تردید حیاتِ مسیح ناصری علیہ السلام
پہلی دلیل اور اس کی تردید
………… (النساء: ۱۵۸، ۱۵۹)
ترجمہ۔ نہ انہوں (یہود نامسعود) نے مسیحؑ کو قتل کیا اور نہ صلیب پر مارا، بلکہ اﷲ نے مسیحؑ کو اٹھالیا۔
بَلْ ابطالیہ کا ابطال
استدلال علماء:۔ (ا) بَلْ اضرابیہ ابطالیہ ہے جو ابطال جملہ اُولیٰ و اثبات جملہ ثانیہ کی غرض سے آتا ہے۔ جب نہ قتل ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے تو یقینا زندہ آسمان پر اٹھائے گئے۔
جواب:۔ آسمان پر جانے اور مقتول و مصلوب ہونے میں کوئی ضدیت نہیں۔ کیا جو نہ مقتول ہو، نہ مصلوب وہ آسمان پر اٹھایا جاتا ہے؟ کیا آنحضرتؐ و حضرت موسیٰ ؑ کوزندہ آسمان پر مانتے ہو؟ کیونکہ نہ وہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب۔
جواب نمبر۲:۔ آیت مذکور میں بَلْ کو ابطالیہ قرار دینا غلط ہے بوجوہاتِ ذیل۔ قرآن کریم میں ہے (النمل:۶۶،۶۷)
الف۔ اس آیت میں تین دفعہ بَلْ آیا ہے اور تینوں جگہ ابطالیہ نہیں بلکہ ترقی (اِنْتِقَالُ مِنْ غَرْضٍ اِلٰی اٰخَرَ) کے لئے آیا ہے۔ والی آیت میں بَلْ کا ما قبل اور مابعد کلام خدا ہے۔ پس بَلْ ابطالیہ نہیں ہوسکتا۔
ب۔ نحویوں نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں بَلْ ابطالیہ نہیں آسکتا۔ ہاں جب خدا تعالیٰ کفارکا قول نقل کرے تو بغرض تردید اس میں بَلْابطالیہ آسکتا ہے ورنہ اصالتاً خدا تعالیٰ کے کلام میں ابطالیہ وارد نہیں ہوسکتا۔ ملاحظہ ہو:۔
۱۔ مشہور نحوی ابن مالک کہتا ہے۔ اِنَّھَا لَا تَقَحُ فِی التَّنْزِیْلِ اِلَّا عَلٰی ھٰذَا الْوَجْہِ (اَیْ لِاِنْتِقَالٍ مِنْ غَرَضٍ اِلٰی اٰخَرَ) (القصر المینی جلد۱ صفحہ۵۸۲) کہ قرآن کریم میں بَلْ سوائے ترقی کے اور کسی صورت میں (یعنی بغرض ابطال) نہیں آتا۔
۲۔ قَالَ السَّیُوْطِیُ بَعْدَ اَنْ نَقَلَ غَیْرَ ذٰلِکَ اَیْضًا فَھٰذِہِ النَّقُوْلُ مُتَضَافِرَۃٌ عَلٰی مَا قَالْ ابْنُ مَالِکٍ مِنْ عَدْمِ وَقُوْعِ الْاِضْرَابِ الْاِبْطَالِیْ فِی الْقُرْاٰنِ (القصر المینی جلد۱ صفحہ ۵۸۳) کہ سیوطی نے بہت سے اقوال اور مثالیں نقل کرکے کہا ہے کہ یہ تمام مثالیں ابن مالک کے اس قول کی تائید کرتی ہیں کہ قرآن میں بَلْ ابطالیہ نہیں آتا۔
۳۔ فَاِنَّ الَّذِیْ قَرَّرَہُ النَّاُس فِیْ اِضْرَابِ الْاِبْطَالِ اِنَّہُ الْوَاقِعُ بَعْدَ غَلَطٍ اَوْ نِسْیَانٍ اَوْتَبَدُّلِ رَأْیِ وَالْقُرْاٰنُ مُنَزَّہٌ عَنْ ذٰلِکَ (القصر المینی جلد۱ صفحہ ۵۸۲) کہ نحویوں نے لکھا ہے کہ بَلْ ابطالیہ یا تو غلطی یا نسیان کے بعد آتا ہے اور یا تبدیلی ٔ رائے کے موقع پر۔ اور قرآن مجید میں یہ تینوں باتیں نہیں پائی جاسکتیں اس لئے قرآن مجید میں ابطالیہ نہیں آسکتا۔ فَجَوَابٌ اِنَّہٗ یُحْکٰی (برحاشیہ مغنی اللبیب زیر ذکر ’’بل‘‘) کہ ابن مالک کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حکایۃً عن الغیر بل ابطالیہ آسکتا ہے ورنہ نہیں۔
استدلال نمبر۲:۔ قَتَلُوْہُ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ مع الجسم ہیں تو رَفَعَہٗ میں بھی حضرت عیسیٰ مع الجسم اٹھائے گئے ہیں۔
جواب نمبر۱:۔ اول تو رَفَعَ کے معنی یہ نہیں لیکن اگر ہوں بھی تب بھی یہ ضروری نہیں کہ رَفَعَہٗ والی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ مع الجسم ہی ہوں۔چنانچہ دیکھئے قرآن مجید میں ہے۔ (البقرۃ:۱۵۵) نہ کہو ان لوگوں کو مردہ جو خدا کی راہ میں شہید کیے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس۔ اب اَحْیَاءٌ کا مبتداء محذوف ھُمْ ہے۔ اس کا مرجع مَنْ یُّقْتَلُ ہے مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ اسی جسم کے ساتھ زندہ ہیں۔ حالانکہ لفظ مَنْ میں یہی جسم مراد ہے۔ پس کیا ضرور ہے کہ ہم رَفَعَ میں جسم بھی مراد لیں۔
پھر سورۃ عبس میں ہے ……(عبس: ۱۸ تا ۲۲)
اَمَاتَہٗ اور فَاَقْبَرَہٗ کی ضمائر کا مرجع اَ لْاِنْسَانُہے جو روح اور جسم سے مرکب ہے مگر کیا قبر میں روح اور جسم دونوں اکٹھے رکھے جاتے ہیں؟
موت تو نام ہی اِخْرَاجُ الرُّوْحِ مِنَ الْجَسَدِ کا ہے۔ اگر روح مع الجسم مدفون ہو تو پھر زندہ دفن ہوا جو محال ہے پس یہاں اَقْبَرَہٗ کی ضمیر کا مرجع انسان بمعنی مجرد جسم ہوگا۔
ب۔ علم بدیع کی اصطلاح میں اسے صنعت استخدام کہتے ہیں۔ وَ مِنْہُ الْاِسْتِخْدَامُ وَ ھُوَ اَنْ یُّرَادَ بِلَفْظٍ لَہٗ مَعْنَیَانِ اَحَدُھُمَا ثُمَّ بِضَمِیْرِہٖ الْاٰخَرَ اَوْ یُرَادُ بِاَحَدِ ضَمِیْرَیْہِ اَحَدُھُمَا ثُمَّ بِالْاٰخَرِ الْاٰخَرَ (تلخیص المفتاح صفحہ ۷۱ طبع المجتبائی الواقع فی بلدۃ دہلی) کہ ایک لفظ جو ذو معنی ہو اس کی طرف دو ضمیریں پھیر کر اس سے دو الگ الگ مفہوم مراد لینا۔ مثالیں اوپر درج ہیں۔
پھر بھی اگر کوئی کہے کہ عیسیٰ ؑ تو جسم اور روح دونوں کے مجموعہ کا نام ہے پھر تم اکیلی روح کا رفع کیوں مراد لیتے ہو؟
تو اوّل تو اسے کہنا چاہیے کہ کسی کانام مختلف حیثیتوں سے ہوتا ہے مثلاً کہیں زید سیاہ ہے تو صرف جسم مراد ہوگا۔ حالانکہ ہم نے لفظ زید بولا تھا جو جسم اور روح دونوں کا نام تھا مگر قرینہ حالیہ نے اس جگہ اس معنے کو روک دیا۔ یا کہیں زید نیک ہے تو صرف روح مراد ہوگی۔ اسی طرح رفع ہمیشہ روح کا ہوتا ہے۔ اس خاکی جسم کے متعلق تو ازل سے یہی قانون الٰہی ہے (الاعراف: ۲۶)
لفظ رَفَعَ کی بحث
دوم: ۔ ہم حضرت عیسیٰ ؑکے رفع کے قائل ہیں مگر وہ رفع تھا روحانی جو کہ جسم سے اعلیٰ ہے جس طرح کہ روح جسم سے اعلیٰ ہے۔
جواب نمبر۳:۔ بندہ کے لئے جب لفظ رفع استعمال ہو تو ہر جگہ درجات کا رفع مراد ہوتا ہے۔ خصوصاً جب رفع اﷲ تعالیٰ کی طرف ہو کیونکہ اس کی شان اعلیٰ ہے۔
قرآنِ مجید اور لفظ رَفَعَ
۱۔ (الانعام:۴) کہ وہ خدا آسمان میں بھی ہے اور زمین میں بھی۔
۲۔ (البقرۃ:۱۱۶) کہ جدھر تم منہ کرو ادھر ہی اﷲ ہے۔
۳۔ (قٓ:۱۷) کہ ہم انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔ تو اس کی طرف رفع کے لئے آسمان پر جانا ضروری نہیں بلکہ وہ رفع اسی زمین پر ہوتے ہوئے ہوجاتا ہے۔ چنانچہ سب مسلمان جانتے ہیں کہ آنحضرتؐ بین السجدتین (دو سجدوں کے درمیان) جو دعا پڑھا کرتے تھے اس میں ایک لفظ وَارْفَعْنِیْ بھی ہے۔ یعنی اے اﷲ میرا رفع کر۔
( سنن ابن ما جہ کتابب الجنائز باب اقامۃ الصلوٰۃ ما یقول بین السجدتین)
سب مومن مانتے ہیں کہ آپؐ کا رفع ہوا مگر زمین پر ہی رہ کر۔ بھائیو! جب وہی لفظ رَفَعَ آنحضرتؐکے لئے آتا ہے تو اس سے آسمان پر جانا مراد نہیں لیتے اور جب عیسیٰ ؑ کے لئے آوے تو وہاں مراد لیتے ہو۔ ایں چہ بوالعجبی است!
پھر طرفہ یہ کہ تمام قرآن واحادیث میں کہیں بھی اس لفظ رَفَعَ کے معنی آسمان پر جانا نہیں۔ چنانچہ دیکھئے فرمایا:۔
۱۔ (الاعراف: ۱۷۷) اور اگر ہم چاہتے تو اس کا رفع کر لیتے لیکن وہ جھک گیا زمین کی طرف۔ اس جگہ بالاتفاق درجات کی ترقی مراد ہے۔ آسمان پر لے جانے کا ارادہ بتانا مدنظر نہیں۔
۲۔ (مریم:۵۸)یعنی ہم نے ادریسؑ کا رفع بلند مکان پر کیا۔
۳۔ (النور:۳۷)
۴۔ (عبس: ۱۴، ۱۵)
۵۔ (الواقعۃ: ۳۵)
۶۔ …… (المجادلۃ:۱۲)
گویا جب بھی کسی مومن اور عالم کے متعلق اﷲ تعالیٰ یہ کہے کہ میں نے اس کا رفع کیا ہے تو اس سے مراد آسمان پر جانا نہیں ہوتا بلکہ درجات کا بلند ہونا ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ سے زیادہ ان کے زمانہ میں اور کون مومن اور عالم تھا؟ پس آپ کے رفع سے مراد بھی ترقی درجات ہے۔