تردید الوہیّتِ مسیح ناصری علیہ السلام
۱۔’’خدا ایک ہے۔‘‘
ا۔حوالجات از عہدنامہ قدیم:
(۱) ۲سلاطین۱۵؍۱۹ (۲)یسعیاہ۵،۶؍۴۵ (۳)زبور۸تا۱۰؍۸۶ (۴)۲سموئیل۲۲؍۷
(۵) زبور۲؍۹۰ (۶)استثنا۴؍۶ (۷)استثنا۲۶؍۳۳ (۸)۱سموئیل۲؍۲
(۹)۱سیموئیل۳،۴؍۷ (۱۰)۲سیموئیل۳۲؍۲۲ (۱۱)۱سلاطین۳۹؍۸ (۱۲)استثنا۲۹؍۴
(۱۳)استثنا۹؍۷ (۱۴)یسعیاہ۱۰؍۴۳ (۱۵)۱سیموئیل۴۶؍۱۷ (۱۶)۱سلاطین۲۳؍۸
(۱۷)۱تواریخ۲۵؍۱۶ (۱۸)۱تواریخ۲۰؍۱۷ (۱۹)۱تواریخ۱۱؍۲۹ (۲۰)۲تواریخ۱۴؍۶
(۲۱)زبور۳۱؍۱۸ (۲۲)زبور۱۴؍۴۸ (۲۳)زبور۷؍۵۰
ب۔از عہد نامہ جدید:۔
۱۔اعمال۲۳؍۱۷’’پس جس کوتم بغیر معلوم کئے پوجتے ہو مَیں تم کو اُسی کی خبر دیتا ہوں۔‘‘
۲۔یوحنا۴۴؍۵۔’’تم جو ایک دوسروں سے عزّت چاہتے ہو اور وہ عزّت جو خدائے واحد سے ہوتی ہے کیونکر ایمان لاسکتے ہو۔‘‘
۳۔یوحنا۳؍۱۷۔’’اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے۔جانیں۔‘‘
۴۔مرقس۲۹، ۳۰؍۱۲۔ ’’اول یہ کہ اے اسرائیل اس پر خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ اور توخداوند سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔‘‘
۵۔۱کرنتھیوں۴تا۶؍۸’’اور سوا ایک کے اور کوئی خدا نہیں۔اگر آسمان و زمین میں بہت سے خدا کہلاتے ہیں۔چنانچہ بہتیرے خدا اور بہتیرے خداوند ہیں لیکن ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ۔‘‘
۶۔اِفسیوں۶؍۴۔’’اور سب کا خدا اورباپ ایک ہی ہے جو سب کے اوپر اور سب کے درمیان اور سب کے اندر ہے۔‘‘
۷۔یوحنّا۱۷؍۲۰ ’’میں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنیخدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں۔‘‘
۲۔عیسائیوں کی دلیلیں اور اُن کی تردید
پہلی دلیل:۔ پہلی دلیل جو عیسائی صاحبان کی طرف سے پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح کو تورات وانجیل میں خدا کا بیٹا کہاگیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ خدا کا بیٹا تھا۔
جواب نمبر۱۔ ابن اﷲ کا لفظ توریت اور انجیل میں صرف مسیح کے واسطے نہیں بولا گیابلکہ یہ لفظ مسیح کے سوا سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کے متعلق استعمال کیا گیا ہے لیکن عیسائی صاحبان ان تمام لوگوں کو خدا کے بیٹے تسلیم نہیں کرتے۔حالانکہ جیسا مسیح کو ابن اﷲ کہا گیا ویسا ہی باقیوں کے حق میں ابن اﷲ کا لفظ بولا گیا۔(دیکھو ذیل کے حوالجات):۔
۱۔اسرائیل خدا کا بیٹاہے۔ خروج باب۴ آیت۲۲
۲۔داؤد خدا کا بڑا بیٹا ہے۔ زبورباب۸۹آیت۲۶،۲۷
۳۔سلیمان خدا کا بیٹا ہے۔ ۱تواریخ باب۲۲آیت۹،۱۰
۴۔قاضی مفتی خدا کے بیٹے ہیں۔ زبورباب۸۲آیت۶
۵۔سب بنی اسرائیل خدا کے بیٹے ہیں۔ رومیوں باب۹آیت۴
۶۔تمام یتیم بچے خدا کے لڑکے ہیں۔ زبورباب۶۸آیت۵
۷۔بدکارلوگ خدا کے لڑکے ہیں۔ یسعیاہ باب۳آیت۱
جواب نمبر۲:۔ اگر عیسائی صاحبان مسیح کو اس لئے خدا کا بیٹا تصور کرتے ہیں کہ اس کے لئے لفظ ابن اﷲ بولا گیا ہیتو پھر ہم اسے انسان سمجھتے ہیں اس لئے کہ انجیل میں اُسے انسان کا بیٹا کہا گیا ہے۔
دیکھو حوالے:۔
۱۔یسوع ابن داؤد بن ابراہیم ۔ متی باب۱آیت۱
۲۔انسان کا بیٹا کھاتا پیتا آیا۔ متی باب۱۱آیت۱۹ ومتی ۲۰؍۸و۶؍۹و۲۳؍۱۰
۳۔میں جو ابن آدم ہوں۔انسان ہوں۔ متی باب۴۔آیت۴
جواب نمبر۳:۔ خدا کا بیٹا ہونے سے مطلب ’’راستباز‘‘اور خدا کا محبوب ہونا ہے۔ (۱یوحنا۲۹؍۲و۱؍۲ومتی۴۵؍۵)
معلوم نہیں کہ مسیح میں کونسی ایسی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اُسے تو خدا کا بیٹا بلکہ مجسم خدا سمجھا جاوے اور باقیوں کو محض عاجز انسان خیال کیاجاوے۔
دوسری دلیل:۔مسیح نے عظیم الشان معجزے دکھائے۔کیونکہ وہ معجزے بشری طاقت سے بالا تر تھے۔اس لئے معلوم ہوا کہ مسیح انسان نہ تھا خدا تھا۔
جواب نمبر۱:۔ عیسائی صاحبان اگر معجزے دکھانا ہی الوہیت کی علامت سمجھتے ہیں تو پھر تمام انبیاء علیہم السلام خدا ہونے کے مستحق ہیں۔اور کیوں نہیں؟آپ لوگ موسیٰ، ایلیاہ وغیرہ کو خدا سمجھتے جنہوں نے آپ کے مسیح سے بھی بڑھ کر معجزے دکھائے۔ سنیے:۔
۱۔پہلا معجزہ:۔ مسیح کا سب سے بڑا معجزہ مُردوں کو زندہ کرنا ہے۔مگر اس میں بھی مسیح کی کوئی خصوصیّت نہیں۔ مسیح کے علاوہ اور انبیاء علیہم السلام سے بھی یہ کرامت صادر ہوئی۔دیکھو حوالے:۔
۱۔الیسع نے مُردے زندہ کئے۔ ۲سلاطین باب۴آیت ۳۵تا۳۷
۲۔حزقیل نے ہزاروں پرانے مردے زندہ کئے۔ حزقیل باب۳۷آیت۱تا۱۳
۳۔ایلیاہ نے مردے زندہ کئے۔ ۱سلاطین باب۱۷آیت۲۲
۴۔الیشع کی لاش نے مردہ زندہ کردیا۔ ۲سلاطین ۲۱؍۱۳
ناظرین خود انصاف فرما سکتے ہیں کہ اگر مسیح بسبب مردے زندہ کرنے کے خدا ہو سکتا ہے تو الیسع، حزقیل اور ایلیاہ وغیرہ جنہوں نے ہزاروں مردے زندہ کئے کیوں نہ خدا سمجھے جاویں۔لیکن عیسائی ان کو محض انسان ہی سمجھتے ہیں۔
جواب نمبر۲:۔ انجیل سے ثابت ہے کہ مردوں سے مراد روحانی مردے ہیں نہ کہ جسمانی :۔
الف۔یوحنا۱۸؍۲۰و ۱۔کرنتھیوں ۳۱تا۵۱؍۱۵وافسیوں۱؍۲و۵؍۲
ب۔مُردہ سے مراد شہوات۔ کلسیوں ۳تا۵؍۳
ج۔زندگی سے مراد یسوع پر ایمان لانا۔یوحنا۳؍۱۷
۲۔دوسرا معجزہ:۔ بیماروں کو اچھا کرنا۔
جواب:۔اس میں بھی اور انبیاء مسیح کے شریک ہیں۔
۱۔الیشع نے نعمان سپہ سالار کو جو کوڑھی تھا اچھا کیا۔ (۲سلاطین باب ۵آیت۱۴)
۲۔یوسف نے اپنے باپ یعقوب کوآنکھیں دیں۔دیکھو (پیدائش باب۴۶آیت۴تا۳۰ )
۳۔بیماروں سے روحانی بیمار مراد ہیں۔ مرقس۱۷؍۱۲ و پطرس۲۴؍۲
۴۔رُوحانی اندھے بہرے۔ متی۱۳؍۱۳و۱۴؍۱۵ویوحنا۳۹؍۹
۳۔تیسرا معجزہ:۔ تھوڑے کھانے اور شراب کو بڑھا دینا۔
جواب:۔ یہ کام بھی بہت سے انبیاء سے ظہور پذیر ہوا بلکہ بعض انبیاء اس کام میں مسیح سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔دیکھو حوالے:۔
۱۔ایلیاہ نے مٹھی بھر آٹے اور تھوڑے تیل کو بڑھا دیا کہ وہ سال بھر تک تمام نہ ہوا۔ دیکھو(۱سلاطین باب۱۷آیت۱۲تا۱۶)
۲۔الیشع نے بھی ذرا سے تیل کو اس قدر بڑھادیا کہ گھر والوں کے پاس اُس کے رکھنے کے لئے کوئی برتن نہ رہا۔ (۲سلاطین باب۴آیت۲تا۶)
۴۔چوتھا معجزہ:۔ بغیر کشتی کے دریا پر چلنا۔
جواب:۔ یہ بھی صرف مسیح کا کام نہ تھابلکہ موسیٰ نے اس سے بڑھ کر معجزہ دکھایا۔اس نے سمندر کو ایسی لاٹھی ماری کہ وہ پھٹ گیا اور سیال پانی الگ الگ دونوں طرف کھڑا ہو گیا۔
۲۔یُوشع نے یردن کو خشک کر دیا۔ (کتاب یوشع ۱۷؍۳)
۳۔ایلیاہ نے دریا کے دوٹکڑے کردئیے۔ (۲سلاطین۸؍۲)
۴۔الیشع نے ناکارہ چشموں اور بنجر زمینوں کو ایک پیالہ پانی سے اُچھال دیا۔ (۲سلاطین ۱۹تا۲۲؍۲ )
۵۔الیشع نے چادر مار کر پانی کے دو ٹکڑے کئے۔ (۲سلاطین۱۴؍۲)
۶۔موسیٰ کی دعا سے مینہ اور اولے تھم گئے۔ (خروج۳۴؍۹)
۷۔موسیٰ نے ہاتھ بڑھا کر مینڈک پھیلادئیے۔ (خروج۲۳؍۹)
۸۔ہارون نے مینڈک مصر میں پھیلا دئیے۔ (خروج۶،۷؍۸)
۹۔موسیٰ نے ہاتھ پھیلا کر سب مصر پر اندھیرا کردیا۔ (خروج ۲۲؍۱۰)
۱۰۔موسیٰ نے ہاتھ بڑھا کر سب سواریوں کو ہلاک کر دیا۔ (خروج۲۶تا۲۹؍۱۴)
۱۱۔یشوع نے چاند اور سورج کو حکم دے کر کھڑا کردیا۔ (یشوع۱۲تا۱۴؍۱۰)
۱۲۔یسعیاہ نے سورج کو دس درجہ پیچھے ہٹا دیا۔ (۲سلاطین۱۱؍۲۰)
۱۳۔تین شخص جلتی آگ میں ڈالے مگر نہ جلے۔ (دانیال۲۱تا۲۵؍۳)
۵۔پانچواں معجزہ:۔مسیح نے پرندے بنائے۔پس وہ خالق ٹھہرا۔
احمدی:۔ تورات میں ہے۔ہارون نے جوئیں بنائیں۔ (خروج۱۷؍۸)
پس وہ بھی بقول شما خالق ٹھہرا۔یک نہ شد دوشد۔
ایک اور بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت مسیح نے مریدوں کو فرمایا کہ اگر تم میں رائی کے برابر بھی ایمان ہو تو تم میرے جیسے کام کر سکتے ہو۔ اب عیسائی صاحبان سے سوال ہے کہ اگر معجزاتِ عظیم الشان کی و جہ سے آپ لوگ مسیح کو خدا مانتے ہو۔تب تو حواریوں کو بھی شریکِ الوہیّت ماننا چاہیے۔ کیونکہ انہوں نے بھی معجزات دکھائے اور اگر آپ یہ کہیں کہ حواریوں نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ بالکل ہی بے ایمان تھے۔
ایک اور جواب:۔ انجیل میں مسیح نے صاف فرما دیا کہ میرے بعد بہت سے جھوٹے نبی پیدا ہوں گے جو اتنے بڑے بڑے معجزات دکھائیں گے کہ ہو سکتاہے کہ وہ کاملین کو دھوکہ میں ڈال دیں لیکن تم ان کے دھوکہ میں ہرگز نہ آنا۔مسیح کے اس قول سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے نزدیک ایک جھوٹا آدمی معجزات دکھا سکتا ہے تو پھر معجزات خدائی کا معیار کس طرح ہوئے اور معجزات دکھانے سے مسیح کی خدائی کیسے ثابت ہو سکتی ہے؟
تیسری دلیل:۔جس سے مسیح کی الوہیّت ثابت کی جاتی ہے وہ مسیح کا ایک قول ہے جو اس نے اپنے مخالف یہودیوں کو کہا۔کہ’’تم نیچے سے ہو۔میں اوپر سے ہوں۔تم اس جہان کے ہو ۔میں اِس جہان کا نہیں۔‘‘
جواب:۔ اس فقرہ کے معنے بالکل صاف ہیں کہ اے یہودیو!میں نبی ہوں۔ میرے علوم آسمانی ہیں اور تم زمینی علوم پر مٹے ہوئے ہو۔تم میرا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہو۔یہ ایک عام محاورہ ہے ۔اردو میں بھی مستعمل ہے۔دیکھو ہم ایک شخص کو زمینی یا دنیا دار کہتے ہیں۔اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ زمین میں اور دنیا میں رہتا ہے۔کیونکہ زمین اور دنیا میں تو نیک بھی رہتے ہیں۔مسیح بھی تیس برس تک (ہمارے نزدیک ۱۲۰ برس تک)اسی دنیا میں رہا۔بلکہ اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ یہ شخص خدا سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ دنیا سے محبت کرتا ہے۔اسی طرح مسیح نے بھی یہودیوں کو کہا کہ میں تمہاری طرح تقلیدی علوم کا اور زمینی فنون کا وارث نہیں بلکہ میں آسمانی علوم کا وارث ہوں،لیکن اگر عیسائی خواہ مخواہ ضد سے اس فقرے سے مسیح کی الوہیت ثابت کرنا چاہے تو وہ یاد رکھے کہ اس بات میں بھی مسیح کی خصوصیّت نہیں بلکہ تمام نیک لوگ اور حواری اس بات میں شامل ہیں۔دیکھو حوالے:
۱۔ مسیح حواریوں کے متعلق خدا سے دعا میں عرض کرتا ہے:۔
’’اس لئے کہ جیسامیں دنیا کا نہیں ہوں وے بھی دنیا کے نہیں ہیں۔‘‘ (یوحنا باب ۱۷ آیت۱۴)
اب اگر اس دنیا کا نہ ہونے کی و جہ سے مسیح خدا ہو۔تو پھر تمام حواری بھی اسی و جہ سے خدا سمجھنے چاہئیں۔
۲۔ ایک جگہ مسیح حواریوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:۔
’’اِس لئے کہ دنیا کے نہیں ہو۔‘‘ (یوحنا باب ۱۵ آیت۱۹)