تاریخ احمدیت ۔ جلد 7 ۔ یونی کوڈ
tav.7.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
تاریخ احمدیت
جلد ششم
۱۹۳۲ء سے لیکر ۱۹۳۵ء تک کے
پرفتن اور المناک دور ابتلاء کا مفصل جائزہ
مولفہ
دوست محمد شاہد
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی ساتویں جلد
)رقم فرمودہ مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب(
یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ ادارۃ المصنفین کی طرف سے تاریخ احمدیت کی ساتویں جلد تیار ہو کر احباب کے ہاتھوں میں آرہی ہے۔ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا باون سالہ دور قیادت ایسا عظیم الشان اور خدا تعالیٰ کی نصرتوں سے بھرپور ہے کہ انسانی روح اور زبان خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانے لگتی ہے کجا وہ وقت کہ خلافت ثانیہ کا مبارک دور خلافت شروع ہوا۔ اور بعض لوگوں نے یہ تعلیاں شروع کر دیں کہ اب یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن باون سالہ قیادت کے دوران اللہ تعالیٰ نے جس طرح آسمان سے نصرت کی۔ اور قدم قدم پر نشانات کا ظہور ہوا وہ احمدیت کی سچائی کا ایک زبردست ثبوت ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے مبارک زمانہ میں دنیا کے ہر کونے اور ہر ملک میں احمدیت کی مضبوط جماعتیں قائم ہو گئیں۔ اور احمدیت کا درخت ایسا تناور ہو گیا کہ ہر ملک کے پرندے اس پر نشیمن بنا کر آرام کرنے لگے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے کے پورا ہونے کا وقت آگیا۔
اس عرصہ میں مخالفت کی آندھیاں آئیں` ابتلائوں کے طوفان آئے اور مخالفوں نے چاہا کہ وہ خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے پودہ کو ختم کر دیں لیکن سب کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اور ان مخالفتوں کے نتیجہ میں احمدیت اور تیزی سے ترقی کرنے لگی۔~}~
ہربلا کیں قوم را حق دادہ اند
زیر آں گنج کرم بنہادہ اند
نوجوانان احمدیت کا فرض ہے کہ وہ سلسلہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے اور قربانیوں کے معیار کو قائم کرنے کی پوری سعی کریں یہ خدا کی تقدیر ہے اور یہ خدا کا نوشتہ ہے کہ احمدیت غالب ہو گی اور دنیا پر ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی دین اور سب قومیں اسلام کے چشمہ سے سیراب ہوں گی اور قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی تسکین قلب حاصل کریں گے پس مبارک ہے وہ شخص جو اپنے من` تن` دھن کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہتا ہے کیونکہ اسلام کا احیاء ہم سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قربان ہونا طلب کرتا ہے۔
پس عزیزو! اٹھو۔ کمر ہمت باندھو اور جس طرح خلافت ثانیہ میں آنے والے احباب نے قربانیوں کا بے نظیر نمونہ دکھایا۔ اسی طرح خلافت ثالثہ میں تم بھی آگے بڑھو۔ تا اسلام کا جھنڈا سب دنیا پر لہرانے لگے۔ آمین۔
والسلام
)دستخط( ظفر اللہ خان۔ ازلاہور
۶۷۔ ۱۔ ۱۸
نوٹ:۔ >تاریخ احمدیت< کے سیٹ اور موجودہ ایڈیشن کے اعتبار سے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب کا یہ پیش لفظ زیرنظر جلد ۶ ہی سے متعلق ہے۔ )مولف(
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت جلد ہفتم
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے خلافت ثانیہ کے بابرکت دور کی تاریخ کی تیسری جلد احباب کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے یہ جلد دو ابواب میں ہے اور ۱۹۳۲ء سے لے کر ۱۹۳۵ء تک کے واقعات پر مشتمل ہے تاریخ کے پہلے باب میں علاوہ دوسرے اہم واقعات کے مقدمہ بہاول پور اور مشرقی افریقہ میں احمدیت کا بیج بوئے جانے اور پھر باوجود مخالفت کی آندھیوں کے اس کے بڑھنے اور تناور درخت بننے کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں جماعت پر آنے والے ابتلائی دور کا مفصل ذکر کیا گیا ہے جب کہ احرار نے جماعت کی مخالفت کرتے ہوئے یہ تعلی کی تھی کہ وہ جماعت احمدیہ کو ختم کر دیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق احرار کے سب منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور جماعت احمدیہ پہلے سے بھی زیادہ شان و شوکت کے ساتھ ترقی کرنے لگی۔ احرار کی مخالفت کے نتیجہ میں جو انعامات کے دروازے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے لئے کھولے۔ ان کا ذکر انشاء اللہ مفصل اگلی جلد میں آئے گا۔ سیدنا حضرت مصلح الموعودؓ کے ساتھ جو خدائی وعدے کئے گئے تھے ان میں سے دو وعدے یہ تھے کہ قومیں آپ سے برکت پائیں گی اور خدا کا سایہ آپ کے سر پر ہو گا۔ ان ہر دو امور کی تصدیق ببانگ دہل اس جلد کے واقعات کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس جلد کو قبول فرمائے اور مصنف مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو صحت و سلامتی کے ساتھ باقی حصوں کو جلد مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے )آمین( اور ان کی محنت کو نوازے۔ وما توفیقنا الا باللہ العظیم۔
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے کتاب کے ابتدائی حصہ کو از راہ شفقت ملاحظہ فرمایا اور دعا فرمائی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم صحابی حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہان پوری نے باوجود علالت طبع اور کمزوری کے اول سے آخر تک کتاب کے مسودہ کو سنا اور مناسب اصلاح فرمائی اسی طرح خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے مقدمہ بہاول پور کے حالات پر نظر ثانی فرمائی۔ ان بزرگوں کے علاوہ درج ذیل محترم اصحاب نے بھی اپنے قیمتی وقت کو صرف کرکے جستہ جستہ مقامات پر نہایت محنت سے نظر ثانی فرمائی۔
۱۔
مکرم شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ سابق جج ہائی کورٹ و صدر ادارۃ المصنفین۔
۲۔
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ۔
۳۔
مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب مجاہد مشرقی افریقہ۔
۴۔
مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ ربوہ۔
۵۔
مکرم قریشی ضیاء الدین صاحب بی اے ایل ایل بی` ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور۔
۶۔
مکرم چوہدری صلاح الدین صاحب بی اے ایل ایل بی مشیر قانونی )صدر انجمن احمدیہ ربوہ(
ان کے علاوہ مکرم سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی نے شروع سے آخر تک مضمون ملاحظہ فرما کر قیمتی مشورے دیئے۔ فجزاھم اللہ
خاکسار کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ شروع سے آخر تک اس کتاب کے مسودہ کو اس لحاظ سے دیکھا کہ کتاب کا ہر گوشہ مکمل نظر آئے۔ فالحمد للہ علی ذلک
اس جلد میں بعض نایاب تصاویر لگائی جارہی ہیں۔ یہ تصاویر مندرجہ ذیل اصحاب نے مہیا کی ہیں۔
۱۔
حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل
]ni [tag۲۔
مکرم حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ قادیان
۳۔
مکرم جناب ناظر صاحب خدمت درویشان )سید میر دائود احمد صاحب(
۴۔
جناب مختار احمد صاحب ہاشمی
۵۔
مکرم چوہدری سردار احمد صاحب فاضل لندن
۶۔
مکرم حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال تحریک جدید
۷۔
مکرم شیخ عبدالمجید صاحب کارکن صدر انجمن احمدیہ ربوہ
اسی طرح جلد کے لئے مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب انور فاضل پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح اور محترم سید اعجاز احمد صاحب انسپکٹر بیت المال صدر انجمن نے نہایت قیمتی مواد مہیا فرمایا۔ حوالہ جات کے مقابلہ کرنے میں عزیزم مکرم محمد یوسف صاحب سلیم ایم اے شاہد نے نہایت محنت اور عرق ریزی سے کام کیا۔ اسی طرح مکرم مولانا محمد صدیق صاحب فاضل ایم اے انچارج خلاف لائبریری اور آپ کے دونوں ساتھی راجہ محمد یعقوب صاحب اور ملک محمد اکرم صاحب مضمون کی تیاری کے لئے کتب کی فراہمی میں خصوصی تعاون فرماتے رہے۔ فجز اہم اللہ تعالیٰ۔
تنگی وقت کے باوجود مکرم سید محمد باقر صاحب خوشنویس نے نہایت محنت سے کتابت کی اور مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل نے پروفوں کے پڑھنے میں نہایت جدوجہد سے کام لیا۔ مکرم قاضی منیر احمد صاحب اور لطیف احمد صاحب کارکن ادارہ نے دن رات ایک کرکے اس کو چھپوانے کی سعی کی۔
ادارۃ المصنفین تمام ان اصحاب کا جنہوں نے اس جلد کی تیاری میں کسی نہ کسی رنگ میں مدد کی ہے دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان سب کی محنت کو نوازے اور اپنے فضلوں کا وارث کرے۔ )آمین(
ابو المنیر نورالحق
مینیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ
۱۷/ جنوری ۱۹۶۷ء
نوٹ:۔ موجودہ ایڈیشن کے اعتبار سے یہ الفاظ زیر نظر جلد ۶ کا تعارف ہیں۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب )فصل اول(
اشاعت احمدیت کی پرزور تحریک اور >یوم التبلیغ< کے آغاز سے لے کر دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کے قیام تک
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
)جنوری ۱۹۳۲ء تا دسمبر ۱۹۳۲ء بمطابق شعبان ۱۳۵۰ھ تا شوال ۱۳۵۱ھ(
۱۹۳۲ء کے ماحول پر ایک سرسری نظر
جماعت احمدیہ کی علمی و تبلیغی اور اخلاقی و روحانی تاریخ جو ابتداء سے لے کر ۱۹۳۱ء تک کے عمومی کوائف اور تحریک آزادی کشمیر کے مفصل حالات و وقائع پر مشتمل تھی۔ قبل ازیں چھ حصوں میں محفوظ ہو چکی` اور اب ہم خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ پیش نظر )ساتویں( جلد سے ۱۹۳۲ء کے واقعات کا آغاز کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وما توفیقنا الا باللہ العلی العظیم۔
اس دور کی تاریخ پر قلم اٹھانے سے پیشتر یہ بتا دینا نہایت ضروری ہے کہ خلافت ثانیہ کے ابتداء میں تحریک احمدیت کو جو عظیم الشان ترقیات و فتوحات نصیب ہوئیں وہ ۳۱۔ ۱۹۳۲ء میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آگئیں۔ اور سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی بے مثال راہ نمائی نے سلسلہ احمدیہ کو اٹھارہ برس کے اندر اندر اپنوں اور غیروں کی بے انتہا مخالفانہ سرگرمیوں کے باوجود ۔۔۔۔ رفعت و عظمت کے ایسے بلند مقام پر لاکھڑا کیا کہ نہ صرف برصغیر کے مختلف طبقے اس مختصر سی جماعت کے غیر معمول اثر و نفوذ اور کامیابی کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے۔ بلکہ دنیائے اسلام کے بعض ممالک میں بھی اس کے تبلیغی کارناموں اور اس کی مجاہدانہ کوششوں اور تنظیمی صلاحیتوں پر اظہار تحسین کیا جانے لگا۔
مسلمانان ہند کی قابل رحم حالت
یہ زمانہ مسلمانان ہند کے لئے گوناگوں مصائب سے لبریز تھا۔ کشمیر اور صوبہ سرحد میں مسلمانوں پر جبر و تشدد کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اس کے ساتھ ہی کرنال` حصار اور ریاست الور کے مسلمانوں کو سخت دق کیا جارہا تھا۔ حتیٰ کہ پنجاب مسلم اکثریت کا صوبہ ہونے کے باوجود ہندوئوں اور سکھوں کی سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اب سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ )قائداعظم( محمد علی جناح کے انگلستان چلے جانے اور وہاں بودوباش اختیار کر لینے کے بعد مسلمانان ہند کا سیاسی قافلہ انتشار` تشتت اور پراگندگی کا شکار ہو رہا تھا اور مسلمان لامرکزیت اور فقدان قیادت کے نتیجہ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو چکے تھے۔ چنانچہ >تازیانہ ریویو< )۳۰ / نومبر ۱۹۳۲ء( نے اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ:
>مسلمان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے تاوقتیکہ ان میں کوئی لیڈر پیدا نہ ہو گا۔ گاندھی نہ ہو تو مالوی ہی ہو اور اگر وہ نہ ہو تو پرمانند ہی سہی۔ لیکن یہاں تو ہندو لیڈروں کے مقابلہ میں ہم کسی ایک مسلمان کو بھی پیش نہیں کر سکتے<۔
جماعت احمدیہ کی خصوصی شان اپنوں اور غیروں کی نظر میں
بایں ہمہ مایوسی اور ناامیدی کے اس دردناک ماحول میں نظریں بیتابانہ اور مضطربانہ طور پر قادیان کی طرف اٹھتی تھیں اور وہاں روشنی کی ایک امید افزا کرن موجود پاتی تھیں۔ چنانچہ ذیل میں بعض اہم آراء و افکار درج کی جاتی ہیں جن سے جماعت احمدیہ کی اس خصوصی شان کا اندازہ کرنے میں آسانی ہو گی۔
۱۔
مراد آباد کے ایک مشہور مسلمان مصنف جناب اشفاق حسین صاحب مختار )سابق میونسپل کمشنر مراد آباد( نے اپنے ایک کتابچہ >خون کے آنسو< میں لکھا۔
)>جماعت اور بھیڑ کا فرق احمدی جماعت ہیں( ہم سات کروڑ تو ہیں لیکن ہم سات کروڑ آدمیوں کی بھیڑ ہیں۔ ہم اپنے آپ کو جماعت نہیں کہہ سکتے۔ البتہ احمدی صاحبان اپنے آپ کو جماعت کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کی تنظیم اچھی ہے ۔۔۔۔ مشہور عربی مقولہ ہے ید اللہ علی الجماعہ۔ یعنی اللہ کا ہاتھ جماعت کے اوپر ہوتا ہے یعنی اللہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو تنظیم کرکے اپنی جماعت بنالیتے ہیں۔ خدا بھیڑ کی مدد نہیں کرتا۔ چونکہ ہم بھیڑ ہیں اس لئے خدا نے اپنا مددگار ہاتھ ہمارے اوپر سے اٹھالیا۔ تنظیم اگر ہوتو تھوڑی سی جماعت بھی دنیا میں تہلکہ ڈال دیتی ہے اور اگر تنظیم نہ ہوتو سات کروڑ تو کیا بلکہ ستر کروڑ بھی ذلت کی زندگی بسر کرتے ہیں<۱
۲۔
ایک کانگریسی لیڈر پنڈت نانک چند صاحب نے گول میز کانفرنس میں کہا کہ۔
>مسلمان جاہل پسماندہ اور ناکافی تعلیم یافتہ ہیں اور ان کو کنٹرول کرنا آسان نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ناخواندہ فرقہ کے ہاتھ میں دی جانے لگی ہے<۔
اس بیان پر آل انڈیا خلافت کمیٹی کے ترجمان >خلافت< )بمبئی(۲ نے ایک جوابی نوٹ سپرد قلم کیا۔ جس میں لکھا کہ۔
>اگر قادیان جیسے قصہ کا ٹانگہ والا خالصہ اور دیانند کالج کے گریجوئیٹوں کو بند نہ کر دے۔ تو ہمارا ذمہ۔ پھر مسلمان کبھی صوبہ کی آزادی طلب نہیں کریں گے<۔
یہ الفاظ ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان کو ایسی فضیلت اور علمی شان عطا فرمائی ہے کہ اس مقدس مقام کا بچہ بچہ اپنے علم اور قابلیت میں دنیا کے بڑے بڑے تعلیم یافتہ اشخاص پر بھاری ہے نیز یہ کہ قادیان کی سرزمین نے ایسے زبردست دماغ پیدا کئے ہیں جو حجت اور برہان کی رو سے بڑے بڑے مخالفین اسلام کا ناطقہ بند کرکے ان کا اثر بخوبی زائل کر سکتے ہیں۔
۳۔
جمعیتہ العلماء ہند کے آرگن >الجمعیتہ< )دہلی( نے جماعت احمدیہ کی تنظیم اور اس کے سالانہ جلسہ کی اہمیت کی نسبت مندرجہ ذیل بیان شائع کیا۔
>قادیانیوں کی کامیابی کا راز صرف ایک بات میں مضمر ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ بہت منظم ہیں۔ ان کے یہاں مختلف امور کے لئے مختلف شعبے قائم ہیں جن میں تنخواہ دار اور مستقل سٹاف کام کرتا ہے۔ مریدین کے چندوں کا اگرچہ کافی حصہ غیر متعلقہ مدات میں بھی صرف ہوتا ہے لیکن پھر بھی قادیانی پراپیگنڈا کے لئے کافی سرمایہ موجود رہتا ہے ظاہر ہے کہ موجودہ زمانہ میں سرمایہ اور تنظیم کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔ اور یہ دونوں چیزیں قادیانیوں کو میسر ہیں۔ علاوہ مرکزی سٹاف کے جو قادیان میں ہے ہر اس مقام پر جہاں دو چار قادیانی بھی ہیں ایک الگ جماعت قائم ہے۔ جو مرکزی جماعت کے زیر نگرانی ہے۔ اس طرح سے ہر ایک قادیانی اپنے مرکز سے وابستہ ہے۔ اخبار اور سالانہ جلسہ سے اس تنظیم کی اور بھی تکمیل ہو جاتی ہے گویا قادیانیوں کا سالانہ جلسہ بسلسلہ تنظیم وہ کام کر رہا ہے جو مسلمانوں کے یہاں حج بیت اللہ سے ہونا چاہئے۔ اب اس قادیانی تنظیم کے مقابلہ میں مسلمانوں کی حالت دیکھی جائے تو نہایت پراگندہ اور غیر منظم ہے<۔۳
۴۔
جماعت احمدیہ کے مشہور معاند اخبار >زمیندار< کے ایڈیٹر جناب مولوی ظفر علی خان صاحب نے جماعت احمدیہ کی ترقی اور عروج اقبال کا اقرار کرتے ہوئے لکھا۔
>یہ ایک تناور درخت ہو چلا ہے اس کی شاخیں ایک طرف چین میں اور دوسری طرف یورپ میں پھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں<۔
نیز لکھا۔
>آج میری حیرت زدہ نگاہیں بحسرت دیکھ رہی ہیں کہ بڑے بڑے گریجوئیٹ اور وکیل اور پروفیسر اور ڈاکٹر جوکونٹ اور ڈیکارٹ اور ہیگل کے فلسفہ تک کو خاطر میں نہیں لاتے تھے غلام احمد قادیانی کے خرافات واہیہ پراندھا دھند آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئے ہیں<۔۴
یہ تو برطانوی ہند کے بعض مسلم زعماء کے تاثرات ہیں جو بطور نمونہ اوپر درج کئے گئے ہیں۔ اب برصغیر کے غیر مسلم پریس کا نقطہ خیال ملاحظہ ہو۔ آریہ سماجی اخبار >پرکاش<۵ لاہور نے تبلیغ احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ۳/ جنوری ۱۹۳۲ء کی اشاعت میں لکھا۔
>ان کے پلیٹ فارم کی مضبوطی کی تو یہ حالت ہے کہ ہر ایک احمدی سے یہ آشا۶ کی جاتی ہے کہ مرکز سے حکم پاتے ہی وہ باقاعدہ واعظ کا کام کرنے پر تیار ہو گا۔ ورنہ معمولی طور پر تو جو بھی احمدی جس اوستھا۷ میں ہے وہ واعظ کا کام کرتا ہے لیکن اس کا پریس مضبوطی میں آریہ سماج کے مقابلہ میں حیرت انگیز ہے ایک قادیان کو لو وہاں سے نصف درجن اخبارات سے کم نہیں نکلتے جن میں دو انگریزی ہیں اور اردو پتروں میں سے ایک ہفتہ میں تین بار شائع ہوتا ہے۔ عجب نہیں کہ اسے جلد روزانہ کر دیا جائے۔۸ احمدی پریس کا جال سارے ہندوستان میں ہی نہیں۔ باہر نو آبادیوں اور مغربی ممالک تک بچھا ہوا ہے۔ ہر جگہ سے احمدی اخبار اور رسالے نکلتے ہیں۔ اس اوستھا میں احمدیت کی تبلیغ کامیاب ہو تو تعجب ہی کیا ہے یہ سارے اخبار پچپن ہزار احمدیوں کے سر پر چل رہے ہیں۔ یہ احمدی تبلیغ کے سوائے کوئی اور کام نہیں کرتے اس لئے احمدیت سے باہر ان کی اشاعت کی کوئی توقع نہیں پچپن ہزار احمدی ہی ہیں جو اپنی کمائی کے حصہ سے انہیں زندہ رکھ رہے ہیں اور کس لئے زندہ رکھ رہے ہیں؟ احمدیت کے پرچار کے لئے۔ آریوں کی سنکھیا۹ ماتری۱۰ بھارت میں ہی دس لاکھ سے کیا کم ہو گی لیکن آریہ سماج کے پریس کی حالت کو دیکھ کر ہر ایک آریہ کا سر مارے ندامت کے جھک جانا چاہئے<۔
مصری پریس میں جماعت احمدیہ کی خدمات اسلامیہ کی بازگشت
ہندوستان سے باہر جس مسلمان ملک میں پہلی بار جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز کامیابی اور قابل تقلید اسلامی خدمات کا کھلا کھلا اقرار کیا گیا وہ مصر تھا۔ چنانچہ قاہرہ کے اخبار >الفتح< )۲۰/ جمادی الاخر ۱۳۵۱ ھ مطابق ۲۲/ اکتوبر ۱۹۳۲ء( نے جماعت احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔
>نظرت فاذ احرکتھم امرمدھش فانھم رفعوا اصواتھم و اجروا اقلامھم باللغات المختلفہ و ایدوا دعوتھم ببذل المال فی المشرقین و المغربین فی مختلف الاقطار و الشعوب و نظموا جمعیاتھم و صدقوا الحملہ حتی استفحل امرھم و صارت لھم مراکز دعایہ فی اسیا و اووبا و امریکا و افریقیہ تساوی علما و عملا جمعیات النصاری واما فی التاثیر والنجاح فلا مناسبہ بینھم و بین النصاری فالقادیانیون اعظم نجاحالما معھم من حقائق الاسلام و حکمہ<۔
ترجمہ: میں نے دیکھا ہے کہ قادیانی تحریک ایک حیرت انگیز چیز ہے قادیانیوں نے تقریری اور تحریری طور پر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے۔ نئی اور پرانی دنیا کے مشرق و مغرب میں مختلف ملکوں اور قوموں میں بذل مال کے ذریعہ اپنی تبلیغ کو تقویت پہنچائی ہے۔ انجمنیں اور جمعیتیں مرتب کرکے زبردست حملہ کیا ہے یہاں تک کہ ان کا معاملہ عظیم الشان ہو گیا۔ اور ایشیا` یورپ` امریکہ اور افریقہ میں ان کے تبلیغی مرکز قائم ہو گئے۔ جو ہر طرح سے علمی اور عملی طور پر عیسائیوں کے مشنوں کے ہم پلہ لیکن تاثیر اور کامیابی کی رو سے ان میں اور مسیحیوں میں کچھ نسبت نہیں۔ کیونکہ قادیانی اسلامی حقائق اور حکمتوں کی وجہ سے عیسائیوں سے بدرجہا زیادہ کامیاب ہیں۔ پھر لکھا۔ >ولا ینقضی عجبی من ھولاء الرجال الذین بلغوا فی علو الھمم والعلوم الکونیہ مبلغا مالمر تبلغہ حتی الان ایہ فرقہ اسلامیہ کیف الخدعو بما اخترعہ غلام احمد القادیانی من الحیل والخارق<۔
یعنی میرے تعجب کی کوئی انتہا نہیں رہتی جبکہ میں ان لوگوں )جماعت احمدیہ کے افراد( کو جو علو ہمت اور علوم جدید میں اس درجہ ترقی کرگئے ہیں کہ آج تک کوئی اسلامی فرقہ وہاں تک نہیں پہنچا دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کے ایجاد کردہ حیلہ و فریب سے کس طرح دھوکہ کھا گئے ہیں۔ پھر لکھا ہے:۔
>والذی یری اعمالھم المدھشہ ویقدر الامور حق قدرھا لا یملک نفسہ من الدھشہ و الاعجاب بجھاد ھذہ الفرقہ القلیلہ التی عملت مالم تستطعہ مئات الملایین من المسلمین وقد جعلوا جھادھم ھذا ونجاحھم اکبر معجزہ تدل علی صدق ممایزعمون۔ وسا عدھم علی ذلک موت غیرھم ممن ینتسب الی الاسلام<۔
ترجمہ: جو شخص معاملہ فہم ہو اور ان لوگوں کے حیرت انگیز کارناموں کو دیکھے۔ وہ یقیناً اس چھوٹی سی جماعت کے جہاد کو دیکھ کر حیران اور انگشت بدنداں رہ جائے گا۔ اس جماعت نے وہ کام کیا ہے جس کو کروڑوں مسلمان نہ کر سکے۔ ان لوگوں نے اپنے جہاد اور کامیابی کو اپنے دعویٰ کی صداقت پر سب سے بڑا معجزہ قرار دیا ہے۔ ان کے اس بیان کو ان لوگوں کی موت نے تقویت پہنچائی ہے جو ان کے علاوہ اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔
آخر میں )حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ` احمدیت کے بیرونی مشنوں` ریویو آف ریلیجنز انگریزی و اردو کے ذکر کے بعد( لکھا۔
>افلا یجب علی المسلمین و الحال ھذہ ان یزیلوا عن اذھان اھل اوربا و امریکا تلک العقائد الفاسدہ التی یعتقد ونھافی دینھم و نبیھم ھذا فرض علی امراء المسلمین و علماء ھم و اغنیاء ھم و فقراء ھم ایضا فمن ذالذی یقوم الیوم بتبدید تلک الاوھام؟ لا احد لا القادیانیون و حد ھم ھم الذین یبذلون فی ذلک الاموال والانفس ولو قام المصلحون یصیحون حتی تبح اصواتھم و یکتبون حتی تنکسر اقلامھم ماجمعوا من الاموال و الرجال فے جمیع الاقطار الاسلامیہ عشر ما تبذلھا ھذہ الشرذمہ القلیلہ<۔
ترجمہ: کیا ان حالات میں مسلمانوں پر واجب نہیں کہ اہل یورپ و امریکہ کے ذہنوں سے وہ فاسد خیالات دور کریں جو وہ اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کے متعلق رکھتے ہیں۔ یقیناً واجب ہے اور یہ مسلمانوں کے سلاطین` علماء` اغنیاء اور فقراء کا فرض ہے۔ مگر کون ہے جو ان اوہام کو دور کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہو؟ ہرگز کوئی نہیں۔ صرف اکیلے احمدی ہیں جو اپنے اموال اور جانوں کو اس راہ میں خرچ کر رہے ہیں ہاں اگر مسلمانوں کے زعماء اور مصلحین کھڑے بھی ہوں اور چلاتے چلاتے ان کی آواز بھرا جائے اور لکھتے لکھتے ان کے قلم ٹوٹ جائیں تب بھی وہ تمام اسلامی دنیا سے مال اور کارناموں کے لحاظ سے اس کا دسواں حصہ بھی جمع نہیں کر سکتے جس قدر یہ چھوٹی سی جماعت خرچ کر رہی ہے۔۱۱]ydob [tag
اسی طرح جامعہ ازہر کے ماہوار رسالہ >نور الاسلام< نے بھی انہیں دنوں لکھا کہ۔
>للقاد دیانیہ حرکہ نشیطہ فی الدعوہ الی نحلتھم ولما کانوا یقیمون ھذہ النحلہ علی شی من تعالیم الاسلام امکنھم ان یدعوا انھم دعاہ الاسلام ۔۔۔۔۔۔ بعثوا بدعاتھم الی سوریہ و فلسطین و مصر و جدہ و العراق و غیرھا من البلاد الاسلامیہ ۔۔۔۔ کثیرا ما وردتنا رسائل من البلاد العربیہ و غیرھا کامریکا یسال محرروھا عن اصل ھذہ النحلہ و مبلغ صلتھا بالاسلام<۔
ترجمہ: قادیانی لوگ اپنے مذہب کی طرف دعوت دینے میں مستعدی اور نشاط سے کام کر رہے ہیں اور چونکہ وہ اپنے دین کی بنیاد بعض اسلامی تعلیمات پر رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کو موقعہ مل گیا کہ اسلام کے مبلغ ہونے کا دعویٰ کریں انہوں نے اپنے مبلغ شام` فلسطین` مصر` جدہ` عراق اور دوسرے بلاد اسلامیہ کی طرف بھیجے ہیں۔ کئی مرتبہ ہمارے پاس بلاد عربیہ اور امریکہ سے خطوط آتے ہیں جن کے لکھنے والوں نے دریافت کیا ہے کہ اس جماعت اور دین کی حقیقت کیا ہے اور ان کا اسلام سے کس قدر تعلق ہے<۔۱۲
۱۹۳۲ء کے ماحول کا دوسرا رخ
۱۹۳۲ء کے ماحول کو سمجھنے کے لئے اوپر کی تحریرات کا مطالعہ مفید ہے مگر یہ حقیقی صورت حال کا صرف ایک پہلو ہے دوسرا پہلو اور رخ جس کا جاننا اس دور کی مذہبی اور سیاسی فضاء کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے یہ ہے کہ یہی وہ سال ہے جس میں بعض مخالفین حق نے جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روکنے بلکہ اسے صفحہ ہستی سے بالکل محو کر دینے کی دھمکی دی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام مخالف احمدیت طاقتیں میدان مخالفت میں اتر پڑیں۔ حتیٰ کہ صوبہ پنجاب میں برسر اقتدار انگریزی حکومت کی پوری سرکاری مشینری حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور جماعت احمدیہ کے خلاف حرکت میں آگئی اور سراسر ناروا` ناشائستہ اور ناجائز حربوں سے حملہ آوروں کی پشت پناہی کرنے لگی۔ احمدیت کے خلاف اپنی نوعیت کی اس پہلی منظم اور ہمہ گیر مخالفت کے اسباب و علل کیا تھے؟ اور حکومت کے افسروں نے اس میں سرگرم حصہ کیوں لیا؟ اور انگریزی حکام کی نگاہ میں جماعت احمدیہ جیسی خادم دین اور خادم ملک جماعت کے کون کون سے مفروضہ >جرائم< تھے جن کی پاداش میں اسے مسلسل کئی برس تک نہایت درجہ المناک حالات اور لرزا دینے والے مصائب و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا؟ دور ابتلا کی یہ جملہ تفصیلات دوسرے باب میں آرہی ہیں جہاں ۱۹۳۴ء کی قادیان احرار کانفرنس کے پس منظر اور اس کے اثرات و نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن چونکہ مندرجہ بالا الٹی میٹم کا تعلق ایک ایسے واقعہ سے ہے جو ۱۹۳۲ء۱۳ میں پیش آیا اس لئے اس مقام پر جبکہ ہم اس سال کے تفصیلی واقعات درج کرنے سے پہلے اس کا اجمالی تعارف کرا رہے ہیں اس واقعہ کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
۱۹۳۲ء کا ایک واقعہ
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا بیان ہے کہ۔
>بعض مسلمان کہلانے والوں نے محسوس کیا کہ جماعت احمدیہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اگر اس سے آگے بڑھ گئی تو اس کا مٹانا اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا اس لئے انہوں نے تنظیم کرکے اور ایسے لوگوں کی مدد لے کر جو بظاہر ہمارے دوست بنے ہوئے تھے مگر اندرونی طور پر دشمن تھے ہمارے خلاف اڈا قائم کر لیا اور ایسی تنظیم کی جس کی غرض احمدیت کو کچل دینا ہے۔ ۱۹۳۲ء میں تحریک کشمیر کے دوران میں ایک دن سرسکندر حیات خان صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی اس بارے میں دونوں کا تبادلہ خیال چاہتا ہوں کیا آپ شریک ہو سکتے ہیں میں اس وقت لاہور میں ہی تھا۔ میں نے کہا مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں۔ میٹنگ سرسکندر حیات خان صاحب کی کوٹھی پر ہوئی اور میں اس میں شریک ہوا۔ چودھری افضل حق صاحب بھی وہہیں تھے باتوں باتوں میں وہ جوش میں آگئے ور کہنے لگے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ احمدی جماعت کو کچل کر رکھ دیں میں نے اس پر مسکرا کر کہا۔ اگر جماعت احمدیہ کسی انسان کے ہاتھ سے کچلی جا سکتی تو کبھی کی کچلی جا چکی ہوتی اور اب بھی اگر کوئی انسان اسے کچل سکتا ہے تو یقیناً وہ رہنے کے قابل نہیں ہے یہ پہلی کوشش تھی۔ پھر احرار نے جماعت احمدیہ کو کچلنے کی مزید کوشش شروع کی اور یہ عجیب بات ہے کہ وہی احرار جو اپنی دوسری تحریکات کے لئے جب کوشش کرتے تو انہیں روپیہ نہیں ملتا تھا انہوں نے جب جماعت احمدیہ کے خلاف کوشش شروع کی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑے خزانہ کا دروازہ کھول دیا گیا ہے<۔۱۴
اس واقعہ کا ذکر حضور نے سب سے پہلے ۲۹/ جولائی ۱۹۳۲ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا۔ چنانچہ حضور نے بتایا کہ۔
ابھی تھوڑے دنوں کا واقعہ ہے کہ احرار کے لیڈروں میں سے ایک لیڈر نے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے ایک مجلس میں جو صلح کے لئے منعقد ہوئی تھی کہہ دیا کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم احمدیوں کو کچل ڈالیں گے۔ اب انسانی لحاظ سے ہم ان سے کہہ سکتے تھے کہ ہم تم کو کچل ڈالیں گے اور اگر زیادہ نرمی اختیار کرتے تو کہہ دیتے کہ کچل کر تو دیکھو۔ تیسری حالت ڈر جانا تھی کہ نامعلوم کیا ہو گا خدا جانے وہ کیا کر دیں گے وہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں اور ہم قلیل ہیں لیکن صحیح بات وہی ہے جو میں نے کہہ دی۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر یہ بندوں کی تحریک ہے تو ضرور کچلی جائے گی اور اگر خدا کی تحریک ہے تو ہم کو کیا ڈر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا<۔۱۵
خود چوہدری افضل حق صاحب >مفکر احرار< نے >تاریخ احرار< )صفحہ ۷۵ و ۷۶( میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے صاف لفظوں میں اعتراف کیا۔
>میں نے کہا مرزا صاحب! کوئی الیکشن نہیں گزرا جس میں مرزائیوں نے میرے خلاف ایڑی چوٹی کا زور نہ لگایا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا بھی خدا کے فضل سے فیصلہ یہی ہے کہ اس جماعت کو مٹا کر چھوڑیں گے<۔
اسی زمانہ میں سید محمد انور شاہ صاحب` شیخ الحدیث دارالعلوم دیو بند نے بھی لاہور کے ایک عام جلسہ میں یہ دھمکی دی کہ میں مرزائیوں کو تباہ کرکے دم لوں گا۔۱۶
یہ ہے ۱۹۳۲ء کا گردو پیش جس میں جماعت احمدیہ کے جری قائداور مقدس امام حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک نئے جوش نئی قوت اور نئے ولولے کے ساتھ کاروان احمدیت کی قیادت و سیادت کا بیڑہ اٹھایا اور پھر خدا کے فضل` نیم شبی دعائوں` حق و معرفت سے لبریز کلمات و خطبات اور بروقت اور مناسب تدابیر اور دوسرے روحانی و مادی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے جماعت کو ایک ایسی مضبوط اور مستحکم چٹان تک پہنچا دیا کہ نہ صرف یہ کہ آئندہ جو طوفان بھی اٹھا اس کے کناروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔ بلکہ اس کے نتیجہ میں ہر بار جماعت احمدیہ کو پہلے سے زیادہ قوت و شوکت نصیب ہوتی چلی گئی جیسا کہ آئندہ کے صفحات سے معلوم ہو گا۔
پیغام احمدیت پہنچانے کی زبردست تحریک اور یوم التبلیغ کا آغاز
خدائی سلسلوں کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کا واحد ذریعہ تبلیغ ہے یعنی نرمی` اخلاق اور دعائوں پر زور دے کر حق و صداقت کی اشاعت
کرنا جیسا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے >الوصیتہ< میں تحریر فرمایا ہے کہ۔
>خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں۔ سوتم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دعائوں پر زور دینے سے<۔۱۷
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ خصوصاً پچھلے کئی سالوں سے جماعت کو اس کی تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا رہے تھے اور گو اس کا نتیجہ بھی نہایت خوش کن نکل رہا تھا۔ اور خدا کے فضل سے جماعت سرعت سے ترقی بھی کر رہی تھی مگر چونکہ یہ ترقی نسبتی تھی اور ابھی جماعت کے بہت سے احباب حقیقی طور پر تبلیغ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تھے اس لئے حضور نے ۱۹۳۲ء کے آغاز میں ہی جماعت کو نہایت جوش سے تبلیغ کرنے کی تحریک فرمائی۔ چنانچہ ۸/ جنوری ۱۹۳۲ء کو خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ۔
>ضروری ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ کام کریں۔ کیونکہ جب تک ہر سال لاکھوں آدمی ہماری جماعت میں شامل نہ ہوں گے۔ اس وقت تک ہم پورے طور پر ترقی نہیں کر سکیں گے۔ بالعموم پہلی صدی ہی ایسی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت دنیا میں وسیع طور پر پھیل جاتی ہے اور ہم یہ ترقی حاصل نہیں کر سکتے جب تک لاکھوں آدمی ہر سال ہماری جماعت میں شامل نہ ہوں اور اگر ہم نے پہلی صدی میں ہی اپنی جماعت کو دنیا پر غالب نہ کیا تو پھر اور کونسا وقت ہو گا جب ہم تبلیغ کا کام کریں گے جبکہ پہلی صدی ہی اپنے ساتھ عظیم الشان برکات رکھتی ہے اور پہلی صدی میں ہی تعلیم اور تربیت کا بہترین سامان مہیا ہوتا ہے۔ اگر ہم پہلی صدی میں تبلیغ کی طرف سے کوتاہی کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک طرف تو ہماری ترقی کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچے گا اور دوسری طرف ہماری جماعت کی تربیت میں بھی نقص آجائے گا کیونکہ تبلیغی زمانہ میں اگرچہ جماعت خود تربیت کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کر سکتی مگر دشمنوں کی طرف سے متواتر مظالم ہوتے ہیں اور وہ الٰہی سلسلہ میں داخل ہونے والوں کو مختلف قسم کی اذیتیں اور دکھ پہنچاتے ہیں اس لئے ان کے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کی وجہ سے خود بخود لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت ہوتی چلی جاتی ہے۔
پس الٰہی سلسلہ کی پہلی صدی میں تبلیغ کا کام تو دوستوں کے سپرد ہوتا ہے اور تربیت کا کام دشمنوں کے سپرد۔ مگر بعد کی صدیوں میں چونکہ دشمن کم ہو جاتے ہیں اور دشمنوں کے شدائد کی کمی کی وجہ سے تربیت میں نقص آجاتا ہے اس لئے اس وقت بہت سے جھگڑے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس اگر ہم اس وقت تبلیغ میں سستی ظاہر کرتے ہیں تو یہ سستی تربیت پر بھی برا اثر ڈالتی ہے اور جماعت اگر تعداد کے لحاظ سے کم ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کی تربیت میں بھی کمی آجاتی ہے کیونکہ جب وہ تبلیغ سرد پڑ جائے گی اس وقت تربیت بھی سرد پڑ جائے گی یہی وجہ ہے کہ دشمنوں کے مظالم دکھ اور تکالیف مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے متوجہ کرتی ہے اور یہ تکالیف ہی ایسی چیز ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی نصرت لاکر مومن کو اللہ تعالیٰ کا عینی مشاہدہ کرا دیتی ہیں۔ تب وہ ایمان حاصل ہوتا ہے جو خطرے سے بچاتا اور تمام لغزشوں سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔
پس میں تبلیغ کے لئے اگرچہ پہلے بھی کئی بار احباب کو توجہ دلا چکا ہوں مگر اب پھر توجہ دلاتا ہوں اور دوستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اپنی سستی کو دور کریں اور اس جوش سے تبلیغ کا کام کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال لاکھوں آدمی سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو جائیں<۔۱۸
اس ولولہ انگریز خطبہ کے بعد حضور نے ملک میں تبلیغ احمدیت کا ایک عام رجحان اور حرکت پیدا کرنے کے لئے اس سال کی مجلس مشاورت )منعقدہ مارچ ۱۹۳۲ء( میں یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ جماعت سال میں دو دفعہ >یوم التبلیغ< منائے۔ ایک >یوم التبلیغ< غیر احمدی مسلمانوں کے لئے مخصوص ہو اور دوسرا غیر مسلموں خصوصاً ہندو اصحاب کے لئے۔ نیز یہ ہدایت فرمائی کہ نظارت دعوۃ و تبلیغ ایسے قواعد بنائے کہ ہر احمدی اس دن تبلیغ میں مشغول ہو سکے اور اس غرض کے لئے باقاعدہ ایک سکیم بنائی جائے۔ فہرستیں تیار کی جائیں اور اس کے ماتحت احمدی مردوں اور احمدی خواتیں غرضکہ تمام افراد جماعت کی نگرانی کی جائے کہ اس میں کہاں تک حصہ لیا گیا ہے۔۱۹
پہلا یوم التبلیغ
چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق جماعت احمدیہ نے ملک بھر میں سب سے پہلا یوم التبلیغ ۸/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو پورے جوش و خروش اور والہانہ اور فدائیانہ ذوق و شوق سے منایا۔۲۰ اور مخالفین احمدیت کی شر انگیزیوں کے باوجود اس کے نہایت شاندار نتائج برآمد ہوئے جن کی تفصیل سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ حضور نے فرمایا۔
>جس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ دن مقرر کیا گیا تھا اس وقت تک جس حد تک نتائج میرے سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت حد تک پوری ہو چکی ہے اور مخالفوں کی مخالفت ہمارے رستہ میں روک بننے کی بجائے کھاد کا موجب ہوئی ہے۔ بعض دوستوں نے لکھا اور بعض نے بیان کیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس جا کر ہم نے دس پندرہ منٹ صرف اپنی آمد کی غرض بتانے میں صرف کرنے تھے انہوں نے دیکھتے ہی کہہ دیا۔ اچھا آپ آج ہمیں تبلیغ کرنے کے لئے آئے ہیں ہم تو پہلے ہی سمجھتے تھے کہ آپ نے ہمیں چھوڑنا نہیں۔ اچھا آئیے سنائیے گویا اس مخالفت سے وہ ہزاروں لاکھوں آدمی جن تک ہماری آواز پہنچنا مشکل تھی یا جن کے گھروں پر جاکر دس پندرہ منٹ اپنی آمد کی غرض سمجھانے میں ہمیں صرف کرنے پڑتے انہیں مخالفوں کی آواز نے پہلے ہی تیار کر دیا۔ >زمیندار<۔ >حریت< اور مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ معاندین نے انہیں بتا دیا کہ فلاں تاریخ کو احمدی تمہارے پاس آئیں گے ان کے پاس وقت چونکہ تھوڑا ہے اس لئے اسے ضائع نہ کرنا ان کی آمد کی غرض ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں اور اس طرح وہ ہزارہا گھنٹے جو احمدیوں کے اپنے آنے کی تمہید میں ضائع ہونے تھے بچ گئے۔ پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے مختلف طبائع پیدا کی ہیں کہ انہیں جس کام سے روکا جائے وہ کہتے ہیں اسے ضرور کریں گے اور مسلمانوں میں بھی ایسی طبائع کے لاکھوں آدمی ہوں گے۔ اس لئے مخالفوں کی طرف سے بار بار یہ تاکید ہونے پر کہ احمدیوں کی بات نہ سننا انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ضرور سنیں گے۔ پھر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ مخالفت کا جتنا شور بلند ہو اتنی ہی زیادہ بیداری ان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے علماء کی مخالفت تو نہیں کرتے۔ مگر تماشہ دیکھنے کے شائق ضرور ہوتے ہیں وہ اسے ایک تماشہ سمجھتے ہیں اور گو قریب نہیں آتے مگر دور سے جھانکتے رہتے ہیں ایسے لوگ بھی بالاخر قابو آجایا کرتے ہیں کیونکہ اگر تماشہ دلچسپ ہو تو دور سے جھانکنے والے آہستہ آہستہ قریب آجاتے ہیں اور کسی چیز کے خوشگوار نتائج دیکھ کر کسی نہ کسی بہانہ سے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال مخالفوں کی مخالفت نے بھی ہمیں فائدہ ہی پہنچایا ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر یہ نہ ہوتی تو شاید ہماری تبلیغ اس سے آدھی بھی نہ ہو سکتی جتنی کہ اب ہوئی ہے اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ بعض احمدیوں نے جو شاید عام حالات میں سستی دکھاتے جب سنا کہ مخالف کہہ رہے ہیں کہ وہ ہماری باتوں کو نہیں سننے دیں گے تو ان کے دل میں بھی جوش پیدا ہوا کہ ہم بھی تبلیغ کریں گے جماعت میں بیداری اور دوسروں میں دلچسپی پیدا ہوئی اس کے نتیجہ میں بیعتیں بھی ہوئیں اور بہت سے لوگوں نے بیعت کی مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بیعت اپنی ذات میں مقصود نہ تھی بلکہ اس کے اصل نتائج دوچار ماہ تک انشاء اللہ تعالیٰ نکلیں گے۔ اس سے ایک طرف تو جماعت میں اور بیداری ہو گی اور زیادہ تبلیغ کا شوق بڑھے گا۔ اگر کسی کو مخالفوں کے سامنے ندامت اٹھانی پڑی ہے تو وہ آئندہ کے لئے مطالعہ کرکے اپنی قابلیت بڑھائے گا اور جنہیں کامیابی ہوئی ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں وہ اور زیادہ جوش سے کام کریں گے۔ غرضیکہ بہت سے فوائد ہوں گے اور کچھ تازہ بتازہ پھل بھی مل گئے ہیں۔ اس سے جماعت میں ایک عام احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہم سے پہلے سستی ہوئی ہے اور آئندہ زیادہ توجہ سے وہ کام کریں گے بعض نے وعدہ کیا ہے کہ وہ باقاعدہ ٹریکٹ شائع کیا کریں گے۔ غیر احمدیوں کی طرف سے ہمارے مبلغوں کو جو جواب ملے وہ بھی بعض صورتوں میں حوصلہ افزا ہیں۔ کئی لوگوں نے انہیں آتے دیکھ کر کہا کہ ہم پہلے ہی انتظار میں تھے اور دروازے کھول کر آپ کی آمد کے منتظر بیٹھے تھے بعض جگہ لطائف بھی ہوئے ایک جگہ ایک مولوی صاحب نے لوگوں سے کہا کہ اپنے دروازے بند رکھو تا کوئی احمدی تمہارے ہاں نہ آسکے۔ لوگوں نے تو کیا بند کرنے تھے البتہ وہ خود دروازہ بند کرکے بیٹھا رہا اور جو بھی آکر اس کا دروازہ کھٹکھٹاتا وہ یہ سمجھ کر کوئی احمدی آیا ہے اندر سے گالیاں دینے لگ جاتا۔ آخر ایک احمدی جو وہاں مدرس ہیں اس کے مکان پر گئے اور اسے آواز دی اس نے آواز پہچان کر کہا کہ معاف کرنا آج تو تمام دن آپ کے احمدیوں نے ستا مارا ہے میں سمجھا ہوں ایک چوک ہوئی ہماری لاہور کی جماعت کے دوستوں کو چاہئے تھا کہ سب سے پہلے تبلیغی وفد >زمیندار< اور >حریت< کے دفتر بھیجتے۔ دوست صبح ہی صبح ان کے ہاں پہنچ جاتے اور کہتے ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ نے آج ہمارے خلاف جلسہ کرکے تقریریں کرنی ہیں پہلے آپ ہمارے خیالات سن لیں اور ان میں جو بات آپ کو قابل اعتراض نظر آئے اس پر بے شک اعتراض کریں لاہور کے دوستوں کو چاہئے تھا کہ پہلے تبلیغ ان ہی لوگوں سے شروع کرتے۔
جیسا کہ میں نے ڈلہوزی کے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا تبلیغ کے لئے تھوڑی سی دیوانگی بھی ضروری ہے کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جسے دیوانہ نہ کہا گیا ہو اور جب ہم نے ان کا ورثہ پایا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں دیوانہ نہ کہا جائے۔ دیوانگی ہی دراصل حقیقی فرزانگی عطا کرتی ہے اور جنون ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کو کھینچتا ہے یہ ایک قسم کی دیوانگی ہی ہے کہ ایسے شدید دشمنوں کے پاس انسان تبلیغ کے لئے جائے جو ممکن ہے ماریں یا کوئی جھوٹا مقدمہ ہی بنا دیں۔ مگر بہرحال یہ دیوانگی ایسی ہوتی ہے کہ دوسروں کے دلوں میں بھی بیداری پیدا کرتی ہے بعض جگہ دوسرے لوگوں سے بھی دیوانگی ہوئی جو ہمارے لئے فائدہ کا موجب بن گئی۔ ایک جگہ ہمارے آدمی گئے تو ان میں سے ایک نے اس مکان میں جہاں وہ جاکر بیٹھے باہر سے کنڈی لگا دی تا دوسرے لوگ آکر ان کی باتوں کو نہ سن سکیں۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے اپنے پانچ سات آدمی جو وہاں پہلے موجود تھے ان کو خوب تبلیغ کی گئی۔ کنڈی باہر سے لگی رہی اور وہ مجبوراً بیٹھے سنتے رہے۔ میں سمجھتا ہوں اس وقت کی تبلیغ بھی زیادہ موثر ہوئی ہوگی۔ اگر ہمارے آدمی کی طرف سے کنڈی لگائی جاتی تو ان پر اور قسم کا اثر ہوتا وہ اسے شرارت پر محمول کرتے اور بھڑک جاتے لیکن جب ان کے اپنے آدمی کی طرف سے ایسا ہوا تو ہمارے مبلغین پر غصہ نہیں ہوسکتے تھے بلکہ ان سے گو نہ ہمدردی پیدا ہوئی ہو گی تو کچھ دیوانگی ہم سے بھی ہونی چاہئے تھی اور وہ یہ کہ شدید مخالفوں کے گھروں میں جاتے۔ مثلاً مولوی ظفر علی۔ مولوی ثناء اللہ۔ مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ اور ایسے مخالفوں کے مکانوں پر پہنچ کر انہیں تبلیغ کرتے لیکن بہرحال اس سے جو نتائج نکلے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ بہت ہی مفید چیز ہے<۔۲۱
دوسرا یوم التبلیغ
دوسرا یوم التبلیغ جو غیر مسلموں کے لئے مقرر کیا گیا تھا بڑی شان و شوکت سے اگلے سال ۵/ مارچ ۱۹۳۳ء کو منایا گیا اور احمدیوںؑ نے ہندوئوں` سکھوں اور عیسائیوں اور اچھوتوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے پورا دن وقف کیا۔ قادیان میں اس تقریب پر صبح سوا آٹھ بجے کے قریب حضور نے تبلیغ پر جانے والوں کو بیش قیمت ہدایات دیں۔۲۲ اور دعا سے رخصت کیا۔ قادیان کے چھوٹے بڑے اصحاب کے قریباً ساٹھ وفود قادیان کے گردونواح کے دس میل کے حلقہ میں تمام دن مصروف تبلیغ رہے۔ اس کے علاوہ قادیان کے مقامی غیر مسلموں کے گھروں اور دکانو میں جاکر آنحضرت~صل۱~ کا پیغام پہنچایا اور ایک تبلیغی پوسٹر اور ۱۵۔ ۱۶ مختلف تبلیغی ٹریکٹ قادیان اور بیرونجات کے لکھے پڑھے لوگوں میں تقسیم کئے گئے۔ چھوٹے بچوں کا ایک جلوس نکالا گیا۔ دوپہر کے وقت لوکل کمیٹی کی طرف سے قادیان کے دو سو اچھوتوں کو ہائی سکول کے ہال میں دعوت طعام دی گئی۲۳ جس میں حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ` میاں عبدالسلام صاحب عمر مرحوم اور مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے تقریریں کیں۔ شام کے وقت چالیس کے قریب ہندو اور سکھ معززین قادیان کو قصر خلافت میں پھلوں کی پارٹی دی گئی جس میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے نہایت لطیف پیرایہ میں صداقت اسلام معلوم کرنے کا یہ طریق بتایا کہ۔
>وہ سچے دل سے دعا کریں اور سارے خیالات دل سے نکال کر خدا کے آگے جھکیں اور کہیں۔ ہم ہر طرف سے منقطع ہو کر تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں ہدایت عطا کر۔ اگر اب بھی ہماری دعا نہ سنی گئی تو ذمہ داری ہم پر نہ ہو گی<۔
اس تقریر سے مقامی غیر مسلم بہت متاثر ہوئے اور لالہ دولت رام ممبر سمال ٹائون کمیٹی نے ہنود اور اہل شہر کی طرف سے اس تقریب کے انعقاد پر شکریہ بھی ادا کیا اور مبارک باد بھی پیش کی۔۲۴`۲۵
قادیان کی مستورات نے بھی یوم التبلیغ میں سرگرم حصہ لیا اور ہندو سکھ عورتوں کے علاوہ خاکروب عورتوں کے گھروں میں جاکر تبلیغ اسلام کی۔ بعض خواتین نواحی دیہات میں بھی گئیں۔۲۶
امرتسر میں غیر احمدی علماء نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ احمدیوں کو غیر مسلموں میں تبلیغ نہیں کرنے دیں گے اس مقصد کے لئے احمدیت کے خلاف متواتر دو ہفتے تک جلسے کئے گئے۔ ایک مقامی انجمن >تبلیغ اسلام< نے اشتہارات شائع کئے اور ہندوئوں کو اکسایا گیا کہ احمدیوں کی بات نہ سنو کیونکہ ہم ان کو اسلام سے خارج کر چکے ہیں۔ یہ )احمدی( ۵/ مارچ کو تمہارے گھروں پر ہلہ بولیں گے اور فساد کریں گے۔ ہم مسلمان ذمہ دار نہیں ہوں گے مگر اس زبردست مخالفت کے باوجود امرتسر کے احمدیوں نے باقاعدہ تنظیم کے ساتھ الگ الگ گروپ ترتیب دے کر غیر مسلم ایڈیٹروں` مضمون نگاروں` مذہبی پیشوائوں` وکیلوں` ڈاکٹروں` افسروں یا اعلیٰ حکام غرضیکہ ہر طبقہ کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔
اس موقعہ پر مقامی جماعت نے پانچ ہزار کی تعداد میں )انگریزی` ہندی` گورمکھی کے( اشتہارات ٹریکٹ اور پمفلٹ اور ہینڈبل تقسیم کئے۔ غیر مسلم حضرات بڑی خوش دلی اور محبت و تکریم سے پیش آئے اور تبلیغی لٹریچر بڑی مسرت اور قدردانی سے قبول کیا۔ پنڈت کرتار سنگھ فلاسفر )ہندی گورمکھی` سنسکرت اور انگریزی کے فاضل( نے کہا کہ میں مسلمانوں کو ڈاکو سمجھتا تھا مگر حضرت مرزا صاحبؑ کی کتاب >اسلامی اصول کی فلاسفی< کے ترجمہ >دی ٹیچنگ آف اسلام< نے میرے خیالات کی کایا پلٹ دی ہے۔ اب مجھے اسلام آنحضرت ~)صل۱(~ اور احمدی جماعت سے بڑی عقیدت ہے۔ اور حضرت مرزا صاحب کو ایک بہت بڑا بزرگ رشی مانتا ہوں اور کہا ہم نے تو حضرت مرزا صاحبؑ کے طفیل اسلام کا صحیح فوٹو دیکھا ہے۔
کبیر پنتھیوں کے استھان میں جب اسلام کی خوبیوں اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا ذکر کیا گیا۔ تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ زندگی بھر میں آج پہلی دفعہ اسلام کی سچی تعلیم ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے۔ غیر احمدی علماء اور مساجد کے درویش بازاروں میں برملا گالیاں دیتے اور احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں کے آگے سیاپا کرتے اور دل آزار نعرے لگاتے ہوئے کوشش کرتے کہ کسی طرح فساد ہو جائے۔ مگر احمدیوں نے ان کو قطعاً لائق التفات ہی نہ سمجھا اور صبر و تحمل سے پورا دن تبلیغ میں مصروف رہے۔4] fts[۲۷
حدیہ ہے کہ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار >اہلحدیث< )۱۰/ مارچ ۱۹۳۳ء( میں فخریہ انداز سے لکھا۔
>امرتسر میں پانچ مارچ کا دن دیکھنے کے قابل تھا۔ بجائے اس کے کہ مرزائی ہندوئوں کو تبلیغ کرتے۔ طلباء عربی مرزائیوں کو تلاش کرکر کے بازاروں` گلیوں اور ان کے گھروں میں پکڑ کر تبلیغ حق کا حق ادا کرتے تھے<۔
گویا بالفاظ مولوی صاحب یہ طریق اس لئے اختیار کیا گیا کہ احمدی ہندوئوں کو تبلیغ اسلام نہ کر سکیں۔ ورنہ خاص اس دن جو احمدیوں نے خالصت¶ہ غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے وقف کیا تھا احمدیوں کو تلاش کرکے اور پکڑ کر >تبلیغ< کرنے کے کیا معنی ہو سکتے تھے۔
آگرہ میں جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے اچھوتوں کے لیڈر بابو کھیم چند صاحب سابق ایم ایل سی سے ساڑھے چار گھنٹے تک تبادلہ خیالات کیا۔ بابو صاحب نے اقرار کیا کہ ان کی قومی ترقی کا راز قبول اسلام میں مضمر ہے۔
جماعت احمدیہ شملہ اور دہلی کے متفقہ فیصلہ کے مطابق جماعت شملہ نے نئی دہلی کا علاقہ تبلیغ کے لئے مخصوص کیا اور گورنمنٹ آف انڈیا کے تقریباً تمام اسٹاف اسمبلی اور کونسل آف سٹیٹ کے تقریباً تمام ہندو ممبروں کو اردو اور انگریزی ٹریکٹ بھجوائے۔ دو سو بنگالی اور مدراسی ہندو خصوصیت سے زیر تبلیغ رہے انگریزی ٹریکٹ وائسرائے چیف کمشنر دہلی اور ڈپٹی کمشنر دہلی کو بھی بھیجے گئے۔ )حجتہ اللہ( حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ نے کپورتھلہ کے سکھ رئوساء کو اردو اور انگریزی لٹریچر دیا۔
پشاور میں غیر مسلموں کا ردعمل بہت خوش کن تھا۔ چنانچہ انہوں نے بعض احمدیوں کو اپنی سماجوں میں تقریر کی اجازت دی۔ شاہ جہانپور میں ہندوئوں نے اسلام کا پیغام نہ صرف محبت اور توجہ سے سنا بلکہ یہ معلوم کرکے کہ احمدیوں نے محض ان کی بھلائی کے لئے آج اپنے کام کاج کو چھوڑ دیا ہے دھن باد کہا۔۲۸
لائل پور میں قریباً ایک ہزار غیر مسلم اسلام سے روشناس کئے گئے۔ بہاول پور میں علمائے سلسلہ کے ایک وفد نے آریہ سماج مندر میں جاکر بہت سے ہندوئوں کے سامنے اسلام کی خوبیوں پر روشنی ڈالی۔ ڈیرہ بابانانک میں سکھوں کا بھاری میلہ تھا جہاں احمدی سارا دن ہندوئوں اور سکھوں میں حق کا پرچار کرتے رہے۔۲۹
اڑیسہ کے گائوں سرلونیاں میں صرف دو ہی احمدی تھے جو تمام دن مصروف تبلیغ رہے۔ ایک معزز ہندو نے اعلان کیا کہ جماعت احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کو میں تسلیم کرتا ہوں۔ اڑیسہ زبان کا ایک ٹریکٹ بھی تقسیم کیا گیا۔
بھیرہ کی ہندوئوں کی آبادی میں اس روز چھ کامیاب لیکچرز دیئے گئے۔ ایک مسلمان نے شرارت کرنا چاہی مگر خود ہندوئوں نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔
میرٹھ کے لال کرتی بازار میں صرف ایک ہی احمدی تھا۔ جس نے آریہ سماج مندر اور سناتن دھرم مندر پر تبلیغی پوسٹر وغیرہ لگا دیئے اور غیر مسلموں کے مکانوں اور دکانوں پر جاکر تبلیغ اسلام کی۔
لاہور میں >عشرہ کاملہ< اور >احمدیہ فیلو شپ آف یوتھ< کے ممبروں نے قریباً چار ہزار )اردو( ٹریکٹ تقسیم کئے اور ایک خوبصورت ٹریکٹ انگریزی میں بھی شائع کیا اور قریباً آٹھ ہزار غیر مسلموں تک خدا کا کلام پہنچایا گیا- اس موقعہ کے لئے چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے نہایت عمدہ کاغذ اور موزوں سائز پر ایک دو ورقہ شائع کرکے غیر مسلموں میں تقسیم کرایا۔۳۰
ان شہروں کے علاوہ کا ذکر بطور نمونہ یہاں کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے ہر ایسے مقام پر جہاں احمدی موجود تھے وہاں یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ اور جماعت احمدیہ کی بدولت ملک کے ہر غیر مسلم طبقے تک اسلام کی آواز پہنچی اور ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے تاثرات
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کامیاب کوشش کا تذکرہ کرتے ہوئے ۱۰/ مارچ ۱۹۳۳ء کو فرمایا۔
>اس ہفتہ میں ہمارے دوسرے یوم التبلیغ کی تاریخ تھی اور جو رپورٹیں باہر سے آئی ہیں اور جو کام اس جگہ ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کچھ برکت کے سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور اس کے نتیجہ میں دنیا کی اصلاح کی بہت کچھ امید کی جاسکتی ہے<۔۳۱
>ہمارا یہ یوم التبلیغ کیا تھا وہ جری اللہ فی حلل الانبیاء کی پیشگوئی کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ اس ذریعہ سے جتنے لوگوں کو ہم اسلام میں داخل کریں گے۔ اتنے ہی زیادہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہوں گے۔ ابھی مجھے ساری رپورٹیں نہیں ملیں۔ مگر جو ملی ہیں وہ بہت خوشکن ہیں۔ غیر احمدیوں نے ہماری مخالفت کی اور مقابلے پر آمادہ ہو گئے مگر ہندوئوں نے جس محبت اور شرافت سے باتیں سنیں اور جس روح کا اظہار کیا اس کا دسواں حصہ بھی مسلمانوں نے اس موقعہ پر نیز پچھلے یوم تبلیغ کے موقع پر نہیں کیا تھا سوائے شاذ کے ہر جگہ ہندوئوں نے احمدیوں کا تپاک کے ساتھ استقبال کیا خوشی کے ساتھ بٹھایا اور محبت کے ساتھ باتیں سنیں۔ قادیان کے ایک دوست جو تبلیغ کے لئے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سنایا کہ انہوں نے ایک ہندو نے جو موٹر میں بیٹھے تھے اپنے ساتھ بٹھا لیا کہ اپنی باتیں سنائو اور ساتھ لے جا کر ان کی باتیںں سنتے رہے۔ پھر قادیان کے قریب آکر انہیں اتار دیا۔ امرتسر میں ہمارے دوست ایک سکھ عالم کے پاس گئے تو انہوں نے نہایت تکریم کے ساتھ بٹھایا اور اس امر پر افسوس کیا کہ آپ تبلیغ تو ہم لوگوں کو کرتے ہیں۔ اور ان مولویوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ آپ کو خواہ مخواہ مخالفت کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں اسلام کا سخت مخالف تھا اور رسول کریم ~)صل۱(~ کو ڈاکو سمجھتا تھا مگر مرزا صاحبؑ کی کتب کے مطالعہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں سخت غلطی پر تھا اور اس دن سے میں آپؑ کی بہت عزت کرتا ہوں خدا جانے ان مولویوں کو کیا ہو گیا اور یہ آپ لوگوں کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ میرے دل میں اگر اسلام کی عزت ہے تو محض مرزا صاحب کے طفیل ہے اس میں شبہ نہیں کہ غیر احمدیوں میں بھی مخالفت کرنے والے بہت محدود ہیں اور عام تعلیم یافتہ طبقہ جیسا کہ اخبارات وغیرہ سے پتہ لگتا ہے ان کی اس حرکت کو برا سمجھتا ہے اور یہ خوشکن تبدیلی ہے مگر ہندوئوں کی بیداری مسلمانوں سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ بعض جگہ مسلمانوں نے ہمارے دوستوں کو گالیاں دیں اور کہا کہ یہاں سے نکل جائو۔ لیکن ہندوئوں نے ان کو بدزبانی سے روکا اور کہا یہ تو ہمیں تبلیغ کرتے ہیں تم کیوں منع کرتے ہو۔ پھر ان کو بٹھایا اور ان کی باتیں سنیں لیکن غیر احمدیوں نے بعض جگہ احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں پر جاکر سیاپے کئے۔ گالیاں دیں اور یہ نہ سوچا کہ ان باتوں سے بھلا کیا بنتا ہے یہ تو جھوٹے اور شکست خوردہ ہونے کی علامات ہیں جب کوئی شکست کھاتا ہے تو گالیوں پر اتر آتا ہے لیکن جو غالب ہوتا ہے وہ گالی نہیں دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک تھپڑ مار کے مخالف کے دانت باہر نکال دوں گا ۔۔۔۔۔۔ بہرحال ان دونوں ایام التبلیغ سے ہمیں علم ہو گیا ہے کہ دنیا میں شریف انسانوں کی کمی نہیں پہلے یوم التبلیغ پر یہ معلوم ہوا تھا کہ مسلمانوں میں شرفاء کی کمی نہیں اور دوسرے سے یہ ظاہر ہو گیا کہ ہندوئوں میں ذاتی شرافت رکھنے والے لوگ مسلمانوں سے بھی زیادہ ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ اگر ہماری تبلیغی مساعی جاری رہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا الہام جری اللہ فی حلل الانبیاء اپنے مادی رنگ میں بھی بہت جلد پورا ہو جائے گا یعنی ہر مذہب کے لوگ سلسلہ میں داخل ہو جائیں گے۔
tav.7.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے لئے صرف تبلیغ کی ضرورت نہیں اس کے لئے صرف ایک دن کی تبلیغ کافی نہیں بلکہ مستقل تبلیغ اور ساتھ ہی دعائوں کی ضرورت ہے<۔۳۲
تحریک مصالحت اور اس کا اثر
تبلیغی نظام چونکہ جماعت مومنین کے باہمی اتفاق و اتحاد اور جذبہ اخوت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حضورؓ نے تبلیغ پرزور دینے کے ساتھ ۸/ جنوری کے خطبہ جمعہ ہی میں جماعت سے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہم اس نئے سال کو اس غرض کے لئے وقف کر دیں کہ جماعت سے تمام لڑائیاں جھگڑے تفرقے اور عناد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مٹا دیں۔ اس سلسلہ میں احباب جماعت کو یہ خاص ہدایت بھی فرمائی کہ جو شخص اپنے دوسرے بھائی سے کسی وجہ سے نہیں بولتا۔ یا اس سے عداوت اور بغض رکھتا ہے وہ فوراً اپنے بھائی کے پاس جائے اور اس سے خلوص دل کے ساتھ صلح کرلے اور آئندہ کے لئے کوشش کرے کہ آپس میں کوئی لڑائی اور جھگڑا نہ ہو۔۳۳
حضرت امیر المومنین کے اس خطبہ کا جماعت پر حیرت انگیز اثر ہوا اور جماعت کے دوستوں نے اپنی رنجشوں اور کدورتوں کو حضور کے اشارہ پر چھوڑ دیا۔ حتیٰ کہ لوگوں نے مالی نقصان گوارا کرکے خطبہ سنتے یا پڑھتے ہی صلح کر لی۔ مستثنیات تو ہر معاملہ میں چلتی ہیں۔ تاہم شاذ و نادر ہی کوئی ایک شخص ہوگا جو اس سعادت سے بکلی محروم رہا ہو۔۳۴
امیر المومنینؓ کی قیمتی نصیحت
جماعت میں صلح و آشتی کا یہ خوشکن نظارہ دیکھ کر حضورؓ نے ۲۹/ جنوری ۱۹۳۲ء کے خطبہ جمعہ میں نہایت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ مگر ساتھ ہی نصیحت فرمائی۔
>میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ لوگ اپنے دلوں کو دوسروں کی نسبت صاف کر لیں اور خواہ وہ مظلوم ہی کیوں نہ ہوں صلح کر لیں۔ میری یہ نصیحت نامکمل رہے گی اور فتنوں کا سدباب پوری طرح نہیں ہو گا جب تک میں اس کا دوسرا حصہ بھی بیان نہ کروں اور وہ یہ ہے کہ نہ صرف دوسروں کے متعلق ہر قسم کی کدورت سے اپنے دلوں کو صاف کرو بلکہ اس امر کو بھی مدنظر رکھو کہ کسی مظلوم کا معافی مانگ لینا ایسی بات نہیں جو تمہارے لئے خوشی کا موجب ہو سکے بلکہ خوشی صرف اسی کے لئے ہے جس نے معافی مانگی اور تمہیں خوشی اس وقت حاصل ہو گی جب تم اپنے خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اگر دوسروں کے حقوق کو تم نے غضب کیا ہوا ہے تو وہ حقوق ادا کر دو۔ اور اگر تم پر کسی کا مالی یا جانی یا اخلاقاً حق ہے تو وہ اسے دے دو۔ ورنہ اگر تم دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے تو خواہ دوسرا شخص تم سے ہزار معافی مانگے اس کا درجہ تو بڑھتا جائے گا لیکن تمہارا جرم اور گناہ بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھتا جائے گا کیونکہ وہ شخص میرے کہنے پر تمہارے پاس گیا۔ اور اس نے مظلوم ہونے کے باوجود تم سے معافی مانگی۔ مگر تم نے باوجود ظالم ہونے کے اور باوجود اس کے معافی مانگ لینے کے اس کے حقوق کی ادائیگی کا خیال نہ کیا۔ اور تم نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ وہ نیچا ہو گیا پس اپنے نفوس کو اس غرور میں مبتلا نہ ہونے دو کہ ہم نے دوسرے کو نیچا دکھا دیا کیونکہ وہ معافی مانگ کر نیچا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اونچا ہو گیا۔ کیونکہ اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور خلیفہ وقت کی بات مانی مگر تم جو اس وقت اپنے آپ کو اونچا سمجھ رہے ہو دراصل نیچے گر گئے جس طرح انسان جتنا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں جھکتا ہے اتنا ہی اس کا درجہ بلند ہوتا ہے۔ حتیٰ کی حدیثوں میں آتا ہے جو شخص خدا کے لئے نیچے جھکتا ہے۔ خدا اس کو اوپر اٹھاتا ہے یہاں تک کہ اسے ساتویں آسمان پر لے جاتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے بھائی سے معافی مانگتا ہے وہ نیچے نہیں گرتا بلکہ اس کا درجہ بلند ہوتا اور خدا کے حضور بہت بلند ہو جاتا ہے<۔۳۵
دوبارہ تحریک اور زبردست انتباہ
کچھ عرصہ بعد جبکہ جماعتی مخالفت زوروں پر تھی جماعت کے ایک طبقہ میں اندرونی مناقشات نے پھر سر اٹھایا۔ اور اس تحریک کے اثرات زائل ہوتے نظر آئے تو مقدس امامؓ نے ۲۶/ مئی ۱۹۳۵ء کو پھر توجہ دلائی کہ۔
>کوئی احمق ہی اس وقت اپنے بھائی سے لڑ سکتا ہے۔ جب کوئی دشمن اس کے گھر پر حملہ آور ہو ایسے نازک وقت میں اپنے بھائی کی گردن پکڑنے والا یا تو پاگل ہو سکتا ہے یا منافق۔ ایسے شخص کے متعلق کسی مزید غور کی ضرورت نہیں وہ یقیناً یا تو پاگل ہے اور یا منافق اس لئے آج چھ ماہ کے بعد میں پھر ان لوگوں سے جنہوں نے اس عرصہ میں کوئی جھگڑا کیا ہو۔ کہتا ہوں کہ وہ توبہ کریں توبہ کریں۔ ورنہ خدا کے رجسٹر سے ان کا نام کاٹ دیا جائے گا اور وہ تباہ ہو جائیں گے منہ کی احمدیت انہیں ہرگز ہرگز نہیں بچا سکے گی۔ ایسے لوگ خدا کے دشمن ہیں۔ رسولﷺ~ کے دشمن ہیں۔ قرآن کے دشمن ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمن ہیں۔ ایسے لوگ خون آلود گندے چیتھڑے کی طرح ہیں جو پھینک دیئے جانے کے قابل ہیں۔ اس لئے ہر وہ شخص جس نے اپنے بھائی سے جنگ کی ہوئی ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ خدا کا غضب اس پر نازل ہو وہ ہمیشہ کے لئے صلح کرلے اور پھر کبھی بھی نہ لڑے<۔۳۶
قادیان میں یوم سرحد
صوبہ سرحد کے سرخ پوش مسلمانوں پر حکومت کی سخت گیر پالیسی اور تشدد نے ایک قیامت سی بپا کر دی تھی اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کے طور پر )آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی کے فیصلہ کے مطابق( ۵/ فروری ۱۹۳۲ء کو ملک کے دوسرے شہروں کی طرح قادیان میں بھی یوم سرحد کے سلسلہ میں ایک عام جلسہ منعقد کیا گیا اور مصیبت زدگان سے ہمدردی کا اظہار کرنے اور حکومت سے اس کا ازالہ کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر پاس کی گئی۔۳۷
جلسہ سے قبل سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی خطبہ جمعہ میں مظالم سرحد کا ذکر کیا اور ارشاد فرمایا کہ >صوبہ سرحد میں معلوم ہوا ہے کہ بعض افسروں نے بہت زیادتیاں کی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمارے خیال کے مطابق سرخ پوش تحریک جائز نہیں مگر پھر بھی وہاں کے مظلوموں کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے امید ہے کہ ان حالات کا علم ہونے کے بعد حکومت ان کے ازالہ کی کوشش کرے گی اور ہر وہ مسلمان جو ان کی کسی نہ کسی طرح مدد کر سکتا ہو اس سے دریغ نہ کرے گا۔ میں اپنے سرحدی بھائیوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ایسی حرکات نہ کریں جن سے امن میں خلل واقع ہو اس وقت وہاں ریفارم سکیم نافذ کی جاری ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس وقت وہاں پرامن فضا کی ضرورت ہے<۔۳۸
فیصلہ متعلق امیر جماعت احمدیہ بنگال
حضرت چودھری ابوالہاشم خاں صاحبؓ جنرل سیکرٹری صوبہ بنگال نے امیر سے اختلاف کی بناء پر اپنے کام سے استعفاء دے دیا تھا جس پر حضورؓ نے صوبہ بنگال کے دوستوں سے مشورہ کیا اور دریافت فرمایا کہ مرکز کہاں ہو۔ اور بنگال کا امیر کیسے مقرر کیا جائے؟ جوابات سے معلوم ہوا کہ اہل بنگال پر ابھی منصب امارت کی حقیقت پوری طرح واضح نہیں لہذا حضور نے ایک مفصل مضمون لکھا جس میں بڑی وضاحت سے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تحریرات اور ہدایات کے مطابق ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ کا مالی کام براہ راست ایک شخص کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ حضرت اقدس ایک انجمن کے ذریعہ سے ایک ایگزیکٹو باڈی BODY) text](EXCUTIVE ¶[tag کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہیں جو آپ کے نزدیک تمام دنیا کی احمدی جماعتوں کے لئے نقطہ مرکزی ہے اور جس کا ابدی مرکز قادیان ہے دوسری طرف حضور اس جماعت کی ترقی خلافت سے وابستگی کے ساتھ مشروط رکھتے ہیں۔ تیسری طرف اسلام سے ثابت ہے کہ کوئی خلافت بغیر مشورہ کے نہیں چل سکتی۔ ان تینوں امور کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ایک ہی نظام ہے جو صوبہ جات میں قائم کیا جا سکتا ہے اور ایسا نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں ایک امیر ہو جو خلیفہ وقت کا نائب ہو۔
غرض حضورؓ نے ثابت کیا کہ بہترین نظام امارت کا نظام ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے مقامی انتظام اور مرکز کی ضرورتیں دونوں پوری ہوتی رہتی ہیں۔ مگر امیر کے لئے ہرگز یہ شرط نہیں کہ اسی ملک کا باشندہ ہو اسلام کے شروع زمانہ میں نوے فیصدی امراء مرکز کسے نامزد ہوتے تھے اور اب بھی ضرورت پر ایسا کیا جا سکتا ہے امیر پبلک کا نمائندہ نہیں ہے بلکہ خلیفہ وقت کا نمائندہ ہے اس لئے خواہ لوگ کتنا بھی اصرار کریں یہ عہدہ درحقیقت خلیفہ وقت کا اعتماد رکھنے والے شخص کو مل سکتا ہے اور اس میں یہی حکمت ہے کہ اسلامی نظام اتحاد عالم پر مبنی ہے نہ کہ قومیت پر۔
نظام امارت پر روشنی ڈالنے کے بعد حضور نے تحریر فرمایا۔
>احمدی یاد رکھیں یہ اصول ہیں جن پر سلسلہ کا آئندہ نظام چلایا جائے گا۔ اور سب صوبوں اور ملکوں کے احمدیوں کو یاد رکھنا چاہئے تاکہ وہ دھوکہ نہ کھائیں اور انہیں کوئی دوسرا شخص دھوکا نہ دے سکے<۔۳۹
جہاں تک امارت بنگال کا تعلق تھا حضور نے فیصلہ فرمایاکہ >حکیم ابوطاہر صاحب جنہوں نے اپنے گزشتہ رویہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امارت کے منصب کو خوب سمجھتے ہیں انہیں علاوہ کلکتہ کا مقامی امیر ہونے کے تمام بنگال کا بھی امیر مقرر کرتا ہوں چونکہ صوبہ کے کام کیلئے وہ صرف کلکتہ کے احباب کے مشورہ پر انحصار نہیں کرسکتے اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ امیر صوبہ کی ایک مجلس شوریٰ ہو جس میں صوبہ کے تمام مقامی امراء شامل ہوں اور علاوہ اس کے مبلغین سلسلہ بھی اس کے ممبر ہوں۔ علاوہ ان کے اگر کسی شخص کو خاص طور پر مرکز کی طرف سے اس غرض کیلئے چنا جائے یا صوبہ کی انجمنیں اپنے سالانہ اجتماع میں بعض لوگوں کو خاص طور پر اس کام کیلئے تجویز کریں تو ان لوگوں کو بھی اس مجلس کا ممبر سمجھا جائے۔ سردست علاوہ امراء اور مبلغین کے چودھری ابوالہاشم خان صاحب` مولوی مبارک علی صاحب اور پروفیسر عبدالقادر صاحب کو اس مجلس کا ممبر مقرر کرتا ہوں<۔۴۰
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے سفر )۱۹۳۲ء میں(
اس سال حضورؓ نے لاہور` دہلی` ڈیرہ دون` راولپنڈی` شملہ اور ڈلہوزی کے سفر اختیار کئے۔
سفر لاہور: ۱۳/ فروری` ۹/ مارچ` ۹/ مئی اور ۵/ جولائی ۱۹۳۲ء کی تاریخوں میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے لاہور میں اجلاس منعقد ہوئے۔ حضور نے لاہور جاکر ان سب اجلاسوں کی صدارت فرمائی۔ علاوہ ازیں آپ مسلمانوں کے مفاد سے متعلق ایک اہم مشورہ کے لئے ۲۹/ جنوری ۱۹۳۲ء کو بھی تشریف لے گئے۔ ۲۳/ اگست ۱۹۳۲ء کو سردار سکندر حیات خاں قائم مقام گورنر پنجاب کو دی جانے والی پارٹی میں شمولیت کے لئے بھی لاہور جانا پڑا۔۴۱
سفر دہلی: ۲ و ۴/ مارچ ۱۹۳۲ء کو دہلی میں کشمیر کمیٹی کے اجلاس تھے۔ جن میں شمولیت کے لئے حضور یکم مارچ کو دہلی تشریف لے گئے۔۴۲ اور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی پرانا وائسرائیگل لاج میں قیام فرمایا۔۴۳ یہاں حضور نے کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کے علاوہ ۶/ مارچ ۱۹۳۲ء کو )رتالکوٹورہ پارک میں( خان صاحب منشی برکت علی خان صاحبؓ مرحوم کے اعزاز میں دی جانے والی جماعت احمدیہ دہلی و شملہ کی مشترکہ الوداعی پارٹی میں تقریر فرمائی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے خان صاحب کو جماعت شملہ کی طرف سے قرآن پاک کا ایک نسخہ بطور تحفہ عطا فرمایا۔ اس تقریب پر حضور کی معیت میں مجمع کا فوٹو بھی لیا گیا جو اس کتاب میں موجود اور اس سفر کی یادگار ہے۔]01 [p۴۴ چند روزہ قیام کے بعد حضور ۱۴/ مارچ ۱۹۳۲ء کو دہلی سے قادیان پہنچ گئے۔۴۵
سفر ڈیرہ دون: یکم مئی ۱۹۳۲ء کو حضور تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے )مع حرم اول حضرت سیدہ ام ناصرؓ اور صاحبزادگان( ڈیرہ دون تشریف لے گئے۔۴۶ اور قریباً ایک ہفتہ تشریف فرما ہونے کے بعد ڈیرہ دون سے لاہور آئے اور کشمیر کمیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کے فرائض انجام دینے کے بعد ۱۲/ مئی ۱۹۳۲ء کو وارد قادیان ہوئے۔10] p[۴۷ ڈیرہ دون میں قیام کے دوران ۴/ مئی ۱۹۳۲ء کو شہر کے بعض رئوسا` مسلم تنظیم کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری حضور کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے دیر تک گفتگو ہوتی رہی جس کا اکثر و بیشتر حصہ تحریک کشمیر ہی سے متعلق تھا۔۴۸
سفر راولپنڈی: سیدناؓ ۲۰/ جون ۱۹۳۲ء کو آنکھوں کا معائنہ کرانے کے لئے راولپنڈی تشریف لے گئے۔۴۹ اور ۴/ جولائی کی صبح کو واپس لاہور پہنچے۔۵۰]ydob [tag اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ای۔ اے۔ سی کی کوٹھی پر مقیم ہوئے۔ قیام لاہور کے عرصہ میں حضور بہت مصروف رہے۔ ایک دفعہ رات کے ۲ بجے تک ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ۷/ جولائی ۱۹۳۲ء کی شام کو واپس قادیان میں تشریف لے آئے۔۵۱
سفر ڈلہوزی و شملہ ۹/ جولائی ۱۹۳۲ء کو حضور ڈلہوزی کے لئے روانہ ہوئے۔۵۲ جہاں سے ۱۴/ جولائی کو قادیان آگئے اور اسی دن عازم شملہ ہوئے۔۵۳ ۱۸/ جولائی کو شملہ سے واپس آکر آپ ۲۰/ جولائی کو دوبارہ ڈلہوزی تشریف لے گئے۔۵۴ اور ۱۸/ اگست ۱۹۳۲ء کو قادیان میں رونق افروز ہوئے۔۵۵
رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان
۲۲/ فروری ۱۹۳۲ء سے رائونڈ ٹیبل کانفرنس کی ایک سب کمیٹی وائسرائے ہند کی صدارت میں جاری تھی جس میں فرقہ وارانہ مسائل کے تصفیہ اور اساسی حقوق اور برطانوی ہند اور ریاستوں کی مذہبی آزادی سے متعلق اہم امور زیر غور تھے اس موقعہ پر مسلمانان ہند دو حصوں میں بٹ گئے۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ کا خیال تھا کہ جب تک ہمارے حقوق کا فیصلہ نہیں ہوتا ہمیں اس کا بائیکاٹ کرنا چاہئے دوسرا گروہ کمیٹی کا پرجوش حامی تھا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے >رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان< کے عنوان سے ایک مفصل و مدلل مضمون میں مسلمانوں کو رائے دی کہ۔
>میں ان دونوں گروہوں کو نیک نیت اور مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھتا ہوں لیکن میرے نزدیک یہ دونوں گروہ غلطی پر ہیں اور اس نازک موقعہ پر ہمیں اس سے زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ جس قدر کہ اس وقت مسلمان کر رہے ہیں۔
ہمیں اس امر کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کی تاریخ قریب میں مسلمانوں کے حقوق طے کرنے کا موقعہ دوبارہ نہیں آئے گا اور یہ کہ اگر ہم آج غلطی کر بیٹھے تو ہمیں اور ہماری اولادوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اور گو ہم اپنے آپ کو قربان کرنے کو تیار ہوں۔ ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنی اولادوں کو قربان کرکے غلامی کے طوقوں میں جکڑ دیں۔ یقیناً اس سے زیادہ بدقسمت انسان ملنا مشکل ہو گا جس کی اپنی اولاد یا جس کے آباء کی اولاد اس پر *** کرے اور اسے اپنی ذلت کا موجب قرار دے۔
مسلمانان ہند کے حقوق کی اہمیت: ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال دوچار ہزار آدمیوں کا سوال نہیں بلکہ آٹھ نو کروڑ آدمیوں کا سوال ہے اور پھر ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال نہیں بلکہ کل دنیا کے مسلمانوں کا سوال ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا کے مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ بیداری ہندوستان کے مسلمانوں میں ہی ہے اور ان کی موت سے عالم اسلام کی سیاسی موت اور ان کی زندگی سے عالم اسلام کی سیاسی زندگی وابستہ ہے۔ کیا اس قدر عظیم الشان ذمہ داری کی طرف سے ہم لاپرواہی کر سکتے ہیں۔ اسلام تو کیا اگر ہم میں انسانیت کا ایک خفیف سا اثر بھی باقی ہے تو ہم ایسا نہیں کر سکتے۔
صحیح طریق عمل: اس تمہید کے بعد میں اپنا خیال ظاہر کرتا ہوں۔ میرے نزدیک ہمیں ہر اک مخالفت پر بائیکاٹ کا حربہ نہیں اختیار کرنا چاہئے کیونکہ بائیکاٹ جب کہ صرف تبادلہ خیال تک محدود ہو۔ صرف ذہنی نشوونما کو روکنے کا ہی موجب ہوتا ہے اس سے زیادہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک صحیح طریق عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے مقصود کے حصول کو تواصل قرار دیں اور جائز ذرائع کو فرع۔ پس جو جائز ذریعہ ہمیں حاصل ہو ہم اسے استعمال کر لیں اور ذریعہ کو مقصد کا قائم مقام بنا کر اپنی سب توجہ اس کی طرف نہ لگا دیں۔ ایک وکیل اگر دیکھے کہ اس کے موکل کو اس کے نقطہ نگاہ کے سوا اور کوئی نقطہ نگاہ فائدہ پہنچا سکتا ہے تو اسے اس کے اختیار کرنے میں دریغ نہیں ہونا چاہئے۔ پس ہمیں اس امر پر زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے کہ ہم نے کون سا ذریعہ حصول مراد کے لئے آج سے پہلے پسند کیا تھا بلکہ اس پر بحث کرنی چاہئے کہ ہمارے مدعا کے حاصل کرنے کے لئے کونسا ذریعہ مفید ہو سکتا ہے۔ اور کسی جائز راستہ کو اپنے لئے بند نہیں کرنا چاہئے۔ اس اصل کو تسلیم کرتے ہوئے اگر رائونڈ ٹیبل کانفرنس کی سب کمیٹیوں کی شرکت ہمارے لئے مفید ہو تو ہمیں اس سے دریغ نہیں ہونا چاہئے اور اگر مضر ہو تو حتی الوسع ہمیں اس سے بچنا چاہئے<۔۵۶
مسلم اخبار >انقلاب< )لاہور( کی ضمانت اور گورنر پنجاب کے نام مکتوب
فروری ۱۹۳۲ء کا واقعہ ہے کہ حکومت پنجاب نے پریس آرڈنینس کے تحت >انقلاب< اور اس کے پریس سے اڑھائی اڑھائی ہزار کی
ضمانتیں طلب کیں۔ اور وجہ یہ بتائی کہ کشمیر کے متعلق بعض غیر صحیح واقعات شائع کئے گئے ہیں۔ اسی سلسلہ میں ہندو اخبار >ملاپ< اور اس کے پریس سے تین تین ہزار کی اور اخبار >کیسری< اور اس کے پریس سے دو دو ہزار کی ضمانتیں طلب کیں۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے دہلی میں فروکش تھے کہ اخبارات سے اس خبر کا علم ہوا۔ ہندوستان کا مسلم پریس پہلے ہی ہندوئوں کے مقابل کمزور تھا اور بعض اخبار محض مشکلات کی تاب نہ لاکر بند ہو چکے تھے اس صورت حال سے حضور از حد مشوش ہوئے اور آپؓ نے دہلی ہی سے گورنر پنجاب کے نام مندرجہ ذیل مکتوب لکھا۔
>جناب من! میں آج ایک ایسے امر کے متعلق جناب کو توجہ دلانی چاہتا ہوں جو گو قانون کے محدود دائرہ میں تو درست ہے لیکن مصلحت وقت اور حکومت کے فوائد کے بالکل برخلاف ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جناب کا سا دور اندیش رئیس صوبہ ضرور نظر ثانی فرما کر اس کا تدارک کرے گا۔
وہ امر یہ ہے کہ حکومت نے >انقلاب< کی اور اس کے پریس کی اڑھائی اڑھائی ہزار کی ضمانت طلب کی ہے چونکہ پریس بھی مالکان >انقلاب< کا ہے اس لئے گویا پانچ ہزار روپیہ کی ضمانت طلب کی گئی ہے۔ جناب اس امر سے یقیناً واقف ہوں گے کہ ہندوستانی پریس خصوصاً اسلامی پریس سرمایہ کے لحاظ سے بہت گری ہوئی حالت میں ہے اور کئی ایسے اخبار ہیں کہ جن کا کل سرمایہ بھی پانچ ہزار نہیں اس صورت میں یہ ضمانت اخبار کے بند کر دینے کے مترادف ہے۔
جناب سے یہ امر بھی مخفی نہ ہو گا کہ >انقلاب< نے کانگریس کا مقابلہ کرنے میں اس قدر کام کیا ہے جو اپنے اثر کے لحاظ سے نہایت شاندار اور قابل قدر ہے۔ >انقلاب< ہی تھا جس کے مضامین کی وجہ سے مسلمانوں کا نوجوان طبقہ کانگریس سے الگ رہا اور یہ خدمت اس قابل تھی کہ حکومت اسے شکریہ کی نگاہ سے دیکھتی۔ لیکن قدر کے سوال کو الگ بھی کر دیا جائے تو اس ضمانت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اخبار بند کر دیا جائے گا اور ہزاہا مسلمان نوجوان اپنی سیاسی ضرورتوں کے لئے ہندو اخبار خریدنے پر مجبور ہوں گے اور چند ماہ میں ایک ایسی مکدر فضا پیدا ہو جائے گی جس کا سنبھالنا بہت سا خرچ اور وقت چاہے گا۔ یہ خیال کرنا کہ مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ اخبار پڑھنا بند کر دے گا خلاف عقل ہے وہ اخبار ضرور پڑھے گا۔ اور >انقلاب< کے بند ہونے کی صورت میں ہندو اخبارات جو کانگریسی پراپیگنڈا سے پر ہیں پڑھے گا۔ پس یہ ضمانت خود حکومت کے خلاف اثر پیدا کر دے گی۔
یہ امر بھی سوچنے کے قابل ہے کہ >احرار< بھی بند ہو گیا ہے >زمیندار< بھی نازک حالت میں ہے یہ اخبار خواہ کیسے بھی ہوں اسلامی اخبار کہلاتے تھے اگر >انقلاب< بھی بند ہو گیا تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ حکومت اسلامی پریس کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ یہ خیال خواہ صداقت سے کتنا بھی دور ہو پیدا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا اس وقت روکنا حکومت کے لئے نہایت ضروری ہے۔
گو میں نے وہ مضمون نہیں دیکھا جس کی بناء پر انقلاب سے ضمانت لی گئی ہے لیکن میں اس امر کو فرض کرتے ہوئے کہ وہ مضمون نہایت سخت تھا سمجھتا ہوں کہ جبکہ حکومت کے تسلیم کردہ بیانات کے مطابق یہ امر ثابت ہے کہ ہندو پریس نے بھی سخت جھوٹی اور اشتعال انگیز خبریں مسلمانوں کے خلاف پھیلائی ہیں اس قابل ضرور ہے کہ اس کے خلاف یکدم انتہائی کارروائی نہ کی جائے۔
میں امید کرتا ہوں کہ جناب مذکورہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور خصوصاً احرار کی نئی کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو وہ برطانوی حکومت کے خلاف شروع کرنے والے ہیں۔ اس فیصلہ پر نظر ثانی فرمائیں گے۔ میرے نزدیک تو اخبار کی یہ معذرت کہ افسوس ہے اس نے ایک غیر مصدقہ خبر شائع کر دی کافی ہونی چاہئے لیکن اگر ضمانت بھی ضروری سمجھی جائے تو پانچ سو روپیہ کی ضمانت موجودہ حالات میں بہت ہے۔
میں اس وقت کشمیر کے قضیہ ہی کے متعلق دہلی آیا ہوا ہوں۔ ہز ایکسی لینسی دی وائسرائے کی مہربانی سے امید کی جاتی ہے کہ کوئی امن کی صورت جلد پیدا ہو جائے اس صورت میں یہ قضیہ بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔ اور وہ غیر ضروری پریشانی جو پنجاب کو ملحق صوبہ ہونے کی وجہ سے اٹھانی پڑی دور ہو جائے گی<۔
قادیان میں مکان بنانے کی تحریک اور محلہ دار الانوار کی بنیاد
احمدیت کی ترقی کے آثار کے ساتھ جماعتی مشکلات بھی بڑھ رہی تھیں جن کا مقابلہ کرنے کے لئے قادیان کی ترقی و توسیع کی طرف
توجہ کرنا ضروری تھا کیونکہ قادیان جماعت احمدیہ کا مرکز تھا اور اس پر دشمن کی نظر تھی۔ بناء بریں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۱ء پر جماعت کو تحریک فرمائی کہ وہ قادیان میں مکان بنائیں تا قادیان کو وسعت حاصل ہو اور اس مقام کی ظاہری عظمت بھی قائم ہو۔ نیز بتایا کہ اس کے لئے میں نے بھی ایک سکیم بنائی ہے اور خطوط کے ذریعہ شائع کی گئی ہے جو یہ ہے کہ ایک حصہ پچیس روپے ماہوار کا رکھا گیا ہے کل حصے ایک سو بیس رکھے گئے ہیں ایک شخص ایک یا زیادہ حصے لے سکتا ہے اس طرح جو روپیہ جمع ہو وہ قرعہ ڈال کر ہر مہینے میں ایک دوست کو دے دیا جائے جو مکان بنا لے اس طرح ایک سو بیس حصوں کے مکان نئے اور اچھے بن جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ پہلے ڈیڑھ سال تک کوئی قرعہ نہیں ڈالا جائے گا تاکہ اس طرح جو رقم جمع ہو اس سے زمین خرید لی جائے اس کے بعد ہر مہینے قرعہ ڈالا جائے گا اور جس کے نام نکلے گا اس سے یہ شرط ہو گی کہ روپیہ مکان بنانے پر ہی خرچ کیا جائے<۔۵۷
دارالحمد کی تاسیس
حضور کی اس تحریک پر متعدد مخلصین جماعت۵۸ نے لبیک کہا اور اس سکیم کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی پوری کرنے کے لئے قادیان کی پرانی آبادی کے مشرق کی طرف ایک نیا محلہ >دارالانوار< کے نام سے آباد کیا گیا۔ جس کی بنیاد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۴/ اپریل ۱۹۳۲ء کو رکھی۔۵۹text] gat[ اور ۲۵/ اپریل ۱۹۳۲ء کو اپنی کوٹھی >دارالحمد< کی بنیادی اینٹ رکھی جو اس نئے محلہ کی پہلی عمارت تھی۔ حضورؓ نے اس روز صبح آٹھ بجے کے قریب اس محلہ کی طرف تشریف لے جاتے ہوئے پہلے مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال کے مکان کی بنیاد رکھی اور مجمع سمیت دعا کی بعد ازاں اپنے تجویز کردہ مقام پر جاکر پہلے جنوب کی طرف پانچ اینٹیں بطور بنیاد رکھیں۔ پھر شمال مغرب کی طرف ایک اینٹ خود رکھی اور چار اینٹیں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ` حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ` حضرت سید ناصر شاہ صاحبؓ اور حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ سے علی الترتیب رکھوائیں۔ اسی طرح شمال مشرق کی جانب ایک اینٹ خود رکھی اور چار حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ` حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ` حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؓ اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ سے رکھوائیں۔ پھر دعا کی اس جگہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر دارالانوار کمیٹی کے سیکرٹری حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے کی کوٹھی بننے والی تھی۔ حضور نے اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا اور دعا کی۔ واپسی کے بعد ۹ بجے کے قریب صدر انجمن احمدیہ کے نئے دفاتر کا افتتاح فرمایا جو مسجد اقصیٰ سے متصل عمارت میں چند روز ہوئے منتقل ہوئے تھے۔۶۰ دارالحمد کی عمارت دسمبر ۱۹۳۲ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۶۱ اور ۱۵/ جنوری ۱۹۳۳ء کو حضور نے بطور افتتاح ایک سو روپیہ غرباء میں پارچات تقسیم کرنے کے لئے عطا فرمایا۶۲ نیز ۲۹/ جنوری ۱۹۳۳ء کو حضور کی طرف سے وسیع پیمانہ پر ایک دعوت اس نئی کوٹھی میں دی گئی جس میں قریباً آٹھ سو افراد )مردوزن( شامل ہوئے۔۶۳ علاوہ ازیں حضور نے ۲۷/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو احباب جلسہ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہ اس نئے مکان کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
>میں نے قرض لے کر ایک مکان بنوایا ہے کیونکہ اب ہمارے گھر میں اتنی تنگی ہے کہ ایک ایک کمرہ میں جیل کی اتنی جگہ کے مقابلہ میں دوگنے افراد رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے مکان بنوانے سے ہمیشہ ڈر آتا ہے جو مکان بنوایا گیا ہے اس کے متعلق بھی میرے دل پر بوجھ ہے اس لئے دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ دعا کریں خدا تعالیٰ اس مکان کو بابرکت کرے۔ میں تو اس میں رہنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا میرے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا مکان ہی بہترین ہے مگر جو اس میں جاکر رہے اس کے لئے دعا کی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکات سے اسے حصہ ملے<۔۶۴
غرضکہ تضرعانہ دعائوں کے ساتھ دارالانوار کی بناء پڑی اور دراصل انہیں دعائوں کا اثر تھا کہ چند سالوں کے اندر اندر قادیان کا یہ مشرقی علاقہ آباد ہو گیا اور ہر طرف خوبصورت اور عالی شان عمارتیں بن گئیں۔۶۵body] gat[
بعض دوسری مقدس عمارتیں
حضرت ام المومنینؓ کی کوٹھی >بیت النصرت< )جو حضرت ام المومنینؓ نے کمال مادرانہ شفقت سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ کو تحفت¶ہ دے کر دلی محبت کے اظہار سے ان کی عزت افزائی فرمائی( اور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی >بیت الظفر< جن کی بنیاد حضرت امیر المومنینؓ کے دست مبارک سے بالترتیب ۲۳/ فروری ۱۹۳۳ء۶۶ اور ۱۲/ اپریل ۱۹۳۴ء کو رکھی گئی اسی محلہ میں تعمیر ہوئیں۔ اسی طرح گیسٹ ہائوس اور دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ بھی یہی بنے۔
جماعت احمدیہ کی شاندار مالی قربانی
۳۱۔ ۱۹۳۲ء کا مالی سال جماعت احمدیہ کے لئے بڑی تنگی کا سال تھا جس میں قریباً اڑتالیس ہزار قرض تھا جو اکتوبر ۱۹۳۱ء میں بہتر ہزار کے قریب جاپہنچا اس کے علاوہ کچھ اور قرضے بھی تھے جس پر حضور نے جماعت کو تحریک فرمائی کہ ایسی کوشش کی جائے کہ پچھلا قرضہ بے باق ہو جائے۔ چنانچہ جماعت نے تین ماہ کے اندر اندر چندہ خاص کے سمیت قریباً پونے دو لاکھ روپیہ اپنے مقدس آقا کے حضور پیش کر دیئے جس پر سیدناؓ نے ۱۳/ مئی ۱۹۳۲ء کو اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا۔
>آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے اظہار اور تحدیث نعمت کے طور پر یہ اعلان کرنے کے قابل ہوا ہوں کہ جبکہ پچھلے مالی سال کے شروع میں ۴۸۰۰۰ کے بلوں کے علاوہ اور بھی قرض تھا۔ یہ سال جب ختم ہوا تو بجائے قرضہ کے قریباً ڈیڑھ ہزار انجمن کے خزانہ میں جمع تھا گویا جماعت نے پونے دو لاکھ کی رقم جمع کرنی تھی اور ایسی حالت میں جمع کرنی تھی کہ بیشتر حصہ مالی لحاظ سے مفلوج ہو رہا تھا۔ حتیٰ کہ بڑی بڑی حکومتیں قرضے لینے پر مجبور ہو رہی تھیں<۔۶۷
کارکنان سلسلہ کے نئے دور کا افتتاح
حضرت میرزا محمد اشرف صاحبؓ بلانوی یکم جنوری ۱۹۰۷ء سے صدر انجمن احمدیہ قادیان سے وابستہ ہوئے اور ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۲ء تک آڈیٹر اور ۱۹۲۲ء سے ریٹائرڈ ہونے تک محاسب کے عہدوں پر فائز رہے۔ اس دوران میں آپ نے حسابی معاملات میں غیر معمولی مہارت سے صدر انجمن احمدیہ کے مالی نظام کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ہر ممکن صورت اختیار کی۔ آپ ہی کی تجویز سے انجمن میں پراویڈنٹ فنڈ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے سرمایہ سے جماعت کے لئے نئی آمد ہونے لگی۔ اور اسی سے مسجد اقصیٰ سے متصل وہ عظیم الشان مکان خریدا گیا۔ جس میں بعد کو صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر منتقل کئے گئے۔۶۸
ان خدمات کی بناء پر ۱۴/ مئی ۱۹۳۲ء کو ان کے اعزاز میں ایک الوداعی پارٹی دی گئی۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے الٰہی سلسلہ کے اوائل میں کام کرنے والوں کے بلند مقام اور میرزا محمد اشرف صاحبؓ کی خدمات کو سراہتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>آج کی تقریب جس کے لئے ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں اس لحاظ سے ایک نئے دور کا افتتاح ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ابتدائی ایام سے ایک نظام کے ماتحت سلسلہ کا کام کیا ان میں سے کچھ لوگ ایام کارکردگی کو پورا کرکے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ پہلا دوران لوگوں کا تھا جنہوں نے ابتدائی ایام میں انفرادی جدوجہد میں حصہ لیا اور ایک ایک کرکے ہم سے جدا ہوتے گئے۔ اب یہ نیا دور شروع ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس وقت ہمارا نظام اگرچہ بہت قلیل اور محدود ہے لیکن ایک وقت آئے گا جب دنیا کی ترقی کا انحصار اس پر ہوگا اور روحانی ترقیات کی طرح مادی ترقیات بھی احمدیت کے قبضہ میں ہوں گی۔ جس طرح بنک آف انگلینڈ میں ذرا سی کمزوری پیدا ہونے سے حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ وزارتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ایکس چینج میں تغیر ہو جاتا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ تغیرات ہوں گے جب سلسلہ احمدیہ کے بیت المال میں کسی قسم کا تغیر رونما ہو گا۔ بنک آف انگلینڈ کا اثر تو صرف ایک ملک پر ہے لیکن یہ دنیا کی ساری حکومتوں پر اثر انداز ہو گا۔ اور اس وقت یہاں کے کارکنوں کا دینوی معیار بھی اس قدر بلند ہو گا کہ حکومتوں کی وزارتوں کی ان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں۔ یہ چیزیں ایک ایسے مستقبل کو پیش کر رہی ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے احباب کی خدمات کی قیمت کا اندازہ کرنا چاہئے۔ دراصل ان کی خدمات کی قیمت وہ چند روپے نہیں جو بطور مشاہرہ دیئے جاتے ہیں بلکہ جماعت کا آئندہ شاندار مستقبل ہے اور اس کا اندازہ خدا تعالیٰ ہی لگا سکتا ہے بندہ نہیں لگا سکتا۔ اور جب یہ وقت آیا اس وقت ان کی خدمات کا اندازہ ہو سکے گا اور ان میں سے ہر ایک کام کرنے والا خواہ وہ چپڑاسی ہو یا ناظر الا ماشاء اللہ اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں حصہ لے رہا ہے بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ انتہائی ترقی کے مدارج ہم میں سے کوئی نہیں دیکھ سکے گا۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس دنیا کے تغیرات جو مومن سے تعلق رکھتے ہیں اسے بتائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جو کوئی اس کی قبر پر جاتا ہے اس کا بھی اسے علم ہو جاتا ہے اگرچہ اس کے کان آنے والوں کے پائوں کی آہٹ نہیں سنتے لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس کا علم ضرور دے دیتا ہے اس لئے جب وہ تغیرات پیدا ہوں گے تو ان میں حصہ لینے والوں کو اس کا علم ہو گا۔ اور گو وہ اس دنیا میں نہیں ہوں گا مگر پھر بھی سلسلہ کی ترقیات کو معلوم کرکے ان کی روح خوشی اور مسرت سے بھر جائے گی اور وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرے گی کہ اس نے مجھے بھی اپنے جسم کو اس میں استعمال کرنے کا موقعہ اور توفیق عطا فرمائی تھی۔ ہمارا نقطہ نگاہ مالی نتائج پر نہیں جو کارکنوں کو خدمات کے بدلہ میں ملتے ہیں بلکہ ان تغیرات پر ہے۔ جس کا اندازہ سوائے خدا کے کسی کو نہیں۔
جنت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہاں دودھ کی نہریں ہوں گی باغات ہوں گے مگر پھر بھی رسول کریم~صل۱~ ے فرمایا لا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر حالانکہ قرآن پاک جنت کے نقشوں سے بھرا پڑا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات میں سلسلہ احمدیہ کی ترقیات کا نقشہ ہے اور آپ نے تفسیریں بھی کی ہیں۔ لیکن وہ ساری قبل از وقت ہیں اور الفاظ وہ نقشہ کھینچ ہی نہیں سکتے جو آنے والا ہے۔ اگرچہ ہم یہ مانتے ہیں کہ بڑے بڑے بادشاہ یہاں آئیں گے لیکن اس کا قیاس نہیں کر سکتے کہ کس طرح ان کی گردنیں احمدیت کے ہاتھ میں دے دی جائیں گی۔ گویا جزئیات کو ہم نہیں سمجھ سکتے اور وہ جذبات ہم اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے جو اس وقت ہوں گے۔
پس جو بھی سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتا ہے وہ دراصل ایک عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں کام کر رہا ہے اور اس کی مثال اس مونگے کی طرح ہے جو جزیرہ بناتے ہی اپنی جان ضائع کر دیتا ہے۔ کورل آئی لینڈ کی تیاری میں ایک مونگا اپنی جان قربان کر دیتا ہے لیکن اسے کیا پتہ ہوتا ہے کہ اس کی قربانی کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے اس کی جان ضائع ہونے سے جزیرہ تیار ہوتا ہے۔ جس میں انسان بستے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث یا اس کے غضب کے مورد ہوتے ہیں۔ لیکن مونے کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ وہ ایک نئی دنیا پیدا کر رہا ہے اور اس طرح وہ خدا تعالیٰ کا بروز ہو جاتا ہے۔ انبیاء بھی خدا تعالیٰ کے بروز ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
میرزا محمد اشرف نے بھی اس نظام میں کام کیا ہے اور اس میں کام کرنے والوں کی یہ ترقی نہیں کہ وہ مثلاً تیس روپیہ تنخواہ سے شروع ہو کر سو روپیہ پر پہنچ جائیں۔ یہ بھی بے شک ترقی ہے لیکن اصل چیز کے مقابلہ میں یہ بالکل ہیچ ہے۔ ہر کارکن خواہ وہ اپنی حیثیت کو سمجھے یا نہ سمجھے بہرحال اگر اس نے اخلاص سے کام کیا ہے تو وہ اس عظیم الشان عمارت میں بمنزلہ بنیاد کے ہے جس کی عظمت کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ بعض لوگ اپنی کم علمی کے باعث اس سے بھی محروم ہوتے ہیں کہ وہ کسی چیز کا اس قدر بھی اندازہ کر سکیں جس قدر بیان کی جاچکی ہے اور اس لئے بعض لوگ اس عظمت کو بھی محسوس نہیں کر سکتے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتابوں میں بیان کی گئی ہے۔ جنت کا جو نقشہ قرآن کریم میں بیانکیا گیا ہے اس کا کسی قدر اندازہ وہ دشمن تو کر سکتا ہے جس نے شالامار باغ اور دوسرے فرحت افزا باغات دیکھے ہیں لیکن عرب کا وہ وحشی جس کا باغ کھجور کے دو درختوں سے زیادہ نہیں ہوتا وہ اس کا اندازہ بھی کرنے لگے تو زیادہ سے زیادہ پانچ دس کھجوروں کے درخت پرجاکر اس کا تخیل ختم ہو جائے گا اسی طرح بعض لوگ باوجود بنیاد کی اینٹ ہونے کے ظاہری علوم سے بے بہرہ ہونے کے باعث محسوس نہیں کر سکتے۔ کہ ان کی خدمات کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں وہ اس کام کی عظمت کو سمجھتے نہیں یا سمجھ سکتے نہیں کہ وہ کتنے عظیم الشان کام میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے اس دنیا میں اور اگلے جہان میں کس قدر زبردست نتائج نکلنے والے ہیں۔ لیکن بہرحال نہ جاننے سے کام کی عظمت میں فرق نہیں آسکتا۔
میرزا محمد اشرف صاحب کو میں نے دیکھا ہے اور ان کی یہ بات مجھے ہمیشہ پسند آئی کہ وہ اس طرح کام کرتے رہے ہیں جس طرح ایک عورت اپنے گھر میں کام کرتی ہے وہ جانتی ہے کہ اس کے پاس کتنا سرمایہ ہے اور وہ اس سے کس طرح بہتر سے بہتر کام لے سکتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ قلیل سے قلیل رقم میں ہی سب کام نپٹالوں۔ ان کے اندر ہمیشہ یہی روح کام کرتی رہی ہے کہ سلسلہ کا صیغہ مالیات مضبوط چٹان کی طرح ہو اور چونکہ میرے اپنے خیالات کی روح بھی اسی طرف ہے اس لئے مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی اور ہمیشہ اطمینان رہتا تھا کہ مالیات کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو اسے صحیح طریق پر چلا رہا ہے انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ممکن ہے ان سے بھی ہوتی ہوں لیکن ایسے شخص کے کاموں میں جو درد رکھتا ہے اور جو اس روح کے ساتھ کام کرتا ہے اس کی غلطیوں کے باوجود نتائج اچھے نکلیں گے اگر تمام کارکن اس روح کے ساتھ کام کریں تو بہت جلد ترقی ہو سکتی ہے<۔۶۹
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا تقرر وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل میں
آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب وسط ماہ جون ۱۹۳۲ء میں خرابی صحت کے باعث رخصت پر جارہے تھے حکومت نے ان کی جگہ چوہدری
محمد ظفر اللہ خان صاحب کو گورنر جنرل کی ایگزیکٹو کونسل کے عارضی رکن کی حیثیت سے نامزد کردیا اور آپ محکمہ تعلیم و صحت و اراضیات کے انچارج مقرر کر دیئے گئے۔۷۰
اس انتخاب پر ملک کے متین و سنجیدہ حلقوں نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور چوہدری صاحب کی قابلیت او لیاقت کا اقرار کیا۔ چنانچہ پیسہ اخبار ۱۹/ مئی ۱۹۳۲ء نے لکھا۔
>چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رکن گول میز کانفرنس جو مقدمہ سازش دہلی میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ سر فضل حسین کی جگہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے قائم مقام ممبر ہوں گے آپ پہلے پہل سرشہاب الدین کے قانونی رسالہ انڈین کیسز کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ آپ نے انہیں قانونی پریکٹس کا مشورہ دیا۔ جس میں آپ کو کافی کامیابی اور شہرت حاصل ہوئی یہی وجہ تھی کہ آپ مقدمہ سازش دہلی میں سرکاری وکیل مقرر ہوئے اور گول میز کانفرنس کے رکن بھی مقرر کئے گئے گول میز کانفرنس میں آپ کی تقریریں خاص طور سے جاذب تھیں مسلمانوں کو ان کے ذاتی عقیدہ سے خواہ کتنا ہی اختلاف ہو مگر ان کی قابلیت اور لیاقت کا زمانہ قائل ہے امید ہے کہ سر فضل حسین کی جگہ آپ ایگزیٹو کونسل کی رکنیت کے فرائض بوجہ احسن ادا کریں گے اور عام مسلمانوں کے تحفظ حقوق کا کماحقہ خیال رکھیں گے<۔۷۱
ہندو پریس کی شدید مخالفت
اسلامی پریس کے مقابل ہندو پریس نے جس میں >پرکاش< اور >ٹریبیون< پیش پیش تھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے تقرر کی زبردست مخالفت کی۔ بلکہ مسلمانوں کو مشتعل کیا کہ انہوں نے خاموشی سے اس نامزدگی کو کیوں برداشت کر لیا جبکہ چوہدری صاحب سرے سے مسلمان ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ >پرکاش< )۲۹/ مئی ۱۹۳۲ء( نے لکھا۔
>مسلمان اپنا حق سمجھتے ہیں کہ جس عہدے پر ایک بار کوئی مسلمان تعینات ہو جائے پھر اس پر کوئی اور مقرر نہیں کیا جانا چاہئے۔ وہ مسلمانوں کا موروثی حق ہو چکا ہے عام طور پر مسلمانوں کی جگہ مسلمان مقرر ہوتے ہیں لیکن اگر کسی حالت میں اس قاعدہ کی خلاف ورزی ہو جائے تو مسلمان اس کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ سر فضل حسین کی رخصت پر جانے کی حالت میں وائسرائے ہند کی کونسل کی ممبری کا عہدہ مسلمان کی بجائے قادیانی کو دیا گیا ہے اور کسی مسلمان نے چوں تک نہیں کی<۔۷۲
دراصل ہندوئوں کی اول یہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی سرکاری عہدہ پر کوئی مسلمان مقرر ہی نہ ہو لیکن جب اس میں انہیں کامیابی کی صورت نظر نہ آتی تو وہ چاہتے کہ کوئی اعلیٰ عہدہ کسی قابل مسلمان کو نہ دیا جائے بلکہ ایسے شخص کے سپرد ہو جو ان کی چالبازیوں سے آگاہ نہ ہو سکے اور نہ ان کا توڑ کر سکے۔ چوہدری صاحب کے معاملہ میں چونکہ اس وقت تک خصوصاً گول میز کانفرنس میں انہیں سخت ناکامی ہوئی تھی اسی بناء پر وہ یہ لکھ رہے تھے کہ >چونکہ ظفر اللہ خان فرقہ پرستی میں کسی بھی فرقہ پرست مسلمان سے پیچھے نہیں<۔ فرقہ پرستی سے ہندوئوں کی مراد مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پنڈت نہرو نے چوہدری صاحب اور دوسرے مسلمان لیڈروں کی نسبت اپنی کتاب >میری کہانی< میں یہاں تک لکھا تھا۔ >وطن پرستی کی مخالفت اور رجعت پسندی کی غیر معمولی نمائش گول میز کانفرنس میں ہوئی۔ برطانوی حکومت نے چن چن کر صرف فرقہ پرست مسلمانوں کو نامزد کرنے پر اصرار کیا تھا اور یہ لوگ آغا خاں کی قیادت میں بڑے بڑے رجعت پسندوں سے جاکر مل گئے جو نہ صرف ہندوستان کے بلکہ تمام ترقی پسندوں کے نقطہ نظر سے برطانیہ کی سیاسی زندگی میں سب سے خطرناک عناصر سمجھے جاتے ہیں<۔۷۳
ان حالات میں چونکہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جیسی شخصیت کا تقرر جو پنڈت جواہر لال صاحب نہرو اور دوسرے کانگرسی ہندوئوں کی نگاہ میں کٹر >فرقہ پرست< تھا کانگرسی عزائم کے لئے ایک عظیم خطرہ اور ایک عظیم چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا اس لئے کانگریس کے ہوشیار سیاستدانوں نے >قادیانی< اور >غیر قادیانی< کا سوال اٹھا کر مسلمانوں کو الجھانے اور ان کی صفوں میں انتشار اور فتنہ برپا کرنے کا فیصلہ کر لیا جس کا پہلی بار افشاء >پرکاش< ہی نے کیا اور اس کو عملی جامہ پہنچانے کا بیڑہ کانگریس کے آلہ کار اور ہمنوا مولویوں نے اٹھایا جیسا کہ آئندہ کے حالات سے پتہ چلے گا۔
مخالفت کا حقیقی سبب
حقیقت یہ ہے کہ ہندو پریس پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو چکی تھی کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کے سیاسی اور ملکی حقوق کی حفاظت کے لئے میدان عمل میں آچکی ہے اور اب ہندوئوں کے لئے مسلمانوں کے حقوق غصب کرنا اتنا آسان نہیں رہا جتنا پہلے تھا اسی وجہ سے وہ بات بات میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے اور مسلمانوں میں فرقہ وارانہ فتنہ پیدا کرنے پر اتر آئے تھے اور خصوصاً چوہدری صاحب کے عارضی تقرر پر جبکہ مسلمانوں کے خیر مقدم نے انہیں محسوس کرا دیا تھا کہ چوہدری صاحب پر مسلمان اعتماد رکھتے ہیں اور انہیں اس اعزاز کا ہر طرح اہل پاتے ہیں ہندوئوں کے انتقامی جذبات میں تلاطم برپا کر دیا اور وہ خم ٹھونک کر سامنے آگئے۔
اخبار >سیاست< کا اہم نوٹ
ہندو اخبار >ٹریبیون< نے )جس نے ایک بار حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی وفات کی مفتریانہ خبر شائع کی تھی( اس موقعہ ہندو قوم کے اندرونی خیالات و افکار کی عکاسی کرتے ہوئے چوہدری صاحب کے خلاف بہت زہر اگلا اور ان کی مسلمہ قابلیت و لیاقت پر بھی خوب دل کھول کر حملے کئے۔ جس کے جواب میں شمالی ہند کے مشہور مسلمان اخبار >سیاست< )۲۵/ مئی ۱۹۳۲ء( نے مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا۔
>چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور ہندو: اس پر کہ جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء ایم۔ ایل۔ سی نے آنریبل میاں سر فضل حسین کی جگہ رکنیت تعلیمات کا عہدہ منظور فرما لیا ہے ہندو سیاسی حلقے بے انتہاء مضطرب ہیں اور تو اور >ٹریبیون< ایسے اخبار نے فرقہ واریت میں ڈوبا ہوا شذرہ حوالہ قرطاس کیا اور محض اس جرم پر کہ چوہدری صاحب مسلم مطالبات کے زبردست حامی اور موید ہیں ان کی لیاقت و قابلیت سے بھی انکار کیا بلکہ یہاں تک لکھ مارا کہ بحیثیت قانونی پیشہ بھی آپ گوئے سبقت نہیں لے جاسکتے غضب کی بات ہے کہ تعصب اس درجہ انسان کو اندھا کر دے کہ محض کسی شخص کے کانگریس سے اختلاف رکھنے کے باعث اس ہر جلیل القدر عہدہ کا نااہل قرار دیا جائے۔ سیدھی بات ان میں سے کوئی نہیں کہتا اور انٹ کی سنٹ اڑاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ فرقہ واریت حصول عہدہ کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہو سکتی اس لئے ان کے مطالبہ کا صاف مقصدیہ ہے کہ ایسے مسلمان کو کیوں رکنیت کا جلیل القدر عہدہ دے دیا جاتا ہے جو مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت کا ہم خیال ہو کیونکہ اسے وہ اپنے ڈھب پر نہ لگا سکیں گے اور ان کا بہت بڑا مقصد فوت ہو جائے گا۔ یہ چیخ پکار اسی لئے ہے ورنہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہر طرح اس عہدہ کے اہل ہیں ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں<۔۷۴
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا پنجاب کونسل میں بلامقابلہ انتخاب
چوہدری صاحب وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل میں قائم مقام ممبر ہو جانے کی وجہ سے پنجاب کونسل کی نشست سے دستبردار ہو گئے
تھے اس تقرر کے اختتام پر آپ سابقہ نشست حاصل کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ہندوئوں کی خواہشات کے عین مطابق اخبار >زمیندار< اور >حریت< نے محض اس بناء پر کہ آپ احمدی ہیں آپ کی مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ اخبار >زمیندار< )۴/ اکتوبر ۱۹۳۲ء( نے لکھا۔
>ہم مسلمانوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کی غیرت برداشت کر سکتی ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کونسل میں بلامقابلہ منتخب ہو جائیں۔ کیا پنجاب میں ایک فقط چوہدری ظفر اللہ خاں ہی بلامقابلہ منتخب ہونے کے لئے رہ گئے ہیں آخر اسلامیان پنجاب اپنے آزمودہ کار خدام کو کیوں نظر انداز کئے بیٹھے ہیں۔ کیا ملک برکت علی خواجہ عبدالرحمن غازی` مولانا مظہر علی اظہر کا کونسل کی نشستوں پر حق نہیں ہے؟ ہم تو چاہتے ہیں کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کے حلقہ انتخاب سے کوئی نائی یا مراثی اٹھے اور انہیں میدان مقابلہ میں ایسی شکست دے کہ قادیانی جیتے جی یاد رکھیں اور از بسکہ اسلام میں کامل مساوات ہے اس لئے ہر کلمہ گو مسلمان پر فرض ہو گا کہ وہ چوہدری ظفر اللہ خاں کے حریف کی پوری پوری اعانت کرے<۔۷۵
اس کے بعد اپنی ۷/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کی اشاعت میں لکھا۔
>چوہدری ظفر اللہ خاں نے کونسل میں بلامقابلہ انتخاب کی جو توقعات قائم کر رکھی تھیں ان پر >زمیندار< کے پروپیگنڈے کا بے حد اثر ہوا ہے۔ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خاں نے کونسل کی رکنیت کے لئے کھڑے ہونے کا فیصلہ کو سردست معرض التوا میں ڈال دیا ہے۔ معتبر حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جماعت احرار کا کوئی رکن چوہدری ظفر اللہ خاں کے حلقہ انتخاب سے کھڑا ہوگا<۔۷۶
>زمیندار< کے اس پراپیگنڈا کے علاوہ احراری ذہنیت رکھنے ولے اصحاب کی طرف سے ہر رنگ میں کوشش کی گئی کہ اول تو جناب چوہدری صاحب اپنے حلقہ سے منتخب ہی نہ ہو سکیں یا کم از کم بلامقابلہ منتخب نہ ہو سکیں۔ کسی نہ کسی کو ضرور کھڑا کر دیا جائے لیکن حلقہ سیالکوٹ میں کسی اور شخص کو مقابلہ میں کھڑے ہونے کی جرات نہ ہو سکی اور آپ خدا کے فضل و رحم سے بلامقابلہ منتخب ہو گئے جس پر اخبار >سیاست< ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۲ء نے بعنوان >چوہدری ظفر اللہ خاں کی ہر دلعزیزی و غیر جنبہ داری< کے عنوان سے لکھا۔
>سب نے بیک زبان آپ کی حسن کارگزاری کمال سیاسی قابلیت اور غیر جنبہ داری کا اعتراف کیا اور آپ کو اپنی نمائندگی کے لئے بہترین شخص قرار دیا۔ واقعی چوہدری صاحب موصوف اس قابل ہیں کہ ان پر اس درجہ اعتماد و اعتبار کیا جائے۔ آپ نے کونسل میں گراں بہا کام کرنے کے علاوہ اہم ترین مواقع پر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا کماحقہ حق ادا کیا۔ لہذا ہم بہ طمانیت تمام جناب چوہدری صاحب کو آپ کی اس شاندار کامیابی پر کہ علی ¶الرغم حسود کوئی شخص آپ کے مقابلہ کے لئے میدان عمل میں نہیں اترا اور آپ کو صحیح معنیٰ میں رائے دہندگان نے منتخب کیا۔ مبارکباد دیتے ہیں<۔۷۷
پونڈری )ضلع کرنال( کے مسلمانوں کی امداد
ضلع کرنال کے ایک قصبہ پونڈری پورہ کے مسلمان ۲/ جون ۱۹۳۲ء کو مذبح تعمیر کر رہے تھے کہ ہندوئوں کے ایک بہت بڑے مسلح مجمع نے تعمیر مذبح کی پاداش میں نہتے مسلمانوں پر حملہ کرکے تین مسلمانوں کو شہید اور تیس کے قریب کو سخت زخمی کر دیا۔۷۸4] [rtf جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ڈلہوزی سے بذریعہ تار حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ کو مسلمانوں کی امداد اور اصل واقعات کی تحقیق کے لئے بھجوایا۔۷۹ جنہوں نے علاقہ کا دورہ کیا اور صحیح حالات معلوم کرکے افسران بالا کو توجہ دلائی نیز اخبارات کے ذریعہ سے پبلک کو علاقہ کے مظلوم مسلمانوں کی مظلومیت کے صحیح حالات سے آگاہ کیا۔ چونکہ ہندو اخبارات نے اصل واقعات پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمانوں پر ہندوئوں نے قاتلانہ حملہ نہیں کیا بلکہ مسلمان آپس میں کٹ مرے ہیں اس لئے اخبار >الفضل< نے ۱۴/ جون ۱۹۳۲ء کو ایک نوٹ لکھا جس میں اسے ہندوئوں کی گہری سازش قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ پونڈری کے ستم رسیدہ اور تباہ حال مسلمانوں کی داد رسی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔۸۰
اس نوٹ کی اشاعت کے دو تین ہفتہ بعد یہ خبر ملی کہ اس قصبہ میں پولیس کی تعزیری چوکی قائم کی جانے والی ہے اور اس کا خرچ وہاں کے اور مضافات کے باشندوں پر ڈالا جائے گا۔ چونکہ خطرہ تھا کہ یہ ٹیکس بے گناہ اور مظلوم مسلمانوں پر بھی عائد کر دیا جائے۔ س لئے قصبہ کے مسلمانوں نے ڈپٹی کمشنر کرنال کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ ہندوئوں کی قانون شکنی کے باعث تعزیری چوکی کا ٹیکس مسلم آبادی پر نہیں پڑنا چاہئے۔
جب وہاں ہندوئوں کے خلاف مقدمہ چلا۔ تو وہاں کے مسلمانوں نے حضورؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ ان کی قانونی مدد کی جائے چنانچہ حضورؓ کے ارشاد کے ماتحت جناب مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر گورداسپور وہاں بھجوائے گئے۔ جنہوں نے تقریباً ایک ماہ رہ کر نہایت محنت سے مقدمہ کی پیروی کی۔ جس کے نتیجہ میں ۲۴ کے قریب ملزموں کو سخت سزائیں ہوئیں۔۸۱ مسلمانان حصار نے مرزا عبدالحق صاحب احمدی وکیل گورداسپور کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔ جنہوں نے بلا فیس عدالت ابتدائی میں پیروی کی تھی۔۸۲
tav.7.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل دوم(
مقدمہ بہاولپور
اس زمانے میں مخالفین احمدیت اور احمدیوں میں مقدمات کا سلسلہ جاری تھا۔ مثلاً مقدمہ شاہجہانپور )یو۔ پی( برہمن بڑیہ )بنگال( اوربن باجوہ )ضلع سیالکوٹ( کے امراء جماعت کے مقدمات۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ مقدمہ بہاولپور میں دائر تھا جس نے بعد کو قومی مقدمہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ احمد پور شرقیہ کے ایک شخص الٰہی بخش صاحب نے اپنی بیٹی مسمات غلام فاطمہ کا نکاح عبدالرزاق صاحب )ساکن موضع مہمند تحصیل احمدپور شرقیہ( سے کیا۔ عبدالرزاق صاحب احمدی ہو گئے تو الٰہی بخش صاحب نے علماء کی انگیخت سے ۲۴/ جولائی ۱۹۲۶ء کو ریاست بہاول پور میں تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کر دیا۔ کہ مدعیہ اب تک نابالغ رہی ہے اب عرصہ دو سال سے بالغ ہوئی ہے مدعا علیہ ناکح مدعیہ نے مذہب اہلسنت و الجماعت ترک کرکے قادیانی مرزائی مذہب اختیار کر لیا ہے اور اس وجہ سے وہ مرتد ہو گیا ہے اس کے مرتد ہو جانے کے باعث مدعیہ اب اس کی منکوحہ نہیں رہی۔۸۳
ڈسٹرکٹ عدالت سے مقدمہ خارج
ڈسٹرکٹ جج نے سماعت کے بعد ۲۱/ نومبر ۱۹۲۸ء کو یہ دعویٰ اس بناء پر خارج کر دیا کہ عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاولپور سے اسی قسم کے ایک مقدمہ بعنوان مسماۃ جند وڈی بنام کریم بخش میں باتباع فیصلہ جات عدالتہائے اعلیٰ مدراس۸۴ پٹنہ و پنجاب یہ قرار دیا جا چکا ہے کہ احمدی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہیں نہ کہ اسلام سے باہر اور کہ احمدی مذہب اختیار کرنے سے کسی سنی عورت کا نکاح اس شخص کے ساتھ جو اس مذہب کو قبول کرے فسخ نہیں ہو جاتا اور کہ مدعیہ کی طرف سے ان فیصلہ جات کے خلاف کوئی سند پیش نہیں کی گئی۔ ڈسٹرکٹ جج کا یہ حکم عدالت عالیہ چیف کورٹ میں بھی بحال رہا۔۸۵
دربار معلیٰ میں اپیل
فریق ثانی نے اس فیصلہ کے خلاف ریاست بہاولپور کی آخر عدالت >دربار معلیٰ< میں اپیل ثانی دائر کر دی۔ اس دربار کی ان دنوں ہیئت ترکیبی یہ تھی۔
۱۔ وزیر اعلیٰ ۲۔ وزیر حضوری ۳۔ وزیر مال )ایک انگریز سی۔ ایچ ٹونشن( ۴۔ ہوم ممبر۔
اب جو ریاست بہاولپور کے دربار معلیٰ میں یہ مقدمہ پہنچا تو وزیر اعلیٰ صاحب نے پہلی پیشی میں حکم دیا کہ ریاست کے مفتی )مولوی غلام محمد صاحب شیخ الجامعہ عباسی( تنسیخ نکاح کے دلائل پیش کریں یہ مفتی صاحب اپنے وعظوں اور خطبوں میں احمدیوں کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانے میں خاص شہرت رکھتے تھے۔
دربار معلیٰ کا رویہ
text] gat[دربار معلیٰ کی اس تجویز پر مدعا علیہ نے درخواست دی کہ اسے بھی کسی عالم دین کو عدالت میں پیش کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ تا عدالت فریقین کے علماء کے دلائل سن کر صحیح نتیجہ پر پہنچ سکے۔ جناب وزیر اعلیٰ صاحب نے اس سے انکار کر دیا۔ مگر خاص جدوجہد کے بعد مثل مقدمہ پر کئی موقع پر انہیں یہ نوٹ کرنا پڑا کہ احمدی فریق بھی اپنا عالم پیش کر سکتا ہے۔ لیکن باوجود اس نوٹ کے جب مدعا علیہ نے اس سلسلہ میں مولوی فضل الدین صاحب کے پیش ہونے کی باقاعدہ درخواست دی تو وہ واپس کر دی گئی۔ تاہم قادیان سے جماعت کے ایک اور عالم مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی مولوی فاضل بھیج دیئے گئے۔ ۲۱/ جنوری ۱۹۳۲ء کو >دربار معلیٰ< میں پیشی تھی فریقین مقدمہ کو بلانے سے قبل قریباً پون گھنٹہ تک وزیر اعلیٰ اور مفتی صاحب میں گفتگو ہوتی رہی۔ پھر مدعا علیہ کو بلا کر وزیر اعلیٰ نے فرمایا کہ تم مفتی صاحب پر اعتراض کرو مدعا علیہ نے کہا کہ میں بھی اپنی طرف سے کوئی عالم پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے تو وزیراعلیٰ صاحب نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ مگر پھر اس کی اجازت دے دی۔ اس پر جب مولوی صاحب موصوف پیش ہوئے۔ تو وزیراعلیٰ صاحب نے ان سے بھی یہی کہا کہ مفتی صاحب پر اعتراض کرو۔ مولوی صاحب نے کہا۔ مفتی صاحب کا بیان میرے سامنے نہیں۔ میں کس طرح اعتراض کر سکتا ہوں؟ وزیراعلیٰ صاحب نے مفتی صاحب کی خود ہی ترجمانی کرتے ہوئے کہا۔ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ اب جو شخص کسی نبی کے آنے کا قائل ہو وہ کافر ہے۔ اس پر اعتراض کرو۔ مولوی صاحب نے اس پر مفتی صاحب سے پوچھا۔ کیا وہ اولیاء ابدال اور صوفیاء جو مانتے آئے ہیں کہ نبوت جاری ہے وہ سب کافر تھے؟ اس پر بجائے اس کے کہ مفتی صاحب کوئی جواب دیتے وزیراعلیٰ صاحب نے کہا کہ یہ طے ہو چکا ہے کہ قرآن سے بات پیش کی جائے گی سلف صالحین کا ذکر نہ ہو گا۔ مولانا غلام احمد صاحب نے کہا بہت اچھا۔ مفتی صاحب بتائیں قرآن کریم میں کہاں لکھا ہے کہ جو کسی نبی کی آمد کا قائل ہو وہ کافر ہے؟ اس پر وزیراعلیٰ صاحب نے پھر دخل دے کر کہا یہ سوال نہیں بلکہ کسی آیت سے ثابت کرو کہ نبی آسکتا ہے۔ مولوی صاحب نے تین آیات قرآنی پیش کیں۔ مگر تینوں آیتوں کے متعلق وزیراعلیٰ صاحب انکار کا سر ہلاتے رہے اور جب مولوی صاحب آیات کی تشریح کرنے لگتے تو انہیں روک دیتے۔ آخر مولوی صاحب نے کہا۔ مفتی صاحب! قرآن میں نبوت کے بند ہونے کا کوئی ثبوت ہے؟ اس کا جواب بھی وزیراعلیٰ صاحب نے خود ہی دیا۔ اور وہ یہ کہ ہم سن چکے ہیں۔ مولوی صاحب نے جب کہا کہ مجھے بھی سن لینے دیا جائے تو ایک آیت پیش کی گئی۔ لیکن جب مولوی صاحب اس کا صحیح مطلب بیان کرنے لگے تو کہہ دیا اب بس کرو اور چلے جائو۔۸۶
دربار معلیٰ کی کارروائی
قصہ کوتاہ دربار معلیٰ نے ہائی کورٹوں کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنی ریاست کے شیخ الجامعہ مولوی غلام محمد صاحب کو بطور گواہ عدالت طلب کیا اور ان کا یہ بیان درج کیا کہ >اگر کسی شخص کا قادیانی عقائد کے مطابق یہ ایمان ہو کہ حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کے بعد کوئی اور نبی آیا ہے اور اس پر وحی نازل ہوئی تو ایسا شخص چونکہ ختم النبوۃ حضرت رسول کریم~صل۱~ کا منکر ہے اور ختم النبوۃ اسلام کی ضروریات میں سے ہے لہذا وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے<۔ اس بیان پر دربار نے یہ رائے ظاہر کی کہ >مولوی صاحب موصوف نے بطور دلائل کئی ایک آیات قرآن شریف پیش کیں۔ جن میں اچھی طرح واضح کر دیا گیا ہے کہ آنحضرت~صل۱~ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا<۔
پھر مقدمہ کو مزید >تحقیقات کا محتاج< قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مدعا علیہ کو بھی موقع دینا چاہئے۔ کہ شیخ الجامعہ کے بالمقابل اپنے دلائل پیش کرے اس لئے ہم مزید تحقیقات کے لئے یہ مقدمہ پھر عدالت صاحب ڈسٹرکٹ جج بہاولپور میں بھیجتے ہیں اور ہدایت کرتے ہیں کہ یہ مقدمہ بروئے شرع شریف فیصلہ کیا جائے<۔۸۷
مقدمہ دوبارہ ڈسٹرکٹ عدالت میں
ڈسٹرکٹ جج صاحب اپنے گزشتہ فیصلہ میں صاف لکھ چکے ہیں کہ موجودہ فیصلہ قوانین و آئین کی روشنی میں ہے اگر شریعت کے نقطہ نگاہ سے مقدمہ پر نظر ڈالی جاتی تو ہمارا فیصلہ مختلف ہوتا۔ اس بناء پر مدعا علیہ کے مختار مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے عدالت عالیہ کو لکھا کہ جو عدالت پہلے اپنی رائے کا اظہار کر چکی ہے اس میں دوبارہ اسے پیش کرنا صحیح نہیں۔ مگر کچھ شنوائی نہ ہوئی۔ بہرکیف اس مرحلہ پر یہ مقدمہ ایک نئے دور میں داخل ہو گیا اور فریقین کی طرف سے اس کے لئے زور شور سے تیاریاں شروع کر دی گئیں جیسا کہ >فیصلہ مقدمہ بہاولپور< میں لکھا ہے کہ۔
>واپسی پر اس مقدمہ میں فریقین کے ہم مذہب اور ہم خیال اشخاص کی فرقہ ¶بندی شروع ہو گئی اور تقریباً تمام ہندوستان میں اس کے متعلق ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ اور طرفین سے ان کی جماعت کے بڑے بڑے علماء بطور مختاران فریقین و بطور گواہان پیش ہونے لگے ان کے اس طرح میدان میں آنے سے قدرتاً یہ سوال عوام کے لئے جاذب توجہ بن گیا اور پبلک کو اس میں ایک خاص دلچسپی پیدا ہو گئی اور ہر تاریخ سماعت پر لوگ جوق در جوق کمرہ عدالت میں آنے لگے۔ چنانچہ عوام کی اس دلچسپی اور مذہبی جوش کو مدنظر رکھتے ہوئے حفظ امن قائم رکھنے کی خاطر پولیس کی امداد کی ضرورت محسوس کی گئی اور عدالت ہذا کی تحریک پر صاحب بہادر کمشنر پولیس کی طرف سے ہر تاریخ پیشی پر پولیس کا خاطر خواہ انتظام کیا جاتا رہا<۔۸۸
ڈسٹرکٹ جج صاحب کا رویہ
۲۱/ جون ۱۹۳۲ء کو ڈسٹرکٹ جج بہاولپور )منشی محمد اکبر خان صاحب بی۔ اے ایل ایل۔ بی( نے سماعت شروع کی۔ عدالت نے شیخ الجامعہ کو وہ کچھ دہرانے کے لئے بلایا۔ جو انہوں نے دربار معلیٰ میں کہا تھا اور دو سو کے قریب ان کے ہم خیالوں کو عدالت میں جگہ دے دی گئی۔ لیکن احمدیوں میں اس سے سوائے مدعا علیہ کے باوجود درخواست کرنے کے کسی احمدی کو اندر نہ آنے دیا گیا۔ شیخ الجامعہ نے متواتر تین گھنٹے بیان جاری رکھا۔ بیان کیا تھا بانی جماعت احمدیہ پر سب دشتم کی بوچھاڑ تھی۔ غلط اور بے بنیاد الزامات کا مجموعہ تھا۔ فاضل جج ساتھ ساتھ ہر بات کی تائید کرتے جاتے اور شیخ الجامعہ جو بات بھی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے پیش کرتے اس کے متعلق کہہ دیتے۔ واقعی یہ صریح کفر ہے۔ ایک دفعہ جج صاحب نے مدعا علیہ سے یہ بھی کہا کہ شیخ الجامعہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو یا باہر نکل جا۔ نیز یہ کہ تجھے ان باتوں کو ماننا پڑے گا جو شیخ الجامعہ نے بیان کی ہیں جب مدعا علیہ نے اس سے انکار کیا تو کہہ دیا یہ باتیں صحیح ہیں اور تجھے ماننی پڑیں گی۔ بالاخر شیخ الجامعہ کے طول طویل بیان کی نقل لے کر جرح کرنے کی ہدایت کی۔ نقل لینے پر چونکہ تیس روپے کے قریب خرچ کرنا پڑتا تھا اس لئے مدعا علیہ نے اپنی غربت کا عذر پیش کیا۔ اس پر کہہ دیا گیا پھر مقدمہ کا فیصلہ تمہارے خلاف کر دیا جائے گا۔
عدالت کا یہ رویہ دیکھ کر مدعا علیہ نے انتقال مقدمہ کی درخواست دے دی جو رکھ لی گئی اور کہہ دیا گیا جو کچھ کرنا ہو کر لو۔ اور ۱۴/ جولائی کی تاریخ پیشی مقرر کی گئی۔ اجلاس کے اختتام پر جج صاحب نے پھر کہا کہ کل آکر نقل کی درخواست دے دو اور ۱۴/ جولائی ۱۹۳۲ء کو جرح پیش کرو۔ کوئی زیادہ موقعہ نہ دیا جائے گا۔ قادیان سے دو مولویوں کو شہادت کے لئے خود منگائو۔ لیکن تمہارے علماء کو شیخ الجامعہ کے بیان پر جرح کرنے کا کوئی حق نہ ہوگا اس کے بعد مدعا علیہ کو باہر نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔۸۹
علمائے دیوبند کی شہادتیں اور ان پر جرح
ڈسٹرکٹ عدالت نے فریقین کی شہادتوں کے لئے ۲۰ تا ۲۳/ اگست ۱۹۳۲ء کی تاریخیں مقرر کی تھیں۔ مدعیہ کی طرف سے مولوی سید محمد انور شاہ صاحب سابق صدر المدرسین دیو بند` مولوی محمد شفیع صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند` مولوی سید محمد مرتضیٰ حسن صاحب دربھنگی ناظم تعلیمات دیوبند اور مولوی نجم الدین صاحب پروفیسر اورینٹل کالج لاہور کی شہادتیں ہوئیں اور مدعا علیہ کی طرف سے علامہ جلال الدین صاحب شمسؓ` مولانا غلام احمد صاحب مولوی فاضل` مولوی عبدالاحد صاحب اور چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹر پیش ہوئے۔ جج صاحب نے چوہدری اسداللہ خان صاحب کو بیرسٹر ہونے کی وجہ سے مختار ہونا منظور نہ کیا لہذا مولانا شمس صاحبؓ اور مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی مدعا علیہ کی طرف سے مختار ہوئے جو ابتدائی پیشیوں تک مختار رہے ازاں بعد جب یہ حضرات بطور گواہ پیش ہونے لگے تو ان کی بجائے شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور مولوی عبداللہ صاحب اعجاز کو یہ خدمت سپرد ہوئی جسے انہوں نے آخر تک نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ عدالت کی کارروائی شروع ہونے پر مدعا علیہ کی طرف سے زور دیا گیا کہ جب مقدمہ کا فیصلہ شریعت کے مطابق ہونا ہے تو شریعت کی رو سے ہی شہادتیں بھی لی جائیں۔ پہلے ایک شہادت مدعیہ کی طرف سے ہو اور اس کے مقابل دوسری مدعا علیہ کی طرف سے۔ جج صاحب نے اسے منظور بھی کر لیا۔ مگر فریق مخالف نے جب اصرار کیا کہ پہلے ضروری ہے کہ ہماری تمام شہادتیں ختم ہو جائیں تو جج صاحب نے آخری فیصلہ یہ دیا کہ شہادتیں ضابطہ دیوانی کے ماتحت لی جائیں گی۔ گویا پہلے قدم پر ہی شریعت کو جواب دے دیا گیا۔۹۰
سب سے پہلے مفتی محمد شفیع صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند کی شہادت ہوئی۔ جس پر مولانا جلالالدین صاحب شمسؓ نے لاجواب جرح کی۔4] [stf۹۱
دوسری شہادت مولوی سید مرتضیٰ حسن صاحب دربھنگی کی ہوئی جو ۲۳/ اگست سے شروع ہوکر ۲۴/ اگست کو ختم ہوئی۔ مولوی صاحب نے اپنی شہادت کے آغاز میں کہا کہ مرزائیوں کا ارتداد اور کفر ایسا واضح اور صریح ہے کہ اس میں کسی ایچ پیچ کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایسے دلائل سے ثابت ہے کہ مطلقاً اس پر جرح نہیں ہو سکتی خواہ مخواہ کوئی جرح میں وقت ضائع کرے تو اور بات ہے۔۹۲
آخر انہوں نے ایک طول طویل بیان دیا۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بیس وجوہ کفر پیش کئے۔ ۲۴/ اگست کو جبکہ مولوی سید مرتضیٰ حسن خان صاحب کے بیان پر جرح ہونی تھی عوام بہت خوش نظر آتے تھے۔ لیکن جب مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی نے )جنہیں ان دنوں مجاہد کے نام سے پکارا جاتا تھا( جرح کرکے ابتداء میں دوچار سوالات کئے تو مجلس کا رنگ ہی بدل گیا۔ اور تمام کمرہ عدالت میں سناٹا چھا گیا۔۹۳
تیسری شہادت مولوی سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری شیخ الحدیث دیو بند کی تھی۔ جو ۲۵/ اگست سے شروع ہو کر ۲۷/ اگست کو ختم ہوئی۔ مخالفین کو اپنے علامہ شیخ الحدیث پر بہت ناز تھا۔ اور ان کے مداحوں کا خیال تھا کہ شیخ الحدیث کی شہادت احمدیت کے لئے خطرناک حربہ ثابت ہو گی۔ ان کا شہرہ سن کر پہلے دن تمام سرکاری حکام اور معززین شہر حاضر عدالت ہوئے۔ تا شیخ الحدیث کا بیان اور اس پر جرح سنیں۔ عدالت کا کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شہادت ختم ہونے پر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے اپنی باطل شکن جرح شروع کی تو شیخ الحدیث کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ علمی کم مائیگی کایہ عالم ہوا کہ تورات کی مشہور آیت >خداوند سینا سے آیا اور فاران سے طلوع ہوا< کو انجیل کی آیت بتلایا۔ کئی بار پوچھنے پر فرمایا۔ کتاب الفصل میں ایسا ہی لکھا ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ علم نہیں۔ اسی طرح ایک مشہور حدیت جس میں حضور سید الانبیاء~صل۱~ نے اسلام کے پانچ ارکان بیان فرمائے ہیں )یعنی بنی الاسلام علی خمس( شیخ الحدیث زبانی نہ پڑھ سکے حدیث کی کتاب لانے کے لئے اپنے ایک شاگرد کو اشارہ کیا اور سرنیچا کئے فرمایا اس وقت یہ حدیث میرے ذہن سے اتر گئی ہے اور الفاظ حدیث اچھی طرح یاد نہیں رہے۔ آخر مولانا شمسؓ صاحب نے پوری حدیث زبانی پڑھ دی۔ جس کی صحت کا شیخ الحدیث نے کھلی عدالت میں اقرار کیا۔۹۴
غرضکہ مولانا شمس صاحبؓ کی جرح نے شیخ الحدیث کی علمی حقیقت کھول دی اور وہ بالاخر نہایت گھبراہٹ کے عالم میں کمرہ عدالت سے باہر تشریف لے گئے۔۹۵
جرح کے دوران کا ایک اہم واقعہ
ہم یہاں یہ ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جرح کے دوران ایک واقعہ یہ بھی پیش آیا۔ کہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے ایک حدیث سنانا چاہی۔ مگر مخالف علماء نے شور مچا دیا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے آنحضرت~صل۱~ کی توہین ہوتی ہے اس پر عدالت نے بھی حکم دیا کہ یہ حدیث چھوڑ دیں کوئی اور مثال پیش کریں اس پر مولانا شمس صاحبؓ نے کیا جواب دیا اور عدالت کی جانبداری کی وجہ سے کس طرح جرح ترک کرنا پڑی۔ اس کی تفصیل >الفضل< کے نامہ نگار کے الفاط میں درج ذیل ہے۔
>جج۔ آپ اس حدیث کو چھوڑ دیں کوئی اور مثال پیش کریں۔ شمس۔ کیوں چھوڑ دیا جائے۔ جس پاک شخصیت کے متعلق بحث ہے اسی کی مثال دی جائے گی اور شاہد کی شہادت کو توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مسلمات سے مثال پیش کی جائے۔ جج۔ اس سوال کا تعلق کیا ہے؟ شمس۔ جب ایک بات ایک شخص کے لئے وجہ تکفیر ٹھہرائی جاتی ہے تو وہی بات جب دوسرا کہے تو کیوں وجہ تکفیر نہ قرار دی جائے۔ اگر وہ واقعت¶ہ وجہ توہین ہے۔ مولویان دیو بند۔ نہیں۔ اس سے مسلمانوں کو طیش آتا ہے اور ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ جج۔ آپ عام پبلک کا خیال رکھیں اور ایسی بات نہ کریں جس سے لوگوں کو طیش آئے۔ شمس۔ میں اس حدیث کو اپنی تائید میں ضرور پیش کروں گا۔ طیش کی کوئی وجہ نہیں ہمیں روزانہ یہاں کافر مرتد کہا جاتا ہے اور مسجدوں کے دروازوں پر گندے اور گالیوں سے پر اشتہار لگائے جاتے ہیں اور ہمارے مقدس امام کو برا کہا جاتا ہے۔ کیا ہمیں طیش نہیں آتا؟ لیکن رسول اللہ~صل۱~ کی حدیث پیش کرنے پر ان مولویوں کو طیش آتا ہے یہ عدالت کا کمرہ ہے کوئی مسجد یا درسگاہ نہیں یہاں شاہد کی شہادت پر جرح ہو رہی ہے جسے طیش آتا ہے وہ یہاں سے چلا جائے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جرح کے سوال کو جو گواہ کی شہادت کو کمزور کرتا ہے چھوڑ دیا جائے۔ جج۔ میں اس سوال کو روکتا ہوں۔ شمس۔ جب آپ ہماری جرح کو اس طرح روکتے ہیں تو میں جرح بند کرتا ہوں )یہ کہہ کر مولانا شمسؓ صاحب کرسی پر بیٹھ گئے اور عدالت میں دو تین منٹ تک سناٹا چھا گیا( پھر مجسٹریٹ صاحب نے مولوی انور شاہ صاحب کے مختار سے کہا آپ جو سوالات توضیح کے لئے شاہد سے کرنا چاہتے ہیں کریں۔ اس نے سوال کیا اور انور شاہ صاحب نے جواب دینا شروع کیا۔ جج صاحب لکھنے لگے۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد جج صاحب نے شمس صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے مقدمہ کی پیروی چھوڑ دی ہے؟ شمسؓ۔ میں نے مقدمہ کی پیروی نہیں چھوڑی جرح چھوڑ دی ہے کیونکہ عدالت ہماری جرح نہیں سننا چاہتی۔ شاہد جو اس وقت کہہ رہا ہے میں اسے لکھ رہا ہوں<۔۹۶
۵/ نومبر ۱۹۳۲ء کو مقدمہ کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی۔ قبل ازیں احمدیوں سے عدالت میں انتہائی غیر منصفانہ اور غیر مساویانہ سلوک ہوتا تھا۔ اور سٹیج پر غیر احمدی رئوساء کو بھی جج کے ساتھ کرسی ملتی تھی۔ مگر جب اس جنبہ داری کا بہت چرچا ہوا تو عدالت میں سٹیج کے ساتھ اینٹوں کا ایک کٹہرا بنا دیا گیا۔
مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کا بیان اور اس پر جرح
۷/ نومبر ۱۹۳۲ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کا معرکتہ الاراء بیان شروع ہوا۔۹۷ جو کئی دنوں تک جاری رہا۔ یہ بیان ایک رسالہ کی صورت میں >مقدمہ بہاولپور< کے نام سے دسمبر ۱۹۳۲ء میں شائع کر دیا گیا تھا جو غیر احمدی علماء کے پاس پہنچ چکا تھا۔ چونکہ دیو بند کے مایہ ناز علماء کو گزشتہ جرح میں مولانا شمس صاحبؓ کے ہاتھوں عبرتناک شکست ہوئی تھی۔ اس لئے ان اصحاب نے اس کا انتقال لینے کے لئے دہلی` دیوبند` اور لکھنئو وغیرہ مقامات کا دورہ کیا اور مسلسل ساڑھے تین ماہ تک اس بیان پر جرح تیار کرتے رہے۔۹۸ مگر اس درجہ تیاری کے باوجود جب یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو مقدمہ کی کارروائی پھر شروع ہوئی۔۹۹ اور انہیں بیان پر جرح کا موقع ملا۔ تو خدا کے فضل و کرم سے کس طرح انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ اس کا اندازہ مولانا کے ان جوابات سے باسانی ہو سکتا ہے جو انہی دنوں الفضل میں شائع کر دیئے گئے تھے۔۱۰۰
مولوی عبداللطیف صاحب فاضل دیوبند کی چشمدید شہادت
مولوی عبداللطیف صاحب فاضل دیوبند کا بیان ہے کہ >۳۳۔۳۲ء کا واقعہ ہے جب کہ ریاست بہاولپور میں مقدمہ تنسیخ نکاح کے دوران احمدیوں اور دیو بندیوں کے مابین ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں بحث ہورہی تھی۔ میں بھی یہ بحث سننے کے لئے آیا تھا۔ چونکہ دیر ہوجانے کے باعث میں پیدل تیز تیز جارہا تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک ٹانگہ آپہنچا جس میں دیوبندی احباب جو میرے پرانے واقف کار اور بعض کلاس فیلو بھی تھے اس میں سوار تھے۔ مواد بحث کے لئے کچھ امدادی کتب لئے وہ بھی ادھر جارہے تھے چونکہ سلسلہ احمدیہ میں مجھے داخل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا ان دوستوں کو میرے احمدی ہونے کا علم نہیں تھا۔ مجھے پیدل جاتے دیکھ کر ٹانگہ کھڑا کیا۔ اور مجھ سے پوچھنے پر جب انہیں معلوم ہوا کہ میں بھی ادھر ہی جارہا ہوں مجھے سوار کرکے ٹانگہ دوڑا کر احاطہ عدالت تک پہنچے۔
جب ہم کمرہ عدالت تک پہنچے تو میں نے اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کا عجیب نظارہ دیکھا۔ کمرہ عدالت میں داخلہ کا دروازہ جو شرقی طرف تھا دیکھا کہ اس کے دائیں طرف احمدیوں کی نشست گاہ ہے اور بائیں طرف احمدیوں کے مقابل فریق ثانی کی۔ داخل ہوکر جب میں داہنی طرف جانے لگا تو دیوبندی دوست میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف لے جانے لگے اور میرے دوسری جانب اصرار کرنے پر کہنے لگے کہ وہ تو مرزائیوں کی جگہ ہے۔ تب میں نے انہیں کہا انا من اصحاب الیمین کہ میں اصحاب الیمین میں شامل ہوں۔ اتفاق دیکھئے نشست گاہ کی ہیئت کذائیہ کی تجویز خود انہیں غیر احمدیوں کے منصوبے سے ہوئی تھی۔ انہوں نے شائد اپنے نقطہ نگاہ سے احمدیوں کو بائیں طرف جگہ دی تھی اور دائیں جانب اپنے لئے منتخب کی تھی۔ کیونکہ عدالت کی جگہ جو مغربی جانب تھی اور جج جو قبلہ کو پیٹھ دے کر بیٹھتا تھا۔ اس کی داہنی طرف کو انہوں نے اپنے لئے باعث فخر اور نیک فال شمار کیا اور احمدیوں کو جج کی بائیں جانب جگہ دے کر گویا اپنے خیال میں ان کی تذلیل کی۔ مگر قدرت کی ستم ظرفی دیکھئے۔ بوجہ حق سے محجوت ہونے کے ان کے دماغ ایسے کند ہوگئے کہ یہ نہ سوچا کہ یہ ہیئت تو قبلہ کو پیٹھ دینے کی وجہ سے ہے حالانکہ مومن کو تو یہ حکم ہے۔
حیث ما کنتم فولوا وجوھکم شطرہ۔
عہد حاضر میں بھی جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اجتماع واتحاد کیلئے ایک امام اور اسلام کی نشاء|ۃ ثانیہ کے لئے ایک روحانی مرکز قرار دیا تو اس کی طرف بھی ان میں سے اکثر نے رخ نہ کیا۔ بلکہ پیٹھ ہی دی۔ جب میں اندر داخل ہوا تو دیکھا محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کی تقریر ہورہی تھی اور کمرہ میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سامعین ہمہ تن نغمہ سروش کے خمار میں مست تھے۔ جج بھی کرسی عدالت پر محویت کے علم میں قلم ہاتھ میں تھامے منہ کے قریب لئے محو سماع نظر آیا۔ میں چونکہ احمدیت کے لحاظ سے حدیت العہد تھا۔ )میری بیعت ۱۹۲۷ء کی ہے اس سے پہلے میں نے کسی احمدی کو اپنے مدمقابل کے سامنے تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ان کی تقریر کچھ ایسے رنگ میں تھی جس کا نقشہ قرآن مجید کی ان آیات میں کھینچا گیا ہے۔ جہاں مجاہدین اسلام کے کارناموں کے تذکرے بیان کئے ہیں اور جن میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور کی بھی پیشگوئی ہے۔
النازعات غرقا والناشطات نشطا والسابحات سبحا۔
میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج کا یہ جانباز سپاہی پورے زور وقوت کے ساتھ دلائل حقہ اور براہین قاطعہ کے پیہم داروں سے مولویوں کے عقائد باطلہ اور ان کے خود تراشیدہ مسائل کی دھجیاں اڑانے میں مستغرق ہے اور ایک ہوشیار ڈاکٹر کی طرح اپنے فن سرجری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان اغلوطات کا اپریشن ایسے عمدہ طریق سے کررہا ہے۔ اور تنقیحی امور کی تنقید کرتے ہوئے ان عقائد فاسدہ کے پرعفونت مواد خبیثہ کو ایک ایک کرکے ایسے طور پر نکال رہا ہے۔ جیسے لائق سول سرجن کامیاب اپریشن کی صورت میں مریض کے جسم سے تمام غلیظ اور زہریلے مواد نکال کر باہر پھینک دیتا ہے۔ اور کام ایسے پرسکون کیف اور نشاط طبع سے ہورہا ہے کہ گفتگو میں کسی قسم کی تلخی آنے نہیں پاتی۔ جیسا کہ عموماً مولویوں کی گفتگو میں ہوتی ہے۔ بلکہ نہایت ٹھنڈے دل سے حاضرین بھی نشاط وسرور سے سن رہے ہیں۔ یہ شہسوار میدان تقریر میں اپنے اشہب بیان کو ایسے طور پر چلا رہا تھا۔ گویا اسپ تیز رفتار ہوا میں تیر رہا ہے۔ >)مضامین لطیفہ< صفحہ ۱۸۱ تا ۱۸۴ مرتبہ مولانا عبداللطیف صاحب۔ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ(
مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی کا بیان
۱۳/ مارچ ۱۹۳۳ء کو مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی کا مدلل بیان شروع ہوا۔ بیان کے شروع ہوتے ہی فریق ثانی نے یہ سوال اٹھایا کہ مرزا صاحب کے ساتھ علیہ الصلوہ والسلام کے الفاظ کیوں استعمال کئے جاتے ہیں؟ جج صاحب نے بھی ایک حد تک اس کی تائید کی۔ مگر جب مولوی صاحب نے کہا کہ اگر جج کوئی ہندو ہو اور رنگیلا رسول کا لکھنے والا کسی مسلمان گواہ کے متعلق اصرار کرے کہ محمد~صل۱~ کے ساتھ مت کہو تو کیا جج قانوناً مجاز ہے کہ نہ لکھے یا اس گواہ کو روک دے۔ اگر ایسا نہیں تو ہمیں کیوں روکا جاتا ہے۔ اس نکتہ پر جج نے مجبوراً اپنی رائے بدل لی۔ مولوی صاحب کا اصل بیان ۲۴۰ صفحات پر مشتمل تھا۔ مگر عدالت کے سامنے صرف ۴۹ صفحات میں لکھوایا گیا۔۱۰۱ یہ مکمل بیان بعد کو >اظہار الحق<۱۰۲ کے نام سے شائع کر دیا گیا تھا۔ جسے مولانا بدوملہی صاحب نے نہایت محنت و کاوش سے لکھا تھا اور اس کی ترتیب میں حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہ جہانپوری نے گرانقدر تعاون فرمایا۔ اور راہنمائی کی اور ہر مرحلہ پر اپنے قیمتی اور مفید مشوروں سے نوازا۔
۳۱/ دسمبر ۱۹۳۳ء کو مقدمہ کی پیروی کے لئے مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ` مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل بہاولپور تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس مرکز میں آگئے۔ ۳/ مارچ ۱۹۳۴ء کو تاریخ پیشی تھی جس میں شمولیت کے لئے مولانا جلال الدین صاحب شمس~رضی۱~ اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب تشریف لے گئے۔۱۰۳ اور مولانا شمس صاحبؓ نے مارچ کے پہلے ہفتہ میں مدعا علیہ کی طرف سے بحث مکمل کر لی۔
مختاران مدعیہ کا رویہ
مختاران مدعیہ۱۰۴ کی طرف سے خلل اندازی کا سلسلہ ابتداء ہی سے جاری تھا۔ جو بڑی روک کا موجب بنا۔ قدم قدم پر طفلانہ ضدوں اور خفیف حرکتوں کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ جس سے بہت وقت ضائع ہوا۔ تاہم مولانا شمس صاحب ۶/ مارچ کو بفضل تعالیٰ خاتمہ بحث تک جاپہنچے۔
مختاران مدعیہ نے دوران بحث میں اشتعال دلانیے کا بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ اور یہ آخری بحث بھی اس سے خالی نہ رہی۔ جب مختاران مدعیہ کا اپنے اقوال سے انحراف حد سے گزر گیا۔ تو مولانا شمس صاحب نے عدالت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایسی صورت اختیار کی گئی ہے کہ گویا خدا کے وجود کا یقین ہی نہیں ہے تو مختار مدعیہ بگڑ گئے کہ ہماری ہتک کی گئی ہے۔ اور گویا ہوئے کہ ہمارا یہاں کھڑا ہونا بے کار ہے اور یہ کہہ کر آپ بنچ پر اپنے معاونین کے پاس جا بیٹھے۔ مگر پھر اٹھے اور اپنے ایک ہم خیال مولوی صاحب کو جو عدالت کے کٹہرے کے پاس کھڑے بحث سن رہے تھے پکڑ کر گھسیٹنے لگے کہ چلے آئو یہاں کھڑے ہونا فضول ہے اور ہٹا کر بنچ پر لے آئے۔ پھر باہر نکل گئے۔ آخر دس منٹ کے بعد پھر خود ہی واپس آگئے اور بنچ پر بیٹھ گئے۔ پھر بنچ سے اٹھے اور اپنی مقررہ جگہ پر کھڑے ہو گئے اور بدستور الجھنے اور تقریر بحث میں خلل ڈالنے لگے۔ دیکھنے والے حیران تھے کہ آپ گئے کیوں تھے اور گئے تھے تو پھر خود ہی واپس کیوں تشریف لے آئے؟<۱۰۵
۷/ مارچ ۱۹۳۴ء کو مولانا شمس صاحبؓ نے جوابی بحث شروع کی۔۱۰۶
۲۸/ اپریل سے پھر مقدمہ کی پیشی شروع ہوئی۔ تو مختار مدعیہ کی طرف سے جواب شروع کیا گیا جو غیر متعلق باتوں کا مجموعہ تھا جن سے مختار مدعیہ کا مقصود جواب کی بجائے صرف بحث کو بے جا طوالت دینا اور الجھانا تھا۔ عدالت ہر روز اسے اس امر کی طرف توجہ دلاتی تھی۔ کہ اس بے موقعہ اور بے وجہ تطویل کا کیا فائدہ؟ جواب مدعا علیہ کے رد میں جو کہنا ہو کہو۔۱۰۷
مختار مدعیہ اور مولانا جلال الدین صاحب شمس~رضی۱~
مختار مدعیہ کی اس بحث کی نوعیت کیا تھی اس کا اندازہ لگانے کے لئے حضرت مولٰنا جلال الدین صاحب شمسؓ کے قلم سے مقدمہ کے اس حصہ کی بعض باتیں بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں۔
بحث کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے بہاولپور سے لکھا۔ >روزانہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے مختار مدعیہ کی خیانت اور جہالت ٹپکتی ہے جن پر عدالت کو توجہ دلائی جاتی ہے۔ ان میں سے چند باتیں بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔ مختار مدعیہ۔ )عدالت کے توجہ دلانے پر کہ بے جا تکرار کو چھوڑو( مختار مدعا علیہ نے بھی اپنی بحث میں بے جا تکرار کی ہے۔ شمس۔ بالکل غلط ہے کوئی ایک ہی مثال پیش کرو۔ مختار مدعیہ۔ خاتم النبین کے معنی ایک جگہ تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے عنوان کے ماتحت بیان کئے ہیں اور پھر اسی تفصیل کے ساتھ مسئلہ ختم نبوت کے ماتحت بھی۔ شمس۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر؟ مختار مدعیہ۔ میں جھوٹا ہوں گا۔ شمس۔ نکالو بحث۔ )انہوں نے بحث نکالی وہاں میں نے صرف حوالہ دیا ہوا تھا کہ چونکہ خاتم النبین کے معنی پر مفل بحث گواہان مدعا علیہ اپنے بیان میں کرچکے ہیں اس لئے یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں( شمس۔ )مختار مدعیہ کو مخاطب کرکے( اب تو تمہارے جھوٹے ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مختار مدعیہ۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( دیکھو حضور والا! مجھے جھوٹا کہتے ہیں۔ شمس۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ اگر تکرار ثابت نہ ہو تو میں جھوٹا اور ظاہر ہے کہ تکرار ثابت نہیں ہوئی اس لئے یہ اقراری جھوٹے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں۔ عدالت نے مختار مدعیہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔
)۲( شق القمر کے خسوف ہونے پر میں نے ایک روایت >روح المعانی< سے لکھی تھی جس کے جواب میں مختار مدعیہ نے کہا کہ صاحب روح المعانی پر افترا کرکے اس کی طرف یہ عقیدہ منسوب کر دیا کہ وہ بھی شق القمر کو ایک قسم کا خسوف سمجھتے تھے۔ شمس۔ )عدالت کو توجہ دلا کر( یہ میرے جواب سے دکھائیں کہ میں نے کہاں مولف روح المعانی کی طرف یہ عقیدہ منسوب کیا ہے؟ مختار مدعیہ۔ ابھی دکھاتے ہیں۔ شمس۔ دکھائو )جب بحث نکالی تو اس میں مولف >روح المعانی< کی طرف یہ عقیدہ منسوب نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ لکھا تھا کہ >روح المعانی< میں ایک روایت موجود ہے جس میں وہی لکھا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں( مختار مدعیہ۔ دیکھو یہ عبارت بتاتی ہے کہ مولف >روح المعانی< کا یہ عقیدہ ہے۔ شمس۔ اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ ان کا عقیدہ ہے یہاں تو اس میں ایک روایت کے موجود ہونے کا ذکر ہے۔ عدالت۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مولف >روح المعانی< کا عقیدہ ہے۔
)۳( قیامت و حشر پر بحث کرتے ہوئے مختار مدعیہ نے ایک آیت وما ھم منھا بخارجین پڑھی۔ شمس۔ یہ آیت کس پارہ میں ہے؟ مختار مدعیہ۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( ان کے لئے جواب کا موقعہ نہیں یہ کیوں ایسے طور پر دریافت کرتے ہیں؟ شمس۔ کیا تمہارا یہ منشاء ہے کہ قرآن مجید کی طرف بھی اپنی طرف سے آیات منسوب کرتے چلے جائو۔ ۔۔۔۔۔۔ مختار مدعیہ کے ساتھی بولے کہ خارجین والی آیت قرآن میں ہے۔ شمس۔ وما ھم منھا بمخرجین ہے یا وما ھم بخارجین من النار ہے >وما ھم منھا بخارجین< تو کہیں نہیں۔
)۴( وحی کی بحث کرتے ہوئے مختار مدعیہ نے کہا کہ آیت رفیع الدرجات ذوالعرش یلقی الروح من امرہ میں مذکورہ صفات خداوندی انتخاب کے ساتھ متعلق ہے نہ یہ کہ وحی ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کفار کا اعتراض بھی نقل کیا ہے۔nsk] g[ta ا انزل علیہ الذکر من بیننا۔ شمس۔ یہ آیت کس سورۃ میں آئی ہے حوالہ دیں؟ مختار مدعیہ۔ )ادھر ادھر جھانک کر( یہاں حافظ صاحب بیٹھے تھے۔
حافظ صاحب۔ )سوچنے کے بعد( سورۃ قمر کی آیت ہے۔ شمس۔ کیا یہ آنحضرت~صل۱~ کے حق میں ہے؟ مختار مدعیہ۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( یہ ان کے جواب دینے کا موقعہ نہیں۔
شمس۔ جواب نہ دینے کے موقعہ کے یہ معنی نہیں کہ ہم توجہ بھی نہ دلائیں۔ اور تم جو چاہو قرآن مجید کی آیات کو محرف و مبدل کرکے پیش کرتے جائو۔ دیکھو یہ آیت سورۃ قمر میں ہے حضرت صالحؑ کی قوم ثمود کا قول ہے اور تم کفار مکہ کا بتا رہے ہو۔
)۵( خاتم النبین کے معانی بتانے کے لئے مختار مدعیہ نے ایک حوالہ حضرت ملا علی قاری کا پیش کیا تھا اس میں لا نبی بعدی کے معنی صاف طور پر یہ لکھے ہیں کہ ای لایحدث بعدہ نبی کہ آپﷺ~ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہو گا۔ نہ یہ کہ پرانا بھی نہیں آسکتا۔ شمس۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( مختار مدعیہ نے اس میں بھی صریح خیانت سے کام لیا ہے کیا اس کے ساتھ ہی یہ نہیں لکھا کہ >ینسخ شرعہ< کے ایسا نبی نہ ہو گا جو آپﷺ~ کی شریعت کو منسوخ کرے اس کو چھوڑ دیا اور پہلا حصہ لے لیا۔ کس قدر خیانت ہے۔ مختار مدعیہ۔ یہ ان کے جواب دینے کا وقت نہیں ہے۔ شمس۔ لیکن میں عدالت کو آپ کی خیانت پر توجہ دلا سکتا ہوں<۔۱۰۸
عدالت کے اختیار سماعت کا سوال
دوران سماعت مقدمہ مدعا علیہ نے مدعیہ اور اس کے والد مولوی الٰہی بخش صاحب کے خلاف ۲۳/ اگست ۱۹۳۲ء کو عدالت سب جج صاحب درجہ دوم ملتان میں دعویٰ اعادہ حقوق زوجین دائر کرکے عدالت موصوف سے ان ہر دو کے خلاف ۱۷/ جون ۱۹۳۴ء کو ڈگری یکطرفہ حاصل کر لی اور عدالت بہاولپور کے سامنے یہ اہم قانونی عذر پیش کیا کہ عدالت کو اس مقدمہ کے بارے میں اختیار سماعت حاصل نہیں کیونکہ بناء دعویٰ حدود ریاست بہاولپور میں پیدا نہیں ہوئی اور نہ مدعا علیہ کی رہائش عارضی یا مستقل ریاست بہاولپور کے اندر ہوئی ہے۔ دوسرا عدالت برطانیہ سے مدعا علیہ کے حق میں ڈگری استقرار حق زوجیت برخلاف مدعیہ اور اس کے والد الٰہی بخش کے صادر ہو چکی ہے اس لئے بروئے دفعہ ۱۱ ضابطہ دیوانی عدالت ہذا کو اس کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ دفعات ۱۳۔ ۱۴ ضابطہ دیوانی کے بموجب ڈگری قطعی ہو چکی ہے۔ اور اس کے صادر ہونے کے بعد مقدمہ زیر سماعت ڈسٹرکٹ عدالت بہاولپور میں نہیں چل سکتا۔
اختیار سماعت کے اس اہم سوال پر ۸/ نومبر ۱۹۳۳ء کو عدالت نے تنقیحات ایزاد کیں۔ ۱۲/ جنوری ۱۹۳۴ء کو مدعا علیہ نے درخواست دی کہ یہ امر بھی زیر تنقیح لایا جائے۔ کہ کیا مدعا علیہ کی وطنیت ریاست بہاولپور میں واقع ہے مگر دسٹرکٹ عدالت نے اسے محض اس بناء پر مسترد کر دیا کہ مدعا علیہ کی طرف سے اس قسم کا عذر پہلے نہیں اٹھایا گیا۔۱۰۹
مدعا علیہ نے یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو یہ تنقیح قائم کی کہ مدعیہ بوقت ارجاع نالش نابالغ تھی۔ جو ۲۹/ مارچ ۱۹۳۳ء کو خارج کر دی گئی۔۱۱۰
مدعا علیہ کی وفات کے بعد عدالت کا فیصلہ
مقدمہ کی اس لمبی کارروائی کے خاتمہ کے بعد جبکہ مقدمہ ابھی زیر غور تھا مظلوم احمدی عبدالرزاق صاحب جو ۱۹۲۶ء سے اس مقدمہ میں الجھائے گئے تھے وفات پا گئے۔ جس پر عدالت میں درخواست دی گئی کہ مدعا علیہ کی موت واقع ہونے کے سبب اب کارروائی ختم کر دی جائے لیکن عدالت چونکہ ریاستی حکام اور اپنے مفتی صاحب کے پوری طرح زیر اثر تھی اس لئے اس نے یہ درخواست بھی رد کر دی اور فاضل جج نے ۷/ فروری ۱۹۳۵ء مطابق ۳/ ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ کو ایک طویل فیصلہ سنایا جس میں وہی کچھ بیان کیا جس کی اس عدالت کے عملی رویہ سے توقع تھی۔ یعنی لکھا۔
>مدعیہ کی طرف سے ثابت کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب کاذب مدعی نبوت ہیں اس لئے مدعا علیہ بھی مرزا صاحب کو نبی تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ لہذا ابتدائی تنقیحات جو ۴/ نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمد پور شرقیہ سے وضع کی گئی تھی بحق مدعیہ ثابت قرار دی جاکر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہو چکا ہے۔ لہذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہو چکاہے ۔۔۔۔۔۔ لہذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔ مدعیہ خرچہ مقدمہ ازاں مدعا علیہ لینے کی حقدار ہو گی<۔۱۱۱
>شرع شریف< کی روشنی میں عدالتی فیصلہ اور >ختم نبوت<
فاضل جج نے اپنے طویل فیصلہ میں اپنے ہم مشرب علماء کی تائید و تصدیق میں >شرع شریف< کی روشنی میں جو شرعی محاکمہ فرمایا اس کی بنیاد محض ختم نبوت کے ان معنیٰ پر رکھی جو عدالت میں پیش ہونے والے غیر احمدی علماء نے بیان کئے تھے اور جن کی حقیقت احمدی علماء نے اپنے واضح بیانات میں قرآن و حدیث اور اقوال آئمہ سے روز روشن کی طرح واضح کر دی تھی۔ مگر فاضل جج نے انہیں علماء کے بیانات کو جن کو مسلمانوں کے بعض فرقے دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے تھے صحیح قرار دیا۔
چنانچہ فاضل جج کے بیان کے مطابق >مدعا علیہ کی طرف سے لغت اور عربی زبان کے محاورات سے یہ دکھلایا گیا۔ کہ لفظ خاتم جب تا کی زبر سے پڑھا جائے تو انگوٹھی یا مہر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اگر زیر سے پڑھا جائے تو اس کے معنی ختم کرنے والا دوسرا مہر لگانے والا ہوتے ہیں اور >خاتم< کا لفظ کمال کے معنوں میں بکثرت استعمال ہوتا ہے اور کہ خاتم کے اصل معنی آخر کے نہیں ہیں اگر آخر کے معنی بھی لئے جائیں تو پھر لازم معنی کہلائیں گے نہ اصل معنے اور جب اصل معنے لئے جا سکتے ہیں تو لازم معنی کیوں لئے جائیں خاتم اگر کہیں آخر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے تو لازم معنے لے کر کیا جاتا ہے اور جبکہ قرآن مجید میں کوئی ایسا صریح قرینہ موجود نہیں جو لازم معنے لینے پر ہی دلالت کرے تو اس کے باقی سب معنے چھوڑ کر صرف آخر کے معنے میں لینا کسی طرح صحیح نہیں<۔۱۱۲
اس پر فاضل جج نے یہ فیصلہ صادر فرمایا۔ >لیکن مقدمہ ہذا میں سوال زیر بحث عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے الفاظ کے معنے یا مراد سے تعلق نہیں رکھتا دیکھنا یہ ہے کہ عقیدہ کس معنیٰ پر قائم ہوا۔ جب مدعا علیہ کے نزدیک خاتم کے معنے )نقل مطابق اصل( آخر کے ہو سکتے ہیں اور عقیدہ بھی تیرہ سو سال تک اس پر قائم رہا ہے تو اب ان الفاظ پر بحث کرنا کہ ان کے معنی آخر کے نہیں بلکہ مہر کے ہیں سوائے ایک علمی دلچسپی کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا<۔۱۱۳
اب خاتم کے معنی مہر کو محض ایک >علمی دلچسپی< قرار دینے والے فاضل جج کے فیصلہ کا یہ حصہ ملاحظہ ہو۔
>اس میں شک نہیں کہ خاتم کے معنے مہر دیگر علماء نے بھی کئے ہیں اور حال ہی میں قرآن مجید کا جو ترجمہ مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کا شائع ہوا ہے اس میں بھی خاتم کے معنے مہر درج ہے اور خاتم النبین کے معنیٰ انہوں نے یہ لکھے ہیں کہ مہر ہیں تمام نبیوں پر اور میری رائے میں سیاق و سباق عبارت سے یہی معنیٰ درست معلوم ہوتے ہیں<۔۱۱۴
فاضل جج نے مولوی محمود الحسن صاحب کے جس ترجمہ قرآن کی تائید کی ہے اس کے حاشیہ میں >نبیوںں کی مہر< کا مفہوم یہ بتایا گیا تھا کہ۔
>جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی~صل۱~ پر ختم ہوتا ہے بدیں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبین ہیں۔ اور جن کو نبوت ملی ہے آپﷺ~ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے<۔۱۱۵
بنابریں فاضل جج کے لئے یہ نکتہ سمجھنا چنداں مشکل نہ تھا کہ جب آنحضرت~صل۱~ ہی کی مہر لگ کر سب نبیوں کو نبوت ملی ہے تو وہ شخص کیسے مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ >اللہ جل شانہ` نے آنحضرت~صل۱~ کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپﷺ~ کو افاضئہ کمال کے لئے مہروی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپﷺ~ کا نام خاتم النبین ٹھہرا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے<۔۱۱۶
فاضل جج اور >تعریف نبوت<
پھر ختم نبوت کی وضاحت کے لئے تعریف نبوت کا سمجھنا ضروری تھا فاضل جج نے اپنے محاکمہ میں تسلیم کیا کہ >موجودہ زمانہ میں بہت سے مسلمان نبی کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہیں<۔۱۱۷ نیز لکھا کہ >مدعیہ کی طرف سے بھی نبی کی کوئی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ نبوت ایک عہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے برگزیدہ بندوں کو عطا کیا جاتا رہا ہے اور نبی اور رسول میں یہ فرق بیان کیا گیا ہے کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور نبی کے لئے لازمی نہیں کہ وہ رسول بھی ہو فریق ثانی نے بحوالہ نبراس صفحہ ۸۹ بیان کیا ہے کہ رسول ایک انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ احکام شریعت کی تبلیغ کے لئے بھیجتا ہے بخلاف نبی کے کہ وہ عام ہے کتاب لائے یا نہ لائے رسول کے لئے کتاب کا لانا شرط ہے اسی طرح رسول کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ رسول وہ ہوتا ہے کہ جو صاحب کتاب ہو یا شریعت سابقہ کے بعض احکام کو منسوخ کرے<۔۱۱۸
ان تعریفوں کو تشنہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے اپنے طور پر مطالعہ شروع کیا تو انہوں نے ایک اور تعریف کا علم ہوا۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔
>یہ تعریفیں چونکہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے کافی نہ تھیں اس لئے میں اس جستجو میں رہا کہ نبی یا رسول کی کوئی ایسی تعریف مل جائے جو تصریحات قرآن کی رو سے تمام لوازم نبوت پر حاوی ہو اس سلسلہ میں مجھے مولانا محمود علی صاحب پروفیسر رندھیر کالج کی کتاب >دین و آئین< دیکھنے کا موقعہ ملا انہوں نے معترضین کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نبوت کی حقیقت یہ بیان کی کہ جس شخص کے دل میں کوئی نیک تجویز بغیر ظاہری وسائل اور نور کے پیدا ہو ایسا شخص پیغمبر کہلاتا ہے اور اس کے خیالات کو وحی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ تعریف بھی مجھے دلچسپ معلوم نہ ہوئی<۔۱۱۹
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدعیہ کی طرف سے پیش ہونے والے >مستند مشاہیر علماء ہند< اور مولانا محمود علی جیسے روشن خیال پروفیسر جب تسلی نہ کرا سکے تو فاضل جج نے آخریہ بنیادی مسئلہ >شرع شریف< کے مطابق کس طرح حل فرمایا؟ سو جواب یہ ہے کہ صرف اور صرف ادارہ طلوع اسلام کے علمبردار چوہدری غلام احمد صاحب پرویز کی تحریر سے جن کو آج برصغیر کے بہت سے مسلم علماء سرے سے مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ چنانچہ فاضل جج کا بیان ہے۔
>آخر کار ایک رسالہ میں ایک مضمون بعنوان میکانیکی اسلام از جناب چوہدری غلام احمد صاحب پرویز میری نظر سے گزرا۔ اس میں انہوں نے مذہب اسلام کے متعلق آج کل کے روشن ضمیر طبقہ کے خیالات کی ترجمانی کی ہے اور پھر خود ہی اس کے حقائق بیان کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں نبوت کی جو حقیقت انہوں نے بیان کی ہے میری رائے میں اس سے بہتر اور کوئی بیان نہیں کی جا سکتی۔ اور میرے خیال میں فریقین میں سے کسی کو اس پر انکار بھی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے میں ان کے الفاظ میں ہی اس حقیقت کو بیان کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج کل کے معقولیت پسندوں کی جماعت کے نزدیک رسول کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر اور ایک مصلح قوم ہوتا ہے جو اپنی قوم کی نکبت اور زبوں حالی سے متاثر ہو کر انہیں فلاح و بہبود کی طرف بلاتا ہے اور تھوڑے ہی دنوں میںں انکے اندر انضباط و ایثار کی روح پھونک کر زمین کے بہترین خطوں کا ان کو مالک بنا دیتا ہیں۔ الخ<۱۲۰
یہ تعریف کہاں تک لوازم نبوت پر حاوی ہے اس کی نسبت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مقصود صرف اس قدر بتانا ہے کہ دربار معلیٰ کا مقرر کردہ جج جو >شرع شریف< کی روشنی میں نبوت کا انقطاع یا تسلسل کا >فیصلہ< کرنے کے لئے قلم اٹھاتا ہے اس کا ذہن خود نبوت کی تعریف کے بارہ میں متشکک اور متذبذب ہے اور اپنی نگاہ میں جس تعریف کو >بہترین< قرار دیتا ہے نہ صرف اس کا تصریحات قرآنی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ایک طرف اس سے تمام انبیاء سیاسی لیڈروں کی صف میں کھڑے کر دیئے گئے ہیں تو دوسری طرف اس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام` حضرت یحییٰ علیہ السلام اور دوسرے بہت سے جلیل القدر پیغمبر جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنی قوم کو زمین کے بہترین خطوں کا مالک نہیں بنایا۔ اور ہمیشہ غیر ملکی حکومت کی سیاسی اعانت کرتے رہے دائرہ انبیاء سے خارج قرار پاتے ہیں۔
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کی شہادت اور اس کی حکمت
افسوس ہے کہ یہ فیصلہ ایک ایسی سرزمین میں کیا گیا جہاں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف جیسے بزرگ کامل گزرے ہیں
جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت صاف لفظوں میں فرمایا تھا کہ۔
>فرمود ندکہ ہمہ اوقات مرزا صاحب بعبادت خدا عزوجل میگذر ندیا نماز میخواند یا تلاوت قرآن میکند یا دیگر شغل اشغال مے نماید۔ و برحمایت دین اسلام چناں کمر ہمت بستہ کہ ملکہ زمان لنڈن رانیز دعوت دین محمدیﷺ~ کردہ است و بادشاہ روس و فرانس وغیر ہمارا ہم دعوت اسلام نمودہ است و ہمہ سعی و کوشش اودرایں است کہ عقیدہ تثلیث و صلیب را کہ سراسر کفر است بگذارند۔ و تبوحید خداوند تعالیٰ بگروند و علمائے وقت رابہ بینید کہ دیگر گروہ مذاہب باطلہ را گزاشتہ صرف درپے ایں چنیں نیک مردکہ اہلسنت وجماعت است و برصراط مستقم است دراہ ہدایت مے نماید افتادہ اندو بروئے حکم تکفیر مے سازند۔ کلام عربی اوبہ بینید کہ از طاقت بشریہ خارج است و تمام کلام او از معارف و حقائق و ہدایت است و از عقائد اہلسنت و جماعت و ضروریات دین ہرگز منکر نیست<۔۱۲۱
ترجمہ: حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمتہ نے فرمایا کہ )حضرت( مرزا صاحب تمام اوقات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں یا تلاوت قرآن شریف کیا کرتے ہیں یا اور شغل و اشغال کیا کرتے ہیں اور حمایت دین اسلام پر ایسے کمربستہ ہیں کہ ملکہ زمان لنڈن کو بھی دین محمدیﷺ~ کی دعوت دی ہے اور بادشاہان روس و فرانس وغیرہم کو بھی دعوت اسلام دی ہے اور ان کی تمام سعی اور کوشش اس میں ہے کہ لوگ عقیدہ تثلیث و صلیب چھوڑ کر جو کفر ہے خدا تعالیٰ کی توحید کو مان لیں اور علماء وقت کو دیکھو کہ تمام مذاہب باطلہ کے گروہ کو چھوڑ کر صرف ایسے شخص کے درپے ہو گئے ہیں جو اہل سنت و جماعت میں سے ہے اور صراط مستقیم پر قائم ہے اور راہ ہدایت دکھلاتا ہے اور اس پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں اس کا عربی کلام دیکھو کہ طاقت بشری سے بالا ہے اور اس کا تمام کلام معارف و حقائق و ہدایت سے پر ہے اور وہ عقائد اہلسنت و جماعت و ضروریات دین سے ہرگز منکر نہیں ہے۔
یہ پاک شہادت اس محترم انسان کی ہے جس کی بزرگی اور تقدس کا ایک جہان قائل و معترف ہے اور ریاست بہاولپور کا ایک بڑا حصہ اس کا معتقد و مرید ہے اور وہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بہاولپور کے پیر تھے۔ ان کی شہادت حقہ کے محفوظ رہنے میں )جیسا کہ مولانا شمس صاحبؓ نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا( اللہ تعالیٰ کی یہی حکمت تھی کہ ایک دن اس ریاست کی عدالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کفر و اسلام کا مسئلہ پیش ہونا تھا اس لئے پہلے سے خدا تعالیٰ نے اپنے فرستادہ کی تائید کے لئے یہ سامان پیدا کر دیا کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بہاولپور کے مقدس پیر کی شہادت جو ہزاروں شہادتوں سے بڑھ کر ہے ان کے سچے مسلمان ہونے پر پیش کی جا سکے۔ اور گواہوں نے جو وجہ تکفیر پیش کرنی تھی کہ وہ ضروریات دین کے منکر ہیں وہی الفاظ خدا تعالیٰ نے حضرت خواجہ صاحب کے منہ سے نکلوائے کہ وہ ضروریات دین کے ہرگز منکر نہیں ہیں۔
فاضل جج کی >شان تحقیق<
فاضل جج کی >شان تحقیق< اور >قوت فیصلہ< کی یہ حیرت انگیز مثال ہے کہ انہوں نے مدعیہ کی طرف سے حضرت خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ جیسی بلند پایہ شخصیت کے اس فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے اس سے انحراف کے لئے عذر یہ تراشا کہ >مرزا صاحب کی ایک تحریر سے جو آپ کی کتاب >انجام آتھم< صفحہ ۶۹ پر درج ہے پایا جاتا ہے کہ حضرت خواجہ صاحب بھی بعد میں مرزا صاحب کے مفکر اور مکذب ہو گئے تھے<۔۱۲۲ حالانکہ اسی >انجام آتھم< کے آخر میں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں کا مندرجہ ذیل خط بھی موجود ہے جو دعوت مباہلہ کے جواب میں انہوں نے نہایت محبت و عقیدت سے لکھا۔
من فقیر باب اللہ غلام فرید سجادہ نشین الی جناب میرزا غلام احمد صاحب قادیانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب الارباب۔ والصلوہ علی رسولہ الشفیع بیوم الحساب و علی الہ والاصحاب والسلام علیکم و علی من اجتھد و اصاب۔ اما بعد قد ارسلت الی الکتاب وبہ دعوت الی المباھلہ و طالبت باالجواب وانی ان کنت عدیم الفرصہ ولکن رایت جزء|ہ من حسن الخطاب۔ وسوق العتاب۔ اعلم یا اعزا الاحباب۔ انی من بدو حالک واقف علی مقام تعظیمک لنیل الثواب وما جرت علی لسانی کلمہ فی حقک الا با التبحیل و رعایہ الاداب۔ والان اطلع لک بانی معترف بصلاح حالک بلا ارتیاب۔ وموقن بانک من عباد اللہ الصالحین و فے سعیک المشکور مثاب۔ واوتیت الفضل من الملک الوھاب ولک ان تسئل من اللہ تعالی خیر عاقبتی وادعولکم حسن ماب۔ ولولا خوف الاطناب لا زددت فی الخطاب۔ والسلام علی من سلک سبیل الصواب۔ فقط ۲۷/ رجب ۱۳۱۴ھ۱۲۳ من مقام چاچڑاں<۔ )مہر(
ترجمہ: اس کا یہ ہے۔ تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو رب الارباب ہے اور درود اس رسول مقبولﷺ~ پر جو یوم الحساب کا شفیع ہے اور نیز اس کی آل اور اصحاب پر اور تم پر سلام اور ہر یک پر جو راہ صواب میں کوشش کرنے والا ہو اس کے بعد واضح ہو کر مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے اور اگرچہ میں عدیم الفرصت تھا۔ تاہم میں نے اس کتاب کی ایک جز کو جو حسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے۔ سوائے ہر یک حبیب سے عزیز تر! تجھے معلوم ہو کہ میں ابتداء سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو۔ اور کبھی میری زبان پر بجز تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا۔ اور اب میں مطلع کرتا ہوں کہ میں بلاشبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عند اللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا۔ اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے میرے لئے عاقبت بالخبر کی دعا کر اور میں آپ کے لئے انجام خیر و خوبی کی دعا کرتا ہوں۔ اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں زیادہ لکھتا۔ والسلام علیٰ من سلک سبیل الصواب۔ من مقام چاچڑاں۔۱۲۴
اس خط کا ذکر بھی مولانا شمس صاحبؓ کے بیان میں وضاحت سے کردیا گیا تھا بلکہ یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بہاولپور کی پھوپھی صاحبہ خان عبدالغفور خاں صاحب آف ٹوپی سے شادی شدہ ہیں وہ خود غیر احمدی ہیں مگر ان کے خاوند احمدی ہیں۔
مقدمہ بہاولپور کے حالات و واقعات پر روشنی ڈالنے کے بعد بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس مقدمہ میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور مولانا غلام احمد صاحب کے بیانات کی تیاری میں حضرت حافط سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے از حد محنت و کاوش فرمائی اور معاونت کا حق ادا کر دیا۔ اس سلسلہ میں آپ بہاولپور بھی تشریف لے گئے )جیسا کہ ذکر آچکا ہے( اسی طرح مولانا شیخ مبارک احمد صاحب` مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ اور چوہدری محمد شریف صاحب فاضل جو جامعہ احمدیہ سے نئے نئے فارع التحصیل ہوئے تھے لگاتار ایک ماہ تک بطور معاون مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کے ساتھ مصروف عمل رہے۔
جہاں تک قانونی امداد و راہ نمائی کا تعلق ہے چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء کی خدمات ہمیشہ یاد گار رہیں گی۔۱۲۵ چوہدری صاحب موصوف حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خصوصی ہدایت پر مقدمہ کی کارروائی میں آخر تک شامل رہے اور اپنے بیش قیمت مشوروں سے بہت مدد پہنچائی۔
صوفی عبدالغفور صاحب پراچہ ان دنوں ریاست بہاولپور کے پبلسٹی آفیسر تھے اور بہاولپور میں ہی مقیم تھے سلسلہ کے تمام بزرگ اور مبلغین جو مرکز سے مقدمات کی پیروی کے لئے وہاں تشریف لے جاتے تھے ہمیشہ انہیں کے ہاں قیام پذیر ہوتے اس طرح صوفی صاحب تین چار سال تک مسلسل نہایت خندہ پیشانی سے مہمان نوازی کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں انتشار اورحضرت خلیفتہ المسیحؓ کی اپیل
ایک ایسے نازک وقت میں جبکہ سیاسی حقوق اور مفاد کے لحاظ سے ہندوستان کے مسلمان امید و بیم کی کشمکش میں مبتلا تھے وسط ۱۹۳۲ء میں
یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا کہ مشہور مسلمان لیڈر مولانا شفیع صاحب دائودی نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کی سیکرٹری شپ سے کسی بناء پر استعفیٰ دے دیا اور مسلمانان ہند کی اس واحد سیاسی نمائندہ جماعت میں زبردست اختلاف رونما ہو گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس نازک موقعہ پر مولانا محمد شفیع صاحب دائودی کو تو یہ مشورہ دیا کہ وہ استعفیٰ واپس لے لیں۔ اور مسلمان لیڈروں سے اپیل کی کہ وہ کوئی نئی پارٹی بنانے سے احتراز کریں۔
حضورؓ کے اس بیان کا مکمل متن حسب ذیل ہے۔
>مسلم کیمپ میں پھوٹ پڑ جانا نہایت درجہ افسوسناک ہے اور مسلم مفاد کے لئے بے حد ضرر رساں ہے میری رائے میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا مجوزہ جلسہ جو ۳/ جولائی کو منقعد ہونے والا تھا اس کو ملتوی کر دینے کی ضرورت نہ تھی۔ بہتر ہوتا کہ جلسہ کر لیا جاتا۔ اور اس میں طے شدہ مسلم پروگرام کے متعلق التواء کا فیصلہ کیا جاتا۔ اگر اکثریت اس کے حق میں ہوتی تو جلسہ ملتوی کر دیا جاتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ صدر نے التوا کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ آپ نے صرف اس خواہش کا اظہار کیا لہذا کوئی وجہ نہ تھی کہ مولانا شفیع دائودی استعفیٰ دے دیتے۔ مسلمانوں کے لئے بے حد نازک موقعہ ہے لہذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ بجائے اس کہ کوئی نئی پارٹی بنا کر مسلم مفاد کو نقصان پہنچایا جائے۔ متحد ہو کر کام کریں۔ میں مولانا محمد شفیع دائودی سے مخلصانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لے لیں۔ اور اگر وہ بورڈ کا جلسہ منعقد کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے دلائل کانفرنس میں پیش کریں۔ اس صورت میں انہیں اختیار دیا جائے لیکن اس سے باہر کام کرنا درست نہیں۔ میرا خیال ہے کہ مسلمان اپنے جمود کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اگر ہمارے مسلم نوجوان دیکھیں گے کہ ہمارے لیڈر معمولی معمولی بات پر آپس میں جھگڑ رہے ہیں تو وہ باغی ہو جائیں گے اور ناتجربہ کار نوجوان کانگریس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور مسلم مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور مسلم رہنما بندوں اور خدا کے سامنے ذمہ دار ہوں گے۔ نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اور قبل اس کے کہ معاملہ بڑھے اس کا انسداد لازمی ہے<۔۱۲۶
اس جگہ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس دور میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے علاوہ آل انڈیا مسلم لیگ` آل انڈیا مسلم یوتھ لیگ اور دوسری تمام مسلمہ سیاسی انجمنوں سے جماعت احمدیہ کے روابط تھے اور ان کے اجلاس میں جماعت کا کوئی نہ کوئی مرکزی نمائندہ ضرور شامل ہوتا تھا۔۱۲۷
آل سکھ پارٹیز کانفرنس کی قرارداد اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اہم بیان]0 [rtf
ان دنوں ہندوئوں نے پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے لے لئے سکھوں کو اپنا آلہ کار بنا رکھا تھا۔ اور ہندو پریس سکھوں
کی تعریفیں کرکے ان کو مسلمانوں کے خلاف فتنہ انگیزی کے لئے مسلسل اکسا رہا تھا اسی کا اثر تھا کہ ۲۴/ جولائی ۱۹۳۲ء کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھ پر سکھوں کی ایک کانفرنس آئندہ دستور اساسی میں سکھوں کی پوزیشن واضح کرنے کے لئے منعقد ہوئی جس میں یہ ریزولیوشن پاس کیا گیا کہ پنجاب میں مسلمانوں کو فرقہ وارانہ آئینی اکثریت نہ دی جائے اور یہ کہ پنجاب کونسل میں سکھوں کو ۳۰ فیصدی نشستیں دی جائیں۔ اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ کہا گیا کہ سکھ اس فیصلے کے خلاف کوئی بات منظور نہ کریں گے نیز ایک کمیٹی بنائی گئی جو سکھوں کے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے خلاف اقدام کرے۔۱۲۸
اس نازک موقعہ جب کہ سکھوں کی اس قرارداد نے ملکی فضا بہت مکدر کر دی تھی اور مسلمانوں کے قومی مطالبات کو نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مسلمانوں کو سکھوں کے چیلنج کا جواب دینے کے لئے ایک پنجاب مسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کی۔ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا۔
>میں آل پارٹیز سکھ کانفرنس کی قرارداد کے لب و لہجہ پر سخت حیران ہوں۔ میں نے سکھوں اور مسلمانوں کے اتحاد کی ہمیشہ تلقین کی ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ بحالات موجودہ کوئی مسلمان بھی سکھوں کے چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کرے گا۔ میں سکھ راہنمائوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی پوزیشن پر اچھی طرح سے غور کر لیں۔ میرا خیال ہے کہ مرکز میں مسلمانوں کی پوزیشن پنجاب میں سکھوں اور ہندوئوں کے مقابلہ میں بدرجہا بدتر ہے۔ انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دھمکیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس قسم کی دھمکیاں ہر پارٹی کی طرف سے باسانی دی جا سکتی ہیں۔
میں اس موقع پر یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ایک پنجاب مسلم کانفرنس منعقد کی جائے جس میں تمام اضلاع اور تمام طبقات کے سیاسی و مذہبی نمائندے شامل ہوں اور پھر موجودہ حالات پر غور کرنے کے بعد اپنے آخری اور قطعی فیصلے کو حکومت تک پہنچا دیا جائے تاکہ اسلامی مطالبات ہماری خاموشی کے باعث حکومت کی تغافل کی نذر نہ ہو جائیں۔ دنیا کو یہ معلوم ہو جانا چاہئے کہ مسلمان کسی طبقہ کی دھمکی سے مرعوب ہونے کے لئے ہرگز ہرگز تیار نہیں<۔۱۲۹
tav.7.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل سوم(
ہندوستان کا سیاسی فتنہ اور حضرت امام جماعت احمدیہ کی راہنمائی
آل انڈیا نیشنل کانگریس نے )مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچانے اور انگریزی حکومت کے بعد تنہا اقتدار سنبھالنے کی غرض سے( ۱۹۳۰ء میں
body2] ga[tسول نافرمانی کا جو پروگرام جاری کر رکھا تھا۔۱۳۰ اس نے ۱۹۳۲ء میں خطرناک صورت اختیار کر لی اور شورش` بدامنی` انارکزم اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔ جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے قیام امن کے لئے متواتر خطبے دیئے اور جماعت احمدیہ کو مسلمانان ہند کے قومی حقوق کی حفاظت و حصول میں ہر ممکن قربانی پیش کرنے کی ہدایت فرمائی چنانچہ حضورؓ نے ارشاد فرمایا۔
>اس وقت یہاں بہت سے فتنے ہیں ایک تو مسلمانوں کی حق تلفی کا سوال ہے اور دوسرے حکومت کے خلاف شورش۔ اس حکومت کو خواہ غاصبانہ ظالمانہ یا غیر ملکی کہہ لو۔ لیکن بہرحال ملک کا انتظام اس کے ہاتھ میں ہے اسے ایسے طور پر تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے ملک کے اخلاق بگڑ جائیں اور عام بدامنی شروع ہو جائے اور یہ ایسی باتیں ہیں۔ جن سے ملک کا کوئی حقیقی خیر خواہ آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔
ان دونوں فتنوں کا مسلمانوں کو ہوشیاری سے مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔ ملک میں قیام امن خدا تعالیٰ کا حکم ہے پس اگر انگریز خود امن نہ بھی قائم کریں۔ جب بھی ہمیں چاہئے کہ اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر بھی اسے قائم کریں۔ اور یہ انگریز کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے لئے اور اپنی اولادوں کو بداخلاقی سے بچانے کے لئے ہے اگر کسی وجہ سے ہم اس فرض سے دستکش ہو جائیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نادانی کی وجہ سے ہم اپنی اولادوں کو بگاڑتے ہیں۔ اور اس میں انگریز کا نہیں ہمارا اپنا نقصان ہے ۔۔۔۔۔۔ جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے ناجائز ذرائع اختیار کرنا کسی صورت میں بھی مناسب نہیں۔ جو قوم جائز ذرائع سے جدوجہد کرتی ہے اور صداقت کے ساتھ اپنے مطالبات منوانا چاہتی ہے ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی اسے محروم نہیں رکھ سکتیں جو حکومت رعایا کے بیدار جذبات کا لحاظ نہیں کرتی اور اسے خوش رکھنے کی کوشش نہیں کرتی وہ خود بخود تباہ ہو جائے گی اس لئے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں پکٹنگ اور سول نافرمانی وغیرہ تحریکات کا پورے زور کے ساتھ مقابلہ کرو ۔۔۔۔۔ کسی سے مت ڈرو یاد رکھو کہ جو انسان سے ڈرتا ہے وہ مشرک ہے ۔۔۔۔۔ پس یاد رکھو جس دن تک تم انگریز۔ کانگریس یا دوسرے مخالفین سے خواہ کس قدر زبردست کیوں نہ ہوں ڈرتے رہو گے اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے۔ بلکہ مشرک رہو گے اور تمہارا ٹھکانہ جنت نہیں جہنم میں ہو گا لیکن جس دن تمہارے دلوں سے فوج` پولیس` مالدار لوگوں اور دوسرے فتنہ انگریز مفسد طبقات کا ڈر اور خوف نکل گیا اور جس دن تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کی خوش نصیبی اور موت کو راحت کا پیغام سمجھنے لگے اور نفس کی حفاظت صرف حکم الٰہی کی تعمیل میں کرنے لگ گئے اس دن اور صرف اس دن تم ایمان کے رستہ پر چلنے والے ہو گے<۔
>اس کے علاوہ مسلمانوں کے حقوق کے حصول کا سوال ہے۔ جہاں ہمارا یہ فرض ہے کہ قیام امن کے لئے حکومت کو مدد دیں ۔۔۔۔۔۔ وہاں یہ بھی فرض ہے کہ مسلمانوں کی بھی خدمت کریں جو اس وقت ذلیل ہو رہے ہیں اور حصول حقوق کے لئے ہر قربانی کرنے پر آمادہ ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے فتنہ کو دور کرنے کے لئے راستے رکھے ہیں اور ایسے راستے موجود ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ظالم سے ظالم انسان سے بھی اپنا حق انسان لے سکے بعض قانون ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ انہیں نہ ماناجائے مثلاً کوئی حکومت اگر یہ کہے کہ نماز نہ پڑھو تو ہم ہرگز تسلیم نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔ مکہ والے رسول کریم~صل۱~ کو عبادت الٰہی سے روکتے تھے۔ اور اگرچہ آپﷺ~ ان کا مقابلہ نہ کرتے لیکن نمازیں برابر پڑھتے تھے اسی طرح تبلیغ ہے اگر حکومت اس سے روکے تو اگرچہ اس کے مقابل پر ہم تلوار نہیں اٹھائیں گے لیکن تبلیغ ضرور کرتے رہیں گے اور ایسے احکام اگر انگریزی حکومت دے تو ہم ضرور اس کی نافرمانی کریں گے لیکن یہاں کوئی ایسا قانون نہیں کہ سول نافرمانی کو جائز سمجھا جا سکے ۔۔۔۔۔۔ ہندوستان کے لئے حقوق طلبی میں ہم کسی سے پیچھے نہیں اگر جائز طور پر حکومت کا مقابلہ کیا جائے تو ہم گاندھی جی کے دوش بدوش کام کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن ناجائز طریق اگر ہمارا بھائی بھی اختیار کرے تو ہم اسے صاف کہہ دیں گے کہ تم بے شک ہمارے بھائی ہو لیکن اس معاملہ میں ہم تمہارا ساتھ نہیں دے سکتے۔ پس اس امتیاز کو سمجھو اور دونوں فتنوں کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرو ۔۔۔۔۔۔ جس جس رنگ میں کوئی ملک و قوم کی خدمت کر سکے ضرور کرے مثلاً سرکاری ملازم جلسوں وغیرہ میں شامل نہیں ہوسکتے ان کے لئے خدمت کا یہی طریق ہے کہ وہ حکومت کے ذمہ دار ارکان کے سامنے صحیح واقعات رکھ دیا کریں۔ خواہ وہ حالات حکومت کے خلاف ہوں یا پبلک کے۔ میں نے دیکھا ہے پولیس والے جھوٹی رپورٹیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ حکومت سے دشمنی ہے چاہئے کہ جو صحیح بات ہو پیش کر دی جائے۔ اس سے کوئی حاکم ناراض نہیں ہو سکتا بلکہ انصاف والا افسر تو اس کی قدر کرے گا۔ باقی لوگ جو ملازم نہیں وہ جائز حقوق کے حصول کے لئے کوشش کریں۔ لیکن ساتھ ہی کانگریس اور انارکسٹوں کا مقابلہ بھی بغیر کسی ڈر اور لالچ کے کریں اور مسلمانوں کے حقوق حاصل ہونے کے لئے جو خدمت ان سے ہو سکے کرتے رہیں لیکن اس قدر احتیاط ضرور کی جائے کہ جس کام میں ہم شریک ہوں بہ حیثیت جماعت ہوں انفرادی طور پر نہیں اور مالی امداد بھی اسی طرح دی جائے<۔۱۳۱
اس ضمن میں حضورؓ نے احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف بھی توجہ دلائی کہ:
>ایک طرف میں کانگریس کو دیکھتا ہوں کہ اس کے اصول اتنے خطرناک اور فساد پیدا کرنے والے ہیں کہ اگر ہم انہیں مان لیں تو بجائے دنیا میں امن قائم ہونے کے فتنہ و فساد پھیل جائے دوسری طرف میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو گورنمنٹ کے خیر خواہ کہلاتے ہیں کہ وہ حد درجہ کے لالچی دنیا دار خود غرض اور قوم فروش ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ میں کسی قوم کے تمام افراد کو ایسا نہیں سمجھتا۔ اس کے مقابلہ میں کانگریس کے ایک طبقہ کو دیکھتا ہوں کہ اس میں ایثار قربانی اور سچا اخلاص پایا جاتا ہے۔ بے شک کانگریسیوں کے اصول سے مجھے اختلاف ہے لیکن اگر میرے سامنے ذاتی دوستی کا سوال ہو تو میں ایک کانگریسی کو گورنمنٹ کے خوشمادی پر ترجیح دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طرف ہمارے اندر ایسا ایثار قربانی اور ملکی محبت کا مادہ ہونا چاہئے جو کانگریسیوں سے بھی بڑھ کر ہو اور دوسری طرف ہمارے اصول وفاداری ایسے پختہ بنیادوں پر قائم ہوں کہ وہ ہر قسم کے خوشامدی لوگوں کے اصول سے بلند ہوں۔ ہمیں گورنمنٹ کے ان خوشامدیوں سے شدید نفرت ہونی چاہئے اور ہمیں کانگریس کے اصول سے بھی شدید نفرت ہونی چاہئے ہمارا معیار اس قدر بلند ہونا چاہئے۔ کہ ہم کسی خدمت کے بدلہ کسی معاوضہ کے طلبگار نہ ہوں اور اپنے ملک کو بدامنی سے بچانے کے لئے کانگرسیوں سے بڑھ کر ایثار اور قربانی سے کام کریں<۔
>میں اگر کانگریسیوں کے مقابلہ کے لئے کہتا ہوں تو کانگریسی اصول کے لحاظ سے ورنہ دوستی کے لحاظ سے میں انہیں بہت بہتر سمجھتا ہوں اور ان کی ذات سے دشمنی رکھنا غلطی سمجھتا ہوں۔ نہ انگریز ہمارے سگے بھائی ہیں۔ نہ کانگریسی سوتیلے بھائی۔ دونوں ہمارے بھائی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے دل میں ہر قوم کے اچھے لوگوں کی عزت ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو یا انگریز۔ ہاں جو لوگ غلط طریق اختیار کریں۔ ہم ایسے لوگوں کے اس طریق کو برا کہیں گے۔ پس ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ ہم پیار محبت اور استقلال کے ساتھ ان خلاف آئین تحریکوں کا مقابلہ کریں۔ میں اپنی جماعت کے تمام افراد کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاں کہیں ہوں انارکسٹوں کی تحریک کی نگرانی رکھیں اور یہ کبھی خیال نہ کریں کہ اس کے بدلہ میں گورنمنٹ سے انہیں کیا ملے گا۔ میں تو جب کسی کے منہ سے ایسی بات سنتا ہوں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری کمر ٹوٹ گئی دراصل یہ ہمارا اپنا کام ہے گورنمنٹ نے ملک سے فتنہ و فساد کو روکنے کے ذمہ داری خود اپنے اوپر لی ہے اور ہم پر فتنہ و فساد کے روکنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے<۔۱۳۲
صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کا سفر بنگال
دہشت پسندوں اور انارکسٹوں کا ایک بہت بڑا اور مضبوط مرکز بنگال تھا۔ لہذا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بنگالی مسلمانوں کو اس خوفناک تحریک سے الگ رکھنے اور انہیں سیاست اسلامیہ کے قومی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے دسمبر ۱۹۳۲ء میں صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کو بھجوایا۔ صوفی صاحب نے حضور کی ہدایات کے ماتحت اگست ۱۹۳۳ء تک کام کیا۔ آپ کے مشن میں بعض خاص امور یہ تھے۔
۱۔
بنگالی مسلمانوں کو اردو کے ساتھ مانوس کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اہل بنگال کو اردو کے مقابل بنگالی زبان سے تعصب کی حد تک پہنچی ہوئی غالیانہ محبت تھی جس کی تلخی اور شدت کو کم کرنا حضور کی دانست میں اس خطے کے مسلمانوں کے سیاسی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری اور لازمی تھا۔۱۳۳
۲۔
مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور شعور پیدا کیا جائے۔ مسلمان ملازمین کی حق تلفی کا ازالہ کیا جائے اور مسلمانوں کو خاص ملازمتیں دلوانے میں مدد دی جائے۔
۳۔
ان تمام تحریکوں کا مقابلہ جو ملکی امن برباد کرنے والی ہوں جس کی بعض صورتیں یہ ہوسکتی تھیں۔
)الف(
قیام امن کے لئے ان لوگوں سے کام لیا جائے جن کا ابتداء ہی سے حکومت سے کوئی علاقہ نہیں۔
)ب(
ایک مسلم کور کی تشکیل کی جائے جس کا کام فوجی ٹریننگ` میلوں اور جلسوں اور کھیلوں کا انتظام ہو۔ اسی طرح بچوں کی بازیابی اور آگ بجھانے کی خدمت بھی اس کے سپرد ہو۔ کور کے ہر ممبر کو کوئی پیشہ سکھانے کی کوشش کی جائے اور شادی بیاہ` میلہ` ولادت اور عید الاضحیہ اور تنخواہ کی ترقی کے مواقع پر فنڈ جمع کیا جایا کرے۔
)ج(
انارکزم کا مقابلہ کرنے والوں کو ابھارا جائے۔
)د(
معین انارکسٹوں کے دوستوں میں سے ممبروں کی تلاش کی جائے۔
)ھ(
سکول کے امتحانوں کے پرچے دیکھے جائیں کہ آیا استاد لیاقت پر نمبر دیتے ہیں یا باغیانہ خیالات کی بناء پر۔
)و(
دیکھا جائے کہ کون کون سے استادوں کے گھروں پر طالب علم جاتے ہیں وہ استاد اکثر باغیانہ خیالات کے محرک ہوں گے۔
)ز(
انارکسٹوں یا ان کے مداحوں کے خیالات کو بحث مباحثہ کے ذریعہ سے معلوم کرکے ان کے اعتراضوں اور ان کی دلیلوں کو جمع کیا جائے تاکہ ان کا رد پمفلٹوں یا لیکچروں کے ذریعہ سے کیا جائے۔
)ح(
مذہب کی طرف توجہ دلا کر بھی اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
۴۔
چٹاگانگ میں زیادہ سے زیادہ مسلمان عہدیداروں کو جمع کرنا۔
۵۔
مندرجہ بالا کام پہلے ایک ضلع میں شروع کیا جائے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اس تفصیلی سکیم کے پیچھے کیا روح کار فرما تھی اس کا اندازہ حضور کے ایک مکتوب )مورخہ ۱۳/ جولائی ۱۹۳۳ء( سے باسانی لگ سکتا ہے جو حضور نے صوفی صاحب کو ان کی مفصل رپورٹوں پر تحریر کیا تھا فرمایا۔
>کام کے متعلق میری یہ ہدایت تھی کہ آپ بڑے آدمیوں کو چھوڑ دیں ان سے صرف اتنا تعلق رکھیں کہ وہ آپ کے کام میں روک نہ بنیں لیکن آپ کی رپورٹوں سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ہر جگہ پر آپ مسلمان لیڈروں سے زیادہ ملتے اور ان کی امداد کے خواہش مند رہتے ہیں مگر ہر جگہ پر آپ کے تجربے سے ہی ثابت ہوا کہ مسلمان لیڈر بالکل مردہ ہیں ان میں زندگی کی روح باقی نہیں اور احمدیت سے ان کو اس حد تک تعصب ہے کہ وہ بنگالی مسلمانوں کی تباہی کو خوشی سے برداشت کرنے کو تیار ہیں لیکن اس امر کے لئے تیار نہیں کہ احمدی ان کی مدد کریں یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اگر بنگال کے مسلمان جلد بیدار نہ ہوئے تو ان کی حالت ریاستی مسلمانوں سے بھی بدتر ہو جائے گی۔ جب اتنی بڑی قیامت مسلمانوں کے سامنے نظر آتی ہے تو ہم صرف لیڈروں کا منہ تکتے ہوئے خاموش بیٹھے نہیں رہ سکتے<۔
احمدیہ کور
ہندوستان میں حالات جس سرعت سے تغیر پذیر ہو رہے تھے ان کا تقاضا تھا کہ مسلمانوں کی بہبود` خدمت خلق اور احمدی نوجوانوں میں تنظیمی روح پھونکنے کے لئے ہر قسم کے آئینی ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے کوئی موثر نظام عمل تجویز کریں تا بدلے ہوئے حالات میں ملک و قوم کی بہتر خدمت کر سکیں۔ اس اہم قومی ضرورت کے ماتحت پیر اکبر علی صاحبؓ نے مشاورت ۱۹۳۲ء )منعقدہ ۲۵ تا ۲۷/ مارچ( میں یہ تجویز پیش کی کہ ایک احمدیہ والنٹیر کور بنائی جائے۔ اور کوشش کی جائے کہ احمدی نوجوان اس کور میں داخل ہوں اس تحریک کو کلی طور پر منظم کیا جائے اور جلسوں کے انتظام اور دیگر رفاہ عام کے کاموں میں ان سے مدد لی جایا کرے اس کور کا فائدہ یہ ہو گا کہ بچوں میں فوجی سپرٹ پیدا ہونی شروع ہو جائے گی۔ جلسوں اور رفاہ عام کے کاموں میں تنظیم سے نوجوان کام کریں گے۔ اور اس سے بہت فائدہ ہو گا۔۱۳۴
نمائندگان جماعت کی بحث و تمحیص اور استصواب رائے کے بعد حضورؓ نے احمدیہ کور بنانے کی اجازت دے دی اور اس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے مندرجہ ذیل الفاظ میں فیصلہ صادر فرمایا۔
>میں اس تجویز کو اتفاق رائے کے مطابق منظور کرتا ہوا بعض خیالات ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس تجویز کو ہم دو نقطہ نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں ایک وقتی اور سیاسی حالات کے ماتحت اور یہ بہت محدود نقطہ نگاہ ہے کیونکہ وقتی اور سیاسی حالات بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن جب یہ حالات پیدا ہوں۔ تو ان کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ ایسے حالات ہیں جن کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ مستقل تربیت کی ضرورت ہے جس سے کبھی کوئی جماعت مستغنی نہیں ہو سکتی نیک خاندانوں میں شریر اور شریر خاندانوں میں نیک لوگ پیدا ہو جاتے ہیں نوجوانوں کو خطرہ میں پڑنے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی صحیح طور پر تربیت کی جائے۔ مگر اس میں دقت یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں جوش ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی تربیت کریں ان کے سامنے نہ لڑکے ہوتے ہیں اور نہ لڑکوں کے جرائم۔ نہ لڑکوں کی نیکیاں ہوتی ہیں اور نہ ان کی غلطیاں۔ ایک جماعت کا مقامی امیر اپنی جماعت کے لڑکوں کی تربیت کرسکتا ہے مگر لڑکوں کی برائیاں اور نقائص اس کے سامنے نہیں آتے۔ اگر ہر جگہ والنٹیر کور بنالیں )اور یہ کام ایک ماہ یا ایک سال میں نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے ایک لمبے عرصہ اور مسلسل کوشش کی ضرورت ہے( تو اس سے یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں جماعت کی تربیت کی طرف نگاہ رکھنے والے آدمیوں کے سامنے سارے نوجوان آجایا کریں گے اور وہ ان کو نصائح کر سکیں گے۔ مذہبی اور اخلاقی وعظ کیا جا سکے گا۔ گویا اس طرح تربیت اور نصائح کرنے کے مواقع زیادہ ملنے لگ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے کے ذریعہ نگرانی بھی کرائی جا سکے گی۔ جب کسی لڑکے کے متعلق شکایت ہو کہ اس میں یہ نقص ہے تو کور کے افسر کے ذریعہ اس کی اصلاح آسانی سے کرائی جا سکتی ہے کیونکہ وہ اپنے ماتحت لڑکے کی نگرانی کر سکتا ہے اور دوسرے لڑکوں کے ذریعہ نگرانی کرا سکتا ہے۔ عام طور پر یہ نگرانی اس لئے نہیں کی جا سکتی کہ اپنے طور پر جب ایک لڑکا دوسرے لڑکے کو دوست بنائے گا تو اپنے ہی رنگ کے لڑکے کو بنائے گا۔ یعنی بدمعاش لڑکا بدمعاش کو ہی دوست بنائے گا لیکن کور میں اس کے اختیار میں نہ ہو گا کہ جس سے چاہے دوستی کرے۔ بلکہ کور کا افسر جسے چاہے گا۔ اس کا ساتھی مقرر کر دے گا اور اس طرح آوارہ لڑکوں کو شریف لڑکوں کے سپرد کرکے ان کی نگرانی اور اصلاح کرائی جا سکتی ہے پھر لڑکوں میں آوارگی کی وجہ سے بے کاری اور کوئی شغل نہ ہونا بھی ہوتی ہے لیکن کوریں بنا کر جب انہیں ایک کام میں مشغول کر دیا جائے گا۔ تو وہ آوارگی سے بچ جائیں گے اور اچھے کاموں میں انہیں لگا کر ان کے اوقات کو مفید بنایا جا سکتا ہے اور جب وہ نیکی کا کام کریں گے تو ان کے دل میں امنگ اور خوشی پیدا ہو گی۔ نیکی کے کاموں کی طرف توجہ ہو گی۔ ان کے کرنے میں فخر اور خوشی کی روح پیدا ہو جائے گی۔ اس طرح دینی کاموں میں بھی ان سے مدد لی جا سکتی ہے اور ان کی حیثیت کے مطابق ان کو قومی کاموں میں حصہ لینے کا موقعہ دے کر ان میں قومی کام کرنے کی روح پیدا کی جا سکتی ہے جس کا اثر ان کی آئندہ زندگی پر پڑے گا۔ روحانیت ہر شخص کو ہی خود بخود حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ بہت لوگوں کو تربیت کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے۔ دماغ میں شیطانی اور روحانی جنگ جاری رہتی ہے آخر میں جس کا غلبہ ہوجائے انسان ویسا ہی بن جاتا ہے لیکن ایک حصہ تربیت کے متعلق ہے اس کے ذریعہ انسان شیطانی غلبہ سے بچ سکتا ہے۔
پھر عارضی ضرورتوں کی وجہ سے بھی اس قسم کے انتظام کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں یہ احساس پیدا کیا جارہا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ یہ روح نہایت گندی ہے مگر پیدا ہو گئی ہے۔ میں گزشتہ سال جب سیالکوٹ گیا تو وہاں ایک جلسہ میں ہم پر پتھر برسائے گئے اور سوا گھنٹہ تک برسائے گئے۔ ہماری جماعت نے ان پتھروں کا کامیاب مقابلہ کیا۔ تاہم معلوم ہوا کہ ابھی اور زیادہ تربیت کی ضرورت ہے اگر مکمل تربیت ہو تو ہماری جماعت کے لوگ زیادہ عمدگی سے کام کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں چونکہ مخالف اس طرح بھی ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے اس لئے ایسے انتظام کی ضرورت ہے اور ہم خدا کے فضل سے ایسے منظم والنٹیر کور بنا سکتے ہیں کہ ہم سے سو سو گنی تعداد رکھنے والے لوگ بھی ویسے نہیں بنا سکتے۔ پس ہمیں اس قسم کا انتظام کرنا چاہئے۔ اور یہی ضروری نہیں کہ اپنے جلسوں کا ہی انتظام کیا جائے بلکہ ایک آریہ بھی اگر تقریر کررہا ہو اور کوئی اس میں دخل انداز ہو تو کور کے والنٹیر کا فرض ہو گا کہ اسے روکیں<۔۱۳۵
یہ تھے وہ اہم اغراض و مقاصد جن کے پیش نظر احمدیہ کور کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے کور کی سرپرستی منظور کر لی اور اس کا ناظم و افسر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کو مقرر فرمایا۔ اور اس کے نوجوانوں کا نام >عباداللہ< تجویز کیا گیا۔ صدر انجمن احمدیہ نے فیصلہ کیا کہ انجمن کے تمام کارکن والنٹیر کور کے ممبر ہوں گے۔ اور مہینہ میں کم از کم ایک دن اپنے فرائض منصبی کور کی وردی میں ادا کریں گے۔ ایسے کارکن جن کی عمر ۳۵ سال سے زائد ہو انہیں اجازت دی گئی۔ کہ وہ تمام پریڈوں میں شامل نہ ہوں بلکہ صرف ہفتہ میں معائنہ سامان کی پریڈ میں شامل ہوا کریں۔ بیرونی جماعتوں کے امراء اور پریذیڈنٹوں کو بحیثیت عہدہ مقامی کور کا افسر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ اور سیکرٹری اور دیگر عہدیدار بلالحاط عمر کور کے ممبر قرار پائے۔۱۳۶
۳/ جولائی ۱۹۳۲ء کو احمدیہ کور اور اس کی پہلی ٹریننگ کلاس کے انعقاد کی نسبت مشاورتی کمیٹی ہوئی جس میں درج ذیل فیصلے ہوئے۔
قادیان کے مدارس کے طلباء کی نسبت قرار پایا کہ کلاس میں شامل ہونے والوں کو تمام ریکروٹی کورس ختم کرایا جائے۔ نیز کوشش کی جائے کہ رائفل کلب کا لائسنس مل جائے تو چاند ماری بھی سکھائی جا سکے۔
ہیئت نظام: بیرونی جماعتوں میں احمدیہ کور کے قیام کے متعلق مندرجہ ذیل باتوں کا فیصلہ ہوا۔
۱۔
احمدیہ کور کا دستہ (SECTION) سات آدمیوں کا ہو گا۔ ایک سربراہ دستہ اور چھ والنٹیر۔
۲۔
چار دستوں کو ملا کر ایک پلاٹون یا گروپ بنایا جائے اور پھر چار پلاٹون ملا کر ایک کمپنی ہو گی۔
۳۔
چونکہ ہماری جماعت کے افراد تھوڑی تھوڑی تعداد میں مختلف مقامات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور کسی ایک جگہ شاید ہی کمپنی بن سکے۔ اس لئے فیصلہ ہوا کہ حسب تعداد جماعت دستے یا پلاٹون اور کمپنیاں قائم کی جائیں اور پھر قریب قریب کے دستوں اور پلاٹونوں کو ملا کر کمپنیاں بنا دی جائیں۔
ٹریننگ: کور کے والنٹیئر کی سکھلائی کے متعلق حسب ذیل تجویز ہوئی۔
)۱( مارچ اور ڈبل مارچ افسر کی نگرانی کے ماتحت ہفتہ میں ایک بار )۲( لاٹھی فائٹنگ اور گتکا ہفتہ میں دو دفعہ )۳( معائنہ سامان اور پی۔ ٹی ہفتہ میں ایک دفعہ )۴( باقاعدہ فوجی نظام کے طرز پر پہرا مہینہ میں ایک دفعہ )۵( اپنی پلٹون میں مل کر کام کرنا مہینہ میں ایک دفعہ )۶( کمپنی میں کام کرنا سال میں ایک دفعہ )۷( تمام کور کی ریلی سال میں ایک دفعہ۔
والنٹیرز کو تحریک کی جائے کہ وہ غلیل )اور اگر اجازت ہو تو تیر کمان اور تلوار بھی( رکھیں۔ یہ صرف تحریک ہو گی لازمی امر نہ ہو گا۔
سامان: )۱( ایک سوٹی پانچ فٹ ۱۷ انچ لمبی )۲( رسی ۳/۱ انچ موٹی ۱۵ فٹ لمبی )۳( سکائوٹ چاقو )۴( قرآن شریف )۵( کشتی نوح۔
وردی: )۱( پولیس ٹائپ جوتی یا بوٹ )۲( جراب )۳( نکر خاکی )۴( قمیض خاکی )۵( پگڑی خاکی۔ قمیض نصف آستین کی ہو گی جس کا کالر سبز ہو گا۔ نیز آستین کا کنارہ سبز۔ آنے والے اصحاب یہ وردی خود بنوا کر نہ لائیں بلکہ یہاں بنوائی جائے گی۔ تاکہ ایک طرز کی بن سکے اور پھر احباب اپنے اپنے مقامات پر جاکر اس کے مطابق بنوائیں۔
عہد: والنٹیر کور کے لئے یہ اقرار ہو گا >میں خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اقرار کرتا ہوں کہ )۱( جو فرائض خدا اس کے رسول اور خلیفہ وقت کی طرف سے مجھ پر عاید ہیں۔ میں تابمقدور انہیں سر انجام دینے کی کوشش کروں گا۔ )۲( ملک میں نہ صرف خود امن سے رہوں گا بلکہ حتی الوسع دوسروں کو بھی اس کی تحریک کروں گا اور بغاوت و بدامنی کا ہمیشہ مقابلہ کروں گا۔ )۳( باہمی مقدمات تنازعات اور فسادات سے ہمیشہ اجتناب کروں گا۔ )۴( مسلمانوں سے خصوصاً اور دیگر بنی نوع انسان سے عموماً ہمدردی کروں گا۔ )۵( احمدیہ والنٹیر کور کے قواعد و ضوابط کی ہمیشہ پابندی کروں گا<۔۱۳۷
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی نگرانی میں یکم ستمبر ۱۹۳۲ء کو صبح سات بجے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی گرائونڈ میں احمدیہ کور ٹریننگ کلاس کا آغاز ہوا۔ جس میں بہت سے مقامی نوجوانوں کے علاوہ بیرونی جماعتوں سے بھی تیس کے قریب نوجوان شریک ہوئے۔۱۳۸ یہ کلاس ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء کو ختم ہوئی۔۱۳۹ یکم اکتوبر کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ڈلہوزی سے تشریف لائے تو کور نے حضور کا فوجی طریق پر شاندار استقبال کیا۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی خصوصی توجہ کی بدولت ٹریننگ کا یہ پہلا عملی مظاہرہ اس قدر عمدہ اور خوش کن تھا کہ کور کا کام دیکھ کر خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ ایک ماہ کی سکھلائی کا نتیجہ ہے۔ احمدیہ کور کے نوجوان اس وقت خوشنما وردیوں میں ملبوس اپنا سبز رنگ کے کپڑے کا خاص جھنڈا لئے ہوئے تھے۔ جھنڈے کے درمیان منارۃ المسیح دائیں طرف اللہ اکبر اور بائیں طرف عباداللہ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے جو والنٹیر کا اصل نام تھا۔۱۴۰ ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ قواعد سے متعلق تمام احکام انگریزی کی بجائے اردو میں دیئے جاتے تھے۔ انگریزی کے فوجی الفاظ کا اردو جامہ پہنانے کا کام بھی حضرت صاحبزادہ صاحبؓ ہی نے سرانجام دیا۔۱۴۱ اور >احمدیہ کور< کے نام سے اردو احکام کا ایک کتابچہ بھی بعد کو شائع فرما دیا۔
احمدیہ کور کے تنظیمی اصول و مقاصد یعنی قیام امن` مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت اور بنی نوع انسان کی عمومی فلاح و بہبود وغیرہ بالکل واضح تھے۔ مگر ہندو پریس نے اسے ایک خفیہ انقلابی تحریک سے تعبیر کیا۔ چنانچہ اخبار >ملاپ< )لاہور( نے ۱۰/ جون ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں لکھا۔
>گورنمنٹ کو بھی اور عوام کو بھی احمدیوں کی فوج کی طرف ضرور متوجہ ہونا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ یہ فوجی تیاریاں بظاہر چاہے کچھ کہیں لیکن اپنے اندر اصلی غرض و غایت کیا رکھتی ہیں<۔۱۴۲
ہندوئوں کے اس پروپیگنڈا کو مجلس احرار اسلام نے خوب ہوا دی۔ اور اسے حکومت کو جماعت احمدیہ کے خلاف ابھارنے کے لئے ایک کامیاب حربہ کے طور پر استعمال کیا۔
اچھوت اقوام کی حفاظت کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اپیل
گاندھی جی نے برودہ جیل سے سرسیموئیل ہور وزیرہند کے نام ۱۱/ مارچ ۱۹۳۲ء اور مسٹر میکڈانلڈ وزیراعظم برطانیہ کے نام ۱۸/ اگست
۱۹۳۲ء کو خط لکھا کہ میں نے گول میز کانفرنس میں کہہ دیا تھا کہ میں زندگی بھر اچھوتوں کو جداگانہ نیابت نہ حاصل ہونے دوں گا۔ چونکہ حکومت نے >کمیونل ایوارڈ< کے ذریعہ اپنے طریق کار کا اعلان کرکے اچھوتوں کے لئے جداگانہ انتخاب تجویز کیا ہے اس لئے میں ملک معظم کی حکومت کو مطلع کرتا ہوں کہ میں ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء سے زندگی کے آخری سانس تک برت رکھوں گا صرف پانی پیوں گا۔ اور اسی طرح جان دے دوں گا۔ میری جیل سے رہائی بھی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکے گی۔۱۴۳ وزیراعظم نے جواب دیا کہ گورنمنٹ کا فیصلہ قائم ہے اور صرف ہندوستان کے مختلف فرقوں کے درمیان سمجھوتہ ہی اس کی جگہ لے سکتا ہے۔
دراصل اچھوت اقوام کو ہندوئوں میں جذب کرنے کا یہ ایک نیا حربہ تھا جسے ¶اچھوت اقوام کے مسلمہ لیڈر ڈاکٹر امبید کرنے >سیاسی کرتب< سے موسوم کیا۔ اور اعلان کیا کہ میں جداگانہ انتخاب کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔۱۴۴ اسی طرح مسٹر آر۔ ایل بسواس )جنرل سیکرٹری آل انڈیا اچھوت فیڈریشن( نے بیان دیا کہ گاندھی جی کامرن برت ہرگز جائز نہیں۔ جب ہندوئوں نے خود اپنی قوم کو ذات پات کے صدہا امتیازات میں تقسیم کر رکھا ہے تو حکومت کو ہندو قوم کے انتشار کا ذمہ دار گرداننا سراسر بے سروپا اور بے معنی ہے۔۱۴۵ علاوہ ازیں اچھوتوں نے اپنے ہزاروں کے اجتماع میں قرارداد منظور کی کہ گاندھی جی کی فاقہ کشی کے ذریعہ مر جانے کی دھمکی اچھوتوں کو فریب دینے کے لئے ایک سیاسی حربہ ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ہمیں ابدالاباد تک ہندوئوں کی اونچی جاتیوں کا زر خرید غلام بنا دیا جائے۔۱۴۶
سر محمد اقبال نے مرن برت کی نسبت کہا کہ فاقہ کشی کی موت نامردی کی علامت ہے اگر مجھے یہی صورت پیش آتی تو بجائے حکومت کو دھمکی دینے کے اپنی قوم کو مجبور کرتا کہ فلاں تاریخ تک اچھوتوں کے ساتھ مذہبی اور معاشرتی مساوات شروع کر دو وگرنہ جان دے دوں گا۔۱۴۷
سر محمد یعقوب نے کہا کہ اعلیٰ ذات کے ہندو اگر گاندھی جی کی جان بچانا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ مندروں کے دروازے اچھوتوں کے لئے کھول دیں۔۱۴۸
ہندوئوں نے مرن برت کے خلاف یہ ہیجان پایا تو بمبئی میں ہندوئوں اور اچھوت لیڈروں کی کانفرنس منعقد کرنے کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر امبید کرنے کانفرنس کے پہلے روز ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۲ء کو تقریر کی کہ اگرچہ فرقہ وارانہ فیصلہ کے بعد اچھوتوں کے جداگانہ نیابت کے سوال پر کسی قسم کی بحث نہیں ہو سکتی تاہم میں مسٹر گاندھی سے گفت و شنید کرنے کے لئے تیار ہوں جب میں نے لنڈن میں مطالبہ کیا تھا کہ اچھوتوں کے لئے آئینی طور پر جداگانہ نیابت دے دی جائے۔ تو مسٹر گاندھی میرے سب سے بڑے مخالف تھے لہذا اب مسٹر گاندھی کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ وہ اچھوتوں کو کیا کچھ دینے کے لئے تیار ہیں۔۱۴۹
عین اسی روز جبکہ اچھوت لیڈر نے مندرجہ بالا اعلان کیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے یہ بیان بذریعہ تار جاری کیا گیا کہ >گاندھی جی کے اعلان پر ہندو جو جذباتی اپیلیں کر رہے ہیں اگر اچھوت ان سے متاثر ہو گئے تو اس کا انجام ان کی کامل تباہی ہو گا یہ مسائل چند مندروں کے دروازے اچھوتوں پر کھول دینے سے حل نہیں ہو سکتے۔ اس سے تو صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ابھی تک ہندو فی الواقعہ انہیں ناپاک سمجھتے ہیں۔ بمبئی کے ہندو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر اچھوت ہمارے ساتھ متفق نہ ہوئے تو انہیں پچھتانا پڑے گا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی ذہنیت میں تاحال کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ ادنیٰ اقوام کے خیالات اور نقطہ ہائے نگاہ میں بنوک شمشیر تبدیلی کرانا چاہتے ہیں میرے خیال میں ہندوئوں کو تمام اپیلیں صرف گاندھی جی سے کرنی چاہئیں۔ جو خود کشی کا اقدام کرکے نہ صرف ہندو لاء کی نافرمانی اور اپنی اہنسا کی تعلیم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ تمام مذاہب کے قوانین کو بھی توڑ رہے ہیں ان کے فیصلہ کے صرف یہ معنی ہیں کہ اب انہیں خدا پر بھروسہ نہیں اور اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ دنیا میں رہنا نہیں چاہتے۔
اچھوت اقوم کے لئے یہ سخت نازک موقعہ ہے وہ اپنی خواہشات کو دوسروں کے لئے قربان کرنے کے عادی ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ اپنی تاریخ کے اس نازک ترین موقعہ پر بھی وہ جذبات اور دلائل میں تمیز نہ کر سکیں گے<۔۱۵۰
حضرت اقدسؓ نے اپنے بیان میں جس خدشہ کا اظہار فرمایا تھا وہ صحیح ثابت ہوا چنانچہ پونا میں ۲۴/ ستمبر کو ہندو لیڈروں نے ڈاکٹر امبیدکر کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ جو برطانیہ کے وزیراعظم نے منظور کر لیا اور گاندھی جی نے فاقہ کشی ترک کر دی۔
حادثہ بڈھلاڈا )ضلع حصار( اور جماعت احمدیہ کی خدمات جلیلہ
مشرقی پنجاب کے اضلاع حصار` رہتک` کرنال اور گوڑگائوں میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لئے ہندو اکثریت ان کو تباہ کرنے کے لئے اندر ہی اندر خوفناک تیاریوں میں مصروف تھی۔ ہندوئوں کی اس خفیہ سازش کا پہلا نشانہ پونڈری کے مسلمان بنے اس کے بعد انہوں نے ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کی رات کو بڈھلاڈا )ضلع حصار( کے مسلمانوں پر بھی یورش کر دی۔ اور چند منٹوں میں سولہ مسلمان مرد عورتیں اور بچے گولیوں کا شکار ہوئے جن میں سے سات شہید اور نو زخمی ہو گئے۔ عین اسی وقت جبکہ بڈھلاڈا کے مسلمانوں کو بہیمانہ طور پر ختم کیا جارہا تھا بندوقوں سے مسلح ہندوئوں نے تلونڈی کے آٹھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔۱۵۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان خونچکاں واقعات کی اطلاع اور مسلمانان بڈھلاڈا کی درخواست پر صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے کو تحقیقات کے لئے بھجوایا۔ جنہوں نے ایک مبصر کی حیثیت سے نہایت محنت و عرقریزی کے ساتھ پیش آمدہ حالات کی چھان بین کی اور اس سازش کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا۔ جو ایک عرصہ سے ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف نہایت منظم طور پر کررکھی تھی۔۱۵۲ صوفی صاحب کی مکمل تحقیقات الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۳۲ء )صفحہ ۷۔ ۱۰( میں شائع کر دی گئی جس سے مسلمانان پنجاب کو پہلی بار صحیح اور مکمل واقعات کا علم ہوا۔ صوفی صاحب نے اپنے قیام کے دوران میں ایک اہم کام یہ بھی کیا کہ وہاں مسلمانوں کی تنظیم کے لئے ایک مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ جس کے صدر اور سیکرٹری بڈھلاڈا کے بعض اہل علم مسلمانوں کو مقرر کیا۔
صوفی صاحب کے بعد مرکز کی طرف سے بعض اور اصحاب بھی بھجوائے گئے۔ اور بالاخر چوہدری مظفر الدین صاحب بی۔ اے بنگالی روانہ کئے گئے جنہوں نے اس علاقہ میں قریباً ایک سال تک قیام کیا۔ افسروں سے ملاقات اور خط و کتابت کرکے مسلمانوں کی مدد کی اور اصل واقعات منظر عام پر لانے کے لئے متعدد مضامین لکھے۔ چوہدری مظفر الدین صاحب نے مسلمانان حصار کی تنظیم میں بھی دلچسپی لی اور ان کی اقتصادی بہبود کے لئے بھی کوشش کرتے رہے اور جہاں ان کے جانے سے قبل بڈھلاڈا میں مسلمانوں کی خوردونوش کی ایک دکان بھی موجود نہ تھی۔ وہاں ان کی تحریک پر پانچ چھ دکانیں کھل گئیں اور وہ مسلمان جو دہششت زدہ ہو گئے تھے اور ہندوئوں کی چیرہ دستیوں سے سہمے ہوئے تھے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے لگے۔۱۵۳body] [tag اور وہ ہندو اور سکھ افسر جو اس فتنہ کے پشت پناہ تھے تبدیل کر دیئے گئے۔ قبل ازیں ہندو افسر حصار کے مسلم طبقہ کے خلاف کس درجہ انتقامی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ اس کا اندازہ حصار کے معزز غیر احمدی مسلمانوں کی مندرجہ ذیل چٹھی سے باسانی لگ سکتا ہے۔ جو انہوں نے ۲۶/ جون ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھجوائی اور جس پر حضور کی ہدایت کے مطابق احمدی نمائندہ نے حکومت پر مسلمانوں کا معاملہ ایسے طریق پر واضح کیا کہ اسے ظالم افسروں کے خلاف موثر اقدام کرنے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا۔
۳۳/۲ ۲۶۔ جان محمد آنریری سیکرٹری زمیندارہ بنک حصار
بنام سیدنا بحضور حضرت خلیفہ صاحب ایدہ اللہ بنصرہ العزیز۔
السلام علیکم۔ عرض ہے کہ مسلمانان ضلع حصار کی دکھ بھری داستان کا ایک نیا واقعہ حضور کے پیش کرکے امیدوار ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔ توجہ فرما کر حضور عالی فوری امداد فرماویں گے۔ قبل ازیں واقعہ بڈھلا ڈا کی نسبت حضور کی خدمت عالی میں عرض کیا گیا تھا۔ جس پر جماعت احمدیہ کی جانب سے اس کی ۔۔۔۔۔۔ پوری پوری امداد ہوئی جس کی نسبت ضلع ہذا کی مسلم آبادی مشکور و ممنون ہے۔
حضور کو معلوم ہوگا کہ ہندو مہا سبھا کی سفاکانہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہندوئوں نے انبالہ ڈویژن خصوصاً ضلع حصار کو اپنی آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ انبالہ۔ رہتک۔ کرنال وغیرہ دیگر اضلاع ڈویژن ہذا کے مسلمان اسی ضلع کے جاندار اور سمجھدار ہیں اس لئے ہندو جنون کے پیروئوں نے اب اپنی تمام توجہات ضلع حصار پر ڈال دی ہے نیز اسی جگہ اعلیٰ ہندو افسران اندریں بارہ ان کی کھلم کھلا امداد و معاونت کر رہے ہیں۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔ ان مسلمانوں کو نفاق کے ذریعہ لڑا لڑا کر ان کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔
غرض کہ مسلمانان ضلع کی ہر طرح سے خراب و خستہ حالت کے سامان مہیا کر دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی مسلم آبادی کی حالت وہی ہے جو بنی اسرائیل کی حضرت موسیٰؑ کی بعثت سے قبل فرعون کے زمانہ میں تھی یا مسلم آبادی کشمیر کی آج سے چند روز پہلے۔ ان خطرناک۔ برباد کن حالات کی موجودگی میں یہاں کے مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہے۔ جس پر میرے چند احباب و مسلم پبلک کی جانب ے ہدایت ہوئی ہے کہ حضور کی خدمت میں عرض کیا جاوے کہ اندریں بارہ توجہ فرما کر ہماری فوری امداد فرمائی جاوے۔ دستخط جان محمد صاحب مولوی محمد شریف صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی وکیل حصار۔ خان عزیز الحسن خاں صاحب حمزئی بی۔ اے ایل ایل۔ بی وکیل<۔۱۵۴
چوہدری مظفر الدین صاحب کا بیان
حادثہ بڈھلا ڈا سے متعلق ۔۔۔۔۔۔ واقعات کا ایک اجمالی خاکہ قارئین کے سامنے رکھنے کے بعد اب ہم چوہدری مظفر الدین صاحب بی۔ اے کا ایک بیان درج کرتے ہیں۔ جس میں اس اہم واقعہ کی بعض تفصیلات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔
>بڈھ لاڈا ایک مشہور منڈی ضلع حصار میں ہے جہاں مذبح تھا جس سے تمام پنجاب کے ملٹری کنٹونمنٹ میں گائے کا گوشت سپلائی ہوتا تھا۔ ہندوئوں نے سازش کی کہ مسلمان قصابوں کے بعض لیڈروں کو ختم کر دیا جائے چنانچہ انہوں نے ڈاکوئوں کے ایک گروہ سے سازباز کرکے ان کے تین سرغنوں کو اس کام کے لئے تیار کر لیا اور ایک روز تین آدمی بندوقوں سے مسلح ہو کر مسجد قصاباں موضع بڈھلاڈا میں پہنچے اور جو مسلمان بھی ملا اسے گولی مار دی۔ اس طرح تقریباً سولہ مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ جن میں سے سات جاں بحق ہو گئے اور جو زندہ بچے ان میں سے بعض ہمیشہ کے لئے بے کار ہو گئے۔][اس واقعہ سے مسلمان اتنے ڈر گئے کہ کئی روز تک گھروں میں بند رہے اور ان میں سے بعض چوری چھپے حصار اور لاہور پہنچے اور حصار کے افسروں اور لاہور کے اخبار والوں کو اس واقعہ کے بارے میں مطلع کیا اور یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں نے اس سازش کے بارے میں اگرچہ قبل از وقت حصار کے ہندو ڈپٹی کمشنر اور سکھ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو باقاعدہ اطلاع دی تھی۔ لیکن انہوں نے اس بارہ میں کوئی قدم نہ اٹھایا۔ اخباروں میں حادثہ بڈھلاڈا کی خبریں شائع ہوئیں تو ڈپٹی کمشنر کے حکم پر بڈھلاڈا کے مسلمان محلہ میں تعزیزی چوکی بٹھا دی گئی اور پولیس کے اخراجات بھی مسلمانوں پر ڈالے گئے۔ جس پر حصار کے بے کس مسلمان پنجاب کے مسلمان لیڈروں کے پاس پہنچے اور داد رسی کی کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا آخر بڈھلاڈا کے دو ایک ہوشیار اور صاحب علم اصحاب نے ایک روز مسجد میں سب کو اکٹھا کرکے کہا کہ اگر زندگی چاہتے ہو۔ تو جو کچھ ہم کہیں گے اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائو انہوں نے کہا کیا کرنا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہم ایسے لیڈر کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے ہیں جس کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمارا ہاتھ بھی بٹائے گا اور ہمیں کامیابی بھی ہو گی۔ اس کے بعد خطیب مسجد اور دوسرے عالموں کو مخاطب کرکے یہ قسم لی کہ کوئی مذہبی اختلاف پیدا نہیں کرے گا۔ سب حاضرین نے اس کا اقرار کیا جس پر انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بذریعہ تار اپنی داد رسی کے لئے درخواست کی حضور نے از راہ کرم مکرم جناب صوفی عبدالقدیر صاحب کو بھیجا۔ جنہوں نے وہاں جاکر حالات کا جائزہ لیا۔ اور حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کی۔ اس اثناء میں ہندوئوں نے اصل واقعہ دبا دیا۔ اور محض ایک ڈاکو کی رپورٹ کرکے آخری تحقیقات مکمل کر دی۔ جماعت احمدیہ کی کوشش سے افسران بالا تک معاملہ پہنچایا گیا۔ تو یہ جواب ملا کہ مسلمان اپنا کیس خود ہی صحیح رنگ میں پیش نہیں کر سکے۔ اس ضمن میں یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ صوفی صاحب بڈھلاڈا میں ایک مسلم ایسوسی ایشن قائم کر آئے تھے اور انہیں یہ ہدایت دے آئے تھے کہ آئندہ جو کام کیا جائے وہ ایسوسی ایشن کے نام سے کیا جائے۔ اس ایسوسی ایشن کے صدر نے یکے بعد دیگرے مختلف خطوط اور تار بھجوانے شروع کر دیئے جس پر حضور نے ہدایت دی کہ خاکسار )مظفر الدین( کو بڈھلاڈا بھجوایا جائے چنانچہ حضرت اقدس سے ہدایات حاصل کرنے کے بعد عید الفطر کے دوسرے روز آدھی رات کو بڈھلاڈا پہنچ گیا اور منڈی کی مسجد میں )جو ہندو آبادی سے گھری ہوئی تھی اور پرخطر جگہ پر تھی( قیام کر لیا اس کے بعد صورت حالات کا جائزہ لیا اور حصار جا کر مسٹر حمزائی` چوہدری محمد شریف صاحب وکیل۔ مسٹر جلال الدین صاحب بیرسٹر اور مسٹر راجہ حسن اختر ای۔ ایس۔ سی سے ملاقات کی ان لوگوں نے بتایا کہ کیس خراب ہو گیا ہے اور معاملہ دبا دیا گیا ہے لیکن خدا کے فضل سے جلد ہی مسلمانوں کو ہمت دلانے کی کوشش میں میرے لئے پہلا موقعہ پیدا ہو گیا۔ اور وہ یہ کہ زیر دفعہ ۱۰۷ بہت سے مسلمان اور چند ہندوئوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ اور یہ کیس مسٹر حسن اختر ہی کے پاس تھا۔ اور ان ہی کی عدالت میں زیر سماعت تھا۔ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضور ایدہ اللہ کی دعائوں کی برکت سے راجہ حسن اختر صاحب مقدمہ کی سماعت بڈھ لاڈا کے ڈاک بنگلہ میں کرنے کے لئے رضا مند ہو گئے۔ سماعت کے دن ہندوئوں کی طرف سے ایک بیرسٹر اور ایک وکیل آئے اور مسلمانوں کی طرف سے کوئی بھی پیش نہ ہوا۔ صرف صدر صاحب مسلم ایسوسی ایشن نے درخواستیں لکھیں اور ہر ایک کی ضمانت کے لئے اپنے میں سے کوئی نہ کوئی آدمی کھڑا کر دیا۔ مسلمانوں کی سب ضمانتیں راجہ صاحب نے منظور کر لیں اور کسی پر اعتراض نہ کیا۔ اس کارروائی کا اثر مسلمانوں پر بہت ہی اچھا پڑا۔ اس کے بعد کچھ مضامین میں نے انگریزی میں لکھ کر لاہور کے اخبارات کو بھجوائے جو >ایسٹرن ٹائمز< اور اخبار >سیاست< اور دیگر اخبارات میں شائع ہوئے۔ قادیان سے بھی برابر کوششیں جاری رہیں۔ اور مناسب کارروائی اس ضمن میں ہوتی رہی اور تھوڑے ہی دنوں کے اندر سکھ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی تبدیلی ہو گئی اور اس کی جگہ ایک یوروپین ایس پی حصار میں آگیا۔ جس سے میری ملاقات ہی بڈھلاڈا کی تعزیری چوکی کے بارے میں ہوئی میں نے کہا کہ مسلمانوں پر ہی ظلم ہو اور ان پر ہی یہ پولیس بٹھائی جائے اور پھر اخراجات بھی انہیں سے وصول کئے جائیں یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ چنانچہ ایس۔ پی کی تحقیقات کے بعد یہ پولیس وہاں سے ہٹا لی گئی۔ مسلمان محلہ میں بہت خوشی منائی گئی اور ان کے حوصلے بلند ہو گئے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد جب فضا خوشگوار معلوم ہوئی میں نے گتکا اور کبڈی کی تحریک کی اس پر مسلمان محلہ کے نزدیک کھلے میدان میں یہ دونوں کھیل شروع ہو گئے۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف افسران بالا کو رپورٹ کر دی اور پولیس کے ذریعہ خفیہ تحقیقات شروع ہو گئی لیکن ثابت نہ ہو سکا کہ یہ کسی تنظیم کی طرف سے باقاعدہ تحریک ہے۔ پھر میں نے مسلمانوں کو حوصلہ دلا کر دکانیں کھولنے کی بھی تحریک کی جو کامیاب ہوئی۔ بڈھ لاڈا میں چونکہ کوئی احمدی نہ تھا۔ اس لئے میں ہر جمعہ مانسہ جایا کرتا تھا جہاں مسٹر محمد علی صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی کے مکان پر نماز جمعہ ہوتی تھی۔ اسی جگہ میری پٹیالہ اسٹیٹ کے ایک مخلص احمدی پولیس انسپکٹر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے بڈھ لاڈا کے مسلمانوں کی مدد کرنے کے لئے عرض کی اور اس کا طریق یہ بتایا کہ پٹیالہ میں بہت سے ڈاکو پناہ گزین ہیں آپ کوشش کرکے کوئی ایک ڈاکو پکڑوا لیں اور اس کے ذریعہ سے بڈھ لاڈا میں واردات کرنے والے ڈاکوئوں کا سراغ لگائیں۔ خدا کی شان چند ماہ بعد ایک ڈاکو ان کے ہاتھ آگیا جس سے واردات کرنے والے تینوں ڈاکوئوں کے ٹھکانوں کا پتہ چل گیا چنانچہ مناسب وقت پر تینوں گرفتار کر لئے گئے ایک ڈاکو جوان کا سردار تھا۔ گولی لگنے سے مر گیا۔ باقی دو زخمی حالت میں پکڑ لئے گئے اور جنگل میں ان سے بہت سا اسلحہ اور گولیاں وغیرہ برآمد ہوئیں۔ اس طرح بڈھ لاڈا کیس جو پہلے عملاً ختم ہو چکا تھا۔ پھر دوبارہ زندہ ہو گیا۔
مختصر یہ کہ عدالت میں دونوں کو موت کی سزا ہوئی۔ میں سپرنٹنڈنٹ سے ملا اور سازش کرنے والے ہندوئوں پر مقدمہ چلانے کی درخواست کی انہوں نے پنجاب کے قانون دانوں سے مشورہ کیا جنہوں نے تمام رپورٹ ملاحظہ کرنے کے بعد اگرچہ تسلیم کیا کہ یہ سازش ہے لیکن کہا کہ مقدمہ سازش چلانے کے لئے ثبوت کافی نہیں اس لئے کوشش یہ کی جائے کہ سازش کو تسلیم کیا جائے لیکن ضروری ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ ملتوی کر دیا جائے اور ملزموں کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا کر سزا دلوائی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
اس عرصہ میں یعنی بڈھ لاڈا کی رہائش کے چھ سات مہینہ کے بعد حصار شہر کے نزدیک ایک گائوں میں اسی طرح فساد ہو گیا جس طرح بڈھ لاڈا میں ہوا تھا اور بہت سے مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ میں حصار پہنچا اور واقعہ کے صحیح حالات معلوم کئے اور ایک مفصل مضمون اخبارات کے لئے لکھا یہ مضمون انگریزی اور اردو اخبارات میں چھپا۔ اس مضمون میں علاوہ واقعہ بیان کرنے کے میں نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہاں ایک متوازی گورنمنٹ قائم ہے جو ڈپٹی کمشنر کے علم میں ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے اس کا اثر زائل کرنے کے لئے ڈسٹرکٹ مسلم ایسوسی ایشن کا ایک اجلاس بلایا اور کوشش کی کہ یہ ریزولیوشن پاس کروا لیا جائے کہ حصار میں بالکل امن و امان ہے بڈھلاڈا مسلم ایسوسی ایشن کے صدر نے مجھے تار دیا میں رہتک سے حصار پہنچا اور شائع شدہ مضمون کے حق میں ایک مناسب ریزولیوشن تیار کیا جو اجلاس میں پاس ہو گیا- یہ ریزولیوشن اخبارات میں شائع ہوا اور افسران بالا کے علاوہ گورنر صاحب کو بھی اس کی ایک کاپی بھیجی گئی۔ گورنر صاحب نے ڈپٹی کمشنر کو لکھا کہ میں حصار آرہا ہوں لیکن کوئی ایڈریس قبول نہیں کروں گا البتہ میورنڈم دیا جا سکتا ہے چنانچہ میں نے مسلم ایسوسی ایشن کے ممبران سے مل کر ایک میمورنڈم تیار کیا اب اس کے چھپوانے کا مسئلہ پیش ہوا۔ وقت بہت کم تھا۔ اور حصار میں کوئی پریس بھی نہ تھا اس لئے ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اور دوسرے ارکان نے مجھ سے درخواست کی کہ میں خود یہ کام سرانجام دوں۔ چنانچہ میں فوراً دہلی روانہ ہو گیا۔ امیر جماعت احمدیہ دہلی کے تعاون اور کوشش سے بارہ گھنٹے کے اندر اندر یہ میمورنڈم چھپ گیا جسے لے کر میں گورنر صاحب کے آنے سے پہلے حصار پہنچ گیا۔ چونکہ اخبارات کو اس میمورنڈم کی نقول میں نے بھجوا دی تھیں اس لئے گورنر صاحب کو میمورنڈم پیش کرنے کے ساتھ ہی اخبارات کو تار دے دیئے گئے چنانچہ دوسرے ہی دن یہ بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں چھپ گیا۔ گورنر صاحب نے انٹرویو کے لئے ایسوسی ایشن کے بعض ارکان کو موقع دیا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان ارکان پر اپنا اثر ڈالنے کے لئے بعض پابندیاں عائد کر دیں کہ آپ بڈھلا ڈا کیس کا ذکر نہ کریں۔ مگر گورنر صاحب نے خود ہی اس کی نسبت ممبران سے دریافت کیا تو ممبران نے گورنر صاحب کو صحیح صحیح حالات سے آگاہ کر دیا۔ گورنر صاحب کی روانگی کے بعد واقعات سے معلوم ہوا کہ وہ ڈپٹی کمشنر وغیرہ کے خلاف اثر لے کر گئے ہیں۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے اپنی پوزیشن بچانے کے لئے افسران بالا سے رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس پر حضورؓ کی طرف سے مجھے ہدایت ہوئی کہ میں شملہ جاکر خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ کو سارے حالات سے آگاہ کروں چنانچہ میں شملہ پہنچا اور خان صاحب موصوف سے ملا۔ انہوں نے مناسب طور پر کوشش کی کہ ڈپٹی کمشنر وغیرہ کے خلاف گورنر صاحب کا اثر قائم رہے نتیجہ یہ ہوا کہ ڈپٹی کمشنر اور سول سرجن دونوں تبدیل ہو گئے سپرنٹنڈنٹ پولیس تو پہلے ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ اس طرح حضورؓ کی کوششوں سے مسلمانوں کو اس اذیت ناک ماحول سے چھٹکارا ملا۔ میں وہاں تقریباً ایک سال تک رہا اس عرصہ کے دوران میرا اور مجھ سے پیشتر آنے والے احمدی احباب کا سارا خرچہ جماعت احمدیہ ہی نے اٹھایا۔ وہاں کے مقامی مسلمانوں پر اس کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا۔
بڈھلا ڈا کیس کے ضمن میں مجھے انبالہ میں )جو اس وقت ڈویژنل ہیڈ کوارٹر تھا( بھی جانے کا موقعہ ملا اور میں نے کمشنر صاحب۔ ڈی۔ آئی۔ جی اور دیگر افسران اور معززین سے ملاقات کرکے بڈھ لاڈا اور حصار ڈسٹرکٹ کے مقامات کے مسلمانوں کی ابتر حالت ان پر واضح کی۔ اسی غرض کے لئے مشہور ایڈووکیٹ اور مسلمانوں کے لیڈر سید غلام بھیک صاحب نیرنگ سے بھی میری ملاقات ہوئی۔ جب میں نے ان سے ملنے کے لئے تعارفی کارڈ بھیجا انہوں نے مجھے فوراً بلا لیا اور بڑے تعریفی کلمات کے ساتھ جماعت احمدیہ کے کارناموں کا ذکر کیا۔ بڈھلاڈا کیس کے بارہ میں جو حالات میرے ذریعہ سے اخبارات میں آتے رہے تھے ان سے وہ باخبر تھے علاوہ ازیں بعض اور لوگوں سے میری کارگزاری کے بارہ میں ان کو کچھ علم ہو چکا تھا۔ اس لئے انہوں نے اس کام کو بہت سراہا اور تعریف کی<۔۱۵۵
مسلمانان الور کی امداد
ریاست الور کے بہت سے مسلمان ریاستی مظالم کی تاب نہ لاکر جے پور` اجمیر شریف` بھرت پور اور ضلع گوڑ گائوں اور دہلی وغیرہ مقامات میں آگئے تھے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو جب ان کے حالات کا علم ہوا۔ تو مظلوموں کی اعانت کے لئے سید غلام بھیک صاحب نیرنگ ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور و جنرل سیکرٹری سنٹرل جماعت تبلیغ الاسلام کو دو سو روپے ارسال فرمائے۔
اسی طرح مرکز کی طرف سے افسران بالا سے خط و کتابت کی گئی۔ افسروں نے نہایت ہمدردی سے غور کیا اور ریاست کے متعلق حکام کو ہدایت کی کہ وہ مسلمانوں کے مطالبات کا پورے طور پر خیال رکھیں اور ان کی شکایات کا تدارک کریں۔۱۵۶ اس کے شکریہ میں نیرنگ صاحب نے انبالہ شہر سے ۲۲/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو حضورؓ کی خدمت میں مندرجہ ذیل خط لکھا۔
>انبالہ شہر ۳۲/۱۰ ۲۲
عالی جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ قادیان
مکرم و محترم و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ- مزاج گرامی! نوازش نامہ )بلا تاریخ( نوشتہ از مقام ڈلہوزی باعث مسرت ہوا۔ اس کے بعد لائیڈز بنک لاہور نے آپ کے حکم کے مطابق مبلغ دو صد روپے کا ڈرافٹ بنام امپیریل بنک انبالہ بھیجا۔ میں چونکہ سفر میں تھا اس لئے نوازش نامہ کے جواب اور ڈرافٹ مذکور کی رقم کی وصولی آج تک ملتوی رہی۔ آج بنک سے رقم وصول ہو گئی اور لائیڈز بنک کو بھی ڈرافٹ کی وصولی کی اطلاع دی گئی جناب کے عطیہ کی رسید ضابطہ ملفوف ہے۔ جزاکم اللہ فی الدارین احسن الجزاء۔
مجھ کو معلوم ہے کہ بحالات موجودہ آپ امداد مہاجرین الور کے لئے خاطر خواہ رقم بھیجنے میں خاص دقت محسوس فرماتے ہیں مگر درحقیقت جو رقم آپ نے بھیجی وہ بجائے خود معقول ہے اور آپ کی اس ہمدردی کا ایک بین ثبوت جو آپ کو مظلوم مسلمانان الور سے ہے۔ ان لوگوں کی ہجرت کے بارہ میں جو خیالات آپ نے ظاہر فرمائے وہ بالکل درست ہیں درحقیقت ان لوگوں نے ایک حالت ناچاری و مایوسی میں بلا مشورہ مسلمانان بیرون ریاست یکایک ہجرت کی۔ اگر مشورے کا موقعہ ملتا تو یا تو ان کو روکا جاتا ورنہ ان کے لئے پہلے سے معقول انتظام ہوتا وہ بھی جانتے کہ ہم نے کہاں جانا ہے اور ہم بھی جانتے کہ ان کے واسطے کیا انتظام ہے یہ لوگ محض سراسیمگی کے عالم میں جے پور۔ اجمیر شریف۔ بھرت پور۔ آگے ضلع گوڑ گائوں دہلی وغیرہ مقامات میں جہاں جہاں جس کے سینگ سمائے چلے گئے اور مجھ کو تو یکایک بمقام شملہ پے در پے تین تار پہنچے ان سے یہ واقعہ معلوم ہوا۔ اس وقت دو باتیں کی گئیں جو چلے آئے تھے۔ ان کے لئے قیام و طعام کی فکر کی گئی اور ان کو سمجھایا گیا کہ اب چلے آئے ہو تو کچھ غربت برداشت کرو۔ کیونکہ اگر اسی طرح بے ترتیب اور بے تصفیہ نزاع واپس جائو گے تو پہلے سے زیادہ ذلت و نقصان اٹھائو گے اور جو ابھی نہیں آئے تھے ان کو روکا گیا۔
وائسرائے صاحب کے ہاں وفد کی پیشی کے وقت یہ توقع تھی کہ پولٹیکل سیکرٹری ضرور موجود ہو گا چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے جن کو وفد کشمیر کا تجربہ تھا یہی بتایا۔ مگر جب وفد پیش ہوا تو دیکھا کہ وائسرائے صاحب کے ساتھ صرف پرائیویٹ سیکرٹری ہے تاہم ہم نے وائسرائے صاحب سے درخواست کی کہ تمام مواد پولٹیکل سیکرٹری ہم سے لیں اور وائسرائے صاحب کے لئے نوٹ تیار کریں۔ چنانچہ یہ درخواست منظور کی گئی اور اس کے مطابق ۱۳/ اکتوبر کو میں مسٹر گلینسی سے بمقام شملہ ملا اور سوا گھنٹہ تک ان سے مکالمہ ہوتا رہا۔ ان کو بہت سا مواد دیا گیا۔ اور جہاں تک ہو سکا ان کے شکوک کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاحال یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا نوٹ لکھا۔ ۱۷/ اکتوبر کو سر محمد اقبال نے وائسرائے کو تار بھی دیا کہ پولیٹکل سیکرٹری کو ۱۳/ اکتوبر کو مواد دیا جا چکا ہے اب جلد فیصلہ ہونا چاہئے۔ تاحال کوئی نتیجہ معلوم نہیں ہوا مگر مختلف واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ الورراج بہت سراسمیہ اور مضطرب ہے میں آپ کی نوازش کا مکرر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ زیادہ نیاز۔ والسلام
بندہ غلام بھیک نیرنگ بی۔ اے` ایل ایل۔ بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور و جنرل سیکرٹری سینٹرل۔ جماعت تبلیغ الالسلام۔۱۵۷4] f[rt
tav.7.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل چہارم(
جلسہ سیرت النبیﷺ~ لکھنئو کے خلاف ہنگامہ آرائی
جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام ۶/ نومبر ۱۹۳۲ء کو ہندوستان بھر میں سیرت النبیﷺ~ کے کامیاب جلسے ہوئے مگر لکھنئو میں اس کے خلاف احراری خیال کے علماء اور ان کے زیر اثر مسلمانوں کی طرف سے افسوسناک مظاہرہ ہوا جسے لکھنئو کے مسلم پریس نے سخت حقارت سے دیکھا۔ اس ضمن میں روزنامہ >حقیقت< اور روزنامہ >ہمدم< اور روزنامہ >اودھ< لکھنئو کے اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
روزنامہ >حقیقت< نے لکھا۔ >پرسوں شب کو امین الدولہ پارک میں جبکہ سیرۃ النبیﷺ~ کا جلسہ ہو رہا تھا تو عین اس وقت جبکہ کلام پاک کی تلاوت کے وقت ہر عقیدت مند مسلمان ادب و تعظیم کے ساتھ قرآن پاک سن رہا تھا امین الدولہ پارک کے باہر کچھ مسلمان سخت شور و ہنگامہ کے ساتھ مسلمانوں کو ہدایت کر رہے تھے کہ وہ جلسہ سے اٹھ کر چلے آئیں اور اس قدر شور و شر مچایا جا رہا تھا کہ قاری کی آواز کو سننا مشکل ہو گیا۔ یہ کس قدر افسوسناک اور قابل عبرت ہے کہ ایک ایسے جلسہ کو جو رسول عربیﷺ~ کی یادگار منانے کے لئے منقعد ہو رہا ہو` خواہ وہ کسی جماعت کی طرف سے ہو اس کے خلاف اس حد تک نفسانیت سے کام لیا جائے کہ رسول اللہﷺ~ کا ذکر سننے سے لوگوں کو روکا جائے۔ احمدی حضرات کے عقائد جو کچھ بھی ہوں لیکن جب یہ جلسہ خالص سیرۃﷺ~ کا جلسہ تھا اور یہ طے شدہ تھا کہ اس میں اشارۃ" و کنایت¶ہ بھی احمدی عقائد کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ تو پھر کیا بانی اسلام علیہ التحیتہ والسلام کی صریح توہین نہیں ہے کہ اس جلسہ میں شرکت سے مسلمانوں کو روکا جائے اور شور مچا کر آنحضرتﷺ~ کی سیرت پاکﷺ~ کا ذکر سننے سے لوگوں کو روکا جائے۔ سب سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ حرکت خود مسلمانوں کی طرف سے سرزد ہوئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون<۔۱۵۸
۲۔
روزنامہ >اودھ< نے لکھا۔
>اس مرتبہ بھی سالہائے گزشتہ کی طرح احمدیہ جماعت کی طرف سے بانی اسلام~صل۱~ کی حیات مبارک کے قابل تقلید واقعات سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے پبلک تک پہنچانے کی مبارک غرض سے ۶/ نومبر کو جلسہ سیرۃ النبی~صل۱~ منعقد کیا گیا لیکن ہم کو یہ دیکھ کر انتہائی تعجب ہوا کہ اس مرتبہ بعض ان ہی مسلم علماء نے اس جلسہ سے اپنے قولی و عملی اختلاف کا اظہار کیا جو سالہائے گزشتہ اس مبارک جلسہ کے سلسلہ میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مذہبی حیثیت سے ایک سال قبل اس جلسہ کی شرکت کیونکر جائز تھی اور ایک سال بعد کیونکر حرام ہو گئی۔ بہرحال اس جلسہ کے مقاطعہ کے لئے جو اعتراضات پبلک تک پہنچائے جارہے تھے وہ یہ تھے کہ اس جلسہ کے بانی قادیانی ہیں۔ یہ دراصل کوئی اعتراض نہیں بلکہ اظہار واقعہ ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ببانگ دہل یہ الفاظ بھی سنے گئے کہ لکھنئو کے تمام علماء نے متفقہ طور پر اس جلسہ کا بائیکاٹ کیا ہے لہذا کوئی مسلمان اس میں شریک نہ ہو۔ کوئی وجہ کوئی دلیل اور کوئی سبب بیان نہیں کیا جارہا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلسہ میں جوق در جوق ہندو اور مسلمان سب شریک ہوئے۔ گو کہ ان کو جلسہ گاہ کے ہر دروازہ پر مذموم قسم کی پکٹنگ کے ذریعہ روکنے کی بھی کوشش کی گئی اور غلط فہمیاں بھی پیدا کرائی گئیں۔ مثلاً تمام علماء اس جلسہ کے مقصد کو مسلمانوں کے لئے مضرت رساں سمجھتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے منشی محمود علی صاحب صدر منتخب نے استعفاء بھی دے دیا وغیرہ وغیرہ لیکن ایک طرف سے شائقین جلسہ کا ہجوم تھا دوسری طرف وہ لوگ بھی جلسہ کی شرکت کے لئے مجبور ہو رہے تھے جن کی سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ ایک خالص مذہبی تقریب مذہب کے لئے کس طرح مضرت رساں ہو سکتی ہے۔ بہرحال ہم کو اس اختلاف پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اختلاف کی جو صورت اختیار کی گئی مثلاً شرکائے جلسہ پر آوازے کسنا۔ زنانہ نشست میں پتھر بازی کرنا اور جلسہ کے باہر سڑک پر غنڈوں کی طرح غل مچانا وغیرہ یہ ہمارے نزدیک نہ صرف قابل اعتراض ہے بلکہ انتہائی شرمناک ہے جس سے خود مخالفوں کی پوزیشن پر برا اثر پڑتا ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ باوجود اس کے جلسہ کامیاب ہوا۔ اور یہ تمام مضحکہ خیز کوششیں ناکام ہونے کے علاوہ اور کچھ نہ ہو سکیں۔ پھر سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہوئی کہ جلسہ کے اختتام پر تمام حاضرین جلسہ یہی کہتے ہوئے اٹھے کہ اس جلسہ کی مخالفت اب تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اور جو اعتراضات مخالفین جلسہ اٹھا رہے تھے ان میں سے ہم نے ایک کو بھی صحیح نہیں پایا۔ اس موقع پر ہم بانیان جلسہ کو مبارکباد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جنہوں نے نہایت سکون کے ساتھ اس تمام مضحکہ خیز مخالفت کا مقابلہ کیا اور اپنی طرف سے مدافعانہ کوئی کارروائی نہ ہونے دی یہاں تک کہ مخالف اپنی ناکامی سے خود ہی تھک گئے<۔۱۵۹
۳۔
روزنامہ >ہمدم< نے لکھا۔
>ہمارے موجودہ علماء کی حد سے گری ہوئی حالت کا سدھار خدا ہی ہے جو ہو سکے۔ سیرت پاک کی مقدس مجلس میں مولوی وزیر حسن صاحب اور مولوی فتح اللہ صاحب کا ایمان سوختہ پارٹی نے جو انسانیت سوز مظاہرہ کیا وہ ہمارے لئے انتہائی ندامت کا سبب تھا۔ ادھر تو ذکر رسولﷺ~ ہو رہا ہے اور ایک ہندو مداح رسولﷺ~ فرما رہے تھے کہ مجھے ڈاکٹروں نے بولنے سے منع کیا ہے کیونکہ میں بیمار ہوں لیکن جس مجلس میں حضرت رسول مقبول~صل۱~ کا ذکر پاک ہو میں اس میں شریک ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آپ نے حضرتﷺ~ کی سیرت پر ایک محبت سے ڈوبی ہوئی تقریر بھی کی اور ادھر چار طرف ننگ اسلام پارٹیاں جو انسانیت کش حرکات کر رہی تھیں۔ وہ شہدا پن کی انتہائی ڈگری سے کئی ہزار گنا بڑھ گئی تھیں۔ آہ خواتین کی نشست گاہ پر بری طرح ڈھیلے برسائے گئے حاضرین جلسہ پر گالیوں کی بوچھاڑ کی گئی وہ وہ حرکات کی گئیں جن سے شیطنت بھی پناہ مانگتی تھی۔ پروپیگنڈا یہ تھا کہ قادیانیوں کا جلسہ ہے۔ حکیم خواجہ شمس الدین صاحب کی تقریر ہو رہی تھی۔ میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ مولانا کی تعریف کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایک شیداء رسولﷺ~ حنفی تقریر کر رہا ہے۔ شروع سے لے کر آخر تک کہیں قادیانیت کا نام تک بھی نہیں سنا۔ میں خود قادیانی عقائد سے شدید اختلاف رکھتا ہوں۔ لیکن یہاں تو قادیانیت سے کچھ واسطہ ہی نہ تھا۔ حضرت آقاء نامدار محمدﷺ~ عربی کی سیرت پر قادیانی` حنفی` ہندو وغیرہ تقریریں کر رہے تھے جو ہمارے لئے انتہائی مسرت کا باعث تھیں پارک میں جو محفل میلاد ہوتی ہے اس میں ہمیں خوب علم ہے کہ قادیانی حضرات برسوں سے شرکت کرتے ہیں انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ جلسہ غیر احمدی مسلمانوں کا ہے بہرکیف خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ غیب سے مسلمانوں کی اصلاح کے سامان کر دے ورنہ ان علماء نے تو مسلمانوں کو کہیں کا بھی نہیں رکھا۔ )سید اعجاز حسین رضوی<(۱۶۰
اراضی سندھ کی خرید
0] f[rtاب سلسلہ کی ضروریات ایسی صورت اختیار کر چکی تھیں کہ اسلام و احمدیت کی اشاعت کے لئے ایک مستقل فنڈ جاری کرنا ضروری تھا۔ آنحضرت~صل۱~ کے زمانہ مبارک میں بھی بعض جائدادیں اسلامی کاموں کے لئے وقف کر دی گئی تھیں اسی طرح حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کیا گیا۔ حضرت فضل عمرؓ نے بھی اسی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ۱۹۳۲ء میں ریزرو فنڈ کی مستقل بنیاد رکھی اور سندھ میں زمینیں خرید فرمائیں یہ پانچ لاکھ کا سودا تھا۔ جو بیس سال میں ادا کرنا تھا۔۱۶۱ صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ مطبوعہ رپورٹ )یکم مئی ۱۹۳۲ء لفایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۲( سے اراضی سندھ کی خرید کے ابتدائی حالات پر روشنی پڑتی ہے چنانچہ لکھا ہے۔
>ایک سال چھ ماہ کی متواتر کوشش سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کامیابی عطا فرمائی اور سندھ میں حضور کی خواہش کے مطابق پانچ ہزار ایکڑ زمین مل گئی۔ اس میں انجمن کا حصہ ۲۸۶۰ ایکڑ کا ہے۔ انتظامی لحاظ سے انجمن کا اس میں اسی قدر دخل ہے جس قدر کہ یک حصہ دار کا ہو سکتا ہے مگر چونکہ انجمن کا سب حصہ داروں سے بڑا حصہ ہے اس لئے ناظر صاحب اعلیٰ اس کمیٹی مذکور یعنی سنڈیکیٹ کے ممبر ہیں اور اس ذریعہ سے مشترکہ جائداد کے نظم و نسق میں انجمن کا خاص دخل ہے پس اس لحاظ سے ایک حد تک انجمن کے مفاد پر انجمن کے قائم مقام یعنی ناظر صاحب اعلیٰ ہر وقت نظر رکھتے ہیں اور اس کاروبار کے عنوان انشاء اللہ امید افزاء ہیں۔
چونکہ پانچ ہزار ایکڑ اچھی زمین کا ایک جگہ پر ملنا مشکل تھا۔ اس لئے دو مقامات پر اچھی اچھی زمین منتخب کی گئی جس کی تلاش میں سنڈیکیٹ نے بہت سا مال اور وقت صرف کرکے اسے حاصل کیا۔ اور اس انتخاب میں خان صاحب محمد عبداللہ خان صاحب خلف الرشید نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ خاص شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے سندھ کے متفرق علاقوں میں پھر پھر کر اسے تلاش کیا۔ جزاھم اللہ خیرا۔ ان ہر دو مقامات میں ۱۰۔ ۱۱ میل کا آپس میں فاصلہ ہے۔
ایک کا نام احمد آباد اسٹیٹ اور دوسرے کا محمود آباد اسٹیٹ رکھا گیا۔ اول الذکر میں ۴/ نومبر ۱۹۳۲ء کو پانی ملا تھا۔ جہاں بوجہ تنگی وقت صرف ۵۷۵ ایکڑ زمین میں فصل ربیع بویا جا سکا۔ جس کی آمد اندازاً ۸۔ ۹ ہزار ہوئی۔ اور دوسرے رقبہ میں چونکہ پانی ربیع گزشتہ ۱۹۳۲ء کے موقعہ پر نہیں ملا تھا۔ بلکہ ابھی تک بھی پانی کی مقدار ضرورت سے کم ہے اس لئے وہ گزشتہ سرما ۳۲۔ ۱۹۳۳ء میں خالی رہا۔ البتہ موسم خریف میں تین چار سو ایکڑ کپاس اور باجرہ بویا گیا۔ اور اس طرح احمد آباد اور محمود آباد میں بفضلہ تعالیٰ اندازاً ایک ہزار ایکڑ کپاس و باجرہ فصل خریف سن رواں میں ہوئی۔ جس سے امید ہے کہ انشاء اللہ اندازاً تیس ہزار روپیہ سنڈیکیٹ کو آمد ہو جائے گی اور آئندہ ربیع بارہ تیرہ سو ایکڑ کاشت ہو چکی ہے۔
۲۔ فروخت جائداد: اراضیات سندھ کے خرید کرنے کے لئے انجمن کے خزانہ پر کوئی بوجھ نہیں پڑا۔ بلکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے متعلق تجویز فرمایا کہ انجمن کی بیرونی متفرق جائدادیں جو مختلف جگہوں پر واقع ہیں یا قادیان کے گرد و نواح کی بکھری ہوئی جائدادوں کو فروخت کرکے روپیہ مہیا کیا جاوے اور اس سے سندھ کی زمین خرید کی جائے چنانچہ اس وقت تک ۲۳ ہزار روپیہ کی جائیدادیں فروخت ہوکر سندھ کی اراضیات کے سلسلہ میں روپیہ بھجوایا جا چکا ہے اور اس کے علاوہ کچھ قرضہ بھی بیرونی جماعتوں اور بعض احباب سے لیا گیا تھا جو سب مل ملا کر قریباً چالیس ہزار روپیہ ۲۵۶۰ ایکڑ پر انجمن کی طرف سے خرچ ہو چکا ہے جس میں قسط اول اور اخراجات آبادی اور انتظامی شامل ہیں مگر خزانہ انجمن سے کوئی روپیہ نہیں لیا گیا<۔۱۶۲
جامعہ احمدیہ کا تبلیغی و تعلیمی وفد
۲۶/ نومبر ۱۹۳۲ء۱۶۳ کو مولوی ارجمند خان صاحب کی قیادت میں انتیس افراد پر مشتمل جامعہ احمدیہ کا ایک وفد قادیان سے روانہ ہوا۔ اور ۹/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو واپس مرکز میں پہنچا۔۱۶۴ اس دورہ کے اصل محرک مولوی ظہور الحسن صاحب مولوی فاضل تھے۔
یہ وفد جامعہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا وفد تھا جس نے قادیان سے چل کر جالندھر` پھلور` لدھیانہ` انبالہ شہر` دہلی` علی گڑھ اور میرٹھ سے ہوتے ہوئے دیوبند اور سہارنپور تک کا ایک لمبا سفر طے کیا۔ اور اس وفد کی ایک عجیب خصوصیت یہ تھی کہ اس کے ارکان دن کو کھیلوں کے میچ میں داد تحسین حاصل کرتے اور رات کو اپنی پرجوش اور معلومات افزاء تقریروں سے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے تھے کہ سبز عمامے پہننے والے قادیان کے عالم بھی عجیب قسم کے ہیں کہ کھیل اور لیکچر ہر دو فنون میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔۱۶۵ وفد جہاں جہاں پہنچا اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور ہر جگہ اپنی تبلیغی و تفریحی صلاحیتوں سے دھوم مچا دی۔
جالندھر چھائونی میں وفد نے جلسہ منعقد کرنے کے علاوہ گورنمنٹ ہائی سکول کو ہاکی کے میچ میں تین گول سے شکست دی۔۱۶۶
پھلور میں پولیس ٹریننگ سکول کے ساتھ میچ ہوا۔ جس میں ارکان وفد نے کھیل کا اس قدر شاندار مظاہرہ کیا کہ بار بار نعرے ہائے تحسین بلند ہوتے تھے دوسرے ہاف میں جامعہ نے گول کردیا جس کے بعد کھیل بے حد تیز ہو گئی اور عین اس وقت جبکہ پانچ منٹ باقی تھے پولیس نے گول اتار دیا۔ وہاں کے لوگوں کا بیان تھا کہ اس قدر دلچسپ میچ پھلور میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ میچ کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ کھیل کے دوران میں جامعہ کے وفد کی طرف سے ٹیم کو WELLDONE کی بجائے حبذا کہا جاتا تھا۔ چند منٹ بعد تمام ٹریننگ پولیس کلب حتیٰ کہ دو یورپین آفیسروں نے بھی یہی لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا۔
لدھیانہ میں جلسہ بھی ہوا اور پولیس کلب کے ساتھ میچ بھی۔ جس میں جامعہ نے پولیس ٹیم کو ایک گول سے ہرا دیا۔
انبالہ میں لوگوں کو وفد دیکھ کر حیرانی پیدا ہوئی ایک شخص کو جب معلوم ہوا کہ یہ لوگ قادیان سے آئے ہیں تو کہنے لگے کہ تبھی ان کے چہروں سے نور اور نیکی کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ یہاں بھی جلسہ کے علاوہ جامعہ کا انبالہ کی مشہور کلب ایل ایل۔ بی سے ہاکی کا زبردست مقابلہ ہوا۔ جس میں کامیابی کا سہرا جامعہ کی ٹیم کے سر رہا۔۱۶۷
علی گڑھ میں وفد کی سرگرمیاں زیادہ تر مسلم یونیورسٹی کے شعبہ جات کو دیکھنے اور ایک انگریزی مباحثہ سننے تک محدود رہیں۔۱۶۸ علی گڑھ کالج میں ان دنوں ایک اردو مباحثہ بھی منقعد ہو رہا تھا جس میں جامعہ احمدیہ کی طرف سے شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور مولوی محمد سلیم صاحب فاضل کی شمولیت کا فیصلہ ہو چکا تھا مگر چونکہ اصل قرارداد کے الفاظ قرآنی تعلیم کے خلاف تھے اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر یہ فیصلہ منسوخ کر دیا گیا۔
دہلی میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں طلبائے جامعہ نے مختلف مضامین پر تقریریں کیں نیز دہلی کے مختلف حلقوں سے متعارف ہونے کے لئے ارکان کی متعدد پارٹیاں ترتیب دی گئیں جنہوں نے اپنا مفوضہ کام نہایت خوبی کے ساتھ انجام دیا۔
میرٹھ میں بھی اخذ معلومات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور عربی درسگاہوں` مذہبی انجمنوں اور اخبارات کے دفتروں کی طرف پارٹیاں بھجوائی گئیں۔ یہاں وفد نے دو میچ کھیلے۔ ایک سناتن دھرم ہائی سکول سے دوسرا یونین کلب میرٹھ سے دونوں میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ لوگوں کو جب بتایا گیا کہ یہی لوگ رات کو لیکچر بھی دیں گے تو وہ بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ مسلمانوں کے مولوی تو حجروں میں بند رہنے کو اسلام سمجھتے ہیں مگر قادیان نے ایسے علماء پیدا کئے ہیں جو دینوی امور میں بھی دسترس رکھتے ہیں۔۱۶۹
غرضکہ وفد کا یہ تبلیغی و تعلیمی اور معلوماتی۱۷۰ سفر ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور احمدی جماعتوں میں حرکت پیدا کرنے اور غیروں میں احمدیت کے اثر و نفوذ کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہوا- ارکان وفد حسب ذیل تھے۔
مولوی ارجمند خان صاحب۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری` شیخ مبارک احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب` مولوی محمد سلیم صاحب` شیخ عبدالقادر صاحب` مولوی احمد خاں صاحب نسیم` مولوی ظہور الحسن صاحب` سید احمد صاحب` مولوی نذر احمد صاحب` مولوی صالح محمد صاحب` مولوی نذیر احمد صاحب مبشر` ملک میں عبداللہ صاحب` چوہدری محمد شریف صاحب` مرزا عبدالرحمن صاحب` مولوی محمد احمد صاحب جلیل` عطاء الرحمن صاحب سار چوری` محمد نور صاحب کابلی` عطاء اللہ صاحب )ابن اللہ بخش صاحب`( عطاء اللہ صاحب بنگہ` چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ` مولوی نور الٰہی صاحب` مولوی ولی داد خان صاحب` حافظ بشیر احمد صاحب` مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری` مولوی عبدالرحمن صاحب پشاوری` حافظ عبدالغفور صاحب جالندھری` عبدالرحیم صاحب۔ )ایک نام کا تعین نہیں ہو سکا(
سالانہ جلسہ پر ایک قرار داد
الہ آباد میں وسط دسمبر ۱۹۳۲ء میں ایک اتحاد کانفرنس ہوئی جس میں مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے مطالبات کے خلاف بعض نہایت ضرر رساں تجاویز پاس کی گئیں۔ لہذا جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ ۱۹۳۲ء کے تیسرے دن )۲۸/ دسمبر کو( یہ قرار داد پاس کی گئی کہ >مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے مطالبات مسلمانوں کے لئے بہت مفید اور ضروری ہیں اور اس کے خلاف یونٹی کانفرنس الہ آباد کی تجاویز مسلمانوں کے مفاد کے لئے ضرر رساں اور نقصان دہ ہیں۔ پس ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ مسلم کانفرنس کے پیش کردہ مطالبات کو ہی صحیح مطالبات سمجھے ہم مسلم کانفرنس کے مطالبات کی تائید میں ہر اک قسم کی امداد کا وعدہ کرتے ہیں<۔۱۷۱
اخبار >الفضل< میں مسلمانان ہند کی تائید میں مسلسل مضامین
اس سال اخبار >الفضل< نے مسلمانان ہند کی ترقی و بہبود کے لئے مسلسل آواز اٹھائی اور ان کے خلاف ملک میں اٹھنے والے ہر فتنہ کے خلاف بڑے پرزور طریق سے اور بڑی جرات کے ساتھ قلم اٹھایا۔ حقوق اسلامی کی حفاظت و صیانت کی ان عظیم الشان خدمات کا اندازہ >الفضل< کے مندرجہ ذیل مضامین کے عنوانوں سے باسانی لگ سکتا ہے )مسلمانان کشمیر کی نسبت الفضل کے موثر مضامین اس کے علاوہ ہیں( >صوبہ سرحد میں مسلم کانفرنس کا وفد<۔ >مسلمانوں کو حصول حقوق کے لئے کیا کرنا چاہئے<۔ >مسلمانان بنگال کی امداد کی ضرورت<۔ >کشمیر کے مقابل میں حیدرآباد اور بھوپال کا طریق عمل<۔ >مسلمانوں کے حقوق سے حکومت کی بے التفاتی<۔ >ریاست جے پور اور جودھپور کے مسلمانوں کی حالت زار<۔ >فرقہ وار مسئلہ کے تصفیہ کا مطالبہ<۔ >محکمہ ریلوے میں مسلمانوں کی شدید حق تلفی<۔ >انقلاب ہرگز بند نہیں ہونا چاہئے<۔ >آل انڈیا مسلم کانفرنس کی اہم قرارداد<۔ >مسلمانان پنجاب کے لئے پچاس فیصدی ملازمتیں<۔ >مسلمانوں کی ضروری تنظیم<۔ >حاجیوں کی تکالیف کے انسداد کا معاملہ<۔ >بی۔ اے کے نصاب سے اسلامی تاریخ کا اخراج<۔ >آل انڈیا مسلم کانفرنس میں افسوسناک اختلاف<۔ >مسلمانوں کے حقوق کے خلاف ہندوئوں کی حکومت کو دھمکیاں<۔ >مسلمانان پونڈری سے تعزیری ٹیکس نہ لیا جائے<۔ >سکھوں کا اعلان جنگ<۔ >سکھوں کی دھمکیاں اور حکومت کا فرض<۔ >مسلمانوں کی مخالفت میں ہندوستان کو آئینی ترقی سے محروم رکھنے کی کوشش<۔ >ہندو ریاستوں میں مسلم عناصر کو کچلنے کی تلقین<۔ >مسلمانان الور کے ناقابل برداشت مصائب<۔ >مسلمانوں کے خلاف بلاوجہ شور و شر<۔ >مسلمان اچھوتوں کو فراموش نہ کریں<۔ >حکومت اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاریاں<۔ >مسلمانان پنجاب کے نیابتی حقوق کے خلاف شورش انگیزی کا نتیجہ<۔ >سکھوں کا فائدہ ہندوئوں کا آلہ کار بننے میں نہیں مسلمانوں کے ساتھ متحد ہونے میں ہے<۔ >ہندوستان کی آزادی کے لئے مسلمانوں کی جدوجہد<۔ >اسلام کا جھنڈا نہ صرف گنگا پر بلکہ ساری دنیا پر لہرائے گا<۔ >حکومت کو عجلت کی بجائے تدبر اور احتیاط سے کام لینا چاہئے<۔ >مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کی جنگی تیاریاں<۔ >بڈھلاڈا ضلع حصار کے مسلمانوں پر اندھا دھند قاتلانہ یورش<۔ >کیا حکومت مسلمانوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ کرے گی<۔ >ہندو مسلم سمجھوتہ سے ہندوئوں کا گریز<۔ >مسلمانوں کے خلاف ڈاکٹر نارنگ کا اظہار غیظ و غضب<۔ >بڈھلاڈا کے حادثہ نے ہندوئوں کی خطرناک سازش کو بے نقاب کر دیا<۔ >مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنے کی افسوسناک کوشش<۔ >فرقہ وارانہ منافرت کو مٹانے کے لئے تاریخی کتب میں اصلاح کی ضرورت<
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اس سال مندرجہ ذیل صحابہ کبار نے رحلت فرمائی۔
۱۔
حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی موجد مفرح عنبری )تاریخ وفات ۱۸/۱۷ اپریل ۱۹۳۲ء(۱۷۲ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی نسبت اپنے زمانہ خلافت سے قبل الفضل میں تحریر فرمایا۔ >حکیم صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے مخلصین میں سے ہیں اور ان چند لوگوں میں سے ہیں کہ جن کو حضرت بے تکلفی سے کام بتا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ اکثر کام جو لاہور کے متعلق ہوتے تھے۔ ان کی نسبت حضرت صاحب حکیم صاحب کو ہی لکھا کرتے تھے اور اس طرح آپ کو حضرت صاحب کی دعائوں سے فائدہ اٹھانے کا خاص موقعہ ملتا تھا۔ چنانچہ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کے لئے ایک خاص جوش دیا ہے<۔۱۷۳
۲۔
حضرت مولوی سید غلام محمد صاحب مہاجر افغانستان )تاریخ وفات ۲۸/ جولائی ۱۹۳۲ء(۱۷۴
۳۔
حضرت مولانا عبدالستار صاحبؓ افغان المعروف بزرگ صاحب )تاریخ وفات ۱۸/ اکتوبر ۱۹۳۲ء(۱۷۵
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی وفات پر ایک مفصل خطبہ دیا جس میں آپ کے مقام ایمان و اخلاص پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
>معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مولوی صاحب کا بہت بڑا درجہ تھا۔ ان کی وفات سے دو اڑھائی مہینے پہلے کی بات ہے میں نے ڈلہوزی میں ایک رئویا دیکھا کہ کوئی شخص نہایت گھبرائے ہوئے الفاظ میں کہتا ہے دوڑ و دوڑو قادیان میں ایک ایسا شخص فوت ہوا ہے جس کے فوت ہونے سے آسمان اور زمین ہل گئے ہیں۔ جب میری نظر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ واقعی آسمان ہل رہا ہے اور مکان بھی ہل رہے ہیں۔ گویا ایک زلزلہ آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اب جبکہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رئویا انہی کے متعلق تھی جو پوری ہو گئی۔ جب کوئی شخص ایسا فوت ہوتا ہے جو مقبول الہی ہو۔ تو اس کی وفات کا زمین و آسمان پر اثر ضرور ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ میں تاریخ میں جماعت کے ایک نیک اور اچھے شخص کے نمونہ کو قائم کرنے کے لئے یہ خطبہ کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ غرض جہاں میں چاہتا ہوں کہ تاریخ میں ان مخلص اور خدا رسیدہ لوگوں کے نام رہ جائیں وہاں میں نوجوان احمدیوں اور نئے احمدی بننے والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اسی قسم کا اخلاص اور ایمان پیدا کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ سے ایسا یقین` معرفت اور توکل حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ ان سے براہ راست ہمکلام ہو اور وہ اس مقام پر کھڑے ہوں کہ ان کی وفات آسمان اور زمین کو ہلا دینے کا موجب ہو جائے وہ بھی کیا انسان ہے جو دنیا میں آیا اور چند سال رہ کر یوں مر گیا۔ جیسے مکھی مر جاتی ہے<۔۱۷۶]ydob [tag
۴۔
حضرت مولوی فضل دین صاحب ساکن کھاریاں جو عالم باعمل اور ۳۱۳۔ اصحاب کبار میں شامل تھے ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو رحلت فرما گئے۔۱۷۷
۵۔
نانی اماں حضرت سیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر نواب صاحبؓ )تاریخ وفات ۲۴/ ۲۳ نومبر ۱۹۳۲ء(
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ سول سرجن نے ایک مفصل مضمون میں ان کے حالات زندگی شائع کئے تھے جن میں تحریر فرمایا۔ >والدہ صاحبہ کی شادی قریباً ۱۲۔ ۱۳ سال کی عمر میں حضرت والد صاحب کے ساتھ ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ وہ ہجرت کرکے قادیان ۱۸۹۴ء میں آئی تھیں اور پھر یہیں رہیں۔ مگر اس سے پہلے ہمیشہ وقتاً فوقتاً ہمارے والد صاحب ان کو قادیان اپنے ہمراہ لایا کرتے تھے یا کبھی ان کو چھوڑ جاتے پھر دوسرے پھیرے میں لے جاتے سب سے پہلے وہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے والد بزرگوار کی زندگی میں آئی تھیں جب میر صاحب نہر پر سب اوورسیر تھے اور کئی ماہ قادیان میں ٹھہری تھیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دہلی میں حضرت ام المومنینؓ کے لئے پیغام بھیجا تو میر صاحب کو انہوں نے بھی مشورہ دیا تھا کہ دیگر برادری کے لڑکوں کی نسبت تو غلام احمد )علیہ الصلٰوہ والسلام( ہی اچھا ہے چنانچہ وہ نکاح ظہور میں آگیا<۔۱۷۸
۶۔
خواجہ کمال الدین صاحب بانی ووکنگ مشن انگلستان )تاریخ وفات ۲۸/۲۷ دسمبر ۱۹۳۲ء( ان کی وفات کی خبر سالانہ جلسہ ۱۹۳۲ء کے دوران سنی گئی جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنی تقریر میں خواجہ صاحب مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے فرمایا۔
>اگرچہ خواجہ صاحب نے میری بہت مخالفتیں کیں لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہ والسلام کے وقت خدمات بھی کی ہیں اس وجہ سے ان کی موت کی خبر سنتے ہی میں نے کہہ دیا کہ انہوں نے میری جتنی مخالفت کی وہ میں نے سب معاف کی۔ خدا تعالیٰ بھی ان کو معاف کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن بندوں کو خدا تعالیٰ کھینچ کر اپنے مامورین کے پاس لاتا ہے ان میں ہو سکتا ہے کہ غلطیاں بھی ہوں لیکن خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں ان خوبیوں کی قدر کرنی چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں خلافت کا انکار بڑی خطا ہے خدا تعالیٰ نے اسے بڑا گناہ قرار دیا ہے مگر ہمارا جہاں تک تعلق ہے۔ ہمیں معاف کرنا چاہئے خدا تعالیٰ کے نزدیک اگر ایسے شخص کی نیکیاں بڑھی ہوئی ہوں گی۔ تو وہ اس سے بہتر سلوک کرے گا<۔۱۷۹
زمرہ اصحاب مسیح موعودؑ کے ان مقدسین کے علاوہ حافظ سلطان حامد صاحب جو مدرسہ احمدیہ میں طلباء کو قرآن مجید حفظ کراتے تھے۔ اور سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے استاد ہونے کا شرف رکھتے تھے ۲۷/ اپریل ۱۹۳۲ء کو انتقال کر گئے۔۱۸۰
اسی طرح چودھری شمشاد علی خان صاحب آئی سی ایس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پورنیا نے ۱۶/ جنوری ۱۹۳۲ء کو ایک حادثہ سے وفات پائی۔ حکومت بہار کے سرکاری اعلان اور دوسری اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم اس روز شام ۷ بجے شکار سے جب کیمپ میں واپس پہنچے تو ایک شخص کے ہاتھ سے ان کی رائفل اتفاقاً چل گئی گولی بائیں پھیپھڑے میں لگی۔ اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔۱۸۱ چوہدری صاحب موصوف حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ہم مکتب اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے خسر تھے۔ مرزا احمد بیگ صاحب انکم ٹیکس آفیسر سیالکوٹ کی تبلیغ سے قبول حق کی توفیق ملی۔ باقاعدہ بیعت ۱۱۔ ۱۹۱۰ء میں کی تھی۔۱۸۲
پہلا باب )فصل پنجم(
۱۹۳۲ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں ترقی
۲۳۔ ۲۴/ مارچ ۱۹۳۲ء کی درمیانی شب کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حرم رابع حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کے بطن سے مرزا حنیف احمد صاحب پیدا ہوئے۔۱۸۳
میاں عبدالرحیم خاں کا نکاح
۱۱/ نومبر ۱۹۳۲ء کو میاں محمد عبدالرحیم خان صاحب )ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ( کا نکاح نواب زادہ جعفر علی خان صاحب برادر خورد ہزہائی نس نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی دختر نیک اختر قدسیہ بیگم صاحبہ سے پڑھا گیا۔۱۸۴ ۲۹/ نومبر ۱۹۳۴ء کو تقریب رخصتانہ عمل میں آئی۔۱۸۵
سر محمد شفیع صاحب کا انتقال
شمالی ہند کے مشہور مسلم لیڈر اور پنجاب مسلم لیگ کے سابق صدر سر محمد شفیع ۷/ جنوری ۱۹۳۲ء کو لاہور میں انتقال کر گئے تھے اس اندوہناک قومی حادثہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے ناظر صاحب امور خارجہ قادیان نے ان کے بیٹے میاں محمد رفیع صاحب کو حسب ذیل تار ارسال کیا۔
>حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ آپ کے والد ماجد کی اندوہناک وفات پر دلی ہمدردی کا اظہار کروں۔ مسلمان اپنے حقوق کے ایک زبردست نگران اور ہندوستان ایک اعلیٰ درجہ کے مدبر کی خدمات سے ایسے وقت میں محروم ہو گیا ہے۔ جبکہ اس کی سخت ضرورت تھی<۔۱۸۶
جلسہ تقسیم انعامات
۲۱/ جنوری ۱۹۳۲ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کا جلسہ تقسیم انعامات منعقد ہوا۔ جس میں حضورؓ نے بھی شرکت فرمائی۔ اور تعلیم الاسلام اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو قیمتی ہدایات سے نوازتے ہوئے تلقین فرمائی کہ انعام حاصل کرنے کے لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔۱۸۷ اس سال پہلی بار طلبہ مدرسہ کا ایک خاص امتحان دینیات کا لیا گیا امتحان کے پرچے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اور حضرت میر سید محمد اسحٰق صاحب نے بنائے اور ان کو حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اے` ڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولوی محمد حسن صاحب نے ملاحظہ فرمایا۔ جو طلبہ اس امتحان میں اول رہے ان کے نام مع حاصل کردہ انعام کے درج ذیل ہیں۔
۱۔ جماعت دہم۔ عطاء الرحمن صاحب )حال امیر جماعت احمدیہ ساہیوال(
طلائی تمغہ
۲۔ جماعت نہم۔ محمد ہاشم صاحب۔
نقرئی تمغہ
۳۔ جماعت ہشتم۔ سردار محمد صاحب۔
نقرئی تمغہ
۴۔ جماعت ہفتم۔ غلام حسین صاحب۔
سیرت خاتم النبیین ہر دو حﷺ
۵۔ جماعت ششم۔ محمد دین صاحب۔
سیرت خاتم النبیین ہر دو حﷺ
مجالس >ذکر حبیبؑ<
کچھ عرصہ سے سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی حضورؑ ہی کے صحابہ سے سنانے کا انتظام کر رکھا تھا اسی سلسلہ میں انہوں نے ۲۱/۲۰ اپریل کی درمیانی شب کو قادیان کے تمام حاضر الوقت صحابہ کو جن کی تعداد تین سو تھی مسجد اقصیٰ میں دعوت طعام دی۔ کھانے کے بعد گیارہ صحابہ نے نے حضور علیہ السلام کی زندگی کا ایک ایک چشم دید واقعہ بیان کرکے حاضرین کے ایمان کو تازہ کیا۔۱۸۸
سناتن دھرم سبھا لاہور کی مذہبی کانفرنس
لاہور کی سناتن دھرم سبھا نے اپنے سالانہ جلسہ پر ۲۴/ مئی ۱۹۳۲ء کو ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی جس میں حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے >کیا مذہب ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے؟< کے موضوع پر ایک مختصر مگر موثر مضمون پڑھا۔۱۸۹
قادیان میں السنہ مشرقیہ کے امتحانات کا سنٹر
اس سال قادیان میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے السنہ مشرقیہ کے امتحانات کا بھی سنٹر مقرر کر دیا گیا۔۱۹۰
قادیان کے دفاتر میں ٹیلی فون
جولائی ۱۹۳۲ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ` ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ` ناظر صاحب اعلیٰ` ناظر صاحب بیت المال اور ایڈیٹر صاحب الفضل کے دفاتر میں ٹیلی فون لگا۔۱۹۱
واعظ مقامی کا تقرر
قبل ازیں قادیان میں آنے والے مہمانوں اور مقامی جماعت کی تربیت کا کوئی تسلی بخش مرکزی انتظام نہیں تھا۔ یکم نومبر ۱۹۳۲ء سے >واعظ مقامی< کی ایک اسامی منظور کی گئی اور حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ قادیان کے پہلے واعظ مقامی مقرر کئے گئے۔ آپ کے فرائض مختصراً یہ تھے۔
)۱( مہمانوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام )۲( درس کا انتظام )۳( غیر معروف مہمانوں کے حالات کا پتہ لگانا اور مشتبہ لوگوں کی نگرانی کرنا )۴( نئے آنے والے مہاجرین کو ہجرت کی غرض و غایت سے آگاہ کرنا۔ )۵( مقامی عہدیداروں کے توسط سے مقامی احمدیوں کی عام تربیت کی نگرانی کرنا۔۱۹۲
حضرت مولوی صاحبؓ ایک لمبے عرصہ تک واعظ مقامی کے فرائض نہایت ذمہ داری اور اخلاص سے سر انجام دیتے رہے جس کا تفصیلی ذکر صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹوں سے ملتا ہے۔
بیرونی مشنوں کے بعض ضروری واقعات
فلسطین مشن: مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے مارچ ۱۹۳۲ء سے ایک سہ ماہی رسالہ >البشارۃ اسلامیتہ< جاری کیا۔]10 [p۱۹۳ اخبار >الفلسطین< >الاقدام< اور >الصراط المستقیم< نے اس کے اجراء پر عمدہ تبصرے کئے۔ چنانچہ >الصراط المستقیم< )۱۰/ مارچ ۱۹۳۲ء( نے لکھا کہ احمدیہ عقائد نصرانیت پر ضرب کاری کی حیثیت رکھتے ہیں اور احمدی مسیحیت اور یہودیت پر دوسرے تمام لوگوں سے اشد ہیں۔
مولانا ابوالعطاء صاحب کا غیر احمدی عالم شیخ احمد قصاب سے کامیاب مباحثہ ہوا اور وہ وقت ختم ہونے سے پہلے ہی چل دیئے۔۱۹۴ علاوہ ازیں بغداد کے مشہور پادری الانستاس الکرملی سے اگست میں تبادلہ خیالات ہوا۔ مگر پادری صاحب نے آخر گفتگو سے انکار کر دیا۔۱۹۵
گولڈ کوسٹ مشن: ٹمالے علاقہ میں تبلیغ اسلام سے متعلق مقامی افسرں نے بعض قیود لگا دی تھیں اس سال کے شروع میں چیف کمشنر نے یہ پابندیاں اٹھا دیں۔ اشانٹی میں مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے دورہ کیا اور ایک ذی اثر شخص الحاج عیسیٰ اپنے ۵۶ مریدوں سمیت سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۱۹۶
نیا سالینڈ: ۸/ فروری ۱۹۳۲ء کو مسلمانان نیاسالینڈ کا ایک وفد گورنمنٹ ہائوس زومبار میں گورنر صاحب کے سامنے پیش ہوا جس کی قیادت ایک احمدی مسٹر عبدالحکیم جان نے کی۔ اور مسلمانوں کے مطالبات پیش کئے۔ اس جدوجہد پر انجمن حمایت اسلام زومبار )نیاسالینڈ( نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور لکھا جماعت احمدیہ بھی شکریہ کی مستحق ہے جس کے ایک ممبر نے عین موقعہ پر ہماری راہ نمائی کی اور اپنی آمد سے لے کر اس وقت تک مسلم مفاد کی خاطر کئی ایک بہترین کام کئے۔۱۹۷
امریکہ مشنbody]: ga[tاسی دن جبکہ نیاسالینڈ کا مندرجہ بالا وفد پیش ہوا تھا۔ امریکہ میں شام کے وقت مبلغ امریکہ صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی نے ایک کالج میں ہندوستانی سیاسیات پر تقریر کی اور مسلمانوں کے حقوق و مطالبات کی تشریح کی۔۱۹۸ اس کے بعد نیو یارک اور اس کے نواح میں انہوں نے بذریعہ لیکچر یہ سلسلہ جاری رکھا۔۱۹۹ ۵/ جون کو صوفی صاحب کی شکاگو کی اعلیٰ سوسائٹی CHURCH COMMNITY PEOPLE میں تقریر ہوئی۔ خاتمہ پر صدر جلسہ نے کہا۔ میری تمام زندگی میں جو سب سے زیادہ تعجب انگیز معلومات کا اضافہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس تقریر سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسلام ایسا خوبصورت مذہب ہے<۔۲۰۰ ۱۳/ جون کو ڈی ٹرائٹ میںFAITH OF SHIP FELLOW کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں آپ کی تقریر ہوئی۔ ہندوستانی۔ عرب اور ترک مسلمانوں نے کہا کہ آپ نے آج اسلام کی لاج رکھ لی ہے۔۲۰۱ اس سال سٹوبین ہال` نیگس ٹائون` کلیولینڈ اور ہوم سٹید میں نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔۲۰۲body] [tag
ایران مشن
مرزا برکت علی صاحب آنریری مبلغ نے دارخونین کے ایک پرائیویٹ مکان میں جہاں ایرانی اور عرب اور ہندوستانی موجود تھے وفات مسیح پر چار گھنٹے تک تقریر کی۔ جس کا بہت چرچا ہوا۔۲۰۳
جاوا مشن
مولوی رحمت علی صاحب نے جاوا کے مشہور لیڈر چکروفنو سے ملاقات کی اور پیغام حق پہنچایا اور انگریزی لٹریچر بھی پیش کیا۔۲۰۴
سماٹرا مشن
0] ft[rمولوی محمد صادق صاحب کو پتہ راجہ میں تشریف لے گئے مگر ان کو پولیس نے لیکچر دینے اور مباحثہ کرنے سے روک دیا۔ شہر سگلی میں لوگوں نے سخت مخالفت کی اور انہیں پولیس کے حکم سے شہر چھوڑنا پڑا۔۲۰۵
زنجبار
ڈاکٹر محمد شاہ نواز خان صاحب وغیرہ کی کوشش سے ۱۲/ مئی ۱۹۳۲ء کو انجمن احمدیہ زنجبار کی بنیاد رکھی گئی۔ احمدی وفد نے ۷/ جون ۱۹۳۲ء کو ریذیڈنٹ زنجبار سے اور ۱۱/ جون کو سلطان المعظم خلیفہ بن حاروب سلطان زنجبار سے ملاقات کی اور سلسلہ احمدیہ سے متعارف کیا۔۲۰۶
۱۹۳۲ء کی نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل اہم کتب شائع ہوئیں اور سلسلہ کے لٹریچر میں نہایت قیمتی اضافہ کا موجب بنیں۔
۱۔
>رہنمائے تبلیغ< )مولفہ سید طفیل محمد شاہ صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ کھیوہ سالار والا ضلع لائلپور( تقریباً ساڑھے تین سو صفحات کی یہ کتاب سوال و جواب کی طرز پر لکھی گئی تھی اور بہتوں کی ہدایت کا موجب بنی۔
۲۔
مقدمہ بہاولپور: حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کا وہ بیان جو آپ نے ایک احمدی کے خلاف مقدمہ تنسیخ نکاح میں بطور گواہ مدعا علیہ عدالت بہاولپور میں دیا۔۲۰۷
۳۔
تفہیمات الٰہیہ: )مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی تصنیف( اس کتاب میں مولانا صاحب نے نئے اسلوب و انداز میں غیر مسلموں کے ان اعتراضوں کے جوابات تحریر فرمائے جو سورہ فاتحہ کی نسبت عام طور پر کئے جاتے تھے۔
۴۔
اسلام کی پہلی کتاب: چوہدری محمد شریف صاحب فاضل نے ۱۹۳۲ء و ۱۹۳۶ء میں احمدی بچوں کے لئے نہایت سادہ اور آسان زبان میں ایک سلسلہ کتب جاری کیا جو پانچ حصوں میں شائع کیا گیا جسے بزرگان سلسلہ نے بہت پسند فرمایا۔
۵۔
>تحقیق واقعات کربلا<۔ )تالیف حضرت منشی خادم حسن صاحب خادم بھیرویؓ( سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کتاب کی نسبت سالانہ جلسہ ۱۹۳۲ء میں فرمایا۔
>بہت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے۔ خادم صاحب کا طرز تحریر ایسا ہے کہ شیعہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے سخت لکھا۔ بلکہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا کلام بہت نرم اور میٹھا ہوتا ہے وہ جو کچھ لکھتے ہیں احمدیت کی روشنی میں لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں<۔۲۰۸
۶۔
مکمل تبلیغی پاکٹ بک: ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ کی شاندار تصنیف جسے تبلیغی انسائیکلو پیڈیا کہنا چاہئے۔
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
تبلیغ پر زور دینے کی وجہ سے اس سال ملک میں کثرت سے مناظرے ہوئے جن میں سے سولہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔
مباحثہ مجوکہ: مجوکہ ضلع سرگودھا میں ۱۸۔ ۱۹۔ ۲۰/ فروری ۱۹۳۲ء کو مباحثہ ہوا۔ جس میں حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری- مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور مولوی عبدالاحد صاحب احمدی مناظر شامل ہوئے۔ مباحثہ کے اختتام پر ۵۲ افراد نے بیعت کر لی غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد مسعود الہڑوی اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی وغیرہ دس علماء شریک بحث تھے۔۲۰۹
۲۔
مباحثہ دیڑ چک نمبر ۲۹ )ضلع شیخوپورہ( ۲۵۔ ۲۶/ فروری ۱۹۳۲ء کو یہاں ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے مسئلہ وفات مسیحؑ و صداقت مسیح موعودؑ پر مباحثہ کیا غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب گوندلانوالہ۔ مولوی محمد مسلم صاحب اور مولوی نور شاہ صاحب مناظر تھے۔ وقت مناظرہ ابھی باقی تھا کہ غیر احمدی علماء میدان مناظرہ سے چل دیئے۔ اس مناظرہ میں تین اشخاص داخل سلسلہ ہوئے۔۲۱۰
۳۔
مباحثہ آنبہ )ضلع شیخوپورہ( آنبہ میں ملک عبدالرحمن خادمؓ اور مولوی محمد سلیم صاحب نے ۲۷۔ ۲۸ اور ۲۹/ فروری کو مولوی محمد حسین صاحب پنڈی بہاء الدین` حافظ احمد الدین صاحب گکھڑوی` اور مولوی نور حسین صاحب گرجا کھی سے چار مناظرے کئے۔ پہلے مناظرہ میں خود غیر احمدیوں نے اپنے مناظر صاحب کو وقت ختم ہونے سے پہلے ہی بٹھا دیا۔ دوسرے مناظرے میں ایک معزز سکھ سردار نے غیر احمدیوں سے کہا کہ آپ کے مناظر کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔۲۱۱
۴۔
مباحثہ لاہور: یہ نہایت کامیاب مناظرہ تھا۔ جو ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے ۲۔ ۳/ مارچ ۱۹۳۲ء کو پہلے پادری ٹھاکرداس صاحب ایم۔ اے پھر پادری سلطان محمد پال ایڈیٹر >نور افشاں< سے کیا۔ تمام حاضرین جن میں غیر مسلم بھی شامل تھے خادم صاحب کے دلائل سے حد درجہ متاثر ہوئے۔ اور غیر احمدی اصحاب تو اس درجہ خوش تھے کہ بے اختیار نعرہ تکبیر بلند کرتے تھے۔۲۱۲
۵۔
مباحثہ روپڑ )ضلع انبالہ( یہاں ۲۰۔ ۲۱/ مارچ ۱۹۳۲ء کو ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ اور مولوی محمد سلیم صاحب کا غیر احمدی عالم مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی اور مولوی احمد دین صاحب کے ساتھ مناظرہ ہوا۔ ایک شخص نے اسی وقت اعلان بیعت کر دیا۔۲۱۳
۶۔
مباحثہ سیدو باغ )سندھ( ۲۶۔ ۲۷/ مارچ ۱۹۳۲ء کو شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے وفات مسیح اور صدق مسیح موعودؑ پر مناظرے کئے غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی پیش ہوئے مناظرہ کے بعد ایک صاحب داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔۲۱۴
۷۔
مباحثہ وزیر آباد: یہاں مولوی محمد سلیم صاحب کا مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے ۱۰/ اپریل کو مباحثہ ہوا۔ مناظرہ میں اہلحدیث نے یہ عجیب شرط رکھی کہ ان کے لئے کسی اپنے امام کا قول بھی حجت و سند نہیں ہے اس لئے وہ پیش نہ کیا جائے مولوی محمد سلیم صاحب نے قرآن مجید سے معیار صداقت پیش کرکے صداقت مسیح موعودؑ کا ثبوت دیا مگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے کسی دلیل کو چھونے کی بھی جرات نہ کی مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر >زمیندار< خلاف اصول اپنے مناظر کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے تو ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے ان کی تقریر کا دندان شکن جواب دیا۔ مباحثہ کے آخر میں اہلحدیث نے دلائل کی تاب نہ لا کر شور مچا دیا۔ ۲۱۵
۸۔
مباحثہ شہباز پور )بنگال( ۲۱/ مئی کو اس جگہ صداقت احمدیت اور نبوت مسیح موعودؑ پر مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مولوی سید سعید احمد صاحب نے بحث کی۔ صدر مولوی تمیز الدین صاحب تھے جنہوں نے صرف ۱۰ منٹ تک احمدی مناظر کو اور دو گھنٹے تک غیر احمدی مناظر مولوی حسن الدین صاحب کو بولنے کی اجازت دی۔ غیر احمدی مناظر بالاخر جماعت احمدیہ کے خلاف فتویٰ کفر دینے اور از خود مناظرہ ختم کرکے جانے لگے۔ لیکن سامعین نے ان کو مجبور کرکے بٹھا دیا۔ اس کے بعد مولوی سید سعید احمد صاحب نے فریق ثانی کا مدلل جواب دیا۔۲۱۶
۹۔
مباحثہ خانیوال )ضلع ملتان( جون ۱۹۳۲ء میں اس جگہ ایک کامیاب مناظرہ ہوا جس میں مرکز سے حافظ مبارک احمد صاحب` مولوی احمد خاں صاحب اور مولوی عبدالاحد صاحب نے شرکت کی پبلک اس سے بے حد متاثر ہوئی۔ اور ایک معزز غیر احمدی نے احمدی مبلغین کو دعوت طعام دی۔۲۱۷
۱۰۔
مباحثہ اجنالہ: سید احمد علی صاحب اور مولوی محمد نذیر صاحب فاضل ملتانی نے ۲۳/ جون کو اجنالہ میں علمائے اہلحدیث مولوی عبدالقادر صاحب اور حافظ احمد دین صاحب سے مناظرہ کیا۔ غیر مسلم پبلک اہلحدیث مناظر کی بدزبانی کی بہت شاکی تھی۔ جس پر غیر احمدی صدر صاحب کو معذرت کرنا پڑی۔۲۱۸
۱۱۔
مباحثہ شاہ مسکین )ضلع شیخوپورہ( ۳۔ ۴/ جولائی ۱۹۳۲ء کو ایک کامیاب مناظرہ ہوا۔ جس میں احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب اور شیخ مبارک احمد صاحب مناظر تھے۔۲۱۹
۱۲۔
مناظرہ گنج مغلپورہ: ۱۷/ جولائی ۱۹۳۲ء کو موضع گنج متصل لاہور میں جماعت احمدیہ اور اہلحدیث کے درمیان ایک فیصلہ کن مناظرہ ہوا۔ ختم نبوت کے مسئلہ پر جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب اور اہلحدیث کی طرف سے مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی مناظر تھے۔ حیات و وفات مسیحؑ اور صداقت مسیح موعودؑ کے موضوع پر ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے جماعت احمدیہ کی جانب سے مناظرہ کیا اور اہلحدیث کی طرف سے پہلے مولوی احمد دین صاحب پھر مولوی عبدالرحیم شاہ صاحب پیش ہوئے دوسرے اور تیسرے مناظرے کے درمیان غیر اہلحدیث نے میدان مناظرہ میں ہی اپنا جلسہ کرکے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری کی تقریر شروع کرا دی۔ مگر پھر فیصلہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے تقریر ہو جس پر بعد کو سوالات و جوابات ہوں چنانچہ ابتداًء حافظ مبارک احمد صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریریں ہوئیں اس کے بعد ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ کھڑے ہوئے تو فریق ثانی نماز عصر کا بہانہ کرکے چلا گیا۔ اس مناظرہ کے نتیجہ میں تین اشخاص سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۲۲۰
۱۳۔
مباحثہ بمبو )تحصیل شکر گڑھ( ۳۱/ جولائی کو جماعت احمدیہ اور اہلحدیث کا مناظرہ ہوا۔ احمدی مناظر حافظ مبارک احمد صاحب اور مناظر اہلحدیث حافظ احمد دین صاحب گکھڑوی اور عبدالرحیم شاہ صاحب وغیرہ تھے۔ پبلک نے اقرار کیا کہ احمدی مبلغ نے اپنے دلائل نہایت سنجیدگی سے بیان کئے ہیں۔۲۲۱
۱۴۔
مباحثہ بھیرہ )ضلع شاہ پور( جماعت احمدیہ اور بریلویوں کے درمیان ۱۶/ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۲ء کو تین مناظرے ہوئے جماعت احمدیہ کی طرف سے پہلے اور دوسرے مناظرہ میں مولوی محمد سلیم صاحب اور تیسرے میں ملک عبدالرحٰمن صاحب خادمؓ نے حصہ لیا۔ غیر احمدی مناظر مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی تھے۔ تیسرا مناظرہ بڑے معرکے کا تھا۔ جس کے نتیجہ میں بھیرہ اور اس کے مضافات میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور پانچ نفوس سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۲۲۲
۱۵۔
مباحثہ گوبند پورہ: ۲۰۔ ۲۱/ نومبر کو مولوی محمد سلیم صاحب نے یہاں غیر احمدی عالم مولوی محمد ادریس صاحب سے مناظرہ کیا۔ ہندو پبلک نے خصوصیت سے جماعت احمدیہ کے دلائل کی معقولیت تسلیم کی۔۲۲۳
۱۶۔
مباحثہ جہلم: جہلم کا یہ مشہور مباحثہ الوہیت مسیح اور صداقت مسیح موعودؑ کے موضوع پر ۱۲ سے ۱۵/ دسمبر تک جاری رہا۔ احمدی مناظر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ تھے اور عیسائی مناظر پادری عبدالحق صاحب مناظرہ جہلم کے گرجا گھر میں ہوا۔ فریقین کے کل ۲۲ پرچے ہوئے یہ مناظرہ شائع شدہ ہے جس کے پڑھنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے احمدیت کو عیسائیت پر کتنی بین فتح دی۔۲۲۴
نو مبایعین
اس سال سینکڑوں۲۲۵ احباب حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ بیعت کرنے والوں میں مرزا محمد اسحٰق بیگ صاحب آف پٹی بھی تھے جو مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیارپوری کے نواسے اور محمدی بیگم صاحبہ کے بیٹے ہیں۔ مرزا صاحب موصوف نے انہیں دنوں قبول احمدیت پر ایک مفصل بیان4] f[st۲۲۶ میں زور دار الفاظ سے اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی متعلقہ مرزا احمد بیگ صاحب روز روشن کی طرح پوری ہو چکی ہے اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں یہ وہی مسیح موعود ہے جن کی نسبت نبی کریم~صل۱~ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔
tav.7.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل ششم(
)جنوری ۱۹۳۳ء تا دسمبر ۱۹۳۳ء بمطابق رمضان المبارک ۱۳۵۱ ھ تا رمضان المبارک ۱۳۵۲ھ(
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہوائی جہاز میں پہلی بار پرواز
۱۹۳۳ء کا آغاز حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضور کے برادران کی ہوائی جہاز میں پہلی بار پرواز کے واقعہ سے ہوتا ہے۔
ہندوستان کے مشہور ہوا باز مسٹر چاولہ ۳۰/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو ۷ بجے شام کے قریب اپنے ہوائی جہاز پر لاہور سے آئے اور قادیان کے اسٹیشن کے پاس کھلے میدان میں اترے اور حضور سے جہاز دیکھنے کی درخواست کی چنانچہ حضور یکم جنوری ۱۹۳۳ء کو گیارہ بجے کے قریب تشریف لے گئے۔ قادیان میں ہوائی جہاز کے آنے کا یہ پہلا موقعہ تھا۔ اس لئے قادیان اور اس کے مضافات سے بکثرت لوگ جمع تھے۔ جہاز نے تین دفعہ پرواز کی۔ پہلی بار حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے اور سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ۲۲۷ سوار ہوئے اور دوسری دفعہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور سیدہ امتہ القیوم صاحبہ۔۲۲۸ تیسری بار حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ۔ جہاز اللہ اکبر کے نعروں میں زمین سے بلند ہوا اور آدھ گھنٹہ کے قریب چار ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے اور دریائے بیاس تک چکر لگانے کے بعد زمین پر اترا۔
یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہو گا کہ کئی اصحاب کو ہوائی جہاز کے سفر سے تشویش بھی ہوئی اور بعض مخلصین نے تو حضور کی خدمت میں اس کا اظہار بھی کر دیا۔ مگر حضور نے ان کو تسلی دی لیکن جب جہاز کی تیسری اڑان کے دوران پہلی دو پروازوں کی نسبت زیادہ وقت گزرنے لگا اور جہاز کہیں دکھائی نہ دیا تو گھبراہٹ اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی اس اثناء میں جونہی جہاز نظر آیا لوگوں نے فرط مسرت سے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔۲۲۹
اچھوتوں سے متعلق جماعت احمدیہ کی مخلصانہ مساعی اور ہندوئوں کی مخالفت
جماعت احمدیہ نے اچھوتوں میں تبلیغ اسلام کی جو مہم جاری کر رکھی تھی اس نے ہندوئوں کو بہت برا فروختہ کر رکھا تھا اور اب انہوں نے
کھلم کھلا جماعت احمدیہ کی مخالفت شروع کر دی۔ ہندوئوں کے جذبات کی تلخی کتنی شدت اختیار کر چکی تھی اس کا نمونہ اخبار >آریہ گزٹ< ۷/ جنوری ۱۹۳۳ء کے مندرجہ ذیل الفاظ سے ملتا ہے۔
>ان کے )احمدیوں کے۔ ناقل( زیر نظر دو مقصد ہیں اول ہندوئوں کو نقصان پہنچانا۔ احمدی جماعت ایک تبلیغی جماعت ہے اور مسلمانوں میں جو تبلیغی بیداری پائی جاتی ہے وہ موجودہ زمانہ میں بہت حد تک احمدیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے احمدی جماعت ہندوئوں کی بہت سخت دشمن ہے اور ہر ممکن طریقہ سے ہندو قوم کو نقصان پہنچانے میں کوشاں رہتی ہے اور اس طریقہ سے بھی وہ ہندوئوں کو نقصان پہنچانے میں کامیابی کی امید رکھتے ہیں۔ دوسرا مقصد ان کے زیر نظر یہ ہے کہ احمدیوں کی تعداد بڑھائی جائے اس وقت ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے دوسرے مسلمان ان کے بہت مخالف ہیں۔ اور ان میں نئے شامل ہونے والے بہت کم ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اچھوتوں کو احمدی بنا کر مردم شماری میں ان کی تعداد بڑھائی جائے اور پنجاب میں سیاسی اقتدار حاصل کیا جائے اس وقت باوجود تھوڑے ہونے کے احمدی لوگ میدان سیاست میں کافی اثر رکھتے ہیں جس کی بڑی وجہ ان کی تنظیم اور اپنے خلیفہ کی اطاعت کرنا ہے کونسل کے تمام مسلمان ممبران ان کے ووٹوں کی ضرورت محسوس کرکے ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتے اور جب اچھوتوں کو ساتھ ملا کر ان کی تعداد میں کافی اضافہ ہو جائے گا۔ تو آسانی سے خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان کا سیاسی اثر کس قدر زیادہ ہو جائے گا۔ بلکہ مجھے تو یہ نظر آرہا ہے کہ اگر جداگانہ انتخاب قائم رہا تو زمانہ مستقبل میں پنجاب پر دراصل خلیفہ قادیان کی حکومت ہو گی<۔۲۳۰
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی سفر ولایت سے واپسی
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب تیسری گول میز کانفرنس میں مسلمانان ہند کی سیاسی نیابت کے اہم فرائض ادا کرنے کے بعد ۱۹/ جنوری ۱۹۳۳ء کو لنڈن سے وارد بمبئی ہوئے۔ بندرگاہ پر احمدیوں کے علاوہ بعض مشہور مسلمان شخصیتوں۲۳۱ نے بھی آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔ بوہرہ جماعت کے پیشوا ملا سیف الدین طاہر صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد آپ فرنٹیر میل میں دہلی روانہ ہو گئے۔۲۳۲ دہلی میں ایک دن قیام فرمانے کے بعد ۲۲/ جنوری ۱۹۳۳ء کو ۱۲ بجے کی گاڑی سے سیدھے قادیان تشریف لائے۔ اسٹیشن پر خیر مقدم کرنے والوں کا ایک بہت بڑا ہجوم موجود تھا۔ خود حضرت خلیفہ ثانیؓ بھی رونق افروز تھے۔ آپ معانقہ و مصافحہ کے بعد حضور کی میت میں بذریعہ موٹر مسجد مبارک آئے اور نفل پڑھنے کے بعد بہشتی مقبرہ میں دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ واپسی پر حضرت امیر المومنینؓ کے ہاں کھانا تناول فرمایا اور تین بجے کی گاڑی میں لاہور کی طرف روانہ ہو گئے۔4] f[st۲۳۳
لاہور اسٹیشن پر بھی مسلمانان پنجاب کے نہایت معزز اور سرکردہ اصحاب و عمائد استقبال کے لئے موجود تھے۔
چوہدری صاحب کی واپسی اور استقبال کے سلسلہ میں ہندو اخبار >ملاپ< )لاہور( نے ۲۵۔ ۲۶/ جنوری ۱۹۳۳ء کے پرچوں میں مندرجہ ذیل دو نوٹ شائع کئے۔ پہلا نوٹ ادارہ >ملاپ< کے ایک رکن کا تھا اور دوسرا اس کے مالک لالہ خوشحال چند صاحب کا۔
پہلا نوٹ: >پلیٹ فارم ۹ نمبر پر ایک اور ہی نقشہ نظر آیا۔ جدھر دیکھو ترکی ٹوپیوں والے ہار ہاتھوں میں لئے پھر رہے ہیں۔ اتنے میں ایک سانولی صورت لمبا چوڑا شخص ایک لبادہ پہنے نظر آیا۔ صحیح طور پر لکھا جائے تو یہ کہنا ہو گا کہ شوخ رنگ کا ایک لبادہ چلتا پھرتا نظر آتا تھا۔ نزدیک پہنچے تو دیکھا کہ پنجاب کونسل کے جلیل القدر صدر چودھری سر شہاب الدین چلے آرہے ہیں۔ چند منٹ کے بعد فاصلہ پر ایک اور صاحب نظر پڑے غپی سمجھا شاہ ایڈورڈ ہفتم نے دوبارہ جنم لے لیا ہے اور لیا بھی غلام آباد ہندوستان میں لیکن یہاں بھی دھوکا ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج سر عبدالقادر تھے۔ اتنے میں نہایت اعلیٰ قسم کا تمباکو سلگنے کی خوشبو آئی۔ منہ پھر کر دیکھا تو سامنے ایک وجیہہ جوان چلے آرہے تھے۔ سر پر زرکار کلاء جس پر ایک سفید ململ کی پگڑی لیکن اس پر ایک امتیازی طرہ عنفوان جوانی میں متانت پیدا کر رہا تھا۔ پائوں میں پیٹنٹ لیدر کی بڑھیا پمپ شو اور بدن پر ایک چسٹر جس کے بٹن کھلے ہوئے تھے سمجھا کوئی بڑے رئیس زادے ہیں لیکن ایک منٹ کے اندر اندر ہی نو وارد کے اردگرد ایک ہجوم ہو گیا۔ آپ سب سے مصافحہ کرتے جاتے اور مسکراتے جاتے تھے قریب پہنچ کر دیکھا تو معلوم ہوا نووارد حضرت سردار سکندر حیات خاں ریونیو ممبر گورنمنٹ پنجاب ہیں وہی سکندر حیات اور خان صاحب جو حال میں قائم مقام گورنر رہ چکے ہیں۔ میں حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے سردار سکندر حیات اور یہ سادگی اور یہ بے تکلفی۔ ہر کہ ومہ سے اس طرح مصافحہ کررہے ہیں گویا ساری عمر کسی بڑے عہدہ کی جھلک نہیں دیکھی چہ جائیکہ گورنری کی گدی پر براجمان رہ چکے ہیں۔ مجھے معاً اپنی قوم کے بڑے آدمیوں کا خیال آگیا۔ ان سے ملنا کتنا دشوار ہے اور پھر مل کر طبیعت پر کتنا بوجھ معلوم ہوتا ہے۔ کیا ہندو بھی کبھی اس اخلاص کا نمونہ پیش کر سکیں گے۔ جو مسلمانوں کی ایک قومی خصوصیت ہے۔
یہ سب صاحبان چودھری ظفر الل¶ہ خاں صاحب کے استقبال کے لئے جمع ہوئے تھے۔ چوہدری صاحب لنڈن سے آرہے تھے مگر گاڑی گورداسپور سے آرہی تھی۔ حیرت ہوئی کہ آخر گورداسپور کی گاڑی میں آنے کا کیا مطلب؟ معلوم ہوا کہ آپ پنجاب میں قدم رکھنے کے بعد اپنے خویش و اقارب کو ملنے سے پہلے اپنے پیر و مرشد خلیفہ قادیان کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے قادیان تشریف لے گئے تھے۔ مجھے اس سے مطلب نہیں کہ چوہدری صاحب احمدی ہیں یا حنفی یا وہابی۔ اس کے سامنے تو صرف ایک سوال تھا اور وہ یہ کہ مسلمان اپنے مذہب کا کتنا پابند ہے۔ بخلاف اس کے پڑھے لکھے ہندو نوجوان مذہب کا مذاق اڑانا سب سے بڑی سعادت خیال کرتے ہیں<۔
دوسرا نوٹ: >جو ہندو لیڈر شکایت کرتے ہیں کہ ان کی بات سننے والا کوئی نہیں۔ گورنمنٹ کے ہاں ان کی سنی نہیں جاتی۔ اور ہندو پبلک ان کی آواز پر عمل نہیں کرتی۔ انہیں دیکھنا چاہئے کہ اس کی تہہ میں کونسی وجوہات کام کر رہی ہیں۔ دوسری باتوں کے علاوہ ایک بات جو ہندو لیڈروں کو کمزور بنارہی ہے وہ دھارمک پہلو میں ان کی لاپروائی ہے جتنا بڑا ہندو لیڈر ہو گا اتنا ہی زیادہ ناستک بننے کی کوشش کرے گا جوں جوں اس کا درجہ بڑھتا جائے گا۔ وہ ویدوں کو جواب دیتا جائے گا۔ شاستروں کو جواب دیتا جائے گا اور آخری منزل پر پہنچ کر شاید ایشور کو بھی جواب دینا مناسب سمجھ لیا جائے۔ اس سے بڑھ کر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ان باتوں کو فراخدلی اور آزاد خیالی کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ سوسائٹی اور جاتی کے پرخچے اڑا دینے والے جتنے کام ہیں ان کو کرنا فخر خیال کیا جاتا ہے ویدوں کو الہامی ماننا سدھانتوں پر چٹان کی طرح کھڑے رہنا دقیانوسی سپرٹ سمجھی جاتی ہے اور اسے تنگدلی کا اور غلامانہ ذہنیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مجھے ہندو جاتی کے انتشار کی سب سے بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے۔ بتلائو تو سہی ہندوئوں کے لئے کوئی مرکز چھوڑا بھی گیا ہے جس کے اردگرد جمع ہوں یا آزاد خیالی یا مادر پدر آزادی کے طوفان میں سب کچھ غرق کر دیا گیا ہے کتنے ہی ہندو لیڈر گول میز کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے لنڈن پہنچے لیکن کسی کے متعلق یہ سننے میں نہیں آیا کہ کوئی شخص وید کاپستک ساتھ لے گیا ہو اور اسے تختہ جہاز پر یا لنڈن کے ہوٹلوں میں وید منتر پڑھتے ہوئے دیکھا یا سنا گیا ہو۔ اس کے برعکس مسلم لیڈروں کو لے لیجئے۔ قریباً ہر ایک مسلمان لیڈر کے پاس قرآن موجود تھا اور وہ ہر روز اس کا مطالعہ کرتے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر ہندو لیڈر واپس آئے اور اپنی اپنی کوٹھیوں میں چلے گئے لیکن ہندو لیڈروں کے لئے چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک شمع ہدایت دکھلائی ہے اور ہندو لیڈروں کو بتلایا ہے کہ قوت ایمان اور اپنے مذہب کی محبت ہی اونچا اور بلند کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ۱۹/ جنوری کو جہاز سے اترے اور ایک دن دہلی رہ کر وہاں سے سیدھے ۲۲/ جنوری کو قادیان جا پہنچے اس کے متعلق جو روئداد >الفضل< نے لکھی وہ یہ ہے کہ:
>احمدیہ چوک میں موٹر سے اتر کر مسجد مبارک میں نفل پڑھے۔ پھر مقبرہ بہشتی میں دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں سے واپسی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاں کھانا کھایا اور تین بجے کی گاڑی سے لاہور تشریف لے گئے<۔
گویا چودھری صاحب نے لنڈن سے واپسی پر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے >دارالامان< پہنچے اور وہاں مسجد میں پہنچ کر اپنا فرض ادا کیا۔ اسے کہتے ہیں قوت ایماان اور یہی چیز ہے جو مسلمانوں کو سنگٹھت کر رہی ہے لیکن ہندوئوں میں جیسے ان کے لیڈر ویسے یہ خود۔ نہ لیڈروں کو دھرم کا خیال ہے نہ عوام کو۔ ذرا کوئی ہندو پالٹیکس کی طرف جھکتا ہے تو وہ سب سے پہلے دھرم اور دھارمک عقیدوں کے خلاف جہاد کرنا اپنا فرض سمجھ لیتا ہے چاہے کوئی کانگرسی ہو یا غیر کانگرسی۔ ہندو بھائی ہو یا قوم پرست` ہر ایک ہندو اور ہندو لیڈر کو مسلم لیڈروں میں سے کسی نے نہیں تو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے جو مثال پیدا کی اسے دیکھ کر یقیناً ہر ہندو لیڈر شرمندہ ہو رہا ہوگا<۔۲۳۴
ایک ناگوار واقعہ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا فیصلہ
مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ ۲/ فروری ۱۹۳۳ء کو بغرض تبلیغ انگلستان روانہ ہونے والے تھے۔ روانگی کے وقت بعض مقامی طلباء و اساتذہ نے بعض دفتری امور کی بناء پر آپ کے خلاف ایسا رویہ اختیار کیا جو سلسلہ احمدیہ کی روایات اور اسلامی تعلیم کے سراسر منافی تھا۔
حضرت امیر المومنینؓ کو دوسرے دن اس مظاہرہ کی اطلاع پہنچی تو حضور نے ایک طرف تو حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ بمبئی کو تار بھیجا کہ جب مولوی صاحب جہاز پر سوار ہوں تو ان کے گلے میں پھولوں کا ایک ہار حضور کی طرف سے اور چار ہار اطراف عالم میں پھیلے ہوئے احمدیوں کی طرف سے ڈالے جائیں۔ دوسری طرف حضورؓ نے ۳/ فروری کو ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا۔ جس میں قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے` حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ` حضرت چوہدری فتح محمد صاحبؓ سیال ایم اے ناظر اعلیٰ اور حضرت مفتی محمدﷺ~ صادق صاحبؓ کو بطور مشیر شامل فرمایا اور اپنی نگرانی میں ۴/ فروری سے ۱۶/ فروری تک مصروف تحقیقات رہے۔
تحقیقات کے دوران حضور انور کی شفقت و ذرہ نوازی کے عجیب نظارے دیکھنے میں آئے۔ حضورؓ ان دنوں ناسازی طبع کے باوجود ایک ایسے معاملہ کی تحقیقات میں مصروف تھے جس کی وجہ سے حضور کو سخت صدمہ تھا مگر اس کے باوجود حضور کو ان لوگوں کے آرام اور تواضع کا خیال دامنگیر تھا جو تحقیقات کے لئے بلائے جاتے تھے۔ حضور بار بار ان کو احترام کے ساتھ بٹھاتے اور ان کو آرام پہنچانے کے لئے انگیٹھی بھی رکھوا دیتے اور جب کھانے یا چائے کا وقت آتا تو جو لوگ اس وقت تحقیق کے لئے مدعو ہوتے ان کو بھی اپنے ساتھ کھانا کھانے یا چائے پینے کا شرف عطا فرماتے۔ اسی قسم کے ایک موقعہ پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے منہ سے نکل گیا کہ اس عدالت کی عجیب شان ہے جس میں صدر عدالت` ان کے مشیر اور ملزم ایک ہی میز پر ایک ہی قسم کے برتنوں اور ایک ہی قسم کی اشیاء کا ناشتہ کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں زیر الزام اشخاص قدرتاً جھینپتے اور شرماتے۔ اس وقت قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے میزبانی کے فرائض ادا فرماتے اور اپنے ہاتھ سے اشیاء اٹھا اٹھا کر ان کے آگے رکھتے۔
حاصل کلام یہ کہ جب معاملہ کے ایک حصہ کی تحقیقات پایہ تکمیل کو پہنچی۔ تو ۱۰/ فروری کو خطبہ جمعہ میں حضور نے یہ اعلان فرمایا کہ بات اس سے بھی زیادہ اہم اور افسوسناک تھی جس قدر کہ مجھے پہلے خطبہ کے وقت نظر آتی تھی۔ اور باوجود رحم کے ایک شدید جذبہ کے جو ایک باپ کو اپنے بچہ کے متعلق پیدا ہوتا ہے۔ میں اس فیصلہ پر مجبور ہوا ہوں کہ بعض ایسے لوگ اساتذہ میں سے بھی ہیں کہ جن کے فعل کی برائی حد سے بڑھی ہوئی ہے اور انہوں نے اپنے افعال سے اپنے آپ کو اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ ان کے معاملہ پر غور کیا جائے اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے عفو کے سامان پیدا نہ کرے تو انہیں ان کے اعمال کے مطابق سزا دی جائے اس وضاحت کے بعد حضور نے اس مظاہرہ میں نمایاں حصہ لینے والوں کی نسبت حکم دیا کہ ان کے ساتھ کوئی احمدی اطلاع ثانی تک کوئی کلام نہ کرے۔ چنانچہ ۱۰/ فروری سے لے کر ۱۸/ فروری تک جبکہ حضور کی طرف سے معافی کا اعلان نہ ہو گیا ان کے ساتھ کسی نے کلام نہ کیا اور ان لوگوں نے بھی یہ ایام نہایت تضرع وزاری میں گزارے اور شب و روز توبہ و استغفار میں مصروف رہے اور روزہ رکھ کر خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری سے دعائیں کرتے رہے۔
جب ہر لحاظ سے تحقیقات مکمل ہو گئی تو حضور کے حکم پر ۱۸/ فروری ۱۹۳۳ء کو صبح ساڑھے دس بجے تک سب لوگ مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے اور حضور نے اپنا فیصلہ سنایا جس جس شخص نے کوئی نازیبا حرکت کی تھی اس کا ذکر بھی کیا۔ اور فرمایا کہ اگر ان ایام میں ایسے لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہو اور سچی ندامت بھی پیدا ہو چکی ہو۔ تو وہ کھڑے ہو کر اس کا اظہار کر دیں۔ اور خدا تعالیٰ` خلیفہ وقت اور جماعت سے معافی مانگیں نیز آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کا اقرار کریں تو انہیں معافی دے دی جائے گی۔ اس پر متعلقہ اصحاب باری باری اٹھے اور رو رو کر انشراح صدر سے معافی مانگی اور اپنے افعال پر ندامت کا اظہار کیا۔ جس پر حضور نے ان کو معاف فرما دیا البتہ بعض طلباء و اساتذہ کی معافی بعض شرائط کے ساتھ مشروط کر دی۔
عفو و معافی کا یہ عجیب نظارہ تھا جس میں اپنے مشفق آقا اور رحیم و کریم امام کی زبان مبارک سے محبت و شفقت سے لبریز فیصلہ سن کر ہر آنکھ پرنم ہو گئی۔ خوشی اور مسرت کے آنسو نکل پڑے۔ اور ہر دل نے محسوس کیا کہ خلافت کا وجود ہر قصور وار اور خطا کار کے لئے آیہ رحمت ہے بشرطیکہ اسے اپنی غلطی پر حقیقی ندامت اور پشیمانی ہو۔۲۳۵
چینی اور جاپانی مسلمانوں کیلئے جاپانی حکومت سے خط و کتابت
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جاپانی قونصل جنرل کو ایک خط لکھا تھا جس میں جاپانی و چینی مسلمانوں کے خلاف حکومت کے رویہ پر تشویش کا اظہار کیا۔ جاپانی قونصل جنرل نے جواب بھیجا کہ >میں آپ کو بخوشی اطلاع دیتا ہوں کہ حکومت جاپان کو مسلمانوں کے خلاف ہرگز کوئی تعصب نہیں ہے جاپان میں اہل اسلام کو اپنے مذہب اور قومی تہذیب و تمدن کے لحاظ سے پوری آزادی ہے<۔ نیز لکھا کہ:
>جاپان کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں کہ اہل چین کے ساتھ جنگ کرے ۔۔۔۔۔۔۔ چین میں مسلم آبادی بہت غربی جانب ہے اور موجودہ چینی جاپانی لڑائی کا اس حصہ ملک پر کوئی اثر نہیں جن چینیوں سے اس وقت جاپان کی لڑائی ہے وہ چین کے قوم پرست ہیں جو کمیونل۲۳۶ خیالات کے زیر اثر ہیں چین کے مسلمان ان خیالات میں ان کے ساتھ متحد نہیں<۔۲۳۷
>بیت النصرت< کی بنیاد
۲۳/ فروری ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے حضرت ام المومنینؓ کی کوٹھی >بیت النصرت< کا سنگ بنیاد رکھا۔۲۳۸ جیسا کہ قبل ازیں ذکر آچکا ہے حضرت ام المومنینؓ نے یہ کوٹھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے لئے بنوائی تھی جن سے آپ کو از حد محبت تھی۔ چنانچہ مولوی سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن کی اہلیہ محترمہ کا بیان ہے کہ یوں تو خاندان کے بنیادی فرد ہونے کی حیثیت میں آپ ہر فرد خاندان سے محبت و الفت سے پیش آتی ہیں لیکن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اپنے بڑے پوتے سے خاص الفت ہے۔ ایک مرتبہ عاجزہ کو حضرت صاحبزادہ صاحب کا مکان لے جاکر بتلایا جو آپ نے بنوایا تھا آپ نے اس مکان کے بالائی حصہ میں بیت الدعا دکھا کر فرمایا کہ میں نے تبرکا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مکان کی ایک اینٹ اس کوٹھی کے بالائی حصہ میں لگوا دی ہے۔ آپ کا یہ جذبہ عقیدت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ہزار دلیلوں سے بڑھ کر ایک دلیل ہے۔۲۳۹
مرکز میں صیغہ نشر و اشاعت کا قیام
مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء میں ایک اہم فیصلہ یہ ہوا کہ نظارت دعوۃ و تبلیغ کے ماتحت ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا جائے جس کا مقصد مقامی ضرورتوں کے مطابق اشتہارات اور ہینڈ بلز کی اشاعت کا انتظام ہو۔ اس فیصلہ کے مطابق صیغہ نشر و اشاعت کی بنیاد پڑی۔ جو آج تک جاری ہے اور بہت مفید تبلیغی خدمات بجا لارہا ہے۔
مسجد فضل لنڈن میں قائداعظم محمد علی جناح کی تقریر
اپریل ۱۹۳۳ء میں عید الاضحیہ کے موقع پر مسجد احمدیہ لنڈن میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں دو سو کے قریب مشہور شخصیتیں مدعو تھیں۔۲۴۰ اس موقعہ پر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ کی تحریک پر قائداعظم محمد علی جناح نے >ہندوستان کے مستقبل< پر سرسٹیوارٹ سنڈیمین ایم۔ اے SANDAMAN) STEWART ۔(SIR کی صدارت میں تقریر کی جس میں آپ نے بتایا کہ ہندوستان اب بہت جلد جلد ترقی کرے گا۔ نیز یہ کہ قرطاس ابیض کی تجاویز ہندوستان کو مطمئن نہیں کر سکتیں انہیں کامل خودمختاری ملنی چاہئے۔ صدر جلسہ نے مسٹر جناح کے خیالات سے اختلاف کیا۔ مگر درد صاحب نے ہر دو اصحاب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دونوں قسم کے خیالات سن لئے ہیں اب ہمیں غور کرکے صحیح نتیجہ اخذ کرنا چاہئے۔۲۴۱
قائداعظم نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔
ME LEFT IMAM THE OF PERSUATION ELOQUENT THE۲۴۲۔ESCAPE NO
>امام صاحب کی فصیح و بلیغ ترغیب نے میرے لئے کوئی راہ بچنے کی نہیں چھوڑی<۔ قائداعظم کی یہ تقریر برطانوی اور ہندوستانی پریس کی خاص توجہ کا موجب بنی اور >دی ایوننگ سٹینڈرڈ< )لنڈن`( >ہندو< )مدراس`( >دی سٹیٹسمین< )کلکتہ`( >مدراس میل< )مدراس`( )پایونیئر( )الہ آباد`( >ویسٹ افریقہ< )افریقہ`( >ایجپشن گزٹ< )اسکندریہ( وغیرہ اخبار نے اس کی خبر شائع کی۔4] f[st۲۴۳ مگر ساتھ ہی یہ چہ میگوئیاں بھی ہونے لگیں کہ ایک مذہبی جماعت کے مرکز میں سیاسی لیکچر کی وجہ کیا ہے؟
دراصل بات یہ تھی کہ قائداعظم محمد علی جناح پہلی گول میز کانفرنس کے بعد اصلاح احوال کے لئے سخت مایوسی کا شکار ہو کر مستقل فیصلہ کر چکے تھے کہ اب وہ واپس ہندوستان نہ جائیں گے بلکہ حیات مستعار کے بقیہ سال انگلستان میں ہی بسر کر دیں گے چنانچہ خود لکھتے ہیں۔
>اب میں مایوس ہو چکا تھا مسلمان بے سہارا اور ڈانوا ڈول ہو رہے تھے کبھی حکومت کے یار وفادار ان کی رہنمائی کے لئے میدان میں آموجود ہوتے تھے۔ کبھی کانگرس کے نیازمندان خصوصی ان کی قیادت کا فرض ادا کرنے لگے تھے۔ مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کر سکتا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔ آخر میں نے لندن میں ہی بودوباش کا فیصلہ کر لیا<۔۲۴۴
اس ناموافق صورت حال کے باوجود حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا دلی منشاء اور قلبی خواہش تھی۔ کہ ان کو پھر سے سیاسیات ہند میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کیا جائے۔ اس کام کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ کو منتخب فرمایا۔ چنانچہ آپ نے مارچ ۱۹۳۳ء میں انگلستان پہنچ کر حضور کی ہدایت و منشاء کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ۲۴۵ قائم کرلیا تھا اور قائداعظم کا مسجد پٹنی میں آکر لیکچر دینا اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔
چنانچہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ کا بیان ہے کہ۔
>یہ بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ قائداعظم نے انگلستان سے ہندوستان واپس آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالی اس طرح بالاخر ۱۹۴۷ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ جب میں ۱۹۳۳ء میں امام مسجد لندن کے طور پر انگلستان پہنچا تو اس وقت قائداعظم انگلستان میں ہی سکونت رکھتے تھے وہاں میں نے ان سے تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ہندوستان واپس آکر سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا۔ مسٹر جناح سے میری یہ ملاقات تین چار گھنٹے تک جاری رہی میں نے انہیں آمادہ کر لیا کہ اگر اس آڑے وقت میں جب کہ مسلمانوں کی راہنمائی کرنے والا اور کوئی نہیں ہے انہوں نے ان کی پھنسی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش نہ کی تو اس قسم کی علیحدگی قوم کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہو گی۔ چنانچہ اس تفصیلی گفتگو کے بعد آپ مسجد احمدیہ لندن میں تشریف لائے اور وہاں باقاعدہ ایک تقریر کی جس میں ہندوستان کے مستقبل کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اس کے بعد قائداعظم انگلستان کو خیرباد کہ کر ہندوستان واپس آئے۲۴۶ اور اس طرح چند سال کی جدوجہد کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا<۔۲۴۷
حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ کی خود نوشت][مختصر سوانح حیات سے ایک اقتباس
)انگریزی سے ترجمہ(
)مولانا عبدالرحیم صاحب درد اپنی خود نوشت مختصر سوانح )انگریزی( میں اس امر کی مزید تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں
>قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۳۸ء میں بمقام علی گڑھ ایک تقریر کے دوران فرمایا کہ گول میز کانفرنس کے اجلاسوں میں مجھے اپنی زندگی کے سب سے بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ جونہی خطرہ کے آثار نمایاں ہوئے۔ ہندوئیت دل و دماغ کے اعتبار سے اس طرح نمایاں ہوئی کہ اتحاد کا امکان ہی ختم ہو گیا۔ اب میں مایوس ہو چکا تھا مسلمان بے سہارا اور ڈانوا ڈول ہو رہے تھے کبھی حکومت کے یار وفادار ان کی راہ نمائی کے لئے میدان میں آموجود ہوتے تھے کبھی کانگریس کے نیاز مندان خصوصی ان کی قیادت کا فرض ادا کرنے لگتے تھے۔ جب کبھی مسلمانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف ٹوڈیوں اور پٹھوئوں نے اور دوسری طرف کانگریس میں شامل غداروں نے یہ کوششیں ناکام بنا دیں۔ اس لئے مجھے محسوس ہونے لگا کہ ان حالات میں نہ تو میں ہندوستان کی خدمت کر سکتا ہوں۔ نہ ہندو ذہنیت کو بدل سکتا ہوں اور نہ مسلمانوں کو ان کی نازک حالت سے خبردار کر سکتا ہوں میں اس حد تک مایوس ہو گیا اور میرے قلق کا یہ عالم تھا کہ میں نے انگلستان میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا یہ اقدام اس وجہ سے نہیں کیا گیا کہ میرے دل میں ہندوستان کے ساتھ محبت نہ رہی تھی بلکہ اس کی وجہ اصلاح احوال سے میری عاجزی تھی۔ >جناح<۔ مصنفہ ہاکڑ بولیتھو لنڈن ۱۹۵۴ء صفحہ ۱۰۰۔100) PAGE 1954, ۔LONDON BOLITTO, HOCTER, BY (JINNAH
مندرجہ بالا بیان کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح نے لنڈن )ویسٹ ہیتھ ہائوس ہیمپ سٹیڈ( HAMPSTEAD) HOUSE, HEATH, (WEST ]ydbo [tagمیں رہائش اختیار کر لی اور وکالت شروع کر دی۔
میں نے قائداعظم سے ماچ ۱۹۳۳ء میں ان کے دفتر واقع BENCH (KING,S LONDON) WALU میں ملاقات کی اور تین گھنٹوں کی بحث و تمحیص کے بعد انہیں اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ مسلمانان ہند کی خدمت کے لئے وہ پھر پبلک میں آئیں۔ قائداعظم میری درخواست پر >ہندوستان کا مستقبل< کے موضوع پر تقریر کرنے کے لئے رضا مند ہو گئے۔ اور میں نے ۶۳ میلروز روڈ لنڈن میں تقریر کے لئے انتظامات کروا دیئے۔<
اخبار >مدراس میل< نے لکھا۔
sub] ga[tپریس میں تقریر کا چرچا
ہندوستان کے مسلمان راہنما ایم۔ اے جناح نے امام درد کی دعوت پر تقریر کی جس کا موضوع تھا >ہندوستان کا مستقبل<۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندوستان سماجی` اقتصادی اور سیاسی طور پر ترقی کر رہا ہے اور ملک میں ایک نئی سیاسی زندگی ابھر رہی ہے۔ لیکن تاوقتیکہ ایک معقول حد تک سیلف گورنمنٹ نہ دی جائے اطمینان یا امن کی امید رکھنا عبث ہے حالات یہ صورت اختیار کر گئے ہیں کہ انگریزی راج یا سلطنت برطانیہ کے اندر رہتے ہوئے ہندوستانی راج میں سے ایک کو اختیار کرنے کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔
>ہندوستان کو فریب<
قرطاس ابیض کی تجاویز کو انہوں نے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیا اور فرمایا کہ انگریزوں کے لئے حقیقی تحفظ تو ہندوستانیوں کی نیک رائے میں ہے۔ قرطاس ابیض کی تجاویز تحفظ کے طور پر کارآمد نہیں ہو سکتیں کیونکہ اس کے ماتحت ہندوستان کا مستقبل درخشندہ نہیں ہو سکتا ہندوستان تو انصاف پر مبنی اور حتمی فیصلہ کا خواہش مند ہے جو حقیقی معنوں میں سیلف گورنمنٹ حاصل ہونے سے ہو سکتا ہے تا معقولیت پسند راہنما اعتدال پسند رائے عامہ کو اپنے گرد جمع کرکے دستور چلا سکیں۔ )ترجمہ >اخبار مدراس میل< ۷/ اپریل ۱۹۳۳ء( اخبار >سنڈے ٹائمز< نے لکھا ہے:
>ویمبلڈن۔ میلروز روڈ پر واقع چھوٹی سی مسجد کی گرائونڈ میں ایک بڑے مجمع سے مشہور ہندوستانی مسلمان راہنما نے خطاب کیا۔ تقریر کا موضوع تھا۔ >ہندوستان کا مستقبل< سرنیئرنے سٹیوارٹ سنڈیمان NAIRNE (SIR SANDEMAN) STEWART نے صدارت کے فرائض سرانجام دیئے۔ ایک خاصی تعداد میں غیر مسلم بھی موجود تھے۔
مسٹر محمد علی جناح نے ایک قوم پرست)TSILNOIT(NA کے نقطہ نگاہ کے مطابق قرطاس ابیض اور اس میں مندرج تحفظات پر سخت تنقید کی۔ لیکن صاحب صدر نے اپنے جواب میں چرچل کے رویہ کو اپنایا اور اس کے نتیجہ میں سامعین میں سے بعض مسلمان طلباء نے مداخلت کی اور آوازے کسے۔ لیکن بالاخر امام مسجد لنڈن نے انہیں خاموش کروا دیا<۔ )ترجمہ >اخبار سنڈے ٹائمز< ۹/ اپریل ۱۹۳۳ء( یہ خبر اخبار >دی سول اینڈ ملٹری گزٹ< )لاہور( ۸/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ میں بھی شائع ہوئی۔ )ناقل(
اس تقریر نے انگلستان اور ہندوستان دونوں ممالک میں زبردست تہلکہ مچا دیا۔ جس کے بعد نواب زادہ لیاقت علی خاں اور ان کی بیگم قائداعظم کی خدمت میں جولائی ۱۹۳۳ء میں حاضر ہوئے اور ہندوستان واپس آنے کی درخواست کی۔ آخر آپ ہندوستان واپس تشریف لائے۔ اور پاکستان کے حصول تک مسلمانوں کی کامیاب قیادت فرمائی۔
بوہرہ جماعت کے قومی مفاد کا تحفظ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو مسلمانوں کے ہر مذہبی فرقہ سے محبت تھی اور آپ ان کے قومی مفاد کی حفاظت کے لئے ہر وقت کمربستہ رہتے تھے اس ضمن میں بوہرہ کمیونٹی کے امام سے بھی حضور کے مراسم و روابط تھے۔ انہیں دنوں بوہروں میں باہمی چپقلش پیدا ہوئی۔ جس کو ختم کرنے اور ان کی مرکزیت برقرار رکھنے کے لئے حضور نے کیا اقدام فرمایا؟ اس کا ہلکا سا تصور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے مندرجہ ذیل مکتوب سے کیا جا سکے گا جو انہوں نے دہلی سے ۳/ اپریل ۱۹۳۳ء کو حضرت امیر المومنین کی خدمت میں بھجوایا۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے لکھا۔
بوہرہ کمیونٹی کے متعلق حضور کا تار ملا تھا اور سیٹھ اللہ بخش صاحب بھی اسمبلی میں گئے تھے علیگ صاحب سے میں نے ان کے متعلق ذکر کیا تھا وہ کہتے تھے گورنمنٹ نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس سے تحقیقات کرکے معلوم ہوا ہے کہ اس کمیونٹی کی میجارٹی یہ چاہتی ہے کہ وقف ایک آدمی کے ہاتھ نہ رہے میں نے کہا یہ مذہبی معاملہ ہے اور ابتدا"ء وقف کرنے والوں کا مقصد یہی تھا کہ امام جماعت کے اختیار میں سب کچھ رہے اس مقصد کے مطابق جیسا ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اب اس کے خلاف گورنمنٹ کو مداخلت کرنا مناسب نہ ہو گا۔ علیگ صاحب نے کہا گورنمنٹ تو مداخلت کرنا نہیں چاہتی اور یہ معاملہ متعلق بمبئی گورنمنٹ ہے ہم تو اس میں کچھ DIRECTIONS۲۴۸ نہیں کرتے مگر میں اس بات کا خیال رکھوں گا کہ آپ ان کے امام کو SUPPORT۲۴۹ کرتے ہیں۔۲۵۰
حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ کا حادثہ ارتحال
۱۳/ مئی ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی حرم )اور حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوریؓ کی دختر( حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ کا قادیان میں انتقال ہو گیا۔ حضور کو راولپنڈی میں اس الم انگیز واقعہ کی اطلاع ملی اور حضور نے حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ امیر مقامی کو تار دیا کہ جنازہ میں خود آکر پڑھائوں گا۔ چنانچہ حضور اگلے روز ۱۴/ مئی کو پونے نو بجے قادیان تشریف لے آئے۔ اور اسی دن سوا بارہ بجے کے قریب حضرت مسیح موعودؑ کے باغ میں ایک جم غفیر کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ۔ حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور مرحومہ کے بھائیوں نے میت کو لحد میں اتارا اور آپ بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہؓ کے پہلو میں سپرد خاک کر دی گئیں۔۲۵۱
سیدنا حضرت امیر المومنینؓ نے حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ کے نیک اذکار قائم رکھنے اور دوسری احمدی خواتین کو مرحومہ کی طرح محض رضاء الٰہی اور خدمت سلسلہ کی خاطر تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب و تحریص دلانے کی غرض سے >میری سارہ< کے عنوان سے مفصل مضمون لکھا جس میں مرحومہ سے نکاح کی وجوہ اور ان کی فنائیت` قابلیت اور اخلاق پر روشنی ڈالی چنانچہ تحریر فرمایا۔
>غالباً ۱۹۲۴ء کا شروع تھا یا ۱۹۲۳ء تھا۔ جب برادرم پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم۔ اے قادیان تشریف لائے ہوئے تھے وہ کچھ بیمار ہوئے اور ان کے لئے ہومیو پیتھک دوا لینے کے لئے ان کی چھوٹی ہمشیرہ میرے پاس آئیں انہوں نے اپنے بھائی کی بیماری کے متعلق کچھ اس فلسفیانہ رنگ میں مجھ سے گفتگو کی کہ میرے دل پر اس کا ایک گہرا نقش پڑا۔ جب وہ دوا لے کر چلی گئیں۔ میں اوپر دوسرے گھر کی طرف گیا۔ جس میں میری مرحومہ بیوی رہا کرتی تھیں۔ وہاں کچھ مذہبی تذکرہ ہوا اور ایک برقع میں سے ایک سنجیدہ آواز نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی ڈائری کا حوالہ دیا کہ آپؑ اس موقعہ پر اس طرح فرماتے ہیں۔ یہ آواز پروفیسر صاحب کی ہمشیرہ ہی کی تھی اور حوالہ ایسا برجستہ تھا کہ میں دنگ رہ گیا۔ میری حیرت کو دیکھ کر امتہ الحی مرحومہ نے کہا۔ انہیں حضرت صاحبؑ کی ڈائریوں اور کتب کے حوالے بہت یاد ہیں اور حضرت مسیح موعود )علیہ السلام( کے فارسی شعر بھی۔ یہ کہتی ہیں کہ میں نے الحکم اور بدر میں سے اکثر ڈائریاں پڑھی ہیں اور مجھے یاد ہیں۔ میرے دل نے کہا۔ یہ بچی ایک دن خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے لئے مفید وجود بنے گی۔ میں وہاں سے چلا گیا اور وہ بات بھول گئی۔ جب امتہ الحی مرحومہ کی وفات کے بعد مجھے سلسلہ کی مستورات کی تعلیم کی نسبت فکر پیدا ہوئی تو مجھے اس بچی کا خیال آیا۔ اتفاق سے اس کے والد ماجد مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری جلسہ پر تشریف لائے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے اس کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو میں نے لڑکی کی صحت کے متعلق رپورٹ کرنے کو بھیجا اور انہوں نے رپورٹ کی کہ صحت اچھی ہے کچھ فکر کی بات نہیں ان کی اس رپورٹ پر میں نے جو خط مولوی صاحب کو لکھا اس کا ایک فقرہ حسب ذیل ہے۔
>ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب آج واپس تشریف لے آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سائرہ سلمہا اللہ تعالیٰ کی صحت ایسی نہیں جس سے کچھ خدشہ ہو۔ چونکہ فیصلہ کی بناء طبی مشورہ پر رکھی گئی تھی۔ اور طبی مشورہ موافق ہے اس لئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر مندرجہ ذیل امور میں آپ کی رائے اثبات میں ہو اور سارہ سلمہا اللہ تعالیٰ بھی ایسی ہی رائے رکھتی ہوں تو ان کا نکاح مجھ سے کر دیا جائے<۔
اس خط کی نقل میں نے رکھی ہوئی تھی اتفاقاً آج سارہ بیگم مرحومہ کا پہلا خط تلاش کرنے لگا تو ساتھ ہی اس خط کی نقل بھی مل گئی۔ غرض یہ خط میں نے لکھا اور مولوی صاحب موصوف نے جو کچھ میں نے لکھا تھا اسے بخوشی قبول کیا۔ اور ہمارا نکاح ہو گیا۔
سارہ جو بھاگلپور کے ایک نہایت معزز اور علمی خاندان میں پیدا ہوئی تھی ۱۹۲۵ء میں اس سال کی مجلس شوریٰ کے موقعہ پر میرے نکاح میں آگئیں ان کا خطبہ نکاح خود میں نے پڑھا اور اس طرح ایک مردہ سنت پھر قائم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی لاکھوں برکتیں ہوں مولوی عبدالماجد صاحب پر جنہوں نے ہر طرح کی تکالیف کو دیکھتے ہوئے ایک بے نظیر اخلاص کا ثبوت دیا اور میرے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے مجھے ایک ہتھیار مہیا کر دیا۔
مرحومہ امتہ الحی کی وفات سے جو ایک قومی نقصان مجھے نظر آتا تھا اس کی ذہنی اذیت نے مجھے اس بات کے لئے بے تاب کر دیا کہ سارہ کے قادیان آنے سے پہلے ہی انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائوں۔ چنانچہ میں نے انہیں ایک خط لکھا جس میں بالاجمال آنے والی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ اور امید ظاہر کی کہ وہ میرے لئے مشکلات کا نہیں بلکہ راحت کا موجب بنیں گی خط کے جواب میں کچھ دیر ہو گئی تو میں نے ایک اور خط لکھا۔ اس کا جو جواب آیا وہ میں نے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ آج کہ مرحومہ اس دنیا سے اٹھ گئی ہیں۔ آج کہ ہمارے تعلقات سفلی زندگی کے اثرات سے پاک ہو کر بالکل اور نوعیت کے ہو گئے ہیں۔ آج کہ نہ ان کے لئے اس خط کے ظاہر ہونے میں کوئی شرم ہے اور نہ میرے لئے۔ میں اس خط کو مرنے والی کی نیک یاد کو تازہ رکھنے کے لئے درج کرتا ہوں۔ جب یہ خط مجھے ملا۔ اس وقت میری آنکھیں پرنم تھیں اور آج بھی کہ وہ خط میری آنکھوں کے سامنے اس نہ واپس لوٹ سکنے والے زمانہ کو سامنے لارہا ہے۔ میری آنکھیں اشکوں پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی اور مرحومہ پر بھی رحم فرمائے۔ کہ اگر ہم گندے ہیں تو بھی اس کے ہیں اور نیک ہیں تو بھی اس کے ہیں وہ خط یہ ہے۔
۲۴/ اپریل ۰۲۵ء از احمدیہ ہائوس بھاگلپور۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
میرے واجب الاطاعت خاوند۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔
عید کی نماز کے معاً بعد آپ کا نامہ ملا۔ دریافت حالات سے خوشی ہوئی۔ امید ہے کہ میرا دوسرا خط بھی حضور کی خدمت میں پہنچا ہو گا۔ حیران ہوں کہ کیا جواب تحریر کروں۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے مجھ کو ہر طرح سے آپ کی منشاء اور مرضی کے مطابق بنا کر عملاً اس کا بہترین جواب بننے کی توفیق بخشے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مجھے بہ حیثیت آپ کی بیوی ہونے کے اپنے عظیم الشان فرائض کی ادائیگی کی ہمت و طاقت عطا فرمائے۔ اور ہر ایک تنگی و تراشی کو اس راہ میں برداشت کرنے کی توفیق دے۔
میں اپنے رب سے دعا کرتی ہوں کہ وہ میری ہمت و طاقت و علم و ایمان و ایقان و صحت میں بیش از پیش برکت عطا فرما کر مجھے اس مقصد عالی کے حصول میں کامیاب فرمائے۔ میں اپنی زندگی کا مسلک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فرمان کے مطابق بنانے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرا معین و مددگار ہو ~}~
برآستان آنکہ ز خود رفت بہریار
چوں خاک شو` و مرضی یارے دراں بجو
دعا کرتی ہوں اور کروں گی آپ کے لئے خصوصاً۔ اللہ تعالیٰ میری زبان میں اثر و قوت عطا فرمائے۔
آپ کے خط میں اپنے نام کو مشدد دیکھ کر پہلے متعجب ہوئی۔ لفافہ کے اوپر کی عبارت نے اس کے مفہوم کو سمجھنے کی طرف توجہ دلائی کیونکہ میں اس سے ناواقف تھی۔ اردو فارسی لغتوں میں دیکھا لیکن کہیں پتہ نہ چلا۔ آخر منہتی الادب میں دیکھا۔ اس میں اس کے معنے لکھے تھے >زن شاد ماں کن<۔ اس انکشاف حقیقت سے مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فی الواقعہ اسم بامسمی بنائے۔ میری طبیعت نسبتاً اچھی ہے کامل صحت کے لئے دعا کی ضرورت ہے۔ راقمہ۔ آپ کی سارہ<۔
ان دوستوں کے لئے جو میری طرح فارسی کا علم کم رکھتے ہیں یا بالکل ہی نہیں رکھتے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کا ترجمہ کر دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کی تلاش کر جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس کو کھو چکا ہو اور پھر اس کے دروازہ پر مٹی کی طرح بے خواہش ہو کر گرجا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر۔
آہ مرحومہ نے اس وقت جب وہ اپنے نئے گھر میں آئی بھی نہ تھی جو کچھ کہا تھا اسے لفظاً لفظاً پورا کر دکھایا۔ اس کی زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا شعر کی مصداق ہو کر رہ گئی۔ وہ اس عقیدت سے آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دروازہ پر جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے نفس کو کھو دیا تھا گر جائے اور پھر اپنے پیدا کرنے والے کی رضا کی تلاش میں اس دروازہ کی مٹی ہو کر رہ جائے۔ ہمیشہ کے لئے اپنے وجود کو کھو دے۔ ایک مشت خاک ہو جس میں کوئی جان نہ ہو۔ خواہ اسے اٹھار کر پھینک دو خواہ اسے مقدس سمجھ کر تبرک کی طرح رکھ لو۔
بخدا اس نے جو کہا تھا وہ پورا کر دیا۔ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی۔ وہ حقیقی معنوں میں حضرت مسیح موعودؑ کے قدموں میں خاک ہوئی پڑی ہے وہ ہمیشہ کے لئے اس آستان پر گر چکی ہے تا خدا تعالیٰ کی رضا اسے حاصل ہو۔ اے راحم خدا! تو اس گر ہوئی کو اٹھا لے۔ تو اس پر پوری طرح راضی ہو جا۔ آمین<۔
حضرت سارہ بیگمؓ کی اولاد نے اپنی پیاری والدہ کی وفات پر صبر و شکر کا جو شاندار نمونہ دکھایا۔ حضورؓ نے اس مضمون میں خاص طور پر اس کا ذکر فرماتے ہوئے لکھا۔
>ان کے پانچ بچے ہوئے۔ دو ایام حمل میں ہی ضائع ہو گئے اور تین خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں۔ بڑے کا نام رفیع احمد ہے۔ درمیانی لڑکی ہے اس کا نام امتہ النصیر ہے چھوٹے بچے کا نام حنیف احمد ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بامسمی بنائے۔ اور اس قسم کے نیک اعمال کی توفیق دے کہ اپنی ماں کے لئے نیک یادگار چھوڑیں اور ان کے نیک کاموں کی وجہ سے ان کی ماں کا درجہ بلند ہوتا رہے۔ یہ بچے اپنی ماں کی طرح نہایت صابر ہیں۔ حنیف احمد سلمہ اللہ تعالیٰ تو ابھی چھوٹا ہے وہ چونکہ صرف ڈیڑھ ماہ کا تھا کہ ان کی پڑھائی کی وجہ سے ماں سے جدا کر دیا گیا۔ اور ننھیال بھجوا دیا گیا۔ وہاں سے ماں کی وفات سے صرف تین دن پہلے آیا۔ وہ گویا اپنی ماں سے بالکل ناواقف ہے اور ابھی اس کی عمر بھی ایک سال سے دو تین ماہ اوپر ہے اس لئے اسے تو ماں کی موت یا زندگی کی کوئی حس ہی نہیں لیکن رفیع احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کہ وہ بھی اپنی ننھیال گیا ہوا تھا اور والدہ کی وفات سے صرف تین دن پہلے واپس آیا۔ اس کی عمر چھ سال سے کچھ اور ہے اس کی نسبت راولپنڈی سے واپسی پر مجھے معلوم ہوا کہ جوں ہی ان کی والدہ فوت ہوئی وہ اپنی بہن امتہ النصیر کو جو والدہ کے پاس رہنے کے سبب سے سب سے زیادہ والدہ سے مانوس تھی۔ ایک طرف لے گیا اور ایک دروازہ کے پیچھے کھڑے ہو کر دیر تک اسے کچھ سمجھاتا رہا۔ اس کے بعد جب مرحومہ کو غسل دے کر چارپائی پر لٹا دیا گیا۔ تو ایک پھولوں کا ہار لے کر آیا اور پہلے والدہ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور پھر ہار گلے میں ڈال کر اپنے آنسوئوں کو بزور روکتا ہوا اپنے منہ کو ایک طرف کرکے تاکہ اس کے جذبات کو کوئی دیکھ نہ لے دوسرے کمرہ میں چلا گیا۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ وہ ایک چھ برس کا بچہ ہے یہ عمل ایک غیر معمولی عمل ہے ایک حیرت انگیز صبر کا مظاہرہ ہے جب میں واپس آیا اور میں نے رفیع احمد کو بلوایا تو میں نے دیکھا کہ وہ میری آنکھوں سے آنکھیں نہیں ملاتا تھا اور اپنے جذبات کو پورے طور پر دبانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ ڈرتا تھا کہ اگر میری آنکھوں سے اس کی آنکھیں ملیں تو اپنے آنسو نہیں روک سکے گا۔ شاید وہ کہیں چھپ کر رویا ہو تو رویا ہو۔ میں نے اسے روتے ہوئے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔
یہ تو رفیع احمد کا حال تھا۔ امتہ النصیر جو تین ساڑھے تین سال کی عمر کی بچی ہے اور ہر وقت اپنی ماں کے پاس رہنے کے سبب سے بہت زیادہ اس سے مانوس تھی۔ اپنے بھائی کے سمجھانے کے بعد وہ خاموش سی ہو گئی۔ جیسے کوئی حیران ہوتا ہے۔ وہ موت سے ناواقف تھی وہ موت کو صرف دوسروں سے سن کر سمجھ سکتی تھی نہ معلوم اس کے بھائی نے اسے کیا سمجھایا کہ وہ نہ روئی نہ چیخی نہ چلائی۔ وہ خاموش پھرتی رہی اور جب سارہ بیگم کی نعش کو چارپائی پر رکھا گیا اور جماعت کی مستورات جو جمع ہو گئی تھیں رونے لگیں تو کہنے لگی۔ میری امی! تو سو رہی ہیں۔ یہ کیوں روتی ہیں۔ میری امی جب جاگیں گی۔ تو میں ان سے کہوں گی آپ سوئی تھیں اور عورتیں آپ کے سرہانے بیٹھ کر روتی تھیں۔
جب میں سفر سے واپس آیا اور امتہ النصیر کو پیار کیا تو اس کی آنکھیں پرنم تھیں لیکن وہ روئی نہیں۔ اس دن تک میں نے کبھی اسے گلے نہیں لگایا تھا۔ اس دن پہلی دفعہ میں نے اسے گلے لگا کر پیار کیا مگر وہ پھر بھی نہیں روئی۔ حتیٰ کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اسے نہیں معلوم کہ موت کیا چیز ہے؟ مگر نہیں یہ میری غلطی تھی۔ یہ لڑکی مجھے ایک اور سبق دے رہی تھی۔ سارہ بیگم دارالانوار کے نئے مکان میں فوت ہوئیں۔ جب ہم اپنے اصلی گھر دارالمسیح میں واپس آئے تو معلوم ہوا اس کے پائوں میں بوٹ نہیں ایک شخص کو بوٹ لانے کے لئے کہا گیا۔ وہ بوٹ لے کر دکھانے کے لئے لایا تو میں نے امتہ النصیر سے کہا۔ تم پسند کرلو۔ جو بوٹ تمہیں پسند ہو وہ لے لو۔ وہ دو قدم تو بے دھیان چلی گئی۔ پھر یکدم رکی اور ایک عجیب حیرت ناک چہرہ سے ایک دفعہ اس نے میری طرف دیکھا اور ایک دفعہ اپنی بڑی والدہ کی طرف۔ جس کا یہ مفہوم تھا کہ تم تو کہتے ہو جو بوٹ پسند ہولے لو۔ مگر میری ماں تو فوت ہوچکی ہے مجھے بوٹ لے کر کون دے گا۔ میں اس امر کے بیان کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا کہ وفور جذبات سے اس وقت مجھے یقین تھا کہ اگر میں نے بات کی یا وہاں ٹھہرا رہا تو آنسو میری آنکھوں سے ٹپک پڑیں گے۔ اس لئے میں نے فوراً منہ پھیر لیا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا کہ بوٹ اپنی امی جان کے پاس لے جائو۔
ہمارے گھر میں سب بچے اپنی مائوں کو خالی امی اور میری بڑی بیوی کو امی جان کہتے ہیں۔ میں نے جاتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو امتہ النصیر اپنے جذبات پر قابو پا چکی تھی۔ وہ نہایت استقلال سے بوٹ اٹھائے اپنی امی جان کی طرف جارہی تھی۔ بعد کے حالات نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ وہ اپنی والدہ کی وفات کے حادثہ کو باوجود چھوٹی عمر کے خوب سمجھتی ہے۔ چنانچہ اس کے ایک بھائی نے اس دق کیا اور پھر اپنے ظلم کو اور زیادہ سنگین بنانے اور اس کے دل کو دکھانے کی نیت سے اسے کہا کہ تم میرے اس چھیڑنے کی شکایت اپنی امی سے کرو گی۔ اس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ نہیں بھائی۔ میں اپنی امی سے شکایت نہیں کر سکتی۔ >خدا کی کچھم )خدا کی قسم( میری امی تو اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں وہ تو اب کبھی واپس نہیں آئیں گی<۔ یہ گفتگو مجھے گھر کے ایک اور بچے نے سنائی اور مجھے یقین ہو گیا کہ امتہ النصیر موت کی حقیقت کو جانتی ہے اس کا فعل صابرانہ فعل ہے اور وہ اپنی ماں کی سچی یادگار ہے وہ حقیقت کو جانتے ہوئے اپنے دل پر قابو پائے ہوئے ہے<۔۲۵۲
sub] [tagسیدنا حضرت خلیفتہ المسیحؑ کی شہادت ایک مقدمہ میں
مرزا اکرم بیگ اور ان کی والدہ سردار بیگم صاحبہ )بیوہ مرزا فضل بیگ صاحب( نے ۱۹۲۰ء میں اپنی پوری جائداد واقع قادیان حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے صاحبزادگان کے نام ایک لاکھ ۴۸ ہزار روپیہ پر فروخت کر دی تھی جس میں سے بعد کو بہت سے احباب جماعت نے حصے خرید کئے تھے۔ ایک معتدبہ حصہ پر لاکھوں روپے کی عمارات بن چکی تھیں۔ گیارہ سال کے بعد ۱۹۳۱ء میں مرزا اکرم بیگ صاحب اور ان کی والدہ نے مرزا اعظم بیگ پسر مرزا اکرم بیگ صاحب سے استقرار حق کا دعویٰ سینئر سب جج صاحب گورداسپور کی عدالت میں دائر کرا دیا۔ جو ڈھائی سال تک چلتا رہا۔ آخر ۱۴/ نومبر ۱۹۳۳ء کو دعویٰ خارج ہو گیا۔۲۵۳
اس مقدمہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے علاوہ ۲۵/ مئی ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی شہادت بھی ہوئی۔ اس موقعہ پر چوہدری اسداللہ خاں صاحب بیرسٹر لاہور اور شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ بھی موجود تھے۔۲۵۴]ydob [tag
احمدیہ فیلو شپ آف یوتھ
وسط ۱۹۳۲ء میں لاہور کے احمدی نوجوانوں نے >ینگ مین احمدیہ ایسوسی ایشن< کے نام سے ایک تبلیغی انجمن قائم کی جس کے پریذیڈنٹ سید محمود احمد صاحب بی۔ اے اور سیکرٹری چوہدرری بشیر احمد صاحب صادق مقرر کئے گئے۔۲۵۵ یہ انجمن جلسوں کے علاوہ ہر ماہ ایک تبلیغی ٹریکٹ بھی شائع کرتی تھی۔۲۵۶ چند ماہ بعد اس کا نام >احمد فیلو شپ آف یوتھ< کر دیا گیا اور ۳۴۔ ۱۹۳۳ء کے لئے مندرجہ ذیل عہدیدار تجویز کئے گئے۔ )پریذیڈنٹ( ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی۔ اے )سیکرٹری( محمد ابراہیم صاحب ناصر )اسسٹنٹ سیکرٹری( قاضی محمود صادق صاحب )فنانشل سیکرٹری( عطاء اللہ خان صاحب۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادم انجمن کے قیام ہی سے اس کے سرگرم اور پرجوش ممبر بلکہ روح رواں تھے اس کے بعد ہر سال انجمن کا نیا انتخاب ہوتا رہا۔
>احمدیہ فیلو شپ آف یوتھ< کے ممبروں کا دائرہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا گیا اور لاہور سے باہر بھی اس کی شاخیں قائم ہو گئیں۔ انجمن کے قابل تعریف تبلیغی سرگرمیوں کی بناء پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خاص طور پر اپنے قلم سے ایک قیمتی مضمون >پکارنے والے کی آواز< بھی اسے عطا فرمایا۔ جو اردو اور انگریزی میں ۱۹۳۳ء کے >یوم التبلیغ< پر شائع کیا گیا۔۲۵۷ اسی طرح مصری فتنہ کے زمانہ میں انجمن کی طرف سے >محمود کی آمین< بکثرت شائع کی گئی۔۲۵۸ اور وسط ۱۹۳۸ء میں اس کے ماتحت ایک مذہبی کانفرنس کا بھی انعقاد ہوا۔۲۵۹ غرضکہ تحریک خدام الاحمدیہ کے قیام سے قبل اس انجمن کو نظارت دعوۃ و تبلیغی کے زیر ہدایات تبلیغی خدمات انجام دینے کا موقعہ ملا۔
ایک ایرانی کے سوالات اور ان کے جوابات
وسط ۱۹۳۳ء میں ایک ایرانی بزرگ مہر صاحب کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت اقدس میں چار سوالات پہنچے جن کا تعلق پیدائش عالم` مذہبی خیال کے ارتقاء` الہام کی حقیقت اور تکمیل دین سے تھا۔ حضور پرنور نے ان سب سوالات کا مسکت جواب دینے کے بعد آخر میں ان کو جماعت احمدیہ کے شاندار مستقبل کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا۔
>ہماری جماعت پھر مسلمانوں کو تیرہ سو سال پیچھے لے جارہی ہے۔ ہم دنیا کی گرد کے برابر بھی نہیں لیکن خدا کے فضل سے فتح ہماری ہے۔ ایک سمجھدار انسان بڑ کے درخت کی تازہ نکلنے والی کونپل کو نہیں دیکھا کرتا۔ بلکہ وہ اس کی سبزی اور شادابی سے اس کے آئندہ بننے والے تنے کو دیکھتا ہے۔ اگر بزرگ مہر صاحب دوراندیشی کی عینک لگا کر ہماری حقیقت کو دیکھیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ احمدیت کی اس چھوٹی سی کونپل میں وہ طاقت موجود ہے کہ ایک تھوڑے سے عرصہ میں وہ ایک ایسے تناور درخت کے پیدا کرنے کے قابل ہو گی۔ جس کے سائے میں بیٹھنے کے لئے دنیا مجبور ہو گی<۔۲۶۰
مسلم تنظیموں کی مالی امداد اور ہندوئوں کی برہمی
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔
>ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب خود آل انڈیا مسلم پارٹیز کانفرنس کے صدر ہیں اور اس حیثیت میں انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس باڈی کے وہ صدر ہیں اس کے کام کو کامیاب بنانے کے لئے سب سے زیادہ مالی امداد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے دی ہے یعنی ۱۹۳۰ء سے اس وقت تک آپ اس مجلس کے لئے تین ہزار کے قریب روپیہ دے چکے ہیں اگر احمدی دوسروں کے ماتحت کام کرنا ناپسند کرتے تو اس قدر مالی امداد جو دوسرے مسلمانوں کی امداد کے غالباً برابر ہو گی وہ اس انجمن کو کیوں دیتے جس کے صدر سر محمد اقبال صاحب ہیں۔ مسلم لیگ کے رجسٹرات سے بھی یہ امر ثابت ہو سکتا ہے کہ اس کی امداد میں بہت بڑا حصہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ حالانکہ اس مجلس کے صدر بھی سوائے ان چند ایام کے جن میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب صدر ہوئے ایسے احباب ہوتے رہے ہیں جو جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے<۔۲۶۱
ہندوئوں کے اخبار >پرتاپ< کو جماعت احمدیہ کی مالی امداد )جو مسلمانوں کی سیاسی انجمنوں کو اسلامی اغراض کے تحت دی گئی تھی( بہت ناگوار گزری اور اس نے مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ پر یہ الزام عائد کر دیا کہ اسی امداد کی وجہ سے ان جماعتوں نے >وطن کشی< پر کمر باندھ رکھی ہے چنانچہ اس نے ۳۰/ جون ۱۹۳۳ء کو لکھا۔
>مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ نے جو روش اختیار کر رکھی ہے اس کے لئے احمدی جماعت کا روپیہ ذمہ دار ہے مسلم کانفرنس کا جنم ہی بطور ایک ٹوڈی جماعت کے ہوا اور کچھ عرصہ سے مسلم لیگ بھی ٹوڈیت میں اس کے دوش بدوش چل رہی ہے ۔۔۔۔۔ کسی وقت تو تعجب ہوتا تھا لیکن اب نہیں رہا کہ ان جماعتوں نے وطن کشی پر کیوں کمر باندھ رکھی ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ انہیں اسی مالی امداد کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جو انہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے ملتی رہی ہے۔
دراصل مسلمانوں کا سیاسی اتحاد ہندوئوں کی نگاہ میں خار کی طرح کھٹک رہا تھا اور اس میں رخنہ اندازی کے لئے وہ مختلف سیاسی چالیں چل رہے تھے۔ چنانچہ >پرتاپ< نے مندرجہ بالا نوٹ میں یہاں تک لکھا کہ۔
>مسلمانوں اور احمدیوں کا ایک دوسرے کو کافر کہنا محض دھوکہ کی ٹٹی ہے۔ دونوں اپنے پولٹیکل اغراض مشترکہ سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مسلمان ہندوئوں کو بھی کافر کہتے ہیں اور احمدیوں کو بھی۔ لیکن ہندو کافر کے ساتھ وہ تعاون گوارا نہیں کر سکتے اور احمدی کافر کے ساتھ خوب گھل مل کر رہتے ہیں۔ احمدی بھی مسلمانوں کو اسی حد تک کافر سمجھتے ہیں کہ وہ کسی مسلم امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو تیار نہیں اور نہ ہی کسی احمدی کو غیر احمدی سے رشتہ ناطہ کرنے کی اجازت ہے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جبکہ احمدیوں کو اس لئے سزا دی گئی کہ انہوں نے غیر احمدیوں کے ساتھ تعلق پیدا کیا۔ اگر باوجود اس کے احمدی اور غیر احمدی کسی مسلم انجمن میں شامل ہو سکتے ہیں تو یقیناً ان کی پوزیشن دوسروں کی نظر میں مضحکہ خیز ہو جاتی ہے یہ عجیب بات ہے کہ مذہبی اغراض کے لئے ایک شخص کافر ہو اور پولٹیکل اغراض کے لئے وہی شخص مومن بن جائے<۔۲۶۲اخبار >الفضل< نے >پرتاپ< کی اس روش پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ۔
>ہندوئوں کے نزدیک مسلمانوں کا اپنے پولٹیکل اغراض کو مشترکہ سمجھنا اور احمدی و غیر احمدی کا کسی مسلم انجمن میں شامل ہونا تو >مضحکہ خیز< پوزیشن ہے لیکن ہندو فرقوں میں مذہبی لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہونے کے باوجود ان کا سیاسیات میں اتحاد عین معقولیت ہے۔ حتیٰ کہ اچھوت اقوام جنہیں ہندو بدترین مخلوق سمجھتے ہیں اور ان سے نہایت ہی شرمناک سلوک کرتے چلے آرہے ہیں ان کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنا معقولیت پر مبنی قرار دیتے ہیں اگر احمدی و غیر احمدی کو عقائد کے اختلاف کی وجہ سے سیاسی اغراض مشترکہ میں متحد نہیں ہونا چاہئے۔ اور اس طرح بالفاظ >پرتاپ< ان کی پوزیشن دوسروں کی نظروں میں مضحکہ خیز ہو جاتی ہے تو پھر ہندو مذہبی لحاظ سے آپس میں بعد المشرقین رکھتے ہوئے سیاسیات میں کیوں متحد ہیں۔ اور کیوں انہیں اپنی پوزیشن مضحکہ خیز نظر نہیں آتی؟ اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ اور بھی ہو سکتی ہے کہ ہندو مسلمانوں کو پراگندہ اور منتشر دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن آپس میں زیادہ سے زیادہ اتحاد قائم کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرکے تباہی کے گھاٹ اتار سکیں۔ مسلمانوں نے اگر ہندوئوں کی اس چال کو نہ سمجھا اور باوجود یہ جاننے کے نہ سمجھا کہ سیاسیات کا مذہبی عقائد کے ساتھ تعلق نہیں تو اس کا نتیجہ وہی ہو گا۔ جو ایک منظم اور متحد قوم کے مقابلہ میں پراگندہ حال قوم کا ہوا کرتا ہے اور یہی ہندو چاہتے ہیں<۔۲۶۳
tav.7.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل ہفتم(
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی لنڈن میں مذہبی و سیاسی خدمات
چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ہندوستان کے آئندہ نظام ملکی و آئین اساسی کو ترتیب دینے کے لئے دوسرے مسلم زعماء ہند کے ساتھ اس سال بھی لنڈن تشریف لے گئے۔ اور قریب¶ا تین ماہ تک گول میز کانفرنس کی کمیٹیوں میں شرکت فرما کر مفاد اسلامی کو تقویت پہنچاتے رہے۔ نیز مسلمانان فلسطین کی حمایت کے لئے کئی مرتبہ وزیر ہند اور وزیر نو آبادیات اور دیگر افسروں سے ملاقات کی۔ ان سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپ حسب معمول مسجد فضل لنڈن میں تشریف لاتے اور لیکچر دیتے رہے۔ اور جہاں بھی موقعہ ملا اسلام کی تبلیغ میں حصہ لیا۔
جولائی ۱۹۳۳ء میں نیشنل لیگ )لندن( کے زیر انتظام ہندوستان کے مسلم مندوبین کے لیکچر ہوئے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اس جلسہ میں اسلامی نظریات کی برتری پر نہایت کامیاب لیکچر دیا جس پر یافاء )فلسطین( کے ایک اخبار >الجامعتہ الاسلامیہ< نے ۱۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کے پرچہ میں >الاسلام فی البرلمان الانکلیزی< کے عنوان سے مفضل نوٹ لکھا جس کا ترجمہ یہ ہے۔
>حال ہی میں انگریزی پارلیمنٹ کے ایک حصہ میں بعض ان مسلمانان اصحاب کے لیکچر ہوئے جو ہندوستان سے جائنٹ سیلیکٹ کمیٹی کے مباحث میں شریک ہونے کے لئے تشریف لائے ہیں۔ یہ جائنٹ سیلیکٹ کمیٹی ہندوستان کی آئندہ آئین اساسی کو ترتیب دینے اور نظام حکومت کا ڈھانچہ تیار کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ اس جلسہ میں غیر معمولی طور پر لارڈز۔ ہاوس آف کامنز کے ممبران اور بعض دیگر معززین نے شمولیت کی۔ لارڈ ڈربی جو آج سے کئی سال پیشتر ہندوستان کے افسر رہ چکے ہیں صدر جلسہ تھے سب سے پہلے سر آغا خان نے اور بعد ازاں ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` سر محمد یعقوب اور السید ظفر اللہ خاں نے تقاریر کیں۔ ان تمام کے خطبات کا موضوع یہ تھا کہ اسلام ان مشکلات کا کیا حل پیش کرتا ہے جو موجودہ دور میں رونما ہو رہی ہیں۔ لیکچر تو سب نے دیئے مگر حق یہ ہے کہ السید ظفر اللہ خاں جو حکومت ہند کے وزیر تعلیم رہ چکے ہیں انہوں نے اپنے اصل موضوع پر نہایت خوبی اور سلاست کے ساتھ تقریر فرمائی۔ اور انہی کی ایک تقریر ایسی تھی جس میں مقررہ موضوع پر نہایت عالمانہ انداز میں بحث تھی۔ آپ نے اپنی تقریر سے یورپین اور مسلمان دونوں طبقوں کو محفوظ کیا۔ السید ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی تقریر میں موجودہ اقتصادی بدحالی پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اقتصادیات کے متعلق جو اسلام نے نظریہ پیش کیا ہے وہ مغربی ماہرین اقتصادیات کے نقطہ نگاہ سے بالکل مغائر ہے کیونکہ اسلام کاملا کسی ایک شخص کو تمام اموال کا مالک نہیں سمجھتا بلکہ وہ اموال میں تمام لوگوں کو شریک سمجھتا اور ان کا حق اپنے اموال میں سے دینے کی تاکید کرتا ہے اور اغنیاء کو تاکید کرتا ہے کہ وہ فقراء کا خیال رکھیں۔ آپ نے اس حصہ مضمون کے لئے آیت کریمہ فی اموالھم حق للسائل و المحروم سے استدلال کیا۔
خاتمہ تقریر پر آپ نے نہایت صراحت سے یہ امر بیان کیا کہ مغرب کو اقتصادی نظام میں جو پیچیدگیاں اور مشکلات درپیش ہیں ان کا بجز اس کے کوئی حل نہیں کہ وہ اسلامی اصول کو خضر راہ بنائے جو بے شمار حکمتوں اور مصالح پر مبنی ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ہمیشہ کامیابی ہوتی ہے<۔
sub] ga[tاردو سیکھنے کیلئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنے کی تحریک
۲۳/ جولائی ۱۹۳۳ء کو طلباء جامعہ احمدیہ و مدرسہ احمدیہ نے مولوی نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ افریقہ کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ اس موقعہ پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے دوبارہ تحریک فرمائی کہ احمدی طلبہ کو اردو سیکھنے کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنی چاہئیں اس تعلق میں یہ بھی ارشاد فرمایا۔
>جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دینی امور میں اصلاح کی ہے ¶وہاں اردو زبان میں بھی بہت بڑی اصلاح کی ہے چنانچہ ایک شخص۲۶۴ نے لنڈن یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے >انگریزی لٹریچر کا اردو لٹریچر پر اثر< کے عنوان سے ایک مقالہ۲۶۵ لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعلق یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ آپ کی تحریروں نے زبان اردو پر خاص اثر ڈالا ہے<۔
>اب اردو کے حامل احمدی ہوں گے یا یہ کہ اردو کے حامل احمدی ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ زمانہ خود اردو کو اس طرف لے جارہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ اردو کے سمجھے جائیں گے پس ہمارے طلباء کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتب نمونہ اور ماڈل ہونی چاہئیں خصوصاً آخری زمانہ کی کتابیں ان کی روانی اور سلاست پہلے کی نسبت بہت بڑھی ہوئی ہے ان کی اردو نمونہ کے طور پر ہے اور وہی اردو دنیا میں قائم رہے گی<۔۲۶۶
یہاں ضمناً یہ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دسمبر ۱۹۱۳ء میں >آل انڈیا محمدن اینگلو اورنٹیل ایجوکیشنل کانفرنس< کا ستائیسواں اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں خواجہ غلام الثقلین )۱۸۷۱ء۔ ۱۹۱۵ء( نے خطبہ صدارت میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جنہوں نے اردو کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ان لوگوں کی صف میں شمار کیا جن کو آج اردو زبان میں بطور سند پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً پروفیسر آزاد` مولانا حالی` سرسید احمد خاں` داغ دہلوی` امیر مینائی جلال لکھنوی` پنڈت رتن ناتھ سرشار۔ )ملاحظہ ہو رپورٹ اجلاس مذکورہ صفحہ ۷۶( پھر اسی رپورٹ کے صفحہ ۷۲ پر پنجاب کے انشاء پردازوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اردو زبان کے اعلیٰ اور بلند پایہ انشاء پردازوں میں شمار کیا گیا۔۲۶۷
اتحاد و مذاہب کانفرنس شکاگو کے لئے افتتاحی پیغام
شکاگو کی عالمی جمعیتہ مذاہب FELLOW (WORLD FAITHS) OF SHIP کے وائس پریذیڈنٹ ریبن سٹیفنز وائز کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں یہ درخواست موصول ہوئی کہ شکاگو میں )۲۷/ اگست تا ۱۷/ ستمبر ۱۹۳۳ء( دوسری عالمی مذہبی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں خود شرکت فرما کر منتظمین کی عزت افزائی کریں یا اپنی طرف سے دو ایک نمائندے ہی مقرر فرما دیں جو اس میں شامل ہوں اس پر حضور نے صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالیؓ اور میاں محمد یوسف صاحب کو جو امریکہ کے مبلغ تھے۔ کانفرنس میں شرکت کا ارشاد فرمایا۔ نیز منتظمین کانفرنس کی درخواست پر حسب ذیل پیغام ۲۲/ اگست ۱۹۳۳ء کو بذریعہ تار ارسال فرمایا۔
>مجھے ورلڈ فیلو شپ آف فیتھ کے مقاصد سے بے انتہا دلچسپی ہے کیونکہ اس کے مقصد میں میں اس اعلان کی تکمیل دیکھتا ہوں جو تیرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ یعنی کوئی قوم نہیں جس میں نبی نہ گزرا ہو اور یہ کہ محض بدی کبھی دنیا میں قائم نہیں رہ سکتی وہ مذاہب جو سینکڑوں ہزاروں سال تک علی الاعلان اپنی تعلیم پیش کرتے رہے ہیں۔ اور لاکھوں آدمیوں سے والہانہ فرمانبرداری کراتے رہے ہیں ممکن ہی نہیں کہ کسی گندے سرچشمہ سے نکلے ہوں یا اپنا سب حسن کھو چکے ہوں۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جن کا یہ عقیدہ ہو کہ ہر راستہ پر چل کر خدا مل سکتا ہے۔ لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ روشنی کے مینار تک پہنچانے کے لئے روشن سڑکوں کی بھی ضرورت ہے۔ جو شخص سڑکوں کو اندھیرا کرتا ہے۔ وہ مینار کو بھی ویران کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس جو شخص دوسرے مذاہب کی عیب جوئی میں اپنے مذہب کی فتح دیکھتا ہے وہ نادان ہے اگر خدا تعالیٰ کا نور ہر قوم اور ہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں موجود نہیں تو لوگ بینائی کھو بیٹھیں گے اور جب بینائی جاتی رہے تو نور کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ پس جو جماعت لوگوں کو اس صداقت سے آگاہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے کہ ہر مذہب میں خوبیاں موجود ہیں وہ صداقت کا جھنڈا کھڑا رکھنے کے لئے ایک بہت بڑی خدمت کرتی ہے اور اس وجہ سے ورلڈ فیلو شپ آف فیتھس میرے نزدیک دنیا کی ایک اہم ترین خدمت کر رہی ہے اور ضرورت ہے کہ اس کی کوششوں کو دنیا کے ہر حصہ میں وسیع کیا جائے۔ میں امام جماعت احمدیہ ہونے کی حیثیت میں انہیں اس کام کے لئے ہر ممکن امداد دینے کا وعدہ کرتا ہوں اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس وقت خدا تعالیٰ کا ارادہ بھی ان کی کوششوں کی تائید میں ہے آسمان کے فرشتے صلح کی قرناء پھونک رہے ہیں۔ جو آج اس آواز کو نہیں سنتا وہ کل سنے گا۔ اور جو کل نہیں سنتا وہ پرسوں سنے گا مگر سنے گا ضرور۔ پس مبارک ہیں وہ جو پہلی ہی آواز پر جنگی ہتھیار زمین میں دفن کر دیتے ہیں اور صلح کا ¶ہاتھ اپنے بھائیوں کی طرف بڑھاتے ہیں۔ کیونکہ انہی کے ہاتھ پر خدا کا ہاتھ ہو گا اور وہی آسمانی بادشاہت کے وارث ہوں گا<۔۲۶۸
صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مرحوم نے حضور کے نمائندہ کی حیثیت سے یہ پیغام سنایا۔ جس سے سامعین بہت متاثر ہوئے کئی لوگوں نے برملا تسلیم کیا کہ یہ سب سے اعلیٰ مضمون ہے۔۲۶۹ علاوہ ازیں بشپ فرانسس میکونل صدر کانفرنس نے حضور کی خدمت میں شکریہ کا خط لکھا کہ >آپ کا پیغام جو سجری تار کے ذریعہ موصول ہوا۔ عظیم الشان اجتماع میں ۲۷/ اگست بروز اتوار بعد دوپہر جلسہ کے افتتاح کے موقعہ پر جو کہ ہمارے جلسہ کے انتہائی عروج کا وقت تھا پڑھا گیا۔ تمام سامعین نے آپ کے پاک اور پاکیزگی بخشنے والے الفاظ کو نہایت پسند کیا<۔۲۷۰ )ترجمہ(
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا پہلا سفر امریکہ
۲۹/ اگست ۱۹۳۳ء سے ۷/ ستمبر ۱۹۳۳ء تک کے ایام احمدیہ مسلم مشن امریکہ کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے کیونکہ ان ایام میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب پہلی بار لندن سے امریکہ تشریف لے گئے۔ آپ کا یہ مبارک سفر بظاہر سیاسی نوعیت کا تھا۔ مگر اس کے دوران آپ نے شکاگو میں خدمت دین کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ چنانچہ آپ نے تین پبلک جلسوں کو خطاب فرمایا۔ اتحاد و مذاہب عالم کے جلسہ میں بھی اسلام پر لیکچر دیا۔ دو تقاریر شکاگو مشن میں کیں۔ ان باقاعدہ تقریروں کے علاوہ شبانہ روز ملاقاتوں میں آپ اسلام سے دلچسپی رکھنے والوں کو پیغام ہدایت دیتے رہے اور ہفتہ بھر تبلیغ اسلام کا غلغلہ رہا جن لوگوں کو چوہدری صاحب کی پر معارف تقاریر سننے یا ملاقات کرنے کا موقعہ ملا۔ وہ دل و جان سے آپ کے والہ و شیدا اور آپ کے اخلاق فاضلہ` تبحر علمی اور روحانی جاذبیت سے سچ مچ مسحور ہو گئے۔۲۷۱
چودھری صاحب کے اس پہلے سفر امریکہ کا ایک بھاری فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان کی ملاقات سے نو مسلموں کے ایمان میں زیادتی اور تقویت ہوئی۔ اسی طرح وہ لوگ جو عرصہ سے زیر تبلیغ تھے اور اسلام کے متعلق احترام و اخلاص رکھتے تھے۔ وہ اور بھی قریب آگئے۔ سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ چودھری صاحب جیسی شخصیت نے احمدیہ مشن امریکہ کا بذات خود معائنہ فرمایا اور مرکز کو احمدیہ مشن کی مشکلات سے باخبر کیا۔۲۷۲
پہلا باب )فصل ہشتم(
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کا سفر ولایت
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب )خلف قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ( ۳۰/ اگست ۱۹۳۳ء کو قادیان سے بغرض تعلیم
انگلستان کے لئے روانہ ہوئے۔۲۷۳
تاریخ احمدیت میں چونکہ یہ پہلا موقعہ تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پوتا بیرونی ممالک میں تعلیم کی خاطر جارہا تھا اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضرت قمر الانبیاءؓ نے صاحبزادہ صاحب کی روانگی پر اپنے قلم سے ان کو اہم ہدایات تحریر کرکے عطا فرمائیں۔ حضورؓ کے ارشادات کا ملخص یہ تھا۔
۱۔
آپ کو لوگ اس نگاہ سے دیکھیں گے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے ہیں پس ہمیشہ اس امر کا خیال رکھیں کہ آپ کے ہاتھ میں اپنی عزت کی حفاظت کا ہی کام نہیں ہے بلکہ سلسلہ کی عزت بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی عزت کی حفاظت کی بھی ذمہ داری ہے۔
۲۔
ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی مادیت کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے پس آپ کو دعائوں پر خاص زور دینا چاہئے۔
۳۔
ہمیشہ کوشش کریں کہ نمازوں میں باقاعدگی ہو۔ نمازیں وقت پر ادا ہوں اور اگر ہو سکے تو باجماعت ادا ہوں۔
۴۔
قرآن شریف کا سمجھ کر مطالعہ کرتے رہیں کہ اس میں سب نور اور ہدایت ہے۔ اگر غور سے پڑھیں گے تو معلوم ہو گا کہ یورپ باوجود ترقی کے اس مقابلہ میں ابھی تاریکی میں پڑا ہوا ہے۔
۵۔
ہر ممکن کوشش احمدیوں سے ملتے رہنے کی کرتے رہیں۔ خصوصاً مسجد میں آنے کی۔
۶۔
ہمیشہ اچھے دوستوں سے تعلق پیدا کریں اور اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کرتے رہیں اور اچھے نوجوانوں کو انگریز ہوں یا ہندوستانی مسجد میں لے جانے کی کوشش کریں کہ اس سے دل کو نور حاصل ہوتا ہے۔
۷۔
مقامی مبلغ وہاں کا امام اور امیر ہے اس کی پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے۔
۸۔
وہاں عورتوں کی وبا کثرت سے ہے اس سے بچنا تو مشکل ہے کیونکہ وہ ہر مجلس میں موجود ہوتی ہیں لیکن جوان عورتوں سے الگ ملنے یا ان کے ساتھ سیر وغیرہ پر جانے سے احتراز کرنا چاہئے۔
۹۔
کھانے میں حلال حرام کا خاص خیال رکھیں اور شکل میں ڈاڑھی کا۔
۱۰۔
جہاز اس مقدس سرزمین کے پاس سے گزرے گا جس سے ہمیں نور ملا ہے اور جہاں ہمارا سب سے پیاراﷺ~ مدفون ہے دونوں جگہ سے جہاز کے گزرنے کا علم جہاز کے افسروں سے ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس جگہ اس سرزمین کو دیکھ کر دعائیں کریں۔ تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو ایک جگہ تسبیح و تحمید اور دوسری جگہ درود پڑھیں کہ اس احسان عظیم کا جو ہم پر ہوا ہے اعتراف ہو۔ ان شکرتم لا زیدنکم۔۲۷۴
حضرت قمر الانبیاءؓ کی تحریر فرمودہ و نصائح کا ایک حصہ تو وہ تھا جن کی طرف حضرت امیر المومنینؓ نے بھی اپنے مخصوص انداز میں توجہ دلائی تھی مگر ایک اہم حصہ ایسا تھا جس میں بعض اور مفید باتوں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ مثلاً آپ نے فرمایا۔
۱۔
>لباس گرد و پیش کے حالات اور ملک کی آب و ہوا پر منحصر ہے مگر انگریزی لباس میں ایک چیز ایسی ہے جسے حدیثوں میں دجال کی نشانی قرار دیا ہے۔ اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اسے ناپسند فرماتے تھے اور وہ انگریزی ٹوپی ہے۔ لہذا اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس کے سوا میں لباس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا تمہیں آزادی ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ کسی چیز کو محض غلامانہ تقلید کے طور پر اختیار نہ کرنا<۔
۲۔
>انسان کی ساری ترقی کا راز محنت میں ہے مگر محنت صحیح طریق پر ہونی چاہئے اور ہر کام کے لئے صحیح طریق جدا جدا ہے پس سب سے پہلے تمہیں واقف کار اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ اس لائن کے لئے تیاری کا صحیح طریق کون سا ہے؟ اور اس کے بعد پوری محنت کے ساتھ اس میں لگ جانا چاہئے۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ مقابلہ کے امتحان کے لئے مخصوص طور پر کوئی یونیورسٹی کی تعلیم نہیں ہوتی۔ بلکہ سارا دارومدار طالب علم کی اپنی کوشش پر ہوتا ہے البتہ ولایت میں بعض پرائیویٹ درسگاہیں ایسی ہیں جو طالب علموں کو اس کے لئے تیاری کراتی ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے علاوہ ازیں تمہیں چاہئے کہ جاتے ہی برٹش میوزیم کے ممبر بن جائو جس میں دنیا بھر کی بہترین کتب کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔ اس لائبریری سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور گزشتہ سالوں کے پرچے دیکھ کر امتحان کے معیار اور طریق کا بھی پتہ لگانا چاہئے<۔
۳۔
حضرت صاحب کو باقاعدہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو اور دعا کی تحریک کرتے رہو۔ اسی طرح حضرت والدہ صاحبہ ام المومنینؓ کو بھی دعا کے واسطے لکھتے رہو۔ گاہے گاہے سلسلہ کے دوسرے بزرگوں کو بھی دعا کے لئے لکھتے رہو۔ ڈاک کے خرچ کی کفایت اسی رنگ میں ہو سکتی ہے کہ ایک ہی لفافہ میں کئی لفافے بند کرکے بھجوا دیئے جائیں<۔۲۷۵
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ۱۶/ ستمبر ۱۹۳۳ء کی شام کو انگلستان پہنچے۔۲۷۶ آپ کے قیام لنڈن سے چند ماہ بعد ۱۵/ نومبر ۱۹۳۳ء کو صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب )ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ( بھی حصول تعلیم کے لئے ولایت تشریف لے گئے۔۲۷۷
حضرت مسیح موعودؑ کی نظموں کا ریکارڈ
ستمبر ۱۹۳۳ء کا واقعہ ہے کی >دی گراموفون کمپنی لمیٹڈ بمبئی< نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعض نظمیں نہایت نازیبا طریقہ پر گراموفون میں ریکارڈ کیں۔ اور وہ کلام جو لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔ ڈھولک اور باجہ کے ساتھ گا کر کھیل کے رنگ میں پیش کیا گیا۔۲۷۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓنے ۱۵/ ستمبر ۱۹۳۳ء۲۷۹ کے خطبہ جمعہ میں اس حرکت پر سخت نقد کیا ازاں بعد احمدی جماعتوں کی طرف سے بھی صدائے احتجاج بلند کی گئی نتیجہ یہ ہوا کہ کمپنی نے خود ہی یہ ریکارڈ تلف کرا دیئے۔
آل بنگال احمدیہ کانفرنس
۲۹۔ ۳۰/ ستمبر و یکم اکتوبر ۱۹۳۳ء کو بنگال احمدیہ کانفرنس کا سترھواں سالانہ جلسہ منقعد ہوا۔ جس کی صدارت کے لئے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ قادیان سے تشریف لے گئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس موقعہ پر احمدیان بنگال کے نام ایک مختصر مگر جوش انگریز اور ولولہ انگیز پیغام بھجوایا جس میں خاص طور پر یہ ارشاد فرمایا کہ۔
>آپ لوگ یاد رکھیں کہ ہر خلیفہ کا مذہبی فرض ہو گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کے مطابق امامت کو خلافت کے نقطہ پر اور تفصیلی انتظام کو صدر انجمن احمدیہ کے نقطہ پر قائم رکھے اور کسی ایسے خیال کو جو اس کے خلاف ہو چلنے نہ دے ہر قربانی جو خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اس مقصد کے حصول کے لئے معمولی سمجھی جائے گی۔ پس ہر ایک بہی خواہ سلسلہ کو اور ہر اس شخص کو جو روحانی موت اپنے لئے پسند نہیں کرتا میں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ایسا کوئی خیال اس کے دل میں ہے تو اسے اپنے دل سے نکال دے ورنہ یہ اس کی اپنے ساتھ بھی غداری ہوگی۔ اور اپنی قوم کے ساتھ بھی غداری ہو گی<۔۲۸۰
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر برہمن بڑیہ سے واپس آتے ہوئے کلکتہ سے قادیان تک کی تمام بڑی جماعتوں کا دورہ بھی فرمایا۔
سرزمین کابل میں ایک نہایت اہم نشان کا ظہور
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ۳/ مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا۔ >آہ نادر شاہ کہاں گیا<۔۲۸۱ یہ عظیم الشان پیشگوئی )اٹھائیس برس بعد( اس سال ۸/ نومبر ۱۹۳۳ء کو لفظاً لفظاً پوری ہو گئی۔ جبکہ والئی افغانستان نادر شاہ دن کے تین بجے ایک طالب علم کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے قتل کر دیئے گئے۔
اس دردناک حادثہ قتل کی اطلاع پہنچنے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے اظہار افسوس اور دلی ہمدردی کا تار جلالت ماب محمد ظاہر شاہ شاہ کابل کو دیا گیا۔ جس میں یہ امید بھی ظاہر کی کہ شاہ معظم اپنے والد ذی شان کے نیک کام کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھیں گے۔۲۸۲
حکومت افغانستان کی طرف سے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل مکتوب موصول ہوا۔
>ہزمیجسٹی شاہ افغانستان آپ کے ان دلی جذبات ہمدردی کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں جن کا اظہار آپ نے اپنی طرف سے نیز اپنی جماعت کی طرف سے اعلیٰ حضرت مرحوم کی دردناک وفات پر فرمایا ہے<۔۲۸۳
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس پیغام تعزیت کے علاوہ >سرزمین کابل میں ایک تازہ نشان کا ظہور< کے عنوان سے ایک مفصل مضمون بھی تحریر فرمایا۔ جو الفضل )۲۳/ نومبر ۱۹۳۳ء( کے بعد اردو اور سندھی میں پمفلٹ کی صورت میں بکثرت شائع کیا گیا۔
اس مضمون میں حضور نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح نادر خاں انتہائی کس مپرسی اور بے سرو سامانی اور بالکل مخالف حالات میں مسند حکومت پر بیٹھے پھر الہام کے مطابق نادر خاں سے نادر شاہ بنے اور پھر اچانک حادثہ سے وفات پا گئے اس ضمن میں اس اہم پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی کہ >اس پیشگوئی سے یہ بات معلوم ہوتی تھی کہ جس وقت نادر شاہ صاحب کی وفات ہو گی۔ اس وقت ملک کو ان کی اشد ضرورت ہو گی۔ واقعات سے یہ امر بھی ثابت ہوتا ہے چنانچہ بڑا ثبوت اس امر کا یہ ہے کہ شاہ موصوف کی وفات سے چند دن پہلے ڈاکٹر محمد اقبال صاحب افغانستان سے واپس آئے تو انہوں نے اخبارات میں یہ امر شائع کرایا کہ اگر دس سال بھی نادر شاہ صاحب کو اور مل گئے تو افغانستان کی حالت درست ہو جائے گی اور وہ ترقی کی چوٹی پر پہنچ جائے گا اس اعلان کے دوسرے دن وہ مارے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب واقف لوگ اس امر کو محسوس کرتے تھے کہ نادر شاہ صاحب کی زندگی کی ابھی ملک کو بہت ضرورت ہے لیکن پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہ تھا کہ وہ اس وقت تک رہتے<۔۲۸۴
محلہ دارالسعتہ
پچھلے سال قادیان میں محلہ دارالانوار کی بنیاد رکھی گئی تھی اس سال حضرت سیدنا امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۹/ نومبر ۱۹۳۳ء کو ریلوے لائن کے مشرقی جانب ایک نئے محلہ دارالسعتہ کا سنگ بنیاد رکھا۔۲۸۵
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی سفر انگلستان و امریکہ سے واپسی اور شاندار استقبال
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب انگلستان میں مسلمانان ہند کی بالخصوص اور اہل ہند کی بالعموم سنہری خدمات سرانجام دینے کے بعد دسمبر ۱۹۳۳ء کے دوسرے ہفتہ میں واپس ہندوستان
تشریف لائے تو مسلمانان ہند نے ان کا شاندار استقبال کیا اور مسلمان لیڈروںں کی طرف سے آپ کو سنہری ہار پہنائے گئے چنانچہ اس ضمن میں دہلی اور لاہور کے بعض مسلم اخبارات کے تین نوٹ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
اخبار >عادل< ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۳ء نے لکھا۔
۹/ دسمبر )دہلی( آج رات کو ساڑھے نو بجے فرنٹیر میل سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رائونڈ ٹیبل کانفرنس سے واپس تشریف لائے۔ دہلی اسٹیشن پر مسلمانوں کا ایک جم غفیر استقبال کے لئے موجود تھا جن میں حسب ذیل اصحاب خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب ممبر گورنمنٹ ہند۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب سی۔ آئی۔ ای ممبر اسمبلی۔ محمدیامین خان صاحب ممبر اسمبلی۔ کنور اسمعیل خان صاحب ممبر اسمبلی۔ مولانا شفیع دائودی صاحب ممبر اسمبلی۔ خان صاحب ایس۔ ایم عبداللہ صاحب۔ خان صاحب حاجی رشید احمد صاحب۔ خان صاحب حافظ محمد صدیق صاحب ملتانی۔ مسٹر صالح حیدری انڈر سیکرٹری زراعت۔ اشتیاق احمد صاحب چشتی۔ مسٹر نادر شاہ۔ مفتی شوکت علی صاحب فہمی ایڈیٹر عادل۔ محمد انوار صاحب ہاشمی اڈیٹر اسلامی دنیا۔ ڈاکٹر شفیع احمد صاحب ایڈیٹر روزانہ اخبار سلطنت۔ ضیاء الدین صاحب ایڈیٹر الخلیل۔ حافظ حکیم سید محمد ہلال صاحب۔ پیرزادہ درگاہ حضرت خواجہ قطب صاحب۔ حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب۔ خان بہادر حافظ عبدالحکیم صاحب۔ میر منشی کمانڈر انچیف خان صاحب۔ میر نواب علی صاحب۔ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے ممبران اسمبلی کی طرف سے اور حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب نے دہلی کے مسلمانوں کی طرف سے سنہری ہار پہنائے<۔۲۸۶
۲۔
جناب خواجہ حسن نظامی صاحب نے روزنامہ >عادل< ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۳ء کے صفحہ اول پر مسلم سیاست کی دو آنکھیں >میاں سر فضل حسین اور چوہدری ظفر اللہ خان< کے دوہرے عنوان سے تحریر فرمایا۔
>اگر خدا نے ہندو قوم کو گاندھی اور جواہر لال اور مالوی جیسے مخلص اور لائق لیڈر دیئے ہیں تو مسلمانوں کو بھی میاں سر فضل حسین اور چوہدری ظفر اللہ جیسے سراپا اخلاص اور لیاقت سے بھرپور لیڈر عطا فرمائے ہیں۔ یہ دونوں مسلمانوں کی سیاست کی دو آنکھیں ہیں بلکہ دو سانس ہیں جو بظاہر دو مگر درحقیقت ایک ہی ہیں اور مسلمان قوم ان دونوں کے وجود پر فخر کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہے کہ اس نے اس قحط الرجال میں ایسے رہنما اس کو دیئے ہیں۔ جو حریفوں میں بھی بے مثل مانے جاتے ہیں۔
میاں سر فضل حسین نے ہندوستان میں اور چوہدری ظفر اللہ نے انگلستان میں مسلمانوں کی بے کس قوم کی جو سیاسی خدمات انجام دی ہیں ان کو موجودہ مسلمانان ہند اور ان کی آئندہ نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ آج چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اپنی مسلمان قوم کی خدمات انجام دے کر انگلستان سے واپس آئے ہیں۔ اور پایہ تخت دہلی کے مسلمان تمام مسلمانان ہند کی طرف سے اپنی آنکھوں کا فرش ان کے راستہ میں بچھاتے ہیں۔ حسن نظامی ۹/ دسمبر ۱۹۳۳ء۲۸۷
۳۔
اخبار >سیاست< لاہور نے ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں لکھا۔
>ہم بہ مسرت تمام چودھری ظفر اللہ خان صاحب اور ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب کو ولایت سے مع الخیر واپس تشریف لانے پر مبارکباد عرض کرتے اور ان کی قوم اور ان کے ملک کی طرف سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں حقیقت یہ ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حکومت ہند نے اگرچہ مسلمانوں کو پارلیمنٹ کی ہندوستان کے متعلق مجلس منتخبہ مشترکہ کے لئے نمائندے چننے کا حق نہیں دیا۔ تاہم اس نے خود ایسے مسلمان چنے جنہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی کا حق کماحقہ ادا کیا۔ تمام مسلم نمائندے جس اتحاد و یگانگت سے کام کرتے رہے ہیں وہ مسلمانوں کی کامیابی کا بہت بڑی حد تک ذمہ دار ہے اور یوں ہر مسلمان رکن مجلس وغیرہ ہمارے دلی شکریہ کا مستحق ہے۔ لیکن ان نمائندوں میں سے چودھری ظفر اللہ خاں اور ڈاکٹر شفاعت احمد خاں نے جس قابلیت اور صفائی سے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کو پیش کیا اور جس طرح دلائل سے ہمارے مطالبات کی صداقت کو واضح کیا۔ وہ انہی کا حصہ تھا۔ اور ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں ان کی کامیابی اور مع الخیر مراجعت پر مبارکباد و خوش آمدید عرض کرتے ہیں<۔۲۸۸
علم طب کی سرپرستی
قادیان نے ہمیشہ فن طب کی سرپرستی کی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاندانی روایات کے مطابق طب میں گہرا شغف تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے شفاء کا اعجازی نشان تو اتنی کثرت اور تواتر سے حضور کے ہاتھ پر ظاہر ہوا کہ ایک جہان انگشت بدنداں رہ گیا۔ اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ انیسویں صدی کی دنیائے طب میں مسلمہ شخصیت تھے جن کی طبابت اور حکمت کا شہرہ چار دانگ عالم میں پھیلا ہوا تھا لہذا جب آپ قادیان میں ہجرت کرکے آگئے تو قادیان طبابت کا بھی مرکز بن گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو طب خاندانی ورثہ میں ملی اور حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کی شاگردی نے اسے چار چاند لگا دیئے۔ اور آپ کے عہد خلافت میں فن طب نے بہت فروغ پایا۔
اسی حقیقت کے پیش نظر پنجاب کے مشہور حکیم حاذق سید علی احمد صاحب نیر واسطی )لاہور( نے اس سال حضور کی خدمت میں مندرجہ ذیل مراسلہ بھیجا۔
از دفتر دیسی دواخانہ چونا منڈی لاہور زیر سرپرستی حکیم سید علی احمد صاحب نیر واسطی جناب المکرم! تسلیم و نیاز
مجھ سے زیادہ جناب پر یہ حقیقت روشن ہے کہ کسی قوم کی تاریخ اسی وقت زندہ رہ سکتی ہے جبکہ اس کے علوم و فنون کا تحفظ کیا جائے مسلمان اگر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو یقیناً انہیں اپنے علوم و فنون کی جانب اعتنا کرنا پڑے گا۔ انہیں اپنے علم کلام` علم معانی` منطق` فلسفہ اور اس ضمن میں اپنے علم طب پر خصوصی توجہ مبذول کرنی ہوگی۔
قادیان نے ہمیشہ سے علم طب کی سرپرستی کی ہے۔ خود مرزا صاحب ایک بہت بڑے فاضل جید اور حادق طبیب تھے۔ حکیم نور الدین صاحب بھیروی کا مرتبہ اطبائے کاملین کی صف اول میں خصوصاً بہت بلند ہے ان کے مجربات کے نسخوں اور ان نسخوں کی ترکیبوں کو دیکھ کر جالینوس اور شیخ کے عہد کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔
ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کی ذات گرامی سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس فن عزیز کی سرپرستی کے لئے اب عملی قدم بڑھائیں۔
لکھنا بہت کچھ تھا لیکن سردست ان چند سطور پر اکتفا کیا گیا۔
سردار محمد خاں
بحکم حکیم علی احمد صاحب نیر واسطی
اس خط کا حضورؓ نے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل جواب دیا۔
>آپ کا خط ملا۔ حسب توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب ہی کاموں کی طرف توجہ کا ارادہ رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ ارادوں کا پورا کرنے والا ہے۔ سب کام روپیہ چاہتے ہیں اور روپیہ ان ابتدائی ضرورتوں کو جن کے لئے سلسلہ کا قیام ہے بہ مشکل پوراہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو طب کا خاص خیال تھا مجھے جو علم علاوہ قرآن کریم اور حدیث کے حکماء سے پڑھوایا وہ طب تھا فرماتے تھے یہ ہمارا خاندانی شغل ہے چنانچہ دو تین ابتدائی کتب حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ سے طب کی میں نے پڑھیں پھر دوسرے کاموں میں لگ گیا ارادہ ہے کہ اپنے ایک بچے کو علم طب ایسے اصول پر پڑھوائوں کہ طب کا صحیح حصہ قائم رکھا جائے آپ کی رائے کا معلوم کرنا موجب خوشی ہو گا<۔
اخبار >الفضل< کی اسلامی خدمات
اخبار >الفضل< نے اپنی مستقل پالیسی کے مطابق ۱۹۳۳ء میں بھی مسلمانوں کے اہم مسائل اور ان کے قومی مفاد میں گہری دلچسپی لی۔ اس ضمن میں چند اہم معاملات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
السنہ شرقیہ کا تحفظ: یہ افواہ مشہور ہوئی کہ اورینٹل کالج لاہور اور السنہ شرقیہ کی حیثیت اور وقت کم کرنے کی تجاویز پنجاب یونورسٹی کے تحقیقاتی کمشن کے زیر غور ہیں۔ اخبار الفضل نے اس پر لکھا کہ >مسلمان قطعاً برداشت نہیں کریں گے کہ وہ زبانیں جو ان کی تہذیب ان کے تمدن` ان کی شاندار روایات` ان کے اسلاف کے بے مثال کارناموں اور ان کے علوم کی حامل ہونے کے علاوہ ان کے مذاہب کو بھی محفوظ کئے ہوئے ہیں انہیں ایسے صوبہ میں جہاں تمام دوسری اقوام کے مقابلہ میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے نذر تغافل ہونے دیں<۔]4 [stf۲۸۹
مملکت آصفیہ اور مسئلہ برار: مملکت آصفیہ اور حکومت برطانیہ کے مابین مسئلہ برار مدتوں زیر بحث چلا آرہا تھا۔ اخباری اطلاعات سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت والی دکن اور ان کے لائق و جہاندیدہ وزیراعظم سر اکبر حیدری اور ان کے رفقاء کار کی کوشش سے ایک باقاعدہ معاہدہ ہو رہا ہے جس کی رو سے برار کا علاقہ شہر یار دکن کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اخبار >الفضل< نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ اور اس تصفیہ کو مملکت دکن اور اہل برار دونوں کے لئے بابرکت قرار دیا اور اہل برار کو مشورہ دیا کہ انہیں ایسے لوگوں کی باتوں کی کوئی وقعت نہیں دینی چاہئے۔ جو سودیشی حکومت کے نعرے بلند کرتے ہیں مگر نہیں چاہتے کہ سب سے بڑے ہندوستانی فرمانروا کو اپنا علاقہ واپس مل جائے۔۲۹۰
مسلمان افسر کی برطرفی پر احتجاج: سرحد کے ایک اعلیٰ مسلمان افسر )شیخ تاج محمد صاحب کنٹرولر آف اکونٹس( برطرف کر دیئے گئے۔ اس پر >الفضل< نے سخت احتجاج کیا اور لکھا کہ اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو مسلمان یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ ۹۵ فیصد مسلمان آبادی والے صوبہ کے اعلیٰ مسلمان افسر بھی باسانی غیر مسلموں کی سازش کا شکار بنائے جا سکتے ہیں۔۲۹۱
ہندوئوں کے حملہ کی مذمت: عید الاضحیہ کی تقریب پر حکومت کے وسیع انتظامات کے باوجود ہندوئوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا اس ظالمانہ روش پر اظہار افسوس کرنے کی بجائے اخبار >ملاپ< )۲/ اپریل ۱۹۳۳ء( نے لکھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو عید کی قربانی ہی بند کر دینی چاہئے۔ >الفضل< نے اس ذہنیت پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا۔ کاش ہندوئوں میں رواداری کا مادہ ہوتا کہ وہ اقلیتوں کو حقوق نہیں بلکہ مراعات دے کر اپنا اعتماد جما لیتے۔۲۹۲
ریاست بہاولپور کے خلاف ہندو شورش: ہندوئوں نے تحریک آزادی کشمیر کے ردعمل کے طور پر ریاست بہاولپور کے خلاف شورش برپا کر رکھی تھی جس کی حقیقت اخبار الفضل نے واضح کی۔۲۹۳
اتحاد المسلمین کی جدوجہد: صدر خلافت کمیٹی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ >مسلمانوں کی نجات ان کی اپنی تنظیم میں مضمر ہے لہذا مسلمانوں کو اپنے تمام اختلافات دفن کرکے متحد طور پر کام کرنا چاہئے<۔ الفضل نے اس مشورہ کا پرجوش خیر مقدم کیا۔۲۹۴
مسلم لیگ میں یکجہتی کے لئے کوشش: قائداعظم محمد علی جناح کے قیام لنڈن کے دوران مسلم لیگ کو بہت نقصان پہنچ رہا تھا اور یہ تنظیم اندرونی الجھنوں کا شکار بن کر عضو معطل بن رہی تھی۔ اخبار >الفضل< نے اس نازک مرحلہ پر مسلمانان ہند کو توجہ دلائی کہ آل انڈیا مسلم لیگ ہی ہماری سب سے پہلی سیاسی انجمن ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کے سیاسی اور ملکی حقوق کی حفاظت کی بلکہ ان میں سیاسی شعور پیدا کرنے کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ لہذا آج جبکہ مخالف طاقتیں نہایت منظم طریق سے مسلمانوں کو کچلنے کے لئے برسرپیکار ہیں یہ طریق نہ صرف ارکان مسلم لیگ کی شان کے شایاں نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے سخت نقصان رساں اور ان کے سیاسی حقوق کو تباہ کرنے والا ہے۔۲۹۵
ریاست مانگرول کی تائید: مانگرول کاٹھیا واڑ میں ایک چھوٹی سی مسلمان ریاست تھی۔ ہندو ذبیحہ گائے کا سوال اٹھا کر اس میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور آریہ اخبار نواب صاحب مانگرول کے خلاف پراپیگنڈا کر رہے تھے جس کے خلاف اخبار الفضل نے آواز بلند کی۔۲۹۶
سیو اسنگھی تنظیم کی مخالفت: اجمیر میں ہندوئوں کا ایک بہت بڑا اجتماع ہوا۔ جس میں مسلمانوں کے خلاف جدید محاذ جنگ قائم کرتے ہوئے سیوا سنگھ کے نام سے رضا کاروں کی ایک فوج تیار کرنے اور مسلمانوں کو جلد سے جلد شدھ کرکے ہندو بنانے کا فیصلہ کیا۔ اخبار >الفضل< نے مسلمانوں کو ہندوئوں کے ان ناپاک عزائم سے خبردار کرنے کے لئے ایک مفصل شذرہ سپرد قلم کیا۔۲۹۷
سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء
اس سال کا سالانہ جلسہ رمضان المبارک کے مہینہ میں آیا۔ جس کی وجہ سے بعض نئی قسم کی دقتیں پیش آئیں مگر ان پر قابو پا لیا گیا۔ اور سخت سردی کے باوجود منتظمین اور کارکن سخت مشقت اٹھا کر روزہ داروں کے لئے افطار اور سحری کے وقت کھانا پہنچاتے رہے۔
جلسہ سے قبل حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ دار ہونے کی وجہ سے بلند آواز سے تقریر نہ کر سکوں گا۔ اس لئے سردست اس جلسہ کے لئے آلہ نشر الصوت کرایہ پر منگوانے کا انتظام کیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل میں صوفی محمد ابراہیم صاحب بی۔ ایس۔ سی لاہور بھجوائے گئے مگر جب انہوں نے بذریعہ تار اطلاع دی کہ PAR کمپنی والے تین دن کے لئے پانچ سو روپیہ کرایہ لائوڈ سپیکر کا طلب کرتے ہیں نیز پتہ چلا کہ اچھا مائیکرو فون ان دنوں لاہور میں دستیاب نہیں ہو سکتا۔ لہذا حضور نے اس سال لائوڈ سپیکر کرایہ پر منگوانے کی اجازت نہ دی اور فرمایا مستقل انتظام کے لئے غور کیا جائے۔۲۹۸ تاہم اس وقت کے باوجود حضورؓ نے حسب دستور سالانہ جلسہ پر تین بار خطاب فرمایا۔ آخری تقریر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وحی سے متعلق تھی نہایت پرمعارف اور بے حد ایمان افروز تھی یہ تقریر تین بجے سے سوا پانچ بجے تک جاری رہی۔۲۹۹
اس جلسہ پر ۲۸/ دسمبر کی رات تک بیعت کرنے والوں کی تعداد ۳۶۴ شمار کی گئی جن میں معزز تعلیم یافتہ اور بارسوخ غیر احمدی اصحاب کے علاوہ بعض غیر مبایعین بھی شامل تھے۔۳۰۰
بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیوں پر سیدنا خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا تبصرہ
۱۹۳۳ء میں جماعت احمدیہ کے بلاد غیر میں پانچ مستقل مشن قائم تھے ۱۔ امریکہ ۲۔ جاوا ۳۔ انگلستان ۴۔ شام و مصر ۵۔ مغربی افریقہ۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء کے موقعہ پر ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
>سال حال میں تبلیغ کے عملی نتائج بھی اچھے نکلے ہیں امریکہ میں کئی نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں سات آٹھ نئی جماعتیں بنی ہیں اسی طرح جاوا میں بہت کامیابی حاصل ہو رہی ہے یہ برکتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ مولوی رحمت علی صاحب طالب علمی کے زمانہ اور اب بھی اتنے سادہ ہیں کہ لوگ عام طور پر ان کی باتوں پر ہنس پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ غرض وہ بہت سادہ ہیں مگر وہ جہاں جہاں بھی گئے وہاں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا اور لوگ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کا مقابلہ ان کے علماء نہیں کر سکتے` کچھ عرصہ ہوا یہاں ڈچ قونصل مجھے ملنے کے لئے آیا۔ اس نے بھی مجھ سے ذکر کیا کہ مولوی رحمت علی بہت بڑا عالم ہے وہاں کا ایک پادری یہاں آیا۔ اس نے بھی یہی کہا۔ بات اصل یہ ہے کہ مولوی رحمت علی صاحب اپنے آپ کو ہیچ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر اس کی راہ میں کام کرتے ہیں اس پر خدا تعالیٰ اپنی خاص برکتیں نازل کرتا اور ہر موقعہ پر ان کو کامیابی عطا کرتا ہے انہوں نے پہلے سماٹرا میں ایک بہت بڑی جماعت قائم کی۔ اب وہ جاوا بھیجے گئے یہ تعلیم یافتہ علاقہ ہے۔ مولوی صاحب اگرچہ اس علاقہ کی زبان سے ناواقف تھے مگر باوجود اس کے گزشتہ تین ماہ کے اندر انہوں نے تین زبردست مباحثے کئے ہیں ان کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دو جگہ بڑی زبردست جماعتیں قائم ہوگئی ہیں یہاں ہندوستان میں ایک مبلغ دو دو سال تک تبلیغ کرتا رہتا ہے تو ایک دو احمدی ہوتے ہیں مگر وہاں بوگرا اور بٹاویہ دو مقامات میں تھوڑے عرصہ میں بڑی بڑی جماعتیں پیدا ہو گئیں جن کی تعداد دو دو اڑھائی اڑھائی سو افراد کے قریب ہے اور وہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ مگر مولوی رحمت علی صاحب جب آئیں گے تو پھر بھی ویسے ہی سادہ ہوں گے جیسے پہلے تھے۔ ان کے مباحثات کا ذکر جب غیر احمدی اخبارات میں چھپتا ہے تو بہت تعریف کی جاتی ہے وہ لکھتے ہیں مولوی رحمت علی صاحب مباحثہ میں اس طرح بولتے ہیں جس طرح آسمان سے گرج کی آواز آتی ہے ان کے مقابلہ میں ہمارے بیس بیس اور تیس تیس مولوی تھراتے اور کانپتے ہیں۔ وہ اخبارات مولوی رحمت علی صاحب کا اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ گویا وہ جماعت احمدیہ کے تمام علماء کا نچوڑ ہیں۔ یہ اسی اخلاص اور بے نفسی کا نتیجہ ہے جس سے مولوی صاحب کام کرتے ہیں۔ مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ایک غیر احمدی اخبار نے لکھا ایک مباحثہ میں بیس سے زیادہ مولوی مقابلہ پر تھے۔ مگر وہ مولوی صاحب سے کانپتے تھے اور ڈرتے تھے۔ جاوا اور سماٹرا کے علاوہ اور جزائر میں بھی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔
امریکہ میں تبلیغ کا جو کام ہو رہا ہے اس کی تفصیل میں نہیں بیان کرتا۔ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب خود دیکھ آئے ہیں اور انہوں نے اس کے متعلق تقریر بھی کی ہے وہ اس کام سے بہت ہی متاثر ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ صوفی مطیع الرحمن صاحب کو اسلامی لٹریچر اور اسلامی مسائل کے متعلق یہ درجہ حاصل ہے کہ اسلامی لٹریچر کے بڑے بڑے ماہرین ان کے سامنے کوئی بات پیش کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ صوفی صاحب اسے غلط نہ قرار دے دیں۔
انگلستان میں اس سال مبلغین کی تبدیلی ہوئی ہے اس وجہ سے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کام کو سنبھال رہے ہیں۔ میں نے انہیں اب کے ہدایت کی تھی کہ علمی طبقہ میں کام کریں۔ اس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں چنانچہ پادریوں کے ایک کلب میں انہوں نے تقریر کی جس کا اچھا اثر ہوا امید ہے کہ وہاں بھی علمی طبقہ پر احمدی مبلغین کا سکہ بیٹھ جائے گا۔ مولوی اللہ دتہ صاحب۳۰۱ شام اور مصر میں اچھا کام کر رہے ہیں وہاں احمدیت کی شدید مخالفت ہو رہی ہے۔ بعض احمدیوں کو پیٹا بھی گیا ہے۔ حکومت بھی خلاف ہے۔ حیفہ میں ایک بہت بڑی جماعت قائم ہے جس کے بہت سے افراد مولوی جلال الدین صاحب شمس کے وقت کے ہیں مگر مولوی اللہ دتہ صاحب کام کو خوب پھیلا رہے ہیں۔
افریقہ کے مبلغ حکیم فضل الرحمن صاحب بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں وہاں بیس ہزار کی جماعت قائم ہو چکی ہے احمدیوں کے چھ سکول ہیں۔ وہاں کے احمدیوں میں سے ہی کئی ایک بطور مبلغ کام کرتے ہیں<۔۳۰۲
بعض مخلص احمدی نوجوانوں اور نئے مبلغوں کا ذکر
۳۳۔ ۱۹۳۲ء کو تاریخی نقطہ نگاہ سے یہ بھاری خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ کے بعض ایسے مخلص نوجوان آگے آئے جنہوں نے آئندہ چل کر سلسلہ کی شاندار خدمات سر انجام دیں اور جن کا نام بنام ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء پر ارشاد فرمایا۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجاب میں ایک نئی روح پیدا ہو رہی ہے کچھ عرصہ پہلے مردنی سی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن دو سال سے بیداری پائی جاتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے مخلص نوجوان پیدا ہو رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کے نام آج میں لے دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سنت پر کہ آپ بھی مخلصین کا نام لے کر ذکر کر دیا کرتے تھے پھر اس لئے بھی کہ جن کے نام لئے جائیں ان میں غیرت پیدا ہو جائے کہ اس عزت کو قائم رکھنا ہے۔ کئی مخلص نو جوان ہیں جن میں سے بعض کے لئے ان کی سرگرمیوں کے متعلق حد بندیوں کی ضرورت ہے اور بعض کے لئے قوت عملیہ کے بڑھانے کی ضرورت۔ ان میں سے ایک تو ۔۔۔۔۔۔ چودھری فقیر محمد خان صاحب ہیں یہ نسبتاً پرانے احمدی ہیں اور نوجوانوں کے لئے اچھا نمونہ ہیں۔ ایک چوہدری اعظم علی صاحب ہیں یہ نئے جماعت میں داخل ہوئے ہیں انہوں نے اخلاص کا نہایت اچھا نمونہ دکھلایا ہے وہ شیعوں میں سے آئے ہیں لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے اخلاص کا قابل تعریف نمونہ پیش کیا ہے اور میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ اور نئے آنے والے کیوں نہ ان کی طرح دین میں ترقی کر سکیں۔ بیعت کرنے کے چھ ماہ بعد جب میں نے ان کی شکل دکھی تو میں انہیں پہچان نہ سکا۔ کیونکہ ان کی شکل سے ایسا اخلاص اور ایسی دینداری ظاہر ہوتی تھی گویا کہ وہ پرانے احمدی ہیں۔ اسی طرح چودھری محمد شریف صاحب وکیل` مرزا عبدالحق صاحب وکیل` میاں عطاء اللہ صاحب وکیل` چودھری عبداللہ خان صاحب برادر چودھری ظفر اللہ خاں صاحب` قاضی پروفیسر محمد اسلم صاحب` ڈاکٹر محمد منیر صاحب` عبدالرحمن صاحب خادم بشرطیکہ نفس پر قابو رکھیں۔ چودھری خلیل الرحمن صاحب بنگالی اور اسی طرح اور کئی نوجوان ہیں جن کے اندر سلسلہ کی خدمت اور روحانی ترقی کا جوش ہے۔ بعض نسلی احمدی ہیں بعض نئے احمدی ہیں۔ اور ان نوجوانوں کی حالت دوسرے نوجوانوں کے لئے نیک نمونہ بن سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے صحیح طریق پر ترقی جاری رکھی تو رئویا اور کشوف سے بھی حصہ پا سکیں گے۔ تمام احمدیوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ ان کی اولاد میں روحانیت پائی جائے۔ اور ہمارے نوجوان روحانیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ اصلی چیز یہی ہے ورنہ عملی بحثوں نے مولویوں کو کوئی فائدہ نہیں دیا۔ اور نہ یہ بحثیں ہمیں کوئی فائدہ دے سکتی ہیں۔
نئے مبلغ جو پیدا ہو رہے ہیں ان میں بھی اچھے نوجوان نکل رہے ہیں۔ مولوی محمد سلیم صاحب ایک اچھے مبلغ ہیں۔ مولوی )شیخ( مبارک احمد صاحب کی قابلیت اس سے پہلے معلوم نہ تھی۔ اب ظاہر ہو رہی ہے ہماری جماعت میں ایک صاحب۳۰۳ تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ وہ مبلغین کے متعلق نکتہچینی کیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم کے متعلق بھی نکتہ چینی کر دیتے تھے۔ اب کے وہ مجھ سے ملنے کے لئے پالم پور گئے۔ تو کہنے لگا میں نے اپنی جماعت میں مبارک احمد ایک مبلغ دیکھا ہے جو بہت قابل ہے میں نے کہا شکر ہے آپ کو ایک قابل مبلغ تو مل گیا۔ ایک اور مبلغ شیخ عبدالقادر صاحب ہیں۔ وہ ہندوئوں میں سے آئے ہیں اور اب مسلمانوں کے مولوی ہیں۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کی تحریر کا رنگ اچھا ہے۔ غرض نئے مبلغ نکل رہے ہیں اور اچھے اچھے نکل رہے ہیں۔ امید ہے کہ جماعت کو مبلغوں کے نہ ملنے کی جو شکایتیں رہتی ہیں وہ کسی حد تک دور ہو جائیں گی۔ گو ان کا کلیت¶ہ دور ہونا مشکل ہے کیونکہ ابھی مبلغ اس قدر نہیں ہیں کہ ہر جماعت کی شکایت دور کی جا سکے۔۳۰۴
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
۱۹۳۳ء میں وفات پانے والے بعض جلیل القدر صحابہ کے نام یہ ہیں۔
۱۔
حضرت چوہدری محمد حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ )تاریخ وفات یکم مارچ ۱۹۳۳ء(۳۰۵
۲۔
حضرت مولوی محمد علی صاحب مہاجر بدوملہویؓ )تاریخ وفات ۳۰/ اپریل ۱۹۳۳ء(۳۰۶
۳۔
حضرت حافظ محمد حسین صاحب قریشیؓ )تاریخ وفات ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء(۳۰۷
۴۔
حضرت منشی خادم حسین صاحب بھیرویؓ )تاریخ وفات نومبر ۱۹۳۳ء(۳۰۸
۵۔
حضرت قاضی محبوب عالم صاحبؓ امرت سری خلف اکبر حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ )تاریخ وفات ۱۲/ مئی ۱۹۳۳ء(۳۰۹
۶۔ ][ صحابیات میں سے اس سال والدہ ماجدہ حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی جنوری ۱۹۳۳ء میں وفات ہوئی۔۳۱۰ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے آپ کی نسبت فرمایا۔ >وہ ایک نہایت مخلص اور نیک خاتون تھیں اگر انہیں ولیہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ایمان میں ان کو قدم صدق حاصل تھا ایسی بے شر اور نیک عورتیں اس زمانہ میں کم ہی دیکھی جاتی ہیں<۔۳۱۱
tav.7.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل نہم(
۱۹۳۳ء کے بعض متفرق مگر نہایت اہم واقعات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی عیادت
مولوی میاں عبدالمنان صاحب عمر )خلف حضرت خلیفتہ المسیح الاول( ۱۹۳۳ء کے شروع میں سخت بیمار ہو گئے۔ ۱۵/ جنوری کو خون کی قے بھی آئی یہ اطلاع ملنے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ بہ نفس نفیس عیادت کے لئے تشریف لے گئے اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کا قریباً سارا خاندان بھی۔ حضرت امیر المومنینؓ کے حکم پر مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ ادویہ اور ڈاکٹر لانے کے لئے لاہور گئے اور راتوں رات ڈاکٹر عبدالحق صاحب اسسٹنٹ سرجن کو ساتھ لے آئے۔۳۱۲ اس کے بعد میاں صاحب موصوف کو افاقہ ہونا شروع ہوا اور آپ جلد صحت یاب ہو گئے۔
دو نئی مساجد
اس سال ملک میں دو نئی احمدیہ مسجدوں کی تعمیر ہوئی۔ )۱( مسجد انبالہ )تاریخ بنیاد ۲۵/ مارچ ۱۹۳۳ء(۳۱۳
۲۔
مسجد بھدرک اڑیسہ )تاریخ بنیاد ۱۶/ جون ۱۹۳۳ء(۳۱۴
مسجد انبالہ اس زمین میں بنائی گئی جو مقامی جماعت کے امیر بابو عبدالرحمن صاحب نے اپنے مکان کے لئے مخصوص کر رکھی تھی۔ اور اس کا نقشہ بھی تیار ہو چکا تھا۔ حاجی میراں بخش صاحب نے زرکثیر صرف کرکے یہاں مسجد تعمیر کرائی جس کا افتتاح ۳۰/ جولائی ۱۹۳۳ء کو ہوا۔10] p[۳۱۵
مسجد بھدرک مولوی نور محمد صاحب انسپکٹر ریلوے پولیس )خوردہ روڈ اڑیسہ( کی ذاتی کوشش اور اخراجات سے تیار ہوئی اور ۲۶/ دسمبر ۱۹۳۳ء کو اس کا افتتاح ہوا۔ تعمیر مسجد کے خلاف غیر احمدیوں نے پورا زور صرف کیا اور قانونی چارہ جوئی بھی کی مگر ناکام رہے۔۳۱۶
انسداد بیکاری
۱۹۳۳ء کی مجلس مشاورت میں بیکاری کے انسداد کی نسبت علاوہ دوسری تجاویز کے یہ فیصلہ بھی ہوا کہ قادیان میں ایک ہفتہ وار بازار کا انتظام کیا جائے چنانچہ ۱۹۳۳ء کے وسط میں >سب کمیٹی انسداد بیکاری< کے زیر انتظام ریتی چھلہ )قادیان( میں ہر جمعہ کے روز بازار لگایا جانا شروع ہوا۔۳۱۷
کوٹلی ضلع گجرات میں مباہلہ
۲۸/ اگست ۱۹۳۳ء کو موضع کوٹلی )ضلع گجرات( میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کا مباہلہ ہوا۔ دونوں طرف سے اکیس اکیس افراد نے شرکت کی خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام احمدی افراد آخر سال تک بخیریت و عافیت رہے مگر غیر احمدی مباہلین میں سے دو )شرف دین اور احمد نامی( موت کا شکار ہوئے۔ ایک اور شخص )پیر بخش( بھی جو اگرچہ مباہلین کی فہرست میں نہیں تھا مگر دعا میں شامل ہو گیا تھا اور سخت مخالف تھا مر گیا اسی طرح ایک غیر احمدی مباہل کی بیوی لقمہ اجل ہو گئی اور ایک پر فالج گرا۔ ایک کا لڑکا مرا اور دوسرے کا پوتا۔ یہ گویا آسمانی فیصلہ تھا جو خدائی عدالت سے احمدیت کے حق میں صادر ہوا۔۳۱۸
بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات
جاوا مشن; جاوا میں اس سال دو معرکتہ الاراء مباحثے ہوئے۔ پہلا مناظرہ ۱۳۔ ۱۴۔ ۱۵/ اپریل کو بمقام بنڈنگ ہوا۔ جس میں پہلے مولوی رحمت علی صاحب نے مقامی انجمن >پمبیلا اسلام<۳۱۹ ISLAM) (PEMBELA کے مناظر حسن صاحب بنڈوم کو شکست فاش دی۔ غیر احمدی مناظر گھر سے سوالات لکھ کر لایا تھا مگر مولوی رحمت علی صاحب فی البدیہہ جواب دے رہے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ حاضرین احمدیوں کے تبحر علمی کے قائل ہو گئے اور کھلے بندوں اقرار کرنے لگے کہ ہمارا مناظر ہرگز اصل موضوع کی طرف نہیں آیا۔ احمدی مناظر نے نہایت معقول اور مسکت جواب دیئے ہیں دوسرے دن مولوی ابوبکر صاحب سماٹری مناظر تھے جن کے زبردست دلائل کی تاب نہ لا کر غیر احمدی مناظر گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور آسمان کی طرف منہ کرکے کہنے لگا کہ >اے خدا! میں کس سے مدد لوں<۔ صدر مباحثہ نے کہا۔ >اس وقت تمہاری کوئی بھی مدد نہیں کرے گا<۔ غیر احمدی مناظر پہلے دو دن غیر متعلق سوالات کرکے پبلک میں بہت ندامت اٹھا چکا تھا۔ اس لئے تیسرے دن اس نے اصل موضوع >وفات مسیح< پر گفتگو کرنا شروع کی۔ مگر جب اس کے اعتراضوں کا پہلی بار ہی تسلی بخش جواب دے دیا گیا تو وہ بے بس ہو کے رہ گیا۔
اس مناظرہ میں خاص پابندیوں اور شرطوں کے باوجود ایک ہزار اصحاب شامل ہوئے جن میں جاوا` سماٹرا` سنگاپور` بورنیو کے نمائندے بھی تھے۔ اور اخباروں کے نامہ نگار اور حکومت کے افسر بھی! سماٹرا اور جاوا کے مشہور عالم ڈاکٹر حاجی عبداللہ احمد صاحب اور احمد سور کاتی۳۲۰ بھی مناظرہ سننے کے لئے تشریف لائے غرضکہ اس مناظرہ میں احمدیت کو شاندار فتح نصیب ہوئی۔ اور احمدیت کا چرچا جزائر شرق الہند کے اکناف و اطراف میں پھیل گیا۔
مناظرے کے بعد مولوی رحمت علی صاحبؓ نے صدر جلسہ سے کہا کہ اب آپ ہمارے پاس بٹاویہ میں تشریف لائیں تمام اخراجات کے ہم ذمہ دار ہوں گے جیسا کہ اب انجمن حمایت اسلام نے اس کا خرچ برداشت کیا۔ چنانچہ طے پایا کہ دوسرا مناظرہ ماہ ستمبر میں کیا جائے۔۳۲۱
باہمی تصفیہ کے مطابق بٹاویہ میں ایک اور عظیم الشان مناظرہ ہوا جس میں احمدیت کو ایسی نمایاں کامیابی ہوئی کہ بعض غیر احمدی مقتدر لیڈروں اور مشہور ایڈیٹروں نے برملا اس کا اقرار کیا۔ چنانچہ ایک غیر احمدی لیڈر نے مناظرہ کے اختتام پر مندرجہ ذیل اعلان کیا۔
>میں ہر دو مناظروں میں موجود رہا ہوں اور فریقین کے دلائل کا موازنہ کرکے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمارے مناظرین کے پاس نہ تو وہ دلائل ہیں جو صحیح معنوں میں احمدیوں کے دلائل کا جواب ہوں۔ اور نہ وہ کشش اور جذب ہے جس سے احمدی مناظر پبلک کے قلوب کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ان کے دلائل عقل انسانی کو اپنی طرف مائل کرتے اور انسانی فطرت کی گہرائیوں تک کو اپیل کرتے ہیں۔ اور اگر دو تین مناظرے اور ہوئے تو مجھے خطرہ ہے کہ ان جزائر کا ایک معتدبہ حصہ احمدیت کا حلقہ بگوش ہو جائے گا۔ پس میری رائے میں ہمیں چاہئے کہ ہم آئندہ کسی احمدی سے مناظرہ نہ کریں اور نہ علیحدگی میں ان سے تبادلہ خیالات کریں کیونکہ ہر دو صورتوں میں ہمارا ہی نقصان ہے۔ روپیہ ہمارا خرچ ہوتا ہے وقت ہمارا خرچ ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آج فلاں جگہ دس احمدی ہو گئے آج فلاں جگہ بیس احمدی بن گئے<۔
اس مناظرہ میں بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی رحمت علی صاحب اور مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری پیش ہوئے۔ مولوی رحمت علی صاحبؓ نے >وفات مسیحؑ< پر سیر کن بحث کی چنانچہ جاوا کے ایک مشہور اور کہنہ مشق ایڈیٹر نے لکھا۔
>اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدی مناظر نے متعدد آیات قرآنیہ اور احادیث سے نہایت ہی موثر اور دلکش پیرائے میں یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچا دیا کہ واقعی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام وفات پا گئے۔ ہمارے مناظر نے اپنی طرف سے حیات مسیح کے اثبات میں پورا زور لگایا مگر حقیقت یہ ہے کہ احمدی مناظر کے دلائل سننے کے بعد گو ہمارا اعتقاد تواب بھی یہی ہے کہ حضرت مسیحؑ زندہ آسمان پرموجود ہیں لیکن عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی کہ کس طرح ایک انسان دو ہزار سال بے کھائے پیئے آسمان پر زندہ رہ سکتا ہے<۔
مولوی ابوبکر ایوب صاحب کی قابلیت اور وسعت معلومات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوسرے ہی دن کئی اخباروں نے کالم کے کالم مولانا کی تعریف اور مناظرہ کی سرگزشت میں صرف کئے چنانچہ مذکورہ ایڈیٹر نے لکھا۔
>آج کی رات پہلے تجربہ کی بناء پر میں وقت مقررہ سے بہت پہلے ہال میں پہنچ گیا۔ مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ احمدیوں کی طرف سے ایک گورے رنگ کا نوجوان )جس کے متعلق مشہور ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کا سند یافتہ ہے( کھڑا ہوا۔ نہایت سلاست اور روانی سے ایک ایسے انوکھے اور مشکل مضمون پر تقریر کر رہا ہے کہ جو ہم نے زندگی بھر ¶کبھی نہیں سنا۔ اور باوجود اس بات کے کہ کثیر مجمع اس کے خیالات کا مخالف ہے مگر وہ ایسے موثر اور دلنشین پیرائے میں کلام کر رہا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے گویا لوگوں کے سروں پر جانور بیٹھے ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ ذرا ہلے تو اڑ جائیں گے۔ بلکہ بعض کو تو یہاں تک کہتے سنا کہ اس قسم کی تقریر ان جزائر میں پہلے کبھی نہیں سنی گئی<۔
مختصر یہ کہ اس مناظرہ میں بھی حق و صداقت کو بے نظیر کامیابی حاصل ہوئی۔۳۲۲ بالاخر یہ بتانا بھی ضرور ہے کہ ان مناظروں میں مولانا محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا بھی شامل تھے اور انہوں نے مباحثات کی تیاری اور حوالہ جات کی فراہمی میں ہر ممکن اعانت فرمائی۔
مصر و فلسطین مشن: ان دنوں اس مشن کے انچارج مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری تھے جنہوں نے ممالک عرب میں تبلیغ اسلام و احمدیت کی کوششیں اس سال پہلے سے زیادہ تیز کر دیں اور مناظروں اور مباحثوں کے ذریعہ سے خاص طور پر احمدیت کا سکہ بٹھا دیا۔ سب سے نمایاں مناظرہ امریکن مشن قاہرہ کے انچارج ڈاکٹر فیلبس سے ہوا۔ یہ مناظرہ تین مضامین پر تھا اور اللہ تعالیٰ نے تینوں میں ہی اسلام کو فتح بخشی۔ تیسرے مضمون میں ڈاکٹر فیلبس اپنے ساتھ دو اور پادری )پادری کامل منصور اور پادری ایلڈر( بھی لائے تھے مگر حق وصداقت کے سامنے دم مارنے کی کسے مجال تھی۔ اختتام پر ایک ازہری عالم نے کہا بخدا اگر تمام علماء ازہر مل کر بھی ایسا مناظرہ کرنا چاہیں تو نہ کر سکیں۔ پادری کامل منصور نے جاتے وقت اقرار کیا کہ احمدی مناظر نے مسیحیت سے متعلق ہم سے زیادہ مطالعہ کیا ہے۔ بلکہ دوسرے مناظرے کے بعد خود ڈاکٹر فیلبس نے اعتراف کیا کہ >قد فشلت الیوم< میں آج ہار گیا۔۳۲۳ یہ شہرہ آفاق مناظرہ >مباحثہ مصر< کے نام سے اردو اور انگریزی میں شائع شدہ ہے۔
فلسطین کی پہلی مسجد >سیدنا محمود< جس کا بنیادی پتھر ۳/ اپریل ۱۹۳۱ء کو علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے رکھا تھا۔ ۳/ دسمبر ۱۹۳۳`ء کو اس کا افتتاح مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے فرمایا۔۳۲۴
امریکہ مشن: جاوا اور مصر و فلسطین کے علاوہ امریکہ میں بھی مناظرات کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں ۱۹۳۳ء کا مشہور مناظرہ گرائونڈ ریپڈ مچ میں ہوا۔ جس میں مبلغ اسلام صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالیؓ نے دو روز تک ایک پادری سے بحث کرکے اسلام کی حقانیت اور سچائی کا ڈنکا بجا دیا۔ چنانچہ نیو یارک کے عربی جریدہ >البیان< نے اپنی ۶/ مئی ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں >امریکہ میں اسلام< کے عنوان کے تحت لکھا۔
>معزز و محترم مولانا صوفی مطیع الرحمن صاحب جو ہندوستان کی جماعت احمدیہ کی طرف سے شمالی امریکہ میں دین اسلام کے مبلغ ہیں گرائونڈ رپیڈس میں تشریف لائے مقامی مسلمانوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔ آپ اگرچہ یہاں صرف چند دن قیام پذیر رہے مگر ان دنوں میں آپ دعوت اسلامی کی نشر و اشاعت کے لئے سرگرم عمل رہے آپ نے مسلمانوں اور امریکنوں کے بہت سے اجتماعات میں خطبات پڑھنے سننے والوں پر آپ کے وعظ و تذکیر نے نہایت گہرا اثر کیا یہ سب کچھ آپ کے تبحر علمی وسعت معلومات اور کثرت مطالعہ کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دنوں مولانا موصوف اور ایک عیسائی امریکن مبلغ کے درمیان پانچ گھنٹے تک ایک مناظرہ بھی ہوا۔ جس میں الاستاذ صوفی مطیع الرحمن صاحب اپنے جج قاہرہ اور دلائل باہرہ کے رو سے نمایاں طور پر کامیاب رہے۔ فریق مخالف آپ کے دلائل کا قطعاً رد نہ کر سکا<۔]4 [stf۳۲۵
مبلغین کی آمد و روانگی
اس سال مرکز سے حضرت مولوی عبدالرحیم صاحبؓ درد اور مولوی حکیم فضل الرحمن صاحبؓ ۲/ فروری ۱۹۳۳ء کو بالترتیب انگلستان اور مغربی افریقہ میں تبلیغ کے لئے روانہ ہوئے۔۳۲۶
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ نے ۱۲/ مارچ ۱۹۳۳ء۳۲۷ کو امام مسجد لنڈن حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ سے مشن کا چارج لیا۔ خان صاحب اسی تاریخ سے آسٹریا کے راستہ عازم ہند ہو گئے۔ اور ۱۰/ اپریل ۱۹۳۳ء کو قادیان تشریف لے آئے۔۳۲۸ سول اینڈ ملٹری گزٹ )۲۰/ مارچ ۱۹۳۳ء( نے اس تبادلہ پر لکھا۔
>ہمیں ہندوستان میں لنڈن مسلم مشن کے کام سے ہمیشہ بہت دلچسپی رہی ہے گزشتہ چند سالوں سے پٹنی میں واقع عظیم الشان مسجد تبلیغ اسلام کا مرکز بنی ہوئی ہے جس کی اہمیت کا یہ ایک بین ثبوت ہے کہ اس کے موجودہ امام خان صاحب مولانا فرزند علی صاحب کی روانگی اور ان کے بعد مقرر ہونے والے امام مولانا عبدالرحیم صاحب درد کے وہاں پہنچنے کی خبر رپوٹر نے ایک خاص کیبل گرام کے ذریعہ دی ہے اگرچہ مولانا فرزند علی صاحب سے ہمیں ذاتی طور پر واقفیت حاصل نہیں ہے لیکن وہ لوگ جو ان کی امامت کے زمانہ میں مسجد پٹنی میں گئے ہیں ان کا بیان ہے کہ آپ ایک عالم اور متقی انسان ہیں اور یہ تو مشہور عام بات ہے کہ انہوں نے اپنا اثر و رسوخ اس جماعت کے دوسرے مبلغین کی طرح جس کے ساتھ ان کا تعلق ہے ہمیشہ صحیح طور پر استعمال کیا ہے آپ ان مسلمان نوجوانوں کو جو انگلینڈ میں زیر تعلیم ہیں ان خطرناک اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے جو زبان زد خلائق ہیں ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ مولوی عبدالرحیم صاحب درد جو ان کی جگہ گئے ہیں پنجاب میں ایک مشہور ہستی ہیں۔ اور ان کی اعلیٰ خدمات کا اعتراف ان ہی کالموں میں تھوڑا ہی عرصہ ہوا کیا جا چکا ہے<۔۳۲۹
محترم حکیم فضل الرحمن صاحبؓ جو حضرت درد صاحب کے ساتھ قادیان سے روانہ ہوئے تھے۔ ۴/ اپریل ۱۹۳۳ء۳۳۰ کو گولڈ کوسٹ میں وارد ہوئے اور ۱۲/ اپریل ۱۹۳۳ء کو مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ان کو چارج دے کر ۱۱/ مئی ۱۹۳۳ء۳۳۱ کو بمبئی پہنچے اور ۱۵/ مئی ۱۹۳۳ء کو دارالامان میں تشریف لائے۔۳۳۲
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
اس سال کے بعض مشہور مناظرے یہ ہیں۔
مباحثہ مٹاری )سندھ( )۳۰/ جنوری تا ۲/ فروری ۱۹۳۳ء( حافظ مبارک احمد صاحب جماعت احمدیہ کی طرف سے مناظر تھے اور مولوی عبدالحق صاحب غیر احمدیوں کی طرف سے۔ آخری دن ابھی فریقین نے ایک ایک تقریر ہی کی تھی کہ بہت بڑا ہجوم حافظ صاحب اور ایک احمدی پر )جو اس وقت موجود تھے( ٹوٹ پڑا اور دونوں کو سخت زدوکوب کیا۔ آخر جب شرفا حملہ آوروں پر غالب آگئے اور حافظ صاحب کو بھی ہوش آیا تو انہوں نے دریافت کیا کہ آپ لوگوں کے مولوی صاحبان کہاں ہیں اس پر بتایا گیا کہ وہ بھاگ گئے ہیں۔ آخر حافظ صاحب نے دعا کی کہ الہیٰ تو ان لوگوں کو ہدایت دے ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے وہ بے سمجھی میں کیا ہے۔۳۳۳
مباحثہ شامپور):ضلع رنگ پور بنگال( )۸/ فروری ۱۹۳۳ء( یہاں مولوی ظل الرحمن صاحب احمدی مناظر نے صبح سات بجے سے چھ بجے شام تک مختلف غیر احمدی علماء سے مباحثہ کیا۔ مناظرہ کے معاًبعد ایک معزز نوجوان داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔۳۳۴
مناظرہ مانانوالہ: )مارچ/ فروری ۱۹۳۳ء( یہ مناظرہ مولوی دل محمد صاحب مبلغ سلسلہ نے کیا۔ اور غیر احمدی عالم کو تینوں عنوانوں پر جو مقرر تھے بحث کرکے لاجواب کر دیا۔ غیر احمدی بلکہ غیر مسلم بھی احمدی مناظر کے دلائل سے متاثر ہوئے اور علی الاعلان احمدیت کے غلبہ کا اقرار کیا۔۳۳۵
مباحثہ نور محل: )۲/ مارچ تا ۴/ مارچ ۱۹۳۳ء( احمدی مبلغ مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل نے آریوں کے مناظر سوامی اور انند سے >موجودہ وید الہامی کتاب ہے< کے موضوع پر مباحثہ کیا اور جب ویدوں سے بعض الزامی جوابات پیش کئے تو آریوں میں کھلبی سی مچ گئی۔۳۳۶
مناظرہ پاک پٹن: )۴/ مارچ ۱۹۳۳ء( سجادہ نشین صاحب کے مکان پر چوہدری غلام احمد صاحب مرحوم امیر جماعت پاک پٹن نے پنڈت چرنجی لال پریم سے مناظرہ کرکے پنڈت جی سے منوایا لیا کہ لیکھرام سے متعلق پیشگوئی وقت پر پوری ہوئی۔۳۳۷
مباحثہ سرائیل: )بنگال( )۱۲/ مارچ ۱۹۳۳ء( ایک غیر احمدی عالم سے مولوی سید سعید احمد صاحب نے >صداقت مسیح موعود< کے مسئلہ پر ایک کامیاب مناظرہ کیا۔۳۳۸
مناظرہ تاریگام کشمیر: )اندازاً مئی/ اپریل ۱۹۳۳ء( مولوی عبدالواحد صاحب اور مولوی عبدالاحد صاحب داتوی احمدی مباحث تھے۔ اور غیر احمدیوں کی طرف سے مشہور فاضل دیو بند مولوی محمود شاہ صاحب شامل ہوئے۔ غیر احمدیوں کے پریذیڈنٹ نے تسلیم کیا کہ ہمارے مولوی صاحب سوالوں کے جواب نہیں دے سکے۔ نیز کہا کہ ان کو غصہ بہت آتا ہے اور گالیوں پر اتر آتے ہیں اس پر محمود شاہ صاحب کے بعد مولوی ابراہیم صاحب کھڑے کئے گئے انہوں نے دلائل کا جواب اشتعال انگیزی سے دیا جسے تعلیم یافتہ طبقہ نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔۳۳۹
مناظرہ وزیر آباد: )اپریل ۱۹۳۳ء( مولوی عبدالغفور صاحب فاضلؓ نے لال حسین صاحب۳۴۰ سے مناظرہ کیا۔ شرفاء نے احمدی مناظر کے دلائل کی معقولیت کا اقرار کیا۔۳۴۱
مناظرہ سیالکوٹ: )اندازاً جون ۱۹۳۳ء( یہ نہایت کامیاب مناظرہ تھا جو احمدیوں اور اہل حدیثوں میں ہوا۔ احمدی مناظر ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ اور مولوی محمد سلیم صاحب تھے اور فریق ثانی کی طرف سے مولوی احمد دین صاحب گکھڑوی` لال حسین صاحب اختر اور مولوی محمد ابراہیم صاحب شریک بحث ہوئے مناظرہ کے خاتمہ پر چار اصحاب نے بیعت کی۔۳۴۲
مناظرہ لدھیانہ: )اندازاً جولائی ۱۹۳۳ء( محلہ قاضیاں میں شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور بابو عبدالحمید صاحب آرنسل کلرک فیروزپور کا مناظرہ ہوا۔ غیر احمدی مناظر دلائل سے بالکل لاجواب ہو گئے۔۳۴۳
مناظرہ غازی آباد: )ماہ جولائی ۱۹۳۳ء( >کیا ویدوں کا خدا خدا ہے<۔ اور >کیا ویدک تعلیم عالمگیر ہے< ان دو مضامین پر حضرت ماسٹر محمد حسن خان صاحب آسان دہلویؓ نے سناتینوں سے مناظرہ کیا۔ جس کا پبلک پر بہت اچھا اثر ہوا۔۳۴۴]ydob [tag
مناظرہ بالیسر: )۱۸/ جولائی ۱۹۳۳ء( بالیسر کے غیر احمدی مسلمانوں کو علم ہوا کہ لاہور سے ایک پادری )عبدالسبحان صاحب پروفیسر( آرہے ہیں تو انہوں نے قادیان اطلاع دی جس پر مولوی عبدالسلام صاحب احمدی سنگڑوی بھجوائے گئے جنہوں نے مناظرہ کے آغاز میں دو تین ایسے مدلل اعتراض کئے کہ پادری صاحب بے بس ہو کر کہنے لگے کہ اے سنی بھائیو! آپ لوگ ایک مرزائی کو پیش کرتے ہیں حالانکہ مرزائیوں کو علماء نے متفقہ طور پر کفر کا فتویٰ دیا ہے السنت و الجماعت سے تعلق رکھنے والے مسلمان یہ چال سمجھ گئے اور انہوں نے کہا اس وقت وہ اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں یہ سن کر پادری صاحب نے معافی مانگ لی۔۳۴۵
مناظرہ بنارس: )۲۰/ اگست ۱۹۳۳ء( مولوی عبدالمجید صاحب بی۔ اے مولوی فاضل نے ایک غیر احمدی عالم مولوی محمد یوسف صاحب سے تین مشہور اختلافی مسائل پر مباحثہ کیا۔ جس میں جماعت کو نمایاں غلبہ حاصل ہوا۔۳۴۶
مناظرہ شملہ: )۲۷/ اگست ۱۹۳۳ء( علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمس~رضی۱~ نے >وفات مسیحؑ< کے موضوع پر اور >ختم نبوت< اور >صداقت مسیح موعود< کے موضوع پر مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے غیر احمدی علماء سے مناظرہ کیا۔ احمدی مقررین کی تقریریں نہایت موثر اور طرز استدلال نہایت عام فہم تھا جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے۔۳۴۷
مناظرہ پونچھ: ۲۷/ اگست ۱۹۳۳ء( احمدی مبلغ مولوی محمد حسین صاحب نے غیر احمدی عالم کرم دین سے مبادلہ خیالات کیا۔ غیر احمدیوں نے اقرار کیا کہ ہمارے عالم حیات مسیح کی کوئی معقول دلیل پیش نہیں کر سکے نیز کہا کہ ایک وقت آئے گا کہ آخر سب احمدی ہو جائیں گے۔۳۴۸
مناظرہ مدرسہ چٹھہ )تحصیل وزیر آباد( )ستمبر ۱۹۳۳ء( مولوی دل محمد صاحب مولوی فاضل نے مولوی محمد نذیر صاحب عالم اہلسنت و الجماعت سے تینوں مشہور متنازعہ مسائل پر مناظرہ کیا۔ غیر احمدیوں کا تاثر یہ تھا کہ ان کے مولوی صاحب نے کسی دلیل کا جواب نہیں دیا۔۳۴۹
مناظرہ بنگلور )۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء( یہ مناظرہ عثمانیہ تھیٹر بنگلور شہر میں منعقد ہوا۔ جس میں ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ کی ختم نبوت پر تقریر اور عالمانہ و فاضلانہ بحث نہایت درجہ موثر تھی۔ حنفیوں نے پہلے دن کے مناظرہ کا اثر دیکھ کر دوسرے دن کا مناظرہ جبراً روک دیا۔۳۵۰
مناظرہ بنگہ )ضلع جالندھر( )۲۸/ تا ۳۰/ اکتوبر ۱۹۳۳ء( یہ اس سال کا نہایت اہم مناظرہ تھا جس میں جماعت احمدیہ کو نمایاں فتح ہوئی۔ احمدی مناظر یہ تھے۔ علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری` مولوی محمد سلیم صاحب فاضل۔ فریق مخالف کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی اور مولوی محمد صاحب عریبک ٹیچر رائے کوٹ نے بحث کی۔ اختتام جلسہ پر چار نفوس نے احمدی ہونے کا اعلان کیا۔ فریق مخالف نے بھی تین آدمی کھڑے کئے۔ جنہوں نے کمال سادگی سے اعلان کیا کہ ہم پہلے مرزائی تھے اب احمدی ہوتے ہیں۔ اس پر بے اختیار چاروں طرف سے قہقہے بلند ہوئے۔ بنگہ میں غیر احمدیوں کے ساتھ یہ پہلا مناظرہ تھا جس کے علاوہ دو آبہ میں غیر معمولی شہرت ہوئی۔۳۵۱
مباحثہ بٹالہ:]ydbo [tag )۱۷/ دسممبر ۱۹۳۳ء( یہ مباحثہ >صداقت مسیح موعود< اور >امکان نبوت< پر تھا جماعت احمدیہ کی طرف سے پہلے مضمون کے لئے مولوی عبدالغفور صاحب فاضلؓ اور دوسرے مضمون کے لئے ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم پیش ہوئے۔ مناظر اہل حدیث مولوی محمد یوسف صاحب درشت کلامی اور بدتہذیبی کے علاوہ اپنی ہمہ دانی اور منطق پر بہت اتراتے تھے۔ مگر خادم صاحبؓ نے دس منٹ تک ایسی زبردست تقریر کی کہ وہ آخر تک سراسیمہ رہے اگرچہ مخالفوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ اس مناظرہ میں کوئی شخص نہ جائے اور کہ مناظرہ میں شامل ہونے والا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو کر مرزائی ہو جائے گا۔ مگر ہزارہا غیر احمدی مناظرہ میں شامل ہوئے اور نہایت دلچسپی سے آخر تک موجود رہے۔۳۵۲
مناظرہ اٹاوہ: )شروع نومبر ۱۹۳۳ء( مولوی محمد نذیر صاحب فاضل ملتانی نے علمائے اہل حدیث )مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور مولوی محمد یوسف صاحب( سے تینوں مخصوص مسائل پر مناظرہ کیا۔ غیر احمدیوں اور غیر مسلموں نے رائے دی کہ احمدی مناظر کے دلائل کا جواب مناظر اہل حدیث نہ دے سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اہل حدیثوں نے اس بات کی بھی کوشش کی کہ آخر میں ایک مصنوعی احمدی تیار کرکے احمدیت سے تائب ہونے کا اعلان کرایا جائے مگر جس شخص نے اس اعلان کا وعدہ کیا تھا اس نے از خود ظاہر کیا کہ احمدی مناظر کے پیش کردہ دلائل اور اہل حدیث کی جانب سے جواب نہ دیئے جانے پر جو اثر پبلک پر اور مجھ پر ہوا تھا اس کے سبب مجھے اس قسم کے اعلان کی جرات نہ ہو سکی۔۳۵۳
نئی مطبوعات
۱۹۳۳ء میں علماء سلسلہ کی طرف سے مندرجہ ذیل کتب شائع کی گئیں۔
)۱( >اچھوتوں کی درد بھری کہانیاں<۔ )۲( >اچھوتوں کی حالت زار<۔ )مہاشہ ملک فضل حسین صاحب کی قابل قدر تالیفات جن میں ایک مظلوم مخلوق کی قابل تعریف خدمت کی گئی تھی۔۳۵۴
)۳( >تسہیل العربیہ< )عربی اردو لغت جسے حضرت مولانا محمد جی صاحب اور چودھری غلام محمد صاحب بی۔ اے نے نہایت محنت سے تیار کیا۔(
)۴( >برق احمدیت< )لال حسین صاحب اختر کی کتاب >ترک مرزائیت< کا جواب جو آغا عبدالعزیز صاحب فاروقی نے شائع کیا(
)۵( >صرف و نحو جدید فیض< )ابو اکمل حضرت مولانا امام الدین صاحب فیضؓ کے تعلیمی تجرات کا نچوڑ(
)۶( >اظہار الحق<۳۵۵ )مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی کا مقدمہ بہاولپور سے متعلق مفصل اہم بیان جس کا خلاصہ عدالت میں پیش کیا گیا(
)۷( رسالہ >درود شریف< )حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحبؓ حلال پوری کی تالیف جس میں آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی برکات درود شریف سے متعلق ایمان افروز تحریرات یکجا صورت میں شائع کر دیں(
tav.7.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
پہلا باب )فصل دہم(
)جنوری ۱۹۳۴ء تا دسمبر ۱۹۳۴ء بمطابق رمضان المبارک ۱۳۵۲ھ تا رمضان المبارک ۱۳۵۳ھ(
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
۱۹۳۴ء کے اہم ترین واقعات میں سے احرار کانفرنس قادیان کا انعقاد اور تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کا قیام ہے۔ اول الذکر واقعہ مخالفین احمدیت کی منظم یورش پر منتج ہوا۔ اور ثانی الذکر سے اسلام و احمدیت کی عالمگیر روحانی فتح و نصرت کی مضبوط بنیاد رکھی گئی۔ ایک طرف ارضی دماغوں کے منصوبوں اور مادی تدبیروں کا اجتماع ہوا۔ تو دوسری طرف خدائے ذوالجلال کی آسمانی سکیم کا نفاذ عمل میں آیا۔
اس جنگ میں کون جیتا اور کسے عبرتناک شکست ہوئی اس کی تفصیلات ہم چونکہ دوسرے اور تیسرے باب میں بیان کر رہے ہیں۔ اس لئے یہاں فقط ۱۹۳۴ء کے دیگر واقعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
تحریک سالکین
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے احمدیوں کی تربیت و اصلاح کی غرض سے ۱۹۳۴ء کے ابتداء میں ایک نہایت اہم تحریک۔ تحریک سالکین کے نام سے جاری فرمائی۔ یہ تحریک تین سال کے لئے تھی اس کے مقاصد حضور کے الفاظ میں یہ تھے۔
>تربیت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تربیت ابدال یا تبدیلی سے ہوتی ہے اور ایک تربیت سلوک سے ہوتی ہے۔ صوفیاء نے ان دونوں طریق کو تسلیم کیا ہے تبدیلی یہ ہے کہ انسان کے اندر کسی اہم حادثہ سے فوراً ایک تبدیلی پیدا ہو جائے اور سلوک یہ ہے کہ مجاہدہ اور بحث سے آہستہ آہستہ تبدیلی پیدا ہو۔ یورپ والے بھی ان کو تسلیم کرتے ہیں اور فوری تبدیلی کو کنورشن (CONVERSION) کہتے ہیں صوفیاء کنورشن کو ہی ابدال کہتے ہیں۔ ابدال کی مثال یہ ہے کہ لکھا ہے ایک شخص ہمیشہ برے کاموں میں مبتلا رہتا تھا۔ اسے بہت سمجھایا گیا۔ مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ ایک دفعہ کوئی شخص گلی میں سے گزرتا ہوا یہ آیت پڑھ رہا تھا الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ۳۵۶ )الحدید:۱۷(
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مومن کے دل میں خشیت اللہ پیدا ہو؟ اس وقت وہ شخص ناچ اور رنگ رلیوں میں مصروف تھا یہ آیت سنتے ہی چیخیں مار کر رونے لگ گیا۔ سارا قرآن سن کر اس پر اثر نہ ہوتا تھا لیکن یہ آیت سن کر اس کی حالت بدل گئی یہ اصلاح کنورشن کہلاتی ہے۔ ایک سلوک ہوتا ہے۔ یعنی انسان اپنی اصلاح کی آہستہ آہستہ کوشش کرتا ہے وہ ذکر الٰہی کرتا ہے مگر کبھی اس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے اس پر وہ توبہ کرتا ہے اور دوسروں سے دعائیں کراتا ہے اور اس طرح اپنی اصلاح میں لگا رہتا ہے لیکن کبھی یہ دونوں باتیں ایک ہی انسان میں پائی جاتی ہیں جماعت احمدیہ میں جو شخص داخل ہوتا ہے اس پر یہ دونوں حالتیں آتی ہیں جب کوئی پہلے پہل داخل ہوتا ہے تو وہ ابدال میں شامل ہوتا ہے ایک عظیم الشان تغیر اس پر آتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے یدعون لک ابدال الشام۔۳۵۷ شام کو ابدال تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں گو اس جگہ ابدال شام کا ذکر ہے لیکن ہم اس سے نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ احمدیت میں سچے دل سے داخل ہونے والے ابدال میں شامل ہوتے ہیں۔ یعنی شخصیت کو بدلنے والی ایک فوری تبدیلی ان میں پیدا ہوتی ہے جیسا کہ اس لفظ کے معنوں سے ثابت ہے۔ بدل عوض کو کہتے ہیں اور تغیر کو بھی۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ پہلے وجود کی جگہ ایک نیا وجود اس شخص کو ملتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ پورے ابدال بن جاتے ہیں اور بعض ناقص یعنی کچھ حصہ ان کا سلوک کا محتاج رہ جاتا ہے اور ان لوگوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ مجاہدات سے اپنے بقیہ نقصوں کو دور کریں اس قسم کے نقصوں کو دور کرنے کے لئے وعظ اور نصیحت کی جاتی ہے مگر خالی وعظ سے یہ کام نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک مستقل نگرانی کی حاجت باقی رہتی ہے۔۳۵۸body] g[ta
سالکین کے لئے ضروری ہدایات
حضور نے ۱۹۳۴ء کے اوائل میں تحریک سالکین کی نسبت متعدد خطبات دیئے جن میں سالکین کو پانچ بنیادی ہدایات دیں جو یہ تھیں۔
اول یہ کہ بجائے اپنے کسی بھائی کو بدنام کرنے کے پہلے عام رنگ میں نصیحت کی جائے کہ وہ لوگ جنہیں کہیں سے روپیہ آنے کی امید نہ ہو۔ وہ قرض نہ لیا کریں۔ دوم روپیہ دینے والوں کو نصیحت کریں کہ ایسے لوگوں کو قرض دینے سے اجتناب کیا کریں۔ سوم یہ کہ دھوکہ باز کا فریب جماعت میں ظاہر کریں۔ تا لوگ اس سے بچ کر رہیں۔۳۵۹
چہارم احباب اپنے اپنے نقائص کا پتہ لگائیں اور ان کی اصلاح کریں۔ اس سلسلہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کیا جائے۔ دوسرے اس امر پر غور کیا جائے کہ غیر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔۳۶۰ پنجم رب العالمین کی صفت کے ماتحت تو کام ہوتے ہی رہتے ہیں۔ رحمانیت کی صفت کے ماتحت بھی نیکیاں کریں اور اس نیت سے کریں کہ دین کو تقویت ہو۳۶۱ یہ گویا پانچ ستون تھے جن پر تحریک سالکین کی بنیاد رکھی گئی۔
اس مبارک تحریک میں بہت سے مخلصین جماعت نے اپنے نام پیش کئے جن میں سے بعض اصحاب کے نام یہ تھے۔ چودھری ظفر اللہ خان صاحب۔ شیخ اعجاز احمد صاحب سب جج۔ سید لال شاہ صاحب امیر جماعت احمدیہ آنبہ ضلع شیخوپورہ۔ ماسٹر برکت علی صاحب فائق لدھیانہ۔ چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری۔ ماسٹر مسیح الدین صاحب پشاور۔ حافظ عبدالسلام صاحب امیر جماعت احمدیہ شملہ۔ ملک صلاح الدین صاحب قادیان۔ حافظ بشیر احمد صاحب جالندھری جامعہ احمدیہ قادیان۔ قاضی عبدالرحمن صاحب دوالمیال ضلع جہلم۔۳۶۲ چوہدری فضل احمد صاحب اے ڈی آئی آف سکولز گجرات۔ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب ننکانہ صاحب۔ چوہدری غلام محمد صاحب پوہلہ مہاراں۔ بابو شمس الدین خان صاحب۔ پولٹیکل کلرک لنڈی کوتل۔ مرزا احمد بیگ صاحب انکم ٹیکس افسر گجرات۔ بابو احمد جان صاحب کوئٹہ۔ مولوی عبدالرحمن صاحب انور بوتالوی۔ بابا حسن محمد صاحب )والد مولوی رحمت علی صاحب( حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد۔ صوفی غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس۔ ڈاکٹر بدر الدین صاحب مگاڈی )افریقہ( ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب۔ چوہدری عبداللہ خان صاحب ایگزیکٹو آفیسر قصور۔ چودھری ابوالہاشم خان صاحب ڈھاکہ۔۳۶۳
الحکم کا دوبارہ اجراء اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اظہار مسرت
سلسلہ احمدیہ کا سب سے پہلا اخبار >الحکم< ایک عرصہ سے بند ہو چکا تھا حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کبیرؓ ۱۹۲۵ء کی پہلی ششماہی
میں یورپ اور بلاد اسلامیہ کی سیاحت کے لئے تشریف لے گئے اور حج بیت اللہ سے مشرف ہو کر ۱۹۲۷ء میں واپس آئے اور کچھ مدت مرکز میں رہنے کے بعد ۱۹۳۰ء میں بمبئی چلے گئے اور وہاں ۱۹۳۱ء سے >سالار< کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کر دیا۔ لیکن الحکم کے احیاء کا خیال آپ کو دوبارہ قادیان لے آیا۔ اور آپ نے ۱۴/ جنوری ۱۹۳۴ء سے دوبارہ الحکم نکالنا شروع کر دیا۔ اور آپ کے فرزند شیخ محمود احمد صاحبؓ عرفانی جو قاہرہ میں >اسلامی دنیا< کی کامیاب ادارت کرتے رہے تھے اس دور جدید کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔۳۶۴
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو الحکم کے دوبارہ اجراء پر بہت خوشی ہوئی اور حضور نے اپنے قلم سے حضرت شیخ صاحب کے نام مندرجہ ذیل مکتوب مبارک لکھا۔
>مکرمی شیخ صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
مجھے یہ معلوم کرکے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ پھر الحکم جاری کرنے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ برکت دے اور اس ارادہ کی تکمیل کے سامان پیدا کر دے۔
الحکم سلسلہ کا سب سے پہلا اخبار ہے اور جو موقع خدمت کا اسے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری زمانہ میں اسے اور بدر کو ملا ہے وہ کروڑوں روپیہ خرچ کرکے بھی اور کسی اخبار کو نہیں مل سکتا۔
میں کہتا ہوں کہ الحکم اپنی ظاہری صورت میں زندہ رہے یا نہ رہے لیکن اس کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ ہے سلسلہ کا کوئی مہتم بالشان کام اس کا ذکر کئے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ تاریخ سلسلہ کا حامل ہے۔ لیکن دل یہی چاہتا ہے کہ >الحکم< جس کا نام ہی بتا رہا ہے کہ ابتدائے ایام سے سلسلہ کے افراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا درجہ سمجھتے تھے۔ اپنی ظاہری صورت میں بھی زندہ رہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی نسل کو اس خدمت کی ہمیشہ توفیق دیتا رہے۔ اللہم آمین۔
خاکسار میرزا محمود احمد۳۶۵
۱۹۳۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے اھم سفر
]0 [rtfحضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو اس سال کئی بار لاہور۔ تین دفعہ فیروزپور اور ایک بار گوجرانوالہ تشریف لے جانا پڑا۔ ان سفروں کے مختصر حالات و کوائف درج ذیل ہیں۔
)۱( حضور ۱۸/ جنوری کو قادیان سے روانہ ہوکر لاہور تشریف لائے۔۳۶۶ اور یہاں سے چل کر فیروزپور اور قصور میں قیام پذیر ہونے کے بعد ۲۸/ جنوری ۱۹۳۴ء کو وارد قادیان ہوئے۔۳۶۷ حضور نے اس سفر کے دوران ۲۵/ جنوری ۱۹۳۴ء کو بمقام قصور >احمدیت کے اصول< کے موضوع پر ایک معرکتہ الاراء تقریر فرمائی جس کا مکمل متن الفضل میں بھی شائع ہوگیا تھا۔۳۶۸ ازاں بعد حضور کو ۲۴/ فروری ۱۹۳۴ء سے لے کر یکم مارچ ۱۹۳۴ء تک دوبارہ لاہور اور فیروزپور کا سفر اختیار کرنا پڑا
)۲( صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی علالت کے سلسلہ میں حضور ۱۸/ اپریل ۱۹۳۴ء کو گوجرانوالہ تشریف لے گئے اور گوجرانوالہ اور لاہور میں قیام پذیر رہنے کے بعد ۲۳/ اپریل ۱۹۳۴ء کو قادیان میں رونق افروز ہوئے۔۳۶۹ صاحبزادی صاحبہ کی عیادت کے سلسلہ میں بار بار آپ کو لاہور آنا پڑا۔
)۳( لاہور میں بعض علمی لیکچروں کا پروگرام تھا جس میں شمولیت کے لئے حضور ۲۸/ مئی ۱۹۳۴ء کو قادیان سے لاہور تشریف لائے۔ قیام لاہور کے دوارن حضور کے دو شاندار لیکچر ہوئے جن کا انتظام پنجاب لٹریری لیگ نے کیا۔
پہلا لیکچر: >عربی زبان کا مقام السنئہ عالم میں< کے موضوع پر ڈاکٹر برکت علی صاحب قریشی ایم اے۔ پی۔ ایچ۔ ڈی پرنسپل اسلامیہ کالج کی صداررت میں ۳۱/ مئی کو وائی ایم۔ سی۔ اے ہال میں ہوا۔ جو ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب جاری رہا۔ اور بہت مقبول ہوا۔ ہال کی وسعت سے بہت زیادہ ٹکٹ جاری کرنے کے باوجود بہت سے لوگوں کو جگہ کی تنگی کی وجہ سے لیکچر سننے کا موقعہ نہ مل سکا۔۳۷۰ اختتام پر جناب صدر صاحب نے شکریہ ادا کرنے کے بعد حاضرین کو لیکچر سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ ایسے علمی مضامین پھر بھی سننے کا موقعہ ملے۔ صدارتی خطاب کے بعد لالہ کنورسین صاحب سابق چیف جج کشمیر نے انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ آج قابل لیکچرار نے زبان عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکتہ الاراء تقریر کی ہے اسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور اس لحاظ سے بھی خوشی ہے کہ ذاتی طور پر میرے آپ سے تعلقات ہیں چنانچہ آپ کے والد ماجد سے میرے والد صاحب )لالہ بھیم سین صاحب( نے عربی زبان سیکھی تھی جب میں لیکچر سننے کے لئے آیا۔ اس وقت میں نے خیال کیا تھا کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کیا کرتے ہیں۔ مگر جو لیکچر دیا گیا۔ وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے میں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور میں نے اس سے بہت ہی حظ اٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدتوں میرے دل پر رہے گا۔ اور میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ جن دوسرے احباب نے یہ مضمون سنا ہے وہ بھی تادیر اس کا اثر اپنے دلوں میں محسوس کریں گے۔ باقی زبان کے متعلق چونکہ نظریوں میں اختلاف ہے اور سنسکرت زبان بھی بہت سے قواعد پر مبنی ہے اس لئے عربی اور سنسکرت کا مقابلہ کرنے میں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اور ایک دفعہ پھر قابل لیکچرار کے بیش قیمت لیکچر کا دلی اخلاص سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔۳۷۱
دوسرا لیکچر; ۲/ جون ۱۹۳۴ء کو ڈاکٹر ایس۔ کے دتا پرنسپل فورمین کرسچن کالج کی صدارت میں ٹائون ہال میں ہوا۔ حضور کا یہ لیکچر >کیا انسان مذہب کا محتاج نہیں<۔ کے عنوان پر تھا جو قریباً دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ سامعین میں کالجوں کے پروفیسر` وکلاء اور طلباء خاص طور پر شامل تھے۔ لیگ کی طرف سے حضور کو پھولوں کا ہار پہنایا گیا۔ صدر جلسہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں سامعین کو متوجہ کیا کہ وہ ایسی عظیم الشان شخصیت کا لیکچر بہت توجہ سے سنیں اور آخر میں لیکچر کی بہت تعریف کی اور خواہش ظاہر کی کہ پھر بھی لاہور کی پبلک کو آپ کے قیمتی خیالات سننے کا موقعہ میسر آئے۔۳۷۲
ان کامیاب تقاریر کے علاوہ حضور نے ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء کو آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس میں بھی شرکت فرمائی۔۳۷۳ اور ۷/ جون ۱۹۳۴ء کو واپس قادیان تشریف لے آئے۔۳۷۴
)۵( حضور ۱۶/ اکتوبر ۱۹۳۴ء۳۷۵ کو قادیان سے فیروز پور تشریف لے گئے اور مختصر سے قیام کے بعد دوسرے روز ہی واپس قادیان پہنچ گئے۔۳۷۶
کالی کٹ )مالابار( کے احمدیوں پر دردناک مظالم
یوں تو کالی کٹ کے احمدی عرصہ سے مظالم کا تختہ مشق بنائے جارہے تھے۔ مگر ۲۹/ جنوری ۱۹۳۴ء کی شام کو جبکہ ایک احمدی بھائی کی تجہیز و تکفین کا مرحلہ پیش آیا مخالفین کی شرارتیں انتہا تک پہنچ گئیں اور وہ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے اور فوت شدہ احمدی کے مکان پر گالیوں دھمکیوں اور شور و شر سے ایسا طوفان مچا دیا کہ گنتی کے چند احمدیوں کے لئے مکان سے بہار نکلنا یا اندر جانا مشکل ہو گیا۔ رات کے آٹھ بجے کے قریب ایک شخص کو بڑی مشکل سے قبرستان میں بھیجا گیا۔ مگر وہاں بھی ہزاروں لوگ لاٹھیاں لے کر جمع تھے اور انہوں نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ اس احمدی کو کسی صورت میں بھی قبرستان میں دفن نہ ہونے دیں گے حالانکہ وہ قبرستان تمام مسلمانوں کے لئے میونسپلٹی کی طرف سے وقف تھا۔ اور اس میں دفن کرنے سے روکنے کا کسی کو قطعاً حق نہیں تھا۔ بے کس احمدیوں نے مخالفین کو اس طرح فساد پر آمادہ دیکھ کر ذمہ دار حکام کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انہیں معلوم ہوا کہ کلکٹر صاحب دورہ پر ہیں آخر ان سے تار کے ذریعہ سے مداخلت کرنے کی درخواست کی مگر کوئی جواب نہ ملا۔ احمدی رات بھر اسی مکان میں بند رہے۔
دوسرے دن صبح کو احمدیوں نے ڈویژنل افسر کو درخواست دی۔ اور صورت حال سے آگاہ کیا اس پر انہوں نے پولیس کو ہدایت کہ کہ تمام رکاوٹیں دور کرکے نعش کے دفن کرانے کا انتظام کریں۔ لیکن بعد میں انہوں نے مخالف سرغنوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے میت کو اس قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا اور بالاخر شام کے قریب ایک ایسی جگہ پر جو شہر سے بہت دور تھی اور جہاں دو تین فٹ کھودنے سے پانی نکل آتا تھا احمدیوں کو اپنے بھائی کے دفن کرنے پر مجبور کیا گیا۔ احمدیوں نے جگہ کی غیر موزونیت کے متعلق بار بار کہا مگر سرکاری افسروں نے یہی کہا کہ اس وقت لاش کو دفن کرو اور بعد میں کچھ کہنا ہو تو رپورٹ کرو۔
چونکہ میت پر ۲۴ گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ اس لئے احمدی رات کو ساڑھے دس بجے میت اٹھانے پر مجبور ہو گئے اس وقت احمدیوں کی تعداد صرف اٹھارہ اور شرارت پسندوں کا مجمع کم از کم دس ہزار کا تھا۔ اگرچہ بعض پولیس والے بھی موجود تھے۔ مگر مخالف گالیاں دیتے` آوازیں کستے اور شور مچاتے ساتھ جارہے تھے۔ اور وہ فتنہ انگیز اور شورش پسند موپلائوں کے اتنے بڑے ہجوم کے مقابلہ میں کچھ نہ کر سکے پھر جنازہ بھاری تھا دوسرے اٹھانے کے لئے ایک بھاری لکڑی کے پلنگ کے سوا کوئی چیز میسر نہ تھی۔ تیسرے اٹھانے والے چند کمزور نوجوان تھے جو بار بار اٹھاتے اور اتارتے ہوئے آدھی رات کے وقت ایک نہایت دور مقام پر ایسی حالت میں جنازہ لئے جارہے تھے جب کہ دس ہزار شوریدہ سر آدمیوں کا ہجوم انہیں گھیرے ہوئے ہر طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ کرتا` تمسخر اڑاتا` تالیاں بجاتا اور ان پر مٹی اور کنکر پھینکتا جارہا تھا۔
آخر غریب و ناتواں احمدی افتاں و خیزاں اس مقام پر پہنچے جو حکام نے قبر کے لئے تجویز کیا تھا انہوں نے خود قبر کھودی اور اپنے بھائی کو دفن کرکے پھر پہلے کی طرح مخالفین کی حیا سوز حرکات اور انسانیت سے دور افعال سے دوچار ہوتے ہوئے واپس لوٹے۔ قبر کھودتے اور دفن کرتے وقت جو جو تکلیفیں احمدیوں کو برداشت کرنا پڑیں۔ اور واپسی پر جو سختیاں جھیلیں ان کی تفصیل اور بھی دردناک تھی۔
اس واقعہ کے بعد کچھ عرصہ تک صورت حال یہ ہو گئی کہ عوام نے احمدیوں کے خلاف پورے شہر میں سخت اشتعال دلا کر ان کا عام سڑکوں پر چلنا مشکل کر دیا اور بعض احمدیوں کے بیوی بچے ان سے زبردستی علیحدہ کر دیئے گئے۔ مگر ان تمام مخدوش حالات میں کالی کٹ کے احمدی اپنی کسم پرسی` بے سروسامانی اور بے بضاعتی کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے دین کی راہ میں ہر مشکل کے سامنے دیوانہ وار کھڑے رہے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے کوہ استقلال ثابت ہوئے اور کوئی دکھ اور کوئی فتنہ ان کے پائوں میں لغزش پیدا نہ کر سکا۔۳۷۷
اس درد انگیز حادثہ کی تفصیلات جب الفضل کے ذریعہ سے جماعت کے سامنے آئیں تو احمدیوں کو بے حد دکھ ہوا اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس خطہ کے مظلوم احمدیوں کی فریاد رسی کرے۔ آخر کالی کٹ کی میونسپل کمیٹی نے یہ ریزولیوشن پاس کر دیا کہ >کنم پرمبا< قبرستان کا ایک حصہ احمدیوں کے لئے مخصوص کر دیا جائے۔ یہ قرار داد ڈاکٹر چندو نے پیش کی مسٹر اچھوتھان نے اس کی تائید اور مسٹر سندر آئر نے تائید مزید کی۔ مگر موپلوں کے مسلمان نمائندے مسٹر محمد عبدالرحمن واک آئوٹ کرکے ہال سے باہر چلے گئے۔ تاہم یہ قرارداد کثرت رائے سے پاس ہوگئی۔۳۷۸]ydob [tag
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب ان انسانیت سوز افعال کی اطلاع حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پہنچی تو آپ نے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحبؓ نیر کو جوان دنوں حیدر آباد )دکن( میں بطور مبلغ متعین تھے حکم فرمایا کہ وہ سیٹھ محمد اعظم صاحب کو ساتھ لے کر فوراً کالی کٹ )مالا بار( پہنچ جائیں اور حضور کی طرف سے احمدی احباب سے اظہار ہمدردی کریں نیز یہ ارشاد ہوا کہ ارباب حل و عقد سے مل کرایسا انتظام کروا دیں کہ آئندہ اس قسم کے افسوسناک حالات اور واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ چنانچہ اس حکم پر حضرت مولانا عبدالرحیم صاحبؓ نیر اور سیٹھ محمد اعظم صاحب ۱۰/ مارچ ۱۹۳۴ء۳۷۹ کو کالی کٹ پہنچ گئے ان حضرات کا مالابار میں ورود مالا بار کی جماعت کے لئے بڑی ڈھارس اور اطمینان کا موجب ہوا۔ سارے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ان اصحاب نے سیکرٹری جماعت احمدیہ کالی کٹ کے ساتھ کلکٹر ضلع مالا بار سے )جو انگریز تھا( ملاقات کی اور اس سے فوت شدہ احمدی کی تدفین کے سلسلہ میں جو افسوسناک واقعات پیش آئے تھے۔ اور جن وحشیانہ افعال کا ارتکاب غیر احمدیوں کی طرف سے کیا گیا تھا ان کا ذکر کیا۔ اور ان واقعات کے پیش نظر کلکٹر سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے ایسا انتظام کیا جائے کہ آئندہ فوت ہونے والے احمدیوں کی تدفین میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ کلکٹر نے ساری باتیں توجہ سے سنیں اور ہمدردی کا اظہار بھی کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ مالا باری مسلمانوں )موپلے( کے شدید تعصب (FANATISM) اور ان لوگوں کی معروف ہنگامہ آرائی کے پیش نظر حکومت اس معاملہ میں الجھ کر اپنے لئے ایک نیا درد سر مول لینا نہیں چاہتی اس پر حضرت مولانا نیرؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ احمدیوں کو قبرستان کے لئے علیحدہ زمین دی جائے تو وہ اس پر متفق نہ ہو سکا اور جواب دیا کہ حکومت مسلمانوں کے قبرستان کے لئے ایک وسیع زمین دے چکی ہے اب وہ فرقہ وارانہ اساس پر علیحدہ قبرستان کے لئے جگہ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ بہرحال کافی گفتگو اس موضوع پر ہوئی اور کلکٹر کو حکومت کی اس ذمہ داری کی طرف متوجہ گیا جو شہریوں کی بنیادی ضروریات اور ان کے تحفظ کے تعلق سے ہے لیکن وہ باوجود اظہار ہمدردی کے کسی عملی اقدام کے لئے تیار نہ تھا۔ ان حالات میں حضرت مولانا نیرؓ نے جماعت کالی کٹ کے سیکرٹری سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے سن لیا ہے کہ آپ کے کلکٹر آپ کی کسی قسم کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ان حالات میں میں آپ کو ہدایت کرتا ہوں کہ جب کبھی کوئی احمدی فوت ہو۔ تو آپ لوگ حکومت کے لئے >لاء اینڈ آرڈر< کا مسئلہ کھڑا نہ کریں۔ بلکہ بعد نماز جنازہ اس احمدی کی میت کو خاموشی کے ساتھ کسی ٹرک میں لے جا کر کلکٹر کی کوٹھی پر پہنچا دیں۔ کلکٹر جس طرح مناسب خیال کریں گے اس کی تدفین کا انتظام کردیں گے۔ حضرت مولانا کے اس ارشاد پر کلکٹر بڑا پریشان ہوا۔ اور بے ساختہ کہا کہ >نہیں نہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے<۔ مولانا نے جواب میں فرمایا کہ ایسا ہی ہو گا۔ اگر غیر احمدی اپنی تعداد کے بل بوتے پر ہمارے مردوں کو قبرستان میں دفن ہونے میں مزاحم ہیں اور حکومت اپنی سنہری اور روپہلی مصلحتوں کی بنا پر ہمارے حق کو دلوانے اور مدد کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اس صورت میں اس کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ مزید کچھ گفتگو کے بعد کلکٹر نے کہا کہ وہ اس سارے معاملہ کو مناسب فیصلہ کے لئے میونسپلٹی کوجس کے زیر انتظام قبرستان ہیں ہدایت کرے گا۔
چنانچہ اس ہدایت کے ساتھ کہ اس معاملہ کا فوری تصفیہ کیا جائے۔ کلکٹر نے میونسپلٹی کو حکم دیا۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ اور سیٹھ محمد اعظم صاحب نے میونسپلٹی کے بااثر ممبران سے ملاقاتیں کیں۔ اور سارے معاملے کو سمجھایا اور ان کی اخلاقی ذمہ داری سے ان کو آگاہ کیا۔ بالاخر جب یہ معاملہ میونسپلٹی کے اجلاس میں آخری فیصلے کے لئے پیش ہوا تو مسلمان ممبروں کی شدید مخالفت کے باوجود غالب اکثریت کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا کہ قبرستان کی زمین میونسپلٹی کی ملکیت ہے جو مسلمانوں کو ان کے مردوں کی تدفین وغیرہ کے لئے دی گئی ہے اور اس میں مردہ شخص جو خود کو مسلمان کہتا رہا ہو وہ اس میں بعد وفات دفن ہو سکتا ہے۔
میونسپلٹی کے اس فیصلہ کے خلاف غیر احمدی مسلمانوں کا ایک وفد کلکٹر سے ملا لیکن کلکٹر اس فیصلہ کو بدلنے کے لئے راضی نہ ہوا۔ غیر احمدیوں کا ادعا یہ تھا کہ مسلمانوں کے قبرستان میں احمدیوں کی تدفین سے ان کے اپنے مردے نجس ہو جائیں گے اس پر کلکٹر نے ارکان وفد سے پوچھا کہ کیا قبرستان کی زمین تقسیم کرکے اس کا ایک حصہ احمدیوں کے لئے مختص کر دیا جائے؟ لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔ اور بالاخر یہ تصفیہ ہوا کہ کسی دوسری جگہ احمدیوں کے قبرستان کے لئے حکومت زمین مہیا کرے اور اس کی قیمت غیر احمدی مسلمان ادا کریں۔ چنانچہ احمدیوں کوقبرستان کے لئے جگہ مل گئی۔ متنازعہ قبرستان پرانی آبادی کے متصلہ علاقہ میں واقع ہے جہاں پہنچنے کے لئے گنجان آبادی اور تنگ و تاریک گلی کوچوں سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اب جو جگہ احمدیوں کو قبرستان کے لئے دی گئی ہے وہ نئی آبادی سے متصل زمین ہے اور اس نئی آبادی میں پڑھے لکھے اور خوشحال لوگ رہتے ہیں اور سڑکیں بھی کشادہ ہیں۔ اور جنازے کے وہاں تدفین کے لئے لے جانے میں راستہ میں فتنہ و فساد کا بہت کم اندیشہ رہتا ہے۔
تدفین کے سلسلہ میں جو دشواریاں تھیں ان کے پیش نظر بعض لوگ قبول احمدیت میں متذبذب تھے اور بعض کمزور احمدی بھی پریشان تھے لیکن احمدیوں کے لئے قبرستان کا انتظام ہو جانے کے بعد تذبذب اور پریشانی کی کوئی بات باقی نہیں رہی اس سے احمدیوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور غیر احمدیوں میں باوجود اپنی بے پناہ اکثریت اور اثر و رسوخ کے اس ناکامی پر بڑی مایوسی ہوئی۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ اور سیٹھ صاحب موصوف ۱۹/ مارچ ۱۹۳۴ء کو واپس تشریف لے آئے۔۳۸۰
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات و کشوف کی جمع و تدوین کا مرکزی انتظام
۱۹۳۳ء میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت اقدس مسیح موعود مہدی مسعود علیہ الصلوہ والسلام کے الہامات اور کشوف و رئویا کی
جمع و تدوین کے لئے ایک سب کمیٹی تجویز فرمائی جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور بعض دوسرے جلیل القدر بزرگ شامل تھے اس کمیٹی نے باہمی مشورہ کے بعد ضروری اصول طے کئے۳۸۱ اور فروری ۱۹۳۴ء۳۸۲ سے جمع و ترتیب کا عملی کام شروع ہوا۔ جس میں حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؓ فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ اور مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ فاضل مبلغ سلسلہ احمدیہ اور مولوی عبدالرشید صاحب فاضل زیروی نے نمایاں کام کیا۔ حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؓ اس کام کے اصل انچارج اور ذمہ دار تھے اور مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ فاضل ان کے دست راست اور مولوی عبدالرشید صاحب نے بعد کو تالیف کے بقیہ مراحل سر انجام دینے اور کاپیوں اور پروفوں کے دیکھنے میں نہایت محنت اور دیدہ ریزی کی۔
اس مقدس مجموعہ کا نام حضرت خلیفتہ المسیحؓ نے >تذکرہ< تجویز فرمایا۔ جو دسمبر ۱۹۳۵ء میں عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ شائع ہو گیا۔
اس کے بعد اکتوبر ۱۹۵۶ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن چھپا۔ جس کی تیاری کا سارا کام مولوی عبداللطیف صاحب فاضل دیو بند بہاولپوری کی مساعی کا رہین منت تھا جو صیغہ تالیف و تصنیف اور >الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ< کے زیر انتظام عرصہ دو سال میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔ اس غرض کے لئے آپ کو سلسلہ کے لٹریچر کا از سر نو وسیع اور گہرا مطالعہ کرنا پڑا۔ بعد ازاں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر علامہ جلال الدین صاحب شمسؓ نے پورے مسودہ پر نظر ثانی فرمائی۔
تذکرہ کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری نے کمال محنت سے اس کی کلید بھی مرتب کر دی جو دسمبر ۱۹۵۷ء میں >مفتاح التذکرہ< کے نام سے شائع کر دی گئی۔
تحریک قرضہ اور مسلم پریس
سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر فروری ۱۹۳۴ء میں مرکزی ادارہ نظارت امور عامہ کی طرف سے ساٹھ ہزار روپیہ قرض کی ایک تحریک کی گئی کہ مخلصین جماعت کم از کم ایک ایک سو روپیہ اس کارخیر میں دیں۔۳۸۳]txet [tag یہ تحریک غیر معمولی طور پر کامیاب ہوئی۔ اور ساٹھ ہزار کی بجائے پچھتر ہزار روپیہ اس میں جمع ہو گیا۔۳۸۴ جو معیاد کے اندر واپس بھی کر دیا گیا اس تحریک کی کامیابی کا سہرا ناظر امور عامہ خان صاحب فرزند علی صاحبؓ کے سر تھا۔ جس پر نہ صرف حضرت امیر المومنینؓ نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ بلکہ ایثار پیشہ احمدیوں کے اس جذبہ اخلاص کو مسلم پریس نے بھی بہت سراہا۔ چنانچہ لکھنئو کے روزنامہ >حقیقت< )۲۵/ مئی ۱۹۳۴ء( نے لکھا۔
>یہ واقعہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کی تمام اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ منظم اور سرگرم عمل احمدی جماعت ہے جس نے دنیا کے گوشہ گوشہ میں اپنے تبلیغی مشن قائم کر دیئے ہیں حالانکہ اس جماعت کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہے اور اس میں غرباء و متوسط الحال لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے باوجود اس کے حال میں اس کے دفتر قادیان سے سلسلہ کی ضروریات کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ قرضہ جمع کرنے کی اپیل کی گئی چنانچہ دو ماہ کے اندر ہی یہ رقم فراہم ہو گئی۔ لیکن اگر کسی غیر احمدی جماعت کی طرف سے اتنی ہی رقم کے لئے اپیل کی جاتی تو وہ چھ ماہ میں کیا سال بھر میں جمع نہ ہو سکتی تھی۔ خواہ وہ ضرورت کتنی ہی شدید ہوتی۔ چنانچہ مثلاً امارت شرعیہ بہار کے زلزلہ فنڈ ہی کو دیکھ لیجئے۔ کہ چار ماہ میں صدہا اپیلوں اور التجائوں کے باوجود اب تک چالیس ہزار بھی فراہم نہیں ہو سکا کاش احمدی جماعت کے اس ایثار سے عام مسلمان سبق لیں۔ اور قومی ضروریات کے لئے ایک بیت المال قائم کرکے اپنی بیداری اور زندگی کا ثبوت دیں<۔۳۸۵
اسی طرح لکھنئو کے مشہور شیعہ ترجمان >سرفراز< )یکم جون ۱۹۳۴ء( نے لکھا۔
>مذہبی حیثیت سے ہمیں قادیانیوں سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ لیکن ہم ان کے اس جوش قومی و مذہبی کی قدر کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جوان کی طرف سے اپنے جماعتی مفاد کو تقویت دینے کے لئے آئے دن ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سلسلہ احمدیہ کی ضروریات کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ قرض کی تحریک کی گئی تھی۔ ناظر امور عامہ قادیان کا بیان جو الفضل قادیان مورخہ ۲۹/ مئی ۱۹۳۴ء میں شائع کیا گیا ہے بتایا ہے کہ >اگر اس فنڈ کے بند کر دینے کا اعلان نہ کر دیا جاتا تو اس سلسلہ میں ایک لاکھ روپیہ جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ اب بھی اس تحریک کے ان وعدوں کو ملا کر جن کی چند روز میں وصولی یقینی ہے یہ رقم پچھتر ہزار تک پہنچ چکی ہے<۔
یہ واضح رہے کہ چندے یا قرض کی یہ تحریک ایسی تحریک نہیں ہے جو کئی برس کے بعد اٹھائی گئی ہو۔ اور اس کے لئے کوئی خاص جدوجہد عمل میں آئی ہو بلکہ اس جماعت کی طرف سے آئے دن اپنے جماعتی مفاد کے لئے چندے ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس وقت تک چار ہزار کے قریب ایسی وصیتیں ہو چکی ہیں جن میں وصیت کنندگان نے اپنی جائداد کا بڑا حصہ اپنے جماعتی` قومی اور مذہببی کاموں کے لئے وقف کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ قادیانیوں کی مجموعی تعداد ہندوستان کے شیعوں سے بہت کم ہے لیکن جذبہ عمل میں یہ مٹھی بھر قادیانی دو کروڑ شیعوں سے کہیں زیادہ نظر آتے ہیں سینکٹروں مکانات پچاسوں اراضیات جماعت قادیانی کے پاس موجود ہیں۔ برخلاف اس کے ہم شیعوں کی یہ حالت ہے کہ ہماری واحد نمائندہ جماعت آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے پاس دفاتر کے لئے بھی کوئی اس کا ذاتی مکان نہیں ہے اور اس مد کرایہ میں اسے گزشتہ چھ سات سال کے اندر پانچ چھ ہزار روپیہ دینے پڑے۔ اتنی رقم میں دفتر کانفرنس اور ادارت متعلقہ کے لئے ایک خاص عمارت بن سکتی یا خریدی جاسکتی تھی لیکن سرمایہ کے سوال نے اب تک اس تحریک کو بار آور نہ ہونے دیا۔
کیا شیعہ جماعت میں ایسے سرمایہ دار موجود نہیں کہ وہ پانچ سات ہزار چندہ نہیں تو قرض حسنہ ہی دے کر دفتر آل انڈیا شیعہ کانفرنس کو کرایہ مکان کے مستقل بار سے محفوظ کر دیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اپنے قومی ادارت کی حالت زار پر ایک آہ سرد بھر کر خاموش ہو جانا چاہئے۔ اور یہ طے کر لینا چاہئے کہ ہمارے دست شل میں یہ صلاحیت نہیں کہ ہم کسی بار کو اٹھا سکیں۔ کاش کہ قادیانی جماعت کا جذبہ عمل ہماری سوئی ہوئی قوم کے لئے سبق آموز اور ہمت آفرین ہو اور ہم بھی وقت کی اہم ضروریات کی طرف متوجہ ہوسکیں<۔۳۸۶
پنجاب ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اور جماعت احمدیہ
حکومت ہند نے سرشادی لال کی جگہ ان کے ریٹائر ہونے پر الہ آباد ہائی کورٹ کے جج مسٹر جان ڈگلس ینگ بیرسٹرایٹ لاء کو پنجاب ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ اس فیصلہ پر اخبار >الفضل< نے ایک زور دار شذرہ لکھا۔ جس میں مسلمانوں کی حق تلفی اور حکومت کے دل شکن رویہ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے حکومت کو توجہ دلائی کہ >پنجاب میں ایسے قابل مسلمان قانون دان موجود ہیں جن کی قانونی قابلیت حکومت سے پوشیدہ نہیں اور وہ ان کی قابلیت کا کئی بار تجربہ بھی کر چکی ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن چیف ججی کے متعلق اس نے یہی مناسب سمجھا کہ مسلمان قانون دانوں کو نظر انداز کرکے یہ منصب ایک انگریز کے سپرد کیا جائے۔ کہا گیا ہے کہ حکومت کے لئے اس بارے میں یہ مشکل درپیش تھی کہ پنجاب ہائی کورٹ میں کوئی مسلمان سینئر جج نہیں تھا اور یہ اس کے لئے ناممکن تھا کہ وہ کسی مسلمان بیرسٹر کو خواہ وہ خاص قابلیت کا ہی مالک کیوں نہ ہو چیف جج مقرر کر دیتی اس کے متعلق اول تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح پنجاب ہائی کورٹ کے ججوں کو چھوڑ کر باہر سے ایک انگریز چیف جسٹس لایا گیا۔ اسی طرح کسی مسلمان کو بھی یہ منصب دیا جا سکتا تھا علاوہ ازیں اس سے یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ اگر آج پنجاب ہائیکورٹ کے ججوں میں کوئی مسلمان سینئر جج موجود نہیں تو اس کی ذمہ داری انہی ارباب اقتدار پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پندرہ برس کے طویل عرصہ میں پنجاب کے کسی ایک قابل مسلمان کو بھی مستقل جج نہ بننے دیا۔ حالانکہ پنجاب میں نہایت اعلیٰ قابلیت کے مسلمان قانون دان موجود تھے۔ جب مسلمان قانون دان کے متعلق یہ صریح بے انصافی روا رکھی گئی تو اس کا تدارک اسی صورت میں ممکن تھا کہ حکومت کسی مسلمان بیرسٹر کو جس کی قابلیت دوسروں کے مقابلہ میں خاص درجہ رکھتی۔ چیف جج بنا دیتی اور اس طرح مسلمانان پنجاب کی دیرینہ اور جائز آرزو پوری کرکے ان کے دل مٹھی میں لے لیتی لیکن افسوس کہ حکومت نے اس کی پروا نہ کی اس نے جہاں مسلمانوں کے لئے بہت بڑی شکایت پیدا کر دی وہاں ہندوئوں کو موقعہ دے دیا کہ مسلمانوں کے سینے طعن و تشنیع کے تیروں سے چھلنی کر سکیں<۔۳۸۷
ہائیڈرو الیکٹرک برانچ میں مسلمانوں کی حق تلفی کے خلاف آواز
قریباً تمام کلیدی آسامیوں پر ہندو قابض تھے اس لئے مسلمانوں کے حقوق نہایت بے دردی سے پامال کئے جارہے تھے حتیٰ کہ مسلم اکثریت کے صوبہ پنجاب میں بھی ان کے ساتھ صریح بے انصافی کا سلوک کیا جاتا تھا۔
شہروں میں نئی نئی بجلی پہنچی تھی۔ لیکن چونکہ ہائیڈرو الیکٹرک کا شعبہ )لوکل سیلف گورنمنٹ کے ہندو وزیر( ڈاکٹر گوکل چند صاحب نارنگ کے ماتحت تھا اس لئے اس صیغہ میں بھی مسلمان اکثریت کو جائز اور واجبی حقوق سے محروم رکھا جارہا تھا۔ مسلمانوں نے اس رویہ پر نکتہ چینی کی تو ہندو پریس نے ڈاکٹر نارنگ کی حمایت کی اور مسلمانوں کی نسبت اس بے بنیاد خیال کا اظہار کیا کہ
>ان کے سامنے تو ایک ہی وہم ہے کہ ہر محکمہ` ہر شعبہ` ہر صیغہ میں سوائے مسلمانوں کے اور کوئی نظر نہیں آنا چاہئے۔ مسلمان چاہے انجینرنگ جانتے ہوں یا نہ وہ بجلی کے کام سے واقف ہوں` یا ناوقف انہیں علم و ہنر کی دولت ملی ہو یا وہ اس پہلو میں خالص مفلس و قلاش ہی ہوں۔ لیکن ہر ذمہ دار عہدہ پر مسلمان ہی رکھے جانے چاہئیں اور مسلمانوں کی آبادی کی اوسط سے انہیں ملازمت مل جانی چاہئے چاہے موچی دروازہ کے گامے اور ماجے ہی بھرتی کرنے پڑیں<۔۳۸۸
اخبار >الفضل< )۱۱/ مارچ ۱۹۳۴ء کے پرچہ میں( ہندو پریس کی اس افسوسناک ذہنیت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ ہائیڈرو الیکٹرک برانچ میں ان کے حقوق تلف کئے جانے کی یہ ایک مثال ہے اور اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں مگر ان کے جواز کے لئے یہ کہنا کافی سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان نااہل اور ناقابل ہیں اگر حالات یہی رہے تو ناممکن ہے کہ مسلمان کبھی ان محکموں میں کام کرنے کے قابل سمجھے جائیں۔ لہذا انہیں چاہئے کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے پرزور جدوجہد کریں اور اس وقت تک دم نہ لیں جب تک اس صیغہ کی ہر چھوٹی بڑی لائن میں مسلمان ملازمین کی تعداد اتنی نہ ہو جائے جتنی ان کی آبادی کے تناسب سے ہونی لازمی ہے۔۳۸۹
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا فیصلہ مباحثات کی نسبت
اس زمانہ میں مباحثات و مناظرات کثرت سے ہوتے تھے اور خصوصاً پچھلے چند سالوں سے ان کی تعداد نسبتاً بہت زیادہ ہو گئی تھی چنانچہ ۱۹۳۳ء میں ۱۷۸ مناظرے ہوئے۔۳۹۰ اس بڑھتی ہوئی رو سے گو سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع ہوا مگر ساتھ ہی کئی قسم کی پیچیدگیاں اور مشکلات بھی پیدا ہو گئیں مخالف مباحثات میں سخت بدزبانی اور دریدہ دہنی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتے تھے جس کے جواب میں احمدی مناظر کے لئے دو ہی صورتیں تھیں یا تو خاموش رہے یا ترکی بہ ترکی جواب دے اور مخالفین کی طرح بد زبانی پر اتر آئے ظاہر کہ یہ دونوں طریق جماعت کے لئے نقصان رساں تھے اس لئے نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء میں یہ معاملہ پیش کیا گیا جس پر کافی بحث و تمحیص کے بعد کثرت رائے نے یہ تجویز کی کہ۔
>حتی الوسع پبلک مباحثات سے اجتناب کیا جائے اور انفرادی تبلیغ اور تقاریر پر زور دیا جائے۔ اگر مخالفین کی طرف سے مباحثہ کا چیلنج ملے اور مباحثہ نہ کرنے کی صورت میں یہ اثر پڑتا ہو کہ گویا ہماری طرف سے فرار ہے تو بہتر ہے کہ مباحثہ تحریری ہو اور تحریر مجلس مناظرہ میں پڑھ کر سنائی جائے استثنائی حالات میں جہاں اس امر کا اطمینان ہو کہ فریق مخالف بدتہذیبی اور امن شکنی نہ کرے گا۔ تقریری مباحثہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن دونوں صورتوں میں ان مباحثات کے لئے ناظر دعوۃ و تبلیغ کی اجازت قبل از تصفیہ شرائط و تعین مباحثہ ضروری ہو گی۔ اس کے سوا کہ مقامی جماعت مناظرہ کا اپنے طور پر انتظام کرے یا مرکزی مبلغ موجود ہو اور اپنے دورے کے پروگرام کو توڑے بغیر مباحثہ کرسکتا ہو` مباحثہ کی ضرورت سے متعلق مقامی جماعت سے متفق ہو<۔۳۹۱
اس پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثات کو پسند نہیں کیا بلکہ ایسی چیز قرار دی ہے جیسے جنگ کی مثال ہے دوسرا حملہ کرے تو اجازت ہے کہ مقابلہ کریں۔ اور وہ بھی اجازت ہے حکم نہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کے ابتدائی وقت میں دشمن حملہ کرتے تو جنگ سے گریز کیا جاتا۔ یہاں تک کہ ایک وقت آگیا جب مقابلہ ضروری ہو گیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثات کو ناپسند کیا ہے مگر پھر بھی آپؑ کے زمانہ میں مباحثات ہوئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آپ کو مباحثات کرنے سے روک دیا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ جماعت میں ایسے بالغ عاقل افراد مذہبی لحاظ سے پیدا ہوگئے ہیں جو یہ بوجھ اٹھا سکیں۔ ہماری یہ تجویز اسی روح کو تازہ کرنے والی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کی کہ مباحثات سے حتی الامکان بچنا چاہئے۔ اور انفرادی تبلیغ اور تقاریر پر زور دیا جائے۔ اگر مخالفین کی طرف سے مباحثہ کا چیلنج ملے اور مباحثہ نہ کرنے کی صورت میں یہ اثر پڑتا ہو کہ گویا ہماری طرف سے فرار ہے تو بہتر ہے کہ مباحثہ تحریری ہو<۔ میں اسے منظور کرتا ہوں۔
دوسرا حصہ جو یہ ہے کہ مبلغ موجود ہو یا مقامی لوگ مباحثہ کر سکیں۔ تو مرکز سے اجازت لینے کی ضرورت نہ ہو۔ اس میں بعض خطرات باقی رہ جاتے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص مباحثہ کر لیتا ہے کہ وہ جو تحریر دے وہ کمزور ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب وہ شائع ہو گی تو لوگوں پر یہ اثر پڑے گا کہ احمدی جواب نہیں دے سکے۔ بعض باتیں ایسی ہیں کہ سب احمدی حقیقی طور پر انہیں سمجھتے نہیں حالانکہ ہم بار بار توجہ دلاتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس وجہ سے میں تقریری مباحثات کو ترجیح دوں گا جہاں مقامی مناظر پیش ہو۔ یعنی وہ تقریری مناظرہ کرے۔ تحریری نہ کرے اور اگر تحریری کرے تو انفرادی طور پر کرے۔ جماعت کی طرف سے پیش نہ ہو۔ یعنی جہاں مرکزی مبلغ مناظرہ کرے وہاں تحریری مناظرہ کو ترجیح دی جائے۔ اور جہاں مقامی مناظر پیش ہو وہاں تقریری کو۔ مرکزی مناظرہ کی صورت میں تمام ذمہ داری مرکزی مناظر کی سمجھی جائے گی اور اس کا یہ کہنا کافی نہ ہوگا کہ مجھے جماعت کی طرف سے مناظرہ کے لئے مجبور کیا گیا تھا<۔۳۹۲
وائسرائے ہند کی خدمت میں احمدیہ وفد اور مسلم حقوق کے تحفظ کا اہم مسئلہ
۲۶/ مارچ ۱۹۳۴ء کو نمائندگان جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے دہلی میں وائسرائے ہند لارڈ ولنگڈن سے ملاقات کی اور ان کی خدمت میں
ایک ایڈریس پڑھا جس میں خاص طور پر ان سے درخواست کی کہ مستقبل میں ہندوستان کے نظام حکومت میں مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔
چنانچہ وفد نے کہا۔ ایک ایسی حکومت جس کے ماتحت ہر ملت و مذہب کے لوگ ہوں کسی خاص جماعت سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں کر سکتی۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر ایک قوم اپنے جائز حقوق سے محروم ہو خواہ اس محرومی میں اس کی اپنی کوتاہی کا ہی کیوں نہ دخل ہو وہ ایک حد تک مدد اور سہارے کی محتاج ہوتی ہے اور مسلمانوں کی یہی حالت ہے۔ حکومت مغلیہ کی تباہی کے بعد مسلمانوں پر دیر تک ایک سکتہ کا سا عالم رہا اور شاید یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا بلکہ لارڈ کرزن جیسے واقف گورنر جنرل کی اس خیال کو تصدیق حاصل ہے کہ حکومت بھی اپنا پیش رو ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کو ابتداء میں شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی۔ لیکن جب کوئی شک پیدا ہو جائے تو وہ آہستہ آہستہ ہی دور ہوتا ہے پس اس شک کے عرصہ میں دوسری اقوام نے خاص ترقی کر لی اور مسلمان پیچھے رہ گئے۔ تعلیم میں بھی` سرکاری ملازمتوں میں بھی` اور سیاسی میدان میں بھی۔ اب جبکہ وہ شکوک دور ہو چکے ہیں۔ اور دونوں قومیں جن پر دنیا کے آئندہ امن کا انحصار ہے۔ ایک دوسرے کی طرف صلح اور محبت کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں اس امر کی خواہش بے جا نہ ہو گی کہ گزشتہ کوتاہی کو دور کرنے کے لئے صحیح اور موثر قدم اٹھایا جائے۔
وفد نے مزید کہا۔ سرحد جو ہمیشہ ہندوستان کے دروازہ پر کندھا دیئے کھڑا رہا ہے۔ اسلامی بنگال جو مقدور بھر ٹیررازم کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اسلامی پنجاب جو برطانوی مشکلات کے وقت اپنے جگر گوشوں کو برطانیہ کی خدمت کے لئے نکال کر پھینکتا رہا ہے اور وہ دوسرے صوبوں کے مسلمان جو تعلیم یافتہ منظم اور آگے نکلی ہوئی قوموں کے درمیان پراگندہ طور پر پڑے ہوئے ہیں اس وقت برطانوی انصاف ہی کے نہیں بلکہ اس کی ہمدردی کے خواہشمند اور مستحق ہیں۔ جناب اور جناب کی حکومت نے ان کے لئے بہت کچھ کیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ باقی ہے اور ہم یہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا آئندہ سیاسی نظام میں اور ان کی اقتصادی حالت کا حکومت کے ماتحت سرکاری ملازمتوں میں اور نئی مالی تجاویز کے اجراء کے وقت خاص خیال رکھا جائے۔۳۹۳
یہ وفد ۲۲ ممبروں پر مشتمل تھا جن کے نام یہ ہیں۔
)۱( لیفٹیننٹ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب۔ )۲( چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بی اے۔ ایل ایل بی بیرسٹرایٹ لاء لاہور۔ )۳( کرنل اوصاف علی خان صاحب سی۔ آئی۔ ای مالیر کوٹلہ۔ )۴( سردار بہادر کیپٹن غلام محمد خان صاحب دوالمیال ضلع جہلم۔ )۵( صوبیدار فتح محمد خان صاحب دوالمیال ضلع جہلم۔ )۶( لیفٹیننٹ تاج محمد خان صاحب نوشہرہ ضلع پشاور۔ )۷( خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سینئر سب جج علی گڑھ۔ )۸( خان بہادر چوہدری نعمت اللہ خان صاحب آنریری مجسٹریٹ مدار ضلع جالندھر۔ )۹( حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد۔ حیدر آباد دکن۔ )۱۰( حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب رئیس کلکتہ۔ )۱۱( حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی۔ )۱۲( صاحبزادہ محمد طیب صاحب بنوں۔ )۱۳( قاضی محمد شفیق صاحب ایم۔ اے ایل ایل۔ بی وکیل چار سدہ پشاور۔ )۱۴( سید ارتضیٰ علی صاحب تاجر لکھنئو۔ )۱۵( بابو اعجاز حسین صاحب دہلی۔ )۱۶( میاں محمد ابراہیم صاحب تاجر چرم کان پور۔ )۱۷( حضرت مولوی عبدالماجد صاحب پروفیسر جوبلی کالج بھاگلپور۔ )۱۸( ملک عبدالرحمن صاحب قصور )۱۹( حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے ناظر اعلیٰ۔ )۲۰( حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب ناظر امور عامہ۔ )۲۱( حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ۔ )۲۲( حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب ناظر امور خارجہ۔۳۹۴
مسلمانان اجودھیا پر ہندوئوں کے مظالم
۲۶/ مارچ ۱۹۳۴ء کو عید الاضحیہ کی تقریب منائی گئی۔ یہ ایک مذہبی تہوار تھا مگر ہندوئوں نے اس موقعہ پر کئی مقامات میں مسلمانوں میں >گئو ہتیا< کی آڑ لے کر حملہ کر دیا۔ اس شرارت کا سب سے زیادہ خمیازہ اجودھیا کے مسلمانوں کو بھگنا پڑا۔ جہاں تین مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ آٹھ مجروح ہوئے اور ۱۸/ مسلمانوں کے مکانات جلا دیئے گئے۔
اخبار >الفضل< نے اس فتنہ انگیزی کے خلاف دو پرزور اداریے لکھے۔۳۹۵
پہلا باب )فصل یاز دہم(
مسجد >فضل< لائلپور کی تعمیر اور حضرت امیر المومنین کا افتتاح
لائلپور صوبہ کی نئی آبادی کا مرکز اور اپنے زراعتی یونیورسٹی اور کارخانوں کے باعث ایشیا بھر میں مشہور ہے اس شہر کے مقامی اور باہر سے آنے والے احمدی مدت سے ایک تکلیف دہ ماحول میں سے گزر رہے تھے وجہ یہ کہ یہاں کوئی احمدیہ مسجد نہیں تھی اور احمدی چنیوٹ بازار کے دو چوباروں میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے آخر دوڑ دھوپ کرکے ڈگلس پورہ )متصل مین بازار( میں حصول زمین کے لئے درخواست دی گئی مگر غیر احمدی مسلمانوں نے مخالفت کی کہ یہ ہمارا محلہ ہے یہاں مسجد نہیں ہونی چاہئے لہذا یہ جگہ حاصل نہ ہوسکی اور مسجد کی بجائے یہاں مندر بن گیا۔ اب دوبارہ جدوجہد شروع کرنا پڑی اور نڑ والے اڈہ کے نزدیک دو کنال کا ایک قطعہ تلاش کیا گیا۔ بعض دوستوں نے رائے دی کہ اس جگہ مسجد بنانے سے خرچ بہت زیادہ اٹھے گا جو ہماری طاقت سے باہر ہے اس پر ایک کنال کے لئے درخواست دی گئی لیکن حکومت نے ہندوئوں کی دلجوئی کرتے ہوئے وہ زمین دینے سے انکار کر دیا۔۳۹۶
ان پے در پے روکاوٹوں کے باوجود جماعت احمدیہ لائل پور نے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں اور بالاخر آٹھ سال کی متواتر جدوجہد کے بعد گول منشی محلہ بھوانہ بازار اور امین پور بازار کے درمیان ایک قطعہ زمین کے لئے درخواست دی۔ یہاں اس وقت میونسپلٹی کی طرف سے جستی چادروں سے بیت الخلاء بنے ہوئے تھے اور ہر طرف تعفن اور بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ میونسپلٹی نے مسجد کی تعمیر کے لئے متفقہ طور پر ریزولیوشن پاس کر دیا مگر جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے متعلقہ کاغذاب کمشنری میں بھیج دیئے تو مخالف علماء نے عوام میں سخت اشتعال پیدا کر دیا بلکہ بعض روایات کے مطابق مسجد جامع میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر یہاں احمدیوں کی مسجد بنائی گئی تو خون کی ندیاں بہا دی جائیں گی۔ بلکہ تین اشخاص نے خاص طور پر وعدہ کیا کہ ہم اپنی جانیں قربان کر دیں گے مگر احمدیوں کو مسجد نہیں بننے دیں گے۔۳۹۷ البتہ لائلپور کے علمائے اہل حدیث نے مخالفت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ چنانچہ مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کا بیان ہے کہ مجھ سے لائلپور کے اہل حدیث مولوی محمد حسین صاحب نے خود ذکر کیا کہ ہم لوگوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری سے فتویٰ پوچھا۔ تو انہوں نے ہمیں جواب دیا کہ اہل حدیث کو احمدیوں کی مسجد بننے میں روک نہیں بننا چاہئے۔ مگر چونکہ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں ان کے مولوی صاحبان نے سخت اشتعال اور منافرت پیدا کر دی تھی اس لئے انہوں نے میونسپلٹی میں ایک محضر نامہ پیش کیا جس پر میونسپلٹی نے اپنا پہلا ریزولیوشن منسوخ کر دیا اور مخالفین کی طرف سے گورنر تک کو تار دیئے گئے مگر اس مخالفت نے جماعت کے دلوں میں ایک عجیب کیفیت پیدا کر دی۔ اور وہ انابت الی اللہ کے سچے جذبے کے ساتھ خشوع و خضوع سے دعائوں میں لگ گئے رات کے وقت بعض احمدی خفیہ طور پر اس مقام پر آتے اور نوافل پڑھتے۔ انہوں نے اپنے پیارے آقا خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھی دعا کے لئے درخواستیں کیں۔ ایک رات جماعت لائل پور کے پریذیڈنٹ شیخ محمد محسن صاحب نے دعا کی تو اللہ تعالی نے ان کی زبان پر انا فتحنا لک فتحا مبینا کے الفاظ جاری کرکے قبل از وقت کامیابی کی بشارت دے دی۔ بالاخر خدا کے فضل اور اس کی بشارت کے مطابق جماعت کی کوششیں بارآور ہوئیں اور زمین کی منظوری ہو گئی اور اس کا قبضہ مل گیا۔۳۹۸ جماعت کے دل میں مسجد کی تعمیر کا پہلے ہی زبردست جذبہ موجزن تھا اب جو غیر معمولی حالات میں حصول زمین میں کامیابی ہوئی تو اس کے اندر اور زیادہ جوش پیدا ہو گیا اور اس ایک سال کے اندر اندر اس مقام پر ایک عظیم الشان مسجد تیار کرنے کی توفیق مل گئی۔
اس مسجد کی تعمیر میں یوں تو لائل پور کے سب احمدیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مالی قربانیاں کیں۔ مگر بعض مخلصین نے جن میں شیخ محمد محسن صاحب مرحوم پریذیڈنٹ لائل پور سر فہرست ہیں اس موقعہ پر انتہائی اخلاص کا ثبوت دیا۔ شیخ محمد محسن صاحب نے بیش قیمت مالی امداد کے علاوہ مہتمم تعمیر کے فرائض بھی سرانجام دیئے اور اپنی اہلیہ )محترمہ اللہ جوائی صاحبہ مرحومہ( کی وصیت پر ان کی یادگار کے طور پر مسجد کے ساتھ ایک کنواں تعمیر کرایا اسی طرح مسجد میں بجلی کی فٹنگ کا تمام خرچ اپنی جیب خاص سے ادا کیا اور زندگی بھر مسجد کی روشنی کا پورا خرچ خود ہی برداشت کرتے رہے بلکہ ان کی وفات کے بعد اب تک ان کی دوسری بیگم محترمہ محمودہ صاحبہ )ہمشیرہ شیخ بشیر احمد صاحب سابق جج ہائی کورٹ لاہور( ادا کر رہی ہیں۔
شیخ محمد محسن صاحب کے بھائی شیخ مولا بخش صاحب )غیر مبائع( نے بھی اس کارخیر میں حصہ لیا۔ چندہ کی وصولی کے لئے شیخ محمد محسن صاحب` شیخ مولا بخش صاحب قریشی محمد حنیف صاحب سائیکل سیاح` ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے۔ بی ٹی اور شیخ محمد یوسف صاحب نے دورہ کیا۔ چوہدری عطا محمد صاحب نائب تحصیلدار نے مسجد کی تعمیر کے لئے بطور عمومی کارکن اور شیخ بابو ولایت محمد صاحب نے انجینئر کی حیثیت سے قابل رشک خدمات سرانجام دیں۔ اخوند افضل خاں صاحب آف ڈیرہ غازی خاں نے بھی اس مسجد کی تیاری کے لئے بہت امداد کی۔۳۹۹ علاوہ ازیں مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے )جو ان دنوں مسلم ہائی سکول لائلپور میں عربی ٹیچر اور مقامی جماعت کے نائب مہتمم تبلیغ اور خطیب و امام الصلٰوۃ تھے( اپنے وعظ و تلقین سے جماعت لائلپور میں ایک زبردست روح پھونک دی اور احباب تعمیر مسجد کے لئے ایثار و اخلاص کے جذبات سے لبریز اور ہر قربانی پر آمادہ ہو گئے۔
افتتاح کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی منظوری اور اس کا پس منظر
مسجد کی شاندار عمارت پایہ تکمیل کو پہنچی تو جماعت لائلپور نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں اس کے افتتاح کرنے کی
درخواست پیش کی۔۴۰۰ جو حضور نے قبول فرما لی اور ۷/ اپریل ۱۹۳۴ء مطابق ۲۲/ ذوالحجہ ۱۳۵۲ھ کا مبارک دن اس کے لئے مقرر فرمایا۔ حضور کی طبیعت ان دنوں علیل تھی اور ڈاکٹری مشورہ یہ تھا کہ یہ سفر ملتوی کر دیا جائے مگر حضور نے یہ التوا منظور نہ فرمایا جس کی اصلی وجہ حضور کے مقدس الفاظ ہی میں بیان کرنا موجب برکت ہے۔ حضور نے فرمایا۔
>میں سمجھا کہ یہ خاص طور پر دینی کام ہے لائل پور نو آبادی کا مرکز ہے اور اس لحاظ سے گویا نئی دنیا ہے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک کشف بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک نئی دنیا بنانے آئے تھے۔ اس لئے میں نے خیال کیا کہ جو نئی دنیا بسی ہے وہاں جائوں۔ تا وہ کشف ایک رنگ میں پورا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے رئویا میں دیکھا تھا کہ آپؑ نے نیا آسمان اور نئی زمین بنائی ہے اس کے حقیقی معنے تو یہی ہیں کہ ساری دنیا میں آپ کے ذریعہ ایک نئی روح پھونکی جائے گی۔ مگر جزوی معنی یہ بھی ہیں کہ جو نئی دنیا بسی ہے وہاں کے لوگوں میں سچا ایمان پیدا کر دیا جائے۔ پس اس قسم کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اس علاقہ میں بھی احمدیت کو مضبوط کر دے تا ظاہری آبادی کی طرح یہاں باطنی آبادی بھی ہو جائے۔ میں یہاں آنے پرآمادہ ہو گیا<۔۴۰۱
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی قادیان سے روانگی
حضور پروگرام کے مطابق ۷/ اپریل کی صبح قادیان سے موٹر میں روانہ ہووئے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور مولوی قمر الدین صاحب اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری بھی حضور کے ہمراہ تھے۔
]ydob [tagحضور ۹ بجے لاہور سے لائل پور کی گاڑی میں سوار ہوئے جہاں لائلپور جانے کے لئے قادیان۴۰۲ کے متعدد احباب پہلے ہی لاہور پہنچ چکے تھے اور لاہور کے بھی کئی دوست شریک قافلہ ہو گئے راستہ میں بھی بعض اسٹیشنوں پر احمدی دوست شامل ہوتے رہے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی لائل پور میں تشریف آوری
گاڑی سوا بجے لائل پور پہنچی۔ پلیٹ فارم پر اور اسٹیشن سے باہر حضور کا استقبال کرنے کے لئے ایک بڑا ہجوم امڈ آیا تھا۔ احمدیوں کا ایسا شاندار اجتماع قادیان کے سالانہ جلسہ کے سوا کسی اور احمدیہ جماعت کے جلسہ پر دیکھنے میں نہیں آیا تھا استقبال کرنے والوں میں احمدی` غیر احمدی` ہندو اور سکھ وغیرہ سب اقوام کے لوگ موجود تھے جن میں سرکاری عہدیدار` وکلا` بیرسٹر` مقامی شرفاء و معززین میونسپل کمشنر وغیرہ شریک تھے گاڑی سے اترنے کے بعد حضور کے گلے میں پھولوں کے بکثرت ہار ڈالے گئے اور جب ان کا بوجھ بہت ہو گیا۔ تو لوگوں نے فرط عقیدت سے پھول برسانے شروع کر دیئے لوگ اسٹیشن سے باہر دو رویہ کھڑتے تھے اور احمدی والنٹیر انتظام قائم کئے ہوئے تھے۔ پولیس کا قابل تعریف انتظام تھا اور خود سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس بھی موجود تھے۔ حضور نعرہ ہائے تکبیر کے درمیان پلیٹ فارم سے باہر تشریف لائے اور موٹر میں سوار ہو کر شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ موٹر کے آگے احمدیہ والنٹیرز کور کے نوجوان جھنڈے اٹھائے جارہے تھے۔
افتتاح مسجد
حضور سیدھے مسجد احمدیہ میں تشریف لے گئے اور بطور افتتاح دو نوافل جہری قرائت سے پڑھائے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کی ہر آیت کا تین مرتبہ تکرار کیا اور ہر بار حضور کی آواز میں ایک خاص قسم کا جوش اور جذب تھا۔ نمازیوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ ایک دوسرے کی پیٹھ پر سجدے کئے گئے۔ اور نمازیوں پر اس قدر رقت طاری تھی کہ بے اختیار چیخیں نکل رہی تھیں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کی گئیں۔
جماعت ہائے احمدیہ ضلع لائل پور کا ایڈریس
نماز سے فارغ ہو کر حضور کرسی پر رونق افروز ہوئے اور مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے ضلع لائل پور کی احمدی جماعتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پڑھا۔۴۰۳ جس کی سنہری حروف میں طبع شدہ ایک کاپی مخمل کے نہایت خوبصورت کیس میں رکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کی گئی۔ یہ ایڈریس چھاپ کر تقسیم کر دیا گیا تھا۔ قاضی صاحب پر بھی اس وقت ایک خاص کیفیت طاری تھی اور وہ ایڈیٹر صاحب >الحکم< حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے الفاظ پیکر محویت بنے ہوئے تھے۔ اور حضور کی تشریف آوری نے ان میں اور باقی تمام افراد جماعت میں ایک نیا رنگ پیدا کر دیا تھا۔۴۰۴
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے جواب
ایڈریس کے جواب میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے پرمعارف خطاب فرمایا۔ ایڈریس میں مسجد کی تعمیر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ نشان قرار دیتے ہوئے چونکہ مخالفین سلسلہ کی مخالفانہ روش کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا اس لئے حضور نے اپنی تقریر کے ابتدا ہی میں ارشاد فرمایا۔
>جہاں میں ایڈریس دینے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہاں ایک امر کے متعلق اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایشیائی لوگوں میں عام رواج ہے کہ وہ اپنے کاموں کی بنیاد کچھ نہ کچھ جذبات پر رکھتے ہیں یورپین لوگوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ ان کے تمام کاموں میں تجارتی رنگ ہوتا ہے۔ ایشیائی ممالک کا اگر کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھے تو وہ قیدیوں کو آزاد کرے گا۔ قاتلوں کو معاف کرے گا۔ ملازموں کو چھٹیاں دے گا۔ اور انعام و اکرام تقسیم کرے گا لیکن یورپ میں اگر کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ عرض ہماری دنیا جذباتی دنیا ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ بعض حالات میں مفید ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں اس موقعہ پر جبکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی کہ آپ لوگ اس کے نام پر ایک گھر بنائیں۔ بعض >لوگوں< کا جو شکوہ کیا گیا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ انہوں نے مخالفت کی ہو گی مگر یہ سمجھ کر کہ اس طرح وہ دین کی کوئی خدمت کر رہے ہیں انہوں نے مخالفت کی لیکن اب جب خدا تعالیٰ نے آپ کو کامیابی عطا کی۔ تو چاہئے تھا کہ خدمت کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے مگر مخالفت کرنے والوں کا ذکر چھوڑ دیتے اور دلوں میں ان کے لئے دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب کرے۔ ایڈریس کے اس حصہ نے مجھے تکلیف دی ہے۔ خوشی کے موقعہ پر ایشیائی بادشاہ قیدیوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور مخالفت کرنے والے لوگ تو آپ کے قیدی نہ تھے ان کا ذکر چھوڑ دینے میں آپ کا کوئی حرج نہیں ہوتا تھا<۔۴۰۵
اس ارشاد کے بعد حضور نے اختصار کے ساتھ دوستوں کو مسجد بنانے کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا۔
>مساجد اپنے ساتھ بعض ذمہ داریاں رکھتی ہیں۔ مسجد خدا کا گھر ہے اور جو شخص مسجد بنانے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اسے ہم نے بنایا۔ اور یہ ہماری ہے وہ گویا خدا کے گھر کو اپنا گھر قرار دیتا ہے دنیا میں اگر کوئی شخص کسی معمولی آدمی کے گھر کو بھی کہے کہ یہ میرا ہے تو وہ مجرم سمجھا جاتا ہے اس سے اندازہ کر لو کہ جو شخص خدا کے نام پر ایک گھر بنائے اور پھر اسے اپنا قرار دے وہ کتنی بڑی سزا کا مستحق ہو گا پس لائل پور کا ہر احمدی فرد یہ سمجھے کہ یہ خدا کا گھر ہے اگر یہ خدا کا گھر نہیں ہے تو مسجد نہیں ہو سکتی۔ اور اگر خدا کا گھر ہے تو آج سے آپ لوگوں میں سے کوئی شخص ایک ساعت کے لئے بھی یہ خیال نہ کرے کہ یہ ان کی ہے جس وقت میں نے دو رکعتیں پڑھ کر اس کا افتتاح کیا اس کے بعد کسی کو اب یہ حق نہیں کہ اسے اپنی قرار دے اور کسی کو اس میں عبادت کرنے سے روکے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص ایک ہندو یا عیسائی کو بھی روکے گا تو وہ خدا کا فوجداری مجرم ہو گا<۔۴۰۶
حضرت امیر المومنین قیام گاہ میں
اس ایمان افروز خطاب کے بعد۴۰۷ حضور شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر کی کوٹھی )واقع سرکلر روڈ متصل کچہری( میں تشریف لے آئے۔ جہاں حضور کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ شیخ صاحب موصوف اپنی اس خوش نصیبی پر اس روز بہت شادماں و نازاں تھے کہ خدا تعالیٰ کے عالی مقام خلیفہ موعود کی میزبانی کا شرف انہیں حاصل ہو رہا ہے۔ آپ نے ایسے اخلاص و محبت سے اپنے فرائض ادا کئے کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے الحکم میں لکھا۔ >شیخ صاحب نے اس موقعہ پر مہمان نوازی کا جو نمونہ دکھایا ہے وہ صد ہزار تحسین کے قابل اور واجب التقلید ہے۔ آپ بہ نفس نفیس اور آپ کے گھر والے اور ملازم سب کے سب ہر وقت مہمانوں کی خدمت میں کمربستہ تھے شیخ صاحب کی اس مہمان نوازی کا اثر ہر شخص کے دل پر ہے وہ خود آرام کے خوگر اور ناز و نعمت میں پلے ہوئے ہیں مگر اس موقعہ پر معمولی سے معمولی خدمت کو بھی انشراح صدر سے بجا لاتے تھے یہ ان کے اخلاص اور ایمان کا ثمرہ تھا<۔۴۰۸
جماعت احمدیہ لائل پور کا جلسہ
حضور کی تقریر کے بعد تمام لوگ جلسہ گاہ کی طرف چلے گئے جو مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کے زیر انتظام میونسپل باغات میں نہایت شاندار خوبصورت شامیانوں اور قناتوں سے بنائی گئی تھی۔ اور ایک باقاعدہ سٹیج سالانہ جلسہ کے نمونہ پر تعمیر کیا گیا تھا۔ جلسہ میں سلسلہ کے مبلغین میں سے مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل` گیانی واحد حسین صاحب )سابق شیر سنگھ( اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے مختلف موضوعات پر تقریریں کیں اور جلسہ نماز مغرب کے لئے برخاست ہوا۔
حضرت اقدس جلسہ گاہ میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جلسہ گاہ میں نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں پھر سٹیج پر رونق افروز ہوئے اور تمام احباب کو مصافحہ کا موقعہ بخشا۔ مصافحہ کرنے والے باقاعدہ ایک انتظام کے ماتحت ایک راستہ سے آتے اور دوسرے سے جاتے تھے اس حسن انتظام پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور یہاں سے فارغ ہو کر شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر کی کوٹھی میں واپس تشریف لے گئے حضور کی واپسی کے بعد علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ مجاہد فلسطین نے بلاد اسلامیہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات پر تقریر فرمائی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی معرکتہ الاراء تقریریں
اگلے روز ۸/ اپریل کو مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور مولانا محمد سلیم صاحب نے ۔۔۔۱۲ بجے تک تقاریر کیں۔ پھر حضور نے وہیں تشریف لا کر ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں اور ۔۔۔۲ بجے کے قریب جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ حضرت صوفی حافظ غلام محمد صاحبؓ بی۔ اے سابق مبلغ ماریشس نے تلاوت قرآن کریم کی اور حکیم سراج الدین صاحب لاہوری نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نظم پڑھی پونے تین بجے کے قریب حضور تقریر کے لئے کھڑے ہوئے حضور نے اپنی تقریر میں تحقیق حق سے متعلق بعض اہم ضروری ہدایات دینے کے بعد وفات مسیح ناصری علیہ السلام اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر ایسی دلچسپی` موثر اور جامع تقریر فرمائی کہ لوگوں پر وجد کی حالت طاری ہو گئی۔ مجمع میں ہر خیال اور ہر مذہب و ملت کے لوگ شریک تھے پانچ بجے چونکہ ایک ٹی پارٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس لئے حضور نے فرمایا کہ بقیہ تقریر میں رات کو نو بجے کے بعد کروں گا۔ اس کے بعد حضور ٹی پارٹی میں تشریف لے گئے جو جماعت احمدیہ لائل پور کی طرف سے حضور کی آمد کی خوشی میں دی گئی تھی اور جس میں شہر کے معزز و ممتاز سرکاری اور غیر سرکاری اصحاب بکثرت مدعو تھے۔ اکل و شرب کا یہ انتظام نہایت عمدہ تھا۔ پارٹی کے اختتام پر حضور نے مختصر سی تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ بین الملی اتحاد کی بنیاد کیا ہو سکتی ہے؟
حضور ۹ بجے کے قریب پارٹی سے فارغ ہو کر دوبارہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور نمازیں جمع کرکے پڑھائیں اس کے بعد حافظ مسعود احمد صاحب )ابن بھائی محمود احمد صاحب قادیانی( نے تلاوت کی اور ایک مقامی دوست میاں غریب الدین صاحب نے نظم پڑھی پھر پونے دس بجے حضور کی پرمعارف تقریر شروع ہوئی جو رات کے بارہ بجے ان دعائیہ الفاظ پر ختم ہوئی۔۴۰۹
>دعا کرتا ہوں کہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ سچے رستہ پر چلنے` قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہمارے اختلافات کو دور کرکے ہندو` عیسائی` سکھ غرضیکہ سب کو ہدایت دیکر دین واحد پر جمع کردے تا وہ سب محمد رسول اللہہ~صل۱~ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر ایک ہو جائیں۔ اے میرے قادر و توانا خدا! میں تیرے حضور یہ درخواست کرتا ہوں۔ کوئی عیسائی ہو یا ہندو و سکھ سب تیرے بندے ہیں پس اپنے بندوں کو گمراہ ہونے سے بچا لے تیری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے دوزخ کے دروازے بند کرکے جنت کے دروازے کھول دے۔ اللہم آمین<۔۴۱۰
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ جڑانوالہ میں
حضور انور ۹/ اپریل کی صبح کو آٹھ بجے کے قریب لائل پور سے روانہ ہوئے۔ جڑانوالہ میں ان دنوں جماعت کے ایک پرجوش اور مخلص دوست ڈاکٹر محمد شفیع صاحب بطور ویٹرنری اسسٹنٹ متعین تھے جنہوں نے ایک روز قبل حضور سے چند منٹ ٹھہرنے کی درخواست کی تھی جسے حضور نے شرف قبولیت بخشا چنانچہ حضور ۹ بجے کے قریب جڑانوالہ میں ان کے ہاں رونق افروز ہوئے اس وقت تیس کے قریب خدام حضور کے ساتھ تھے باوجود یکہ ان کو وقت بہت کم ملا تھا انہوں نے پرتکلف ناشتہ پیش کیا۔۴۱۱`۴۱۲
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ احمد پور میں
جڑانوالہ سے روانہ ہوکر حضور ملک غلام محمد صاحب آف لاہور کی درخواست پر ان کے گائوں احمدپور تشریف لے گئے اور ملک صاحب کے مکان میں وہاں کے احمدیوں کو شرف زیارت بخشا اور بعض مستورات نے بیعت کی۔ یہاں حضور نے جماعت کی مسجد میں دو رکعت نماز بھی پڑھائی۔ اور پھر پنجابی زبان میں چند نصائح بھی فرمائیں۔ جن کا لب لباب یہ تھا کہ اپنی زندگی کی حقیقی غرض و غایت کو مدنظر رکھتے ہوئے دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ احمدپور کی ایک غریب اور عمر رسیدہ خاتون نے حضور کی لائل پور میں تشریف آوری کی خبر سن کر اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ قادیان جلسہ سالانہ پر تو میں نہیں جا سکتی مجھے لائل پور ہی لے چلو تا میں حضرت صاحب کی زیارت کر سکوں۔ بیٹے نے قریب کے ایک گائوں ڈیری والا کے احمدیوں سے جاکر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ لائل پور میں مستورات کے لئے کوئی انتظام نہیں ہو گا۔ بیٹا اپنی والدہ کو یہ بتا کر خود لائل پور روانہ ہو گیا۔ ابھی وہ گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ وہ بوڑھی خاتون سجدہ میں گر پڑیں اور یہ دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ حضور کی زیارت کا کوئی سامان پیدا کر دے۔ چنانچہ جب حضور اس گائوں میں تشریف لائے تو اس مخلص خاتون نے بھی زیارت کی اور بہت خوش ہوئی۔۴۱۳
قادیان میں ورود مسعود
یہاں سے فراغت کے بعد حضور لاہور کی طرف روانہ ہوئے اور اسی روز )۹/ اپریل کو( شام کے قریب واپس قادیان پہنچ گئے۔۴۱۴ اس طرح حضور کا یہ سفر جو افتتاح مسجد کے لحاظ سے سفر انگلستان کے بعد اپنی نوعیت کا دوسرا سفر تھا نہایت کامیابی سے ختم ہوا۔
tav.7.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
جلسہ کے بعض ضروری کوائف
جلسہ سے چند روز قبل پیر جماعت علی شاہ صاحب تین دن وہاں رہے کہتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں سے حلف لئے کہ احمدیوں کے جلسہ میں شامل نہ ہوں گے۔ احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز فتووں کی اشاعت کی گئی۔ جلسہ گاہ کے حصول میں مشکلات پیدا کی گئیں۔ خیموں کے تاجروں کو دھمکیاں دی گئیں کہ اگر تم نے شامیانے وغیرہ دیئے تو وہ جلا دیئے جائیں گے۔ جلسہ سے ایک رات پہلے نہر کے نالے کو کاٹ کر اس قطعہ کو جہاں جلسہ گاہ تیار کی گئی تھی دلدل کر دینے کی کوشش کی گئی۔ مولوی ظفر علی خان صاحب اور بعض دوسرے مخالفین بذریعہ تار بلائے گئے جنہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف سخت زہر اگلا اور غیر مبائع اصحاب نے مولوی محمد علی صاحب امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے لکھے ہوئے ٹریکٹ بھی تقسیم کئے۔
لیکن ان تمام معاندانہ کوششوں اور اشتعال انگیزیوں کے باوجود جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ حاضرین کی تعداد کا اندازہ چھ ہزار سے کسی طرح کم نہیں تھا اور حضور کی تقریروں کے وقت تو اس میں اور بھی اضافہ ہو جاتا تھا۔ احمدی احباب بھی تمام نواحی دیہات اور اردگرد کے اضلاع سے بکثرت شامل ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس موقعہ پر ڈیڑھ سو کے قریب افراد بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۴۱۵
جماعت لائل پور تبلیغ کے نئے دور میں
اس جلسہ سے لائل پور میں تبلیغ کا ایک نیا دروازہ کھل گیا تھا جس سے فائدہ اٹھانے کے لئے مرکز کی طرف سے حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کو کچھ عرصہ لائل پور ٹھہرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے قیام کے دوران احمدیت کی خوب تبلیغ کی اور غیر احمدی علماء پر احمدیت کی دھاک بٹھا دی۔ یہاں ایک دیو بندی فاضل مولوی محمد مسلم صاحب نے سورہ فاتحہ کی ایک مختصر سی تفسیر لکھی تھی جس کا متن اردو میں تھا اور حاشیہ عربی میں۔ انہوں نے حضرت مولانا راجیکیؓ کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا۔ دوپہر کا وقت تھا جونہی یہ چیلنج آپ کی خدمت میں پہنچا آپ اسی وقت قلم دوات لے کر بیٹھ گئے اور دوسرے دن بارہ بجے تک فلسکیپ سائز کے ساٹھ صفحات پر فصیح و بلیغ عربی میں صرف بسم اللہ کی تفسیر لکھی اور مولوی محمد مسلم صاحب کو پیغام بھیجا کہ اب آپ تین علماء مقرر کریں جو ہم دونوں کی تفسیر پڑھ کر حلفیہ بیان دیں کہ کس کی تفسیر زبان دانی اور حقائق و معارف کے لحاظ سے اعلیٰ پایہ کی ہے اس پر مولوی محمد مسلم بالکل مبہوت رہ گئے۔۴۱۶
اس زمانہ میں شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور شیخ مولانا عبدالقادر صاحبؓ فاضل بھی لائل پور میں رہے اور حضرت مولانا راجیکیؓ کی صحبت میں تبلیغی میدان کے لئے عملی تربیت حاصل کی اور اس طرح لائل پور کو روحانی و تبلیغی اعتبار سے ایک رنگ میں تربیتی مرکز کی سی حیثیت بھی حاصل ہو گئی۔۴۱۷
مسجد فضل لائل پور کے لئے کتبہ
اس مسجد کا نام حضور نے مسجد فضل تجویز فرمایا تھا اور اس کے لئے اپنے قلم مبارک سے کتبہ کے مندرجہ ذیل الفاظ تحریر فرمائے تھے۔ جو تاریخی یادگار کے طور پر آج تک دیوار مسجد پر کنندہ ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھو الناصر
الٰہی! اس مسجد کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تقویٰ پر ہو۔ اور اس میں نمازیں پڑھنے والے ہمیشہ تیری رضا کو دوسری سب چیزوں پر مقدم رکھیں۔ میں تیرے فضل سے امید رکھتے ہوئے اس مسجد کا نام مسجد فضل رکھتا ہوں۔
اے میرے رب! میری اس امید کو پورا کر اور اس مسجد کو اپنے فضل کا مقام بنا۔ اس سے تعلق رکھنے والوں اور اس میں نمازوں کی مداومت کرنے والوں کو اپنے بڑھنے والے فضل سے حصہ دیتا رہ اور اسے اپنے دین کی اشاعت کا اس علاقہ کے لئے مرکز بنا۔ اللھم آمین۔
میرزا بشیر الدین محمود احمد۴۱۸
۲۲/ ذی الحجہ ۱۳۵۲ھ مطابق ۷/ اپریل ۱۹۳۴ء بروز افتتاح
سفر لائل پور کے تاثرات سیدنا حضرت امیر المومنینؓ کی زبان مبارک سے
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے لائل پور سے واپسی پر اس سفر کے تاثرات ان الفاظ میں بیان فرمائے۔
>مجھے اپنی خلافت کے ایام میں پہلی مرتبہ اس قسم کا سفر درپیش ہوا۔ جیسا کہ گزشتہ ہفتہ میں لائلپور کا پیش آیا تھا اور میں اس سفر سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جہاں ایک طرف مخالفت زوروں پر ہے ۔۔۔۔۔۔ وہاں لوگ ہماری باتیں سننے پر آمادہ بھی ہیں اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ کوئی انہیں سلسلہ کے حالات سے واقف کرے۔
میرے لائل پور جانے کے موقعہ پر ہر رنگ میں مخالفین کے رئوساء نے کوششیں کیں کہ کسی طرح لوگ اس طرف توجہ نہ کریں۔ مگر باوجود اس کے کہ وہاں کی مقامی جماعت نہایت قلیل ہے اور شاید چالیس مردوں سے زیادہ نہیں کیونکہ ساری مردم شماری عورتوں اور بچوں سمیت جو مجھے بتائی گئی وہ دو سو کے قریب ہے۔ پس مرد تیس پینتیس یا زیادہ سے زیادہ پچاس ہوں گے اور چالیس ہزار کی آبادی والے شہر میں یہ تعداد بہت ہی قلیل ہے پھر سوائے دو تین کے باقی لوگ غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر باوجود ان تمام حالات کے لوگوں نے اس مخالفت کی پروا نہیں کی جو مخالفین کی طرف سے کی گئی تھی۔ عام طور پر جلسوں کی حاضری تین ہزار سے چھ ہزار تک سمجھی جاتی تھی۔ اور مجھے قادیان سے باہر کسی جگہ اس بات کے دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا کہ کھلے میدان میں اس طرح وسعت سے آدمی پھیلے ہوئے ہوں جیسا کہ قادیان میں سالانہ جلسہ کے موقعہ پر پھیلے ہوتے ہیں۔ گیلریوں کو چھوڑ کر جو زائد ہوتی ہیں۔ یہاں جس قدر جلسہ گاہ کا حصہ ہوتا ہے اس کے قریب قریب ہی لائل پور کی جلسہ گاہ تھی اور پھر تمام آدمیوں سے بھری ہوئی تھی۔ مگر سوال یہ نہیں کہ آدمیوں سے جلسہ گاہ بھری ہوئی تھی بلکہ قابل غور امر یہ ہے کہ سخت مخالفت کے باوجود یہاں تک کہ مخالف علماء کی طرف سے یہ فتوے دیئے جانے کے باوجود کہ احمدیوں سے ملنے پر نکاح ٹوٹ جائے گا ہر طبقہ کے لوگ آئے۔ معززین میں سے بھی اور عوام الناس میں سے بھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالف جو کوششیں ہمارے خلاف کر رہے ہیں اگر ایک طرف ان سے ہمارے لئے بعض مشکلات پیدا ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ان کی مخالفت ہمارے تبلیغی راستے میں روک نہیں ہو رہی بلکہ لوگوں کی توجہ پھرانے کا باعث بن رہی ہے۔
مجھے ایک شخص نے لائل پور میں بیعت کرتے وقت عجیب واقعہ سنایا۔ وہاں قریباً ایک سو چالیس افراد نے بیعت کی ہے اور جو بیعت کرتا۔ میں اس سے متفرق حالات بھی دریافت کرتا۔ تا مجھے معلوم ہو کہ یہ کس ضلع کا ہے اور اب آئندہ ہماری تبلیغی سرگرمیاں کس ضلع میں زیادہ نمایاں تغیر پیدا کر سکیں گی اور کس جگہ کی جماعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کریں گی ضمنی طور پر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ضلع دار بیعت کے لحاظ سے ضلع شیخوپورہ کے بیعت کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی اس کے بعد لائل پور اور پھر سرگودھا وغیرہ اضلاع کے لوگوں نے بیعت کی۔ ایک شخص نے جو سرگودھا کے ضلع کے تھے اور لائل پور میں کسی ای اے سی کے لڑکوں کو پڑھاتے تھے۔ جب انہوں نے بیعت کی تو میں نے ان سے پوچھا۔ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں ضلع سرگودھا کا ہوں پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو سلسلہ احمدیہ کی طرف کس طرح توجہ ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ میں لائل پور میں نوکر تھا یا کہا کہ میں نوکر ہوں۔ اسی دوران میں مجھے ایک اشتہار ملا۔ جو یہاں کی کسی مسجد کے امام کی طرف سے شائع ہوا تھا۔ اس میں جماعت احمدیہ کے خلاف بہت سی باتیں لکھی تھیں وہ کہنے لگے مجھے اشتہار پڑھ کر سخت غصہ آیا کہ ایک طرف تو یہ احمدی اپنی نیکی اور اسلامی ہمدردی کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف اسلام کی اتنی ہتک کرتے ہیں کہ امامت اور نبوت کے مدعی بنتے ہیں۔ کہتے ہیں اسی غصہ کے جوش میں ایک احمدی کے ہاں گیا اور اس سے کہا کہ آپ لوگ اندر سے اور ہیں اور باہر سے اور۔ منہ سے تو اسلامی ہمدردی کے دعوے کرتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ آپ کے مرزا صاحبؑ مستقل نبوت کے مدعی ہیں۔ انہوں نے بڑی نرمی سے کہا کہ ذرا بیٹھ جائیے اور پھر ایک ایک اعتراض لے کر انہوں نے مجھے حوالے کتابوں سے دکھانے شروع کئے جو بھی وہ حوالہ نکالیں۔ اصل عبارت میں کچھ اور ہوتا اور اشتہار میں کچھ اور۔ اس طرح دو دن وہ مجھے سمجھاتے رہے۔ جب میں اچھی طرح سمجھ گیا۔ تو پھر مجھے اس مولوی صاحب پر غصہ آیا جس نے اشتہار شائع کیا تھا۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ آپ لوگ ہمارے عجیب راہنما ہیں۔ اشتہار میں لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب فلاں فلاں عقیدہ رکھتے تھے۔ حالانکہ اصل کتابیں میں نے دیکھی ہیں وہاں کچھ اور ہی لکھا ہے۔ مولوی صاحب میری بات سنتے ہی ناراض ہو گئے اور کہنے لگے تم کسی احمدی کے پاس گئے ہی کیوں تھے۔ میں نے کہا تم یہ بتائو تم نے جھوٹ کیوں بولا۔ آخر وہ مولوی صاحب مجھ سے سخت ناراض ہو گئے اور میں سمجھا کہ اب مجھے تحقیق کرنی چاہئے پندرہ بیس دن تحقیق کی تو حق مجھ پر کھل گیا اور میں بیعت کے لئے تیار ہو گیا۔
دیکھو یہ مخالفت ہی تھی جو انہیں ادھر لانے کا ذریعہ بنی۔ کیونکہ ان کے احمدی بنانے کا ذریعہ ہم نہیں تھے بلکہ غیر احمدی امام مسجد صاحب ذریعہ بنے۔ تو کئی دفعہ مخالفتیں فائدہ بخش ہو جاتی ہیں۔ میں نے اس سفر سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ باوجود مخالفت کے خدا تعالیٰ کا یہ فضل بھی ہو رہا ہے کہ اس مخالفت کی وجہ سے لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف پھر رہی ہے۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اتنی بیعت ایک دن کے لیکچر کا نتیجہ تھی۔ بلکہ ان لوگوں کو پہلے سے تبلیغ ہو چکی تھی۔ لیکن وہ تین ہزار سے چھ ہزار لوگ جو جلسوں میں شامل ہوتے رہے ان کے دلوں میں بھی ایک بیج بویا گیا ہے جو آج نہیں تو کل اور اس مہینہ میں نہیں تو اگلے مہینہ میں پھوٹے گا۔ جب باوجود نکاح ٹوٹ جانے کی دھمکی دیئے جانے کے وہ شوق سے ہمارے جلسوں میں آئے تو اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں ہدایت کی تڑپ ہے جو کسی دن اپنا رنگ لائے گی۔ سب سے زیادہ ڈر لوگوں کو نکاح ٹوٹنے کا ہوتا ہے اور یہی مولویوں کا آخری ہتھیار ہے جس سے وہ کام لیا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ غرض نکاحوں کا سوال ایک اہم سوال ہوتا ہے اور لوگوں کے لئے اس قسم کے فتویٰ کے بعد جلسوں میں شامل ہونا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ عام طور پر عورتیں کمزور ہوتی ہیں اور وہ خیال کر لیتی ہیں کہ اگر ہمارے مرد فتویٰ کی زد میں آگئے تو اس کے بعد ہمارا اپنے گھر میں رہنا بدکاری سمجھا جائے گا۔ مگر اس قسم کے فتووں کے باوجود کثرت سے لوگ آئے جو علامت ہے اس بات کی کہ جو فتنہ اور شورش ہمارے خلاف پیدا کی جارہی ہے وہ گو بعض لحاظ سے ہمارے لئے مضر ہو مگر تبلیغی دروازہ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے بند نہیں ہونے دیا۔
میں نے یہ بھی دیکھا کہ اس موقعہ پر ہماری جماعت کو مختلف جماعتوں کی طرف سے مدد ملی جہاں غیر احمدی شرفاء نے تعاون کیا وہاں بعض ذمہ دار افسران کا رویہ بھی بہت ہمدردانہ رہا سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس جو ہندوستانی مسلمان ہیں۔ ان کا رویہ نہایت ہی قابل تعریف تھا۔ وہ ٹی پارٹی کے موقعہ پر مجھے بھی ملے۔ ان کا طریق عمل ایسا اعلیٰ تھا جس میں قطعاً تعصب کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا تھا۔ مگر شائد افسروں کے متعلق کوئی کہے کہ دیانتدار افسر انصاف کے لئے کوشش کیا ہی کرتے ہیں۔ اس لئے میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ دوسرے لوگوں میں بھی ہمدردی اور تعاون کا پہلو نمایاں طور پر پایا جاتا تھا۔ بعض میونسپل کمیٹی کے افسروں نے کوشش کرکے ہمارے لئے مفت چیزیں مہیا کیں چنانچہ میز اور کرسیوں کے گڈے بھروا کر مفت ہمارے جلسہ گاہ میں بھیج دیئے۔ اسی طرح ایک سکھ صاحب کے سائبان تھے۔ انہوں نے نصف کرایہ لیا۔ حالانکہ ان کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ ہم سائبانوں کو جلا دیں گے۔ وہ سامان ۱۵۔ ۱۶ ہزار کی مالیت کا تھا۔ اور ایک تاجر کے لئے اس سے زیادہ خطرہ کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ سامان کو تلف کر دینے کی اسے دھمکی دی جائے مگر باوجود اس کے انہوں نے نصف کرایہ وصول کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شریف طبقہ ہمارے متعلق اپنے دلوں میں ہمدردی کے جذبات موجزن پاتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ جاہلوں کی مخالفت ذاتی اغراض کی بناء پر ہے حقیقتاً یہ سلسلہ ملک و ملت کا خادم ہے لیکن جہاں اس نتیجہ کے نکالنے سے ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ وہاں ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے<۔۴۱۹
ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کن زلزلہ خدا کے زبردست نشانوں میں سے ایک نشان
۲۰/ اپریل ۱۹۰۷ء کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہندوستان کے شمال مشرق میں آنے والے ایک تباہ کن زلزلہ کا نظارہ دکھایا گیا۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں۔
body] gat>[رئویا میں دیکھا کہ بشیر احمد کھڑا ہے وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا<۔۴۲۰
چنانچہ اس پیشگوئی کے عین مطابق ۱۵/ جنوری ۱۹۳۴ء کو ایک قیامت خیز زلزلہ آیا جس نے بنگال سے لے کر پنجاب تک تباہی مچا دی بے شمار عمارتیں گر گئیں زلزلہ سے زمین پھٹ گئی طغیانی سے آبادیاں غرق ہو گئیں اور بیس ہزار انسانوں کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ زلزلہ کی ہلاکت آفرینیوں کا اثر اتنا وسیع تھا کہ ہر طرف شور محشر بپا ہو گیا جس کی کسی حد تک تفصیل اس زمانے کے اخبارات مثلاً >الجمیتہ< )دہلی( >مدینہ< )بجنور( اخبار >حقیقت< )لکھنئو( >سرچ لائٹ< )پٹنہ( >اتحاد< )پٹنہ( )سرفراز( >لکھنئو< >اہل حدیث< )امرتسر( >سیاست< )لاہور( >زمیندار< )للاہور( >انقلاب< )لاہور( >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )لاہور( )سٹیٹسمین( >ملاپ< )لاہور( >پرتاپ< لاہور اور >پرکاش< )لاہور( میں مل سکتی ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا رسالہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رئویا میں چونکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے اشارہ کرنے کا ذکر موجود تھا اور خدائی تصرف کے تحت سب سے پہلے ان ہی کا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ یہ وہی موعودہ زلزلہ ہے اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان سے فرمایا۔ کہ وہ اس تازہ نشان پر مفصل رسالہ لکھیں کیونکہ انہی کے مونہہ سے یہ الفاظ نکلوائے گئے ہیں۔۴۲۱ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے >ایک اور تازہ نشان< کے عنوان سے ایک اہم رسالہ تصنیف فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے الہامات و کشوف کی روشنی میں اس زلزلہ کی پانچ ایسی واضح علامتیں بیان کیں جن سے اہل علم پوری طرح کھل گیا کہ یہ زلزلہ خدا کے زبردست نشانوں میں سے ایک تازہ نشان ہے۔۴۲۲
حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس رسالہ کے آخر میں مصیبت زدگان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے نہایت پرخلوص اور محبت سے لبریز الفاظ میں لکھا۔
>ہم دنیا کی مصیبت پر خوش نہیں ہیں اور خدا جانتا ہے کہ اس زلزلہ کی تباہ کاری پر ہمارے دلوں میں ہمدردی اور مواخات کے کیا کیا جذبات اٹھتے ہیں ہم ہر اس شخص سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں جسے اس زلزلہ میں کسی قسم کا نقصان پہنچا ہے ہم ہر مالک مکان کے ساتھ اس کے مکان کے گرنے پر۔ ہر باپ کے ساتھ اس کے بیٹے کے مرنے پر ہر خاوند کے ساتھ اس کی بیوی کے فوت ہونے پر۔ ہر بھائی کے ساتھ اس کے بھائی کے جدا ہونے پر۔ ہر بیٹے کے ساتھ اس کے باپ کے رخصت ہونے پر۔ ہر بیوی کے ساتھ اس کے خاوند کے گزر جانے پر۔ ہر دوست کے ساتھ اس کے دوست کے بچھڑنے پر سچی اور مخلصانہ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اور دوسروں سے بڑھ کر اپنی ہمدردی کا عملی ثبوت دینے کے لئے تیار ہیں۔ اور اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر اس سے بھی بڑھ کر ہمارا یہ فرض ہے کہ جب خدائے ذوالجلال کا کوئی نشان پورا ہوتا دیکھیں تو اسے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اور لوگوں کو بتائیں کہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں اس طرح پوری ہوا کرتی ہیں۔ تاکہ وہ خدا کو پہچانیں اور اس کے بھیجے ہوئے مامور و مرسل کو شناخت کریں اور خدا سے جنگ کرنے کی بجائے اس کی رحمت کے پروں کے نیچے آجائیں<۔۴۲۳
مصیبت زدگان کی مرکزی امداد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲/ فروری ۱۹۳۴ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ زلزلہ کے مصیبت زدگان کی بلا امتیاز مذہب و ملت امداد کریں۔۴۲۴ مرکز کی طرف سے مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی اظہار ہمدردی اور تفصیلات مہیا کرنے کے لئے بہار بھجوائے گئے۔۴۲۵ اور مئی ۱۹۳۴ء میں تیرہ سو روپیہ کی رقم حضرت مولانا عبدالماجد صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ بھاگلپور کو روانہ کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک ہزار روپیہ ریلیف فنڈ میں دیا گیا۔۴۲۶
احمدیان بہار کی خدائی حفاظت
]txet [tagاس قیامت خیز زلزلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے صوبہ بہار کے احمدیوں کی جانیں معجزانہ رنگ میں محفوظ رہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالماجد صاحبؓ بھاگلپوری امیر صوبہ بہار نے ۲۲/ فروری ۱۹۳۴ء کو زلزلہ کے چشم دید حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔
>میرا مکان بھاگلپور کا چاروں طرف سے مسقف ہے اور درمیان میں صحن دس گیارہ ہاتھ مربع ہے۔ زلزلہ کے وقت چاروں جانب کے مکان میں سخت جنبش ہوئی اور بظاہر کوئی امید کسی کے بچنے کی نہ تھی اس وقت ہم سب لوگ مع )صاحبزادہ مرزا( حنیف احمد سلمہ` سربسجود ہو کر دعا میں مشغول ہو گئے۔ خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور سب کی جانیں بچ گئیں۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ شہر کے کسی اور احمدی کو بھی خدا کے فضل سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔
مونگیر کے احمدی بھی عجیب و غریب طریقہ سے بچے۔ سید وزارت حسین صاحب راجہ صاحب کے ملازم ہیں راجہ صاحب کے پاس ان کے مکان میں بیٹھے تھے کہ زلزلہ محسوس ہوا۔ دونوں باہر کو بھاگے اور خدا کے فضل سے بچ گئے۔ راجہ صاحب کا محل اور وزارت حسین صاحب کا کمرہ جس میں وہ رہتے تھے بالکل مسمار ہو گیا اور تمام مال و اسباب اس میں دب گیا مولوی عبدالباقی صاحب مولوی علی احمد صاحب کے بھتیجے مونگیر میں ملازم ہیں ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ نماز ظہر پڑھ کر قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ زلزلہ محسوس ہوا۔ نیچے سے کسی نے پکارا کہ بھاگو! وہ اسی حالت میں زینہ سے اترے اور نیچے پہنچے ہی تھے کہ سارا مکان بیٹھ گیا۔ ان کا بھی کوئی مال و اسباب نہیں نکل سکا۔ حکیم خلیل احمد صاحب کے بال بچے رام پور میں تھے اور حکیم صاحب گھر میں اکیلے تھے مکان سے باہر نکل آئے اور مکان زمین بوس ہو گیا۔ دو بھائی سید عبدالغفار صاحب و سید محمد حنیف صاحب کی دکانیں بازار میں تھیں۔ وہ اپنے مکان سے تو نکل گئے مگر دوسرے مکان کی دیوار کے نیچے دونوں بھائی دب گئے سید محمد حنیف صاحب تو شہید ہو گئے اور سید عبدالغفار صاحب کئی گھنٹہ کے بعد زندہ نکالے گئے جس مکان کی دیوار ان پر گری وہ کسی روئی کے تاجر کا تھا۔ روئی یا سوت کا ایک گٹھا ان کے اوپر پہلے گرا پھر دیوار آپڑی انہیں سانس لینے کا موقعہ اسی گٹھے کی وجہ سے مل گیا۔ ان کا بیان ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی الہامی دعا رب کل شی ء خادمک رب فاحفظنی و انصرنی و ارحمنی۴۲۷]body [tag پڑھتا رہا۔
سید وزارت حسین صاحب کے دو بھتیجے اور داماد اور ایک لڑکا مظفر پور میں تھے۔ وہ لوگ بھی محض قدرت الٰہی سے بچ گئے۔ عورتیں عید کے لئے کچھ دن پہلے اورین اپنے گائوں میں چلی گئی تھیں اور لوگ مکان سے نکل بھاگے اور بچ گئے۔ لڑکا دو منزلہ پر تھا مکان گر گیا اور کئی ہزار کا زیور۔ نقدی اور سامان دب گیا۔ لوگ کسی طرح چوتھے دن اورین پہنچ گئے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب مرحوم کے فرزند محمد اسمعیل صاحب بھی مظفر پور میں تھے وہ بھی محفوظ رہے۔ الغرض سوائے ایک احمدی کے بہار میں کوئی احمدی زلزلہ کے حادثہ میں فوت نہیں ہوا۔۴۲۸
عجیب بات یہ ہے کہ اس ہیبت ناک زلزلہ کے آنے سے پہلے حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور ان کی اہلیہ صاحبہ سید وزارت حسین صاحب` بھائی منظور عالم صاحب` بھائی شمس الہدیٰ صاحب وغیرہ بہاری احمدیوں کو منذر خوابیں آئیں اور حکیم خلیل احمد صاحب کو تو صاف دکھایا گیا کہ بہت بڑا زلزلہ آیا ہے اور سخت بدحواسی پھیلی ہوئی ہے۔۴۲۹
سکھوں کا اشتعال انگیز اجتماع
۲۶۔ ۲۷۔ ۲۸/ مئی ۱۹۳۴ء کو سکھوں کا قادیان سے قریباً میل سوا میل مشرق کی طرف موضع بسرا کے قریب بوہڑی صاحب میں ایک بہت بڑا اجتماع ہوا۔ جس میں سردار کھڑک سنگھ صاحب۴۳۰ خاص طور پر شامل تھے جنہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز اور دل آزار تقریریں کیں۔ چنانچہ سردار صاحب نے مذبح قادیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ احمدی قادیان میں سکھوں پر سخت ظلم کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ انہیں شہ دیتی ہے اس لئے انگریزوں کو اگر سیدھا کر دیا جائے تو احمدی خود بخود سیدھے ہو جائیں گے۔ نیز کہا احمدی اگر باز نہ آئے تو قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ اسی طرح ایک اور سکھ لیڈر نے دھمکی دی کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی۔ سکھوں کے اس جلسہ میں ایک احراری مولوی )عنایت اللہ صاحب( نے سکھوں کو اشتعال دلایا کہ سکھ بڑے بے غیرت ہیں کہ احمدی ان کے گورو کو مسلمان کہتے ہیں اور پھر بھی ان کو غیرت نہیں آتی۔۴۳۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق
۲۷/ مئی کو یہ دلازار تقریریں کی گئیں اور اسی روز حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں ان کی مفصل ڈائری پہنچ گئی۔ جس پر حضور نے ایک اہم مضمون رقم فرمایا۔ جو راتوں رات
چھپوا کر ۲۸/ مئی کو سکھوں کے جلسہ میں بکثرت تقسیم کیا گیا اور بعد کو اس کا گور مکھی ترجمہ بھی!۴۳۲
سیدنا حضرت امیر المومنینؓ نے اپنے اس مضمون میں خاص طور پر گزشتہ واقعات کی روشنی میں اس غلط فہمی کا پوری طرح ازالہ کیا کہ احمدی سکھوں پر ظلم کرتے ہیں چنانچہ حضور نے سردار کھڑک سنگھ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا۔
>میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کی تحقیق بالکل غلط ہے۔ احمدی سکھوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتے بلکہ انہیں اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور اگر آپ اس علاقہ کے سکھوں سے فرداً فرداً وہ قسم دے کر جسے پنجابی میں ددھ پت کی قسم کہتے ہیں پوچھیں تو ان میں سے ۹۹ فیصدی آپ کو یہ بتائیں گے کہ میں اور میرا خاندان اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے ہمیشہ سکھوں سے محبت کا برتائو کرتے چلے آئے ہیں اور جو کوئی مصیبت زدہ ہمارے پاس آیا ہے ہم نے اس کی مدد کی ہے بالکل ممکن ہے کہ بعض نادان احمدیوں نے بعض سکھوں سے ناواجب سلوک کیا ہو لیکن ان سے پوچھیں کہ جب کبھی میرے پاس ایسی رپورٹ ہوئی۔ اور میں نے احمدی کو خطاوار پایا میں نے اسے سزا دی یا نہیں دی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزار کہ ایک احمدی نے اپنی کتاب میں حضرت باوا صاحب~رح~ کے متعلق کچھ الفاظ سوء ادبی کے لکھ دیئے تھے میرے پاس سکھوں کا وفد آیا۔ تو میں نے نہ صرف یہ کہ اس احمدی کو سخت سرزنش کی بلکہ اس کی کتاب کو ضبط کر لیا اور وہ صفحات تلف کروائے جو سکھ صاحبان کے لئے دل آزار تھے۔ اردگرد کے سکھوں کو آپ قسم دے کر پوچھیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ان کی خاطر پندرہ سال تک میں نے قادیان میں مذبح نہیں بننے دیا اور اب بھی مذبح صرف چند نادانوں کی نادانی کی وجہ سے بنا ہے ورنہ میں نے ہندو اور سکھ رئوساء کو یقین دلایا تھا کہ اگر وہ مجھ پر چھوڑ دیں تو ان کے احساسات کا پورا خیال رکھا جائے گا لیکن افسوس کہ مفسدہ پرداز لوگوں نے مجھ پر اعتبار نہ کیا اور دھمکیاں دینی شروع کر دیں جن کی وجہ سے مجھے اپنا قدم بیچ میں سے ہٹانا پڑا۔
سردار صاحب! یہاں کے سکھوں کو قسم دے کر پوچھیں کہ ان کی درخواست پر میں نے اپنے سکول میں ان کے لئے خاص انتظام کیا یا نہیں۔ اور اس وقت جب وہ مجھ سے لڑ رہے تھے آریوں کی طرف سے تکلیف پہنچنے پر میں نے ماضی کو بھلا کر پھر ان کے بچوں کے لئے ان کے حسب دل خواہ تعلیم کا انتظام کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے یا نہیں؟
ہاں انہیں قسم دے کر پوچھئے کہ انفلوائنزا کے دنوں میں جبکہ میں اور میرے گھر کے سب لوگ تکلیف میں مبتلا تھے قادیان کا ہر گھر مریضوں کی چیخ و پکار سے ایک میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہا تھا اس وقت اپنے پاس سے دوائیں دے کر اور اطباء اور ڈاکٹروں کو فارغ کرکے ان کے علاج کے لئے چھ چھ سات سات میل تک باہر بھجوایا یا نہیں اور یہ بھی ان سے پوچھئے کہ کوئی ایسے سکھ طالب علم انہیں معلوم ہیں یا نہیں جن کی تعلیم کے لئے میں نے مدد کی اور کوئی ایسے سکھ خاندان ہیں یا نہیں جنہوں نے اپنی مشکلات میں میری طرف رجوع کیا اور میں نے ہر ایک طرح ان کی امداد کی۔ دور کیوں جاتے ہیں اسی علاقہ کے رئیس خاندان سے جہاں آپ کا جلسہ ہو رہا ہے پوچھیں کہ بعض سکھ خاندانوں کے اختلاف کے وقت میں نے انہیں تباہی سے بچانے کے لئے باہمی سمجھوتے کرائے یا نہیں ان کی خاندانی وجاہتوں کے خطرہ میں پڑنے کے وقت ان کا پوری طرح ساتھ دیا یا نہیں<۔۴۳۳
سکھ لیڈروں نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے جو بلند بانگ دعا دی کئے تھے ان کی نسبت نہایت محبت بھرے الفاظ میں توجہ دلائی۔
فرمایا۔ >سردار صاحب! میں اس بارہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ فقرہ کہنے میں تقویٰ سے کام نہیں لیا۔ اینٹ سے اینٹ بجانا خدا تعالیٰ کا کام ہے بندوں کا کام نہیں۔ منہ سے دعویٰ کرنے پر تو کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ اگر میں بھی آپ ہی کی طرح جوش میں آنے والا ہوتا تو شاید میں بھی آپ کے اس دعویٰ کو سن کر یہ کہہ دیتا کہ میں بھی آپ کے مقدس مقامات کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے تقویٰ عطا فرمایا ہے۔ جب میں نے آپ کا یہ دعویٰ سنا تو بجائے کوئی ایسا فقرہ کہنے کے مجھے آپ پر رحم آیا اور میں نے کہا کہ میرے اس بھائی کو اگر خدا تعالیٰ کی معرفت نصیب ہوتی تو کبھی یہ ایسا دعویٰ نہ کرتا۔ جس شخص کو اپنی زندگی کے ایک منٹ پر اختیار نہ ہو اس کا یہ کہنا کہ وہ فلاں جگہ کی اینٹ سے ینٹ بجا دے گا۔ ایک قابل رحم امر نہیں تو اور کیا ہے۔
سردار صاحب! جب آپ کے گورو صاحب ظاہر ہوئے تھے تو وہ بھی ظاہر حالت میں کمزور تھے اور اس وقت کے طاقتور لوگ بھی آپ کی طرح یہ کہا کرتے تھے کہ ہم چاہیں تو ان کو یوں نقصان پہنچا دیں یوں ذلیل کر دیں۔ مگر آپ کو معلوم ہی ہے کہ وہ غریب ماں باپ کا بیٹا کس طرح خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رات اور دن ترقی کرتا چلا گیا اور اس کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کے اپنے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ دیکھو مغل ہمارے مقابلہ میں کس طرح تباہ ہو گئے۔ میں اس امر کو صحیح مان لیتا ہوں۔ مگر پوچھتا ہوں کہ آخر وہ کیوں تباہ ہو گئے؟ کیا سردار کھڑک سنگھ کی بہادری سے یا اللہ تعالیٰ کی مدد سے؟ اگر آپ کی بہادری سے ایسا ہوا تھا تو انگریزوں کے مقابلہ میں آپ کی تلواریں کیوں ٹوٹ گئی تھیں۔ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ وہ کبھی کسی قوم کو بڑھاتا ہے کبھی کسی قوم کو۔ کبھی مغلوں کی تلواروں کے آگے پنجاب کے سورمائوں کے باپ دادا اور ہندوستان کے راجے بھیڑوں اور بکریوں کی طرح بھاگتے پھرتے تھے پھر وہ وقت آیا کہ مرہٹوں اور سکھوں جیسی چھوٹی چھوٹی قوموں نے ان کے چھکے چھڑا دیئے۔ پھر وہی مرہٹے احمد شاہ ابدالی کے سامنے پیٹھ دکھا کر ایسے بھاگے کہ سینکڑوں میل تک ان کا پتہ نہ تھا اور وہی سکھ انگریزی فوجوں سے اس قدر خائف ہوئے کہ توپیں تک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ پس سوال بہادری کا نہیں۔ سوال خدا تعالیٰ کی دین کا ہے۔ منہ کے دعوے نجات نہیں دیتے۔ خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو عزت دیتا ہے پس جس جگہ کو خدا تعالیٰ بڑھانا چاہتا ہے اس کے متعلق ایسے دعوے کرکے جن کا کوئی بھی فائدہ نہیں اپنی عاقبت نہ بگاڑیں۔ ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے اس وقت اپنا نور قادیان میں اتارا ہے۔ پس خدا کا خوف کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی آواز کو سنیں اور ٹھنڈے دل اور نیک ارادوں سے اس بات کو سنیں جسے ایک شخص نے خدا تعالیٰ کی طرف سے پاکر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ دنیا چند روزہ ہے نہ پہلے کوئی رہا نہ اب رہے گا۔ نہ آپ رہیں گے نہ میں رہوں گا۔ نہ آپ کے سامعین رہیں گے۔ ہم سب کوئی آگے کوئی پیچھے خدا تعالیٰ کے سامنے جانے والے ہیں پس عاقبت کی فکر کیجئے اور ایسے الفظ منہ سے نہ نکالئے جو خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی کا موجب ہیں<۔۴۳۴
جب یہ اشتہار سردار کھڑک سنگھ صاحب تک پہنچا تو انہوں نے دوسرے ہی دن جلسہ گاہ میں سٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا کہ تم نے مجھے سخت ذلیل کرایا ہے کیونکہ جو باتیں تم نے مجھے بتائی تھیں وہ اور تھیں اور جو باتیں اس اشتہار میں لکھی ہیں وہ بالکل اور ہیں۔۴۳۵
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا لاہور میں شاندار لیکچر
حضرت خلیفتہ المسمیح الثانیؓ کا لاہور میں شاندار لیکچر
سیدنا حضرت مصلح موعود نے پنجاب لٹریری لیگ کی تحریک پر جس کے عمائد پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھتے تھے لاہور میں دو لیکچر دینے منظور فرمائے تھے۔ اس کے مطابق حضور کا پہلا لیکچر >عربی زبان کا مقام السنہ عالم میں< کے موضوع پر ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء کو وائی۔ ام۔ سی اے کے ہال واقعہ مال روڈ پر ٹھیک ۲/۸۱ بجے شب زیر صدارت جناب ڈاکٹر برکت علی صاحب قریشی ایم۔ اے پی ایچ ڈی پرنسپل اسلامیہ کالج ہوا۔ سامعین سات بجے سے ہی آنے شروع ہو گئے اور لیکچر کے شروع ہونے تک ہال اپنی گنجائش سے دوگنا بھر گیا۔ اور بعد میں آنے والوں کو جگہ کی قلت کی وجہ سے واپس جانا پڑا۔ حضورؓ کا لیکچر ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا۔ جسے سامعین نے ہمہ تن گوش ہو کر سنا۔ اختتام پر جناب صدر نے شکریہ ادا کرنے کے بعد حاضرین کو لیکچر سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ ایسے علمی مضامین پھر بھی سننے کا موقعہ ملے۔ سامعین میں علمی طبقہ کے ہر خیال کے اصحاب شامل تھے۔ احمدی دوست ہی کافی تعداد میں شریک ہوئے اور بعض دوست باہر کی جماعتوں سے خصوصاً دارالامان کے احباب و بزرگان بھی شامل ہوئے۔ جناب لالہ کنور حسین صاحب سابق چیف جج کشمیر جو جناب لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند ارجمند ہیں۔ انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر اور صاحب صدر کے شکریہ کے بعد خاص طور پر شکر گزاری کے جذبا سے لبریز انگریزی میں ایک موثر تقریر فرمائی جس کا مفہوم یہ تھا کہ آج قابل لیکچرار نے زبان عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکتہ الاراء تقریر کی ہے۔ اسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اور اس لحاظ سے بھی مجھے خوشی ہے کہ ذاتی طور پر میرے آپ سے تعلقات ہیں۔ چنانچہ ان کے والد ماجد سے میرے والد صاحب نے عربی زبان سیکھی تھی۔ جب میں لیکچر سننے کے لئے آیا۔ اس وقت میں نے خیال کیا تھا۔ کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا۔ جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کیا کرتے ہیں۔ مشہور ہے کہ کسی عرب سے ایک دفعہ زبان عربی کی فضیلت کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے کہا کہ اسے تین وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔ اس لئے کہ میں عرب کا رہنے والا ہوں دوسرے اس لئے کہ قرآن مجید کی زبان ہے تیسرے اس لئے کہ جنت میں بھی عربی بولی جائے گی۔ میں سمجھتا تھا کہ شاید اس قسم کی باتیں زبان عربی کی فضیلت میں پیش کی جائیں گی۔ مگر جو لیکچر دیا گیا وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے۔ میں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور میں نے اس سے بہت ہی حظ اٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدتوں میرے دل پر رہے گا میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ جن دوسرے احباب نے اس مضمون کو سنا ہے وہ بھی تادیر اس کا اثر اپنے دلوں میں محسوس کریں گے۔ باقی زبان کے متعلق چونکہ نظریوں میں اختلاف ہے اور سنسکرت زبان بھی بہت سے قواعد پر مبنی ہے۔ اس لئے عربی اور سنسکرت کا مقابلہ کرنے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اور ایک دفعہ پھر قابل لیکچرار کے بیش قیمت لیکچر کا دلی اخلاص سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
دوسرا لیکچر اسی لیگ کے زیر انتظام ٹائون ہال میں ۲/ جون کو ہوا۔ یہ ہال پہلے ہال سے وسیع تھا اور اس میں ایک ہزار سامعین کے لئے گنجائش تھی۔ پہلے لیکچر کی طرح اس لیکچر کا داخلہ بھی بذریعہ ٹکٹ تھا۔ ٹکٹ کی قیمت ۲ تھی۔ اس دفعہ جماعت احمدیہ لاہور کو ہدایت کی گئی تھی کہ جب تک دوسروں کو جگہ نہ مل جائے۔ وہ ہال میں نہ جائیں۔ چنانچہ جب دوسرے دوست اچھی طرح بیٹھ گئے تب جماعت لاہور کو داخل کیا گیا۔ اس طرح دوسرے احباب کو اچھی طرح جگہ مل گئی۔ استقبال` پانی` روشنی اور ہوا کا کافی انتظام تھا اور کسی کو کسی قسم کی شکایت کا موقعہ نہیں ملا۔ ہر ایک شخص کو اس کے حسب دل خواہ جگہ دی گئی۔ حضورؓ کا لیکچر قریباً دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ لیکچر >کیا انسان مذہب کا محتاج نہیں< کے موضوع پر تھا۔ سامعین میں معزز طبقہ کے لوگ خصوصاً کالجوں کے پروفیسر وکلاء` لاہور کے پرانے خاندانوں کے افراد اور طلباء شامل تھے۔ اور ہر مذہب کے آدمی پائے جاتے تھے۔ ہندو مسلمان عیسائی اور سکھ مسلمانوں میں بھی قریباً ہر قسم کے خیالات کے اصحاب شامل تھے۔ اور آخر وقت تک نہایت اطمینان اور سکون سے سنتے رہے۔ لیگ کی ¶طرف سے پھولوں کا ہار حضورؓ کو پہنایا گیا۔ صدر جلسہ ڈاکٹر ایس کے دتا پرنسپل فورمین کرسچن کالج نے افتتاحی تقریر میں سامعین کو متوجہ کیا کہ وہ ایسی بڑی شخصیت کے لیکچر کو توجہ سے سنیں اور آخر میں لیکچر کی بہت تعریف کی اور خواہش ظاہر کی کہ پھر بھی لاہور کی پبلک کو آپ کے قیمتی خیالات کے سننے کا موقعہ میسر آئے۔ جناب شیخ عبدالکریم صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے حضور کا نہایت پرتعریف الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔۴۳۶
خاندان حضرت مسیح موعودؑکو اشاعت اسلام کی زبردست تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا۔ اس پرمسرت تقریب پر حضور نے ایک نہایت ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے افراد خاندان کو خصوصاً اور جماعت احمدیہ کو عموماً ان کی حفاظت اسلام سے متعلق اہم ذمہ داریوں کی نسبت پرزور طریق پر توجہ دلائی۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>رسول کریم~صل۱~ نے امت محمدیہ کی تباہی کے وقت امید ظاہر کی ہے کہ لنا لہ رجال من فارس اور یقین ظاہر کیا کہ اس فارسی النسل موعود کی اولاد دنیا کے لالچوں` حرصوں اور ترقیات کو چھوڑ کر صرف ایک کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گی اور وہ کام یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کیا جائے۔ ایمان کو ثریا سے واپس لایا جائے اور مخلوق کو آستانہ خدا پر گرایا جائے۔ یہ امید ہے کہ جو خدا کے رسول نے کی اب میں ان پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ خواہ میری اولاد ہو یا میرے بھائیوں کی۔ وہ اپنے دلوں میں غور کرکے اپنی فطرتوں سے دریافت کریں کہ اس آواز کے بعد ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ آج دین کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ~}~
بیکسے شد دین احمد ہیچ خویش و یار نیست
ہر کسے در کار خود با دین احمد کارنیست
اسی طرح فرماتے ہیں۔
ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو افواج یزید
دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدیں
ان حالات میں ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان کے دلوں میں کس قسم کے احساسات ہونے چاہئیں۔ یہ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق خود سمجھ سکتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ جب ایک کمزور انسان کسی کو بلندی پر گامزن دیکھتا ہے جب ایک دولتمند کی دولت اور عہدہ دار کے عہدہ پر نظر ڈالتا ہے تو اس کے دل میں لالچ آتا ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے کہ میں بھی کیوں ایسا ہی نہ بنوں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بے شک ایسا ہوتا ہے مگر یہ ساری چیزیں اس وقت بھی تھیں جب ہوازن کے سامنے صحابہ صف آراء تھے۔ ان کے سامنے بھی ان کے بیوی بچے تھے۔ ان کے سامنے بھی یہ بات تھی کہ اگر وہ ہوازن کے تیر اندازوں کے سامنے ہوئے تو ان کے سینے چھلنی ہو جائیں گے اور وہ چند منٹوں میں ہی خاک و خون میں لوٹیں گے مگر ان تمام امور کے باوجود انہوں نے رسول کریم~صل۱~ کی آواز پر اپنی بیویوں اور بچوں کو بھلا دیا۔ اور ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھا کہ جس طرف خدا کا رسولﷺ~ بلاتا ہے اسی طرف جائیں۔
آج دجالی فتنہ جس رنگ میں دنیا پر غالب ہے اس کی تصویر کھینچنے کی مجھے ضرورت نہیں کوئی چیز آج اسلام کی باقی نہیں نہ تمدنی احکام قائم ہیں اور نہ شخصی احکام قائم ہیں ہر چیز میں آج تبدیلی کر دی گئی ہے پس جب تک اسے مٹانے کے لئے ہمارے اندر دیوانگی نہ ہو گی جب تک ہمیں اس تہذیب مغربی سے بغض نہ ہو گا اتنا بغض کے اس سے بڑھ کر ہمیں کسی اور چیز سے بغض نہ ہو اس وقت تک ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہم میں سے جو بھی شخص مغربی تہذیب کا دلدادہ ہے جو بھی اس تہذیب سے متاثر ہے۔ وہ روحانی میدان کا اہل نہیں۔ جس تہذیب نے ہمارے مقدس آقا کی تصویر کو دنیا کے سامنے برے رنگ میں پیش کیا ہے۔ جس تہذیب نے اسلامی تمدن کی شکل کو بدل دیا۔ جب تک اس کی ایک ایک اینٹ کو ریزہ ریزہ نہ کر دیں کبھی چین اور اطمینان کی نیند سو نہیں سکتے وہ لوگ جو یورپ کی نقالی کرتے ہیں جو مغربیت کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمارے تن بدن میں تو ان کی ہر چیز کو دیکھ کر آگ لگ جانی چاہئے۔ کیونکہ ہم اور مغربیت ایک جگہ نہیں جمع ہو سکتے۔ یا ہم زندہ رہیں گے یا مغربیت زندہ رہے گی۔
یہ مت خیال کرو کہ ہم تو انگریزوں کے دوست ہیں پھر مغربیت کے متعلق میں ایسے خیال کیوں رکھتا ہوں کیونکہ انگریز اور مغربیت میں فرق ہے۔ انگریز انسان ہیں اور ویسے ہی انسان ہیں جیسے کہ ہم اور اس لحاظ سے انگریز ہدایت پا سکتے ہیں لیکن مغربیت ہدایت نہیں پا سکتی۔ وہ شیطان کا ہتھیار ہے اور جب تک اسے توڑا نہیں جائے گا۔ دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اولاد میں سے اگر کوئی شخص مغربیت کی نقل کا ذرہ بھی مادہ اپنے اندر رکھتا ہے تو وہ مسیح موعودؑ کا حقیقی بیٹا نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس نے اس آواز کو نہیں سنا۔ جسے پھیلانے کے لئے مسیح موعودؑ مبعوث ہوئے۔ پس میں وضاحت سے ان کو یہ پیغام پہنچاتا اور وضاحت سے ہر ایک کو ہوشیار کرتا ہوں کہ میں ہر ایسے خیال اور ہر ایسے شخص سے بے زار ہوں۔ جس کے دل میں مغربیت کی نقل کا ذرہ بھی مادہ پایا جاتا ہے۔ اور جو دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہیں خواہ وہ میرا بیٹا ہو یا میرے کسی عزیز کا۔ میں نے ہمیشہ یہ دعا کی ہے اور متواتر کی ہے کہ اگر میرے لئے وہ اولاد مقدر نہیں جو دین کی خدمت کرنے والی ہو تو مجھے اولاد کی ضرورت نہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اسی دعا کی آخر تک توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے سامنے ایک عظیم الشان کام ہے اتنا عظیم الشان کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ ہمارے سامنے ایک فتنہ ہے اتنا بڑا فتنہ کہ اس کے برابر دنیا میں اور کوئی فتنہ نہیں اگر ہم اس کام کی سرانجام دہی کے لئے کھڑے نہیں ہو جاتے اور اس فتنہ کے مقابلہ کی ضرورت اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے تو میں نہیں سمجھ سکتا۔ ہم دنیا میں ذرہ سی عزت کے بھی مستحق ہو سکتے ہیں۔
اس وقت اسلام کے مقابل پر بیسیوں جھنڈے بلند ہیں جب تک وہ تمام جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے جب تک تثلیث کا جھنڈا سر نگوں نہیں ہوجاتا۔ جب تک بت پرستی کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہوجاتا۔ جب تک اسلام کے سوا باقی تمام جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے جب تک سب دنیا میں تکبیر کے نعرے بلند نہیں ہو جاتے ہم کبھی اپنے فرائض کو پورا کرنے والے سمجھے نہیں جا سکتے یہ وہ چیز ہے جس کو میں آج پیش کرتا ہوں اور اگرچہ میں پہلے بھی اسے پیش کرتا رہا ہوں لیکن کچھ دنوں سے ایک طاقت مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں واضح طور پر یہ بات پیش کر دوں<۔۴۳۷
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی شادی
جیسا کہ اوپر اشارۃ" ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ۲/ جولائی ۱۹۳۴ء کو اپنے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد
صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کا نکاح صاحبزادی منصورہ بیگم صاحبہ دختر نیک اختر حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے ساتھ پڑھا۔ نکاح کے قریباً ایک ماہ بعد حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریب شادی عمل میں آئی۔
چنانچہ ۴/ اگست ۱۹۳۴ء کو آپ کی برات مالیر کوٹلہ گئی۔ جو حضرت ام المومنینؓ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ۔ حضرت سیدہ ام ناصرؓ )حرم اول حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب پر مشتمل تھی۔ اگلے روز ۵/ اگست ۱۹۳۴ء کو سیدنا حضرت امیر المومنینؓ خود بھی کار میں مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے۔۴۳۸
یہ برات اسی روز ۳ بجے بعد دوپہر لدھیانہ پہنچی جہاں احباب نے استقبال کیا اور پھولوں کے ہار پہنائے۔ پونے پانچ گاڑی مالیر کوٹلہ روانہ ہوئی۔۴۳۹ اور ایک روزہ قیام کے بعد ۶/ اگست کو بارہ بجے کی گاڑی میں بروز دو شنبہ واپس قادیان پہنچی۔ حضور انورؓ جو رخصتانہ کے مبارک کے موقع میں شمولیت کے لئے مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تھے اسی روز گیارہ بجے کے قریب دارالامان میں رونق افروز ہوئے اور تھوڑی دیر کے بعد اسٹیشن پر تشریف لے گئے جہاں بہت بڑا ہجوم برات کے پرخلوص خیر مقدم کے لئے موجود تھا مسجد مبارک سے لے کر قادیان کے اسٹیشن تک دو رویہ رنگ دار جھنڈیاں لہرا رہی تھیں کئی جگہ اعزازی دروازے نصب تھے اور مختلف مقامات پر موزوں اشعار اور دعائیہ کلمات کے قطعات آویزاں تھے۔
گاڑی کی آمد سے قبل اسٹیشن پر مردوں` عورتوں اور بچوں کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ جس پر نظر ڈالنے سے ہر طرف خوشی و مسرت کا سماں نظر آتا تھا جب گاڑی پلیٹ فارم پر پہنچی تو مجمع نے نعرہ ہائے تکبیر۔ غلام احمد کی جے۔ حضرت خلیفتہ المسیح زندہ باد۔ مرزا ناصر احمد زندہ باد۔ اھلا و سھلا و مرحبا کے نعروں سے جذبات مسرت کا اظہار کیا۔ حضرت امیر المومنین نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو گاڑی سے اترتے ہی مبارک باد دی اور پھولوں کا ہار پہنایا۔ حضور کے گلے میں بھی پھولوں کے ہار ڈالے گئے اور مبارکبادیں عرض کی گئیں۔
اس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ معزز براتی اور دولہا دلہن تینوں موٹروں میں سوار ہوئے۔ موٹریں شاندار جلوس میں آہستہ آہستہ روانہ ہوئیں۔ اہل جلوس خوش الحانی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ دعائیہ اشعار پڑھتے رہے جو آپ نے اپنی ذریت طیبہ سے متعلق فرمائے تھے۔ جلوس جب احمدیہ چوک تک پہنچا تو حضرت اقدس نے مسجد مبارک میں کھڑے ہو کر دعا کی جس میں تمام مجمع شریک ہوا۔۴۴۰
۸/ اگست ۱۹۳۴ء کو بعد نماز مغرب حضرت خلیفتہ المسیح کی طرف سے >دارالحمد< میں نہایت وسیع پیمانہ پر دعوت ولیمہ دی گئی جس میں قادیان میں مقیم صحابہ حضرت مسیح موعودؑ۔ کارکنان صدر انجمن احمدیہ مختلف محلوں کے احباب` مضافات کے احمدی دوست اور قادیان کے غیر احمدی اصحاب شامل ہوئے۔ بیوائوں اور یتیموں کو گھروں میں کھانا پہنچایا گیا۔ الفضل کی رپورٹ کے مطابق اندازاً دو ہزار افراد نے کھانا کھایا۔ قادیان کے ہندوئوں میں اس خوشی کی تقریب میں شیرینی تقسیم کی گئی۔ جو اصحاب اس دن شامل دعوت نہ ہو سکے وہ ۹/ اگست کو دوپہر کے وقت مسجد اقصیٰ میں بلائے گئے مستورات کی ضیافت کا انتظام ۱۰/ اگست کو کیا گیا۔۴۴۱
اس بابرکت تقریب پر مقامی سکولوں اور صدر انجمن کے دفتروں میں تعطیل عام رہی اور احمدی شعراء میں سے حضرت مولوی عبیداللہ صاحب بسملؓ۔ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکملؓ۔ حضرت ابو عبیداللہ۔ حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ۔ حضرت مولانا صوفی غلام رسول صاحب راجیکیؓ نیز رحمت اللہ صاحب شاکر نے فارسی` اردو اور پنجابی زبان میں دعائیہ نظمیں کہیں اور سہرے لکھے جو الفضل میں شائع ہوئے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اپنے عقائد پر حلفیہ بیان
ایک صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے مطالبہ کیا کہ اپنے عقائد پر حلفیہ بیان دیں جس پر حضور نے حلفیہ اور موکد بعذ اب بیان لکھا۔ جو الفضل ۴/ ستمبر ۱۹۳۴ء کے صفحہ ۵ پر شائع ہوا۔ یہ بیان مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔
>میں مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ ساکن قادیان ولد مرزا غلام احمد صاحب مدعی ماموریت اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھانا انسان کو روحانی اور جسمانی ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اور ناقابل برداشت عذابوں میں مبتلا کرتا ہے کہتا ہوں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب میرے یقین اور ایمان کے مطابق بلا شک و شبہ مسیح موعود اور مہدی مسعود تھے اور آنحضرت~صل۱~ سے مستفیض ہو کر مقام نبوت پر فائز ہوئے تھے اگر میں اس دعویٰ میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کا وہ وعید جو جھوٹوں کے لئے مقرر ہے مجھ پر نازل ہو<۔۴۴۲
پہلا باب )فصل دواز دہم(
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کا سفر ولایت
اس سال کے نہایت درجہ اہم واقعات میں سے حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کا سفر انگلستان ہے۔ جو محض خدمت دین اور خالصت¶ہ اعلائے کلمہ اسلام کی غرض سے کیا گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی روح پرور نصائح
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے جو قیمتی ہدایات اور روح پرور نصائح اس موقعہ پر آپ کو لکھ کر دیں۔ وہ پورے تیس۴۴۳ صفحوں پر مشتمل تھیں اور ان میں پہلی ہدایت کے طور پر بڑی وضاحت و تصریح کے ساتھ اس سفر کے حقیقی مقصد پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا۔
>سب علم قرآن کریم میں ہی ہے اور اس کی کنجی محبت الٰہی ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اسے قرآن کریم کا علم دیا جاتا ہے اور جو اس کے قبضہ میں اپنے آپ کو دے دیتا ہے وہ اس کے عرفان کے دودھ سے خود پرورش کرتا ہے۔ پس میں تم کو انگلستان کسی علم کے سیکھنے کے لئے نہیں بھجوا رہا کہ جو کچھ علم کہلانے کا مستحق ہے وہ قرآن کریم میں موجود ہے۔
اور جو قرآن کریم میں نہیں وہ علم نہیں جہالت ہے۔ میں مبالغہ سے کام نہیں لے رہا میں کلام کو چست فقرات سے مزین نہیں کر رہا۔ بلکہ یہ ایک حقیقت ہے یہ ایک مشاہدہ ہے اور اس کے لئے ہر قسم کی قسم اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ میرے کلام میں نقص کا احتمال تو ہو سکتا ہے لیکن مبالغہ کا نہیں۔ واللہ علی ما اقوال شھید۔
میں تم کو انگلستان بھجوا رہا ہوں اس عرض سے جس غرض سے رسول کریم~صل۱~ اپنے صحابہ کو فتح مکہ سے پہلے مکہ بھجوایا کرتے تھے میں اس لئے بھجوا رہا ہوں کہ تم مغرب کے نقطہ نگاہ کو سمجھو۔ تم اس زہر کی گہرائی کو معلوم کرو۔ جو انسان کے روحانی جسم کو ہلاک کر رہا ہے تم ان ہتھیاروں سے واقف اور آگاہ ہو جائو جن کو دجال اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے غرض تمہارا کام یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے لئے سامان جمع کرو یہ مت خیال کرو کہ وہاں سے تم کچھ حاصل کر سکتے ہو۔ وہاں کی ہر چیز آسانی سے یہاں مل سکتی ہے تم کو میں اس لئے وہاں بھجوا رہا ہوں کہ تم وہاں کے لوگوں کو کچھ سکھائو۔ اگر تم کوئی اچھی بات ان میں دیکھو تو وہ تم کو مرعوب نہ کرے کیونکہ اگر وہ مسلمانوں میں موجود نہیں تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ وہ اسلام میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسے بھلا دیا ہے رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں۔nsk] gat[ کلمہ الحکمہ ضالہ المومن اخذ ھا حدیث و جدھا۔ آپؑ کے اس قول میں )فداہ نفسی و روحی( اس طرف اشارہ ہے کہ اسلام کے باہر کوئی اچھی شے نہیں اگر کوئی ایسی شئی نظر آئے تو یا تو ہمارا خیال غلط ہو گا اور وہ شے اچھی نہیں بلکہ بری ہو گی یا پھر اگر وہ اچھی چیز ہو گی تو وہ ضرور قرآن کریم سے ہی لی ہوئی ہو گی اور مومن ہی کی گم گشتہ متاع ہوگی۔ جو کچھ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے۔ میں اس کا ایک زندہ ثبوت ہوں۔ میں گواہ ہوں راستبازوں کے بادشاہ کی بات کی صداقت کا۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم یورپ سے مرعوب ہو۔ خدا تعالیٰ نے جو ہمیں خزانہ دیا ہے وہ یورپ کے پاس نہیں اور جو ہمیں طاقت دی ہے وہ اسے حاصل نہیں۔ تم ایک اسلام کے سپاہی کی طرح جائو اور وہ سب کچھ اکٹھا کرو جو اسلام کی خدمت کے لئے مفید ہو اور اس سب کچھ کو لغو سمجھ کر چھوڑ دو جو اسلام کے خلاف ہے کیونکہ وہ ہرگز کوئی قیمت نہیں رکھتا۔ تم اسے زہر سمجھ کر اس کی شدت کا مطالعہ کرو لیکن اسے کھائو نہیں کہ زہر کھانے والا انسان اپنے آپ کو خود ہلاک کرتا ہے اور لوگوں کی ہنسی اور تمسخر کا مستحق ہوتا ہے۔۴۴۴
آخر میں حضور نے اپنی ہدایات اور نصیحتوں کا خلاصہ ان الفاظ میں تحریر فرمایا۔
>پھر سب نصیحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کے بنو خدا کے ۔۔۔۔۔۔ ہم سب فانی ہیں اور وہی زندہ اور حاصل کرنے کے قابل ہے اس کا چہرہ دنیا کو دکھانے کی کوشش کرو۔ اپنی زندگی کو اسی کے لئے کردو ہر سانس اسی کے لئے ہو وہی مقصود ہو` وہی مطلوب ہو` وہی محبوب ہو۔ جب تک اس کا نام دنیا میں روشن نہ ہو تم کو آرام نہ آئے تم چین سے نہ بیٹھو<۔۴۴۵
سفر انگلستان کی غرض وغایت خود سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے الفاظ مبارک میں بیان کرنے کے بعد اب ہم اس بابرکت سفر کے واقعات کی طرف آتے ہیں۔
قادیان سے روانگی
۶/ ستمبر ۱۹۳۴ء کا دن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحبؓ )ابن حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب( کی روانگی کے لئے مقرر تھا۔ سہ پہر کے تین بجے کے بعد گاڑی کو قادیان کے اسٹیشن سے چلنا تھا۔ قادیان کے احباب۔ بوڑھے۔ جوان۔ بچے اور مستورات ظہر کی نماز کے بعد ہی اسٹیشن کی طرف کھنچے چلے جارہے تھے۔ احمدی دکانداروں نے اس تقریب الوداع میں شامل ہونے کے لئے دکانیں بند کر دی تھیں۔ اسٹیشن پر بہت بڑا اجتماع تھا جو چلچلاتی دھوپ میں کھڑا تھا۔ خاندان مسیح موعودؑ کے افراد نیز حضرت ام المومنینؓ اور حضرت اقدس خلیفتہ المسیحؓ بنفس نفیس اپنے پیارے لخت جگر اور اپنے دوسرے عزیز کو خدا حافظ کہنے کے لئے موجود تھے۔
صاحبزادگان نے جن کے سینے ہاروں سے مزین تھے اسٹیشن کے بیرونی برآمدے میں سینکٹروں افراد سے مصافحہ کیا اور بعض بعض سے معانقہ بھی۔
گاڑی روانہ ہونے سے پندرہ منٹ پہلے حضور نے دونوں صاحبزادوں کو پاس کھڑا کرکے ایک لمبی دعا فرمائی دعا میں اکثر لوگوں کی آنکھیں پرنم تھیں خود حضرت خلیفتہ المسیحؓ کی آنکھیں آنسوئوں سے ڈبڈبا گئیں۔
دعا کے بعد حضور نے اپنے فرزند دلبند کو اپنے سینہ سے لگایا اور پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف معانقہ فرمایا۔ معانقہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضور کے دست مبارک کو چوما۔ اس کے بعد حضور نے صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب سے معانقہ فرمایا۔ اور میرزا سعید احمد صاحب نے بھی حضور کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ گاڑی اللہ اکبر کے نعروں کے درمیان روانہ ہوئی تو بہت سے احباب فرط اشتیاق سے گاڑی کے ساتھ ساتھ دور تک دوڑتے چلے گئے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے` حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ` حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے` حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی` میرزا گل محمد صاحب رئیس اور دوسرے بہت سے دوست مشایعت کے لئے امرت سر تک تشریف لے گئے۔۴۴۶
امرت سر سے لدھیانہ تک
امرتسر سے صاحبزادگان >فرنٹیر میل< میں عازم بمبئی ہوئے۔ لدھیانہ میں قریباً آدھی رات کے وقت گاڑی پہنچی اسٹیشن پر احباب لدھیانہ کے علاوہ مالیر کوٹلہ سے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ )مع نواب مسعود احمد خان صاحب( بھی تشریف لائی ہوئی تھیں اور ویٹنگ روم میں موجود تھیں۔ گاڑی کے پہنچتے ہی سید محمد عبدالرحیم صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ لدھیانہ نے معانقہ کیا اور ہار پہنائے۔ اسی طرح حضرت سیدہ موصوفہ نے بھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب کے گلے میں ہار ڈالے۔۴۴۷ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابی حضرت سید عنات علی شاہ صاحبؓ نے مجمع سمیت دعا فرمائی۔ اور سب نے نیک تمنائوں کے ساتھ اپنے محبوب امام کے جگر گوشہ اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کے چشم و چراغ کو خدا حافظ کہا۔۴۴۸
حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کی دعائیہ نظم
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کو لدھیانہ اسٹیشن پر چند اہم نصائح اور ایک دعائیہ نظم لکھ کر عنایت فرمائی اس پاکیزہ اور موثر نظم کے اشعار درج ذیل ہیں۔
جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر
اللہ نگہبان۔ خدا حافظ و ناصر
ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرت باری
ہر لمحہ و ہر آن۔ خدا حافظ و ناصر
والی بنو امصار علوم دو جہاں کے
ائے >یوسف کنعان< خدا حافظ و ناصر
ہر علم سے حاصل کرو عرفان الٰہی
بڑھتا رہے ایمان۔ خدا حافظ و ناصر
پہرہ ہو فرشتوں کا قریب آنے نہ پائے
ڈرتا رہے شیطان۔ خدا حافظ و ناصر
ہر بحر کے غواض بنو لیک بہ ایں شرط
بھیگے نہیں دامان۔ خدا حافظ و ناصر
سر پاک ہو اغیار سے` دل پاک نظر پاک
اے بندہ سبحان۔ خدا حافظ و ناصر
محبوب حقیقی کی >امانت< سے خبردار
اے حافظ قرآن۔ خدا حافظ و ناصر۴۴۹
لدھیانہ سے بمبئی تک
فرنٹیئر میل دوسرے دن ۷/ ستمبر بروز جمعہ` صبح کے وقت دہلی پہنچی۔ جہاں علی گڑھ بریلی اور شاہ جہانپور تک کے احباب ملاقات کے لئے حاضر تھے گاڑی قریباً ایک گھنٹہ تک ٹھہری۔ روانگی سے قبل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے احباب جماعت سمیت دعا فرمائی۔۴۵۰ ۸/ ستمبر کی صبح کو یہ مقدس قافلہ >بیلا رڈ پیئر< )بمبئی کی بندرگاہ کا ایک پلیٹ فارم(۴۵۱ پہنچا۔ جہاں رنپورہ جہاز پہلے سے لنگر انداز تھا۔ بمبئی کی جماعت نے اخلاص و محبت کے ساتھ استقبال کیا۔ استقبال کرنے والوں میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیرؓ اور سید رسول شاہ صاحب کلیانی بھی تھے۔ صاحبزادگان نے حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحبؓ کے ہاں ناشتہ کیا۔ اس وقت حضرت عرفانی الکبیرؓ بھی ساتھ تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب سے احمدی احباب نے سمندر پار جانا شروع کیا تھا حضرت سیٹھ صاحبؓ مہمان نوازی کے فرائض بجا لارہے تھے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ جب حج اور مصر کے سفر پر تشریف لے گئے تو آپ کو شرف میزبانی عطا ہوا۔ پھر اس سفر میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ بھی آپ کے یہاں مہمان رہے۔ آپ کے بعد حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ بھی )یعنی صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب کے دادا( مہمان رہ چکے تھے اور اسی طرح باہر سے آنے جانے والے مبلغین کی خاطر تواضع کا ¶سلسلہ اب تک برابر جاری تھا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت سیٹھ صاحبؓ کو بذریعہ تار اطلاع دی تھی کہ روانگی کے وقت پھلوں کی دو ٹوکریاں صاحبزادگان کو دی جائیں۔ چنانچہ سیٹھ صاحب نے نہایت عمدہ پھلوں کی ٹوکریاں تیار کیں اور پیش کر دیں۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ انہوں نے ایک رئویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور حضور نے تین سو روپیہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے سیٹھ صاحب نے اپنی میز میں دیکھا تو وہاں صرف تیس روپے تھے جو آپ نے میز پر رکھ دیئے اس کے بعد آپ کی آنکھ کھل گئی عجیب بات یہ ہوئی کہ اس تقریب پر ان کے پورے تیس روپے خرچ ہوئے۔ اور آپ کو بہت خوشی ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے حضور آپ کے تیس روپے تین سو کے برابر ہیں۔
بمبئی سے سویز تک
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور مرزا سعید احمد صاحب ناشتہ کر چکے تو حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ اور حضرت عرفانی کبیرؓ ان کے ہمراہ تختہ جہاز تک آگئے اور ان کو ہار پہنائے اور نہایت رقت بھری دعائوں سے رخصت کیا۔ جب تک جہاز نظر آتا رہا۔ حضرت سیٹھ صاحب اور دوسرے احباب جماعت کھڑے رہے اور دعائیں کرتے رہے یوسف علی صاحب عرفانی نے الوداع کے وقت کئی فوٹو لئے خود حضرت صاحبزادہ صاحب نے بھی تختہ جہاز پر موجود احباب کا فوٹو لیا۔۴۵۲
جہاز بمبئی سے چل کر نویں روز ۱۶/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو نو بجے سویز میں لنگر انداز ہوا جہاں مولانا ابوالعطاء صاحب مبلغ فلسطین و مصر اور احمد آفندی محمودی ذہنی نے خیر مقدم کیا اور یہ چاروں حضرات موٹر میں بارہ بجے قاہرہ پہنچے اور عجائب گھر دیکھنے کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب دارالتبلیغ میں گئے ظہر و عصر کی نماز اور کھانے سے فراغت کے بعد مصر کے آثار قدیمہ میں سے اہرامات اور ابوالہول کی تمثال دیکھنے گئے۔ السید محی الدین آفندی الحصنی نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے اعزاز میں ایک ٹی پارٹی کا انتظام اپنے مکان پر کر رکھا تھا۔ جہاں بعض شیعہ` اہل حدیث` حنفی اور مسیحی و بہائی دوستوں کے علاوہ جماعت احمدیہ قاہرہ کے تمام احباب موجود تھے۔ اس دعوت اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی آمد کا ذکر قاہرہ کے اخبار >المقطم< نے بھی کیا۔ سوا چار بجے کے قریب تعارف اور مختصر گفتگو کے بعد جس میں سب حاضرین نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں خوش آمدید کہا اور چائے پیش کی۔ پھر مجمع کا فوٹو لیا گیا یہ فوٹو اخبار >المقطم< میں بھی شائع ہوا۔ اور اس کتاب میں بھی موجود ہے۔ فوٹو لینے کے بعد مصر کے مشہور ترین عالم الشیخ محمد عبدہ کے ایک شاگرد الشیخ علی الازہری اور ایک نوجوان تاجر السید ابراہیم نامی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور مولانا ابوالعطاء صاحب نے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی مستقل اجازت کے مطابق بیعت لی۔
مولانا ابوالعطاء صاحب نے جماعت احمدیہ قاہرہ کی طرف سے حضرت صاحبزادہ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ سفر کے لئے الوادع کہا پھر حضرت صاحبزادہ صاحب نے مختصر مگر پر معزز تقریر فرمائی اور دعا پر یہ اجتماع ختم ہوا اور دوست اسٹیشن پر الوداع کہنے کے لئے روانہ ہوئے ٹھیک چھ بجے گاڑی روانہ ہوئی اور تمام دوست مصافحہ کے بعد پلیٹ فارم پر کھڑے دعا کرتے رہے گاڑی ساڑھے دس بجے پورٹ سعید پہنچی۔ ڈھائی بجے رات مولانا ابوالعطاء صاحب` حضرت صاحبزادہ صاحب اور مرزا سعید احمد صاحب کو جہاز پر الوداع کہہ کر واپس روانہ ہوئے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی نہایت ہی مختصر سی فرصت میں نہایت گہرا اثر احباب کے دلوں پر چھوڑا۔ سادہ زندگی اور محبت سے بھرے ہوئے اخلاق کا ایک پاکیزہ اور مقدس نمونہ آپ میں نظر آتا تھا۔۴۵۳
سویز سے لنڈن تک
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے عرشہ جہاز سے ایک خط ہوائی ڈاک کے ذریعہ سے مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ مبلغ لنڈن کو ارسال فرمایا کہ ہم ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو لنڈن پہنچیں گے اس اطلاع کے مطابق ۲۲/ ستمبر کو ڈیڑھ بجے دوپہر جہاز ساحل انگلستان پر پہنچا۔ اس وقت سمندر میں خفیف سا تلاطم تھا بادل اور ہوا کی وجہ سے کچھ سردی بھی تھی اس لئے صاحبزادگان کمرہ کے اندر ہی تشریف فرما تھے انہوں نے کنارہ پر قدم رکھا ہی تھا کہ مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ۔ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب۔ صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور مشہور نو مسلم انگریز بھائی مسٹر مبارک احمد صاحب فیولنگ نے خوش آمدید کہا اور معانقہ و مصافحہ کیا اور کسٹم ہائوس سے نکل کر گاڑی میں بیٹھے۔ گاڑی لنڈن کے ریلوے اسٹیشن وکٹوریہ پر پہنچی تو بارش ہو رہی تھی۔ اسٹیشن پر چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب` مولوی محمد یار صاحب عارف اور کئی اور دوست موجود تھے چودھری صاحب موصوف نے حضرت اقدس کو تار دے دیا کہ صاحبزادگان خدا کے فضل سے بخیریت پہنچ گئے ہیں۔ دونوں کے گلے میں ہار ڈالے گئے اور مسٹر عبداللہ رائن کی کار میں بیٹھ کر سوا چار بجے مسجد میں پہنچ گئے۔
حضرت ام ناصرؓ )حرم اول سیدنا خلیفتہ المسیح الثانیؓ( نے کمال شفقت و نوازش سے اپنے پیارے بیٹے اور مرزا منصور احمد صاحب کے نکاح پر تقسیم ہونے والے چھوہاروں کا ایک لفافہ مولانا درد صاحب کے لئے دیا تھا۔ جو ان کو پہنچا دیا گیا چھوہارے نہ صرف مولانا درد صاحب نے خود کھائے بلکہ تمام موجودہ دوستوں کو کھلائے اور سب نے دعائیں دیں کہ ہزاروں میل کے فاصلہ پر دور افتادہ خدام کو بھی نکاح کی تقریب میں شامل فرما لیا۔
اسی طرح حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ نے حضرت عرفانی الکبیرؓ کی تحریک پر دو مصلے مسٹر مبارک احمد صاحب فیولنگ اور مسٹر بلال نٹل )دو نو مسلموں( کے لئے بھجوائے تھے جو انہیں دے دیئے گئے مصلے دیکھ کر ان مخلص بھائیوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
صاحبزادگان کے اعزاز میں جلسہ
اگلے دن اتوار کو ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے تقریر فرمائی کہ اب خدا کے فضل سے ولایت میں خاندان مسیح موعودؑ کے چار ممبر ہو گئے ہیں اور یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کی لنڈن مشن میں کوئی نظیر نہیں تھی۔ چودھری صاحب کی تقریر نہایت فصیح اور پر اثر تھی۔ اس تقریر کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب اور مرزا سعید احمد صاحب نے مختصر سی تقریریں فرمائیں اور چند الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔ علاوہ ازیں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور مولوی محمد یار صاحب عارف مولوی فاضل نے بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔
اس تقریب پر حضرت مولانا درد صاحبؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے بچپن` حفظ قرآن` تعلیم مدرسہ احمدیہ` انگریزی تعلیم اور وقف زندگی کے حالات سنائے اور کہا۔ لاکھوں اور کروڑوں بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر ایسا بچہ جس کے متعلق خالق دو جہان نے پہلے سے اطلاع دی ہو صدیوں کے بعد دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ انا نبشرک بغلام نافلہ لک کی پیشگوئی میں سمجھتا ہوں )حضرت( مرزا ناصر احمد صاحب کی ذات میں ہی پوری ہوئی ہے پھر انہیں ایک ایسا امتیاز حاصل ہے جو دوسرے بچوں میں اس رنگ میں نہیں پایا جاتا۔ وہ یہ کہ ان کی تربیت براہ راست ایک ایسی ماں نے کی جو ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔ زمانہ گزر جائے گا آنے والی نسلیں اسلام کی عظیم الشان فتوحات کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی۔ مشرق و مغرب میں اسلام کا علم بلند ہوگا۔ دنیا اپنے تمام جمال و جلال کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے غلاموں کی غلام ہو گی۔ لیکن سب کے دل اس حسرت سے پر ہوں گے کہ کاش وہ اس زمانہ کو پاتے اور حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پائوں کی خاک چومتے۔ مگر انہیں یہ عزت نصیب نہ ہو سکے گی۔ حضرت مرزا ناصر صاحب کی پرورش اسی آغوش محبت میں ہوئی ہے جہاں سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللٰہ تعالیٰ جیسا اولوالعزم خلیفہ پیدا ہوا۔ الخ۔۴۵۴
tav.7.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اہم فرمان مرکزی کارکنوں کی نسبت
اس عظیم الشان منصب و مقام کے باوجود جو اللہ تعالیٰ نے خلعت خلافت پہنا کر حضرت خلیفتہ المسیح کو عطا فرمایا تھا۔ حضور کی فروتنی`
ملنساری اور کسر نفسی کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص سے ہمیشہ کھڑے ہو کر ملاقات فرماتے اور اپنے ساتھ جگہ دیتے اور محبت اور تپاک سے بٹھاتے تھے۔ حضرت اقدس یہی روح سلسلہ کے مرکزی کارکنوں میں کام کرتی دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ حضور نے اسی مقصد کے پیش نظر ناظر صاحب اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اہم فرمان جاری فرمایا۔
>آپ کو اور دیگر ناظروں اور عہدیداروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جب کوئی شخص ملنے یا کام کے لئے آئے۔ ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ کھڑا ہو کر اسے ملے۔ خواہ کام والا چوہڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والا سزا کا مستوجب سمجھا جائے گا۔ نیز سب ناظروں اور نائب ناظروں کا فرض ہو گا کہ وہ جب بازاروں۔ گلیوں سے گزریں تو حتی الوسع سلام میں تقدم کریں<۔
حضور کا ارشاد بیرونی احباب کی اطلاع کے لئے الفضل )۶/ ستمبر ۱۹۳۴ء( میں بھی شائع کر دیا گیا۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا تقرر ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کی حیثیت سے
۲۳/ جولائی ۱۹۳۴ء کو وزیر ہند کی طرف سے مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کی حیثیت
سے لئے جانے کی پیش کش ہوئی۔ مکرم چوہدری صاحب نے جواباً کہا کہ مجھے تو آپ کی پیش کش منظور ہے لیکن ممکن ہے ملک کے بعض لوگوں کی طرف سے مخالفت ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مخالفت کی کوئی پرواء نہیں ہمیں تو لائق اور قابل آدمی چاہئے چنانچہ آپ کی تقرری کے متعلق بعد میں اعلان ہو گیا۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی تقرری اوراخبار>زمیندار<
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ابھی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر مقرر نہیں ہوئے تھے کہ اخبار >زمیندار< نے وائسرائے ہند کے نام مندرجہ ذیل مکتوب مفتوح شائع کیا۔
>مکتوب مفتوح بنام نائب السلطنت کشور ہند<
۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب والا کی مجلس وزراء جس کے مشورہ پر نظم و نسق سلطنت کا دارومدار ہے۔ چھ ارکان سے مرکب ہے جن میں سے تین ہندوستانی ہیں اور تین انگریز۔ ان تین ہندوستانیوں میں ایک مسلمان ہونا لازمی ہے یہ مسلمان وزیر اس وقت سر فضل حسین ہیں جن کے عہدہ کی معیاد عنقریب منقضی ہونے والی ہے۔ خیال ہو سکتا تھا کہ جناب والا سر فضل حسین کی جانشینی کے لئے آزمودہ کار اور سربرآوردہ مسلمانوں میں سے جن کی ہندوستان میں کمی نہیں کسی معتمد علیہ شخص کو نامزد فرمائیں گے۔ لیکن یہ گرم افواہ سن کر مسلمانوں کی حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ سر فضل حسین کے خدمت سے سبکدوش ہونے پر ان کا قلمدان وزارت چودھری ظفر اللہ خاں قادیانی کے سپرد کیا جائے گا جو تمام مسلمانوں کو اپنے پختہ عقیدہ کی بناء پر دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور اس لئے ہندوستان کے مسلمان ان کو ابداً اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کر سکتے۔۴۵۵
>چوہدری ظفر اللہ خاں کا نام بے شک مسلمانوں کا سا ہے اور شاید اس کی آڑ لے کر جناب والا کو اور سر سیموئیل ہور وزیر ہند کو بعض اشخاص نے اپنی ذاتی اغراض کی خاطر یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں اسلامیان ہند کے ایک بہت بڑے لیڈر ہیں جن کی ذات پر ہر چھوٹے بڑے کو پورا پورا اعتماد ہے لیکن اگر جناب اپنی امپریل مصروفیتوں سے کچھ وقت نکال کر ہندوستانی مسلمانوں کے اساسی معتقدات اور ان کے عمیق حسیات کے مطالعہ کی زحمت گوارا فرما سکیں تو جناب پر یہ حقیقت آفتاب عالمتاب کی طرح روشن ہو جائے گی کہ جو کچھ جناب کو یا وزیر ہند کو بتایا گیا ہے اس کی قطعاً کوئی اصلیت نہیں<۔
>طول و عرض ہند میں جو بے شمار احتجاجی جلسے سر فضل حسین کی جانشینی کے سلسلہ میں ہو رہے ہیں ان کا علم جناب والا کو ہر روز ہو رہا ہو گا۔ امید ہے کہ جناب والا مسلمانان ہند کی رائے عامہ سے بے نیازی نہ برتیں گے اور اگر حقیقت میں یہ تجویز جناب کے زیر غور ہے کہ سر فضل حسین کی جگہ چودھری ظفر اللہ خاں قادیانی کو مقرر کیا جائے تو اس پر نظر ثانی فرمائی جائے گی اور کسی ایسے جلیل القدر مسلمان کو یہ منصب رفیع سپرد کیا جائے گا جو مسلمانان ہند کے اعتماد کا اہل ہو<۔
>آخر میں صرف یہ نکتہ جناب کے گوش گزار کرنا اور باقی رہ گیا ہے کہ یہ مکتوب کسی فرقہ مندانہ نیت سے سپرد قلم نہیں کیا گیا۔ شاید جناب والا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ قادیانیت بھی اسلام ہی کا ایک فرقہ ہے اور دوسرے فرقوں کے مسلمان محض تعصب اور ہٹ دھرمی سے اس کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں جس کا حکومت پر کوئی اثر نہ ہونا چاہئے۔ یہ دعویٰ قطعاً غلط ہے مسلمانوں میں کئی ایسی جماعتیں موجود ہیں جو بعض مسائل میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتی ہیں لیکن ان اختلافات کے باوجود دنیائے اسلام نے ان کو تمام وہ حقوق بخش رکھے ہیں جو ایک مسلمان کو حاصل ہونے چاہئیں۔ سر علی امام مرحوم شیعہ تھے اور ظاہر ہے کہ مسلمانان ہند کی اکثریت شیعی مسلک نہیں رکھتی۔ لیکن مسلمانان ہند نے انہیں اپنی نمائندگی کا پورا پورا اہل سمجھا اور وہ اسی حیثیت سے مجلس وزراء کی رکنیت پر فائز ہوئے۔ ہز ہائینس آغا خاں کے عقائد مسلمانان ہند کے سواد اعظم کے معتقدات سے مختلف ہیں۔ با ایں ہمہ وہ سیاسیات میں اپنی سمجھ کے مطابق ان کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اور مسلمانوں نے کبھی ان کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں قرار دیا۔ چوہدری ظفر اللہ خاں کی نمائندگی کے خلاف اگر مسلمان ہمہ گیر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قادیانی ہیں اور قادیانیت ہرگز اسلام کا کوئی فرقہ نہیں بلکہ بالکل علیحدہ مذہب ہے جس سے سارے مسلمان بے زار ہیں<۔۴۵۶
اخبار >زمیندار< کی روش کے خلاف بعض مسلم اخبارات کا زبردست احتجاج
اخبار >زمیندار< کی اس افسوسناک روش پر بعض مسلم اخبارات نے زبردست احتجاج کیا اور اس پالیسی کو مفاد اسلامی کے لئے ضرر رساں اور
نقصان دہ قرار دیا۔
اخبار >ستارہ سندھ< کا اداریہ
چنانچہ سندھ کے روزنامہ >ستارہ سندھ<۴۵۷ نے اپنے ۳۱/ اگست ۱۹۳۴ء کے پرچہ میں ایک اداراتی نوٹ لکھا۔ جس کا اردو ترجمہ یہ ہے۔ ستارہ سندھ نے لکھا۔
>اس وقت مسلمانان ہند کے لیڈروں میں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ایک بڑے پایہ کے لیڈر ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں انہوں نے مسلمان قوم کی اتنی بڑی خدمات کی ہیں کہ وہ جناب سر آغا خاں کے دوش بدوش کھڑے ہو سکتے ہیں رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور جائنٹ کمیٹی کے موقعوں پر انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کا کیس ایسی قابلیت کے ساتھ پیش کیا کہ اس پر سارے انگلستان کے مدبر انگشت بدنداں رہ گئے۔
سیکرٹری آف سٹیٹ ہند نے چودھری صاحب ممدوح کی قابلیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو مبارکباد دی اور کہا کہ >آپ کا مستقبل نہایت درخشندہ< نظر آتا ہے<۔
رائونڈ ٹیبل کے مختلف اجلاسوں میں ہندوستان کی سب قوموں کے بہترین دماغ رکھنے والے لیڈر موجود تھے اور جو کچھ انہوں نے وہاں کام کیا۔ وہ آج بھی کارروائی کی کتابوں میں موجود ہے اگر کوئی صاحب بنظر غائر ان کتب کا ملاحظہ فرمائیں تو ان کو چودھری صاحب کا پلہ بھاری نظر آئے گا۔][اب عنقریب سر فضل حسین صاحب کی جگہ وائسرائے ہند کی مجلس منتظمہ کی ممبری کی ایک جگہ مسلمانوں کے لئے خالی ہو گی۔ پنجاب کے اخبار >زمیندار< کی پارٹی نے چودھری صاحب کے برخلاف ذاتی کاوشوں کی وجہ سے سخت طوفان بے تمیزی شروع کر رکھا ہے ہے اور بعض خانہ ساز انجمنوں کی طرف سے ریزولیوشن پاس کرا کے وائسرائے ہندکی طرف بھیجے جاتے ہیں۔ جن کے ذریعہ وائسرائے ہند سے درخواست کی جاتی ہے کہ چودھری صاحب کو ایگزیکٹو کونسل کی ممبری پر مقرر نہ کیا جائے۔ بدتمیزی اور معاملہ نافہمی کی اس لہر کو >زمیندار< پارٹی نے سندھ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ ایک تازہ اشاعت میں >زمیندار< نے لکھا ہے کہ میر پور خاص سندھ میں ایک جلسہ چودھری صاحب کے برخلاف ہوا ہے لیکن جہاں تک ہم کو معلوم ہے ایسی کوئی بھی میٹنگ میر پور خاص بلکہ سندھ کے کسی بھی حصہ میں نہیں ہوئی اور جو رپورٹ اخبار میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں میٹنگ کے متعلق کوئی بھی تفصیل نہیں دی گئی کہ وہ کس جگہ اور کس کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ کتنے اشخاص اس میں شامل ہوئے اور اس تجویز کی تحریک اور تائید کن اصحاب نے کی۔ اس کے علاوہ اگر یہ میٹنگ سندھ میں منعقد ہوتی تو لازمی طور پر پہلے اس کی کارروائی سندھ کے کسی اخبار میں چھپتی۔
بہرحال خدا کے فضل سے سندھ کے مسلمان ابھی تک اس قدر ناعاقبت اندیش نہیں ہوئے کہ وہ پنجابی بھائیوں کی ایک خاص پارٹی کی ایسی حالت میں تائید کریں۔ خصوصاً جبکہ وہ لوگ محض پارٹی بازی اور ذاتی کاوشوں کی بناء پر ایک مقتدر اور نہایت کار آمد لیڈر کی مخالفت کر رہی ہے۔
چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف صرف ایک بات پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ کہ وہ قادیانی جماعت کے ایک فرد ہیں لیکن مسلمانوں کی کسی خاص جماعت سے کسی شخص کا تعلق رکھنا اس کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بننے سے روک نہیں سکتا۔ بشرطیکہ اس میں دوسری قابلیتیں اور مسلمان قوم کے لئے ہمدردی موجود ہو اگر مذہبی اعتقادات اور فرقہ بندی کی رو سے ایسی ذمہ داری کے منصب تقسیم کئے جانے لگے تو یہ مسلمانوں کی انتہائی بدقسمتی ہو گی کیونکہ مسلمان قوم کے ۷۲ فرقے ہی اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایک فرقہ تمام دوسرے فرقوں کی مخالفت کرے گا اور نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں نکلے گا کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے اور فائدہ دوسری قومیں اٹھائیں گی۔
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی مذہبیت کا توازن دوسرے لیڈروں کی مذہبیت سے کرنا نامناسب ہوگا کیونکہ ایسا کرنے سے کئی ایک مقتدر مسلمان لیڈروں کے متعلق بھی بعض ناگوار باتیں کرنی پڑیں گی۔ پس اس بحث کو یہاں ہی ختم کرتے ہوئے ہم سندھ کے مسلمانوں کی طرف سے ہندوستان کے وائسرائے کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ سر فضل حسین کی جگہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا تقرر ہندوستان کے عام مسلمانوں کے لئے پسندیدگی کا باعث ہو گا<۔۴۵۸
اخبار >قومیت< اردو کا آرٹیکل
اخبار >قومیت< لاہور نے >آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب کی جانشینی کا مسئلہ۔ مولوی ظفر علی خاں صاحب کا لغو اور بے ہودہ پروپیگنڈا< کے عنوانوں سے ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل نوٹ لکھا۔
>وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل سے میاں سر فضل حسین صاحب عنقریب ریٹائر ہو رہے ہیں اور سرکای حلقوں میں یہ خبر بڑے وثوق سے بیان کی جاتی ہے کہ ان کی جگہ حکومت چودھری ظفر اللہ خاں بیرسٹرایٹ لاء کا تقرر عمل میں لانے والی ہے جو موجودہ حالت میں ان کے نزدیک ہر طرح سے قابل و موزون ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب موصوف کی رائے بھی چودھری صاحب ہی کے حق میں ہے مسلمانان ہند کے سمجھدار طبقہ نے بحیثیت مجموعی حکومت کے اس ارادہ کو بنظر استحسان دیکھا ہے لیکن مولوی ظفر علی خاں ہیں کہ وہ اپنی دیرینہ ذاتی عداوت کی وجہ سے جو فرقہ احمدیہ سے ہے اس معاملہ کو بلاوجہ مذہبی عقائد کا رنگ دے کر نہایت لغو اور شرمناک پروپیگنڈا سے >زمیندار< کے کالم کے کالم سیاہ کر رہے ہیں۔ ایک طرف مولوی صاحب اپنی مخالفت کی وجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ چونکہ چودھری ظفر اللہ خاں قادیانی عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کا تقرر مولوی صاحب کی سمجھ کے مطابق صحیح نہیں لیکن دوسری طرف مسلمانوں کے ذمہ دار لیڈروں اور ان کی سب سے بڑی جماعتوں آل انڈیا مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ نے اس تقرر کو موزوں قرار دیتے ہوئے چودھری صاحب پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے مولوی ظفر علی خان کا اپنی وجہ مخالفت میں یہ دلیل پیش کرنا کہ چودھری صاحب قادیانی ہیں اور اس لئے وہ وائسرائے کے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر نہیں ہو سکتے۔ نہایت بے معنی اور لغو ہے اور اس سے مولوی صاحب کی ذاتی پر خاش کے سوا اور کچھ بھی مترشح نہیں ہوتا۔ تعجب ہے کہ مولوی صاحب نے دلیل مذکور پیش کرتے وقت اتنا بھی نہیں سوچا کہ ایگزیکٹو کونسلر کے فرائض منصبی میں آخر وہ کونسی شق ہے جس کے مطابق چودھری صاحب موصوف قادیانی عقائد کے پیروئوں کو فائدہ اور غیر قادیانیوں کو نقصان پہنچا سکیں گے؟ کیا ایگزیکٹو کونسلر کو مسلمانوں کے امور شرعیہ میں کسی وقت مخل ہونے کا حق حاصل ہے جو مولوی صاحب کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ چودھری صاحب زمام ایگزیکٹو کونسلری ہاتھ میں لیتے ہی سوائے قادیانی عقیدہ کے دیگر تمام عقیدوں کو سرزمین ہند سے مٹا دیں گے۔ کیا مولوی صاحب زمانہ ماسبق کی کوئی ایسی نظیر پیش کر سکتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ جس عقیدہ اور مذہب کا شخص ایگزیکٹو کونسلری پر فائز ہوا اس نے اپنے ہم عقیدہ والوں کے سوا باقی تمام کے دائرہ حیات کو تنگ کر دیا تھا اور حکومت نے اس کے ایسے فعل پر اپنی منظوری ثبت کر دی ہو۔ کیا مولوی صاحب کوئی ایسی مثال دے سکتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ فلاں موقعہ پر جب چودھری ظفر اللہ خان مسلمانوں کی ترجمانی کے لئے سرکاری یا غیر سرکاری طور پر منتخب کئے گئے تو انہوں نے صرف اپنے ہم عقیدہ والوں ہی کی ترجمانی کی ہو؟ کیا مولوی صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ ایام میں جب چودھری صاحب عارضی طور پر ایگزیکٹو کونسلر مقرر ہوئے تو انہوں نے کوئی ایسا کام کیا جس سے غیر قادیانیوں کو نقصان پہنچا ہو؟ پس جب ان تمام باتوں کا مولوی صاحب کے پاس کوئی معقول جواب نہیں اور یقیناً نہیں ہے جو حقیقت میں مخالفت کا جواز ہو سکتی ہے تو پھر مسلمان مولوی صاحب کی مخالفت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے اور جو کسی حالت میں بھی قومی و ملی نظریہ کے مطابق مناسب نہیں بلکہ ذاتیات کی بدترین تنگ نظری کا مظاہرہ ہے۔۴۵۹
مزید برآں ہر مسلمان جس نے مولوی صاحب کی زندگی کا عمیق نظروں سے مطالعہ کیا ہے وہ خوب سمجھتا ہے کہ اس شخص کی متلون مزاجی اور قدم قدم پر متضاد حکمت عملی نے مسلم قوم کو بحیثیت مجموعی سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی کسی اہم ذمہ دار سیاسی نمائندہ جماعت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قوم کے تمام ذمہ دار نمائندے ان کی رائے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی کسی معاملہ میں نہ ان کی رائے طلب کی ہے اور نہ ہی ان کے نظریہ کو قومی و ملی مفاد کے لئے بہتر قرار دیا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ چودھری ظفر اللہ خاں ایک فرقہ احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں جس طرح دوسرے مسلمان کسی نہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مختلف اسلامی فرقوں کا ایک دوسرے سے شدید اختلاف ہے اور علماء آئے دن ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے رہتے ہیں۔ مولوی ظفر علی خاں کو معلوم ہو گا کہ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے کہ اہلحدیثوں نے گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ یا تو ہمیں علیحدہ نیابت دی جائے یا مخلوط انتخاب ہو کیونکہ وہ اپنا نمائندہ ایک غیر مسلم کو بنا سکتے ہیں لیکن حنفی مسلمان کو بدعتی اور مشرک سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سے شیعہ حضرات کا مطالبہ بھی ایک سے زائد مرتبہ اسی قسم کا ہو چکا ہے لیکن آج تک اس فرقہ کی طرف سے جس کو مولوی ظفر علی خاں اپنی نظر میں مسلمان ہی نہیں سمجھتے کبھی ایسا مطالبہ نہیں ہوا بلکہ اس امر کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جب کبھی بھی کوئی معاملہ اسلامی مفاد عامہ کے متعلق دنیا کے سامنے آیا اس فرقہ کے مسلمانوں نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اتحاد کا ثبوت دیا ہے۔ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی ذات کو ہی لے لیجئے ۱۹۲۷ء میں چودھری صاحب موصوف ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب کے ساتھ لنڈن گئے اور انہوں نے خاص طور پر وزیر ہند اور دیگر برطانوی مدبرین پر ہندوستان میں مسلمانوں کی حق تلفی واضح کی۔ سائمن کمیشن` گول میز کانفرنس اور جائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے اجلاسوں میں ان کی شمولیت سے مسلمانوں کو خاص فائدہ پہنچا۔ آپ جداگانہ انتخاب کے خاص حامی ہیں۔ مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے ہمیشہ ہم نوا رہے ہیں۔ ان کی قابلیت اور سیاسی فہم و فراست مسلمہ ہے۔ ان کا سیاسی مطمح وہی ہے جو مسلمانوں کے تمام ذمہ دار نمائندوں کا ہے۔ حال ہی میں وزیر ہند سر سیموئیل ہور نے ان کی مدبرانہ حکمت عملی اور قابلیت کا بجا طور پر اعتراف کیا ہے علاوہ ازیں گزشتہ ایام میں چوہدری صاحب موصوف عارضی طور پر ایگریکٹو کونسلری کے فرائض بوجہ احسن سرانجام دے چکے ہیں۔ ان حالات میں اگر گورنمنٹ کی نظر میں میاں سر فضل حسین صاحب کے صحیح اور موزوں جانشین چودھری صاحب ہی ہو سکتے ہیں تو مولوی ظفر علی خاں کا بے ہودہ پروپیگنڈا کرکے مسلمانوں کی قوم کو گمراہ کرنا بدترین اخلاقی جرم ہے۔ مولوی ظفر علی خاں جو ہمیشہ جمہور کے نظریہ سے اختلاف رکھ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنانے کے عادی ہیں اگر ان کی اس دلیل پر کہ چوھدری صاحب موصوف قادیانی ہیں حکومت کسی عہدہ کی تقرری کے لئے عقیدہ کا معیار مقرر کر دے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ قابل اور موزوں اشخاص کا انتخاب نہ ہو سکے گا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ میاں سر فضل حسین صاحب حنفی عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں اور جب ان کی تقرری پر مسلمانوں کی غیر حنفی جماعتوں نے اعتراض نہ کیا تھا تو اب چوہدری صاحب کی تقرری پر مولوی ظفر علی خاں کا یہ اعتراض کرنا کہ وہ قادیانی ہیں کسی حالت میں بھی جائز اور مستحن نہیں ہو سکتا ماسوا اس کے کہ مولوی صاحب نے حسب عادت مسلمانوں میں جو آگے ہی افتراق اور تفریق کی بدولت اپنی طاقت کو زائل کرکے چہار اطراف سے تنزل وادبار میں گھر چکے ہیں۔ مزید افتراق و تفریق کا فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ تباہ حالی کا اگر کوئی باعث ہوا ہے تو وہ ان کی اپنی ہی فرقہ بندی اور تفریق و تقسیم ہے۔ ~}~
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
پس مسلمانوں کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ مولوی صاحب کی فتنہ پردازی پر نفرت و حقارت کا اظہار کرتے ہوئے اور نہیں تو کم از کم اپنے سیاسی حقوق و مفاد ہی کے استحکام کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جایا کریں۔ تا اغیار کی گہری سازشوں کا بخوبی مقابلہ ہو سکے<۔۴۶۰
اخبار >عزیز ہند< کا اداریہ
اخبار >عزیز ہند< جھانسی کے ایڈیٹر خان صاحب محمد رفیق صاحب نے اپنے ۲۸/ ستمبر کے اخبار میں لکھا کہ۔
>پچھلے مہینہ ڈیڑھ مہینہ سے اخبارات میں اس بات پر بڑے زور شور کے ساتھ بحث ہو رہی ہے کہ سر فضل حسین کا جو کہ عنقریب ریٹائر ہورہے ہیں جانشین کون ہے؟ باخبر حلقوں میں اس امر کا یقین ہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء اس عہدہ پر ممتاز کئے جائیں گے مسلمانوں میں ¶بدنصیبی سے یہ عادت ہو گئی ہے کہ کسی ہونہار آدمی کو بڑھتا ہوا دیکھ نہیں سکتے اور اپنے ہم قوم کی ترقی کو ہمیشہ روکنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہی قصہ اس وقت بھی درپیش ہے اور چند مسلمانوں نے یہ بانگ بے ہنگام اٹھائی ہے کہ ظفر اللہ خاں صاحب احمدی ہیں اس لئے مسلمانوں کے قائم مقام نہیں سمجھے جا سکتے۔
اس سے زیادہ لغو اور احمقانہ تحریک آج تک ہم نے نہیں سنی اس عہدے پر شیعہ` سنی پابند مذہب اور لا مذہب سب ہی رہ چکے ہیں اس وقت کسی نے بھی شکایت نہیں کی۔ اب چونکہ بعض خود مطلب امیدوار اپنے فائدہ کی غرض سے کوشاں ہیں اور چند بے عقل مسلمانوں کو آمادہ کرکے ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف شور و غل مچانا چاہتے ہیں۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی قابلیت معاملہ فہمی اور اسلامی ہمدردی روز روشن کی طرح مشہور ہے اور یہ امر کہ میاں سر فضل حسین صاحب ان کے حامی ہیں اس بات کی ضمانت ہے کہ ان سے زیادہ کوئی مسلمانوں کا ہمدرد نہیں ہو سکتا انگلستان میں ظفر اللہ خان صاحب نے جو خدمات انجام دی ہیں ان کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں مسلمانوں کو جو کچھ ملا ہے یہ سب ظفر اللہ خان` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں اور حافظ ہدایت حسین کی بدولت ہے۔ ایسے شخص کی مخالفت انتہائی احسان فراموشی ہے اور ہر سمجھدار مسلمان جس قدر اس احسان فراموشی کی مخالفت کرے کم ہے۔
یہ یاد رہے کہ گو اس بانگ بے ہنگام سے ظفر اللہ خان صاحب کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا لیکن غیر قوموں کو مسلمان پر ہنسی کا موقع مل جائے گا اور خود ظفر اللہ خاں کے دل میں اس کا ضرور افسوس ہو گا کہ جس قوم کی انہوں نے اس قدر جاں نثاری کے ساتھ خدمت کی اسی کے چند افراد ایسی احسان فراموشی کر رہے ہیں۔
ہم بھی نہایت ادب کے ساتھ ہز ایکسی لینسی لارڈ و لنگڈن اور سر سیموئیل ہور سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ایسی بے اصل مخالفت کی پروا نہ کریں اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے تقرر کا جلد اعلان فرما دیں ان سے بہتر سر فضل حسین صاحب کا کوئی جانشین نہیں ہو سکتا<۔۴۶۱
اخبار >سیاست< کا ایک مضمون
خواجہ غلام السبطین صاحب بی۔ اے منیجنگ ڈائرکٹر دواخانہ دہلی نے اخبار >سیاست< ۲/ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں لکھا۔
چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جاتی ہے تو کوئی بات ایسی نظر نہیں آتی کہ انہوں نے جمہور مسلمانان ہندوستان کی مسلمہ پالیسی کے خلاف کوئی بات کی ہو یا انہوں نے مسلمانوں کے سیاسی مفاد کو نقصان پہنچایا۔ حکومت اپنے مصالح یا سرکاری عہدوں کی تقسیم مسلمان فرقوں کی آپس کی مذہبی رقابت یا عداوت کے ماتحت نہیں کر سکتی جبکہ ان سب فرقوں کا مطمح نظر ایک ہو اور کسی سیاسی معاملہ میں ان کا آپس میں تصادم نہ ہوتا ہو مجھ کو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ہے نہ ان کے مذہبی عقائد سے مجھ کو اتفاق ہے کیونکہ وہ ایک مرزائی ہیں اور میں شیعہ ہوں۔ مذہبی عقائد کے لحاظ سے مجھ میں اور ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے لیکن میں اصولاً اس رائے سے اختلاف رکھتا ہوں کہ کسی شخص کے تقرر کے خلاف محض اس بناء پر احتجاج کیا جائے کہ وہ ہمارے فرقہ سے نہیں۔ حالانکہ سیاسی لحاظ سے وہ ہمارا ہمنوا ہے اور ایک سے زیادہ موقعوں پردہ مسلمانوں کے حقوق کی ترجمانی کر چکا ہے اس قسم کی مخالفتوں کا اس کے سوا کوئی نتیجہ نہیں ہے کہ ہم اپنی کمزوری دوسروں کے سامنے ظاہر کرتے ہیں اور ان کو اپنے اوپر شیر کرتے ہیں<۔۴۶۲
اخبار >سیاست< کا اہم اداریہ
مولانا سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار >سیاست< نے ۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کے پرچہ میں لکھا۔
میں اور میرے ہم خیال جو کچھ کہتے ہیں وہ نہایت سادی بات ہے ہم کہتے ہیں کہ گول میز کانفرنس میں آغا خان کی طرح کے جو لوگ اسلام کے لئے مفید ثابت ہوئے وہ صحیح العقیدہ نہیں ہیں لیکن اختلاف عقیدہ کے باعث ان کی خدمات سے منہ موڑ لینا اور ان کی جگہ لینے کے لئے کوئی قابل آدمی پیش نہ کرنا ملت کے مفاد کو کند چھری سے ذبح کرنے کے مصداق ہے اسمبلی اور کونسلوں میں جو مسلمان بزرگوار ملت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کو اگر عقائد کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ان میں سے ایک فیصدی بھی ایسے نہ نکلیں گے جو اس لحاظ سے قابل قبول ہوں۔ نیز اس اصول کو قبول کر لینے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جس مسلمان کو بھی ایسا اثر و رسوخ حاصل ہو گا جو ملت کے لئے مفید ہو سکے وہ لازماً عقیدۃ" کسی ایک گروہ ملت سے متعلق ہو گا۔ لہذا ۷۲ آراء اس کے خلاف بلند ہوں گی اور یوں مسلمانوں میں سے کسی لیڈر کے بارسوخ و مفید ہونے کا تمام امکان مٹ جائے گا اور مسلمانوں میں عقیدوں کی جو جنگ موجود ہے وہ مساجد کو برباد کرنے کے بعد اب سیاسیات کے میدان کو بھی آلودہ کرکے خراب کر دے گی۔ پس عقیدہ کی بناء پر ظفر اللہ خاں یا کسی دوسرے مسلمان کی مخالفت کرنا پرلے درجہ کی نادانی ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ ظفر اللہ خاں کسی عہدہ کے امیدوار نہیں ہیں ہاں ان کو اگر کوئی منصب ملا اور انہوں نے سمجھا کہ وہ اس منصب کو قبول کرکے مسلمانوں کی خدمت کر سکیں گے تو وہ اس کو قبول کر لیں گے۔ ان حالات میں ایسے صاحب ایثار کی مخالفت کرنا پرلے درجہ کی اندوہناک جسارت ہے جو مفاد ملت کے لئے بے حد مضر ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں اس قابل نہیں کہ وہ سر فضل حسین کے جانشین ہوں یا ان کو تجربہ کافی نہیں ہے یا دوسرے امیدواروں سے افضل نہیں۔ تو یہ طریق مخالفت جائز ہو گا لیکن عقیدہ کی بناء پر ان کی مخالفت کرنا پرلے درجہ کی غلطی ہے جس کا ارتکاب چودھری صاحب سے کہیں زیادہ ملت کے لئے خوفناک ثابت ہو گا۔
چودھری صاحب بارہا مسلمانوں کی طرف سے پنجاب کونسل میں نمائندہ بن کر آئے۔ ایک دفعہ ان کو یہ اعزاز بلامقابلہ نصیب ہوا۔ کونسل کے اندر مسلمانوں کے عام مفاد کی نمائندگی کرتے رہے سائمن کمیشن میں انہوں نے مسلم نمائندہ کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ سر فضل حسین کی جگہ پر عارضی طور پر مقرر ہوئے اور گول میز کانفرنس میں مسلم نمائندہ کی حیثیت سے لئے گئے۔ ان تمام مواقع پر کوئی آواز ان کے خلاف بلند نہیں ہوئی لہذا اب ان کے خلاف اس آواز کا بلند ہونا صاف بتا رہا ہے کہ ع۔ کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں۔ لیکن معاملہ کے اس پہلو کے متعلق فی الحال زیادہ عرض کرنا مناسب نہیں ۔۔۔۔۔ چودھری صاحب نے جہاں جہاں بھی مسلمانوں کی خدمت کی وہاں ہمیشہ مفاد ملت کا خیال رکھا کسی موقعہ پر ان کے کسی بدترین دشمن کو بھی یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ انہوں نے قادیانیت کو مفاد اسلام پر ترجیح دی۔ انہوں نے لنڈن میں اپنا اور مسلمانوں کا نام روشن کیا۔ سر آغا خاں اور دوسرے مسلمان ان کی قابلیت` محنت` جانفشانی اور مفاد اسلام کے لئے ان کی عرق ریزی کے مداح رہے لہذا عقیدہ کی بناء پر اس وقت ان کی مخالفت کرنا پرلے درجے کی احسان ناشناسی ہے جو اسلام کو کبھی گوارا نہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ چودھری صاحب کا اصول یہ ہے کہ وہ کسی منصب یا عہدہ کے لئے حکومت کے سامنے دست سوال دراز نہ کریں گے اس لئے کسی شخص کو یہ جرات نہیں ہوسکی کہ وہ ان کو کسی منصب کا امیدوار سمجھ کر ان کی تائید کرے۔ لیکن میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ گزشتہ خدمات` قابلیت` محنت` مفاد اسلام کے لئے عرقریزی اور مسلم مطالبات کی دیانتدارانہ تائید کے لحاط سے چودھری صاحب بفضلہ تعالیٰ سر میاں فضل حسین صاحب کے جانشین ہونے کے اہل ہیں اور اگرچہ ۸ کروڑ مسلمانان ہند میں اور لوگ بھی اس اہلیت کے مالک ہیں تاہم اگر حکومت نے انتخاب کا قرعہ فال چودھری صاحب کے نام پر نکالا تو ۸ کروڑ مسلمانان ہند کی ۹ ء۹۹ فیصدی تعداد کو مسرت ہو گی<۔۴۶۳
رسالہ >شاہکار< کا شذرہ
مندرجہ بالا بیانات چودھری صاحب کے تقرر سے پہلے کے ہیں اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ سرکاری اعلان کے بعد مسلمانوں کے سنجیدہ باوقار اور محب قوم طبقہ نے کس رائے کا اظہار کیا۔ اس ضمن میں بطور مثال پروفیسر احسان اللہ خاں صاحب تاجور نجیب آبادی کا ایک بیان ملاحظہ ہو جو انہوں نے اپنے مشہور رسالہ >شاہکار< اپریل ۱۹۳۵ء میں شائع کیا تھا۔
علامہ تاجور نے لکھا۔
>احمدی ہے یا غیر احمدی! مسلمان ہے یا کافر مجھے اس سے بحث نہیں کیونکہ میں مفتی مذہب کی حیثیت نہیں رکھتا۔ البتہ بحیثیت ایک انسان کے میں نے ظفر اللہ خاں کو ایک قابل قدر انسان پایا ہے کم و بیش اٹھارہ سال سے میں اسے جاننے کی طرح جانتا ہوں۔ مجھے ایماندارانہ اعتراف ہے کہ میں نے ظفر اللہ خاں میں انسانیت کی بہت سی خوبیاں دیکھی ہیں۔ میرے مذہبی خیالات احمدی عقائد سے بہت مختلف ہیں میں احمدی نہیں ہوں۔ دیو بند کی جامعہ اسلامیہ میرا گہوارا تربیت ہے دیو بند اور قادیان میں جس قدر بعد مسافت حائل ہے اس سے زیادہ ان مقامات کی مذہبی جماعتوں میں اختلاف عقائد ہے لیکن کسی سے عقیدہ کا اختلاف رکھنے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اس کی ذاتی خوبیوں کا بھی انکار کر دیا جائے میں ایک غیر احمدی ہونے کے باوجود چودھری ظفر اللہ خاں کی ممتاز صفات سے انکار نہیں کر سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس نے احمدی ہونے کا بہت نقصان اٹھایا ہے ورنہ ظفر اللہ خاں ایسی گراں مایہ شخصیت کا مالک ہے جس پر کوئی قوم کوئی ملک اور کسی ملک کی آئندہ نسلیں فخر کر سکتی ہیں سیموئیل ہور کا یہ کہہ دینا معمولی سی بات نہیں کہ >آج تک انگلستان میں جتنے بھی ہندوستانی آئے ہیں ظفر اللہ خان اپنی قابلیت میں ان سب سے ممتاز ہے<۔
گول میز کانفرنس کی کارکن کمیٹیوں میں ظفر اللہ خاں کی قانونی قابلیت نکتہ دانی اور آئین سازی کے جوہر دیکھ کر رائٹ آنریبل سری نواس شاستری جیسے جوہر شناس کا یہ کہنا بے انتہا اہمیت رکھتا ہے کہ >اگر آپ برا نہ مانیں تو عرض کروں کہ آپ کے کمال قابلیت کو دیکھ کر میرے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو گئی ہے<۔
مولانا ابوالکلام صاحب کے استفسار پر مسز سروجنی نیڈو کا یہ ارشاد بھی کچھ معنیٰ رکھتا ہے کہ >گول میز کانفرنس میں ہندوستان کے کیس کو سب سے بہتر طریقے پر چوہدری ظفر اللہ خاں نے پیش کیا اور ان کے بعد سوامی مدلیار نے<۔
عجیب واقعہ ہے کہ غیر مسلم طبقوں میں چودھری ظفر اللہ خاں متعصب سمجھے جاتے ہیں لیکن جو لوگ ان کے خیالات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ظفر اللہ خاں اور تعصب ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے البتہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو غضب ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور بالکل اسی طرح دوسروں کے حقوق کا فراخدلانہ اعتراف اور ان میں عدم مداخلت کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ظفر اللہ خاں کے منہ سے میں نے کبھی غیر معقول بات نہیں سنی وہ نہایت ذہین` فطین اور متین ہونے کے ساتھ ہی اعلیٰ درجہ کی معقولیت پسند بھی ہیں مجھے ان کی کوئی خوشامد نہیں لیکن ان کی انسانیت اور خدا پرستی کا میں دل سے معترف ہوں<۔]01 [p۴۶۴
اخبار >ڈیلی گزٹ< کراچی کا مضمون
اخبار >ڈیلی گزٹ< کراچی )۴/ مئی ۱۹۳۵ء( نے لکھا۔ >آنریبل چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے چارج لینے سے پہلے اور بعد مسلمانوں کے سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں میں اس خطرناک مخالفت کے اثرات زیر بحث ہیں جو پنجاب کے بعض غیر ذمہ دار مسلمانوں کی طرف سے آپ کے تقرر کے خلاف کی جارہی ہے اور ان کی طرف سے اب یہ تجویز ہے کہ احرار اور ان کی قسم کے دوسرے مسلمانوں کو مسلم سرکردہ لیڈر یہ امر اچھی طرح ذہن نشین کرا دیں کہ جناب چوہدری صاحب مسلمانوں کے اسی قسم کے صحیح نمائندے ہیں جس طرح کوئی اور مسلم لیڈر ہو سکتا ہے نیز یہ کہ وہ ان لوگوں کو ان بد نتائج سے متنبہ کریں جو انہیں اس مسلم ممبر کی مخالفت کے سلسلہ کو جاری رکھنے سے بحیثیت قوم برداشت کرنے پڑیں گے۔
ایسے سرکاری اور غیر سرکاری مسلم لیڈر اس امر کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتے کہ جناب چوہدری صاحب کی محض اس وجہ سے مخالفت کی جائے کہ وہ نہ سنی ہیں اور نہ ہی شیعہ اور کہ وہ ایک ایسے فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے اور یہ کہ چونکہ مسلمانوں کا کثیر حصہ احمدی نہیں اس لئے وہ مسلمانوں کے نمائندے تصور نہیں کئے جا سکتے۔ حالانکہ سرکردہ لیڈروں کے نزدیک چودھری صاحب ویسے ہی مسلمان ہیں جس طرح کوئی دوسرا مسلمان ہو سکتا ہے۔ گویا یہ لوگ چودھری صاحب کے خلاف ایسے کمینہ حملوں کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ احرار اور دیگر مخالفین کی توجہ ان عظیم الشان خدمات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو چودھری صاحب موصوف گول میز کانفرنس میں مسلم قوم کی خاطر بجا لائے اور انہوں نے ہزہائی نس سر آغا خان جیسی جلیل القدر شخصیت سے خراج تحسین حاصل کیا۔
جناب چوہدری صاحب کے حامیوں۴۶۵ کے لئے جو بات سب سے زیادہ حیرت انگیز ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب تک چوہدری صاحب پنجاب لیجلیٹو کونسل کے ممبر رہ کر ایک اہم مسلم حصہ کی نمائندگی کرتے رہے اس وقت تک ان لوگوں میں سے جو آج کل ان کے خلاف شورش برپا کر رہے ہیں کسی ایک نے بھی آپ پر کبھی کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا اور یہ لوگ انہیں اپنے صوبہ میں باقاعدہ مسلم نمائندہ قرار دیتے رہے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں پنجاب کے اردو اخبارات میں احرار نے اس بناء پر مخالفت شروع کر رکھی ہے کہ چودھری صاحب اپنے ماتحت محکموں میں ملازم بھرتی کرتے ہوئے ایسے مسلمانوں کو ترجیح دیا کریں گے جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہوں شملہ کے مسلمان افسر احرار کی ایسی ناپسندیدہ حرکات کو نہایت بری نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اس امر کو باور نہیں کر سکتے کہ چودھری صاحب جنہوں نے کبھی احمدیوں اور غیر احمدیوں میں تفریق نہیں کی اب ایسے فعل کے مرتکب ہوں۔
جہاں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب اس تمام مخالفت کو جو پنجاب میں ان کے خلاف تحریراً یا تقریراً کی جارہی ہے اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں وہاں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا تعلیم یافتہ طبقہ اس امر کو محسوس کر رہا ہے کہ احرار اور ان کے ہمنوائوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرا دی جائے کہ باوجود ان کی اندھا دھند مخالفت کے چودھری صاحب موصوف پر اکثریت کا اعتماد ہے اور وہ انہیں وائسرائے کی کونسل میں مسلمانوں کا حقیقی نمائندہ سمجھتے ہیں<۔۴۶۶
اردو کے بعض مایہ ناز ادیبوں اور صحافیوں کا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے خصوصی تعلق
مسلمان ایک فاتح کی حیثیت سے اس برصغیر میں فارسی زبان ساتھ لائے تھے پھر یہاں کے رہنے سہنے اور اختلاط و ارتباط سے خود بخود اردو زبان بن گئی جس کی تعمیر و ارتقاء میں ہندوئوں اور
مسلمانوں کا برابر کا حصہ تھا۔ مگر افسوس ہندو مسلم اتحاد کی اس بہترین یادگار کے بارے میں کانگریسی لیڈر گاندھی جی نے کہا۔
>اردو مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے مسلمان بادشاہوں نے اسے اپنے زمانہ حکومت میں بنایا اور پھلایا تھا<۔۴۶۷
یہ نظریہ تنہا گاندھی جی کا نہیں تھا بلکہ کانگریس کے اکثر متعصب لیڈر در پردہ اسی کے حامی تھے یہی وجہ ہے کہ جب بعد کو کانگریسی وزارتوں کا قیام عمل میں آیا تو کانگریس نے باقاعدہ ایک مستقبل محاذ اردو کے خلاف قائم کر لیا اور گاندھی جی کی اختراع کی ہوئی >ہندوستانی< زبان کو فروغ دینے کے لئے زبردست مہم چلائی گئی۔ اور اس کے لئے سرکاری سطح پر بھی کوششیں کی گئیں۔
غرض ملک میں یہ ایک لسانی کشمکش تھی جو سیاسی حقوق کی جنگ کے متوازی جاری تھی اور ہندو عناصر اس کوشش میں مصروف تھے کہ مسلمانوں کو ایک ایسی زبان سے محروم کر دیں جو ملکی تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہونے کے علاوہ ان کی مذہبی اور اخلاقی روایات کی بھی امین اور محافظ ہے۔
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< کے گزشتہ واقعات سے واضح ہے اس معاملہ میں جماعت احمدیہ کی ہمدردی شروع ہی سے اردو کے ساتھ تھی کیونکہ اس کا مذہبی لٹریچر زیادہ تر اسی زبان میں تھا اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس نظریہ کا اظہار فرمایا تھا کہ اردو زبان اس زمانہ میں تکمیل اشاعت اسلام کا بہترین ذریعہ ثابت ہونے والی ہے چنانچہ حضورؑ نے اپنی کتاب >تحفہ گولڑویہ< میں تحریر فرمایا۔
>حسب منطوق آیت قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ آنحضرت~صل۱~ کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوئوں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی۔ آنحضرت~صل۱~ کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ~صل۱~ ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کے لئے بدل و جان سرگرم ہیں۔ آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کافہ ناس کے لئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت پھیلا سکتے ہیں<۔۴۶۸
اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو یقین کامل تھا کہ >چونکہ اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عربی کے بعد اردو میں الہام زیادہ کثرت سے ہوا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت )وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ الخ ہود ناقل( کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ زبان ہندوستان کی اردو ہو گی اور دوسری کوئی زبان اس کے مقابل پر نہیں ٹھہر سکے گی<۔۴۶۹
اردو زبان سے اس والہانہ تعلق اور گہرے ربط ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو اردو کی خدمت کرنے والوں سے بہت محبت تھی۔ دوسری جانب ملک کے ادبی حلقوں میں بھی آپ خاص وقعت و عظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور بلند پایہ اردو ادیب اور صحافی آپ سے مراسلت کرنا اور ملاقات کرنا اپنے لئے موجب فخر سمجھتے تھے چنانچہ مولانا شوکت علی` مولانا محمد علی جوہر` شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی` مولانا سید حبیب مدیر >سیاست`< مولانا غلام رسول صاحب مہر` مولانا عبدالمجید سالک مدیر انقلاب` سید عبدالقادر صاحب ایم۔ اے پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور` علامہ احسان اللہ خاں تاجور` سید عبدالقدوس صاحب ہاشمی ندوی ایم۔ اے مدیر رسالہ >ندیم< گیا` علامہ منشی عاشق حسین` ۔۔۔۔۔ سیمات اکبر آبادی` جناب منشی محمد عمر شوکت تھانوی` مرزا فرحت اللہ بیگ` منشی محمد الدین فوق مورخ کشمیر` انیس احمد عباسی ایڈیٹر >حقیقت< لکنھئو` حکیم محمد یوسف حسن ایڈیٹر >نیرنگ خیال< لاہور` مولانا صلاح الدین احمد صاحب )مدیر ادبی دنیا( وقار انبالوی` خان بہادر میرزا عبدالرحمن چغتائی` سید ابو ظفر نازش رضوی سے آپ کے مراسم بھی تھے اور خط و کتابت بھی۔ اور ان میں سے اکثر اصحاب کو قادیان میں آنے اور آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنے کا فخر بھی حاصل تھا۔ ذیل میں بطور نمونہ ہم اردو کے بعض نامور ادیبوں کے چند خطوط درج کرتے ہیں جو انہوں نے حضور کی خدمت میں لکھے جن سے یہ اندازہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اردو نوازی کی بدولت قادیان کی بستی ادیبوں کی توجہ کا بھی مرکز بنتی جارہی تھی۔
مولانا شوکت علی کا مکتوب مورخہ ۱۶/ جولائی ۱۹۳۰ء
شملہ ۱۹۳۰ء/۷~/~ ۱۶
مخدومی و مکرمی جناب حضرت صاحب! السلام علیکم
اس شب کو مکان پر پہنچ کر جناب کا خط اور اس میں ۔/۲۵۰ کے نوٹ ملے۔ مجھ پر اس کا بے انتہا اثر ہوا۔ خاص کر اس وجہ سے کہ اعتراض کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں اور ہمت بڑھانے والے کم۔ میں اس رقم کو نہایت درجہ شکریہ کے ساتھ قبول کرتا ہوں اور ہمارے سب شرکاء کار بھی ضرور مشکور ہوں گے اور خوش بھی۔ جمعیت خلافت میرے سفر کے مصارف کی کفیل ہے اس کو اس امداد سے سہولت ہو گی۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔ آپ کا نیازمند
شوکت علی خادم کعبہ۔
سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی ایم اے کا مکتوب
دفتر رسالہ >ندیم< گیا
مورخہ ۹ ماہ اپریل ۱۹۳۱ء
محترم و معظم ادام اللہ سرورکم سلام و رحمت
میں جناب سے پہلی بار شرف مخاطبت حاصل کرتا ہوں۔ امید کہ جناب والا شرف باریابی سے مشرف فرمائیں گے۔ میں نے جناب کی اسکیم رسالہ >ادبی دنیا< کے مارچ نمبر میں دیکھی۔ اردو۴۷۰ رسالہ کیونکر زبان کی خدمت کر سکتے ہیں؟ اس سکیم کو میں نے کئی بار پڑھا مجھے یہ تحریک بہت پسند آئی۔
جناب والا کو غالباً معلوم ہوگا کہ بہار سے اس وقت اردو کا کوئی رسالہ نہیں جاری ہے۔ گیا میں چند باذوق اور دولت مند تاجروں۴۷۱ نے ایک لمیٹڈ سرمایہ سے ادبی رسالہ جاری کرنے والے ہیں۔ رسالہ کا نام >ندیم< ہو گا۔ ۷۲ صفحہ پر ہر ماہ نکلا کرے گا- مئی ۱۹۳۱ء میں اس کا پہلا پرچہ حاضر خدمت ہو گا۔
مجھے اس رسالہ کی ادارت کے لئے بلایا گیا۔ میں جناب والا کی اسکیم کو بروئے کار لانا چاہتا ہوں اور میں انشاء اللہ ابتدائی دقتیں برداشت کرلوں گا۔ میں حضور کا بہت شکر گزار اگر اس بارے میں مجھے اور گرانقدر مشورہ اور طریق کار کی فہمائش سے سرفراز فرمایا جائے۔ میں عریضہ کے جواب کا انتظار کروں گا۔ والسلام
عریضہ ادب۔ سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی )ایم۔ اے(
مدیر رسالہ >ندیم< گیا۔
علامہ احسان اللہ خاں تاجور کا مکتوب مورخہ ۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء
حامداً و مصلیاً
محترمی قبلہ جناب میاں صاحب دام بالمجد والعلیٰ۔
سلام مسنون! اپنی گراں مایہ مصروفیتوں میں در انداز ہونے کی اجازت مرحمت فرمائیے۔ گزارش یہ ہے کہ ادبی دنیا تو لاہور کی سازشی فضا کے سر صدقے ہو گیا۔ خیال تھا کہ اب اردو مجھ پر رحم کرے گی مگر حالات کے استبداد نے ایک جدید علمی رسالے کی اشاعت پر مجبور کیا ہے اس رسالے کا پہلا نمبر زیر ترتیب ہے >علمی دنیا< اس کا نام ہو گا میں چاہتا ہوں کہ جناب کوئی مضمون اس نمبر کے لئے عنایت فرما دیں تو تبرکاً شائع کر دوں۔ میں نے اس رسالے میں ایک مستقبل سرخی بزم تحقیق کی رکھی ہے اس عنوان کے تحت اردو زبان و ادب کے متعلق بحث طلب مسائل پر اہل الرائے سے استصواب رائے کیا جائے گا۔ پہلا سوال جو پہلے نمبر میں زیر بحث آئے گا یہ ہے۔
سوال جدید تہذیب کے ساتھ جو نئے نئے الفاظ و محاورات غیر ملکی و ملکی زبانوں کے معاشرت میں استعمال ہو رہے ہیں اردو عبارات میں ان کے استعمال کا معیار کیا ہے؟ اور جدید الفاظ کی تذکیر و تانیث کن اصول پر ہونی چاہئے؟ اس سوال پر روشنی ڈالنے کی زحمت گوارا فرمائیں تو بحث میں وقعت پیدا ہو جائے گی۔ جناب ہی کی تحریک و ہدایت پر یہ سرخی قائم کی گئی ہے۔
خدا کرے جناب کی صحت و فرصت میری گزارش کی پذیرائی میں حائل نہ ہو جائے۔ حد ادب
والسلام
تاجور۔ دفتر اخبار >پریم< محلہ مزنگ لاہور
سیدنا نے اپنے قلم سے اس خط پر اپنے دفتر کو ہدایت فرمائی کہ
>محفوظ۔ لکھیں اللہ تعالیٰ کامیاب کرے۔ میں ضرور مضمون لکھ دوں گا۔ بشرطیکہ پچیس اکتوبر کے بعد چاہئے ہو کیونکہ اس وقت مجھے بالکل فرصت ہوگی۔ اطلاع ملنے پر لکھنا شروع کردوں گا انشاء اللہ<۔
علامہ منشی عاشق حسین صاحب سیماب اکبر آبادی کا مکتوب۔15] [p مورخہ ۸/ مئی ۱۹۳۵ء
حضور محترم! السلام علیکم
یہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ میں ایک سال سے اذن حاضری طلب کر رہا ہوں۔ اور یہ مجھے یاد ہے کہ میری تمنا ہر مرتبہ ٹھکرا دی گئی ہے جس کا کچھ نہ کچھ سبب ضرور تھا۔ پیمانہ` تاج اور شاعر کے ذریعے میں آپ سے متعارف ہو چکا ہوں اور اب اتنا بیگانہ نہیں رہا ہوں کہ آپ میری شخصیت نہ سمجھ سکیں بار بار اجازت حاضری طلب کرنے کا مدعا بجز اس کے کچھ نہیں کہ ادبی پیرائے میں آپ کی کوئی خدمت کر سکوں اور آپ سے استعانت کرکے آگرہ کے ادبی سکول کی بقاء و احیاء کا انتظام کروں۔ آج ایک عرصہ کے بعد یہ عریضہ پھر ارسال خدمت کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ حضور والا آخر مئی تک کوئی تاریخ میری حاضری کے لئے مقرر فرما کر مجھے اطلاع دیں گے میں اس عنایت کے لئے آپ کا ہمیشہ ممنون و شاکر رہوں گا۔
طالب جواب عقید تمند
سیماب اکبر آبادی
حضور نے اس خط پر یہ نوٹ دیا۔ >لکھیں ہر دفعہ ہی ایسا اتفاق ہوا کہ میں یا بیمار تھا یا باہر۔ اب بھی ایسا ہوا۔ ڈلہوزی سے آکر سات ماہ قادیان رہا اس عرصہ میں آپ کا خط نہیں آیا۔ اب میں اس خط کو محفوظ رکھوں گا اور قادیان میں قیام کے وقت کی فوراً آپ کو اطلاع کر دوں گا تاکہ آپ تشریف لا سکیں۔ گو ادبی ادارہ میں میں سمجھ نہیں سکا کہ کس طرح مفید ہو سکتا ہوں۔ مگر بہرحال آپ کی ملاقات سے مجھے خوشی ہو گی<۔
مولانا سید حبیب صاحب مدیر >سیاست< کے مکتوبات
)۱( مخدومی الاکرم سلام علیکم طبتم
آپ کو مبارک ہو میں آج آزاد کر دیا گیا ہوں البتہ مزید کام کرنے کی صورت میں تنبیہہ بھی کر دی گئی ہے آپ کے احسانات کے بارگراں سے سبکدوش ہونا خارج از امکان ہے تشکر سے میرا دل لبریز ہے دعائیں کرتا ہوں چاہتا ہوں کہ آپ سے جلد ملوں۔ فرمائیں کیا حکم ہے۔
والسلام
آپ کا حبیب
)محررہ ۲۱/ ستمبر ۱۹۳۵ء(
۲۔ مخدوم محترم سلام علیکم طبتم۔ بعض احباب کی رائے ہے کہ سیاست کے منسلکہ مقالات کے نشان زدہ حﷺ کا ترجمہ اگر ڈیلی ہیرلڈ جیسے صحائف برطانیہ میں شائع ہو تو خوب ہو مجھے آپ کے سوا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اگر ممکن اور مناسب ہو تو یہ کام کر دیں۔ ورنہ کاغذات ملفوفہ واپس کر دیں۔ والسلام
آپ کا حبیب
)محررہ ۱۵/ مئی ۱۹۳۶ء(
۳۔ محسن بندہ۔ السلام علیکم۔ میں جناب والا کی قدم بوسی کا متمنی ہوں۔ اطلاع دے کر مرہون منت فرمائیں کہ آں محترم مجھے کس روز کہاں مل سکیں گے احسان ہو گا۔ والسلام آپ کا حبیب۔ )محررہ ۲۴/ دسمبر ۱۹۳۷ء(
منشی محمد عمر شوکت تھانوی کا مکتوب مورخہ )۱۱/ اگست ۱۹۳۷ء(
>حضرت سیدی و مولائی! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ آج برادر محترم مولوی محمد عثمان صاحب احمدی کے توسل سے مبلغ یکصد روپیہ جو آنحضور کا عطیہ ہے وصول پایا۔ اس شفقت بزرگانہ کا اگر میں مستحق ہوں تو شکریہ ایک مہمل سی رسم ہے اور اگر مستحق نہیں ہوں تو شکر یہ سوائے تصنع کے اور کیا ہو سکتا ہے بہرحال میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بزرگی اور خوردی کے یہی تعلقات ہو سکتے ہیں جو آنحضور اور اس کفش بردار کے درمیان ہیں۔ بیٹا باپ کی سرپرستی کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ لہذا میں بھی شکریہ کو درمیان میں لا کر بے گانگی کو اس طرح نشوونما دینا نہیں چاہتا۔ البتہ یہ جانتا ہوں کہ کوئی خرید رہا ہے اور کوئی بک رہا ہے مجھ جنس ارزاں کی آپ نے قیمت برھائی تو یہ بھی کہنے دیجئے کہ ع۔ نرخ بالا کن کہ ار زانی ہنوز
کفش برادر
شوکت تھانوی ۱۱/ اگست ۱۹۳۷ء<
مولانا عبدالمجید سالک کا مکتوب مورخہ ۲۰/ اپریل ۱۹۳۸ء
>محترمی حضرت قبلہ۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ
جتنی ساعتیں میں نے قادیان میں گزاریں۔ آپ کی برکت سے بے حد مسرت و اطمینان سے بسر ہوئیں۔ مولوی عبدالوہاب عمر۔ عبدالعزیز خاں صاحب۔ شاکر صاحب نے میری مدارات میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ افسوس ہے کہ میں بوقت رخصت آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکا۔ اس لئے کہ آپ مجلس شوریٰ میں مصروف تھے۔
مہر صاحب کی طرف سے سلام مسنون۔ عبدالمجید سالک
مولانا صلاح الدین احمد کا مکتوب
>محترمی و مکرمی ملک صاحب۴۷۲ السلام علیکم
ہارن بذریعہ ریلوے پارسل ارسال کر دیا گیا ہے۔ بلٹی ملفوف ہے۔ خدا کرے کہ آپ کو وقت پر مل جائے۔
میں اور میرے رفیق عاشق حسین صاحب۴۷۳ آپ کے محبت بھرے سلوک اور قادیان میں اپنے مختصر لیکن نہایت خوش آئند قیام کی یاد کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔
قبلہ حضرت میاں صاحب نے جس توجہ سے ہماری گزارشات کو سنا اور جس ایثار سے کام لے کر اپنے اوقات گرامی کا ایک معقول حصہ ہمیں باریاب فرمانے میں صرف کیا۔ ہم ان نوازشات کی یاد اپنے دلوں میں ہمیشہ تازہ پائیں گے حضرت صاحب کی خدمت میں ہمارا سلام نیاز پہنچا دیجئے۔
عبدالرحمن صاحب کی خدمت میں سلام علیکم۔
خاکسار صلاح الدین احمد<۔
خان بہادر میرزا عبدالرحمن چغتائی کا مکتوب
>محترم معظم قبلہ حضرت میاں صاحب بہادر بزرگوار
السلام علیکم۔ آپ کی خدمت اقدس میں یہ میرا تیسرا خط ہے اور یہ خط محض اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اگر کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معافی چاہوں۔ میری نیت نہایت نیک تھی اور لکھنے کی جرات عقیدت و احترام تھا۔ آپ جیسے وسیع الاخلاق اور روشن خیال انسان سے ایسی امید نہ کی جائے تو کہاں رسائی ہو۔
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔
آپ کا نیاز مند۔ والسلام
عبدالرحمن چغتائی لاہور<۔
اردو ادیبوں کے خطوط کے چربے
حضرت میر مہدی حسین صاحب کا سفر ایران اور حضرت امیر المومنینؓ کی زریں ہدایات
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ ۲۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو آنریری مبلغ کی حیثیت سے ایران تشریف لے گئے اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے قلم سے انہیں
مندرجہ ذیل ہدایات لکھ کر عطا فرمائیں۔ جو ہر مبلغ اسلام کے لئے شمع ہدایت ہیں۔
>مکرمی سید مہدی حسین صاحب۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`
آپ نے ایران جانے کا ارادہ کیا ہے اللہ تعالیٰ اس ارادہ کو پورا فرما کر اس کے نیک نتائج پیدا کرے۔ اس موقعہ پر میں چند امور کی طرف آپ کو توجہ دلاتا ہوں۔
۱۔
آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی ہے اور اس لئے آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے کام خدا تعالیٰ کے فضل سے ہیں اور صرف اس کی مدد ہمارے کام بنا سکتی ہے۔ پس تبلیغ سے زیادہ ہمارا زور دعائوں پر ہونا چاہئے۔
۲۔
بہترین تبلیغ اچھا نمونہ ہے جب خدا تعالیٰ کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو اس کے عمل میں برکت دیتا ہے اور لوگ اس کے نور سے خود بخود مرعوب ہونے لگتے ہیں۔
۳۔
تبلیغ میں ہمیشہ نرمی اور استقلال کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ ایک طرف تو دوسروں کے احساسات کا پورا پاس ہو ان کی محبت ہر لفظ سے ظاہر ہوتی ہو۔ لیکن دوسری طرف سچائی کے بیان کرنے میں بالکل بے خوفی کا اظہار ہو۔
۴۔
حضرت مسیح ناصریؑ نے ایک بہت اچھی نصیحت فرمائی ہے کہ جس جگہ کجی دیکھو اس قصبہ کی خاک تک جھاڑ کر چلے جائو۔ بعض لوگ حق کو قبول کرنے میں سابق ہوتے ہیں۔ ہمیشہ ایسے آدمیوں کی تلاش میں رہنا چاہئے اور ضدی لوگوں کو بعد میں آنے والوں کے لئے چھوڑ دینا چاہئے۔
۵۔
جماعت آبادان اور دوسری جماعتوں سے وقتاً فوقتا مشورہ لیتے رہا کریں کہ مشورہ کے کام میں برکت ہوتی ہے۔
۶۔
اپنے حالات سے ہر مرحلہ پر اطلاع دیتے رہیں کہ اس طرح دعا کی بھی تحریک ہوتی ہے اور دل کو بھی تسلی رہتی ہے۔ جب کوئی دوست باہر جاتا ہے تو ہزاروں مخلصوں کے دل اس کی فکر میں اندر ہی اندر گھلے جاتے ہیں۔ سچے مومن ایک دوسرے کے اعضاء ہوتے ہیں اور جب کوئی عضو الگ ہو تو ضرور تکلیف ہوتی ہے۔ پس جب تک خبر رسانی کے ذریعہ سے اطلاع حالات رہے دل تسلی پاتے رہتے ہیں۔ ورنہ تکلیف پاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے ارادہ میں برکت دے۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
مکرر یاد رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت وقت کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے ایران میں آپ اس حکومت کے تابع ہوں گے۔ پس حکومت کے قانون کی پابندی کا خیال رہے۔
خاکسار مرزا محمود احمد
مکتوب مبارک سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ
بنام حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ
عکس
سید عبدالباسط صاحب )ابن سید میر مہدی حسین صاحب( اس تبیلغی سفر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔ >حضرت والد صاحب قبلہ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں برائے اعلائے کلمتہ اللہ ایران کے لئے روانہ ہوئے۔ پاسپورٹ وغیرہ بنوا چکنے کے بعد خدا تعالیٰ نے کرائے وغیرہ کے سامان بھی خود ہی پیدا کر دیئے قادیان سے ظہر کی نماز مسجد مبارک میں ادا کرنے کے بعد ساڑھے تین بجے کی گاڑی سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے بٹالہ میں گاڑی تبدیل کرنی پڑی اور رات لاہور بڑے بھائی محترم سید عبدالغفور صاحب عطاء کے پاس پہنچ گئے۔ دوسرے دن آپ کراچی کے لئے روانہ ہوئے۔ کراچی جاکر معلوم ہوا کہ پاسپورٹ میں کچھ نقص رہ گیا ہے۔ مزید تصاویر بھجوانے کے لئے آپ نے مجھے قادیان خط لکھا۔ مگر اسی اثناء میں آپ کے ہاتھ پر اگزیما کی قسم کی پھنسیاں نکل آئیں۔ جن کے علاج کے لئے آپ کو قریباً ایک ماہ کراچی قیام کرنا پڑا۔ کراچی سے آپ ایران کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ نے بتایا کہ جب آپ ایران کی بندرگاہ آباد ان پر اترے تو وہاں احمدی احباب استقبال کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان سے تحریک جدید کے اعلان کی اطلاع ملی۔ یہ پہلا اعلان تھا۔ آپ کے پاس اس وقت صرف ۔/۴۹ روپے باقی تھے۔ وہ سب کے سب آپ نے سیکرٹری مال کو دے دیئے کہ آپ کی طرف سے تحریک جدید کے لئے حضور خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کر دیئے جائیں۔
آپ وہاں احمدی احباب کے ساتھ رہے۔ مگر آپ کی تبلیغ کو دوسرے لوگ پسند نہ کرتے تھے اور جماعت کے دوستوں پر زور دیتے تھے کہ تبلیغ بند کی جائے۔ چنانچہ مقامی احباب نے مرکز میں بھی لکھا اور آپ کی واپسی کے احکامات منگوا لئے۔ آپ نے مقامی احباب سے کہہ دیا کہ آپ مجھے یہاں سے واپس بھجوا رہے ہیں میں واپس جا کر دوبارہ آزادانہ طور پر آنے کی کوشش کروں گا۔ مگر اس عرصہ میں آپ کی نظر بہت ہی کمزور ہو چکی تھی اور سہارے کے سوا چلنا مشکل ہو گیا تھا۔ قادیان واپس آکر جب حضرت امیر المومنینؓ کی خدمت میں اجازت کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے آنکھوں کے علاج کی ہدایت فرمائی چنانچہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحبؓ ریٹائرڈ سول سرجن نے حضرت میر محمد اسحٰق صاحب ناظر ضیافت اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہانپوری کی مدد سے آپ کو نور ہسپتال میں لے جاکر آنکھوں کا کامیاب اپریشن کر دیا۔ الل¶ہ تعالیٰ نے بینائی واپس کر دی تو پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ حضور کے ارشاد کی تعمیل ہو چکی ہے۔ آنکھوں کا علاج ہو چکا ہے۔ اب ایران جانے کی اجازت دیں مگر حضورؓ چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں قادیان میں موجود رہیں۔ چنانچہ حضور نے قادیان میں ہی قیام کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس طرح آپ دوبارہ ایران تشریف نہ لے جا سکے۔
پرانے کاغذات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ۱۲/ مئی ۱۹۳۵ء کو کراچی واپس پہنچ گئے اور دو ایک دن کراچی میں قیام کرنے کے بعد آپ لاہور ہوتے ہوئے قادیان تشریف لے آئے تھے۔ اس طرح آپ کی واپسی مئی ۱۹۳۵ء کے آخری ہفتہ میں قادیان میں ثابت ہوتی ہے۔
ایران میں قیام کے زمانہ کے حالات آپ نے ہمیں بہت کم سنائے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کا بڑا موقعہ دیا۔ مختلف گورنروں اور بڑے بڑے حکام سے بے دھڑک ملتا تھا اور ان کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتا تھا چونکہ آپ احمدیت قبول کرنے سے قبل شیعہ مذہب میں تھے اس لئے آپ کو مرثئے بھی بہت سے حفظ تھے اور آواز بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بلند اور سریلی تھی اسی طرح بڑی روانی سے فارسی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے میل ملاقات میں آپ کو بڑی سہولت ہوتی تھی<۔۴۷۴
تحریک احمدیت کے ذریعہ سے پادریوں کی شکست فاش کا اعتراف
اس سال دہلی سے برصغیر کے مشہور تاجر کتب مولوی نور محمد صاحب نقشبندی قادری چشتی مالک کارخانہ تجارت کتب دہلی نے حضرت شاہ رفیع الدین رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے دو ترجموں والا >معجزنما کلاں قرآن شریف< شائع کیا۔ جس کے دیباچہ مین تسلیم کیا کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی اور ہندوستان کو عیسائی بنانے کی سازش عقیدہ وفات مسیحؑ کے ذریعہ سے بالکل ناکام بنا دی چنانچہ انہوں نے لکھا۔
>اسی زمانہ میں پادری لفرائے پادریوں کی ایک بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنا لوں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا اسلام کی سیرت و احکام پر جو اس کا حملہ ہوا تو وہ ناکام ثابت ہوا کیونکہ احکام اسلام و سیرت رسول~صل۱~ اور احکام انبیاء بنی اسرائیل اور ان کی سیرت جن پر اس کا ایمان تھا یکساں تھے پس الزامی و نقلی و عقلی جوابوں سے ہار گیا۔ مگر حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا۔ تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لیفرائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰؑ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسیٰؑ کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں۔ پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو۔ اس ترکیب سے اس نے لفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی<۔۴۷۵
افسوس ۱۹۳۴ء کے بعد >معجز نما کلاں قرآن شریف< کے دیباچہ سے وہ پورا باب جس میں مندرجہ بالا عبارت درج تھی بالکل حذف کر دیا گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
جلیل القدر صحابہ اور بعض دوسرے بزرگوں کا وصال
اس فصل کے خاتمہ پر اب ان بزرگوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو ۱۹۳۴ء میں داغ مفارقت دے گئے۔
۱۔
محی الدین صاحب مالا باریؓ )مالا بار کے سب سے پہلے احمدی( حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۵/ جنوری ۱۹۳۴ء کو ان کی نماز جنازہ سے قبل فرمایا۔ >پرانے احمدی تھے مالا بار میں احمدیت ان کے ذریعہ ہی قائم ہوئی ہے ان کے بچے بھی یہیں پڑھے جن میں سے ایک کی تو زندگی وقف ہے اور گو دوسرے دینوی کام کرتے ہیں مگر مخلص نوجوان ہیں<۔4] fts[۴۷۶
۲۔
عبدالکریم صاحبؓ آف یادگیر )حیدر آباد دکن( ۵/ جنوری ہی کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی نسبت فرمایا۔ >دوسرا جنازہ عبدالکریم صاحب کا ہے۔ عام قانون کے ماتحت میں ان ہی کا جنازہ پڑھتا ہوں جو یا تو جماعت کے خاص کارکن ہوں یا پرانے احمدی اور حضرت مسیح موعودؑ کے وقت خدمات کرچکے ہوں یا جن کا جنازہ پڑھنے والا کوئی احمدی نہ ہو لیکن ان صاحب کا اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ معجزہ تھے۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کو باولے کتے نے کاٹا اور کسولی سے علاج کرانے کے بعد حملہ ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے شفا یاب ہوئے۔۴۷۷
۳۔
اسی روز حضور نے چودھری غلام حسین صاحبؓ کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور فرمایا >آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں احمدی ہوئے۔ بہت مخلص تھے مگر بعد میں غیر مبائع ہو گئے تھے۔
آخری عمر میں ان کو توجہ ہوئی تھی اور مجھے لکھا تھا کہ دعا کریں۔ اگر آپ کی بیعت ہی میں ہدایت ہے تو اللہ تعالیٰ میرے نصیب کرے اور مجھ پر حق کھول دے۔ کتابیں پڑھتے اور تحقیقات کر رہے تھے کہ فوت ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے غیر مبائع جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں خدمت کی ہے اگر اب انہوں نے ہتک نہ کی ہو تو ہمارا فرض ہے کہ حضورؑ کی طرف سے ان کی خدمت کا آخری بدلہ جنازہ پڑھ کر دیں۔ اس پر کئی لوگ مجھ پر ناراض بھی ہوئے ہیں۔ مگر اس بارے میں میرا نفس اس قدر مطمئن ہے کہ میں کسی کی ناراضگی کی پروا نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں ہمارے دل بغض سے پاک ہونے چاہئیں۔ زندگی میں ہم ان سے دلائل سے لڑیں گے۔ لیکن ان کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ سے یہی کہیں گے کہ یہ تیرے مسیح پر ایمان لائے تھے۔ ہمیں جو تکلیف ان سے پہنچی ہے وہ معاف کرتے اور تیرے حضور ان کے لئے مغفرت کی درخواست کرتے ہیں۔ خواجہ کمال الدین صاحب کی وفات پر بھی میں نے ایسا کیا تھا۔ خلافت کا انکار تو اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر ان کی وفات کی خبر سنتے ہی میں نے ان کے لئے دعا کی اور کہا کہ میں اپنی تکالیف معاف کرتا ہوں اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف کر دے۔ مرنے کے بعد ایسی بات کو دل میں رکھنا بہت ہی ادنیٰ سمجھتا ہوں<۔۴۷۸
]in [tag۴۔
اسی سال حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ مبلغ ملکانہ کی وفات ہوئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۸/ جون ۱۹۳۴ء کے خطبہ جمعہ میں خاص طور پر ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>مولوی جلال الدین صاحبؓ جو کھریپڑ ضلع فیروزپور کے رہنے والے تھے اور ملکانوں میں تبلیغ کے لئے مین پوری رہتے تھے۔ فوت ہو گئے ہیں وہ پرانے اور نہایت مخلص احمدی تھے۔ میں دیر سے انہیں جانتا ہوں۔ یہ تو میں۴۷۹ نہیں کہہ سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں آئے یا بعد لیکن حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ سے میرے ان سے تعلقات تھے میرا ۲۷ سالہ تجربہ ہے کہ میں نے ان کے چہرہ پر کبھی اصامت کے آثار نہیں دیکھے۔ ہمیشہ خوش نظر آتے کئی دفعہ وہ اپنے معاملات پیش کرتے اور انہیں ایسا مشورہ دینا پڑتا جو ان کے خاندان کے خلاف ہوتا مگر وہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے سنتے اور ہنستے ہوئے کہتے کہ اچھا یہ بات ہے اور کبھی کسی بات پر برا نہ مناتے انہیں تبلیغ کا جنون تھا۔ مین پوری سے جو احمدی آتے بلکہ بعض اوقات وہاں سے غیر احمدی بھی آتے وہ بتاتے کہ ان کے تقویٰ و طہارت کا اس علاقہ میں گہرا اثر ہے۔ جس طرح ان کی وفات ہوئی۔ وہ بھی اپنے اندر شہادت کا رنگ رکھتی ہے۔ سخت گرمی کے دن ہیں وہ ایک جگہ تبلیغ کے لئے گئے اور یہ گوارا نہ کیا کہ تمام دن وہیں گزاریں۔ لوگوں نے بھی کہا کہ گرمی بہت ہے یہیں ٹھہر جائیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ نہیں دوسری جگہ جا کر بھی تبلیغ کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ چلے گئے اور رستہ میں سن سٹروک جسے ضربتہ الشمس کہتے ہیں ہو گیا اور بے ہوشی میں کسی گوردوارے کے سامنے جاگرے اور فوت ہو گئے۔ لوگوں نے پولیس والوں کو بلایا۔ وہ بھی آپ کو پہچانتے تھے تو یہ موت بھی شہادت کی موت ہے<۔۴۸۰
ان بزرگ ہستیوں کے علاوہ مندرجہ ذیل صحابہؓ کی وفات بھی اسی سال ہوئی۔ حضرت بابو عزیز الدین صاحب سیالکوٹیؓ۴۸۱ )تاریخ وفات ۹/ مئی ۱۹۳۴ء(۔ حضرت حکیم محمد عبداللہ صاحبؓ ماچھیواڑہ ضلع لدھیانہ۴۸۲ )؟( حضرت مستری قطب الدین صاحبؓ بھیروی۴۸۳۔ حضرت ملک نور الدین صاحبؓ۴۸۴ )تاریخ وفات ۳۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء( حضرت حکیم محمد الدین صاحبؓ آف گوجرانوالہ )تاریخ وفات ۱۰/ نومبر ۱۹۳۴ء(۴۸۵ حضرت صوفی کرم الٰہی صاحب آف لاہور )تاریخ وفات ۱۶/ دسمبر ۱۹۳۴ء( حضرت صوفی صاحب کا نام ضمیمہ >انجام آتھم< کی فہرست ۳۱۳ اصحاب کبار میں ۲۹۰ نمبر پر درج ہے۔
خواتین میں سے حضرت خان بہادر نواب محمد الدین صاحب )ممبر کونسل آف سٹیٹ و ریونیو ممبر ریاست جے پور( کی اہلیہ۴۸۶ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی اہلیہ۴۸۷]ydbo [tag اور سیٹھ محمد سعید صاحب عرب کی اہلیہ۴۸۸ بھی اسی سال وفات پا گئیں۔ موخر الذکر حضرت علامہ مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی بیٹی تھیں۔
tav.7.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
پہلا باب )فصل سیز دھم(
دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کا قیام
مشرقی افریقہ کا اسلامی عہد اقتدار
حصول آزادی سے قبل )جو پچھلے چند سالوں میں ہوئی( برطانوی مشرقی افریقہ چار علاقوں پر مشتمل تھا۔
۱۔ کینیا کالونی ۲۔ یوگنڈا ۳۔ ٹانگا نیکا ۴۔ زنجبار۴۸۹
یوں تو زمانہ قدیم سے عرب کا مشرقی افریقہ کے ساحلی علاقوں سے تجارتی تعلق رہا ہے۔ لیکن ظہور اسلام کے بعد پہلے سے زیادہ تعداد میں عربوں نے یہاں آنا شروع کیا۔ اب ان کے پیش نظر تجارت کے ساتھ تبلیغ اسلام بھی تھی۔ اس کے علاوہ خلیج فارس سے ملحق ملکوں کے مسلمان باشندوں نے بھی حسب سابق اپنی آمد جاری رکھی اور چھوٹے چھوٹے جزیروں میں مستقل طور پر اپنی تجارتی کوٹھیاں اور آبادیاں قائم کر لیں اور وہ سمندر کے کنارے بعض قصبات میں آباد ہو گئے۔ انہوں نے اصل باشندوں کی )جو سیام فام اور BANTU نسل سے تھے( عورتوں سے شادیاں کرنا شروع کر دیں۔ ان سے جو بچے پیدا ہوئے انہیں سوا حیلی کہا جانے لگا۔ اس عرصہ میں اہل عرب و فارس نے جن کی اکثریت شافعی مسلک کی تھی۔ پورے طور پر فروغ حاصل کر لیا اور افریقہ کے مشرقی ساحل سے لے کر جنوب تک ان کا تسلط قائم ہو گیا جو چار پانچ سو سال تک رہا اور آج بھی ان کے عہد اقتدار کے اثرات پرانے کھنڈروں` عمارتوں اور اصل باشندوں کے لباس اور ان کی زبان سے ظاہر ہیں۔
عیسائی مشنوں کی یورش
چار پانچ صدیوں کا زمانہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ اگر اس مدت دراز میں اشاعت اسلام کی منظم جدوجہد کی جاتی تو پورا مشرقی افریقہ مسلمان ہوتا اور عیسائیوں کو یہاں قدم رکھنے کی جرات نہ ہوتی۔ مگر اس زمانے کے مسلمانوں نے تبلیغی جہاد سے بے اعتنائی برتی اور مشرقی افریقہ کی وسیع اسلامی حکومت سمٹ کر زنجبار کی مختصر سی برائے نام ریاست میں محدود ہو گئی اور ہر جگہ عیسائی پادریوں نے اپنا وسیع جال پھیلا دیا۔
چنانچہ ۱۸۴۰ء میں مسلم اکثریت کے علاقہ میں عیسائی مشن قائم ہوا۔ جس نے افریقہ کے اصل باشندوں میں پورے زور کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ تعلیمی و طبی ادارے اور یتیم خانے قائم کئے اور خدمت خلق کے مختلف قسم کے کام سر انجام دینے کے علاوہ تبلیغ کے ذریعہ سے اس طرح عیسائیت کی اشاعت کی کہ بیسویں صدی کے پہلے اڑتیس انتالیس برسوں میں پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک کی اٹھارہ سوسائٹیوں کی زبردست جدوجہد کے نتیجہ میں افریقن آبادی کا دسواں حصہ عیسائیت کی آغوش میں چلا گیا اور جہاں مسلمانوں کی کثرت تھی یا ہے وہاں اردگرد کے علاقہ میں عیسائی مشن نے سکول وغیرہ کھول کر یہ کوشش کی کہ کینیا کالونی کے جس تھوڑے سے حصہ میں اسلام ہے وہاں سے بھی وہ رخصت کر دیا جائے۔ چنانچہ ۳۹۔ ۱۹۳۸ء کے قریب عیسائیوں نے IN DAY NEW <A KENYA> کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں لکھا۔
DECADENT LARGELY BEEN HAS KENYA IN MOHAMMEDANISM THAT FACT ><THE۔NEGLECTED BE SHOULD IT PROFESSING THOSE WHY REASON NO IS APETHETIC AND
صفحہ ۱۳۲ زیر عنوان PROBLEM MUSLEM (THE
یعنی یہ حقیقت کہ مذہب اسلام کینیا میں بہت حد تک زوال پذیر ہو رہا ہے اس امر کی وجہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگ جو اپنے تئیں اسلام کی طرف منسوب کر رہے ہیں نظر انداز کر دیئے گئے جائیں اور انہیں عیسائیت کی تبلیغ نہ کی جائے۔ نیز لکھا۔
THE SEIZE CHURCH CHRISTIAN THE WILL BUT ۔CROSSROAD THE AT TODAY IS 133ISLAM ۔P >OPPORTUNITY
یعنی اسلام تو اب دم توڑ رہا ہے لیکن کیا عیسائیت اس موقعہ سے فائدہ اٹھائے گی اور اسے بھی پورے طور پر اپنے قبضہ میں کرے گی؟
زنجبار جو مشرقی افریقہ کی اسلامی سلطنت کا مرکز رہا ہے سب سے زیادہ عیسائیت کے نرغہ میں گھر گیا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ اسلام کے خلاف سب سے زیادہ لٹریچر یہیں سے شائع ہونے لگا۔ حتیٰ کہ یہاں سے سواحیلی میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔ جس سے اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کا وسیع دروازہ کھل گیا۔ زنجبار میں یونیورسٹیز مشن نے ہیڈ کوار قائم کر لیا اور اس کے زیر انتظام بہت بڑا سکول پریس اور کتب خانہ کھل گیا۔ یہاں سواحیلی اور عرب باشندوں میں اگرچہ عیسائیت نہیں پھیلی۔ لیکن ان کے تمدن و تہذیب کو مغربیت کا جامہ پہنا کر انہیں ذلیل بنا دیا گیا۔
یوگنڈا میں عیسائی مشنریوں نے اپنا کام ۱۸۶۲ء میں شروع کیا اور پچھتر سال کے اندر اندر عیسائیوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ حد یہ ہے کہ مسلمانوں نے جو صدیوں تک حکمران رہے پادریوں کو تو ہر قسم کے آرام پہنچائے اور سہولتیں مہیا کیں لیکن خود تبلیغ اسلام کے لئے کوئی خاص جدوجہد نہ کی اس پر مصیبت یہ کہ عربوں نے غلاموں کی تجارت سے بہت برا اثر ڈالا۔ کہتے ہیں کہ I MUTESA KING نے ایک بار عربوں اور عیسائی پادریوں کو اپنے دربار میں بلایا۔ یہ شخص لامذہب تھا لیکن اسلام کی طرف مائل تھا اس کے کسی سوال پر عربوں نے کہا کہ انسانوں کو پکڑنا اور فروخت کرنا جائز ہے مگر پادریوں نے اسی سوال کا یہ جواب دیا کہ ہم تمام انسان خدا کے بیٹے ہیں اور وہ ہم سب کا باپ ہے یہ بات سن کر بادشاہ اپنے درباریوں سمیت اسلام سے بدظن ہو گیا اور اس کے وزیر عیسائی ہو گئے ازاں بعد ملک میں عیسائی حکومت قائم ہو گئی چنانچہ WA DAUDICH SIR جو ۱۹۳۸ء میں تخت حکومت پر متمکن تھا عیسائی تھا۔
سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ اس علاقہ میں جو تھوڑے بہت مسلمان رہ گئے وہ بھی یہ سمجھنے لگے کہ جب عربوں نے غلاموں کی تجارت کی تو اسلام اس کی اجازت دیتا ہو گا۔ اس طرح اسلام اور غلامی مترادف الفاظ بن گئے۔ جو آئندہ چل کر اشاعت اسلام کی کوشش میں بری طرح رخنہ انداز ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
ٹانگا نیکا ایک بہت بڑا علاقہ ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریزوں کے قبضہ میں آگیا اور پھر اس میں عیسائی مشنوں کا دبائو یہاں تک بڑھ گیا کہ )۱۹۳۸ء تک( بائیس رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مشن مختلف ممالک کی طرف سے قائم ہو چکے تھے جن کے ماتحت ۲۴۵ اہم مراکز تھے اور بارہ سو غیر ملکی مشنری کام کر رہے تھے ان مشنوں کے قریباً پانچ ہزار مختلف قسم کے سکول کھل چکے تھے۔ ہسپتال اور ڈسپنسریاں مزید برآں تھیں۔ مسیحیت کے فروغ و اشاعت کے لئے کئی رسائل و اخبارات شائع ہوتے تھے اور ٹانگا نیکا کی مختلف ۳۳ زبانوں میں عیسائیت کا لٹریچر شائع ہو چکا تھا۔ اس تمام جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ساڑھے تین لاکھ کے قریب افریقن عیسائیت میں داخل ہو گئے۔۴۹۰
مشرقی افریقہ میں اشاعت احمدیت کی ابتدائی تاریخ
شروع ۱۸۹۶ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دو صحابی حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ اور حضرت میاں عبداللہ صاحبؓ نو مسلم یوگنڈا ریلوے میں بھرتی ہو کر کینیا کالونی کی بندرگاہ ممباسہ میں پہنچے۔ یہ سب سے پہلے احمدی تھے جنہوں نے مشرقی افریقہ کے ساحل پر قدم رکھا۔ اسی سال تھوڑے تھوڑے وقفہ سے حضرت ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خاں صاحبؓ گوڑیانوی )ملٹری میں( شیخ محمد بخش صاحبؓ ساکن کڑیانوالہ۴۹۱ ضلع گجرات )بعہدہ ہیڈ جمعداری( حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ جالندھری اور حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ ساکن تھہ غلام نبی متصل قادیان۔ حضرت حافظ محمد اسحٰق صاحبؓ اور ان کے بھائی میاں قطب الدین صاحب ساکن بھیرہ بھی یوگنڈا ریلوے کے ملازم کی حیثیت سے وارد ممباسہ ہوئے۔ اور مشرقی افریقہ میں پہلی احمدیہ جماعت کی داغ بیل پڑی۔
۱۸۹۶ء میں تشریف لے جانے والے صحابہ میں سے حضرت حافظ محمد اسحٰق صاحبؓ اور شیخ حامد علی صاحبؓ کو آب و ہوا کی ناموافقت یا بعض دوسرے ضروری اور نجی امور کی وجہ سے جلد واپس آنا پڑا۔ لیکن ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گوڑیانوی تین سال تک ملٹری میں رہے اور بڑی متانت اور حکمت کے ساتھ اپنے حلقہ میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کرتے رہے۔ فوج کے اکثر مسلمانوں نے ڈاکٹر صاحبؓ سے قرآن مجید پڑھا اور اپنا دینی علم بڑھایا بعضوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی خوابیں آئیں اور وہ بیعت سے مشرف ہوئے۔ جن میں سے بابو عمر الدین صاحب بھی تھے جنہوں نے ۷/ اکتوبر ۱۹۰۰ء کو کلنڈینی میں انتقال کیا۔۴۹۲ حضرت ڈاکٹر صاحب کے فیض صحبت سے ان کے ساتھ کام کرنے والے پانچ مسلمان ڈاکٹروں کو بھی شناخت حق کی توفیق ملی۔ اس ضمن میں اخبار الحکم ۲۹/ اکتوبر ۱۸۹۸ء میں مندرجہ ذیل خط درج ہے۔
یہاں ممباسہ اور مشرقی افریقہ کے گردونواح میں ایک شخص مبارک نامی بگڑا ہوا باغی سردار تھا یہ شخص سلطان زنجبار کے مشیروں میں سے تھا۔ مگر جب سلطان نے سلطنت برطانیہ سے کچھ عہد و پیمان کرکے ممباسہ جس میں بیٹھے ہم مضمون لکھ رہے ہیں کچھ عرصہ کے لئے انتظام ملکی وغیرہ کی خاطر صاحبان انگریزی کو دے دیا تو یہ شخص مبارک سلطان کا سخت دشمن ہو گیا اور ہر طرح اور ہر طرف سے سلطان زنجبار کو تنگ کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ہوتے ہوئے صاحبان انگریز کس طرح چین سے اس جزیرے میں نڈر بیٹھ سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی سرکوبی کے لئے )ایک فوجی کمپنی(۴۹۳4] f[rt یہاں آئی تھی ۔۔۔۔۔۔ یہ فوج اس شخص مبارک سے ۔۔۔۔۔۔۔ جنگلوں میں لڑی اور آخر کار ۔۔۔۔۔۔ ایک ایسے جنگل میں جا پڑی جہاں پانی کا نشان نہ ملتا تھا اور پانی کے نہ ملنے کی وجہ سے اس پر سخت مصیبت طاری ہوئی مگر اسی اثناء میں انہیں ایک باغیچہ ناریل کا مل گیا۔ جس سے انہوں نے اپنی بلب جانوں کو بچا لیا۔ مبارک ان کے مقابلہ کی تاب نہ لا سکا اور آخر کار جنگلوں میں بھاگ کر اپنے کئے کی پاداش بھوگ رہا ہے۔
اس فوج میں علاوہ مسلمان سپاہیوں کے ۶ ہاسپٹل اسسٹنٹ تھے جس میں سے ایک ہمارے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایدہ اللہ بنصرہ کے مخلص مرید ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب ساکن گوڑیانی تھے اور دوسرے پانچ صاحبان اول اول عدم واقفیت کی وجہ سے ہمارے مشن کی مخالفت کرتے رہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کے سینوں کو حق کی شناخت کے لئے کھولا اور ہر ایک نے نیاز نامہ حضرت اقدس کی خدمت میں مخلصانہ روا نہ کیا۔۴۹۴
اس کامیابی پر فوج کے بعض مسلمان افسروں نے یہ الزام لگایا کہ ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ برطانیہ کے خلاف اشتعال پھیلا رہے ہیں مگر جب اس کی رپورٹ کپتان تک گئی تو یہ بات غلط نکلی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کو مضافات ممباسہ کے علاوہ مشرقی افریقہ کی دوسری بندرگاہوں پر بھی جانا پڑا اور انہوں نے ہر جگہ سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کی۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ تین سال کے بعد اپنے وطن تشریف لے آئے مگر حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ اور حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ۴۹۵ برابر پانچ برس تک مخالفت کے باوجود اشاعت احمدیت میں مصروف رہے ان بزرگوں کے ذریعہ سے جو لوگ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے ان میں سب سے نمایاں اور ممتاز فرد حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب )آف رنمل ضلع گجرات( تھے۔ جنہوں نے قبول حق کے بعد اپنے اندر مثالی تبدیلی پیدا کی۔ احمدی ہونے کے بعد ان کی بہت مخالفت ہوئی مگر ان کے نیک نمونہ نے نہ صرف اپنے حقیقی بھائی حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحبؓ اور حضرت پیر برکت علی صاحبؓ کو سلسلہ احمدیہ سے منسلک کر دیا۔۴۹۶ بلکہ سیٹھ فتح دین صاحبؓ جہلمی۔ ڈاکٹر سلطان علی صاحبؓ اور ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ۴۹۷ )احمدی( آف گجرات اور کئی اور اصحاب آپ کے اثر سے حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے اور پھر ان کے ذریعہ سے احمدیت کا نور پھیلنا شروع ہوا۔ چنانچہ ڈاکٹر عبداللہ صاحب )احمدی( کی تبلیغ سے میرو (MERU) میں جونیر وبی سے دو سو میل کے فاصلہ پر ایک گائوں ہے قاسم منگیا نامی ایک میمن اپنے خاندان سمیت داخل سلسلہ ہوئے پھر رفتہ رفتہ مخلصین کی ایک جماعت پیدا ہو گئی جن میں سیٹھ عثمان یعقوب صاحب اور ان کے بڑے بھائی حاجی ایوب صاحب اور سیٹھ نور احمد صاحب` حاجی ابراہیم صاحب اور حاجی ایوب صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔۴۹۸
حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب ممباسہ کے کلنڈینی (KILINDINI) ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ یہ ہسپتال ان دنوں مشرقی افریقہ میں اشاعت احمدیت کا ایک مرکز بن گیا تھا جہاں جماعت کے باقاعدہ ہفتہ وار اجلاس ہوتے۔ قرآن مجید اور کتب حضرت مسیح موعودؑ کا درس دیا جاتا اور مسئلہ حیات و وفات مسیحؑ پر تقاریر کی جاتیں۔۴۹۹
حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ ۱۹۰۱ء کے شروع میں واپس ہندوستان تشریف لائے اور پھر سومالی لینڈ گئے۔ جہاں آپ فوجی خدمات بجا لارہے تھے کہ اٹھائیس برس کی عمر میں شہید کر دیئے گئے۔۵۰۰ )تاریخ شہادت ۱۰/ جنوری ۱۹۰۴ء(۵۰۱
کلنڈنی بندرگاہ )مشرقی افریقہ( میں مقیم اولین صحابی
بابو محمد افضل صاحب نے الحکم ۱۹/ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۵ پر حسب ذیل اعلان شائع کیا جس سے مشرقی افریقہ کے اولین صحابہ کے مبارک ناموں کی تفصیل کا بھی علم ہوتا ہے۔
جماعت افریقہ کی طرف سے اپنی جماعت میں سے افریقہ آنے والے اصحاب کے لئے ضروری نوٹس
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ!`
چونکہ بعض احباب اپنی جماعت و سلسلہ ملازمت میں یہاں ایسی صورت میں پہنچے کہ کلنڈنی بندرگاہ پر جہاں کہ ہر ایک گروہ ملازمین آمدہ از ہند کا ۳ دن ضرور قیام کیا کرتا ہے۔ اگرچہ حضرت اقدس کے خادمین مستقل طور پر خدمات یوگنڈا ریلوے پر متعین ہیں مگر تاہم عدم واقفیت کی وجہ سے نووارد احباب ان سے ملاقات نہ کر سکے اور جب وہ اپنی اپنی جگہ پر تبدیل ہو کر لائن پر چلے گئے تو پیچھے سے ان کو اس بات کا علم ہوا کہ ہمارے بھائی کلنڈنی میں بھی ہیں اور اس طرح سے ہم لوگوں کو جو بندر پر رہنے کی وجہ سے ان اصحاب کی زیارت کے اول حقدار تھے۔ ایک ایک اور دو دو ماہ کے بعد ان سے ملاقات نصیب ہوئی۔ لہذا آئندہ کی سہولت کے خیال سے ذیل میں ہم ایک فہرست اپنے تمام ممبران جماعت افریقہ کی درج کر دیتے ہیں تاکہ ہر ایک نووارد بھائی آتے ہی کسی ممبر جماعت سے مل کر ان تمام تکالیف سے امن میں رہے جو کہ اجنبیت کی حالت میں ایک مسافر کو پیش آسکتی ہیں۔ اور نیز بندر پر رہنے والے بھائیوں کو زیادہ انتظار اپنے نو وارد بھائیوں کی زیارت کا نہ کرنا پڑے حضرت اقدس کے ان خادمین کی فہرست جو کہ کلنڈنی بندر پر مستقل طور پر مقیم ہیں۔
۱۔
سید کرم حسین صاحب انچارج کول اشو کلرک کلنڈنی بندرویہ ہمارے بھائی ہمیشہ بندر کے کنارے پر ہی رہتے ہیں۔
۲۔
بابو رحمت علی صاحب سیپل اسسٹنٹ کلنڈنی ہسپتال۔ ساکن انمل ضلع گجرات۔
۳۔
سیٹھ احمد دین صاحب قصاب کلنڈنی بازار۔ ساکن جادہ ضلع جہلم۔
۴۔
خاکسار راقم الحروف محمد افضل کلنڈنی بازار ساکن قادیان۔
جماعت احمدیہ افریقہ کے کل باقی ممبران کی فہرست۔
۵۔
ہیڈ جمعدار صاحب محمد بخش ساکن کڑیانوالہ۔ کنسٹرکشن نمبر ۱۔ ڈویژن۔
۶۔
خواجہ احمد صاحب وارڈ مین کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ ساکن گجرات۔
۷۔
عظیم شاہ صاحب باورچی کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ داسوہہ۔
۸۔
حافظ الٰہی بخش صاحب وارڈ مین کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ سیالکوٹ۔
۹۔
میاں دین محمد صاحب مزدور کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ گوجرانوالہ۔
۱۰۔
شیخ فضل کریم صاحب عطاء جمعدار کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ سیالکوٹ۔
۱۱۔
سید محمد شاہ صاحب کلرک ٹیلیفون کلنڈنی بندر۔ ضلع جالندھر
۱۲۔
میاں بھولا ٹھیکیدار مینٹیننس ڈویژن ساکن جادہ ضلع جہلم۔
۱۳۔
میاں محمد ابراہیم اینڈ کو ٹھیکیدار مینٹیننس ڈویژن۔ پسرور ضلع سیالکوٹ
۱۴۔
حافظ محمد صاحب مینٹیننس ڈویژن۔ ساکن کوٹلہ ریمہ جہلم
۱۵۔
مستری نبی بخش صاحب سب انسپکٹر۔ کوٹ جادہ
۱۶۔
شیخ نور احمد صاحب ٹائم کیپر۔ جالندھر
۱۷۔
بابو محمد الدین صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ محکمہ ریلوے ٹرانسپورٹ۔ ساکن بٹالہ
۱۸۔
میاں محمد نادر خاں صاحب تھانہ دار سٹیشن کمہنیڈو۔ ضلع جہلم
۱۹۔
میاں محمد اسماعیل ٹائم کیپر پلیٹ لے انگ کڑیانوالہ۔
۲۰۔
میاں جواہر زرگر کلنڈنی بازار جہلم۔
۲۱۔
شیخ عنایت اللہ صاحب سٹور کیپر کلرک ہیڈ ڈویژن۔ لاہور۔
۲۲۔
حافظ محمد الیاس صاحب قاری فیض پوریہ جمعدار۔ فیض پور۔
۲۳۔
بابو رستم علی صاحب راشن سٹور کیپر مکہنیڈو۔ جالندھر۔
)راقم محمد افضل از کلنڈنی بلند ممباسہ۔ لائن سیٹھ احمد الدین صاحب قصاب ۶/ فروری ۱۸۹۹( )الحکم ۱۹/ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۵(
مشرقی افریقہ کے قدیم صحابہ کی ایک فہرست
مشرقی افریقہ میں تشریف لے جانے والے صحابہ کی تبلیغ سے احمدیت ترقی کرنے لگی اور پانچ سال کے عرصہ میں ۱۸۹۶ء سے لے کر ۱۹۰۱ء تک احمدیوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہو گئی جن کی فہرست الحکم ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ میں شائع شدہ ہے اور وہ یہ ہے۔
تفصیل بیعت کنندگان جنہوں نے افریقہ میں حضرت اقدس سے بیعت کی۔
۱۔ ڈاکٹر رحمت علی صاحب ضلع گجرات
۲۲۔ غلام قادر صاحب ڈریسر۔ گجرات
۲۔ ٹھیکیدار محمد ابراہیم صاحب پسرور
۲۳۔ فتح دین صاحب جمعدار گجرات
۳۔ فرزند علی صاحب سوداگر پسرور
۲۴۔ عظیم شاہ صاحب باورچی ہسپتال
۴۔ سیٹھ احمد دین صاحب جہلم
۲۵۔ منشی علی محمد صاحب
۵۔ میاں جواہر صاحب زرگر جہلم
۲۶۔ محمد اسمعیل صاحب ساکن کڑیانوالہ گجرات
۶۔ میاں اللہ دتہ صاحب زرگر جہلم
۲۷۔ برکت علی صاحب نوشاہی گجرات
۷۔ محمد عالم صاحب کلرک سٹور جہلم
۲۸۔ دولت علی صاحب نوشاہی گجرات
۸۔ میاں بھولا صاحب
۲۹۔ عبداللہ صاحب کمپونڈر گجرات
۹۔ نبی بخش صاحب مستری جاوہ۔ جہلم
۳۰۔ بابو غلام نبی صاحب اوورسیر ہوشیار پور
۱۰۔ غلام محمد صاحب ٹھیکیدار جہلم۔
۳۱۔ رحیم بخش صاحب مستری گجرات
۱۱۔ حافظ محمد صاحب ٹھیکیدار جہلم
۳۲۔ عبدالعزیز صاحب جمعدار گجرات
۱۲۔ محمد حفیظ صاحب ٹھیکیدار جہلم
۳۳۔ جان محمد صاحب ڈریسر گجرات
۱۳۔ سید محمد صاحب کلرک اسٹور۔
۳۴۔ مولوی فضل الرحمن صاحب کمپونڈر گجرات
۱۴۔ بابو غلام غوث شاہ صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ یوگنڈا ریلوے۔
۳۵۔ نادر خاں صاحب ڈپٹی انسپکٹر
۱۵۔ بابو محمد عبدالقادر صاحب اسٹیشن ماسٹر
۳۶۔ بابو علی اظفر صاحب کمپونڈر امرتسر
۱۶۔ منشی امیر خان صاحب ہسپتال ریلوے۔
۳۷۔ بابو مظہر علی صاحب کلرک امرتسر
۱۷۔ بابو محمد الدین صاحب مرحوم ویٹرنری اسسٹنٹ از جالندھر
]3col [tag۳۸۔ بابو فیض علی صاحب کمپونڈر امرتسر
۱۸۔ بابو مولا بخش صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ از جالندھر
۳۹۔ سید کرم حسین صاحب کلرک ساکن لاہور بھونڈ پورہ
۱۹۔ بابو سلطان علی شاہ صاحب کمپونڈر
۴۰۔ علی احمد شاہ صاحب لاہور
۲۰۔ بابو احمد صاحب کمپونڈر
۴۱۔ غلام حیدر صاحب سوداگر لاہور
۲۱۔ خواجہ احمد صاحب داروغہ ضلع گجرات
]3col [tag۴۲۔ غلام علی صاحب گھڑی ساز لاہور
۴۳۔ بابو اللہ داد خان صاحب گارڈ۔ لاہور
۴۴۔ بابو محمد عالم صاحب سگنیلر لاہور
۴۵۔ مستری کریم بخش صاحب ٹھیکیدار لاہور
۴۶۔ عالم شیر صاحب سپاہی گننجٹ
۴۷۔ عظیم خاں صاحب دفتر یوگنڈا ریلوے دہلی
col4] [tag
۴۸۔ حسن دین صاحب فائرمین لاہور
فہرست دیگر ممبران جماعت جو کہ ہند میں
بیعت کرکے افریقہ میں آئے۔
۱۔ محمد افضل صاحب ٹھیکیدار۔ لاہور
۷۔ حافظ محمد اسحاق صاحب اوورسیر۔ بھیرہ
۲۔ محمد بخش صاحب۔ کڑیانوالہ
۸۔ قطب الدین صاحب مستری۔ بھیرہ
۳۔ ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب۔ گوڑیانی
۹- بابو نبی بخش صاحب کلرک اکونٹنٹ آفس۔ لاہور
۴۔ شیخ نور احمد صاحب ٹائم کیپر حال کلرک ہسپتال جالندھر
۱۰۔ بابو عبدالرحمن صاحب کلرک لوکو آفس لاہور
۵۔ شیخ حامد علی صاحب جمعدار۔ قادیان
۱۱۔ چوہدری محمد اسمعیل صاحب جمعدار جھانرا والہ سیالکوٹ
۶۔ برادر شیخ حامد علی صاحب جمعدار۔ قادیان
۱۲۔ غلام محمد صاحب کمپونڈر۔ جالندھر۔۵۰۲
۱۹۰۱ء کے بعد بھی ہندوستان سے صحابہ کے جانے اور افریقہ میں بھی بیعت کرنے والوں کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ حضرت سید غلام حسین صاحبؓ۵۰۳ اور بھائی نظام الدین صاحب جہلمی۵۰۴ اور حضرت مولوی فخر الدین صاحب گھوگھیاٹ۵۰۵ اسی زمانہ میں افریقہ تشریف لے گئے اور پیغام حق پہنچاتے رہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے عہد مبارک میں بیرونی ممالک کے لحاظ سے مشرقی افریقہ کی احمدیہ جماعت سب سے پہلی اور سب سے بڑی جماعت تھی جس نے شروع ہی سے سلسلہ کی مالی قربانیوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
چنانچہ حضرت بابو محمد افضل صاحبؓ نے >الحکم< ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ء میں لکھا۔
>آج تک تخمیناً چھ ہزار سے زیادہ روپیہ افریقہ کی جماعت کی طرف سے اشاعت سلسلہ محکم تعلیم عمارات و فنڈ مساکین وغیرہ میں مختلف طور پر قادیان کی طرف روانہ کیا جا چکا ہے اس میں وہ اخراجات شامل نہیں ہیں جو کہ خاص افریقہ میں اشاعت سلسلہ کے متعلق کئے گئے ہیں۔ افسوس ہے کہ ¶کوئی باقاعدہ رجسٹر نہیں رکھا گیا جس میں پورے طور پر تعداد روپیہ اور دیگر کارروائی سلسلہ کی رکھی جاتی مگر انشاء اللہ آئندہ اس کا پورا پورا انتظام کیا جائے گا۔
اس مذکورہ بالا رقم میں بھاری بھاری رقمیں ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب` ڈاکٹر رحمت علی صاحب۔ سیٹھ احمد الدین صاحب اور محمد ابراہیم و محمد افضل ٹھیکیداران کی ہیں۔ جناب بابو نور احمد صاحب نے باوجود جمعداری کے عہدہ پر ہونے کے اور ۳۰ روپے تنخواہ پانے کے اپنی تین سالہ ملازمت میں چار سو روپیہ روانہ کیا۔
اور ایک صاحب میاں مصاحب دین کمپونڈر نے جو کہ ابھی تک اگرچہ جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہوئے اور صرف حسن ظن رکھتے ہیں اور جو کہ اپنی تین سالہ ملازمت کا بقیہ اندوختہ لے کر ہندوستان رخصت پر اپنے گھر جانے والے تھے۔ ایک دفعہ صرف یہ خبر سن کر حضرت مرزا صاحب کو خدمت دین کے لئے روپیہ کی سخت ضرورت ہے بڑی عالی ہمتی اور دریا دلی سے اپنی رخصت کو منسوخ کرا دیا اور کل اندوختہ روپیہ دینی خدمت کے لئے چندہ میں دے دیا<۔۵۰۶
خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں میں کینیا کالونی کے علاقہ میں ہندوستانی احمدیوں کی آمد کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ اور تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہونے لگا۔ چنانچہ میگاڈی (MAGADI) میں حضرت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحبؓ عرصہ تک دیوانہ وار تبلیغی جہاد میں مصروف رہے اور نیروبی میں حضرت سید معراج الدین صاحب۔ حضرت ڈاکٹر عمر الدین صاحب` مولانا عبدالواحد صاحبؓ جہلمی۔ حضرت بھائی دوست محمد صاحبؓ جہلمی۔ قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی` حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ۵۰۷ سید عبدالرزاق صاحب شاہ صاحب` محمد اکرم خان صاحب غوری` چوہدری نثار احمد صاحب` شیخ غلام فرید صاحب` بھائی عبدالرحیم صاحب ٹیلر ماسٹر` بھائی شیر محمد صاحب بٹ` ملک احمد حسین صاحب` سید یوسف شاہ صاحب` عبدالعزیز صاحب جہلمی` چوہدری محمد شریف صاحب بی۔ اے۵۰۸ اور دوسرے مخلصین کے وجود سے جماعت احمدیہ کو بہت تقویت ملی۔ اسی طرح ڈاکٹر سید ولایت شاہ صاحب کٹوئی (KITUI) میں عمر حیات خاں صاحب کسومو میں اور بھائی اکبر علی صاحب اور بابو محمد عالم صاحب ممباسہ میں پیغام حق پہنچاتے رہے۔
یوگنڈا میں پیغام احمدیت خلافت اولیٰ کے آخری سال یا خلافت ثانیہ کے آغاز میں پہنچا جبکہ سب سے پہلے ڈاکٹر فضل الدین صاحب وہاں پہنچے آپ کے بعد آپ کے بھائی ڈاکٹر احمد دین صاحب اور ڈاکٹر لعل دین صاحب۵۰۹ نیز بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر اور بابو نذیر احمد صاحب کھوکھر بھی تشریف لے گئے اور اس طرح ایشیائی احمدیوں کی ایک جماعت کا وہاں قیام ہو گیا۔
ٹانگا نیکا بہت دیر کے بعد احمدیت سے روشناس ہوا۔ اگرچہ ہندوستانی احمدیوں کی مختصر سی جماعت شروع میں اس علاقہ کے مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی تھی۔ مگر کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ آخر بابو محمد یوسف صاحب پوسٹ ماسٹر اور بعض دوسرے احمدیوں کی کوشش اور ہمت سے ٹانگا نیکا کے دارالحکومت دارالسلام میں باقاعدہ جماعت قائم ہوئی اور خاص طور پر میاں محمد بخش صاحب )ریلوے ڈرائیور( بابو محمد ایو صاحب بابو محمد جمیل صاحب` ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب` ڈاکٹر احمد دین صاحب اور فضل کریم صاحب لون` عبدالکریم صاحب ڈار مرحوم اور مختار احمد صاحب ایاز جیسے مخلص احمدیوں کی مالی قربانیاں اور تبلیغی کوششوں سے اس جماعت نے بڑا نام پیدا کیا۔ موخر الذکر دونوں بزرگوں کو ایک لمبا عرصہ ٹانگا نیکا )تنزانیہ( میں تکالیف دی گئیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط چٹان بن کر تبلیغی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ ٹانگا نیکا میں دوسرا مقام جہاں ہندوستانی احمدیوں کی ایک پرجوش جماعت قائم ہوئی۔ ٹبورا تھا۔ یہ جماعت اپنے اخلاص و محبت اور تبلیغی مساعی میں بہت آگے نکل گئی اور بہت جلد نیروبی` میرو` ممباسہ` کسوموں اور کمپالہ کے دوش بدوش خدمات سلسلہ بجا لانے لگی۔۵۱۰
نیروبی میں احمدیہ پریس کا قیام اور سلسلہ اشتہارات کا آغاز
نیروبی میں ۳۲۔۱۹۳۳ء میں مخالفین احمدیت کی طرف سے خاص طور پر نہایت کثرت سے گندہ لٹریچر شائع کیا گیا۔ قادیان سے جوابات چھپوا کر یہاں منگوانے میں بہت دیر ہوجاتی تھی اور نیروبی میں کوئی اردو پریس نہیں تھا۔ اس لئے جماعت احمدیہ نیروبی نے ایک سائیکلو سٹائل مشین کا انتظام کیا۔ مگر مستعمل ہونے کی وجہ سے یہ مشین کام نہ دے سکی۔ اس سے پہلے قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی ایک گلیسرین پریس تیار کرکے کچھ کام چلاتے رہے۔ مگر اس سے جماعتی ضروریات پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس لئے جماعت نے اپنی ایک پرانی طرز کی لیتھو ہینڈ پریس4] ft[s۵۱۱ مشین کو جو ناقابل استعمال اور خستہ حالت میں پڑی تھی۔ از سر نو درست کرایا اس کام میں یوگنڈا اور دارالسلام کے احمدیوں نے بھی کسی قدر مدد دی۔ یکم جون ۱۹۳۴ء کو اس پریس کا اجراء ہوا اور سب سے پہلا اشتہار >صداقت کی چمک< کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ یہ پریس احمدیہ مسجد نیروبی۵۱۲ کے مشرق کی طرف کی ایک کوٹھری میں نصب کیا گیا اور ساتھ کی دوسری کوٹھری میں پریس کا سامان رکھا گیا۔ قادیان سے کاپی کی سیاہی اور کاغذ منگوائے گئے پتھر کے وزن کی وجہ مشین آسانی سے نہیں چلتی تھی اس لئے مخلصین جماعت خصوصاً شیر محمد صاحب بٹ قاضی عبدالسلام صاحب کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان اشتہاروں کی تقسیم بھائی شیر محمد صاحب بٹ اور عبدالعزیز صاحب قریشی جہلمی نے اپنے ذمہ لگا رکھی تھی۔۵۱۳ محترم قاضی عبدالسلام صاحب کا بیان ہے کہ یہ >اشتہارات خاکسار ہی لکھتا یا سلسلہ کے لٹریچر سے اخذ کرتا تھا۔ اور میگاڈی سے حضرت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب مرحوم بھی لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔
اخبار >الھدی< کا اجراء
اشتہارات کا یہ وسیع سلسلہ ۱۹۳۶ء کے اوائل تک زور شور سے جاری رہا۔ اس کے بعد اس کی بجائے >الہدی< نام سے ایک ہفتہ وار اخبار ملک احمد حسین صاحب کے زیر انتظام جاری کیا گیا۔ اس اخبار کا پہلا پرچہ ۲۳/ جولائی ۱۹۳۶ء کو شائع ہوا۔ اخبارات کی کتابت و طباعت کا تمام کام محمد اکرم صاحب غوری` سید عبدالرزاق شاہ صاحب اور ملک احمد حسین صاحب انجام دیتے تھے اور اخبار کی ترسیل کی خدمت شیخ غلام فرید صاحب سیکرٹری کے سپرد تھی۔ ان کے معاون بابو غلام محمد صاحب تھے۔ مضامین لکھنے والوں میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب` ملک احمد حسین صاحب` شیخ غلام فرید صاحب نمایاں تھے۔ اس اخبار کے بعض مضامین سے مخالفین میں شور پڑ گیا اور قانونی کارروائی کے لئے اخبار کے ایڈیٹر وغیرہ کو نوٹس دیئے گئے۔ لیکن سارا معاملہ محض نوٹسوں تک ہی محدود رہا اور مخالفین کو احساس ہو گیا کہ احمدیوں کے ہاتھوں میں بھی قلم ہے۔ آخر دس نمبروں کے بعد بعض وجوہ کی بناء پر اخبار بند ہو گیا اور ساتھ ہی اشتہارات کا سلسلہ بھی ایک عرصہ تک بند رہا۔۵۱۴
انجمن حمایت اسلام نیروبی کی طرف سے ردعمل
جماعت احمدیہ نیروبی کے جوابی اشتہارات اور تبلیغی جدوجہد کا ردعمل یہ ہوا کہ نیروبی کی انجمن حمایت اسلام نے احمدیوں کے مقابلہ کے لئے ہندوستان سے مبلغ بلوانے کا فیصلہ کیا اور ۱۵/ اگست ۱۹۳۴ء کو جناب مولوی ظفر علی خاں صاحب مدیر اخبار >زمیندار< )لاہور( سے بذریعہ خط درخواست کی کہ آپ کسی موزوں شخص کا انتخاب فرمائیں ان کا جواب ۵/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو موصول ہوا کہ وہ مولوی لال حسین صاحب اختر کی سفارش کرتے ہیں چنانچہ انجمن مذکور نے ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء کے اجلاس میں یہ سفارش قبول کر لی اور ان کے مصارف سفر )سیکنڈ کلاس( کے لئے تین سو روپیہ کا چیک روانہ کر دیا گیا۔۵۱۵ اور یہ صاحب جلد ہی مشرقی افریقہ پہنچ گئے۔
مستقل مشن کا قیام
جماعت احمدیہ نیروبی کے غیور افراد نے >انجمن حمایت اسلام< کی بڑھتی ہوئی مخالفانہ سرگرمیوں کو اپنے لئے ایک چیلنج سمجھتے ہوئے نظارت دعوۃ و تبلیغ قادیان سے درخواست کی کہ ہم اپنے خرچ پر ایک مبلغ چھ ماہ کے لئے منگوانا چاہتے ہیں نظارت کی طرف سے معاملہ پیش ہونے پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو مشرقی افریقہ بھیجنے کا ارشاد فرمایا۔
اس فیصلے کے مطابق آپ ۱۱/ نومبر ۱۹۳۴ء۵۱۶ کو تین بجے بعد دوپہر قادیان سے روانہ ہوئے۔ ۱۵/ نومبر کو بمبئی سے TAKLIWA) نامی( جہاز پر سوار ہوئے۔۵۱۷ اور ۲۷/ نومبر کو بخیریت نیروبی پہنچ گئے۔۵۱۸
نیروبی میں کامیاب مناظرہ
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے پیش نظر احمدی مبلغ کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کا ایک وسیع اور بلند نصب العین تھا اور آپ اس تاریک براعظم کو جلد از جلد منور کرنے کی فکر میں تھے مگر اس کے برعکس سائیں لال حسین صاحب محض احمدیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بلائے گئے تھے اس لئے انہوں نے افریقہ میں آتے ہی نور خدا کو اپنی مونہہ کی پھونکوں سے بجھانے کی سر توڑ کوششیں شروع کر دیں اور احمدیوں کو مناظرے کا چیلنج دے دیا جو شیخ صاحب نے منظور کر لیا اور مسٹر ورما صاحب بیرسٹر` پنڈت دولت رام صاحب اور پنڈت آریہ منی صاحب کی موجودگی میں مناظرہ کے شرائط کا تصفیہ کیا گیا۔ بحث کے لئے تین مضامین تجویز ہوئے۔ )۱( حیات و وفات مسیحؑ )۲( انقطاع و اجرائے نبوت )۳( صداقت مسیح موعودؑ۔ تصفیہ شرائط کے بعد یہ مناظرہ۔ ۲۰/ جنوری ۱۹۳۵ء بروز ہفتہ و اتوار نیروبی مسلم سپورٹس کی وسیع و عریض گرائونڈ میں ہوا۔۵۱۹ جس میں حق و صداقت کو ایسی نمایاں فتح نصیب ہوئی کہ غیر مسلم پبلک نے بھی احمدی مناظر کو مبارکباد دی۔۵۲۰ چنانچہ ایک سکھ اجیت سنگھ صاحب نے اپنی ایک چٹھی میں لکھا۔ >بندہ آپ کے اس مناظرہ میں شامل تھا جس میں کہ آپ کو فتح حاصل ہوئی پس اس کی خوشی میں میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے معاملات میں حق کو پہچاننا نہایت مشکل ہوتا ہے مگر اس دن خدا تعالیٰ کی زبردست طاقت آپ کے ساتھ تھی۔ اور آپ نے حق پہنچا دیا ہے۔ دشمن کی زبان بند ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ جھوٹے پر عذاب کیوں نہیں آتا؟ پس یہ عذاب تھا اور اس سے بڑھ کر اور عذاب کیا ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے زبان ہی بند کر دی۔ خیمہ کا گرنا ہی میں تو زبردست نشان سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے اور دوسرے دوستوں نے نوٹ کیا کہ اس کی زبان اب رک رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پبلک نے آپ کو مبارکباد دی۔ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے پھولوں کی روحانی بارش ہوئی۔ >اجیت سنگھ مگاڈی سوڈا کمپنی کینیا کالونی ۳۵/۱ ۲۳<۔۵۲۱
احمدیوں پر حملہ
اس معرکہ نے نیروبی میں احمدیت کی دھاک بٹھا دی اور مخالفین کے حوصلے پست کر دیئے۔ اب سائیں صاحب نے نیروبی کے باہر کے علاقوں کی طرف رخ کیا۔ شیخ مبارک احمد صاحب نے بھی ان کا تعاقب کیا اور جہاں بھی مباحثہ کی دعوت دی گئی آپ نے اسے قبول کر لیا۔ چنانچہ ۲۔ ۳/ فروری ۱۹۳۵ء کو میگاڈی میں کامیاب مناظرے کئے ایک مناظرہ ۱۰/ فروری ۱۹۳۵ء کو نیروبی سے قریباً دو سو میل کے فاصلہ پر ایک بستی >میرو< میں ہوا۔ اس مناظرہ میں احمدی مناظر نے چیلنج دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے قرآن سے آسمان کا لفظ دکھانے پر سوشلنگ انعام دوں گا۔ سائیں صاحب کو آخر وقت تک وہاں مرد میدان بننے کی جرات نہ ہو سکی۔۵۲۲ مگر واپسی پر نیری۵۲۳ (NYERI) کے مقام پر احمدیت کے خلاف ایک زہر آلود تقریر کرکے بدلہ لینا چاہا۔ دوران تقریر ایک احمدی میاں عبداللطیف صاحب۵۲۴ نے چند سوالات کے لئے وقت مانگا۔ انہوں نے جواب دیا تم جاہل ہو اپنے مولوی کو میرے سامنے لائو۔ عبداللطیف صاحب نے کہا مولوی صاحب آجائیں گے مگر پہلے میرے سوالات کا جواب دیں بڑی لے دے کے بعد انہوں نے بعض انتہائی غیر معقول شرائط پیش کیں۔ جو عبداللطیف صاحب نے تسلیم بھی کر لیں مگر انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں ۲/ مارچ کو دوبارہ آئوں گا۔ تب جواب دوں گا۔
چنانچہ ۲/ مارچ کو شیخ مبارک احمد صاحب بعض اور احمدیوں سمیت نیری پہنچ گئے۔ سائیں صاحب اس وقت تقریر کر رہے تھے۔ عبداللطیف صاحب نے صدر سے وقت مانگا۔ سائیں صاحب نے جھٹ کہہ دیا کہ کیا کوئی تحریری ثبوت میرے وعدے کا پیش کر سکتے ہو؟ اس پر شیخ مبارک احمد صاحب نے کہا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ علی الاعلان وعدہ کرکے انکار کیا جاتا ہے۔ ابھی آپ یہ فقرہ مکمل بھی نہ کر پائے تھے کہ نیری کے ایک مشہور تاجر عثمان علو نے تالی بجائی اور ساتھ ہی بعض افریقنوں نے شیخ مبارک احمد صاحب پر حملہ کر دیا۔ مکرم عبداللطیف صاحب نے بہت وار اپنے بازوں پر لئے اور شیخ صاحب اور دوسرے احمدیوں کو چوٹیں آئیں۔ جب تک نادان لوگ خود ہی مارنے کے بعد ادھر ادھر نہ چلے گئے احمدی وہیں موجود رہے۔۵۲۵
بائیکاٹ کا حربہ
اس طرح کے اوچھے ہتھیاروں پر اترنے کے بعد لال حسین صاحب نے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم شروع کر دی۔ اور نیروبی` ممباسہ` کسومو` نکورو وغیرہ شہروں میں بھی احمدیوں کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس آگ کو مرکزی انجمن حمایت اسلام نے بہت ہوا دی۔
جمالی اور جلالی نشان
کچھ دنوں کے بعد سائیں لال حسین صاحب جنجہ )یوگنڈا( پہنچے تو وہاں کی مقامی انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری عبدالغفور صاحب نے جو سائیں صاحب کو جنجہ بلانے کے محرک تھے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مخالفت کی۔ اس پر وہ عبدالغفور صاحب کے درپے آزار ہو گئے اور انہوں نے تحقیق و مطالعہ کے بعد ۱۹۳۶ء میں بیعت کر لی اور عدن سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں یہ عریضہ لکھا۔
سیدنا و مولانا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسلمین خلیفہ ثانی حضرت مسیح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`۔ پس از سلام الاسلام مسنون عارض ہوں کہ خاکسار کا نام محمد عبدالغفور ہے اور گزشتہ سال جب آپ کے نظام تبلیغ کے ماتحت شیخ مبارک احمد صاحب مشرقی افریقہ تشریف لائے اور ان کے مقابلہ کے لئے مسلمانوں نے مولوی لال حسین صاحب اختر کو افریقہ بلایا۔ تو ان دنوں خاکسار اہل سنت و الجماعت کی انجمن کا سیکرٹری تھا۔ لال حسین صاحب کی آمد پر بڑا شور و غوغا مچا۔ ظاہری نمائش کے مطابق ان کا استقبال کیا گیا اور زمین و آسمان کا درمیانی خلا ان کی تعریف سے پر کر دیا گیا۔ آخر کار جب لیکچروں کا بندوبست کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اختر صاحب سوائے طوطے کی رٹ کے کچھ نہیں جانتے۔
اس وقت تعصب کی پٹی آنکھوں پر بندھی تھی مگر وہ اس طرح سرکنی شروع ہوئی کہ جب اختر صاحب سے کوئی سوال کیا تو فوری جواب ملا کہ کیا احمدیوں سے ملاقات کی ہے ان کی تعلیم کا اثر گفتگو سے مترشح ہوتا ہے۔ لوگوں نے منع کیا کہ مولوی صاحب محتاط رئیے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ شخص آپ کے یہاں ہوتے ہوئے احمدی ہو جائے۔ آخر جب احمدیوں کے بائیکاٹ کا فتنہ شروع ہوا تو بندہ نے صدر صاحب سے اجازت حاصل کرکے اپنی یہ رائے ظاہر کی کہ آغا خانی اور شیعہ وہابی وغیرہ وغیرہ کا بائیکاٹ بھی ہونا چاہئے اور اگر آپ بائیکاٹ کا سلسلہ شروع کریں گے تو نصاریٰ` یہودی` اہل ہنود` سکھ` پارسی سب کا کرنا ہو گا۔ پھر اختر صاحب تبلیغ کسے کریں گے۔ الٹے پائوں انہیں ہندوستان جانا پڑے گا۔ اس پر بعض لوگوں نے جو کہ منیجنگ میٹنگ کے ممبر تھے۔ میری حمایت کی اور کہا مولانا فی الحال یہ قدم اٹھانے کے لئے لوگ تیار نہیں اس ناکامی سے جھلا کر مولوی صاحب مجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہو گئے۔ اس وجہ سے ملازمت چھوڑنی پڑی۔ ایک خاندان میں میرا رشتہ قرار پا چکا تھا اس سے دستبردار ہونا پڑا<۔۵۲۶
انجمن کے سیکرٹری کا احمدی ہو جانا ایک جمالی نشان تھا لیکن ایک جلالی نشان کا ظہور ابھی باقی تھا یعنی اس انجمن کے بانی مبانی اور روح رواں سید احمد الحداد کی عبرتناک ہلاکت۔۵۲۷ سید احمد الحداد میگاڈی میں کمپنی کے منظور کردہ راشن اور پٹرول کی دکان کے مالک تھے۔ ساری آبادی کی سپلائی کا یہی ایک سٹور تھا۔ اس لئے وہ بہت بڑی تجارت کے مالک تھے۔ آخر نیروبی سے میگاڈی کے رستے میں موٹر کے حادثہ میں لقمہ اجل ہوئے۔ جس کا اثر انجمن حمایت اسلام کی مساعی پر بھی ہوا اور مخالفت میں نمایاں کمی ہو گئی اور پہلا ساز ورنہ رہا۔ اور ۱۹۳۶ء میں لال حسین صاحب اختر بھی واپس ہندوستان چلے جانے پر مجبور ہوئے۔۵۲۸
رسالہ >ماپینزی یا مانگو< کا اجراء
جب حالات کچھ سازگار ہوئے تو شیخ مبارک احمد صاحب نے تبلیغ اسلام کے بنیادی اور اساسی کام کی طرف پوری توجہ شروع کر دی اور جنوری ۱۹۳۶ء میں ممباسہ سے >ماپینزی یا مانگو< MANGU) YA (MAPENZI کے نام سے ایک ماہوار سواحیلی رسالہ جاری کیا۔۵۲۹text] gat[ رسالہ کا پہلا نمبر ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ دوسرے نمبر سے اس کی اشاعت دو ہزار کر دی گئی اور پہلے نمبر کو بھی دوبارہ دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ چند ہی نمبر شائع ہوئے تھے کہ عیسائیوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ اور )رسالہ رفیقی ییٹو YETU) (RAFIKI کے ایک یورپین ایڈیٹر نے شیخ مبارک احمد صاحب کو ایک چٹھی میں لکھا کہ تم نے اپنے آپ کو سخت جنگ میں ڈال دیا ہے اور تم ناکام رہو گے۔۵۳۰
اسی رسالہ نے اگست ۱۹۳۷ء کے پرچہ میں اعلان کیا کہ جو کوئی یہ رسالہ پڑھے گا وہ گناہگار ہو جائے گا ہر کیتھولک کو چاہئے کہ اس قسم کا رسالہ جب بھی اس کے ہاتھ میں آجائے۔ تو آگ میں اسے ڈال دے۔۵۳۱
مگر چرچ کی مخالفت کے باوجود یہ رسالہ آج تک کامیابی سے جاری ہے اور اس نے ملک میں زبردست حرکت پیدا کر دی ہے۔
احمدیہ مسلم سکول ٹبورا
افریقن میں تبلیغ کے لئے تعلیم کا انتظام از بس ضروری تھا۔ اس ضرورت کے پیش نظر شیخ مبارک احمد صاحب نے ٹبورا۵۳۲ میں احمدیہ مسلم سکول کی بنیاد رکھی اس سکول کے قیام کی راہ میں بہت مشکلات پیدا کی گئیں۔ اور حکومت کے افسروں میں سے خصوصاً مسٹر بیگشا BAGSHAW) (MR نے جو ان دنوں پراونشل کمشنر اور مذہباً کیتھولک تھے اس کی سخت مخالفت کی مگر کئی ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد محکمہ تعلیم کی طرف سے منظور مل گئی اور ۱۱/ جنوری ۱۹۳۷ء کو اس پہلے احمدیہ سکول کا افتتاح کیا گیا۔۵۳۳ بٹورا سکول کے افتتاح سے نہ صرف عیسائیوں کو یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ہمارے مقابلہ کے لئے مستقل طور پر ایک جماعت میدان میں نکل آئی ہے بلکہ حکومت نے بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کیا چنانچہ ۱۹۳۶ء کی سالانہ رپورٹ میں لکھا کہ۔
>یہ امر قابل ذکر ہے کہ سب سے پہلی منظم تبلیغی سوسائٹی یعنی >احمدیہ ہندوستانی مشن< نے دوران سال میں افریقن باشندوں میں کام شروع کیا۔ ان کا سب سے پہلا سکول ٹبورا شہر میں قائم کیا گیا ہے جس کی حاضری کافی ہے۔ )صفحہ ۱۸(۵۳۴
افسوس مخالفین کی شورش اور بائیکاٹ کے باعث ۴۱۔۱۹۴۰ء میں یہ سکول بند کر دیا گیا۔
تبلیغ اسلام کے دوسرے ذرائع
سکول کے اجراء کے بعد شیخ مبارک احمد صاحب نے اشاعت اسلام کے دوسرے ذرائع کی طرف بھی خاص توجہ دینا شروع کر دی۔
سرکاری سکولوں میں مذہبی تعلیم کے لئے ہفتہ میں دو دن وقت رکھا جاتا تھا۔ عیسائی مشنری اس سے فائدہ اٹھاتے تھے مگر مسلمانوں نے اس سے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ مکرم شیخ صاحب نے افریقن سکول بٹورا میں باقاعدگی سے لڑکوں کو دینی تعلیم دینا شروع کی۔ گورنمنٹ سکول بٹورا کے بعض طالب علم جو آپ کے زمانہ میں پڑھتے تھے۔ آزادی کے بعد اکثر حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔
سکولوں کے علاوہ ٹبورا جیل میں بھی انہوں نے پیغام حق پہنچانا شروع کیا جس سے بہت عمدہ نتائج برآمد ہوئے اور یہ طریق سلسلہ کی شہرت کا باعث بھی ہوا۔ چنانچہ حکومت کی سالانہ رپورٹ ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا کہ۔
دوران سال میں ایک نیا مسلم استاد ٹبورا میں آیا ہے جس نے خوابیدہ اور پرانے خیال کے باشندوں میں اپنی قوت کے ساتھ ہلچل پیدا کر دی ہے وہ پرامن طریق سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔۵۳۵ )ترجمہ(
تبلیغ اسلام و احمدیت کے لئے آپ نے اور بھی کئی طریق اختیار کئے۔ مثلاً انفرادی ملاقاتیں` جلسے` مقامی اخبارات۵۳۶ میں مضامین کی اشاعت` تقسیم کتب` تبلیغ بذریعہ خطوط` بلند پایہ شخصیتوں کی دعوتیں` مناظرات جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ`~ ریڈیو سے تقاریر` تبلیغی مجالس کا قیام` یوم التبلیغ غیر مسلموں کی مذہبی کانفرنسوں میں شمولیت وغیرہ وغیرہ۔
نیروبی میں مخالفت کا نیا دور
۳۸۔ ۱۹۳۷ء میں یہاں مخالفت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ مشرقی افریقہ کا ساحل چونکہ ہندوستان کے ساحل سے نزدیک ہے۔ اس لئے ہندوستان میں جب کوئی تحریک اٹھتی ہے اس کی بازگشت فوراً مشرقی افریقہ میں بھی سنائی دیتی ہے چنانچہ ۱۹۳۴ء۵۳۷ کی احراری شورش کی طرح یہاں بھی شورش پیدا ہو گئی۔ پھر ۱۹۳۷ء۵۳۸ میں مصری صاحب نے سر اٹھایا تو ان کا لٹریچر خاص طور پر افریقہ کے غیر احمدیوں نے منگوایا اور پھیلا دیا۔ جو ٹریکٹ ہندوستان میں ضبط ہوتے اس جگہ ان کی اشاعت کی جاتی۔
نیروبی کی انجمن حمایت اسلام نے اس سال کئی ہزار شلنگ خرچ کرکے اپنا پریس قائم کیا اور ایک اخبار >مسلم< کے نام سے جاری کر دیا اور اس میں احمدیت کے خلاف گند اچھالنے لگے اسی طرح یوگنڈا کی مسلم ایسوسی ایشن نے افریقن باشندوں میں زہریلا پروپیگنڈا کیا اور پرنس بدرو کی طرف سے )جو بگنڈا۵۳۹ کے عیسائی بادشاہ کے چچا اور افریقن مسلمانوں کے لیڈر تھے( اشتہار دیا کہ شیخ مبارک احمد اس علاقے کے مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ لوگ اس کی باتیں نہ سنیں اور اس سے بچیں۔۵۴۰
اس مخالفت کا اثر یہ ہوا کہ جہاں عام لوگ احمدی لٹریچر پڑھنے سے گریز کرنے لگے وہاں افریقن احمدی جماعت کے مخصوص مسائل پر خدا کے فضل سے اور پختہ ہو گئے اور برملا کہنے لگے کہ >اگر احمدیت کفر ہے تو جائو ہم کافر ہی سہی<۔۵۴۱
ٹبورا )ٹانگا نیکا( میں مقدمات
۱۹۳۷ء کے شروع میں مخالفت کی لہر نیروبی سے گزرتی ہوئی ٹبورا میں بھی پہنچ گئی اور احمد صالح )افریقن مجسٹریٹ( پولیس کے افسر` ڈسٹرکٹ آفیسر اور مقامی پنجابی سب کے سب شیخ مبارک احمد صاحب کی تبلیغی سرگرمیوں کو روکنے میں متحد ہو گئے اور بالاخر احمد صالح نے سازش کرکے ان کے اور قاری محمد یٰسین صاحب کے خلاف دو جھوٹے مقدمات کھڑے کر دیئے۔ ایک مقدمہ PASS) (TRESS اور دوسرا مذہبی جذبات کے مجروح کرنے کا۔ ان مقدمات کی سماعت کھلی عدالت میں ہوئی۔ مزرا بدر الدین صاحب بیرسٹر اور مسٹرنینے ایڈووکیٹ نے وکالت کی غیر احمدی مولویوں نے بڑے بڑے جبے پہن کر اور قرآن مجید ہاتھ میں لے کر عدالت میں جھوٹی گواہیاں دیں۔ پادری بھی دیکھنے آئے کہ احمدی مبلغ مجرموں کے کٹہرہ میں بیٹھا ہے۔ تقریباً گیارہ دن دونوں مقدمات کی سماعت ہوئی اور آخر عدالت نے ایک مقدمہ میں ۱۰۰ شلنگ شیخ مبارک احمد صاحب کو جرمانہ کیا اور محمد یاسین صاحب بری کر دیئے گئے اور دوسرے مقدمہ میں محترم شیخ صاحب کو تابر خاست عدالت قید` ایک سال کے لئے حفظ امن کی دو ضمانتیں اور ۲۰۰ شلنگ جرمانہ۔۵۴۲ اور محمد یاسین صاحب کو سوشلنگ جرمانہ کیا گیا۔ اس فیصلہ پر مخالفین احمدیت کی چڑھ بنی اور انہوں نے مشورہ کر دیا کہ احمدی مبلغ نکلوا دیا گیا ہے۔۵۴۳
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کا بیان ہے کہ شہر کا افریقن مجسٹریٹ احمد صالح اشد مخالف تھا اور مقدمات وغیرہ بھی اس نے شروع کرائے تھے۔ جس احمدی افریقن کے خلاف مقدمہ اس کے پاس جاتا تو خواہ وہ معاملہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہوتا وہ اپنے پورے اختیارات کو کام میں لے آتا۔ ہمارے دو افریقن بھائیوں کا اپنی بیویوں سے کسی بات پر اختلاف تھا ان میں سے ایک کو اس نے اپنی عدالت میں پٹوایا۔ اور پھر توہین عدالت کے الزام میں اسے ۵۰ شلنگ جرمانہ بھی کر دیا۔ میں نے اس شخص کا معاملہ ڈسٹرکٹ آفیسر کے سامنے رکھا اور اسے پوری طرح سمجھایا مگر وہ افریقن مجسٹریٹ کا طریق کار درست ہی قرار دیتا رہا۔ حالانکہ اس بات کی شہادت بھی اس کے سامنے رکھی گئی تھی وہ احمدی محض >قادیانی< کہہ کر پیٹا گیا۔ اور پھر ہتھکڑی لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ شخص مجسٹریٹ کی توہین کے درپے تھا۔ ساتھ ہی جب احمدی معلم مسعودی کے بھائی نے کہا کہ کیوں بے گناہ پر ظلم کرتے ہو تو اسے بھی ساتھ ہی ہتھکڑی لگا دی گئی اور اس سے کہا گیا کہ اچھا تم بھی اس کی مدد کرتے ہو۔
غرض کہ افریقن مجسٹریٹ نے خاص طور پر مخالفت میں حصہ لیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ احمدیوں کی نعشیں قبرستانوں میں دفن کئے جانے سے انکار کیا جانے لگا۔ راہ چلتے احمدیوں کو گالیاں دی جاتیں۔ ٹبورا میں یہ جوش و خروش مقدمات کے بعد کافی دیر تک قائم رہا۔۵۴۴ البتہ ٹبورا سے باہر اردگرد کے علاقہ میں اس کا کوئی زیادہ اثر نہ تھا بلکہ مخالفین کی غلط بیانیوں اور ستم رانیوں پر خود ٹبورا کے بعض حلقوں میں نفرت کا اظہار کیا گیا اور فیصلہ مقدمہ کے معاًبعد بیس سے زائد افراد احمدیت میں داخل ہوئے۔۵۴۵
بالاخر سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓکی ہدایت پر اس فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دی گئی۔ مسٹر ہرے سیرین بیرسٹر نے پیروی کی۔ ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۷ء کو چیف جسٹس BRUCE) KNIGHT ۔C۔(K نے فیصلہ سنایا کہ دونوں مقدمات میں عدالت ماتحت اور پولیس کی کارروائی سراسر غیر مناسب اور روح آئین کے خلاف ہے۔ فاضل جج نے PASS TRESS کے مقدمہ میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو بالکل بری کر دیا اور دوسرے مقدمہ میں ضمانتیں خلاف قانون قرار دیں اور ۲۰۰ کی بجائے جرمانہ ۵۰ شلنگ کر دیا۔
ہائیکورٹ کا فیصلہ ٹبورا میں پہنچا تو نہ معلوم افریقن میں کیسے مشہور ہو گیا کہ احمدی مبلغ اپیلوں میں جیت گیا اور مجسٹریٹوں اور پولیس کو فیصلہ میں برا بھلا کہا گیا۔ اس فیصلہ کی وجہ سے احمدیت کا ایک رعب لوگوں میں بیٹھ گیا اور ان کے جوش و خروش میں بھی کمی آگئی۔۵۴۶
احمدیہ مسجد ٹبورا
مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں ایک اہم ضرورت یہ تھی کہ ملک کے طول و عرض میں مساجد تعمیر کی جائیں۔ گرجوں کی بلند و بالا عمارتیں دیکھ کر افریقنوں کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ شاید گرجے ہی ان کی ترقی کی بنیاد ثابت ہوں گے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی دور رس نگاہ نے اس اہم ضرورت کو محسوس کیا اور شیخ مبارک احمد صاحب کو ہدایت فرمائی کہ مساجد کی تعمیر کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ اس ملک میں جماعت احمدیہ کے لئے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل نے یہ آسان کر دیا اور ہر طرح کی مشکلات کے باوجود جماعت متعدد مساجد تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس سلسلہ میں شیخ صاحب کے زمانہ میں پہلی مسجد ٹبورا میں تعمیر ہوئی۔ جماعت احمدیہ ٹبورا کے ہندوستانی افراد نے ۱۹۳۵ء میں فری ہولڈ شہر کے وسط میں مسجد کے لئے ایک قطعہ خریدا۔ جنوری ۱۹۴۱ء میں ٹائون شپ اتھارٹی سے تعمیر مسجد کی آخری منظوری مل گئی یکم فروری ۱۹۴۱ء کو ابتدائی انتظامات شروع کر دیئے گئے اور احمدیوں نے پہلے بنیادیں کھودیں پھر تین
tav.7.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
تین دن تک مختلف مقامات سے پتھر اٹھا کر لاتے اور مسجد کی زمین پر جمع کرتے رہے۔ جب سب تیاری مکمل ہو گئی تو مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے ۷/ فروری ۱۹۴۱ء کو بعد نماز جمعہ مسجد کی بنیاد رکھی یہ تقریب پونے تین بجے بخیر و خوبی ختم ہوئی اور سب احمدی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
تین بجے کے قریب مکرم شیخ مبارک احمد صاحب بعض اور احمدیوں کے ساتھ ایک احمدی کی دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک مخالفین کا ایک جم غفیر ہاتھوں میں ڈنڈے لئے آپ کی طرف بڑھنے لگا۔ دراصل جیسا کہ بعد کو علم ہوا یہ لوگ اپنی مجلس میں فیصلہ کر چکے تھے کہ اگر تعمیر مسجد کی یہ اجازت منسوخ نہ کی گئی تو آپ قتل کر دیئے جائیں۔ اس سوچی سمجھی تجویز کے مطابق پہلے ایک شخص سائیکل پر آیا اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو موجود پاکر سواحیلی زبان میں کہنے لگا شیخ مبارک بیٹھا ہے مار ڈالو اس پر ہجوم نے دکان کا محاصرہ کر لیا احمدیوں نے فوراً دروازے بند کر دیئے حملہ آور دروازے توڑتے رہے لیکن اندر داخل نہ ہو سکے اور خیال کیا کہ مبارک احمد کسی اور رستہ سے اپنے گھر چلے گئے ہیں یہ سوچ کر وہ آپ کے مکان کی طرف دوڑے آپ کی اہلیہ صاحبہ اس وقت مکان میں تھیں۔ مگر دروازے بند تھے۔ اس لئے یہ لوگ وہاں شور و شر کرکے واپس آگئے پھر ایک احمدی دوست محمد اصغر صاحب لون پر )جو اپنے مکان میں داخل ہو رہے تھے( حملہ کر دیا کچھ چوٹیں بھی ان کو آئیں۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو ہجوم بھی داخل ہو گیا۔ اتنے میں اصغر صاحب بندوق اٹھا لائے۔ بندوق دیکھتے ہی فسادی بھاگ کھڑے ہوئے۔ جو احمدی اس وقت شورش پسندوں کے سامنے آیا۔ اسے انہوں نے خوب پیٹا۔ یہ لوگ شیخ صالح۵۴۷ افریقن مبلغ کے مکان پر بھی گئے وہاں بھی احمدیوں نے دروازہ نہ کھولا۔ احمدیہ سکول میں ایک بوڑھے احمدی مزیع عرفہ رہتے تھے۔ یہ لوگ ان پر ٹوٹ پڑے۔ دوسرے احمدی جو گھروں کو جا چکے تھے۔ شیخ مبارک احمد صاحب کی حفاظت کے لئے ان کے مکان پر پہنچے۔ شہر میں دکانیں بند ہو گئیں اور دہشت پھیل گئی تھوڑے وقفہ کے بعد )ڈسٹرکٹ کمشنر( مسٹر ویرین )سپرنٹنڈنٹ پولیس( مسٹر نعیم اور )سینیٹری انسپکٹر( مسٹر بولٹن سپاہیوں کے دستے کے ساتھ پہنچ گئے اور شام چھ بجے تک پوری توجہ اور فرض شناسی سے کام کرتے رہے۔ ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس شام کے وقت مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ اگلی صبح کو پراونشل کمشنر آپ سے اپنے دفتر میں ملنا چاہتے ہیں۔ مسجد کے سلسلہ میں ضروری کاغذات لے کر پہنچ جائیں۔
چنانچہ اگلے روز ۸/ فروری کو آپ پراونشل کمشنر سے ملے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ احمدی اس جگہ مسجد نہ بنائیں۔ سارا معاملہ گورنر صاحب بہادر کے پاس پہنچا اور انہوں نے بھی تیسرے دن یہ احکام صادر کر دیئے کہ حکومت فی الحال موجودہ حالات کے پیش نظر اس مخصوص پلاٹ پر تعمیر مسجد کی اجازت نہیں دے سکتی۔۵۴۸
اب مسجد کی زمین کے لئے کوششیں دوبارہ شروع کر دی گئیں۔ بالاخر حکومت نے ۱۹۴۲ء کے آغاز میں دس ہزار مربع فٹ کا ایک نہایت عمدہ اور باموقعہ قطعہ ننانوے سال کی اقساط اور صرف ایک شلنگ سالانہ کرایہ پر دے دیا۔ یہ جگہ پہلے تجویز شدہ مقام سے بدرجہا بہتر تھی اور یہ خدائی تصرف تھا کہ اس نے خود مخالفین کے ہاتھوں احمدیہ مسجد کے لئے اعلیٰ جگہ دلا دی۔
یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا جبکہ شمالی افریقہ لڑائی کا میدان بنا ہوا تھا اور حکومت نے ہر قسم کے عمارتی سامان پر کنٹرول کر رکھا تھا۔ مگر اس نے تعمیر مسجد کے لئے فراخدلی سے سامان کی اجازت دے دی اور مقامی ٹائون شپ اتھارٹی نے بھی اور شیخ مبارک احمد صاحب نے جماعت کے تعاون سے مسجد کے سامان کی فراہمی کا اکثر و بیشتر انتظام کر لیا۔
اب معماروں اور مزدوروں کا سوال تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس کے لئے بھی ایک عجیب سامان پیدا کر دیا۔ جس کی تفصیل مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے الفاظ میں یہ ہے کہ جب ہم حکومت کی طرف سے دی گئی زمین پر مسجد تعمیر کرنے لگے تو افریقن ترکھانوں اور معماروں نے )مخالفت کے باعث( کام کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے کام رک گیا لیکن جلد ہی جنگ شروع ہو گئی اور تین ہزار اٹالین قیدی مشرقی افریقہ آگئے۔ ان قیدیوں میں لکٹری اور عمارت بنانے والے بہترین کاریگر تھے۔ مشرقی افریقہ میں معمار اور ترکھان بیس شلنگ روزانہ لیتے ہیں لیکن ہمیں یہ قیدی دو شلنگ روزانہ پر دستیاب ہونے لگے۔ ان قیدیوں کے کیمپ کا کمانڈر ایک رومن کیتھولک کرنل تھا۔ جب عیسائیوں نے دیکھا کہ قیدی ہماری مسجد تعمیر کر رہے ہیں تو اس کرنل کو لکھا اور اس نے قیدی بھیجنے بند کر دیئے اور اس طرح مسجد کی تعمیر کا کام درمیان میں ہی رک گیا۔ میں دارالسلام گیا اور وہاں ایک یورپین افسر سے ملا میرے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ اس نے ڈائریکٹر آف مین پاور۵۴۸ کو فون کیا کہ یہ بہت بری حرکت ہے قیدی عیسائیوں کے گرجے بناتے ہیں لیکن مسجد تعمیر کرنے سے وہ روکے جاتے ہیں۔ دوسرے دن ڈائریکٹر آف مین پاور نے مجھے بلایا اور پھر قیدیوں کے انچارج کو تار دیا کہ مسجد کی تعمیر کے لئے قیدیوں کو ریلیز کیا جائے۔۵۴۹
شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے مسجد کی بنیاد۵۵۰ ۲۷/ جون ۱۹۴۲ء کو رکھی اور خدا کے توکل پر کام شروع کرا دیا۔ تعمیر کے دوران پتھر ختم ہو گئے رمضان کا مہینہ تھا اور سخت گرمی کا موسم۔ مگر افریقن احمدی تین روز تک شہر کے قریب ایک پہاڑ سے پتھر کاٹتے اور جمع کرتے رہے۔۵۵۱ اس موقعہ کے علاوہ بھی متعدد بار انہوں نے یہ خدمت رضاکارنہ طور پر انجام دی۔
آخر نومبر ۱۹۴۴ء میں پینتیس ہزار شلنگ سے یہ مسجد پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔۵۵۲`۵۵۳ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کا نام مسجد فضل تجویز فرمایا اور ۱۴/ دسمبر ۱۹۴۴ء کو اس کا باقاعدہ افتتاح مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے کیا۔
اس تقریب کے لئے سلطان آف زنجبار` گورنر ٹانگا نیکا` گورنر کینیا کالونی چیف سیکرٹری ٹانگا نیکا` ڈائریکٹر محکمہ تعلیم` ایڈ منسٹریٹر سیکرٹری` امریکن` پولش اور نیدرلینڈ کے قونصلوں ` اثنا عشری` سنی کمیونٹی اور پارسی کمیونٹی نے پرجوش پیغامات بھجوائے تھے۔ اسی طرح دنیا میں پھیلی ہوئی احمدی جماعتوں نے بذریعہ تار مبارکباد کے پیغامات دیئے۔ جو چوہدری مختار احمد صاحب ایاز نے پڑھ کر سنائے۔۵۵۴
اس علاقہ کے بااثر اخبارات >ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ<۔ >ٹانگا نیکا سٹینڈرڈ<۔ >افریقہ سنیٹنیل<۔ >کینیا ڈیلی میل< اور >برازا< نے افتتاح کی تفصیلی خبر شائع کی اور ۱۶/ جنوری ۱۹۴۵ء کو نیروبی ریڈیو سٹیشن سے یہ تقریب نشر کی گئی۔ علاوہ ازیں حکومت کے خاص انتظام کے تحت بی۔ بی۔ سی سے ایک خاص مضمون بھی نشر کیا گیا۔
مشرقی افریقہ کے لئے نئے مجاہدین کی روانگی اور دائرہ تبلیغ میں وسعت
مشرقی افریقہ میں تبلیغ کا کام چونکہ پہلے سے بہت بڑھ چکا تھا اس لئے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مرکز سے نئے مجاہدین بھجوانے کا
فیصلہ فرمایا۔ سب سے پہلے مولوی نور الحق صاحب انور ۲۲/ اکتوبر ۱۹۴۵ء۵۵۵ کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۱۷/ نومبر ۱۹۴۵ء۵۵۶ کی صبح کو ممباسہ پہنچے۔ مکرم مولوی نور الحق انور کے پہنچنے کے بعد مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب نے )جو ان دنوں مشرقی افریقہ ملٹری میں ملازم تھے( زندگی وقف کر دی اور اسلامی فوج کے سپاہیوں میں داخل ہو گئے اور جولائی ۱۹۴۶ء سے اسی ملک میں تبلیغی خدمات بجا لانے لگے اور ایک لمبے عرصہ تک نیروبی` کسوموں` جنجہ` ٹبورا اور دارالسلام وغیرہ مقامات پر نہایت محنت و خلوص سے اعلائے کلمتہ اللہ میں مصروف رہے۔۵۵۷
مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب کے میدان تبلیغ میں آنے کے بعد فروری ۱۹۴۷ء۵۵۸ میں چھ مجاہدین کا ایک قافلہ قادیان سے بھجوایا گیا جو میر ضیاء اللہ صاحب` مولوی فضل الٰہی صاحب بشیر۔۵۵۹ سید ولی اللہ صاحب` مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل۔۵۶۰ مولوی جلال الدین صاحب قمر۵۶۱ اور حکیم محمد ابراہیم صاحب۵۶۲ پر مشتمل تھا۔ یہ مبلغین ۲۸/ فروری ۱۹۴۷ء کو دارالسلام پہنچے۔۵۶۳ اور تین ماہ تک ٹبورا میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سے سواحیلی سیکھنے اور دوسری ضروری ٹریننگ لینے کے بعد آخر جون ۱۹۴۷ء میں نیروبی` کسوموں` یوگنڈا` ٹانگا نیکا اور ٹبورا میں متعین کر دیئے گئے۔۵۶۴ جس سے ملک کے طول و عرض میں تبلیغ اسلام کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی اور خاص بات یہ ہوئی کہ احمدیت خاص طور پر افریقنوں میں بھی پھیلنے لگی۔ چنانچہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا۔
>ایسٹ افریقہ میں ہماری جماعت بہت مضبوط تھی مگر مقامی باشندوں میں تبلیغ نہیں کی جاتی تھی یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ مقامی باشندے ہماری بات ہی نہیں سنتے۔ میں انہیں یہی کہتا تھا کہ تم اپنی بات انہیں سناتے ہی نہیں ہو۔ اس لئے کہ پنجابیوں میں اپنی زبان میں تبلیغ کرلینا زیادہ آسان ہے ہندوستانیوں میں تبلیغ کر لینا زیادہ آسان ہے۔ میں نے شیخ مبارک احمد صاحب کو ہدایت دی کہ وہ افریقنوں میں بھی تبلیغ کی طرف توجہ دیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں توفیق دی ہمارے ایک نوجوان۵۶۵ جو وہاں کام کرتے تھے انہوں نے زندگی وقف کر دی میں نے لکھا۔ انہیں وہیں رکھ لو ۔۔۔۔۔۔ شیخ مبارک احمد صاحب نے زائد آدمی مل جانے پر میری ہدایت کے مطابق انہیں افریقنوں میں تبلیغ پر لگا دیا۔ چھ سات ماہ کے بعد دو چار افریقن جماعت میں داخل ہو گئے۔ پھر انہیں چاٹ لگ گئی۔ اب خط آیا ہے کہ وہاں ایک آدمی کے ذریعہ چالیس افریقن احمدیت میں داخل ہوئے ہیں وہاں اب ہمارے کافی مبلغ کام کر رہے ہیں۔ ویسٹ افریقہ میں ہزاروں مقامی لوگ جماعت میں داخل ہیں۔۵۶۶
مشرقی افریقہ کے نئے مراکز کو تقویت پہنچانے کے لئے قیام پاکستان کے بعد جو مجاہدین حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حکم سے اب تک اس ملک میں تشریف لے گئے ان کے نام یہ ہیں۔
مولوی محمد منور صاحب۔۵۶۷body] [tag مولوی عبدالکریم صاحب شرما۔۵۶۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوہدری احسان الٰہی صاحب جنجوعہ۔ مولوی نور الدین صاحب منیر۔۵۶۹ حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب )یوگنڈا(۵۷۰ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر۔۵۷۱ حافظ محمد سلیمان صاحب )نیروبی کسموں(۵۷۲ مولوی منیر الدین احمد صاحب )نیروبی کسموں(۵۷۳ مولوی عبدالخالق صاحب۔۵۷۴ مولوی عبدالرحمن صاحب سیلونی )ٹبورا(۵۷۵ ملک جمیل الرحمن صاحب رفیق )دارالسلام(۵۷۶ مولوی رشید احمد صاحب سرور ٹبورا )ٹانگا نیکا(۵۷۷ قاضی نعیم الدین احمد صاحب )کسموں(۵۷۸ صوفی محمد اسحق صاحب )یوگنڈا۔ کینیا(۵۷۹ شیخ ابوطالب صاحب عیدی ساندھی صاحب )ٹانگا نیکا(۵۸۰ مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح ¶)یوگنڈا(۵۸۱ قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی )نیروبی(۵۸۲ مولوی روشن دین صاحب )کینیا(۵۸۳ ملک احسان اللہ صاحب )دارالسلام(۵۸۴ مولوی عبدالرشید صاحب رازی )ٹبورا(۵۸۵ مرزا محمد ادریس صاحب )یوگنڈا(۵۸۶ محمد عیسیٰ صاحب )کینیا(۵۸۷
ان سب مبلغین کی ان تھک کوشش` محنت` ایثار اور اخلاص کا یہ نتیجہ ہے کہ مشرقی افریقہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور احمدیت کے قدم مضبوط سے مضبوط تر ہو گئے ہیں۔
جماعت ہائے مشرقی افریقہ کی سالانہ کانفرنس
جب ٹبورا کی مسجد کا ۱۹۴۴ء میں افتتاح ہوا اور مشرقی افریقہ کے مختلف علاقوں سے احمدی شامل ہوئے تو مشرقی افریقہ کی سالانہ کانفرنس بھی منعقد کی گئی اس کانفرنس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ہر سال مشرقی افریقہ کے احمدیوں کی کانفرنس ہوا کرے اس کے بعد دوسری کانفرنس کا انعقاد دسمبر ۱۹۴۵ء میں نیروبی کے مقام پر ہوا۔ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ کے علاوہ اس میں مولوی نور الحق صاحب انور شیخ امری عبیدی صاحب مرحوم اور شیخ صالح صاحب بطور مبلغین شامل ہوئے۔ چند سال بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حکم پر مشن کے بجٹ` اخراجات اور آمد کے علاوہ گزشتہ جدوجہد کے جائزہ اور نئے سال کا پروگرام مرتب کرنے کے لئے مالی اور تبلیغی معاملات کی دو سب کمیٹیاں تشکیل کی گئیں جن میں ہر سال چھ مبلغین اور چھ منتخب نمائندے مشرقی افریقہ کے شامل کئے جاتے تھے۔ ان کمیٹیوں کے صدر رئیس التبلیغ شیخ مبارک احمد صاحب تھے۔۵۸۸]4 [rtf
اس نئے طریق پر کانفرنس پہلی بار کمپالہ میں پھر نیروبی میں ہوئی اور پھر باقاعدہ ہر سال منعقد ہوتی رہی۔ آخری کانفرنس دسمبر ۱۹۶۰ء میں دارالسلام کی مسجد میں منعقد ہوئی۔
ٹبورا کے پادریوں کا مقابلہ
جولائی اگست ۱۹۵۰ء کا واقعہ ہے کہ ٹبورا کے ایک رومن کیتھولک پادری نے اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کے خلاف اپنے رسالہ <KIONGOZI> میں بہت کچھ لکھا اور مولوی جلال الدین صاحب قمر نے راتوں رات مکرم امری عبیدی صاحب کی معیت میں ایک مختصر سا اشتہار احمدیہ پریس بٹورا۵۸۹ سے شائع کیا جس میں پادریوں کے الزامات کا مختصر جواب دے کر ان کو پبلک مناظرہ کی دعوت دی۔
اس اشتہار سے عیسائیوں میں کھلبلی مچ گئی اور مسلمانوں کی طرف سے خوشی اور مسرت کے خطوط آنے شروع ہو گئے چنانچہ زنجبار کے مشہور و معروف عالم شیخ عبداللہ صالح نے سواحیلی میں مکرم مولوی جلال الدین صاحب قمر کے نام ایک خط لکھا کہ آپ کا مضمون >حق ہی غالب ہوتا ہے<۔ پر مبارکباد دیتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور ان تمام کو جو حق کی حمایت میں کمربستہ ہیں۔ اگرچہ میں احمدیوں کی بعض باتوں سے اتفاق نہیں رکھتا لیکن خدا تعالیٰ اور اس کے مقدسوں کے سامنے اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ احمدیوں کے اندر حفاظت اسلام کے لئے جو غیرت ہے وہ مجھے بے حد محبوب ہے احمدی قطعاً اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کے خلاف کچھ لکھا یا کہا جائے اور جب تک اس کا شافی جواب دے کر دشمن اسلام کو خاموش نہ کر دیں دم نہیں لیتے۔ خصوصاً افریقہ کے عیسائیوں کو دست بدست لینے میں جو کمال جرات دکھائی ہے وہ انہیں کا کام ہے<۔۵۹۰]4 [rtf
سواحیلی ترجمہ قرآن
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی تحریک تراجم قرآن کریم کے ماتحت مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے نومبر ۱۹۳۶ء میں قرآن مجید کے سواحیلی ترجمہ کا مقدس کام شروع کیا۔۵۹۱ محترم شیخ صاحب ترجمہ کر چکے تو مسودہ پر >انٹر ٹیر ٹیوریل لنگویج کمیٹی فار سواحیلی< نے )جس میں کینیا اور زنجبار کے سواحیلی زبان کے ماہر شامل تھے( ناقدانہ نظر ڈالی اور جائزہ کے بعد رائے دی کہ بحیثیت مجموعی یہ ترجمہ اچھا ہے۔ تاہم ماہرین زبان کے مشورہ سے بعض اصول زبان دانی و ترجمہ وضع کئے گئے اور ان کے مطابق محترم شیخ صاحب نے ترجمہ پر نظر ثانی کی۔ اس ہم کام میں شیخ امری عبیدی صاحب۵۹۲ اور مولوی محمد منور صاحب نے مکرم شیخ صاحب کے ساتھ مل کر بہت ہی قابل قدر کام کیا۔ جب ہر طرح سے ترجمہ کی سلامت و صحت کا یقین ہو گیا اور مختصر تفسیری نوٹ بھی مکمل ہو گئے تو اسے حوالہ طباعت کیا گیا اور آخر سترہ سال کی محنت شاقہ اور دو لاکھ شلنگ کے صرف کثیر سے یہ ترجمہ مارچ ۱۹۵۳ء میں دس ہزار کی تعداد میں منظر عام پر آگیا۔ دیباچہ کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اردو میں ایک خاص۵۹۳ مضمون ارسال فرمایا جو سواحیلی زبان میں ترجمہ کرکے شامل کیا گیا اور اس کی سب سے پہلی کاپی بذریعہ ہوائی ڈاک حضورؓ کی خدمت اقدس میں بھیج دی۔ حضورؓ انور نے بذریعہ تار قرآن کریم کے ترجمہ سواحیلی کی اشاعت اور تقسیم کی اجازت مرحمت فرمائی۔
سواحیلی ترجمہ قرآن کی اشاعت۵۹۴ سے مشرقی افریقہ مشن کی تاریخ کا ایک نیا اور سنہری دور شروع ہوتا ہے جو اشاعت اسلام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ترجمہ سے مشرقی افریقہ میں تبلیغ و اشاعت اسلام کا کام پہلے کی نسبت بہت آسان ہو گیا اور قرآن مجید کی روشنی سے اس تاریک براعظم کے مقامی باشندے بھی منور ہونے لگے۔
چنانچہ ایک افریقن چیف نے لکھا۔
>ہم گہرے اندھیرے میں تھے اور روحانی طور پر مردہ۔ قرآن کریم کے سواحیلی ترجمہ کی اشاعت سے اسلام کے نور سے ہمیں منور کیا گیا ہے اور افریقن اقوام کو ابھارنے کی عمدہ سعی کی گئی ہے<۔
مشرقی افریقہ میں آزادی کے علمبردار مشہور لیڈر مسٹر جومو کنیاٹا )حکومت کینیا کے موجودہ صدر( اور ان کے ساتھیوں کو جبکہ وہ مائو مائو تحریک کو منظم کرنے کے الزام میں گرفتار تھے سواحیلی ترجمہ بھجوایا گیا۔ مسٹر جو موکنیاٹا نے تین دفعہ یہ ترجمہ پڑھایا اور کہا ابھی اس کو پھر پڑھنے کا شوق ہے نیز ایک مجلس میں برملا کہا کہ اسلام توحید و مساوات کا علمبردار ہے اور عیسائیت بت پرستی اور شرک کی تعلیم سے ملوث۔۵۹۵
اسی طرح مسٹر جولیس نیریرے )صدر جمہوریہ ٹانگا نیکا( مسٹر رشیدی کواوا )نائب صدر جمہوریہ ٹانگا نیکا( کابینہ کے ارکان اور دیگر سیاسی اور قومی لیڈروں نے اسے بڑے شوق سے پڑھا اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا۔۵۹۶
مسٹر لنڈن ہیرس ایم۔ اے پی۔ ایچ۔ ڈی لکھتے ہیں۔
>۱۹۵۳ء میں قرآن کریم کا ایک نیا ترجمہ طبع ہو کر منظر عام پر آیا ہے۔ یہ ترجمہ جماعت احمدیہ کے ایک سرکردہ رکن شیخ مبارک احمد صاحب نے نیروبی سے شائع کیا ہے اس سواحیلی ترجمہ میں قرآنی آیات کی احمدیہ نکتہ نگاہ سے تفسیر بھی درج کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس میں وہ تفسیر بھی شامل کی گئی ہے جو صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے قبل ازیں شائع ہو چکی ہے۔ تاہم بائیبل کے حالیہ سواحیلی ترجموں مثلاً >یونین ورشن آف دی بائیبل< اور مشرقی افریقہ کے اخبارات اور آرچ بشپ آف یارک ایسے نامور عیسائی لیڈروں کے تبصروں کے اقتباسات اور حوالے وغیرہ درج کرکے اسے زیادہ سے زیادہ مکمل کر دیا گیا ہے۔ یہ کتاب عالمانہ شان اور جدت کی پوری آئینہ دار ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ دوسرے متعصب قسم کے مسلمان جماعت احمدیہ کو بدعتی سمجھتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ تمام ہم مذہب فرقوں کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا زیادہ بہتر طریق پر دفاع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ آج اسلامی دنیا میں ان سے زیادہ فعال تبلیغی جماعت موجود نہیں۔ یہ امر خاص طور پر نمایاں حیثیت کا حامل ہے کہ تمام مسلمان فرقوں میں سے صرف یہی ایک ایسا فرقہ ہے جو افریقہ کے قبائلی مسلمانوں کے درمیان پائوں جمانے اور اپنے آپ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے<۔۵۹۷ کیمرج یونیورسٹی نے ۔AFRICA EAST OF HISTORY THE TO INTRODUCTION کتاب میں مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے تاریخی حالات لکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا۔
>اسلام کا مشرقی افریقہ میں یہ پہلا تبلیغی مرکز جماعت احمدیہ نے ۱۹۳۵ء میں ٹبورا )ٹانگا نیکا( میں قائم کیا اور اب یہ فرقہ ہر سہ علاقوں میں تبلیغی کام کر رہا ہے۔ اس فرقہ کا سب سے پہلا اور اہم کام جو اس کے مبلغ شیخ مبارک احمد صاحب نے سر انجام دیا ہے وہ سواحیلی ترجمتہ القرآن مع تفسیری نوٹوں کے ہے اور دوسرا اسلامی لٹریچر بھی شائع کیا جارہا ہے<۔
کسموں میں مسجد کی تعمیر
۱۹۵۳ء میں مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل نے مسجد کسموں کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد اپریل ۱۹۵۴ء کو تکمیل تک پہنچی بعد میں یہاں مشن ہائوس بھی تعمیر کیا گیا جو ستمبر ۱۹۵۴ء میں مکمل ہوا۔۵۹۸
شیخ امری عبیدی صاحب کی اسلامی خدمات
مشرقی افریقہ مشن کی تاریخ میں شیخ امری عبیدی جیسے عالم باعمل اور صاحب رئویاء کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ محترم عبیدی صاحب نومبر ۱۹۳۶ء۵۹۹ میں شیخ مبارک احمد صاحب کی تبلیغ سے داخل احمدیت ہوئے اور آپ کے زیر تربیت دینی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ پھر آپ ہی کی تحریک پر سرکاری ملازمت سے فارغ ہو کر یکم اکتوبر ۱۹۴۳ء۶۰۰ سے مبلغین سلسلہ میں شامل ہو کر مشرقی افریقہ میں تبلیغی خدمات بجا لانے لگے۔
خدا تعالیٰ نے آپ کو زبردست دماغ بخشا تھا اور تقریر کی غیر معمولی قابلیت بھی عطا کر رکھی تھی۔ اب جو تبلیغی میدان میں آئے تو خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت ان کے شامل حال ہوئی اور آپ کے ذریعہ سے کئی لوگوں کو حق پہچاننے کی توفیق ملی۔ اسی طرح سواحیلی لٹریچر تیار کرنے میں آپ نے شیخ مبارک احمد صاحب کا پورے اخلاص و فدائیت کے ساتھ ہاتھ بٹایا۔
۱۹۵۴ء میں آپ ربوہ بھجوائے گئے اور مزید مذہبی تعلیم حاصل کرکے ۲۴/ اپریل ۱۹۵۶ء کو واپس مشرقی افریقہ تشریف لے گئے۔
ان دنوں افریقہ کی تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ قانون کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے بھی اس میں مناسب حصہ لیا اور اس میدان میں بڑا نام پیدا کیا۔ بڑے سے بڑے افریقن سیاسی رہنما ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے کی قدر کرتے تھے۔
۱۵/ فروری ۱۹۶۰ء۶۰۱ کو پہلی بار دارالسلام کے میئر منتخب ہوئے جس سے تبلیغ کا ایک نیا رستہ کھل گیا اور سرکاری حلقوں میں بھی اسلام اور احمدیت کی آواز بلند ہونے لگی۔ یاد رہے دارالسلام وہی علاقہ تھا جہاں احمدی مبلغین کی سخت مخالفت کی گئی اور بعض اوقات ان کی قیام گاہوں پر پتھرائو کیا جاتا تھا اور شیخ امری عبیدی تو احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیئے گئے تھے اور ان کے قتل کرنے کی دھمکیاں دی جا چکی تھیں۔ میئر بننے کے بعد آپ ٹانگا نیکا لیجسلیٹو کونسل کے بلامقابلہ ممبر بھی منتخب ہو گئے۔۶۰۲
ایک بار اسمبلی میں حقوق شہریت کا بل پیش ہوا۔ جس کے پاس نہ ہونے کی صورت میں وہاں ایشیائی باشندوں کے لئے زبردست مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ اسمبلی میں اس کی سخت مخالفت ہوئی۔ اس موقعہ پر جناب امری عبیدی صاحب نے دعا کی کہ انہیں ایسی تقریر کرنے کی توفیق ملے جس سے ہائوس کی رائے بدل جائے اور حکومت کے حسب منشا بل پاس ہو جائے تا افریقنوں کے ساتھ ساتھ ایشیائی اور یورپی باشندے بھی مساوی حقوق شہریت کے حقدار قرار پا سکیں۔ چنانچہ انہوں نے خدائی تائید سے ایسی معرکتہ الاراء تقریر کی کہ ہائوس کی رائے یکسر بدل گئی۔ تقریر ختم ہوتے ہیں وزیراعظم چل کر آپ کے پاس آئے اور آپ سے بغل گیر ہو کر نہایت مدلل اور کامیاب تقریر پر آپ کو مبارکباد دی۔ اخبارات نے آپ کی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہائوس میں ایسی عمدہ تقریر آج تک نہیں ہوئی۔ یورپی اور ایشیائی باشندوں نے بھی آپ کی تقریر کو بہت سراہا اور بعض کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ یہ احمدیہ مشن ہی کا ایک ثمرہ ہے۔
آپ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے ٹانگا نیکا میں عید الاضحیٰ کی تعطیل عام کا سوال اٹھایا اور حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا۔ اسی طرح انہی کے زور دینے پر یہ فیصلہ بھی ہوا کہ جمعہ کے دن سرکاری دفتروں میں مسلمان ملازمین کو بارہ بجے کے بعد رخصت ہو گی۔۶۰۳][۱۹۶۲ء کے شروع میں ہی آپ ٹانگا نیکا کے مغربی صوبہ کے ریجنل کمشنر مقرر کر دیئے گئے۔ ۱۲/ مارچ ۱۹۶۳ء کو ٹانگا نیکا کے وزیر انصاف مقرر کئے گئے۔ ۱۹۶۴ء کے شروع سے جب زنجبار کا علاقہ ٹانگا نیکا سے ملا دیا گیا تو انہیں تعمیر قومی و ثقافت ملیہ کی وزارت سونپی گئی۔ اس عہدہ پر فائز ہونے کے بعد آپ کی صحت خراب ہونے لگی اور مغربی جرمنی کے شہربان میں قریباً دو ماہ زیر علاج رہنے کے بعد ۹/ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
آپ ۱۶/ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ احمدیہ قبرستان چنگو مبے کے قطعہ موصیان میں دفن کئے گئے۔ آپ کے جنازہ میں ٹانگا نیکا کے صدر اور کینیا اور یوگنڈا کے وزرائے اعظم اور دیگر اعلیٰ حکام بھی شامل ہوئے اور ٹانگا نیکا اور زنجبار ریپبلک کے صدر مملکت ڈاکٹر جولئیس نیریرے نے کہا۔
>ہم میں سے ان بہت سے لوگوں کے لئے جن کے ایک لمبے عرصہ سے ان کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے ان کی وفات ایک ذاتی نقصان کی حیثیت رکھتی ہے مزید برآں ان کی وفات ہماری قوم کے لئے بھی ایک عظیم نقصان ہے ان کی عظیم لیاقتیں اور ان کی خدمات بلا پس و پیش اس ملک کے لوگوں کے لئے ہمیشہ وقف رہیں۔ ہم اپنے درمیان اس خلاء کو برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتے<۔۶۰۴
مسجد دارالسلام کی تعمیر
۱۹۵۵ء میں ٹانگا نیکا کے دارالحکومت دارالسلام میں مسجد کی بنیاد رکھی گئی اس وقت مولوی جلال الدین صاحب قمر اور مولوی عبدالکریم صاحب شرما دارالسلام میں متعین تھے۔ یہ مسجد ایک لاکھ شلنگ کے خرچ سے مکمل ہوئی اور ۱۵/ مارچ ۱۹۵۷ء کو اس کا افتتاح ہوا۔
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس موقعہ پر ایک اہم پیغام ارسال فرمایا۔ جس میں اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ >میں یوگنڈا کے علاقہ میں بھی مسجد کی تعمیر کی خوشخبری سننے کا منتظر ہوں<۔۶۰۵
مسلمانان مشرقی افریقہ کی تعلیمی ترقی کے لئے جدوجہد
افریقن مسلمانوں کی تعلیم کا سوال اسلام کی ترقی و استحکام کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے احمدیہ مشن مشرقی افریقہ نے اپنے محدود ذرائع کے باوجود اس طرف شروع سے خاص توجہ کی ہے۔
ممباسہ میں افریقن مسلمان آبادی چالیس ہزار کے قریب ہے مگر تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے لیجسلیٹو کونسل کے لئے ایک بھی مسلمان کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ مولوی نور الدین صاحب منیر )کینیا کے احمدی مبلغ( نے اعلیٰ سرکاری افسروں سے ملاقات کی اور ان کو توجہ دلائی کہ وہ افریقن مسلمانوں کی تعلیم کے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں۔
اس کے علاوہ آپ نے پریس میں ممباسہ کے مسلمان بچوں کے اعداد و شمار دیئے جس میں بتایا کہ دس ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اس جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنوری ۱۹۵۷ء سے ایک نیا سکول جاری ہو گیا جس میں افریقن مسلمانوں نے خاصی تعداد میں بچے بھجوائے اور حکومت ممباسہ نے افریقن مسلم سوسائٹی کو مالی امداد دینے کا بھی وعدہ کیا۔۶۰۶` ۶۰۷
علاوہ ازیں مسلمان افریقنوں کی تعلیم کے لئے ٹانگا نیکا اور یوگنڈا کے مبلغین نے بے حد کوشش کی۔
اخبار >ایسٹ افریقن ٹائمز<
مئی ۱۹۵۷ء سے جماعت احمدیہ مشرقی افریقہ کی طرف سے انگریزی ماہنامہ >ایسٹ افریقن ٹائمز<۶۰۸ جاری کیا گیا۔ جو جلد ہی پندرہ روزہ اخبار کی صورت میں شائع ہونے لگا۔ اخبار کے پہلے ¶ایڈیٹر مولوی نور الدین صاحب منیر مقرر کئے گئے۔ جنہوں نے اس کی ادارت کے فرائض انجام دینے کے علاوہ اس کی اشاعت کی طرف خاص توجہ کی۔
افریقن مسلمان تعلیم کے لحاظ سے بہت پیچھے تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ سب اسکول عیسائی مشنوں کی طرف سے جاری کئے گئے تھے اور وہاں عموماً مسلمانوں کو داخلہ نہیں ملتا تھا۔ حکومت کی تعلیمی پالیسی یہ تھی کہ جو مقامی ادارہ سکول جاری کرکے ایک سال تک کامیابی سے چلا کر دکھا دے اسے سو فیصدی گرانٹ دی جائے گی اس پالیسی کا نتیجہ یہ تھا کہ سارے اسکول عیسائی مشنوں کے تھے اور مسلمان ایک سکول بھی جاری نہ کر سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس نہ سرمایہ تھا نہ ٹرینڈ استاد۔ >ایسٹ افریقن ٹائمز< نے افریقن مسلمانوں میں تعلیمی لحاظ سے بیداری پیدا کرنے کی جدوجہد کی بلکہ حکومت کو بھی توجہ دلائی کہ اس کی تعلیمی پالیسی جانبدارانہ ہے اور اسے مسلمانوں کے لئے علیحدہ اسکول جاری کرنے چاہئیں۔ چنانچہ اس کے خاطر خواہ نتائج پیدا ہوئے۔
شروع ۱۹۵۸ء میں برطانیہ نے کینیا میں ایک دستور نافذ کیا۔ جس کی رو سے قانون ساز اسمبلی میں افریقنوں کے لئے چار ایسی نشستیں مقرر کی گئیں جن کا انتخاب دستور ساز اسمبلی کے ذمہ تھا اور جس میں اکثریت یورپین ممبروں کی تھی۔ اسمبلی کے افریقن ممبروں نے ایک بیان میں ایسے افریقنوں کو جو ان نشستوں کے لئے کھڑے ہوں >غدار< قرار دیا۔ یہ بیان >ایسٹ افریقن ٹائمز< میں بھی شائع کیا گیا۔ حکومت نے افریقن لیڈروں کے ساتھ اس اخبار پر بھی مقدمہ دائر کر دیا۔ یہ مقدمہ نیروبی میں ڈیڑھ ماہ تک جاری رہا مشن کی طرف سے محترم ملک احمد حسن صاحب اور ملک عبدالقادر صاحب نے اس کی پیروی کی۔ عدالت نے مولوی نور الدین صاحب منیر )ایڈیٹر( اور مولوی محمد منور صاحب پر معمولی جرمانہ تو کر دیا لیکن اخبار کو شہرت کے لحاظ سے بہت فائدہ ہوا۔ مقدمہ کی ہر پیشی پر نہ صرف ریڈیو نے ساری روداد نشر کی بلکہ مشرقی افریقہ کے سب مقتدر >روزنامے< بھی اس کی خبر نمایاں طور پر شائع کرتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ >ایسٹ افریقن ٹائمز< دور دور علاقوں میں مشہور ہو گیا۔ اور افریقنوں نے اسے خواب سراہا کہ اس نے ان کی جدوجہد آزادی میں افریقنوں کے دوش بدوش ساتھ دیا ہے۔
>ایسٹ افریقن ٹائمز< اب تک باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے اور اپنی عمدگی و نفاست اور مضامین کی ندرت کے باعث نہ صرف مشرقی افریقہ بلکہ سارے افریقہ میں بڑا مقبول ہے مسٹر >ہمفری جے فشر< نے اپنی تصنیف >احمدیت افریقہ میں< اس کا ذکر تعریف آمیز الفاظ میں کیا ہے۔ محترم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی اور قاضی کبیر احمد صاحب بھٹی شروع سے ہی اس اخبار کی تدوین و اشاعت میں امداد کرتے رہے اور قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی تو ۱۹۶۳ء سے لے کر ۱۹۶۶ء تک اس کے ایڈیٹر بھی رہے۔
جنجہ )یوگنڈا( میں مسجد اور مشن ہائوس کی تعمیر
۲۷/ جولائی ۱۹۵۷ء کو مسجد جنجہ کی اور اگست ۱۹۵۷ء میں اس کے مشن ہائوس کی بنیاد رکھی گئی۔ ٹبورا کی طرح یہاں بھی لوگوں نے مسجد کا بائیکاٹ کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت کی مخلصانہ کوششوں میں برکت ڈالی اور یہ دونوں عمارتیں ۱۹۵۹ء میں مکمل ہو گئیں۔ جنجہ کی جماعت نے عموماً اور حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب مبلغ مقامی اور بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر صدر جماعت نے خصوصاً اس کی تکمیل میں نمایاں حصہ لیا۔۶۰۹
ممباسہ میں مسجد کی تعمیر
یہ مسجد ممباسہ کے محلہ مکوپا میں ایک فری ہولڈ پلاٹ پر تعمیر کی گئی اس کے لئے ایک مخلص احمدی خاتون سیدہ مرجان صاحبہ )اہلیہ سید معراج الدین صاحب مرحوم( نے ساٹھ ہزار شلنگ کا عطیہ دیا۔۶۱۰
مسجد کے ساتھ دارالتبلیغ بھی تعمیر ہوا جس کے لئے بابا فقیر محمد صاحب مرحوم کے بچوں نے بیس ہزار شلنگ چندہ دیا۔۶۱۱ تعمیر کا کام محمد افضل خاں صاحب اور نعمت اللہ خان صاحب بلڈنگ کنٹریکٹرز نے اپنی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
ڈاکٹر بلی گراہم کو مقابلہ روحانی کا چیلنج
امریکہ کے مشہور مسیحی مناد ڈاکٹر بلی گراہم ۱۹۶۱ء کے شروع میں افریقہ کے تبلیغی دورہ پر روانہ ہوئے تو امریکی پریس )خصوصاً اخبار >ٹائم< اور >نیوز ویک(< نے اس دورہ کو بہت اہم قرار دیا اور عیسائیت کی کامیابی کی بڑی امیدیں اس سے وابستہ کیں۔ افریقہ کے طول و عرض میں کئی ماہ سے ان کی آمد کا زبردست پروپیگنڈا جاری تھا کہ ڈاکٹر بلی گرام فروری کے آخر میں نیروبی پہنچے اور عظیم الشان جلسے منعقد کئے گئے جن میں انہوں نے لاکھوں نفوس سے خطاب کیا۔
شیخ مبارک احمد صاحب نے ۳/ مارچ ۱۹۶۱ء کو ڈاکٹر بلی گراہم کے نام ایک خط لکھا جس میں ان کے سامنے انجیل کے اصولوں کی رو سے بذریعہ دعا لا علاج بیماروں کو تندرست کرنے کا طریق رکھا اور اس کے مطابق اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کو للکارا۔۶۱۲
ملکی اخبارات میں اس چیلنج کا خوب چرچا ہوا اور پریس نے شیخ صاحب کا فوٹو شائع کرکے اس کو خاص اہمیت دے دی جس سے متاثر ہو کر ڈاکٹر گراہم سے ان کے ایک لیکچر کے بعد سوال کیا گیا کہ کیا آپ چیلنج قبول کریں گے؟ ڈاکٹر گراہم نے جواب دیا۔ >میرا کام محض وعظ کرنا ہے مریضوں کو چنگا کرنا نہیں<۔۶۱۳body] g[ta
عیسائی حلقوں کی طرف سے ڈاکٹر بلی گراہم کو مجبور کیا جانے لگا کہ وہ یہ چیلنج قبول کرکے عیسائیت کی سچائی کا ثبوت دیں۔ ورنہ عیسائیت کو سخت زک پہنچے گی۔ مگر وہ آمادہ نہ ہو سکتے تھے اور نہ ہوئے۔۶۱۴ افریقہ کے غیر احمدی مسلمانوں نے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو مبارکباد دی اور اقرار کیا کہ آپ نے عیسائیت کے بالمقابل اسلام کا جھنڈا خوب بلند رکھا ہے۔۶۱۵
اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد غزنوی نے پاکستان کے اخبار >مشرق< )لاہور( مورخہ ۱۸/ اکتوبر ۱۹۶۳ء میں لکھا۔
>چند سال سے افریقہ میں تبلیغ کے سلسلہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان معرکہ جاری ہے عیسائی مشنری اپنے تمام ہتھیاروں سے لیس ہو کر افریقہ پر ایک مدت سے حملہ آور ہیں اس کے مقابلہ میں مسلمان مشنریوں نے بھی وہی طریقے اختیار کئے فرق صرف اتنا تھا کہ مسلمانوں کی تنظیم اتنی مکمل نہ تھی اور ان کے مالی وسائل حد درجہ محدود تھے۔ جس کی کمی پوری کرنے کے لئے انہوں نے حد درجہ جسمانی مشقت سے کام لیا۔ امریکہ کے ایک پادری بلی گراہم کو پچھلے دنوں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی مسلمان مبلغوں نے ان کا افریقہ میں اس طرح پیچھا کیا کہ ان کی خطابت اور زور بیان کا بھرم کھل گیا۔ ہر جلسہ میں ان سے عیسائیت کے بارے میں ایسے سوال کئے گئے کہ کوئی عیسائی ان کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ انہیں ہر شہر میں مناظرہ۶۱۶ کا چیلنج دیا گیا جب انہوں نے یہ رنگ دیکھا تو وہ اپنا چار مہینہ کا طویل پروگرام مہینہ بھر میں ختم کرکے واپس بھاگ گئے اور اس دن سے ان کی شہرت پھر کبھی سننے میں نہ آئی<۔۶۱۷
مسیحی مورخین ومحققین کا اعتراف
ہٹسن )امریکہ( کی رائس یونیورسٹی کے پروفیسر عمرانیات جناب ولیم مارٹن (WILLIAM MARTIN) مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کے چیلنج اور بلی گراہم کے واضح گریز کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ۔:
invitation Graham,s rescind to managed Sudan is Muslim feared they because apparently country, that in preach to sacred the Ramadan, of observance proper disrupt might he normal restrict severely Muslims which during month challenge, Muslim elbaromem and explicit most The ۔activities Sheikh Maulana where Kenya, in came however, Mission Muslim Ahmadiyya the of chief Ahmad, Mubarak reminiscent challenge a hurled Africa, East in famous his in Elijah prophet the by proposed that of ۔40)۔20 18: Kings (I Ball of priests the with Carmel Mount on contest leader Muslim the Graham, to letter a In Europeans, ten ۔individuals thirty that proposed the by certified all Africans, ten and Asians, ten be a Kenya of services medical of director tol by assigned be ۔medicine scientific by incurable a with together Graham, and he that and groups two into the heal to God beseech associates, of band small to as determine "to them to assigned group and mercy and grace Lord,s the with blessed is who declined, Graham If "۔closed remains door His whom upon world the to proved be will ~~t " argued, Ahmad capable is which religion only the is Islam that group A "۔God with relationship man,s establishing of the challenge; the "accept to mhi cabled Pentecostals American of up picked neither Graham but lives," still Elijah of 260)God ۔(P ۔press the to comment any offered nor gauntler the
William Martin William By 260۔P honor with Prophet York)(A New Company and Morrow
)ترجمہ( سوڈان میں مسلمانوں نے گراہم کو ملک میں تبلیغ کرنے کی دعوت منسوخ کرالی` بظاہر اس خوف سے کہ اس سے رمضان کی عبادات میں خلل واقع ہوگا۔ رمضان کے مقدس مہینہ میں مسلمان عام مصروفیات سختی سے روک دیتے ہیں۔ نہایت کھلا اور یاد رکھنے کے قابل چیلنج کینیا میں دیا گیا۔ کینیا میں ایسٹ افریقہ احمدیہ مسلم مشن کے سربراہ مولانا شیخ مبارک احمد نے ایسا زبردست چیلنج دیا جو کہ نبی ایلیا )الیاس( کے اس چیلنج کی یاد دلاتا ہے جو اس نے کوہ کرمل پر بعل کے پادریوں کو دیا تھا۔ )۱۔ سلاطین باب ۱۸ آیت ۲۰۔۴۰( اپنے خط میں مسلم لیڈر نے گراہم کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ تیس مریض لئے جائیں۔ جن میں سے دس یورپین ہوں` دس ایشین اور دس افریقن۔ ان مریضوں کے بارہ کینیا کے ڈائریکٹر آف میڈیکل سروسز کی تصدیق ہو یہ سب طبی لحاظ سے لاعلاج ہیں۔ یہ مریض بذریعہ قرعہ اندازی مسلم لیڈر اور گراہم میں برابر تقسیم کردئے جائیں۔ پھر ہر دو اپنے اپنے چند ساتھیوں سمیت اپنے حصے کے مریضوں کی شفایابی کے لئے خدا سے دعا کریں۔ تاکہ فیصلہ ہو کہ خدا کا فضل اور رحم کس کے ساتھ ہے اور کون اس سے محروم ہے۔ احمد )شیخ مبارک احمد( نے کہا کہ اگر گراہم نے یہ تجویز قبول نہ کی تو دنیا پر ثابت ہوجائے گا کہ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جو بندے کا خدا سے تعلق قائم کرا سکتا ہے۔ امریکہ کے Pentecost کے ایک گروہ نے گراہم کو تار دی کہ >چیلنج قبول کرلو۔ ایلیاء )الیاس( کا خدا اب بھی زندہ ہے<۔ مگر گراہم نے نہ تو چیلنج قبول کیا اور نہ ہی پریس کے لئے کوئی تبصرہ کیا۔
مشہور امریکی اخبار لائف (LIFE) اور نیوز ویک WEEK) (NEWS خصوصی نامہ نگار اور کئی درجن کتابوں کے مولف مارشل فریڈی FRADY) (MARSHALL لکھتے ہیں ۔:
persistently was also Graham disarrayings, occasional these Beside healing to evangelists Islamic by challenged between equally divide to being proposal one ۔duels incurable pronounced patients hospital thirty them Roy ۔Allah and Christ between off۔face public grand a for "Boy, remembers, there, Graham accompanied had who Gustafson, sorts, all and people press ringing, started phones those Graham, But "۔do to going was Billy what know to wanting to snap merely would harried, somewhat feel to beginning Gustafson, says Finally, "۔comment No ۔comment "No inquiries, all letters and wires these all getting started "We ۔floks Pentecostal the particularly ۔States the in back people from the that them Show challenge! eht Accept on! Go us` telling from quoting kept just Billy But lives!, still Elijah of God prophets, the and Moses not hear they If parable, 330)Jesus,۔(P "۔dead the from rose one though persuaded, be they will neither
Brown ۔Little by published Frady Marshall By 330 ۔P Graham Boston~/~Toronto)(Billy Company and
)ترجمہ( گراہم کو پے درپے مسلمان مشنریوں کی طرف سے شفا بخشنے کے مقابلے کا چیلنج بھی دیا گیا۔ ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ تیس ایسے مریض جو ہسپتال کی طرف سے لاعلاج قرار دئے گئے ہوں ان کے درمیان تقسیم کردئے جائیں تاکہ عوام الناس کے سامنے یسوع اور خدا کا مقابلہ ہوجائے۔ رائے گسٹاف سن کو جو گراہم کے ساتھ تھے` یاد ہے کہ اس چیلنج پر ٹیلیفون بجنے لگے۔ پریس والے اور دیگر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ گراہم کیا اقدام کریں گے۔ لیکن گراہم قدرے برہم ہوکر تند لہجے میں صرف یہ جواب دیتے کہ >کوئی تبصرہ نہیں۔ کوئی تبصرہ نہیں<۔ مسٹر گسٹاف سن کہتے ہیں کہ آخر ہمیں امریکہ سے بھی تاریں اور خطوط آنے لگے` خاص طور پر فرقہ Pentecost کے لوگوں کی طرف سے` کہ >آگے بڑھو اور چیلنج قبول کرلو<۔ ان پر روشن کردو کہ ایلیاء کا خدا اب بھی زندہ ہے<۔ لیکن بلی گراہم محض یسوع کی اس تمثیل کا حوالہ دینے پر اکتفاء کرتے کہ >اگر وہ موسیٰ اور نبیوں کی نہیں سنتے` اور نہ ہی ان کو قائل کیا جائے گا اگرچہ کوئی مردوں سے جی اٹھے۔
کمپالہ )یوگنڈا( میں تعمیر مسجد محمود
مسجد سلام کے افتتاح پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے یوگنڈا میں تعمیر مسجد کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا جس کی تعمیل میں ۹/ اگست ۱۹۵۷ء کو مسجد کمپالہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔۶۱۸ یہ مسجد ۱۹۶۲ء میں مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے فرمایا۔ اس مسجد کے اکثر و بیشتر اخراجات محمد اکرم غوری صاحب نے ادا کئے۔
مشرقی افریقہ کے نظام تبلیغ میں تبدیلی
دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کا دائرہ عمل نہایت وسیع تھا۔ جس میں چار مستقل ممالک کینیا` یوگنڈا` ٹانگا نیکا اور زنجبار شامل تھے اور چاروں ممالک آزاد ہو رہے تھے۔۶۱۹ اس لئے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق یکم مئی ۱۹۶۱ء سے ان ممالک کا تبلیغی نظام بھی علیحدہ علیحدہ قائم کر دیا گیا۔
ٹانگا نیکا: نئے نظام کے تحت ٹانگا نیکا کے امیر اور انچارج مشن مولوی محمد منور صاحب فاضل مقرر کئے گئے۔ زنجبار کا الحاق ٹانگا نیکا کے ساتھ ہو گیا اور ملک کا نام تنزانیہ رکھ دیا گیا۔ اس وقت تنزانیہ مشن کے تین تبلیغی حلقے ہیں۔
)۱(
ٹبورا میں اس وقت مولوی عبدالرشید صاحب رازی اس مشن کے انچارج ہیں۔
)۲(
ٹانگا شہر جہاں حال ہی میں مسجد اور مشن کی تعمیر ہوئی ہے۔ موجودہ مشن انچارج شیخ ابو طالب عیدی ساندھی ہیں۔
)۳(
بکوبا میں حافظ محمد سلیمان صاحب انچارج ہیں۔
)۴(
دارالسلام تنزایہ کا دارلحکومت ہے اور انچارج مبلغ کا ہیڈ کوارٹر بھی یہی ہے۔
کینیا: نئے نظام کے ماتحت کینیا کے امیر اور مبلغ انچارج مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مقرر ہوئے آپ ۳۰/ اپریل ۱۹۶۲ء کو نیروبی سے کراچی کے لئے روانہ ہوئے۔ روانگی سے پہلے شیخ صاحب نے کینیا مشن کا چارج مکرم مولوی نور الحق صاحب انور کو دیا۔ شیخ مبارک احمد صاحب ۷/ مئی ۱۹۶۲ء کو مرکز میں تشریف لے آئے اور ساتھ ہی رئیس التبلیغ کا عہدہ بھی ختم کر دیا گیا۔
دسمبر ۱۹۶۴ء میں مولوی نور الحق صاحب انور واپس آگئے اور صوفی محمد اسحٰق صاحب اس وقت سے مشن کے انچارج ہیں۔ اس وقت کینیا کے تین اہم تبلیغی مراکز ہیں )۱( ممباسہ )۲( کسموں )۳( نیروبی۔ )امیر جماعت اور مبلغ انچارج نیروبی میں ہی رہتے ہیں(
یوگنڈا: نئے طریق عمل کے مطابق یکم مئی ۱۹۶۱ء سے مولوی عبدالکریم صاحب شرما اس ملک کے امیر اور یوگنڈا احمدیہ مشن کے انچارج مقرر کئے گئے۔ جو اب تک مصروف عمل ہیں۔ اس مشن کے اہم مراکز یہ ہیں۔ )۱( جنجہ )۲( کمپالہ )۳( مساکا )۴( لیرا۔۶۲۰
جدید نظام عمل کے تحت اشاعت احمدیت کے سلسلہ میں مبلغین نے جو سنہری خدمات انجام دیں وہ ترتیب واقعات کے لحاظ سے اپنے مقام پر آئیں گی۔ انشاء اللہ۔
افریقن معلمین
مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے کام میں افریقن احمدی معلمین نے قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ مشہور اور مخلص معلمین کے نام یہ ہیں۔
کینیا: علی کئوس۔ معلم علی۔ معلم نعمان۔ معلم حمیدی۔ معلم بشیر اوینڈو۔ حسن وڈینیں۔ اسمعیل حسیئیس۔ رجب اکیلو۔ نذیر احمد ابوایا۔ فضل احمدا وڈیرا۔ صادق امباسو۔ احمد امبوکا۔
یوگنڈا: حاجی ابراہیم سیمفوما۔ حاجی معلم زیدی۔ حاجی ایوب۔ حاجی جمادا۔ شیخ شعبانی کرونڈے۔ سلیمان مٹروممبا۔ معلم علی۔ نیکسانجا۔ شیخ عبدالقادر بگوہ۔ علی ککئی رے۔ معلم زکریا کزیٹو بلوڈے۔ معلم محمد بوزا۔ احمد مٹودو۔ مسعودی موٹوو۔ معلم خمیسی جمعہ۔ ہارون مٹورو۔ موسیٰ سیمپا۔ معلم حسانی۔ معلم محمود۔10] [p۶۲۱
تنزانیہ: معلم عمر عبداللہ۔ معلم رشیدی صالح۔ معلم سعیدی علی۔ عبدہ عمران۔ معلم شعبان سیف۔ شیخ یوسف دنیا۔ معلم محمود عبداللہ صاحب۔ معلم دائود علی صاحب۔ شیخ محاذ مشائو جی۔ شیخ احمد مٹاک۔ شیخ صالح مبروک۔ معلم احمد سانسہ۔ معلم عثمان کامبا الایا )مرحوم( معلوم مسعودی مسگارا۔ معلم موسیٰ براکا۔ معلم حمیدی بیانا۔ شیخ احمد اوکاش۔ شیخ رشیدی مسبہ۔ چیف محمد کلوفیا۔
اسلامی لٹریچر کی اشاعت
مشرقی افریقہ کے احمدی مجاہدین نے آج تک جو اسلامی لٹریچر شائع کیا ہے وہ بہت وسیع ہے جس کے اہم حصہ کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
)سواحیلی زبان میں( ترجمتہ القرآن سواحیلی۔ کشتی نوح۔ ایک غلطی کا ازالہ۔ احمدی اور غیر احمدی میں فرق۔ )کتب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام( >افریقن کس طرح ترقی کس سکتے ہیں؟< اسلام اور دیگر مذاہب۔ پیغام احمدیت۔ الکفر ملتہ واحدہ )حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( اسلام اور غلامی )سیرت خاتم النبینﷺ~ مولفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے ماخوذ( اسوہ حسنہ )از حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ( نماز کی کتاب ۔ آسمانی آواز۔ ادعیتہ الرسولﷺ~۔ اسلام میں بیاہ اور شادی۔ ہم اسلام کیوں قبول کریں۔ ہادی برحقﷺ~ کے احکام و ہدایات۔ اسباق الاسلام۔ الانذار۔ KATIKA UTUMWA ISLAM KI YA DINI )امری عبیدی صاحب مرحوم کا پہلا اشتہار(
)عربی زبان میں( )۱( الجماعہ الاحمدیہ الاسلامیہ )۲( کلمہ الحق )۳( الاحمدیہ ای الاسلام الصحیح )۴( شمس الھدی )حضرت مسیح موعودؑ کی نعت( )۵( اسمعوا صوت المنادی۔
)گجراتی زبان میں( ہمارا محمدﷺ~۔ خاتم القلوب۔ مسیح کی موت میں اسلام کی زندگی۔ ہمارا مذہب۔ سچائی کی فتح۔ شری نہہ کلنک اوتار۔ عقیدہ حیات مسیح اور مولوی عبداللہ شاہ کی درماندگی۔ مولوی عبداللہ شاہ سے دو حرفی فیصلہ۔ مولوی عبداللہ شاہ قرآن مجید سے ایک آیت بھی حیات مسیح کی نہ دکھا سکے۔۶۲۲ آسمانی آواز۔ نبوت کے متعلق بزرگان ملت کا خیال اور حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کی حقیقت۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت۔ جماعت احمدیہ کے عقائد۔ کامل ایمان کس کا ہے؟ یکے ندائے از زمین قدسیاں۔ وفات مسیح۔ الوہیت مسیح۔ وہی ہمارا کرشن )مضمون حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
لوگنڈا زبان میں: ترجمہ قرآن مجید پہلے پانچ پارے۔ نماز کی کتاب۔ اسلامی اسباق۔ خاتم النبیین کے معنے۔ روزے کی کتاب۔ فضائل اسلام۔ کیا مسیح خدا تھا؟
)ککویو زبان میں( میں اسلام کو کیوں قبول کرتا ہوں؟
)لوئو زبان میں( ۔ALINCNDE NYASAYE (2) NYASAYE YOR (i) مقدس نبی محمدﷺ~ ۶۲۳ MOHAMMAD ۔MALENG ANNEBI (3)
)کسکا مبا زبان میں( موجودہ عیسائیت دین حق نہیں۔
)لانگو زبان میں( سیرت رسول مقبولﷺ~ )از حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
)انگریزی زبان میں(
)ہمارا محمدﷺ~۔ دلوں کا فاتح(
۔HEARTS OF CONQUROR THE MOHAMMED OUR (1)
)فاتح محمدﷺ(~
۔MOHAMMED VICTORIUS THE (2)
)احمدیہ تحریک(
MOVEMENT AHMMADIYYA THE (3)
)محمد۔ افضل الرسل(
۔PROPHET MASTER THE MOHAMMED (4)
)قادیان میں سازش کے متعلق
ON COURT HIGH PUNJAB (5)
پنجاب ہائی کورٹ کا فیصلہ(
۔MENACE QADIAN
)آنحضرت~صل۱~ کی صفات کاملہ(
۔EXCELLANCE PROPHET HOLY (6)
)میں مسلمان کیوں ہوا(
۔MUSLIM A BECAME I WHY (7)
)محمد~صل۱(~
۔MOHAMMED (9)
)اسلام کیا ہے؟(
۔ISLAM IS WHAT (8)
)فتح کا راستہ(
۔VICTORY TO WAY THE (10)
)کتب مقدسہ میں بعثت ثانیہ کی پیشگوئی(
]eng2 [tag ۔SCRIPTURES THE IN FORETOLD ADVENT SECOND THE (11)
)احمد علیہ السلام(
۔AHMAD (13)
)اسلام کیوں؟(
ISLAM WHY (12)
محمد~صل۱~ بائیبل میں(
۔BIBLE THE IN MOHAMMED (14)
احمدیہ مشرقی افریقہ مشن دوسروں کی نظر میں
مبلغین احمدیت نے مشرقی افریقہ میں جو مسلسل تبلیغی جہاد کیا ہے وہ اتنا شاندار ہے کہ مسلم اور غیر مسلم حلقے دونوں اس کی اہمیت کا برملا اظہار کرنے پر مجبور ہیں۔4] [stf۶۲۴ بطور نمونہ بعض ضروری اقتباسات )اردو کے ترجمہ کی صورت میں( درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
یوگنڈا میں میکر یرے کالج آف یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مسٹر گولڈ تھروپ اپنی کتاب SOCIETY> AFRICAN EAST OF LINES۔<OUT میں لکھتے ہیں۔
>اسلام کی یہ کامیابی اس لحاظ سے اور بھی نمایاں حیثیت رکھتی ہے کہ ابھی زمانہ حال میں چند سال قبل تک یہاں تبلیغی مساعی کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ گزشتہ دس پندرہ سال میں روشن خیال فرقہ احمدیہ نے جس کا مرکز پاکستان میں ہے بعض مستعد نوجوان علماء بطور مبلغ یہاں بھیجے ہیں اور آج کل سارے افریقہ میں ایک درجن کے قریب ایسے مبلغین اسلام مصروف کار ہیں جنہیں یہاں کی مقامی جماعت کی پوری پوری تائید و حمایت اور امداد حاصل ہے اگرچہ اس جماعت کے افراد تعداد کے لحاظ سے ابھی تھوڑے ہیں لیکن ان میں مالدار اور بااثر لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ اس لئے یہ جماعت اپنی تعداد سے کہیں بڑھ کر اثر ڈالنے اور نفوذ حاصل کرنے کی اہلیت سے بہرہ ور ہے<۔۶۲۵
۲۔
>ممباسہ ٹائمز< )مورخہ ۲۱/ جون ۱۹۶۲ء( لکھتا ہے۔
>افریقہ میں مسلمان مبلغین ہمارے عیسائی مشنریز کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تیز رفتاری سے لوگوں کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا رہے ہیں۔ گراہمز ٹائون کے ایک استاد اے۔ کے گراہم کے بیان کے بموجب توقع یہ ہے کہ عنقریب اشاعت اسلام کی یہ رفتار اور بھی زیادہ تیز ہو جائے گی۔ مسٹر گراہم نے جو اسلام کا خاص طور پر مطالعہ کر چکے ہیں۔ خبردار کیا ہے کہ بہت سے مبصرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر عیسائیت نے خطرہ کا پورے طور پر احساس نہ کیا تو اسلام باسانی سارے افریقہ کا مذہب بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بیسویں صدی کا سب سے اہم اور تعجب خیز امر وہ مخصوص اسلام ہے جو حیات نو سے ہمکنار ہونے کے علاوہ اپنی ذات میں جارحانہ نوعیت کا حامل ہے اور یہی وہ اسلام ہے جو بیداری سے ہمکنار ہونے والے افریقہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا اس وقت تین بڑی طاقتیں اپنی اپنی جگہ افریقہ پر غالب آنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان میں سے ایک اشتراکیت ہے جو بیک وقت دوسری دو طاقتوں یعنی اسلام اور عیسائیت کی مخالفت پر کمربستہ ہے۔ اس جدوجہد میں اسلام بہرطور کامیاب ثابت ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام` نسل` قومیت` سیاسی علائق اور تعلیم وغیرہ کے امتیازات سے یکسر بالاتر رہتے ہوئے ہر انسان کے عزو وقار کا احترام کرتا ہے اور اسے ضروری قرار دیتا ہے<۔
۳۔
نیروبی کے مشہور اخبار >ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ< نے لکھا۔
>پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ افریقہ کے دروازے عیسائیت کے لئے ہمیشہ ہی کھلے ہیں۔ لیکن اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بند ہوتے جارہے ہیں۔ بعض لوگوں کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اسلام عیسائیت کے مقابلے میں دس گناہ زیادہ رفتار کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ براعظم افریقہ کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک عیسائی مشن قائم کرکے اسلام کی اس وسعت پذیر ترقی کو روکنے کے لئے جو حکمت عملی بنائی گئی تھی وہ بظاہر کتنی اچھی کیوں نہ ہو کامیاب ثابت نہیں ہوئی<۔
۴۔
اخبار >یوگنڈا آرگس< )۱۶/ اپریل ۱۹۶۳ء( نے آرچ بشپ آف کنٹر بری ڈاکٹر رامزے کے ٹیلویژن انٹرویو کی تفصیل شائع کرتے ہوئے لکھا کہ۔
>آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر رامزے نے گزشتہ اتوار کے روز تسلیم کیا کہ افریقہ میں بہت وسیع پیمانے پر اسلام کی پیش قدمی جاری ہے<۔
۵۔
مسٹر عبداللہ فونڈی کیرا سابق وزیر انصاف ٹانگا نیکا لکھتے ہیں۔
>مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ نے ۲۵ سال میں دو جنگیں لڑیں ہیں۔ ایک جنگ عیسائیوں کے ساتھ۔ جو تابڑ توڑ حملے اسلام اور حضرت بانی اسلام~صل۱~ پر کر رہے تھے۔ ان کے جوابات دے کر عیسائیت کو ناقابل عمل اور ناقابل قبول ثابت کرکے ان کے منہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے۔ دوسری جنگ میں احمدیوں نے غیر از جماعت لوگوں پر اپنے عمل اور کردار اور تبلیغ اسلام کی مخلصانہ جدوجہد سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اسلام کے سچے اور بہادر سپاہی ہیں<۔۶۲۶ind] g[ta
۶۔
چیف ہارون لگوشا )ٹانگا نیکا کی لیجسلیٹو کونسل کے سابق سپیکر اور ایسٹ افریقن کونسل کے سابق ممبر( نے کہا۔
>اگر جماعت احمدیہ نہ ہوتی تو اسلام کا نام افریقہ سے مٹ جاتا<۔۶۲۷
۷۔
ایس کے جمال )جونز برگ جنوبی افریقہ کی علم دوست شخصیت( نے ۲۶/ ستمبر ۱۹۶۳ء کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ۔
>اسلام اور عیسائیت کے سلسلہ میں جو قیمتی اور بلند پایہ مضامین اخبار >ایسٹ افریقن ٹائمز< میں شائع کئے جاتے ہیں۔ میں قدر دانی کے جذبات کے پیش نظر آپ کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں ان مضامین کو پڑھ کر ہمیشہ حظ اٹھاتا ہوں۔ بالخصوص وہ اداریے جو عیسائیت کے رد اور اسلام کی حمایت و دفاع میں آپ نے تحریر کئے بے حد قابل قدر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی مجال نہیں کہ احمدی حضرات کا اس میدان میں مقابلہ کر سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم سنی جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن حقدار کو اس کا حق دینا بھی ضروری اور لابدی ہے۔ میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ ایسے ادارے یا انجمنیں جو تبلیغ اسلام کے فریضہ کو غیر مسلموں میں بجا لارہی ہیں۔ احمدی حضرات کے تیارہ کردہ لٹریچر سے خوب فائدہ اٹھاتی ہیں اور اس علم کلام کے زور سے اپنی تبلیغ کو غیر مسلموں میں موثر بناتی ہیں۔ احمدی حضرات نے بائیبل کا بہت گہرا مطالعہ کیا ہے اور ہم سنی آپ حضرات کی محنت شاقہ اور جدوجہد کے نتیجہ سے )جو عیسائیت کی علمی تحقیقات کے بارہ میں کی ہے( فائدہ اٹھا رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی انجمنوں یا اداروں نے آپ کا شکریہ ادا کرنے اور قدر دانی کے جذبات کے اظہار میں بخل سے کام لیا ہو۔ لیکن میں ایسے ناشکرا پن کا مظاہرہ نہیں کر سکتا اور چاہتا ہوں کہ آپ کا اور جماعت احمدیہ کا قدر دانی کے جذبات کے ساتھ دلی خلوص سے بھر پور شکریہ کا اظہار کروں کہ آپ نے عیسائیت کے رد کے لئے بائیبل کا گہرا اور تحقیقی مطالعہ کرکے زبردست مواد عیسائیت کے ابطال کے لئے تیار کر دیا ہے بلکہ احمدی حضرات اپنی ان تھک کوششوں سے اس مواد میں روز بروز اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ ایسٹ افریقن احمدیہ مسلم مشن کا اخبار اس حقیقت کے ثبوت میں ایک روشن اور تابندہ نشان ہے ہم خوب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ اخبار عیسائیت کے لئے ایک تکلیف دہ اور خاردار کانٹا ہے۔
مشرقی افریقہ اور مغربی افریقہ میں اشاعت اسلام کا زبردست کام خالصت¶ہ جماعت احمدیہ کی ان تھک کوششوں اور مستقل جدوجہد کے نتیجہ میں انجام پارہا ہے۔ کوئی سنی عالم اس عزت کا مستحق نظر نہیں آتا<۔۶۲۸
۸۔
سکول آف اورنٹیل سٹڈیز لنڈن کے پروفیسر لینڈن ہیرس HARRIS) (LYNDON نے )جو عرصہ تک عیسائی مشنری کے طور پر )ٹانگا نیکا( مشرقی افریقہ میں کام کرتے رہے( اپنی کتاب AFRICA> EAST IN <ISLAM میں لکھتے ہیں۔
>موجودہ صدی کے آغاز میں عیسائی مصنفین اس بات پر زور دے رہے تھے کہ سیاسی طاقت کے بغیر اسلام کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یہی وجہ ہے کہ اسلام اب افریقہ میں زندہ نہیں رہ سکتا لیکن آج کوئی شخص بھی سنجیدگی کے ساتھ اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اسلام کا چیلنج اب بھی موجود ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سیاسی زندگی کے نت نئے اتار چڑھائو کی وجہ سے یہ چیلنج اور بھی قوت حاصل کر چکا ہے<۔
>اپنے تمام ہم عصروں میں احمدی اپنے مذہب اور معتقدات کے دفاع کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں اسلامی دنیا میں بالعموم فعال قسم کے مبلغ موجود نہیں ہیں۔ یہ بات خاص طور پر اہم ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے تمام اسلامی فرقوں میں سے صرف یہی ایک فرقہ ہے جو افریقن میں اپنے پائوں جمانے اور اپنے لئے جگہ بنانے میں کامیاب رہا ہے<۔
۹۔
انگلستان کی نامور مضمون نگار مسز الزبتھ ہکسلے نے دورہ افریقہ کے بعد >سنڈے ٹائمز< )لنڈن( میں لکھا۔
>جھیل وکٹوریہ کے علاقہ میں جہاں کے لوگ کینیا کی سیاسیات میں بہت پیش پیش ہیں جماعت احمدیہ کے مبلغین کی مساعی بارآور ثابت ہو رہی ہیں اور وہاں لوگ اس جماعت میں داخل ہو رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت جو پہلے پہل ٹانگا نیکا میں پھیلنی شروع ہوئی اب مشرقی افریقہ کے اکثر علاقوں میں پھیلتی نظر آرہی ہے اس جماعت کی طرف سے جو مبلغین پاکستان سے بھجوائے جاتے ہیں اکثر و بیشتر نظر ذہنی لحاظ سے پر اثر شخصیت اور اعلیٰ قوت و کردار کے مالک ہوتے ہیں اور اس جماعت کا یہ اصول ہے کہ ہر ایک اپنی آمد کا دسواں حصہ اشاعت اسلام کے لئے ادا کرے۔ مزید ترقی اور اشاعت اسلام کے لئے فنڈ فراہم کرنے کا یہ موثر ذریعہ ہے<۔۶۲۹
۱۰۔
مغربی جرمنی کے بااثر ہفت روزہ STERN کے خصوصی نامہ نگار HALDT TOACHIM نے یوگنڈا سے ایک اہم مضمون بھجوایا۔ جس میں انہوں نے عیسائی مشنریوں کی اسی سالہ کوششوں کی ناکامی کے اسباب و عوامل اور مشرقی افریقہ میں عیسائیت کے تاریک مستقبل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا۔
>افریقہ میں اسلام کی پیش قدمی<
>اسلام جو ایک پیغمبرﷺ~ کا لایا ہوا مذہب ہے اور جس نے صحرا میں جنم لیا۔ اب تک وسطی افریقہ کے جنگلوں اور مشرقی افریقہ میں ہی پہنچا تھا۔ لیکن چند سالوں سے اس نے باقاعدہ طور پر قدیم مذہبوں کے علاقوں میں بھی تبلیغی مہم جاری کر رکھی ہے۔ عیسائیت زیادہ تر ساحل کے ساتھ ساتھ یا وسطی افریقہ کی بعض ریاستوں میں قدم جما سکی ہے اور آج ساڑھے تین کروڑ عیسائی افریقہ میں پائے جاتے ہیں جب کہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے<۔
فاضل مضمون نگار نے اس مقالہ میں یہ بھی ذکر کیا کہ انہوں نے کمپالہ کے دو پادریوں سے دریافت کیا کہ >میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر کیا سبب ہے کہ مشرقی افریقہ میں اسلام کو عیسائیت کے بالمقابل زیادہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے؟< اس کے جواب میں انہوں نے جو وجوہ پیش کیں وہ انہی کے الفاظ میں یہ تھیں۔
>جب میں نے یہ سوال ایک یورپین پادری سے کیا تو انہوں نے صرف یہ کہ کر پیچھا چھڑایا کہ مسلمان نت نئی مسجدیں بناتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس ہم سے زیادہ روپیہ ہے اس لئے انہیں کامیابی بھی زیادہ ہو رہی ہے<۔
دوسرے پادری نے کہا۔ >اسلام کی ترقی کا صحیح اندازہ اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے ۱۹۳۰ء میں مسلمان چار کروڑ تھے اور آج ان کی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پورے افریقہ کی آبادی کا چالیسواں حصہ مسلمان ہو چکا ہے اور آج کل سال بھر میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں چرچوں کے ذریعہ عیسائی ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں<۔۶۳۰
۱۱۔
روزنامہ >نوائے وقت< لاہور )۱۲/ اپریل ۱۹۶۰ء( کے نمائندہ خصوصی مسٹر حفیظ ملک )مقیم واشنگٹن امریکہ( نے لکھا۔
>افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی مذہبی مشنری کام کر رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے۔ مشرقی افریقہ میں مسلمانوں کی آبادی ۱۵ فیصد ہے جس میں >ایسٹ افریقن ٹائمز< کے بیان کے مطابق دس ہزار افریقی لوگ احمدی ہیں۔ پرتگیزی مشرقی افریقہ میں تقریباً دس لاکھ افریقی مسلمان ہو چکے ہیں جن میں سے غالب اکثریت احمدیوں کی ہے۔ کینیا کے سرحدی صوبوں میں اسلام کو فروغ ہو رہا ہے اور یہاں بھی غالب اکثریت احمدیوں کی ہے۔ نیروبی میں تو خیر احمدیوں نے ایک بہت بڑا مذہبی تبلیغی مرکز قائم کر رکھا ہے۔ جو روزنامہ انگریزی اخبار بھی شائع کرتا ہے اور اس کے علاوہ تعلیم کے لئے اس سینٹر نے کالج وغیرہ بھی قائم کر رکھے ہیں۔
ہمیں احمدیت سے شدید اختلافات ہیں اور ہم عقیدہ ختم نبوت کے مسئلہ میں احمدیوں بالخصوص قادیانی فرقہ کے تصورات کو بالکل باطل اور گمراہ سمجھتے ہیں اور سواد اعظم کی طرح ان تصورات سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں ان کی مساعی کی داد دینی پڑتی ہے۔ بلی گراہم جب اپنے حالیہ دورہ میں نیروبی گئے تو اسلام کی طرف سے اگر کسی جماعت نے انہیں مباحثہ کی دعوت دی تو وہ جماعت احمدیہ تھی۔ کینیا۔ یوگنڈا اور ٹانگا نیکا میں اس وقت ۲۵ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ لیکن ان کی تعلیمی حالت بہت ہی کمزور ہے۔ عیسائی مشنری سکولوں اور کالجوں کے ذریعہ سے طلباء کو عیسائیت کی طرف راغب کر رہے ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جماعت احمدیہ کے سوا پاکستان میں اور کوئی مذہبی جماعت موجود نہیں جو افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کے کام کو انجام دے سکے<۔۶۳۱
۱۲۔
جناب حفیظ ملک صاحب کے اس مضمون پر مشہور شیعہ اخبار >رضا کار< نے ۸/ مئی ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں لکھا۔
>اس وقت افریقہ کے تمام قابل ذکر شہروں میں شیعہ مبلغین موجود ہیں لیکن جب ہم اپنے ان مبلغین کی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب ہم ان کا مقابلہ احمدی مبلغین سے کرتے ہیں تو ندامت سے ہمارا سر جھک جاتا ہے۔ تبلیغی میدان میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان مبلغین کی پشت پر حکومتیں ہیں جو لاکھوں اور کروڑوں روپے سے ان کی امداد کر رہی ہیں۔ لیکن احمدی مبلغین کی پشت پر نہ ہی کوئی حکومت ہے اور نہ ہی کوئی سرمایہ دار طبقہ۔ ان کی پشت پر صرف ان کی جماعت ہے جو انہیں معمولی تنخواہیں دیتی ہے اور ایک محدود سرمایہ سے ان کی تبلیغی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتی ہے۔ ان حالات میں احمدی مبلغین کا عیسائی مبلغین سے مقابلہ کرنا اور اس مقابلہ میں ان سے بازی لے جانا یقیناً خراج تحسین کا مستحق ہے اور ہمارے مبلغین حضرات کے لئے تازیانہ عبرت ہے۔ جن کو افریقہ میں ایک سرمایہ دار طبقہ کی سرپرستی حاصل ہے اور تبلیغ دین کے سلسلہ میں انہیں ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔
کاش ہمارے مبلغین حضرات بھی اپنے میں مشنری سپرٹ پیدا کرتے۔ یعنی آرام و آسائش کی زندگی کو خیر باد کہتے اور محنت و مشقت کو اپنا نصب العین بناتے تو آج ان کا ذکر بھی تبلیغی مشن کے سلسلہ میں سرفہرست ہوتا<۔۶۳۲
۱۳۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں صدر پاکستان نے اسلامک ¶اکیڈیمی ڈھاکہ کی ایک تقریب میں کہا۔
>آپ کے سامنے افریقہ میں رونما ہونے والا غیر معمولی انقلاب ہے۔ جہاں مسلمان مبلغوں کا ایک قلیل گروہ اپنے نہایت محدود وسائل کے ساتھ وہاں کے لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام کر رہا ہے۔ مذہب اسلام میں بنیادی کشش یہ ہے کہ یہ رنگ و نسل کے امتیاز کو تسلیم نہیں کرتا<۔۶۳۳
tav.7.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
پہلا باب )فصل چہاردہم(
۱۹۳۴ء کے متفرق مگر اہم واقعات
دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کے تفصیلی کوائف کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم ۱۹۳۴ء کے متفرق مگر اہم واقعات کی طرف لوٹتے ہیں۔
امتحان میں کامیابی
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( اور مرزا سعید احمد صاحب )خلف حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے( نے پنجاب یونیورسٹی سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔۶۳۴
صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی شادی
۲۶/ اگست ۱۹۳۳ء کو سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ )بنت سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی۔۶۳۵ آپ کا نکاح ۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کو حضرت اقدسؓ نے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب )حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے فرزند( کے ساتھ پڑھا تھا۔ سیدہ موصوفہ کے بطن سے یہ اولاد ہوئی۔ صاحبزادی امتہ الرئوف صاحبہ۔ مرزا ادریس احمد صاحب۔ صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ۔ مرزا مغفور احمد صاحب۔ مرزا مسرور احمد صاحب۔
ایرانی سیاح قادیان میں
۱۹/ فروری ۱۹۳۴ء کو ایک ایرانی سیاح ابو القاسم خاں صاحب قادیان پہنچے اور مسجد اقصیٰ میں اپنے حالات سفر پر فارسی زبان میں روشنی ڈالی۔۶۳۶ اور مکرم اللہ بخش صاحب ضیاء نے ان کی تقریر کا فی البدیہہ اردو میں نہایت عمدگی سے ترجمہ سنا دیا۔
مولوی محمد اسمٰعیل صاحب یادگر کی مراجعت وطن
اسی سال مولوی محمد اسمعیل صاحب اپنی تعلیم سے فراغت پا کر قادیان سے اپنے وطن یادگیر )حیدر آباد دکن( چلے گئے وہاں جاکر آپ نے مسجد احمدیہ یادگیر میں درس و تدریس جاری کیا۔ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ کے کاموں میں امداد کی۔ صحابہ جنوبی ہند کے حالات جمع کئے۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کی تصانیف کے لئے مواد اکٹھا کرنے میں بھی بہت محنت کی جیسا کہ حضرت عرفانی صاحبؓ نے اپنی کتاب >حیات حسن< صفحہ ۲۱۹ پر ذکر فرمایا ہے اس کے علاوہ مولوی صاحب موصوف نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے >خطبات و جمعہ و عیدین< کی فہرست بھی شائع کی۔ غرضکہ آپ آخر دم تک سلسلہ کی آنریری خدمات بجا لاتے رہے ۱۹۶۵ء میں آپ کا انتقال ہوا۔
چوہدری علی بخش صاحب کا انتقال
مارچ ۱۹۳۴ء میں چوہدری علی بخش صاحب رئیس بھینی پسوال جو علاقہ بیٹ میں سلسلہ کے ایک پرجوش فدائی اور شیدائی تھے وفات پا گئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ نے اپنی طرف سے مولانا محمد ابراہیم صاحبؓ بقاپوری اور ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے مولانا حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی کو ان کے پسماندگان سے اظہار افسوس کے لئے بھیجا۔۶۳۷
سناتن دھرم سبھا فیروز پور شہر
۳۱/ مارچ ۱۹۳۴ء کو فیروزپور شہر میں سناتن دھرم سبھا منعقد ہوئی۔ جس میں نمائندہ جماعت احمدیہ کی حیثیت سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے بھی شرکت فرمائی جہاں دوسرے مقررین کی تقریروں پر بہت شور و شر ہوتا رہا۔ وہاں آپ کی تقریر آخر وقت تک خاص دلچسپی اور دلجمعی سے سنی گئی۔۶۳۸
یونیورسٹی کمیشن کے لئے میمورنڈم
جماعت احمدیہ نے اس سال ملک کی ایک بھاری علمی خدمت یہ سر انجام دی کہ اس نے یونیورسٹی کمیشن کے سامنے فلسکیپ کاغذ کے انتالیس صفحات پر مشتمل ایک مفید میمورنڈم پیش کیا۔ جس میں پنجاب یونیورسٹی کی اصلاح اور ترقی کے لئے بیش قیمت مشورے اور تجاویز تھیں۔۶۳۹
دی >سٹار ہوزری ورکس< قادیان کا افتتاح
۲۵/ اگست ۱۹۳۴ء کو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے >دی سٹار ہوزری ورکس لمیٹڈ قادیان< کے کارخانہ کا افتتاح فرمایا۔۶۴۰ یہ پہلا کارخانہ تھا جو قادیان میں قائم ہوا۔ اور اس نے بہت جلد شہرت حاصل کر لی۔ ابتداء میں اس کارخانہ کے ڈائریکٹر مندرجہ ذیل اصحاب منتخب ہوئے۔
)۱( حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب تاجر سکندر آباد )۲( چودھری ظفر اللہ خاں صاحب بار ایٹ لاء ایم۔ ایل۔ سی لاہور )۳( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے قادیان )۴( جناب شیخ محمد صدیق صاحب تاجر اوکاڑہ )۵( حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب قادیان )۶( حضرت مولوی فرزند علی خان صاحب ناظر امور عامہ قادیان )۷( حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب قادیان )۸( شیخ عبدالواحد صاحب ٹھیکہ دار قادیان )۹( شیخ غلام مجتبی صاحب پنشنر قادیان )۱۰( چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ )ہوزری ایکسپرٹ( تلونڈی عنایت خاں ضلع سیالکوٹ۔۶۴۱
بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات
مصر و فلسطین: )۱( یکم جنوری ۱۹۳۴ء کو کبابیر کے احمدیہ مدرسہ کا افتتاح عمل میں آیا۔۶۴۲ )۲( اس سال ایک احمدیہ لائبریری کی بنیاد رکھی گئی۔ )۳( مولانا ابوالعطاء صاحب کی تحریک پر کبابیر میں پریس کا قیام ہوا جو بلاد عربیہ میں سب سے پہلا احمدیہ پریس تھا۔۶۴۳
مغربی افریقہ: لیگوس میں عرصہ سے ایک مسجد سے متعلق جماعت احمدیہ اور مخالفین کے درمیان مقدمہ چل رہا تھا۔ اس سال اپریل ۱۹۳۴ء میں جماعت احمدیہ کے حق میں اس کا فیصلہ ہوا۔۶۴۴]4 [rtf مقدمہ میں فتح یابی کا سہرا قابل و مخلص احمدی جبرائیل مارٹن بیرسٹرایٹ لاء کے سر تھا۔ جنہوں نے اس مقدمہ میں کامیاب وکالت کی۔۶۴۵
۱۳۔ ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو لیگوس میں پہلا سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں لیگوس کے علاوہ کانو` ابادان` پورٹ ہارکوٹ وغیرہ دور دراز مقامات سے نمائندگان جماعت شامل ہوئے۔۶۴۶
لنڈن مشن: انگلینڈ کی کرسچین چرچ کو غیر مسیحی ممالک میں تبلیغ کے لئے موزوں مشنری مہیا کرنے میں روز بروز دقت ہو رہی تھی۔ جس کا حل یہ سوچا گیا کہ انگلش چرچ اور سٹوڈنٹس کرسچن موومنٹ مل کر کام کریں۔ اس تحریک کے تمام ممبر مختلف یونیورسٹیوں کے انڈر گریجوایٹ ہوتے تھے اور چرچ کی امداد سے ہندوستانی طلباء میں نہایت ہوشیاری سے عیسائیت کا پرچار کرتے تھے۔ جماعت احمدیہ کے سیکرٹری امور خارجہ ڈاکٹر جے سلیمان )آف جنوبی افریقہ(نے برطانیہ کی تمام یونیورسٹیوں کو مسلم طلبہ کی تعداد سے مطلع کرنے کو لکھا۔ لیکن ناٹنگھم یونیورسٹی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایڈنبرا یونیورسٹی نے لکھا کہ ہائی کمشنر آف انڈیا سے معلوم کریں۔ دوسری یونیورسٹیوں نے مطلوبہ معلومات بھجوا دیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف اسی سلسلہ میں جون ۱۹۳۴ء کے آخر میں برسٹل یونیورسٹی میں بھی گئے اور گو امتحانات کی وجہ سے کماحقہ فائدہ نہ اٹھا سکے مگر بعض مسلم طلبا سے ملاقات کرکے ان کو مسجد احمدیہ لنڈن سے رابطہ قائم رکھنے اور کرسچن چرچ اور سٹوڈنٹس کرسچن موومنٹ کی سرگرمیوں سے خبردار رہنے کی تلقین کی۔ ۶۴۷
سماٹرا مشن: ۳/ جون ۱۹۳۴ء کو مولوی ابوبکر صاحب مولوی فاضل نے میدان میں انجمن تلاشیان حق` کے ایک عالم سے کامیاب مناظرہ کیا۔ ایک مقامی اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ کے مناظر کی تقریریں صاف طور پر ظاہر کر رہی تھیں کہ اس کا علم بہت وسیع اور گہرا ہے اس کے مقابل میں ہمارے علماء کی تحقیق افسوسناک حد تک کم تھی۔ ایک اور اخبار نے لکھا ہم احمدی نوجوان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کی طرز بحث اور تائید احمدیت کا طریق پبلک کو حیرت میں ڈال رہا تھا اور اس کے مذہبی معلومات کی وسعت ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کوئی معمولی عالم نہیں۔۶۴۸
نئی مطبوعات
جماعت احمدیہ کی طرف سے ۱۹۳۴ء میں جو لٹریچر شائع ہوا۔ اس میں سے مندرجہ ذیل کتب و رسائل قابل ذکر ہیں۔
۱۔ حیات احمد جلد دوم نمبر ۲ )حضرت عرفانی کبیرؓ کی تالیف( )۲( >امتحان پاس کرنے کے گر<۔ )از حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۳۔
>چشمہ عرفان< سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار >سیاست< لاہور نے ۲۱/ اپریل ۱۹۳۳ء سے >تحریک قادیان< کے عنوان سے ایک طویل سلسلہ مضمون جاری کیا تھا۔ جس پر مدلل و مسکت تبصرہ مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر کے قلم سے >چشمہ عرفان< کی صورت میں شائع کیا گیا۔
۴۔
>ہمارا مذہب< حیدر آباد دکن کے پروفیسر صلاح الدین محمد الیاس صاحب برنی ایم۔ اے` ایل ایل۔ بی علیگ نے ایک کتاب >قادیانی مذہب< لکھی تھی۔ جس کا جواب مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے تیار کیا۔ جو >ہمارا مذہب< کے نام سے شائع کر دیا گیا۔
۵۔
>تصدیق احمدیت< یہ بھی پروفیسر برنی صاحب کی کتاب کا مختصر جواب ہے۔ جو سید بشارت احمد صاحب جنرل سیکرٹری حیدر آباد دکن کی طرف سے شائع ہوا۔ >تصدیق احمدیت< کے بعد آپ نے >بشارت احمد< کے نام سے برنی صاحب کی کتاب کے جواب میں نہایت مفصل اور مدلل کتاب شائع کی جو بہت مقبول ہوئی۔
۶۔
>عروج احمدیت< )ابو البشارت مولانا عبدالغفور صاحبؓ فاضل کی ایمان افروز تقریر برموقعہ جلسہ سالانہ ۱۹۳۳ء(
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
مناظرہ لاہور: ۱۹۳۴ء کا پہلا مباحثہ یکم جنوری کو لاہور میں ہوا جس میں میاں عبداللہ صاحب معمار سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل کی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی بحث ہوئی۔ محترم خادم صاحب نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کی تشریح جب اخبار اہلحدیث ۲۶/ اپریل ۱۹۰۷ء سے پیش کی تو حاضرین پر سناٹا چھا گیا۔۶۴۹
مناظرہ بڈھن وال )ضلع جالندھر( یہاں عیسائیوں نے اپنا کیمپ لگایا تھا۔ غیر احمدیوں نے پادریوں کے سامنے اپنے علماء کو بے بس پاکر نکودر سے ایک احمدی عالم مولوی عبدالعزیز صاحب مولوی فاضل کو بلایا جنہوں نے کیمپ میں مسئلہ کفارہ کے موضوع پر مناظرہ کرکے پادریوں کو ساکت کر دیا۔۶۵۰
مناظرہ دہلی: یکم فروری ۱۹۳۴ء کو جماعت احمدیہ دہلی کا آریہ سماج چاوڑی بازار کے ساتھ >مکتی< پر کامیاب مناظرہ ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے ماسٹر محمد حسن صاحب آسان مناظر تھے۔ بعض ہندوئوں نے بھی اقرار کیا کہ احمدی مناظر اپنے طرز بیان اور دلائل کے لحاظ سے آریہ سماجی مناظر پر غالب رہا۔۶۵۱
مناظرہ کراچی: یہاں ۴/ فروری ۱۹۳۴ء کو مولوی محمد سلیم صاحب نے لال حسین صاحب اختر اور احمد دین صاحب سے مناظرہ کیا اور خدا کے فضل سے مخالفین کے معاندانہ رویہ کے باوجود نمایاں کامیابی حاصل کی۔۶۵۲
مناظرہ اچہ ججہ )ضلع سیالکوٹ( ۵۔ ۶۔ ۷/ مارچ ۱۹۳۴ء کو مولوی محمد عبداللہ صاحب اور مولوی دل محمد صاحب نے غیر احمدیوں سے مباحثہ کیا۔ احمدی مبلغین کے ٹھوس دلائل کا جواب بدزبانی کی صورت میں دیا گیا۔۶۵۳
مناظرہ بٹالہ: انجمن خادم المسلمین اہلحدیث بٹالہ کے سالانہ جلسہ )منعقدہ ۱۲ تا ۱۴/ مارچ ۱۹۳۴ء( میں مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر کے بعد سوال و جواب کا موقعہ دیا گیا۔ جس میں مرکز کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے حصہ لیا۔ مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے عنوان >قرآن اور مسیح موعود قادیانی< کے مطابق قرآن مجید سے حضرت اقدس کے خلاف ایک دلیل بھی پیش نہ کر سکے۔۶۵۴
مناظرہ لالہ موسیٰ: انجمن اہلحدیث لالہ موسیٰ نے احمدیوں سے طے کیا کہ وہ ۲۲۔ ۲۳/ مارچ ۱۹۳۴ء کو تین متنازعہ مسائل پر مناظرہ کریں گے۔ چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق ۲۲/ مارچ کو مولوی محمد سلیم صاحب نے لال حسین صاحب اختر سے مسئلہ وفات و حیات مسیح اور صداقت مسیح موعود پر ایسا شاندار مناظرہ کیا کہ دوسرے دن فریق ثانی کو مسئلہ ختم نبوت پر بحث کرنے کی جرات ہی نہ ہو سکی۔۶۵۵
مناظرہ چوہدریوالہ چک نمبر ۱۰۸ )ضلع لائلپور( اس گائوں میں عیسائیوں نے مسلمانوں کو تنگ کر رکھا تھا مسلمانوں کی دعوت پر مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل تشریف لے گئے اور ایک پادری صاحب کے ساتھ >کفارہ< اور >موجودہ انجیل الہانی کتاب ہے یا قرآن مجید< پر مناظرہ ہوا۔ پادری صاحب قاضی صاحب کے مطالبات سے عاجز آگئے تو مناظرہ درمیان ہی میں چھوڑ کر احمدیوں اور غیر احمدیوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے دلائل طلب کرنے لگے۔ محترم قاضی صاحب نے بائبل کی رو سے حضورؑ کی صداقت ایسے موثر پیرایہ میں واضح کی کہ پادری صاحب کو لاجواب ہونا پڑا۔۶۵۶
مناظرہ کلاسوالہ )ضلع سیالکوٹ( ۲۷/ مارچ ۱۹۳۴ء کو مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل نے آریہ سماج کے پنڈال میں پنڈت شانتی پرکاش سے >قرآن شریف الہامی کتاب ہے< کے موضوع پر مناظرہ کیا۔ کئی غیر احمدیوں اور سفاتنی ہندوئوں نے صاف تسلیم کیا کہ آریہ پنڈت صاحب احمدیوں کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔۶۵۷
مناظرہ لائل پور: حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے ۱۴/ اپریل ۱۹۳۴ء کو خواجہ غلام حسن صاحب وکیل کے مکان پر ایک غیر احمدی مولوی صاحب سے تین گھنٹے مناظرہ کیا۔ جس کا تعلیم یافتہ طبقہ پر اچھا اثر ہوا۔۶۵۸
مناظرہ حافظ آباد نمبر ۱ )ضلع گوجرانوالہ( مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے ۱۵/ اپریل ۱۹۳۴ء کو ۲ بجے دوپہر اہلحدیث مناظر مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی سے اور رات کو حنفی جماعت کے نمائندہ چوہدری محمد اکبر صاحب سے مناظرہ کیا۔ دونوں مناظروں سے سنجیدہ طبقہ بہت متاثر ہوا۔۶۵۹
مناظرہ دھاریوال نمبر ۱: ۲۱۔ ۲۲/ اپریل ۱۹۳۴ء کو دھاریوال میں علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور پادری میلا رام صاحب کے درمیان چار مناظرے ہوئے۔ جماعت احمدیہ کے مبلغ کی کامیاب بحث کا غیر احمدیوں نے بھی اقرار کیا۔۶۶۰
مناظرہ پونچھ: )مئی ۱۹۳۴ء میں مورخہ ۲۴ بیساکھ( مولوی محمد حسین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ نے مولوی احمد الدین صاحب گکھڑوی مبلغ اہلحدیث سے مناظرہ کیا۔ دوران مناظرہ >پیشگوئی محمدی بیگم< اور اشتہار >آخری فیصلہ< خاص طور پر زیر بحث آئے۔ جن کا احمدی مناظر نے ایسا مسکت جواب دیا کہ ان کی آخری تقریر سننے سے پہلے ہی صدر اہلحدیث کو جلسہ برخاست کرنا پڑا۔۶۶۱
مناظرہ ڈیرہ غازی خان: ۲۳/ مئی ۱۹۳۴ء کو احمدیوں اور اہلحدیث میں مناظرہ ہوا۔ احمدی عالم ابو البشارت مولانا عبدالغفور صاحب مرحوم نے صداقت انبیاء کے بارہ دلائل قرآن کریم سے اور ایک حدیث بخاری شریف سے پیش کئے۔ مگر مناظر اہلحدیث مولوی عبدالعزیز صاحب ملتانی نے اپنی تقریروں میں اس درجہ استہزاء تمسخر اور فحش کلامی شروع کر دی کہ صدر اہلحدیث رحیم بخش صاحب کرسی صدارت چھوڑ کر چل دیئے اور پولیس نے مناظرہ بند کروا دیا۔۶۶۲4] f[rt
مناظرہ فیروز والا )ضلع گوجرانوالہ( ۲۵۔ ۲۶/ مئی ۱۹۳۴ء کو ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم نے سائیں لال حسین صاحب اختر اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی سے اور مولوی محمد نذیر صاحب مولوی فاضل نے مولوی محمد چراغ صاحب سے مناظرہ کیا۔ خادم صاحب کی سحر بیانی اور حاضر جوابی نے اپنوں اور بیگانوں سے خراج تحسین حاصل کیا۔ اس کے مقابل خود ارکان اہلسنت نے اپنے ایک مناظر کی نسبت اس خیال کا اظہار کیا کہ اگر ان کی اس بے بضاعتی کا ہمیں پہلے علم ہوتا تو ان کو بطور مناظر کبھی نہ بلواتے۔۶۶۳
مناظرہ حافظ آباد )نمبر ۲( اسی سال حافظ آباد میں دوسرا مناظرہ ۲۷/ مئی ۱۹۳۴ء کو ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے حافظ مبارک احمد صاحب اور ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ اور اہلسنت و الجماعت کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی اور لال حسین صاحب اختر شامل ہوئے۔ میدان مناظرہ میں موخر الذکر غیر احمدی مناظر نے اپنی >خوش کلامی< کا خوب مظاہرہ کیا۔ اور رہی سہی کسر اہلسنت و الجماعت نے شور مچا کر اور تالیاں بجا کر پوری کر دی۔ بحالیکہ شرائط مباحثہ میں خاص طور پر درج تھا کہ اول بحث دائرہ تہذیب کے اندر ہو گی۔ دوسرے شور مچانے والا فریق شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔۶۶۴
مناظرہ ہنگو )ضلع کوہاٹ( ۲۵/ جون ۱۹۳۴ء کو مولوی چراغ دین صاحب نے صوبہ سرحد کے ایک مشہور معاند احمدیت سے کامیاب مباحثہ کیا۔۶۶۵
مناظرہ شیر نگر )ضلع لاہور( انہی ایام میں شیر نگر میں مولوی عبداللہ صاحب اعجاز نے مولوی عبدالقادر صاحب رو پڑی سے اور مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب رو پڑی سے مناظرے کئے۔۶۶۶
مناظرہ شاہ مسکین )ضلع شیخوپورہ( یکم جولائی ۱۹۳۴ء کو مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے عبداللہ صاحب معمار امرتسری سے مباحثہ کیا۔ معمار صاحب استہزاء اور ہنسی مذاق کے سوا کوئی معقول بات پیش نہ کر سکے۔۶۶۷
مناظرہ دھاریوال )نمبر ۲( اس سال کا یادگار اور معرکتہ الاراء مناظرہ ۲۸۔ ۲۹/ جولائی ۱۹۳۴ء کو عیسائیوں کے مشہور تبلیغی مرکز دھاریوال میں ہوا۔ جس نے کاسر صلیب کے شاگردوں کی دھاک بٹھا دی مناظرے کے چار اجلاس ہوئے پہلے اجلاس میں مسئلہ کفارہ پر ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم نے سادھو میلا رام صاحب سے مناظرہ کیا۔ عیسائی مناظر صاحب کی تقریر بالکل سطحی اور عامیانہ تھی۔ مگر ملک صاحب نے ایسی زبردست تقریر کی کہ کفارہ کے نظریہ کا بطلان روز روشن کی طرح ثابت ہو گیا۔ دوسرے اجلاس میں >صداقت مسیح موعود< پر بحث ہوئی عیسائی مناظر صاحب نے غیر احمدی مناظرین کی خوشہ چینی کرکے وہی فرسودہ اعتراضات دہرا دیئے جو عام طور پر مناظروں میں کئے جاتے تھے- ان اعتراضات کا رد ملک صاحب مرحوم نے ایسی قابلیت سے کیا کہ عیسائی مناظر صاحب گالیوں اور بدزبانیوں پر اتر آئے۔ لیکن ہر بات کا دنداں شکن جواب پاکر جلد ہی اپنی روش بدلنے پر مجبور ہو گئے۔
مناظرہ کے تیسرے اجلاس میں بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ ہی نے بحث کی۔ اس اجلاس میں >یسوع مسیح کی شخصیت از روئے بائیبل< زیر بحث تھی۔ خادم صاحب نے انجیلی یسوع کا نقشہ اس خوبی سے پیش کیا کہ عیسائی مناظر صاحب کو دم مارنے کی مجال نہ رہی۔ آپ نے انعامی چیلنج دیا کہ بائیبل کے یسوع کی والدہ کا یسوع پر ایمان لانا ثابت کر دو۔ مگر وہ آخر وقت تک اس مطالبہ سے عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ چوتھے اور آخری اجلاس میں >تحریف بائیبل< پر بحث ہوئی۔ احمدی مناظر مولوی علی محمد صاحب اجمیری تھے اور عیسائی مناظر مسٹر ہوز۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے بائبل کے محرف و مبدل ہونے کی ایسی ایسی مثالیں دیں کہ حاضرین ونگ رہ گئے۔ مسٹر ہوز آخری تقریر میں کسی مطالبہ کا جواب دینے کے بجائے >ہائے ہائے قادیان< کے الفاظ منہ سے نکالنے لگے۔ بلکہ تقریر کے خاتمہ پر یہاں تک کہ دیا کہ میز پر جتنی کتابیں پڑی ہیں سب جلا دو اور جب ادھر سے کہا گیا کہ ان میں توانا جیل بھی ہیں۔ تو فرمانے لگے ان کو بھی جلا دو۔ اگرچہ باہمی طور پر چھ متنازعہ مسائل پر بحث قرار پائی تھی۔ مگر عیسائیوں نے آخری دو مسئلوں پر مناظرہ کرنے سے فرار اختیار کر لیا۔
اس مناظرہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ حضرت علامہ میر محمد اسحٰق صاحبؓ ناظر ضیافت اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ بھی شروع سے آخر تک اس میں تشریف فرما رہے اور احمدی مناظرین کی راہ نمائی کے فرائض انجام دیتے رہے۔]01 [p۶۶۸
مناظرہ چوہدریوالہ چک نمبر ۱۰۸ ضلع لائلپور: اس گائوں میں تین مباحثات ہوئے۔ پہلا مباحثہ چوہدری محمد شریف صاحب فاضل جامعہ اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی کے درمیان دوسرا مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ اور مولوی محمد مسلم صاحب دیوبندی کے درمیان اور تیسرا مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور لال حسین صاحب اختر کے درمیان ہوا۔ تینوں مناظروں کا غیر احمدیوں پر بہت اچھا اثر پرا۔۶۶۹
مناظرہ مکیانہ ضلع گجرات ۲۸۔ ۲۹/ اگست ۱۹۳۴ء کو جماعت احمدیہ فتح پور کا اہلسنت و الجماعت مکیانہ سے مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ نے بحث کی اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی حافظ احمد دین صاحب گکھڑوی نے۔ تعلیم یافتہ غیر احمدیوں نے تسلیم کیا کہ ان کے مناظر نے کوئی معقول جواب نہیں دیا۔ خصوصاً خادم صاحبؓ کی تقریر اس قدر موثر اور لاجواب تھی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ آخری تقریر خادم صاحب کی تھی مگر غیر احمدی اصحاب میدان مناظرہ چھوڑ کر چلے گئے اور تالیاں بجانا شروع کر دیں۔۶۷۰
مناظرہ گوجرہ: ۲۲۔ ۲۳/ ستمبر ۱۹۳۴ء عیسائیوں کا گوجرہ ضلع لائل پور میں جلسہ تھا۔ اس موقعہ پر انہوں نے جماعت احمدیہ کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ جو منظور کر لیا گیا۔ قادیان سے مولوی محمد سلیم صاحب اور لائل پور سے مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل تشریف لے آئے۔ دو مضمون تجویز ہوئے۔ >مسیحیت حضرت مرزا صاحب< اور >کفارہ<۔ ۲۵/ ستمبر کو دونوں مضمونوں پر مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے پادری عبدالحق صاحب سے مناظرہ کیا۔ جس میں دوست دشمن نے مولوی صاحب کی فصیح البیانی اور زور استدلال اور پادری صاحب کے عجز اور بے بسی کا اقرار کیا۔
پادری عبدالحق صاحب نے اپنی باری میں احمدیوں کو >عصمت انبیاء< پر بھی مناظرہ کا چیلنج دیا جو اسی وقت منظور کر لیا گیا تھا اور ساتھ ہی ان کو >الوہیت مسیح< پر مناظرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ ابھی پادری صاحب سے اس بارے میں گفتگو جاری تھی کہ مولوی محمد شاہ صاحب سیالکوٹی )جو غیر احمدیوں کی طرف سے عیسائیوں سے بحث کے لئے بلوائے گئے تھے اور جن کی نسبت بعد کو معلوم ہوا کہ انہوں نے عیسائیوں سے ساز باز کر رکھی ہے` درمیان میں کھڑے ہو گئے اور ختم نبوت پر مناظرہ کا چیلنج دے دیا جو مولوی محمد سلیم صاحب نے فوراً منظور کر لیا۔ یہ سنتے ہی مولوی محمد شاہ صاحب عیسائیوں کی سٹیج پر جا بیٹھے۔ مولوی محمد شاہ صاحب کی اس حرکت نازیبا کو ذمہ دار مسلمانوں نے نہایت ناپسند کیا نیز سب انسپکٹر صاحب پولیس نے بھی انہیں اس وقت مناظرہ سے روک دیا اور کہا کہ یہ مناظرہ تب ہو سکتا ہے جب باقاعدہ آپس میں مناظرہ کی شرائط طے کر لو۔ دوسری طرف عیسائیوں سے مناظرہ جاری رکھنے کی انہوں نے اجازت دے دی۔ مگر پادری صاحب نے مناظرہ کا چیلنج دے کر انکار کر دیا۔ لیکن عیسائیوں کی چالاکی و ہوشیاری ملاحظہ ہو۔ دوسرے دن جب مولوی محمد سلیم صاحب اپنے مقررہ پروگرام کے مطابق خوشاب روانہ ہو گئے تو انہوں نے منادی کرا دی کہ مولوی محمد سلیم صاحب بھاگ گئے ہیں جماعت احمدیہ گوجرہ نے منادی سنتے ہی مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کو بلوا لیا اور ۸ بجے شام عیسائیوں کے بالمقابل سٹیج لگا دی۔ قاضی محمد نذیر صاحب نے پادری عبدالحق صاحب کو >عصمت انبیاء< اور >الوہیت مسیح< پر مناظرہ کرنے کے لئے للکارا۔ پادری صاحب کہنے لگے میں عصمت انبیاء پر مناظرہ کرنا نہیں چاہتا۔ ہاں >الوہیت مسیح< پر مناظرہ کے لئے تیار ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ مولوی محمد شاہ صاحب ثالث ہوں اور آپ محض میرے دلائل کو توڑیں۔ قاضی صاحب نے جواب دیا مجھے یہ شرط بھی منظور ہے۔ مگر پہلے اپنے پیش کردہ ثالث سے منظوری لے لو۔ اس پر مولوی محمد شاہ صاحب کہنے لگے میں ثالث نہیں بنتا۔ میرے متعلق پہلے ہی عجیب قسم کے خیالات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اس طرح پبلک پر واضح ہو گیا کہ پادری عبدالحق صاحب نے ثالثی کی شرط محض میدان مناظرہ سے فرار کے لئے لگائی تھی اور یہ کہ پادری صاحب پہلے دن ہی ایسی منہ کی کھا چکے تھے کہ اب وہ احمدیوں سے مناظرہ کی تاب نہیں رکھتے تھے۔۶۷۱
مناظرہ امرتسر: مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء کی رات کو ڈھاب کھٹیکاں میں ایک جلسہ کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کی عمر کے موضوع پر مبادلہ خیالات کی دعوت دی جس پر علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل تشریف لے گئے۔ علامہ شمسؓ صاحب نے حضور علیہ السلام کی عمر سے متعلق الہامات کے اصل الفاظ پیش کرکے حضورؑ کے الفاظ بلکہ خود مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی تحریرات سے ثابت کر دکھایا کہ الہام الٰہی کے مطابق حضورؑ نے ۷۵ سال کی عمر پائی۔۶۷۲
مناظرہ آڑھا ضلع گیا: یہاں ۲۰۔ ۲۱/ اکتوبر کو مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی نے غیر احمدیوں سے چار موضوعات پر مناظرہ کیا۔ آخر میں غیر احمدیوں نے تالیاں بجائیں اور احمدیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ حتیٰ کہ ہندوئوں کو بھی روکا گیا کہ احمدیوں کے ہاتھ کوئی چیز نہ بیچیں۔۶۷۳]body [tag
مناظرہ سونگھڑہ )کٹک( یہاں سید ضیاء الحق صاحب بی۔ اے بی ٹی اور قریشی محمد حنیف صاحب نے غیر احمدیوں سے دو کامیاب مناظرے کئے اور جب غیر احمدی اصحاب سے تیسرے مناظرے کی شرائط طے کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے ہاتھ ہلا کر بس بس کی آوازیں بلند کر دیں۔۶۷۴
مناظرہ کلکتہ: ایک تعلیم یافتہ بنگالی نوجوان کے قبول احمدیت پر اس کے رشتہ داروں نے مناظرہ کا مطالبہ کیا اور ۲/ نومبر ۱۹۳۴ء کی تاریخ مقرر کی گئی۔ قادیان سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل تشریف لے گئے اور مولوی محمد یوسف صاحب امرتسری سے تینوں اختلافی مسائل پر مناظرہ کیا۔ جس سے سعید الفطرت لوگوں کے لئے تحقیق کا دروازہ کھل گیا۔۶۷۵
مناظرہ کلاسوالہ۴۔ ۵/ نومبر کو مہاشہ مولوی محمد عمر صاحب فاضل نے پنڈت چرنجی لال پریم صاحب سے >صداقت مسیح موعود< اور >ویدوں کی تعلیم< پر مناظرہ کیا۔ پنڈت صاحب احمدی مناظر کے اعتراضات کا جواب دینے سے قاصر رہے۔۶۷۶
بعض ممتاز نو مبایعین
اس سال جن خوش نصیبوں کو نظام خلافت یا سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہونے کی توفیق ملی ان میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے برادر اکبر شیخ عطاء محمد صاحب اور بھتیجا شیخ اعجاز احمد صاحب بہت ممتاز ہیں۔ محترم شیخ عطا محمد صاحب نے اپنی بیعت کا حسب ذیل الفاظ میں خط لکھا۔
>سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ جناب والا کمترین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ کا بیعت شدہ ہے۔ خدا کے فضل اور حضرت مسیح موعودؑ کی دعائوں کی برکت سے بیعت پر ثابت قدم ہے بلکہ بعض نشانات نے میرے ایمان کو زیادہ محکم کر دیا ہے۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے بتلایا کہ خلافت کی بیعت بھی ضروری ہے بوجہ پیرانہ سالی و نقاہت حاضری سے مجبور ہو کر یہ عریضہ خدمت اقدس میں ارسال ہے۔ براہ نوازش قدیمانہ مجھے اپنی بیعت کے سلسلہ میں لے لیویں میں صدق دلی سے آپ کی بیعت خلافت کرتا ہوں۔ نیاز مند شیخ عطا محمد۔۶۷۷
ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے اپنے برادر معظم شیخ عطا محمد صاحب ہی کی نسبت مندرجہ ذیل اشعار کہے تھے۔ 2] [stf ~}~
وہ میرا یوسف ثانی وہ شمع محفل عشق
ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو
جلا کے جس کی محبت نے دفتر من و تو
ہوائے عشق میں پالا` کیا جواں مجھ کو
ریاض دہر میں مانند گل رہے خنداں
کہ ہے عزیز تر از جاں وہ جان جاں مجھ کو
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے
یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے۶۷۸
اسی سال مرزا ضیاء اللہ بیگ صاحب )داماد مرزا سلطان محمد بیگ صاحب رسالدار( مع اہل و عیال داخل احمدیت ہوئے۔۶۷۹ اسی طرح محترمہ عزت بیگم صاحبہ جو حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ کے چھوٹے بھائی مرزا فضل احمد صاحب کی اہلیہ تھیں خدا کے فضل سے احمدی ہو گئیں۔۶۸۰ حضرت سلطان احمد صاحبؓ کے خاندان میں صرف یہی ایک خاتون باقی تھیں جن کو آخر قبول حق کی توفیق مل گئی۔
اس سال کے مبایعین میں حاجی الٰہی بخش صاحب گورایا )ساکن موضع ہرچو کے ضلع گوجرانوالہ( بھی تھے۔ جن کی عمر سو سال کے قریب تھی حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی بیعت کے خط پر تحریر فرمایا۔ >اس عمر میں ہدایت آپ کے لئے مبارک اور ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے<۔۶۸۱
tav.7.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
تاریخ احمدیت
جلد ششم
۱۹۳۲ء سے لیکر ۱۹۳۵ء تک کے
پرفتن اور المناک دور ابتلاء کا مفصل جائزہ
مولفہ
دوست محمد شاہد
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی ساتویں جلد
)رقم فرمودہ مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب(
یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ ادارۃ المصنفین کی طرف سے تاریخ احمدیت کی ساتویں جلد تیار ہو کر احباب کے ہاتھوں میں آرہی ہے۔ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا باون سالہ دور قیادت ایسا عظیم الشان اور خدا تعالیٰ کی نصرتوں سے بھرپور ہے کہ انسانی روح اور زبان خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانے لگتی ہے کجا وہ وقت کہ خلافت ثانیہ کا مبارک دور خلافت شروع ہوا۔ اور بعض لوگوں نے یہ تعلیاں شروع کر دیں کہ اب یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن باون سالہ قیادت کے دوران اللہ تعالیٰ نے جس طرح آسمان سے نصرت کی۔ اور قدم قدم پر نشانات کا ظہور ہوا وہ احمدیت کی سچائی کا ایک زبردست ثبوت ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے مبارک زمانہ میں دنیا کے ہر کونے اور ہر ملک میں احمدیت کی مضبوط جماعتیں قائم ہو گئیں۔ اور احمدیت کا درخت ایسا تناور ہو گیا کہ ہر ملک کے پرندے اس پر نشیمن بنا کر آرام کرنے لگے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے کے پورا ہونے کا وقت آگیا۔
اس عرصہ میں مخالفت کی آندھیاں آئیں` ابتلائوں کے طوفان آئے اور مخالفوں نے چاہا کہ وہ خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے پودہ کو ختم کر دیں لیکن سب کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اور ان مخالفتوں کے نتیجہ میں احمدیت اور تیزی سے ترقی کرنے لگی۔~}~
ہربلا کیں قوم را حق دادہ اند
زیر آں گنج کرم بنہادہ اند
نوجوانان احمدیت کا فرض ہے کہ وہ سلسلہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے اور قربانیوں کے معیار کو قائم کرنے کی پوری سعی کریں یہ خدا کی تقدیر ہے اور یہ خدا کا نوشتہ ہے کہ احمدیت غالب ہو گی اور دنیا پر ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی دین اور سب قومیں اسلام کے چشمہ سے سیراب ہوں گی اور قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی تسکین قلب حاصل کریں گے پس مبارک ہے وہ شخص جو اپنے من` تن` دھن کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہتا ہے کیونکہ اسلام کا احیاء ہم سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قربان ہونا طلب کرتا ہے۔
پس عزیزو! اٹھو۔ کمر ہمت باندھو اور جس طرح خلافت ثانیہ میں آنے والے احباب نے قربانیوں کا بے نظیر نمونہ دکھایا۔ اسی طرح خلافت ثالثہ میں تم بھی آگے بڑھو۔ تا اسلام کا جھنڈا سب دنیا پر لہرانے لگے۔ آمین۔
والسلام
)دستخط( ظفر اللہ خان۔ ازلاہور
۶۷۔ ۱۔ ۱۸
نوٹ:۔ >تاریخ احمدیت< کے سیٹ اور موجودہ ایڈیشن کے اعتبار سے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب کا یہ پیش لفظ زیرنظر جلد ۶ ہی سے متعلق ہے۔ )مولف(
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت جلد ہفتم
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے خلافت ثانیہ کے بابرکت دور کی تاریخ کی تیسری جلد احباب کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے یہ جلد دو ابواب میں ہے اور ۱۹۳۲ء سے لے کر ۱۹۳۵ء تک کے واقعات پر مشتمل ہے تاریخ کے پہلے باب میں علاوہ دوسرے اہم واقعات کے مقدمہ بہاول پور اور مشرقی افریقہ میں احمدیت کا بیج بوئے جانے اور پھر باوجود مخالفت کی آندھیوں کے اس کے بڑھنے اور تناور درخت بننے کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں جماعت پر آنے والے ابتلائی دور کا مفصل ذکر کیا گیا ہے جب کہ احرار نے جماعت کی مخالفت کرتے ہوئے یہ تعلی کی تھی کہ وہ جماعت احمدیہ کو ختم کر دیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق احرار کے سب منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور جماعت احمدیہ پہلے سے بھی زیادہ شان و شوکت کے ساتھ ترقی کرنے لگی۔ احرار کی مخالفت کے نتیجہ میں جو انعامات کے دروازے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے لئے کھولے۔ ان کا ذکر انشاء اللہ مفصل اگلی جلد میں آئے گا۔ سیدنا حضرت مصلح الموعودؓ کے ساتھ جو خدائی وعدے کئے گئے تھے ان میں سے دو وعدے یہ تھے کہ قومیں آپ سے برکت پائیں گی اور خدا کا سایہ آپ کے سر پر ہو گا۔ ان ہر دو امور کی تصدیق ببانگ دہل اس جلد کے واقعات کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس جلد کو قبول فرمائے اور مصنف مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو صحت و سلامتی کے ساتھ باقی حصوں کو جلد مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے )آمین( اور ان کی محنت کو نوازے۔ وما توفیقنا الا باللہ العظیم۔
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے کتاب کے ابتدائی حصہ کو از راہ شفقت ملاحظہ فرمایا اور دعا فرمائی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم صحابی حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہان پوری نے باوجود علالت طبع اور کمزوری کے اول سے آخر تک کتاب کے مسودہ کو سنا اور مناسب اصلاح فرمائی اسی طرح خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے مقدمہ بہاول پور کے حالات پر نظر ثانی فرمائی۔ ان بزرگوں کے علاوہ درج ذیل محترم اصحاب نے بھی اپنے قیمتی وقت کو صرف کرکے جستہ جستہ مقامات پر نہایت محنت سے نظر ثانی فرمائی۔
۱۔
مکرم شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ سابق جج ہائی کورٹ و صدر ادارۃ المصنفین۔
۲۔
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ۔
۳۔
مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب مجاہد مشرقی افریقہ۔
۴۔
مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ ربوہ۔
۵۔
مکرم قریشی ضیاء الدین صاحب بی اے ایل ایل بی` ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور۔
۶۔
مکرم چوہدری صلاح الدین صاحب بی اے ایل ایل بی مشیر قانونی )صدر انجمن احمدیہ ربوہ(
ان کے علاوہ مکرم سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی نے شروع سے آخر تک مضمون ملاحظہ فرما کر قیمتی مشورے دیئے۔ فجزاھم اللہ
خاکسار کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ شروع سے آخر تک اس کتاب کے مسودہ کو اس لحاظ سے دیکھا کہ کتاب کا ہر گوشہ مکمل نظر آئے۔ فالحمد للہ علی ذلک
اس جلد میں بعض نایاب تصاویر لگائی جارہی ہیں۔ یہ تصاویر مندرجہ ذیل اصحاب نے مہیا کی ہیں۔
۱۔
حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل
]ni [tag۲۔
مکرم حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ قادیان
۳۔
مکرم جناب ناظر صاحب خدمت درویشان )سید میر دائود احمد صاحب(
۴۔
جناب مختار احمد صاحب ہاشمی
۵۔
مکرم چوہدری سردار احمد صاحب فاضل لندن
۶۔
مکرم حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال تحریک جدید
۷۔
مکرم شیخ عبدالمجید صاحب کارکن صدر انجمن احمدیہ ربوہ
اسی طرح جلد کے لئے مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب انور فاضل پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح اور محترم سید اعجاز احمد صاحب انسپکٹر بیت المال صدر انجمن نے نہایت قیمتی مواد مہیا فرمایا۔ حوالہ جات کے مقابلہ کرنے میں عزیزم مکرم محمد یوسف صاحب سلیم ایم اے شاہد نے نہایت محنت اور عرق ریزی سے کام کیا۔ اسی طرح مکرم مولانا محمد صدیق صاحب فاضل ایم اے انچارج خلاف لائبریری اور آپ کے دونوں ساتھی راجہ محمد یعقوب صاحب اور ملک محمد اکرم صاحب مضمون کی تیاری کے لئے کتب کی فراہمی میں خصوصی تعاون فرماتے رہے۔ فجز اہم اللہ تعالیٰ۔
تنگی وقت کے باوجود مکرم سید محمد باقر صاحب خوشنویس نے نہایت محنت سے کتابت کی اور مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل نے پروفوں کے پڑھنے میں نہایت جدوجہد سے کام لیا۔ مکرم قاضی منیر احمد صاحب اور لطیف احمد صاحب کارکن ادارہ نے دن رات ایک کرکے اس کو چھپوانے کی سعی کی۔
ادارۃ المصنفین تمام ان اصحاب کا جنہوں نے اس جلد کی تیاری میں کسی نہ کسی رنگ میں مدد کی ہے دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان سب کی محنت کو نوازے اور اپنے فضلوں کا وارث کرے۔ )آمین(
ابو المنیر نورالحق
مینیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ
۱۷/ جنوری ۱۹۶۷ء
نوٹ:۔ موجودہ ایڈیشن کے اعتبار سے یہ الفاظ زیر نظر جلد ۶ کا تعارف ہیں۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب )فصل اول(
اشاعت احمدیت کی پرزور تحریک اور >یوم التبلیغ< کے آغاز سے لے کر دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کے قیام تک
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
)جنوری ۱۹۳۲ء تا دسمبر ۱۹۳۲ء بمطابق شعبان ۱۳۵۰ھ تا شوال ۱۳۵۱ھ(
۱۹۳۲ء کے ماحول پر ایک سرسری نظر
جماعت احمدیہ کی علمی و تبلیغی اور اخلاقی و روحانی تاریخ جو ابتداء سے لے کر ۱۹۳۱ء تک کے عمومی کوائف اور تحریک آزادی کشمیر کے مفصل حالات و وقائع پر مشتمل تھی۔ قبل ازیں چھ حصوں میں محفوظ ہو چکی` اور اب ہم خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ پیش نظر )ساتویں( جلد سے ۱۹۳۲ء کے واقعات کا آغاز کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وما توفیقنا الا باللہ العلی العظیم۔
اس دور کی تاریخ پر قلم اٹھانے سے پیشتر یہ بتا دینا نہایت ضروری ہے کہ خلافت ثانیہ کے ابتداء میں تحریک احمدیت کو جو عظیم الشان ترقیات و فتوحات نصیب ہوئیں وہ ۳۱۔ ۱۹۳۲ء میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آگئیں۔ اور سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی بے مثال راہ نمائی نے سلسلہ احمدیہ کو اٹھارہ برس کے اندر اندر اپنوں اور غیروں کی بے انتہا مخالفانہ سرگرمیوں کے باوجود ۔۔۔۔ رفعت و عظمت کے ایسے بلند مقام پر لاکھڑا کیا کہ نہ صرف برصغیر کے مختلف طبقے اس مختصر سی جماعت کے غیر معمول اثر و نفوذ اور کامیابی کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے۔ بلکہ دنیائے اسلام کے بعض ممالک میں بھی اس کے تبلیغی کارناموں اور اس کی مجاہدانہ کوششوں اور تنظیمی صلاحیتوں پر اظہار تحسین کیا جانے لگا۔
مسلمانان ہند کی قابل رحم حالت
یہ زمانہ مسلمانان ہند کے لئے گوناگوں مصائب سے لبریز تھا۔ کشمیر اور صوبہ سرحد میں مسلمانوں پر جبر و تشدد کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اس کے ساتھ ہی کرنال` حصار اور ریاست الور کے مسلمانوں کو سخت دق کیا جارہا تھا۔ حتیٰ کہ پنجاب مسلم اکثریت کا صوبہ ہونے کے باوجود ہندوئوں اور سکھوں کی سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اب سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ )قائداعظم( محمد علی جناح کے انگلستان چلے جانے اور وہاں بودوباش اختیار کر لینے کے بعد مسلمانان ہند کا سیاسی قافلہ انتشار` تشتت اور پراگندگی کا شکار ہو رہا تھا اور مسلمان لامرکزیت اور فقدان قیادت کے نتیجہ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو چکے تھے۔ چنانچہ >تازیانہ ریویو< )۳۰ / نومبر ۱۹۳۲ء( نے اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ:
>مسلمان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے تاوقتیکہ ان میں کوئی لیڈر پیدا نہ ہو گا۔ گاندھی نہ ہو تو مالوی ہی ہو اور اگر وہ نہ ہو تو پرمانند ہی سہی۔ لیکن یہاں تو ہندو لیڈروں کے مقابلہ میں ہم کسی ایک مسلمان کو بھی پیش نہیں کر سکتے<۔
جماعت احمدیہ کی خصوصی شان اپنوں اور غیروں کی نظر میں
بایں ہمہ مایوسی اور ناامیدی کے اس دردناک ماحول میں نظریں بیتابانہ اور مضطربانہ طور پر قادیان کی طرف اٹھتی تھیں اور وہاں روشنی کی ایک امید افزا کرن موجود پاتی تھیں۔ چنانچہ ذیل میں بعض اہم آراء و افکار درج کی جاتی ہیں جن سے جماعت احمدیہ کی اس خصوصی شان کا اندازہ کرنے میں آسانی ہو گی۔
۱۔
مراد آباد کے ایک مشہور مسلمان مصنف جناب اشفاق حسین صاحب مختار )سابق میونسپل کمشنر مراد آباد( نے اپنے ایک کتابچہ >خون کے آنسو< میں لکھا۔
)>جماعت اور بھیڑ کا فرق احمدی جماعت ہیں( ہم سات کروڑ تو ہیں لیکن ہم سات کروڑ آدمیوں کی بھیڑ ہیں۔ ہم اپنے آپ کو جماعت نہیں کہہ سکتے۔ البتہ احمدی صاحبان اپنے آپ کو جماعت کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کی تنظیم اچھی ہے ۔۔۔۔ مشہور عربی مقولہ ہے ید اللہ علی الجماعہ۔ یعنی اللہ کا ہاتھ جماعت کے اوپر ہوتا ہے یعنی اللہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو تنظیم کرکے اپنی جماعت بنالیتے ہیں۔ خدا بھیڑ کی مدد نہیں کرتا۔ چونکہ ہم بھیڑ ہیں اس لئے خدا نے اپنا مددگار ہاتھ ہمارے اوپر سے اٹھالیا۔ تنظیم اگر ہوتو تھوڑی سی جماعت بھی دنیا میں تہلکہ ڈال دیتی ہے اور اگر تنظیم نہ ہوتو سات کروڑ تو کیا بلکہ ستر کروڑ بھی ذلت کی زندگی بسر کرتے ہیں<۱
۲۔
ایک کانگریسی لیڈر پنڈت نانک چند صاحب نے گول میز کانفرنس میں کہا کہ۔
>مسلمان جاہل پسماندہ اور ناکافی تعلیم یافتہ ہیں اور ان کو کنٹرول کرنا آسان نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ناخواندہ فرقہ کے ہاتھ میں دی جانے لگی ہے<۔
اس بیان پر آل انڈیا خلافت کمیٹی کے ترجمان >خلافت< )بمبئی(۲ نے ایک جوابی نوٹ سپرد قلم کیا۔ جس میں لکھا کہ۔
>اگر قادیان جیسے قصہ کا ٹانگہ والا خالصہ اور دیانند کالج کے گریجوئیٹوں کو بند نہ کر دے۔ تو ہمارا ذمہ۔ پھر مسلمان کبھی صوبہ کی آزادی طلب نہیں کریں گے<۔
یہ الفاظ ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان کو ایسی فضیلت اور علمی شان عطا فرمائی ہے کہ اس مقدس مقام کا بچہ بچہ اپنے علم اور قابلیت میں دنیا کے بڑے بڑے تعلیم یافتہ اشخاص پر بھاری ہے نیز یہ کہ قادیان کی سرزمین نے ایسے زبردست دماغ پیدا کئے ہیں جو حجت اور برہان کی رو سے بڑے بڑے مخالفین اسلام کا ناطقہ بند کرکے ان کا اثر بخوبی زائل کر سکتے ہیں۔
۳۔
جمعیتہ العلماء ہند کے آرگن >الجمعیتہ< )دہلی( نے جماعت احمدیہ کی تنظیم اور اس کے سالانہ جلسہ کی اہمیت کی نسبت مندرجہ ذیل بیان شائع کیا۔
>قادیانیوں کی کامیابی کا راز صرف ایک بات میں مضمر ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ بہت منظم ہیں۔ ان کے یہاں مختلف امور کے لئے مختلف شعبے قائم ہیں جن میں تنخواہ دار اور مستقل سٹاف کام کرتا ہے۔ مریدین کے چندوں کا اگرچہ کافی حصہ غیر متعلقہ مدات میں بھی صرف ہوتا ہے لیکن پھر بھی قادیانی پراپیگنڈا کے لئے کافی سرمایہ موجود رہتا ہے ظاہر ہے کہ موجودہ زمانہ میں سرمایہ اور تنظیم کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔ اور یہ دونوں چیزیں قادیانیوں کو میسر ہیں۔ علاوہ مرکزی سٹاف کے جو قادیان میں ہے ہر اس مقام پر جہاں دو چار قادیانی بھی ہیں ایک الگ جماعت قائم ہے۔ جو مرکزی جماعت کے زیر نگرانی ہے۔ اس طرح سے ہر ایک قادیانی اپنے مرکز سے وابستہ ہے۔ اخبار اور سالانہ جلسہ سے اس تنظیم کی اور بھی تکمیل ہو جاتی ہے گویا قادیانیوں کا سالانہ جلسہ بسلسلہ تنظیم وہ کام کر رہا ہے جو مسلمانوں کے یہاں حج بیت اللہ سے ہونا چاہئے۔ اب اس قادیانی تنظیم کے مقابلہ میں مسلمانوں کی حالت دیکھی جائے تو نہایت پراگندہ اور غیر منظم ہے<۔۳
۴۔
جماعت احمدیہ کے مشہور معاند اخبار >زمیندار< کے ایڈیٹر جناب مولوی ظفر علی خان صاحب نے جماعت احمدیہ کی ترقی اور عروج اقبال کا اقرار کرتے ہوئے لکھا۔
>یہ ایک تناور درخت ہو چلا ہے اس کی شاخیں ایک طرف چین میں اور دوسری طرف یورپ میں پھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں<۔
نیز لکھا۔
>آج میری حیرت زدہ نگاہیں بحسرت دیکھ رہی ہیں کہ بڑے بڑے گریجوئیٹ اور وکیل اور پروفیسر اور ڈاکٹر جوکونٹ اور ڈیکارٹ اور ہیگل کے فلسفہ تک کو خاطر میں نہیں لاتے تھے غلام احمد قادیانی کے خرافات واہیہ پراندھا دھند آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئے ہیں<۔۴
یہ تو برطانوی ہند کے بعض مسلم زعماء کے تاثرات ہیں جو بطور نمونہ اوپر درج کئے گئے ہیں۔ اب برصغیر کے غیر مسلم پریس کا نقطہ خیال ملاحظہ ہو۔ آریہ سماجی اخبار >پرکاش<۵ لاہور نے تبلیغ احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ۳/ جنوری ۱۹۳۲ء کی اشاعت میں لکھا۔
>ان کے پلیٹ فارم کی مضبوطی کی تو یہ حالت ہے کہ ہر ایک احمدی سے یہ آشا۶ کی جاتی ہے کہ مرکز سے حکم پاتے ہی وہ باقاعدہ واعظ کا کام کرنے پر تیار ہو گا۔ ورنہ معمولی طور پر تو جو بھی احمدی جس اوستھا۷ میں ہے وہ واعظ کا کام کرتا ہے لیکن اس کا پریس مضبوطی میں آریہ سماج کے مقابلہ میں حیرت انگیز ہے ایک قادیان کو لو وہاں سے نصف درجن اخبارات سے کم نہیں نکلتے جن میں دو انگریزی ہیں اور اردو پتروں میں سے ایک ہفتہ میں تین بار شائع ہوتا ہے۔ عجب نہیں کہ اسے جلد روزانہ کر دیا جائے۔۸ احمدی پریس کا جال سارے ہندوستان میں ہی نہیں۔ باہر نو آبادیوں اور مغربی ممالک تک بچھا ہوا ہے۔ ہر جگہ سے احمدی اخبار اور رسالے نکلتے ہیں۔ اس اوستھا میں احمدیت کی تبلیغ کامیاب ہو تو تعجب ہی کیا ہے یہ سارے اخبار پچپن ہزار احمدیوں کے سر پر چل رہے ہیں۔ یہ احمدی تبلیغ کے سوائے کوئی اور کام نہیں کرتے اس لئے احمدیت سے باہر ان کی اشاعت کی کوئی توقع نہیں پچپن ہزار احمدی ہی ہیں جو اپنی کمائی کے حصہ سے انہیں زندہ رکھ رہے ہیں اور کس لئے زندہ رکھ رہے ہیں؟ احمدیت کے پرچار کے لئے۔ آریوں کی سنکھیا۹ ماتری۱۰ بھارت میں ہی دس لاکھ سے کیا کم ہو گی لیکن آریہ سماج کے پریس کی حالت کو دیکھ کر ہر ایک آریہ کا سر مارے ندامت کے جھک جانا چاہئے<۔
مصری پریس میں جماعت احمدیہ کی خدمات اسلامیہ کی بازگشت
ہندوستان سے باہر جس مسلمان ملک میں پہلی بار جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز کامیابی اور قابل تقلید اسلامی خدمات کا کھلا کھلا اقرار کیا گیا وہ مصر تھا۔ چنانچہ قاہرہ کے اخبار >الفتح< )۲۰/ جمادی الاخر ۱۳۵۱ ھ مطابق ۲۲/ اکتوبر ۱۹۳۲ء( نے جماعت احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔
>نظرت فاذ احرکتھم امرمدھش فانھم رفعوا اصواتھم و اجروا اقلامھم باللغات المختلفہ و ایدوا دعوتھم ببذل المال فی المشرقین و المغربین فی مختلف الاقطار و الشعوب و نظموا جمعیاتھم و صدقوا الحملہ حتی استفحل امرھم و صارت لھم مراکز دعایہ فی اسیا و اووبا و امریکا و افریقیہ تساوی علما و عملا جمعیات النصاری واما فی التاثیر والنجاح فلا مناسبہ بینھم و بین النصاری فالقادیانیون اعظم نجاحالما معھم من حقائق الاسلام و حکمہ<۔
ترجمہ: میں نے دیکھا ہے کہ قادیانی تحریک ایک حیرت انگیز چیز ہے قادیانیوں نے تقریری اور تحریری طور پر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے۔ نئی اور پرانی دنیا کے مشرق و مغرب میں مختلف ملکوں اور قوموں میں بذل مال کے ذریعہ اپنی تبلیغ کو تقویت پہنچائی ہے۔ انجمنیں اور جمعیتیں مرتب کرکے زبردست حملہ کیا ہے یہاں تک کہ ان کا معاملہ عظیم الشان ہو گیا۔ اور ایشیا` یورپ` امریکہ اور افریقہ میں ان کے تبلیغی مرکز قائم ہو گئے۔ جو ہر طرح سے علمی اور عملی طور پر عیسائیوں کے مشنوں کے ہم پلہ لیکن تاثیر اور کامیابی کی رو سے ان میں اور مسیحیوں میں کچھ نسبت نہیں۔ کیونکہ قادیانی اسلامی حقائق اور حکمتوں کی وجہ سے عیسائیوں سے بدرجہا زیادہ کامیاب ہیں۔ پھر لکھا۔ >ولا ینقضی عجبی من ھولاء الرجال الذین بلغوا فی علو الھمم والعلوم الکونیہ مبلغا مالمر تبلغہ حتی الان ایہ فرقہ اسلامیہ کیف الخدعو بما اخترعہ غلام احمد القادیانی من الحیل والخارق<۔
یعنی میرے تعجب کی کوئی انتہا نہیں رہتی جبکہ میں ان لوگوں )جماعت احمدیہ کے افراد( کو جو علو ہمت اور علوم جدید میں اس درجہ ترقی کرگئے ہیں کہ آج تک کوئی اسلامی فرقہ وہاں تک نہیں پہنچا دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کے ایجاد کردہ حیلہ و فریب سے کس طرح دھوکہ کھا گئے ہیں۔ پھر لکھا ہے:۔
>والذی یری اعمالھم المدھشہ ویقدر الامور حق قدرھا لا یملک نفسہ من الدھشہ و الاعجاب بجھاد ھذہ الفرقہ القلیلہ التی عملت مالم تستطعہ مئات الملایین من المسلمین وقد جعلوا جھادھم ھذا ونجاحھم اکبر معجزہ تدل علی صدق ممایزعمون۔ وسا عدھم علی ذلک موت غیرھم ممن ینتسب الی الاسلام<۔
ترجمہ: جو شخص معاملہ فہم ہو اور ان لوگوں کے حیرت انگیز کارناموں کو دیکھے۔ وہ یقیناً اس چھوٹی سی جماعت کے جہاد کو دیکھ کر حیران اور انگشت بدنداں رہ جائے گا۔ اس جماعت نے وہ کام کیا ہے جس کو کروڑوں مسلمان نہ کر سکے۔ ان لوگوں نے اپنے جہاد اور کامیابی کو اپنے دعویٰ کی صداقت پر سب سے بڑا معجزہ قرار دیا ہے۔ ان کے اس بیان کو ان لوگوں کی موت نے تقویت پہنچائی ہے جو ان کے علاوہ اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔
آخر میں )حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ` احمدیت کے بیرونی مشنوں` ریویو آف ریلیجنز انگریزی و اردو کے ذکر کے بعد( لکھا۔
>افلا یجب علی المسلمین و الحال ھذہ ان یزیلوا عن اذھان اھل اوربا و امریکا تلک العقائد الفاسدہ التی یعتقد ونھافی دینھم و نبیھم ھذا فرض علی امراء المسلمین و علماء ھم و اغنیاء ھم و فقراء ھم ایضا فمن ذالذی یقوم الیوم بتبدید تلک الاوھام؟ لا احد لا القادیانیون و حد ھم ھم الذین یبذلون فی ذلک الاموال والانفس ولو قام المصلحون یصیحون حتی تبح اصواتھم و یکتبون حتی تنکسر اقلامھم ماجمعوا من الاموال و الرجال فے جمیع الاقطار الاسلامیہ عشر ما تبذلھا ھذہ الشرذمہ القلیلہ<۔
ترجمہ: کیا ان حالات میں مسلمانوں پر واجب نہیں کہ اہل یورپ و امریکہ کے ذہنوں سے وہ فاسد خیالات دور کریں جو وہ اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کے متعلق رکھتے ہیں۔ یقیناً واجب ہے اور یہ مسلمانوں کے سلاطین` علماء` اغنیاء اور فقراء کا فرض ہے۔ مگر کون ہے جو ان اوہام کو دور کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہو؟ ہرگز کوئی نہیں۔ صرف اکیلے احمدی ہیں جو اپنے اموال اور جانوں کو اس راہ میں خرچ کر رہے ہیں ہاں اگر مسلمانوں کے زعماء اور مصلحین کھڑے بھی ہوں اور چلاتے چلاتے ان کی آواز بھرا جائے اور لکھتے لکھتے ان کے قلم ٹوٹ جائیں تب بھی وہ تمام اسلامی دنیا سے مال اور کارناموں کے لحاظ سے اس کا دسواں حصہ بھی جمع نہیں کر سکتے جس قدر یہ چھوٹی سی جماعت خرچ کر رہی ہے۔۱۱]ydob [tag
اسی طرح جامعہ ازہر کے ماہوار رسالہ >نور الاسلام< نے بھی انہیں دنوں لکھا کہ۔
>للقاد دیانیہ حرکہ نشیطہ فی الدعوہ الی نحلتھم ولما کانوا یقیمون ھذہ النحلہ علی شی من تعالیم الاسلام امکنھم ان یدعوا انھم دعاہ الاسلام ۔۔۔۔۔۔ بعثوا بدعاتھم الی سوریہ و فلسطین و مصر و جدہ و العراق و غیرھا من البلاد الاسلامیہ ۔۔۔۔ کثیرا ما وردتنا رسائل من البلاد العربیہ و غیرھا کامریکا یسال محرروھا عن اصل ھذہ النحلہ و مبلغ صلتھا بالاسلام<۔
ترجمہ: قادیانی لوگ اپنے مذہب کی طرف دعوت دینے میں مستعدی اور نشاط سے کام کر رہے ہیں اور چونکہ وہ اپنے دین کی بنیاد بعض اسلامی تعلیمات پر رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کو موقعہ مل گیا کہ اسلام کے مبلغ ہونے کا دعویٰ کریں انہوں نے اپنے مبلغ شام` فلسطین` مصر` جدہ` عراق اور دوسرے بلاد اسلامیہ کی طرف بھیجے ہیں۔ کئی مرتبہ ہمارے پاس بلاد عربیہ اور امریکہ سے خطوط آتے ہیں جن کے لکھنے والوں نے دریافت کیا ہے کہ اس جماعت اور دین کی حقیقت کیا ہے اور ان کا اسلام سے کس قدر تعلق ہے<۔۱۲
۱۹۳۲ء کے ماحول کا دوسرا رخ
۱۹۳۲ء کے ماحول کو سمجھنے کے لئے اوپر کی تحریرات کا مطالعہ مفید ہے مگر یہ حقیقی صورت حال کا صرف ایک پہلو ہے دوسرا پہلو اور رخ جس کا جاننا اس دور کی مذہبی اور سیاسی فضاء کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے یہ ہے کہ یہی وہ سال ہے جس میں بعض مخالفین حق نے جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روکنے بلکہ اسے صفحہ ہستی سے بالکل محو کر دینے کی دھمکی دی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام مخالف احمدیت طاقتیں میدان مخالفت میں اتر پڑیں۔ حتیٰ کہ صوبہ پنجاب میں برسر اقتدار انگریزی حکومت کی پوری سرکاری مشینری حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور جماعت احمدیہ کے خلاف حرکت میں آگئی اور سراسر ناروا` ناشائستہ اور ناجائز حربوں سے حملہ آوروں کی پشت پناہی کرنے لگی۔ احمدیت کے خلاف اپنی نوعیت کی اس پہلی منظم اور ہمہ گیر مخالفت کے اسباب و علل کیا تھے؟ اور حکومت کے افسروں نے اس میں سرگرم حصہ کیوں لیا؟ اور انگریزی حکام کی نگاہ میں جماعت احمدیہ جیسی خادم دین اور خادم ملک جماعت کے کون کون سے مفروضہ >جرائم< تھے جن کی پاداش میں اسے مسلسل کئی برس تک نہایت درجہ المناک حالات اور لرزا دینے والے مصائب و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا؟ دور ابتلا کی یہ جملہ تفصیلات دوسرے باب میں آرہی ہیں جہاں ۱۹۳۴ء کی قادیان احرار کانفرنس کے پس منظر اور اس کے اثرات و نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن چونکہ مندرجہ بالا الٹی میٹم کا تعلق ایک ایسے واقعہ سے ہے جو ۱۹۳۲ء۱۳ میں پیش آیا اس لئے اس مقام پر جبکہ ہم اس سال کے تفصیلی واقعات درج کرنے سے پہلے اس کا اجمالی تعارف کرا رہے ہیں اس واقعہ کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
۱۹۳۲ء کا ایک واقعہ
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا بیان ہے کہ۔
>بعض مسلمان کہلانے والوں نے محسوس کیا کہ جماعت احمدیہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اگر اس سے آگے بڑھ گئی تو اس کا مٹانا اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا اس لئے انہوں نے تنظیم کرکے اور ایسے لوگوں کی مدد لے کر جو بظاہر ہمارے دوست بنے ہوئے تھے مگر اندرونی طور پر دشمن تھے ہمارے خلاف اڈا قائم کر لیا اور ایسی تنظیم کی جس کی غرض احمدیت کو کچل دینا ہے۔ ۱۹۳۲ء میں تحریک کشمیر کے دوران میں ایک دن سرسکندر حیات خان صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی اس بارے میں دونوں کا تبادلہ خیال چاہتا ہوں کیا آپ شریک ہو سکتے ہیں میں اس وقت لاہور میں ہی تھا۔ میں نے کہا مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں۔ میٹنگ سرسکندر حیات خان صاحب کی کوٹھی پر ہوئی اور میں اس میں شریک ہوا۔ چودھری افضل حق صاحب بھی وہہیں تھے باتوں باتوں میں وہ جوش میں آگئے ور کہنے لگے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ احمدی جماعت کو کچل کر رکھ دیں میں نے اس پر مسکرا کر کہا۔ اگر جماعت احمدیہ کسی انسان کے ہاتھ سے کچلی جا سکتی تو کبھی کی کچلی جا چکی ہوتی اور اب بھی اگر کوئی انسان اسے کچل سکتا ہے تو یقیناً وہ رہنے کے قابل نہیں ہے یہ پہلی کوشش تھی۔ پھر احرار نے جماعت احمدیہ کو کچلنے کی مزید کوشش شروع کی اور یہ عجیب بات ہے کہ وہی احرار جو اپنی دوسری تحریکات کے لئے جب کوشش کرتے تو انہیں روپیہ نہیں ملتا تھا انہوں نے جب جماعت احمدیہ کے خلاف کوشش شروع کی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑے خزانہ کا دروازہ کھول دیا گیا ہے<۔۱۴
اس واقعہ کا ذکر حضور نے سب سے پہلے ۲۹/ جولائی ۱۹۳۲ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا۔ چنانچہ حضور نے بتایا کہ۔
ابھی تھوڑے دنوں کا واقعہ ہے کہ احرار کے لیڈروں میں سے ایک لیڈر نے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے ایک مجلس میں جو صلح کے لئے منعقد ہوئی تھی کہہ دیا کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم احمدیوں کو کچل ڈالیں گے۔ اب انسانی لحاظ سے ہم ان سے کہہ سکتے تھے کہ ہم تم کو کچل ڈالیں گے اور اگر زیادہ نرمی اختیار کرتے تو کہہ دیتے کہ کچل کر تو دیکھو۔ تیسری حالت ڈر جانا تھی کہ نامعلوم کیا ہو گا خدا جانے وہ کیا کر دیں گے وہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں اور ہم قلیل ہیں لیکن صحیح بات وہی ہے جو میں نے کہہ دی۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر یہ بندوں کی تحریک ہے تو ضرور کچلی جائے گی اور اگر خدا کی تحریک ہے تو ہم کو کیا ڈر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا<۔۱۵
خود چوہدری افضل حق صاحب >مفکر احرار< نے >تاریخ احرار< )صفحہ ۷۵ و ۷۶( میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے صاف لفظوں میں اعتراف کیا۔
>میں نے کہا مرزا صاحب! کوئی الیکشن نہیں گزرا جس میں مرزائیوں نے میرے خلاف ایڑی چوٹی کا زور نہ لگایا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا بھی خدا کے فضل سے فیصلہ یہی ہے کہ اس جماعت کو مٹا کر چھوڑیں گے<۔
اسی زمانہ میں سید محمد انور شاہ صاحب` شیخ الحدیث دارالعلوم دیو بند نے بھی لاہور کے ایک عام جلسہ میں یہ دھمکی دی کہ میں مرزائیوں کو تباہ کرکے دم لوں گا۔۱۶
یہ ہے ۱۹۳۲ء کا گردو پیش جس میں جماعت احمدیہ کے جری قائداور مقدس امام حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک نئے جوش نئی قوت اور نئے ولولے کے ساتھ کاروان احمدیت کی قیادت و سیادت کا بیڑہ اٹھایا اور پھر خدا کے فضل` نیم شبی دعائوں` حق و معرفت سے لبریز کلمات و خطبات اور بروقت اور مناسب تدابیر اور دوسرے روحانی و مادی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے جماعت کو ایک ایسی مضبوط اور مستحکم چٹان تک پہنچا دیا کہ نہ صرف یہ کہ آئندہ جو طوفان بھی اٹھا اس کے کناروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔ بلکہ اس کے نتیجہ میں ہر بار جماعت احمدیہ کو پہلے سے زیادہ قوت و شوکت نصیب ہوتی چلی گئی جیسا کہ آئندہ کے صفحات سے معلوم ہو گا۔
پیغام احمدیت پہنچانے کی زبردست تحریک اور یوم التبلیغ کا آغاز
خدائی سلسلوں کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کا واحد ذریعہ تبلیغ ہے یعنی نرمی` اخلاق اور دعائوں پر زور دے کر حق و صداقت کی اشاعت
کرنا جیسا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے >الوصیتہ< میں تحریر فرمایا ہے کہ۔
>خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں۔ سوتم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دعائوں پر زور دینے سے<۔۱۷
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ خصوصاً پچھلے کئی سالوں سے جماعت کو اس کی تبلیغی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا رہے تھے اور گو اس کا نتیجہ بھی نہایت خوش کن نکل رہا تھا۔ اور خدا کے فضل سے جماعت سرعت سے ترقی بھی کر رہی تھی مگر چونکہ یہ ترقی نسبتی تھی اور ابھی جماعت کے بہت سے احباب حقیقی طور پر تبلیغ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تھے اس لئے حضور نے ۱۹۳۲ء کے آغاز میں ہی جماعت کو نہایت جوش سے تبلیغ کرنے کی تحریک فرمائی۔ چنانچہ ۸/ جنوری ۱۹۳۲ء کو خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ۔
>ضروری ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ کام کریں۔ کیونکہ جب تک ہر سال لاکھوں آدمی ہماری جماعت میں شامل نہ ہوں گے۔ اس وقت تک ہم پورے طور پر ترقی نہیں کر سکیں گے۔ بالعموم پہلی صدی ہی ایسی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت دنیا میں وسیع طور پر پھیل جاتی ہے اور ہم یہ ترقی حاصل نہیں کر سکتے جب تک لاکھوں آدمی ہر سال ہماری جماعت میں شامل نہ ہوں اور اگر ہم نے پہلی صدی میں ہی اپنی جماعت کو دنیا پر غالب نہ کیا تو پھر اور کونسا وقت ہو گا جب ہم تبلیغ کا کام کریں گے جبکہ پہلی صدی ہی اپنے ساتھ عظیم الشان برکات رکھتی ہے اور پہلی صدی میں ہی تعلیم اور تربیت کا بہترین سامان مہیا ہوتا ہے۔ اگر ہم پہلی صدی میں تبلیغ کی طرف سے کوتاہی کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک طرف تو ہماری ترقی کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچے گا اور دوسری طرف ہماری جماعت کی تربیت میں بھی نقص آجائے گا کیونکہ تبلیغی زمانہ میں اگرچہ جماعت خود تربیت کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کر سکتی مگر دشمنوں کی طرف سے متواتر مظالم ہوتے ہیں اور وہ الٰہی سلسلہ میں داخل ہونے والوں کو مختلف قسم کی اذیتیں اور دکھ پہنچاتے ہیں اس لئے ان کے ظلم و ستم اور جبر و تشدد کی وجہ سے خود بخود لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت ہوتی چلی جاتی ہے۔
پس الٰہی سلسلہ کی پہلی صدی میں تبلیغ کا کام تو دوستوں کے سپرد ہوتا ہے اور تربیت کا کام دشمنوں کے سپرد۔ مگر بعد کی صدیوں میں چونکہ دشمن کم ہو جاتے ہیں اور دشمنوں کے شدائد کی کمی کی وجہ سے تربیت میں نقص آجاتا ہے اس لئے اس وقت بہت سے جھگڑے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس اگر ہم اس وقت تبلیغ میں سستی ظاہر کرتے ہیں تو یہ سستی تربیت پر بھی برا اثر ڈالتی ہے اور جماعت اگر تعداد کے لحاظ سے کم ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کی تربیت میں بھی کمی آجاتی ہے کیونکہ جب وہ تبلیغ سرد پڑ جائے گی اس وقت تربیت بھی سرد پڑ جائے گی یہی وجہ ہے کہ دشمنوں کے مظالم دکھ اور تکالیف مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے متوجہ کرتی ہے اور یہ تکالیف ہی ایسی چیز ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی نصرت لاکر مومن کو اللہ تعالیٰ کا عینی مشاہدہ کرا دیتی ہیں۔ تب وہ ایمان حاصل ہوتا ہے جو خطرے سے بچاتا اور تمام لغزشوں سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔
پس میں تبلیغ کے لئے اگرچہ پہلے بھی کئی بار احباب کو توجہ دلا چکا ہوں مگر اب پھر توجہ دلاتا ہوں اور دوستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اپنی سستی کو دور کریں اور اس جوش سے تبلیغ کا کام کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال لاکھوں آدمی سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو جائیں<۔۱۸
اس ولولہ انگریز خطبہ کے بعد حضور نے ملک میں تبلیغ احمدیت کا ایک عام رجحان اور حرکت پیدا کرنے کے لئے اس سال کی مجلس مشاورت )منعقدہ مارچ ۱۹۳۲ء( میں یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ جماعت سال میں دو دفعہ >یوم التبلیغ< منائے۔ ایک >یوم التبلیغ< غیر احمدی مسلمانوں کے لئے مخصوص ہو اور دوسرا غیر مسلموں خصوصاً ہندو اصحاب کے لئے۔ نیز یہ ہدایت فرمائی کہ نظارت دعوۃ و تبلیغ ایسے قواعد بنائے کہ ہر احمدی اس دن تبلیغ میں مشغول ہو سکے اور اس غرض کے لئے باقاعدہ ایک سکیم بنائی جائے۔ فہرستیں تیار کی جائیں اور اس کے ماتحت احمدی مردوں اور احمدی خواتیں غرضکہ تمام افراد جماعت کی نگرانی کی جائے کہ اس میں کہاں تک حصہ لیا گیا ہے۔۱۹
پہلا یوم التبلیغ
چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق جماعت احمدیہ نے ملک بھر میں سب سے پہلا یوم التبلیغ ۸/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو پورے جوش و خروش اور والہانہ اور فدائیانہ ذوق و شوق سے منایا۔۲۰ اور مخالفین احمدیت کی شر انگیزیوں کے باوجود اس کے نہایت شاندار نتائج برآمد ہوئے جن کی تفصیل سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ حضور نے فرمایا۔
>جس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ دن مقرر کیا گیا تھا اس وقت تک جس حد تک نتائج میرے سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت حد تک پوری ہو چکی ہے اور مخالفوں کی مخالفت ہمارے رستہ میں روک بننے کی بجائے کھاد کا موجب ہوئی ہے۔ بعض دوستوں نے لکھا اور بعض نے بیان کیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس جا کر ہم نے دس پندرہ منٹ صرف اپنی آمد کی غرض بتانے میں صرف کرنے تھے انہوں نے دیکھتے ہی کہہ دیا۔ اچھا آپ آج ہمیں تبلیغ کرنے کے لئے آئے ہیں ہم تو پہلے ہی سمجھتے تھے کہ آپ نے ہمیں چھوڑنا نہیں۔ اچھا آئیے سنائیے گویا اس مخالفت سے وہ ہزاروں لاکھوں آدمی جن تک ہماری آواز پہنچنا مشکل تھی یا جن کے گھروں پر جاکر دس پندرہ منٹ اپنی آمد کی غرض سمجھانے میں ہمیں صرف کرنے پڑتے انہیں مخالفوں کی آواز نے پہلے ہی تیار کر دیا۔ >زمیندار<۔ >حریت< اور مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ معاندین نے انہیں بتا دیا کہ فلاں تاریخ کو احمدی تمہارے پاس آئیں گے ان کے پاس وقت چونکہ تھوڑا ہے اس لئے اسے ضائع نہ کرنا ان کی آمد کی غرض ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں اور اس طرح وہ ہزارہا گھنٹے جو احمدیوں کے اپنے آنے کی تمہید میں ضائع ہونے تھے بچ گئے۔ پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے مختلف طبائع پیدا کی ہیں کہ انہیں جس کام سے روکا جائے وہ کہتے ہیں اسے ضرور کریں گے اور مسلمانوں میں بھی ایسی طبائع کے لاکھوں آدمی ہوں گے۔ اس لئے مخالفوں کی طرف سے بار بار یہ تاکید ہونے پر کہ احمدیوں کی بات نہ سننا انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ضرور سنیں گے۔ پھر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ مخالفت کا جتنا شور بلند ہو اتنی ہی زیادہ بیداری ان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے علماء کی مخالفت تو نہیں کرتے۔ مگر تماشہ دیکھنے کے شائق ضرور ہوتے ہیں وہ اسے ایک تماشہ سمجھتے ہیں اور گو قریب نہیں آتے مگر دور سے جھانکتے رہتے ہیں ایسے لوگ بھی بالاخر قابو آجایا کرتے ہیں کیونکہ اگر تماشہ دلچسپ ہو تو دور سے جھانکنے والے آہستہ آہستہ قریب آجاتے ہیں اور کسی چیز کے خوشگوار نتائج دیکھ کر کسی نہ کسی بہانہ سے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال مخالفوں کی مخالفت نے بھی ہمیں فائدہ ہی پہنچایا ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر یہ نہ ہوتی تو شاید ہماری تبلیغ اس سے آدھی بھی نہ ہو سکتی جتنی کہ اب ہوئی ہے اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ بعض احمدیوں نے جو شاید عام حالات میں سستی دکھاتے جب سنا کہ مخالف کہہ رہے ہیں کہ وہ ہماری باتوں کو نہیں سننے دیں گے تو ان کے دل میں بھی جوش پیدا ہوا کہ ہم بھی تبلیغ کریں گے جماعت میں بیداری اور دوسروں میں دلچسپی پیدا ہوئی اس کے نتیجہ میں بیعتیں بھی ہوئیں اور بہت سے لوگوں نے بیعت کی مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بیعت اپنی ذات میں مقصود نہ تھی بلکہ اس کے اصل نتائج دوچار ماہ تک انشاء اللہ تعالیٰ نکلیں گے۔ اس سے ایک طرف تو جماعت میں اور بیداری ہو گی اور زیادہ تبلیغ کا شوق بڑھے گا۔ اگر کسی کو مخالفوں کے سامنے ندامت اٹھانی پڑی ہے تو وہ آئندہ کے لئے مطالعہ کرکے اپنی قابلیت بڑھائے گا اور جنہیں کامیابی ہوئی ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں وہ اور زیادہ جوش سے کام کریں گے۔ غرضیکہ بہت سے فوائد ہوں گے اور کچھ تازہ بتازہ پھل بھی مل گئے ہیں۔ اس سے جماعت میں ایک عام احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہم سے پہلے سستی ہوئی ہے اور آئندہ زیادہ توجہ سے وہ کام کریں گے بعض نے وعدہ کیا ہے کہ وہ باقاعدہ ٹریکٹ شائع کیا کریں گے۔ غیر احمدیوں کی طرف سے ہمارے مبلغوں کو جو جواب ملے وہ بھی بعض صورتوں میں حوصلہ افزا ہیں۔ کئی لوگوں نے انہیں آتے دیکھ کر کہا کہ ہم پہلے ہی انتظار میں تھے اور دروازے کھول کر آپ کی آمد کے منتظر بیٹھے تھے بعض جگہ لطائف بھی ہوئے ایک جگہ ایک مولوی صاحب نے لوگوں سے کہا کہ اپنے دروازے بند رکھو تا کوئی احمدی تمہارے ہاں نہ آسکے۔ لوگوں نے تو کیا بند کرنے تھے البتہ وہ خود دروازہ بند کرکے بیٹھا رہا اور جو بھی آکر اس کا دروازہ کھٹکھٹاتا وہ یہ سمجھ کر کوئی احمدی آیا ہے اندر سے گالیاں دینے لگ جاتا۔ آخر ایک احمدی جو وہاں مدرس ہیں اس کے مکان پر گئے اور اسے آواز دی اس نے آواز پہچان کر کہا کہ معاف کرنا آج تو تمام دن آپ کے احمدیوں نے ستا مارا ہے میں سمجھا ہوں ایک چوک ہوئی ہماری لاہور کی جماعت کے دوستوں کو چاہئے تھا کہ سب سے پہلے تبلیغی وفد >زمیندار< اور >حریت< کے دفتر بھیجتے۔ دوست صبح ہی صبح ان کے ہاں پہنچ جاتے اور کہتے ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ نے آج ہمارے خلاف جلسہ کرکے تقریریں کرنی ہیں پہلے آپ ہمارے خیالات سن لیں اور ان میں جو بات آپ کو قابل اعتراض نظر آئے اس پر بے شک اعتراض کریں لاہور کے دوستوں کو چاہئے تھا کہ پہلے تبلیغ ان ہی لوگوں سے شروع کرتے۔
جیسا کہ میں نے ڈلہوزی کے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا تبلیغ کے لئے تھوڑی سی دیوانگی بھی ضروری ہے کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جسے دیوانہ نہ کہا گیا ہو اور جب ہم نے ان کا ورثہ پایا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں دیوانہ نہ کہا جائے۔ دیوانگی ہی دراصل حقیقی فرزانگی عطا کرتی ہے اور جنون ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کو کھینچتا ہے یہ ایک قسم کی دیوانگی ہی ہے کہ ایسے شدید دشمنوں کے پاس انسان تبلیغ کے لئے جائے جو ممکن ہے ماریں یا کوئی جھوٹا مقدمہ ہی بنا دیں۔ مگر بہرحال یہ دیوانگی ایسی ہوتی ہے کہ دوسروں کے دلوں میں بھی بیداری پیدا کرتی ہے بعض جگہ دوسرے لوگوں سے بھی دیوانگی ہوئی جو ہمارے لئے فائدہ کا موجب بن گئی۔ ایک جگہ ہمارے آدمی گئے تو ان میں سے ایک نے اس مکان میں جہاں وہ جاکر بیٹھے باہر سے کنڈی لگا دی تا دوسرے لوگ آکر ان کی باتوں کو نہ سن سکیں۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے اپنے پانچ سات آدمی جو وہاں پہلے موجود تھے ان کو خوب تبلیغ کی گئی۔ کنڈی باہر سے لگی رہی اور وہ مجبوراً بیٹھے سنتے رہے۔ میں سمجھتا ہوں اس وقت کی تبلیغ بھی زیادہ موثر ہوئی ہوگی۔ اگر ہمارے آدمی کی طرف سے کنڈی لگائی جاتی تو ان پر اور قسم کا اثر ہوتا وہ اسے شرارت پر محمول کرتے اور بھڑک جاتے لیکن جب ان کے اپنے آدمی کی طرف سے ایسا ہوا تو ہمارے مبلغین پر غصہ نہیں ہوسکتے تھے بلکہ ان سے گو نہ ہمدردی پیدا ہوئی ہو گی تو کچھ دیوانگی ہم سے بھی ہونی چاہئے تھی اور وہ یہ کہ شدید مخالفوں کے گھروں میں جاتے۔ مثلاً مولوی ظفر علی۔ مولوی ثناء اللہ۔ مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ اور ایسے مخالفوں کے مکانوں پر پہنچ کر انہیں تبلیغ کرتے لیکن بہرحال اس سے جو نتائج نکلے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ بہت ہی مفید چیز ہے<۔۲۱
دوسرا یوم التبلیغ
دوسرا یوم التبلیغ جو غیر مسلموں کے لئے مقرر کیا گیا تھا بڑی شان و شوکت سے اگلے سال ۵/ مارچ ۱۹۳۳ء کو منایا گیا اور احمدیوںؑ نے ہندوئوں` سکھوں اور عیسائیوں اور اچھوتوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے پورا دن وقف کیا۔ قادیان میں اس تقریب پر صبح سوا آٹھ بجے کے قریب حضور نے تبلیغ پر جانے والوں کو بیش قیمت ہدایات دیں۔۲۲ اور دعا سے رخصت کیا۔ قادیان کے چھوٹے بڑے اصحاب کے قریباً ساٹھ وفود قادیان کے گردونواح کے دس میل کے حلقہ میں تمام دن مصروف تبلیغ رہے۔ اس کے علاوہ قادیان کے مقامی غیر مسلموں کے گھروں اور دکانو میں جاکر آنحضرت~صل۱~ کا پیغام پہنچایا اور ایک تبلیغی پوسٹر اور ۱۵۔ ۱۶ مختلف تبلیغی ٹریکٹ قادیان اور بیرونجات کے لکھے پڑھے لوگوں میں تقسیم کئے گئے۔ چھوٹے بچوں کا ایک جلوس نکالا گیا۔ دوپہر کے وقت لوکل کمیٹی کی طرف سے قادیان کے دو سو اچھوتوں کو ہائی سکول کے ہال میں دعوت طعام دی گئی۲۳ جس میں حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ` میاں عبدالسلام صاحب عمر مرحوم اور مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے تقریریں کیں۔ شام کے وقت چالیس کے قریب ہندو اور سکھ معززین قادیان کو قصر خلافت میں پھلوں کی پارٹی دی گئی جس میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے نہایت لطیف پیرایہ میں صداقت اسلام معلوم کرنے کا یہ طریق بتایا کہ۔
>وہ سچے دل سے دعا کریں اور سارے خیالات دل سے نکال کر خدا کے آگے جھکیں اور کہیں۔ ہم ہر طرف سے منقطع ہو کر تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں ہدایت عطا کر۔ اگر اب بھی ہماری دعا نہ سنی گئی تو ذمہ داری ہم پر نہ ہو گی<۔
اس تقریر سے مقامی غیر مسلم بہت متاثر ہوئے اور لالہ دولت رام ممبر سمال ٹائون کمیٹی نے ہنود اور اہل شہر کی طرف سے اس تقریب کے انعقاد پر شکریہ بھی ادا کیا اور مبارک باد بھی پیش کی۔۲۴`۲۵
قادیان کی مستورات نے بھی یوم التبلیغ میں سرگرم حصہ لیا اور ہندو سکھ عورتوں کے علاوہ خاکروب عورتوں کے گھروں میں جاکر تبلیغ اسلام کی۔ بعض خواتین نواحی دیہات میں بھی گئیں۔۲۶
امرتسر میں غیر احمدی علماء نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ احمدیوں کو غیر مسلموں میں تبلیغ نہیں کرنے دیں گے اس مقصد کے لئے احمدیت کے خلاف متواتر دو ہفتے تک جلسے کئے گئے۔ ایک مقامی انجمن >تبلیغ اسلام< نے اشتہارات شائع کئے اور ہندوئوں کو اکسایا گیا کہ احمدیوں کی بات نہ سنو کیونکہ ہم ان کو اسلام سے خارج کر چکے ہیں۔ یہ )احمدی( ۵/ مارچ کو تمہارے گھروں پر ہلہ بولیں گے اور فساد کریں گے۔ ہم مسلمان ذمہ دار نہیں ہوں گے مگر اس زبردست مخالفت کے باوجود امرتسر کے احمدیوں نے باقاعدہ تنظیم کے ساتھ الگ الگ گروپ ترتیب دے کر غیر مسلم ایڈیٹروں` مضمون نگاروں` مذہبی پیشوائوں` وکیلوں` ڈاکٹروں` افسروں یا اعلیٰ حکام غرضیکہ ہر طبقہ کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔
اس موقعہ پر مقامی جماعت نے پانچ ہزار کی تعداد میں )انگریزی` ہندی` گورمکھی کے( اشتہارات ٹریکٹ اور پمفلٹ اور ہینڈبل تقسیم کئے۔ غیر مسلم حضرات بڑی خوش دلی اور محبت و تکریم سے پیش آئے اور تبلیغی لٹریچر بڑی مسرت اور قدردانی سے قبول کیا۔ پنڈت کرتار سنگھ فلاسفر )ہندی گورمکھی` سنسکرت اور انگریزی کے فاضل( نے کہا کہ میں مسلمانوں کو ڈاکو سمجھتا تھا مگر حضرت مرزا صاحبؑ کی کتاب >اسلامی اصول کی فلاسفی< کے ترجمہ >دی ٹیچنگ آف اسلام< نے میرے خیالات کی کایا پلٹ دی ہے۔ اب مجھے اسلام آنحضرت ~)صل۱(~ اور احمدی جماعت سے بڑی عقیدت ہے۔ اور حضرت مرزا صاحب کو ایک بہت بڑا بزرگ رشی مانتا ہوں اور کہا ہم نے تو حضرت مرزا صاحبؑ کے طفیل اسلام کا صحیح فوٹو دیکھا ہے۔
کبیر پنتھیوں کے استھان میں جب اسلام کی خوبیوں اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا ذکر کیا گیا۔ تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ زندگی بھر میں آج پہلی دفعہ اسلام کی سچی تعلیم ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے۔ غیر احمدی علماء اور مساجد کے درویش بازاروں میں برملا گالیاں دیتے اور احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں کے آگے سیاپا کرتے اور دل آزار نعرے لگاتے ہوئے کوشش کرتے کہ کسی طرح فساد ہو جائے۔ مگر احمدیوں نے ان کو قطعاً لائق التفات ہی نہ سمجھا اور صبر و تحمل سے پورا دن تبلیغ میں مصروف رہے۔4] fts[۲۷
حدیہ ہے کہ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار >اہلحدیث< )۱۰/ مارچ ۱۹۳۳ء( میں فخریہ انداز سے لکھا۔
>امرتسر میں پانچ مارچ کا دن دیکھنے کے قابل تھا۔ بجائے اس کے کہ مرزائی ہندوئوں کو تبلیغ کرتے۔ طلباء عربی مرزائیوں کو تلاش کرکر کے بازاروں` گلیوں اور ان کے گھروں میں پکڑ کر تبلیغ حق کا حق ادا کرتے تھے<۔
گویا بالفاظ مولوی صاحب یہ طریق اس لئے اختیار کیا گیا کہ احمدی ہندوئوں کو تبلیغ اسلام نہ کر سکیں۔ ورنہ خاص اس دن جو احمدیوں نے خالصت¶ہ غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے وقف کیا تھا احمدیوں کو تلاش کرکے اور پکڑ کر >تبلیغ< کرنے کے کیا معنی ہو سکتے تھے۔
آگرہ میں جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے اچھوتوں کے لیڈر بابو کھیم چند صاحب سابق ایم ایل سی سے ساڑھے چار گھنٹے تک تبادلہ خیالات کیا۔ بابو صاحب نے اقرار کیا کہ ان کی قومی ترقی کا راز قبول اسلام میں مضمر ہے۔
جماعت احمدیہ شملہ اور دہلی کے متفقہ فیصلہ کے مطابق جماعت شملہ نے نئی دہلی کا علاقہ تبلیغ کے لئے مخصوص کیا اور گورنمنٹ آف انڈیا کے تقریباً تمام اسٹاف اسمبلی اور کونسل آف سٹیٹ کے تقریباً تمام ہندو ممبروں کو اردو اور انگریزی ٹریکٹ بھجوائے۔ دو سو بنگالی اور مدراسی ہندو خصوصیت سے زیر تبلیغ رہے انگریزی ٹریکٹ وائسرائے چیف کمشنر دہلی اور ڈپٹی کمشنر دہلی کو بھی بھیجے گئے۔ )حجتہ اللہ( حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ نے کپورتھلہ کے سکھ رئوساء کو اردو اور انگریزی لٹریچر دیا۔
پشاور میں غیر مسلموں کا ردعمل بہت خوش کن تھا۔ چنانچہ انہوں نے بعض احمدیوں کو اپنی سماجوں میں تقریر کی اجازت دی۔ شاہ جہانپور میں ہندوئوں نے اسلام کا پیغام نہ صرف محبت اور توجہ سے سنا بلکہ یہ معلوم کرکے کہ احمدیوں نے محض ان کی بھلائی کے لئے آج اپنے کام کاج کو چھوڑ دیا ہے دھن باد کہا۔۲۸
لائل پور میں قریباً ایک ہزار غیر مسلم اسلام سے روشناس کئے گئے۔ بہاول پور میں علمائے سلسلہ کے ایک وفد نے آریہ سماج مندر میں جاکر بہت سے ہندوئوں کے سامنے اسلام کی خوبیوں پر روشنی ڈالی۔ ڈیرہ بابانانک میں سکھوں کا بھاری میلہ تھا جہاں احمدی سارا دن ہندوئوں اور سکھوں میں حق کا پرچار کرتے رہے۔۲۹
اڑیسہ کے گائوں سرلونیاں میں صرف دو ہی احمدی تھے جو تمام دن مصروف تبلیغ رہے۔ ایک معزز ہندو نے اعلان کیا کہ جماعت احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کو میں تسلیم کرتا ہوں۔ اڑیسہ زبان کا ایک ٹریکٹ بھی تقسیم کیا گیا۔
بھیرہ کی ہندوئوں کی آبادی میں اس روز چھ کامیاب لیکچرز دیئے گئے۔ ایک مسلمان نے شرارت کرنا چاہی مگر خود ہندوئوں نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔
میرٹھ کے لال کرتی بازار میں صرف ایک ہی احمدی تھا۔ جس نے آریہ سماج مندر اور سناتن دھرم مندر پر تبلیغی پوسٹر وغیرہ لگا دیئے اور غیر مسلموں کے مکانوں اور دکانوں پر جاکر تبلیغ اسلام کی۔
لاہور میں >عشرہ کاملہ< اور >احمدیہ فیلو شپ آف یوتھ< کے ممبروں نے قریباً چار ہزار )اردو( ٹریکٹ تقسیم کئے اور ایک خوبصورت ٹریکٹ انگریزی میں بھی شائع کیا اور قریباً آٹھ ہزار غیر مسلموں تک خدا کا کلام پہنچایا گیا- اس موقعہ کے لئے چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے نہایت عمدہ کاغذ اور موزوں سائز پر ایک دو ورقہ شائع کرکے غیر مسلموں میں تقسیم کرایا۔۳۰
ان شہروں کے علاوہ کا ذکر بطور نمونہ یہاں کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے ہر ایسے مقام پر جہاں احمدی موجود تھے وہاں یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ اور جماعت احمدیہ کی بدولت ملک کے ہر غیر مسلم طبقے تک اسلام کی آواز پہنچی اور ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے تاثرات
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کامیاب کوشش کا تذکرہ کرتے ہوئے ۱۰/ مارچ ۱۹۳۳ء کو فرمایا۔
>اس ہفتہ میں ہمارے دوسرے یوم التبلیغ کی تاریخ تھی اور جو رپورٹیں باہر سے آئی ہیں اور جو کام اس جگہ ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کچھ برکت کے سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور اس کے نتیجہ میں دنیا کی اصلاح کی بہت کچھ امید کی جاسکتی ہے<۔۳۱
>ہمارا یہ یوم التبلیغ کیا تھا وہ جری اللہ فی حلل الانبیاء کی پیشگوئی کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ اس ذریعہ سے جتنے لوگوں کو ہم اسلام میں داخل کریں گے۔ اتنے ہی زیادہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہوں گے۔ ابھی مجھے ساری رپورٹیں نہیں ملیں۔ مگر جو ملی ہیں وہ بہت خوشکن ہیں۔ غیر احمدیوں نے ہماری مخالفت کی اور مقابلے پر آمادہ ہو گئے مگر ہندوئوں نے جس محبت اور شرافت سے باتیں سنیں اور جس روح کا اظہار کیا اس کا دسواں حصہ بھی مسلمانوں نے اس موقعہ پر نیز پچھلے یوم تبلیغ کے موقع پر نہیں کیا تھا سوائے شاذ کے ہر جگہ ہندوئوں نے احمدیوں کا تپاک کے ساتھ استقبال کیا خوشی کے ساتھ بٹھایا اور محبت کے ساتھ باتیں سنیں۔ قادیان کے ایک دوست جو تبلیغ کے لئے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سنایا کہ انہوں نے ایک ہندو نے جو موٹر میں بیٹھے تھے اپنے ساتھ بٹھا لیا کہ اپنی باتیں سنائو اور ساتھ لے جا کر ان کی باتیںں سنتے رہے۔ پھر قادیان کے قریب آکر انہیں اتار دیا۔ امرتسر میں ہمارے دوست ایک سکھ عالم کے پاس گئے تو انہوں نے نہایت تکریم کے ساتھ بٹھایا اور اس امر پر افسوس کیا کہ آپ تبلیغ تو ہم لوگوں کو کرتے ہیں۔ اور ان مولویوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ آپ کو خواہ مخواہ مخالفت کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں اسلام کا سخت مخالف تھا اور رسول کریم ~)صل۱(~ کو ڈاکو سمجھتا تھا مگر مرزا صاحبؑ کی کتب کے مطالعہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں سخت غلطی پر تھا اور اس دن سے میں آپؑ کی بہت عزت کرتا ہوں خدا جانے ان مولویوں کو کیا ہو گیا اور یہ آپ لوگوں کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ میرے دل میں اگر اسلام کی عزت ہے تو محض مرزا صاحب کے طفیل ہے اس میں شبہ نہیں کہ غیر احمدیوں میں بھی مخالفت کرنے والے بہت محدود ہیں اور عام تعلیم یافتہ طبقہ جیسا کہ اخبارات وغیرہ سے پتہ لگتا ہے ان کی اس حرکت کو برا سمجھتا ہے اور یہ خوشکن تبدیلی ہے مگر ہندوئوں کی بیداری مسلمانوں سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ بعض جگہ مسلمانوں نے ہمارے دوستوں کو گالیاں دیں اور کہا کہ یہاں سے نکل جائو۔ لیکن ہندوئوں نے ان کو بدزبانی سے روکا اور کہا یہ تو ہمیں تبلیغ کرتے ہیں تم کیوں منع کرتے ہو۔ پھر ان کو بٹھایا اور ان کی باتیں سنیں لیکن غیر احمدیوں نے بعض جگہ احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں پر جاکر سیاپے کئے۔ گالیاں دیں اور یہ نہ سوچا کہ ان باتوں سے بھلا کیا بنتا ہے یہ تو جھوٹے اور شکست خوردہ ہونے کی علامات ہیں جب کوئی شکست کھاتا ہے تو گالیوں پر اتر آتا ہے لیکن جو غالب ہوتا ہے وہ گالی نہیں دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک تھپڑ مار کے مخالف کے دانت باہر نکال دوں گا ۔۔۔۔۔۔ بہرحال ان دونوں ایام التبلیغ سے ہمیں علم ہو گیا ہے کہ دنیا میں شریف انسانوں کی کمی نہیں پہلے یوم التبلیغ پر یہ معلوم ہوا تھا کہ مسلمانوں میں شرفاء کی کمی نہیں اور دوسرے سے یہ ظاہر ہو گیا کہ ہندوئوں میں ذاتی شرافت رکھنے والے لوگ مسلمانوں سے بھی زیادہ ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ اگر ہماری تبلیغی مساعی جاری رہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا الہام جری اللہ فی حلل الانبیاء اپنے مادی رنگ میں بھی بہت جلد پورا ہو جائے گا یعنی ہر مذہب کے لوگ سلسلہ میں داخل ہو جائیں گے۔
tav.7.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے لئے صرف تبلیغ کی ضرورت نہیں اس کے لئے صرف ایک دن کی تبلیغ کافی نہیں بلکہ مستقل تبلیغ اور ساتھ ہی دعائوں کی ضرورت ہے<۔۳۲
تحریک مصالحت اور اس کا اثر
تبلیغی نظام چونکہ جماعت مومنین کے باہمی اتفاق و اتحاد اور جذبہ اخوت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حضورؓ نے تبلیغ پرزور دینے کے ساتھ ۸/ جنوری کے خطبہ جمعہ ہی میں جماعت سے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہم اس نئے سال کو اس غرض کے لئے وقف کر دیں کہ جماعت سے تمام لڑائیاں جھگڑے تفرقے اور عناد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مٹا دیں۔ اس سلسلہ میں احباب جماعت کو یہ خاص ہدایت بھی فرمائی کہ جو شخص اپنے دوسرے بھائی سے کسی وجہ سے نہیں بولتا۔ یا اس سے عداوت اور بغض رکھتا ہے وہ فوراً اپنے بھائی کے پاس جائے اور اس سے خلوص دل کے ساتھ صلح کرلے اور آئندہ کے لئے کوشش کرے کہ آپس میں کوئی لڑائی اور جھگڑا نہ ہو۔۳۳
حضرت امیر المومنین کے اس خطبہ کا جماعت پر حیرت انگیز اثر ہوا اور جماعت کے دوستوں نے اپنی رنجشوں اور کدورتوں کو حضور کے اشارہ پر چھوڑ دیا۔ حتیٰ کہ لوگوں نے مالی نقصان گوارا کرکے خطبہ سنتے یا پڑھتے ہی صلح کر لی۔ مستثنیات تو ہر معاملہ میں چلتی ہیں۔ تاہم شاذ و نادر ہی کوئی ایک شخص ہوگا جو اس سعادت سے بکلی محروم رہا ہو۔۳۴
امیر المومنینؓ کی قیمتی نصیحت
جماعت میں صلح و آشتی کا یہ خوشکن نظارہ دیکھ کر حضورؓ نے ۲۹/ جنوری ۱۹۳۲ء کے خطبہ جمعہ میں نہایت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ مگر ساتھ ہی نصیحت فرمائی۔
>میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ لوگ اپنے دلوں کو دوسروں کی نسبت صاف کر لیں اور خواہ وہ مظلوم ہی کیوں نہ ہوں صلح کر لیں۔ میری یہ نصیحت نامکمل رہے گی اور فتنوں کا سدباب پوری طرح نہیں ہو گا جب تک میں اس کا دوسرا حصہ بھی بیان نہ کروں اور وہ یہ ہے کہ نہ صرف دوسروں کے متعلق ہر قسم کی کدورت سے اپنے دلوں کو صاف کرو بلکہ اس امر کو بھی مدنظر رکھو کہ کسی مظلوم کا معافی مانگ لینا ایسی بات نہیں جو تمہارے لئے خوشی کا موجب ہو سکے بلکہ خوشی صرف اسی کے لئے ہے جس نے معافی مانگی اور تمہیں خوشی اس وقت حاصل ہو گی جب تم اپنے خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اگر دوسروں کے حقوق کو تم نے غضب کیا ہوا ہے تو وہ حقوق ادا کر دو۔ اور اگر تم پر کسی کا مالی یا جانی یا اخلاقاً حق ہے تو وہ اسے دے دو۔ ورنہ اگر تم دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے تو خواہ دوسرا شخص تم سے ہزار معافی مانگے اس کا درجہ تو بڑھتا جائے گا لیکن تمہارا جرم اور گناہ بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھتا جائے گا کیونکہ وہ شخص میرے کہنے پر تمہارے پاس گیا۔ اور اس نے مظلوم ہونے کے باوجود تم سے معافی مانگی۔ مگر تم نے باوجود ظالم ہونے کے اور باوجود اس کے معافی مانگ لینے کے اس کے حقوق کی ادائیگی کا خیال نہ کیا۔ اور تم نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ وہ نیچا ہو گیا پس اپنے نفوس کو اس غرور میں مبتلا نہ ہونے دو کہ ہم نے دوسرے کو نیچا دکھا دیا کیونکہ وہ معافی مانگ کر نیچا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اونچا ہو گیا۔ کیونکہ اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور خلیفہ وقت کی بات مانی مگر تم جو اس وقت اپنے آپ کو اونچا سمجھ رہے ہو دراصل نیچے گر گئے جس طرح انسان جتنا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں جھکتا ہے اتنا ہی اس کا درجہ بلند ہوتا ہے۔ حتیٰ کی حدیثوں میں آتا ہے جو شخص خدا کے لئے نیچے جھکتا ہے۔ خدا اس کو اوپر اٹھاتا ہے یہاں تک کہ اسے ساتویں آسمان پر لے جاتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے بھائی سے معافی مانگتا ہے وہ نیچے نہیں گرتا بلکہ اس کا درجہ بلند ہوتا اور خدا کے حضور بہت بلند ہو جاتا ہے<۔۳۵
دوبارہ تحریک اور زبردست انتباہ
کچھ عرصہ بعد جبکہ جماعتی مخالفت زوروں پر تھی جماعت کے ایک طبقہ میں اندرونی مناقشات نے پھر سر اٹھایا۔ اور اس تحریک کے اثرات زائل ہوتے نظر آئے تو مقدس امامؓ نے ۲۶/ مئی ۱۹۳۵ء کو پھر توجہ دلائی کہ۔
>کوئی احمق ہی اس وقت اپنے بھائی سے لڑ سکتا ہے۔ جب کوئی دشمن اس کے گھر پر حملہ آور ہو ایسے نازک وقت میں اپنے بھائی کی گردن پکڑنے والا یا تو پاگل ہو سکتا ہے یا منافق۔ ایسے شخص کے متعلق کسی مزید غور کی ضرورت نہیں وہ یقیناً یا تو پاگل ہے اور یا منافق اس لئے آج چھ ماہ کے بعد میں پھر ان لوگوں سے جنہوں نے اس عرصہ میں کوئی جھگڑا کیا ہو۔ کہتا ہوں کہ وہ توبہ کریں توبہ کریں۔ ورنہ خدا کے رجسٹر سے ان کا نام کاٹ دیا جائے گا اور وہ تباہ ہو جائیں گے منہ کی احمدیت انہیں ہرگز ہرگز نہیں بچا سکے گی۔ ایسے لوگ خدا کے دشمن ہیں۔ رسولﷺ~ کے دشمن ہیں۔ قرآن کے دشمن ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمن ہیں۔ ایسے لوگ خون آلود گندے چیتھڑے کی طرح ہیں جو پھینک دیئے جانے کے قابل ہیں۔ اس لئے ہر وہ شخص جس نے اپنے بھائی سے جنگ کی ہوئی ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ خدا کا غضب اس پر نازل ہو وہ ہمیشہ کے لئے صلح کرلے اور پھر کبھی بھی نہ لڑے<۔۳۶
قادیان میں یوم سرحد
صوبہ سرحد کے سرخ پوش مسلمانوں پر حکومت کی سخت گیر پالیسی اور تشدد نے ایک قیامت سی بپا کر دی تھی اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کے طور پر )آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی کے فیصلہ کے مطابق( ۵/ فروری ۱۹۳۲ء کو ملک کے دوسرے شہروں کی طرح قادیان میں بھی یوم سرحد کے سلسلہ میں ایک عام جلسہ منعقد کیا گیا اور مصیبت زدگان سے ہمدردی کا اظہار کرنے اور حکومت سے اس کا ازالہ کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر پاس کی گئی۔۳۷
جلسہ سے قبل سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی خطبہ جمعہ میں مظالم سرحد کا ذکر کیا اور ارشاد فرمایا کہ >صوبہ سرحد میں معلوم ہوا ہے کہ بعض افسروں نے بہت زیادتیاں کی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمارے خیال کے مطابق سرخ پوش تحریک جائز نہیں مگر پھر بھی وہاں کے مظلوموں کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے امید ہے کہ ان حالات کا علم ہونے کے بعد حکومت ان کے ازالہ کی کوشش کرے گی اور ہر وہ مسلمان جو ان کی کسی نہ کسی طرح مدد کر سکتا ہو اس سے دریغ نہ کرے گا۔ میں اپنے سرحدی بھائیوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ایسی حرکات نہ کریں جن سے امن میں خلل واقع ہو اس وقت وہاں ریفارم سکیم نافذ کی جاری ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس وقت وہاں پرامن فضا کی ضرورت ہے<۔۳۸
فیصلہ متعلق امیر جماعت احمدیہ بنگال
حضرت چودھری ابوالہاشم خاں صاحبؓ جنرل سیکرٹری صوبہ بنگال نے امیر سے اختلاف کی بناء پر اپنے کام سے استعفاء دے دیا تھا جس پر حضورؓ نے صوبہ بنگال کے دوستوں سے مشورہ کیا اور دریافت فرمایا کہ مرکز کہاں ہو۔ اور بنگال کا امیر کیسے مقرر کیا جائے؟ جوابات سے معلوم ہوا کہ اہل بنگال پر ابھی منصب امارت کی حقیقت پوری طرح واضح نہیں لہذا حضور نے ایک مفصل مضمون لکھا جس میں بڑی وضاحت سے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تحریرات اور ہدایات کے مطابق ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ کا مالی کام براہ راست ایک شخص کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ حضرت اقدس ایک انجمن کے ذریعہ سے ایک ایگزیکٹو باڈی BODY) text](EXCUTIVE ¶[tag کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہیں جو آپ کے نزدیک تمام دنیا کی احمدی جماعتوں کے لئے نقطہ مرکزی ہے اور جس کا ابدی مرکز قادیان ہے دوسری طرف حضور اس جماعت کی ترقی خلافت سے وابستگی کے ساتھ مشروط رکھتے ہیں۔ تیسری طرف اسلام سے ثابت ہے کہ کوئی خلافت بغیر مشورہ کے نہیں چل سکتی۔ ان تینوں امور کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ایک ہی نظام ہے جو صوبہ جات میں قائم کیا جا سکتا ہے اور ایسا نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں ایک امیر ہو جو خلیفہ وقت کا نائب ہو۔
غرض حضورؓ نے ثابت کیا کہ بہترین نظام امارت کا نظام ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے مقامی انتظام اور مرکز کی ضرورتیں دونوں پوری ہوتی رہتی ہیں۔ مگر امیر کے لئے ہرگز یہ شرط نہیں کہ اسی ملک کا باشندہ ہو اسلام کے شروع زمانہ میں نوے فیصدی امراء مرکز کسے نامزد ہوتے تھے اور اب بھی ضرورت پر ایسا کیا جا سکتا ہے امیر پبلک کا نمائندہ نہیں ہے بلکہ خلیفہ وقت کا نمائندہ ہے اس لئے خواہ لوگ کتنا بھی اصرار کریں یہ عہدہ درحقیقت خلیفہ وقت کا اعتماد رکھنے والے شخص کو مل سکتا ہے اور اس میں یہی حکمت ہے کہ اسلامی نظام اتحاد عالم پر مبنی ہے نہ کہ قومیت پر۔
نظام امارت پر روشنی ڈالنے کے بعد حضور نے تحریر فرمایا۔
>احمدی یاد رکھیں یہ اصول ہیں جن پر سلسلہ کا آئندہ نظام چلایا جائے گا۔ اور سب صوبوں اور ملکوں کے احمدیوں کو یاد رکھنا چاہئے تاکہ وہ دھوکہ نہ کھائیں اور انہیں کوئی دوسرا شخص دھوکا نہ دے سکے<۔۳۹
جہاں تک امارت بنگال کا تعلق تھا حضور نے فیصلہ فرمایاکہ >حکیم ابوطاہر صاحب جنہوں نے اپنے گزشتہ رویہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امارت کے منصب کو خوب سمجھتے ہیں انہیں علاوہ کلکتہ کا مقامی امیر ہونے کے تمام بنگال کا بھی امیر مقرر کرتا ہوں چونکہ صوبہ کے کام کیلئے وہ صرف کلکتہ کے احباب کے مشورہ پر انحصار نہیں کرسکتے اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ امیر صوبہ کی ایک مجلس شوریٰ ہو جس میں صوبہ کے تمام مقامی امراء شامل ہوں اور علاوہ اس کے مبلغین سلسلہ بھی اس کے ممبر ہوں۔ علاوہ ان کے اگر کسی شخص کو خاص طور پر مرکز کی طرف سے اس غرض کیلئے چنا جائے یا صوبہ کی انجمنیں اپنے سالانہ اجتماع میں بعض لوگوں کو خاص طور پر اس کام کیلئے تجویز کریں تو ان لوگوں کو بھی اس مجلس کا ممبر سمجھا جائے۔ سردست علاوہ امراء اور مبلغین کے چودھری ابوالہاشم خان صاحب` مولوی مبارک علی صاحب اور پروفیسر عبدالقادر صاحب کو اس مجلس کا ممبر مقرر کرتا ہوں<۔۴۰
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے سفر )۱۹۳۲ء میں(
اس سال حضورؓ نے لاہور` دہلی` ڈیرہ دون` راولپنڈی` شملہ اور ڈلہوزی کے سفر اختیار کئے۔
سفر لاہور: ۱۳/ فروری` ۹/ مارچ` ۹/ مئی اور ۵/ جولائی ۱۹۳۲ء کی تاریخوں میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے لاہور میں اجلاس منعقد ہوئے۔ حضور نے لاہور جاکر ان سب اجلاسوں کی صدارت فرمائی۔ علاوہ ازیں آپ مسلمانوں کے مفاد سے متعلق ایک اہم مشورہ کے لئے ۲۹/ جنوری ۱۹۳۲ء کو بھی تشریف لے گئے۔ ۲۳/ اگست ۱۹۳۲ء کو سردار سکندر حیات خاں قائم مقام گورنر پنجاب کو دی جانے والی پارٹی میں شمولیت کے لئے بھی لاہور جانا پڑا۔۴۱
سفر دہلی: ۲ و ۴/ مارچ ۱۹۳۲ء کو دہلی میں کشمیر کمیٹی کے اجلاس تھے۔ جن میں شمولیت کے لئے حضور یکم مارچ کو دہلی تشریف لے گئے۔۴۲ اور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی پرانا وائسرائیگل لاج میں قیام فرمایا۔۴۳ یہاں حضور نے کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کے علاوہ ۶/ مارچ ۱۹۳۲ء کو )رتالکوٹورہ پارک میں( خان صاحب منشی برکت علی خان صاحبؓ مرحوم کے اعزاز میں دی جانے والی جماعت احمدیہ دہلی و شملہ کی مشترکہ الوداعی پارٹی میں تقریر فرمائی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے خان صاحب کو جماعت شملہ کی طرف سے قرآن پاک کا ایک نسخہ بطور تحفہ عطا فرمایا۔ اس تقریب پر حضور کی معیت میں مجمع کا فوٹو بھی لیا گیا جو اس کتاب میں موجود اور اس سفر کی یادگار ہے۔]01 [p۴۴ چند روزہ قیام کے بعد حضور ۱۴/ مارچ ۱۹۳۲ء کو دہلی سے قادیان پہنچ گئے۔۴۵
سفر ڈیرہ دون: یکم مئی ۱۹۳۲ء کو حضور تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے )مع حرم اول حضرت سیدہ ام ناصرؓ اور صاحبزادگان( ڈیرہ دون تشریف لے گئے۔۴۶ اور قریباً ایک ہفتہ تشریف فرما ہونے کے بعد ڈیرہ دون سے لاہور آئے اور کشمیر کمیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت کے فرائض انجام دینے کے بعد ۱۲/ مئی ۱۹۳۲ء کو وارد قادیان ہوئے۔10] p[۴۷ ڈیرہ دون میں قیام کے دوران ۴/ مئی ۱۹۳۲ء کو شہر کے بعض رئوسا` مسلم تنظیم کمیٹی کے صدر اور سیکرٹری حضور کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے دیر تک گفتگو ہوتی رہی جس کا اکثر و بیشتر حصہ تحریک کشمیر ہی سے متعلق تھا۔۴۸
سفر راولپنڈی: سیدناؓ ۲۰/ جون ۱۹۳۲ء کو آنکھوں کا معائنہ کرانے کے لئے راولپنڈی تشریف لے گئے۔۴۹ اور ۴/ جولائی کی صبح کو واپس لاہور پہنچے۔۵۰]ydob [tag اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ای۔ اے۔ سی کی کوٹھی پر مقیم ہوئے۔ قیام لاہور کے عرصہ میں حضور بہت مصروف رہے۔ ایک دفعہ رات کے ۲ بجے تک ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ۷/ جولائی ۱۹۳۲ء کی شام کو واپس قادیان میں تشریف لے آئے۔۵۱
سفر ڈلہوزی و شملہ ۹/ جولائی ۱۹۳۲ء کو حضور ڈلہوزی کے لئے روانہ ہوئے۔۵۲ جہاں سے ۱۴/ جولائی کو قادیان آگئے اور اسی دن عازم شملہ ہوئے۔۵۳ ۱۸/ جولائی کو شملہ سے واپس آکر آپ ۲۰/ جولائی کو دوبارہ ڈلہوزی تشریف لے گئے۔۵۴ اور ۱۸/ اگست ۱۹۳۲ء کو قادیان میں رونق افروز ہوئے۔۵۵
رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان
۲۲/ فروری ۱۹۳۲ء سے رائونڈ ٹیبل کانفرنس کی ایک سب کمیٹی وائسرائے ہند کی صدارت میں جاری تھی جس میں فرقہ وارانہ مسائل کے تصفیہ اور اساسی حقوق اور برطانوی ہند اور ریاستوں کی مذہبی آزادی سے متعلق اہم امور زیر غور تھے اس موقعہ پر مسلمانان ہند دو حصوں میں بٹ گئے۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ کا خیال تھا کہ جب تک ہمارے حقوق کا فیصلہ نہیں ہوتا ہمیں اس کا بائیکاٹ کرنا چاہئے دوسرا گروہ کمیٹی کا پرجوش حامی تھا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے >رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان< کے عنوان سے ایک مفصل و مدلل مضمون میں مسلمانوں کو رائے دی کہ۔
>میں ان دونوں گروہوں کو نیک نیت اور مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھتا ہوں لیکن میرے نزدیک یہ دونوں گروہ غلطی پر ہیں اور اس نازک موقعہ پر ہمیں اس سے زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ جس قدر کہ اس وقت مسلمان کر رہے ہیں۔
ہمیں اس امر کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کی تاریخ قریب میں مسلمانوں کے حقوق طے کرنے کا موقعہ دوبارہ نہیں آئے گا اور یہ کہ اگر ہم آج غلطی کر بیٹھے تو ہمیں اور ہماری اولادوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اور گو ہم اپنے آپ کو قربان کرنے کو تیار ہوں۔ ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنی اولادوں کو قربان کرکے غلامی کے طوقوں میں جکڑ دیں۔ یقیناً اس سے زیادہ بدقسمت انسان ملنا مشکل ہو گا جس کی اپنی اولاد یا جس کے آباء کی اولاد اس پر *** کرے اور اسے اپنی ذلت کا موجب قرار دے۔
مسلمانان ہند کے حقوق کی اہمیت: ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال دوچار ہزار آدمیوں کا سوال نہیں بلکہ آٹھ نو کروڑ آدمیوں کا سوال ہے اور پھر ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال نہیں بلکہ کل دنیا کے مسلمانوں کا سوال ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا کے مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ بیداری ہندوستان کے مسلمانوں میں ہی ہے اور ان کی موت سے عالم اسلام کی سیاسی موت اور ان کی زندگی سے عالم اسلام کی سیاسی زندگی وابستہ ہے۔ کیا اس قدر عظیم الشان ذمہ داری کی طرف سے ہم لاپرواہی کر سکتے ہیں۔ اسلام تو کیا اگر ہم میں انسانیت کا ایک خفیف سا اثر بھی باقی ہے تو ہم ایسا نہیں کر سکتے۔
صحیح طریق عمل: اس تمہید کے بعد میں اپنا خیال ظاہر کرتا ہوں۔ میرے نزدیک ہمیں ہر اک مخالفت پر بائیکاٹ کا حربہ نہیں اختیار کرنا چاہئے کیونکہ بائیکاٹ جب کہ صرف تبادلہ خیال تک محدود ہو۔ صرف ذہنی نشوونما کو روکنے کا ہی موجب ہوتا ہے اس سے زیادہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک صحیح طریق عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے مقصود کے حصول کو تواصل قرار دیں اور جائز ذرائع کو فرع۔ پس جو جائز ذریعہ ہمیں حاصل ہو ہم اسے استعمال کر لیں اور ذریعہ کو مقصد کا قائم مقام بنا کر اپنی سب توجہ اس کی طرف نہ لگا دیں۔ ایک وکیل اگر دیکھے کہ اس کے موکل کو اس کے نقطہ نگاہ کے سوا اور کوئی نقطہ نگاہ فائدہ پہنچا سکتا ہے تو اسے اس کے اختیار کرنے میں دریغ نہیں ہونا چاہئے۔ پس ہمیں اس امر پر زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے کہ ہم نے کون سا ذریعہ حصول مراد کے لئے آج سے پہلے پسند کیا تھا بلکہ اس پر بحث کرنی چاہئے کہ ہمارے مدعا کے حاصل کرنے کے لئے کونسا ذریعہ مفید ہو سکتا ہے۔ اور کسی جائز راستہ کو اپنے لئے بند نہیں کرنا چاہئے۔ اس اصل کو تسلیم کرتے ہوئے اگر رائونڈ ٹیبل کانفرنس کی سب کمیٹیوں کی شرکت ہمارے لئے مفید ہو تو ہمیں اس سے دریغ نہیں ہونا چاہئے اور اگر مضر ہو تو حتی الوسع ہمیں اس سے بچنا چاہئے<۔۵۶
مسلم اخبار >انقلاب< )لاہور( کی ضمانت اور گورنر پنجاب کے نام مکتوب
فروری ۱۹۳۲ء کا واقعہ ہے کہ حکومت پنجاب نے پریس آرڈنینس کے تحت >انقلاب< اور اس کے پریس سے اڑھائی اڑھائی ہزار کی
ضمانتیں طلب کیں۔ اور وجہ یہ بتائی کہ کشمیر کے متعلق بعض غیر صحیح واقعات شائع کئے گئے ہیں۔ اسی سلسلہ میں ہندو اخبار >ملاپ< اور اس کے پریس سے تین تین ہزار کی اور اخبار >کیسری< اور اس کے پریس سے دو دو ہزار کی ضمانتیں طلب کیں۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے دہلی میں فروکش تھے کہ اخبارات سے اس خبر کا علم ہوا۔ ہندوستان کا مسلم پریس پہلے ہی ہندوئوں کے مقابل کمزور تھا اور بعض اخبار محض مشکلات کی تاب نہ لاکر بند ہو چکے تھے اس صورت حال سے حضور از حد مشوش ہوئے اور آپؓ نے دہلی ہی سے گورنر پنجاب کے نام مندرجہ ذیل مکتوب لکھا۔
>جناب من! میں آج ایک ایسے امر کے متعلق جناب کو توجہ دلانی چاہتا ہوں جو گو قانون کے محدود دائرہ میں تو درست ہے لیکن مصلحت وقت اور حکومت کے فوائد کے بالکل برخلاف ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جناب کا سا دور اندیش رئیس صوبہ ضرور نظر ثانی فرما کر اس کا تدارک کرے گا۔
وہ امر یہ ہے کہ حکومت نے >انقلاب< کی اور اس کے پریس کی اڑھائی اڑھائی ہزار کی ضمانت طلب کی ہے چونکہ پریس بھی مالکان >انقلاب< کا ہے اس لئے گویا پانچ ہزار روپیہ کی ضمانت طلب کی گئی ہے۔ جناب اس امر سے یقیناً واقف ہوں گے کہ ہندوستانی پریس خصوصاً اسلامی پریس سرمایہ کے لحاظ سے بہت گری ہوئی حالت میں ہے اور کئی ایسے اخبار ہیں کہ جن کا کل سرمایہ بھی پانچ ہزار نہیں اس صورت میں یہ ضمانت اخبار کے بند کر دینے کے مترادف ہے۔
جناب سے یہ امر بھی مخفی نہ ہو گا کہ >انقلاب< نے کانگریس کا مقابلہ کرنے میں اس قدر کام کیا ہے جو اپنے اثر کے لحاظ سے نہایت شاندار اور قابل قدر ہے۔ >انقلاب< ہی تھا جس کے مضامین کی وجہ سے مسلمانوں کا نوجوان طبقہ کانگریس سے الگ رہا اور یہ خدمت اس قابل تھی کہ حکومت اسے شکریہ کی نگاہ سے دیکھتی۔ لیکن قدر کے سوال کو الگ بھی کر دیا جائے تو اس ضمانت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اخبار بند کر دیا جائے گا اور ہزاہا مسلمان نوجوان اپنی سیاسی ضرورتوں کے لئے ہندو اخبار خریدنے پر مجبور ہوں گے اور چند ماہ میں ایک ایسی مکدر فضا پیدا ہو جائے گی جس کا سنبھالنا بہت سا خرچ اور وقت چاہے گا۔ یہ خیال کرنا کہ مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ اخبار پڑھنا بند کر دے گا خلاف عقل ہے وہ اخبار ضرور پڑھے گا۔ اور >انقلاب< کے بند ہونے کی صورت میں ہندو اخبارات جو کانگریسی پراپیگنڈا سے پر ہیں پڑھے گا۔ پس یہ ضمانت خود حکومت کے خلاف اثر پیدا کر دے گی۔
یہ امر بھی سوچنے کے قابل ہے کہ >احرار< بھی بند ہو گیا ہے >زمیندار< بھی نازک حالت میں ہے یہ اخبار خواہ کیسے بھی ہوں اسلامی اخبار کہلاتے تھے اگر >انقلاب< بھی بند ہو گیا تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ حکومت اسلامی پریس کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ یہ خیال خواہ صداقت سے کتنا بھی دور ہو پیدا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا اس وقت روکنا حکومت کے لئے نہایت ضروری ہے۔
گو میں نے وہ مضمون نہیں دیکھا جس کی بناء پر انقلاب سے ضمانت لی گئی ہے لیکن میں اس امر کو فرض کرتے ہوئے کہ وہ مضمون نہایت سخت تھا سمجھتا ہوں کہ جبکہ حکومت کے تسلیم کردہ بیانات کے مطابق یہ امر ثابت ہے کہ ہندو پریس نے بھی سخت جھوٹی اور اشتعال انگیز خبریں مسلمانوں کے خلاف پھیلائی ہیں اس قابل ضرور ہے کہ اس کے خلاف یکدم انتہائی کارروائی نہ کی جائے۔
میں امید کرتا ہوں کہ جناب مذکورہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور خصوصاً احرار کی نئی کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو وہ برطانوی حکومت کے خلاف شروع کرنے والے ہیں۔ اس فیصلہ پر نظر ثانی فرمائیں گے۔ میرے نزدیک تو اخبار کی یہ معذرت کہ افسوس ہے اس نے ایک غیر مصدقہ خبر شائع کر دی کافی ہونی چاہئے لیکن اگر ضمانت بھی ضروری سمجھی جائے تو پانچ سو روپیہ کی ضمانت موجودہ حالات میں بہت ہے۔
میں اس وقت کشمیر کے قضیہ ہی کے متعلق دہلی آیا ہوا ہوں۔ ہز ایکسی لینسی دی وائسرائے کی مہربانی سے امید کی جاتی ہے کہ کوئی امن کی صورت جلد پیدا ہو جائے اس صورت میں یہ قضیہ بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔ اور وہ غیر ضروری پریشانی جو پنجاب کو ملحق صوبہ ہونے کی وجہ سے اٹھانی پڑی دور ہو جائے گی<۔
قادیان میں مکان بنانے کی تحریک اور محلہ دار الانوار کی بنیاد
احمدیت کی ترقی کے آثار کے ساتھ جماعتی مشکلات بھی بڑھ رہی تھیں جن کا مقابلہ کرنے کے لئے قادیان کی ترقی و توسیع کی طرف
توجہ کرنا ضروری تھا کیونکہ قادیان جماعت احمدیہ کا مرکز تھا اور اس پر دشمن کی نظر تھی۔ بناء بریں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۱ء پر جماعت کو تحریک فرمائی کہ وہ قادیان میں مکان بنائیں تا قادیان کو وسعت حاصل ہو اور اس مقام کی ظاہری عظمت بھی قائم ہو۔ نیز بتایا کہ اس کے لئے میں نے بھی ایک سکیم بنائی ہے اور خطوط کے ذریعہ شائع کی گئی ہے جو یہ ہے کہ ایک حصہ پچیس روپے ماہوار کا رکھا گیا ہے کل حصے ایک سو بیس رکھے گئے ہیں ایک شخص ایک یا زیادہ حصے لے سکتا ہے اس طرح جو روپیہ جمع ہو وہ قرعہ ڈال کر ہر مہینے میں ایک دوست کو دے دیا جائے جو مکان بنا لے اس طرح ایک سو بیس حصوں کے مکان نئے اور اچھے بن جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ پہلے ڈیڑھ سال تک کوئی قرعہ نہیں ڈالا جائے گا تاکہ اس طرح جو رقم جمع ہو اس سے زمین خرید لی جائے اس کے بعد ہر مہینے قرعہ ڈالا جائے گا اور جس کے نام نکلے گا اس سے یہ شرط ہو گی کہ روپیہ مکان بنانے پر ہی خرچ کیا جائے<۔۵۷
دارالحمد کی تاسیس
حضور کی اس تحریک پر متعدد مخلصین جماعت۵۸ نے لبیک کہا اور اس سکیم کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی پوری کرنے کے لئے قادیان کی پرانی آبادی کے مشرق کی طرف ایک نیا محلہ >دارالانوار< کے نام سے آباد کیا گیا۔ جس کی بنیاد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۴/ اپریل ۱۹۳۲ء کو رکھی۔۵۹text] gat[ اور ۲۵/ اپریل ۱۹۳۲ء کو اپنی کوٹھی >دارالحمد< کی بنیادی اینٹ رکھی جو اس نئے محلہ کی پہلی عمارت تھی۔ حضورؓ نے اس روز صبح آٹھ بجے کے قریب اس محلہ کی طرف تشریف لے جاتے ہوئے پہلے مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال کے مکان کی بنیاد رکھی اور مجمع سمیت دعا کی بعد ازاں اپنے تجویز کردہ مقام پر جاکر پہلے جنوب کی طرف پانچ اینٹیں بطور بنیاد رکھیں۔ پھر شمال مغرب کی طرف ایک اینٹ خود رکھی اور چار اینٹیں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ` حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ` حضرت سید ناصر شاہ صاحبؓ اور حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ سے علی الترتیب رکھوائیں۔ اسی طرح شمال مشرق کی جانب ایک اینٹ خود رکھی اور چار حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ` حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ` حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؓ اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ سے رکھوائیں۔ پھر دعا کی اس جگہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر دارالانوار کمیٹی کے سیکرٹری حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے کی کوٹھی بننے والی تھی۔ حضور نے اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا اور دعا کی۔ واپسی کے بعد ۹ بجے کے قریب صدر انجمن احمدیہ کے نئے دفاتر کا افتتاح فرمایا جو مسجد اقصیٰ سے متصل عمارت میں چند روز ہوئے منتقل ہوئے تھے۔۶۰ دارالحمد کی عمارت دسمبر ۱۹۳۲ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۶۱ اور ۱۵/ جنوری ۱۹۳۳ء کو حضور نے بطور افتتاح ایک سو روپیہ غرباء میں پارچات تقسیم کرنے کے لئے عطا فرمایا۶۲ نیز ۲۹/ جنوری ۱۹۳۳ء کو حضور کی طرف سے وسیع پیمانہ پر ایک دعوت اس نئی کوٹھی میں دی گئی جس میں قریباً آٹھ سو افراد )مردوزن( شامل ہوئے۔۶۳ علاوہ ازیں حضور نے ۲۷/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو احباب جلسہ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہ اس نئے مکان کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
>میں نے قرض لے کر ایک مکان بنوایا ہے کیونکہ اب ہمارے گھر میں اتنی تنگی ہے کہ ایک ایک کمرہ میں جیل کی اتنی جگہ کے مقابلہ میں دوگنے افراد رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے مکان بنوانے سے ہمیشہ ڈر آتا ہے جو مکان بنوایا گیا ہے اس کے متعلق بھی میرے دل پر بوجھ ہے اس لئے دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ دعا کریں خدا تعالیٰ اس مکان کو بابرکت کرے۔ میں تو اس میں رہنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا میرے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا مکان ہی بہترین ہے مگر جو اس میں جاکر رہے اس کے لئے دعا کی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکات سے اسے حصہ ملے<۔۶۴
غرضکہ تضرعانہ دعائوں کے ساتھ دارالانوار کی بناء پڑی اور دراصل انہیں دعائوں کا اثر تھا کہ چند سالوں کے اندر اندر قادیان کا یہ مشرقی علاقہ آباد ہو گیا اور ہر طرف خوبصورت اور عالی شان عمارتیں بن گئیں۔۶۵body] gat[
بعض دوسری مقدس عمارتیں
حضرت ام المومنینؓ کی کوٹھی >بیت النصرت< )جو حضرت ام المومنینؓ نے کمال مادرانہ شفقت سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ کو تحفت¶ہ دے کر دلی محبت کے اظہار سے ان کی عزت افزائی فرمائی( اور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی >بیت الظفر< جن کی بنیاد حضرت امیر المومنینؓ کے دست مبارک سے بالترتیب ۲۳/ فروری ۱۹۳۳ء۶۶ اور ۱۲/ اپریل ۱۹۳۴ء کو رکھی گئی اسی محلہ میں تعمیر ہوئیں۔ اسی طرح گیسٹ ہائوس اور دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ بھی یہی بنے۔
جماعت احمدیہ کی شاندار مالی قربانی
۳۱۔ ۱۹۳۲ء کا مالی سال جماعت احمدیہ کے لئے بڑی تنگی کا سال تھا جس میں قریباً اڑتالیس ہزار قرض تھا جو اکتوبر ۱۹۳۱ء میں بہتر ہزار کے قریب جاپہنچا اس کے علاوہ کچھ اور قرضے بھی تھے جس پر حضور نے جماعت کو تحریک فرمائی کہ ایسی کوشش کی جائے کہ پچھلا قرضہ بے باق ہو جائے۔ چنانچہ جماعت نے تین ماہ کے اندر اندر چندہ خاص کے سمیت قریباً پونے دو لاکھ روپیہ اپنے مقدس آقا کے حضور پیش کر دیئے جس پر سیدناؓ نے ۱۳/ مئی ۱۹۳۲ء کو اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا۔
>آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے اظہار اور تحدیث نعمت کے طور پر یہ اعلان کرنے کے قابل ہوا ہوں کہ جبکہ پچھلے مالی سال کے شروع میں ۴۸۰۰۰ کے بلوں کے علاوہ اور بھی قرض تھا۔ یہ سال جب ختم ہوا تو بجائے قرضہ کے قریباً ڈیڑھ ہزار انجمن کے خزانہ میں جمع تھا گویا جماعت نے پونے دو لاکھ کی رقم جمع کرنی تھی اور ایسی حالت میں جمع کرنی تھی کہ بیشتر حصہ مالی لحاظ سے مفلوج ہو رہا تھا۔ حتیٰ کہ بڑی بڑی حکومتیں قرضے لینے پر مجبور ہو رہی تھیں<۔۶۷
کارکنان سلسلہ کے نئے دور کا افتتاح
حضرت میرزا محمد اشرف صاحبؓ بلانوی یکم جنوری ۱۹۰۷ء سے صدر انجمن احمدیہ قادیان سے وابستہ ہوئے اور ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۲ء تک آڈیٹر اور ۱۹۲۲ء سے ریٹائرڈ ہونے تک محاسب کے عہدوں پر فائز رہے۔ اس دوران میں آپ نے حسابی معاملات میں غیر معمولی مہارت سے صدر انجمن احمدیہ کے مالی نظام کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ہر ممکن صورت اختیار کی۔ آپ ہی کی تجویز سے انجمن میں پراویڈنٹ فنڈ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے سرمایہ سے جماعت کے لئے نئی آمد ہونے لگی۔ اور اسی سے مسجد اقصیٰ سے متصل وہ عظیم الشان مکان خریدا گیا۔ جس میں بعد کو صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر منتقل کئے گئے۔۶۸
ان خدمات کی بناء پر ۱۴/ مئی ۱۹۳۲ء کو ان کے اعزاز میں ایک الوداعی پارٹی دی گئی۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے الٰہی سلسلہ کے اوائل میں کام کرنے والوں کے بلند مقام اور میرزا محمد اشرف صاحبؓ کی خدمات کو سراہتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>آج کی تقریب جس کے لئے ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں اس لحاظ سے ایک نئے دور کا افتتاح ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ابتدائی ایام سے ایک نظام کے ماتحت سلسلہ کا کام کیا ان میں سے کچھ لوگ ایام کارکردگی کو پورا کرکے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ پہلا دوران لوگوں کا تھا جنہوں نے ابتدائی ایام میں انفرادی جدوجہد میں حصہ لیا اور ایک ایک کرکے ہم سے جدا ہوتے گئے۔ اب یہ نیا دور شروع ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس وقت ہمارا نظام اگرچہ بہت قلیل اور محدود ہے لیکن ایک وقت آئے گا جب دنیا کی ترقی کا انحصار اس پر ہوگا اور روحانی ترقیات کی طرح مادی ترقیات بھی احمدیت کے قبضہ میں ہوں گی۔ جس طرح بنک آف انگلینڈ میں ذرا سی کمزوری پیدا ہونے سے حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ وزارتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ایکس چینج میں تغیر ہو جاتا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ تغیرات ہوں گے جب سلسلہ احمدیہ کے بیت المال میں کسی قسم کا تغیر رونما ہو گا۔ بنک آف انگلینڈ کا اثر تو صرف ایک ملک پر ہے لیکن یہ دنیا کی ساری حکومتوں پر اثر انداز ہو گا۔ اور اس وقت یہاں کے کارکنوں کا دینوی معیار بھی اس قدر بلند ہو گا کہ حکومتوں کی وزارتوں کی ان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں۔ یہ چیزیں ایک ایسے مستقبل کو پیش کر رہی ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے احباب کی خدمات کی قیمت کا اندازہ کرنا چاہئے۔ دراصل ان کی خدمات کی قیمت وہ چند روپے نہیں جو بطور مشاہرہ دیئے جاتے ہیں بلکہ جماعت کا آئندہ شاندار مستقبل ہے اور اس کا اندازہ خدا تعالیٰ ہی لگا سکتا ہے بندہ نہیں لگا سکتا۔ اور جب یہ وقت آیا اس وقت ان کی خدمات کا اندازہ ہو سکے گا اور ان میں سے ہر ایک کام کرنے والا خواہ وہ چپڑاسی ہو یا ناظر الا ماشاء اللہ اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں حصہ لے رہا ہے بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ انتہائی ترقی کے مدارج ہم میں سے کوئی نہیں دیکھ سکے گا۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس دنیا کے تغیرات جو مومن سے تعلق رکھتے ہیں اسے بتائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جو کوئی اس کی قبر پر جاتا ہے اس کا بھی اسے علم ہو جاتا ہے اگرچہ اس کے کان آنے والوں کے پائوں کی آہٹ نہیں سنتے لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس کا علم ضرور دے دیتا ہے اس لئے جب وہ تغیرات پیدا ہوں گے تو ان میں حصہ لینے والوں کو اس کا علم ہو گا۔ اور گو وہ اس دنیا میں نہیں ہوں گا مگر پھر بھی سلسلہ کی ترقیات کو معلوم کرکے ان کی روح خوشی اور مسرت سے بھر جائے گی اور وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرے گی کہ اس نے مجھے بھی اپنے جسم کو اس میں استعمال کرنے کا موقعہ اور توفیق عطا فرمائی تھی۔ ہمارا نقطہ نگاہ مالی نتائج پر نہیں جو کارکنوں کو خدمات کے بدلہ میں ملتے ہیں بلکہ ان تغیرات پر ہے۔ جس کا اندازہ سوائے خدا کے کسی کو نہیں۔
جنت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہاں دودھ کی نہریں ہوں گی باغات ہوں گے مگر پھر بھی رسول کریم~صل۱~ ے فرمایا لا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر حالانکہ قرآن پاک جنت کے نقشوں سے بھرا پڑا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات میں سلسلہ احمدیہ کی ترقیات کا نقشہ ہے اور آپ نے تفسیریں بھی کی ہیں۔ لیکن وہ ساری قبل از وقت ہیں اور الفاظ وہ نقشہ کھینچ ہی نہیں سکتے جو آنے والا ہے۔ اگرچہ ہم یہ مانتے ہیں کہ بڑے بڑے بادشاہ یہاں آئیں گے لیکن اس کا قیاس نہیں کر سکتے کہ کس طرح ان کی گردنیں احمدیت کے ہاتھ میں دے دی جائیں گی۔ گویا جزئیات کو ہم نہیں سمجھ سکتے اور وہ جذبات ہم اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے جو اس وقت ہوں گے۔
پس جو بھی سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتا ہے وہ دراصل ایک عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں کام کر رہا ہے اور اس کی مثال اس مونگے کی طرح ہے جو جزیرہ بناتے ہی اپنی جان ضائع کر دیتا ہے۔ کورل آئی لینڈ کی تیاری میں ایک مونگا اپنی جان قربان کر دیتا ہے لیکن اسے کیا پتہ ہوتا ہے کہ اس کی قربانی کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے اس کی جان ضائع ہونے سے جزیرہ تیار ہوتا ہے۔ جس میں انسان بستے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث یا اس کے غضب کے مورد ہوتے ہیں۔ لیکن مونے کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ وہ ایک نئی دنیا پیدا کر رہا ہے اور اس طرح وہ خدا تعالیٰ کا بروز ہو جاتا ہے۔ انبیاء بھی خدا تعالیٰ کے بروز ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
میرزا محمد اشرف نے بھی اس نظام میں کام کیا ہے اور اس میں کام کرنے والوں کی یہ ترقی نہیں کہ وہ مثلاً تیس روپیہ تنخواہ سے شروع ہو کر سو روپیہ پر پہنچ جائیں۔ یہ بھی بے شک ترقی ہے لیکن اصل چیز کے مقابلہ میں یہ بالکل ہیچ ہے۔ ہر کارکن خواہ وہ اپنی حیثیت کو سمجھے یا نہ سمجھے بہرحال اگر اس نے اخلاص سے کام کیا ہے تو وہ اس عظیم الشان عمارت میں بمنزلہ بنیاد کے ہے جس کی عظمت کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ بعض لوگ اپنی کم علمی کے باعث اس سے بھی محروم ہوتے ہیں کہ وہ کسی چیز کا اس قدر بھی اندازہ کر سکیں جس قدر بیان کی جاچکی ہے اور اس لئے بعض لوگ اس عظمت کو بھی محسوس نہیں کر سکتے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتابوں میں بیان کی گئی ہے۔ جنت کا جو نقشہ قرآن کریم میں بیانکیا گیا ہے اس کا کسی قدر اندازہ وہ دشمن تو کر سکتا ہے جس نے شالامار باغ اور دوسرے فرحت افزا باغات دیکھے ہیں لیکن عرب کا وہ وحشی جس کا باغ کھجور کے دو درختوں سے زیادہ نہیں ہوتا وہ اس کا اندازہ بھی کرنے لگے تو زیادہ سے زیادہ پانچ دس کھجوروں کے درخت پرجاکر اس کا تخیل ختم ہو جائے گا اسی طرح بعض لوگ باوجود بنیاد کی اینٹ ہونے کے ظاہری علوم سے بے بہرہ ہونے کے باعث محسوس نہیں کر سکتے۔ کہ ان کی خدمات کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں وہ اس کام کی عظمت کو سمجھتے نہیں یا سمجھ سکتے نہیں کہ وہ کتنے عظیم الشان کام میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے اس دنیا میں اور اگلے جہان میں کس قدر زبردست نتائج نکلنے والے ہیں۔ لیکن بہرحال نہ جاننے سے کام کی عظمت میں فرق نہیں آسکتا۔
میرزا محمد اشرف صاحب کو میں نے دیکھا ہے اور ان کی یہ بات مجھے ہمیشہ پسند آئی کہ وہ اس طرح کام کرتے رہے ہیں جس طرح ایک عورت اپنے گھر میں کام کرتی ہے وہ جانتی ہے کہ اس کے پاس کتنا سرمایہ ہے اور وہ اس سے کس طرح بہتر سے بہتر کام لے سکتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ قلیل سے قلیل رقم میں ہی سب کام نپٹالوں۔ ان کے اندر ہمیشہ یہی روح کام کرتی رہی ہے کہ سلسلہ کا صیغہ مالیات مضبوط چٹان کی طرح ہو اور چونکہ میرے اپنے خیالات کی روح بھی اسی طرف ہے اس لئے مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی اور ہمیشہ اطمینان رہتا تھا کہ مالیات کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو اسے صحیح طریق پر چلا رہا ہے انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ممکن ہے ان سے بھی ہوتی ہوں لیکن ایسے شخص کے کاموں میں جو درد رکھتا ہے اور جو اس روح کے ساتھ کام کرتا ہے اس کی غلطیوں کے باوجود نتائج اچھے نکلیں گے اگر تمام کارکن اس روح کے ساتھ کام کریں تو بہت جلد ترقی ہو سکتی ہے<۔۶۹
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا تقرر وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل میں
آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب وسط ماہ جون ۱۹۳۲ء میں خرابی صحت کے باعث رخصت پر جارہے تھے حکومت نے ان کی جگہ چوہدری
محمد ظفر اللہ خان صاحب کو گورنر جنرل کی ایگزیکٹو کونسل کے عارضی رکن کی حیثیت سے نامزد کردیا اور آپ محکمہ تعلیم و صحت و اراضیات کے انچارج مقرر کر دیئے گئے۔۷۰
اس انتخاب پر ملک کے متین و سنجیدہ حلقوں نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور چوہدری صاحب کی قابلیت او لیاقت کا اقرار کیا۔ چنانچہ پیسہ اخبار ۱۹/ مئی ۱۹۳۲ء نے لکھا۔
>چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رکن گول میز کانفرنس جو مقدمہ سازش دہلی میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ سر فضل حسین کی جگہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے قائم مقام ممبر ہوں گے آپ پہلے پہل سرشہاب الدین کے قانونی رسالہ انڈین کیسز کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ آپ نے انہیں قانونی پریکٹس کا مشورہ دیا۔ جس میں آپ کو کافی کامیابی اور شہرت حاصل ہوئی یہی وجہ تھی کہ آپ مقدمہ سازش دہلی میں سرکاری وکیل مقرر ہوئے اور گول میز کانفرنس کے رکن بھی مقرر کئے گئے گول میز کانفرنس میں آپ کی تقریریں خاص طور سے جاذب تھیں مسلمانوں کو ان کے ذاتی عقیدہ سے خواہ کتنا ہی اختلاف ہو مگر ان کی قابلیت اور لیاقت کا زمانہ قائل ہے امید ہے کہ سر فضل حسین کی جگہ آپ ایگزیٹو کونسل کی رکنیت کے فرائض بوجہ احسن ادا کریں گے اور عام مسلمانوں کے تحفظ حقوق کا کماحقہ خیال رکھیں گے<۔۷۱
ہندو پریس کی شدید مخالفت
اسلامی پریس کے مقابل ہندو پریس نے جس میں >پرکاش< اور >ٹریبیون< پیش پیش تھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے تقرر کی زبردست مخالفت کی۔ بلکہ مسلمانوں کو مشتعل کیا کہ انہوں نے خاموشی سے اس نامزدگی کو کیوں برداشت کر لیا جبکہ چوہدری صاحب سرے سے مسلمان ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ >پرکاش< )۲۹/ مئی ۱۹۳۲ء( نے لکھا۔
>مسلمان اپنا حق سمجھتے ہیں کہ جس عہدے پر ایک بار کوئی مسلمان تعینات ہو جائے پھر اس پر کوئی اور مقرر نہیں کیا جانا چاہئے۔ وہ مسلمانوں کا موروثی حق ہو چکا ہے عام طور پر مسلمانوں کی جگہ مسلمان مقرر ہوتے ہیں لیکن اگر کسی حالت میں اس قاعدہ کی خلاف ورزی ہو جائے تو مسلمان اس کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ سر فضل حسین کی رخصت پر جانے کی حالت میں وائسرائے ہند کی کونسل کی ممبری کا عہدہ مسلمان کی بجائے قادیانی کو دیا گیا ہے اور کسی مسلمان نے چوں تک نہیں کی<۔۷۲
دراصل ہندوئوں کی اول یہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی سرکاری عہدہ پر کوئی مسلمان مقرر ہی نہ ہو لیکن جب اس میں انہیں کامیابی کی صورت نظر نہ آتی تو وہ چاہتے کہ کوئی اعلیٰ عہدہ کسی قابل مسلمان کو نہ دیا جائے بلکہ ایسے شخص کے سپرد ہو جو ان کی چالبازیوں سے آگاہ نہ ہو سکے اور نہ ان کا توڑ کر سکے۔ چوہدری صاحب کے معاملہ میں چونکہ اس وقت تک خصوصاً گول میز کانفرنس میں انہیں سخت ناکامی ہوئی تھی اسی بناء پر وہ یہ لکھ رہے تھے کہ >چونکہ ظفر اللہ خان فرقہ پرستی میں کسی بھی فرقہ پرست مسلمان سے پیچھے نہیں<۔ فرقہ پرستی سے ہندوئوں کی مراد مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پنڈت نہرو نے چوہدری صاحب اور دوسرے مسلمان لیڈروں کی نسبت اپنی کتاب >میری کہانی< میں یہاں تک لکھا تھا۔ >وطن پرستی کی مخالفت اور رجعت پسندی کی غیر معمولی نمائش گول میز کانفرنس میں ہوئی۔ برطانوی حکومت نے چن چن کر صرف فرقہ پرست مسلمانوں کو نامزد کرنے پر اصرار کیا تھا اور یہ لوگ آغا خاں کی قیادت میں بڑے بڑے رجعت پسندوں سے جاکر مل گئے جو نہ صرف ہندوستان کے بلکہ تمام ترقی پسندوں کے نقطہ نظر سے برطانیہ کی سیاسی زندگی میں سب سے خطرناک عناصر سمجھے جاتے ہیں<۔۷۳
ان حالات میں چونکہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جیسی شخصیت کا تقرر جو پنڈت جواہر لال صاحب نہرو اور دوسرے کانگرسی ہندوئوں کی نگاہ میں کٹر >فرقہ پرست< تھا کانگرسی عزائم کے لئے ایک عظیم خطرہ اور ایک عظیم چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا اس لئے کانگریس کے ہوشیار سیاستدانوں نے >قادیانی< اور >غیر قادیانی< کا سوال اٹھا کر مسلمانوں کو الجھانے اور ان کی صفوں میں انتشار اور فتنہ برپا کرنے کا فیصلہ کر لیا جس کا پہلی بار افشاء >پرکاش< ہی نے کیا اور اس کو عملی جامہ پہنچانے کا بیڑہ کانگریس کے آلہ کار اور ہمنوا مولویوں نے اٹھایا جیسا کہ آئندہ کے حالات سے پتہ چلے گا۔
مخالفت کا حقیقی سبب
حقیقت یہ ہے کہ ہندو پریس پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو چکی تھی کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کے سیاسی اور ملکی حقوق کی حفاظت کے لئے میدان عمل میں آچکی ہے اور اب ہندوئوں کے لئے مسلمانوں کے حقوق غصب کرنا اتنا آسان نہیں رہا جتنا پہلے تھا اسی وجہ سے وہ بات بات میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے اور مسلمانوں میں فرقہ وارانہ فتنہ پیدا کرنے پر اتر آئے تھے اور خصوصاً چوہدری صاحب کے عارضی تقرر پر جبکہ مسلمانوں کے خیر مقدم نے انہیں محسوس کرا دیا تھا کہ چوہدری صاحب پر مسلمان اعتماد رکھتے ہیں اور انہیں اس اعزاز کا ہر طرح اہل پاتے ہیں ہندوئوں کے انتقامی جذبات میں تلاطم برپا کر دیا اور وہ خم ٹھونک کر سامنے آگئے۔
اخبار >سیاست< کا اہم نوٹ
ہندو اخبار >ٹریبیون< نے )جس نے ایک بار حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی وفات کی مفتریانہ خبر شائع کی تھی( اس موقعہ ہندو قوم کے اندرونی خیالات و افکار کی عکاسی کرتے ہوئے چوہدری صاحب کے خلاف بہت زہر اگلا اور ان کی مسلمہ قابلیت و لیاقت پر بھی خوب دل کھول کر حملے کئے۔ جس کے جواب میں شمالی ہند کے مشہور مسلمان اخبار >سیاست< )۲۵/ مئی ۱۹۳۲ء( نے مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا۔
>چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور ہندو: اس پر کہ جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء ایم۔ ایل۔ سی نے آنریبل میاں سر فضل حسین کی جگہ رکنیت تعلیمات کا عہدہ منظور فرما لیا ہے ہندو سیاسی حلقے بے انتہاء مضطرب ہیں اور تو اور >ٹریبیون< ایسے اخبار نے فرقہ واریت میں ڈوبا ہوا شذرہ حوالہ قرطاس کیا اور محض اس جرم پر کہ چوہدری صاحب مسلم مطالبات کے زبردست حامی اور موید ہیں ان کی لیاقت و قابلیت سے بھی انکار کیا بلکہ یہاں تک لکھ مارا کہ بحیثیت قانونی پیشہ بھی آپ گوئے سبقت نہیں لے جاسکتے غضب کی بات ہے کہ تعصب اس درجہ انسان کو اندھا کر دے کہ محض کسی شخص کے کانگریس سے اختلاف رکھنے کے باعث اس ہر جلیل القدر عہدہ کا نااہل قرار دیا جائے۔ سیدھی بات ان میں سے کوئی نہیں کہتا اور انٹ کی سنٹ اڑاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ فرقہ واریت حصول عہدہ کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہو سکتی اس لئے ان کے مطالبہ کا صاف مقصدیہ ہے کہ ایسے مسلمان کو کیوں رکنیت کا جلیل القدر عہدہ دے دیا جاتا ہے جو مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت کا ہم خیال ہو کیونکہ اسے وہ اپنے ڈھب پر نہ لگا سکیں گے اور ان کا بہت بڑا مقصد فوت ہو جائے گا۔ یہ چیخ پکار اسی لئے ہے ورنہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہر طرح اس عہدہ کے اہل ہیں ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں<۔۷۴
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا پنجاب کونسل میں بلامقابلہ انتخاب
چوہدری صاحب وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل میں قائم مقام ممبر ہو جانے کی وجہ سے پنجاب کونسل کی نشست سے دستبردار ہو گئے
تھے اس تقرر کے اختتام پر آپ سابقہ نشست حاصل کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ہندوئوں کی خواہشات کے عین مطابق اخبار >زمیندار< اور >حریت< نے محض اس بناء پر کہ آپ احمدی ہیں آپ کی مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ اخبار >زمیندار< )۴/ اکتوبر ۱۹۳۲ء( نے لکھا۔
>ہم مسلمانوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کی غیرت برداشت کر سکتی ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کونسل میں بلامقابلہ منتخب ہو جائیں۔ کیا پنجاب میں ایک فقط چوہدری ظفر اللہ خاں ہی بلامقابلہ منتخب ہونے کے لئے رہ گئے ہیں آخر اسلامیان پنجاب اپنے آزمودہ کار خدام کو کیوں نظر انداز کئے بیٹھے ہیں۔ کیا ملک برکت علی خواجہ عبدالرحمن غازی` مولانا مظہر علی اظہر کا کونسل کی نشستوں پر حق نہیں ہے؟ ہم تو چاہتے ہیں کہ چوہدری ظفر اللہ خاں کے حلقہ انتخاب سے کوئی نائی یا مراثی اٹھے اور انہیں میدان مقابلہ میں ایسی شکست دے کہ قادیانی جیتے جی یاد رکھیں اور از بسکہ اسلام میں کامل مساوات ہے اس لئے ہر کلمہ گو مسلمان پر فرض ہو گا کہ وہ چوہدری ظفر اللہ خاں کے حریف کی پوری پوری اعانت کرے<۔۷۵
اس کے بعد اپنی ۷/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کی اشاعت میں لکھا۔
>چوہدری ظفر اللہ خاں نے کونسل میں بلامقابلہ انتخاب کی جو توقعات قائم کر رکھی تھیں ان پر >زمیندار< کے پروپیگنڈے کا بے حد اثر ہوا ہے۔ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خاں نے کونسل کی رکنیت کے لئے کھڑے ہونے کا فیصلہ کو سردست معرض التوا میں ڈال دیا ہے۔ معتبر حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جماعت احرار کا کوئی رکن چوہدری ظفر اللہ خاں کے حلقہ انتخاب سے کھڑا ہوگا<۔۷۶
>زمیندار< کے اس پراپیگنڈا کے علاوہ احراری ذہنیت رکھنے ولے اصحاب کی طرف سے ہر رنگ میں کوشش کی گئی کہ اول تو جناب چوہدری صاحب اپنے حلقہ سے منتخب ہی نہ ہو سکیں یا کم از کم بلامقابلہ منتخب نہ ہو سکیں۔ کسی نہ کسی کو ضرور کھڑا کر دیا جائے لیکن حلقہ سیالکوٹ میں کسی اور شخص کو مقابلہ میں کھڑے ہونے کی جرات نہ ہو سکی اور آپ خدا کے فضل و رحم سے بلامقابلہ منتخب ہو گئے جس پر اخبار >سیاست< ۲۶/ اکتوبر ۱۹۳۲ء نے بعنوان >چوہدری ظفر اللہ خاں کی ہر دلعزیزی و غیر جنبہ داری< کے عنوان سے لکھا۔
>سب نے بیک زبان آپ کی حسن کارگزاری کمال سیاسی قابلیت اور غیر جنبہ داری کا اعتراف کیا اور آپ کو اپنی نمائندگی کے لئے بہترین شخص قرار دیا۔ واقعی چوہدری صاحب موصوف اس قابل ہیں کہ ان پر اس درجہ اعتماد و اعتبار کیا جائے۔ آپ نے کونسل میں گراں بہا کام کرنے کے علاوہ اہم ترین مواقع پر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا کماحقہ حق ادا کیا۔ لہذا ہم بہ طمانیت تمام جناب چوہدری صاحب کو آپ کی اس شاندار کامیابی پر کہ علی ¶الرغم حسود کوئی شخص آپ کے مقابلہ کے لئے میدان عمل میں نہیں اترا اور آپ کو صحیح معنیٰ میں رائے دہندگان نے منتخب کیا۔ مبارکباد دیتے ہیں<۔۷۷
پونڈری )ضلع کرنال( کے مسلمانوں کی امداد
ضلع کرنال کے ایک قصبہ پونڈری پورہ کے مسلمان ۲/ جون ۱۹۳۲ء کو مذبح تعمیر کر رہے تھے کہ ہندوئوں کے ایک بہت بڑے مسلح مجمع نے تعمیر مذبح کی پاداش میں نہتے مسلمانوں پر حملہ کرکے تین مسلمانوں کو شہید اور تیس کے قریب کو سخت زخمی کر دیا۔۷۸4] [rtf جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ڈلہوزی سے بذریعہ تار حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ کو مسلمانوں کی امداد اور اصل واقعات کی تحقیق کے لئے بھجوایا۔۷۹ جنہوں نے علاقہ کا دورہ کیا اور صحیح حالات معلوم کرکے افسران بالا کو توجہ دلائی نیز اخبارات کے ذریعہ سے پبلک کو علاقہ کے مظلوم مسلمانوں کی مظلومیت کے صحیح حالات سے آگاہ کیا۔ چونکہ ہندو اخبارات نے اصل واقعات پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمانوں پر ہندوئوں نے قاتلانہ حملہ نہیں کیا بلکہ مسلمان آپس میں کٹ مرے ہیں اس لئے اخبار >الفضل< نے ۱۴/ جون ۱۹۳۲ء کو ایک نوٹ لکھا جس میں اسے ہندوئوں کی گہری سازش قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ پونڈری کے ستم رسیدہ اور تباہ حال مسلمانوں کی داد رسی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔۸۰
اس نوٹ کی اشاعت کے دو تین ہفتہ بعد یہ خبر ملی کہ اس قصبہ میں پولیس کی تعزیری چوکی قائم کی جانے والی ہے اور اس کا خرچ وہاں کے اور مضافات کے باشندوں پر ڈالا جائے گا۔ چونکہ خطرہ تھا کہ یہ ٹیکس بے گناہ اور مظلوم مسلمانوں پر بھی عائد کر دیا جائے۔ س لئے قصبہ کے مسلمانوں نے ڈپٹی کمشنر کرنال کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ ہندوئوں کی قانون شکنی کے باعث تعزیری چوکی کا ٹیکس مسلم آبادی پر نہیں پڑنا چاہئے۔
جب وہاں ہندوئوں کے خلاف مقدمہ چلا۔ تو وہاں کے مسلمانوں نے حضورؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ ان کی قانونی مدد کی جائے چنانچہ حضورؓ کے ارشاد کے ماتحت جناب مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر گورداسپور وہاں بھجوائے گئے۔ جنہوں نے تقریباً ایک ماہ رہ کر نہایت محنت سے مقدمہ کی پیروی کی۔ جس کے نتیجہ میں ۲۴ کے قریب ملزموں کو سخت سزائیں ہوئیں۔۸۱ مسلمانان حصار نے مرزا عبدالحق صاحب احمدی وکیل گورداسپور کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔ جنہوں نے بلا فیس عدالت ابتدائی میں پیروی کی تھی۔۸۲
tav.7.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل دوم(
مقدمہ بہاولپور
اس زمانے میں مخالفین احمدیت اور احمدیوں میں مقدمات کا سلسلہ جاری تھا۔ مثلاً مقدمہ شاہجہانپور )یو۔ پی( برہمن بڑیہ )بنگال( اوربن باجوہ )ضلع سیالکوٹ( کے امراء جماعت کے مقدمات۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ مقدمہ بہاولپور میں دائر تھا جس نے بعد کو قومی مقدمہ کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ احمد پور شرقیہ کے ایک شخص الٰہی بخش صاحب نے اپنی بیٹی مسمات غلام فاطمہ کا نکاح عبدالرزاق صاحب )ساکن موضع مہمند تحصیل احمدپور شرقیہ( سے کیا۔ عبدالرزاق صاحب احمدی ہو گئے تو الٰہی بخش صاحب نے علماء کی انگیخت سے ۲۴/ جولائی ۱۹۲۶ء کو ریاست بہاول پور میں تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کر دیا۔ کہ مدعیہ اب تک نابالغ رہی ہے اب عرصہ دو سال سے بالغ ہوئی ہے مدعا علیہ ناکح مدعیہ نے مذہب اہلسنت و الجماعت ترک کرکے قادیانی مرزائی مذہب اختیار کر لیا ہے اور اس وجہ سے وہ مرتد ہو گیا ہے اس کے مرتد ہو جانے کے باعث مدعیہ اب اس کی منکوحہ نہیں رہی۔۸۳
ڈسٹرکٹ عدالت سے مقدمہ خارج
ڈسٹرکٹ جج نے سماعت کے بعد ۲۱/ نومبر ۱۹۲۸ء کو یہ دعویٰ اس بناء پر خارج کر دیا کہ عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاولپور سے اسی قسم کے ایک مقدمہ بعنوان مسماۃ جند وڈی بنام کریم بخش میں باتباع فیصلہ جات عدالتہائے اعلیٰ مدراس۸۴ پٹنہ و پنجاب یہ قرار دیا جا چکا ہے کہ احمدی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہیں نہ کہ اسلام سے باہر اور کہ احمدی مذہب اختیار کرنے سے کسی سنی عورت کا نکاح اس شخص کے ساتھ جو اس مذہب کو قبول کرے فسخ نہیں ہو جاتا اور کہ مدعیہ کی طرف سے ان فیصلہ جات کے خلاف کوئی سند پیش نہیں کی گئی۔ ڈسٹرکٹ جج کا یہ حکم عدالت عالیہ چیف کورٹ میں بھی بحال رہا۔۸۵
دربار معلیٰ میں اپیل
فریق ثانی نے اس فیصلہ کے خلاف ریاست بہاولپور کی آخر عدالت >دربار معلیٰ< میں اپیل ثانی دائر کر دی۔ اس دربار کی ان دنوں ہیئت ترکیبی یہ تھی۔
۱۔ وزیر اعلیٰ ۲۔ وزیر حضوری ۳۔ وزیر مال )ایک انگریز سی۔ ایچ ٹونشن( ۴۔ ہوم ممبر۔
اب جو ریاست بہاولپور کے دربار معلیٰ میں یہ مقدمہ پہنچا تو وزیر اعلیٰ صاحب نے پہلی پیشی میں حکم دیا کہ ریاست کے مفتی )مولوی غلام محمد صاحب شیخ الجامعہ عباسی( تنسیخ نکاح کے دلائل پیش کریں یہ مفتی صاحب اپنے وعظوں اور خطبوں میں احمدیوں کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانے میں خاص شہرت رکھتے تھے۔
دربار معلیٰ کا رویہ
text] gat[دربار معلیٰ کی اس تجویز پر مدعا علیہ نے درخواست دی کہ اسے بھی کسی عالم دین کو عدالت میں پیش کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ تا عدالت فریقین کے علماء کے دلائل سن کر صحیح نتیجہ پر پہنچ سکے۔ جناب وزیر اعلیٰ صاحب نے اس سے انکار کر دیا۔ مگر خاص جدوجہد کے بعد مثل مقدمہ پر کئی موقع پر انہیں یہ نوٹ کرنا پڑا کہ احمدی فریق بھی اپنا عالم پیش کر سکتا ہے۔ لیکن باوجود اس نوٹ کے جب مدعا علیہ نے اس سلسلہ میں مولوی فضل الدین صاحب کے پیش ہونے کی باقاعدہ درخواست دی تو وہ واپس کر دی گئی۔ تاہم قادیان سے جماعت کے ایک اور عالم مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی مولوی فاضل بھیج دیئے گئے۔ ۲۱/ جنوری ۱۹۳۲ء کو >دربار معلیٰ< میں پیشی تھی فریقین مقدمہ کو بلانے سے قبل قریباً پون گھنٹہ تک وزیر اعلیٰ اور مفتی صاحب میں گفتگو ہوتی رہی۔ پھر مدعا علیہ کو بلا کر وزیر اعلیٰ نے فرمایا کہ تم مفتی صاحب پر اعتراض کرو مدعا علیہ نے کہا کہ میں بھی اپنی طرف سے کوئی عالم پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے تو وزیراعلیٰ صاحب نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ مگر پھر اس کی اجازت دے دی۔ اس پر جب مولوی صاحب موصوف پیش ہوئے۔ تو وزیراعلیٰ صاحب نے ان سے بھی یہی کہا کہ مفتی صاحب پر اعتراض کرو۔ مولوی صاحب نے کہا۔ مفتی صاحب کا بیان میرے سامنے نہیں۔ میں کس طرح اعتراض کر سکتا ہوں؟ وزیراعلیٰ صاحب نے مفتی صاحب کی خود ہی ترجمانی کرتے ہوئے کہا۔ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ اب جو شخص کسی نبی کے آنے کا قائل ہو وہ کافر ہے۔ اس پر اعتراض کرو۔ مولوی صاحب نے اس پر مفتی صاحب سے پوچھا۔ کیا وہ اولیاء ابدال اور صوفیاء جو مانتے آئے ہیں کہ نبوت جاری ہے وہ سب کافر تھے؟ اس پر بجائے اس کے کہ مفتی صاحب کوئی جواب دیتے وزیراعلیٰ صاحب نے کہا کہ یہ طے ہو چکا ہے کہ قرآن سے بات پیش کی جائے گی سلف صالحین کا ذکر نہ ہو گا۔ مولانا غلام احمد صاحب نے کہا بہت اچھا۔ مفتی صاحب بتائیں قرآن کریم میں کہاں لکھا ہے کہ جو کسی نبی کی آمد کا قائل ہو وہ کافر ہے؟ اس پر وزیراعلیٰ صاحب نے پھر دخل دے کر کہا یہ سوال نہیں بلکہ کسی آیت سے ثابت کرو کہ نبی آسکتا ہے۔ مولوی صاحب نے تین آیات قرآنی پیش کیں۔ مگر تینوں آیتوں کے متعلق وزیراعلیٰ صاحب انکار کا سر ہلاتے رہے اور جب مولوی صاحب آیات کی تشریح کرنے لگتے تو انہیں روک دیتے۔ آخر مولوی صاحب نے کہا۔ مفتی صاحب! قرآن میں نبوت کے بند ہونے کا کوئی ثبوت ہے؟ اس کا جواب بھی وزیراعلیٰ صاحب نے خود ہی دیا۔ اور وہ یہ کہ ہم سن چکے ہیں۔ مولوی صاحب نے جب کہا کہ مجھے بھی سن لینے دیا جائے تو ایک آیت پیش کی گئی۔ لیکن جب مولوی صاحب اس کا صحیح مطلب بیان کرنے لگے تو کہہ دیا اب بس کرو اور چلے جائو۔۸۶
دربار معلیٰ کی کارروائی
قصہ کوتاہ دربار معلیٰ نے ہائی کورٹوں کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنی ریاست کے شیخ الجامعہ مولوی غلام محمد صاحب کو بطور گواہ عدالت طلب کیا اور ان کا یہ بیان درج کیا کہ >اگر کسی شخص کا قادیانی عقائد کے مطابق یہ ایمان ہو کہ حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کے بعد کوئی اور نبی آیا ہے اور اس پر وحی نازل ہوئی تو ایسا شخص چونکہ ختم النبوۃ حضرت رسول کریم~صل۱~ کا منکر ہے اور ختم النبوۃ اسلام کی ضروریات میں سے ہے لہذا وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے<۔ اس بیان پر دربار نے یہ رائے ظاہر کی کہ >مولوی صاحب موصوف نے بطور دلائل کئی ایک آیات قرآن شریف پیش کیں۔ جن میں اچھی طرح واضح کر دیا گیا ہے کہ آنحضرت~صل۱~ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا<۔
پھر مقدمہ کو مزید >تحقیقات کا محتاج< قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مدعا علیہ کو بھی موقع دینا چاہئے۔ کہ شیخ الجامعہ کے بالمقابل اپنے دلائل پیش کرے اس لئے ہم مزید تحقیقات کے لئے یہ مقدمہ پھر عدالت صاحب ڈسٹرکٹ جج بہاولپور میں بھیجتے ہیں اور ہدایت کرتے ہیں کہ یہ مقدمہ بروئے شرع شریف فیصلہ کیا جائے<۔۸۷
مقدمہ دوبارہ ڈسٹرکٹ عدالت میں
ڈسٹرکٹ جج صاحب اپنے گزشتہ فیصلہ میں صاف لکھ چکے ہیں کہ موجودہ فیصلہ قوانین و آئین کی روشنی میں ہے اگر شریعت کے نقطہ نگاہ سے مقدمہ پر نظر ڈالی جاتی تو ہمارا فیصلہ مختلف ہوتا۔ اس بناء پر مدعا علیہ کے مختار مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے عدالت عالیہ کو لکھا کہ جو عدالت پہلے اپنی رائے کا اظہار کر چکی ہے اس میں دوبارہ اسے پیش کرنا صحیح نہیں۔ مگر کچھ شنوائی نہ ہوئی۔ بہرکیف اس مرحلہ پر یہ مقدمہ ایک نئے دور میں داخل ہو گیا اور فریقین کی طرف سے اس کے لئے زور شور سے تیاریاں شروع کر دی گئیں جیسا کہ >فیصلہ مقدمہ بہاولپور< میں لکھا ہے کہ۔
>واپسی پر اس مقدمہ میں فریقین کے ہم مذہب اور ہم خیال اشخاص کی فرقہ ¶بندی شروع ہو گئی اور تقریباً تمام ہندوستان میں اس کے متعلق ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ اور طرفین سے ان کی جماعت کے بڑے بڑے علماء بطور مختاران فریقین و بطور گواہان پیش ہونے لگے ان کے اس طرح میدان میں آنے سے قدرتاً یہ سوال عوام کے لئے جاذب توجہ بن گیا اور پبلک کو اس میں ایک خاص دلچسپی پیدا ہو گئی اور ہر تاریخ سماعت پر لوگ جوق در جوق کمرہ عدالت میں آنے لگے۔ چنانچہ عوام کی اس دلچسپی اور مذہبی جوش کو مدنظر رکھتے ہوئے حفظ امن قائم رکھنے کی خاطر پولیس کی امداد کی ضرورت محسوس کی گئی اور عدالت ہذا کی تحریک پر صاحب بہادر کمشنر پولیس کی طرف سے ہر تاریخ پیشی پر پولیس کا خاطر خواہ انتظام کیا جاتا رہا<۔۸۸
ڈسٹرکٹ جج صاحب کا رویہ
۲۱/ جون ۱۹۳۲ء کو ڈسٹرکٹ جج بہاولپور )منشی محمد اکبر خان صاحب بی۔ اے ایل ایل۔ بی( نے سماعت شروع کی۔ عدالت نے شیخ الجامعہ کو وہ کچھ دہرانے کے لئے بلایا۔ جو انہوں نے دربار معلیٰ میں کہا تھا اور دو سو کے قریب ان کے ہم خیالوں کو عدالت میں جگہ دے دی گئی۔ لیکن احمدیوں میں اس سے سوائے مدعا علیہ کے باوجود درخواست کرنے کے کسی احمدی کو اندر نہ آنے دیا گیا۔ شیخ الجامعہ نے متواتر تین گھنٹے بیان جاری رکھا۔ بیان کیا تھا بانی جماعت احمدیہ پر سب دشتم کی بوچھاڑ تھی۔ غلط اور بے بنیاد الزامات کا مجموعہ تھا۔ فاضل جج ساتھ ساتھ ہر بات کی تائید کرتے جاتے اور شیخ الجامعہ جو بات بھی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے پیش کرتے اس کے متعلق کہہ دیتے۔ واقعی یہ صریح کفر ہے۔ ایک دفعہ جج صاحب نے مدعا علیہ سے یہ بھی کہا کہ شیخ الجامعہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو یا باہر نکل جا۔ نیز یہ کہ تجھے ان باتوں کو ماننا پڑے گا جو شیخ الجامعہ نے بیان کی ہیں جب مدعا علیہ نے اس سے انکار کیا تو کہہ دیا یہ باتیں صحیح ہیں اور تجھے ماننی پڑیں گی۔ بالاخر شیخ الجامعہ کے طول طویل بیان کی نقل لے کر جرح کرنے کی ہدایت کی۔ نقل لینے پر چونکہ تیس روپے کے قریب خرچ کرنا پڑتا تھا اس لئے مدعا علیہ نے اپنی غربت کا عذر پیش کیا۔ اس پر کہہ دیا گیا پھر مقدمہ کا فیصلہ تمہارے خلاف کر دیا جائے گا۔
عدالت کا یہ رویہ دیکھ کر مدعا علیہ نے انتقال مقدمہ کی درخواست دے دی جو رکھ لی گئی اور کہہ دیا گیا جو کچھ کرنا ہو کر لو۔ اور ۱۴/ جولائی کی تاریخ پیشی مقرر کی گئی۔ اجلاس کے اختتام پر جج صاحب نے پھر کہا کہ کل آکر نقل کی درخواست دے دو اور ۱۴/ جولائی ۱۹۳۲ء کو جرح پیش کرو۔ کوئی زیادہ موقعہ نہ دیا جائے گا۔ قادیان سے دو مولویوں کو شہادت کے لئے خود منگائو۔ لیکن تمہارے علماء کو شیخ الجامعہ کے بیان پر جرح کرنے کا کوئی حق نہ ہوگا اس کے بعد مدعا علیہ کو باہر نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔۸۹
علمائے دیوبند کی شہادتیں اور ان پر جرح
ڈسٹرکٹ عدالت نے فریقین کی شہادتوں کے لئے ۲۰ تا ۲۳/ اگست ۱۹۳۲ء کی تاریخیں مقرر کی تھیں۔ مدعیہ کی طرف سے مولوی سید محمد انور شاہ صاحب سابق صدر المدرسین دیو بند` مولوی محمد شفیع صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند` مولوی سید محمد مرتضیٰ حسن صاحب دربھنگی ناظم تعلیمات دیوبند اور مولوی نجم الدین صاحب پروفیسر اورینٹل کالج لاہور کی شہادتیں ہوئیں اور مدعا علیہ کی طرف سے علامہ جلال الدین صاحب شمسؓ` مولانا غلام احمد صاحب مولوی فاضل` مولوی عبدالاحد صاحب اور چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹر پیش ہوئے۔ جج صاحب نے چوہدری اسداللہ خان صاحب کو بیرسٹر ہونے کی وجہ سے مختار ہونا منظور نہ کیا لہذا مولانا شمس صاحبؓ اور مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی مدعا علیہ کی طرف سے مختار ہوئے جو ابتدائی پیشیوں تک مختار رہے ازاں بعد جب یہ حضرات بطور گواہ پیش ہونے لگے تو ان کی بجائے شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور مولوی عبداللہ صاحب اعجاز کو یہ خدمت سپرد ہوئی جسے انہوں نے آخر تک نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ عدالت کی کارروائی شروع ہونے پر مدعا علیہ کی طرف سے زور دیا گیا کہ جب مقدمہ کا فیصلہ شریعت کے مطابق ہونا ہے تو شریعت کی رو سے ہی شہادتیں بھی لی جائیں۔ پہلے ایک شہادت مدعیہ کی طرف سے ہو اور اس کے مقابل دوسری مدعا علیہ کی طرف سے۔ جج صاحب نے اسے منظور بھی کر لیا۔ مگر فریق مخالف نے جب اصرار کیا کہ پہلے ضروری ہے کہ ہماری تمام شہادتیں ختم ہو جائیں تو جج صاحب نے آخری فیصلہ یہ دیا کہ شہادتیں ضابطہ دیوانی کے ماتحت لی جائیں گی۔ گویا پہلے قدم پر ہی شریعت کو جواب دے دیا گیا۔۹۰
سب سے پہلے مفتی محمد شفیع صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند کی شہادت ہوئی۔ جس پر مولانا جلالالدین صاحب شمسؓ نے لاجواب جرح کی۔4] [stf۹۱
دوسری شہادت مولوی سید مرتضیٰ حسن صاحب دربھنگی کی ہوئی جو ۲۳/ اگست سے شروع ہوکر ۲۴/ اگست کو ختم ہوئی۔ مولوی صاحب نے اپنی شہادت کے آغاز میں کہا کہ مرزائیوں کا ارتداد اور کفر ایسا واضح اور صریح ہے کہ اس میں کسی ایچ پیچ کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایسے دلائل سے ثابت ہے کہ مطلقاً اس پر جرح نہیں ہو سکتی خواہ مخواہ کوئی جرح میں وقت ضائع کرے تو اور بات ہے۔۹۲
آخر انہوں نے ایک طول طویل بیان دیا۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بیس وجوہ کفر پیش کئے۔ ۲۴/ اگست کو جبکہ مولوی سید مرتضیٰ حسن خان صاحب کے بیان پر جرح ہونی تھی عوام بہت خوش نظر آتے تھے۔ لیکن جب مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی نے )جنہیں ان دنوں مجاہد کے نام سے پکارا جاتا تھا( جرح کرکے ابتداء میں دوچار سوالات کئے تو مجلس کا رنگ ہی بدل گیا۔ اور تمام کمرہ عدالت میں سناٹا چھا گیا۔۹۳
تیسری شہادت مولوی سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری شیخ الحدیث دیو بند کی تھی۔ جو ۲۵/ اگست سے شروع ہو کر ۲۷/ اگست کو ختم ہوئی۔ مخالفین کو اپنے علامہ شیخ الحدیث پر بہت ناز تھا۔ اور ان کے مداحوں کا خیال تھا کہ شیخ الحدیث کی شہادت احمدیت کے لئے خطرناک حربہ ثابت ہو گی۔ ان کا شہرہ سن کر پہلے دن تمام سرکاری حکام اور معززین شہر حاضر عدالت ہوئے۔ تا شیخ الحدیث کا بیان اور اس پر جرح سنیں۔ عدالت کا کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شہادت ختم ہونے پر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے اپنی باطل شکن جرح شروع کی تو شیخ الحدیث کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ علمی کم مائیگی کایہ عالم ہوا کہ تورات کی مشہور آیت >خداوند سینا سے آیا اور فاران سے طلوع ہوا< کو انجیل کی آیت بتلایا۔ کئی بار پوچھنے پر فرمایا۔ کتاب الفصل میں ایسا ہی لکھا ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ علم نہیں۔ اسی طرح ایک مشہور حدیت جس میں حضور سید الانبیاء~صل۱~ نے اسلام کے پانچ ارکان بیان فرمائے ہیں )یعنی بنی الاسلام علی خمس( شیخ الحدیث زبانی نہ پڑھ سکے حدیث کی کتاب لانے کے لئے اپنے ایک شاگرد کو اشارہ کیا اور سرنیچا کئے فرمایا اس وقت یہ حدیث میرے ذہن سے اتر گئی ہے اور الفاظ حدیث اچھی طرح یاد نہیں رہے۔ آخر مولانا شمسؓ صاحب نے پوری حدیث زبانی پڑھ دی۔ جس کی صحت کا شیخ الحدیث نے کھلی عدالت میں اقرار کیا۔۹۴
غرضکہ مولانا شمس صاحبؓ کی جرح نے شیخ الحدیث کی علمی حقیقت کھول دی اور وہ بالاخر نہایت گھبراہٹ کے عالم میں کمرہ عدالت سے باہر تشریف لے گئے۔۹۵
جرح کے دوران کا ایک اہم واقعہ
ہم یہاں یہ ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جرح کے دوران ایک واقعہ یہ بھی پیش آیا۔ کہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے ایک حدیث سنانا چاہی۔ مگر مخالف علماء نے شور مچا دیا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے آنحضرت~صل۱~ کی توہین ہوتی ہے اس پر عدالت نے بھی حکم دیا کہ یہ حدیث چھوڑ دیں کوئی اور مثال پیش کریں اس پر مولانا شمس صاحبؓ نے کیا جواب دیا اور عدالت کی جانبداری کی وجہ سے کس طرح جرح ترک کرنا پڑی۔ اس کی تفصیل >الفضل< کے نامہ نگار کے الفاط میں درج ذیل ہے۔
>جج۔ آپ اس حدیث کو چھوڑ دیں کوئی اور مثال پیش کریں۔ شمس۔ کیوں چھوڑ دیا جائے۔ جس پاک شخصیت کے متعلق بحث ہے اسی کی مثال دی جائے گی اور شاہد کی شہادت کو توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مسلمات سے مثال پیش کی جائے۔ جج۔ اس سوال کا تعلق کیا ہے؟ شمس۔ جب ایک بات ایک شخص کے لئے وجہ تکفیر ٹھہرائی جاتی ہے تو وہی بات جب دوسرا کہے تو کیوں وجہ تکفیر نہ قرار دی جائے۔ اگر وہ واقعت¶ہ وجہ توہین ہے۔ مولویان دیو بند۔ نہیں۔ اس سے مسلمانوں کو طیش آتا ہے اور ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ جج۔ آپ عام پبلک کا خیال رکھیں اور ایسی بات نہ کریں جس سے لوگوں کو طیش آئے۔ شمس۔ میں اس حدیث کو اپنی تائید میں ضرور پیش کروں گا۔ طیش کی کوئی وجہ نہیں ہمیں روزانہ یہاں کافر مرتد کہا جاتا ہے اور مسجدوں کے دروازوں پر گندے اور گالیوں سے پر اشتہار لگائے جاتے ہیں اور ہمارے مقدس امام کو برا کہا جاتا ہے۔ کیا ہمیں طیش نہیں آتا؟ لیکن رسول اللہ~صل۱~ کی حدیث پیش کرنے پر ان مولویوں کو طیش آتا ہے یہ عدالت کا کمرہ ہے کوئی مسجد یا درسگاہ نہیں یہاں شاہد کی شہادت پر جرح ہو رہی ہے جسے طیش آتا ہے وہ یہاں سے چلا جائے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جرح کے سوال کو جو گواہ کی شہادت کو کمزور کرتا ہے چھوڑ دیا جائے۔ جج۔ میں اس سوال کو روکتا ہوں۔ شمس۔ جب آپ ہماری جرح کو اس طرح روکتے ہیں تو میں جرح بند کرتا ہوں )یہ کہہ کر مولانا شمسؓ صاحب کرسی پر بیٹھ گئے اور عدالت میں دو تین منٹ تک سناٹا چھا گیا( پھر مجسٹریٹ صاحب نے مولوی انور شاہ صاحب کے مختار سے کہا آپ جو سوالات توضیح کے لئے شاہد سے کرنا چاہتے ہیں کریں۔ اس نے سوال کیا اور انور شاہ صاحب نے جواب دینا شروع کیا۔ جج صاحب لکھنے لگے۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد جج صاحب نے شمس صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے مقدمہ کی پیروی چھوڑ دی ہے؟ شمسؓ۔ میں نے مقدمہ کی پیروی نہیں چھوڑی جرح چھوڑ دی ہے کیونکہ عدالت ہماری جرح نہیں سننا چاہتی۔ شاہد جو اس وقت کہہ رہا ہے میں اسے لکھ رہا ہوں<۔۹۶
۵/ نومبر ۱۹۳۲ء کو مقدمہ کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی۔ قبل ازیں احمدیوں سے عدالت میں انتہائی غیر منصفانہ اور غیر مساویانہ سلوک ہوتا تھا۔ اور سٹیج پر غیر احمدی رئوساء کو بھی جج کے ساتھ کرسی ملتی تھی۔ مگر جب اس جنبہ داری کا بہت چرچا ہوا تو عدالت میں سٹیج کے ساتھ اینٹوں کا ایک کٹہرا بنا دیا گیا۔
مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کا بیان اور اس پر جرح
۷/ نومبر ۱۹۳۲ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کا معرکتہ الاراء بیان شروع ہوا۔۹۷ جو کئی دنوں تک جاری رہا۔ یہ بیان ایک رسالہ کی صورت میں >مقدمہ بہاولپور< کے نام سے دسمبر ۱۹۳۲ء میں شائع کر دیا گیا تھا جو غیر احمدی علماء کے پاس پہنچ چکا تھا۔ چونکہ دیو بند کے مایہ ناز علماء کو گزشتہ جرح میں مولانا شمس صاحبؓ کے ہاتھوں عبرتناک شکست ہوئی تھی۔ اس لئے ان اصحاب نے اس کا انتقال لینے کے لئے دہلی` دیوبند` اور لکھنئو وغیرہ مقامات کا دورہ کیا اور مسلسل ساڑھے تین ماہ تک اس بیان پر جرح تیار کرتے رہے۔۹۸ مگر اس درجہ تیاری کے باوجود جب یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو مقدمہ کی کارروائی پھر شروع ہوئی۔۹۹ اور انہیں بیان پر جرح کا موقع ملا۔ تو خدا کے فضل و کرم سے کس طرح انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ اس کا اندازہ مولانا کے ان جوابات سے باسانی ہو سکتا ہے جو انہی دنوں الفضل میں شائع کر دیئے گئے تھے۔۱۰۰
مولوی عبداللطیف صاحب فاضل دیوبند کی چشمدید شہادت
مولوی عبداللطیف صاحب فاضل دیوبند کا بیان ہے کہ >۳۳۔۳۲ء کا واقعہ ہے جب کہ ریاست بہاولپور میں مقدمہ تنسیخ نکاح کے دوران احمدیوں اور دیو بندیوں کے مابین ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں بحث ہورہی تھی۔ میں بھی یہ بحث سننے کے لئے آیا تھا۔ چونکہ دیر ہوجانے کے باعث میں پیدل تیز تیز جارہا تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک ٹانگہ آپہنچا جس میں دیوبندی احباب جو میرے پرانے واقف کار اور بعض کلاس فیلو بھی تھے اس میں سوار تھے۔ مواد بحث کے لئے کچھ امدادی کتب لئے وہ بھی ادھر جارہے تھے چونکہ سلسلہ احمدیہ میں مجھے داخل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا ان دوستوں کو میرے احمدی ہونے کا علم نہیں تھا۔ مجھے پیدل جاتے دیکھ کر ٹانگہ کھڑا کیا۔ اور مجھ سے پوچھنے پر جب انہیں معلوم ہوا کہ میں بھی ادھر ہی جارہا ہوں مجھے سوار کرکے ٹانگہ دوڑا کر احاطہ عدالت تک پہنچے۔
جب ہم کمرہ عدالت تک پہنچے تو میں نے اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کا عجیب نظارہ دیکھا۔ کمرہ عدالت میں داخلہ کا دروازہ جو شرقی طرف تھا دیکھا کہ اس کے دائیں طرف احمدیوں کی نشست گاہ ہے اور بائیں طرف احمدیوں کے مقابل فریق ثانی کی۔ داخل ہوکر جب میں داہنی طرف جانے لگا تو دیوبندی دوست میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف لے جانے لگے اور میرے دوسری جانب اصرار کرنے پر کہنے لگے کہ وہ تو مرزائیوں کی جگہ ہے۔ تب میں نے انہیں کہا انا من اصحاب الیمین کہ میں اصحاب الیمین میں شامل ہوں۔ اتفاق دیکھئے نشست گاہ کی ہیئت کذائیہ کی تجویز خود انہیں غیر احمدیوں کے منصوبے سے ہوئی تھی۔ انہوں نے شائد اپنے نقطہ نگاہ سے احمدیوں کو بائیں طرف جگہ دی تھی اور دائیں جانب اپنے لئے منتخب کی تھی۔ کیونکہ عدالت کی جگہ جو مغربی جانب تھی اور جج جو قبلہ کو پیٹھ دے کر بیٹھتا تھا۔ اس کی داہنی طرف کو انہوں نے اپنے لئے باعث فخر اور نیک فال شمار کیا اور احمدیوں کو جج کی بائیں جانب جگہ دے کر گویا اپنے خیال میں ان کی تذلیل کی۔ مگر قدرت کی ستم ظرفی دیکھئے۔ بوجہ حق سے محجوت ہونے کے ان کے دماغ ایسے کند ہوگئے کہ یہ نہ سوچا کہ یہ ہیئت تو قبلہ کو پیٹھ دینے کی وجہ سے ہے حالانکہ مومن کو تو یہ حکم ہے۔
حیث ما کنتم فولوا وجوھکم شطرہ۔
عہد حاضر میں بھی جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اجتماع واتحاد کیلئے ایک امام اور اسلام کی نشاء|ۃ ثانیہ کے لئے ایک روحانی مرکز قرار دیا تو اس کی طرف بھی ان میں سے اکثر نے رخ نہ کیا۔ بلکہ پیٹھ ہی دی۔ جب میں اندر داخل ہوا تو دیکھا محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کی تقریر ہورہی تھی اور کمرہ میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سامعین ہمہ تن نغمہ سروش کے خمار میں مست تھے۔ جج بھی کرسی عدالت پر محویت کے علم میں قلم ہاتھ میں تھامے منہ کے قریب لئے محو سماع نظر آیا۔ میں چونکہ احمدیت کے لحاظ سے حدیت العہد تھا۔ )میری بیعت ۱۹۲۷ء کی ہے اس سے پہلے میں نے کسی احمدی کو اپنے مدمقابل کے سامنے تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ان کی تقریر کچھ ایسے رنگ میں تھی جس کا نقشہ قرآن مجید کی ان آیات میں کھینچا گیا ہے۔ جہاں مجاہدین اسلام کے کارناموں کے تذکرے بیان کئے ہیں اور جن میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور کی بھی پیشگوئی ہے۔
النازعات غرقا والناشطات نشطا والسابحات سبحا۔
میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج کا یہ جانباز سپاہی پورے زور وقوت کے ساتھ دلائل حقہ اور براہین قاطعہ کے پیہم داروں سے مولویوں کے عقائد باطلہ اور ان کے خود تراشیدہ مسائل کی دھجیاں اڑانے میں مستغرق ہے اور ایک ہوشیار ڈاکٹر کی طرح اپنے فن سرجری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان اغلوطات کا اپریشن ایسے عمدہ طریق سے کررہا ہے۔ اور تنقیحی امور کی تنقید کرتے ہوئے ان عقائد فاسدہ کے پرعفونت مواد خبیثہ کو ایک ایک کرکے ایسے طور پر نکال رہا ہے۔ جیسے لائق سول سرجن کامیاب اپریشن کی صورت میں مریض کے جسم سے تمام غلیظ اور زہریلے مواد نکال کر باہر پھینک دیتا ہے۔ اور کام ایسے پرسکون کیف اور نشاط طبع سے ہورہا ہے کہ گفتگو میں کسی قسم کی تلخی آنے نہیں پاتی۔ جیسا کہ عموماً مولویوں کی گفتگو میں ہوتی ہے۔ بلکہ نہایت ٹھنڈے دل سے حاضرین بھی نشاط وسرور سے سن رہے ہیں۔ یہ شہسوار میدان تقریر میں اپنے اشہب بیان کو ایسے طور پر چلا رہا تھا۔ گویا اسپ تیز رفتار ہوا میں تیر رہا ہے۔ >)مضامین لطیفہ< صفحہ ۱۸۱ تا ۱۸۴ مرتبہ مولانا عبداللطیف صاحب۔ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ(
مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی کا بیان
۱۳/ مارچ ۱۹۳۳ء کو مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی کا مدلل بیان شروع ہوا۔ بیان کے شروع ہوتے ہی فریق ثانی نے یہ سوال اٹھایا کہ مرزا صاحب کے ساتھ علیہ الصلوہ والسلام کے الفاظ کیوں استعمال کئے جاتے ہیں؟ جج صاحب نے بھی ایک حد تک اس کی تائید کی۔ مگر جب مولوی صاحب نے کہا کہ اگر جج کوئی ہندو ہو اور رنگیلا رسول کا لکھنے والا کسی مسلمان گواہ کے متعلق اصرار کرے کہ محمد~صل۱~ کے ساتھ مت کہو تو کیا جج قانوناً مجاز ہے کہ نہ لکھے یا اس گواہ کو روک دے۔ اگر ایسا نہیں تو ہمیں کیوں روکا جاتا ہے۔ اس نکتہ پر جج نے مجبوراً اپنی رائے بدل لی۔ مولوی صاحب کا اصل بیان ۲۴۰ صفحات پر مشتمل تھا۔ مگر عدالت کے سامنے صرف ۴۹ صفحات میں لکھوایا گیا۔۱۰۱ یہ مکمل بیان بعد کو >اظہار الحق<۱۰۲ کے نام سے شائع کر دیا گیا تھا۔ جسے مولانا بدوملہی صاحب نے نہایت محنت و کاوش سے لکھا تھا اور اس کی ترتیب میں حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہ جہانپوری نے گرانقدر تعاون فرمایا۔ اور راہنمائی کی اور ہر مرحلہ پر اپنے قیمتی اور مفید مشوروں سے نوازا۔
۳۱/ دسمبر ۱۹۳۳ء کو مقدمہ کی پیروی کے لئے مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ` مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل بہاولپور تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس مرکز میں آگئے۔ ۳/ مارچ ۱۹۳۴ء کو تاریخ پیشی تھی جس میں شمولیت کے لئے مولانا جلال الدین صاحب شمس~رضی۱~ اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب تشریف لے گئے۔۱۰۳ اور مولانا شمس صاحبؓ نے مارچ کے پہلے ہفتہ میں مدعا علیہ کی طرف سے بحث مکمل کر لی۔
مختاران مدعیہ کا رویہ
مختاران مدعیہ۱۰۴ کی طرف سے خلل اندازی کا سلسلہ ابتداء ہی سے جاری تھا۔ جو بڑی روک کا موجب بنا۔ قدم قدم پر طفلانہ ضدوں اور خفیف حرکتوں کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ جس سے بہت وقت ضائع ہوا۔ تاہم مولانا شمس صاحب ۶/ مارچ کو بفضل تعالیٰ خاتمہ بحث تک جاپہنچے۔
مختاران مدعیہ نے دوران بحث میں اشتعال دلانیے کا بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ اور یہ آخری بحث بھی اس سے خالی نہ رہی۔ جب مختاران مدعیہ کا اپنے اقوال سے انحراف حد سے گزر گیا۔ تو مولانا شمس صاحب نے عدالت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایسی صورت اختیار کی گئی ہے کہ گویا خدا کے وجود کا یقین ہی نہیں ہے تو مختار مدعیہ بگڑ گئے کہ ہماری ہتک کی گئی ہے۔ اور گویا ہوئے کہ ہمارا یہاں کھڑا ہونا بے کار ہے اور یہ کہہ کر آپ بنچ پر اپنے معاونین کے پاس جا بیٹھے۔ مگر پھر اٹھے اور اپنے ایک ہم خیال مولوی صاحب کو جو عدالت کے کٹہرے کے پاس کھڑے بحث سن رہے تھے پکڑ کر گھسیٹنے لگے کہ چلے آئو یہاں کھڑے ہونا فضول ہے اور ہٹا کر بنچ پر لے آئے۔ پھر باہر نکل گئے۔ آخر دس منٹ کے بعد پھر خود ہی واپس آگئے اور بنچ پر بیٹھ گئے۔ پھر بنچ سے اٹھے اور اپنی مقررہ جگہ پر کھڑے ہو گئے اور بدستور الجھنے اور تقریر بحث میں خلل ڈالنے لگے۔ دیکھنے والے حیران تھے کہ آپ گئے کیوں تھے اور گئے تھے تو پھر خود ہی واپس کیوں تشریف لے آئے؟<۱۰۵
۷/ مارچ ۱۹۳۴ء کو مولانا شمس صاحبؓ نے جوابی بحث شروع کی۔۱۰۶
۲۸/ اپریل سے پھر مقدمہ کی پیشی شروع ہوئی۔ تو مختار مدعیہ کی طرف سے جواب شروع کیا گیا جو غیر متعلق باتوں کا مجموعہ تھا جن سے مختار مدعیہ کا مقصود جواب کی بجائے صرف بحث کو بے جا طوالت دینا اور الجھانا تھا۔ عدالت ہر روز اسے اس امر کی طرف توجہ دلاتی تھی۔ کہ اس بے موقعہ اور بے وجہ تطویل کا کیا فائدہ؟ جواب مدعا علیہ کے رد میں جو کہنا ہو کہو۔۱۰۷
مختار مدعیہ اور مولانا جلال الدین صاحب شمس~رضی۱~
مختار مدعیہ کی اس بحث کی نوعیت کیا تھی اس کا اندازہ لگانے کے لئے حضرت مولٰنا جلال الدین صاحب شمسؓ کے قلم سے مقدمہ کے اس حصہ کی بعض باتیں بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں۔
بحث کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے بہاولپور سے لکھا۔ >روزانہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے مختار مدعیہ کی خیانت اور جہالت ٹپکتی ہے جن پر عدالت کو توجہ دلائی جاتی ہے۔ ان میں سے چند باتیں بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔ مختار مدعیہ۔ )عدالت کے توجہ دلانے پر کہ بے جا تکرار کو چھوڑو( مختار مدعا علیہ نے بھی اپنی بحث میں بے جا تکرار کی ہے۔ شمس۔ بالکل غلط ہے کوئی ایک ہی مثال پیش کرو۔ مختار مدعیہ۔ خاتم النبین کے معنی ایک جگہ تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے عنوان کے ماتحت بیان کئے ہیں اور پھر اسی تفصیل کے ساتھ مسئلہ ختم نبوت کے ماتحت بھی۔ شمس۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر؟ مختار مدعیہ۔ میں جھوٹا ہوں گا۔ شمس۔ نکالو بحث۔ )انہوں نے بحث نکالی وہاں میں نے صرف حوالہ دیا ہوا تھا کہ چونکہ خاتم النبین کے معنی پر مفل بحث گواہان مدعا علیہ اپنے بیان میں کرچکے ہیں اس لئے یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں( شمس۔ )مختار مدعیہ کو مخاطب کرکے( اب تو تمہارے جھوٹے ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مختار مدعیہ۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( دیکھو حضور والا! مجھے جھوٹا کہتے ہیں۔ شمس۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ اگر تکرار ثابت نہ ہو تو میں جھوٹا اور ظاہر ہے کہ تکرار ثابت نہیں ہوئی اس لئے یہ اقراری جھوٹے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں۔ عدالت نے مختار مدعیہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔
)۲( شق القمر کے خسوف ہونے پر میں نے ایک روایت >روح المعانی< سے لکھی تھی جس کے جواب میں مختار مدعیہ نے کہا کہ صاحب روح المعانی پر افترا کرکے اس کی طرف یہ عقیدہ منسوب کر دیا کہ وہ بھی شق القمر کو ایک قسم کا خسوف سمجھتے تھے۔ شمس۔ )عدالت کو توجہ دلا کر( یہ میرے جواب سے دکھائیں کہ میں نے کہاں مولف روح المعانی کی طرف یہ عقیدہ منسوب کیا ہے؟ مختار مدعیہ۔ ابھی دکھاتے ہیں۔ شمس۔ دکھائو )جب بحث نکالی تو اس میں مولف >روح المعانی< کی طرف یہ عقیدہ منسوب نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ لکھا تھا کہ >روح المعانی< میں ایک روایت موجود ہے جس میں وہی لکھا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں( مختار مدعیہ۔ دیکھو یہ عبارت بتاتی ہے کہ مولف >روح المعانی< کا یہ عقیدہ ہے۔ شمس۔ اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ ان کا عقیدہ ہے یہاں تو اس میں ایک روایت کے موجود ہونے کا ذکر ہے۔ عدالت۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مولف >روح المعانی< کا عقیدہ ہے۔
)۳( قیامت و حشر پر بحث کرتے ہوئے مختار مدعیہ نے ایک آیت وما ھم منھا بخارجین پڑھی۔ شمس۔ یہ آیت کس پارہ میں ہے؟ مختار مدعیہ۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( ان کے لئے جواب کا موقعہ نہیں یہ کیوں ایسے طور پر دریافت کرتے ہیں؟ شمس۔ کیا تمہارا یہ منشاء ہے کہ قرآن مجید کی طرف بھی اپنی طرف سے آیات منسوب کرتے چلے جائو۔ ۔۔۔۔۔۔ مختار مدعیہ کے ساتھی بولے کہ خارجین والی آیت قرآن میں ہے۔ شمس۔ وما ھم منھا بمخرجین ہے یا وما ھم بخارجین من النار ہے >وما ھم منھا بخارجین< تو کہیں نہیں۔
)۴( وحی کی بحث کرتے ہوئے مختار مدعیہ نے کہا کہ آیت رفیع الدرجات ذوالعرش یلقی الروح من امرہ میں مذکورہ صفات خداوندی انتخاب کے ساتھ متعلق ہے نہ یہ کہ وحی ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کفار کا اعتراض بھی نقل کیا ہے۔nsk] g[ta ا انزل علیہ الذکر من بیننا۔ شمس۔ یہ آیت کس سورۃ میں آئی ہے حوالہ دیں؟ مختار مدعیہ۔ )ادھر ادھر جھانک کر( یہاں حافظ صاحب بیٹھے تھے۔
حافظ صاحب۔ )سوچنے کے بعد( سورۃ قمر کی آیت ہے۔ شمس۔ کیا یہ آنحضرت~صل۱~ کے حق میں ہے؟ مختار مدعیہ۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( یہ ان کے جواب دینے کا موقعہ نہیں۔
شمس۔ جواب نہ دینے کے موقعہ کے یہ معنی نہیں کہ ہم توجہ بھی نہ دلائیں۔ اور تم جو چاہو قرآن مجید کی آیات کو محرف و مبدل کرکے پیش کرتے جائو۔ دیکھو یہ آیت سورۃ قمر میں ہے حضرت صالحؑ کی قوم ثمود کا قول ہے اور تم کفار مکہ کا بتا رہے ہو۔
)۵( خاتم النبین کے معانی بتانے کے لئے مختار مدعیہ نے ایک حوالہ حضرت ملا علی قاری کا پیش کیا تھا اس میں لا نبی بعدی کے معنی صاف طور پر یہ لکھے ہیں کہ ای لایحدث بعدہ نبی کہ آپﷺ~ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہو گا۔ نہ یہ کہ پرانا بھی نہیں آسکتا۔ شمس۔ )عدالت سے مخاطب ہو کر( مختار مدعیہ نے اس میں بھی صریح خیانت سے کام لیا ہے کیا اس کے ساتھ ہی یہ نہیں لکھا کہ >ینسخ شرعہ< کے ایسا نبی نہ ہو گا جو آپﷺ~ کی شریعت کو منسوخ کرے اس کو چھوڑ دیا اور پہلا حصہ لے لیا۔ کس قدر خیانت ہے۔ مختار مدعیہ۔ یہ ان کے جواب دینے کا وقت نہیں ہے۔ شمس۔ لیکن میں عدالت کو آپ کی خیانت پر توجہ دلا سکتا ہوں<۔۱۰۸
عدالت کے اختیار سماعت کا سوال
دوران سماعت مقدمہ مدعا علیہ نے مدعیہ اور اس کے والد مولوی الٰہی بخش صاحب کے خلاف ۲۳/ اگست ۱۹۳۲ء کو عدالت سب جج صاحب درجہ دوم ملتان میں دعویٰ اعادہ حقوق زوجین دائر کرکے عدالت موصوف سے ان ہر دو کے خلاف ۱۷/ جون ۱۹۳۴ء کو ڈگری یکطرفہ حاصل کر لی اور عدالت بہاولپور کے سامنے یہ اہم قانونی عذر پیش کیا کہ عدالت کو اس مقدمہ کے بارے میں اختیار سماعت حاصل نہیں کیونکہ بناء دعویٰ حدود ریاست بہاولپور میں پیدا نہیں ہوئی اور نہ مدعا علیہ کی رہائش عارضی یا مستقل ریاست بہاولپور کے اندر ہوئی ہے۔ دوسرا عدالت برطانیہ سے مدعا علیہ کے حق میں ڈگری استقرار حق زوجیت برخلاف مدعیہ اور اس کے والد الٰہی بخش کے صادر ہو چکی ہے اس لئے بروئے دفعہ ۱۱ ضابطہ دیوانی عدالت ہذا کو اس کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ دفعات ۱۳۔ ۱۴ ضابطہ دیوانی کے بموجب ڈگری قطعی ہو چکی ہے۔ اور اس کے صادر ہونے کے بعد مقدمہ زیر سماعت ڈسٹرکٹ عدالت بہاولپور میں نہیں چل سکتا۔
اختیار سماعت کے اس اہم سوال پر ۸/ نومبر ۱۹۳۳ء کو عدالت نے تنقیحات ایزاد کیں۔ ۱۲/ جنوری ۱۹۳۴ء کو مدعا علیہ نے درخواست دی کہ یہ امر بھی زیر تنقیح لایا جائے۔ کہ کیا مدعا علیہ کی وطنیت ریاست بہاولپور میں واقع ہے مگر دسٹرکٹ عدالت نے اسے محض اس بناء پر مسترد کر دیا کہ مدعا علیہ کی طرف سے اس قسم کا عذر پہلے نہیں اٹھایا گیا۔۱۰۹
مدعا علیہ نے یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو یہ تنقیح قائم کی کہ مدعیہ بوقت ارجاع نالش نابالغ تھی۔ جو ۲۹/ مارچ ۱۹۳۳ء کو خارج کر دی گئی۔۱۱۰
مدعا علیہ کی وفات کے بعد عدالت کا فیصلہ
مقدمہ کی اس لمبی کارروائی کے خاتمہ کے بعد جبکہ مقدمہ ابھی زیر غور تھا مظلوم احمدی عبدالرزاق صاحب جو ۱۹۲۶ء سے اس مقدمہ میں الجھائے گئے تھے وفات پا گئے۔ جس پر عدالت میں درخواست دی گئی کہ مدعا علیہ کی موت واقع ہونے کے سبب اب کارروائی ختم کر دی جائے لیکن عدالت چونکہ ریاستی حکام اور اپنے مفتی صاحب کے پوری طرح زیر اثر تھی اس لئے اس نے یہ درخواست بھی رد کر دی اور فاضل جج نے ۷/ فروری ۱۹۳۵ء مطابق ۳/ ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ کو ایک طویل فیصلہ سنایا جس میں وہی کچھ بیان کیا جس کی اس عدالت کے عملی رویہ سے توقع تھی۔ یعنی لکھا۔
>مدعیہ کی طرف سے ثابت کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب کاذب مدعی نبوت ہیں اس لئے مدعا علیہ بھی مرزا صاحب کو نبی تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ لہذا ابتدائی تنقیحات جو ۴/ نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمد پور شرقیہ سے وضع کی گئی تھی بحق مدعیہ ثابت قرار دی جاکر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہو چکا ہے۔ لہذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہو چکاہے ۔۔۔۔۔۔ لہذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔ مدعیہ خرچہ مقدمہ ازاں مدعا علیہ لینے کی حقدار ہو گی<۔۱۱۱
>شرع شریف< کی روشنی میں عدالتی فیصلہ اور >ختم نبوت<
فاضل جج نے اپنے طویل فیصلہ میں اپنے ہم مشرب علماء کی تائید و تصدیق میں >شرع شریف< کی روشنی میں جو شرعی محاکمہ فرمایا اس کی بنیاد محض ختم نبوت کے ان معنیٰ پر رکھی جو عدالت میں پیش ہونے والے غیر احمدی علماء نے بیان کئے تھے اور جن کی حقیقت احمدی علماء نے اپنے واضح بیانات میں قرآن و حدیث اور اقوال آئمہ سے روز روشن کی طرح واضح کر دی تھی۔ مگر فاضل جج نے انہیں علماء کے بیانات کو جن کو مسلمانوں کے بعض فرقے دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے تھے صحیح قرار دیا۔
چنانچہ فاضل جج کے بیان کے مطابق >مدعا علیہ کی طرف سے لغت اور عربی زبان کے محاورات سے یہ دکھلایا گیا۔ کہ لفظ خاتم جب تا کی زبر سے پڑھا جائے تو انگوٹھی یا مہر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اگر زیر سے پڑھا جائے تو اس کے معنی ختم کرنے والا دوسرا مہر لگانے والا ہوتے ہیں اور >خاتم< کا لفظ کمال کے معنوں میں بکثرت استعمال ہوتا ہے اور کہ خاتم کے اصل معنی آخر کے نہیں ہیں اگر آخر کے معنی بھی لئے جائیں تو پھر لازم معنی کہلائیں گے نہ اصل معنے اور جب اصل معنے لئے جا سکتے ہیں تو لازم معنی کیوں لئے جائیں خاتم اگر کہیں آخر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے تو لازم معنے لے کر کیا جاتا ہے اور جبکہ قرآن مجید میں کوئی ایسا صریح قرینہ موجود نہیں جو لازم معنے لینے پر ہی دلالت کرے تو اس کے باقی سب معنے چھوڑ کر صرف آخر کے معنے میں لینا کسی طرح صحیح نہیں<۔۱۱۲
اس پر فاضل جج نے یہ فیصلہ صادر فرمایا۔ >لیکن مقدمہ ہذا میں سوال زیر بحث عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے الفاظ کے معنے یا مراد سے تعلق نہیں رکھتا دیکھنا یہ ہے کہ عقیدہ کس معنیٰ پر قائم ہوا۔ جب مدعا علیہ کے نزدیک خاتم کے معنے )نقل مطابق اصل( آخر کے ہو سکتے ہیں اور عقیدہ بھی تیرہ سو سال تک اس پر قائم رہا ہے تو اب ان الفاظ پر بحث کرنا کہ ان کے معنی آخر کے نہیں بلکہ مہر کے ہیں سوائے ایک علمی دلچسپی کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا<۔۱۱۳
اب خاتم کے معنی مہر کو محض ایک >علمی دلچسپی< قرار دینے والے فاضل جج کے فیصلہ کا یہ حصہ ملاحظہ ہو۔
>اس میں شک نہیں کہ خاتم کے معنے مہر دیگر علماء نے بھی کئے ہیں اور حال ہی میں قرآن مجید کا جو ترجمہ مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کا شائع ہوا ہے اس میں بھی خاتم کے معنے مہر درج ہے اور خاتم النبین کے معنیٰ انہوں نے یہ لکھے ہیں کہ مہر ہیں تمام نبیوں پر اور میری رائے میں سیاق و سباق عبارت سے یہی معنیٰ درست معلوم ہوتے ہیں<۔۱۱۴
فاضل جج نے مولوی محمود الحسن صاحب کے جس ترجمہ قرآن کی تائید کی ہے اس کے حاشیہ میں >نبیوںں کی مہر< کا مفہوم یہ بتایا گیا تھا کہ۔
>جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی روح محمدی~صل۱~ پر ختم ہوتا ہے بدیں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبین ہیں۔ اور جن کو نبوت ملی ہے آپﷺ~ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے<۔۱۱۵
بنابریں فاضل جج کے لئے یہ نکتہ سمجھنا چنداں مشکل نہ تھا کہ جب آنحضرت~صل۱~ ہی کی مہر لگ کر سب نبیوں کو نبوت ملی ہے تو وہ شخص کیسے مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ >اللہ جل شانہ` نے آنحضرت~صل۱~ کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپﷺ~ کو افاضئہ کمال کے لئے مہروی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپﷺ~ کا نام خاتم النبین ٹھہرا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے<۔۱۱۶
فاضل جج اور >تعریف نبوت<
پھر ختم نبوت کی وضاحت کے لئے تعریف نبوت کا سمجھنا ضروری تھا فاضل جج نے اپنے محاکمہ میں تسلیم کیا کہ >موجودہ زمانہ میں بہت سے مسلمان نبی کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہیں<۔۱۱۷ نیز لکھا کہ >مدعیہ کی طرف سے بھی نبی کی کوئی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ نبوت ایک عہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے برگزیدہ بندوں کو عطا کیا جاتا رہا ہے اور نبی اور رسول میں یہ فرق بیان کیا گیا ہے کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور نبی کے لئے لازمی نہیں کہ وہ رسول بھی ہو فریق ثانی نے بحوالہ نبراس صفحہ ۸۹ بیان کیا ہے کہ رسول ایک انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ احکام شریعت کی تبلیغ کے لئے بھیجتا ہے بخلاف نبی کے کہ وہ عام ہے کتاب لائے یا نہ لائے رسول کے لئے کتاب کا لانا شرط ہے اسی طرح رسول کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ رسول وہ ہوتا ہے کہ جو صاحب کتاب ہو یا شریعت سابقہ کے بعض احکام کو منسوخ کرے<۔۱۱۸
ان تعریفوں کو تشنہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے اپنے طور پر مطالعہ شروع کیا تو انہوں نے ایک اور تعریف کا علم ہوا۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔
>یہ تعریفیں چونکہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے کافی نہ تھیں اس لئے میں اس جستجو میں رہا کہ نبی یا رسول کی کوئی ایسی تعریف مل جائے جو تصریحات قرآن کی رو سے تمام لوازم نبوت پر حاوی ہو اس سلسلہ میں مجھے مولانا محمود علی صاحب پروفیسر رندھیر کالج کی کتاب >دین و آئین< دیکھنے کا موقعہ ملا انہوں نے معترضین کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نبوت کی حقیقت یہ بیان کی کہ جس شخص کے دل میں کوئی نیک تجویز بغیر ظاہری وسائل اور نور کے پیدا ہو ایسا شخص پیغمبر کہلاتا ہے اور اس کے خیالات کو وحی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ تعریف بھی مجھے دلچسپ معلوم نہ ہوئی<۔۱۱۹
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدعیہ کی طرف سے پیش ہونے والے >مستند مشاہیر علماء ہند< اور مولانا محمود علی جیسے روشن خیال پروفیسر جب تسلی نہ کرا سکے تو فاضل جج نے آخریہ بنیادی مسئلہ >شرع شریف< کے مطابق کس طرح حل فرمایا؟ سو جواب یہ ہے کہ صرف اور صرف ادارہ طلوع اسلام کے علمبردار چوہدری غلام احمد صاحب پرویز کی تحریر سے جن کو آج برصغیر کے بہت سے مسلم علماء سرے سے مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ چنانچہ فاضل جج کا بیان ہے۔
>آخر کار ایک رسالہ میں ایک مضمون بعنوان میکانیکی اسلام از جناب چوہدری غلام احمد صاحب پرویز میری نظر سے گزرا۔ اس میں انہوں نے مذہب اسلام کے متعلق آج کل کے روشن ضمیر طبقہ کے خیالات کی ترجمانی کی ہے اور پھر خود ہی اس کے حقائق بیان کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں نبوت کی جو حقیقت انہوں نے بیان کی ہے میری رائے میں اس سے بہتر اور کوئی بیان نہیں کی جا سکتی۔ اور میرے خیال میں فریقین میں سے کسی کو اس پر انکار بھی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے میں ان کے الفاظ میں ہی اس حقیقت کو بیان کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج کل کے معقولیت پسندوں کی جماعت کے نزدیک رسول کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر اور ایک مصلح قوم ہوتا ہے جو اپنی قوم کی نکبت اور زبوں حالی سے متاثر ہو کر انہیں فلاح و بہبود کی طرف بلاتا ہے اور تھوڑے ہی دنوں میںں انکے اندر انضباط و ایثار کی روح پھونک کر زمین کے بہترین خطوں کا ان کو مالک بنا دیتا ہیں۔ الخ<۱۲۰
یہ تعریف کہاں تک لوازم نبوت پر حاوی ہے اس کی نسبت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مقصود صرف اس قدر بتانا ہے کہ دربار معلیٰ کا مقرر کردہ جج جو >شرع شریف< کی روشنی میں نبوت کا انقطاع یا تسلسل کا >فیصلہ< کرنے کے لئے قلم اٹھاتا ہے اس کا ذہن خود نبوت کی تعریف کے بارہ میں متشکک اور متذبذب ہے اور اپنی نگاہ میں جس تعریف کو >بہترین< قرار دیتا ہے نہ صرف اس کا تصریحات قرآنی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ایک طرف اس سے تمام انبیاء سیاسی لیڈروں کی صف میں کھڑے کر دیئے گئے ہیں تو دوسری طرف اس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام` حضرت یحییٰ علیہ السلام اور دوسرے بہت سے جلیل القدر پیغمبر جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنی قوم کو زمین کے بہترین خطوں کا مالک نہیں بنایا۔ اور ہمیشہ غیر ملکی حکومت کی سیاسی اعانت کرتے رہے دائرہ انبیاء سے خارج قرار پاتے ہیں۔
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کی شہادت اور اس کی حکمت
افسوس ہے کہ یہ فیصلہ ایک ایسی سرزمین میں کیا گیا جہاں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف جیسے بزرگ کامل گزرے ہیں
جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت صاف لفظوں میں فرمایا تھا کہ۔
>فرمود ندکہ ہمہ اوقات مرزا صاحب بعبادت خدا عزوجل میگذر ندیا نماز میخواند یا تلاوت قرآن میکند یا دیگر شغل اشغال مے نماید۔ و برحمایت دین اسلام چناں کمر ہمت بستہ کہ ملکہ زمان لنڈن رانیز دعوت دین محمدیﷺ~ کردہ است و بادشاہ روس و فرانس وغیر ہمارا ہم دعوت اسلام نمودہ است و ہمہ سعی و کوشش اودرایں است کہ عقیدہ تثلیث و صلیب را کہ سراسر کفر است بگذارند۔ و تبوحید خداوند تعالیٰ بگروند و علمائے وقت رابہ بینید کہ دیگر گروہ مذاہب باطلہ را گزاشتہ صرف درپے ایں چنیں نیک مردکہ اہلسنت وجماعت است و برصراط مستقم است دراہ ہدایت مے نماید افتادہ اندو بروئے حکم تکفیر مے سازند۔ کلام عربی اوبہ بینید کہ از طاقت بشریہ خارج است و تمام کلام او از معارف و حقائق و ہدایت است و از عقائد اہلسنت و جماعت و ضروریات دین ہرگز منکر نیست<۔۱۲۱
ترجمہ: حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمتہ نے فرمایا کہ )حضرت( مرزا صاحب تمام اوقات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے ہیں یا نماز پڑھتے ہیں یا تلاوت قرآن شریف کیا کرتے ہیں یا اور شغل و اشغال کیا کرتے ہیں اور حمایت دین اسلام پر ایسے کمربستہ ہیں کہ ملکہ زمان لنڈن کو بھی دین محمدیﷺ~ کی دعوت دی ہے اور بادشاہان روس و فرانس وغیرہم کو بھی دعوت اسلام دی ہے اور ان کی تمام سعی اور کوشش اس میں ہے کہ لوگ عقیدہ تثلیث و صلیب چھوڑ کر جو کفر ہے خدا تعالیٰ کی توحید کو مان لیں اور علماء وقت کو دیکھو کہ تمام مذاہب باطلہ کے گروہ کو چھوڑ کر صرف ایسے شخص کے درپے ہو گئے ہیں جو اہل سنت و جماعت میں سے ہے اور صراط مستقیم پر قائم ہے اور راہ ہدایت دکھلاتا ہے اور اس پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں اس کا عربی کلام دیکھو کہ طاقت بشری سے بالا ہے اور اس کا تمام کلام معارف و حقائق و ہدایت سے پر ہے اور وہ عقائد اہلسنت و جماعت و ضروریات دین سے ہرگز منکر نہیں ہے۔
یہ پاک شہادت اس محترم انسان کی ہے جس کی بزرگی اور تقدس کا ایک جہان قائل و معترف ہے اور ریاست بہاولپور کا ایک بڑا حصہ اس کا معتقد و مرید ہے اور وہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بہاولپور کے پیر تھے۔ ان کی شہادت حقہ کے محفوظ رہنے میں )جیسا کہ مولانا شمس صاحبؓ نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا( اللہ تعالیٰ کی یہی حکمت تھی کہ ایک دن اس ریاست کی عدالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کفر و اسلام کا مسئلہ پیش ہونا تھا اس لئے پہلے سے خدا تعالیٰ نے اپنے فرستادہ کی تائید کے لئے یہ سامان پیدا کر دیا کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بہاولپور کے مقدس پیر کی شہادت جو ہزاروں شہادتوں سے بڑھ کر ہے ان کے سچے مسلمان ہونے پر پیش کی جا سکے۔ اور گواہوں نے جو وجہ تکفیر پیش کرنی تھی کہ وہ ضروریات دین کے منکر ہیں وہی الفاظ خدا تعالیٰ نے حضرت خواجہ صاحب کے منہ سے نکلوائے کہ وہ ضروریات دین کے ہرگز منکر نہیں ہیں۔
فاضل جج کی >شان تحقیق<
فاضل جج کی >شان تحقیق< اور >قوت فیصلہ< کی یہ حیرت انگیز مثال ہے کہ انہوں نے مدعیہ کی طرف سے حضرت خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ جیسی بلند پایہ شخصیت کے اس فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے اس سے انحراف کے لئے عذر یہ تراشا کہ >مرزا صاحب کی ایک تحریر سے جو آپ کی کتاب >انجام آتھم< صفحہ ۶۹ پر درج ہے پایا جاتا ہے کہ حضرت خواجہ صاحب بھی بعد میں مرزا صاحب کے مفکر اور مکذب ہو گئے تھے<۔۱۲۲ حالانکہ اسی >انجام آتھم< کے آخر میں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں کا مندرجہ ذیل خط بھی موجود ہے جو دعوت مباہلہ کے جواب میں انہوں نے نہایت محبت و عقیدت سے لکھا۔
من فقیر باب اللہ غلام فرید سجادہ نشین الی جناب میرزا غلام احمد صاحب قادیانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب الارباب۔ والصلوہ علی رسولہ الشفیع بیوم الحساب و علی الہ والاصحاب والسلام علیکم و علی من اجتھد و اصاب۔ اما بعد قد ارسلت الی الکتاب وبہ دعوت الی المباھلہ و طالبت باالجواب وانی ان کنت عدیم الفرصہ ولکن رایت جزء|ہ من حسن الخطاب۔ وسوق العتاب۔ اعلم یا اعزا الاحباب۔ انی من بدو حالک واقف علی مقام تعظیمک لنیل الثواب وما جرت علی لسانی کلمہ فی حقک الا با التبحیل و رعایہ الاداب۔ والان اطلع لک بانی معترف بصلاح حالک بلا ارتیاب۔ وموقن بانک من عباد اللہ الصالحین و فے سعیک المشکور مثاب۔ واوتیت الفضل من الملک الوھاب ولک ان تسئل من اللہ تعالی خیر عاقبتی وادعولکم حسن ماب۔ ولولا خوف الاطناب لا زددت فی الخطاب۔ والسلام علی من سلک سبیل الصواب۔ فقط ۲۷/ رجب ۱۳۱۴ھ۱۲۳ من مقام چاچڑاں<۔ )مہر(
ترجمہ: اس کا یہ ہے۔ تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو رب الارباب ہے اور درود اس رسول مقبولﷺ~ پر جو یوم الحساب کا شفیع ہے اور نیز اس کی آل اور اصحاب پر اور تم پر سلام اور ہر یک پر جو راہ صواب میں کوشش کرنے والا ہو اس کے بعد واضح ہو کر مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے اور اگرچہ میں عدیم الفرصت تھا۔ تاہم میں نے اس کتاب کی ایک جز کو جو حسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے۔ سوائے ہر یک حبیب سے عزیز تر! تجھے معلوم ہو کہ میں ابتداء سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو۔ اور کبھی میری زبان پر بجز تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا۔ اور اب میں مطلع کرتا ہوں کہ میں بلاشبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عند اللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا۔ اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے میرے لئے عاقبت بالخبر کی دعا کر اور میں آپ کے لئے انجام خیر و خوبی کی دعا کرتا ہوں۔ اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں زیادہ لکھتا۔ والسلام علیٰ من سلک سبیل الصواب۔ من مقام چاچڑاں۔۱۲۴
اس خط کا ذکر بھی مولانا شمس صاحبؓ کے بیان میں وضاحت سے کردیا گیا تھا بلکہ یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بہاولپور کی پھوپھی صاحبہ خان عبدالغفور خاں صاحب آف ٹوپی سے شادی شدہ ہیں وہ خود غیر احمدی ہیں مگر ان کے خاوند احمدی ہیں۔
مقدمہ بہاولپور کے حالات و واقعات پر روشنی ڈالنے کے بعد بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس مقدمہ میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور مولانا غلام احمد صاحب کے بیانات کی تیاری میں حضرت حافط سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے از حد محنت و کاوش فرمائی اور معاونت کا حق ادا کر دیا۔ اس سلسلہ میں آپ بہاولپور بھی تشریف لے گئے )جیسا کہ ذکر آچکا ہے( اسی طرح مولانا شیخ مبارک احمد صاحب` مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ اور چوہدری محمد شریف صاحب فاضل جو جامعہ احمدیہ سے نئے نئے فارع التحصیل ہوئے تھے لگاتار ایک ماہ تک بطور معاون مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کے ساتھ مصروف عمل رہے۔
جہاں تک قانونی امداد و راہ نمائی کا تعلق ہے چوہدری اسداللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء کی خدمات ہمیشہ یاد گار رہیں گی۔۱۲۵ چوہدری صاحب موصوف حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خصوصی ہدایت پر مقدمہ کی کارروائی میں آخر تک شامل رہے اور اپنے بیش قیمت مشوروں سے بہت مدد پہنچائی۔
صوفی عبدالغفور صاحب پراچہ ان دنوں ریاست بہاولپور کے پبلسٹی آفیسر تھے اور بہاولپور میں ہی مقیم تھے سلسلہ کے تمام بزرگ اور مبلغین جو مرکز سے مقدمات کی پیروی کے لئے وہاں تشریف لے جاتے تھے ہمیشہ انہیں کے ہاں قیام پذیر ہوتے اس طرح صوفی صاحب تین چار سال تک مسلسل نہایت خندہ پیشانی سے مہمان نوازی کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں انتشار اورحضرت خلیفتہ المسیحؓ کی اپیل
ایک ایسے نازک وقت میں جبکہ سیاسی حقوق اور مفاد کے لحاظ سے ہندوستان کے مسلمان امید و بیم کی کشمکش میں مبتلا تھے وسط ۱۹۳۲ء میں
یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا کہ مشہور مسلمان لیڈر مولانا شفیع صاحب دائودی نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کی سیکرٹری شپ سے کسی بناء پر استعفیٰ دے دیا اور مسلمانان ہند کی اس واحد سیاسی نمائندہ جماعت میں زبردست اختلاف رونما ہو گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس نازک موقعہ پر مولانا محمد شفیع صاحب دائودی کو تو یہ مشورہ دیا کہ وہ استعفیٰ واپس لے لیں۔ اور مسلمان لیڈروں سے اپیل کی کہ وہ کوئی نئی پارٹی بنانے سے احتراز کریں۔
حضورؓ کے اس بیان کا مکمل متن حسب ذیل ہے۔
>مسلم کیمپ میں پھوٹ پڑ جانا نہایت درجہ افسوسناک ہے اور مسلم مفاد کے لئے بے حد ضرر رساں ہے میری رائے میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا مجوزہ جلسہ جو ۳/ جولائی کو منقعد ہونے والا تھا اس کو ملتوی کر دینے کی ضرورت نہ تھی۔ بہتر ہوتا کہ جلسہ کر لیا جاتا۔ اور اس میں طے شدہ مسلم پروگرام کے متعلق التواء کا فیصلہ کیا جاتا۔ اگر اکثریت اس کے حق میں ہوتی تو جلسہ ملتوی کر دیا جاتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ صدر نے التوا کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ آپ نے صرف اس خواہش کا اظہار کیا لہذا کوئی وجہ نہ تھی کہ مولانا شفیع دائودی استعفیٰ دے دیتے۔ مسلمانوں کے لئے بے حد نازک موقعہ ہے لہذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ بجائے اس کہ کوئی نئی پارٹی بنا کر مسلم مفاد کو نقصان پہنچایا جائے۔ متحد ہو کر کام کریں۔ میں مولانا محمد شفیع دائودی سے مخلصانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لے لیں۔ اور اگر وہ بورڈ کا جلسہ منعقد کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے دلائل کانفرنس میں پیش کریں۔ اس صورت میں انہیں اختیار دیا جائے لیکن اس سے باہر کام کرنا درست نہیں۔ میرا خیال ہے کہ مسلمان اپنے جمود کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اگر ہمارے مسلم نوجوان دیکھیں گے کہ ہمارے لیڈر معمولی معمولی بات پر آپس میں جھگڑ رہے ہیں تو وہ باغی ہو جائیں گے اور ناتجربہ کار نوجوان کانگریس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے اور مسلم مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور مسلم رہنما بندوں اور خدا کے سامنے ذمہ دار ہوں گے۔ نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اور قبل اس کے کہ معاملہ بڑھے اس کا انسداد لازمی ہے<۔۱۲۶
اس جگہ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس دور میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے علاوہ آل انڈیا مسلم لیگ` آل انڈیا مسلم یوتھ لیگ اور دوسری تمام مسلمہ سیاسی انجمنوں سے جماعت احمدیہ کے روابط تھے اور ان کے اجلاس میں جماعت کا کوئی نہ کوئی مرکزی نمائندہ ضرور شامل ہوتا تھا۔۱۲۷
آل سکھ پارٹیز کانفرنس کی قرارداد اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اہم بیان]0 [rtf
ان دنوں ہندوئوں نے پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے لے لئے سکھوں کو اپنا آلہ کار بنا رکھا تھا۔ اور ہندو پریس سکھوں
کی تعریفیں کرکے ان کو مسلمانوں کے خلاف فتنہ انگیزی کے لئے مسلسل اکسا رہا تھا اسی کا اثر تھا کہ ۲۴/ جولائی ۱۹۳۲ء کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھ پر سکھوں کی ایک کانفرنس آئندہ دستور اساسی میں سکھوں کی پوزیشن واضح کرنے کے لئے منعقد ہوئی جس میں یہ ریزولیوشن پاس کیا گیا کہ پنجاب میں مسلمانوں کو فرقہ وارانہ آئینی اکثریت نہ دی جائے اور یہ کہ پنجاب کونسل میں سکھوں کو ۳۰ فیصدی نشستیں دی جائیں۔ اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ کہا گیا کہ سکھ اس فیصلے کے خلاف کوئی بات منظور نہ کریں گے نیز ایک کمیٹی بنائی گئی جو سکھوں کے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے خلاف اقدام کرے۔۱۲۸
اس نازک موقعہ جب کہ سکھوں کی اس قرارداد نے ملکی فضا بہت مکدر کر دی تھی اور مسلمانوں کے قومی مطالبات کو نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مسلمانوں کو سکھوں کے چیلنج کا جواب دینے کے لئے ایک پنجاب مسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کی۔ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا۔
>میں آل پارٹیز سکھ کانفرنس کی قرارداد کے لب و لہجہ پر سخت حیران ہوں۔ میں نے سکھوں اور مسلمانوں کے اتحاد کی ہمیشہ تلقین کی ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ بحالات موجودہ کوئی مسلمان بھی سکھوں کے چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کرے گا۔ میں سکھ راہنمائوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی پوزیشن پر اچھی طرح سے غور کر لیں۔ میرا خیال ہے کہ مرکز میں مسلمانوں کی پوزیشن پنجاب میں سکھوں اور ہندوئوں کے مقابلہ میں بدرجہا بدتر ہے۔ انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دھمکیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس قسم کی دھمکیاں ہر پارٹی کی طرف سے باسانی دی جا سکتی ہیں۔
میں اس موقع پر یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ایک پنجاب مسلم کانفرنس منعقد کی جائے جس میں تمام اضلاع اور تمام طبقات کے سیاسی و مذہبی نمائندے شامل ہوں اور پھر موجودہ حالات پر غور کرنے کے بعد اپنے آخری اور قطعی فیصلے کو حکومت تک پہنچا دیا جائے تاکہ اسلامی مطالبات ہماری خاموشی کے باعث حکومت کی تغافل کی نذر نہ ہو جائیں۔ دنیا کو یہ معلوم ہو جانا چاہئے کہ مسلمان کسی طبقہ کی دھمکی سے مرعوب ہونے کے لئے ہرگز ہرگز تیار نہیں<۔۱۲۹
tav.7.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل سوم(
ہندوستان کا سیاسی فتنہ اور حضرت امام جماعت احمدیہ کی راہنمائی
آل انڈیا نیشنل کانگریس نے )مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچانے اور انگریزی حکومت کے بعد تنہا اقتدار سنبھالنے کی غرض سے( ۱۹۳۰ء میں
body2] ga[tسول نافرمانی کا جو پروگرام جاری کر رکھا تھا۔۱۳۰ اس نے ۱۹۳۲ء میں خطرناک صورت اختیار کر لی اور شورش` بدامنی` انارکزم اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔ جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے قیام امن کے لئے متواتر خطبے دیئے اور جماعت احمدیہ کو مسلمانان ہند کے قومی حقوق کی حفاظت و حصول میں ہر ممکن قربانی پیش کرنے کی ہدایت فرمائی چنانچہ حضورؓ نے ارشاد فرمایا۔
>اس وقت یہاں بہت سے فتنے ہیں ایک تو مسلمانوں کی حق تلفی کا سوال ہے اور دوسرے حکومت کے خلاف شورش۔ اس حکومت کو خواہ غاصبانہ ظالمانہ یا غیر ملکی کہہ لو۔ لیکن بہرحال ملک کا انتظام اس کے ہاتھ میں ہے اسے ایسے طور پر تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے ملک کے اخلاق بگڑ جائیں اور عام بدامنی شروع ہو جائے اور یہ ایسی باتیں ہیں۔ جن سے ملک کا کوئی حقیقی خیر خواہ آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔
ان دونوں فتنوں کا مسلمانوں کو ہوشیاری سے مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔ ملک میں قیام امن خدا تعالیٰ کا حکم ہے پس اگر انگریز خود امن نہ بھی قائم کریں۔ جب بھی ہمیں چاہئے کہ اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر بھی اسے قائم کریں۔ اور یہ انگریز کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے لئے اور اپنی اولادوں کو بداخلاقی سے بچانے کے لئے ہے اگر کسی وجہ سے ہم اس فرض سے دستکش ہو جائیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نادانی کی وجہ سے ہم اپنی اولادوں کو بگاڑتے ہیں۔ اور اس میں انگریز کا نہیں ہمارا اپنا نقصان ہے ۔۔۔۔۔۔ جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے ناجائز ذرائع اختیار کرنا کسی صورت میں بھی مناسب نہیں۔ جو قوم جائز ذرائع سے جدوجہد کرتی ہے اور صداقت کے ساتھ اپنے مطالبات منوانا چاہتی ہے ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی اسے محروم نہیں رکھ سکتیں جو حکومت رعایا کے بیدار جذبات کا لحاظ نہیں کرتی اور اسے خوش رکھنے کی کوشش نہیں کرتی وہ خود بخود تباہ ہو جائے گی اس لئے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں پکٹنگ اور سول نافرمانی وغیرہ تحریکات کا پورے زور کے ساتھ مقابلہ کرو ۔۔۔۔۔ کسی سے مت ڈرو یاد رکھو کہ جو انسان سے ڈرتا ہے وہ مشرک ہے ۔۔۔۔۔ پس یاد رکھو جس دن تک تم انگریز۔ کانگریس یا دوسرے مخالفین سے خواہ کس قدر زبردست کیوں نہ ہوں ڈرتے رہو گے اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے۔ بلکہ مشرک رہو گے اور تمہارا ٹھکانہ جنت نہیں جہنم میں ہو گا لیکن جس دن تمہارے دلوں سے فوج` پولیس` مالدار لوگوں اور دوسرے فتنہ انگریز مفسد طبقات کا ڈر اور خوف نکل گیا اور جس دن تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کی خوش نصیبی اور موت کو راحت کا پیغام سمجھنے لگے اور نفس کی حفاظت صرف حکم الٰہی کی تعمیل میں کرنے لگ گئے اس دن اور صرف اس دن تم ایمان کے رستہ پر چلنے والے ہو گے<۔
>اس کے علاوہ مسلمانوں کے حقوق کے حصول کا سوال ہے۔ جہاں ہمارا یہ فرض ہے کہ قیام امن کے لئے حکومت کو مدد دیں ۔۔۔۔۔۔ وہاں یہ بھی فرض ہے کہ مسلمانوں کی بھی خدمت کریں جو اس وقت ذلیل ہو رہے ہیں اور حصول حقوق کے لئے ہر قربانی کرنے پر آمادہ ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے فتنہ کو دور کرنے کے لئے راستے رکھے ہیں اور ایسے راستے موجود ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ظالم سے ظالم انسان سے بھی اپنا حق انسان لے سکے بعض قانون ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ انہیں نہ ماناجائے مثلاً کوئی حکومت اگر یہ کہے کہ نماز نہ پڑھو تو ہم ہرگز تسلیم نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔ مکہ والے رسول کریم~صل۱~ کو عبادت الٰہی سے روکتے تھے۔ اور اگرچہ آپﷺ~ ان کا مقابلہ نہ کرتے لیکن نمازیں برابر پڑھتے تھے اسی طرح تبلیغ ہے اگر حکومت اس سے روکے تو اگرچہ اس کے مقابل پر ہم تلوار نہیں اٹھائیں گے لیکن تبلیغ ضرور کرتے رہیں گے اور ایسے احکام اگر انگریزی حکومت دے تو ہم ضرور اس کی نافرمانی کریں گے لیکن یہاں کوئی ایسا قانون نہیں کہ سول نافرمانی کو جائز سمجھا جا سکے ۔۔۔۔۔۔ ہندوستان کے لئے حقوق طلبی میں ہم کسی سے پیچھے نہیں اگر جائز طور پر حکومت کا مقابلہ کیا جائے تو ہم گاندھی جی کے دوش بدوش کام کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن ناجائز طریق اگر ہمارا بھائی بھی اختیار کرے تو ہم اسے صاف کہہ دیں گے کہ تم بے شک ہمارے بھائی ہو لیکن اس معاملہ میں ہم تمہارا ساتھ نہیں دے سکتے۔ پس اس امتیاز کو سمجھو اور دونوں فتنوں کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرو ۔۔۔۔۔۔ جس جس رنگ میں کوئی ملک و قوم کی خدمت کر سکے ضرور کرے مثلاً سرکاری ملازم جلسوں وغیرہ میں شامل نہیں ہوسکتے ان کے لئے خدمت کا یہی طریق ہے کہ وہ حکومت کے ذمہ دار ارکان کے سامنے صحیح واقعات رکھ دیا کریں۔ خواہ وہ حالات حکومت کے خلاف ہوں یا پبلک کے۔ میں نے دیکھا ہے پولیس والے جھوٹی رپورٹیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ حکومت سے دشمنی ہے چاہئے کہ جو صحیح بات ہو پیش کر دی جائے۔ اس سے کوئی حاکم ناراض نہیں ہو سکتا بلکہ انصاف والا افسر تو اس کی قدر کرے گا۔ باقی لوگ جو ملازم نہیں وہ جائز حقوق کے حصول کے لئے کوشش کریں۔ لیکن ساتھ ہی کانگریس اور انارکسٹوں کا مقابلہ بھی بغیر کسی ڈر اور لالچ کے کریں اور مسلمانوں کے حقوق حاصل ہونے کے لئے جو خدمت ان سے ہو سکے کرتے رہیں لیکن اس قدر احتیاط ضرور کی جائے کہ جس کام میں ہم شریک ہوں بہ حیثیت جماعت ہوں انفرادی طور پر نہیں اور مالی امداد بھی اسی طرح دی جائے<۔۱۳۱
اس ضمن میں حضورؓ نے احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف بھی توجہ دلائی کہ:
>ایک طرف میں کانگریس کو دیکھتا ہوں کہ اس کے اصول اتنے خطرناک اور فساد پیدا کرنے والے ہیں کہ اگر ہم انہیں مان لیں تو بجائے دنیا میں امن قائم ہونے کے فتنہ و فساد پھیل جائے دوسری طرف میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو گورنمنٹ کے خیر خواہ کہلاتے ہیں کہ وہ حد درجہ کے لالچی دنیا دار خود غرض اور قوم فروش ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ میں کسی قوم کے تمام افراد کو ایسا نہیں سمجھتا۔ اس کے مقابلہ میں کانگریس کے ایک طبقہ کو دیکھتا ہوں کہ اس میں ایثار قربانی اور سچا اخلاص پایا جاتا ہے۔ بے شک کانگریسیوں کے اصول سے مجھے اختلاف ہے لیکن اگر میرے سامنے ذاتی دوستی کا سوال ہو تو میں ایک کانگریسی کو گورنمنٹ کے خوشمادی پر ترجیح دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طرف ہمارے اندر ایسا ایثار قربانی اور ملکی محبت کا مادہ ہونا چاہئے جو کانگریسیوں سے بھی بڑھ کر ہو اور دوسری طرف ہمارے اصول وفاداری ایسے پختہ بنیادوں پر قائم ہوں کہ وہ ہر قسم کے خوشامدی لوگوں کے اصول سے بلند ہوں۔ ہمیں گورنمنٹ کے ان خوشامدیوں سے شدید نفرت ہونی چاہئے اور ہمیں کانگریس کے اصول سے بھی شدید نفرت ہونی چاہئے ہمارا معیار اس قدر بلند ہونا چاہئے۔ کہ ہم کسی خدمت کے بدلہ کسی معاوضہ کے طلبگار نہ ہوں اور اپنے ملک کو بدامنی سے بچانے کے لئے کانگرسیوں سے بڑھ کر ایثار اور قربانی سے کام کریں<۔
>میں اگر کانگریسیوں کے مقابلہ کے لئے کہتا ہوں تو کانگریسی اصول کے لحاظ سے ورنہ دوستی کے لحاظ سے میں انہیں بہت بہتر سمجھتا ہوں اور ان کی ذات سے دشمنی رکھنا غلطی سمجھتا ہوں۔ نہ انگریز ہمارے سگے بھائی ہیں۔ نہ کانگریسی سوتیلے بھائی۔ دونوں ہمارے بھائی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے دل میں ہر قوم کے اچھے لوگوں کی عزت ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا ہندو یا انگریز۔ ہاں جو لوگ غلط طریق اختیار کریں۔ ہم ایسے لوگوں کے اس طریق کو برا کہیں گے۔ پس ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ ہم پیار محبت اور استقلال کے ساتھ ان خلاف آئین تحریکوں کا مقابلہ کریں۔ میں اپنی جماعت کے تمام افراد کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاں کہیں ہوں انارکسٹوں کی تحریک کی نگرانی رکھیں اور یہ کبھی خیال نہ کریں کہ اس کے بدلہ میں گورنمنٹ سے انہیں کیا ملے گا۔ میں تو جب کسی کے منہ سے ایسی بات سنتا ہوں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری کمر ٹوٹ گئی دراصل یہ ہمارا اپنا کام ہے گورنمنٹ نے ملک سے فتنہ و فساد کو روکنے کے ذمہ داری خود اپنے اوپر لی ہے اور ہم پر فتنہ و فساد کے روکنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے<۔۱۳۲
صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کا سفر بنگال
دہشت پسندوں اور انارکسٹوں کا ایک بہت بڑا اور مضبوط مرکز بنگال تھا۔ لہذا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بنگالی مسلمانوں کو اس خوفناک تحریک سے الگ رکھنے اور انہیں سیاست اسلامیہ کے قومی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے دسمبر ۱۹۳۲ء میں صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کو بھجوایا۔ صوفی صاحب نے حضور کی ہدایات کے ماتحت اگست ۱۹۳۳ء تک کام کیا۔ آپ کے مشن میں بعض خاص امور یہ تھے۔
۱۔
بنگالی مسلمانوں کو اردو کے ساتھ مانوس کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اہل بنگال کو اردو کے مقابل بنگالی زبان سے تعصب کی حد تک پہنچی ہوئی غالیانہ محبت تھی جس کی تلخی اور شدت کو کم کرنا حضور کی دانست میں اس خطے کے مسلمانوں کے سیاسی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری اور لازمی تھا۔۱۳۳
۲۔
مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور شعور پیدا کیا جائے۔ مسلمان ملازمین کی حق تلفی کا ازالہ کیا جائے اور مسلمانوں کو خاص ملازمتیں دلوانے میں مدد دی جائے۔
۳۔
ان تمام تحریکوں کا مقابلہ جو ملکی امن برباد کرنے والی ہوں جس کی بعض صورتیں یہ ہوسکتی تھیں۔
)الف(
قیام امن کے لئے ان لوگوں سے کام لیا جائے جن کا ابتداء ہی سے حکومت سے کوئی علاقہ نہیں۔
)ب(
ایک مسلم کور کی تشکیل کی جائے جس کا کام فوجی ٹریننگ` میلوں اور جلسوں اور کھیلوں کا انتظام ہو۔ اسی طرح بچوں کی بازیابی اور آگ بجھانے کی خدمت بھی اس کے سپرد ہو۔ کور کے ہر ممبر کو کوئی پیشہ سکھانے کی کوشش کی جائے اور شادی بیاہ` میلہ` ولادت اور عید الاضحیہ اور تنخواہ کی ترقی کے مواقع پر فنڈ جمع کیا جایا کرے۔
)ج(
انارکزم کا مقابلہ کرنے والوں کو ابھارا جائے۔
)د(
معین انارکسٹوں کے دوستوں میں سے ممبروں کی تلاش کی جائے۔
)ھ(
سکول کے امتحانوں کے پرچے دیکھے جائیں کہ آیا استاد لیاقت پر نمبر دیتے ہیں یا باغیانہ خیالات کی بناء پر۔
)و(
دیکھا جائے کہ کون کون سے استادوں کے گھروں پر طالب علم جاتے ہیں وہ استاد اکثر باغیانہ خیالات کے محرک ہوں گے۔
)ز(
انارکسٹوں یا ان کے مداحوں کے خیالات کو بحث مباحثہ کے ذریعہ سے معلوم کرکے ان کے اعتراضوں اور ان کی دلیلوں کو جمع کیا جائے تاکہ ان کا رد پمفلٹوں یا لیکچروں کے ذریعہ سے کیا جائے۔
)ح(
مذہب کی طرف توجہ دلا کر بھی اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
۴۔
چٹاگانگ میں زیادہ سے زیادہ مسلمان عہدیداروں کو جمع کرنا۔
۵۔
مندرجہ بالا کام پہلے ایک ضلع میں شروع کیا جائے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اس تفصیلی سکیم کے پیچھے کیا روح کار فرما تھی اس کا اندازہ حضور کے ایک مکتوب )مورخہ ۱۳/ جولائی ۱۹۳۳ء( سے باسانی لگ سکتا ہے جو حضور نے صوفی صاحب کو ان کی مفصل رپورٹوں پر تحریر کیا تھا فرمایا۔
>کام کے متعلق میری یہ ہدایت تھی کہ آپ بڑے آدمیوں کو چھوڑ دیں ان سے صرف اتنا تعلق رکھیں کہ وہ آپ کے کام میں روک نہ بنیں لیکن آپ کی رپورٹوں سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ہر جگہ پر آپ مسلمان لیڈروں سے زیادہ ملتے اور ان کی امداد کے خواہش مند رہتے ہیں مگر ہر جگہ پر آپ کے تجربے سے ہی ثابت ہوا کہ مسلمان لیڈر بالکل مردہ ہیں ان میں زندگی کی روح باقی نہیں اور احمدیت سے ان کو اس حد تک تعصب ہے کہ وہ بنگالی مسلمانوں کی تباہی کو خوشی سے برداشت کرنے کو تیار ہیں لیکن اس امر کے لئے تیار نہیں کہ احمدی ان کی مدد کریں یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اگر بنگال کے مسلمان جلد بیدار نہ ہوئے تو ان کی حالت ریاستی مسلمانوں سے بھی بدتر ہو جائے گی۔ جب اتنی بڑی قیامت مسلمانوں کے سامنے نظر آتی ہے تو ہم صرف لیڈروں کا منہ تکتے ہوئے خاموش بیٹھے نہیں رہ سکتے<۔
احمدیہ کور
ہندوستان میں حالات جس سرعت سے تغیر پذیر ہو رہے تھے ان کا تقاضا تھا کہ مسلمانوں کی بہبود` خدمت خلق اور احمدی نوجوانوں میں تنظیمی روح پھونکنے کے لئے ہر قسم کے آئینی ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے کوئی موثر نظام عمل تجویز کریں تا بدلے ہوئے حالات میں ملک و قوم کی بہتر خدمت کر سکیں۔ اس اہم قومی ضرورت کے ماتحت پیر اکبر علی صاحبؓ نے مشاورت ۱۹۳۲ء )منعقدہ ۲۵ تا ۲۷/ مارچ( میں یہ تجویز پیش کی کہ ایک احمدیہ والنٹیر کور بنائی جائے۔ اور کوشش کی جائے کہ احمدی نوجوان اس کور میں داخل ہوں اس تحریک کو کلی طور پر منظم کیا جائے اور جلسوں کے انتظام اور دیگر رفاہ عام کے کاموں میں ان سے مدد لی جایا کرے اس کور کا فائدہ یہ ہو گا کہ بچوں میں فوجی سپرٹ پیدا ہونی شروع ہو جائے گی۔ جلسوں اور رفاہ عام کے کاموں میں تنظیم سے نوجوان کام کریں گے۔ اور اس سے بہت فائدہ ہو گا۔۱۳۴
نمائندگان جماعت کی بحث و تمحیص اور استصواب رائے کے بعد حضورؓ نے احمدیہ کور بنانے کی اجازت دے دی اور اس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے مندرجہ ذیل الفاظ میں فیصلہ صادر فرمایا۔
>میں اس تجویز کو اتفاق رائے کے مطابق منظور کرتا ہوا بعض خیالات ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس تجویز کو ہم دو نقطہ نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں ایک وقتی اور سیاسی حالات کے ماتحت اور یہ بہت محدود نقطہ نگاہ ہے کیونکہ وقتی اور سیاسی حالات بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن جب یہ حالات پیدا ہوں۔ تو ان کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ ایسے حالات ہیں جن کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے اور وہ مستقل تربیت کی ضرورت ہے جس سے کبھی کوئی جماعت مستغنی نہیں ہو سکتی نیک خاندانوں میں شریر اور شریر خاندانوں میں نیک لوگ پیدا ہو جاتے ہیں نوجوانوں کو خطرہ میں پڑنے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی صحیح طور پر تربیت کی جائے۔ مگر اس میں دقت یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں جوش ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی تربیت کریں ان کے سامنے نہ لڑکے ہوتے ہیں اور نہ لڑکوں کے جرائم۔ نہ لڑکوں کی نیکیاں ہوتی ہیں اور نہ ان کی غلطیاں۔ ایک جماعت کا مقامی امیر اپنی جماعت کے لڑکوں کی تربیت کرسکتا ہے مگر لڑکوں کی برائیاں اور نقائص اس کے سامنے نہیں آتے۔ اگر ہر جگہ والنٹیر کور بنالیں )اور یہ کام ایک ماہ یا ایک سال میں نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے ایک لمبے عرصہ اور مسلسل کوشش کی ضرورت ہے( تو اس سے یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں جماعت کی تربیت کی طرف نگاہ رکھنے والے آدمیوں کے سامنے سارے نوجوان آجایا کریں گے اور وہ ان کو نصائح کر سکیں گے۔ مذہبی اور اخلاقی وعظ کیا جا سکے گا۔ گویا اس طرح تربیت اور نصائح کرنے کے مواقع زیادہ ملنے لگ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے کے ذریعہ نگرانی بھی کرائی جا سکے گی۔ جب کسی لڑکے کے متعلق شکایت ہو کہ اس میں یہ نقص ہے تو کور کے افسر کے ذریعہ اس کی اصلاح آسانی سے کرائی جا سکتی ہے کیونکہ وہ اپنے ماتحت لڑکے کی نگرانی کر سکتا ہے اور دوسرے لڑکوں کے ذریعہ نگرانی کرا سکتا ہے۔ عام طور پر یہ نگرانی اس لئے نہیں کی جا سکتی کہ اپنے طور پر جب ایک لڑکا دوسرے لڑکے کو دوست بنائے گا تو اپنے ہی رنگ کے لڑکے کو بنائے گا۔ یعنی بدمعاش لڑکا بدمعاش کو ہی دوست بنائے گا لیکن کور میں اس کے اختیار میں نہ ہو گا کہ جس سے چاہے دوستی کرے۔ بلکہ کور کا افسر جسے چاہے گا۔ اس کا ساتھی مقرر کر دے گا اور اس طرح آوارہ لڑکوں کو شریف لڑکوں کے سپرد کرکے ان کی نگرانی اور اصلاح کرائی جا سکتی ہے پھر لڑکوں میں آوارگی کی وجہ سے بے کاری اور کوئی شغل نہ ہونا بھی ہوتی ہے لیکن کوریں بنا کر جب انہیں ایک کام میں مشغول کر دیا جائے گا۔ تو وہ آوارگی سے بچ جائیں گے اور اچھے کاموں میں انہیں لگا کر ان کے اوقات کو مفید بنایا جا سکتا ہے اور جب وہ نیکی کا کام کریں گے تو ان کے دل میں امنگ اور خوشی پیدا ہو گی۔ نیکی کے کاموں کی طرف توجہ ہو گی۔ ان کے کرنے میں فخر اور خوشی کی روح پیدا ہو جائے گی۔ اس طرح دینی کاموں میں بھی ان سے مدد لی جا سکتی ہے اور ان کی حیثیت کے مطابق ان کو قومی کاموں میں حصہ لینے کا موقعہ دے کر ان میں قومی کام کرنے کی روح پیدا کی جا سکتی ہے جس کا اثر ان کی آئندہ زندگی پر پڑے گا۔ روحانیت ہر شخص کو ہی خود بخود حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ بہت لوگوں کو تربیت کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے۔ دماغ میں شیطانی اور روحانی جنگ جاری رہتی ہے آخر میں جس کا غلبہ ہوجائے انسان ویسا ہی بن جاتا ہے لیکن ایک حصہ تربیت کے متعلق ہے اس کے ذریعہ انسان شیطانی غلبہ سے بچ سکتا ہے۔
پھر عارضی ضرورتوں کی وجہ سے بھی اس قسم کے انتظام کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں یہ احساس پیدا کیا جارہا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ یہ روح نہایت گندی ہے مگر پیدا ہو گئی ہے۔ میں گزشتہ سال جب سیالکوٹ گیا تو وہاں ایک جلسہ میں ہم پر پتھر برسائے گئے اور سوا گھنٹہ تک برسائے گئے۔ ہماری جماعت نے ان پتھروں کا کامیاب مقابلہ کیا۔ تاہم معلوم ہوا کہ ابھی اور زیادہ تربیت کی ضرورت ہے اگر مکمل تربیت ہو تو ہماری جماعت کے لوگ زیادہ عمدگی سے کام کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں چونکہ مخالف اس طرح بھی ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے اس لئے ایسے انتظام کی ضرورت ہے اور ہم خدا کے فضل سے ایسے منظم والنٹیر کور بنا سکتے ہیں کہ ہم سے سو سو گنی تعداد رکھنے والے لوگ بھی ویسے نہیں بنا سکتے۔ پس ہمیں اس قسم کا انتظام کرنا چاہئے۔ اور یہی ضروری نہیں کہ اپنے جلسوں کا ہی انتظام کیا جائے بلکہ ایک آریہ بھی اگر تقریر کررہا ہو اور کوئی اس میں دخل انداز ہو تو کور کے والنٹیر کا فرض ہو گا کہ اسے روکیں<۔۱۳۵
یہ تھے وہ اہم اغراض و مقاصد جن کے پیش نظر احمدیہ کور کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے کور کی سرپرستی منظور کر لی اور اس کا ناظم و افسر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کو مقرر فرمایا۔ اور اس کے نوجوانوں کا نام >عباداللہ< تجویز کیا گیا۔ صدر انجمن احمدیہ نے فیصلہ کیا کہ انجمن کے تمام کارکن والنٹیر کور کے ممبر ہوں گے۔ اور مہینہ میں کم از کم ایک دن اپنے فرائض منصبی کور کی وردی میں ادا کریں گے۔ ایسے کارکن جن کی عمر ۳۵ سال سے زائد ہو انہیں اجازت دی گئی۔ کہ وہ تمام پریڈوں میں شامل نہ ہوں بلکہ صرف ہفتہ میں معائنہ سامان کی پریڈ میں شامل ہوا کریں۔ بیرونی جماعتوں کے امراء اور پریذیڈنٹوں کو بحیثیت عہدہ مقامی کور کا افسر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ اور سیکرٹری اور دیگر عہدیدار بلالحاط عمر کور کے ممبر قرار پائے۔۱۳۶
۳/ جولائی ۱۹۳۲ء کو احمدیہ کور اور اس کی پہلی ٹریننگ کلاس کے انعقاد کی نسبت مشاورتی کمیٹی ہوئی جس میں درج ذیل فیصلے ہوئے۔
قادیان کے مدارس کے طلباء کی نسبت قرار پایا کہ کلاس میں شامل ہونے والوں کو تمام ریکروٹی کورس ختم کرایا جائے۔ نیز کوشش کی جائے کہ رائفل کلب کا لائسنس مل جائے تو چاند ماری بھی سکھائی جا سکے۔
ہیئت نظام: بیرونی جماعتوں میں احمدیہ کور کے قیام کے متعلق مندرجہ ذیل باتوں کا فیصلہ ہوا۔
۱۔
احمدیہ کور کا دستہ (SECTION) سات آدمیوں کا ہو گا۔ ایک سربراہ دستہ اور چھ والنٹیر۔
۲۔
چار دستوں کو ملا کر ایک پلاٹون یا گروپ بنایا جائے اور پھر چار پلاٹون ملا کر ایک کمپنی ہو گی۔
۳۔
چونکہ ہماری جماعت کے افراد تھوڑی تھوڑی تعداد میں مختلف مقامات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور کسی ایک جگہ شاید ہی کمپنی بن سکے۔ اس لئے فیصلہ ہوا کہ حسب تعداد جماعت دستے یا پلاٹون اور کمپنیاں قائم کی جائیں اور پھر قریب قریب کے دستوں اور پلاٹونوں کو ملا کر کمپنیاں بنا دی جائیں۔
ٹریننگ: کور کے والنٹیئر کی سکھلائی کے متعلق حسب ذیل تجویز ہوئی۔
)۱( مارچ اور ڈبل مارچ افسر کی نگرانی کے ماتحت ہفتہ میں ایک بار )۲( لاٹھی فائٹنگ اور گتکا ہفتہ میں دو دفعہ )۳( معائنہ سامان اور پی۔ ٹی ہفتہ میں ایک دفعہ )۴( باقاعدہ فوجی نظام کے طرز پر پہرا مہینہ میں ایک دفعہ )۵( اپنی پلٹون میں مل کر کام کرنا مہینہ میں ایک دفعہ )۶( کمپنی میں کام کرنا سال میں ایک دفعہ )۷( تمام کور کی ریلی سال میں ایک دفعہ۔
والنٹیرز کو تحریک کی جائے کہ وہ غلیل )اور اگر اجازت ہو تو تیر کمان اور تلوار بھی( رکھیں۔ یہ صرف تحریک ہو گی لازمی امر نہ ہو گا۔
سامان: )۱( ایک سوٹی پانچ فٹ ۱۷ انچ لمبی )۲( رسی ۳/۱ انچ موٹی ۱۵ فٹ لمبی )۳( سکائوٹ چاقو )۴( قرآن شریف )۵( کشتی نوح۔
وردی: )۱( پولیس ٹائپ جوتی یا بوٹ )۲( جراب )۳( نکر خاکی )۴( قمیض خاکی )۵( پگڑی خاکی۔ قمیض نصف آستین کی ہو گی جس کا کالر سبز ہو گا۔ نیز آستین کا کنارہ سبز۔ آنے والے اصحاب یہ وردی خود بنوا کر نہ لائیں بلکہ یہاں بنوائی جائے گی۔ تاکہ ایک طرز کی بن سکے اور پھر احباب اپنے اپنے مقامات پر جاکر اس کے مطابق بنوائیں۔
عہد: والنٹیر کور کے لئے یہ اقرار ہو گا >میں خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اقرار کرتا ہوں کہ )۱( جو فرائض خدا اس کے رسول اور خلیفہ وقت کی طرف سے مجھ پر عاید ہیں۔ میں تابمقدور انہیں سر انجام دینے کی کوشش کروں گا۔ )۲( ملک میں نہ صرف خود امن سے رہوں گا بلکہ حتی الوسع دوسروں کو بھی اس کی تحریک کروں گا اور بغاوت و بدامنی کا ہمیشہ مقابلہ کروں گا۔ )۳( باہمی مقدمات تنازعات اور فسادات سے ہمیشہ اجتناب کروں گا۔ )۴( مسلمانوں سے خصوصاً اور دیگر بنی نوع انسان سے عموماً ہمدردی کروں گا۔ )۵( احمدیہ والنٹیر کور کے قواعد و ضوابط کی ہمیشہ پابندی کروں گا<۔۱۳۷
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی نگرانی میں یکم ستمبر ۱۹۳۲ء کو صبح سات بجے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی گرائونڈ میں احمدیہ کور ٹریننگ کلاس کا آغاز ہوا۔ جس میں بہت سے مقامی نوجوانوں کے علاوہ بیرونی جماعتوں سے بھی تیس کے قریب نوجوان شریک ہوئے۔۱۳۸ یہ کلاس ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء کو ختم ہوئی۔۱۳۹ یکم اکتوبر کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ڈلہوزی سے تشریف لائے تو کور نے حضور کا فوجی طریق پر شاندار استقبال کیا۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی خصوصی توجہ کی بدولت ٹریننگ کا یہ پہلا عملی مظاہرہ اس قدر عمدہ اور خوش کن تھا کہ کور کا کام دیکھ کر خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ ایک ماہ کی سکھلائی کا نتیجہ ہے۔ احمدیہ کور کے نوجوان اس وقت خوشنما وردیوں میں ملبوس اپنا سبز رنگ کے کپڑے کا خاص جھنڈا لئے ہوئے تھے۔ جھنڈے کے درمیان منارۃ المسیح دائیں طرف اللہ اکبر اور بائیں طرف عباداللہ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے جو والنٹیر کا اصل نام تھا۔۱۴۰ ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ قواعد سے متعلق تمام احکام انگریزی کی بجائے اردو میں دیئے جاتے تھے۔ انگریزی کے فوجی الفاظ کا اردو جامہ پہنانے کا کام بھی حضرت صاحبزادہ صاحبؓ ہی نے سرانجام دیا۔۱۴۱ اور >احمدیہ کور< کے نام سے اردو احکام کا ایک کتابچہ بھی بعد کو شائع فرما دیا۔
احمدیہ کور کے تنظیمی اصول و مقاصد یعنی قیام امن` مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت اور بنی نوع انسان کی عمومی فلاح و بہبود وغیرہ بالکل واضح تھے۔ مگر ہندو پریس نے اسے ایک خفیہ انقلابی تحریک سے تعبیر کیا۔ چنانچہ اخبار >ملاپ< )لاہور( نے ۱۰/ جون ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں لکھا۔
>گورنمنٹ کو بھی اور عوام کو بھی احمدیوں کی فوج کی طرف ضرور متوجہ ہونا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ یہ فوجی تیاریاں بظاہر چاہے کچھ کہیں لیکن اپنے اندر اصلی غرض و غایت کیا رکھتی ہیں<۔۱۴۲
ہندوئوں کے اس پروپیگنڈا کو مجلس احرار اسلام نے خوب ہوا دی۔ اور اسے حکومت کو جماعت احمدیہ کے خلاف ابھارنے کے لئے ایک کامیاب حربہ کے طور پر استعمال کیا۔
اچھوت اقوام کی حفاظت کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اپیل
گاندھی جی نے برودہ جیل سے سرسیموئیل ہور وزیرہند کے نام ۱۱/ مارچ ۱۹۳۲ء اور مسٹر میکڈانلڈ وزیراعظم برطانیہ کے نام ۱۸/ اگست
۱۹۳۲ء کو خط لکھا کہ میں نے گول میز کانفرنس میں کہہ دیا تھا کہ میں زندگی بھر اچھوتوں کو جداگانہ نیابت نہ حاصل ہونے دوں گا۔ چونکہ حکومت نے >کمیونل ایوارڈ< کے ذریعہ اپنے طریق کار کا اعلان کرکے اچھوتوں کے لئے جداگانہ انتخاب تجویز کیا ہے اس لئے میں ملک معظم کی حکومت کو مطلع کرتا ہوں کہ میں ۲۰/ ستمبر ۱۹۳۲ء سے زندگی کے آخری سانس تک برت رکھوں گا صرف پانی پیوں گا۔ اور اسی طرح جان دے دوں گا۔ میری جیل سے رہائی بھی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکے گی۔۱۴۳ وزیراعظم نے جواب دیا کہ گورنمنٹ کا فیصلہ قائم ہے اور صرف ہندوستان کے مختلف فرقوں کے درمیان سمجھوتہ ہی اس کی جگہ لے سکتا ہے۔
دراصل اچھوت اقوام کو ہندوئوں میں جذب کرنے کا یہ ایک نیا حربہ تھا جسے ¶اچھوت اقوام کے مسلمہ لیڈر ڈاکٹر امبید کرنے >سیاسی کرتب< سے موسوم کیا۔ اور اعلان کیا کہ میں جداگانہ انتخاب کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔۱۴۴ اسی طرح مسٹر آر۔ ایل بسواس )جنرل سیکرٹری آل انڈیا اچھوت فیڈریشن( نے بیان دیا کہ گاندھی جی کامرن برت ہرگز جائز نہیں۔ جب ہندوئوں نے خود اپنی قوم کو ذات پات کے صدہا امتیازات میں تقسیم کر رکھا ہے تو حکومت کو ہندو قوم کے انتشار کا ذمہ دار گرداننا سراسر بے سروپا اور بے معنی ہے۔۱۴۵ علاوہ ازیں اچھوتوں نے اپنے ہزاروں کے اجتماع میں قرارداد منظور کی کہ گاندھی جی کی فاقہ کشی کے ذریعہ مر جانے کی دھمکی اچھوتوں کو فریب دینے کے لئے ایک سیاسی حربہ ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ہمیں ابدالاباد تک ہندوئوں کی اونچی جاتیوں کا زر خرید غلام بنا دیا جائے۔۱۴۶
سر محمد اقبال نے مرن برت کی نسبت کہا کہ فاقہ کشی کی موت نامردی کی علامت ہے اگر مجھے یہی صورت پیش آتی تو بجائے حکومت کو دھمکی دینے کے اپنی قوم کو مجبور کرتا کہ فلاں تاریخ تک اچھوتوں کے ساتھ مذہبی اور معاشرتی مساوات شروع کر دو وگرنہ جان دے دوں گا۔۱۴۷
سر محمد یعقوب نے کہا کہ اعلیٰ ذات کے ہندو اگر گاندھی جی کی جان بچانا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ مندروں کے دروازے اچھوتوں کے لئے کھول دیں۔۱۴۸
ہندوئوں نے مرن برت کے خلاف یہ ہیجان پایا تو بمبئی میں ہندوئوں اور اچھوت لیڈروں کی کانفرنس منعقد کرنے کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر امبید کرنے کانفرنس کے پہلے روز ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۲ء کو تقریر کی کہ اگرچہ فرقہ وارانہ فیصلہ کے بعد اچھوتوں کے جداگانہ نیابت کے سوال پر کسی قسم کی بحث نہیں ہو سکتی تاہم میں مسٹر گاندھی سے گفت و شنید کرنے کے لئے تیار ہوں جب میں نے لنڈن میں مطالبہ کیا تھا کہ اچھوتوں کے لئے آئینی طور پر جداگانہ نیابت دے دی جائے۔ تو مسٹر گاندھی میرے سب سے بڑے مخالف تھے لہذا اب مسٹر گاندھی کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ وہ اچھوتوں کو کیا کچھ دینے کے لئے تیار ہیں۔۱۴۹
عین اسی روز جبکہ اچھوت لیڈر نے مندرجہ بالا اعلان کیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے یہ بیان بذریعہ تار جاری کیا گیا کہ >گاندھی جی کے اعلان پر ہندو جو جذباتی اپیلیں کر رہے ہیں اگر اچھوت ان سے متاثر ہو گئے تو اس کا انجام ان کی کامل تباہی ہو گا یہ مسائل چند مندروں کے دروازے اچھوتوں پر کھول دینے سے حل نہیں ہو سکتے۔ اس سے تو صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ابھی تک ہندو فی الواقعہ انہیں ناپاک سمجھتے ہیں۔ بمبئی کے ہندو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر اچھوت ہمارے ساتھ متفق نہ ہوئے تو انہیں پچھتانا پڑے گا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی ذہنیت میں تاحال کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ ادنیٰ اقوام کے خیالات اور نقطہ ہائے نگاہ میں بنوک شمشیر تبدیلی کرانا چاہتے ہیں میرے خیال میں ہندوئوں کو تمام اپیلیں صرف گاندھی جی سے کرنی چاہئیں۔ جو خود کشی کا اقدام کرکے نہ صرف ہندو لاء کی نافرمانی اور اپنی اہنسا کی تعلیم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ تمام مذاہب کے قوانین کو بھی توڑ رہے ہیں ان کے فیصلہ کے صرف یہ معنی ہیں کہ اب انہیں خدا پر بھروسہ نہیں اور اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ دنیا میں رہنا نہیں چاہتے۔
اچھوت اقوم کے لئے یہ سخت نازک موقعہ ہے وہ اپنی خواہشات کو دوسروں کے لئے قربان کرنے کے عادی ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ اپنی تاریخ کے اس نازک ترین موقعہ پر بھی وہ جذبات اور دلائل میں تمیز نہ کر سکیں گے<۔۱۵۰
حضرت اقدسؓ نے اپنے بیان میں جس خدشہ کا اظہار فرمایا تھا وہ صحیح ثابت ہوا چنانچہ پونا میں ۲۴/ ستمبر کو ہندو لیڈروں نے ڈاکٹر امبیدکر کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ جو برطانیہ کے وزیراعظم نے منظور کر لیا اور گاندھی جی نے فاقہ کشی ترک کر دی۔
حادثہ بڈھلاڈا )ضلع حصار( اور جماعت احمدیہ کی خدمات جلیلہ
مشرقی پنجاب کے اضلاع حصار` رہتک` کرنال اور گوڑگائوں میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لئے ہندو اکثریت ان کو تباہ کرنے کے لئے اندر ہی اندر خوفناک تیاریوں میں مصروف تھی۔ ہندوئوں کی اس خفیہ سازش کا پہلا نشانہ پونڈری کے مسلمان بنے اس کے بعد انہوں نے ۱۱/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کی رات کو بڈھلاڈا )ضلع حصار( کے مسلمانوں پر بھی یورش کر دی۔ اور چند منٹوں میں سولہ مسلمان مرد عورتیں اور بچے گولیوں کا شکار ہوئے جن میں سے سات شہید اور نو زخمی ہو گئے۔ عین اسی وقت جبکہ بڈھلاڈا کے مسلمانوں کو بہیمانہ طور پر ختم کیا جارہا تھا بندوقوں سے مسلح ہندوئوں نے تلونڈی کے آٹھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔۱۵۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان خونچکاں واقعات کی اطلاع اور مسلمانان بڈھلاڈا کی درخواست پر صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے کو تحقیقات کے لئے بھجوایا۔ جنہوں نے ایک مبصر کی حیثیت سے نہایت محنت و عرقریزی کے ساتھ پیش آمدہ حالات کی چھان بین کی اور اس سازش کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا۔ جو ایک عرصہ سے ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف نہایت منظم طور پر کررکھی تھی۔۱۵۲ صوفی صاحب کی مکمل تحقیقات الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۳۲ء )صفحہ ۷۔ ۱۰( میں شائع کر دی گئی جس سے مسلمانان پنجاب کو پہلی بار صحیح اور مکمل واقعات کا علم ہوا۔ صوفی صاحب نے اپنے قیام کے دوران میں ایک اہم کام یہ بھی کیا کہ وہاں مسلمانوں کی تنظیم کے لئے ایک مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ جس کے صدر اور سیکرٹری بڈھلاڈا کے بعض اہل علم مسلمانوں کو مقرر کیا۔
صوفی صاحب کے بعد مرکز کی طرف سے بعض اور اصحاب بھی بھجوائے گئے۔ اور بالاخر چوہدری مظفر الدین صاحب بی۔ اے بنگالی روانہ کئے گئے جنہوں نے اس علاقہ میں قریباً ایک سال تک قیام کیا۔ افسروں سے ملاقات اور خط و کتابت کرکے مسلمانوں کی مدد کی اور اصل واقعات منظر عام پر لانے کے لئے متعدد مضامین لکھے۔ چوہدری مظفر الدین صاحب نے مسلمانان حصار کی تنظیم میں بھی دلچسپی لی اور ان کی اقتصادی بہبود کے لئے بھی کوشش کرتے رہے اور جہاں ان کے جانے سے قبل بڈھلاڈا میں مسلمانوں کی خوردونوش کی ایک دکان بھی موجود نہ تھی۔ وہاں ان کی تحریک پر پانچ چھ دکانیں کھل گئیں اور وہ مسلمان جو دہششت زدہ ہو گئے تھے اور ہندوئوں کی چیرہ دستیوں سے سہمے ہوئے تھے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے لگے۔۱۵۳body] [tag اور وہ ہندو اور سکھ افسر جو اس فتنہ کے پشت پناہ تھے تبدیل کر دیئے گئے۔ قبل ازیں ہندو افسر حصار کے مسلم طبقہ کے خلاف کس درجہ انتقامی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ اس کا اندازہ حصار کے معزز غیر احمدی مسلمانوں کی مندرجہ ذیل چٹھی سے باسانی لگ سکتا ہے۔ جو انہوں نے ۲۶/ جون ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھجوائی اور جس پر حضور کی ہدایت کے مطابق احمدی نمائندہ نے حکومت پر مسلمانوں کا معاملہ ایسے طریق پر واضح کیا کہ اسے ظالم افسروں کے خلاف موثر اقدام کرنے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا۔
۳۳/۲ ۲۶۔ جان محمد آنریری سیکرٹری زمیندارہ بنک حصار
بنام سیدنا بحضور حضرت خلیفہ صاحب ایدہ اللہ بنصرہ العزیز۔
السلام علیکم۔ عرض ہے کہ مسلمانان ضلع حصار کی دکھ بھری داستان کا ایک نیا واقعہ حضور کے پیش کرکے امیدوار ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔ توجہ فرما کر حضور عالی فوری امداد فرماویں گے۔ قبل ازیں واقعہ بڈھلا ڈا کی نسبت حضور کی خدمت عالی میں عرض کیا گیا تھا۔ جس پر جماعت احمدیہ کی جانب سے اس کی ۔۔۔۔۔۔ پوری پوری امداد ہوئی جس کی نسبت ضلع ہذا کی مسلم آبادی مشکور و ممنون ہے۔
حضور کو معلوم ہوگا کہ ہندو مہا سبھا کی سفاکانہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہندوئوں نے انبالہ ڈویژن خصوصاً ضلع حصار کو اپنی آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ انبالہ۔ رہتک۔ کرنال وغیرہ دیگر اضلاع ڈویژن ہذا کے مسلمان اسی ضلع کے جاندار اور سمجھدار ہیں اس لئے ہندو جنون کے پیروئوں نے اب اپنی تمام توجہات ضلع حصار پر ڈال دی ہے نیز اسی جگہ اعلیٰ ہندو افسران اندریں بارہ ان کی کھلم کھلا امداد و معاونت کر رہے ہیں۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔ ان مسلمانوں کو نفاق کے ذریعہ لڑا لڑا کر ان کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔
غرض کہ مسلمانان ضلع کی ہر طرح سے خراب و خستہ حالت کے سامان مہیا کر دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی مسلم آبادی کی حالت وہی ہے جو بنی اسرائیل کی حضرت موسیٰؑ کی بعثت سے قبل فرعون کے زمانہ میں تھی یا مسلم آبادی کشمیر کی آج سے چند روز پہلے۔ ان خطرناک۔ برباد کن حالات کی موجودگی میں یہاں کے مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہے۔ جس پر میرے چند احباب و مسلم پبلک کی جانب ے ہدایت ہوئی ہے کہ حضور کی خدمت میں عرض کیا جاوے کہ اندریں بارہ توجہ فرما کر ہماری فوری امداد فرمائی جاوے۔ دستخط جان محمد صاحب مولوی محمد شریف صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی وکیل حصار۔ خان عزیز الحسن خاں صاحب حمزئی بی۔ اے ایل ایل۔ بی وکیل<۔۱۵۴
چوہدری مظفر الدین صاحب کا بیان
حادثہ بڈھلا ڈا سے متعلق ۔۔۔۔۔۔ واقعات کا ایک اجمالی خاکہ قارئین کے سامنے رکھنے کے بعد اب ہم چوہدری مظفر الدین صاحب بی۔ اے کا ایک بیان درج کرتے ہیں۔ جس میں اس اہم واقعہ کی بعض تفصیلات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔
>بڈھ لاڈا ایک مشہور منڈی ضلع حصار میں ہے جہاں مذبح تھا جس سے تمام پنجاب کے ملٹری کنٹونمنٹ میں گائے کا گوشت سپلائی ہوتا تھا۔ ہندوئوں نے سازش کی کہ مسلمان قصابوں کے بعض لیڈروں کو ختم کر دیا جائے چنانچہ انہوں نے ڈاکوئوں کے ایک گروہ سے سازباز کرکے ان کے تین سرغنوں کو اس کام کے لئے تیار کر لیا اور ایک روز تین آدمی بندوقوں سے مسلح ہو کر مسجد قصاباں موضع بڈھلاڈا میں پہنچے اور جو مسلمان بھی ملا اسے گولی مار دی۔ اس طرح تقریباً سولہ مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ جن میں سے سات جاں بحق ہو گئے اور جو زندہ بچے ان میں سے بعض ہمیشہ کے لئے بے کار ہو گئے۔][اس واقعہ سے مسلمان اتنے ڈر گئے کہ کئی روز تک گھروں میں بند رہے اور ان میں سے بعض چوری چھپے حصار اور لاہور پہنچے اور حصار کے افسروں اور لاہور کے اخبار والوں کو اس واقعہ کے بارے میں مطلع کیا اور یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں نے اس سازش کے بارے میں اگرچہ قبل از وقت حصار کے ہندو ڈپٹی کمشنر اور سکھ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو باقاعدہ اطلاع دی تھی۔ لیکن انہوں نے اس بارہ میں کوئی قدم نہ اٹھایا۔ اخباروں میں حادثہ بڈھلاڈا کی خبریں شائع ہوئیں تو ڈپٹی کمشنر کے حکم پر بڈھلاڈا کے مسلمان محلہ میں تعزیزی چوکی بٹھا دی گئی اور پولیس کے اخراجات بھی مسلمانوں پر ڈالے گئے۔ جس پر حصار کے بے کس مسلمان پنجاب کے مسلمان لیڈروں کے پاس پہنچے اور داد رسی کی کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا آخر بڈھلاڈا کے دو ایک ہوشیار اور صاحب علم اصحاب نے ایک روز مسجد میں سب کو اکٹھا کرکے کہا کہ اگر زندگی چاہتے ہو۔ تو جو کچھ ہم کہیں گے اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائو انہوں نے کہا کیا کرنا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہم ایسے لیڈر کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے ہیں جس کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمارا ہاتھ بھی بٹائے گا اور ہمیں کامیابی بھی ہو گی۔ اس کے بعد خطیب مسجد اور دوسرے عالموں کو مخاطب کرکے یہ قسم لی کہ کوئی مذہبی اختلاف پیدا نہیں کرے گا۔ سب حاضرین نے اس کا اقرار کیا جس پر انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بذریعہ تار اپنی داد رسی کے لئے درخواست کی حضور نے از راہ کرم مکرم جناب صوفی عبدالقدیر صاحب کو بھیجا۔ جنہوں نے وہاں جاکر حالات کا جائزہ لیا۔ اور حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کی۔ اس اثناء میں ہندوئوں نے اصل واقعہ دبا دیا۔ اور محض ایک ڈاکو کی رپورٹ کرکے آخری تحقیقات مکمل کر دی۔ جماعت احمدیہ کی کوشش سے افسران بالا تک معاملہ پہنچایا گیا۔ تو یہ جواب ملا کہ مسلمان اپنا کیس خود ہی صحیح رنگ میں پیش نہیں کر سکے۔ اس ضمن میں یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ صوفی صاحب بڈھلاڈا میں ایک مسلم ایسوسی ایشن قائم کر آئے تھے اور انہیں یہ ہدایت دے آئے تھے کہ آئندہ جو کام کیا جائے وہ ایسوسی ایشن کے نام سے کیا جائے۔ اس ایسوسی ایشن کے صدر نے یکے بعد دیگرے مختلف خطوط اور تار بھجوانے شروع کر دیئے جس پر حضور نے ہدایت دی کہ خاکسار )مظفر الدین( کو بڈھلاڈا بھجوایا جائے چنانچہ حضرت اقدس سے ہدایات حاصل کرنے کے بعد عید الفطر کے دوسرے روز آدھی رات کو بڈھلاڈا پہنچ گیا اور منڈی کی مسجد میں )جو ہندو آبادی سے گھری ہوئی تھی اور پرخطر جگہ پر تھی( قیام کر لیا اس کے بعد صورت حالات کا جائزہ لیا اور حصار جا کر مسٹر حمزائی` چوہدری محمد شریف صاحب وکیل۔ مسٹر جلال الدین صاحب بیرسٹر اور مسٹر راجہ حسن اختر ای۔ ایس۔ سی سے ملاقات کی ان لوگوں نے بتایا کہ کیس خراب ہو گیا ہے اور معاملہ دبا دیا گیا ہے لیکن خدا کے فضل سے جلد ہی مسلمانوں کو ہمت دلانے کی کوشش میں میرے لئے پہلا موقعہ پیدا ہو گیا۔ اور وہ یہ کہ زیر دفعہ ۱۰۷ بہت سے مسلمان اور چند ہندوئوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ اور یہ کیس مسٹر حسن اختر ہی کے پاس تھا۔ اور ان ہی کی عدالت میں زیر سماعت تھا۔ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضور ایدہ اللہ کی دعائوں کی برکت سے راجہ حسن اختر صاحب مقدمہ کی سماعت بڈھ لاڈا کے ڈاک بنگلہ میں کرنے کے لئے رضا مند ہو گئے۔ سماعت کے دن ہندوئوں کی طرف سے ایک بیرسٹر اور ایک وکیل آئے اور مسلمانوں کی طرف سے کوئی بھی پیش نہ ہوا۔ صرف صدر صاحب مسلم ایسوسی ایشن نے درخواستیں لکھیں اور ہر ایک کی ضمانت کے لئے اپنے میں سے کوئی نہ کوئی آدمی کھڑا کر دیا۔ مسلمانوں کی سب ضمانتیں راجہ صاحب نے منظور کر لیں اور کسی پر اعتراض نہ کیا۔ اس کارروائی کا اثر مسلمانوں پر بہت ہی اچھا پڑا۔ اس کے بعد کچھ مضامین میں نے انگریزی میں لکھ کر لاہور کے اخبارات کو بھجوائے جو >ایسٹرن ٹائمز< اور اخبار >سیاست< اور دیگر اخبارات میں شائع ہوئے۔ قادیان سے بھی برابر کوششیں جاری رہیں۔ اور مناسب کارروائی اس ضمن میں ہوتی رہی اور تھوڑے ہی دنوں کے اندر سکھ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی تبدیلی ہو گئی اور اس کی جگہ ایک یوروپین ایس پی حصار میں آگیا۔ جس سے میری ملاقات ہی بڈھلاڈا کی تعزیری چوکی کے بارے میں ہوئی میں نے کہا کہ مسلمانوں پر ہی ظلم ہو اور ان پر ہی یہ پولیس بٹھائی جائے اور پھر اخراجات بھی انہیں سے وصول کئے جائیں یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ چنانچہ ایس۔ پی کی تحقیقات کے بعد یہ پولیس وہاں سے ہٹا لی گئی۔ مسلمان محلہ میں بہت خوشی منائی گئی اور ان کے حوصلے بلند ہو گئے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد جب فضا خوشگوار معلوم ہوئی میں نے گتکا اور کبڈی کی تحریک کی اس پر مسلمان محلہ کے نزدیک کھلے میدان میں یہ دونوں کھیل شروع ہو گئے۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف افسران بالا کو رپورٹ کر دی اور پولیس کے ذریعہ خفیہ تحقیقات شروع ہو گئی لیکن ثابت نہ ہو سکا کہ یہ کسی تنظیم کی طرف سے باقاعدہ تحریک ہے۔ پھر میں نے مسلمانوں کو حوصلہ دلا کر دکانیں کھولنے کی بھی تحریک کی جو کامیاب ہوئی۔ بڈھ لاڈا میں چونکہ کوئی احمدی نہ تھا۔ اس لئے میں ہر جمعہ مانسہ جایا کرتا تھا جہاں مسٹر محمد علی صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی کے مکان پر نماز جمعہ ہوتی تھی۔ اسی جگہ میری پٹیالہ اسٹیٹ کے ایک مخلص احمدی پولیس انسپکٹر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے بڈھ لاڈا کے مسلمانوں کی مدد کرنے کے لئے عرض کی اور اس کا طریق یہ بتایا کہ پٹیالہ میں بہت سے ڈاکو پناہ گزین ہیں آپ کوشش کرکے کوئی ایک ڈاکو پکڑوا لیں اور اس کے ذریعہ سے بڈھ لاڈا میں واردات کرنے والے ڈاکوئوں کا سراغ لگائیں۔ خدا کی شان چند ماہ بعد ایک ڈاکو ان کے ہاتھ آگیا جس سے واردات کرنے والے تینوں ڈاکوئوں کے ٹھکانوں کا پتہ چل گیا چنانچہ مناسب وقت پر تینوں گرفتار کر لئے گئے ایک ڈاکو جوان کا سردار تھا۔ گولی لگنے سے مر گیا۔ باقی دو زخمی حالت میں پکڑ لئے گئے اور جنگل میں ان سے بہت سا اسلحہ اور گولیاں وغیرہ برآمد ہوئیں۔ اس طرح بڈھ لاڈا کیس جو پہلے عملاً ختم ہو چکا تھا۔ پھر دوبارہ زندہ ہو گیا۔
مختصر یہ کہ عدالت میں دونوں کو موت کی سزا ہوئی۔ میں سپرنٹنڈنٹ سے ملا اور سازش کرنے والے ہندوئوں پر مقدمہ چلانے کی درخواست کی انہوں نے پنجاب کے قانون دانوں سے مشورہ کیا جنہوں نے تمام رپورٹ ملاحظہ کرنے کے بعد اگرچہ تسلیم کیا کہ یہ سازش ہے لیکن کہا کہ مقدمہ سازش چلانے کے لئے ثبوت کافی نہیں اس لئے کوشش یہ کی جائے کہ سازش کو تسلیم کیا جائے لیکن ضروری ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ ملتوی کر دیا جائے اور ملزموں کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا کر سزا دلوائی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
اس عرصہ میں یعنی بڈھ لاڈا کی رہائش کے چھ سات مہینہ کے بعد حصار شہر کے نزدیک ایک گائوں میں اسی طرح فساد ہو گیا جس طرح بڈھ لاڈا میں ہوا تھا اور بہت سے مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ میں حصار پہنچا اور واقعہ کے صحیح حالات معلوم کئے اور ایک مفصل مضمون اخبارات کے لئے لکھا یہ مضمون انگریزی اور اردو اخبارات میں چھپا۔ اس مضمون میں علاوہ واقعہ بیان کرنے کے میں نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہاں ایک متوازی گورنمنٹ قائم ہے جو ڈپٹی کمشنر کے علم میں ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے اس کا اثر زائل کرنے کے لئے ڈسٹرکٹ مسلم ایسوسی ایشن کا ایک اجلاس بلایا اور کوشش کی کہ یہ ریزولیوشن پاس کروا لیا جائے کہ حصار میں بالکل امن و امان ہے بڈھلاڈا مسلم ایسوسی ایشن کے صدر نے مجھے تار دیا میں رہتک سے حصار پہنچا اور شائع شدہ مضمون کے حق میں ایک مناسب ریزولیوشن تیار کیا جو اجلاس میں پاس ہو گیا- یہ ریزولیوشن اخبارات میں شائع ہوا اور افسران بالا کے علاوہ گورنر صاحب کو بھی اس کی ایک کاپی بھیجی گئی۔ گورنر صاحب نے ڈپٹی کمشنر کو لکھا کہ میں حصار آرہا ہوں لیکن کوئی ایڈریس قبول نہیں کروں گا البتہ میورنڈم دیا جا سکتا ہے چنانچہ میں نے مسلم ایسوسی ایشن کے ممبران سے مل کر ایک میمورنڈم تیار کیا اب اس کے چھپوانے کا مسئلہ پیش ہوا۔ وقت بہت کم تھا۔ اور حصار میں کوئی پریس بھی نہ تھا اس لئے ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اور دوسرے ارکان نے مجھ سے درخواست کی کہ میں خود یہ کام سرانجام دوں۔ چنانچہ میں فوراً دہلی روانہ ہو گیا۔ امیر جماعت احمدیہ دہلی کے تعاون اور کوشش سے بارہ گھنٹے کے اندر اندر یہ میمورنڈم چھپ گیا جسے لے کر میں گورنر صاحب کے آنے سے پہلے حصار پہنچ گیا۔ چونکہ اخبارات کو اس میمورنڈم کی نقول میں نے بھجوا دی تھیں اس لئے گورنر صاحب کو میمورنڈم پیش کرنے کے ساتھ ہی اخبارات کو تار دے دیئے گئے چنانچہ دوسرے ہی دن یہ بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں چھپ گیا۔ گورنر صاحب نے انٹرویو کے لئے ایسوسی ایشن کے بعض ارکان کو موقع دیا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان ارکان پر اپنا اثر ڈالنے کے لئے بعض پابندیاں عائد کر دیں کہ آپ بڈھلا ڈا کیس کا ذکر نہ کریں۔ مگر گورنر صاحب نے خود ہی اس کی نسبت ممبران سے دریافت کیا تو ممبران نے گورنر صاحب کو صحیح صحیح حالات سے آگاہ کر دیا۔ گورنر صاحب کی روانگی کے بعد واقعات سے معلوم ہوا کہ وہ ڈپٹی کمشنر وغیرہ کے خلاف اثر لے کر گئے ہیں۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے اپنی پوزیشن بچانے کے لئے افسران بالا سے رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس پر حضورؓ کی طرف سے مجھے ہدایت ہوئی کہ میں شملہ جاکر خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ کو سارے حالات سے آگاہ کروں چنانچہ میں شملہ پہنچا اور خان صاحب موصوف سے ملا۔ انہوں نے مناسب طور پر کوشش کی کہ ڈپٹی کمشنر وغیرہ کے خلاف گورنر صاحب کا اثر قائم رہے نتیجہ یہ ہوا کہ ڈپٹی کمشنر اور سول سرجن دونوں تبدیل ہو گئے سپرنٹنڈنٹ پولیس تو پہلے ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ اس طرح حضورؓ کی کوششوں سے مسلمانوں کو اس اذیت ناک ماحول سے چھٹکارا ملا۔ میں وہاں تقریباً ایک سال تک رہا اس عرصہ کے دوران میرا اور مجھ سے پیشتر آنے والے احمدی احباب کا سارا خرچہ جماعت احمدیہ ہی نے اٹھایا۔ وہاں کے مقامی مسلمانوں پر اس کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا۔
بڈھلا ڈا کیس کے ضمن میں مجھے انبالہ میں )جو اس وقت ڈویژنل ہیڈ کوارٹر تھا( بھی جانے کا موقعہ ملا اور میں نے کمشنر صاحب۔ ڈی۔ آئی۔ جی اور دیگر افسران اور معززین سے ملاقات کرکے بڈھ لاڈا اور حصار ڈسٹرکٹ کے مقامات کے مسلمانوں کی ابتر حالت ان پر واضح کی۔ اسی غرض کے لئے مشہور ایڈووکیٹ اور مسلمانوں کے لیڈر سید غلام بھیک صاحب نیرنگ سے بھی میری ملاقات ہوئی۔ جب میں نے ان سے ملنے کے لئے تعارفی کارڈ بھیجا انہوں نے مجھے فوراً بلا لیا اور بڑے تعریفی کلمات کے ساتھ جماعت احمدیہ کے کارناموں کا ذکر کیا۔ بڈھلاڈا کیس کے بارہ میں جو حالات میرے ذریعہ سے اخبارات میں آتے رہے تھے ان سے وہ باخبر تھے علاوہ ازیں بعض اور لوگوں سے میری کارگزاری کے بارہ میں ان کو کچھ علم ہو چکا تھا۔ اس لئے انہوں نے اس کام کو بہت سراہا اور تعریف کی<۔۱۵۵
مسلمانان الور کی امداد
ریاست الور کے بہت سے مسلمان ریاستی مظالم کی تاب نہ لاکر جے پور` اجمیر شریف` بھرت پور اور ضلع گوڑ گائوں اور دہلی وغیرہ مقامات میں آگئے تھے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو جب ان کے حالات کا علم ہوا۔ تو مظلوموں کی اعانت کے لئے سید غلام بھیک صاحب نیرنگ ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور و جنرل سیکرٹری سنٹرل جماعت تبلیغ الاسلام کو دو سو روپے ارسال فرمائے۔
اسی طرح مرکز کی طرف سے افسران بالا سے خط و کتابت کی گئی۔ افسروں نے نہایت ہمدردی سے غور کیا اور ریاست کے متعلق حکام کو ہدایت کی کہ وہ مسلمانوں کے مطالبات کا پورے طور پر خیال رکھیں اور ان کی شکایات کا تدارک کریں۔۱۵۶ اس کے شکریہ میں نیرنگ صاحب نے انبالہ شہر سے ۲۲/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو حضورؓ کی خدمت میں مندرجہ ذیل خط لکھا۔
>انبالہ شہر ۳۲/۱۰ ۲۲
عالی جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ قادیان
مکرم و محترم و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ- مزاج گرامی! نوازش نامہ )بلا تاریخ( نوشتہ از مقام ڈلہوزی باعث مسرت ہوا۔ اس کے بعد لائیڈز بنک لاہور نے آپ کے حکم کے مطابق مبلغ دو صد روپے کا ڈرافٹ بنام امپیریل بنک انبالہ بھیجا۔ میں چونکہ سفر میں تھا اس لئے نوازش نامہ کے جواب اور ڈرافٹ مذکور کی رقم کی وصولی آج تک ملتوی رہی۔ آج بنک سے رقم وصول ہو گئی اور لائیڈز بنک کو بھی ڈرافٹ کی وصولی کی اطلاع دی گئی جناب کے عطیہ کی رسید ضابطہ ملفوف ہے۔ جزاکم اللہ فی الدارین احسن الجزاء۔
مجھ کو معلوم ہے کہ بحالات موجودہ آپ امداد مہاجرین الور کے لئے خاطر خواہ رقم بھیجنے میں خاص دقت محسوس فرماتے ہیں مگر درحقیقت جو رقم آپ نے بھیجی وہ بجائے خود معقول ہے اور آپ کی اس ہمدردی کا ایک بین ثبوت جو آپ کو مظلوم مسلمانان الور سے ہے۔ ان لوگوں کی ہجرت کے بارہ میں جو خیالات آپ نے ظاہر فرمائے وہ بالکل درست ہیں درحقیقت ان لوگوں نے ایک حالت ناچاری و مایوسی میں بلا مشورہ مسلمانان بیرون ریاست یکایک ہجرت کی۔ اگر مشورے کا موقعہ ملتا تو یا تو ان کو روکا جاتا ورنہ ان کے لئے پہلے سے معقول انتظام ہوتا وہ بھی جانتے کہ ہم نے کہاں جانا ہے اور ہم بھی جانتے کہ ان کے واسطے کیا انتظام ہے یہ لوگ محض سراسیمگی کے عالم میں جے پور۔ اجمیر شریف۔ بھرت پور۔ آگے ضلع گوڑ گائوں دہلی وغیرہ مقامات میں جہاں جہاں جس کے سینگ سمائے چلے گئے اور مجھ کو تو یکایک بمقام شملہ پے در پے تین تار پہنچے ان سے یہ واقعہ معلوم ہوا۔ اس وقت دو باتیں کی گئیں جو چلے آئے تھے۔ ان کے لئے قیام و طعام کی فکر کی گئی اور ان کو سمجھایا گیا کہ اب چلے آئے ہو تو کچھ غربت برداشت کرو۔ کیونکہ اگر اسی طرح بے ترتیب اور بے تصفیہ نزاع واپس جائو گے تو پہلے سے زیادہ ذلت و نقصان اٹھائو گے اور جو ابھی نہیں آئے تھے ان کو روکا گیا۔
وائسرائے صاحب کے ہاں وفد کی پیشی کے وقت یہ توقع تھی کہ پولٹیکل سیکرٹری ضرور موجود ہو گا چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے جن کو وفد کشمیر کا تجربہ تھا یہی بتایا۔ مگر جب وفد پیش ہوا تو دیکھا کہ وائسرائے صاحب کے ساتھ صرف پرائیویٹ سیکرٹری ہے تاہم ہم نے وائسرائے صاحب سے درخواست کی کہ تمام مواد پولٹیکل سیکرٹری ہم سے لیں اور وائسرائے صاحب کے لئے نوٹ تیار کریں۔ چنانچہ یہ درخواست منظور کی گئی اور اس کے مطابق ۱۳/ اکتوبر کو میں مسٹر گلینسی سے بمقام شملہ ملا اور سوا گھنٹہ تک ان سے مکالمہ ہوتا رہا۔ ان کو بہت سا مواد دیا گیا۔ اور جہاں تک ہو سکا ان کے شکوک کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاحال یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا نوٹ لکھا۔ ۱۷/ اکتوبر کو سر محمد اقبال نے وائسرائے کو تار بھی دیا کہ پولیٹکل سیکرٹری کو ۱۳/ اکتوبر کو مواد دیا جا چکا ہے اب جلد فیصلہ ہونا چاہئے۔ تاحال کوئی نتیجہ معلوم نہیں ہوا مگر مختلف واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ الورراج بہت سراسمیہ اور مضطرب ہے میں آپ کی نوازش کا مکرر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ زیادہ نیاز۔ والسلام
بندہ غلام بھیک نیرنگ بی۔ اے` ایل ایل۔ بی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور و جنرل سیکرٹری سینٹرل۔ جماعت تبلیغ الالسلام۔۱۵۷4] f[rt
tav.7.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل چہارم(
جلسہ سیرت النبیﷺ~ لکھنئو کے خلاف ہنگامہ آرائی
جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام ۶/ نومبر ۱۹۳۲ء کو ہندوستان بھر میں سیرت النبیﷺ~ کے کامیاب جلسے ہوئے مگر لکھنئو میں اس کے خلاف احراری خیال کے علماء اور ان کے زیر اثر مسلمانوں کی طرف سے افسوسناک مظاہرہ ہوا جسے لکھنئو کے مسلم پریس نے سخت حقارت سے دیکھا۔ اس ضمن میں روزنامہ >حقیقت< اور روزنامہ >ہمدم< اور روزنامہ >اودھ< لکھنئو کے اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
روزنامہ >حقیقت< نے لکھا۔ >پرسوں شب کو امین الدولہ پارک میں جبکہ سیرۃ النبیﷺ~ کا جلسہ ہو رہا تھا تو عین اس وقت جبکہ کلام پاک کی تلاوت کے وقت ہر عقیدت مند مسلمان ادب و تعظیم کے ساتھ قرآن پاک سن رہا تھا امین الدولہ پارک کے باہر کچھ مسلمان سخت شور و ہنگامہ کے ساتھ مسلمانوں کو ہدایت کر رہے تھے کہ وہ جلسہ سے اٹھ کر چلے آئیں اور اس قدر شور و شر مچایا جا رہا تھا کہ قاری کی آواز کو سننا مشکل ہو گیا۔ یہ کس قدر افسوسناک اور قابل عبرت ہے کہ ایک ایسے جلسہ کو جو رسول عربیﷺ~ کی یادگار منانے کے لئے منقعد ہو رہا ہو` خواہ وہ کسی جماعت کی طرف سے ہو اس کے خلاف اس حد تک نفسانیت سے کام لیا جائے کہ رسول اللہﷺ~ کا ذکر سننے سے لوگوں کو روکا جائے۔ احمدی حضرات کے عقائد جو کچھ بھی ہوں لیکن جب یہ جلسہ خالص سیرۃﷺ~ کا جلسہ تھا اور یہ طے شدہ تھا کہ اس میں اشارۃ" و کنایت¶ہ بھی احمدی عقائد کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ تو پھر کیا بانی اسلام علیہ التحیتہ والسلام کی صریح توہین نہیں ہے کہ اس جلسہ میں شرکت سے مسلمانوں کو روکا جائے اور شور مچا کر آنحضرتﷺ~ کی سیرت پاکﷺ~ کا ذکر سننے سے لوگوں کو روکا جائے۔ سب سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ حرکت خود مسلمانوں کی طرف سے سرزد ہوئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون<۔۱۵۸
۲۔
روزنامہ >اودھ< نے لکھا۔
>اس مرتبہ بھی سالہائے گزشتہ کی طرح احمدیہ جماعت کی طرف سے بانی اسلام~صل۱~ کی حیات مبارک کے قابل تقلید واقعات سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے پبلک تک پہنچانے کی مبارک غرض سے ۶/ نومبر کو جلسہ سیرۃ النبی~صل۱~ منعقد کیا گیا لیکن ہم کو یہ دیکھ کر انتہائی تعجب ہوا کہ اس مرتبہ بعض ان ہی مسلم علماء نے اس جلسہ سے اپنے قولی و عملی اختلاف کا اظہار کیا جو سالہائے گزشتہ اس مبارک جلسہ کے سلسلہ میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مذہبی حیثیت سے ایک سال قبل اس جلسہ کی شرکت کیونکر جائز تھی اور ایک سال بعد کیونکر حرام ہو گئی۔ بہرحال اس جلسہ کے مقاطعہ کے لئے جو اعتراضات پبلک تک پہنچائے جارہے تھے وہ یہ تھے کہ اس جلسہ کے بانی قادیانی ہیں۔ یہ دراصل کوئی اعتراض نہیں بلکہ اظہار واقعہ ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ببانگ دہل یہ الفاظ بھی سنے گئے کہ لکھنئو کے تمام علماء نے متفقہ طور پر اس جلسہ کا بائیکاٹ کیا ہے لہذا کوئی مسلمان اس میں شریک نہ ہو۔ کوئی وجہ کوئی دلیل اور کوئی سبب بیان نہیں کیا جارہا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلسہ میں جوق در جوق ہندو اور مسلمان سب شریک ہوئے۔ گو کہ ان کو جلسہ گاہ کے ہر دروازہ پر مذموم قسم کی پکٹنگ کے ذریعہ روکنے کی بھی کوشش کی گئی اور غلط فہمیاں بھی پیدا کرائی گئیں۔ مثلاً تمام علماء اس جلسہ کے مقصد کو مسلمانوں کے لئے مضرت رساں سمجھتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے منشی محمود علی صاحب صدر منتخب نے استعفاء بھی دے دیا وغیرہ وغیرہ لیکن ایک طرف سے شائقین جلسہ کا ہجوم تھا دوسری طرف وہ لوگ بھی جلسہ کی شرکت کے لئے مجبور ہو رہے تھے جن کی سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ ایک خالص مذہبی تقریب مذہب کے لئے کس طرح مضرت رساں ہو سکتی ہے۔ بہرحال ہم کو اس اختلاف پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اختلاف کی جو صورت اختیار کی گئی مثلاً شرکائے جلسہ پر آوازے کسنا۔ زنانہ نشست میں پتھر بازی کرنا اور جلسہ کے باہر سڑک پر غنڈوں کی طرح غل مچانا وغیرہ یہ ہمارے نزدیک نہ صرف قابل اعتراض ہے بلکہ انتہائی شرمناک ہے جس سے خود مخالفوں کی پوزیشن پر برا اثر پڑتا ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ باوجود اس کے جلسہ کامیاب ہوا۔ اور یہ تمام مضحکہ خیز کوششیں ناکام ہونے کے علاوہ اور کچھ نہ ہو سکیں۔ پھر سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہوئی کہ جلسہ کے اختتام پر تمام حاضرین جلسہ یہی کہتے ہوئے اٹھے کہ اس جلسہ کی مخالفت اب تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اور جو اعتراضات مخالفین جلسہ اٹھا رہے تھے ان میں سے ہم نے ایک کو بھی صحیح نہیں پایا۔ اس موقع پر ہم بانیان جلسہ کو مبارکباد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جنہوں نے نہایت سکون کے ساتھ اس تمام مضحکہ خیز مخالفت کا مقابلہ کیا اور اپنی طرف سے مدافعانہ کوئی کارروائی نہ ہونے دی یہاں تک کہ مخالف اپنی ناکامی سے خود ہی تھک گئے<۔۱۵۹
۳۔
روزنامہ >ہمدم< نے لکھا۔
>ہمارے موجودہ علماء کی حد سے گری ہوئی حالت کا سدھار خدا ہی ہے جو ہو سکے۔ سیرت پاک کی مقدس مجلس میں مولوی وزیر حسن صاحب اور مولوی فتح اللہ صاحب کا ایمان سوختہ پارٹی نے جو انسانیت سوز مظاہرہ کیا وہ ہمارے لئے انتہائی ندامت کا سبب تھا۔ ادھر تو ذکر رسولﷺ~ ہو رہا ہے اور ایک ہندو مداح رسولﷺ~ فرما رہے تھے کہ مجھے ڈاکٹروں نے بولنے سے منع کیا ہے کیونکہ میں بیمار ہوں لیکن جس مجلس میں حضرت رسول مقبول~صل۱~ کا ذکر پاک ہو میں اس میں شریک ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آپ نے حضرتﷺ~ کی سیرت پر ایک محبت سے ڈوبی ہوئی تقریر بھی کی اور ادھر چار طرف ننگ اسلام پارٹیاں جو انسانیت کش حرکات کر رہی تھیں۔ وہ شہدا پن کی انتہائی ڈگری سے کئی ہزار گنا بڑھ گئی تھیں۔ آہ خواتین کی نشست گاہ پر بری طرح ڈھیلے برسائے گئے حاضرین جلسہ پر گالیوں کی بوچھاڑ کی گئی وہ وہ حرکات کی گئیں جن سے شیطنت بھی پناہ مانگتی تھی۔ پروپیگنڈا یہ تھا کہ قادیانیوں کا جلسہ ہے۔ حکیم خواجہ شمس الدین صاحب کی تقریر ہو رہی تھی۔ میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ مولانا کی تعریف کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایک شیداء رسولﷺ~ حنفی تقریر کر رہا ہے۔ شروع سے لے کر آخر تک کہیں قادیانیت کا نام تک بھی نہیں سنا۔ میں خود قادیانی عقائد سے شدید اختلاف رکھتا ہوں۔ لیکن یہاں تو قادیانیت سے کچھ واسطہ ہی نہ تھا۔ حضرت آقاء نامدار محمدﷺ~ عربی کی سیرت پر قادیانی` حنفی` ہندو وغیرہ تقریریں کر رہے تھے جو ہمارے لئے انتہائی مسرت کا باعث تھیں پارک میں جو محفل میلاد ہوتی ہے اس میں ہمیں خوب علم ہے کہ قادیانی حضرات برسوں سے شرکت کرتے ہیں انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ جلسہ غیر احمدی مسلمانوں کا ہے بہرکیف خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ غیب سے مسلمانوں کی اصلاح کے سامان کر دے ورنہ ان علماء نے تو مسلمانوں کو کہیں کا بھی نہیں رکھا۔ )سید اعجاز حسین رضوی<(۱۶۰
اراضی سندھ کی خرید
0] f[rtاب سلسلہ کی ضروریات ایسی صورت اختیار کر چکی تھیں کہ اسلام و احمدیت کی اشاعت کے لئے ایک مستقل فنڈ جاری کرنا ضروری تھا۔ آنحضرت~صل۱~ کے زمانہ مبارک میں بھی بعض جائدادیں اسلامی کاموں کے لئے وقف کر دی گئی تھیں اسی طرح حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کیا گیا۔ حضرت فضل عمرؓ نے بھی اسی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ۱۹۳۲ء میں ریزرو فنڈ کی مستقل بنیاد رکھی اور سندھ میں زمینیں خرید فرمائیں یہ پانچ لاکھ کا سودا تھا۔ جو بیس سال میں ادا کرنا تھا۔۱۶۱ صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ مطبوعہ رپورٹ )یکم مئی ۱۹۳۲ء لفایت ۳۰/ اپریل ۱۹۳۲( سے اراضی سندھ کی خرید کے ابتدائی حالات پر روشنی پڑتی ہے چنانچہ لکھا ہے۔
>ایک سال چھ ماہ کی متواتر کوشش سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کامیابی عطا فرمائی اور سندھ میں حضور کی خواہش کے مطابق پانچ ہزار ایکڑ زمین مل گئی۔ اس میں انجمن کا حصہ ۲۸۶۰ ایکڑ کا ہے۔ انتظامی لحاظ سے انجمن کا اس میں اسی قدر دخل ہے جس قدر کہ یک حصہ دار کا ہو سکتا ہے مگر چونکہ انجمن کا سب حصہ داروں سے بڑا حصہ ہے اس لئے ناظر صاحب اعلیٰ اس کمیٹی مذکور یعنی سنڈیکیٹ کے ممبر ہیں اور اس ذریعہ سے مشترکہ جائداد کے نظم و نسق میں انجمن کا خاص دخل ہے پس اس لحاظ سے ایک حد تک انجمن کے مفاد پر انجمن کے قائم مقام یعنی ناظر صاحب اعلیٰ ہر وقت نظر رکھتے ہیں اور اس کاروبار کے عنوان انشاء اللہ امید افزاء ہیں۔
چونکہ پانچ ہزار ایکڑ اچھی زمین کا ایک جگہ پر ملنا مشکل تھا۔ اس لئے دو مقامات پر اچھی اچھی زمین منتخب کی گئی جس کی تلاش میں سنڈیکیٹ نے بہت سا مال اور وقت صرف کرکے اسے حاصل کیا۔ اور اس انتخاب میں خان صاحب محمد عبداللہ خان صاحب خلف الرشید نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ خاص شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے سندھ کے متفرق علاقوں میں پھر پھر کر اسے تلاش کیا۔ جزاھم اللہ خیرا۔ ان ہر دو مقامات میں ۱۰۔ ۱۱ میل کا آپس میں فاصلہ ہے۔
ایک کا نام احمد آباد اسٹیٹ اور دوسرے کا محمود آباد اسٹیٹ رکھا گیا۔ اول الذکر میں ۴/ نومبر ۱۹۳۲ء کو پانی ملا تھا۔ جہاں بوجہ تنگی وقت صرف ۵۷۵ ایکڑ زمین میں فصل ربیع بویا جا سکا۔ جس کی آمد اندازاً ۸۔ ۹ ہزار ہوئی۔ اور دوسرے رقبہ میں چونکہ پانی ربیع گزشتہ ۱۹۳۲ء کے موقعہ پر نہیں ملا تھا۔ بلکہ ابھی تک بھی پانی کی مقدار ضرورت سے کم ہے اس لئے وہ گزشتہ سرما ۳۲۔ ۱۹۳۳ء میں خالی رہا۔ البتہ موسم خریف میں تین چار سو ایکڑ کپاس اور باجرہ بویا گیا۔ اور اس طرح احمد آباد اور محمود آباد میں بفضلہ تعالیٰ اندازاً ایک ہزار ایکڑ کپاس و باجرہ فصل خریف سن رواں میں ہوئی۔ جس سے امید ہے کہ انشاء اللہ اندازاً تیس ہزار روپیہ سنڈیکیٹ کو آمد ہو جائے گی اور آئندہ ربیع بارہ تیرہ سو ایکڑ کاشت ہو چکی ہے۔
۲۔ فروخت جائداد: اراضیات سندھ کے خرید کرنے کے لئے انجمن کے خزانہ پر کوئی بوجھ نہیں پڑا۔ بلکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے متعلق تجویز فرمایا کہ انجمن کی بیرونی متفرق جائدادیں جو مختلف جگہوں پر واقع ہیں یا قادیان کے گرد و نواح کی بکھری ہوئی جائدادوں کو فروخت کرکے روپیہ مہیا کیا جاوے اور اس سے سندھ کی زمین خرید کی جائے چنانچہ اس وقت تک ۲۳ ہزار روپیہ کی جائیدادیں فروخت ہوکر سندھ کی اراضیات کے سلسلہ میں روپیہ بھجوایا جا چکا ہے اور اس کے علاوہ کچھ قرضہ بھی بیرونی جماعتوں اور بعض احباب سے لیا گیا تھا جو سب مل ملا کر قریباً چالیس ہزار روپیہ ۲۵۶۰ ایکڑ پر انجمن کی طرف سے خرچ ہو چکا ہے جس میں قسط اول اور اخراجات آبادی اور انتظامی شامل ہیں مگر خزانہ انجمن سے کوئی روپیہ نہیں لیا گیا<۔۱۶۲
جامعہ احمدیہ کا تبلیغی و تعلیمی وفد
۲۶/ نومبر ۱۹۳۲ء۱۶۳ کو مولوی ارجمند خان صاحب کی قیادت میں انتیس افراد پر مشتمل جامعہ احمدیہ کا ایک وفد قادیان سے روانہ ہوا۔ اور ۹/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو واپس مرکز میں پہنچا۔۱۶۴ اس دورہ کے اصل محرک مولوی ظہور الحسن صاحب مولوی فاضل تھے۔
یہ وفد جامعہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا وفد تھا جس نے قادیان سے چل کر جالندھر` پھلور` لدھیانہ` انبالہ شہر` دہلی` علی گڑھ اور میرٹھ سے ہوتے ہوئے دیوبند اور سہارنپور تک کا ایک لمبا سفر طے کیا۔ اور اس وفد کی ایک عجیب خصوصیت یہ تھی کہ اس کے ارکان دن کو کھیلوں کے میچ میں داد تحسین حاصل کرتے اور رات کو اپنی پرجوش اور معلومات افزاء تقریروں سے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے تھے کہ سبز عمامے پہننے والے قادیان کے عالم بھی عجیب قسم کے ہیں کہ کھیل اور لیکچر ہر دو فنون میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔۱۶۵ وفد جہاں جہاں پہنچا اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور ہر جگہ اپنی تبلیغی و تفریحی صلاحیتوں سے دھوم مچا دی۔
جالندھر چھائونی میں وفد نے جلسہ منعقد کرنے کے علاوہ گورنمنٹ ہائی سکول کو ہاکی کے میچ میں تین گول سے شکست دی۔۱۶۶
پھلور میں پولیس ٹریننگ سکول کے ساتھ میچ ہوا۔ جس میں ارکان وفد نے کھیل کا اس قدر شاندار مظاہرہ کیا کہ بار بار نعرے ہائے تحسین بلند ہوتے تھے دوسرے ہاف میں جامعہ نے گول کردیا جس کے بعد کھیل بے حد تیز ہو گئی اور عین اس وقت جبکہ پانچ منٹ باقی تھے پولیس نے گول اتار دیا۔ وہاں کے لوگوں کا بیان تھا کہ اس قدر دلچسپ میچ پھلور میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ میچ کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ کھیل کے دوران میں جامعہ کے وفد کی طرف سے ٹیم کو WELLDONE کی بجائے حبذا کہا جاتا تھا۔ چند منٹ بعد تمام ٹریننگ پولیس کلب حتیٰ کہ دو یورپین آفیسروں نے بھی یہی لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا۔
لدھیانہ میں جلسہ بھی ہوا اور پولیس کلب کے ساتھ میچ بھی۔ جس میں جامعہ نے پولیس ٹیم کو ایک گول سے ہرا دیا۔
انبالہ میں لوگوں کو وفد دیکھ کر حیرانی پیدا ہوئی ایک شخص کو جب معلوم ہوا کہ یہ لوگ قادیان سے آئے ہیں تو کہنے لگے کہ تبھی ان کے چہروں سے نور اور نیکی کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ یہاں بھی جلسہ کے علاوہ جامعہ کا انبالہ کی مشہور کلب ایل ایل۔ بی سے ہاکی کا زبردست مقابلہ ہوا۔ جس میں کامیابی کا سہرا جامعہ کی ٹیم کے سر رہا۔۱۶۷
علی گڑھ میں وفد کی سرگرمیاں زیادہ تر مسلم یونیورسٹی کے شعبہ جات کو دیکھنے اور ایک انگریزی مباحثہ سننے تک محدود رہیں۔۱۶۸ علی گڑھ کالج میں ان دنوں ایک اردو مباحثہ بھی منقعد ہو رہا تھا جس میں جامعہ احمدیہ کی طرف سے شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور مولوی محمد سلیم صاحب فاضل کی شمولیت کا فیصلہ ہو چکا تھا مگر چونکہ اصل قرارداد کے الفاظ قرآنی تعلیم کے خلاف تھے اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر یہ فیصلہ منسوخ کر دیا گیا۔
دہلی میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں طلبائے جامعہ نے مختلف مضامین پر تقریریں کیں نیز دہلی کے مختلف حلقوں سے متعارف ہونے کے لئے ارکان کی متعدد پارٹیاں ترتیب دی گئیں جنہوں نے اپنا مفوضہ کام نہایت خوبی کے ساتھ انجام دیا۔
میرٹھ میں بھی اخذ معلومات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور عربی درسگاہوں` مذہبی انجمنوں اور اخبارات کے دفتروں کی طرف پارٹیاں بھجوائی گئیں۔ یہاں وفد نے دو میچ کھیلے۔ ایک سناتن دھرم ہائی سکول سے دوسرا یونین کلب میرٹھ سے دونوں میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ لوگوں کو جب بتایا گیا کہ یہی لوگ رات کو لیکچر بھی دیں گے تو وہ بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ مسلمانوں کے مولوی تو حجروں میں بند رہنے کو اسلام سمجھتے ہیں مگر قادیان نے ایسے علماء پیدا کئے ہیں جو دینوی امور میں بھی دسترس رکھتے ہیں۔۱۶۹
غرضکہ وفد کا یہ تبلیغی و تعلیمی اور معلوماتی۱۷۰ سفر ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور احمدی جماعتوں میں حرکت پیدا کرنے اور غیروں میں احمدیت کے اثر و نفوذ کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہوا- ارکان وفد حسب ذیل تھے۔
مولوی ارجمند خان صاحب۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری` شیخ مبارک احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب` مولوی محمد سلیم صاحب` شیخ عبدالقادر صاحب` مولوی احمد خاں صاحب نسیم` مولوی ظہور الحسن صاحب` سید احمد صاحب` مولوی نذر احمد صاحب` مولوی صالح محمد صاحب` مولوی نذیر احمد صاحب مبشر` ملک میں عبداللہ صاحب` چوہدری محمد شریف صاحب` مرزا عبدالرحمن صاحب` مولوی محمد احمد صاحب جلیل` عطاء الرحمن صاحب سار چوری` محمد نور صاحب کابلی` عطاء اللہ صاحب )ابن اللہ بخش صاحب`( عطاء اللہ صاحب بنگہ` چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ` مولوی نور الٰہی صاحب` مولوی ولی داد خان صاحب` حافظ بشیر احمد صاحب` مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری` مولوی عبدالرحمن صاحب پشاوری` حافظ عبدالغفور صاحب جالندھری` عبدالرحیم صاحب۔ )ایک نام کا تعین نہیں ہو سکا(
سالانہ جلسہ پر ایک قرار داد
الہ آباد میں وسط دسمبر ۱۹۳۲ء میں ایک اتحاد کانفرنس ہوئی جس میں مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے مطالبات کے خلاف بعض نہایت ضرر رساں تجاویز پاس کی گئیں۔ لہذا جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ ۱۹۳۲ء کے تیسرے دن )۲۸/ دسمبر کو( یہ قرار داد پاس کی گئی کہ >مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے مطالبات مسلمانوں کے لئے بہت مفید اور ضروری ہیں اور اس کے خلاف یونٹی کانفرنس الہ آباد کی تجاویز مسلمانوں کے مفاد کے لئے ضرر رساں اور نقصان دہ ہیں۔ پس ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ مسلم کانفرنس کے پیش کردہ مطالبات کو ہی صحیح مطالبات سمجھے ہم مسلم کانفرنس کے مطالبات کی تائید میں ہر اک قسم کی امداد کا وعدہ کرتے ہیں<۔۱۷۱
اخبار >الفضل< میں مسلمانان ہند کی تائید میں مسلسل مضامین
اس سال اخبار >الفضل< نے مسلمانان ہند کی ترقی و بہبود کے لئے مسلسل آواز اٹھائی اور ان کے خلاف ملک میں اٹھنے والے ہر فتنہ کے خلاف بڑے پرزور طریق سے اور بڑی جرات کے ساتھ قلم اٹھایا۔ حقوق اسلامی کی حفاظت و صیانت کی ان عظیم الشان خدمات کا اندازہ >الفضل< کے مندرجہ ذیل مضامین کے عنوانوں سے باسانی لگ سکتا ہے )مسلمانان کشمیر کی نسبت الفضل کے موثر مضامین اس کے علاوہ ہیں( >صوبہ سرحد میں مسلم کانفرنس کا وفد<۔ >مسلمانوں کو حصول حقوق کے لئے کیا کرنا چاہئے<۔ >مسلمانان بنگال کی امداد کی ضرورت<۔ >کشمیر کے مقابل میں حیدرآباد اور بھوپال کا طریق عمل<۔ >مسلمانوں کے حقوق سے حکومت کی بے التفاتی<۔ >ریاست جے پور اور جودھپور کے مسلمانوں کی حالت زار<۔ >فرقہ وار مسئلہ کے تصفیہ کا مطالبہ<۔ >محکمہ ریلوے میں مسلمانوں کی شدید حق تلفی<۔ >انقلاب ہرگز بند نہیں ہونا چاہئے<۔ >آل انڈیا مسلم کانفرنس کی اہم قرارداد<۔ >مسلمانان پنجاب کے لئے پچاس فیصدی ملازمتیں<۔ >مسلمانوں کی ضروری تنظیم<۔ >حاجیوں کی تکالیف کے انسداد کا معاملہ<۔ >بی۔ اے کے نصاب سے اسلامی تاریخ کا اخراج<۔ >آل انڈیا مسلم کانفرنس میں افسوسناک اختلاف<۔ >مسلمانوں کے حقوق کے خلاف ہندوئوں کی حکومت کو دھمکیاں<۔ >مسلمانان پونڈری سے تعزیری ٹیکس نہ لیا جائے<۔ >سکھوں کا اعلان جنگ<۔ >سکھوں کی دھمکیاں اور حکومت کا فرض<۔ >مسلمانوں کی مخالفت میں ہندوستان کو آئینی ترقی سے محروم رکھنے کی کوشش<۔ >ہندو ریاستوں میں مسلم عناصر کو کچلنے کی تلقین<۔ >مسلمانان الور کے ناقابل برداشت مصائب<۔ >مسلمانوں کے خلاف بلاوجہ شور و شر<۔ >مسلمان اچھوتوں کو فراموش نہ کریں<۔ >حکومت اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاریاں<۔ >مسلمانان پنجاب کے نیابتی حقوق کے خلاف شورش انگیزی کا نتیجہ<۔ >سکھوں کا فائدہ ہندوئوں کا آلہ کار بننے میں نہیں مسلمانوں کے ساتھ متحد ہونے میں ہے<۔ >ہندوستان کی آزادی کے لئے مسلمانوں کی جدوجہد<۔ >اسلام کا جھنڈا نہ صرف گنگا پر بلکہ ساری دنیا پر لہرائے گا<۔ >حکومت کو عجلت کی بجائے تدبر اور احتیاط سے کام لینا چاہئے<۔ >مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کی جنگی تیاریاں<۔ >بڈھلاڈا ضلع حصار کے مسلمانوں پر اندھا دھند قاتلانہ یورش<۔ >کیا حکومت مسلمانوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ کرے گی<۔ >ہندو مسلم سمجھوتہ سے ہندوئوں کا گریز<۔ >مسلمانوں کے خلاف ڈاکٹر نارنگ کا اظہار غیظ و غضب<۔ >بڈھلاڈا کے حادثہ نے ہندوئوں کی خطرناک سازش کو بے نقاب کر دیا<۔ >مسلمانوں میں افتراق پیدا کرنے کی افسوسناک کوشش<۔ >فرقہ وارانہ منافرت کو مٹانے کے لئے تاریخی کتب میں اصلاح کی ضرورت<
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اس سال مندرجہ ذیل صحابہ کبار نے رحلت فرمائی۔
۱۔
حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی موجد مفرح عنبری )تاریخ وفات ۱۸/۱۷ اپریل ۱۹۳۲ء(۱۷۲ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی نسبت اپنے زمانہ خلافت سے قبل الفضل میں تحریر فرمایا۔ >حکیم صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے مخلصین میں سے ہیں اور ان چند لوگوں میں سے ہیں کہ جن کو حضرت بے تکلفی سے کام بتا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ اکثر کام جو لاہور کے متعلق ہوتے تھے۔ ان کی نسبت حضرت صاحب حکیم صاحب کو ہی لکھا کرتے تھے اور اس طرح آپ کو حضرت صاحب کی دعائوں سے فائدہ اٹھانے کا خاص موقعہ ملتا تھا۔ چنانچہ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کے لئے ایک خاص جوش دیا ہے<۔۱۷۳
۲۔
حضرت مولوی سید غلام محمد صاحب مہاجر افغانستان )تاریخ وفات ۲۸/ جولائی ۱۹۳۲ء(۱۷۴
۳۔
حضرت مولانا عبدالستار صاحبؓ افغان المعروف بزرگ صاحب )تاریخ وفات ۱۸/ اکتوبر ۱۹۳۲ء(۱۷۵
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی وفات پر ایک مفصل خطبہ دیا جس میں آپ کے مقام ایمان و اخلاص پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
>معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مولوی صاحب کا بہت بڑا درجہ تھا۔ ان کی وفات سے دو اڑھائی مہینے پہلے کی بات ہے میں نے ڈلہوزی میں ایک رئویا دیکھا کہ کوئی شخص نہایت گھبرائے ہوئے الفاظ میں کہتا ہے دوڑ و دوڑو قادیان میں ایک ایسا شخص فوت ہوا ہے جس کے فوت ہونے سے آسمان اور زمین ہل گئے ہیں۔ جب میری نظر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ واقعی آسمان ہل رہا ہے اور مکان بھی ہل رہے ہیں۔ گویا ایک زلزلہ آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اب جبکہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رئویا انہی کے متعلق تھی جو پوری ہو گئی۔ جب کوئی شخص ایسا فوت ہوتا ہے جو مقبول الہی ہو۔ تو اس کی وفات کا زمین و آسمان پر اثر ضرور ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ میں تاریخ میں جماعت کے ایک نیک اور اچھے شخص کے نمونہ کو قائم کرنے کے لئے یہ خطبہ کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ غرض جہاں میں چاہتا ہوں کہ تاریخ میں ان مخلص اور خدا رسیدہ لوگوں کے نام رہ جائیں وہاں میں نوجوان احمدیوں اور نئے احمدی بننے والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اسی قسم کا اخلاص اور ایمان پیدا کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ سے ایسا یقین` معرفت اور توکل حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ ان سے براہ راست ہمکلام ہو اور وہ اس مقام پر کھڑے ہوں کہ ان کی وفات آسمان اور زمین کو ہلا دینے کا موجب ہو جائے وہ بھی کیا انسان ہے جو دنیا میں آیا اور چند سال رہ کر یوں مر گیا۔ جیسے مکھی مر جاتی ہے<۔۱۷۶]ydob [tag
۴۔
حضرت مولوی فضل دین صاحب ساکن کھاریاں جو عالم باعمل اور ۳۱۳۔ اصحاب کبار میں شامل تھے ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو رحلت فرما گئے۔۱۷۷
۵۔
نانی اماں حضرت سیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر نواب صاحبؓ )تاریخ وفات ۲۴/ ۲۳ نومبر ۱۹۳۲ء(
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ سول سرجن نے ایک مفصل مضمون میں ان کے حالات زندگی شائع کئے تھے جن میں تحریر فرمایا۔ >والدہ صاحبہ کی شادی قریباً ۱۲۔ ۱۳ سال کی عمر میں حضرت والد صاحب کے ساتھ ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ وہ ہجرت کرکے قادیان ۱۸۹۴ء میں آئی تھیں اور پھر یہیں رہیں۔ مگر اس سے پہلے ہمیشہ وقتاً فوقتاً ہمارے والد صاحب ان کو قادیان اپنے ہمراہ لایا کرتے تھے یا کبھی ان کو چھوڑ جاتے پھر دوسرے پھیرے میں لے جاتے سب سے پہلے وہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے والد بزرگوار کی زندگی میں آئی تھیں جب میر صاحب نہر پر سب اوورسیر تھے اور کئی ماہ قادیان میں ٹھہری تھیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دہلی میں حضرت ام المومنینؓ کے لئے پیغام بھیجا تو میر صاحب کو انہوں نے بھی مشورہ دیا تھا کہ دیگر برادری کے لڑکوں کی نسبت تو غلام احمد )علیہ الصلٰوہ والسلام( ہی اچھا ہے چنانچہ وہ نکاح ظہور میں آگیا<۔۱۷۸
۶۔
خواجہ کمال الدین صاحب بانی ووکنگ مشن انگلستان )تاریخ وفات ۲۸/۲۷ دسمبر ۱۹۳۲ء( ان کی وفات کی خبر سالانہ جلسہ ۱۹۳۲ء کے دوران سنی گئی جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنی تقریر میں خواجہ صاحب مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے فرمایا۔
>اگرچہ خواجہ صاحب نے میری بہت مخالفتیں کیں لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہ والسلام کے وقت خدمات بھی کی ہیں اس وجہ سے ان کی موت کی خبر سنتے ہی میں نے کہہ دیا کہ انہوں نے میری جتنی مخالفت کی وہ میں نے سب معاف کی۔ خدا تعالیٰ بھی ان کو معاف کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن بندوں کو خدا تعالیٰ کھینچ کر اپنے مامورین کے پاس لاتا ہے ان میں ہو سکتا ہے کہ غلطیاں بھی ہوں لیکن خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں ان خوبیوں کی قدر کرنی چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں خلافت کا انکار بڑی خطا ہے خدا تعالیٰ نے اسے بڑا گناہ قرار دیا ہے مگر ہمارا جہاں تک تعلق ہے۔ ہمیں معاف کرنا چاہئے خدا تعالیٰ کے نزدیک اگر ایسے شخص کی نیکیاں بڑھی ہوئی ہوں گی۔ تو وہ اس سے بہتر سلوک کرے گا<۔۱۷۹
زمرہ اصحاب مسیح موعودؑ کے ان مقدسین کے علاوہ حافظ سلطان حامد صاحب جو مدرسہ احمدیہ میں طلباء کو قرآن مجید حفظ کراتے تھے۔ اور سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے استاد ہونے کا شرف رکھتے تھے ۲۷/ اپریل ۱۹۳۲ء کو انتقال کر گئے۔۱۸۰
اسی طرح چودھری شمشاد علی خان صاحب آئی سی ایس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پورنیا نے ۱۶/ جنوری ۱۹۳۲ء کو ایک حادثہ سے وفات پائی۔ حکومت بہار کے سرکاری اعلان اور دوسری اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم اس روز شام ۷ بجے شکار سے جب کیمپ میں واپس پہنچے تو ایک شخص کے ہاتھ سے ان کی رائفل اتفاقاً چل گئی گولی بائیں پھیپھڑے میں لگی۔ اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔۱۸۱ چوہدری صاحب موصوف حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ہم مکتب اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے خسر تھے۔ مرزا احمد بیگ صاحب انکم ٹیکس آفیسر سیالکوٹ کی تبلیغ سے قبول حق کی توفیق ملی۔ باقاعدہ بیعت ۱۱۔ ۱۹۱۰ء میں کی تھی۔۱۸۲
پہلا باب )فصل پنجم(
۱۹۳۲ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں ترقی
۲۳۔ ۲۴/ مارچ ۱۹۳۲ء کی درمیانی شب کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حرم رابع حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کے بطن سے مرزا حنیف احمد صاحب پیدا ہوئے۔۱۸۳
میاں عبدالرحیم خاں کا نکاح
۱۱/ نومبر ۱۹۳۲ء کو میاں محمد عبدالرحیم خان صاحب )ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ( کا نکاح نواب زادہ جعفر علی خان صاحب برادر خورد ہزہائی نس نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی دختر نیک اختر قدسیہ بیگم صاحبہ سے پڑھا گیا۔۱۸۴ ۲۹/ نومبر ۱۹۳۴ء کو تقریب رخصتانہ عمل میں آئی۔۱۸۵
سر محمد شفیع صاحب کا انتقال
شمالی ہند کے مشہور مسلم لیڈر اور پنجاب مسلم لیگ کے سابق صدر سر محمد شفیع ۷/ جنوری ۱۹۳۲ء کو لاہور میں انتقال کر گئے تھے اس اندوہناک قومی حادثہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے ناظر صاحب امور خارجہ قادیان نے ان کے بیٹے میاں محمد رفیع صاحب کو حسب ذیل تار ارسال کیا۔
>حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ آپ کے والد ماجد کی اندوہناک وفات پر دلی ہمدردی کا اظہار کروں۔ مسلمان اپنے حقوق کے ایک زبردست نگران اور ہندوستان ایک اعلیٰ درجہ کے مدبر کی خدمات سے ایسے وقت میں محروم ہو گیا ہے۔ جبکہ اس کی سخت ضرورت تھی<۔۱۸۶
جلسہ تقسیم انعامات
۲۱/ جنوری ۱۹۳۲ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کا جلسہ تقسیم انعامات منعقد ہوا۔ جس میں حضورؓ نے بھی شرکت فرمائی۔ اور تعلیم الاسلام اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو قیمتی ہدایات سے نوازتے ہوئے تلقین فرمائی کہ انعام حاصل کرنے کے لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔۱۸۷ اس سال پہلی بار طلبہ مدرسہ کا ایک خاص امتحان دینیات کا لیا گیا امتحان کے پرچے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اور حضرت میر سید محمد اسحٰق صاحب نے بنائے اور ان کو حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اے` ڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولوی محمد حسن صاحب نے ملاحظہ فرمایا۔ جو طلبہ اس امتحان میں اول رہے ان کے نام مع حاصل کردہ انعام کے درج ذیل ہیں۔
۱۔ جماعت دہم۔ عطاء الرحمن صاحب )حال امیر جماعت احمدیہ ساہیوال(
طلائی تمغہ
۲۔ جماعت نہم۔ محمد ہاشم صاحب۔
نقرئی تمغہ
۳۔ جماعت ہشتم۔ سردار محمد صاحب۔
نقرئی تمغہ
۴۔ جماعت ہفتم۔ غلام حسین صاحب۔
سیرت خاتم النبیین ہر دو حﷺ
۵۔ جماعت ششم۔ محمد دین صاحب۔
سیرت خاتم النبیین ہر دو حﷺ
مجالس >ذکر حبیبؑ<
کچھ عرصہ سے سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی حضورؑ ہی کے صحابہ سے سنانے کا انتظام کر رکھا تھا اسی سلسلہ میں انہوں نے ۲۱/۲۰ اپریل کی درمیانی شب کو قادیان کے تمام حاضر الوقت صحابہ کو جن کی تعداد تین سو تھی مسجد اقصیٰ میں دعوت طعام دی۔ کھانے کے بعد گیارہ صحابہ نے نے حضور علیہ السلام کی زندگی کا ایک ایک چشم دید واقعہ بیان کرکے حاضرین کے ایمان کو تازہ کیا۔۱۸۸
سناتن دھرم سبھا لاہور کی مذہبی کانفرنس
لاہور کی سناتن دھرم سبھا نے اپنے سالانہ جلسہ پر ۲۴/ مئی ۱۹۳۲ء کو ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی جس میں حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے >کیا مذہب ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے؟< کے موضوع پر ایک مختصر مگر موثر مضمون پڑھا۔۱۸۹
قادیان میں السنہ مشرقیہ کے امتحانات کا سنٹر
اس سال قادیان میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے السنہ مشرقیہ کے امتحانات کا بھی سنٹر مقرر کر دیا گیا۔۱۹۰
قادیان کے دفاتر میں ٹیلی فون
جولائی ۱۹۳۲ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ` ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ` ناظر صاحب اعلیٰ` ناظر صاحب بیت المال اور ایڈیٹر صاحب الفضل کے دفاتر میں ٹیلی فون لگا۔۱۹۱
واعظ مقامی کا تقرر
قبل ازیں قادیان میں آنے والے مہمانوں اور مقامی جماعت کی تربیت کا کوئی تسلی بخش مرکزی انتظام نہیں تھا۔ یکم نومبر ۱۹۳۲ء سے >واعظ مقامی< کی ایک اسامی منظور کی گئی اور حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ قادیان کے پہلے واعظ مقامی مقرر کئے گئے۔ آپ کے فرائض مختصراً یہ تھے۔
)۱( مہمانوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام )۲( درس کا انتظام )۳( غیر معروف مہمانوں کے حالات کا پتہ لگانا اور مشتبہ لوگوں کی نگرانی کرنا )۴( نئے آنے والے مہاجرین کو ہجرت کی غرض و غایت سے آگاہ کرنا۔ )۵( مقامی عہدیداروں کے توسط سے مقامی احمدیوں کی عام تربیت کی نگرانی کرنا۔۱۹۲
حضرت مولوی صاحبؓ ایک لمبے عرصہ تک واعظ مقامی کے فرائض نہایت ذمہ داری اور اخلاص سے سر انجام دیتے رہے جس کا تفصیلی ذکر صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹوں سے ملتا ہے۔
بیرونی مشنوں کے بعض ضروری واقعات
فلسطین مشن: مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے مارچ ۱۹۳۲ء سے ایک سہ ماہی رسالہ >البشارۃ اسلامیتہ< جاری کیا۔]10 [p۱۹۳ اخبار >الفلسطین< >الاقدام< اور >الصراط المستقیم< نے اس کے اجراء پر عمدہ تبصرے کئے۔ چنانچہ >الصراط المستقیم< )۱۰/ مارچ ۱۹۳۲ء( نے لکھا کہ احمدیہ عقائد نصرانیت پر ضرب کاری کی حیثیت رکھتے ہیں اور احمدی مسیحیت اور یہودیت پر دوسرے تمام لوگوں سے اشد ہیں۔
مولانا ابوالعطاء صاحب کا غیر احمدی عالم شیخ احمد قصاب سے کامیاب مباحثہ ہوا اور وہ وقت ختم ہونے سے پہلے ہی چل دیئے۔۱۹۴ علاوہ ازیں بغداد کے مشہور پادری الانستاس الکرملی سے اگست میں تبادلہ خیالات ہوا۔ مگر پادری صاحب نے آخر گفتگو سے انکار کر دیا۔۱۹۵
گولڈ کوسٹ مشن: ٹمالے علاقہ میں تبلیغ اسلام سے متعلق مقامی افسرں نے بعض قیود لگا دی تھیں اس سال کے شروع میں چیف کمشنر نے یہ پابندیاں اٹھا دیں۔ اشانٹی میں مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے دورہ کیا اور ایک ذی اثر شخص الحاج عیسیٰ اپنے ۵۶ مریدوں سمیت سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۱۹۶
نیا سالینڈ: ۸/ فروری ۱۹۳۲ء کو مسلمانان نیاسالینڈ کا ایک وفد گورنمنٹ ہائوس زومبار میں گورنر صاحب کے سامنے پیش ہوا جس کی قیادت ایک احمدی مسٹر عبدالحکیم جان نے کی۔ اور مسلمانوں کے مطالبات پیش کئے۔ اس جدوجہد پر انجمن حمایت اسلام زومبار )نیاسالینڈ( نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور لکھا جماعت احمدیہ بھی شکریہ کی مستحق ہے جس کے ایک ممبر نے عین موقعہ پر ہماری راہ نمائی کی اور اپنی آمد سے لے کر اس وقت تک مسلم مفاد کی خاطر کئی ایک بہترین کام کئے۔۱۹۷
امریکہ مشنbody]: ga[tاسی دن جبکہ نیاسالینڈ کا مندرجہ بالا وفد پیش ہوا تھا۔ امریکہ میں شام کے وقت مبلغ امریکہ صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی نے ایک کالج میں ہندوستانی سیاسیات پر تقریر کی اور مسلمانوں کے حقوق و مطالبات کی تشریح کی۔۱۹۸ اس کے بعد نیو یارک اور اس کے نواح میں انہوں نے بذریعہ لیکچر یہ سلسلہ جاری رکھا۔۱۹۹ ۵/ جون کو صوفی صاحب کی شکاگو کی اعلیٰ سوسائٹی CHURCH COMMNITY PEOPLE میں تقریر ہوئی۔ خاتمہ پر صدر جلسہ نے کہا۔ میری تمام زندگی میں جو سب سے زیادہ تعجب انگیز معلومات کا اضافہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس تقریر سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسلام ایسا خوبصورت مذہب ہے<۔۲۰۰ ۱۳/ جون کو ڈی ٹرائٹ میںFAITH OF SHIP FELLOW کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں آپ کی تقریر ہوئی۔ ہندوستانی۔ عرب اور ترک مسلمانوں نے کہا کہ آپ نے آج اسلام کی لاج رکھ لی ہے۔۲۰۱ اس سال سٹوبین ہال` نیگس ٹائون` کلیولینڈ اور ہوم سٹید میں نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔۲۰۲body] [tag
ایران مشن
مرزا برکت علی صاحب آنریری مبلغ نے دارخونین کے ایک پرائیویٹ مکان میں جہاں ایرانی اور عرب اور ہندوستانی موجود تھے وفات مسیح پر چار گھنٹے تک تقریر کی۔ جس کا بہت چرچا ہوا۔۲۰۳
جاوا مشن
مولوی رحمت علی صاحب نے جاوا کے مشہور لیڈر چکروفنو سے ملاقات کی اور پیغام حق پہنچایا اور انگریزی لٹریچر بھی پیش کیا۔۲۰۴
سماٹرا مشن
0] ft[rمولوی محمد صادق صاحب کو پتہ راجہ میں تشریف لے گئے مگر ان کو پولیس نے لیکچر دینے اور مباحثہ کرنے سے روک دیا۔ شہر سگلی میں لوگوں نے سخت مخالفت کی اور انہیں پولیس کے حکم سے شہر چھوڑنا پڑا۔۲۰۵
زنجبار
ڈاکٹر محمد شاہ نواز خان صاحب وغیرہ کی کوشش سے ۱۲/ مئی ۱۹۳۲ء کو انجمن احمدیہ زنجبار کی بنیاد رکھی گئی۔ احمدی وفد نے ۷/ جون ۱۹۳۲ء کو ریذیڈنٹ زنجبار سے اور ۱۱/ جون کو سلطان المعظم خلیفہ بن حاروب سلطان زنجبار سے ملاقات کی اور سلسلہ احمدیہ سے متعارف کیا۔۲۰۶
۱۹۳۲ء کی نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل اہم کتب شائع ہوئیں اور سلسلہ کے لٹریچر میں نہایت قیمتی اضافہ کا موجب بنیں۔
۱۔
>رہنمائے تبلیغ< )مولفہ سید طفیل محمد شاہ صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ کھیوہ سالار والا ضلع لائلپور( تقریباً ساڑھے تین سو صفحات کی یہ کتاب سوال و جواب کی طرز پر لکھی گئی تھی اور بہتوں کی ہدایت کا موجب بنی۔
۲۔
مقدمہ بہاولپور: حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کا وہ بیان جو آپ نے ایک احمدی کے خلاف مقدمہ تنسیخ نکاح میں بطور گواہ مدعا علیہ عدالت بہاولپور میں دیا۔۲۰۷
۳۔
تفہیمات الٰہیہ: )مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی تصنیف( اس کتاب میں مولانا صاحب نے نئے اسلوب و انداز میں غیر مسلموں کے ان اعتراضوں کے جوابات تحریر فرمائے جو سورہ فاتحہ کی نسبت عام طور پر کئے جاتے تھے۔
۴۔
اسلام کی پہلی کتاب: چوہدری محمد شریف صاحب فاضل نے ۱۹۳۲ء و ۱۹۳۶ء میں احمدی بچوں کے لئے نہایت سادہ اور آسان زبان میں ایک سلسلہ کتب جاری کیا جو پانچ حصوں میں شائع کیا گیا جسے بزرگان سلسلہ نے بہت پسند فرمایا۔
۵۔
>تحقیق واقعات کربلا<۔ )تالیف حضرت منشی خادم حسن صاحب خادم بھیرویؓ( سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کتاب کی نسبت سالانہ جلسہ ۱۹۳۲ء میں فرمایا۔
>بہت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے۔ خادم صاحب کا طرز تحریر ایسا ہے کہ شیعہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے سخت لکھا۔ بلکہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا کلام بہت نرم اور میٹھا ہوتا ہے وہ جو کچھ لکھتے ہیں احمدیت کی روشنی میں لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں<۔۲۰۸
۶۔
مکمل تبلیغی پاکٹ بک: ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ کی شاندار تصنیف جسے تبلیغی انسائیکلو پیڈیا کہنا چاہئے۔
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
تبلیغ پر زور دینے کی وجہ سے اس سال ملک میں کثرت سے مناظرے ہوئے جن میں سے سولہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔
مباحثہ مجوکہ: مجوکہ ضلع سرگودھا میں ۱۸۔ ۱۹۔ ۲۰/ فروری ۱۹۳۲ء کو مباحثہ ہوا۔ جس میں حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری- مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور مولوی عبدالاحد صاحب احمدی مناظر شامل ہوئے۔ مباحثہ کے اختتام پر ۵۲ افراد نے بیعت کر لی غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد مسعود الہڑوی اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی وغیرہ دس علماء شریک بحث تھے۔۲۰۹
۲۔
مباحثہ دیڑ چک نمبر ۲۹ )ضلع شیخوپورہ( ۲۵۔ ۲۶/ فروری ۱۹۳۲ء کو یہاں ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے مسئلہ وفات مسیحؑ و صداقت مسیح موعودؑ پر مباحثہ کیا غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب گوندلانوالہ۔ مولوی محمد مسلم صاحب اور مولوی نور شاہ صاحب مناظر تھے۔ وقت مناظرہ ابھی باقی تھا کہ غیر احمدی علماء میدان مناظرہ سے چل دیئے۔ اس مناظرہ میں تین اشخاص داخل سلسلہ ہوئے۔۲۱۰
۳۔
مباحثہ آنبہ )ضلع شیخوپورہ( آنبہ میں ملک عبدالرحمن خادمؓ اور مولوی محمد سلیم صاحب نے ۲۷۔ ۲۸ اور ۲۹/ فروری کو مولوی محمد حسین صاحب پنڈی بہاء الدین` حافظ احمد الدین صاحب گکھڑوی` اور مولوی نور حسین صاحب گرجا کھی سے چار مناظرے کئے۔ پہلے مناظرہ میں خود غیر احمدیوں نے اپنے مناظر صاحب کو وقت ختم ہونے سے پہلے ہی بٹھا دیا۔ دوسرے مناظرے میں ایک معزز سکھ سردار نے غیر احمدیوں سے کہا کہ آپ کے مناظر کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔۲۱۱
۴۔
مباحثہ لاہور: یہ نہایت کامیاب مناظرہ تھا۔ جو ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے ۲۔ ۳/ مارچ ۱۹۳۲ء کو پہلے پادری ٹھاکرداس صاحب ایم۔ اے پھر پادری سلطان محمد پال ایڈیٹر >نور افشاں< سے کیا۔ تمام حاضرین جن میں غیر مسلم بھی شامل تھے خادم صاحب کے دلائل سے حد درجہ متاثر ہوئے۔ اور غیر احمدی اصحاب تو اس درجہ خوش تھے کہ بے اختیار نعرہ تکبیر بلند کرتے تھے۔۲۱۲
۵۔
مباحثہ روپڑ )ضلع انبالہ( یہاں ۲۰۔ ۲۱/ مارچ ۱۹۳۲ء کو ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ اور مولوی محمد سلیم صاحب کا غیر احمدی عالم مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی اور مولوی احمد دین صاحب کے ساتھ مناظرہ ہوا۔ ایک شخص نے اسی وقت اعلان بیعت کر دیا۔۲۱۳
۶۔
مباحثہ سیدو باغ )سندھ( ۲۶۔ ۲۷/ مارچ ۱۹۳۲ء کو شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے وفات مسیح اور صدق مسیح موعودؑ پر مناظرے کئے غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی پیش ہوئے مناظرہ کے بعد ایک صاحب داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔۲۱۴
۷۔
مباحثہ وزیر آباد: یہاں مولوی محمد سلیم صاحب کا مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے ۱۰/ اپریل کو مباحثہ ہوا۔ مناظرہ میں اہلحدیث نے یہ عجیب شرط رکھی کہ ان کے لئے کسی اپنے امام کا قول بھی حجت و سند نہیں ہے اس لئے وہ پیش نہ کیا جائے مولوی محمد سلیم صاحب نے قرآن مجید سے معیار صداقت پیش کرکے صداقت مسیح موعودؑ کا ثبوت دیا مگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے کسی دلیل کو چھونے کی بھی جرات نہ کی مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر >زمیندار< خلاف اصول اپنے مناظر کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے تو ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے ان کی تقریر کا دندان شکن جواب دیا۔ مباحثہ کے آخر میں اہلحدیث نے دلائل کی تاب نہ لا کر شور مچا دیا۔ ۲۱۵
۸۔
مباحثہ شہباز پور )بنگال( ۲۱/ مئی کو اس جگہ صداقت احمدیت اور نبوت مسیح موعودؑ پر مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مولوی سید سعید احمد صاحب نے بحث کی۔ صدر مولوی تمیز الدین صاحب تھے جنہوں نے صرف ۱۰ منٹ تک احمدی مناظر کو اور دو گھنٹے تک غیر احمدی مناظر مولوی حسن الدین صاحب کو بولنے کی اجازت دی۔ غیر احمدی مناظر بالاخر جماعت احمدیہ کے خلاف فتویٰ کفر دینے اور از خود مناظرہ ختم کرکے جانے لگے۔ لیکن سامعین نے ان کو مجبور کرکے بٹھا دیا۔ اس کے بعد مولوی سید سعید احمد صاحب نے فریق ثانی کا مدلل جواب دیا۔۲۱۶
۹۔
مباحثہ خانیوال )ضلع ملتان( جون ۱۹۳۲ء میں اس جگہ ایک کامیاب مناظرہ ہوا جس میں مرکز سے حافظ مبارک احمد صاحب` مولوی احمد خاں صاحب اور مولوی عبدالاحد صاحب نے شرکت کی پبلک اس سے بے حد متاثر ہوئی۔ اور ایک معزز غیر احمدی نے احمدی مبلغین کو دعوت طعام دی۔۲۱۷
۱۰۔
مباحثہ اجنالہ: سید احمد علی صاحب اور مولوی محمد نذیر صاحب فاضل ملتانی نے ۲۳/ جون کو اجنالہ میں علمائے اہلحدیث مولوی عبدالقادر صاحب اور حافظ احمد دین صاحب سے مناظرہ کیا۔ غیر مسلم پبلک اہلحدیث مناظر کی بدزبانی کی بہت شاکی تھی۔ جس پر غیر احمدی صدر صاحب کو معذرت کرنا پڑی۔۲۱۸
۱۱۔
مباحثہ شاہ مسکین )ضلع شیخوپورہ( ۳۔ ۴/ جولائی ۱۹۳۲ء کو ایک کامیاب مناظرہ ہوا۔ جس میں احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب اور شیخ مبارک احمد صاحب مناظر تھے۔۲۱۹
۱۲۔
مناظرہ گنج مغلپورہ: ۱۷/ جولائی ۱۹۳۲ء کو موضع گنج متصل لاہور میں جماعت احمدیہ اور اہلحدیث کے درمیان ایک فیصلہ کن مناظرہ ہوا۔ ختم نبوت کے مسئلہ پر جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب اور اہلحدیث کی طرف سے مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی مناظر تھے۔ حیات و وفات مسیحؑ اور صداقت مسیح موعودؑ کے موضوع پر ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ نے جماعت احمدیہ کی جانب سے مناظرہ کیا اور اہلحدیث کی طرف سے پہلے مولوی احمد دین صاحب پھر مولوی عبدالرحیم شاہ صاحب پیش ہوئے دوسرے اور تیسرے مناظرے کے درمیان غیر اہلحدیث نے میدان مناظرہ میں ہی اپنا جلسہ کرکے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری کی تقریر شروع کرا دی۔ مگر پھر فیصلہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے تقریر ہو جس پر بعد کو سوالات و جوابات ہوں چنانچہ ابتداًء حافظ مبارک احمد صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریریں ہوئیں اس کے بعد ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ کھڑے ہوئے تو فریق ثانی نماز عصر کا بہانہ کرکے چلا گیا۔ اس مناظرہ کے نتیجہ میں تین اشخاص سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۲۲۰
۱۳۔
مباحثہ بمبو )تحصیل شکر گڑھ( ۳۱/ جولائی کو جماعت احمدیہ اور اہلحدیث کا مناظرہ ہوا۔ احمدی مناظر حافظ مبارک احمد صاحب اور مناظر اہلحدیث حافظ احمد دین صاحب گکھڑوی اور عبدالرحیم شاہ صاحب وغیرہ تھے۔ پبلک نے اقرار کیا کہ احمدی مبلغ نے اپنے دلائل نہایت سنجیدگی سے بیان کئے ہیں۔۲۲۱
۱۴۔
مباحثہ بھیرہ )ضلع شاہ پور( جماعت احمدیہ اور بریلویوں کے درمیان ۱۶/ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۲ء کو تین مناظرے ہوئے جماعت احمدیہ کی طرف سے پہلے اور دوسرے مناظرہ میں مولوی محمد سلیم صاحب اور تیسرے میں ملک عبدالرحٰمن صاحب خادمؓ نے حصہ لیا۔ غیر احمدی مناظر مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی تھے۔ تیسرا مناظرہ بڑے معرکے کا تھا۔ جس کے نتیجہ میں بھیرہ اور اس کے مضافات میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور پانچ نفوس سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۲۲۲
۱۵۔
مباحثہ گوبند پورہ: ۲۰۔ ۲۱/ نومبر کو مولوی محمد سلیم صاحب نے یہاں غیر احمدی عالم مولوی محمد ادریس صاحب سے مناظرہ کیا۔ ہندو پبلک نے خصوصیت سے جماعت احمدیہ کے دلائل کی معقولیت تسلیم کی۔۲۲۳
۱۶۔
مباحثہ جہلم: جہلم کا یہ مشہور مباحثہ الوہیت مسیح اور صداقت مسیح موعودؑ کے موضوع پر ۱۲ سے ۱۵/ دسمبر تک جاری رہا۔ احمدی مناظر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ تھے اور عیسائی مناظر پادری عبدالحق صاحب مناظرہ جہلم کے گرجا گھر میں ہوا۔ فریقین کے کل ۲۲ پرچے ہوئے یہ مناظرہ شائع شدہ ہے جس کے پڑھنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے احمدیت کو عیسائیت پر کتنی بین فتح دی۔۲۲۴
نو مبایعین
اس سال سینکڑوں۲۲۵ احباب حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ بیعت کرنے والوں میں مرزا محمد اسحٰق بیگ صاحب آف پٹی بھی تھے جو مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیارپوری کے نواسے اور محمدی بیگم صاحبہ کے بیٹے ہیں۔ مرزا صاحب موصوف نے انہیں دنوں قبول احمدیت پر ایک مفصل بیان4] f[st۲۲۶ میں زور دار الفاظ سے اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی متعلقہ مرزا احمد بیگ صاحب روز روشن کی طرح پوری ہو چکی ہے اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں یہ وہی مسیح موعود ہے جن کی نسبت نبی کریم~صل۱~ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔
tav.7.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل ششم(
)جنوری ۱۹۳۳ء تا دسمبر ۱۹۳۳ء بمطابق رمضان المبارک ۱۳۵۱ ھ تا رمضان المبارک ۱۳۵۲ھ(
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہوائی جہاز میں پہلی بار پرواز
۱۹۳۳ء کا آغاز حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضور کے برادران کی ہوائی جہاز میں پہلی بار پرواز کے واقعہ سے ہوتا ہے۔
ہندوستان کے مشہور ہوا باز مسٹر چاولہ ۳۰/ دسمبر ۱۹۳۲ء کو ۷ بجے شام کے قریب اپنے ہوائی جہاز پر لاہور سے آئے اور قادیان کے اسٹیشن کے پاس کھلے میدان میں اترے اور حضور سے جہاز دیکھنے کی درخواست کی چنانچہ حضور یکم جنوری ۱۹۳۳ء کو گیارہ بجے کے قریب تشریف لے گئے۔ قادیان میں ہوائی جہاز کے آنے کا یہ پہلا موقعہ تھا۔ اس لئے قادیان اور اس کے مضافات سے بکثرت لوگ جمع تھے۔ جہاز نے تین دفعہ پرواز کی۔ پہلی بار حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے اور سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ۲۲۷ سوار ہوئے اور دوسری دفعہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور سیدہ امتہ القیوم صاحبہ۔۲۲۸ تیسری بار حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ۔ جہاز اللہ اکبر کے نعروں میں زمین سے بلند ہوا اور آدھ گھنٹہ کے قریب چار ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے اور دریائے بیاس تک چکر لگانے کے بعد زمین پر اترا۔
یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہو گا کہ کئی اصحاب کو ہوائی جہاز کے سفر سے تشویش بھی ہوئی اور بعض مخلصین نے تو حضور کی خدمت میں اس کا اظہار بھی کر دیا۔ مگر حضور نے ان کو تسلی دی لیکن جب جہاز کی تیسری اڑان کے دوران پہلی دو پروازوں کی نسبت زیادہ وقت گزرنے لگا اور جہاز کہیں دکھائی نہ دیا تو گھبراہٹ اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی اس اثناء میں جونہی جہاز نظر آیا لوگوں نے فرط مسرت سے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔۲۲۹
اچھوتوں سے متعلق جماعت احمدیہ کی مخلصانہ مساعی اور ہندوئوں کی مخالفت
جماعت احمدیہ نے اچھوتوں میں تبلیغ اسلام کی جو مہم جاری کر رکھی تھی اس نے ہندوئوں کو بہت برا فروختہ کر رکھا تھا اور اب انہوں نے
کھلم کھلا جماعت احمدیہ کی مخالفت شروع کر دی۔ ہندوئوں کے جذبات کی تلخی کتنی شدت اختیار کر چکی تھی اس کا نمونہ اخبار >آریہ گزٹ< ۷/ جنوری ۱۹۳۳ء کے مندرجہ ذیل الفاظ سے ملتا ہے۔
>ان کے )احمدیوں کے۔ ناقل( زیر نظر دو مقصد ہیں اول ہندوئوں کو نقصان پہنچانا۔ احمدی جماعت ایک تبلیغی جماعت ہے اور مسلمانوں میں جو تبلیغی بیداری پائی جاتی ہے وہ موجودہ زمانہ میں بہت حد تک احمدیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے احمدی جماعت ہندوئوں کی بہت سخت دشمن ہے اور ہر ممکن طریقہ سے ہندو قوم کو نقصان پہنچانے میں کوشاں رہتی ہے اور اس طریقہ سے بھی وہ ہندوئوں کو نقصان پہنچانے میں کامیابی کی امید رکھتے ہیں۔ دوسرا مقصد ان کے زیر نظر یہ ہے کہ احمدیوں کی تعداد بڑھائی جائے اس وقت ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے دوسرے مسلمان ان کے بہت مخالف ہیں۔ اور ان میں نئے شامل ہونے والے بہت کم ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اچھوتوں کو احمدی بنا کر مردم شماری میں ان کی تعداد بڑھائی جائے اور پنجاب میں سیاسی اقتدار حاصل کیا جائے اس وقت باوجود تھوڑے ہونے کے احمدی لوگ میدان سیاست میں کافی اثر رکھتے ہیں جس کی بڑی وجہ ان کی تنظیم اور اپنے خلیفہ کی اطاعت کرنا ہے کونسل کے تمام مسلمان ممبران ان کے ووٹوں کی ضرورت محسوس کرکے ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتے اور جب اچھوتوں کو ساتھ ملا کر ان کی تعداد میں کافی اضافہ ہو جائے گا۔ تو آسانی سے خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان کا سیاسی اثر کس قدر زیادہ ہو جائے گا۔ بلکہ مجھے تو یہ نظر آرہا ہے کہ اگر جداگانہ انتخاب قائم رہا تو زمانہ مستقبل میں پنجاب پر دراصل خلیفہ قادیان کی حکومت ہو گی<۔۲۳۰
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی سفر ولایت سے واپسی
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب تیسری گول میز کانفرنس میں مسلمانان ہند کی سیاسی نیابت کے اہم فرائض ادا کرنے کے بعد ۱۹/ جنوری ۱۹۳۳ء کو لنڈن سے وارد بمبئی ہوئے۔ بندرگاہ پر احمدیوں کے علاوہ بعض مشہور مسلمان شخصیتوں۲۳۱ نے بھی آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔ بوہرہ جماعت کے پیشوا ملا سیف الدین طاہر صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد آپ فرنٹیر میل میں دہلی روانہ ہو گئے۔۲۳۲ دہلی میں ایک دن قیام فرمانے کے بعد ۲۲/ جنوری ۱۹۳۳ء کو ۱۲ بجے کی گاڑی سے سیدھے قادیان تشریف لائے۔ اسٹیشن پر خیر مقدم کرنے والوں کا ایک بہت بڑا ہجوم موجود تھا۔ خود حضرت خلیفہ ثانیؓ بھی رونق افروز تھے۔ آپ معانقہ و مصافحہ کے بعد حضور کی میت میں بذریعہ موٹر مسجد مبارک آئے اور نفل پڑھنے کے بعد بہشتی مقبرہ میں دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ واپسی پر حضرت امیر المومنینؓ کے ہاں کھانا تناول فرمایا اور تین بجے کی گاڑی میں لاہور کی طرف روانہ ہو گئے۔4] f[st۲۳۳
لاہور اسٹیشن پر بھی مسلمانان پنجاب کے نہایت معزز اور سرکردہ اصحاب و عمائد استقبال کے لئے موجود تھے۔
چوہدری صاحب کی واپسی اور استقبال کے سلسلہ میں ہندو اخبار >ملاپ< )لاہور( نے ۲۵۔ ۲۶/ جنوری ۱۹۳۳ء کے پرچوں میں مندرجہ ذیل دو نوٹ شائع کئے۔ پہلا نوٹ ادارہ >ملاپ< کے ایک رکن کا تھا اور دوسرا اس کے مالک لالہ خوشحال چند صاحب کا۔
پہلا نوٹ: >پلیٹ فارم ۹ نمبر پر ایک اور ہی نقشہ نظر آیا۔ جدھر دیکھو ترکی ٹوپیوں والے ہار ہاتھوں میں لئے پھر رہے ہیں۔ اتنے میں ایک سانولی صورت لمبا چوڑا شخص ایک لبادہ پہنے نظر آیا۔ صحیح طور پر لکھا جائے تو یہ کہنا ہو گا کہ شوخ رنگ کا ایک لبادہ چلتا پھرتا نظر آتا تھا۔ نزدیک پہنچے تو دیکھا کہ پنجاب کونسل کے جلیل القدر صدر چودھری سر شہاب الدین چلے آرہے ہیں۔ چند منٹ کے بعد فاصلہ پر ایک اور صاحب نظر پڑے غپی سمجھا شاہ ایڈورڈ ہفتم نے دوبارہ جنم لے لیا ہے اور لیا بھی غلام آباد ہندوستان میں لیکن یہاں بھی دھوکا ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج سر عبدالقادر تھے۔ اتنے میں نہایت اعلیٰ قسم کا تمباکو سلگنے کی خوشبو آئی۔ منہ پھر کر دیکھا تو سامنے ایک وجیہہ جوان چلے آرہے تھے۔ سر پر زرکار کلاء جس پر ایک سفید ململ کی پگڑی لیکن اس پر ایک امتیازی طرہ عنفوان جوانی میں متانت پیدا کر رہا تھا۔ پائوں میں پیٹنٹ لیدر کی بڑھیا پمپ شو اور بدن پر ایک چسٹر جس کے بٹن کھلے ہوئے تھے سمجھا کوئی بڑے رئیس زادے ہیں لیکن ایک منٹ کے اندر اندر ہی نو وارد کے اردگرد ایک ہجوم ہو گیا۔ آپ سب سے مصافحہ کرتے جاتے اور مسکراتے جاتے تھے قریب پہنچ کر دیکھا تو معلوم ہوا نووارد حضرت سردار سکندر حیات خاں ریونیو ممبر گورنمنٹ پنجاب ہیں وہی سکندر حیات اور خان صاحب جو حال میں قائم مقام گورنر رہ چکے ہیں۔ میں حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے سردار سکندر حیات اور یہ سادگی اور یہ بے تکلفی۔ ہر کہ ومہ سے اس طرح مصافحہ کررہے ہیں گویا ساری عمر کسی بڑے عہدہ کی جھلک نہیں دیکھی چہ جائیکہ گورنری کی گدی پر براجمان رہ چکے ہیں۔ مجھے معاً اپنی قوم کے بڑے آدمیوں کا خیال آگیا۔ ان سے ملنا کتنا دشوار ہے اور پھر مل کر طبیعت پر کتنا بوجھ معلوم ہوتا ہے۔ کیا ہندو بھی کبھی اس اخلاص کا نمونہ پیش کر سکیں گے۔ جو مسلمانوں کی ایک قومی خصوصیت ہے۔
یہ سب صاحبان چودھری ظفر الل¶ہ خاں صاحب کے استقبال کے لئے جمع ہوئے تھے۔ چوہدری صاحب لنڈن سے آرہے تھے مگر گاڑی گورداسپور سے آرہی تھی۔ حیرت ہوئی کہ آخر گورداسپور کی گاڑی میں آنے کا کیا مطلب؟ معلوم ہوا کہ آپ پنجاب میں قدم رکھنے کے بعد اپنے خویش و اقارب کو ملنے سے پہلے اپنے پیر و مرشد خلیفہ قادیان کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے قادیان تشریف لے گئے تھے۔ مجھے اس سے مطلب نہیں کہ چوہدری صاحب احمدی ہیں یا حنفی یا وہابی۔ اس کے سامنے تو صرف ایک سوال تھا اور وہ یہ کہ مسلمان اپنے مذہب کا کتنا پابند ہے۔ بخلاف اس کے پڑھے لکھے ہندو نوجوان مذہب کا مذاق اڑانا سب سے بڑی سعادت خیال کرتے ہیں<۔
دوسرا نوٹ: >جو ہندو لیڈر شکایت کرتے ہیں کہ ان کی بات سننے والا کوئی نہیں۔ گورنمنٹ کے ہاں ان کی سنی نہیں جاتی۔ اور ہندو پبلک ان کی آواز پر عمل نہیں کرتی۔ انہیں دیکھنا چاہئے کہ اس کی تہہ میں کونسی وجوہات کام کر رہی ہیں۔ دوسری باتوں کے علاوہ ایک بات جو ہندو لیڈروں کو کمزور بنارہی ہے وہ دھارمک پہلو میں ان کی لاپروائی ہے جتنا بڑا ہندو لیڈر ہو گا اتنا ہی زیادہ ناستک بننے کی کوشش کرے گا جوں جوں اس کا درجہ بڑھتا جائے گا۔ وہ ویدوں کو جواب دیتا جائے گا۔ شاستروں کو جواب دیتا جائے گا اور آخری منزل پر پہنچ کر شاید ایشور کو بھی جواب دینا مناسب سمجھ لیا جائے۔ اس سے بڑھ کر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ان باتوں کو فراخدلی اور آزاد خیالی کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ سوسائٹی اور جاتی کے پرخچے اڑا دینے والے جتنے کام ہیں ان کو کرنا فخر خیال کیا جاتا ہے ویدوں کو الہامی ماننا سدھانتوں پر چٹان کی طرح کھڑے رہنا دقیانوسی سپرٹ سمجھی جاتی ہے اور اسے تنگدلی کا اور غلامانہ ذہنیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مجھے ہندو جاتی کے انتشار کی سب سے بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے۔ بتلائو تو سہی ہندوئوں کے لئے کوئی مرکز چھوڑا بھی گیا ہے جس کے اردگرد جمع ہوں یا آزاد خیالی یا مادر پدر آزادی کے طوفان میں سب کچھ غرق کر دیا گیا ہے کتنے ہی ہندو لیڈر گول میز کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے لنڈن پہنچے لیکن کسی کے متعلق یہ سننے میں نہیں آیا کہ کوئی شخص وید کاپستک ساتھ لے گیا ہو اور اسے تختہ جہاز پر یا لنڈن کے ہوٹلوں میں وید منتر پڑھتے ہوئے دیکھا یا سنا گیا ہو۔ اس کے برعکس مسلم لیڈروں کو لے لیجئے۔ قریباً ہر ایک مسلمان لیڈر کے پاس قرآن موجود تھا اور وہ ہر روز اس کا مطالعہ کرتے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر ہندو لیڈر واپس آئے اور اپنی اپنی کوٹھیوں میں چلے گئے لیکن ہندو لیڈروں کے لئے چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک شمع ہدایت دکھلائی ہے اور ہندو لیڈروں کو بتلایا ہے کہ قوت ایمان اور اپنے مذہب کی محبت ہی اونچا اور بلند کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ۱۹/ جنوری کو جہاز سے اترے اور ایک دن دہلی رہ کر وہاں سے سیدھے ۲۲/ جنوری کو قادیان جا پہنچے اس کے متعلق جو روئداد >الفضل< نے لکھی وہ یہ ہے کہ:
>احمدیہ چوک میں موٹر سے اتر کر مسجد مبارک میں نفل پڑھے۔ پھر مقبرہ بہشتی میں دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں سے واپسی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاں کھانا کھایا اور تین بجے کی گاڑی سے لاہور تشریف لے گئے<۔
گویا چودھری صاحب نے لنڈن سے واپسی پر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے >دارالامان< پہنچے اور وہاں مسجد میں پہنچ کر اپنا فرض ادا کیا۔ اسے کہتے ہیں قوت ایماان اور یہی چیز ہے جو مسلمانوں کو سنگٹھت کر رہی ہے لیکن ہندوئوں میں جیسے ان کے لیڈر ویسے یہ خود۔ نہ لیڈروں کو دھرم کا خیال ہے نہ عوام کو۔ ذرا کوئی ہندو پالٹیکس کی طرف جھکتا ہے تو وہ سب سے پہلے دھرم اور دھارمک عقیدوں کے خلاف جہاد کرنا اپنا فرض سمجھ لیتا ہے چاہے کوئی کانگرسی ہو یا غیر کانگرسی۔ ہندو بھائی ہو یا قوم پرست` ہر ایک ہندو اور ہندو لیڈر کو مسلم لیڈروں میں سے کسی نے نہیں تو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے جو مثال پیدا کی اسے دیکھ کر یقیناً ہر ہندو لیڈر شرمندہ ہو رہا ہوگا<۔۲۳۴
ایک ناگوار واقعہ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا فیصلہ
مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ ۲/ فروری ۱۹۳۳ء کو بغرض تبلیغ انگلستان روانہ ہونے والے تھے۔ روانگی کے وقت بعض مقامی طلباء و اساتذہ نے بعض دفتری امور کی بناء پر آپ کے خلاف ایسا رویہ اختیار کیا جو سلسلہ احمدیہ کی روایات اور اسلامی تعلیم کے سراسر منافی تھا۔
حضرت امیر المومنینؓ کو دوسرے دن اس مظاہرہ کی اطلاع پہنچی تو حضور نے ایک طرف تو حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ بمبئی کو تار بھیجا کہ جب مولوی صاحب جہاز پر سوار ہوں تو ان کے گلے میں پھولوں کا ایک ہار حضور کی طرف سے اور چار ہار اطراف عالم میں پھیلے ہوئے احمدیوں کی طرف سے ڈالے جائیں۔ دوسری طرف حضورؓ نے ۳/ فروری کو ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا۔ جس میں قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے` حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ` حضرت چوہدری فتح محمد صاحبؓ سیال ایم اے ناظر اعلیٰ اور حضرت مفتی محمدﷺ~ صادق صاحبؓ کو بطور مشیر شامل فرمایا اور اپنی نگرانی میں ۴/ فروری سے ۱۶/ فروری تک مصروف تحقیقات رہے۔
تحقیقات کے دوران حضور انور کی شفقت و ذرہ نوازی کے عجیب نظارے دیکھنے میں آئے۔ حضورؓ ان دنوں ناسازی طبع کے باوجود ایک ایسے معاملہ کی تحقیقات میں مصروف تھے جس کی وجہ سے حضور کو سخت صدمہ تھا مگر اس کے باوجود حضور کو ان لوگوں کے آرام اور تواضع کا خیال دامنگیر تھا جو تحقیقات کے لئے بلائے جاتے تھے۔ حضور بار بار ان کو احترام کے ساتھ بٹھاتے اور ان کو آرام پہنچانے کے لئے انگیٹھی بھی رکھوا دیتے اور جب کھانے یا چائے کا وقت آتا تو جو لوگ اس وقت تحقیق کے لئے مدعو ہوتے ان کو بھی اپنے ساتھ کھانا کھانے یا چائے پینے کا شرف عطا فرماتے۔ اسی قسم کے ایک موقعہ پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے منہ سے نکل گیا کہ اس عدالت کی عجیب شان ہے جس میں صدر عدالت` ان کے مشیر اور ملزم ایک ہی میز پر ایک ہی قسم کے برتنوں اور ایک ہی قسم کی اشیاء کا ناشتہ کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں زیر الزام اشخاص قدرتاً جھینپتے اور شرماتے۔ اس وقت قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے میزبانی کے فرائض ادا فرماتے اور اپنے ہاتھ سے اشیاء اٹھا اٹھا کر ان کے آگے رکھتے۔
حاصل کلام یہ کہ جب معاملہ کے ایک حصہ کی تحقیقات پایہ تکمیل کو پہنچی۔ تو ۱۰/ فروری کو خطبہ جمعہ میں حضور نے یہ اعلان فرمایا کہ بات اس سے بھی زیادہ اہم اور افسوسناک تھی جس قدر کہ مجھے پہلے خطبہ کے وقت نظر آتی تھی۔ اور باوجود رحم کے ایک شدید جذبہ کے جو ایک باپ کو اپنے بچہ کے متعلق پیدا ہوتا ہے۔ میں اس فیصلہ پر مجبور ہوا ہوں کہ بعض ایسے لوگ اساتذہ میں سے بھی ہیں کہ جن کے فعل کی برائی حد سے بڑھی ہوئی ہے اور انہوں نے اپنے افعال سے اپنے آپ کو اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ ان کے معاملہ پر غور کیا جائے اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے عفو کے سامان پیدا نہ کرے تو انہیں ان کے اعمال کے مطابق سزا دی جائے اس وضاحت کے بعد حضور نے اس مظاہرہ میں نمایاں حصہ لینے والوں کی نسبت حکم دیا کہ ان کے ساتھ کوئی احمدی اطلاع ثانی تک کوئی کلام نہ کرے۔ چنانچہ ۱۰/ فروری سے لے کر ۱۸/ فروری تک جبکہ حضور کی طرف سے معافی کا اعلان نہ ہو گیا ان کے ساتھ کسی نے کلام نہ کیا اور ان لوگوں نے بھی یہ ایام نہایت تضرع وزاری میں گزارے اور شب و روز توبہ و استغفار میں مصروف رہے اور روزہ رکھ کر خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری سے دعائیں کرتے رہے۔
جب ہر لحاظ سے تحقیقات مکمل ہو گئی تو حضور کے حکم پر ۱۸/ فروری ۱۹۳۳ء کو صبح ساڑھے دس بجے تک سب لوگ مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے اور حضور نے اپنا فیصلہ سنایا جس جس شخص نے کوئی نازیبا حرکت کی تھی اس کا ذکر بھی کیا۔ اور فرمایا کہ اگر ان ایام میں ایسے لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہو اور سچی ندامت بھی پیدا ہو چکی ہو۔ تو وہ کھڑے ہو کر اس کا اظہار کر دیں۔ اور خدا تعالیٰ` خلیفہ وقت اور جماعت سے معافی مانگیں نیز آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کا اقرار کریں تو انہیں معافی دے دی جائے گی۔ اس پر متعلقہ اصحاب باری باری اٹھے اور رو رو کر انشراح صدر سے معافی مانگی اور اپنے افعال پر ندامت کا اظہار کیا۔ جس پر حضور نے ان کو معاف فرما دیا البتہ بعض طلباء و اساتذہ کی معافی بعض شرائط کے ساتھ مشروط کر دی۔
عفو و معافی کا یہ عجیب نظارہ تھا جس میں اپنے مشفق آقا اور رحیم و کریم امام کی زبان مبارک سے محبت و شفقت سے لبریز فیصلہ سن کر ہر آنکھ پرنم ہو گئی۔ خوشی اور مسرت کے آنسو نکل پڑے۔ اور ہر دل نے محسوس کیا کہ خلافت کا وجود ہر قصور وار اور خطا کار کے لئے آیہ رحمت ہے بشرطیکہ اسے اپنی غلطی پر حقیقی ندامت اور پشیمانی ہو۔۲۳۵
چینی اور جاپانی مسلمانوں کیلئے جاپانی حکومت سے خط و کتابت
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جاپانی قونصل جنرل کو ایک خط لکھا تھا جس میں جاپانی و چینی مسلمانوں کے خلاف حکومت کے رویہ پر تشویش کا اظہار کیا۔ جاپانی قونصل جنرل نے جواب بھیجا کہ >میں آپ کو بخوشی اطلاع دیتا ہوں کہ حکومت جاپان کو مسلمانوں کے خلاف ہرگز کوئی تعصب نہیں ہے جاپان میں اہل اسلام کو اپنے مذہب اور قومی تہذیب و تمدن کے لحاظ سے پوری آزادی ہے<۔ نیز لکھا کہ:
>جاپان کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں کہ اہل چین کے ساتھ جنگ کرے ۔۔۔۔۔۔۔ چین میں مسلم آبادی بہت غربی جانب ہے اور موجودہ چینی جاپانی لڑائی کا اس حصہ ملک پر کوئی اثر نہیں جن چینیوں سے اس وقت جاپان کی لڑائی ہے وہ چین کے قوم پرست ہیں جو کمیونل۲۳۶ خیالات کے زیر اثر ہیں چین کے مسلمان ان خیالات میں ان کے ساتھ متحد نہیں<۔۲۳۷
>بیت النصرت< کی بنیاد
۲۳/ فروری ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے حضرت ام المومنینؓ کی کوٹھی >بیت النصرت< کا سنگ بنیاد رکھا۔۲۳۸ جیسا کہ قبل ازیں ذکر آچکا ہے حضرت ام المومنینؓ نے یہ کوٹھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے لئے بنوائی تھی جن سے آپ کو از حد محبت تھی۔ چنانچہ مولوی سید بشارت احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن کی اہلیہ محترمہ کا بیان ہے کہ یوں تو خاندان کے بنیادی فرد ہونے کی حیثیت میں آپ ہر فرد خاندان سے محبت و الفت سے پیش آتی ہیں لیکن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اپنے بڑے پوتے سے خاص الفت ہے۔ ایک مرتبہ عاجزہ کو حضرت صاحبزادہ صاحب کا مکان لے جاکر بتلایا جو آپ نے بنوایا تھا آپ نے اس مکان کے بالائی حصہ میں بیت الدعا دکھا کر فرمایا کہ میں نے تبرکا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مکان کی ایک اینٹ اس کوٹھی کے بالائی حصہ میں لگوا دی ہے۔ آپ کا یہ جذبہ عقیدت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ہزار دلیلوں سے بڑھ کر ایک دلیل ہے۔۲۳۹
مرکز میں صیغہ نشر و اشاعت کا قیام
مجلس مشاورت ۱۹۳۳ء میں ایک اہم فیصلہ یہ ہوا کہ نظارت دعوۃ و تبلیغ کے ماتحت ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا جائے جس کا مقصد مقامی ضرورتوں کے مطابق اشتہارات اور ہینڈ بلز کی اشاعت کا انتظام ہو۔ اس فیصلہ کے مطابق صیغہ نشر و اشاعت کی بنیاد پڑی۔ جو آج تک جاری ہے اور بہت مفید تبلیغی خدمات بجا لارہا ہے۔
مسجد فضل لنڈن میں قائداعظم محمد علی جناح کی تقریر
اپریل ۱۹۳۳ء میں عید الاضحیہ کے موقع پر مسجد احمدیہ لنڈن میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں دو سو کے قریب مشہور شخصیتیں مدعو تھیں۔۲۴۰ اس موقعہ پر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ کی تحریک پر قائداعظم محمد علی جناح نے >ہندوستان کے مستقبل< پر سرسٹیوارٹ سنڈیمین ایم۔ اے SANDAMAN) STEWART ۔(SIR کی صدارت میں تقریر کی جس میں آپ نے بتایا کہ ہندوستان اب بہت جلد جلد ترقی کرے گا۔ نیز یہ کہ قرطاس ابیض کی تجاویز ہندوستان کو مطمئن نہیں کر سکتیں انہیں کامل خودمختاری ملنی چاہئے۔ صدر جلسہ نے مسٹر جناح کے خیالات سے اختلاف کیا۔ مگر درد صاحب نے ہر دو اصحاب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دونوں قسم کے خیالات سن لئے ہیں اب ہمیں غور کرکے صحیح نتیجہ اخذ کرنا چاہئے۔۲۴۱
قائداعظم نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔
ME LEFT IMAM THE OF PERSUATION ELOQUENT THE۲۴۲۔ESCAPE NO
>امام صاحب کی فصیح و بلیغ ترغیب نے میرے لئے کوئی راہ بچنے کی نہیں چھوڑی<۔ قائداعظم کی یہ تقریر برطانوی اور ہندوستانی پریس کی خاص توجہ کا موجب بنی اور >دی ایوننگ سٹینڈرڈ< )لنڈن`( >ہندو< )مدراس`( >دی سٹیٹسمین< )کلکتہ`( >مدراس میل< )مدراس`( )پایونیئر( )الہ آباد`( >ویسٹ افریقہ< )افریقہ`( >ایجپشن گزٹ< )اسکندریہ( وغیرہ اخبار نے اس کی خبر شائع کی۔4] f[st۲۴۳ مگر ساتھ ہی یہ چہ میگوئیاں بھی ہونے لگیں کہ ایک مذہبی جماعت کے مرکز میں سیاسی لیکچر کی وجہ کیا ہے؟
دراصل بات یہ تھی کہ قائداعظم محمد علی جناح پہلی گول میز کانفرنس کے بعد اصلاح احوال کے لئے سخت مایوسی کا شکار ہو کر مستقل فیصلہ کر چکے تھے کہ اب وہ واپس ہندوستان نہ جائیں گے بلکہ حیات مستعار کے بقیہ سال انگلستان میں ہی بسر کر دیں گے چنانچہ خود لکھتے ہیں۔
>اب میں مایوس ہو چکا تھا مسلمان بے سہارا اور ڈانوا ڈول ہو رہے تھے کبھی حکومت کے یار وفادار ان کی رہنمائی کے لئے میدان میں آموجود ہوتے تھے۔ کبھی کانگرس کے نیازمندان خصوصی ان کی قیادت کا فرض ادا کرنے لگے تھے۔ مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کر سکتا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔ آخر میں نے لندن میں ہی بودوباش کا فیصلہ کر لیا<۔۲۴۴
اس ناموافق صورت حال کے باوجود حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا دلی منشاء اور قلبی خواہش تھی۔ کہ ان کو پھر سے سیاسیات ہند میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کیا جائے۔ اس کام کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ کو منتخب فرمایا۔ چنانچہ آپ نے مارچ ۱۹۳۳ء میں انگلستان پہنچ کر حضور کی ہدایت و منشاء کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ۲۴۵ قائم کرلیا تھا اور قائداعظم کا مسجد پٹنی میں آکر لیکچر دینا اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔
چنانچہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ کا بیان ہے کہ۔
>یہ بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ قائداعظم نے انگلستان سے ہندوستان واپس آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالی اس طرح بالاخر ۱۹۴۷ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔ جب میں ۱۹۳۳ء میں امام مسجد لندن کے طور پر انگلستان پہنچا تو اس وقت قائداعظم انگلستان میں ہی سکونت رکھتے تھے وہاں میں نے ان سے تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ہندوستان واپس آکر سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا۔ مسٹر جناح سے میری یہ ملاقات تین چار گھنٹے تک جاری رہی میں نے انہیں آمادہ کر لیا کہ اگر اس آڑے وقت میں جب کہ مسلمانوں کی راہنمائی کرنے والا اور کوئی نہیں ہے انہوں نے ان کی پھنسی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش نہ کی تو اس قسم کی علیحدگی قوم کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہو گی۔ چنانچہ اس تفصیلی گفتگو کے بعد آپ مسجد احمدیہ لندن میں تشریف لائے اور وہاں باقاعدہ ایک تقریر کی جس میں ہندوستان کے مستقبل کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اس کے بعد قائداعظم انگلستان کو خیرباد کہ کر ہندوستان واپس آئے۲۴۶ اور اس طرح چند سال کی جدوجہد کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا<۔۲۴۷
حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ کی خود نوشت][مختصر سوانح حیات سے ایک اقتباس
)انگریزی سے ترجمہ(
)مولانا عبدالرحیم صاحب درد اپنی خود نوشت مختصر سوانح )انگریزی( میں اس امر کی مزید تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں
>قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۳۸ء میں بمقام علی گڑھ ایک تقریر کے دوران فرمایا کہ گول میز کانفرنس کے اجلاسوں میں مجھے اپنی زندگی کے سب سے بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ جونہی خطرہ کے آثار نمایاں ہوئے۔ ہندوئیت دل و دماغ کے اعتبار سے اس طرح نمایاں ہوئی کہ اتحاد کا امکان ہی ختم ہو گیا۔ اب میں مایوس ہو چکا تھا مسلمان بے سہارا اور ڈانوا ڈول ہو رہے تھے کبھی حکومت کے یار وفادار ان کی راہ نمائی کے لئے میدان میں آموجود ہوتے تھے کبھی کانگریس کے نیاز مندان خصوصی ان کی قیادت کا فرض ادا کرنے لگتے تھے۔ جب کبھی مسلمانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف ٹوڈیوں اور پٹھوئوں نے اور دوسری طرف کانگریس میں شامل غداروں نے یہ کوششیں ناکام بنا دیں۔ اس لئے مجھے محسوس ہونے لگا کہ ان حالات میں نہ تو میں ہندوستان کی خدمت کر سکتا ہوں۔ نہ ہندو ذہنیت کو بدل سکتا ہوں اور نہ مسلمانوں کو ان کی نازک حالت سے خبردار کر سکتا ہوں میں اس حد تک مایوس ہو گیا اور میرے قلق کا یہ عالم تھا کہ میں نے انگلستان میں رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا یہ اقدام اس وجہ سے نہیں کیا گیا کہ میرے دل میں ہندوستان کے ساتھ محبت نہ رہی تھی بلکہ اس کی وجہ اصلاح احوال سے میری عاجزی تھی۔ >جناح<۔ مصنفہ ہاکڑ بولیتھو لنڈن ۱۹۵۴ء صفحہ ۱۰۰۔100) PAGE 1954, ۔LONDON BOLITTO, HOCTER, BY (JINNAH
مندرجہ بالا بیان کے مطابق قائداعظم محمد علی جناح نے لنڈن )ویسٹ ہیتھ ہائوس ہیمپ سٹیڈ( HAMPSTEAD) HOUSE, HEATH, (WEST ]ydbo [tagمیں رہائش اختیار کر لی اور وکالت شروع کر دی۔
میں نے قائداعظم سے ماچ ۱۹۳۳ء میں ان کے دفتر واقع BENCH (KING,S LONDON) WALU میں ملاقات کی اور تین گھنٹوں کی بحث و تمحیص کے بعد انہیں اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ مسلمانان ہند کی خدمت کے لئے وہ پھر پبلک میں آئیں۔ قائداعظم میری درخواست پر >ہندوستان کا مستقبل< کے موضوع پر تقریر کرنے کے لئے رضا مند ہو گئے۔ اور میں نے ۶۳ میلروز روڈ لنڈن میں تقریر کے لئے انتظامات کروا دیئے۔<
اخبار >مدراس میل< نے لکھا۔
sub] ga[tپریس میں تقریر کا چرچا
ہندوستان کے مسلمان راہنما ایم۔ اے جناح نے امام درد کی دعوت پر تقریر کی جس کا موضوع تھا >ہندوستان کا مستقبل<۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندوستان سماجی` اقتصادی اور سیاسی طور پر ترقی کر رہا ہے اور ملک میں ایک نئی سیاسی زندگی ابھر رہی ہے۔ لیکن تاوقتیکہ ایک معقول حد تک سیلف گورنمنٹ نہ دی جائے اطمینان یا امن کی امید رکھنا عبث ہے حالات یہ صورت اختیار کر گئے ہیں کہ انگریزی راج یا سلطنت برطانیہ کے اندر رہتے ہوئے ہندوستانی راج میں سے ایک کو اختیار کرنے کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔
>ہندوستان کو فریب<
قرطاس ابیض کی تجاویز کو انہوں نے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیا اور فرمایا کہ انگریزوں کے لئے حقیقی تحفظ تو ہندوستانیوں کی نیک رائے میں ہے۔ قرطاس ابیض کی تجاویز تحفظ کے طور پر کارآمد نہیں ہو سکتیں کیونکہ اس کے ماتحت ہندوستان کا مستقبل درخشندہ نہیں ہو سکتا ہندوستان تو انصاف پر مبنی اور حتمی فیصلہ کا خواہش مند ہے جو حقیقی معنوں میں سیلف گورنمنٹ حاصل ہونے سے ہو سکتا ہے تا معقولیت پسند راہنما اعتدال پسند رائے عامہ کو اپنے گرد جمع کرکے دستور چلا سکیں۔ )ترجمہ >اخبار مدراس میل< ۷/ اپریل ۱۹۳۳ء( اخبار >سنڈے ٹائمز< نے لکھا ہے:
>ویمبلڈن۔ میلروز روڈ پر واقع چھوٹی سی مسجد کی گرائونڈ میں ایک بڑے مجمع سے مشہور ہندوستانی مسلمان راہنما نے خطاب کیا۔ تقریر کا موضوع تھا۔ >ہندوستان کا مستقبل< سرنیئرنے سٹیوارٹ سنڈیمان NAIRNE (SIR SANDEMAN) STEWART نے صدارت کے فرائض سرانجام دیئے۔ ایک خاصی تعداد میں غیر مسلم بھی موجود تھے۔
مسٹر محمد علی جناح نے ایک قوم پرست)TSILNOIT(NA کے نقطہ نگاہ کے مطابق قرطاس ابیض اور اس میں مندرج تحفظات پر سخت تنقید کی۔ لیکن صاحب صدر نے اپنے جواب میں چرچل کے رویہ کو اپنایا اور اس کے نتیجہ میں سامعین میں سے بعض مسلمان طلباء نے مداخلت کی اور آوازے کسے۔ لیکن بالاخر امام مسجد لنڈن نے انہیں خاموش کروا دیا<۔ )ترجمہ >اخبار سنڈے ٹائمز< ۹/ اپریل ۱۹۳۳ء( یہ خبر اخبار >دی سول اینڈ ملٹری گزٹ< )لاہور( ۸/ اپریل ۱۹۳۳ء صفحہ ۱ میں بھی شائع ہوئی۔ )ناقل(
اس تقریر نے انگلستان اور ہندوستان دونوں ممالک میں زبردست تہلکہ مچا دیا۔ جس کے بعد نواب زادہ لیاقت علی خاں اور ان کی بیگم قائداعظم کی خدمت میں جولائی ۱۹۳۳ء میں حاضر ہوئے اور ہندوستان واپس آنے کی درخواست کی۔ آخر آپ ہندوستان واپس تشریف لائے۔ اور پاکستان کے حصول تک مسلمانوں کی کامیاب قیادت فرمائی۔
بوہرہ جماعت کے قومی مفاد کا تحفظ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو مسلمانوں کے ہر مذہبی فرقہ سے محبت تھی اور آپ ان کے قومی مفاد کی حفاظت کے لئے ہر وقت کمربستہ رہتے تھے اس ضمن میں بوہرہ کمیونٹی کے امام سے بھی حضور کے مراسم و روابط تھے۔ انہیں دنوں بوہروں میں باہمی چپقلش پیدا ہوئی۔ جس کو ختم کرنے اور ان کی مرکزیت برقرار رکھنے کے لئے حضور نے کیا اقدام فرمایا؟ اس کا ہلکا سا تصور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے مندرجہ ذیل مکتوب سے کیا جا سکے گا جو انہوں نے دہلی سے ۳/ اپریل ۱۹۳۳ء کو حضرت امیر المومنین کی خدمت میں بھجوایا۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے لکھا۔
بوہرہ کمیونٹی کے متعلق حضور کا تار ملا تھا اور سیٹھ اللہ بخش صاحب بھی اسمبلی میں گئے تھے علیگ صاحب سے میں نے ان کے متعلق ذکر کیا تھا وہ کہتے تھے گورنمنٹ نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس سے تحقیقات کرکے معلوم ہوا ہے کہ اس کمیونٹی کی میجارٹی یہ چاہتی ہے کہ وقف ایک آدمی کے ہاتھ نہ رہے میں نے کہا یہ مذہبی معاملہ ہے اور ابتدا"ء وقف کرنے والوں کا مقصد یہی تھا کہ امام جماعت کے اختیار میں سب کچھ رہے اس مقصد کے مطابق جیسا ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اب اس کے خلاف گورنمنٹ کو مداخلت کرنا مناسب نہ ہو گا۔ علیگ صاحب نے کہا گورنمنٹ تو مداخلت کرنا نہیں چاہتی اور یہ معاملہ متعلق بمبئی گورنمنٹ ہے ہم تو اس میں کچھ DIRECTIONS۲۴۸ نہیں کرتے مگر میں اس بات کا خیال رکھوں گا کہ آپ ان کے امام کو SUPPORT۲۴۹ کرتے ہیں۔۲۵۰
حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ کا حادثہ ارتحال
۱۳/ مئی ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی حرم )اور حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوریؓ کی دختر( حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ کا قادیان میں انتقال ہو گیا۔ حضور کو راولپنڈی میں اس الم انگیز واقعہ کی اطلاع ملی اور حضور نے حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ امیر مقامی کو تار دیا کہ جنازہ میں خود آکر پڑھائوں گا۔ چنانچہ حضور اگلے روز ۱۴/ مئی کو پونے نو بجے قادیان تشریف لے آئے۔ اور اسی دن سوا بارہ بجے کے قریب حضرت مسیح موعودؑ کے باغ میں ایک جم غفیر کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ۔ حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور مرحومہ کے بھائیوں نے میت کو لحد میں اتارا اور آپ بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہؓ کے پہلو میں سپرد خاک کر دی گئیں۔۲۵۱
سیدنا حضرت امیر المومنینؓ نے حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ کے نیک اذکار قائم رکھنے اور دوسری احمدی خواتین کو مرحومہ کی طرح محض رضاء الٰہی اور خدمت سلسلہ کی خاطر تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب و تحریص دلانے کی غرض سے >میری سارہ< کے عنوان سے مفصل مضمون لکھا جس میں مرحومہ سے نکاح کی وجوہ اور ان کی فنائیت` قابلیت اور اخلاق پر روشنی ڈالی چنانچہ تحریر فرمایا۔
>غالباً ۱۹۲۴ء کا شروع تھا یا ۱۹۲۳ء تھا۔ جب برادرم پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم۔ اے قادیان تشریف لائے ہوئے تھے وہ کچھ بیمار ہوئے اور ان کے لئے ہومیو پیتھک دوا لینے کے لئے ان کی چھوٹی ہمشیرہ میرے پاس آئیں انہوں نے اپنے بھائی کی بیماری کے متعلق کچھ اس فلسفیانہ رنگ میں مجھ سے گفتگو کی کہ میرے دل پر اس کا ایک گہرا نقش پڑا۔ جب وہ دوا لے کر چلی گئیں۔ میں اوپر دوسرے گھر کی طرف گیا۔ جس میں میری مرحومہ بیوی رہا کرتی تھیں۔ وہاں کچھ مذہبی تذکرہ ہوا اور ایک برقع میں سے ایک سنجیدہ آواز نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی ڈائری کا حوالہ دیا کہ آپؑ اس موقعہ پر اس طرح فرماتے ہیں۔ یہ آواز پروفیسر صاحب کی ہمشیرہ ہی کی تھی اور حوالہ ایسا برجستہ تھا کہ میں دنگ رہ گیا۔ میری حیرت کو دیکھ کر امتہ الحی مرحومہ نے کہا۔ انہیں حضرت صاحبؑ کی ڈائریوں اور کتب کے حوالے بہت یاد ہیں اور حضرت مسیح موعود )علیہ السلام( کے فارسی شعر بھی۔ یہ کہتی ہیں کہ میں نے الحکم اور بدر میں سے اکثر ڈائریاں پڑھی ہیں اور مجھے یاد ہیں۔ میرے دل نے کہا۔ یہ بچی ایک دن خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے لئے مفید وجود بنے گی۔ میں وہاں سے چلا گیا اور وہ بات بھول گئی۔ جب امتہ الحی مرحومہ کی وفات کے بعد مجھے سلسلہ کی مستورات کی تعلیم کی نسبت فکر پیدا ہوئی تو مجھے اس بچی کا خیال آیا۔ اتفاق سے اس کے والد ماجد مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری جلسہ پر تشریف لائے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے اس کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو میں نے لڑکی کی صحت کے متعلق رپورٹ کرنے کو بھیجا اور انہوں نے رپورٹ کی کہ صحت اچھی ہے کچھ فکر کی بات نہیں ان کی اس رپورٹ پر میں نے جو خط مولوی صاحب کو لکھا اس کا ایک فقرہ حسب ذیل ہے۔
>ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب آج واپس تشریف لے آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سائرہ سلمہا اللہ تعالیٰ کی صحت ایسی نہیں جس سے کچھ خدشہ ہو۔ چونکہ فیصلہ کی بناء طبی مشورہ پر رکھی گئی تھی۔ اور طبی مشورہ موافق ہے اس لئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر مندرجہ ذیل امور میں آپ کی رائے اثبات میں ہو اور سارہ سلمہا اللہ تعالیٰ بھی ایسی ہی رائے رکھتی ہوں تو ان کا نکاح مجھ سے کر دیا جائے<۔
اس خط کی نقل میں نے رکھی ہوئی تھی اتفاقاً آج سارہ بیگم مرحومہ کا پہلا خط تلاش کرنے لگا تو ساتھ ہی اس خط کی نقل بھی مل گئی۔ غرض یہ خط میں نے لکھا اور مولوی صاحب موصوف نے جو کچھ میں نے لکھا تھا اسے بخوشی قبول کیا۔ اور ہمارا نکاح ہو گیا۔
سارہ جو بھاگلپور کے ایک نہایت معزز اور علمی خاندان میں پیدا ہوئی تھی ۱۹۲۵ء میں اس سال کی مجلس شوریٰ کے موقعہ پر میرے نکاح میں آگئیں ان کا خطبہ نکاح خود میں نے پڑھا اور اس طرح ایک مردہ سنت پھر قائم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی لاکھوں برکتیں ہوں مولوی عبدالماجد صاحب پر جنہوں نے ہر طرح کی تکالیف کو دیکھتے ہوئے ایک بے نظیر اخلاص کا ثبوت دیا اور میرے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے مجھے ایک ہتھیار مہیا کر دیا۔
مرحومہ امتہ الحی کی وفات سے جو ایک قومی نقصان مجھے نظر آتا تھا اس کی ذہنی اذیت نے مجھے اس بات کے لئے بے تاب کر دیا کہ سارہ کے قادیان آنے سے پہلے ہی انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائوں۔ چنانچہ میں نے انہیں ایک خط لکھا جس میں بالاجمال آنے والی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ اور امید ظاہر کی کہ وہ میرے لئے مشکلات کا نہیں بلکہ راحت کا موجب بنیں گی خط کے جواب میں کچھ دیر ہو گئی تو میں نے ایک اور خط لکھا۔ اس کا جو جواب آیا وہ میں نے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ آج کہ مرحومہ اس دنیا سے اٹھ گئی ہیں۔ آج کہ ہمارے تعلقات سفلی زندگی کے اثرات سے پاک ہو کر بالکل اور نوعیت کے ہو گئے ہیں۔ آج کہ نہ ان کے لئے اس خط کے ظاہر ہونے میں کوئی شرم ہے اور نہ میرے لئے۔ میں اس خط کو مرنے والی کی نیک یاد کو تازہ رکھنے کے لئے درج کرتا ہوں۔ جب یہ خط مجھے ملا۔ اس وقت میری آنکھیں پرنم تھیں اور آج بھی کہ وہ خط میری آنکھوں کے سامنے اس نہ واپس لوٹ سکنے والے زمانہ کو سامنے لارہا ہے۔ میری آنکھیں اشکوں پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی اور مرحومہ پر بھی رحم فرمائے۔ کہ اگر ہم گندے ہیں تو بھی اس کے ہیں اور نیک ہیں تو بھی اس کے ہیں وہ خط یہ ہے۔
۲۴/ اپریل ۰۲۵ء از احمدیہ ہائوس بھاگلپور۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
میرے واجب الاطاعت خاوند۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔
عید کی نماز کے معاً بعد آپ کا نامہ ملا۔ دریافت حالات سے خوشی ہوئی۔ امید ہے کہ میرا دوسرا خط بھی حضور کی خدمت میں پہنچا ہو گا۔ حیران ہوں کہ کیا جواب تحریر کروں۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے مجھ کو ہر طرح سے آپ کی منشاء اور مرضی کے مطابق بنا کر عملاً اس کا بہترین جواب بننے کی توفیق بخشے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مجھے بہ حیثیت آپ کی بیوی ہونے کے اپنے عظیم الشان فرائض کی ادائیگی کی ہمت و طاقت عطا فرمائے۔ اور ہر ایک تنگی و تراشی کو اس راہ میں برداشت کرنے کی توفیق دے۔
میں اپنے رب سے دعا کرتی ہوں کہ وہ میری ہمت و طاقت و علم و ایمان و ایقان و صحت میں بیش از پیش برکت عطا فرما کر مجھے اس مقصد عالی کے حصول میں کامیاب فرمائے۔ میں اپنی زندگی کا مسلک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فرمان کے مطابق بنانے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرا معین و مددگار ہو ~}~
برآستان آنکہ ز خود رفت بہریار
چوں خاک شو` و مرضی یارے دراں بجو
دعا کرتی ہوں اور کروں گی آپ کے لئے خصوصاً۔ اللہ تعالیٰ میری زبان میں اثر و قوت عطا فرمائے۔
آپ کے خط میں اپنے نام کو مشدد دیکھ کر پہلے متعجب ہوئی۔ لفافہ کے اوپر کی عبارت نے اس کے مفہوم کو سمجھنے کی طرف توجہ دلائی کیونکہ میں اس سے ناواقف تھی۔ اردو فارسی لغتوں میں دیکھا لیکن کہیں پتہ نہ چلا۔ آخر منہتی الادب میں دیکھا۔ اس میں اس کے معنے لکھے تھے >زن شاد ماں کن<۔ اس انکشاف حقیقت سے مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فی الواقعہ اسم بامسمی بنائے۔ میری طبیعت نسبتاً اچھی ہے کامل صحت کے لئے دعا کی ضرورت ہے۔ راقمہ۔ آپ کی سارہ<۔
ان دوستوں کے لئے جو میری طرح فارسی کا علم کم رکھتے ہیں یا بالکل ہی نہیں رکھتے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کا ترجمہ کر دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کی تلاش کر جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس کو کھو چکا ہو اور پھر اس کے دروازہ پر مٹی کی طرح بے خواہش ہو کر گرجا۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر۔
آہ مرحومہ نے اس وقت جب وہ اپنے نئے گھر میں آئی بھی نہ تھی جو کچھ کہا تھا اسے لفظاً لفظاً پورا کر دکھایا۔ اس کی زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا شعر کی مصداق ہو کر رہ گئی۔ وہ اس عقیدت سے آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دروازہ پر جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے نفس کو کھو دیا تھا گر جائے اور پھر اپنے پیدا کرنے والے کی رضا کی تلاش میں اس دروازہ کی مٹی ہو کر رہ جائے۔ ہمیشہ کے لئے اپنے وجود کو کھو دے۔ ایک مشت خاک ہو جس میں کوئی جان نہ ہو۔ خواہ اسے اٹھار کر پھینک دو خواہ اسے مقدس سمجھ کر تبرک کی طرح رکھ لو۔
بخدا اس نے جو کہا تھا وہ پورا کر دیا۔ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی۔ وہ حقیقی معنوں میں حضرت مسیح موعودؑ کے قدموں میں خاک ہوئی پڑی ہے وہ ہمیشہ کے لئے اس آستان پر گر چکی ہے تا خدا تعالیٰ کی رضا اسے حاصل ہو۔ اے راحم خدا! تو اس گر ہوئی کو اٹھا لے۔ تو اس پر پوری طرح راضی ہو جا۔ آمین<۔
حضرت سارہ بیگمؓ کی اولاد نے اپنی پیاری والدہ کی وفات پر صبر و شکر کا جو شاندار نمونہ دکھایا۔ حضورؓ نے اس مضمون میں خاص طور پر اس کا ذکر فرماتے ہوئے لکھا۔
>ان کے پانچ بچے ہوئے۔ دو ایام حمل میں ہی ضائع ہو گئے اور تین خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں۔ بڑے کا نام رفیع احمد ہے۔ درمیانی لڑکی ہے اس کا نام امتہ النصیر ہے چھوٹے بچے کا نام حنیف احمد ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بامسمی بنائے۔ اور اس قسم کے نیک اعمال کی توفیق دے کہ اپنی ماں کے لئے نیک یادگار چھوڑیں اور ان کے نیک کاموں کی وجہ سے ان کی ماں کا درجہ بلند ہوتا رہے۔ یہ بچے اپنی ماں کی طرح نہایت صابر ہیں۔ حنیف احمد سلمہ اللہ تعالیٰ تو ابھی چھوٹا ہے وہ چونکہ صرف ڈیڑھ ماہ کا تھا کہ ان کی پڑھائی کی وجہ سے ماں سے جدا کر دیا گیا۔ اور ننھیال بھجوا دیا گیا۔ وہاں سے ماں کی وفات سے صرف تین دن پہلے آیا۔ وہ گویا اپنی ماں سے بالکل ناواقف ہے اور ابھی اس کی عمر بھی ایک سال سے دو تین ماہ اوپر ہے اس لئے اسے تو ماں کی موت یا زندگی کی کوئی حس ہی نہیں لیکن رفیع احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کہ وہ بھی اپنی ننھیال گیا ہوا تھا اور والدہ کی وفات سے صرف تین دن پہلے واپس آیا۔ اس کی عمر چھ سال سے کچھ اور ہے اس کی نسبت راولپنڈی سے واپسی پر مجھے معلوم ہوا کہ جوں ہی ان کی والدہ فوت ہوئی وہ اپنی بہن امتہ النصیر کو جو والدہ کے پاس رہنے کے سبب سے سب سے زیادہ والدہ سے مانوس تھی۔ ایک طرف لے گیا اور ایک دروازہ کے پیچھے کھڑے ہو کر دیر تک اسے کچھ سمجھاتا رہا۔ اس کے بعد جب مرحومہ کو غسل دے کر چارپائی پر لٹا دیا گیا۔ تو ایک پھولوں کا ہار لے کر آیا اور پہلے والدہ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور پھر ہار گلے میں ڈال کر اپنے آنسوئوں کو بزور روکتا ہوا اپنے منہ کو ایک طرف کرکے تاکہ اس کے جذبات کو کوئی دیکھ نہ لے دوسرے کمرہ میں چلا گیا۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ وہ ایک چھ برس کا بچہ ہے یہ عمل ایک غیر معمولی عمل ہے ایک حیرت انگیز صبر کا مظاہرہ ہے جب میں واپس آیا اور میں نے رفیع احمد کو بلوایا تو میں نے دیکھا کہ وہ میری آنکھوں سے آنکھیں نہیں ملاتا تھا اور اپنے جذبات کو پورے طور پر دبانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ ڈرتا تھا کہ اگر میری آنکھوں سے اس کی آنکھیں ملیں تو اپنے آنسو نہیں روک سکے گا۔ شاید وہ کہیں چھپ کر رویا ہو تو رویا ہو۔ میں نے اسے روتے ہوئے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔
یہ تو رفیع احمد کا حال تھا۔ امتہ النصیر جو تین ساڑھے تین سال کی عمر کی بچی ہے اور ہر وقت اپنی ماں کے پاس رہنے کے سبب سے بہت زیادہ اس سے مانوس تھی۔ اپنے بھائی کے سمجھانے کے بعد وہ خاموش سی ہو گئی۔ جیسے کوئی حیران ہوتا ہے۔ وہ موت سے ناواقف تھی وہ موت کو صرف دوسروں سے سن کر سمجھ سکتی تھی نہ معلوم اس کے بھائی نے اسے کیا سمجھایا کہ وہ نہ روئی نہ چیخی نہ چلائی۔ وہ خاموش پھرتی رہی اور جب سارہ بیگم کی نعش کو چارپائی پر رکھا گیا اور جماعت کی مستورات جو جمع ہو گئی تھیں رونے لگیں تو کہنے لگی۔ میری امی! تو سو رہی ہیں۔ یہ کیوں روتی ہیں۔ میری امی جب جاگیں گی۔ تو میں ان سے کہوں گی آپ سوئی تھیں اور عورتیں آپ کے سرہانے بیٹھ کر روتی تھیں۔
جب میں سفر سے واپس آیا اور امتہ النصیر کو پیار کیا تو اس کی آنکھیں پرنم تھیں لیکن وہ روئی نہیں۔ اس دن تک میں نے کبھی اسے گلے نہیں لگایا تھا۔ اس دن پہلی دفعہ میں نے اسے گلے لگا کر پیار کیا مگر وہ پھر بھی نہیں روئی۔ حتیٰ کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اسے نہیں معلوم کہ موت کیا چیز ہے؟ مگر نہیں یہ میری غلطی تھی۔ یہ لڑکی مجھے ایک اور سبق دے رہی تھی۔ سارہ بیگم دارالانوار کے نئے مکان میں فوت ہوئیں۔ جب ہم اپنے اصلی گھر دارالمسیح میں واپس آئے تو معلوم ہوا اس کے پائوں میں بوٹ نہیں ایک شخص کو بوٹ لانے کے لئے کہا گیا۔ وہ بوٹ لے کر دکھانے کے لئے لایا تو میں نے امتہ النصیر سے کہا۔ تم پسند کرلو۔ جو بوٹ تمہیں پسند ہو وہ لے لو۔ وہ دو قدم تو بے دھیان چلی گئی۔ پھر یکدم رکی اور ایک عجیب حیرت ناک چہرہ سے ایک دفعہ اس نے میری طرف دیکھا اور ایک دفعہ اپنی بڑی والدہ کی طرف۔ جس کا یہ مفہوم تھا کہ تم تو کہتے ہو جو بوٹ پسند ہولے لو۔ مگر میری ماں تو فوت ہوچکی ہے مجھے بوٹ لے کر کون دے گا۔ میں اس امر کے بیان کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا کہ وفور جذبات سے اس وقت مجھے یقین تھا کہ اگر میں نے بات کی یا وہاں ٹھہرا رہا تو آنسو میری آنکھوں سے ٹپک پڑیں گے۔ اس لئے میں نے فوراً منہ پھیر لیا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا کہ بوٹ اپنی امی جان کے پاس لے جائو۔
ہمارے گھر میں سب بچے اپنی مائوں کو خالی امی اور میری بڑی بیوی کو امی جان کہتے ہیں۔ میں نے جاتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو امتہ النصیر اپنے جذبات پر قابو پا چکی تھی۔ وہ نہایت استقلال سے بوٹ اٹھائے اپنی امی جان کی طرف جارہی تھی۔ بعد کے حالات نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ وہ اپنی والدہ کی وفات کے حادثہ کو باوجود چھوٹی عمر کے خوب سمجھتی ہے۔ چنانچہ اس کے ایک بھائی نے اس دق کیا اور پھر اپنے ظلم کو اور زیادہ سنگین بنانے اور اس کے دل کو دکھانے کی نیت سے اسے کہا کہ تم میرے اس چھیڑنے کی شکایت اپنی امی سے کرو گی۔ اس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ نہیں بھائی۔ میں اپنی امی سے شکایت نہیں کر سکتی۔ >خدا کی کچھم )خدا کی قسم( میری امی تو اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں وہ تو اب کبھی واپس نہیں آئیں گی<۔ یہ گفتگو مجھے گھر کے ایک اور بچے نے سنائی اور مجھے یقین ہو گیا کہ امتہ النصیر موت کی حقیقت کو جانتی ہے اس کا فعل صابرانہ فعل ہے اور وہ اپنی ماں کی سچی یادگار ہے وہ حقیقت کو جانتے ہوئے اپنے دل پر قابو پائے ہوئے ہے<۔۲۵۲
sub] [tagسیدنا حضرت خلیفتہ المسیحؑ کی شہادت ایک مقدمہ میں
مرزا اکرم بیگ اور ان کی والدہ سردار بیگم صاحبہ )بیوہ مرزا فضل بیگ صاحب( نے ۱۹۲۰ء میں اپنی پوری جائداد واقع قادیان حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے صاحبزادگان کے نام ایک لاکھ ۴۸ ہزار روپیہ پر فروخت کر دی تھی جس میں سے بعد کو بہت سے احباب جماعت نے حصے خرید کئے تھے۔ ایک معتدبہ حصہ پر لاکھوں روپے کی عمارات بن چکی تھیں۔ گیارہ سال کے بعد ۱۹۳۱ء میں مرزا اکرم بیگ صاحب اور ان کی والدہ نے مرزا اعظم بیگ پسر مرزا اکرم بیگ صاحب سے استقرار حق کا دعویٰ سینئر سب جج صاحب گورداسپور کی عدالت میں دائر کرا دیا۔ جو ڈھائی سال تک چلتا رہا۔ آخر ۱۴/ نومبر ۱۹۳۳ء کو دعویٰ خارج ہو گیا۔۲۵۳
اس مقدمہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے علاوہ ۲۵/ مئی ۱۹۳۳ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی شہادت بھی ہوئی۔ اس موقعہ پر چوہدری اسداللہ خاں صاحب بیرسٹر لاہور اور شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ بھی موجود تھے۔۲۵۴]ydob [tag
احمدیہ فیلو شپ آف یوتھ
وسط ۱۹۳۲ء میں لاہور کے احمدی نوجوانوں نے >ینگ مین احمدیہ ایسوسی ایشن< کے نام سے ایک تبلیغی انجمن قائم کی جس کے پریذیڈنٹ سید محمود احمد صاحب بی۔ اے اور سیکرٹری چوہدرری بشیر احمد صاحب صادق مقرر کئے گئے۔۲۵۵ یہ انجمن جلسوں کے علاوہ ہر ماہ ایک تبلیغی ٹریکٹ بھی شائع کرتی تھی۔۲۵۶ چند ماہ بعد اس کا نام >احمد فیلو شپ آف یوتھ< کر دیا گیا اور ۳۴۔ ۱۹۳۳ء کے لئے مندرجہ ذیل عہدیدار تجویز کئے گئے۔ )پریذیڈنٹ( ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی۔ اے )سیکرٹری( محمد ابراہیم صاحب ناصر )اسسٹنٹ سیکرٹری( قاضی محمود صادق صاحب )فنانشل سیکرٹری( عطاء اللہ خان صاحب۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادم انجمن کے قیام ہی سے اس کے سرگرم اور پرجوش ممبر بلکہ روح رواں تھے اس کے بعد ہر سال انجمن کا نیا انتخاب ہوتا رہا۔
>احمدیہ فیلو شپ آف یوتھ< کے ممبروں کا دائرہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا گیا اور لاہور سے باہر بھی اس کی شاخیں قائم ہو گئیں۔ انجمن کے قابل تعریف تبلیغی سرگرمیوں کی بناء پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خاص طور پر اپنے قلم سے ایک قیمتی مضمون >پکارنے والے کی آواز< بھی اسے عطا فرمایا۔ جو اردو اور انگریزی میں ۱۹۳۳ء کے >یوم التبلیغ< پر شائع کیا گیا۔۲۵۷ اسی طرح مصری فتنہ کے زمانہ میں انجمن کی طرف سے >محمود کی آمین< بکثرت شائع کی گئی۔۲۵۸ اور وسط ۱۹۳۸ء میں اس کے ماتحت ایک مذہبی کانفرنس کا بھی انعقاد ہوا۔۲۵۹ غرضکہ تحریک خدام الاحمدیہ کے قیام سے قبل اس انجمن کو نظارت دعوۃ و تبلیغی کے زیر ہدایات تبلیغی خدمات انجام دینے کا موقعہ ملا۔
ایک ایرانی کے سوالات اور ان کے جوابات
وسط ۱۹۳۳ء میں ایک ایرانی بزرگ مہر صاحب کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت اقدس میں چار سوالات پہنچے جن کا تعلق پیدائش عالم` مذہبی خیال کے ارتقاء` الہام کی حقیقت اور تکمیل دین سے تھا۔ حضور پرنور نے ان سب سوالات کا مسکت جواب دینے کے بعد آخر میں ان کو جماعت احمدیہ کے شاندار مستقبل کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا۔
>ہماری جماعت پھر مسلمانوں کو تیرہ سو سال پیچھے لے جارہی ہے۔ ہم دنیا کی گرد کے برابر بھی نہیں لیکن خدا کے فضل سے فتح ہماری ہے۔ ایک سمجھدار انسان بڑ کے درخت کی تازہ نکلنے والی کونپل کو نہیں دیکھا کرتا۔ بلکہ وہ اس کی سبزی اور شادابی سے اس کے آئندہ بننے والے تنے کو دیکھتا ہے۔ اگر بزرگ مہر صاحب دوراندیشی کی عینک لگا کر ہماری حقیقت کو دیکھیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ احمدیت کی اس چھوٹی سی کونپل میں وہ طاقت موجود ہے کہ ایک تھوڑے سے عرصہ میں وہ ایک ایسے تناور درخت کے پیدا کرنے کے قابل ہو گی۔ جس کے سائے میں بیٹھنے کے لئے دنیا مجبور ہو گی<۔۲۶۰
مسلم تنظیموں کی مالی امداد اور ہندوئوں کی برہمی
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔
>ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب خود آل انڈیا مسلم پارٹیز کانفرنس کے صدر ہیں اور اس حیثیت میں انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس باڈی کے وہ صدر ہیں اس کے کام کو کامیاب بنانے کے لئے سب سے زیادہ مالی امداد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے دی ہے یعنی ۱۹۳۰ء سے اس وقت تک آپ اس مجلس کے لئے تین ہزار کے قریب روپیہ دے چکے ہیں اگر احمدی دوسروں کے ماتحت کام کرنا ناپسند کرتے تو اس قدر مالی امداد جو دوسرے مسلمانوں کی امداد کے غالباً برابر ہو گی وہ اس انجمن کو کیوں دیتے جس کے صدر سر محمد اقبال صاحب ہیں۔ مسلم لیگ کے رجسٹرات سے بھی یہ امر ثابت ہو سکتا ہے کہ اس کی امداد میں بہت بڑا حصہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ حالانکہ اس مجلس کے صدر بھی سوائے ان چند ایام کے جن میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب صدر ہوئے ایسے احباب ہوتے رہے ہیں جو جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے<۔۲۶۱
ہندوئوں کے اخبار >پرتاپ< کو جماعت احمدیہ کی مالی امداد )جو مسلمانوں کی سیاسی انجمنوں کو اسلامی اغراض کے تحت دی گئی تھی( بہت ناگوار گزری اور اس نے مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ پر یہ الزام عائد کر دیا کہ اسی امداد کی وجہ سے ان جماعتوں نے >وطن کشی< پر کمر باندھ رکھی ہے چنانچہ اس نے ۳۰/ جون ۱۹۳۳ء کو لکھا۔
>مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ نے جو روش اختیار کر رکھی ہے اس کے لئے احمدی جماعت کا روپیہ ذمہ دار ہے مسلم کانفرنس کا جنم ہی بطور ایک ٹوڈی جماعت کے ہوا اور کچھ عرصہ سے مسلم لیگ بھی ٹوڈیت میں اس کے دوش بدوش چل رہی ہے ۔۔۔۔۔ کسی وقت تو تعجب ہوتا تھا لیکن اب نہیں رہا کہ ان جماعتوں نے وطن کشی پر کیوں کمر باندھ رکھی ہے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ انہیں اسی مالی امداد کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جو انہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے ملتی رہی ہے۔
دراصل مسلمانوں کا سیاسی اتحاد ہندوئوں کی نگاہ میں خار کی طرح کھٹک رہا تھا اور اس میں رخنہ اندازی کے لئے وہ مختلف سیاسی چالیں چل رہے تھے۔ چنانچہ >پرتاپ< نے مندرجہ بالا نوٹ میں یہاں تک لکھا کہ۔
>مسلمانوں اور احمدیوں کا ایک دوسرے کو کافر کہنا محض دھوکہ کی ٹٹی ہے۔ دونوں اپنے پولٹیکل اغراض مشترکہ سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مسلمان ہندوئوں کو بھی کافر کہتے ہیں اور احمدیوں کو بھی۔ لیکن ہندو کافر کے ساتھ وہ تعاون گوارا نہیں کر سکتے اور احمدی کافر کے ساتھ خوب گھل مل کر رہتے ہیں۔ احمدی بھی مسلمانوں کو اسی حد تک کافر سمجھتے ہیں کہ وہ کسی مسلم امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو تیار نہیں اور نہ ہی کسی احمدی کو غیر احمدی سے رشتہ ناطہ کرنے کی اجازت ہے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جبکہ احمدیوں کو اس لئے سزا دی گئی کہ انہوں نے غیر احمدیوں کے ساتھ تعلق پیدا کیا۔ اگر باوجود اس کے احمدی اور غیر احمدی کسی مسلم انجمن میں شامل ہو سکتے ہیں تو یقیناً ان کی پوزیشن دوسروں کی نظر میں مضحکہ خیز ہو جاتی ہے یہ عجیب بات ہے کہ مذہبی اغراض کے لئے ایک شخص کافر ہو اور پولٹیکل اغراض کے لئے وہی شخص مومن بن جائے<۔۲۶۲اخبار >الفضل< نے >پرتاپ< کی اس روش پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ۔
>ہندوئوں کے نزدیک مسلمانوں کا اپنے پولٹیکل اغراض کو مشترکہ سمجھنا اور احمدی و غیر احمدی کا کسی مسلم انجمن میں شامل ہونا تو >مضحکہ خیز< پوزیشن ہے لیکن ہندو فرقوں میں مذہبی لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہونے کے باوجود ان کا سیاسیات میں اتحاد عین معقولیت ہے۔ حتیٰ کہ اچھوت اقوام جنہیں ہندو بدترین مخلوق سمجھتے ہیں اور ان سے نہایت ہی شرمناک سلوک کرتے چلے آرہے ہیں ان کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنا معقولیت پر مبنی قرار دیتے ہیں اگر احمدی و غیر احمدی کو عقائد کے اختلاف کی وجہ سے سیاسی اغراض مشترکہ میں متحد نہیں ہونا چاہئے۔ اور اس طرح بالفاظ >پرتاپ< ان کی پوزیشن دوسروں کی نظروں میں مضحکہ خیز ہو جاتی ہے تو پھر ہندو مذہبی لحاظ سے آپس میں بعد المشرقین رکھتے ہوئے سیاسیات میں کیوں متحد ہیں۔ اور کیوں انہیں اپنی پوزیشن مضحکہ خیز نظر نہیں آتی؟ اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ اور بھی ہو سکتی ہے کہ ہندو مسلمانوں کو پراگندہ اور منتشر دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن آپس میں زیادہ سے زیادہ اتحاد قائم کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرکے تباہی کے گھاٹ اتار سکیں۔ مسلمانوں نے اگر ہندوئوں کی اس چال کو نہ سمجھا اور باوجود یہ جاننے کے نہ سمجھا کہ سیاسیات کا مذہبی عقائد کے ساتھ تعلق نہیں تو اس کا نتیجہ وہی ہو گا۔ جو ایک منظم اور متحد قوم کے مقابلہ میں پراگندہ حال قوم کا ہوا کرتا ہے اور یہی ہندو چاہتے ہیں<۔۲۶۳
tav.7.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل ہفتم(
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی لنڈن میں مذہبی و سیاسی خدمات
چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ہندوستان کے آئندہ نظام ملکی و آئین اساسی کو ترتیب دینے کے لئے دوسرے مسلم زعماء ہند کے ساتھ اس سال بھی لنڈن تشریف لے گئے۔ اور قریب¶ا تین ماہ تک گول میز کانفرنس کی کمیٹیوں میں شرکت فرما کر مفاد اسلامی کو تقویت پہنچاتے رہے۔ نیز مسلمانان فلسطین کی حمایت کے لئے کئی مرتبہ وزیر ہند اور وزیر نو آبادیات اور دیگر افسروں سے ملاقات کی۔ ان سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپ حسب معمول مسجد فضل لنڈن میں تشریف لاتے اور لیکچر دیتے رہے۔ اور جہاں بھی موقعہ ملا اسلام کی تبلیغ میں حصہ لیا۔
جولائی ۱۹۳۳ء میں نیشنل لیگ )لندن( کے زیر انتظام ہندوستان کے مسلم مندوبین کے لیکچر ہوئے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اس جلسہ میں اسلامی نظریات کی برتری پر نہایت کامیاب لیکچر دیا جس پر یافاء )فلسطین( کے ایک اخبار >الجامعتہ الاسلامیہ< نے ۱۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کے پرچہ میں >الاسلام فی البرلمان الانکلیزی< کے عنوان سے مفضل نوٹ لکھا جس کا ترجمہ یہ ہے۔
>حال ہی میں انگریزی پارلیمنٹ کے ایک حصہ میں بعض ان مسلمانان اصحاب کے لیکچر ہوئے جو ہندوستان سے جائنٹ سیلیکٹ کمیٹی کے مباحث میں شریک ہونے کے لئے تشریف لائے ہیں۔ یہ جائنٹ سیلیکٹ کمیٹی ہندوستان کی آئندہ آئین اساسی کو ترتیب دینے اور نظام حکومت کا ڈھانچہ تیار کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ اس جلسہ میں غیر معمولی طور پر لارڈز۔ ہاوس آف کامنز کے ممبران اور بعض دیگر معززین نے شمولیت کی۔ لارڈ ڈربی جو آج سے کئی سال پیشتر ہندوستان کے افسر رہ چکے ہیں صدر جلسہ تھے سب سے پہلے سر آغا خان نے اور بعد ازاں ڈاکٹر شفاعت احمد خاں` سر محمد یعقوب اور السید ظفر اللہ خاں نے تقاریر کیں۔ ان تمام کے خطبات کا موضوع یہ تھا کہ اسلام ان مشکلات کا کیا حل پیش کرتا ہے جو موجودہ دور میں رونما ہو رہی ہیں۔ لیکچر تو سب نے دیئے مگر حق یہ ہے کہ السید ظفر اللہ خاں جو حکومت ہند کے وزیر تعلیم رہ چکے ہیں انہوں نے اپنے اصل موضوع پر نہایت خوبی اور سلاست کے ساتھ تقریر فرمائی۔ اور انہی کی ایک تقریر ایسی تھی جس میں مقررہ موضوع پر نہایت عالمانہ انداز میں بحث تھی۔ آپ نے اپنی تقریر سے یورپین اور مسلمان دونوں طبقوں کو محفوظ کیا۔ السید ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی تقریر میں موجودہ اقتصادی بدحالی پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اقتصادیات کے متعلق جو اسلام نے نظریہ پیش کیا ہے وہ مغربی ماہرین اقتصادیات کے نقطہ نگاہ سے بالکل مغائر ہے کیونکہ اسلام کاملا کسی ایک شخص کو تمام اموال کا مالک نہیں سمجھتا بلکہ وہ اموال میں تمام لوگوں کو شریک سمجھتا اور ان کا حق اپنے اموال میں سے دینے کی تاکید کرتا ہے اور اغنیاء کو تاکید کرتا ہے کہ وہ فقراء کا خیال رکھیں۔ آپ نے اس حصہ مضمون کے لئے آیت کریمہ فی اموالھم حق للسائل و المحروم سے استدلال کیا۔
خاتمہ تقریر پر آپ نے نہایت صراحت سے یہ امر بیان کیا کہ مغرب کو اقتصادی نظام میں جو پیچیدگیاں اور مشکلات درپیش ہیں ان کا بجز اس کے کوئی حل نہیں کہ وہ اسلامی اصول کو خضر راہ بنائے جو بے شمار حکمتوں اور مصالح پر مبنی ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ہمیشہ کامیابی ہوتی ہے<۔
sub] ga[tاردو سیکھنے کیلئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنے کی تحریک
۲۳/ جولائی ۱۹۳۳ء کو طلباء جامعہ احمدیہ و مدرسہ احمدیہ نے مولوی نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ افریقہ کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ اس موقعہ پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے دوبارہ تحریک فرمائی کہ احمدی طلبہ کو اردو سیکھنے کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنی چاہئیں اس تعلق میں یہ بھی ارشاد فرمایا۔
>جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دینی امور میں اصلاح کی ہے ¶وہاں اردو زبان میں بھی بہت بڑی اصلاح کی ہے چنانچہ ایک شخص۲۶۴ نے لنڈن یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے >انگریزی لٹریچر کا اردو لٹریچر پر اثر< کے عنوان سے ایک مقالہ۲۶۵ لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعلق یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ آپ کی تحریروں نے زبان اردو پر خاص اثر ڈالا ہے<۔
>اب اردو کے حامل احمدی ہوں گے یا یہ کہ اردو کے حامل احمدی ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ زمانہ خود اردو کو اس طرف لے جارہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ اردو کے سمجھے جائیں گے پس ہمارے طلباء کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتب نمونہ اور ماڈل ہونی چاہئیں خصوصاً آخری زمانہ کی کتابیں ان کی روانی اور سلاست پہلے کی نسبت بہت بڑھی ہوئی ہے ان کی اردو نمونہ کے طور پر ہے اور وہی اردو دنیا میں قائم رہے گی<۔۲۶۶
یہاں ضمناً یہ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دسمبر ۱۹۱۳ء میں >آل انڈیا محمدن اینگلو اورنٹیل ایجوکیشنل کانفرنس< کا ستائیسواں اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں خواجہ غلام الثقلین )۱۸۷۱ء۔ ۱۹۱۵ء( نے خطبہ صدارت میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جنہوں نے اردو کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ان لوگوں کی صف میں شمار کیا جن کو آج اردو زبان میں بطور سند پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً پروفیسر آزاد` مولانا حالی` سرسید احمد خاں` داغ دہلوی` امیر مینائی جلال لکھنوی` پنڈت رتن ناتھ سرشار۔ )ملاحظہ ہو رپورٹ اجلاس مذکورہ صفحہ ۷۶( پھر اسی رپورٹ کے صفحہ ۷۲ پر پنجاب کے انشاء پردازوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اردو زبان کے اعلیٰ اور بلند پایہ انشاء پردازوں میں شمار کیا گیا۔۲۶۷
اتحاد و مذاہب کانفرنس شکاگو کے لئے افتتاحی پیغام
شکاگو کی عالمی جمعیتہ مذاہب FELLOW (WORLD FAITHS) OF SHIP کے وائس پریذیڈنٹ ریبن سٹیفنز وائز کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں یہ درخواست موصول ہوئی کہ شکاگو میں )۲۷/ اگست تا ۱۷/ ستمبر ۱۹۳۳ء( دوسری عالمی مذہبی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں خود شرکت فرما کر منتظمین کی عزت افزائی کریں یا اپنی طرف سے دو ایک نمائندے ہی مقرر فرما دیں جو اس میں شامل ہوں اس پر حضور نے صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالیؓ اور میاں محمد یوسف صاحب کو جو امریکہ کے مبلغ تھے۔ کانفرنس میں شرکت کا ارشاد فرمایا۔ نیز منتظمین کانفرنس کی درخواست پر حسب ذیل پیغام ۲۲/ اگست ۱۹۳۳ء کو بذریعہ تار ارسال فرمایا۔
>مجھے ورلڈ فیلو شپ آف فیتھ کے مقاصد سے بے انتہا دلچسپی ہے کیونکہ اس کے مقصد میں میں اس اعلان کی تکمیل دیکھتا ہوں جو تیرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ یعنی کوئی قوم نہیں جس میں نبی نہ گزرا ہو اور یہ کہ محض بدی کبھی دنیا میں قائم نہیں رہ سکتی وہ مذاہب جو سینکڑوں ہزاروں سال تک علی الاعلان اپنی تعلیم پیش کرتے رہے ہیں۔ اور لاکھوں آدمیوں سے والہانہ فرمانبرداری کراتے رہے ہیں ممکن ہی نہیں کہ کسی گندے سرچشمہ سے نکلے ہوں یا اپنا سب حسن کھو چکے ہوں۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جن کا یہ عقیدہ ہو کہ ہر راستہ پر چل کر خدا مل سکتا ہے۔ لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ روشنی کے مینار تک پہنچانے کے لئے روشن سڑکوں کی بھی ضرورت ہے۔ جو شخص سڑکوں کو اندھیرا کرتا ہے۔ وہ مینار کو بھی ویران کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس جو شخص دوسرے مذاہب کی عیب جوئی میں اپنے مذہب کی فتح دیکھتا ہے وہ نادان ہے اگر خدا تعالیٰ کا نور ہر قوم اور ہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں موجود نہیں تو لوگ بینائی کھو بیٹھیں گے اور جب بینائی جاتی رہے تو نور کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ پس جو جماعت لوگوں کو اس صداقت سے آگاہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے کہ ہر مذہب میں خوبیاں موجود ہیں وہ صداقت کا جھنڈا کھڑا رکھنے کے لئے ایک بہت بڑی خدمت کرتی ہے اور اس وجہ سے ورلڈ فیلو شپ آف فیتھس میرے نزدیک دنیا کی ایک اہم ترین خدمت کر رہی ہے اور ضرورت ہے کہ اس کی کوششوں کو دنیا کے ہر حصہ میں وسیع کیا جائے۔ میں امام جماعت احمدیہ ہونے کی حیثیت میں انہیں اس کام کے لئے ہر ممکن امداد دینے کا وعدہ کرتا ہوں اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس وقت خدا تعالیٰ کا ارادہ بھی ان کی کوششوں کی تائید میں ہے آسمان کے فرشتے صلح کی قرناء پھونک رہے ہیں۔ جو آج اس آواز کو نہیں سنتا وہ کل سنے گا۔ اور جو کل نہیں سنتا وہ پرسوں سنے گا مگر سنے گا ضرور۔ پس مبارک ہیں وہ جو پہلی ہی آواز پر جنگی ہتھیار زمین میں دفن کر دیتے ہیں اور صلح کا ¶ہاتھ اپنے بھائیوں کی طرف بڑھاتے ہیں۔ کیونکہ انہی کے ہاتھ پر خدا کا ہاتھ ہو گا اور وہی آسمانی بادشاہت کے وارث ہوں گا<۔۲۶۸
صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مرحوم نے حضور کے نمائندہ کی حیثیت سے یہ پیغام سنایا۔ جس سے سامعین بہت متاثر ہوئے کئی لوگوں نے برملا تسلیم کیا کہ یہ سب سے اعلیٰ مضمون ہے۔۲۶۹ علاوہ ازیں بشپ فرانسس میکونل صدر کانفرنس نے حضور کی خدمت میں شکریہ کا خط لکھا کہ >آپ کا پیغام جو سجری تار کے ذریعہ موصول ہوا۔ عظیم الشان اجتماع میں ۲۷/ اگست بروز اتوار بعد دوپہر جلسہ کے افتتاح کے موقعہ پر جو کہ ہمارے جلسہ کے انتہائی عروج کا وقت تھا پڑھا گیا۔ تمام سامعین نے آپ کے پاک اور پاکیزگی بخشنے والے الفاظ کو نہایت پسند کیا<۔۲۷۰ )ترجمہ(
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا پہلا سفر امریکہ
۲۹/ اگست ۱۹۳۳ء سے ۷/ ستمبر ۱۹۳۳ء تک کے ایام احمدیہ مسلم مشن امریکہ کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے کیونکہ ان ایام میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب پہلی بار لندن سے امریکہ تشریف لے گئے۔ آپ کا یہ مبارک سفر بظاہر سیاسی نوعیت کا تھا۔ مگر اس کے دوران آپ نے شکاگو میں خدمت دین کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ چنانچہ آپ نے تین پبلک جلسوں کو خطاب فرمایا۔ اتحاد و مذاہب عالم کے جلسہ میں بھی اسلام پر لیکچر دیا۔ دو تقاریر شکاگو مشن میں کیں۔ ان باقاعدہ تقریروں کے علاوہ شبانہ روز ملاقاتوں میں آپ اسلام سے دلچسپی رکھنے والوں کو پیغام ہدایت دیتے رہے اور ہفتہ بھر تبلیغ اسلام کا غلغلہ رہا جن لوگوں کو چوہدری صاحب کی پر معارف تقاریر سننے یا ملاقات کرنے کا موقعہ ملا۔ وہ دل و جان سے آپ کے والہ و شیدا اور آپ کے اخلاق فاضلہ` تبحر علمی اور روحانی جاذبیت سے سچ مچ مسحور ہو گئے۔۲۷۱
چودھری صاحب کے اس پہلے سفر امریکہ کا ایک بھاری فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان کی ملاقات سے نو مسلموں کے ایمان میں زیادتی اور تقویت ہوئی۔ اسی طرح وہ لوگ جو عرصہ سے زیر تبلیغ تھے اور اسلام کے متعلق احترام و اخلاص رکھتے تھے۔ وہ اور بھی قریب آگئے۔ سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ چودھری صاحب جیسی شخصیت نے احمدیہ مشن امریکہ کا بذات خود معائنہ فرمایا اور مرکز کو احمدیہ مشن کی مشکلات سے باخبر کیا۔۲۷۲
پہلا باب )فصل ہشتم(
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کا سفر ولایت
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب )خلف قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ( ۳۰/ اگست ۱۹۳۳ء کو قادیان سے بغرض تعلیم
انگلستان کے لئے روانہ ہوئے۔۲۷۳
تاریخ احمدیت میں چونکہ یہ پہلا موقعہ تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پوتا بیرونی ممالک میں تعلیم کی خاطر جارہا تھا اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضرت قمر الانبیاءؓ نے صاحبزادہ صاحب کی روانگی پر اپنے قلم سے ان کو اہم ہدایات تحریر کرکے عطا فرمائیں۔ حضورؓ کے ارشادات کا ملخص یہ تھا۔
۱۔
آپ کو لوگ اس نگاہ سے دیکھیں گے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے ہیں پس ہمیشہ اس امر کا خیال رکھیں کہ آپ کے ہاتھ میں اپنی عزت کی حفاظت کا ہی کام نہیں ہے بلکہ سلسلہ کی عزت بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی عزت کی حفاظت کی بھی ذمہ داری ہے۔
۲۔
ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی مادیت کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے پس آپ کو دعائوں پر خاص زور دینا چاہئے۔
۳۔
ہمیشہ کوشش کریں کہ نمازوں میں باقاعدگی ہو۔ نمازیں وقت پر ادا ہوں اور اگر ہو سکے تو باجماعت ادا ہوں۔
۴۔
قرآن شریف کا سمجھ کر مطالعہ کرتے رہیں کہ اس میں سب نور اور ہدایت ہے۔ اگر غور سے پڑھیں گے تو معلوم ہو گا کہ یورپ باوجود ترقی کے اس مقابلہ میں ابھی تاریکی میں پڑا ہوا ہے۔
۵۔
ہر ممکن کوشش احمدیوں سے ملتے رہنے کی کرتے رہیں۔ خصوصاً مسجد میں آنے کی۔
۶۔
ہمیشہ اچھے دوستوں سے تعلق پیدا کریں اور اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کرتے رہیں اور اچھے نوجوانوں کو انگریز ہوں یا ہندوستانی مسجد میں لے جانے کی کوشش کریں کہ اس سے دل کو نور حاصل ہوتا ہے۔
۷۔
مقامی مبلغ وہاں کا امام اور امیر ہے اس کی پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے۔
۸۔
وہاں عورتوں کی وبا کثرت سے ہے اس سے بچنا تو مشکل ہے کیونکہ وہ ہر مجلس میں موجود ہوتی ہیں لیکن جوان عورتوں سے الگ ملنے یا ان کے ساتھ سیر وغیرہ پر جانے سے احتراز کرنا چاہئے۔
۹۔
کھانے میں حلال حرام کا خاص خیال رکھیں اور شکل میں ڈاڑھی کا۔
۱۰۔
جہاز اس مقدس سرزمین کے پاس سے گزرے گا جس سے ہمیں نور ملا ہے اور جہاں ہمارا سب سے پیاراﷺ~ مدفون ہے دونوں جگہ سے جہاز کے گزرنے کا علم جہاز کے افسروں سے ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس جگہ اس سرزمین کو دیکھ کر دعائیں کریں۔ تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو ایک جگہ تسبیح و تحمید اور دوسری جگہ درود پڑھیں کہ اس احسان عظیم کا جو ہم پر ہوا ہے اعتراف ہو۔ ان شکرتم لا زیدنکم۔۲۷۴
حضرت قمر الانبیاءؓ کی تحریر فرمودہ و نصائح کا ایک حصہ تو وہ تھا جن کی طرف حضرت امیر المومنینؓ نے بھی اپنے مخصوص انداز میں توجہ دلائی تھی مگر ایک اہم حصہ ایسا تھا جس میں بعض اور مفید باتوں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ مثلاً آپ نے فرمایا۔
۱۔
>لباس گرد و پیش کے حالات اور ملک کی آب و ہوا پر منحصر ہے مگر انگریزی لباس میں ایک چیز ایسی ہے جسے حدیثوں میں دجال کی نشانی قرار دیا ہے۔ اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اسے ناپسند فرماتے تھے اور وہ انگریزی ٹوپی ہے۔ لہذا اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس کے سوا میں لباس کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا تمہیں آزادی ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ کسی چیز کو محض غلامانہ تقلید کے طور پر اختیار نہ کرنا<۔
۲۔
>انسان کی ساری ترقی کا راز محنت میں ہے مگر محنت صحیح طریق پر ہونی چاہئے اور ہر کام کے لئے صحیح طریق جدا جدا ہے پس سب سے پہلے تمہیں واقف کار اور معتبر ذرائع سے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ اس لائن کے لئے تیاری کا صحیح طریق کون سا ہے؟ اور اس کے بعد پوری محنت کے ساتھ اس میں لگ جانا چاہئے۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ مقابلہ کے امتحان کے لئے مخصوص طور پر کوئی یونیورسٹی کی تعلیم نہیں ہوتی۔ بلکہ سارا دارومدار طالب علم کی اپنی کوشش پر ہوتا ہے البتہ ولایت میں بعض پرائیویٹ درسگاہیں ایسی ہیں جو طالب علموں کو اس کے لئے تیاری کراتی ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے علاوہ ازیں تمہیں چاہئے کہ جاتے ہی برٹش میوزیم کے ممبر بن جائو جس میں دنیا بھر کی بہترین کتب کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔ اس لائبریری سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور گزشتہ سالوں کے پرچے دیکھ کر امتحان کے معیار اور طریق کا بھی پتہ لگانا چاہئے<۔
۳۔
حضرت صاحب کو باقاعدہ اپنے حالات سے اطلاع دیتے رہو اور دعا کی تحریک کرتے رہو۔ اسی طرح حضرت والدہ صاحبہ ام المومنینؓ کو بھی دعا کے واسطے لکھتے رہو۔ گاہے گاہے سلسلہ کے دوسرے بزرگوں کو بھی دعا کے لئے لکھتے رہو۔ ڈاک کے خرچ کی کفایت اسی رنگ میں ہو سکتی ہے کہ ایک ہی لفافہ میں کئی لفافے بند کرکے بھجوا دیئے جائیں<۔۲۷۵
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ۱۶/ ستمبر ۱۹۳۳ء کی شام کو انگلستان پہنچے۔۲۷۶ آپ کے قیام لنڈن سے چند ماہ بعد ۱۵/ نومبر ۱۹۳۳ء کو صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب )ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ( بھی حصول تعلیم کے لئے ولایت تشریف لے گئے۔۲۷۷
حضرت مسیح موعودؑ کی نظموں کا ریکارڈ
ستمبر ۱۹۳۳ء کا واقعہ ہے کی >دی گراموفون کمپنی لمیٹڈ بمبئی< نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعض نظمیں نہایت نازیبا طریقہ پر گراموفون میں ریکارڈ کیں۔ اور وہ کلام جو لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔ ڈھولک اور باجہ کے ساتھ گا کر کھیل کے رنگ میں پیش کیا گیا۔۲۷۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓنے ۱۵/ ستمبر ۱۹۳۳ء۲۷۹ کے خطبہ جمعہ میں اس حرکت پر سخت نقد کیا ازاں بعد احمدی جماعتوں کی طرف سے بھی صدائے احتجاج بلند کی گئی نتیجہ یہ ہوا کہ کمپنی نے خود ہی یہ ریکارڈ تلف کرا دیئے۔
آل بنگال احمدیہ کانفرنس
۲۹۔ ۳۰/ ستمبر و یکم اکتوبر ۱۹۳۳ء کو بنگال احمدیہ کانفرنس کا سترھواں سالانہ جلسہ منقعد ہوا۔ جس کی صدارت کے لئے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ قادیان سے تشریف لے گئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس موقعہ پر احمدیان بنگال کے نام ایک مختصر مگر جوش انگریز اور ولولہ انگیز پیغام بھجوایا جس میں خاص طور پر یہ ارشاد فرمایا کہ۔
>آپ لوگ یاد رکھیں کہ ہر خلیفہ کا مذہبی فرض ہو گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کے مطابق امامت کو خلافت کے نقطہ پر اور تفصیلی انتظام کو صدر انجمن احمدیہ کے نقطہ پر قائم رکھے اور کسی ایسے خیال کو جو اس کے خلاف ہو چلنے نہ دے ہر قربانی جو خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اس مقصد کے حصول کے لئے معمولی سمجھی جائے گی۔ پس ہر ایک بہی خواہ سلسلہ کو اور ہر اس شخص کو جو روحانی موت اپنے لئے پسند نہیں کرتا میں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ایسا کوئی خیال اس کے دل میں ہے تو اسے اپنے دل سے نکال دے ورنہ یہ اس کی اپنے ساتھ بھی غداری ہوگی۔ اور اپنی قوم کے ساتھ بھی غداری ہو گی<۔۲۸۰
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر برہمن بڑیہ سے واپس آتے ہوئے کلکتہ سے قادیان تک کی تمام بڑی جماعتوں کا دورہ بھی فرمایا۔
سرزمین کابل میں ایک نہایت اہم نشان کا ظہور
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ۳/ مئی ۱۹۰۵ء کو الہام ہوا۔ >آہ نادر شاہ کہاں گیا<۔۲۸۱ یہ عظیم الشان پیشگوئی )اٹھائیس برس بعد( اس سال ۸/ نومبر ۱۹۳۳ء کو لفظاً لفظاً پوری ہو گئی۔ جبکہ والئی افغانستان نادر شاہ دن کے تین بجے ایک طالب علم کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے قتل کر دیئے گئے۔
اس دردناک حادثہ قتل کی اطلاع پہنچنے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے اظہار افسوس اور دلی ہمدردی کا تار جلالت ماب محمد ظاہر شاہ شاہ کابل کو دیا گیا۔ جس میں یہ امید بھی ظاہر کی کہ شاہ معظم اپنے والد ذی شان کے نیک کام کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھیں گے۔۲۸۲
حکومت افغانستان کی طرف سے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل مکتوب موصول ہوا۔
>ہزمیجسٹی شاہ افغانستان آپ کے ان دلی جذبات ہمدردی کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں جن کا اظہار آپ نے اپنی طرف سے نیز اپنی جماعت کی طرف سے اعلیٰ حضرت مرحوم کی دردناک وفات پر فرمایا ہے<۔۲۸۳
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس پیغام تعزیت کے علاوہ >سرزمین کابل میں ایک تازہ نشان کا ظہور< کے عنوان سے ایک مفصل مضمون بھی تحریر فرمایا۔ جو الفضل )۲۳/ نومبر ۱۹۳۳ء( کے بعد اردو اور سندھی میں پمفلٹ کی صورت میں بکثرت شائع کیا گیا۔
اس مضمون میں حضور نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح نادر خاں انتہائی کس مپرسی اور بے سرو سامانی اور بالکل مخالف حالات میں مسند حکومت پر بیٹھے پھر الہام کے مطابق نادر خاں سے نادر شاہ بنے اور پھر اچانک حادثہ سے وفات پا گئے اس ضمن میں اس اہم پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی کہ >اس پیشگوئی سے یہ بات معلوم ہوتی تھی کہ جس وقت نادر شاہ صاحب کی وفات ہو گی۔ اس وقت ملک کو ان کی اشد ضرورت ہو گی۔ واقعات سے یہ امر بھی ثابت ہوتا ہے چنانچہ بڑا ثبوت اس امر کا یہ ہے کہ شاہ موصوف کی وفات سے چند دن پہلے ڈاکٹر محمد اقبال صاحب افغانستان سے واپس آئے تو انہوں نے اخبارات میں یہ امر شائع کرایا کہ اگر دس سال بھی نادر شاہ صاحب کو اور مل گئے تو افغانستان کی حالت درست ہو جائے گی اور وہ ترقی کی چوٹی پر پہنچ جائے گا اس اعلان کے دوسرے دن وہ مارے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب واقف لوگ اس امر کو محسوس کرتے تھے کہ نادر شاہ صاحب کی زندگی کی ابھی ملک کو بہت ضرورت ہے لیکن پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہ تھا کہ وہ اس وقت تک رہتے<۔۲۸۴
محلہ دارالسعتہ
پچھلے سال قادیان میں محلہ دارالانوار کی بنیاد رکھی گئی تھی اس سال حضرت سیدنا امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۹/ نومبر ۱۹۳۳ء کو ریلوے لائن کے مشرقی جانب ایک نئے محلہ دارالسعتہ کا سنگ بنیاد رکھا۔۲۸۵
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی سفر انگلستان و امریکہ سے واپسی اور شاندار استقبال
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب انگلستان میں مسلمانان ہند کی بالخصوص اور اہل ہند کی بالعموم سنہری خدمات سرانجام دینے کے بعد دسمبر ۱۹۳۳ء کے دوسرے ہفتہ میں واپس ہندوستان
تشریف لائے تو مسلمانان ہند نے ان کا شاندار استقبال کیا اور مسلمان لیڈروںں کی طرف سے آپ کو سنہری ہار پہنائے گئے چنانچہ اس ضمن میں دہلی اور لاہور کے بعض مسلم اخبارات کے تین نوٹ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
اخبار >عادل< ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۳ء نے لکھا۔
۹/ دسمبر )دہلی( آج رات کو ساڑھے نو بجے فرنٹیر میل سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رائونڈ ٹیبل کانفرنس سے واپس تشریف لائے۔ دہلی اسٹیشن پر مسلمانوں کا ایک جم غفیر استقبال کے لئے موجود تھا جن میں حسب ذیل اصحاب خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب ممبر گورنمنٹ ہند۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب سی۔ آئی۔ ای ممبر اسمبلی۔ محمدیامین خان صاحب ممبر اسمبلی۔ کنور اسمعیل خان صاحب ممبر اسمبلی۔ مولانا شفیع دائودی صاحب ممبر اسمبلی۔ خان صاحب ایس۔ ایم عبداللہ صاحب۔ خان صاحب حاجی رشید احمد صاحب۔ خان صاحب حافظ محمد صدیق صاحب ملتانی۔ مسٹر صالح حیدری انڈر سیکرٹری زراعت۔ اشتیاق احمد صاحب چشتی۔ مسٹر نادر شاہ۔ مفتی شوکت علی صاحب فہمی ایڈیٹر عادل۔ محمد انوار صاحب ہاشمی اڈیٹر اسلامی دنیا۔ ڈاکٹر شفیع احمد صاحب ایڈیٹر روزانہ اخبار سلطنت۔ ضیاء الدین صاحب ایڈیٹر الخلیل۔ حافظ حکیم سید محمد ہلال صاحب۔ پیرزادہ درگاہ حضرت خواجہ قطب صاحب۔ حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب۔ خان بہادر حافظ عبدالحکیم صاحب۔ میر منشی کمانڈر انچیف خان صاحب۔ میر نواب علی صاحب۔ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب نے ممبران اسمبلی کی طرف سے اور حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب نے دہلی کے مسلمانوں کی طرف سے سنہری ہار پہنائے<۔۲۸۶
۲۔
جناب خواجہ حسن نظامی صاحب نے روزنامہ >عادل< ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۳ء کے صفحہ اول پر مسلم سیاست کی دو آنکھیں >میاں سر فضل حسین اور چوہدری ظفر اللہ خان< کے دوہرے عنوان سے تحریر فرمایا۔
>اگر خدا نے ہندو قوم کو گاندھی اور جواہر لال اور مالوی جیسے مخلص اور لائق لیڈر دیئے ہیں تو مسلمانوں کو بھی میاں سر فضل حسین اور چوہدری ظفر اللہ جیسے سراپا اخلاص اور لیاقت سے بھرپور لیڈر عطا فرمائے ہیں۔ یہ دونوں مسلمانوں کی سیاست کی دو آنکھیں ہیں بلکہ دو سانس ہیں جو بظاہر دو مگر درحقیقت ایک ہی ہیں اور مسلمان قوم ان دونوں کے وجود پر فخر کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہے کہ اس نے اس قحط الرجال میں ایسے رہنما اس کو دیئے ہیں۔ جو حریفوں میں بھی بے مثل مانے جاتے ہیں۔
میاں سر فضل حسین نے ہندوستان میں اور چوہدری ظفر اللہ نے انگلستان میں مسلمانوں کی بے کس قوم کی جو سیاسی خدمات انجام دی ہیں ان کو موجودہ مسلمانان ہند اور ان کی آئندہ نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ آج چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اپنی مسلمان قوم کی خدمات انجام دے کر انگلستان سے واپس آئے ہیں۔ اور پایہ تخت دہلی کے مسلمان تمام مسلمانان ہند کی طرف سے اپنی آنکھوں کا فرش ان کے راستہ میں بچھاتے ہیں۔ حسن نظامی ۹/ دسمبر ۱۹۳۳ء۲۸۷
۳۔
اخبار >سیاست< لاہور نے ۱۳/ دسمبر ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں لکھا۔
>ہم بہ مسرت تمام چودھری ظفر اللہ خان صاحب اور ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب کو ولایت سے مع الخیر واپس تشریف لانے پر مبارکباد عرض کرتے اور ان کی قوم اور ان کے ملک کی طرف سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں حقیقت یہ ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حکومت ہند نے اگرچہ مسلمانوں کو پارلیمنٹ کی ہندوستان کے متعلق مجلس منتخبہ مشترکہ کے لئے نمائندے چننے کا حق نہیں دیا۔ تاہم اس نے خود ایسے مسلمان چنے جنہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی کا حق کماحقہ ادا کیا۔ تمام مسلم نمائندے جس اتحاد و یگانگت سے کام کرتے رہے ہیں وہ مسلمانوں کی کامیابی کا بہت بڑی حد تک ذمہ دار ہے اور یوں ہر مسلمان رکن مجلس وغیرہ ہمارے دلی شکریہ کا مستحق ہے۔ لیکن ان نمائندوں میں سے چودھری ظفر اللہ خاں اور ڈاکٹر شفاعت احمد خاں نے جس قابلیت اور صفائی سے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کو پیش کیا اور جس طرح دلائل سے ہمارے مطالبات کی صداقت کو واضح کیا۔ وہ انہی کا حصہ تھا۔ اور ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں ان کی کامیابی اور مع الخیر مراجعت پر مبارکباد و خوش آمدید عرض کرتے ہیں<۔۲۸۸
علم طب کی سرپرستی
قادیان نے ہمیشہ فن طب کی سرپرستی کی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاندانی روایات کے مطابق طب میں گہرا شغف تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے شفاء کا اعجازی نشان تو اتنی کثرت اور تواتر سے حضور کے ہاتھ پر ظاہر ہوا کہ ایک جہان انگشت بدنداں رہ گیا۔ اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ انیسویں صدی کی دنیائے طب میں مسلمہ شخصیت تھے جن کی طبابت اور حکمت کا شہرہ چار دانگ عالم میں پھیلا ہوا تھا لہذا جب آپ قادیان میں ہجرت کرکے آگئے تو قادیان طبابت کا بھی مرکز بن گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو طب خاندانی ورثہ میں ملی اور حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کی شاگردی نے اسے چار چاند لگا دیئے۔ اور آپ کے عہد خلافت میں فن طب نے بہت فروغ پایا۔
اسی حقیقت کے پیش نظر پنجاب کے مشہور حکیم حاذق سید علی احمد صاحب نیر واسطی )لاہور( نے اس سال حضور کی خدمت میں مندرجہ ذیل مراسلہ بھیجا۔
از دفتر دیسی دواخانہ چونا منڈی لاہور زیر سرپرستی حکیم سید علی احمد صاحب نیر واسطی جناب المکرم! تسلیم و نیاز
مجھ سے زیادہ جناب پر یہ حقیقت روشن ہے کہ کسی قوم کی تاریخ اسی وقت زندہ رہ سکتی ہے جبکہ اس کے علوم و فنون کا تحفظ کیا جائے مسلمان اگر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو یقیناً انہیں اپنے علوم و فنون کی جانب اعتنا کرنا پڑے گا۔ انہیں اپنے علم کلام` علم معانی` منطق` فلسفہ اور اس ضمن میں اپنے علم طب پر خصوصی توجہ مبذول کرنی ہوگی۔
قادیان نے ہمیشہ سے علم طب کی سرپرستی کی ہے۔ خود مرزا صاحب ایک بہت بڑے فاضل جید اور حادق طبیب تھے۔ حکیم نور الدین صاحب بھیروی کا مرتبہ اطبائے کاملین کی صف اول میں خصوصاً بہت بلند ہے ان کے مجربات کے نسخوں اور ان نسخوں کی ترکیبوں کو دیکھ کر جالینوس اور شیخ کے عہد کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔
ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کی ذات گرامی سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس فن عزیز کی سرپرستی کے لئے اب عملی قدم بڑھائیں۔
لکھنا بہت کچھ تھا لیکن سردست ان چند سطور پر اکتفا کیا گیا۔
سردار محمد خاں
بحکم حکیم علی احمد صاحب نیر واسطی
اس خط کا حضورؓ نے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل جواب دیا۔
>آپ کا خط ملا۔ حسب توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب ہی کاموں کی طرف توجہ کا ارادہ رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ ارادوں کا پورا کرنے والا ہے۔ سب کام روپیہ چاہتے ہیں اور روپیہ ان ابتدائی ضرورتوں کو جن کے لئے سلسلہ کا قیام ہے بہ مشکل پوراہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو طب کا خاص خیال تھا مجھے جو علم علاوہ قرآن کریم اور حدیث کے حکماء سے پڑھوایا وہ طب تھا فرماتے تھے یہ ہمارا خاندانی شغل ہے چنانچہ دو تین ابتدائی کتب حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ سے طب کی میں نے پڑھیں پھر دوسرے کاموں میں لگ گیا ارادہ ہے کہ اپنے ایک بچے کو علم طب ایسے اصول پر پڑھوائوں کہ طب کا صحیح حصہ قائم رکھا جائے آپ کی رائے کا معلوم کرنا موجب خوشی ہو گا<۔
اخبار >الفضل< کی اسلامی خدمات
اخبار >الفضل< نے اپنی مستقل پالیسی کے مطابق ۱۹۳۳ء میں بھی مسلمانوں کے اہم مسائل اور ان کے قومی مفاد میں گہری دلچسپی لی۔ اس ضمن میں چند اہم معاملات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
السنہ شرقیہ کا تحفظ: یہ افواہ مشہور ہوئی کہ اورینٹل کالج لاہور اور السنہ شرقیہ کی حیثیت اور وقت کم کرنے کی تجاویز پنجاب یونورسٹی کے تحقیقاتی کمشن کے زیر غور ہیں۔ اخبار الفضل نے اس پر لکھا کہ >مسلمان قطعاً برداشت نہیں کریں گے کہ وہ زبانیں جو ان کی تہذیب ان کے تمدن` ان کی شاندار روایات` ان کے اسلاف کے بے مثال کارناموں اور ان کے علوم کی حامل ہونے کے علاوہ ان کے مذاہب کو بھی محفوظ کئے ہوئے ہیں انہیں ایسے صوبہ میں جہاں تمام دوسری اقوام کے مقابلہ میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے نذر تغافل ہونے دیں<۔]4 [stf۲۸۹
مملکت آصفیہ اور مسئلہ برار: مملکت آصفیہ اور حکومت برطانیہ کے مابین مسئلہ برار مدتوں زیر بحث چلا آرہا تھا۔ اخباری اطلاعات سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت والی دکن اور ان کے لائق و جہاندیدہ وزیراعظم سر اکبر حیدری اور ان کے رفقاء کار کی کوشش سے ایک باقاعدہ معاہدہ ہو رہا ہے جس کی رو سے برار کا علاقہ شہر یار دکن کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اخبار >الفضل< نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ اور اس تصفیہ کو مملکت دکن اور اہل برار دونوں کے لئے بابرکت قرار دیا اور اہل برار کو مشورہ دیا کہ انہیں ایسے لوگوں کی باتوں کی کوئی وقعت نہیں دینی چاہئے۔ جو سودیشی حکومت کے نعرے بلند کرتے ہیں مگر نہیں چاہتے کہ سب سے بڑے ہندوستانی فرمانروا کو اپنا علاقہ واپس مل جائے۔۲۹۰
مسلمان افسر کی برطرفی پر احتجاج: سرحد کے ایک اعلیٰ مسلمان افسر )شیخ تاج محمد صاحب کنٹرولر آف اکونٹس( برطرف کر دیئے گئے۔ اس پر >الفضل< نے سخت احتجاج کیا اور لکھا کہ اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو مسلمان یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ ۹۵ فیصد مسلمان آبادی والے صوبہ کے اعلیٰ مسلمان افسر بھی باسانی غیر مسلموں کی سازش کا شکار بنائے جا سکتے ہیں۔۲۹۱
ہندوئوں کے حملہ کی مذمت: عید الاضحیہ کی تقریب پر حکومت کے وسیع انتظامات کے باوجود ہندوئوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا اس ظالمانہ روش پر اظہار افسوس کرنے کی بجائے اخبار >ملاپ< )۲/ اپریل ۱۹۳۳ء( نے لکھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو عید کی قربانی ہی بند کر دینی چاہئے۔ >الفضل< نے اس ذہنیت پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا۔ کاش ہندوئوں میں رواداری کا مادہ ہوتا کہ وہ اقلیتوں کو حقوق نہیں بلکہ مراعات دے کر اپنا اعتماد جما لیتے۔۲۹۲
ریاست بہاولپور کے خلاف ہندو شورش: ہندوئوں نے تحریک آزادی کشمیر کے ردعمل کے طور پر ریاست بہاولپور کے خلاف شورش برپا کر رکھی تھی جس کی حقیقت اخبار الفضل نے واضح کی۔۲۹۳
اتحاد المسلمین کی جدوجہد: صدر خلافت کمیٹی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ >مسلمانوں کی نجات ان کی اپنی تنظیم میں مضمر ہے لہذا مسلمانوں کو اپنے تمام اختلافات دفن کرکے متحد طور پر کام کرنا چاہئے<۔ الفضل نے اس مشورہ کا پرجوش خیر مقدم کیا۔۲۹۴
مسلم لیگ میں یکجہتی کے لئے کوشش: قائداعظم محمد علی جناح کے قیام لنڈن کے دوران مسلم لیگ کو بہت نقصان پہنچ رہا تھا اور یہ تنظیم اندرونی الجھنوں کا شکار بن کر عضو معطل بن رہی تھی۔ اخبار >الفضل< نے اس نازک مرحلہ پر مسلمانان ہند کو توجہ دلائی کہ آل انڈیا مسلم لیگ ہی ہماری سب سے پہلی سیاسی انجمن ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کے سیاسی اور ملکی حقوق کی حفاظت کی بلکہ ان میں سیاسی شعور پیدا کرنے کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ لہذا آج جبکہ مخالف طاقتیں نہایت منظم طریق سے مسلمانوں کو کچلنے کے لئے برسرپیکار ہیں یہ طریق نہ صرف ارکان مسلم لیگ کی شان کے شایاں نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے سخت نقصان رساں اور ان کے سیاسی حقوق کو تباہ کرنے والا ہے۔۲۹۵
ریاست مانگرول کی تائید: مانگرول کاٹھیا واڑ میں ایک چھوٹی سی مسلمان ریاست تھی۔ ہندو ذبیحہ گائے کا سوال اٹھا کر اس میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور آریہ اخبار نواب صاحب مانگرول کے خلاف پراپیگنڈا کر رہے تھے جس کے خلاف اخبار الفضل نے آواز بلند کی۔۲۹۶
سیو اسنگھی تنظیم کی مخالفت: اجمیر میں ہندوئوں کا ایک بہت بڑا اجتماع ہوا۔ جس میں مسلمانوں کے خلاف جدید محاذ جنگ قائم کرتے ہوئے سیوا سنگھ کے نام سے رضا کاروں کی ایک فوج تیار کرنے اور مسلمانوں کو جلد سے جلد شدھ کرکے ہندو بنانے کا فیصلہ کیا۔ اخبار >الفضل< نے مسلمانوں کو ہندوئوں کے ان ناپاک عزائم سے خبردار کرنے کے لئے ایک مفصل شذرہ سپرد قلم کیا۔۲۹۷
سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء
اس سال کا سالانہ جلسہ رمضان المبارک کے مہینہ میں آیا۔ جس کی وجہ سے بعض نئی قسم کی دقتیں پیش آئیں مگر ان پر قابو پا لیا گیا۔ اور سخت سردی کے باوجود منتظمین اور کارکن سخت مشقت اٹھا کر روزہ داروں کے لئے افطار اور سحری کے وقت کھانا پہنچاتے رہے۔
جلسہ سے قبل حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ دار ہونے کی وجہ سے بلند آواز سے تقریر نہ کر سکوں گا۔ اس لئے سردست اس جلسہ کے لئے آلہ نشر الصوت کرایہ پر منگوانے کا انتظام کیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل میں صوفی محمد ابراہیم صاحب بی۔ ایس۔ سی لاہور بھجوائے گئے مگر جب انہوں نے بذریعہ تار اطلاع دی کہ PAR کمپنی والے تین دن کے لئے پانچ سو روپیہ کرایہ لائوڈ سپیکر کا طلب کرتے ہیں نیز پتہ چلا کہ اچھا مائیکرو فون ان دنوں لاہور میں دستیاب نہیں ہو سکتا۔ لہذا حضور نے اس سال لائوڈ سپیکر کرایہ پر منگوانے کی اجازت نہ دی اور فرمایا مستقل انتظام کے لئے غور کیا جائے۔۲۹۸ تاہم اس وقت کے باوجود حضورؓ نے حسب دستور سالانہ جلسہ پر تین بار خطاب فرمایا۔ آخری تقریر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وحی سے متعلق تھی نہایت پرمعارف اور بے حد ایمان افروز تھی یہ تقریر تین بجے سے سوا پانچ بجے تک جاری رہی۔۲۹۹
اس جلسہ پر ۲۸/ دسمبر کی رات تک بیعت کرنے والوں کی تعداد ۳۶۴ شمار کی گئی جن میں معزز تعلیم یافتہ اور بارسوخ غیر احمدی اصحاب کے علاوہ بعض غیر مبایعین بھی شامل تھے۔۳۰۰
بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیوں پر سیدنا خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا تبصرہ
۱۹۳۳ء میں جماعت احمدیہ کے بلاد غیر میں پانچ مستقل مشن قائم تھے ۱۔ امریکہ ۲۔ جاوا ۳۔ انگلستان ۴۔ شام و مصر ۵۔ مغربی افریقہ۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء کے موقعہ پر ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
>سال حال میں تبلیغ کے عملی نتائج بھی اچھے نکلے ہیں امریکہ میں کئی نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں سات آٹھ نئی جماعتیں بنی ہیں اسی طرح جاوا میں بہت کامیابی حاصل ہو رہی ہے یہ برکتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ مولوی رحمت علی صاحب طالب علمی کے زمانہ اور اب بھی اتنے سادہ ہیں کہ لوگ عام طور پر ان کی باتوں پر ہنس پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ غرض وہ بہت سادہ ہیں مگر وہ جہاں جہاں بھی گئے وہاں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا اور لوگ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کا مقابلہ ان کے علماء نہیں کر سکتے` کچھ عرصہ ہوا یہاں ڈچ قونصل مجھے ملنے کے لئے آیا۔ اس نے بھی مجھ سے ذکر کیا کہ مولوی رحمت علی بہت بڑا عالم ہے وہاں کا ایک پادری یہاں آیا۔ اس نے بھی یہی کہا۔ بات اصل یہ ہے کہ مولوی رحمت علی صاحب اپنے آپ کو ہیچ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر اس کی راہ میں کام کرتے ہیں اس پر خدا تعالیٰ اپنی خاص برکتیں نازل کرتا اور ہر موقعہ پر ان کو کامیابی عطا کرتا ہے انہوں نے پہلے سماٹرا میں ایک بہت بڑی جماعت قائم کی۔ اب وہ جاوا بھیجے گئے یہ تعلیم یافتہ علاقہ ہے۔ مولوی صاحب اگرچہ اس علاقہ کی زبان سے ناواقف تھے مگر باوجود اس کے گزشتہ تین ماہ کے اندر انہوں نے تین زبردست مباحثے کئے ہیں ان کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دو جگہ بڑی زبردست جماعتیں قائم ہوگئی ہیں یہاں ہندوستان میں ایک مبلغ دو دو سال تک تبلیغ کرتا رہتا ہے تو ایک دو احمدی ہوتے ہیں مگر وہاں بوگرا اور بٹاویہ دو مقامات میں تھوڑے عرصہ میں بڑی بڑی جماعتیں پیدا ہو گئیں جن کی تعداد دو دو اڑھائی اڑھائی سو افراد کے قریب ہے اور وہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ مگر مولوی رحمت علی صاحب جب آئیں گے تو پھر بھی ویسے ہی سادہ ہوں گے جیسے پہلے تھے۔ ان کے مباحثات کا ذکر جب غیر احمدی اخبارات میں چھپتا ہے تو بہت تعریف کی جاتی ہے وہ لکھتے ہیں مولوی رحمت علی صاحب مباحثہ میں اس طرح بولتے ہیں جس طرح آسمان سے گرج کی آواز آتی ہے ان کے مقابلہ میں ہمارے بیس بیس اور تیس تیس مولوی تھراتے اور کانپتے ہیں۔ وہ اخبارات مولوی رحمت علی صاحب کا اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ گویا وہ جماعت احمدیہ کے تمام علماء کا نچوڑ ہیں۔ یہ اسی اخلاص اور بے نفسی کا نتیجہ ہے جس سے مولوی صاحب کام کرتے ہیں۔ مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ایک غیر احمدی اخبار نے لکھا ایک مباحثہ میں بیس سے زیادہ مولوی مقابلہ پر تھے۔ مگر وہ مولوی صاحب سے کانپتے تھے اور ڈرتے تھے۔ جاوا اور سماٹرا کے علاوہ اور جزائر میں بھی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔
امریکہ میں تبلیغ کا جو کام ہو رہا ہے اس کی تفصیل میں نہیں بیان کرتا۔ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب خود دیکھ آئے ہیں اور انہوں نے اس کے متعلق تقریر بھی کی ہے وہ اس کام سے بہت ہی متاثر ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ صوفی مطیع الرحمن صاحب کو اسلامی لٹریچر اور اسلامی مسائل کے متعلق یہ درجہ حاصل ہے کہ اسلامی لٹریچر کے بڑے بڑے ماہرین ان کے سامنے کوئی بات پیش کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ صوفی صاحب اسے غلط نہ قرار دے دیں۔
انگلستان میں اس سال مبلغین کی تبدیلی ہوئی ہے اس وجہ سے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کام کو سنبھال رہے ہیں۔ میں نے انہیں اب کے ہدایت کی تھی کہ علمی طبقہ میں کام کریں۔ اس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں چنانچہ پادریوں کے ایک کلب میں انہوں نے تقریر کی جس کا اچھا اثر ہوا امید ہے کہ وہاں بھی علمی طبقہ پر احمدی مبلغین کا سکہ بیٹھ جائے گا۔ مولوی اللہ دتہ صاحب۳۰۱ شام اور مصر میں اچھا کام کر رہے ہیں وہاں احمدیت کی شدید مخالفت ہو رہی ہے۔ بعض احمدیوں کو پیٹا بھی گیا ہے۔ حکومت بھی خلاف ہے۔ حیفہ میں ایک بہت بڑی جماعت قائم ہے جس کے بہت سے افراد مولوی جلال الدین صاحب شمس کے وقت کے ہیں مگر مولوی اللہ دتہ صاحب کام کو خوب پھیلا رہے ہیں۔
افریقہ کے مبلغ حکیم فضل الرحمن صاحب بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں وہاں بیس ہزار کی جماعت قائم ہو چکی ہے احمدیوں کے چھ سکول ہیں۔ وہاں کے احمدیوں میں سے ہی کئی ایک بطور مبلغ کام کرتے ہیں<۔۳۰۲
بعض مخلص احمدی نوجوانوں اور نئے مبلغوں کا ذکر
۳۳۔ ۱۹۳۲ء کو تاریخی نقطہ نگاہ سے یہ بھاری خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ کے بعض ایسے مخلص نوجوان آگے آئے جنہوں نے آئندہ چل کر سلسلہ کی شاندار خدمات سر انجام دیں اور جن کا نام بنام ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۳ء پر ارشاد فرمایا۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجاب میں ایک نئی روح پیدا ہو رہی ہے کچھ عرصہ پہلے مردنی سی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن دو سال سے بیداری پائی جاتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے مخلص نوجوان پیدا ہو رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کے نام آج میں لے دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سنت پر کہ آپ بھی مخلصین کا نام لے کر ذکر کر دیا کرتے تھے پھر اس لئے بھی کہ جن کے نام لئے جائیں ان میں غیرت پیدا ہو جائے کہ اس عزت کو قائم رکھنا ہے۔ کئی مخلص نو جوان ہیں جن میں سے بعض کے لئے ان کی سرگرمیوں کے متعلق حد بندیوں کی ضرورت ہے اور بعض کے لئے قوت عملیہ کے بڑھانے کی ضرورت۔ ان میں سے ایک تو ۔۔۔۔۔۔ چودھری فقیر محمد خان صاحب ہیں یہ نسبتاً پرانے احمدی ہیں اور نوجوانوں کے لئے اچھا نمونہ ہیں۔ ایک چوہدری اعظم علی صاحب ہیں یہ نئے جماعت میں داخل ہوئے ہیں انہوں نے اخلاص کا نہایت اچھا نمونہ دکھلایا ہے وہ شیعوں میں سے آئے ہیں لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں انہوں نے اخلاص کا قابل تعریف نمونہ پیش کیا ہے اور میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ اور نئے آنے والے کیوں نہ ان کی طرح دین میں ترقی کر سکیں۔ بیعت کرنے کے چھ ماہ بعد جب میں نے ان کی شکل دکھی تو میں انہیں پہچان نہ سکا۔ کیونکہ ان کی شکل سے ایسا اخلاص اور ایسی دینداری ظاہر ہوتی تھی گویا کہ وہ پرانے احمدی ہیں۔ اسی طرح چودھری محمد شریف صاحب وکیل` مرزا عبدالحق صاحب وکیل` میاں عطاء اللہ صاحب وکیل` چودھری عبداللہ خان صاحب برادر چودھری ظفر اللہ خاں صاحب` قاضی پروفیسر محمد اسلم صاحب` ڈاکٹر محمد منیر صاحب` عبدالرحمن صاحب خادم بشرطیکہ نفس پر قابو رکھیں۔ چودھری خلیل الرحمن صاحب بنگالی اور اسی طرح اور کئی نوجوان ہیں جن کے اندر سلسلہ کی خدمت اور روحانی ترقی کا جوش ہے۔ بعض نسلی احمدی ہیں بعض نئے احمدی ہیں۔ اور ان نوجوانوں کی حالت دوسرے نوجوانوں کے لئے نیک نمونہ بن سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے صحیح طریق پر ترقی جاری رکھی تو رئویا اور کشوف سے بھی حصہ پا سکیں گے۔ تمام احمدیوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ ان کی اولاد میں روحانیت پائی جائے۔ اور ہمارے نوجوان روحانیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ اصلی چیز یہی ہے ورنہ عملی بحثوں نے مولویوں کو کوئی فائدہ نہیں دیا۔ اور نہ یہ بحثیں ہمیں کوئی فائدہ دے سکتی ہیں۔
نئے مبلغ جو پیدا ہو رہے ہیں ان میں بھی اچھے نوجوان نکل رہے ہیں۔ مولوی محمد سلیم صاحب ایک اچھے مبلغ ہیں۔ مولوی )شیخ( مبارک احمد صاحب کی قابلیت اس سے پہلے معلوم نہ تھی۔ اب ظاہر ہو رہی ہے ہماری جماعت میں ایک صاحب۳۰۳ تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ وہ مبلغین کے متعلق نکتہچینی کیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم کے متعلق بھی نکتہ چینی کر دیتے تھے۔ اب کے وہ مجھ سے ملنے کے لئے پالم پور گئے۔ تو کہنے لگا میں نے اپنی جماعت میں مبارک احمد ایک مبلغ دیکھا ہے جو بہت قابل ہے میں نے کہا شکر ہے آپ کو ایک قابل مبلغ تو مل گیا۔ ایک اور مبلغ شیخ عبدالقادر صاحب ہیں۔ وہ ہندوئوں میں سے آئے ہیں اور اب مسلمانوں کے مولوی ہیں۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کی تحریر کا رنگ اچھا ہے۔ غرض نئے مبلغ نکل رہے ہیں اور اچھے اچھے نکل رہے ہیں۔ امید ہے کہ جماعت کو مبلغوں کے نہ ملنے کی جو شکایتیں رہتی ہیں وہ کسی حد تک دور ہو جائیں گی۔ گو ان کا کلیت¶ہ دور ہونا مشکل ہے کیونکہ ابھی مبلغ اس قدر نہیں ہیں کہ ہر جماعت کی شکایت دور کی جا سکے۔۳۰۴
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
۱۹۳۳ء میں وفات پانے والے بعض جلیل القدر صحابہ کے نام یہ ہیں۔
۱۔
حضرت چوہدری محمد حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ )تاریخ وفات یکم مارچ ۱۹۳۳ء(۳۰۵
۲۔
حضرت مولوی محمد علی صاحب مہاجر بدوملہویؓ )تاریخ وفات ۳۰/ اپریل ۱۹۳۳ء(۳۰۶
۳۔
حضرت حافظ محمد حسین صاحب قریشیؓ )تاریخ وفات ۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء(۳۰۷
۴۔
حضرت منشی خادم حسین صاحب بھیرویؓ )تاریخ وفات نومبر ۱۹۳۳ء(۳۰۸
۵۔
حضرت قاضی محبوب عالم صاحبؓ امرت سری خلف اکبر حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ )تاریخ وفات ۱۲/ مئی ۱۹۳۳ء(۳۰۹
۶۔ ][ صحابیات میں سے اس سال والدہ ماجدہ حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی جنوری ۱۹۳۳ء میں وفات ہوئی۔۳۱۰ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے آپ کی نسبت فرمایا۔ >وہ ایک نہایت مخلص اور نیک خاتون تھیں اگر انہیں ولیہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ایمان میں ان کو قدم صدق حاصل تھا ایسی بے شر اور نیک عورتیں اس زمانہ میں کم ہی دیکھی جاتی ہیں<۔۳۱۱
tav.7.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا انیسواں سال
پہلا باب )فصل نہم(
۱۹۳۳ء کے بعض متفرق مگر نہایت اہم واقعات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی عیادت
مولوی میاں عبدالمنان صاحب عمر )خلف حضرت خلیفتہ المسیح الاول( ۱۹۳۳ء کے شروع میں سخت بیمار ہو گئے۔ ۱۵/ جنوری کو خون کی قے بھی آئی یہ اطلاع ملنے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ بہ نفس نفیس عیادت کے لئے تشریف لے گئے اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کا قریباً سارا خاندان بھی۔ حضرت امیر المومنینؓ کے حکم پر مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ ادویہ اور ڈاکٹر لانے کے لئے لاہور گئے اور راتوں رات ڈاکٹر عبدالحق صاحب اسسٹنٹ سرجن کو ساتھ لے آئے۔۳۱۲ اس کے بعد میاں صاحب موصوف کو افاقہ ہونا شروع ہوا اور آپ جلد صحت یاب ہو گئے۔
دو نئی مساجد
اس سال ملک میں دو نئی احمدیہ مسجدوں کی تعمیر ہوئی۔ )۱( مسجد انبالہ )تاریخ بنیاد ۲۵/ مارچ ۱۹۳۳ء(۳۱۳
۲۔
مسجد بھدرک اڑیسہ )تاریخ بنیاد ۱۶/ جون ۱۹۳۳ء(۳۱۴
مسجد انبالہ اس زمین میں بنائی گئی جو مقامی جماعت کے امیر بابو عبدالرحمن صاحب نے اپنے مکان کے لئے مخصوص کر رکھی تھی۔ اور اس کا نقشہ بھی تیار ہو چکا تھا۔ حاجی میراں بخش صاحب نے زرکثیر صرف کرکے یہاں مسجد تعمیر کرائی جس کا افتتاح ۳۰/ جولائی ۱۹۳۳ء کو ہوا۔10] p[۳۱۵
مسجد بھدرک مولوی نور محمد صاحب انسپکٹر ریلوے پولیس )خوردہ روڈ اڑیسہ( کی ذاتی کوشش اور اخراجات سے تیار ہوئی اور ۲۶/ دسمبر ۱۹۳۳ء کو اس کا افتتاح ہوا۔ تعمیر مسجد کے خلاف غیر احمدیوں نے پورا زور صرف کیا اور قانونی چارہ جوئی بھی کی مگر ناکام رہے۔۳۱۶
انسداد بیکاری
۱۹۳۳ء کی مجلس مشاورت میں بیکاری کے انسداد کی نسبت علاوہ دوسری تجاویز کے یہ فیصلہ بھی ہوا کہ قادیان میں ایک ہفتہ وار بازار کا انتظام کیا جائے چنانچہ ۱۹۳۳ء کے وسط میں >سب کمیٹی انسداد بیکاری< کے زیر انتظام ریتی چھلہ )قادیان( میں ہر جمعہ کے روز بازار لگایا جانا شروع ہوا۔۳۱۷
کوٹلی ضلع گجرات میں مباہلہ
۲۸/ اگست ۱۹۳۳ء کو موضع کوٹلی )ضلع گجرات( میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کا مباہلہ ہوا۔ دونوں طرف سے اکیس اکیس افراد نے شرکت کی خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام احمدی افراد آخر سال تک بخیریت و عافیت رہے مگر غیر احمدی مباہلین میں سے دو )شرف دین اور احمد نامی( موت کا شکار ہوئے۔ ایک اور شخص )پیر بخش( بھی جو اگرچہ مباہلین کی فہرست میں نہیں تھا مگر دعا میں شامل ہو گیا تھا اور سخت مخالف تھا مر گیا اسی طرح ایک غیر احمدی مباہل کی بیوی لقمہ اجل ہو گئی اور ایک پر فالج گرا۔ ایک کا لڑکا مرا اور دوسرے کا پوتا۔ یہ گویا آسمانی فیصلہ تھا جو خدائی عدالت سے احمدیت کے حق میں صادر ہوا۔۳۱۸
بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات
جاوا مشن; جاوا میں اس سال دو معرکتہ الاراء مباحثے ہوئے۔ پہلا مناظرہ ۱۳۔ ۱۴۔ ۱۵/ اپریل کو بمقام بنڈنگ ہوا۔ جس میں پہلے مولوی رحمت علی صاحب نے مقامی انجمن >پمبیلا اسلام<۳۱۹ ISLAM) (PEMBELA کے مناظر حسن صاحب بنڈوم کو شکست فاش دی۔ غیر احمدی مناظر گھر سے سوالات لکھ کر لایا تھا مگر مولوی رحمت علی صاحب فی البدیہہ جواب دے رہے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ حاضرین احمدیوں کے تبحر علمی کے قائل ہو گئے اور کھلے بندوں اقرار کرنے لگے کہ ہمارا مناظر ہرگز اصل موضوع کی طرف نہیں آیا۔ احمدی مناظر نے نہایت معقول اور مسکت جواب دیئے ہیں دوسرے دن مولوی ابوبکر صاحب سماٹری مناظر تھے جن کے زبردست دلائل کی تاب نہ لا کر غیر احمدی مناظر گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور آسمان کی طرف منہ کرکے کہنے لگا کہ >اے خدا! میں کس سے مدد لوں<۔ صدر مباحثہ نے کہا۔ >اس وقت تمہاری کوئی بھی مدد نہیں کرے گا<۔ غیر احمدی مناظر پہلے دو دن غیر متعلق سوالات کرکے پبلک میں بہت ندامت اٹھا چکا تھا۔ اس لئے تیسرے دن اس نے اصل موضوع >وفات مسیح< پر گفتگو کرنا شروع کی۔ مگر جب اس کے اعتراضوں کا پہلی بار ہی تسلی بخش جواب دے دیا گیا تو وہ بے بس ہو کے رہ گیا۔
اس مناظرہ میں خاص پابندیوں اور شرطوں کے باوجود ایک ہزار اصحاب شامل ہوئے جن میں جاوا` سماٹرا` سنگاپور` بورنیو کے نمائندے بھی تھے۔ اور اخباروں کے نامہ نگار اور حکومت کے افسر بھی! سماٹرا اور جاوا کے مشہور عالم ڈاکٹر حاجی عبداللہ احمد صاحب اور احمد سور کاتی۳۲۰ بھی مناظرہ سننے کے لئے تشریف لائے غرضکہ اس مناظرہ میں احمدیت کو شاندار فتح نصیب ہوئی۔ اور احمدیت کا چرچا جزائر شرق الہند کے اکناف و اطراف میں پھیل گیا۔
مناظرے کے بعد مولوی رحمت علی صاحبؓ نے صدر جلسہ سے کہا کہ اب آپ ہمارے پاس بٹاویہ میں تشریف لائیں تمام اخراجات کے ہم ذمہ دار ہوں گے جیسا کہ اب انجمن حمایت اسلام نے اس کا خرچ برداشت کیا۔ چنانچہ طے پایا کہ دوسرا مناظرہ ماہ ستمبر میں کیا جائے۔۳۲۱
باہمی تصفیہ کے مطابق بٹاویہ میں ایک اور عظیم الشان مناظرہ ہوا جس میں احمدیت کو ایسی نمایاں کامیابی ہوئی کہ بعض غیر احمدی مقتدر لیڈروں اور مشہور ایڈیٹروں نے برملا اس کا اقرار کیا۔ چنانچہ ایک غیر احمدی لیڈر نے مناظرہ کے اختتام پر مندرجہ ذیل اعلان کیا۔
>میں ہر دو مناظروں میں موجود رہا ہوں اور فریقین کے دلائل کا موازنہ کرکے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمارے مناظرین کے پاس نہ تو وہ دلائل ہیں جو صحیح معنوں میں احمدیوں کے دلائل کا جواب ہوں۔ اور نہ وہ کشش اور جذب ہے جس سے احمدی مناظر پبلک کے قلوب کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ان کے دلائل عقل انسانی کو اپنی طرف مائل کرتے اور انسانی فطرت کی گہرائیوں تک کو اپیل کرتے ہیں۔ اور اگر دو تین مناظرے اور ہوئے تو مجھے خطرہ ہے کہ ان جزائر کا ایک معتدبہ حصہ احمدیت کا حلقہ بگوش ہو جائے گا۔ پس میری رائے میں ہمیں چاہئے کہ ہم آئندہ کسی احمدی سے مناظرہ نہ کریں اور نہ علیحدگی میں ان سے تبادلہ خیالات کریں کیونکہ ہر دو صورتوں میں ہمارا ہی نقصان ہے۔ روپیہ ہمارا خرچ ہوتا ہے وقت ہمارا خرچ ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آج فلاں جگہ دس احمدی ہو گئے آج فلاں جگہ بیس احمدی بن گئے<۔
اس مناظرہ میں بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی رحمت علی صاحب اور مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری پیش ہوئے۔ مولوی رحمت علی صاحبؓ نے >وفات مسیحؑ< پر سیر کن بحث کی چنانچہ جاوا کے ایک مشہور اور کہنہ مشق ایڈیٹر نے لکھا۔
>اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدی مناظر نے متعدد آیات قرآنیہ اور احادیث سے نہایت ہی موثر اور دلکش پیرائے میں یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچا دیا کہ واقعی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام وفات پا گئے۔ ہمارے مناظر نے اپنی طرف سے حیات مسیح کے اثبات میں پورا زور لگایا مگر حقیقت یہ ہے کہ احمدی مناظر کے دلائل سننے کے بعد گو ہمارا اعتقاد تواب بھی یہی ہے کہ حضرت مسیحؑ زندہ آسمان پرموجود ہیں لیکن عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی کہ کس طرح ایک انسان دو ہزار سال بے کھائے پیئے آسمان پر زندہ رہ سکتا ہے<۔
مولوی ابوبکر ایوب صاحب کی قابلیت اور وسعت معلومات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوسرے ہی دن کئی اخباروں نے کالم کے کالم مولانا کی تعریف اور مناظرہ کی سرگزشت میں صرف کئے چنانچہ مذکورہ ایڈیٹر نے لکھا۔
>آج کی رات پہلے تجربہ کی بناء پر میں وقت مقررہ سے بہت پہلے ہال میں پہنچ گیا۔ مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ احمدیوں کی طرف سے ایک گورے رنگ کا نوجوان )جس کے متعلق مشہور ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کا سند یافتہ ہے( کھڑا ہوا۔ نہایت سلاست اور روانی سے ایک ایسے انوکھے اور مشکل مضمون پر تقریر کر رہا ہے کہ جو ہم نے زندگی بھر ¶کبھی نہیں سنا۔ اور باوجود اس بات کے کہ کثیر مجمع اس کے خیالات کا مخالف ہے مگر وہ ایسے موثر اور دلنشین پیرائے میں کلام کر رہا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے گویا لوگوں کے سروں پر جانور بیٹھے ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ ذرا ہلے تو اڑ جائیں گے۔ بلکہ بعض کو تو یہاں تک کہتے سنا کہ اس قسم کی تقریر ان جزائر میں پہلے کبھی نہیں سنی گئی<۔
مختصر یہ کہ اس مناظرہ میں بھی حق و صداقت کو بے نظیر کامیابی حاصل ہوئی۔۳۲۲ بالاخر یہ بتانا بھی ضرور ہے کہ ان مناظروں میں مولانا محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا بھی شامل تھے اور انہوں نے مباحثات کی تیاری اور حوالہ جات کی فراہمی میں ہر ممکن اعانت فرمائی۔
مصر و فلسطین مشن: ان دنوں اس مشن کے انچارج مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری تھے جنہوں نے ممالک عرب میں تبلیغ اسلام و احمدیت کی کوششیں اس سال پہلے سے زیادہ تیز کر دیں اور مناظروں اور مباحثوں کے ذریعہ سے خاص طور پر احمدیت کا سکہ بٹھا دیا۔ سب سے نمایاں مناظرہ امریکن مشن قاہرہ کے انچارج ڈاکٹر فیلبس سے ہوا۔ یہ مناظرہ تین مضامین پر تھا اور اللہ تعالیٰ نے تینوں میں ہی اسلام کو فتح بخشی۔ تیسرے مضمون میں ڈاکٹر فیلبس اپنے ساتھ دو اور پادری )پادری کامل منصور اور پادری ایلڈر( بھی لائے تھے مگر حق وصداقت کے سامنے دم مارنے کی کسے مجال تھی۔ اختتام پر ایک ازہری عالم نے کہا بخدا اگر تمام علماء ازہر مل کر بھی ایسا مناظرہ کرنا چاہیں تو نہ کر سکیں۔ پادری کامل منصور نے جاتے وقت اقرار کیا کہ احمدی مناظر نے مسیحیت سے متعلق ہم سے زیادہ مطالعہ کیا ہے۔ بلکہ دوسرے مناظرے کے بعد خود ڈاکٹر فیلبس نے اعتراف کیا کہ >قد فشلت الیوم< میں آج ہار گیا۔۳۲۳ یہ شہرہ آفاق مناظرہ >مباحثہ مصر< کے نام سے اردو اور انگریزی میں شائع شدہ ہے۔
فلسطین کی پہلی مسجد >سیدنا محمود< جس کا بنیادی پتھر ۳/ اپریل ۱۹۳۱ء کو علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے رکھا تھا۔ ۳/ دسمبر ۱۹۳۳`ء کو اس کا افتتاح مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے فرمایا۔۳۲۴
امریکہ مشن: جاوا اور مصر و فلسطین کے علاوہ امریکہ میں بھی مناظرات کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں ۱۹۳۳ء کا مشہور مناظرہ گرائونڈ ریپڈ مچ میں ہوا۔ جس میں مبلغ اسلام صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالیؓ نے دو روز تک ایک پادری سے بحث کرکے اسلام کی حقانیت اور سچائی کا ڈنکا بجا دیا۔ چنانچہ نیو یارک کے عربی جریدہ >البیان< نے اپنی ۶/ مئی ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں >امریکہ میں اسلام< کے عنوان کے تحت لکھا۔
>معزز و محترم مولانا صوفی مطیع الرحمن صاحب جو ہندوستان کی جماعت احمدیہ کی طرف سے شمالی امریکہ میں دین اسلام کے مبلغ ہیں گرائونڈ رپیڈس میں تشریف لائے مقامی مسلمانوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔ آپ اگرچہ یہاں صرف چند دن قیام پذیر رہے مگر ان دنوں میں آپ دعوت اسلامی کی نشر و اشاعت کے لئے سرگرم عمل رہے آپ نے مسلمانوں اور امریکنوں کے بہت سے اجتماعات میں خطبات پڑھنے سننے والوں پر آپ کے وعظ و تذکیر نے نہایت گہرا اثر کیا یہ سب کچھ آپ کے تبحر علمی وسعت معلومات اور کثرت مطالعہ کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دنوں مولانا موصوف اور ایک عیسائی امریکن مبلغ کے درمیان پانچ گھنٹے تک ایک مناظرہ بھی ہوا۔ جس میں الاستاذ صوفی مطیع الرحمن صاحب اپنے جج قاہرہ اور دلائل باہرہ کے رو سے نمایاں طور پر کامیاب رہے۔ فریق مخالف آپ کے دلائل کا قطعاً رد نہ کر سکا<۔]4 [stf۳۲۵
مبلغین کی آمد و روانگی
اس سال مرکز سے حضرت مولوی عبدالرحیم صاحبؓ درد اور مولوی حکیم فضل الرحمن صاحبؓ ۲/ فروری ۱۹۳۳ء کو بالترتیب انگلستان اور مغربی افریقہ میں تبلیغ کے لئے روانہ ہوئے۔۳۲۶
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ نے ۱۲/ مارچ ۱۹۳۳ء۳۲۷ کو امام مسجد لنڈن حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ سے مشن کا چارج لیا۔ خان صاحب اسی تاریخ سے آسٹریا کے راستہ عازم ہند ہو گئے۔ اور ۱۰/ اپریل ۱۹۳۳ء کو قادیان تشریف لے آئے۔۳۲۸ سول اینڈ ملٹری گزٹ )۲۰/ مارچ ۱۹۳۳ء( نے اس تبادلہ پر لکھا۔
>ہمیں ہندوستان میں لنڈن مسلم مشن کے کام سے ہمیشہ بہت دلچسپی رہی ہے گزشتہ چند سالوں سے پٹنی میں واقع عظیم الشان مسجد تبلیغ اسلام کا مرکز بنی ہوئی ہے جس کی اہمیت کا یہ ایک بین ثبوت ہے کہ اس کے موجودہ امام خان صاحب مولانا فرزند علی صاحب کی روانگی اور ان کے بعد مقرر ہونے والے امام مولانا عبدالرحیم صاحب درد کے وہاں پہنچنے کی خبر رپوٹر نے ایک خاص کیبل گرام کے ذریعہ دی ہے اگرچہ مولانا فرزند علی صاحب سے ہمیں ذاتی طور پر واقفیت حاصل نہیں ہے لیکن وہ لوگ جو ان کی امامت کے زمانہ میں مسجد پٹنی میں گئے ہیں ان کا بیان ہے کہ آپ ایک عالم اور متقی انسان ہیں اور یہ تو مشہور عام بات ہے کہ انہوں نے اپنا اثر و رسوخ اس جماعت کے دوسرے مبلغین کی طرح جس کے ساتھ ان کا تعلق ہے ہمیشہ صحیح طور پر استعمال کیا ہے آپ ان مسلمان نوجوانوں کو جو انگلینڈ میں زیر تعلیم ہیں ان خطرناک اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے جو زبان زد خلائق ہیں ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ مولوی عبدالرحیم صاحب درد جو ان کی جگہ گئے ہیں پنجاب میں ایک مشہور ہستی ہیں۔ اور ان کی اعلیٰ خدمات کا اعتراف ان ہی کالموں میں تھوڑا ہی عرصہ ہوا کیا جا چکا ہے<۔۳۲۹
محترم حکیم فضل الرحمن صاحبؓ جو حضرت درد صاحب کے ساتھ قادیان سے روانہ ہوئے تھے۔ ۴/ اپریل ۱۹۳۳ء۳۳۰ کو گولڈ کوسٹ میں وارد ہوئے اور ۱۲/ اپریل ۱۹۳۳ء کو مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ان کو چارج دے کر ۱۱/ مئی ۱۹۳۳ء۳۳۱ کو بمبئی پہنچے اور ۱۵/ مئی ۱۹۳۳ء کو دارالامان میں تشریف لائے۔۳۳۲
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
اس سال کے بعض مشہور مناظرے یہ ہیں۔
مباحثہ مٹاری )سندھ( )۳۰/ جنوری تا ۲/ فروری ۱۹۳۳ء( حافظ مبارک احمد صاحب جماعت احمدیہ کی طرف سے مناظر تھے اور مولوی عبدالحق صاحب غیر احمدیوں کی طرف سے۔ آخری دن ابھی فریقین نے ایک ایک تقریر ہی کی تھی کہ بہت بڑا ہجوم حافظ صاحب اور ایک احمدی پر )جو اس وقت موجود تھے( ٹوٹ پڑا اور دونوں کو سخت زدوکوب کیا۔ آخر جب شرفا حملہ آوروں پر غالب آگئے اور حافظ صاحب کو بھی ہوش آیا تو انہوں نے دریافت کیا کہ آپ لوگوں کے مولوی صاحبان کہاں ہیں اس پر بتایا گیا کہ وہ بھاگ گئے ہیں۔ آخر حافظ صاحب نے دعا کی کہ الہیٰ تو ان لوگوں کو ہدایت دے ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے وہ بے سمجھی میں کیا ہے۔۳۳۳
مباحثہ شامپور):ضلع رنگ پور بنگال( )۸/ فروری ۱۹۳۳ء( یہاں مولوی ظل الرحمن صاحب احمدی مناظر نے صبح سات بجے سے چھ بجے شام تک مختلف غیر احمدی علماء سے مباحثہ کیا۔ مناظرہ کے معاًبعد ایک معزز نوجوان داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔۳۳۴
مناظرہ مانانوالہ: )مارچ/ فروری ۱۹۳۳ء( یہ مناظرہ مولوی دل محمد صاحب مبلغ سلسلہ نے کیا۔ اور غیر احمدی عالم کو تینوں عنوانوں پر جو مقرر تھے بحث کرکے لاجواب کر دیا۔ غیر احمدی بلکہ غیر مسلم بھی احمدی مناظر کے دلائل سے متاثر ہوئے اور علی الاعلان احمدیت کے غلبہ کا اقرار کیا۔۳۳۵
مباحثہ نور محل: )۲/ مارچ تا ۴/ مارچ ۱۹۳۳ء( احمدی مبلغ مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل نے آریوں کے مناظر سوامی اور انند سے >موجودہ وید الہامی کتاب ہے< کے موضوع پر مباحثہ کیا اور جب ویدوں سے بعض الزامی جوابات پیش کئے تو آریوں میں کھلبی سی مچ گئی۔۳۳۶
مناظرہ پاک پٹن: )۴/ مارچ ۱۹۳۳ء( سجادہ نشین صاحب کے مکان پر چوہدری غلام احمد صاحب مرحوم امیر جماعت پاک پٹن نے پنڈت چرنجی لال پریم سے مناظرہ کرکے پنڈت جی سے منوایا لیا کہ لیکھرام سے متعلق پیشگوئی وقت پر پوری ہوئی۔۳۳۷
مباحثہ سرائیل: )بنگال( )۱۲/ مارچ ۱۹۳۳ء( ایک غیر احمدی عالم سے مولوی سید سعید احمد صاحب نے >صداقت مسیح موعود< کے مسئلہ پر ایک کامیاب مناظرہ کیا۔۳۳۸
مناظرہ تاریگام کشمیر: )اندازاً مئی/ اپریل ۱۹۳۳ء( مولوی عبدالواحد صاحب اور مولوی عبدالاحد صاحب داتوی احمدی مباحث تھے۔ اور غیر احمدیوں کی طرف سے مشہور فاضل دیو بند مولوی محمود شاہ صاحب شامل ہوئے۔ غیر احمدیوں کے پریذیڈنٹ نے تسلیم کیا کہ ہمارے مولوی صاحب سوالوں کے جواب نہیں دے سکے۔ نیز کہا کہ ان کو غصہ بہت آتا ہے اور گالیوں پر اتر آتے ہیں اس پر محمود شاہ صاحب کے بعد مولوی ابراہیم صاحب کھڑے کئے گئے انہوں نے دلائل کا جواب اشتعال انگیزی سے دیا جسے تعلیم یافتہ طبقہ نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔۳۳۹
مناظرہ وزیر آباد: )اپریل ۱۹۳۳ء( مولوی عبدالغفور صاحب فاضلؓ نے لال حسین صاحب۳۴۰ سے مناظرہ کیا۔ شرفاء نے احمدی مناظر کے دلائل کی معقولیت کا اقرار کیا۔۳۴۱
مناظرہ سیالکوٹ: )اندازاً جون ۱۹۳۳ء( یہ نہایت کامیاب مناظرہ تھا جو احمدیوں اور اہل حدیثوں میں ہوا۔ احمدی مناظر ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ اور مولوی محمد سلیم صاحب تھے اور فریق ثانی کی طرف سے مولوی احمد دین صاحب گکھڑوی` لال حسین صاحب اختر اور مولوی محمد ابراہیم صاحب شریک بحث ہوئے مناظرہ کے خاتمہ پر چار اصحاب نے بیعت کی۔۳۴۲
مناظرہ لدھیانہ: )اندازاً جولائی ۱۹۳۳ء( محلہ قاضیاں میں شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور بابو عبدالحمید صاحب آرنسل کلرک فیروزپور کا مناظرہ ہوا۔ غیر احمدی مناظر دلائل سے بالکل لاجواب ہو گئے۔۳۴۳
مناظرہ غازی آباد: )ماہ جولائی ۱۹۳۳ء( >کیا ویدوں کا خدا خدا ہے<۔ اور >کیا ویدک تعلیم عالمگیر ہے< ان دو مضامین پر حضرت ماسٹر محمد حسن خان صاحب آسان دہلویؓ نے سناتینوں سے مناظرہ کیا۔ جس کا پبلک پر بہت اچھا اثر ہوا۔۳۴۴]ydob [tag
مناظرہ بالیسر: )۱۸/ جولائی ۱۹۳۳ء( بالیسر کے غیر احمدی مسلمانوں کو علم ہوا کہ لاہور سے ایک پادری )عبدالسبحان صاحب پروفیسر( آرہے ہیں تو انہوں نے قادیان اطلاع دی جس پر مولوی عبدالسلام صاحب احمدی سنگڑوی بھجوائے گئے جنہوں نے مناظرہ کے آغاز میں دو تین ایسے مدلل اعتراض کئے کہ پادری صاحب بے بس ہو کر کہنے لگے کہ اے سنی بھائیو! آپ لوگ ایک مرزائی کو پیش کرتے ہیں حالانکہ مرزائیوں کو علماء نے متفقہ طور پر کفر کا فتویٰ دیا ہے السنت و الجماعت سے تعلق رکھنے والے مسلمان یہ چال سمجھ گئے اور انہوں نے کہا اس وقت وہ اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں یہ سن کر پادری صاحب نے معافی مانگ لی۔۳۴۵
مناظرہ بنارس: )۲۰/ اگست ۱۹۳۳ء( مولوی عبدالمجید صاحب بی۔ اے مولوی فاضل نے ایک غیر احمدی عالم مولوی محمد یوسف صاحب سے تین مشہور اختلافی مسائل پر مباحثہ کیا۔ جس میں جماعت کو نمایاں غلبہ حاصل ہوا۔۳۴۶
مناظرہ شملہ: )۲۷/ اگست ۱۹۳۳ء( علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمس~رضی۱~ نے >وفات مسیحؑ< کے موضوع پر اور >ختم نبوت< اور >صداقت مسیح موعود< کے موضوع پر مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے غیر احمدی علماء سے مناظرہ کیا۔ احمدی مقررین کی تقریریں نہایت موثر اور طرز استدلال نہایت عام فہم تھا جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے۔۳۴۷
مناظرہ پونچھ: ۲۷/ اگست ۱۹۳۳ء( احمدی مبلغ مولوی محمد حسین صاحب نے غیر احمدی عالم کرم دین سے مبادلہ خیالات کیا۔ غیر احمدیوں نے اقرار کیا کہ ہمارے عالم حیات مسیح کی کوئی معقول دلیل پیش نہیں کر سکے نیز کہا کہ ایک وقت آئے گا کہ آخر سب احمدی ہو جائیں گے۔۳۴۸
مناظرہ مدرسہ چٹھہ )تحصیل وزیر آباد( )ستمبر ۱۹۳۳ء( مولوی دل محمد صاحب مولوی فاضل نے مولوی محمد نذیر صاحب عالم اہلسنت و الجماعت سے تینوں مشہور متنازعہ مسائل پر مناظرہ کیا۔ غیر احمدیوں کا تاثر یہ تھا کہ ان کے مولوی صاحب نے کسی دلیل کا جواب نہیں دیا۔۳۴۹
مناظرہ بنگلور )۱۹/ ستمبر ۱۹۳۳ء( یہ مناظرہ عثمانیہ تھیٹر بنگلور شہر میں منعقد ہوا۔ جس میں ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ کی ختم نبوت پر تقریر اور عالمانہ و فاضلانہ بحث نہایت درجہ موثر تھی۔ حنفیوں نے پہلے دن کے مناظرہ کا اثر دیکھ کر دوسرے دن کا مناظرہ جبراً روک دیا۔۳۵۰
مناظرہ بنگہ )ضلع جالندھر( )۲۸/ تا ۳۰/ اکتوبر ۱۹۳۳ء( یہ اس سال کا نہایت اہم مناظرہ تھا جس میں جماعت احمدیہ کو نمایاں فتح ہوئی۔ احمدی مناظر یہ تھے۔ علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری` مولوی محمد سلیم صاحب فاضل۔ فریق مخالف کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی اور مولوی محمد صاحب عریبک ٹیچر رائے کوٹ نے بحث کی۔ اختتام جلسہ پر چار نفوس نے احمدی ہونے کا اعلان کیا۔ فریق مخالف نے بھی تین آدمی کھڑے کئے۔ جنہوں نے کمال سادگی سے اعلان کیا کہ ہم پہلے مرزائی تھے اب احمدی ہوتے ہیں۔ اس پر بے اختیار چاروں طرف سے قہقہے بلند ہوئے۔ بنگہ میں غیر احمدیوں کے ساتھ یہ پہلا مناظرہ تھا جس کے علاوہ دو آبہ میں غیر معمولی شہرت ہوئی۔۳۵۱
مباحثہ بٹالہ:]ydbo [tag )۱۷/ دسممبر ۱۹۳۳ء( یہ مباحثہ >صداقت مسیح موعود< اور >امکان نبوت< پر تھا جماعت احمدیہ کی طرف سے پہلے مضمون کے لئے مولوی عبدالغفور صاحب فاضلؓ اور دوسرے مضمون کے لئے ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم پیش ہوئے۔ مناظر اہل حدیث مولوی محمد یوسف صاحب درشت کلامی اور بدتہذیبی کے علاوہ اپنی ہمہ دانی اور منطق پر بہت اتراتے تھے۔ مگر خادم صاحبؓ نے دس منٹ تک ایسی زبردست تقریر کی کہ وہ آخر تک سراسیمہ رہے اگرچہ مخالفوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ اس مناظرہ میں کوئی شخص نہ جائے اور کہ مناظرہ میں شامل ہونے والا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو کر مرزائی ہو جائے گا۔ مگر ہزارہا غیر احمدی مناظرہ میں شامل ہوئے اور نہایت دلچسپی سے آخر تک موجود رہے۔۳۵۲
مناظرہ اٹاوہ: )شروع نومبر ۱۹۳۳ء( مولوی محمد نذیر صاحب فاضل ملتانی نے علمائے اہل حدیث )مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور مولوی محمد یوسف صاحب( سے تینوں مخصوص مسائل پر مناظرہ کیا۔ غیر احمدیوں اور غیر مسلموں نے رائے دی کہ احمدی مناظر کے دلائل کا جواب مناظر اہل حدیث نہ دے سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اہل حدیثوں نے اس بات کی بھی کوشش کی کہ آخر میں ایک مصنوعی احمدی تیار کرکے احمدیت سے تائب ہونے کا اعلان کرایا جائے مگر جس شخص نے اس اعلان کا وعدہ کیا تھا اس نے از خود ظاہر کیا کہ احمدی مناظر کے پیش کردہ دلائل اور اہل حدیث کی جانب سے جواب نہ دیئے جانے پر جو اثر پبلک پر اور مجھ پر ہوا تھا اس کے سبب مجھے اس قسم کے اعلان کی جرات نہ ہو سکی۔۳۵۳
نئی مطبوعات
۱۹۳۳ء میں علماء سلسلہ کی طرف سے مندرجہ ذیل کتب شائع کی گئیں۔
)۱( >اچھوتوں کی درد بھری کہانیاں<۔ )۲( >اچھوتوں کی حالت زار<۔ )مہاشہ ملک فضل حسین صاحب کی قابل قدر تالیفات جن میں ایک مظلوم مخلوق کی قابل تعریف خدمت کی گئی تھی۔۳۵۴
)۳( >تسہیل العربیہ< )عربی اردو لغت جسے حضرت مولانا محمد جی صاحب اور چودھری غلام محمد صاحب بی۔ اے نے نہایت محنت سے تیار کیا۔(
)۴( >برق احمدیت< )لال حسین صاحب اختر کی کتاب >ترک مرزائیت< کا جواب جو آغا عبدالعزیز صاحب فاروقی نے شائع کیا(
)۵( >صرف و نحو جدید فیض< )ابو اکمل حضرت مولانا امام الدین صاحب فیضؓ کے تعلیمی تجرات کا نچوڑ(
)۶( >اظہار الحق<۳۵۵ )مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی کا مقدمہ بہاولپور سے متعلق مفصل اہم بیان جس کا خلاصہ عدالت میں پیش کیا گیا(
)۷( رسالہ >درود شریف< )حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحبؓ حلال پوری کی تالیف جس میں آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی برکات درود شریف سے متعلق ایمان افروز تحریرات یکجا صورت میں شائع کر دیں(
tav.7.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
پہلا باب )فصل دہم(
)جنوری ۱۹۳۴ء تا دسمبر ۱۹۳۴ء بمطابق رمضان المبارک ۱۳۵۲ھ تا رمضان المبارک ۱۳۵۳ھ(
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
۱۹۳۴ء کے اہم ترین واقعات میں سے احرار کانفرنس قادیان کا انعقاد اور تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کا قیام ہے۔ اول الذکر واقعہ مخالفین احمدیت کی منظم یورش پر منتج ہوا۔ اور ثانی الذکر سے اسلام و احمدیت کی عالمگیر روحانی فتح و نصرت کی مضبوط بنیاد رکھی گئی۔ ایک طرف ارضی دماغوں کے منصوبوں اور مادی تدبیروں کا اجتماع ہوا۔ تو دوسری طرف خدائے ذوالجلال کی آسمانی سکیم کا نفاذ عمل میں آیا۔
اس جنگ میں کون جیتا اور کسے عبرتناک شکست ہوئی اس کی تفصیلات ہم چونکہ دوسرے اور تیسرے باب میں بیان کر رہے ہیں۔ اس لئے یہاں فقط ۱۹۳۴ء کے دیگر واقعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
تحریک سالکین
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے احمدیوں کی تربیت و اصلاح کی غرض سے ۱۹۳۴ء کے ابتداء میں ایک نہایت اہم تحریک۔ تحریک سالکین کے نام سے جاری فرمائی۔ یہ تحریک تین سال کے لئے تھی اس کے مقاصد حضور کے الفاظ میں یہ تھے۔
>تربیت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تربیت ابدال یا تبدیلی سے ہوتی ہے اور ایک تربیت سلوک سے ہوتی ہے۔ صوفیاء نے ان دونوں طریق کو تسلیم کیا ہے تبدیلی یہ ہے کہ انسان کے اندر کسی اہم حادثہ سے فوراً ایک تبدیلی پیدا ہو جائے اور سلوک یہ ہے کہ مجاہدہ اور بحث سے آہستہ آہستہ تبدیلی پیدا ہو۔ یورپ والے بھی ان کو تسلیم کرتے ہیں اور فوری تبدیلی کو کنورشن (CONVERSION) کہتے ہیں صوفیاء کنورشن کو ہی ابدال کہتے ہیں۔ ابدال کی مثال یہ ہے کہ لکھا ہے ایک شخص ہمیشہ برے کاموں میں مبتلا رہتا تھا۔ اسے بہت سمجھایا گیا۔ مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ ایک دفعہ کوئی شخص گلی میں سے گزرتا ہوا یہ آیت پڑھ رہا تھا الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ۳۵۶ )الحدید:۱۷(
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مومن کے دل میں خشیت اللہ پیدا ہو؟ اس وقت وہ شخص ناچ اور رنگ رلیوں میں مصروف تھا یہ آیت سنتے ہی چیخیں مار کر رونے لگ گیا۔ سارا قرآن سن کر اس پر اثر نہ ہوتا تھا لیکن یہ آیت سن کر اس کی حالت بدل گئی یہ اصلاح کنورشن کہلاتی ہے۔ ایک سلوک ہوتا ہے۔ یعنی انسان اپنی اصلاح کی آہستہ آہستہ کوشش کرتا ہے وہ ذکر الٰہی کرتا ہے مگر کبھی اس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے اس پر وہ توبہ کرتا ہے اور دوسروں سے دعائیں کراتا ہے اور اس طرح اپنی اصلاح میں لگا رہتا ہے لیکن کبھی یہ دونوں باتیں ایک ہی انسان میں پائی جاتی ہیں جماعت احمدیہ میں جو شخص داخل ہوتا ہے اس پر یہ دونوں حالتیں آتی ہیں جب کوئی پہلے پہل داخل ہوتا ہے تو وہ ابدال میں شامل ہوتا ہے ایک عظیم الشان تغیر اس پر آتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے یدعون لک ابدال الشام۔۳۵۷ شام کو ابدال تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں گو اس جگہ ابدال شام کا ذکر ہے لیکن ہم اس سے نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ احمدیت میں سچے دل سے داخل ہونے والے ابدال میں شامل ہوتے ہیں۔ یعنی شخصیت کو بدلنے والی ایک فوری تبدیلی ان میں پیدا ہوتی ہے جیسا کہ اس لفظ کے معنوں سے ثابت ہے۔ بدل عوض کو کہتے ہیں اور تغیر کو بھی۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ پہلے وجود کی جگہ ایک نیا وجود اس شخص کو ملتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ پورے ابدال بن جاتے ہیں اور بعض ناقص یعنی کچھ حصہ ان کا سلوک کا محتاج رہ جاتا ہے اور ان لوگوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ مجاہدات سے اپنے بقیہ نقصوں کو دور کریں اس قسم کے نقصوں کو دور کرنے کے لئے وعظ اور نصیحت کی جاتی ہے مگر خالی وعظ سے یہ کام نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک مستقل نگرانی کی حاجت باقی رہتی ہے۔۳۵۸body] g[ta
سالکین کے لئے ضروری ہدایات
حضور نے ۱۹۳۴ء کے اوائل میں تحریک سالکین کی نسبت متعدد خطبات دیئے جن میں سالکین کو پانچ بنیادی ہدایات دیں جو یہ تھیں۔
اول یہ کہ بجائے اپنے کسی بھائی کو بدنام کرنے کے پہلے عام رنگ میں نصیحت کی جائے کہ وہ لوگ جنہیں کہیں سے روپیہ آنے کی امید نہ ہو۔ وہ قرض نہ لیا کریں۔ دوم روپیہ دینے والوں کو نصیحت کریں کہ ایسے لوگوں کو قرض دینے سے اجتناب کیا کریں۔ سوم یہ کہ دھوکہ باز کا فریب جماعت میں ظاہر کریں۔ تا لوگ اس سے بچ کر رہیں۔۳۵۹
چہارم احباب اپنے اپنے نقائص کا پتہ لگائیں اور ان کی اصلاح کریں۔ اس سلسلہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کیا جائے۔ دوسرے اس امر پر غور کیا جائے کہ غیر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔۳۶۰ پنجم رب العالمین کی صفت کے ماتحت تو کام ہوتے ہی رہتے ہیں۔ رحمانیت کی صفت کے ماتحت بھی نیکیاں کریں اور اس نیت سے کریں کہ دین کو تقویت ہو۳۶۱ یہ گویا پانچ ستون تھے جن پر تحریک سالکین کی بنیاد رکھی گئی۔
اس مبارک تحریک میں بہت سے مخلصین جماعت نے اپنے نام پیش کئے جن میں سے بعض اصحاب کے نام یہ تھے۔ چودھری ظفر اللہ خان صاحب۔ شیخ اعجاز احمد صاحب سب جج۔ سید لال شاہ صاحب امیر جماعت احمدیہ آنبہ ضلع شیخوپورہ۔ ماسٹر برکت علی صاحب فائق لدھیانہ۔ چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری۔ ماسٹر مسیح الدین صاحب پشاور۔ حافظ عبدالسلام صاحب امیر جماعت احمدیہ شملہ۔ ملک صلاح الدین صاحب قادیان۔ حافظ بشیر احمد صاحب جالندھری جامعہ احمدیہ قادیان۔ قاضی عبدالرحمن صاحب دوالمیال ضلع جہلم۔۳۶۲ چوہدری فضل احمد صاحب اے ڈی آئی آف سکولز گجرات۔ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب ننکانہ صاحب۔ چوہدری غلام محمد صاحب پوہلہ مہاراں۔ بابو شمس الدین خان صاحب۔ پولٹیکل کلرک لنڈی کوتل۔ مرزا احمد بیگ صاحب انکم ٹیکس افسر گجرات۔ بابو احمد جان صاحب کوئٹہ۔ مولوی عبدالرحمن صاحب انور بوتالوی۔ بابا حسن محمد صاحب )والد مولوی رحمت علی صاحب( حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد۔ صوفی غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس۔ ڈاکٹر بدر الدین صاحب مگاڈی )افریقہ( ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب۔ چوہدری عبداللہ خان صاحب ایگزیکٹو آفیسر قصور۔ چودھری ابوالہاشم خان صاحب ڈھاکہ۔۳۶۳
الحکم کا دوبارہ اجراء اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اظہار مسرت
سلسلہ احمدیہ کا سب سے پہلا اخبار >الحکم< ایک عرصہ سے بند ہو چکا تھا حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کبیرؓ ۱۹۲۵ء کی پہلی ششماہی
میں یورپ اور بلاد اسلامیہ کی سیاحت کے لئے تشریف لے گئے اور حج بیت اللہ سے مشرف ہو کر ۱۹۲۷ء میں واپس آئے اور کچھ مدت مرکز میں رہنے کے بعد ۱۹۳۰ء میں بمبئی چلے گئے اور وہاں ۱۹۳۱ء سے >سالار< کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کر دیا۔ لیکن الحکم کے احیاء کا خیال آپ کو دوبارہ قادیان لے آیا۔ اور آپ نے ۱۴/ جنوری ۱۹۳۴ء سے دوبارہ الحکم نکالنا شروع کر دیا۔ اور آپ کے فرزند شیخ محمود احمد صاحبؓ عرفانی جو قاہرہ میں >اسلامی دنیا< کی کامیاب ادارت کرتے رہے تھے اس دور جدید کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔۳۶۴
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو الحکم کے دوبارہ اجراء پر بہت خوشی ہوئی اور حضور نے اپنے قلم سے حضرت شیخ صاحب کے نام مندرجہ ذیل مکتوب مبارک لکھا۔
>مکرمی شیخ صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
مجھے یہ معلوم کرکے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ پھر الحکم جاری کرنے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ برکت دے اور اس ارادہ کی تکمیل کے سامان پیدا کر دے۔
الحکم سلسلہ کا سب سے پہلا اخبار ہے اور جو موقع خدمت کا اسے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری زمانہ میں اسے اور بدر کو ملا ہے وہ کروڑوں روپیہ خرچ کرکے بھی اور کسی اخبار کو نہیں مل سکتا۔
میں کہتا ہوں کہ الحکم اپنی ظاہری صورت میں زندہ رہے یا نہ رہے لیکن اس کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ ہے سلسلہ کا کوئی مہتم بالشان کام اس کا ذکر کئے بغیر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ تاریخ سلسلہ کا حامل ہے۔ لیکن دل یہی چاہتا ہے کہ >الحکم< جس کا نام ہی بتا رہا ہے کہ ابتدائے ایام سے سلسلہ کے افراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا درجہ سمجھتے تھے۔ اپنی ظاہری صورت میں بھی زندہ رہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی نسل کو اس خدمت کی ہمیشہ توفیق دیتا رہے۔ اللہم آمین۔
خاکسار میرزا محمود احمد۳۶۵
۱۹۳۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے اھم سفر
]0 [rtfحضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو اس سال کئی بار لاہور۔ تین دفعہ فیروزپور اور ایک بار گوجرانوالہ تشریف لے جانا پڑا۔ ان سفروں کے مختصر حالات و کوائف درج ذیل ہیں۔
)۱( حضور ۱۸/ جنوری کو قادیان سے روانہ ہوکر لاہور تشریف لائے۔۳۶۶ اور یہاں سے چل کر فیروزپور اور قصور میں قیام پذیر ہونے کے بعد ۲۸/ جنوری ۱۹۳۴ء کو وارد قادیان ہوئے۔۳۶۷ حضور نے اس سفر کے دوران ۲۵/ جنوری ۱۹۳۴ء کو بمقام قصور >احمدیت کے اصول< کے موضوع پر ایک معرکتہ الاراء تقریر فرمائی جس کا مکمل متن الفضل میں بھی شائع ہوگیا تھا۔۳۶۸ ازاں بعد حضور کو ۲۴/ فروری ۱۹۳۴ء سے لے کر یکم مارچ ۱۹۳۴ء تک دوبارہ لاہور اور فیروزپور کا سفر اختیار کرنا پڑا
)۲( صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی علالت کے سلسلہ میں حضور ۱۸/ اپریل ۱۹۳۴ء کو گوجرانوالہ تشریف لے گئے اور گوجرانوالہ اور لاہور میں قیام پذیر رہنے کے بعد ۲۳/ اپریل ۱۹۳۴ء کو قادیان میں رونق افروز ہوئے۔۳۶۹ صاحبزادی صاحبہ کی عیادت کے سلسلہ میں بار بار آپ کو لاہور آنا پڑا۔
)۳( لاہور میں بعض علمی لیکچروں کا پروگرام تھا جس میں شمولیت کے لئے حضور ۲۸/ مئی ۱۹۳۴ء کو قادیان سے لاہور تشریف لائے۔ قیام لاہور کے دوارن حضور کے دو شاندار لیکچر ہوئے جن کا انتظام پنجاب لٹریری لیگ نے کیا۔
پہلا لیکچر: >عربی زبان کا مقام السنئہ عالم میں< کے موضوع پر ڈاکٹر برکت علی صاحب قریشی ایم اے۔ پی۔ ایچ۔ ڈی پرنسپل اسلامیہ کالج کی صداررت میں ۳۱/ مئی کو وائی ایم۔ سی۔ اے ہال میں ہوا۔ جو ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب جاری رہا۔ اور بہت مقبول ہوا۔ ہال کی وسعت سے بہت زیادہ ٹکٹ جاری کرنے کے باوجود بہت سے لوگوں کو جگہ کی تنگی کی وجہ سے لیکچر سننے کا موقعہ نہ مل سکا۔۳۷۰ اختتام پر جناب صدر صاحب نے شکریہ ادا کرنے کے بعد حاضرین کو لیکچر سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ ایسے علمی مضامین پھر بھی سننے کا موقعہ ملے۔ صدارتی خطاب کے بعد لالہ کنورسین صاحب سابق چیف جج کشمیر نے انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ آج قابل لیکچرار نے زبان عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکتہ الاراء تقریر کی ہے اسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور اس لحاظ سے بھی خوشی ہے کہ ذاتی طور پر میرے آپ سے تعلقات ہیں چنانچہ آپ کے والد ماجد سے میرے والد صاحب )لالہ بھیم سین صاحب( نے عربی زبان سیکھی تھی جب میں لیکچر سننے کے لئے آیا۔ اس وقت میں نے خیال کیا تھا کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کیا کرتے ہیں۔ مگر جو لیکچر دیا گیا۔ وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے میں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور میں نے اس سے بہت ہی حظ اٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدتوں میرے دل پر رہے گا۔ اور میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ جن دوسرے احباب نے یہ مضمون سنا ہے وہ بھی تادیر اس کا اثر اپنے دلوں میں محسوس کریں گے۔ باقی زبان کے متعلق چونکہ نظریوں میں اختلاف ہے اور سنسکرت زبان بھی بہت سے قواعد پر مبنی ہے اس لئے عربی اور سنسکرت کا مقابلہ کرنے میں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اور ایک دفعہ پھر قابل لیکچرار کے بیش قیمت لیکچر کا دلی اخلاص سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔۳۷۱
دوسرا لیکچر; ۲/ جون ۱۹۳۴ء کو ڈاکٹر ایس۔ کے دتا پرنسپل فورمین کرسچن کالج کی صدارت میں ٹائون ہال میں ہوا۔ حضور کا یہ لیکچر >کیا انسان مذہب کا محتاج نہیں<۔ کے عنوان پر تھا جو قریباً دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ سامعین میں کالجوں کے پروفیسر` وکلاء اور طلباء خاص طور پر شامل تھے۔ لیگ کی طرف سے حضور کو پھولوں کا ہار پہنایا گیا۔ صدر جلسہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں سامعین کو متوجہ کیا کہ وہ ایسی عظیم الشان شخصیت کا لیکچر بہت توجہ سے سنیں اور آخر میں لیکچر کی بہت تعریف کی اور خواہش ظاہر کی کہ پھر بھی لاہور کی پبلک کو آپ کے قیمتی خیالات سننے کا موقعہ میسر آئے۔۳۷۲
ان کامیاب تقاریر کے علاوہ حضور نے ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء کو آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس میں بھی شرکت فرمائی۔۳۷۳ اور ۷/ جون ۱۹۳۴ء کو واپس قادیان تشریف لے آئے۔۳۷۴
)۵( حضور ۱۶/ اکتوبر ۱۹۳۴ء۳۷۵ کو قادیان سے فیروز پور تشریف لے گئے اور مختصر سے قیام کے بعد دوسرے روز ہی واپس قادیان پہنچ گئے۔۳۷۶
کالی کٹ )مالابار( کے احمدیوں پر دردناک مظالم
یوں تو کالی کٹ کے احمدی عرصہ سے مظالم کا تختہ مشق بنائے جارہے تھے۔ مگر ۲۹/ جنوری ۱۹۳۴ء کی شام کو جبکہ ایک احمدی بھائی کی تجہیز و تکفین کا مرحلہ پیش آیا مخالفین کی شرارتیں انتہا تک پہنچ گئیں اور وہ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے اور فوت شدہ احمدی کے مکان پر گالیوں دھمکیوں اور شور و شر سے ایسا طوفان مچا دیا کہ گنتی کے چند احمدیوں کے لئے مکان سے بہار نکلنا یا اندر جانا مشکل ہو گیا۔ رات کے آٹھ بجے کے قریب ایک شخص کو بڑی مشکل سے قبرستان میں بھیجا گیا۔ مگر وہاں بھی ہزاروں لوگ لاٹھیاں لے کر جمع تھے اور انہوں نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ اس احمدی کو کسی صورت میں بھی قبرستان میں دفن نہ ہونے دیں گے حالانکہ وہ قبرستان تمام مسلمانوں کے لئے میونسپلٹی کی طرف سے وقف تھا۔ اور اس میں دفن کرنے سے روکنے کا کسی کو قطعاً حق نہیں تھا۔ بے کس احمدیوں نے مخالفین کو اس طرح فساد پر آمادہ دیکھ کر ذمہ دار حکام کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انہیں معلوم ہوا کہ کلکٹر صاحب دورہ پر ہیں آخر ان سے تار کے ذریعہ سے مداخلت کرنے کی درخواست کی مگر کوئی جواب نہ ملا۔ احمدی رات بھر اسی مکان میں بند رہے۔
دوسرے دن صبح کو احمدیوں نے ڈویژنل افسر کو درخواست دی۔ اور صورت حال سے آگاہ کیا اس پر انہوں نے پولیس کو ہدایت کہ کہ تمام رکاوٹیں دور کرکے نعش کے دفن کرانے کا انتظام کریں۔ لیکن بعد میں انہوں نے مخالف سرغنوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے میت کو اس قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا اور بالاخر شام کے قریب ایک ایسی جگہ پر جو شہر سے بہت دور تھی اور جہاں دو تین فٹ کھودنے سے پانی نکل آتا تھا احمدیوں کو اپنے بھائی کے دفن کرنے پر مجبور کیا گیا۔ احمدیوں نے جگہ کی غیر موزونیت کے متعلق بار بار کہا مگر سرکاری افسروں نے یہی کہا کہ اس وقت لاش کو دفن کرو اور بعد میں کچھ کہنا ہو تو رپورٹ کرو۔
چونکہ میت پر ۲۴ گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ اس لئے احمدی رات کو ساڑھے دس بجے میت اٹھانے پر مجبور ہو گئے اس وقت احمدیوں کی تعداد صرف اٹھارہ اور شرارت پسندوں کا مجمع کم از کم دس ہزار کا تھا۔ اگرچہ بعض پولیس والے بھی موجود تھے۔ مگر مخالف گالیاں دیتے` آوازیں کستے اور شور مچاتے ساتھ جارہے تھے۔ اور وہ فتنہ انگیز اور شورش پسند موپلائوں کے اتنے بڑے ہجوم کے مقابلہ میں کچھ نہ کر سکے پھر جنازہ بھاری تھا دوسرے اٹھانے کے لئے ایک بھاری لکڑی کے پلنگ کے سوا کوئی چیز میسر نہ تھی۔ تیسرے اٹھانے والے چند کمزور نوجوان تھے جو بار بار اٹھاتے اور اتارتے ہوئے آدھی رات کے وقت ایک نہایت دور مقام پر ایسی حالت میں جنازہ لئے جارہے تھے جب کہ دس ہزار شوریدہ سر آدمیوں کا ہجوم انہیں گھیرے ہوئے ہر طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ کرتا` تمسخر اڑاتا` تالیاں بجاتا اور ان پر مٹی اور کنکر پھینکتا جارہا تھا۔
آخر غریب و ناتواں احمدی افتاں و خیزاں اس مقام پر پہنچے جو حکام نے قبر کے لئے تجویز کیا تھا انہوں نے خود قبر کھودی اور اپنے بھائی کو دفن کرکے پھر پہلے کی طرح مخالفین کی حیا سوز حرکات اور انسانیت سے دور افعال سے دوچار ہوتے ہوئے واپس لوٹے۔ قبر کھودتے اور دفن کرتے وقت جو جو تکلیفیں احمدیوں کو برداشت کرنا پڑیں۔ اور واپسی پر جو سختیاں جھیلیں ان کی تفصیل اور بھی دردناک تھی۔
اس واقعہ کے بعد کچھ عرصہ تک صورت حال یہ ہو گئی کہ عوام نے احمدیوں کے خلاف پورے شہر میں سخت اشتعال دلا کر ان کا عام سڑکوں پر چلنا مشکل کر دیا اور بعض احمدیوں کے بیوی بچے ان سے زبردستی علیحدہ کر دیئے گئے۔ مگر ان تمام مخدوش حالات میں کالی کٹ کے احمدی اپنی کسم پرسی` بے سروسامانی اور بے بضاعتی کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے دین کی راہ میں ہر مشکل کے سامنے دیوانہ وار کھڑے رہے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے کوہ استقلال ثابت ہوئے اور کوئی دکھ اور کوئی فتنہ ان کے پائوں میں لغزش پیدا نہ کر سکا۔۳۷۷
اس درد انگیز حادثہ کی تفصیلات جب الفضل کے ذریعہ سے جماعت کے سامنے آئیں تو احمدیوں کو بے حد دکھ ہوا اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس خطہ کے مظلوم احمدیوں کی فریاد رسی کرے۔ آخر کالی کٹ کی میونسپل کمیٹی نے یہ ریزولیوشن پاس کر دیا کہ >کنم پرمبا< قبرستان کا ایک حصہ احمدیوں کے لئے مخصوص کر دیا جائے۔ یہ قرار داد ڈاکٹر چندو نے پیش کی مسٹر اچھوتھان نے اس کی تائید اور مسٹر سندر آئر نے تائید مزید کی۔ مگر موپلوں کے مسلمان نمائندے مسٹر محمد عبدالرحمن واک آئوٹ کرکے ہال سے باہر چلے گئے۔ تاہم یہ قرارداد کثرت رائے سے پاس ہوگئی۔۳۷۸]ydob [tag
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب ان انسانیت سوز افعال کی اطلاع حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پہنچی تو آپ نے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحبؓ نیر کو جوان دنوں حیدر آباد )دکن( میں بطور مبلغ متعین تھے حکم فرمایا کہ وہ سیٹھ محمد اعظم صاحب کو ساتھ لے کر فوراً کالی کٹ )مالا بار( پہنچ جائیں اور حضور کی طرف سے احمدی احباب سے اظہار ہمدردی کریں نیز یہ ارشاد ہوا کہ ارباب حل و عقد سے مل کرایسا انتظام کروا دیں کہ آئندہ اس قسم کے افسوسناک حالات اور واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ چنانچہ اس حکم پر حضرت مولانا عبدالرحیم صاحبؓ نیر اور سیٹھ محمد اعظم صاحب ۱۰/ مارچ ۱۹۳۴ء۳۷۹ کو کالی کٹ پہنچ گئے ان حضرات کا مالابار میں ورود مالا بار کی جماعت کے لئے بڑی ڈھارس اور اطمینان کا موجب ہوا۔ سارے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ان اصحاب نے سیکرٹری جماعت احمدیہ کالی کٹ کے ساتھ کلکٹر ضلع مالا بار سے )جو انگریز تھا( ملاقات کی اور اس سے فوت شدہ احمدی کی تدفین کے سلسلہ میں جو افسوسناک واقعات پیش آئے تھے۔ اور جن وحشیانہ افعال کا ارتکاب غیر احمدیوں کی طرف سے کیا گیا تھا ان کا ذکر کیا۔ اور ان واقعات کے پیش نظر کلکٹر سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے ایسا انتظام کیا جائے کہ آئندہ فوت ہونے والے احمدیوں کی تدفین میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ کلکٹر نے ساری باتیں توجہ سے سنیں اور ہمدردی کا اظہار بھی کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ مالا باری مسلمانوں )موپلے( کے شدید تعصب (FANATISM) اور ان لوگوں کی معروف ہنگامہ آرائی کے پیش نظر حکومت اس معاملہ میں الجھ کر اپنے لئے ایک نیا درد سر مول لینا نہیں چاہتی اس پر حضرت مولانا نیرؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ احمدیوں کو قبرستان کے لئے علیحدہ زمین دی جائے تو وہ اس پر متفق نہ ہو سکا اور جواب دیا کہ حکومت مسلمانوں کے قبرستان کے لئے ایک وسیع زمین دے چکی ہے اب وہ فرقہ وارانہ اساس پر علیحدہ قبرستان کے لئے جگہ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ بہرحال کافی گفتگو اس موضوع پر ہوئی اور کلکٹر کو حکومت کی اس ذمہ داری کی طرف متوجہ گیا جو شہریوں کی بنیادی ضروریات اور ان کے تحفظ کے تعلق سے ہے لیکن وہ باوجود اظہار ہمدردی کے کسی عملی اقدام کے لئے تیار نہ تھا۔ ان حالات میں حضرت مولانا نیرؓ نے جماعت کالی کٹ کے سیکرٹری سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے سن لیا ہے کہ آپ کے کلکٹر آپ کی کسی قسم کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ان حالات میں میں آپ کو ہدایت کرتا ہوں کہ جب کبھی کوئی احمدی فوت ہو۔ تو آپ لوگ حکومت کے لئے >لاء اینڈ آرڈر< کا مسئلہ کھڑا نہ کریں۔ بلکہ بعد نماز جنازہ اس احمدی کی میت کو خاموشی کے ساتھ کسی ٹرک میں لے جا کر کلکٹر کی کوٹھی پر پہنچا دیں۔ کلکٹر جس طرح مناسب خیال کریں گے اس کی تدفین کا انتظام کردیں گے۔ حضرت مولانا کے اس ارشاد پر کلکٹر بڑا پریشان ہوا۔ اور بے ساختہ کہا کہ >نہیں نہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے<۔ مولانا نے جواب میں فرمایا کہ ایسا ہی ہو گا۔ اگر غیر احمدی اپنی تعداد کے بل بوتے پر ہمارے مردوں کو قبرستان میں دفن ہونے میں مزاحم ہیں اور حکومت اپنی سنہری اور روپہلی مصلحتوں کی بنا پر ہمارے حق کو دلوانے اور مدد کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اس صورت میں اس کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ مزید کچھ گفتگو کے بعد کلکٹر نے کہا کہ وہ اس سارے معاملہ کو مناسب فیصلہ کے لئے میونسپلٹی کوجس کے زیر انتظام قبرستان ہیں ہدایت کرے گا۔
چنانچہ اس ہدایت کے ساتھ کہ اس معاملہ کا فوری تصفیہ کیا جائے۔ کلکٹر نے میونسپلٹی کو حکم دیا۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ اور سیٹھ محمد اعظم صاحب نے میونسپلٹی کے بااثر ممبران سے ملاقاتیں کیں۔ اور سارے معاملے کو سمجھایا اور ان کی اخلاقی ذمہ داری سے ان کو آگاہ کیا۔ بالاخر جب یہ معاملہ میونسپلٹی کے اجلاس میں آخری فیصلے کے لئے پیش ہوا تو مسلمان ممبروں کی شدید مخالفت کے باوجود غالب اکثریت کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا کہ قبرستان کی زمین میونسپلٹی کی ملکیت ہے جو مسلمانوں کو ان کے مردوں کی تدفین وغیرہ کے لئے دی گئی ہے اور اس میں مردہ شخص جو خود کو مسلمان کہتا رہا ہو وہ اس میں بعد وفات دفن ہو سکتا ہے۔
میونسپلٹی کے اس فیصلہ کے خلاف غیر احمدی مسلمانوں کا ایک وفد کلکٹر سے ملا لیکن کلکٹر اس فیصلہ کو بدلنے کے لئے راضی نہ ہوا۔ غیر احمدیوں کا ادعا یہ تھا کہ مسلمانوں کے قبرستان میں احمدیوں کی تدفین سے ان کے اپنے مردے نجس ہو جائیں گے اس پر کلکٹر نے ارکان وفد سے پوچھا کہ کیا قبرستان کی زمین تقسیم کرکے اس کا ایک حصہ احمدیوں کے لئے مختص کر دیا جائے؟ لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔ اور بالاخر یہ تصفیہ ہوا کہ کسی دوسری جگہ احمدیوں کے قبرستان کے لئے حکومت زمین مہیا کرے اور اس کی قیمت غیر احمدی مسلمان ادا کریں۔ چنانچہ احمدیوں کوقبرستان کے لئے جگہ مل گئی۔ متنازعہ قبرستان پرانی آبادی کے متصلہ علاقہ میں واقع ہے جہاں پہنچنے کے لئے گنجان آبادی اور تنگ و تاریک گلی کوچوں سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اب جو جگہ احمدیوں کو قبرستان کے لئے دی گئی ہے وہ نئی آبادی سے متصل زمین ہے اور اس نئی آبادی میں پڑھے لکھے اور خوشحال لوگ رہتے ہیں اور سڑکیں بھی کشادہ ہیں۔ اور جنازے کے وہاں تدفین کے لئے لے جانے میں راستہ میں فتنہ و فساد کا بہت کم اندیشہ رہتا ہے۔
تدفین کے سلسلہ میں جو دشواریاں تھیں ان کے پیش نظر بعض لوگ قبول احمدیت میں متذبذب تھے اور بعض کمزور احمدی بھی پریشان تھے لیکن احمدیوں کے لئے قبرستان کا انتظام ہو جانے کے بعد تذبذب اور پریشانی کی کوئی بات باقی نہیں رہی اس سے احمدیوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور غیر احمدیوں میں باوجود اپنی بے پناہ اکثریت اور اثر و رسوخ کے اس ناکامی پر بڑی مایوسی ہوئی۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ اور سیٹھ صاحب موصوف ۱۹/ مارچ ۱۹۳۴ء کو واپس تشریف لے آئے۔۳۸۰
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات و کشوف کی جمع و تدوین کا مرکزی انتظام
۱۹۳۳ء میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت اقدس مسیح موعود مہدی مسعود علیہ الصلوہ والسلام کے الہامات اور کشوف و رئویا کی
جمع و تدوین کے لئے ایک سب کمیٹی تجویز فرمائی جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور بعض دوسرے جلیل القدر بزرگ شامل تھے اس کمیٹی نے باہمی مشورہ کے بعد ضروری اصول طے کئے۳۸۱ اور فروری ۱۹۳۴ء۳۸۲ سے جمع و ترتیب کا عملی کام شروع ہوا۔ جس میں حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؓ فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ اور مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ فاضل مبلغ سلسلہ احمدیہ اور مولوی عبدالرشید صاحب فاضل زیروی نے نمایاں کام کیا۔ حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحبؓ اس کام کے اصل انچارج اور ذمہ دار تھے اور مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ فاضل ان کے دست راست اور مولوی عبدالرشید صاحب نے بعد کو تالیف کے بقیہ مراحل سر انجام دینے اور کاپیوں اور پروفوں کے دیکھنے میں نہایت محنت اور دیدہ ریزی کی۔
اس مقدس مجموعہ کا نام حضرت خلیفتہ المسیحؓ نے >تذکرہ< تجویز فرمایا۔ جو دسمبر ۱۹۳۵ء میں عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ شائع ہو گیا۔
اس کے بعد اکتوبر ۱۹۵۶ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن چھپا۔ جس کی تیاری کا سارا کام مولوی عبداللطیف صاحب فاضل دیو بند بہاولپوری کی مساعی کا رہین منت تھا جو صیغہ تالیف و تصنیف اور >الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ< کے زیر انتظام عرصہ دو سال میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔ اس غرض کے لئے آپ کو سلسلہ کے لٹریچر کا از سر نو وسیع اور گہرا مطالعہ کرنا پڑا۔ بعد ازاں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر علامہ جلال الدین صاحب شمسؓ نے پورے مسودہ پر نظر ثانی فرمائی۔
تذکرہ کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری نے کمال محنت سے اس کی کلید بھی مرتب کر دی جو دسمبر ۱۹۵۷ء میں >مفتاح التذکرہ< کے نام سے شائع کر دی گئی۔
تحریک قرضہ اور مسلم پریس
سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر فروری ۱۹۳۴ء میں مرکزی ادارہ نظارت امور عامہ کی طرف سے ساٹھ ہزار روپیہ قرض کی ایک تحریک کی گئی کہ مخلصین جماعت کم از کم ایک ایک سو روپیہ اس کارخیر میں دیں۔۳۸۳]txet [tag یہ تحریک غیر معمولی طور پر کامیاب ہوئی۔ اور ساٹھ ہزار کی بجائے پچھتر ہزار روپیہ اس میں جمع ہو گیا۔۳۸۴ جو معیاد کے اندر واپس بھی کر دیا گیا اس تحریک کی کامیابی کا سہرا ناظر امور عامہ خان صاحب فرزند علی صاحبؓ کے سر تھا۔ جس پر نہ صرف حضرت امیر المومنینؓ نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ بلکہ ایثار پیشہ احمدیوں کے اس جذبہ اخلاص کو مسلم پریس نے بھی بہت سراہا۔ چنانچہ لکھنئو کے روزنامہ >حقیقت< )۲۵/ مئی ۱۹۳۴ء( نے لکھا۔
>یہ واقعہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کی تمام اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ منظم اور سرگرم عمل احمدی جماعت ہے جس نے دنیا کے گوشہ گوشہ میں اپنے تبلیغی مشن قائم کر دیئے ہیں حالانکہ اس جماعت کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہے اور اس میں غرباء و متوسط الحال لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے باوجود اس کے حال میں اس کے دفتر قادیان سے سلسلہ کی ضروریات کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ قرضہ جمع کرنے کی اپیل کی گئی چنانچہ دو ماہ کے اندر ہی یہ رقم فراہم ہو گئی۔ لیکن اگر کسی غیر احمدی جماعت کی طرف سے اتنی ہی رقم کے لئے اپیل کی جاتی تو وہ چھ ماہ میں کیا سال بھر میں جمع نہ ہو سکتی تھی۔ خواہ وہ ضرورت کتنی ہی شدید ہوتی۔ چنانچہ مثلاً امارت شرعیہ بہار کے زلزلہ فنڈ ہی کو دیکھ لیجئے۔ کہ چار ماہ میں صدہا اپیلوں اور التجائوں کے باوجود اب تک چالیس ہزار بھی فراہم نہیں ہو سکا کاش احمدی جماعت کے اس ایثار سے عام مسلمان سبق لیں۔ اور قومی ضروریات کے لئے ایک بیت المال قائم کرکے اپنی بیداری اور زندگی کا ثبوت دیں<۔۳۸۵
اسی طرح لکھنئو کے مشہور شیعہ ترجمان >سرفراز< )یکم جون ۱۹۳۴ء( نے لکھا۔
>مذہبی حیثیت سے ہمیں قادیانیوں سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ لیکن ہم ان کے اس جوش قومی و مذہبی کی قدر کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جوان کی طرف سے اپنے جماعتی مفاد کو تقویت دینے کے لئے آئے دن ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سلسلہ احمدیہ کی ضروریات کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ قرض کی تحریک کی گئی تھی۔ ناظر امور عامہ قادیان کا بیان جو الفضل قادیان مورخہ ۲۹/ مئی ۱۹۳۴ء میں شائع کیا گیا ہے بتایا ہے کہ >اگر اس فنڈ کے بند کر دینے کا اعلان نہ کر دیا جاتا تو اس سلسلہ میں ایک لاکھ روپیہ جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ اب بھی اس تحریک کے ان وعدوں کو ملا کر جن کی چند روز میں وصولی یقینی ہے یہ رقم پچھتر ہزار تک پہنچ چکی ہے<۔
یہ واضح رہے کہ چندے یا قرض کی یہ تحریک ایسی تحریک نہیں ہے جو کئی برس کے بعد اٹھائی گئی ہو۔ اور اس کے لئے کوئی خاص جدوجہد عمل میں آئی ہو بلکہ اس جماعت کی طرف سے آئے دن اپنے جماعتی مفاد کے لئے چندے ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس وقت تک چار ہزار کے قریب ایسی وصیتیں ہو چکی ہیں جن میں وصیت کنندگان نے اپنی جائداد کا بڑا حصہ اپنے جماعتی` قومی اور مذہببی کاموں کے لئے وقف کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ قادیانیوں کی مجموعی تعداد ہندوستان کے شیعوں سے بہت کم ہے لیکن جذبہ عمل میں یہ مٹھی بھر قادیانی دو کروڑ شیعوں سے کہیں زیادہ نظر آتے ہیں سینکٹروں مکانات پچاسوں اراضیات جماعت قادیانی کے پاس موجود ہیں۔ برخلاف اس کے ہم شیعوں کی یہ حالت ہے کہ ہماری واحد نمائندہ جماعت آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے پاس دفاتر کے لئے بھی کوئی اس کا ذاتی مکان نہیں ہے اور اس مد کرایہ میں اسے گزشتہ چھ سات سال کے اندر پانچ چھ ہزار روپیہ دینے پڑے۔ اتنی رقم میں دفتر کانفرنس اور ادارت متعلقہ کے لئے ایک خاص عمارت بن سکتی یا خریدی جاسکتی تھی لیکن سرمایہ کے سوال نے اب تک اس تحریک کو بار آور نہ ہونے دیا۔
کیا شیعہ جماعت میں ایسے سرمایہ دار موجود نہیں کہ وہ پانچ سات ہزار چندہ نہیں تو قرض حسنہ ہی دے کر دفتر آل انڈیا شیعہ کانفرنس کو کرایہ مکان کے مستقل بار سے محفوظ کر دیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اپنے قومی ادارت کی حالت زار پر ایک آہ سرد بھر کر خاموش ہو جانا چاہئے۔ اور یہ طے کر لینا چاہئے کہ ہمارے دست شل میں یہ صلاحیت نہیں کہ ہم کسی بار کو اٹھا سکیں۔ کاش کہ قادیانی جماعت کا جذبہ عمل ہماری سوئی ہوئی قوم کے لئے سبق آموز اور ہمت آفرین ہو اور ہم بھی وقت کی اہم ضروریات کی طرف متوجہ ہوسکیں<۔۳۸۶
پنجاب ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اور جماعت احمدیہ
حکومت ہند نے سرشادی لال کی جگہ ان کے ریٹائر ہونے پر الہ آباد ہائی کورٹ کے جج مسٹر جان ڈگلس ینگ بیرسٹرایٹ لاء کو پنجاب ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ اس فیصلہ پر اخبار >الفضل< نے ایک زور دار شذرہ لکھا۔ جس میں مسلمانوں کی حق تلفی اور حکومت کے دل شکن رویہ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے حکومت کو توجہ دلائی کہ >پنجاب میں ایسے قابل مسلمان قانون دان موجود ہیں جن کی قانونی قابلیت حکومت سے پوشیدہ نہیں اور وہ ان کی قابلیت کا کئی بار تجربہ بھی کر چکی ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن چیف ججی کے متعلق اس نے یہی مناسب سمجھا کہ مسلمان قانون دانوں کو نظر انداز کرکے یہ منصب ایک انگریز کے سپرد کیا جائے۔ کہا گیا ہے کہ حکومت کے لئے اس بارے میں یہ مشکل درپیش تھی کہ پنجاب ہائی کورٹ میں کوئی مسلمان سینئر جج نہیں تھا اور یہ اس کے لئے ناممکن تھا کہ وہ کسی مسلمان بیرسٹر کو خواہ وہ خاص قابلیت کا ہی مالک کیوں نہ ہو چیف جج مقرر کر دیتی اس کے متعلق اول تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح پنجاب ہائی کورٹ کے ججوں کو چھوڑ کر باہر سے ایک انگریز چیف جسٹس لایا گیا۔ اسی طرح کسی مسلمان کو بھی یہ منصب دیا جا سکتا تھا علاوہ ازیں اس سے یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ اگر آج پنجاب ہائیکورٹ کے ججوں میں کوئی مسلمان سینئر جج موجود نہیں تو اس کی ذمہ داری انہی ارباب اقتدار پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پندرہ برس کے طویل عرصہ میں پنجاب کے کسی ایک قابل مسلمان کو بھی مستقل جج نہ بننے دیا۔ حالانکہ پنجاب میں نہایت اعلیٰ قابلیت کے مسلمان قانون دان موجود تھے۔ جب مسلمان قانون دان کے متعلق یہ صریح بے انصافی روا رکھی گئی تو اس کا تدارک اسی صورت میں ممکن تھا کہ حکومت کسی مسلمان بیرسٹر کو جس کی قابلیت دوسروں کے مقابلہ میں خاص درجہ رکھتی۔ چیف جج بنا دیتی اور اس طرح مسلمانان پنجاب کی دیرینہ اور جائز آرزو پوری کرکے ان کے دل مٹھی میں لے لیتی لیکن افسوس کہ حکومت نے اس کی پروا نہ کی اس نے جہاں مسلمانوں کے لئے بہت بڑی شکایت پیدا کر دی وہاں ہندوئوں کو موقعہ دے دیا کہ مسلمانوں کے سینے طعن و تشنیع کے تیروں سے چھلنی کر سکیں<۔۳۸۷
ہائیڈرو الیکٹرک برانچ میں مسلمانوں کی حق تلفی کے خلاف آواز
قریباً تمام کلیدی آسامیوں پر ہندو قابض تھے اس لئے مسلمانوں کے حقوق نہایت بے دردی سے پامال کئے جارہے تھے حتیٰ کہ مسلم اکثریت کے صوبہ پنجاب میں بھی ان کے ساتھ صریح بے انصافی کا سلوک کیا جاتا تھا۔
شہروں میں نئی نئی بجلی پہنچی تھی۔ لیکن چونکہ ہائیڈرو الیکٹرک کا شعبہ )لوکل سیلف گورنمنٹ کے ہندو وزیر( ڈاکٹر گوکل چند صاحب نارنگ کے ماتحت تھا اس لئے اس صیغہ میں بھی مسلمان اکثریت کو جائز اور واجبی حقوق سے محروم رکھا جارہا تھا۔ مسلمانوں نے اس رویہ پر نکتہ چینی کی تو ہندو پریس نے ڈاکٹر نارنگ کی حمایت کی اور مسلمانوں کی نسبت اس بے بنیاد خیال کا اظہار کیا کہ
>ان کے سامنے تو ایک ہی وہم ہے کہ ہر محکمہ` ہر شعبہ` ہر صیغہ میں سوائے مسلمانوں کے اور کوئی نظر نہیں آنا چاہئے۔ مسلمان چاہے انجینرنگ جانتے ہوں یا نہ وہ بجلی کے کام سے واقف ہوں` یا ناوقف انہیں علم و ہنر کی دولت ملی ہو یا وہ اس پہلو میں خالص مفلس و قلاش ہی ہوں۔ لیکن ہر ذمہ دار عہدہ پر مسلمان ہی رکھے جانے چاہئیں اور مسلمانوں کی آبادی کی اوسط سے انہیں ملازمت مل جانی چاہئے چاہے موچی دروازہ کے گامے اور ماجے ہی بھرتی کرنے پڑیں<۔۳۸۸
اخبار >الفضل< )۱۱/ مارچ ۱۹۳۴ء کے پرچہ میں( ہندو پریس کی اس افسوسناک ذہنیت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ ہائیڈرو الیکٹرک برانچ میں ان کے حقوق تلف کئے جانے کی یہ ایک مثال ہے اور اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں مگر ان کے جواز کے لئے یہ کہنا کافی سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان نااہل اور ناقابل ہیں اگر حالات یہی رہے تو ناممکن ہے کہ مسلمان کبھی ان محکموں میں کام کرنے کے قابل سمجھے جائیں۔ لہذا انہیں چاہئے کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے پرزور جدوجہد کریں اور اس وقت تک دم نہ لیں جب تک اس صیغہ کی ہر چھوٹی بڑی لائن میں مسلمان ملازمین کی تعداد اتنی نہ ہو جائے جتنی ان کی آبادی کے تناسب سے ہونی لازمی ہے۔۳۸۹
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا فیصلہ مباحثات کی نسبت
اس زمانہ میں مباحثات و مناظرات کثرت سے ہوتے تھے اور خصوصاً پچھلے چند سالوں سے ان کی تعداد نسبتاً بہت زیادہ ہو گئی تھی چنانچہ ۱۹۳۳ء میں ۱۷۸ مناظرے ہوئے۔۳۹۰ اس بڑھتی ہوئی رو سے گو سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع ہوا مگر ساتھ ہی کئی قسم کی پیچیدگیاں اور مشکلات بھی پیدا ہو گئیں مخالف مباحثات میں سخت بدزبانی اور دریدہ دہنی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتے تھے جس کے جواب میں احمدی مناظر کے لئے دو ہی صورتیں تھیں یا تو خاموش رہے یا ترکی بہ ترکی جواب دے اور مخالفین کی طرح بد زبانی پر اتر آئے ظاہر کہ یہ دونوں طریق جماعت کے لئے نقصان رساں تھے اس لئے نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے مجلس مشاورت ۱۹۳۴ء میں یہ معاملہ پیش کیا گیا جس پر کافی بحث و تمحیص کے بعد کثرت رائے نے یہ تجویز کی کہ۔
>حتی الوسع پبلک مباحثات سے اجتناب کیا جائے اور انفرادی تبلیغ اور تقاریر پر زور دیا جائے۔ اگر مخالفین کی طرف سے مباحثہ کا چیلنج ملے اور مباحثہ نہ کرنے کی صورت میں یہ اثر پڑتا ہو کہ گویا ہماری طرف سے فرار ہے تو بہتر ہے کہ مباحثہ تحریری ہو اور تحریر مجلس مناظرہ میں پڑھ کر سنائی جائے استثنائی حالات میں جہاں اس امر کا اطمینان ہو کہ فریق مخالف بدتہذیبی اور امن شکنی نہ کرے گا۔ تقریری مباحثہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن دونوں صورتوں میں ان مباحثات کے لئے ناظر دعوۃ و تبلیغ کی اجازت قبل از تصفیہ شرائط و تعین مباحثہ ضروری ہو گی۔ اس کے سوا کہ مقامی جماعت مناظرہ کا اپنے طور پر انتظام کرے یا مرکزی مبلغ موجود ہو اور اپنے دورے کے پروگرام کو توڑے بغیر مباحثہ کرسکتا ہو` مباحثہ کی ضرورت سے متعلق مقامی جماعت سے متفق ہو<۔۳۹۱
اس پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثات کو پسند نہیں کیا بلکہ ایسی چیز قرار دی ہے جیسے جنگ کی مثال ہے دوسرا حملہ کرے تو اجازت ہے کہ مقابلہ کریں۔ اور وہ بھی اجازت ہے حکم نہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کے ابتدائی وقت میں دشمن حملہ کرتے تو جنگ سے گریز کیا جاتا۔ یہاں تک کہ ایک وقت آگیا جب مقابلہ ضروری ہو گیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثات کو ناپسند کیا ہے مگر پھر بھی آپؑ کے زمانہ میں مباحثات ہوئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آپ کو مباحثات کرنے سے روک دیا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ جماعت میں ایسے بالغ عاقل افراد مذہبی لحاظ سے پیدا ہوگئے ہیں جو یہ بوجھ اٹھا سکیں۔ ہماری یہ تجویز اسی روح کو تازہ کرنے والی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کی کہ مباحثات سے حتی الامکان بچنا چاہئے۔ اور انفرادی تبلیغ اور تقاریر پر زور دیا جائے۔ اگر مخالفین کی طرف سے مباحثہ کا چیلنج ملے اور مباحثہ نہ کرنے کی صورت میں یہ اثر پڑتا ہو کہ گویا ہماری طرف سے فرار ہے تو بہتر ہے کہ مباحثہ تحریری ہو<۔ میں اسے منظور کرتا ہوں۔
دوسرا حصہ جو یہ ہے کہ مبلغ موجود ہو یا مقامی لوگ مباحثہ کر سکیں۔ تو مرکز سے اجازت لینے کی ضرورت نہ ہو۔ اس میں بعض خطرات باقی رہ جاتے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص مباحثہ کر لیتا ہے کہ وہ جو تحریر دے وہ کمزور ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب وہ شائع ہو گی تو لوگوں پر یہ اثر پڑے گا کہ احمدی جواب نہیں دے سکے۔ بعض باتیں ایسی ہیں کہ سب احمدی حقیقی طور پر انہیں سمجھتے نہیں حالانکہ ہم بار بار توجہ دلاتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس وجہ سے میں تقریری مباحثات کو ترجیح دوں گا جہاں مقامی مناظر پیش ہو۔ یعنی وہ تقریری مناظرہ کرے۔ تحریری نہ کرے اور اگر تحریری کرے تو انفرادی طور پر کرے۔ جماعت کی طرف سے پیش نہ ہو۔ یعنی جہاں مرکزی مبلغ مناظرہ کرے وہاں تحریری مناظرہ کو ترجیح دی جائے۔ اور جہاں مقامی مناظر پیش ہو وہاں تقریری کو۔ مرکزی مناظرہ کی صورت میں تمام ذمہ داری مرکزی مناظر کی سمجھی جائے گی اور اس کا یہ کہنا کافی نہ ہوگا کہ مجھے جماعت کی طرف سے مناظرہ کے لئے مجبور کیا گیا تھا<۔۳۹۲
وائسرائے ہند کی خدمت میں احمدیہ وفد اور مسلم حقوق کے تحفظ کا اہم مسئلہ
۲۶/ مارچ ۱۹۳۴ء کو نمائندگان جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے دہلی میں وائسرائے ہند لارڈ ولنگڈن سے ملاقات کی اور ان کی خدمت میں
ایک ایڈریس پڑھا جس میں خاص طور پر ان سے درخواست کی کہ مستقبل میں ہندوستان کے نظام حکومت میں مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔
چنانچہ وفد نے کہا۔ ایک ایسی حکومت جس کے ماتحت ہر ملت و مذہب کے لوگ ہوں کسی خاص جماعت سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں کر سکتی۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر ایک قوم اپنے جائز حقوق سے محروم ہو خواہ اس محرومی میں اس کی اپنی کوتاہی کا ہی کیوں نہ دخل ہو وہ ایک حد تک مدد اور سہارے کی محتاج ہوتی ہے اور مسلمانوں کی یہی حالت ہے۔ حکومت مغلیہ کی تباہی کے بعد مسلمانوں پر دیر تک ایک سکتہ کا سا عالم رہا اور شاید یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا بلکہ لارڈ کرزن جیسے واقف گورنر جنرل کی اس خیال کو تصدیق حاصل ہے کہ حکومت بھی اپنا پیش رو ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کو ابتداء میں شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی۔ لیکن جب کوئی شک پیدا ہو جائے تو وہ آہستہ آہستہ ہی دور ہوتا ہے پس اس شک کے عرصہ میں دوسری اقوام نے خاص ترقی کر لی اور مسلمان پیچھے رہ گئے۔ تعلیم میں بھی` سرکاری ملازمتوں میں بھی` اور سیاسی میدان میں بھی۔ اب جبکہ وہ شکوک دور ہو چکے ہیں۔ اور دونوں قومیں جن پر دنیا کے آئندہ امن کا انحصار ہے۔ ایک دوسرے کی طرف صلح اور محبت کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں اس امر کی خواہش بے جا نہ ہو گی کہ گزشتہ کوتاہی کو دور کرنے کے لئے صحیح اور موثر قدم اٹھایا جائے۔
وفد نے مزید کہا۔ سرحد جو ہمیشہ ہندوستان کے دروازہ پر کندھا دیئے کھڑا رہا ہے۔ اسلامی بنگال جو مقدور بھر ٹیررازم کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اسلامی پنجاب جو برطانوی مشکلات کے وقت اپنے جگر گوشوں کو برطانیہ کی خدمت کے لئے نکال کر پھینکتا رہا ہے اور وہ دوسرے صوبوں کے مسلمان جو تعلیم یافتہ منظم اور آگے نکلی ہوئی قوموں کے درمیان پراگندہ طور پر پڑے ہوئے ہیں اس وقت برطانوی انصاف ہی کے نہیں بلکہ اس کی ہمدردی کے خواہشمند اور مستحق ہیں۔ جناب اور جناب کی حکومت نے ان کے لئے بہت کچھ کیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ باقی ہے اور ہم یہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا آئندہ سیاسی نظام میں اور ان کی اقتصادی حالت کا حکومت کے ماتحت سرکاری ملازمتوں میں اور نئی مالی تجاویز کے اجراء کے وقت خاص خیال رکھا جائے۔۳۹۳
یہ وفد ۲۲ ممبروں پر مشتمل تھا جن کے نام یہ ہیں۔
)۱( لیفٹیننٹ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب۔ )۲( چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بی اے۔ ایل ایل بی بیرسٹرایٹ لاء لاہور۔ )۳( کرنل اوصاف علی خان صاحب سی۔ آئی۔ ای مالیر کوٹلہ۔ )۴( سردار بہادر کیپٹن غلام محمد خان صاحب دوالمیال ضلع جہلم۔ )۵( صوبیدار فتح محمد خان صاحب دوالمیال ضلع جہلم۔ )۶( لیفٹیننٹ تاج محمد خان صاحب نوشہرہ ضلع پشاور۔ )۷( خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سینئر سب جج علی گڑھ۔ )۸( خان بہادر چوہدری نعمت اللہ خان صاحب آنریری مجسٹریٹ مدار ضلع جالندھر۔ )۹( حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد۔ حیدر آباد دکن۔ )۱۰( حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب رئیس کلکتہ۔ )۱۱( حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی۔ )۱۲( صاحبزادہ محمد طیب صاحب بنوں۔ )۱۳( قاضی محمد شفیق صاحب ایم۔ اے ایل ایل۔ بی وکیل چار سدہ پشاور۔ )۱۴( سید ارتضیٰ علی صاحب تاجر لکھنئو۔ )۱۵( بابو اعجاز حسین صاحب دہلی۔ )۱۶( میاں محمد ابراہیم صاحب تاجر چرم کان پور۔ )۱۷( حضرت مولوی عبدالماجد صاحب پروفیسر جوبلی کالج بھاگلپور۔ )۱۸( ملک عبدالرحمن صاحب قصور )۱۹( حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے ناظر اعلیٰ۔ )۲۰( حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب ناظر امور عامہ۔ )۲۱( حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ۔ )۲۲( حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب ناظر امور خارجہ۔۳۹۴
مسلمانان اجودھیا پر ہندوئوں کے مظالم
۲۶/ مارچ ۱۹۳۴ء کو عید الاضحیہ کی تقریب منائی گئی۔ یہ ایک مذہبی تہوار تھا مگر ہندوئوں نے اس موقعہ پر کئی مقامات میں مسلمانوں میں >گئو ہتیا< کی آڑ لے کر حملہ کر دیا۔ اس شرارت کا سب سے زیادہ خمیازہ اجودھیا کے مسلمانوں کو بھگنا پڑا۔ جہاں تین مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ آٹھ مجروح ہوئے اور ۱۸/ مسلمانوں کے مکانات جلا دیئے گئے۔
اخبار >الفضل< نے اس فتنہ انگیزی کے خلاف دو پرزور اداریے لکھے۔۳۹۵
پہلا باب )فصل یاز دہم(
مسجد >فضل< لائلپور کی تعمیر اور حضرت امیر المومنین کا افتتاح
لائلپور صوبہ کی نئی آبادی کا مرکز اور اپنے زراعتی یونیورسٹی اور کارخانوں کے باعث ایشیا بھر میں مشہور ہے اس شہر کے مقامی اور باہر سے آنے والے احمدی مدت سے ایک تکلیف دہ ماحول میں سے گزر رہے تھے وجہ یہ کہ یہاں کوئی احمدیہ مسجد نہیں تھی اور احمدی چنیوٹ بازار کے دو چوباروں میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے آخر دوڑ دھوپ کرکے ڈگلس پورہ )متصل مین بازار( میں حصول زمین کے لئے درخواست دی گئی مگر غیر احمدی مسلمانوں نے مخالفت کی کہ یہ ہمارا محلہ ہے یہاں مسجد نہیں ہونی چاہئے لہذا یہ جگہ حاصل نہ ہوسکی اور مسجد کی بجائے یہاں مندر بن گیا۔ اب دوبارہ جدوجہد شروع کرنا پڑی اور نڑ والے اڈہ کے نزدیک دو کنال کا ایک قطعہ تلاش کیا گیا۔ بعض دوستوں نے رائے دی کہ اس جگہ مسجد بنانے سے خرچ بہت زیادہ اٹھے گا جو ہماری طاقت سے باہر ہے اس پر ایک کنال کے لئے درخواست دی گئی لیکن حکومت نے ہندوئوں کی دلجوئی کرتے ہوئے وہ زمین دینے سے انکار کر دیا۔۳۹۶
ان پے در پے روکاوٹوں کے باوجود جماعت احمدیہ لائل پور نے اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں اور بالاخر آٹھ سال کی متواتر جدوجہد کے بعد گول منشی محلہ بھوانہ بازار اور امین پور بازار کے درمیان ایک قطعہ زمین کے لئے درخواست دی۔ یہاں اس وقت میونسپلٹی کی طرف سے جستی چادروں سے بیت الخلاء بنے ہوئے تھے اور ہر طرف تعفن اور بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ میونسپلٹی نے مسجد کی تعمیر کے لئے متفقہ طور پر ریزولیوشن پاس کر دیا مگر جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے متعلقہ کاغذاب کمشنری میں بھیج دیئے تو مخالف علماء نے عوام میں سخت اشتعال پیدا کر دیا بلکہ بعض روایات کے مطابق مسجد جامع میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر یہاں احمدیوں کی مسجد بنائی گئی تو خون کی ندیاں بہا دی جائیں گی۔ بلکہ تین اشخاص نے خاص طور پر وعدہ کیا کہ ہم اپنی جانیں قربان کر دیں گے مگر احمدیوں کو مسجد نہیں بننے دیں گے۔۳۹۷ البتہ لائلپور کے علمائے اہل حدیث نے مخالفت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ چنانچہ مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کا بیان ہے کہ مجھ سے لائلپور کے اہل حدیث مولوی محمد حسین صاحب نے خود ذکر کیا کہ ہم لوگوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری سے فتویٰ پوچھا۔ تو انہوں نے ہمیں جواب دیا کہ اہل حدیث کو احمدیوں کی مسجد بننے میں روک نہیں بننا چاہئے۔ مگر چونکہ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں ان کے مولوی صاحبان نے سخت اشتعال اور منافرت پیدا کر دی تھی اس لئے انہوں نے میونسپلٹی میں ایک محضر نامہ پیش کیا جس پر میونسپلٹی نے اپنا پہلا ریزولیوشن منسوخ کر دیا اور مخالفین کی طرف سے گورنر تک کو تار دیئے گئے مگر اس مخالفت نے جماعت کے دلوں میں ایک عجیب کیفیت پیدا کر دی۔ اور وہ انابت الی اللہ کے سچے جذبے کے ساتھ خشوع و خضوع سے دعائوں میں لگ گئے رات کے وقت بعض احمدی خفیہ طور پر اس مقام پر آتے اور نوافل پڑھتے۔ انہوں نے اپنے پیارے آقا خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھی دعا کے لئے درخواستیں کیں۔ ایک رات جماعت لائل پور کے پریذیڈنٹ شیخ محمد محسن صاحب نے دعا کی تو اللہ تعالی نے ان کی زبان پر انا فتحنا لک فتحا مبینا کے الفاظ جاری کرکے قبل از وقت کامیابی کی بشارت دے دی۔ بالاخر خدا کے فضل اور اس کی بشارت کے مطابق جماعت کی کوششیں بارآور ہوئیں اور زمین کی منظوری ہو گئی اور اس کا قبضہ مل گیا۔۳۹۸ جماعت کے دل میں مسجد کی تعمیر کا پہلے ہی زبردست جذبہ موجزن تھا اب جو غیر معمولی حالات میں حصول زمین میں کامیابی ہوئی تو اس کے اندر اور زیادہ جوش پیدا ہو گیا اور اس ایک سال کے اندر اندر اس مقام پر ایک عظیم الشان مسجد تیار کرنے کی توفیق مل گئی۔
اس مسجد کی تعمیر میں یوں تو لائل پور کے سب احمدیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مالی قربانیاں کیں۔ مگر بعض مخلصین نے جن میں شیخ محمد محسن صاحب مرحوم پریذیڈنٹ لائل پور سر فہرست ہیں اس موقعہ پر انتہائی اخلاص کا ثبوت دیا۔ شیخ محمد محسن صاحب نے بیش قیمت مالی امداد کے علاوہ مہتمم تعمیر کے فرائض بھی سرانجام دیئے اور اپنی اہلیہ )محترمہ اللہ جوائی صاحبہ مرحومہ( کی وصیت پر ان کی یادگار کے طور پر مسجد کے ساتھ ایک کنواں تعمیر کرایا اسی طرح مسجد میں بجلی کی فٹنگ کا تمام خرچ اپنی جیب خاص سے ادا کیا اور زندگی بھر مسجد کی روشنی کا پورا خرچ خود ہی برداشت کرتے رہے بلکہ ان کی وفات کے بعد اب تک ان کی دوسری بیگم محترمہ محمودہ صاحبہ )ہمشیرہ شیخ بشیر احمد صاحب سابق جج ہائی کورٹ لاہور( ادا کر رہی ہیں۔
شیخ محمد محسن صاحب کے بھائی شیخ مولا بخش صاحب )غیر مبائع( نے بھی اس کارخیر میں حصہ لیا۔ چندہ کی وصولی کے لئے شیخ محمد محسن صاحب` شیخ مولا بخش صاحب قریشی محمد حنیف صاحب سائیکل سیاح` ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے۔ بی ٹی اور شیخ محمد یوسف صاحب نے دورہ کیا۔ چوہدری عطا محمد صاحب نائب تحصیلدار نے مسجد کی تعمیر کے لئے بطور عمومی کارکن اور شیخ بابو ولایت محمد صاحب نے انجینئر کی حیثیت سے قابل رشک خدمات سرانجام دیں۔ اخوند افضل خاں صاحب آف ڈیرہ غازی خاں نے بھی اس مسجد کی تیاری کے لئے بہت امداد کی۔۳۹۹ علاوہ ازیں مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے )جو ان دنوں مسلم ہائی سکول لائلپور میں عربی ٹیچر اور مقامی جماعت کے نائب مہتمم تبلیغ اور خطیب و امام الصلٰوۃ تھے( اپنے وعظ و تلقین سے جماعت لائلپور میں ایک زبردست روح پھونک دی اور احباب تعمیر مسجد کے لئے ایثار و اخلاص کے جذبات سے لبریز اور ہر قربانی پر آمادہ ہو گئے۔
افتتاح کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی منظوری اور اس کا پس منظر
مسجد کی شاندار عمارت پایہ تکمیل کو پہنچی تو جماعت لائلپور نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں اس کے افتتاح کرنے کی
درخواست پیش کی۔۴۰۰ جو حضور نے قبول فرما لی اور ۷/ اپریل ۱۹۳۴ء مطابق ۲۲/ ذوالحجہ ۱۳۵۲ھ کا مبارک دن اس کے لئے مقرر فرمایا۔ حضور کی طبیعت ان دنوں علیل تھی اور ڈاکٹری مشورہ یہ تھا کہ یہ سفر ملتوی کر دیا جائے مگر حضور نے یہ التوا منظور نہ فرمایا جس کی اصلی وجہ حضور کے مقدس الفاظ ہی میں بیان کرنا موجب برکت ہے۔ حضور نے فرمایا۔
>میں سمجھا کہ یہ خاص طور پر دینی کام ہے لائل پور نو آبادی کا مرکز ہے اور اس لحاظ سے گویا نئی دنیا ہے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ایک کشف بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک نئی دنیا بنانے آئے تھے۔ اس لئے میں نے خیال کیا کہ جو نئی دنیا بسی ہے وہاں جائوں۔ تا وہ کشف ایک رنگ میں پورا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے رئویا میں دیکھا تھا کہ آپؑ نے نیا آسمان اور نئی زمین بنائی ہے اس کے حقیقی معنے تو یہی ہیں کہ ساری دنیا میں آپ کے ذریعہ ایک نئی روح پھونکی جائے گی۔ مگر جزوی معنی یہ بھی ہیں کہ جو نئی دنیا بسی ہے وہاں کے لوگوں میں سچا ایمان پیدا کر دیا جائے۔ پس اس قسم کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اس علاقہ میں بھی احمدیت کو مضبوط کر دے تا ظاہری آبادی کی طرح یہاں باطنی آبادی بھی ہو جائے۔ میں یہاں آنے پرآمادہ ہو گیا<۔۴۰۱
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی قادیان سے روانگی
حضور پروگرام کے مطابق ۷/ اپریل کی صبح قادیان سے موٹر میں روانہ ہووئے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور مولوی قمر الدین صاحب اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری بھی حضور کے ہمراہ تھے۔
]ydob [tagحضور ۹ بجے لاہور سے لائل پور کی گاڑی میں سوار ہوئے جہاں لائلپور جانے کے لئے قادیان۴۰۲ کے متعدد احباب پہلے ہی لاہور پہنچ چکے تھے اور لاہور کے بھی کئی دوست شریک قافلہ ہو گئے راستہ میں بھی بعض اسٹیشنوں پر احمدی دوست شامل ہوتے رہے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی لائل پور میں تشریف آوری
گاڑی سوا بجے لائل پور پہنچی۔ پلیٹ فارم پر اور اسٹیشن سے باہر حضور کا استقبال کرنے کے لئے ایک بڑا ہجوم امڈ آیا تھا۔ احمدیوں کا ایسا شاندار اجتماع قادیان کے سالانہ جلسہ کے سوا کسی اور احمدیہ جماعت کے جلسہ پر دیکھنے میں نہیں آیا تھا استقبال کرنے والوں میں احمدی` غیر احمدی` ہندو اور سکھ وغیرہ سب اقوام کے لوگ موجود تھے جن میں سرکاری عہدیدار` وکلا` بیرسٹر` مقامی شرفاء و معززین میونسپل کمشنر وغیرہ شریک تھے گاڑی سے اترنے کے بعد حضور کے گلے میں پھولوں کے بکثرت ہار ڈالے گئے اور جب ان کا بوجھ بہت ہو گیا۔ تو لوگوں نے فرط عقیدت سے پھول برسانے شروع کر دیئے لوگ اسٹیشن سے باہر دو رویہ کھڑتے تھے اور احمدی والنٹیر انتظام قائم کئے ہوئے تھے۔ پولیس کا قابل تعریف انتظام تھا اور خود سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس بھی موجود تھے۔ حضور نعرہ ہائے تکبیر کے درمیان پلیٹ فارم سے باہر تشریف لائے اور موٹر میں سوار ہو کر شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ موٹر کے آگے احمدیہ والنٹیرز کور کے نوجوان جھنڈے اٹھائے جارہے تھے۔
افتتاح مسجد
حضور سیدھے مسجد احمدیہ میں تشریف لے گئے اور بطور افتتاح دو نوافل جہری قرائت سے پڑھائے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کی ہر آیت کا تین مرتبہ تکرار کیا اور ہر بار حضور کی آواز میں ایک خاص قسم کا جوش اور جذب تھا۔ نمازیوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ ایک دوسرے کی پیٹھ پر سجدے کئے گئے۔ اور نمازیوں پر اس قدر رقت طاری تھی کہ بے اختیار چیخیں نکل رہی تھیں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کی گئیں۔
جماعت ہائے احمدیہ ضلع لائل پور کا ایڈریس
نماز سے فارغ ہو کر حضور کرسی پر رونق افروز ہوئے اور مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے ضلع لائل پور کی احمدی جماعتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پڑھا۔۴۰۳ جس کی سنہری حروف میں طبع شدہ ایک کاپی مخمل کے نہایت خوبصورت کیس میں رکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کی گئی۔ یہ ایڈریس چھاپ کر تقسیم کر دیا گیا تھا۔ قاضی صاحب پر بھی اس وقت ایک خاص کیفیت طاری تھی اور وہ ایڈیٹر صاحب >الحکم< حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے الفاظ پیکر محویت بنے ہوئے تھے۔ اور حضور کی تشریف آوری نے ان میں اور باقی تمام افراد جماعت میں ایک نیا رنگ پیدا کر دیا تھا۔۴۰۴
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے جواب
ایڈریس کے جواب میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے پرمعارف خطاب فرمایا۔ ایڈریس میں مسجد کی تعمیر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ نشان قرار دیتے ہوئے چونکہ مخالفین سلسلہ کی مخالفانہ روش کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا اس لئے حضور نے اپنی تقریر کے ابتدا ہی میں ارشاد فرمایا۔
>جہاں میں ایڈریس دینے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہاں ایک امر کے متعلق اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایشیائی لوگوں میں عام رواج ہے کہ وہ اپنے کاموں کی بنیاد کچھ نہ کچھ جذبات پر رکھتے ہیں یورپین لوگوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ ان کے تمام کاموں میں تجارتی رنگ ہوتا ہے۔ ایشیائی ممالک کا اگر کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھے تو وہ قیدیوں کو آزاد کرے گا۔ قاتلوں کو معاف کرے گا۔ ملازموں کو چھٹیاں دے گا۔ اور انعام و اکرام تقسیم کرے گا لیکن یورپ میں اگر کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ عرض ہماری دنیا جذباتی دنیا ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ بعض حالات میں مفید ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں اس موقعہ پر جبکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی کہ آپ لوگ اس کے نام پر ایک گھر بنائیں۔ بعض >لوگوں< کا جو شکوہ کیا گیا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ انہوں نے مخالفت کی ہو گی مگر یہ سمجھ کر کہ اس طرح وہ دین کی کوئی خدمت کر رہے ہیں انہوں نے مخالفت کی لیکن اب جب خدا تعالیٰ نے آپ کو کامیابی عطا کی۔ تو چاہئے تھا کہ خدمت کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے مگر مخالفت کرنے والوں کا ذکر چھوڑ دیتے اور دلوں میں ان کے لئے دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب کرے۔ ایڈریس کے اس حصہ نے مجھے تکلیف دی ہے۔ خوشی کے موقعہ پر ایشیائی بادشاہ قیدیوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور مخالفت کرنے والے لوگ تو آپ کے قیدی نہ تھے ان کا ذکر چھوڑ دینے میں آپ کا کوئی حرج نہیں ہوتا تھا<۔۴۰۵
اس ارشاد کے بعد حضور نے اختصار کے ساتھ دوستوں کو مسجد بنانے کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا۔
>مساجد اپنے ساتھ بعض ذمہ داریاں رکھتی ہیں۔ مسجد خدا کا گھر ہے اور جو شخص مسجد بنانے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اسے ہم نے بنایا۔ اور یہ ہماری ہے وہ گویا خدا کے گھر کو اپنا گھر قرار دیتا ہے دنیا میں اگر کوئی شخص کسی معمولی آدمی کے گھر کو بھی کہے کہ یہ میرا ہے تو وہ مجرم سمجھا جاتا ہے اس سے اندازہ کر لو کہ جو شخص خدا کے نام پر ایک گھر بنائے اور پھر اسے اپنا قرار دے وہ کتنی بڑی سزا کا مستحق ہو گا پس لائل پور کا ہر احمدی فرد یہ سمجھے کہ یہ خدا کا گھر ہے اگر یہ خدا کا گھر نہیں ہے تو مسجد نہیں ہو سکتی۔ اور اگر خدا کا گھر ہے تو آج سے آپ لوگوں میں سے کوئی شخص ایک ساعت کے لئے بھی یہ خیال نہ کرے کہ یہ ان کی ہے جس وقت میں نے دو رکعتیں پڑھ کر اس کا افتتاح کیا اس کے بعد کسی کو اب یہ حق نہیں کہ اسے اپنی قرار دے اور کسی کو اس میں عبادت کرنے سے روکے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص ایک ہندو یا عیسائی کو بھی روکے گا تو وہ خدا کا فوجداری مجرم ہو گا<۔۴۰۶
حضرت امیر المومنین قیام گاہ میں
اس ایمان افروز خطاب کے بعد۴۰۷ حضور شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر کی کوٹھی )واقع سرکلر روڈ متصل کچہری( میں تشریف لے آئے۔ جہاں حضور کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ شیخ صاحب موصوف اپنی اس خوش نصیبی پر اس روز بہت شادماں و نازاں تھے کہ خدا تعالیٰ کے عالی مقام خلیفہ موعود کی میزبانی کا شرف انہیں حاصل ہو رہا ہے۔ آپ نے ایسے اخلاص و محبت سے اپنے فرائض ادا کئے کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے الحکم میں لکھا۔ >شیخ صاحب نے اس موقعہ پر مہمان نوازی کا جو نمونہ دکھایا ہے وہ صد ہزار تحسین کے قابل اور واجب التقلید ہے۔ آپ بہ نفس نفیس اور آپ کے گھر والے اور ملازم سب کے سب ہر وقت مہمانوں کی خدمت میں کمربستہ تھے شیخ صاحب کی اس مہمان نوازی کا اثر ہر شخص کے دل پر ہے وہ خود آرام کے خوگر اور ناز و نعمت میں پلے ہوئے ہیں مگر اس موقعہ پر معمولی سے معمولی خدمت کو بھی انشراح صدر سے بجا لاتے تھے یہ ان کے اخلاص اور ایمان کا ثمرہ تھا<۔۴۰۸
جماعت احمدیہ لائل پور کا جلسہ
حضور کی تقریر کے بعد تمام لوگ جلسہ گاہ کی طرف چلے گئے جو مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کے زیر انتظام میونسپل باغات میں نہایت شاندار خوبصورت شامیانوں اور قناتوں سے بنائی گئی تھی۔ اور ایک باقاعدہ سٹیج سالانہ جلسہ کے نمونہ پر تعمیر کیا گیا تھا۔ جلسہ میں سلسلہ کے مبلغین میں سے مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل` گیانی واحد حسین صاحب )سابق شیر سنگھ( اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے مختلف موضوعات پر تقریریں کیں اور جلسہ نماز مغرب کے لئے برخاست ہوا۔
حضرت اقدس جلسہ گاہ میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جلسہ گاہ میں نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں پھر سٹیج پر رونق افروز ہوئے اور تمام احباب کو مصافحہ کا موقعہ بخشا۔ مصافحہ کرنے والے باقاعدہ ایک انتظام کے ماتحت ایک راستہ سے آتے اور دوسرے سے جاتے تھے اس حسن انتظام پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور یہاں سے فارغ ہو کر شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر کی کوٹھی میں واپس تشریف لے گئے حضور کی واپسی کے بعد علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ مجاہد فلسطین نے بلاد اسلامیہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات پر تقریر فرمائی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی معرکتہ الاراء تقریریں
اگلے روز ۸/ اپریل کو مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور مولانا محمد سلیم صاحب نے ۔۔۔۱۲ بجے تک تقاریر کیں۔ پھر حضور نے وہیں تشریف لا کر ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں اور ۔۔۔۲ بجے کے قریب جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ حضرت صوفی حافظ غلام محمد صاحبؓ بی۔ اے سابق مبلغ ماریشس نے تلاوت قرآن کریم کی اور حکیم سراج الدین صاحب لاہوری نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نظم پڑھی پونے تین بجے کے قریب حضور تقریر کے لئے کھڑے ہوئے حضور نے اپنی تقریر میں تحقیق حق سے متعلق بعض اہم ضروری ہدایات دینے کے بعد وفات مسیح ناصری علیہ السلام اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر ایسی دلچسپی` موثر اور جامع تقریر فرمائی کہ لوگوں پر وجد کی حالت طاری ہو گئی۔ مجمع میں ہر خیال اور ہر مذہب و ملت کے لوگ شریک تھے پانچ بجے چونکہ ایک ٹی پارٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس لئے حضور نے فرمایا کہ بقیہ تقریر میں رات کو نو بجے کے بعد کروں گا۔ اس کے بعد حضور ٹی پارٹی میں تشریف لے گئے جو جماعت احمدیہ لائل پور کی طرف سے حضور کی آمد کی خوشی میں دی گئی تھی اور جس میں شہر کے معزز و ممتاز سرکاری اور غیر سرکاری اصحاب بکثرت مدعو تھے۔ اکل و شرب کا یہ انتظام نہایت عمدہ تھا۔ پارٹی کے اختتام پر حضور نے مختصر سی تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ بین الملی اتحاد کی بنیاد کیا ہو سکتی ہے؟
حضور ۹ بجے کے قریب پارٹی سے فارغ ہو کر دوبارہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور نمازیں جمع کرکے پڑھائیں اس کے بعد حافظ مسعود احمد صاحب )ابن بھائی محمود احمد صاحب قادیانی( نے تلاوت کی اور ایک مقامی دوست میاں غریب الدین صاحب نے نظم پڑھی پھر پونے دس بجے حضور کی پرمعارف تقریر شروع ہوئی جو رات کے بارہ بجے ان دعائیہ الفاظ پر ختم ہوئی۔۴۰۹
>دعا کرتا ہوں کہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ سچے رستہ پر چلنے` قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ہمارے اختلافات کو دور کرکے ہندو` عیسائی` سکھ غرضیکہ سب کو ہدایت دیکر دین واحد پر جمع کردے تا وہ سب محمد رسول اللہہ~صل۱~ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر ایک ہو جائیں۔ اے میرے قادر و توانا خدا! میں تیرے حضور یہ درخواست کرتا ہوں۔ کوئی عیسائی ہو یا ہندو و سکھ سب تیرے بندے ہیں پس اپنے بندوں کو گمراہ ہونے سے بچا لے تیری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے دوزخ کے دروازے بند کرکے جنت کے دروازے کھول دے۔ اللہم آمین<۔۴۱۰
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ جڑانوالہ میں
حضور انور ۹/ اپریل کی صبح کو آٹھ بجے کے قریب لائل پور سے روانہ ہوئے۔ جڑانوالہ میں ان دنوں جماعت کے ایک پرجوش اور مخلص دوست ڈاکٹر محمد شفیع صاحب بطور ویٹرنری اسسٹنٹ متعین تھے جنہوں نے ایک روز قبل حضور سے چند منٹ ٹھہرنے کی درخواست کی تھی جسے حضور نے شرف قبولیت بخشا چنانچہ حضور ۹ بجے کے قریب جڑانوالہ میں ان کے ہاں رونق افروز ہوئے اس وقت تیس کے قریب خدام حضور کے ساتھ تھے باوجود یکہ ان کو وقت بہت کم ملا تھا انہوں نے پرتکلف ناشتہ پیش کیا۔۴۱۱`۴۱۲
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ احمد پور میں
جڑانوالہ سے روانہ ہوکر حضور ملک غلام محمد صاحب آف لاہور کی درخواست پر ان کے گائوں احمدپور تشریف لے گئے اور ملک صاحب کے مکان میں وہاں کے احمدیوں کو شرف زیارت بخشا اور بعض مستورات نے بیعت کی۔ یہاں حضور نے جماعت کی مسجد میں دو رکعت نماز بھی پڑھائی۔ اور پھر پنجابی زبان میں چند نصائح بھی فرمائیں۔ جن کا لب لباب یہ تھا کہ اپنی زندگی کی حقیقی غرض و غایت کو مدنظر رکھتے ہوئے دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ احمدپور کی ایک غریب اور عمر رسیدہ خاتون نے حضور کی لائل پور میں تشریف آوری کی خبر سن کر اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ قادیان جلسہ سالانہ پر تو میں نہیں جا سکتی مجھے لائل پور ہی لے چلو تا میں حضرت صاحب کی زیارت کر سکوں۔ بیٹے نے قریب کے ایک گائوں ڈیری والا کے احمدیوں سے جاکر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ لائل پور میں مستورات کے لئے کوئی انتظام نہیں ہو گا۔ بیٹا اپنی والدہ کو یہ بتا کر خود لائل پور روانہ ہو گیا۔ ابھی وہ گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ وہ بوڑھی خاتون سجدہ میں گر پڑیں اور یہ دعا کرنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ حضور کی زیارت کا کوئی سامان پیدا کر دے۔ چنانچہ جب حضور اس گائوں میں تشریف لائے تو اس مخلص خاتون نے بھی زیارت کی اور بہت خوش ہوئی۔۴۱۳
قادیان میں ورود مسعود
یہاں سے فراغت کے بعد حضور لاہور کی طرف روانہ ہوئے اور اسی روز )۹/ اپریل کو( شام کے قریب واپس قادیان پہنچ گئے۔۴۱۴ اس طرح حضور کا یہ سفر جو افتتاح مسجد کے لحاظ سے سفر انگلستان کے بعد اپنی نوعیت کا دوسرا سفر تھا نہایت کامیابی سے ختم ہوا۔
tav.7.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
جلسہ کے بعض ضروری کوائف
جلسہ سے چند روز قبل پیر جماعت علی شاہ صاحب تین دن وہاں رہے کہتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں سے حلف لئے کہ احمدیوں کے جلسہ میں شامل نہ ہوں گے۔ احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز فتووں کی اشاعت کی گئی۔ جلسہ گاہ کے حصول میں مشکلات پیدا کی گئیں۔ خیموں کے تاجروں کو دھمکیاں دی گئیں کہ اگر تم نے شامیانے وغیرہ دیئے تو وہ جلا دیئے جائیں گے۔ جلسہ سے ایک رات پہلے نہر کے نالے کو کاٹ کر اس قطعہ کو جہاں جلسہ گاہ تیار کی گئی تھی دلدل کر دینے کی کوشش کی گئی۔ مولوی ظفر علی خان صاحب اور بعض دوسرے مخالفین بذریعہ تار بلائے گئے جنہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف سخت زہر اگلا اور غیر مبائع اصحاب نے مولوی محمد علی صاحب امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے لکھے ہوئے ٹریکٹ بھی تقسیم کئے۔
لیکن ان تمام معاندانہ کوششوں اور اشتعال انگیزیوں کے باوجود جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ حاضرین کی تعداد کا اندازہ چھ ہزار سے کسی طرح کم نہیں تھا اور حضور کی تقریروں کے وقت تو اس میں اور بھی اضافہ ہو جاتا تھا۔ احمدی احباب بھی تمام نواحی دیہات اور اردگرد کے اضلاع سے بکثرت شامل ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس موقعہ پر ڈیڑھ سو کے قریب افراد بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔۴۱۵
جماعت لائل پور تبلیغ کے نئے دور میں
اس جلسہ سے لائل پور میں تبلیغ کا ایک نیا دروازہ کھل گیا تھا جس سے فائدہ اٹھانے کے لئے مرکز کی طرف سے حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کو کچھ عرصہ لائل پور ٹھہرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے قیام کے دوران احمدیت کی خوب تبلیغ کی اور غیر احمدی علماء پر احمدیت کی دھاک بٹھا دی۔ یہاں ایک دیو بندی فاضل مولوی محمد مسلم صاحب نے سورہ فاتحہ کی ایک مختصر سی تفسیر لکھی تھی جس کا متن اردو میں تھا اور حاشیہ عربی میں۔ انہوں نے حضرت مولانا راجیکیؓ کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا۔ دوپہر کا وقت تھا جونہی یہ چیلنج آپ کی خدمت میں پہنچا آپ اسی وقت قلم دوات لے کر بیٹھ گئے اور دوسرے دن بارہ بجے تک فلسکیپ سائز کے ساٹھ صفحات پر فصیح و بلیغ عربی میں صرف بسم اللہ کی تفسیر لکھی اور مولوی محمد مسلم صاحب کو پیغام بھیجا کہ اب آپ تین علماء مقرر کریں جو ہم دونوں کی تفسیر پڑھ کر حلفیہ بیان دیں کہ کس کی تفسیر زبان دانی اور حقائق و معارف کے لحاظ سے اعلیٰ پایہ کی ہے اس پر مولوی محمد مسلم بالکل مبہوت رہ گئے۔۴۱۶
اس زمانہ میں شیخ مبارک احمد صاحب فاضل اور شیخ مولانا عبدالقادر صاحبؓ فاضل بھی لائل پور میں رہے اور حضرت مولانا راجیکیؓ کی صحبت میں تبلیغی میدان کے لئے عملی تربیت حاصل کی اور اس طرح لائل پور کو روحانی و تبلیغی اعتبار سے ایک رنگ میں تربیتی مرکز کی سی حیثیت بھی حاصل ہو گئی۔۴۱۷
مسجد فضل لائل پور کے لئے کتبہ
اس مسجد کا نام حضور نے مسجد فضل تجویز فرمایا تھا اور اس کے لئے اپنے قلم مبارک سے کتبہ کے مندرجہ ذیل الفاظ تحریر فرمائے تھے۔ جو تاریخی یادگار کے طور پر آج تک دیوار مسجد پر کنندہ ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھو الناصر
الٰہی! اس مسجد کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تقویٰ پر ہو۔ اور اس میں نمازیں پڑھنے والے ہمیشہ تیری رضا کو دوسری سب چیزوں پر مقدم رکھیں۔ میں تیرے فضل سے امید رکھتے ہوئے اس مسجد کا نام مسجد فضل رکھتا ہوں۔
اے میرے رب! میری اس امید کو پورا کر اور اس مسجد کو اپنے فضل کا مقام بنا۔ اس سے تعلق رکھنے والوں اور اس میں نمازوں کی مداومت کرنے والوں کو اپنے بڑھنے والے فضل سے حصہ دیتا رہ اور اسے اپنے دین کی اشاعت کا اس علاقہ کے لئے مرکز بنا۔ اللھم آمین۔
میرزا بشیر الدین محمود احمد۴۱۸
۲۲/ ذی الحجہ ۱۳۵۲ھ مطابق ۷/ اپریل ۱۹۳۴ء بروز افتتاح
سفر لائل پور کے تاثرات سیدنا حضرت امیر المومنینؓ کی زبان مبارک سے
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے لائل پور سے واپسی پر اس سفر کے تاثرات ان الفاظ میں بیان فرمائے۔
>مجھے اپنی خلافت کے ایام میں پہلی مرتبہ اس قسم کا سفر درپیش ہوا۔ جیسا کہ گزشتہ ہفتہ میں لائلپور کا پیش آیا تھا اور میں اس سفر سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جہاں ایک طرف مخالفت زوروں پر ہے ۔۔۔۔۔۔ وہاں لوگ ہماری باتیں سننے پر آمادہ بھی ہیں اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ کوئی انہیں سلسلہ کے حالات سے واقف کرے۔
میرے لائل پور جانے کے موقعہ پر ہر رنگ میں مخالفین کے رئوساء نے کوششیں کیں کہ کسی طرح لوگ اس طرف توجہ نہ کریں۔ مگر باوجود اس کے کہ وہاں کی مقامی جماعت نہایت قلیل ہے اور شاید چالیس مردوں سے زیادہ نہیں کیونکہ ساری مردم شماری عورتوں اور بچوں سمیت جو مجھے بتائی گئی وہ دو سو کے قریب ہے۔ پس مرد تیس پینتیس یا زیادہ سے زیادہ پچاس ہوں گے اور چالیس ہزار کی آبادی والے شہر میں یہ تعداد بہت ہی قلیل ہے پھر سوائے دو تین کے باقی لوگ غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر باوجود ان تمام حالات کے لوگوں نے اس مخالفت کی پروا نہیں کی جو مخالفین کی طرف سے کی گئی تھی۔ عام طور پر جلسوں کی حاضری تین ہزار سے چھ ہزار تک سمجھی جاتی تھی۔ اور مجھے قادیان سے باہر کسی جگہ اس بات کے دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا کہ کھلے میدان میں اس طرح وسعت سے آدمی پھیلے ہوئے ہوں جیسا کہ قادیان میں سالانہ جلسہ کے موقعہ پر پھیلے ہوتے ہیں۔ گیلریوں کو چھوڑ کر جو زائد ہوتی ہیں۔ یہاں جس قدر جلسہ گاہ کا حصہ ہوتا ہے اس کے قریب قریب ہی لائل پور کی جلسہ گاہ تھی اور پھر تمام آدمیوں سے بھری ہوئی تھی۔ مگر سوال یہ نہیں کہ آدمیوں سے جلسہ گاہ بھری ہوئی تھی بلکہ قابل غور امر یہ ہے کہ سخت مخالفت کے باوجود یہاں تک کہ مخالف علماء کی طرف سے یہ فتوے دیئے جانے کے باوجود کہ احمدیوں سے ملنے پر نکاح ٹوٹ جائے گا ہر طبقہ کے لوگ آئے۔ معززین میں سے بھی اور عوام الناس میں سے بھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالف جو کوششیں ہمارے خلاف کر رہے ہیں اگر ایک طرف ان سے ہمارے لئے بعض مشکلات پیدا ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ان کی مخالفت ہمارے تبلیغی راستے میں روک نہیں ہو رہی بلکہ لوگوں کی توجہ پھرانے کا باعث بن رہی ہے۔
مجھے ایک شخص نے لائل پور میں بیعت کرتے وقت عجیب واقعہ سنایا۔ وہاں قریباً ایک سو چالیس افراد نے بیعت کی ہے اور جو بیعت کرتا۔ میں اس سے متفرق حالات بھی دریافت کرتا۔ تا مجھے معلوم ہو کہ یہ کس ضلع کا ہے اور اب آئندہ ہماری تبلیغی سرگرمیاں کس ضلع میں زیادہ نمایاں تغیر پیدا کر سکیں گی اور کس جگہ کی جماعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کریں گی ضمنی طور پر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ضلع دار بیعت کے لحاظ سے ضلع شیخوپورہ کے بیعت کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی اس کے بعد لائل پور اور پھر سرگودھا وغیرہ اضلاع کے لوگوں نے بیعت کی۔ ایک شخص نے جو سرگودھا کے ضلع کے تھے اور لائل پور میں کسی ای اے سی کے لڑکوں کو پڑھاتے تھے۔ جب انہوں نے بیعت کی تو میں نے ان سے پوچھا۔ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں ضلع سرگودھا کا ہوں پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو سلسلہ احمدیہ کی طرف کس طرح توجہ ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ میں لائل پور میں نوکر تھا یا کہا کہ میں نوکر ہوں۔ اسی دوران میں مجھے ایک اشتہار ملا۔ جو یہاں کی کسی مسجد کے امام کی طرف سے شائع ہوا تھا۔ اس میں جماعت احمدیہ کے خلاف بہت سی باتیں لکھی تھیں وہ کہنے لگے مجھے اشتہار پڑھ کر سخت غصہ آیا کہ ایک طرف تو یہ احمدی اپنی نیکی اور اسلامی ہمدردی کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف اسلام کی اتنی ہتک کرتے ہیں کہ امامت اور نبوت کے مدعی بنتے ہیں۔ کہتے ہیں اسی غصہ کے جوش میں ایک احمدی کے ہاں گیا اور اس سے کہا کہ آپ لوگ اندر سے اور ہیں اور باہر سے اور۔ منہ سے تو اسلامی ہمدردی کے دعوے کرتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ آپ کے مرزا صاحبؑ مستقل نبوت کے مدعی ہیں۔ انہوں نے بڑی نرمی سے کہا کہ ذرا بیٹھ جائیے اور پھر ایک ایک اعتراض لے کر انہوں نے مجھے حوالے کتابوں سے دکھانے شروع کئے جو بھی وہ حوالہ نکالیں۔ اصل عبارت میں کچھ اور ہوتا اور اشتہار میں کچھ اور۔ اس طرح دو دن وہ مجھے سمجھاتے رہے۔ جب میں اچھی طرح سمجھ گیا۔ تو پھر مجھے اس مولوی صاحب پر غصہ آیا جس نے اشتہار شائع کیا تھا۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ آپ لوگ ہمارے عجیب راہنما ہیں۔ اشتہار میں لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب فلاں فلاں عقیدہ رکھتے تھے۔ حالانکہ اصل کتابیں میں نے دیکھی ہیں وہاں کچھ اور ہی لکھا ہے۔ مولوی صاحب میری بات سنتے ہی ناراض ہو گئے اور کہنے لگے تم کسی احمدی کے پاس گئے ہی کیوں تھے۔ میں نے کہا تم یہ بتائو تم نے جھوٹ کیوں بولا۔ آخر وہ مولوی صاحب مجھ سے سخت ناراض ہو گئے اور میں سمجھا کہ اب مجھے تحقیق کرنی چاہئے پندرہ بیس دن تحقیق کی تو حق مجھ پر کھل گیا اور میں بیعت کے لئے تیار ہو گیا۔
دیکھو یہ مخالفت ہی تھی جو انہیں ادھر لانے کا ذریعہ بنی۔ کیونکہ ان کے احمدی بنانے کا ذریعہ ہم نہیں تھے بلکہ غیر احمدی امام مسجد صاحب ذریعہ بنے۔ تو کئی دفعہ مخالفتیں فائدہ بخش ہو جاتی ہیں۔ میں نے اس سفر سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ باوجود مخالفت کے خدا تعالیٰ کا یہ فضل بھی ہو رہا ہے کہ اس مخالفت کی وجہ سے لوگوں کی توجہ احمدیت کی طرف پھر رہی ہے۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اتنی بیعت ایک دن کے لیکچر کا نتیجہ تھی۔ بلکہ ان لوگوں کو پہلے سے تبلیغ ہو چکی تھی۔ لیکن وہ تین ہزار سے چھ ہزار لوگ جو جلسوں میں شامل ہوتے رہے ان کے دلوں میں بھی ایک بیج بویا گیا ہے جو آج نہیں تو کل اور اس مہینہ میں نہیں تو اگلے مہینہ میں پھوٹے گا۔ جب باوجود نکاح ٹوٹ جانے کی دھمکی دیئے جانے کے وہ شوق سے ہمارے جلسوں میں آئے تو اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں ہدایت کی تڑپ ہے جو کسی دن اپنا رنگ لائے گی۔ سب سے زیادہ ڈر لوگوں کو نکاح ٹوٹنے کا ہوتا ہے اور یہی مولویوں کا آخری ہتھیار ہے جس سے وہ کام لیا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ غرض نکاحوں کا سوال ایک اہم سوال ہوتا ہے اور لوگوں کے لئے اس قسم کے فتویٰ کے بعد جلسوں میں شامل ہونا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ عام طور پر عورتیں کمزور ہوتی ہیں اور وہ خیال کر لیتی ہیں کہ اگر ہمارے مرد فتویٰ کی زد میں آگئے تو اس کے بعد ہمارا اپنے گھر میں رہنا بدکاری سمجھا جائے گا۔ مگر اس قسم کے فتووں کے باوجود کثرت سے لوگ آئے جو علامت ہے اس بات کی کہ جو فتنہ اور شورش ہمارے خلاف پیدا کی جارہی ہے وہ گو بعض لحاظ سے ہمارے لئے مضر ہو مگر تبلیغی دروازہ خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے بند نہیں ہونے دیا۔
میں نے یہ بھی دیکھا کہ اس موقعہ پر ہماری جماعت کو مختلف جماعتوں کی طرف سے مدد ملی جہاں غیر احمدی شرفاء نے تعاون کیا وہاں بعض ذمہ دار افسران کا رویہ بھی بہت ہمدردانہ رہا سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس جو ہندوستانی مسلمان ہیں۔ ان کا رویہ نہایت ہی قابل تعریف تھا۔ وہ ٹی پارٹی کے موقعہ پر مجھے بھی ملے۔ ان کا طریق عمل ایسا اعلیٰ تھا جس میں قطعاً تعصب کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا تھا۔ مگر شائد افسروں کے متعلق کوئی کہے کہ دیانتدار افسر انصاف کے لئے کوشش کیا ہی کرتے ہیں۔ اس لئے میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ دوسرے لوگوں میں بھی ہمدردی اور تعاون کا پہلو نمایاں طور پر پایا جاتا تھا۔ بعض میونسپل کمیٹی کے افسروں نے کوشش کرکے ہمارے لئے مفت چیزیں مہیا کیں چنانچہ میز اور کرسیوں کے گڈے بھروا کر مفت ہمارے جلسہ گاہ میں بھیج دیئے۔ اسی طرح ایک سکھ صاحب کے سائبان تھے۔ انہوں نے نصف کرایہ لیا۔ حالانکہ ان کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ ہم سائبانوں کو جلا دیں گے۔ وہ سامان ۱۵۔ ۱۶ ہزار کی مالیت کا تھا۔ اور ایک تاجر کے لئے اس سے زیادہ خطرہ کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ سامان کو تلف کر دینے کی اسے دھمکی دی جائے مگر باوجود اس کے انہوں نے نصف کرایہ وصول کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شریف طبقہ ہمارے متعلق اپنے دلوں میں ہمدردی کے جذبات موجزن پاتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ جاہلوں کی مخالفت ذاتی اغراض کی بناء پر ہے حقیقتاً یہ سلسلہ ملک و ملت کا خادم ہے لیکن جہاں اس نتیجہ کے نکالنے سے ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ وہاں ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے<۔۴۱۹
ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کن زلزلہ خدا کے زبردست نشانوں میں سے ایک نشان
۲۰/ اپریل ۱۹۰۷ء کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہندوستان کے شمال مشرق میں آنے والے ایک تباہ کن زلزلہ کا نظارہ دکھایا گیا۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں۔
body] gat>[رئویا میں دیکھا کہ بشیر احمد کھڑا ہے وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا<۔۴۲۰
چنانچہ اس پیشگوئی کے عین مطابق ۱۵/ جنوری ۱۹۳۴ء کو ایک قیامت خیز زلزلہ آیا جس نے بنگال سے لے کر پنجاب تک تباہی مچا دی بے شمار عمارتیں گر گئیں زلزلہ سے زمین پھٹ گئی طغیانی سے آبادیاں غرق ہو گئیں اور بیس ہزار انسانوں کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ زلزلہ کی ہلاکت آفرینیوں کا اثر اتنا وسیع تھا کہ ہر طرف شور محشر بپا ہو گیا جس کی کسی حد تک تفصیل اس زمانے کے اخبارات مثلاً >الجمیتہ< )دہلی( >مدینہ< )بجنور( اخبار >حقیقت< )لکھنئو( >سرچ لائٹ< )پٹنہ( >اتحاد< )پٹنہ( )سرفراز( >لکھنئو< >اہل حدیث< )امرتسر( >سیاست< )لاہور( >زمیندار< )للاہور( >انقلاب< )لاہور( >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )لاہور( )سٹیٹسمین( >ملاپ< )لاہور( >پرتاپ< لاہور اور >پرکاش< )لاہور( میں مل سکتی ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا رسالہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رئویا میں چونکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے اشارہ کرنے کا ذکر موجود تھا اور خدائی تصرف کے تحت سب سے پہلے ان ہی کا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ یہ وہی موعودہ زلزلہ ہے اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان سے فرمایا۔ کہ وہ اس تازہ نشان پر مفصل رسالہ لکھیں کیونکہ انہی کے مونہہ سے یہ الفاظ نکلوائے گئے ہیں۔۴۲۱ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے >ایک اور تازہ نشان< کے عنوان سے ایک اہم رسالہ تصنیف فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے الہامات و کشوف کی روشنی میں اس زلزلہ کی پانچ ایسی واضح علامتیں بیان کیں جن سے اہل علم پوری طرح کھل گیا کہ یہ زلزلہ خدا کے زبردست نشانوں میں سے ایک تازہ نشان ہے۔۴۲۲
حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس رسالہ کے آخر میں مصیبت زدگان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے نہایت پرخلوص اور محبت سے لبریز الفاظ میں لکھا۔
>ہم دنیا کی مصیبت پر خوش نہیں ہیں اور خدا جانتا ہے کہ اس زلزلہ کی تباہ کاری پر ہمارے دلوں میں ہمدردی اور مواخات کے کیا کیا جذبات اٹھتے ہیں ہم ہر اس شخص سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں جسے اس زلزلہ میں کسی قسم کا نقصان پہنچا ہے ہم ہر مالک مکان کے ساتھ اس کے مکان کے گرنے پر۔ ہر باپ کے ساتھ اس کے بیٹے کے مرنے پر ہر خاوند کے ساتھ اس کی بیوی کے فوت ہونے پر۔ ہر بھائی کے ساتھ اس کے بھائی کے جدا ہونے پر۔ ہر بیٹے کے ساتھ اس کے باپ کے رخصت ہونے پر۔ ہر بیوی کے ساتھ اس کے خاوند کے گزر جانے پر۔ ہر دوست کے ساتھ اس کے دوست کے بچھڑنے پر سچی اور مخلصانہ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اور دوسروں سے بڑھ کر اپنی ہمدردی کا عملی ثبوت دینے کے لئے تیار ہیں۔ اور اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر اس سے بھی بڑھ کر ہمارا یہ فرض ہے کہ جب خدائے ذوالجلال کا کوئی نشان پورا ہوتا دیکھیں تو اسے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اور لوگوں کو بتائیں کہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں اس طرح پوری ہوا کرتی ہیں۔ تاکہ وہ خدا کو پہچانیں اور اس کے بھیجے ہوئے مامور و مرسل کو شناخت کریں اور خدا سے جنگ کرنے کی بجائے اس کی رحمت کے پروں کے نیچے آجائیں<۔۴۲۳
مصیبت زدگان کی مرکزی امداد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲/ فروری ۱۹۳۴ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ زلزلہ کے مصیبت زدگان کی بلا امتیاز مذہب و ملت امداد کریں۔۴۲۴ مرکز کی طرف سے مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی اظہار ہمدردی اور تفصیلات مہیا کرنے کے لئے بہار بھجوائے گئے۔۴۲۵ اور مئی ۱۹۳۴ء میں تیرہ سو روپیہ کی رقم حضرت مولانا عبدالماجد صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ بھاگلپور کو روانہ کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک ہزار روپیہ ریلیف فنڈ میں دیا گیا۔۴۲۶
احمدیان بہار کی خدائی حفاظت
]txet [tagاس قیامت خیز زلزلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے صوبہ بہار کے احمدیوں کی جانیں معجزانہ رنگ میں محفوظ رہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالماجد صاحبؓ بھاگلپوری امیر صوبہ بہار نے ۲۲/ فروری ۱۹۳۴ء کو زلزلہ کے چشم دید حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔
>میرا مکان بھاگلپور کا چاروں طرف سے مسقف ہے اور درمیان میں صحن دس گیارہ ہاتھ مربع ہے۔ زلزلہ کے وقت چاروں جانب کے مکان میں سخت جنبش ہوئی اور بظاہر کوئی امید کسی کے بچنے کی نہ تھی اس وقت ہم سب لوگ مع )صاحبزادہ مرزا( حنیف احمد سلمہ` سربسجود ہو کر دعا میں مشغول ہو گئے۔ خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور سب کی جانیں بچ گئیں۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ شہر کے کسی اور احمدی کو بھی خدا کے فضل سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔
مونگیر کے احمدی بھی عجیب و غریب طریقہ سے بچے۔ سید وزارت حسین صاحب راجہ صاحب کے ملازم ہیں راجہ صاحب کے پاس ان کے مکان میں بیٹھے تھے کہ زلزلہ محسوس ہوا۔ دونوں باہر کو بھاگے اور خدا کے فضل سے بچ گئے۔ راجہ صاحب کا محل اور وزارت حسین صاحب کا کمرہ جس میں وہ رہتے تھے بالکل مسمار ہو گیا اور تمام مال و اسباب اس میں دب گیا مولوی عبدالباقی صاحب مولوی علی احمد صاحب کے بھتیجے مونگیر میں ملازم ہیں ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ نماز ظہر پڑھ کر قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ زلزلہ محسوس ہوا۔ نیچے سے کسی نے پکارا کہ بھاگو! وہ اسی حالت میں زینہ سے اترے اور نیچے پہنچے ہی تھے کہ سارا مکان بیٹھ گیا۔ ان کا بھی کوئی مال و اسباب نہیں نکل سکا۔ حکیم خلیل احمد صاحب کے بال بچے رام پور میں تھے اور حکیم صاحب گھر میں اکیلے تھے مکان سے باہر نکل آئے اور مکان زمین بوس ہو گیا۔ دو بھائی سید عبدالغفار صاحب و سید محمد حنیف صاحب کی دکانیں بازار میں تھیں۔ وہ اپنے مکان سے تو نکل گئے مگر دوسرے مکان کی دیوار کے نیچے دونوں بھائی دب گئے سید محمد حنیف صاحب تو شہید ہو گئے اور سید عبدالغفار صاحب کئی گھنٹہ کے بعد زندہ نکالے گئے جس مکان کی دیوار ان پر گری وہ کسی روئی کے تاجر کا تھا۔ روئی یا سوت کا ایک گٹھا ان کے اوپر پہلے گرا پھر دیوار آپڑی انہیں سانس لینے کا موقعہ اسی گٹھے کی وجہ سے مل گیا۔ ان کا بیان ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی الہامی دعا رب کل شی ء خادمک رب فاحفظنی و انصرنی و ارحمنی۴۲۷]body [tag پڑھتا رہا۔
سید وزارت حسین صاحب کے دو بھتیجے اور داماد اور ایک لڑکا مظفر پور میں تھے۔ وہ لوگ بھی محض قدرت الٰہی سے بچ گئے۔ عورتیں عید کے لئے کچھ دن پہلے اورین اپنے گائوں میں چلی گئی تھیں اور لوگ مکان سے نکل بھاگے اور بچ گئے۔ لڑکا دو منزلہ پر تھا مکان گر گیا اور کئی ہزار کا زیور۔ نقدی اور سامان دب گیا۔ لوگ کسی طرح چوتھے دن اورین پہنچ گئے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب مرحوم کے فرزند محمد اسمعیل صاحب بھی مظفر پور میں تھے وہ بھی محفوظ رہے۔ الغرض سوائے ایک احمدی کے بہار میں کوئی احمدی زلزلہ کے حادثہ میں فوت نہیں ہوا۔۴۲۸
عجیب بات یہ ہے کہ اس ہیبت ناک زلزلہ کے آنے سے پہلے حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور ان کی اہلیہ صاحبہ سید وزارت حسین صاحب` بھائی منظور عالم صاحب` بھائی شمس الہدیٰ صاحب وغیرہ بہاری احمدیوں کو منذر خوابیں آئیں اور حکیم خلیل احمد صاحب کو تو صاف دکھایا گیا کہ بہت بڑا زلزلہ آیا ہے اور سخت بدحواسی پھیلی ہوئی ہے۔۴۲۹
سکھوں کا اشتعال انگیز اجتماع
۲۶۔ ۲۷۔ ۲۸/ مئی ۱۹۳۴ء کو سکھوں کا قادیان سے قریباً میل سوا میل مشرق کی طرف موضع بسرا کے قریب بوہڑی صاحب میں ایک بہت بڑا اجتماع ہوا۔ جس میں سردار کھڑک سنگھ صاحب۴۳۰ خاص طور پر شامل تھے جنہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز اور دل آزار تقریریں کیں۔ چنانچہ سردار صاحب نے مذبح قادیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ احمدی قادیان میں سکھوں پر سخت ظلم کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ انہیں شہ دیتی ہے اس لئے انگریزوں کو اگر سیدھا کر دیا جائے تو احمدی خود بخود سیدھے ہو جائیں گے۔ نیز کہا احمدی اگر باز نہ آئے تو قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ اسی طرح ایک اور سکھ لیڈر نے دھمکی دی کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی۔ سکھوں کے اس جلسہ میں ایک احراری مولوی )عنایت اللہ صاحب( نے سکھوں کو اشتعال دلایا کہ سکھ بڑے بے غیرت ہیں کہ احمدی ان کے گورو کو مسلمان کہتے ہیں اور پھر بھی ان کو غیرت نہیں آتی۔۴۳۱
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی طرف سے سردار کھڑک سنگھ اور ان کے ہمراہیوں کو دعوت حق
۲۷/ مئی کو یہ دلازار تقریریں کی گئیں اور اسی روز حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں ان کی مفصل ڈائری پہنچ گئی۔ جس پر حضور نے ایک اہم مضمون رقم فرمایا۔ جو راتوں رات
چھپوا کر ۲۸/ مئی کو سکھوں کے جلسہ میں بکثرت تقسیم کیا گیا اور بعد کو اس کا گور مکھی ترجمہ بھی!۴۳۲
سیدنا حضرت امیر المومنینؓ نے اپنے اس مضمون میں خاص طور پر گزشتہ واقعات کی روشنی میں اس غلط فہمی کا پوری طرح ازالہ کیا کہ احمدی سکھوں پر ظلم کرتے ہیں چنانچہ حضور نے سردار کھڑک سنگھ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا۔
>میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کی تحقیق بالکل غلط ہے۔ احمدی سکھوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتے بلکہ انہیں اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور اگر آپ اس علاقہ کے سکھوں سے فرداً فرداً وہ قسم دے کر جسے پنجابی میں ددھ پت کی قسم کہتے ہیں پوچھیں تو ان میں سے ۹۹ فیصدی آپ کو یہ بتائیں گے کہ میں اور میرا خاندان اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے ہمیشہ سکھوں سے محبت کا برتائو کرتے چلے آئے ہیں اور جو کوئی مصیبت زدہ ہمارے پاس آیا ہے ہم نے اس کی مدد کی ہے بالکل ممکن ہے کہ بعض نادان احمدیوں نے بعض سکھوں سے ناواجب سلوک کیا ہو لیکن ان سے پوچھیں کہ جب کبھی میرے پاس ایسی رپورٹ ہوئی۔ اور میں نے احمدی کو خطاوار پایا میں نے اسے سزا دی یا نہیں دی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزار کہ ایک احمدی نے اپنی کتاب میں حضرت باوا صاحب~رح~ کے متعلق کچھ الفاظ سوء ادبی کے لکھ دیئے تھے میرے پاس سکھوں کا وفد آیا۔ تو میں نے نہ صرف یہ کہ اس احمدی کو سخت سرزنش کی بلکہ اس کی کتاب کو ضبط کر لیا اور وہ صفحات تلف کروائے جو سکھ صاحبان کے لئے دل آزار تھے۔ اردگرد کے سکھوں کو آپ قسم دے کر پوچھیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ان کی خاطر پندرہ سال تک میں نے قادیان میں مذبح نہیں بننے دیا اور اب بھی مذبح صرف چند نادانوں کی نادانی کی وجہ سے بنا ہے ورنہ میں نے ہندو اور سکھ رئوساء کو یقین دلایا تھا کہ اگر وہ مجھ پر چھوڑ دیں تو ان کے احساسات کا پورا خیال رکھا جائے گا لیکن افسوس کہ مفسدہ پرداز لوگوں نے مجھ پر اعتبار نہ کیا اور دھمکیاں دینی شروع کر دیں جن کی وجہ سے مجھے اپنا قدم بیچ میں سے ہٹانا پڑا۔
سردار صاحب! یہاں کے سکھوں کو قسم دے کر پوچھیں کہ ان کی درخواست پر میں نے اپنے سکول میں ان کے لئے خاص انتظام کیا یا نہیں۔ اور اس وقت جب وہ مجھ سے لڑ رہے تھے آریوں کی طرف سے تکلیف پہنچنے پر میں نے ماضی کو بھلا کر پھر ان کے بچوں کے لئے ان کے حسب دل خواہ تعلیم کا انتظام کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے یا نہیں؟
ہاں انہیں قسم دے کر پوچھئے کہ انفلوائنزا کے دنوں میں جبکہ میں اور میرے گھر کے سب لوگ تکلیف میں مبتلا تھے قادیان کا ہر گھر مریضوں کی چیخ و پکار سے ایک میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہا تھا اس وقت اپنے پاس سے دوائیں دے کر اور اطباء اور ڈاکٹروں کو فارغ کرکے ان کے علاج کے لئے چھ چھ سات سات میل تک باہر بھجوایا یا نہیں اور یہ بھی ان سے پوچھئے کہ کوئی ایسے سکھ طالب علم انہیں معلوم ہیں یا نہیں جن کی تعلیم کے لئے میں نے مدد کی اور کوئی ایسے سکھ خاندان ہیں یا نہیں جنہوں نے اپنی مشکلات میں میری طرف رجوع کیا اور میں نے ہر ایک طرح ان کی امداد کی۔ دور کیوں جاتے ہیں اسی علاقہ کے رئیس خاندان سے جہاں آپ کا جلسہ ہو رہا ہے پوچھیں کہ بعض سکھ خاندانوں کے اختلاف کے وقت میں نے انہیں تباہی سے بچانے کے لئے باہمی سمجھوتے کرائے یا نہیں ان کی خاندانی وجاہتوں کے خطرہ میں پڑنے کے وقت ان کا پوری طرح ساتھ دیا یا نہیں<۔۴۳۳
سکھ لیڈروں نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے جو بلند بانگ دعا دی کئے تھے ان کی نسبت نہایت محبت بھرے الفاظ میں توجہ دلائی۔
فرمایا۔ >سردار صاحب! میں اس بارہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ فقرہ کہنے میں تقویٰ سے کام نہیں لیا۔ اینٹ سے اینٹ بجانا خدا تعالیٰ کا کام ہے بندوں کا کام نہیں۔ منہ سے دعویٰ کرنے پر تو کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ اگر میں بھی آپ ہی کی طرح جوش میں آنے والا ہوتا تو شاید میں بھی آپ کے اس دعویٰ کو سن کر یہ کہہ دیتا کہ میں بھی آپ کے مقدس مقامات کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے تقویٰ عطا فرمایا ہے۔ جب میں نے آپ کا یہ دعویٰ سنا تو بجائے کوئی ایسا فقرہ کہنے کے مجھے آپ پر رحم آیا اور میں نے کہا کہ میرے اس بھائی کو اگر خدا تعالیٰ کی معرفت نصیب ہوتی تو کبھی یہ ایسا دعویٰ نہ کرتا۔ جس شخص کو اپنی زندگی کے ایک منٹ پر اختیار نہ ہو اس کا یہ کہنا کہ وہ فلاں جگہ کی اینٹ سے ینٹ بجا دے گا۔ ایک قابل رحم امر نہیں تو اور کیا ہے۔
سردار صاحب! جب آپ کے گورو صاحب ظاہر ہوئے تھے تو وہ بھی ظاہر حالت میں کمزور تھے اور اس وقت کے طاقتور لوگ بھی آپ کی طرح یہ کہا کرتے تھے کہ ہم چاہیں تو ان کو یوں نقصان پہنچا دیں یوں ذلیل کر دیں۔ مگر آپ کو معلوم ہی ہے کہ وہ غریب ماں باپ کا بیٹا کس طرح خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رات اور دن ترقی کرتا چلا گیا اور اس کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کے اپنے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ دیکھو مغل ہمارے مقابلہ میں کس طرح تباہ ہو گئے۔ میں اس امر کو صحیح مان لیتا ہوں۔ مگر پوچھتا ہوں کہ آخر وہ کیوں تباہ ہو گئے؟ کیا سردار کھڑک سنگھ کی بہادری سے یا اللہ تعالیٰ کی مدد سے؟ اگر آپ کی بہادری سے ایسا ہوا تھا تو انگریزوں کے مقابلہ میں آپ کی تلواریں کیوں ٹوٹ گئی تھیں۔ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ وہ کبھی کسی قوم کو بڑھاتا ہے کبھی کسی قوم کو۔ کبھی مغلوں کی تلواروں کے آگے پنجاب کے سورمائوں کے باپ دادا اور ہندوستان کے راجے بھیڑوں اور بکریوں کی طرح بھاگتے پھرتے تھے پھر وہ وقت آیا کہ مرہٹوں اور سکھوں جیسی چھوٹی چھوٹی قوموں نے ان کے چھکے چھڑا دیئے۔ پھر وہی مرہٹے احمد شاہ ابدالی کے سامنے پیٹھ دکھا کر ایسے بھاگے کہ سینکڑوں میل تک ان کا پتہ نہ تھا اور وہی سکھ انگریزی فوجوں سے اس قدر خائف ہوئے کہ توپیں تک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ پس سوال بہادری کا نہیں۔ سوال خدا تعالیٰ کی دین کا ہے۔ منہ کے دعوے نجات نہیں دیتے۔ خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو عزت دیتا ہے پس جس جگہ کو خدا تعالیٰ بڑھانا چاہتا ہے اس کے متعلق ایسے دعوے کرکے جن کا کوئی بھی فائدہ نہیں اپنی عاقبت نہ بگاڑیں۔ ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے اس وقت اپنا نور قادیان میں اتارا ہے۔ پس خدا کا خوف کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی آواز کو سنیں اور ٹھنڈے دل اور نیک ارادوں سے اس بات کو سنیں جسے ایک شخص نے خدا تعالیٰ کی طرف سے پاکر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ دنیا چند روزہ ہے نہ پہلے کوئی رہا نہ اب رہے گا۔ نہ آپ رہیں گے نہ میں رہوں گا۔ نہ آپ کے سامعین رہیں گے۔ ہم سب کوئی آگے کوئی پیچھے خدا تعالیٰ کے سامنے جانے والے ہیں پس عاقبت کی فکر کیجئے اور ایسے الفظ منہ سے نہ نکالئے جو خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی کا موجب ہیں<۔۴۳۴
جب یہ اشتہار سردار کھڑک سنگھ صاحب تک پہنچا تو انہوں نے دوسرے ہی دن جلسہ گاہ میں سٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا کہ تم نے مجھے سخت ذلیل کرایا ہے کیونکہ جو باتیں تم نے مجھے بتائی تھیں وہ اور تھیں اور جو باتیں اس اشتہار میں لکھی ہیں وہ بالکل اور ہیں۔۴۳۵
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا لاہور میں شاندار لیکچر
حضرت خلیفتہ المسمیح الثانیؓ کا لاہور میں شاندار لیکچر
سیدنا حضرت مصلح موعود نے پنجاب لٹریری لیگ کی تحریک پر جس کے عمائد پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھتے تھے لاہور میں دو لیکچر دینے منظور فرمائے تھے۔ اس کے مطابق حضور کا پہلا لیکچر >عربی زبان کا مقام السنہ عالم میں< کے موضوع پر ۳۱/ مئی ۱۹۳۴ء کو وائی۔ ام۔ سی اے کے ہال واقعہ مال روڈ پر ٹھیک ۲/۸۱ بجے شب زیر صدارت جناب ڈاکٹر برکت علی صاحب قریشی ایم۔ اے پی ایچ ڈی پرنسپل اسلامیہ کالج ہوا۔ سامعین سات بجے سے ہی آنے شروع ہو گئے اور لیکچر کے شروع ہونے تک ہال اپنی گنجائش سے دوگنا بھر گیا۔ اور بعد میں آنے والوں کو جگہ کی قلت کی وجہ سے واپس جانا پڑا۔ حضورؓ کا لیکچر ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا۔ جسے سامعین نے ہمہ تن گوش ہو کر سنا۔ اختتام پر جناب صدر نے شکریہ ادا کرنے کے بعد حاضرین کو لیکچر سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ ایسے علمی مضامین پھر بھی سننے کا موقعہ ملے۔ سامعین میں علمی طبقہ کے ہر خیال کے اصحاب شامل تھے۔ احمدی دوست ہی کافی تعداد میں شریک ہوئے اور بعض دوست باہر کی جماعتوں سے خصوصاً دارالامان کے احباب و بزرگان بھی شامل ہوئے۔ جناب لالہ کنور حسین صاحب سابق چیف جج کشمیر جو جناب لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند ارجمند ہیں۔ انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر اور صاحب صدر کے شکریہ کے بعد خاص طور پر شکر گزاری کے جذبا سے لبریز انگریزی میں ایک موثر تقریر فرمائی جس کا مفہوم یہ تھا کہ آج قابل لیکچرار نے زبان عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکتہ الاراء تقریر کی ہے۔ اسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اور اس لحاظ سے بھی مجھے خوشی ہے کہ ذاتی طور پر میرے آپ سے تعلقات ہیں۔ چنانچہ ان کے والد ماجد سے میرے والد صاحب نے عربی زبان سیکھی تھی۔ جب میں لیکچر سننے کے لئے آیا۔ اس وقت میں نے خیال کیا تھا۔ کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا۔ جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کیا کرتے ہیں۔ مشہور ہے کہ کسی عرب سے ایک دفعہ زبان عربی کی فضیلت کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے کہا کہ اسے تین وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔ اس لئے کہ میں عرب کا رہنے والا ہوں دوسرے اس لئے کہ قرآن مجید کی زبان ہے تیسرے اس لئے کہ جنت میں بھی عربی بولی جائے گی۔ میں سمجھتا تھا کہ شاید اس قسم کی باتیں زبان عربی کی فضیلت میں پیش کی جائیں گی۔ مگر جو لیکچر دیا گیا وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے۔ میں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور میں نے اس سے بہت ہی حظ اٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدتوں میرے دل پر رہے گا میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ جن دوسرے احباب نے اس مضمون کو سنا ہے وہ بھی تادیر اس کا اثر اپنے دلوں میں محسوس کریں گے۔ باقی زبان کے متعلق چونکہ نظریوں میں اختلاف ہے اور سنسکرت زبان بھی بہت سے قواعد پر مبنی ہے۔ اس لئے عربی اور سنسکرت کا مقابلہ کرنے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اور ایک دفعہ پھر قابل لیکچرار کے بیش قیمت لیکچر کا دلی اخلاص سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
دوسرا لیکچر اسی لیگ کے زیر انتظام ٹائون ہال میں ۲/ جون کو ہوا۔ یہ ہال پہلے ہال سے وسیع تھا اور اس میں ایک ہزار سامعین کے لئے گنجائش تھی۔ پہلے لیکچر کی طرح اس لیکچر کا داخلہ بھی بذریعہ ٹکٹ تھا۔ ٹکٹ کی قیمت ۲ تھی۔ اس دفعہ جماعت احمدیہ لاہور کو ہدایت کی گئی تھی کہ جب تک دوسروں کو جگہ نہ مل جائے۔ وہ ہال میں نہ جائیں۔ چنانچہ جب دوسرے دوست اچھی طرح بیٹھ گئے تب جماعت لاہور کو داخل کیا گیا۔ اس طرح دوسرے احباب کو اچھی طرح جگہ مل گئی۔ استقبال` پانی` روشنی اور ہوا کا کافی انتظام تھا اور کسی کو کسی قسم کی شکایت کا موقعہ نہیں ملا۔ ہر ایک شخص کو اس کے حسب دل خواہ جگہ دی گئی۔ حضورؓ کا لیکچر قریباً دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ لیکچر >کیا انسان مذہب کا محتاج نہیں< کے موضوع پر تھا۔ سامعین میں معزز طبقہ کے لوگ خصوصاً کالجوں کے پروفیسر وکلاء` لاہور کے پرانے خاندانوں کے افراد اور طلباء شامل تھے۔ اور ہر مذہب کے آدمی پائے جاتے تھے۔ ہندو مسلمان عیسائی اور سکھ مسلمانوں میں بھی قریباً ہر قسم کے خیالات کے اصحاب شامل تھے۔ اور آخر وقت تک نہایت اطمینان اور سکون سے سنتے رہے۔ لیگ کی ¶طرف سے پھولوں کا ہار حضورؓ کو پہنایا گیا۔ صدر جلسہ ڈاکٹر ایس کے دتا پرنسپل فورمین کرسچن کالج نے افتتاحی تقریر میں سامعین کو متوجہ کیا کہ وہ ایسی بڑی شخصیت کے لیکچر کو توجہ سے سنیں اور آخر میں لیکچر کی بہت تعریف کی اور خواہش ظاہر کی کہ پھر بھی لاہور کی پبلک کو آپ کے قیمتی خیالات کے سننے کا موقعہ میسر آئے۔ جناب شیخ عبدالکریم صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے حضور کا نہایت پرتعریف الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔۴۳۶
خاندان حضرت مسیح موعودؑکو اشاعت اسلام کی زبردست تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا۔ اس پرمسرت تقریب پر حضور نے ایک نہایت ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے افراد خاندان کو خصوصاً اور جماعت احمدیہ کو عموماً ان کی حفاظت اسلام سے متعلق اہم ذمہ داریوں کی نسبت پرزور طریق پر توجہ دلائی۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>رسول کریم~صل۱~ نے امت محمدیہ کی تباہی کے وقت امید ظاہر کی ہے کہ لنا لہ رجال من فارس اور یقین ظاہر کیا کہ اس فارسی النسل موعود کی اولاد دنیا کے لالچوں` حرصوں اور ترقیات کو چھوڑ کر صرف ایک کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گی اور وہ کام یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کیا جائے۔ ایمان کو ثریا سے واپس لایا جائے اور مخلوق کو آستانہ خدا پر گرایا جائے۔ یہ امید ہے کہ جو خدا کے رسول نے کی اب میں ان پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ خواہ میری اولاد ہو یا میرے بھائیوں کی۔ وہ اپنے دلوں میں غور کرکے اپنی فطرتوں سے دریافت کریں کہ اس آواز کے بعد ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ آج دین کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ~}~
بیکسے شد دین احمد ہیچ خویش و یار نیست
ہر کسے در کار خود با دین احمد کارنیست
اسی طرح فرماتے ہیں۔
ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو افواج یزید
دین حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدیں
ان حالات میں ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان کے دلوں میں کس قسم کے احساسات ہونے چاہئیں۔ یہ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق خود سمجھ سکتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ جب ایک کمزور انسان کسی کو بلندی پر گامزن دیکھتا ہے جب ایک دولتمند کی دولت اور عہدہ دار کے عہدہ پر نظر ڈالتا ہے تو اس کے دل میں لالچ آتا ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے کہ میں بھی کیوں ایسا ہی نہ بنوں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بے شک ایسا ہوتا ہے مگر یہ ساری چیزیں اس وقت بھی تھیں جب ہوازن کے سامنے صحابہ صف آراء تھے۔ ان کے سامنے بھی ان کے بیوی بچے تھے۔ ان کے سامنے بھی یہ بات تھی کہ اگر وہ ہوازن کے تیر اندازوں کے سامنے ہوئے تو ان کے سینے چھلنی ہو جائیں گے اور وہ چند منٹوں میں ہی خاک و خون میں لوٹیں گے مگر ان تمام امور کے باوجود انہوں نے رسول کریم~صل۱~ کی آواز پر اپنی بیویوں اور بچوں کو بھلا دیا۔ اور ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھا کہ جس طرف خدا کا رسولﷺ~ بلاتا ہے اسی طرف جائیں۔
آج دجالی فتنہ جس رنگ میں دنیا پر غالب ہے اس کی تصویر کھینچنے کی مجھے ضرورت نہیں کوئی چیز آج اسلام کی باقی نہیں نہ تمدنی احکام قائم ہیں اور نہ شخصی احکام قائم ہیں ہر چیز میں آج تبدیلی کر دی گئی ہے پس جب تک اسے مٹانے کے لئے ہمارے اندر دیوانگی نہ ہو گی جب تک ہمیں اس تہذیب مغربی سے بغض نہ ہو گا اتنا بغض کے اس سے بڑھ کر ہمیں کسی اور چیز سے بغض نہ ہو اس وقت تک ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہم میں سے جو بھی شخص مغربی تہذیب کا دلدادہ ہے جو بھی اس تہذیب سے متاثر ہے۔ وہ روحانی میدان کا اہل نہیں۔ جس تہذیب نے ہمارے مقدس آقا کی تصویر کو دنیا کے سامنے برے رنگ میں پیش کیا ہے۔ جس تہذیب نے اسلامی تمدن کی شکل کو بدل دیا۔ جب تک اس کی ایک ایک اینٹ کو ریزہ ریزہ نہ کر دیں کبھی چین اور اطمینان کی نیند سو نہیں سکتے وہ لوگ جو یورپ کی نقالی کرتے ہیں جو مغربیت کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمارے تن بدن میں تو ان کی ہر چیز کو دیکھ کر آگ لگ جانی چاہئے۔ کیونکہ ہم اور مغربیت ایک جگہ نہیں جمع ہو سکتے۔ یا ہم زندہ رہیں گے یا مغربیت زندہ رہے گی۔
یہ مت خیال کرو کہ ہم تو انگریزوں کے دوست ہیں پھر مغربیت کے متعلق میں ایسے خیال کیوں رکھتا ہوں کیونکہ انگریز اور مغربیت میں فرق ہے۔ انگریز انسان ہیں اور ویسے ہی انسان ہیں جیسے کہ ہم اور اس لحاظ سے انگریز ہدایت پا سکتے ہیں لیکن مغربیت ہدایت نہیں پا سکتی۔ وہ شیطان کا ہتھیار ہے اور جب تک اسے توڑا نہیں جائے گا۔ دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اولاد میں سے اگر کوئی شخص مغربیت کی نقل کا ذرہ بھی مادہ اپنے اندر رکھتا ہے تو وہ مسیح موعودؑ کا حقیقی بیٹا نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس نے اس آواز کو نہیں سنا۔ جسے پھیلانے کے لئے مسیح موعودؑ مبعوث ہوئے۔ پس میں وضاحت سے ان کو یہ پیغام پہنچاتا اور وضاحت سے ہر ایک کو ہوشیار کرتا ہوں کہ میں ہر ایسے خیال اور ہر ایسے شخص سے بے زار ہوں۔ جس کے دل میں مغربیت کی نقل کا ذرہ بھی مادہ پایا جاتا ہے۔ اور جو دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہیں خواہ وہ میرا بیٹا ہو یا میرے کسی عزیز کا۔ میں نے ہمیشہ یہ دعا کی ہے اور متواتر کی ہے کہ اگر میرے لئے وہ اولاد مقدر نہیں جو دین کی خدمت کرنے والی ہو تو مجھے اولاد کی ضرورت نہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اسی دعا کی آخر تک توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے سامنے ایک عظیم الشان کام ہے اتنا عظیم الشان کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ ہمارے سامنے ایک فتنہ ہے اتنا بڑا فتنہ کہ اس کے برابر دنیا میں اور کوئی فتنہ نہیں اگر ہم اس کام کی سرانجام دہی کے لئے کھڑے نہیں ہو جاتے اور اس فتنہ کے مقابلہ کی ضرورت اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے تو میں نہیں سمجھ سکتا۔ ہم دنیا میں ذرہ سی عزت کے بھی مستحق ہو سکتے ہیں۔
اس وقت اسلام کے مقابل پر بیسیوں جھنڈے بلند ہیں جب تک وہ تمام جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے جب تک تثلیث کا جھنڈا سر نگوں نہیں ہوجاتا۔ جب تک بت پرستی کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہوجاتا۔ جب تک اسلام کے سوا باقی تمام جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے جب تک سب دنیا میں تکبیر کے نعرے بلند نہیں ہو جاتے ہم کبھی اپنے فرائض کو پورا کرنے والے سمجھے نہیں جا سکتے یہ وہ چیز ہے جس کو میں آج پیش کرتا ہوں اور اگرچہ میں پہلے بھی اسے پیش کرتا رہا ہوں لیکن کچھ دنوں سے ایک طاقت مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں واضح طور پر یہ بات پیش کر دوں<۔۴۳۷
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی شادی
جیسا کہ اوپر اشارۃ" ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ۲/ جولائی ۱۹۳۴ء کو اپنے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد
صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کا نکاح صاحبزادی منصورہ بیگم صاحبہ دختر نیک اختر حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے ساتھ پڑھا۔ نکاح کے قریباً ایک ماہ بعد حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریب شادی عمل میں آئی۔
چنانچہ ۴/ اگست ۱۹۳۴ء کو آپ کی برات مالیر کوٹلہ گئی۔ جو حضرت ام المومنینؓ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ۔ حضرت سیدہ ام ناصرؓ )حرم اول حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب پر مشتمل تھی۔ اگلے روز ۵/ اگست ۱۹۳۴ء کو سیدنا حضرت امیر المومنینؓ خود بھی کار میں مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے۔۴۳۸
یہ برات اسی روز ۳ بجے بعد دوپہر لدھیانہ پہنچی جہاں احباب نے استقبال کیا اور پھولوں کے ہار پہنائے۔ پونے پانچ گاڑی مالیر کوٹلہ روانہ ہوئی۔۴۳۹ اور ایک روزہ قیام کے بعد ۶/ اگست کو بارہ بجے کی گاڑی میں بروز دو شنبہ واپس قادیان پہنچی۔ حضور انورؓ جو رخصتانہ کے مبارک کے موقع میں شمولیت کے لئے مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تھے اسی روز گیارہ بجے کے قریب دارالامان میں رونق افروز ہوئے اور تھوڑی دیر کے بعد اسٹیشن پر تشریف لے گئے جہاں بہت بڑا ہجوم برات کے پرخلوص خیر مقدم کے لئے موجود تھا مسجد مبارک سے لے کر قادیان کے اسٹیشن تک دو رویہ رنگ دار جھنڈیاں لہرا رہی تھیں کئی جگہ اعزازی دروازے نصب تھے اور مختلف مقامات پر موزوں اشعار اور دعائیہ کلمات کے قطعات آویزاں تھے۔
گاڑی کی آمد سے قبل اسٹیشن پر مردوں` عورتوں اور بچوں کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ جس پر نظر ڈالنے سے ہر طرف خوشی و مسرت کا سماں نظر آتا تھا جب گاڑی پلیٹ فارم پر پہنچی تو مجمع نے نعرہ ہائے تکبیر۔ غلام احمد کی جے۔ حضرت خلیفتہ المسیح زندہ باد۔ مرزا ناصر احمد زندہ باد۔ اھلا و سھلا و مرحبا کے نعروں سے جذبات مسرت کا اظہار کیا۔ حضرت امیر المومنین نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو گاڑی سے اترتے ہی مبارک باد دی اور پھولوں کا ہار پہنایا۔ حضور کے گلے میں بھی پھولوں کے ہار ڈالے گئے اور مبارکبادیں عرض کی گئیں۔
اس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ معزز براتی اور دولہا دلہن تینوں موٹروں میں سوار ہوئے۔ موٹریں شاندار جلوس میں آہستہ آہستہ روانہ ہوئیں۔ اہل جلوس خوش الحانی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ دعائیہ اشعار پڑھتے رہے جو آپ نے اپنی ذریت طیبہ سے متعلق فرمائے تھے۔ جلوس جب احمدیہ چوک تک پہنچا تو حضرت اقدس نے مسجد مبارک میں کھڑے ہو کر دعا کی جس میں تمام مجمع شریک ہوا۔۴۴۰
۸/ اگست ۱۹۳۴ء کو بعد نماز مغرب حضرت خلیفتہ المسیح کی طرف سے >دارالحمد< میں نہایت وسیع پیمانہ پر دعوت ولیمہ دی گئی جس میں قادیان میں مقیم صحابہ حضرت مسیح موعودؑ۔ کارکنان صدر انجمن احمدیہ مختلف محلوں کے احباب` مضافات کے احمدی دوست اور قادیان کے غیر احمدی اصحاب شامل ہوئے۔ بیوائوں اور یتیموں کو گھروں میں کھانا پہنچایا گیا۔ الفضل کی رپورٹ کے مطابق اندازاً دو ہزار افراد نے کھانا کھایا۔ قادیان کے ہندوئوں میں اس خوشی کی تقریب میں شیرینی تقسیم کی گئی۔ جو اصحاب اس دن شامل دعوت نہ ہو سکے وہ ۹/ اگست کو دوپہر کے وقت مسجد اقصیٰ میں بلائے گئے مستورات کی ضیافت کا انتظام ۱۰/ اگست کو کیا گیا۔۴۴۱
اس بابرکت تقریب پر مقامی سکولوں اور صدر انجمن کے دفتروں میں تعطیل عام رہی اور احمدی شعراء میں سے حضرت مولوی عبیداللہ صاحب بسملؓ۔ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکملؓ۔ حضرت ابو عبیداللہ۔ حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ۔ حضرت مولانا صوفی غلام رسول صاحب راجیکیؓ نیز رحمت اللہ صاحب شاکر نے فارسی` اردو اور پنجابی زبان میں دعائیہ نظمیں کہیں اور سہرے لکھے جو الفضل میں شائع ہوئے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اپنے عقائد پر حلفیہ بیان
ایک صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے مطالبہ کیا کہ اپنے عقائد پر حلفیہ بیان دیں جس پر حضور نے حلفیہ اور موکد بعذ اب بیان لکھا۔ جو الفضل ۴/ ستمبر ۱۹۳۴ء کے صفحہ ۵ پر شائع ہوا۔ یہ بیان مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔
>میں مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ ساکن قادیان ولد مرزا غلام احمد صاحب مدعی ماموریت اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھانا انسان کو روحانی اور جسمانی ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اور ناقابل برداشت عذابوں میں مبتلا کرتا ہے کہتا ہوں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب میرے یقین اور ایمان کے مطابق بلا شک و شبہ مسیح موعود اور مہدی مسعود تھے اور آنحضرت~صل۱~ سے مستفیض ہو کر مقام نبوت پر فائز ہوئے تھے اگر میں اس دعویٰ میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کا وہ وعید جو جھوٹوں کے لئے مقرر ہے مجھ پر نازل ہو<۔۴۴۲
پہلا باب )فصل دواز دہم(
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کا سفر ولایت
اس سال کے نہایت درجہ اہم واقعات میں سے حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کا سفر انگلستان ہے۔ جو محض خدمت دین اور خالصت¶ہ اعلائے کلمہ اسلام کی غرض سے کیا گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی روح پرور نصائح
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے جو قیمتی ہدایات اور روح پرور نصائح اس موقعہ پر آپ کو لکھ کر دیں۔ وہ پورے تیس۴۴۳ صفحوں پر مشتمل تھیں اور ان میں پہلی ہدایت کے طور پر بڑی وضاحت و تصریح کے ساتھ اس سفر کے حقیقی مقصد پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا۔
>سب علم قرآن کریم میں ہی ہے اور اس کی کنجی محبت الٰہی ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اسے قرآن کریم کا علم دیا جاتا ہے اور جو اس کے قبضہ میں اپنے آپ کو دے دیتا ہے وہ اس کے عرفان کے دودھ سے خود پرورش کرتا ہے۔ پس میں تم کو انگلستان کسی علم کے سیکھنے کے لئے نہیں بھجوا رہا کہ جو کچھ علم کہلانے کا مستحق ہے وہ قرآن کریم میں موجود ہے۔
اور جو قرآن کریم میں نہیں وہ علم نہیں جہالت ہے۔ میں مبالغہ سے کام نہیں لے رہا میں کلام کو چست فقرات سے مزین نہیں کر رہا۔ بلکہ یہ ایک حقیقت ہے یہ ایک مشاہدہ ہے اور اس کے لئے ہر قسم کی قسم اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ میرے کلام میں نقص کا احتمال تو ہو سکتا ہے لیکن مبالغہ کا نہیں۔ واللہ علی ما اقوال شھید۔
میں تم کو انگلستان بھجوا رہا ہوں اس عرض سے جس غرض سے رسول کریم~صل۱~ اپنے صحابہ کو فتح مکہ سے پہلے مکہ بھجوایا کرتے تھے میں اس لئے بھجوا رہا ہوں کہ تم مغرب کے نقطہ نگاہ کو سمجھو۔ تم اس زہر کی گہرائی کو معلوم کرو۔ جو انسان کے روحانی جسم کو ہلاک کر رہا ہے تم ان ہتھیاروں سے واقف اور آگاہ ہو جائو جن کو دجال اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے غرض تمہارا کام یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے لئے سامان جمع کرو یہ مت خیال کرو کہ وہاں سے تم کچھ حاصل کر سکتے ہو۔ وہاں کی ہر چیز آسانی سے یہاں مل سکتی ہے تم کو میں اس لئے وہاں بھجوا رہا ہوں کہ تم وہاں کے لوگوں کو کچھ سکھائو۔ اگر تم کوئی اچھی بات ان میں دیکھو تو وہ تم کو مرعوب نہ کرے کیونکہ اگر وہ مسلمانوں میں موجود نہیں تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ وہ اسلام میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسے بھلا دیا ہے رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں۔nsk] gat[ کلمہ الحکمہ ضالہ المومن اخذ ھا حدیث و جدھا۔ آپؑ کے اس قول میں )فداہ نفسی و روحی( اس طرف اشارہ ہے کہ اسلام کے باہر کوئی اچھی شے نہیں اگر کوئی ایسی شئی نظر آئے تو یا تو ہمارا خیال غلط ہو گا اور وہ شے اچھی نہیں بلکہ بری ہو گی یا پھر اگر وہ اچھی چیز ہو گی تو وہ ضرور قرآن کریم سے ہی لی ہوئی ہو گی اور مومن ہی کی گم گشتہ متاع ہوگی۔ جو کچھ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے۔ میں اس کا ایک زندہ ثبوت ہوں۔ میں گواہ ہوں راستبازوں کے بادشاہ کی بات کی صداقت کا۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم یورپ سے مرعوب ہو۔ خدا تعالیٰ نے جو ہمیں خزانہ دیا ہے وہ یورپ کے پاس نہیں اور جو ہمیں طاقت دی ہے وہ اسے حاصل نہیں۔ تم ایک اسلام کے سپاہی کی طرح جائو اور وہ سب کچھ اکٹھا کرو جو اسلام کی خدمت کے لئے مفید ہو اور اس سب کچھ کو لغو سمجھ کر چھوڑ دو جو اسلام کے خلاف ہے کیونکہ وہ ہرگز کوئی قیمت نہیں رکھتا۔ تم اسے زہر سمجھ کر اس کی شدت کا مطالعہ کرو لیکن اسے کھائو نہیں کہ زہر کھانے والا انسان اپنے آپ کو خود ہلاک کرتا ہے اور لوگوں کی ہنسی اور تمسخر کا مستحق ہوتا ہے۔۴۴۴
آخر میں حضور نے اپنی ہدایات اور نصیحتوں کا خلاصہ ان الفاظ میں تحریر فرمایا۔
>پھر سب نصیحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کے بنو خدا کے ۔۔۔۔۔۔ ہم سب فانی ہیں اور وہی زندہ اور حاصل کرنے کے قابل ہے اس کا چہرہ دنیا کو دکھانے کی کوشش کرو۔ اپنی زندگی کو اسی کے لئے کردو ہر سانس اسی کے لئے ہو وہی مقصود ہو` وہی مطلوب ہو` وہی محبوب ہو۔ جب تک اس کا نام دنیا میں روشن نہ ہو تم کو آرام نہ آئے تم چین سے نہ بیٹھو<۔۴۴۵
سفر انگلستان کی غرض وغایت خود سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے الفاظ مبارک میں بیان کرنے کے بعد اب ہم اس بابرکت سفر کے واقعات کی طرف آتے ہیں۔
قادیان سے روانگی
۶/ ستمبر ۱۹۳۴ء کا دن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحبؓ )ابن حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب( کی روانگی کے لئے مقرر تھا۔ سہ پہر کے تین بجے کے بعد گاڑی کو قادیان کے اسٹیشن سے چلنا تھا۔ قادیان کے احباب۔ بوڑھے۔ جوان۔ بچے اور مستورات ظہر کی نماز کے بعد ہی اسٹیشن کی طرف کھنچے چلے جارہے تھے۔ احمدی دکانداروں نے اس تقریب الوداع میں شامل ہونے کے لئے دکانیں بند کر دی تھیں۔ اسٹیشن پر بہت بڑا اجتماع تھا جو چلچلاتی دھوپ میں کھڑا تھا۔ خاندان مسیح موعودؑ کے افراد نیز حضرت ام المومنینؓ اور حضرت اقدس خلیفتہ المسیحؓ بنفس نفیس اپنے پیارے لخت جگر اور اپنے دوسرے عزیز کو خدا حافظ کہنے کے لئے موجود تھے۔
صاحبزادگان نے جن کے سینے ہاروں سے مزین تھے اسٹیشن کے بیرونی برآمدے میں سینکٹروں افراد سے مصافحہ کیا اور بعض بعض سے معانقہ بھی۔
گاڑی روانہ ہونے سے پندرہ منٹ پہلے حضور نے دونوں صاحبزادوں کو پاس کھڑا کرکے ایک لمبی دعا فرمائی دعا میں اکثر لوگوں کی آنکھیں پرنم تھیں خود حضرت خلیفتہ المسیحؓ کی آنکھیں آنسوئوں سے ڈبڈبا گئیں۔
دعا کے بعد حضور نے اپنے فرزند دلبند کو اپنے سینہ سے لگایا اور پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف معانقہ فرمایا۔ معانقہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضور کے دست مبارک کو چوما۔ اس کے بعد حضور نے صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب سے معانقہ فرمایا۔ اور میرزا سعید احمد صاحب نے بھی حضور کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ گاڑی اللہ اکبر کے نعروں کے درمیان روانہ ہوئی تو بہت سے احباب فرط اشتیاق سے گاڑی کے ساتھ ساتھ دور تک دوڑتے چلے گئے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے` حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ` حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے` حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی` میرزا گل محمد صاحب رئیس اور دوسرے بہت سے دوست مشایعت کے لئے امرت سر تک تشریف لے گئے۔۴۴۶
امرت سر سے لدھیانہ تک
امرتسر سے صاحبزادگان >فرنٹیر میل< میں عازم بمبئی ہوئے۔ لدھیانہ میں قریباً آدھی رات کے وقت گاڑی پہنچی اسٹیشن پر احباب لدھیانہ کے علاوہ مالیر کوٹلہ سے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ )مع نواب مسعود احمد خان صاحب( بھی تشریف لائی ہوئی تھیں اور ویٹنگ روم میں موجود تھیں۔ گاڑی کے پہنچتے ہی سید محمد عبدالرحیم صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ لدھیانہ نے معانقہ کیا اور ہار پہنائے۔ اسی طرح حضرت سیدہ موصوفہ نے بھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب کے گلے میں ہار ڈالے۔۴۴۷ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابی حضرت سید عنات علی شاہ صاحبؓ نے مجمع سمیت دعا فرمائی۔ اور سب نے نیک تمنائوں کے ساتھ اپنے محبوب امام کے جگر گوشہ اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کے چشم و چراغ کو خدا حافظ کہا۔۴۴۸
حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کی دعائیہ نظم
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کو لدھیانہ اسٹیشن پر چند اہم نصائح اور ایک دعائیہ نظم لکھ کر عنایت فرمائی اس پاکیزہ اور موثر نظم کے اشعار درج ذیل ہیں۔
جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر
اللہ نگہبان۔ خدا حافظ و ناصر
ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرت باری
ہر لمحہ و ہر آن۔ خدا حافظ و ناصر
والی بنو امصار علوم دو جہاں کے
ائے >یوسف کنعان< خدا حافظ و ناصر
ہر علم سے حاصل کرو عرفان الٰہی
بڑھتا رہے ایمان۔ خدا حافظ و ناصر
پہرہ ہو فرشتوں کا قریب آنے نہ پائے
ڈرتا رہے شیطان۔ خدا حافظ و ناصر
ہر بحر کے غواض بنو لیک بہ ایں شرط
بھیگے نہیں دامان۔ خدا حافظ و ناصر
سر پاک ہو اغیار سے` دل پاک نظر پاک
اے بندہ سبحان۔ خدا حافظ و ناصر
محبوب حقیقی کی >امانت< سے خبردار
اے حافظ قرآن۔ خدا حافظ و ناصر۴۴۹
لدھیانہ سے بمبئی تک
فرنٹیئر میل دوسرے دن ۷/ ستمبر بروز جمعہ` صبح کے وقت دہلی پہنچی۔ جہاں علی گڑھ بریلی اور شاہ جہانپور تک کے احباب ملاقات کے لئے حاضر تھے گاڑی قریباً ایک گھنٹہ تک ٹھہری۔ روانگی سے قبل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے احباب جماعت سمیت دعا فرمائی۔۴۵۰ ۸/ ستمبر کی صبح کو یہ مقدس قافلہ >بیلا رڈ پیئر< )بمبئی کی بندرگاہ کا ایک پلیٹ فارم(۴۵۱ پہنچا۔ جہاں رنپورہ جہاز پہلے سے لنگر انداز تھا۔ بمبئی کی جماعت نے اخلاص و محبت کے ساتھ استقبال کیا۔ استقبال کرنے والوں میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیرؓ اور سید رسول شاہ صاحب کلیانی بھی تھے۔ صاحبزادگان نے حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحبؓ کے ہاں ناشتہ کیا۔ اس وقت حضرت عرفانی الکبیرؓ بھی ساتھ تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب سے احمدی احباب نے سمندر پار جانا شروع کیا تھا حضرت سیٹھ صاحبؓ مہمان نوازی کے فرائض بجا لارہے تھے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ جب حج اور مصر کے سفر پر تشریف لے گئے تو آپ کو شرف میزبانی عطا ہوا۔ پھر اس سفر میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ بھی آپ کے یہاں مہمان رہے۔ آپ کے بعد حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ بھی )یعنی صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب کے دادا( مہمان رہ چکے تھے اور اسی طرح باہر سے آنے جانے والے مبلغین کی خاطر تواضع کا ¶سلسلہ اب تک برابر جاری تھا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت سیٹھ صاحبؓ کو بذریعہ تار اطلاع دی تھی کہ روانگی کے وقت پھلوں کی دو ٹوکریاں صاحبزادگان کو دی جائیں۔ چنانچہ سیٹھ صاحب نے نہایت عمدہ پھلوں کی ٹوکریاں تیار کیں اور پیش کر دیں۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ انہوں نے ایک رئویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور حضور نے تین سو روپیہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے سیٹھ صاحب نے اپنی میز میں دیکھا تو وہاں صرف تیس روپے تھے جو آپ نے میز پر رکھ دیئے اس کے بعد آپ کی آنکھ کھل گئی عجیب بات یہ ہوئی کہ اس تقریب پر ان کے پورے تیس روپے خرچ ہوئے۔ اور آپ کو بہت خوشی ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے حضور آپ کے تیس روپے تین سو کے برابر ہیں۔
بمبئی سے سویز تک
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اور مرزا سعید احمد صاحب ناشتہ کر چکے تو حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ اور حضرت عرفانی کبیرؓ ان کے ہمراہ تختہ جہاز تک آگئے اور ان کو ہار پہنائے اور نہایت رقت بھری دعائوں سے رخصت کیا۔ جب تک جہاز نظر آتا رہا۔ حضرت سیٹھ صاحب اور دوسرے احباب جماعت کھڑے رہے اور دعائیں کرتے رہے یوسف علی صاحب عرفانی نے الوداع کے وقت کئی فوٹو لئے خود حضرت صاحبزادہ صاحب نے بھی تختہ جہاز پر موجود احباب کا فوٹو لیا۔۴۵۲
جہاز بمبئی سے چل کر نویں روز ۱۶/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو نو بجے سویز میں لنگر انداز ہوا جہاں مولانا ابوالعطاء صاحب مبلغ فلسطین و مصر اور احمد آفندی محمودی ذہنی نے خیر مقدم کیا اور یہ چاروں حضرات موٹر میں بارہ بجے قاہرہ پہنچے اور عجائب گھر دیکھنے کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب دارالتبلیغ میں گئے ظہر و عصر کی نماز اور کھانے سے فراغت کے بعد مصر کے آثار قدیمہ میں سے اہرامات اور ابوالہول کی تمثال دیکھنے گئے۔ السید محی الدین آفندی الحصنی نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے اعزاز میں ایک ٹی پارٹی کا انتظام اپنے مکان پر کر رکھا تھا۔ جہاں بعض شیعہ` اہل حدیث` حنفی اور مسیحی و بہائی دوستوں کے علاوہ جماعت احمدیہ قاہرہ کے تمام احباب موجود تھے۔ اس دعوت اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی آمد کا ذکر قاہرہ کے اخبار >المقطم< نے بھی کیا۔ سوا چار بجے کے قریب تعارف اور مختصر گفتگو کے بعد جس میں سب حاضرین نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں خوش آمدید کہا اور چائے پیش کی۔ پھر مجمع کا فوٹو لیا گیا یہ فوٹو اخبار >المقطم< میں بھی شائع ہوا۔ اور اس کتاب میں بھی موجود ہے۔ فوٹو لینے کے بعد مصر کے مشہور ترین عالم الشیخ محمد عبدہ کے ایک شاگرد الشیخ علی الازہری اور ایک نوجوان تاجر السید ابراہیم نامی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور مولانا ابوالعطاء صاحب نے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی مستقل اجازت کے مطابق بیعت لی۔
مولانا ابوالعطاء صاحب نے جماعت احمدیہ قاہرہ کی طرف سے حضرت صاحبزادہ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ سفر کے لئے الوادع کہا پھر حضرت صاحبزادہ صاحب نے مختصر مگر پر معزز تقریر فرمائی اور دعا پر یہ اجتماع ختم ہوا اور دوست اسٹیشن پر الوداع کہنے کے لئے روانہ ہوئے ٹھیک چھ بجے گاڑی روانہ ہوئی اور تمام دوست مصافحہ کے بعد پلیٹ فارم پر کھڑے دعا کرتے رہے گاڑی ساڑھے دس بجے پورٹ سعید پہنچی۔ ڈھائی بجے رات مولانا ابوالعطاء صاحب` حضرت صاحبزادہ صاحب اور مرزا سعید احمد صاحب کو جہاز پر الوداع کہہ کر واپس روانہ ہوئے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی نہایت ہی مختصر سی فرصت میں نہایت گہرا اثر احباب کے دلوں پر چھوڑا۔ سادہ زندگی اور محبت سے بھرے ہوئے اخلاق کا ایک پاکیزہ اور مقدس نمونہ آپ میں نظر آتا تھا۔۴۵۳
سویز سے لنڈن تک
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے عرشہ جہاز سے ایک خط ہوائی ڈاک کے ذریعہ سے مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ مبلغ لنڈن کو ارسال فرمایا کہ ہم ۲۲/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو لنڈن پہنچیں گے اس اطلاع کے مطابق ۲۲/ ستمبر کو ڈیڑھ بجے دوپہر جہاز ساحل انگلستان پر پہنچا۔ اس وقت سمندر میں خفیف سا تلاطم تھا بادل اور ہوا کی وجہ سے کچھ سردی بھی تھی اس لئے صاحبزادگان کمرہ کے اندر ہی تشریف فرما تھے انہوں نے کنارہ پر قدم رکھا ہی تھا کہ مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ۔ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب۔ صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور مشہور نو مسلم انگریز بھائی مسٹر مبارک احمد صاحب فیولنگ نے خوش آمدید کہا اور معانقہ و مصافحہ کیا اور کسٹم ہائوس سے نکل کر گاڑی میں بیٹھے۔ گاڑی لنڈن کے ریلوے اسٹیشن وکٹوریہ پر پہنچی تو بارش ہو رہی تھی۔ اسٹیشن پر چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب` مولوی محمد یار صاحب عارف اور کئی اور دوست موجود تھے چودھری صاحب موصوف نے حضرت اقدس کو تار دے دیا کہ صاحبزادگان خدا کے فضل سے بخیریت پہنچ گئے ہیں۔ دونوں کے گلے میں ہار ڈالے گئے اور مسٹر عبداللہ رائن کی کار میں بیٹھ کر سوا چار بجے مسجد میں پہنچ گئے۔
حضرت ام ناصرؓ )حرم اول سیدنا خلیفتہ المسیح الثانیؓ( نے کمال شفقت و نوازش سے اپنے پیارے بیٹے اور مرزا منصور احمد صاحب کے نکاح پر تقسیم ہونے والے چھوہاروں کا ایک لفافہ مولانا درد صاحب کے لئے دیا تھا۔ جو ان کو پہنچا دیا گیا چھوہارے نہ صرف مولانا درد صاحب نے خود کھائے بلکہ تمام موجودہ دوستوں کو کھلائے اور سب نے دعائیں دیں کہ ہزاروں میل کے فاصلہ پر دور افتادہ خدام کو بھی نکاح کی تقریب میں شامل فرما لیا۔
اسی طرح حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ نے حضرت عرفانی الکبیرؓ کی تحریک پر دو مصلے مسٹر مبارک احمد صاحب فیولنگ اور مسٹر بلال نٹل )دو نو مسلموں( کے لئے بھجوائے تھے جو انہیں دے دیئے گئے مصلے دیکھ کر ان مخلص بھائیوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
صاحبزادگان کے اعزاز میں جلسہ
اگلے دن اتوار کو ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے تقریر فرمائی کہ اب خدا کے فضل سے ولایت میں خاندان مسیح موعودؑ کے چار ممبر ہو گئے ہیں اور یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کی لنڈن مشن میں کوئی نظیر نہیں تھی۔ چودھری صاحب کی تقریر نہایت فصیح اور پر اثر تھی۔ اس تقریر کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب اور مرزا سعید احمد صاحب نے مختصر سی تقریریں فرمائیں اور چند الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔ علاوہ ازیں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور مولوی محمد یار صاحب عارف مولوی فاضل نے بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔
اس تقریب پر حضرت مولانا درد صاحبؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے بچپن` حفظ قرآن` تعلیم مدرسہ احمدیہ` انگریزی تعلیم اور وقف زندگی کے حالات سنائے اور کہا۔ لاکھوں اور کروڑوں بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر ایسا بچہ جس کے متعلق خالق دو جہان نے پہلے سے اطلاع دی ہو صدیوں کے بعد دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ انا نبشرک بغلام نافلہ لک کی پیشگوئی میں سمجھتا ہوں )حضرت( مرزا ناصر احمد صاحب کی ذات میں ہی پوری ہوئی ہے پھر انہیں ایک ایسا امتیاز حاصل ہے جو دوسرے بچوں میں اس رنگ میں نہیں پایا جاتا۔ وہ یہ کہ ان کی تربیت براہ راست ایک ایسی ماں نے کی جو ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔ زمانہ گزر جائے گا آنے والی نسلیں اسلام کی عظیم الشان فتوحات کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی۔ مشرق و مغرب میں اسلام کا علم بلند ہوگا۔ دنیا اپنے تمام جمال و جلال کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے غلاموں کی غلام ہو گی۔ لیکن سب کے دل اس حسرت سے پر ہوں گے کہ کاش وہ اس زمانہ کو پاتے اور حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پائوں کی خاک چومتے۔ مگر انہیں یہ عزت نصیب نہ ہو سکے گی۔ حضرت مرزا ناصر صاحب کی پرورش اسی آغوش محبت میں ہوئی ہے جہاں سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللٰہ تعالیٰ جیسا اولوالعزم خلیفہ پیدا ہوا۔ الخ۔۴۵۴
tav.7.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اہم فرمان مرکزی کارکنوں کی نسبت
اس عظیم الشان منصب و مقام کے باوجود جو اللہ تعالیٰ نے خلعت خلافت پہنا کر حضرت خلیفتہ المسیح کو عطا فرمایا تھا۔ حضور کی فروتنی`
ملنساری اور کسر نفسی کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص سے ہمیشہ کھڑے ہو کر ملاقات فرماتے اور اپنے ساتھ جگہ دیتے اور محبت اور تپاک سے بٹھاتے تھے۔ حضرت اقدس یہی روح سلسلہ کے مرکزی کارکنوں میں کام کرتی دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ حضور نے اسی مقصد کے پیش نظر ناظر صاحب اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اہم فرمان جاری فرمایا۔
>آپ کو اور دیگر ناظروں اور عہدیداروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جب کوئی شخص ملنے یا کام کے لئے آئے۔ ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ کھڑا ہو کر اسے ملے۔ خواہ کام والا چوہڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والا سزا کا مستوجب سمجھا جائے گا۔ نیز سب ناظروں اور نائب ناظروں کا فرض ہو گا کہ وہ جب بازاروں۔ گلیوں سے گزریں تو حتی الوسع سلام میں تقدم کریں<۔
حضور کا ارشاد بیرونی احباب کی اطلاع کے لئے الفضل )۶/ ستمبر ۱۹۳۴ء( میں بھی شائع کر دیا گیا۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا تقرر ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کی حیثیت سے
۲۳/ جولائی ۱۹۳۴ء کو وزیر ہند کی طرف سے مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کی حیثیت
سے لئے جانے کی پیش کش ہوئی۔ مکرم چوہدری صاحب نے جواباً کہا کہ مجھے تو آپ کی پیش کش منظور ہے لیکن ممکن ہے ملک کے بعض لوگوں کی طرف سے مخالفت ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مخالفت کی کوئی پرواء نہیں ہمیں تو لائق اور قابل آدمی چاہئے چنانچہ آپ کی تقرری کے متعلق بعد میں اعلان ہو گیا۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی تقرری اوراخبار>زمیندار<
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ابھی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر مقرر نہیں ہوئے تھے کہ اخبار >زمیندار< نے وائسرائے ہند کے نام مندرجہ ذیل مکتوب مفتوح شائع کیا۔
>مکتوب مفتوح بنام نائب السلطنت کشور ہند<
۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب والا کی مجلس وزراء جس کے مشورہ پر نظم و نسق سلطنت کا دارومدار ہے۔ چھ ارکان سے مرکب ہے جن میں سے تین ہندوستانی ہیں اور تین انگریز۔ ان تین ہندوستانیوں میں ایک مسلمان ہونا لازمی ہے یہ مسلمان وزیر اس وقت سر فضل حسین ہیں جن کے عہدہ کی معیاد عنقریب منقضی ہونے والی ہے۔ خیال ہو سکتا تھا کہ جناب والا سر فضل حسین کی جانشینی کے لئے آزمودہ کار اور سربرآوردہ مسلمانوں میں سے جن کی ہندوستان میں کمی نہیں کسی معتمد علیہ شخص کو نامزد فرمائیں گے۔ لیکن یہ گرم افواہ سن کر مسلمانوں کی حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ سر فضل حسین کے خدمت سے سبکدوش ہونے پر ان کا قلمدان وزارت چودھری ظفر اللہ خاں قادیانی کے سپرد کیا جائے گا جو تمام مسلمانوں کو اپنے پختہ عقیدہ کی بناء پر دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور اس لئے ہندوستان کے مسلمان ان کو ابداً اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کر سکتے۔۴۵۵
>چوہدری ظفر اللہ خاں کا نام بے شک مسلمانوں کا سا ہے اور شاید اس کی آڑ لے کر جناب والا کو اور سر سیموئیل ہور وزیر ہند کو بعض اشخاص نے اپنی ذاتی اغراض کی خاطر یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں اسلامیان ہند کے ایک بہت بڑے لیڈر ہیں جن کی ذات پر ہر چھوٹے بڑے کو پورا پورا اعتماد ہے لیکن اگر جناب اپنی امپریل مصروفیتوں سے کچھ وقت نکال کر ہندوستانی مسلمانوں کے اساسی معتقدات اور ان کے عمیق حسیات کے مطالعہ کی زحمت گوارا فرما سکیں تو جناب پر یہ حقیقت آفتاب عالمتاب کی طرح روشن ہو جائے گی کہ جو کچھ جناب کو یا وزیر ہند کو بتایا گیا ہے اس کی قطعاً کوئی اصلیت نہیں<۔
>طول و عرض ہند میں جو بے شمار احتجاجی جلسے سر فضل حسین کی جانشینی کے سلسلہ میں ہو رہے ہیں ان کا علم جناب والا کو ہر روز ہو رہا ہو گا۔ امید ہے کہ جناب والا مسلمانان ہند کی رائے عامہ سے بے نیازی نہ برتیں گے اور اگر حقیقت میں یہ تجویز جناب کے زیر غور ہے کہ سر فضل حسین کی جگہ چودھری ظفر اللہ خاں قادیانی کو مقرر کیا جائے تو اس پر نظر ثانی فرمائی جائے گی اور کسی ایسے جلیل القدر مسلمان کو یہ منصب رفیع سپرد کیا جائے گا جو مسلمانان ہند کے اعتماد کا اہل ہو<۔
>آخر میں صرف یہ نکتہ جناب کے گوش گزار کرنا اور باقی رہ گیا ہے کہ یہ مکتوب کسی فرقہ مندانہ نیت سے سپرد قلم نہیں کیا گیا۔ شاید جناب والا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ قادیانیت بھی اسلام ہی کا ایک فرقہ ہے اور دوسرے فرقوں کے مسلمان محض تعصب اور ہٹ دھرمی سے اس کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں جس کا حکومت پر کوئی اثر نہ ہونا چاہئے۔ یہ دعویٰ قطعاً غلط ہے مسلمانوں میں کئی ایسی جماعتیں موجود ہیں جو بعض مسائل میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتی ہیں لیکن ان اختلافات کے باوجود دنیائے اسلام نے ان کو تمام وہ حقوق بخش رکھے ہیں جو ایک مسلمان کو حاصل ہونے چاہئیں۔ سر علی امام مرحوم شیعہ تھے اور ظاہر ہے کہ مسلمانان ہند کی اکثریت شیعی مسلک نہیں رکھتی۔ لیکن مسلمانان ہند نے انہیں اپنی نمائندگی کا پورا پورا اہل سمجھا اور وہ اسی حیثیت سے مجلس وزراء کی رکنیت پر فائز ہوئے۔ ہز ہائینس آغا خاں کے عقائد مسلمانان ہند کے سواد اعظم کے معتقدات سے مختلف ہیں۔ با ایں ہمہ وہ سیاسیات میں اپنی سمجھ کے مطابق ان کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اور مسلمانوں نے کبھی ان کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں قرار دیا۔ چوہدری ظفر اللہ خاں کی نمائندگی کے خلاف اگر مسلمان ہمہ گیر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قادیانی ہیں اور قادیانیت ہرگز اسلام کا کوئی فرقہ نہیں بلکہ بالکل علیحدہ مذہب ہے جس سے سارے مسلمان بے زار ہیں<۔۴۵۶
اخبار >زمیندار< کی روش کے خلاف بعض مسلم اخبارات کا زبردست احتجاج
اخبار >زمیندار< کی اس افسوسناک روش پر بعض مسلم اخبارات نے زبردست احتجاج کیا اور اس پالیسی کو مفاد اسلامی کے لئے ضرر رساں اور
نقصان دہ قرار دیا۔
اخبار >ستارہ سندھ< کا اداریہ
چنانچہ سندھ کے روزنامہ >ستارہ سندھ<۴۵۷ نے اپنے ۳۱/ اگست ۱۹۳۴ء کے پرچہ میں ایک اداراتی نوٹ لکھا۔ جس کا اردو ترجمہ یہ ہے۔ ستارہ سندھ نے لکھا۔
>اس وقت مسلمانان ہند کے لیڈروں میں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ایک بڑے پایہ کے لیڈر ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں انہوں نے مسلمان قوم کی اتنی بڑی خدمات کی ہیں کہ وہ جناب سر آغا خاں کے دوش بدوش کھڑے ہو سکتے ہیں رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور جائنٹ کمیٹی کے موقعوں پر انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کا کیس ایسی قابلیت کے ساتھ پیش کیا کہ اس پر سارے انگلستان کے مدبر انگشت بدنداں رہ گئے۔
سیکرٹری آف سٹیٹ ہند نے چودھری صاحب ممدوح کی قابلیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو مبارکباد دی اور کہا کہ >آپ کا مستقبل نہایت درخشندہ< نظر آتا ہے<۔
رائونڈ ٹیبل کے مختلف اجلاسوں میں ہندوستان کی سب قوموں کے بہترین دماغ رکھنے والے لیڈر موجود تھے اور جو کچھ انہوں نے وہاں کام کیا۔ وہ آج بھی کارروائی کی کتابوں میں موجود ہے اگر کوئی صاحب بنظر غائر ان کتب کا ملاحظہ فرمائیں تو ان کو چودھری صاحب کا پلہ بھاری نظر آئے گا۔][اب عنقریب سر فضل حسین صاحب کی جگہ وائسرائے ہند کی مجلس منتظمہ کی ممبری کی ایک جگہ مسلمانوں کے لئے خالی ہو گی۔ پنجاب کے اخبار >زمیندار< کی پارٹی نے چودھری صاحب کے برخلاف ذاتی کاوشوں کی وجہ سے سخت طوفان بے تمیزی شروع کر رکھا ہے ہے اور بعض خانہ ساز انجمنوں کی طرف سے ریزولیوشن پاس کرا کے وائسرائے ہندکی طرف بھیجے جاتے ہیں۔ جن کے ذریعہ وائسرائے ہند سے درخواست کی جاتی ہے کہ چودھری صاحب کو ایگزیکٹو کونسل کی ممبری پر مقرر نہ کیا جائے۔ بدتمیزی اور معاملہ نافہمی کی اس لہر کو >زمیندار< پارٹی نے سندھ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ ایک تازہ اشاعت میں >زمیندار< نے لکھا ہے کہ میر پور خاص سندھ میں ایک جلسہ چودھری صاحب کے برخلاف ہوا ہے لیکن جہاں تک ہم کو معلوم ہے ایسی کوئی بھی میٹنگ میر پور خاص بلکہ سندھ کے کسی بھی حصہ میں نہیں ہوئی اور جو رپورٹ اخبار میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں میٹنگ کے متعلق کوئی بھی تفصیل نہیں دی گئی کہ وہ کس جگہ اور کس کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ کتنے اشخاص اس میں شامل ہوئے اور اس تجویز کی تحریک اور تائید کن اصحاب نے کی۔ اس کے علاوہ اگر یہ میٹنگ سندھ میں منعقد ہوتی تو لازمی طور پر پہلے اس کی کارروائی سندھ کے کسی اخبار میں چھپتی۔
بہرحال خدا کے فضل سے سندھ کے مسلمان ابھی تک اس قدر ناعاقبت اندیش نہیں ہوئے کہ وہ پنجابی بھائیوں کی ایک خاص پارٹی کی ایسی حالت میں تائید کریں۔ خصوصاً جبکہ وہ لوگ محض پارٹی بازی اور ذاتی کاوشوں کی بناء پر ایک مقتدر اور نہایت کار آمد لیڈر کی مخالفت کر رہی ہے۔
چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف صرف ایک بات پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ کہ وہ قادیانی جماعت کے ایک فرد ہیں لیکن مسلمانوں کی کسی خاص جماعت سے کسی شخص کا تعلق رکھنا اس کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بننے سے روک نہیں سکتا۔ بشرطیکہ اس میں دوسری قابلیتیں اور مسلمان قوم کے لئے ہمدردی موجود ہو اگر مذہبی اعتقادات اور فرقہ بندی کی رو سے ایسی ذمہ داری کے منصب تقسیم کئے جانے لگے تو یہ مسلمانوں کی انتہائی بدقسمتی ہو گی کیونکہ مسلمان قوم کے ۷۲ فرقے ہی اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایک فرقہ تمام دوسرے فرقوں کی مخالفت کرے گا اور نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں نکلے گا کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے اور فائدہ دوسری قومیں اٹھائیں گی۔
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی مذہبیت کا توازن دوسرے لیڈروں کی مذہبیت سے کرنا نامناسب ہوگا کیونکہ ایسا کرنے سے کئی ایک مقتدر مسلمان لیڈروں کے متعلق بھی بعض ناگوار باتیں کرنی پڑیں گی۔ پس اس بحث کو یہاں ہی ختم کرتے ہوئے ہم سندھ کے مسلمانوں کی طرف سے ہندوستان کے وائسرائے کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ سر فضل حسین کی جگہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا تقرر ہندوستان کے عام مسلمانوں کے لئے پسندیدگی کا باعث ہو گا<۔۴۵۸
اخبار >قومیت< اردو کا آرٹیکل
اخبار >قومیت< لاہور نے >آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب کی جانشینی کا مسئلہ۔ مولوی ظفر علی خاں صاحب کا لغو اور بے ہودہ پروپیگنڈا< کے عنوانوں سے ۱۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل نوٹ لکھا۔
>وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل سے میاں سر فضل حسین صاحب عنقریب ریٹائر ہو رہے ہیں اور سرکای حلقوں میں یہ خبر بڑے وثوق سے بیان کی جاتی ہے کہ ان کی جگہ حکومت چودھری ظفر اللہ خاں بیرسٹرایٹ لاء کا تقرر عمل میں لانے والی ہے جو موجودہ حالت میں ان کے نزدیک ہر طرح سے قابل و موزون ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب موصوف کی رائے بھی چودھری صاحب ہی کے حق میں ہے مسلمانان ہند کے سمجھدار طبقہ نے بحیثیت مجموعی حکومت کے اس ارادہ کو بنظر استحسان دیکھا ہے لیکن مولوی ظفر علی خاں ہیں کہ وہ اپنی دیرینہ ذاتی عداوت کی وجہ سے جو فرقہ احمدیہ سے ہے اس معاملہ کو بلاوجہ مذہبی عقائد کا رنگ دے کر نہایت لغو اور شرمناک پروپیگنڈا سے >زمیندار< کے کالم کے کالم سیاہ کر رہے ہیں۔ ایک طرف مولوی صاحب اپنی مخالفت کی وجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ چونکہ چودھری ظفر اللہ خاں قادیانی عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کا تقرر مولوی صاحب کی سمجھ کے مطابق صحیح نہیں لیکن دوسری طرف مسلمانوں کے ذمہ دار لیڈروں اور ان کی سب سے بڑی جماعتوں آل انڈیا مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ نے اس تقرر کو موزوں قرار دیتے ہوئے چودھری صاحب پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے مولوی ظفر علی خان کا اپنی وجہ مخالفت میں یہ دلیل پیش کرنا کہ چودھری صاحب قادیانی ہیں اور اس لئے وہ وائسرائے کے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر نہیں ہو سکتے۔ نہایت بے معنی اور لغو ہے اور اس سے مولوی صاحب کی ذاتی پر خاش کے سوا اور کچھ بھی مترشح نہیں ہوتا۔ تعجب ہے کہ مولوی صاحب نے دلیل مذکور پیش کرتے وقت اتنا بھی نہیں سوچا کہ ایگزیکٹو کونسلر کے فرائض منصبی میں آخر وہ کونسی شق ہے جس کے مطابق چودھری صاحب موصوف قادیانی عقائد کے پیروئوں کو فائدہ اور غیر قادیانیوں کو نقصان پہنچا سکیں گے؟ کیا ایگزیکٹو کونسلر کو مسلمانوں کے امور شرعیہ میں کسی وقت مخل ہونے کا حق حاصل ہے جو مولوی صاحب کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ چودھری صاحب زمام ایگزیکٹو کونسلری ہاتھ میں لیتے ہی سوائے قادیانی عقیدہ کے دیگر تمام عقیدوں کو سرزمین ہند سے مٹا دیں گے۔ کیا مولوی صاحب زمانہ ماسبق کی کوئی ایسی نظیر پیش کر سکتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ جس عقیدہ اور مذہب کا شخص ایگزیکٹو کونسلری پر فائز ہوا اس نے اپنے ہم عقیدہ والوں کے سوا باقی تمام کے دائرہ حیات کو تنگ کر دیا تھا اور حکومت نے اس کے ایسے فعل پر اپنی منظوری ثبت کر دی ہو۔ کیا مولوی صاحب کوئی ایسی مثال دے سکتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ فلاں موقعہ پر جب چودھری ظفر اللہ خان مسلمانوں کی ترجمانی کے لئے سرکاری یا غیر سرکاری طور پر منتخب کئے گئے تو انہوں نے صرف اپنے ہم عقیدہ والوں ہی کی ترجمانی کی ہو؟ کیا مولوی صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ ایام میں جب چودھری صاحب عارضی طور پر ایگزیکٹو کونسلر مقرر ہوئے تو انہوں نے کوئی ایسا کام کیا جس سے غیر قادیانیوں کو نقصان پہنچا ہو؟ پس جب ان تمام باتوں کا مولوی صاحب کے پاس کوئی معقول جواب نہیں اور یقیناً نہیں ہے جو حقیقت میں مخالفت کا جواز ہو سکتی ہے تو پھر مسلمان مولوی صاحب کی مخالفت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے اور جو کسی حالت میں بھی قومی و ملی نظریہ کے مطابق مناسب نہیں بلکہ ذاتیات کی بدترین تنگ نظری کا مظاہرہ ہے۔۴۵۹
مزید برآں ہر مسلمان جس نے مولوی صاحب کی زندگی کا عمیق نظروں سے مطالعہ کیا ہے وہ خوب سمجھتا ہے کہ اس شخص کی متلون مزاجی اور قدم قدم پر متضاد حکمت عملی نے مسلم قوم کو بحیثیت مجموعی سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی کسی اہم ذمہ دار سیاسی نمائندہ جماعت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قوم کے تمام ذمہ دار نمائندے ان کی رائے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی کسی معاملہ میں نہ ان کی رائے طلب کی ہے اور نہ ہی ان کے نظریہ کو قومی و ملی مفاد کے لئے بہتر قرار دیا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ چودھری ظفر اللہ خاں ایک فرقہ احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں جس طرح دوسرے مسلمان کسی نہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مختلف اسلامی فرقوں کا ایک دوسرے سے شدید اختلاف ہے اور علماء آئے دن ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے رہتے ہیں۔ مولوی ظفر علی خاں کو معلوم ہو گا کہ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے کہ اہلحدیثوں نے گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ یا تو ہمیں علیحدہ نیابت دی جائے یا مخلوط انتخاب ہو کیونکہ وہ اپنا نمائندہ ایک غیر مسلم کو بنا سکتے ہیں لیکن حنفی مسلمان کو بدعتی اور مشرک سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سے شیعہ حضرات کا مطالبہ بھی ایک سے زائد مرتبہ اسی قسم کا ہو چکا ہے لیکن آج تک اس فرقہ کی طرف سے جس کو مولوی ظفر علی خاں اپنی نظر میں مسلمان ہی نہیں سمجھتے کبھی ایسا مطالبہ نہیں ہوا بلکہ اس امر کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جب کبھی بھی کوئی معاملہ اسلامی مفاد عامہ کے متعلق دنیا کے سامنے آیا اس فرقہ کے مسلمانوں نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اتحاد کا ثبوت دیا ہے۔ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی ذات کو ہی لے لیجئے ۱۹۲۷ء میں چودھری صاحب موصوف ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب کے ساتھ لنڈن گئے اور انہوں نے خاص طور پر وزیر ہند اور دیگر برطانوی مدبرین پر ہندوستان میں مسلمانوں کی حق تلفی واضح کی۔ سائمن کمیشن` گول میز کانفرنس اور جائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے اجلاسوں میں ان کی شمولیت سے مسلمانوں کو خاص فائدہ پہنچا۔ آپ جداگانہ انتخاب کے خاص حامی ہیں۔ مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے ہمیشہ ہم نوا رہے ہیں۔ ان کی قابلیت اور سیاسی فہم و فراست مسلمہ ہے۔ ان کا سیاسی مطمح وہی ہے جو مسلمانوں کے تمام ذمہ دار نمائندوں کا ہے۔ حال ہی میں وزیر ہند سر سیموئیل ہور نے ان کی مدبرانہ حکمت عملی اور قابلیت کا بجا طور پر اعتراف کیا ہے علاوہ ازیں گزشتہ ایام میں چوہدری صاحب موصوف عارضی طور پر ایگریکٹو کونسلری کے فرائض بوجہ احسن سرانجام دے چکے ہیں۔ ان حالات میں اگر گورنمنٹ کی نظر میں میاں سر فضل حسین صاحب کے صحیح اور موزوں جانشین چودھری صاحب ہی ہو سکتے ہیں تو مولوی ظفر علی خاں کا بے ہودہ پروپیگنڈا کرکے مسلمانوں کی قوم کو گمراہ کرنا بدترین اخلاقی جرم ہے۔ مولوی ظفر علی خاں جو ہمیشہ جمہور کے نظریہ سے اختلاف رکھ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنانے کے عادی ہیں اگر ان کی اس دلیل پر کہ چوھدری صاحب موصوف قادیانی ہیں حکومت کسی عہدہ کی تقرری کے لئے عقیدہ کا معیار مقرر کر دے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ قابل اور موزوں اشخاص کا انتخاب نہ ہو سکے گا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ میاں سر فضل حسین صاحب حنفی عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں اور جب ان کی تقرری پر مسلمانوں کی غیر حنفی جماعتوں نے اعتراض نہ کیا تھا تو اب چوہدری صاحب کی تقرری پر مولوی ظفر علی خاں کا یہ اعتراض کرنا کہ وہ قادیانی ہیں کسی حالت میں بھی جائز اور مستحن نہیں ہو سکتا ماسوا اس کے کہ مولوی صاحب نے حسب عادت مسلمانوں میں جو آگے ہی افتراق اور تفریق کی بدولت اپنی طاقت کو زائل کرکے چہار اطراف سے تنزل وادبار میں گھر چکے ہیں۔ مزید افتراق و تفریق کا فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ تباہ حالی کا اگر کوئی باعث ہوا ہے تو وہ ان کی اپنی ہی فرقہ بندی اور تفریق و تقسیم ہے۔ ~}~
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
پس مسلمانوں کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ مولوی صاحب کی فتنہ پردازی پر نفرت و حقارت کا اظہار کرتے ہوئے اور نہیں تو کم از کم اپنے سیاسی حقوق و مفاد ہی کے استحکام کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جایا کریں۔ تا اغیار کی گہری سازشوں کا بخوبی مقابلہ ہو سکے<۔۴۶۰
اخبار >عزیز ہند< کا اداریہ
اخبار >عزیز ہند< جھانسی کے ایڈیٹر خان صاحب محمد رفیق صاحب نے اپنے ۲۸/ ستمبر کے اخبار میں لکھا کہ۔
>پچھلے مہینہ ڈیڑھ مہینہ سے اخبارات میں اس بات پر بڑے زور شور کے ساتھ بحث ہو رہی ہے کہ سر فضل حسین کا جو کہ عنقریب ریٹائر ہورہے ہیں جانشین کون ہے؟ باخبر حلقوں میں اس امر کا یقین ہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء اس عہدہ پر ممتاز کئے جائیں گے مسلمانوں میں ¶بدنصیبی سے یہ عادت ہو گئی ہے کہ کسی ہونہار آدمی کو بڑھتا ہوا دیکھ نہیں سکتے اور اپنے ہم قوم کی ترقی کو ہمیشہ روکنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہی قصہ اس وقت بھی درپیش ہے اور چند مسلمانوں نے یہ بانگ بے ہنگام اٹھائی ہے کہ ظفر اللہ خاں صاحب احمدی ہیں اس لئے مسلمانوں کے قائم مقام نہیں سمجھے جا سکتے۔
اس سے زیادہ لغو اور احمقانہ تحریک آج تک ہم نے نہیں سنی اس عہدے پر شیعہ` سنی پابند مذہب اور لا مذہب سب ہی رہ چکے ہیں اس وقت کسی نے بھی شکایت نہیں کی۔ اب چونکہ بعض خود مطلب امیدوار اپنے فائدہ کی غرض سے کوشاں ہیں اور چند بے عقل مسلمانوں کو آمادہ کرکے ظفر اللہ خاں صاحب کے خلاف شور و غل مچانا چاہتے ہیں۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی قابلیت معاملہ فہمی اور اسلامی ہمدردی روز روشن کی طرح مشہور ہے اور یہ امر کہ میاں سر فضل حسین صاحب ان کے حامی ہیں اس بات کی ضمانت ہے کہ ان سے زیادہ کوئی مسلمانوں کا ہمدرد نہیں ہو سکتا انگلستان میں ظفر اللہ خان صاحب نے جو خدمات انجام دی ہیں ان کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں مسلمانوں کو جو کچھ ملا ہے یہ سب ظفر اللہ خان` ڈاکٹر شفاعت احمد خاں اور حافظ ہدایت حسین کی بدولت ہے۔ ایسے شخص کی مخالفت انتہائی احسان فراموشی ہے اور ہر سمجھدار مسلمان جس قدر اس احسان فراموشی کی مخالفت کرے کم ہے۔
یہ یاد رہے کہ گو اس بانگ بے ہنگام سے ظفر اللہ خان صاحب کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا لیکن غیر قوموں کو مسلمان پر ہنسی کا موقع مل جائے گا اور خود ظفر اللہ خاں کے دل میں اس کا ضرور افسوس ہو گا کہ جس قوم کی انہوں نے اس قدر جاں نثاری کے ساتھ خدمت کی اسی کے چند افراد ایسی احسان فراموشی کر رہے ہیں۔
ہم بھی نہایت ادب کے ساتھ ہز ایکسی لینسی لارڈ و لنگڈن اور سر سیموئیل ہور سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ایسی بے اصل مخالفت کی پروا نہ کریں اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے تقرر کا جلد اعلان فرما دیں ان سے بہتر سر فضل حسین صاحب کا کوئی جانشین نہیں ہو سکتا<۔۴۶۱
اخبار >سیاست< کا ایک مضمون
خواجہ غلام السبطین صاحب بی۔ اے منیجنگ ڈائرکٹر دواخانہ دہلی نے اخبار >سیاست< ۲/ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں لکھا۔
چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جاتی ہے تو کوئی بات ایسی نظر نہیں آتی کہ انہوں نے جمہور مسلمانان ہندوستان کی مسلمہ پالیسی کے خلاف کوئی بات کی ہو یا انہوں نے مسلمانوں کے سیاسی مفاد کو نقصان پہنچایا۔ حکومت اپنے مصالح یا سرکاری عہدوں کی تقسیم مسلمان فرقوں کی آپس کی مذہبی رقابت یا عداوت کے ماتحت نہیں کر سکتی جبکہ ان سب فرقوں کا مطمح نظر ایک ہو اور کسی سیاسی معاملہ میں ان کا آپس میں تصادم نہ ہوتا ہو مجھ کو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ہے نہ ان کے مذہبی عقائد سے مجھ کو اتفاق ہے کیونکہ وہ ایک مرزائی ہیں اور میں شیعہ ہوں۔ مذہبی عقائد کے لحاظ سے مجھ میں اور ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے لیکن میں اصولاً اس رائے سے اختلاف رکھتا ہوں کہ کسی شخص کے تقرر کے خلاف محض اس بناء پر احتجاج کیا جائے کہ وہ ہمارے فرقہ سے نہیں۔ حالانکہ سیاسی لحاظ سے وہ ہمارا ہمنوا ہے اور ایک سے زیادہ موقعوں پردہ مسلمانوں کے حقوق کی ترجمانی کر چکا ہے اس قسم کی مخالفتوں کا اس کے سوا کوئی نتیجہ نہیں ہے کہ ہم اپنی کمزوری دوسروں کے سامنے ظاہر کرتے ہیں اور ان کو اپنے اوپر شیر کرتے ہیں<۔۴۶۲
اخبار >سیاست< کا اہم اداریہ
مولانا سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار >سیاست< نے ۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کے پرچہ میں لکھا۔
میں اور میرے ہم خیال جو کچھ کہتے ہیں وہ نہایت سادی بات ہے ہم کہتے ہیں کہ گول میز کانفرنس میں آغا خان کی طرح کے جو لوگ اسلام کے لئے مفید ثابت ہوئے وہ صحیح العقیدہ نہیں ہیں لیکن اختلاف عقیدہ کے باعث ان کی خدمات سے منہ موڑ لینا اور ان کی جگہ لینے کے لئے کوئی قابل آدمی پیش نہ کرنا ملت کے مفاد کو کند چھری سے ذبح کرنے کے مصداق ہے اسمبلی اور کونسلوں میں جو مسلمان بزرگوار ملت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کو اگر عقائد کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ان میں سے ایک فیصدی بھی ایسے نہ نکلیں گے جو اس لحاظ سے قابل قبول ہوں۔ نیز اس اصول کو قبول کر لینے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جس مسلمان کو بھی ایسا اثر و رسوخ حاصل ہو گا جو ملت کے لئے مفید ہو سکے وہ لازماً عقیدۃ" کسی ایک گروہ ملت سے متعلق ہو گا۔ لہذا ۷۲ آراء اس کے خلاف بلند ہوں گی اور یوں مسلمانوں میں سے کسی لیڈر کے بارسوخ و مفید ہونے کا تمام امکان مٹ جائے گا اور مسلمانوں میں عقیدوں کی جو جنگ موجود ہے وہ مساجد کو برباد کرنے کے بعد اب سیاسیات کے میدان کو بھی آلودہ کرکے خراب کر دے گی۔ پس عقیدہ کی بناء پر ظفر اللہ خاں یا کسی دوسرے مسلمان کی مخالفت کرنا پرلے درجہ کی نادانی ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ ظفر اللہ خاں کسی عہدہ کے امیدوار نہیں ہیں ہاں ان کو اگر کوئی منصب ملا اور انہوں نے سمجھا کہ وہ اس منصب کو قبول کرکے مسلمانوں کی خدمت کر سکیں گے تو وہ اس کو قبول کر لیں گے۔ ان حالات میں ایسے صاحب ایثار کی مخالفت کرنا پرلے درجہ کی اندوہناک جسارت ہے جو مفاد ملت کے لئے بے حد مضر ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں اس قابل نہیں کہ وہ سر فضل حسین کے جانشین ہوں یا ان کو تجربہ کافی نہیں ہے یا دوسرے امیدواروں سے افضل نہیں۔ تو یہ طریق مخالفت جائز ہو گا لیکن عقیدہ کی بناء پر ان کی مخالفت کرنا پرلے درجہ کی غلطی ہے جس کا ارتکاب چودھری صاحب سے کہیں زیادہ ملت کے لئے خوفناک ثابت ہو گا۔
چودھری صاحب بارہا مسلمانوں کی طرف سے پنجاب کونسل میں نمائندہ بن کر آئے۔ ایک دفعہ ان کو یہ اعزاز بلامقابلہ نصیب ہوا۔ کونسل کے اندر مسلمانوں کے عام مفاد کی نمائندگی کرتے رہے سائمن کمیشن میں انہوں نے مسلم نمائندہ کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ سر فضل حسین کی جگہ پر عارضی طور پر مقرر ہوئے اور گول میز کانفرنس میں مسلم نمائندہ کی حیثیت سے لئے گئے۔ ان تمام مواقع پر کوئی آواز ان کے خلاف بلند نہیں ہوئی لہذا اب ان کے خلاف اس آواز کا بلند ہونا صاف بتا رہا ہے کہ ع۔ کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں۔ لیکن معاملہ کے اس پہلو کے متعلق فی الحال زیادہ عرض کرنا مناسب نہیں ۔۔۔۔۔ چودھری صاحب نے جہاں جہاں بھی مسلمانوں کی خدمت کی وہاں ہمیشہ مفاد ملت کا خیال رکھا کسی موقعہ پر ان کے کسی بدترین دشمن کو بھی یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ انہوں نے قادیانیت کو مفاد اسلام پر ترجیح دی۔ انہوں نے لنڈن میں اپنا اور مسلمانوں کا نام روشن کیا۔ سر آغا خاں اور دوسرے مسلمان ان کی قابلیت` محنت` جانفشانی اور مفاد اسلام کے لئے ان کی عرق ریزی کے مداح رہے لہذا عقیدہ کی بناء پر اس وقت ان کی مخالفت کرنا پرلے درجے کی احسان ناشناسی ہے جو اسلام کو کبھی گوارا نہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ چودھری صاحب کا اصول یہ ہے کہ وہ کسی منصب یا عہدہ کے لئے حکومت کے سامنے دست سوال دراز نہ کریں گے اس لئے کسی شخص کو یہ جرات نہیں ہوسکی کہ وہ ان کو کسی منصب کا امیدوار سمجھ کر ان کی تائید کرے۔ لیکن میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ گزشتہ خدمات` قابلیت` محنت` مفاد اسلام کے لئے عرقریزی اور مسلم مطالبات کی دیانتدارانہ تائید کے لحاط سے چودھری صاحب بفضلہ تعالیٰ سر میاں فضل حسین صاحب کے جانشین ہونے کے اہل ہیں اور اگرچہ ۸ کروڑ مسلمانان ہند میں اور لوگ بھی اس اہلیت کے مالک ہیں تاہم اگر حکومت نے انتخاب کا قرعہ فال چودھری صاحب کے نام پر نکالا تو ۸ کروڑ مسلمانان ہند کی ۹ ء۹۹ فیصدی تعداد کو مسرت ہو گی<۔۴۶۳
رسالہ >شاہکار< کا شذرہ
مندرجہ بالا بیانات چودھری صاحب کے تقرر سے پہلے کے ہیں اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ سرکاری اعلان کے بعد مسلمانوں کے سنجیدہ باوقار اور محب قوم طبقہ نے کس رائے کا اظہار کیا۔ اس ضمن میں بطور مثال پروفیسر احسان اللہ خاں صاحب تاجور نجیب آبادی کا ایک بیان ملاحظہ ہو جو انہوں نے اپنے مشہور رسالہ >شاہکار< اپریل ۱۹۳۵ء میں شائع کیا تھا۔
علامہ تاجور نے لکھا۔
>احمدی ہے یا غیر احمدی! مسلمان ہے یا کافر مجھے اس سے بحث نہیں کیونکہ میں مفتی مذہب کی حیثیت نہیں رکھتا۔ البتہ بحیثیت ایک انسان کے میں نے ظفر اللہ خاں کو ایک قابل قدر انسان پایا ہے کم و بیش اٹھارہ سال سے میں اسے جاننے کی طرح جانتا ہوں۔ مجھے ایماندارانہ اعتراف ہے کہ میں نے ظفر اللہ خاں میں انسانیت کی بہت سی خوبیاں دیکھی ہیں۔ میرے مذہبی خیالات احمدی عقائد سے بہت مختلف ہیں میں احمدی نہیں ہوں۔ دیو بند کی جامعہ اسلامیہ میرا گہوارا تربیت ہے دیو بند اور قادیان میں جس قدر بعد مسافت حائل ہے اس سے زیادہ ان مقامات کی مذہبی جماعتوں میں اختلاف عقائد ہے لیکن کسی سے عقیدہ کا اختلاف رکھنے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اس کی ذاتی خوبیوں کا بھی انکار کر دیا جائے میں ایک غیر احمدی ہونے کے باوجود چودھری ظفر اللہ خاں کی ممتاز صفات سے انکار نہیں کر سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس نے احمدی ہونے کا بہت نقصان اٹھایا ہے ورنہ ظفر اللہ خاں ایسی گراں مایہ شخصیت کا مالک ہے جس پر کوئی قوم کوئی ملک اور کسی ملک کی آئندہ نسلیں فخر کر سکتی ہیں سیموئیل ہور کا یہ کہہ دینا معمولی سی بات نہیں کہ >آج تک انگلستان میں جتنے بھی ہندوستانی آئے ہیں ظفر اللہ خان اپنی قابلیت میں ان سب سے ممتاز ہے<۔
گول میز کانفرنس کی کارکن کمیٹیوں میں ظفر اللہ خاں کی قانونی قابلیت نکتہ دانی اور آئین سازی کے جوہر دیکھ کر رائٹ آنریبل سری نواس شاستری جیسے جوہر شناس کا یہ کہنا بے انتہا اہمیت رکھتا ہے کہ >اگر آپ برا نہ مانیں تو عرض کروں کہ آپ کے کمال قابلیت کو دیکھ کر میرے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو گئی ہے<۔
مولانا ابوالکلام صاحب کے استفسار پر مسز سروجنی نیڈو کا یہ ارشاد بھی کچھ معنیٰ رکھتا ہے کہ >گول میز کانفرنس میں ہندوستان کے کیس کو سب سے بہتر طریقے پر چوہدری ظفر اللہ خاں نے پیش کیا اور ان کے بعد سوامی مدلیار نے<۔
عجیب واقعہ ہے کہ غیر مسلم طبقوں میں چودھری ظفر اللہ خاں متعصب سمجھے جاتے ہیں لیکن جو لوگ ان کے خیالات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ظفر اللہ خاں اور تعصب ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے البتہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو غضب ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور بالکل اسی طرح دوسروں کے حقوق کا فراخدلانہ اعتراف اور ان میں عدم مداخلت کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ظفر اللہ خاں کے منہ سے میں نے کبھی غیر معقول بات نہیں سنی وہ نہایت ذہین` فطین اور متین ہونے کے ساتھ ہی اعلیٰ درجہ کی معقولیت پسند بھی ہیں مجھے ان کی کوئی خوشامد نہیں لیکن ان کی انسانیت اور خدا پرستی کا میں دل سے معترف ہوں<۔]01 [p۴۶۴
اخبار >ڈیلی گزٹ< کراچی کا مضمون
اخبار >ڈیلی گزٹ< کراچی )۴/ مئی ۱۹۳۵ء( نے لکھا۔ >آنریبل چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے چارج لینے سے پہلے اور بعد مسلمانوں کے سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں میں اس خطرناک مخالفت کے اثرات زیر بحث ہیں جو پنجاب کے بعض غیر ذمہ دار مسلمانوں کی طرف سے آپ کے تقرر کے خلاف کی جارہی ہے اور ان کی طرف سے اب یہ تجویز ہے کہ احرار اور ان کی قسم کے دوسرے مسلمانوں کو مسلم سرکردہ لیڈر یہ امر اچھی طرح ذہن نشین کرا دیں کہ جناب چوہدری صاحب مسلمانوں کے اسی قسم کے صحیح نمائندے ہیں جس طرح کوئی اور مسلم لیڈر ہو سکتا ہے نیز یہ کہ وہ ان لوگوں کو ان بد نتائج سے متنبہ کریں جو انہیں اس مسلم ممبر کی مخالفت کے سلسلہ کو جاری رکھنے سے بحیثیت قوم برداشت کرنے پڑیں گے۔
ایسے سرکاری اور غیر سرکاری مسلم لیڈر اس امر کو قطعاً برداشت نہیں کر سکتے کہ جناب چوہدری صاحب کی محض اس وجہ سے مخالفت کی جائے کہ وہ نہ سنی ہیں اور نہ ہی شیعہ اور کہ وہ ایک ایسے فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے اور یہ کہ چونکہ مسلمانوں کا کثیر حصہ احمدی نہیں اس لئے وہ مسلمانوں کے نمائندے تصور نہیں کئے جا سکتے۔ حالانکہ سرکردہ لیڈروں کے نزدیک چودھری صاحب ویسے ہی مسلمان ہیں جس طرح کوئی دوسرا مسلمان ہو سکتا ہے۔ گویا یہ لوگ چودھری صاحب کے خلاف ایسے کمینہ حملوں کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ احرار اور دیگر مخالفین کی توجہ ان عظیم الشان خدمات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو چودھری صاحب موصوف گول میز کانفرنس میں مسلم قوم کی خاطر بجا لائے اور انہوں نے ہزہائی نس سر آغا خان جیسی جلیل القدر شخصیت سے خراج تحسین حاصل کیا۔
جناب چوہدری صاحب کے حامیوں۴۶۵ کے لئے جو بات سب سے زیادہ حیرت انگیز ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب تک چوہدری صاحب پنجاب لیجلیٹو کونسل کے ممبر رہ کر ایک اہم مسلم حصہ کی نمائندگی کرتے رہے اس وقت تک ان لوگوں میں سے جو آج کل ان کے خلاف شورش برپا کر رہے ہیں کسی ایک نے بھی آپ پر کبھی کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا اور یہ لوگ انہیں اپنے صوبہ میں باقاعدہ مسلم نمائندہ قرار دیتے رہے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں پنجاب کے اردو اخبارات میں احرار نے اس بناء پر مخالفت شروع کر رکھی ہے کہ چودھری صاحب اپنے ماتحت محکموں میں ملازم بھرتی کرتے ہوئے ایسے مسلمانوں کو ترجیح دیا کریں گے جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہوں شملہ کے مسلمان افسر احرار کی ایسی ناپسندیدہ حرکات کو نہایت بری نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اس امر کو باور نہیں کر سکتے کہ چودھری صاحب جنہوں نے کبھی احمدیوں اور غیر احمدیوں میں تفریق نہیں کی اب ایسے فعل کے مرتکب ہوں۔
جہاں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب اس تمام مخالفت کو جو پنجاب میں ان کے خلاف تحریراً یا تقریراً کی جارہی ہے اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں وہاں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا تعلیم یافتہ طبقہ اس امر کو محسوس کر رہا ہے کہ احرار اور ان کے ہمنوائوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرا دی جائے کہ باوجود ان کی اندھا دھند مخالفت کے چودھری صاحب موصوف پر اکثریت کا اعتماد ہے اور وہ انہیں وائسرائے کی کونسل میں مسلمانوں کا حقیقی نمائندہ سمجھتے ہیں<۔۴۶۶
اردو کے بعض مایہ ناز ادیبوں اور صحافیوں کا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے خصوصی تعلق
مسلمان ایک فاتح کی حیثیت سے اس برصغیر میں فارسی زبان ساتھ لائے تھے پھر یہاں کے رہنے سہنے اور اختلاط و ارتباط سے خود بخود اردو زبان بن گئی جس کی تعمیر و ارتقاء میں ہندوئوں اور
مسلمانوں کا برابر کا حصہ تھا۔ مگر افسوس ہندو مسلم اتحاد کی اس بہترین یادگار کے بارے میں کانگریسی لیڈر گاندھی جی نے کہا۔
>اردو مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے مسلمان بادشاہوں نے اسے اپنے زمانہ حکومت میں بنایا اور پھلایا تھا<۔۴۶۷
یہ نظریہ تنہا گاندھی جی کا نہیں تھا بلکہ کانگریس کے اکثر متعصب لیڈر در پردہ اسی کے حامی تھے یہی وجہ ہے کہ جب بعد کو کانگریسی وزارتوں کا قیام عمل میں آیا تو کانگریس نے باقاعدہ ایک مستقبل محاذ اردو کے خلاف قائم کر لیا اور گاندھی جی کی اختراع کی ہوئی >ہندوستانی< زبان کو فروغ دینے کے لئے زبردست مہم چلائی گئی۔ اور اس کے لئے سرکاری سطح پر بھی کوششیں کی گئیں۔
غرض ملک میں یہ ایک لسانی کشمکش تھی جو سیاسی حقوق کی جنگ کے متوازی جاری تھی اور ہندو عناصر اس کوشش میں مصروف تھے کہ مسلمانوں کو ایک ایسی زبان سے محروم کر دیں جو ملکی تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہونے کے علاوہ ان کی مذہبی اور اخلاقی روایات کی بھی امین اور محافظ ہے۔
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< کے گزشتہ واقعات سے واضح ہے اس معاملہ میں جماعت احمدیہ کی ہمدردی شروع ہی سے اردو کے ساتھ تھی کیونکہ اس کا مذہبی لٹریچر زیادہ تر اسی زبان میں تھا اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس نظریہ کا اظہار فرمایا تھا کہ اردو زبان اس زمانہ میں تکمیل اشاعت اسلام کا بہترین ذریعہ ثابت ہونے والی ہے چنانچہ حضورؑ نے اپنی کتاب >تحفہ گولڑویہ< میں تحریر فرمایا۔
>حسب منطوق آیت قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ آنحضرت~صل۱~ کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوئوں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی۔ آنحضرت~صل۱~ کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ~صل۱~ ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کے لئے بدل و جان سرگرم ہیں۔ آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کافہ ناس کے لئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت پھیلا سکتے ہیں<۔۴۶۸
اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو یقین کامل تھا کہ >چونکہ اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عربی کے بعد اردو میں الہام زیادہ کثرت سے ہوا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت )وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ الخ ہود ناقل( کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ زبان ہندوستان کی اردو ہو گی اور دوسری کوئی زبان اس کے مقابل پر نہیں ٹھہر سکے گی<۔۴۶۹
اردو زبان سے اس والہانہ تعلق اور گہرے ربط ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو اردو کی خدمت کرنے والوں سے بہت محبت تھی۔ دوسری جانب ملک کے ادبی حلقوں میں بھی آپ خاص وقعت و عظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور بلند پایہ اردو ادیب اور صحافی آپ سے مراسلت کرنا اور ملاقات کرنا اپنے لئے موجب فخر سمجھتے تھے چنانچہ مولانا شوکت علی` مولانا محمد علی جوہر` شمس العلماء خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی` مولانا سید حبیب مدیر >سیاست`< مولانا غلام رسول صاحب مہر` مولانا عبدالمجید سالک مدیر انقلاب` سید عبدالقادر صاحب ایم۔ اے پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور` علامہ احسان اللہ خاں تاجور` سید عبدالقدوس صاحب ہاشمی ندوی ایم۔ اے مدیر رسالہ >ندیم< گیا` علامہ منشی عاشق حسین` ۔۔۔۔۔ سیمات اکبر آبادی` جناب منشی محمد عمر شوکت تھانوی` مرزا فرحت اللہ بیگ` منشی محمد الدین فوق مورخ کشمیر` انیس احمد عباسی ایڈیٹر >حقیقت< لکنھئو` حکیم محمد یوسف حسن ایڈیٹر >نیرنگ خیال< لاہور` مولانا صلاح الدین احمد صاحب )مدیر ادبی دنیا( وقار انبالوی` خان بہادر میرزا عبدالرحمن چغتائی` سید ابو ظفر نازش رضوی سے آپ کے مراسم بھی تھے اور خط و کتابت بھی۔ اور ان میں سے اکثر اصحاب کو قادیان میں آنے اور آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنے کا فخر بھی حاصل تھا۔ ذیل میں بطور نمونہ ہم اردو کے بعض نامور ادیبوں کے چند خطوط درج کرتے ہیں جو انہوں نے حضور کی خدمت میں لکھے جن سے یہ اندازہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی اردو نوازی کی بدولت قادیان کی بستی ادیبوں کی توجہ کا بھی مرکز بنتی جارہی تھی۔
مولانا شوکت علی کا مکتوب مورخہ ۱۶/ جولائی ۱۹۳۰ء
شملہ ۱۹۳۰ء/۷~/~ ۱۶
مخدومی و مکرمی جناب حضرت صاحب! السلام علیکم
اس شب کو مکان پر پہنچ کر جناب کا خط اور اس میں ۔/۲۵۰ کے نوٹ ملے۔ مجھ پر اس کا بے انتہا اثر ہوا۔ خاص کر اس وجہ سے کہ اعتراض کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں اور ہمت بڑھانے والے کم۔ میں اس رقم کو نہایت درجہ شکریہ کے ساتھ قبول کرتا ہوں اور ہمارے سب شرکاء کار بھی ضرور مشکور ہوں گے اور خوش بھی۔ جمعیت خلافت میرے سفر کے مصارف کی کفیل ہے اس کو اس امداد سے سہولت ہو گی۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔ آپ کا نیازمند
شوکت علی خادم کعبہ۔
سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی ایم اے کا مکتوب
دفتر رسالہ >ندیم< گیا
مورخہ ۹ ماہ اپریل ۱۹۳۱ء
محترم و معظم ادام اللہ سرورکم سلام و رحمت
میں جناب سے پہلی بار شرف مخاطبت حاصل کرتا ہوں۔ امید کہ جناب والا شرف باریابی سے مشرف فرمائیں گے۔ میں نے جناب کی اسکیم رسالہ >ادبی دنیا< کے مارچ نمبر میں دیکھی۔ اردو۴۷۰ رسالہ کیونکر زبان کی خدمت کر سکتے ہیں؟ اس سکیم کو میں نے کئی بار پڑھا مجھے یہ تحریک بہت پسند آئی۔
جناب والا کو غالباً معلوم ہوگا کہ بہار سے اس وقت اردو کا کوئی رسالہ نہیں جاری ہے۔ گیا میں چند باذوق اور دولت مند تاجروں۴۷۱ نے ایک لمیٹڈ سرمایہ سے ادبی رسالہ جاری کرنے والے ہیں۔ رسالہ کا نام >ندیم< ہو گا۔ ۷۲ صفحہ پر ہر ماہ نکلا کرے گا- مئی ۱۹۳۱ء میں اس کا پہلا پرچہ حاضر خدمت ہو گا۔
مجھے اس رسالہ کی ادارت کے لئے بلایا گیا۔ میں جناب والا کی اسکیم کو بروئے کار لانا چاہتا ہوں اور میں انشاء اللہ ابتدائی دقتیں برداشت کرلوں گا۔ میں حضور کا بہت شکر گزار اگر اس بارے میں مجھے اور گرانقدر مشورہ اور طریق کار کی فہمائش سے سرفراز فرمایا جائے۔ میں عریضہ کے جواب کا انتظار کروں گا۔ والسلام
عریضہ ادب۔ سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی )ایم۔ اے(
مدیر رسالہ >ندیم< گیا۔
علامہ احسان اللہ خاں تاجور کا مکتوب مورخہ ۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء
حامداً و مصلیاً
محترمی قبلہ جناب میاں صاحب دام بالمجد والعلیٰ۔
سلام مسنون! اپنی گراں مایہ مصروفیتوں میں در انداز ہونے کی اجازت مرحمت فرمائیے۔ گزارش یہ ہے کہ ادبی دنیا تو لاہور کی سازشی فضا کے سر صدقے ہو گیا۔ خیال تھا کہ اب اردو مجھ پر رحم کرے گی مگر حالات کے استبداد نے ایک جدید علمی رسالے کی اشاعت پر مجبور کیا ہے اس رسالے کا پہلا نمبر زیر ترتیب ہے >علمی دنیا< اس کا نام ہو گا میں چاہتا ہوں کہ جناب کوئی مضمون اس نمبر کے لئے عنایت فرما دیں تو تبرکاً شائع کر دوں۔ میں نے اس رسالے میں ایک مستقبل سرخی بزم تحقیق کی رکھی ہے اس عنوان کے تحت اردو زبان و ادب کے متعلق بحث طلب مسائل پر اہل الرائے سے استصواب رائے کیا جائے گا۔ پہلا سوال جو پہلے نمبر میں زیر بحث آئے گا یہ ہے۔
سوال جدید تہذیب کے ساتھ جو نئے نئے الفاظ و محاورات غیر ملکی و ملکی زبانوں کے معاشرت میں استعمال ہو رہے ہیں اردو عبارات میں ان کے استعمال کا معیار کیا ہے؟ اور جدید الفاظ کی تذکیر و تانیث کن اصول پر ہونی چاہئے؟ اس سوال پر روشنی ڈالنے کی زحمت گوارا فرمائیں تو بحث میں وقعت پیدا ہو جائے گی۔ جناب ہی کی تحریک و ہدایت پر یہ سرخی قائم کی گئی ہے۔
خدا کرے جناب کی صحت و فرصت میری گزارش کی پذیرائی میں حائل نہ ہو جائے۔ حد ادب
والسلام
تاجور۔ دفتر اخبار >پریم< محلہ مزنگ لاہور
سیدنا نے اپنے قلم سے اس خط پر اپنے دفتر کو ہدایت فرمائی کہ
>محفوظ۔ لکھیں اللہ تعالیٰ کامیاب کرے۔ میں ضرور مضمون لکھ دوں گا۔ بشرطیکہ پچیس اکتوبر کے بعد چاہئے ہو کیونکہ اس وقت مجھے بالکل فرصت ہوگی۔ اطلاع ملنے پر لکھنا شروع کردوں گا انشاء اللہ<۔
علامہ منشی عاشق حسین صاحب سیماب اکبر آبادی کا مکتوب۔15] [p مورخہ ۸/ مئی ۱۹۳۵ء
حضور محترم! السلام علیکم
یہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ میں ایک سال سے اذن حاضری طلب کر رہا ہوں۔ اور یہ مجھے یاد ہے کہ میری تمنا ہر مرتبہ ٹھکرا دی گئی ہے جس کا کچھ نہ کچھ سبب ضرور تھا۔ پیمانہ` تاج اور شاعر کے ذریعے میں آپ سے متعارف ہو چکا ہوں اور اب اتنا بیگانہ نہیں رہا ہوں کہ آپ میری شخصیت نہ سمجھ سکیں بار بار اجازت حاضری طلب کرنے کا مدعا بجز اس کے کچھ نہیں کہ ادبی پیرائے میں آپ کی کوئی خدمت کر سکوں اور آپ سے استعانت کرکے آگرہ کے ادبی سکول کی بقاء و احیاء کا انتظام کروں۔ آج ایک عرصہ کے بعد یہ عریضہ پھر ارسال خدمت کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ حضور والا آخر مئی تک کوئی تاریخ میری حاضری کے لئے مقرر فرما کر مجھے اطلاع دیں گے میں اس عنایت کے لئے آپ کا ہمیشہ ممنون و شاکر رہوں گا۔
طالب جواب عقید تمند
سیماب اکبر آبادی
حضور نے اس خط پر یہ نوٹ دیا۔ >لکھیں ہر دفعہ ہی ایسا اتفاق ہوا کہ میں یا بیمار تھا یا باہر۔ اب بھی ایسا ہوا۔ ڈلہوزی سے آکر سات ماہ قادیان رہا اس عرصہ میں آپ کا خط نہیں آیا۔ اب میں اس خط کو محفوظ رکھوں گا اور قادیان میں قیام کے وقت کی فوراً آپ کو اطلاع کر دوں گا تاکہ آپ تشریف لا سکیں۔ گو ادبی ادارہ میں میں سمجھ نہیں سکا کہ کس طرح مفید ہو سکتا ہوں۔ مگر بہرحال آپ کی ملاقات سے مجھے خوشی ہو گی<۔
مولانا سید حبیب صاحب مدیر >سیاست< کے مکتوبات
)۱( مخدومی الاکرم سلام علیکم طبتم
آپ کو مبارک ہو میں آج آزاد کر دیا گیا ہوں البتہ مزید کام کرنے کی صورت میں تنبیہہ بھی کر دی گئی ہے آپ کے احسانات کے بارگراں سے سبکدوش ہونا خارج از امکان ہے تشکر سے میرا دل لبریز ہے دعائیں کرتا ہوں چاہتا ہوں کہ آپ سے جلد ملوں۔ فرمائیں کیا حکم ہے۔
والسلام
آپ کا حبیب
)محررہ ۲۱/ ستمبر ۱۹۳۵ء(
۲۔ مخدوم محترم سلام علیکم طبتم۔ بعض احباب کی رائے ہے کہ سیاست کے منسلکہ مقالات کے نشان زدہ حﷺ کا ترجمہ اگر ڈیلی ہیرلڈ جیسے صحائف برطانیہ میں شائع ہو تو خوب ہو مجھے آپ کے سوا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اگر ممکن اور مناسب ہو تو یہ کام کر دیں۔ ورنہ کاغذات ملفوفہ واپس کر دیں۔ والسلام
آپ کا حبیب
)محررہ ۱۵/ مئی ۱۹۳۶ء(
۳۔ محسن بندہ۔ السلام علیکم۔ میں جناب والا کی قدم بوسی کا متمنی ہوں۔ اطلاع دے کر مرہون منت فرمائیں کہ آں محترم مجھے کس روز کہاں مل سکیں گے احسان ہو گا۔ والسلام آپ کا حبیب۔ )محررہ ۲۴/ دسمبر ۱۹۳۷ء(
منشی محمد عمر شوکت تھانوی کا مکتوب مورخہ )۱۱/ اگست ۱۹۳۷ء(
>حضرت سیدی و مولائی! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ آج برادر محترم مولوی محمد عثمان صاحب احمدی کے توسل سے مبلغ یکصد روپیہ جو آنحضور کا عطیہ ہے وصول پایا۔ اس شفقت بزرگانہ کا اگر میں مستحق ہوں تو شکریہ ایک مہمل سی رسم ہے اور اگر مستحق نہیں ہوں تو شکر یہ سوائے تصنع کے اور کیا ہو سکتا ہے بہرحال میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بزرگی اور خوردی کے یہی تعلقات ہو سکتے ہیں جو آنحضور اور اس کفش بردار کے درمیان ہیں۔ بیٹا باپ کی سرپرستی کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ لہذا میں بھی شکریہ کو درمیان میں لا کر بے گانگی کو اس طرح نشوونما دینا نہیں چاہتا۔ البتہ یہ جانتا ہوں کہ کوئی خرید رہا ہے اور کوئی بک رہا ہے مجھ جنس ارزاں کی آپ نے قیمت برھائی تو یہ بھی کہنے دیجئے کہ ع۔ نرخ بالا کن کہ ار زانی ہنوز
کفش برادر
شوکت تھانوی ۱۱/ اگست ۱۹۳۷ء<
مولانا عبدالمجید سالک کا مکتوب مورخہ ۲۰/ اپریل ۱۹۳۸ء
>محترمی حضرت قبلہ۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ
جتنی ساعتیں میں نے قادیان میں گزاریں۔ آپ کی برکت سے بے حد مسرت و اطمینان سے بسر ہوئیں۔ مولوی عبدالوہاب عمر۔ عبدالعزیز خاں صاحب۔ شاکر صاحب نے میری مدارات میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ افسوس ہے کہ میں بوقت رخصت آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکا۔ اس لئے کہ آپ مجلس شوریٰ میں مصروف تھے۔
مہر صاحب کی طرف سے سلام مسنون۔ عبدالمجید سالک
مولانا صلاح الدین احمد کا مکتوب
>محترمی و مکرمی ملک صاحب۴۷۲ السلام علیکم
ہارن بذریعہ ریلوے پارسل ارسال کر دیا گیا ہے۔ بلٹی ملفوف ہے۔ خدا کرے کہ آپ کو وقت پر مل جائے۔
میں اور میرے رفیق عاشق حسین صاحب۴۷۳ آپ کے محبت بھرے سلوک اور قادیان میں اپنے مختصر لیکن نہایت خوش آئند قیام کی یاد کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔
قبلہ حضرت میاں صاحب نے جس توجہ سے ہماری گزارشات کو سنا اور جس ایثار سے کام لے کر اپنے اوقات گرامی کا ایک معقول حصہ ہمیں باریاب فرمانے میں صرف کیا۔ ہم ان نوازشات کی یاد اپنے دلوں میں ہمیشہ تازہ پائیں گے حضرت صاحب کی خدمت میں ہمارا سلام نیاز پہنچا دیجئے۔
عبدالرحمن صاحب کی خدمت میں سلام علیکم۔
خاکسار صلاح الدین احمد<۔
خان بہادر میرزا عبدالرحمن چغتائی کا مکتوب
>محترم معظم قبلہ حضرت میاں صاحب بہادر بزرگوار
السلام علیکم۔ آپ کی خدمت اقدس میں یہ میرا تیسرا خط ہے اور یہ خط محض اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اگر کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معافی چاہوں۔ میری نیت نہایت نیک تھی اور لکھنے کی جرات عقیدت و احترام تھا۔ آپ جیسے وسیع الاخلاق اور روشن خیال انسان سے ایسی امید نہ کی جائے تو کہاں رسائی ہو۔
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔
آپ کا نیاز مند۔ والسلام
عبدالرحمن چغتائی لاہور<۔
اردو ادیبوں کے خطوط کے چربے
حضرت میر مہدی حسین صاحب کا سفر ایران اور حضرت امیر المومنینؓ کی زریں ہدایات
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ ۲۹/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو آنریری مبلغ کی حیثیت سے ایران تشریف لے گئے اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے قلم سے انہیں
مندرجہ ذیل ہدایات لکھ کر عطا فرمائیں۔ جو ہر مبلغ اسلام کے لئے شمع ہدایت ہیں۔
>مکرمی سید مہدی حسین صاحب۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`
آپ نے ایران جانے کا ارادہ کیا ہے اللہ تعالیٰ اس ارادہ کو پورا فرما کر اس کے نیک نتائج پیدا کرے۔ اس موقعہ پر میں چند امور کی طرف آپ کو توجہ دلاتا ہوں۔
۱۔
آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی ہے اور اس لئے آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے کام خدا تعالیٰ کے فضل سے ہیں اور صرف اس کی مدد ہمارے کام بنا سکتی ہے۔ پس تبلیغ سے زیادہ ہمارا زور دعائوں پر ہونا چاہئے۔
۲۔
بہترین تبلیغ اچھا نمونہ ہے جب خدا تعالیٰ کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو اس کے عمل میں برکت دیتا ہے اور لوگ اس کے نور سے خود بخود مرعوب ہونے لگتے ہیں۔
۳۔
تبلیغ میں ہمیشہ نرمی اور استقلال کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ ایک طرف تو دوسروں کے احساسات کا پورا پاس ہو ان کی محبت ہر لفظ سے ظاہر ہوتی ہو۔ لیکن دوسری طرف سچائی کے بیان کرنے میں بالکل بے خوفی کا اظہار ہو۔
۴۔
حضرت مسیح ناصریؑ نے ایک بہت اچھی نصیحت فرمائی ہے کہ جس جگہ کجی دیکھو اس قصبہ کی خاک تک جھاڑ کر چلے جائو۔ بعض لوگ حق کو قبول کرنے میں سابق ہوتے ہیں۔ ہمیشہ ایسے آدمیوں کی تلاش میں رہنا چاہئے اور ضدی لوگوں کو بعد میں آنے والوں کے لئے چھوڑ دینا چاہئے۔
۵۔
جماعت آبادان اور دوسری جماعتوں سے وقتاً فوقتا مشورہ لیتے رہا کریں کہ مشورہ کے کام میں برکت ہوتی ہے۔
۶۔
اپنے حالات سے ہر مرحلہ پر اطلاع دیتے رہیں کہ اس طرح دعا کی بھی تحریک ہوتی ہے اور دل کو بھی تسلی رہتی ہے۔ جب کوئی دوست باہر جاتا ہے تو ہزاروں مخلصوں کے دل اس کی فکر میں اندر ہی اندر گھلے جاتے ہیں۔ سچے مومن ایک دوسرے کے اعضاء ہوتے ہیں اور جب کوئی عضو الگ ہو تو ضرور تکلیف ہوتی ہے۔ پس جب تک خبر رسانی کے ذریعہ سے اطلاع حالات رہے دل تسلی پاتے رہتے ہیں۔ ورنہ تکلیف پاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے ارادہ میں برکت دے۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
مکرر یاد رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت وقت کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے ایران میں آپ اس حکومت کے تابع ہوں گے۔ پس حکومت کے قانون کی پابندی کا خیال رہے۔
خاکسار مرزا محمود احمد
مکتوب مبارک سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ
بنام حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ
عکس
سید عبدالباسط صاحب )ابن سید میر مہدی حسین صاحب( اس تبیلغی سفر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔ >حضرت والد صاحب قبلہ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں برائے اعلائے کلمتہ اللہ ایران کے لئے روانہ ہوئے۔ پاسپورٹ وغیرہ بنوا چکنے کے بعد خدا تعالیٰ نے کرائے وغیرہ کے سامان بھی خود ہی پیدا کر دیئے قادیان سے ظہر کی نماز مسجد مبارک میں ادا کرنے کے بعد ساڑھے تین بجے کی گاڑی سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے بٹالہ میں گاڑی تبدیل کرنی پڑی اور رات لاہور بڑے بھائی محترم سید عبدالغفور صاحب عطاء کے پاس پہنچ گئے۔ دوسرے دن آپ کراچی کے لئے روانہ ہوئے۔ کراچی جاکر معلوم ہوا کہ پاسپورٹ میں کچھ نقص رہ گیا ہے۔ مزید تصاویر بھجوانے کے لئے آپ نے مجھے قادیان خط لکھا۔ مگر اسی اثناء میں آپ کے ہاتھ پر اگزیما کی قسم کی پھنسیاں نکل آئیں۔ جن کے علاج کے لئے آپ کو قریباً ایک ماہ کراچی قیام کرنا پڑا۔ کراچی سے آپ ایران کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ نے بتایا کہ جب آپ ایران کی بندرگاہ آباد ان پر اترے تو وہاں احمدی احباب استقبال کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان سے تحریک جدید کے اعلان کی اطلاع ملی۔ یہ پہلا اعلان تھا۔ آپ کے پاس اس وقت صرف ۔/۴۹ روپے باقی تھے۔ وہ سب کے سب آپ نے سیکرٹری مال کو دے دیئے کہ آپ کی طرف سے تحریک جدید کے لئے حضور خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کر دیئے جائیں۔
آپ وہاں احمدی احباب کے ساتھ رہے۔ مگر آپ کی تبلیغ کو دوسرے لوگ پسند نہ کرتے تھے اور جماعت کے دوستوں پر زور دیتے تھے کہ تبلیغ بند کی جائے۔ چنانچہ مقامی احباب نے مرکز میں بھی لکھا اور آپ کی واپسی کے احکامات منگوا لئے۔ آپ نے مقامی احباب سے کہہ دیا کہ آپ مجھے یہاں سے واپس بھجوا رہے ہیں میں واپس جا کر دوبارہ آزادانہ طور پر آنے کی کوشش کروں گا۔ مگر اس عرصہ میں آپ کی نظر بہت ہی کمزور ہو چکی تھی اور سہارے کے سوا چلنا مشکل ہو گیا تھا۔ قادیان واپس آکر جب حضرت امیر المومنینؓ کی خدمت میں اجازت کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے آنکھوں کے علاج کی ہدایت فرمائی چنانچہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحبؓ ریٹائرڈ سول سرجن نے حضرت میر محمد اسحٰق صاحب ناظر ضیافت اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہانپوری کی مدد سے آپ کو نور ہسپتال میں لے جاکر آنکھوں کا کامیاب اپریشن کر دیا۔ الل¶ہ تعالیٰ نے بینائی واپس کر دی تو پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ حضور کے ارشاد کی تعمیل ہو چکی ہے۔ آنکھوں کا علاج ہو چکا ہے۔ اب ایران جانے کی اجازت دیں مگر حضورؓ چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں قادیان میں موجود رہیں۔ چنانچہ حضور نے قادیان میں ہی قیام کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس طرح آپ دوبارہ ایران تشریف نہ لے جا سکے۔
پرانے کاغذات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ۱۲/ مئی ۱۹۳۵ء کو کراچی واپس پہنچ گئے اور دو ایک دن کراچی میں قیام کرنے کے بعد آپ لاہور ہوتے ہوئے قادیان تشریف لے آئے تھے۔ اس طرح آپ کی واپسی مئی ۱۹۳۵ء کے آخری ہفتہ میں قادیان میں ثابت ہوتی ہے۔
ایران میں قیام کے زمانہ کے حالات آپ نے ہمیں بہت کم سنائے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کا بڑا موقعہ دیا۔ مختلف گورنروں اور بڑے بڑے حکام سے بے دھڑک ملتا تھا اور ان کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتا تھا چونکہ آپ احمدیت قبول کرنے سے قبل شیعہ مذہب میں تھے اس لئے آپ کو مرثئے بھی بہت سے حفظ تھے اور آواز بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بلند اور سریلی تھی اسی طرح بڑی روانی سے فارسی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے میل ملاقات میں آپ کو بڑی سہولت ہوتی تھی<۔۴۷۴
تحریک احمدیت کے ذریعہ سے پادریوں کی شکست فاش کا اعتراف
اس سال دہلی سے برصغیر کے مشہور تاجر کتب مولوی نور محمد صاحب نقشبندی قادری چشتی مالک کارخانہ تجارت کتب دہلی نے حضرت شاہ رفیع الدین رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے دو ترجموں والا >معجزنما کلاں قرآن شریف< شائع کیا۔ جس کے دیباچہ مین تسلیم کیا کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی اور ہندوستان کو عیسائی بنانے کی سازش عقیدہ وفات مسیحؑ کے ذریعہ سے بالکل ناکام بنا دی چنانچہ انہوں نے لکھا۔
>اسی زمانہ میں پادری لفرائے پادریوں کی ایک بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنا لوں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا اسلام کی سیرت و احکام پر جو اس کا حملہ ہوا تو وہ ناکام ثابت ہوا کیونکہ احکام اسلام و سیرت رسول~صل۱~ اور احکام انبیاء بنی اسرائیل اور ان کی سیرت جن پر اس کا ایمان تھا یکساں تھے پس الزامی و نقلی و عقلی جوابوں سے ہار گیا۔ مگر حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا۔ تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لیفرائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰؑ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسیٰؑ کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں۔ پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو۔ اس ترکیب سے اس نے لفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی<۔۴۷۵
افسوس ۱۹۳۴ء کے بعد >معجز نما کلاں قرآن شریف< کے دیباچہ سے وہ پورا باب جس میں مندرجہ بالا عبارت درج تھی بالکل حذف کر دیا گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
جلیل القدر صحابہ اور بعض دوسرے بزرگوں کا وصال
اس فصل کے خاتمہ پر اب ان بزرگوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو ۱۹۳۴ء میں داغ مفارقت دے گئے۔
۱۔
محی الدین صاحب مالا باریؓ )مالا بار کے سب سے پہلے احمدی( حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۵/ جنوری ۱۹۳۴ء کو ان کی نماز جنازہ سے قبل فرمایا۔ >پرانے احمدی تھے مالا بار میں احمدیت ان کے ذریعہ ہی قائم ہوئی ہے ان کے بچے بھی یہیں پڑھے جن میں سے ایک کی تو زندگی وقف ہے اور گو دوسرے دینوی کام کرتے ہیں مگر مخلص نوجوان ہیں<۔4] fts[۴۷۶
۲۔
عبدالکریم صاحبؓ آف یادگیر )حیدر آباد دکن( ۵/ جنوری ہی کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی نسبت فرمایا۔ >دوسرا جنازہ عبدالکریم صاحب کا ہے۔ عام قانون کے ماتحت میں ان ہی کا جنازہ پڑھتا ہوں جو یا تو جماعت کے خاص کارکن ہوں یا پرانے احمدی اور حضرت مسیح موعودؑ کے وقت خدمات کرچکے ہوں یا جن کا جنازہ پڑھنے والا کوئی احمدی نہ ہو لیکن ان صاحب کا اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ معجزہ تھے۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کو باولے کتے نے کاٹا اور کسولی سے علاج کرانے کے بعد حملہ ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے شفا یاب ہوئے۔۴۷۷
۳۔
اسی روز حضور نے چودھری غلام حسین صاحبؓ کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور فرمایا >آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں احمدی ہوئے۔ بہت مخلص تھے مگر بعد میں غیر مبائع ہو گئے تھے۔
آخری عمر میں ان کو توجہ ہوئی تھی اور مجھے لکھا تھا کہ دعا کریں۔ اگر آپ کی بیعت ہی میں ہدایت ہے تو اللہ تعالیٰ میرے نصیب کرے اور مجھ پر حق کھول دے۔ کتابیں پڑھتے اور تحقیقات کر رہے تھے کہ فوت ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے غیر مبائع جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں خدمت کی ہے اگر اب انہوں نے ہتک نہ کی ہو تو ہمارا فرض ہے کہ حضورؑ کی طرف سے ان کی خدمت کا آخری بدلہ جنازہ پڑھ کر دیں۔ اس پر کئی لوگ مجھ پر ناراض بھی ہوئے ہیں۔ مگر اس بارے میں میرا نفس اس قدر مطمئن ہے کہ میں کسی کی ناراضگی کی پروا نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں ہمارے دل بغض سے پاک ہونے چاہئیں۔ زندگی میں ہم ان سے دلائل سے لڑیں گے۔ لیکن ان کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ سے یہی کہیں گے کہ یہ تیرے مسیح پر ایمان لائے تھے۔ ہمیں جو تکلیف ان سے پہنچی ہے وہ معاف کرتے اور تیرے حضور ان کے لئے مغفرت کی درخواست کرتے ہیں۔ خواجہ کمال الدین صاحب کی وفات پر بھی میں نے ایسا کیا تھا۔ خلافت کا انکار تو اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر ان کی وفات کی خبر سنتے ہی میں نے ان کے لئے دعا کی اور کہا کہ میں اپنی تکالیف معاف کرتا ہوں اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف کر دے۔ مرنے کے بعد ایسی بات کو دل میں رکھنا بہت ہی ادنیٰ سمجھتا ہوں<۔۴۷۸
]in [tag۴۔
اسی سال حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ مبلغ ملکانہ کی وفات ہوئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۸/ جون ۱۹۳۴ء کے خطبہ جمعہ میں خاص طور پر ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>مولوی جلال الدین صاحبؓ جو کھریپڑ ضلع فیروزپور کے رہنے والے تھے اور ملکانوں میں تبلیغ کے لئے مین پوری رہتے تھے۔ فوت ہو گئے ہیں وہ پرانے اور نہایت مخلص احمدی تھے۔ میں دیر سے انہیں جانتا ہوں۔ یہ تو میں۴۷۹ نہیں کہہ سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں آئے یا بعد لیکن حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ سے میرے ان سے تعلقات تھے میرا ۲۷ سالہ تجربہ ہے کہ میں نے ان کے چہرہ پر کبھی اصامت کے آثار نہیں دیکھے۔ ہمیشہ خوش نظر آتے کئی دفعہ وہ اپنے معاملات پیش کرتے اور انہیں ایسا مشورہ دینا پڑتا جو ان کے خاندان کے خلاف ہوتا مگر وہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے سنتے اور ہنستے ہوئے کہتے کہ اچھا یہ بات ہے اور کبھی کسی بات پر برا نہ مناتے انہیں تبلیغ کا جنون تھا۔ مین پوری سے جو احمدی آتے بلکہ بعض اوقات وہاں سے غیر احمدی بھی آتے وہ بتاتے کہ ان کے تقویٰ و طہارت کا اس علاقہ میں گہرا اثر ہے۔ جس طرح ان کی وفات ہوئی۔ وہ بھی اپنے اندر شہادت کا رنگ رکھتی ہے۔ سخت گرمی کے دن ہیں وہ ایک جگہ تبلیغ کے لئے گئے اور یہ گوارا نہ کیا کہ تمام دن وہیں گزاریں۔ لوگوں نے بھی کہا کہ گرمی بہت ہے یہیں ٹھہر جائیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ نہیں دوسری جگہ جا کر بھی تبلیغ کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ چلے گئے اور رستہ میں سن سٹروک جسے ضربتہ الشمس کہتے ہیں ہو گیا اور بے ہوشی میں کسی گوردوارے کے سامنے جاگرے اور فوت ہو گئے۔ لوگوں نے پولیس والوں کو بلایا۔ وہ بھی آپ کو پہچانتے تھے تو یہ موت بھی شہادت کی موت ہے<۔۴۸۰
ان بزرگ ہستیوں کے علاوہ مندرجہ ذیل صحابہؓ کی وفات بھی اسی سال ہوئی۔ حضرت بابو عزیز الدین صاحب سیالکوٹیؓ۴۸۱ )تاریخ وفات ۹/ مئی ۱۹۳۴ء(۔ حضرت حکیم محمد عبداللہ صاحبؓ ماچھیواڑہ ضلع لدھیانہ۴۸۲ )؟( حضرت مستری قطب الدین صاحبؓ بھیروی۴۸۳۔ حضرت ملک نور الدین صاحبؓ۴۸۴ )تاریخ وفات ۳۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء( حضرت حکیم محمد الدین صاحبؓ آف گوجرانوالہ )تاریخ وفات ۱۰/ نومبر ۱۹۳۴ء(۴۸۵ حضرت صوفی کرم الٰہی صاحب آف لاہور )تاریخ وفات ۱۶/ دسمبر ۱۹۳۴ء( حضرت صوفی صاحب کا نام ضمیمہ >انجام آتھم< کی فہرست ۳۱۳ اصحاب کبار میں ۲۹۰ نمبر پر درج ہے۔
خواتین میں سے حضرت خان بہادر نواب محمد الدین صاحب )ممبر کونسل آف سٹیٹ و ریونیو ممبر ریاست جے پور( کی اہلیہ۴۸۶ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی اہلیہ۴۸۷]ydbo [tag اور سیٹھ محمد سعید صاحب عرب کی اہلیہ۴۸۸ بھی اسی سال وفات پا گئیں۔ موخر الذکر حضرت علامہ مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی بیٹی تھیں۔
tav.7.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
پہلا باب )فصل سیز دھم(
دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کا قیام
مشرقی افریقہ کا اسلامی عہد اقتدار
حصول آزادی سے قبل )جو پچھلے چند سالوں میں ہوئی( برطانوی مشرقی افریقہ چار علاقوں پر مشتمل تھا۔
۱۔ کینیا کالونی ۲۔ یوگنڈا ۳۔ ٹانگا نیکا ۴۔ زنجبار۴۸۹
یوں تو زمانہ قدیم سے عرب کا مشرقی افریقہ کے ساحلی علاقوں سے تجارتی تعلق رہا ہے۔ لیکن ظہور اسلام کے بعد پہلے سے زیادہ تعداد میں عربوں نے یہاں آنا شروع کیا۔ اب ان کے پیش نظر تجارت کے ساتھ تبلیغ اسلام بھی تھی۔ اس کے علاوہ خلیج فارس سے ملحق ملکوں کے مسلمان باشندوں نے بھی حسب سابق اپنی آمد جاری رکھی اور چھوٹے چھوٹے جزیروں میں مستقل طور پر اپنی تجارتی کوٹھیاں اور آبادیاں قائم کر لیں اور وہ سمندر کے کنارے بعض قصبات میں آباد ہو گئے۔ انہوں نے اصل باشندوں کی )جو سیام فام اور BANTU نسل سے تھے( عورتوں سے شادیاں کرنا شروع کر دیں۔ ان سے جو بچے پیدا ہوئے انہیں سوا حیلی کہا جانے لگا۔ اس عرصہ میں اہل عرب و فارس نے جن کی اکثریت شافعی مسلک کی تھی۔ پورے طور پر فروغ حاصل کر لیا اور افریقہ کے مشرقی ساحل سے لے کر جنوب تک ان کا تسلط قائم ہو گیا جو چار پانچ سو سال تک رہا اور آج بھی ان کے عہد اقتدار کے اثرات پرانے کھنڈروں` عمارتوں اور اصل باشندوں کے لباس اور ان کی زبان سے ظاہر ہیں۔
عیسائی مشنوں کی یورش
چار پانچ صدیوں کا زمانہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ اگر اس مدت دراز میں اشاعت اسلام کی منظم جدوجہد کی جاتی تو پورا مشرقی افریقہ مسلمان ہوتا اور عیسائیوں کو یہاں قدم رکھنے کی جرات نہ ہوتی۔ مگر اس زمانے کے مسلمانوں نے تبلیغی جہاد سے بے اعتنائی برتی اور مشرقی افریقہ کی وسیع اسلامی حکومت سمٹ کر زنجبار کی مختصر سی برائے نام ریاست میں محدود ہو گئی اور ہر جگہ عیسائی پادریوں نے اپنا وسیع جال پھیلا دیا۔
چنانچہ ۱۸۴۰ء میں مسلم اکثریت کے علاقہ میں عیسائی مشن قائم ہوا۔ جس نے افریقہ کے اصل باشندوں میں پورے زور کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ تعلیمی و طبی ادارے اور یتیم خانے قائم کئے اور خدمت خلق کے مختلف قسم کے کام سر انجام دینے کے علاوہ تبلیغ کے ذریعہ سے اس طرح عیسائیت کی اشاعت کی کہ بیسویں صدی کے پہلے اڑتیس انتالیس برسوں میں پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک کی اٹھارہ سوسائٹیوں کی زبردست جدوجہد کے نتیجہ میں افریقن آبادی کا دسواں حصہ عیسائیت کی آغوش میں چلا گیا اور جہاں مسلمانوں کی کثرت تھی یا ہے وہاں اردگرد کے علاقہ میں عیسائی مشن نے سکول وغیرہ کھول کر یہ کوشش کی کہ کینیا کالونی کے جس تھوڑے سے حصہ میں اسلام ہے وہاں سے بھی وہ رخصت کر دیا جائے۔ چنانچہ ۳۹۔ ۱۹۳۸ء کے قریب عیسائیوں نے IN DAY NEW <A KENYA> کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں لکھا۔
DECADENT LARGELY BEEN HAS KENYA IN MOHAMMEDANISM THAT FACT ><THE۔NEGLECTED BE SHOULD IT PROFESSING THOSE WHY REASON NO IS APETHETIC AND
صفحہ ۱۳۲ زیر عنوان PROBLEM MUSLEM (THE
یعنی یہ حقیقت کہ مذہب اسلام کینیا میں بہت حد تک زوال پذیر ہو رہا ہے اس امر کی وجہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگ جو اپنے تئیں اسلام کی طرف منسوب کر رہے ہیں نظر انداز کر دیئے گئے جائیں اور انہیں عیسائیت کی تبلیغ نہ کی جائے۔ نیز لکھا۔
THE SEIZE CHURCH CHRISTIAN THE WILL BUT ۔CROSSROAD THE AT TODAY IS 133ISLAM ۔P >OPPORTUNITY
یعنی اسلام تو اب دم توڑ رہا ہے لیکن کیا عیسائیت اس موقعہ سے فائدہ اٹھائے گی اور اسے بھی پورے طور پر اپنے قبضہ میں کرے گی؟
زنجبار جو مشرقی افریقہ کی اسلامی سلطنت کا مرکز رہا ہے سب سے زیادہ عیسائیت کے نرغہ میں گھر گیا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ اسلام کے خلاف سب سے زیادہ لٹریچر یہیں سے شائع ہونے لگا۔ حتیٰ کہ یہاں سے سواحیلی میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔ جس سے اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کا وسیع دروازہ کھل گیا۔ زنجبار میں یونیورسٹیز مشن نے ہیڈ کوار قائم کر لیا اور اس کے زیر انتظام بہت بڑا سکول پریس اور کتب خانہ کھل گیا۔ یہاں سواحیلی اور عرب باشندوں میں اگرچہ عیسائیت نہیں پھیلی۔ لیکن ان کے تمدن و تہذیب کو مغربیت کا جامہ پہنا کر انہیں ذلیل بنا دیا گیا۔
یوگنڈا میں عیسائی مشنریوں نے اپنا کام ۱۸۶۲ء میں شروع کیا اور پچھتر سال کے اندر اندر عیسائیوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ حد یہ ہے کہ مسلمانوں نے جو صدیوں تک حکمران رہے پادریوں کو تو ہر قسم کے آرام پہنچائے اور سہولتیں مہیا کیں لیکن خود تبلیغ اسلام کے لئے کوئی خاص جدوجہد نہ کی اس پر مصیبت یہ کہ عربوں نے غلاموں کی تجارت سے بہت برا اثر ڈالا۔ کہتے ہیں کہ I MUTESA KING نے ایک بار عربوں اور عیسائی پادریوں کو اپنے دربار میں بلایا۔ یہ شخص لامذہب تھا لیکن اسلام کی طرف مائل تھا اس کے کسی سوال پر عربوں نے کہا کہ انسانوں کو پکڑنا اور فروخت کرنا جائز ہے مگر پادریوں نے اسی سوال کا یہ جواب دیا کہ ہم تمام انسان خدا کے بیٹے ہیں اور وہ ہم سب کا باپ ہے یہ بات سن کر بادشاہ اپنے درباریوں سمیت اسلام سے بدظن ہو گیا اور اس کے وزیر عیسائی ہو گئے ازاں بعد ملک میں عیسائی حکومت قائم ہو گئی چنانچہ WA DAUDICH SIR جو ۱۹۳۸ء میں تخت حکومت پر متمکن تھا عیسائی تھا۔
سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ اس علاقہ میں جو تھوڑے بہت مسلمان رہ گئے وہ بھی یہ سمجھنے لگے کہ جب عربوں نے غلاموں کی تجارت کی تو اسلام اس کی اجازت دیتا ہو گا۔ اس طرح اسلام اور غلامی مترادف الفاظ بن گئے۔ جو آئندہ چل کر اشاعت اسلام کی کوشش میں بری طرح رخنہ انداز ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
ٹانگا نیکا ایک بہت بڑا علاقہ ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریزوں کے قبضہ میں آگیا اور پھر اس میں عیسائی مشنوں کا دبائو یہاں تک بڑھ گیا کہ )۱۹۳۸ء تک( بائیس رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مشن مختلف ممالک کی طرف سے قائم ہو چکے تھے جن کے ماتحت ۲۴۵ اہم مراکز تھے اور بارہ سو غیر ملکی مشنری کام کر رہے تھے ان مشنوں کے قریباً پانچ ہزار مختلف قسم کے سکول کھل چکے تھے۔ ہسپتال اور ڈسپنسریاں مزید برآں تھیں۔ مسیحیت کے فروغ و اشاعت کے لئے کئی رسائل و اخبارات شائع ہوتے تھے اور ٹانگا نیکا کی مختلف ۳۳ زبانوں میں عیسائیت کا لٹریچر شائع ہو چکا تھا۔ اس تمام جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ساڑھے تین لاکھ کے قریب افریقن عیسائیت میں داخل ہو گئے۔۴۹۰
مشرقی افریقہ میں اشاعت احمدیت کی ابتدائی تاریخ
شروع ۱۸۹۶ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دو صحابی حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ اور حضرت میاں عبداللہ صاحبؓ نو مسلم یوگنڈا ریلوے میں بھرتی ہو کر کینیا کالونی کی بندرگاہ ممباسہ میں پہنچے۔ یہ سب سے پہلے احمدی تھے جنہوں نے مشرقی افریقہ کے ساحل پر قدم رکھا۔ اسی سال تھوڑے تھوڑے وقفہ سے حضرت ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خاں صاحبؓ گوڑیانوی )ملٹری میں( شیخ محمد بخش صاحبؓ ساکن کڑیانوالہ۴۹۱ ضلع گجرات )بعہدہ ہیڈ جمعداری( حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ جالندھری اور حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ ساکن تھہ غلام نبی متصل قادیان۔ حضرت حافظ محمد اسحٰق صاحبؓ اور ان کے بھائی میاں قطب الدین صاحب ساکن بھیرہ بھی یوگنڈا ریلوے کے ملازم کی حیثیت سے وارد ممباسہ ہوئے۔ اور مشرقی افریقہ میں پہلی احمدیہ جماعت کی داغ بیل پڑی۔
۱۸۹۶ء میں تشریف لے جانے والے صحابہ میں سے حضرت حافظ محمد اسحٰق صاحبؓ اور شیخ حامد علی صاحبؓ کو آب و ہوا کی ناموافقت یا بعض دوسرے ضروری اور نجی امور کی وجہ سے جلد واپس آنا پڑا۔ لیکن ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گوڑیانوی تین سال تک ملٹری میں رہے اور بڑی متانت اور حکمت کے ساتھ اپنے حلقہ میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کرتے رہے۔ فوج کے اکثر مسلمانوں نے ڈاکٹر صاحبؓ سے قرآن مجید پڑھا اور اپنا دینی علم بڑھایا بعضوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی خوابیں آئیں اور وہ بیعت سے مشرف ہوئے۔ جن میں سے بابو عمر الدین صاحب بھی تھے جنہوں نے ۷/ اکتوبر ۱۹۰۰ء کو کلنڈینی میں انتقال کیا۔۴۹۲ حضرت ڈاکٹر صاحب کے فیض صحبت سے ان کے ساتھ کام کرنے والے پانچ مسلمان ڈاکٹروں کو بھی شناخت حق کی توفیق ملی۔ اس ضمن میں اخبار الحکم ۲۹/ اکتوبر ۱۸۹۸ء میں مندرجہ ذیل خط درج ہے۔
یہاں ممباسہ اور مشرقی افریقہ کے گردونواح میں ایک شخص مبارک نامی بگڑا ہوا باغی سردار تھا یہ شخص سلطان زنجبار کے مشیروں میں سے تھا۔ مگر جب سلطان نے سلطنت برطانیہ سے کچھ عہد و پیمان کرکے ممباسہ جس میں بیٹھے ہم مضمون لکھ رہے ہیں کچھ عرصہ کے لئے انتظام ملکی وغیرہ کی خاطر صاحبان انگریزی کو دے دیا تو یہ شخص مبارک سلطان کا سخت دشمن ہو گیا اور ہر طرح اور ہر طرف سے سلطان زنجبار کو تنگ کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ہوتے ہوئے صاحبان انگریز کس طرح چین سے اس جزیرے میں نڈر بیٹھ سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی سرکوبی کے لئے )ایک فوجی کمپنی(۴۹۳4] f[rt یہاں آئی تھی ۔۔۔۔۔۔ یہ فوج اس شخص مبارک سے ۔۔۔۔۔۔۔ جنگلوں میں لڑی اور آخر کار ۔۔۔۔۔۔ ایک ایسے جنگل میں جا پڑی جہاں پانی کا نشان نہ ملتا تھا اور پانی کے نہ ملنے کی وجہ سے اس پر سخت مصیبت طاری ہوئی مگر اسی اثناء میں انہیں ایک باغیچہ ناریل کا مل گیا۔ جس سے انہوں نے اپنی بلب جانوں کو بچا لیا۔ مبارک ان کے مقابلہ کی تاب نہ لا سکا اور آخر کار جنگلوں میں بھاگ کر اپنے کئے کی پاداش بھوگ رہا ہے۔
اس فوج میں علاوہ مسلمان سپاہیوں کے ۶ ہاسپٹل اسسٹنٹ تھے جس میں سے ایک ہمارے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایدہ اللہ بنصرہ کے مخلص مرید ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب ساکن گوڑیانی تھے اور دوسرے پانچ صاحبان اول اول عدم واقفیت کی وجہ سے ہمارے مشن کی مخالفت کرتے رہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کے سینوں کو حق کی شناخت کے لئے کھولا اور ہر ایک نے نیاز نامہ حضرت اقدس کی خدمت میں مخلصانہ روا نہ کیا۔۴۹۴
اس کامیابی پر فوج کے بعض مسلمان افسروں نے یہ الزام لگایا کہ ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ برطانیہ کے خلاف اشتعال پھیلا رہے ہیں مگر جب اس کی رپورٹ کپتان تک گئی تو یہ بات غلط نکلی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کو مضافات ممباسہ کے علاوہ مشرقی افریقہ کی دوسری بندرگاہوں پر بھی جانا پڑا اور انہوں نے ہر جگہ سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ کی۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ تین سال کے بعد اپنے وطن تشریف لے آئے مگر حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ اور حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ۴۹۵ برابر پانچ برس تک مخالفت کے باوجود اشاعت احمدیت میں مصروف رہے ان بزرگوں کے ذریعہ سے جو لوگ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے ان میں سب سے نمایاں اور ممتاز فرد حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب )آف رنمل ضلع گجرات( تھے۔ جنہوں نے قبول حق کے بعد اپنے اندر مثالی تبدیلی پیدا کی۔ احمدی ہونے کے بعد ان کی بہت مخالفت ہوئی مگر ان کے نیک نمونہ نے نہ صرف اپنے حقیقی بھائی حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحبؓ اور حضرت پیر برکت علی صاحبؓ کو سلسلہ احمدیہ سے منسلک کر دیا۔۴۹۶ بلکہ سیٹھ فتح دین صاحبؓ جہلمی۔ ڈاکٹر سلطان علی صاحبؓ اور ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ۴۹۷ )احمدی( آف گجرات اور کئی اور اصحاب آپ کے اثر سے حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے اور پھر ان کے ذریعہ سے احمدیت کا نور پھیلنا شروع ہوا۔ چنانچہ ڈاکٹر عبداللہ صاحب )احمدی( کی تبلیغ سے میرو (MERU) میں جونیر وبی سے دو سو میل کے فاصلہ پر ایک گائوں ہے قاسم منگیا نامی ایک میمن اپنے خاندان سمیت داخل سلسلہ ہوئے پھر رفتہ رفتہ مخلصین کی ایک جماعت پیدا ہو گئی جن میں سیٹھ عثمان یعقوب صاحب اور ان کے بڑے بھائی حاجی ایوب صاحب اور سیٹھ نور احمد صاحب` حاجی ابراہیم صاحب اور حاجی ایوب صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔۴۹۸
حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب ممباسہ کے کلنڈینی (KILINDINI) ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ یہ ہسپتال ان دنوں مشرقی افریقہ میں اشاعت احمدیت کا ایک مرکز بن گیا تھا جہاں جماعت کے باقاعدہ ہفتہ وار اجلاس ہوتے۔ قرآن مجید اور کتب حضرت مسیح موعودؑ کا درس دیا جاتا اور مسئلہ حیات و وفات مسیحؑ پر تقاریر کی جاتیں۔۴۹۹
حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ ۱۹۰۱ء کے شروع میں واپس ہندوستان تشریف لائے اور پھر سومالی لینڈ گئے۔ جہاں آپ فوجی خدمات بجا لارہے تھے کہ اٹھائیس برس کی عمر میں شہید کر دیئے گئے۔۵۰۰ )تاریخ شہادت ۱۰/ جنوری ۱۹۰۴ء(۵۰۱
کلنڈنی بندرگاہ )مشرقی افریقہ( میں مقیم اولین صحابی
بابو محمد افضل صاحب نے الحکم ۱۹/ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۵ پر حسب ذیل اعلان شائع کیا جس سے مشرقی افریقہ کے اولین صحابہ کے مبارک ناموں کی تفصیل کا بھی علم ہوتا ہے۔
جماعت افریقہ کی طرف سے اپنی جماعت میں سے افریقہ آنے والے اصحاب کے لئے ضروری نوٹس
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ!`
چونکہ بعض احباب اپنی جماعت و سلسلہ ملازمت میں یہاں ایسی صورت میں پہنچے کہ کلنڈنی بندرگاہ پر جہاں کہ ہر ایک گروہ ملازمین آمدہ از ہند کا ۳ دن ضرور قیام کیا کرتا ہے۔ اگرچہ حضرت اقدس کے خادمین مستقل طور پر خدمات یوگنڈا ریلوے پر متعین ہیں مگر تاہم عدم واقفیت کی وجہ سے نووارد احباب ان سے ملاقات نہ کر سکے اور جب وہ اپنی اپنی جگہ پر تبدیل ہو کر لائن پر چلے گئے تو پیچھے سے ان کو اس بات کا علم ہوا کہ ہمارے بھائی کلنڈنی میں بھی ہیں اور اس طرح سے ہم لوگوں کو جو بندر پر رہنے کی وجہ سے ان اصحاب کی زیارت کے اول حقدار تھے۔ ایک ایک اور دو دو ماہ کے بعد ان سے ملاقات نصیب ہوئی۔ لہذا آئندہ کی سہولت کے خیال سے ذیل میں ہم ایک فہرست اپنے تمام ممبران جماعت افریقہ کی درج کر دیتے ہیں تاکہ ہر ایک نووارد بھائی آتے ہی کسی ممبر جماعت سے مل کر ان تمام تکالیف سے امن میں رہے جو کہ اجنبیت کی حالت میں ایک مسافر کو پیش آسکتی ہیں۔ اور نیز بندر پر رہنے والے بھائیوں کو زیادہ انتظار اپنے نو وارد بھائیوں کی زیارت کا نہ کرنا پڑے حضرت اقدس کے ان خادمین کی فہرست جو کہ کلنڈنی بندر پر مستقل طور پر مقیم ہیں۔
۱۔
سید کرم حسین صاحب انچارج کول اشو کلرک کلنڈنی بندرویہ ہمارے بھائی ہمیشہ بندر کے کنارے پر ہی رہتے ہیں۔
۲۔
بابو رحمت علی صاحب سیپل اسسٹنٹ کلنڈنی ہسپتال۔ ساکن انمل ضلع گجرات۔
۳۔
سیٹھ احمد دین صاحب قصاب کلنڈنی بازار۔ ساکن جادہ ضلع جہلم۔
۴۔
خاکسار راقم الحروف محمد افضل کلنڈنی بازار ساکن قادیان۔
جماعت احمدیہ افریقہ کے کل باقی ممبران کی فہرست۔
۵۔
ہیڈ جمعدار صاحب محمد بخش ساکن کڑیانوالہ۔ کنسٹرکشن نمبر ۱۔ ڈویژن۔
۶۔
خواجہ احمد صاحب وارڈ مین کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ ساکن گجرات۔
۷۔
عظیم شاہ صاحب باورچی کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ داسوہہ۔
۸۔
حافظ الٰہی بخش صاحب وارڈ مین کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ سیالکوٹ۔
۹۔
میاں دین محمد صاحب مزدور کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ گوجرانوالہ۔
۱۰۔
شیخ فضل کریم صاحب عطاء جمعدار کلنڈنی یوروپین ہاسپٹل۔ سیالکوٹ۔
۱۱۔
سید محمد شاہ صاحب کلرک ٹیلیفون کلنڈنی بندر۔ ضلع جالندھر
۱۲۔
میاں بھولا ٹھیکیدار مینٹیننس ڈویژن ساکن جادہ ضلع جہلم۔
۱۳۔
میاں محمد ابراہیم اینڈ کو ٹھیکیدار مینٹیننس ڈویژن۔ پسرور ضلع سیالکوٹ
۱۴۔
حافظ محمد صاحب مینٹیننس ڈویژن۔ ساکن کوٹلہ ریمہ جہلم
۱۵۔
مستری نبی بخش صاحب سب انسپکٹر۔ کوٹ جادہ
۱۶۔
شیخ نور احمد صاحب ٹائم کیپر۔ جالندھر
۱۷۔
بابو محمد الدین صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ محکمہ ریلوے ٹرانسپورٹ۔ ساکن بٹالہ
۱۸۔
میاں محمد نادر خاں صاحب تھانہ دار سٹیشن کمہنیڈو۔ ضلع جہلم
۱۹۔
میاں محمد اسماعیل ٹائم کیپر پلیٹ لے انگ کڑیانوالہ۔
۲۰۔
میاں جواہر زرگر کلنڈنی بازار جہلم۔
۲۱۔
شیخ عنایت اللہ صاحب سٹور کیپر کلرک ہیڈ ڈویژن۔ لاہور۔
۲۲۔
حافظ محمد الیاس صاحب قاری فیض پوریہ جمعدار۔ فیض پور۔
۲۳۔
بابو رستم علی صاحب راشن سٹور کیپر مکہنیڈو۔ جالندھر۔
)راقم محمد افضل از کلنڈنی بلند ممباسہ۔ لائن سیٹھ احمد الدین صاحب قصاب ۶/ فروری ۱۸۹۹( )الحکم ۱۹/ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۵(
مشرقی افریقہ کے قدیم صحابہ کی ایک فہرست
مشرقی افریقہ میں تشریف لے جانے والے صحابہ کی تبلیغ سے احمدیت ترقی کرنے لگی اور پانچ سال کے عرصہ میں ۱۸۹۶ء سے لے کر ۱۹۰۱ء تک احمدیوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہو گئی جن کی فہرست الحکم ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ میں شائع شدہ ہے اور وہ یہ ہے۔
تفصیل بیعت کنندگان جنہوں نے افریقہ میں حضرت اقدس سے بیعت کی۔
۱۔ ڈاکٹر رحمت علی صاحب ضلع گجرات
۲۲۔ غلام قادر صاحب ڈریسر۔ گجرات
۲۔ ٹھیکیدار محمد ابراہیم صاحب پسرور
۲۳۔ فتح دین صاحب جمعدار گجرات
۳۔ فرزند علی صاحب سوداگر پسرور
۲۴۔ عظیم شاہ صاحب باورچی ہسپتال
۴۔ سیٹھ احمد دین صاحب جہلم
۲۵۔ منشی علی محمد صاحب
۵۔ میاں جواہر صاحب زرگر جہلم
۲۶۔ محمد اسمعیل صاحب ساکن کڑیانوالہ گجرات
۶۔ میاں اللہ دتہ صاحب زرگر جہلم
۲۷۔ برکت علی صاحب نوشاہی گجرات
۷۔ محمد عالم صاحب کلرک سٹور جہلم
۲۸۔ دولت علی صاحب نوشاہی گجرات
۸۔ میاں بھولا صاحب
۲۹۔ عبداللہ صاحب کمپونڈر گجرات
۹۔ نبی بخش صاحب مستری جاوہ۔ جہلم
۳۰۔ بابو غلام نبی صاحب اوورسیر ہوشیار پور
۱۰۔ غلام محمد صاحب ٹھیکیدار جہلم۔
۳۱۔ رحیم بخش صاحب مستری گجرات
۱۱۔ حافظ محمد صاحب ٹھیکیدار جہلم
۳۲۔ عبدالعزیز صاحب جمعدار گجرات
۱۲۔ محمد حفیظ صاحب ٹھیکیدار جہلم
۳۳۔ جان محمد صاحب ڈریسر گجرات
۱۳۔ سید محمد صاحب کلرک اسٹور۔
۳۴۔ مولوی فضل الرحمن صاحب کمپونڈر گجرات
۱۴۔ بابو غلام غوث شاہ صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ یوگنڈا ریلوے۔
۳۵۔ نادر خاں صاحب ڈپٹی انسپکٹر
۱۵۔ بابو محمد عبدالقادر صاحب اسٹیشن ماسٹر
۳۶۔ بابو علی اظفر صاحب کمپونڈر امرتسر
۱۶۔ منشی امیر خان صاحب ہسپتال ریلوے۔
۳۷۔ بابو مظہر علی صاحب کلرک امرتسر
۱۷۔ بابو محمد الدین صاحب مرحوم ویٹرنری اسسٹنٹ از جالندھر
]3col [tag۳۸۔ بابو فیض علی صاحب کمپونڈر امرتسر
۱۸۔ بابو مولا بخش صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ از جالندھر
۳۹۔ سید کرم حسین صاحب کلرک ساکن لاہور بھونڈ پورہ
۱۹۔ بابو سلطان علی شاہ صاحب کمپونڈر
۴۰۔ علی احمد شاہ صاحب لاہور
۲۰۔ بابو احمد صاحب کمپونڈر
۴۱۔ غلام حیدر صاحب سوداگر لاہور
۲۱۔ خواجہ احمد صاحب داروغہ ضلع گجرات
]3col [tag۴۲۔ غلام علی صاحب گھڑی ساز لاہور
۴۳۔ بابو اللہ داد خان صاحب گارڈ۔ لاہور
۴۴۔ بابو محمد عالم صاحب سگنیلر لاہور
۴۵۔ مستری کریم بخش صاحب ٹھیکیدار لاہور
۴۶۔ عالم شیر صاحب سپاہی گننجٹ
۴۷۔ عظیم خاں صاحب دفتر یوگنڈا ریلوے دہلی
col4] [tag
۴۸۔ حسن دین صاحب فائرمین لاہور
فہرست دیگر ممبران جماعت جو کہ ہند میں
بیعت کرکے افریقہ میں آئے۔
۱۔ محمد افضل صاحب ٹھیکیدار۔ لاہور
۷۔ حافظ محمد اسحاق صاحب اوورسیر۔ بھیرہ
۲۔ محمد بخش صاحب۔ کڑیانوالہ
۸۔ قطب الدین صاحب مستری۔ بھیرہ
۳۔ ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب۔ گوڑیانی
۹- بابو نبی بخش صاحب کلرک اکونٹنٹ آفس۔ لاہور
۴۔ شیخ نور احمد صاحب ٹائم کیپر حال کلرک ہسپتال جالندھر
۱۰۔ بابو عبدالرحمن صاحب کلرک لوکو آفس لاہور
۵۔ شیخ حامد علی صاحب جمعدار۔ قادیان
۱۱۔ چوہدری محمد اسمعیل صاحب جمعدار جھانرا والہ سیالکوٹ
۶۔ برادر شیخ حامد علی صاحب جمعدار۔ قادیان
۱۲۔ غلام محمد صاحب کمپونڈر۔ جالندھر۔۵۰۲
۱۹۰۱ء کے بعد بھی ہندوستان سے صحابہ کے جانے اور افریقہ میں بھی بیعت کرنے والوں کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ حضرت سید غلام حسین صاحبؓ۵۰۳ اور بھائی نظام الدین صاحب جہلمی۵۰۴ اور حضرت مولوی فخر الدین صاحب گھوگھیاٹ۵۰۵ اسی زمانہ میں افریقہ تشریف لے گئے اور پیغام حق پہنچاتے رہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے عہد مبارک میں بیرونی ممالک کے لحاظ سے مشرقی افریقہ کی احمدیہ جماعت سب سے پہلی اور سب سے بڑی جماعت تھی جس نے شروع ہی سے سلسلہ کی مالی قربانیوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
چنانچہ حضرت بابو محمد افضل صاحبؓ نے >الحکم< ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ء میں لکھا۔
>آج تک تخمیناً چھ ہزار سے زیادہ روپیہ افریقہ کی جماعت کی طرف سے اشاعت سلسلہ محکم تعلیم عمارات و فنڈ مساکین وغیرہ میں مختلف طور پر قادیان کی طرف روانہ کیا جا چکا ہے اس میں وہ اخراجات شامل نہیں ہیں جو کہ خاص افریقہ میں اشاعت سلسلہ کے متعلق کئے گئے ہیں۔ افسوس ہے کہ ¶کوئی باقاعدہ رجسٹر نہیں رکھا گیا جس میں پورے طور پر تعداد روپیہ اور دیگر کارروائی سلسلہ کی رکھی جاتی مگر انشاء اللہ آئندہ اس کا پورا پورا انتظام کیا جائے گا۔
اس مذکورہ بالا رقم میں بھاری بھاری رقمیں ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب` ڈاکٹر رحمت علی صاحب۔ سیٹھ احمد الدین صاحب اور محمد ابراہیم و محمد افضل ٹھیکیداران کی ہیں۔ جناب بابو نور احمد صاحب نے باوجود جمعداری کے عہدہ پر ہونے کے اور ۳۰ روپے تنخواہ پانے کے اپنی تین سالہ ملازمت میں چار سو روپیہ روانہ کیا۔
اور ایک صاحب میاں مصاحب دین کمپونڈر نے جو کہ ابھی تک اگرچہ جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہوئے اور صرف حسن ظن رکھتے ہیں اور جو کہ اپنی تین سالہ ملازمت کا بقیہ اندوختہ لے کر ہندوستان رخصت پر اپنے گھر جانے والے تھے۔ ایک دفعہ صرف یہ خبر سن کر حضرت مرزا صاحب کو خدمت دین کے لئے روپیہ کی سخت ضرورت ہے بڑی عالی ہمتی اور دریا دلی سے اپنی رخصت کو منسوخ کرا دیا اور کل اندوختہ روپیہ دینی خدمت کے لئے چندہ میں دے دیا<۔۵۰۶
خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں میں کینیا کالونی کے علاقہ میں ہندوستانی احمدیوں کی آمد کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ اور تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہونے لگا۔ چنانچہ میگاڈی (MAGADI) میں حضرت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحبؓ عرصہ تک دیوانہ وار تبلیغی جہاد میں مصروف رہے اور نیروبی میں حضرت سید معراج الدین صاحب۔ حضرت ڈاکٹر عمر الدین صاحب` مولانا عبدالواحد صاحبؓ جہلمی۔ حضرت بھائی دوست محمد صاحبؓ جہلمی۔ قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی` حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ۵۰۷ سید عبدالرزاق صاحب شاہ صاحب` محمد اکرم خان صاحب غوری` چوہدری نثار احمد صاحب` شیخ غلام فرید صاحب` بھائی عبدالرحیم صاحب ٹیلر ماسٹر` بھائی شیر محمد صاحب بٹ` ملک احمد حسین صاحب` سید یوسف شاہ صاحب` عبدالعزیز صاحب جہلمی` چوہدری محمد شریف صاحب بی۔ اے۵۰۸ اور دوسرے مخلصین کے وجود سے جماعت احمدیہ کو بہت تقویت ملی۔ اسی طرح ڈاکٹر سید ولایت شاہ صاحب کٹوئی (KITUI) میں عمر حیات خاں صاحب کسومو میں اور بھائی اکبر علی صاحب اور بابو محمد عالم صاحب ممباسہ میں پیغام حق پہنچاتے رہے۔
یوگنڈا میں پیغام احمدیت خلافت اولیٰ کے آخری سال یا خلافت ثانیہ کے آغاز میں پہنچا جبکہ سب سے پہلے ڈاکٹر فضل الدین صاحب وہاں پہنچے آپ کے بعد آپ کے بھائی ڈاکٹر احمد دین صاحب اور ڈاکٹر لعل دین صاحب۵۰۹ نیز بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر اور بابو نذیر احمد صاحب کھوکھر بھی تشریف لے گئے اور اس طرح ایشیائی احمدیوں کی ایک جماعت کا وہاں قیام ہو گیا۔
ٹانگا نیکا بہت دیر کے بعد احمدیت سے روشناس ہوا۔ اگرچہ ہندوستانی احمدیوں کی مختصر سی جماعت شروع میں اس علاقہ کے مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی تھی۔ مگر کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ آخر بابو محمد یوسف صاحب پوسٹ ماسٹر اور بعض دوسرے احمدیوں کی کوشش اور ہمت سے ٹانگا نیکا کے دارالحکومت دارالسلام میں باقاعدہ جماعت قائم ہوئی اور خاص طور پر میاں محمد بخش صاحب )ریلوے ڈرائیور( بابو محمد ایو صاحب بابو محمد جمیل صاحب` ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب` ڈاکٹر احمد دین صاحب اور فضل کریم صاحب لون` عبدالکریم صاحب ڈار مرحوم اور مختار احمد صاحب ایاز جیسے مخلص احمدیوں کی مالی قربانیاں اور تبلیغی کوششوں سے اس جماعت نے بڑا نام پیدا کیا۔ موخر الذکر دونوں بزرگوں کو ایک لمبا عرصہ ٹانگا نیکا )تنزانیہ( میں تکالیف دی گئیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط چٹان بن کر تبلیغی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ ٹانگا نیکا میں دوسرا مقام جہاں ہندوستانی احمدیوں کی ایک پرجوش جماعت قائم ہوئی۔ ٹبورا تھا۔ یہ جماعت اپنے اخلاص و محبت اور تبلیغی مساعی میں بہت آگے نکل گئی اور بہت جلد نیروبی` میرو` ممباسہ` کسوموں اور کمپالہ کے دوش بدوش خدمات سلسلہ بجا لانے لگی۔۵۱۰
نیروبی میں احمدیہ پریس کا قیام اور سلسلہ اشتہارات کا آغاز
نیروبی میں ۳۲۔۱۹۳۳ء میں مخالفین احمدیت کی طرف سے خاص طور پر نہایت کثرت سے گندہ لٹریچر شائع کیا گیا۔ قادیان سے جوابات چھپوا کر یہاں منگوانے میں بہت دیر ہوجاتی تھی اور نیروبی میں کوئی اردو پریس نہیں تھا۔ اس لئے جماعت احمدیہ نیروبی نے ایک سائیکلو سٹائل مشین کا انتظام کیا۔ مگر مستعمل ہونے کی وجہ سے یہ مشین کام نہ دے سکی۔ اس سے پہلے قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی ایک گلیسرین پریس تیار کرکے کچھ کام چلاتے رہے۔ مگر اس سے جماعتی ضروریات پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس لئے جماعت نے اپنی ایک پرانی طرز کی لیتھو ہینڈ پریس4] ft[s۵۱۱ مشین کو جو ناقابل استعمال اور خستہ حالت میں پڑی تھی۔ از سر نو درست کرایا اس کام میں یوگنڈا اور دارالسلام کے احمدیوں نے بھی کسی قدر مدد دی۔ یکم جون ۱۹۳۴ء کو اس پریس کا اجراء ہوا اور سب سے پہلا اشتہار >صداقت کی چمک< کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ یہ پریس احمدیہ مسجد نیروبی۵۱۲ کے مشرق کی طرف کی ایک کوٹھری میں نصب کیا گیا اور ساتھ کی دوسری کوٹھری میں پریس کا سامان رکھا گیا۔ قادیان سے کاپی کی سیاہی اور کاغذ منگوائے گئے پتھر کے وزن کی وجہ مشین آسانی سے نہیں چلتی تھی اس لئے مخلصین جماعت خصوصاً شیر محمد صاحب بٹ قاضی عبدالسلام صاحب کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان اشتہاروں کی تقسیم بھائی شیر محمد صاحب بٹ اور عبدالعزیز صاحب قریشی جہلمی نے اپنے ذمہ لگا رکھی تھی۔۵۱۳ محترم قاضی عبدالسلام صاحب کا بیان ہے کہ یہ >اشتہارات خاکسار ہی لکھتا یا سلسلہ کے لٹریچر سے اخذ کرتا تھا۔ اور میگاڈی سے حضرت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب مرحوم بھی لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔
اخبار >الھدی< کا اجراء
اشتہارات کا یہ وسیع سلسلہ ۱۹۳۶ء کے اوائل تک زور شور سے جاری رہا۔ اس کے بعد اس کی بجائے >الہدی< نام سے ایک ہفتہ وار اخبار ملک احمد حسین صاحب کے زیر انتظام جاری کیا گیا۔ اس اخبار کا پہلا پرچہ ۲۳/ جولائی ۱۹۳۶ء کو شائع ہوا۔ اخبارات کی کتابت و طباعت کا تمام کام محمد اکرم صاحب غوری` سید عبدالرزاق شاہ صاحب اور ملک احمد حسین صاحب انجام دیتے تھے اور اخبار کی ترسیل کی خدمت شیخ غلام فرید صاحب سیکرٹری کے سپرد تھی۔ ان کے معاون بابو غلام محمد صاحب تھے۔ مضامین لکھنے والوں میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب` ملک احمد حسین صاحب` شیخ غلام فرید صاحب نمایاں تھے۔ اس اخبار کے بعض مضامین سے مخالفین میں شور پڑ گیا اور قانونی کارروائی کے لئے اخبار کے ایڈیٹر وغیرہ کو نوٹس دیئے گئے۔ لیکن سارا معاملہ محض نوٹسوں تک ہی محدود رہا اور مخالفین کو احساس ہو گیا کہ احمدیوں کے ہاتھوں میں بھی قلم ہے۔ آخر دس نمبروں کے بعد بعض وجوہ کی بناء پر اخبار بند ہو گیا اور ساتھ ہی اشتہارات کا سلسلہ بھی ایک عرصہ تک بند رہا۔۵۱۴
انجمن حمایت اسلام نیروبی کی طرف سے ردعمل
جماعت احمدیہ نیروبی کے جوابی اشتہارات اور تبلیغی جدوجہد کا ردعمل یہ ہوا کہ نیروبی کی انجمن حمایت اسلام نے احمدیوں کے مقابلہ کے لئے ہندوستان سے مبلغ بلوانے کا فیصلہ کیا اور ۱۵/ اگست ۱۹۳۴ء کو جناب مولوی ظفر علی خاں صاحب مدیر اخبار >زمیندار< )لاہور( سے بذریعہ خط درخواست کی کہ آپ کسی موزوں شخص کا انتخاب فرمائیں ان کا جواب ۵/ ستمبر ۱۹۳۴ء کو موصول ہوا کہ وہ مولوی لال حسین صاحب اختر کی سفارش کرتے ہیں چنانچہ انجمن مذکور نے ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء کے اجلاس میں یہ سفارش قبول کر لی اور ان کے مصارف سفر )سیکنڈ کلاس( کے لئے تین سو روپیہ کا چیک روانہ کر دیا گیا۔۵۱۵ اور یہ صاحب جلد ہی مشرقی افریقہ پہنچ گئے۔
مستقل مشن کا قیام
جماعت احمدیہ نیروبی کے غیور افراد نے >انجمن حمایت اسلام< کی بڑھتی ہوئی مخالفانہ سرگرمیوں کو اپنے لئے ایک چیلنج سمجھتے ہوئے نظارت دعوۃ و تبلیغ قادیان سے درخواست کی کہ ہم اپنے خرچ پر ایک مبلغ چھ ماہ کے لئے منگوانا چاہتے ہیں نظارت کی طرف سے معاملہ پیش ہونے پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو مشرقی افریقہ بھیجنے کا ارشاد فرمایا۔
اس فیصلے کے مطابق آپ ۱۱/ نومبر ۱۹۳۴ء۵۱۶ کو تین بجے بعد دوپہر قادیان سے روانہ ہوئے۔ ۱۵/ نومبر کو بمبئی سے TAKLIWA) نامی( جہاز پر سوار ہوئے۔۵۱۷ اور ۲۷/ نومبر کو بخیریت نیروبی پہنچ گئے۔۵۱۸
نیروبی میں کامیاب مناظرہ
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے پیش نظر احمدی مبلغ کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کا ایک وسیع اور بلند نصب العین تھا اور آپ اس تاریک براعظم کو جلد از جلد منور کرنے کی فکر میں تھے مگر اس کے برعکس سائیں لال حسین صاحب محض احمدیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بلائے گئے تھے اس لئے انہوں نے افریقہ میں آتے ہی نور خدا کو اپنی مونہہ کی پھونکوں سے بجھانے کی سر توڑ کوششیں شروع کر دیں اور احمدیوں کو مناظرے کا چیلنج دے دیا جو شیخ صاحب نے منظور کر لیا اور مسٹر ورما صاحب بیرسٹر` پنڈت دولت رام صاحب اور پنڈت آریہ منی صاحب کی موجودگی میں مناظرہ کے شرائط کا تصفیہ کیا گیا۔ بحث کے لئے تین مضامین تجویز ہوئے۔ )۱( حیات و وفات مسیحؑ )۲( انقطاع و اجرائے نبوت )۳( صداقت مسیح موعودؑ۔ تصفیہ شرائط کے بعد یہ مناظرہ۔ ۲۰/ جنوری ۱۹۳۵ء بروز ہفتہ و اتوار نیروبی مسلم سپورٹس کی وسیع و عریض گرائونڈ میں ہوا۔۵۱۹ جس میں حق و صداقت کو ایسی نمایاں فتح نصیب ہوئی کہ غیر مسلم پبلک نے بھی احمدی مناظر کو مبارکباد دی۔۵۲۰ چنانچہ ایک سکھ اجیت سنگھ صاحب نے اپنی ایک چٹھی میں لکھا۔ >بندہ آپ کے اس مناظرہ میں شامل تھا جس میں کہ آپ کو فتح حاصل ہوئی پس اس کی خوشی میں میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے معاملات میں حق کو پہچاننا نہایت مشکل ہوتا ہے مگر اس دن خدا تعالیٰ کی زبردست طاقت آپ کے ساتھ تھی۔ اور آپ نے حق پہنچا دیا ہے۔ دشمن کی زبان بند ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ جھوٹے پر عذاب کیوں نہیں آتا؟ پس یہ عذاب تھا اور اس سے بڑھ کر اور عذاب کیا ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے زبان ہی بند کر دی۔ خیمہ کا گرنا ہی میں تو زبردست نشان سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے اور دوسرے دوستوں نے نوٹ کیا کہ اس کی زبان اب رک رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پبلک نے آپ کو مبارکباد دی۔ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے پھولوں کی روحانی بارش ہوئی۔ >اجیت سنگھ مگاڈی سوڈا کمپنی کینیا کالونی ۳۵/۱ ۲۳<۔۵۲۱
احمدیوں پر حملہ
اس معرکہ نے نیروبی میں احمدیت کی دھاک بٹھا دی اور مخالفین کے حوصلے پست کر دیئے۔ اب سائیں صاحب نے نیروبی کے باہر کے علاقوں کی طرف رخ کیا۔ شیخ مبارک احمد صاحب نے بھی ان کا تعاقب کیا اور جہاں بھی مباحثہ کی دعوت دی گئی آپ نے اسے قبول کر لیا۔ چنانچہ ۲۔ ۳/ فروری ۱۹۳۵ء کو میگاڈی میں کامیاب مناظرے کئے ایک مناظرہ ۱۰/ فروری ۱۹۳۵ء کو نیروبی سے قریباً دو سو میل کے فاصلہ پر ایک بستی >میرو< میں ہوا۔ اس مناظرہ میں احمدی مناظر نے چیلنج دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے قرآن سے آسمان کا لفظ دکھانے پر سوشلنگ انعام دوں گا۔ سائیں صاحب کو آخر وقت تک وہاں مرد میدان بننے کی جرات نہ ہو سکی۔۵۲۲ مگر واپسی پر نیری۵۲۳ (NYERI) کے مقام پر احمدیت کے خلاف ایک زہر آلود تقریر کرکے بدلہ لینا چاہا۔ دوران تقریر ایک احمدی میاں عبداللطیف صاحب۵۲۴ نے چند سوالات کے لئے وقت مانگا۔ انہوں نے جواب دیا تم جاہل ہو اپنے مولوی کو میرے سامنے لائو۔ عبداللطیف صاحب نے کہا مولوی صاحب آجائیں گے مگر پہلے میرے سوالات کا جواب دیں بڑی لے دے کے بعد انہوں نے بعض انتہائی غیر معقول شرائط پیش کیں۔ جو عبداللطیف صاحب نے تسلیم بھی کر لیں مگر انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں ۲/ مارچ کو دوبارہ آئوں گا۔ تب جواب دوں گا۔
چنانچہ ۲/ مارچ کو شیخ مبارک احمد صاحب بعض اور احمدیوں سمیت نیری پہنچ گئے۔ سائیں صاحب اس وقت تقریر کر رہے تھے۔ عبداللطیف صاحب نے صدر سے وقت مانگا۔ سائیں صاحب نے جھٹ کہہ دیا کہ کیا کوئی تحریری ثبوت میرے وعدے کا پیش کر سکتے ہو؟ اس پر شیخ مبارک احمد صاحب نے کہا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ علی الاعلان وعدہ کرکے انکار کیا جاتا ہے۔ ابھی آپ یہ فقرہ مکمل بھی نہ کر پائے تھے کہ نیری کے ایک مشہور تاجر عثمان علو نے تالی بجائی اور ساتھ ہی بعض افریقنوں نے شیخ مبارک احمد صاحب پر حملہ کر دیا۔ مکرم عبداللطیف صاحب نے بہت وار اپنے بازوں پر لئے اور شیخ صاحب اور دوسرے احمدیوں کو چوٹیں آئیں۔ جب تک نادان لوگ خود ہی مارنے کے بعد ادھر ادھر نہ چلے گئے احمدی وہیں موجود رہے۔۵۲۵
بائیکاٹ کا حربہ
اس طرح کے اوچھے ہتھیاروں پر اترنے کے بعد لال حسین صاحب نے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم شروع کر دی۔ اور نیروبی` ممباسہ` کسومو` نکورو وغیرہ شہروں میں بھی احمدیوں کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اس آگ کو مرکزی انجمن حمایت اسلام نے بہت ہوا دی۔
جمالی اور جلالی نشان
کچھ دنوں کے بعد سائیں لال حسین صاحب جنجہ )یوگنڈا( پہنچے تو وہاں کی مقامی انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری عبدالغفور صاحب نے جو سائیں صاحب کو جنجہ بلانے کے محرک تھے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مخالفت کی۔ اس پر وہ عبدالغفور صاحب کے درپے آزار ہو گئے اور انہوں نے تحقیق و مطالعہ کے بعد ۱۹۳۶ء میں بیعت کر لی اور عدن سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں یہ عریضہ لکھا۔
سیدنا و مولانا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسلمین خلیفہ ثانی حضرت مسیح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ`۔ پس از سلام الاسلام مسنون عارض ہوں کہ خاکسار کا نام محمد عبدالغفور ہے اور گزشتہ سال جب آپ کے نظام تبلیغ کے ماتحت شیخ مبارک احمد صاحب مشرقی افریقہ تشریف لائے اور ان کے مقابلہ کے لئے مسلمانوں نے مولوی لال حسین صاحب اختر کو افریقہ بلایا۔ تو ان دنوں خاکسار اہل سنت و الجماعت کی انجمن کا سیکرٹری تھا۔ لال حسین صاحب کی آمد پر بڑا شور و غوغا مچا۔ ظاہری نمائش کے مطابق ان کا استقبال کیا گیا اور زمین و آسمان کا درمیانی خلا ان کی تعریف سے پر کر دیا گیا۔ آخر کار جب لیکچروں کا بندوبست کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اختر صاحب سوائے طوطے کی رٹ کے کچھ نہیں جانتے۔
اس وقت تعصب کی پٹی آنکھوں پر بندھی تھی مگر وہ اس طرح سرکنی شروع ہوئی کہ جب اختر صاحب سے کوئی سوال کیا تو فوری جواب ملا کہ کیا احمدیوں سے ملاقات کی ہے ان کی تعلیم کا اثر گفتگو سے مترشح ہوتا ہے۔ لوگوں نے منع کیا کہ مولوی صاحب محتاط رئیے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ شخص آپ کے یہاں ہوتے ہوئے احمدی ہو جائے۔ آخر جب احمدیوں کے بائیکاٹ کا فتنہ شروع ہوا تو بندہ نے صدر صاحب سے اجازت حاصل کرکے اپنی یہ رائے ظاہر کی کہ آغا خانی اور شیعہ وہابی وغیرہ وغیرہ کا بائیکاٹ بھی ہونا چاہئے اور اگر آپ بائیکاٹ کا سلسلہ شروع کریں گے تو نصاریٰ` یہودی` اہل ہنود` سکھ` پارسی سب کا کرنا ہو گا۔ پھر اختر صاحب تبلیغ کسے کریں گے۔ الٹے پائوں انہیں ہندوستان جانا پڑے گا۔ اس پر بعض لوگوں نے جو کہ منیجنگ میٹنگ کے ممبر تھے۔ میری حمایت کی اور کہا مولانا فی الحال یہ قدم اٹھانے کے لئے لوگ تیار نہیں اس ناکامی سے جھلا کر مولوی صاحب مجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہو گئے۔ اس وجہ سے ملازمت چھوڑنی پڑی۔ ایک خاندان میں میرا رشتہ قرار پا چکا تھا اس سے دستبردار ہونا پڑا<۔۵۲۶
انجمن کے سیکرٹری کا احمدی ہو جانا ایک جمالی نشان تھا لیکن ایک جلالی نشان کا ظہور ابھی باقی تھا یعنی اس انجمن کے بانی مبانی اور روح رواں سید احمد الحداد کی عبرتناک ہلاکت۔۵۲۷ سید احمد الحداد میگاڈی میں کمپنی کے منظور کردہ راشن اور پٹرول کی دکان کے مالک تھے۔ ساری آبادی کی سپلائی کا یہی ایک سٹور تھا۔ اس لئے وہ بہت بڑی تجارت کے مالک تھے۔ آخر نیروبی سے میگاڈی کے رستے میں موٹر کے حادثہ میں لقمہ اجل ہوئے۔ جس کا اثر انجمن حمایت اسلام کی مساعی پر بھی ہوا اور مخالفت میں نمایاں کمی ہو گئی اور پہلا ساز ورنہ رہا۔ اور ۱۹۳۶ء میں لال حسین صاحب اختر بھی واپس ہندوستان چلے جانے پر مجبور ہوئے۔۵۲۸
رسالہ >ماپینزی یا مانگو< کا اجراء
جب حالات کچھ سازگار ہوئے تو شیخ مبارک احمد صاحب نے تبلیغ اسلام کے بنیادی اور اساسی کام کی طرف پوری توجہ شروع کر دی اور جنوری ۱۹۳۶ء میں ممباسہ سے >ماپینزی یا مانگو< MANGU) YA (MAPENZI کے نام سے ایک ماہوار سواحیلی رسالہ جاری کیا۔۵۲۹text] gat[ رسالہ کا پہلا نمبر ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ دوسرے نمبر سے اس کی اشاعت دو ہزار کر دی گئی اور پہلے نمبر کو بھی دوبارہ دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ چند ہی نمبر شائع ہوئے تھے کہ عیسائیوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ اور )رسالہ رفیقی ییٹو YETU) (RAFIKI کے ایک یورپین ایڈیٹر نے شیخ مبارک احمد صاحب کو ایک چٹھی میں لکھا کہ تم نے اپنے آپ کو سخت جنگ میں ڈال دیا ہے اور تم ناکام رہو گے۔۵۳۰
اسی رسالہ نے اگست ۱۹۳۷ء کے پرچہ میں اعلان کیا کہ جو کوئی یہ رسالہ پڑھے گا وہ گناہگار ہو جائے گا ہر کیتھولک کو چاہئے کہ اس قسم کا رسالہ جب بھی اس کے ہاتھ میں آجائے۔ تو آگ میں اسے ڈال دے۔۵۳۱
مگر چرچ کی مخالفت کے باوجود یہ رسالہ آج تک کامیابی سے جاری ہے اور اس نے ملک میں زبردست حرکت پیدا کر دی ہے۔
احمدیہ مسلم سکول ٹبورا
افریقن میں تبلیغ کے لئے تعلیم کا انتظام از بس ضروری تھا۔ اس ضرورت کے پیش نظر شیخ مبارک احمد صاحب نے ٹبورا۵۳۲ میں احمدیہ مسلم سکول کی بنیاد رکھی اس سکول کے قیام کی راہ میں بہت مشکلات پیدا کی گئیں۔ اور حکومت کے افسروں میں سے خصوصاً مسٹر بیگشا BAGSHAW) (MR نے جو ان دنوں پراونشل کمشنر اور مذہباً کیتھولک تھے اس کی سخت مخالفت کی مگر کئی ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد محکمہ تعلیم کی طرف سے منظور مل گئی اور ۱۱/ جنوری ۱۹۳۷ء کو اس پہلے احمدیہ سکول کا افتتاح کیا گیا۔۵۳۳ بٹورا سکول کے افتتاح سے نہ صرف عیسائیوں کو یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ہمارے مقابلہ کے لئے مستقل طور پر ایک جماعت میدان میں نکل آئی ہے بلکہ حکومت نے بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کیا چنانچہ ۱۹۳۶ء کی سالانہ رپورٹ میں لکھا کہ۔
>یہ امر قابل ذکر ہے کہ سب سے پہلی منظم تبلیغی سوسائٹی یعنی >احمدیہ ہندوستانی مشن< نے دوران سال میں افریقن باشندوں میں کام شروع کیا۔ ان کا سب سے پہلا سکول ٹبورا شہر میں قائم کیا گیا ہے جس کی حاضری کافی ہے۔ )صفحہ ۱۸(۵۳۴
افسوس مخالفین کی شورش اور بائیکاٹ کے باعث ۴۱۔۱۹۴۰ء میں یہ سکول بند کر دیا گیا۔
تبلیغ اسلام کے دوسرے ذرائع
سکول کے اجراء کے بعد شیخ مبارک احمد صاحب نے اشاعت اسلام کے دوسرے ذرائع کی طرف بھی خاص توجہ دینا شروع کر دی۔
سرکاری سکولوں میں مذہبی تعلیم کے لئے ہفتہ میں دو دن وقت رکھا جاتا تھا۔ عیسائی مشنری اس سے فائدہ اٹھاتے تھے مگر مسلمانوں نے اس سے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ مکرم شیخ صاحب نے افریقن سکول بٹورا میں باقاعدگی سے لڑکوں کو دینی تعلیم دینا شروع کی۔ گورنمنٹ سکول بٹورا کے بعض طالب علم جو آپ کے زمانہ میں پڑھتے تھے۔ آزادی کے بعد اکثر حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے۔
سکولوں کے علاوہ ٹبورا جیل میں بھی انہوں نے پیغام حق پہنچانا شروع کیا جس سے بہت عمدہ نتائج برآمد ہوئے اور یہ طریق سلسلہ کی شہرت کا باعث بھی ہوا۔ چنانچہ حکومت کی سالانہ رپورٹ ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا کہ۔
دوران سال میں ایک نیا مسلم استاد ٹبورا میں آیا ہے جس نے خوابیدہ اور پرانے خیال کے باشندوں میں اپنی قوت کے ساتھ ہلچل پیدا کر دی ہے وہ پرامن طریق سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔۵۳۵ )ترجمہ(
تبلیغ اسلام و احمدیت کے لئے آپ نے اور بھی کئی طریق اختیار کئے۔ مثلاً انفرادی ملاقاتیں` جلسے` مقامی اخبارات۵۳۶ میں مضامین کی اشاعت` تقسیم کتب` تبلیغ بذریعہ خطوط` بلند پایہ شخصیتوں کی دعوتیں` مناظرات جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ`~ ریڈیو سے تقاریر` تبلیغی مجالس کا قیام` یوم التبلیغ غیر مسلموں کی مذہبی کانفرنسوں میں شمولیت وغیرہ وغیرہ۔
نیروبی میں مخالفت کا نیا دور
۳۸۔ ۱۹۳۷ء میں یہاں مخالفت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ مشرقی افریقہ کا ساحل چونکہ ہندوستان کے ساحل سے نزدیک ہے۔ اس لئے ہندوستان میں جب کوئی تحریک اٹھتی ہے اس کی بازگشت فوراً مشرقی افریقہ میں بھی سنائی دیتی ہے چنانچہ ۱۹۳۴ء۵۳۷ کی احراری شورش کی طرح یہاں بھی شورش پیدا ہو گئی۔ پھر ۱۹۳۷ء۵۳۸ میں مصری صاحب نے سر اٹھایا تو ان کا لٹریچر خاص طور پر افریقہ کے غیر احمدیوں نے منگوایا اور پھیلا دیا۔ جو ٹریکٹ ہندوستان میں ضبط ہوتے اس جگہ ان کی اشاعت کی جاتی۔
نیروبی کی انجمن حمایت اسلام نے اس سال کئی ہزار شلنگ خرچ کرکے اپنا پریس قائم کیا اور ایک اخبار >مسلم< کے نام سے جاری کر دیا اور اس میں احمدیت کے خلاف گند اچھالنے لگے اسی طرح یوگنڈا کی مسلم ایسوسی ایشن نے افریقن باشندوں میں زہریلا پروپیگنڈا کیا اور پرنس بدرو کی طرف سے )جو بگنڈا۵۳۹ کے عیسائی بادشاہ کے چچا اور افریقن مسلمانوں کے لیڈر تھے( اشتہار دیا کہ شیخ مبارک احمد اس علاقے کے مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ لوگ اس کی باتیں نہ سنیں اور اس سے بچیں۔۵۴۰
اس مخالفت کا اثر یہ ہوا کہ جہاں عام لوگ احمدی لٹریچر پڑھنے سے گریز کرنے لگے وہاں افریقن احمدی جماعت کے مخصوص مسائل پر خدا کے فضل سے اور پختہ ہو گئے اور برملا کہنے لگے کہ >اگر احمدیت کفر ہے تو جائو ہم کافر ہی سہی<۔۵۴۱
ٹبورا )ٹانگا نیکا( میں مقدمات
۱۹۳۷ء کے شروع میں مخالفت کی لہر نیروبی سے گزرتی ہوئی ٹبورا میں بھی پہنچ گئی اور احمد صالح )افریقن مجسٹریٹ( پولیس کے افسر` ڈسٹرکٹ آفیسر اور مقامی پنجابی سب کے سب شیخ مبارک احمد صاحب کی تبلیغی سرگرمیوں کو روکنے میں متحد ہو گئے اور بالاخر احمد صالح نے سازش کرکے ان کے اور قاری محمد یٰسین صاحب کے خلاف دو جھوٹے مقدمات کھڑے کر دیئے۔ ایک مقدمہ PASS) (TRESS اور دوسرا مذہبی جذبات کے مجروح کرنے کا۔ ان مقدمات کی سماعت کھلی عدالت میں ہوئی۔ مزرا بدر الدین صاحب بیرسٹر اور مسٹرنینے ایڈووکیٹ نے وکالت کی غیر احمدی مولویوں نے بڑے بڑے جبے پہن کر اور قرآن مجید ہاتھ میں لے کر عدالت میں جھوٹی گواہیاں دیں۔ پادری بھی دیکھنے آئے کہ احمدی مبلغ مجرموں کے کٹہرہ میں بیٹھا ہے۔ تقریباً گیارہ دن دونوں مقدمات کی سماعت ہوئی اور آخر عدالت نے ایک مقدمہ میں ۱۰۰ شلنگ شیخ مبارک احمد صاحب کو جرمانہ کیا اور محمد یاسین صاحب بری کر دیئے گئے اور دوسرے مقدمہ میں محترم شیخ صاحب کو تابر خاست عدالت قید` ایک سال کے لئے حفظ امن کی دو ضمانتیں اور ۲۰۰ شلنگ جرمانہ۔۵۴۲ اور محمد یاسین صاحب کو سوشلنگ جرمانہ کیا گیا۔ اس فیصلہ پر مخالفین احمدیت کی چڑھ بنی اور انہوں نے مشورہ کر دیا کہ احمدی مبلغ نکلوا دیا گیا ہے۔۵۴۳
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کا بیان ہے کہ شہر کا افریقن مجسٹریٹ احمد صالح اشد مخالف تھا اور مقدمات وغیرہ بھی اس نے شروع کرائے تھے۔ جس احمدی افریقن کے خلاف مقدمہ اس کے پاس جاتا تو خواہ وہ معاملہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہوتا وہ اپنے پورے اختیارات کو کام میں لے آتا۔ ہمارے دو افریقن بھائیوں کا اپنی بیویوں سے کسی بات پر اختلاف تھا ان میں سے ایک کو اس نے اپنی عدالت میں پٹوایا۔ اور پھر توہین عدالت کے الزام میں اسے ۵۰ شلنگ جرمانہ بھی کر دیا۔ میں نے اس شخص کا معاملہ ڈسٹرکٹ آفیسر کے سامنے رکھا اور اسے پوری طرح سمجھایا مگر وہ افریقن مجسٹریٹ کا طریق کار درست ہی قرار دیتا رہا۔ حالانکہ اس بات کی شہادت بھی اس کے سامنے رکھی گئی تھی وہ احمدی محض >قادیانی< کہہ کر پیٹا گیا۔ اور پھر ہتھکڑی لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ شخص مجسٹریٹ کی توہین کے درپے تھا۔ ساتھ ہی جب احمدی معلم مسعودی کے بھائی نے کہا کہ کیوں بے گناہ پر ظلم کرتے ہو تو اسے بھی ساتھ ہی ہتھکڑی لگا دی گئی اور اس سے کہا گیا کہ اچھا تم بھی اس کی مدد کرتے ہو۔
غرض کہ افریقن مجسٹریٹ نے خاص طور پر مخالفت میں حصہ لیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ احمدیوں کی نعشیں قبرستانوں میں دفن کئے جانے سے انکار کیا جانے لگا۔ راہ چلتے احمدیوں کو گالیاں دی جاتیں۔ ٹبورا میں یہ جوش و خروش مقدمات کے بعد کافی دیر تک قائم رہا۔۵۴۴ البتہ ٹبورا سے باہر اردگرد کے علاقہ میں اس کا کوئی زیادہ اثر نہ تھا بلکہ مخالفین کی غلط بیانیوں اور ستم رانیوں پر خود ٹبورا کے بعض حلقوں میں نفرت کا اظہار کیا گیا اور فیصلہ مقدمہ کے معاًبعد بیس سے زائد افراد احمدیت میں داخل ہوئے۔۵۴۵
بالاخر سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓکی ہدایت پر اس فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دی گئی۔ مسٹر ہرے سیرین بیرسٹر نے پیروی کی۔ ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۷ء کو چیف جسٹس BRUCE) KNIGHT ۔C۔(K نے فیصلہ سنایا کہ دونوں مقدمات میں عدالت ماتحت اور پولیس کی کارروائی سراسر غیر مناسب اور روح آئین کے خلاف ہے۔ فاضل جج نے PASS TRESS کے مقدمہ میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو بالکل بری کر دیا اور دوسرے مقدمہ میں ضمانتیں خلاف قانون قرار دیں اور ۲۰۰ کی بجائے جرمانہ ۵۰ شلنگ کر دیا۔
ہائیکورٹ کا فیصلہ ٹبورا میں پہنچا تو نہ معلوم افریقن میں کیسے مشہور ہو گیا کہ احمدی مبلغ اپیلوں میں جیت گیا اور مجسٹریٹوں اور پولیس کو فیصلہ میں برا بھلا کہا گیا۔ اس فیصلہ کی وجہ سے احمدیت کا ایک رعب لوگوں میں بیٹھ گیا اور ان کے جوش و خروش میں بھی کمی آگئی۔۵۴۶
احمدیہ مسجد ٹبورا
مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں ایک اہم ضرورت یہ تھی کہ ملک کے طول و عرض میں مساجد تعمیر کی جائیں۔ گرجوں کی بلند و بالا عمارتیں دیکھ کر افریقنوں کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ شاید گرجے ہی ان کی ترقی کی بنیاد ثابت ہوں گے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی دور رس نگاہ نے اس اہم ضرورت کو محسوس کیا اور شیخ مبارک احمد صاحب کو ہدایت فرمائی کہ مساجد کی تعمیر کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ اس ملک میں جماعت احمدیہ کے لئے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل نے یہ آسان کر دیا اور ہر طرح کی مشکلات کے باوجود جماعت متعدد مساجد تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس سلسلہ میں شیخ صاحب کے زمانہ میں پہلی مسجد ٹبورا میں تعمیر ہوئی۔ جماعت احمدیہ ٹبورا کے ہندوستانی افراد نے ۱۹۳۵ء میں فری ہولڈ شہر کے وسط میں مسجد کے لئے ایک قطعہ خریدا۔ جنوری ۱۹۴۱ء میں ٹائون شپ اتھارٹی سے تعمیر مسجد کی آخری منظوری مل گئی یکم فروری ۱۹۴۱ء کو ابتدائی انتظامات شروع کر دیئے گئے اور احمدیوں نے پہلے بنیادیں کھودیں پھر تین
tav.7.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
تین دن تک مختلف مقامات سے پتھر اٹھا کر لاتے اور مسجد کی زمین پر جمع کرتے رہے۔ جب سب تیاری مکمل ہو گئی تو مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے ۷/ فروری ۱۹۴۱ء کو بعد نماز جمعہ مسجد کی بنیاد رکھی یہ تقریب پونے تین بجے بخیر و خوبی ختم ہوئی اور سب احمدی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
تین بجے کے قریب مکرم شیخ مبارک احمد صاحب بعض اور احمدیوں کے ساتھ ایک احمدی کی دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک مخالفین کا ایک جم غفیر ہاتھوں میں ڈنڈے لئے آپ کی طرف بڑھنے لگا۔ دراصل جیسا کہ بعد کو علم ہوا یہ لوگ اپنی مجلس میں فیصلہ کر چکے تھے کہ اگر تعمیر مسجد کی یہ اجازت منسوخ نہ کی گئی تو آپ قتل کر دیئے جائیں۔ اس سوچی سمجھی تجویز کے مطابق پہلے ایک شخص سائیکل پر آیا اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو موجود پاکر سواحیلی زبان میں کہنے لگا شیخ مبارک بیٹھا ہے مار ڈالو اس پر ہجوم نے دکان کا محاصرہ کر لیا احمدیوں نے فوراً دروازے بند کر دیئے حملہ آور دروازے توڑتے رہے لیکن اندر داخل نہ ہو سکے اور خیال کیا کہ مبارک احمد کسی اور رستہ سے اپنے گھر چلے گئے ہیں یہ سوچ کر وہ آپ کے مکان کی طرف دوڑے آپ کی اہلیہ صاحبہ اس وقت مکان میں تھیں۔ مگر دروازے بند تھے۔ اس لئے یہ لوگ وہاں شور و شر کرکے واپس آگئے پھر ایک احمدی دوست محمد اصغر صاحب لون پر )جو اپنے مکان میں داخل ہو رہے تھے( حملہ کر دیا کچھ چوٹیں بھی ان کو آئیں۔ جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو ہجوم بھی داخل ہو گیا۔ اتنے میں اصغر صاحب بندوق اٹھا لائے۔ بندوق دیکھتے ہی فسادی بھاگ کھڑے ہوئے۔ جو احمدی اس وقت شورش پسندوں کے سامنے آیا۔ اسے انہوں نے خوب پیٹا۔ یہ لوگ شیخ صالح۵۴۷ افریقن مبلغ کے مکان پر بھی گئے وہاں بھی احمدیوں نے دروازہ نہ کھولا۔ احمدیہ سکول میں ایک بوڑھے احمدی مزیع عرفہ رہتے تھے۔ یہ لوگ ان پر ٹوٹ پڑے۔ دوسرے احمدی جو گھروں کو جا چکے تھے۔ شیخ مبارک احمد صاحب کی حفاظت کے لئے ان کے مکان پر پہنچے۔ شہر میں دکانیں بند ہو گئیں اور دہشت پھیل گئی تھوڑے وقفہ کے بعد )ڈسٹرکٹ کمشنر( مسٹر ویرین )سپرنٹنڈنٹ پولیس( مسٹر نعیم اور )سینیٹری انسپکٹر( مسٹر بولٹن سپاہیوں کے دستے کے ساتھ پہنچ گئے اور شام چھ بجے تک پوری توجہ اور فرض شناسی سے کام کرتے رہے۔ ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس شام کے وقت مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ اگلی صبح کو پراونشل کمشنر آپ سے اپنے دفتر میں ملنا چاہتے ہیں۔ مسجد کے سلسلہ میں ضروری کاغذات لے کر پہنچ جائیں۔
چنانچہ اگلے روز ۸/ فروری کو آپ پراونشل کمشنر سے ملے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ احمدی اس جگہ مسجد نہ بنائیں۔ سارا معاملہ گورنر صاحب بہادر کے پاس پہنچا اور انہوں نے بھی تیسرے دن یہ احکام صادر کر دیئے کہ حکومت فی الحال موجودہ حالات کے پیش نظر اس مخصوص پلاٹ پر تعمیر مسجد کی اجازت نہیں دے سکتی۔۵۴۸
اب مسجد کی زمین کے لئے کوششیں دوبارہ شروع کر دی گئیں۔ بالاخر حکومت نے ۱۹۴۲ء کے آغاز میں دس ہزار مربع فٹ کا ایک نہایت عمدہ اور باموقعہ قطعہ ننانوے سال کی اقساط اور صرف ایک شلنگ سالانہ کرایہ پر دے دیا۔ یہ جگہ پہلے تجویز شدہ مقام سے بدرجہا بہتر تھی اور یہ خدائی تصرف تھا کہ اس نے خود مخالفین کے ہاتھوں احمدیہ مسجد کے لئے اعلیٰ جگہ دلا دی۔
یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا جبکہ شمالی افریقہ لڑائی کا میدان بنا ہوا تھا اور حکومت نے ہر قسم کے عمارتی سامان پر کنٹرول کر رکھا تھا۔ مگر اس نے تعمیر مسجد کے لئے فراخدلی سے سامان کی اجازت دے دی اور مقامی ٹائون شپ اتھارٹی نے بھی اور شیخ مبارک احمد صاحب نے جماعت کے تعاون سے مسجد کے سامان کی فراہمی کا اکثر و بیشتر انتظام کر لیا۔
اب معماروں اور مزدوروں کا سوال تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس کے لئے بھی ایک عجیب سامان پیدا کر دیا۔ جس کی تفصیل مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کے الفاظ میں یہ ہے کہ جب ہم حکومت کی طرف سے دی گئی زمین پر مسجد تعمیر کرنے لگے تو افریقن ترکھانوں اور معماروں نے )مخالفت کے باعث( کام کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے کام رک گیا لیکن جلد ہی جنگ شروع ہو گئی اور تین ہزار اٹالین قیدی مشرقی افریقہ آگئے۔ ان قیدیوں میں لکٹری اور عمارت بنانے والے بہترین کاریگر تھے۔ مشرقی افریقہ میں معمار اور ترکھان بیس شلنگ روزانہ لیتے ہیں لیکن ہمیں یہ قیدی دو شلنگ روزانہ پر دستیاب ہونے لگے۔ ان قیدیوں کے کیمپ کا کمانڈر ایک رومن کیتھولک کرنل تھا۔ جب عیسائیوں نے دیکھا کہ قیدی ہماری مسجد تعمیر کر رہے ہیں تو اس کرنل کو لکھا اور اس نے قیدی بھیجنے بند کر دیئے اور اس طرح مسجد کی تعمیر کا کام درمیان میں ہی رک گیا۔ میں دارالسلام گیا اور وہاں ایک یورپین افسر سے ملا میرے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ اس نے ڈائریکٹر آف مین پاور۵۴۸ کو فون کیا کہ یہ بہت بری حرکت ہے قیدی عیسائیوں کے گرجے بناتے ہیں لیکن مسجد تعمیر کرنے سے وہ روکے جاتے ہیں۔ دوسرے دن ڈائریکٹر آف مین پاور نے مجھے بلایا اور پھر قیدیوں کے انچارج کو تار دیا کہ مسجد کی تعمیر کے لئے قیدیوں کو ریلیز کیا جائے۔۵۴۹
شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے مسجد کی بنیاد۵۵۰ ۲۷/ جون ۱۹۴۲ء کو رکھی اور خدا کے توکل پر کام شروع کرا دیا۔ تعمیر کے دوران پتھر ختم ہو گئے رمضان کا مہینہ تھا اور سخت گرمی کا موسم۔ مگر افریقن احمدی تین روز تک شہر کے قریب ایک پہاڑ سے پتھر کاٹتے اور جمع کرتے رہے۔۵۵۱ اس موقعہ کے علاوہ بھی متعدد بار انہوں نے یہ خدمت رضاکارنہ طور پر انجام دی۔
آخر نومبر ۱۹۴۴ء میں پینتیس ہزار شلنگ سے یہ مسجد پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔۵۵۲`۵۵۳ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کا نام مسجد فضل تجویز فرمایا اور ۱۴/ دسمبر ۱۹۴۴ء کو اس کا باقاعدہ افتتاح مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے کیا۔
اس تقریب کے لئے سلطان آف زنجبار` گورنر ٹانگا نیکا` گورنر کینیا کالونی چیف سیکرٹری ٹانگا نیکا` ڈائریکٹر محکمہ تعلیم` ایڈ منسٹریٹر سیکرٹری` امریکن` پولش اور نیدرلینڈ کے قونصلوں ` اثنا عشری` سنی کمیونٹی اور پارسی کمیونٹی نے پرجوش پیغامات بھجوائے تھے۔ اسی طرح دنیا میں پھیلی ہوئی احمدی جماعتوں نے بذریعہ تار مبارکباد کے پیغامات دیئے۔ جو چوہدری مختار احمد صاحب ایاز نے پڑھ کر سنائے۔۵۵۴
اس علاقہ کے بااثر اخبارات >ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ<۔ >ٹانگا نیکا سٹینڈرڈ<۔ >افریقہ سنیٹنیل<۔ >کینیا ڈیلی میل< اور >برازا< نے افتتاح کی تفصیلی خبر شائع کی اور ۱۶/ جنوری ۱۹۴۵ء کو نیروبی ریڈیو سٹیشن سے یہ تقریب نشر کی گئی۔ علاوہ ازیں حکومت کے خاص انتظام کے تحت بی۔ بی۔ سی سے ایک خاص مضمون بھی نشر کیا گیا۔
مشرقی افریقہ کے لئے نئے مجاہدین کی روانگی اور دائرہ تبلیغ میں وسعت
مشرقی افریقہ میں تبلیغ کا کام چونکہ پہلے سے بہت بڑھ چکا تھا اس لئے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مرکز سے نئے مجاہدین بھجوانے کا
فیصلہ فرمایا۔ سب سے پہلے مولوی نور الحق صاحب انور ۲۲/ اکتوبر ۱۹۴۵ء۵۵۵ کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۱۷/ نومبر ۱۹۴۵ء۵۵۶ کی صبح کو ممباسہ پہنچے۔ مکرم مولوی نور الحق انور کے پہنچنے کے بعد مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب نے )جو ان دنوں مشرقی افریقہ ملٹری میں ملازم تھے( زندگی وقف کر دی اور اسلامی فوج کے سپاہیوں میں داخل ہو گئے اور جولائی ۱۹۴۶ء سے اسی ملک میں تبلیغی خدمات بجا لانے لگے اور ایک لمبے عرصہ تک نیروبی` کسوموں` جنجہ` ٹبورا اور دارالسلام وغیرہ مقامات پر نہایت محنت و خلوص سے اعلائے کلمتہ اللہ میں مصروف رہے۔۵۵۷
مکرم چوہدری عنایت اللہ صاحب کے میدان تبلیغ میں آنے کے بعد فروری ۱۹۴۷ء۵۵۸ میں چھ مجاہدین کا ایک قافلہ قادیان سے بھجوایا گیا جو میر ضیاء اللہ صاحب` مولوی فضل الٰہی صاحب بشیر۔۵۵۹ سید ولی اللہ صاحب` مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل۔۵۶۰ مولوی جلال الدین صاحب قمر۵۶۱ اور حکیم محمد ابراہیم صاحب۵۶۲ پر مشتمل تھا۔ یہ مبلغین ۲۸/ فروری ۱۹۴۷ء کو دارالسلام پہنچے۔۵۶۳ اور تین ماہ تک ٹبورا میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سے سواحیلی سیکھنے اور دوسری ضروری ٹریننگ لینے کے بعد آخر جون ۱۹۴۷ء میں نیروبی` کسوموں` یوگنڈا` ٹانگا نیکا اور ٹبورا میں متعین کر دیئے گئے۔۵۶۴ جس سے ملک کے طول و عرض میں تبلیغ اسلام کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی اور خاص بات یہ ہوئی کہ احمدیت خاص طور پر افریقنوں میں بھی پھیلنے لگی۔ چنانچہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا۔
>ایسٹ افریقہ میں ہماری جماعت بہت مضبوط تھی مگر مقامی باشندوں میں تبلیغ نہیں کی جاتی تھی یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ مقامی باشندے ہماری بات ہی نہیں سنتے۔ میں انہیں یہی کہتا تھا کہ تم اپنی بات انہیں سناتے ہی نہیں ہو۔ اس لئے کہ پنجابیوں میں اپنی زبان میں تبلیغ کرلینا زیادہ آسان ہے ہندوستانیوں میں تبلیغ کر لینا زیادہ آسان ہے۔ میں نے شیخ مبارک احمد صاحب کو ہدایت دی کہ وہ افریقنوں میں بھی تبلیغ کی طرف توجہ دیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں توفیق دی ہمارے ایک نوجوان۵۶۵ جو وہاں کام کرتے تھے انہوں نے زندگی وقف کر دی میں نے لکھا۔ انہیں وہیں رکھ لو ۔۔۔۔۔۔ شیخ مبارک احمد صاحب نے زائد آدمی مل جانے پر میری ہدایت کے مطابق انہیں افریقنوں میں تبلیغ پر لگا دیا۔ چھ سات ماہ کے بعد دو چار افریقن جماعت میں داخل ہو گئے۔ پھر انہیں چاٹ لگ گئی۔ اب خط آیا ہے کہ وہاں ایک آدمی کے ذریعہ چالیس افریقن احمدیت میں داخل ہوئے ہیں وہاں اب ہمارے کافی مبلغ کام کر رہے ہیں۔ ویسٹ افریقہ میں ہزاروں مقامی لوگ جماعت میں داخل ہیں۔۵۶۶
مشرقی افریقہ کے نئے مراکز کو تقویت پہنچانے کے لئے قیام پاکستان کے بعد جو مجاہدین حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حکم سے اب تک اس ملک میں تشریف لے گئے ان کے نام یہ ہیں۔
مولوی محمد منور صاحب۔۵۶۷body] [tag مولوی عبدالکریم صاحب شرما۔۵۶۸ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوہدری احسان الٰہی صاحب جنجوعہ۔ مولوی نور الدین صاحب منیر۔۵۶۹ حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب )یوگنڈا(۵۷۰ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر۔۵۷۱ حافظ محمد سلیمان صاحب )نیروبی کسموں(۵۷۲ مولوی منیر الدین احمد صاحب )نیروبی کسموں(۵۷۳ مولوی عبدالخالق صاحب۔۵۷۴ مولوی عبدالرحمن صاحب سیلونی )ٹبورا(۵۷۵ ملک جمیل الرحمن صاحب رفیق )دارالسلام(۵۷۶ مولوی رشید احمد صاحب سرور ٹبورا )ٹانگا نیکا(۵۷۷ قاضی نعیم الدین احمد صاحب )کسموں(۵۷۸ صوفی محمد اسحق صاحب )یوگنڈا۔ کینیا(۵۷۹ شیخ ابوطالب صاحب عیدی ساندھی صاحب )ٹانگا نیکا(۵۸۰ مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح ¶)یوگنڈا(۵۸۱ قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی )نیروبی(۵۸۲ مولوی روشن دین صاحب )کینیا(۵۸۳ ملک احسان اللہ صاحب )دارالسلام(۵۸۴ مولوی عبدالرشید صاحب رازی )ٹبورا(۵۸۵ مرزا محمد ادریس صاحب )یوگنڈا(۵۸۶ محمد عیسیٰ صاحب )کینیا(۵۸۷
ان سب مبلغین کی ان تھک کوشش` محنت` ایثار اور اخلاص کا یہ نتیجہ ہے کہ مشرقی افریقہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور احمدیت کے قدم مضبوط سے مضبوط تر ہو گئے ہیں۔
جماعت ہائے مشرقی افریقہ کی سالانہ کانفرنس
جب ٹبورا کی مسجد کا ۱۹۴۴ء میں افتتاح ہوا اور مشرقی افریقہ کے مختلف علاقوں سے احمدی شامل ہوئے تو مشرقی افریقہ کی سالانہ کانفرنس بھی منعقد کی گئی اس کانفرنس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ہر سال مشرقی افریقہ کے احمدیوں کی کانفرنس ہوا کرے اس کے بعد دوسری کانفرنس کا انعقاد دسمبر ۱۹۴۵ء میں نیروبی کے مقام پر ہوا۔ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ کے علاوہ اس میں مولوی نور الحق صاحب انور شیخ امری عبیدی صاحب مرحوم اور شیخ صالح صاحب بطور مبلغین شامل ہوئے۔ چند سال بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حکم پر مشن کے بجٹ` اخراجات اور آمد کے علاوہ گزشتہ جدوجہد کے جائزہ اور نئے سال کا پروگرام مرتب کرنے کے لئے مالی اور تبلیغی معاملات کی دو سب کمیٹیاں تشکیل کی گئیں جن میں ہر سال چھ مبلغین اور چھ منتخب نمائندے مشرقی افریقہ کے شامل کئے جاتے تھے۔ ان کمیٹیوں کے صدر رئیس التبلیغ شیخ مبارک احمد صاحب تھے۔۵۸۸]4 [rtf
اس نئے طریق پر کانفرنس پہلی بار کمپالہ میں پھر نیروبی میں ہوئی اور پھر باقاعدہ ہر سال منعقد ہوتی رہی۔ آخری کانفرنس دسمبر ۱۹۶۰ء میں دارالسلام کی مسجد میں منعقد ہوئی۔
ٹبورا کے پادریوں کا مقابلہ
جولائی اگست ۱۹۵۰ء کا واقعہ ہے کہ ٹبورا کے ایک رومن کیتھولک پادری نے اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کے خلاف اپنے رسالہ <KIONGOZI> میں بہت کچھ لکھا اور مولوی جلال الدین صاحب قمر نے راتوں رات مکرم امری عبیدی صاحب کی معیت میں ایک مختصر سا اشتہار احمدیہ پریس بٹورا۵۸۹ سے شائع کیا جس میں پادریوں کے الزامات کا مختصر جواب دے کر ان کو پبلک مناظرہ کی دعوت دی۔
اس اشتہار سے عیسائیوں میں کھلبلی مچ گئی اور مسلمانوں کی طرف سے خوشی اور مسرت کے خطوط آنے شروع ہو گئے چنانچہ زنجبار کے مشہور و معروف عالم شیخ عبداللہ صالح نے سواحیلی میں مکرم مولوی جلال الدین صاحب قمر کے نام ایک خط لکھا کہ آپ کا مضمون >حق ہی غالب ہوتا ہے<۔ پر مبارکباد دیتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور ان تمام کو جو حق کی حمایت میں کمربستہ ہیں۔ اگرچہ میں احمدیوں کی بعض باتوں سے اتفاق نہیں رکھتا لیکن خدا تعالیٰ اور اس کے مقدسوں کے سامنے اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ احمدیوں کے اندر حفاظت اسلام کے لئے جو غیرت ہے وہ مجھے بے حد محبوب ہے احمدی قطعاً اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کے خلاف کچھ لکھا یا کہا جائے اور جب تک اس کا شافی جواب دے کر دشمن اسلام کو خاموش نہ کر دیں دم نہیں لیتے۔ خصوصاً افریقہ کے عیسائیوں کو دست بدست لینے میں جو کمال جرات دکھائی ہے وہ انہیں کا کام ہے<۔۵۹۰]4 [rtf
سواحیلی ترجمہ قرآن
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی تحریک تراجم قرآن کریم کے ماتحت مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے نومبر ۱۹۳۶ء میں قرآن مجید کے سواحیلی ترجمہ کا مقدس کام شروع کیا۔۵۹۱ محترم شیخ صاحب ترجمہ کر چکے تو مسودہ پر >انٹر ٹیر ٹیوریل لنگویج کمیٹی فار سواحیلی< نے )جس میں کینیا اور زنجبار کے سواحیلی زبان کے ماہر شامل تھے( ناقدانہ نظر ڈالی اور جائزہ کے بعد رائے دی کہ بحیثیت مجموعی یہ ترجمہ اچھا ہے۔ تاہم ماہرین زبان کے مشورہ سے بعض اصول زبان دانی و ترجمہ وضع کئے گئے اور ان کے مطابق محترم شیخ صاحب نے ترجمہ پر نظر ثانی کی۔ اس ہم کام میں شیخ امری عبیدی صاحب۵۹۲ اور مولوی محمد منور صاحب نے مکرم شیخ صاحب کے ساتھ مل کر بہت ہی قابل قدر کام کیا۔ جب ہر طرح سے ترجمہ کی سلامت و صحت کا یقین ہو گیا اور مختصر تفسیری نوٹ بھی مکمل ہو گئے تو اسے حوالہ طباعت کیا گیا اور آخر سترہ سال کی محنت شاقہ اور دو لاکھ شلنگ کے صرف کثیر سے یہ ترجمہ مارچ ۱۹۵۳ء میں دس ہزار کی تعداد میں منظر عام پر آگیا۔ دیباچہ کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اردو میں ایک خاص۵۹۳ مضمون ارسال فرمایا جو سواحیلی زبان میں ترجمہ کرکے شامل کیا گیا اور اس کی سب سے پہلی کاپی بذریعہ ہوائی ڈاک حضورؓ کی خدمت اقدس میں بھیج دی۔ حضورؓ انور نے بذریعہ تار قرآن کریم کے ترجمہ سواحیلی کی اشاعت اور تقسیم کی اجازت مرحمت فرمائی۔
سواحیلی ترجمہ قرآن کی اشاعت۵۹۴ سے مشرقی افریقہ مشن کی تاریخ کا ایک نیا اور سنہری دور شروع ہوتا ہے جو اشاعت اسلام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ترجمہ سے مشرقی افریقہ میں تبلیغ و اشاعت اسلام کا کام پہلے کی نسبت بہت آسان ہو گیا اور قرآن مجید کی روشنی سے اس تاریک براعظم کے مقامی باشندے بھی منور ہونے لگے۔
چنانچہ ایک افریقن چیف نے لکھا۔
>ہم گہرے اندھیرے میں تھے اور روحانی طور پر مردہ۔ قرآن کریم کے سواحیلی ترجمہ کی اشاعت سے اسلام کے نور سے ہمیں منور کیا گیا ہے اور افریقن اقوام کو ابھارنے کی عمدہ سعی کی گئی ہے<۔
مشرقی افریقہ میں آزادی کے علمبردار مشہور لیڈر مسٹر جومو کنیاٹا )حکومت کینیا کے موجودہ صدر( اور ان کے ساتھیوں کو جبکہ وہ مائو مائو تحریک کو منظم کرنے کے الزام میں گرفتار تھے سواحیلی ترجمہ بھجوایا گیا۔ مسٹر جو موکنیاٹا نے تین دفعہ یہ ترجمہ پڑھایا اور کہا ابھی اس کو پھر پڑھنے کا شوق ہے نیز ایک مجلس میں برملا کہا کہ اسلام توحید و مساوات کا علمبردار ہے اور عیسائیت بت پرستی اور شرک کی تعلیم سے ملوث۔۵۹۵
اسی طرح مسٹر جولیس نیریرے )صدر جمہوریہ ٹانگا نیکا( مسٹر رشیدی کواوا )نائب صدر جمہوریہ ٹانگا نیکا( کابینہ کے ارکان اور دیگر سیاسی اور قومی لیڈروں نے اسے بڑے شوق سے پڑھا اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا۔۵۹۶
مسٹر لنڈن ہیرس ایم۔ اے پی۔ ایچ۔ ڈی لکھتے ہیں۔
>۱۹۵۳ء میں قرآن کریم کا ایک نیا ترجمہ طبع ہو کر منظر عام پر آیا ہے۔ یہ ترجمہ جماعت احمدیہ کے ایک سرکردہ رکن شیخ مبارک احمد صاحب نے نیروبی سے شائع کیا ہے اس سواحیلی ترجمہ میں قرآنی آیات کی احمدیہ نکتہ نگاہ سے تفسیر بھی درج کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس میں وہ تفسیر بھی شامل کی گئی ہے جو صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے قبل ازیں شائع ہو چکی ہے۔ تاہم بائیبل کے حالیہ سواحیلی ترجموں مثلاً >یونین ورشن آف دی بائیبل< اور مشرقی افریقہ کے اخبارات اور آرچ بشپ آف یارک ایسے نامور عیسائی لیڈروں کے تبصروں کے اقتباسات اور حوالے وغیرہ درج کرکے اسے زیادہ سے زیادہ مکمل کر دیا گیا ہے۔ یہ کتاب عالمانہ شان اور جدت کی پوری آئینہ دار ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ دوسرے متعصب قسم کے مسلمان جماعت احمدیہ کو بدعتی سمجھتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ تمام ہم مذہب فرقوں کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا زیادہ بہتر طریق پر دفاع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ آج اسلامی دنیا میں ان سے زیادہ فعال تبلیغی جماعت موجود نہیں۔ یہ امر خاص طور پر نمایاں حیثیت کا حامل ہے کہ تمام مسلمان فرقوں میں سے صرف یہی ایک ایسا فرقہ ہے جو افریقہ کے قبائلی مسلمانوں کے درمیان پائوں جمانے اور اپنے آپ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے<۔۵۹۷ کیمرج یونیورسٹی نے ۔AFRICA EAST OF HISTORY THE TO INTRODUCTION کتاب میں مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے تاریخی حالات لکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا۔
>اسلام کا مشرقی افریقہ میں یہ پہلا تبلیغی مرکز جماعت احمدیہ نے ۱۹۳۵ء میں ٹبورا )ٹانگا نیکا( میں قائم کیا اور اب یہ فرقہ ہر سہ علاقوں میں تبلیغی کام کر رہا ہے۔ اس فرقہ کا سب سے پہلا اور اہم کام جو اس کے مبلغ شیخ مبارک احمد صاحب نے سر انجام دیا ہے وہ سواحیلی ترجمتہ القرآن مع تفسیری نوٹوں کے ہے اور دوسرا اسلامی لٹریچر بھی شائع کیا جارہا ہے<۔
کسموں میں مسجد کی تعمیر
۱۹۵۳ء میں مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل نے مسجد کسموں کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد اپریل ۱۹۵۴ء کو تکمیل تک پہنچی بعد میں یہاں مشن ہائوس بھی تعمیر کیا گیا جو ستمبر ۱۹۵۴ء میں مکمل ہوا۔۵۹۸
شیخ امری عبیدی صاحب کی اسلامی خدمات
مشرقی افریقہ مشن کی تاریخ میں شیخ امری عبیدی جیسے عالم باعمل اور صاحب رئویاء کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ محترم عبیدی صاحب نومبر ۱۹۳۶ء۵۹۹ میں شیخ مبارک احمد صاحب کی تبلیغ سے داخل احمدیت ہوئے اور آپ کے زیر تربیت دینی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ پھر آپ ہی کی تحریک پر سرکاری ملازمت سے فارغ ہو کر یکم اکتوبر ۱۹۴۳ء۶۰۰ سے مبلغین سلسلہ میں شامل ہو کر مشرقی افریقہ میں تبلیغی خدمات بجا لانے لگے۔
خدا تعالیٰ نے آپ کو زبردست دماغ بخشا تھا اور تقریر کی غیر معمولی قابلیت بھی عطا کر رکھی تھی۔ اب جو تبلیغی میدان میں آئے تو خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت ان کے شامل حال ہوئی اور آپ کے ذریعہ سے کئی لوگوں کو حق پہچاننے کی توفیق ملی۔ اسی طرح سواحیلی لٹریچر تیار کرنے میں آپ نے شیخ مبارک احمد صاحب کا پورے اخلاص و فدائیت کے ساتھ ہاتھ بٹایا۔
۱۹۵۴ء میں آپ ربوہ بھجوائے گئے اور مزید مذہبی تعلیم حاصل کرکے ۲۴/ اپریل ۱۹۵۶ء کو واپس مشرقی افریقہ تشریف لے گئے۔
ان دنوں افریقہ کی تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ قانون کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے بھی اس میں مناسب حصہ لیا اور اس میدان میں بڑا نام پیدا کیا۔ بڑے سے بڑے افریقن سیاسی رہنما ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے کی قدر کرتے تھے۔
۱۵/ فروری ۱۹۶۰ء۶۰۱ کو پہلی بار دارالسلام کے میئر منتخب ہوئے جس سے تبلیغ کا ایک نیا رستہ کھل گیا اور سرکاری حلقوں میں بھی اسلام اور احمدیت کی آواز بلند ہونے لگی۔ یاد رہے دارالسلام وہی علاقہ تھا جہاں احمدی مبلغین کی سخت مخالفت کی گئی اور بعض اوقات ان کی قیام گاہوں پر پتھرائو کیا جاتا تھا اور شیخ امری عبیدی تو احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیئے گئے تھے اور ان کے قتل کرنے کی دھمکیاں دی جا چکی تھیں۔ میئر بننے کے بعد آپ ٹانگا نیکا لیجسلیٹو کونسل کے بلامقابلہ ممبر بھی منتخب ہو گئے۔۶۰۲
ایک بار اسمبلی میں حقوق شہریت کا بل پیش ہوا۔ جس کے پاس نہ ہونے کی صورت میں وہاں ایشیائی باشندوں کے لئے زبردست مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ اسمبلی میں اس کی سخت مخالفت ہوئی۔ اس موقعہ پر جناب امری عبیدی صاحب نے دعا کی کہ انہیں ایسی تقریر کرنے کی توفیق ملے جس سے ہائوس کی رائے بدل جائے اور حکومت کے حسب منشا بل پاس ہو جائے تا افریقنوں کے ساتھ ساتھ ایشیائی اور یورپی باشندے بھی مساوی حقوق شہریت کے حقدار قرار پا سکیں۔ چنانچہ انہوں نے خدائی تائید سے ایسی معرکتہ الاراء تقریر کی کہ ہائوس کی رائے یکسر بدل گئی۔ تقریر ختم ہوتے ہیں وزیراعظم چل کر آپ کے پاس آئے اور آپ سے بغل گیر ہو کر نہایت مدلل اور کامیاب تقریر پر آپ کو مبارکباد دی۔ اخبارات نے آپ کی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہائوس میں ایسی عمدہ تقریر آج تک نہیں ہوئی۔ یورپی اور ایشیائی باشندوں نے بھی آپ کی تقریر کو بہت سراہا اور بعض کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ یہ احمدیہ مشن ہی کا ایک ثمرہ ہے۔
آپ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے ٹانگا نیکا میں عید الاضحیٰ کی تعطیل عام کا سوال اٹھایا اور حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا۔ اسی طرح انہی کے زور دینے پر یہ فیصلہ بھی ہوا کہ جمعہ کے دن سرکاری دفتروں میں مسلمان ملازمین کو بارہ بجے کے بعد رخصت ہو گی۔۶۰۳][۱۹۶۲ء کے شروع میں ہی آپ ٹانگا نیکا کے مغربی صوبہ کے ریجنل کمشنر مقرر کر دیئے گئے۔ ۱۲/ مارچ ۱۹۶۳ء کو ٹانگا نیکا کے وزیر انصاف مقرر کئے گئے۔ ۱۹۶۴ء کے شروع سے جب زنجبار کا علاقہ ٹانگا نیکا سے ملا دیا گیا تو انہیں تعمیر قومی و ثقافت ملیہ کی وزارت سونپی گئی۔ اس عہدہ پر فائز ہونے کے بعد آپ کی صحت خراب ہونے لگی اور مغربی جرمنی کے شہربان میں قریباً دو ماہ زیر علاج رہنے کے بعد ۹/ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
آپ ۱۶/ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ احمدیہ قبرستان چنگو مبے کے قطعہ موصیان میں دفن کئے گئے۔ آپ کے جنازہ میں ٹانگا نیکا کے صدر اور کینیا اور یوگنڈا کے وزرائے اعظم اور دیگر اعلیٰ حکام بھی شامل ہوئے اور ٹانگا نیکا اور زنجبار ریپبلک کے صدر مملکت ڈاکٹر جولئیس نیریرے نے کہا۔
>ہم میں سے ان بہت سے لوگوں کے لئے جن کے ایک لمبے عرصہ سے ان کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے ان کی وفات ایک ذاتی نقصان کی حیثیت رکھتی ہے مزید برآں ان کی وفات ہماری قوم کے لئے بھی ایک عظیم نقصان ہے ان کی عظیم لیاقتیں اور ان کی خدمات بلا پس و پیش اس ملک کے لوگوں کے لئے ہمیشہ وقف رہیں۔ ہم اپنے درمیان اس خلاء کو برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتے<۔۶۰۴
مسجد دارالسلام کی تعمیر
۱۹۵۵ء میں ٹانگا نیکا کے دارالحکومت دارالسلام میں مسجد کی بنیاد رکھی گئی اس وقت مولوی جلال الدین صاحب قمر اور مولوی عبدالکریم صاحب شرما دارالسلام میں متعین تھے۔ یہ مسجد ایک لاکھ شلنگ کے خرچ سے مکمل ہوئی اور ۱۵/ مارچ ۱۹۵۷ء کو اس کا افتتاح ہوا۔
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس موقعہ پر ایک اہم پیغام ارسال فرمایا۔ جس میں اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ >میں یوگنڈا کے علاقہ میں بھی مسجد کی تعمیر کی خوشخبری سننے کا منتظر ہوں<۔۶۰۵
مسلمانان مشرقی افریقہ کی تعلیمی ترقی کے لئے جدوجہد
افریقن مسلمانوں کی تعلیم کا سوال اسلام کی ترقی و استحکام کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے احمدیہ مشن مشرقی افریقہ نے اپنے محدود ذرائع کے باوجود اس طرف شروع سے خاص توجہ کی ہے۔
ممباسہ میں افریقن مسلمان آبادی چالیس ہزار کے قریب ہے مگر تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے لیجسلیٹو کونسل کے لئے ایک بھی مسلمان کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ مولوی نور الدین صاحب منیر )کینیا کے احمدی مبلغ( نے اعلیٰ سرکاری افسروں سے ملاقات کی اور ان کو توجہ دلائی کہ وہ افریقن مسلمانوں کی تعلیم کے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں۔
اس کے علاوہ آپ نے پریس میں ممباسہ کے مسلمان بچوں کے اعداد و شمار دیئے جس میں بتایا کہ دس ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اس جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنوری ۱۹۵۷ء سے ایک نیا سکول جاری ہو گیا جس میں افریقن مسلمانوں نے خاصی تعداد میں بچے بھجوائے اور حکومت ممباسہ نے افریقن مسلم سوسائٹی کو مالی امداد دینے کا بھی وعدہ کیا۔۶۰۶` ۶۰۷
علاوہ ازیں مسلمان افریقنوں کی تعلیم کے لئے ٹانگا نیکا اور یوگنڈا کے مبلغین نے بے حد کوشش کی۔
اخبار >ایسٹ افریقن ٹائمز<
مئی ۱۹۵۷ء سے جماعت احمدیہ مشرقی افریقہ کی طرف سے انگریزی ماہنامہ >ایسٹ افریقن ٹائمز<۶۰۸ جاری کیا گیا۔ جو جلد ہی پندرہ روزہ اخبار کی صورت میں شائع ہونے لگا۔ اخبار کے پہلے ¶ایڈیٹر مولوی نور الدین صاحب منیر مقرر کئے گئے۔ جنہوں نے اس کی ادارت کے فرائض انجام دینے کے علاوہ اس کی اشاعت کی طرف خاص توجہ کی۔
افریقن مسلمان تعلیم کے لحاظ سے بہت پیچھے تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ سب اسکول عیسائی مشنوں کی طرف سے جاری کئے گئے تھے اور وہاں عموماً مسلمانوں کو داخلہ نہیں ملتا تھا۔ حکومت کی تعلیمی پالیسی یہ تھی کہ جو مقامی ادارہ سکول جاری کرکے ایک سال تک کامیابی سے چلا کر دکھا دے اسے سو فیصدی گرانٹ دی جائے گی اس پالیسی کا نتیجہ یہ تھا کہ سارے اسکول عیسائی مشنوں کے تھے اور مسلمان ایک سکول بھی جاری نہ کر سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس نہ سرمایہ تھا نہ ٹرینڈ استاد۔ >ایسٹ افریقن ٹائمز< نے افریقن مسلمانوں میں تعلیمی لحاظ سے بیداری پیدا کرنے کی جدوجہد کی بلکہ حکومت کو بھی توجہ دلائی کہ اس کی تعلیمی پالیسی جانبدارانہ ہے اور اسے مسلمانوں کے لئے علیحدہ اسکول جاری کرنے چاہئیں۔ چنانچہ اس کے خاطر خواہ نتائج پیدا ہوئے۔
شروع ۱۹۵۸ء میں برطانیہ نے کینیا میں ایک دستور نافذ کیا۔ جس کی رو سے قانون ساز اسمبلی میں افریقنوں کے لئے چار ایسی نشستیں مقرر کی گئیں جن کا انتخاب دستور ساز اسمبلی کے ذمہ تھا اور جس میں اکثریت یورپین ممبروں کی تھی۔ اسمبلی کے افریقن ممبروں نے ایک بیان میں ایسے افریقنوں کو جو ان نشستوں کے لئے کھڑے ہوں >غدار< قرار دیا۔ یہ بیان >ایسٹ افریقن ٹائمز< میں بھی شائع کیا گیا۔ حکومت نے افریقن لیڈروں کے ساتھ اس اخبار پر بھی مقدمہ دائر کر دیا۔ یہ مقدمہ نیروبی میں ڈیڑھ ماہ تک جاری رہا مشن کی طرف سے محترم ملک احمد حسن صاحب اور ملک عبدالقادر صاحب نے اس کی پیروی کی۔ عدالت نے مولوی نور الدین صاحب منیر )ایڈیٹر( اور مولوی محمد منور صاحب پر معمولی جرمانہ تو کر دیا لیکن اخبار کو شہرت کے لحاظ سے بہت فائدہ ہوا۔ مقدمہ کی ہر پیشی پر نہ صرف ریڈیو نے ساری روداد نشر کی بلکہ مشرقی افریقہ کے سب مقتدر >روزنامے< بھی اس کی خبر نمایاں طور پر شائع کرتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ >ایسٹ افریقن ٹائمز< دور دور علاقوں میں مشہور ہو گیا۔ اور افریقنوں نے اسے خواب سراہا کہ اس نے ان کی جدوجہد آزادی میں افریقنوں کے دوش بدوش ساتھ دیا ہے۔
>ایسٹ افریقن ٹائمز< اب تک باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے اور اپنی عمدگی و نفاست اور مضامین کی ندرت کے باعث نہ صرف مشرقی افریقہ بلکہ سارے افریقہ میں بڑا مقبول ہے مسٹر >ہمفری جے فشر< نے اپنی تصنیف >احمدیت افریقہ میں< اس کا ذکر تعریف آمیز الفاظ میں کیا ہے۔ محترم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی اور قاضی کبیر احمد صاحب بھٹی شروع سے ہی اس اخبار کی تدوین و اشاعت میں امداد کرتے رہے اور قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی تو ۱۹۶۳ء سے لے کر ۱۹۶۶ء تک اس کے ایڈیٹر بھی رہے۔
جنجہ )یوگنڈا( میں مسجد اور مشن ہائوس کی تعمیر
۲۷/ جولائی ۱۹۵۷ء کو مسجد جنجہ کی اور اگست ۱۹۵۷ء میں اس کے مشن ہائوس کی بنیاد رکھی گئی۔ ٹبورا کی طرح یہاں بھی لوگوں نے مسجد کا بائیکاٹ کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت کی مخلصانہ کوششوں میں برکت ڈالی اور یہ دونوں عمارتیں ۱۹۵۹ء میں مکمل ہو گئیں۔ جنجہ کی جماعت نے عموماً اور حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب مبلغ مقامی اور بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر صدر جماعت نے خصوصاً اس کی تکمیل میں نمایاں حصہ لیا۔۶۰۹
ممباسہ میں مسجد کی تعمیر
یہ مسجد ممباسہ کے محلہ مکوپا میں ایک فری ہولڈ پلاٹ پر تعمیر کی گئی اس کے لئے ایک مخلص احمدی خاتون سیدہ مرجان صاحبہ )اہلیہ سید معراج الدین صاحب مرحوم( نے ساٹھ ہزار شلنگ کا عطیہ دیا۔۶۱۰
مسجد کے ساتھ دارالتبلیغ بھی تعمیر ہوا جس کے لئے بابا فقیر محمد صاحب مرحوم کے بچوں نے بیس ہزار شلنگ چندہ دیا۔۶۱۱ تعمیر کا کام محمد افضل خاں صاحب اور نعمت اللہ خان صاحب بلڈنگ کنٹریکٹرز نے اپنی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
ڈاکٹر بلی گراہم کو مقابلہ روحانی کا چیلنج
امریکہ کے مشہور مسیحی مناد ڈاکٹر بلی گراہم ۱۹۶۱ء کے شروع میں افریقہ کے تبلیغی دورہ پر روانہ ہوئے تو امریکی پریس )خصوصاً اخبار >ٹائم< اور >نیوز ویک(< نے اس دورہ کو بہت اہم قرار دیا اور عیسائیت کی کامیابی کی بڑی امیدیں اس سے وابستہ کیں۔ افریقہ کے طول و عرض میں کئی ماہ سے ان کی آمد کا زبردست پروپیگنڈا جاری تھا کہ ڈاکٹر بلی گرام فروری کے آخر میں نیروبی پہنچے اور عظیم الشان جلسے منعقد کئے گئے جن میں انہوں نے لاکھوں نفوس سے خطاب کیا۔
شیخ مبارک احمد صاحب نے ۳/ مارچ ۱۹۶۱ء کو ڈاکٹر بلی گراہم کے نام ایک خط لکھا جس میں ان کے سامنے انجیل کے اصولوں کی رو سے بذریعہ دعا لا علاج بیماروں کو تندرست کرنے کا طریق رکھا اور اس کے مطابق اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کو للکارا۔۶۱۲
ملکی اخبارات میں اس چیلنج کا خوب چرچا ہوا اور پریس نے شیخ صاحب کا فوٹو شائع کرکے اس کو خاص اہمیت دے دی جس سے متاثر ہو کر ڈاکٹر گراہم سے ان کے ایک لیکچر کے بعد سوال کیا گیا کہ کیا آپ چیلنج قبول کریں گے؟ ڈاکٹر گراہم نے جواب دیا۔ >میرا کام محض وعظ کرنا ہے مریضوں کو چنگا کرنا نہیں<۔۶۱۳body] g[ta
عیسائی حلقوں کی طرف سے ڈاکٹر بلی گراہم کو مجبور کیا جانے لگا کہ وہ یہ چیلنج قبول کرکے عیسائیت کی سچائی کا ثبوت دیں۔ ورنہ عیسائیت کو سخت زک پہنچے گی۔ مگر وہ آمادہ نہ ہو سکتے تھے اور نہ ہوئے۔۶۱۴ افریقہ کے غیر احمدی مسلمانوں نے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کو مبارکباد دی اور اقرار کیا کہ آپ نے عیسائیت کے بالمقابل اسلام کا جھنڈا خوب بلند رکھا ہے۔۶۱۵
اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد غزنوی نے پاکستان کے اخبار >مشرق< )لاہور( مورخہ ۱۸/ اکتوبر ۱۹۶۳ء میں لکھا۔
>چند سال سے افریقہ میں تبلیغ کے سلسلہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان معرکہ جاری ہے عیسائی مشنری اپنے تمام ہتھیاروں سے لیس ہو کر افریقہ پر ایک مدت سے حملہ آور ہیں اس کے مقابلہ میں مسلمان مشنریوں نے بھی وہی طریقے اختیار کئے فرق صرف اتنا تھا کہ مسلمانوں کی تنظیم اتنی مکمل نہ تھی اور ان کے مالی وسائل حد درجہ محدود تھے۔ جس کی کمی پوری کرنے کے لئے انہوں نے حد درجہ جسمانی مشقت سے کام لیا۔ امریکہ کے ایک پادری بلی گراہم کو پچھلے دنوں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی مسلمان مبلغوں نے ان کا افریقہ میں اس طرح پیچھا کیا کہ ان کی خطابت اور زور بیان کا بھرم کھل گیا۔ ہر جلسہ میں ان سے عیسائیت کے بارے میں ایسے سوال کئے گئے کہ کوئی عیسائی ان کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ انہیں ہر شہر میں مناظرہ۶۱۶ کا چیلنج دیا گیا جب انہوں نے یہ رنگ دیکھا تو وہ اپنا چار مہینہ کا طویل پروگرام مہینہ بھر میں ختم کرکے واپس بھاگ گئے اور اس دن سے ان کی شہرت پھر کبھی سننے میں نہ آئی<۔۶۱۷
مسیحی مورخین ومحققین کا اعتراف
ہٹسن )امریکہ( کی رائس یونیورسٹی کے پروفیسر عمرانیات جناب ولیم مارٹن (WILLIAM MARTIN) مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کے چیلنج اور بلی گراہم کے واضح گریز کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ۔:
invitation Graham,s rescind to managed Sudan is Muslim feared they because apparently country, that in preach to sacred the Ramadan, of observance proper disrupt might he normal restrict severely Muslims which during month challenge, Muslim elbaromem and explicit most The ۔activities Sheikh Maulana where Kenya, in came however, Mission Muslim Ahmadiyya the of chief Ahmad, Mubarak reminiscent challenge a hurled Africa, East in famous his in Elijah prophet the by proposed that of ۔40)۔20 18: Kings (I Ball of priests the with Carmel Mount on contest leader Muslim the Graham, to letter a In Europeans, ten ۔individuals thirty that proposed the by certified all Africans, ten and Asians, ten be a Kenya of services medical of director tol by assigned be ۔medicine scientific by incurable a with together Graham, and he that and groups two into the heal to God beseech associates, of band small to as determine "to them to assigned group and mercy and grace Lord,s the with blessed is who declined, Graham If "۔closed remains door His whom upon world the to proved be will ~~t " argued, Ahmad capable is which religion only the is Islam that group A "۔God with relationship man,s establishing of the challenge; the "accept to mhi cabled Pentecostals American of up picked neither Graham but lives," still Elijah of 260)God ۔(P ۔press the to comment any offered nor gauntler the
William Martin William By 260۔P honor with Prophet York)(A New Company and Morrow
)ترجمہ( سوڈان میں مسلمانوں نے گراہم کو ملک میں تبلیغ کرنے کی دعوت منسوخ کرالی` بظاہر اس خوف سے کہ اس سے رمضان کی عبادات میں خلل واقع ہوگا۔ رمضان کے مقدس مہینہ میں مسلمان عام مصروفیات سختی سے روک دیتے ہیں۔ نہایت کھلا اور یاد رکھنے کے قابل چیلنج کینیا میں دیا گیا۔ کینیا میں ایسٹ افریقہ احمدیہ مسلم مشن کے سربراہ مولانا شیخ مبارک احمد نے ایسا زبردست چیلنج دیا جو کہ نبی ایلیا )الیاس( کے اس چیلنج کی یاد دلاتا ہے جو اس نے کوہ کرمل پر بعل کے پادریوں کو دیا تھا۔ )۱۔ سلاطین باب ۱۸ آیت ۲۰۔۴۰( اپنے خط میں مسلم لیڈر نے گراہم کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ تیس مریض لئے جائیں۔ جن میں سے دس یورپین ہوں` دس ایشین اور دس افریقن۔ ان مریضوں کے بارہ کینیا کے ڈائریکٹر آف میڈیکل سروسز کی تصدیق ہو یہ سب طبی لحاظ سے لاعلاج ہیں۔ یہ مریض بذریعہ قرعہ اندازی مسلم لیڈر اور گراہم میں برابر تقسیم کردئے جائیں۔ پھر ہر دو اپنے اپنے چند ساتھیوں سمیت اپنے حصے کے مریضوں کی شفایابی کے لئے خدا سے دعا کریں۔ تاکہ فیصلہ ہو کہ خدا کا فضل اور رحم کس کے ساتھ ہے اور کون اس سے محروم ہے۔ احمد )شیخ مبارک احمد( نے کہا کہ اگر گراہم نے یہ تجویز قبول نہ کی تو دنیا پر ثابت ہوجائے گا کہ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جو بندے کا خدا سے تعلق قائم کرا سکتا ہے۔ امریکہ کے Pentecost کے ایک گروہ نے گراہم کو تار دی کہ >چیلنج قبول کرلو۔ ایلیاء )الیاس( کا خدا اب بھی زندہ ہے<۔ مگر گراہم نے نہ تو چیلنج قبول کیا اور نہ ہی پریس کے لئے کوئی تبصرہ کیا۔
مشہور امریکی اخبار لائف (LIFE) اور نیوز ویک WEEK) (NEWS خصوصی نامہ نگار اور کئی درجن کتابوں کے مولف مارشل فریڈی FRADY) (MARSHALL لکھتے ہیں ۔:
persistently was also Graham disarrayings, occasional these Beside healing to evangelists Islamic by challenged between equally divide to being proposal one ۔duels incurable pronounced patients hospital thirty them Roy ۔Allah and Christ between off۔face public grand a for "Boy, remembers, there, Graham accompanied had who Gustafson, sorts, all and people press ringing, started phones those Graham, But "۔do to going was Billy what know to wanting to snap merely would harried, somewhat feel to beginning Gustafson, says Finally, "۔comment No ۔comment "No inquiries, all letters and wires these all getting started "We ۔floks Pentecostal the particularly ۔States the in back people from the that them Show challenge! eht Accept on! Go us` telling from quoting kept just Billy But lives!, still Elijah of God prophets, the and Moses not hear they If parable, 330)Jesus,۔(P "۔dead the from rose one though persuaded, be they will neither
Brown ۔Little by published Frady Marshall By 330 ۔P Graham Boston~/~Toronto)(Billy Company and
)ترجمہ( گراہم کو پے درپے مسلمان مشنریوں کی طرف سے شفا بخشنے کے مقابلے کا چیلنج بھی دیا گیا۔ ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ تیس ایسے مریض جو ہسپتال کی طرف سے لاعلاج قرار دئے گئے ہوں ان کے درمیان تقسیم کردئے جائیں تاکہ عوام الناس کے سامنے یسوع اور خدا کا مقابلہ ہوجائے۔ رائے گسٹاف سن کو جو گراہم کے ساتھ تھے` یاد ہے کہ اس چیلنج پر ٹیلیفون بجنے لگے۔ پریس والے اور دیگر لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ گراہم کیا اقدام کریں گے۔ لیکن گراہم قدرے برہم ہوکر تند لہجے میں صرف یہ جواب دیتے کہ >کوئی تبصرہ نہیں۔ کوئی تبصرہ نہیں<۔ مسٹر گسٹاف سن کہتے ہیں کہ آخر ہمیں امریکہ سے بھی تاریں اور خطوط آنے لگے` خاص طور پر فرقہ Pentecost کے لوگوں کی طرف سے` کہ >آگے بڑھو اور چیلنج قبول کرلو<۔ ان پر روشن کردو کہ ایلیاء کا خدا اب بھی زندہ ہے<۔ لیکن بلی گراہم محض یسوع کی اس تمثیل کا حوالہ دینے پر اکتفاء کرتے کہ >اگر وہ موسیٰ اور نبیوں کی نہیں سنتے` اور نہ ہی ان کو قائل کیا جائے گا اگرچہ کوئی مردوں سے جی اٹھے۔
کمپالہ )یوگنڈا( میں تعمیر مسجد محمود
مسجد سلام کے افتتاح پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے یوگنڈا میں تعمیر مسجد کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا جس کی تعمیل میں ۹/ اگست ۱۹۵۷ء کو مسجد کمپالہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔۶۱۸ یہ مسجد ۱۹۶۲ء میں مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے فرمایا۔ اس مسجد کے اکثر و بیشتر اخراجات محمد اکرم غوری صاحب نے ادا کئے۔
مشرقی افریقہ کے نظام تبلیغ میں تبدیلی
دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کا دائرہ عمل نہایت وسیع تھا۔ جس میں چار مستقل ممالک کینیا` یوگنڈا` ٹانگا نیکا اور زنجبار شامل تھے اور چاروں ممالک آزاد ہو رہے تھے۔۶۱۹ اس لئے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق یکم مئی ۱۹۶۱ء سے ان ممالک کا تبلیغی نظام بھی علیحدہ علیحدہ قائم کر دیا گیا۔
ٹانگا نیکا: نئے نظام کے تحت ٹانگا نیکا کے امیر اور انچارج مشن مولوی محمد منور صاحب فاضل مقرر کئے گئے۔ زنجبار کا الحاق ٹانگا نیکا کے ساتھ ہو گیا اور ملک کا نام تنزانیہ رکھ دیا گیا۔ اس وقت تنزانیہ مشن کے تین تبلیغی حلقے ہیں۔
)۱(
ٹبورا میں اس وقت مولوی عبدالرشید صاحب رازی اس مشن کے انچارج ہیں۔
)۲(
ٹانگا شہر جہاں حال ہی میں مسجد اور مشن کی تعمیر ہوئی ہے۔ موجودہ مشن انچارج شیخ ابو طالب عیدی ساندھی ہیں۔
)۳(
بکوبا میں حافظ محمد سلیمان صاحب انچارج ہیں۔
)۴(
دارالسلام تنزایہ کا دارلحکومت ہے اور انچارج مبلغ کا ہیڈ کوارٹر بھی یہی ہے۔
کینیا: نئے نظام کے ماتحت کینیا کے امیر اور مبلغ انچارج مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مقرر ہوئے آپ ۳۰/ اپریل ۱۹۶۲ء کو نیروبی سے کراچی کے لئے روانہ ہوئے۔ روانگی سے پہلے شیخ صاحب نے کینیا مشن کا چارج مکرم مولوی نور الحق صاحب انور کو دیا۔ شیخ مبارک احمد صاحب ۷/ مئی ۱۹۶۲ء کو مرکز میں تشریف لے آئے اور ساتھ ہی رئیس التبلیغ کا عہدہ بھی ختم کر دیا گیا۔
دسمبر ۱۹۶۴ء میں مولوی نور الحق صاحب انور واپس آگئے اور صوفی محمد اسحٰق صاحب اس وقت سے مشن کے انچارج ہیں۔ اس وقت کینیا کے تین اہم تبلیغی مراکز ہیں )۱( ممباسہ )۲( کسموں )۳( نیروبی۔ )امیر جماعت اور مبلغ انچارج نیروبی میں ہی رہتے ہیں(
یوگنڈا: نئے طریق عمل کے مطابق یکم مئی ۱۹۶۱ء سے مولوی عبدالکریم صاحب شرما اس ملک کے امیر اور یوگنڈا احمدیہ مشن کے انچارج مقرر کئے گئے۔ جو اب تک مصروف عمل ہیں۔ اس مشن کے اہم مراکز یہ ہیں۔ )۱( جنجہ )۲( کمپالہ )۳( مساکا )۴( لیرا۔۶۲۰
جدید نظام عمل کے تحت اشاعت احمدیت کے سلسلہ میں مبلغین نے جو سنہری خدمات انجام دیں وہ ترتیب واقعات کے لحاظ سے اپنے مقام پر آئیں گی۔ انشاء اللہ۔
افریقن معلمین
مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے کام میں افریقن احمدی معلمین نے قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ مشہور اور مخلص معلمین کے نام یہ ہیں۔
کینیا: علی کئوس۔ معلم علی۔ معلم نعمان۔ معلم حمیدی۔ معلم بشیر اوینڈو۔ حسن وڈینیں۔ اسمعیل حسیئیس۔ رجب اکیلو۔ نذیر احمد ابوایا۔ فضل احمدا وڈیرا۔ صادق امباسو۔ احمد امبوکا۔
یوگنڈا: حاجی ابراہیم سیمفوما۔ حاجی معلم زیدی۔ حاجی ایوب۔ حاجی جمادا۔ شیخ شعبانی کرونڈے۔ سلیمان مٹروممبا۔ معلم علی۔ نیکسانجا۔ شیخ عبدالقادر بگوہ۔ علی ککئی رے۔ معلم زکریا کزیٹو بلوڈے۔ معلم محمد بوزا۔ احمد مٹودو۔ مسعودی موٹوو۔ معلم خمیسی جمعہ۔ ہارون مٹورو۔ موسیٰ سیمپا۔ معلم حسانی۔ معلم محمود۔10] [p۶۲۱
تنزانیہ: معلم عمر عبداللہ۔ معلم رشیدی صالح۔ معلم سعیدی علی۔ عبدہ عمران۔ معلم شعبان سیف۔ شیخ یوسف دنیا۔ معلم محمود عبداللہ صاحب۔ معلم دائود علی صاحب۔ شیخ محاذ مشائو جی۔ شیخ احمد مٹاک۔ شیخ صالح مبروک۔ معلم احمد سانسہ۔ معلم عثمان کامبا الایا )مرحوم( معلوم مسعودی مسگارا۔ معلم موسیٰ براکا۔ معلم حمیدی بیانا۔ شیخ احمد اوکاش۔ شیخ رشیدی مسبہ۔ چیف محمد کلوفیا۔
اسلامی لٹریچر کی اشاعت
مشرقی افریقہ کے احمدی مجاہدین نے آج تک جو اسلامی لٹریچر شائع کیا ہے وہ بہت وسیع ہے جس کے اہم حصہ کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
)سواحیلی زبان میں( ترجمتہ القرآن سواحیلی۔ کشتی نوح۔ ایک غلطی کا ازالہ۔ احمدی اور غیر احمدی میں فرق۔ )کتب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام( >افریقن کس طرح ترقی کس سکتے ہیں؟< اسلام اور دیگر مذاہب۔ پیغام احمدیت۔ الکفر ملتہ واحدہ )حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( اسلام اور غلامی )سیرت خاتم النبینﷺ~ مولفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے ماخوذ( اسوہ حسنہ )از حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ( نماز کی کتاب ۔ آسمانی آواز۔ ادعیتہ الرسولﷺ~۔ اسلام میں بیاہ اور شادی۔ ہم اسلام کیوں قبول کریں۔ ہادی برحقﷺ~ کے احکام و ہدایات۔ اسباق الاسلام۔ الانذار۔ KATIKA UTUMWA ISLAM KI YA DINI )امری عبیدی صاحب مرحوم کا پہلا اشتہار(
)عربی زبان میں( )۱( الجماعہ الاحمدیہ الاسلامیہ )۲( کلمہ الحق )۳( الاحمدیہ ای الاسلام الصحیح )۴( شمس الھدی )حضرت مسیح موعودؑ کی نعت( )۵( اسمعوا صوت المنادی۔
)گجراتی زبان میں( ہمارا محمدﷺ~۔ خاتم القلوب۔ مسیح کی موت میں اسلام کی زندگی۔ ہمارا مذہب۔ سچائی کی فتح۔ شری نہہ کلنک اوتار۔ عقیدہ حیات مسیح اور مولوی عبداللہ شاہ کی درماندگی۔ مولوی عبداللہ شاہ سے دو حرفی فیصلہ۔ مولوی عبداللہ شاہ قرآن مجید سے ایک آیت بھی حیات مسیح کی نہ دکھا سکے۔۶۲۲ آسمانی آواز۔ نبوت کے متعلق بزرگان ملت کا خیال اور حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کی حقیقت۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت۔ جماعت احمدیہ کے عقائد۔ کامل ایمان کس کا ہے؟ یکے ندائے از زمین قدسیاں۔ وفات مسیح۔ الوہیت مسیح۔ وہی ہمارا کرشن )مضمون حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
لوگنڈا زبان میں: ترجمہ قرآن مجید پہلے پانچ پارے۔ نماز کی کتاب۔ اسلامی اسباق۔ خاتم النبیین کے معنے۔ روزے کی کتاب۔ فضائل اسلام۔ کیا مسیح خدا تھا؟
)ککویو زبان میں( میں اسلام کو کیوں قبول کرتا ہوں؟
)لوئو زبان میں( ۔ALINCNDE NYASAYE (2) NYASAYE YOR (i) مقدس نبی محمدﷺ~ ۶۲۳ MOHAMMAD ۔MALENG ANNEBI (3)
)کسکا مبا زبان میں( موجودہ عیسائیت دین حق نہیں۔
)لانگو زبان میں( سیرت رسول مقبولﷺ~ )از حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
)انگریزی زبان میں(
)ہمارا محمدﷺ~۔ دلوں کا فاتح(
۔HEARTS OF CONQUROR THE MOHAMMED OUR (1)
)فاتح محمدﷺ(~
۔MOHAMMED VICTORIUS THE (2)
)احمدیہ تحریک(
MOVEMENT AHMMADIYYA THE (3)
)محمد۔ افضل الرسل(
۔PROPHET MASTER THE MOHAMMED (4)
)قادیان میں سازش کے متعلق
ON COURT HIGH PUNJAB (5)
پنجاب ہائی کورٹ کا فیصلہ(
۔MENACE QADIAN
)آنحضرت~صل۱~ کی صفات کاملہ(
۔EXCELLANCE PROPHET HOLY (6)
)میں مسلمان کیوں ہوا(
۔MUSLIM A BECAME I WHY (7)
)محمد~صل۱(~
۔MOHAMMED (9)
)اسلام کیا ہے؟(
۔ISLAM IS WHAT (8)
)فتح کا راستہ(
۔VICTORY TO WAY THE (10)
)کتب مقدسہ میں بعثت ثانیہ کی پیشگوئی(
]eng2 [tag ۔SCRIPTURES THE IN FORETOLD ADVENT SECOND THE (11)
)احمد علیہ السلام(
۔AHMAD (13)
)اسلام کیوں؟(
ISLAM WHY (12)
محمد~صل۱~ بائیبل میں(
۔BIBLE THE IN MOHAMMED (14)
احمدیہ مشرقی افریقہ مشن دوسروں کی نظر میں
مبلغین احمدیت نے مشرقی افریقہ میں جو مسلسل تبلیغی جہاد کیا ہے وہ اتنا شاندار ہے کہ مسلم اور غیر مسلم حلقے دونوں اس کی اہمیت کا برملا اظہار کرنے پر مجبور ہیں۔4] [stf۶۲۴ بطور نمونہ بعض ضروری اقتباسات )اردو کے ترجمہ کی صورت میں( درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔
یوگنڈا میں میکر یرے کالج آف یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مسٹر گولڈ تھروپ اپنی کتاب SOCIETY> AFRICAN EAST OF LINES۔<OUT میں لکھتے ہیں۔
>اسلام کی یہ کامیابی اس لحاظ سے اور بھی نمایاں حیثیت رکھتی ہے کہ ابھی زمانہ حال میں چند سال قبل تک یہاں تبلیغی مساعی کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ گزشتہ دس پندرہ سال میں روشن خیال فرقہ احمدیہ نے جس کا مرکز پاکستان میں ہے بعض مستعد نوجوان علماء بطور مبلغ یہاں بھیجے ہیں اور آج کل سارے افریقہ میں ایک درجن کے قریب ایسے مبلغین اسلام مصروف کار ہیں جنہیں یہاں کی مقامی جماعت کی پوری پوری تائید و حمایت اور امداد حاصل ہے اگرچہ اس جماعت کے افراد تعداد کے لحاظ سے ابھی تھوڑے ہیں لیکن ان میں مالدار اور بااثر لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ اس لئے یہ جماعت اپنی تعداد سے کہیں بڑھ کر اثر ڈالنے اور نفوذ حاصل کرنے کی اہلیت سے بہرہ ور ہے<۔۶۲۵
۲۔
>ممباسہ ٹائمز< )مورخہ ۲۱/ جون ۱۹۶۲ء( لکھتا ہے۔
>افریقہ میں مسلمان مبلغین ہمارے عیسائی مشنریز کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تیز رفتاری سے لوگوں کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا رہے ہیں۔ گراہمز ٹائون کے ایک استاد اے۔ کے گراہم کے بیان کے بموجب توقع یہ ہے کہ عنقریب اشاعت اسلام کی یہ رفتار اور بھی زیادہ تیز ہو جائے گی۔ مسٹر گراہم نے جو اسلام کا خاص طور پر مطالعہ کر چکے ہیں۔ خبردار کیا ہے کہ بہت سے مبصرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر عیسائیت نے خطرہ کا پورے طور پر احساس نہ کیا تو اسلام باسانی سارے افریقہ کا مذہب بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بیسویں صدی کا سب سے اہم اور تعجب خیز امر وہ مخصوص اسلام ہے جو حیات نو سے ہمکنار ہونے کے علاوہ اپنی ذات میں جارحانہ نوعیت کا حامل ہے اور یہی وہ اسلام ہے جو بیداری سے ہمکنار ہونے والے افریقہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا اس وقت تین بڑی طاقتیں اپنی اپنی جگہ افریقہ پر غالب آنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان میں سے ایک اشتراکیت ہے جو بیک وقت دوسری دو طاقتوں یعنی اسلام اور عیسائیت کی مخالفت پر کمربستہ ہے۔ اس جدوجہد میں اسلام بہرطور کامیاب ثابت ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام` نسل` قومیت` سیاسی علائق اور تعلیم وغیرہ کے امتیازات سے یکسر بالاتر رہتے ہوئے ہر انسان کے عزو وقار کا احترام کرتا ہے اور اسے ضروری قرار دیتا ہے<۔
۳۔
نیروبی کے مشہور اخبار >ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ< نے لکھا۔
>پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ افریقہ کے دروازے عیسائیت کے لئے ہمیشہ ہی کھلے ہیں۔ لیکن اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بند ہوتے جارہے ہیں۔ بعض لوگوں کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اسلام عیسائیت کے مقابلے میں دس گناہ زیادہ رفتار کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ براعظم افریقہ کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک عیسائی مشن قائم کرکے اسلام کی اس وسعت پذیر ترقی کو روکنے کے لئے جو حکمت عملی بنائی گئی تھی وہ بظاہر کتنی اچھی کیوں نہ ہو کامیاب ثابت نہیں ہوئی<۔
۴۔
اخبار >یوگنڈا آرگس< )۱۶/ اپریل ۱۹۶۳ء( نے آرچ بشپ آف کنٹر بری ڈاکٹر رامزے کے ٹیلویژن انٹرویو کی تفصیل شائع کرتے ہوئے لکھا کہ۔
>آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر رامزے نے گزشتہ اتوار کے روز تسلیم کیا کہ افریقہ میں بہت وسیع پیمانے پر اسلام کی پیش قدمی جاری ہے<۔
۵۔
مسٹر عبداللہ فونڈی کیرا سابق وزیر انصاف ٹانگا نیکا لکھتے ہیں۔
>مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ نے ۲۵ سال میں دو جنگیں لڑیں ہیں۔ ایک جنگ عیسائیوں کے ساتھ۔ جو تابڑ توڑ حملے اسلام اور حضرت بانی اسلام~صل۱~ پر کر رہے تھے۔ ان کے جوابات دے کر عیسائیت کو ناقابل عمل اور ناقابل قبول ثابت کرکے ان کے منہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے۔ دوسری جنگ میں احمدیوں نے غیر از جماعت لوگوں پر اپنے عمل اور کردار اور تبلیغ اسلام کی مخلصانہ جدوجہد سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اسلام کے سچے اور بہادر سپاہی ہیں<۔۶۲۶ind] g[ta
۶۔
چیف ہارون لگوشا )ٹانگا نیکا کی لیجسلیٹو کونسل کے سابق سپیکر اور ایسٹ افریقن کونسل کے سابق ممبر( نے کہا۔
>اگر جماعت احمدیہ نہ ہوتی تو اسلام کا نام افریقہ سے مٹ جاتا<۔۶۲۷
۷۔
ایس کے جمال )جونز برگ جنوبی افریقہ کی علم دوست شخصیت( نے ۲۶/ ستمبر ۱۹۶۳ء کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ۔
>اسلام اور عیسائیت کے سلسلہ میں جو قیمتی اور بلند پایہ مضامین اخبار >ایسٹ افریقن ٹائمز< میں شائع کئے جاتے ہیں۔ میں قدر دانی کے جذبات کے پیش نظر آپ کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں ان مضامین کو پڑھ کر ہمیشہ حظ اٹھاتا ہوں۔ بالخصوص وہ اداریے جو عیسائیت کے رد اور اسلام کی حمایت و دفاع میں آپ نے تحریر کئے بے حد قابل قدر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی مجال نہیں کہ احمدی حضرات کا اس میدان میں مقابلہ کر سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم سنی جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن حقدار کو اس کا حق دینا بھی ضروری اور لابدی ہے۔ میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ ایسے ادارے یا انجمنیں جو تبلیغ اسلام کے فریضہ کو غیر مسلموں میں بجا لارہی ہیں۔ احمدی حضرات کے تیارہ کردہ لٹریچر سے خوب فائدہ اٹھاتی ہیں اور اس علم کلام کے زور سے اپنی تبلیغ کو غیر مسلموں میں موثر بناتی ہیں۔ احمدی حضرات نے بائیبل کا بہت گہرا مطالعہ کیا ہے اور ہم سنی آپ حضرات کی محنت شاقہ اور جدوجہد کے نتیجہ سے )جو عیسائیت کی علمی تحقیقات کے بارہ میں کی ہے( فائدہ اٹھا رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی انجمنوں یا اداروں نے آپ کا شکریہ ادا کرنے اور قدر دانی کے جذبات کے اظہار میں بخل سے کام لیا ہو۔ لیکن میں ایسے ناشکرا پن کا مظاہرہ نہیں کر سکتا اور چاہتا ہوں کہ آپ کا اور جماعت احمدیہ کا قدر دانی کے جذبات کے ساتھ دلی خلوص سے بھر پور شکریہ کا اظہار کروں کہ آپ نے عیسائیت کے رد کے لئے بائیبل کا گہرا اور تحقیقی مطالعہ کرکے زبردست مواد عیسائیت کے ابطال کے لئے تیار کر دیا ہے بلکہ احمدی حضرات اپنی ان تھک کوششوں سے اس مواد میں روز بروز اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ ایسٹ افریقن احمدیہ مسلم مشن کا اخبار اس حقیقت کے ثبوت میں ایک روشن اور تابندہ نشان ہے ہم خوب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ اخبار عیسائیت کے لئے ایک تکلیف دہ اور خاردار کانٹا ہے۔
مشرقی افریقہ اور مغربی افریقہ میں اشاعت اسلام کا زبردست کام خالصت¶ہ جماعت احمدیہ کی ان تھک کوششوں اور مستقل جدوجہد کے نتیجہ میں انجام پارہا ہے۔ کوئی سنی عالم اس عزت کا مستحق نظر نہیں آتا<۔۶۲۸
۸۔
سکول آف اورنٹیل سٹڈیز لنڈن کے پروفیسر لینڈن ہیرس HARRIS) (LYNDON نے )جو عرصہ تک عیسائی مشنری کے طور پر )ٹانگا نیکا( مشرقی افریقہ میں کام کرتے رہے( اپنی کتاب AFRICA> EAST IN <ISLAM میں لکھتے ہیں۔
>موجودہ صدی کے آغاز میں عیسائی مصنفین اس بات پر زور دے رہے تھے کہ سیاسی طاقت کے بغیر اسلام کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یہی وجہ ہے کہ اسلام اب افریقہ میں زندہ نہیں رہ سکتا لیکن آج کوئی شخص بھی سنجیدگی کے ساتھ اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اسلام کا چیلنج اب بھی موجود ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سیاسی زندگی کے نت نئے اتار چڑھائو کی وجہ سے یہ چیلنج اور بھی قوت حاصل کر چکا ہے<۔
>اپنے تمام ہم عصروں میں احمدی اپنے مذہب اور معتقدات کے دفاع کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں اسلامی دنیا میں بالعموم فعال قسم کے مبلغ موجود نہیں ہیں۔ یہ بات خاص طور پر اہم ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے تمام اسلامی فرقوں میں سے صرف یہی ایک فرقہ ہے جو افریقن میں اپنے پائوں جمانے اور اپنے لئے جگہ بنانے میں کامیاب رہا ہے<۔
۹۔
انگلستان کی نامور مضمون نگار مسز الزبتھ ہکسلے نے دورہ افریقہ کے بعد >سنڈے ٹائمز< )لنڈن( میں لکھا۔
>جھیل وکٹوریہ کے علاقہ میں جہاں کے لوگ کینیا کی سیاسیات میں بہت پیش پیش ہیں جماعت احمدیہ کے مبلغین کی مساعی بارآور ثابت ہو رہی ہیں اور وہاں لوگ اس جماعت میں داخل ہو رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت جو پہلے پہل ٹانگا نیکا میں پھیلنی شروع ہوئی اب مشرقی افریقہ کے اکثر علاقوں میں پھیلتی نظر آرہی ہے اس جماعت کی طرف سے جو مبلغین پاکستان سے بھجوائے جاتے ہیں اکثر و بیشتر نظر ذہنی لحاظ سے پر اثر شخصیت اور اعلیٰ قوت و کردار کے مالک ہوتے ہیں اور اس جماعت کا یہ اصول ہے کہ ہر ایک اپنی آمد کا دسواں حصہ اشاعت اسلام کے لئے ادا کرے۔ مزید ترقی اور اشاعت اسلام کے لئے فنڈ فراہم کرنے کا یہ موثر ذریعہ ہے<۔۶۲۹
۱۰۔
مغربی جرمنی کے بااثر ہفت روزہ STERN کے خصوصی نامہ نگار HALDT TOACHIM نے یوگنڈا سے ایک اہم مضمون بھجوایا۔ جس میں انہوں نے عیسائی مشنریوں کی اسی سالہ کوششوں کی ناکامی کے اسباب و عوامل اور مشرقی افریقہ میں عیسائیت کے تاریک مستقبل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا۔
>افریقہ میں اسلام کی پیش قدمی<
>اسلام جو ایک پیغمبرﷺ~ کا لایا ہوا مذہب ہے اور جس نے صحرا میں جنم لیا۔ اب تک وسطی افریقہ کے جنگلوں اور مشرقی افریقہ میں ہی پہنچا تھا۔ لیکن چند سالوں سے اس نے باقاعدہ طور پر قدیم مذہبوں کے علاقوں میں بھی تبلیغی مہم جاری کر رکھی ہے۔ عیسائیت زیادہ تر ساحل کے ساتھ ساتھ یا وسطی افریقہ کی بعض ریاستوں میں قدم جما سکی ہے اور آج ساڑھے تین کروڑ عیسائی افریقہ میں پائے جاتے ہیں جب کہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے<۔
فاضل مضمون نگار نے اس مقالہ میں یہ بھی ذکر کیا کہ انہوں نے کمپالہ کے دو پادریوں سے دریافت کیا کہ >میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر کیا سبب ہے کہ مشرقی افریقہ میں اسلام کو عیسائیت کے بالمقابل زیادہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے؟< اس کے جواب میں انہوں نے جو وجوہ پیش کیں وہ انہی کے الفاظ میں یہ تھیں۔
>جب میں نے یہ سوال ایک یورپین پادری سے کیا تو انہوں نے صرف یہ کہ کر پیچھا چھڑایا کہ مسلمان نت نئی مسجدیں بناتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس ہم سے زیادہ روپیہ ہے اس لئے انہیں کامیابی بھی زیادہ ہو رہی ہے<۔
دوسرے پادری نے کہا۔ >اسلام کی ترقی کا صحیح اندازہ اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے ۱۹۳۰ء میں مسلمان چار کروڑ تھے اور آج ان کی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پورے افریقہ کی آبادی کا چالیسواں حصہ مسلمان ہو چکا ہے اور آج کل سال بھر میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں چرچوں کے ذریعہ عیسائی ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں<۔۶۳۰
۱۱۔
روزنامہ >نوائے وقت< لاہور )۱۲/ اپریل ۱۹۶۰ء( کے نمائندہ خصوصی مسٹر حفیظ ملک )مقیم واشنگٹن امریکہ( نے لکھا۔
>افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی مذہبی مشنری کام کر رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے۔ مشرقی افریقہ میں مسلمانوں کی آبادی ۱۵ فیصد ہے جس میں >ایسٹ افریقن ٹائمز< کے بیان کے مطابق دس ہزار افریقی لوگ احمدی ہیں۔ پرتگیزی مشرقی افریقہ میں تقریباً دس لاکھ افریقی مسلمان ہو چکے ہیں جن میں سے غالب اکثریت احمدیوں کی ہے۔ کینیا کے سرحدی صوبوں میں اسلام کو فروغ ہو رہا ہے اور یہاں بھی غالب اکثریت احمدیوں کی ہے۔ نیروبی میں تو خیر احمدیوں نے ایک بہت بڑا مذہبی تبلیغی مرکز قائم کر رکھا ہے۔ جو روزنامہ انگریزی اخبار بھی شائع کرتا ہے اور اس کے علاوہ تعلیم کے لئے اس سینٹر نے کالج وغیرہ بھی قائم کر رکھے ہیں۔
ہمیں احمدیت سے شدید اختلافات ہیں اور ہم عقیدہ ختم نبوت کے مسئلہ میں احمدیوں بالخصوص قادیانی فرقہ کے تصورات کو بالکل باطل اور گمراہ سمجھتے ہیں اور سواد اعظم کی طرح ان تصورات سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں ان کی مساعی کی داد دینی پڑتی ہے۔ بلی گراہم جب اپنے حالیہ دورہ میں نیروبی گئے تو اسلام کی طرف سے اگر کسی جماعت نے انہیں مباحثہ کی دعوت دی تو وہ جماعت احمدیہ تھی۔ کینیا۔ یوگنڈا اور ٹانگا نیکا میں اس وقت ۲۵ لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ لیکن ان کی تعلیمی حالت بہت ہی کمزور ہے۔ عیسائی مشنری سکولوں اور کالجوں کے ذریعہ سے طلباء کو عیسائیت کی طرف راغب کر رہے ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جماعت احمدیہ کے سوا پاکستان میں اور کوئی مذہبی جماعت موجود نہیں جو افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کے کام کو انجام دے سکے<۔۶۳۱
۱۲۔
جناب حفیظ ملک صاحب کے اس مضمون پر مشہور شیعہ اخبار >رضا کار< نے ۸/ مئی ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں لکھا۔
>اس وقت افریقہ کے تمام قابل ذکر شہروں میں شیعہ مبلغین موجود ہیں لیکن جب ہم اپنے ان مبلغین کی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب ہم ان کا مقابلہ احمدی مبلغین سے کرتے ہیں تو ندامت سے ہمارا سر جھک جاتا ہے۔ تبلیغی میدان میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان مبلغین کی پشت پر حکومتیں ہیں جو لاکھوں اور کروڑوں روپے سے ان کی امداد کر رہی ہیں۔ لیکن احمدی مبلغین کی پشت پر نہ ہی کوئی حکومت ہے اور نہ ہی کوئی سرمایہ دار طبقہ۔ ان کی پشت پر صرف ان کی جماعت ہے جو انہیں معمولی تنخواہیں دیتی ہے اور ایک محدود سرمایہ سے ان کی تبلیغی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتی ہے۔ ان حالات میں احمدی مبلغین کا عیسائی مبلغین سے مقابلہ کرنا اور اس مقابلہ میں ان سے بازی لے جانا یقیناً خراج تحسین کا مستحق ہے اور ہمارے مبلغین حضرات کے لئے تازیانہ عبرت ہے۔ جن کو افریقہ میں ایک سرمایہ دار طبقہ کی سرپرستی حاصل ہے اور تبلیغ دین کے سلسلہ میں انہیں ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔
کاش ہمارے مبلغین حضرات بھی اپنے میں مشنری سپرٹ پیدا کرتے۔ یعنی آرام و آسائش کی زندگی کو خیر باد کہتے اور محنت و مشقت کو اپنا نصب العین بناتے تو آج ان کا ذکر بھی تبلیغی مشن کے سلسلہ میں سرفہرست ہوتا<۔۶۳۲
۱۳۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں صدر پاکستان نے اسلامک ¶اکیڈیمی ڈھاکہ کی ایک تقریب میں کہا۔
>آپ کے سامنے افریقہ میں رونما ہونے والا غیر معمولی انقلاب ہے۔ جہاں مسلمان مبلغوں کا ایک قلیل گروہ اپنے نہایت محدود وسائل کے ساتھ وہاں کے لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام کر رہا ہے۔ مذہب اسلام میں بنیادی کشش یہ ہے کہ یہ رنگ و نسل کے امتیاز کو تسلیم نہیں کرتا<۔۶۳۳
tav.7.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۶
خلافت ثانیہ کا بیسواں سال
پہلا باب )فصل چہاردہم(
۱۹۳۴ء کے متفرق مگر اہم واقعات
دارالتبلیغ مشرقی افریقہ کے تفصیلی کوائف کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم ۱۹۳۴ء کے متفرق مگر اہم واقعات کی طرف لوٹتے ہیں۔
امتحان میں کامیابی
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( اور مرزا سعید احمد صاحب )خلف حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے( نے پنجاب یونیورسٹی سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔۶۳۴
صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی شادی
۲۶/ اگست ۱۹۳۳ء کو سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ )بنت سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ( کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی۔۶۳۵ آپ کا نکاح ۲/ جولائی ۱۹۳۳ء کو حضرت اقدسؓ نے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب )حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے فرزند( کے ساتھ پڑھا تھا۔ سیدہ موصوفہ کے بطن سے یہ اولاد ہوئی۔ صاحبزادی امتہ الرئوف صاحبہ۔ مرزا ادریس احمد صاحب۔ صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ۔ مرزا مغفور احمد صاحب۔ مرزا مسرور احمد صاحب۔
ایرانی سیاح قادیان میں
۱۹/ فروری ۱۹۳۴ء کو ایک ایرانی سیاح ابو القاسم خاں صاحب قادیان پہنچے اور مسجد اقصیٰ میں اپنے حالات سفر پر فارسی زبان میں روشنی ڈالی۔۶۳۶ اور مکرم اللہ بخش صاحب ضیاء نے ان کی تقریر کا فی البدیہہ اردو میں نہایت عمدگی سے ترجمہ سنا دیا۔
مولوی محمد اسمٰعیل صاحب یادگر کی مراجعت وطن
اسی سال مولوی محمد اسمعیل صاحب اپنی تعلیم سے فراغت پا کر قادیان سے اپنے وطن یادگیر )حیدر آباد دکن( چلے گئے وہاں جاکر آپ نے مسجد احمدیہ یادگیر میں درس و تدریس جاری کیا۔ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ کے کاموں میں امداد کی۔ صحابہ جنوبی ہند کے حالات جمع کئے۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کی تصانیف کے لئے مواد اکٹھا کرنے میں بھی بہت محنت کی جیسا کہ حضرت عرفانی صاحبؓ نے اپنی کتاب >حیات حسن< صفحہ ۲۱۹ پر ذکر فرمایا ہے اس کے علاوہ مولوی صاحب موصوف نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے >خطبات و جمعہ و عیدین< کی فہرست بھی شائع کی۔ غرضکہ آپ آخر دم تک سلسلہ کی آنریری خدمات بجا لاتے رہے ۱۹۶۵ء میں آپ کا انتقال ہوا۔
چوہدری علی بخش صاحب کا انتقال
مارچ ۱۹۳۴ء میں چوہدری علی بخش صاحب رئیس بھینی پسوال جو علاقہ بیٹ میں سلسلہ کے ایک پرجوش فدائی اور شیدائی تھے وفات پا گئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ نے اپنی طرف سے مولانا محمد ابراہیم صاحبؓ بقاپوری اور ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے مولانا حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی کو ان کے پسماندگان سے اظہار افسوس کے لئے بھیجا۔۶۳۷
سناتن دھرم سبھا فیروز پور شہر
۳۱/ مارچ ۱۹۳۴ء کو فیروزپور شہر میں سناتن دھرم سبھا منعقد ہوئی۔ جس میں نمائندہ جماعت احمدیہ کی حیثیت سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے بھی شرکت فرمائی جہاں دوسرے مقررین کی تقریروں پر بہت شور و شر ہوتا رہا۔ وہاں آپ کی تقریر آخر وقت تک خاص دلچسپی اور دلجمعی سے سنی گئی۔۶۳۸
یونیورسٹی کمیشن کے لئے میمورنڈم
جماعت احمدیہ نے اس سال ملک کی ایک بھاری علمی خدمت یہ سر انجام دی کہ اس نے یونیورسٹی کمیشن کے سامنے فلسکیپ کاغذ کے انتالیس صفحات پر مشتمل ایک مفید میمورنڈم پیش کیا۔ جس میں پنجاب یونیورسٹی کی اصلاح اور ترقی کے لئے بیش قیمت مشورے اور تجاویز تھیں۔۶۳۹
دی >سٹار ہوزری ورکس< قادیان کا افتتاح
۲۵/ اگست ۱۹۳۴ء کو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے >دی سٹار ہوزری ورکس لمیٹڈ قادیان< کے کارخانہ کا افتتاح فرمایا۔۶۴۰ یہ پہلا کارخانہ تھا جو قادیان میں قائم ہوا۔ اور اس نے بہت جلد شہرت حاصل کر لی۔ ابتداء میں اس کارخانہ کے ڈائریکٹر مندرجہ ذیل اصحاب منتخب ہوئے۔
)۱( حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب تاجر سکندر آباد )۲( چودھری ظفر اللہ خاں صاحب بار ایٹ لاء ایم۔ ایل۔ سی لاہور )۳( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے قادیان )۴( جناب شیخ محمد صدیق صاحب تاجر اوکاڑہ )۵( حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب قادیان )۶( حضرت مولوی فرزند علی خان صاحب ناظر امور عامہ قادیان )۷( حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب قادیان )۸( شیخ عبدالواحد صاحب ٹھیکہ دار قادیان )۹( شیخ غلام مجتبی صاحب پنشنر قادیان )۱۰( چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ )ہوزری ایکسپرٹ( تلونڈی عنایت خاں ضلع سیالکوٹ۔۶۴۱
بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات
مصر و فلسطین: )۱( یکم جنوری ۱۹۳۴ء کو کبابیر کے احمدیہ مدرسہ کا افتتاح عمل میں آیا۔۶۴۲ )۲( اس سال ایک احمدیہ لائبریری کی بنیاد رکھی گئی۔ )۳( مولانا ابوالعطاء صاحب کی تحریک پر کبابیر میں پریس کا قیام ہوا جو بلاد عربیہ میں سب سے پہلا احمدیہ پریس تھا۔۶۴۳
مغربی افریقہ: لیگوس میں عرصہ سے ایک مسجد سے متعلق جماعت احمدیہ اور مخالفین کے درمیان مقدمہ چل رہا تھا۔ اس سال اپریل ۱۹۳۴ء میں جماعت احمدیہ کے حق میں اس کا فیصلہ ہوا۔۶۴۴]4 [rtf مقدمہ میں فتح یابی کا سہرا قابل و مخلص احمدی جبرائیل مارٹن بیرسٹرایٹ لاء کے سر تھا۔ جنہوں نے اس مقدمہ میں کامیاب وکالت کی۔۶۴۵
۱۳۔ ۱۴/ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو لیگوس میں پہلا سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں لیگوس کے علاوہ کانو` ابادان` پورٹ ہارکوٹ وغیرہ دور دراز مقامات سے نمائندگان جماعت شامل ہوئے۔۶۴۶
لنڈن مشن: انگلینڈ کی کرسچین چرچ کو غیر مسیحی ممالک میں تبلیغ کے لئے موزوں مشنری مہیا کرنے میں روز بروز دقت ہو رہی تھی۔ جس کا حل یہ سوچا گیا کہ انگلش چرچ اور سٹوڈنٹس کرسچن موومنٹ مل کر کام کریں۔ اس تحریک کے تمام ممبر مختلف یونیورسٹیوں کے انڈر گریجوایٹ ہوتے تھے اور چرچ کی امداد سے ہندوستانی طلباء میں نہایت ہوشیاری سے عیسائیت کا پرچار کرتے تھے۔ جماعت احمدیہ کے سیکرٹری امور خارجہ ڈاکٹر جے سلیمان )آف جنوبی افریقہ(نے برطانیہ کی تمام یونیورسٹیوں کو مسلم طلبہ کی تعداد سے مطلع کرنے کو لکھا۔ لیکن ناٹنگھم یونیورسٹی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایڈنبرا یونیورسٹی نے لکھا کہ ہائی کمشنر آف انڈیا سے معلوم کریں۔ دوسری یونیورسٹیوں نے مطلوبہ معلومات بھجوا دیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف اسی سلسلہ میں جون ۱۹۳۴ء کے آخر میں برسٹل یونیورسٹی میں بھی گئے اور گو امتحانات کی وجہ سے کماحقہ فائدہ نہ اٹھا سکے مگر بعض مسلم طلبا سے ملاقات کرکے ان کو مسجد احمدیہ لنڈن سے رابطہ قائم رکھنے اور کرسچن چرچ اور سٹوڈنٹس کرسچن موومنٹ کی سرگرمیوں سے خبردار رہنے کی تلقین کی۔ ۶۴۷
سماٹرا مشن: ۳/ جون ۱۹۳۴ء کو مولوی ابوبکر صاحب مولوی فاضل نے میدان میں انجمن تلاشیان حق` کے ایک عالم سے کامیاب مناظرہ کیا۔ ایک مقامی اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ کے مناظر کی تقریریں صاف طور پر ظاہر کر رہی تھیں کہ اس کا علم بہت وسیع اور گہرا ہے اس کے مقابل میں ہمارے علماء کی تحقیق افسوسناک حد تک کم تھی۔ ایک اور اخبار نے لکھا ہم احمدی نوجوان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کی طرز بحث اور تائید احمدیت کا طریق پبلک کو حیرت میں ڈال رہا تھا اور اس کے مذہبی معلومات کی وسعت ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کوئی معمولی عالم نہیں۔۶۴۸
نئی مطبوعات
جماعت احمدیہ کی طرف سے ۱۹۳۴ء میں جو لٹریچر شائع ہوا۔ اس میں سے مندرجہ ذیل کتب و رسائل قابل ذکر ہیں۔
۱۔ حیات احمد جلد دوم نمبر ۲ )حضرت عرفانی کبیرؓ کی تالیف( )۲( >امتحان پاس کرنے کے گر<۔ )از حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ(
۳۔
>چشمہ عرفان< سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار >سیاست< لاہور نے ۲۱/ اپریل ۱۹۳۳ء سے >تحریک قادیان< کے عنوان سے ایک طویل سلسلہ مضمون جاری کیا تھا۔ جس پر مدلل و مسکت تبصرہ مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر کے قلم سے >چشمہ عرفان< کی صورت میں شائع کیا گیا۔
۴۔
>ہمارا مذہب< حیدر آباد دکن کے پروفیسر صلاح الدین محمد الیاس صاحب برنی ایم۔ اے` ایل ایل۔ بی علیگ نے ایک کتاب >قادیانی مذہب< لکھی تھی۔ جس کا جواب مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے تیار کیا۔ جو >ہمارا مذہب< کے نام سے شائع کر دیا گیا۔
۵۔
>تصدیق احمدیت< یہ بھی پروفیسر برنی صاحب کی کتاب کا مختصر جواب ہے۔ جو سید بشارت احمد صاحب جنرل سیکرٹری حیدر آباد دکن کی طرف سے شائع ہوا۔ >تصدیق احمدیت< کے بعد آپ نے >بشارت احمد< کے نام سے برنی صاحب کی کتاب کے جواب میں نہایت مفصل اور مدلل کتاب شائع کی جو بہت مقبول ہوئی۔
۶۔
>عروج احمدیت< )ابو البشارت مولانا عبدالغفور صاحبؓ فاضل کی ایمان افروز تقریر برموقعہ جلسہ سالانہ ۱۹۳۳ء(
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
مناظرہ لاہور: ۱۹۳۴ء کا پہلا مباحثہ یکم جنوری کو لاہور میں ہوا جس میں میاں عبداللہ صاحب معمار سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل کی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سے ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی بحث ہوئی۔ محترم خادم صاحب نے مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ کی تشریح جب اخبار اہلحدیث ۲۶/ اپریل ۱۹۰۷ء سے پیش کی تو حاضرین پر سناٹا چھا گیا۔۶۴۹
مناظرہ بڈھن وال )ضلع جالندھر( یہاں عیسائیوں نے اپنا کیمپ لگایا تھا۔ غیر احمدیوں نے پادریوں کے سامنے اپنے علماء کو بے بس پاکر نکودر سے ایک احمدی عالم مولوی عبدالعزیز صاحب مولوی فاضل کو بلایا جنہوں نے کیمپ میں مسئلہ کفارہ کے موضوع پر مناظرہ کرکے پادریوں کو ساکت کر دیا۔۶۵۰
مناظرہ دہلی: یکم فروری ۱۹۳۴ء کو جماعت احمدیہ دہلی کا آریہ سماج چاوڑی بازار کے ساتھ >مکتی< پر کامیاب مناظرہ ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے ماسٹر محمد حسن صاحب آسان مناظر تھے۔ بعض ہندوئوں نے بھی اقرار کیا کہ احمدی مناظر اپنے طرز بیان اور دلائل کے لحاظ سے آریہ سماجی مناظر پر غالب رہا۔۶۵۱
مناظرہ کراچی: یہاں ۴/ فروری ۱۹۳۴ء کو مولوی محمد سلیم صاحب نے لال حسین صاحب اختر اور احمد دین صاحب سے مناظرہ کیا اور خدا کے فضل سے مخالفین کے معاندانہ رویہ کے باوجود نمایاں کامیابی حاصل کی۔۶۵۲
مناظرہ اچہ ججہ )ضلع سیالکوٹ( ۵۔ ۶۔ ۷/ مارچ ۱۹۳۴ء کو مولوی محمد عبداللہ صاحب اور مولوی دل محمد صاحب نے غیر احمدیوں سے مباحثہ کیا۔ احمدی مبلغین کے ٹھوس دلائل کا جواب بدزبانی کی صورت میں دیا گیا۔۶۵۳
مناظرہ بٹالہ: انجمن خادم المسلمین اہلحدیث بٹالہ کے سالانہ جلسہ )منعقدہ ۱۲ تا ۱۴/ مارچ ۱۹۳۴ء( میں مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر کے بعد سوال و جواب کا موقعہ دیا گیا۔ جس میں مرکز کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے حصہ لیا۔ مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے عنوان >قرآن اور مسیح موعود قادیانی< کے مطابق قرآن مجید سے حضرت اقدس کے خلاف ایک دلیل بھی پیش نہ کر سکے۔۶۵۴
مناظرہ لالہ موسیٰ: انجمن اہلحدیث لالہ موسیٰ نے احمدیوں سے طے کیا کہ وہ ۲۲۔ ۲۳/ مارچ ۱۹۳۴ء کو تین متنازعہ مسائل پر مناظرہ کریں گے۔ چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق ۲۲/ مارچ کو مولوی محمد سلیم صاحب نے لال حسین صاحب اختر سے مسئلہ وفات و حیات مسیح اور صداقت مسیح موعود پر ایسا شاندار مناظرہ کیا کہ دوسرے دن فریق ثانی کو مسئلہ ختم نبوت پر بحث کرنے کی جرات ہی نہ ہو سکی۔۶۵۵
مناظرہ چوہدریوالہ چک نمبر ۱۰۸ )ضلع لائلپور( اس گائوں میں عیسائیوں نے مسلمانوں کو تنگ کر رکھا تھا مسلمانوں کی دعوت پر مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل تشریف لے گئے اور ایک پادری صاحب کے ساتھ >کفارہ< اور >موجودہ انجیل الہانی کتاب ہے یا قرآن مجید< پر مناظرہ ہوا۔ پادری صاحب قاضی صاحب کے مطالبات سے عاجز آگئے تو مناظرہ درمیان ہی میں چھوڑ کر احمدیوں اور غیر احمدیوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے دلائل طلب کرنے لگے۔ محترم قاضی صاحب نے بائبل کی رو سے حضورؑ کی صداقت ایسے موثر پیرایہ میں واضح کی کہ پادری صاحب کو لاجواب ہونا پڑا۔۶۵۶
مناظرہ کلاسوالہ )ضلع سیالکوٹ( ۲۷/ مارچ ۱۹۳۴ء کو مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل نے آریہ سماج کے پنڈال میں پنڈت شانتی پرکاش سے >قرآن شریف الہامی کتاب ہے< کے موضوع پر مناظرہ کیا۔ کئی غیر احمدیوں اور سفاتنی ہندوئوں نے صاف تسلیم کیا کہ آریہ پنڈت صاحب احمدیوں کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔۶۵۷
مناظرہ لائل پور: حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے ۱۴/ اپریل ۱۹۳۴ء کو خواجہ غلام حسن صاحب وکیل کے مکان پر ایک غیر احمدی مولوی صاحب سے تین گھنٹے مناظرہ کیا۔ جس کا تعلیم یافتہ طبقہ پر اچھا اثر ہوا۔۶۵۸
مناظرہ حافظ آباد نمبر ۱ )ضلع گوجرانوالہ( مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے ۱۵/ اپریل ۱۹۳۴ء کو ۲ بجے دوپہر اہلحدیث مناظر مولوی نور حسین صاحب گرجاکھی سے اور رات کو حنفی جماعت کے نمائندہ چوہدری محمد اکبر صاحب سے مناظرہ کیا۔ دونوں مناظروں سے سنجیدہ طبقہ بہت متاثر ہوا۔۶۵۹
مناظرہ دھاریوال نمبر ۱: ۲۱۔ ۲۲/ اپریل ۱۹۳۴ء کو دھاریوال میں علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور پادری میلا رام صاحب کے درمیان چار مناظرے ہوئے۔ جماعت احمدیہ کے مبلغ کی کامیاب بحث کا غیر احمدیوں نے بھی اقرار کیا۔۶۶۰
مناظرہ پونچھ: )مئی ۱۹۳۴ء میں مورخہ ۲۴ بیساکھ( مولوی محمد حسین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ نے مولوی احمد الدین صاحب گکھڑوی مبلغ اہلحدیث سے مناظرہ کیا۔ دوران مناظرہ >پیشگوئی محمدی بیگم< اور اشتہار >آخری فیصلہ< خاص طور پر زیر بحث آئے۔ جن کا احمدی مناظر نے ایسا مسکت جواب دیا کہ ان کی آخری تقریر سننے سے پہلے ہی صدر اہلحدیث کو جلسہ برخاست کرنا پڑا۔۶۶۱
مناظرہ ڈیرہ غازی خان: ۲۳/ مئی ۱۹۳۴ء کو احمدیوں اور اہلحدیث میں مناظرہ ہوا۔ احمدی عالم ابو البشارت مولانا عبدالغفور صاحب مرحوم نے صداقت انبیاء کے بارہ دلائل قرآن کریم سے اور ایک حدیث بخاری شریف سے پیش کئے۔ مگر مناظر اہلحدیث مولوی عبدالعزیز صاحب ملتانی نے اپنی تقریروں میں اس درجہ استہزاء تمسخر اور فحش کلامی شروع کر دی کہ صدر اہلحدیث رحیم بخش صاحب کرسی صدارت چھوڑ کر چل دیئے اور پولیس نے مناظرہ بند کروا دیا۔۶۶۲4] f[rt
مناظرہ فیروز والا )ضلع گوجرانوالہ( ۲۵۔ ۲۶/ مئی ۱۹۳۴ء کو ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم نے سائیں لال حسین صاحب اختر اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی سے اور مولوی محمد نذیر صاحب مولوی فاضل نے مولوی محمد چراغ صاحب سے مناظرہ کیا۔ خادم صاحب کی سحر بیانی اور حاضر جوابی نے اپنوں اور بیگانوں سے خراج تحسین حاصل کیا۔ اس کے مقابل خود ارکان اہلسنت نے اپنے ایک مناظر کی نسبت اس خیال کا اظہار کیا کہ اگر ان کی اس بے بضاعتی کا ہمیں پہلے علم ہوتا تو ان کو بطور مناظر کبھی نہ بلواتے۔۶۶۳
مناظرہ حافظ آباد )نمبر ۲( اسی سال حافظ آباد میں دوسرا مناظرہ ۲۷/ مئی ۱۹۳۴ء کو ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے حافظ مبارک احمد صاحب اور ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ اور اہلسنت و الجماعت کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی اور لال حسین صاحب اختر شامل ہوئے۔ میدان مناظرہ میں موخر الذکر غیر احمدی مناظر نے اپنی >خوش کلامی< کا خوب مظاہرہ کیا۔ اور رہی سہی کسر اہلسنت و الجماعت نے شور مچا کر اور تالیاں بجا کر پوری کر دی۔ بحالیکہ شرائط مباحثہ میں خاص طور پر درج تھا کہ اول بحث دائرہ تہذیب کے اندر ہو گی۔ دوسرے شور مچانے والا فریق شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔۶۶۴
مناظرہ ہنگو )ضلع کوہاٹ( ۲۵/ جون ۱۹۳۴ء کو مولوی چراغ دین صاحب نے صوبہ سرحد کے ایک مشہور معاند احمدیت سے کامیاب مباحثہ کیا۔۶۶۵
مناظرہ شیر نگر )ضلع لاہور( انہی ایام میں شیر نگر میں مولوی عبداللہ صاحب اعجاز نے مولوی عبدالقادر صاحب رو پڑی سے اور مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب رو پڑی سے مناظرے کئے۔۶۶۶
مناظرہ شاہ مسکین )ضلع شیخوپورہ( یکم جولائی ۱۹۳۴ء کو مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے عبداللہ صاحب معمار امرتسری سے مباحثہ کیا۔ معمار صاحب استہزاء اور ہنسی مذاق کے سوا کوئی معقول بات پیش نہ کر سکے۔۶۶۷
مناظرہ دھاریوال )نمبر ۲( اس سال کا یادگار اور معرکتہ الاراء مناظرہ ۲۸۔ ۲۹/ جولائی ۱۹۳۴ء کو عیسائیوں کے مشہور تبلیغی مرکز دھاریوال میں ہوا۔ جس نے کاسر صلیب کے شاگردوں کی دھاک بٹھا دی مناظرے کے چار اجلاس ہوئے پہلے اجلاس میں مسئلہ کفارہ پر ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم نے سادھو میلا رام صاحب سے مناظرہ کیا۔ عیسائی مناظر صاحب کی تقریر بالکل سطحی اور عامیانہ تھی۔ مگر ملک صاحب نے ایسی زبردست تقریر کی کہ کفارہ کے نظریہ کا بطلان روز روشن کی طرح ثابت ہو گیا۔ دوسرے اجلاس میں >صداقت مسیح موعود< پر بحث ہوئی عیسائی مناظر صاحب نے غیر احمدی مناظرین کی خوشہ چینی کرکے وہی فرسودہ اعتراضات دہرا دیئے جو عام طور پر مناظروں میں کئے جاتے تھے- ان اعتراضات کا رد ملک صاحب مرحوم نے ایسی قابلیت سے کیا کہ عیسائی مناظر صاحب گالیوں اور بدزبانیوں پر اتر آئے۔ لیکن ہر بات کا دنداں شکن جواب پاکر جلد ہی اپنی روش بدلنے پر مجبور ہو گئے۔
مناظرہ کے تیسرے اجلاس میں بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ ہی نے بحث کی۔ اس اجلاس میں >یسوع مسیح کی شخصیت از روئے بائیبل< زیر بحث تھی۔ خادم صاحب نے انجیلی یسوع کا نقشہ اس خوبی سے پیش کیا کہ عیسائی مناظر صاحب کو دم مارنے کی مجال نہ رہی۔ آپ نے انعامی چیلنج دیا کہ بائیبل کے یسوع کی والدہ کا یسوع پر ایمان لانا ثابت کر دو۔ مگر وہ آخر وقت تک اس مطالبہ سے عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ چوتھے اور آخری اجلاس میں >تحریف بائیبل< پر بحث ہوئی۔ احمدی مناظر مولوی علی محمد صاحب اجمیری تھے اور عیسائی مناظر مسٹر ہوز۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے بائبل کے محرف و مبدل ہونے کی ایسی ایسی مثالیں دیں کہ حاضرین ونگ رہ گئے۔ مسٹر ہوز آخری تقریر میں کسی مطالبہ کا جواب دینے کے بجائے >ہائے ہائے قادیان< کے الفاظ منہ سے نکالنے لگے۔ بلکہ تقریر کے خاتمہ پر یہاں تک کہ دیا کہ میز پر جتنی کتابیں پڑی ہیں سب جلا دو اور جب ادھر سے کہا گیا کہ ان میں توانا جیل بھی ہیں۔ تو فرمانے لگے ان کو بھی جلا دو۔ اگرچہ باہمی طور پر چھ متنازعہ مسائل پر بحث قرار پائی تھی۔ مگر عیسائیوں نے آخری دو مسئلوں پر مناظرہ کرنے سے فرار اختیار کر لیا۔
اس مناظرہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ حضرت علامہ میر محمد اسحٰق صاحبؓ ناظر ضیافت اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ بھی شروع سے آخر تک اس میں تشریف فرما رہے اور احمدی مناظرین کی راہ نمائی کے فرائض انجام دیتے رہے۔]01 [p۶۶۸
مناظرہ چوہدریوالہ چک نمبر ۱۰۸ ضلع لائلپور: اس گائوں میں تین مباحثات ہوئے۔ پہلا مباحثہ چوہدری محمد شریف صاحب فاضل جامعہ اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی کے درمیان دوسرا مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ اور مولوی محمد مسلم صاحب دیوبندی کے درمیان اور تیسرا مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور لال حسین صاحب اختر کے درمیان ہوا۔ تینوں مناظروں کا غیر احمدیوں پر بہت اچھا اثر پرا۔۶۶۹
مناظرہ مکیانہ ضلع گجرات ۲۸۔ ۲۹/ اگست ۱۹۳۴ء کو جماعت احمدیہ فتح پور کا اہلسنت و الجماعت مکیانہ سے مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز اور ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتیؓ نے بحث کی اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی حافظ احمد دین صاحب گکھڑوی نے۔ تعلیم یافتہ غیر احمدیوں نے تسلیم کیا کہ ان کے مناظر نے کوئی معقول جواب نہیں دیا۔ خصوصاً خادم صاحبؓ کی تقریر اس قدر موثر اور لاجواب تھی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ آخری تقریر خادم صاحب کی تھی مگر غیر احمدی اصحاب میدان مناظرہ چھوڑ کر چلے گئے اور تالیاں بجانا شروع کر دیں۔۶۷۰
مناظرہ گوجرہ: ۲۲۔ ۲۳/ ستمبر ۱۹۳۴ء عیسائیوں کا گوجرہ ضلع لائل پور میں جلسہ تھا۔ اس موقعہ پر انہوں نے جماعت احمدیہ کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ جو منظور کر لیا گیا۔ قادیان سے مولوی محمد سلیم صاحب اور لائل پور سے مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل تشریف لے آئے۔ دو مضمون تجویز ہوئے۔ >مسیحیت حضرت مرزا صاحب< اور >کفارہ<۔ ۲۵/ ستمبر کو دونوں مضمونوں پر مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے پادری عبدالحق صاحب سے مناظرہ کیا۔ جس میں دوست دشمن نے مولوی صاحب کی فصیح البیانی اور زور استدلال اور پادری صاحب کے عجز اور بے بسی کا اقرار کیا۔
پادری عبدالحق صاحب نے اپنی باری میں احمدیوں کو >عصمت انبیاء< پر بھی مناظرہ کا چیلنج دیا جو اسی وقت منظور کر لیا گیا تھا اور ساتھ ہی ان کو >الوہیت مسیح< پر مناظرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ ابھی پادری صاحب سے اس بارے میں گفتگو جاری تھی کہ مولوی محمد شاہ صاحب سیالکوٹی )جو غیر احمدیوں کی طرف سے عیسائیوں سے بحث کے لئے بلوائے گئے تھے اور جن کی نسبت بعد کو معلوم ہوا کہ انہوں نے عیسائیوں سے ساز باز کر رکھی ہے` درمیان میں کھڑے ہو گئے اور ختم نبوت پر مناظرہ کا چیلنج دے دیا جو مولوی محمد سلیم صاحب نے فوراً منظور کر لیا۔ یہ سنتے ہی مولوی محمد شاہ صاحب عیسائیوں کی سٹیج پر جا بیٹھے۔ مولوی محمد شاہ صاحب کی اس حرکت نازیبا کو ذمہ دار مسلمانوں نے نہایت ناپسند کیا نیز سب انسپکٹر صاحب پولیس نے بھی انہیں اس وقت مناظرہ سے روک دیا اور کہا کہ یہ مناظرہ تب ہو سکتا ہے جب باقاعدہ آپس میں مناظرہ کی شرائط طے کر لو۔ دوسری طرف عیسائیوں سے مناظرہ جاری رکھنے کی انہوں نے اجازت دے دی۔ مگر پادری صاحب نے مناظرہ کا چیلنج دے کر انکار کر دیا۔ لیکن عیسائیوں کی چالاکی و ہوشیاری ملاحظہ ہو۔ دوسرے دن جب مولوی محمد سلیم صاحب اپنے مقررہ پروگرام کے مطابق خوشاب روانہ ہو گئے تو انہوں نے منادی کرا دی کہ مولوی محمد سلیم صاحب بھاگ گئے ہیں جماعت احمدیہ گوجرہ نے منادی سنتے ہی مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کو بلوا لیا اور ۸ بجے شام عیسائیوں کے بالمقابل سٹیج لگا دی۔ قاضی محمد نذیر صاحب نے پادری عبدالحق صاحب کو >عصمت انبیاء< اور >الوہیت مسیح< پر مناظرہ کرنے کے لئے للکارا۔ پادری صاحب کہنے لگے میں عصمت انبیاء پر مناظرہ کرنا نہیں چاہتا۔ ہاں >الوہیت مسیح< پر مناظرہ کے لئے تیار ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ مولوی محمد شاہ صاحب ثالث ہوں اور آپ محض میرے دلائل کو توڑیں۔ قاضی صاحب نے جواب دیا مجھے یہ شرط بھی منظور ہے۔ مگر پہلے اپنے پیش کردہ ثالث سے منظوری لے لو۔ اس پر مولوی محمد شاہ صاحب کہنے لگے میں ثالث نہیں بنتا۔ میرے متعلق پہلے ہی عجیب قسم کے خیالات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اس طرح پبلک پر واضح ہو گیا کہ پادری عبدالحق صاحب نے ثالثی کی شرط محض میدان مناظرہ سے فرار کے لئے لگائی تھی اور یہ کہ پادری صاحب پہلے دن ہی ایسی منہ کی کھا چکے تھے کہ اب وہ احمدیوں سے مناظرہ کی تاب نہیں رکھتے تھے۔۶۷۱
مناظرہ امرتسر: مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے ۳۰/ ستمبر ۱۹۳۴ء کی رات کو ڈھاب کھٹیکاں میں ایک جلسہ کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کی عمر کے موضوع پر مبادلہ خیالات کی دعوت دی جس پر علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل تشریف لے گئے۔ علامہ شمسؓ صاحب نے حضور علیہ السلام کی عمر سے متعلق الہامات کے اصل الفاظ پیش کرکے حضورؑ کے الفاظ بلکہ خود مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی تحریرات سے ثابت کر دکھایا کہ الہام الٰہی کے مطابق حضورؑ نے ۷۵ سال کی عمر پائی۔۶۷۲
مناظرہ آڑھا ضلع گیا: یہاں ۲۰۔ ۲۱/ اکتوبر کو مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی نے غیر احمدیوں سے چار موضوعات پر مناظرہ کیا۔ آخر میں غیر احمدیوں نے تالیاں بجائیں اور احمدیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ حتیٰ کہ ہندوئوں کو بھی روکا گیا کہ احمدیوں کے ہاتھ کوئی چیز نہ بیچیں۔۶۷۳]body [tag
مناظرہ سونگھڑہ )کٹک( یہاں سید ضیاء الحق صاحب بی۔ اے بی ٹی اور قریشی محمد حنیف صاحب نے غیر احمدیوں سے دو کامیاب مناظرے کئے اور جب غیر احمدی اصحاب سے تیسرے مناظرے کی شرائط طے کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے ہاتھ ہلا کر بس بس کی آوازیں بلند کر دیں۔۶۷۴
مناظرہ کلکتہ: ایک تعلیم یافتہ بنگالی نوجوان کے قبول احمدیت پر اس کے رشتہ داروں نے مناظرہ کا مطالبہ کیا اور ۲/ نومبر ۱۹۳۴ء کی تاریخ مقرر کی گئی۔ قادیان سے مولوی محمد سلیم صاحب فاضل تشریف لے گئے اور مولوی محمد یوسف صاحب امرتسری سے تینوں اختلافی مسائل پر مناظرہ کیا۔ جس سے سعید الفطرت لوگوں کے لئے تحقیق کا دروازہ کھل گیا۔۶۷۵
مناظرہ کلاسوالہ۴۔ ۵/ نومبر کو مہاشہ مولوی محمد عمر صاحب فاضل نے پنڈت چرنجی لال پریم صاحب سے >صداقت مسیح موعود< اور >ویدوں کی تعلیم< پر مناظرہ کیا۔ پنڈت صاحب احمدی مناظر کے اعتراضات کا جواب دینے سے قاصر رہے۔۶۷۶
بعض ممتاز نو مبایعین
اس سال جن خوش نصیبوں کو نظام خلافت یا سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہونے کی توفیق ملی ان میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے برادر اکبر شیخ عطاء محمد صاحب اور بھتیجا شیخ اعجاز احمد صاحب بہت ممتاز ہیں۔ محترم شیخ عطا محمد صاحب نے اپنی بیعت کا حسب ذیل الفاظ میں خط لکھا۔
>سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ جناب والا کمترین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ کا بیعت شدہ ہے۔ خدا کے فضل اور حضرت مسیح موعودؑ کی دعائوں کی برکت سے بیعت پر ثابت قدم ہے بلکہ بعض نشانات نے میرے ایمان کو زیادہ محکم کر دیا ہے۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے بتلایا کہ خلافت کی بیعت بھی ضروری ہے بوجہ پیرانہ سالی و نقاہت حاضری سے مجبور ہو کر یہ عریضہ خدمت اقدس میں ارسال ہے۔ براہ نوازش قدیمانہ مجھے اپنی بیعت کے سلسلہ میں لے لیویں میں صدق دلی سے آپ کی بیعت خلافت کرتا ہوں۔ نیاز مند شیخ عطا محمد۔۶۷۷
ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے اپنے برادر معظم شیخ عطا محمد صاحب ہی کی نسبت مندرجہ ذیل اشعار کہے تھے۔ 2] [stf ~}~
وہ میرا یوسف ثانی وہ شمع محفل عشق
ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو
جلا کے جس کی محبت نے دفتر من و تو
ہوائے عشق میں پالا` کیا جواں مجھ کو
ریاض دہر میں مانند گل رہے خنداں
کہ ہے عزیز تر از جاں وہ جان جاں مجھ کو
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے
یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے۶۷۸
اسی سال مرزا ضیاء اللہ بیگ صاحب )داماد مرزا سلطان محمد بیگ صاحب رسالدار( مع اہل و عیال داخل احمدیت ہوئے۔۶۷۹ اسی طرح محترمہ عزت بیگم صاحبہ جو حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ کے چھوٹے بھائی مرزا فضل احمد صاحب کی اہلیہ تھیں خدا کے فضل سے احمدی ہو گئیں۔۶۸۰ حضرت سلطان احمد صاحبؓ کے خاندان میں صرف یہی ایک خاتون باقی تھیں جن کو آخر قبول حق کی توفیق مل گئی۔
اس سال کے مبایعین میں حاجی الٰہی بخش صاحب گورایا )ساکن موضع ہرچو کے ضلع گوجرانوالہ( بھی تھے۔ جن کی عمر سو سال کے قریب تھی حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی بیعت کے خط پر تحریر فرمایا۔ >اس عمر میں ہدایت آپ کے لئے مبارک اور ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے<۔۶۸۱