ سات سو سال بعد شائع کرے تو اس وقت کے لوگ انکار کریں گے کہ یہ ہمارے بڑوں کی حالت کی تصویر ہے وہ کہیں گے ہم نہیں مان سکتے کہ وہ ایسے کمزور تھے۔ اس پر یقین کرنے کے لئے ایک تیز قوت واہمہ کی ضرورت ہوگی۔ مگر میں جماعت سے کہتا ہوں ان وعدوں کا مستحق بننے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اور اس کے لئے دعائوں پر بہت زور دینا چاہیئے۔ معاملات میں صفائی رکھنی چاہیئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیئے۔ اپنے نفسوں کو قابو میں رکھنا چاہیئے۔ آپس میں محبت اور اتحاد کا سلوک کرنا چاہیئے<۔۳۴
تعلیم نسواں کے لئے خاص تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو آغاز خلافت ہی سے احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی و بہبود کا خیال رہا ہے مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر حضور نے نمائندگان جماعت کے سامنے تعلیم نسواں کے لئے خاص تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :۳۵
>میرے نزدیک عورتوں کی تعلیم ایسا اہم سوال ہے کہ کم از کم میں تو اس پر غور کرتے وقت حیران رہ جاتا ہوں ایک طرف اس بات کی اہمیت اتنی بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ دنیا میں جو تغیرات ہو رہے ہیں یا آئندہ ہوں گے جن کی قرآن سے خبر معلوم ہوتی ہے ان کی وجہ سے وہ خیال مٹ رہا ہے جو عورت کے متعلق تھا کہ عورت شغل کے طور پر پیدا کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کا میدان عمل مرد کے میدان سے بالکل علیحدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ایک طرف عورتوں کی تعلیم کی اہمیت اور دوسری طرف یہ حالت کہ ان کا میدان عمل جداگانہ ہے یہ ایسے امور ہیں جن پر غور کرتے ہوئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے دوسروں کا نقال نہیں بنایا۔ بلکہ دنیا کے لئے راہ نما بنایا ہے۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم دنیا کی راہ نمائی کریں نہ یہ کہ دوسروں کی نقل کریں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم غور کریں عورتوں کو کیسی تعلیم کی ضرورت ہے ہمیں ہر قدم پر سوچنا اور احتیاط سے کام لینا چاہیئے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہیئے کرنا چاہیئے اور ضرور کرنا چاہیئے مگر غور اور فکر سے کام لینا چاہیئے۔ اب تک ہماری طرف سے سستی ہوئی ہے ہمیں اب سے بہت پہلے غور کرنا چاہیئے تھا۔ اور اس کے لئے پروگرام تیار کرنا چاہیئے تھا گو وہ پروگرام مکمل نہ ہوتا اور مکمل تو یکلخت قرآن شریف بھی نہیں ہوگیا تھا پس یکلخت تو قدم اوپر نہیں جا سکتا مگر قدم رکھنا ضرور چاہیئے تھا۔ میں اس بات کی زیادہ ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ پہلے اس بات پر غور ہونا چاہیئے۔ کہ عورتوں کو تعلیم کیسی دینی چاہیئے مختلف زبانیں سکھانا تو ضروری بات ہے باقی امور میں ضروری نہیں کہ عورتوں کو اس رستے پر لے جائیں جس پر دوسرے لوگ لے جا رہے ہیں اعلیٰ تعلیم وہی نہیں جو یورپ دے رہا ہے مسلمانوں میں بھی اعلیٰ تعلیم تھی مسلمان عورتیں بھی پڑھتی پڑھاتی تھیں<۔
>عورتوں کی تعلیم کا جس قدر جلد سے جلد مکمل انتظام کیا جائے گا۔ اتنا ہی مفید ہوگا۔ مسلمانوں نے اس بات کو مدنظر نہیں رکھا اور بہت نقصان اٹھا رہے ہیں عورتوں کی تعلیم کئی لحاظ سے فائدہ پہنچاتی ہے اور اس کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں نے بڑا نقصان اٹھایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے شملہ میں محسوس کیا کہ ہندوئوں کے اثر اور رسوخ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انگریز عورتوں سے ہندو عورتوں کا تعلق ہے مگر مسلمان عورتوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ایک زنانہ دعوت میں میری ایک بیوی شامل ہوئیں میں نے ان سے مسلمان عورتوں کے حالات پوچھے وہ یہی کہتیں کہ ہر بات میں مسلمان عورتیں پیچھے ہی رہتی تھیں اور کسی کام میں دخل نہ دیتی تھیں۔ میری بیوی انگریزی میں گفتگو نہ کر سکتی تھیں ایک انگریز عورت نے ان سے گفتگو کرنے کی خواہش بھی کی مگر وہ نہ کر سکیں غرض مسلمانوں کا سوشل اثر اسی لئے بہت کم ہے کہ مسلمان عورتیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور ان کے تعلقات بڑے سرکاری عہدیداران کی بیویوں سے نہیں ہیں اور یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت میں عورتوں کا دخل نہیں ہے بہت بڑا دخل ہے اور جن عورتوں کا آپس میں تعلق ہو ان کے مردوں کا خودبخود ہو جاتا ہے اس طرح مسلمانوں کو بہت سا سیاسی نقصان پہنچ رہا ہے جس کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔ پھر تبلیغ کے لحاظ سے بھی عورتوں کی تعلیم نہایت ضروری ہے ہندو اور عیسائی عورتیں تعلیم میں بہت بڑھ رہی ہیں ہماری عورتیں تعلیم حاصل کر کے نہ صرف ان کے حملوں سے بچ سکتی ہیں بلکہ ان کو تبلیغ بھی کر سکتی ہیں<۔۳۶
پہلے تحقیقاتی کمیشن کا تقرر
یکم جنوری ۱۹۱۹ء میں نظارتوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اگرچہ نظارتیں اپنے ماتحت دفاتر کی نگرانی کے فرائض انجام دے رہی تھیں لیکن )خلیفہ وقت کے علاوہ( خود نظارتوں کے کام کی نگرنی کرنے والا کوئی ادارہ نہ تھا۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپریل ۱۹۲۸ء میں پہلی بار ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا۔ جو چوہدری نعمت اللہ خان صاحب سب جج دہلی۔ پیر اکبر علی صاحب وکیل فیروزپور اور چوہدری غلام حسین صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس کرنال پر مشتمل تھا۔ اور اس کے ذمہ یہ کام کیا کہ وہ سارے دفاتر کا معائنہ کر کے رپورٹ کرے کہ >دفاتر کا عملہ کم ہے اور کام زیادہ ہے یا عملہ زیادہ اور کام کم ہے نظارتوں کے فرائض پورے طور پر ادا ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور ارشاد فرمایا کہ >یہ دوست معائنہ کرنے کے لئے اپنی فرصت اور سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے خود تاریخ مقرر کرلیں۔ اور اس کی اطلاع نظارتوں کو دے دیں۔ چوہدری نعمت اللہ خان صاحب کو اس کمیٹی کا پریذیڈنٹ مقرر کیا جاتا ہے وہ مناسب موقع پر دوسروں کو جمع کرلیں لیکن جب کسی دفتر کا معائنہ کرنا ہو تو اسے لکھ دیں۔ تا کہ وہ تیاری کرے<۔۳۷
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے فرمان مبارک کے مطابق اس کمیشن کو جنوری ۱۹۲۹ء کے آخر میں ایک ہفتہ معائنہ کر کے رپورٹ پیش کر دینا چاہیئے تھا مگر کمیشن نے اس پر کوئی کارروائی نہ کی۔ لہذا حضور نے ۱۹۲۹ء میں دوبارہ کمیشن مقرر فرمایا۔ اور پہلے ممبران ہی کو اس کا رکن تجویز فرمایا۔ تا وہ اپنی کوتاہی کا کفارہ کر سکیں۔ اور اسے معائنہ کے لئے پانچ اہم ہدایات دیں۔
۱۔
کمیشن تحقیقات کرے کہ ناظر اپنے مقررہ فرائض منظور شدہ رقم میں پوری طرح ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟
۲۔
کیا نظارتیں ان قواعد کی جو پاس کرتی ہیں اور ان ہدایتوں کی جو انہیں دی جاتی ہیں پابندی کرتی اور کراتی ہیں یا نہیں؟
۳۔
کیا نظارتیں مجلس شوریٰ کے فیصلوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا نہیں؟
۴۔
انجمن کے کارکن اپنے اختیارات ایسے طور پر تو استعمال نہیں کرتے کہ لوگوں کے حقوق ضائع ہوں؟
۵۔
کوئی صیغہ اخراجات کے بارے میں اسراف سے تو کام نہیں لے رہا۔۳۸`۳۹
چنانچہ ارکان کمیشن نے اس کام میں کافی وقت صرف کیا وہ دو بار محض اسی غرض کے لئے قادیان آئے جہاں انہوں نے لمبی لمبی شہادتیں لیں جو ہزار صفحات سے بھی متجاوز تھیں اور بالاخر بہت چھان بین اور بڑے غور و فکر کے بعد ایک مفصل اور ضخیم رپورٹ لکھی جس میں ۲۷ سفارشات پیش کیں۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس رپورٹ کی بعض اغلاط۴۰اور نقائص کے باوجود مشاورت ۱۹۳۰ء کے سامنے کمیٹی کی محنت و کاوش پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
>جو کام انہوں نے کیا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ پہلی دفعہ یہ کام کیا گیا ہے جس کے لئے انہوں نے پوری محنت کی ہے کافی وقت صرف کیا ہے اور ایک لمبی رپورٹ مرتب کی ہے جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں اور دوسروں کے لئے نمونہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض کمیشن نے بہت قابل تعریف اور مفید کام کیا ہے اور کسی ممبر کی غلطی سے اس کام پر پانی نہیں پھیرا جا سکتا۔ کمیشن کا کام باعث خوشی ہے اور میں اس پر خوشی اور امتنان کا اظہار کرتا ہوں<۔۴۱
اس کے ساتھ ہی حضور نے صاف لفظوں میں یہ وضاحت فرما دی :
>یہ۔۔۔۔۔۔ کمیشن ۔۔۔۔۔۔ مجلس شوریٰ کا قائم مقام نہیں ہے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے اور خود کمیشن کے بعض ممبروں کو بھی غلط فہمی ہوئی ہے کہ انہوں نے کمیشن کو مجلس شوریٰ کا قائمقام سمجھا ہے۔ حالانکہ مجلس شوریٰ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی وہ میرے بلانے پر آتی اور آکر مشورہ دیتی ہے اور ہمیشہ خلیفہ کے بلانے پر آئے گی اور اسے مشورہ دے گی۔ ورنہ وہ اپنی ذات میں کوئی حق نہیں رکھتی۔ کہ مشورہ دے۔ اور کمیشن خلیفہ نے مقرر کیا ہے تا کہ وہ اس کام کا معائنہ کرے جو کارکن کر رہے ہیں۔ اور جس کی نگرانی خلیفہ کا کام ہے خلیفہ چونکہ اس قدر فرصت نہیں رکھتا کہ خود تمام کاموں کی نگرانی کر سکے اس لئے اس نے اپنی تسلی کے لئے کمیشن مقرر کیا تا کہ وہ دیکھے کہ کارکنوں کے سپرد جو کام ہے اسے وہ کس طرح کر رہے ہیں؟<۔ ۴۲
سیٹھ علی محمد صاحب کی کامیابی سے متعلق آسمانی بشارت
حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد کا بیان ہے کہ >حضرت امیر المومنین کے ارشاد کے مطابق میں نے اپنے لڑکے علی محمد صاحب کو آئی۔ سی۔ ایس S)۔C۔(I کے لئے لندن روانہ کیا۔ وہاں ان کو پہلے ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کرنی ضروری تھی۔ مگر ایم۔ اے میں اس قدر دیر ہوگئی کہ آئی۔ سی۔ ایس کے لئے موقعہ نہ رہا۔ ایم۔ اے کے سات مضامین میں سے چھ تو انہوں نے پاس کرلئے مگر آخری مضمون Law) )(Constitutinalقوانین آئین سازی( اور History) )(Consitutuionalتاریخ آئین سازی( میں متواتر فیل ہوتے گئے اس لئے وہ نا امید ہوکر واپس چلے آنا چاہتے تھے ان کو سات سال کا عرصہ ہوتا تھا اس لئے میں نے حضرت امیر المومنین سے ان کو واپس بلا لینے کی اجازت چاہی مگر حضور نے فرمایا کہ میں نے خواب میں ان کا نام پاس ہونے والوں کی فہرست میں دیکھا ہے اس لئے انشاء اللہ وہ یقیناً پاس ہوکر آئیں گے۔ اس لئے میں نے ان کو یہ کیفیت لکھی اور پھر کوشش کرنے کو کہا۔ انہوں نے پھر ایک بار کوشش کی مگر پھر بھی فیل ہوگئے یہ پریشان حالی میں تھے کہ اب آئندہ کیا کیا جائے۔ ان کے استاد کو جب معلوم ہوا کہ پھر فیل ہوگئے تو اس نے تحقیق کی۔ معلوم نہیں خدا تعالیٰ کا وہاں کیا کرشمہ ہوا کہ ایک دو روز میں ان کو )ایڈنبرا( یونیورسٹی کی طرف سے اطلاع ملی کہ آپ کے فیل ہونے کی خبر غلط تھی آپ پاس ہوگئے ہیں۔ یہ بہت خوش ہوئے اور سمجھ گئے یہ محض خدا تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کا خواب پورا کرنے کے لئے ان پر فضل کیا ہے۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حج کا موقعہ تھا اس لئے واپس ہوتے ہوئے حج کر کے الحاج علی محمد ایم۔ اے بن کر ہم کو آملے۔ الحمد لل¶ہ ثم الحمدلل¶ہ۔< ۴۳
امتحان میں کامیابی کا یہ ایمان افروز واقعہ اوائل ۱۹۲۸ء کا ہے۔۴۴
جمات کوحفاظت اسلام کیلئے اورزیادہ چوکس ہوجانے کاارشاد
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بھی اسلام کی مشکلات کا غم ستائے جا رہا تھا اور ان نازک ایام میں جماعت کو بیدار اور ہوشیار کرنے کی ہر لمحہ فکر رہتی تھی اگرچہ ۱۹۲۷ء میں جماعت کو اپنی ذمہ داری کا زبردست احساس پیدا ہو چکا تھا تاہم حضور نے مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر نمائندگان مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنے فرائض منصبی کی طرف خاص توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا :
>اس وقت اسلام ایسی مشکلات میں گھرا ہوا ہے کہ ہم ان مشکلات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ اور جب جزوی طور پر اندازہ کرتے ہیں تو اس کا ایسا اثر دماغ پر پڑتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو جنون ہو جائے اس حالت میں صرف اس بات سے آرام حاصل ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام کہتا ہے کہ ان مشکلات کا انجام برا نہیں ہوگا۔ اور تم کامیاب ہو جائو گے۔۔۔۔۔۔۔ سوائے اس کے کوئی سہارا نہیں نہ ہمارے پاس مال ہے نہ تربیت ہے نہ تعداد کے لحاظ سے دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں جب یہ حالت ہے تو سوچ لو کہ کس قدر خشیت اور ڈرنے کا مقام ہے اور پھر کس قدر کوشش کتنے ایثار اور کیسے توکل کی ضرورت ہے<۔
>صرف ہندوستان میں اسلام کے متعلق اگر کسی کو جوش اور تڑپ کا دعویٰ ہے تو وہ ہماری جماعت ہے ایسی خطرناک حالت میں اگر ہماری جماعت کی سی کمزور جماعت بھی پوری توجہ اسلام کی حفاظت کے لئے نہ کرے تو بتائو پھر اسلام کی حفاظت کا اور کیا ذریعہ ہے اس میں شبہ نہیں کہ ہدایت خدا تعالیٰ ہی پھیلاتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہدایت پھیلانے کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں آیا کرتے انسان ہی یہ کام کیا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بدر کی جنگ کے موقعہ پر رسول کریم~صل۱~ نے یہ دعا کی تھی کہ مسلمان مٹھی بھر ہیں اگر یہ تباہ ہوگئے تو پھر اسلام کا کیا بنے گا پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری کوئی طاقت نہیں ہے مگر خدا تعالیٰ انسانوں سے ہی اپنے دین کی اشاعت کراتا ہے اگر ہم بھی توجہ نہ کریں تو پھر اسلام کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہوگا جہاں کوئی اور بھی کام کرنے والا ہو وہاں کوئی سستی بھی کر سکتا ہے لیکن جہاں ایک ہی کام کرنے والا ہو اس کی سستی کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوتا اس وقت یہ موقعہ نہیں ہے کہ مختلف جماعتیں اسلام کا کام کر رہی ہیں اسلام کی ترقی کا انحصار صرف احمدیہ جماعت پر ہے اور حالات نازک سے نازک تر ہوتے جا رہے ہیں-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے >آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے<۔ ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ مصائب اور آفات آپ کی جماعت کو تباہ نہ کریں گے مگر اس کے ایک اور معنی بھی ہیں۔ آگ کا لفظ مختلف معنی رکھتا ہے آگ مصائب کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے اور محبت کے معنوں میں بھی۔ پس اس الہام میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کیمصائب ہمارا کچھ نہیں بگار سکتے۔ آگ ہمارا کام کر رہی ہے یعنی عشق الٰہی کی آگ ہماری کمزوریوں کو جلا رہی ہے اور جب دلوں میں عشق الٰہی کی آگ جل جاتی ہے۔ تو پھر اس کی علامات مونہوں سے بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں پس ہماری جماعت کے ہر فرد کے دل میں محبت الٰہی کا ایسا شعلہ ہوکہ مونہہ سے بھی نکلتا ہو اور ہر احمدی اس آگ کو اس طرح بھڑکائے کہ اس کا چہرہ دیکھ کر لوگ سمجھ جائیں کہ یہ اسلام کا سچا عاشق ہے جو اسلام کے لئے جان بھی دے دے گا۔ مگر قدم پیچھے نہ ہٹائے گا۔
میں نے دیکھا ہے کہ پچھلی مجلس مشاورت سے احباب نے ہر رنگ میں ترقی کی ہے اور مالی اور دوسری مشکلات کے متعلق کسی قدر تسلی ہوئی ہے اور اس وجہ سے چند راتیں میں نے بھی آرام سے بسر کی ہیں۔ مگر اتنی ترقی کافی نہیں ہے ہمیں اپنے تمام کاموں میں استقلال دکھانا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔پس میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ اب بھی بیدار ہوں اورپچھلی دفعہ جو عہد کیا گیا تھا اسے پھر یاد دلاتا ہوں۔۴۵جو دوست پچھلے سال نہ آئے تھے وہ آج سے عہد کریں کہ واپس جاکر ان لوگوں کا اخلاص بڑھائیں گے جن میں اخلاص ہے۔ اور جن میں نہیں ان میں پیدا کریں گے اسلام کی محبت پھیلانے اور اسلام کی اشاعت کرنے میں لگ جائیں اور قرآن کریم کی روشنی جو مٹ رہی ہے اسے قائم کریں میں نے بتایا ہے دوستوں میں پہلے کی نسبت بہت تغیر ہے اور یہ بہت خوشی کی بات ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے رہیں۔ اور دیکھیں ہر روز ہمارا قدم آگے بڑھ رہا ہے یا نہیں پس میں دوستوں سے ایک بات تو یہ کہتا ہوں کہ ہر روز قدم آگے بڑھائیں۔ اخلاص و محبت بڑھائیں اور دوسرے بھائیوں میں بھی پیدا کریں<۔۴۶
حضرت مولوی ذوالفقار علی خان صاحب گوہر کا جوش دینی و حرارت ایمانی
رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کی دختر کے نکاح کی تقریب مئی ۱۹۲۸ء کے دوسرے ہفتہ میں ہوئی جس میں شمولیت کے لئے مولانا جوہر کے
برادر اکبر حضرت خان ذوالفقار علی خاں ایک ہفتہ کی رخصت لے کر قادیان سے دہلی تشریف لے گئے<۔۴۷
دہلی میں آپ کو تبلیغ اسلام کا ایک موقعہ ملا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے اس درجہ جوش دینی اور حرارت ایمانی کا ثبوت دیا کہ مشہور مسلم لیڈر جناب عبدالماجد صاحب دریا آبادی مدیر >صدق< لکھنئو نے آپ کی وفات پر >صدق جدید< میں لکھا۔ کہ >مئی ۱۹۲۸ء کا ذکر ہے کہ مولانا محمد علی کی منجھلی صاحبزادی کا عقد دہلی میں تھا۔ اس تقریب میں یہ بھی آئے ہوئے تھے۔ ایک روز دوپہر کی تنہائی میں دو معزز مہمانوں نے مسائل اسلامی پر کچھ طنز و تمسخر شروع کیا )دونوں بیرسٹر تھے( اور لا مذہب نہیں بلکہ اچھے خاصے مسلمان اور ایک صاحب ماشاء اللہ ابھی موجود ہیں( مخاطب >سچ< )سابق صدق( کا ایڈیٹر تھا لیکن قبل اس کے کہ وہ کچھ بھی بول سکے ایک اور صاحب نے جو اس وسیع کمرے کے کسی گوشے میں لیٹے ہوئے تھے کڑک کر ایک ایک اعتراض کا جواب دینا شروع کر دیا اور وہ جوابات اتنے کافی بلکہ شافی نکلے کہ مخاطب اصلی کو بولنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ یہ نصرت اسلام میں تقریر کر ڈالنے والے بھی ذوالفقار علی خان تھے اس جوش دینی و حرارت ایمانی رکھنے والے سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نرمی اور رافت ہی کا معاملہ فرمائیں اور اس کی لغزشوں کو سرے سے درگذر فرمائیں<۔ )صدق جدید لکھنئو(۴۸
جامعہ احمدیہ )عربی کالج( کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو شروع خلافت سے یہ خیال تھا کہ جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی ضروریات کے لئے مدرسہ احمدیہ کو ترقی دے کر اسے ایک عربی کالج تک پہنچانا ضروری ہے اس مقصد کی تکمیل کے لئے حضور نے ۱۹۱۹ء میں پہلا قدم یہ اٹھایا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے` حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت میر محمد اسحاق صاحب` حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے` حضرت مولوی محمد دین صاحب` ماسٹر نواب دین صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس نے مختلف پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد ایک سکیم تیار کی۔۴۹
کمیٹی کی رپورٹ
اس اہم کمیٹی اور اس کی سکیم کا ذکر صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹ ۲۰۔۱۹۱۹ء میں ان الفاظ میں آتا ہے کہ امسال مدرسہ احمدیہ میں بہت بڑا تغیر واقع ہوا ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے جماعت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے اور یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان ضروریات کو سوائے مدرسہ احمدیہ کے اور کوئی انسٹی ٹیوشن پورا نہیں کر سکتی اس کی طرف خاص توجہ فرمائی اور اس مدرسہ کی موجودہ حالت کو ترقی دینے اور اس کو جماعت کے لئے ایک نہایت کارآمد وجود بنانے کے لئے اس کی پہلی سکیم پر غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنا دی )آگے ممبران کمیٹی کے نام دینے کے بعد لکھا ہے۔ ناقل( اور اس کمیٹی کو حکم دیا کہ وہ اس کی سکیم پر پورا غور کرے اور اس میں مناسب تغیر و تبدل کر کے اس کو ایسی لائنوں پر چلائے جن پر چل کر مدرسہ ایسے طالب علم نکال سکے جو صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ تمام بیرونی ممالک ولایت وغیرہ میں بھی تبلیغ کر سکیں اور تعلیم مدرسہ تک ہی محدود نہ رکھی جائے۔ بلکہ اس کے ساتھ ایک کالج بھی کھول دیا جائے چنانچہ حضور کی ہدایت کے مطابق اس کمیٹی نے کامل دو ماہ غور کرنے کے بعد ایک سکیم تیار کرکے حضور کی خدمت میں پیش کردی اور حضور نے اس میں مناسب اصلاح کر کے اسے جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اور وہ سکیم اس سال مدرسہ احمدیہ میں جاری کر دی گئی۔ لیکن چونکہ اس سکیم اور پرانی سکیم میں بہت فرق تھا۔ اگر یہ سارے مدرسہ میں جاری کر دی جاتی تو پہلے طالب علموں کی تعلیم میں بہت نقص وارد ہونے کااندیشہ تھا۔ اس لئے فی الحال یہ صرف پہلی تین جماعتوں میں رائج کی گئی۔ اور گویا اب مدرسہ میں دو سکیمیں کام کر رہی ہیں۔ پہلی تین جماتیں نئی سکیم کے مطابق تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور آخری چار جماعتیں پرانی سکیم کے مطابق اور اس کے علاوہ ایک جماعت مدرسہ احمدیہ کے ساتھ اور بھی ہے جو مولوی فاضل کلاس کہلاتی ہے اس کا کورس یونیورسٹی کے کورس کے مطابق ہے۔۵۰
جامعہ احمدیہ کے انتظام کا فیصلہ
حضور نے اس سکیم کے مطابق ۱۹۲۴ء میں صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ مدرسہ کو کالج تک ترقی دینے کے لئے عملی اقدام کرے۔۵۱چنانچہ کئی مراحل طے ہونے کے بعد صدر انجمن احمدیہ نے ۱۵ / اپریل ۱۹۲۸ء کو جامعہ احمدیہ کے نام سے ایک مستقل ادارہ کے قیام کا فیصلہ کر دیا جس کے مطابق مدرسہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس اس عربی کالج کی پہلی دو جماعتیں قرار دے دی گئی۔ اور جماعت مبلغین )جس کے واحد انچارج یا پروفیسر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب ہی تھے(۔۵۲دو جماعتوں میں تقسیم کر کے جامعہ کے ساتھ ملحق کر دی گئی اس طرح ابتداء میں جامعہ احمدیہ کی چار جماعتیں کھولی گئیں درجہ اولیٰ و درجہ ثانیہ )مدرسہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس(۵۳اور درجہ ثالثہ ورابعہ )جماعت مبلغین(
نئی درسگاہ کی عمارت کے لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے احاطہ کی وہ کوٹھی مخصوص کی گئی۔ جو گیسٹ ہائوس کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی۔ اور جس میں خلافت ثانیہ کے اوائل تک جناب مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے )سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ قادیان( قیام رکھتے تھے۔۵۴جامعہ احمدیہ کے بورڈر طلباء کا انتظام کسی موزوں عمارت کے نہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ ہی میں رہا۔
جامعہ احمدیہ کی جماعتوں کے لئے مدرسہ احمدیہ کا وہ سامان جو اس وقت تک عملاً مدرسہ کی مولوی فاضل کلاس کے استعمال میں تھا۔ جامعہ احمدیہ میں منتقل کر دیا گیا اور دیگر ضروری ابتدائی سامان کے لئے مبلغ ایک سو روپیہ کی منظوری دی گئی۔ اور سائر کا باقی بجٹ حصہ رسدی مدرسہ اور جامعہ میں تقسیم کر کے جامعہ احمدیہ کو اس کا دسواں حصہ )دہاکے کی کسر چھوڑ کر( بطور پیشگی حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔
جامعہ احمدیہ کے اساتذہ
اس سلسلہ میں سب سے اہم مسئلہ جامعہ احمدیہ کے سٹاف کا تھا۔ سو اس کے پہلے پرنسپل حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور پروفیسر حضرت حافظ روشن علی صاحب` حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب مقرر کئے گئے۔۵۵
جامعہ احمدیہ کے ان اولین قدیم ترین پروفیسروں کے بعد ۱۹۴۷ء یعنی تقسیم ہند تک مندرجہ ذیل اساتذہ وقتاً فوقتاً اس دینی درسگاہ میں تعلیمی فرائض بجا لاتے رہے۔۵۶مولوی ارجمند خان صاحب۔۵۷مولوی محمد یار صاحب عارف۔ حافظ مبارک احمد صاحب۔۵۸حضرت مولوی محمد جی صاحب ہزاروی۔۵۹سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان۔ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری۔ صاحبزادہ مولوی سید ابوالحسن صاحب قدسی )خلف الصدق حضرت صاحبزادہ مولوی سید عبداللطیف صاحب شہیدؓ( مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی۔ شیخ محبوب عالم صاحب خالد۔ مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب فاضل سنسکرت۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے۔ مرزا احمد شفیع صاحب مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری۔ ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے۔ بی ٹی۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری۔ مولوی عبدالمنان صاحب عمر۔ مولوی ظفر محمد صاحب مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب )جون ۱۹۴۷ء(۔4] ft[s۶۰
جامعہ احمدیہ کا افتتاح اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی قیمتی نصائح
اساتذہ کرام کی فہرست دیتے ہوئے ہم ۱۹۴۷ء کے آخر تک پہنچ گئے تھے اب پھر ضروری ابتدائی حالات کی طرف آتے ہیں۔ جامعہ احمدیہ کی داغ بیل پڑنے کے بعد جب اس نئی درسگاہ کے ابتدائی انتظامات پایہ تکمیل کو پہنچ گئے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۰ / مئی ۱۹۲۸ء کو اس کا افتتاح فرمایا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریب پر جو تقریر فرمائی وہ الفضل ۱۴۔ اگست ۱۹۲۸ء میں شائع ہوچکی ہے۔ حضور نے تقریر میں اس نئے ادارہ کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا :
>خدا تعالیٰ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد اور ہدایت کے ماتحت مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا تاکہ اس میں ایسے لوگ تیار ہوں جوولتکن منکم امہ یدعون الی الخیر الخ کے منشاء کو پورا کرنے والے لوگ ہوں۔ بے شک اس مدرسہ سے نکلنے والے بعض نوکریاں بھی کرتے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص ایک ہی کام کا اہل نہیں ہوتا۔ انگریزوں میں سے بہت سے لوگ قانون پڑھتے ہیں مگر لاء کالج سے نکل کر سارے کے سارے بیرسٹری کا کام نہیں کرتے بلکہ کئی ایک اور کاروبار کرتے ہیں تو اس مدرسہ سے پڑھ کر نکلنے والے کئی ایسے ہوتے ہیں جو ملازمتیں کرتے ہیں۔ مگر یہ اس لئے نہیں بنایا گیا کہ اس سے تعلیم حاصل کرنے والے نوکریاں کریں بلکہ اصل مقصد یہی ہے کہ مبلغ بنیں اب یہ دوسری کڑی ہے کہ ہم اس مدرسہ کو کالج کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ تبلیغ کے لحاظ سے یہ کالج ایسا ہونا چاہیئے کہ اس میں نہ صرف دینی علوم پڑھائے جائیں بلکہ دوسری زبانیں بھی پڑھانی ضروری ہیں ہمارے جامعہ میں بعض کو انگریزی بعض کو جرمنی بعض کو سنسکرت بعض کو فارسی بعض کو روسی بعض کو سپینش وغیرہ زبانوں کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہیئے۔ کیونکہ جن ملکوں میں مبلغوں کو بھیجا جائے ان کی زبان جاننا ضروری ہے بظاہر یہ باتیں خواب و خیال نظر آتی ہیں۔ مگر ہم اس قسم کی خوابوں کا پورا ہونا اتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو ظاہری باتوں کے پورے ہونے پر جس قدر اعتماد ہوتا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں ان خوابوں کے پورے ہونے پر یقین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تو ہم اس کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ کے ساتھ بھی مبلغین کی کلاس تھی مگر ¶اس میں شبہ نہیں کہ ہر چیز اپنی زمین میں ہی ترقی کرتی ہے جس طرح بڑے درخت کے نیچے چھوٹے پودے ترقی نہیں کرتے اسی طرح کوئی نئی تجویز دیرینہ انتظام کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتی۔ اس وجہ سے جامعہ کے لئے ضروری تھا کہ اسے علیحدہ کیا جائے۔ اس سے متعلق میں نے ۱۹۲۴ء میں صدر انجمن احمدیہ کو لکھا تھا کہ کالج کی کلاسوں کو علیحدہ کیا جائے۔ اور اسے موقعہ دیا جائے کہ اپنے ماحول کے مطابق ترقی کرے۔ آج وہ خیال پورا ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہی چھوٹی سی بنیاد ترقی کرکے دنیا کے سب سے بڑے کالجوں میں شمار ہوگی<۔
نیز طلباء جامعہ کو ان کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ :
>وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ان کے سامنے عظیم الشان کام اور بہت بڑا مستقبل ہے وہ عظیم الشان عمارت کی پہلی اینٹیں ہیں اور پہلی اینٹوں پر ہی بہت کچھ انحصار ہوتا ہے ایک شاعر نے کہا تھا۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا مے رود دیوار کج
اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھے تو ثریا تک دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی۔ جتنی اونچی دیوار کرتے جائیں اتنی ہی زیادہ ٹیڑھی ہوگی گو کالج میں داخل ہونے والے طالب علم ہیں اور نظام کے لحاظ سے ان کی ہستی ماتحت ہستی ہے۔ لیکن نتائج کے لحاظ سے اس جامعہ کی کامیابی یا ناکامی میں ان کا بہت بڑا دخل ہے یہ تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے کام ترقی کرتے جائیں گے۔ مگر ان طلباء کا ان میں بڑا دخل ہوگا۔ اس لئے انہیں چاہیئے کہ اپنے جوش اپنے اعمال اور اپنی قربانیوں سے ایسی بنیاد رکھیں کہ آئندہ جو عمارت تعمیر ہو اس کی دیواریں سیدھی ہوں ان میں کجی نہ ہو ان کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی غایت ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا اعلاء ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کا یہی موٹو ہونا چاہیئے۔ کہ و التکن منکم امہ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولئک ھم المفلحون۶۱اور وما کان المئومنون لینفروا کافہ فلو لا نفر من کل فرقہ منھم طائفہ لیتفقھوا فی الدین و لینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون ۶۲میرے نزدیک ان آیتوں کو لکھ کر کالج میں لٹکا دینا چاہیئے۔ تاکہ طالب علموں کی توجہ ان کی طرف رہے اور انہیں معلوم رہے کہ ان کا مقصد اور مدعا کیا ہے۔۶۳`۶۴
جامعہ احمدیہ کا دور اول
جامعہ احمدیہ کا ابتدائی دور کئی قسم کی مشکلات میں سے گذرا۔ پہلے سال کے شروع میں ہی جامعہ احمدیہ کے اولین استاد اور جماعت مبلغین کے شفیق استاد حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب تشویشناک طور پر بیمار ہوگئے اور پھر اچانک ۲۹ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو آپ پر فالج کا حملہ ہوا۔۶۵ اور بالاخر آپ ۲۳ / جون ۱۹۲۹ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۶۶]4 [rtfحضرت حافظ صاحبؓ کے انتقال سے نہ صرف جماعت احمدیہ اپنے ایک جلیل القدر و عظیم المرتبت عالم بے بدل فاضل اجل سے محروم ہوگئی بلکہ جامعہ احمدیہ کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحبؓ کی لمبی بیماری نے بھی تعلیم پر ناگوار اثر ڈالا۔۶۷اسی طرح شروع شروع میں متعدد دقتوں اور دشواریوں سے دو چار ہونا پڑا۔ طلباء جامعہ احمدیہ کی عمارت بھی ناقص تھی۔ اور اس کا علیحدہ ہوسٹل نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بعض طلباء مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں رہتے تھے اور بعض ہائی سکول کے بورڈنگ میں اور بعض نے اپنے قیام کا پرائیویٹ انتظام کر رکھا تھا۔
جامعہ احمدیہ کے ابتدائی کوائف` اس کے اساتذہ اور افتتاح کا عمومی تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم اس درسگاہ کے بعض دوسرے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں-
۱۹۲۹ء میں جامعہ احمدیہ کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق ہوا۔۱۹۳۰۶۸ء میں جامعہ کے طلباء کی ورزش کے لئے گرائونڈ کا انتظام ہوا۔۶۹اپریل ۱۹۳۰ء میں ایک سہ ماہی رسالہ >جامعہ احمدیہ< جاری ہوا۔ جامعہ احمدیہ کے پاس اپنی کوئی لائبریری نہ تھی اور طلباء کو مرکزی لائبریری میں جو اندرون شہر واقع تھی۔ جانا پڑتا تھا۔ ۳۱۔۱۹۳۰ء میں بعض کتب منگوانے کا انتظام شروع ہوا۔۷۰چنانچہ ۱۹۴۷ء تک جامعہ احمدیہ کی ایک اچھی خاصی لائبریری تیار ہوگئی تھی۔ ۱۹۳۲ء میں قادیان علوم شرقیہ کے امتحان کا سنٹر منظور ہوا۔ اسی سال جامعہ کے اندرونی انتظام کو باقاعدہ بنانے کے لئے اس کے سٹاف کی ایک کونسل بنائی گئی جس کے صدر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور سیکرٹری حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب مقرر ہوئے اور چہار شنبہ کو ہفتہ وار اجلاس منعقد ہونا قرار پایا۔۷۱
نومبر ۱۹۳۲ء میں جامعہ احمدیہ کے ایک وفد نے جو انتیس افراد پر مشتمل تھا مولوی ارجمند خان صاحب کی قیادت میں ہندوستان کے متعدد شہروں کا ایک کامیاب تبلیغی و تفریحی دورہ کیا۔۷۲
اسی زمانہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک ارشاد کی روشنی میں یہ قاعدہ بنا دیا گیا کہ جامعہ احمدیہ میں صرف وہی طلباء داخل کئے جائیں گے جو مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل ہوں گے ان کے سوا کوئی طالب علم جامعہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ البتہ جہاں تک جامعہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس کا تعلق ہے صدر انجمن احمدیہ کی خاص اجازت سے استثنائی طور پر مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباء کے علاوہ دوسرے بھی داخل ہو سکیں گے۔ مگر ضروری ہوگا کہ انجمن اپنے فیصلہ میں استثناء کی وجوہ بیان کر کے منظوری دے اور مبلغین کلاس میں بہر صورت کوئی دوسرا طالب علم داخل نہیں ہو سکے گا-۷۳اس قاعدے سے مولوی فاضل کا امتحان دینے والے دوسرے احمدی طلباء کو جامعہ میں داخلہ کی صورت میسر آگئی بلکہ کئی غیر احمدی طلباء بھی استفادہ کرتے رہے اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔
tav.5.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
طلباء جامعہ احمدیہ پر تعلیمی و اخلاقی لحاظ سے بہت زیادہ اثر انداز ہونے والی دقت یہ تھی کہ ان کے لئے کوئی الگ ہوسٹل نہیں تھا۔ آخر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دو سالہ توجہ سے ۱۹۳۴ء میں یہ پیچیدہ معاملہ بھی حل ہوگیا اور بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے جنوبی جانب ایک عمارت میں جہاں پہلے پرائمری کے طلباء تعلیم پاتے تھے جامعہ احمدیہ کا دارالاقامہ )ہوسٹل( قائم ہوا۔ اور ۲۰ / نومبر ۱۹۳۴ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کا افتتاح فرمایا- اس تقریب پر حضور نے فرمایا :
>جامعہ کی کامیابی کے لئے اس کا قیام ضروری ہے تا صحیح اخلاق اور دینی خدمت کے لئے جوش پیدا ہو اور نوجوان ایمان و ایقان میں اور قربانی و ایثار کی روح میں دوسروں سے بڑھ کر ہوں ان کی نمازیں اور دعائیں دوسروں کی نمازوں اور دعائوں سے فرق رکھتی ہوں۔ ایسے برگزیدہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ خود علم سکھلاتا ہے نئے نئے جواب سکھاتا ہے<۔ الخ۷۴`۷۵
جب مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحب بنارس وغیرہ سے سنسکرت کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد واپس آئے تو مئی ۱۹۳۹ء سے جامعہ احمدیہ میں سنسکرت کلاس بھی کھول دی گئی جو دسمبر ۱۹۴۴ء تک جاری رہی۔ اس کے بعد پروفیسر ناصر الدین نظارت تالیف و تصنیف میں منتقل ہوگئے۔۷۶
دور اول میں تعلیم پانے والے علماء
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اپریل ۱۹۳۹ء تک جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے اور آپ کی قیادت میں جامعہ احمدیہ نے ایک مثالی درسگاہ کی حیثیت سے بہت ترقی کی اور مسلمہ طور پر بڑا عروج پایا۔ اور آپ کے زمانہ میں اس چشمہ علم و حکمت سے متعدد فاضل و محقق` واعظ و مبلغ` صحافی و مصنف اور مناظر ومقرر پیدا ہوئے۔
جامعہ احمدیہ میں دور اول کے تعلیم پانے والوں کی فہرست بہت طویل ہے بعض ممتاز نام درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ مگر یہ نام فارغ التحصیل ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف داخلہ کی ترتیب سے درج کئے گئے ہیں لہذا یہ خیال کرنا ہرگز صحیح نہیں ہوگا کہ ان حضرات نے مولوی فاضل یا مبلغین کلاس بھی اسی ترتیب سے پاس کی ہوگی۔ )تواریخ ولادت جامعہ احمدیہ کے ریکارڈ سے ماخوذ ہیں(
۱۹۲۷ء۷۷
مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی )تاریخ ولادت ۷ / دسمبر ۱۹۰۲ء(
مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر )تاریخ ولادت ۱۵ / اپریل ۱۹۰۸ء(
صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )تاریخ ولادت یکم نومبر ۱۹۰۹ء(۷۸
مولوی ظفر محمد صاحب )تاریخ ولادت ۹ / اپریل ۱۹۰۸ء(
مولوی غلام حسین صاحب ایاز )تاریخ ولادت یکم مئی ۱۹۰۵ء(
قریشی محمد نذیر صاحب )تاریخ ولادت یکم جولائی ۱۹۱۰ء(
مولوی احمد خاں صاحب نسیم )تاریخ ولادت ۱۸ / مئی ۱۹۰۸ء(
مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری )تاریخ ولادت ۱۳ / اکتوبر ۱۹۰۸ء(
مولوی احمد نور الدین صاحب سماٹری )تاریخ ولادت ۶ / مئی ۱۹۰۶ء(
مولوی ولیداد خان صاحب شہید افغانستان )تاریخ ولادت ۱۷ / مئی ۱۹۰۴ء(
مولوی زین العابدین ذینی دہلان سماٹری )تاریخ ولادت ۱۴ / جون ۱۹۰۵ء(
مولوی محمد صادق صاحب چغتائی )تاریخ ولادت ۴ / اپریل ۱۹۰۹ء(
۱۹۲۸ء
مولوی عطاء الرحمن صاحب طالب۷۹)تاریخ ولادت ۱۵ / جون ۱۹۱۱ء(
مولوی نذیر احمد صاحب مبشر )تاریخ ولادت ۱۵ / اگست ۱۹۰۹ء(
شیخ مبارک احمد صاحب )تاریخ ولادت یکم مارچ ۱۹۱۱ء(
مہاشہ محمد عمر صاحب )تاریخ ولادت ۱۷ / نومبر ۱۹۰۴ء(
مولوی عبدالواحد صاحب ناسنور کشمیر )تاریخ ولادت (
مولوی عبدالرحمن صاحب انور بوتالوی )تاریخ ولادت ۲۷ / مئی ۱۹۰۸ء(
مولوی چراغ الدین صاحب )تاریخ ولادت ۴ / اکتوبر ۱۹۰۶ء(
۱۹۲۹ء
مولوی عبدالغفور صاحب جالندھری )تاریخ ولادت ۱۳ / مئی ۱۹۱۳ء(
شیخ محبوب عالم صاحب خالد )تاریخ ولادت ۱۳ / اپریل ۱۹۰۹ء(
شیخ عبدالقادر صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / اگست ۱۹۰۹ء(
ملک صلاح الدین صاحب )تاریخ ولادت ۲۰ / مارچ ۱۹۱۵ء(۸۰
مولوی محمد سلیم صاحب )تاریخ ولادت ۱۲ / دسمبر ۱۹۱۰ء(
چوہدری محمد شریف صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۳ء(
۱۹۳۰
شیخ عبدالواحد صاحب )تاریخ ولادت ۱۵ / اگست ۱۹۱۳ء(
مولوی محمد احمد صاحب جلیل )تاریخ ولادت ۵ / جولائی ۱۹۱۱ء(
مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری )تاریخ ولادت ۶ / ستمبر ۱۹۰۸ء(
مولوی عبدالرحیم صاحب عارف )تاریخ ولادت ۸ / اگست ۱۹۰۸ء(
v1] g[ta۱۹۳۱ء
مولوی امام الدین صاحب )تاریخ ولادت ۹ / جون ۱۹۱۲ء(
مولوی محمد اسماعیل صاحب یادگیری )تاریخ ولادت ۸ / اپریل ۱۹۱۴ء(
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب )تاریخ ولادت ۹ / مئی ۱۹۱۴ء(
مولوی محمد اسماعیل صاحب دیال گڑھی )تاریخ ولادت ۱۵ / اپریل ۱۹۱۳ء(
مولوی عبدالخالق صاحب )تاریخ ولادت ۱۵ / فروری ۱۹۱۰ء(
مولوی رمضان علی صاحب )تاریخ ولادت ۱۲ / اگست ۱۹۱۳ء(۸۱
مولوی عبدالمالک خان صاحب ۲۵ / نومبر ۱۹۱۱ء(۸۲
۱۹۳۲ء
سید احمد علی صاحب )تاریخ ولادت ۹ / دسمبر ۱۹۱۱ء(
قریشی محمد افضل صاحب )تاریخ ولادت ۵ / اکتوبر ۱۹۱۴ء(
۱۹۳۳ء
چوہدری محمد صدیق صاحب )تاریخ ولادت ۵ / مارچ ۱۹۱۶ء(
مولوی روشن دین صاحب )تاریخ ولادت ۷ / اپریل ۱۹۱۳ء(
حافظ محمد رمضان صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / اگست ۱۹۱۰ء(
۱۹۳۴ء
مولوی غلام احمد صاحب فرخ )تاریخ ولادت ۱۲ / اپریل ۱۹۱۶ء(
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری )تاریخ ولادت ۱۲ / اکتوبر ۹۱۵ء(
۱۹۳۵ء
مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر )تاریخ ولادت ۵ / فروری ۱۹۱۳ء(
۱۹۳۶ء
مولوی شریف احمد صاحب امینی )تاریخ ولادت ۱۹ / نومبر ۱۹۱۷ء(۸۳
مولوی )ابوالمنیر( نور الحق صاحب )تاریخ ولادت ۱۷ / دسمبر ۱۹۱۸ء(
مرزا منور احمد صاحب شہید امریکہ )تاریخ ولادت ۲۰ / اپریل ۱۹۱۹ء(
مولوی صدر الدین صاحب )تاریخ ولادت ۱۲ / جون ۱۹۱۷ء(
مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل )تاریخ ولادت ۲۵ / جولائی ۱۹۱۴ء(
سید اعجاز احمد صاحب بنگالی )تاریخ ولادت قریباً ۱۹۱۶ء(
۱۹۳۷ء
حافظ قدرت اللہ صاحب )تاریخ ولادت ۲۲ / فروری ۱۹۱۷ء(
مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری )تاریخ ولادت ۱۴ / اگست ۱۹۲۰ء(
عبدالغفار صاحب ڈار )تاریخ ولادت مارچ ۱۹۱۶ء(
مولوی محمد احمد صاحب ثاقب )تاریخ ولادت ۱۵ / مئی ۱۹۱۸ء(
۱۹۳۸ء
مولوی نور الحق صاحب انور )تاریخ ولادت دسمبر ۱۹۲۰ء(
مولوی رشید احمد صاحب چغتائی )تاریخ ولادت ۲۷ / جولائی ۱۹۱۹ء(
شیخ نور احمد صاحب منیر )تاریخ ولادت ۸ / اکتوبر ۱۹۱۹ء(۸۴
جامعہ احمدیہ کا دور ثانی
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کے بعد مئی ۱۹۳۹ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے پرنسپل مقرر ہوئے اور جامعہ کا دوسرا دور شروع ہوا۔ آپ کے زمانہ میں بھی امتحان مولوی فاضل کے نتائج بہت اچھے رہے مگر لوگوں کے اس عام رجحان کی وجہ سے کہ دینی تعلیم پر دنیاوی تعلیم کو فوقیت حاصل ہے مبلغین کلاس میں داخل ہونے والے طلباء کی تعداد میں کمی آگئی۔ آپ کے دور میں جامعہ کے اندرونی نظام میں بعض اصلاحات بھی ہوئیں مثلاً تقریروں کی مشق کے لئے ایک مجلس طلباء بنائی گئی۔ لائبریری جامعہ احمدیہ کی کتابیں از سر نو مرتب کر کے دو حصوں میں تقسیم کی گئیں۔ ایک حصہ میں نصاب کی کتابیں اور دوسرے میں کتب سلسلہ کے لئے دوسرا علمی اور ادبی لٹریچر رکھا گیا۔ اس کے علاوہ دارالاقامہ میں بھی ایک لائبریری قائم ہوئی۔۸۵
دور ثانی میں تعلیم پانے والے علماء
آپ کے زمانہ میں جن علماء و مبلغین نے اکتساب علم کیا ان میں سے بعض قابل ذکر یہ ہیں :
۱۹۴۰ء
مولوی غلام باری صاحب سیف )تاریخ ولادت یکم اکتوبر ۱۹۲۰ء(
مولوی جلال الدین صاحب قمر )تاریخ ولادت ۵ / مئی ۱۹۲۳ء(
شیخ نصیر الدین احمد صاحب )تاریخ ولادت ۱۵ / مارچ ۱۹۲۳ء(
حافظ بشیر الدین صاحب )تاریخ ولادت ۴ / اکتوبر ۱۹۲۲ء(
مولوی محمد منور صاحب )تاریخ ولادت ۱۳ / فروری ۱۹۲۳ء(
۱۹۴۱ء
ملک مبارک احمد صاحب )تاریخ ولادت ۱۹۲۲ء(
مولوی خورشید احمد صاحب شاد ۸۶)تاریخ ولادت ۲۴ / ستمبر ۱۹۲۰ء(
مولوی محمد عثمان صاحب )تاریخ ولادت ۱۰ / جون ۱۹۲۲ء(
مولوی بشارت احمد صاحب امروہوی )تاریخ ولادت ۸ / اگست ۱۹۱۷ء(
۱۹۴۲ء
مولوی بشارت احمد صاحب بشیر )تاریخ ولادت ۱۰ / جون ۱۹۲۳ء(
۱۹۴۳ء
مولوی محمد زہدی صاحب )تاریخ ولادت ۷ / نومبر ۱۹۱۸ء(
صوفی محمد اسحاق صاحب )تاریخ ولادت یکم مارچ ۱۹۲۳ء(
جامعہ احمدیہ کے دور ثالث کا آغاز
صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مئی ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور ۲۴ مئی ۱۹۴۴ء کو مولانا ابو العطاء صاحب فاضل جالندھری نے جامعہ احمدیہ کا چارج سنبھال لیا۔۸۷اس طرح جامعہ احمدیہ کی زندگی کے تیسرے دور کا آغاز ہوا۔
اوائل ۱۹۴۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی جامعہ احمدیہ کی طرف خاص توجہ فرمائی اور جماعت کو وقف زندگی کی تحریک کی۔ جس پر کئی مخلص نوجوانوں نے لبیک کہا۔ اور میٹرک پاس طلباء کے لئے جامعہ احمدیہ میں ایک سپیشل کلاس جاری کی گئی۔ اس کے علاوہ دوسرے طلباء میں بھی اضافہ ہوا۔ اور جامعہ احمدیہ میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہوئی۔ جامعہ احمدیہ اور اس کا ہوسٹل محلہ دارالانوار کے نئے گیسٹ ہائوس میں منتقل کر دیا گیا۔ اور طلباء کو رہائش کی سہولتیں میسر آئیں۔ یہ ادارہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا کہ تقسیم ہند کا سانحہ پیش آگیا۔ اور اس کے اساتذہ و طلباء ۱۰ نومبر ۱۹۴۷ء کو کانوائے کے ذریعہ قادیان سے لاہور آگئے۔۸۸جہاں نئی صورت حال کے پیش نظر مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کا مخلوط ادارہ جاری ہوا۔ جس کے پرنسپل بھی آپ ہی مقرر ہوئے۔ اور یکم جولائی ۱۹۵۳ء تک اس ادارہ کو کامیابی سے چلانے کے بعد پرنسپل کی حیثیت سے جامعتہ المبشرین میں منتقل ہوگئے۔
جامعہ احمدیہ کے دور ثالث اور اس سے نکلنے والے علماء و مبلغین کا مفصل تزکرہ تو انشاء اللہ اپنے مقام پر آئے گا۔ مگر یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ اس دور کے تعلیم پانے والوں میں صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب` سید مسعود احمد صاحب اور سید محمود احمد صاحب ناصر بھی شامل ہیں۔
سفر لاہور
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جون ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں لاہور تشریف لے گئے۔ آپ کے حرم ثالث حضرت سارہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری` صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ عبدالسلام صاحب )ابن حضرت خلیفہ اولؓ( ادیب فاضل وغیرہ کا امتحان دے رہے تھے اور یہ سفر اسی سلسلہ میں تھا۔۸۹
)فصل دوم(
>سیرت النبیﷺ<~ کے بابرکت جلسوں کا انعقاد
مجالس سیرت النبیﷺ~ کی تجویز اور اس کا پس منظر
۱۹۲۸ء کا نہایت مہتم بالشان اور تاریخ عالم میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھوں سیرت النبی کے جلسوں کی بنیاد ہے جس نے برصغیر ہند و پاک کی ¶مذہبی تاریخ پر خصوصاً اور دنیا بھر میں عموماً بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ اور جو اب ایک عالمگیر تحریک کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس اہم تحریک کی تجویز حضور کے دل میں ۱۹۲۷ء کے آخر میں اس وقت القا فرمائی- جبکہ ہندوئوں کی طرف سے کتاب >رنگیلا رسول< اور رسالہ >ورتمان< میں آنحضرت~صل۱~ کی شان مبارک کے خلاف گستاخیاں انتہا کو پہنچ گئیں۔ اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی نہایت خطرناک شکل اختیار کر گئی۔ حضور نے اس مرحلہ پر آنحضرت~صل۱~ کی ناموس و حرمت کی حفاظت کے لئے ملکی سطح پر جو کامیاب مہم شروع فرمائی۔ اس کی تفصیل پچھلی جلد میں گذر چکی ہے۔ یہ مہم اسلامی دفاع کا ایک شاندار نمونہ تھی۔ جس نے نہ صرف مخالفین اسلام کی چیرہ دستیوں کا سدباب کرنے میں مضبوط دیوار کا کام دیا۔ بلکہ نبی کریم~صل۱~ کے نام لیوائوں کو عشق رسول کے عظیم الشان جذبہ سے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر دیا۔ مگر حضور کے مضطرب اور درد آشنا دل نے اسی پر قناعت کرنا گوارا نہ کیا۔ اور آپ سب وشتم کی گرم بازاری کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک آنحضرت~صل۱~ کی مقدس زندگی کے حالات اور آپﷺ~ کے عالمگیر احسانات کے تذکروں سے ہر ملک کا گوشہ گوشہ گونج نہیں اٹھے گا۔ اس وقت تک مخالفین اسلام کی قلعہ محمدی پر موجودہ یورش بدستور جاری رہے گی۔ اور دراصل یہی خیال تھا۔ جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ نے >سیرت النبیﷺ<~ کے جلسوں کی تجویز فرمائی۔ چنانچہ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں :
>لوگوں کو آپ پر )یعنی آنحضرت رسول کریم~صل۱~ پر ناقل( حملہ کرنے کی جرات اسی لئے ہوتی ہے۔ کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں۔ یا اسی لئے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے۔ جو یہ ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دئیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپﷺ~ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے۔ اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرات نہ رہے جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر دے گا۔ پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم~صل۱~ کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے۔ اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے۔ تا کہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہو جائیں<۔۹۰
نیز فرمایا :
>آنحضرت~صل۱~ ان وجودوں میں سے ہیں جن کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے کہ ع
آفتاب آمد دلیل آفتاب
سورج کے چڑھنے کی دلیل کیا ہے؟ یہ کہ سورج چڑھا ہوا ہے کوئی پوچھے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے تو اسے کہا جائے گا۔ دیکھ لو سورج چڑھا ہوا ہے۔ تو کئی ایسے وجود ہوتے ہیں کہ ان کی ذات ہی ان کا ثبوت ہوتی ہے اور رسول کریم~صل۱~ کی ذات ستودہ صفات انہی وجودوں میں سے ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ اس وقت تک جو انسان پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب کے سب رسول کریم~صل۱~ سے نیچے ہیں اور آپﷺ~ سب پر فوقیت رکھتے ہیں ایسے انسان کی زندگی پر اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اس کی زندگی کو بگاڑ کر ہی کر سکتا ہے اور بگاڑے ہوئے حالات سے وہی متاثر ہو سکتا ہے جسے صحیح حالات کا علم نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول کریم~صل۱~ کی ذات پر اسی طرح حملے کئے جاتے ہیں ایسے حملوں کے اندفاع کا بہترین طریق یہ نہیں ہے کہ ان کا جواب دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کے حالات خود پڑھیں اور ان سے صحیح طور پر واقفیت حاصل کریں۔ جب وہ آپﷺ~ کے حالات پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی ذات نور ہی نور ہے اور اس ذات پر اعتراض کرنے والا خود اندھا ہے<۔ ۹۱
وسیع سکیم
اس اہم قومی و ملی مقصد کی تکمیل کے لئے آپ نے ایک وسیع پروگرام تجویز فرمایا جس کے اہم پہلو مندرجہ ذیل تھے :
اول :ہر سال آنحضرت~صل۱~ کی مقدس سوانح میں سے بعض اہم پہلوئوں کو منتخب کر کے ان پر خاص طور سے روشنی ڈالی جائے۔ ۱۹۲۸ء کے پہلے >سیرت النبیﷺ<~ کے جلسے کے لئے آپ نے تین عنوانات تجویز فرمائے۔ )۱( رسول کریم~صل۱~ کی بنی نوع انسان کے لئے قربانیاں۔ )۲( رسول کریم~صل۱~ کی پاکیزہ زندگی )۳( رسول کریم~صل۱~ کے دنیا پر احسانات۔
دوم :ان مضامین پر لیکچر دینے کے لئے آپ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء پر ایسے ایک ہزار فدائیوں کا مطالبہ کیا۔ جو لیکچر دینے کے لئے آگے آئیں تا انہیں مضامین کی تیاری کے لئے ہدایات دی جا سکیں اور وہ لیکچروں کے لئے تیار کئے جا سکیں۔ جلسوں کے اثرات سے قطع نظر صرف یہی بہت بڑا اور غیر معمولی کام تھا کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سیرت پر روشنی ڈالنے والے ہزار لیکچرار تیار کر دئیے جائیں۔
سوم :سیرت النبیﷺ~ پر تقریر کرنے کے لئے آپ نے مسلمان ہونے کی شرط اڑا دی اور فرمایا رسول کریم~صل۱~ کے احسانات سب دنیا پر ہیں اس لئے مسلمانوں کے علاوہ وہ لوگ جن کو ابھی تک یہ توفیق تو نہیں ملی کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کے اس تعلق کو محسوس کر سکیں۔ جو آپ کو خدا تعالیٰ کے ساتھ تھا۔ مگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قربانیوں سے بنی نوع انسان پر بہت احسان کئے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں ان کی زبانی رسول کریم~صل۱~ کے احسانات کا ذکر زیادہ دلچسپ اور زیادہ پیارا معلوم ہوگا۔ پس اگر غیر مسلموں میں سے بھی کوئی اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کریں گے تو انہیں شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور ان کی اس خدمت کی قدر کی جائے گی۔۹۲
چہارم :غیر مسلموں کو سیرت رسولﷺ~ کے موضوع سے وابستگی کا شوق پیدا کرنے کے لئے یہ اعلان کیا گیا کہ جو غیر مسلم اصحاب ان جلسوں میں تقریریں کرنے کی تیاری کریں گے اور اپنے مضامین ارسال کریں گے ان میں سے اول` دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو علی الترتیب سو` پچاس اور پچیس روپے کے نقد انعامات بھی دئیے جائیں گے۔۹۳
پنجم :حضور کے سامنے چونکہ >میلاد النبیﷺ<~ کے معروف رسمی اور بے اثر اور محدود جلسوں کے مخصوص اغراض کی بجائے >سیرت النبیﷺ<~ کے خالص علمی اور ہمہ گیر جلسوں کا تصور تھا اس لئے آپ نے ان کے انعقاد کے لئے ۱۲ / ربیع الاول کے دن کی بجائے )جو عموماً ولادت نبوی کی تاریخ تسلیم کی جاتی ہے( دوسرے دنوں کو زیادہ مناسب قرار دیا۔۹۴چنانچہ ۱۹۲۸ء میں آپ نے یکم محرم ۱۳۴۷ھ بمطابق ۲۰/ جون کو یوم سیرت منانے کا اعلان کیا۔ جسے شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی باسانی شمولیت کے پیش نظر ۱۷ / جون میں تبدیل کر دیا۔۹۵`۹۶
حضور نے اس عظیم الشان پروگرام کے شایان شان جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کو تیاری کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور اس بارے میں کئی اہم مشورے دئیے مثلاً اصل جلسوں کی اہمیت بتانے کے لئے مختلف موقعوں پر مختلف محلوں میں جلسے کریں` جلسہ کی صدارت کے لئے با رسوخ اور سربرآوردہ لوگ منتخب کئے جائیں جلسہ گاہ کا ابھی سے مناسب انتظام کرلیں۔ اسی طرح جلسہ کے لئے منادی اور اعلان کے متعلق ابھی سے تیاری شروع کر دیں۔ اور یہ ذمہ اٹھائیں کہ وہ اپنے ماحول میں دو دو تین تین گائوں میں جلسے منعقد کرائیں گے۔۹۷
لیکچراروں کی فراہمی کا مسئلہ
اس ضمن میں مشکل ترین کام یہ تھا کہ ملک کے عرض و طول میں تقریر کرنے والے ایک ہزار لیکچرار مہیا اور تیار کئے جائیں۔ شروع شروع میں یہ کام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے سپرد فرمایا مگر ۱۴ / مارچ ۱۹۲۸ء کو اس کی نگرانی صیغہ ترقی اسلام کے سیکرٹری چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کے سپرد فرما دی۔۹۸
حضرت چوہدری صاحب نے ملکانہ تحریک کی طرح اس معاملہ میں بھی انتہائی مستعدی فرض شناسی اور فدائیت کا ثبوت دیا اور زبردست سعی و جدوجہد سے ہزار سے زیادہ یعنی چودہ سو انیس لیکچرار فراہم ہوگئے یہ لیکچرار وہ تھے۔ جن کے نام رجسٹر میں درج تھے ورنہ ۱۷ / جون کے مقررین تعداد میں اس سے بھی بہت زیادہ۔ یہاں زیادہ مناسب ہوگا۔ کہ چوہدری صاحب کے قلم سے ان مخلصانہ مساعی کا نقشہ پیش کر دیا جائے- فرماتے ہیں :
>۱۴ / مارچ کو میں نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لے کر مبلغین میں سے ایک صاحب کو اس کام کے لئے فارغ کر دیا۔ جس کے ساتھ عملہ دفتر دعوۃ و تبلیغ بھی بطور معاون کام کرتا رہا۔ لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اسلامی انجمنوں` اسلامیہ سکولوں` ائمہ مساجد علماء و سجادہ نشینان` ممبران ترقی اسلام ایڈیٹران اخبارات` ممبران لیجسلیٹو کونسلز واسمبلی اور ہندو معززین و تھیوسافیکل سوسائٹیوں سے خط و کتابت کی گئی اور اس کے علاوہ متعدد اسلامی اخبارات میں پے در پے تحریکات شائع کرنے کے ساتھ صوبجات بنگال` مدراس اور بمبئی کی انگریزی اخبارات میں لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اجرت پر اشتہارات دئیے گئے۔ ہندوستان کے علاوہ ممالک خارجہ انگلینڈ` نائجیریا` گولڈ کوسٹ` نیروبی و دیگر حﷺ افریقہ اور شام` ماریشس` ایران` سماٹرا` آسٹریلیا میں بھی مبلغین اور بعض دیگر احباب کو بھی خطوط لکھے گئے۔ ۱۷ / جون کے جلسہ سے چند دن قبل حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا رقم فرمودہ ایک پوسٹر ۱۵ ہزار کی تعداد میں چھپوا کر ہندوستان کے تمام حصوں میں بھیجا گیا جس میں مسلمانوں کو ہر جگہ ۱۷ / جون کے دن جلسہ کرنے کی تحریک کی گئی۔ ہمارا مطالبہ تمام ہندوستان سے ایک ہزار لیکچرار مہیا کرنے کا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۶/ جون کو ممالک خارجہ اور ہندوستان کے لیکچراروں کی تعداد درج رجسٹر ۱۴۱۹ تھی۔ گویا مطالبہ سے ۴۱۹ زیادہ لیکچرار تھے۔ اور پھر خصوصیت اس میں یہ تھی کہ مختلف علاقوں سے ہمیں ۲۵ غیر مسلم لیکچرار اصحاب کے نام ملے۔ اگرچہ ۱۷ / جون کے دن غیر مسلم لیکچراروں کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی جو بروقت مقامی طور پر جلسوں میں بخوشی حصہ لینے کے لئے تیار ہوگئے۔ غرض لیکچراروں کے حصول میں ہمیں امید سے بڑھ کر کامیابی ہوئی<۔۹۹
لیکچراروں کی رہنمائی کے لئے مفصل نوٹوں کی طباعت اور الفضل کے >خاتم النبیین نمبر< کی اشاعت
جہاں تک لیکچراروں کو مواد فراہم کرنے کا تعلق تھا اس کے لئے حضرت چوہدری صاحب نے یہ انتظام فرمایا۔ کہ مجوزہ مضامین کے متعلق مفصل نوٹ تیار کرائے اور وہ )پانچ ہزار کی تعداد میں(
طبع کرا کے لیکچراروں کو بھجوا دئیے۔۱۰۰جس سے ان کو بہت مدد ملی۔ علاوہ بریں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر ادارہ >۔الفضل< نے پانچ روز قبل ۱۲ / جون ۱۹۲۸ء کو ۷۲ صفحات پر مشتمل نہایت شاندار ۔خاتم النبیین نمبر< شائع کیا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور دوسرے ممتاز بزرگان احمدیت و علماء سلسلہ۱۰۱اور احمدی مستورات۱۰۲کے علاوہ بعض مشہور غیر احمدی زعماء۱۰۳اور غیر مسلم اصحاب۱۰۴کے نہایت بلند پایہ مضامین تھے۔ آنحضرت~صل۱~ کی شان اقدس میں متعدد نعتیں۱۰۵ بھی شامل اشاعت تھیں جن میں سے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کا >سلام بحضور سید الانام< اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی نظم بعنوان >پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار< کو اپنوں اور بیگانوں میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ >خاتم النبیین نمبر< سات ہزار چھاپا گیا۔ جو چند روز میں ختم ہوگیا اور دوستوں کے اشتیاق پر دوبارہ شائع کیا گیا-۱۰۶
تحریک سے متعلق عجیب وغریب غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش
یہ تحریک تمام اقوام عالم کے لئے عموماً اور مسلمانوں کے لئے نہایت مفید و بابرکت تحریک تھی۔ لیکن تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم حلقوں میں شروع ہی سے اس کی مخالفت میں آواز اٹھائی گئی اور اس کے متعلق عجیب و غریب اعتراضات کئے گئے مثلاً بعض نے کہا یہ تحریک حکومت کے منشاء کے تحت اور حکومت سے تعاون کرنے کی تلقین کے لئے کی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان جلسوں میں چندہ جمع کیا جائے گا۔ بعض نے کہا کہ احمدی اس طرح اپنے عقائد کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور یہ تحریک خود غرضی پر مبنی ہے۔۱۰۷ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ مذہبی معاملہ میں غیر مسلم کیوں شریک کئے گئے۔
مخالفت کرنے والی جماعتوں میں سے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور` خلافت کمیٹی اور مسلم اخبارات میں سے اخبار >پیغام صلح< اور اخبار >زمیندار< نے تحریک کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ خلافت کمیٹی کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے تو آخر ملک اور عام پبلک کا رجحان اس تحریک کی طرف دیکھ کر اس سے عدم تعاون کی پالیسی ترک کر دی )سوائے چند جگہوں کے( لیکن احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے امیر۱۰۸اور اخبار >پیغام صلح< و >زمیندار< نے آخر دم تک مخالفت جاری رکھی۔ حتیٰ کہ ۱۷ / جون سے پہلے اور عین اس دن اکثر مقامات پر اس قسم کی تحریریں چھپوا کر شائع کیں جن کا نہایت برا اثر پڑ سکتا تھا۔
سیرت النبی کے کامیاب جلسوں کا روح پرور نظارہ
لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس عظیم الشان مہم کے پیچھے کام کر رہی تھی اس لئے یہ تمام کوششیں اکارت گئیں اور ہندوستان کے عرض و طول میں ۱۷ / جون کو نہایت تزک و احتشام سے یوم سیرت النبی منایا گیا۔ اور نہایت شاندار جلسے منعقد کئے گئے۔ اور ایک ہی سٹیج پر ہر فرقہ کے مسلمانون نے سیرت رسولﷺ~ پر اپنے دلی جذبات عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے تقریریں کیں۔ چنانچہ متعدد مقامی احمدیوں نے لیکچر دئیے مرکز سے قریباً پچاس کے قریب لیکچرار ملک کے مختلف جلسوں میں شامل ہوئے۔ بعض ممتاز احمدی مقررین کے نام یہ ہیں : حضرت میر محمد اسحاق صاحب` مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری۔۱۰۹مولوی محمد یار صاحب عارف` چوہدری ظفر اللہ خان صاحب` حضرت حافظ روشن علی صاحب` شیخ محمود احمد صاحب عرفانی` قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادم۔حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر۔ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق۱۱۰` پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم۔ اے اسلامیہ کالج کلکتہ۔ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور۔ حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر >فاروق< قادیان۔ مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر گورداسپور` مولوی محمد صادق صاحب۔ مولوی کرم داد صاحب دو المیال۔ مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل۔ مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی- قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری` حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری۔ مولوی ابوالبشارت عبدالغفور صاحب مولوی فاضل۔ ڈاکٹر شفیع احمد ایڈیٹر اخبار >زلزلہ< دہلی۔۱۱۱حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی۔ مولوی ظہور حسین صاحب۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی۔ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم۔ مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر۔ قریشی محمد حنیف صاحب اڑیسہ۔
دوسرے مسلمانوں میں سے تقریر کرنے والوں یا نظم پڑھنے والوں یا صدارت کرنے والوں میں کئی نمایاں شخصیتیں شامل تھیں۔ مثلاً ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری` مولوی مرزا احمد علی صاحب امرت سری` مولوی عبدالمجید صاحب قرشی اسسٹنٹ ایڈیٹر >تنظیم< امرت سر۔ مولوی صبغتہ اللہ صاحب فرنگی محلی لکھنئو۔ شاہ سلیمان صاحب پھلواری۔ شمس العلماء سید سبط حسن صاحب۔ سید حبیب صاحب مدیر >سیاست< لاہور۔ مولوی محمد بخش صاحب مسلم بی۔ اے لاہور۔ سید معین الدین صاحب صدر الصدور امور مذہبی سرکار آصفیہ حیدر آباد دکن۔ شیخ عبدالقادر صاحب ایم۔ اے۔ خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی۔ نواب ذوالقدر جنگ بہادر ہوم سیکرٹری ریاست حیدر آباد دکن۔ خان بہادر مخدوم سید صدر الدین صاحب ملتان۔ نواب سر عمر حیات خاں صاحب ٹوانہ۔ نواب صدر یار جنگ ناظم امور مذہبیہ ریاست حیدر آباد۔ خواجہ سجاد حسین صاحب بی۔ اے )خلف شمس العلماء مولوی الطاف حسین صاحب حالی( مسٹر محمود سہروردی صاحب ممبر کونسل آف اسٹیٹ دہلی۔
مسلمانوں کے علاوہ ہندو` سکھ` عیسائی` جینی اصحاب نے بھی آنحضرت~صل۱~ کی پاکیزہ سیرت` بیش بہا قربانیوں اور عدیم النظیر احسانات کا ذکر کیا۔۱۱۲ اور نہ صرف ان جلسوں میں بخوشی شامل ہوئے بلکہ کئی مقامات پر انہوں نے ان کے انعقاد میں بڑی مدد بھی دی۔۱۱۳جلسہ گاہ کے لئے اپنے مکانات دئیے` ضروری سامان مہیا کیا` سامعین کی شربت وغیرہ سے خدمت کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑے بڑے معزز اور مشہور لیڈروں نے جلسوں میں شامل ہو کر تقریریں کیں چنانچہ لاہور کے جلسہ میں لالہ بہاری لال صاحب انند ایم اے پروفیسر دیال سنگھ کالج اور لالہ امر ناتھ صاحب چوپڑہ بی۔ اے ایل ایل۔ بی نے دہلی کے جلسہ میں رائے بہادر لالہ پارس داس آنریری مجسٹریٹ اور لالہ گردھاری لال صاحب نے انبالہ میں مشہور کانگریسی لیڈر لالہ دنی چند صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل۔ بی نے تقاریر کیں مسٹر ایس کے بھٹہ چارجی نے سیدپور )بنگال( کے جلسہ کی اور مشہور لیڈر مسٹر ایس جے ہر دیال ناگ نے چاند پور کے جلسوں کی صدارت کی۔ بابو بنکا چندر سین صاحب بابو مکیتار سینا بھوش صاحب` بابو للت موہن صاحبان برہمن بڑیہ کے جلسہ میں شریک ہوئے۔ بنگال کے معزز لیڈر سر پی سی رائے صاحب کلکتہ کے جلسہ کے صدر تھے۔۱۱۴اور ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مانرو )یامورنیو( صاحب اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر` بنگال کے لیڈر بابو بپن چندر پال صاحب۔۱۱۵مشہور بنگالی مقرر مسز نیرا بھردبھا چکراورتی صاحب نے کلکتہ کے جلسہ میں بہت دلچسپ تقریریں کیں۔ رنگپور کے جلسہ میں بدہن رانجھن لاہری ایم۔ اے۔ بی ایل صاحب )مشہور اور بنگالی لیکچرار( نے ایک فصیح تقریر کی۔ مدراس میں وہاں کے مشہور اخبار جسٹس کے قابل ایڈیٹر صاحب نے جلسہ کی صدارت کی اور نہایت پر زور تقریر کی۔ بانکی پور میں مسٹر پی کے سین صاحب بیرسٹر سابق جج ہائیکورٹ پٹنہ اور بابو بلدیو سہائے صاحب ممبر لیجسلیٹو کونسل نے تقریریں کیں۔ بھاگلپور میں مشہور ہندو لیڈر بابو اننت پرشاد صاحب وکیل نے جلسہ کی صدارت کی۔ امرائوتی میں آنریبل سرجی ایس کھپارڈے صاحب ممبر کونسل آف سٹیٹ کی صدارت میں جلسہ منعقد ہوا۔ بنگلور میں مسٹر کے سیمپت گری رائو صاحب ایم۔ اے نے تقریر کی۔ حیدر آباد دکن کے جلسہ کے لئے راجہ سر کرشن پرشاد صاحب نے نعتیں بھیجیں` بہائونگر کاٹھیا واڑ کے جلسہ میں جناب کیپل رائے صاحب بی۔ اے بی ٹی نے تقریر کی جو کاٹھیا واڑ میں ایک ممتاز علمی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ سینکڑوں غیر مسلم معززین اور غیر مسلم تعلیم یافتہ خواتین بھی جلسوں میں شریک ہوئیں۔ اور دنیا کے سب سے بڑے محسن سب سے بڑے پاکباز اور سب سے بڑے ہمدرد کے متعلق اپنی عقیدت اور اخلاص کا اظہار کیا۔ یہ ایسا روح پرور نظارہ تھا جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اور جس کی یاد دیکھنے والوں کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔۱۱۶
ہندوستان کے علاوہ سماٹرا` آسٹریلیا` سیلون` ماریشس` ایران` عراق` عرب` دمشق )شام( حیفا )فلسطین( گولڈ کوسٹ )غانا( نائجیریا` جنجہ` ممباسہ )مشرقی افریقہ( اور لندن میں بھی سیرت النبیﷺ~ کے جلسے ہوئے۔۱۱۷اس طرح خدا کے فضل سے عالمگیر پلیٹ فارم سے آنحضرت~صل۱~ کی شان میں محبت و عقیدت کے ترانے گائے گئے اور سپین کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کی اس پیشگوئی کا ایک پہلو کہ آنحضرتﷺ~ کے مقام محمود کا ظہور حضرت امام مہدی کے ذریعہ سے ہوگا۔۱۱۸امام مہدی کے خلیفہ برحق کے زمانہ میں )جس کا نام خدائے ذوالعرش نے محمود رکھا تھا( پوری ہوگئیو لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا۔
جلسوں کی کامیابی پر تبصرے
مجالس سیرت النبیﷺ~ کی کامیابی ایسے شاندار رنگ میں ہوئی کہ بڑے بڑے لیڈر دنگ رہ گئے اور اخباروں نے اس پر بڑے عمدہ تبصرے شائع کئے۔ اور اس کی غیر معمولی کامیابی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو مبارکباد دی مثلاً :
اخبار مشرق
۱۔ اخبار مشرق گورکھپور )۲۱ / جون ۱۹۲۸ء( نے لکھا :
>ہندوستان میں یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس لئے کہ اس تاریخ میں اعلیٰ حضرت آقائے دو جہاں سردار کون و مکان محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ذکر خیر کسی نہ کسی پیرایہ میں مسلمانوں کے ہر فرقہ نے کیا۔ اور ہر شہر میں یہ کوشش کی گئی کہ اول درجے پر ہمارا شہر رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن اصحاب نے اس موقعہ پر تفرقہ و فتنہ پردازی کے لئے پوسٹر لکھے اور تقریریں لکھ کر ہمارے پاس بھیجیں وہ بہت احمق ہیں جو ہمارے عقیدے سے واقف نہیں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ body] g[taپر ایمان رکھے وہ ناجی ہے بہرحال ۱۷ / جون کو جلسے کی کامیابی پر ہم امام جماعت احمدیہ جناب مرزا محمود احمد کو مبارکباد دیتے ہیں اگر شیعہ و سنی اور احمدی اسی طرح سال بھر میں دو وچار مرتبہ ایک جگہ جمع ہو جایا کریں گے تو پھر کوئی قوت اسلام کا مقابلہ اس ملک میں نہیں کر سکتی<۔۱۱۹
اخبار >مخبر< )اودھ(
۲۔ >مخبر< اودھ نے >انسان اعظم حضرت رسول اکرم~صل۱~ کی سیرت پر شاندار لیکچر< اور >ہندوستان میں جلسے< کے دوہرے عنوان سے ایک مفصل مضمون شائع کیا۔ جس میں لکھا :
>دور حاضرہ کے مسلمانوں میں جماعت احمدیہ ایک پرجوش جماعت ہے جس کے زبردست لیکچروں کی آواز یورپ سے امریکہ تک گونج رہی ہے اور یہ ہر موقع پر معترضین اسلام کی تسلی کرنے کو آمادہ رہی ہے اس طبقہ نے بحث و مباحثہ کے ضمن میں بہترین خدمات انجام دئیے ہیں اور علم کلام میں جو عظیم الشان تبدیلیاں پیدا کی ہیں ان سے کسی انصاف پسند کو انکار نہیں۔ کچھ دنوں سے غیر اقوام کے مقررین اور جرائد و رسائل نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ حضرت نبی کریم~صل۱~ کے متعلق اپنے جلسوں میں ایسے حالات بیان کرتے ہیں جن کا مستند تواریخ میں پتہ نہیں اور اپنے اخبارات میں ان غلط روایات پر الٹی سیدھی رائے زنی کرتے ہیں جن سے سیرت نبویﷺ~ کا لٹریچر نا آشنا ہے جماعت احمدیہ نے اس بات کا بیڑہ اٹھایا کہ ۱۷ / جون کو ہندوستان کے ہر حصہ میں مسلمانوں کے عام جلسے کئے جائیں۔ جن میں آنحضرتﷺ~ کی سیرت مبارک پر شاندار لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں نہ صرف ہر فرقہ اسلامیہ کے ممتاز افراد شریک ہوں بلکہ غیر مذاہب کے اشخاص کو بھی دعوت دی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۷ / جون کو ہندوستان کے مشہور مقامات پر جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام شاندار جلسے ہوئے کلکتہ کے جلسہ میں اینگلو انڈین طبقہ کے معزز ممبر ڈاکٹر مورینو صاحب نے شریک ہو کر اس کے اغراض پر شادمانی کا اظہار کیا۔ بابو بپن چندر پال نے بھی اپنی تقریر میں اس کے مقاصد کو بہترین قرار دیا اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کامیاب بنانے میں کوشاں ہوں گے۔ لاہور میں سر عبدالقادر صاحب کے زیر صدارت جلسہ ہوا جس میں پروفیسر بہاری لال اور لالہ امر ناتھ صاحب ایڈووکیٹ نے آنحضرتﷺ~ کی خوبیاں بیان کیں۔ اگر برادران وطن اسی طرح اسلامی جلسوں میں پیغمبر اسلام کے کمالات اور پاک زندگی کی فضیلت ظاہر کرتے رہے تو جملہ مذاہب میں یگانگت پیدا ہو جائے گی<۔۱۲۰
اخبار >سلطان< کلکتہ
۳۔ کلکتہ کے ایک بنگالی اخبار >سلطان< )۲۱ / جون نے لکھا :
>جماعت احمدیہ نے ۱۷ / جون کو رسول کریم~صل۱~ کی سیرت بیان کرنے کے لئے ہندوستان بھر میں جلسے منعقد کئے ہمیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ تقریباً سب جگہ کامیاب جلسے ہوئے اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اس نواح میں احمدیوں کو ایسی عظیم الشان کامیابی ہوئی ہے کہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ روز بروز طاقتور ہو رہی ہے۔ اور لوگوں کے دلوں میں جگہ حاصل کر رہی ہے ہم خود بھی ان کی طاقت کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے متمنی ہیں<۔۱۲۱
اخبار >کشمیری< لاہور
۴۔ اخبار >کشمیری< لاہور )۲۸ / جون ۱۹۲۸ء( نے >۱۷ / جون کی شام< کے عنون سے یہ تبصرہ شائع کیا :
>مرزا بشیر الدین محمود احمد جماعت احمدیہ قادیان کے خلیفتہ المسیح کی یہ تجویز کہ ۱۷ / جون کو آنحضرت~صل۱~ کی پاک سیرت پر ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں لیکچر اور وعظ کئے جائیں باوجود اختلافات عقائد کے نہ صرف مسلمانوں میں مقبول ہوئی بلکہ بے تعصب امن پسند صلح جو غیر مسلم اصحاب نے ۱۷ / جون کے جلسوں میں عملی طور پر حصہ لے کر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ ۱۷ / جون کی شام کیسی مبارک شام تھی کہ ہندوستان کے ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر بہ یک وقت و بہ یک ساعت ہمارے برگزیدہ رسول کی حیات اقدس ان کی عظمت ان کے احسانات و اخلاق اور ان کی سبق آموز تعلیم پر ہندو مسلمان اور سکھ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ اگر اس قسم کے لیکچروں کا سلسلہ برابر جاری رکھا جائے تو مذہبی تنازعات و فسادات کا فوراً انسداد ہو جائے۔
۱۷ / جون کی شام صاحبان بصیرت و بصارت کے لئے اتحاد بین الاقوام کا بنیادی پتھر تھی ہندو اور سکھ مسلمانوں کے پیارے نبی کے اخلاق بیان کر کے ان کو ایک عظیم الشان ہستی اور کامل انسان ثابت کر رہے تھے۔ بلکہ بعض ہندو لیکچرار تو بعض منہ پھٹ معترضین کے اعتراضات کا جواب بھی بدلائل قاطع دے رہے تھے۔
آریہ صاحبان عام طور پر نفاق و فساد کے بانی بتائے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ یہی گروہ آنحضرت~صل۱~ کی مقدس زندگی پر اعتراض کیا کرتا ہے۔ لیکن ۱۷ / جون کی شام کو پانی پت` انبالہ اور بعض اور مقامات میں چند ایک آریہ اصحاب نے ہی حضورﷺ~ کی پاک زندگی کے مقدس مقاصد پر دل نشین تقریریں کر کے بتا دیا۔ کہ اس فرقہ میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسسرے مذاہب کے بزرگوں کا ادب و احترام اور ان کی تعلیمات کے فوائد کا اعتراف کر کے اپنی بے تعصبی اور امن پسندی کا ثبوت دے سکتے ہیں-
۱۷ / جون کی مبارک شام کو جن مقامات پر ہندو اور سکھ اصحاب نے ہمارے رسول پاک~صل۱~ کی شان میں نعتیں پڑھیں یا جلسوں کی صدارت کی یا اہل جلسہ کے لئے شربت کی سبیلیں لگائیں یا اپنی تقریروں میں آنحضرت~صل۱~ کو ان کی پاکیزہ تعلیم اور ان کے اعلیٰ اخلاق و فضائل کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا محسن ظاہر کیا۔ ان میں مقامات ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مردان` پانی پت` بہائونگر` مونگیر` حیدر آباد دکن` لاہور` امرت سر` دہلی` کبیر والا )ملتان( قلعہ شب قدر )سرحد( میانی` ڈیرہ دون` بانکی پور۔ سہسرام` گورداسپور` کھاریاں` امرائوتی` دھرگ )سیالکوٹ( دھرم کوٹ بگہ<۔۱۲۲
>اردو اخبار< ناگپور
۵۔ >اردو اخبار< ناگپور )۵ / جولائی ۱۹۲۸ء( نے >جمات احمدیہ کی قابل قدر خدمات< کی سرخی دے کر مندرجہ ذیل نوٹ لکھا :
>جماعت احمدیہ ایک عرصہ سے جس سرگرم سے اسلامی خدمات بجا لا رہی ہے وہ اپنے زریں کارناموں کی بدولت محتاج بیان نہیں ہے یورپ کے اکثر ممالک میں جس عمدگی کے ساتھ اس نے تبلیغی خدمات انجام دیں اور دے رہی ہے سچ یہ ہے کہ یہ اسی کا کام ہے پچھلے دنوں جبکہ یکایک شدھی کا ایک طوفان عظیم امنڈ آیا تھا۔ اور جس نے ایک دو آدمیوں کو نہیں بلکہ گائوں کے گائوں مسلمانوں کو متاثر بنا کر مرتد کرلیا تھا۔ یہی ایک جماعت تھی جس نے سب سے پہلے سینہ سپر ہو کر اس کا مقابلہ کیا اور وہ کچھ خدمات انجام دیں اور کامیابی حاصل کی کہ دشمنان اسلام انگشت بدنداں رہ گئے۔ اور ان کے بڑھے ہوئے حوصلے پست ہوگئے۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ واقع ہے کہ جس ایثار و انہماک سے یہ مختصر سی جماعت اسلام کی خدمت انجام دے رہی ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے اور بلاشبہ اس کے یہ تمام کارنامے تاریخی صفحات پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں پچھلے دنوں اس کی یہ تحریک کہ حضور سرور کائنات~صل۱~ کی سیرت پر ۱۷ / جون کو ہندوستان کے ہر مقام پر عام مجمع میں جس میں مسلم وغیرمسلم دونوں شامل ہوں تقریریں کی جائیں اور جس کے لئے اس نے صرف تحریک ہی پیش نہیں کی بلکہ صدہا روپے بھی خرچ کرکے مقررین کے لئے ہزارہا کی تعداد میں لیکچرز طبع کراکر مفت تقسیم کئے۔ اور جس کا اثر یہ ہوا کہ 17۔ جون کو مسلم اور غیر مسلم دونوں جماعتوں نے شاندار جلسے کر کے سیرت نبویﷺ~ پر کمال حسن و خوبی سے اظہار خیالات کئے ہمارا تو خیال ہے کہ اگر اس تحریک پر آئندہ بھی برابر عمل کیا گیا تو یقیناً وہ ناپاک حملے جو آج برابر غیر مسلم اقوام ذات فخر موجودات پر کرتی رہتی ہیں ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے۔ اور وہ ناگوار واقعات جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں اس مبارک تحریک کی بدولت نیست و نابود ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس شاندار کامیابی پر حضرت امام جماعت احمدیہ مدظلہ کی خدمت میں دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اور یقین دلاتے ہیں کہ آپ کی اس مبارک تحریک نے مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک مرکز پر کھڑا کر کے اتحاد کا عجیب و غریب سبق دیا ہے<۔۱۲۳
اخبار >پیشوا< دہلی
۶۔ اخبار >پیشوا< دہلی )۸ / جولائی ۱۹۲۸ء( نے ۱۷ / جون کے جلسوں کی کامیابی پر خوشی اور اس کے مخالفین پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا :
>۱۷ / جون کو قادیانی جمات کے زیر اہتمام تمام ہندوستان میں فخر کائنات کی سیرت پر ہندوستان کے ہر خیال اور ہر طبقہ کے باشندوں نے لیکچر دئیے اور خوشی کا مقام ہے کہ مسلمان اخبارات۱۲۴نے سوائے زمیندار اور الجمعیت اور الانصار کے متفقہ طور سے ان جلسوں کی کامیابی میں حصہ لیا۔ مگر افسوس کہ علماء دیوبند نے ذکر رسول کی مخالفت اس لئے کی کہ ان کو قادیانی عقائد سے اختلاف ہے<۔۱۲۵
>حالانکہ مجھے ذاتی طور سے علم ہے کہ جناب مولانا کفایت اللہ صاحب سے )جو دیوبندی علماء میں بہت سمجھدار عالم مانے جاتے ہیں( جب ایک قادیانی بھائی نے دہلی کے جلسہ کی صدارت کے لئے درخواست کی اور مولانا نے انکار کیا تو انہی قادیانی بھائی نے عرض کیا کہ جناب ہم کو کافر سمجھ کر جلسہ کی صدارت اس طرح قبول کیجئے۔ کہ اپنے معتقدات کے خلاف کسی کو بولنے کی اجازت نہ دیجئے۔ کیا اس جلسہ میں جو ذکر رسالت پناہ کے لئے کوئی غیر مسلم کرے شریک نہ ہوں گے؟ اس معقول درخواست کا جواب مفتی صاحب نے یہ دیا کہ میں آپ سے بحث نہیں کرنی چاہتا۔ اور نہ میں آپ کے جلسہ میں کسی حال میں شریک ہوں گا<۔ ۱۲۶
>مجھے بے حد افسوس ہے کہ زمانہ نے ابھی علماء کی آنکھین نہیں کھولیں اور ان کی تنگ نظری کی ذہنیت ابھی تبدیل نہیں ہوئی۔ قادیانی عقائد کا جہاں تک تعلق ہے میں ان کے ایک ایک حرف سے اختلاف رکھتا ہوں مگر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ مسلمان سناتن دھرم` جین دھرم بدھ دھرم اور خدا معلوم کیا کیا مت کے پیروئوں کو ہندو سنگٹھن کی تحریک میں جو خالص آریہ سماجی تحریک ہے مدغم دیکھ کر اپنے بھولے ہوئے سبق اتحاد بین المسلمیں کو یاد کرنے کے لئے واعتصموا بحبل اللہ اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑیں۔ اور جزوی اختلافات کو پس پشت ڈال کر دشمنوں کو ناخوش اور دوستوں کو خوش کرنے کے لئے نہیں بلکہ عزت کی زندگی بسر کرنے کے لئے متحد ہو جائیں میرا خیال ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمان معتقدات کی جزئیات سے آزاد ہوکر اتحاد اسلام کے لئے تیار ہیں مگر ملت اسلام کی اس زبردست تنظیم میں خودپرست اور غرض مند ملا اسلام کی آڑ لے کر حارج ہوتے ہیں جن کو اسلامی تعلیم سے ذرہ برابر واسطہ نہیں اس لئے ضرورت ہے کہ غرض مند ملائوں سے مسلمانوں کو بچایا جائے<۔۱۲۷
جلسوں کے عظیم الشان فوائد
سیرت النبیﷺ~ کے جلسوں نے ملک کے عرض و طول میں ایک اتحاد و اتفاق اور محبت و آشتی کی ایک نئی روح پھونک دی اور اس سے ملک کو کئی فوائد حاصل ہوئے۔ چنانچہ
پہلا فائدہ : یہ ہوا کہ ہندوستان کے مختلف گوشوں کے ہزار ہا افراد نے وہ لٹریچر پڑھا جو آنحضرت~صل۱~ کے مقدس حالات پر شائع کیا گیا تھا۔
دوسرا فائدہ : یہ ہوا کہ ممتاز غیر مسلموں نے جن میں ہندو سکھ عیسائی سب شامل تھے آنحضرت~صل۱~ کی خوبیوں کا علی الاعلان اقرار کیا۔ اور آپﷺ~ کو محسن اعظم تسلیم کیا۔
تیسرا فائدہ : یہ ہوا کہ بعض ہندو لیڈروں نے آنحضرت~صل۱~ کی صرف تعریف و توصیف ہی نہیں کی۔ بلکہ ان پر آپﷺ~ کے حالات سن کر اتنا اثر ہوا۔ کہ انہوں نے کہا ہم آپ کو نہ صرف خدا کا پیارا سمجھتے ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر اعلیٰ انسان یقین کرتے ہیں کیونکہ آپ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ محفوظ ہے مگر دوسرے مذہبی راہنمائوں کی زندگی کا کوئی پتہ نہیں لگتا۔
چوتھا فائدہ : یہ ہوا کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو ایک مشترک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقعہ مل گیا اور ہر فرقہ کے لوگوں نے نہایت اخلاص اور جوش سے متحدہ طور پر ان جلسوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ خصوصاً شیعہ اصحاب نے ہر جگہ اور ہر مقام پر جس طرح اتحاد عمل کا ثبوت دیا۔ وہ نہایت ہی قابل تعریف تھا۔ اہلسنت و الجماعت مسلمانوں نے بھی حتی الامکان پوری امداد دی اہلحدیث نے بھی ان کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ سنی علماء میں سے فرنگی محل لکھنئو کے علماء خاص طور پر قابل ذکر تھے۔ اگرچہ بعض مقامات پر بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے مخالفت بھی ہوئی۔ لیکن اکثر مسلمانوں نے بہت شاندار خدمات سر انجام دیں۔ اور بعض جگہ تو ان کی مساعی اس قدر بڑھی ہوئی تھیں۔ کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں انہوں نے احمدیوں سے بھی زیادہ کام کیا۔ مثلاً امرت سر` لکھنئو` مدراس` پٹنہ وغیرہ مقامات میں دوسرے فرقوں کے مسلمانوں نے جلسوں کو کامیاب بنانے میں نہایت قابل تعریف کام کیا۔ اور دہلی لاہور اور پشاور وغیرہ مقامات میں بھی بڑی امداد دی۔
پانچواں فائدہ : یہ ہوا کہ پبلک پر یہ بات کھل گئی کہ ہندوئوں کا ایک بڑا طبقہ بانی اسلام کے خلاف ناپاک لٹریچر کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور بانی اسلام کو دنیا کا بہت بڑا مصلح تسلیم کرتا ہے۔
چھٹا فائدہ : یہ ہوا کہ بعض مقامات کے لوگوں نے لیکچروں کو اتنا مفید اور موثر پایا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ پندرہ روزہ یا ماہوار یا سہ ماہی یا ششماہی ایسے جلسے ہوا کریں۔ ایک جگہ ایک مسلمان رئیس نے کہا کہ آج تک ہم مسلمانوں کا ایمان رسول اللہ~صل۱~ کی نسبت ورثہ کا تھا اب آپﷺ~ کے حالات زندگی سن کر ایمان کامل حاصل ہوا۔ بعض غیر مسلم اصحاب نے بھی کہا کہ >ہمیں علم نہ تھا کہ بانی اسلام میں ایسے کمالات ہیں اب معلوم ہوا ہے کہ وہ بے نظیر انسان تھے<۔
ساتواں فائدہ : ان جلسوں کا یہ ہوا کہ اس سے ملکی اتحاد پر نہایت خوشگوار اثر پڑا۔ اور یہ ایسی واضح حقیقت تھی کہ بعض مشہور مسلم و غیر مسلم لیڈروں نے اس کا اقرار کیا۔ چنانچہ سر شیخ عبدالقادر صاحب نے لاہور کے جلسہ کی صدارتی تقریر میں حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حاضرین کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔ >یہ مبارک تحریک نہایت مفید ہے جس سے ہندوستان کی مختلف اقوام میں رواداری پیدا ہو کر باہمی دوستانہ تعلقات پیدا ہوں گے اور ملک میں امن و اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے<۔ کلکتہ میں سر پی سی رائے صاحب نے بحیثیت صدر تقریر کرتے ہوئے کہا >ایسے جلسے جیسا کہ یہ جلسہ ہے ہندوستان کی مختلف اقوام میں محبت اور اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں<۔ اسی طرح اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر ڈاکٹر ایچ بی مانروا صاحب نے کہا۔ >میں نے باوجود اپنی بے حد مصروفیتوں کے اس جلسہ میں آنا ضروری سمجھا کیونکہ اس قسم کے جلسے ہی اس اہم سوال کو جو اس وقت ہندوستان کے سامنے ہے )یعنی ملک کی مختلف اقوام میں اتحاد( صحیح طور پر حل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور اسلام میں متحد کرنے کی طاقت ایک تاریخی بات ہے غرضکہ ہندو مسلم اور عیسائی لیڈروں نے تسلیم کیا کہ اقوام ہند میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے جلسے نہایت مفید ہیں۔۱۲۸
سیرت النبیﷺ~ کے شاندار جلسوں کی تفصیلات پر روشنی ڈالنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض دوسرے امور کو جن کا ذکر ابھی تک اجمالی صورت میں آیا ہے مزید وضاحت کے ساتھ کر دیا جائے۔
قادیان میں جلسہ سیرت النبیﷺ~
جماعت احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے قادیان کا جلسہ اپنے اندر مرکزی شان رکھتا تھا۔ جس میں احمدی اصحاب کے علاوہ غیر احمدی مسلمان` ہندو` سکھ اور عیسائی لوگ بڑی کثرت سے شامل ہوئے جلسہ گاہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سامنے کھلے میدان میں شامیانے نصب کر کے بنائی گئی۔ جس میں دلاویز قطعات آویزاں تھے اور جسے اچھی طرح سجایا گیا تھا عورتوں کے لئے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں جلسہ کا علیحدہ انتظام تھا۔ جو حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی صدارت میں بڑی کامیابی سے ہوا۔ شائع شدہ پروگرام کے مطابق صبح ایک جلوس مرتب کیا گیا جو قریباً دس پارٹیوں پر مشتمل تھا۔ غیر احمدی مسلمانوں کی الگ پارٹیاں تھیں اور ایک پارٹی جاوی اور سماٹری طلبہ کی تھی جو حضرت مسیح موعودؑ کا عربی نعتیہ کلام پڑھ رہی تھی باقی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اردو نظمیں اور ہندو شعراء کی نعتیں پڑھ رہی تھیں۔ یہ شاندار جلوس ۷ بجے کے قریب تعلیم الاسلام ہائی سکول کے میدان سے روانہ ہوا۔ اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے گذر کر دارالعلوم کی سڑک پر سے ہوتا ہوا ہندو بازار میں آیا۔ اور چوک سے غربی جانب مڑ کر اور دوسرے بازار سے ہوتا ہوا احمدیہ بازار میں پہنچا جلوس کی پارٹیاں نعتیہ اشعار اور درود خوش الحانی اور بلند آواز سے پڑھ رہی تھیں اس جلوس کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے زیر نگرانی مقامی سیکرٹری تبلیغ ملک فضل حسین صاحب مہاجر کے سپرد تھا۔ ۱۲۹اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے افراد اور بزرگ اس میں شامل تھے۔ جلوس محلہ دارالفضل والی سڑک کے راستہ جلسہ گاہ میں پہنچ کر ختم ہوگیا۔
جلسہ گاہ میں سب سے پہلے بچوں کا اجلاس ہوا جس کا صدر بھی ایک چھوٹا لڑکا مقرر ہوا۔ اور جس میں پریذیڈنٹ کے علاوہ بیس طلباء نے آنحضرت~صل۱~ کے وہ احسانات بیان کئے جو براہ راست بچوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض بچوں کی تقریروں سے خوش ہو کر حکیم محمد عمر صاحب نے نقد انعامات دئیے ایک بچہ نے جسے دو روپے انعام ملا تھا انعام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ روپے ترقی اسلام کی مد میں دے دئیے۔ اس پر اسے ایک روپیہ اور انعام دیا گیا مگر اس نے وہ بھی اشاعت اسلام میں دے دیا۔
بچوں کے اجلاس کے بعد چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کی صدارت میں جامعہ احمدیہ مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے بڑے طلباء کی تقریریں ہوئیں۔ اور اجلاس کھانے اور نماز کے لئے برخاست ہوا۔
نماز ظہر کے بعد پھر اجلاس ہوا۔ جس میں جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول کے ایک ایک طالب علم کی تقریروں کے بعد مشاعرہ ہوا۔ اور مقامی شعراء کی سات نظموں کے علاوہ ہندو شعراء کی دو نعتیں بھی خوش الحانی سے پڑھی گئیں مشاعرہ کے اختتام پر پہلے ڈاکٹر گور بخش سنگھ صاحب ممبر سمال ٹائون کمیٹی قادیان نے آنحضرت~صل۱~ کی سیرت پر روشنی ڈالی اور پھر چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے حضورﷺ~ کی سیرت مقدسہ کی خصوصیات بیان کیں اور اجلاس نماز عصر کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تقریر
ساڑھے پانچ بجے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی پر معارف تقریر >دنیا کا محسن< کے عنوان سے شروع ہوئی۔ اس تقریر میں حضور نے آنحضرت~صل۱~ کی پاکیزہ سیرت` بیش بہا احسانات اور عدیم المثال قربانیوں کا نہایت ہی مدلل پاکیزہ اور اچھوتے طرز میں ذکر فرمایا۔ اور دلائل و واقعات کی بناء پر ان اعتراضوں کا بھی اصولی رنگ میں جواب دیا۔ جو حضور کی مقدس زندگی پر کئے جاتے ہیں- یہ تقریر آٹھ بجے ختم ہوئی۔ اور حضور نے دعا کے بعد جلسہ کا اختتام فرمایا۔ ۱۳۰حضور کا یہ لیکچر بہت مقبول ہوا اور اس کا پہلا ایڈیشن جو پانچ ہزار ۱۳۱کی تعداد میں شائع کیا گیا بہت جلد ختم ہوگیا اور اسے دوبارہ چھپوانا پڑا۔ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے نے اس لیکچر کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو ریویو آف ریلیجنز )انگریزی( میں بھی شائع ہوگیا۔۱۳۲
]0 [stfانعامات لینے والے غیر مسلم
اوپر ذکر آ چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اعلان کیا گیا تھا کہ جو غیر مسلم سیرت النبیﷺ~ پر مضمون بھیجیں گے ان میں سے درجہ اول و دوم و سوم کو انعامات تقسیم کئے جائیں گے۔ اس وعدہ کے مطابق درجہ اول کا انعام رائے بہادر لالہ پارس داس صاحب آنریری مجسٹریٹ دہلی کو درجہ دوم کا انعام بھائی گیانی کرتا سنگھ صاحب ساکن کھاریاں ضلع گجرات کو اور درجہ سوم کا انعام لالہ بھگت رام صاحب جیودیا پرچارک چھائونی فیروز پور نے حاصل کیا۔۱۳۳دراصل انعام کا اعلان کرتے ہوئے یہ خیال کیا گیا تھا کہ غریب طبقہ کے لوگ اس تحریک میں حصہ لیں گے اس لئے انعام کی رقم بھی مقرر کر دی تھی مگر خدا کے فضل سے اس تحریک میں دس۱۳۴بڑے بڑے معزز لوگوں نے حصہ لیا اور سب سے اول انعام جسے ملا وہ آنریری مجسٹریٹ اور بہت معزز آدمی تھے اس لئے اس رقم کو تحفہ کی صورت میں بدلنا پڑا۔
آنحضرتﷺ~ کے خاتم النبیین ہونے پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا حلفیہ بیان 0] ft[r
مسلم اخبارات نے سیرت النبیﷺ~ کے جلسوں کے مخالفین پر سخت تنقید کی تھی۔ مگر یہ اصحاب اپنی روش کو بدلنے پر آمادہ نہ ہوئے اور
انہوں نے اپنے تئیں حق بجانب ثابت کرنے کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کے خلاف اپنا یہ الزام پھر دہرایا کہ دراصل آپ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ لہذا ان کا یوم خاتم النبین منانا دنیاکو دھوکہ دینا ہے۔۱۳۵اس افسوسناک غلط فہمی کے پھیلانے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۳ / اگست ۱۹۲۸ء کے الفضل میں مفصل مضمون شائع کیا۔ جس میں آنحضرت~صل۱~ کے خاتم النبیین ہونے پر مندرجہ ذیل حلفیہ بیان شائع فرمایا۔
>میں رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبیینﷺ~ یقین کرتا ہوں اور اس پر میرا ایمان ہے قرآن شریف کے ایک ایک شوشہ کو میں صحیح سمجھتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ اس میں کسی قسم کا تغیر ناممکن ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو منسوخ قرار دیں یا اس کی تعلیم کو منسوخ قرار دیں میں انہیں کافر سمجھتا ہوں میرے نزدیک رسول کریم~صل۱~ خاتم النبیین ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میرا یہی عقیدہ ہے اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ موت تک اس عقیدہ پر قائم رہوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے محمد رسول اللہ~صل۱~ کے خدام کے زمرہ میں کھڑا کرے گا اور میں اس دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی غلیظ سے غلیظ قسم کھاتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ اگر میں دل میں یا ظاہر میں رسول کریم~صل۱~ کے خاتم النبیین ہونے کا منکر ہوں اور لوگوں کو دکھانے کے لئے اور انہیں دھوکہ دینے کے لئے ختم نبوت پر ایمان ظاہر کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی *** مجھ پر اور میری اولاد پر ہو اور اللہ تعالیٰ اس کام کو جو میں نے شروع کیا ہوا ہے تباہ و برباد کر دے۔ میں یہ اعلان آج نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ میں نے اس عقیدہ کا اعلان کیا ہے اور سب سے بڑا ثبوت اس کا یہ ہے کہ میں بیعت کے وقت ہر مبائع سے اقرار لیتا ہوں کہ وہ رسول کریم~صل۱~ کو خاتم النبیین یقین کرے گا۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب۱۳۶یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو نبی مانتا ہوں اس لئے ثابت ہوا کہ میں رسول کریم~صل۱~ کے خاتم النبیین ہونے کا منکر ہوں کیونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا نبی ہرگز نہیں مانتا کہ ان کے آنے سے رسول کریم~صل۱~ کی نبوت ختم ہوگئی ہو۔ اور آپ کی شریعت منسوخ ہوگئی ہو بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے اور ہر ایک جس نے میری کتب کو پڑھا ہے یا میرے عقیدہ کے متعلق مجھ سے زبانی گفتگو کی ہے جانتا ہے کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو رسول کریم~صل۱~ کا ایک امتی مانتا ہوں اور آپ کو رسول کریم~صل۱~ کی شریعت اور آپﷺ~ کے احکامات کے ایسا ہی ماتحت مانتا ہوں جیسا کہ اپنے آپ کو یا کسی اور مسلمان کو بلکہ میرا یہ یقین ہے کہ مرزا صاحب رسول کریم~صل۱~ کے احکامات کے جس قدر تابع اور فرمانبردار تھے اس کا ہزارواں حصہ اطاعت بھی دوسرے لوگوں میں نہیں ہے اور آپ کی نبوت ظلی اور تابع نبوت تھی۔ جو آپ کو امتی ہونے سے ہرگز باہر نہیں نکالتی تھی۔ اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ آپ کو جو کچھ ملا تھا وہ رسول کریم~صل۱~ کے ذریعہ اور آپ کے فیض سے ملا تھا۔ پس باوجود اس عقیدہ کے میری نسبت یہ کہنا کہ میں چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتا ہوں اس لئے گو منہ سے کہوں کہ رسول کریم~صل۱~ خاتم النبیین ہیں میں جھوٹا اور دھوکہ باز ہوں۔ خود ایک دھوکہ ہے۔۱۳۷body] ga[t
حضور نے اپنے اس مضمون کے آخر میں لکھا :
>حق یہ ہے کہ گو ہم میں سے ہر ایک کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے کی نسبت یہ کہہ دے کہ اس کا عقیدہ حقیقت ختم نبوت کے منافی ہے لیکن جو شخص کہتا ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی فرقہ بھی ایسا ہے کہ وہ ختم نبوت کا ایسے رنگ میں منکر ہے کہ اس کا حق ہی نہیں کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے مل کر
tav.5.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
رسول کریم~صل۱~ کی عظمت کے قیام کے لئے کوشش کر سکے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔۱۳۸
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کا یہ عقیدہ تھا کہ غیر احمدی اصحاب ختم نبوت کے منکر ہیں۔ اور یہ کہ نئے اور پرانے نبی کی آمد کے عقیدوں میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے رسالہ >دعوۃ عمل< میں لکھا تھا۔
>قرآن شریف تو نبوت کو آنحضرت~صل۱~ پر ختم کرتا ہے مگر مسلمانوں نے اس اصولی عقیدہ کے بالمقابل یہ خیال کر لیا کہ ابھی آنحضرت~صل۱~ کے بعد حضرت عیسیٰؑ جو نبی ہیں۔ وہ آئیں گے اور یہ بھی نہ سوچا کہ جب نبوت کا کام تکمیل کو پہنچ چکا اور اسی لئے نبوت ختم ہو چکی تو اب آنحضرت~صل۱~ کے بعد کوئی نبی کس طرح آ سکتا ہے خواہ پرانا ہو یا نیا۔ نبی جب آئے گا نبوت کے کام کے لئے آئے گا۔ اور جب نبوت کا کام ختم ہوگیا تو نبی بھی نہیں آ سکتا پرانے اور نئے سے کچھ فرق نہیں پڑتا<۔
پھر لکھا :
>مسلمانوں نے عقیدہ بنالیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنہوں نے آنحضرت~صل۱~ سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ اس امت کے معلم بنیں گے اور یوں آنحضرت~صل۱~ کی شاگردی سے یہ امت نکل جائے گی۔ >)دعوت عمل< صفحہ ۱۲۔۱۳ شائع کردہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور(
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ اقتباس درج کرنے کے بعد مندرجہ بالا مضمون میں تحریر فرمایا :
>اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اول مولوی صاحب کے نزدیک عام مسلمانوں کا عقیدہ ختم نبوت کے عقیدہ کے مقابل پر ہے یعنی متضاد اور مخالف ہے دوم مولوی صاحب کے نزدیک یہ عقیدہ کہ کوئی پرانا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی نیا نبی آئے گا دونوں میں کچھ فرق نہیں یہ دونوں عقیدے عملاً۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم نبوت کے عقیدہ کو رد کرنے والے ہیں سوم مسلمانوں کے عقیدہ نزول مسیح کے رو سے امت محمدیہ امت محمدیہ نہ رہے گی۔ یعنی رسول کریم~صل۱~ کی نبوت ختم ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ غضب نہیں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تو مولوی صاحب کے نزدیک تمام مسلمان ختم نبوت کے منکر تھے۔ اور ان کے عقائد امت محمدیہ کو آنحضرتﷺ~ کی امت سے نکال رہے تھے لیکن ۱۷ / جون کے جلسہ کی تحریک کا ہونا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ سب مسلمان تو ختم نبوت کے قائل ہیں اور یہ مبائع احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں<۔۱۳۹
۱۹۲۹ء کے ایک اشتہار کا نمونہ
دنیا کا محسن
>کسی اہل بصیرت مسلمان سے پوشیدہ نہیں کہ فی زمانہ کچھ ہماری غفلتوں اور علمی و عملی کمزوریوں کے باعث اور کچھ مخالف کے خلاف واقعہ طرز عمل کے ماتحت امام المتقین سید المعصومین حضرت محمد رسول اللہ~صل۱~ کی پاک سیرت نہ صرف دوسرے اہل مذہب بلکہ خود مسلمانوں کی آنکھوں سے بھی اوجھل ہو چکی ہے۔ اس لئے اشد ضرورت اس بات کی ہے۔ کہ حضور سرور عالمﷺ~ کی سیرت صحیحہ سے دنیا جہان والوں کو آگاہ کیا جاوے۔ تاکہ وہ حقیقت کو پاکر اتباع ظن کے گناہ اور اس کے زہر سے محفوظ ہو جاویں۔
اسی غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ سال حضرت امام جماعت احمدیہ نے یہ مبارک تحریک کی تھی۔ کہ ایک ہی تاریخ مقررہ پر ہندوستان کے گوشے گوشے میں جلسے منعقد کر کے آنحضرتﷺ~ کی پاکیزہ زندگی حضورﷺ~ کے دنیا پر احسانات اور آپﷺ~ کی قربانیاں قرآن کریم اور صحیح تاریخ سے بیان کی جائیں۔ چنانچہ یہ تحریک بڑی حد تک کامیاب اور مفید ثابت ہوئی۔
توکل کرتے ہوئے امسال یہ ایک مزید تجویز کی گئی ہے۔ کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ممالک غیر یورپ۔ امریکہ۔ افریقہ وغیرہ وغیرہ میں بھی ۲ / جون ۱۹۲۹ء کو ایسے جلسے منعقد کئے جائیں اسی دن تمام دنیا میں مختلف زبانوں میں آنحضرتﷺ~ کی پاک سیرت پر لیکچر ہوں۔
پس اسی اصول پر انتظام کیا گیا ہے۔ کہ جہلم میں ۲ / جون ۱۹۲۹ء کو بوقت پانچ بجے شام بمقام حویلی گہاٹ ایک جلسہ زیر صدارت جناب میجر نواب ملک طالب مہدی خان صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر منعقد ہوگا۔ جس میں مسلم۔ اور غیر مسلم اصحاب دو مضامین یعنی
)۱( >رسول کریمﷺ~ کا غیر مذاہب سے معاملہ بلحاظ تعلیم و تعامل<۔
)۲( توحید باری تعالیٰ کے متعلق رسول کریمﷺ~ کی تعلیم<
پر لیکچر دیں گے۔ امید ہے کہ رواداری اور وسیع النظری سے کام لے کر ہر علمی مذاق کا شائق طبقہ جلسہ میں شامل ہو کر اپنی بہتری اور بہبود کے ذرائع پر غور کرے گا۔
ان جلسوں کی غرض و غایت یہ ہے کہ لیکچروں اور خوش آئند تقریروں کے ذریعہ لاکھوں ان پڑھ یا غفلت اور سستی کی وجہ سے خود مطالعہ سے معذور مسلمان اس دن تھوڑا سا وقت صرف کر کے رسول کریمﷺ~ کی ذات والا صفات کے متعلق کافی واقفیت حاصل کرلیں گے۔ اور ضمناً غیر مسلم صاحبان پر جب آنحضرتﷺ~ کے صحیح حالات واضح ہوں گے تو سلیم الفطرت اور شریف الطبع اصحاب اپنے ایسے ہم مذہبوں کو جو تعصب سے اندھے ہو رہے ہیں گالیاں دینے سے روکیں گے۔ اسی طرح بعض مفسد جو رسول کریمﷺ~ کی شان میں خلاف واقعہ اور گندے مضامین لکھ لکھ کر آئے دن ملک کا امن برباد کر رہے ہیں۔ اپنے کئے پر پشیمان ہو کر آئندہ کے لئے اصلاح پا جائیں گے۔ اور ہندو مسلم اتحاد کے راستہ سے جس کے بغیر ملک کی ترقی سراسر محال ہے۔ ایک بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی۔
المشتہرین
>مولوی< محمد اکرم خان بیرسٹر ایٹ لاء و گورنمنٹ ایڈووکیٹ جہلم
>مستری عبدالرحمن میونسپل کمشنروپریذیڈنٹ اہلحدیث جہلم<
>چوہدری< ذکاء اللہ خان ایم اے۔ ایل ایل۔ بی پلیڈر جہلم
>شیخ عمر بخش متولی مسجد خانساماں جہلم
>پنڈت< عبدالقادر بی۔ اے آرنرز بیرسٹر ایٹ لاء جہلم
>شیخ محمد حسین میونسپل کمشنر جہلم
>چوہدری فیروز الدین بی۔ اے ایل ایل بی پلیڈر جہلم
>حکیم جمشید علی خان پریذیڈنٹ انجمن امامیہ جہلم
>شیخ محمد شفیع بی اے ایل ایل بی پلیڈر جہلم
>ڈاکٹر نذر محمد میڈیکل پریکٹیشنر و پریذیڈنٹ خلافت کمیٹی جہلم
شیخ بشیر علی بی۔ اے` ایل ایل بی پلیڈر جہلم
>حافظ نور محمد میونسپل کمشنر و پریذیڈنٹ اہل السنت والجماعت جہلم
فصل سوم
سفر ڈلہوزی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پہلی بار امیر مقامی مقرر ہونا
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی بحالی صحت کے لئے عموماً ہر سال کسی صحت افزا مقام کی طرف تشریف لے جایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس
سال بھی حضور ۲۱ / جون ۱۹۲۸ء کو ڈلہوزی تشریف لے گئے اور حضور نے اپنے بعد پہلی بار حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو امیر مقامی مقرر فرمایا۔۱۴۰ اس موقعہ پر حضرت میاں صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ >میں اپنی بہت سی کمزوریوں کی وجہ سے اس عہدہ کا اہل نہیں ہوں<۔ مگر حضور نے اپنے فیصلہ میں تبدیلی مناسب نہ سمجھی اور یہ بار آپ ہی کو اٹھانا پڑا۔
اپنے زمانہ امارت میں آپ کو بعض احباب کی طرف سے ایسی درخواستیں موصول ہوئیں کہ فلاں ناظر صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے اسے منسوخ کیا جائے یا مجلس معتمدین کا فلاں ریزولیوشن قابل منسوخی ہے یا یہ کہ فلاں معاملہ میں یہ حکم جاری کیا جائے حالانکہ وہ ایسا معاملہ تھا جس میں صرف ناظر متعلقہ یا مجلس یا خلیفہ وقت ہی حکم صادر فرما سکتے تھے۔
اس قسم کی باتوں سے آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ابھی تک جماعت کو مقامی امیر کی پوزیشن کا صحیح علم نہیں ہے لہذا آپ نے ایک مفصل اعلان شائع کیا جس میں احباب کی اس غلط فہمی کا ازالہ کر کے پوری وضاحت فرمائی کہ مقامی امیر اگرچہ اپنے حلقہ میں حضرت امام کا قائم مقام ہوتا ہے۔ مگر اس کی پوزیشن ایسی ہے` جیسے کہ دوسرے مقامات کے مقامی امیروں کی ہوتی ہے۔ گو مرکز کی اہمیت کی وجہ سے اس کی ذمہ داری دوسرے امراء سے زیادہ ہے لیکن بہرحال وہ ایک مقامی امیر ہے جو ناظران سلسلہ ہی کے ماتحت ہوتا ہے اس کا حلقہ امارت صرف مرکزی جماعت تک ہے دوسری جماعتوں کے ساتھ اس کا کوئی انتظامی تعلق نہیں ہوتا۔۱۴۱
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۱۹۲۸ء کے بعد بھی کئی بار امیر مقامی مقرر ہوئے اور آپ نے نہ صرف اپنے زمانہ امارت میں بلکہ پوری زندگی میں ہمیشہ اطاعت امام کا ایک بے مثال نمونہ دکھایا۔ چنانچہ آپ کے سوانح نگار محترم شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تالیف >حایت بشیر< کے تیسرے باب میں آپ کی مقدس زندگی کے متعدد واقعات درج کئے ہیں جن سے قطعی طور پر یہ شہادت ملتی ہے۔ کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو وابستگی خلافت اور اطاعت امام کے لحاظ سے جو بلند مقام خلافت اولیٰ میں حاصل تھا وہ خلافت ثانیہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور متابعت کے رنگ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو نصیب ہوا۔۱۴۲اس سلسلہ میں مکرم مرزا مظفر احمد صاحب کا مندرجہ ذیل بیان خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ فرماتے ہیں :
>ابا جانؓ< حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی بے حد محبت کرتے تھے۔ اور حضور کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنا جسمانی رشتہ اپنے نئے روحانی رشتہ کے ہمیشہ تابع رکھا دینی معاملات کا تو خیر سوال ہی کیا تھا دنیاوی امور میں بھی یہی کوشش فرماتے تھے کہ حضور کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔ حضور کی تکریم کے علاوہ کمال درجہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ پیش کرتے تھے۔ میں نے اس کی جھلکیاں بہت قریب سے گھریلو ماحول میں دیکھی ہیں آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کا رنگ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ نبض دل کے تابع ہو عمر بھر اس تعلق کو کمال وفاداری سے نبھایا اور اس کیفیت میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہ ہونے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور کا سلوک بھی اباجان سے بہت شفقت کا تھا اور ہمیشہ خاص خیال رکھتے تھے اور اہم معاملات میں مشورہ بھی لیتے تھے۔ ضروری تحریرات خصوصاً جو گورنمنٹ کو جانی ہوتی تھیں ان کے مسودات اباجان کو بھی دکھاتے تھے۔ اور اس کے علاوہ اہم فیصلہ جات اور سکیم پر عمل درآمد کا کام اکثر اباجان کے سپرد کرتے تھے۔ اور اس بات پر مطمئن ہوتے تھے کہ یہ کام حسب منشاء اور خوش اسلوبی سے ہو جائے گا<۔۱۴۳
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی اطاعت امام سے متعلق ایک مختصر نوٹ دینے کے بعد اب ہم سفر ڈلہوزی کی طرف آتے ہیں۔ یہ سفر جو بظاہر آب و ہوا کی تبدیلی کی غرض سے حسب معمول گوناگوں مصروفیات میں گزرا۔ اوسطاً ڈیڑھ دو سو خطوط کا روزانہ پڑھنا اور اس کا جواب لکھوانا۔۱۴۴سلسلہ کے انتظامات و معاملات کی نسبت ہدایات جاری کرنا` خطبات جمعہ` علمی تحقیق ۱۴۵کا کام غرضکہ جس پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ زمانہ علمی سرگرمیوں کا زمانہ تھا۔ اس سلسلہ میں بعض اہم واقعات کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔
۳۰ / جون ۱۹۲۸ء کو حضور نے پہلی دفعہ ۴۵ کے قریب عربی اشعار کہے۔ ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو اخبار ٹائمز آف انڈیا کے نام ایک چٹھی لکھوائی جس میں اخبار کے ایک دلازار فقرہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے معذرت شائع کرنے اور آئندہ ازواج النبی~صل۱~ کی نسبت احتیاط سے قلم اٹھانے کی تاکید فرمائی۔۱۴۶
۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک انگریز مسٹر مروین نے حضور سے ملاقات کی۔ مسٹر مروین نے پوچھا کہ کیا لندن مسجد میں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی داخل ہو سکتے ہیں حضور نے فرمایا۔ یہ اعلان تو ہم نے افتتاح مسجد کے موقعہ ہی پر کر دیا تھا کہ مسجد کا دروازہ سبھی کے لئے کھلا ہے اس ضمن میں حضور نے تاریخ اسلام کا یہ مشہور واقعہ بھی بیان فرمایا کہ کس طرح آنحصرت~صل۱~ نے ۹ھ میں نجران۱۴۷کے ساٹھ عیسائیوں کو مسجد نبویﷺ~ میں اتارا۔ ان سے گفتگو فرمائی اور ان کو مسجد ہی میں عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ چنانچہ ان لوگوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی نماز ادا کی۔۱۴۸`۱۴۹
۹ / جولائی ۱۹۲۸ء کو بابو شیخ محمد صاحب وکیل گورداسپور ملاقات کے لئے آئے۔ جن سے تحصیل شکرگڑھ کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت اور اچھوت اقوام میں تبلیغ سے متعلق گفتگو ہوئی ان رکاوٹوں کا ذکر کیا جو کچھ عرصہ ہوا احمدی مبلغوں کو اس علاقہ کی اچھوت اقوام میں تبلیغ کرتے وقت خود مسلمانوں کی طرف سے پیش آئی تھیں۔
اسی روز مشرف حسین صاحب ایم۔ اے دہلوی انسپکٹر ڈاک خانہ جات سے دہلی کے شاہی خاندانوں کی تباہی اور پرانے اہل علم گھرانوں کی نسبت بہت گفتگو ہوئی۔ اس صمن میں حضور نے اسلامی پردہ کی وضاحت بھی فرمائی۔۱۱۱۵۰ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسٹر اے۔ اے لین رابرٹس ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع گورداسپور اور مسٹر انڈرسن سشن جج صاحب گورداسپور کو اپنی کوٹھی پر چائے کی دعوت دی اور ایک گھنٹہ کے قریب سلسلہ احمدیہ کے معاملات سے متعلق انگریزی میں گفتگو فرمائی۔
۱۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو جنرل کک صاحب افسر افواج کے اعزاز میں سردار مکھن سنگھ صاحب رئیس نے ایک پارٹی سٹفل ہوٹل میں دی۔ جس میں معززین شہر کے ساتھ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی )مع حضرت مفتی محمد صادق صاحب و شیخ یوسف علی صاحب( بھی مدعو تھے۔ اس پارٹی میں کئی ایک ہندوستانی شرفاء اور انگریز حکام سے سلسلہ احمدیہ اور دیگر امور پر گفتگو ہوتی رہی۔
پارٹی کے بعد میاں حق نواز صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور اور ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب۱۵۱ممبر یو۔ پی کونسل حضور کی ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ ان اصحاب نے احمدیہ مشن لندن کی تبلیغی مساعی کی بہت تعریف کی اور پھر سیاسیات ہند کی نسبت حضور سے گفتگو کی۔ اسی روز سردار ہر چند سنگھ صاحب جے جی رئیس و جاگیردار ریاست پٹیالہ بھی حضور کی ملاقات کے لئے آئے۔
۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک سکھ سردار ٹکہفتح جنگ صاحب آف سدھووال آئے۔ اور بہت دیر تک حضور سے گفتگو کرتے رہے انہون نے پوچھا۔ آپ تو ہر سال خوب سفر کرتے ہوں گے۔ حضور نے فرمایا۔ ہماری جماعت کا انتظام دوسرے لوگوں کی طرح نہیں ہے۔ ہر کام کے صیغے مقرر ہیں۔ دفتری کاموں سے متعلق کارکن مجھ سے مشورہ لیتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ دیر تک مرکز سے باہر رہنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح بیرونی جماعتیں نہ صرف جماعتی کاموں سے متعلق بلکہ اپنے پرائیویٹ معاملات کے متعلق بھی مشورے لیتی ہیں ڈیڑھ دو سو کے قریب روزانہ خطوط آتے ہیں ان حالات میں بمشکل دو ایک ماہ تبدیلی آب و ہوا کے لئے باہر رہ سکتا ہوں۔ باہر سے بھی ضروری کاموں کے متعلق ہدایات دیتا رہتا ہوں اور ضروری کاغذات یہاں بھی آتے ہیں۔ ٹکہ صاحب نے حضور سے مختلف نوعیت کے مذہبی و سیاسی سوالات کئے۔ مثلاً احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کیا فرق ہے؟ ہندو مسلمانوں میں اتحاد کیونکر ہو سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ حضور نے ان کے مفصل جوابات دئیے۔ اسی روز نماز عصر کے بعد سردار حبیب اللہ صاحب بیرسٹر ایٹ لاء کو چائے کی دعوت پر بلایا گیا تھا۔ حضور نے مسلم اتہاد کی نسبت اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا جب تک مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد اس بات پر رکھی جائے گی کہ ان سے )جبراً( کچھ باتیں چھڑائی جائیں اور سب کو ایک جیسے عقائد پر جمع کیا جائے اس وقت تک اتحاد نہ ہوگا۔ اتحاد کی واحد صورت یہ ہے کہ رواداری سے کام لیا جائے۔ کسی کے مذہبی عقائد سے تعرض نہ کیا جائے اور مشترکہ مسائل میں مل کر کام کیا جائے۔۱۵۲
۱۵ / جولائی ۱۹۲۸ء کو بابو ابو سعید صاحب احمدی ریڈر سشن جج گورداسپور نے حضور کے اعزاز میں حضور ہی کے جائے قیام پر چائے کی دعوت دی۔ دعوت میں ۲۰۔۲۵ کے قریب معززین شامل تھے۔ جن سے حضور نے پردہ` ترکوں کا اسلام سے تعلق` شاہ کابل کا سفر یورپ اور دیگر ممالک میں تبلیغ اسلام وغیرہ مسائل پر گفتگو فرمائی۔ ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کو چوہدری سر شہاب الدین صاحب پریذیڈنٹ لیجسلیٹو کونسل پنجاب نے حضور کو مع رفقاء اپنی کوٹھی میں دعوت دی جس میں بعض اور معززین بھی مدعو تھے۔ حضور چوہدری شہاب الدین صاحب` شیخ اصغر علی صاحب کمشنر ملتان سے مسلمانوں کی موجودہ حالت اور اس کی اصلاح کے متعلق گفتگو فرماتے رہے۔۱۵۳
۱۸ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک کشمیری پیر حضور سے ملنے کے لئے تشریف لائے جو پہاڑی ریاستوں میں مسلمانوں کی افسوسناک حالت اور ریاستوں کے مظالم کا زکر کرتے رہے اور عرض کیا کہ اسلام کو اس زمانہ میں سب سے زیادہ نقصان خود علماء پہنچا رہے ہیں۔ آپ ہی کی جماعت ہے جو اس وقت مسلمانوں کو بچا سکتی ہے۔ آپ ضرور ان علاقوں کے مسلمانوں کے لئے بھی کوئی انتظام فرمائیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا۔ >ہم مسلمانوں کی ہر طرح امداد کرنے کے لئے تیار ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان علاقوں میں اگر کوئی مبلغ بھیجا جائے۔ تو حکام اسے نکال دیتے ہیں۔ تھوڑا ہی عرصہ ہوا۔ ہم نے اپنا ایک مبلغ ایک علاقہ میں بھیجا۔ اسے ایک بڑے ریاستی افسر نے کہا تم یہاں سے چلے جائو مبلغ نے مجھے لکھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ میں نے جواب دیا آپ تحریری حکم مانگیں اور جب تک تحریری طور پر نکلنے کے لئے نہ کہا جائے نہ نکلیں جب یہ بات اس مبلغ نے اس حاکم سے کہی تو اس نے کہا جس غرض سے تم تحریر مانگتے ہو وہ ہم بھی جانتے ہیں تحریر کوئی نہیں دی جا سکتی۔ اگر تم نہ نکلو گے تو کسی اور الزام میں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ ایسی حالت میں اس مبلغ کو واپس آجانا پڑا۔ ان علاقوں کے مسلمانوں کی اصلاح کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ وہاں کے ہوشیار اور ذہین طلباء کو تعلیم دی جائے اور پھر وہ اپنے علاقہ میں مسلمانون کی اصلاح کریں۔ وہ چونکہ اسی جگہ کے باشندے ہوں گے ان کو حکام نہیں نکال سکیں گے۔ اگر آپ ایسے لڑکے بھجوائیں تو ہم ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کر دیں گے۔
۱۹ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور کی طرف سے میاں فیملی باغبانپورہ کے ان اصحاب کو جو ڈلہوزی میں تھے چائے کی دعوت دی جس میں میاں شاہنواز صاحب بیرسٹر ایٹ لاء ممبر اسمبلی میاں بشیر احمد صاحب بی اے بیرسٹر ایٹ لاء میاں رفیع احمد صاحب خلف سر میاں محمد شفیع صاحب اور میاں افتخار احمد صاحب شریک ہوئے۔ جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات ہندوستان کی ادنیٰ اقوام میں تبلیغ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق گفتگو ہوتی رہی جس میں سب اصحاب نے بہت دلچسپی لی۔۱۵۴
۲۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو افواج علاقہ جالندھر چھائونی کے کمانڈنگ افسر صاحب بریگیڈیر جنرل ٹوس صاحب نے حضور کی ملاقات کی اور دو گھنٹہ تک مختلف امور پر حضور سے گفتگو کرتے رہے۔ اور سلسلہ کے حالات` حضور کے سفر شام` مصر اور یورپ کے حالات سنتے رہے حضور کی وسیع معلومات اور صائب رائے کا اثر کمانڈنگ آفیسر صاحب کے چہرہ سے اثنائے گفتگو میں نمایاں ہو رہا تھا۔ اسی دن شیخ اصغر علی صاحب کمشنر ملتان سے حضور نے اسلامی ممالک کے حالات اور بعض دوسرے امور کے متعلق گفتگو فرمائی۔
۲۳ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حرم محترمہ نے مختلف اقوام و مذاہب کی خواتین کو چائے کی دعوت دی۔ ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء کو مسٹر کارنیلیس اسسٹنٹ کمشنر گورداسپور حضور کی ملاقات کے لئے آئے۔۲۹۱۵۵ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور نے صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے کو انگلستان روانہ کرنے سے قبل لمبی دعا کے بعد رخصت کیا اور احباب دور تک انہیں الوداع کہنے کے لئے ان کے ساتھ گئے۔ حضور ۵ / اگست ۱۹۲۸ء کو واپس قادیان تشریف لائے۔۱۵۶
جہاد بالقرآن کی اہم تحریک
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جولائی ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں مسلمانان عالم کو اس طرف توجہ دلائی کہ ان کی ترقی و سربلندی کا اصل راز قرآن مجید کے سمجھنے اور اس پر کاربند ہونے میں مضمر ہے چنانچہ حضور نے ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
>ہر مسلمان کو چاہیئے کہ قرآن کریم کو پڑھے۔ اگر عربی نہ جانتا ہو تو اردو ترجمہ اور تفسیر ساتھ پڑھے عربی جاننے والوں پر قرآن کے بڑے بڑے مطالب کھلتے ہیں مگر یہ مشہور بات ہے کہ جو ساری چیز نہ حاصل کر سکے اسے تھوڑی نہیں چھوڑ دینی چاہیئے۔ کیا ایک شخص جو جنگل میں بھوکا پڑا ہو اسے ایک روٹی ملے تو اسے اس لئے چھوڑ دینی چاہیئے کہ اس سے اس کی ساری بھوک دور نہ ہوگی۔ پس جتنا کوئی پڑھ سکتا ہو پڑھ لے۔ اور اگر خود نہ پڑھ سکتا ہو تو محلہ میں جو قرآن جانتا ہو اس سے پڑھ لینا چاہیئے۔ جب ایک شخص بار بار قرآن پڑھے گا اور اس پر غور کرے گا تو اس میں قرآن کریم کے سمجھنے کا ملکہ پیدا ہو جائے گا۔ پس مسلمانوں کی ترقی کا راز قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے جب تک مسلمان اس کے سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے کامیاب نہ ہوں گے۔ کہا جاتا ہے دوسری قومیں جو قرآن کو نہیں مانتیں وہ ترقی کر رہی ہیں پھر مسلمان کیوں ترقی نہیں کر سکتے۔ بے شک عیسائی اور ہندو اور دوسری قومیں ترقی کر سکتی ہیں لیکن مسلمان قرآن کو چھوڑ کر ہرگز نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی اس بات پر ذرا بھی غور کرے تو اسے اس کی وجہ معلوم ہو سکتی ہے اگر یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ ہمیشہ دنیا کو ہدایت دینے کے لئے قائم رہے گی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اگر قرآن کو خدا کی کتاب ماننے والے بھی اس کو چھوڑ کر ترقی کر سکیں تو پھر کوئی قرآن کو نہ مانے گا پس قرآن کی طرف مسلمانوں کو توجہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ترقی کا انحصار قرآن کریم ہو<۔۱۵۷
چندہ خاص کی دوسری تحریک
جماعت احمدیہ کے لئے یہ زمانہ مالی لحاظ سے بڑی تنگی کا زمانہ تھا۔ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بار بار مالی مطالبات پر زور دینا پڑتا تھا چنانچہ ۱۹۲۷ء میں حضور نے چندہ خاص کی تحریک فرمائی جس پر مخلصین جماعت کو خدا تعالیٰ نے ایسی توفیق بخشی کہ نہ صرف پچھلا بہت سا قرضہ اتر گیا بلکہ اگلے سال کا بجٹ پورا کرنے کے لئے بھی خاصی رقم جمع ہوگئی لیکن سلسلہ احمدیہ کا خزانہ چونکہ ابھی خطرہ سے پوری طرح باہر نہیں تھا۔ اور جماعت کے لئے ضروری تھا کہ جب تک یہ نازک صورت حال ختم نہ ہو جائے معمولی چندوں کے علاوہ چندہ خاص بھی دیا کریں تا معمولی چندوں کی کمی اس سے پوری ہو جائے۔ اور سلسلہ کے کاموں میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔
چنانچہ حضور نے اس ضرورت کے پیش نظر صدر انجمن احمدیہ کے نئے مالی سال کے شروع ہونے پر احباب جماعت کے نام چندہ خاص کی دوسری تحریک فرمائی۔ یہ اپیل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کے اخبار الفضل میں شائع ہوئی اور اس کا عنوان تھا۔ >اے عباد اللہ میری طرف آئو<۔ چنانچہ حضور نے اعلان فرمایا کہ :
>اس سال بھی حسب معمول تمام دوست اپنی آمد میں سے ایک معین رقم چندہ خاص میں ادا کریں۔ اور چاہیئے کہ وہ رقم ستمبر کے آخر تک پوری کی پوری وصول ہو جائے۔ اور یہ بھی کوشش رہے کہ اس کا اثر چندہ عام پر ہرگز نہ پڑے۔ بلکہ چندہ عام پچھلے سال سے بھی زیادہ ہو۔ کیونکہ مومن کا قدم ہر سال آگے ہی آگے پڑتا ہے اور وہ ایک جگہ پر ٹھہرنا پسند نہیں کرتا<۔
اپنے اعلان کے آخر میں حضور نے جماعت کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
>اے میرے پیارے دوستو! میں کس طرح آپ لوگوں کو یقین دلائوں کہ خدا تعالیٰ دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرنے والا ہے۔ پس پہلے سے تیار ہو جائو تا موقعہ ہاتھ سے کھو نہ بیٹھو۔ یاد رکھو۔ کہ خدا تعالیٰ کے کام اچانک ہوا کرتے ہیں اور جس طرح اس کے عذاب یکدم آتے ہیں اس کے فضل بھی یکدم آتے ہیں۔ پس بیدار ہو جائو اور آنکھیں کھول کر اس کے افعال کی طرف نگاہ رکھو کہ اس کا غیب غیر معمولی امور کو پوشیدہ کئے ہوئے ہے جو ظاہر ہو کر رہیں گے اور دنیا ان کو چھپانے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکے گی آپ لوگ اس کے فضل کے وارث ہوکر رہیں گے خواہ دنیا اسے پسند کرے یا نہ کرے<۔
پھر فرمایا :
>میں اس امر کی طرف بھی آپ کی توجہ پھرانی چاہتا ہوں۔ کہ اس سال بعض اضلاع میں گیہوں کی فصل خراب ہوگئی ہے اور اس کا اثر چندوں پر پڑنا بعید نہیں۔ پس چاہیئے کہ احباب اس امر کا بھی خیال رکھیں اور اس کو پورا کرنے کی بھی کوشش کریں۔ اور ان اضلاع کے دوستوں کو بھی جہاں نقصان ہوا ہے میں کہتا ہوں کہ لا تخش عن ذی العرش افلاسا۔ خدا تعالیٰ سے کمی کا خوف نہ کرو اور اس کے دین کی راہ میں قربانی سے نہ گھبرائو کہ خدا تعالیٰ اس کا بدلہ آپ کو آئندہ موسم میں دے دے گا۔ اور آپ کی ترقی کے بیسیوں سامان پیدا کر دے گا<۔۱۵۸
خلیفتہ وقت کے اس ارشاد پر مخلصین نے لبیک کہا اور کئی جماعتوں نے اپنے وعدے پورے کر دئیے<۔۱۵۹
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ایک اصولی ارشاد مخالف اخبارات سے متعلق
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلم اتحاد کو ترقی دینے کے لئے قبل ازیں یہ تحریک فرما رکھی تھی کہ مسلمان متحدہ مسائل میں
مل کر کام کریں۔ اور مسلم پریس ایسی باتوں کی اشاعت سے احتراز کرے جو باہمی منافرت کا موجب ہوں اور اسی وجہ سے احمدیہ پریس نے ایک عرصہ سے مسلمان اخبارات کے خلاف لکھنا ترک کر دیا تھا۔ مگر افسوس حضور کی ذات اور احمدیوں کے خلاف >زمیندار< وغیرہ اخبارات نے اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہ کی اور سراسر بے بنیاد پراپیگنڈا جاری رکھا۔ اس لئے ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ )چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے( نے ۱۲ / جولائی ۱۹۲۸ء کو حضور کی خدمت میں لکھا کہ حضور اجازت مرحمت فرمائیں کہ ایسے الزامات اور جگر سوز تحریروں کا معقولیت کے ساتھ جواب دیا جائے۔
اس درخواست پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ
>میں آپ سے متفق ہوں کہ ہماری خاموشی سے سلسلہ کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور باوجود بار بار توجہ دلانے کے کہ ہم صرف اسلام کی خاطر خاموش ہیں انہوں نے نصیحت حاصل نہیں کی۔ اور محض ذاتی بغض پر اسلام کے فوائد کو قربان کر دیا ہے۔ اب یہ ذاتی عداوت ایسا رنگ اختیار کر رہی ہے کہ اس کا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اور وہ تحریک اتحاد جسے میں نے بصد کوشش جاری کیا تھا اس سے متاثر ہونے کے خطرہ میں ہے پس اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس امر کی اجازت دیتا ہوں اور بادل نخواستہ دیتا ہوں کہ صاحبان جرائد اور مصنفین سلسلہ کو اجازت دی جائے کہ وہ ایسے اعتراضات کے جواب دے دیا کریں جن کا اسلام یا سلسلہ کے کاموں پر بد اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔ لیکن سخت الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا کریں۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکے ذاتیات کی بحثوں میں نہ پڑا کریں۔ کہ ان بحثوں میں پڑنے سے فساد کے بند ہو جانے کا احتمال بہت کمزور ہو جاتا ہے<۔۱۶۰
>پیغام صلح< کا پیغام جنگ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا اہم فرمان
>پیغام صلح< نے ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا- >ان کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں کریں صلح کریں یا جنگ کریں ہم دونوں حالتوں میں ان کے عقائد کے خلاف جو اسلام میں خطرناک تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں ہر حال میں جنگ کریں گے<۔۱۶۱
حضور نے اس پر ۱۸ / جولائی ۱۹۲۸ء کو ایک مفصل مضمون سپرد قلم فرمایا۔ جس میں احباب جماعت کو ہوشیار کرتے ہوئے لکھا :
>حضرت خلیفہ اولؓ نے ایک دفعہ تحریر فرمایا تھا کہ پیغام صلح نہیں وہ پیغام جنگ ہے اور آج کھلے لفظوں میں پیغام صلح نے ہمیں پیغام جنگ دیا ہے اور صرف اس بات پر چڑ کر کہ کیوں ہم نے رسول کریم~صل۱~ کی حفاظت کے لئے اور آپ کے خلاف گالیوں کا سدباب کرنے کے لئے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر ایک ہی دن سینکڑوں جلسوں کا انعقاد کیا ہے۔ میں اس جرم کا مجرم بے شک ہوں اور اس جرم کے بدلہ میں ہر ایک سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں اور چونکہ اس اعلان جنگ کا موجب ہمارے عقائد نہیں کیونکہ انہی عقائد کے معتقد خود مولوی محمد علی صاحب بھی رہے ہیں اور سب فرقہ ہائے اسلام ان کے معتقد ہیں بلکہ ہماری خدمات اسلام ہیں اس لئے میں اس چیلنج کو خوشی سے منظور کرتا ہوں اور اپنی جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دماغوں پر اس اعلان جنگ کو لکھ لیں۔ >پیغام< ہم سے آخری دم تک جنگ کرنے کا اعلان کرتا ہے اب ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس جنگ کی دفاع کے لئے تیار ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے یہ لوگ دنیا میں قائم رکھے جائیں گے تاکہ آپ لوگ ہمیشہ ہوشیار رہیں۔ لیکن جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ آپ لوگ اس کے فضل سے ان پر غالب رہیں گے اور وہ ہمیشہ آپ کی مدد کرے گا۔ پس خدا تعالیٰ کے لئے نہ کہ اپنے نفسوں کے لئے ان صداقتوں کے پھیلانے کے لئے مستعد ہو جائو۔ جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں اور اس بغض اور کینہ کو انصاف اور عدل کے ساتھ مٹانے کی کوشش کرو جس کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی ہے اور اس فتنہ اور لڑائی کا سدباب کرو جس کا دروازہ انہوں نے کھولا ہے اور کوشش کرو۔ کہ مسلمانوں کے اندر اس صحیح اتحاد کی بنیاد پڑ جائے۔ جس کے بغیر آج مسلمانوں کا بچائو مشکل ہے اور جسے صرف اپنی ذاتی اغراض کے قیام کے لئے یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں اور کوشش کرو کہ ان میں انصاف پسند روحیں اپنی غلطی کو محسوس کر کے آپ لوگوں میں آ شامل ہوں تاکہ جس قدر بھی ہو سکے اس اختلاف کی شدت کو کم کیا جا سکے اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو<۔]10 [p۱۶۲
شرفاء سے دردمندانہ اپیل
جہاں تک غیر مبایعین کے ذاتی حملوں کا تعلق تھا۔ حضور نے نہایت درد بھرے الفاظ میں شریف و متین طبقوں سے اپیل کی۔ کہ وہ اس جنگ میں فریقین کے طرز عمل اور رویے کا فرق ملحوظ رکھیں۔ اور اس پر گواہ رہیں۔ چنانچہ حضور نے لکھا :
>میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر فرقہ اور ہر مذہب کے شریف لوگ جو ہمارے لٹریچر کو اخباری یا علمی ضرورتوں کی وجہ سے پڑھتے ہیں اس امر پر گواہی دیں گے کہ بلاوجہ اور متواتر مجھ پر ظلم کیا گیا ہے۔ میرے خلاف اتہامات لگائے گئے ہیں اور مجھ پر حملے کئے گئے ہیں آج میری زندگی میں شاید معاصرت کی وجہ سے لوگ اس فرق کو اس قدر محسوس نہ کریں۔ اور شاید گواہی دینا غیر ضروری سمجھیں یا اس کے بیان کرنے سے ہچکچائیں لیکن دنیا کا کوئی شخص بھی خالد اور ہمیشہ زندہ رہنے والا نہیں۔ نہ معلوم چند دن کو نہ معلوم چند ماہ کو نہ معلوم چند سال کو جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جائوں گا۔ جب لوگ میرے کاموں کی نسبت ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں گے۔ جب سخت سے سخت دل انسان بھی جو اپنے دل میں شرافت کی گرمی محسوس کرتا ہوگا۔ ماضی پر نگاہ ڈالے گا۔ جب وہ زندگی کی ناپائیداری کو دیکھے گا اور اس کا دل ایک نیک اور پاک افسردگی کی کیفیت سے لبریز ہو جائے گا اس وقت وہ یقیناً محسوس کرے گا کہ مجھ پر ظلم پر ظلم کیا گیا اور میں نے صبر سے کام لیا۔ حملہ پر حملہ کیا گیا لیکن میں نے شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اور اگر اپنی زندگی میں مجھے اس شہادت کے سننے کا موقعہ میسر نہ آیا تو میرے مرنے کے بعد بھی یہ گواہی میرے لئے کم لذیذ نہ ہوگی یہ بہترین بدلہ ہوگا جو آنے والا زمانہ اور جو آنے والی نسلیں میری طرف سے ان لوگوں کو دیں گی اور ایک قابل قدر انعام ہوگا۔ جو اس صورت میں مجھے ملے گا پس میں بجائے اس کے کہ ان لوگوں کے حملہ کا جواب سختی سے دوں بجائے اس کے کہ گالی کے بدلہ میں گالی دوں تمام ان شریف الطبع لوگوں کی شرافت اور انسانیت سے اپیل کرتا ہوں جو اس جنگ سے آگاہ ہیں کہ وہ اس اختلاف کے گواہ رہیں وہ اس فرق کو مدنظر رکھیں اور اگر سب دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو بھی ان لوگوں کی نیک ظنی جو خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں لیکن ایک غیر متعصب دل ان کے سینہ میں ہو ان بہترین انعاموں میں ہوگا۔ جن کی کوئی شخص امید کر سکتا ہے۔10] [p۱۶۳
ہائی کورٹ کا انتظام
مسلمان ان دنوں ہندوئوں کے فرقہ وارانہ تعصب کا ہر جگہ شکار ہو رہے تھے۔ حتیٰ کہ پنجاب ہائی کورٹ کے انتظامیہ میں بھی ان کے حقوق پامال ہونے لگے۔ جس پر ابتداء اخبار >مسلم آئوٹ لک< نے پھر اخبار >زمیندار< نے احتجاج کیا۔ اور گو ان اخبارات نے جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ~ کے سلسلہ میں عدم تعاون کا مظاہرہ کیا تھا مگر چونکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے تحفظ حقوق کا تھا۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس کے حق میں آواز بلند کی۔ اور لکھا : >ہم مسلمانوں کی جس طرح مناسب سمجھیں گے حفاظت کریں گے اور انشاء اللہ کسی کی مخالفت کے خیال سے اس میں کوتاہی نہیں کریں گے اور نہ یہ دیکھیں گے کہ ایک مفید تحریک کرنے والا ہمارا دشمن ہے بلکہ اگر کوئی مفید تحریک ہوگی تو خواہ وہ >زمیندار< ہی کی طرف سے کیوں نہ ہو۔ جس نے ہماری مخالفت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ تب بھی ہم اس کی تائید سے اور پرزور تائید سے انشاء اللہ دریغ نہیں کریں گے اور اس بات سے نہیں شرمائیں گے کہ اس تحریک کا سہرا >زمیندار< کے سربندھتا ہے۔۱۶۴4] [rtf
فصل چہارم
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا درس القرآن
۸ / اگست تا ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے مبارک ایام
قرآنی علوم و معارف اور اسرار و نکات کی اشاعت کے لحاظ سے ۸ / اگست ۱۹۲۸ء تا ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے مبارک ایام ہمیشہ یادگار رہیں گے کیونکہ ان میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ میں سورئہ یونس سے سورئہ کہف تک پانچ پاروں کا روح پرور درس دیا۔]4 [stf۱۶۵
حضور کی غیر معمولی محنت و کاوش
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو ناسازئی طبع کے باوجود بہت محنت و مشقت کرنا پڑی۔ درس القرآن کو علمی اور تحقیقی پہلو سے مکمل کرنے کے لئے حضور گرمی کے تکلیف دہ موسم میں رات کے بارہ بارہ بجے تک کتب کا مطالعہ کر کے نوٹ تیار کرنے میں مصروف رہتے اور پھر دن میں سلسلہ کے اہم اور ضروری معاملات کی سر انجام دہی کے علاوہ روزانہ چار پانچ گھنٹہ تک سینکڑوں کے اجتماع میں بلند آواز سے درس دیتے۔ ۱۶۶text] g[taجس قدر وقت میسر آ سکا اسے کلام اللہ پر غور کرنے اور اس کے حقائق و معارف بیان کرنے میں صرف فرماتے۔۱۶۷
حضور کے اس عظیم مجاہدہ کا ذکر کرنے کے بعد جو آپ نے محض اشاعت علوم قرآن کی خاطر اختیار فرمایا۔ اب ہم درس القرآن کے دوسرے اہم کوائف بیان کرتے ہیں۔
دوستوں کا قادیان میں اجتماع
یہ درس چونکہ ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس لئے احباب جماعت کو متعدد بار تحریک کی گئی۱۶۸ کہ اس موقعہ سے نہ صرف خود پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے بلکہ دوسرے اہل علم مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی لانے کی کوشش کریں۔۱۶۹چنانچہ ۷ / اگست ۱۹۲۸ء تک بہت سے دوست مرکز احمدیت قادیان میں جمع ہوگئے۔ درس کے پہلے ہفتہ میں بیرونی احباب کی تعداد قریباً ڈیڑھ سو تک پہنچ گئی۔ ان احباب کی اکثریت گرایجوایٹ وکلاء` کالجوں کے طلباء اور حکومت کے معزز عہدیداروں اور رئوساء پر مشتمل تھی۔۱۷۰ اور ان کے قیام کا انتظام مدرسہ احمدیہ میں کیا گیا تھا۔
پروگرام کے مطابق ۸ / اگست ۱۹۲۸ء کو مسجد اقصیٰ میں نماز ظہر کے بعد درس کا آغاز ہوا۔۱۷۱
درس نوٹ کرنے والے علماء اور زودنویس
درس محفوظ کرنے کے لئے حضور نے پہلے دن سے سلسلہ کے جید علماء اور زود نویسوں کی ایک جماعت متعین فرما دی تھی جو مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل تھی۱۷۲حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاہب` مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ۔ مولوی ارجمند خان صاحب` مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی` مولوی ظہور حسین صاحب۔ مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی` ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب` مولوی محمد یار صاحب عارف` مولوی عبدالرحمن صاحب مصری` مولوی ظفر الاسلام صاحب` سردار مصباح الدین صاحب` مولوی علی محمد صاحب اجمیری` شیخ چراغ الدین صاحب۱۷۳
مسجلین کا تقرر
ان کے علاوہ سامعین میں سے )جن کی تعداد بعض اوقات پانچ سو سے بھی زیادہ ہو جاتی تھی۱۷۴اور جن میں مقامی احباب بھی شامل تھے( ۸۱ کے قریب اصحاب کا نام ایک رجسٹر میں درج کرلیا گیا اور ان کا نام مسجلین رکھا جنہیں حضور کے قریب جگہ دی جاتی تھی۔ اور ان کی روزانہ درس سے قبل حاضری ہوتی تھی اور ۱۲ / اگست سے تو ان کا امتحان بھی لیا جانے لگا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی درس شروع کرنے سے پیشتر سوالات لکھوا دیتے اور پھر جواب لکھنے کے بعد پرچے لے لیتے۔ اور دوسرے دن نتیجے کا اعلان فرما دیتے پہلے امتحان میں بابو محمد امیر صاحب امیر جماعت کوئٹہ اول` صوفی صالح محمد صاحب قصور دوم اور مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیان سوم رہے۔ اس کے بعد نتائج میں پانچ درجوں تک کا اعلان ہوتا تھا جب مسجلین کی تعداد ایک سو سات تک پہنچ گئی تو مسجد میں ان کی نشستیں مقرر کر دی گئین۔ تا ان کو بیٹھنے میں آسانی ہو۔۱۷۵ درس القرآن کے عام اوقات اڑھائی بجے سے پانچ بجے تک اور پھر نماز عصر کے بعد ۶ بجے سے ۷ بجے تک مقرر تھے۔ لیکن عام طور پر اس سے زیادہ وقت صرف کیا جاتا۔۱۷۶
درس القرآن سننے والوں سے خطاب
۳۱ / اگست ۱۹۲۸ء کو حضور نے خطبہ جمعہ میں درس القرآن سننے والوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں نصیحت فرمائی کہ :
>درس جب انہوں نے تکلیف اٹھا کر سنا ہے تو اس سے فائدہ بھی اٹھائیں اور وہ اس طرح کہ قرآن کریم کو دنیا تک پہنچائیں۔ قرآن دنیا میں غلافوں میں رکھنے یا جھوٹی قسمیں کھانے کے لئے نہیں آیا۔ بلکہ اس لئے آیا ہے کہ منبروں پر سنایا جائے۔ مناروں پر اس کی منادی کی جائے اور بازاروں میں اس کا وعظ کیا جائے۔ وہ اس لئے آیا ہے کہ پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ پھر پڑھا جائے اور سنایا جائے۔ خدا تعالیٰ نے اس کا نام پانی رکھا ہے اور پانی جب پہاڑوں پر گرتا ہے تو ان میں بھی غاریں پیدا کر دیتا ہے وہ نرم چیز ہے مگر گرتے گرتے سخت سے سخت پتھروں پر بھی نشان بنا دیتا ہے۔ اور اگر جسمانی پانی اس قدر اثر رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کا نازل کیا ہوا روحانی پانی دلوں پر اثر نہ کرے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بار بار سنایا جائے اور اپنے عمل سے نیک نمونہ پیش کیا جائے<۔۱۷۷
۳ / ستمبر سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجوزہ درس بروقت ختم کرنے کے لئے صبح آٹھ بجے سے قریباً ساڑھے گیارہ بجے تک اور پھر ظہر کے بعد عصر تک دینا شروع فرما دیا۔۱۷۸
دار مسیح موعودؑ میں دعوت طعام
۶ / ستمبر کو حضور نے درس میں شامل ہونے والے اصحاب کو دار مسیح موعود علیہ السلام میں دعوت طعام دی جس میں بہت سے مقامی اصحاب کو بھی شمولیت کا فخر بخشا۔ اخبار الفضل نے اس دعوت پر یہ نوٹ لکھا۔ >اس دعوت کی قدر و قیمت وہی اصحاب جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کے سوکھے ٹکڑے بطور تبرک لے جاتے ہیں اور اپنے عزیزوں میں بطور تحفہ تقسیم کرتے ہیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دعوت دینے والے ہوں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے نونہال دعوت کھلانے والوں میں ہوں اور دار مسیح موعود میں بیٹھ کر دعوت کھانے کا موقعہ نصیب ہو۔ اس سے بڑھ کر ایک احمدی کے لئے کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے مبارک ہو ان اصحاب کو جنہیں یہ موقعہ میسر آیا اور خوش قسمت ہیں وہ انسان جنہیں روحانی مائدہ کے ساتھ اس دعوت میں بھی شریک ہونے کا فخر حاصل ہوا<۔۱۷۹
الوداعی تقریر اور خطبہ جمعہ
text] ga[tچونکہ کئی اصحاب کو بعض مجبوریوں کے باعث واپس جانا ضروری تھا اس لئے حضور نے اگلے روز ۷ / ستمبر کو گیارہ بجے تک درس دینے کے بعد جانے والے اصحاب کے لئے ایک مختصر سی الوداعی تقریر فرمائی۔ جس میں تبلیغ اسلام کرنے` قرآن مجید کے حقائق و معارف پھیلانے اور قلمی جہاد کرنے کی نصیحت کرنے کے بعد حاضرین سمیت نہایت خشوع خضوع سے لمبی دعا فرمائی دوران دعا گریہ و بکا سے مسجد میں گونج پیدا ہوگئی۔ خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۱۸۰
اسی روز آپ نے خطبہ جمعہ میں بیرونی احباب کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے اپنے مقام پر جاکر جماعتوں کو سنبھالنے اور چست بنانے کی کوشش کریں۔ اور ان میں زندگی کی روح پیدا کریں اور انہیں بتائیں کہ ان کا معیار آگے والے کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ دنیا دار قربانی کرتے وقت پیچھے کی طرف دیکھتا ہے اور شکریہ کے وقت آگے کی طرف پھر ارشاد فرمایا کہ >آپ لوگوں نے قرآن کریم کا جو حصہ پڑھا ہے۔ اسے ضبط کریں۔ اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اور دوسروں سے عمل کرانے کی کوشش کریں تاکہ جو مشکلات دین پر آ رہی ہیں وہ دور ہوں اور خدا تعالیٰ اپنے فضل سے دین کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اس کے دین کو نقصان نہ پہنچے<۔۱۸۱
درس کا فوٹو
جمعہ و عصر کے بعد پھر درس ہوا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں پورے مجمع کا فوٹو لیا گیا۔۸۱۸۲ / ستمبر درس القرآن کا آخری دن تھا اس روز صبح سے درس شروع ہوا جو دو بجے دوپہر تک مسلسل جاری رہا۔
دوبارہ اجتماعی دعا صدقہ اور تقسیم انعامات
درس کے خاتمہ پر حضور نے دوبارہ اجتماعی دعا کرائی اور ماسٹر فقیر اللہ صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس کی طرف سے حاضرین میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اس موقعہ پر حضور نے فرمایا۔ کہ چونکہ رسول کریم~صل۱~ کے متعلق آتا ہے کہ حضور علیہ السلام رمضان کے دنوں میں جبکہ قرآن نازل ہوتا تھا بہت صدقہ دیا کرتے تھے اس لئے میں بھی اس موقعہ پر اپنی طرف سے دس روپے بطور صدقہ دیتا ہوں اور بھی جن دوستوں کو توفیق ہو قادیان کے غرباء کے لئے صدقہ دیں اس پر قریباً دو سو روپے اس وقت جمع ہوگئے۔
آخر میں حضور نے اپنے دست مبارک سے درس کے سب امتحانات میں نتائج کے لحاظ سے اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعامات عطا فرمائے۔ اول انعام حافظ عبدالسلام صاحب شملوی۱۸۳نے دوسرا صالح محمد صاحب قصور نے۔ تیسرا نذیر احمد صاحب متعلم بی۔ ایس سی نے اور چوتھا فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر نے اور پانچواں شیخ عبدالقادر صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ )حال مربی سلسلہ احمدیہ( نے حاصل کیا۔ تقسیم انعامات کے بعد یہ مقدس و مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
عورتوں کی عزت کے قیام کے لئے خطبہ جمعہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ دیا۔ جس میں جماعت کو ہدایت فرمائی کہ عورتوں کی عزت کی حفاظت کرو۔ خواہ تمہارے دشمنوں کی عورتیں ہیں۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>عورت کی عزت کی حفاظت خواہ وہ دشمن کی ہو۔ انسانیت کا ادنیٰ فرض ہے۔ اور بہادر آدمی کا کام ہے کہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کی عورت کی عزت کی حفاظت کے لئے خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتی ہو اگر اسے جان بھی دینی پڑے تو قطعاً دریغ نہ کرے پس تم بہادر بنو اور عورت کی عزت کی حفاظت کرو۔ عورت کی عزت کو خدا نے قائم کیا ہے اور شعائر اللہ میں سے ہے<۔۱۸۴
دارالتبلیغ لنڈن کے لئے خواتین احمدیت کی مزید قربانی
مسجد لنڈن کی تعمیر کے بعد انگلستان میں تبلیغ اسلام کا کام روز بروز بڑھ رہا تھا چنانچہ مبلغ انگلستان خان صاحب فرزند علی صاحب کی طرف سے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں یہ درخواست پہنچی کہ کام زیادہ ہے اور عملہ بڑھانے کی ضرورت ہے اس کی تائید حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بھی ولایت کے دوران قیام میں کی تھی۔ اس لئے حضور نے فیصلہ صادر فرمایا کہ ایک مبلغ کا وہاں اضافہ کر دیا جائے اور بجائے ہندوستان سے کوئی نیا مبلغ بھیجنے کے خود انگلستان کے کسی نو مسلم کو اس کام پر مقرر کیا جائے۔ صدر انجمن کے بجٹ میں چونکہ اس کی گنجائش نہیں تھی اور احمدی خواتین کو بھی تبلیغی کاموں میں مناسب حصہ لینا چاہیئے۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ یہ مسجد انہی کے چندوں سے بنی ہے۔ لہذا حضور نے خواتین احمدیت کو تحریک فرمائی کہ وہ مشن کا زائد خرچ اٹھائیں اور جو کچھ دیں اپنے پاس سے دیں نہ کہ ¶مردوں کی جیب سے لے کر۔۱۸۵
چنانچہ احمدی مستورات نے حسب سابق حضور کے اس مطالبہ پر پورے اخلاص سے لبیک کہا۔ اور قادیان۔۱۸۶امرت سر` لدھیانہ` کراچی`۱۸۷گوجرانوالہ` سنتو کداس`۱۸۸سیالکوٹ` کیمبل پور` لاہور` فیروزپور` لالہ موسیٰ`۱۸۹گھٹیالیاں` میلسی` ملتان`۱۹۰میرٹھ` دہلی`۱۹۱نوشہرہ چھائونی` ایبٹ آباد` فیض اللہ چک ضلع گورداسپور`۱۹۲ضلع محبوب نگر` ڈیرہ غازی خاں` جہلم` بھیرہ` چکوال` کتھو والی چک ۳۱۲`۱۹۳کوہاٹ اور راولپنڈی۱۹۴ وغیرہ مقامات کی مستورات نے اس مالی قربانی میں نہایت اخلاص سے حصہ لیا۔ بیرونی ممالک میں سے ماریشس کی احمدی عورتوں نے بھی چندہ دے کر اپنے اخلاص کا ثبوت دیا۔ ۱۹۵
فصل پنجم
]1daeh >[tagنہرو رپورٹ، پر مفصل تبصرہ
اور اس کے خلاف زبردست احتجاج
>نہرو کمیٹی< کا قیام اور مسلم حقوق کی پامالی
سائمن کمیشن کی تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلہ پر تھی۔ کہ مسٹر بروکن ہیڈ )وزیر ہند( نے ایک بیان دیا کہ ہندوستانی اس درجہ منقسم` مختلف اور ایک دوسرے سے بیزار ہیں کہ وہ ایک متحدہ دستور اساسی بھی نہیں بنا سکتے۔ اور کہا کہ اگر وہ حکومت کے مقرر کردہ کمیشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو خود ہی ہندوستان کے لئے ایک مناسب دستور کا خاکہ تیار کر کے دکھادیں۔4] ft[s۱۹۶
کانگریس نے جو شروع سے سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھی۔ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ۱۹ / مئی ۱۹۲۸ء کو آل پارٹیز کانفرنس کا ایک اجلاس بمبئی میں منعقد کیا۔ جس میں ہندوستان کا دستور اساسی تشکیل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اصحاب کی ایک سب کمیٹی مقرر کی۔ )۱( پنڈت موتی لال نہرو )۲( مسٹر سبھاش چندر بوس )نمائندہ کانگریس( )۳( مسٹر اینی )۴( مسٹر جیاکار )نمائندہ ہندو مہاسبھا )۵( سرتیج بہادر سپرو نمائندہ لیبرل فیڈریشن )۶( مسٹر پردھان )غیر برہمنوں کے نمائندہ( )۷( سر علی امام )۸( مسٹر شعیب قریشی )نمائندہ مسلمانان ہند( )۹( سردار منگل سنگھ )سکھ لیگ کے نمائندہ( )۱۰( مسٹر جوشی )مزدوروں کی طرف سے(
بالفاظ دیگر دس ممبروں میں سے صرف دو مسلمان مسلم نقطہ نگاہ کے اظہار کے لئے نامزد ہوئے جن میں سے سر علی امام بوجہ بیماری صرف ایک اجلاس میں شریک ہو سکے۔ اور گو جناب شعیب قریشی نے شرکت جاری رکھی۔۱۹۷لیکن اسی اثناء میں انہیں یہ معلوم کر کے بہت مایوسی ہوئی کہ ایک ایسا دستور وضع کیا جا رہا ہے جس میں ہندو اکثریت کو سب کچھ مل جائے گا۔ اور مسلم اقلیت بالکل محروم رہ جائے گی حتیٰ کہ مسلم لیگ کے وہ مطالبات جنہیں کانگریس منظور کر چکی تھی۔ پنڈت موتی لال نہرو نے رد کر دئیے اور کمیٹی نے خود کانگریس کی طے شدہ پالیسی پر خط تنسیخ کھینچ دیا۔ یہ رنگ دیکھ کر جناب شعیب قریشی صاحب الگ ہوکر بیٹھ رہے اور انہوں نے رپورٹ پر دستخط تک نہیں کئے۔۱۹۸`۱۹۹پنڈت موتی لال صاحب نہرو نے` ان کی جگہ چوہدری خلیق الزماں صاحب اور تصدق احمد خان صاحب شردانی لے لیئے۔۲۰۰یہ تھی نہرو رپورٹ جو آل پارٹیز کانفرنس لکھنئو میں پاس کی گئی اور جسے کانگریس کی طرف سے ۱۲ / اگست ۱۹۲۸ء کو سارے ہندوستان کے نمائندہ دستور کی حیثیت سے شائع کیا گیا۔
حق یہ ہے کہ نہرو رپورٹ صرف اور صرف ہندوئوں کی نیابت کرتی تھی۔ چند آدمی اپنی مرضی سے ایک جگہ جمع ہوگئے جن میں کئی لوگ ایسے تھے۔ کہ جنہوں نے اپنے تئیں خود ہی لیڈر قرار دے لیا تھا نہ مسلمان سیاسی جماعتوں کی نمائندگی اس میں ہوئی نہ مختلف صوبوں کی نمائندگی۔ حالانکہ جن مسائل میں اختلاف زیادہ بھیانک صورت میں نمایاں ہوتا تھا وہ صوبائی مسائل تھے نہ کہ آل انڈیا مسائل۔۲۰۱4] f[rt پھر جہاں تک مسلم مطالبات کا تعلق تھا وہ تقریباً نظر انداز کر دئیے گئے۔ اور جو باقی رکھے گئے ان پر ایسے پیرایہ بیان میں بحث کی گئی جو نہایت حوصلہ شکن تھا۔ اور صاف طور پر بیان کیا گیا کہ مطالبات فرقہ وارانہ ہیں اور مفاہمت ممکن نہیں۔ نیز بنگال و پنجاب کی مسلم اکثریت کو بھی خطرہ میں ڈال دیا اور محمد امین زبیری مارہروی کے الفاظ میں >رپورٹ دراصل اس خطرہ کی گھنٹی تھی کہ ہندوستان میں دوہری حکومت قائم ہو۔ جس میں فوجی اور خارجی اختیار انگریزوں کے ہاتھ میں رہے اور ملکی و انتظامی اختیارات ہندو اکثریت کے ہاتھ میں آجائیں تا برطانوی سنگینوں سے مسلمانوں کو غلام بنا لیا جائے اور بقول مولانا محمد علی جوہر کہ >جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں منادی کی جاتی تھی تو مناد پکارتا تھا کہ خلقت خدا کی ملک بادشاہ کا حکم کمپنی بہادر کا لیکن نہرو رپورٹ کا ملخص یہ ہے کہ خلقت خدا کی ملک وائسرائے یا پارلیمنٹ کا اور حکم مہاسبھا کا<۔۲۰۲
کانگریس نواز حلقوں کی طرف سے نہرو رپورٹ کی تائید
ہندوئوں کو تو اس رپورٹ کا حامی ہونا چاہیئے تھا لیکن حیرت یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بھی ایک خاصہ با رسوخ طبقہ اس کی بے سوچے تائید میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اور مولوی ابوالکلام صاحب آزاد اس کے سرخیل تھے جنہوں نے شروع ہی سے مسلمانوں کو یہ دلاسا دینے کی کوشش کی تھی کہ ہندو اکثریت کا خطرہ محض >شیطانی وسوسہ< ہے۔۲۰۳انہیں مسلم تھا کہ >ہندوئوں کا جماعتی وصف تنگ دلی اور کوتاہ دستی ہے۔ وہ چیز جسے دل کا کھلا ہونا اور طبیعت کی فیاضی کہتے ہیں ہمارے ہندو بھائیوں میں پیدا نہ ہو سکی<۔۲۰۴باین ہمہ وہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ وہ بے اعتمادی کا مظاہرہ کر کے >چند نشستوں< اور >نام نہاد ضمانتوں< کو جو >گناہ بے لذت< سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اور جنہیں ہندو >خاص رعایت سے< تعبیر کر سکتے ہیں چھوڑ دینا چاہئے۔۲۰۵اور ان کا کہنا تھا کہ >یہ باتیں خاص رعایت نہ تھیں اگر دوسری جماعت میں فیاضی اور کشادہ دلی کی اسپرٹ موجود ہوتی مگر جب موجود نہیں ہے اور ہمارے تحفظ کے لئے یہ باتیں کوئی قیمت بھی نہیں رکھتیں تو پھر یقیناً ہماری خودداری اور غیرت کا تقاضا یہی ہونا چاہیئے کہ اس قسم کے مطالبوں سے خود ہی دستبردار ہو جائیں اور اپنے مستقبل کا دامن غیرت اپنے تنگ دل بھائیوں کے منت کرم داشتن سے آلودہ نہ ہونے دیں<۔۲۰۶
یہی نہیں ان کا نعرہ ہمیشہ یہ رہا کہ >اگر ایسے مسلمان دماغ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنی گزری ہوئی تہذیب و معاشرت کو پھر تازہ کریں جو وہ ایک ہزار برس پہلے ایران اور وسط ایشیا سے لائے تھے تو میں ان سے یہ بھی کہوں گا کہ اس خواب سے جس قدر جلد بیدار ہو جائیں بہتر ہے کیونکہ یہ ایک قدرتی تخیل ہے اور حقیقت کی سرزمین میں ایسے خیالات اگ نہیں سکتے۔۲۰۷
دراصل مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کے اس مسلک کے پیچھے صرف ایک جذبہ سب سے نمایاں کارفرما تھا یعنی گاندھی جی کی اطاعت۔ چنانچہ انہوں نے کہا۔ >ہماری کامیابیوں کا دارومدار تین چیزوں پر ہے اتحاد۔ ڈسپلن (Discipline) اور مہاتما گاندھی کی راہنمائی پر اعتماد۔ یہی ایک راہنمائی ہے جس نے ہماری تحریک کا شاندار ماصی تیار کیا۔ اور صرف اس سے ہم ایک فتح مند مستقبل کی توقع کر سکتے ہیں۔۲۰۸
مولوی ابوالکلام صاحب آزاد )جن کی پشت پر کانگریس اور ہندوئوں کی طاقت و ثروت تھی( کے ہمنوائوں کی کثیر تعداد نہرو رپورٹ کی سرگرم موید تھی جو ہندوستان میں ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے حتی کہ پنجاب میں بھی جو مسلم اکثریت کا صوبہ ہونے کی وجہ سے فرقہ وارانہ مسائل کا بنگال سے بڑھ کر آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ خلافت کمیٹی کے سابق ارکان )مثلاً چودھری افضل حق صاحب`سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اور مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانولی وغیرہ( جنہوں نے دسمبر ۱۹۲۹ء میں مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی۔۲۰۹نہرو رپورٹ کی حمایت کر رہے تھے۔ چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب کی نسبت )جنہیں اس مجلس کے دماغ کی حیثیت حاصل تھی۔۲۱۰ اور جنہیں بعد کو قائد و مفکر اور مصلح و مجدد کے نام سے بھی پکارا گیا۲۱۱ان کے رفقاء کا کہنا ہے کہ ۱۹۲۸ء میں نہرو رپورٹ مرتب ہوئی تو اس سکیم کی حمایت کی قصر برطانیہ کے وہ ستون جنہوں نے چند سنہری سکوں کی جھلک کی خاطر ضمیر فروشی کر رکھی تھی آپ کے خلاف ہوگئے۔۲۱۲ ان حضرت کا اس بارے میں غلو و تشدد جس انتہا تک پہنچ گیا اس کا کسی قدر اندازہ مندرجہ عبارت سے ہو سکتا ہے کہ وہ رپورٹ پر تنقید کرنے والوں کو برطانوی ایجنٹ تک قرار دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ خود چوہدری افضل حق صاحب نے اپنی کتاب >تاریخ احرار< میں محتاط الفاظ میں اقرار کیا ہے کہ احرار نے نہرو رپورٹ کو مسلمانوں میں مقبول بنانے کے لئے زبردست جدوجہد کی اور اس کے لئے قربانیاں دیں۔۲۱۳
احرار پنجاب کے دوش بدوش مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر >زمیندار< لاہور بھی رپورٹ کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ اور ان کا اخبار اس کی حمایت میں وقف تھا۔۲۱۴ بلکہ انہوں نے آگے چل کر مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لکھنئو میں ایک ریزولیوشن بھی پیش کیا جس میں اس کے اصول کو پسند کرتے ہوئے اس کے مرتب کرنے والوں کی محنت و کاوش کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ اور جزئیات کو طے کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی بنانے کی رائے دی گئی تھی۔ ۲۱۵مذہبی لیڈروں میں سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری اور ان کے متعدد رفقاء بھی حق میں تھے۔۲۱۶
0] fts[نہرو رپورٹ کے مخالف مسلمانوں کا طبقہ
ان تفصیلات سے ظاہر ہے کہ ہندوستان خصوصاً پنجاب میں خود مسلمانوں کا ایک حصہ نہرو رپورٹ کی حمایت میں وقف اور اس کی تبلیغ کر رہا تھا۔ اس کے مقابل بلاشبہ کئی دردمند دل رکھنے والے مسلمانوں کو جن میں سر محمد شفیع` مولانا محمد علی جوہر` سر محمد اقبال جیسے مسلمان لیڈر بھی شامل تھے۔ اس رپورٹ سے سخت اختلاف تھا مگر وہ اپنے اختلاف کے ساتھ ایسے وزنی اور واقعاتی دلائل نہ پیش کرتے تھے۔ جو دوسرے مسلمانوں کو رپورٹ کی مضرتوں سے آگاہ کر کے اس کی کھلی مخالفت پر آمادہ کر دیں اور نہ یہ حضرات کسی منظم رنگ میں نہرو رپورٹ میں بے نقاب کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے بلکہ ڈاکٹر سر محمد اقبال تو مایوس ہوکر پنجاب کونسل میں اس نظریہ کا اظہار کر چکے تھے کہ >ہندوستان میں حکومت کے لائق نہ مسلمان ہیں نہ ہندو اور یہ کہ میں ہندو مسلم افسران کی بجائے انگریز افسروں کا خیر مقدم کروں گا<۔۲۱۷`۲۱۸
ان حالات میں مسلمانان ہند کو ایک ایسے قائد و راہ نما کی ضرورت تھی جو میدان عمل میں آئے اور نہ صرف نہرو رپورٹ کا علمی و عملی رنگ میں تجزیہ کر کے انہیں اس کی مخالفت میں مضبوط چٹان پر کھڑا کر دے۔ تا وہ اکثریت کے ناپاک عزائم سے محفوظ رہ کر اپنی قومی زندگی کو محفوظ کر سکیں۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے مدلل مسکت تبصرہ
جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ۸ / اگست ۱۹۲۸ء سے ۸ / ستمبر ۱۹۲۸ء تک درس القرآن میں مصروف تھے۔ اس کے بعد چند دن گذشتہ ماہ کے جمع شدہ کام کے نکالنے میں لگے جب فارغ ہوئے تو نہرو رپورٹ کی تلاش کی۔ لیکن تلاش کے باوجود اس کی کوئی کاپی میسر نہ آئی اور آخری اطلاع لاہور سے یہی پہنچی کہ تیسرا ایڈیشن چھپنے پر ہی یہ کتاب دستیاب ہو سکے گی چونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی۔ آپ کو اس کا بہت افسوس ہوا۔ اسی اثناء میں آپ کے اہل و عیال شملہ سے واپس آئے تو آپ انہیں لینے کے لئے امرت سر تشریف لے گئے۔ جہاں آپ کو اسٹیشن کے بک سٹال سے اس کے دو نسخے مل گئے اس طرح ۲۱ / ستمبر کو یہ رپورٹ فراہم ہوئی اور اسی وقت سے آپ نے اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اور چونکہ پہلے ہی دیر ہو چکی تھی اس لئے آپ نے الفضل کے ذریعہ اس کے متعلق اپنی رائے کا باقساط اظہار شروع کردیا۔۲۱۹جو >نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح< کے عنوان سے ۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء سے ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء تک سات قسطوں میں مکمل ہوا۔
تبصرہ کے مضامین پر طائرانہ نظر
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تبصرہ کے آغاز میں رپورٹ کی اندرونی شہادتوں سے ثابت کرنے کے بعد کہ نہرو کمیٹی کسی صورت میں بھی ہندوستان کی نمائندہ نہیں کہلا سکتی۔ سب سے پہلے مسلمانوں کے اصولی مطالبات پر روشنی ڈالی جو یہ تھے۔
۱۔
ind] ga[tحکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبوں کو اندرونی طور پر کامل خود مختاری حاصل ہو۔
۲۔
نیابت سے متعلق یہ اصل تسلیم کیا جائے کہ جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے اسے اپنے حق سے زیادہ ممبریاں دی جائیں لیکن جن میں اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں ان کی اصلی تعداد کے مطابق ہی حق نیابت حاصل ہو۔
۳۔
جب تک ہندوئوں اور مسلمانوں میں باہمی اعتماد قائم نہ ہو جائے اس وقت تک سب صوبوں میں اور کم سے کم پنجاب اور بنگال میں جداگانہ طریق انتخاب جاری رہے۔
۴۔
صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی اختیارات تفویض کئے جائیں۔
۵۔
کسی صوبہ میں بھی اکثریت کو اقلیت کی زبان یا اس کے طرز تحریر میں مداخلت کا حق حاصل نہ ہو۔
۶۔
حکومت مذہب یا مذہب کی تبلیغ میں دخل دینے کی مجاز نہ ہو۔
۷۔
)حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے( ساتواں مطالبہ یہ بھی پیش ہو رہا تھا کہ ان حقوق کو قانون اساسی میں داخل کیا جائے اور قانون اساسی اس وقت تک نہ بدلا جا سکے جب تک کہ منتخب شدہ ممبروں میں سے ۳/۲ اس کے بدلنے کی رائے نہ دیں۔ اور تین دفعہ کی متواتر منتخب شدہ مجالس آئینی پے در پے ۳/۲ رائے سے اس کے بدلنے کا فیصلہ کریں اور قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو وہ اس وقت تک تبدیل نہ کیا جائے جب تک اس شرط کے ساتھ کہ اس قوم کے ۳/۲ ممبر اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اور جب تک تین متواتر طور پر منتخب شدہ کونسلوں میں وہ اس تبدیلی کے حق میں ووٹ نہ دیں اسے پاس نہ سمجھا جائے۔۲۲۰4] ft[r
اکثر و بیشتر یہ ان مطالبات کا خلاصہ تھا جو عموماً شفیع لیگ کی طرف سے پیش کئے گئے۔ اس کے مقابل کلکتہ لیگ کے مطالبات تھے جس کے بانی` صدر اور روح رواں جناب محمد علی جناح تھا۔ مگر اول تو انہیں خود اقرار تھا۔ کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی اکثریت ان کی تائید میں نہیں تھی۔۲۲۱دوسرے شفیعلیگ سے ان کا اصولی اختلاف اس مرحلے پر بنیادی حیثیت سے دو ایک امور پر تھا۔ جن کی وضاحت حضور نے فرمائی اور اس کے بعد مسلمانوں کا ایک ایک مطالبہ بیان کر کے نہرو رپورٹ کی روشنی میں ثابت کیا کہ اس نے مسلم مطالبات کو پورا کرنا تو رہا ایک طرف ان کے موجودہ حاصل شدہ حقوق بھی غصب کرنے کی کوشش کی ہے اتحادی طریق حکومت System) (Federal کی بجائے اس نے ایک قسم کی وحدانی طرز حکومت System) (Unitaryکی تجویز کی۔ اقلیتوں کی نسبت اس نے فیصلہ دیا کہ انہیں کسی جگہ زائد حق نہ دیا جائے۔ جداگانہ انتخاب کا مطالبہ اس نے پورا کرنے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ صوبہ سرحد کے لئے نیابتی حکومت قبول کرلی۔ مگر بلوچستان کو مشتبہ چھوڑ دیا اور سندھ کو الگ صوبہ بنانے کے لئے غیر معقولی شرطیں لگا دیں۔ زبان کا معاملہ نظر انداز کر دیا۔ مذہبی اور اقتصادی دست اندازی سے روکنے کے مطالبہ کی اہمیت و وسعت لفظوں کے ہیر پھیر میں دبا دی گئی۔ اسی طرح جہاں تک اقلیتوں کی حفاظت کی دفعات کا ایسے رنگ میں قانون اساسی میں شامل کرنے کا تعلق تھا۔ کہ ان کا بدلنا آسان کام نہ ہو۔ اسے بھی نہرو کمیٹی نے نظر انداز کر دیا۔
مسلمانوں کو بروقت انتباہ
مسلمانوں کے مطالبات اور نہرو رپورٹ پر تفصیلی نظر ڈالتے ہوئے آپ نے پہلے مسلمانوں کو خاص حفاظت کی ضرورت کے سات اہم وجوہ بیان فرمائے۔ اور پھر مسلمانوں کے ہر مطالبہ کی معقولیت روز روشن کی طرح ثابت کر دکھائی اور مسلمانوں کو بروقت انتباہ کیا کہ وہ یہ خیال چھوڑ دیں کہ اب جو کچھ بھی فیصلہ ہو جائے بعد میں اگر اس میں نقص معلوم ہوگا تو اسے بدل دیا جائے گا کیونکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے آج انہیں اپنے مطالبات کا منوانا زیادہ آسان ہے لیکن سوراج کے ملنے کے بعد ان کا منوانا بالکل ناممکن ہوگا اس وقت مرکزی حکومت پر ہندو اکثریت چھائی ہوئی ہوگی اس لئے مسلمان اسمبلیوں میں بھی حق نہ حاصل کر سکیں گے۔ پھر مسلمان اقلیت کے قوت و طاقت سے اپنے حقوق بزور منوانے کا امکان نہیں ہے اور نہ بیرونی طاقتوں اور ملکوں پر انحصار کرنا صحیح ہو سکتا ہے لہذا ملک میں اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی
tav.5.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
واحد صورت یہی ہے کہ ہندوستان کو خود و مختار حکومت ملنے سے پہلے مسلم اقلیت اپنے حقوق منوالے چنانچہ آپ نے کانگریسی مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے شدید اختلاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو صاف صاف بتا دیا۔
>میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کوشش نہ کرو اب جبکہ انگلستان نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا حق ہے اس کے لئے جو جائز کوشش کی جائے میں اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شریک ہوں مگر جو چیز مجھ پر گراں ہے اور میرے دل کو بٹھائے دیتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریق حکومت پر راضی ہو جائیں۔ اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جب تک کہ دونوں مسلم لیگز کی پیش کردہ تجاویز کو قبول نہ کرلیا جائے۔ اس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پر راضی نہ ہوں ورنہ جو خطرناک صورت پیدا ہوگی اس کا تصور کر کے بھی دل کانپتا ہے-<۲۲۲
مسلمانوں کے لئے آئندہ طریق عمل کی راہنمائی
تبصرہ کے آخر میں حضور نے مسلمانوں کے سامنے طریق عمل رکھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش فرمائیں :
اول :مسلمان اپنے مطالبات میں بعض اہم باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن پر انہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے غور کرنا ضروری ہے۔ مثلاً رائے دہندگی میں عورتوں کا حق` خارجی معاملات` احترام جمعتہ المبارک` اہلی اور عائلی معاملات میں اسلامی قانون کے نفاذ پر زور` ہائیکورٹوں کے ججوں کا تقرر` صوبوں کی طرف سے تقرر` ریاستوں کا سوال خلاصہ یہ کہ انہیں نہرو کمیٹی پر مزید غور کرنا چاہئے اور اس کے لئے اول تو ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو جس پر ہر خیال کے مسلمانوں کو اظہار خیال کا موقعہ دیا جائے اور اصولی غور کرنے کے بعد ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو نہرو کمیٹی پر تفصیلی اور باریک نگاہ ڈالے اور اس کی خامیوں کو دور اور اس کی کمیوں میں اضافہ کر کے ایک مکمل قانون اساسی پیش کرے۔
دوم :نہرو کمیٹی گورنمنٹ کے حلقوں میں ایک خاص جنبش پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر شہر اور ہر قصبے میں جلسے کر کے یہ ریزولیوشن پاس کئے جائیں کہ ہم نہرو کمیٹی کی رپورٹ سے متفق نہیں اور ان جلسوں کی رپورٹیں گورنمنٹ کے پاس بھی بھیجی جائیں۔
سوم :جمہور مسلمانوں کو نہرو رپورٹ کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے اور ہر شہر ہر قصبے اور ہر گائوں میں اس کے لئے جلسے منعقد ہوں اس تحریک کی کامیابی کے لئے جمہور کا پشت پر ہونا ضروری ہے۔
چہارم :انگلستان کی رائے عامہ پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تا اسے معلوم ہو کہ نہرو رپورٹ لکھنے والے فرقہ وارانہ تعصب سے بالا نہیں رہ سکے۔
حضور نے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ >میں اور احمدیہ جماعت اس معاملہ میں باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں اور میں احمدیہ جماعت کے وسیع اور مضبوط نظام کو اس اسلامی کام کی اعانت کے لئے تمام جائز صورتوں میں لگا دینے کا وعدہ کرتا ہوں<۔۲۲۳
تبصرہ کی وسیع اشاعت اور مقبولیت
]txet [tagحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ بے نظیر تبصرہ >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< کے نام سے معاً بعد کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا اور کلکتہ اور دہلی میں )جو ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کے مرکز تھے اور جہاں کانگریس` مسلم لیگ` مجلس خلافت اور دوسری جماعتوں کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے( اس کی خاص طور پر اشاعت کی گئی۔ حضور کی اس بروقت رہنمائی سے مسلمانوں کے اونچے طبقے بہت ممنون ہوئے اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں اسے نہایت پسند کیا گیا۔ اور بڑے بڑے مسلم لیڈروں نے تعریفی الفاظ میں اسے سراہا اور شکریہ ادا کیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کی نہایت ضرورت کے وقت دستگیری کی ہے۔ چنانچہ کئی اصحاب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کہا کہ >اصلی اور عملی کام تو آپ کی جماعت ہی کر رہی ہے اور جو تنظیم آپ کی جماعت میں ہے وہ اور کہیں نہیں دیکھی جاتی<۔ کلکتہ کے مخلص احمدی مسٹر دولت احمد خاں صاحب بی۔ اے ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< نے تبصرہ کو بنگالی میں ترجمہ کر کے اور ایک چھوٹی سی خوبصورت کتاب کی شکل میں ترتیب دے کر شائع کیا اور اہل بنگال میں اس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔۲۲۴
ایک معزز تعلیم یافتہ غیر احمدی نہرو رپورٹ پر تبصرہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے سیکرٹری ترقی اسلام کے نام ایک خط میں لکھا۔ >میری طبیعت بہت چاہتی ہے کہ حضرت خلیفہ صاحب کو دیکھوں اور ان کی زیارت کروں۔ کیونکہ میرے دل میں ان کی بہت وقعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ براہ مہربانی حضرت صاحب کی خدمت میں اس احقر کا سلام عرض کر دیجئے اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ ایک خادم کی طرف سے مبارکباد منظور فرمائیں کہ آپ نہایت خوش اسلوبی سے ایسے خطرناک حالات میں جن سے اسلام اس وقت گزر رہا ہے اس کو بچا رہے ہیں اور نہ صرف مذہبی خبر گیری کر رہے ہیں بلکہ سیاسی معاملات میں بھی مسلمانوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ میں نے جناب والا کے خیالات کو نہرو رپورٹ کے متعلق پڑھا جس نے آپ کی وقعت کو میری آنکھوں میں اور بھی بڑھا دیا۔ اور میں جہاں آپ کو ایک زبردست مذہبی عالم سمجھتا ہوں اس کے ساتھ ہی ایک ماہر سیاست دان بھی سمجھنے لگا ہوں<۔۲۲۵
برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں اور انگلستان کے اہل الرائے طبقہ تک مسلم نقطہ نگاہ پہنچانے کے لئے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر کے بھیجا گیا۔ ۲۲۶
مسلمانان ہندکی طرف سے رپورٹ کے خلاف کامیاب احتجاج
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانان ہند سے ملی و قومی مفاد کی خاطر پورے نظام جماعت کو مصروف عمل کرنے کا جو وعدہ فرمایا۔ وہ آپ نے پورا کر دیا۔ چنانچہ حضور نے ۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کے خطبہ جمعہ میں ہندوستان کے تمام احمدیوں کو حکم دیا کہ وہ ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گائوں میں دوسرے لوگوں سے مل کر جلد سے جلد ایسی کمیٹیاں بنائیں جو نہرو کمیٹی کے خلاف جلسے کر کے لوگوں کو اس کی پیش کردہ تجاویز کے بد اثرات سے آگاہ کریں اور ریزولیوشن پاس کر کے ان کی نقول لاہور اور کلکتہ کی مسلم لیگوں` مقامی حکومت` حکومت ہند` سائمن کمیشن اور تمام سیاسی انجمنوں اور پریس کو بھیجیں اور حکومت کو آگاہ کر دیا جائے کہ نہرو رپورٹ میں ہمارے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہئے۔ جب تک ان باتوں کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ نیز فرمایا :
>خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نظام ہے اس لئے ایک جگہ سے جو آواز اٹھتی ہے وہی پشاور سے لے کر آسام تک اور منصوری سے لے کر راس کماری تک ہر جگہ سے بلند ہوتی ہے۔ اور سارے ملک میں شور بپا ہو جاتا ہے ایسا نظام اگر انسان خود پیدا کرنے کی کوشش کریں تو سینکڑوں سالوں میں بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مامور بھیج کر ہم پر احسان کیا کہ ایسا زبردست نظام منٹوں میں پیدا کر دیا۔ اور جو کام کروڑوں مسلمان سالہا سال میں نہیں کر سکتے تھے وہ خدا کے فضل سے ہم نے کئے ہیں۔۔۔۔۔۔ پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس نظام کو کام میں لاکر تحریک کریں تاکہ اس رپورٹ کے بداثرات سے مسلمانوں اور گورنمنٹ کو متنبہ کیا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔ اور تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا مطلع پیدا کر دیا جائے جو اس غبار سے جو اس وقت اٹھ رہا ہے پاک و صاف ہو<۔۲۲۷
چنانچہ جماعتوں نے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں مسلمانوں کو بیدار کر دیا اور ملک کے چپہ چپہ میں احتجاجی جلسے کئے۔۲۲۸اور ہندوستان کے مسلمان ایک بار پھر اسی جوش و خروش سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے جس طرح حضرت امام جماعت احمدیہ کی سرفروشانہ جدوجہد نے انہیں ۱۹۲۷ء میں تحریک تحفظ ناموس رسول میں متحد و منسلک کر دیا تھا۔
بالاخر گاندھی جی جیسے کانگریسی راہنما کو اجلاس منعقدہ الہ آباد میں نہایت صاف گوئی سے اقرار کرنا پڑا کہ >ہم یہ کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ کہ نہرو رپورٹ کو ردی کے کاغذ کے برابر بھی وقعت نہیں دی گئی<۔۲۲۹
ایک اہم مکتوب
ہندوئوں کی سازش جماعت احمدیہ کے خلاف
احمدی وکیل فضل کریم صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ :
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
حضور کو قبل اس کے ہندوئوں کی مخالفت اور بعض کے متعلق کافی علم ہے۔ مگر کل ہی مجھے ایک مسلمان وکیل دوست سے ایک ایسے امر کے متعلق علم ہوا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہندوئوں نے Organizedہمارا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اس کی طرف اپنے عوام کو بھی توجہ دلا دلا کر تیار کر رہے ہیں۔ خصوصیت سے گزشتہ ایک دو سال اور موجود ہندو رپورٹ کی ہماری طرف سے مخالفت نے آگ لگا دی ہے۔ اس دوست نے مجھے بتلایا کہ ایک ہندو نے مجھے بتلایا ہے کہ احمدی ملکی ترقی میں ایک زبردست روک ہیں اس لئے ہم انہیں Crushکر کے چھوڑیں گے اور سارے ملک کے ہندوئوں نے یہ ٹھان لیا ہے اور اس کے لئے روپیہ کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ میں نے دوست سے دریافت کیا کہ وہ کس حیثیت کا انسان ہے تو انہوں نے بتایا کہ معمولی سا آدمی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہے کہ عوام میں بھی ہماری مخالفت اور مقابلہ کی روح پھونکی جا رہی ہے۔
میں انشاء اللہ العزیز مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کروں گا مجھے تو یہ سن کر ایک پہلو سے خوشی ہوئی اور ایک پہلو سے فکر پیدا ہوئی خوشی تو اس لئے کہ ملک کی ایک زبردست قوم بھی سلسلہ کی طاقت کو مان گئی اور روز افزوں ترقی سے گھبرا رہی ہے فکر اپنی کمزوریوں کا ہے کہ مقابلہ کی طاقت نہیں اللہ تعالیٰ ہی قوت عطا کرے گا۔ خادم کو دعائوں میں یاد فرمائیں۔
خاکسار فضل کریم
بنگالی مسلمانوں کی بیداری کے لئے ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا دورہ
بنگال اگرچہ مسلم اکثریت کا صوبہ تھا مگر پورے بنگال پر ہندو سرمایہ دار چھائے ہوئے تھے اور وہی زیادہ تر تعلیم یافتہ بھی تھے اس
نازک صورت حال کے پیش نظر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے )سابق مبلغ جرمنی و انگلستان( کو بنگال میں بھجوایا اور ارشاد فرمایا کہ نہرو رپورٹ کے خلاف بنگالی مسلمانوں میں تحریک پیدا کر دیں۔
ملک صاحب نے کلکتہ` چاٹگام` اکھوڑہ` برہمن بڑیہ` بوگرہ` رنگپورہ` جلپاگوری` کاکورہ` مالدہ` جمشیدپور وغیرہ مشہور مقامات کا دورہ کیا اور کئی مقامات پر زور دار لیکچر دئیے۔ چنانچہ اکھوڑہ میں >حالات حاضرہ اور ان کا علاج< کے موضوع پر انگریزی زبان میں تقریر کی جو بہت پسند کی گئی بوگرہ میں آپ نے مقامی اخبارات کے لئے نہرو رپورٹ کے متعلق مضامین لکھے۔ جن کو مقامی پریس کے علاوہ بنگال کے دوسرے اخبارات نے بھی شائع کیا۔ رنگپورہ میں آپ نے ایک مقامی رئیس کی صدارت میں نہرو رپورٹ پر لیکچر دیا۔ جلسہ میں قراردادیں پاس ہوئیں جو کلکتہ کے مشہور اخبارات فارورڈ اور انگلش میں میں بھی شائع ہوگئیں۔ علاوہ ازیں فری پریس کو بھی تار دیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ میٹنگ بہت کامیاب ہوئی۔ یہاں آپ نے بعض رئوساء سے انفرادی ملاقاتیں بھی کیں۔ اور مسلمانوں کی اقتصادی و تعلیمی پستی کے متعلق تبادلہ خیالات کیا۔ جلپاگوری میں بھی نہرو رپورٹ پر آپ کا لیکچر ہوا۔ یہ مقام چونکہ کمشنری کا ہیڈ کوارٹر تھا اس لئے تعلیم یافتہ اصحاب بڑی کثرت سے شامل اجلاس ہوئے خان بہادر ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب صدر جلسہ تھے۔ یہاں بھی ریزولیوشن پاس کر کے اخبارات کو بھیجے گئے لوگوں پر آپ کی تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا۔۲۳۰
ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا خود نوشت بیان ہے کہ :
>میں اکتوبر ۱۹۲۸ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے بنگال کے دورہ پر گیا۔ چلتے وقت حضور نے خصوصیت سے مجھے فرمایا کہ آپ نے صرف سیاسی تقریریں کرنی ہیں۔ مذہبی تقریروں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے وہاں برہمن بڑیہ` کلکتہ` ٹاٹانگر` رنگپور` جلپاگوری` بوگرہ وغیرہ میں نہرو رپورٹ کے خلاف حضور کے تحریر کردہ دلائل کو اپنی زبان میں پیش کیا۔ میرے وہ لیکچر بہت ہی مقبول ہوئے۔ وہ میرے کیا لیکچر تھے زبان میری تھی دلائل حضور کے تھے میں اب ان لوگوں کے نام تو نہیں جانتا۔ کہ یہ ۳۷ سال پہلے کی بات ہے۔ لیکن بوگرہ میں کئی خان بہادروں نے مجھے کہا کہ ہمارے تو وہم میں بھی یہ دلائل نہ آئے تھے۔ اور ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا کیسے مقابلہ کریں۔ آپ نے یہ دلائل کہاں سے سیکھے۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی وہ حیران تھے کہ ایک نوجوان ہندوستان کے اہم ترین سیاسی مسئلہ پر اس قابلیت سے کیسے اظہار کر رہا ہے اور کس قابلیت سے اس نے نہرو رپورٹ کے بخیے ادھیڑ دئیے ہیں جس کے مقابلہ میں ہم عاجز تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ دلائل تو احمدیہ جماعت کے امام کے دئیے ہوئے ہیں میں تو ان کا ایک خادم ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جلپاگوری میں میری مولوی تمیز الدین صاحب سے ملاقات ہوئی اور غالباً وہاں انہوں نے ہی میرے لیکچر کا انتظام کیا۔ مجھے ابھی تک ان کی مشترکہ انتخاب کے خلاف اور ہندوئوں کے خلاف شدید غضب کا احساس ہے جس شدت سے میں نے مشترکہ انتخاب کی مخالفت اور جداگانہ انتخاب کی تائید کی اس سے کہیں زیادہ اس بارے میں مولوی تمیز الدین صاحب متشدد تھے۔ انہوں نے میرے سامنے ہندوئوں کو گالیاں بھی دیں۔ اور کہا کہ یہ مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں مجھے اس وقت سے یہ احساس ہے کہ مولوی صاحب ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف چالوں کو خوب جانتے تھے۔ اور ان کے سخت دشمن تھے اور ہندوئوں کی نظر میں بھی وہ ایک کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔ ٹاٹانگر میں میں نے ایک بڑے ہندوئوں اور مسلمانوں کے اجتماع میں جس میں ہندوئوں کی بہت زیادہ کثرت تھی اسلام کے صلح کل مذہب ہونے پر تقریر کی۔ اس تقریر کے صدر بہار کے ایک بہت بڑے کانگریسی لیڈر تھے جن کا نام اس وقت پورا تو مجھے یاد نہیں۔ لیکن ان کے نام کا ایک حصہ کنٹھ تھا۔ میری اس تقریر کو بہت پسند کیا گیا اور مسٹر کنٹھ نے تو بڑے تعجب اور بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ اسلام اس محبت صلح اور آشتی کے پیغام کو لے کر دنیا میں آیا ہے۔ سب بڑے بڑے شہروں میں میں نے تقریریں کیں اور میری ان تقاریر کی رپورٹیں کلکتہ کے اخبارات انگلش مین Man) (Englishاور سٹیٹسمین (Statesman) میں چھپتی رہیں۔ سٹیٹسمین (Statesman)ان دنوں کلکتہ سے نکلتا تھا۔ میں ان رپورٹوں کی نقول حضرت صاحب کو بھجواتا رہا۔ جب میں واپس قادیان پہنچا تو حضرت صاحب میرے اس دورہ سے بہت خوش تھے۔ جب میں نے اپنی رپورٹ عرض کرنی چاہی تو آپ نے بہت خوشی سے فرمایا۔ کہ ہمیں آپ کی تقریروں کی سب رپورٹیں پہنچ چکی ہیں<۔۲۳۱
الغرض یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور مسلمانان بنگال بھی نہرو رپورٹ کی نقصان دہ سکیم سے واقف ہوکر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
آل مسلم کانفرنس پٹنہ کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مطالبات کی تائید
نہرو رپورٹ پر غور کرنے کے لئے مولانا محمد علی صاحب جوہر کی زیر صدارت پہلی آل مسلم کانفرنس پٹنہ میں منعقد ہوئی کانفرنس میں اگرچہ
نمائندگان کی ایک بڑی تعداد کسی صورت میں بھی مخلوط انتخاب کو منظور کرنے کے لئے تیار نہ تھی۔ لیکن کثرت آراء کی تائید سے مخلوط انتخاب کو شرائط کے ماتحت منظور کرلینے کی قرارداد پاس کی گئی۔ آل مسلم کانفرنس نے مسلمانوں کی طرف سے مخلوط انتخابات تسلیم کرنے کے لئے جو آٹھ مطالبات پیش کئے ان کا بڑا حصہ انہی امور پر مشتمل تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں درج فرمائے تھے۔
۱۔
چنانچہ حضور نے پہلا مطالبہ یہ فرمایا کہ >حکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبہ جات کامل طور پر خود مختار سمجھے جائیں<۔ ۲۳۲آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا۔ >صوبہ جاتی حکومتیں تمام اندرونی معاملات میں آزاد ہوں<۔
۲۔
دوسرا مطالبہ حضور کا یہ تھا کہ >جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے ان میں اس کے ہر قسم کے خیالات کے لوگوں اور ہر قسم کے فوائد کی نیابت کا راستہ کھولنے کے لئے جس قدر ممبریوں کا اسے حق ہو اس سے زیادہ ممبریاں اسے دے دی جائیں۔ لیکن جن صوبوں میں کہ اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں انہیں ان کی اصلی تعداد کے مطابق حق نیابت دیا جائے۔ کیونکہ ان صوبوں میں اگر اقلیت کو زیادہ حقوق دئیے گئے تو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی<۔۲۳۳کانفرنس نے اس سلسلہ میں یہ تجویز منظور کی۔ >بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے لئے مرکزی اور صوبہ جاتی دونوں مجالس قانون ساز میں ۲۵ فیصدی نیابت مخصوص کی جائے اور اسی طرح دوسرے صوبہ جات کی مسلم اور غیر مسلم اقلیت کو بھی جس کا تناسب آبادی ۱۵ فیصدی سے زیادہ نہ ہو تناسب آبادی سے زیادہ نشستیں دی جائیں لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی اکثریت اقلیت میں منتقل نہ ہو جائے<۔
۳۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تیسرا مطالبہ یہ پیش فرمایا تھا کہ >چونکہ کل ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صرف پچیس فیصدی ہے اس لئے انہیں مرکزی حکومت میں کم سے کم ۳۳ فیصدی نیابت کا حق دیا جائے<۔ چنانچہ آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ >مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کو کم از کم ۳/۱ نشستیں دی جائیں<۔
۴۔
چوتھا مطالبہ یہ تھا کہ >صوبہ سرحد اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی حکومت دی جائے<۔ اس بارہ میں کانفرنس کا فیصلہ یہ تھا۔ >سندھ کو حقیقی معنوں میں علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے۔ صوبہ شمال مغربی سرحد اور بلوچستان میں مکمل اصلاحات نافذ کی جائیں<۔
۵۔
پانچواں مطالبہ یہ تھا کہ >قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو اس کے متعلق یہ شرط ہو کہ جب تک اس قوم کے ۳/۲ ممبر جس کے حقوق کی حفاظت اس قانون میں تھی اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اسے پاس نہ سمجھا جائے<۔
آل مسلم کانفرنس نے اس بارے میں یہ قرارداد پاس کی کہ >اگر کسی قوم کے ۴/۳ ارکان اپنی قوم کے مفاد کے منافی سمجھ کر کسی مسودہ قانون یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد کی مخالفت کریں تو ایسا مسودہ قانون` ¶یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد مجلس وضع قوانین میں پیش نہ ہو سکے نہ اس پر بحث کی جائے اور نہ یہ منظوری حاصل کر سکے۔
اس مختصر سے تقابل سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لئے جو مطالبات ضروری سمجھے اور جنہیں اچھی طرح واضح فرمایا ان کی اہمیت کو آل مسلم کانفرنس پٹنہ نے بھی تسلیم کیا۔ اور اسی طرح ان مطالبات کو ان مسلمانوں کی تائید حاصل ہوگئی جو اپنے قومی حقوق کی ہر حال میں حفاظت کرنا ضروری سمجھتے اور ہندو سیاست کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا اپنی قومی موت کے مترادف یقین کرتے اور مسلمانوں کو فروخت کرنا قومی غداری قرار دیتے تھے۔۲۳۴`۲۳۵
آل انڈیا مسلم لیگ اور نہرو رپورٹ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے نہرو رپورٹ پر تبصرہ نے مسلمانان ہند میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک زبردست جنبش پیدا کر دی۔ مگر افسوس کانگریسی علماء ہندوئوں کا آلئہ کار ہونے کی وجہ سے اور مخلص مسلم لیگی زعماء اپنی خوش فہمی کے باعث ابھی تک اس کی پورے زور سے حمایت کئے جا رہے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگ کے مورخ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں :
>دسمبر ۱۹۲۸ء میں کلکتہ قومی اجتماعات کا مرکز قرار پایا- کانگریس مسلم لیگ مجلس خلافت سب کے سالانہ اجلاس یہیں ہو رہے تھے انہی اجلاسوں میں نہرو رپورٹ کے رد و قبول کا مسئلہ طے ہونا تھا۔ اب مسٹر جناح بھی واپس آ چکے تھے وہ دیکھ رہے تھے اس رپورٹ نے ان کے چودہ نکات کا قتل عام کر دیا ہے۔ پھر بھی وہ نہرو رپورٹ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے بلکہ حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لئے مولانا محمد علی کا نام مولانا شوکت علی نے مسلم لیگ کونسل میں پیش کیا لیکن جناح نے راجہ صاحب محمود آباد سر علی محمد خاں کے نام کی حمایت کی اس لئے نہیں کہ وہ محمد علی کے مخالف تھے۔ اور علی محمد کے دوست تھے۔ اس لئے کہ محمد علی نہرو رپورٹ کے علانیہ مخالف تھے اور علی محمد نہرو رپورٹ کے علانیہ حامی تھے جناح نہرو رپورٹ کے مخالف کو لیگ کے اجلاس کا صدر نہیں بنانا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا حامی مسلم لیگ کی صدارت کرے اور رپورٹ پر آخری غور و فکر کے لئے کانگریس کی طرف سے جو کنوینشن منعقد ہونے والی ہے اس میں دوستانہ اور مخلصانہ طور پر چند معمولی ترمیمات منظور کرا کے مسلمانوں کو نہرو رپورٹ منطور کرلینے پر آمادہ کرے تاکہ حکومت برطانیہ کے سامنے ہندوستان اپنا متحدہ مطالبہ پیش کر سکے۔ متحدہ مطالبہ` متحدہ محاذ` متحدہ دستور جناح کو اس قدر عزیز تھا کہ انہون نے چودہ نکات سے بھی دست برداری اختیار کرلی۔ اب وہ صرف چند مطالبات کانگریس سے منطور کرانا چاہتے تھے اور اس کے بعد پوری قوت کے ساتھ نہرو رپورٹ کی تبلیغ و حمایت کے لئے وقف ہو جانا چاہتے تھے<۔۲۳۶
sub] ga[tکلکتہ میں آل پارٹیز کنوینشن کا انعقاد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مسلسل جدوجہد اور دوسرے مسلمانوں کی پیہم چیخ پکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈت موتی لال نہرو صدر کانگریس نے اعلان کر دیا۔ کہ ایک نیشنل کنوینشن بلائی جائے گی۔ چنانچہ اس اعلان کے مطابق ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو کلکتہ میں ایک آل پارٹیز کانفرنس نہرو رپورٹ پر غور کرنے` ترمیمیں پیش کرنے اور آخری فیصلہ کرنے کے لئے منعقد ہوئی جس میں ہندوستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو دعوت دی گئی۔ چنانچہ اجلاس میں آزاد خیال معتدل` کانگریسی` سوراجی` ترک موالات کے علمبردار اور حامی موالات غرضکہ ہر خیال میں مسلک کے لوگ شامل ہوئے۔ خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند نے متفقہ طور پر اپنا نمائندہ مولانا محمد علی جوہر کو نامزد کیا۔ اور وہ اس میں شرکت کے لئے آئے۔۲۳۷مسلم لیگ کی طرف ے جناب محمد علی صاحب جناح )۲۲ نامور مسلم لیگی نمائندوں سمیت( تشریف لائے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ( اور مسٹر دولت احمد خان صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< کلکتہ نے شمولیت فرمائی۔۲۳۸
کنوینشن میں مباحثہ کا آغاز ہوا۔ اور غالباً سب سے پہلے یہ نکتہ زیر بحث آیا۔ کہ کانگریس ہندوستان کے لئے درجہ نو آبادیات چاہتی ہے یا کامل آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔۲۳۹
مولانا محمد علی صاحب جوہر نے درجہ نو آبادیات کے مطالبہ کی مخالفت میں تقریر شروع کی۔ اس دوران میں ان کے منہ سے یہ بھی نکل گیا۔ کہ جو لوگ آزادی کامل کے مخالف اور درجہ مستعمرات کے حامی ہیں وہ ملک کے بہادر فرزند نہیں ہیں بلکہ بزدل ہیں۔ اس لفظ کا منہ سے نکلنا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور مطالبہ کیا گیا کہ بیٹھ جائو ہم نہیں سننا چاہتے۔ >مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< کے مولف جناب محمد مرزا صاحب دہلوی اس واقعہ کی تفصیل میں لکھتے ہیں۔ >اس بحث کے دوران میں کانگریس کے ہندو ممبروں کی ذہنیت کا جو مظاہرہ ہوا اس نے مولانا محمد علی مرحوم کو بد دل کر دیا تھا- اور وہ کنوینشن کے اجلاس سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ یہ ذہنیت کیا تھی۔ عقیدہ رکھا جائے آزادی کامل کا۔ لیکن اگر حکومت کی طرف سے ڈومینین اسٹیٹس کا ابتدائی درجہ بھی مل جائے تو اسے قبول کرلیا جائے۔۲۴۰
مولانا محمد علی صاحب جوہر کا یہ موقف کہاں تک درست تھا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے محمد مرزا دہلوی لکھتے ہیں۔ >کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ قبول کرلینے کے بعد بھی حکومت سے نہرو رپورٹ کے ذریعہ جس طرز حکومت کا مطالبہ کیا تھا اور اس کی جو تاویل صاحب رپورٹ نے کانگریس کے اجلاس میں پیش کی تھی وہ یہ تھی کہ عقیدہ تو بے شک ہمارا آزادی کامل ہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے ابتدائی سیڑھیاں بھی ہمیں طے کرنے کی ضرورت ہے اور نہرو رپورٹ ان ابتدائی سیڑھیوں میں سے ایک ہے اس تاویل کے صاف معنی یہ ہیں کہ کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ تو قبول کرلیا ہے لیکن ملک ابھی اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور فی الحقیقت اس وقت کے حالات کے اعتبار سے یہ بہت صحیح رائے تھی لیکن بعض انتہا پسند اور جوشیلے افراد جن میں ہندو کم اور مسلمان زیادہ تھے کانگریس کے ساتھ محض اس لئے ہوگئے تھے کہ آزادی کامل اس کا مطمح نظر ہے اور اس کی سیاسی جدوجہد کا مفہوم صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح ملک سے بدیشی حکومت کو نکال باہر کرے حالانکہ بدیشی حکومت کو فی الفور ہندوستان سے باہر کر دینے کا اس وقت تک کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ جب تک ہندوستانی حکومت کے ہر شعبہ کو چلانے اور بیرونی حملوں سے ملک کی مدافعت کرنے کے قابل نہ ہو جائیں اور یہ قابلیت ان میں سیاسی بصیرت اور متواتر تجربوں ہی سے آ سکتی تھی۔ اور اس قسم کا موقع انہیں اس وقت مل سکتا تھا جب ہندوستان کی ساری قومیں اس پر متحد ہو جائیں<۔۲۴۱
یہ ضمنی بحث ختم کر کے ہم پہلے مضمون کی طرف آتے ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ مولانا محمد علی صاحب جوہر درجہ نو آبادیات سے متعلق ابتدائی بحث ہی میں کنوینشن سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ جس پر بعد کو بڑی شد و مد سے تنقید کی گئی۔ کہ انہیں کنوینشن میں اپنے مطالبات پیش ضرور کرنے چاہئے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو بہت بڑی امید تھی کہ مطالبات منظور ہو جاتے اور یہ اختلاف و افتراق وہیں ختم ہو جاتا۔ مگر چونکہ انہوں نے دوبارہ شرکت نہیں کی اس لئے اختلاف کی خلیج اور زیادہ وسیع ہوتی گئی۔ ان کے سیرت نگار سید رئیس احمد صاحب جعفری نے اس اعتراض کا خاص طور پر ذکر کر کے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ >بادی النظر میں یہ اعتراض وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن بہ تامل خفیف یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ محمد علی نے جو کچھ کیا وہی اچھا تھا ڈومینین اسٹیٹس میں ان کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا گیا وہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی خوشگوار امید قائم کرنے میں مدد دیتا۔ اس کے علاوہ اختلافات کے آغاز سے اس وقت تک ہندو زعماء کا جو بے نیازانہ طرز عمل ہوگیا تھا۔ وہ بھی ایک خوددار اور شریف آدمی کو >طواف کوئے ملامت< کی اجازت نہیں دے سکتا تھا<۔۲۴۲
کنوینشن سے بائیکاٹ کی یہ دونوں وجوہ کس درجہ معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ کر ہم کنوینشن کی بقیہ روداد پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے چلے جانے کے بعد مسلم لیگی لیڈر مسٹر محمد علی صاحب جناح نے حالات کی نزاکت` ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت آزادی و حریت کی قدر و قیمت اور مسلم مطالبات کی معقولیت پر ایک شستہ اور منجھی ہوئی تقریر کی اور اپیل کی کہ محبت و اخوت کے جذبات کے ساتھ ان تجاویز پر غور کیجئے اور انہیں منظور کر کے اختلافات کا خاتمہ کر دیجئے کہ اس وقت قوم کی ضروریات کا تقاضا یہی ہے۔۲۴۳
مسٹر جناح کی تقریر پر نہرو کمیٹی کے ممبر سر تیج بہادر سپرو نے کہا۔ >ہم یہاں صرف ایک تمنا لے کر آئے ہیں کہ جس طرح ہو آپس میں سمجھوتہ ہو جائے۔ اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کا تناسب ۲۷ فیصدی ہے اور مسٹر جناح ۳۳ فیصدی مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نہ جناب صدر کا غیر وفادار ہوں نہ نہرو رپورٹ کا لیکن میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اس مرحلہ پر ہمیں مفاہمت سے اعراض نہیں کرنا چاہئے۔ میں اپنی ہر دلعزیزی کو خطرہ میں ڈال کر بھی یہ کہوں گا کہ ہر قیمت پر ہمیں سمجھوتہ کر لینا چاہئے۔ یہی اس کانفرنس کا مقصد ہے<۔۲۴۴
سر سپرو کی مدلل تقریر نے حاضرین پر ایک حد تک اثر کیا لیکن مشہور مہا سبھائی لیڈر مسٹر جیکر نے کھڑے ہو کر یہ طلسم توڑ دیا۔ انہوں نے کہا :
>ہمارے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد` ڈاکٹر انصاری` سر علی امام` راجہ صاحب محمود آباد اور ڈاکٹر کچلو جیسے محب وطن موجود ہیں۔ یہ سب حضرات نہرو رپورٹ سے بالکلیہ متفق ہیں خود مسلم لیگ کے بہت سے ممبر نہرو رپورٹ کے حامی ہیں اب اگر مسٹر جناح کسی کی نمائندگی کرتے ہیں تو صرف چند لوگوں کی۔ یہ بھی یاد رکھئے مسٹر جناح کا مطالبہ مسلم قوم کا مطالبہ نہیں ہے ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی سرشفیع کے ساتھ ہے جو مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں ایک دوسرا طبقہ مسلمانوں کا مسٹر فضل ابراہیم رحمت اللہ کے ساتھ ہے جو دہلی میں ایک مسلم کانفرنس )زیر صدارت آغا خاں( کر رہے ہیں۔ مسٹر جناح کا مطالبہ نہ مسلم قوم کا مطالبہ ہے نہ مسلم اکثریت کا<۔۲۴۵
اس تقریر کے بعد ووٹ لئے گئے تو کنوینشن نے مسٹر جیکر کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا اور مسلم لیگ کے مطالبات جو پہلے ہی مختصر سے تھے رد کر دئیے گئے۔ مسٹر چھاگلہ )جج ہائیکورٹ بمبئی۔ مسلم لیگ کے ایک سرگرم کارکن( نے اس واقعہ شکست کی نسبت ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء کو ایسوشی ایٹڈ پریس کو بیان دیتے ہوئے کہا :
>کنوینشن کے اجلاس کے سامنے لیگ کی نمائندگی اس لئے کی گئی تھی کہ مسلمان چند ضروری ترمیمات کے بعد نہرو رپورٹ کو منظور کر سکیں گے۔ میں نہایت افسوس کے ساتھ اس امر کا اعادہ کرتا ہوں کہ کنوینشن کو مسلم مطالبات پر نہایت فراخ دلی سے غور کرنا چاہئے تھا بجائے اس کے وہ ہندو مہاسبھا کے زیر اثر اور اس کی دھمکی میں آکر یہ صورت اختیار کرتا۔ میں یہ امر ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ کے نمائندوں کی اکثریت کنوینشن کے اجلاس میں شریک ہوئی تھی۔ اور جنہوں نے مسلمانوں کے جائز مطالبات کو پیش کیا تھا۔ نہرو رپورٹ کے حامیوں میں سے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی ملت کے ساتھ جنگ کی بلکہ اپنی جماعت )مسلم لیگ( محض نہرو رپورٹ کی تائید کرنے کے سلسلہ میں برائی حاصل کی۔ اگر کنوینشن ان ۳۳ منتخب نمائندوں کے ساتھ کسی امر پر گفتگو کرنے سے قاصر ہے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ ہندوستان کے کسی مسلمان سے بھی فیصلہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ اگر ان ۳۳ نمائندوں کو فرقہ پرست سمجھ کر ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا گیا تو سمجھ لو کہ ہندوستان میں ایک بھی مسلم قوم پرور موجود نہیں<۔۲۴۶
اس صورت حال کے بعد مسٹر محمد علی جناح کانگریس اور اس کے لیڈروں سے بالکل دل برداشتہ ہوگئے اور آخر مسلم لیگ نے بھی ۳۰ / مارچ ۱۹۲۹ء کو روشن تھیٹر دہلی میں مسٹر جناح کی زیر صدارت یہ فیصلہ کیا کہ >چونکہ پنڈت نہرو نے مسلم لیگ کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے لہذا مسلم لیگ بھی نہرو رپورٹ منظور کرنے سے قاصر ہے<۔۲۴۷
کلکتہ کنوینشن میں جہاں مسلم لیگی نمائندے نہرو رپورٹ کے حامی کی صورت میں آئے وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ نمائندہ جماعت احمدیہ( نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ہم نہرو رپورٹ کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف ہمارے رسالے اور مضامین شائع ہوئے لیکچر دئیے گئے` مجالس قائم کی گئیں مگر اس کے باوجود ہم نے کنوینشن کی دعوت قبول کی اور اس میں شامل ہوئے کیونکہ ہم بائیکاٹ کے قائل نہیں ہماری رائے ہے کہ سب سے ملنا چاہئے پھر خواہ ہماری بات تسلیم ہو۔ یا رد کر دی جائے لیکن سب کے خیالات کو سن لینا ضروری ہے۔
نہرو رپورٹ میں ترمیم کے لئے احمدی نمائندہ نے دس ریزولیوشن پیش کئے جن کو ایجنڈا میں شائع کیا گیا اور وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر پیش ہوئے اور ان کے موافق و مخالف تقریریں بھی ہوئیں لیکن جس کنوینشن میں مسلم لیگی مطالبات کو کانگریسی ذہنیت کے سامنے شکست اٹھانا پڑی وہاں احمدی نمائندے کیونکر کامیاب ہو سکتے تھے۔ تاہم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ کنوینشن 1] [lrmکے سب حلقوں کے سامنے جماعت احمدیہ کے سیاسی خیالات خوب واضح ہوگئے۔۲۴۸
آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی اور نہرو رپورٹ
کانگریس کی منعقدہ کنوینشن میں مسلم مطالبات کی پامالی دیکھ کر مسلمانوں کی تمام مشہور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے دہلی میں جمع ہوئے اور ۳۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء سے ۲ / جنوری ۱۹۲۹ء تک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
یہ کانفرنس جو سر آغا خاں کی صدارت میں شروع ہوئی مسلمانان ہند کی اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جس میں کونسلوں اسمبلی اور کونسل آف اسٹیٹ کے علاوہ مسلم لیگ` خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند کے نمائندے اور سربرآوردہ ارکان بھی شامل تھے۔۲۴۹سر شفیع کے الفاظ میں یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی پوری نمائندہ تھی۔۲۵۰اور برصغیر پاک و ہند کے صحافی جناب عبدالمجید صاحب سالک کا جو اس کانفرنس میں موجود تھے بیان ہے کہ :
>میں اس کانفرنس کو ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں بے نظیر سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کی جس قدر زیادہ نمائندگی اس کانفرنس میں مہیا ہوئی اتنی اور کسی اجتماع میں دکھائی نہیں دی یہاں تک کہ اس کانفرنس میں بیس قادیانی ممبر بھی شامل کر لئے گئے تھے تاکہ اس جماعت کو بھی نقصان نیابت کی شکایت نہ ہو<۔۲۵۱
جیسا کہ سالک صاحب نے اشارہ کیا ہے متعدد احمدی مختلف صوبوں سے منتخب ہو کر کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔ مثلاً بنگال سے جناب حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ` بہار سے جناب حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری` پنجاب سے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب دہلی سے بابو اعجاز حسین صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ دہلی اور مرکز کی طرف سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب۔
کانفرنس کے آغاز میں سر شفیع نے ایک پر جوش تقریر کے ساتھ کانفرنس کا اصل ریزولیوشن پیش کیا جو اکثر و بیشتر ان خطوط پر مرتب کیا گیا تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں تجویز فرمائے تھے۔
اس قرارداد کی تائید میں مسٹر اے۔ کے غزنوی` مولوی شفیع دائودی` ڈاکٹر سر محمد اقبال` مسٹر شرف الدین سی۔ پی` حافظ ہدایت حسین کانپور` مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی دہلی۔ مسٹر عبدالعزیز پشاوری` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` دائود صالح بھائی` حاجی عبداللہ ہارون` مولوی عبدالماجد بدایونی` مولوی کفایت اللہ` مولوی آزاد سبحانی اور مولانا محمد علی صاحب جوہر نے بالترتیب تقریریں کیں اور یہ قرارداد پر زور تائید سے منظور ہوئی۔۲۵۲
یہی وہ اہم قرارداد تھی جس پر آئندہ چل کر مسٹر محمد علی جناح نے اپنے مشہور چودہ نکات تجویز کئے۔ چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب >ذکر اقبال< میں لکھتے ہیں :
>اس کانفرنس میں مسلمانوں کے تمام سیاسی مطالبات کے متعلق ایک قرار داد منظور ہوئی جس کا چرچا ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں ہوا اور بعد میں مسٹر محمد علی جناح نے بھی اپنے چودہ نکات اسی قرارداد کے اصول پر مرتب کئے<۔۲۵۳
اسی طرح محمد مرزا دہلوی مسلم لیگ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
>مسلم کانفرنس کے اس اجلاس کے بعد مارچ ۱۹۲۹ء میں مسلمانوں کے مطالبات کو منظم صورت میں حکومت اور کانگریس کے آگے پیش کرنے کے لئے دہلی میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اجلاس میں جناب محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ پر نہایت سخت تنقید کی اور اسے مسلم تجاویز دہلی کے مقابلہ میں ہندو تجاویز سے تعبیر کیا۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر بڑی تفصیل اور جامعیت سے روشنی ڈالی اور مستقبل کے ہندوستان میں مسلم انفرادیت کے تحفظ کے لئے ایک طویل تجویز میں وہ مشہور چودہ نکات پیش کئے جو آج تک مسلمانوں کے قومی مطالبات سمجھے جاتے ہیں<۔۲۵۴
اس کانفرنس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی دو تقریریں ہوئیں ایک سبجیکٹ کمیٹی میں اور دوسری کھلے اجلاس میں۔ آپ نے اپنی تقریروں میں واضح کیا کہ کس طرح نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے حقوق تلف کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس سلسلہ میں آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے تبصرہ رپورٹ کا تذکرہ بھی کیا۔ جس میں رپورٹ کی خامیوں پر مدلل بحث تھی۔ آپ نے مولانا شوکت علی کے ایک ریزولیوشن کی تائید کرتے ہوئے فرمایا۔ مسلمانوں کو خصوصیت سے علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کرنا چاہئے۔ مسئلہ گائوکشی کے ذکر پر آپ نے بتایا۔ کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے سب سے پہلے اس بات کو ہندوئوں کے سامنے پیش کیا تھا کہ اگر ہندو اس وجہ سے ناراض ہیں کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں تو ہم ان کی خاطر ایک جائز اور حلال چیز کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ بھی ہماری خاطر ایک چھوٹی سی قربانی کریں اور وہ یہ ہے کہ پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آپ کے خلاف بدزبانی سے باز آجائیں۔ کانفرنس کے تمام ممبروں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اس موقعہ پر اکثر مسلم زعماء حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بروقت سیاسی رہنمائی` جماعت احمدیہ کی زبردست تنظیم اور اس کے عظیم الشان کارناموں کے مداح پائے گئے۔۲۵۵
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی سیاست میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک نے اس کے ملک گیر اثر و نفوذ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے >اب سارا مسلم پریس` تمام مسلم ادارات اور جماعتیں ان مطالبات کی حمایت کر رہی تھیں۔ جو دہلی مسلم کانفرنس میں پیش کئے گئے تھے۔ تمام مخالف جماعتیں دب گئی تھیں اور حقیقت میں اس قرارداد کا مخالف کوئی بھی نہ تھا خود کانگرسی مسلمان بھی اس کی کامیابی کے خواہاں تھے گوڈر کے مارے زبان سے اقرار نہ کرتے ہوں<۔4] fts[۲۵۶
فصل ششم
قادیان کی ترقی کا نیا دور اور ریل کی آمد
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< کی دوسری جلد کے شروع میں ہم بتا چکے ہیں کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خدا سے حکم پاکر دعویٰ ماموریت فرمایا تھا۔ قادیان ایک بہت چھوٹا سا گمنام گائوں تھا اس وقت قادیان کی آبادی دو ہزار نفوس سے زیادہ نہ ہوگی۔ اس کے اکثر گھر ویران نظر آتے تھے۔ اور ضروری استعمال کی معمولی معمولی چیزوں کی خرید کے لئے بھی باہر جانا پڑتا تھا۔ اسی طرح اس وقت قادیان کی بستی تار اور ریل وغیرہ سے بھی محروم تھی۔ اور دنیا سے بالکل منقطع حالت میں پڑی تھی۔ قادیان کا ریلوے سٹیشن بٹالہ تھا۔ جو قادیان سے ۱۲ میل مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس کے اور قادیان کے درمیان ایک ٹوٹی پھوٹی کچی سڑک تھی۔۲۵۷ جس پر نہ صرف پیدل چلنے والے تھک کر چور چور ہو جاتے تھے بلکہ یکے میں سفر کرنے والوں کو بھی بہت تکلیف اٹھانا پڑتی تھی۔
چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور بعض دوسرے بزرگوں کے چشم دید واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں سب سے پہلی مشکل تو اس بستی کی گمنامی کی وجہ سے اس کی تلاش تھی اور دوسرا بڑا بھاری مرحلہ قادیان پہنچنے کا تھا۔ آمد و رفت کے ذرائع کی اتنی کمی تھی کہ سواری بڑی مشکل سے ملتی تھی اور اس زمانے کی سواریاں بھی کیا تھیں۔ بیل گاڑی` ریڑھو` گڈا` اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی یکہ۔ چلنے میں جھٹکوں کی کثرت سے پسلیاں دکھ جایا کرتیں` پیٹ میں درد اٹھنے لگتا اور جسم ایسا ہو جاتا کہ گویا کوٹا گیا ہے۔ یکہ مل جانے کے بعد دوسری مشکل یہ ہوا کرتی تھی کہ یکہ بان غائب ہو جاتا۔ ¶وہ نہار لینے چلا جایا کرتا۔ اور جب تک کئی مسافر ہاتھ نہ آجاتے اس کی نہاری تیار نہ ہو سکتی اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جایا کرتا۔ سڑک کی کیفیت لکھنے کی تو ضرورت نہیں کیونکہ اس کی تفصیل خود خداوند عالم الغیب نے فج عمیق کے کلام میں فرما دی ہے۔ اس کی خرابی تو روز بروز بڑھتی رہتی مگر مرمت کی نوبت مدتوں تک نہ آتی۔ چونکہ غلہ اور دوسری تمام ضروری چیزیں گڈوں ہی کے ذریعہ سے آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے سڑک اور بھی خستہ و خراب رہتی تھی۔ یکہ کی ہیئت ترکیبی کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ اچھے خاصے تازے گھوڑے کا حال بھی چند ہی روز جوتے جانے پر ایسا پتلا ہو جاتا کہ دیکھنے والوں کے دل رحم سے بھر جاتے۔ )کبھی یکہ سواریوں کو لے کر چلتا اور کبھی سواریاں یکہ کو لے کر۔ حضرت مولانا انوار حسین خاں رئیس شاہ آباد ضلع ہر دوئی جو سابقون الاولون میں سے تھے۔ یکہ تو کرایہ پر لے لیتے مگر صرف بستر اس کے پیچھے بندھوا دیتے۔ اور دوسرے لوگوں کو بٹھا دیتے اور خود تمام راستہ پیدل ہی طے فرما کر قادیان پہنچتے۔ یکہ میں بیٹھ کر سفر کا کوئی حصہ تو شاید ہی کبھی آپ نے طے کیا ہو۔ سفر کا زیادہ حصہ تو اور حضرات کو بھی پیدل ہی طے کرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں تو خدا کی پناہ۔ ۲۵۸بعض اوقات سارا سارا دن چلنے پر بھی قادیان پہنچ جانا ممکن نہ تھا۔ یکے دلدل میں پھنس جانے پر تو ایسی مصیبت پیش آتی جو برداشت سے باہر ہو جاتی۔ سامان مزدوروں کے سر پر آتا اور سواریاں بدقت پیدل چل کر!! یکہ بان مجبور ہوکر گھوڑا اپنے ساتھ لے آتا اور یکہ سڑک پر کھڑا رہ جاتا۔
قادیان کی بستی نشیب میں واقع ہے۔ برسات میں چاروں طرف سے پانی کا سیلاب آیا کرتا جس سے گائوں کے اردگرد کی ڈھابیں` کھائیاں اور خندقیں پانی سے بھر جایا کرتیں اور زائد پانی قریباً ڈیڑھ میل تک بٹالہ قادیان کی سڑک میں سے ہی گذرا کرتا جو بعض اوقات اتنا گہرا اور تیز رو ہو جاتا کہ اس میں سے سلامت گذر جانا بہت ہی دشوار ہو جاتا اور گائوں صحیح معنوں میں ایک جزیرہ بن جایا کرتا۔۲۵۹
یہ تھے وہ حالات جن میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلسلہ کی ترقی اور قادیان کی ترقی کے بارے میں بشارتیں دی گئیں۔ چنانچہ ۱۹۰۲ء میں آپ کو عالم کشف میں دکھایا گیا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائے نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے الخ۔ ۲۶۰پھر اپریل ۱۹۰۵ء میں حضور نے رئویا میں دیکھا کہ >میں قادیان کے بازار میں ہوں اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے<۔۲۶۱
قادیان میں ریل گاڑی کے پہنچنے کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ایک مشہور پیشگوئی ہے۔ کئی صحابہ نے اسے خود حضور کی زبان مبارک سے سنا تھا حتیٰ کہ انہیں حضور نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ قادیان کی ریلوے لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی۔ چنانچہ روایات صحابہ میں مرزا قدرت اللہ صاحب ساکن محلہ چابک سواراں لاہور` شاہ محمد صاحب ساکن قادیان اور میاں چراغ دین صاحب ولد میاں صدر الدین صاحب قادیان کی شہادتیں ملتی ہیں۔۲۶۲
ان غیبی خبروں کے پورا ہونے کا بظاہر کوئی سامان نظر نہیں آتا تھا بلکہ حکومت کی بے اعتنائی کا تو یہ عالم تھا کہ ریلوے لائن بچھوانے کا تو کیا ذکر صرف اتنی بات کی منظوری کے لئے کہ قادیان سے بٹالہ تک سڑک پختہ کر دی جائے اور اس کے لئے سالہا سال کوشش بھی جاری رکھی گئی تھی حکام وقت نے عملاً انکار کر دیا تھا بحالیکہ دوسرے راستے اور سڑکیں آئے دن درست ہوتی رہتی تھیں لیکن اگر آخر تک بھی نوبت نہ آئی تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی جو بٹالہ اور قادیان کے درمیان تھا۔۲۶۳اور جیسا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی مشہور کتاب >سلسلہ احمدیہ< میں تحریر فرمایا ہے ہرگز امید نہ تھی کہ قادیان میں اس قدر جلد ریل آجائے گی۔۲۶۴لیکن خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ جماعتی کوشش کے بغیر اچانک یہ بات معلوم ہوئی کہ ریلوے بورڈ کے زیر غور بٹالہ اور بیاس کے درمیان ایک برانچ لائن کی تجویز ہے۔ ۲۶۵مگر پھر پتہ چلا کہ محکمہ ریل کے ذمہ دار افسروں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ریلوے جسے بعد کو بٹالہ بوٹاری ریلوے کا نام دیا گیا ۱۹۳۰ء تک بھی تیار نہیں ہو سکتی۔۲۶۶مگر چونکہ خدا کی مشیت میں اب وقت آچکا تھا۔ کہ قادیان کا مرکز احمدیت ریل کے ذریعہ پورے ملک سے ملا دیا جائے اس لئے ریلوے بورڈ نے ۱۹۲۷ء کے آخر میں قادیان بوٹاری ریلوے کی منظوری دے دی اور شروع ۱۹۲۸ء میں محکمہ اطلاعات حکومت پنجاب کی طرف سے سرکاری طور پر یہ اعلان کر دیا گیا کہ ریلوے بورڈ نے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے زیر انتظام پانچ فٹ چھ انچ پٹڑی کی بٹالہ سے بوٹاری تک ۴۲ میل لمبی ریلوے لائن بنانے کی منظوری دے دی ہے اس منصوبہ کا نام بٹالہ بوٹاری ریلوے ہوگا ساتھ ہی گورنمنٹ گزٹ میں اعلان ہوا کہ سروے ہو چکا ہے اور لائن بچھانے کا کام جلد شروع ہونے والا ہے۔۲۶۷چنانچہ عملاً یہ کام نہایت تیزی سے جاری ہوگیا۔ اور شب و روز کی زبردست کوشش کے بعد بالاخر ۱۴ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریل کی پٹڑی قادیان کی حد میں پہنچ گئی۔ اس دن سکولوں اور دفتروں میں تعطیل عام کر دی گئی اور لوگ جوق در جوق ریلوے لائن دیکھنے کے لئے جاتے رہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ نئے راستے کھلنے پر کئی قسم کی مکروہات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس لئے ساری جماعت اور مرکز سلسلہ کے لئے ریل کے مفید اور بابرکت ہونے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور صدقہ دینا چاہئے۔ چنانچہ قادیان کی تمام مساجد میں دعائیں کی گئیں اور غرباء و مساکین میں صدقہ تقسیم کیا گیا۔ ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریلوے لائن قادیان کے سٹیشن تک عین اس وقت پہنچی جبکہ جمعہ کی نماز ہو رہی تھی۔ نماز کے بعد مرد عورتیں اور بچے اسٹیشن پر جمع ہونے شروع ہوگئے اور قریباً دو اڑھائی ہزار کا مجمع ہوگیا۔ ریلوے کے مزدوروں اور ملازمین کے کام ختم کرنے پر ان میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ جس کا انتظام مقامی چندہ سے کیا گیا تھا۔۲۶۸
اب صرف اسٹیشن کی تعمیر اور ریلوے لائن کی تکمیل کا کام باقی تھا۔۲۶۹جو دن رات ایک کر کے مکمل کر دیا گیا۔ قادیان کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر بابو فقیر علی صاحب مقرر ہوئے۔۲۷۰اور اسٹیشن کا نام >قادیان مغلاں< تجویز کیا گیا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ لائن کے بوٹاری تک جانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر ابھی لائن قادیان کے حدود تک نہیں پہنچی تھی کہ ریلوے حکام نے قادیان سے آگے لائن بچھانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ اور نہ صرف اگلے حصہ کی تعمیر رک گئی۲۷۱بلکہ آگے بچھی ہوئی ریلوے لائن اکھاڑ بھی دی گئی۔ اور جو اراضی اس کے لئے مختلف مالکوں سے خریدی گئی تھیں وہ اخیر میں نیلام عام کے ذریعہ فروخت کر دی گئی۔
ان حالات سے ظاہر ہے کہ یہ لائن خالص خدائی تصرف کے تحت محض قادیان کے لئے تیار ہوئی۔ منشی محمد دین صاحب سابق مختار عام )والد ماجد شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ( کا بیان ہے کہ جب ریلوے لائن بچھ گئی۔ تو متعلقہ یورپین ریلوے افسر کی پرتکلف دعوت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی میں کی گئی۔ سروے کا عملہ بھی شامل تھا۔ اور جماعت کے کئی معززین بھی شامل تھے۔ اس موقعہ پر اس یورپین افسر نے یہ بات ظاہر کی کہ میرے اندر کوئی ایسی طاقت پیدا ہوگئی تھی جو مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی۔ اور یہی تحریک ہوتی تھی کہ جلد لائن مکمل ہو۔۲۷۲
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ سلسلہ کے مفاد` قادیان کی ترقی اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ لائن قادیان کے شمال کی طرف سے ہوکر گذرے مگر ریلوے حکام اور علاقہ کی غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی اسے جنوب سے گذارے جانے کے لئے انتہائی جوش اور پوری سرگرمی سے کوشش کر رہی تھی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی فراست و بصیرت سے اس صورت حال کو پہلے سے معلوم کرلیا اور اس کی روک تھام کے لئے ابتدا ہی میں خاص انتظام سے ایک زبردست مہم شروع کرا دی یہ مہم کیا تھی اس میں کن بزرگوں نے حصہ لیا۔ اور کس طرح کامیابی ہوئی اس کی تفصیل شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام کے بیان کے مطابق درج ذیل ہے فرماتے ہیں : غالباً ۱۹۲۸ء کی ابتداء یا ۱۹۲۷ء کے آکر کا واقعہ ہے کہ کسی اخبار میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے ایک سرکاری اعلان پڑھا جس میں اس قسم کا کوئی ذکر تھا کہ ریلوے امرت سر سے بیاس تک ملائی جائے اس پر حضور نے فوراً مولوی عبدالمغنی خان صاحب کو ناظر خاص مقرر فرمایا` حکام سے رابطہ کے لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو اس وقت ناظر امور خارجہ تھے مقرر کئے گئے۔ میں اور منشی امام الدین صاحب۲۷۳)والد ماجد چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ( ان دونوں بزرگوں کے لئے بطور معاون تجویز ہوئے۔ ہماری تجویز یہ تھی کہ یہ ریلوے بٹالہ کے شمال کی طرف سے آئے اور قادیان کے شمالی جانب سے ہوتی ہوئی سری گوبند پور پہنچے۔ مگر محکمہ ریلوے اور علاقہ کے غیر مسلموں اور دوسرے مخالفین کی تجویز یہ تھی۔ کہ ریل بٹالہ کے جنوب سے ہوتی ہوئی قادیان کے جنوب مقبرہ بہشتی کی طرف جائے وہاں سے سری گوبند پور سے ہوتی ہوئی بیاس تک پہنچائی جائے۔ ہماری طرف سے حکام کو بتایا گیا کہ بٹالہ کے جنوب کی اراضیات زیادہ زرخیز اور قیمتی ہیں اور شمالی جانب کی اراضیات کم قیمت کی ہیں۔ چنانچہ ریلوے نے ہماری یہ تجویز مان لی۔ اور سروے شروع ہوگیا۔ ریلوے نے اس ٹکڑہ پر ریلوے لائن بچھانے کے لئے ایک یورپین افسر مقرر کیا تھا جو بہت ہوشیار نوجوان تھا۔ سروے کرنے والا سارا عملہ مسلمان تھا اور اس عملہ کے افسر معراج دین صاحب اوورسیر تھے۔ میری یہ ڈیوٹی تھی کہ میں اس عملہ کے ساتھ دن رات رہوں اور جماعتی مفاد کے مطابق اوورسیر معراج دین صاحب کو بتائوں کہ ریلوے لائن بٹالہ کے شمال سے ہوتی ہوئی اس اس طریق سے آئے۔ چنانچہ جب سروے لائن نہر تتلے والی کے قریب پہنچ گئی تو مخالف عنصر نے جس میں قادیان کے مسلمان اور سکھ وغیرہ بھی شامل تھے پھر زور لگایا کہ ریلوے لائن قادیان کی جنوبی جانب سے پہنچے اس مرحلہ پر یورپین افسر نے حکم دیا کہ سروے کر کے معلوم کیا جائے کہ شمالی اور جنوبی جانب سے خرچ میں کس قدر تفاوت ہوگا۔ بظاہر حالات شمالی جانب خرچ قریباً لاکھ ڈیڑھ لاکھ زیادہ تھا۔ مگر ریلوے اوورسیر نے جب شمالی اور جنوبی جانب کا خرچ پیش کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں فرق خفیف سا ہے ) جس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ قادیان کی جنوبی جانب پست تھی اور سیلاب کا پانی وہاں جمع رہتا تھا۔ جس سے بچائو کے لئے بھرتی ڈال کر لائن بچھانے کے اخراجات بھی اس میں شامل کرنے پڑتے تھے۔ مولف( بنابریں یورپین افسر نے ریلوے کے افسران بالا سے بھی یہی منظوری لے لی کہ لائن قادیان کے شمال ہی کی طرف سے گذاری جائے۔ چنانچہ لائن قادیان کے شمالی جانب سے تعمیر کی گئی۔ بلکہ اسی خسرہ نمبر سے آئی اور اسی مجوزہ جگہ پر اسٹیشن بنا جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب پہلے سے تجویز فرما چکے تھے۔۲۷۴
المختصر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات پوری ہوئی کہ قادیان میں لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی اور اس طرح قادیان میں گاڑی کا آنا سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان بن گیا۔ اور قادیان کے ریلوے نظام سے وابستہ ہونے کے بعد سلسلہ کی ترقی کا میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔nsk] [tagفالحمد للہ علی ذلک۔
مسلم حکومتوں کو انتباہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جس میں مسلمان حکومتوں کو ان کی دین سے بے اعتنائی پر انتباہ کیا اور بتایا کہ ترک یورپین اثر سے آزاد ہوئے تو ہر مسلمان کو اس پر خوشی تھی۔ مگر تھوڑے ہی دنوں بعد انہوں نے آہستہ آہستہ مذہب اور حکومت کے تعلق کو توڑنا شروع کیا۔ پھر عربی حروف چھوڑ کر ترکی الفاظ کو انگریزی الفاظ میں لکھنا شروع کیا۔ جس کا نتیجہ یہی ہوگا۔ کہ جس آسانی سے وہ پہلے قرآن شریف پڑھ سکتے تھے اب نہیں پڑھ سکیں گے۔ اور اسلام سے تعلق کم ہوتا جائے گا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی یہ حرکت محض نقل سے زیادہ کچھ نہیں اب یہ مرض دوسرے ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں ہیٹ اور انگریزی لباس پہننے اور داڑھی منڈانے کا حکم دیا گیا ہے اب ایران میں بھی حکومت اس قسم کے قواعد بنا رہی ہے جس سے افسروں کے لئے انگریزی لباس پہننا ضروری ہوگا۔ اور جو نہ پہنے وہ سزا کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح یہ سکیم بھی زیر غور ہے کہ قدیم ایرانی حروف اختیار کرلئے جائیں۔ نہ معلوم عربی نے کیا قصور کیا ہے۔ حالانکہ ان کے آباء کا سارا لٹریچر اسی زبان میں ہے قوموں کی ترقی ان کے آباء کی روایتوں پر منحصر ہوتی ہے ان کی کتابیں عربی حروف میں لکھی ہوئی ہیں اب اگر عربی حروف کو مٹا دیا گیا۔ تو آئندہ نسلیں ان کتابوں کو نہیں پڑھ سکیں گی اور اس طرح قرآن کریم سے وابستگی بھی کم ہو جائے گی۔ اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ :
>میں نے پہلے امور کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہ ترکوں پر مخالفین کے حملے ہیں۔ مگر جب تصدیق ہوئی تو پھر میں سمجھا کہ شاید یہ وباء ترکوں تک ہی محدود رہے مگر اب دوسروں تک اس کے اثر کو دیکھ کر میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی رائے اس کے متعلق بیان کردوں اور جہاں جہاں تک ہماری آواز سنی جائے ہم بتا دیں۔ کہ یہ راستے ترقی کے نہیں۔ ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے اور اسلام میں جو ظاہری اتحاد ہے اسے مٹانا کسی مسلمان حکومت کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اسلامی حکومتوں میں سے سوائے نجد کے کہیں اسلام نظر نہیں آتا۔ میں نجدیوں کے مقابر کو گرانے یا دوسرے مظالم کو کٹر حنفیوں کی طرح ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر بہرحال سنت اسلام کو قائم اور برقرار رکھنے کے لئے ان کی کوشش ضرور قابل قدر ہے مخالفین ہنس رہے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کے معنوں پر عمل تو پہلے ہی چھوڑ رکھا تھا اب اس کے الفاظ کو بھی چھوڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ اپنی غلطیوں کو سمجھ سکیں اور ان کے بد نتائج سے محفوظ رہ سکیں<۔۲۷۵
امرتسر قادیان ریلوے کا افتتاح اور گاڑی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مع خدام سفر
ریلوے پروگرام کے مطابق چونکہ ۱۹ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو امرت سر سے قادیان جانے والی پہلی ریل گاڑی روانہ ہونی تھی۔ اس لئے قادیان
سے بہت سے مرد عورتیں اور بچے اس تاریخ کو امرت سر پہنچ گئے- نیز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس ۳ بجے بعد دوپہر امرت سر تشریف لے آئے۔ تا قادیان ریلوے کے افتتاح کی تقریب پر اس خدائے قدوس کے آگے دست دعا بلند کریں۔ جس نے محض اپنے فضل و کرم سے موجودہ زمانے کی اہم ایجاد کو خدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آرام و آسائش کے لئے مرکز احمدیت تک پہنچا دیا۔
حضور کے امرت سر اسٹیشن پر تشریف لاتے ہی ہجوم بہت زیادہ ہوگیا کیونکہ قادیان کے دوستوں کے علاوہ گوجرانوالہ` لاہور` امرت سر اور بعض در دراز مقامات کے احباب بھی آگئے اور گاڑی روانہ ہونے سے قبل قادیان جانے والوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ ریلوے والوں کو پہلی تجویز کردہ گاڑیوں میں اور ڈبوں کا اضافہ کرنا پڑا۔
گاڑی کے پاس ہی اذان کہی گئی اور حضور نے ظہر و عصر کی نمازیں ایک بہت بڑے مجمع کو باجماعت پڑھائیں اس کے بعد حضور نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ پھر حضور گاڑی کے دروازہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ریل کا قادیان میں آنا مبارک کرے۔ یہ کہہ کر حضور نے مجمع سمیت چند منٹ تک نہایت توجہ اور الحاح سے دعا کرائی اور پھر سب احباب گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے ریل گاڑی کے جاری ہونے سے متعلق چار صفحہ کا ایک بہت عمدہ اور موثر ٹریکٹ تیار کر کے گاڑی چلنے کے موقعہ پر تقسیم کر دیا۔ ۲۷۶جس میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اوائل زمانہ کی مشکلات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ثابت کیا کہ ریل کا کسی حصہ ملک میں جاری ہو جانا معمولی بات ہے مگر قادیان کی ریل خاص تائید الٰہی میں سے ہے اور اس کی تقدیر خاص کے ماتحت تیار ہوئی ہے اور ان عظیم الشان نشانوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائید کے لئے ظاہر فرماتا ہے۔۲۷۷
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے رونق افروز ہونے کے بعد جتنی دیر تک گاڑی اسٹیشن پر کھڑی رہی۔ مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس۲۷۸نہایت خوش الحانی سے اردو اور پنجابی نظمیں پڑھتے رہے اور انہوں نے چند آیات و الہامات سے جو سرخ رنگ کے کپڑوں پر چسپاں تھیں گاڑی بھی خوب سجائی اور جاذب نظر بنالی تھی۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
الا ان روح اللہ قریب۔ الا ان نصر اللہ قریب۔ یاتون من کل فج عمیق۔ یاتیک من کل فج عمیق )۲( و اذا العشار عطلت و اذا النفوس زوجت )۳( دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ )۴( اھلا و سھلا و مرحبا )۵( خوش آمدید )۶( غلام احمد کی جے۔
)۷( یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے
یہ میرے صدق دعویٰ پر مہر الٰہ ہے
گاڑی نے اپنے مقررہ وقت ۳ بج کر ۴۲ منٹ پر حرکت کی اور ساتھ ہی اللہ اکبر کا نہایت بلند اور پر زور نعرہ بلند ہوا جو گاڑی کے ریلوے یارڈ سے نکلنے تک برابر بلند ہوتا رہا۔ گاڑی دیکھنے کے لئے آدمیوں کے گذرنے کے پل پر بڑا ہجوم تھا۔ اللہ اکبر اور >غلام احمد کی جے< کے نعرے راستہ کے ہر
tav.5.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
واحد صورت یہی ہے کہ ہندوستان کو خود و مختار حکومت ملنے سے پہلے مسلم اقلیت اپنے حقوق منوالے چنانچہ آپ نے کانگریسی مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے شدید اختلاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو صاف صاف بتا دیا۔
>میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کوشش نہ کرو اب جبکہ انگلستان نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا حق ہے اس کے لئے جو جائز کوشش کی جائے میں اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شریک ہوں مگر جو چیز مجھ پر گراں ہے اور میرے دل کو بٹھائے دیتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریق حکومت پر راضی ہو جائیں۔ اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جب تک کہ دونوں مسلم لیگز کی پیش کردہ تجاویز کو قبول نہ کرلیا جائے۔ اس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پر راضی نہ ہوں ورنہ جو خطرناک صورت پیدا ہوگی اس کا تصور کر کے بھی دل کانپتا ہے-<۲۲۲
مسلمانوں کے لئے آئندہ طریق عمل کی راہنمائی
تبصرہ کے آخر میں حضور نے مسلمانوں کے سامنے طریق عمل رکھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش فرمائیں :
اول :مسلمان اپنے مطالبات میں بعض اہم باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن پر انہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے غور کرنا ضروری ہے۔ مثلاً رائے دہندگی میں عورتوں کا حق` خارجی معاملات` احترام جمعتہ المبارک` اہلی اور عائلی معاملات میں اسلامی قانون کے نفاذ پر زور` ہائیکورٹوں کے ججوں کا تقرر` صوبوں کی طرف سے تقرر` ریاستوں کا سوال خلاصہ یہ کہ انہیں نہرو کمیٹی پر مزید غور کرنا چاہئے اور اس کے لئے اول تو ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو جس پر ہر خیال کے مسلمانوں کو اظہار خیال کا موقعہ دیا جائے اور اصولی غور کرنے کے بعد ایک سب کمیٹی بنائی جائے جو نہرو کمیٹی پر تفصیلی اور باریک نگاہ ڈالے اور اس کی خامیوں کو دور اور اس کی کمیوں میں اضافہ کر کے ایک مکمل قانون اساسی پیش کرے۔
دوم :نہرو کمیٹی گورنمنٹ کے حلقوں میں ایک خاص جنبش پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر شہر اور ہر قصبے میں جلسے کر کے یہ ریزولیوشن پاس کئے جائیں کہ ہم نہرو کمیٹی کی رپورٹ سے متفق نہیں اور ان جلسوں کی رپورٹیں گورنمنٹ کے پاس بھی بھیجی جائیں۔
سوم :جمہور مسلمانوں کو نہرو رپورٹ کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے اور ہر شہر ہر قصبے اور ہر گائوں میں اس کے لئے جلسے منعقد ہوں اس تحریک کی کامیابی کے لئے جمہور کا پشت پر ہونا ضروری ہے۔
چہارم :انگلستان کی رائے عامہ پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تا اسے معلوم ہو کہ نہرو رپورٹ لکھنے والے فرقہ وارانہ تعصب سے بالا نہیں رہ سکے۔
حضور نے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ >میں اور احمدیہ جماعت اس معاملہ میں باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں اور میں احمدیہ جماعت کے وسیع اور مضبوط نظام کو اس اسلامی کام کی اعانت کے لئے تمام جائز صورتوں میں لگا دینے کا وعدہ کرتا ہوں<۔۲۲۳
تبصرہ کی وسیع اشاعت اور مقبولیت
]txet [tagحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ بے نظیر تبصرہ >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< کے نام سے معاً بعد کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا اور کلکتہ اور دہلی میں )جو ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کے مرکز تھے اور جہاں کانگریس` مسلم لیگ` مجلس خلافت اور دوسری جماعتوں کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے( اس کی خاص طور پر اشاعت کی گئی۔ حضور کی اس بروقت رہنمائی سے مسلمانوں کے اونچے طبقے بہت ممنون ہوئے اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں اسے نہایت پسند کیا گیا۔ اور بڑے بڑے مسلم لیڈروں نے تعریفی الفاظ میں اسے سراہا اور شکریہ ادا کیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کی نہایت ضرورت کے وقت دستگیری کی ہے۔ چنانچہ کئی اصحاب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کہا کہ >اصلی اور عملی کام تو آپ کی جماعت ہی کر رہی ہے اور جو تنظیم آپ کی جماعت میں ہے وہ اور کہیں نہیں دیکھی جاتی<۔ کلکتہ کے مخلص احمدی مسٹر دولت احمد خاں صاحب بی۔ اے ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< نے تبصرہ کو بنگالی میں ترجمہ کر کے اور ایک چھوٹی سی خوبصورت کتاب کی شکل میں ترتیب دے کر شائع کیا اور اہل بنگال میں اس کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔۲۲۴
ایک معزز تعلیم یافتہ غیر احمدی نہرو رپورٹ پر تبصرہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے سیکرٹری ترقی اسلام کے نام ایک خط میں لکھا۔ >میری طبیعت بہت چاہتی ہے کہ حضرت خلیفہ صاحب کو دیکھوں اور ان کی زیارت کروں۔ کیونکہ میرے دل میں ان کی بہت وقعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ براہ مہربانی حضرت صاحب کی خدمت میں اس احقر کا سلام عرض کر دیجئے اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ ایک خادم کی طرف سے مبارکباد منظور فرمائیں کہ آپ نہایت خوش اسلوبی سے ایسے خطرناک حالات میں جن سے اسلام اس وقت گزر رہا ہے اس کو بچا رہے ہیں اور نہ صرف مذہبی خبر گیری کر رہے ہیں بلکہ سیاسی معاملات میں بھی مسلمانوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ میں نے جناب والا کے خیالات کو نہرو رپورٹ کے متعلق پڑھا جس نے آپ کی وقعت کو میری آنکھوں میں اور بھی بڑھا دیا۔ اور میں جہاں آپ کو ایک زبردست مذہبی عالم سمجھتا ہوں اس کے ساتھ ہی ایک ماہر سیاست دان بھی سمجھنے لگا ہوں<۔۲۲۵
برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں اور انگلستان کے اہل الرائے طبقہ تک مسلم نقطہ نگاہ پہنچانے کے لئے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر کے بھیجا گیا۔ ۲۲۶
مسلمانان ہندکی طرف سے رپورٹ کے خلاف کامیاب احتجاج
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانان ہند سے ملی و قومی مفاد کی خاطر پورے نظام جماعت کو مصروف عمل کرنے کا جو وعدہ فرمایا۔ وہ آپ نے پورا کر دیا۔ چنانچہ حضور نے ۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کے خطبہ جمعہ میں ہندوستان کے تمام احمدیوں کو حکم دیا کہ وہ ہر شہر ہر قصبہ اور ہر گائوں میں دوسرے لوگوں سے مل کر جلد سے جلد ایسی کمیٹیاں بنائیں جو نہرو کمیٹی کے خلاف جلسے کر کے لوگوں کو اس کی پیش کردہ تجاویز کے بد اثرات سے آگاہ کریں اور ریزولیوشن پاس کر کے ان کی نقول لاہور اور کلکتہ کی مسلم لیگوں` مقامی حکومت` حکومت ہند` سائمن کمیشن اور تمام سیاسی انجمنوں اور پریس کو بھیجیں اور حکومت کو آگاہ کر دیا جائے کہ نہرو رپورٹ میں ہمارے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہئے۔ جب تک ان باتوں کا فیصلہ نہ ہو جائے۔ نیز فرمایا :
>خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نظام ہے اس لئے ایک جگہ سے جو آواز اٹھتی ہے وہی پشاور سے لے کر آسام تک اور منصوری سے لے کر راس کماری تک ہر جگہ سے بلند ہوتی ہے۔ اور سارے ملک میں شور بپا ہو جاتا ہے ایسا نظام اگر انسان خود پیدا کرنے کی کوشش کریں تو سینکڑوں سالوں میں بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مامور بھیج کر ہم پر احسان کیا کہ ایسا زبردست نظام منٹوں میں پیدا کر دیا۔ اور جو کام کروڑوں مسلمان سالہا سال میں نہیں کر سکتے تھے وہ خدا کے فضل سے ہم نے کئے ہیں۔۔۔۔۔۔ پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس نظام کو کام میں لاکر تحریک کریں تاکہ اس رپورٹ کے بداثرات سے مسلمانوں اور گورنمنٹ کو متنبہ کیا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔ اور تھوڑے عرصہ میں ہی ایسا مطلع پیدا کر دیا جائے جو اس غبار سے جو اس وقت اٹھ رہا ہے پاک و صاف ہو<۔۲۲۷
چنانچہ جماعتوں نے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں مسلمانوں کو بیدار کر دیا اور ملک کے چپہ چپہ میں احتجاجی جلسے کئے۔۲۲۸اور ہندوستان کے مسلمان ایک بار پھر اسی جوش و خروش سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے جس طرح حضرت امام جماعت احمدیہ کی سرفروشانہ جدوجہد نے انہیں ۱۹۲۷ء میں تحریک تحفظ ناموس رسول میں متحد و منسلک کر دیا تھا۔
بالاخر گاندھی جی جیسے کانگریسی راہنما کو اجلاس منعقدہ الہ آباد میں نہایت صاف گوئی سے اقرار کرنا پڑا کہ >ہم یہ کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ کہ نہرو رپورٹ کو ردی کے کاغذ کے برابر بھی وقعت نہیں دی گئی<۔۲۲۹
ایک اہم مکتوب
ہندوئوں کی سازش جماعت احمدیہ کے خلاف
احمدی وکیل فضل کریم صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ :
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
حضور کو قبل اس کے ہندوئوں کی مخالفت اور بعض کے متعلق کافی علم ہے۔ مگر کل ہی مجھے ایک مسلمان وکیل دوست سے ایک ایسے امر کے متعلق علم ہوا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہندوئوں نے Organizedہمارا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اس کی طرف اپنے عوام کو بھی توجہ دلا دلا کر تیار کر رہے ہیں۔ خصوصیت سے گزشتہ ایک دو سال اور موجود ہندو رپورٹ کی ہماری طرف سے مخالفت نے آگ لگا دی ہے۔ اس دوست نے مجھے بتلایا کہ ایک ہندو نے مجھے بتلایا ہے کہ احمدی ملکی ترقی میں ایک زبردست روک ہیں اس لئے ہم انہیں Crushکر کے چھوڑیں گے اور سارے ملک کے ہندوئوں نے یہ ٹھان لیا ہے اور اس کے لئے روپیہ کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ میں نے دوست سے دریافت کیا کہ وہ کس حیثیت کا انسان ہے تو انہوں نے بتایا کہ معمولی سا آدمی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہے کہ عوام میں بھی ہماری مخالفت اور مقابلہ کی روح پھونکی جا رہی ہے۔
میں انشاء اللہ العزیز مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کروں گا مجھے تو یہ سن کر ایک پہلو سے خوشی ہوئی اور ایک پہلو سے فکر پیدا ہوئی خوشی تو اس لئے کہ ملک کی ایک زبردست قوم بھی سلسلہ کی طاقت کو مان گئی اور روز افزوں ترقی سے گھبرا رہی ہے فکر اپنی کمزوریوں کا ہے کہ مقابلہ کی طاقت نہیں اللہ تعالیٰ ہی قوت عطا کرے گا۔ خادم کو دعائوں میں یاد فرمائیں۔
خاکسار فضل کریم
بنگالی مسلمانوں کی بیداری کے لئے ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا دورہ
بنگال اگرچہ مسلم اکثریت کا صوبہ تھا مگر پورے بنگال پر ہندو سرمایہ دار چھائے ہوئے تھے اور وہی زیادہ تر تعلیم یافتہ بھی تھے اس
نازک صورت حال کے پیش نظر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اکتوبر ۱۹۲۸ء میں ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے )سابق مبلغ جرمنی و انگلستان( کو بنگال میں بھجوایا اور ارشاد فرمایا کہ نہرو رپورٹ کے خلاف بنگالی مسلمانوں میں تحریک پیدا کر دیں۔
ملک صاحب نے کلکتہ` چاٹگام` اکھوڑہ` برہمن بڑیہ` بوگرہ` رنگپورہ` جلپاگوری` کاکورہ` مالدہ` جمشیدپور وغیرہ مشہور مقامات کا دورہ کیا اور کئی مقامات پر زور دار لیکچر دئیے۔ چنانچہ اکھوڑہ میں >حالات حاضرہ اور ان کا علاج< کے موضوع پر انگریزی زبان میں تقریر کی جو بہت پسند کی گئی بوگرہ میں آپ نے مقامی اخبارات کے لئے نہرو رپورٹ کے متعلق مضامین لکھے۔ جن کو مقامی پریس کے علاوہ بنگال کے دوسرے اخبارات نے بھی شائع کیا۔ رنگپورہ میں آپ نے ایک مقامی رئیس کی صدارت میں نہرو رپورٹ پر لیکچر دیا۔ جلسہ میں قراردادیں پاس ہوئیں جو کلکتہ کے مشہور اخبارات فارورڈ اور انگلش میں میں بھی شائع ہوگئیں۔ علاوہ ازیں فری پریس کو بھی تار دیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ میٹنگ بہت کامیاب ہوئی۔ یہاں آپ نے بعض رئوساء سے انفرادی ملاقاتیں بھی کیں۔ اور مسلمانوں کی اقتصادی و تعلیمی پستی کے متعلق تبادلہ خیالات کیا۔ جلپاگوری میں بھی نہرو رپورٹ پر آپ کا لیکچر ہوا۔ یہ مقام چونکہ کمشنری کا ہیڈ کوارٹر تھا اس لئے تعلیم یافتہ اصحاب بڑی کثرت سے شامل اجلاس ہوئے خان بہادر ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب صدر جلسہ تھے۔ یہاں بھی ریزولیوشن پاس کر کے اخبارات کو بھیجے گئے لوگوں پر آپ کی تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا۔۲۳۰
ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کا خود نوشت بیان ہے کہ :
>میں اکتوبر ۱۹۲۸ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے بنگال کے دورہ پر گیا۔ چلتے وقت حضور نے خصوصیت سے مجھے فرمایا کہ آپ نے صرف سیاسی تقریریں کرنی ہیں۔ مذہبی تقریروں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے وہاں برہمن بڑیہ` کلکتہ` ٹاٹانگر` رنگپور` جلپاگوری` بوگرہ وغیرہ میں نہرو رپورٹ کے خلاف حضور کے تحریر کردہ دلائل کو اپنی زبان میں پیش کیا۔ میرے وہ لیکچر بہت ہی مقبول ہوئے۔ وہ میرے کیا لیکچر تھے زبان میری تھی دلائل حضور کے تھے میں اب ان لوگوں کے نام تو نہیں جانتا۔ کہ یہ ۳۷ سال پہلے کی بات ہے۔ لیکن بوگرہ میں کئی خان بہادروں نے مجھے کہا کہ ہمارے تو وہم میں بھی یہ دلائل نہ آئے تھے۔ اور ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا کیسے مقابلہ کریں۔ آپ نے یہ دلائل کہاں سے سیکھے۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی وہ حیران تھے کہ ایک نوجوان ہندوستان کے اہم ترین سیاسی مسئلہ پر اس قابلیت سے کیسے اظہار کر رہا ہے اور کس قابلیت سے اس نے نہرو رپورٹ کے بخیے ادھیڑ دئیے ہیں جس کے مقابلہ میں ہم عاجز تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ دلائل تو احمدیہ جماعت کے امام کے دئیے ہوئے ہیں میں تو ان کا ایک خادم ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جلپاگوری میں میری مولوی تمیز الدین صاحب سے ملاقات ہوئی اور غالباً وہاں انہوں نے ہی میرے لیکچر کا انتظام کیا۔ مجھے ابھی تک ان کی مشترکہ انتخاب کے خلاف اور ہندوئوں کے خلاف شدید غضب کا احساس ہے جس شدت سے میں نے مشترکہ انتخاب کی مخالفت اور جداگانہ انتخاب کی تائید کی اس سے کہیں زیادہ اس بارے میں مولوی تمیز الدین صاحب متشدد تھے۔ انہوں نے میرے سامنے ہندوئوں کو گالیاں بھی دیں۔ اور کہا کہ یہ مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں مجھے اس وقت سے یہ احساس ہے کہ مولوی صاحب ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف چالوں کو خوب جانتے تھے۔ اور ان کے سخت دشمن تھے اور ہندوئوں کی نظر میں بھی وہ ایک کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔ ٹاٹانگر میں میں نے ایک بڑے ہندوئوں اور مسلمانوں کے اجتماع میں جس میں ہندوئوں کی بہت زیادہ کثرت تھی اسلام کے صلح کل مذہب ہونے پر تقریر کی۔ اس تقریر کے صدر بہار کے ایک بہت بڑے کانگریسی لیڈر تھے جن کا نام اس وقت پورا تو مجھے یاد نہیں۔ لیکن ان کے نام کا ایک حصہ کنٹھ تھا۔ میری اس تقریر کو بہت پسند کیا گیا اور مسٹر کنٹھ نے تو بڑے تعجب اور بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ اسلام اس محبت صلح اور آشتی کے پیغام کو لے کر دنیا میں آیا ہے۔ سب بڑے بڑے شہروں میں میں نے تقریریں کیں اور میری ان تقاریر کی رپورٹیں کلکتہ کے اخبارات انگلش مین Man) (Englishاور سٹیٹسمین (Statesman) میں چھپتی رہیں۔ سٹیٹسمین (Statesman)ان دنوں کلکتہ سے نکلتا تھا۔ میں ان رپورٹوں کی نقول حضرت صاحب کو بھجواتا رہا۔ جب میں واپس قادیان پہنچا تو حضرت صاحب میرے اس دورہ سے بہت خوش تھے۔ جب میں نے اپنی رپورٹ عرض کرنی چاہی تو آپ نے بہت خوشی سے فرمایا۔ کہ ہمیں آپ کی تقریروں کی سب رپورٹیں پہنچ چکی ہیں<۔۲۳۱
الغرض یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور مسلمانان بنگال بھی نہرو رپورٹ کی نقصان دہ سکیم سے واقف ہوکر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
آل مسلم کانفرنس پٹنہ کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مطالبات کی تائید
نہرو رپورٹ پر غور کرنے کے لئے مولانا محمد علی صاحب جوہر کی زیر صدارت پہلی آل مسلم کانفرنس پٹنہ میں منعقد ہوئی کانفرنس میں اگرچہ
نمائندگان کی ایک بڑی تعداد کسی صورت میں بھی مخلوط انتخاب کو منظور کرنے کے لئے تیار نہ تھی۔ لیکن کثرت آراء کی تائید سے مخلوط انتخاب کو شرائط کے ماتحت منظور کرلینے کی قرارداد پاس کی گئی۔ آل مسلم کانفرنس نے مسلمانوں کی طرف سے مخلوط انتخابات تسلیم کرنے کے لئے جو آٹھ مطالبات پیش کئے ان کا بڑا حصہ انہی امور پر مشتمل تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں درج فرمائے تھے۔
۱۔
چنانچہ حضور نے پہلا مطالبہ یہ فرمایا کہ >حکومت کا طریق فیڈرل یا اتحادی ہو یعنی تمام صوبہ جات کامل طور پر خود مختار سمجھے جائیں<۔ ۲۳۲آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا۔ >صوبہ جاتی حکومتیں تمام اندرونی معاملات میں آزاد ہوں<۔
۲۔
دوسرا مطالبہ حضور کا یہ تھا کہ >جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے ان میں اس کے ہر قسم کے خیالات کے لوگوں اور ہر قسم کے فوائد کی نیابت کا راستہ کھولنے کے لئے جس قدر ممبریوں کا اسے حق ہو اس سے زیادہ ممبریاں اسے دے دی جائیں۔ لیکن جن صوبوں میں کہ اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں وہاں انہیں ان کی اصلی تعداد کے مطابق حق نیابت دیا جائے۔ کیونکہ ان صوبوں میں اگر اقلیت کو زیادہ حقوق دئیے گئے تو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی<۔۲۳۳کانفرنس نے اس سلسلہ میں یہ تجویز منظور کی۔ >بہار اور اڑیسہ کے مسلمانوں کے لئے مرکزی اور صوبہ جاتی دونوں مجالس قانون ساز میں ۲۵ فیصدی نیابت مخصوص کی جائے اور اسی طرح دوسرے صوبہ جات کی مسلم اور غیر مسلم اقلیت کو بھی جس کا تناسب آبادی ۱۵ فیصدی سے زیادہ نہ ہو تناسب آبادی سے زیادہ نشستیں دی جائیں لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی اکثریت اقلیت میں منتقل نہ ہو جائے<۔
۳۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تیسرا مطالبہ یہ پیش فرمایا تھا کہ >چونکہ کل ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صرف پچیس فیصدی ہے اس لئے انہیں مرکزی حکومت میں کم سے کم ۳۳ فیصدی نیابت کا حق دیا جائے<۔ چنانچہ آل مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ >مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کو کم از کم ۳/۱ نشستیں دی جائیں<۔
۴۔
چوتھا مطالبہ یہ تھا کہ >صوبہ سرحد اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی حکومت دی جائے<۔ اس بارہ میں کانفرنس کا فیصلہ یہ تھا۔ >سندھ کو حقیقی معنوں میں علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے۔ صوبہ شمال مغربی سرحد اور بلوچستان میں مکمل اصلاحات نافذ کی جائیں<۔
۵۔
پانچواں مطالبہ یہ تھا کہ >قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو اس کے متعلق یہ شرط ہو کہ جب تک اس قوم کے ۳/۲ ممبر جس کے حقوق کی حفاظت اس قانون میں تھی اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اسے پاس نہ سمجھا جائے<۔
آل مسلم کانفرنس نے اس بارے میں یہ قرارداد پاس کی کہ >اگر کسی قوم کے ۴/۳ ارکان اپنی قوم کے مفاد کے منافی سمجھ کر کسی مسودہ قانون یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد کی مخالفت کریں تو ایسا مسودہ قانون` ¶یا قانون یا اس کا کوئی جزو یا ترمیم یا قرارداد مجلس وضع قوانین میں پیش نہ ہو سکے نہ اس پر بحث کی جائے اور نہ یہ منظوری حاصل کر سکے۔
اس مختصر سے تقابل سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لئے جو مطالبات ضروری سمجھے اور جنہیں اچھی طرح واضح فرمایا ان کی اہمیت کو آل مسلم کانفرنس پٹنہ نے بھی تسلیم کیا۔ اور اسی طرح ان مطالبات کو ان مسلمانوں کی تائید حاصل ہوگئی جو اپنے قومی حقوق کی ہر حال میں حفاظت کرنا ضروری سمجھتے اور ہندو سیاست کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا اپنی قومی موت کے مترادف یقین کرتے اور مسلمانوں کو فروخت کرنا قومی غداری قرار دیتے تھے۔۲۳۴`۲۳۵
آل انڈیا مسلم لیگ اور نہرو رپورٹ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے نہرو رپورٹ پر تبصرہ نے مسلمانان ہند میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک زبردست جنبش پیدا کر دی۔ مگر افسوس کانگریسی علماء ہندوئوں کا آلئہ کار ہونے کی وجہ سے اور مخلص مسلم لیگی زعماء اپنی خوش فہمی کے باعث ابھی تک اس کی پورے زور سے حمایت کئے جا رہے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگ کے مورخ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں :
>دسمبر ۱۹۲۸ء میں کلکتہ قومی اجتماعات کا مرکز قرار پایا- کانگریس مسلم لیگ مجلس خلافت سب کے سالانہ اجلاس یہیں ہو رہے تھے انہی اجلاسوں میں نہرو رپورٹ کے رد و قبول کا مسئلہ طے ہونا تھا۔ اب مسٹر جناح بھی واپس آ چکے تھے وہ دیکھ رہے تھے اس رپورٹ نے ان کے چودہ نکات کا قتل عام کر دیا ہے۔ پھر بھی وہ نہرو رپورٹ کی مخالفت نہیں کر رہے تھے بلکہ حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لئے مولانا محمد علی کا نام مولانا شوکت علی نے مسلم لیگ کونسل میں پیش کیا لیکن جناح نے راجہ صاحب محمود آباد سر علی محمد خاں کے نام کی حمایت کی اس لئے نہیں کہ وہ محمد علی کے مخالف تھے۔ اور علی محمد کے دوست تھے۔ اس لئے کہ محمد علی نہرو رپورٹ کے علانیہ مخالف تھے اور علی محمد نہرو رپورٹ کے علانیہ حامی تھے جناح نہرو رپورٹ کے مخالف کو لیگ کے اجلاس کا صدر نہیں بنانا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ نہرو رپورٹ کا حامی مسلم لیگ کی صدارت کرے اور رپورٹ پر آخری غور و فکر کے لئے کانگریس کی طرف سے جو کنوینشن منعقد ہونے والی ہے اس میں دوستانہ اور مخلصانہ طور پر چند معمولی ترمیمات منظور کرا کے مسلمانوں کو نہرو رپورٹ منطور کرلینے پر آمادہ کرے تاکہ حکومت برطانیہ کے سامنے ہندوستان اپنا متحدہ مطالبہ پیش کر سکے۔ متحدہ مطالبہ` متحدہ محاذ` متحدہ دستور جناح کو اس قدر عزیز تھا کہ انہون نے چودہ نکات سے بھی دست برداری اختیار کرلی۔ اب وہ صرف چند مطالبات کانگریس سے منطور کرانا چاہتے تھے اور اس کے بعد پوری قوت کے ساتھ نہرو رپورٹ کی تبلیغ و حمایت کے لئے وقف ہو جانا چاہتے تھے<۔۲۳۶
sub] ga[tکلکتہ میں آل پارٹیز کنوینشن کا انعقاد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مسلسل جدوجہد اور دوسرے مسلمانوں کی پیہم چیخ پکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنڈت موتی لال نہرو صدر کانگریس نے اعلان کر دیا۔ کہ ایک نیشنل کنوینشن بلائی جائے گی۔ چنانچہ اس اعلان کے مطابق ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو کلکتہ میں ایک آل پارٹیز کانفرنس نہرو رپورٹ پر غور کرنے` ترمیمیں پیش کرنے اور آخری فیصلہ کرنے کے لئے منعقد ہوئی جس میں ہندوستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو دعوت دی گئی۔ چنانچہ اجلاس میں آزاد خیال معتدل` کانگریسی` سوراجی` ترک موالات کے علمبردار اور حامی موالات غرضکہ ہر خیال میں مسلک کے لوگ شامل ہوئے۔ خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند نے متفقہ طور پر اپنا نمائندہ مولانا محمد علی جوہر کو نامزد کیا۔ اور وہ اس میں شرکت کے لئے آئے۔۲۳۷مسلم لیگ کی طرف ے جناب محمد علی صاحب جناح )۲۲ نامور مسلم لیگی نمائندوں سمیت( تشریف لائے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ( اور مسٹر دولت احمد خان صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل بی جائنٹ ایڈیٹر اخبار >سلطان< کلکتہ نے شمولیت فرمائی۔۲۳۸
کنوینشن میں مباحثہ کا آغاز ہوا۔ اور غالباً سب سے پہلے یہ نکتہ زیر بحث آیا۔ کہ کانگریس ہندوستان کے لئے درجہ نو آبادیات چاہتی ہے یا کامل آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔۲۳۹
مولانا محمد علی صاحب جوہر نے درجہ نو آبادیات کے مطالبہ کی مخالفت میں تقریر شروع کی۔ اس دوران میں ان کے منہ سے یہ بھی نکل گیا۔ کہ جو لوگ آزادی کامل کے مخالف اور درجہ مستعمرات کے حامی ہیں وہ ملک کے بہادر فرزند نہیں ہیں بلکہ بزدل ہیں۔ اس لفظ کا منہ سے نکلنا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور مطالبہ کیا گیا کہ بیٹھ جائو ہم نہیں سننا چاہتے۔ >مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< کے مولف جناب محمد مرزا صاحب دہلوی اس واقعہ کی تفصیل میں لکھتے ہیں۔ >اس بحث کے دوران میں کانگریس کے ہندو ممبروں کی ذہنیت کا جو مظاہرہ ہوا اس نے مولانا محمد علی مرحوم کو بد دل کر دیا تھا- اور وہ کنوینشن کے اجلاس سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ یہ ذہنیت کیا تھی۔ عقیدہ رکھا جائے آزادی کامل کا۔ لیکن اگر حکومت کی طرف سے ڈومینین اسٹیٹس کا ابتدائی درجہ بھی مل جائے تو اسے قبول کرلیا جائے۔۲۴۰
مولانا محمد علی صاحب جوہر کا یہ موقف کہاں تک درست تھا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے محمد مرزا دہلوی لکھتے ہیں۔ >کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ قبول کرلینے کے بعد بھی حکومت سے نہرو رپورٹ کے ذریعہ جس طرز حکومت کا مطالبہ کیا تھا اور اس کی جو تاویل صاحب رپورٹ نے کانگریس کے اجلاس میں پیش کی تھی وہ یہ تھی کہ عقیدہ تو بے شک ہمارا آزادی کامل ہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے ابتدائی سیڑھیاں بھی ہمیں طے کرنے کی ضرورت ہے اور نہرو رپورٹ ان ابتدائی سیڑھیوں میں سے ایک ہے اس تاویل کے صاف معنی یہ ہیں کہ کانگریس نے آزادی کامل کا عقیدہ تو قبول کرلیا ہے لیکن ملک ابھی اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور فی الحقیقت اس وقت کے حالات کے اعتبار سے یہ بہت صحیح رائے تھی لیکن بعض انتہا پسند اور جوشیلے افراد جن میں ہندو کم اور مسلمان زیادہ تھے کانگریس کے ساتھ محض اس لئے ہوگئے تھے کہ آزادی کامل اس کا مطمح نظر ہے اور اس کی سیاسی جدوجہد کا مفہوم صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح ملک سے بدیشی حکومت کو نکال باہر کرے حالانکہ بدیشی حکومت کو فی الفور ہندوستان سے باہر کر دینے کا اس وقت تک کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ جب تک ہندوستانی حکومت کے ہر شعبہ کو چلانے اور بیرونی حملوں سے ملک کی مدافعت کرنے کے قابل نہ ہو جائیں اور یہ قابلیت ان میں سیاسی بصیرت اور متواتر تجربوں ہی سے آ سکتی تھی۔ اور اس قسم کا موقع انہیں اس وقت مل سکتا تھا جب ہندوستان کی ساری قومیں اس پر متحد ہو جائیں<۔۲۴۱
یہ ضمنی بحث ختم کر کے ہم پہلے مضمون کی طرف آتے ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ مولانا محمد علی صاحب جوہر درجہ نو آبادیات سے متعلق ابتدائی بحث ہی میں کنوینشن سے اٹھ کر چلے آئے تھے۔ جس پر بعد کو بڑی شد و مد سے تنقید کی گئی۔ کہ انہیں کنوینشن میں اپنے مطالبات پیش ضرور کرنے چاہئے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو بہت بڑی امید تھی کہ مطالبات منظور ہو جاتے اور یہ اختلاف و افتراق وہیں ختم ہو جاتا۔ مگر چونکہ انہوں نے دوبارہ شرکت نہیں کی اس لئے اختلاف کی خلیج اور زیادہ وسیع ہوتی گئی۔ ان کے سیرت نگار سید رئیس احمد صاحب جعفری نے اس اعتراض کا خاص طور پر ذکر کر کے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ >بادی النظر میں یہ اعتراض وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن بہ تامل خفیف یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ محمد علی نے جو کچھ کیا وہی اچھا تھا ڈومینین اسٹیٹس میں ان کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا گیا وہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی خوشگوار امید قائم کرنے میں مدد دیتا۔ اس کے علاوہ اختلافات کے آغاز سے اس وقت تک ہندو زعماء کا جو بے نیازانہ طرز عمل ہوگیا تھا۔ وہ بھی ایک خوددار اور شریف آدمی کو >طواف کوئے ملامت< کی اجازت نہیں دے سکتا تھا<۔۲۴۲
کنوینشن سے بائیکاٹ کی یہ دونوں وجوہ کس درجہ معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ کر ہم کنوینشن کی بقیہ روداد پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کے چلے جانے کے بعد مسلم لیگی لیڈر مسٹر محمد علی صاحب جناح نے حالات کی نزاکت` ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت آزادی و حریت کی قدر و قیمت اور مسلم مطالبات کی معقولیت پر ایک شستہ اور منجھی ہوئی تقریر کی اور اپیل کی کہ محبت و اخوت کے جذبات کے ساتھ ان تجاویز پر غور کیجئے اور انہیں منظور کر کے اختلافات کا خاتمہ کر دیجئے کہ اس وقت قوم کی ضروریات کا تقاضا یہی ہے۔۲۴۳
مسٹر جناح کی تقریر پر نہرو کمیٹی کے ممبر سر تیج بہادر سپرو نے کہا۔ >ہم یہاں صرف ایک تمنا لے کر آئے ہیں کہ جس طرح ہو آپس میں سمجھوتہ ہو جائے۔ اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کا تناسب ۲۷ فیصدی ہے اور مسٹر جناح ۳۳ فیصدی مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نہ جناب صدر کا غیر وفادار ہوں نہ نہرو رپورٹ کا لیکن میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اس مرحلہ پر ہمیں مفاہمت سے اعراض نہیں کرنا چاہئے۔ میں اپنی ہر دلعزیزی کو خطرہ میں ڈال کر بھی یہ کہوں گا کہ ہر قیمت پر ہمیں سمجھوتہ کر لینا چاہئے۔ یہی اس کانفرنس کا مقصد ہے<۔۲۴۴
سر سپرو کی مدلل تقریر نے حاضرین پر ایک حد تک اثر کیا لیکن مشہور مہا سبھائی لیڈر مسٹر جیکر نے کھڑے ہو کر یہ طلسم توڑ دیا۔ انہوں نے کہا :
>ہمارے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد` ڈاکٹر انصاری` سر علی امام` راجہ صاحب محمود آباد اور ڈاکٹر کچلو جیسے محب وطن موجود ہیں۔ یہ سب حضرات نہرو رپورٹ سے بالکلیہ متفق ہیں خود مسلم لیگ کے بہت سے ممبر نہرو رپورٹ کے حامی ہیں اب اگر مسٹر جناح کسی کی نمائندگی کرتے ہیں تو صرف چند لوگوں کی۔ یہ بھی یاد رکھئے مسٹر جناح کا مطالبہ مسلم قوم کا مطالبہ نہیں ہے ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی سرشفیع کے ساتھ ہے جو مخلوط انتخاب کے مخالف ہیں ایک دوسرا طبقہ مسلمانوں کا مسٹر فضل ابراہیم رحمت اللہ کے ساتھ ہے جو دہلی میں ایک مسلم کانفرنس )زیر صدارت آغا خاں( کر رہے ہیں۔ مسٹر جناح کا مطالبہ نہ مسلم قوم کا مطالبہ ہے نہ مسلم اکثریت کا<۔۲۴۵
اس تقریر کے بعد ووٹ لئے گئے تو کنوینشن نے مسٹر جیکر کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا اور مسلم لیگ کے مطالبات جو پہلے ہی مختصر سے تھے رد کر دئیے گئے۔ مسٹر چھاگلہ )جج ہائیکورٹ بمبئی۔ مسلم لیگ کے ایک سرگرم کارکن( نے اس واقعہ شکست کی نسبت ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء کو ایسوشی ایٹڈ پریس کو بیان دیتے ہوئے کہا :
>کنوینشن کے اجلاس کے سامنے لیگ کی نمائندگی اس لئے کی گئی تھی کہ مسلمان چند ضروری ترمیمات کے بعد نہرو رپورٹ کو منظور کر سکیں گے۔ میں نہایت افسوس کے ساتھ اس امر کا اعادہ کرتا ہوں کہ کنوینشن کو مسلم مطالبات پر نہایت فراخ دلی سے غور کرنا چاہئے تھا بجائے اس کے وہ ہندو مہاسبھا کے زیر اثر اور اس کی دھمکی میں آکر یہ صورت اختیار کرتا۔ میں یہ امر ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ کے نمائندوں کی اکثریت کنوینشن کے اجلاس میں شریک ہوئی تھی۔ اور جنہوں نے مسلمانوں کے جائز مطالبات کو پیش کیا تھا۔ نہرو رپورٹ کے حامیوں میں سے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی ملت کے ساتھ جنگ کی بلکہ اپنی جماعت )مسلم لیگ( محض نہرو رپورٹ کی تائید کرنے کے سلسلہ میں برائی حاصل کی۔ اگر کنوینشن ان ۳۳ منتخب نمائندوں کے ساتھ کسی امر پر گفتگو کرنے سے قاصر ہے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ ہندوستان کے کسی مسلمان سے بھی فیصلہ کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ اگر ان ۳۳ نمائندوں کو فرقہ پرست سمجھ کر ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا گیا تو سمجھ لو کہ ہندوستان میں ایک بھی مسلم قوم پرور موجود نہیں<۔۲۴۶
اس صورت حال کے بعد مسٹر محمد علی جناح کانگریس اور اس کے لیڈروں سے بالکل دل برداشتہ ہوگئے اور آخر مسلم لیگ نے بھی ۳۰ / مارچ ۱۹۲۹ء کو روشن تھیٹر دہلی میں مسٹر جناح کی زیر صدارت یہ فیصلہ کیا کہ >چونکہ پنڈت نہرو نے مسلم لیگ کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے لہذا مسلم لیگ بھی نہرو رپورٹ منظور کرنے سے قاصر ہے<۔۲۴۷
کلکتہ کنوینشن میں جہاں مسلم لیگی نمائندے نہرو رپورٹ کے حامی کی صورت میں آئے وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ نمائندہ جماعت احمدیہ( نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ہم نہرو رپورٹ کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف ہمارے رسالے اور مضامین شائع ہوئے لیکچر دئیے گئے` مجالس قائم کی گئیں مگر اس کے باوجود ہم نے کنوینشن کی دعوت قبول کی اور اس میں شامل ہوئے کیونکہ ہم بائیکاٹ کے قائل نہیں ہماری رائے ہے کہ سب سے ملنا چاہئے پھر خواہ ہماری بات تسلیم ہو۔ یا رد کر دی جائے لیکن سب کے خیالات کو سن لینا ضروری ہے۔
نہرو رپورٹ میں ترمیم کے لئے احمدی نمائندہ نے دس ریزولیوشن پیش کئے جن کو ایجنڈا میں شائع کیا گیا اور وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر پیش ہوئے اور ان کے موافق و مخالف تقریریں بھی ہوئیں لیکن جس کنوینشن میں مسلم لیگی مطالبات کو کانگریسی ذہنیت کے سامنے شکست اٹھانا پڑی وہاں احمدی نمائندے کیونکر کامیاب ہو سکتے تھے۔ تاہم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ کنوینشن 1] [lrmکے سب حلقوں کے سامنے جماعت احمدیہ کے سیاسی خیالات خوب واضح ہوگئے۔۲۴۸
آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی اور نہرو رپورٹ
کانگریس کی منعقدہ کنوینشن میں مسلم مطالبات کی پامالی دیکھ کر مسلمانوں کی تمام مشہور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے دہلی میں جمع ہوئے اور ۳۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء سے ۲ / جنوری ۱۹۲۹ء تک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
یہ کانفرنس جو سر آغا خاں کی صدارت میں شروع ہوئی مسلمانان ہند کی اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جس میں کونسلوں اسمبلی اور کونسل آف اسٹیٹ کے علاوہ مسلم لیگ` خلافت کمیٹی اور جمعیتہ العلماء ہند کے نمائندے اور سربرآوردہ ارکان بھی شامل تھے۔۲۴۹سر شفیع کے الفاظ میں یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی پوری نمائندہ تھی۔۲۵۰اور برصغیر پاک و ہند کے صحافی جناب عبدالمجید صاحب سالک کا جو اس کانفرنس میں موجود تھے بیان ہے کہ :
>میں اس کانفرنس کو ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں بے نظیر سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کی جس قدر زیادہ نمائندگی اس کانفرنس میں مہیا ہوئی اتنی اور کسی اجتماع میں دکھائی نہیں دی یہاں تک کہ اس کانفرنس میں بیس قادیانی ممبر بھی شامل کر لئے گئے تھے تاکہ اس جماعت کو بھی نقصان نیابت کی شکایت نہ ہو<۔۲۵۱
جیسا کہ سالک صاحب نے اشارہ کیا ہے متعدد احمدی مختلف صوبوں سے منتخب ہو کر کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔ مثلاً بنگال سے جناب حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ` بہار سے جناب حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری` پنجاب سے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب دہلی سے بابو اعجاز حسین صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ دہلی اور مرکز کی طرف سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب۔
کانفرنس کے آغاز میں سر شفیع نے ایک پر جوش تقریر کے ساتھ کانفرنس کا اصل ریزولیوشن پیش کیا جو اکثر و بیشتر ان خطوط پر مرتب کیا گیا تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہرو رپورٹ کے تبصرہ میں تجویز فرمائے تھے۔
اس قرارداد کی تائید میں مسٹر اے۔ کے غزنوی` مولوی شفیع دائودی` ڈاکٹر سر محمد اقبال` مسٹر شرف الدین سی۔ پی` حافظ ہدایت حسین کانپور` مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی دہلی۔ مسٹر عبدالعزیز پشاوری` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` دائود صالح بھائی` حاجی عبداللہ ہارون` مولوی عبدالماجد بدایونی` مولوی کفایت اللہ` مولوی آزاد سبحانی اور مولانا محمد علی صاحب جوہر نے بالترتیب تقریریں کیں اور یہ قرارداد پر زور تائید سے منظور ہوئی۔۲۵۲
یہی وہ اہم قرارداد تھی جس پر آئندہ چل کر مسٹر محمد علی جناح نے اپنے مشہور چودہ نکات تجویز کئے۔ چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب >ذکر اقبال< میں لکھتے ہیں :
>اس کانفرنس میں مسلمانوں کے تمام سیاسی مطالبات کے متعلق ایک قرار داد منظور ہوئی جس کا چرچا ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں ہوا اور بعد میں مسٹر محمد علی جناح نے بھی اپنے چودہ نکات اسی قرارداد کے اصول پر مرتب کئے<۔۲۵۳
اسی طرح محمد مرزا دہلوی مسلم لیگ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
>مسلم کانفرنس کے اس اجلاس کے بعد مارچ ۱۹۲۹ء میں مسلمانوں کے مطالبات کو منظم صورت میں حکومت اور کانگریس کے آگے پیش کرنے کے لئے دہلی میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اجلاس میں جناب محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ پر نہایت سخت تنقید کی اور اسے مسلم تجاویز دہلی کے مقابلہ میں ہندو تجاویز سے تعبیر کیا۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر بڑی تفصیل اور جامعیت سے روشنی ڈالی اور مستقبل کے ہندوستان میں مسلم انفرادیت کے تحفظ کے لئے ایک طویل تجویز میں وہ مشہور چودہ نکات پیش کئے جو آج تک مسلمانوں کے قومی مطالبات سمجھے جاتے ہیں<۔۲۵۴
اس کانفرنس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی دو تقریریں ہوئیں ایک سبجیکٹ کمیٹی میں اور دوسری کھلے اجلاس میں۔ آپ نے اپنی تقریروں میں واضح کیا کہ کس طرح نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے حقوق تلف کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس سلسلہ میں آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے تبصرہ رپورٹ کا تذکرہ بھی کیا۔ جس میں رپورٹ کی خامیوں پر مدلل بحث تھی۔ آپ نے مولانا شوکت علی کے ایک ریزولیوشن کی تائید کرتے ہوئے فرمایا۔ مسلمانوں کو خصوصیت سے علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کرنا چاہئے۔ مسئلہ گائوکشی کے ذکر پر آپ نے بتایا۔ کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے سب سے پہلے اس بات کو ہندوئوں کے سامنے پیش کیا تھا کہ اگر ہندو اس وجہ سے ناراض ہیں کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں تو ہم ان کی خاطر ایک جائز اور حلال چیز کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ بھی ہماری خاطر ایک چھوٹی سی قربانی کریں اور وہ یہ ہے کہ پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آپ کے خلاف بدزبانی سے باز آجائیں۔ کانفرنس کے تمام ممبروں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اس موقعہ پر اکثر مسلم زعماء حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بروقت سیاسی رہنمائی` جماعت احمدیہ کی زبردست تنظیم اور اس کے عظیم الشان کارناموں کے مداح پائے گئے۔۲۵۵
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کانفرنس مسلمانان ہند کی سیاست میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ جناب عبدالمجید صاحب سالک نے اس کے ملک گیر اثر و نفوذ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے >اب سارا مسلم پریس` تمام مسلم ادارات اور جماعتیں ان مطالبات کی حمایت کر رہی تھیں۔ جو دہلی مسلم کانفرنس میں پیش کئے گئے تھے۔ تمام مخالف جماعتیں دب گئی تھیں اور حقیقت میں اس قرارداد کا مخالف کوئی بھی نہ تھا خود کانگرسی مسلمان بھی اس کی کامیابی کے خواہاں تھے گوڈر کے مارے زبان سے اقرار نہ کرتے ہوں<۔4] fts[۲۵۶
فصل ششم
قادیان کی ترقی کا نیا دور اور ریل کی آمد
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< کی دوسری جلد کے شروع میں ہم بتا چکے ہیں کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خدا سے حکم پاکر دعویٰ ماموریت فرمایا تھا۔ قادیان ایک بہت چھوٹا سا گمنام گائوں تھا اس وقت قادیان کی آبادی دو ہزار نفوس سے زیادہ نہ ہوگی۔ اس کے اکثر گھر ویران نظر آتے تھے۔ اور ضروری استعمال کی معمولی معمولی چیزوں کی خرید کے لئے بھی باہر جانا پڑتا تھا۔ اسی طرح اس وقت قادیان کی بستی تار اور ریل وغیرہ سے بھی محروم تھی۔ اور دنیا سے بالکل منقطع حالت میں پڑی تھی۔ قادیان کا ریلوے سٹیشن بٹالہ تھا۔ جو قادیان سے ۱۲ میل مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس کے اور قادیان کے درمیان ایک ٹوٹی پھوٹی کچی سڑک تھی۔۲۵۷ جس پر نہ صرف پیدل چلنے والے تھک کر چور چور ہو جاتے تھے بلکہ یکے میں سفر کرنے والوں کو بھی بہت تکلیف اٹھانا پڑتی تھی۔
چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور بعض دوسرے بزرگوں کے چشم دید واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں سب سے پہلی مشکل تو اس بستی کی گمنامی کی وجہ سے اس کی تلاش تھی اور دوسرا بڑا بھاری مرحلہ قادیان پہنچنے کا تھا۔ آمد و رفت کے ذرائع کی اتنی کمی تھی کہ سواری بڑی مشکل سے ملتی تھی اور اس زمانے کی سواریاں بھی کیا تھیں۔ بیل گاڑی` ریڑھو` گڈا` اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی یکہ۔ چلنے میں جھٹکوں کی کثرت سے پسلیاں دکھ جایا کرتیں` پیٹ میں درد اٹھنے لگتا اور جسم ایسا ہو جاتا کہ گویا کوٹا گیا ہے۔ یکہ مل جانے کے بعد دوسری مشکل یہ ہوا کرتی تھی کہ یکہ بان غائب ہو جاتا۔ ¶وہ نہار لینے چلا جایا کرتا۔ اور جب تک کئی مسافر ہاتھ نہ آجاتے اس کی نہاری تیار نہ ہو سکتی اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جایا کرتا۔ سڑک کی کیفیت لکھنے کی تو ضرورت نہیں کیونکہ اس کی تفصیل خود خداوند عالم الغیب نے فج عمیق کے کلام میں فرما دی ہے۔ اس کی خرابی تو روز بروز بڑھتی رہتی مگر مرمت کی نوبت مدتوں تک نہ آتی۔ چونکہ غلہ اور دوسری تمام ضروری چیزیں گڈوں ہی کے ذریعہ سے آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے سڑک اور بھی خستہ و خراب رہتی تھی۔ یکہ کی ہیئت ترکیبی کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ اچھے خاصے تازے گھوڑے کا حال بھی چند ہی روز جوتے جانے پر ایسا پتلا ہو جاتا کہ دیکھنے والوں کے دل رحم سے بھر جاتے۔ )کبھی یکہ سواریوں کو لے کر چلتا اور کبھی سواریاں یکہ کو لے کر۔ حضرت مولانا انوار حسین خاں رئیس شاہ آباد ضلع ہر دوئی جو سابقون الاولون میں سے تھے۔ یکہ تو کرایہ پر لے لیتے مگر صرف بستر اس کے پیچھے بندھوا دیتے۔ اور دوسرے لوگوں کو بٹھا دیتے اور خود تمام راستہ پیدل ہی طے فرما کر قادیان پہنچتے۔ یکہ میں بیٹھ کر سفر کا کوئی حصہ تو شاید ہی کبھی آپ نے طے کیا ہو۔ سفر کا زیادہ حصہ تو اور حضرات کو بھی پیدل ہی طے کرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں تو خدا کی پناہ۔ ۲۵۸بعض اوقات سارا سارا دن چلنے پر بھی قادیان پہنچ جانا ممکن نہ تھا۔ یکے دلدل میں پھنس جانے پر تو ایسی مصیبت پیش آتی جو برداشت سے باہر ہو جاتی۔ سامان مزدوروں کے سر پر آتا اور سواریاں بدقت پیدل چل کر!! یکہ بان مجبور ہوکر گھوڑا اپنے ساتھ لے آتا اور یکہ سڑک پر کھڑا رہ جاتا۔
قادیان کی بستی نشیب میں واقع ہے۔ برسات میں چاروں طرف سے پانی کا سیلاب آیا کرتا جس سے گائوں کے اردگرد کی ڈھابیں` کھائیاں اور خندقیں پانی سے بھر جایا کرتیں اور زائد پانی قریباً ڈیڑھ میل تک بٹالہ قادیان کی سڑک میں سے ہی گذرا کرتا جو بعض اوقات اتنا گہرا اور تیز رو ہو جاتا کہ اس میں سے سلامت گذر جانا بہت ہی دشوار ہو جاتا اور گائوں صحیح معنوں میں ایک جزیرہ بن جایا کرتا۔۲۵۹
یہ تھے وہ حالات جن میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلسلہ کی ترقی اور قادیان کی ترقی کے بارے میں بشارتیں دی گئیں۔ چنانچہ ۱۹۰۲ء میں آپ کو عالم کشف میں دکھایا گیا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائے نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے الخ۔ ۲۶۰پھر اپریل ۱۹۰۵ء میں حضور نے رئویا میں دیکھا کہ >میں قادیان کے بازار میں ہوں اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے<۔۲۶۱
قادیان میں ریل گاڑی کے پہنچنے کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ایک مشہور پیشگوئی ہے۔ کئی صحابہ نے اسے خود حضور کی زبان مبارک سے سنا تھا حتیٰ کہ انہیں حضور نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ قادیان کی ریلوے لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی۔ چنانچہ روایات صحابہ میں مرزا قدرت اللہ صاحب ساکن محلہ چابک سواراں لاہور` شاہ محمد صاحب ساکن قادیان اور میاں چراغ دین صاحب ولد میاں صدر الدین صاحب قادیان کی شہادتیں ملتی ہیں۔۲۶۲
ان غیبی خبروں کے پورا ہونے کا بظاہر کوئی سامان نظر نہیں آتا تھا بلکہ حکومت کی بے اعتنائی کا تو یہ عالم تھا کہ ریلوے لائن بچھوانے کا تو کیا ذکر صرف اتنی بات کی منظوری کے لئے کہ قادیان سے بٹالہ تک سڑک پختہ کر دی جائے اور اس کے لئے سالہا سال کوشش بھی جاری رکھی گئی تھی حکام وقت نے عملاً انکار کر دیا تھا بحالیکہ دوسرے راستے اور سڑکیں آئے دن درست ہوتی رہتی تھیں لیکن اگر آخر تک بھی نوبت نہ آئی تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی جو بٹالہ اور قادیان کے درمیان تھا۔۲۶۳اور جیسا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی مشہور کتاب >سلسلہ احمدیہ< میں تحریر فرمایا ہے ہرگز امید نہ تھی کہ قادیان میں اس قدر جلد ریل آجائے گی۔۲۶۴لیکن خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ جماعتی کوشش کے بغیر اچانک یہ بات معلوم ہوئی کہ ریلوے بورڈ کے زیر غور بٹالہ اور بیاس کے درمیان ایک برانچ لائن کی تجویز ہے۔ ۲۶۵مگر پھر پتہ چلا کہ محکمہ ریل کے ذمہ دار افسروں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ریلوے جسے بعد کو بٹالہ بوٹاری ریلوے کا نام دیا گیا ۱۹۳۰ء تک بھی تیار نہیں ہو سکتی۔۲۶۶مگر چونکہ خدا کی مشیت میں اب وقت آچکا تھا۔ کہ قادیان کا مرکز احمدیت ریل کے ذریعہ پورے ملک سے ملا دیا جائے اس لئے ریلوے بورڈ نے ۱۹۲۷ء کے آخر میں قادیان بوٹاری ریلوے کی منظوری دے دی اور شروع ۱۹۲۸ء میں محکمہ اطلاعات حکومت پنجاب کی طرف سے سرکاری طور پر یہ اعلان کر دیا گیا کہ ریلوے بورڈ نے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے زیر انتظام پانچ فٹ چھ انچ پٹڑی کی بٹالہ سے بوٹاری تک ۴۲ میل لمبی ریلوے لائن بنانے کی منظوری دے دی ہے اس منصوبہ کا نام بٹالہ بوٹاری ریلوے ہوگا ساتھ ہی گورنمنٹ گزٹ میں اعلان ہوا کہ سروے ہو چکا ہے اور لائن بچھانے کا کام جلد شروع ہونے والا ہے۔۲۶۷چنانچہ عملاً یہ کام نہایت تیزی سے جاری ہوگیا۔ اور شب و روز کی زبردست کوشش کے بعد بالاخر ۱۴ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریل کی پٹڑی قادیان کی حد میں پہنچ گئی۔ اس دن سکولوں اور دفتروں میں تعطیل عام کر دی گئی اور لوگ جوق در جوق ریلوے لائن دیکھنے کے لئے جاتے رہے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ نئے راستے کھلنے پر کئی قسم کی مکروہات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس لئے ساری جماعت اور مرکز سلسلہ کے لئے ریل کے مفید اور بابرکت ہونے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور صدقہ دینا چاہئے۔ چنانچہ قادیان کی تمام مساجد میں دعائیں کی گئیں اور غرباء و مساکین میں صدقہ تقسیم کیا گیا۔ ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ریلوے لائن قادیان کے سٹیشن تک عین اس وقت پہنچی جبکہ جمعہ کی نماز ہو رہی تھی۔ نماز کے بعد مرد عورتیں اور بچے اسٹیشن پر جمع ہونے شروع ہوگئے اور قریباً دو اڑھائی ہزار کا مجمع ہوگیا۔ ریلوے کے مزدوروں اور ملازمین کے کام ختم کرنے پر ان میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ جس کا انتظام مقامی چندہ سے کیا گیا تھا۔۲۶۸
اب صرف اسٹیشن کی تعمیر اور ریلوے لائن کی تکمیل کا کام باقی تھا۔۲۶۹جو دن رات ایک کر کے مکمل کر دیا گیا۔ قادیان کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر بابو فقیر علی صاحب مقرر ہوئے۔۲۷۰اور اسٹیشن کا نام >قادیان مغلاں< تجویز کیا گیا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ لائن کے بوٹاری تک جانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر ابھی لائن قادیان کے حدود تک نہیں پہنچی تھی کہ ریلوے حکام نے قادیان سے آگے لائن بچھانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ اور نہ صرف اگلے حصہ کی تعمیر رک گئی۲۷۱بلکہ آگے بچھی ہوئی ریلوے لائن اکھاڑ بھی دی گئی۔ اور جو اراضی اس کے لئے مختلف مالکوں سے خریدی گئی تھیں وہ اخیر میں نیلام عام کے ذریعہ فروخت کر دی گئی۔
ان حالات سے ظاہر ہے کہ یہ لائن خالص خدائی تصرف کے تحت محض قادیان کے لئے تیار ہوئی۔ منشی محمد دین صاحب سابق مختار عام )والد ماجد شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ( کا بیان ہے کہ جب ریلوے لائن بچھ گئی۔ تو متعلقہ یورپین ریلوے افسر کی پرتکلف دعوت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی میں کی گئی۔ سروے کا عملہ بھی شامل تھا۔ اور جماعت کے کئی معززین بھی شامل تھے۔ اس موقعہ پر اس یورپین افسر نے یہ بات ظاہر کی کہ میرے اندر کوئی ایسی طاقت پیدا ہوگئی تھی جو مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی۔ اور یہی تحریک ہوتی تھی کہ جلد لائن مکمل ہو۔۲۷۲
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ سلسلہ کے مفاد` قادیان کی ترقی اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ لائن قادیان کے شمال کی طرف سے ہوکر گذرے مگر ریلوے حکام اور علاقہ کی غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی اسے جنوب سے گذارے جانے کے لئے انتہائی جوش اور پوری سرگرمی سے کوشش کر رہی تھی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی فراست و بصیرت سے اس صورت حال کو پہلے سے معلوم کرلیا اور اس کی روک تھام کے لئے ابتدا ہی میں خاص انتظام سے ایک زبردست مہم شروع کرا دی یہ مہم کیا تھی اس میں کن بزرگوں نے حصہ لیا۔ اور کس طرح کامیابی ہوئی اس کی تفصیل شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام کے بیان کے مطابق درج ذیل ہے فرماتے ہیں : غالباً ۱۹۲۸ء کی ابتداء یا ۱۹۲۷ء کے آکر کا واقعہ ہے کہ کسی اخبار میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے ایک سرکاری اعلان پڑھا جس میں اس قسم کا کوئی ذکر تھا کہ ریلوے امرت سر سے بیاس تک ملائی جائے اس پر حضور نے فوراً مولوی عبدالمغنی خان صاحب کو ناظر خاص مقرر فرمایا` حکام سے رابطہ کے لئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب جو اس وقت ناظر امور خارجہ تھے مقرر کئے گئے۔ میں اور منشی امام الدین صاحب۲۷۳)والد ماجد چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ( ان دونوں بزرگوں کے لئے بطور معاون تجویز ہوئے۔ ہماری تجویز یہ تھی کہ یہ ریلوے بٹالہ کے شمال کی طرف سے آئے اور قادیان کے شمالی جانب سے ہوتی ہوئی سری گوبند پور پہنچے۔ مگر محکمہ ریلوے اور علاقہ کے غیر مسلموں اور دوسرے مخالفین کی تجویز یہ تھی۔ کہ ریل بٹالہ کے جنوب سے ہوتی ہوئی قادیان کے جنوب مقبرہ بہشتی کی طرف جائے وہاں سے سری گوبند پور سے ہوتی ہوئی بیاس تک پہنچائی جائے۔ ہماری طرف سے حکام کو بتایا گیا کہ بٹالہ کے جنوب کی اراضیات زیادہ زرخیز اور قیمتی ہیں اور شمالی جانب کی اراضیات کم قیمت کی ہیں۔ چنانچہ ریلوے نے ہماری یہ تجویز مان لی۔ اور سروے شروع ہوگیا۔ ریلوے نے اس ٹکڑہ پر ریلوے لائن بچھانے کے لئے ایک یورپین افسر مقرر کیا تھا جو بہت ہوشیار نوجوان تھا۔ سروے کرنے والا سارا عملہ مسلمان تھا اور اس عملہ کے افسر معراج دین صاحب اوورسیر تھے۔ میری یہ ڈیوٹی تھی کہ میں اس عملہ کے ساتھ دن رات رہوں اور جماعتی مفاد کے مطابق اوورسیر معراج دین صاحب کو بتائوں کہ ریلوے لائن بٹالہ کے شمال سے ہوتی ہوئی اس اس طریق سے آئے۔ چنانچہ جب سروے لائن نہر تتلے والی کے قریب پہنچ گئی تو مخالف عنصر نے جس میں قادیان کے مسلمان اور سکھ وغیرہ بھی شامل تھے پھر زور لگایا کہ ریلوے لائن قادیان کی جنوبی جانب سے پہنچے اس مرحلہ پر یورپین افسر نے حکم دیا کہ سروے کر کے معلوم کیا جائے کہ شمالی اور جنوبی جانب سے خرچ میں کس قدر تفاوت ہوگا۔ بظاہر حالات شمالی جانب خرچ قریباً لاکھ ڈیڑھ لاکھ زیادہ تھا۔ مگر ریلوے اوورسیر نے جب شمالی اور جنوبی جانب کا خرچ پیش کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں فرق خفیف سا ہے ) جس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ قادیان کی جنوبی جانب پست تھی اور سیلاب کا پانی وہاں جمع رہتا تھا۔ جس سے بچائو کے لئے بھرتی ڈال کر لائن بچھانے کے اخراجات بھی اس میں شامل کرنے پڑتے تھے۔ مولف( بنابریں یورپین افسر نے ریلوے کے افسران بالا سے بھی یہی منظوری لے لی کہ لائن قادیان کے شمال ہی کی طرف سے گذاری جائے۔ چنانچہ لائن قادیان کے شمالی جانب سے تعمیر کی گئی۔ بلکہ اسی خسرہ نمبر سے آئی اور اسی مجوزہ جگہ پر اسٹیشن بنا جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب پہلے سے تجویز فرما چکے تھے۔۲۷۴
المختصر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات پوری ہوئی کہ قادیان میں لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی اور اس طرح قادیان میں گاڑی کا آنا سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان بن گیا۔ اور قادیان کے ریلوے نظام سے وابستہ ہونے کے بعد سلسلہ کی ترقی کا میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔nsk] [tagفالحمد للہ علی ذلک۔
مسلم حکومتوں کو انتباہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۶ / نومبر ۱۹۲۸ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جس میں مسلمان حکومتوں کو ان کی دین سے بے اعتنائی پر انتباہ کیا اور بتایا کہ ترک یورپین اثر سے آزاد ہوئے تو ہر مسلمان کو اس پر خوشی تھی۔ مگر تھوڑے ہی دنوں بعد انہوں نے آہستہ آہستہ مذہب اور حکومت کے تعلق کو توڑنا شروع کیا۔ پھر عربی حروف چھوڑ کر ترکی الفاظ کو انگریزی الفاظ میں لکھنا شروع کیا۔ جس کا نتیجہ یہی ہوگا۔ کہ جس آسانی سے وہ پہلے قرآن شریف پڑھ سکتے تھے اب نہیں پڑھ سکیں گے۔ اور اسلام سے تعلق کم ہوتا جائے گا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی یہ حرکت محض نقل سے زیادہ کچھ نہیں اب یہ مرض دوسرے ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔ افغانستان میں ہیٹ اور انگریزی لباس پہننے اور داڑھی منڈانے کا حکم دیا گیا ہے اب ایران میں بھی حکومت اس قسم کے قواعد بنا رہی ہے جس سے افسروں کے لئے انگریزی لباس پہننا ضروری ہوگا۔ اور جو نہ پہنے وہ سزا کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح یہ سکیم بھی زیر غور ہے کہ قدیم ایرانی حروف اختیار کرلئے جائیں۔ نہ معلوم عربی نے کیا قصور کیا ہے۔ حالانکہ ان کے آباء کا سارا لٹریچر اسی زبان میں ہے قوموں کی ترقی ان کے آباء کی روایتوں پر منحصر ہوتی ہے ان کی کتابیں عربی حروف میں لکھی ہوئی ہیں اب اگر عربی حروف کو مٹا دیا گیا۔ تو آئندہ نسلیں ان کتابوں کو نہیں پڑھ سکیں گی اور اس طرح قرآن کریم سے وابستگی بھی کم ہو جائے گی۔ اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ :
>میں نے پہلے امور کو دیکھا تو خیال کیا کہ یہ ترکوں پر مخالفین کے حملے ہیں۔ مگر جب تصدیق ہوئی تو پھر میں سمجھا کہ شاید یہ وباء ترکوں تک ہی محدود رہے مگر اب دوسروں تک اس کے اثر کو دیکھ کر میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی رائے اس کے متعلق بیان کردوں اور جہاں جہاں تک ہماری آواز سنی جائے ہم بتا دیں۔ کہ یہ راستے ترقی کے نہیں۔ ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے اور اسلام میں جو ظاہری اتحاد ہے اسے مٹانا کسی مسلمان حکومت کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اسلامی حکومتوں میں سے سوائے نجد کے کہیں اسلام نظر نہیں آتا۔ میں نجدیوں کے مقابر کو گرانے یا دوسرے مظالم کو کٹر حنفیوں کی طرح ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر بہرحال سنت اسلام کو قائم اور برقرار رکھنے کے لئے ان کی کوشش ضرور قابل قدر ہے مخالفین ہنس رہے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کے معنوں پر عمل تو پہلے ہی چھوڑ رکھا تھا اب اس کے الفاظ کو بھی چھوڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ اپنی غلطیوں کو سمجھ سکیں اور ان کے بد نتائج سے محفوظ رہ سکیں<۔۲۷۵
امرتسر قادیان ریلوے کا افتتاح اور گاڑی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مع خدام سفر
ریلوے پروگرام کے مطابق چونکہ ۱۹ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو امرت سر سے قادیان جانے والی پہلی ریل گاڑی روانہ ہونی تھی۔ اس لئے قادیان
سے بہت سے مرد عورتیں اور بچے اس تاریخ کو امرت سر پہنچ گئے- نیز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس ۳ بجے بعد دوپہر امرت سر تشریف لے آئے۔ تا قادیان ریلوے کے افتتاح کی تقریب پر اس خدائے قدوس کے آگے دست دعا بلند کریں۔ جس نے محض اپنے فضل و کرم سے موجودہ زمانے کی اہم ایجاد کو خدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آرام و آسائش کے لئے مرکز احمدیت تک پہنچا دیا۔
حضور کے امرت سر اسٹیشن پر تشریف لاتے ہی ہجوم بہت زیادہ ہوگیا کیونکہ قادیان کے دوستوں کے علاوہ گوجرانوالہ` لاہور` امرت سر اور بعض در دراز مقامات کے احباب بھی آگئے اور گاڑی روانہ ہونے سے قبل قادیان جانے والوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ ریلوے والوں کو پہلی تجویز کردہ گاڑیوں میں اور ڈبوں کا اضافہ کرنا پڑا۔
گاڑی کے پاس ہی اذان کہی گئی اور حضور نے ظہر و عصر کی نمازیں ایک بہت بڑے مجمع کو باجماعت پڑھائیں اس کے بعد حضور نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ پھر حضور گاڑی کے دروازہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ریل کا قادیان میں آنا مبارک کرے۔ یہ کہہ کر حضور نے مجمع سمیت چند منٹ تک نہایت توجہ اور الحاح سے دعا کرائی اور پھر سب احباب گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے ریل گاڑی کے جاری ہونے سے متعلق چار صفحہ کا ایک بہت عمدہ اور موثر ٹریکٹ تیار کر کے گاڑی چلنے کے موقعہ پر تقسیم کر دیا۔ ۲۷۶جس میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اوائل زمانہ کی مشکلات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ثابت کیا کہ ریل کا کسی حصہ ملک میں جاری ہو جانا معمولی بات ہے مگر قادیان کی ریل خاص تائید الٰہی میں سے ہے اور اس کی تقدیر خاص کے ماتحت تیار ہوئی ہے اور ان عظیم الشان نشانوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائید کے لئے ظاہر فرماتا ہے۔۲۷۷
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے رونق افروز ہونے کے بعد جتنی دیر تک گاڑی اسٹیشن پر کھڑی رہی۔ مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس۲۷۸نہایت خوش الحانی سے اردو اور پنجابی نظمیں پڑھتے رہے اور انہوں نے چند آیات و الہامات سے جو سرخ رنگ کے کپڑوں پر چسپاں تھیں گاڑی بھی خوب سجائی اور جاذب نظر بنالی تھی۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
الا ان روح اللہ قریب۔ الا ان نصر اللہ قریب۔ یاتون من کل فج عمیق۔ یاتیک من کل فج عمیق )۲( و اذا العشار عطلت و اذا النفوس زوجت )۳( دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ )۴( اھلا و سھلا و مرحبا )۵( خوش آمدید )۶( غلام احمد کی جے۔
)۷( یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے
یہ میرے صدق دعویٰ پر مہر الٰہ ہے
گاڑی نے اپنے مقررہ وقت ۳ بج کر ۴۲ منٹ پر حرکت کی اور ساتھ ہی اللہ اکبر کا نہایت بلند اور پر زور نعرہ بلند ہوا جو گاڑی کے ریلوے یارڈ سے نکلنے تک برابر بلند ہوتا رہا۔ گاڑی دیکھنے کے لئے آدمیوں کے گذرنے کے پل پر بڑا ہجوم تھا۔ اللہ اکبر اور >غلام احمد کی جے< کے نعرے راستہ کے ہر
tav.5.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
گائوں اور اسٹیشن پر بلند ہوتے آئے اگرچہ گاڑی امرتسر ہی سے بالکل پر ہوگئی تھی اور ہر ایک درجہ میں بہت کثرت سے آدمی بیٹھے تھے۔ لیکن بٹالہ اسٹیشن پر تو ایسا اژدحام ہوگیا تھا کہ بہت لوگ گاڑی میں بیٹھ نہ سکے اور بہت سے بمشکل پائدانوں پر کھڑے ہو سکے۔ کچھ قادیان سے پہلے اسٹیشن وڈالہ گرنتھیاں پر بھی جہاں اردگرد کے بہت سے احمدی مرد و عورتیں جمع تھیں چند ہی اصحاب بدقت بیٹھ سکے۔ آخر گاڑی اپنے وقت پر ۶ بجے شام کو قادیان کے پلیٹ فارم پر پہنچی یہاں بھی قرب و جوار کے بہت سے دوستوں کا ہجوم تھا سٹیشن جھنڈیوں اور گملوں سے خوب آراستہ تھا۔ فضا بہت دیر تک اللہ اکبر اور >غلام احمد کی جے< کے پرجوش نعروں سے خوب گونجتی رہی۔ کچھ عجیب ہی شان نظر آ رہی تھی۔ گذشتہ سال انہی ایام میں کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اس مقام پر اتنی رونق اور ایسی چہل پہل ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قلیل ہی عرصہ میں ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ بالکل نیا نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ فالحمد للہ علی ذالک۔
اس سفر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور حضور کے اہل بیت کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے کئی نونہال بھی اس گاڑی میں تشریف لائے تھے۔ اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب` حضرت مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت مولانا مولوی شیر علی صاحب` حضرت عرفانی کبیر شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم` حضرت مولوی میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر >فاروق< حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور کئی اور مقامی بزرگوں کو بھی اس گاڑی میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔۲۷۹`۲۸۰
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا اعلان احمدیت
اس سال کے اہم واقعات میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا اعلان احمدیت ہے۔ جیسا کہ متعدد واقعات و شواہد سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچتا ہے۔۲۸۱4] ft[rحضرت صاحبزادہ صاحب کو دراصل شروع ہی سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ بے حد عقیدت و شیفتگی تھی اور آپ حضرت اقدس علیہ السلام کو بے مثال عاشق رسول اللہ~صل۱~ سمجھتے اور آپ کے دعاوی کو برحق تسلیم کرتے تھے۔ اور آپ کی روح تحریک احمدیت کو قبول کر چکی تھی مگر آپ کو اس کے اظہار و اعلان میں بہت تامل تھا اور اس بات کا علم حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بھی تھا۔ اور حضور ہمیشہ ان کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ جون ۱۹۲۴ء میں حضور نے ان کے فرزند مرزا رشید احمد صاحب کا خطبہ نکاح پڑھا تو ایجاب و قبول کے بعد ارشاد فرمایا :
>ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام لائے ان کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے میں سنتا رہتا ہوں کہ وہ احمدیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس روک کو ہٹا دے۔ آمین<۔۲۸۲
الحمد لل¶ہ خدا کے خلیفہ برحق کی دعا درگاہ عالی میں مقبول ہوئی اور آخر اکتوبر ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مرزا سلطان احمد نے اعلان احمدیت کر دیا اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل بیان الفضل میں شائع کرایا۔
>تمام احباب کی اطلاع کے لئے میں یہ چند سطور شائع کرتا ہوں کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے سب دعوئوں پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق اور راستباز تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے جیسا کہ میرے ان مضامین سے آپ لوگوں پر ظاہر ہو چکا ہوگا۔ جو سلسلہ احمدیہ کی خدمات کے متعلق میں شائع کرتا رہا ہوں مگر اس وقت تک بوجہ بیماری اور ضعف کے میں ان مسائل کے متعلق پورا غور نہیں کر سکا۔ جن کے بارے میں قادیان اور لاہوری احمدیوں میں اختلاف ہے اور اسی وجہ سے اب تک اپنی احمدیت کا اعلان نہیں کر سکا۔ مگر اب میں نے سوچا ہے کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے میں اس امر کا سردست اعلان کر دوں کہ میں دل سے احمدی ہوں جب مجھے اللہ توفیق دے گا تو میں اختلافی مسائل پر غور کر کے اس امر کا بھی فیصلہ کر سکوں گا۔ کہ میں دونوں جماعتوں میں سے کس کو حق پر سمجھتا ہوں۔ پس سر دست اپنے احمدی ہونے کا اعلان ان چند سطور کے ذریعہ سے کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے سوال کے متعلق بھی اپنے پاس سے ہدایت فرمائے اور وہ راہ دکھائے جو اس کے نزدیک درست ہو- آمین-
)خان بہادر( مرزا سلطان احمد )خلف اکبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام( ۲۸۳
اس اعلان کے علاوہ آپ نے ایک ٹریکٹ >الصلح خیر< نامی شائع کیا جس میں تحریر فرمایا :
>میری عقیدت حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ نہ صرف اس وقت سے ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کا دعویٰ کیا بلکہ ان ایام سے میں عقیدت رکھتا ہون کہ جبکہ میری عمر بارہ تیرہ برس کی تھی۔ میں تصدیق کرتا ہوں اور صدق دل سے مانتا ہوں کہ میرے والد صاحب مرحوم کی ہستی ایسی عظیم الشان تھی جو اسلام کے واسطے ایک قدرتی انعام تھا۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے والد صاہب مرحوم مرزا غلام احمد صاحب کو ایک سچا انسان اور پکا مسلمان الموسوم مسیح موعود علیہ السلام سمجھتا ہوں۔ اور ان کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اپنے آپ کو اس رنگ میں ایک احمدی سمجھتا ہوں۔ آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیوں حضرت مولوی نور الدین صاحب یا میاں محمود احمد صاحب یا مولوی محمد علی صاحب کی بیعت نہیں کی۔ اس کا جواب یہ ہے میں نے کبھی اپنی زندگی میں باوجود اس کے کہ میرے والد صاحب مرحوم میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے میرے فائدہ کے لئے مجھ پر ناراض بھی تھے۔ اور میں اب صدق دل سے یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ ان کی ناراضگی واجبی اور حق تھی۔ باوجود ان کی ناراضگی کے بھی میں نے کبھی اخیر تک بھی ان کے دعاوی اور ان کی صداقت اور سچائی کی نسبت کبھی کوئی مخالفانہ حصہ نہیں لیا۔ جس کو میرے احمدی اور غیر احمدی دوست بخوبی جانتے ہیں جو قریباً ۳۰ سال سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا میری صداقت ہوگی اور بایں حالات کون کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا مخالف یا ان کے دعاوی کا منکر ہوں۔ جب یہ حالت ہے تو مجھے کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا کہ میں ان کا منکر تھا یا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
بیعت کیا چیز ہے ایک یقین اور صداقت کے ساتھ ایک مقدس انسان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور اس کے ساتھ ہی صدق دل سے خدا کو اس امر پر شاہد کرنا۔ پس میں اب تک اپنے والد صاحب مرحوم کو سچا مسیح موعود مانتا ہوں اور میرا خدا اس پر شاہد ہے میں اعلان اور اظہار کو بیعت یقین کرتا ہوں<۔۲۸۴`۲۸۵قبول احمدیت کا اعلان کر دینے کے بعد بعت خلافت کا جو نازک ترین مرحلہ باقی تھا وہ بفضلہ تعالیٰ ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۰ء کو بخیر و خوبی طے ہوا۔ جیسا کہ آگے بالتفصیل ذکر آئے گا۔
سالانہ جلسہ ۱۹۲۸ء
سالانہ جلسہ ۱۹۲۸ء ۲۶ / دسمبر سے شروع ہو کر ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو بخیر و خوبی ختم ہوا۔ ریل کے جاری ہونے کی وجہ سے اس سال مہمانوں کی تعداد میں پہلے کی نسبت غیر معمولی اضافہ ہوا۔ مہمانوں کی ایک خاصی تعداد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں ۱۹ / دسمبر کو جبکہ پہلی گاڑی قادیان پہنچی مرکز میں آگئے اور ۲۳ / دسمبر کے بعد قادیان آنے والوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ محکمہ ریلوے کو معمول کے مطابق گاڑیوں کے علاوہ ایک اسپیشل ٹرین روزانہ چلانا پڑی جو ۲۸ / دسمبر تک جاری رہی۔
اس دفعہ نہ صرف بہت سی عورتیں بچے اور بہت سے ضعیف اور کمزور لوگ شامل جلسہ ہوئے جو پہلے نہ آ سکے تھے۔ بلکہ بہت سے غیر مبائع` غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب بھی دور دراز مقامات سے تشریف لائے۔ ضعیف العمر لوگوں میں سے چنگا بنگیال ضلع جہلم کی ایک خاتون بھی تھیں جن کی عمر سو سال سے زیادہ تھی۔ اور جو اپنی وضع کی اتنی پابند تھیں کہ انہوں نے اپنے گھر کے سوا کبھی کسی دوسری جگہ رات بسر نہیں کی تھی اور پہلی بار ہی ریل گاڑی دیکھی تھی۔ جس میں وہ قادیان آئی تھیں۔ پنجاب کے تمام اضلاع اور ہندوستان کے مختلف حصوں کے علاوہ مالابار` کابل اور ماریشس سے بھی کچھ احباب تشریف لائے تھے۔ غیر احمدی اصحاب جن میں بڑے بڑے سرکاری عہدیدار مجسٹریٹ` وکلاء` بیرسٹرز` رئوساء علی گڑھ اور اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر شامل تھے۔ بڑی کثیر تعداد میں آئے۔ مثلاً شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی کے فرزند ارجمند خواجہ سجاد حسین صاحب بی۔ اے اور خان بہادر چوہدری )نواب( محمد دین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر`غیر مسلموں میں بنارس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر مکھ راج قابل ذکر تھے۔۲۸۶
جلسہ کے منتظم اعلیٰ اور ناظر ضیافت حضرت میر محمد اسحاق صاحب تھے۔ آپ کے زیر انتظام اندرون قصبہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور بیرون قصبہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب انچارج تھے۔ اور حسب معمول ہر اہم صیغہ کے علیحدہ علیحدہ انچارج اور ان کے مددگار مقرر تھے۔ جلسہ پر قریباً تین سو مردوں نے بیعت کی۔ بیعت ہونے والی مستورات کی تعداد مزید برآں تھی۔۲۸۷
>فضائل القرآن< پر سلسلہ تقاریر کا آغاز
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ابتداء خلافت سے یہ دستور رہا ہے کہ حضور سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ہمیشہ ایک خالص علمی موضوع پر تقریر فرمایا کرتے ہیں۔ چنانچہ ۱۹۲۸ء کے جلسہ پر حضور نے >فضائل القرآن< کے عنوان پر ایک اہم سلسلہ تقاریر کا آغاز فرمایا۔ جو )۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۵ء کو مستثنیٰ کر کے( ۱۹۳۶ء کے جلسہ تک جاری رہا۔ حضور کا منشاء مبارک دراصل یہ تھا کہ قرآن کریم کی فضیلت سے متعلق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں جو تین سو دلائل لکھنے کا وعدہ فرمایا تھا وہ اگرچہ حضور ہی کی دوسری تصنیفات میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ مگر وہ ظاہری طور پر بھی پورا کر دیا جائے۔۲۸۸مگر مشیت ایزدی کے مطابق صرف چھ لیکچر ہو سکے۔4] f[st۲۸۹
>فضائل القرآن< کے لیکچروں کے اس بیش بہا مجموعہ میں جو ۴۴۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ حضور نے قرآن مجید کے دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں پر فضیلت کے متعدد دلائل دئیے ہیں اور قرآن مجید کے بہت سے مشکل مقامات کو نہایت خوبی و نفاست سے حل کیا ہے۔ اور مستشرقین کے اعتراضات کا ایسے موثر رنگ میں جواب دیا ہے کہ انسان عش عش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اس سلسلہ کی چھٹی تقریر حضور کے ایک ایسے چیلنج پر ختم ہوتی ہے جس کو قبول کرنے کی جرات آج تک کسی غیر مسلم مفکر کو نہیں ہوئی۔ یہ چیلنج ان الفاظ میں تھا:
>قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی توریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں استعارہ سمجھوں پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی پیش نہ کردوں تو وہ بے شک مجھے اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کردوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں<۔۲۹۰
۱۹۲۸ء میں رحلت پانے والے بزرگ
سلسلہ احمدیہ کے قدیم بزرگ اب بڑی تیزی سے رخصت ہوتے جا رہے تھے۔ چنانچہ اس سال مندرجہ ذیل بزرگوں کا انتقال ہوا۔
)۱( حضرت صوفی مولا بخش صاحب )تاریخ وفات ۱۴ / فروری ۱۹۲۸ء(۲۹۱)۲( حضرت شہزادہ عبدالمجید خان صاحب لدھیانوی مبلغ ایران )تاریخ وفات ۲۲ / فروری ۱۹۲۸ء(۲۹۲)۳( حضرت شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند امرت سر )تاریخ وفات ۸ / جون ۱۹۲۸ء(۲۹۳)۴( حضرت میاں سراج الدین صاحب )تاریخ وفات ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء(۲۹۴)۵( حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ امرت سری )تاریخ وفات ۱۰ / اگست ۱۹۲۸ء(۲۹۵ )۶( حضرت حافظ نور احمد صاحب لدھیانوی )تاریخ وفات ۲۸ / اکتوبر ۱۹۲۸ء(۲۹۶
ان صحابہ کے علاوہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ کے ماموں حضرت سیٹھ الہ دین بھائی ابراہیم صاحب سکندر آباد دکن بھی )پچاس سال کی عمر میں( بتاریخ ۲۰ / فروری ۱۹۲۸ء وفات پاگئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ >احمدیہ جماعتیں ان کا جنازہ پڑھیں اور دعاء مغفرت کریں<۔۲۹۷`۲۹۸
بیرون ملک بھی بعض ممتاز احمدیوں کا انتقال ہوا۔ مثلاً نائجیریا میں سلسلہ احمدیہ کے ایک قدیم فدائی امام محمد بیضا ڈوبری چیف امام شہر لیگوس قریباً ستر برس کی عمر میں وفات پاگئے۔۲۹۹آپ ۶ / جون ۱۹۲۱ء کو اپنے چالیس ساتھیوں سمیت مولانا عبدالرحیم صاہب نیر کے ذریعہ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے۔ بیعت کے بعد ان پر بہت ابتلاء آئے گالیاں دی گئیں مقدمات کئے گئے مگر ان کے استقلال میں ذرا فرق نہ آیا۔۳۰۰
فصل ہفتم
۱۹۲۸ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں ترقی
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاں )۱۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو( مرزا طاہر احمد صاحب۳۰۱اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں )۱۷ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو( امتہ الباری صاحبہ کی ولادت ہوئی۔۳۰۲
امتحان میں نمایاں کامیابی
حضرت سارہ بیگم صاحبہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ادیب کا امتحان پاس کیا۔ آپ صوبہ بھر کی خواتین میں اول آئیں اور یونیورسٹی میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔۳۰۳text] g[taاس کامیابی میں موصوفہ کی محنت اور کوشش کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تعلیم خواتین میں دلچسپی کا بھی دخل تھا۔ حضور کے پیش نظر خواتین کی تعلیم کے انتظام کو زیادہ بہتر بنانے کی جو تجاویز تھیں ان کو کامیاب بنانے کے لئے حضور کی نظر انتخاب حضرت امتہ الحئی صاحبہ کے بعد حضرت سارہ بیگم صاحبہ پر ہی تھی۔ آپ کے علاوہ حضرت ام دائود صالحہ بی صاحبہ )اہلیہ محترمہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب( پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مولوی میں اول رہیں۔۳۰۴
امتحان کتب مسیح موعودؑ میں انعام
مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنے دست مبارک سے ملک عزیز احمد صاحب راولپنڈی کو امتحان کتب حضرت مسیح موعودؑ میں اول آنے پر >حقیقتہ الوحی< بطور انعام مرحمت فرمائی۔۳۰۵
تحریک وقف زندگی
سلسلہ کی تبلیغی جدوجہد کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے لئے حضور نے دسمبر ۱۹۱۷ء۳۰۶میں پہلی بار وقف زندگی کی تحریک فرمائی تھی۔ اور اس سال آپ نے ۴ / مئی ۱۹۲۸ء کو جماعت کے نوجوانوں سے دوسری بار وقف زندگی کا مطالبہ فرمایا۔۳۰۷جس پر مدرسہ احمدیہ کے بیس سے زیادہ طالب علموں نے لبیک کہا۔۳۰۸
حج بیت اللہ کی طرف جماعت احمدیہ کی خاص توجہ
اس زمانہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ کی توجہ فریضہ حج کی طرف بڑھ گئی۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء میں پچاس ساٹھ کے قریب احمدی حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔۳۰۹اور ۱۹۲۸ء میں بھی یہ رجحان ترقی پذیر رہا۔۳۱۰
کتابوں کی اشاعت کے متعلق اہم فیصلہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی منظوری سے مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ قادیان نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ سلسلہ کی طرف سے کوئی کتاب ٹریکٹ یا رسالہ وغیرہ نظارت تالیف و تصنیف کی منظوری کے بغیر نہ چھپ سکتی ہے نہ شائع ہو سکتی ہے۔ ۲۸ / اگست ۱۹۲۸ء کو اس فیصلہ کا الفضل میں باضابطہ اعلان کر دیا گیا۳۱۱مسودات کی نگرانی کا کام شروع شروع میں زیادہ تر مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر کرتے تھے جو ان دنوں نظارت تالیف و تصنیف کی مرکزی لائبریری کے نگران اور نظارت امور عامہ کے قانونی مشیر تھے۔۳۱۲
اخبار >لائٹ< کا مقدمہ اور اس کی پیروی
مولوی محمد یعقوب خاں صاحب ایڈیٹر اخبار >لائٹ< لاہور نے اخبار الفضل کے ایڈیٹر )خواجہ غلام نبی صاحب( اور پرنٹر )حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی( پر ازالہ حیثیت کا مقدمہ دائر کیا۔۳۱۳اس مقدمہ کی پیروی میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے خاص توجہ فرمائی۔ مولوی فضل الدین صاحب وکیل اس کے انتظام اور ضروری تیاری میں مصروف رہے۔۳۱۴
دستکاری کی نمائش اور انعام
لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی زیر نگرانی ۱۹۲۷ء سے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر دستکاری کی نمائش کا انتظام جاری تھا جس میں اصل لاگت لجنات کو واپس کر دی جاتی تھی اور منافع اشاعت اسلام میں جمع کر دیا جاتا تھا۔ دستکاری کے کام کو زیادہ کامیاب بنانے کے لئے ۱۹۲۸ء میں ایک انعامی تمغے کا اعلان کیا گیا۔ جو اہلیہ صاحبہ ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی کو ملا۔۳۱۵
خطبات نکاح
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مندرجہ ذیل اصحاب کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے پر معارف خطبات نکاح ارشاد فرمائے :
)۱( چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے )مورخہ ۲ / جنوری ۱۹۲۸ء(۳۱۶)۲( صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے مبلغ ماریشس )مورخہ ۱۴ / مارچ ۱۹۲۸ء(۳۱۷4] f)[rt۳( صاحبزادہ عبدالسلام صاحب عمر خلف سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ )مورخہ ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء(۳۱۸
سیدنا حضرت فضل عمر کو اللہ تعالیٰ نے وہ علوم و معارف عطا فرمائے کہ ایک بار حضور نے فرمایا۔
>میں نے دیکھا ہے جب میں خطبہ نکاح کے لئے کھڑا ہوا ہوں نئے سے نیا نکتہ سوجھا ہے اگر کوئی غور کرنے والا ہو تو یہی معجزہ اسلام کی سچائی کے لئے زبردست ثبوت ہے تین آیتیں رسول کریم~صل۱~ نے تجویز فرمائیں۔ اور ان تینوں آیتوں کی تفسیر ختم نہین ہو سکتی<۔۳۱۹ملک فضل حسین صاحب نے حضور کے خطبات النکاح کی دو جلدیں عرصہ ہوا شائع کر دی ہیں جن کو دیکھ کر اس علمی نشان کا پتہ چلتا ہے جن کے متعلق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ولادت سے قبل ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔
بیرونی مشنوں کے بعض واقعات
نائیجیریا ۔ لیگوس میں مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی شاندار عمارت مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ء کو یورپین اور افریقن آبادی کے بہترین نمائندوں کی موجودگی میں بڑی شان کے ساتھ ہوا۔ تقریر کرنے والوں میں مسٹر گرائر ایم۔ اے ڈائریکٹر محکمہ تعلیم اور مسٹر ہنری کار ایم۔ اے۔ بی۔ سی۔ ایل ریذیڈنٹ لیگوس تھے ان کے علاوہ یورپین مسیحی مشنری اور مدارس کے پرنسپل بھی موجود تھے۔ تمام مقررین نے نہایت عزت کے الفاظ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ اور مبلغ سلسلہ مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کا ذکر کیا۔ مسٹر ہنری کار نے لیگوس میں اشاعت اسلام اور مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ باقاعدہ طور پر تعلیم کے لئے کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ جب تک کہ احمدی جماعت نے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کے زیر ہدایت اپنا مدرسہ لیگوس میں نہیں کھولا۔۳۲۰
گولڈ کوسٹ ۔ اپریل ۱۹۲۸ء میں گولڈ کوسٹ مشن کے شہر کالی میں حکیم فضل الرحمن صاحب اور غیر احمدی علماء میں مناظرہ ہوا۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو نمایاں فتح دی۔ اس مناظرہ کی خصوصیت یہ تھی کہ حکومت کے اعلیٰ افسر حتیٰ کہ پراونشل کمشنر بھی اس میں موجود تھے۔۳۲۱
مشرقی افریقہ ۔ ملک محمد حسین صاحب بیرسٹر و ممبر میونسپل کونسل نیروبی کی کونسل سے مسجد احمدیہ نیروبی کی تعمیر کے لئے میونسپل کارپوریشن کی طرف سے تین چار ایکڑ کا ایک با موقعہ قطعہ مفت ملا- جس پر جماعت احمدیہ نیروبی نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مندرجہ ذیل احباب پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کر دی۔ ملک احمد حسین صاحب چیئرمین مسجد کمیٹی عبدالحکیم صاحب جان سیکرٹری سیٹھ محمد عثمان یعقوب صاحب` ڈاکٹر عمر دین صاحب سید معراج دین صاحب۔۳۲۲
سماٹرا ۔ جماعت احمدیہ پاڈانگ سماٹرا نے مارچ ۱۹۲۸ء سے تبلیغی ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جو مفت تقسیم ہوتے تھے اور تاپاتوان میں بھی بھیجے جاتے تھے۔۳۲۳
شام و فلسطین ۔ شامی علماء و مشائخ کا ایک وفد شام کی فرانسیسی حکومت کے رئیس الوزراء شیخ تاج الدین صاحب کے پاس پہنچا کہ احمدی مبلغ کو دمشق سے نکال دینا چاہئے۔ چنانچہ فرانسیسی حکومت نے بتاریخ ۹ / مارچ ۱۹۲۸ء علامہ جلال الدین صاحب شمس کو ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر شام سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ جس پر آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں تار بھیجا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ حضور نے جواباً ارشاد فرمایا۔ کہ حیفا چلے جائیں۔ اس ارشاد عالی کی تعمیل میں آپ نے بتاریخ ۱۵ / مارچ ۱۹۲۸ء السید منیر الحصنی صاحب کو دمشق میں اپنا قائم مقام بنایا اور ۱۷ / مارچ کو حیفا تشریف لے گئے۔ اور فلسطین مشن کی بنیاد رکھی۔۳۲۴مولانا شمس صاحب ۳ / جون ۱۹۲۸ء کو فلسطین کی وادی السیاح میں تشریف لے گئے۔ اتفاقاً شیخ محمد المغربی الطرابلسی سے ملاقات ہوگئی معلوم ہوا کہ یہ بزرگ در پردہ ۲۳ سال سے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر چکے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد آپ اپنے شاگردوں سمیت علانیہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔۳۲۵
آسٹریلیا ۔ آسٹریلیا میں ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء کو جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ منعقد ہوا جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمان بھی شامل ہوئے۔ صوفی محمد حسن موسیٰ خاں صاحب آنریری مبلغ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعاوی اور سلسلہ کے حالات سنائے جس کا خدا کے فضل سے اچھا اثر ہوا۔ یہ جلسہ احمدیت کے لئے آسٹریلیا میں آئندہ جلسوں کے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا تھا۔۳۲۶
مبلغین احمدیت کی ممالک غیر کو روانگی اور واپسی
۱۔ خان صاحب فرزند علی خاں صاحب )۲۲۔ اپریل ۱۹۲۸ء کو(۳۲۷اور صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز )۳/ اگست ۱۹۲۸ء کو(۳۲۸انگلستان میں اور صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی )۲۱ مئی ۱۹۲۸ء(۳۲۹کو امریکہ میں تبلیغ اسلام کے لئے قادیان سے روانہ ہوئے۔
۲۔ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد انگلستان میں کئی سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دینے کے بعد بالترتیب ۸ / جولائی ۱۹۲۸ء اور ۲۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو واپس تشریف لے آئے۔۳۳۰ان مبلغین نے واپسی پر سمرنا` قسطنطنیہ` دمشق` بغداد میں بھی پیغام حق پہنچایا۔۳۳۱حضرت خلیفتہ المسیح الثانی درد صاحب کے استقبال کے لئے دوسرے احباب قادیان کے ساتھ پا پیادہ شہر سے قریباً اڑھائی تین میل باہر بٹالہ کی سڑک کے موڑ پر تشریف لے گئے۔ اور معانقہ کیا۔۳۳۲
]bus [tagمصنفین سلسلہ کی نئی مطبوعات
سیرت مسیح موعودؑ حصہ سوم۳۳۳)از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی( رسالہ >درود شریف< )از حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری( >نور ہدایت )از سید عبدالمجید صاحب منصوری( >احسانات مسیح موعود< )لیکچر مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری( >اصل طبی بیاض حصہ اول )حکیم الامت حضرت مولانا حافظ حکیم نور الدین خلیفتہ المسیح الاول کی طبی بیاض جسے زیادہ عام فہم اور مفید بنانے کے لئے حضرت مولانا حکیم عبید اللہ صاحب بسمل کی خدمات حاصل کی گئیں اور جسے صاحبزادہ عبدالسلام صاحب عمر نے شائع کیا۔۳۳۴>بخار دل< )حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ کی عارفانہ نظموں کا مجموعہ جو شیخ محمد اسماعیل صاحب مینجر حالی بک ڈپو پانی پت نے شائع کیا(
>برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول<۳۳۵)از ملک فضل حسین صاحب( >نیر صداقت<۳۳۶)از ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ( >قول سدید< )ختم نبوت سے متعلق ایک رسالہ جو ڈاکٹر سید شفیع احمد صاحب پی۔ ایچ۔ ڈی۔ محقق دہلوی نے شائع کیا۔ اور جس کی خریداری کی خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سفارش فرمائی-۳۳۷
اندرون ملک کے مشہور مباحثے
مباحثہ گجرات ۔ )یہ مباحثہ مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی کا پادری عبدالحق صاحب سے چار دن تک ہوتا رہا تھا۔ موضوع بحث یہ تھے۔ باطل مذہب` کلام الٰہی` تحریف بائبل- مسیحؑ کی آمد ثانی(۳۳۸text] [tag
مباحثہ رائے کوٹ ۔ )مابین مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی و پادری عبدالحق صاحب(۳۳۹
مباحثہ دینا نگر ۔ )ضلع گورداسپور( )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل و پنڈت دھرم بھکشو(۳۴۰
مباحثہ دہلی ۔ یہ مباحثہ ماسٹر محمد حسن صاحب آسان نے آریہ سماج کے سالانہ جلسہ کے موقع پر آریہ مناظر پنڈت جگدمبا پرشاد لکھنوی سے نجات کے موضوع پر کیا۔۳۴۱
20] p[مباحثہ گھرینڈا متصل بھڈیار ضلع امرت سر۔ اس مباحثہ کے مناظر مولوی قمر الدین صاحب مولوی فاضل اور امرت سر کے ایک غیر احمدی عالم صاحب تھے۔۳۴۲
مباحثہ شیخوپورہ ۔ )مولوی محمد یار صاحب عارف اور اہلحدیث مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی کے درمیان(۳۴۳
مباحثہ ڈچکوٹ ضلع لائلپور ۔ )مابین حضرت مولوی میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق اور ستیہ دیو اپدیشک آریہ پرتی ندھا سبھا(۳۴۴body] [tag
مباحثہ ہریال تحصیل شکر گڑھ ۔ یہ مباحثہ دو مضمونوں پر تھا پہلا مضمون >کیا وید الہامی کتاب ہے< اور دوسرا مضمون >کیا قرآن مجید الہامی کتاب ہے<۔ تھا پہلے مضمون میں مہاشہ محمد عمر صاحب اور دوسرے میں ملک عبدالرحمن صاحب خادم مناطر تھے۔ آریہ سماج کی طرف سے پنڈت ستیہ دیو آریہ سماجی پیش ہوئے۔ ۳۴۵
مباحثہ مومیونوال ضلع جالندھر ۔ مولوی محمد یار صاحب عارف نے ختم نبوت کے موضوع پر مباحثہ کیا۔۳۴۶
20] [pمباحثہ پاک پٹن ۔ )احمدی مناظر غلام احمد خاں ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ پاک پٹن اور غیر احمدی مناظر حکیم عبدالعزیز صاحب تھے اور مسئلہ زیر بحث حیات و وفات مسیح ناصری علیہ السلام(۳۴۷
مباحثہ لائل پور ۔ )مابین مولانا ابو العطاء صاحب فاضل و پنڈت کالی چرن صاحب و مہاشہ چرنجی لال صاحب پریم(۳۴۸
مباحثہ امرال ضلع سیالکوٹ۔)مابین مولوی ظہور حسین صاحب و مولوی محمد شفیع صاحب موضوع بحث وفات مسیح اور صداقت مسیح موعودؑ تھے(۔۳۴۹
مباحثہ امرت سر ۔ اس مباحثہ کے دو موضوع تھے۔ >کیا وید ایشور کا گیان ہے<۔ دوسرا >کیا قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے<۔ پہلے میں مولوی مہاشہ محمد عمر صاحب اور پنڈت دھرم بھکشو مناظر تھے۔ دوسرے میں مولوی علی محمد صاحب اور پنڈت دھرم بھکشو صاحب۔۳۵۰
مباحثہ ماڑی بچیاں ضلع گورداسپور ۔ )مولانا ابو العطاء صاحب فاضل اور مولوی محمد امین صاحب واعظ کے درمیان ہوا۔ موضوع بحث یہ تھا۔ >کیا حضرت مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰؑ کو یوسف نجار کا بیٹا قرار دیا ہے(۔۳۵۱
مباحثہ گوجرانوالہ ۔ )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل اور مولوی نور حسین صاحب اہلحدیث گرجاکھی زیر صدارت حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ(۳۵۲
مباحثہ پٹھانکوٹ ۔ اس مباحثہ کا موضوع صداقت مسیح موعودؑ تھا جو ۲۴ ۔ ۲۵ نومبر ۱۹۲۸ء کو چار اجلاسوں میں تھا۔ پہلے اجلاس میں مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور مولوی کرم دین صاحب ساکن بھیں مناظر تھے۔ دوسرے اجلاس میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور حافظ محمد شفیع صاحب تیسرے اور چوتھے اجلاس میں بھی مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مناظر رہے۔ مگر غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری پھر مولوی کرم دین صاحب ساکن بھیں پیش ہوئے تھے۔۳۵۳
مباحثہ گجرات ۔ )ملک عبدالرحمن صاحب خادم اور آریہ سماجی مناظر پنڈت کالی چرن صاحب کے درمیان۔۳۵۴
2] mrl[حواشی )پہلا باب(
۱۔
اس سلسلہ میں ابتدائی تعارف کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۵ ۔ ۶۲۶
۲۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۳۰
۳۔
الفضل ۳۱ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱۔۲
۴۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۵ ۔ ۶۲۶
۵۔
اسی بناء پر سیاسی لیڈروں نے یہاں تک کہا کہ کمیشن میں کسی ہندوستانی کو شامل نہ کر کے ہندوستانیوں کی ہتک کی گئی ہے حالانکہ جب کمیشن صرف برطانوی حکومت کی پارلیمنٹ کے ممبروں پر مشتمل تھا تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ برطانیہ نے اپنے ارکان کا نام اس سے الگ کر کے اپنے ارکان کی توہین کا ارتکاب کیا ہے۔
۶۔
پنجاب کے کانگریسی لیڈر لالہ لاجپت رائے نے مرکزی اسمبلی میں ان دنوں بائیکاٹ کی تائید میں ایک ہنگامہ خیز تقریر کی جس سے ہندو قوم کی سیاست کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ انہوں نے ایک طرف تو کہا کہ >ہندوستان کے مسائل اتنے وسیع اور پیچیدہ ہیں کہ اگر دیوتا لوگ بھی سورگ )بہشت( سے اتر کر یہاں آئیں تو وہ انہیں سمجھ نہیں سکیں گے۔<۔ دوسری طرف کہا >اگر انگریز ہندوستان سے چلے جائیں تو میرے خیال میں موجودہ قانون سے زیادہ انارکی و فساد۔ خرابی پیدا نہیں ہوگی<۔ تیسری طرف کہا >میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کا سوال ایسا نہیں کہ جس کا فیصلہ ایک کمیشن کر سکتا ہے بلکہ اس کا فیصلہ گفتگوئے مصالحت اور سمجھوتہ سے ہو سکتا ہے<۔ )اہلحدیث ۲۴ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۳( اس رویہ کا اس کے سوا کیا مقصد ہو سکتا تھا کہ انگریز اس ملک کی باگ ڈور ہندو اکثریت کو دے کر رخصت ہو جائین۔ اور اگر وہ ان مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو کانگریس سے مصالحت اور سمجھوتہ کر کے حل کر سکتے ہیں اسے کمیشن کے ذریعہ ہندوستان کی تمام جماعتوں اور افراد سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔
۷۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ نے متحدہ ہندوستان میں ہمیشہ ہی مخلوط انتخاب کی مخالفت کی ہے۔ اور جداگانہ انتخاب کو مسلمانوں کی قومی زندگی کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ بمبئی کے اخبار >خلافت< نے اسے ایک کارنامہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ >قادیانیوں کو خواہ کافر کہا جائے خواہ مرتد اور سچی بات یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو ان سے اصولی اختلافات بھی ہیں لیکن ان کو اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہئے کہ ان عام اور مشہور اختلافات کے باوجود انہوں نے یہ کبھی نہیں کیا کہ تخصیص نشست چاہی ہو یا مشترک انتخاب کا مطالبہ کیاہو- حالانکہ اگر وہ چاہتے تو اپنے سرکاری اثر و نفوذ کے سبب ایسا کر سکتے تھے۔ ان کا یہ کارنامہ تاریخ اپنے اندر محفوظ رکھے گی۔ اور انہیں ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد کرے گی<۔ )اہلحدیث ۲۹ / جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۵(
۸۔
>مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت< الفضل ۱۶ / دسمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۸۔
۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء میں صیغہ ترقی اسلام کی رپورٹ میں اس کی تفصیلات بایں الفاظ ملتی ہیں >مجھے اس ٹریکٹ کا ذکر خاص طور پر کر دینا چاہئے جو سائمن کمیشن کے ورود ہندوستان سے قبل مسلمانان ہند کے مفاد کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے لکھا۔ اور صیغہ ترقی اسلام نے پندرہ ہزار کی تعداد میں اردو میں ہندوستان کے تمام حصوں میں بکثرت شائع کیا۔ اور علاوہ ازیں دو ہزار کی تعداد میں یہی مضمون چھپوا کر وائسرائے` تمام صوبوں کے گورنروں چیف کمشنروں` اور ڈپٹی کمشنروں کے علاوہ افسران پولیس` اعلیٰ عہدیداران میڈیکل ڈیپارٹمنٹ` انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ وغیرہ غرض حکومت کے ہر طبقہ کے اعلیٰ افسروں کے نام بھیجا گیا۔ اسی رسالہ کا اثر تھا کہ سائمن کمیشن کے ورود ہندوستان پر مسلمانان ہند نے ہڑتال نہ کی<۔ )صفحہ ۲۱۲ ۔ ۲۱۳(
۱۰۔
>مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۱۸ )از محمد مرزا دہلوی(
۱۱۔
>ذکر اقبال< صفحہ ۱۳۷ )از عبدالمجید سالک(
۱۲۔
مولوی ظفر علی خان صاحب سائمن کمیشن سے بائیکاٹ کرنے کے خیال میں جس قدر متشدد اور غالی ہوگئے تھے اس کا اندازہ آپ کی ایک تقریر سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے ایک تبلیغی کانفرنس میں کی۔ اخبار تیج )دہلی( کا نامہ نگار لکھتا ہے۔ >آپ تقریر کر رہے تھے جس میں آپ نے سائمن کمیشن کے مقاطعہ کا دو مرتبہ تذکرہ کیا۔ اور دونوں مرتبہ صدر نے آپ کو ٹوکا آپ سے کہا گیا کہ تبلیغی کانفرنس کا سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں ہے اس پر مولانا نے طنزاً کہا کہ ایک غلام ملک میں کوئی تبلیغ نہیں ہو سکتی ہے صاحب صدر نے دوسری مرتبہ مداخلت کی تو مولانا نے حاضرین سے درخواست کی کہ وہ پنڈال کو خالی کر دیں<۔ اخبار >انقلاب< نے اس رپورٹ پر لکھا >اس کا مطلب یہ ہے کہ انگریزی حکومت کے تسلط کے بعد سے اب تک تبلیغ کی جتنی انجمنیں بنیں اور انہوں نے جو کام کیا وہ از سر تا پا غلط تھا۔ مولانا محی الدین احمد قصوری اور مولانا محمد عبداللہ صاحب کی جمعیت دعوۃ و تبلیغ عبث ہے مولانا محمد علی صاحب ایم۔ اے کینٹ تاجر چرم بمبئی نے اپنی کمائی میں سے جو ستر اسی ہزار روپیہ اس کام پر صرف کیا وہ بالکل لاحاصل ضائع ہوا۔ میر غلام بھیک صاحب نیرنگ گذشتہ چار پانچ سال سے جو محنت و مشقت برداشت کرتے رہے اور کر رہے ہیں وہ بیکار تھی اسی لئے کہ یہ سب کچھ ایک غلام ملک میں ہوا۔ پھر قادیانی احمدیوں کی انجمن لاہوری احمدیوں کی انجمن دوسری صدہا تبلیغی انجمنیں خواجہ کمال الدین ووکنگ مشن غرض تمام ادارے اور نظام فضول تھے۔ فضول ہیں اور انہیں جلد سے جلد بند کر دینا چاہئے<۔ )انقلاب ۲۶ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۳(
۱۳۔
عبدالمجید سالک >سرگزشت< میں لکھتے ہیں۔ اس مقاطعہ کو موثر بنانے کے لئے کانگریس کی پوری مشینری حرکت میں آگئی۔ انقلاب کا رویہ یہ تھا کہ سائمن کمیشن سے مقاطعہ بالکل مناسب ہے<۔ )صفحہ ۲۴۷(
۱۴۔
بحوالہ الفضل ۱۰ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۱ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۳-۴(
۱۵۔
ایضاً
۱۶۔
>سرگزشت< صفحہ ۲۴۹ ۔
۱۷۔
بحوالہ الفضل ۹ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس حق تلفی پر الفضل ۲۹ / مئی ۱۹۲۸ء میں ایک اہم مضمون بھی سپرد قلم فرمایا تھا۔ اور مسلمانوں کو اس کے تدارک کے لئے قیمتی مشورے دئیے تھے جسے اخبار انقلاب نے بھی ۲ / جون ۱۹۲۸ء کو شائع کیا۔ حضور نے تجویز پیش فرمائی تھی کہ اس صورت حال پر غور کرنے کے لئے مختلف الخیال لوگوں کا ایک جلسہ کیا جائے جس میں کونسل اور مقتدر اسلامی اخبارات کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ اخبار انقلاب )۸ / جون ۱۹۲۸ء( نے اس سے اتفاق رائے کرتے ہوئے لکھا۔ >مرزا صاحب کو چاہئے کہ وہ خود اپنے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھا کر ایسا جلسہ جلد سے جلد منعقد کرنے کی سعی فرمائیں<۔
۱۹۔
الفضل ۲۹ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۳
۲۰۔
الفضل ۲۰ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۲۱۔
الفضل ۲۳ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۲۲۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۹۹
]1h [tag۲۳۔
الفضل ۱۷ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۔۶
۲۴۔
اخبار >تنظیم< )امرت سر( ۲۸ / فروری ۱۹۲۸ء بحوالہ الفضل ۸ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۸
۲۵۔
>فرقان< دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۵۵ )مضمون مولوی عبدالمالک خان صاحب مربی سلسلہ احمدیہ مقیم کراچی(
۲۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۲۹
۲۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۵۳
۲۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۵۳ ۔ ۲۵۴
۲۹۔
الفضل ۶ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۳۰۔
سورۃ نور ع ۴ ۔ آیت ۳۱
۳۱۔
اخبار >مصباح< )قادیان( یکم اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۵۔۱۶
۳۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴۔۵ و >الفضل< ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷(
۳۳۔
الفضل ۱۶ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۳۴۔
الفضل ۱۷ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۷
۳۵۔
دراصل اس مشاورت کے سامنے مرکز میں زنانہ ہوسٹل کے قیام کی تجویز زیر غور تھی۔ حضور نے اس تجویز کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے مندرجہ بالا تحریک فرمائی بعض نمائندوں کی رائے تھی کہ حضرت ام المومنینؓ کی طرف سے زنانہ ہوسٹل کے چندہ کی اپیل ہو اور عورتیں چندہ دیں۔ مگر حضور نے اسے سختی سے رد کردیا۔ اور فرمایا۔ >یہ اپیل میری طرف سے ہو اور مرد چندہ دیں اگر یہ چندہ عورتوں پر رکھا گیا تو یہ بات آئندہ ہماری ترقی میں حائل ہو جائے گی اور ہمارے گھروں کا امن برباد کر دے گی۔ اور یہ احساس پیدا ہوگا کہ مرد عورتوں کے لئے کچھ نہیں کر رہے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں اس قسم کا احساس اپنی جماعت کی عورتوں میں پیدا کرنا پسند نہیں کرتا۔ ہم خود اپنے چندہ سے عورتوں کی تعلیم کا انتظام کریں گے اور اس کے لئے ایک پیسہ بھی عورتوں سے نہ مانگیں گے<۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۶۱(
۳۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۹ تا ۶۰
۳۷۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۹
۳۸۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رپورٹ مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵۳ تا ۱۵۵
۳۹۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۸ ۔ ۶۹
۴۰۔
مثلاً کمیشن نے ہر کاغذ نمبر دے کر شامل مسل نہیں کیا۔ بعض کارکنوں کے خلاف اس نے ایک رائے قائم کی۔ مگر ان کو جواب دہی کا موقعہ نہیں دیا وغیرہ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۱۔۱۲( کمیشن کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنی اٹھارہویں سفارش میں نادانستہ طور پر ایک ایسی تجویز پیش کی جس پر براہ راست منصب خلافت پر زد پڑتی تھی۔ اور اس کے ادب و احترام کے سراسر منافی تھی اس سفارش کی تفصیل اور اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا مفصل فیصلہ ۱۹۳۰ء کے حالات میں آئے گا۔
۴۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۹۔۱۲
۴۲۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۲۔۱۳
۴۳۔
>بشارات رحمانیہ< )مولفہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل( حصہ اول صفحہ ۲۰۲ ۔ ۲۰۳
۴۴۔
الفضل ۱۳ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم۳
۴۵۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۵۶۸ ۔ ۵۶۹ پر تبلیغ اسلام سے متعلق اس عہد کا ذکر آ چکا ہے۔
۴۶۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۳۸ ۔ ۱۴۳
۴۷۔
الفضل ۸ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و ۱۵ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۴۸۔
روزنامہ >ملت< لاہور مورخہ ۱۹ / مارچ ۱۹۵۴ء بحوالہ الفضل ۲ / اپریل ۱۹۵۴ء صفحہ ۵ کالم ۱۔۲
۴۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۲۰۔۱۹۱۹ء صفحہ ۵۹
۵۰۔
رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۲۰۔۱۹۱۹ء صفحہ ۵۹ ۔ ۶۰
۵۱۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء
۵۲۔
چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ و گیمبیاکا بیان ہے کہ مبلغین کلاس کا مدرسہ احمدیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا اس کلاس کی پڑھائی حضرت حافظ صاحب کے مکان میں بھی اور مسجد اقصیٰ میں بھی ہوا کرتی تھی کوئی میز کرسی وغیرہ نہ ہوا کرتا تھا<۔
۵۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء میں لکھا ہے >ساتویں جماعت سے اوپر یعنی مولوی فاضل کی دونوں جماعتیں جو پہلے مدرسہ کے ساتھ ہوا کرتی تھیں اب کالج میں منتقل کر دی گئی ہیں۔۔۔۔۔۔ ۴۲ لڑکے کالج کی طرف منتقل ہوئے ہیں )صفحہ ۲۱۰(
۵۴۔
بعض اصحاب کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی اور حضرت مولوی محمد دین صاحب بھی اس میں رہتے رہے ہیں۔
۵۵۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۸ء جامعہ احمدیہ کے یہ اولین اساتذہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اور تاریخ احمدیت میں ان بزرگوں کا کئی بار تذکرہ آ چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا۔ یہاں مختصراً یہ بتانا مناسب ہوگا۔ )۱( ضیغم احمدیت حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب ۱۰ / ستمبر ۱۸۷۳ء کو پیدا ہوئے۔ ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء سے قبل حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی اور اپریل ۔ مئی ۱۹۰۱ء میں مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے یکم مئی ۱۹۰۱ء سے سلسلہ کی باقاعدہ ملازمت اختیار کی اور تعلیم الاسلام ہائی سکول اور پھر مدرسہ احمدیہ میں لمبے عرصہ تک عظیم الشان تعلیمی و تربیتی خدمات بجا لانے کے بعد جامعہ احمدیہ کے پرنسپل بنے )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو >اصحاب احمد< جلد ۵ ہر سہ حﷺ مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان دارالامان۔
)۲( عبدالکریم ثانی حضرت حافظ روشن علی صاحب کے سوانح تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۱۶۸ و ۱۶۹ میں مندرج ہیں جامعہ احمدیہ میں منتقل ہونے سے قبل آپ جماعت مبلغین کے نگران تھے۔
)۳( حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری ۱۳ / اپریل ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے اور ۲۸ / جنوری ۱۹۰۹ء سے مستقل طور پر دیار حبیب میں آگئے۔ یہاں حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ آپ تفسیر` حدیث` فقہ` منطق` فلسفہ` صرف و نحو اور ادب عربی کے نہایت بلند پایہ عالم تھے۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب و ملفوظات کے تو گویا حافظ تھے۔
)۴( حضرت میر محمد اسحاق صاحب )خلف الصدق حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ( ۸ / ستمبر ۱۸۹۰ء کو بمقام لدھیانہ پیدا ہوئے غالباً ۱۸۹۴ء کے بعد سے قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اور >الدار< میں قیام کا شرف حاصل ہوا۔ بچپن سے ۱۸ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعودؑ کے روز و شب کے حالات مشاہدہ کئے اور آخر دم تک قریباً اسی طرح ذہن میں محفوظ رہے کئی سفروں میں ہمرکاب ہونے کا فخر حاصل کیا۔ آخری بیماری کی ابتداء سے وصال تک حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کے پاس رہے حضور علیہ السلام نے متعدد مرتبہ آپ سے لوگوں کے خطوط کے جوابات لکھوائے۔ اور حقیقتہ الوحی کا مسودہ بھی۔ حضور نے اپنی کتابوں میں بیسیوں دفعہ آپ کا ذکر فرمایا۔ بہت سے نشانوں کے عینی گواہ اور مورد بھی تھے۔ بے قاعدہ اور باقاعدہ طور پر حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب` مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل سے عربی علوم پڑھے ۱۹۱۰ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا ۱۹۱۲ء میں صدر انجمن کی ملازمت میں آئے۔ جامعہ احمدیہ کے قیام سے قبل مدرسہ احمدیہ میں مدرس تھے۔ )رسالہ جامعہ احمدیہ سالنامہ صفحہ ۷۴( جامعہ میں آپ اپنے مفوضہ نصاب پڑھانے کے علاوہ ہمیشہ طلباء میں خاص اہتمام سسے تقریر کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے جامعہ احمدیہ اور مہمان خانہ میں تقریر کراتے اور بیرونی مقامات میں جلسوں اور مناظروں میں لے جاتے جس سے ان میں تقریر کی غیر معمولی قوت پیدا ہو جاتی تھی۔
]h1 [tag۵۶۔
یاد رہے کہ اس جلد میں جامعہ احمدیہ سے متعلق حالات تقسیم ہند ۱۹۴۷ء تک لکھے گئے ہیں بعد کے واقعات پاکستانی دور کی تاریخ میں آئیں گے۔
۵۷۔
۱۸۹۴ء میں مہمند قبیلہ کے ایک ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم پشاور کی بعض درسگاہوں میں پائی دریں اثناء صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب احمدی ساکن بازید خیل ضلع پشاور کے حلقہ درس میں آپ کو شمولیت کا موقعہ ملا۔ اور آپ اسی اثر کے ماتحت مارچ ۱۹۱۰ء کے سالانہ جلسہ پر قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفہ اولؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی ۱۹۱۷ء میں آپ نے مدرسہ احمدیہ سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا جون ۱۹۱۸ء میں مدرسہ احمدیہ میں استاد مقرر ہوئے ۱۹۲۹ء میں ترقی پاکر جامعہ احمدیہ میں منتقل ہوئے اور تعلیمی و تربیتی فرائض ادا کرنے کے بعد ۱۹۴۹ء میں بطور پروفیسر تعلیم الاسلام کالج میں منتقل ہوئے )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو >جامعہ احمدیہ< سالنامہ نمبر صفحہ ۷۴ و اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۴۹ تا ۵۵۔
۵۸۔
کھیوا تحصیل چکوال ضلع جہلم آپ کی جائے پیدائش ہے آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولوی عبدالرحمن صاحب اور جناب مولوی محمد خلیل الرحمن صاحب بھیروی اور مولوی فضل الٰہی صاحب سے پائی پھر چند سال مدرسہ احمدیہ میں دینیات کا علم حضرت قاضی سید امیر حسین صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب سے حاصل کیا۔ معقولات سے متعلق علامہ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب سے شرف تلمذ حاصل کیا ۱۹۲۷ء میں بمقام شملہ قرآن مجید حفظ کیا اور حافظ و قاری محمد یوسف صاحب سہارنپوری کو سنایا۔
۵۹۔
یہ حضرت خلیفہ اولؓ کے قابل شاگردوں میں سے ہیں >تسہیل العربیہ< )کا عربی اردو حصہ( اور ترجمہ >مفردات امام راغب< آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں
۶۰۔
ان کے علاوہ ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کچھ عرصہ تک طب کی تعلیم دیتے رہے حافظ فتح محمد صاحب قاری جامعہ احمدیہ قادیان کے آخری دور میں معلم تجوید رہے اور سید احمد صاحب فزیکل انسٹرکٹر۔
۶۱۔
قرآن مجید سورۃ آل عمران آیت ۱۰۵
۶۲۔
قرآن مجید سورۃ التوبتہ آیت ۱۲۲
۶۳۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ - ۷
۶۴۔
حضور ایدہ اللہ نے اس سال ۲۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے اعزاز میں دی گئی ایک پارٹی میں دوبارہ جامعہ احمدیہ میں تشریف لائے۔ اور طلباء جامعہ احمدیہ کو پرزور تلقین فرمائی کہ وہ مختلف موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھیں اس سے نہ صرف ان کی علمی ترقی ہوگی اور جامعہ احمدیہ کو تقویت پہنچے گی بلکہ جماعت احمدیہ کی شہرت دوبالا ہو جائے گی )ملخصا از الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ تا ۷(
۶۵۔
الفضل ۴ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰
۶۶۔
الفضل ۲۸ / جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ اس حادثہ کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔
۶۷۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۳
۶۸۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۳
۶۹۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۱۲ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔۱۹۳۱ء صفحہ ۴۶
۷۰۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۱۔۱۹۳۰ء صفحہ ۲۶۔ اس لائبریری کے ۱۹۴۷ء تک وقتاً فوقتاً کئی پروفیسر نگران رہے مثلاً حافظ مبارک احمد صاحب۔ شیخ محبوب عالم صاحب خالد۔ لائبریری میں ۱۹۴۷ء تک گاہے گاہے جو اخبارات و رسائل منگوائے گئے ان کی فہرست حسب ذیل ہے۔ انقلاب )لاہور( پیغام صلح )لاہور( ام القریٰ )مکہ مکرمہ( ماہنامہ ادبی دنیا )لاہور( عالمگیر۔ ریویو آف ریلیجنز اردو انگریزی )قادیان( معارف )اعظم گڑھ( میگزین تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان۔ نیرنگ خیال )لاہور( الضیاء نہر ہائی عربی۔ اہلحدیث )امرت سر( احسان )لاہور( پرتاپ )لاہور( ہمایوں )لاہور( الاستقلال عربی )ارجنٹائن( روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ )لاہور( اخبار ریاست )دہلی( فرقان )قادیان(
۷۱۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔۱۹۳۱ء صفحہ ۴۴۔۴۶
۷۲۔
الفضل ۱۳ / دسمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۔ تفصیل ۱۹۳۲ء کے حالات میں آئے گی۔
۷۳۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔۱۹۳۲ء صفحہ ۳۴
۷۴۔
الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۳۴ء
۷۵۔
۱۹۴۷ء تک مندرجہ ذیل اصحاب مختلف اوقات میں ہوسٹل جامعہ احمدیہ کے سپرنٹنڈنٹ رہے۔ سردار مصباح الدین صاحب۔ شیخ محبوب عالم صاحب خالد صاحبزادہ مولوی ابوالحسن صاحب قدسی۔ مولوی ارجمند خان صاحب۔
۷۶۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۵۔۱۹۴۴ء صفحہ ۳۵ ۔ اسی کلاس سے مولوی بشیر احمد صاحب )حال مبلغ و امیر کلکتہ( نے سنسکرت کا نصاب پاس کیا۔
۷۷۔
گو جامعہ احمدیہ کا افتتاح مئی ۱۹۲۸ء میں ہوا مگر جیسا کہ جامعہ احمدیہ کے قدیم ریکارڈ )رجسٹر داخل خارج طلبہ( سے ثابت ہے طلبہ کا داخلہ ۱۹ / نومبر ۱۹۲۷ء سے شروع کر دیا گیا تھا تا نئے تعلیمی سال یکم مئی ۱۹۲۸ء سے باقاعدہ جامعہ احمدیہ کا اجراء ہو سکے۔
۷۸۔
صحیح تاریخ ولادت ۱۶ / نومبر ۱۹۰۹ء
۷۹۔
مولوی فاضل کے امتحان میں اول آئے تھے۔
۸۰۔
صحیح تاریخ ولادت ۱۱ جنوری ۱۹۱۳ء
۸۱۔
۱۹۳۳ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔
۸۲۔
آپ پہلی بار ۱۹۲۹ء میں داخل جامعہ ہوئے مگر دو سال کے لئے چلے گئے۔ اور دوبارہ داخلہ ۱۹۳۱ء میں لیا۔
۸۳۔
امتحان مولوی فاضل میں دوم آئے۔
۸۴۔
جامعہ احمدیہ کے قدیم ریکارڈ سے ماخوذ۔ مفصل فہرست شاگردان حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم میں موجود ہے۔ البتہ اس میں ملک غلام فرید صاحب کا نام سہواً لکھا گیا ہے۔
۸۵۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۴۰۔۱۹۳۹ء صفحہ ۱۲۱۔۱۲۲ و رپورٹ سالانہ ۴۳۔۱۹۴۲ء صفحہ ۲۰ و رپورٹ سالانہ ۴۵۔۱۹۴۴ء صفحہ ۳۶۔
۸۶۔
پنجاب یونیورسٹی کے امتحان مولوی فاضل میں اول رہے۔
۸۷۔
مولانا ابوالعطاء صاحب کے پرنسپل بننے سے چند ماہ قبل خان صاحب مولوی ارجمند خان صاحب قائم مقام پرنسپل کے فرائض انجام دیتے رہے۔
۸۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۸۔۱۹۴۷ء صفحہ ۱۵
۸۹۔
>فاروق< ۶ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و فاروق ۱۳ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۹۰۔
الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲ )تقریر سالانہ جلسہ ۱۹۲۷ء(
۹۱۔
الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷ / اپریل ۱۹۲۸ء(
۹۲۔
الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲
۹۳۔
الفضل ۵ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۹۴۔
یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کہ منشی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر >پیسہ اخبار< لاہور نے اپنی کتاب >اسلامی سائیکلوپیڈیا< میں ۱۲ / ربیع الاول کی مجالس میلاد النبی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا۔ >مرزا غلام احمد قادیانی جو مسیح موعود ہونے کے مدعی تھے ان کے پیرو اس روز خاص جلسہ کیا کرتے ہیں جس سے ان کا مدعا اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ آج کے دن نبی~صل۱~ نے وفات پائی ہے۔ مگر نبوت نے وفات نہیں پائی نبی ہمیشہ آتے رہیں گے چنانچہ ایک نبی مرزا صاحب بھی آ چکے ہیں<۔ )حصہ اول صفحہ ۱۳۱(
۹۵۔
تعجب کی بات یہ تھی کہ پہلی تاریخ بدلنے کا سوال اہلسنت و الجماعت کے بعض اصحاب میں پیدا ہوا حالانکہ اس دن لیکچر دینے والوں میں کئی شیعہ حضرات نے بھی نام لکھوایا تھا اور جلسہ کو کامیاب بنانے میں ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی تھی اور گو کسی شیعہ کو شہیدان کربلا کے دردناک حالات کے ساتھ سیرت رسولﷺ~ پر روشنی ڈالنے سے اعتراض نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر حضور نے محض اس وجہ سے کہ محرم کے دنوں میں فسادات رونما ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور حکومت امن و امان کی بحالی کے لئے بعض جگہ جلسوں کی ممانعت کر دیتی ہے۔ ۱۷ / جون کا دن جلسوں کے لئے مقر فرما دیا۔ )الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶(
۹۶۔
الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء۔
۹۷۔
الفضل ۴ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸
۹۸۔
]h2 [tagرپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۵
۹۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۵
۱۰۰۔
الفضل ۳ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ و رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۷
۱۰۱۔
مثلاً حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت میر محمد اسماعیل صاحب` حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب۔ حضرت مولوی ذوالفقار علی صاحب` حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی۔ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب۔ مولوی عبدالحمید صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ دہلی شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر۔ حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب سابق سردار جگت سنگھ۔ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل۔ قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری۔ مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری۔ خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر >الفضل<۔
tav.5.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا پندرھواں سال
۱۰۲۔
مثلاً فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک کرم الٰہی صاحب ضلع دار۔ مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ ایڈیٹر الفضل۔ سکنیتہ النساء بیگم صاحبہ قادیان۔ نسیم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کیمبل پور۔ عزیزہ رضیہ صاحبہ اہلیہ مرزا گل محمد صاحب۔ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر گوہر الدین صاحب مانڈلے برما۔ امتہ الحق صاحبہ بنت حضرت حافظ روشن علی صاحب۔
۱۰۳۔
مثلاً حکیم برہم صاحب ایڈیٹر اخبار >مشرق< گورکھپور۔ جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی ایڈیٹر >منادی<۔
۱۰۴۔
لالہ دنی چند صاحب ایڈووکیٹ انبالہ۔
۱۰۵۔
بعض نعت لکھنے والے حضرت منشی قاسم علی صاحب رامپوری۔ مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ۔ حضرت خان صاحب مولوی ذوالفقار علی خان صاحب۔ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر بی۔اے۔ ایل ایل بی وکیل کپورتھلوی۔
h1] ga[t۱۰۶۔
اخبار >مشرق< )گورکھپور( نے اس نمبر پر یہ ریویو کیا کہ >اس میں حضرت رسول کریم~صل۱~ کے سوانح حیات و واقعات نبوت پر بہت کثرت سے مختلف اوضاع و انواع کے مضامین ہیں اور ہر مضمون پڑھنے کے قابل ہے ایک خصوصیت اس نمبر میں یہ ہے کہ ہندو اصحاب نے بھی اپنے خیالات عالیہ کا اظہار فرمایا ہے جو سب سے بہتر چیز ہندوستان میں بین الاقوامی اتحاد پیدا کرنے کی ہے دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مردوں سے زیادہ عورتوں نے اپنے پیغمبر کے حالات پر بہت کچھ لکھا ہے<۔ )۲۱ / جون ۱۹۲۸ء )بحوالہ الفضل ۳ / جولائی ۱۹۲۸ء( صفحہ ۳ کالم۳(
۱۰۷۔
یہ تینوں باتیں غلط تھیں اور واقعات نے ان کا غلط ہونا ثابت کر دیا )۱( مولوی ابوالکلام صاحب آزاد ڈاکٹر کچلو صاحب۔ ڈاکٹر مختار صاحب انصاری اور سردار کھڑک سنگھ صاحب جیسے کانگریسی لیڈر یا تو بعض جلسوں کے پریذیڈنٹ ہوئے یا اس کے داعی بنے جس سے ظاہر ہے۔ کہ حکومت کے ساتھ اس تحریک کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ )۲( ان جلسوں پر جماعت احمدیہ کا پندرہ ہزار کے قریب روپیہ صرف ہوا۔ لیکن جماعت نے کسی ایک پیسہ کا بھی چندہ نہ مانگا البتہ لکھنئو اور کئی دوسرے مقامات میں مسلمانوں نے خود جلسہ کے انعقاد کے لئے رقوم بھیجیں جو انہیں کے انتظام کے ماتحت اس کام پر خرچ ہوئیں )۳( سارے ہندوستان میں منعقد ہونے والے جلسوں میں سے صرف ایک تقریر کے متعلق کہا گیا کہ اس میں احمدیت کی تبلیغ کی گئی مگر وہ تقریر بھی ہندوئوں کے خلاف تھی۔ پھر ان جلسوں میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری` حیدر آباد دکن کے صدر الصدور مولوی حبیب الرحمن خان صاحب شروانی` علماء فرنگی محل اور جناب ابوالکلام صاحب آزاد کا کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لینا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں ایسے جلسوں میں احمدیت کے مخصوص عقائد کی تبلیغ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ )الفضل ۲۴/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۔۶ کالم۲۔۳(
۱۰۸۔
چنانچہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے خود اقرار کیا کہ >ان جلسوں میں میاں صاحب کے ساتھ ہم نے اشتراک عمل نہیں کیا<۔ )پیغام صلح یکم ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲( اس کے مقابل ان کا گذشتہ طرز عمل یہ تھا کہ انہوں نے ایک عرصہ قبل کانگریس کے لیڈر مسٹر گاندھی کی قیادت میں چلائی ہوئی تحریک خلافت کے ساتھ وابستگی ضروری خیال کی چنانچہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے موجودہ امیر جناب مولوی صدر الدین صاحب کا بیان ہے کہ >میں نے انگریزی راج کے خلاف ہندوستان میں اور خود انگلستان میں متعدد لیکچر دئیے تھے اور سالہا سال تک کانگریس اور تحریک خلافت سے تعاون کرتے ہوئے کھدر پوش بنا رہا<۔ )کامیاب زندگی کا تصور صفحہ ۱۱۲ مولف پروفیسر انورول شائع کردہ مکتبہ جدید لاہور سن طبع اول مارچ ۱۹۶۴ء۔
افسوس ان حضرات کو سیرت النبی~صل۱~ کی عالمگیر تحریک بھی جماعت احمدیہ قادیان سے اتحاد عمل پر آمادہ نہ کر سکی۔ اور بعض غیر مبایعین نے بیان کیا کہ ہمیں انجمن نے ان میں حصہ لینے سے روکا ہے اور دو چار مقامات کے سوا بحیثیت قوم فریق لاہور نے اس کا بائیکاٹ ہی کیا۔ جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس تحریک کے بانی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی تھے اور یہ آواز قادیان سے بلند ہوئی تھی۔ مگر چونکہ غیر مسلموں کو اسلام تک لانے کی موثر ترین صورت یہی تھی جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے تجویز فرمائی تھی اس لئے بالاخر ان کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ کسی موقعہ پر یہ آواز بلند کر دینے سے کہ فلاں شخص نے رسول اللہ~صل۱~ کی شان میں گستاخی کر کے ہمارا دل دکھایا ہے حقیقتاً کوئی اصلاہ نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات اپنے غیظ و غضب کے اظہار سے بڑھ کر اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ان گستاخیوں کا سدباب کرنا ہے اگر اس ملک میں اشاعت اسلام کے لئے کوئی عملی راستہ کھولنا ہے تو اس کے لئے سب سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ آنحضرتﷺ~ کے صحیح حالات کو ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچایا جائے<۔ )پیغام صلح ضمیمہ ۳۰ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم۳(
۱۰۹۔
اخبار مخبر اودھ نے جلسہ لکھنئو کے موقعہ پر آپ کی تقریر کے بارے میں لکھا۔ >پھر مولوی اللہ دتہ صاحب احمدی پلیٹ فارم پر تشریف لائے آپ نے موثر طریقہ سے حضور کی زندگی کا شاندار پہلو دکھایا پرانے خیالات کے بزرگ اور ینگ پارٹی کے نوجوان مسلمان آپ کی تقریر سے نہایت خوش ہوئے۔ آپ نے ثابت کر دیا کہ آنحضرت~صل۱~ دنیا کے لئے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ اور خدا کی رحمت تھے اہل مجلس کی استدعا پر آپ کو مزی وقت دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔ جس روز مولوی اللہ دتہ صاحب لکھنئو سے قادیان تشریف لے جا رہے تھے تو احمدیوں کے علاوہ دیگر فرقوں کے مسلمان بھی اسٹیشن پر موجود تھے جنہوں نے رخصت کے وقت آپ سے مصافحہ کیا< )مخبر اودھ ۲۶ / جون ۱۹۲۸ء بحوالہ الفضل ۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم۳(
۱۱۰۔
h2] gat[کلکتہ کے اخبار >دی انگلشن مین< )۱۸ / جون ۱۹۲۸ء( نے اور >دی امرت بازار پترکا< )۱۹ / جون( نے جلسہ سیرت النبیﷺ~ کلکتہ کی رپورٹ شائع کی جس میں آپ کی تقریر کا بھی ذکر کیا۔ )ملاحظہ ہو الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۱(
۱۱۱۔
آپ نے ۱۷ / جون کا جلسہ ریل گاڑی میں کیا۔ جس کی دلچسپ تفصیل آپ کے الفاظ میں یہ ہے کہ >۱۷ / جون ۱۹۲۸ء کو میں کراچی میں تھا۔ اس دن وہاں کے اس جلسہ میں شریک ہونے کو دل چاہتا تھا۔۔۔۔ مگر مجبوری تھی ٹھہرنا مشکل تھا آخر ۳ بجے کی گاڑی میں سوار ہوگیا اور اپنی سیٹ پر کھڑے ہوکر حضرت رسول کریم~صل۱~ خاتم النبیینﷺ~ کی سیرت پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ جب دوسرا اسٹیشن آیا تو اس کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ میں جا پہنچا اور وہاں لیکچر کر دیا۔ غرضیکہ اسی طرح بفضلہ تعالیٰ سات گاڑیوں میں پہنچ کر ۱۷ / جون کو ۳ بجے سے ۱۲ بجے تک میں نے لیکچر دئیے جن کو ہندو` مسلمان` سکھ` عیسائی غرضکہ ہر طبقہ نے پسند کیا۔ )الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم۱(
۱۱۲۔
ملک فضل حسین صاحب نے جو >بک ڈپو تالیف و اشاعت< کے مینجر کے فرائص سر انجام دے رہے تھے غیر مسلم اصحاب کی بعض تقاریر >دنیا کا ہادی اعظم غیروں کی نظر میں< کے نام سے دسمبر ۱۹۲۸ء میں شائع کر دیں۔
۱۱۳۔
جنوبی ہندوستان میں ایک تھیوسافیکل سوسائٹی کے ذریعہ اسی کے حلقہ اثر کے اندر ۳۰ کے قریب جلسے ہوئے )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۶(
۱۱۴۔
آپ نے تحریک کی افادیت پر روشنی ڈالی اور کہا مین مسٹر سی آر داس کی برسی کے جلسہ کا بھی صدر تھا مگر وہاں اتنی حاضری نہ تھی۔ جتنی یہاں ہے۔
۱۱۵۔
آپ نے کہا کہ میں بہت ضروری کام چھوڑ کر آیا ہوں۔ کیونکہ اس میں شمولیت سب سے ضروری تھی آئندہ بھی اگر ایسے جلسے منعقد ہوں گے تو خواہ کتنا ہی کام مجھے درپیش ہوگا میں اس پر ایسے جلسہ میں شمولیت کو مقدم کروں گا۔ )الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴(
۱۱۶۔
الفضل ۲۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴۔ تفصیل رپورٹوں کے لئے ملاحظہ ہو۔ الفضل ۲۲ / جون` ۲۶ / جون ` ۳/ جولائی ` ۶ / جولائی` ۱۰ / جولائی` ۱۷۔۲۴ جولائی ۱۹۲۸ء۔
۱۱۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۶
۱۱۸۔
ملاحظہ ہو تفسیر حضرت محی الدین ابن عربی سورہ بنی اسرائیل ]nsk1 )[tagزیر آیت عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا(
۱۱۹۔
بحوالہ الفضل ۲۹ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۶
۱۲۰۔
بحوالہ الفضل ۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۱۲۱۔
بحوالہ الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۲
۱۲۲۔
بحوالہ الفضل ۱۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۱
۱۲۳۔
بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۱۲۴۔
مثلاً اخبار ہمدم )لکھنئو( وکیل )امرت سر( مشرق )گورکھپور( کشمیری گزٹ )لاہور( >حقیقت`< خادم المومنین< >منادی< )دہلی( >اردو اخبار< )ناگپور( >پیشوا< اور >حق< ` >مخبر< )اودھ( >توحید< )کراچی( اس کے علاوہ جزوی طور پر غیر مسلم اخبارات نے بھی جلسہ کی رپورٹیں شائع کیں۔ مثلاً اخبار >دی انگلش مین< )کلکتہ( >دی امرت بازار پترکا< )کلکتہ( >انقلاب< )لاہور( >سیاست< )لاہور( >تنظیم< )امرت سر(۔ مقدم الذکر دو اخبارات نے تو جلسوں کے انعقاد سے قبل اس کی افادیت و اہمیت پر زور دار نوٹ لکھئے۔ )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۵ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۹(
۱۲۵۔
روزنامہ >حقیقت< لکھنئو )۲۴ / جون ۱۹۲۸ء( نے علماء کی ذہنیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا۔ >جو لوگ اتفاق کی چلتی ہوئی گاڑی میں روڑا اٹکانا چاہتے ہیں انہیں ان کی رائے مبارک رہے خادمان ملک و ملت کو ان کی آواز پر کان نہیں دھرنا چاہئے<۔ )بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵(
۱۲۶۔
مولوی کفایت اللہ صاحب کے اس عدم تعاون بلکہ صریح بائیکاٹ کے باوجود جلسہ دہلی بہت کامیاب ہوا۔ چنانچہ اخبار >منادی< دہلی )۲۳ ۔ جون ۱۹۲۸ء( نے لکھا کہ >سوا نو بجے رات کو پریڈ کے میدان میں سیرت رسول کی نسبت جلسہ ہوا۔ دس ہزار کا مجمع تھا۔ ہندو مسلمان کی نہایت عمدہ تقریریں ہوئیں جلسہ بہت کامیاب ہوا۔ بارہ بجے تک رہا۔ آج تک دہلی میں کوئی مشترکہ جلسہ ایسی کامیابی سے نہ ہوا ہوگا<۔ )بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷(
۱۲۷۔
بحوالہ الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۱۲۸۔
مضمون چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے۔ مطبوعہ الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴۔۵ سے ماخوذ مع تلخیص۔
۱۲۹۔
الفضل ۲۲ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴ ۔ مقامی جماعت میں سے ملک صاحب کے ساتھ گہرا تعاون کرنے والے حضرات۔ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل` منشی محی الدین صاحب ملتان )سابق مختار عام( چوہدری برکت علی صاحب` ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے۔ بی ٹی۔ چوہدری ظہور احمد صاحب مولوی عطا محمد صاحب اور مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سکائوٹس )الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲(
۱۳۰۔
الفضل ۲۲ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴
۱۳۱۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ اگست ستمبر ۱۹۲۸ء۔
۱۳۲۔
ملاحظہ ہو >ریویو آف ریلیجنز< انگریزی جولائی تا اکتوبر ۱۹۳۲ء۔ ملک صاحب کے قلم سے حضور کے لیکچر >اسلام میں اختلافات کا آغاز< کا انگریزی ترجمہ بھی ریویو آف ریلیجنز میں شائع شدہ ہے۔
۱۳۳۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۰۷۔۲۰۸
۱۳۴۔
دوسرے غیر مسلم مضمون نگاروں کے نام یہ تھے سردار جوند سنگھ صاحب سعد اللہ پور ضلع گجرات پنڈت مہر چند صاحب لدھیانہ` لالہ دنی چند صاہب کپور آنریری پرچارک شادی بیوگان سرہند۔ پنڈت گیانیندر دیو شرما صاحب شاستری گورکھپور` لالہ سرداری لعل صاہب ودوان حجرہ شاہ مقیم منٹگمری۔ سردار جسونت سنگھ دریا رام ضلع ہوشیارپور بابو اتنت پرشاد صاحب بی۔ اے` ایل ایل بی` وکیل وریٹس بھاگلپور۔ یہ مضامین ملک فضل حسین صاحب منیجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے >دنیا کا ہادی اعظم غیروں کی نظر میں< کے نام سے عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ دسمبر ۱۹۲۸ء میں شائع کر دی تھیں۔ ملک صاحب موصوف کی خدمات کا کئی مقام پر ذکر آئے گا لہذا ضمناً یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ملک صاحب نے بکڈپو تالیف و اشاعت صدر انجمن احمدیہ کے مینجر ہونے کی حیثیت سے اس قومی ادارہ کو سالہا سال تک نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالا۔ اور آپ کے زمانہ اہتمام میں سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کی خوب اشاعت ہوئی ہے۔
۱۳۵۔
پیغام صلح ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ )مضمون مولوی محمد علی صاحب پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور(
۱۳۶۔
مولوی محمد علی صاحب۔ ناقل
۱۳۷۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم۱
۱۳۸۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۷
۱۳۹۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۷(
۱۴۰۔
الفضل ۲۶ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۱۴۱۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ کالم ۱۔۲
۱۴۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب >حیات بشیر< طبع اول صفحہ ۲۷۲۔۲۸۳ )مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل مربی سلسلہ احمدیہ( کتاب >نبیوں کا چاند< طبع اول صفحہ ۶۶۔۷۳ )مولفہ فضل الرحمن صاحب نعیم( شائع کردہ اتالیق منزل ربوہ۔
۱۴۳۔
الفضل ۲۰ / نومبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۴۔۵
۱۴۴۔
الفضل ۲۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۲ ۔ الفضل ۱۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۱
۱۴۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں مولوی غلام احمد صاہب بدوملہوی )حال مبلغ گیمبیا( ایک ماہ تک حوالہ جات وغیرہ نکالنے کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر رہے۔
۱۴۶۔
ٹائمز آف انڈیا نے ۲۴ / جون ۱۹۲۸ء کی اشاعت میں آنحضرت~صل۱~ کے حرم پاک کا ذکر نہایت گرے ہوئے الفاظ میں کیا تھا۔ جس پر حضور نے چٹھی لکھی اور اس کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ایس جیسن کو تحریری معذرت کرنا پڑی حضرت اقدس کی چٹھی اور اس معذرت نامہ کا متن الفضل ۲۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ پر شائع شدہ ہے۔
۱۴۷۔
نجران مکہ معظمہ سے یمن کی طرف سات منزل پر ایک وسیع علاقہ کا نام ہے جہاں عیسائیوں کا ایک عظیم الشان کلیسا تھا جس کو وہ کعبہ کہتے تھے اور حرم کعبہ کا جواب سمجھتے تھے۔ تفصیلات معجم البلدان اور فتح الباری میں موجود ہیں۔ )بحوالہ سیرت النبی~صل۱~ حصہ اول جلد دوم صفحہ ۳۷۔۳۸۔ از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی مرحوم(
۱۴۸۔
زاد المعاد ابن قیم~رح~ )بحوالہ سیرت النبیﷺ~ حصہ اول جلد دوم صفحہ ۳۸۔ از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی مرحوم(
۱۴۹۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶
۱۵۰۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۱۔۲
۱۵۱۔
ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کے مشہور لیڈر تھے جو ۱۹۲۷ء میں آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ مسلم حقوق و مطالبات کی نمائندگی کے لئے انگلستان گئے تھے۔
۱۵۲۔
الفضل ۲۱ /جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ تا۷
۱۵۳۔
الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۲
۱۵۴۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۶ کالم ۱۔۲
۱۵۵۔
الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۱۵۶۔
الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱ ۔ حضور قبل ازیں قریباً دو ہفتہ تک ڈلہوزی میں قیام پذیر ہونے کے بعد ۷ / جولائی ۱۹۲۸ء کو قادیان بھی تشریف لے گئے اور ۹ / جولائی ۱۹۲۸ء کو واپس ڈلہوزی آگئے )الفضل ۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۱۵۷۔
الفضل ۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۳
۱۵۸۔
الفضل ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴
۱۵۹۔
جن جماعتوں نے چندہ خاص کے وعدے پورے کر دئیے ان کے نام رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۹۳ پر شائع شدہ ہیں۔
۱۶۰۔
الفضل ۲۴ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲
۱۶۱۔
اخبار >پیغام صلح< لاہور ۱۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۲
۱۶۲۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۴ کالم ۱۔۲
۱۶۳۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔۴
۱۶۴۔
الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲
۱۶۵۔
یہ درس حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نظر ثانی ترمیم و اصلاح اور بہت سے اضافوں کے بعد ۱۹۴۰ء میں تفسیر کبیر جلد سوم کی صورت میں شائع ہوا جس کی تفصیل اگلی جلد میں آ رہی ہے۔
۱۶۶۔
اس وقت تک ابھی مائیکروفون کا استعمال قادیان میں شروع نہیں ہوا تھا۔
۱۶۷۔
الفضل ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲
۱۶۸۔
اس بارے میں پہلا اعلان الفضل ۳ / اپریل ۱۹۲۸ء میں اور دوسرا الفضل ۲۲ / مئی ۱۹۲۸ء میں ہوا۔ اس کے بعد ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء سے ۷ / اگست ۱۹۲۸ء کے الفضل میں۔
۱۶۹۔
الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء تا ۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۷۰۔
مثلاً حافظ عبدالسلام صاحب شملہ` مرزا عبدالحق صاحب بی۔ اے ایل ایل بی گورداسپور` چوہدری عصمت اللہ صاحب وکیل لائلپور۔ منشی قدرت اللہ صاحب سنوری۔ صالح محمد صاحب قصور` نذیر احمد صاحب متعلم بی ایس سی بابو عبدالحمید صاحب شملہ` قریشی رشید احمد صاحب بی۔ ایس سی۔ میرٹھ ۔ بابو فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر کیمل پور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجرات۔ سید محمد اقبال حسین صاحب ہیڈ ماسٹر نور محل` بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ` ماسٹر فقیر اللہ صاحب ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس۔
۱۷۱۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۷۲۔
مولوی ارجمند خان صاحب کی روایت ہے کہ >ایک دفعہ میں نے اختتام درس پر حضرت مولانا )سید محمد سرور شاہ صاحب۔ ناقل( سے عرض کیا آپ لکھنے کی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں۔ آپ کو قرآن مجید کے علوم سے واقفیت اور پورا عبور حاصل ہے آپ نے جواباً فرمایا ایک تو میں حضرت صاحب کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں دوسرے یہ کہ اگرچہ میں حضور کو خلافت سے قبل پڑھاتا رہا ہوں لیکن منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ پر معارف اور حقائق قرآنیہ کا ایسا دروازہ کھولا ہے کہ میرا فہم ان علوم سے قاصر ہے اور میں حضور کا شاگرد ہوں استاد نہیں<۔ )اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۵۴ طبع اول(
h1] ga[t۱۷۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۸۔ >اصحاب احمد< جلد پنجم حصہ سوم صفحہ ۵۴ )مرتبہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان( تاریخ اشاعت ستمبر ۱۹۶۴ء ناشر احمدیہ بکڈپور ربوہ طبع اول۔
۱۷۴۔
دو اڑھائی سو مستورات بھی پردہ میں بیٹھ کر استفادہ کرتی تھیں )الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱(
۱۷۵۔
الفضل ۱۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔۲
۱۷۶۔
الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۱۷۷۔
الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۳
h1] ga[t۱۷۸۔
الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۷۹۔
الفضل ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱
۱۸۰۔
الفضل ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم۱۔۲
۱۸۱۔
الفضل ۱۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۳
۱۸۲۔
افسوس یہ تاریخی فوٹو اب قریباً ناپید ہے اور باوجود تلاش کے >شعبہ تاریخ احمدیت< ربوہ کو اب تک دستیاب نہیں ہو سکا۔ الفضل ۱۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ میں مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور )حال امیر صوبائی مغربی پاکستان( کے قلم سے >درس کے اجتماع کا فوٹو< کے عنوان سے اس فوٹو کا یوں ذکر ملتا ہے کہ >جن دوستوں نے درس کے موقعہ پر فوٹو کی قیمت ادا کی تھی ان کی خدمت میں اطلاعاً عرض ہے کہ وہ اپنی کاپی مولوی عبدالرحمن صاحب مولوی فاضل مدرسہ احمدیہ قادیان سے محصول ڈاک بھیج کر منگوا سکتے ہیں<۔
۱۸۳۔
ولادت ستمبر ۱۸۹۲ء بیعت ۱۹۱۲ء۔ ۱۹۳۲ سے ۱۹۴۲ء تک جماعت احمدیہ نئی دہلی و شملہ کے امیر رہے اور ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک نئی دہلی کی جماعت احمدیہ کے امیر اور مشترکہ جماعت دہلی و نئی دہلی کے نائب امیر کی حیثیت سے خدمات بجا لاتے رہے۔ ۱۹۵۲ء میں پنشن پانے کے بعد زندگی وقف کی اور سالہا سال تک تحریک جدید میں وکیل الدیوان اور وکیل اعلیٰ کے عہدوں پر فائز رہے اور ان دنوں وکیل المال ثانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
۱۸۴۔
الفضل ۱۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۲
۱۸۵۔
الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳ و صفحہ ۷۔۸
۱۸۶۔
الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳ و صفحہ ۷۔۸
۱۸۷۔
الفضل ۱۶۔۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۸۸۔
الفضل ۲۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۸۹۔
h2] ga[tالفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۹۰۔
الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۱۹۱۔
الفضل ۷ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۹۲۔
الفضل ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۱۹۳۔
الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱
۱۹۴۔
الفضل ۲۹ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲
۱۹۵۔
الفضل ۱۶ / جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷
۱۹۶۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۴<۔ مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۱۸۔۱۱۹
۱۹۷۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۲۔۴ )از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ(
۱۹۸۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۴۔
۱۹۹۔
مرزا محمد دہلوی کی کتاب >مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۰۔۱۲۱ سے اس کی مزید تفصیلات کا پتہ چلتا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ >سوال ہوا کہ اس رپورٹ ساز کمیٹی کے مسلم اراکین آخر کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس رپورٹ پر کیوں دستخط کر دئیے اس وقت یہ عقدہ کھلا کہ اس کمیٹی کے دو مسلم ارکان میں سے ایک شعیب قریشی نے >مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حمایت کرتے ہوئے نہایت قابلیت` معقولیت اور جرات کے ساتھ پنڈت موتی لال نہرو کی تجاویز سے اختلاف کیا تھا لیکن جب پندت جی نے ان کو نہ مانا تو وہ پھر کمیٹی کے کسی جلسہ میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ اور فوراً الٰہ آباد سے بمبئی واپس چلے گئے انہوں نے کمیٹی سے اختلاف کرتے ہوئے ایک بیان بھی لکھا تھا لیکن پنڈت موتی لال نہرو نے وہ اختلافی بیان رپورٹ کے ساتھ شائع نہیں کیا اور مولانا کفایت اللہ صاحب اس سے بھی زیادہ صفائی کے ساتھ اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسٹر شعیب قریشی نے ان سے کہا تھا کہ انہوں نے )یعنی شعیب قریشی نے( نہرو رپورٹ پر اپنے دستخط نہیں کئے ہیں لیکن اس کے متعلق انہوں نے اپنے لبوں پر اس لئے مہر سکوت قائم رکھی کہ ایسا نہ کرنے سے رپورٹ کی اہمیت ختم ہو جاتی تھی۔ اور سر علی امام کے متعلق جو اس رپورٹ ساز کمیٹی کے دوسرے مسلم ممبر تھے۔ مولانا کفایت اللہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رپورٹ پر دستخط تو کر دئیے تھے لیکن اسے پڑھا نہ تھا۔ چنانچہ لکھنئو میں جب یہ رپورٹ آل پارٹیز کانفرنس کے اجلاس میں پیش ہوئی تو سر علی امام نے اس کی حمایت میں جو تقریر کی اس کا بڑا حصہ ان تجاویز سے مختلف تھا جو مسلمانوں کے متعلق نہرو رپورٹ میں شائع کی گئی تھیں<۔ )دی کیس آف دی مسلم صفحہ ۴(
۲۰۰۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۴ ۔ ۱۷۵۔
۲۰۱۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۵ ۔ )از سیدناحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ(
۲۰۲۔
>سیاست ملیہ< صفحہ ۲۲۶ )محمد امین زبیری مارہروی( مطبوعہ عزیزی پریس آگرہ مارچ ۱۹۴۱ء صفر ۱۳۶۰ھ
۲۰۳۔
>تحریک آزادی< )مرتبہ انور عارف( صفحہ ۱۸ ناشر انور عارف مالک مطبع ماحول کراچی طبع دوم نومبر ۱۹۵۹ء آپ نے ایک مقام پر مسئلہ اقلیت کی نسبت یہ بھی لکھا ہے۔ >میں ایک لمحہ کے لئے یہ باور نہیں کر سکتا کہ ہندوستان کے مستقبل کے نقشے میں ان اندیشوں کے لئے کوئی جگہ نکل سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ان اندیشوں کا صرف ایک ہی علاج ہے ہمیں دریا میں بے خوف و خطر کود جانا چاہیئے۔ جوں ہی ہم نے ایسا کیا ہم معلوم کرلیں گے کہ ہمارے تمام اندیشے بے بنیاد تھے<۔ >)خطبات ابو الکلام آزاد< طبع اول صفحہ ۳۱۴(
۲۰۴۔
ایضاً صفحہ ۱۱۱۔
۲۰۵۔
ایضاً صفحہ ۱۱۰ و صفحہ ۱۱۲
۲۰۶۔
تحریک آزادی )مرتبہ انور عارف( صفحہ ۱۱۲۔۱۱۳
۲۰۷۔
>خطبات ابو الکلام آزاد< صفحہ ۳۱۹ ناشر ایم ثناء اللہ خاں اینڈ سنز ۲۶ ریلوے روڈ لاہور
۲۰۸۔
ایضاً صفحہ ۳۱۹ ۔ ۳۲۰(
۲۰۹۔
>تاریخ احرار< )از چوہدری افضل حق( صفحہ ۹ طبع اول۔ >سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری< )از جناب شورش کاشمیری( صفحہ ۸۵ طبع اول
۲۱۰۔
مجلس احرار اسلام کا آرگن >آزاد< ۳۱ / جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۹
۲۱۱۔
ایضاً ۱۰ ` ۱۲
۲۱۲۔
ایضاً صفحہ ۱۰
۲۱۳۔
>تاریخ احرار< صفحہ ۲۷ )از چوہدری افضل حق صاحب( ناشر زمزم بک ایجنسی بیرون موری دروازہ لاہور۔
۲۱۴۔
اہلحدیث ۵ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۳
۲۱۵۔
روزنامہ >ہمدم< لکھنئو ۱۴ / نومبر ۱۹۲۸ء
۲۱۶۔
ملاحطہ ہو >اہلحدیث< )امرت سر( ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۵ کالم ۲۔۳ و >اہلحدیث< امرت سر ۵ / اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۳
۲۱۷۔
>تحریک آزادی< )مرتبہ انور عارف( صفحہ ۱۱۳ و >سیرت محمد علی< صفحہ ۴۱۶
۲۱۸۔
تصدق احمد صاحب شروانی ممبر مجلس وضع آئین و قوانین ہند نے انہی دنوں اخبار زمیندار )۲۹ / ستمبر ۱۹۲۸ء( میں لکھا تھا۔ >نہرو رپورٹ کے شائع ہونے اور آل پارٹیز کانفرنس لکھنئو میں اس کے منظور ہو جانے کے بعد بھی اخبارات میں اس کے متعلق مخالف اور موافق متعدد مضامین شائع ہو رہے ہیں جہاں تک میری نظر سے اردو اخبارات گذرے ہیں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی اخبار میں میں نے کوئی تنقید یا تبصرہ اس رپورٹ کے متعلق نہیں دیکھا۔ اجمالی طور پر اس رپورٹ کی موافقت یا مخالفت کی گئی ہے<۔ )بحوالہ الفضل ۵ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم۲(
۲۱۹۔
کتاب >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ<
۲۲۰۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۱۰۔۱۴
۲۲۱۔
چنانچہ مسٹر جناح نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا >ہمیں )کلکتہ لیگ کے بانیوں کو( اس کمرہ میں اکثریت حاصل ہے۔ لیکن کیا ہمیں ملک میں بھی اکثریت حاصل ہوگی؟ )اس پر لوگوں نے کہا۔ ہاں( مسٹر جناح نے کہا کہ میرے لئے اس سے زیادہ کوئی امر خوشکن نہ ہوگا۔ مگر انصاف یہ چاہتا ہے کہ میں اقرار کروں کہ مجھے اس پر اطمینان حاصل نہیں ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت ہماری تائید میں ہے<۔ )سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲/ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ کالم ۳( بحوالہ >مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ صفحہ ۱۶
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کے لئے ایک تہائی نیابت ملنے کی شرط پر مخلوط انتخاب کے حامی ہوگئے تھے۔ لیکن سر شفیع اور ان کے رفقاء نے مسٹر جناح کی اس پالیسی سے اختلاف کیا اور لیگ دو حصوں میں بٹ گئی ایک کے صدر مسٹر جناح اور سیکرٹری ڈاکٹر کچلو اور دوسری کے صدر سر شفیع اور سیکرٹری سر محمد اقبال قرار پائے< >)ذکر اقبال< صفحہ ۱۳۹( حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور جماعت کا تعاون اس مرحلہ پر شفیع لیگ کو حاصل تھا۔
۲۲۲۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< صفحہ ۳۵۔۳۶
۲۲۳۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ<صفحہ ۱۱۶
۲۲۴۔
الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۳ ۔ رورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۵۷
۲۲۵۔
الفضل ۲۰ / اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۸
۲۲۶۔
رپورٹ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۱۔۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰۸
۲۲۷۔
الفضل ۱۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸۔۹
۲۲۸۔
بطور ثبوت ملاحظہ ہو الفضل ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷` ۶ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۰` ۹ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ و صفحہ ۶` ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲` ۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ و صفحہ ۱۰` ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۰` ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷` ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲`۸ ` ۱۸ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۹
۲۲۹۔
سیاست ۳۱ / جولائی ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۹ / اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶
۲۳۰۔
الفضل ۱۴ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۲۔۳ ۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱۔۱۲ و الفضل ۷ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ ۔ الفضل ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸
۲۳۱۔
اقتباس از مکتوب ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے )دفتر تفسیر القرآن انگریزی ٹمپل روڈ لاہور(
۲۳۲۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ طبع اول صفحہ ۱۰
۲۳۳۔
>مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ< طبع اول صفحہ ۱۲
۲۳۴۔
الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۴
۲۳۵۔
جناب عبدالمجید صاحب سالک اور محمد مرزا دہلوی کے نظریہ کے مطابق جناب محمد علی جناح نے چودہ نکات مسلم کنوینشن دہلی کے انعقاد کے بعد پیش کئے جیسا کہ آگے ذکر آ رہا ہے۔
۲۳۶۔
حیات محمد علی جناح صفحہ ۱۷۵ ۔ ۱۷۶
۲۳۷۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۲۵ )از رئیس احمد جعفری( طبع دوم ۱۹۵۰ء
۲۳۸۔
الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ ۔ مسلم لیگی وفد میں شامل دوسرے ممبران میں سے بعض کے نام راجہ صاحب محمود آباد صدر اجلاس` ڈاکٹر سیف الدین صاحب کچلو۔ مسٹر چاگلا۔ ڈاکٹر سید محمود صاحب` مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار۔ نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب۔ چوہدری خلیق الزمان صاحب۔ مسٹر عبداللہ صاحب بریلوی )حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۷۷(
۲۳۹۔
سیرت محمد علی صفحہ ۵۲۵
۲۴۰۔
>مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۷ ۔ جناب سید رئیس احمد صاحب جعفری اپنی کتاب >سیرت محمد علی< میں لکھتے ہیں۔ >ان )یعنی مولانا محمد علی جوہر ۔ ناقل( کی تقریر کے بعد دوسرے بزرگوں نے اسی موضوع پر تقریر کی اور ان کے نظریہ کی مخالفت اور درجہ مستعمرات کی حمایت کی مباحثہ ابھی اسی موضوع پر جاری ہی تھا کہ مغرب کی نماز کا وقت آگیا اور محمد علی مغرب کی نماز پڑھنے باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ نماز پڑھ کر واپس آ رہے تھے لیکن ابھی ڈائس تک پہنچے تھے کہ کسی نے ان سے کہہ دیا درجہ مستعمرات تو پاس ہوگیا اور اس پر مباحثہ بھی ختم ہوگیا۔ سنتے ہی محمد علی نا انا لل¶ہ پڑھا اور الٹے پائوں واپس آگئے پھر انہوں نے کنوینشن میں شرکت نہیں کی اگرچہ زور بہت ڈالا گیا<۔ )صفحہ ۵۲۷(
۲۴۱۔
مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۸
۲۴۲۔
h2] gat>[سیرت محمد علی< طبع دوم ۱۹۵۰ء صفحہ ۵۲۸۔۵۲۹ )از رئیس احمد جعفری( کتاب منزل لاہور۔
۲۴۳۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۲۹۔۵۳۰
۲۴۴۔
>حیات محمد علی جناح< طبع اول صفحہ ۱۷۹۔۱۸۰
۲۴۵۔
حیات محمد علی جناح صفحہ ۱۸۱
۲۴۶۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۳۰۔۵۳۱
۲۴۷۔
>حیات محمد علی جناح< صفحہ ۱۸۳
۲۴۸۔
تفصیل کے لئے ملاحطہ ہو الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰
۲۴۹۔
کانفرنس میں شریک ہونے والے بعض اصحاب کے نام : سر آغا خاں` مولانا محمد علی جوہر` سر ابراہیم رحمت اللہ سر شفیع` سر محمد اقبال` سر ذوالفقار علی خاں` مسٹر اے کے غزنوی` مسٹر شرف الدین` مولوی شفیع دائودی` سیٹھ عبداللہ ہارون` نواب محمد اسماعیل خان` نواب محمد یوسف` مولوی محمد یعقوب ڈپٹی پریذیڈنٹ اسمبلی` مسٹر محمود سہروردی` سید رضا علی` صاحبزادہ سلطان احمد` ڈاکٹر ضیاء الدین` دائود صالح بھائی` عبدالماجد بدایونی` حسرت موہانی` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` خان بہادر ہدایت حسین` مولوی آزاد سبحانی مولوی کفایت اللہ` مولوی محمد عرفان` ڈاکٹر ذاکر حسین خاں` عبدالمجید سالک` غلام رسول مہر۔ )الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء و سرگزشت )از عبدالمجید صاحب سالک( صفحہ ۲۵۷
۲۵۰۔
>سیرت محمد علی< صفحہ ۵۳۵۔۵۳۶
۲۵۱۔
>سرگزشت< )از عبدالمجید سالک( طبع اول صفحہ ۲۵۷
۲۵۲۔
الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲ و الفضل ۱۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۳
۲۵۳۔
>ذکر اقبال< صفحہ ۱۴۳
۲۵۴۔
>مسلمانان ہند کی حیات سیاسی< صفحہ ۱۲۲۔۱۲۳
۲۵۵۔
الفضل ۱۱ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱
۲۵۶۔
>سرگزشت< )از عبدالمجید سالک( صفحہ ۲۶۰
۲۵۷۔
>سلسلہ احمدیہ< صفحہ ۳۹۸۔۳۹۹ )مولفہ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۲۵۸۔
خطوط وحدانی کا حصہ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے اپنے قلم سے اضافہ فرمایا ہے )المولف(
۲۵۹۔
>مرکز احمدیت قادیان< صفحہ ۴۹ ۔ ۵۱ )مولفہ شیخ محمود احمد عرفانی مرحوم مجاہد بلاد عربیہ(
۲۶۰۔
الحکم ۲۰ / اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۲۔۱۳ )بحوالہ تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۳۳۔۴۳۴۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہاں تک دکھایا گیا کہ قادیان کی آبادی دریائے بیاس تک پہنچ جائے گی )الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۶۔ کالم۳ و تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۷۹( مگر اس کے ساتھ ہی آپ کو یہ بھی اطلاع دی گئی کہ اس قادیان کی اس پر رونق اور وسیع آبادی سے قبل قادیان کو ابتلائوں کے ایک سلسلہ میں سے گذرنا پڑے گا۔ مثلاً آپ کو دکھایا گیا قادیان آنے کا راستہ حضور پر بند ہے )تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۶۳( الدار کے اردگرد ایک دیوار کھینچی جا رہی ہے جو فصیل شہر کے رنگ میں ہے )ایضاً صفحہ ۴۴۰۔۴۴۳( قادیان کے راہ میں سخت اندھیرا ہے مگر آپ ایک غیبی ہاتھ کی مدد سے کشمیری محلہ سے ہوتے ہوئے پہنچ گئے ہیں )ایضاً ۸۳۳۔۸۳۴( اس سلسلہ میں حضور کو یہ الہام بھی ہوا کہ ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد یعنی وہ قادر خدا جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا۔ )تریاق القلوب صفحہ ۹۱۔ تذکرہ طبع دوم صفحہ ۳۱۳(
۲۶۱۔
الحکم ۱۷ / اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲ ۔ بحوالہ تذکرہ صفحہ ۵۳۴
۲۶۲۔
تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۸۰۔۷۸۱۔۸۰۹
۲۶۳۔
h2] gat[الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۲
۲۶۴۔
>سلسلہ احمدیہ< )صفحہ ۳۹۹( طبع اول۔
۲۶۵۔
یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ قبل ازیں آخر ۱۹۱۴ء میں گورداسپور سے بوٹاری تک لائن بچھانے کی تجویز بھی زیر غور آئی تھی اور حکومت نے اس کی پیمائش کی ابتدائی منظوری بھی دے دی تھی۔ اور گویہ قطعی بات نہ تھی کہ یہ لائن قادیان سے ہوکر گذرے مگر درمیانی حصہ میں اہم ترین مقام قادیان ہی تھا اس لئے قرین قیاس یہی تھا کہ یہ قادیان کے راستہ سے بوٹاری تک پہنچے گی۔ لیکن یہ تجویز ابتدائی مرحلہ پر ہی ملتوی ہوگئی اور تیرہ سال تک معرض التواء میں پڑ گئی اس بات کا علم بابو قریشی محمد عثمان احمدی ہیڈ ڈرافٹسمین دفتر چیف انجینئر نارتھ ویسٹرن ریلوے لاہور کے ایک خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے ۸ / نومبر ۱۹۱۴ء کو حضرت مولوی محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نام لکھا تھا۔ اور جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں محفوظ ہے بابو صاحب نے اس خط میں لکھا۔ >نئی لائنوں کی بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ منظوری گورنمنٹ کی تعمیر کے لئے نہیں بلکہ پیمائش کرنے کے لئے ہے چنانچہ اس کی پیمائش عنقریب شروع ہونے والی ہے پھر یہ خیال ہوا کہ جب گورنمنٹ نے لائنوں کی لمبائی وغیرہ دی ہے تو پیمائش ابتدائی کے نقشے دفتر میں ہوں گے۔ مگر ابتدائی پیمائش ہی نہیں ہوئی صرف سرسری (Rangl) لمبائی نقشہ سے ناپ لی گئی ہے اور اس کی منظوری دے دی گئی۔ گورداسپور ڈسٹرکٹ کا نقشہ (map) دیکھنے سے معلوم ہوا کہ قادیان اس لائن پر آتا ہے جو گورداسپور سے بوٹاری تک منظور ہوئی جس کی لمبائی قریباً ۳۷ میل ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ لائن گورداسپور سے سیدھی بوٹاری جاوے تو قادیان قریباً ساڑھے تین میل رہ جاتا ہے۔ اگر قادیان ہی ہو کر جاوے تو مطلب حاصل ہے زیادہ قرینہ قوی اس بات کا ہے کہ لائن قادیان ہو کر گزرے کیونکہ اس کے گردونواح میں قادیان سب سے بڑی جگہ ہے اور لائن منظور شدہ کی لمبائی Miles) (37 ہی اس وقت درست آتی ہے جبکہ لائن قادیان ہوکر گذرے<۔ اگر اس تجویز کے مطابق لائن بچھائی جاتی تو اس کا سرسری نقشہ حسب ذیل ہوتا :
۲۶۶۔
الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ کالم ۲
۲۶۷۔
الفضل ۱۷ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۲
۲۶۸۔
الفضل ۱۶۔۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔۲
۲۶۹۔
الفضل ۳۰ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۲۷۰۔
الفضل ۱۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۲۷۱۔
الفضل ۲ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ ایضاً رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۵۰
۲۷۲۔
مکتوب شیخ محمد دین صاحب محررہ ۲۰ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵ )بنام مولف کتاب(
۲۷۳۔
>اصحاب احمد< جلد اول صفحہ ۱۰۴ میں لکھا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے منشی صاحب~رضی۱~ کو حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب کا نائب فرمایا اور منشی صاحب کئی ماہ تک سارا سارا دن پیدل سفر کر کے تندہی سے کام کرتے رہے۔
۲۷۴۔
ماخوذ از مکتوب جناب شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام ۲۰ / جولائی و ۲۷ / جولائی ۱۹۶۵ء
۲۷۵۔
الفضل ۲۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷
۲۷۶۔
اس کا مکمل متن الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸ میں چھپا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قادیان میں گاڑی آنے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ہمرکاب سفر کرنے کی نسبت ایک مبشر خواب بھی دیکھا تھا جس کا ذکر آپ نے اس ٹریکٹ میں بھی کر دیا ہے۔
۲۷۷۔
ایضاً صفحہ ۷
۲۷۸۔
مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس کی تنظیم ان دنوں بہت مستعد اور سرگرم عمل تھی۔ اس تنظیم کا ایک کارنامہ یاد رہے گا۔ اور وہ یہ کہ جب ۲۷ / دسمبر کے جلسہ میں بہت سے لوگوں کو پنڈال کی کوتاہی کی وجہ سے بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اظہار ناراضگی فرمایا۔ جس پر مدرسہ احمدیہ کے سکائوٹس دوسرے احباب کے ساتھ حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت کی نگرانی میں رات کے گیارہ بجے سے لے کر فجر کی نماز سے کچھ پہلے تک نہایت محنت` غیر معمولی تدبر اور پوری تندہی سے بغیر ایک منٹ کے وقفہ اور آرام کے شہتیریاں اٹھانے اور اینٹیں اور گارا بہم پہنچانے کا کام کرتے رہے اور جلسہ کی جگہ کافی وسیع ہوگئی اور اس کے احاطہ میں تین ہزار کے قریب زیادہ نشستوں کی گنجائش پیدا ہوگئی۔ کام کرنے والوں میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی شامل تھے۔ غرض یہ کام اس خاموشی اور عمدگی سے انجام پایا کہ دوسرے روز دوسری تقریر کے وقت حضور نے اس کام پر اظہار خوشنودی فرمایا۔ اور سکائوٹس اور دوسرے لوگوں کو اپنے دست مبارک سے بطور یادگار تمغے عنایت فرمائے۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۷۵۔۱۷۶ و الفضل ۳ / جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۲( قادیان کے رسالہ >جامعہ احمدیہ< کے سالنامہ )صفحہ ۴۳( پر ان سکائوٹس کی تصویر شائع شدہ ہے۔
۲۷۹۔
الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۸ء
۲۸۰۔
اس پہلی گاڑی کے گارڈ کا نام بابو ولی محمد صاحب اور ڈرائیور کا نام بابو عمر دین صاحب تھا گاڑی امرت سر سے بٹالہ تک ۲۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بٹالہ تا قادیان ۱۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آئی جس میں پانچ بوگیاں تین سنگل گاڑیاں اور دو بریک وان تھیں۔ انجن Class T۔S اور ۷۰۹ نمبر کا تھا۔ اس پہلی گاڑی کو جو امرت سر سے قادیان جانی تھی دیکھنے اور اس میں سفر کرنے کے لئے دور ترین فاصلہ سے جو پہلے ٹکٹ خریدے گئے وہ مکرم شیخ احمد اللہ صاحب ہیڈ کلرک کنٹونمنٹ بورڈ نوشہرہ اور ان کی ہمشیرزادی زبیدہ خاتون صاحبہ کے نوشہرہ چھائونی سے قادیان تک کے تھے یہ گاڑی رات کو ۲/۱ ۶ بجے امرت سر چلی گئی جس میں بٹالہ` امرت سر اور لاہور کے بہت سے اصحاب واپس ہوگئے۔ ریل کے افتتاح پر احمدیان مالابار اور احمدیہ ایسوسی ایشن میمو )برما( نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حضور مبارکباد کے تار ارسال کئے اور اپنی عدم شمولیت پر اظہار افسوس کیا۔
۲۸۱۔
>تاریخ احمدیت< جلد سوم )صفحہ ۵۵۷۔۵۵۸۔۵۸۰( اور تاریخ احمدیت جلد چہارم )صفحہ ۲۱۴۔۲۱۵( پر اس حقیقت کی تائید میں متعدد شواہد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملاحظہ ہو حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کا مضمون مطبوعہ الفضل ۲۵ / ستمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۵(
۲۸۲۔
الفضل ۶ / جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ کالم ۲
۲۸۳۔
الفضل ۲ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۲
۲۸۴۔
ٹریکٹ >الصلح خیر< صفحہ ۲۔۳
۲۸۵۔
تفصیل ۱۹۳۰ء کے حالات میں آئے گی۔
۲۸۶۔
الفضل ۴ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲
۲۸۷۔
الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔۲۔۱۱۔۱۲
۲۸۸۔
>فضائل القرآن< طبع اول صفحہ ۱۳۴۔۱۳۵
۲۸۹۔
اس سلسلہ کے پانچ ابتدائی لیکچر خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم ایڈیٹر >الفضل< نے قلمبند کئے اور آخری تقریر مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم نے لکھی۔ ان سب تقریروں کا مجموعہ الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ نے >فضائل القرآن< ہی کے نام سے دسمبر ۱۹۶۳ء میں شائع کر دیا ہے۔
۲۹۰۔
>فضائل القرآن< طبع اول صفحہ ۴۳۹
۲۹۱۔
الفضل ۲ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے حقیقی چچا تھے آپ نے ۱۸۹۱ء میں تحریری اور فروری ۱۸۹۲ء میں دستی بیعت کی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اہل بیت سے بہت اخلاص رکھتے تھے اور خلافت سے وابستگی تو ان کے ایمان کا جزو تھا۔ )الفضل ۱۳ / مارچ ۱۹۲۸ء(
۲۹۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۴۴۰ ۔ ۴۴۲( ۳۱۳ کی فہرست میں آپ کا نام ۴۷ نمبر پر لکھا ہے۔
۲۹۳۔
بعمر ۸۹ سال )ریکارڈ بہشتی مقبرہ قادیان( ۳۱۳ ۔ اصحاب میں ان کا نام ۵۹ نمبر پر درج ہے۔
۲۹۴۔
حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ رئیس لاہور کے چھوٹے بھائی اور حضرت میاں محمد شریف صاحب ای۔ اے۔ سی کے والد۔ سلسلہ احمدیہ کے آغاز ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام میں شریک ہوئے اور نہایت اخلاص سے زندگی بسر کی )الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲( و )الفضل ۲۴ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۹ کالم ۱(
۲۹۵۔
ولادت ۱۸۴۸ء سن بیعت ۱۸۹۸ء۔ شروع عہد خلافت ثانیہ سے معتمد صدر انجمن احمدیہ تھے۔ ۱۹۲۱ء میں جب امراء کا نظام قائم ہوا تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جماعت امرتسر کا امیر مقرر فرمایا۔ )الفضل ۳۰ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۶-۷(
۲۹۶۔
غلام حسین صاحب لدھیانوی کا بیان ہے کہ میں نے حافظ صاحب سے دریافت کیا کہ آپ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں کس طرح داخل ہوئے۔ آپ نے فرمایا۔ جب حضور )پہلی بار( لدھیانہ تشریف لائے تو میں نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ لدھیانہ تشریف لائے ہیں اور خواب ہی میں اس محلہ اور مکان کا پتہ بھی دیا گیا میں تلاش میں نکلا تو بعینہ حضرت صاحب کی زیارت ہوئی۔ اور میں حضور کی مجلس میں حاصر ہوتا رہا۔ اس کے بعد بیعت اولیٰ کے موقعہ پر حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب کے مکان پر جاکر بیعت کرلی۔ بیعت کنندگان کی فہرست میں آپ کا اس وقت چودھواں نمبر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام حصہ اول طبع اول کے صفحہ ۸۱۷ پر آپ کا ذکر خیر ان الفاظ میں کیا ہے۔ >حافظ صاحب جوان صالح بڑے محب اور مخلص اور اول درجہ کا اعتقاد رکھنے والے ہیں ہمیشہ اپنے مال سے خدمت کرتے رہتے ہیں جزاہم اللہ خیر الجزا<۔ ۳۱۳ اصحاب کبار کی فہرست میں آپ کا نام ۱۷۸ نمبر پر مرقوم ہے۔ )الفضل ۱۱ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲(
۲۹۷۔
الفضل ۲۴ / فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔ ان کے مفصل حالات حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے قلم سے الفضل ۳ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۸۔۹ پر شائع شدہ ہیں۔
۲۹۸۔
خواتین میں سے اہلیہ حضرت مولوی صوفی حافظ غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس ۱۶ / جنوری ۱۹۲۸ء کو اور محمودہ بیگم صاحبہ )اہلیہ مولوی عبدالسلام صاحب عمر( ۲۶ / مئی ۱۹۲۸ء کو اور آخر مئی ۱۹۲۸ء میں اہلیہ صاحبہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء کو والدہ محترمہ خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کا انتقال ہوا )الفضل ۲۰ / جنوری ۱۹۲۸ء و ۲۹ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و ۵ / جون ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ و الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔
۲۹۹۔
الفضل ۱۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲
۳۰۰۔
الفضل ۱۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۔۲
۳۰۱۔
الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۰۲۔
h2] gat[الفضل ۲۳ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۳۰۳۔
الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۳۰۴۔
الفضل ۶ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲
۳۰۵۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۶
۳۰۶۔
ملاحظہ ہو >تاریخ احمدیت< جلد پنجم صفحہ ۲۲۸
۳۰۷۔
الفضل ۱۵ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸
۳۰۸۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۲
۳۰۹۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۶۵
۳۱۰۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۲۱
۳۱۱۔
الفضل ۲۸ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱
۳۱۲۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۱۹ء صفحہ ۲۶۹
۳۱۳۔
یہ دعویٰ الفضل ۷ / ستمبر ۱۹۲۸ء کے ایک مضمون بعنوان >احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا کچا چٹھا< پر کیا گیا۔
۳۱۴۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۳۳۔ پیغام صلح ۱۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۔ الفضل ۲۱ / ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۱۵۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۲۷
۳۱۶۔
الفضل ۱۰ / جنوری ۱۹۲۸ صفحہ ۲
۳۱۷۔
الفضل ۳ / اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۷
۳۱۸۔
الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۹۔۱۰
۳۱۹۔
الفضل ۱۷ / جنوری ۱۹۲۱ء
۳۲۰۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۸۸
۳۲۱۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۲
۳۲۲۔
الفضل ۴ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۸ کالم ۲۔۳
۳۲۳۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۶
۳۲۴۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۸ء صفحہ ۳۳ و >تاریخ احمدیت< جلد پنجم صفحہ ۴۹۹
۳۲۵۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۷
۳۲۶۔
الفضل ۲۵ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱
۳۲۷۔
الفضل ۲۷۔ اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۲۸۔
الفضل ۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱ کالم ۱
۳۲۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۴۔
۳۳۰۔
الفضل ۱۳ / جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۳۔ الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۳۱۔
>رپورٹ مجلس مشاورت< ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۲
۳۳۲۔
الفضل ۲۶ / اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱
۳۳۳۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۸ء پر اس کی نسبت ارشاد فرمایا۔ کہ >ہر ایک احمدی کا فرض ہے کہ خرید کر اپنے پاس رکھے< الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲ کالم ۳(
۳۳۴۔
الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۹۔
۳۳۵۔
اس کتاب کے چار حصے شائع ہوئے پہلا دوسرا ۱۹۲۸ء میں اور تیسرا چوتھا ۱۹۲۹ء میں۔
۳۳۶۔
میر مدثر شاہ صاحب غیر مبائع مبلغ کے ٹریکٹ >تناقضات مابین اقوال حضرت صاحب و میاں صاحب< کا جواب۔
h1] [tag۳۳۷۔
الفضل ۲۴ / دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۳
۳۳۸۔
الفضل ۲۰ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۸ )تاریخ مباحثہ ۲۶ تا ۲۸ فروری ۱۹۲۸ء(
۳۳۹۔
الفضل ۲۷ / اپریل ۱۹۲۸ء )تاریخ مباحثہ ۱۸ / مارچ ۱۹۲۸ء(
۳۴۰۔
الفضل ۳ / اگست ۱۹۲۸ء )تاریخ مباحثہ ۲۹ / جولائی ۱۹۲۸ء(
۳۴۱۔
الفضل ۲ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲ )تاریخ مناظرہ ۱۳/ فروری ۱۹۲۸ء(
۳۴۲۔
الفضل ۱۳ / مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲ پر اس مناظرہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولوی صاحب نے ہر سوال کا جواب قرآن سے دیا جسے سن کر لوگ عش عش کر اٹھے )تاریخ مناظرہ مارچ ۱۹۲۸ء(
۳۴۳۔
یہ مباحثہ ۶۔۷۔۸ / اپریل ۱۹۲۸ء تین روز جاری رہا۔ احمدی مناظر نے اپنے دلائل اس خوبی اور عمدگی سے بیان کئے کہ غیر احمدی بلکہ غیر مسلم تک نے خراج تحسین ادا کیا )الفض ۲۲ / مئی ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۲(
۳۴۴۔
مناظرہ کا موضوع >نیوگ< تھا آریہ مناظر نے علی الاعلان تسلیم کیا۔ کہ نیوگ آریوں کا دھرم نہیں۔ ایک ہندو اس موقعہ پر اسلام لایا۔ )فاروق ۱۳ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۱(
۳۴۵۔
فاروق ۲۰ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۱۔ یہ مباحثہ ۱۳ / اگست ۱۹۲۸ء کو ہوا۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادم ابھی سترہ منٹ تقریر کرنے پائے تھے کہ آریوں نے آپ کی ٹھوس اور مدلل تقریر کی تاب نہ لا کر ہنگامہ اٹھا دیا اس لئے پولیس نے مداخلت کر کے مناظرہ بند کرا دیا اور آریہ سماجی اسے غنیمت سمجھتے ہوئے میدان سے اٹھ کر چل دئیے۔
۳۴۶۔
الفضل ۱۷ / اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ )تاریخ مناظرہ ۲۲ / جولائی ۱۹۲۸ء(
۳۴۷۔
الفضل ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸ کالم ۳ )تاریخ مباحثہ ۲۱ / اکتوبر ۱۹۲۸ء(
۳۴۸۔
الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸ کالم ۳۔ آریہ سماج لائل پور نے جماعت احمدیہ سے ۲۹ / اکتوبر لغایت ۳ / نومبر ۱۹۲۸ء چھ مختلف مضامین پر مباحثہ طے کیا تھا۔ مگر آریہ مناظر ۳۰ / اکتوبر کو پہنچے اس روز مسئلہ تناسخ پر مباحثہ ہوا۔ قریباً ایک گھنٹہ باقی تھا۔ کہ آریہ سماج کے مناظر کا گلابند ہوگیا۔ صاحب صدر لالہ بھگت رام صاحب ساہنی کی درخواست پر بقیہ وقت ایک گھنٹہ ۳۱ / اکتوبر پر ملتوی کر دیا گیا۔ دوسرے دن آریہ سماج کے دوسرے مناظر میدان میں آئے۔ جنہوں نے بمشکل تمام ایک گھنٹہ پورا کیا۔ اور تناسخ کی بجائے قرآن مجید پر اعتراضات شروع کر دئیے۔ جن کے مسکت جواب دئیے گئے۔ اس کے بعد آریہ سماج کو کسی اور موضوع پر مباحثہ کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔
۳۴۹۔
الفضل ۶ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ کالم ۱ )تاریخ مباحثہ ۲۳۔۲۴ / ستمبر ۱۹۲۸ء
۳۵۰۔
الفضل ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء ۔ تاریخ مباحثہ ۳۱ / اکتوبر و یکم نومبر ۱۹۲۸ء بمقام مندر آریہ سماج لوہگڈھ(
۳۵۱۔
الفضل ۱۳ / نومبر ۱۹۲۸ء )تاریخ مباحثہ ۷ / نومبر ۱۹۲۸ء(
۳۵۲۔
الفضل ۲۷ / نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۲ )تاریخ مناظرہ ۲۰ / نومبر ۱۹۲۸ء مقام مناظرہ باغ مہاں سنگھ(
۳۵۳۔
اس مناظرہ میں صدارت کے فرائض مرزا عبدالحق صاحب بی۔ اے ایل ایل بی نے انجام دئیے۔ اور انجمن نظام المسلمین نے ہر ممکن طریقہ سے مباحثہ کا انتظام کیا۔ دونوں دن غیر احمدی مناظر بطور معترض پیش ہوئے مگر خدا کے فضل سے دونوں روز احمدیت کو کھلا غلبہ حاصل ہوا۔ اور بفضلہ تعالیٰ حاضرین پر احمدی دلائل کا سکہ بیٹھ گیا۔ فالحمد للہ )الفضل ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۷۔۸(
۳۵۴۔
]2h [tagتاریخ مباحثہ ۳۰ / دسمبر ۱۹۲۸ء۔ مضمون مباحثہ >عالمگیر مذہب< تھا۔ شروع میں آریہ سماجی مناظر نے ایک گھنٹہ تک تقریر کی کہ آئندہ دنیا کا مذہب آریہ دھرم ہوگا۔ خادم صاحب نے آریہ سماجی مناظر کی تقریر کے ۱۵ منٹ میں ایسے مسکت اور مدلل جواب دئیے کہ پنڈت صاحب اصل مبحث کو چھوڑ کر قرآن مجید پر اعتراضات کرنے لگے۔ خادم صاحب نے ان کا بھی اچھی طرح تجزیہ کر دینے کے بعد اپنے مطالبات کے جواب کا مطالبہ کیا۔ مگر وہ آخر وقت تک ان کا جواب نہ دے سکے۔ حتیٰ کہ ایک معزز ہندو وکیل پنڈت صاحب کی تقریر کے دوران بول اٹھے کہ جواب کیوں نہیں دیتے۔ مگر پنڈت صاحب جواب لاتے کہاں سے۔ )الفضل ۸ / جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔۲(
tav.5.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل اول(
انقلاب افغانستان پر تبصرہ اور راہنمائی سے لے کر
مسلمانان ہند کے تحفظ حقوق کی نئی مہم تک
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
)جنوری ۱۹۲۹ء تا دسمبر ۱۹۲۹ء بمطابق رجب ۱۳۴۷ھ تا رجب ۱۳۴۸ھ تک(
سفر لاہور
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۲/ جنوری ۱۹۲۹ء کو بذریعہ موٹر لاہور تشریف لے گئے۱`۲۔ اور اپنے برادر نسبتی ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب کے ہاں قیام فرمایا۔ اگلے روز )۱۳/ جنوری کو( حضور نے احمدیہ ہوسٹل میں مختلف کالجوں کے احمدی اور غیر احمدی طلباء کے علاوہ بعض دوسرے اصحاب کو بھی شرف ملاقات بخشا۳۔
۱۴/ جنوری کو آپ نے گورنر صاحب پنجاب )سرجیفری ڈی مانٹ مورنسی( سے ملاقات کی]4 [stf۴ اس کے بعد مسجد احمدیہ بیرون دہلی دروازہ میں تشریف لے گئے اور ایک پر معارف تقریر فرمائی جس میں آیت لا یمسہ الا المطھرون کی نہایت لطیف تفسیر فرمائی اور بتایا کہ قرآن کریم کے اعلیٰ معارف اور نکات انہیں لوگوں پر کھولے جاتے ہیں جنہیں روحانیت حاصل ہو اور جو خدا تعالیٰ کے مقرب ہوں اور یہ قرآن کریم کے کلام الہیٰ ہونے کا ایک ثبوت ہے۔
اسی سلسلہ میں حضور نے بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا جو علم دیا وہ کسی اور کو حاصل نہ تھا۔ حالانکہ اور لوگ ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت بڑھ کر تھے اسی طرح مجھے بھی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ایسے معارف سمجھائے ہیں کہ خواہ کوئی ظاہری علوم میں کتنا بڑھا ہوا ہو اگر قرآن کریم کے حقائق بیان کرنے میں مقابلہ کرے گا تو ناکام رہے گا۵۔ یہ تقریر تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔
۱۵/ جنوری کو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے حضور کے اعزاز میں سٹفل ہوٹل میں چائے کی دعوت دی جس میں سر شیخ عبدالقادر صاحب` خلیفہ شجاع الدین صاحب` سید محسن شاہ صاحب` مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری` شیخ نیاز علی صاحب کے علاوہ اور بھی کئی اصحاب شامل ہوئے اور مسائل حاضرہ پر گفتگو ہوتی رہی اس کے بعد حضور چوہدری صاحب کی کوٹھی میں تشریف لے گئے اور احمدی اور غیر احمدی دوستوں نے ملاقاتیں کیں۔
۱۶/ جنوری کو سر شیخ عبدالقادر صاحب نے اپنی کوٹھی پر حضور اور حضور کے رفقاء کو چائے کی دعوت دی۔ اس سے فارغ ہو کر حضور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاں تشریف لے گئے اور بہت سے اصحاب کو شرف ملاقات بخشا۔ ۱۷/ جنوری کو حضور نے بعض سربرآوردہ مسلمانوں سے ملاقات کی اور معاملات حاضرہ پر گفتگو فرماتے رہے۔
۱۸/ جنوری کی صبح کو حضور بذریعہ موٹر لاہور سے بٹالہ آئے اور بٹالہ سے ٹرین پر سوار ہو کر جمعہ سے قبل قادیان پہنچے اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۶۔
انقلاب افغانستان پر تبصرہ اور رہنمائی
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۹۲۸ء کے آخر میں مسلم ممالک خصوصاً ترکی اور افغانستان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ دین سے بے اعتنائی چھوڑ دیں اور غیر اسلامی رجحانات کا دروازہ بند کر دیں کہ یہ راستے ترقی کے نہیں ترقی کے لئے اسلام کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
شاہ افغانستان امیر اللہ خان نے جو سیاحت یورپ کے دوران مغربی تہذیب و تمدن پر بے حد فریفتہ ہو گئے تھے۔ کابل واپس پہنچتے ہی مغربیت کی ترویج و اشاعت کے لئے احکام نافذ کر دیئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۳/ جنوری ۱۹۲۹ء کو افغانوں نے ایک معمولی انسان حبیب اللہ )عرف بچہ سقہ( کی سرکردگی میں مسلح بغاوت کر دی۔ امیر امان اللہ خان نے قندھار کو مرکز بنا کر کابل پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی لیکن قبائلی سرداروں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور وہ افغانستان سے بھاگ کر ہندوستان کی راہ سے اٹلی چلے گئے۔
ابھی امیر امان اللہ خاں اپنے ملک میں ہی تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۵/ جنوری ۱۹۲۹ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں افغانستان کی شورش پر مفصل تبصرہ کیا اور اپنے موقف کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اعلان فرمایا۔
>آئندہ کے متعلق ہمارا مسلک یہی ہے کہ ہمیں کسی خاص شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو بھی حکومت کسی ملک میں قائم ہو اس کی اطاعت فرض اور اس سے بغاوت گناہ ہے ہم نے عام فائدہ اسلام کا دیکھنا ہے۔ میرے نزدیک سیاسی لحاظ سے اسلام کو )حقیقی اسلام کو نہیں کیونکہ وہ تو خود اپنی ذات سے قائم ہے۔ اسے اپنے قیام کے لئے کسی ایسے سہارے کی ضرورت نہیں( ہاں سیاسی لحاظ سے اسلام کو ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں زبردست آزاد اور مضبوط حکومتیں ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ باوجود اس کے کہ شریف حسین کے زمانہ میں ہم اس کی حکومت کو جائز سمجھتے اور اس کے خلاف بغاوت کرنا جائز قرار دیتے تھے لیکن جب سلطان ابن سعود نے پوری طرح وہاں اپنا تسلط جما لیا اور اس کی حکومت قائم ہو گئی تو اب ہم اس کو جائز سمجھتے اور اس کے خلاف بغاوت کو ناجائز قرار دیتے ہیں اب اگر شریف بھی اس پر حملہ کرے گا۔ تو ہمیں برا لگے گا۔ اس لئے ہم بچہ سقہ کو بھی برا سمجھتے ہیں کہ اس نے ایک آزاد اسلامی حکومت کو ضعف پہنچایا۔ جب تک وہ خود وہاں حکومت قائم نہ کر لے ہم اسے برا ہی کہیں گے۔ اب وہاں خواہ کوئی بادشاہ ہو جائے امان اللہ خاں ہو یا عنایت اللہ خاں نادر خاں ہو۔ یا علی احمد جان یا بچہ سقہ جو بھی وہاں ایسی حکومت قائم کر لے گا۔ جو سارے افغانستان پر حاوی ہو گی۔ بالکل آزاد ہو گی` کسی دوسری سلطنت کے ماتحت نہ ہو گی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوشش کرے گی` اس کے ہم ایسے ہی خیر خواہ ہوں گے جیسے ان اسلامی حکومتوں کے ہیں جو اپنے ممالک میں مسلمانوں کی ترقی کی کوشش کر رہی ہیں۔ پس ہمارے آئندہ کے متعلق احساسات یہ ہیں کہ وہاں ایسی حکومت قائم ہو جو بالکل آزاد ہو۔ وہ نہ انگریزوں کے ماتحت ہو نہ روسیوں کے نہ کسی اور کے ہم اسے بھی پسند نہیں کرتے کہ افغانستان ایک دفعہ کامل آزادی حاصل کرنے کے بعد تھوڑا بہت ہی انگریزوں کے ماتحت ہو ہم اسے اس طرح دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ آزاد ہو۔ مضبوط ہو ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو اور نہ کسی کے ماتحت یا زیر اثر ہو۔ اگر وہاں ایسی حکومت قائم ہو جائے تو حکمران خواہ کوئی ہو ایسی حکومت اسلام کے لئے مفید ہو گی ۔۔۔۔۔۔ ہم اسے سخت ناپسند کرتے ہیں کہ افغانستان کے معاملات میں کسی قسم کا دخل دیا جائے اور ہم امید رکھتے ہیں گورنمنٹ اس بات کی احتیاط کرے گی کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں ہرگز مداخلت نہ کی جائے اور جیسے وہ پہلے آزاد تھا ویسے ہی اب بھی رہے۔ میرے نزدیک مسلمانوں کو صرف اس بات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور انجمنوں کو بالاتفاق پورے زور کے ساتھ یہ اعلان کر دینا چاہئے کہ ہم اسے سخت ناپسند کرتے ہیں کہ افغانستان کے فسادات کے نتیجہ میں کوئی غیر قوم خواہ وہ انگریز ہی ہوں اس ملک پر کسی قسم کا تصرف کرے افغانستان اسی طرح آزاد ہونا چاہئے جیسے پہلے تھا ۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو جو پہلے ہی کمزور ہے مزید نقصان نہ پہنچے۷۔
مذاہب کانفرنس کلکتہ
۲۷۔ ۲۸/ جنوری ۱۹۲۹ء کو برہمو سماج کے زیر انتظام کلکتہ یونیورسٹی کے سینٹ ہال میں مذاہب کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں مولوی دولت احمد خاں بی۔ ایل ایڈیٹر رسالہ >احمدی< نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے قائم مقام کی حیثیت میں مضمون پڑھا اور مولوی عبدالقادر صاحب ایم۔ اے مولوی فاضل احمدی پروفیسر اسلامیہ کالج کلکتہ نے بتایا کہ دنیا میں اسلامی اصولوں کی تعلیم و ترویج بین الاقوامی طور پر ہمدردانہ جذبات پیدا کرنے کا موجب ہو گی کیونکہ آنحضرت~صل۱~ نے غیر مشتبہ الفاظ میں اخوت انسانی کی تعلیم دی ہے۸۔
طلبہ میں تقسیم انعامات کا مشترکہ جلسہ
لڑکوں اور لڑکیوں میں عملی ذوق و شوق برھانے کے لئے ۲۸/ جنوری ۱۹۲۹ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہال میں قادیان کے مرکزی اداروں کا تقسیم انعامات کا مشترکہ جلسہ ہوا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے انعامات تقسیم فرمائے۹ اور تقریر بھی فرمائی جس کے شروع میں فرمایا کہ >جلسہ تقسیم اسناد میرے نزدیک ایک ایسا فنکشن )تقریب( ہے جو سکول کی زندگی کو زیادہ دلچسپ بنانے میں بہت مفید ہو سکتا ہے اور ہم صرف ایک ضرورت کو آج پورا نہیں کر رہے۔ بلکہ اس ضرورت کو اس کے وقت سے بہت پیچھے پورا کر رہے ہیں<۔
اس کے بعد حضور نے ہدایت فرمائی کہ >میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ انعاموں کو ہمیشہ طالب علم کے سامنے رکھنے کا انتظام ہونا چاہیئے جب تک انعامات ایک لمبے سلسلے کے ساتھ واستہ نہ کر دیئے جائیں وہ ایسے دلچسپ اور مفید نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک ضروری بات ہے جسے پورا کرنا ہمارے منتظمین کا فرض ہونا چاہیئے۔ ٹورنا منٹ کے انعاموں کے متعلق بھی ایسا انتظام ہونا چاہیئے کہ وہ سارا سال ورزش کا شوق دلانے میں ممد ثابت ہو سکیں اور علوم کے انعامات کے متعلق بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے اگر زمانہ امتحان میں پڑھائی کا شوق پیدا کیا جائے تو یہ اتنا مفید نہیں ہو سکتا جتنا سارا سال محنت کرنے کا ہو گا<۱۰۔
یہ مرکز احمدیت میں اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ تھا۔
گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس
۳۱/ جنوری ۱۹۲۹ء کو پنجاب کے نمائندگان جماعت احمدیہ نے گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا۔ جس میں جماعت کی تاریخ اس کی علمی و دینی خدمات اور تعلیمی ترقی پر روشنی ڈالنے کے بعد مسلمانوں کے چھ متفقہ مطالبات پیش کئے۱۱ اور افغانستان کے سیاسی تغیرات کی نسبت یہ درخواست کی کہ مرکزی حکومت پر زور دیا جائے کہ نہ صرف یہ کہ افغانستان کے متعلق عدم مداخلت کی پالیسی برقرار رکھی جائے بلکہ جہاں تک ہوسکے اسے کامل آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے میں مدد دی جائے۱۲۔
ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب نے اس ایڈریس کے جواب میں جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز علمی ترقی کو سراہا اور یقین دلایا کہ آپ کی جماعت کے خیالات پر احتیاط و توجہ کے ساتھ غور کیا جائے گا۔ افغانستان کے اندرونی خلفشار کی نسبت اس بات کا اظہار کیا کہ گورنمنٹ کی پالیسی انتہا درجہ غیر جانبدارانہ ہے اور رہی ہے اور ہمیں مخلصانہ امید ہے کہ اس ملک کے طول و عرض میں پھر سے امن کا دور دورہ ہو جائے اور ہندوستان کے شمال مغرب میں اس کا ہمسایہ ملک ایک دفعہ پھر ایک مضبوط اور ایک متحدہ ملک بن جائے۱۳۔
مسلم خبر رساں ایجنسی کے قیام کی تحریک
>الفضل< نے ۱۹/ فروری ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں مسلمانان ہند کو توجہ دلائی کہ وہ جلد سے جلد کوئی اپنی خبر رساں ایجنسی قائم کریں اور اس کی ہر طرح حوصلہ افزائی کریں کہ قوموں کی زندگی کے لئے یہ نہایت ضروری چیز ہے۱۴۔
اشاعت لٹریچر سے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اہم ارشادات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۲/ مارچ ۱۹۲۹ء کو ارشاد فرمایا کہ >یہ زمانہ نشر و اشاعت کا ہے جس ذریعہ سے ہم آج اسلام کی مدد کر
سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ صحف و کتب کی اشاعت پر خاص زور دیں اگر ہر جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی ایجنسیاں قائم ہو جائیں تو یقیناً بہت فائدہ ہو سکتا ہے<۱۵4] [rtf۔
نیز ہدایت فرمائی کہ >عام طور پر ہماری کتابیں گراں ہوتی ہیں اور اس وجہ سے لوگ ان کی اشاعت نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ایک طرف تو میں نظارت۱۶ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کتابوں کی قیمتوں پر نظر ثانی کرے اور قیمتیں اس حدپر لے کر آئے کہ ان انجمنوں کو جو ایجنسیاں لیں کافی معاوضہ بھی دیا جا سکے اور نقصان بھی نہ ہو اور دوسری طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی اس بارے میں فرض شناسی کا ثبوت دیں<۔
اس کے علاوہ سلسلہ کے اخبارات کی توسیع کی طرف بھی خاص توجہ دلائی۱۷۔
دہلی میں انجمن احمدیہ کا سالانہ جلسہ
انجمن احمدیہ دہلی کا آٹھواں سالانہ جلسہ ۲۳ تا ۲۶/ مارچ ۱۹۲۹ء منعقد ہوا۔ جس میں حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ` حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے` حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر` مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری وغیرہ علمائے سلسلہ نے تقریریں کیں۔ اور بابو اعجاز حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ دہلی` چوہدری نعمت خاں صاحب سینئر جج دہلی` مولوی اکبر علی صاحب انسپکٹر آف ورکس ریلوے` خان صاحب برکت علی صاحب امیر جماعت احمدیہ شملہ` مولوی حاجی حکیم امجد علی صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس دہلی` کرنل اوصاف علی خان صاحب سی آئی ای سابق کمانڈر انچیف نابھہ اسٹیٹ` مولوی محمد شفیع صاحب دائودی ممبر لیجسلیٹو اسمبلی دہلی اور خواجہ حسن نظامی صاحب نے مختلف اجلاسوں میں صدارت فرمائی۔ اس جلسہ میں خواجہ صاحب نے رائے بہادر لالہ پارس داس رئیس دہلی کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ امام جماعت احمدیہ کی طرف سے سیرت النبیﷺ~ کے مضمون۱۸ بطور انعام ایک طلائی تمغہ اور گھڑی پیش کی۱۹۔
جناح لیگ اورشفیع لیگ کے الحاق کی کوشش اور کامیابی
سائمن کمیشن سے بائیکاٹ کے مسئلہ پر مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ حضرت خلیفتہ السمیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں جناب محمد علی صاحب جناح کی سیاسی خدمات کی بہت قدر و منزلت تھی۔ اس لئے آپ دل سے چاہتے تھے کہ سر شفیع اور جناح میں مفاہمت ہو جائے۔
چنانچہ حضور نے ڈاکٹر سر محمد اقبال )سیکرٹری شفیع لیگ( اور جناب محمد علی جناح دونوں کو خطوط لکھے۔ جن کا ذکر ان ہر دو اصحاب نے بعض مجالس میں بھی کیا اور مصالحت کی امید پیدا ہو گئی شروع مارچ ۱۹۲۹ء کو سفر محمد شفیع اور جناب محمد علی صاحب جناح۲۰ کی ملاقات ہوئی۔ اس وقت جماعت احمدیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب )ناظر امور خارجہ( بھی موجود تھے۔ دونوں لیڈر گفت و شنید کے بعد باہمی اتحاد پر آمادہ ہو گئے اور ۲۸۔ ۲۹۔ ۳۰/ مارچ کا اجلاس مسلم لیگ دہلی میں قرار پایا۔ اس اجلاس کے دعوتی خطوط۲۱4] ft[r حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھی بھیجے گئے کہ آپ بھی تشریف لائیں۔ مسلمانوں کے درمیان مصالحت کے لئے سعی فرمائیں۔ حضور خود تو مجلس مشاورت کی وجہ سے تشریف نہ لے جا سکے اس لئے حضور نے اپنی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو دہلی بھیجا علاوہ ازیں بہار سے حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری بھی آگئے۔ حضرت مفتی صاحب مصالحت میں کامیابی کے بہت پرامید تھے۲۲۔ اور انہوں نے اس کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ مگر سر محمد شفیع تو بیماری کی وجہ سے نہ آسکے اور ان کے رفقاء لیت و لعل میں رہے جناح صاحب نے ہر طرح کوشش کی کہ شفیع لیگ کے تمام اصحاب لیگ میں شامل کر لئے جائیں۔ مگر لیگ کے ممبروں نے ان کی سخت مخالفت کی اور مسٹر جناح کی کوئی اپیل قبول نہ کی۔ مسلم لیگ کے اس اجلاس میں سبجیکٹ کمیٹی کے سامنے تین ریزولیوشن پیش ہوئے ایک مسودہ جناح صاحب کا تیار کیا ہوا تھا۔ جس میں نہرو رپورٹ رد کر دی گئی تھی یہ ریزولیوشن راجہ عضنفر علی صاحب نے پیش کیا اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اس کی تائید کی۔ دوسرا اور تیسرا مسودہ غازی عبدالرحمن صاحب نے اور شیردانی صاحب نے پیش کیا۔ موخر الذکر واپس لے لیا گیا دونوں مسودے سبجیکٹ کمیٹی میں پاس ہو کر کھلے اجلاس میں پیش ہونے والے تھے کہ ڈاکٹر عالم صاحب کی صدارت پر زبردست ہنگامہ بپا ہو گیا۔ اس اثناء میں مسٹر جناح بھی تشریف لے آئے اور انہوں نے کارروائی بند کرا دی اور مسلم لیگ کا اجلاس کوئی ریزولیوشن پاس ہوئے بغیر ملتوی ہو گیا۲۳۔ لیکن حضرت مفتی صاحب نے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں۲۴۔ جو بالاخر بارآور ہوئیں۔
چنانچہ ۲۸/ فروری ۱۹۳۰ء کو مسٹر جناح کی زیر صدارت مسلم لیگ کونسل کاا اہم اجلاس دہلی میں منعقد ہوا۔ لیگ کی دونوں شاخوں کے پچاس سے زیادہ اصحاب شریک اجلاس تھے۔ سر شفیع بھی موجود تھے اور تالیوں کی گونج میں اعلان کیا گیا کہ لیگ کی دونوں شاخوں کو ملا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد مسٹر جناح اور سر شفیع ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے۲۵۔ اور دونوں مسلم لیگیں ایک ہو گئیں۔
نظارت امور خارجہ قادیان کی مطبوعہ رپورٹ ۳۰۔ ۱۹۲۹ء میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ >دہلی کی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اس سال آخری جلسہ میں ہر دو مسلم پارٹیوں کی مصالحت ہوئی جو مدت بعد عمل میں آئی اور اس مصالحت کے کرانے میں ہماری طرف سے بہت کوشش ہوتی رہی فالحمدلل¶ہ امید ہے کہ اب انشاء اللہ سب مسلمان مل کر اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے سربکف ہو سکیں گے<۲۶۔
سلسلہ احمدیہ کے ترجمان اخبار >الفضل< نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا۔
>یہ نہایت افسوسناک بات تھی کہ مسلمانوں کی واحد سیاسی انجمن مسلم لیگ میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہ صورت دردمندان قوم کے لئے بے حد تکلیف دہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ دونوں کو متحد دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ حال میں مسلم لیگ کے اجلاس کا ایجنڈا جب ہمیں بغرض اشاعت موصول ہوا تو ہم نے اسے شائع کرتے ہوئے ذمہ دار ارکان کو متحد ہونے کی ضرورت بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ سب سے اول اتحاد پیدا کرنا چاہئے اور پھر مل کر اسلامی حقوق کی حفاظت میں لگ جانا چاہئے<۔ )الفضل ۴/ فروری( اب ہمیں یہ معلوم ہو کر بہت خوشی ہوئی کہ ہماری یہ خواہش بر آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب لیگ کا فرض ہے کہ پوری طرح مسلم حقوق کی حفاظت میں لگ جائے اور پوری کوشش و جدوجہد سے مسلم لیگ کو اس مقام پر لے آئے کہ وہ صحیح معنوں میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کا حق ادا کر سکے۔ مسلم لیگ نے بہت وقت غفلت اور اندرونی کشمکش میں کھو دیا ہے اسے نہ صرف گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی کرنی چاہئے بلکہ آئندہ پوری تندہی سے کام کرنا چاہئے<۲۷`۲۸۔
راجپال کا قتل اور اسمبلی میں بم کا واقعہ
ایسے وقت میں جبکہ ملک میں کانگریس کی سیاسی تحریک زوروں پر تھی اپریل ۱۹۲۹ء کے شروع میں دو نہایت اہم واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ملکی فضا پر بہت ناگوار اثر ڈالا۔
پہلا واقعہ کتاب >رنگیلا رسول< کے دریدہ دہن اور بدباطن مصنف >راجپال< کا قتل تھا۔ جو پچیس چھبیس سال کے ایک پرجوش مسلمان نوجوان علم الدین کے ہاتھوں ۶/ اپریل کو لاہور میں ہوا۲۹۔ مسلمان علماء نے جن میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی شامل تھے۔ اس قتل پر اظہار بیزاری کیا اور کہا کہ راجپال کا قتل شرع اسلام کی رو سے ناجائز ہے اور ملک کی سیاسی حالت کے لئے سخت مضر ہے اور اگر کسی مسلمان نے ایسا کیا ہے تو اس فعل کا وہ خود ذمہ دار ہے لیکن آریہ اخباروں نے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ >حالات بتلا رہے ہیں کہ ملک میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک یہ سازش پھیلی ہوئی ہے<۳۰`۳۱۔ ایک آریہ مقرر نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔ یہ قلمی جنگ ہے جو شخص حجت اور دلائل سے گزر کر اس قسم کی باتوں پر اتر آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مذہب میں تحریر و دلائل کی طاقت نہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اسلام کا اس قدر دیوالہ نکل چکا ہے<۳۲۔ دوسرا واقعہ ۸/ اپریل کو نئی دہلی میں ہوا۔ جبکہ لیجسلیٹو اسمبلی کے کونسل چیمبر میں جب سپیکر )صدر اسمبلی( رولنگ دینے کے لئے کھڑا ہوا تو گیلری سے سرکاری بنچوں پر دو بم پھینکے گئے۳۳۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء کے خطبہ جمعہ میں ان ہر دو واقعات کے پس پردہ اسباب و عوامل پر قرآن نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ۔
>قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے راستہ جو روکیں ہوتی ہیں۔ ان کے متعلق ایک گر بتایا ہے اور وہ گر یہ ہے کہ ناکام رہنے والے لوگوں کی ناکامی کا سببnsk] gat[ یحبون العاجلہ و یذرون ورآئھم یوما ثقیلا ہوتا ہے۔ وہ نہایت ہی محدود نگاہ سے معاملات کو دیکھتے ہیں قریب ترین نتائج ان کے نزدیک محبوب ہوتے ہیں اور حقیقی اور اصلی غیر متبدل اور دائمی اثرات و نتائج ان کے پیش نظر نہیں ہوتے دنیا میں جس قدر لڑائیاں` فسادات اور جھگڑا پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان کے اسباب پر غور کیا جائے تو ننانوے فیصدی ایسے نکلیں گے جن کا سبب فریقین میں سے کسی نہ کسی کا یا دونوں کا بغیر کافی غور و فکر کے جلدی سے کسی نتیجہ پر پہنچ جانا اور ایک عاجل نتیجہ پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہو گا اگر انسان اپنے جوشوں کو دبائے رکھے اور اگر وہ یہ دیکھے کہ میرے اعمال کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ تو بہت سی لڑائیاں دور ہو جائیں بہت سے جھگڑے بند ہو جائیں اور بہت سے فسادات مٹ جائیں میں دیکھتا ہوں ہندوستان میں اس وقت متواتر کئی سال سے فساد شروع ہے قوموں میں اختلاف ہے مذہب میں تفرقہ ہے حکومت اور رعایا میں کشمکش جاری ہے ان سب کی وجہ یحبون العاجلہ و یذرون ورآئھم یوما ثقیلا ہی ہے عاجل نتیجہ کو لوگ پسند کر رہے ہیں اور ایک بھاری آنے والے دن کو نظر انداز کر رہے ہیں<۔
قیام امن کے اس سنہری اصول کی روشنی میں حضور نے حکومت اور رعایا دونوں کو قصور وار ٹھہرایا حکومت کو بتایا کہ۔
>حکام گورنمنٹ ابھی تک اسی پرانے اثر کے ماتحت ہیں جبکہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کی آواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی وہ ابھی اسی خیال میں ہیں کہ ہمیں خدائی قدرت حاصل ہے جس چیز کو ہم درست سمجھیں نہ صرف یہ کہ اسے درست سمجھا جائے بلکہ واقعہ میں وہ درست ہی ہے اور جسے ہم غلط سمجھیں نہ صرف یہ کہ اسے غلط سمجھا جائے بلکہ فی الواقعہ وہ غلط ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بسا اوقات ان کا لہجہ ایسا ہتک آمیز ہوتا ہے کہ ایک آزاد خیال انسان کے دل میں اس کی قومی عزت کا جوش ابال مارتا ہے اور وہ فوراً مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستانیوں میں اس وقت ایک رو پیدا ہو رہی ہے۔ اور ہندوستانی برابری کے مدعی ہیں۔ وہ قوم کے اعزاز اور وقار کو محسوس کرنے لگ گئے ہیں۔ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم بھیڑ بکریاں نہیں کہ ریوڑ کی طرح جدھر چاہے ہانک دیا جائے ہم بچے نہیں کہ ہماری نگرانی کی جائے وہ اپنے ملک میں ملکی علوم ملکی تہذیب اور ملکی تمدن کو جاری کرنا چاہتے ہیں پس ان حالات میں اگر انگلستان ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے تو اس کے افسروں کو اپنے رویہ میں تبدیلی کرنی پڑے گی کوئی ملک خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو جب اس میں آزادی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ تو وہ یقیناً آزادی حاصل کرکے رہتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی مثال ایسی نہیں ملتی کی کوئی چھوٹے سے چھوٹا ملک جس کی آبادی خواہ چند ہزار ہی ہو ہمیشہ کے لئے کسی کا غلام رہا ہو۔ پھر یہ ہندوستان کے ۳۳ کروڑ انسان کہاں ہمیشہ کے لئے غلامی میں رہ سکتے ہیں<۔
ہندوستان کے سیاسی لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
>دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں ملک کی آزادی کا جوش ہے۔ میں اس کی بہت قدر کرتا ہوں اور آزادی و حریت کا جوش جو میرے اندر ہے میں سمجھتا ہوں اگر احمدیت اسے اپنے رنگ میں نہ ڈھال دیتی۔ تو میں بھی ملک کی آزادی کے لئے کام کرنے والے انہی لوگوں میں سے ہوتا لیکن خدا کے دین نے ہمیں بتا دیا کہ عاجلہ کو مدنظر نہیں رکھنا چاہئے میں ان لوگوں کی کوششوں کو پسند کرتا ہوں مگر بعض دفعہ وہ ایسا رنگ اختیار کر لیتی ہیں کہ انگریزوں کو نقصان پہنچانے کے خیال میں وہ اپنی قوم کے اخلاق اور اس روح کو جو حکومت کے لئے ضروری ہوتی ہے تباہ کر دیتی ہے ایسے بہت خطرناک ہوتے ہیں گورنمنٹ کی خوشامد کرنے والا بے شک غدار ہو سکتا ہے لیکن اس کی عداری اس کے اپنے نفس کے لئے ہوتی ہے۔ جو شخص کسی عہدہ یا دنیاوی مطلب کے حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ کی خوشامد کرتا ہے وہ بے شک غدار ہے لیکن جو شخص ملک کے اخلاق کو برباد کرتا اور بگاڑتا ہے وہ اس سے بڑھ کر غدار ہے پہلے شخص کی غداری کا اثر اس کی اپنی ذات پر ہوتا ہے لیکن دوسرے کی غداری تمام قوم کے لئے تباہی کا موجب ہوتی ہے<۔
قتل راجپال کے سلسلہ میں حضور نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ۔
>وہ عاجل باتوں کی طرف نہ جائیں مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ چاند پر تھوکنے سے اپنے ہی منہ پر آکر تھوک پڑتا ہے۔ مخالف خواہ کتنی ہی کوشش کریں۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نور کو گردوغبار سے نہیں چھپا سکتے اس نور کی شعاعیں دور دور پھیل رہی ہیں تم یہ مت خیال کرو کہ کسی کے چھپانے سے یہ چھپ سکے گا۔ ایک دنیا اس کی معتقد ہو رہی ہے پادریوں کی بڑی بڑی سوسائٹیوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ اسلام سے ہے کیونکہ اسلام کی سوشل تعلیم کی خوبیوں کے مقابلہ میں اور کوئی مذہب نہیں ٹھہر سکتا۔ اسلام کا تمدن یورپ کو کھائے چلا جا رہا ہے اور بڑے بڑے متعصب اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اسلام کو گالی دینے سے اسلام کی ہتک ہو گی وہ اگر عیسائی ہے تو عیسائی مذہب کا دشمن ہے اگر سکھ ہے تو سکھ مذہب کا دشمن ہے اور اگر ہندو ہے تو ہندو دھرم کا دشمن۔ ہتک تو دراصل گالی دینے والے کی ہوتی ہے جسے گالی دی جائے اس کی کیا ہتک ہو گی۔ ہتک تو اخلاق کی بناء پر ہوتی ہے اگر کوئی شخص مجھے گالیاں دیتا ہے تو وہ اپنی بداخلاقی کا اظہار کرتا ہے۔ اور اس طرح خود اپنی ہتک کرتا ہے۔ میں گالیاں سنتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں تو اپنے بلند اخلاق کا اظہار کرتا ہوں جو میری عزت ہے۔ وہ مذہبی لیڈر جنہوں نے قوموں کی ترقی کے لئے کام کیا خواہ کسی بڑے طبقہ میں یا ایک بہت ہی محدود طبقہ میں کیا ہو وہ قابل عزت ہیں اور انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی عزت کی جائے جو قوم ایسا نہ کرنے والوں کی مدد کرتی ہے وہ خود اپنی تباہی کا سامان پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ وہ بھی مجرم ہیں۔ اور اپنی قوم کے دشمن ہیں اور جو ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے۔ میرے نزدیک تو اگر یہی شخص قاتل ہے تو اس کا سب سے بڑا خیر خواہ وہی ہو سکتا ہے جو اس کے پاس جائے اور اسے سمجھائے کہ دنیاوی سزا تو تمہیں اب ملے گی ہی لیکن قبل اس کے کہ وہ ملے تمہیں چاہئے کہ خدا سے صلح کر لو اس کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ اسے بتایا جائے تم سے غلطی ہوئی ہم تمہارے جرم کو تو کم نہیں کر سکتے لیکن بوجہ اس کے کہ تم ہمارے بھائی ہو تمہیں مشورہ دیتے ہیں کہ توبہ کرو۔ گرویہ و زاری کرو۔ خدا کے حضور گڑگڑائو۔ یہ احساس ہے جو اگر اس کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ خدا کی سزا سے بچ سکتا ہے اور اصل سزا وہی ہے<۔
حضور نے حکومت` عوام اور مسلمانوں کو قیمتی مشورے دینے کے علاوہ ہندو اور مسلمان دونوں سے اپیل کی کہ ایک دوسرے کے بزرگوں کا احترام کریں کہ یہی طریق قیام امن کا موجب ہو سکتا ہے۳۴۔
tav.5.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل دوم(
جلسہ سیرت النبیﷺ~ اور الفضل کا >خاتم النبیینﷺ~ نمبر<
۲/ جون ۱۹۲۹ء پچھلے سال کی طرح اندرون اور بیرون ملک میں جماعت احمدیہ کے زیر انتظام وسیع پیمانے پر سیرت النبیﷺ~ کے جلسے منعقد ہوئے۔ جو شان و شوکت میں آپ ہی اپنی نظیر تھے اس سال آنحضرت~صل۱~ کی مقدس زندگی کے مندرجہ ذیل پہلوئوں پر بالخصوص روشنی ڈالی گئی۔
۱۔
رسول کریم~صل۱~ کا غیر مذاہب سے معاملہ بلحاظ تعلیم اور تعامل۔
۲۔
توحید باری تعالیٰ پر رسول کریم~صل۱~ کی تعلیم اور زور۳۵
پچھلے سال کے جلسوں نے مسلمانوں میں اس کی عظمت و اہمیت کا سکہ بٹھا دیا تھا اس لئے اس دفعہ اسلامی پریس نے اس تقریب کے آنے سے کئی روز پہلے ہی اس کو کامیاب بنانے کی مہم شروع کر دی۔ چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے اخبار >منادی< )۲۴/ مئی ۱۹۲۹ء( میں لکھا۔
>ربیع الاول کے جشن خالص مذہبی تقریب کی صورت میں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسری جون کے جلسے اس طرز کے ہوں گے جن میں عیسائی اور ہندو وغیرہ وغیرہ بھی شریک ہو سکیں اور سیرت پاک رسول مقبول~صل۱~ کو سن کر اپنے ان خیالات کی اصلاح کر سکیں جو غلط پراپیگنڈا نے غیر مسلمین کے دلوں میں جما دیئے ہیں۔ لہذا میرے تمام رفیقوں اور مریدوں کو ان جلسوں کی تیاری و تعمیل میں پوری جدوجہد کرنی چاہئے<۳۶۔
اخبار >محسن< ملتان )۲۳/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>یہ امر قابل صدر ہزار ستائش ہے کہ سلسلہ احمدیہ کے امام صاحب نے اس مبارک تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے ہر مذہب و ملت کے پیروئوں کو مدعو کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر بین نظریں اس کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتیں۔ لیکن اگر بنظر امعان دیکھا جائے تو اس کی تہہ میں ایک بہت بڑا اسلامی تبلیغی راز مضمر ہے<۳۷۔
اخبار >پیغام عمل< فیروزپور )۲۴/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>ہم مسلمانوں کو خصوصاً و دیگر انصاف پسند اصحاب کی خدمت میں عموماً نہایت ادب و نیاز سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ فی الواقعہ ان ہر دو قوموں )مسلم و ہندو۔ ناقل( کے مابین صلح و آشتی چاہتے ہیں نیز دنیا کے ہادیان دین کی عزت و احترام کو اپنا فرض اولین یقین کرتے ہیں تو آئو حضرت امام جماعت احمدیہ کی اس مبارک تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اس کو ہر ممکن سے ممکن طریق سے کامیاب بنانے کی سعی کریں<۳۸۔
اخبار >مسلم راجپوت< نے ۱۵/ مئی ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں لکھا۔
>عہد حاضرہ میں ترقی اسلام کا یہ سب سے بڑا گر ہے کہ حضور سرور عالم کے اقوال و اعمال کو صحیح رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور ہماری رائے میں اہل قادیان کی یہ تحریک نہایت مبارک اور ہر اعتبار سے لائق تائید ہے اور تمام ان مسلمانوں کو جو حقیقت میں دین الفطرت کے چمن کو سرسبز اور شاداب دیکھنا چاہتے ہیں نہ صرف ان جلسوں کی تائید کرنی چاہئے بلکہ ان میں عملی حصہ لینا چاہئے۔
کوئی شخص ایسے جلسوں کی جس میں پیغمبر اسلام ~)صل۱(~ کی پاک زندگی کے حالات بیان کئے جائیں مخالفت کرے اور اس پر حمایت و تائید اسلام کا دم بھرے یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں بدقسمتی سے مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی ہے جو اس نیک تحریک کی مخالفت کو بھی اپنا ایمان سمجھتی ہے۔ اس جماعت کو سب سے بڑے دو اعتراض ہیں۔ )۱( حضرات قادیان اس میں اپنے مخصوص فرقہ وارانہ خیالات کی اشاعت کرتے ہیں اور )۲( وہ اپنے اغراض کی اشاعت کے لئے دوسرے مسلمانوں سے روپیہ وصول کرتے ہیں لیکن گزشتہ سال کے جلسوں پر اس قسم کی کوئی بات دیکھنے میں نہیں آئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہر دو الزامات غلط ہیں اور محض ایک مفید کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ ان خواہ مخواہ کے مخالفین کی باتوں پر کان نہ دھریں<۳۹4] [rtf۔
اخبار >مشرق< گورکھپور )۹/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>مسلمانوں میں احمدی جماعت جس خلوص کے ساتھ قومی خدمات انجام دے رہی ہے دوسری جماعتیں اس خلوص کے ساتھ یہ خدمات انجام نہیں دیتیں۔ ہم کو اس کا اعتراف ہے یہ احمدی وہی لوگ ہیں جن کو کمزور سمجھ کر دوسرے مسلمان اپنی قوت کے زور پر سنگسار کراتے ہیں افسوس معلوم نہیں لا اکراہ فی الدین کے عامل اس قسم کے جبر و تشدد اور عقیدہ پرستی کہاں سے سیکھ کر آئے ہیں اس ہی احمدی جماعت کے مخلص ممبروں نے پچھلے سال میں اپنی محنت اور خلوص سے آنحضرت~صل۱~ کے مقدس حالات جو غیر مسلموں میں تاریکی کے اندر پڑے ہیں خود غیر مسلموں سے پلیٹ فارموں پر بلا کر ظاہر کرائے ہیں اس ہی جماعت کے اراکین کی جدوجہد سے امسال پھر ۲/ جون ۱۹۲۹ء کو حضور کے حالات ملک کے گوشتہ گوشتہ میں بیان کئے جائیں گے۴۰۔
اخبار >ہمت< لکھنئو )۳/ مئی ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>جناب امام جماعت احمدیہ کی یہ مبارک تجویز بے حد مقبول ہو رہی ہے کہ مختلف اور مخصوص مقامات پر اس طرح کے جلسے منعقد کئے جائیں جن میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے علماء اور لیکچرار بالاتفاق سیرت نبویﷺ~ پر اظہار خیالات فرمائیں اور ان جلسوں میں دوسرے فرقوں کے افراد کو بھی شرکت کی دعوت اور ان کی نشست وغیرہ کا انتظام کیا جائے جماعت احمدیہ کی سنجیدہ اور ٹھوس تبلیغی سرگرمیاں ہر حیثیت سے مستحق مبارکباد ہیں اور ہمارے نزدیک مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس نہایت مفید اور اہم تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پوری سعی سے کام لیں<۴۱۔
حکیم مولوی امجد علی صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس دہلی نے کہا۔
>۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نازک وقت میں جبکہ ہندوستان میں چاروں طرف آگ لگی ہوئی تھی حضرت امام جماعت احمدیہ نے ان پاک جلسوں کی بنیاد رکھ کر ہم پر بڑا احسان کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہامی تحریک تھی<۴۲۔
اسلامی پریس نے امسال بھی ان جلسوں پر مفصل تبصرہ کیا اور ان کی افادیت کا اقرار کیا۔ چنانچہ >انقلاب< )لاہور( >کشمیری گزٹ< )لاہور( >مدینہ< )بجنور( >تعمیر< )فیض آباد( >محسن< )ملتان( >سیاست< )لاہور( >صحیفہ< )حیدر آباد دکن( >حقیقت`< >ہمدم`< )ہمت( )لکھنئو( اور بنگال کے متعدد انگریزی` اردو` بنگالی اخبارات کے علاوہ بیرونی ممالک میں >ڈیلی نیوز< شکاگو اور افریقہ کے متعدد اخبارات نے اپنے اپنے رنگ میں اس تحریک کی پرزور تائید کی اور بعض نے جلسوں کی روئیدادیں بھی شائع کیں۴۳۔
اس کے مقابل سیرت النبیﷺ~ کے جلسوں کی سب سے زیادہ مخالفت اخبار >زمیندار< کے ایڈیٹر مولوی ظفر علی خاں کی طرف سے کی گئی جس کی وجہ سے ملتان` فیض آباد` انبالہ` لاہور اور پشاور وغیرہ مقامات میں افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی۔ غیر جانبدار اسلامی پریس مثلاً اخبار >تعمیر< فیض آباد )۴/ جون ۱۹۲۹ء( اخبار >محسن< ملتان )۶/ جون ۱۹۲۹ء( اور اخبار >سیاست< لاہور )۸/ جون ۱۹۲۹ء( نے اس پر زبردست تنقید کی چنانچہ موخر الذکر اخبار نے خصوصاً پشاور کے مخالفین کے متعلق لکھا۔
>سب سے زیادہ اندوہناک مداخلت پشاور میں رونما ہوئی۔ پشاور لاہور سے بہت دور ہے اور وہاں کے نوجوان اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ گدائے لم یزل۴۴ کی مخالفت و موافقت کبھی بھی فی سبیل اللہ نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اس کی شریرانہ تحریروں سے متاثر ہو کر جلسہ میں گدھے چھوڑ دیئے اور اس طرح پشاور کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا نہیں نہیں صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ہادی و رہنما )فداہ ابی( کی یاد کے جلسے کو برباد کرکے اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کر دیا اور مخالفین کو یہ کہنے کا موقعہ دیا کہ مسلمان سچے دل سے رسول اللہ~صل۱~ کی قدر نہیں کرتے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس شرارت کے ذمہ دار چند جاہل لونڈے ہوں گے ہماری دعا ہے کہ خداوند کریم انہیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے<۴۵۔
گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی >الفضل< نے ۳۱/ مئی ۱۹۲۹ء کو شاندار خاتم النبیینﷺ~ نمبر شائع کیا۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے علاوہ جماعت احمدیہ کے مشہور اور جید علماء و فضلا )اور احمدی خواتین( نے مضمون لکھے۔ غیر احمدی مضمون نگاروں میں سے مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریذیڈنٹ لیجسلیٹو اسمبلی دہلی` سید حبیب صاحب ایڈیٹر روزنامہ >سیاست< لاہور` ملا رموزی صاحب` خواجہ حسن نظامی صاحب دہلی اور غیر مسلم مضمون نگاروں میں سے لالہ رام چند صاحب منچندہ بی۔ اے۔ ایل ایل بی وکیل لاہور` پنڈت ٹھاکر دت صاحب شرما` موجدامرت دھارا` لالہ جگن ناتھ صاحب بی اے۔ ایل ایل بی وکیل کبیر والہ )ضلع ملتان( پروفیسر ایچ۔ سی۔ کمار صاحب بی۔ اے اور پادری غلام مسیح صاحب لاہور خاص طور پر قابل ذکر تھے۔ اس نمبر کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ احمدی غیر احمدی اور غیر مسلم شعراء نے اپنے نعتیہ کلام اس کے لئے بھیجا تھا۔ مثلاً حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری` ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب` حضرت میر محمد اسمعیل صاحب` حضرت مولوی ذوالفقار علی صاحب` جناب حکیم سید علی صاحب آشفتہ لکھنوی` لسان الملک ریاض خیر آبادی` لسان الہند مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی` منشی لچھمن نرائن صاحب سنہا بی۔ اے` لسان القوم صفی لکھنوی` اعتبار الملک حکیم مولوی ضمیر حسن خان صاحب دل شاہ جہانپوری۔
الفضل کے اس خصوصی نمبر پر غیر مسلم اور مسلم دونوں حلقوں نے عمدہ آراء کا اظہار کیا۔
۱۔
چنانچہ لالہ رام چند صاحب منچندہ بی اے۔ ایل ایل بی۔ ایڈووکیٹ لاہور نے لکھا۔
>میں نے اہل قلم کے قیمتی مضامین کو جو تمام کے تمام حضرت رسول اللہ کی پاک ذات اور سوانح عمری کے متعلق ہے نہایت ہی مسرت اور دلچسپی سے پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔ اگر استقلال کے ساتھ اس کو جاری رکھا گیا تو آج سے تیس سال بعد کئی ہندو گھرانوں میں پیغمبر صاحب کی برسی منائی جائے گی۔ اور جو کام مسلم بادشاہ ہندوئوں سے نہیں کرا سکے وہ آپ کرا سکیں گے` ملک میں امن ہو گا` خوشحالی ہو گی` ترقی اور آزادی ہو گی اور ہندو مسلم باوجود اختلافات کے بھائیوں کی طرح رہیں گے<۴۶۔
۲۔
اخبار >کشمیری< لاہور )۱۴/ جون ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>الفضل کے خاتم النبیین نمبر کی کئی دنوں سے دھوم تھی آخر ۳۱/ مئی کو یہ نمبر دیدہ زیب جاذب توجہ شکل اور صوری و معنوی خوبیوں کے ساتھ شائع ہو گیا<۔ الخ4] ft[s۴۷۔
۳۔
اخبار >سیاست< )۱۶/ جون ۱۹۲۹ء( لاہور نے لکھا۔
>یہ نمبر ہماری نظر سے گزارا ہے اس میں ملک کے بہترین انشاء پردازوں کے قلم سے اسوہ حسنہ رسول پاک کے متعلق مضامین موجود ہیں۔ ہر مضمون اس قابل ہے کہ موتیوں سے تولا جائے<۴۸۔
۴۔
اخبار >منادی< )دہلی( )۲۱/ جون ۱۹۲۹ء( نے لکھا۔
>اس سال بھی اخبار الفضل کا خاتم النبیین نمبر نہایت قابلیت اور عرقریزی سے مرتب کیا گیا ۔۔۔۔۔۔ جس کا مطالعہ سے گو ناگوں معلومات کے حصول کے علاوہ ایمان بھی تازہ ہوتا ہے ہمارے نزدیک اس اخبار کا یہ نمبر اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس کا مطالعہ کرے<۴۹۔
ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری قادیان میں
جون ۱۹۲۹ء کے شروع میں ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری قادیان تشریف لائے۔ ان کی آمد پر تعلیم الاسلام ہائی سکول کی گرائونڈ میں ایک مجلس مشاعرہ منعقد ہوئی جس میں دوسرے اصحاب کے علاوہ ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری نے جو ابھی نوجوان ہی تھے اور >شاہنامہ اسلام< کی اشاعت کے لئے کوشاں تھے۔ >شاہنامہ اسلام< کے بعض حصے اپنی مخصوص طرز میں پڑھ کر سنائے اس مجلس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی شمولیت فرمائی۵۰۔
حفیظ صاحب نے >شاہنامہ اسلام< کی اشاعت سے پہلے اس کے بعض حصے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بھی دکھائے تھے اور حضور کے ارشاد پر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے اس کی سو کاپیاں پیشگی قیمت پر خریدی تھیں۵۱۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا سفر کشمیر
۱۹۲۹ء کا نہایت اہم اور قابل ذکر واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کا سفر کشمیر ہے جو ۵/ جون ۱۹۲۹ء۵۲ سے شروع ہو کر ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء۵۳ کو ختم ہوا۔ حضور کے اہل بیت و صاحبزادگان کے علاوہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلالپوری` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور مولوی قمر الدین صاحب بھی رفیق سفر تھے۔ آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی سری نگر تشریف لے گئے10] [p۵۴۔ سری نگر میں حضور نے ہائوس بوٹ میں قیام فرمایا۔
اس سفر کی )جو کشمیر کا اس وقت تک آخری سفر ہے( نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ حضور نے دوران قیام میں ریاست کشمیر و جموں کی جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کو اپنی تقریروں اور خطبوں میں ایمان کے ساتھ عمل صالح اختیار کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور مختلف طریقوں اور پیرایوں سے ان کو اخلاقی` ذہنی اور روحانی تغیر پیدا کرنے کی انقلاب انگیز دعوت دی اور خصوصاً کشمیری احمدیوں کو ان کی تنظیمی اور تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا۔
اس سلسلہ میں حضور کے خطبات و تقاریر کے بعض اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ >یہاں کی جماعت تنظیم کی طرف توجہ نہیں کرتی۔ اگر وہ منظم جماعت کی صورت میں ہو اور تبلیغی کوششوں میں لگ جائے تو ریاست میں اچھا اثر پڑے۔ اس علاقہ میں جماعتیں تو موجود ہیں اور اچھی جماعتیں ہیں مگر چونکہ ان کی کوئی تنظیم نہیں اس لئے علاقہ پر اثر نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔ اگر ایسا ہو جائے تو مسلمان ترقی کر سکتے ہیں<۔ )فرمودہ ۲۷/ جون ۱۹۲۹ء( )بمقام سرینگر۵۵(۲۔ >صحیح طریق یہ ہے کہ انسان ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جس قدر کسی کی طاقت ہو۔ اس قدر کرے اس سے وہ اپنی حالت میں ایک پورا درخت ہو جائے گا جو کم و بیش دوسروں کے لئے فائدہ کا موجب ہو گا اس کے اندر حسن سلوک کی عادت احسان کرنے کا مادہ ہو` لوگوں کی مدد کرنے اور بھلائی کرنے کی عادت ہو الغرض تمام قسم کی نیکیاں کم و بیش اس کے اندر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ تب ہی اس کے اندر سرسبز درخت والی خوبصورتی پیدا ہو گی<۵۶۔ )فرمودہ ۲۱/ جون ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر(
۳۔ >جو باتیں مسلمانوں نے چھوڑ دی ہیں جب تک وہ دوبارہ ان میں پائی نہ جائیں کبھی اور کسی حال میں ترقی نہیں کر سکتے۔ محنت کی عادت ڈالیں` دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں` خدمت خلق کو اپنا فرض سمجھیں تب وہ ترقی کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام چونکہ اچھی چیز تھی اس وقت تک اس ملک میں اسلام کی خوبیوں کا نقش موجود ہے۔ گو مسلمان اپنی غفلت کی وجہ سے مٹا دیئے گئے یہاں کشمیر میں بھی یہی مرض پایا جاتا ہے اس لئے میں نے اپنے خطبے اس طرز کے بیان کرنے شروع کئے ہیں کہ مسلمانوں میں عمل نہ کرنے کی وجہ سے جو پستی ہے اس میں تبدیلی پیدا ہو۔ کیونکہ مسلمان اپنی مدد آپ نہ کریں گے محنت نہ کریں گے دیانتداری سے کام نہ کریں گے اپنے آپ کو مفید نہ بنائیں گے تب تک ترقی نہ ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کو چاہئے خدا تعالیٰ کی امداد کے طالب ہوں۔ دوسروں پر توکل نہ کریں بلکہ خود عمل کریں اور خدا تعالیٰ کے ماننے والوں میں سے ہوں<۵۷۔ )فرمودہ ۵/ جولائی ۱۹۳۰ء بمقام سرینگر(
۴۔ >بعض قربانیاں ایسی کرنی پڑتی ہیں جن کا نفع فوری طور پر نظر نہیں آتا مگر اس کے پس پردہ بہت عظیم الشان فوائد ہوتے ہیں انبیاء کے حقیقی متبعین بھی قربانیاں کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ بلحاظ ایمان کے پتھر کی چٹان کی طرح ثابت ہوں ۔۔۔۔۔۔ ماموروں کا کام نئی زندگی پیدا کرنا ہوتا ہے انبیاء کی جماعتوں کے ہر فرد کو سمجھنا چاہئے کہ میرے ہی ذریعہ دنیا کی نجات ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس قسم کے چالیس مومنوں کی خواہش رکھتے تھے کہ اگر ہماری جماعت میں پیدا ہو جائیں تو پھر تمام دنیا کا فتح کرنا آسان ہو جاتا ہے<۵۸۔ )فرمودہ ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر(
۵۔ >ان اصول کے ذریعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیش فرمائے ہیں قرآن اور حدیث کے مطالب حل کرنا ایک کھلی بات ہوگئی ہے اور ہمارے دوستوں کے لئے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث پر تدبر کریں اور خصوصاً نوجوانوں کو بہت زیادہ توجہ کرنی چاہئے کیونکہ ہر ایک قوم نواجونوں کی کوشش سے ترقی کرتی ہے<۔ )فرمودہ ۲/ اگست ۱۹۲۹ء بمقام آڑو کشمیر۵۹(
۶۔ اھدنا الصراط المستقیم میں یہ سکھایا گیا ہے کہ اے خدا ہمیں کام کے مسلمان بنا ہم نام کے مسلمان نہ ہوں کیونکہ نام کی کچھ حقیقت نہیں اصل چیز کام ہے<۶۰۔ )فرمودہ ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء بمقام سرینگر(
۷۔ >پاک لوگوں کا دل خدا تعالیٰ کی محبت اور الفت میں اس قدر گداز ہوتا ہے کہ گویا اس کے مقابلہ میں جس نے کچھ کیا ہی نہیں ہوتا۔ یہی وہ درجہ ہے جس کے لئے ہر ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے اسی کے لئے رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے۔ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو گیا اور اگر وہ خراب ہوگیا تو سارا جسم خراب ہوگیا۔ الا وھی القلب۔ سنو وہ دل ہے پس اصل چیز انسان کے دل کی پاکیزگی ہے<۶۱۔ )فرمودہ ۹/ اگست ۱۹۲۹ء بمقام پہلگام(
ان سات مختصر اقتباسات سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کشمیر اور دوسرے مسلمانوں کو بیدار کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ ریاست کے مسلمانوں میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہو جائے۔
سفر کشمیر کے دوسرے قابل ذکر واقعات
اس خصوصی مہم کے علاوہ سفر کشمیر کے کئی اور قابل ذکر واقعات بھی ہیں جن کا بیان کرنا ضروری ہے۔ مثلاً
عیادت خواجہ کمال الدین صاحب: حضور ۱۹۲۹ء کو بذریعہ موٹر ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ساتھ لے کر خواجہ کمال الدین صاحب کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے جو نشاط باغ کے آگے سرینگر سے ۵۰۰ فٹ کی بلندی پر خیمہ میں رہائش پذیر تھے۔ حضور ایک گھنٹہ تک خواجہ صاحب کے پاس تشریف فرما رہے۶۲۔
حضور اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔ >اسلامی سنت کو پورا کرنے کے لئے اور اس وجہ سے کہ میں چھوٹا تھا اور مدرسہ میں پڑھتا تھا خواجہ صاحب نے تین چار دن مجھے حساب پڑھایا تھا اور اس طرح وہ میرے استاد ہیں میں ان کی عیادت کے لئے گیا تھا۔ موقع کے لحاظ سے ان کی بیماری کے متعلق باتیں ہوتی رہیں<۶۳۔
یاڑی پورہ کے جلسہ میں شرکت: ۱۵/ اگست ۱۹۲۹ء کو جماعت احمدیہ یاڑی پورہ کا جلسہ منعقد ہوا جس میں حضور معہ مولانا محمد اسمعیل صاحب ہلالپوری` مولوی قمر الدین صاحب۶۴` مولوی عبدالرحیم صاحب درد بذریعہ موٹر تشریف لے گئے۔ احباب جماعت نے حضور کا شاندار استقبال کیا جلسہ گاہ میں جو مسجد احمدیہ کے صحن میں بنائی گئی تھی۔ خوب آراستہ کی گئی تھی۔ نماز ظہر و عصر پڑھانے کے بعد حضور نے ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے کئے جاتے ہیں اور بڑے چھوٹے۔ تقریر میں صحابہ کرام کی مثالیں پیش کرکے احمدی احباب کو خدمت اسلام تبلیغ احمدیت اور بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی۶۵۔ اور آخر میں ارشاد فرمایا۔
>میں جماعت کے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں خواہ کوئی تاجر ہو یا واعظ` زمیندار ہو یا گورنمنٹ کا ملازم خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک کو سب سے اول اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے اور لوگوں کے سامنے اپنا ایسا نمونہ پیش کرنا چاہئے کہ جو کوئی دیکھے پکار اٹھے خدا رسیدہ لوگ ایسے ہوتے ہیں اگر ایسی حالت ہو جائے تو پھر دیکھ لو احمدیت کی ترقی کے لئے کس طرح رستہ کھل جاتا ہے<۶۶۔
یاڑی پورہ میں قریباً چونسٹھ افراد نے بیعت کی۔
جموں میں تقریر: سرینگر سے واپسی پر حضور نے ایک روز جموں میں قیام فرمایا۔ جہاں ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو آپ نے ایک اہم تبلیغی تقریر فرمائی جس میں طالبان حق کو بڑے پرجوش الفاظ میں توجہ دلائی کہ وہ سچے مذہب اور سچی جماعت کی تلاش میں خدا تعالیٰ سے بذریعہ دعا رہنمائی طلب کریں۶۷۔
tav.5.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل سوم(
حضرت حافظ روشن علی صاحب >عبدالکریم ثانی< کی وفات
علامہ حضرت حافظ روشن علیؓ کی وفات
۱۹۲۹ء کا روح فرسا واقعہ حضرت حافظ روشن علیؓ جیسے مثالی عالم ربانی کی وفات ہے جو ۲۳/ جون ۱۹۲۹ء کی شام کو واقع ہوئی۶۸۔ حضرت میر محمد اسحاقؓ کے الفاظ میں >حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور حضرت نور الدینؓ اعظم کو چھوڑ کر سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحومؓ کی وفات کے بعد کوئی حادثہ حافظ صاحب مرحوم کے حادثہ جیسا نہیں ہوا۶۹۔
جماعت احمدیہ نے یہ عظیم صدمہ کتنی شدت سے محسوس کیا اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ حضرت حافظ صاحب کی یاد میں کئی ماہ تک مضامین شائع ہوتے رہے۷۰۔ سلسلہ کے بزرگوں اور شاعروں۷۱ نے عربی اردو اور فارسی میں دردناک مرثیے کہے اور آپ کے شاگردوں اور مرکزی اداروں اور بیرونی جماعتوں کی طرف سے تعزیتی قراردادیں پاس کی گئیں۔ حتیٰ کی سلسلہ کے مشہور مخالف جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار >اہلحدیث< میں لکھا۔
>حافظ روشن علی قادیانی جماعت میں ایک قابل آدمی تھے۔ قطع نظر اختلاف رائے کے ہم کہتے ہیں کہ موصوف خوش قرات خوش گو تھے۔ مناظرے میں متین اور غیر دلازار تھے۔ مرزا صاحب کے راسخ مرید تھے۔ ہمیں ان کی وفات میں ان کے متعلقین سے ہمدردی ہے<۷۲۔
اخبار >پیغام صلح< لاہور نے لکھا۔
>حافظ روشن علی صاحب ایک متشدد محمودی تھے۔ محمودیت کی حمایت میں انہوں نے ہمیشہ غالیانہ سپرٹ کا اظہار کیا۔ تاہم ان میں بعض خوبیاں بھی تھیں جن کی وجہ سے ان کی موت باعث افسوس ہے حافظ صاحب حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ مرحوم کے شاگردوں میں سے تھے نہایت ذہین` خوش بیان` خوش الحان اور عالم آدمی تھے۔ نہ صرف علوم اسلامیہ پر کافی عبور تھا بلکہ غیر مذاہب سے بھی خاصی واقفیت رکھتے تھے اور آریہ سماج کے ساتھ کئی مناظرے انہوں نے کئے<۷۳۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت حافظ صاحب کی وفات کے وقت چونکہ سرینگر میں مقیم تھے۔ اس لئے امیر مقامی حضرت مولوی شیر علی صاحب نے حضور کو بذریعہ تار اطلاع دی۔ جس پر حضور نے تعزیت کا مندرجہ ذیل تار ارسال فرمایا۔
>۲۴/ جون محمود آباد۔ سرینگر
مولوی شیر علی صاحب کا تار حافظ روشن علی صاحب کی وفات کے متعلق ملا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں تاکہ اس قابل قدر دوست اور زبردست حامی اسلام کی نماز جنازہ خود پڑھا سکوں۔ حافظ صاحب مولوی عبدالکریم صاحب ثانی تھے۷۴۔ اور اس بات کے مستحق تھے کہ ہر ایک احمدی انہیں نہایت عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے۔ انہوں نے اسلام کی بڑی بھاری خدمت سرانجام دی ہے اور جب تک یہ مقدس سلسلہ دنیا میں قائم ہے انشاء اللہ ان کا کام کبھی نہیں بھولے گا۔ ان کی وفات ہمارے سلسلہ اور اسلام کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے لیکن ہمیشہ ایسے ہی صدمے ہوتے ہیں جنہیں اگر صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب بن جاتے ہیں ہم سب فانی ہیں لیکن جس کام کے لئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو موت و حیات کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ غیر معلوم اسباب کے ذریعہ اپنے کام کی تائید کرے گا۔ چونکہ ہماری جماعت ہمارے پیارے اور معزز بھائی کی خدمات کی بہت ممنون ہے اس لئے میں درخواست کرتا ہوں کہ تمام دنیا بھر کی احمدیہ جماعتیں آپ کا جنازہ پڑھیں۔ یہ آخری خدمت ہے جو ہم اپنے مرحوم بھائی کی ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بدلہ ان بیش قیمت خدمات کے مقابلہ میں جو انہوں نے اسلام کے لئے کیں کیا حقیقت رکھتا ہے۔
میں احباب کے ساتھ سرینگر میں نماز جنازہ پڑھوں گا۔ اگر لاش کے متغیر ہو جانے کا خوف نہ ہوتا تو التوائے تدفین کی ہدایت دے کر میں اس آخری فرض کو ادا کرنے کے لئے خود قادیان آتا اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر جو ہم سے رخصت ہو گئے ہیں اور ان پر بھی جو زندہ ہیں اپنی رحمتیں نازل فرمائے<۷۵۔
چنانچہ یہ تار پہنچنے کے بعد قادیان میں ۲۴/ جون کو ۱۱ بجے کے قریب حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی سے جہاں ایام علالت میں آپ مقیم ¶تھے آپ کا جنازہ اٹھایا گیا۔ جنازہ کے ہمراہ ایک انبوہ کثیر تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے باغ میں حضرت مولوی شیر علی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور یہ مقدس اور خدانما وجود مقبرہ بہشتی میں دفن کر دیا گیا۷۶۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سرینگر میں نماز جنازہ پڑھائی اور دوسرے مقامات کی احمدی جماعتوں نے حضور کے حکم کے مطابق اپنی اپنی جگہ غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔
حضرت امیر المومنین نے ۲۸/ دسمبر ۱۹۲۹ء سالانہ جلسہ کے موقعہ پر حافظ صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا۔
>میں سمجھتا ہوں میں ایک نہایت وفادار دوست کی نیک یاد کے ساتھ بے انصافی کروں گا اگر اس موقعہ پر حافظ روشن علی صاحب کی وفات پر اظہار رنج و افسوس نہ کروں۔ حافظ صاحب مرحوم نہایت ہی مخلص اور بے نفس انسان تھے۔ میں نے ان کے اندر وہ روح دیکھی۔ جسے اپنی جماعت میں پیدا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو خواہش تھی۔ ان میں تبلیغ کے متعلق ایسا جوش تھا کہ وہ کچھ کہلوانے کے محتاج نہ تھے۔ بہت لوگ مخلص ہوتے ہیں کام بھی اچھا کرتے ہیں مگر اس امر کے محتاج ہوتے ہیں کہ دوسرے انہیں کہیں کہ یہ کام کرو تو وہ کریں۔ حافظ صاحب مرحوم کو میں نے دیکھا وہ سمجھتے تھے گو خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا ہے۔ مگر ہر مومن کا فرض ہے کہ ہر کام کی نگہداشت کرے اور اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ایسا ہی ذمہ دار سمجھتے تھے جیسا اگر کوئی مسلمان بالکل اکیلا رہ جائے اور )وہ اپنے آپ کو ذمہ دار( سمجھے یہ ان میں ایک نہایت ہی قابل قدر خوبی تھی اور اس کا انکار ناشکری ہو گا یہ خوبی پیدا کئے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی کہ ہر شخص محسوس کرے کہ سب کام مجھے کرنا ہے۔ اور تمام کاموں کا میں ذمہ دار ہوں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے ہی لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہا گر مجھے چالیس مومن میسر آجائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کر لوں۔ یعنی ان میں سے ہر ایک محسوس کرے کہ مجھ پر ہی جماعت کی ساری ذمہ داری ہے اور میرا فرض ہے کہ ساری دنیا کو فتح کروں<۷۷۔
حضرت حافظ صاحب کے جانشین
حضرت حافظ روشن علی صاحب کی وفات سے جماعت کے تبلیغی کاموں میں جو خلا پیدا ہو گیا اس کا پر ہونا بہت مشکل نظر آتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعض نامور شاگردوں کو جنہیں آپ نے مرض الموت میں وصیت فرمائی تھی کہ >میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں<۷۸ اس خلا کے پر کرنے کے لئے آگے بڑھا دیا اور انہوں نے تبلیغ و اشاعت دین کے میدان میں ایسی ایسی خدمات سر انجام دیں کہ وہ حضرت حافظ روشن علی ثانی بن گئے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
>کچھ عرصہ کے بعد جب ادھر میر محمد اسحاق صاحب کو انتظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہو گئی اور ادھر حافظ روشن علی صاحب وفات پا گئے تو ۔۔۔۔۔۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں<۷۹۔
حضرت حافظ روشن علیؓ کی وفات کے بعد افتاء کی اکثر و بیشتر ذمہ داری۸۰ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب کے کندھوں پر آپڑی جسے آپ عمر بھر کمال خوبی و خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۸۱۔ حضرت مولانا کا طریق تھا کہ آپ جامعہ احمدیہ کے طلبہ کو بھی استفتاء کا جواب دینے کے لئے ارشاد فرماتے اور ساتھ ہی کتابوں کی بھی رہنمائی فرماتے اور پھر اس پر نظر ثانی کرکے بھجواتے اس طرح آپ کی رہنمائی اور نگرانی میں آپ کے شاگردوں کو بھی فقہی مسائل میں دسترس حاصل ہو جاتی۸۲۔
>جواب مباہلہ<
اخبار >مباہلہ<۸۳ دسمبر ۱۹۲۸ء سے نہایت ناپاک اور شرمناک پراپیگنڈا کر رہا تھا۔ جس کے تحقیقی اور مدلل جواب کے لئے مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری سیکرٹری انجمن انصار خلافت لاہور نے >جواب مباہلہ< کے نام سے ٹریکٹوں کا ایک سلسلہ جاری کیا۔ اس سلسلہ میں پہلا ٹریکٹ ۳۰/ جون ۱۹۲۹ء کو لاہور سے شائع ہوا۔
مولوی ابوالعطاء صاحب نے اس سلسلہ کے شروع کرنے سے پہلے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے اجازت بھی چاہی اور ضروری ہدایات کی بھی درخواست کی۔ حضور نے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل نہایت پرزور اور بصیرت افروز جواب تحریر فرمایا جو پہلے ٹریکٹ میں بھی شائع کر دیا گیا۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ط
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مکرمی۔ السلام علیکم۔ بے شک اس کام کو شروع کریں اللہ تعالیٰ نے آپ کا مددگار اور ناصر ہو۔ میں تو خود ان امور کا جواب دینا شرعاً اور بعض رئویا کی بنا پر مناسب نہیں سمجھتا لیکن ایک ادنیٰ تدبر سے انسان ان لوگوں کے مفتریانہ بیانات کی حقیقت کو پا سکتا ہے۔ میرا جواب تو میرا رب ہے میں اسی کو اپنا گواہ بناتا ہوں وہ سب کھلی اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور اسی کا فیصلہ درست اور راست ہے وہ اس امر پر گواہ ہے کہ اخبار مباہلہ والوں نے سر تا پا جھوٹ بلکہ افترا سے کام لیا ہے اور انشاء اللہ وہ گواہ رہے گا۔ میں اسی کے فضل کا امیدوار اور اسی کی نصرت کا طالب ہوں رب انی مغلوب فانتصر میں ان لوگوں کے بیانات پر جو اخبارات میں شائع ہوئے ہیں سوائے اس کے یہ کہوں کہ انہیں خدا تعالیٰ کی *** سے ڈرنا چاہئے کہ سر تا پا کذب و بہتان سے کام لے رہے ہیں اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا اگر میرا رب مجھ سے کام لینا چاہتا ہے تو وہ خود میرا محافظ ہو گا اور اگر وہی مجھ سے کام نہیں لینا چاہتا تو لوگوں کی تعریفیں میرا کچھ نہیں بنا سکتیں۔ باقی رہیں ہدایات۔ سو میرے نزدیک ہر ایک عقلمند انسان جو شریعت کے امور سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہو ان لوگوں کے غلط طریق سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ ہاں ایک سوال ہے جس کا شائد آپ جواب نہ دے سکیں اور وہ یہ ہے کہ بعض نادان اور شکوک و شبہات میں پڑے ہوئے لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ مباہلہ نہ کرنا اس سبب سے نہیں کہ مباہلہ کو میں جائز نہیں سمجھتا بلکہ اس سبب سے ہے کہ میں مباہلہ کرنا نہیں چاہتا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو مباہلہ بھی ہر شخص سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے بھی شرائط ہیں مگر اس قسم کے امور کے لئے کہ جن کے متعلق حدود مقرر ہیں اور گواہی کے خاص طریق مذکور ہیں مباہلہ چھوڑ کر قسم بھی جائز نہیں اور ہرگز درست نہیں کہ کسی شخص )الزام دہندہ( کو ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کی اجازت دی جائے یا مطالبہ پر مباہلہ کو منظور کر لیا جائے مجھے یہ کامل یقین ہے اور ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ ایسے امور کے متعلق مباہلہ کا مطالبہ کرنا یا ایسے مطالبہ کو منظور کرنا ہرگز درست نہیں بلکہ شریعت کی ہتک ہے اور میں ہر مذہبی جماعت کے لیڈروں یا مقتدر اصحاب سے جو اس امر کا انکار کریں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اگر مولوی محمد علی صاحب یا ان کے ساتھ جو مباہلہ کی اشاعت میں یا اس قسم کے اشتہارات کی اشاعت میں خاص حصہ لے رہے ہیں۔ مجھ سے متفق نہیں بلکہ ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کا یہ یقین ہے کہ جو شخص ایسے مطالبہ کو منظور نہیں کرتا وہ گویا اپنے جرم کا ثبوت دیتا ہے تو ان کو چاہئے کہ اس امر پر مجھ سے مباہلہ کر لیں۔ پھر اللہ تعالیٰ حق و باطل میں خود فرق کر دے گا۔
خاکسار مرزا محمود احمد4] [stf۸۴ ۲۹/۶ ۱۵
اس باطل شکن چیلنج کو قبول کرنے اور میدان مباہلہ میں آنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی۔
مذبح قادیان کے انہدام کا واقعہ
قادیان کے احمدی اور دوسرے مسلمان اپنی ضروریات کے لئے عید اور دوسرے موقعوں پر گائے ذبح کیا کرتے تھے لیکن جب حکومت نے یہاں سمال ٹائون کمیٹی قائم کی تو اس عمل کو ایک باضابطہ شکل میں لانے کے لئے کمیٹی کی معرفت مذبح کی درخواست دی گئی۔ جو ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور نے منظور کر لی اور کمیٹی نے بھینی متصل قادیان میں منظور شدہ جگہ پر مذبح تعمیر کیا اور جولائی میں اس کے کھلنے کی اجازت ملی اور جونہی اس میں باقاعدہ کام شروع ہوا۔ قادیان کے فتنہ پرداز ہندوئوں اور سکھوں نے اردگرد کے سادہ مزاج اور دیہاتی سکھوں کو بھڑکانا شروع کیا اور ۷/ اگست ۱۹۲۹ء کو کئی سو سکھوں کے شوریدہ سر ہجوم کے ذریعہ پولیس کی موجودگی میں پندرہ منت کے اندر اندر مذبح مسمار کرا دیا۸۵۔ اور پھر سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف آلہ کار بنانے کے بعد ڈپٹی کمشنر کے فیصلہ کے بعد۸۶ کمشنر صاحب کے پاس اپیل دائر کر دی اور اس فتنہ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے مرعوب ہو کر مذبح کا لائسنس منسوخ کر دیا۔
اس واقعہ نے سارے ہندوستان کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی زبردست لہر دوڑا دی۔ اور مسلم پریس نے ایسا متحدہ احتجاج کیا جس کی نظیر نہیں ملتی چنانچہ >انقلاب< )لاہور( >مدینہ< )بجنور( >پیغام صلح< )لاہور( >منادی< )دہلی( >الجمعیتہ< )دہلی( >دور جدید< )لاہور( >تازیانہ< )لاہور( >مسلم آئوٹ لک< )لاہور( >وکیل< )امرتسر( >مونس< )اٹاوہ( >اہلحدیث< )امرتسر( >زمیندار< )لاہور( >الامان< )دہلی( >شہاب< )راولپنڈی( >حقیقت< )لکھنئو( >ہمت< )لکھنئو( نے مذبح کی تائید و حمایت میں پرزور اداریے لکھے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ )امرتسر و گورداسپور( >مجلس خلافت پنجاب< نے ریزولیوشن پاس کئے۔
جس زمانہ میں مذبح سے متعلق یہ فتنہ برپا کیا گیا ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سری نگر میں تشریف فرما تھے اور حضور معاملہ کے آغاز ہی سے اس میں غیر معمولی دلچسپی لیتے اور ہدایات دیتے رہے تھے اور سری نگر سے واپسی کے بعد تو آپ نے ایک طرف تو ملی و قومی حق کے حاصل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ میں زبردست جوش و خروش پیدا کر دیا اور دوسری طرف ۹/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو مسئلہ ذبیحہ گائے سے متعلق ہندو` سکھ اور مسلم لیڈروں کے نام مفصل مکتوب لکھا۔ جو الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء میں شائع ہوا۔ جس کے جواب میں سردار جوگندر سنگھ صاحب` سردار تارا سنگھ صاحب` بھائی پرمانند صاحب دیانند کالج جالندھر اور بعض مسلمان لیڈروں کے خطوط موصول ہوئے۔ چونکہ کمشنر صاحب لاہور کی عدالت میں مذبح قادیان سے متعلق اپیل کی سماعت ہونے والی تھی اس لئے سب سے بڑی ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلمانوں کا کیس صحیح صورت میں رکھا جائے۔ یہ اہم کام چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے سپرد ہوا۔ جنہوں نے ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو چوٹی کے ہندو وکلاء کے دلائل کی زبردست تردید کرتے ہوئے مذبح کی ضرورت واضح کی۔ ہندو وکلاء آپ کی بحث کے سامنے کوئی ایسی معقول دلیل نہ پیش کر سکے جسے مسلمانوں کو اپنے مذہبی اور اقتصادی حق سے محروم کر دینے کے لئے وجہ جواز قرار دیا جا سکے۸۷`۸۸۔
آخر ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو کمشنر صاحب نے )باوجود یہ کہ ان کا رویہ قبل ازیں غیر مصنفانہ اور دلازار نظر آتا تھا( ہندوئوں کی اپیل خارج کر دی اور فیصلہ کیا کہ حکم امتناعی اس وقت تک قائم رہے گا جب تک ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور ذبیحہ گائے کے لائسنس کی تجدید کریں۸۹۔
پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ
پنجاب کے سائمن کمیشن کمیٹی میں مسلمانوں کو اپنی غفلت اور بے حسی کی وجہ سے اپنے تناسب کے لحاظ سے بہت کم نمائندگی ملی۔ مزید براں الجھن یہ پیدا ہو گئی کہ کمیٹی کے مسلمان ممبروں نے تعاون کے پیش نظر یہ تجویز قبول کر لی کہ پنجاب کونسل میں کل ایک سو پینسٹھ ممبر ہوں جن میں سے ۸۳ ممبر مسلمان ہوں` باقی ہندو سکھ اور مسیحی وغیرہ چونکہ اس تجویز کے نتیجہ میں مسلمانوں کے پچپن فیصدی کی اکثریت اکاون فیصدی میں بدل جاتی تھی اور مسلمانان پنجاب کے سیاسی مفاد کو نقصان پہنچتا تھا اس لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی رائے کے خلاف الفضل )۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء( میں آواز اٹھائی اور ان ممبروں کی چار اصولی غلط فہمیوں کی نشاندہی فرمائی۔ جن کا ردعمل موجودہ تجویز کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ اور پھران کے ازالہ کی تین صورتیں تحریر فرمائیں۹۰۔
حضور کا یہ مضمون اخبار >سیاست< اور >دور جدید< میں شائع ہوا تو ضلع میانوالی کے ایک غیر احمدی محمد حیات خاں صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس پنشنر نے ۸/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو حضور کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا۔
>بخدمت مکرم و معظم بندہ جناب والا شان حضرت خلیفہ صاحب قادیان بعد السلام علیکم و آداب و تسلیمات گزارش ہے کہ جناب کا مضمون ۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھ کر جس اعلیٰ قابلیت و باریکی سے آپ نے نقائص اور ان کے علاج بتائے ہیں ان کی داد دینی پڑتی ہے۔ اگر چند اخبارات نے بھی ہوشیاری سے نقائص و علاج لکھے ہیں مگر حضور کی باریکی کو نہیں پہنچ سکے ۔۔۔۔۔۔۔ دیگر جس مسلمان نے بھی ۔۔۔۔۔۔۔ اس مضمون کو پڑھا ہے میری تائید کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کی جزائے خیر دے الخ<
مسلمانان فلسطین پر یہودی یورش کے خلاف احتجاج
برطانوی حکومت نے جن عرب ملکوں کو پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکوں کے اقتدار سے آزاد کرانے کا تحریر معاہدہ کیا تھا ان میں فلسطین بھی شامل تھا لیکن اس کے ساتھ ہی برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کی ایجنسی سے یہ خفیہ وعدہ کر لیا تھا کہ جنگ کے بعد یہودیوں کے لئے فلسطین ایک قومی گھر بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ عربوں سے کئے ہوئے وعدے سے تو پس پشت ڈال دیئے گئے اور یہودیوں کی آباد کرنے کی مہم بڑے زور شور سے شروع کر دی۔ اور یہودیوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے مسلمانان فلسطین کو نشانہ ظلم و ستم بنانا شروع کر دیا۔
ان مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے حضرت مولانا میر محمد اسحاق صاحب کی صدارت میں ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو ایک غیر معمولی جلسہ ہوا۔ جس میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کی قرارداد پیش کرکے ایک مفصل تقریر فرمائی اور اپنے چشم دید حالات و واقعات کا ذکر کرکے بتایا کہ یہود کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کے لئے بہت خطرناک چال چلی جا رہی ہے۔ ان کے علاوہ شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار >نور< شیخ محمود احمد صاحب عرفانی` سید محمود اللہ شاہ صاحب اور چودھری ظہور احمد صاحب نے حفاظت حقوق مسلمانان فلسطین کی طرف حکومت کو توجہ دلانے اور یہود کو مظالم سے باز رکھے جانے کے لئے ریزولیوشن پیش کئے جو اتفاق رائے سے پاس ہوئے۹۱۔
شاردابل اور حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ
اجمیر کے مسٹر ہربلاس شاردا نے اسمبلی میں تجویز پیش کی کہ ہندوئوں میں کم سن بچوں کی شادی کی عادت پائی جاتی ہے جس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما` اخلاق و عادات اور صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے لہذا ایک قانون نافذ کیا جائے جس سے اس رسم کا انسداد ہو سکے۔ یہ تجویز شاردابل کے نام سے موسوم ہوئی اور اسے وائسرائے ہند کی منظوری سے پورے ہندوستان پر نافذ کر دیا گیا۹۲۔
امیر المومنین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس قانون سے متعلق حکومت ہند کو ایک مفصل بیان ارسال فرمایا جس میں بتایا کہ بچپن کی شادی پر قانوناً پابندی عائد کرنا درست نہیں تعلیم اور وعظ کے ذریعہ اس کی روک تھام کرنی چاہئے۔ قانون بنا دینے سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ صحیح طریق یہ ہے کہ بچوں کو بالغ ہونے پر فسخ نکاح کا حق دیا جائے اس حق سے تمام نقائص دور ہو سکتے ہیں بلاشبہ فسخ نکاح کے معاملہ میں دوسرے مذاہب کا اسلامی تعلیم سے اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ عقل و فہم سے بالا امر ہے کہ مسلمانوں کو کیوں ایسے تمدنی حالات میں دوسرے مذاہب کے تابع کیا جائے جن میں ہماری شریعت نے ہمارے لئے معقول صورت پیدا کر دی ہے لیکن ان کے ہاں کوئی علاج نہیں۔ شرعاً ایسے قانون کی ہماری نزدیک ممانعت نہیں بشرطیکہ اس کا فیصلہ مسلمانوں کی رائے پر ہو۹۳۔
انہی دنوں حضور سے سوال کیا گیا کہ یہ مداخلت فی الدین ہے؟ حضور نے فرمایا۔ نہیں۔ ہمارے نزدیک مداخلت فی الدین وہ ہے جس پر جہاد کرنا فرض ہو جائے اسے ہم تمدنیات میں مداخلت سمجھتے ہیں اور اسی بناء پر اس کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ کسی قوم کو دوسروں کے تمدن میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ تمدنی طور پر جن باتوں کی اسلام نے اجازت دی ہے ان سے روکنے کا حق کسی کو نہیں۔ ہاں اگر مسلمان آپس میں فیصلہ کرکے ایسا کر لیتے تو اس کے معنیٰ یہ ہوتے کہ یہ عارضی انتظام ہے جو ایک جائز بات میں عیب پیدا ہونے کی وجہ سے اسے روکنے کے لئے کیا گیا ہے لیکن دوسروں کا اس سے روکنا مستقل طور پر ہے اور رسول کریم~صل۱~ پر حملہ ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا<۹۴۔
سفر لاہور
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ درد شکم کے علاج کی غرض سے ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو لاہور تشریف لے گئے۹۵۔ اور کرنل باٹ صاحب سے طبی مشورہ لینے کے علاوہ نماز جمعہ پڑھانے اور احمدیہ انٹر کالجئیٹ ایسوسی ایشن کی ایک دعوت میں تقریر فرمانے کے بعد ۴/ نومبر کی شام کو قادیان واپس تشریف لے آئے۹۶۔
اس سفر کی نسبت حضور کا تاثر یہ تھا کہ۔
>مسلمانوں کا ارادہ سیاسیات کے متعلق کچھ کرنے کا معلوم نہیں ہوتا۔ اب کے لاہور جا کر میں نے پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ کہیں زندگی دکھائی نہیں دیتی۔ مردنی چھائی ہوئی ہے ہاں اتنا ہے کہ انہیں اپنی اس حالت کا احساس ضرور ہے۔ ایک معزز مسلمان نے کہا۔ اب تو کوئی انسان پیدا ہی ہو گا تو مسلمان بچ سکیں گے۔ میں نے کہا۔ پیدا تو ہوا تھا مگر مسلمانوں نے پہچانا نہیں<۹۷۔
tav.5.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل چہارم(
سلطنت برطانیہ کے آثار زوال
اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ۱۸۹۱ء۹۸ میں جبکہ برطانوی سلطنت کا آفتاب بڑی آب و تاب سے چمک رہا تھا الہام ہوا ~}~
poet] gat[سلطنت برطانیہ تا ہشت سال
بعد ازاں ضعف و فساد و اختلال
چنانچہ ۲۲/ جنوری ۱۹۰۱ء کو ملک وکٹوریہ انتقال کر گئیں ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم ہوئی جس نے اتحادیوں کی طاقت پر بڑی ضرب لگائی۔ ۱۹۱۸ء میں انگریز ہندوستان کو سیاسی حقوق دینے کے اعلان پر مجبور ہو گئے۔ ۱۹۲۸ء میں ہندوستان کو مزید اختیارات دینے کے لئے انگلستان سے مشن آیا اور >سلطنت برطانیہ تا ہشت سال< کی صداقت کے آثار نمایاں ہونے لگے۔
یہ حقیقت بین الاقوامی حیثیت سے بھی اب ایسی واضح نظر آرہی تھی کہ سر ونسٹن چرچل جیسے برطانوی مفکر نے انہی دنوں >کیا برطانوی سلطنت کا خاتمہ قریب ہے<۔ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں کھلا اقرار کیا کہ اس میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ موجودہ صدی سلطنت برطانیہ کے لئے فائدہ بخش نظر نہیں آتی۔ سلطنت کو گزشتہ صدی سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے انیسویں صدی میں اس کو دوسری حکومتوں پر جو تفوق حاصل تھا وہ کم ہو رہا ہے۔ برطانیہ کو اپنی بحری طاقت پر ناز تھا۔ لیکن ہوائی قوت اس کے لئے مہلک ثابت ہوئی ہے اور بے نظیر بحری قوت کے گھمنڈ کا خاتمہ ہو گیا ہے مالی لحاظ سے جو فوقیت انگلستان کو حاصل تھا وہ بھی ختم ہو گئی۔ اس سے قبل جو قومیں اور ملک ہمارے مطیع و فرمانبردار تھے ان میں اب بیداری پیدا ہو چکی ہے اور حکومت خود اختیاری حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک وہ ہے جو گورنمنٹ کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اس تحریک کے پیرو ہر ایسے رکن کو جو انسانوں کے اس وسیع سمندر میں انتظام و انصرام کے لئے جاتا ہے۔ ناقابل التفات سمجھتے ہیں۔ )تلخیص و ترجمہ۹۹(
میاں علم دین صاحب کی لاش اورحکومت کوغیر دانشمندانہ رویہ
حکومت نے دشمن اسلام راجپال کے قاتل علم دین کو میانوالی جیل میں پھانسی کی سزا دی۱۰۰۔ مگر ان کی لاش مسلمانوں کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا جس پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہو گیا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کے اس غیر دانشمندانہ رویہ پر سخت تنقید کی اور فرمایا۔ اس سے فساد بڑھے گا۔ جب ایک شخص مر گیا اور قانون کی حد ختم ہو گئی۔ تو اس سے آگے قدم بڑھانا فتنہ پیدا کرنا ہے یہ بہت ہی نامعقول حرکت ہے جو حکومت سے سرزد ہوئی یہ تو خواہ مخواہ مسلمانوں کو چڑانے والی بات ہے پھر اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنے دیا گیا۔ حالانکہ یہ ہر مسلمان کا مذہبی حق ہے جس سے محروم کرنا بہت بیہودہ بات ہے۱۰۱۔
آخر حکومت کو مسلمانوں کے سامنے جھکنا پڑا اور لاش مسلمانوں کے حوالہ کر دی گئی۔ لاہور میں اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔ حضور کو اطلاع ملی کہ جنازہ میں مسلمانوں کا بڑا ہجوم تھا۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ >یہ ایک مظاہرہ کی اچھی صورت تھی اس کا یہ اثر ہو گا کہ آئندہ کسی شخص کو ایسی امن شکن حرکات کی کم جرات ہو گی جیسے راجپال نے کی تھی۔ ملکی ترقی کے لئے اتحاد نہایت ضروری ہے اور اتحاد ترقی نہیں کر سکتا جب تک فتنہ انگیز حرکات کا انسداد نہ ہو<۱۰۲۔ اور فرمایا >اتنے بڑے مجمع کا ایسی حالت میں مسلمانوں نے بہت اچھا انتظام کیا اور کوئی ناگوار واقعہ رونما نہ ہوا۔ ایسے انتظامات سے قوم کی اچھی ٹریننگ ہو سکتی ہے<۱۰۳۔
سالانہ جلسہ کے لئے چندہ کی تحریک
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۵/ نومبر ۱۹۲۹ء۱۰۴text] gat[ کے خطبہ جمعہ میں پوری جماعت کو اور پھر مکتوب۱۰۵ کے ذریعہ اس کے کارکنوں کو سالانہ جلسہ کے چندے کی فوری وصولی کے لئے تحریک فرمائی۔ یہ تحریک نہایت ہی تنگ وقت میں شائع ہوئی لیکن جماعت نے حیرت انگیز جوش سے اس کا استقبال کیا۔ بعض جماعتوں اور احباب نے مقررہ چندہ سے ڈیوڑھا دوگنا بلکہ اس سے بھی زیادہ چندہ بھیج دیا۔ جس پر حضور نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۱۰۶۔
دیوانہ وار تبلیغ کرنے کا ارشاد
۲۲/ نومبر ۱۹۲۹ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت سے بذریعہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا کہ دیوانہ وار تبلیغ احمدیت میں لگ جائو ورنہ آئندہ نسلیں بھی کمزور ہو جائیں گی۱۰۷۔
مبلغین کو خاص ہدایت
حضور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے ملک میں تبلیغ احمدیت کا دائرہ وسیع تر کرنے کے لئے ۴/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو ہدایت فرمائی کہ مبلغین خاص طور پر ان مقامات میں بھجوائے جائیں۔ جہاں ابھی تک کوئی جماعت قائم نہیں ہوئی چنانچہ فرمایا۔
>ہماری تبلیغ میں ایک روک ہے عام طور پر ہمارے مبلغین انہی مقامات پر جاتے ہیں جہاں پہلے ہی جماعتیں موجود ہیں میں نے سوچا ہے ہر مبلغ کے لئے ایسے مقامات کے دورے لازمی کر دیئے جائیں جہاں پہلے کوئی احمدی نہیں۔ تا نئی جماعتیں قائم ہوں جس جگہ پہلے ہی کچھ احمدی ہوتے ہیں وہاں پھر جماعت ترقی نہیں کرتی۔ کیونکہ لوگوں میں ضد پیدا ہو جاتی ہے لیکن اگر مبلغین کو نئے مقامات پر بھیجا جائے تو ہر ایک کے لئے ماہ ڈیڑھ ماہ میں پانچ سات نئے آدمی جماعت میں داخل کرنا کچھ مشکل نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح پہلی جماعتوں میں بھی از سر نو جوش پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ جب ان کے قرب و جوار میں نئی جماعتیں قائم ہو جائیں تو وہ بھی زیادہ جوش اور سرگرمی سے کام کریں گے<۱۰۸۔
پادری کریمر ڈچ مشنری قادیان میں
ہالینڈ کے ایک مشنری پادری ڈاکٹر کریمر ہالینڈ سے جاوا جاتے ہوئے ۱۵/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو قادیان آئے حضور سے ملاقات کی اور سلسلہ کے مدارس اور دفاتر دیکھتے۱۰۹۔ اور شام کو واپس چلے گئے ڈاکٹر کریمر جماعت کی تنظیم اور جذبہ تبلیغ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے >مسلم ورلڈ< )اپریل ۱۹۳۱ء( میں اپنے تاثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع کئے۔
جماعت احمدیہ مسلمانوں میں ایسی ہی جماعت ہے۔ جیسی کہ ہندوئوں میں آریہ سماجی۔ ان دونوں جماعتوں کا عیسائیت کے ساتھ خاص تعلق ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں ہندوستان میں توسیع عیسائیت کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں پر عام طور پر مایوسی کا عالم طاری ہے برخلاف اس کے جماعت احمدیہ میں نئی زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ جماعت قابل توجہ ہے۔ یہ لوگ اپنی تمام توجہ اور طاقت تبلیغ اسلام پر خرچ کر رہے ہیں اور سیاست میں حصہ نہیں لیتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ انسان جس حکومت کے ماتحت ہو اس سے وفادار رہے۔ اور وہ صرف اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ کونسی حکومت کے ماتحت ان کو تبلیغ اسلام کے مواقع اور سہولتیں حاصل ہیں۔ اور وہ اسلام کو ایک مذہبی گروہ یا سیاسی نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ اس کو محض صداقت اور خالص حق سمجھ کر تبلیغ کے لئے کوشاں ہیں اس لحاظ سے یہ جماعت فی زمانہ مسلمانوں کی نہایت عجیب جماعت ہے اور مسلمانوں میں صرف یہی ایک جماعت ہے جس کا واحد مقصد صرف تبلیغ اسلام ہے۔ اگرچہ ان کی طرز تبلیغ میں کسی قدر سختی پائی جاتی ہے تاہم ان لوگوں میں قربانی کی روح اور تبلیغ اسلام کا جوش اور اسلام کے لئے سچی محبت کو دیکھ کر بے تحاشا صد آفرین نکلتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب ایک زبردست شخصیت کے آدمی تھے۔ وہ فریق جو ان کو نبی مانتا ہے اس کا مرکز قادیان ہے۔ میں جب قادیان گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں لوگ اسلام کے لئے جوش اور اسلام کی آئندہ کامیابی کی امیدوں سے سرشار ہیں اپنے آپ کو وہ غریبانہ طور پر پیغام پہنچانے والے نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان کو اس بات پر ناز ہے کہ وہ دنیا میں سچائی کا اعلان کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اور وہ اسلام کی محبت میں اس قدر اندھے اور مجنون ہو رہے ہیں کہ جس قدر انسانی قلب کے لئے ممکن ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ یہ لوگ دیگر مذاہب کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں )؟( لیکن وہ اس بات کے تکرار سے بھی کبھی نہیں تھکتے کہ اسلام بنی نوع انسان کی مساوات` امن و امان اور مذہبی آزادی کا سبق دیتا ہے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس بات میں یہ لوگ سچے ہیں کیونکہ ان لوگوں کی تمام طاقت اس بات کے پیش کرنے پر خرچ ہو رہی ہے۔ کہ اسلام اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ تمدن کی تعلیم دیتا ہے۔ اس جماعت کا اثر اس کے اعداد و شمار سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ مذہب میں ان کا طرز استدلال بہت سے تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اختیار کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے احمدیوں کا علم کلام عقلاً ماننا پڑتا ہے<۱۱۰۔
چھپن فیصدی کمیٹی کا وفد قادیان میں
پنجاب میں مسلم آبادی چھپن فیصدی تھی اس مناسب سے ۱۹/ نومبر ۱۹۲۹ء کو جناب عبدالمجید صاحب سالک مدیر انقلاب کی تحریک پر دفتر >انقلاب< لاہور میں >چھپن فیصدی کمیٹی< کے نام سے پروفیسر سید عبدالقادر صاحب کی صدارت میں ایک انجمن قائم ہوئی۔ جس کا مقصد مسلمانان پنجاب کے سیاسی حقوق کی حفاظت تھا۔ ملک لال دین صاحب قیصر اور مولوی عبدالمجید صاحب قرشی کمیٹی کے نمایاں ممبر تھے۱۱۱۔ کمیٹی کے ساتھ ہی >چھپن فیصدی کور< کی بھی بنیاد ڈالی گئی۔
اس کمیٹی کا ایک وفد جو مولوی عبدالمجید صاہب قرشی اور مولوی محمد شریف صاحب پر مشتمل تھا۔ ۱۷/ دسمبر ۱۹۲۹ء کو قادیان آیا اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملا۔ حضور نے بتایا کہ ہم تو ۱۹۱۷ء سے برابر مسلمانان پنجاب و بنگال کے متعلق یہ معاملہ پیش کر رہے ہیں۔ ہم آپ کی ہر قسم کی مدد کریں گے۔ آپ اپنے خیالات ہماری جماعت کے سامنے پیش کریں اور یہاں قادیان ہی سے یہ کام شروع کر دیں اور اس کے ساتھ بعض اہم اور قیمتی ہدایات بھی دیں۔
حضور سے اجازت حاصل ہونے پر مولوی ذوالفقار علی خان صاحب کی زیر صدارت قادیان میں ایک پبلک جلسہ منعقد ہوا جس میں سب سے پہلے خان صاحب نے ۵۶ فیصدی سے متعلق حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کی مساعی جمیلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کس طرح مسٹر مانٹیگو وزیر ہند کی ہندوستان میں آمد کے وقت سے اس کے لئے ہم آواز بلند کر رہے ہیں اور اب سائمن کمیشن کے سامنے بھی اس حق پر زور دیا ہے پس چونکہ یہ معاملہ ہمیشہ ہماری ہی طرف سے اٹھتا رہا ہے اس لئے ہم دل و جان سے اس کے حامی ہیں اور ہر جائز امداد کے لئے تیار ہیں۔
خان صاحب کے بعد قرشی صاحب نے نہایت موثر پیرایہ میں کمیٹی کا نقطہ نگاہ واضح کیا اور اس جدوجہد میں شامل ہونے کی اپیل کی۔ اس تقریر کے بعد لوکل انجمن احمدیہ قادیان کے پریذیڈنٹ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پرجوش تقریر کرکے یہ ریزولیوشن پیش کیا۔ جو باتفاق رائے پاس ہوا۔
>لوکل جماعت احمدیہ قادیان پنجاب میں مسلمانوں کو چھپن فیصدی حقوق کے ملنے کی حامی ہے۔ کیونکہ حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان ہمیشہ سے یہ مطالبہ مسلمانان پنجاب کے لئے پیش کرتے رہے ہیں۔ بحیثیت ایک مستقل منظم جماعت کے یہ جماعت اپنے امام کی ہدایات کے ماتحت ۵۶ فیصدی کمیٹی کی ہر قسم کی جائز امداد کرے گی۔ اور ہر وقت تعاون کے لئے تیار رہے گی<۱۱۲۔
کانگریس کااجلاس لاہور اورمجلس احراراسلام کی بنیاد
کانگریس نے >نہرو رپورٹ< کے تسلیم کئے جانے کی نسبت اجلاس کلکتہ )دسمبر ۱۹۲۸ء( میں حکومت کو ایک سال کا جو نوٹس دے رکھا تھا اس کی معیاد دسمبر ۱۹۲۹ء تک تھی اس دوران میں کانگریس سول نافرمانی کی خفیہ اور علانیہ تیاریاں کرتی اور مسلمانوں اور حکومت دونوں کو دھمکیاں دیتی رہی۔ اور بالاخر مہلت ختم ہوتے اس نے ۲۱/ دسمبر ۱۹۲۹ء کے اجلاس لاہور میں اعلان کر دیا۔ کہ چونکہ >نہرو رپورٹ< منظور نہیں ہوئی اس لئے اب سول نافرمانی کا پروگرام عمل میں لایا جائے۔ اور اب ہم درجہ نو آبادیات پر بھی قناعت نہیں کریں گے۔ آزادی کامل حاصل کریں گے۔ یہ اعلان پنڈت جواہر لال نہرو کی صدارت میں گاندھی جی نے کیا۔
اس موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی چٹھی بعنوان Hindu to Appeal <An Leaders> )ہندوئوں کے نام اپیل( تقسیم کی گئی جس میں حضور نے انہیں مسلم حقوق کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا۔ >مسلمانوں کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ وہ ملکی مفاد کی خاطر آئندہ مصائب کا اطمینان اور محفوظ ہونے کے احساس کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں ہر اکثریت کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرے بلکہ انہیں ہر طرح مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔ مسلمان حب وطن اور اس کے استخلاص میں جدوجہد کے لحاظ سے برادران وطن سے کسی طرح بھی پیچھے نہیں۔ لیکن اقلیت میں ہونے کی وجہ سے وہ ملک کے آئندہ نظام میں اپنی پوزیشن کے متعلق طبعاً مشوش ہیں الخ<۱۱۳۔
اس اپیل پر کانگریس کے لیڈروں نے بالکل التفات نہ کی اور مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز کرکے >آزادی کامل< کی قرار داد پاس کر دی جس کے معنے اور کچھ نہیں تھے کہ وہ بدیشی حکومت کو مسلمان سے تصفیہ حقوق کے بغیر ہی ملک سے نکال باہر کرنا چاہتی تھی حالانکہ اس مقصد کے حصول سے پہلے ہندوستانی قوموں کی سیاسی انفرادیت کی محافظت کی ضمانت ضروری تھی اس لئے کہ آزادی کامل تک پہنچنے کے لئے راہ میں جو منزلیں آتی تھیں وہ سب آئینی تھیں۔ لہذا ان آئینی منزلوں تک کا راستہ بالکل آئینی حیثیت سے طے ہونا چاہئے تھا اور ابتداء ہی میں ان مختلف اقوام کو جو اس راہ پر گامزن ہونے والی تھیں آئینی حیثیت سے یہ اطمینان مل جانا چاہئے تھا کہ اس راہ کی آخری منزل تک پہنچتے پہنچتے ہر قوم کی انفرادیت اور اس کا سیاسی مفاد ہر طرح محفوظ رہے۔ مگر یہ ضمانت ابھی تک ہندوستانی اقلیتوں کو نہیں ملی تھی۔ بلکہ ابتدائی آئینی منزل )نہرو رپورٹ( میں بھی مختلف قوموں کو جو ہم سفر تھیں بالکل نظر انداز کر دیا گیا تھا جس کے باعث ملک میں شدید بے چینی اور انتشار پیدا ہوا۔ اور ساری جدوجہد آزادی ایک مخصوص )ہندو( قوم کی کشمکش اقتدار بن کر رہ گئی۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شروع سے یہ آواز اٹھاتے آرہے تھے کہ آزادی کامل سے پہلے ہندو اکثریت سے جو آل انڈیا نیشنل کانگریس پر قابض ہے حقوق کے تصفیہ کی اشد ضرورت ہے ورنہ حکومت حاصل ہو جانے کے بعد سب کچھ اکثریت کے ہاتھ میں چلا جائے گا۱۱۴۔ یہ آواز ابتداء میں بہت کمزور تھی مگر نہرو رپورٹ کے بعد ملک کے گوشہ گوشہ سے اس زور کے ساتھ بلند ہوئی کہ مسلمانوں کی اکثریت نے >آزادی کامل< کے لفظ کے پیچھے پوشیدہ خطرے کو محسوس کر لیا اور اس بظاہر دلکش و دلفریب مگر حقیقت میں مہلک اور خطرناک نعرہ میں کانگریس کی تائید کرنے سے صاف انکار کر دیا۱۱۵۔
مسلمانوں کے سواد اعظم کے مقابل بعض انتہا پسند اور جوشیلے مسلمان جو کانگریس کی مہا سبھائی ذہنیت کا متعدد بار تجربہ کرنے کے باوجود کانگریس سے چمٹے ہوئے تھے اور >نیشنلسٹ< اور >خدائی خدمت گار< کہلاتے تھے یا >جمعیتہ العلماء ہند< سے منسلک تھے >آزادی کامل< کی قرارداد پر کانگریس کے اور بھی پرجوش حامی بن گئے۔ ان جماعتوں کے علاوہ جو کانگریس کے دوش بدوش مسلمانوں میں کام کر رہی تھیں >آزادی کامل< کی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے اور اس کی تحریک کو مسلمانوں تک پھیلانے کے لئے دسمبر ۱۹۲۹ء میں یعنی کانگریس کے اجلاس لاہور ہی کے دنوں میں لاہور ہی میں مجلس احرار اسلام کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد پڑی۔ جس کے لیڈر اگرچہ شروع ہی سے ہر معاملہ میں کانگریس کی پرزور حمایت کرتے آرہے تھے مگر اب ایک نئے نام اور نئے پلیٹ فارم سے اپنی پہلی سرگرمیوں کو تیز تر کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب لکھتے ہیں۔ >مجلس احرار کا سب سے پہلا جلسہ ۲۹/ دسمبر ۱۹۲۹ء کانگریس کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ہوا۔ جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری۱۱۶ نے میری صدارت میں تقریر کی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان ہندوستان کی آزادی کا ہرا دل ثابت ہوں۔ آزادی کے حصول کا فخر ہمارے حصہ میں آئے۔ اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد سول نافرمانی کا آغاز ہوا۔ اور کانگریس کے جھنڈے تلے سب نے مل کر قربانیاں پیش کیں<۱۱۶۔
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے ایک سوانح نگار لکھتے ہیں۔ > دسمبر ۱۹۲۹ء میں کانگریس نے مکمل آزادی کا ریزولیوشن پاس کیا اور اپریل ۱۹۳۰ء میں نمکین ستیہ گرہ کا آغاز کر دیا۔ احرار ذہناً کانگریس کے ساتھ تھے انہوں نے اپنی تنظیم کو ادھورا چھوڑا اور کانگریس میں شریک ہو کر سول نافرمانی میں حصہ لینے لگے]10 [p۱۱۷۔
اس کی تفصیل میں شاہ جی کے ایک اور سوانح نویس نے لکھا ہے کہ۔
>انڈین نیشنل کانگریس نے ۱۹۲۹ء کے اجلاس میں بمقام لاہور جب آزادی کامل کی قرار داد منظور کی تو اس کی تائید و اشاعت میں آپ نے نہایت انہماک اور سرگرمی سے حصہ لیا اور جب مہاتما گاندھی کی قیادت میں آزادی کا بگل بجایا گیا اور نمکین سول نافرمانی کا ملک میں آغاز ہوا تو آپ پیش پیش رہے اور تمام ہندوستان میں کانگریس کے پروگرام کی اشاعت کے لئے طوفانی دورے کئے۱۱۸۔
ایک احراری لیڈر جناب مظہر علی صاحب اظہر کا بیان ہے کہ۔
>مجلس احرار کے قیام کے وقت کانگریس سے کوئی اختلاف نہ تھا بلکہ ہمارے بہترین کارکن ۱۹۳۰ء کی سول نافرمانی کی تحریک میں قید کاٹ چکے تھے۔ جن میں سے سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی` چوہدری افضل حق صاحب اور شیخ حسام الدین صاحب کے نام بیان کر دینا مناسب ہے اس کے علاوہ ہمارے رضا کاروں نے تحریک سول نافرمانی میں حصہ لیا<۱۱۹۔
مجلس احرار کے صدر جناب سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا اپنے متعلق واضح طور پر اعلان تھا کہ >سر سے پائوں تک سیاسی آدمی ہوں<۱۲۰۔ لہذا مجلس احرار۱۲۱ بنیادی حیثیت سے خالص ایک سیاسی جماعت تھی جس کا اصولی و بنیادی مقصد وحید مسلمانوں کو اپنے جوش خطابت سے کانگریس کی پالیسی پر گامزن اور اس کی تحریک پر کاربند کرنا تھا اور کانگریس کے چوٹی کے لیڈر ان دنوں جماعت احمدیہ کو تمام اسلامی جماعتوں میں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے تھے۔ اور اس کی زبردست تنظیم اور فدائیت کا بے نظیر جذبہ ان کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹک رہا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر سید محمود جنرل سیکرٹری آل انڈیا نیشنل کانگریس اپریل ۱۹۳۰ء میں قادیان آئے۔ انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو ایک ملاقات میں بتایا کہ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو جب یورپ کے سفر سے )دسمبر ۱۹۲۷ء( میں واپس آئے تو انہوں نے اسٹیش پر اتر کر جو باتیں سب سے پہلے کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ میں نے اس سفر یورپ سے یہ سبق حاصل کیا ہے۔ کہ اگر انگریزی حکومت کو ہم کمزور کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس سے پہلے احمدیہ جماعت کو کمزور کیا جائے۱۲۲body] gat[۔
چنانچہ مجلس احرار اسلام نے اس نقطہ کو بھی اپنی تحریک کا جزو لاینفک بنا لیا اور جس طرح انہوں نے اس سے پہلے >نہرو رپورٹ< کے مخالفین کو قصر برطانیہ۱۲۳ کے ستون مشہور کر رکھا تھا اور آئندہ چل کر مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کو انگریزی ایجنٹ اور دام فرنگ کے نام سے موسوم کیا۱۲۴۔ جماعت احمدیہ کو >برطانوی ایجنٹ< قرار دے کر اس عظیم الشان اسلامی تنظیم کے خلاف برسر پیکار ہو گئے۔ جو کانگریسی ذہن کے عین مطابق تھا۔ چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب >تاریخ احرار< میں صاف لکھتے ہیں >کانگرسی مسلمانوں کا ذہن بے حد متشکک اور متشدد ہے ۱۹۳۵ء سے پہلے تو لوگوں کو سی۔ آئی۔ ڈی اور انگریز کے ایجنٹ کا الزام لگانا عام تھا۔ کانگریسی مسلمان اپنے دعویٰ اور عمل میں مخلص ہوتے ہیں مگر وہ دوسروں کو ہمیشہ بدعقل اور دوسروں کا آلہ کار سمجھتے ہیں۱۲۵۔ مجلس احرارکا ترجمان اخبار >آزاد< )لاہور( اسی بناء پر لکھتا ہے۔
>جب حجتہ الاسلام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کاشمیری` حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور حضرت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری وغیرہ ھم رحمہم اللہ کے علمی اسلحہ فرنگی کی اس کاشتہ داشتہ >نبوت< کو موت کے گھاٹ نہ اتار سکے تو مجلس احرار اسلام کے مفکر اکابر نے جنگ کا رخ بدلا۔ نئے ہتھیار لئے اور علمی بحث و نظر کے میدان سے ہٹک کر سیاست کی راہ سے فرنگی سیاست کے شاہکار پر حملہ آور ہو گئے<۱۲۶۔
اس اہم ترین سیاسی مقصد کے علاوہ )جو دراصل کانگریس کے پروگرام کی تکمیل کے لئے از حد ضروری تھی( تحریک احمدیت کی مخالفت میں بعض اور عوامل بھی کار فرما تھے۔ مثلاً نہر رپورٹ کی اندھا دھند تائید کی وجہ سے اس گروہ کے وقار اور عظمت کو سخت ٹھیس پہنچی تھی۱۲۷۔ جس کے ازالہ اور دوبارہ مسلمانوں میں نفوذ و مقبولیت کے لئے احمدیت کی مخالفت ایک کارگر ہتھیار تھا۔ جو غیر احمدی علماء اپنی شہرت و عزت کی دکان چمکانے کے لئے ابتدا سے استعمال کرتے آرہے تھے۔
جماعت احمدیہ سے مخالفت کی ایک اہم وجہ مولوی ظفر علی خاں کے اخبار >زمیندار< کے نزدیک مسلمانوں سے >مالی منفعت< کا حصول تھا۱۲۸۔ چنانچہ اس نے لکھا۔ >بتدریج یہ حقیقت زمانے نے مولانا حبیب الرحمن اور چودھری افضل حق پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح کر دی کہ کیا خدمت دین کے اعتبار سے اور کیا مالی منفعت کے لحاظ سے قادیانیت کی مخالفت موثر ترین ہے<۔ یہ نظریہ اس لحاظ سے خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری >امیر شریعت< احرار کو مسلم تھا کہ رداحمدیت کے فن میں مولوی صاحب موصوف ان کے قائد ہیں چنانچہ ان کا بیان ہے کہ >میری صدارت میرے دوستوں کا عطیہ ہے ورنہ اس منصب کے حقدار مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار ہیں۔ جنہوں نے روز اول سے مرزائیت کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہے وہ اس فن میں ہمارے استاد ہیں<۱۲۹۔
اس مقام پر مجلس احرار کی صرف ابتدائی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالنا مقصود تھا جس سے الحمدلل¶ہ ہم فارغ ہو چکے ہیں۔ البتہ ہم آگے جانے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مجلس کے سیاسی نظریات اور اس کے سیاسی مزاج کی نسبت اس کے قائدین اور مخالفین دونوں کی بعض آراء و مقتبسات بطور نمونہ درج کر دیں تا ان واقعات و حوادث کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملے جو آئندہ مجلس احرار کی سیاسی پالیسی اور انتہاء پسندانہ روش کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف رونما ہوئے اور جنہوں نے برصغیر پاک و ہند کی سیاسی و مذہبی فضا پر خطرناک اثر ڈالا۔
امیر شریعت احرار کی رائے
سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے آزادی ہند سے متعلق اپنا مثبت نظریہ بتاتے ہوئے فرمایا۔
>ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ غیر ملکی طاقت سے گلو خلاصی حاصل ہو اس ملک سے انگریز نکلیں یا نکالے جائیں تب دیکھا جائے گا کہ آزادی کے خطوط کیا ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اس مہم میں سئور بھی میری مدد کریں گے تو میں ان کا منہ چوم لوں گا<۱۳۰۔
sub] gat[جنرل سیکرٹری مجلس احرار کا بیان
احرار کے ایک سابق جنرل سیکرٹری لکھتے ہیں۔
>احرار پنجاب کے ادنیٰ متوسط طبقے کے شہریوں کی ایک ایسی تحریک تھے۔ جس میں جوش و جذبہ وافر تھا۔ وہ لیگ کے ہمہ گیر سیاسی ذہن کے مقابلہ میں ایک مذہبی جماعت تھے اور کانگریس کی ہمہ گیر تنظیم کے مقابلہ میں ایک محدود سیاسی ذہن ۔۔۔۔۔۔ خود داخلی طور پر متضاد الخیال تھے۔ لیکن اینٹی برٹش ذہن کی مشترکہ چھاپ نے انہیں ایک کر رکھا تھا۔ جن طاقتوں کے خلاف صف آراء تھے ان کی مختلف الاصل جارحیت کے خلاف مذہبی زبان میں سیاسی اثر پیدا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اکابر احرار میں سے بیشتر کانگریس اور جمعیتہ العلماء کے ذہن کی سفارت کرتے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی سے ایک گونہ عقیدت رکھتے اور ان کی ذات کے لئے نبردآزما ہوتے تھے گویا سیاست و مذہب کے میدان میں انہیں اپنے ثانوی ہونے کا اقرار تھا ۔۔۔۔۔۔ احرار کسی تخلیقی فکر کے مظہر نہ تھے مگر ایجی ٹیشن اور پراپیگنڈا کے فن میں بے مثال تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ احرار میں قربانی` احتجاج` حوصلہ اور خطابت کا جوہر وافر تھا۔ لیکن فکر نظر کسوٹی اور قیادت کا تناسب مقابلتاً کمتر تھا<۱۳۱۔
مجلس احرار کے اخبار >آزاد< کی رائے
>یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار کے خطبوں میں جذباتیت پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی۱۳۲ کا عنصر عالب ہوتا ہے یہ ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ ذرا حقیقت پسند` سنجیدہ اور متین بن جائیں پھر آپ مسلمانوں میں مقبول ہو جائیں اور کوئی تعمیری و اصلاحی کام کر لیں تو ہمارا ذمہ۔ یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق و واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے صرف جذبات سے کام نکالتے ہیں اسی طرح اشتعال انگیزی بھی ہماری تحریکوں` جماعتوں اور قائدوں کی جان ہے۔ آپ بڑے بڑے دیندار` بااخلاق اور سنجیدہ اور متین پہاڑوں کو کھودیں تو اشتعال کا چوہا نکلے گا۔ الیکشن بازی میں تو دیندار اور بے دین سب کے سب اشتعال انگیزی ہی سے کام لیتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس سے کوئی کم لیتا ہے اور کوئی زیادہ ہمارے احراری بزرگ اس میں سب سے آگے ہیں اس لئے وہ رشک و حسد کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں<۱۳۳4] f[rt۔
امریکہ کے ایک مشہور مصنف کی رائے
امریکہ کے ایک نامور مصنف مسٹر جان گنتھر لکھتے ہیں۔ >احرار پنجاب میں بایاں بازو ہیں اور وہ کانگریس کے ساتھ ہیں وہ عجیب مجموعہ اضداد ہیں ایک طرف وہ مذہبی اعتبار سے فرقہ پسند فدائی ہیں اور دوسری طرف سیاسی انتہا پسند<۱۳۴۔
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کے علاوہ )جن کا تذکرہ گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے( ۱۹۲۹ء میں کئی اور جلیل القدر صحابہ کا انتقال ہوا جن کے نام یہ ہیں۔
۱۔
حضرت مولوی محمد صاحب مزنگ لاہور )تاریخ وفات ۲/ جنوری ۱۹۲۹ء(
۲۔
حضرت بابا ہدایت اللہ صاحب۱۳۵ )تاریخ وفات ۱۲/ جنوری ۱۹۲۹ء(
۳۔
حضرت شہامت خاں صاحب نادون ضلع کانگڑہ )والد ماجد ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب(
۴۔
حضرت بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ )تاریخ وفات ۲۴/ جنوری ۱۹۲۹ء۱۳۶(
۵۔
شاہ جہاں بی بی اہلیہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ )تاریخ وفات یکم نومبر ۱۹۲۹ء۱۳۷(
۶۔
صوفی بابا شیر محمد صاحب آف بنگہ ضلع جالندھر۱۳۸۔
tav.5.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
دوسرا باب )فصل پنجم(
متفرق و اھم واقعات
خاندان حضرت مسیح موعودؑ میں ترقی
)۱( حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی حرم رابع سارہ بیگم صاحبہ کے ہاں ۱۳/ اپریل ۱۹۲۹ء کو صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں۱۳۹۔
)۲( حضرت نواب محمد علی خاں کے ہاں ۱۲/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو صاحبزادی آصفہ مسعودہ بیگم پیدا ہوئیں۱۴۰۔
مدیر >مشرق< کی وفات
حکیم برہم صاحب ایڈیٹر >مشرق< گورکھپور ۲۴/ جنوری ۱۹۲۹ء کو وفات پا گئے۱۴۱۔ آپ مسلمانوں کی فلاح کے لئے کوشش کرنے والوں میں ایک ممتاز و بااصول اخبار نویس تھے اور اس لئے جماعت احمدیہ کے دینی اور مذہبی خدمات کا کھلے الفاظ میں اقرار کرکے دلی بشاشت سے اسے سراہنے ہی پر بس نہ کرتے بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں اس کے کاموں کی قدر و منزلت پیدا کرنے کے لئے پرزور مضامین بھی شائع فرمایا کرتے تھے۔
چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میں جو آخری پرچہ >مشرق< تیار کیا اور جو آپ کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ اس میں بھی مندرجہ ذیل نوٹ لکھا۔
>ہندوستان میں صداقت اور اسلامی سپرٹ صرف اس لئے باقی ہے کہ یہاں روحانی پیشوائوں کے تصرفات باطنی اپنا کام برابر کر رہے ہیں اور کچھ عالم بھی اس شان کے ہیں جو عبدالدراہم نہیں ہیں اور سچ پوچھو تو اس وقت یہ کام جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے حلقہ بگوش اسی طرح انجام دے ہیں جس طرح قرون اولیٰ کے مسلمان انجام دیا کرتے تھے<۱۴۲۔
حیدر آباد میں انجمن ترقی اسلام کی بنیاد
یکم فروری ۱۹۲۹ء سے انجمن ترقی اسلام حیدر آباد )دکن( کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔ انجمن کی انتظامیہ کے ایک ممبر مولوی عبدالرحیم صاحب نیر بھی تھے جو ۱۹۲۸ء سے جنوبی ہند میں بحیثیت مبلغ بڑے شوق و جوش سے مصروف کار تھے اور انجمن ترقی اسلام کا نمایاں کام ریاست کی اچھوت اقوام میں مدارس کا قیام اور ان میں تبلیغ اسلام کرنا تھا۔ چنانچہ موضع بوئے پلی۔ دینا چڑ اور محبوب نگر میں مدرسے قائم ہو گئے جن میں ایک سو سے زائد طالب علم تعلیم پاتے تھے۔ ان مدرسوں کے اخراجات انجمن ترقی اسلام کے مقامی ریزرو فنڈ سے ادا کئے جاتے تھے۱۴۳۔
مقدمہ شاہ جہانپور کا فیصلہ
مقدمہ احمدیہ مسجد شاہ جہانپور کی اپیل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں دائر تھی۔ شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ اور مولوی فضل الدین صاحب مشیر قانونی نے پیروی کی۔ بالاخر مقدمہ ججی شاہ جہان پور سے احمدیوں کے حق میں فیصل ہوا تھا۱۴۴۔
احمدی خواتین کی عربی امتحان میں کامیابی
اس سال جماعت احمدیہ کی سات خواتین نے >مولوی< کا عربی امتحان پاس کیا۔ جن میں سے محترمہ امتہ السلام بیگم صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب یونیورسٹی میں خواتین میں اول اور حضرت سارہ بیگم صاحبہ سوم رہیں۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ اتنی احمدی مستورات اس امتحان میں پاس ہوئیں۱۴۵۔][ایک احمدی پر قاتلانہ حملہ
ستمبر ۱۹۲۹ء کا واقعہ ہے کہ جماعت احمدیہ پشاور کے ایک مخلص احمدی میاں محمد یوسف صاحب پر قصہ خوانی بازار میں ایک شخص نے پشاور میں چاقو سے محض اس لئے قاتلانہ حملہ کر دیا کہ اس کا بھائی ان کے ذریعہ سے داخل سلسلہ احمدیہ ہو چکا تھا۔ اور کسی موقع پر میاں محمد یوسف صاحب نے اسے بھی قبول احمدیت کی دعوت دی تھی۱۴۶۔ مجرم اسی وقت گرفتار کر لیا گیا اور عدالت نے دو سال قید بامشقت کی سزا دی۱۴۷4] ft[r۔
بیرونی مشنوں کے بعض ضروری واقعات
ماریشس: حافظ جمال احمد صاحب نے آریہ سماجیوں کے خلاف مسلمانوں کے مشترکہ جلسوں میں کامیاب تقریرں کیں اور وہاں کے مسلمان سیٹھوں نے اقرار کیا کہ اسلام کی فتح احمدیوں کے ہاتھ پر ہوئی ہے۱۴۸۔
سماٹرا: یکم رمضان کو پاڈانگ میں مسئلہ معراج پر ایک غیر احمدی مولوی صاحب سے مناظرہ ہوا۔ مشتعل ہجوم نے مناظرہ کے دوسرے دن مولوی رحمت علی صاحب اور حاجی محمود صاحب کو گالیاں دیں اور احمدیہ مشن ہائوس پر پتھر پھینکے۔ دو گھنٹے تک یہ ہنگامہ جاری رہا۔ جسے دیکھ کر اسی جگہ دو احباب داخل سلسلہ احمدیہ ہو گئے۱۴۹۔
پیننگ )سٹریٹ سیٹلمنٹ
نائیجیریا )مغربی افریقہ( حکیم فضل الرحمن صاحب نے ۲۲/ فروری ۱۹۲۹ء کو مسجد ایکرافول کا سنگ بنیاد رکھا۔ حکیم صاحب اس سے پیشتر افریقہ کی کئی احمدی مساجد کا افتتاح کر چکے تھے۔ مگر یہ پہلی مسجد تھی جس کی بنیاد آپ کے ہاتھوں رکھی گئی۱۵۱۔
مبلغین احمدیت کی روانگی اور واپسی
)۱( مولوی نذیر احمد علی صاحب ۲۲/ فروری ۱۹۲۹ء کو سیرالیون مغربی افریقہ میں فریضہ تبلیغ بجالانے کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ پہلے مبلغ تھے جو قادیان سے ریل گاڑی میں روانہ ہوئے۱۵۲۔
]body )[tag۲( مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا۔ ابوبکر صاحب بگنڈا اور ادریس داتو صاحب سماٹری کو ساتھ لے کر ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو پہلی بار قادیان تشریف لائے۱۵۳۔
نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل کتب سلسلہ شائع ہوئیں۔ )۱( >مکتوبات احمدیہ< جلد پنجم نمبر ۳ یعنی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مکتوبات بنام چوہدری رستم علی صاحبؓ مرتبہ )حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی(
)۲( >تحفتہ النصاریٰ< حصہ اول )مولفہ چوہدری غلام احمد صاحب امیر جماعت پاکپٹن(
اندرون ملک کے بعض مشہور مباحثے
)۱( مباحثہ گجرات: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب و آریہ مناظر( یہ مباحثہ ۱۵/ جنوری ۱۹۲۹ء کی شام کو آریہ سماج کے مندر میں ہوا موضوع بحث مسئلہ تناسخ تھا۔ مولانا ابوالعطاء صاحب نے آریہ مناظر سے مطالبہ کیا کہ وہ ثابت کریں کہ انسان ہونے سے پہلے وہ کن کن جونوں کے چکر میں مقید رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ تھوڑی مدت کے گناہوں کی سزا آریوں کی مسلمہ کتب کے مطابق عرصہ دراز تک کیوں دی جائے گی۔ مولانا صاحب کے مطالبہ کا کوئی معقول جواب آریہ مناظر نہ دے سکا تو آریوں نے جناب مولانا کے خلاف بولنے کے لئے اہل قرآن کے ایک مولوی صاحب کو کھڑا کر دیا۔ آریہ سماج کو توجہ دلائی گئی کہ اگر یہ صاحب اسلام کے نمائندے ہیں تو آریہ مناظر سے بحث کریں۔ اگر نہیں تو آریوں کی طرف سے کھڑے ہوں آخر جب مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا کہ شاہ جی آریوں کی امداد کے لئے تشریف لائے ہیں تو انہوں نے ان کو مقام مباحثہ سے باہر نکال دیا۔ جب سیکرٹری آریہ سماج نے دیکھا۱۵۴۔ کہ اب مناظرہ کرنا ہی پڑے گا تو ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنے کی کوشش شروع کر دی اور پھر لیمپ بجھا دیا اور مناظرہ ختم ہو گیا۔
)۲(
مباحثہ میمو )برما( )مابین سید عبداللطیف صاحب احمدی آف رنگون اور مولوی غلام علی شاہ صاحب آف مانڈلے( یہ مناظرہ ۲۳/ جون ۱۹۲۹ء کو جامع مسجد میں چھ گھنٹہ تک جاری رہا۔ قریباً ایک ہزار افراد اس میں شامل ہوئے احمدی مناظر نے صداقت حضرت مسیح موعودؑ اور ختم نبوت پر آیات قرآنی سے اپنے دعوے کے دلائل پیش کرکے چیلنج کیا کہ مولوی صاحب انہیں توڑیں مگر غیر احمدی مولوی صاحب جو قریباً ایک درجن علماء کی معیت میں آئے ہوئے تھے آخر تک کسی دلیل کو توڑ نہ سکے۱۵۵۔
)۳(
مباحثہ گجرات: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و پنڈت ست دیو صاحب آریہ سماجی مناظر( تاریخ مناظرہ ۲۴/ مارچ ۱۹۲۹ء تھی اور موضوع بحث یہ تھا کہ >وید کامل الہامی کتاب ہے یا قرآن شریف<؟ مولانا ابوالعطاء صاحب نے آریہ مناظر کے رد میں ستیارتھ پرکاش سے اہم حوالہ جات پیش کئے اور قرآن شریف کے الہامی ہونے کے بارے میں تو ایسی لاجواب دلکش تقریر فرمائی کہ سامعین عالم وجد میں تھے۱۵۶۔
)۴(
مباحثہ دینانگر ضلع گورداسپور: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و پنڈت رام چند صاحب دہلوی( تاریخ مباحثہ ۲۶/ جولائی ۱۹۲۹ء۔ موضوع بحث >نماز اور سندھیا< تھا۔ آریہ مناظرہ کو ایسا زچ ہونا پڑا کہ آریوں پر مردنی سی چھا گئی۱۵۷۔
)۵(
مباحثہ ڈنڈوت: تحصیل پنڈ دادن خاں ضلع جہلم )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مولوی محمد احسن صاحب( تاریخ مناظرہ ۹/ اگست ۱۹۲۹ء۔ موضوع بحث >صداقت حضرت مسیحموعودؑ تھا۱۵۸۔
)۶(
مباحثہ چھنمبی : تحصیل پنڈ دادن خاں ضلع جہلم )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مولوی سید لال شاہ صاحب( تاریخ مناظرہ ۱۲/ اگست ۱۹۲۹ء۔ موضوع بحث >صداقت مسیح موعودؑ< اور >حیات و وفات مسیح ناصری علیہ السلام<۔ ملک صاحب نے دوران مناظرہ میں اپنے استنباط کی تائید میں بار بار انعامی چیلنج دیئے مگر غیر احمدی مناظر صاحب کو ان کے قبول کرنے کی جرات نہ ہو سکی۱۵۹۔
)۷(
مباحثہ موضع میانوالی ضلع سیالکوٹ: )مابین مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی و مولوی عبدالرحیم شاہ صاحب( تاریخ مباحثہ ۲۲/ اگست ۱۹۲۹ء۔ موضوع مباحثہ >حیات و وفات حضرت مسیحؑ< و >صداقت حضرت مسیح موعودؑ<۔ غیر احمدی مناظر صاحب لا جواب ہو کر سخت کلامی پر اتر آئے۔ جس پر غیر احمدیوں کے صدر نے بھی اظہار افسوس کیا۱۶۰۔
)۸(
مباحثہ مریind]: [tag )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب غیر مبائع( تاریخ مباحثہ ۲۳/ اگست ۱۹۲۹ء تھی اور موضوع مباحثہ >امکان نبوت از روئے قرآن و حدیث <!! اس مناظرے میں ڈاکٹر صاحب نے ایسی روش اختیار کی جس کی وجہ سے غیر احمدی حضرات کو جو جلسہ میں موجود تھے۔ یہ یقین ہو گیا کہ آپ احمدیت سے دست بردار ہو گئے ہیں انہوں نے پر شوق و جوش ڈاکٹر صاحب سے معانقہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ آپ جمعہ کی نماز ہمارے ساتھ ہی ادا کریں اس موقعہ پر تو آپ نے کچھ ایسا ہی انداز ظاہر کیا تھا کہ گویا آپ رضامند ہیں مگر بعد کو انکار کر دیا۔ اس موضوع کے بعد دعویٰ نبوت از روئے تحریرات مسیح موعود پر مباحثہ کا فیصلہ ہو چکا تھا بلکہ شرائط بھی طے ہو چکی تھیں لیکن غیر مبایعین نے ڈاکٹر صاحب کو کہلا بھیجا کہ اگر آپ نے مناظرہ کیا تو ہم آپ سے الگ ہو جائیں گے۱۶۱۔
)۹(
مباحثہ ترگڑی: )مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مولوی سراج دین صاحب( یہ مباحثہ ۹/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو ہوا۔ موضوع بحث حیات و وفات مسیحؑ تھا۱۶۲۔])[۱۰(
مباحثہ سرینگر: )مابین مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری و میر مدثر شاہ صاحب غیر مبائع( یہ مباحثہ ۱۲۔ ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۹ء کو منعقد ہوا۔ موضوع >امت محمدیہ میں نبوت< تھا۱۶۳۔
)۱۱(
مباحثہ رنگون: )مابین سید محمد لطیف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ رنگون و سید علی شاہ صاحب( تاریخ مباحثہ ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء اور موضوع بحث >وفات مسیح و صداقت مسیح موعود< تھا۔ احمدی مناظر نے غیر احمدی مناظر کو بار بار قرآن و حدیث پیش کرکے جواب کا مطالبہ کیا۔ مگر وہ اٹھ کر روانہ ہو گئے۱۶۴۔
)۱۲(
مباحثہ انچولی ضلع میرٹھ: )مابین مولانا ظہور حسین صاحب و مولوی محمد منظور صاحب سنبلی مراد آبادی و مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی و مولوی عبدالشکور صاحب لکھنوی( احمدی مناظرین نے اس مناظرے میں دیو بندی علماء سے سولہ مطالبات کئے جن کا کوئی جواب نہ دیا گیا نواب مہربان علی صاحب سپیشل مجسٹریٹ اور دیگر رئوساء نے اسٹیج پر اس کا کھلا اقرار کیا۱۶۵4] f[rt۔
)۱۳(
مباحثہ لالہ موسیٰ۱۶۶: )ضلع گجرات( مابین ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی و مناظر اہلحدیث حافظ فضل الرحمن صاحب۔ تاریخ مباحثہ ۳/ اکتوبر ۱۹۲۹ء۔ موضوع نمبر ۱ بحث حیات و وفات مسیح ناصری نمبر ۲ صداقت مسیح موعودؑ۔ غیر احمدی مناظر دوسری بحث میں اختتام مناظرہ سے ایک گھنٹہ قبل ہی میدان مناظرہ سے اٹھ کر چل دیئے۔
)۱۴(
مباحثہ چک نمبر ۵۶۵: ضلع لائلپور )مابین ابوالعطاء صاحب و علماء اہل سنت( یہ مناظرہ وسط اکتوبر ۱۹۲۹ء میں صداقت مسیح موعود اور ختم نبوت کے موضوع پر ہوا۔ غیر احمدیوں نے ۳۰ کے قریب حنفی و اہلحدیث علماء جمع کر رکھے تھے۔ مناظرہ ہونے پر یہ بہت بے دل ہوگئے۔ حتیٰ کہ آپس میں الجھ پڑے کہ فلاں بات کیوں پیش نہ کی۔ میں ہوتا تو یہ پیش کرتا۱۶۷۔
)۱۵(
مباحثہ موضع کالشیما: ضلع بنگال )احمدی مناظر مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی( یہ مباحثہ آخر اکتوبر ۱۹۲۹ء میں ہوا۔ موضوع بحث بقائے نبوت اور صداقت مسیح موعود تھا۔ اطراف و جوانب کے ہزاروں آدمی کارروائی دیکھنے کے لئے شامل ہوئے تھے۱۶۸۔
خان بہادر نواب محمد دین صاحب کی بیعت
خان بہادر چوہدری نواب محمد دین صاحب باجوہ ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر۱۶۹ تلونڈی عنایت ضلع سیالکوٹ کے ایک نامور رئیس تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ محترمہ بہشت بی بی صاحبہ اور آپ کے برادر اکبر چوہدری محمد حسین صاحب اور آپ کے فرزند ارجمند چوہدری محمد شریف صاحب )ایڈووکیٹ منٹگمری( تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی صحابیت کا شرف پا چکے تھے لیکن باوجود یہ کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانے ہی سے حضور کی گہری عقیدت حاصل تھی۱۷۰۔ تاہم آپ ابھی تک بیعت سے مشرف نہیں ہوئے تھے۔ آخر اس سال یعنی ۱۹۲۹ء۱۷۱ میں آپ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہو گئے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کی بیعت کا دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
body] >[tagمجھے یاد ہے جب انہوں نے بیعت کی تو ساتھ یہ درخواست کی کہ میری بیعت ابھی مخفی رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ریٹائر ہو چکا ہوں اور اب ملازمتیں ریاستوں میں ہی مل سکتی ہیں۔ اس لئے اگر میری بیعت ظاہر نہ ہو تو ملازمت حاصل کرنے میں سہولت رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چند دنوں کے لئے شملہ گیا اور انہوں نے مجھے دعوت پر بلایا اور کہا اور تو میں کوئی خدمت نہیں کر سکتا لیکن یہ تو کر سکتا ہوں کہ دعوت پر بڑے بڑے آدمیوں کو بلا لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ثواب مل جائے گا۔ میں دعوت پر چلا گیا انہوں نے بڑے بڑے آدمی بلائے ہوئے تھے۔ میں اس انتظار میں تھا کہ کوئی اعتراض کرے اور میں اس کا جواب دوں کہ وہ کھڑے ہوئے اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقریر میں انہوں نے کہا بڑی خوشی کی بات ہے کہ امام جماعت احمدیہ یہاں تشریف لائے ہیں جو شخص کسی قوم کا لیڈر ہوتا ہے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو تین منٹ کے بعد وہ تقریر کرتے ہوئے یکدم جوش میں آگئے اور کہنے لگے اس زمانہ میں ایک شخص آیا اور وہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں۔ اگر آپ لوگ اسے نہیں مانیں گے تو آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب آجائے گا۔ جب وہ تقریر کرکے بیٹھ گئے تو میں نے کہا۔ دیکھئے نواب صاحب میں نے تو ظاہر نہیں کیا کہ آپ احمدی ہیں آپ نے تو خود ہی ظاہر کر دیا ہے وہ کہنے لگے مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے کہا میں پہلے ہی سمجھتا تھا کہ سچی احمدیت چھپی نہیں رہتی آپ خواہ کتنا بھی چھپائیں یہ ظاہر ہو کر رہے گی<۱۷۲۔
tav.5.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۵
خلافت ثانیہ کا سولہواں سال
حواشی حصہ اول )دوسرا باب(
۱۔
الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۲۔
رستہ میں ایک جگہ موٹر خراب ہو گئی وہاں قریب ہی کرکٹ کی کھیل ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کی خواہش پر حضور کھیل کے میدان میں چلے گئے۔ وہاں ہندوستان کے ایک مشہور مسلم لیڈر آگئے اور حضور کو دیکھ کر حیرانی سے کہنے لگے کہ آپ بھی یہاں آگئے۔ حضور نے فرمایا۔ یہاں آنے میں کیا حرج ہے۔ کہنے لگے یہاں کھیل ہو رہی ہے آپ نے جواب دیا۔ میں خود ٹورنا منٹ کراتا ہوں اور کھیلنے بھی جاتا ہوں۔ پہلے فٹ بال بھی کھیلا کرتا تھا مگر اب صحت اسے برداشت نہیں کرتی۔ انہیں یہ باتیں سن کر بہت تعجب ہوا۔ گویا پڑھے لکھے مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال ہے کہ دین اور ورزش ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء(
۳۔
الفضل ۱۸/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۴۔
آپ آخر ۱۹۲۸ء میں آئے تھے اور یکم دسمبر ۱۹۲۸ء کو انجمن حمایت اسلام لاہور نے ان کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا تھا۔ یہ گورنر صاحب جماعت احمدیہ کی تعلیمی ترقی سے بہت متاثر تھے چنانچہ انہوں نے غالباً اسی ملاقات کے دوران میں یا کسی اور موقعہ پر کہا۔
>ایک ایسی جماعت نے جو مقابلتاً قلیل ہے اور جس کے مالی محدود ذرائع ہیں تعلیمی اعتبار سے نمایاں ترقی کی ہے اور یہ امر بذات خود تمام ملت اسلامیہ کے لئے من حیث الجماعت ایک تعجب انگیز نمونہ ہے جن اصحاب نے اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کی اور جنہوں نے اس کی تائید اور معاونت کی میرے پاس ان کی تحسین کے لئے کافی کلمات نہیں ہیں<۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۸(
۵۔
مفصل تقریر الفضل ۵/ فروری ۱۹۲۵ء میں چھپ چکی ہے۔
۶۔
الفضل ۲۲/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۷۔
الفضل یکم فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۸۔
۸۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۹۔
خواتین اور طالبات کے لئے پردے کا انتظام تھا۔ جو انعامات دیئے گئے ان میں سے تقریر اور مضمون نگاری کے انعام حاصل کرنے والے طلبائے جامعہ و مدرسہ کے نام یہ ہیں۔ )جامعہ احمدیہ( مولوی محمد صادق صاحب` عبدالمنان صاحب عمر )مدرسہ احمدیہ( مولوی محمد سلیم صاحب۔ شیخ عبدالقادر صاحب۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۱۷(
۱۰۔
الفضل یکم فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۳ و صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۱۔
یعنی )۱( ہندوستان میں فیڈرل طرز کی حکومت ہو جس میں صوبوں کو مکمل خود اختیاری حاصل ہو۔ )۲( جداگانہ انتخاب کو اس وقت تک قائم رکھا جائے جب تک کہ سیاسی میدان سے فرقہ وارانہ جذبات معدوم نہ ہو جائیں۔ )۳( اسی دوران میں مختلف اقوام کے لئے تناسب آبادی کے لحاظ سے صوبجاتی مجالس قانون ساز میں نشستیں مخصوص کر دی جائیں۔ اقلیتوں کو بے شک کچھ زائد مراعات دی جائیں لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایسا کرنے سے کوئی کثرت اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائے۔ )۴( سندھ کو مستقل صوبہ بنا دیا جائے۔ )۵( صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصطلاحات نافذ کر دی جائیں۔ )۶( تمام مذاہب کے لئے کامل آزادی کا اصول تسلیم کیا جائے اور یہ بات سابقہ تمام باتوں کے ساتھ ملکی دستور میں داخل سمجھی جائے۔
]h1 [tag۱۲۔
الفضل ۱۲/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔
۱۳۔
الفضل ۱۲/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۱۴۔
الفضل ۱۹/ فروری ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔
۱۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۷۔
۱۶۔
تالیف و تصنیف۔
۱۷۔
الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۱۸۔
جس کا ذکر قبل ازیں ۱۹۲۸ء کے حالات میں گزر چکا ہے۔
۱۹۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۔
۲۰۔
مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ہمدرد ۵/ مارچ ۱۹۲۹ء میں ملاقات کا ذکر کیا تھا۔ )مولانا محمد علی بحیثیت تاریخ اور تاریخ ساز( صفحہ ۴۳۶ شائع کردہ سندھ ساگر اکاومی لاہور طبع اول جنوری ۱۹۶۲ء۔
۲۱۔
مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۲/ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۹۔
۲۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۸۔ چنانچہ انہوں نے ۲۶/ مارچ ۱۹۲۹ء کو لکھا۔ مسلمانوں کے مشہور لیڈروں کے درمیان جو باہمی اختلافات اور نزاع پیدا ہو گیا تھا اس کے دور کرنے کے واسطے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ الل¶ہ تعالیٰ بنصرہ نے جو سعی فرمائی تھی وہ بھی بفضلہ تعالیٰ بار آور ہو رہی ہے چنانچہ جس وقت یہ رپورٹ مجلس مشاورت میں پیش ہو گی اس وقت راقم الحروف دہلی میں مسلمانوں کے دو بڑے لیڈروں مسٹر جناح اور سر شفیع اور ان کے رفقاء کی باہمی مصالحت میں انشاء اللہ کامیابی دیکھ رہا ہو گا۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۲۴۸(
۲۳۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۷۔
۲۴۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲ کالم ۲۔
۲۵۔
الفضل ۷/ مارچ ۱۹۳۰ء۔
۲۶۔
h2] ga[t رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۵۷۔
۲۷۔
الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۳۰ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۸۔
عبدالمجید صاحب سالک نے مسلم لیگ کے الحاق کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی سر گزشت میں لکھا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مسلمانوں کی مصلحت کو خوب جانتے تھے اور انہوں نے ہندوئوں کے سامنے اتمام حجت کر دیا اور پھر غصے میں بمبئی چلے گئے۔ پھر خیال آیا ہو گا کہ دو لیگوں کا قائم رہنا خالص حماقت ہے خصوصاً جبکہ آل پارٹیز کانفرنس ملک بھر میں گونج اور گرج رہی ہے اور مسلم لیگ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ )صفحہ ۲۶۰۔ ۲۶۱(
۲۹۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲۔
۳۰۔
اخبار تیج )دہلی( ۱۰/ اپریل ۱۹۲۹ء بحوالہ اہلحدیث امرتسر ۱۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۴۔ ۱۵۔
۳۱۔
بعض شریف اور غیر متعصب ہندوئوں نے اس موقعہ پر یہ بھی اقرار کیا کہ >اگرچہ بعض ہندو جرائد قتل راجپال کی آڑ میں مذہب اسلام اور اس کے بانی حضرت محمد صاحب کی ذات بابرکات کے خلاف نہایت کمینے الزامات تراشنے میں مصروف ہیں لیکن مسلمان لیڈروں کی صاف دلی ملاحظہ ہو کہ وہ ان ناقابل برداشت حملوں کو سنتے ہوئے بھی قتل راجپال میں ان کے ساتھ نہایت خلوص دلی سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں۔ ہم مسلمان بھائیوں کا اس صاف دلی اور اظہار ہمدردی کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ >اخبار رشی امرتسر ۱۸/ اپریل ۱۹۲۹ء( بحوالہ الفضل ۳۰/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۴۔
۳۲۔
تیج )دہلی( ۱۰/ اپریل ۱۹۲۹ء بحوالہ اہلحدیث امرتسر صفحہ ۱۵ کالم ۳۔
۳۳۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۲۔
۳۴۔
الفضل ۱۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ تا ۸۔
۳۵۔
الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۔
۳۶۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۳۷۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۳۸۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۳۔
۳۹۔
الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۲۔
۴۰۔
مشرق ۹/ مئی ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔
۴۱۔
اخبار ہمت لکھنئو ۳/ مئی ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔
۴۲۔
]2h [tag الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۴۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۲۰۰۔
۴۴۔
مراد مولوی ظفر علی خاں صاحب ہیں۔ ناقل۔
۴۵۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۴۶۔
بحوالہ الفضل ۱۱/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۴۷۔
بحوالہ الفضل ۲۱/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۴۸۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۴۹۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۵۰۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۱۔
الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۵۲۔
الفضل ۱۸۔ ۲۱/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۳۔
الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۵۴۔
الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۵۵۔
الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱ کالم ۱۔
۵۶۔
الفضل ۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۵۷۔
الفضل ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔
۵۸۔
الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۵۹۔
الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۶۰۔
الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۶۱۔
الفضل ۲۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۶۲۔
الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱ کالم ۲۔
۶۳۔
الفضل ۱۹/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۶۴۔
یاد رہے کہ سفر کشمیر کے اکثر و بیشتر خطبات آپ نے اور بعض ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب و محمد افضل صاحب نے مرتب کرکے الفضل کو بھجوائے جو شائع شدہ ہیں۔
۶۵۔
الفضل ۲۲/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۶۶۔
الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۶۷۔
الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷۔
۶۸۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔
۶۹۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ کالم ۲۔
۷۰۔
خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل` حضرت میر محمد اسحاق صاحب` مولانا ابوالعطاء صاحب` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر` مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب کے مضامین الفضل میں شائع شدہ ہیں۔
۷۱۔
مرثیہ کہنے والوں میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب` حضرت خان صاحب` ذوالفقار علی صاحب` حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی` نواب خان صاحب` ثاقب میرزا خانی` ملک عبدالرحمن صاحب خادم` مولانا جلال الدین صاحب شمس` مولوی غلام احمد صاحب اختر اوچ شریف` مولوی عبداللہ صاحب مالا باری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
۷۲۔
اخبار اہلحدیث ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۵ کالم ۲۔
۷۳۔
اخبار پیغام صلح ۹/ جولائی ۱۹۲۹ء۔
۷۴۔
حضور نے اس ایک فقرہ میں حضرت حافظ صاحبؓ کی پوری زندگی کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ چنانچہ جب ہم حضرت مولوی عبدالکریمؓ اور آپ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو دونوں بزرگوں میں متعدد مماثلتیں اور مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں اپنے زمانے میں صف اول کے علماء میں شمار ہوتے تھے۔ دونوں خوش الحان واعظ مقرر تھے۔ دونوں کی علمی و دینی خدمات کا سلسلہ آخر دم تک جاری رہا۔ دونوں سنتالیس سال کی عمر میں اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے۔
۷۵۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء۔
۷۶۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۷۷۔
الفضل ۷/ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۳ کالم ۱` ۲۔
۷۸۔
الفضل ۲۸/ جون ۱۹۲۹ء۔
۷۹۔
الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۴۰ء۔
۸۰۔
یاد رہے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جنوری ۱۹۱۹ء میں جب نظارتوں کا قیام فرمایا تو اعلان فرمایا کہ میں نے جماعت کی ضروریات افتاء کو مدنظر رکھ کر مکرمی مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب` مکرمی مولوی محمد اسمعیل صاحب اور مکرمی حافظ روشن علی صاحب کو مقرر کیا ہے۔ )الفضل ۴/ جون ۱۹۱۹ء صفحہ ۱ کالم ۳(
۸۱۔
ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے جنہوں نے اصحاب احمد کی تین جلدوں میں آپ کی مفصل سوانح لکھی ہے بطور نمونہ آپ کے پچپن فتاوی بھی شائع کئے ہیں جن سے حضرت مولانا کی تبحر علمی` باریک نظری اور دینی بصیرت کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔
۸۲۔
اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم میں اس کا کئی مقامات پر ذکر آتا ہے نیز رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔ ۱۹۳۲ء کے صفحہ ۳۱ پر لکھا ہے۔ مفتی صاحب سلسلہ ان طلباء سے فتویٰ کا کام بھی لے کر مشق کرواتے رہتے ہیں۔
۸۳۔
اخبار مباہلہ جاری کرنے والے کون تھے؟ اس کا تذکرہ تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۶۲۱ تا ۶۲۵ میں گزر چکا ہے۔
۸۴۔
اخبار جواب مباہلہ نمبر ۱ صفحہ ۲۔
۸۵۔
الفضل ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶ و الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۶۔
اخبار ملاپ )۲۰/ اگست ۱۹۲۹ء( نے لکھا کہ سکھوں سے پوچھا گیا کہ تمہیں بوچڑ خانہ پر اعتراض تو نہیں تو انہوں نے بھی کہا کہ نہیں پس ڈپٹی کمشنر صاحب نے سمجھا کہ فیصلہ ہو گیا۔ اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں تک مذبح کا تعلق ہے سکھ مذبح کے خلاف نہیں تھے۔ اس کے بعد انہیں پہلے اقرار پر قائم نہ رہنے دینے میں کسی اور فریق کا ہاتھ تھا اور یہ فریق ہندوئوں کے سوا اور کون ہو سکتا تھا۔ چنانچہ سکھوں کے مشہور اخبار اکالی )امرتسر( نے تو صاف لکھا کہ گائے کی مذہبی عظمت کا سوال خالص ہندو سوال ہے اور سکھ جہاں جھٹکہ پر کسی قسم کی بندش برداشت نہیں کر سکتے وہاں دوسروں کو بھی کوئی خوراک کھانے سے نہیں روکنا چاہئے۔ اسی طرح سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے اپنے اخبار ریاست )۲۴/ اگست ۱۹۲۹ء( میں لکھا۔ جہاں تک کسی جانور کے مارنے کا سوال ہے ایڈیٹر ریاست کے ذاتی خیال کے مطابق گائے اور بکری یہاں تک کہ گائے اور ایک مکھی میں بھی کوئی فرق نہیں۔ گائے سے متعلق سکھ قوم کی یہ رائے ہندوئوں سے پوشیدہ نہیں تھی۔ جیسا کہ اخبار گورو گھنٹال )۳۱/ اگست ۱۹۲۹ء( نے اقرار کیا کہ سکھوں میں اب کچھ عرصہ سے بعض من چلے لوگ ایسے بھی پیدا ہو چکے ہیں کہ جو نہ صرف یہ کہ گائے کی عظمت کے قائل نہیں رہے بلکہ وہ سور اور گائے میں بھی کوئی تمیز کرنے کے لئے تیار نہیں۔ )بحوالہ الفضل ۳/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۔ ۴(
۸۷۔
یاد رہے کمشنر صاحب کی عدالت میں مذبح کے خلاف قادیان کے ہندوئوں کی اپیل پیش ہوئی تھی کوئی سکھ ان کے ساتھ شامل نہ تھا۔
۸۸۔
الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ و الفضل یکم اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۸۹۔
الفضل یکم نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ یاد رہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس فیصلہ کے بعد مذبح کی اجازت ملتوی کر دی تھی۔ مگر گوشت کی دکان موجود رہی۔ اور آخر ۱۵/ جون ۱۹۳۱ء کو محلہ دارالعلوم میں نئے ¶تعمیر شدہ مذبح کا افتتاح ہوا۔ )الفضل ۱۶/ جون ۱۹۳۱ء صفحہ ۱(
۹۰۔
الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۵۔
۹۱۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ ۳۔
۹۲۔
شاردابل کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو۔ زمیندار ۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء بحوالہ الفضل ۸/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۹ کالم ۱۔ ۲۔
۹۳۔
الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۹۴۔
ایضاً صفحہ ۶ کالم ۳۔