تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 1۔ یونی کوڈ
۱؎ سوزۃ۔ سورۃ کے معنی عربی زبان میں مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) مَنْذِلَۃٌ یعنی درجہ (۲) شَرَفٌ یعنی بزرگی بڑائی (۳) عَلاَمَۃٌ یعنی نشان (۴) اونچی دیوار یا عمارت جو خوبصورت بھی ہو۔ (اقرب) (۵) یہ لفظ سُؤْرَۃ سے بھی ہو سکتا ہے یعنی اس میں ہمزہ ہے جو ماقبل مضموم کی وجہ سے وائو سے بدل گیا ہے۔ اس لفظ کے معنی بقیہ کے ہیں عرب کہتے ہیں ھوفی اَشأَر، النّاسِ یعنی وہ قوم کے بقیہ لوگوں میں سے ہے (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی) (۶) ایسی شے جو پُوری اور مکمّل ہو۔ عرب جوان تندرست اونٹنی کو سورۃ کہتے ہیں (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی) (آیندہ اس تفسیر کا حوالہ دیتے وقت سارے نام کی جگہ صرف قرطبی لکھا جائیگا)سُوْرَۃ کی جمع سُوَرٌہے یعنی سورتیں۔
قرآن کریم کے بعض ٹکڑوں کو سُوْرۃٌکیوں کہتے ہیں اس کے متعلق مختلف علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں بعض کے نزدیک اس لئے کہ ان کے پڑھنے سے انسان کا درجہ بڑھتا ہے بعض کے نزدیک اس لئے کہ اس سے بزرگی خالص ہوتی ہے بعض کے نزدیک اس لئے کہ سورتیں مضامین کے ختم ہونے کا نشان ہیں بعض کے نزدیک اس لئے کہ وہ ایک بلند اور خوبصورت روحانی عمارت کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس لئے کہ وہ سارے قرآن کا بقیہّ یا حصّہ ہیں۔ بعض کے نزدیک اس لئے کہ ان کے اندر ایک مکمل او رپورا مضمون آ جاتا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ یہ اختلاف صرف ذوقی ہے ورنہ سورۃ کے چھ معنی جو بیان ہوئے ہیں وہ چھ کے چھ ہی اس جگہ چسپا ہوتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کے معیّن ٹکڑوں کو سورۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ (۱) قرآن کریم کا حصّہ ہیں (۲) اور ان میں سے ہر اک میں ایک مکمّل او رپورا مضمون بیان ہوا ہے (۳) وہ بلند اور خوبصُورت روحانی تعمیر پر مشتمل ہیں جن میں داخل ہونے والا (۴) اعلیٰ مرتبہ اور (۵) بزرگی پاتا ہے اور (۶) ان پر عمل کرنے والے کو دوسرے لوگوں کے مقابل پر ایک خاص امتیاز حاصل ہو جاتا ہے۔)
سُورۃکا لفظ جو قرآن کریم کے خاص ٹکڑوں کی نسبت استعمال ہوا ہیں۔ یہ الہامی نام ہے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ ہے قرآن کریم میں اتا ہے۔ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّانَزَّ لْنا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (بقرہ ع ۳) پس سورۃ کا لفظ خود قرآن کریم نے استعمال فرمایا ہے اور الہامی نام ہے رسول کریم صلعم بھی یہ لفظ استعمال فرماتے تھے صحیح مسلم میں انسؓ سے روایت ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہ صَلّے اللّٰہ علیہ وسلّم اُنْزِلَتْ عَلَیَّ اٰنِفاً سُوَرۃٌ فَقَرَأَ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الکَوثَرَ (مسلم کتاب الصّلوۃ باب حجتہ من قال اَلْبسملۃُ اٰیۃٌ مِنْ اَوَّلِ کُلِّ سُورَۃٍ سِوَی بَرَاء ۃ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی مجھ پر ایک سورۃ اُتری ہے اور وہ یہ ہے بِسْمِ اللّٰہِ الرّحمٰنَ الرّحیمِ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْکَوثَر الخ اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلعم بھی قرآن کریم کے ان حصّوں کو جن کو آج مسلمان سورتیں کہتے ہیں سورۃ ہی کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے اور یہ بعد کا رکھا ہوا نام نہیں۔
سُورۃ الفاتحۃ
قرآن کریم کے ابتدا میں رکھی ہوئی اس مختصر سی سورۃ کا نام فاتحۃ الکتاب ہے جو مختصر ہو کر سورۃ الفاتحہ بن گیا ہے اردو دان لوگوں نے آگے اسے فارسی اسلوب پر سورۃ فاتحہ بنا دیا ہے اس کا یہ نام ترمذی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مروی ہے۔ عَنْ عُبَادَۃِ بنِ الصَامِتِ عَن النبیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰٓیہِ وسلّم قَالَ لاَصَلوٰۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرأ بِفَاتِحۃِ الکِتَابِ (ترمذی ابواب الصلوۃ ماجاء انہ لا صلوۃ الابفاتحۃ الکتاب) یعنی جب تک فاتحۃ الکتاب یعنی سورۃ فاتحہ نماز میں نہ پڑھی جائے نماز نہیں ہوتی۔ یہی روایت اس صحابی سے انہی الفاظ میں مسلم کتاب الصلوٰۃ باب و جوب قراء ۃ الفاتحہ میں بھی مروی ہے۔
اس سورۃ کے کئی نام ہیں جن میں سے مشہور نام جو بعض قرآن کریم سے اور بعض رسول کریم صلعم سے ثابت ہیں ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
سُورۃ الصّلوۃ
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَسَمْتُ الصَّلوٰۃَ بَیْنِی وَ بَیْنَ عَبْدِی نِصْفَینِ (مسلم باب و جوب قراء ۃ الفاتحتہ فی کل رکعتۃ) یہ روایت جابر ابن عبداللہؓ سے ابن جریر نے بھی نقل کی ہے (مصری جلد اوّل صفحہ ۶۶) میں نے صلوۃ (یعنی سورۃ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف کر کے تقسیم کر لیا ہے یعنی آدھی سورۃ میں صفات الہٰیہ کا ذکر ہے اور آدھی میں بندے کے حق میں دُعا ہے۔
سُورۃ اُلْحَمْد
ابو دائود میں حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے قَالَ رسولُ اللّٰہ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلّمَ اَلْحَمْدُللّٰہِ اُمُّ القُرْاٰنِ وَاُمُّ الْکِتَاِب وَالسَّبْعُ المَثَانِی یعنی سورۃ الحمدللہ کے دوسرے نام ام القرآن اور ام الکتاب اور السبع المثانی بھی ہیں۔ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب فاتحتہ الکتاب)
(۳و۴و۵) امّ القرآن۔ القرآن العظیم اور السبع المثانی یہ تین نام بھی اس سورۃ کے ہیں مسند امام احمد بن حنبل میں ابوہریرۃؓ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھی امر القرآن وھی السبع المثانی وھی القرآن العظیم۔ سورۃ فاتح امّ القرآن بھی ہے اور السبع المثانی بھی ہے اور القرآن العظیم بھی ہے (جلد دوم صفحہ ۴۴۸)
السبع المثانی کا لفظ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے وَلَقَدْ اٰتَیْفَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ (الحجر ع۶) پس یہ نام قرآن کریم کا رکھا ۂوا ہے۔
(۶) اُمُّ الْکِتاب۔ اس نام کا ذکر ابودائود میں حضرت ابوہریرۃؓ کی روایت میں موجود ہے اور اوپر نمبر ۶ میں اس کا ذکر آ چکا ہے۔
(۷)الشفاء ۔ یہ نام حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں۔ قَالَ رسولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وسَلَّمَ فَاتَحِہُ الکِتَابِ شِفَائٌ مِنْ کُلِّ دَائٍ۔ سورۃ فاتحہ ہر بیماری سے شفا دیتی ہے (دارمی) بیہقی فی شعب الایمان میں یہی روایت مروی ہے لیکن من کل داء کی جگہ من کل سم کے الفاظ ہیں یعنی ہر زہر کا علاج ہے۔
(۸) الرُّقْیَہ۔ یعنی دم کرنے والی سورۃ۔ یہ نام بھی حضرت ابو سعید خدری کی روایت مذکورہ مسند احمد بن حنبل و بخاری میں درج ہے (بخاری فضائل القرآن باب فاتحہ الکتاب اور مسند احمد بن حنبل جلد ۳) ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ کسی کو سانپ نے ڈس لیا تھا اس پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اسے شفا ہو گئی اس پر آپؐ نے فرمایا۔ ما یُدْریک انہارُقْیِۃٌ تم کو کس طرح معلوم ہوا کہ یہ دم کرنے والی سورۃ ہے۔ اس صحابی نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ بس میرے دل میں ہی یہ بات آ گئی۔
(۹)سورۃ الکنز بیہقی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اَعْطَا فِی فِیَما مَنُّ بِہٖ عَلَیَّ فَاتِحۃَ الکتابِ وَقَالَ ھِیَ کَنْزٌ مِنْ کُنُوزِ عَرْشِی (فتح البیان صفحہ ۱۹) یعنی رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے جو احسان فرما کر مجھے انعام دیئے ہیں ان میں سے ایک فاتحۃ الکتاب بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے سے فرمایا کہ یہ میرے عرش کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ فاتحہ نام میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ پس یہ نو نام قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ ان کے علاوہ اور نام بھی اس سورۃ کے صحابہ سے مروی ہیں۔ امام سیوطیؒ نے ان کی تعداد پچیس تک لکھی ہے۔ علاّمہ قرطبی تے بارہ نام لکھے ہیں۔ لیکن باقی نامو ںکا ثبوت چونکہ قرآن و حدیث سے مجھے نہیں ملا۔ میں نے انہیں بیان نہیں کیا۔
فاتحہ نام جو اس سورۃ کا بیان ۂوا ہے اس کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ نام پیشگوئی کے طو رپر پہلی کتاب میں بھی آیا ہے۔ چنانچہ مکاشفات باب ۱۰ آیت ۲ میں لکھا ہے۔
’’اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کتاب کھلی ہوتی تھی اور اس نے اپنا داہناں پاووں سمندر پر اور بایاں خشکی پر دھرا اور بڑی آواز سے جیسے ببر گرجتا ہے پُکارا۔ او رجب اس نے پکارا تب بادل نے گرجنے کی اپنی سات آوازیں دیں۔‘‘
اس سورۃ کا نام اور اس کی آیات کی تعداد بطور پیشگوئی مرقوم ہے۔ مترجم نے پیشگوئی کی اصل حقیقت سے ناآشنا ہونے کے باعث عبرانی لفظ فتوحہ کا ترجمہ کھلی ہوئی کتاب کیا ہے حالانکہ فتوحہ یعنی فاتحہ سورۃ کا نام بتایا گیا تھا اس پیشگوئی میں جو گرج کی سات آوازوں کا ذکر ہے ان سے مُراد اس سورۃ کی سات آیات ہیں۔ مسیحی مصنفین بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ مکاشفات کے مذکورہ بالا حوالہ میں مسیح کی آمد ثانی کے متعلق پیشگوئی ہے اور یہ بات بالکل درست ہے۔ پیشگوئی کے الفاظ سے ثابت ہے کہ آنے والے مسیح کے زمانہ تک یہ سورۃ مقفل رہے گی یعنی اس کا تفصیلی مفہوم مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہو گا۔ چنانچہ مکاشفات میں لکھا ہے کہ نبی کو ایک آسمانی آواز نے کہا کہ ’’بادل کی ان سات رعدوں سے جو بات ہوئی اس پر مُہر کر رکھ اور مت لکھ‘‘ (باب ادر س ۴)
میں نے تفصیلاً سورۃ فاتحہ کے نام اس لئے گنوائے ہیں تایہ بتائوں کہ سورتوں کے نام بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکھے ہوئے ہیں اور جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعض ناموں سے ثابت ہے آپؐ نے بھی وہ نام الہاماً اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر رکھے ہیں۔
دوسرے میری غرض ان ناموں کے گنوانے سے یہ ہے کہ ان سے سورۃ فاتحہ کے وسیع مطالب پر روشنی پڑتی ہے یہ تو نام در حقیقت دس مضمون ہیں جو سورۃ فاتحہ بیان کرتی ہے وہ فاتحۃ الکتاب ہے۔ یعنی قرآن کریم میں سب سے پہلے اس کے رکھنے کا حکم ہے دوسرے وہ مطالب قرآنی کے لیے بمنزلہ ایک کلید کے ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم کے مطالب کھلتے ہیں۔ پھر سورۃ فاتحہ سورۃ الحمد ہے یعنی اس سورۃ نے انسان اور بندہ کے تعلقات پر اور انسانی پیدائش پر اس رنگ میں روشنی ڈالی ہے کہ اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انسانی پیدائش اعلیٰ ترقیات کے لئے ہے اور یہ کہ خدا تعالیٰ کا تعلق بندوں سے رحم اور فضل کی بنیادوں پر قائم ہے۔ پھر وہ الصّلوٰۃ ہے یعنی کامل دعا اس میں سکھائی گئی ہے جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی اور وہ امّ الکتاب ہے اس میں وہ تمام علوم جن کے ذریعہ سے دوسروں کو خطاب کیا جاتا ہے بیان کروئے گئے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کتاب کریم یعنی قرآن مجید کے لئے بمنزلہ ماں کے ہے یعنی قرآن کریم کے نزول کا موجب وہ دعائیں ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں اور جو درد مند دلوں سے اُٹھ کر عرض عظیم سے قرآن کریم کو لائی ہیں اور وہ امّ القرآن ہے اس میں وہ تمام علوم جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بیان کر دیئے گئے ہیں اور وہ السبع المثانی ہے یعنی گو صرف سات آیتیں اس میں ہیں لیکن ہر ضرورت ان سے پُوری ہو جاتی ہے۔ روحانیت کا کوئی سوال ہو کسی نہ کسی آیت سے اس پر روشنی پائی جائیگی گویا علمی سوالوں کے حل کرتے وقت بار بار حوالہ کے طو رپر اس کی سات آیتیں دُہرائی جائیں گی اور اس لئے بھی وہ مثافی ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں اسے پڑھا جاتا ہے۔
وہ قرآن عظیم بھی ہے یعنی باوجود ام الکتاب اور امّ القرآن کہلانے کے وہ قرآن کریم کا حصہ بھی ہے اور اس سے الگ نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے قرآن عظیم سورۃ فاتحہ کو انہی معنوں سے کہا گیا ہے جس طرح ہم کسی سے کہتے ہیں قرآن سُنائو اور مراد اس سے ایک سورۃ ایک رکوع ہوتا ہے۔
سورۃ فاتحہ شفا ہے کہ اس میں تمام ان وساوس کا رد ہے جو انسان کے دل میں دین کے بارہ میں پیدا ہوتے ہیں او روہ رُقْیَۃ ہے کہ علاوہ دم کے طور پر استعمال ہونے کے اس کی تلاوت شیطان اور اس کی ذریت کے حملوں سے انسان کو کو بچاتی ہے اور دل میں ایسی قوت پیدا کرتی ہے کہ شیطان کے حملے بے ضرر ہو جاتے ہیں اور وہ کنز بھی ہے کہ علوم و فنون کے اس میں دریا بہتے ہیں۔ اُردو میں دریا کوزے میں بند کرنے کا ایک محاورہ ہے اس کا صحیح مفہوم شاید سورۃ فاتحہ کے سوا اور کسی چیز سے ادا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس سورۃ کے بارہ میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سمندر کوزہ میںبند کر دیا گیا ہے۔
غرض اسماء کے گنانے سے میرا منشاء پڑھنے والے کے ذہن کو ان وسیع مطالب کی طرف توجہ دلانا تھا جو رسول کریم صلعم نے مختلف ناموں کے ذریعہ سے اس سورۃ کے بیان فرمائے ہیں ورنہ حقیقت سے خالی نام کسی سورۃ کے نو چھوڑ سو بھی ہوں تو ان سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا اور رسول کریم صلعم ایسا بے فائدہ فعل ہر گز نہیں کر سکتے تھے۔ پس سوچنے والوں کے لئے ان ناموں میں ایک اعلیٰ روشنی اور کامل ہدایت ہے۔
فضائل سُورۃ فاتحہ
اس سورۃ کے بہت سے فضائل حدیثوں میں بیان ہیں۔ جن میں سے بعض کی طرف تو میں اس کے ناموں میں اشارہ کر چکا ہوں اور بعض جو زیادہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ان کا ذکر اب کرتا ہوں۔ نسائی نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلّم مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی اْلِانْجِیْلِ مِثْلَ اُمِّ الْقُرآنِ وَھِیَ الْسَّبْعُ المَثَانِی وَھِیَ مَقْسْومَۃ بَیْنیِ وَبَیْنَ عَبْدِی وَلِعَبْدِی مَاسَأَلَ (کتاب الافتتاح فضل فاتحۃ الکتاب) یعنی رسول اللہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے نہ توراۃ میں نہ انجیل میں کوئی ایسی سورہ اُتاری ہے جیسے کہ امّ القرآن (یعنی سورۃ فاتحہ) ہے اور اس کا ایک نام السبع المثانی بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارہ میں مجھے فرمایا ہے کہ وہ میرے اور میرے بندے کے درمیان بحصّہ مساوی بانٹ دی گئی ہے اور اس کے ذریعہ سے میرے بندے جو دُعا مجھ سے کریں گے وہ ضرور قبول کی جائے گی۔ یہ فضیلت نہایت اہم ہے کیونکہ اس میں ایک عملی گر بتایا گیا ہے جو انسان کے لئے دین و دُنیا میں مفید ہے یعنی جو دُعا اس کے ذریعہ سے کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ذریعہ دُعا کو قبول کر وا دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ ذریعہ کیا ہے؟ جیسا کہ اس سورۃ کی عبارت سے ظاہر ہے وہ ذریعہ اوّل بِسْمِ اللّٰہِ دوم اَلْحَمْدُللّٰہِ سوم الرَّحْمٰن۔ چہارم الرَّحْیِم او رپنجم مٰلکِ یَوْمِ الدِّیْن اور ششم ایَّاکَ نَعْبُدُ اور ہفتم ایّاک نَسْتَعِیْن ہے گویا جس طرح سات آیتوں کی یہ سورۃ ہے اسی طرح سات اصول دُعا کی قبولیت کے لیے اس میں بیان کئے گئے ہیں بِسْمِ اللّٰہ یہ بتایا گیا ہے کہ جس مقصد کے لئے دُعا کی جائے وہ نیک ہو یہ نہیں کہ جو چوری کے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے تو وہ بھی قبول کر لی جائے گی۔ خدا کا نام لیکر اور اس کی استعانت طلب کر کے جو دُعا کی جائے گی لازماً ایسے ہی کام کے متعلق ہو گی جس میں اللہ کی ذات بندہ کے ساتھ شریک ہو سکتی ہو۔ دیکھو ان مختصر الفاظ میں دُعا کے حلقہ کو کس طرح واضح کر دیا گیا ہے۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے۔ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی دُعائیں کرتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ ہماری دُعاقبول نہیں ہوئی۔ اسی طرح ناجائز مطالب کے لئے دُعائیں کرتے ہیںاور پھر شکایت کرتے ہیں کہ دُعا قبول نہیں ہوئی۔ بعض لوگوں نے جھوٹا جامہ زہد و اتقا کا پہن رکھا ہے اور ناجائر امور کے لئے تعویذ دیتے اور دُعائیں کرتے ہیں حالانکہ یہ سب دُعائیں اور تعویذ عاملوں کے مُنہ پر مارے جاتے ہیں۔ دوسرا اصلی اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن میں بتایا ہے یعنی دُعا ایسی ہو کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے دوسرے بندوں کا بلکہ سب دُنیا کا فائدہ ہو یا کم سے کم ان کا نقصان نہ ہو اور اس کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کے حمد ثابت ہوتی ہو اور اس پر کسی قسم کا الزام نہ آتا ہو۔ تیسرے یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو جنبش دی گئی ہو اور اس دُعا کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ظاہر ہوتی ہو۔ چوتھے یہ کہ اس دُعا کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے بھی ہو یعنی وہ نیکی کی ایک ایسی بنیاد ڈالتی ہو جس کا اثر دُنیا پر ایک لمبے عرصہ تک رہے اور جس کی وجہ سے نیک اور شریف لوگ متواتر فوائد حاصل کریں یا کم سے کم ان کے راستہ میں کوئی روک نہ پیدا ہوتی ہو۔ پانچویں یہ کہ دُعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا بھی خیال رکھا گیا ہو یعنی دُعا کرتے وقت ان ظاہری ذرائع کو نظر انداز نہ کر دیا گیا ہو جو صحیح نتائج پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کئے ہیں کیونکہ وہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے طریق کو چھوڑ کر اس سے مدد مانگنا ایک غیر معقول بات ہے گویا جہاں تک اسباب ظاہری کا تعلق ہے بشرطیکہ وہ موجود ہو ںیا ان کا مہیّا کرنا دُعا کرنے والے کے لئے ممکن ہو ان کا استعمال بھی دُعا کے وقت ضروری ہے ہاں اگر وہ موجود نہ ہو ںتو پھر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت اسباب سے بالا ہو کر ظاہر ہوتی ہے ایک اشارہ اس آیت میں یہ بھی کیا گیا ہے کہ دُعا کرنے والا دوسروں سے بخشش کا معاملہ کرتا ہو اور اپنے حقوق کے طلب کرنے میں سختی سے کام نہ لیتا ہو۔ چھٹا اصل یہ بتایا ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق ہو اور اس سے کامل اخلاص حاصل ہو اور وہ شرک اور مشرکانہ خیالات سے کلی طو رپر پاک ہو۔ اور ساتویں بات یہ بتائی ہے کہ وہ خدا کا ہی ہو چکا ہو اور اس کا کامل توکل اسے حاصل ہو اور غیر اللہ سے اس کی نظر بالکل ہٹ جائے اور وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ خواہ کچھ ہو جائے اور کوئی بھی تکلیف ہو۔ مانگوں گا تو خدا تعالیٰ ہی سے مانگوں گا۔
یہ سات امور وہ ہیں کہ جب انسان ان پر قائم ہو جائے تو وہ لعبدی ماسأل کا مصداق ہو جاتا ہے اور حق بات یہ ہے کہ اس قسم کی دُعا کا کامل نمونہ رسول کریم صلعم یا آپؐ کے کامل اتباع نے ہی دکھایا ہے اور انہی کے ذریعہ سے دُعائوں کی قبولیت کے ایسے نشان دُنیا نے دیکھے ہیں جن سے اندھوں کو آنکھیں اور بہروں کو کان اور گونگوں کو زبان عطا ہوئی ہے مگر اتباع رسول کا مقام بھی کسی کے لئے بند نہیں جو چاہے اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کر سکتا ہے اور اس مقام کو حاصل کر سکتا ہے۔
بخاریؒ نے سعید ابن المعلّی سے ایک روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ آئو۔ میں تمہیں قرآن کریم کی سب سے بڑی سورۃ سکھائوں اور پھر سورۃ فاتحہ سکھائی (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فاتحہ الکتاب) آپؐ نے جو اسے اعظم السُّوَر فرمایا تو اس کے یہی معنی ہیں کہ اس کے معانی اور مطالب لمبی لمبی سورتوں سے بھی زیادہ ہیں اور کیوں نہ ہو کہ یہ سارے قرآن کریم کے لئے بطور متن کے ہے۔
میں اس جگہ ایک اپنا مشاہدہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ میں چھوٹا ہی تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا۔ میں مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں اور سامنے میرے ایک وسیع میدان ہے۔ اس میدان میں اس طرح کی ایک آوار پیدا ہوئی جیسے برتن کو ٹھکورنے سے پیدا ہوتی ہے یہ آواز فضا میں پھیلتی گئی اور یُوں معلوم ہوا کہ گویا وہ سب فضاء میں پھیل گئی ہے اس کے بعد اس آواز کا درمیانی حصہ متمثل ہونے لگا او راس میں ایک چوکھٹا ظاہر ہونا شروع ہوا جیسے تصویروں کے چوکھٹے ہوتے ہیں پھر اس چوکھٹے میں کچھ ہلکے سے رنگ پیدا ہونے لگے آخر وہ رنگ روشن ہو کر ایک تصویر بن گئے اور اس تصویر میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ایک زندہ وجود بن گئی اور میں نے خیال کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ مجھ سے مخاطب ہوا اور اس نے مجھے کہا کہ کیا میں تم کو سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاووں تو میں نے کہا کہ ہاں آپ مجھے ضرور اس کی تفسیر سکھائیں پھر اس فرشتہ نے مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کی یہاں تک کہ وہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ایَّاکَ نَسْتَعِیْن تک پہنچا۔ یہاں پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ اس وقت تک جس قدر تفاسیر لکھی جا چکی ہیں وہ اس آیت تک ہیں۔ اس کے بعد کی آیات کی کوئی تفسیر اب تک نہیں لکھی گئی۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا۔ کیا میں اس کے بعد کی آیات کی تفسیر بھی تم کو سکھاووں اور میں نے کہا ہاںجس پر فرشتہ نے مجھے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمْ اور اس کے بعد کی آیات کی تفسیر سکھانی شروع کی اور جب وہ ختم کر چکا تو میری آنکھ کھل گئی اور جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ اس تفسیر کی ایک دو باتیں مجھے یاد تھیں۔ لیکن معاً بعد میں سو گیا اور جب اُٹھا تو تفسیر کا کوئی حصّہ بھی یاد نہ تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے ایک مجلس میں اس سورۃ پر کچھ بولنا پڑا اور میں نے دیکھا کہ اس کے نوے نئے مطالب میرے ذہن میں نازل ہو رہے ہیں اور میں سمجھ گیا کہ فرشتہ کے تفسیر سکھانے کا یہی مطلب تھا۔ چنانچہ اس وقت سے لیکر آج تک ہمیشہ اس سورۃ کے نئے نئے مطالب مجھے سکھائے جاتے ہیں۔ جن میں سے سینکڑوں میں مختلف کتابوں اور تقریریوں میں بیان کر چکا ہو ںاو راس کے باوجود خزانہ خالی نہیں ہوا۔ چنانچہ دُعا کے متعلق جوگر اس سورۃ میں بیان ہوئے ہیں اور جن کا ذکر میں اُوپر کر آیا ہوں وہ بھی انہی تجارت میں سے ہیں۔ کیونکہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھتے وقت میرے دل میں خیال گذرا کہ اس موقعہ پر بھی اللہ تعالیٰ کوئی نئے مطالب اس سورۃ کے کھولے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سات اصول کا انکشاف ہوا جو دُعا کے متعلق اس سورۃ میں بیان ہیں۔ فالحمدللّٰہِ علیٰ ذٰلک۔ اور جو کچھ لکھا گیا ہے محض خلاصہ کے طور پر لکھا گیا ہے ورنہ ان اصول میں بہت وسیع مطالب پوشیدہ ہیں۔ ذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰہ یُؤْتِیْمَنِْ یَّشَائِ۔
سُورۃ فاتحہ کا نزول
اس سورۃ کے نزول کے بارہ میں ابن عباسؓ قتادہ اور ابو العالیہ کا بیان ہے کہ یہ مکی سورۃ ہے اور ابوہریرۃؓ اور مجاہد اور اور عطاء اور زہری کا قول ہے کہ یہ مدنی ہے لیکن قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہو چکی تھی۔ کیونکہ اس کا ذکر سورہ الحجر میں جو بالا جماع مکی سورۃ ہے ان الفاظ میں آ چکا ہے۔ وَلَقَدْ آیَتَنَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَاِنِیْ وَ الْقُرْآنِ الْعَظِیْم (الحجر ع ۶) (قرطبی) بعض آئمہ کا خیال ہے کہ دو دفعہ یہ سورۃ نازل ہوئی ہے ایک دفعہ مکہ میں اور دوسری دفعہ مدینہ میں پس یہ مکی بھی ہے او رمدنی بھی (قرطبی میں بحوالہ ثعلبی یہ روایت لکھی ہے مگر ثعلبی کی تفسیر میں جو مطبوعہ الجزائر ہے یہ رائے درج نہیں۔ شائد ثعلبی کی کسی اور کتاب سے یہ رائے قرطبی نے درج کی ہو) میرے نزدیک یہی خیال درست ہے۔ اس کا مکی ہونا یقینی ہے اور اس کا مدنی ہونا کبھی معتبر رواۃ سے ثابت ہے۔ پس حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دس دفعہ نازل ہوئی ہے اور جب دوسرے نزول کا رسول کریم صلعم نے کسی مجلس میں ذکر کیا تو بعض لوگوں نے سمجھا کہ یہ سورۃ نازل ہی مدینہ میں ہوئی تھی۔ حالانکہ آپؐ کا مقصد اس سے لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ یہ سورۃ مدینہ میں بھی نازل ہوئی ہے۔ اس کے مکی ہونے کا یہ ثبوت بھی ہے کہ تمام روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ ہمیشہ سے نماز میں پڑھی جاتی رہی ہے اور نماز باجماعت مکہ میں ہی پڑھی جانی شروع ہو گئی تھی بلکہ شروع زمانہ سے ہی شروع ہو گئی تھی۔
سُورۃ فاتحہ قرآن کا حصّہ ہے
بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کا حصّہ نہیں ہے اور اس خیال کی دلیل یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے اپنے نسخہ میں سورۃ فاتحہ کو نہیں لکھا تھا مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے سورۃ فاتحہ اور معوذ تین یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس تینوں سورتیں قرآن کریم میں نہیں لکھی تھیں او ران کا یہ خیال تھا کہ سورۃ فاتحہ ہر سورۃ کے ساتھ چونکہ نماز میں پڑھی جاتی ہے اس لئے یہ ہر سورۃ کی تمہید ہے اور غالباً معوذ تین کے بارہ میں بھی ان کا یہ خیال تھا کہ بوجہ اس کے کہ ان کا مضمون مختلف نقصانات اور شرور سے بچنے کی دُعا پر مشتمل ہے اس لئے وہ گویا باوجود قرآن عظیم کا حصّہ ہونے کے متن قرآن سے باہر ہیں اور وہ غالباً انہیں بھی ہر سورۃ سے متعلق سمجھتے تھے۔ سورۃ فاتحہ کے بارہ میں تو ان کے اس خیال کا ذکر احادیث سے ثابت ہے چنانچہ ابوبکر الانباری نے عن الاعمش عن ابراھیم ایک حدیث نقل کی ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے نسخۂ قرآن میں سورۃ فاتحہ کیوں نہیں لکھی تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ لَوْکَتَبَتُہَا لَکَتبتُہَا مَعَ کُلِّ سُورَۃٍ۔ یعنی اگر میں سورۃَ بقرہ سے پہلے اسے لکھتا تو سب سورتوں کے ساتھ لکھتا یعنی یہ سورۃ ہر سورۃ سے متعلّق ہے اس لئے میں نے اسے حذف کر دیا ہے تایہ غلط فہمی نہ ہو کہ صرف سورۃ بقرہ کے ساتھ اس کا تعلّق ہے (قرطبی) معلوم ہوتا ہے یہی استدلال معوذ تین کے بارہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کیا ہے ورنہ وہ سورہ جسے رسول کریم صلعم نے صاف طو رپر قرآن کریم کی سورتوں میں سے سب سے بڑی قرار دیا ہے (بخاری عن سعید بن المعلّی) اسے کس طرح قرآن کریم سے خارج قرار دے سکتے تھے۔
سورۃ افتحہ ہر نماز میں اور ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے سوائے اس کے کہ مقتدی کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے امام رکوع میں جا چکا ہو اس صورت میں اسے تکبیر کہہ کر بغیر کچھ پڑھے رکوع میں چلے جانا چاہیئے۔ امام کی قراء ت ہی اس کی قراء ت سمجھ لی جائے گی۔ سورۃ فاتحہ کے نماز میں پڑھنے کی تاکید مختلف احادیث میں آئی ہے۔ مسلم میں آتا ہے حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے کہ قَالَ (رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّے اللّٰہ علیہ وسلّم) مَنْ صَلّٰی صَلوٰۃَّ لَمْ یَقْرَأَ فِیْہَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ فَھِیَ خِداجٌ (مسلم کتاب الصلوۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃٍ) یعنی جس نے نماز ادا کی مگر اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے اور بخاری مسلم میں عبادۃ بن الصامت کی روایت ہے کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ لاَصَلوٰۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتَحِۃِ الکِتَابِ (بخاری کتاب الصلوۃ باب وجوب قراء ۃ الامام و الماموم فی الصلوۃ کلہا نیز مسلم باب و جوب قراۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃٍ) یعنی جس نے فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی اور صحیح بن خزیمہ اور ابن حباب میں ابوہریرۃؓ سے بھی ایسی ہی روایت آتی ہے (قرطبی) نیز ابو دائود میں حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ اَمَرَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ اُنادِی اَنَّہٗ لَاصَلوٰۃَ اِلَّا بِقِراَء ۃِ فَاتِحَۃِ الکِتَابِ نَمَازَ ادَ (کتاب الصلوۃ باب من ترک القراء ۃ فی صلوتہ) یعنی رسول کریم صلعم نے مجھے حکم دیا کہ میں لوگوں میں اعلان کر دوں کہ کوئی نماز بغیر اس کے نہیں ہوسکتی کہ سورۃ فاتحہ او راس کے ساتھ کچھ اور حصہ قرآن کریم کا پڑھا جائے۔
صحابہ میں سے حضرت عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، ابوہریرۃؓ، ابی بن کعبؓ، ابو ایوب انصاریؓ، عبداللہ بن عمر بن العاصؓ، عبادۃ بن الصامت، ابو سعید ضدریؓ، عثمان بن ابی العاصؓ خوات بن جبیر اور عبداللہ بن عمر سے یہی عقیدہ احادیث میں مذکور ہے (قرطبی)
ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت آتی ہے کہ لَاصَلوٰ ۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ بِالْحَمْدِ لِلّٰہِ وَسُوَرۃٌ فِی فَرِیْضَۃٍ اَوْغَیْرِھَا یعنی جو شحص ہر رکعت میں الحمدللہ اور کوئی اور سورۃ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور یہ حکم فرض نماز اور غیر فرض نماز سب کے متعلق ہے (ابن ماجہ کو محققین نے ضعیف کہا ہے مگر جبکہ صحابہ کا تعامل یہی ہے کہ اس کے مضمون کی صحت میں کلام نہیں ہو سکتا۔ ابو دائود کی ایک اور روایت بھی اس کی تائید میں ہے اور وہ عبادۃ بن الصامت سے مروی ہے۔ نافع بن محمود بن الربیع انصاری کہتے ہیں کہ ایک جگہ حضرت عبادۃ امام الصلوٰۃ تھے ایک دفعہ وہ دیر سے پہنچے اور ابو نعیم نے نماز شروع کر ا دی۔ نماز شروع ہو چکی تھی کہ عبادۃ بھی آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا ہم صفوں میں کھڑے ہو گئے۔ ابو نعیم نے جب سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کی۔ تو میں نے سنا کہ عبادۃ بھی آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھتے رہے۔ جب نماز ختم ہوئی۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ جبکہ ابو نعیم بالج ہر نماز پڑھا رہے تھے آپ بھی ساتھ ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھتے جا رہے تھے یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہے کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ رسول کریم صلعم نے ایک دفعہ ہمیں نماز پڑھائی اور سلام پھیر کر جب بیٹھے تو پوچھا کہ جب میں بلند آواز سے نماز میں تلاوت کرتا ہوں تو کیا تم بھی منہ میں پڑھتے رہتے ہو۔ بعض نے کہا ہاں۔ بعض نے کہا نہیں اس پر آپؐ نے فرمایا لَاتَقْرَؤْا بِشیًٔ مِنَ القُرآنِ اِذَا جَھَرْتُ اِلَّابِاُمِّ القُرآنِ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب من ترک القرأۃ فی صلوتہ) جب میں بلند آواز سے قرآن کریم نماز میں پڑھوں تو سوائے سورۃ فاتحہ کے اور کسی سورۃ کی تلاوت تم ساتھ ساتھ نہ کرو۔ اس بارہ میں اور بہت سی احادیث بھی ہیں۔ مثلاً وار قطنی نے یزید بن شریک سے روایت کی ہے اور اسکے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے کہ سَأَلْتُ عُمَرَ عَنْ الْقِرَائَ ۃِ خَلْفَ الْاِمَاِ فَاَمًر فِی اَنْ اَقْرَأَ قُلْتُ وَ اِنْ کُنْتَ اَنْتَ قَالَ وَاِنْ کُنْتُ اَنَا قُلْتُ وَاِنْ جَرْتَ قَالَ وَاِنْ جَرْتُ۔ یعنی میں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ کیا میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھا کروں انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا کیا جب آپ نماز پڑھا رہے ہوں تب بھی۔ انہوں نے کہا خواہ میں نماز پڑھا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ کیا جب بلند آواز سے پڑھا رہے ہوں۔ تب بھی انہوں نے کہا ہاں تب بھی۔ (دار قطی جلد اوّل کتاب الصلوۃ باب و جوب قراء ۃ ام لکتاب فی الصلوۃ) حضرت مسیح موعودؑ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی چاہیے خواہ وہ جہرًا نماز پڑھا رہا ہو سوائے اس کے کہ مقتدی رکوع میں آ کر ملے۔ اس صورت میں وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں شامل ہو جائے اور امام کی قراء ت اس کی قراء ت سمجھی جائے گی۔ یہ ایک استثناء ہے استثناء سے قانون نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح یہ بھی استثناء ہے کہ کسی شخص کو سورۃ فاتحہ نہ آتی ہو۔ مثلاً نو مسلم ہے جس نے ابھی نماز نہیں سیکھی۔ یا بچہ ہو جسے ابھی قرآن نہیں آتا تو اس کی نماز فقط تسبیح و تکبیر سے ہو جائے گی خواہ وہ قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی نہ پڑھے سورۃ فاتحہ بھی نہ پڑھے۔
سُورۃ فاتحہ کے مضامین کا خلاصہ
سورۃ فاتحہ مضامین جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے قرآن کریم کے لئے بطور دیباچہ کے ہیں۔ قرآن کریم کے مضامین کو مختصر طو رپر اس میں بیان کر دیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والے کو شروع میں ہی قرآنی مطالب پر اجمالاً آگاہی ہو جائے۔ پہلے بسم اللہ سے شروع کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ایک مسلمان (۱) خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے (بسم اللہ) (۲) وہ اس امر پر بھی یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ فلسفیوں کے عقیدہ کے مطابق صرف دُنیا کے علّتِ اولیٰ کا کام نہیں دے رہا بلکہ دُنیا کے کام اس کے حکم اور اشارہ سے چل رہے ہیں اس لئے اس کی مدد اور اعانت بندہ کے لئے بہت کچھ کار آمد ہو سکتی ہے (بسم اللہ) (۳) وہ صرف ایک اندرونی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ مستقل وجود رکھتا ہے اور اس کا مستقل نام ہے اور مختلف صفات سے وہ متصف ہے (اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم) (۴) وہ منبع ہے سب ترقیات کا اور تمام سامان جن سے کام لے کر دُنیا ترقی کر سکتی ہے اسی کے قبضہ میں ہیں (الرّحمٰن) (۵) اس نے انسان کو اعلیٰ ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے۔ جب وہ اللہ کے پیدا کردہ سامانوں سے صحیح طو رپر کام لیتا ہے تو اس کے کام کے اعلیٰ نتائج پیدا ہوتے ہیں جو اسے مزید انعامات کے مستحق بنا دیتے ہیں اور بناتے چلے جاتے ہیں (الرّحیم) (۶) اس کے سب کاموں میں جامعیت اور کمال پایا جاتا ہے اور ہر حُسن سے وہ متصف ہے اور سب تعریفوں کا مالک ہے کیونکہ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے سب اسی کا پیدا کردہ ہے (اَلْحَمُدلِلّٰہِ رَبٌ العٰلمیْنَ) (۷) کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی نہیں جس کی ابتدا اور انتہاء یکساں ہو بلکہ اس کے سوا جس قدر اشیاء ہیں ادنیٰ حالت سے شروع ہوئی ہیں اور ترقی کرتے کرتے کمال کو پہنچی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سب اشیاء کا خالق ہے او رکوئی چیز آپ ہی آپ نہیں (ربّ العٰلمین) (۸) یہ دنیا ایک متنوع دنیا ہے یعنی اس کی ہزاروں شاخیں ہیں اور ہزاروں قسم کے مزاج ہیں پس کسی چیز کے سمجھنے کے لیے اس کی جنس پر غور کرنا چاہیئے۔ نہ کہ دوسری جنس کی اشیاء پر خدا تعالیٰ کا معاملہ ہر جنس سے اس کی حیثیت کے مطابق ہے۔ پس دنیا میں خدا تعالیٰ کے سلوک میں اگر اختلاف نظر آئے تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے۔ وہ اختلاف حالات کے اختلاف کی وجہ سے ہے نہ کہ ظلم کی وجہ سے یا عدم توجہ کی وجہ سے (رَبّ العٰالَمین)(۹) جس طرح اللہ تعالیٰ ہر کام لینے والی شے کا خالق نظر اتا ہے وہ ہر سامان کا بھی خالق نظر آتا ہے پس ہر چیز ہر وقت اس کی مدد کی محتاج ہے۔ (اَلرَّحْمٰن) (۱۰) پھر جس طرح خدا تعالیٰ اشیاء اور ان سامانو ںکا خالق ہے جن سے ان اشیاء نے فائدہ اُٹھانا ہے اسی طرح وہ ان نتائج پربھی تصّرف رکھتا ہے جو سامانوں کے استعمال کرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں مثلاً انسان کو بھی اس نے پیدا کیا ہے اور اس کھانے کو بھی اس نے پیدا کیا ہے جو اس کی زندگی کے لئے ضروری ہے اور پھر وہ اچھا یا بُرا خون جو اس کھانے کے استعمال سے پیدا ہو گا وہ بھی اسی کے حکم اور امر سے ہی ہو گا (اَلْرَّحِیم) (۱۱) پھر اس نے جزا سزا کا بھی ایک طریق مقرر کیا ہے یعنی ہر چیز اپنے حالات کے مطابق اپنے کامو ںکے اچھے یا بُرے نتائج کا مجومعی نتیجہ ایک دن دیکھ لیتی ہے یعنی کاموں کے نتیجے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک درمیانی کہ ہر کام کا نتیجہ کچھ نہ کچھ نکلتا آتا ہے او رایک آخری کہ سب کاموں کا مجموعی نتیجہ نکلتا ہے سو اللہ تعالیٰ نے صرف یہی انتظام نہیں کیا کہ ہر کام کا نتیجہ نکلے جس کی طرف رحیم کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے بلکہ اس نے یہ تدبیر بھی اختیار کی ہے کہ سب کاموں کا ایک مجموعی نتیجہ نکلے جس کے سبب سے وہ مٰلِکِ یَوْمِ الذِّیْن کہلاتا ہے۔ (۱۲) پس ایسی ہی ہستی اس امر کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسی سے محبت کا تعلق رکھا جائے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) (۱۳) پھر بتایا ہے کہ انسانی ترقی کا انحصار دو امر پر ہے۔ اعمالِ بدن اور اعمالِ قلب پر (اعمالِ قلب سے مُراد فکر خیال عقیدہ ارادہ وغیرہ ہیں) ان دونوں کی اصلاح ضروری ہے اور یہ اصلاح بغیر اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے نہیں ہو سکتی (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتِعِیْنُ)(۱۴) پھر یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ملنے کی اور ان کی اصلاح کی خود خواہش رکھتا ہے صرف اس امر کی ضرورت ہے کہ بندہ اس کی طرف جھکے اور اس کی ملاقات کے لیے اسی سے التجا کرے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم)(۱۵) پھر یہ بتایا ہے کہ بظاہر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے بہت سے راستے نظر آتے ہیں لیکن صرف راستہ کا معلوم ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ (الف) وہ راستہ سب سے چھوٹا ہوتا انسان جدوجہد کے دوران میں ہی ہلاک نہ ہو جائے (صِرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ) (ب) وہ راستہ دیکھا بھالا ہو اور اس پر چل کر لوگوں نے خدا کو پایا ہو تاکہ درمیانی خطرات اور ان کے علاج کا بندہ کو پہلے سے علم ہو جائے تادل مطمئن رہے اور مایوسی پیدا نہ ہو اور اچھے ساتھیوں کی صحبت نصیب رہے پس ایسا راستہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا چاہیئے (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ)(۱۶) ترقیات کے ملنے کی صورت میں دل میں کبر اور خود پسندی کے خیالات پیدا ہو کر انسان کو تباہ کر دیتے ہیں پس ان سے بچتے رہنا چاہیئے۔ اور ترقیات کو ظلم اور فساد کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیئے بلکہ امن اور خدمت کا ذریعہ بنانا چاہیئے۔ اور اللہ تعالیٰ ہے اس غرض کے لئے دُعائیں کرتے رہنا چاہیئے (غَیْرِ الْمّغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ)(۱۷) جس طرح انسان ترقیات کو ظلم کا ذریعہ بنا لیتا ہے کبھی وہ ادنیٰ اشیاء کو رحم اور ناجائز محبت کی وجہ سے اونچا درجہ بھی دے دیتا ہے۔ اس سے بھی بچنا چاہیئے اور اس نیکی کے حُصول کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہنا چاہیئے (وَلَا الضّآلِّیْن)
۲؎ حل لغات
(باء) بسم اللہ کی ابتداء ہیں جو باء آوی ہے وہ حروف ہجاء کا حرف نہیں بلکہ بامعنی حرف ہے عربی زبان میں حروف سے ہجاء کا کام لینے کے علاوہ معنوں کا کام بھی لیا جاتا ہے اور بعض حروف ہجاء کی علامت ہونے کے علاوہ بعض معنے بھی دیتے ہیں۔ ان حروف میں سے باء بھی ہے۔ یہ حروف ہجاء کا دوسرا حرف بھی ہے اور بامعنی حرفوں میں سے بھی ہے اس کے معنی معیت اور استعانت کے ہیں اور اس کا لفظی ترجمہ سے اور ساتھ ہے مگر چونکہ ان لفظوں سے معنی واضح نہیں ہوتے اس لئے لیکر ترجمہ کیا گیا ہے جو دونوں معنوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پکڑتے ہوئے اور اس سے مدد مانگنے ہوئے میں یہ کلام پڑھنے لگا ہوں۔
باء حروف جارہ میں سے ہے یعنی جس اسم پر یہ حرف آتے ہیں اس کے آخری حرف پر زیریا زیر کی علامت آتی ہے۔ عربی قاعدہ کی رُوسے ان حروف سے پہلے اکثر ایک متعلق مخدوف ہوتا ہے جو عبارت کے مفہوم کے مطابق نکال لیا جاتا ہے۔ اس آیت سے پہلے اِقرأْ یا اِشرَعْ بعض نے محذوف نکالا ہے یعنی پڑھ یا شروع کر۔ اور اس کی وجہ سورۃ علق کی یہ آیت بیان کی ہے۔ اَقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّک الَّذِیْ خَلَق۔ پس جو لفظ وہاں بیان ۂوا ہے وہی یا اس کے ہم معنی لفظ یہاں نکالا جائے گا۔ زمخشری نے اِقْرَاْ یا اِشْرَعْ کی جگہ جو امر کے صیفے ہیں اِقْرَاْ یا اِشْرَعْ جو مضارع کے صیغے ہیں محذوف نکالے ہیں یعنی میں پڑھتا ہوں یا شروع کرتا ہوں۔ اور اس کی جگہ بِسْمِ اللّٰہ کے بعد تجویز کی ہے یعنی میں پڑھتا ہوں اللہ کا نام لیکر کی بجائے میں اللہ کا نام لے کر پڑھتا ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں اللہ کے نام پر زور پیدا ہوتا ہے لیکن اگر پڑھتا ہوں پہلے رکھا جائے تو پڑھتا ہوں پر زور آ جاتا ہے۔ زمخشری کے یہ معنی لطیف ہیں میں نے ترجمہ میں انہی معنوں کو اختیار کیا ہے۔ زمخشری نے سورۃ علق میں جو اِقْرأْ پہلے آتا ہے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس موقعہ پر اِقْرأْ پر زور دینا منظور تھا کیونکہ رسول کریم صلعم پڑھنے سے ہچکچاتے تھے (بخاری) لیکن بِسْمِ اللّٰہ میں پڑھنے پر زور دینا مقصود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پڑھنے پر زور دینا مقصود ہے۔ اس لئے اس جگہ پڑھنے کا لفظ بعد میں مخدوف قرار دینا زیادہ مناسب ہے۔ زمخشری کی یہ تشریح بھی نہایت لطیف ہے۔ اور میں نے جو بِسْمِ اللّٰہ کے دہرانے کے دلائل بیان کئے ہیں۔ ان کے بالکل مطابق آتی ہے۔
(اسم) بسمن باء اور اسم سے مرکب ہے اسم کا ہمزہ گر کر بسم ہو گیا۔ عربی زبان میں بعض ہمارے بولے نہیں جاتے انہیں وصلی ہمزے کہتے ہیں۔ لیکن بسم اللہ میں ہمزہ لکھا بھی نہیں گیا۔ اس کی وجہ علمائِ صرف ونحو کثرت استعمال بتاتے ہیں۔ نسائی اور اخفش کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں سے پہلے جہاں بھی اسم کا لفظ آئے گا اس کا ہمزہ لکھا نہیں جائے گا لیکن فراّء کا خیال ہے کہ اس جگہ حذف چونکہ نقلاً ثابت ہے۔ ہم بسم اللہ میں تو حذف کر دیں گے۔ لیکن دوسرے صفات آلٰہیہ سے پہلے چونکہ ایسا کرنا نقلاً ثابت نہیں۔ ہم اس کے ہمزہ کو لکھنے میں ترک نہیں کریں گے (بحر محیط ۱۶؎)
اسم کے معنی صفت یا نام کے ہوتے ہیں (قاموس) اور یہ اس مر سے نہیں بلکہ وس م یا س م و سے بنا ہے وائو الف سے بدل گئی ہے جنہوں نے اسے وس م سے بنا ۂو اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی نشان اور علامت کے قرار رویئے کیونکہ وسم کے معنی نشان اور علامت کے ہوتے ہیں مگر جنہوں نے اسے س م و سے بنا ہوا اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی اونچا ہونے کے کئے ہیں۔ (اقرب)
(اللّٰہ)اللہ اس ذات پاک کا نام ہے جو ازلی ابدی اور الحی القیوم ہے او رمالک اور خالق اور رب سب مخلوق کا ہے اور اسم ذاتی ہے نہ کہ اسم صفاتی۔ عربی زبان کے سوا کسی اور زبان میں اس خالق و مالک کل کا کوئی ذاتی نام نہیں پایا جاتا۔ صرف عربی میں اللہ ایک ذاتی نام ہے جو صرف ایک ہی ہستی کے لوے بولا جاتا ہے اور بطور نام کے بولا جاتا ہے۔ اللہ کا لفظ بھی اسم جامد ہے مشتق نہیں۔ نہ یہ اور کسی لفظ سے بنا ہے اور نہ اس سے کوئی اور لفظ بنا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لاۃ یلینہ سے مشتق ہے جس کے معنی تستّر علو اور ارتفاع کے ہیں (اقرب) لیکن یہ درست نہیں بعض لوگ کہتے ہیں اللہ لاہ یلوہ سے نکلا ہے جس کے معنی چمکنے کے ہیں اور لاہ اللہ الخلق کے معنی ہیں۔ اللہ نے مخلوق پیدا کی۔ لیکن لسان العرب میں لکھا ہے کہ یہ معنی غیر معروف ہیں۔ پس یہ قیاس کہ یہ لاہَ یلُوہُ سے نکلا ہے بالکل غلط ہے۔ بعض لوگ اسے غیر زبان کا لفظ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سریانی کے لفظ لاھا سے نکلا ہے لیکن یہ بھی بالکل غلط ہے بلکہ سریانی زبان سے ناواقفیت کے نتیجہ میں ہے چنانچہ یورپین محققین کی رائے ہے کہ عربی کا لفظ الٰہ ابتدائی مادہ سے زیادہ قریب ہے۔ جرمن عالم NOLDEKEلکھتا ہے کہ عربی کا الٰہ اور عبرانی کے ایل پرانے زمانہ سے پہلو بہ پہلو چلے آتے ہیں اور عبرانی زبان جب عربی سے علیحدہ ہوئی ہے اس سے بھی پہلے سے یہ لفظ سامی زبانو ںمیں استعمال ہوتا تھا (انسائیکلو پیڈیا ببلیکا جلد ۳ زیر عنوان نیمز یعنی اسماء کی بحث)
(الرحمٰن) رحم سے ہے اور فَعْلان کے وزن پر ہے۔ اس وزن کے الفاظ امتلاء اور غلبہ پر دلالت کرتے ہیں (بحرِ محیط ۲۷؎) پس رحمن کے معنی یہ ہوئے کہ وسیع رحم کا مالک جو ہر اک پر حاوی ہے اور یہ رحم وہی ہو سکتا ہے جو بلا مبادلہ اور بغیر کسی استحقاق کے ہو کیونکہ ہر شخص حق کے طو رپر رحم کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
(اَلْرَّحِیْم) بھی رحم سے نکلا ہے اور فیصل کے وزن پر ہے جس کے معنوں میں تکرار اور استحقاق کے مطابق سلوک کا مفہوم پایا جاتا ہے (بحر محیط ۱۷؎) پس اس کے معنی ہوئے جو رحم کے حقدار کو اس کے کام کی اچھی جزاء دیتا ہے اور بار بار اس پر رحم نازل کرتا جاتا ہے۔
علم صرف کے زبردست امام ابو علی فارسی کہتے ہیں۔ اَلّْرَحْمٰنِ اِسْمٌ عَامٌ فِیْ جَمِیْعِ اَنْوُاعِ الہَّحْمَۃِ یَخْتَصُّ بِہٖ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَالْرَّحِیِمُ اِنّما ھُوَ فِی جِہَۃ الْمُؤمِنینَ وَ قَالَ تَعَالیٰ کَانَ بِالموُمِنینَ رَحیماً (فتح البیان ۲۵؎) یعنی الرحمٰن اسم عام ہے او رہر قسم کی رحمتوں پر مشتمل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مخصوص ہے اور الرّحیم مومنوں کی ذات سے تعلّق رکھتا ہے یعنی الرحیم کی رحمت نیکو کاروں سے مخصوص ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم کی آیت وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیْماً ہے۔ (احز اب ع۶)
ابن مسعودؓ اور ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے کہ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلرَّحْمٰنُ رَحْمٰنُ الدُّنْیا۔ وَالْرَّحیمُ۔ رَحِیْمُ الاٰخِرَۃِ (محیط ۱۷؎) رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ رحمن دُنیا کی رحمتوں پر نظر رکھتے ہوئے ہے اور الرحیم کا نام آخرت کی رحمتوں پر نظر کرتے ہوئے ہے۔ اس سے بھی معلوم ۂوا کہ رحمن کے معنے بلا مبادلہ اور بغیر استحقاق رحم کے ہیں کیونکہ اس قسم کا رحم زیادہ تر اس دُنیا میں جاری ہے اور رحیم کے معنی نیک کاموں کے اعلیٰ بدلہ کے ہیں کیونکہ آخرت مقام جزا ہے۔
تفسیر
قرآن کریم کی سب سورتیں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے شروع ہوتی ہیں۔ سوائے سورۃ برائۃ کے مگر اس کے بارہ میں زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ وہ الگ سورۃ نہیں بلکہ سورۃ انفال کا تتمہ ہے اور اس لئے اس میں الگ بسم اللّٰہ نہیں لکھی گئی۔ چنانچہ ابو دائود میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ان رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَایَعْرِفُ فَصْلَ السُّورَۃِ حَتَّیٰ یَنْزِلُ عَلَیْہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (ابو دائود کتاب الصّلوٰۃ باب مَنْ جَہُہ بِبِسمِ اللّٰہِ) یعنی جب ایک سورۃ کے بعد دوسری سورۃ نازل ہوتی تھی تو پہلے بسم اللہ نازل ۂوا کرتی تھی اور بسم اللہ کے بغیر رسول کریم صلعم کسی وحی کو دوسری سورۃ قرار نہیں دیا کرتے تھے۔ حاکم نے مستدرک میں بھی یہ روایت بیان کی ہے۔ (ابن کثیر) اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ہر نئی سورۃ سے پہلے بسم اللہ نازل وہتی تھی او رپہلی سورۃ کا اختتام ہی تب سمجھا جاتا تھا۔ جب بسم اللہ کے نزول سے دوسری سورۃ کے ابتداء کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ پس جبکہ بَرَاء ۃ سے پہلے بسم اللہ نازل نہیں ہوئی یا یُوں کہو کہ انفعال کے بعد بسم اللہ نازل ہو بَرَاء ۃکی آیات نازل نہیں ہوئیں تو یقینا وہ الگ سورۃ نہیں ہے بلکہ انفال کا حصّہ ہی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ تمام سورتوں سے پہلے جو بسم اللہ درج ہے وہ وحی الٰہی سے ہے اور قرآن کریم کا حصّہ ہے زائد نہیں۔
بسم اللہ کے متعلق بعض علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ہر سورۃ کا حصہ بسم اللہ نہیں بلکہ صرف سورۃ فاتحہ کا حصّہ بسم اللہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ کسی سورۃ کا حصّہ بھی بسم اللہ نہیں ہے لیکن یہ خیال درست نہیں۔ اوّل تو مذکور بالا حدیث ہی اس خیال کو ردّ کرتی ہے دوسرے بہت سی اور احادیث ہیں جن میں بسم اللہ کو رسول کریم صلعم نے سورتوں کا جزو قرار دیا ہے۔ مثلاً سورۃ فاتحہ کا حصّہ ہونے کے متعلق دارقطنی نے مرفوعاً ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیہ وَسَلّم اِذَا قَرَأْ تُمْ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاقْرَؤُا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِنَّہام اُمُّ القُرْانِ و اُمُّ الْکِتَاب وَالسَّبْعُ المَثَانِی وَ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم احدٰی آیہا (دار قطنی جلد اوّل باب و جوب قراء ۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصّلوٰۃ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم الحمدللہ پڑھو تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرو کیونکہ سورۃ فاتحہ امّ القرآن ہے اور امّ الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ میں بھی یہ روایت نقل کی ہے (مرفوع بھی اور موقوف بھی) (فتح البیان جلد اوّل)
اس حدیث میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دوسری سورتوں کا بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم حصّہ ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلعم نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے بلکہ اس کے حصّہ ہونے کی دلیل دی ہے اور وہ یہ کہ چونکہ یہ اُمّ الکتاب او رامّ القرآن ہے اس لیے بسم اللہ اس کے ساتھ ضرور پڑھنی چاہیئے اور یہ دلیل اسی صورت میں ٹھیک ہوتی ہے جب یہ آیت باقی سورتوں کا بھی حصّہ ہو اور دلیل بالاولیٰ کے طور پر کہا گیا ہو کہ جب باقی سورتوں کا بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ ہے۔ تو تم سمجھ سکتے ہو کہ سورۃ فاتحہ جو اُمّ الکتاب اور اُمّ القرآن ہے اس کا حصّہ بھی ضرور ہو گی پس اس کی تلاوت سے پہلے اس آیت کو ضرور پڑھا کرو۔
اس استدلال کے علاہو اور دلائل بھی اس بارہ میں ہیں مثلاً مسلم کی روایت ہے عن انس قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیہ وَسَلّم اُنْزِلَتْ عَلَیَّ سُورَۃٌ آنفَّا فَقَرَأْ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم انا اعطیناک الکوثر (مسلم باب حجتہ مَنْ قَالَ البسْمِلَۃُ اٰیۃٌ مِنْ اوّلِ کلِّ سورۃٍ) یعنی انسؓ کہتے ہیںکہ رسول کریم صلعم نے ایک دفعہ فرمایا کہ مجھ پر ابھی ایک سورۃ اُتری ہے جو یہ ہے بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم انا اعطیناک الکوثرپس آپؐ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سورزہ کوثر کا حصہ قرار دیا ہے بعض اور سورتوں کے متعلق بھی ایسی روایات ہیں۔
اس روایت پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے او رانسؓ انصاری ہیں جو ہجرت کے وقت آٹھ نو سال کے بچے تھے۔ حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آپؐ نے یہ بات سوزہ کے نازل ہوتے ہی فرمائی تھی پھر انسؓ نے اس کو کیونکر سن لیا۔ اگر دوسرے دلائل اس قول کی تائید میں نہ ہوتے تو یہ اعتراض یقینا اس حدیث کو ضعیف بنا دیتا لیکن دوسرے دلائل کی موجودگی میں اس اعتراض کو زیادہ وقعت حاصل نہیں کیونکہ صحابہ بعض دفعہ دوسرے صحابہ سے سن کر بھی روایات بیان کر دیتے تھے اور یہ امر مسلم ہے کہ جب کوئی روایت رسول کریم صلعم کی طرف کوئی صحابی منسوب کرے تو وہ بہرحال درست ہے کیونکہ کسی صحابی پر جھوٹ کا الزام ثابت نہیں ہوتا۔ اگر انسؓ نے رسول کریم صلعم کی طرف یہ قول منسوب فرمایا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپؐ نے کسی مہاجر صاحب سے یہ روایت سنی ہے اور جب صحابی تک روایت پہنچ گئی تو اس کے سچا ہونے میں شبہ نہ رہا۔
احناف کے متعلق جو بعض لوگ یہ خیال کرتے کہ وہ بسم اللہ کو گویا قرآن کریم کا حصہ نہیں سمجھتے یہ غلط ہے امام ابو حنیفہؓ کا یہ مذہب نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ آیت مستقل آیت ہے اور سورۃ کا حصہ نہیں۔ امام ابوبکر رازی جو حنفیوں کے آئمہ سے ہیں اپنی کتاب احکام القرآن جزء اوّل میں لکھتے ہیں۔ وَلَمَّا ثَبَتَ اَنَّہاَ لَیْسَتْ مِنْ اَوَائِلِ السُّوَرِواَنْ کَانَتْ آیۃً فِی مَوْضِعِہَا عَلَی وَجْہِ الْفصَلِ بَیْنَ السُّوْرتَیْنِ اُمِرْنَا بِالْاِبتِدَائِ بِہَا تَبَرّکاً۔ ترجمہ۔ اس وجہ سے کہ یہ ثابت ہو گیا ہیں کہ یہ آیت کسی سورۃ کا حصہ نہیں گو دو سورتوں کا فاصلہ بتانے کے لئے ایک مستقل آیت کے طور پر اُتاری گئی ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ نماز شروع کرنے کا حکم بطور تبرک کے دیا گیا ہے۔ پس یہ محض ناواقفوں کا خیال ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو احناف قرآن کا حصہ نہیں قرار دیتے بیشک وہ اسے کسی سورۃ کا حصہ نہیں قرار دیتے۔ لیکن قرآن کریم کا حصہ ضرور قرار دیتے ہیں۔ گو میرے نزدیک ان کا یہ عقیدہ بھی درست نہیں اور حق یہی ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورۃ کا حصہ ہے اور جیسا کہ آگے بیان ہو گا۔ ہر سورۃ کے پہلے اس کے رکھنے میں بہت سی حکمتیں ہیں۔
بسم اللّٰہ کی فضیلت
بسم اللہ کی فضیلت پر رسول کریم صلعم نے خاص زور دیا ہے آپؐ فرماتے ہیں کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَایُبْدَأُ فِیہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَقُطَعُ (اربعین حافظ عبدالقادر عن ابی ھریرۃ بحوالہ الدر رالمنشور) یعنی جس بڑے کام کو بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلعم نے یہ سنت قائم کی ہے کہ مسلمان اپنے سب کاموں کو بسم اللہ سے شروع کیا کریں۔ چنانچہ ایک حدیث ہے۔ أغْلُقْ بَابَک وَ اْ ذکُر اسْمَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَاَنَّ الشَّیْطٰنَ لاَیَفْتَحْ بَابَا مُغْلَقًا وَاْ طِفیْٔ مِصْبَا حَکَ وَاْ ذکُرْ اِسْمَ اللّٰہِ وَخَمِّرْ اِنَائَ کَ وَلَوْ بِعُوْدٍ تعرضہ و اذکُرْ اسمَ اللّٰہِ وَاوکِ سِقائَ کَ وَا ذَکُرْ اسْمَ اللّٰہِ عُزَّوَجَلّ (مسند احمد بن حنبل جلد ثالث صفحہ ۳۱۹) یعنی اپنا دروازہ بند کرتے ہوئے بھی بسم اللہ کہہ لیا کرو اور چراغ بجھاتے ہوئے بھی۔ اور برتن کو ڈہانکتے ہوئے بھی۔ او راپنی مشک کا مُنہ باندھتے ہوئے بھی۔ اسی طرح بیوی کے پاس جاتے ہوئے۔ وضو کرتے ہوئے کھانا کھاتے ہوئے۔ پاخانے میں داخل ہونے سے پہلے۔ لباس پہنتے ہوئے بسم اللہ کا کہنا دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے ایک خط کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے بھی اپنا خط بسم اللہ سے شروع کیا تھا۔ چنانچہ آتا ہے اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ وَ اِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (نمل ع ۲) یعنی یہ خط سلیمان کی طرف سے ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت نوحؒ کا ٍکر کر کے بھی قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے کشتی میں چڑھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ ازُ کَبُوْا فِیْہَا بِسْمِ اللّٰہِ مَحْرٖر مَا وَ مُرْسٰہَا (ہود ع ۴؍۴)
ہر سورۃ کے پہلے بِسْمِ اللّٰہ اس لئے رکھی گئی ہے کہ قرآن کریم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک خزانہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں کھولا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَایَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعہ ع ۳) سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ اس امر کے لئے چُن لے۔ دوسرے لوگ قرآنی اسرار کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح فرماتا ہے یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا (بقرہ ع ۳) قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ بعض کے لئے ہدایت کا موجوب اور بعض کے لئے گمراہی کا موجب بنا دیا ہے گویا لفظ اور عبادت تو سب کے لئے ایک ہے مگر اثر جُدا جُدا رنگ کا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اچھے اثر کو حاصل کرنے اور بُرے سے بچنے کے لئے اور اس کے اسرار کو سمجھنے کے لئے کیا ذریعہ اختیار کرنا چاہیئے سو اس کا جواب اِذَا اقَرَأتَ الْقُرْآنَ فَا سْتَعِذْ بِاللّٰہِ (نحل ع ۱۸) کے حکم سے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورۃ کے پہلے رکھ کر دیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم پڑھنے سے پہلے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سے شیطان کے حملہ سے بچنے کے لئے دُعا کر لیا کرو۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کا واسطہ دیکر اس کی مدد حاصل کر لیا کرو اس طرح گمراہی سے بچ جائو گے اور ہدایت حاصل ہو گی۔
دوسری وجہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ہر سورۃ کے پہلے رکھنے کی یہ ہے کہ بائبل میں لکھا تھا۔ کہ آخری زمانہ میں جو موسیٰ کا ایک مثیل آنے والا ہے۔ اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہو گا کہ ’’جو کوئی میری باتو ںکو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لونگا‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹) اس پیشگوئی کے مطابق مثیل موسیٰ کے لئے مقدر تھا کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی باتیں کرے اس سے پہلے کہہ لے کہ میں یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے نام پر کہہ رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں ۔ پس ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ رکھی جاتی۔ تاکہ ایک طرف تو موسیٰ کی پیشگوئی پوری ہو اور دوسری طرف یہود اور نصاریٰ کو تنبیہہ ہوتی رہے کہ اگر وہ اس کلام کو نہ سنیں گے تو موسیٰ علیہ السلام کے الہام کے مطابق اللہ تعالیٰ کی سزا کے مورد بنیں گے۔
تیسری وجہ اس آیت کو ہر سورۃ کے شروع میں رکھنے کی یہ ہے کہ بائبل میں لکھا تھا’’وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰) اس آیت میں بتایا گیا ہے جو شخص خدا تعالیٰ کا نام لے کر کوئی جھوٹی بات کہے گا اسے اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے گا۔ پس اس حکم کے مطابق قرآن کریم کی ہر سورۃ کی ابتداء میں بسم اللہ رکھی گئی تاکہ یہود و نصاریٰ پر خصوصاً اور باقی دُنیا پر عموماً حجت ہو اور اس حُکم کی موجودگی میں رسول کریم صلعم کی کامیابی اور ترقی کو دیکھ کر مرحق کا مثلاشی یہ سمجھ لے کہ آپؐ نے جو کچھ کہا خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا۔ اگر ایسا نہ ہوتو جب خدا تعالیٰ کا نام لے کر آپؐ نے اس کلام کو پیش کیا تھا کیوں آپؐ ہلاک نہ ہوتے۔ پس بسم اللہ یہود پر خصوصاً حجت ہے ہر سورۃ کے پہلے بسم اللہ رکھ کر گویا ایک سو چودہ دفعہ یہود کو ملزم بنایا گیا ہے اور محمدؐ رسول اللہ صلعم کی صداقت کی ایک سو چودہ دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔ اگر صرف قرآن کریم کے شروع میں یہ آیت ہوتی تو یہ بات حاصل نہ ہو سکتی تھی۔
چوتھی وجہ اس آیت کو ہر سورۃ کے شروع میں رکھنے کی یہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھنے والا تین حال سے خالی نہیں یا تو وہ تہی دست اور بے سرمایہ ہو گا یا گناہوں کے ارتکاب سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو بھڑکا چکا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے کا کوئی طبعی ذریعہ اس کے پاس نہ ہو گا یا پھر وہ دین کی راہ میں قربانی کرنے والا ہو گا۔ یہ ظاہر ہے کہ ان تینوں قسم کے لوگوںکی قلبی کیفیت الگ الگ ہو گی۔ پہلی قسم کا انسان حیران دوسری قسم کا مایوس اور تیسری قسم کا مغرور ہو سکتاہے۔ پہلی قسم کا انسان اس حیرانی میں مبتلا ہو گا کہ میں کہاں سے صداقت تلاش کروں۔ دوسری قسم کا انسان اس غم میں گھلا جا رہا ہو گا کہ میں کس منہ سے مانگوں۔ اور تیسری قسم کا اس اثر کے نیچے ہو گا کہ جو کچھ حاصل ہو سکتا تھا مجھے حاصل ہو گیا۔ دل کی ان تینوں کیفیتوں کے ماتحت انسان نفع حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ پس ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم رکھا گیا۔ تا جو تہی دست ہے اسے راستہ بتایا جائے کہ تہی دستوں کی مدد کرنے والا ایک خدا موجود ہے جو بغیر استحقاق کے فضل کرتا ہے اور جو نافرمانی کر کے اپنا حق کھو چکا ہے اسے توجہ دلائی جائے کہ مایوس نہ ہو۔ جس خدا نے یہ سورۃ اُتاری ہے وہ گناہوں کو بخشنے پر بھی آمادہ رہتا ہے اور جو قربانی کی وجہ سے مغرور ہو رہا ہو اسے توجہ دلائی جائے کہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے خزانے غیر محدود ہیں۔ پس کسی ایک جگہ پر قدم نہ روک کہ ابھی غیر متناہی ترقیات باقی ہیں۔ ظاہر ہے کہ دل کی اس قسم کی اصلاح کے بغیر قرآنی مطالب جس طرح کھل سکتے ہیں اس کے بغیر نہیں کھل سکتے۔ پس ہر سورۃ سے پہلے اس آیت کو رکھ کر قرآنی مطالب کے اظہار کا ایک زبردست ذریعہ مہیا کیا گیا ہے۔
پانچویں وجہ اس آیت کو ہر سورۃ سے پہلے رکھنے کی یہ ہے کہ یہ ہر سورۃ کے لیے کنجی کا کام دیتی ہے تمام دینی اور رُوحانی مسائل رَحْمٰن اور رَحِیْم دو صفات کے گرد چکر کھاتے ہیں۔ چونکہ غلط دو طرح دور ہوتی ہے کبھی تفصیل سے اور کبھی اجمال سے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر سورۃ کے شروع میں بسم اللہ رکھ دی تاکہ سورۃ کے مطالب میں جو اشتباہ پیدا ہوا سے پڑھنے والا بسم اللہ سے دُور کر لے یعنی جو مطلب وہ سمجھاتا ہے اگر رحمن اوررحیم کے مطابق ہو تو اسے درست سمجھے اور اگر اس کے خلاف ہو تو اسے غلط قرار دے۔ اس طرح بسم اللہ کی شارح سورۃ ہو جاتی ہے اور سورۃ کی مفسر بسم اللہ اور دونو ںکی مدد سے صحیح مفہوم پڑھنے والے کے ذہن نشین ہو جاتا ہے۔
بسم اللہ کی پہلی کتاب میں
بعض معترضین کہتے ہیں کہ بسم اللہ جس پر تم کو اس قدر ناز ہے پہلی کتب میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً زر شتی کتب میں بھی لکھا کہ بنام یزدان بخشائش گردا دار بعد کی فارسی میں اس کا اس طرح ترجمہ کیا ہے۔ بنام خداوند بخشا یندہ بخشائش گر (تفسیر ریورنڈوھیری) یا یہ کہ یہود میں بھی بسم اللہ کا رواج تھا۔ ان سے یکھ کر عربوں میں رائج ہوا اور پہلے پہل طائف کے امیر نے اس کا رواج دیا (راڈول ترجمہ قرآن) راڈول کا جواب تو یہ ہے کہ یہ قطعاً غلط ہے کہ عربوں میں اس صورت میں بسم اللہ کا رواج تھا عرب تو الرَّحْمٰن کے کثرت استعمال کو پسند ہی نہ کرتے تھے بہرحال اس کا کوئی تاریخی ثبوت چاہیئے کہ ان میں بسم اللہ اس شکل میں رائج تھی مگر ایسا ثبوت ہر گز موجود نہیں۔ باقی رہا کہ یہود میں بھی اس کا رواج تھا اگر اس سے یہ مراد ہے کہ زمانہ نبوی یا قریب زمانہ میں یہود کی قوم اس عبارت کو استعمال کیا کرتی تھی یا ان کی تاریخ میں اس کا ثبوت ملتا ہے تو یہ بالکل خلاف واقعہ ہے اور اگر یہ مراد ہے کہ خود قرآن کریم میں ہی لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اس آیت کو اپنے خط میں استعمال کیا تو یہ اول درجہ کی بددیانتی ہے کہ قرآن کریم کے حوالہ کو دوسروں کی طرف منسوب کر کے قرآن کریم پر اعتراض کا ذریعہ بنایا جائے۔ جب خود قرآن کریم حضرت سلیم علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ انہوں نے ملکہ سباء کو جو خط لکھا تھا اس میں یہ عبارت بھی تھی کہ اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (سورۃ نمل ع ۲) تو پھر یہ کہنا کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس سے پہلے اس آیت کا مضمون دُنیا میں رائج نہ تھا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ اسلام کا یہ دعویٰ نہیں کہ اس آیت کا مضمون نیا ہے۔ اللہ۔ رحمن۔ رحیم یہ سب ہی لفظ پہلے موجود تھے اور استعمال ہوتے تھے۔ اسلام کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اس کا وہ استعمال جو قرآن کریم میں ہوا ہے اس سے پہلے موجود نہیں۔ اگر کوئی دشمن اسلام اس کا ثبوت پیش کرے تو بیشک اس کی بات قابل توجہ ہو سکتی ہے مگر یہ ناممکن ہے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے کوئی بھی ایسی کتاب نہیں جس کی نسبت دعویٰ کیا گیا ہو کہ اس کا ہر ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس کوئی آسمانی کتاب نہیں جس کے ہر ٹکڑے سے پہلے یہ عبارت درج کی جا سکے سوائے قرآن کریم کے۔ بارقی رہا تبرک کے طو رپر اللہ اور اس کی صفات کا ذکر اپنے خطوں یا مضمونوں سے پہلے کرنا۔ سو یہ عام بات ہے۔ اس کا نہ اسلام کو انکار ہے نہ مسلمانو ںکو۔ اس امر میں اگر دوسرے لوگ مسلمانوں کے شریک ہوں توہزار دفعہ ہوں۔
باقی رہا ریورنڈوھیری کا اعتراض۔ سو اس کا بھی ایک جواب اوپر آ چکا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دونوں عبارتوں کے معنوں میں اس قدر فرق ہے کہ وہی ان کو ہم معنی قرار دے سکتا ہے جو عربی زبان سے ناواقف ہو۔ بخشائش گر اور دادار کا مفہوم رحمن اور رحیم کے مفہوم کا بیسواں حصہ بھی تو نہیں۔ (جیسا کہ اس سورۃ کے متعلق تفسیری نوٹوں سے معلوم ہو جائے گا) لیکن جس حد تک اس میں خوبی ہے اس کا ہمیں انکار نہیں۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ پہلی سب قوموں میں نبی گذرے ہیں اور آیت وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَا فَیْہَا لَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) اس پر شاہد ہے پھر اگر کوئی اچھا فقرہ زرد شتیوں کی کتب میں موجود ہو۔ تو مسلمانوں کو کیوں بُرا لگنے لگا۔ بُرا تو ریورنڈوھیری یا ان کے ہم مذہب لوگوں کو لگے گا۔ جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور بنو اسرائیل کی قوم سے باہر نبوت او رالہام کا نشان انہیں کہیں نہیں ملتا۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے زردشت خدا کا پیغامبر ہے اور ہمارے لئے واجب صدا احترام۔ اس کے کلام کا منبع قرآن کا منبع ہے۔ پس ان دونوں میں اشتراک یا موافقت کونسا قابلِ تعجب امر ہے۔
پہلے حل لغات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ کے لفظ کے بارہ میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسم مشتق ہے مگر جیسا کہ وہاں پر ثابت کیا جاچکا ہے یہ سب خیال غلط ہیں اور ائمہ نحوان کو ردّ کرتے ہیں چنانچہ سیبویہ اور خلیل دونوں کا خیال ہے کہ اللہ علم ہے اور کسی دوسرے لفظ سے مشتق بھی نہیں ہے (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ ۱۵۶ المطبعۃ المصریہ اور صفحہ ۸۵ طبع قدیم) اس کے دلائل مختلف علماء نے یہ دیئے ہیں کہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے لئے مستعمل نہیں ہے حتیّٰ کہ عرب کے مشرک بھی اور کسی معبود کے لئے یہ لفظ نہیں بولتے تھے۔ اگر ال اور الٰہ یا ال اور لٰہ سے یہ لفظ بنا ہوتا تو جس طرح یہ لفظ اوروں کے لئے بولے جاتے ہیں۔ اللہ کا لفظ بھی بولا جاتا مگر عرب ایسا ہر گز نہ کرتے تھے (۲) صفات الہٰیہ ہمیشہ اللہ کے لئے بطور صفت کے استعمال ہوتی ہیں لیکن اللہ کا لفظ اور کسی اسم کے لئے بطور صفت استعمال نہیں کیا جاتا اور یہی اصل علامت علم کی ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ سورۃ اربراہیم میں ہے اَلْعِزِیْز الْحَمِیْدِ اللّٰہِ (ابراہیم ع ۱) اس میں اللہ بطور صفت استعمال ہوا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ اس میں صفت کے طور پر نہیں بلکہ عطف بیان کے طور پر ساتعمال ہوا ہے او راس موقعہ پر علم کا استعمال جائز ہے۔ جیسے کہتے ہیں ھٰذِہِ الدَّارُ مِلْکٌ لِلْعَالِمِ الْفَاضِلِ زَیْدٍ۔ ایسے موقعہ پر علم کا استعمال اشتباہ کے دُور کرنے کے لئے ہوتا ہے اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ عزیر اور حمید سے مراد ہماری اللہ ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ ھُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (انعام ع ۱) سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ علم نہیں بلکہ صفاتی نام ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی نام اپنی صفات کے ساتھ مشہور ہو جاتا ہے تو وہ بھی صفاتی رنگ میں استعمال ہونے لگتا ہے جیسے حاتم۔ رستم کہ ہیں توخاص اشخاص کے نام۔ لیکن ایک سخاوت اور دوسرا بہادری کے لئے مشہور ہو گیا ہے اور اب حاتم کو سخی کی جگہ اور رستم کو بہادر کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً فلاں شخص رستم ہے فلاں حاتم ہے۔ اسی طرح اللہ کا لفظ چونکہ اپنی صفات کے ساتھ ایک کامل ہستی پر دلالت کرنے لگ گیا اس لئے یُوں کہنا جائز ہو گیا کہ آسمان میں وہی اللہ ہے یعنی تمام صفات میں کامل ذات جس کا نام اللہ ہے ایک ہی ہے اور دوسرا کوئی اس کے نام میں شریک نہیں اور نہ کام ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لفظ فَعَّال کے وزن پر ہے پس اس پر تنوین آنی چاہیئے لیکن استعمال میں تنوین نہیں آئی پس معلوم ہوا کہ ال اس کے اصلی حروف سے نہیں بلکہ ال تعریف کا ہے پس یہ لفظ مرکب ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قاعدہ میں استثناء ہو ہوتے ہیں۔ اللہ کے لفظ پر تنوین کا نہ آنا بھی ایک استثناء ہوتے ہیں۔ اللہ کے لفظ پر تنوین کا نہ آنا بھی ایک استثناء کی صورت ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ال پر اگر ندی کا حرف آئے تو اس کے بعد ایہا کا لفظ بڑھایا جاتا ہے۔ مثلاً اگر النّاس کو بلانا ہو تو کہیں گے یا یّہا الناس لیکن یا ایہا اللّٰہ نہیں کہا جاتا جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اللّٰہ کا ال اصلی ہے ال تعریف کا نہیں ہے۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ چونکہ اللہ کے لفظ کا ہمزہ وصلی ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ اصلی ہمزہ نہیں بلکہ زائد ہے اسی طرح جب اللہ پر لام آتا ہے یعنی لِللّٰہ کہتے ہیں۔ تو الف گر جاتا ہے یہ بھی ثبوت ہے کہ یہ اصلی ہمزہ نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمزہ کا گر جانا زائد ہمزہ کی علامت نہیں۔ اسم اور ابن کے ہمزے زائد نہیں ہیں بلکہ دوسرے حرف کے قائم مقام ہیں اور یہ بھی گر جاتے ہیں۔ چنانچہ بسم اللہ میں اسم کا ہمزہ گر گیا ہے حالانکہ وہ ہمزہ زائد نہیں بلکہ تبدیل شدہ ہے پس معلوم ہوا کہ ہمزہ کا وصلی ہونا یا گر جانا اس کے زائد ہونے کا ثبوت نہیں۔
غرض اللہ کے لفظ کا استعمال اسلام اور اسلام سے پہلے دونوں ہی زمانہ میں اس کے علم اور غیر مشتق ہونے پر دلالت کرتا ہے او رجو دلائل اس کی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس کے مشتق ہونے کے دیئے گئے ہیں وہ درست نہیں ہیں بلکہ دوسری مثالوں سے ان کی غلطی ثابت ہے۔
بسم اللہ میں اسم کی زیادتی
ایک اور سوال اس جگہ پیدا ہوتا ہے کہ کہنا تو یہ چاہیئے تھا کہ اللہ کی مدد مانگتے ہوئے قرآن کریم پڑھتا ہوں او رکہا یہ گیا ہے کہ اللہ کے نام کی مدد سے پڑھتا ہوں۔ نام کا لفظ کیوں زیادہ کیا گیا ہے اس کے مفصلہ ذیل جواب ہیں۔
(۱) باء استعانت کے علاوہ قسم کے لئے بھی آتی ہے اگر خالی یاللّٰہ ہوتا تو شُبہ ہو سکتا تھا کہ شائد قسم کھائی گئی ہے پس اس شبہ کے ازالہ کے لئے اسم کا لفظ بڑھایا گیا (۲) اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی ہے اور صفات ہی سے وہ پہچانا جاتا ہے۔ اس لئے اسم کا لفظ بڑھایا گیا۔ الرَّحْمٰن الرّحِیْم کے ذکر سے مُراد بھی یہی ہے کہ میں خدا تعالیٰ سے اس کی رحمانیت اور رحیمیت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتا ہوں (۳) یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں بھی برکت ہے اور ان کی طرف انسان کو توجہ رکھی چاہیئے (۴) قرآن کریم ایک بند خزانہ ہے اور جب کوئی کسی ایسے مکان میں جس میں داخلہ بلا اجازت ممنوع ہو داخل ہوتا ہے تو اس کے محافظوں کو … کو مالک کا حکم یا اجازت دکھاتا ہے یا اس کا ذکر کرتا ہے چنانچہ پولیس جب کسی کے گھر میں داخل ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ حکومت کے نام پر ہم داخل ہو رہے یا فلاں مال پر قبضہ کرتے ہیں پس اس جگہ نام کا لفظ بڑھا کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو شخص بسم اللہ پڑھ کر قرآن کریم پڑھتا ہے وہ گویا قرآن کریم کی خدمت پر مامور فرشتوں سے کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خود اس سورۃ کے پڑھنے کا حکم دیا ہے پس میرے لئے اس کے مطالب کے دروازے کھول دو اور وہ اختصاراً اس مضمون کو یُوں ادا کرتا ہے کہ اللّٰہ رحمٰن رحیم کے نام پر اس خزانہ کے کھولے جانے کی میں درحواست کرتا ہوں ظاہر ہے کہ جو اس طرح خدا تعالیٰ کے اذن سے قرآن کریم کی طرف متوجہ ہو گا۔ اس کے علوم سے حصہ پائے گا۔ لیکن جو اس کے اذن اور اس کے نام سے توجہ نہیں کرے گا بلکہ شرارت اور بعض سے توجہ کرے گا اس کے لئے اس کے خزانے نہیں کھولے جائینگے۔
پانچویں اور چھٹی حکمت اس کی ان دو پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کرنا ہے جو استثناء باب ۱۸۔ اور آیت ۲۰ میں مذکو رہیں او رجن کا ذکر میں اس سوال کی بحث میں کر آیا ہوں کہ ہر سورۃ کے شروع میں بسم اللہ کیوں دہرائی گئی ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ ان پیشگوئیوں میں لکھا تھا کہ وہ خدا کا نام لیکر کلام الٰہی سنائے گا پس ان پیشگوئیوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ضروری تھا کہ اسم کا لفظ اس جگہ بڑھایا جاتا۔
۳؎ حل لغات
اَلْحَمْدُ۔ حمد کے معنی تعریف کے ہیں۔ عربی میں تعریف کے لئے کئی الفاظ آتے ہیں۔ حمد۔ مدح شکر۔ ثناء۔ اللہ تعالیٰ نے حمد کا لف؍ چنا ہے جو بلاوجہ نہیں۔ شکر کے معنی احسان کے اقرار اور اس پر قدردانی کے اظہار کے ہوتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو صرف قدردانی کے معنی ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ حمد اس سے زیادہ مکمل لفظ ہے کیونکہ حمد صرف احسان کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شے کے حسن کے احساس کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شے کے حسن کے احساس اور اس پر اظہار پسندیدگی اور قدردانی کا نام بھی ہے۔ پس یہ لفظ زیادہ وسیع ہے۔
دوسرا لفظ ثناء ہے۔ ثناء کے اصل معنے دُہرانے کے ہوتے ہیں اور تعریف کو ثناء اس لئے کہتے ہیں کہ ذکر خیر لوگوں میں پھیل جاتا ہے اور لوگ وقتاً فوقتاً اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں (مفردات) یہ ظاہر ہے کہ ثناء میں ذاتی تجربہ سے زیادہ لوگوں میں ذکر خیر کے پھیلنے کی طرف اشارہ ہے اور گو یہ ایک خوبی ہے لیکن بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو ذاتی تعلق ہوتا ہے اس پر یہ لفظ اس قدر روشنی نہیں ڈالتا جس قدر کہ مدح کا لفظ ڈالتا ہے کیونکہ یہ لفظ ذاتی تشکر اور احسان مندی پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔
اب رہا مدح سو مدح کا لفظ جھوٹی اور سچی دونوں قسم کی تعریف کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن حمد صرف سچی تعریف کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے اُحْثُوا فی وجوہِ الْمَدّ احِیْنَ التُّرَابَ (مسند احمد بن صنبل جلد ۶) جھوٹی تعریف کرنے والوں کے مونہوں پر مٹی ڈالو۔ اسی طرح مدح ان اعمال کے متعلق بھی ہو سکتی ہے جو بغیر اختیار کے ہوں لیکن حمد انہی اعمال کے متعلق ہوتی ہے جو اختیار اور ارادہ سے کئے جائیں (مفردات) پس حمد کا لفظ مدح سے بہرحال افضل ہے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق زیادہ مناسب یہ جو میں نے کہا تھا کہ ثنا ایسی تعریف پر دلالت کرتا ہے جو لوگوں میں پھیل جائے اور یہ بھی ایک خوبی تو پیدا نہ ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ الحمد کے الفاظ سے یہ خوبی بھی پیدا ہو گئی ہے کیونکہ ال استغراق کے معنی دیتا ہے یعنی تمام افراد کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے پس اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کے معنے ہوئے۔ سب قسم کی تعریف۔ اور ہر شخص کی تعریف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی کا حق ہے ان معنوں میں ذکر خیر کی کثیر اشاعت آ جاتی ہے بلکہے ثناء سے بھی زیادہ اس عبارت سے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اشاعت کا مفہوم نکلتا ہے۔
رب۔ رب کے معنی اِنْشَائُ الشیِٔ حالاً فحالاً الی حدِّ التَّمامِ کے ہیں۔ (مفردات) یعنی کسی چیز کو پیدا کر کے تبدیلی طور پر کمال تک پہنچانا۔ خالی تربیت کے معنی بھی یہ دیتا ہے۔ خصوصاً جبکہ انسان کی طرف منسوب ہو مثلاً قرآن کریم میں ماں باپ کی نسبت آتا ہے کَمَادَ بَّیٰنِیْ صَغیْرًا (بنی اسرائیل ع ۳) یا اللہ میرے ماں باپ پر رحم فرمایا۔ جس طرح انہوں نے اس وقت میری تربیت کی جبکہ میں چھوٹا تھا۔ رب کے معنی مالک کے بھی ہوتے ہیں۔ (اقرب) اسی طرح سردار اور مطاع کے بھی (اقرب) جیسے قرآن کریم میں حضرت یوسفؑ کا قول ہے أُذْکُرْ فِیْ عِنْدَ رَبِّکَ۔ اور مصلح کے بھی معنی ہیں (اقرب) ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔ لیکن بغیر اضافت کے مطلق رب کا لفظ کبھی غیر اللہ کے َلئے استعمال نہیں ہو سکتا ۔ مثلاً ربّ الدّار۔ گھر کا مالک یا رِبَّ الْفَرَسِ۔ گھوڑے کا مالک تو انسان کو کہہ سکتے ہیں مگرجب خالی یہ کہیں کہ رب نے یوں کہا ہے یا کیا ہے تو اس کے معنے صرف اللہ تعالیٰ کے ہونگے (مفردات) رب کے معنے مفسرین نے خالق کے بھی کئے ہیں (بحر محیط)
العلمین۔ عَالَم کی جمع ہے اور مخلوق کی ہر صنف اور قسم عالم کہلاتی ہے۔ (مفردات) اور عَالَمُوْنَ یا عَالَمِیْن کے سوا اس کی جمع عَلاَلِم یا عَوَالِم بھی آتی ہے اور غیر ذوی العقول کی صفات میں سے ون یا یان کے صرف عالم یا یاسم دو لفظوں کی جمع بنتی ہے۔ اور عالم مخلوق کو اس لئے کہتے ہیں۔ کہ اس کے خالق کا پتہ لگتا ہے (اقرب) بعض مفسرین نے کہا کہ عالم کی جمع المون یا عالمین تب بنائی جاتی ہے جبکہ ذوی العقول کا ذکر ہو۔ مثلاً انسان فرشتے وغیرہ۔ مگر یہ قاعدہ لغت کے بھی خلاف ہے۔ اور قرآن کریم کے محاورہ کے بھی خلاف۔ لغت کا حوالہ اوپر گرر چکا ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت اس پر شاہد ہے۔ قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَۂمَا اِنْ کُنتُمْ مُوْقِنِیْنَ۔ قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٗ اَلَاتَسْمَّعُوِنَ قَالَ رَبُّکُمْ وُ ربُّ اٰبَآئِکُمُ الُاَ وَّلِیْنَ۔ قَالَ اِنَّ رَسُوْ لَکْمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَہُمَا اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ (شعر اء ع ۲) اس آیت میں عالمین میں انسانوں کے سوا آسمان زمین اور ان کے درمیان کی سب اشیاء اور مغرب اور مشرق اور ان کے درمیان کی سب اشیاء کو عالمین میں شامل بتایا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ حٰمّ سجدہ میں ہے قُلْ اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَ تَجْعَلُوْنَ لَہٗ اَنْدَادًا ذٰلکَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَ جَعَلَ فِیْھَا رَوَ اسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَ بَارَکَ فِیْہَا وَ قَدَّرَ فِیْہَآ اَقْوَ اتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَآئً لِّلعَّآئِلِینَ (حٰمٓ سجدہ ع ۲) اس آیت میں بھی زمین اور پہاڑوں وغیرہ کو عالمین میں شامل کیا گیا ہے حضرت مسیح موعودؑ بھی تحریر فرماتے ہیں۔ اِنَّ الْعَالِمَیْنَ عِبَارَۃٌ عَنْ کُلِّ مَوْجُوْدٍ سِوَی اللّٰہِ … سَوَائً کَانَ مِنْ عَالَمِ الْاَرْوَاحِ اَوْمِنْ عَالَمِ الْاَجْسَاِم… اَوْ کَالْشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَغَیْرِ ھَما مِنَ الْاَجْرامِ (اعجاز المسیح صفحہ ۴۸ طبع مصر) یعنی عالم سے مراد جاندار اور غیر جاندار سب اشیاء ہیں۔ اسی طرح سورج چاند وغیرہ کی قسم کے اجارم فلکی۔ غرض سب جاندار یا غیر جاندار اس میں شامل ہیں۔
جو صرف ذوی العقول کے لئے اسے قرار دیتے ہیں۔ وہ مَاھُوَ اِلاَّ ذِکْرِ لِّلْعَالَمِیْنَ (قلم ع ۲) کی آیات سے استدلال کرتے ہیں مگر یہ استدلال درست نہیں۔ کیونکہ جب اس کا استعمال غیر ذوی العقول کے لئے قرآن کریم میں موجود ہے۔ تو اس آیت کے متعلق صرف یہ کہا جائے گا کہ عام لفظ خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم میں یہی لفظ اس سے بھی خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے فرمایا ہے وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (بقرہ ع ۶) اے یہود ہم نے تم کو سب جہانوں پر فضیلت دی ہے حالانکہ مراد صرف اپنے زمانہ کے لوگ ہیں نہ کہ ہر زمانہ کے لوگ۔ کیونکہ خیر الامم مسلمانوں کو کہا گیا ہے۔ پس خاص معنوں کا استعمال جبکہ عام معنوں میں یہ لفظ استعمال ہو چکا ہے اس کے معنوں کو محدود نہیں کرتا۔ اور حق یہی ہے کہ عالَمِیْن میں ہر قسم کی مخلوق شامل ہیں۔ خواہ جاندار ہو یا غیرجاندار۔
تفسیر۔ اَلْحَمْدُلِللّٰہِ۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں نہ یہ کہ ہم کرتے ہیں۔ بلکہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ فرمایا ہے۔ اس طرح کئی معانی پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ اوّل مصدر کے استعمال سے عروف اور مجہول دونوں معنی پیدا کر دیئے گئے ہیں یعنی یہ بھی کہ سب حمد جو مخلوق کر سکتی ہے یا کرتی ہے خدا تعالیٰ کو ہی پہچنتی ہے اور وہ سب قسم کی تعریفوں کا مستحق ہے۔ کوئی اچھی بات نہیں جو اس میں نہ پائی جاتی ہو اور کوئی بری بات نہیں جس سے وہ پاک نہ ہو اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کی صحیح حمد کر سکتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے۔ بندے بندے کی تعریف کرتے ہیں لیکن بسا اوقات وہ غلط ہوتی ہے بعض دفعہ جس قدر کسی میں خوبی ہوتی ہے۔ اس کا اظہار نہیں کر سکتے اور بعض دفعہ ایسی تعریف کرتے ہیں۔ جو موصوف میں پائی نہیں جاتی۔ پس اصل حمد وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو بلکہ دوسرے لوگ تو الگ رہے انسان خود اپنی نسبت رائے قائم کرنے میں غلطی کر جاتا ہے اور اپنی طاقتوں کا غلط اندازہ لگا لیتا ہے۔ مگر جو بات خدا تعالیٰ بندہ کے متعلق فرماتا ہے نہ اس میں کوئی کمی ہوتی ہے نہ زیادتی۔ اگر الحمد کی بجائے احمد یا نحمد کے الفاظ ہوتے تو یہ معنی پیدا نہ ہو سکتے تھے۔
نیز اگر حمد کا صیغہ فعل استعمال کیا جاتا یعنی یہ کہا جاتا کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں تو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شائد انسان اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ انسان کی حمد محدود ہوتی ہے اور وہ صرف اپنے علم کے مطابق حمد کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ میں اس کے سوا غیر محدود اسباب حمد کے اور بھی پائے جاتے ہیں۔
غرص اَحْمَدُ یا نَحْمَدُ سے جو معنے پیدا ہو سکتے تھے وہ بھی الحمد میں پائے جاتے ہیں اور ان سے زائد بھی۔ اس لئے الحمدللّٰہ کے الفاظ کا اس مختصر سورۃ میں رکھنا جو سب مطالب کی جامع ہے ضروری تھا۔ بیشک قرآن کریم میں حمد مخلوق کی طرف بھی منسوب ہوئی ہے جیسا کہ فرمایا وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ (بصرہ ع ۴) لیکن کہیں بھی احمد یا نحمد کے الفاظ مخلوق کی طرف منسوب نہیں ہوئے۔ گونسّبِحُ اور نقدّس کے الفاظ یا یُسَبَحُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس میں اس امر کی طرف لطیفہ اشارہ ہے کہ خالص حمد کا مکمل طور پر سمجھنا بندہ کی شان سے بالا ہے حدیثوں میں یہ الفاظ آتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں الفاظ کے اور معنے ہوتے ہیں اور بندہ کے کلام میں اور۔ بندہ جب اپنی طرف سے ایک لفظ بولتا ہے تو اس کے معنے اتنے وسیع نہیں لئے جاتے جتنے وسیع کہ اس وقت لئے جاتے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کے کلام اور پھر کلام شریعت میں وہ الفاظ آئیں۔
لِلّٰہ کے الفاظ سے اس شبہ کو بھی دُور کیا ہے کہ حمد تو انسانو ںکی بھی کی جاتی ہے۔ پھر سب تعریف خدا تعالیٰ کی کس طرح ہوئی۔ اور وہ اس طرح کہ لام ملکیت ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے پس لام کے ذریعہ سے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد حقیقی ہوتی ہے اور غیر اللہ کی طفیلی۔ کیونکہ انسان میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ذاتی نہیں ہوتیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا شدہ ہوتی ہیں۔ پس جو تعریف کسی انسان کی کی جاتی ہے اس کا بھی اصل مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔
آیت کے مطالب
اس آیت کے بعض مطالب ذیل میں لکھے جاتے ہیں (۱) اس جہان کا خالق سب نقصوں سے پاک اور سب خوبیوں کا جامع ہے۔ (۲) وہ تمام مخلوق کی کنہ اور حقیقت سے واقف ہے اور اس کے سوا کوئی شخص بھی کسی چیز کی کامل ماہیت سے واقف نہیں۔ اس دعویٰ کا روشن ثبوت سائنس کی ترقی سے مل چکا ہے۔ مختلف اشیاء کی تحقیق میںسینکڑوں علماء لکھے ہوئے ہیں لیکن اب تک ادنیٰ سے ادنیٰ شے کی کامل حقیقت سے بھی کوئی آگاہ نہیں ہو سکا۔ اور ہر چیز کے متعلق تازہ انکشافات ہوتے چلے جا رہے ہیں (۳) خدا تعالیٰ کامل حمد کا مالک تب ہی ہو سکتا ہے کہ وہ رَبّ الْعالَمِیْن ہو۔ اگر رب العالمین نہ ہو تو وہ کامل حمد کا مالک نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح اس کا جسمانی نظام سب کے فائدہ میں لگا ہوا ہے۔ اس کا روحانی نظام بھی سب پر حاوی ہو۔ اور کوئی ملک اور کوئی قوم روحانی ترقی کے سامانوں سے محروم نہ ہو۔ پس اگر کوئی الہام کسی خاص قوم سے مخصص ہے۔ تو دوسری قوم کے لئے الگ الہام نازل ہونا چاہیئے۔ اور جب دوسری قوموں کے لئے الگ الہام نازل نہ ہو۔ تو ایسے وقت میں جو الہام نازل ہو وہ سب دنیا کی ہدایت کے لئے ہونا چاہیئے (پس جو مذاہب اس امر کے قائل ہیں کہ الہام صرف انہی کی قوم کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔ یا یہ کہ نجات صرف انہی کی قوم یا مذہب کا حق ہے غلطی پر ہیں)
(۴) انسانوں کے اندر جس قدر کمالات ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں۔ اس لئے جو نیکی بھی وہ کریں۔ اس کی تعریف کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے (۵) حمد کو ربوبیت عالمین کے ساتھ وابستہ کر کے یہ بتایا ہے کہ حقیقی خوشی انسان کو اسی وقت ہونی چاہیئے۔ جب اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین ظاہر ہو۔ جو شخص اپنے فائدہ پر خوش ہوتا ہے اور دُنیا کے نقصان کی طرف نگاہ نہیں کرتا۔ وہ اسلام کی تعلیم کو نہیں سمجھتا۔ حقیقی خوشی یہی ہے کہ سب دنیا آرام میں ہو۔
(۶) یہ فرما کر کہ اللہ تعالیٰ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے۔ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے ربوبیت کا محل ہے یعنی ارتقاء کے قانون کے ماتحت ہے۔ یہ بتایا ہے کہ دنیامیں کوئی چیز نہیں جس کی ابتداء اور انتہا یکساں ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ اور ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ کی طرف جاتی ہے۔ جس سے دو امر ثابت ہوتے ہیں۔ اوّل خدا تعالیٰ کے سوا ہر شے مخلوق ہے کیونکہ جو چیز ترقی کرتی اور تغیر پکڑتی ہے وہ آپ ہی آپ نہیں ہو سکتی۔
دوسرے ارتقاء کا مسئلہ درست ہے۔ ہر شے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف گئی ہے خواہ انسان ہو ںخواہ حیوان۔ خواہ نباتات ہوں خواہ جمادات۔ کیونکہ رب العالمین کے معنی یہ ہیں کہ ہر شے کو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جا کر اللہ تعالیٰ کمال تک پہنچاتا ہے پس ثابت ہوا کہ ارتقاء کا مسئلہ دُنیا کی ہرشے میں جاری ہے (۷) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتقاء مختلف وقتوں اور مدارج (STAGES)میں حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ رب کے معنی ہیں۔ اِنْشَائُ الشَیُٔ حالاًفحا لًا اِلیٰ حدِّ التَّمامِ چیز کو مختلف وقتوں اور مختلف درجو ںمیں ترقی دیکر کمال تک پہنچانا (نہ کہ ایک ہی کڑی کو مکمل کرنا)۔
(۸) یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتقاء اللہ تعالیٰ کے وجود کے منافی نہیں۔ کیونکہ فرمایا کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ارتقاء کے ذریعہ سے پیدائش خدا تعالیٰ کے عقیدہ کے خلاف نہیں پڑتی۔ بلکہ اس سے وہ حمد کا مستحق ثابت ہوتا ہے۔ اسی لئے رَبّ الٔعَالَمِیْن کے ساتھ اَلْحمدُلِلّٰہِ کے الفاظ استمعال فرمائے۔
(۹) اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کو لامتناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہ مختلف انواع و اقسام کی مخلوق کو ادنیٰ حالت سے اُٹھا کر اعلیٰ تک پہنچاتا ہے اور یہ مضمون صحیح نہیں ہو سکتا جب تک ہر مقام اور درجہ سے اوپر کوئی اور درجہ تسلیم نہ کیا جائے۔
(۱۰) سب سے آخر میں یہ کہ اس سورۃ کو جو سب سے پہلی سورۃ ہے اور قرآن کریم کے مطالب کا خلاصہ اَلْحَمدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سے شروع کر کے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل حمد اب شروع ہو گی کیونکہ اسلام جو رب العالمین کی صفت کا کامل مظہر ہے سب دنیا کی طرف آیا ہے اور جسمانی عالم کی طرح روحانی عالم میں بھی اتحاد پیدا کر دیا گیا ہے پہلے جب مختلف اقوام کی طرف الگ رسول آتے تھے۔ بعض نادان متبع دسرے انبیاء کی تعلیم کو غلط سمجھ کر ان کی تردید کرتے تھے ہندو کہتے ہم یہودا کو نہیں جانتے پر میشور کو جانتے ہیں یہود پر میشور پر ہنسی اُڑاتے۔ لیکن اسلام کے ظہور سے سب دنیا کے لئے ایک دین ہو گیا۔ اور ہندی اور چینی اور مصری اور ایرانی اور مغربی اور مشرقی سب خدا کی تعریف میں لگ گئے اور یہ تسلیم کیا گیا کہ ہر قوم کا خدا الگ نہیں ہے بلکہ سب اقوام کا خدا ایک ہی ہے۔
۴؎ حل لغات
رَحْمٰنِ اور رَحِیْم کے لئے دیکھو لغت ۲؎ سورۃ ہذا۔
تفسیر۔ الرحمن الرحیم۔ ان الفاظ کے معنی بسم اللہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ان دونوں صفات کا ذکر میں ہو چکا ہے بِسْمِ اللّٰہِ الرّحْمٰنِ الرّحِیْمِ میں ہو چکا ہے پھر ان کو دُہرایا کیوں گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بسم اللہ میں ایک مستقل مضمون بیان ہوا ہے اور وہ ہر سورۃ کی کنجی ہے۔ اس لئے سورۃ کے مضمون میں اگر اپنے موقعہ پر انہی صفات کو دوبارہ بیان کیا جائے۔ تو یہ امر تکرار نہیں کہلا سکتا۔ چنانچہ یہاں بھی اسی حکمت سے ان صفات کو دُہرایا گیا ہے۔ رب العالمین میں یہ مضمون بتایا گیا تھا۔ کہ خدا تعالیٰ پیدا کر کے آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ اعلیٰ ترقیات تک پہنچاتا ہے۔ آیت زیر تفسیر میں الرّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے الفاظ سے طریق ربوبیت بتایا ہے اور وہ یہ کہ (۱) اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے اس نے ہر چیز کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو اِس کی ترقی میں حمد ہوتے ہیں اور باریک دربار یک سامان پیدا کر کے مخفی اور مخفی قوتوں کو قوت ظہور عطا فرمائی ہے۔ اور ترقی کے ذرائع بہم پہنچائے ہیں۔ انسان حیوان نباتات جمادات سب اپنے گرد و پیش سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اپنے قیام یا اپنی تکمیل کے سامان حاصل کر رہے ہیں (۲) وہ رَحِیْم ہے پس جب کوئی مخلوق اپنے فرائض کو اچھی طرح ادا کرتی ہے تو اس کی قدر دانی کی جاتی ہے اور اس پر خاص فضل کیا جاتا ہے اور مزید ترقی کی اس میں اُمنگ پیدا کی جاتی ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ لامتنا ہی طور پر چلا جاتا ہے۔
الرَّحْمٰن۔ ایسی صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کا استعمال دوسروں پر نہیں ہوتا سوائے اضافت کے جیسا کہ مسیلمہ کذاب اپنے آپ کو رحمٰن یمامہ کہلواتا تھا۔ اس کے معنی جیسا کہ بتایا جا چکا ہے بلا مبادلہ اور بلا استحقاق رحم کرنے کے ہیں۔ اور اس مفہوم میںکفارہ کا رد پایا جاتا ہے۔ کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ اللہ تعالیٰ بلا استحقاق رحم نہیں کر سکتا۔ مسیحیوں کو اس کا اس قدر احساس ہے کہ عرب کے نصاریٰ بھی جب اپنی تصنیفات یا خطوں پر خدا تعالیٰ کا نام لکھتے ہیں تو بسم اللہ کے بعد اور صفات کا ذکر کر دیتے ہیں۔ رحمٰن کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ سوائے ایسے شخص کے جو اسلامی تمدن سے متاثر ہو۔ مثلاً یہ لکھ دیں گے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الکریم الرَّحِیْم یا اور کوئی صفت بیان کر دینگے۔ رحمٰن کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان کا دل مانتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ رحمن ہے تو پھر اس کے لئے مسیح کا کفارہلئے بغیر بندوں کے گناہ بخشنا کچھ بھی مشکل نہیں۔
رحیم کی صفت میں تناسخ کا ردّ ہے۔ کیونکہ تناسخ کی بنیاد محدود عمل کی غیر محدود جزاء نہ مل سکنے کا عقیدہ ہے صفت رحیم بتاتی ہے۔ کہ محدود عمل کی غیر محدود جزاء نہیں ملتی بلکہ نیک عمل کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مکرر ہوتا ہے پس اس کے بدلہ میں جزاء بھی مکرر ملتی ہے۔ رحیم کا لفظ بار بار رحم کرنے پر دلالت کرتا ہے اور بار بار رحم کے معنے یہ نہیں کہ ایک ہی فعل کا بار بار انعام ملتا ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ جو شخص نیکی کی حقیقت کو سمجھتا ہے وہ باربار نیک اعمال بجا لاتا ہے اور کم سے کم اس کے دل میں بار بار نیک عمل بجا لانیکی خواہش ضرور پائی جاتی ہے پس ہر دفعہ جب نیک عمل کی جزا بندہ کو ملتی ہے اور نیکی کرنے کی طاقت اور اس کے بار بار بجا لانے کی خواہش اور بھی ترقی کی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس پر پھر رحم کرتا ہے اور مومن کی نیکی کی خواہش او ربھی زیادہ ہو جاتی ہے اور وہ نیکی کے کاموں میں اور بھی بڑھ جاتا ہے اور اس طرح رحم بار بار نازل ہوتا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا رحم صرف گذشتہ فعل پر انعام کا رنگ ہی نہیں رکھتا بلکہ آیندہ نیکی کے لئے ایک بیج کا کام بھی دیتا ہے۔
در حقیقت محمدود عمل کا خیال ہندوئوں میں محض اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ انہوں نے جنت کو بیکاری او ربے عملی کا ایک مقام سمجھ لیا ہے اور ان کو سمجھنا بھی ایسا ہی چاہیئے کیونکہ وہ نجات کے معنی نروان یعنی تمام خواہشات ا ور اعمال سے آزاد ہونا سمجھتے ہیں۔ پس ان کے نزدیک عمل اسی دُنیا میں ختم ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے محدود ہوتا ہے۔ اور چونکہ عمل محدود ہوتا ہے ان کے نزدیک اس کا بدلہ بھی محدود ہونا چاہیئے۔ مگر اسلام بار بار رحم اور بار بار عمل کے مسئلہ کو پیش کرتا ہے اور جنت کو دارالعمل ہی قرار دیتا ہے جب خدا تعالیٰ رب العالمین ہے تو جنت بھی تو ایک عالم ہے وہاں بھی ترقی ہو گی۔ ورنہ رب العالمین صحیح نہیں ٹھہرتا۔ اور جب انسان وہاں بھی ترقی کرے گا۔ تو لازماً اس کے تقویٰ اور اس کی محبت الٰہی میں بھی ترقی ہو گی اورجب ان چیزوں میں ترقی ہو گی تو اس ترقی کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کا رحم بھی پھر سے نازل ہو گا۔ اور جب یہ رحم اور عمل کا بار بار تبادلہ ہوتا رہے گا تو نجات کا وقت محدود کس طرح ہو سکتا ہے اس دنیا اور اگلے جہاں کے عمل میں صرف یہ فرق ہے کہ اس دُنیا میں تنزل کا خطرہ بھی ساتھ لگا ہوا ہے۔ مگر اگلے جہان میں صرف ترقی ہو گی تنزل نہ ہو گا۔ ورنہ روحانی عمل اور روحانی ترقی وہاں بھی ہو گی۔ پس محدود عمل اور غیر محدود جزاء کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
۵؎ حل لغات
مالکِ ملَک اور مِلک تین ملتے مجلتے ہوئے لفظ ہیں۔ مالک جسے کسی چیز پر جائز قبضہ اور اقتدار حاصل ہو۔ ملک۔ فرشتہ۔ اور ملک بادشاہ یعنی جسے سیاسی اقتدار حاصل ہو۔
یَوْم۔ اس کے معنی مطلق وقت کے ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (حج ع ۶) خدا تعالیٰ کا بعض دن ہزار سال کا ہوتا ہے ایک شاعر کہتا ہے یو ماہ یومر ندیً ویوم طعاء ن میرے ممدوح پر دو ہی قسم کے وقت آتے ہیں۔ یا ِتو وہ سخاوت میں مشغول وتا ہے یا دشمنو ںکو قتل کرنے میں اسی طرح عرب کہتے ہیں۔ یو ماہُ یومُ نُعمٍ ویوم بُؤسٍ ای الدّھر۔ یعنی زمانہ دو حال سے خالی نہیں یا تو اسنان کے لئے نعمتیں لاتا ہے یا تکالیف لاتا ہے۔ (لسان العرب) اسی طرح سیبویہ کا قول ہے کہ عرب کہتے ہیں۔ اَنَا الْیَوْمَ اَفْعَلُ کَذَا الاَ یُرِ یْدُونَ یَوْمًا بِعَیْنِہٖ وَلٰکِنَّھُمْ یُرِیْدُونَ الْوَقْتَ الْحَاضِرَ (لسان العرب) یعنی جب کہتے ہیں کہ میں آج کے دن اس اس طرح کروں گا۔ تو اس سے مراد چوبیس گھنٹہ والا دن نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے مراد صرف موجودہ وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ جو قرآن کریم میں آتا ہے۔ اس سے بھی مُراد معروف دن نہیں بلکہ زمانہ اور وقت مراد ہے (لسان العرب) پھر لکھا ہے وَقَدْ یُرَادُ بِالْیَوِمَ اَلْوَقْتُ مُطْلَقًا وَمِنْہُ الحَدِیْثُ تِلْکَ اَیَّامُ الْھَرَجُ اَیْ وَقْتہٌ (لسان العرب) یعنی کبھی یوم سے مطلق وقت مراد ہوتا ہے جیسے حدیث میں ہے کہ یہ دن فتنہ اور لڑائی کے دن ہیں۔ مراد یہ کہ یہ فتنہ اور لڑائی کا زمانہ ہے۔
الدین۔ الجزاء و المکافاۃ۔ بدلہ۔ الطاعۃ اطاعت۔ الحساب۔ محاسبہ۔ القھر و الغلبہ والا ستعلاء غلبتہ السطان و الملک و الحکم۔ تصرف۔ حکومت۔ السیرۃ خصلت۔ التدبیر۔ تدبیر۔ اِسْمٌ لِجَمِیِعَ مایُعْبَدُ بِہٖ اللّٰہُ وہ تمام طریقے جن سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے وہ سب دین کہلاتے ہیں۔ یعنی شریعت۔ نیز اس کے معنی ہیں الِملَّۃ مذہب۔ الوَرَعُ۔ نیکی۔ المَعصیۃ نافرمانی۔ الحال۔ کیفیت القضاء فیصلہ۔ العادۃ۔ عادت۔ الشان۔ خاص حالت (اقرب)
تفسیر۔ آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزا کے وقت کا مالک ہے۔ شریعت کے وقت مالک ہے۔ فیصلہ کے وقت کا مالک ہے۔ شریعت کے وقت کا مالک ہے۔ مذہب کے زمانہ کا مالک ہے۔ نیکی کے زمانہ کا مالک۔ گناہ کے زمانہ کا مالک ہے۔ محاسبہ کے وقت کا مالک ہے۔ اطاعت کے وقت کا مالک ہے۔ غلبہ کے وقت کا مالک ہے۔ خاص اور اہم حالتوں کا مالک ہے۔
عام طور پر تو اس کے معنی قیامت کے دن کا مالک کئے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ لغت سے ظاہر ہے۔ یہ معنی محض تفسیری ہیں لغوی نہیں۔ دین کے ایک معنی جزاء سزا کے ہیں۔ اور جزاء سزا کامل مظاہرہ چونکہ قیامت کے دن ہو گا۔ اس لئے مفسرین نے جزاء سزا کے معنوں کی بنیاد پر اس آیت کے یہ معنی کر دیئے کہ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ حالانکہ لغت کے رو سے اس آیت کے مختلف معنی ہوتے ہیں اور سب کے سب قرآنی مطالب کے مطابق اور درست ہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ایک معنوں کو تو لے لیا جائے اور دوسروں کو چھوڑ دیا جائے۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے۔ مفسرین اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزا کے وقت کا مالک ہے۔ ان معنوں کے رو سے ایک تو اس آیت کی یہ تشریح ہو گی۔ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ یعنی اس دن جزاء سزا میں کسی اور کا دخل نہ ہو گا بلکہ جزاء سزا صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی۔ اس طرح اس دُنیا اور اگلے جہان کے نتائج میں فرق بتایا ہے کہ اس دُنیا میں تو اچھے برے افعال کی جزاء سزاء انسانوں کے ذریعہ سے بھی ملتی ہے اور اس میں لوگوں سے غلطی بھی ہو جاتی ہے مگر قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ ہی جزاء سزاء دے گا۔ اور یہ ناممکن ہو گا کہ کسی پر ظلم ہو اور اسے بے گناہ سزا مل جائے یا جُرم سے زیادہ سزا مل جائے۔ نیز مجرم کے لئے بھی ناممکن ہو گا کہ جھوٹ فریب سے کام لے کر سزا سے محفوظ ہو جائے۔
نیز اس میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزاء کے وقت صرف بطور مِلک نہیں کام کریگے بلکہ بطور مالک کام کرے گا۔ مِلک یعنی بادشاہ جب فیصلہ کرتا ہے تو اس کا کام صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ انصاف کیا ہے۔ کیونکہ جن امور کا فیصلہ وہ کرتا ہے وہ مدعی اور مدعا علیہ کے حقوق کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں۔ اس لئے اسے یہ اختیار نہیں ہوتا۔ کہ وہ کسی کو معاف کر دے لیکن اللہ تاعلیٰ چونکہ بادشاہ ہی نہیں بلکہ مالک بھی ہے اس لئے اُسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حق میں سے جس قدر چاہے معاف کر دے۔ اس مضمون سے ایک طرف تو امید کا ایک اہم پہلو پیدا کر دیا گیا ہے او رمایوسی سے انسان کو بچا لیا گیا ہے۔ دوسری طرف انسان کو ہوشیار بھی کر دیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے رحم سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کا خیال دل میں نہ لانا۔ کیونکہ مالک ہونے کے لحاظ سے جہاں وہ رحم کر سکتا ہے۔ وہاں اپنی پیدائش کو گندہ دیکھنا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ گویا امید اور خوف کے خیالات یکساں پیدا کر کے انسان کے اندر چستی او رہمت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ برخلاف مسیحی نجات کی تعلیم کے کہ ایک طرف انصاف کا غلط مفہوم پش کر کے گناہ پر دلیر کر دیا گیا ہے گویا مسیحی عقیدہ کے دونو ںپہلوئوں نے پاکیزگی کی نہیں بکہ گناہ کی مدد کی ہے حد سے زیادہ مایوسی نے بھی گناہ ہی پیدا کیا ہے اور حد سے زیادہ امید نے بھی گناہ ہی پیدا کیا ہے کچھ لوگ تو پاکیزگی سے مایوس ہو کر نیکی کو چھوڑ بیٹھیں گے اور کچھ لوگ کفارہ پر توکل کر کے گناہ پر دلیر ہو جائینگے۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ شریعت اور مذہب کے وقت کا مالک ہے۔ اس میں ایک لطیف مضمون قانونِ قدرت کے بارہ میں بیان کیاگیا ہے عام طور پر خدا تعالیٰ کی معاملہ دُنیا کے ساتھ عام قانونِ قدرت کے ماتحت ہوتا ہے۔ لیکن جس زمانہ میں مذہب یا شریعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ صفت مالکیت کا اظہار کرتا ہے۔ یعنی نہ صرف بادشاہت کا ظہور ہوتا ہے جو عام قانون سے تعلق رکھتا ہے۔ بلکہ ان دنوں مالکیت کی صفت کا خاص طور پر ظہور ہوتا ہے یعنی خاص تصرف سے اللہ تعالیٰ کام لیتا ہے اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کی باریکیوں سے واقف نہیں بظاہر قانونِ قدرت کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہیں ایک بیچارہ اور بے کس وجود دُنیا کے سامنے آ کر دعویٰ پیش کرتا ہے۔ سب لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن باوجود ظاہری سامانوں کے مخالف ہونے کے وہ شخص کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح او ربہت سے معاملات میں دُعائوں اور معجزات کے ذریعہ سے ایسے واقعات ظاہر ہوتے ہیں کہ دنیا انہیں دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے در حقیقت ان واقعات کی حکمت یہی ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی روحانی سلسلہ کو چلاتا ہے یا کسی شریعت کی بنیاد قائم کرتا ہے توان ایام میں اپنی ملوکیت کیں نہیں بلکہ مالکیت کی صفت کو خاص طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یعنی عام قانون کی بجائے اپنے خاص طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یعنی عام قانون کی بجائے اپنے خاص قانون کو جو سا کے محبوبوں سے مخصوص ہے ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے اور ایسے واقعات ان دنوں میں ظاہر ہوتے ہیں جو خارق عادت نظر آتے ہیں۔ ہر نبی کے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی سنت اسی طرح ظاہر ہوتا چلی آئی ہے۔ اور اس سورۃ میں بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی اسی طرح ہو گا۔ خارق عادت واقعات سے جو بظاہر قانونِ قدرت کے مخالف نظر آئینگے۔ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرے گا۔ اور یہ امر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہ زمانہ قیام شریعت کا ہے۔ اور محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔
ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیکی کے وقت کا اور گناہ کے وقت کا مالک ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا پر دو دور آتے ہیں۔ ایک دور تو وہ ہوتا ہے جبکہ نیکی اور بدی یکساں طور پر دنُیا میں پائی جاتی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا عام قانون دنیا میں جاری رہتا ہے لیکن ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ دُنیا میں گناہ ہی گناہ پھیل جاتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ مالک کی حیثیت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور اپنے باغ کی اصلاح کرتا ہے اور نبی مبعوث فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ایک قوم دنیا میں ایسی قائم ہو جاتی ہے جو نیکی کے مقام کے مقام پر اس طرح قائم ہوتی ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہے گویا وہ سب کی سب نیک ہے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیروں کے ذریعہ اس قوم کی تائید کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم اپنے اس معیار کو کھو دیتی ہے۔ اور اس میں نیکی بدی کی متوازی تحریکیں جا رہی ہو جاتی ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیر کو واپس کر لیتا ہے اور عام قانونِ قدرت کے ماتحت اس سے معاملہ کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم ایک وقت میں جا کر بالکل خراب ہو جاتی ہے۔ تب سنت اللہ کے ماتحت پھر اللہ تعالیٰ مالکیت کی صفت کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر نبی مبعوث ہوتا ہے پھر گناہ کا قلع قمع کیا جاتا ہے پھر ایک پاکوں کی جماعت بنائی جاتی ہے اور اس تمام عرصہ میں قدرت خاص یعنی مالکانہ قدرت اور تصرف کا ظہور ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ پھر وہ قوم نیکی کے اعلیٰ معیار سے نیچے گر جاتی ہے او رپھر وہی پہلا سا دور شروع ہو جاتا ہے۔
ایک معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اطاعت کے وقت کا مالک ہے یعنی وہی قانون خاص جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور جو اقوام کے متعلق جاری ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خاص افراد کے لئے بھی جاری کرتا ہے یعنی جب کسی شخص کی زندگی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں گذرنے لگتی ہے تو اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ خاص قدرت کا اظہار کتا ہے اور وہ انسان عام انسانوں کی طرح نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے خاص قدرت کا اظہار کرتا ہے۔
ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہم حالتو ںکے وقت کا مالک ہے۔ اس سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دُنیامیں ہر کام ایک زنجیر سے مشابہت رکھتا ہے یعنی منفرد نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی بہت سی کڑیاں ہوتی ہیں۔ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اس کی بیماری اس دن کی کسی غلطی کے نتیجہ میں نہیں ہوتی۔ نہ تندرستی اس دن کی کسی غلطی کے نتیجہ میں نہیں ہوتی۔ نہ تندرستی اس دن کی ورزش یا غذا کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پس انسان کے اعمال دو نتیجے پیدا کرتے ہیں۔ ایک نتیجہ تو عارضی اور وقتی ہوتا ہے۔ اور ایک نتیجہ آخری او رمستقل ہوتا ہے۔ ایک بے احتیاط آدمی آنکھوں کا غلط استمعال کرتا ہے تو اس کی آنکھیں دکھنے آ جاتی ہیں۔ مگر علاج سے اچھی ہو جاتی ہیں۔ پھر بے احتیاطی کرتا ہے پھر دیکھنے آ جاتی ہیں پھر علاج کرتا ہے پھر اچھی ہو جاتی ہیں۔ آخر ایک دن نظر جاتی ہی رہتی ہے اور علاج بپے فائدہ ہو جاتا ہے ایک محنتی طالب سلم سبق یاد کرتا ہے دوسرے دن اُستاد اس سے خوش ہو جاتا ہے یہ نتیجہ تو ساتھ کے ساتھ نکلتا رہتا ہے مگر اس محنت کا ایک خوشگوار اثر اس کے دماغ پر پڑتا جاتا ہے او راس کتابی علم کے علاوہ جو سبق یاد کرنے سے اسے حاصل ہو رہا تھا۔ ایک ذہانت ایک علم کی باریکیوں کے سمجھنے کا ملکہ اس کے دماغ میں پیدا ہوتا چلا جاتا ہے جو ایک دن اسے دنیا کا مرجع اور ممدوح بنا دیتا ہے یہ آخری نتائج ایسے باریک طور پر پیدا ہوتے ہیں کہ ساتھ اور دوست بھی اسے دیکھ نہیں سکتے اور اس کی وجہ سمجھ نہیں سکتے۔
اس مضمون سے اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ آخری اور مستقل کامیابی اللہ تعالیٰ کے تعلق سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ بیشک انسان عام قانون کی فرمانبرداری کر کے عزت اور رتبہ حاصل کر لیتا ہے لیکن ایک آخری نتیجہ جو اعمال کی زنجیر کے مکمل ہونے سے پیدا ہوتا ہے اصل میں وہی قابل قدر شے ہے خصوصاً جو موت کے وقت ایمان کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ اسی پر اگلے جہان کی زندگی کا انحصار ہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن سے یہ مُراد نہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ اس دُنیاکا مالک نہیں ہے بلکہ اگر اس آیت کے معنی قیامت کے دن کے مالک کے کئے جائیں تب بھی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ظاہری طو رپر بھی کوئی مالک نہ ہو گا جیسا کہ فرمایا وَمَآ اَدْرٰکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٍ لَّنَفْسٍ شَیْئًا وَالْاَ مْرُیَوُ مَئِذٍلِلّٰہِ (انغطار) یعنی تم کو کیا معلوم کہ یوم الدین کیا ہے۔ یوم الدین وہ دن ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ اور صرف خدا تعالیٰ کا حکم جاری ہو گا۔ پس مالک سے مراد یہ ہے کہ اس دُنیا میں جو ظاہر میں بادشاہ اور حاکم اور مالک نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ اگلے جہان میں ختم ہو جائے گا۔ اور یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جہان ا مالک نہیں ہے۔
ان چاروں صفات میں اور جس ترتیب سے وہ بیان ہوئی ہیں سلوک کا ایک اعلیٰ نکتہ بیان کیا گیا ہے جب ہم اس امر کو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا مقام اعلیٰ ہے اور بندہ کا ادنیٰ تو یہ امر ہمارے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف متوجہ ہو گا تو اوپر سے نیچے کی طرف آئے گا لیکن جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو نیچے سے اوپرکی طرف جائے گا۔ اس نکتہ کو سمجھ لینے کے بعد ان صفات کو دیکھ کر جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں ہم سمجھ سکتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف (۱) رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (۲) رحمٰن (۳) رحیم (۴) مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفات سے درجہ بدرجہ تنزل کرتا ہے۔ یعنی جب وہ اپنے بندہ پر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ تو پہلے رب العالمین کی صفت کا ظہور ہوتا ہے یعنی وہ ایسے ماحول تیار کرتا ہے جن میں اس کے منظور اور محبوب بندہ کی صحیح نشوونما ہو سکے۔ پھر وہ ان سامانوں کو اپنے بندہ کے ہاتھ میں دیتا ہے جن سے وہ روحانی ترقی کر سکے۔ پھر بندہ جب ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرتا ہے اور انعامات کے ایک لمبے سلسلہ کے بعد بندہ کی جدوجہد کا آخری نتیجہ نکالتا ہے یعنی اسے دنیا پر غالب کر دیتا ہے اور اپنی مالکیت کی صفت اس کے لئے ظاہر کر کے اسے دنیا پر غلبہ دے دیتا ہے۔
اس کے برخلاف جب ہندو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسے پہلے مالک کی صفت کا مظہر ہونا پڑتا ہے یعنی وہ انصاف اور عدل کو دنیا میں جاری کرتا ہے مگر اس کے انصاف کے ساتھ رحم کی ملونی ہوتی ہے۔ اور عفو کا پہلو غالب ہوتا ہے جس کے معنے ایصال شر سے اجتناب کے ہیں۔ جب بندہ اور ترقی کرتا ہے۔ تو رحیمیت کی صفت کا مظہر ہو جاتا ہے۔ یعنی جو لوگ اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ان کے کاموں کی قدردانی کرتا ہے بلکہ ان کے حق سے زیادہ ان پر انعام کرتا ہے یعنے ایصال خیر کی عادت اس میں پائی جاتی ہے جسے احسان کہتے ہیں۔ پھر اس کے اوپر انسان ترقی کرتا ہے۔ اور رحمانیت کی صفت کا ظہور اس کے ذریعہ سے ہونا شروع ہوتا ہے اور وہ اپنے پرائے سب سے نیک سلوک کرنا شروع کرتا ہے اور اس کا دل وسیع ہو جاتا ہے۔ اور وہ رحمانیت کا مظہر بن جاتا ہے کافر و مومن سب کی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اور خواہ کسی نے اس سے حسن سلوک کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سب سے نیک سلوک کرے۔ اسے اِیْتَائِ ذِی الْقُرْبیٰ کی حالت کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح ماں اپنے بچہ کی خدمت اطاعت کا خیال کئے بغیر یا کسی بدلہ کی امید رکھے بغیر کرتی ہے اسی طرح یہ شخص بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہو جاتا ہے پھر اس مقام سے ترقی کر کے انسان رب العالمین کا مظہر ہو جاتا ہے یعنی اس کی نظر فرد سے اُٹھ کر نظام تک جا پہنچتی ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو دنیا کا نگران اور داروغہ سمجھ لیتا ہے اور دنیا کی اصلاح کی طرف بحیثیت مجموعی توجہ کرتا ہے اور سوسائٹی کی حالت کو بدل ڈالتا ہے۔ یہ صعود اور ہبوط کی راہیں جو ان صفات میں بیان کی گئی ہیں۔ سلوک کے اعلیٰ گر اپنے اندر محفی رکھتی ہیں اور سالکوں کے لئے ایک عظیم الشان رحمت ہیں۔
۶؎ حل لغات
اِیَّاکَ عام قاعدہ کے رو سے لَعْبُدُکَ چاہئے تھا مگر معنوں میں اختصاص پیدا کرنے کے لئے ک کو پہلے لایا گیا۔ اور چونکہ ک اکیلا پہلے نہیں آ سکتا اس لئے ایا کو ضمیر منصوبہ ہے اس پر پڑھایا گیا۔ پس اِیَّاکَ نَصْبُدُ کے معنی ہوئے ہم تجھے عبادت کے لئے مخصوص کرتے ہیں۔
نَعْبُدُ ہم عبادت کرتے ہیں۔ اس کا ماضی عَبَدَ ہے اور اس کے مندرجہ ذیل معنی ہیں۔ عَبَدَ اللّٰہَ طاعَ لُہٗ وَخَضَعَ وَ ذَلَّ وَ خَدَمَہٗ وَالْتَزَمَ شَرَائعَ دِیْنِہِ وَ وَحَّدَہٗ (اقرب) یعنی عبد کے معنی ہیں اس کی اطاعت کی اور اس کے حکم کے آگے سر جھکایا اور اس کی خدمت کی اور اس کے دین کے احکام پر مستقل طور پر عمل کرنے لگا اور اس کی توحید کا اقرار کیا۔
عبد کے ایک معنی کسی کے نقش قبول کرنے کی ہیں چنانچہ کہتے ہیں۔ طریق معبّدٌ اے مذتّلٌ ایسا رستہ جو کثرت آمدو رفت سے اس طرح ہو گیاہو کہ پائوں کے نقش قبول کرنے لگ جائے۔
پس عبادت ایک ایسی کامل ہستی کی ہو سکتی ہے جو اپنے کمالات میں منفرد ہو اور اس کا کوئی شریک نہ ہو اور جس کی اطاعت افر فرمابرداری انسان کے لئے ممکن ہو کیونکہ جس کی فرمانبرداری ممکن ہی نہ ہو اس کی عبادت ایک بیمعنی لفظ ہو گا۔
یہ ظاہر ہے کہ ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی نہیں جس کی حقیقی معنوں میں فرمانبرداری کی جا سکے اور جس کی ذات کو چن کر انسان اسی کا ہو جائے اس کے سوا جس کی بھی انسان اطاعت کرے وہ اطاعت محدود ہو گی اور پھر اس کے سوا اور وجود بھی یا اور قانون بھی ایسے ہوں گے جن کی اطاعت پر انسان مجبو رہو گا۔
نَسْتَعِیْن ۔ استعانتہ سے ہے جس کے معنی مدد حاصل کرنے یا طلب کرنے کے ہیں۔ پس ایّاکَ نَسْتَعِیْن کے معنے ہوئے ہم مدد طلب کرنے کے لئے تجھے مخصص کرتے ہیں یعنی اور کسی لائق نہیں سمجھتے کہ اس سے مدد طلب کریں۔
تفسیر۔ اَلْحَمْدَلِلّٰہِ سے لے کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن تک کی عبارت سے یُوں ظاہر ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ بندہ کی نظر سے اوجھل ہے اور وہ اس کی تعریف کر رہا ہے۔ لیکن ایّاک نَعْبُدُ سے یک دم خدا تعالیٰ کو مخاطب کر لیا گیا ہے بعض نادانوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ یہ حسنِ کلام کے خلاف ہے۔ حالانکہ یہ حسنِ کلام کے خلاف نہیں۔ بلکہ حسنِ کلام کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے وہ بندہ کو نظر نہیں آتی۔ اس کی صفات کے ذریعہ سے وہ اسے شناخت کرتا ہے۔ اور اس کے ذکر کے ذریعہ سے وہ اس کے قریب ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل کی آنکھیں اسے دیکھ لیتی ہیں۔ ان آیات میں سلوک کے اس نکتہ کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ رَبّ الْعَالَمِیْن رَحْمٰن۔ رَحِیْم۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفات پر جب انسان غور کرتا ہے۔ تو اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت شدید طور پر اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے تب وہ روحانی طو رپر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف اور اس کی محبت سے مغلوب ہو کر بے اختیار چلا اٹھتا ہے۔ کہ اے رب میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ پس اس طرح ضمائر کر بدل کر اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ قرآن کریم میں بتائی ہوئی صفات پر غور کرنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی ملاقات حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بندہ کے سامنے آ جاتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے عن ابی ھُریرۃ عن رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہِ عُلیہ وسلم یقول اللّٰہ قسمتُ الصّلوٰۃ بَیْنِی و بین عبدی نِصْفین فنصفہالی و نصفہا لعبدی و لعبدی ماسألَ فاِذَا قال العبدُ الحمدُلِلّٰہِ ربّ العالمین قال اللّٰہُ حَمَدَنی عبدی واذا قال الرَّحْمٰن الرَّحیم۔ قال اثنٰی عَلَیّ عبدی و اذا قال مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن قال مجد نی عبدی و ربما قال فَوَّضَ اِلیّ عبدی و اذا قال اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن قال ھذا بینی و بین عبدی و لعبدی ماسأل و اذا قال اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم الخ (الیٰ اٰخرسورۃ) قال ھذا العبدی و لعبدی ماسال (مسلم کتاب الصلوۃ باب و جوب قراء ۃ الفاتحہ فی کل رکتہ) یعنی حضرت ابوہریرۃ فرماتے ہیں کہ بیٹے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے سورۃ فاتحہ کو اپنے اور اپنے بندہ کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ پس اس کا نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے۔ اور میرا بندہ جو کچھ مجھ سے (اس کے ذریعہ سے طلب کرتا ہے) وہ میں اسے دُونگا۔ جب بندہ میرے بندے نے میری حمد کی۔اور جب بندہ کہتا ہے اَلرَّحَمٰنِ الرَّحِیْم تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی ہے۔ او رجب بندہ کہتا ہے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے اپنا معاملہ میرے سپرد کر دیا ہے۔ او رجب بندہ کہات ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اُسے دُونگا۔ پھر جب بندہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمسے لے کر آخر تک کی آیات پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ دعا میرے بندے کے لئے ہے اور یہ سب کچھ میرے بندہ کو ملے گا۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل امو رکا استنباط ہوتا ہے۔ اول حمد ثنا اور تمجید میں فرق ہے۔ دوم مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی آیت کامل تو کل پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی اس میں یہ اشارہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو آخری نتائج کا مرتب کرنے والا قرار دے کر جب اَلْحَمْدُ کہتا ہے تو گویا وہ اس امر پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ درست ہے اور مجھے منظور ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ پر اس طرح توکل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کیوں نہ اس سے بخشش اور نرمی کا معاملہ کرے۔سوم یہ کہ اس سورۃ میں جن انعامات کے حصول کے لئے دُعا سکھائی گئی ہے وہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم ضرور ملیں گے کیونکہ اس دُعا کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ لعبدی ماسأل میرے بندہ نے جو کچھ مانگا ہے اُسے ضرور ملے گا۔
اس آیت میں نَعْبُدُ پہلے اور نَسْتَعِیْن بعد میں۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی توفیق تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی حاصل ہو سکتی ہے پھرنَعْبُدُ کو پہلے کیو ںرکھا۔ نَسْتَعِیْن پہلے چاہیئے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک عبادت بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتی ہے لیکن اس جگہ اعانت کا ذکر نہیں بلکہ استعانت کا ذکر ہے۔ یعنی مدد مانگنے کا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ جب بندہ کے دل میں عبودیت اور عبادت کا خیال پیدا ہو گا۔ اس کے بعد ہی وہ اللہ تعالیٰ دے دُعا مانگنے کا خیال کرے گا۔ جو عبادت کی طرف راغب ہی نہ ہو وہ مدد کیوں طلب کرے گا پس گو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اعانت کے بغیر عبادت کی توفیق نہیں ملتی لیکن استعانت یعنی بندہ کا اللہ تعالیٰ کے دروازہ پرجُھکنا عباد ت کا خیال آنے کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نعبدُ کو پہلے اور نستعین کو بعد میں رکھا گیا ہے۔
دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ارادہ بندہ کی طرف سے ہوتا ہے اور عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ اگر ارادہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو انسان کے اعمال اضطراری اعمال ہو جائیں۔ پس اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ جب بندہ کے دل میں عبادت کا خیال پیدا ہو۔ اسے اللہ تعالیٰ سے تکمیل ارادہ کے لئے دُعا کرنی چاہیئے اور کہنا چاہیئے کہ اے میرے رب میں تیری عبادت کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر اس عہد کی تکمیل تیری تیری عباد ت کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر اس عہد کی تکمیل تیری امداد کے سوا نہیں ہو سکتی۔ اس لئے تو میری مدد کر او رمجھے اس امر کی تفیق دے کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کروں۔
عبادت کامل تذال کا نام ہے۔ پس عبادت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو بندہ اپنے اندر پیدا کر لے عبادت کی ظاہری علامات صرف قلبی کیفیت کو بدلنے کے لئے مقرر ہیں۔ ورنہ اس میں کوئی شک انہیں کہ عبادت دل کی کیفیت اور اس کے ماتحت انسانی اعمال کے صدور کا نام ہے اور خاص اوقات کی تعیین اور قبلہ رو ہونا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا یا رکوع سجود کرنا یہ اصل عبادت نہیں بلکہ جسم کی ظاہری حالت کا اثر چونکہ دل پر ہوتا ہے اور توجہ بھی قائم ہوتی ہے نماز کے لئے کچھ ظاہری علامات بھی مقرر کر دی گئی ہیں۔ مگر وہ بمنزلہ برتن کے ہیں۔ جس میں معرفت کا دودھ ڈالا جاتا ہے یا بطور چھلکے کے ہیں جس میں عبادت کا مغز رہتا ہے۔
اس آیت میں اور بعد کی آیات میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی یوں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عبادت کرتے ہیں‘‘ اور ’’ہم مدد مانگتے ہیں‘‘ اور ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام ایک مدنی مذہب ہے وہ سب کے لئے ترقی چاہتا ہے۔ نہ کہ کسی ایک شخص کے لئے اور یہ بھی کہ ہر مسلمان دوسرے کا نگران مقرر کیا گیا ہے اس کا یہی کام نہیں کہ وہ خود عبادت کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کو عبادت کی تحریک کرے او راس وقت تک تحریک نہ چھوڑے جب تک وہ اس کے ساتھ عبادت کرنے میں شامل نہ ہو جائیں۔ اور وہ آپ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی توکل کی تعلیم دے اور اس وقت تک بس نہ کرے جب تک وہ توکل میں اس کے ساتھ شامہ نہ ہو جائیں اور وہ خود ہی ہدایت کا طالب نہ ہو بلکہ دوسروں کو بھی ہدایت طلب کرنے کی نصیحت کرے۔ او ربس نہ کرے جب تک ان کے دل میں بھی ہدایت طلب کرنے کی تڑپ پیدا ہو کر وہ اس کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں۔ اور خود بھی ہر دعا میں ’’میں‘‘ کی جگہ ہم کا لفظ استعمال نہ کرنے لگیں۔یہی تبلیغی اور تربیتی روح ہے جس نے اسلام کو چند سالوں میں کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔ اور گر آج مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو صرف اسی جذبہ کو اپنے دل میںپیدا کر کے جب تک مسلمان نَعْبُدُ اور نَسْتَعِیْن اور اِھْدِنَا کے الفاظ نہیں کہتے۔ جب تک ان الفاظ کو سچے طور پر کہنے کیلئے جدوجہد نہیں کرتے۔ اس وقت تک ان کا نہ دین میں ٹھکانا ہو گا نہ دُنیا میں۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت بھی اور استعانت بھی اور طلب ہدایت بھی بحیثیت جماعت ہی ہو سکتی ہے کیونکہ اکیلا آدمی صرف ایک محدود عرصہ کے لئے اور ایک محدود دائرہ میں عبادت کو قائم کر سکتا ہے۔ ہاں جو اپنی اولاد کو بھی اور اپنے ہمسائیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے وہ عبادت کا دائرہ وسیع کر دیتا ہے اور اس کا زمانہ ممتد کر دیتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ سچا عبد وہی ہے۔ جو اپنے آقا کی ملمو کہ اشیاء کو دشمن کے ہاتھ میں نہ پڑنے دے جو اپنے آقا کے باغ کو لٹتے دیکھتا اور اس کیلئے جدوجہد نہیں کرتا وہ ہر گز سچا بندہ نہیں کہلا سکتا۔
اِیّاکَ نَعْبُدُ و اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی آیت میں جبر اور قدر کے متعلق جو غلط خیالات لوگوں میں پھیل رہے ہیں۔ ان کا بھی رد کیا گیا ہے انسانی اعمال کے بارہ میں لوگوں میں دو غلط فہمیاں پیدا ہیں بعض تو یہ کہتے ہیں کہ جس قدر اعمال انسان سے سر زد ہو رہے ہیں جبر کے ماتحت ہیں یعنی انسان ان کے کرنے پر مجبور ہے۔ یہ خیال مذہبی لوگوں میں بھی ہے اور فلسفیوں میں بھی۔ اور اب علم النفس کے ماہرین کا ایک گروہ بھی ایک رنگ میں اس کا قائل ہو رہا ہے اور ان کا سردار ڈاکٹر فرائڈ آسٹرین پروفیسر ہے جو لوگ اس عقیدہ پر غلط مذہبی عقیدہ کی وجہ سے قائم ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے جس طرح ایک انجینئر جب عمارت بناتا ہے تو کسی اینٹ کو پاخانہ میں اور کسی کو بالاخانہ میں لگاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ محتار ہے کہ جسے چاہے نیک بنائے اور جسے چاہے بدکار بنائے۔سو اس نے بعض کو نیک اور بعض کو بدکار بنایا ہے۔ مسیحیوں نے ورثہ کا گناہ تسلیم کر کے جبر کے مسئلہ کو رائج کیا ہے۔ کیونکہ جب انسان ورثہ کے گناہ سے کفارہ کے بغیر آزاد نہیں ہو سکتا تو جس قدر لوگ کفارہ پر ایمان نہیں لاتے گنہگار ہونے پر مجبور ہیں۔ تناسخ کا مسئلہ بھی جبر کی تائید میں ہے۔ کیونکہ جو جون سابق گناہ کی سزا میں ملی ہے لازماً ان دح بندیوں کے نیچے رہے گی جو ساقبہ گناہ کی وجہ سے اس پر لگا دی گئی ہیں فلسفیوں کے عقیدہ کی بنیاد صرف تجربہ پر تھی کہ باوجود کوشش کے بعض لوگ گناہ سے بچ نہیں سکتے۔ لیکن ڈاکٹر فرائڈ نے اس مسئلہ کو علمی مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چونکہ انسان کی تعلیم ک زمانہ اس کے ارادہ کے زمانہ سے پہلے شروع ہوتا ہے یعنی بچپن سے۔ اور ارادہ اور اختیار بلوغ کے وقت پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اس کا ارادہ آزاد ہے۔ بلکہ جس چیز کو ہم ارادہ کہتے ہیں در حقیقت وہ وہی میلان ہے جو بچپن کے اثرات کے نتیجہ میں اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ انسان اپنے افعال کو با ارادہ اور خیالات کو آزاد سمجھتا ہے لیکن در حقیقت وہ صرف بچپن کے تاثرات کے نتائج ہیں۔ اور چونکہ وہ اس کے نفس کا جزو بن گئے ہیں۔ وہ اسے بیرونی اثر خیال نہیں کرتا بلکہ اپنا ارادہ سمجھتا ہے۔
ڈاکٹر فرائڈ کے یہ خیالات نئے نہیں اسلام میں ان کی سند ملتی ہے جیسے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کہ بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ مگر اَبَوَاہُ یُہَوِّدَاِنہِ اَوْیُنَصِّرانِہِ (بخاری کتاب الجنائز باب ماقیل فی اولاد المشرکین) اس کے ماں باپ اسے یہودی یا مسیحی بنا دیتے ہیں۔ یعنی ان کی تربیت کے اثر سے وہ بڑا ہونے سے پہلے ان کے غلط خیالات کو قبول کر لیتا ہے او ربے سمجھے بوجھے ان کے راستہ پر چل کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کی پیدائش پرع اس کے کان میں اذان کہنے کا حکم دے کر بچپن کے اثرات کی وسعت اور اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں قرآن کریم نے ان خیالات کو غلط حصہ کی تردید کی ہے کیونکہ جبر کی صورت میں جزآء سزاء ایک بے معنی فعل ہو جاتا ہے اور اِیَّاکَ نَعْبُدُکہہ کر بتایا ہے کہ انسانی ارادہ اپنی ذات میں آزاد ہے۔ گو ایک حد تک وہ محدود ہو لیکن اس کے اس حد تک آزاد ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ کہ وہ ہدایت کو دیکھ کر اپنے لئے ایک نیا راستہ اختیار کرلے مثلاً گو انسان برے اثرات کے تابع ہو لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی صفات پر وہ غور کرے تو اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی آواز اس کے اندر سے پیدا ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر فرائڈ اور ان کے شاگرد اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں۔ کہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور خیالات بھی بدلتے رہتے ہیں دنیا کبھی ایک حال پر قائم نہیں رہتی۔ اگر بچپن کے اثرات ایسے ہی زبردست ہوتے کہ ان سے انسان آزاد نہ ہو سکتا تو چاہیئے تھا۔ کہ آدم سے لے کر اس وقت تک دنیا ایک ہی راہ پر گامزن رہتی۔ لیکن اس میں بار ہا تغیر ہوا ہے۔ اور ہو رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ایسے تغیرات ممکن ہیں۔ جو انسان کے خیالات کی رو کو اس سمت سے بدل دیں۔ جن پر اس کے بچپن کے تاثرات اسے چلا رہے تھے قرآن کریم نے اس کے نہایت زبردست دلائل دیئے ہیں۔ مگر اس جگہ ان کی تفصیل کا موقعہ نہیں یہاں صرف اجمالی طور پر اس آیت سے جو استدلال ہوتا تھا۔ اسے بیان کر دیا گیا ہے۔
جبر کے عقیدہ کے بالکل مخالف ایک اور خیال بھی ہے اور یہ ہے کہ انسان اپنے خیالات میں بالکل آزاد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں کوئی دخل نہیں دیتا۔ اسلام اس خیال کو بھی رد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم ان اثرات کو جو گردو پیش سے انسان پر پڑ رہے ہیں بالکل نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پس ضروری ہے کہ ایک بالا ہستی جو تمام اثرات سے بلا ہے انسان کی نگران رہے اور ایسے بداثرات جب خطرناک صورت اختیار کر جائیں۔ تو انسان کی مدد کر کے ان سے اسے بچائے۔ اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی دعا سکھا کر اس طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ تمہارا خدا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھا بلکہ تمہاری مجبوریوں کو دیکھ رہا ہے۔ پس تم اس کے مانگو تو وہ تم کو دے گا۔ کھٹکھٹائو تو وہ تمہارے لئے کھولے گا۔
۷؎ حل لغات
اِھْدِنَا ھدی سے ہے کہتے ہیں ھَداہ اِلَی الطریق بَیَّنَہ لَہٗ اسے رستہ بتایا۔ ھَدَی العُرُوسَ اِلیٰ بَعْلَہِا زَنَّھا اِلَیْہِ دُلہن کو اس کے خاوند تک لے گیا۔ ھَدیٰ فُلاَنًا تَقَدَّمَدٗ اس کے آگے آگے چلا کہتے ہیں۔
جَائَ تِ الخَیْلُ یَھْدِیْہَا فَرَسٌ اَشْقَرُ اَیْ یَتَقَدَّ مُہَا۔ گھوڑے آئے جبکہ ان کے آگے آگے ایک سرخ رنگ کا گھوڑا دوڑتا چلا آ رہا تھا (اقرب) پس ھدیٰ کے تین معنی ہیں راستہ دکھانا۔ راستہ تک پہنچانا اور آگے آگے چل کر منزل مقصود تک لئے جانا۔
قرآن کریم میں بھی ھدایۃ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک معنی اس کے کام کی طاقتیں پیدا کر کے کام پر لگا دینے کے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں آتا ہے اَعْطیٰ کُلَّ شَیًُ خَلْقَہ ثُمّ ھَدَٰی (طہ ۱ ع ۲) یعنی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ نے اس کے مناسب حال کچھ طاقتیں پیدا کیں پھر اسے اس کے مفوضہ کام پر لگا دیا۔ دوسرے معنی ہدایت کے قرآن کریم سے ہدایت کی طرف بلانے کے معلوم ہوتیہیں۔ مثلاً فرمایا وَجَعَلنَا مِنْھَمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِناَ (سجدہ ع ۳) اور ہم نے ان میں سے امام بنائے جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کو تورات کی طرف بلاتے تھے۔ تیسرے معنی ہدایت کے قرآن کریم سے چلاتے لئے آنے کے ہیں جیسے کہ جنتیوں کی نسبت آتا ہے کہ وہ کہیں گے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَ نٰا لِھٰذَا (اعراف ع ۵) سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو ہمیں جنت کی طرف چلاتا لایا اور جس نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا۔ اسی طرح ہدایت کے معنی سیدھے راستہ کے ساتھ موانست پیدا کرنے کے بھی ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہٗ (تغابن ع ۲) جو اللہ پر کامل ایمان لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ہدایت سے موانست پیدا کر دیتا ہے اور اچھی باتوں سے اسے رغبت ہو جاتی ہے۔ اس آیت میں راہ دکھانے کے معنی نہیں ہو سکتے کیونکہ جو ایمان لاتا ہے اسے راہ تو پہلے ہی مل چکا۔ ہدایت کے معنی کامیابی کے بھی قرآن کریم میں آتے ہیں سورۂ نور میں منافقوں کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ کہتے تو یہ ہی کہ انہیں جنگ کا حکم دیا جائے تو وہ ضرور اس کے لئے نکل کھڑے ہونگے لیکن عمل ان کا کمزور ہے فرماتا ہے قسمیں نہ کھائو عملاً اطاعت کرو۔ کیونکہ اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔ پھر فرماتا ہے اے رسول ان کے کہدے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اھاعت کرو۔ پھر اگر اس حکم کے باوجود تم پھر گئے تو رسول پر اس کی ذمہ داری ہے۔ تم پر تمہاری۔ اور یاد رکھو کہ اِنْ تُطِیْعُوْۃَ تھْتَدُوْا (نور ع ۷) اگر تم رسول کی بات اس بارہ میں مان لوگے تو نقصان نہ ہو گا بلکہ تم کا میاب ہو جائوگے اور فتح پائو گے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے اَلَّذِیْنَ اھْتَدَوُا زَادَ ھُمْ ھُدًی (سورہ محمد ع ۲) جو لوگ اس ہداتی کو جو انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ اپنے نفس میں جذب کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور ہدایت کرتا ہے قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوات ہے کہ ہدایت کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ اس کے بے انتہا مدارج ہیں۔ ہدایت کے ایک درجہ سے اوپر دوسرا درجہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب ہو جاتے ہیں انہیں ایک درجہ کے بعد دوسرے درجہ سے روشناس کرایا جاتا ہے۔
صراط۔ راستہ یہ لفظ ص سے بھی لکھا جاتا ہے اور س سے بھی صراط یا سراط ایسے راستہ کو کہتے ہیں جو صاف ہو۔ چنانچہ عربی کا محاورہ ہے سَرَطْتُ الطعَامَ میں نے بسہولت نگل لیا۔ اور اچھے اور ہموار راستہ کو سراط یا صراط اس لئے کہتے ہیں کہ گویا اس پر چلنے والا اسے کھاتا جاتا ہے۔ (مفردات)
مستقیم۔ استقامۃ سے ہے۔ مفردات میں ہے۔ اَلْاِسْتَقَامَۃُ یُقَالُ فی الطویقِ الذی یکونُ علی خطٍّ مُسْتَوٍربہِ شُبِّہَ طریقُ المحقِّ نحو اِھْدِنَا الصّراط المستقیم یعنی استقامۃ اس راستہ کے لیے بولا جاتا ہے جو سیدھا ہو اور اس وجہ سے جو شخص راستی پر ہو۔ اس کے طریق کو بھی مستقیم کہتے ہیں۔ چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی آیت میں یہی معنی ہیں۔
تفسیر۔ اس آیت میں ایسی اعلیٰ اور مکمل دُعا سکھائی گئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ دعا کسی خاص امر کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے متعلق ہے اور دینی اور دنیوی ہر کام کے متعلق اس دعا سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہر کام خواہ دینی ہو یا دنیاوی اس کے پورا کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی طریق ہوتا ہے اگر اس طریق کو اختیار کیا جائے تو کامیابی ہو گی ورنہ نہ ہو گی۔ پھر بعض دفعہ کئی طریق ایک کام کو کرنے کے نظر آتے ہیں۔ جن میں سے بعض ناجائز ہوتے ہیں اور بعص جائز۔ جو جائز راستے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو مراد تک جلدی پہنچا دیتے ہیںاور بعض دیر سے پہنچاتے ہیں۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں۔ کہ وہ ہماری اس طریق کی طرف راہنمائی کرے جو اچھا اور نیک ہو اور جس پر چل کر ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور جلد سے جلد کامیاب ہوں کیسی سادہ اور کیسی مکمل یہ دعا ہے او رپھر کیسی وسیع ہے زندگی کا وہ کونسا مقصد ہے جس کے متعلق ہم اس دعاکو استعمال نہیں کر سکتے اور جو شخص یہ دعا مانگنے ا عادی ہو وہ کس کس رنگ میں اپنی محنت کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرایا جائے گا کہ ہر مقصد کے حصول کے لئے اچھے طریق بھی ہیں او ربرے طریق بھی ہیں اور یہ کہ اسے ہمیشہ اچھے طریق کے تلاش کرنے اور اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے پھر اچھے طریقوں میں سے بھی اس طرق کو اختیار کرنا چاہیے جو سب سے قریب ہو اس کا دماغ کس طرح اس تعلیم کو اپنے اندر جذب کریگا ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا کہ اسے صراط مستقیم دکھایا جائْ اس کا دماغ خود بھی اس خیال سے متاثر ہو گا اور اس کی اپنی کوشش بھی اپنے سب کاموں میں ایسے ہی راستہ کی تلاش میں خرچ ہو گی اور جو شخص اپنے کاموں میں ان اصول کو مدنظر رکھے گا کہ (۱) میرے سب کام جائز ذرائع سے ہوں (۲) میں کسی ایک مقام پر پہنچ کر تسلی نہ پا جائوں بلکہ غیر محدود ترقی کی خواہش میرے دل میں رہے (۳) اور میرے وقت ضائع نہ ہو بلکہ ایسے طریق سے کام کروں کہ تھوڑے سے تھوڑے وقت میں ہر کام کو پورا کر لوں اس کے مقاصد کی بلندی اور اس کے اعمال کی درستی اور اس کی محنت کی باقاعدگی میں کیا شک کیا جا سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اس دعا کو اخلاص سے مانگتے رہیں اور اس کے مطالب کو ذہن نشین کریں تو دعا کے رنگ میں تو جو فائدہ ہو گا وہ تو ہو گا ہی اس کا جو اثر طبعی طور پر مسلمانوں کے دماغ پر ہو گا وہ بھی کچھ کم قابل قدر نہیں ہے۔
بعض معترض کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر نماز میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کہنے کا حکم دیا گیاتھا اور ان کے رسول بھی یہ دُعا روزانہ مانگتے تھے پھر کیا انہیں صراط مستقیم مل نہ تھی کہ بار بار یہ دعا مانگتے تھے ۔ کس قدر مضحکہ خیز یہ اعتراض ہے او رکس قدر تعجب ہے کہ پڑھے لکھے مسیحی اور ہندو بے تکلفی سے یہ اعتراض بیان کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ مسلمان اب اس کا کیا جواب دیں گے۔ اوّل تو جیسا کہ اوپر ہدایت کے معنے بیان ہو چکے ہیں ہدایت کے معنے صرف کسی بات کے بتائے کے نہیں ہوتے بلکہ بتانے۔ اس تک لے جانے اور آگے ہو کر لئے چلے جانے کے ہوتے ہیں پس مختلف قسم کے دُعا کرنے والوں کے لئے اس کے مختلف معنے ہونگے وہ جنہیں ہدایت کا علم بھی ابھی حاصل نہیں ہوا ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے یہ معنی ہونگے کہ ہمیں بتا کہ ہدایت کیا ہے اور کس مذہب یا کس طریق میں ہے اور جن لوگوں کو ہدایت کا علم تو ہو چکا ہے لیکن اس کے قبول کرنے میں ان کے لئے مشکلات ہیں نفس میں کمزوری ہے یا دوست احباب ایسے مخالف ہیں کہ صداقت قبول کرنے سے باز رکھ رہے ہیں یا رہبر کامل دور ہے اور اس تک پہنچنا مشکل ہے یا اس علاقہ میں صحبت صالح میسر نہیں اس شخص کے لحاظ سے اس دُعا کے یہ معنے ہونگے کہ مجھے ہدایت تک پہنچا دے یعنی علمی رنگ میں تو میں ہدایت کو سمجھ گیا ہو مگر عملی طو رپر اس کے اختیار کرنے میں جو دقتیں ہیں انہیں بھی دور کر دے۔ لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہے جسے علمی طور پر بھی ہدایت میسر آ گئی ہے او رعملی مشکلات بھی دور ہو گئی ہیں اور وہ ہدایت میسر آ گئی ہے اور عملی مشکلات بھی دور ہو گئی ہیں اور وہ ہدایت کے راستے پر قدم زن ہے تو اس کے لئے اس دُعا کے یہ معنے ہونگے کہ اے خدا تیری ہدایت وسیع ہے اور عرفان کی راہیں غیر محدود ہیں مجھے اپنے فضل سے ہدایت کے راستہ پر آگے بڑھاتا لئے چل میرا قدم کسی جگہ نہ ٹھیرے اور میں صداقت کے اسرار سے زیادہ سے زیادہ واقف ہوتا جائوں اور آگے سے زیادہ مجھے اس پر عمل کرنے کی توفیق ملتی جائے۔ ان تینوں معنوں کو مدنظر رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ کوئی انسان بھی ایسا ہو سکتا ہے جسے کسی وقت بھی اس دُعا سے استغنا حاصل ہو جائے مسلمانوں کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیشک بہت کامل تھے لیکن اسلام کا خدا غیر محدود طاقتوں والا ہے کوئی کتنی بھی ترقی کر جائے پھر بھی ترقی کّی گنجائش اس کے لئے باقی رہتی ہے اور پھر بھی اس کے لئے ضرورت باقی رہتی ہے کہ وہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کرتا رہے۔
دین تو دین دنیا کے متعلق بھی انسان کا علم بڑھتا رہتا ہے اور کوئی علم بھی تو ایسا نہیں جس میں مزید ترقی کی گنجائش نہ ہو پس دُنیا کے کاموں میں بھی انسان محتاج ہے کہ ہمیشہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا کرتا رہے کہ اس کے ذریعہ سے علم کی ترقی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دُعا بجائے محل اعتراض ہونے کے علم کے بارہ میں اسلام کا ایسا وسیع نظریہ پیش کرتی ہے جو قرآن کریم کی برتری کی ایک زبردست دلیل ہے قرآن پہلے مذاہب کی موجودگی میں آیا اور انہیں منسوخ کر کے اس نے ایک نئے اور مکمل دین کے قیام کا دعویٰ کیا مگر باوجود اس کے اس نے دوسرے ادیان کی طرح یہ نہیں کہا کہ اس کے زمانہ میں علم ختم ہو گیا بلکہ یہ کہا کہ اس کے ذریعہ سے علم کی زیادتی ہمیشہ ہوتی رہے گی اور اس کے لئے مسلمانوں کو دُعا سکھائی اور ان پر واجب کیا کہ وہ اسے ہر روز تیس پنتیس دفعہ پڑھا کریں اس طرح اس نے علم کی ترقی کے لئے انسانی نظریہ کو کس قدر وسیع کر دیا ہے۔
بعض لوگ اس نظریہ پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس سے تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم آخری ہدایت نامہ نہیں کیونکہ اگر علم کی زیادتی ہوتی رہتی ہے تو کیوں تسلیم نہ کیا جائے کہ کسی وقت قرآن کریم بھی منسوخ ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی اس سے بہتر کتاب لے لیگی اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ قرآن کریم سے بہتر کتاب کوئی لے آئے اور قرآن کریم کو منسوخ قرار دیدے لیکن تیرہ سو سال میں تو ایسی کتاب کوئی آئی نہیں فلسفیوں اور غلط مذاہب کے دلدادوں نے بہت زور لگایا لیکن اب تک ناکام ہی رہے ہیں پس جبکہ ایسی کوئی کتاب اب تک ناکام ہی رہے ہیں پس جبکہ ایسی کوئی کتاب اب تک مقابل پر پیش نہیں کی جاتی تو ہم اس پر غور ہی کیوں کریں۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ قرآن روحانی عالم ہے جو جسمانی عالم کا حال ہے وہی اس کا ہے دنیوی امور میں بھی انسانی علم ہر روز ترقی کرتا ہے مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ ہر روز نئی دنیا بنتی ہے بلکہ اسی پرانی دنیا کے اسرار اور غوامض لوگوں پر ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے نزول کے بعد جو روحانی عالم ہے کسی نئی کتاب کی ضرورت نہیں رہی مگر علم کی ترقی میں اس نے روک نہیں پیدا کی۔ جس طرح مادی قانون کے مطالعہ سے دنیوی علم میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح قآن کریم اپنے اندر وسیع اور انسانی پرواز کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر محدود علم رکھتا ہے جو لوگ اس پر غور کرتے ہیں جس قدر اخلاص ان کی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا میں ہوتا ہے اسی کے مطابق قرآن کریم کے اسرار ان پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ پس باوجود قرآن کریم کے آخری کتاب ہونے کے علم کی ترقی میں کمی نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بھی اس ترقی کی رفتار تیز ہو گئی ہے قرآن کریم کے صریح ارشاد سے ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ فرماتا ہے اَلَّذِِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی (محمدؐ ع ۲) جو لوگ ہدایت پاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ پھر او رہدایت دیتا ہے پس ہدایت کسی ایک شے کا نام نہیں بلکہ صداقتوں کی ایک وسیع زنجیر کا نام ہے جس کی ایک کڑی ختم ہوتی ہے تو دوسری سامنے آ جاتی ہے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں جس کے بارہ میں شانی علم قرآن کریم میں نہیں اس حقیقت کی موجودگی میں کسی دوسری شریعت کا پیغام سننا ایسا ہی ہے جیسے چشمہ پر بیٹھا ہوا انسان پانی کی تلاش کے لئے نکل کھڑا ہو۔
مجھے تعجب آتا ہے ان لگوں پر جو ہر روز اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا مانگتے ہیں او رپھر خیال کرتے ہیں کہ جو کچھ پہلے مفسر لکھ گئے اس سے بڑھ کر کچھ لکھنا ناجائز ہے ان کے بیان کردہ علوم کے باہر کوئی علم قرآن کریم میں نہیں ہے اگر یہ بات سچ ہے تو وہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا کیوں مانگتے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کے دینے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں انہیں پرانی تفسریں خرید کر یا دوسروں سے مانگ کر پڑھ لینی چاہئیں اور اس دُعا میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔
یہ دُعا ایسی جامع ہے کہ دین اور دُنیا کے ہر معاملہ میں اس سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے او رہدایت کا طالب خواہ کسی مذہب کا ہو اس سے فائدہ اُٗٹھانے میںکوئی عذر پیش نہیں کر سکتا۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم میں صرف سیدھے اور بے نقص راستہ دکھانے کی التجاء ہے کسی مذہب کا نام نہیں کسی خاص طریقہ کا ذکر نہیں۔ کسی معین اصل کی طرف اشارہ نہیں صرف اور صرف صداقت اور غیر مخلوط اور خالص صداقت کی درخواست ہے جسے ہر شخص اپنے عقیدہ اور خیال کو نقصان پہنچائے بغیر دہرا سکتا ہے۔ ایک مسیحی ایک یہودی ایک ہندو ایک زردشتی ایک بدھ ایک ہدریہ بھی ان الفاظ پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ دہریہ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا لیکن وہ یُوں کہہ سکتا ہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو میں اس سے کہتا ہو ںکہ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ پس یہ دُعا جامع بے ضرر اور عام ہے ہر شخص ہر حالت میں اس کا محتاج ہے اور اس کے مانگنے میں اسے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ میرا تجربہ ہے کہ جن غیر مذاہب کے لوگوں نے میرے کہے پر یہ دُعا مانگی ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر اسلام کی سچائی کھول دی ہے اور میں تجربہ کی بناء پر یقین رکھتا ہوں کہ جو کوئی بھی سچے دل سے یہ دُعا مانگے گا اس کی ہدایت کے لئے ضرور کوئی سامان حدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا جائے گا کہ یہ ممکن نہیں کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا موجود ہو اور ہدایت کے لئے چلانے والا اس کے دروازہ سے مایوس آئے۔
۸؎ حل لغات
اَنٔعَمْتَ۔ انعام سے ہے انعام کے معنی فضل کرنے اور زیادہ کے ہیں (اقرب) یہ لفظ ہمیشہ اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ منعم علیہ یعنی جس پر احسان ہوا ہو عقل والی ہستی ہو (مفردات) غیر ذوی العقول کی نسبت مثلاً گھوڑے بیل کی نسبت کبھی نہیں کہیں گے کہ فلاں شخص نے اس گھوڑے یا بیل پر انعام کیا ہاں یہ کہیں گے کہ فلاں انسان پر انعام کیا۔
اَنْغَضَبُ۔ ثَورَانُ دَمِ القلَبِ اِرَادَۃ الْانْتِقَامِ غضب جرم کی سزا دینے کے ارادہ پر دل میں خون کے جوش مارنے کو کہتے ہیں قَالَ علیہ السّلام اتقُوا لغضبَ فاِنَّہٗ جَمْرۃٌ تُو قَدُ فی قَلبِ ابنِ آدمَ الَمْ تَرَ والی انتفاخِ اَوْدَاجِہِ و حُمْرَۃِ عَیْفَیْہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں غضب سے بچو کیونکہ وہ ایک چنگاری ہے جو ابن آدم کے دل میں سلگائی جاتی ہے پھر فرمایا کیا تم نے دیکھا نہیں کہ جب کسی کو غضب آتا ہے تو اس کی رگیں پھول جاتی ہیں اور اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں وَاِذَا وُصِفَ اللّٰہُ تَعَالیٰ بِہٖ فَالْمرَادُاَلاِ نتقامُ دُوْنَ غَیْرِہِ اورجب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو تو اس کے معنی صرف جُرم کی سزا دینے کے ہوتے ہیں دوسری باتیں اس وقت مدنظر نہیں ہوتیں (مفردات) پر غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ کے یہ معنی ہوئے کہ جن کے افعال کو اللہ تعالیٰ نے برا قرار دیکر ان کے لئے سزا کا فیصلہ کر لیا ہے۔
وَلَا الضّالّین۔ ضَلَّ کے معنے سیدھے راستہ سے ہٹ جانے کے ہیں اور یہ لفظ ہدایت کے مقابل پر ہے اور ضلال کا لفظ راستی سے خلاف ہر فعل پر بولا جاتا ہے خواہ دانستہ ہو یا نادانستہ۔ معمولی فعل ہو یا کوئی بڑا جرم ہو (مفردات) ضَلَ کے معنے کسی کام میں منہمک ہو جانے کے بھی ہیں قرآن کریم میں آتا ہے۔ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (کہف ع ۱۲) ان کی تمام کوششیں دنیا کی زندگی میں ہی لگی ہوئی ہیں اور وہ بالکل دنیا کے کاموں میں ہی منہمک ہیں۔ یہ معنے وَوَجَدَکَ ضَالاً فَھَدٰی (الضحیٰ) کی آیت میں ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جب ہم نے تجھے اپنی محبت میں منہمک دیکھا اور اپنے عشق میں کھویا ہوا پایا تو اس کے نتیجہ میں ہم نے اپنی ذات تک تیری راہنمائی فرمائی اردومیں بھی کھویا ہوا کھویا رہنا انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہتے ہیں فلاں شخص تو آج کل کچھ کھویا کھویا سا رہتا ہے یعنی کسی خاص خیال میں محو رہتا ہے انگریزی میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے۔ میں صرف ان حوالوں سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک طبعی محاورہ ہے اور فطرت انسانی سے ایک نہایت قریب مناسبت رکھتا ہے اس وجہ سے بہت سی زبانوں نے اسے اختیار کر لیا ہے۔
وَوَجَدَکَ ضَالاً فَھَدٰی کے معنی بالکل اسی محاورہ کے مطابق ہیں یعنی محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشق الٰہی میں محو ہو گئے تھے اور ہر وقت کھوئے کھوئے رہنے لگ گئے تھے اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ اداد پسند آئی اور یہ عشق اس کے عشق کو جذب کرنے کا موجب ہو گیا۔ پس جو عاشق اس کے عشق میں کھویا گیا تھا وہ اسے خود جا کر اپنے دروازہ تک لے آیا۔ مگر یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ضَلَّ کا لفظ عام طور پر برے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے پس جب اچھے معنوں میں استعمال ہو تو اس کے لئے کسی قرینہ کی ضرورت ہو گی جیسے اوپر کی آیت میں فھدٰی کا قرینہ ہے۔
تفسیر۔ جب سیدھے راستہ کے دکھانے کی دُعا سکھائی تو اس میں اس امر کو بھی شامل کیا کہ وہ راستہ ان لوگوں کا ہو جن پر تُو نے انعام کیا ہے یعنی معمولی راستہ نہ ہو بلکہ اعلیٰ اور ترقی یافتہ ارواج کا راستہ ہو۔
یہ کیسا شاندار مقصد ہے جوہر مسلمان کے سامنے اسلام نے پہلی ہی سورۃ میں رکھا ہے اسے نیکیوں میں اور اچھی چیزوں میں صرف نیکی کی خواہش نہیں رکھنی چاہیئے بلکہ انعام جیتنے اولوں کی جماعت میں شامل ہونے کی خواہش رکھنی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والا چھوٹے درجہ پر صبر نہیں کر سکتا۔ خدا تعالیٰ کی محبت انسان کے دل میں ایسی وسعت پیدا کر دیتی ہے کہ وہ معمولی ترقی پر خوش نہیں ہوتا۔ وہ حوش ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی جستجو کے بعد کونسی چیز ہے جو اسے خوش کر سکے گی جو خدا تعالیٰ کا طالب ہوا وہ ساری ترقیات کا طالب ہوا۔ اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھا وہ کسی ترقی کو بھی آخری ترقی نہیں سمجھ سکتا۔ مگر مومن کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا مقام یہ ہے کہ یہ خواہش صرف اس کے دل سے پیدا نہیں ہوتی اس کا رب بھی اسے یہی تعلیم دیتا ہے کہ دیکھنا چھوٹے درجہ پر راضی نہ ہو جانا مجھ سے نیکی مانگو مگر معمولی نیکی نہیں بلکہ وہ نیکی جو ان لوگوں کو حاصل تھی جنہوں نے نیکیوں کی دور میں انعام حاصل کئے تھے اور کسی ایک دور کے انعام حاصل کرنے والوں کا انعام نہیں بلکہ سب انعام پانے والوں کے انعام مجھ سے طلب کرو۔
لغت کے متعلق تو میں اوپر بتا آیا ہو ںکہ انعام کے کوئی خاص معنے نہیں بلکہ ہر اچھی چیز کو جو خوشنودی کے اظہار کے لئے کسی کو دی جائے وہ انعام ہے خواہ وہ دنیوی ہو یا دینی۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ انہی وسیع معنوں میں آیا ہے سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعُرَضَ وَنَأَ بِجَا نِبِہٖ (بنی اسرائیل ۹) یعنی جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھر لیتا ہے او رایک طرف ہو جاتا ہے یعنی بجائے انعام پر شکر گزار ہونے کے ہماری طرف سے غافل ہو جاتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ انعام کے معنے دنیا کے سامان علم۔ ہنر دنیاوی عزتیں وغیرہ بھی ہیں کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو ایک احسان کا رنگ بھی رکھتی ہیں اور بہت سے لوگ ان احسانات کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کو بھلا دیتے ہیں۔
مصائب اور مشکلات سے بچا لینے کا نام بھی قرآن کریم میں نعمت آیا ہے۔ فرماتا ہے۔ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذُ کُرَوَ انِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْھَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَبْسٔطَؤٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھْمُ فَکَفَّ اَیْرِیَھٔمْ عَنْکُمً وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَ کَّلِ الْمْؤْمِنُوْنَ (المائدہ: ع ۲) اے مومنو اللہ تاعلیٰ کی نعمت کو یاد کرو جب ایک قوم (بُری نیّت سے) تمہاری طرف ہاتھ بڑہانے کا قصد کر رہی تھی تو ہم نے ان کے ہاتھوں کو تم (تک پہنچنے) سے روکے رکھا اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ احتیار کرو اور مومنوں کو چاہیئے کہ اللہ پر ہی توکل کیا کریں۔ اس آیت میں دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے کا نام نعمت رکھا گیا ہے۔
مگر جہاں ہر احسان نعمت ہے وہاں اس کا بھی انکار نہیں کیا جاس کتا کہ بعض احسان خاص طور پر نعمت کہلانے کے مستحق ہیں۔ کیونکہ وہ مختلف قسم کے احسانوں میں سے چوٹی کے احسان ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذَکُرٔوْ انِعْمَہٌ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکٗمْ مَّلُوْکَّا وَّاتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَ (مائدہ ع ۴) یعنی اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم اللہ نے جو تم پر نعمت کی ہے اسے ہر وقت اپنی نگاہ میں رکھو اور وہ نعمت یہ ہے کہے اس نے تم میں سے نبی بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو نسل انسانی کی مختلف اقوام میں سے اور کسی قوم کو نہ دیا تھا۔ اس آیت میں ان اشیاء کو جو انسان کے لئے نعمت قرار پا سکتی ہیں گنا گیا ہے اور یہود کو بتایا ہے کہ ان سب اقسام میں سے انہیں کثیر حصہ دیا گیا ہے۔
انسانی کمالات تین قسم کے ہوتے ہیں (۱) دنیوی ذاتی (۲) دینی ذاتی (۳) اور دینی دنیوی نسبتی یعنی علاوہ دنیوی اور دینی کمالات کی قسموں کے ایک کمال کی قسم یہ بھی ہے کہ کسی فرد یا قوم کو اپنے رقیبو ںپر کیا فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت کی اس قسم کی طرف انسان فطرتاً بہت راغب ہوتا ہے یعنی وہ صرف کمال کا طالب نہیں ہوتا بلکہ ایسے کمال کا طالب ہوتا ہے جو اسے اپنے ہمعصروں اور قیبوں پر فضیلت بخشے۔ مذکور بالا آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی طرف تینوں قسم کے کمالات منسوب فرمائے ہیں (۱) ان پر دنیوی انعامات ہوئے یہاں تک کہ وہ قوم ایک لمبے عرصہ تک بادشاہت کی وارث کی گئی۔
تمام دنیوی کمالات اپنے نشوو پانے کے لئے بادشاہت چاہتے ہیں اور جس قوم میں بادشاہت آ جائے اسے دنیوی ترقی کے سب اسباب میسر آ جاتے ہیں خواہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے یا نہ اُٹھائے اس لئے کسی قوم میں ایک لمبے عرصہ تک بادشاہت کا وجود قائم کر دینے کے یہ معنے ہیں کہ دنیوی ترقیات کے سب رستے اس کے لئے کھول دیئے گئے (۲) جس طرح بادشاہت دنیوی کامیابیوں کا ذریعہ ہے اس کی آخری منتہاء ہے اسّی طرح دینی کامیابیوں کا ذریعہ اور دینی ترقی کی منتہاء نبوت ہے اس بارہ میں حضرت موسیٰ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ وہ ذریعہ اور وہ انتہائی انعام بھی تم کو دیا گیا ہے۔ اور ایک دو نبی نہیں بلکہ ایک لمبا سلسلہ انبیاء کا تم کو عطا ہوا ہے۔
(۳) تیسرا انعام نسبتی ترقی ہے یعنی دنیوی یا دینی انعامات نہ ملیں بلکہ دوسری اقوام کے مقابلہ میں بھی زیادہ ملیں۔ جس سے ہمعصروں پر عزت اور فوقیت حاصل ہو حضرت موسیٰ علیہ السلام وَاٰتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْن فرما کر اپنی قوم کو توجہ دلاتے ہیں کہ دوسری اقوام پر برتری کا انعام بھی اللہ تعالیٰ نے تم کو بخشا ہے تم کو بادشاہت ہی نہیں دی بلکہ شہنشاہیت بھی دی ہے اور نبوت ہی نہیں دی بلکہ ایسے انبیاء عطا کئے جو دوسرے نبیوں کے لئے مشعل ہدایت کا کام دینے والے ہیں اور جن کے ماتحت اور انبیاء ہیں پس تینوں قسم کے انعام تم کو حاصل ہیں دنیوی بھی اور دینی بھی اور دوسری قوموں پر دنیوی اور دینی برتری بھی۔
یہ قول تو موسیٰ علیہ السلام کا ہے لین عبارت قرآن کریم کی ہے ایک مبصر اس کے الفاظ کے اختصار او راس کے معانی کی وسعت کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
صَراطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کے الفاظ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم سے مل کر معنوں میں بہت وسعت پیدا کر دی ہے ان الفاظ نے ایک مسلمان کا مقصود صرف یہ نہیں قرار دیا کہ وہ اپنے مقرر کردہ مقاصد کے حصول کے لئے سیدھا راستہ مانگے بلکہ یہ اصل قرار دیا ہے کہ وہ مقاصد عالیہ کے بارہ میں بھی اللہ تعالیٰ سے التجا کرے اور درخواست کرے کہ ہدایت کے راستے ہی مجھے نہ دکھا اور صرف منعم علیہ گروہ میں مجھے شامل نہ کر بلکہ ہدایت کے وہ طریقے اور تعلیم میں اور عرفان کی راہیں بھی مجھے سکھا جو منعم علیہ گروہ پر اس سے پہلے ظاہر کئے جا چکے ہیں یہ اعلیٰ امیدیں پیدا کر کے قرآن کریم نے امتِ محمد یہ پر ایک بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔
گو اس واضح تعلیم کی موجودگی میں اس امر کے ثبوت کے لئے کہ مسلمانوں کے ہر قسم کی ذاتی ترقیات کے راستے کھلے ہیں کسی مزید ثبوت کی ضرورت تو نہ تھی مگر چونکہ مسلمانوں میں عام طور پر مایوسی پیدا ہو گئی ہے ہم قرآن کریم سے دیکھتے کہ اس ہدایت طلبی کے معنے قرآن کریم نے کیا لئے ہیں اور کیا اس دُعا کی قبولیت کا بھی کوئی وعدہ کیا ہے یا نہیں سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ اَفَّھُمْ فَعَلُوْا مَایُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَتُبِیْتًاo وَّاذً الَّاٰ تَیْنٰہُمْ مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرً ا عَظِیْمًا وَّ لَھَدَ یْنٰہُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِیْمًاo وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُ ولٰٓکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓکَ رَفِیْقًاo(نساء ع ۹) یعنی اگر کمزور مسلمان بجائے نافرمانیوں کے حقیقی اطاعت کا نمونہ دکھائیںاور) جو ان سے کہا جاتا ہے اس پر عمل کریں ت واس کا نتیجہ ان کے حق میں بہت ہی اچھا نکلے۔اور اس سے ان کے ایمان مضبوط ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے انہیںبہت بڑا اجر ملے اور اللہ تعالیٰ انہیں صراط مستقیم دکھائے اور انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ جو اللہ اور اس کے اس رسول یعنی محمدؐ رسلو اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے منعم علیہ لوگوں میں شامل کرات ہے یعنی نبیوں میں صدیقوں میں شہیدوں میں اور صالحین میں اور یہ لوگ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کے لئے جو انعامات مقدر ہیں ان کا ذکر ہے اور وہی سورۃ فاتحہ والے الفاظ ہیں یعنی صراط مستقیم دکھانا اور صراط مستقیم بھی ان کا جو منعم علیہ گروہ تھا۔ وہ منعم علیہ گروہ کی تشریح فرمائی ہے نبی صدیق شہید اور صالح جس سے معلوم ہُوا کہ امت محمدؐ یہ کو سورہ فاتحہ میں جن اعلیٰ انعامات کے طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے دینی لحاظ سے اس کے مراد اعلیٰ روحانی مقامات ہیں او راللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سب کے سب مسلمانو ںکو ملیں گے۔
بعض لوگ اس موقعہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ سورۃ نساء کی آیت میں مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ہے یعنی وہ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہونگے نہ کہ ان میں سے۔ اس اعتراض کی کمزوری خود ہی ظاہر ہے اگر مَعَ کا لفظ نبیوں کے ساتھ ہوتا تب تو کہا جا سکتا تھا کہ امت محمدؐ یہ میں نبی نہ ہونگے مگر ایسے لوگ ہونگے جو نبیوںکے ساتھ رہیں گے لیکن قرآن کریم نے مَعَ کا لفظ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کے ساتھ لگایا ہے پس اگر مَعَ کے معنے یہ کئے جائیں کہ جس لفظ پر مع آیا ہے وہ درجہ مسلمانوں کو نہ ملے گا بلکہ اس درجہ کی معیت ملے گی تو پھر اس آیت کے یہ معنی بنیں گے کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی منعم علیہ یعنی انعام پانے والا نہیں ہو گا بلکہ صرف یہ ہو گا کہ ان کے کچھ افراد انعام پانے والوں کے ساتھ رہیں گے اور ان معنوں کو قرآن۔ حدیث اور عقل سلیم رد کرتی ہے۔
اگر کہا جائے کہ مَعَ کا لفظ در حقیقت اس تشریح کے ساتھ لگتا ہے جو اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کی اس آیت میں کی گئی ہے تو بھی یہ اعتراض بالبدامت غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ تشریح میں چار گروہوں کا ذکر ہے نبیوں شدیقوں شہیدوں اور صالحوں کا۔ اب اگر مَعَ کے معنے صرف معیت کے ہیں نہ کہ گروہ میں شمولیت کے تو پھر اس تشریح کے مطابق اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ مسلمان نبی نہ ہونگے بلکہ نبیوں کے ساتھ رہیں گے۔ صدیق نہ ہوں گے بلکہ صدیقوں کے ساتھ رہیں گے۔ اسی طرح شہیدوں اور صالح نہ ہونگے بلکہ شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ رہیں گے اس سے زیادہ غلط معنے اور کیا ہو سکتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اُمت محمدؐیہ کی ہتک کیا ہو سکتی ہے کہ اس امت میں نبی تو الگ رہے صدیق اور شہید اور صالح بھی نہ ہونگے ۔
بعض لوگوں نے اس جگہ پر اعتراض کیا ہے کہ نبوت تو موہبت ہے اس کے لئے دُعا کے کیا معنی اس کا جواب یہ ہے کہ دُعا اس امر کے لئے کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ اسے اعلیٰ سے اعلیٰ انعام عطا فرمائے۔ یہی اس آیت کا مفہوم ہے آگے یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ وہ جس پر جو چاہے انعام کرے اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رسَالَتَہٗ (انعام ع ۱۵) نبوت بیشک موہبت ہے مگر یہ موہبت ابوجہل پر کیو ںنہ ہوئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیو ںہوئی۔ موہبت کو جذب کرنے کے لئے بھی تو ایثار اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے دوسرے یہ کون کہتا ہے کہ مومن کو یہ سکھایا گیا ہے کہ وہ دُعا کرے کہ یا اللہ مجھے نبوت عطا کر۔ ایسی دعائیں روحانی امور تو الگ رہے دنیوی امور کے لئے بھی بعض دفعہ ناپسندیدہ اور مکروہ ہونگی۔ کوئی بڑھتی یہ دعا شروع کر دے کہ یا اللہ مجھے کالج کا پرنسپل بنا دے۔ یا کوئی لولا لنگڑا یہ دعا کرے کہ یا اللہ مجھے … کا سپہ سالار بنا دے تو یہ دعائیں لغو اور فضول ہونگی۔ دُعائوں کی قبولیت حالات اور مصالح آسمانی کے ماتحت ہوتی ہیں۔ پس مومن کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ روحانی مقامات کے لئے نام لے لے کر دعا کرے۔ نبوت تو الگ رہی اگر کوئی یہ دعا کرے کہ یا اللہ مجھے صدیق بنا دے۔ مجھے قطب بنا دے۔ مجھے شہید بنا دے۔ تو یہ دعا بھی ناپسندیدہ ہو گی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا کہہ کر دعا سکھائی ہے اِھْدِنِیْ کے الفاظ نہیں رکھے کیونکہ جمع کے الفاظ میں قومی ترقی کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قوم میں سے جسے جس قرب کے مقام کے لئے چنا جا سکتا ہے اس کے لئے اسے چن لیتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ دعا حصول انعام کے لئے ہے پس جب نبوت بھی موہبت یعنی انعام ہے تو اگر اس دعا کو قبول کے لئے حصول نبوت کی دعا قرار دیا جائْ ت واس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس دعا میں ہر قسم کے انعامات کے طلب کرنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور تمام کاموں میں صحیح راہ نمائی کی دعا سکھائی گئی ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ سب انعامات مسلمانوں کو ملیں گے او ران میں وہ خود نبوت کو شامل فرماتا ہے پس اس انعام کو الگ رکھنے کا حق کس کو حاصل نہیں۔
اس جگہ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین ہیں تو آپؐ کے بعد نبی کس طرح آ سکتا ہے سو اس اعتراض کا جواب بھی سورٔ نساو کی آیت میں موجود ہے کیونکہ اس آیت میں وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْل کے الفاظ ہیں یعنی اللہ اور محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے کو یہ انعام ملیں گے اور یہ ظاہر ہے کہ جو مطیع ہو گا اس کا کام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام سے الگ نہیں ہوسکتا۔ نہ وہ کوئی شریعت لا سکتا ہے پس جو نبی محمد رسول اللہ کے تابع ہو گا وہ خاتم النبین کے خلاف نہیں بلکہ اس کے معنوں کو مکمل کرنے والا ہو گا۔
ایک صاحب جو اس زمانہ کے مفسر ہیں۔ اور اپنے ترجمہ قرآن کریم کو بار بار پیش کرنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر یہ دُعا نبوت کے حصول کے لئے ہوتی تو کم از کم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام نبوت سے کھڑا ہونے سے پہلے سکھائی جاتی مگر قرآن کریم میں اس کا موجود ہونا بتاتا ہے کہ مقام نبوت کے ملنے کے بعد سکھائی گئی پس نبوت عطا فرمانے کے بعد اس دُعا کا سکھانا بتاتا ہے کہ حصول نبوت کے لئے یہ دعا نہیں۔ یہ اعتراض انتہاء درجہ کا بودا اور مصنف کے قلت تدبیر پر دلالت کرتا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم میں جو دعا سکھائی گئی ہے وہ تو ایک طبعی دعا ہے ان الفاظ میں دعا کرنا صرف اس لئے بابرکت ہے کہ قرآنی الفاظ مبارک ہیں اور غلطی سے پاک ورنہ تمام حق کے متلاشی خواہ کسی مذہب کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں جب ان کے دل میں صداقت کے پانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ انہی کے ہم معنی الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اور اپنے پیاروں کا راستہ رکھا۔ کیا کوئی معقول انسان بھی یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نبوت سے پہلے یہ خواہش پیدا نہ ہوئی تھی کہ خدا تعالیٰ انہیں سیدھا راستہ دکھائے اور اپنے پیاروں کی راہ پر چلائے۔ اس قسم کا تو خیال بھی انسان کو کافر بنا دیتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی تڑپ ہی تو تھی جس نے خدا تعالیٰ کے فضل کو اپنی طرف جذب کیا اس تڑپ کو ہی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآنی الفاظ نے صرف یہ فرق پیدا کیا ہے کہ اول الفاظ ایسے چنے ہیں جو کامل ہیں۔ اور ہر نقص سے پاک ہیں۔ دوسرے ان کے ذریعہ سے ان کے دل میں بھی تڑپ نہ ہوتی۔ تیسرے امید پیدا کر دی گئی ہے کہ ایسی دعا کرو گے تو قبول ہو گی۔ بلکہ حکم دیا ہے کہ یہ دعا کرو۔ ورنہ یہ خیال کرنا کہ اس قسم کا مفہوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیدا نہیں ہوتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بھی ہتک ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تو سیدھا راستہ پانے کی کوئی تڑپ نہ تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے زبردستی آپؐ کو نبی بنا دیا (نعوذ باللّٰہِ مِنْ ذٰلکَ الخرافات)
پھر اگر یہ اعتراض معقول ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے نزول سے پہلے نیک تھے یا نہیں خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار تھے یا نہیں۔ خدا تعالیٰ کا قرب انہیں قرآن کریم کے نزول سے پہلے حاصل تھا یا نیں۔ اگر ان باتوں کے جواب اثبات میں ہیں تو کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ پھر ہمیں اس نماز کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اس قسم کے روزہ کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اس قسم کے جہاد کی کیا ضرورت ہے۔ یا اور دوسرے شرعی احکام کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تقویٰ اور محبت الٰہی بغیر ان احکام پر عمل کرنے کے حاصل ہو گیا تھا تو ہمیں بھی ان کے بغیر حاصل ہو جائے گا۔ بلکہ دین کے معاملات ک وجانے دو۔ دنیوی چیزوں میں ہی اگر کوئی کہے کہ پہلی مرغی یا پہلا انڈا کیونکر بنا تھا۔ پہلا دانہ اور پہلا درخت کیونکر بنا تھا۔ اب بھی اسی طرح بن جائیگا ہمیں ان کے پیدا کرنے کے لئے قانون قدرت کے مطابق کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے تو اس شخص کو ہر کوئی نادان کہے گا خدا تعالیٰ کا قانون اس وقت کے لئے جب بیج مٹ جاتا ہے اور ہے اور جب بیج پیدا کر دیا جاتا ہے اور ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کے نزول سے پہلے دنیا سے پاکیزہ تعلیم مٹ چکی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک فطرت میں جذبات محبت پیدا ہوئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بغیر اس کے کہ وہ خاص الافظ یا خاص انداز میں بیان کئے جاتے ان کو قبول کیا اور نوازا۔ لیکن جب قرآن کریم نازل ہو گیا۔ ہر اک امر کے لئے خاص قواعد بن گئے تو اب ان کے بغیر وہ نعمتیں حاصل نہیں ہو سکتیں جو اس سے پہلے حاصل ہو سکتی تھیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اور شریعت کی بنیاد رکھ دی اور اب اس قانون اور شریعت سے باہر رہنے والا ہر گزکامیاب نہیں ہو سکتا۔
اس سوال پر ایک او رپہلو سے بھی نظر کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ کیا بہی صرف ایک عہدہ کا نام ہے یا نبی کے لئے تقویٰ طہارت اور قرب الی اللہ کّی بھی شرط ہے اگر ان باتوں کا پایا جانا نبی کے لئے شرط ہے ت وپھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ غیر نبی نبی سے تقویٰ اور طہارت اور قرب الی اللہ میں زیادہ ہو۔ اگر تو اس کا جواب یہ مفسر اور ان کے ہمنوا یہ دیں کہ ہاں یہ ممکن ہے کہ ایک غیر نبی تقویٰ طہارت اور قرب الی اللہ میں نبی سے بڑھ کر ہو توپھر نزاع لفظی رہ جاتی ہے۔ لیکن اگر اس سوال کا جواب یہ ہو کہ غیر نبی نبی سے ان باتوں میں افضل نہیں ہو سکتا تو جو شخص یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ظلی بروزی اور نبوت محمدؐیہ کی تابع نبوت بھی نہیں ہو سکتی وہ یہ کہتا ہے کہ اس امت میں کوئی شحص قرب الی اللہ کے اس مقام کو نہیں پہنچ سکتا جو مقام پر پہلے لوگ پہنچے تھے اور ایسا دعویٰ کرنے والا شخص یقینا امتِ محمدؐیہ کو انعام سے محروم قرار دیتا ہے۔
ایک اعتراض انہی مفسر صاحب نے یہ کیا ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں ایک مسلمان کی بھی دعا اس بارہ میں قبول نہ ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت تو دعا کی قبول نہ ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت تو دعا کی مقدار اور نوعیت پر منحصر ہے یہ معترض صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ صدیقت کا مقام اس امت میں مل سکتا ہے پس یہی سوال ان کے مسلمات کے متعلق بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس امت میں کتنے لوگوں کو صدیقیت کا مقام ملا ہے اگر گزشتہ تیرہ سو سال میں صرف ابوبکرؐ کو ملا ہے تو یہی اعتراض پھر بھی پڑے گا کہ کیا تیرہ سو سال میں یہ دعا او رکسی کے حق میں قبول ہی نہ ہوئی اور اگر اوروں کو بھی ملا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اشخاص عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ سے بڑھ کر تھے یا کم۔ اگر کم تھے تو پھر یہ کیونکر ہوا کہ کم درجہ کے لوگ صدیق بن گئے اور بڑے درجہ کے لوگ شہید تک ترقی پا سکے صدیق نہ کہلا سکے۔
غرض جو اعتراض نبوت کے اجراء پر ہوتا ہے وہی اعتراض صدیقیت کا دروازہ کھلا تسلیم کر کے اس پر ہوتا ہے پس یہ اعتراض محض قلت تدبر کی وجہ سے ہے حقیقت پر مبنی نہیں۔
اس آیت کے بارہ میں ایک اور نکتہ بیان کر دینا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کے جو نام بتائے ہیں ان میں سے دو نام ام القرآن اور ام الکتاب بھی ہیں (ابو دائود کتاب الصلوۃ) میرے نزدیک یہ نام قرآن کریم ہی سے مستنبط ہیں اور ان کا ماخذ یہی آیت ہے۔ اس آیت اور پہلی آیت میں بتایا ہے کہ عباد ت الٰہی کی آخری منزل یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے منعم علیہ گروہ والا صراط مستقیم طلب کرے۔ اب اگر یہ دعا قبول ہو سکتی ہے تو ظاہر ہے کہ جب انسانی دل سے یہ حیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی طرف پکا۔ بلند ہو گی کہے ہم تبہ ہو رہے ہیں ہمارے لئے ہدایت کا راستہ کھولا جائے اور اس کے ساتھ اس زمانہ کے اس مکمل اور پاکیزہ دل کی التجا اور تڑپ بھی شامل ہو جائے گی جسے اللہ تعالیٰ نے اس زڑانہ کا مرد میدان بنایا ہے تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا رحم جوش مارے گا اور فضل الٰہی اور ہدایت کی صورت میں نازل ہو گا اسی طرح ہر زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا چلا جائیگا۔
نوحؒ کے وقت کے مظلوموں کی دعائیں حضرت نوح علیہ السلام کے مطہر قلب کی گریہ و زاری سے مل کر اس کلام کو لائی تھیں جو نوع علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت کی ارواح کی پکار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب صافی کی تڑپ کے ساتھ مل کر صحفِ ابراہیم کے نزول کا موجب ہوئی تھی۔ یہی قصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ گزرا اور اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نزول قرآن کریم سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے الگ ہو کر غارِ حرا میں جا کر دعائیں اور عبادت کیا کرتے تھے یہ تو قلب اطہر کی حالت تھی جو اپنے خیالات کو پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے اس کے علاوہ دنیا کی مخفی آہیں بھی آسمان کی طرف بلند ہو رہی تھیں ان سب نے مل کر خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کیا اور قرآن کریم نازل ہوا۔ پس اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ در حقیقت اسی حالت کا نقشہ ہے جو نزول کلام سے پہلے دُنیا کی ہوتی ہے خصوصاً اس زمانہ کی پاکیزہ ارواح کی جن کے دل سے صرف آہ ہی نہیں اٹھتی بلکہ ان کے دماغ میں بھی ایک تلاطم برپا ہوتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں اس زمانہ کا کلام نازل ہوتا ہے پس چونکہ یہ دُعا سورۂ فاتحہ میں نازل ہوئی ہے او ریہی دُعا ہے جو کلام الٰہی کے نزول کا موجب ہوئی ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کا نام ام القرآن اور ام الکتاب رکھا۔ یعنی سورۂ فاتحہ میں وہ مضمون بیان ہوا ہے جو نزول قرآن کا موجب وا اور چونکہ کسی امر کے وجود کا موجب بمنزلہ ماں کے ہوتا ہے اس لئے سورۃ فاتحہ ام القرآن کہلائی۔
یہ بھی یاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سورۃ فاتحہ کو قرآن عظیم قرار دیا ہے اس کے یہ معنے نہیں کہ سورۂ فاتحہ قرآن عظیم ہے اور باقی قرآن چھوٹا ہے کیونکہ یہ امر بالبداہت غلط ہے پس اس کی وجہ اور ہے اور میرے نزدیک وہ وجہ ام القرآن اور ام الکتاب والے نام ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن اور ام الکتاب کہا تو آپؐ نے خیال فرمایا کہ اس سے الگ ہے اس لئے آپؐ نے اس کا نام قرآن عظیم بھی رکھا تاکہ مسلمانوں پر یہ واضح رہے کہ سورہ فاتحہ قرآن کریم سے باہر نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے کسی چیز کا حصہ بھی چونکہ پوری چیز کے نام میں شریک ہوتا ہے اس لئے آپؐ نے سورۃ فاتحہ کو قرآن عظیم فرمایا۔ ہم ہمیشہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ سننا چاہیں تو کہتے ہیں کہ حافظ صاحب قرآن کریم پڑھ رہا ہے یا ایک آیت میں جو مضمون ہوتا ہے اس کے بارہ میں کہتے ہیں کہ قرآن یُوں کہتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہمارے نزدیک صرف وہ سورۃ آیا آیت قرآن ہے باقی قرآن نہیں بلکہ ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ سورۃ یا وہ آیت جسے ہم پڑھتے ہیں یا جس کا حوالہ دیتے ہیں قرآن کا حصہ ہے۔
اس جگہ ایک اور لطیفہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن اور ام الکتاب بھی فرمایا ہے اور قرآن عظیم بھی فرمایا ہے گویا ایک طرف اسے ذریعہ پیدائش قرار دیا دوسری طرف اسے وہ چیز بھی قرار دیا جو اس سے پیدا ہوئی ہے اس میں ایک زبردست روحانی نکتہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ روحانی دنیا میں پہلی حالت دوسری حالت کی پیدا کرنے والی ہوتی ہے اس لئے پہلی حالت ایک جہت سے ماں کہلاتی ہے اور بعدکی حالت اولاد کہلاتی ہے اسی نسبت سے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن بھی کہا گیا اور بوجہ اس کے کہ وہ خود قرآن بھی ہے اسے قرآن بھی کہا گیا۔ انسانوں کے متعلق بھی ایسے ہی تغیرات کے مواقع پر اس قسم کے تشبیہی الفاظ استعمال کر لئے جاتے ہیں چنانچہ سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں کی مثال اِمْرَأَۃ فِرْعَوْن اور مَرْیَم بنت عِمْرَان سے دی جا سکتی ہے اور جن مومنوں کی مثال مریم بنت عمران سے دی ہے ان کے متعلق آخر میں فرمایا ہے فَنَفَغْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدّقَتْ بکَاِمَاتِ رَبِّہاَ وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ (سورہ تحریم ع ۲) ہم نے اس کے ادنر اپنا کلام پھونکا اور وہ اپنے رب کے کلام پر او راس کی کتابوں پر ایمان لائی اور آخر وہ ایک فرمانبردار مرد کی طرح ہو گئی یعنی جو لوگ مریمی صفت ہوتے ہیں جب ترقی کرتے کلام الٰہی کے مورد ہو جاتے ہیں تو مسیحی نفس بن جاتے ہیں۔
غرض سورہ فاتحہ کا نام ام القرآن اور ام الکتاب بھی رکھنا اور اسے قرآن عظیم بھی کہنا اسلامی اصطلاحات پر ایک لطیف روشنی ڈالتا ہے او ران لوگوں کے لئے اس میں ہدایت ہے جو اس مسئلہ کو نہیں سمجھ سکے کہ امت محمدیہ کے ایک شخص کا نام کس طرح مریم بھی رکھا گیا اور عیسیٰ بھی۔ اگر سورہ فاتحہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی ام بھر فرماتے ہیں اور قرآن بھی۔ توایک سچے مسلمان کے لئے اس امر کا سمجھنا کیا مشکل ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو مریم بھی فرماتا ہے اور عیسیٰ بھی۔ اس کی وہ حالت جب وہ حدا کے سامنے اس زمانہ میں ایک مسیح کے ظہور کے لیے چلا رہی تھی مریمی حالت تھی اور اس کی وجہ سے وہ مریم کہلایا جس طرح سورۃ فاتحہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کی وجہ سے جو ایک ہدایت نامہ کے لئے پکار رہی تھی ام القرآن اور ام الکتاب کہلائی۔ لیکن جب اس فرد کامل کی دعا سنی گئی اور خدا تعالیٰ نے اسی کو دنیا کے لئے مسیحی نفس عطا کر کے مبعوث فرما دیا تو وہ عیسیٰ کہلایا۔ جس طرح اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی پکار نے بلند ہو کر جب قرآن کریم کو دنیا کی طرف کھینچا اور یہ دُعا خود اس کا حصہ بن گئی تو ام القرآن اور ام الکتاب کہلانے کے بعد وہ قرآن عظیم کہلانے لگی۔
اس دعا کے باہر میں ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جسے صحابہ نے مدنظر رکھا اور ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں مل سکتی اور اگر بعد کے مسلمان بھی اسے یاد رکھتے تو یقینا وہ بھی ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے کہ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ کے لئے یادگار رہ جاتا۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس زرین ہدایت کو جو اس آیت میں بیان کی گئی تھی۔ بھلا دیا اور اس معیار سے گر گئے جس پر کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ اگر آج بھی مسلمان اس ہدایت کو اپنا ملمح نظر بنا لیں تو سب تکلیفیں ان کی فوراً دُور ہو سکتی ہیں اور پھر وہ بے مثال عزت اور رفعت حاصل کر سکتے ہیں۔
وہ سبق جو اس آیت میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ ہر قوم کا ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ اسی طرح دُنیا کی پیدائش کا بھی ایک مقصد ہے جو قوم اس مقصد کو پورا کر دے دُنیا کی پیدائش کا اصل مقصود کہلانے کی وہی قوم مستحق ہو گی آدم علیہ السلام دُنیا میں آئے اور کچھ نیکیاں انہوں نے دُنیا کو بتائیں اس زمانہ کے لوگوں کے لئے وہ نہایت اعلیٰ تعلیم پر مشتمل تھیں۔ ان نیکیوں پر عمل کر کے اس زمانہ کے لوگوں نے بہت بڑی روحانی اور اخلاقی تبدیلی پیدا کی اور ان کی ذہنی قومیں پہلے لوگوں سے بہت آگے نکل گئیں مگر ابھی انسان اس کمال کو نہ پہنچا تھا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا پس اس کی ترقی کے لئے جستجو جاری رہی یہاں تک کہ نوع علیہ السلام پیدا ہوئے اور وہ انسان کو ترقی کی بلندی پر ایک منزل اور اونچا لے گئے مگر انسان نے گو نوح علیہ السلام کے ذریعہ سے روحانی اور اخلاقی اور ذہنی طو رپر ترقی کی مگر ابھی وہ مقصد حاصل نہ ہوا تھا جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا چنانچہ آپؐ کے بعد اور نبی آیا اور اس کے بعد اور۔ اور اس کے بعد اور۔ اور یہ سلسلہ چلتا چلا گیا یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ظاہر ہوئی اور آپؐ نے تمام راز ہائے سربستہ جو انسان پر اب تک پوشیدہ تھے ظاہر کر دیئے اور دینی اور ذہنی اور اخلاقی ترقی کے لئے جس قدر ضروری امور تھے وہ سب کے سب بیان کر دیئے اور گویا علمی طور پر مذہب کو کمال تک پہنچا دیا۔ اور اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ کا اعلان کر دیا مگر جب تک اس اعلیٰ تعلیم کو جامہ عمل نہ پہنایا جاتا اس کے نزول کی غرض پوری نہ ہو سکتی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پوری طرح کامیاب نہیں کہلا سکتی تھی پس اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں مسلمان کو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا سکھائی اور کہا کہ ہمیشہ اپنے سامنے یہ مقصد رکھو کہ جس مقامِ محمود کو سامنے رکھ کر اس دُنیا نے شروع سے رُوحانی سفر احتیار کیا ہے اور جس کی مختلف منزلوں تک مختلف انبیاء انسانوں کو پہنچاتے چلے آئے ہیںاور جس کی آخری منزل تک پہنچانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا ہے اس تک تم پہنچ جائو۔
پس سارے کے سارے منعم علیہ گروہ کی نعمتو ں سے ہمیں حصہ دے کے یہ معنی ہیں کہ اے خدا ہم کو آدم کی امت کی نیکیاں دے او رپھر ہماری ذہنی ترقی نوح کی امت کی طرح کر پھر ابراہیم کی امت کے مقام پر پہنچا اور پھر موسیٰ کی امت کے کمالات ہمیں دے اور پھر مسیح کی روحانیت کے اثر سے ہمیں حصہ دے اور اس طرح منزل بہ منزل روحانی بلندیوں پر چڑھاتے ہوئے بالآخر مقام محمدؐ پر ہم کو قائم کر دے تاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو اور وہ مقام محمود پر ـفائز ہو جائیں غرض صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے مُراد انسانی کمال کی وہ آخری منزل ہے جس کی طرف شروع سے انسانی قافلہ بڑھتا آ رہا ہے اور جس کی مختلف منزلوں کی راہنمائی مختلف زمانہ کے انبیاء کے سپرد تھی اور جس کی آخری منزل تک پہنچانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا تھا اور اس دعا کے ذریعہ اس امت محمدؐیہ کے افراد درخواست کرتے ہیں کہ الٰہی دین کی تکمیل تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے تو نے کر ہی دی ہے اب یہ امر باقی ہے کہ ہم لوگوں کے اعمال بھی اس دین کے مطابق ہو جائیں اور ہم ان تمام مخفی اور اعلی قوتوں کا اظہار کریں جن کی مختلف انبیاء کے ذریعے سے نشوونما کی جا چکی ہے اور جن کا پیدا کرنا انسانی پیدائش کا آخری اور اور اعلیٰ مقصد ہے سو اس کام کے لئے ہم کھڑے ہو گئے ہیں اب تو ہماری مدد کر اور ان سب منازل عرفان کو یکجائی طو رپر طے کرا دے جنہیں فرداً مختلف انبیاء کے ذریعہ سے مختلف اقوام طے کر چکی ہیں تاکہ انسانی پیدائش کا مقصد امتِ محمدؐیہ کے ذریعہ سے پورا ہو جائے۔
صحابہؓ نے اس مقصد کو سامنے رکھا اور زمانہ سابق کی سب اقوام کے اخلاق کو یکجائی طور پر اپنے وجود میں پیدا کر کے ایک بے مثال نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا آج اگر ہماری جماعت اس مقصد کو پھر اپنے سامنے رکھ لے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمود پر مبعوث ہونے کا وقت او ربھی قریب ہو جائے گا اور دنیا اپنی پریشان گن بے تابیوں سے محفوظ ہو جائے گی۔
ہر شخص یا قوم جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے اس کے غضب کو بھڑکا چکی ہو مَعْضُوْب عَلَیْھِمْ میں شامل ہے اسی طرح ہر قوم جو غیر اللہ کی محبت میں کھوئی گئی ہو اور اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھی ہو وہ ضال ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں لفظوں کے خاص معنے بھی کئے ہیں امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں عدمی بن حاتم سے ایک لمبی روایت نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں ہے۔ قال (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) انَّ الْمَغْضُوْبَ عَلَیْھِم ایہودُ وانَّ الضّالَینَ النصَاریٰ۔ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں۔ اسی طرح ترمذی نے بھی یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے بارہ میں کہا ہے کہ حسن غریب ابن مردویہ نے ابو ذر غفاریؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسألتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ وسلَّم عن الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمُ قَالَ ایہود و قلتُ الضّالّین قَالَ النصَاریٰ (بحوالہ فتح البیان جلد اول) یعنی حضرت ابو ذر فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلیہ اللہ علیہ وسلم سے پوچھا مغضوب علیھم کون ہیں آپؐ نے فرمایا۔ یہود پھر میں نے کہا کہ ضالین کون ہیں تو آپؐ نے فرمایا۔ نصاریٰ۔
بہت سے صحابہؓ سے بھی یہ معنے ثابت ہیں مثلاً ابن عباس اور عبداللہ بن مسعود ابن ابی حاتم تو یہاں تک کہتے ہیں وَلَا اَعْلَمُ بَیْنَ الْمُفَسِّرِیْنَ فِی ھٰذَا اِخْتِلَافاً۔ یعنی تمام مفسرین ان معنوں پر متفق ہیں اور اس بارہ میں میں نے ان میں کوئی اخلاف نہیں دیکھا (ابن کثیر)
قرآنی آیات سے بھی ان معنوں پر استدلال ہو سکتا ہے کیونکہ یہود کی نسبت قرآن کریم میں بار بار غضب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورہ بقرہ میں ہی فرماتا ہے۔ فَبَآئَ وَ بِغَضَبٍ عَلی غَضَب (ع ۱۱) یہود خدا کے متواتر غضب کو لے کر اس طرح بن گئے کہ گویا خدا تعالیٰ کا غضب انہی کے لئے ہے۔ اس کے برخلاف نصاریٰ کے لئے ضَلَّ کا لفظ آیا ہے جیسے فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیٔہُمْ فِی الَّحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (کہف ع ۱۲) اسی طرح سورۂ مائدہ میں مسیحیوں کا ذکر کر کے اور مسیح اور ان کی والدہ کو خدائی کا رتبہ دینے کا بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لَاتَعْلُوا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْ اکَثِیْرًا وَّضَلُّوْ اعَنْ سَوَآئِ السَّجِیْل (مائدہ ع ۱۰) اے اہل کتاب (یعنی نصارے کیونکہ اس جگہ انہی کا ذکر ہے) اپنے مذہبی خیالات میں غلو سے کام نہ لو اور ایسے لوگوں کے خیالات او رانکی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے سے گمراہ چلے آ رہے ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر چکے ہیں اور سیدھے راستہ سے بھٹک چکے ہیں یعنی عام نصاریٰ کو بتایا ہے کہ سب نصارے شرک کے عقیدہ کے قائَنہ تھے ان میں سے موجد بھی تھے او رمشرک بھی۔ مشرک گروہ جو سیح کو خدا قرار دیتا تھا وہ خود بھی گمراہ تھا اور اس نے باقی مسیحیوں میں بھی اپنا عقیدہ پھیلانا شروع کیا اور اکثر حصہ کو اس گمراہی کے عقیدہ پر لے آیا۔ اور جو سیدھا راستہ توحید کا تھا اُسے چھوڑ دیا۔
غرض قرآن کریم سے بھی اور اقوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ مفضوب علیہم میں خاص طو رپر یہود مراد ہیں اور ضالین سے خاص طور پر نصاریٰ مراد ہیں۔
یہ آیت اَلَّذِیْنَ کا یا اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں جو ھم کی ضمیر ہے اس کا بدل ہے او راس کامفہوم یہ ہے کہ اے اللہ ہمیں منعم علیہ گروہ کے راستہ پر چلا اور منعم علیہ سے ہماری مراد ایسے منعم عیہ ہیں جو بعد میں تیرے غضب کے مورد نہ ہو گئے ہوں یا جو کسی اور کی محبت میں تجھے چھوڑ نہ بیٹھے ہوں۔ اس مضمون میں مومن کے لئے خشیت کا بہت بڑا سامان مہیا ہے اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک انسان اس مقام تک نہ پہنچ جائے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں اسے کبھی مطمئن نہیں ہونا چاہیئے اور جدوجہد میں لگا رہنا چاہئے کہ اس کا قدم زیادہ سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تقویٰ کی راہو ںپر پڑتا رہے تا ایسا نہ ہو کہ تھوڑی سی غفلت سے وہ اپنے مقام سے گر کرتبہ اور برباد ہو جائے۔
اس آیت میں ایک بہت بڑی پیشگوئی ہے جو ہر سوچنے والے کے لئے ترقی ایمان کا موجب ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس وقت یہود اور نصاریٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ تھے بلکہ کفار مکہ آپؐ کے مقابلہ پر تھے۔ یہود اور نصاریٰ کی تعداد مکہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی او رنہ ان کا حکومت میں کوئی دخل تھا پھر کیا وجہ ہے کہ اس سورۃ میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر مشرک ہونے سے بچائے بلکہ یہ سکھایا گیا ہے کہ دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ کے طریق پر چلنے سے بچائے مشرکین کا ذکر چھوڑ کر یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مشرکین مکہ کا مذہب ہمیشہ کے لیے تبہ ہو جائے گا اس لئے اس دعا کی ضرورت ہی نہیں کہ خدا مسلمانوں کو مشرکین مکہ سا ہونے سے بچائے لیکن یہود اور نصاریٰ کا مذہب قائم رہے گا اس لئے اس بارہ میں دعا کرنے کی ضرورت رہے گی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ میں شامل ہونے سے بچائے۔
اس آیت میں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مسیحی تو اپنے مذہب میں مسلمانو ںکو شامل کرتے ہیں اس لئے اس دُعا کی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصارے کے فتنہ سے بچائے۔ لیکن یہود تو بالعموم غیر مذاہب کے افرا دکو اپنے اندر شامل نہیں کرتے پھر اس دعا کی کیا ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں یہود ہونے سے بچائے خدا تاعلیٰ کا کلام ایک بے معنی اور بے ضرورت دعا کے کرانے کا مجرم نہیں ہو سکتا نہ یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسی غیر ضروری دعا دن میں تیس چالیس بار پڑھنے کا حکم دیں گے۔ پس مسلمانوں کو غور کرنا چاہیئے کہ یہودی فتنہ کسی اور رنگ میں تو ان کے لئے ظاہر نہیں ہونے والا۔ کیا یہ تو ان کے لئے ظاہر نہیں ہونے والا۔ کیا یہ تو ممکن نہیں کہ آنے والے مسیح کا انکار کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت یہود کے مشابہ ہو جائے گی۔ اوریہ حالت اس وقت ہو گی جبکہ مسیحی فتنہ بھی بڑے زور سے اسلام پر حملہ کر رہا ہو گا۔ پس ایک طرف توایک مثیل مسیح کا انکار کر کے انہیں یہود سے مشابہت ہو جائیگی اور وہ خدا تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جائینگے دوسری طرف مسیحیت ان پر حملے کر کے ان کے ہزاروں جگر کے ٹکڑے ان سے چھین کر لے جائے گی۔ کی یہ آیت ایک زبردست پیشگوئی نہیں ہے۔ کیا اس سے فائدہ اٹھا کر وہ ان دو آگوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔
اس سورۃ پر نظر غائر ڈالنے سے ایک اور لطیف خوبی کاپتہ چلتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کّی آیات میں رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ صفات الٰہیہ اور دُعائوں کا بیان بالکل ایک دوسرے کے مقابل میں ہوا چنانچہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ (یعنی سب تعریف اللہ کے لئے ہے) کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) ہے جس سے بتایا ہے کہ جونہی انسان معلوم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب خوبیو ںکا جامع ہے تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں پھر رَبّ الْعٰلَمِیْنَ کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کو رکھا ہے کیونکہ جب انسان کو یقین ہو جائے کہ ہمارا خدا ہر ایک ذرہ ذرہ ہو خالق اور محسن ہے تو وہ کہہ اُٹھتا ہے کہ ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ اسی طرح الرَّحْمٰن کے مقابلہ میں جس کے معنے بغیر محنت اور مبادلہ کے دینے والا۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کو رکھا ہے۔ کیونکہ جب انسان دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے کسی عمل کے بغیر اس کی تمام ضروریات کو پورا کیا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ میری سب سے بڑی ضرورت تو حضور تک پہنچنا ہے اس کے پورا کرنے کے سامان بھی پیداکیجئے۔ پھر الرَّحِیْم (یعنی محنت کا عمدہ بدلہ دینے والا) کے مقابلہ میں صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ رکھا یعنی ایسے لوگوں کا رستہ دکھایئے جن پر آپ نے انعام کئے ہیںسیدھے راستہ پر چلاتے چلاتے مجھے ان انعامات کا وارث کر دیجئے جو پہلے لوگوں کو ملے ہیں۔کیونکہ رحمیت چاہتی ہے کہ کسی کام کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ پھر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کے مقابلہ میں غَیْرِ الْمَغْضُبْوبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن کو رکھا کیونکہ جب انسان کو یقین ہو کہ میرے اعمالا کا حساب لیا جائے گا۔ تو فوراً اس کے دل میں ناکامی کا خو ف بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ پس بندہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن پر غور کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کی دُعا کرتا ہے۔
اس سورۂ شریفہ کی آیات پر اگر نظر غور ڈالی جائے اور ان کی ترتیب کو چشم تعمق سے ملاخطہ کیا جائے تو صاف عیاں ہو جاتا ہے کہ اس میں انسان کے لئے تبدریج روحانی منازل طے کرنے اور منزل بہ منزل چل کر آخر قر الٰہی کا شرف حاصل کرنے کی ہدایت مندرج ہیں کسی ذات کی فرمانبرداری یا عبادت دو ہی وجہ سے ہوتی ہے یا محبت سے یا خوف سے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں اپنی دونوں قسم کی صفات کی طرف متوجہ کیا ہے بعض لوگ جن کی طبیعت میں احسان کی قدر کا مادہ زیادہ ہوتا ہے احسان کو دیکھ کر فرمانبرداری کرتے ہیں اور بعض لوگ احسانوںکی پرواہ بھی نہیں کرتے مگر خوف ان کو فرمانبرداری پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن دانا انسان کا یہ کام ہے کہ پہلے محبت سے کام لے اور اگر اس سے کام نہ چلے تو پھر خوف دلائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس سورۃ میں پہلے اپنی ان صفات کا بیان کیا ہے جن پر غور کرنے سے انسان کا دل محبت الٰہی سے پر ہو جاتا ہے اس کا نام اللہ ہے یعنی سب خوبیوں کا جامع اور سب نقائص سے منزہ ہے۔ سب اشیاء کا خالق او ران کا رازق ہے۔ مومن و کافر سب کی ربوبیت کرتا ہے۔ اس نے ہماری زیست کے وہ سامان جن سے ہم واقف بھی نہیں ہمارے لئے پیدا کئے ہیں۔ اور ہم جو نیک عمل کریں ان کا بہتر سے بہتر انعام دیتا ہے جو لوگ کسی چیز کی خوبصورتی یا اس کے احسان کو دیکھ کر فرمانبرداری کرنے کے عادی ہیں وہ ان صفات کو دیکھ کر بے اختیار اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ کر اُس کے آگے جھک جاتے ہیں لیکن جو لوگ محبت کے اثرات سے ناواقف ہوتے ہیں اور سخت لوگ کے عادی ہوتے ہیں وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت پر جب غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزاء کے دن کا مالک ہے اور ایک دن اس کے سامنے حاضر ہو کر اس کے سب انعامات کا حساب دینا ہو گا وہ خوف کی وجہ سے بے اختیار ہو کر اس کے آگے گردن جھکا دیتے ہیں اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ اٹھتے ہیں۔ غرض کوئی انسان ہو خواہ محبت سے متاثر ہونے والا خواہ خوف سے ماننے والا سورۃ فاتحہ کی ان ابتدائی آیات کو پڑھ کر بے اختیار اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ اٹھتا ہے لیکن ساتھ ہی جب وہ ایک طرف تو اپنی کمزوری کو دیکھتا ہے اور دوسری طر فاس شبہ خوباں کے حسن و احسان یا اس کی عظمت و جبروت کا مطالعہ کرتا ہے۔ تو بے اختیار ہو کر اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے ساتھ وَاِیَّاَک نَسْتَعِیْن بھی کہہ اُٹھتا ہے۔ یعنی میں تو حضور کا فرمانبردار ہوں۔ اور آپ ہی کی عبادت کرتا ہوں لیکن جو حق عبادت ہے۔ وہ مجھ سے ادا نہیں ہو سکتا اس لئے میں آپ ہی سے مدد چاہتا ہوں کہ آپ اس کام میں میری مدد فرمائیں اور حق عبادت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں جب محبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے اور عظمت الٰہی اس حد تک بندہ کو متاثر کر دیتی ہے تو پھر جیسا کہ فطرت انسانی کا تقاضا ہے وہ بے اختیار اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کہہ اٹھتا ہے یعنی مجھے سیدھا راستہ دکھایئے اور سیدھا راستہ ہمیشہ باقی راستوں سے اقرب ہی ہوتا ہے پس یہ کلام محبت کے کمال کو ظاہر کرتا ہے کہے اے اللہ اب میں آپ دُور نہیں رہ سکتا۔ آپ مجھے وہ سب سے نزدیک افراط و تفریط سے پاک راستہ دکھائیں جس پر چل کر میں جلد سے جلد آپ تک پہنچ جائوں لیکن چونکہ دربار شاہی میں باریاب ہونے والے لوگ مختلف مدارج کے ہوتے ہیں بعض عام درباری اور بعض خاص الخاص لوگ اس لئے عین فطرت کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا سکھلائی۔ یعنی اے مولیٰ آپ مجھے سیدھا راستہ بھی دکھائیں اور مجھ پر یہ فضل بھی کریں کہ منعم علیہ لوگوں کا راستہ دکھائیں یعنی حصور کے دربار میں میرا داخلہ عام لوگوں میں ہو کر نہ ہو۔ بلکہ آپ کے خاص پیاروں میں میں شامل ہو جائوں اور عاشق ہوتے ہوئے معشوق بھی بن جائوں اور جس طرح میں آپ سے محبت کرتا ہوں جناب بھی مجھ سے محبت کرنے لگ جائیں (کیونکہ منعم علیہ گروہ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا محبوب گروہ ہے اور جو جماعت انعام ہی انعام کی مستحق ہوتی ہے وہی پیاری جماعت ہوتی ہے) اس طرح بندہ اس مقام محبت کو چاہتا ہے جس میں کوئی پردۂ مغائرت نہ رہے اب گویا انسان کمال کو پہنچ جاتا ہے اور عاشق و معشوق ایک ہو جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ایمان بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرِّجَائِ ہے اس لئے جب انسان اس رُوحانی لذّت کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کی تمنا ہوتی ہے کہ یہ مقام اس کو ہمیشہ حاصل رہے اور اس پر اس کو ثبات نصیب ہو اس لئے مولیٰ کریم نے انسان کو اپنے حضور یہ عرض کرنا سکھلایا کہ آپ یہ فضل بھیکریں کہ اس ملاقات کے بعد میں آپ سے کسی طرح بھی جدا نہ ہوں اور چونکہ جدائی کے دو طریق ہوتے ہیں یا تو یہ کہ معشوق ناراض ہو کر نکال دے اور یا یہ کہ عاشق ہی عشق ترک کر کے علیحدہ ہو جائے اس لئے دونوں صورتوں کو بیان کرنے کے لئے فرمایا کہ غَیُرِ الْمَغْضُوُبِ عَلَیْہِمْ یعنی نہ تو ایسا ہو کہ آپ میری کسی غلطی کی وجہ سے مجھ پر ناراض ہو جائیں وَلَا الضَّالِّیْن اور نہ ایسا ہو کہ منزل مقصود کو پہنچ کر میرے ہی دل میں آپ کے سوا کسی اور شے کا عشق پیدا ہو جائے اور میں آپ کو چھوڑ کر کسی اور طرف چلا جائوں۔
یہ ایک ایسی کامل اور جامع دُعا ہے جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے رحم سے انسان کو اپنے حضور عرض کرنے کے لئے تعلیم کی ہے کہے جس کے مقابلہ میں کوئی اور مذاہب اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتا۔ غور کرو کس طرح انسانی فطرت کا اول سے آخر تک نقشہ کھینچ دیا ہے اور کس طرح تمام قسم کے متفرق خیالات کے لوگوں کا علاج اس چھوٹی سی سورۃ میں بتا دیا ہے پس جو سمجھنے والے ہیں سمجھیں اور جو سوچنے والے ہیں سوچیں کہ دُنیا کا نجات دہندہ مذہب سوائے اسلام کے اور روحانی بیماریوں کا علاج سوائے قرآن کے کوئی نہیں۔
آمین۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جب سورۃ فاتحہ کو غَیْرِ الْمَغُضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن پر ختم کرتے تو آمین کہتے ہیں جس کے معنے اللّٰھُمَّ اسُتَجِبْ لَنَا کے ہیں۔ یعنی اے اللہ ہماری یہ عرض قبول فرما۔ اور باتباع ارشاد نبویؐ صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی عمل ثابت ہے۔
٭……٭……٭……٭
ان آیات میں منافقوں کی حالت کا وہی نقشنہ کھینچا گیا ہے جو اوپر کی آیت میں شیطان کا کھینچا گیا ہے یہ بھی قسمیں کھاتے تھے جس طرح شیطان نے قسمیں کھائیں تھیں یہ بھی اپنے اخلاص کا دعویٰ کرتے تھے جس طرح شیطان نے کیا تھا اور ان کی باتیں بھی بظاہر ایسی ہوتی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دھوکا کھا جاتے کہ بڑے اچھے مشورے دے رہے ہیں اسی طرح شیطان کی بات پر آدم نے یقین کر لیا صرف فرق یہ ہے کہ سید ولد آدم چونکہ آخری نبی تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان شیطانوں کے حملہ سے اپنے الہام سے بروقت خبردار کر دیا اور وہ اسلام کو عارضی نقصان بھی نہ پہنچا سکے مگر آدم کا شیطان یا اپنے وقت کا عبداللہ بی ابی ابن سلول عارضی طور پر آدم کو جنت سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔
شیطان کا یہ کہنا کہ میں آپ کا مخلص ہوں اسی لئے تھا کہ آدم علیہ السلام کو یقین دلائے کہ ابلیس اور اس کی ذریت سے بچنے کا حکم بیشک آپ کو ملا تھا میں تو اب آپ کا مخلص ہوں اس لئے اب میں ابلیس کی ذریت سے نہیں رہا بلکہ آپ کی ذریت سے ہو گیا ہوں اس کی ان چکنی چپڑی باتوں سے آدم علیہ السلام کو دھوکا لگ گیا اور انہوں نے سمجھا کہ یہ سچ تو کہتا ہے جب یہ ہمارا مخلص ہو گیا ہے تو اب اس سے بچنے کی کیا ضرورت ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خبردار کر دیا کہ منہ سے یہ منافق کس قدر ہی اخلاص کے دعوے کریں مگر ھُمُ الْعُدُ وُّفَا حْذَرْ ھُمْ اصل دشمن یہی ہیں پس تُو ان سے بچ۔
اب سوال کا یہ دوسرا پہلو حل کرنے کے قابل رہ جاتا ہے کہ شیطان چونکہ ابلیس کے علاوہ اور وجود تھا اس لئے اس نے اپنے مومن اور مخلص ہونے کا دھوکا دے کر حضرت آدمؑ کو غافل کر دیا مگر وہ بات جو اس نے کی ہو گی وہ تو خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہی ہو گی پھر اس بات کے ماننے کے لئے آدم علیہ السلام کس طرح تیار ہو گئے اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح آدمی ایک غلط جبہ پہن کر دوسرے کو دھوکا دے دیتا ہے اسی طرح وہ باریک امور میں غلط امور کو غلط رنگ دے کر اچھا بنا کر بھی دکھا دیتا ہے۔ دیکھو اسی سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُٓوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (بقرہ ع ۲) یعنے جب ان منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ کفار سے میل جول رکھ کر فساد پیدا نہ کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ واہ ہم پر فساد کا الزام لگاتے ہو حالانکہ ہم ہی اصلاح کی سچی کوشش کرنے والے دبائیں اور مسلمانوں کی طرف ان کو مائل کریں۔ اس جواب میں انہوں نے اپنے برے فعل کی اچھی توجیہ کر دی ہے اور اس طرح مسلمانوں کو بھی رغبت دلائی ہے کہ تم بھی اسی طرح کرو تاکہ فساد جاتا رہے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے بھی یہی طریق اختیار کیا تھا چنانچہ فرماتا ہے شیطان نے آدم علیہ السلام کو شجرۂ ممنوعہ کے قریب لے جانے کے لئے کہا کہ قَالَ مَانَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْتَکُوْنَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ (اعراف ع ۲) یعنے شیطان نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ کو شجرۂ ممنوعہ سے بچنے کی حکمت پر غور کرنا چاہیئے صرف حکم کے ظاہری الفاظ کو نہیں دیکھنا چاہیئے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ اس شجرہ سے بچ کر آپ فرشتے ہو جائیں اور ہمیشہ کی زندگی پائیں پس جب یہ حکم آپ کو نیک بنانے اور دائمی زندگی دینے کے لئے تھا تو اب اگر اس شجرہ کے قریب جانے سے وہی غرض پوری ہوتی ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی رُوح کو مقدم رکھتے ہوئے اب آپ کو اس کے قرب جانے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے اور اس کے قریب جانے کو ہی منشائے الٰہی کو پُورا کرنے والا سمجھنا چاہیئے چنانچہ دوسری جگہ اس کی تشریح یُوں آتی ہے فَوَسْوَسَ اِلَیْہِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یَآ اٰدَمُ ھَلْ اَدُلُّکَ عَلیٰ شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّایَبْلیٰ (طہ ع ۷) عینی شیطان نے آدم علیہ السلام کو یہ دھوکا دیا کہ اے آدم کیا تم کو وہ درخت بتائوں جو دائمی زندگی بخشنے والا ہے اور ایسی بادشاہت بحشے گا جو کبھی تباہ نہ ہو گی (یعنے فرشتوں جیسی زندگی جو کبھی تنزل کی طرف نہیں جاتے)
سورۂ اعراف کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے اس امر کو آدم علیہ السلام کے سامنے رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس درخت سے اس لئے روکا تھا کہ تا اس سے رُک کر آپ فرشتے ہو جائیں اور دائمی زندگی پائیں اور طٰہٰ کی آیت بتاتی ہے کہ اس درخت کے قریب لے جانے کے لئے اس نے کہا کہ اس کے قریب جا کر آپ دائمی زندگی پائینگے ان دونوں آیتوں کو ملا کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا فریب یہی تھا کہ اس نے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی بات کی تصدیق کر کے آدم علیہ السلام کے سامنے اپنے ایمان کا ثبوت دیا دوسری طرف اجتہاد کی آڑ لے کر یہ بتایا کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی غرض اور اس کا منشاء اس درخت سے دُور رہ کر نہیں بلکہ اس کے قریب جا کر پُورا ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے اور اس کے حکم کی رُوح کو مقدم رکھتے ہوئے اب آپ کو اس درخت کے قریب جانا چاہیئے آدم علیہ السلام اس کے اس دھوکے میں آ گئے اور اس کی بات کو مان لیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنت دُکھ کا مقام بن گئی۔ ظاہر ہے کہ اس قسم ا دھوکا بعض باریک مسائل کے متعلق خواص کو بھی لگ سکتا ہے اور آدم علیہ السلام تو پہلے نبی تھے ان سے پہلے اسی قسم کی مثالیں عبرت کے لئے موجود نہ تھیں بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ لوگوں کی عبرت کے لئے ان سے اس غلطی کے صدور کو روا رکھا ہو۔
ہمارے زمانہ میں بھی عام مسلمان باوجود پہلی قوموں میں عبرت کی مثالوں کے موجود ہونے کے اس قسم کے اجتہادوں سے دھوکا کھا رہے ہیں مثلاً تاجروں کو بعض علماء یہ دھوکا دیتے ہیں کہ سود جو اسلام نے منع کیا تھا وہ وہ سود نہ تھا جو اب بنکوں کو دینا پڑتا ہے موجودہ سود سے بچنا تو قوم کو تباہ کرتا ہے اور اس سود کا لینا قوم کو تباہ کرتا تھا اس لئے اب بنکوں کا سود لینا منع نہیں بلکہ قومی زندگی کے لئے ضروری ہے اور کئی مسلمان جو دل سے اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے خواہشمند ہیں اس دھوکے میں آ کر سود لے رہے ہیں اسی طرح بعض لوگوں نے عورتوں کو دھوکا دیا ہے کہ عرب کا ملک جاہل تھا اور پردہ نہ کرنے کی وجہ سے اس وقت کی عورتیں گمراہ ہو سکتی تھیں لیکن اب تعلیم کا زمانہ ہے اب پردہ چھوڑنے میں حرج نہیں بلکہ مسلمان عورتوں کے باہر آنے میں اسلام کی مضبوطی ہے اور کئی عورتیں جو دل سے اسلام سے محبت رکھتی ہیں اس دھوکے میں آ کر پردہ چھوڑ رہی ہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ وہ کیا امر تھا جس کے بارہ میں شیطان نے دھوکا دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مصلحت سے اس امر کو پوشیدہ رکھا ہے پس اجمالاً اس امر پر یقین رکھنا کافی ہے کہ ممنوع باتوں میں سے کسی ایک کو جس کے بارہ میں دھوکا لگ سکتا تھا شیطان نے پیش کیا اور اس کی نسبت یہ دھوکا دیا کہ حالات کے بدل جانے کی وجہ سے اب اس کا ترک دین کے لئے مضر ہے جس طرح کہ پہلے اس کا اختیار کرنا دین کے لئے مضر تھا ممکن ہے کہ اس وقت کے دشمنوں سے تعلقات پیدا کرنے کے متعلق ہی تحریک کی ہو جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے منافق کہا کرتے تھے۔ ہماری جماعت کو بھی اس بارہ میں ایک حصہ سے اس قسم کا تلخ تجزبہ ہوا ہے اور حال کے زمانہ کی یہ دو مثالیں ہمیں اس طرف رہبری کرتی ہیں کہ آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی شیطان نے کوئی ایسی ہی چال چلی تھی۔
شائد کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ جب اس امر کو جس کے باہر میں شیطان نے آدم علیہ السلام کو دھوکا دیا تھا ظاہر نہیں کیا گیا تو (۱) اس سے ہم فائدہ کیا اُٹھا سکتے ہیں (۲) دشمنانِ قرآن پر یہ مبہم بیان محبت کیونکر ہو سکتا ہے۔
پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس واقعہ سے جس امر سے ہوشیار کرنا ہمیں مقصود ہے وہ صرف یہ ہے کہ کبھی دشمن نیکی کے جبہ میں آ کر اور بری بات کو نیک توجیہہ کے پردہ چھپا کر گمراہ کرناچاہتا ہے مسلمانوں کو اس سے ہوشیار رہنا چاہیئے یہ غرض اس مضمون سے روز روشن کی طرح واضح ہے باقی رہا یہ کہ آدم علیہ السلام کو کسی خاص امر میں شیطان نے دھوکا دیا تھا اس کا بیان کرنا ضروری نہیں کیونکہ ہر زمانہ میں شیطان نیا رنگ اختیار کرتا ہے اگر اس خاص امر کو بیان کر بھی دیا جاتا تو مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ نہ ہو سکتا تھا جس قدر واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ مومنوں کو منافقو ںکی چالبازیوں سے ہوشیار کرنے کے لئے کافی واضح اور بین ہے۔
دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ منکرین قرآن کے فائدہ اُٹھانے کا یہاں سوال ہی نہیں قرآن کریم کی تعلیم دو حصوں پر مشتمل ہے (۱) وہ حصہ جو مومن و کافر سب کے لئے مشترک ہے (۲) وہ حصہ جو صرف مومنوں کے لئے نصیحت اور فائدہ کا موجب ہے جن حصص میں عقلی دلائل اور معجزات عامہ اور مختلف مذاہب کی کتب کے نقلی دلائل بیان ہوئے ہیں وہ تو مومن وہ کافر یا مومنوں اور خاص خاص مذاہب کے کافروں کے لئے حجت ہیں اور جن حصوں میں خالص روحانی امور بیان ہوئے ہیں وہ صرف مومنوں کے لئے مفید ہیں اور کافروں کے لئے اسی وقت مفید ہو سکتے ہیں جب پہلے ان کے عقائد کی اصلاح ہو جائے اور یہ حصہ صرف مومنوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے کفار کو اگر اس کی حکمت سمجھ میں نہ آئے تو کوئی اعتراض کی بات نہیں جس طرح ایک دہریہ کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا نبوت کے دلائل بیان کرنے سے رُکا نہیں جا سکتا اسی طرح جو لوگ کسی خاص نبی کو نہیں مانتے ان کی وجہ سے اس نبی کے اتباع کے فائدہ کی باتوں کے بیان کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔
اِھْبِطُوْا کے لفظ سے دھوکا کھا کر بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آدم علیہ السلام آسمان پر تھے پھر انہیں زمین پر پھینکا گیا مگر جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے اس لفظ کے معنے چلے جانے کے بھی ہوت ہیں اور اس امر کو دیکھنے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین میں خلیفہ بنایا تھا اس جگہ اس کے یہی معنے ہیں قرآن کریم میں ان معنوں میں یہ لفظ دوسری جگہ پر بھی استعمال ہوا ہے مثلاً بنی اسرائیل کی نسبت فرماتا ہے اِھْبِطُوْا مِصْرًا (بقرہ ع ۷) شہر کی طرف چلے جائو یا شہر میں داخل ہو جائو۔
۳۸؎ حل لغات
تَلَقّٰی:۔ لَقِیَ سے باب تفعل کا واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور تَلَقَّاہُ کے معنے ہیں اِسْتَقْبَلَہُ اس کو آگے سے جا کر ملا۔ چنانچہ کہتے ہیں فُلَانٌ یَتَلَقّٰی فُلَانًا اَیْ یَسْتَقْبِلُہٗ فلاں شخص فلاں کو آگے سے جا کر ملتا ہے اور تَلَقَّی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍ کے معنے ہیں اَخَذَ ھَا عَنْہُ کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کلمات لئے وَقِیْلَ تَعَلَّمَہَا بعض نے اس کا پورا مفہوم یُوں ادا کیا ہے کہ انہوں نے سیکھے (لسان) اقرب میں لکھا ہے کہ تَلَقَّی الشَّیْئَ کے معنے ہیں لَقِیَہٗ کسی کو آگے جا کر ملا (کسی چیز کو آگے جا کر لیا) او رجب تَلَقَّی الشَّیْئَ مِنْہُ کہیں تو اس کے معنے ہونگے تَلَقَّنَہُ کسی کے منہ سے کوئی بات بالمشافہ سن کر اخذ کی اور اس کو ضبط کر لیا (اقرب) پس تَلَقَّی اٰدَمُ مِنْ رَّبِہٖ کے معنے ہوں گے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ دعائیہ کلمات بذریعہ الہام سیکھے۔
کَلِمٰتٌ:۔ کَلِمَۃٌ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں اللَّفْظَہُ منہ سے بولا ہوا مفرد لفظ وَکُلُّ مَایَنْطِقُ بِہٖ الْاِنْسَانُ مُفْرَدًا کَانَ اَوْمُرَ کَّبًا نیز ہر اس بات پر بھی جو انسان بولے خواہ وہ مفرد ہو یا مرکب کَلِمَۃٌ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ کَلِمَۃٌ کے ایک معنے اَلْخُطْبَۃُ وَالقَصِیْدَۃُ کے بھی ہیں۔ یعنی خطبہ اور قصیدہ (اقرب)
تَابَ:۔ تَابَ اِلَیْہ وَعَلَیْہِ کے معنے ہیں رَجَعَ عَلَیْہِ بِفَضْلِہاللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوا (اقرب)
تَوَّابٌ:۔ تَوَّابٌ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنے ہیں فضل کے ساتھ بہت متوجہ ہونے والا۔
اَلرَّحِیْم:۔ اس کے دیکھو حل لغات سورہ فاتحہ ۲؎
تفسیر۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت آدم کو شیطان نے دھوکا دے دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی غلطی سے آگاہ کیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دُعا کی رَبَّنَا خَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْ حَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (اعراف ع ۲) یعنی اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اور اگر تو ہماری غلطی کو معاف نہ فرمائے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائینگے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ یہی دُعا انہوں نے سیکھی تھی۔
اس آیت میں ایک اور لطیف بات بتائی گئی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کی جاذب زیادہ تر وہی دُعائیں ہوتی ہیں جو وہ خود سکھاتا ہے بہت سے انسان اپنی طرف سے دُعائیں بناتے ہیں لیکن وہ ایسی ناقص اور لغو ہوتی ہیں کہ بعض اوقات وہ دُعائوں کی بجائے بد دُعائوں کا مفہوم ادا کرتی یں اس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنے الفاظ میں دُعا مانگے ہی نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق پیدا کرے کہ جب وہ کسی مصیبت یا مشکل میں گرفتار ہو تو آدم اور دوسرے بزرگوں کی طرح اللہ تعالیٰ خود ہی اسے وہ دعا سکھلا دے جس کے مانگے سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکے۔
۳۹؎ حل لغات
اِمَّا:۔ اِنْ اور مَاسے مرکب ہے (مغنی) اِنْ حرف شرط ہے۔ اور مَا تاکید کے لئے زائد لایا گیا ہے۔
ھُدًی:۔ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ فاتحہ ۷؎ و سورہ ہذا ۳؎
خَوْفٌ:۔ خَوْفٌ کے معنے ہیں اِنْفِعَالٌ فِے النَّفْسِ یَحْدُثُ لِتَوَقُّعِ مَایَرِدُ مِنَ الْمَکْرُوْہِ اَوْیَفُوْتُ مِنَ الْمَحْبُوْبِکسی آیندہ وقت میں کسی ناپسندیدہ امر کے وقوع پذیر ہونے یا کسی پسندیدہ چیز کے ہاتھ سے چلے جانے کے خیال سے جو طبیعت پر گھبراہٹ طاری ہوتی ہے اسے خوف کے نام سے موسوم کرتے ہیں (اقرب)
یَحْزَنُوْنَ:۔ حَزِنَ (یَحْزَنُ) حَزَنًا سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور حَزِنَ لَہٗ وَ عَلَیْہِ کے معنے ہیں ضِدُّ سر غمگین ہوا (اقرب) اَلْحُزْنُ کے معنے ہیں الْغَمُّ غم و اندوہ خَلَافُ السُرُوْدِ خوشی کے متضاد معنے دیتا ہے یعنی غمگینی۔ نیز لکھا ہے کہ اَلْحَزْنُ اَلْغَمُّ الْحَاصِلُ لِوَ قُوْعِ مَکْرُوْہٍ اَوْ فُوَاتِ مَحْبُوْبٍ فِی الْمَاضِیْ زمانہ ماضی میں کسی ناپسندیدہ امر کے وقوع پذیر ہونے یا کسی پسندیدہ چیز کے ہاتھ سے چلے جانے کی وجہ سے جو طبیعت میں افسوس پیدا ہوتا ہے اُسے حزن کے نام سے تعبیر کرتے ہیں (تاج) مفردات راغب میں ہے اَلْحُزْنُ:۔ خُشُوْنَۃٌ فِی النَّفْسِ لِمَا یَحْصُلُ فِیْہِ مِنَ الْغَمِّ دل کی بیقراری جو غم کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے وَیُضَادُّہُ الْفَرْحُ اور اس کے بالمقابل فرح کا لفظ بولا جاتا ہے (مفردات) خوف اور حزن میں یہ فرق ہے کہ خوف آیندہ زمانے کے متعلق ہوتا ہے اور حزن کسی گذشتہ واقعہ کی بنا پر ہوتا ہے۔
تفسیر۔ اس آیت میں اِھْبِطُوْا جمع کا لفظ ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس جنت میں صرف آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی نہ تھے بلکہ آدم کے اتباع بھی تھے۔
اس آیت میں وعدہ کیا گیا ہے کہ آدم کی اولاد میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی طرف بلاتے رہیں گے اور ایسے لوگ جو ہدایت کو مان لینگے وہ اسی دنیا میں جنت میں آ جائینگے یعنی ان کے دلوںمیں ایسی ایمانی قوت پیدا ہو جائیگی کہ ہر حالت میں ان کے دل مطمئن رہیں گے اور خوف یعنی آیندہ نقصانات کا ڈر اور حزن یعنی پچھلے نقصانات پر افسوس ان کو غمگین نہ کر سکے گا بلکہ ان کا دل جنت کا قائم مقام ہو جائے گا اور مابعدالموت الٰہی انعامات کے وارث ہوں گے۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کے بعد وحی کا سلسلہ ختم نہیں ہو گیا بلکہ اسی وقت سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ آیندہ بھی وحی الٰہی آتی رہے گی اور اس کے ماننے والوں پر اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے رہینگے۔
۴۰؎ حل لغات
کَذَّبُوْا:۔ کَذَّبَ سے جمع کا صیغہ ہے۔ اور کَذَّبَ کے معنے ہیں جَعَلَہُ کَاذِبًا وَنَسَبَہٗ اِلَی الْکِذْبِ اُسے جھٹلایا۔ اور اس کی نسبت جھوٹ کی طرف کی۔ وَقِیْلَ قَالَ لَہٗ کَذَبْتَ اور بعض نے کہا ہے کہ کَذَّبِ کے معنے ہیں کسی کو یہ کہا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے اور جب کَذَّبَ بِالْاَ مْرِتَکْذِیْبًا وَکِذَّابًا کا فقرہ بولیں تو معنے یہ ہونگے اَنْکَرَہُ و حَجَدَہٗ کہ کسی معاملہ کا انکار کیا (اقرب) پس کَذَّبُوْا کے معنے ہونگے انہوں نے جھٹلایا۔
اٰیٰتٌ:۔ اٰیَۃَ کی جمع ہے اور اٰیَۃٌ کے معنے علامت۔ نشان اور دلیل کے ہوتے ہیں نیز قرآن کریم کے ہر ایسے ٹکڑے کو جسے کسی لفظی نشان کے ساتھ دوسرے جدا کر دیا گیا ہو اٰیَۃٌ کہتے ہیں۔ (تاج)
خٰلِدُوْنَ:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۲۶؎
تفسیر۔ یعنی جو لوگ ہدایت کو چھوڑ کر ان نشانوں کا انکار کرینگے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی شناخت کے لئے اس وقت پیدا کئے ہونگے وہ ایک آگ میں پڑ جائینگے۔ اور دلی اطمینان اور قلبی راحت ان کو حاصل نہ ہو گی خواہ بظاہر ہزاروں نعمتوں میں گھرے ہوئے ہوں اور مابعدالموت سزائوں کے وارث ہوں گے۔
وَھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۔ خلود کے معنے ہیں ایک لمبا عرصہ رہنا۔ دیکھو کلیات ابی البقاء وَفِی الْاَضْلِ اَلتَّبَاتَ الْمَدِیْدُ دَامَ اَمْ لَمْ یَدُمْ یعنی خلود کے اصل معنے ایک لمبا عرصہ تک رہنے کے ہیں خواہ ہمیشہ رہیں یا نہ رہیں یہ معنے نہیں کہ وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اسلام دائمی عذاب کا قائل نہیں۔ بلکہ دوزخ کو ایک شفا خانہ کی طرح قرار دیتا ہے جس میں لوگ صرف اصلاح کے لئے داخل کئے جائینگے اسلام کا خدا غیظ اور کینہ کے طور پر انتقام نہیں لیتا بلکہ وہ سزا کی یہ وجہ بیان فرماتا ہے کہ انسان کی اصلاح ہو جائے جب یہ بات حاصل ہو جاتی ہے تو عذاب ٹل جاتا ہے اسی لئے حدیث بات حاصل ہو جاتی ہے تو عذاب ٹل جاتا ہے اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ دوزخ پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس میں کوئی بھی دوزخی نہ رہے گا اور نسیم اس کے دروازے ہلائیگی۔ (تفسیر معالم التنزیل سورۃ ہود زیر آیت اَمَّا الَّذِیْنَ شَقَوْا) گو یہ واقعہ کسی پچھلے زمانہ میں انسانی نسل کے کسی خاص جد کے ساتھ بھی گزرا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بیان فرمانے میں ایک ایسا رنگ اختیار کیا ہے جس سے ہر ایک مسلمان نصیحت حاصل کر سکتا ہے او ریہی وجہ ہے کہ بہت سی باتوں کا ذکر بطور قصہ کے نہیں کیا بلکہ ایسے الفاظ میں ان کو ظاہرکیا ہے کہ جنہیں ہر انسان اپنے پر چسپان کر سکے مثلاً یہ کہ اسماء کی نسبت بتایا کہ وہ کیا تھے نہ شجرہ کی نسبت بیان کیا کہ وہ کونسا تھا پھر جہاں آدم کو بہکانے والے کا ذکر ہے وہاں ابلیس کی جگہ شیطان کا لفظ رکھ کر بتا دیا ہے کہ ابلیس کے اضلال چاروں طرف موجود ہیں تایہ واقعہ لوگوں کے لئے نصیحت اور فائدہ کا موجب ہو اور ایسا نہ ہو کہ وہ ایک قصے کے طور پر اسے پڑھیں۔ ہر ایک انسان جو پیدا ہوتا ہے وہ آدم ہے ملائکہ کو جو دنیا کے رُوحانی نظم و نسق کو قائم رکھنے کے لئے ایک واسطہ کے طور پر پیدا کئے گئے ہیں انہیں اس کی مدد کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ملائکہ جن اشیاء کے نگران ہیں وہ سب انسان کی مدد کرتی اور اس کی زندگی کو بہ آرام بنانے میں کار آمد ہوتی ہیں۔ لیکن بعض شریر لوگ دوسرے بھائیوں کا سکھ نہیں دیکھ سکتے وہ شیطان بن کر ان کو اس رُوحانی جنت سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو ہر ایک انسان کو اس کی پیدائش سے ملا ہے اور بہت کچھ دکھ دیتے ہیں۔ لیکن وہ جو آدم کی طرح اپنے رب کے حضور جھکتا ہے اور اس سے اپنی مصیبت کے دُور کرنے کی التجا کرتا ہے آخر کامیاب ہو جاتا ہے اور ہر خوف و حزن کی حد سے باہر نکل جاتا ہے لیکن جو لوگ آدم کے نقش قدم پر نہیں چلتے بلکہ ابتلائوں میں اُن کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور شیطان سے صلح کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو رد کر دیتے ہیں وہ دُکھ میں پڑ جاتے اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک سورج جو چڑھتا ہے اس واقعہ کو بار بار دُہرا رہا ہے۔ لیکن نادان انسان جو خود ہزاروں خطرناک بدیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ آدم پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ اس نے شیطان کا کہنا کیوں مانا۔ حالانکہ آدم بھول کر ایک غلطی کا مرتکب ہوا تھا اور یہ معترض اپنے دل میں شیطان کو لئے بیٹھا ہوتا ہے اور آدم پر اعتراض کرتے ہوئے نہیں شرماتا۔ بعض مفسرین نے اصل حقیقت سے قطع نطر کر کے اس جگہ عجیب عجیب قصے بیان کئے ہیں جن کی صحت کا ثبوت نہ قرآن مجید سے ملتا ہے نہ احادیث صحیحہ سے پس ان کی طرف توجہ نہیں ہونی چاہیئے اور غیر مذاہب کی طرف سے ان کی بناء پر کوئی اعتراض قرآن مجید پر آ سکتا ہے۔
مذکورہ بالا آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے علاوہ انسان کو اس کے ذاتی حالات کی طرف توجہ دلانے کے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کی طرف بھی لطیف طور پر توجہ دلائی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ (۱) الہام الٰہی میں انسانی برتری کا ذریعہ ہے۔ بشر کو دوسرے حیوانات پر فضیلت الہام الٰہی کے ذریعہ سے ہی ملی پس جو اقوام الہام الٰہی سے محروم ہیں یا اس کی قدر نہیں کرتیں وہ حیوانیت کو انسانیت پر ترجیح دینے کی مجرم ہیں۔ اور تمدنی ترقی کے راستہ میں روک ثابت ہو رہی ہیں اور ہونگی۔ وہی لوگ تمدنی ترقی کا موجب ہوتے ہیں جو آسمانی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ اس زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہنے والے ایک جدید اور مفید تمدن کی بنیاد رکھیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت کے مطابق اس جدید رُوحانی سلسلہ کے متبع ایک جدید اور عظیم الشان تمدن کے بانی ہوئے موجودہ مغربی تمدن گو بہت شاندار نظر آتا ہے مگر وہ بہت حد تک اسلامی تمدن کا خوشہ چین ہے اور جس حد تک وہ اس کے خلاف چلا ہے امن کا موجب نہیں ہوا۔ بلکہ فساد اور خونریزی کا موجب ہوا ہے (۲) جب بھی کوئی نئی اصلاح دنیا کے لوگوں کے سامنے آتی ہے دنیا اس کی مخالفت کرتی ہے وہ ایسی عظیم الشان ہوتی ہے کہ شروع شروع میں نیکوکار بھی اس کی گہرائیوں اور تاثیروں کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسلام کے ظہور کے وقت میں ایسا ہی ہونا لازمی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا (۳) نیک لوگ بعد میں اپنی غلطی تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کی عظمت کے قائل ہو جاتے اور اس کی تائید میں لگ جاتے ہیں لیکن شریر مخالف مقابلہ شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی اسلام سے ہوا اور ہو گا چنانچہ تمام نیک فطرت لوگ ایک ایک کر کے اسلام میں داخل ہوئے اور اس کی تائید میں لگ گئے لیکن ابلیس مزاج نافرمانی پر اُتر آئے (۴) جب ظاہری مخالفت ناکام رہتی ہے تو الٰہی سلسلوں کے دشمن ان میں شامل ہو کر ان کی مخالفت کرتے ہیں جیسا کہ آدم کے وقت میں شیطان نے کیا اور ایسا ہی معاملہ اسلام سے وہ کرینگے اور کر رہے ہیں لیکن جس طرح آدم کا شیطان ناکام رہا اور حقیقی نقصان آدم علیہ السلام کو نہ پہنچا سکا۔ یہ منافق بھی اسلام کو کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور باوجود ان کی مخالفت کے اسلام ترقی کرے گا اور اس کے دشمن ایک دائمی عذاب میں مبتلا ہونگے (۵) الٰہی ہدایت کا سلسلہ محدود نہیں ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ ہدایت بھجواتا رہے گا اگر ہدایت کا سلسلہ محدود ہوتا تو پھر اسے پہلے نبی کے ساتھ ہی بند ہو جانا چاہیئے تھا جیسا کہ مثلاً ہندوئوں کا خیال ہے لیکن وہ آدم اوّل کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ آدم اوّل کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے آیندہ ہدایتوں کے آنے کی خبر دی۔ پس آیندہ کسی وقت میں اس کا بند ہو جانا خلافِ عقل و خلافِ وحی الٰہی ہے (۶) جو لوگ آسمانی ہدایت پر ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ان کی سابق خطائوں کے ہداثرات سے بچا لیتا ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام سے ہوا اور آیندہ کا ہر قدم ان کا ایسا مضبوط پڑتا ہے کہ مستقبل کے خطرات کم ہوتے ہوتے بالکل مٹ جاتے ہیں پس خدا تعالیٰ کے اس وعدہ پر ایمان رکھتے ہوئے مومن دلیر بہادر اور جری ہوتا ہے وہ قربانیوں کے وقت عواقب اور انجام سے نہیں ڈرتا کیونکہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی اس کے لئے ایسا عروہ وتقی ہے کہ اسے پکڑنے کے بعد وہ ہر دُکھ سے محفوظ ہو گیا اگر وہ جیتا رہا تو دنیا کا رہنما ہو گا اگر مارا گیا تو خدا تعالیٰ کی محبت بھری گود میں۔ پس اسے کس امرکا خوف ہو سکتا ہے؟
۴۱؎ حل لغات
بَنِیْ اِسْرَائِیْل:۔اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے جو بائبل کے بیان کے مطابق ان کو ان کی بہادری کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا۔ تورات میں آتا ہے ’’کہ تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کیونکہ تُو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔‘‘ (پیدائش باب ۳۲ آیت ۲۸) عبرانی کی لغت میں لکھا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لقب کے علاوہ ان کی نسل پر (بھی) یہ لفظ بولا جاتا ہے یعنی کبھی بنی اسرائیل کو خالی اسرائیل بھی کہہ دیتے ہیں۔ عربی اسرائیل کا عبرانی تلفظ یَسْرَائِیْل ہے اور یہ مرکب ہے یسر اور ایل سے۔ یسر کے معنے ہیں جنگجو بہادر سپاہی۔ اور ایل کے معنے ہیں خدا۔ پس یسرائیل کے معنے ہوئے خدا کا بادر سپاہی عربی زبان کے لحاظ سے یہ لفظ اسر اور ایل سے مرکب ہے گو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ کلیتہً عبرانی لفظ ہو اور عربی میں مستعار طور پر استعمال ہوتا ہو لیکن عربی زبان اور عبرانی زبان در حقیقت ایک ہی ہیں اور ہماری تحقیق میں عبرانی زبان عربی کی بگڑی ہوئی صورت ہے یورپین مصنفوں میں سے بھی بعض اس خیال کے ہیں گو اکثر مذہبی تعصب کی وجہ سے ان دونوں زبانوں کو ایک اور زبان کی شاخ ہی قرار دیتے ہیں بلکہ بعض تو عربی کو عبرانی کی شاخ تک قرار دے دیتے ہیں لیکن یہ موقعہ اس بحث کا نہیں اس موقعہ کے مناسب حال اس قدر کہنا کافی ہے کہ عربی اور عبرانی کا اشتراک ایک مسلمہ حقیقت ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اصل میں عربی ہے اور عبرانی زبان میں اس کی شکل بدل گئی ہے اور ہمزہ نے یاء کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عربی زبان میں اَسَرَا لزَّجُلُ کے معنے ہیں قَبَضَ عَلَیْہِ وَ اَخَذَہٗ (اقرب) یعنی فلاں شخص اپنے مدمقابل پر غالب آ گیا اور اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ان معنوں کے اعتبار سے اِسْر کے معنے ہونگے وہ شخص جس کے اندر بہادری اور قوت ہو اور وہ اپنے مدمقابل پر غلبہ پا کر اسے اپنی گرفت میں لے لے۔ اگر عبرانی کے تلفظ اور رسم الخط کو دیکھا جائے تو یَسْر کے معنے ہیں اَللِّیْنُ وَالْاِ نْقِیَادُ (لسان) کسی کی بات کو آسانی سے قبول کر لینا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔
لفظ اِیْل عربی زبان میں خدا تعالیٰ کے معنوں میں نہیں آتا۔ ہاں اگر غور کیا جائے تو اس کے حقیقی معنے اللہ تعالیٰ پر ہی صادق آتے ہیں کیونکہ یہ آلَ سے بنا ہے اور آلَ کا اسم فاعل آئِلٌ بنتا ہے اور اِیْل اس سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے آلَ کے معنے ہیں سَاسَ یعنی اس نے نگہداشت کی۔ چنانچہ کہتے ہیں آلَ الرَّجُلُ اَھْلَہٗ اَیْ سا سَہُمْ کہ فلاں شخص نے اپنے کنبہ کی پوری نگہداشت کی (اقرب) نیز کہتے ہیں آلَ الْمَلِکُ الرَّعِیَّۃَ کے بادشاہ نے اپنی رعیت کی نگرانی رکھی اور رعیت کے ساتھ تعلق رکھنے والے امور کی تدبیر کی۔ نیز کہتے ہیں آلَ عَلَی الْقَوْمِ۔ وَلِیَ کہ وہ قوم پر بادشاہ ہو گیا۔ پس آئِلٌ کے معنے ہوئے مدبر۔ حاکم۔ بادشاہ۔ اور اِیْلٌ کے معنے ہونگے ایسی ہستی جس کی ذات میں تدبیر امور اور حکومت اور یہ صفات سوائے خدا تعالیٰ کے کسی اور ذات میں نہیں پائی جاتیں۔ کیونکہ وہی ایک ذات ہے جو ازلی اور ابدی ہے۔ آلَ کے ایک معنے لوٹنے کے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے اِیْل کے معنے ہونگے کہ وہ ذات جس کے اندر لوٹنے کی صفت پائیداری اور ہمیشگی کے ساتھ پائی جاتی ہے اور یہی معنے بلفظ دیگر تَوَّابٌ کے ہیں۔ یعنی بار بار رحمت کے ساتھ اپنے بندوں پر لوٹنے والا۔
الغرض پہلے مادہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل کے معنے مندرجہ ذیل ہونگے (۱) ازلی ابدی بادشاہ (یعنی خدا تعالیٰ) کا سخت گرفت رکھنے والا بندہ (۲) ازلی ابدی مدبر ہستی کا سخت گرفت رکھنے والا بندہ (۳) بار بار لوٹنے والے کا (یعنی تواب خدا کا) بہادر بندہ۔
دوسرے مادہ یعنی یَسْر کے لحاظ سے اسرائیل کے معنے ہونگے اللہ تعالیٰ کا پورا مطیع و فرمانبردار اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لینے والا۔ عبرانی زبان چونکہ عربی سے نکلی ہے اس لئے اگرچہ اسرائیل کا تلفظ عبرانی میں بدل گیا اور اِسْر کو یَسر اور اِیْل کو ایل (نرم زبان سے یعنی زبر اور زیر کے درمیانی تلفظ سے) کر دیا گیا اور عربی زبان جو کہ اپنے اصل معنے کا انکشاف کرتی ہے عبرانی نے اسے محدود کر دیا۔ کیونکہ عبرانی میں اسرائیل کے معنے صرف خدا کے جنگجو بہادر سپاہی کے ہیں لیکن عربی زبان میں جہاں یہ معنے کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ یہ لفظ یَسْر سے بھی صفت مشتبہ کا صیغہ بن سکتا ہے اور یہ لفظ اس خاص حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو انبیاء کی فطرت میں پائی جاتی ہے یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے لئے سر تسلیم خم رکھنا۔ گویا اسرائیل اس شخص کو کہیں گے جو اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار ہو اور اس کے احکام کے ماننے کے لئے ہر وقت اپنے تئیں تیار رکھے۔ ان معنوں کی تصدیق تاج العروس والے نے بھی کی ہے چنانچہ لکھا ہے کہ مَعْنَاہُ صَفْوَۃُ اللّٰہِ وَقِیْلَ عَبْدُاللّٰہِ کہ اسرائیل کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ کیا ہوا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کے احکام کا فرمانبردار۔ بعض لوگوں نے اس کے معنے سَرِیُّ اللّٰہِ کے کے کئے ہیں (تاج) سَرِیٌّ کے معنے عربی زبان میں صاحب شرف و مروت اور فیاض کے یا معزز شریف سردار کے ہیں۔ لیکن میں اس بات کی تصریح کر دی گئی ہے کہ یَسْرٌ کے حقیقی معنے سَرِیٌّ کے نہیں ہاں اس سے ملتا جلتا مفہوم ہے (اصل بات یہ ہے کہ یَسْرٌ چونکہ جنگجو بہادر کو کہتے ہیں اور ایسا شخص ہی سرادرِ لشکر ہو سکتا ہے جو بہادر اور جنگجو ہو اور عرب لوگ بھی ایسے شخص کو سردار مانتے تھے جو صاحبِ شرف اور مروت اور فیاض ہو اور ایسا شخص ہی جنگوں میں پیشرو ہو سکتا تھا تو گویا ان معنوں کے لحاظ سے یَسْرٌ کے معنے سَرِیٌّ کے مشابہ ہو گئے)۔
اُذْکُرُوْا:۔ امر حاضر جمع کا صیغہ ہے اور ذَکَرَ الشَّیْئَ (یَدْکُرً ذِکْرًا وَتَذْ کارًا) کے معنے ہیں حَفِظَہٗ فِی ذِھْنِہٖ کسی چیز کو اپنے ذہن میں یاد کر لیا اور جب ذَکَرَ الشَّیْئَ بِلِسَانِہِ کہیں تو معنے ہونگے قَالَ فِیْہِ شَیْئًا کہ اس نے کسی بات کے متعلق اپنی زبان سے کچھ کہا۔ اور ذَکَرَ لِفُلَانٍ حَدِیْثًا کے معنے ہیں قَالَہٗ لَہٗ کوئی بات بیان کی جب ذَکَرَ مَا کَانَ قَدْنَسِیَ کا فقرہ بولیں تو اس کے معنے ہونگے فَطَنَ بِہٖ کسی بھولی ہوئیبات کی یاد تازہ ہو گئی (اقرب) امام راغب لکھتے ہیں اَلذِّکْرُ تَارَۃً یُقَالُ وَیُرَادُبِہٖ ھُیْئَۃٌ لِلنَّفْسِ بِھَا یُمْکِنُ لِلْاِنْسَانِ اَنْ یَحْفَظَ مَایَقْتَنِیْہِ مِنَ الْمَعْرِفَۃِ کہ ذکر کا لفظ بول کر کبھی نفس کی وہ ہیئت مُراد لی جاتی ہے جس کے ذریعہ سے انسان کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ وہ معلوم شدہ باتوں کو یاد رکھ سکے وَھُوَ کَا لْحِفْظِ اِلَّا اَنَّ الْحِفْظَ یُقَالُ اِعْتِبَارًا بِاِحْرَازِہِ وَالذِّکْرُ یُقِالُ اِعْتَبَارًا بِاِسْتِحْضَارِہٖ۔ اور ان مذکورہ بالا معنوں میں ذکر کا لفظ حفظ کے لفظ کے ہم معنی ہے ہاں حفظ اور ذکر ہر دو کے مفہوم میں تھوڑا سا امتیاز ہے حفظ کسی شخص کے یاد کرنے پر اس وقت بولیں گے۔ جب وہ ذہن میں بعض باتوں کو جمع کرتا چلا جائے اور ذکر اس کے اس طور پر یاد رکھنے کو کہیں گے کہ اس کو وہ باتیں مستحضر رہیں اور جب چاہے انہیں استعمال کر لے وَتَارَۃً یُقَالُ لِحَضُوْرِ الشَّیْئِ الْقَلْبَ اَوِلْقَوْلَ اور کبھی دل میں کسی امر کا خیال لانے یا زبان پر کسی بات کے لانے کا نام ذکر رکھا جاتا ہے وَلِذٰ لِکَ قِیْلَ اَلذِّکْرُ ذِکْرَ اِن ذِکْرٌ بِالْقَلْبِ وَ ذِکْرٌ بِاللِسَّانِ اسی لئے کہتے ہیں کہ ذکر دو طرح ہوتا ہے (۱) قلبی ذکر (۲) زبانی ذکر وَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا ضَرْ بَانِ ذِکْرٌ عَنْ نِسْیَانٍ وَ ذِکْرٌ لَاعَنْ نِسْیانٍ بَلْ عَنْ اِدَامَۃِ الحِفْظِ کہ خواہ قلبی ذکر ہو یا قولی ہر دو کی دو دو قسمیں ہیں (۱) بھول جانے کے بعد کیس بات کا یاد کرنا (۲) یا بغیر بھولنے کے یاد رکھنا (مفردات) پس اُذْکُرُوْا کے معنے ہونگے۔ تم یاد کرو۔
نِعْمَتِیْ:۔ اَلنِّعْمَۃُ کے معنے ہیں اَلٰصَّنِیْعَۃُ وَالْمِنَّۃُ احسان۔ مَا اُنْعِمَ بِہٖ عَلَیْکَ مِنْ رِزْقٍ وَ مَالٍ وَغَیْرِہٖ۔ وہ مال یا رزق یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز جو بطور انعام ملے۔ اَلْمَسَرَّۃُ۔ خوشی۔ اَلْیَدُ الْبَیْضَائُ الصَّالِحَۃُ ایسا احسان جس میں کوئی کدورت او رکمی نہ ہو۔ وَفِی الْکُلِّیاتِ اَلنِّعْمَۃُ فِی اَصْل وَضْعِمَا ’’اَلْحَالَۃُ الَّتِیْ یَسْتَلِذُّ بِھَا اِلْاِنْسَانُ‘‘ وَھٰذَا مَبْنِیٌّ عَلیٰ مَا اشْتَھَرَ عِنْدَ ھُمْ مِن اَنَّ النِّعْمَۃَ بِالْکَسْرِ لِلْحَالَۃِ وَ بِالْفَتْحِ لِلْمَرَّۃِ۔ اور کلیات ابی البقاء میں یوں لکھا ہے کہ نعمت اصل وضع کے لحاظ سے اس حالت کو کہتے ہیں جس سے انسان لذت اُٹھاتا ہے اور یہ اس بناء پر ہے کہ حالت بیان کرنے کے لئے عربی زبان میں فَعْلَۃٌ اور کسی کام کے ایک ہونے کا اظہار کرنے کے لئے فَعْلَۃٌ کا وزن لاتے ہیں اور نِعْمَۃٌ ان کی زیر سے چونکہ فَعْلَۃٌ کے وزن پر ہے اس لئے اس میں نعمت والی حالت کے معنے پائے جاتے ہیں۔ وَنِعْمَۃُ اللّٰہِ۔ مَا اَعْطَاہُ اللّٰہُ لِلْعَبْدِ مِمَّالَایَتَمَنَّی غَیْرَہٗ اَنْ یُعْطِیَہٗ اِیَّاہُ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اپنے بندے پر وہ احسان ہے جس کے بعد بندہ اس کے متعلق کسی اور سے خواہش نہیں رکھتا۔ اس کی جمع اَنْعُمٌ اورنِعَمٌ آتی ہے اور جب فُلَانٌ وَاسِعُ النِّعْمَۃِ کہیں تو اس کے معنے ہونگے وَاسِعُ الْمَالِ یعنے فلاں مالدار ہے (اقرب)
اَلْعَھْدُ:۔ کے مصدری معنے ہیں حِفْظُ الشَّیْئِ وَ مُرَاعَاتُہٗ حَالًا بَعْدَ حَالٍ۔ کسی چیز کی حفاظت کرنا اور وقتاً فوقتاً اس کی دیکھ بھال کرتے رہنا۔ وَسُمِّیَ الْمَوْثِقُ الَّذِیْ یَلْزَمُ مُرَاعَاتُہٗ عَھْدًا۔ اور اس عہد و پیمان کو جس کی ہر لحاظ سے حفاظت کی جائے عہد کے نام سے موسوم کرتے ہیں وَعَھْدُ اللّٰہِ تَارَۃً یَکُوْنُ بِمَارَ کَزَہٗ فِیْ عُقُوْلِنَا اور اللہ تعالیٰ کا بندوں سے عہد تین طور پر ہے (۱) یہ کہ بعض باتیں اس نے فطرت انسانی میں رکھ دی ہیں اور اس عہد کی حفاظت اس طور پر کی جا سکتی ہے کہ خلاف فطرت کام نہ کیا جائے (۲) وَتَارَۃً یَکُوْنُ بِمَا اَمَرَنَا بِہٖ بِالْکِتَابِ وَبِسُنَّۃِ رُسُلِہِ اور کبھی اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں سے عہد لینے سے یہ مُراد ہوتی ہے کہ وہ باتیں جو اس نے اپنی نازل کردہ کتاب اور اپنے رسولوں کی سنت کے ذریعہ ہمارے پاس بھیجی ہیں ہم ان کو بجالائیں (۳) وَتَارَۃً بِمَا نَلْتَزِمُہٗ بعض اوقات اس بات کو بھی عہد کہہ دیتے ہیں جو برضاور غبت اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے ذمہ لگایا جائے کہ میں خدا تعالیٰ کی خاطر فلاں جائز کام ضرور کرونگا (مفردات) تاج العروس میں ہے اَلْعَھْدُ اَلْوَصِیَّۃُ وَالْاَ مْرُ کہ عہد کے معنے کسی تاکیدی حکم کے ہوتے ہیں نیز اس کے معنے ہیں اَلْمَوْثِقُ وَ الْیَمِیْنُ پکا عہد و پیمان۔ قسم۔ اَلْحِفَاظُ وَرَعَایَۃُ الحُرْمَۃِ کسی بات کی حفاظت اور اس کی حرمت کی نگہداشت کرنا۔ اَلْاَمَانُ امان۔ اَلذِّمَّۃُ ذمہ۔ اَلْاِ لْتِقَائُ ملنا۔ ملاقات۔ اَلْمَعْہِفَۃُ کسی چیز کو جاننا۔ اَلزِّمَانُ۔ زمانہ۔ اَلْوَفَائُ وفا۔ تَوْحِیْدُ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ اللہ تعالیٰ کو واحد گرداننا اَلضَّمَانُ۔ ضمانت۔ اَلَّذِیْ یُکْتَبُ لِلْوُلَاۃِ۔ پروانہ شاہی جو کسی شخص کو کئی ملک کا حاکم مقرر کرتے وقت لکھ کر دیا جاتا ہے۔ (تاج)
اِرْھَبُوْنِ:۔ اِرْھَبُوْا۔ جمع مخاطب کا صیغہ امر ہے اور رَھِبَ الرَّجُلُ (یَوْھَبُ رَھْبَۃً) کے معنے ہیں خَافَ ڈر گیا (اقرب) اِرْھَبُوْنِ اصل میں اِرْھَبُوْنِیْ تھا۔ یہ کو گراد یا گیا اور نون وقایۃ کے کسرہ پر اکتفا کیا گیا۔ اِرْھَبُوْنَ کے معنے ہیں۔ مجھ سے ڈرو۔
تفسیر۔ ترتیب مضمون:۔ آدم علیہ السلام کی مثال دے کر یہ بتایا گیا تھا کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کوئی نیا دعویٰ نہیں بلکہ جب بشر کی عقل مکمل ہوئی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پر الہام نازل کیا تھا۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب شروع میں الہام نازل کر دیا تو پھر اور کسی الہام کی کیا ضرورت ہے کیا وہ الہام کافی نہیں۔ یہ سوال عام ہے اور اکثر نبوت کے مخالف بلکہ پُرانے مذہب کے مدعیان بھی یہ اعتراض کرتے چلے آتے ہیں۔ مخالفین نبوت کے اعتراض کی غرض تو صرف نبوت میں شک پیدا کرنا ہوتی ہے وہ اس اعتراض سے صرف یہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ موجودہ مدعی غلطی پر ثابت ہو گا سابق کا کوئی دعویدار اور نائب موجود ہی نہیں کہ اس کی اطاعت کا سوال ہی لیکن جو مذاہب قدیم ہیں ان کی غرض اس سوال سے یہ ہوتی ہے کہ ہمارے مذہب کی موجودگی میں اور کسی نبی کی ضرورت نہیں۔ اس سوال کا دو طرح جواب دیا جا سکتا ہے ایک اس طرح کہ عقلاً نبوت کی ضرورت ثابت کی جائے دوسرے اس طرح کہ واقعات کی شہادت سے ثابت کر دیا جائے کہ نبوت آدم علیہ السلام کے بعد بھی جاری رہی۔ قرآن کریم نے نبوت کے اجراء کی ضرورت کو عقلی طور پر کئی دوسرے مقامات پر ثابت کیا ہے مگر اس جگہ دوسرے طریق جواب کو اختیار کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام کے قریب زمانہ تک نبوۃ کے مدعی ہوتے رہے ہیں پس یہ کہنا کہ پہلی شریعت کے بعد اور کسی شریعت یا وحی نبوت کی ضرورت نہیں درست نہیں۔ جن لوگوں کی صداقت شواہد اور دلائل سے ثابت ہو چکی ہو ان کے دعویٰ کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے تھے تو پہلی وحی کے بعد دوسرے زمانوں کی وحیوں کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر پہلی وحی کے بعد بھی الہام ہوتا رہا بلکہ اسلام کے قریب زمانہ تک بھی خدا تعالیٰ کے نبی آتے رہے تو پھر اسلام کی وحی پر اس بناء پر اعتراض کرنا کہ پہلی وحی کے بعد دوسری وحی کی ضرورت نہیں کس طرح درست ہو سکتا ہے؟
اس طریق جواب کو اختیار کرنے میں ایک مزید فائدہ بھی تھا اور وہ یہ کہ قرآن کریم کے پہلے مخاطبین میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو یہودی مذہب یا عیسوی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور انہی کے نبیوں کو قرآن کریم نے وحی کے جاری ہونے کے ثبوت میں پیش کیا ہے اس سلسلۂ نبوت کی ایک کڑی جس کے بغیر ان پہلے نبیوں کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ بنو اسمعیل میں ایک نبی کا وجود بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے یہ خبر دی گئی تھی کہ بنو اسماعیل میں بھی ایک نبی ہو گا۔ اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد کے نبیوں نے اس نبی کی آمد کی مزید وضاحت کی تھی۔ پس ان انبیاء کی وحی کو بطور شہادت پیدا کرنے میں دو فائدے تھے ایک تو وحی کے اجراء کا ثبوت دوسرے اس امر کا ثبوت کہ اس سلسلۂ نبوت کے بعد وحی الٰہی کا بنو اسماعیل کی طرف منتقل ہونا لازمی اور ضروری تھا پس وحی نبوت کا اجراء ہی ثابت نہیں بلکہ اس کا آخری زمانہ کے مورد کا بنو اسمٰعیل اور عرب میں ہونا بھی ضروری تھا۔
چنانچہ اس دلیل کو بیان کرنے کے لئے اس رکوع سے بنو اسرائیل کو مخاطب کر لیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ اے بنی اسرائیل تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو او راس امر کی سچی گواہی دو کہ خدا تعالیٰ کا الہام دنیا میں ہمیشہ نازل ہوتا رہا ہے اور تم بھی اس کے مہبط رہے ہو۔ بلکہ یہ بھی کہ تمہاری کتب میں یہ بھی موجود ہے کہ ایک دن وحی الٰہی کا سلسلہ تم سے ہٹ کر تمہارے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
اسرائیل
پیشتر اس کے کہ میں اس اجمال کی تفصیل بیان کروں۔ میں بنو اسرائیل کے لفظ کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے اسحاق علیہ السلام تھے۔ ان کے بیٹے کا نام یعقوب (علیہ السلام) تھا۔ جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد تھے۔ حضرت یعقوب یہود میں خاص حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی قوم کا نسلی امتیاز انہی کے نام سے قائم ہے۔ اسرائیل کا نام خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملا تھا جس کی وجہ سے ان کی اولاد بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہلائی۔ بائبل میں لکھا ہے کہ یعقوب علیہ السلام سے ایک سفر کے دوران میں رات کے وقت ایک شخص نے کشتی لڑنی شروع کی اور ساری رات کشتی لڑتا رہا۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ کُشتی لڑنے والا خدا تعالیٰ تھا (پیدائش باب ۳۲ آیت ۳۰) صبح کے وقت اس کُشتی لڑنے والے نے حضرت یعقوبؑ سے ان کا نام پوچھا تو انہو ںنے یعقوب نام بتایا اس پر اس نے کہا کہ ’’تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کہ تُو نے خدا اور خلق پاس قوت پائی اور غالب ہوا۔‘‘ (پیدائش باب ۳۲ آیت ۲۸) بائبل کے شارحین کُشتی لڑنے والے کو فرشتہ کہتے ہیں گو اس کا کوئی ثبوت نہیں دیتے بہرحال وہ فرشتہ ہو یا خدا تعالیٰ عالم تمثیل میں انہوں نے دیکھا ہو۔ اس نے حضرت یعقوبؑ کو اسرائیل کا نام دیا۔ اور اس کے معنے بھی بتا دیئے کہ خدا تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک وہ قوی سمجھا گیا اور غالب ہوا۔ پس اسرائیل کے معنے بائبل کے بیان کے مطابق خدا کا قوی بندہ یا خدا کا غالب بندہ ہیں لغت کے معنے حل لغات میں بتائے جا چکے ہیں کہ خدا کے ہیں بہرحال حضرت یعقوبؑ کو رویا۔ یا کشف میں اسرائیل کا نام دیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے ان کی اولاد بنو اسرائیل کہلائی۔
بنو اسرائیل اور یہودی
گو اس آیت میں یہودی کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں یہودی یا اس کی جمع ھود کا لفظ استعمال ہوا ہے اور مناسب ہے کہ ان دونوں لفظوں کا فرق بھی بتا دیا جائے تا معلوم ہو سکے کہ بنو اسرائیل کا لفظ کس موقعہ پر استعمال ہوتا ہے اور یہودی کا لفظ کس موقعہ پر استعمال ہوتا ہے۔
بنو اسرائیل کا لفظ قرآن کریم میں اڑتیس جگہ استعمال ہوا ہے اور یہودی کا لفظ نو جگہ اور ھود یہود کی جمع کے معنو ںمیں تین دفعہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ ان مقامات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی یا ھُوْد جہاں بھی استعمال ہوا ہے مذہب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی جہاں حضرت یعقوب کی نسل کی طرف اشارہ مقصود ہے وہاں تو بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کیا ہے اور جہاں ان لوگوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو اپنے آپ کو موسیٰ کے پیرو کہتے تھے وہاں یہودی یا ھود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ ھود کا لفظ جن تین جگہ پر استعمال ہوا ہے اس کے ساتھ نصاریٰ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ گویا یہودی مذہب اور نصرانی مذہب کے متبعین کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے اسی طرح یہود کا لفظ جن نو مقامات میں استعمال کیا گیا ہے ان میں سے بھی آٹھ مقامات میں نصاریٰ کے مقابل پر استعمال کیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ وہاں اسرائیلی قوم مراد نہیں بلکہ موسوی مذہب مراد ہے۔ باقی ایک مقام میں نصارے کا لفظ ساتھ استعمال نہیں۔ یعنی مائدہ رکوع صفحہ ۹؍۱۳ میں۔ اس کی بھی سب آیتیں واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔ کہ اس جگہ یہودی مذہب کے پیروئوں کا ذکر ہے نہ کہ کسی نسل کے لوگوں کا۔ کیونکہ اس میں عقائد پر بحث ہے۔ اس کے بالمقابل بنی اسرائیل کا لفظ جہاں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ اور قرآن کریم کے کسی ایک مقام پر بھی اسے نصاریٰ کے مقابل پر استعمال نہیں کیا گیا۔
اس امتیاز کی وجہ سے جہاں تو بنی اسرائیل کا لفظ استعمال ہوا ہے اس میں ایسے لوگ بھی مخاطب ہو سکتے ہیں جو یہودی مذہب تو چھوڑ چکے ہوں لیکن ہوں حضرت یعقوبؑ کی نسل سے مثلاً ان میں سے عیسائی یا مسلمان ہو جانے والے لوگ اسی طرح جہاں یہود یا ھود کا لفظ استعمال ہوا ہے اس میں ایسے لوگ بھی شامل سمجھے جا سکتے ہیں جو بنی اسرائیل سے تو نہ ہو ںلیکن موسوی مذہب کو مانتے ہوں۔
شائد کسی کو یہ شبہ گزرے کہ یہودی لوگ تو اپنے مذہب میں کسی کو داخل نہیں کرتے اس لئے جہاں یہ ممکن ہو سکتا ہے کہے بنی اسرائیل میں سے بعض نصرانی یا مسلمان ہو گئے ہوں وہاں یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ کوئی غیر اسرائیلی یہودی مذہب میں داخل ہو گیا ہو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک بنی اسرائیل موسوی مذہب کو اپنے لئے مخصوص سمجھتے تھے مگر اس میں بعض مستثنیات بھی تھے اور بعض قسم کے لوگوں کو یہودی مذہب میں شامل کرنے کی اجازت بھی ہوتی تھی مثال کے طور پر یہودیوں کے غَام یا ان کے ملک میں آ کر اور ان کے تابع ہو کر بسنے والے لوگوں کو یہودی مذہب قبول کرنے کی اجازت ہوتی تھی چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب خروج میں لکھا ہے کہ ’’اور اگر کوئی بیگانہ تمہارے ساتھ مقیم ہو۔ اور خداوند کی فسح کیا چاہے (یعنی یہود کی تہواروں میں شامل ہونا چاہے) تو اس کے سب مرد اپنا ختنہ کروائیں۔ تب وہ نزدیک آئے اور فسح کرے۔ اور اب وہ گویا تمہاری زمین میں پیدا ہوا ہے۔ کیونکہ نامختون انسان اسے نہ کھائے گا۔ وطنی اور بیگانے کی جو تمہارے بیچ میں ہے ایک شریعت ہو گی‘‘ (خروج باب ۱۲ آیت ۴۸؍۴۹) ان آیات سے ظاہر ہے کہ موسوی شریعت گو اپنے آپ کو بنی اسرائیل سے مخصوص قرار دیتی ہے۔ لیکن سوسائٹی میں ایک جہتی قائم رکھنے کے لئے اس امر کی اجازت دیتی ہے کہ جو لوگ بنی اسرائیل کے درمیان آ کر بس جائیں اور ان کے ساتھ مل کر ایک حکومت کا جزو بننا چاہیں وہ موسوی شریعت میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح استثناء باب ۲۳ ۔ آیت ۳ تا ۸ میں ان قومونکی لسٹ بتائی ہے۔ جن کے افراد بعض قیود کے ماتحت یہودی نظام میں شامل ہو سکتے ہیں۔
یسعیاہ میں لکھا ہے ’’اور بیگانے کی اولاد بھی جنہوں نے اپنے آپ کو خداوند سے پیوستہ کیا ہے اس کی بندگی کریں اور خداوند کے نام کو عزیز رکھیں۔ اور اس کے بندے ہوویں دے سب جو سبت کو حفظ کر کے اسے ناپاک نہ کریں۔ اور میرے عہد کو لیئے رہیں۔ میں ان کو بھی اپنے مقدس پہاڑ پر لائونگا۔ اور اپنی عبادت گاہ میں انہیں شادمان کرونگا اور ان کی سوختنی قربانیاں اور ان کے ذبائح میرے مذبح پر مقبول ہونگے کیونکہ میرا گھر ساری قوموں کی عبادت گاہ کہلائے گا۔‘‘ (باب ۵۶ آیت ۶۔۷) عہد کو قائم رکھیں سے اس جگہ مُراد ختنہ کرانا ہے کیونکہ عہد ارباہیمی کی علامت ختنہ کو قرار دیا گیا تھا اِس کی تائید استثناء باب ۱۲ کے مذکورہ بالا حوالہ سے بھی ہوتی ہے۔
مشہور یہودی عالم جوزیفس لکھتا ہے کہ مذہب بدل کر یہودی بننے والا شخص وہ ہے جو یہودی رسوموں کو اختیار کرے اور جو یہودی قانون کی اتباع کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی اس رنگ میں عبادت کرتے ہوئے کہ جس رنگ میں کہ یہود عبادت کرتے ہیں (یہودی ہو جائے) جوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۰)
بائبل سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ عملاً بھی بعض لوگ موسوی مذہب کو قبول کر لیتے تھے چنانچہ بائبل کی ایک کتاب روت نامی ہے یہ روت جس کا اس میں ذکر ہے۔ موآبی لڑکی تھی جو ایک اسرائیلی سے بیاہی گئی اور اس نے موسوی مذہب کو قبول کر لیا تھا۔ اسی طرح غرا باب ۳ آیت ۲ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسوری لوگ جو فلسطین میں بس گئے تھے انہوں نے بھی یہودی طریقہ کو اختیار کر لیا تھا تاریخ سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ رومی مورخین ٹیسیٹس (Tactus)ڈیوکیسیس (Diocassious)وغیر ہم نے اپنی کتب میں ان رومیو ںکا ذکر کیا ہے جنہوں نے یہودی مذہب کو قبول کر لیا تھا (جوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۰) اسلامی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کے عربو ںمیں سے بھی بعض لوگوں نے یہودی مذہب کو اختیار کیا ہوا تھا۔ چنانچہ کعب بن اشرف مشہور دشمن اسلام جس نے معاہدین میں شامل ہونے کے باوجود دشمنانِ اسلام کو مدینہ پر چڑھائی کے لئے اکسایا تھا اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے کئے تھے اور اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا تھا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے تھا۔ اس کا باپ بنو بنہان قبیلہ کا عرب تھا ایک شخص اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور وہ بھاگ کر مدینہ آ گیا وہاں اس نے یہودی قبیلہ بنو نضیر سے معاہدہ کر لیا اور اسی قبیلہ کی ایک لڑکی عقیلہ بنت ابی تحقیق سے شادی کر لی اور اس طرح یہودیوں میں شامل ہو گیا آگے اس کا بیٹا کعب بھی یہودی المذہب رہا (زرقانی جلد ۲ صفحہ ۸ زیر عنوان قتل کعب ابن الاشرف)
اسی طرح بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مشرکین مدینہ نذر کے طو رپر اپنی اولاد کو یہود میں داخل کرنے کا اقرار کر لیتے تھے اور وہ بڑے ہو کر یہودی مذہب کے ہو جاتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے ’’کَانَتِ الْمَرْأَۃُ تَکُوْنُ مِقْلَاۃً فَتَجْعَلُ عَلیٰ نَفْسِہَا اِنْ عَاشَ لَھَا وَلَدٌ اَنْ تُھَوِّدَہٗ فَلَمَّا اُجْلِیَتْ بَنُوالنَّضِیْرِ کَانَ فِیْہِمْ مِنْ اَبْنَائِ الْاَنْصَارِ فَقَالُوْالَا نَدَعُ اَبْنَائَ نَافَانْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ کہ مدینہ کی عورتوں میں سے جب کسی عورت کے بچے بچپن میں ہی فوت ہو جاتے تو وہ نذر مان لیتی کہ اگراس کا بچہ بچ جائے تو وہ اس کو یہودی مذہب میں داخل کر دیگی۔ چنانچہ جب بنو نضیر کو جلا دطن کیا گیا۔ تو ان میں انصار مدینہ کے ایسے بچے تھے جن کو یہودی بنایا گیا تھا۔ تو انصار نے ان کو ان کے ساتھ بھیجنے سے انکار کیا۔ اس وقت یہ آیت لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ط نازل ہوئی کہ مذہب کے بارے میں کوئی جبر نہیں کیا جا سکتا (ابو دائود کتاب الجہاد باب فی الاسیر یکرہ علی الاسلام)
خلاصہ یہ ہے کہ موسوی مذہب کے بنی اسرائیل کیلئے مخصوص ہونے کے یہ معنے نہیں کہ کوئی غیر اسرائیلی کبھی یہودی ہو ہی نہ سکتا تھا بلکہ خود حضرت موسیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق غلام یا تابع رہنے والے لوگ اگر موسوی دین پر عمل کریں اور ختنہ کرالیں تو وہ موسوی مذہب میں داخل ہو سکتے تھے موسوی مذہب کے اسرائیلیوں تک مخصوص ہونے کے صرف یہ معنے ہیں کہ یہ مذہب تبلیغی نہیں اور انہیں حکم نہیں کہ دوسری قوموں میں جا کر تبلیغ کریں اور اس میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص ترقیات کے وعدے ہیں دوسری اقوام کو طفیلی تابع کے طور پر اگر کامل طور پر ان سے مل جائیں حصہ دیا جا سکتا ہے برخلاف اسلام کے کہ اس کے پیروئوں کو تبلیغ کرنے اور استثنائی طور پر نہیں بلکہ قاعدہ کلیہ کے طور پر ساری دُنیا میں اسلام پھیلانے کا حکم ہے اور اس میں داخل ہونے والوں سے کوئی وعدہ نہیں جو صرف عربوں سے مخصوص ہو بلکہ ہر وعدہ اپنی انتہائی صورت میں اسی طرح غیر عربوں کے لئے ہے جس طرح کہ عربوں کے لئے۔
خلاصہ یہ کہ چونکہ موسوی دین کے تابع لوگوں کو استثنائی صورتوں میں غیر اسرائیلیوں کو بھی اپنے دین میں شامل کرنے کی اجازت تھی اور محدود تعداد غیر قوموں کی ان میں شامل بھی ہوتی رہتی تھی اس لئے ضروری تھا کہ بنی اسرائیل کے سوا ان کا کوئی اور نام بھی ہوتا جس کے ذریعہ سے اس کے افراد کی قوم کی طرف نہیں بلکہ مذہب کی طرف نسبت ثابت کی جاتی۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے آہستہ آہستہ یہودی کے لفظ کو اختیار کیا گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب زمانہ میں چونکہ ایسے لوگ بہت کم تھے جو باوجود غیر اسرائیل ہونے کے یہودی مذہب قبول کریں انہیںاپنے اندر رہنے والے غیر یا بیگانہ کے لفظ سے یاد کیا جاتا تھا مگر جب حضرت دائود علیہ السلام کے ذریعہ سے بنی اسرائیل میں حکومت آ گئی اور ان کی حکومت کا حلقہ وسیع ہو گیا اور غیر قومیں اسرائیلیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں اور اسرائیلی حکومت تلے بسنے والوں میں سے ایک خاصے طبقے نے موسوی مذہب احتیار کر لیا تب یہ ضرورت بشدت محسوس ہوئی کہ اسرائیل کے سوا کوئی اور نام بھی ہو جو ایسے لوگوں پر بھی مشتمل ہو۔
اس نام کا انتخاب بعض سیاسی حالات نے خود ہی کر دیا اور وہ اس طرح کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد ان کا لڑکا ایک دنیا دار آدمی تھا اس کی تخت نشینی پر بنی اسرائیل کے سردار اس کے پاس ملنے آوے اور اس سے قانون میں بعض نرمیاں کرنے کی درخواست کی اس پر اس نے اپنے نوجوان دوستوں کے مشورہ سے انہیں سخت جواب دیا اور دھتکار کر دربار سے رخصت کر دیا اس پر بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے دس کے سرداروں نے دربار سے باہر نکلتے ہی بغاوت کا فیصلہ کر لیا اور رحبعام بن سلیمان سے باغی ہو گئے اور جعام کے ماتحت صرف یہود کا علاقہ (جسے اب فلسطین کہتے ہیں) اور یہود اور بن یامین دو قبیلوں کے آدمی رہ گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت دائود یہودا کے قبیلہ میں سے تھے اور بن یامین کے قبیلہ میں وہ پیدا ہوئے تھے اور انہیں کی مدد سے انہوں نے پہلے یہودا قبیلہ کے علاقہ کو اور پھر باقی اسرائیل کے علاقہ کو فتح کیا تھا (زیر لفظ دائود جوش انسائیکلو پیڈیا) پس ان دونوں قبیلوں میں آپس میں بہت جوڑ تھا اور اس بغاوت کے وقت میں وہ اکٹھے رہے۔
اس بغاوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیلیوں کی دو حکومتیں ہو گئیں ایک اس وجہ سے کہ حضرت دائود یہودا قبیلہ میں سے تھے (۰۱ تو اریخ باب ۱ ۳ و ۹ تا ۱۵ نیز متی باب ۱ آیت ۲ ولوقا باب۳ آیت ۳۳) اور یہودا کے علاقہ میں رہتے تھے یہود یہ کہلائی اس میں یہود اور بن یامین قبائل کے افراد شامل تھے (۲ تواریخ باب ۱۱ آیت ۱) اور دوسری اس وجہ سے کہ اسرائیل کے اکثر قبائل اس میں شامل تھے اسرائیل کی حکومت کہلائی یہود یہ حکومت کا زور فلسطین میں تھا تو اسرائیل کی حکومت کا شمالی فلسطین اور مغربی شام کی طرف۔ اس اختلاف کے بعد اسرائیل کی حکومت متواتر بت پرستی کی طرف راغب ہوتی گئی اور تورات کے علماء اسے چھوڑ کر یہودیہ کی طرف بھاگ آئے اور موسوی مذہب کا گڑھ یہودیہ کی حکومت بن گئی جو آہستہ آہستہ موسوی مذہب کی واحد علمبردار ہو گئی چنانچہ پہلے تو اسرائیل کے حکومت کے باشندوں اور یہودیہ کی حکومت کے باشندوں میں فرق کرنے کے لئے یہودیہ کے باشندوں کو یہودی کہا جانے لگا لیکن جوں جوں مذہبی اختلاف کی خلیج بڑھتی گئی یہودی کا لفظ مقام رہائش کو بتانے کی بجائے مذہب کو بتانے کے لئے استعمال ہونے لگا اور عزیز اور نحمیاہ دو نبیوں کے ذریعہ سے جب یہودیہ دوبارہ بسایا گیا اور مذہب موسوی کی باگ ڈور کلی طور پر یہودا کے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی تو یہودی کا لفظ نسلی امتیاز یا مقام رہائش کے معنوں سے بالکل الگ ہو کر مذہب (موسوی کے پیرو) کے معنو ںمیں استعمال ہونے لگا کیونکہ اس زمانہ سے موسوی مذہب کا احیاء صرف یہودا کے لوگوں کے ذریعہ سے ہی ہوتا تھا اور جب یہ لفظ خالص مذہبی معنوں میں استعمال ہونے لگا تو اس کا اطلاق ان غیر اسرائیلی لوگوں پر بھی کیا جانے لگا جو نسلاً تو اسرائیلی نہ تھے لیکن مذہباً موسوی مذہب کے پیرو تھے۔ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں جبکہ اسرائیلیوں کا ایک حصہ حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تو اسرائیلیوں کی بھی دو اقسام ہو گئیں ایک جو یہودی مذہب پر تھے اور دوسرے جو مسیحی تھے اسلام نے آ کر اسرائیلیوں میں سے بعض کو مسلمان بنا لیا اور اس طرح ایسے اسرائیلی بھی ہو گئے جن کا مذہب اسلام تھا۔
خلاصہ یہ کہ یہودیہ کے رہنے والوں میں چونکہ موسوی مذہب نے فروغ پایا اور تمام بڑے انبیاء وہیں پیدا ہوئے یا اسی سے تعلق رکھتے تھے جیسے یرمیاہ حزقیل دانئیل عزرا نحمیاہ وغیر ہم۔ اور اسرائیلی حکومت میں بت پرستی رائج ہوا گئی۔ یہودیہ کی حکومت کے توابع یہودکے نام سے مشہور ہوئے اور چونکہ اس زمانہ میں بہت سے غیر اسرائیلی بھی موسوی مذہب میں داخل ہوئے۔ مذہب موسوی رکھنے والوں کا نام قوم سے ممتاز کرنے کے لئے یہودی ہو گیا۔ اور اسلام سے چند صدی پہلے یہودی کے معنے موسوی مذہب رکھنے والے کے ہو گئے۔ مگر چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعدے جو دُنیاوی عزت اور اعلیٰ روحانی مراتب سے متعلق تھے ان کی نسلوں سے خاص تھے بنی اسرائیل کا لفظ الگ طو رپر قومی امتیاز کو بتانے کے لئے قائم رہا۔
میں نے کسی قدر تفصیل سے یہ امر اس لئے بیان کیا ہے تایہ بتائوں کہ قرآن کریم جس پر یہودی مذہب اور اسرائیلی تاریخ سے ناواقفیت کا الزام لگایا جاتا ہے اس امتیاز کوصحیح طور پر بیان کرتا ہے یعنی جہاں مذہب کا سوال ہوتا ہے یہودی کا لفظ استعمال کرتا ہے لیکن جہاں ان قومی وعدوں کا ذکر کرتا ہے جو آل ابراہیم یا آل موسیٰ ؑ یا آل دائود سے خاص تھے یا موسوی انبیاء کے مخاطبین کا ذکر کرتا ہے وہاں یہودی کا لفظ استعمال نہیں فرماتا بلکہ بنی اسرائیل کا لفظ استعمال فرماتا ہے کیونکہ وہ وعدے موسوی دین اختیار کرنے والوں سے نہ تھے بلکہ ان بنی اسرائیل سے تھے جو خدا تعالیٰ کے عہد کو قائم رکھیں خواہ موسوی دین پر ہوں خواہ اس کے بعد آنے والے کسی اور الٰہی دین پر ہوں جیسے کہ مسلمان ہونے والے بنی اسرائیل مگر لطیفہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ان معترضین کا جو قرآن کریم پر اسرائیلی تاریخ سے ناواقفیت کا الزام لگاتے ہیں یہ حالں ہے کہ ان کی مذہبی کتب تک اس بارہ میں غلطی کر جاتی ہیں چنانچہ اناجیل نے بھی اس بارہ میں غلطی کی ہے مثلاً مسیح علیہ السلام کی نسبت لکھا ہے ’’یہودیوں کا بادشاہ‘‘ چنانچہ لکھا ہے کہ پیلاطوس نے مسیح علیہ السلام سے پوچھا ’’کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے یسوع نے اس سے کہاں ہاں تو سچ کہتا ہے‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۱۱ مرقس باب ۱۵ ۲ ولوقا باب ۲۳ ۳) اس بادشاہت کے دعویٰ کی بنیاد ذکریاہ نبی کی کتاب پر ہے اس میں لکھا ہے ’’اے صیحون کی بیٹی تو نہایت خوشی کر اے یروشلم کی بیٹی تو خوب للکار کہ دیکھو تیرا بادشاہ تجھ پاس آتا ہے‘‘ (ذکریاہ باب ۹ آیت ۹ آیت) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ ذکریاہ نے ایک اسرائیلی بادشاہ کی خبر دی ہے جو یروشلم کو پھر اس کی سابق شوکت پر لائے گا پس اس سیمراد اسرائیلیوں کا بادشاہ ہے نہ یہود کا بادشاہ چنانچہ یوحنا باب۱ آیت ۴۹ میں لکھا ہے’’تو اسرائیل کا بادشاہ ہے‘‘ اور یہی درست ہے کیونکہ موسوی سلسلہ کے ترقی کے وعدے بنی اسرائیل سے مخصوص تھے نہ کہ ہر یہودی مذہب کو قبول کرنے والے سے۔ اسی طرح حضرت مسیح کاخطاب صرف بنی اسرائیل سے تھا چنانچہ لکھا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب اپنے مریدوں کو تبلیغ کے لئے بھجوایا تو کہا کہ ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۵) یاد رہے کہ سامری مخلوط نسل کے آدمی تھے اور اکثر ان میں سے یہودی باپوں کی نسل میں سے تھے اور تورات کو مانتے تھے اور اسی پر ان کا عمل تھا۔ جب سامریوں تک سے علیحدہ رہنے کا حکم مسیح نے دیا تو جو بالکل غیر قومیں ہیں ان کا کیا ذکر ہے۔
یہ غلطی مسیحیوں کو ایسی چمٹی ہے کہ آج تک وہ اس غلطی میں مبتلا ہیں چنانچہ آج جرمنی اور بعض دوسرے یورپین ممالک میں اسرائیلی نسل کے خلاف جو جوش پیدا ہے اس میں یہی کہا جاتا ہے کہ ’’یہودیوں‘‘ کو ملک سے نکال دو اور اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ جو موسوی مذہب کے تابع ہیں ان کو ملک سے نکال دو بلکہ یہ مخالفت ان لوگوں کے خلاف بھی ہے جو نصرانی مذہب اختیار کر چکے ہیں حالانکہ وہ بنی اسرائیل تو بیشک ہیں مگر یہودی کسی صورت میں بھی نہیں کیونکہ اپنا مذہب تبدیل کر چکے ہیں جرمنی میں تو یہجوش اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ جن لوگوں کی رگوں میں کسی اسرائیلی عورت کا خون بھی ہے اسے بھی ملک کا دشمن قرار دیا جاتا ہے لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ یہ یہودی ہیں یا یہودی خون ان کے اندر ہے حالانکہ نہ وہ یہودی مذہب کے پابند ہیں اور نہ ان مائوں کا مذہب یہودی تھا جن کی وہ اولاد ہیں بلکہ ان کی مائیں بھی مسیحی تھیں اور ان کی نسل بھی مسیحی ہے۔
غرض اس علمی زمانہ میں بھی کہ جس کی عملی ترقی پر یورپ کو اس قدر ناز ہے اسرائیلی اور یہودی کے فرق کو بالکل نہیں سمجھا جاتا لیکن قرآن کریم نے تیرہ سو سال پہلے اس فرق کو تسلیم کیا ہے اور جہاں جہاں نسلی ترقی کے وعدوں کا ذکر ہے یا نبیوں کے خطاب کا ذکر ہے وہاں بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کیا ہے اور جہاں صرف مذہب کا ذکر ہے وہاں یہودی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چنانچہ آیات زیر تفسیر میں چونکہ ان وعدوں کی طرف اشارہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے یا ان وعدوں کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ابراہیمی نسل سے تھے اس لئے ان آیات میں اور ان کے بعد کی آیات میں ہر جگہ لِبَنِٓیْ اِسْرَآئِیلَ کہا گیا ہے ایک جگہ بھی یہودی کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ اُذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ۔ اُذْکُرُوْا نِعْمَتِیْ نہیں فرمایا بلکہ اس کے بعد اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ زائد کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ صرف اپنی نعمت نہیں جتائی بلکہ اس سے زائد مضمون کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عربی زبان کے قواعد کے مطابق جب حروف یا الفاظ میں زیادتی کی جائے تو وہ جدید یا زائد مضمون پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے پس اس آیت میں اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ وہ نعمت ہے جو تمہاری قوم کے لئے خاص ہے۔
اللہ تعالیٰ کی دو قسم کی نعمتیں ہوتی ہیں ایک وہ جو عام ہیں مومن و کافر کو مل رہی ہیں جیسے ہوا پانی آگ خوراک وغیرہ لیکن ایک اس کی نعمتیں وہ ہیں جو خاص شرائط پورا کرنے والے مقربوں کو ملتی ہیں یا خاص وعدوں کے مطابق نازل ہوتی ہیں اگر تو عام نعمتوں کا ذکر ہوتا ہے جو خاص وعدہ کے مطابق نہیں ملتیں بلکہ ہر کافر و مومن پر نازل ہوتی ہیں تو خالی اُذْکُرُوْا نِعَمِیْ کہنا کافی تھا لیکن اس جوہ اول تو نِعْمَتِیْ کا لفظ مفرد رکھا گیا ہے جس سے خاص نعمت مراد ہے اور پھر اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ کے الفاظ بڑھائے گئے ہیں اور بتایا ہے کہ وہ نعمت تم پر خاص تھی دوسرے لوگ دُنیا کے اس میں شامل نہ تھے۔
یہ نعمت کیا ہے؟ اسے ہم قرآن کریم سے ہی دیکھتے ہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ ذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّ اٰتٰمکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَo (مائدہ ع ۴) یعنے یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جبکہ اس نے تم میں بہت سے انبیاء مبعوث فرمائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو اور کسی کو جہانو ںمیں سے نہ دیا تھا۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے جو انہوں نے اس وقت بنی اسرائیل سے کہا تھا جب وہ ارضِ مقدسہ کے قریب پہنچ گئی تھی اور اس میں داخل ہونے کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تک موسیٰ علیہ السلام کی قوم بادشاہ نہ بنی تھی بلکہ ابھی تک جنگلوں میں سرگردان پھر رہی تھی اس سے پہلے بھی کسی زمانہ میں وہ بادشاہ نہ بنی تھی کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت یوسف ؑ تک ان میں سے کوئی بادشاہ نہ ہوا تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد تو وہ مصر میں غلام ہو کر رہی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اسے اس غلامی سے نکالا گیا لیکن بادشاہت اب تک اسے نصیب نہ ہوئی تھی صرف اس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ارضِ مقدسہ میں اسے بادشاہت دی جائے گی اور جیسا کہ اگلی آیت میں بتایا گیا ہے اس قول تک وہ ارض مقدسہ میں داخل نہ ہوئی تھی پس جَعَلَکُمْ مُّلُوْکَا سے یہ مراد نہیں کہ تم کو گزشتہ زمانہ میں بادشاہ بنایا گیا تھا بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ تم کو بادشاہ بنانے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور چونکہ ساری آیت میں مضمون کا ایک ہی سلسلہ پیش کیا گیا ہے اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ بھی خدا تعالیٰ کے آیندہ وعدے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس میں سابق انبیاء کا ذکر نہیں۔ اور مطلب اس قول کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو یاد کرو جو اس نے تم سے کیا ہے کہ وہ تم میں سے کثرت سے نبی بنائے گا اور تم کو بادشاہ بنائے گا اور تم کو وہ کچھ دے گا جو اور کسی قوم کو نہیں دیا گیا گویا سابق شوکت کا ذکر نہیں بلکہ آیندہ ملنے والی شوکت کا ذکر ہے اور ماضی کے الفاظ حتمی وعدہ کے لحاظ سے استعمال کئے گئے ہیں نہ اس لئے کہ ایسا گزشتہ زمانہ میں ہو چکا ہے اس وعدہ کو یاد دلا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو ارض مقدسمہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور بتایا کہ وہ وعدہ ارضِ مقدسہ میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے پس تم ارض مقدسہ کو فتح کرنے میں دیر نہ کرو تاکہ اس وعدہ کا ظہور شروع ہو جائے۔
آیندہ زمانہ کے واقعات نے اس وعدہ کو پورا ہونے کا عملی ثبوت بہم پہنچا دیا اور بنی اسرائیل میں کثرعت سے نبی آئے اور ان کو بادشاہ بنا دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ایک لمبے سلسلہ کے ذریعہ سے ان پر پے در پے روحانی علوم کھولے جس کی مثال اور کسی گزشتہ قوم میں نہیں ملتی۔
یہ وعدہ کب ہوا؟ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وعدہ کی ابتداء ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے شروع ہوئی بائبل میں لکھا ہے ’’تب اس نے اسے (ابراہیم کو) کہا کہ میں خداوند ہوں جو تجھے کسدیوں کے اور سے نکال لایا کہ تجھ کو یہ ملک میراث میں دُوں‘‘ (پیدائش باب ۱۵ آیت ۷) اس کے آگے اسی باب میں بتایا ہے کہ یہ وعدہ اس طرح پورا ہو گا کہ پہلے ان کی قوم ایک اور ملک میں جا کر غلام بنے گی اور چار پشت بعد ان کو وہاں سے نکالا جائے گا وہاں سے نکالا جانے کے بعد وہ فلسطین میں بستے ہیں ابھی تک ان کے گناہ اس حد کو نہیں پہنچے کہ ان کو سزا دے کر اس ملک سے نکالا جائے۔ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ پہلے وعدہ ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا اور اس کے پورا ہونے کا وقت وہ بنایا گیا تھا جب بنی اسرائیل مصر میں غلام بن کر رہنے کے بعد وہاں سے نکلیں گے اور یہ زمانہ جیسا کہ بائبل تاریخ اور قرآن کریم سے ثابت ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تھا۔ پس ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو قول بتایا گیا ہے اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعدہ کی طرف اشارہ ہے کہا جا سکتا ہے کہ اس وعدہ میں بادشاہت کا تو ذکر ہے مگر نبوت کا ذکر نہیں مگر بائبل کے دوسرے مقامات کو ملا کر اس حصہ کا بھی پتہ لگ جاتا ہے۔ چنانچہ سترھویں باب میں لکھا ہے ’’اور میں اپنے اور تیرے درمیان عہد کرتا ہوں کہ میں تجھے نہایت بڑہائونگا تب ابراہیم منہ کے بل گرا اور خدا اس سے ہمکلام ہو کر بولا کہ دیکھ میں جو ہوں میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قومو ںکا باپ ہو گا اور تیرا نام پھر ابرام نہ کہلایا جائے گا بلکہ تیرا نام ابرہام ہو گا (جس کا عربی تلفظ ابراہیم ہے) کیونکہ میں نے تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرایا اور میں تجھے بہت برومند کرتا ہوں اور قومیں تجھ سے پیدا ہونگی اور بادشاہ تجھ سے نکلینگے اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کے پشت در پشت کے لئے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہو کرتا ہوں کہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہونگا اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ کے لئے ملک ہو اور میں ان کا خدا ہونگا۔‘‘ (باب ۱۶ آیت ۲ تا ۸) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خدا تعالیٰ نے دو وعدے کئے تھے ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی قوم کو کنعان میں داخل کرے گا اور اس کے بعد (۱) انہیں وہاں کا بادشاہ کرے گا (۲) دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کا خدا ہوگا۔ خدا ہونے کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں روحانی ترقیات کا وعدہ ہے کیونکہ بادشاہت میں دنیاوی ترقیات کا وعدہ آ چکا تھا۔
اوپر کے حوالہ سے ثابت ہو جاتا ہے کہ بائبل کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی اولاد آیندہ زمانہ میں کنعان میں آئے گی اور ان کو بادشاہت اور اعلیٰ روحانی ترقیات عطا ہونگی۔ یہ وعدہ بعد میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے بھی دہرایا گیا ہے لیکن ابتداء اس کا اظہار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے ہی کیا گیا تھا پس سورۂ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت میں جس نبوت اور بادشاہت کے دیئے جانے کا ذکر ہے وہی موعود بادشاہت اور نبوت ہے اور آیت زیر تفسیر میں نعمت سے مُراد وہی نعمت مراد ہے جس کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے اور جس کا ثبوت بائبل سے میں پیش کر چکا ہوں اس نعمت کو یاد دلا کر یہ اشارہ کیا ہے کہ انعام نبوۃ آدم پر ختم نہیں ہو چکا بلکہ بنی اسرائیل میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ ایک لمبا سلسلہ نبوت کا جاری رہا ہے۔
قرآن کریم میں بھی اسی سورۃ میں اس موعود نعمت کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں کیا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَ اِذِا بْتَلٰٓی اِبْراھٖمَ رَبُّہٗ بَکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط قَالَ لاَیَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَo (بقرہ ع ۱۵) یعنی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی بعض کلمات کے ذریعہ آزمائش کی تو ابراہیم نے ان احکام الٰہی کو پورا کر دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے لوگوں کے لئے امام بنانے والا ہوں تب ابراہیم ؑ نے عرض کیا کہ میری اولاد میں سے بھی بعض کو امام بنایا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچے گا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ (۱) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امام وبنانے یعنی اولوالام نبی کے درجہ پر فائز کرنے کا وعدہ فرمایا (۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی نست بھی اس وعدہ فرمایا (۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی نسبت بھی اس وعدہ کی توسیع کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے مشروط وعدہ فرمایا یعنے وعدہ کیا کہ تمہاری اولاد میں سے بعض اس عہد سے حصہ پائینگے مگر حصہ پانے والے وہی ہونگے جو قومی ظلم کے ذریعہ سے اپنے آپ کو محروم نہ کر چکے ہوں۔
وَاَوْ فُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ اس جملہ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو آخری قوم جس میں الہام کا سلسلہ دیر تک جاری رہا بنی اسرائیل کی قوم تھی لیکن ان سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ مشروط تھا جب تک بنی اسرائیل اس وعدہ کے مستحق رہے اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو پورا کرتا رہا مگر جب بنی اسرائیل کلی طور پر اس عہد کے انعامات کے ناقابل ہو گئے تو لازماً وہ عہد دوسری طرف منتقل ہو گیا۔ اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو وعدہ کیا گیا تھا اس کا ذکر آ چکا ہے وہ وعدہ یہ تھا کہ ان کی اولاد میں بھی بنی ہونگے مگر جب ان کی اولاد کا کئی حصہ ظالم ہو جائے گا تو پھر وہ اس عہد کا مستحق نہیں رہے گا اور عہد اولاد کے دوسرے حصہ کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
بائبل میں بھی اس عہد کے مشروط ہونے کا ذکر ہے پیدائش باب ۱۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر اک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کو کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۹ تا ۱۱) ’’اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اس نے میرا عہد توڑا‘‘ (آیت ۱۴)
ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی اولاد کی نسبت جو عہد کیا گیا تھا وہ مشروط تھا اور اس کی ظاہری علامت ختنہ تھا اور صاف کہہ دیا گیا تھا کہ اولاد میں سے جو اس عہد کی پابندی نہ کرینگے خدا تعالیٰ کا عہد بھی ان سے کوئی نہ رہے گا اور ان کو وہ انعامات نہ ملیں گے جن کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے وعدہ کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اس وعدہ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ یہ اس عہد کا نشان ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ بندہ کی طرف سے عہد ختنہ کا نہیں بلکہ عہد اور ہے ہاں اس کا ظاہری نشان ختنہ ہے یہود نے اس کو نہ سمجھا اور صرف ختنہ پر خوش ہو گئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہود کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ صرف کسی ایک حکم پر عمل کر کے خوش نہ ہوں اور یہ نہ سمجھیں کہ اس کے ذریعہ سے انہوں نے عہد کا اپنا حصہ پورا کر دیا ہے وہ اپنی قوم کو خدا تعالیٰ کا یہ حکم پہنچاتے ہیں۔ ’’پر اگر تم میرے سننے والے نہ ہو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو اور میری سنتوں کو حقیر جانو یا تمہارے دل میری عدالتوں کو ناپسند کریں ایسا کہ تم میرے حکموں پر عمل نہ کرو اور مجھ سے عہد شکنی کرو تو میں بھی تم سے ویسا ہی کرونگا اور خوف اور سل اور تپ سوزاں کو تمہارے اوپر غالب کرائونگا جس سے تمہاری آنکھیں پھوٹیں اور دل دکھیں اور تم اپنے بیج بے فائدہ بوئوگے اس لئے کہ تمہارے دشمن اسے کھائیں گے اور میرا چہرہ تمہارے برخلاف ہو گا‘‘ (احباب باب ۲۶ آیت ۱۴ تا ۱۷) (آخری الفاظ کو عہد کے ان الفاظ کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیئے کہ میں تیرا اور تیری نسل کا خدا ہونگا) اس حوالہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ختنہ صرف ایک ظاہری نشان تھا ورنہ اصل عہد جس کی پابندی کی حضرت ابراہیم کی اولاد سے توقع کی گئی تھی یہ تھا کہ وہ دل کے پاک ہوں خدا تعالیٰ کی سنتو ںپر مطمئن ہوں اور اس کے سب احکام پر عمل کریں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کے نبیوں نے بھی اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کیا ہے یرمیاہ نبی نبی اسرائیل کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اسرائیل کے سارے گھرانے کے دل نامختوں ہیں‘‘ (باب ۹ آیت ۲۶) اسی طرح فرماتے ہیں ’‘دیکھ وے دن آتے ہیں خداوند کہتا ہے کہ میں ان سب کو جو مختون ہیں نامختون کے ساتھ سزا دوں گا۔‘‘ (باب ۹ آیت ۲۵) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یرمیاہ نبی جسم کے مختون ہونے کو عہد کا پورا کرنا نہیں سمجھتے بلکہ دل کے مختون ہونے کو اصل ذریعہ عہد کے پورا کرنے کا قرار دیتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واسطہ سے ایک معاہدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد سے کیا تھا۔ اس معاہدہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم کی اولاد سے خدا رسیدہ لوگ پیدا کرے گا جو قرآن کریم کے بیان کے مطابق امام یعنی اولوالعزم نبی ہونگے اور دوسرے یہ کہ وہ انہیں کنعان کا ملک بطور میراث دے گا جس کے وہ بادشاہ ہونگے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وحی چونکہ اصل صورت میں محفوظ نہیں اس کا جس قدر حوالہ بائبل سے مل سکتا ہے بیشک اس میں ختنہ کی پوری تشریح نہیں مگر حضرت موسیٰ کی کتاب احبار اور یرمیاہ نبی کی وحی سے میں نے ثابت کر دیا ہے کہ ختنہ سے مراد صرف ظاہری ختنہ نہیں بلکہ اصل مراد دل کی صفائی اور کامل فرمانبرداری ہے جسمانی ختنہ اس کے لئے بطور علامت قرار دیا گیا ہے۔
اس تشریح کے مطابق آیت زیر تفسیر کے معنے یہ ہوئے کہ اے بنی اسرائیل یاد کرو کہ ہمارے تمہارے درمیان ایک عہد ہوا تھا اس عہد کا جو حصہ ہمارے متعلق تھا وہ ہم نے پورا کر دیا تم می سے پے در پے نبی بھی بھجوائے اور بادشاہ بھی بنائے اور اس کے بالمقابل جو حصہ عہد کا تم سے تعلق رکھتا تھا وہ تم نے پورا نہ کیا اور تمہارے دل نامختون ہو گئے اور تم نے اپنے خدا کے حکمو ںکو بھلا دیا اور اس کے نتیجہ میںتمہارے دلو ںمیں غیر اللہ کا خوف جاگزیں ہو گیا اگر تم اپنے حصہ عہد کو پورا کرو تو میں بھی پھر اپنے عہد کو تم سے پورا کرنے کو تیار ہوں لیکن تمہارا یہ امید کرنا کہ میں تو عہد کے اس حصہ کو پورا کرتا جائوں جو مجھ سے تعلق رکھتا ہے لیکن تم متواتر اس حصہ کو نظر انداز کرتے جائو جو تمہارے متعلق ہے درست نہیں۔
جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہی عہد دوسرے انبیاء کے ذریعہ سے پھر دہرایا گیا ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو اسرائیلی قوم کی شریعت لانے والے تھے ان کے ذریعہ سے بھی یہ عہد دہرایا گیا تھا۔ یہ عہد ایسا مشہور و معروف ہے کہ بائبل میں بیسویں جگہ اس کا ذکر آتا ہے اور بار بار اسے عہد کے نام سے پکارا گیا ہے خروج باب ۲۰ میں وہ دس احکام جو حضرت موسیٰ ؑ کی معرفت دیئے گئے اور بنی اسرائیل کے ساتھ ایک نیا عہد باندھا گیا تفصیلاً درج ہیں۔ استثناء باب ۵ آیت ۲ اور باب ۱۸ آیت ۱۸ و ۱۹ کو ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ سینا پہاڑ پر یا حورب پر جو نام کوہ سینا کا کتاب استثنا میں مستعمل ہے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو بلا کر دس حکم دیئے۔ اور بنی اسرائیل سے ایک نیا عہد باندھا (استثنا باب ۵ آیت ۲) اور کہا کہ اگر وہ ان احکام کے پابند رہیں تو میں ان کی قوم کو زندہ رکھونگا اور ان کا بھلا ہو گا اور ارضِ مقدس پر ان کے قبضہ کی مہلت لمبی ہوتی چلی جائے گی (استثناء باب ۵ آیت ۳۳) جس وقت یہ احکام نازل ہو رہے تھے اور خدا تعالیٰ کا جلال کوہ سینا یا حورب پر ظاہر ہو رہا تھا۔ خطرناک بجلی چمک رہی تھی۔ اور مہیب آوازیں آ رہی تھیں جسے دیکھ کر بنی اسرائیل جو خدا تعالیٰ سے عہد باندھنے کے لئے اپنے خیموں سے باہر نکل کر دامنِ کوہ میں کھڑے تھے ڈر گئے اور انہوں نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہم اس کلام کو نہیں سنتے تو خدا سے سن کر ہمیں سنا دیا کر ہم ڈرتے ہیں کہ ہم اس کلام کو سن کر مر نہ جائیں (خروج باب ۲۰ آیت ۱۹) اس پر خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے اچھا کہا ہے جب تک یہ ان احکام پر کاربند ہونگے برکت پائیں گے لیکن آیندہ جب کوئی نبی تیری مانند کھڑا کیا جائے گا (یعنی ان میں سے نہ ہو گا) کو حضرت موسیٰ نے کہا ہے کہ تم میں سے تمہارے بھائیوں میں سے نبی کھڑا کیا جائے گا (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵) لیکن اوّل تو یہ خدا تعالیٰ کے اس کلام کے خلاف ہے جو اس نے موسیٰ ؑ سے کیا۔ کیونکہ اس میں ’’تم میں سے‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ صرف یہی ہے کہ تیرے بھائیوں سے۔ دوم یہ فقرہ ہی بے معنی ہے کہ تم میں سے تمہارے بھائیوں میں سے جبکہ اس کلام کے سب بنی اسرائیل مخاطب تھے تو پھر تم میں سے کہہ کر تمہارے بھائیوں میں سے کہنا لغو تھا۔ جب بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا جائے گا کہ تمہارے بھائیوں سے نبی کھڑا کیا جائے گا۔ تو وہ بنی اسرائیل کے سوا کسی اور قوم میں سے ہو گا نہ ان میں سے اور اگر ان میں سے ہو تو پھر بھائیوں سے نہیں کہلا سکتا۔
سو بنی اسرائیل کے بھائیو ںمیں سے نبی کھڑا کرنا تو سزا کے طور پر تھا۔ اگر انہیں میں سے نبی ہو۔ تو سزا نہیں رہتی۔ جیسا کہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۶ میں لکھا ہے ’’اس سب کی مانند جو تو نے خداوند اپنے خدا سے حورب میں مجمع کے دن مانگا اور کہا کہ ایسا نہ ہو کہ میں خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ میں پھر دیکھوں تاکہ میں مر نہ جائوں‘‘ پھر لکھا ہے ’’اور خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا۔ سو اچھا کہا۔ میں ان کے لئے ان کے بھائیوںمیں سے تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا۔ اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالونگا۔اور جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا‘‘ (آیت ۱۷ و ۱۸) اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ بنی اسرائیل نے خدا کا کلام سننے سے انکار کر دیا جو کلام کہ شریعت کے متعلق تھا تو آیندہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے شریعت کا دروازہ بند کر دیا اور کہا کہ جب کسی ایسے نئے نبی کی ضرورت ہو گی جو موسیٰ کی مانند ہو تو وہ ان کے بھائیوں میں سے کھڑا کیا جائے گا۔ اس عہد کے ماتحت بنی اسرائیل کو ہر قسم کی ترقی ملتی رہی اور ان کی روحانی زندگی کے لئے بادشاہ ہوتے رہے۔ اور ان کو سوائے ایک قلیل درمیانی مدت کے ارضِ مقدس پر حکومت میسر رہی گو مسیح کے نزول کے بعد ارض مقدس پر حکومت میسر رہی گو میسح کے نزول کے بعد ارض مقدس کا قبضہ اس گروہ کے ہاتھ آ گیا جو مسیح کا ماننے والا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اسی عہد کی طرف اہل کتاب کو متوجہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہم سے تمہارا ایک عہد تھا۔ جس کے پورا کرنے کی صورت میں ہم نے تم سے برکت کی زندگی کا وعدہ کیا تھا۔ تم اگر اس عہد کو پورا کرو۔ تو میں اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے تیار ہوں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد کا ذکر قرآن کریم میں ہے جو اوپر گذر چکا ہے مذکورہ بالا موسوی عہد کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجود ہے فرماتا ہے وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍط فَسَاَ کْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَo اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَ ھُمْ فِی التَّوْرٰلۃِ وَالْاَ نْجِیْلِ زیَاْ مُرُ ھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَ ھُمْ وَالْاَ غْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّ رُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِٓیْ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o(اعراف ع ۱۹) یعنی میری رحمت ہر ایک چیز پر وسیع ہے میں ضرور ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ کریں اور زکوۃ دیں اور ہماری آیات پر ایمان لائیں اسے لازم کردونگا (خواہ وہ کسی قوم کے ہوں) ہاں ان لوگوں کے لئے جو اس رسول نبی اور اُمی کی فرمانبرداری کرتے ہیں جسے وہ اپنی اپنی کتب تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیںاچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے او رپاک چیزوں کو ان کے لئے حلال کرتا ہے (برخلاف یہود کے جو بہت سی پاک چیزوں کو اپنی تنگ ظرفی کی وجہ سے حرام قرار دیتے ہیں) اور گندی چیزوں کو حرام کرتا ہے (برخلاف نصاریٰ کے جو سور اور خون جیسی ممنوع اور بُری چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں) اور ان کے کمرتوڑ دینے والے بوجھوں کو دُور کرتا ہے اسی طرح ان طوقوں کو بھی جو ان کے گلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ پس وہ جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی زبانوں اور تلواروں سے اس کی اعانت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اُتارا گیا ہے (یعنی قرآن کریم) وہ ضرور کامیاب ہو نگے یعنی باوجود غیر عرب ہونے کے ان برکات سے حصہ پائینگے جو عرب کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت سے وابستہ ہیں کیونکہ وہ کسی ایک قوم کا نبی نہیں بلکہ سب دُنیا کا نبی ہے چنانچہ اگلی آیت میں اس مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرماتا ہے قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ انِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًاط تو کہہ دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں یعنی مجھ پر ایمان لانے والے سب کے سب ان انعامات کے وارث ہونگے جن کا مجھ سے وعدہ ہے اور صرف میری قوم ہی کے لوگ ان سے فائدہ نہ اٹھائیں گے۔
اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد کا ذکر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں ایک نبی امی کا ذکر موجود ہے اور اس پر ایمان لانے کا حکم ہے اور اس کی اطاعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کے پورا ہونے کا تعلق ہے جو حصرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کی قوم سے کیا گیا تھا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جب وہ مورعود نبی آئے گا تو اس وقت اس عہد کو جو موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے کیا گیاتھا اللہ تعالیٰ صرف انہی سے پورا کرے گا جو اس پر ایمان لائینگے چنانچہ لکھا ہے ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سے ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا او رجو کچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اُس سے لُوں گا‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸؍۱۹) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل کے متعلق جو وعدہ کیا تھا اس کا زمانہ اس موعود نبی کی بعثت تک تھا اس کی بعثت کے بعد یہ شرط تھی کہ اگر بنی اسرائیل اس نبی کو مانینگے تو انعام پائینگے ورنہ سزا پائینگے اور اسی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِ کُمْ تم اپنا عہد مجھ سے پوراکرو تو میں اپنا عہد تم سے پُورا کرونگا۔
اس جگہ دو شبہات پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ ہر نبی کے منکروں کو ہی سزا ملتی ہے اور بنی اسرائیل میں موسیٰ کے بعد بہت سے نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گذر چکے تھے جن کا انہوں نے انکار کیا پس عہد ت واس وقت ہی ٹوٹ چکا تھا پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پیشگوئی کا خاص تعلق کیونکر ہوا (۲) دوسرے یہ کہ اگر پیشگوئی محمد رسول اللہ صلعم کے متعلق تھی تو ان کی بعثت سے بنی اسرائیل کا زمانہ تو ختم ہو گیا پھر یہ کیوں کہا گیا ہے کہ تم اپنا عہد پورا کرو تو میں اپنا عہد پورا کروں گا۔ بنی اسرائیل کے تبوہ کر لینے سے نبوت ان کی قوم میں واپس تو جا نہ سکتی تھی پھر یہ الفاظ کیوں کہے گئے۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بہت سے نبیوں کا انکار کیا لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ وہ چونکہ ان کے قومی نبی تھے بعد میں ان کے حالات اور الہام ان کی مقدس کتب کے مجموعہ میں شامل ہو گئے پس وہ انکار عارضی تھا اس سے قومی تفریق نہیں ہوتی تھی۔ اس وجہ سے قوم ان انبیاء کی معرفت آنے والے انعامات سے محروم نہ ہوتی تھی۔ ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہ عرب نے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا لیکن آخر میں ان پر ایمان لے آئی ہاں آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار بنی اسرائیل نے شدت سے کیا اور بعد میں ان پر ایمان بھی نہ لائے لیکن بہرحال وہ بھی اسرائیلی نبی تھے اور بنی اسرائیل کا وہ حصہ جو ان پر ایمان لایا اس عہد کے تسلسل کو قائم رکھنے والا تھا اور اگر وہ اپنے عہد کو قائم رکھتا تو نبوت کا انعام پھر بھی ان کو ملتا لیکن انہوں نے بھی اس عہد کو قائم نہ رکھا اور نبوت دوسری طرف منتقل ہو گئی۔
یہود نے تو عہد کے روحانی پہلو کو بھلا یعنی دل کی پاکیزگی کو نظر انداز کر کے خدا تعالیٰ سے عہد کو توڑ دیا اور جو بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے انہوں نے بظاہری ختنہ کو چھوڑ کر عہد کے نشان کو مٹا دیا پس اس طرح بنی اسرائیل کا کوئی حصہ بھی عہد پر قائم نہ رہا اور خدا تعالیٰ نے عہد کو بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل کر دیا۔
خلاصہ یہ کہ گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بنی اسرائیل نے نبیوں کا انکار کیا لیکن وہ انکار عارضی ہوتا تھا اور بع دمیں وہ اس بنی کو قومی نبی کے طور پر تسلیم کر لیتے تھے سوائے حضرت مسیح کے کہ جن کو بنی اسرائیل کی باقی قوم نے قبول نہ کیا لیکن چونکہ وہ اسرائیلی نبی تھے اسرائیل ہی کی طرف آئے تھے اور جیسا کہ اناجیل سے ثابت ہے موسوی شریعت پر چلنے کا ہی حکم دیتے تھے اور ان کے پہلے مومن اسرائیل میں سے ہی تھے اس لئے ان پر ایمان لانے والے اسرائیلیوں کے ذریعہ سے وہ وعدہ قومی طور پر پورا ہوتا رہا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اور رنگ کا تھا۔ آپ موسوی شریعت کے تابع نہ تھے بلکہ موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کے مطابق ایک نئی شریعت لائے تھے اور اسرائیل کی طرف مبعوث نہ تھے بلکہ سب دنیا کی طرف مبعوث تھے پس آپ کے ذریعہ سے جو دین قائم ہوا وہ موسوی دین کا تسلسل نہ تھا اور اسرائیل اس پر قومی فخر نہ کر سکتے تھے اور ان کی قومی برتری کا دور اس سے ختم ہو جاتا تھا اس لئے فرمایا گیا کہ چونکہ تم نے اپنا عہد توڑ دیا ہم نے بھی اپنا عہد ختم کر دیا۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ گو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اسرائیلی نبیوں کا تسلسل ٹوٹ گیا اور بنی اسرائیل کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے وہ تسلسل پہلی شکل میں پھر قائم نہ ہو سکتا تھا لیکن پھر بھی اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْد کُمْ کے ارشاد کے مطابق بنی اسرائیل پر خدا تعالیٰ کی رحمتو ںکا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰ تِھِمْ وَلَاَدْ خَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِo وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰلۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْ قِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ مِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْصِدَۃٌط وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَایَعْمَلُوْنَo یٰٓا یُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗط وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo (مائہد ع ۹ و ع ۱۰) یعنی اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ سے کام لیتے تو ہم ان کی غلطیوں پر پردہ ڈال دیتے اور ہم انہیں نعمت والی جنتو ںمیں جگہ دیتے اور اگر وہ تورات کو قائم کرتے اور انجیل کو اور اس کلام کو بھی جوان پر (یعنے موجودہ زمانہ کے اہل کتاب پر) ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تو وہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے یعنی روحانی غذا کے دروازے ان کیلئے کھولے جاتے اور آسمانی الہام ان پر نازل ہوتا وہ اپنے قدموں کے نیچے سے بھی کھاتے یعنی مادی انعامات بھی ان پر نازل ہوتے۔ ان میںسے ایک جماعت میانہ رو ہے (یعنی جو اسلام لے آئے ہیں) اور اکثر ان میں سے بُرے عمل کرتے ہیں۔ اے رسول جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے اسے پوری طرح پہنچا اور اگر تُو ایسا نہ کرے گا تو گویا تُو نے کوئی حصہ بھی کلام الٰہی کا نہیں پہنچایا اور اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملوں سے بچائیگا اللہ تعالیٰ کافروں کو کامیابی کا راستہ کبھی نہیں دکھاتا۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تورات اور انجیل کے ماننے والے اگر ان کی تعلیم کو مانتے ہوئے اس کلام کو جو آخری زمانہ میں ان کی ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے مان لیں اور ایمان اور تقویٰ سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے الہام اور رزق طیب کا دروازہ کھول دے گا اور اپنی سابق بدیوں کے عذاب سے وہ محفوط ہو جائینگے گویا اس رنگ میں اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو ان سے پُورا کرے گا اور ان اُن کو آسمانی و دنیاوی انعامات سے متمتع کرے گا پھر فرمایا ہے کہ اے رسول ان اقوام کو خوب تبلیغ کرتا ان پر حجت پوری ہو جائے اور ان میں سے جو بچائے جا سکیں بچائے جائیں پس گو نبوت حسب پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے نکال کر بنی اسمٰعیل میں آ گئی لیکن پھر بھی اگر بنی اسرائیل اپنے عہد کو پورا کرنے میں لگ جائیں تو ان کے لئے خدا تعالیٰ اپنے عہد کو پوراکرنے کے لئے تیار ہے۔ استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس آیت میں ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل کو ایمان لانے کی ہدایت کے بعد یہ آیت رکھی گئی ہے کہ اے رسول جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے سارا کا سارا پہنچا دے اور یہی الفاظ استثناء کی پیشگوئی کے آخر میں ہیں کیونکہ وہاں لکھا ہے ’’اور جو کچھ میں اسے فرمائونگا وہ سب ان سے کہے گا‘‘ (باب ۱۸ آیت ۱۸)
آیت اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِ کُمْ سے یہ استدلال بھی ہوتا ہے کہ امت محمدیہ میں غیر تشریعی نبوت کا دروازہ بند نہیں اور وہ اس طرح کہے اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل سے فرماتا ہے کہ اگر تم میرا عہد پورا کرو یعنی خدا کی باتو ںکو مان لو اور وقت کے نبی محمد رسول اللہ پر ایمان لائو تو میں نے جو تم سے عہد کیا تھا وہ میں پھر تم سے پوار کروں گا اور اوپر بتایا جا چکا ہے کہ وہ عہد یہ تھا کہ ان سے نبی پیدا ہوتے رہیں گے پس معلوم ہوا کہ امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ مسدود نہیں صرف شریعت ختم ہوئی ہے ورنہ بے شریعت والے اور قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم کے تابع اور خادم نبی اب بھی پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ممکن نہ تھا تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کے کیا معنے ہوئے کہ اگر اب بھی تم اپنا عہد پورا کرو تو میں تم سے اپنا عہد پورا کروں گا یہ قول اسی وقت درست ہو سکتا ہے جبکہ امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ کھلا ہو اور بنی اسرائیل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو اس کا وعدہ دیا جائے۔
یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مذکورہ بالا پیشگوئی کے مطابق بنی اسرائیل میں آیندہ شرعی نبوت کا دروازہ مسدود ہو چکا تھا اور صرف موسوی شریعت کے تابع نبوت کا دروازہ کھلا تھا کیونکہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ میں صاف لکھا تھا کہ شریعت والا نبی آیندہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے آئے گا پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی ان میں بغیر شریعت کے نبی آتے تھے اور نبوت محمدیہ پر ایمان لانے کے بعد بھی یہ دروازہ ان کے لئے بند نہ تھا۔ پس فرمایا کہ اگر اب بھی اپنے عہد کو پورا کرنے لگو تو اس انعام سے حصہ پا سکتے ہو۔
وَاِیَّایَ فَارْ ھَبُوْنِ عام طور پر اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ پس مجھ ہی سے ۔رو مگر یہ پورے معنے اس جملہ کے نہیں کیونکہ اِیَّایَ مفعول ہے اور اس کا فعل محذوف نکالنا صروری ہے جو اگلے الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اِرْھَبُوْا ہے پس وَاِیَّایَ کے معنے ہوئے اور ڈرو مجھ سے اس کے بعد فا آیا ہے جو امر محذوف پر دلالت کرتا ہے اور وہ امر بھی عبارت کے مطابق ہی نکالنا ہو گا اور وہ اِرْھَبُوْا ہی ہو سکتا ہے پس محذوف کو ظاہر کر کے عبارت یہ ہو گی وَارْھَبُوْا اِیَّایَ اِرْھَبُوْا فَارْ ھَبُوْنَ۔ اور ترجمہ یہ ہو گا کہ او رمجھ ہی سے ڈرو ڈر جائو پس مجھ ہی سے ڈرو گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے خوف کو تین دفعہ بیان کیاگیا ہے۔
اس جگہ بعض مغرب کے فلسفہ سے متاثر لوگوں کو شائد یہ وہم ہو کہ خدا تعالیٰ کے خوف پر اس قدر زور کیوں دیا گیا ہے ایسے لوگوں کا ایک جواب تو یہ ہے کہ خوف بُری چیز نہیں خوف تقویٰ کے پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے انسان مختلف حالتوں کے ہوتے ہیں بعض محبت سے مانتے ہیں اور بعض خوف سے۔ پس جس ہستی کے مدنظر اصلاح ہو گی وہ خوف اور محبت دونوں سے کام لے گی۔ فلسفہ انسان کی اصلاح نہیں کر سکتا اصلاح تو مرض کے مطابق علاج کرنے سے ہوتا ہے پس جو لوگ گندے ہو چکے ہوں ان کو ان کے عیوب کے بدنتائج سے ڈرا کر ہی ان کی اصلاح کی جا سکتی ہے جو اس طریق کو استعمال نہ کرے گا۔ اصلاح کے کام میں ناکام رہے گا۔
دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ رَھْبٌ کے معنے عام خوف کے نہیں بلکہرَھْبٌ کے معنوں میں کوشش اور جدوجہد کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے چنانچہ عرب کہتے ہیں دُھِبَتِ النَّاقۃُ اور اس کے معنے ہوتے ہیں جَہَدَھَا السَّیْرُ یعنی اونٹنی خون دوڑائی گئی اور تھک گئی۔ پس رَھْبٌ اس خوف کو کہتے ہیں جو کام کی طرف رغبت پیدا کرے اسی وجہ سے عابد لوگوں کو راہب کہتے ہیں۔
ایک اور شبہ کا ازالہ بھی میں اس جگہ کر دینا چاہتا ہو ںکہا جا سکتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑ تو بڑے بھائی تھے ان کی نسل کو ایک لمبے عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے انعام سے کیوں محروم رکھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بنو اسحاق گو بعد میں کیسے ہی بگڑے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سینکڑوں سال تک انہو ںنے دین کی شمع کو اُٹھائے رکھا اس لئے وہ یقینا خدا تعالیٰ کے خاص فضلوں کے وارث ہوئے۔ بنو اسمٰعیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک اس رتبہ کو نہیں پہنچے اس لئے بقدر ضرورت ہی انہیں انعام ملا۔ ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے جوہر کامل بنو اسمٰعیل میں سے ہوئے کہ جنہوں نے سب کمی کو پورا کر دیا۔ اور چونکہ آپؐ حاتم النبین ہونے والے تھے اس لئے ضروری تھا کہ سب دسرے انبیاء کو جو براہِ راست نبوت کے مقام پر کھڑے ہونے والے تھے پہلے گذرنے دیا جاتا تا آخر میں آپ تشریف لاتے اور شریعت والی اور براہِ راست نبوت کا دروازہ مسدود کر دیا جاتا۔
۴۲؎ حل لغات
اٰمِنُوْا:۔امر حاضر جمع کا صیغہ ہے مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۂ ہذا ۴؎ و ۱۴؎
اَنْزَلْتُ:۔ اَنْزَلَ سے واحد متکلم کا صیغہ ہے اور اَنْزَلَ کے لئے دیکھو۔ حل لغات سورۃ ہذا ۵؎
مُصَدِّقًا:۔ صَدَّقَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور صَدَّقَہٗ کے معنے ہیں۔ ضِدُّ کَذَّبَہٗ اسے سچا قرار دیا اور اَلتَّصْدِیْقُ کے معنے ہیں نِسْبَۃُ الصِّدْقِ بِالْقَلْبِ اَوِ اللِّسانِ اِلی الْقَائِلِ۔ کسی بات کرنے والے کو اس کی بات میں دل سے سچا سمجھنا یا زبان سے سچا قرار دینا۔ وَقِیْلَ ھُوَ اَنْ تُنْسِبَ بِاِخْتِیارِکَ الصِّدْقَ اِلَی الْمُخْبِرِ اور بعض نے تصدیق کے یہ معنے کئے ہیں کہ اپنے احتیار سے سوچ سمجھ کر مخبر کی طرف صدق کا منسوب کرنا تصدیق کہلاتا ہے۔ نیز لکھا ہے اَلْمُصَدِّقُ۔ اَلَّذِیْ یُصَدِّ قُکَ فِیْ حَدِیْثِکَ کہ جو کسی کی باتوں کو سچا قرار دے اسے اس کا مصدق کہیں گے (اقرب)
کَافِرِ:۔ کَفَرَ سے اسم فاعل ہے اور کَفَرَ کے معنے کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۷ و ۲۵؎
لَاتَشْتَرُوْا:۔ نہی مخاطب کا جمع کا صیغہ ہے اِشْتَرٰی کے معنے کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۱۷؎
بِاٰیَاتِیْ:۔ اٰیٰتٌ اَیَۃٌ کی جمع ہے اٰیٰۃٌ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴۰؎
اَلثَّمَنُ:۔ مَاقَدَّرَہٗ الْعَاقِدَانِ عِوَضًا لِلْمَبِیْعِ کہ خرید و فروخت کرنے والے جو کسی چیز کی قیمت ٹھہراتے ہیں وہ ثمن کہلاتی ہے (اقرب) مفردات میں ہے اَلثَّمَنُ اِسْمٌ لِمایَاْخُذُہُ البَائِعُ فِیْ مُقَابَلَۃِ الْمَبِیْعِ عَیْنًا کَانَ اَوْسِلْعَۃً کہ ثمن اس چیز کو کہتے ہیں جس کو بیچنے والا بیچی ہوئی چیز کے بدلہ میں لیتا ہے خواہ نقدی کی صورت میں ہو یا سامان کی وَکُلُّ مَایَحْصُلُ عِوَضًا عَنْ شَیْئٍ فَھُوَ ثَمَنُہٗ ہر وہ چیز جو کسی چیز کے عوض حاصل کی جائے اس پر بھی ثمن کا لفظ بول دیا جاتا ہے (مفردات) لسان میں لکھا ہے کہ اَلثَّمَنُ مَاتَسْتَحِقُّ بِہٖ الشَّیْئَ ثمن ہر اس چیز پر بولینگے جس کے ذریعہ کسی دوسری چیز کے لینے کا حق ہو جائے وَالثَّمَنُ ثَمَنُ الْبَیْعِ وَثَمَنُ کُلِّ شَیْئٍ قِیْمَتُہٗ کہ ثمن کا لفظ کسی چیز کی سا قیمت پر بھی بولا جاتا ہے جو کسی چیز کی اصل قیمت ہو (یعنی بعض اوقات ایک چیز کی اصلی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن بکتی کم قیمت پر ہے تو اصل قیمت پر اور اس قیمت پر جس پر وہ بک رہی ہوتی ہے ثمن کا لفظ بولا جاتا ہے) فرار کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں بھی ثمن پر نصب آئی ہے اور مبیع پر باء داخل کی گئی ہے وہاں ان دونوں میں سے کوئی بھی معین ثمن نہیں ہوتی۔ ہر دو اشیاء میں سے جس کو چاہیں ثمن بنا سکتے ہیں مثلاً جب یہ کہیں کہ اِشْتَرَیْتُ ثَوْبًا بِکَسَائٍ کہ میں نے چادر دے کر کپڑا خریدا۔ تو اس میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کپڑا چادر کی قیمت ہے گویا ہر دو اشیاء ایک دوسرے کی قیمت بن سکتی ہیں او رجب یہ بتانا مقصود ہو کہ فلاں چیز اتنی رقم سے خریدی گئی ہے اور وہاں مال کا ذکر ہو تو اس وقت مال کو ثمن کہیں گے اور اس پر باء داخل ہو گی جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق آتا ہے وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَا ھِمَ کہ قافلہ والوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو چند دراہم دے کرخرید لیا تو یہاں درہم ثمن بن سکتے ہیں (لسان)
اِتّقُوْنِ:۔ اِتَّقُوْا امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے نِ نِیْ کا قائم مقام ہے۔ اِتَّقُوْنِ کے معنے ہیں۔ مجھ سے ڈرو اِتَّقٰی کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۳؎
تفسیر۔ اس آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ کے معنے استثناء باب ۱۸ کے موعود نبی کو قبول کرنا ہے کیونکہ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ کے بعد اٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ کہا گیا ہے جس سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایفار عہد اور خدا تعالیٰ کا خوف اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا یہ سب امور ان انعامات کی تکمیل کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والے ہیں جو بنی اسرائیل کے لئے مقرر تھے۔
بِمَا اَنْزَلْتَ۔ اَنْزَلْتُ کے بعد ضمیر واحد غائب محذوف ہے کیونکہ مَا کی طرف ضمیر کا پھرنا ضروری ہے پس اصل جملہ یہ ہو گا بِمَا اَنْزَلْتُہٗ یعنی اس پر ایمان لائو جسے میں نے نازل کیا ہے۔
مُصَدِ قًالِّمَا مَعَکُمْ۔ یہ جملہ اَنْزَلْتُ کے بعد جو ضمیر محذوف ہے اس کا حال ہے اور مطلب یہ ہے کہ میرے اُتارے ہوئے اس کلام پر ایمان لائو جو اس کا جو تمہارے پاس ہے مصدق ہے مطلب یہ ہے کہ اس کلام کے ذریعہ سے موسیٰ علیہ السلام کی استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والی پیشگوئی پوری ہوئی ہے اسی طرح اور بنی اسرائیل کے نبیوں کی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں پس اس کلام اور اس کے لانے والے پر ایمان لانا اپنے سابق الہامی کلام کی تصدیق کرنا ہے اور اس کے حکم پر عمل کرنا ہے اور اس کو نہ ماننا اس کلام کی تکذیب اور تردید ہی گویا بنی اسرائیل میں نئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیش کردہ کلام الٰہی قرآن کریم پر ایمان لاتا ہے وہ حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں پر بھی ایمان لاتا ہے کیونکہ انہوں نے ان کی خبر دی تھی اور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل شدہ کلام کو رد کرتا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کو بھی رد کرتا ہے کیونکہ وہ ان کی تصدیق کو ٹھکرا دیتا ہے۔ پس وہ ان انعامات کا مستحق نہیں رہتا جو ان کی تصدیق اور ان پر ایمان لانے سے وابستہ کئے گئے تھے۔
ایک غیر مسلم سوال کر سکتا ہے کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں آنے والے انبیاء نے واقعہ میں کسی ایسے نبی کی خبر دی تھی جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے پورا کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دُنیا کی ہر قوم میں ایک آخری زمانہ کے نبی کی خبر دی گئی تھی اور اس کی بعض علامات بھی بتائی گئی تھیں جو پورے طو رپر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پوری ہو گئیں خصوصاً اسرائیلی نبیو ںکی پیشگوئیاں تو اس بارہ میں بکثرت ملتی ہیں اس کثرت سے کہ ان پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
اس آیت میں سب انبیاء اور اقوام کی پیشگوئیوں کا ذکر نہیں اس لئے اس وقت میں ان کو بیان نہیں کرتا لیکن مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ کے مضمون کی مطابقت سے بنی اسرائیل کے نبیو ںکی پیشگوئیوں کا ذکر چونکہ ضروری ہے میں اختصار کے ساتھ ان کا ذکر اس جگہ کرتا ہوں۔
تصدیق نمبر۱
پہلی تصدیق قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کرتا تھا جنہوں نے بنو اسمٰعیل کی ترقی کی پیشگوئی کی تھی اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے اور آپ پر وحی نازل نہ ہوتی تو حضرت ابراہیم جھوٹے قرار پاتے۔ حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ ’’اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دونگا اور اسے برومند کرونگا اور اسے بہت بڑھائونگا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہونگے اور میں اسے بڑی قوم بنائونگا‘‘ (پیدائش باب ۱۷ ۲۰ و ۲۱) اس پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسحاق کی اولاد سے وعدہ تھا کہ انہیں بہت بڑھائونگا اور اسے برکت دونگا اور اس سے بڑی قوم بنائونگا۔ اسی طرح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق بھی وعدہ تھا گو باوجود اس کے بائبل میں لکھا ہے کہ یہ عہد اسحاق کی اولاد سے پورا ہو گا مگر یہ تو قلم درکفِ دشمن کی وجہ سے ہے ورنہ ساری باتیں جو حضرت اسحاق کی نسبت کہی گئی تھیں حضرت اسمٰعیل کی نسبت بھی کہی گئیں۔ تو پھر عہد کا حضرت اسحاق سے مخصوص ہونا بے معنی ہے بائبل کے قول کے مطابق خدا کا کلام حضرت ہاجرہ پر بھی نازل ہوا تھا اور اس میں اسمٰعیل ؑ کی نسبت یہ پیشگوئی تھی ’‘میں تیری اولاد کو بہت بڑھائونگا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے گی اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو حاملہ ہے اور ایک بیٹا جنے گی اس کا نام اسمٰعیل رکھنا کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا وہ وحشی آدمی ہو گا اس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہونگے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودو باش کرے گا۔‘‘ (پیدائش باب ۱۶ آیت ۔ ۱ تا ۱۲) گو یہ الہام ہاجرہؓ پر نازل ہوا ہے مگر موسیٰ کی وحی میں اسے شامل کر کے اس کے خدائی الہام ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے پس یہ الہام بھی اسی طرح بنی اسرائیل پر حجت ہے جس طرح حضرت ابراہیم کا اپنا الہام۔ اس الہام میں یہ امو ربیان ہیں کہ (۱) حضرت اسمٰعیل کی اولاد بھی حضرت اسحاق کی اولاد کی طرح بے انتہا ترقی کریگی حتٰی کہ گنی نہ جا سکے گی (۲) اسے ایسی عظمت ملے گی کہ سب دُنیا اس سے حسد کریگی (۳) باوجود اس کے کہ سب دُنیا اس کی مخالفت کرے گی وہ ان سے دبے گی نہیں بلکہ ان کے مقابل پر عزت کی زندگی بسر کرے گی۔
اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ بنو اسمٰعیل کے لئے عالمگیر عزت شہرت اور عظمت مقدر کی گئی تھی اس قدر کہ اس کے نتیجہ میں دُنیا کی سب قومیں ان سے حسد کرنے لگینگی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق آ کر یہی دعویٰ کیا کہ وہ ایسی عظمت حاصل کرینگے کہ سب دُنیا ان پر حسد کرنے لگے گی خصوصاً بنو اسحاق۔ اور یہ کہ آپ کو سب دُنیا پر خدا تعالیٰ غلبہ دے گا۔ اس دعویٰ کے ساتھ گویا آپ نے حضرت ابراہیم ؑ علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کے الہاموں کو پورا کرنے کا دعویٰ کیا اگر آپ ظاہر نہ ہوتے تو ظاہر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوتی جو انہوں نے حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد کے بارہ میں کی تھی اور نہ ہاجرہ پر نازل ہونے والا الہام جو بائبل میں موجود ہے پورا ہوتا مگر رسول کریمؐ کی بعثت کے ساتھ یہ دونوں الہام پورے ہو گئے اور قرآن کریم بائبل کا مصدق ہو گیا یعنی اس کے الہام کو سچا کرنے والا۔
یہ جو بائبل میں ہے کہ حضرت اسحاق اس عہد کو پورا کرنے والے ہونگے جو حضرت ابراہیم ؑ سے ہوا تھا اس کا ایک جواب تو میں پہلے دے آیا ہوں کہ بائبل انسانوں کی دست برد سے پاک نہیں بنو اسحاق کو بنو اسمٰعیل سے سخت عداوت تھی۔ پس جو کتاب زمانہ جہالت میں ایک لمبے عرصہ تک ان کے ہاتھو ںمیں رہی خدا ہی جانے کہ اس میں انہوں نے کیا کیا تحریف کی ہو گی۔ دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ بائبل کے وہ نسخے جو عزانبی کے بعد تاریخی زمانہ میں لکھے گئے ہیں ان میں ہی کافی اختلاف ہے یہودیوں سامریں اور مسیحیوں کی بائبل کے نسخو ںمیں اختلاف پایا جاتا ہے گو اصولی طور پر وہ متفق ہیں لیکن پھر بھی کافی اختلاف موجود ہے جب یہ اختلاف تاریخی زمانہ کا ہے تو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ عزرا نبی سے پہلے زمانہ میں کیا کیا دست بُرد یہودی کتب میں کر چکے ہونگے۔
اگر اس دست برد کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی میں کہتا ہوں کہ ان پیشگوئیوں کو دیکھتے ہوئے جو حضرت اسمٰعیل کے حق میں بائبل میں اس وقت تک موجود ہیں ہم جائز طو رپر کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو بائبل میں لکھا ہے کہ ’’لیکن میں اسحاق سے جس کو سرہ دوسرے سال اسی وقت معین میں جنے گی اپنا عہد قائم کرونگا‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۱) اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ یہ عہد ابتداء اسحاق کی اولاد کے ذریعہ پورا ہونا شروع ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ پہلے یہ عہد ایک لمبے عرصہ تک بنو اسحاق کے ذریعہ سے پورا ہوتا رہا پھر خدا تعالیٰ نے اسے بنو اسمٰعیل کی طرف منتقل کر دیا۔
اور اس امر کی وجہ کہ گو اسحاق چھوٹے تھے مگر خدا تعالیٰ کا عہد پہلے ان کی والاد کے ذریعہ سے پُورا ہونا شروع ہوا ہے یہ ہے کہ حضرت اسمٰعیل کی اولاد کو وہ نبوت ملنی تھی جو منسوخ نہ ہونے والی تھی اگر ان کے ذریعہ سے پہلے عہد پورا ہوتا تو بنو اسحاق نعمت سے بالکل محروم رہ جاتے پس اللہ تعالیٰ نے پہلے بنو اسحاق کو ایک لمبے عرصہ تک نبوت کے انعام سے حصہ دیا اس کے بعد بنو اسمٰعیل میں وہ نبی مبعوث فرما دیا جو خاتم النبین تھا اور جس کی شریعت کو کسی اور شریعت نے منسوخ نہ کرنا تھا بلکہ اس نے قیامت تک دُنیا پر حکومت کرنی تھی۔
اس امر کا قطعی ثبوت کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے جو عہد تھا اس میں حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد بھی شامل تھی اس سے ملتا ہے کہ جس طرح عہد کا ظاہری نشان بندوں کی طرف سے ختنہ قرار دیا گیا تھا اسی طرح عہد کا ظاہری نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے کنعان کی حکومت قرار دیا گیا تھا۔ بائبل کا حوالہ میں اوپر نقل کر آیا ہوں لیکن اس جگہ مضمون کو واضح کرنے کے لئے پھر لکھ دیتا ہوں لکھا ہے ’’اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کے پشت در پشت کے لئے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہو کرتا ہو ںکہ میں تیرا اور تیرے نسل کو کنعان کا تمام لک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ کہ لئے ملک ہو اور میں ان کا خدا ہونگا۔ پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو۔ سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جاوے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘۔ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۷ تا ۱۱) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ عہد خداوندی کے مادی حصہ کی دو شقیں تھیں ایک شق اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتی تھی اور وہ آل ابراہیم ؑ کو کنعان کی بادشاہت دینے کا وعدہ تھا۔ اور دوسری شق آل ابراہیم سے تعلق رکھتی تھی اور وہ ختنہ کرانے کی رسم تھی خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ ہمیشہ آل ابراہیم کے پاس کنعان رہے گا اور آل ابراہیم سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی ہمیشہ نرینہ اولاد کا ختنہ کرائیں۔ ایک زمانہ وہ آیا کہ حدا تعالیٰ نے کنعان یہود سے لے کر میسحیوں کو دے دیا بوجہ اس کے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسرائیلی نبی تھے اس وقت بھی پیشگوئی قائم رہی اور کنعان آل ابراہیم کے قبضہ میں ہی رہا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معاً بعد سے لے کر ۱۹۱۸ء تک اندازاً تیرہ سو سال تک یہ ملک مسلمانوں کے پاس رہا اگر تو بنو اسمٰعیل آل ابراہیم کے وعدہ میں شامل نہ تھے او رپھر بھی یہ ملک تیرہ سو سال ان کے اتباع کے قبضہ میں رہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی قطعاً باطل ٹھہرتی ہے لیکن چونکہ خدا کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی ثابت ہوا کہ بنو اسمٰعیل عہد ابراہیم میں بنو اسحاق سے برابر کے شریک تھے۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی اس فعلی شہادت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ عہد ابراہیم میں بنو اسمٰعیل بھی شامل تھے اس وجہ سے ان کے قبضہ میں کنعان کا آنا عہد الٰہی کے پورا ہونے کے تسلسل میں تھا۔ تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عہد الٰہی کا رُوحانی حصہ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبوت کا ملنا اور بندہ کی طرف سے ول کا ختنہ کرنا بھی بنو اسمٰعیل کے حق میں پورا ہونا ضروری تھا اور یہ ایفاء عہد خدا تعالیٰ او ربندہ کی طرف سے جہاں تک بنو اسمٰعیل کا تعلق ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پورا ہوا اور نہ بنو اسمٰعیل میں سے کوئی اور ایسا وجود پیش کیا جائے جس کی ذات سے یہ وعدہ پورا ہوا ہو۔
تصدیق نمبر ۲
دوسری تصدیق قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کلام کی کی۔
(۱) کتاب استثناء میں لکھا تھا ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔ او رجو کچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتو ںکو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جاوے‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹ تا ۲۱) اس پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی کہ (الف) آیندہ بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے ایک نبی کھڑا کیا جائے گا (باء) وہ موسیٰ کی ماندن ہو گا یعنی صاحب شریعت ہو گا اور اس کے واقعات سے ملتے جلتے ہونگے (ج) اس کی زبان پر خدا تعالیٰ کا کلام جاری ہو گا یعنی اس کا الہام کل کا کل لفظی ہو گا یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم کو اپنے الفاظ میں بیان کرے (د) وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو نڈر ہو کر لوگوں کے سامنے بیان کرے گا اور سارا کلام الٰہی لوگوں کو سنائے گا (ہ) اور جو الہام سنائے گا خدا کا نام لے کر سنائے گا اورشرک کی تردید کرنے والا ہو گا (ر) اگر کوئی شخص اس پیشگوئی کا جھوٹا مصداق بننے کی کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ ہلاک ہو جائْ (یاد رہے کہ انگریزی زبان میں اس جگہ یہ الفاظ ہیں He shall die یعنی وہ ہلاک ہو گا نہ کہ وہ قتل کیا جائے جیسا کہ اُردو میں ہے)
ان پیشگوئیوں کے مطابق (الف) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسمٰعیل میں سے یعنی بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے ظاہر ہوئے۔
(باء) آپ نے مثیل موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاo(مزمل ع ۱) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھجوایا ہے جو تم پر گواہ ہے اسی طرح جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھجوایا تھا یعنی موسیٰ ؑ۔ آپؐ موسیٰ علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت نبی تھے اور آپؐ کے حالات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑی مشابہت رکھتے ہیں یعنی ایک کامل شریعت آپؐ کو دی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح آپؐ سے وعدہ کیا گیا کہ آپؐ کی امت میں سے متواتر مجددین آتے رہیں گے اور یہ کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا آخری خلیفہ حضرت مسیح تھے اسی طرح قریباً اتنا ہی عرصہ بعد بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود بن کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے (ج) آپ نے دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام آپ کی زبان پر جاری ہے یعنی اپنی وحی کے جو الفاظ آپ پیش کرتے ہیں وہ بعینہٖ وہ الفاظ ہیں جو آپ کے دل پر نازل ہوئے تمام گذشتہ نبیوں کی کتب کو پڑھ کر دیکھ لو ان میں خدا کا کلام کم اور بندہ کا زیادہ ہوتا ہے۔ انجیل میں تو شاید ایک دو فقرے ہی خدا کے ہیں باقی سب کچھ مسیح کا اپنا کلام یا انجیل کے داستان نویسوں کا نوشتہ ہے صرف قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے کہ الف سے یاء تک خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔
غرض میں اپنا کلام اس کے مُنہ میں ڈالوں گا سے یہی مُراد تھا کہ پہلے انبیاء کا سارا کلام لفظی نہ ہوتا تھا بلکہ اکثر حصہ ان کے دل پر بطور مفہوم نازل ہوتا یا بطور نظارہ دکھایا جاتا اور بعد میں وہ اسے اپنے الفاظ میں بیان کرتے۔ محمد رسول اللہ صلعم کی یہ خصوصیت اس پیشگوئی میں بتائی گئی کہ وہ خدا تعالیٰ کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان کرینگے اور جو الفاظ وہ اپنے منہ سے خدا تعالیٰ کا منشاء بتانے کے لئے نکالیں گے وہ خود خدا تعالیٰ ہی کے الفاظ ہونگے پس فرمایا کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا یعنی باقی انبیاء کے تو دلو ںپر کلام نازل ہوتا تھا اور مُنہ تک آتے ہوئے وہ نبیوں کے کلام کے لباس میں ملبوس ہو جاتا تھا مگر محمد رسول اللہ صلعم کے دل پر بھی خدا تعالیٰ کا کلام اُتارا جائے گا اور منہ پر بھی وہی لفظ بعینہٖ جاری ہونگے جو خدا تعالیٰ نے کہے ہونگے اسی کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ ہے کہ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وِحْیٌ یُّوْحٰی (النجم ع ۱) محمد رسول اللہ اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کے منشاء کو الفاظ کا جامہ نہیں پہناتے بلکہ صرف وہی الفاظ وحی کے جو خدا تعالیٰ نے معین شکل میں ان کے دل پر نازل کئے ہیں دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں (د) آپؐ نے خدا تعالیٰ کے کلام کو نڈر ہو کر سنایا اور سارا کلام سنایا چنانچہ قرآن کریم کا وجود اس پر شاہد ہے شدید مخالفت آپؐ کی کی گئی اور کفار نے ہزار لالچ آپ کو دی کہ کسی طرح بعض حصے جو ان کے بتوں کے خلاف تھے حذف کر دیئے جائیں یا کمزور کر دیئے جائیں مگر آپؐ نے ذرا ان کی پروا نہیں کی اور خدا تعالیٰ کا کلام پورا کا پورا اصلی شکل میں لوگوں تک پہنچا دیا چنانچہ قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں ہے فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعْضَ مَایُوْحٰی اِلَیْکَ وَضَآئِقٌ بِہٖ صَدْرَکَ اَنْ یَّقُوْ لُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزً اَوْجَآئَ مَعَہٗ مَلَکٌ اِنَّمَا اَنْتَ نَذِیْرٌ وَاللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌo (ہود ع ۲) یعنی تیرے مخالف اس امر کی طمع رکھتے ہیں کہ شائد ان کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر تو اس وحی میں سے جو تجھ پر نازل کی گئی ہے کچھ چھوڑ دے اور شائد کہ تیرا سینہ ان کے اس اعتراض سے ڈر کر کہ کیوں اس کے ساتھ خزانہ نہیں اترا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ آسمان سے تائید کے لئے نہیں آیا بعض حصہ وحی کا چھوڑ دے مگر ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ تو ایک ڈرانے والا ہے۔ ڈرانے والا ان لوگوں سے کس طرح ڈر سکتا ہے جن کے متعلق تباہی کی خبر دی گئی ہے اور اللہ تو ہر چیز پر نگران ہے پھر اس کے حکم سے کوئی باہر کیونکر نکل سکتا ہے (اس آیت کی پوری تفسیر کے لئے دیکھو نمبر ۱۲ سورۂ ہود) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس امر پر شہادت دی اور لوگوں سے بھی دلوائی کہ آپؐ نے خدا تعالیٰ کا کلام سب کا سب دُنیا کو پہنچا دیا چنانچہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر جب آپؐ کو یہ قرآنی وحی ہوئی کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (مائدہ ع ۱) آج میں نے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے تو آپؐ نے تمام مسلمانوں کے سامنے دوبارہ مسلمانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور پھر فرمایا اَللَّھُمَّ ھَکْ بَلَّغْتُ اے لوگو خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر بتائو کیا میں نے خدا تعالیٰ کا حکم پوری طرح دنیا کو پہنچا دیا ہے یا نہیں؟ اس پر سب صحابہ یک زبان ہو کر بولے اَللّٰہُمَ نَعَمْ ہم اللہ تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح پہنچا دیا ہے اس پر آپ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ۔ اے خدا تو اس پر گواہ رہ کہ یہ سب لوگ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ تبلیغ کلام الٰہی کا کام میں نے پورا کر دیا۔ (سیرۃ ابن ہشام جلد سوم)
اس پیشگوئی کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ چونکہ موعود نبی خاتم النبین ہونے والا تھا اس پر جو دینی وحی ہو گی دُنیا کو پہنچانے کے لئے ہوگی تاکہ دین کا کوئی حصہ نامکمل نہ رہ جائے۔ اس سے پہلے کے نبیوں کا یہ حال نہ تھا ان پر دین کے بعض اسرار کھولے جاتے تھے مگر انھیں ان کے بتانے کی اجازت نہ ہوتی تھی کیونکہ ان کے زمانہ کے لوگ اس کے سمجھنے کے قابل نہ ہوتے تھے گو نبی کا ترقی یافتہ دماع اسے سمجھنے کے قابل نہ ہوتے تھے گو نبی کا ترقی یافتہ دماغ اسے سمجھنے کے قابل ہوتا تھا پس یہ کہنا کہ وہ نبی سب کچھ جو اسے کہا جائْ گا لوگوں سے کہہ دے گا اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کے زمانہ میں انسانی دماغ مکمل ہو چکا ہو گا اور آخری اور کامل شریعت جو تمام اسرار روحانی پر مشتمل ہوگی اسے دیدی جائیگی اور اسے حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنی امت کو سب باتیں سکھا دے کیونکہ وہ ان کے سننے کے اہل ہیں ان معنوں کی طرف انجیل میں بھی اشارہ ہے حضرت مسیح فرماتے ہیں ’‘میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تم سے کہوں۔ پر اب تم ان کی بردشات نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنے روح حق آوے توب وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی۔‘‘ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ و ۱۳) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیحؑ نے اپنی سب وحی لوگوں کو نہ سنائی کیونکہ وہ ان کے لئے خاص تھی ان کی امت اسے سمجھنے کے قابل نہ تھی لیکن انہوں نے یہ خبر دے دی کہ ان کے بعد ایک روح حق آئے گی وہ لوگوں کو سب باتیں سنا دیگی کیونکہ اس وقت لوگ سب باتوں کے سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے گویا وہ روح حق خاتم النبین کے مقام پر فائز ہو گی۔
(ہ) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ وہ آنے والا جو کچھ کہے گا خدا کا نام لے کر کہے گا اس طرح پورا ہوا ہے کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کی آیت رکھی گئی ہے جس کے معنے ہیں میں اللہ جو رحمن و رحیم ہے اس کا نام لے کر اس کلام کو پیش کرتا ہوں (د) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ اس کے منکر ہلاک ہونگے جس شان سے محمد رسول اللہ صلعم کی نسبت پورا ہوا ہے اس کے دشمن بھی معترف ہیں گو وہ اسے دنیوی سامانوں کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ایک خلافِ عقل و خلاف واقعہ اعتراض ہے (ر) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ جو شخص اس پیشگوئی کا جھوٹا مصداق بنے گا اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دے گا نہایت شان سے پورا ہوا باوجود اس کے کہ محمد رسول اللہ صلعم اکیلے تھے اور ان کے دشمنوں نے انہیں ہلاک کرنے کے لئے پورا زور لگایا وہ ہر میدان میں کامیاب ہوئے اور کوئی شخص انہیں نقصان نہ پہنچا سکا اور یہ امر اتفاقی طو رپر نہیں ہوا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کہدیا تھا اور دُنیا کو یہ حکم سنا دیا گیا تھا کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (مائدہ ع ۱۰)
آپکا دشمنوں کے منصوبوں سے غیر معمولی طور پر محفوظ رہنا ایک ایسا نشان ہے کہ بہت سے سخت دشمنو ںکی ہدایت کا موجب ہوا ہے چنانچہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ہند ابو سفیان کی بیوی فتح مکہ کے بع دجب دوسری عورتوں سے مل کر بیعت کرنے کے لئے آئی اور آپ نے عورتوں سے اقرار لیا کہہم شرک نہیں کرینگی اس پر ہند جوش سے بول پڑی کہ کیا ہم اب بھی شرک کر سکتی ہیں حالانکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ تو اکیلا تھا اور ہم لوگ ایک مضبوط جتھا تھے ہم نے اپنا سارا زور تجھے تباہ کرنے کے لئے خرچ کیا لیکن باوجود اس کے تجھے ہلاک نہ کر سکے اگر بتوں میں کوئی بھی طاقت ہوتی تو ہم تجھے تبہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے مگر نتیجہ الٹا نکلا ہم ہلاک ہوئے اور تو کامیاب (العروض الائف جلد دوم)
اب غور کرو کہ اگر بنو اسمٰعیل میں سے کوئی نبی شریعت کے ساتھ موسیٰ کے نقش قدم پر ظاہر نہ ہوتا اگر باوجود مخالفت کے وہ خدا کا کلام لوگوںکو نہ سناتا اور سب کا سب کلام نہ سناتا اور اس کے دشمن تباہ نہ ہوتے اور وہ باوجود شمنوں کے زور اور ان کی مخالفت کے کامیاب نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ اس کے منہ میں اپنا کلام نہ ڈالتا تو موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی اور اس کی سچائی کس طرح ثابت ہوتی پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نے موسیٰ علیہ السلام کو جھوٹ کے الزام سے بچایا اور ان کی تصدیق کا موجب ہوئی۔
تصدیق نمبر ۳
موسیٰ علیہ السلام نے ایک اور پیشگوئی کی تھی کہ ’’اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔‘‘
(استثناء باب ۳۳ آیت ۲) اس پیشگوئی میں تین آسمانی نشانوں کا ذکر ہے ایک سینا سے خدا تعالیٰ کے جلوہ گر ہونے کی جس سے حضرت موسیٰ ؑ کی ترقی کی طرف اشارہ ہے دوسرے شعیر سے خدا تعالیٰ کے طلوع کی اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور کی خبر تھی جو شعیر کے علاقہ میں ظاہر ہوئے۔
تیسرے الٰہی جلوہ کے ظہور کا مقام فاران بتایا گیا ہے اور اس جلوہ کی تفصیل پہلے دونوں جلووں کی تفصیل پہلے دونوں جلووں سے زیادہ بیان کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہاسی جلوہ کا ذکر اس جگہ اصل میں مقصود ہے۔ اس جلوہ کا مقام فاران بتایا گیا ہے اور اس جلوہ کے ظہور کی کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ دس ہزار قدوسیوں کی معیت میں وہ وہ گا۔ اور اس کی مزید خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ جس شخص کے ذریعہ سے وہ جلوہ ظاہر ہو گا اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ہو گی۔ یہ تینوں نشانیاں تمام و کمال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پائی جاتی ہیں آپؐ قرآن کریم کی واضح پیشگوئیوں کے مطابق جب کفار مکہ پر غالب آ کر مکہ میں داخل ہوئے تو فاران کی طرف سے ہی آپؐ کا داخلہ ہوا کیونکہ مدینہ اور مکہ کے درمیان میں فاران کی وادی واقع ہے اور جس وقت آپ مکہ پر حملہ آور ہوئے آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کا لشکر تھا اور آپ ایک آتشی شریعت دُنیا کے لئے لائے تھے یعنی جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے انسان کی بدیو ںاور اس کے گناہوں کو جلا دینے والی ہے اور اس لحاظ سے بھی وہ آتشی شریعت ہے کہ اس میں نہ صرف ماننے والوں کے لئے انعامات کے وعدے ہیں بلکہ منکرو ںاور شریروں کے لئے سزائوں کا بھی ذکر ہے۔
اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر نہ ہوتے انھیں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ کرنی پڑتی۔ اور پھر خدا تعالیٰ آپؐ کو دشمنوں پر غلبہ نہ دیتا آپؐ کے ہاتھ پر مکہ فتح نہ ہوتا آپؐ کیس اتھ اس وقت دس ہزار صحابہ نہ ہوتے آپؐ کے ہاتھ میں ایک کامل شریعت جو صرف مومنوں کے لئے ترقی کی خبر دینے والی نہ تھی بلکہ دشمنانِ حق کی سزائوں کی خبروں پر بھی مشتمل تھی نہ ہوتی تو استثناء باب ۳۳ آیت ۲ کی پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وحی کی تصدیق کس طرح ہوتی پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اس پیشگوئی کو پورا کرنے اور اسے سچا ثابت کرنے کا موجب ہو کر مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ ثابت ہوئی۔
تصدیق نمبر ۴
تصدیق نمبر ۴ حضرت سلیمان علیہ السلام کے الہام کی ہے حضرت سلیمان علیہ السلام غزل الغزلات میں فرماتے ہیں۔ ’’میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ دس ہزار آدمیو ںکے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے اور اس کا سر ایسا ہے جیسا چوکھا سونا اس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوے کی سی کالی ہیں اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو لب دریا دودھ میں نہا کے تمکنت سے بیٹھے ہیں اس کے رخسارے پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاری کی مانند ہیں اس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا امر ٹپکتا ہے اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میں ترسیس کے جواہر جڑے گئے اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم کے گل بنے ہوں۔ اس کے پیر ایسے جیسے سنگ مرمر کے ستون جو سونے کے پایوں پر کھڑے کئے جاویں اس کی قامت لبنان کی سی وہ خوبی میں رشک سروہے اس کا منہ شیرینی ہے ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیوں یہ میرا پیارا یہ میرا جانی ہے‘‘ (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۶) اس پیشگوئی میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بتایا ہے جو تاریخ سے سرخ و سفید ثابت ہے پھر فتح مکہ کا نقشہ کھینچا ہے اور بتیا ہے کہ آپؐ دس ہزار آدمیوں کے ساتھ فتح مندانہ اپنے ملک کو واپس آئینگے یہ دس ہزار آدمی وہی دس ہزار قدوسی ہیں جن کا ذکر استثناء باب ۳۳ کی پیشگوئی میں تصدیق نمبر ۳ میں گزر چکا ہے پھر آخر میں آپ کا نام بھی بتا دیا ہے یعنی محمد اس نام کو چھپانے کے لئے بائبل کے مترجموں نے اُردو میں عشق انگیز کے الفاظ لکھ دیئے ہیں لیکن عبرانی زبان کے اصل الفاظ جو اس جگہ ہیں اُن کا اردو ترجمہ یوں ہے ’’ہاں وہ محمدیم ہے محمدیم میں ی اور م ادب کیلئے بڑھائے گئے ہیں جیسے الوہ جس کے معنے خدا کے ہیں اسے بائبل میں بہت جگہ الوھیم لکھا جاتا ہے پس ہاں وہ محمدیم کے معنے ہیں ہاں وہ بزرگ محمد ہے چنانچہ اس پیشگوئی کی وجہ سے یہ دیکھتے ہوئے کہ کئی نشانات ظہور محمد کے ظاہر ہو چکے ہیں لوگ اپنے بچوں کے نام محمد رکھنے لگ گئے تھے چنانچہ مدینہ میں بھی کئی ایک شخص کا نام ان کے والدین نے محمد رکھے ہوئے تھے چنانچہ ان میں سے ایک محمد بن احیحہ بھی تھے جو صحابہ میں شمار ہوتے ہیں (اسد الغابہ جلد ۴) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نے اس پیشگوئی کی بھی تصدیق کی۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کا کلام نہ اُترتا تو سلیمان علیہ السلام کی یہ پیشگوئی جھوٹی جاتی۔
تصدیق نمبر ۵
’’وہ کس کو دانش سکھاوے گا کس کو وعظ کر کے سمجھاوے گا۔ ان کو جن کا دودھ چڑھایا گیا۔ جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے۔ کیونکہ حکم پر حکم۔ حکم پر حکم۔ قانون پر قانون قانوں پر قانون ہوتا جاتا۔ تھوڑا یہاں۔ تھوڑا وہاں۔ ہاں وہ وحشی کے سے ہونٹھوں اور اجنبی زبان سے اس گروہ کے ساتھ باتیں کرے گا۔ کہ اس نے اُن سے کہا کہ یہ وہ آرام گاہ ہے تم ان کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیء اور یہ چین کی حالت ہے پردے شنوانہ ہوئے سو خدا کا کلام ان سے یہ ہو گا حکم پر حکم حکم پر حکم۔ قانون پر قانون۔ قانون پر قانون۔ تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں۔ تاکہ دے چلے جاویں۔ اور پچھاڑی گریں اور شکست کھاویں اور دام میں پھنیں اور گرفتار ہوویں (یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۹ تا ۱۳) اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ایک زمانہ میں (۱) اسی قوم کے پاس آئے گا جو الہام کے دودھ سے محروم کر دی گئی اور جو اپنی والدہ سے جدا کئے گئے یعنی نبوت پانے کے بعد اس سے محروم کر دیئے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت آئے جب نبوت پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا تھا اور آپ نے بنی اسرائیل کو بھی مخاطب کیا جو الہام کے دودھ سے محروم کر دیئے گئے تھے اور نبوت کی چھاتیوں سے جدا کر دیئے گئے تھے۔ قرآن کریم میں آتا ہے یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ قَلجَآئَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلیٰ فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآئَ نَا مِنْ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ وَاللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (مائدہ ع ۳) یعنی اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے رسولوں کے ناغہ کے بعد وہ تمہارے فائدے کی باتیں بیان کرتا ہے تایہ نہ کہو کہ ہمارے پاس تو نہ کوئی خوشخبری دیے والا آیا نہ ڈرانے والا پس خوب سن لو کہ تمہارے پاس اب ایک خوشخبری دینے والابھی اور ڈرانے والا بھی آ گیا ہے۔ اور اللہ ہر امر پر خوب قادر ہے غرص اسی آیت میں یسعیاہ نبی کے ان الفاظ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ’’وہ کس کو دانش سکھائے گا کس کو وعظ کر کے سمجھا ویگا ان کو جن کا دودھ چھڑایا گیا جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے‘‘ (۲) دوسرے وہ کلام جو اس قوم کے لئے نازل ہو گا یکدم نازل نہ ہو گا نہ کسی ایک شہر میں نازل ہو گا بلکہ حکم پر حکم اور قانون پر قانون مختلف مقامات پر اُترینگے۔ قرآن کریم اسی طرح اُترا کچھ مکہ میں کچھ مدینہ میں کچھ سفروں میں حتٰی کہ دشمنوں نے اعتراض کیا کہ لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَّاحِدۃً (فرقان ع ۳) یعنی کیوں محمدیہؐ پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ نہ اُترا۔ اور باوجود یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مسیحی لوگ آج تک قرآن کریم پر یہ اعتراض کرتے جاتے ہیں اور اس طرح اپنی قلموں سے اس امر کا ثبوت مہیا کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مصداق تھے (۳) تیسرے وہ کلام ایک عرب کی زبان سے نایا جائے گا اور غیر زبان یعنی عربی زبان میں سنایا جائے گا کیونکہ وحشی کا لفظ عرب پر دلالت کرتا ہے اوپر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۲ کا حوالہ دیا جاچ کا ہے جس میں حصرت ہاجرہ کو اللہ تعالیٰ نے حصرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کی خبر دی تھی اس میں لکھا تھا ’’وہ (یعنی اسماعیل) وحشی آدمی ہو گا۔ پس وحشی حضرت اسماعیل ؑ کا نام ہے جو بائبل میں آتا ہے اور در حقیقت عرب کا ترجمہ ہے جو تعصب کی وجہ سے بنو اسرائیل نے وحشی کے لفظ سے کیا ہے ع ر ب کے معنے عربی زبان میں اظہار کے ہوتے ہیں اور عبر عربو ںکا نام اسی لئے ہے کہ وہ خیموں میں رہتے تھے ادب کے دلدادہ تھٖے اور نہاتی فصیح بلیغ کلام کرتے تھے خیموں اور بادیہ میں رہنپے کی وجہ سے ان کے مخالف بجائے خیموں میں رہنے والوں کے انہیں وحشی کہتے تھے بائبل نے بھی یہی طریق اختیاء کیا اور جہاں حضرت اسماعیل کا ذکر آیا وہاں بھی انہیں وحشی کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ اور جہاں ان کی اولاد میں سے آنے والے نبی کی ذکر آیا وہاں بھی بجائے یوں کہنے کے کہ وہ اسماعیل کی اولاد میں سے ہو گا یہ لکھ دیا کہ وہ وحشی کے ہونٹوں سے کلام کرے گا گو قرآن کریم عربی زبان میں ہے اور ہر اک کو نظر آتا ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی مگر پھر بھی یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتَابٌ مُوْسٰٓی اِمَا مًا وَّ َرحْمَۃً وَ ھٰذَا کِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِّیًا لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَ بُشْرٰی لِلْمُحْسِنِیْنَo(احقاف ع ۲) یعنی اس قرآن سے پہلے موسیٰ کی کتاب گذر چکی ہے یہ قرآن اس کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہے چنانچہ انہی پیشگوئیوں کے مطابق یہ عربی زبان میں اُترا ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور محسنوں کو بشارت دے اس جگہ قرآن کریم کا عربی زبان میں ہونا موسوی کتب کی تصدیق کا موجب قرار دیا ہے اس سے اشارہ کتاب پیدائش کی اس پیشگوئی کی طرف ہے جس میں حضرت اسماعیل کو وحشی یعنی عرب قرار دیا گیا ہے اور دوسرے استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی اس پیشگوئی کی طرف جس میں کہا گیا تھا کہ آیندہ شریعت والا کلام بنو اسحاق میں سے کسی فرد پر نہیں بلکہ ان کے بھائی بنو اسماعیل پر اُتارا جائْ گا اور ضممناً حضرت یسعیاہ کی پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ ہو گیا جو حضرت موسیٰ کے تابع نبی تھے اور جن کی مذکورہ بالا پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں بیان شدہ پیشگوئی کی مزید وضاحت تھی (۴) چوتھے یہ بتایا گیا تھا کہ وہ نبی یہود سے کہے گا کہ اس کا جائے رہائش آرامگاہ یعنی امن کا مقام ہے پس تم اُن کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیو۔ اس طرح تم چین سے رہو گے مگر یہود نبی کی است بات کو نہ مائینگے اور اسجگہ کو آرامگاہ نہ بننے دینگے اور تھکے ہوئوں کو تکلیف دیں گے یہ امر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ پر صادق آتا ہے آپؐ نے مدینہ منورہ کو جہاں یہود بھی رہتے تھے مکہ مکرمہ کی طرح امن کی جگہ قرار دیا اور یہود سے مدینہ منورہ کو با امن رکھنے کے لئے معاہدہ کیا (سیرت حلبیہ جلد ۲) لیکن انھوں نے تھکے ہوئوں کو یعنی مہاجرین کو جو دُور سے سفر کر کے آئے تھے آرام سے نہ رہنے دیا اور مطابق پیشگوئی خود بھی چین نہ پایا (۵) پانچویں اس پیشگوئی میں تھا۔ حکم پر حکم نازل ہو گا ’’تاکہ دے چلے جاویں اور پچھاڑی گریں اور شکست کھاویں اور دام میں پھنسیں اور گرفتار ہوویں‘‘۔ یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پوری ہوئی۔ یہود نے جب تھکے ہوئوں کو آرام میں نہ رہنپے دیا تو وہ چلے بھی گئے یعنی کچھ ان میں سے مدینہ سے جلاوطن کئے گئے وہ ’’پچھاڑی بھی گرے‘‘ یعنی بعض قتل بھی کئے گئے انہوں نے شکست بھی کھائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور دام میں پھنسے اور گرفتار بھی ہوئے بعض ان میں سے غلام بھی بنائے گئے۔
یہ کیسی واضح پیشگوئی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کتاب عَرَبِّیٌ مُّبِیْنٌ نازل نہ ہوتی اور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کی اس طرح تصدیق نہ ہوتی تو یسعیاہ جھوٹے قرار پاتے لیکن قرآن کریم کے ذریعہ سے ان کی پیشگوئی پوری ہو کر ان کے کلام کی تصدیق ہو گئی۔
تصدی نمبر ۶
یہی یسعیاہ نبی فرماتے ہیں ’’باوجود اس کے خداوند یہودا یوں فرماتا ہے دیکھو میں صیحون میں بنیاد کے لئے ایک پتھر رکھونگا ایک آزمایا ہوا پتھر کونے کے سرے کا ایک مہنگ مولا ایک مضبوط نیو والا پتھر اس پر جو ایمان لاوے اتاولی نہ کرے گا ‘‘ (یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۱۶) حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہو گیا ہے یہ خداوند سے ہوا جو ہماری نظروں میں عجیب ہے‘‘ (زبور ۱۱۸۔ آیت ۲۲ و ۲۳) پھر فرماتے ہیں ’’مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے ہم خداوند کے گھر میں سے تم کو مبارک بادی دیتے ہیں‘‘ (آیت ۲۶) پھر اسی بارہ میں دانیال علیہ السلام پر الہام نازل ہوا اس کا قصہ یوں ہے کہ بنو کد نضر بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جسے وہ بھول گیا اس نے اپنے منجموں سے اس کا حال پوچھا مگر انہوں نے بھولی ہوئی خواب کی تعبیر بتانے سے معذوری ظاہر کی اس پر بادشاہ نے ان کے قتل کا حکم دیا دانیال نبی جو یروشلم سے لائے ہوئے قیدیوں میں سے تھے انہوں نے یہ حال سنا تو اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور اس نے ان کو خواب اور اس کی تعبیر بتا دی اس پر انہوں نے بادشاہ سے خواب اور اس کی تعبیر بتانے پر آمادگی ظاہر کی اور مندرجہ ذیل الفاظ میں خواب اور اس کی تعبیر بتائی ’’تو نے اے بادشاہ نظر کی تھی اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اس کی صورت ہیبت ناک تھی اس مور ت کا سر خالص سونے کا تھا اس کا سینہ اور اس کے بازو چاندی کا۔ اس کا شکم اور رانیں تانبے کی تھیں اس کی ٹانگیں لوہے کی۔ اور اس کے پائوں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے اور تو اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے نکلا جو اس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تب لوہا اور ٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کے مانند ہوئے اور ہوا انہیں اُڑا لے گئی یہاں تک کہ ان کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اس مورت کو مارا ایک بڑا پہام بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا وہ خواب یہ ہے اور اس کی تعبیر بادشاہ کے حضور بیان کرتا ہوں تو اے بادشاہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس لئے کہ آسمان کے خدا نے تجھٖے ایک بادشاہت اور توانائی اور قوت اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کر دیئے اور تجھے ان سبھوں کا حاکم کیا۔ تو ہی وہ سونے کا سر ہے اور تیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہو گی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کریگی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہو گی اور جس طرح کہ لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے ہاں لوہے کی طرح سے جو سب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اسی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی اور جو کہ تُو نے دیکھا کہ اس کے پائوں اور انگلیاں کچھ تو کمہار کی ماٹی کی۔ اور کچھ لوہے کی تھیں سو اس سلطنت میں تفرقہ ہو گا۔ مگر جیسا کہ تو نے دیکھا کہ اس میں لوہا گلاوے سے ملا ہوا تھا۔ سو لوہے کی توانائی اس میں ہو گی اور جیسا کہ پائوں کی انگلیاں کچھ لوہے کی اور کچھ ماٹی کی تھیں۔ سو وہ سلطنت کچھ قوی کچھ ضعیف ہو گی اور جیسا تو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے آپ کو انسان کی نسل سے ملا دینگے لیکن جیسا لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیساوے باہم میل نہ کھاوینگے اور ان بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہو ویگی اور ان سب مملکتو ںکو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تا ابد قائم رہے گی جیسا کہ تو نے دیکھا کہ وہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے اس کو پہام سے کاٹ نکالے آپ سے نکلا اور اس نے لوہے اور تانبے اور مٹی او رچاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا خدا تعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یققینی ہے اور اس کی تعبیر یقینی‘‘ (دانیال باب ۲ آیت ۳۱ تا ۴۵) ان تین انبیاء کی بتائی ہوئی خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک روحانی بادشاہ کا ظہور ہونے والا تھا جس نے کونے کے پتھر کی حیثیت پانی تھی یعنی وہ روحانی سلسلہ کا آخری وجود ہونے والا تھا۔ وہ پتھر بڑا قیمتی ہو گا مضبوط نے والا۔ جو اس پر ایمان لائینگے صاحب وقار ہونگے اور جلد باز نہ ہوں گے وہ پتھر ایسا ہو گا جسے معماروں نے رد کیا ہوا ہو گا وہ زبردست بادشاہوں کو کچل ڈالے گا وہ ان گھڑ پتھر ہو گا اور کسی انسان کے ہاتھ نے اسے نہ گھڑا ہو گا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اس پیشگوئی کا ذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ ’’ایک اور تمثیل سنو۔ ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اس کی چاروں طرف روندھا اور اس کی بیچ میں کھود کے کو لہوگاڑ اور برج بنایا اور باغبان کو سونپ کے آپ پردیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا اس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں پاس بھیجا کہ اس کا پھل لادیں پر ان باغبانو ںنے اس کے نوکروں کو پکڑ کے ایک کوپیٹا اور ایک کو مار ڈالا اور ایک کو پتھرائو کیا۔ پھر اس نے اور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کے تھے بھیجا انہوں نے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا آخر اس نے اپنے بیٹے کو ان کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے لیکن جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا آپس میں کہنے لگے وارث یہی ہے آئو اسے مار ڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہو جائے اور اسے پکڑ کے اور انگورستان کے باہر لے جا کر قتل کیا جب انگورستان کا مالک آوے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا وے اے بولے ان بدوں کو بری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اسے موسم پر میوہ پہنچاویں یسوع نے انہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راج گیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کے میوہ لا دے دی جائیگی‘‘۔ (متی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۳) اس حوالہ میں حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک تمثیل دی ہے اور بتایا ہے کہ بنی اسرائیل نے بہت سے نبیوں کا انکار کیا آخر خدا تعالیٰ نے ایک ایسے نبی کو بھیجا جو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا یعنی خود مسیح علیہ السلام لیکن بنی اسرائیل ان کا بھی انکار کریں گے اور انہیں قتل کریں گے یعنی قتل کرنے کی کوشش کرینگے جیسا کہ دوسرے حوالوں سے جو اپنے وقت پر بیان ہونگے ثابت ہے) اس پر ایک ایسا نبی آئے گا جو خدا تعالیٰ کا ظہور کہلائے گا اور وہ کونے کا پتھر ہو گا اس کی آمد پر بنی اسرائیل کو مکمل سزا دی جائے گی اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت ایک ایسی قوم کے سپرد کی جائے گی جو خدا تعالیٰ کو وقت پر میوہ پہنچائیں گے یعنی خدا تعالیٰ کے احکام کو پوری طرح بجا لائیں گے وہ پتھر اس شان کا ہو گا جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا اور جو اس پر گرے گا وہ بھی چور چور ہو گا۔
یہ پیشگوئیاں جن کے بیان کرنے میں چار نبیوں نے حصہ لیا ہے یعنی دائود۔ یسعیاہ دانیال اور حضرت مسیحؑ ایسی واضح طور پر رسوال کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری ہوتی ہیں کہ سوائے تعصب سے اندھے شخص کے کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا آپ بنو اسماعیل میں سے تھے جن کو بنو اسحاق نے ہمیشہ رد کیا اور ابراہیم ؑ کی برکتوں سے ہمیشہ محروم رکھنے کی کوششیں کیں آپ نے خود دعویٰ فرمایا کہ میں کونے کا پتھر ہوں چنانچہ آپ فرماتے ہیں مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآئِ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بُنْیَانًا فَاَ حْسَنَہٗ وَاَجْمَلَہٗ فَجَعَلَ النَّاسُ یُطِیْفُوْنَ بِہٖ یَقُوْلُوْنَ مَارَئَ یْنَا بُنْیَانًا اَحْسَنَ مِنْ ھٰذَا اِلَّا ھٰذِہِ اللَّبِنَۃَ فَکُنْتُ اَنَا تِلْکَ اللَّبِنَۃَ (مسلم جلد ۴ کتاب الفضائل) یعنی میرا اور دوسرے انبیاء کا حال یُوں ہے کہ جیسے کسی نے ایک عمدہ اور خوبصورت محل تیار کیا پھر لوگ کثرت سے اسے دیکھنے کے لئے آنے لگے اور کہتے تھے کہ ہم نے اس سے عمدہ محل کوئی نہیں دیکھا ہاں یہ کونہ اس کا ننگا ہے پھر خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا اور میں وہ کونے کا پتھر ہوں۔ آپؐ کا وجود نہایت قیمتی وجود تھا اور آپ کی بنیاد مضبوط جیسا کہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ باوجود دُنیا کی شدید مخالفت کے تیرہ سو سال سے آپؐ کے مقام کو کوئی نہیں ہلا سکا۔ آپؐ کے صحابہ مسیح کے حواریوں کی طرح جلد بازی کرنے والے نہ تھے بلکہ نہایت صاحبِ وقار تھے مسیح کے حواریوں کا تو یہ حال تھا کہ جب مسیحؑ کو رومی سلطنت نے پکڑا تو وہ ان کا انکار کر بیٹھے اور تتر بتر ہو گئے (متی باب ۲۶ آیت ۵۶۔ ۷۰۔ ۷۲۔ ۷۴) مگر آپؐ کے صحابہ نے خطرناک مواقع پر کہا کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑینگے بائیں بھی اور آگے بھی لڑینگے پیچھے بھی اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے قرآن کریم ان کی شان میںفرماتا ہے وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّ اِذَا خَا طَبَھُمُ الْجَا ھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا (فرقان ع ۶) یعنی محمد رسول اللہ پر ایمان لانے والے اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ زمین پر بڑے اطمینان سے چلتے ہیں اور جلد بازی سے کام نہیں لیتے اور جب جاہل لوگ ان کو گالیاں دیتے ہیں تو وہ غصہ میں آ کر گالیاں نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہم تو تمہاری سلامتی چاہتے ہیں پھر فرماتا ہے وَ اِذَا مَرُّوْا بِا للَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا (فرقان ع ۶) یعنی جب وہ لہو ولعب کے امور کے مواقع کے پاس سے گزرتے ہیں تو دنیوی لذات سے متاثر ہو کر ان میں شامل نہیں ہو جاتے جیسے کہ مسیح کی اُمت ہے کہ ذکر الٰہی کو بُھول کر ناچ گانے اور موسیقی میں مشغول ہو گئی ہے بلکہ وہ اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے اُخروی زندگی کی طرف جس کے پھل دیر سے ملتے ہیں آگے بڑھ جاتے ہیں۔
پھر اس کونے کے پتھر کی شان یہ بتائی تھی کہ اس کا آنا خدا تعالیٰ کا آنا کہلائے گا اور وہ خدا تعالیٰ کے نام پر آئے گا۔ مسیح علیہ السلام نے اس کی مزید تشریح یہ کر دی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے نام پر آنے والا خدا کا بیٹا کہلانے والے کے بعد آئے گا چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد تشریف لائے اور آپ کا آنا خدا کا آنا کہلایا۔ چنانچہ آپؐ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَا یِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَا یِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ (فتح ع ۱) یعنی وہ لوگ جو تیرے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں تیرا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے۔
ان الفاظ میں کہ آپ کا آنا خدا کا آنا ہے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ آپ مثیل موسیٰ ہونگے کیونکہ حضرت موسیٰ کی نسبت آتا ہے کہ وہ خدا کی مانند تھا۔ چنانچہ خروج باب ۷ آیت ۱ میں ہے کہ ’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا۔ دیکھ میں نے تجھٖے فرعون کے لئے خدا سا بنایا‘‘ پس خدا کے مانند ہونے کے معنے دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ وہ مثیل موسیٰ ہو گا اور اس طرح گویا استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پھر اس پیشگوئی میں ہے کہ وہ پتھر جس پر گرے گا اسے پیش ڈالے گا اور جو اس پر گرے گا چور چور ہو گا سو ایسا ہی آپ سے ہوا۔ باوجود انتہائی غربت اور کمزوری کے ساری قوموں سے آپؐ کی لڑائی ہوئی اور آپؐ کامیاب رہے حضرت مسیح علیہ السلام نے تو آپؐ کی جنگوں کا نقشہ ہی کھینچ دیا ہے یعنی فرماتے ہیں۔ ’’جو اس پتھر پر گرے گا وہ چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا‘‘ یعنی اس کی جنگوں کی یہ کیفیت ہو گی کہ پہلے دشمن اس پر حملہ کرے گا اور سخت نقصان اٹھاتا رہے گا بعد میں وہ دشمن پر حملہ کرے گا اور اسے تباہ کر دے گا اسی طرح آپ سے ہوا کہ پہلے آپ کے دشمن آپ پر حملہ کرتے رہے اور چور ہوتے رہے بعد میں آپ نے حملہ کیا اور ان کی شوکت کو بالکل توڑ دیا۔ دانیال نبی نے یہ خبر بھی دی تھی کہ اس کی جنگ اپنی ہی قوم سے نہ ہو گی بلکہ اس کے زمانہ کی زبردست حکومتوں سے بھی ہو گی اور وہ بھی اس کے ہاتھوں تباہ ہونگی چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں آپ کی پیشگوئی کے مطابق قیصر کی حکومت تباہ ہوئی دانیال نبی نے اس حکومت کے مذہب کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے فرماتے ہیں ’’اور جیسا تو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے کو انسان کی نسل سے ملا دیں گے لیکن جیسے لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیسا وے باہم میل نہ کھائیں گے‘‘ (دانیال باب ۲ آیت ۴۳) اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ قوم ایک ایسے مذہب سے وابستہ ہو گی جس میں داخل ہونے کا اسے حق نہ ہو گا کیونکہ یہ فرمانا کہ وہ قوم اپنے آپ کو انسان کی نسل سے ملاویگی۔ اس سے یہ مراد تو نہیں ہوسکتی کہ وہ انسان نہ ہونگے کیونکہ انسان ہونا تو ان کا ظاہر ہے پس اس کے کوئی معنے کرنے پڑینگے اور وہ معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ابن آدم سے ملانے کی کوشش کرینگے یعنی مسیح علیہ السلام سے لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہو گا کیونکہ ابن آدم یعنی مسیح تو صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے گا غیر قوموں کو اس کے مذہب میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہ ہوگی جیسے کہ خود مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں ’’میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی پاس نہیں بھیجا گیا‘‘ (متی باب ۱۵ آیت ۲۴) اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے جب اپنے بعض حواریوں کو مبلغ بنا کر بھیجوایا تو انہیں مندرجہ ذیل الفاظ میں حکم دیا۔ ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۵) پس رومی لوگ جو اپنے آپ کو مسیحی کہتے تھے ان کی مثال ایسے وجود کی تھی جو اپنے آپ کو ایسی نسل میں شامل کرتا ہے جس میں وہ شامل ہونے کا حق نہیں رکھتا اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ انسان سے مراد مسیح ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نام بار بار انجیل میں ابن آدم آتا ہے چنانچہ متی باب ۲۴ آیت ۲۷ میں لکھا ہے ’’جیسے بجلی پورب سے کوندھ کے پچھم تک چمکتی ویسا ہی ابن آدم کا آنا بھی ہو گا‘‘ پس انسان سے مراد اس جگہ ابن آدم کے ساتھ اپنے آپ کو منسوب کرنا ہے۔
پھر لکھا تھا کہ وہ ان گھڑ پتھر ہو گا اس سے مراد یہ تھی کہ وہ پڑھا لکھا نہ ہو گا اور انسانوں نے اسے تعلیم نہ دی ہو گی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے اور قرآن کریم نے اس پیشگوئی کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے اَلَّذِیْنَ یِتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَ ھُمْ فِی التَّوْرٰلۃِ وَالْاِ نْجِیْلِ (اعراف ع ۱۰۹) یعنی وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اس رسول نبی اور امی کی جس کا ذکر تورات اور انجیل میں موجود ہے اس آیت میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تورات اور انجیل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تین ناموں سے کیا گیا ہے۔ر سول کے نام سے نبیکے نام سے۔ اور امی یعنی ان پڑھ کے نام سے اور جیسا کہ اوپر کے حوالجات میں بتایا گیا ہے عہد نامہ قدیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان گھڑے پتھر کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور انجیل نے اس پیشگوئی کی تصدیق کی ہے اور گویا عربی زبان کے محاورہ کے مطابق آپ کے امی ہونے کی خبر دی ہے۔
بعض لوگ اس پیشگوئی کو نادانی سے مسیح ناصری پر چسپان کرتے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ مسیح ان پڑھ نہ تھا اس کے انسان اُستاد تھے چنانچہ لکھا ہے ’’تب یسوع جلیل سے یردن کے کنارے یوحنا کے پاس آیا تاکہ اس سے ہتپسمہ پاوے‘‘ (متی باب ۳ آیت ۱۳) پھر لکھا ہے ’’اور یسوع بپتسمہ پا کے وہیں پانی سے نکل کے اوپر آیا‘‘ (آیت ۱۶) پس مسیح نے نہ صرف مادی تعلیم پائی بلکہ رُوحانی تعلیم کے لئے بھی وہ یحییٰ ؑ کا شاگرد ہوا پس وہ امی نہیں کہلا سکتا اور اس پیشگوئی کے مصداق کے لئے امی ہونے کی شرط ہے نیز مسیح میں یہ بات بھی پائی نیں جاتی کہ جو اس پر گرے چور چور ہو جائے اور جس پر وہ گرے اسے نیست کر دے لوگ مسیح پر گرے اور اسے ایذاء دی اور اسے کسی پر گرنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔
اب اگر یہ پیشگوئیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری نہ ہوتیں تو دائود۔ یسعیاہ۔ دانیال۔ اور مسیح علیہ السلام سب کے سب نعوذ باللہ من ذالک جھوٹے قرار پاتے۔ پس ان پیشگوئیوں کو پورا کر کے قرآن کریم نے ان انبیاء کے کلام کی تصدیق کی ہے۔
تصدیق نمبر ۷
کتاب اعمال میں لکھا ہے ’’پس توبہ کرو اور متوجہ ہو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں تاکہ خداوند کے حضور سے تازگی بحش ایام آویں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی ضرور ہے کہ آسمان اسے لئے رہے اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آویں کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھاویگا جو کچھ وہ تمہیں کہے اس کی سب سنو اور ایسا ہو گا کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا بلکہ سب نبیوں نے سموایل سے لے کے پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی ہے تم نبیوں کی اولاد اور اس عہد کے ہو جو خدا نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابرھام سے کہا کہ تیری اولاد سے دُنیا کے سارے گھرانے برکت پاویں گے تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے پھیر کے برکت دے‘‘ (اعمال باب ۳ آیت ۱۹ تا ۲۶) یہ پیشگوئی اعمال میں ہے لیکن ظاہر ہے کہ پیشگوئی بہرحال حضرت مسیح علیہ السلام نے کی ہو گی کیونکہ حواری انہی کے اقوال کو نقل کرتے ہیں اور مسیحیوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ حواری جو کچھ کہتے تھے مسیح کے روحانی اثر کے نیچے کہتے تھے اسی وجہ سے حواریوں کے اعمال و اقوال کو انہو ںنے الہامی نوشتوں میں جگہ دی ہے اور بائبل کا حصہ قرار دیا علاوہ ازیں جیسا کہ تصدیق نمبر ۶ میں بیان کیا جا چکا ہے حضرت مسیح علیہ السلام نپے دوسرے لفظوں میں اس پیشگوئی کو بیان کیا ہے پس جو کچھ اعمال کے حوالہ میں کہا گیا ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ حصرت مسیح علیہ السلام کا کہا ہوا ہے۔
اس حوالہ میں مندرجہ ذیل امور بیان ہوئے ہیں (۱) مسیح علیہ السلام دبارہ دُنیا میں نازل نہ ہونگے جب تک کہ وہ پیشگوئی موسیٰ کی پوری نہ ہو لے کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ایک نبی موسیٰ کی مانند آئے گا (۲) موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ سمو ایل سے لے کر آخر تک سب نبیوں نے اس آنے والے کی خبر دی ہے (۳) مسیح اوّل کی آمد اس نبی کے لئے بشارت دینے والے کی تھی کیونکہ لکھا ہے تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم کو اپنی بدیوں سے پھیر کے برکت دے۔
میں اوپر ثابت کر آیا ہوں کہ موسیٰ کی مانند نبی یا انجیل کے محاورہ کے مطابق وہ نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے پس اس پیشگوئی میں جو کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ مسیح آسمان پر ہی رہے جب تک سب پیشگوئیاں خصوصاً مثیل موسیٰ کے آنے کی پیشگوئی پوری نہ ہو جائے۔ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر دی گئی تھی نیر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح کی پہلی آمد اسلئے تھی کہ تا وہ اس نبی کے لئے راستہ صاف کریں اور لوگوں کے دلوں کو گناہوں سے صاف کر دیں تا وہ اس پر ایمان لائیں کیونکہ لکھا ہے خدائے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا۔ یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ مسیح کی آمد بطور ایک مبشر کے تھی اور غرض یہ تھی کہ کچھ لوگوں کے دل صاف ہو جائیں اور یہودیت کی سختی ان کے دلو ںپر سے جاتی رہے اور ایسا ہی ہوا قرآن کریم فرماتا ہے لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَا وَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَ بَھُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَّ اَنَّھُمْ لَایَسْتَکْبِرُوْنَo وَ اِذَا سِمِعُوْا مَٓا اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَ فُوْا مِنَ الْحَقِّ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَo (مائدہ ع ۱۱) یعنے مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تو یہود کو پائے گا اسی طرح مشرک لوگوں کو اور مسلمانوں سے محبت کرنے میں سب سے زیادہ قریب تو ان لوگوںکو پائے گا جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں یہ اس لئے ہے کہ ان میں پادریوں اور زاہدوں کا گروہ پایا جاتا ہے اور اس لئے بھی کہ ان میں فروتنی پائی جاتیہے اور اس جب وہ اس کلام کو جو ہمارے اس رسول پر نازل ہوا ہے سنتے ہیں تو اس وجہ سے کہ انہوں نے سچ کو پہچان لیا ہے تجھے ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں اے رب ہم ایمان لے آئے ہمارا نام بھی گواہوں میں لکھ لے۔
غرض قرآن کریم بھی مسیح کی اس پیشگوئی کی تصدیق کرتا ہے کہ مسیح نے پہلے آ کر بہتوں کے دلو ںکو گناہوں سے پھیر دیا اور انہیں برکت دی حتٰی کہ وہ اس نبی کو جو موسیٰ کی مانند تھا ماننے کے قابل ہو گئے۔
اوپر کی پیشگوئی کو پورا کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح اور سمو ایل سے لے کر آخر تک کے سب نبیوں کی تصدیق کی۔ اگر آپؐ نہ آتے تو یہ سب کے سب بھوٹے ٹھہرتے۔
پیشگوئیاں تو بہت ہیں جن کو پورا کر کے آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے انبیاء کے کلام کی تصدیق کی ہے مگر میں اس موقعہ پر اس پر بس کرتا ہوں انہی مثالوں سے ہر غیر متعصب اس امر کو سمجھ سکے گا کہ قرآن کریم کا بنی اسرائیل سے یہ کہنا کہ وَ اٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ کیسا سچا دعویٰ ہے قرآن کریم بنی اسرائیل کی کتب کی خبروں کو پورا کرنے والا ہے بنی اسرائیل میں سے جو کوئی اس کا انکار کرتا ہے وہ اس کا انکار نہیں کرتا وہ اپنی کتب کا انکار کرتا ہے جنہوں نے اس کے ظہور کی خبر دی تھی۔
بعض مسیحی مصنف اس آیت کی نسبت اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قرآن کریم نے اس آیت میں یہ اعلان کیا ہے کہ جو کچھ تمہاری موجودہ کتب میں لکھا ہے وہ سب سچ ہے اور یہ معنے کر کے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ جبکہ قرآن کریم کے نزدیک موجودہ بائبل درست ہے تو پھر قرآن کریم جھوٹا ہوا کیونکہ وہ موجودہ بائبل کے خلاف مضامین بیان کرتا ہیں میری سمجھ میں یہ ذہنیت کبھی بھی نہیں آتی کہ چونکہ الف باء کو سچا کہتا ہے اس لئے وہ جھوٹا ہے یہ تو گویا احسان کا بدلہ ظلم سے دینا ہے مگر جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں۔ اس آیت کے وہ معنے ہیں ہی نہیں جو یہ پادری صاحب کرتے ہیں انہیں تصدیق کے لفظ سے دھوکا لگا ہے حالانکہ تصدیق کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے کسی کو سچا کہنے کے معنوں میں بھی اور اس کی بات کو پورا کرنے کے معنو ںمیں بھی۔ اور یہاں وہ دوسرے معنے ہیں قرآن کریم دوسری جگہ فرماتا ہے وَاِذْ اُخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٰنَ لَمَٓا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبِ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَئَ اَقْرَرْ تَمْ وَاَخَذْ تُمْ عَلیٰ ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُٓوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّن الشّٰھِدِیْنَo فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُ ولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَo (آل عمران ع ۹) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ فرماتے ہوئے پختہ عہد لیا کہ میرے تم کو کتاب اور حکمت دینے کے بعد جو ایسا رسول آئے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ اس کا مصدق ہو تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا پھر فرمایا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس بارہ میں مجھ سے پختہ عہد باندھتے ہو انہوں نے جواب میں کہا کہ ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اس پر فرمایا کہ اب تم بھی گواہ رہو اور میں بھی تمہارا گواہ رہونگا اور یہ بھی یاد رکھو کہ اب اس عہد کے بعد جو لوگ اس سے پھر جائینگے وہ فاسقوں میں سے گنے جائینگے۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک تمام انبیاء کو ایک ایسے نبی کے آنے کی خبر دی گئی تھی جو سب انبیاء کی کتب کی تصدیق کرے گا اور اس پر ایمان لانا سب قوموں کے لئے ضروری ہو گا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نبیوں کے متعلق فرماتا ہے۔ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) کوئی قوم ایسی نہیں گزری کہ اس میں نبی نہ آیا ہو پھر اس کے بعد فرمایا ہے وَالَّذِیْٓ اَوحَیْنَآ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتْبِ ھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ اِنَّ اللّٰہ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ بَصِیْرٌo (فاطر ع ۴) یعنی جو کتاب اللہ تعالیٰ نے تجھ پر وحی سے نازل کی ہے وہ ساری کی ساری حق ہے اور اس سے پہلے جس قدر و حیاں نازل ہو چکی ہیں سب کی مصدق ہے اور اللہ تعالیٰ یقینا اپنے بندوں سے خبردار اور ان کے حال کا دیکھنے والا ہے ان آیات کو پہلی آیت کے ساتھ ملا کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی سب دُنیا میں اور ہر قوم میں آوے ہیں اور یہ کہ اس آیت کا موعود نبی ہر نبی کی کتاب کا مصدق ہو گا اور ہر نبی کی امت کو اس پر ایمان لانا ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس قسم کی تصدیق قرآن کریم بائبل کی کرتا ہے ویسی ہی تصدیق وہ دیدوں کی بھی کرتا ہے اور ویسی ہی تصدیق وہ ژند کی بھی کرتا ہے اور ویسی ہی ان تمام نبیوں کی کتب کی جو دُنیا کے کسی گوشہ میں گذرے ہوں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب کتب کی موجودہ شکلو ںمیں شدید اختلاف ہے اگرانہیں موجودہ شکل میں درست قرار دیا جائے تو چونکہ وہ ایک دوسرے کی مکذب ہیں مذہب کا کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ او رہم انہیں موجودہ شکل میں خدا تعالیٰ کیکتاب کہہ کر گویا خود ان نبیوں کی تکذیب کرتے ہیں جن کی طرف وہ منسوب ہیں مثلاً کیا ہم موجودہ تورات کو کلی طور پر موسیٰ ؑ کا الہام کہہ سکتے ہیں اس میں تو یہ لکھا ہے ’’سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سر زمین میں مر گیا اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘ (استثناء باب ۳۴ آیت ۵ و ۶) پھر لکھا ہے۔ ’’اور نون کا بیٹا یشوع دانائی کی روح سے معمور ہوا کیونکہ موسیٰ نے اپنے ہاتھ اس پر رکھے تھے اور بنی اسرائیل اس کے شنوا ہوئے اور جیسا خداوند نے موسیٰ کو فرمایا تھا انہو ںنے ویسا ہی کیا۔ اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اُٹھا جس سے خداوند آمنے سامنے آشنائی کرتا۔‘‘ (استثناء باب ۳۴ آیت ۹ و ۱۰) ان آیات سے طاہر ہے کہ یہ موسیٰ کی وفات کے لمبے عرصہ بعد لکھی گئی ہیں بلکہ اس وقت جبکہ موسیٰ کی قبر کا نشان تک مٹ گیا تھا اور بہت سے نبی بنی اسرائیل میں آ چکے تھے کیونکہ لکھا ہے اب تک موسیٰ کی مانند نبی بنی اسرائیل میں کوئی نہیں آیا۔ کیا کوئی عقلمند مان سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ اپنی وفات کے سینکڑوں سال بعد دوبارہ دُنیا میں آئے تھے اور یہ الفاظ اپنی کتاب میں بڑھا گئے تھے اگر ایسا نہیں بلکہ کسی اور ہاتھ نے صدیوں بعد موسیٰ کی کتاب کے آخر میں یہ الفاظ بڑھا دیئے تھے تو کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے اور کیا کیا اس کتاب میں نہ بڑہا دیا ہو گا پھر قرآن کریم کی تصدیق ہم کس کس آیت پر چسپان کریں اور کیونکر معلوم کریں کہ اس مخرف کتاب میں کہ جسے آج بائبل کے اپنے علماء بھی بہت سے ہاتھوں اور بہت سے زمانوں کا لکھا ہوا بتاتے ہیں کونسا کلام خدا کا ہے جس کی ہم تصدیق کریں۔ او رکونسا انسانوں کا ہے کہ جسے ہم رد کرنے کے مجاز ہوں۔
اسی طرح انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے کہا کہ ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے‘‘ (متی باب ۱۶ آیت ۲۸) لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ سب لوگ مر گئے اور اس وقت تک ان کی سوسو پشت مر چکی ہے مگر مسیحیوں کے نزدیک ابھی تک ابن آدم اپنی بادشاہت میں نہیں آیا اگر مسیح کی آمد سے اس کی قوم کی ترقی مراد لی جائے تب بھی یہ بات غلط ہوئی کیونکہ مسیحیوں کو ترقی تین سو سال واقعہ صلیب کے بعد ملی اور اس وقت تک ایک آدمی بھی مسیح کے زمانہ کا زندہ نہ تھا اب یہ پادیر صاحبان جو تصدیق کے معنے اس کے سچا ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ ہمیں بتائیں کہ قرآن کریم اس قسم کی باتو ںکی کس طرح تصدیق کر سکتا ہے۔
بڑی بات تو یہ ہے کہ مسیحی صاحبان کے نزدیک اناجیل میں مسیح کی خدائی اور اقنون ثلاثہ کا ذکر ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلَاثَۃٍ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّاِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (مائدہ ع ۱۰) یعنی وہ لوگ جو کہتے ہیں اللہ تین اقنوم میں سے ایک اقنوم ہے (یعنی نصاریٰ) وہ کافر ہیں اور حق یہی ہے کہ دُنیا کا معبود صرف ایک ہی ہے اور اگ ریہ شرک کرنے والے لوگ اپنے شرک سے رکیں گے نہیں تو جو ان میں سے کفر پر اصرار کریں گے انہیں درد ناک عذاب پہنچے گا۔ یہ آیت اور ایسی ہی او ربہت سی آیات صاف بتاتی ہیں کہ قرآن کریم اس انجیل کا یقینا مصدق نہیں جسے مسیحی لوگ پیش کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم انجیل کے اس مفہوم کا ہر گز مصدق نہیں جسے آج کل کے مسیحی لوگ پیش کرتے ہیں پھر ان معنوں سے مسیحی لوگ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ تصدیق انسانوں کی دو طرح ہوتی ہے۔ اوّل یہ کہ کسی انسان کو راستباز کہا جائے دوم یہ کہ اس کی کسی بات کو سچا ثابت کر دیا جائے خواہِ زبان سے مثلاً کہا جائے کہ اس قول میں یہ سچا ہے یا فعل سے کہ عملاً اس کے قول کی تصدیق کی جائے مثلاً اس نے اس کے متعلق کسی کام کے کرنے کی خبر دی ہو اور یہ وہ کام کر دے لیکن کتب سماویہ کی تصدیق تین طرح ہوتی ہے اس طرح بھی کہ انہیں کلی طور پر سچا کہا جائے اس طرح بھی کہ ان کے بعض حصص کی تصدیق کی جائے اور اس طرح بھی کہ ان کی ابتدائی حالت کی تصدیق کی جائے اور اس طرح بھی کہ ان کی ابتدائی حالت کی تصدیق کی جائے مثلاً اس امر کا اقرار کہ وہ ابتداء میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں اور ان کے پیش کرنے والے راستباز تھے جھوٹے نہ تھے گو اب اس کتاب میں لوگوں نے خرابیاں پیدا کر دی ہیں۔
میں ثابت کر چکا ہوں کہ کلی تصدیق پہلی کتب کی نہ تو ممکن ہے اور نہ قرآن کریم ایسا کر سکتا ہے ممکن اس لئے نہیں کہ وہ سب کتب اس وقت دُنیا میں موجود ہی نہیں اور قرآن کریم کی شان کے لائق اس لئے نہیں کہ وہ خود ہی ان کتب کی غلطیاں بیان کرتا ہے پس جب وہ ان کتب کی غلطیاں بیان کرتا ہے تو ان کی تصدیق کیونکر کر سکتا ہے۔ اب صرف دو طرف تصدیق کے رہ گئے۔ جزئی تصدیق یا ابتدائی حالت کی تصدیق۔ سو سابق کتب کی تصدیق قرآن کریم انہی دو طریق سے کرتا ہے جو کتب تو دنیا میں موجود ہیں ان کی تو دونوں قسم کی تصدیق کرتا ہے یعنی ان کے بعض مسائل کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی بعض پیشگوئیوں کو اپنی ذات میں پُورا کر کے انہیں سچا ثابت کرتا ہے دوسری تصدیق وہ یہ بھی کرتا ہے کہ سب کتب سماویہ کے متعقل وہ یہ خبر دیتا ہے کہ جس وقت انہیں دُنیا کے سامنے پیش کیا گیا وہ سچی تھیں۔ وہ حصرت آدمؑ کے الہام۔ حضرت نوحؑ کے الہام حضرت ابراہیمؑ کے الہام حضرت موسیٰ ؑ کے الہام حضرت مسیحؑ کے الہام حضرت کرشنؑ کے الہام حضرت رامچندرؑ کے الہام حضرت زردشتؑ کے الہام۔ اور باقی ان تمام انبیاء کے الہامو ںکی تصدیق کرتا ہے جو وقتاً فوقتاً اور مختلف ملکوں اور قوموں میں ظاہر ہوئے خواہ ان کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں چنانچہ فرماتا ہے وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ وَ مَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ فَاِذَ اجَآئَ اَمْرُ اللّٰہِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَھُنَا لِکَ الْمُبْطِلُوْنَo (مومن ع ۸) یعنے اے محمد رسول اللہ ہم تجھ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے قرآن میں کیا ہے اور بعض کا نہیں کیا اور یاد رکھو کہ کسی رسول کی یہ طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی نشان لے آئے پس جب اللہ کا حکم آ جائے تو سچائی کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور جو بھی جھوٹا ہو ہلاک ہو جاتا ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف وہی نبی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں ان کے سوا اور لوگ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آ چکے ہیں پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ جن کا ذکر قرآن کریم میں نہیںہم کیونکر جانیں کہ وہ سچے تھے تو اس کی یہ علامت بتائی ہے کہ رسول نشان لے کر آتا ہے اور نشان خدا تعالیٰ کی امداد کے بغیر کوئی نہیں دکھا سکتا۔ پس جو نشان دکھاتا ہے وہ یقینا سچا ہے پھر یہ سوال ہو سکتا تھا کہ بہت سے نشان عینی شہادت اور واقعات کے تفصیلی علم کو چاہتے ہیں اور مختلف اقوام جن لوگوں کو بطور اپنے نبیوں کے پیش کرتی ہیں ان کے تفصیلی حالات کا ہمیں علم نہیں پھر ان کی سچائی کو کس طرح معلوم کریں تو اس سوال کا جواب اس طرح دیا کہ ایک نشان ایسا ہے جو سب نبیوں میں مشترک ہے اور وہ اپنی شہادت ہر وقت ساتھ رکھتا ہے وہ یہ کہ جب کوئی نبی دنیا میں آتاہے آخر کار (۱) اس کے مخالف ہلاک ہو جاتے ہیں اور (۲) اس کا نام دُنیا میں رہ جاتا ہے اور اس کے اتباع کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے جس مدعی الہام کی تائید میں یہ امر دیکھو سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ کی تائید اس کے حق میں ہے اور وہ جھوٹا نہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم صرف انہی انبیاء کا مصدق نہیں جن کے نام اس نے لئے ہیں بلکہ اُن انبیاء کا بھی مصدق ہے جن کے نام اس نے نہیں لئے اور جب وہ ایسے انبیاء کا مصدق ہے تو ان کے کلام کا بھی مصدق ہے اور اس ناپید یا غیر مذکور کلام کی تصدیق اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اجمالاً ایمان لایا جائے کہ وہ سچے ہیں پس تصدیق کے دوسرے معنے اجمالی ایمان کے ہیں یعنی ان کلاموں کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی اور ایسی ہی تصدیق قرآن کریم یہود و نصاریٰ کی کتب کی بھی کرتا ہے پس اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ قرآن کریم ان کی موجودہ صورت کو صحیح قرار دیتا ہے ظلم ہے اور دیگر آیاتِ قرآنیہ اور واقعات اور خود ان کی کتب کی اندرونی شہادت کے خلاف ہے۔
یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آیت زیر بحث میں تورات انجیل کی تصدیق کا ذکر نہیں بلکہ لِمَا مَعَکُمْ کی تصدیق کا ذکر ہے یعنے قرآن جو کچھ ان کے پاس ہے اس کا مصدق ہے اب اگر ان الفاظ کے وسیع معنے لئے جائیں تو ان کے یہ معنے ہونگے کہ ان کے قصوں کہانیوں کو بھی وہ تصدیق کرتا ہے لیکن یہ معنے بالبداہت باطل ہیں اور یہ ماننا پڑے گا کہ ان الفاظ کو بعض قیود سے مقید کرنا ہو گا اور وہ قیود معقول طور پر یہی ہو سکتی ہیں (۱) اس کے یہ معنے لئے جائیں کہ جو مضمون اس قسم کی آیات سے پہلے یا بعد میں بیان ہو رہا ہے یہ الفاظ ساری کتاب کی نہیں بلکہ صرف اس کی تصدیق کے بارہ میں ہیں اور یہ مطلب لیا جاوے کہ اس مسئلہ کے متعلق جو تعلیم ہماری ہے وہی تمہاری کتب میں ہے پس تصدیق خاص ہو گی نہ کہ عام۔ انہی معنوں کے رو سے میں نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ قرآن کریم تمہاری کتب میں بیان شدہ پیشگوئیوں کی تصدیق کرتا ہے یعنی انہیں پورا کرتا ہے (۲) یا پھر لِمَا مَعَکُمْ کو اس حد بندی سے محدود کیا جائے گا کہ تمہارے پاس جو خدا کا کلام ہے اس کی تصدیق قرآن کریم کرتا ہے اور ان معنوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں اس میں کیا شک ہے کہ پہلی کتب میں جو خدا کا کلام ہے اس کی تصدیق ہر دوسرے آسمانی کلام کو کرنی چاہیئے مگر اس تصدیق کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ جو کچھ بھی ان کتب میں ہے وہ ضرور خدا کا کلام ہے۔
اس سوال کے متعلق ایک اور بات بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ پہلی کتب کے لئے جس جس جگہ قرآن کریم میں تصدیق کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس کا صلہ لام آیا ہے سو اے دو جگہوں کے جہاں کوئی صلہ استعمال نہیں ہوا لیکن جہاں قرآن کریم یا رسول کریم کی نسبت یہ لفظ آیا ہے وہاں اس کا صلہ با آتا ہے اور لغت سے بھی ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تصدیق کے معنے اس کوسچا قرار دینے کے ہوں وہا ںباصلہ آتا ہے پس اس اختلاف سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جہاں جہاں پرانی کتب کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس کے اور معنے ہیں اور وہ یہی ہو سکتے ہیں کہ پہلی کتب میں جو پیشگوئیاں تھیں قرآن کریم ان کا پورا کرنے والا ہے یہ نہیں کہ ان کے اندر جو کچھ غلط یا درست لکھا ہوا ہے اس کو سچا قرار دیتا ہے قرآن کریم کی بعض آیات بھی اس استدلال کی تصدیق کرتی ہیں۔ سورۂ احقاف میں ہے قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ کَفَرْ تُمْ بِہٖ وَ شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ بَنِٓیْ اِسْرَآئِیْلَ عَلیٰ مِثْلِہٖ فَاٰ مَنَ وَ اسْتَکْبَرْ تُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَoوَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْالِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ وَ اِذْ لَمْ یَھْتَدُوْا بِہٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ ھٰذَا اِفْکٌ قَدِیْمٌo وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَا مًا وَّرَحْمَۃً وَھٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَبُشْرٰی لِلْمُحْسِنِیْنَo (احقاف ع ۱ و ع ۲) یعنے اے لوگو بتائو تو سہی کہ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی اور تم نے اس کا انکار کر دیا تو کیا بنے گا اور استھ ہی یہ بات بھی ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ نے اپنے مثل نبی آنے کی خبر دی ہے پس وہ تو ایمان لے آیا اور تم نے تکبر سے کام لیا یاد رکھو کہ اللہ ظالموں کو کبھی کامیاب نہیں کرتا اور کافر مسلمانوں کے حق میں کہتے ہیں کہ اگر اس کلام میں کوئی بھلائی ہوتی تو یہ لوگ ہم سے پہلے کس طرح ایمان لے آتے بات یہ ہے کہ چونکہ ان کو ہدایت نہیں ملی اب تو انہو ںنے یہی کہنا ہوا کہ پہلے کلام بھی جھوٹے تھے یہ بھی ویسا ہی جھوٹ ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گذر چکی ہے جو لوگوں کو ہدایت دیتی تھی اور رحمت کا موجب تھی اور اب یہ کتاب اس کی مصدق ہے اور عربی زبان میں نازل ہوئی ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور محسنوں کو بشارت دے۔
ان آیات سے پہلے کی آیات پڑھو تو معلوم ہو گا کہ اس جگہ یہود نہیں بلکہ کفار مکہ مخاطب ہیں ان سے کہا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اپنے مثیل کی خبر دی تھی (جس میں یہ بھی خبر تھی کہ وہ بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا) اب کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ موسیٰ ؑ نے بنو اسحاق میں سے ہوا کر اس پر ایمان کا اظہار کیا اور تم جن کو عزت ملی تھی اپنی قوم کے نبی کے ماننے میں تکبر سے کام لے رہے ہو اس پر کفار کا اعتراض بیان فرمایا ہے کہ ہم تو اس کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں اور اس کا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ اس کو ماننے والے ادنیٰ لوگ ہیں بڑے لوگ تو سب اس کے مخالف ہیں اگر یہ سچا ہوتا تو سب سے پہلے ہمیں اس پر ایمان لانے کا موقعہ ملتا۔ اس کا جواب یہ فرمایا کہ اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گذر چکی ہے جو اپنی ہدایت اور فائدہ کے لحاظ سے اپنی سچائی کا ثبوت دے چکی ہے اس میں اس کتاب کے بارہ میں پیشگوئیاں ہیں جن کو یہ کتاب پورا کرتی ہے چنانچہ ان پیشگوئیوں کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس کتاب پورا کرتی ہے چنانچہ ان پیشگوئیوں کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان عربی ہو گی اور دوسری یہ کہ اس کی قوم کے لوگ اس کے مخالف ہونگے اب ان صدیوں پہلے کی پیشگوئیوں کو جب یہ کتاب پورا کرتی ہے تو تم اس کا انکار کیونکر کر سکتے ہو۔
آیندہ شریعت کے عربی زبان میں ہونے کی پیشگوئی استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ سے نکلتی ہے جہاں بتایا ہے کہ آنے والا موعود بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے ہو گا اور اس کی مخالفت کی خبر استثناء باب ۳۳ آیت ۲ سے نکلتی ہے جہاں لکھا ہے کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا اور اس کے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت ہو گی یعنی وہ ضرورت کے موقعہ پر جنگ کرے گا اور جنت کی اجازت دے گا۔ ظاہر ہے کہ جنگ کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب قوم مخالفت کرے اور مخالف زبردست ہوں۔ پس مکہ والوں کا یہ کہنا کہ ہم جو بڑے لوگ ہیں ایمان نہیں لاتے یہ ان کے سچا ہونے کی دلیل نہیں بلکہ قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے موسیٰ ؑ کی خبر کا ایک اور حصہ پورا ہوا اور ایک طرف اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہوئی تو دوسری طرف حضرت موسیٰ کی سچائی ظاہر ہوئی۔
اس آیت سے تصدیق کے معنے بالکل واضخ ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ زبانی تصدیق کہ تورات سچی ہے کفار مکہ پر کیا اثر کر سکتی تھی وہ قرآن اور تورات دونو ںکو جھوٹا سمجھتے تھے کفار مکہ پر وہی تصدیق حجت ہو سکتی تھی جس میں کسی پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیونکہ پیشگوئی خواہ کسی نبی کی ہو چونکہ علم غیب پر مشتمل ہوتی ہے ہر ایک شخص پر حجت ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ سورۂ احقاف کی مذکورہ بالا آیت میں تصدیق کے معنے پیشگوئی پورا کرنے کے سوا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے اور یہی معنی ہیں جو مُصَدِّقُ لِّمَا مَعَکُمْ والی آیت اور اسی قسم کی دوسری آیات میں استعمال ہوئے ہیں وَلَا تَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍبِہٖ۔ اس جملہ کا پہلا حصہ جمع ہے اور دوسرا مفرد یعنی لَاتَکُوْنُوْا کے معنے ہیں کہ اے بنی اسرائیل تم نہ بنو اور اس کا جواب کہ کیا نہ بنو یہ دیا ہے کہ اوّل کافر نہ بنو اور کاف رمفرد ہے اُردو کے لحاظ سے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اردو میں ایسے موقعہ پر مفرد کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں لیکن عربی کے محاورہ کے مطابق یہ قابلِ اعتراض ہے کیونکہ عربی میں اس جگہ جمع کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ عربی کے علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جب افعال التفصیل کا صیغہ استعمال ہو جیسا کہ اوّل کا لفظ ہے اور وہ کسی ایسے نکرہ کی طرف مضاف ہو جو صفت کا صیغہ ہو جیسا کہ کافر کا لفظ ہے تو اس وقت اس نکرہ کو جو صفت کا صیغہ ہو مفرد لانا بھی جائز ہے اور جمع لانا بھی جائز ہے اور اس کی مثال کے طو رپر فراء نے ایک شاعر کا یہ شعر نقل کیا ہے ؎
وَاِذَا ھُمُ طَعِمٌ فَاَلْأَمُ طَاعِمٍ
وَاِذَا ھُمُ جَاعُوْا فَشَرُّ جِیَاعٍ
یعنی جب وہ قوم کھاتی ہے تو کھانے والوں میں سے سب سے بری ہوتی ہے اور جب وہ بُھوکی ہوتی ہے تو بھوکوں میں سے بدتریں ہوتی ہے۔ اس شعر میں پہلے مصرعہ میں طَاعِمٍ کافر کی طرح مفرد آیا ہے لیکن دوسرے مصرعہ میں جِیَاعٍ جمع کا صیغہ آیا ہے گویا ایک ہی شعر میں دونوں طرح کا محاورہ استعمال ہو گیا ہے۔
جب صفت نکرہ افعال تفضیل کا مضاف الیہ ہو تو فرار کے نزدیک مَنْ کے بعد فعل استعمال کر کے اس کے معنے کئے جاتے ہیں مثلاً اس شعر میں طَاعِم کے معنے مَنْ طَعَمَ کئے جائینگے اور آیت میں کافر کے معنے مَنْ کَفَرَ کئے جائیں گے بعض دوسرے نحویوں نے کہا ہے کہ اس صور ت میں یہ تو جیہہ ہو گی کہ اوّل فریق کا فربہ یعنی ابتداء ہی میں کفر کرنے والے گروہ میں شامل نہ ہو۔ بعض دوسروں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ وَلَا یَکُنْ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْکُمْ اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ تم میں سے ہر ایک اوّل درجہ کے کافروں میں سے نہ بنے سیبویہ امام لغت کہتے ہیں کہ ایسے موقعہ پر مفرد نکرہ جمع کے معنے دیتا ہے اور اس جملہ کی ترکیب یوں ہے لَاتَکُوْلُوْا اَوَّلَ کَافِرِیْنَ بِہٖ اوّل درجہ کے کافروں میں سے نہ بنو (بحر محیط زمخشری) اس کے یہ معنے نہیں کہ پہلے کافر نہ بنو ہاں دوسروں کے بعد بیشک کف رکرو۔ یہ عربی کا محاورہ ہے کہ ایک حصہ جملہ کا بیان کر دیتے ہیں اور دوسرا چھوڑ دیتے ہیں اسے وہ تحسین کلام میں سے سمجھتے ہیں اس کے رو سے جملہ یہ ہو گا کہ لَاتَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ وَلَاتَکُوْنُوْا اٰخِرَ کَافِرٍ بِہٖ یعنی نہ اس کے کفر میں جلدی کرو اور نہ بعد میں کفر کرو۔ اس کی مثال مفسرین اس شعر سے دیتے ہیں۔ ؎
مِنْ اُنَاسٍ لَیْسَ فِیْ اَخْلَا قِھِمْ
عَاجِلُ الْفُحْشِ وَلَا سُوْئُ جَزَعٍ
وہ شخص ایسے لوگوں میں شامل ہے جن کے اخلاق میں نہ تو فحش میں جلدی کرنا شامل ہے اور نہ سخت گھبرانا۔ وہ کہتے ہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ فوراً فحش کو اختیار نہیں کرتا بلکہ دیر سے کرتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ فحش کو نہ جلدی اختیار کرتا ہے نہ دیر سے (بحر محیط)
میرے نزدیک اس کی ایک اور تشریح بھی ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ جب یہ کتاب تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کی مصدق ہے تو تمہارا اس کتاب کا انکار کرنا اوّل درجہ کا کفر ہو گا کیونکہ جو لوگ جاہل ہیں ان کا انکار نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور انہیں معذور سمجھا جا سکتا ہے لیکن تم کو معذور نہیں سمجھا جا سکتا۔ گویا یہ مُراد نہیں کہ چھوٹا کفر جائز ہے یا بعد میں انکار کرنا جائز ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ کفر بہرحال ناجائز ہے مگر تمہارا کفر تو اوّل درجہ کا کفر ہے اور زیادہ خطرناک ہے یا یہ کہ تم کو کفار کی اوّل صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ یہ محاورہ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی استعمال ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَمَا اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (ق ع ۲) میں اپنے بندوں پر بہت بڑا ظلم کرنے والا نہیں ہوں اس کے یہ معنے نہیں کہ میں تھوڑا ظلم کر لیتا ہوںبلکہ یہ معنے ہیں کہ پہلا مضمون جو گذرا ہے اگر اسے تسلیم کیا جائے تو اللہ تعالیٰ بڑا ظالم ثابت ہوتا ہے مگر وہ ایسا نہیں ہے اُردو میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے کہتے ہیں اتنا قہر کیوں توڑتے ہو ںاس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ چھوٹا قہر بیشک توڑو بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی پر ظلم کرنا تو ناجائز ہے پھر تم اس قدر بڑا ظلم کیو ںکرتے ہو یا یہ کہ جھوٹ بولنا تو ناپسندیدہ ہے پھر تم اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولتے ہو۔
کَافِرٍبِہٖ میں ہ کی ضمیر بِمَا اَنْزَلْتُ میں میں جو مَا ہے اس کی طرف بھی جا سکتی ہے اس صورت میں اس کے معنے ہونگے کہ خدا تعالیٰ کے نئے کلام یعنی قرآن کریم کے کافرنہ بنو اور لِمَا مَعَکُمْ کے مَا کی طرف بھی جا سکتی ہے اس صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ یہ قرآن تو تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کو پُورا کرنے والا ہے دوسرے لوگ ان پیشگوئیوں کے مُنکر ہوں تو ہوں تم کیوں دوسروں سے بھی جلدی کر کے خود اپنی کتب کی تکذیب کرتے ہو۔
وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا میری آیات کو چھوڑ کر تھوڑی قیمت نہ لو۔ مسلمانونکی بدقسمتی ہے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کے معنوں کو بگاڑنے والے لوگ پیدا ہو گئے ہیں۔ بعض ملا چار پانچ آنہ والا قرآن خرید کر دیہاتیوں کے ہاتھوں میں دو چار روپیہ کو فروخت کرتے ہیں اور کوئی اعتراض کرے تو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو مردوں پر جو قُلْ کئے جاتے ہیں ان میں بھی اس بیہودہ خیال پر بناء رکھ کر قرآن بخشا جاتا ہے یہ سب بیہودہ خیالات ہیں اور اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں اگر اس آیت کے یہ معنے ہوتے تو الفاظ یوں ہوتے وَلَا تَشْتَرُوْا اٰیٰتِیْ بِثَمَنِ قَلِیْلٍ کیونکہ عربی محاورہ کے مطابق ب قیمت پر آیا کرتی ہے پس تھوڑی قیمت لینی مراد ہوتی تو ب ثمن پر آتی مگر ب ثمن پر نہیں بلکہ آیات پر آئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اشتراء کا لفظ خریدو فروخت کے معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوا بلکہ استبدال کے معنوں میں استعمال ہوا ہے (بحر محیط) نوٹ نمبر ۱۷ میں بتایا جا چکا ہے کہ لغت کے رو سے ایک معنے اشتراء کے یہ بھی ہیں کہ ایک چیز کو چھوڑ دیا اور دوسری کو لے لیا۔ لغت میں لکھا ہے وَکُلَّ مَنْ تَرَکَ شَیْئًا وَتَمَسَّکَ بِغَیْرِہٖ فَقَدِ اشْتَرٰلہُ (اقرب) یعنی جو شخص ایک چیز کو ترک کر دے اور دوسری کو اختیار کرے اس کے لئے بھی اشتراء کا لفظ عربی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس آیت میں یہی معنے ہیں اور یہ مطلب نہیں کہ میری آیات دے کر تھوڑا مال نہ لو بلکہ یہ معنے ہیں کہ میری آیات کو نہ چھوڑو اور تھوڑے مال کو اختیار نہ کرو تھوڑے مال سے مراد دُنیا ہے کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ (نساء ع ۱۱) دنیا کا سب سامان تھوڑا ہے پس مراد یہ ہے کہ دین چھوڑ کر دُنیا کو اختیار نہ کرو۔ اس میں بنی اسرائیل کو زجر کی ہے کہ تمہارا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے سے انکار کرنا باوجود اس کے کہ تمہاری کتب میں ان کی پیشگوئیاں موجود ہیں محض اپنی لیڈری کے کھوئے جانے کے خوف سے ہے تم کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا گراں گذرتا ہے اور ان کی محافلت کر کے اپنی قوم کی سرداری قائم رکھنا زیادہ عزیز ہے گویا دنیا کی معمولی عزت اور تھوڑے سے پیسوں کے لئے تم ان پیشگوئیوں کو ترک کر رہے ہو جو تمہاری کتب میں موجود ہیں۔
حدیثوں میں آتا ہے دو یہودی عالم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے واپس جاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ نبی وہی ہے جس کا ذکر ہماری کتب میں آتا ہے لیکن ماننا تو نہیں کیونکہ ہماری جماعت کے لوگ ہمیں قتل کر دیں گے یہی ذہنیت ہے جو اکثر لوگوں کو سچائی سے محروم کر دیتی ہے۔
(مسند احمد حنبل جلد رابع نمبر ۲۳۹)
وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ۔ اس فقرہ کی بناوٹ بھی وَ اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ کی طرح ہے (دیکھو نوٹ نمبر ۴۱ سورۃ ہذا ) اور یہ پورا جملہ یوں ہوتا ہے وَاتَّقُوْا اِیَّایَ تَنَبَّھُوْا فَاتَّقُوْنِ مجھ سے ڈرو ہوشیار ہو جائو اور مجھ سے ڈرو اس میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان دُنیا کو اس لئے اختیار کرتا ہے کہ زندگی میں تکلیف سے ڈرتا ہے مگر یہ ڈر عبث ہے کیونکہ تکلیف اور آرام خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے پس دُنیا کا آرام بھی خدا تعالیٰ کو خوش کر کے مل سکتا ہے اسے چھوڑ کر نہیں مل سکتا۔
۴۳؎ حل لغات
لاَتَلْبِسُوْنہی جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور لَبَسَ عَلَیْہِ (یَلْبِسُ) الْاَمْرَ لَبْسًا کے معنے ہیں خَلَطَہٗ وَجَعَلَہٗ مُشْتَبِھًا بِغَیْرِہٖ ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ کے ساتھ ملا کر مشتبہ کر دیا (اقرب) پس لَاتَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ کے معنے ہونگے کہ حق کو باطل کے ساتھ نہ ملائو۔
اَلْحَقُّ:۔ اَلْحَقُّ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۲۷؎
اَلْبَاطِلُ:۔ اَلْبَاطِلُ نَقِیْضُ الْحَقِّ وَھُوَ مَالَاثَبَاتَ لَہٗ عِنْدَ الْفحْصِ۔ یعنی باطل حق کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور باطل اس چیز پر بولتے ہیں جس کی تحقیق کی جائے تو کوئی حقیقت نہ نکلے (مفردات)
تفسیر۔ تَلْبِسُوْا لَبَسَ سے بنا ہے۔ لَبَسَ ضَرَبَ بَضْرِبُ کے وزن پر بھی آتا ہے اور عَلِمَ یَعْلَمُ کے وزن پر ہو تو اس کے معنے پہننے کے ہوتے ہیں۔ لباس اسی میں سے بنا ہے اس آیت میں چونکہ تَلْبِسُوْا ہے یعنی ب کے نیچے زیر ہے اس لئے اس کے معنے مخلوط کر کے مشتبہ بنا دینے کے ہیں اور آیت کا یہ ترجمہ ہے کہ حق میں باطل ملا کر اسے مشتبہ نہ بنا دو۔ انبیاء کے دشمن ہمیشہ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں یعنے کوئی سچی بات لی اور اس میں ایک جھوٹ ملا دیا اور شور مچا دیا کہ مدعی کا دعویٰ جھوٹا ہے یہود سب علامتوں کو تسلیم کر کے کبھی کہدیتے کہ اصل علامت آنے والے کی یہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہو گا کبھی کہدیتے کہ اصل علامت یہ ہے کہ وہ یروشلم میں ظاہر ہو گا اس طرح عوام کی سچ قبول کرنے سے محروم کر دیتے ہیں حالانکہ صداقت کے پہچاننے میں اصل چیز جسے مدنظر رکھا جاتا ہے یہ ہے کہ موعود اس غرض کو پُورا کرتا ہو جس کے لئے اس کی خبر دی گئی تھی اس زمانہ میں ظاہر ہو جس میں اس کے ظہور کی سب سے زیادہ ضرورت ہو اور کچھ حصہ پیشگوئیوں کا ظاہر میں اس کے حق میں پورا ہو جائے ورنہ پیشگوئیوں میں چونکہ اخفاء کو مدنظر رکھا جاتا ہے کچھ حصہ ان کا تعبیر طلب ہوتا ہے بیشک بعض جگہ بنی اسرائیل میں سے اُس نبی کے آنے کی خبر ہے مگر چونکہ دوسری جگہ بنو اسمٰعیل میں سے ہونے کی خبر ہے اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ اس کی قوم بنی اسرائیل کی برکات کی وارث ہو گی اور گویا آیندہ زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کی قائم مقام ہو گی۔ اور صیحون میں اس کے ظاہر ہونے کے الفاظ بیشک آتے ہیں لیکن اس کے معنے صر فیہ ہیں کہ جس جگہ وہ ظاہر ہو گا وہ بھی خدا تعالیٰ کے مقدس مقامات میں سے ہو گا یعنی مکہ بہت سی دوسری علامات کے حرف بہ حرف پورا ہو جانے کے بعد اور سب سے زیادہ یہ کہ اس زمانہ میں ظاہر ہونے کے بعد جس میں کہ اس موعود کو ظاہر ہونا چاہیئے تھا اور وہ کام کرنے کے بعد جو اس کے لئے مقدر تھا پھر بنی اسرائیل کا یہ اعتراض کہ فلاں فلاں پیشگوئی ابھی پوری نہیں ہوئی یا لفظاً پوری نہیں ہوئی محض حق اور باطل کو ملانے والی بات تھی اور لوگوں کو حق کے قبول کرنے سے روکنے کی ایک ناواجب کوشش۔ مگر ایسی کوششیں نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھیں نہ محمد رسول اللہ صلیہ اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوئیں اور نہ آیندہ کبھی ہونگی۔
وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ۔ اس جملہ کا پہلے جملہ پر عطف ہے اس لئے وہی لَاجو جو پہلے گذر چکا ہے دوبارہ دہرایا جائیگا اور جملہ یوں ہو گا وَلَاتَکْتُمُوا الْحَقّ۔ اور تم حق کو نہ چھپائو۔ یہ بنی اسرائیل کی دوسری شرارت بتائی وہ ان پیشگوئیوں کے چھپانے کی کوشش کرتے تھے جن سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت ہوتی تھی۔ گویا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت ہوتی تھی۔ گویا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح مقابلہ کرتے تھے۔ اوّل اس طرح کہ پیشگوئیوں کو مخلوط کر کے بیان کر دیتے تھے۔ مثلاً لفظاً پورا ہونے والی پیشگوئیوں سے تعبیری پیشگوئیوں کو ملا دیتے تھے یا موعود آخر الزمان کی پیشگوئیوں کے ساتھ بعض سابق نبیوںکے متعلق جو پیشگوئیوں تھیں انہیں ملا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بھی آنے والے کی علامت ہے حالانکہ وہ کسی اور نبی کی علامت ہوتی تھی اور اس کے وجود میں پوری ہو چکی تھی (اسی طرح آج کل بعض علمائے اسلام کرتے ہیں اسلام نے بہت سے مہدیوں کی خبر دی ہے بعض آ چکے اور اپنے متعلق پیشگوئیوں کو پورا کر چکے۔ مگر یہ علماء آنے والے مہدی کے بارہ میں ان پیشگوئیوں کو بتا کر ان پیشگوئیوں کو مشتبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس کے بارہ میں ہیں اور پہلے زمانہ میں پوری ہو چکی ہیں) دوسرا حربہ وہ یہ استعمال کرتے تھے کہ بعض پیشگوئیوں کو عوام کی نطر سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور ان کا ذکر اپنے وعظوں پر چھوڑ جاتے تھے ا ور اگر مسلمان انہیں بیان کرتے تو صاف انکار کر دیتے تھے اگر کوئی واقف آدمی ان کو مجبور کر دیتا تو بہانے تراشنے لگ جاتے۔
وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ ورانحالیکہ تم جانتے ہو یعنی یہ حق و باطل کو ملانا اور بعض حق کو چھپانا اتفاقی حادیثہ نہیں اور نہ غلطی کی وجہ سے ہے بلکہ تم ایسا دیدہ و دانستہ کرتے ہو اور جو دیدہ و دانستہ ایسے گناہ کا مرتکب ہو ہر گز خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث نہیں ہو سکتا۔
۴۴؎ حل لغات
اَقِیْمُوْا۔ امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے۔ اَقَامَ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اَلصَّلٰوۃُ۔ اَلصَّلٰوۃُ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اَلزَّکوٰۃُ:۔ زَکَا (یَزْکُوْا) تَزْکِیَۃً کا اسم ہے اور زَکَی الشَّیْئُ کے معنے ہیں نَمَا کوئی چیز زیادہ اور بکثرت ہو گئی کہتے ہیں زَکَا الرَّجُلُ۔ صَلَحَ وَ تَنَعَّمُ وَکَانَ فِیْ خَصْبٍ۔ کوئی شخص اچھی عمدہ حالت میں ہو گیا۔ خوشحالی میں ہو گیا (کیونکہ زَکَتِ الْاَرْضَ اس وقت بولتے ہیں جبکہ وہ سرسبز ہو جائے) اور جب زَکَّاہُ اللّٰہُ کہیں تو اس کے معنے ہونگے اَنْمَاہُ اللہ تعالیٰ نے اس کو پروان چڑھایا۔ طَھَّرَہٗ اسے پاکیزہ کیا۔ زَکَّی فُلَانٌ مَالَہٗ کے معنے ہیں اَدَّی عَنْہُ زَکوٰۃً اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی اور جب زَکَّی نَفْسَہٗ کہیں تو معنے ہونگے کہ مَدَحَھَا اپنے نفس کو اس نے تعریف کے قابل بنایا اور تَزَکَّی کے معنے ہیں تَصَدَّقَ اس نے صدقہ دیا اور اَلزَّکوٰۃُ کے معنے ہیں صَفْوَۃُ الشَّیْئِ اعلیٰ درجہ کی چیز طَاعَۃُ اللّٰہِ اللہ کی اطاعت۔ مَا اَخْرَجْتَہٗ مِنْ مَالِکَ لِتُطَھِّرَہٗ بِہٖ۔ مال کا وہ حصہ جو بطور زکوۃ نکالا جاتا ہے تاکہ باقی مال پاک ہو جائے۔ وَقِیْلَ سُمِّیَتِ الصَّدَقَہُ بِالزَّکوٰۃِ لِاَنَّھَا تَزِیْدُ فِی الْمَالِ الَّذِیْ تُخْرَجُ مِنْہُ وَ تُوَفِّرُہٗ وَتَقِیْہِ مِنَ الْاٰفَاتِ۔ اور صدقہ کا نام اس لئے زکوۃ رکھا گیا ہے کیونکہ جس مال سے زکوۃ نکالی جائے وہ اس مال میں برکت ڈالتی ہے اور اس کو بڑھاتیہے اور اُسے آفات سے بچاتی ہے (اقرب)
اِرْکَعُوْا:۔ امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور رَکَعَ الْمُصَلِّی (رَکْعًاوَ رُکُوْعًا) کے معنے ہیں طَأْطَأَ رَاْسَہٗ۔ نمازی نے اپنا سر نیچے کیا اور جب رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ کہیں تو معنے ہونگے اِطْمَأَنَّ اِلَیْہِ اس نے اللہ کی طرف تسلی پائی۔ نیز رَکَعَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں اِنْحَطَّتْ حَالَتُہٗ وَ افْتَقَّرَ اس کی مالی حالت کمزور ہو گئی اور وہ محتاج ہو گیا (یہ مجازی معنے ہیں) اور رَکَعَ الْمُصَلِّی فِی الصَّلٰوۃِ رُکُوْعًا کے معنے ہیں خَفَضَ رَأْسَہٗ بَعْدَ قَوْمَۃِ الْقِرَائَ ۃ حَتّٰی تَنَالَ رَاحَتَاہُ رُکْبَتَیْہِ اَوْحَتّٰی یَطْمَئِنَّ ظَھْرُہٗ۔ نمازی نے قراء ت کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کمر کو جھکایا نیز لکھا ہے وَالرَّاکِعُ کُلُّ شَیْئٍ یَخْفِضُ رَأْسُہٗ اور ہر اس چیز پر جو سر نیچے جھکائے رکھتی ہے رَاکِع کا لفظ بولتے ہیں (اقرب) مفردات میں ہے اَلرُّکُوْعُ اَلْاِنْحِنَائُ کہ رکوع کے معنے جھک جانے کے ہیں فَتَارَۃً یُسْتَعْمَلُ فِی الْھَیْئَۃِ الْمَخْصُوْصَۃِ فِی الصَّلٰوۃِ وَ تَارَۃً فِی التَّوَاضُعِ وَالتَّذَلُّلِ اِمَّا فِی الْعِبَادَۃِ وَ اِمَّا فِیْ غَیْرِ ھَا کبھی تو یہ لفظ اس مخصوص ہیئت پر استعمال کیا جاتا ہے جو نماز میں کی جاتی ہے۔ یعنی قرأت کے ختم کرنے کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا اور کبھی یہ لفظ عاجزی کرنے اور تذلل اختیار کرنے پر بولا جاتا ہے خواہ یہ عاجزی نماز میں کی جائے یا اس کے علاوہ کسی اور حالت یا مقام میں (مفردات) تاج العروس میں ہے کُلُّ شَیْئٍ یَنْکَبُّ لِوَجْھِہِ فَتَمَسُّ رُکْبَتَیْہِ الْاَرْضَ اَوْلَا تَمَسُّہَا بَعْدَ اَنْ یَخْفِضَ رَأْسَہٗ فَھُرَ رَاکِعٌ کہ ہر اُس چیز پر جو اوندھے منہ ہو کر چلتی ہے رَاکِعٌ کا لفظ بولتے ہیں (گویا اس کی ہیئت کذائی عاجزی پر دلالت کرتی ہے) وَقَالَ ثَعْلَبٌ اَلرُّکُوْعُ: الٓخُضُوْعُ لغت کے مشہور امام ثعلب کہتے ہیں کہ رکوع کے معنے عاجزی کرنے کے ہوتے ہیں وَکَانَتِ الْعَرَبُ فِی الْجَا ھِلِیَّۃِ تُسَمِّی الْحَنِیْفَ رَاکِعًا اِذَا لَمْ یَعْبُدِ الْاَ وْ ثَانَ وَ یَقُوْلُوْنَ رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ اور عرب لوگ قبل اسلام موحد کر راکع کہتے تھے کیونکہ وہ بتو ںکی پوجا نہ کرتا تھا اور اس کے لئے راکع کا لفظ اس لئے استعمال کرتے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی اور اس کے سامنے عاجزی اختیار کی (تاج) الغرض رَکَعَ کے لفظ کے اندع عاجزی اور تذلل کے معنے پائے جاتے ہیں پس رَاکِعٌ کے معنے ہونگے (۱) عاجزی کرنے والا (۲) اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرنے والا۔ اور اِرْکَعُوْا کے معنے ہونگے تم عاجزی کرو۔ (۲) تم اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرو۔
تفسیر۔ پہلی آیات میں ایمان کی درستی کی بنی اسرائیل کو ہدایت کی تھی اب اعمال کی درستی کی طرف توجہ دلائی ہے اور فرماتا ہے کہ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اپنے ایمان کی تکمیل تمہارے لئے ضروری ہے اسی طرح آپ پر ایما لا کر اپنے اعمال کی درستی تمہارے لئے ضروری ہے بیشک تم اپنے رنگ میں عبادت کرتے ہو مگر اب وہ عبادات تمہاری مقبول نہیں۔ اب تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے مطابق نمازیں پڑھو گے تو عبادت قبول ہو گی۔ اسی طرح بیشک تم قومی چندے دیتے ہو مگر اب تو شریعت محمدیہ کے مطابق زکوٰۃ نہ دو گے تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہ کر سکو گے اسی طرح بیشک تمہاری عبادات اور تمہارے اعمال شرک سے ایک حد تک پاک ہونگے مگر اب وہ معیار توحید کا جو پہلے تھا بدل گیا ہے اب تو اس وقت تک تم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں ہو سکتے جب تک اس معیار توحید کو قائم نہ کرو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔
وَاٰتُوا الزَّکوٰۃَ میں زکوٰۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ ایک مقررہ طریقہ اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ہے زکوٰۃ کے بارے میں آ گے چل کر تفصیلی بحث ہو گی اسی سلسلہ میں نوٹ ۳؎ سورہ ہذا بھی دیکھ لینا چاہیئے جس میں اسلام ذمہ داریاں مال کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔
وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ۔ میں جو لفظ رَکَعَ استعمال ہوا ہے اس کے بارہ میں حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ اس کے معنے علاوہ رکوع یعنی جھکنے کے موحدانہ زندگی بسر کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت الاساس میں لکھا ہے کَانَتِ الْعَرَبُ تُسَمِّی مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَلَمْ یَعْبُدِ الْاَوْثَانَ رَاکِعًا۔ یعنی عرب لوگ اسے جو اللہ پر ایمان لاتا ہو اور بتوں کی پوجا نہ کرتا ہو رَاکِعٌ کہتے ہیں اسی طرح لسان العرب میں لکھا کہ رَاکِعٌ توجہ کو خالص ایک طرف کر دینے والے کو کہتے ہیں اور اس کی تائید میں نابغہ ذبیانی کا یہ شعر لکھا ہے ؎
سَیَبْلُغُ عُذْرًا اَوْنَجَا حًا مِنِ امْرَئٍ
اِلیٰ رَبِّہٖ رَبِّ الْبَرِیَّۃِ رَاکِعُ
یعنی وہ شخص جو صرف اپنے رب کی طرف جو سب دُنیا کا رب ہے خالص طور پر متوجہ ہو جانا ہے ضرور یا نجات پا جائے گا یا معذور قرار پا جائے گا۔ پس وَارْا کَعُوْا مَعَ الرَّا کِعِیْنَ کے معنے اس جگہ نماز کے رکوع کے نہیں کیونکہ نماز میں صرف رکوع ہی نہیں ہوتا بلکہ رکوع کے سوا اور اجزاء بھی ہوتے ہیں پس کوئی وجہ نہ تھی کہ صرف رکوع کا ذکر کیا جاتا۔ دوسرے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ میں نہ صرف خالی نماز کا بلکہ باجماعت نماز کا ذکر ہو چکا ہے جس میں قیام رکوع سجدہ سب ہی شامل ہیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ساری نماز کا جس میں رکوع بھی شامل ہے ذکر کر کے صرف رکوع کا الگ ذکر کیا جائے۔ پس ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رکوع کے معنے اور ہیں نماز والے رکوع کے نہیں اور وہ معنے میں اوپر بیان کر چکا ہوں پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کی تلقین کی پھر مسلمانو ںکی طرح زکوٰۃ دینے کی تلقین کی پھر یہ حکم دیا کہ مسلمانوں کی طرح اپنے سب اعمال کو خدا تعالیٰ کے َئے کر دو اور کامل توحید کو اختیار کر لو شرک کی ملونی کو اپنے اعمال سے بالکل جدا کر دو تب جا کر تم ان فضلوں کے دوبارہ وارث ہو سکو گے جن کا وعدہ عہد ابراہیم میں بیان ہوا ہے۔
اس تشریح کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ تا کوئی یہ دھوکا نہ کھائے کہ یہود کے لئے تورات کے احکام پر عمل کرنا اب بھی کافی ہے اور یہ امر واضح ہو جائے کہ اب عمل صالح سے مُراد وہی عمل ہو گا جو شریعت محمدیہ میں نازل ہوا ہے اور اسی صورت میں مقبول ہو گا کہ اسلامی طریق کے مطابق ادا کیا جائے۔
۴۵؎ حل لغات
اَلْمِرُّ۔ اَلصِّلَۃُ۔انعام احسان اور عطیہ۔ اَلَّطَّاعَۃُ فرما نبرداری۔ اَلصِّدْقُ سچائی (اقرب) تاج العروس میں ہے اَصْلُ مَعْنَی البِرِّ اَلسَّعَۃُ کہ بر کے اصل معنے وسعت کے ہوتے ہیں ثُمَّ ھَاعَ فِی الشَّفْقَۃِ وَالْاِ حْسَانِ والصِّلَۃِ پھر یہ لفظ شفقت۔ احسان اور انعام عطیہ وغیرہ کے معنوں میں مشہور ہو گیا۔ ابو منصور جو لغت کے امام ہیں کہتے ہیں کہے اَلْبِرُّ خَیْرُ الدُّنَیا وَالْاٰخِرَۃِ۔ بر کے لفظ کے اندر دُنیا و آخرت ہر دو کی بھلائیاں آ جاتی ہیں۔ نیز اَلْبِرُّ کے معنے ہیں اَلصَّلَاحُ صلاحیت۔ اَلْخَیْرَ بھلائی۔ اَلْاِتِّسَاعُ فِے الْاِحْسَانِ اِلَی النَّاسِ۔ لوگوں کے ساتھ احسان کرنے میں وسعت (تاج العروس)
تَنْسَوْنَ۔ نَسِیَ (یَنْسٰی) سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور نَسِیَ الشَّیْئَ نَسْیًا کے معنے ہیں ضِدُّ حِفِظَہٗ کسی چیز کو بھول گیا۔ قَالَ الرَّاغِبُ ’’اَلنِّسْیَانُ تَرْکُ الْاِنْسَانِ ضَبْطَ مَا اسْتُوْدِعَ اِمَّا لضَعْفِ قَلْبٍ وَ اِمَّا عَنْ غَفْلَۃٍ وَ اِمَّا عَنْ قَصْدٍ حَتّٰی یَنْحَذِفَ عَنِ القَلْبِ ذِکرُہٗ‘‘ امام راغب لکھتے ہیں کہ انسانی دماغ میں جو باتیں محفوظ ہوں ان کو اس کا ضائع کر دینا نسیان کہلاتا ہے واہ یہ ضائع کرنا اس کی دماغی کمزوری کا نتیجہ ہو خواہ غفلت کی وجہ سے ہو یا ارادۃً ہو حتٰی کہ ان باتو ںکا نقش ذہن سے مٹ جائے (اقرب) تاج العروس میں لفظ نسیان کی تشریح میں لکھا ہے اَکْثَرُ اَھْلِ اَللُّغَۃِ فَسَّرُوْہُ بِالتَّرْکِ کہ اکثر اہل لغت نے نسیان کے معنے چھوڑنے کے کئے ہیں پھر امام ثعلب جو عربی لغت کے مشہور اما م ہیں ان کا قول آیت نَسُو اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ کی تشریح میں لکھا ہے کہ لَایَنْسَی اللّٰہُ عَزُّوَجَلَّ اِنَّمَا مَعَنَاہُ تَرَکُوا اللّٰہَ فَتَرَ کَھُمْ یعنی اللہ تعالیٰ کی شان سے یہ امر بعید ہے کہ وہ کسی چیز کو بھول جائے۔ اس لئے آیت نَسُو اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ میںنسیان کے معنے چھوڑنے کے ہیں یعنی لوگوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو چھوڑ دیا (تاج) پھر لکھا ہے وَ اِذَا نُسِبَ ذٰلِکَ اِلَی اللّٰہِ فَھُوَ تَرْکُہٗ اِیَّا ھُمْ اِسْتِہَانۃً وَ مَجَازَاۃً لِمَا تَرَکوہُ۔ جب لفظ نسیان اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنے چھوڑنے کے ہوتے ہیں کیونکہ جب لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دیتے ہیں اور اُس کے احکام سے رُو گردانی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ایسے اعمال کے بدلہ میں ان کو چھوڑ دیتا ہے (تاج) اقرب میں لَا تَنْسُوُ الْفَضْلَ کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں لَا تَقْصُدُ وا التَّرْکَ وَالْاِھْمَالَ کہ اپنی فضیلت کو چھوڑنے کا قصد نہ کرو (اقرب) پس تَنْسوْنَ کے معنے ہونگے تم بھلاتے ہو۔ فراموش کرتے ہو۔ تم چھوڑتے ہو۔
اَنْفُسَکُمْ:۔ اَنْفُسٌ نَفْسٌ کی جمع ہے اور اَلنَّفْسُ کے معنے ہیں اَلرُّوْحُ۔ رُوح۔ اَلْجِسْمُ جم وَیُرَادُ بالنَّفْسِ اَلشَّخْصُ وَالْاِنْسَانُ بِجُمْلَتِہٖ بعض اوقات نفس کا لفظ بول کر رُوح اور جسم کا مجموعہ انسان اور اس کا خاص تشخص مراد لیاجاتا ہے۔ اَلْعَظْمَۃُ۔ عظمت اَلْعِزَّۃُ عزت۔ اَلْھِمَّۃُ ہمت۔ اَلْاِرَادَۃُ۔ ارادہ اَلرَّأَیُ رائے (اقرب)
تَتْلُوْنَ:۔ تَلیٰ (یَتْلُوْ) سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور تَلَا الکَلَامَ تِلَاوَۃً کے معنے ہونگے تم پڑھتے ہو۔
تَعْقِلُوْنَ:۔ عَقَلَ (یَعْقِلُ) سے مضارع مخاطب جمع کا صیغہ ہے اور عَقَلَ الدَّوَائُ الْبَطْنَ کے معنے ہیں اَمْسَکَۃٗ دوائی نے پیٹ کو روک دیا یعنی قبض کر دی اور جب عَقَلَ الْغُلَامُ کہیں تو معنے ہوں گے اَدْرَکَ لڑکا بالغ ہو گیا یعنی اچھی اور بُری باتوں کو سمجھنے لگ گیا اور عَقَلَ الشَّیْئَ عَقْلًا کے معنے ہیں فَھِمَہٗ وَ تَدَبَّرَہٗ کسی چیز کو سمجھا اور اس کے متعلق غور و فکر کیا عَقَلَ الْبَعِیْرَ:۔ ثَنٰی وَظِیْفَہٗ مَعَ ذَرَاعِہِ فَشَدَّ ھُمَا معًا بِحَبْلٍ اُونٹ کی ٹانگ کو اس کی ران کے ساتھ باندھ دیا۔ عَقَلَ الْوَعْلُ عَقْلًا کے معنے ہیں صَعَدَ وَامْتَنَعَ فِی الْجَبَلِ الْعَالِی پہاڑی بکر اپہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں جا کر رُک کر محفوظ ہو گیا۔ نیز اَلْعَقْلُ کے معنے ہیں نُوْرً رُوْحَانِیٌّ بِہٖ تُدْرِکُ النَّفْسُ الْعَلُوْمَ الضَّرُوْرِیَّۃَ وَالنَّظَوِیَّۃَ کہ عقل اس روحانی روشنی کا نام ہے جس کے ذریعہ سے نفس بدیہی باتوں کو یا غورو فکر سے معلوم ہونے والی باتوں کو معلوم کرتا ہے (اقرب) پس اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ کے معنے ہونگے (۱) کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے (۲) کیا تم اپنی ناواجب حرکات سے رکتے نہیں۔
تفسیر۔ بِرٌّ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں لکھا جا چکا ہے اعلیٰ درجہ کے احسان اور نیکی کے ہوتے ہیں اس آیت میں توجہ دلائی ہے کہ بنی اسرائیل اپنی کتب کے حکم کے مطابق لوگوں کو بہت احسان کرنے اور نیکی کرنے کا حکم دیتے تھے لیکن اپنا یہ حال تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے عظیم الشان نبی کو صرف دنوی نقصان کے ڈر کے مارے قبول نہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو تو اپنی جانوں کو بھی تو نہ بھولو ان کا حق تو تم پر زیادہ ہے۔ نسیان کے معنے چھوڑنے کے بھی ہیں اس کے رو سے یہ معنی ہونگے کہ لوگوں کو اعلیٰ نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو چھوڑ دیتے ہو انہیں ایسا حکم کیوںنہیں دیتے کہ تمہارا عمل تمہارے قول کے خلاف نہ ہو۔
وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتابَ کے یہ معنے نہیں کہ تمہاری کتاب محرف مبدل نہیں جیسا کہ بعض ناواقف نتیجہ نکالتے ہیں بلکہ کتاب کا ذکر پہلے حکم کے سلسلہ میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم تو اپنی کتاب پڑھتے ہو اس میں تو یہ حکم نہیں کہ دوسروں کو تو نیکی کا حکم دو اور اپنے آپ کو بد راہ پر چلائو پس جب تم جس کتاب کو مانتے ہو وہ بھی اس طریق کو جائز نہیں قرار دیتی تو تم نے اس طریق کو کیوں اختیار کر رکھا ہے چاہیئے کہ جس طرح دوسروں کو قربانی کا حکم دیتے ہو خود بھی حق کے لئے قربانی کرو اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ پھر کیا تم باز نہیں آتے یعنی اگر تمہاری کتب میں یہ تعلیم نہ ہوتی کہ اپنے نفس کو بھی نیکی راہ پر چلائو تو تم کو معذور سمجھا جا سکتا تھا لیکن اس تعلیم کی موجودگی میں تمہارا نیکی کے راستہ سے بھٹکنا تو سخت افسوسناک ہے پس کسی دوسرے کی نہیں مانتے تو اپنی کتاب کے حکم ہی کو مانو اور نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلو۔
۴۶؎ حل لغات
اِسْتَعِیْنُوْاامر حاضر جمع کا صیغہ ہے اور اِسْتِعَانَۃٌ کے معنے مدد طلب کرنے یا مدد حاصل کرنے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اِسْتَعَنْتُہٗ فَاَعَانَتِیْ میں نے اس سے مدد طلب کی تو اس نے مدد دے دی (اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھو سورہ فاتحہ ۶؎
اَلصَّبْرُ:۔ صَبْرٌ کے معی ہیں تَرْکُ الشِّکْوٰی مِنْ اَلَمِ الْبَلْوٰیِ لِغَیْرِ اللّٰہِ لَا اِلَی اللّٰہِ کہ مصیبت کے دُکھ کا شکوٰی خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کے پاس نہ کرنا فَاِذَا دَعَا اللّٰہَ الْعَبْدُ فِیْ کَشْفِ الضُّرِّ لَایُقْدَحُ فِیْ صَبْرِہٖ اگر بندہ اپنی رفع مصیبت خدا تعالیٰ کے پاس فریاد کرے تو اس کے صبر پر اعتراض نہ کیا جائے۔ کلیات ابی البقاء میں لکھا ہے کہ اَلصَّبْرُ فِی الْمُصِیْبَۃِ کہ صبر مصیبت کے وقت ہوتا ہے وَصَبَرَ الرَّجُلُ عَلَی الْاَمْرِ نَقِیْضُ جَزِعَ اَیْ جَرُؤَ و شَجُعَ وَتَجَدَّرَ اور صبر جزع یعنی شکوٰی کرنے اور گھبرانے کے مقابل کا لفظ ہے اور صبر کے معنے ہوتے ہیں دلیری دکھائی جرأت دکھائی ہمت دکھائی اور صَبَر عَنِ الشَّیْئِ کے معنے ہیں اَمْسَکَ عَنْہُ کسی چیز سے رُکا رہا۔ صَبَرَ الدَّابَۃَ حَبسَہَا بِلَا عَلَفٍ اور جب صَبَرَ کا مفعول دَابۃ کا کا لفظ ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جانور کو چارہ نہ دیا نیز کہتے ہیں صَبَرْتُ نَفْسِیْ عَلیٰ کَذَا۔ حَبَسْتُھَا کہ میں فلاں بات پر ثابت قدمی دکھائی چنانچہ محاورہ ہے صَبَرْتُ عَلیٰ مَا اَکْرَہُ وَ صَبَرْتُ عَمَّا اُحِبُّ یعنے جب صَبَرَ کا صلہ عَلٰی ہو تو اس کے معنے کسی امر پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں اور جب اس کا صلہ عَنْ ہو تو اس کے معنے کسی چیز رُکنے یا کسی کو اس سے روک دینے کے ہوتے ہیں (اقرب) پس صَبْرٌ کے معنے (۱) بدیوں سے رُکتے رہنا اور نیکیوں پر ثابت قدم رہنا (۲) خدا تعالیٰ کے راستہ میں تکلیف پر جزع فزع نہ کرنا۔
اَلصَّلوٰۃُ:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اَلْخٰشِعِیْنَ:۔ خٰشِعِیْنَ اور خٰشِعُوْنَ خَاشِعٌ کی جمع ہے جو خَشَعَ سے اسم فاعل ہے۔ خَشَعَ کے معنے ذَلَّ وَتَطَأْمَنَ تابعدار ہو گیا اور عاجزی کا اظہار کیا اور خَشَعَ بِبَصَرِہٖ کے معنے ہیں غَضَّہٗ آنکھ نیچے کر لی۔ نھایۃ میں لکھا ہے کہ اَلْخُشُوْعُ فِیْ الصَّوْتِ وَالْبَصَرِ کَالْخُضُوْعِ فِی الْبَدَنِ جس طرح بدن کی عاجزی اور کمزوری ظاہر کرنے کے خضوع کا لفظ بولا جاتا ہے اسی طرح آواز کے کمزور ہونے اور آنکھ کے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے خشوع کا لفظ استعمال ہوتا ہے (اقرب) مفردات میں ہے کہ اَلْخُشُوْعُ اَلضَّرَاعَۃُ خشوع کے معنے عاجزی کرنے ہوتے ہیں وَاَکْثَرُ مَا یُسْتَعْمَلُ الْخُشُوْعُ فِیْمَا یُوْجَدُ عَلَی الْجَوَارِح وَالضَّرَاعَۃُ اَکْثَرُ مَا تُسْتَعْمَلُ فِیْمَا یُوْجَدُ فِی الْقَلْبِ کہ خشوع کا استعمال اکثر اس عاجزی پر ہوتا ہے جو اعضاء سے ظاہر ہو رہی ہے اور تضرع اکثر دل میں عاجزی پیدا ہو جانے کے متعلق بولا جاتا ہے (مفردات) پس خٰشِعِیْنَ کے معنے ہونگے عاجزی اختیار کرنے والے۔ فروتنی اختیار کرنے والے۔
تفسیر۔ صداقت کے قبول کرنے میں دو روکیں ہوتی ہیں (۱) حکومت قوم رشتہ داروں اور دوستوں کا دبائو جو حق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یا ضد تعصب یا خود غرضی کی وجہ سے حق کو قبول نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی قبول نہیں کرنے دیتے (۲) سابق عادات یا گناہوں کا زنگ دل کو مردہ کر دیتا ہے اور ہمت کو سلب کر دیتا ہے۔
اس آیت میں ان دونوں روکوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا ہے کہ اے بنی اسرائیل اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو اسے قبول کرنے میں دیر نہ کرو بیشک تم کو تمہارے ہم قوموں اور رشتہ داروں دوستوں کی طرف سے روکا جائے گا تم پر ظلم کیا جائے گا۔ تکلیفیں دی جائینگی مگر ان باتوں کی پروا نہ کرو اور صبر کی پسندیدہ عادت سے اس روک کا مقابلہ کرو دوسرے اپنے دل کو صاف کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو تاکہ دل کے زنگ دور ہوں اور تم میں صداقت کو قبول کرنے کی اہلیت پیدا ہو۔
ایک اور نفسیانی نکتہ بھی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی کام کی درستی کے لئے دو امور کی ضرورت ہوتیہے اول بیرونی بد اثرات سے حفاظت ہو دوسرے اندرونی طاقت کو بڑھایا جائے اس آیت میں صبر کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بیرونی بد اثرات کا مقابلہ کرو اور صلوٰۃ کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر کے اس کے فضلوں کو جذب کرو اس طرح کمزوری کے راستے بند ہونگے اور طاقت کے حصول کے دروازے کھل جائیں گے اور تم کامیاب ہو جائو گے حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ صبر کے معنے صرف جزع فزع سے بچنے کے ہی نہیں ہوتے بلکہ برے خیالات کا اثر قبول کرنے سے رکنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے بھی ہوتے ہیں اوپر کی تفسیر میں یہی معنے مُراد ہیں جب کوئی بد اثرات کو رد کرے اور نیک اثرات کو قبول کرنے کی عادت ڈالے جو دعائوں سے حاصل ہو سکتی ہے تو اس کے دل میں روحانیت پیدا ہو کر جو کام پہلے مشکل نظر آتا تھا آسان ہو جاتا ہے اور روحانی ترقی کی جنگ میں اسے فتح حاصل ہوتی ہے۔
اگلے جملہ میں جو کَبِیْرَۃٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے معنے بڑی کے ہیں اور اس آیت میں موقعہ کے لحاظ سے مشکل امر کے معنے ہوتے ہیں اور خَاشِع کے معنے ڈرتے والے کے ہوتے ہیں لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ جس جگہ بھی استعمال ہوا ہے اس ہستی سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اس ہستی سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جس سے ڈرنا مناسب ہو چنانچہ خَاشِع کا لفظ سارے قرآن کریم میں یا تو خدا تعالیٰ سے ڈرنے یا اس کے عذاب سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ بندوں یا دوسری چیزوں سے ڈرنے کے معنوں میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ اس قسم کا علاج بتانا آسان ہے اس پر عمل کرنا مشکل ہے پس اس کا جواب وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ میں دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس علاج پر عمل مشکل کام ہے لیکن جو خَاشِع ہو جائے اس کے لئے مشکل نہیں رہتا گویا گناہوں اور کمزوریوں سے بچنے کا حقیقی علاج خدا تعالیٰ پر ایمان ہے بغیر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کے انسان دوسری تدبیروں سے گناہ سے نہیں بچ سکتا۔ دُنیا نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے لیکن افسوس کہ وہ بار بار اس نکتہ کو بھول جاتی ہے حقیقی نیکی اور کامل نیکی کبھی بھی خدا تعالیٰ پر کامل یقین کے بغیر نہیں پیدا ہوتی فلسفیانہ دلائل انسان کے اندر سچا تقویٰ نہیں پیدا کر سکتے۔ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان کے بعد خوف بدیوں سے پیدا ہوتا ہے وہ اور کسی طرح پیدا نہیں ہوتا اسی وجہ سے انبیاء کی جماعتوں نے جو نیکی اور قربانی کا نمونہ دکھایا ہے وہ اور کوئی جماعت دُنیا کی نہیں دکھا سکتی۔
اس آیت میں جس محبت اور خیر خواہی سے بنی اسرائیل کو نصیحت کی گئی ہے وہ اس اعلیٰ روح کا جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے ایک بین ثبوت ہے لفظ لفظ سے ان کی خیر خواہی ٹپکتی ہے اور ان الفاظ کا کہنے والا بنی اسرائیل کو غلطی سے بچانے کا پورا خواہشمند معلوم ہوتا ہے بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ کلام محمد رسول اللہ کا ہے اور وہ اس طرح یہودیوں میں اپنے آپ کو مقبول بنانا چاہتے تھے مگر اس آیت کے الفاظ پر غور کرو کیا یہ الفاظ کسی شہرت کے طالب کے ہو سکتے ہیں پھر یہ بھی سوچو کہ بنی اسرائیل نے باوجود اس نصیحت کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت قوم کے نہیں مانا مگر اس سے کس کا نقصان ہوا کیا اسلام کو اس سے کوئی نقصان بھی پہنچا۔ جس وقت یہ نصیحت کی گئی تھی صرف چند سو آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے لیکن اب چارلیس کروڑ آدمی آپؐ کا کلمہ پڑھ رہا ہے ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ہے اور اب پھر ان کی ترقی کے سامان اللہ تعالیٰ پیدا کر رہا ہے۔ بنی اسرائیل اگر آپ پر ایمان لے آتے تو وہ ان حالات میں اور کیا تبدیلی کر دیتے اگر کچھ فائدہ تھا تو انہی کا تھا۔ ان میں سے لاکھوں مسیحی ہوئے ہیں مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا ہے ملکوں میں سے نکالا جانا۔ جائدادوں کا لُوٹا جانا ان کا حصہ ہے اور نہ وہ اِدھر کے رہے ہیں نہ اُدھر کے۔ اگر اسلام لاتے تو آج کروڑوں مسلمانوں کے برابر کے شریک ہوتے اور کوئی ان کو غیر قرار دے کر دُکھ نہ دیتا پس ان حالات کے باوجود مسیحی مصنفوں کا یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھے ایک خلافِ عقل اور خلافِ واقع اعتراض ہے محض بنی اسرائیل کے فائدہ کی ایک بات کہی گئی تھی انہوں نے نہ مانا اور تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔
۴۸؎ حل لغات
یَظُنُّوْنَ۔ ظَنَّسے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور ظَنَّ الشَّیْئَ کے معنے عَلِمَہٗ وَاسْتَیْقَنَہٗ کہ کسی چیز کو معلوم کیا اور اس کے متعلق یقین کر لیا اور اَلظَّنُّ کے معنے کے ماتحت لکھا ہے ھُوَ الْاِعْتِقَادُ الرَّاجِحُ مَعَ اِحْتِمَالِ النَّقِیْضِ وَیُسْتَعْمَلُ فِی الْیَقِیْنِ وَالشَّکِّ یعنی ظن کے معنے زیادہ تر خیال غالب کے ہوتے ہیں اور بعض وقت وہ یقین زیادہ تر خیال غالب کے ہوتے ہیں اور بعض وقت وہ یقین کے معنے میں اور بعض وقت شک کے معنے میں بھی استعمال ہوتا ہے (اقرب) اس آیت میں ظن بمعنے یقین کے استعمال ہوا ہے اور یَظُنُّوْنَ کے معنے ہیں وہ یقین رکھتے ہیں۔
تفسیر قرآن کریم کا یہ عام طریق ہے کہ جب کسی لفظ کو خاص معنوں میں استعمال کرتا ہے تو اس اصطلاح کی ساتھ ہی تشریح بھی کر دیتا ہے اس آیت میں بھی قرآنی اصطلاح کے مطابق خَاشِعِیْنَ کے معنے بتائے گئے ہیں خَاشِعٌ چونکہ ڈرنے والے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اس جگہ عام ڈرنیوالے کے معنوں میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور ایک دن اس کے سامنے حاضر ہونے پر انہیں پورا یقین ہے۔
پس خَاشِعِیْنَ کے معنے اوپر کی آیت میں صرف ڈرنے والے کے نہیں کئے جائیں گے بلکہ اس سے مراد وہ شخص لیا جائے گا جس کا خوف خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین سے پیدا ہوتا ہے اور اس خوف کی بناء نقصان کے ڈر پر نہیں بلکہ اس امر پر ہے کہ میں اعلیٰ ترقیات سے محروم نہ رہ جائوں گویا یہ ڈر ایک بزدلی کا ڈر نہیں بلکہ ایک عارف کی گھبراہٹ ہے جو دلیر سے دلیر آدمی میں بھی پائی جاتی ہے اور پائی جانی چاہیئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہود کو دُنیاوی تکلیفوں سے ڈرنے سے روکتے ہوئے یہ فقرہ استعمال کیا گیا ہے کہ اس ڈر کا دُور کرنا ہے تو مشکل مگر خَاشِعِیْنَ کے لئے مشکل نہیں ڈر کے عام معنوں کے رو سے یہ فقرہ عجیب معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کی ظاہری شکل یوں بنتی ہے کہ لوگوں سے ڈرو نہیں بیشک ڈرنے سے بچنا مشکل ہے مگر ڈرنے والوں کے لئے مشکل نہیں۔ مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے۔ اَلْخُشُوْعُ کے معنے عام ڈر کے نہیں بلکہ ایک کامل ہستی پر ایمان رکھتے ہوئے قرب سے محروم رہنے کے خوف کے ہیں اور ان معنوں کی رو سے اس فقرہ میں کوئی امر قابلِ تعجب نہیں اور اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ دنیوی مشکلات سے نہ ڈرو یہ بیشک مشکل امر ہے لیکن جو لوگ اپنے لئے ایک اعلیٰ مقصد قرار دے لیں اور اس مقصد کو چھوڑنا ان پر سخت گراں گزرنے لگے ان کے لئے ایسے خطرات برداشت کرنے مشکل نہیں رہتے اس قسم کا ۔ر درحقیقت بہادری اور احتیاط کی ایک قسم ہے نہ کہ بزدلی کا مظاہرہ۔
وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو مابعدالموت زندگی پر اس کے مناسب حال زور دیتا ہے اسلام کے سوا کوئی اور مذہب تقویٰ کی بنیاد کو بعدالموت زندگی پر نہیں رکھتا۔ اسلام اس دُنیا کی زندگی کو ایک لمبی زندگی کی ایک کڑی قرار دیتا ہے جس میں انسانی روح کی تکمیل ہوتی ہے وہ اس زندگی کے ختم ہونے کو رُوح کی کشمکش کا خاتمہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس کے بعد بھی اس کشمکش کو جاری بتات ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس زندگی میں انسان نسبتی طو رپر اندھیرے میں کوشش کرتا ہے اور مرنے کے بعد نیک و بد دونو ںکو ایک بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جس کی رہنمائی میں وہ آیندہ ترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ بد لوگ اپنے پیدا کردہ ماحول سے نجات پانے کے لئے اور نیک لوگ مزید ترقیات کے لئے یہی وہ یقین ہے جس نے سچے مسلمانوں کو ہمیشہ موت سے نڈر بنائے رکھا ہے اورجب بھی اس ایمان کے ساتھ مسلمان اُٹھتے ہیں دُنیا پر غالب آتے ہیں۔ جو لوگ اس دُنیا کو اپنی ترقیات کا انجام سمجھتے ہیں کبھی نیکی کے لئے جدوجہد نہیں کر سکتے جو بعد الموت زندگی پر ایمان لانے والے کر سکتے ہیں اس دُنیا کو منتہا قرار دینے والے بار بار دنیاوی لذات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور جسمانی آرام کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔
۴۹؎ حل لغات
اِتَّقُوْا۔ اِتَّقُوْاامر مخاطب کا جمع کا صیغہ ہے اِتَّقٰی کے لئے دیکھو حل لغات سورہ بقرہ ۴؎
یَوْمًا:۔ یَوم کے معنے کے لئے دیکھو حل لغات سورہ فاتحہ ۵؎
لَاتَجْزِیٰ:۔ جَزیٰ سے مضارع منفی واحد مونث غائب کا صیغہ ہے اور اَلْجَزَائُ (جو جَزٰی کا مصدر ہے) کے معنے ہیں اَلْمُکَافَأَۃُ عَلَی الشَّیْئِ کسی بات پر کسی کو کوئی بدلہ دینا اور جب کہیں کہ جَزَی الشَّیْئُ تو اس کے معنے ہونگے کَفٰی ایک چیز دوسری چیز کی ساری باتوں
۱؎ سورۃ البقرہ
اس سورۃ کا نام سورۃ البقرہ ہے جیسا کہ مختلف احادیث سے ثابت ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے گو احادیث سے یہ امر ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے خود ہی یہ نام رکھا یا اللہ تعالیٰ کے فرمانے کے مطابق رکھا۔ مگر میرا اپنا یقین یہی ہے کہ سورتوں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکھے گئے ہیں۔ اس سورۃ کے نام کے متعلق جو روایات ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں۔
ترمذی میں ہے عن ابی ھریرۃَ قال قال رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلَّمَ لکلّ شیًٔ سَنامٌ وانَّ سنامَ القراٰنِ سورۃُ البقرۃ وفیہا اٰیہٌ ھِیَ سَیِّدَۃُ اٰیِ القراٰنِ ھی آیۃ الکرْسی (ترمذی جلد دوم ابواب فضال القرآن) یعنی ہر چیز کا ایک چوٹی کا حصہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کی چوٹی کا حصہ سورۃ البقرہ ہے اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کریم کی سب آیت کی سردار ہے اور وہ آیۃ الکرسی ہے۔
یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور مختلف وقتوں میں نازل ہوتی رہی ہیں اور بعض کے نزدیک اس کی ایک آیت آخری ایام حجتہ الوداع کے موقع پر قربانی کے دن نازل ہوئی تھی اور وہ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ (بقرہ ع ۳۸) کی آیت ہے اس سورۃ کی رباء کی آیات (یعنی سود کے احکام پر مشتمل آیات) قرآن کریم کی آخری زمانہ میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہیں۔
ترمذی نے ابوہریرۃ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج بھجوائی جو آدمی اس کے لئے چنے گئے۔ آپؐ نے اُن سے قرآن کریم سنا۔ آخر آپؐ ایک شخص کی طرف متوجہ ہوئے جو ان سب سے چھوٹی عمر کا تھا اور اس سے پوچھا کہ تم کو کتنا حصہ قرآن کریم کا یاد ہے اس نے کہاں فلاں فلاں سورۃ کے علاوہ سورۃ بقرہ بھی یاد ہے آپؐ نے فرمایا کہ کیا سورۃ البقرہ کو یاد ہے؟ اس نے کہا ںہاں یا رسول اللہ آپؐ نے فرمایا۔ بس تو تم اس لشکر کے سردار مقرر کئے جاتے ہو۔ اس پر اس قوم کے سرداروں میں سے ایک شخص نے کہا کہ خدا کی قسم میں سورۃ بقرہ کے یاد کرنے سے صرف اس لئے رکا رہا ہوں کہ کہیں مجھے بعد میں بھول نہ جائے۔ یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن سیکھو اور اسے پڑھتے رہا کرو کیونکہ جو شخص قرآن سیکھتا ہے او رپھر اسے پڑھتا رہتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس تھیلی کی سی ہے جس میں مشک بھرا ہوا ہو اور اس کی خوشبو نکل نکل کر سارے مکان میں پھیل رہی ہو۔ اور جو شخص قرآن سیکھ کر سو جائے اس حالت میں کہ قرآن اس کے اند رہو اس کی مثال اس تھیلی کی سی ہے جس میں مشک بند پڑا ہو (ترمذی جلد دوم ابواب فضائل القرآن۔ ابن ماجہ نے بھی اس روایت کو جزواً روایت کیا ہے)
ابن مردویہ نے عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ کی تلاوت کی جائے اس سے شیطان بھاگ جاتا ہے (ابن کثیر)
اسی طرح دارمی نے اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت درج کی ہے کہ جو شخص سورۃ بقرہ کی دس آیتیں رات کے وقت پڑھے صبح تک شیطان اس کے گھر میں داخل نہیں ہوتا۔ یعنی سورۃ بقرہ کے ابتداء کی چار آیتیں آیتہ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور سورۂ بقرہ سے آخر کی تین آیتیں جو لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ کے الفاظ سے شروع ہوتی ہیں (یہ آخری رکوع ہے جس میں صرف تین آیتیں ہیں) (ابن کثیر)
بظاہر سورتوں کے ذاتی فضائل کا ذکر ایک تعلیم یافتہ آدمی پر گراں گزرتا ہے کیونکہ کسی سورۃ کا صرف سورۃ کے ہونے کے لحاظ سے کوئی خاص اثر رکھنا بے معنی سا معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اس امر کو اس نگہ سے دیکھا جائے کہ ہر سورۃ خاص مضمون پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ مضمون ضرور قلب پر کوئی اثر چھوڑتا ہے تو فضائل کا بیان آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سورۃ بقرہ کے یاد کرنے پر ایک نوجوان کو لشکر کا امیر بنا دیا۔ اس میں کئی حکمتیں تھیں۔ اوّل آپؐ نے اس طرح دوسرے لوگوں کے دلوں میں زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کرنے اور یاد رکھنے کی خواہش پیدا کی۔ اسلامی لشکروں کی سرداری مالی لحاظ سے منفعت بخش نہ تھی مگر اپنے روحانی باپ کی خوشنودی کی جو قدر صحابہ کے دل میں تھی اسے صرف محبت کی چاشنی سے واقف لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں دوسرے اس میں یہ بھی حکمت تھی کہ اس زمانہ میں جو سردار لشکر ہوتا تھا وہی عام طو رپر امام الصلوٰۃ بھی ہوتا تھا اور اسی سے لوگ مسائل وغیرہ بھی دریافت کرتے تھے۔ اور سورۃ بقرہ میں باقی سب سورتوں سے زیادہ مسائل بیان ہوئے ہیں یہاں تک کہ حضرت ابن العربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استادوں میں سے ایک اُستاد سے سُنا ہے کہ سورۃ بقرہ میں ایک ہزار حکم ہے اور ایک ہزار مناہی ہے اور ایک ہزار فیصلے اور ایک ہزار خبریں ہیں (قرطبی) یہ صوفیانہ رنگ کی بات ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ سورۃ بقرہ میں مضامین کی نوعیت اور احکام اسلام کی وسعت اس قدر ہے کہ دوسری سورتوں میں سے کسی میں بھی اس قدر نہیں ہے۔
یہ جو آپؐ نے فرمایا کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے اس میں شیطان نہیں آتا اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس سورۃ میں شیطانی وساوس کا ایسا رد موجود ہے کہ اس پر غور کرنے کے بعد شیطان گھر میں نہیں آ سکتا اور یہ جو فرمایا کہ صبح تک شیطان نہیں آتا اس سے اس طرف اشارہ کیا کہ تعلیم خواہ کیسی اعلیٰ ہو جب تک بار با دہرائی نہ جائے دل پر پورا اثر نہیں ہوتا اور نیک اثر خواہ کس قدر اعلیٰ ہو کچھ عرصہ کے بعد اگر اس کی تجدید نہ کی جائے زائل ہو جاتا ہے۔
اور یہ جو فرمایا کہ جو شخص سورۂ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیۃ الکرسی اور اس کے ساتھ کی دو آیتیں اور سورۂ بقرہ کی آخری تین آیتیں پڑھے اس کے گھر سے بھی شیطان بھاگ جاتا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے کہ ان آیتوں میں اسلام کا خلاصہ ہے سورہ بقرہ کی پہلی آیتوں میں پاک عملی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے آیتہ الکرسی میں صفات باری کا نہایت لطیف نقشہ ہے اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتوں میں دل کو پاک کر دینے والی دُعائیں ہیںاور یہ تین چیزیں یعنی (۱) الٰہی کلام کی متبع میں نیک اعمال کا بجا لانا (۲) صفات الٰہیہ پر غور کرنا (۳) او ران دونوں باتوں کے ساتھ دعا میں مشغول رہنا اور اپنے آپ کو آستانہ الٰہی پر گرا دینا جب اکٹھی ہو جائیں تو انسان کہ دل پاک ہو جاتا ہے اور شیطان بھاگ جاتا ہے۔
سورتوں کی ترتیب
یہ سورۃ قرآن کریم کی تفصیل سورتوں میں سے پہلی سورۃ ہے لیکن نزول کے لحاظ سے یہ سورۃ کلام الٰہی کے نزول کے چودھویں سال میں جا کر نازل ہونی شروع ہوئی اور کئی سال تک نازل ہوتی رہی۔ بالآخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ ہی عرصہ پہلے مکمل ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیوں نہ قرآن کریم کو اسی ترتیب سے جمع کیاگیا جس ترتیب سے کہ قرآن کریم نازل ہوا تھا؟ بعض دشمنانِ اسلام اور بعض مسلمانوں تک نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ سورتوں کی لمبائی چھوٹائی کے لحاظ سے قرآن کریم کو جمع کر دیا گیا ہے اور کسی معنوی ترتیب کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ یہ دعویٰ ایک نہایت لغو اور حقیقت سے دُور دعوی ہے کہ کیونکہ (۱) قرآن کریم کی سورتوں کی موجودہ ترتیب خود اس دعویٰ کو باطل کرتی ہے پہلی سورۃ فاتحہ ہے جو نہایت چھوٹی اور سات آیتوں کی سورۃ ہے۔ دوسری بقرۃ نہایت لمبی ہے تیسری آل عمران ہے جس کے بیس رکوع ہیں لیکن چوتھی نساء کے چوبیس رکوع ہیں اسی طرح اگلی سورتوں میں بھی کئی جگہ پر فرق ہے پس یہ کہنا کہ لمبائی کے مطابقوں سورتوں کو آگے پیچھے رکھ دیا گیا ہے درست نہیں۔ (۲) قرآن کا جمع کرنا کسی بندہ کا فعل نہیں بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فعل نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ (القیامتہ ع ۱) یعنی قرآن کریم کا جمع کرنا اور اس کا دُنیا میں پھیلانا یہ دونو ںکام میں خود کروں گا اور میرے خاص حکم اور نگرانی سے یہ کام ہوں گے پس ایک مسلمان کے نزدیک تو یہ انسانی کام ہو ہی نہیں سکتا اور غیر مسلموں کے لئے وہ جواب ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے (۳) تیسرا جواب یہ ہے کہ سب سورتوں کے مضامین میں ترتیب موجود ہے اگر صرف لمبائی اور اختصار پر انہیں آگے پیچھے رکھا گیا تھا تو پھر سورتوں کے مضامین میں جوڑ اور اتصال کیونکر پیدا ہو گیا۔ جیسا کہ آگے چل کر تفسیر میں انشاء اللہ ثابت کیا جائے گا اور جس کا علم ہر سورۃ کے شروع اور آخر کے نوٹوں کو پڑھنے سے اس تفسیر کا مطالعہ کرنے والو ںکو ہو جائے گا۔ پس عیاں راچہ بیاں۔
بیشک یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگرموجودہ ترتیب خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کیوںنہ اسی تریب میں اُتارا جو اس وقت موجود ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کلامِ حکیم کے لئے یہ امر لازمی ہے کہ اس کے اُترنے کی ترتیب اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب الگ الگ ہو جب کوئی ایسا نبی دنیا میں آئے جو نئی شریعت لانے والا ہو اور جس نے عقائد اور اعمال کے متعلق ایک مکمل ہدایت نامہ دُنیا کو دینا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے اس کے الہام کا ابتدائی حصہ ترتیب تدوین کے لحاظ سے ابتدائی نہ ہو کیونکہ جن باتو ںکی ابتدائی دعویٰ کے وقت جبکہ لوگ اس نئے دین سے بالکل ناواقف ہوں گے سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرور ت ہو گی ان باتوں کو اس وقت سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرورت ہو گی جبکہ لوگ اس کے کلام سے ایک حد تک واقف ہو چکے ہونگے۔ پس اسی حکمت کے مطابق قرآن کریم کے نزول کی ترتیب او رہے اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب اور ہے چناچنہ سورتوں کے نزول کا سوال آیتوں کے نزول کی کیفیت سے حل ہو جاتا ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپؐ کا بتوں کو بلوا کر حکم فرما دیتے تھے کہ فلاں آیت کو فلاں جگہ پر رکھو او رفلاں کو فلاں جگہ پر (ابو دائود۔ ترمذی۔ احمد بحوالہ مشکوٰۃ کتاب فضائل القرآن نیز فتح الباری جلد ۹ صفحہ ۱۹،۲۰،۳۹) اگر صرف نزول کی ترتیب کافی ہوتی تو جب کوئی آیت نازَ ہوتی اسے اس سے پہلے کی نازل شدہ آیتوں کے ساتھ رکھ دیا جاتا۔
سورۃ بقرہ ہی کو دیکھ لو۔ اس کی رباء کی آیات قرآن کریم کے سب سے آخر میں نازل ہونے والے ٹکڑوں میں سے ایک ہیں لیکن وہ سورۃ بقرہ کے آحر میں نہیں رکھی گئیں۔ بلکہ کئی رکوع پہلے رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح وَاتَّقُوْا یَوْمًا والی آیت جس کی نسبت احادیث میں آتا ہے کہ حجتہ الوداع میں نازل ہوئی سورۃ کے آخر میں نہیں رکھی گئی۔ پس معلوم ہوا کہ آیتیں جس ترتیب سے نازَ ہوتی تھیں اسی ترتیب سے انہیں سورتوں میں نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ مضمون کے لحاظ سے رکھا جاتا تھا۔ بعینہٖ یہی صورت سورتوں کی ترتیب کی ہے وہ بھی مضامین کے لحاظ سے جمع کی گئی ہے نہ کہ نزول کے وقت کے لحاظ سے۔
یاد رہے کہ بس سے پہلے جو سورۃ نازل ہوئی یا یُوں کہو کہ جس سورۃ کی بعض آیات نازل ہوئی وہ سورۃ العلق ہے۔ اس کی جو آیات سب سے پہلے نازل ہوئیںیہ ہیں اِقْرَاْبِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقِ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَ کْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔ ان آیات میں تبلیغ کے شروع کرنے کا حکم ہے اور بتایا گیا ہے کہ تبلیغ کا حق انسان پر اس لئے ہے کہ اس کا ایک رب ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں محبت اور تعلق کا مادہ پیدا کیا ہے نیز اس نے انسان کے اندر ترقی کی قوتی رکھیں ہیں اور وہ اپنے بندے پر فضل کر کے اسے بڑھانا چاہتا ہے اور اس غرض سے اس نے انسان کو تحریر و تصنیف کا مادہ عطا کیا ہے تاکہ وہ اپنے علم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھائے بلکہ دوسروں تک بھی اسے پہنچائے اور آیندہ کے لئے بھی ان علوم کو محفوظ کر دے پھر فرماتا ہے کہ علمی ترقی کا مادہ اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی طاقت اس کے اندر رکھ کر اور علم کے محفوظ کرنے کا طریقہ بتانے کے بعد اس نے علم کی ترقی کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو ہر زمانہ میں علم کی ترقی کا موجب ہوتے رہیں گے اور انسان نئی سے نئی باتیں معلوم کرتا رہے گا جو اس کے باپ دادوں کو معلوم نہیں تھیں۔ ان آیات میں قرآن کریم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان کا ایک خالق ہے یہ بتایا ہے کہ انسان ہدایت کا محتاج ہے او راس کے اند رہدایت پانے اور ترقی کرنے کی قوت پیدا کی گئی ہے جس کے ابھارنے کے لئے یہ الہام نازل ہوا ہے۔ یہ سب باتیں وہ ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے وقت سب سے مقدم ہیں سب سے پہلا مخاطب انسان کا اپنا نفس ہوتا ہے جب تک اس کا اپنا دل جوش اور اخلاص اور کام کی اہمیت اور ضرورت کے احساس سے پُر نہ ہو وہ کبھی ایسے کامو ںکے لئے آمادہ نہیں ہو سکتا۔ جو اس کی جان اور اس کے آرام کی قربانی کا مطالبہ کرتے ہوں۔ چنانچہ سب سے پہلی قرآنی آیات میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے صرف اسی سورۃ میں نہیں بلکہ دوسری سورتیںجو ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے۔ مثلاً سورۂ مُدَّثّر پہلی سورتوں میں سے ہے اس کی ابتدائی آیات بھی اسی مضمون کی ہیں فرماتا ہے یٰٓا اَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَانْدِرْ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ اے ماموریت کا خلعت پہننے والے اُٹھ اور لوگوں کو ہوشیار کر اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر سورۂ مُزَّمِّل بھی ابتدائی سورتوں میں سے ہے اس کی ابتداء بھی اسی طرح کی ہے۔ یٰٓاَ یُّھَا الْمُزَّمِّلُ قَمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً نِّصْفَہٗ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً اَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاًo اِنَّا سَنُلُقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًاoیعنی اے نبوت کی چادر اوڑھنے والے راتوں کو جاگ کر عبادت کیا کر۔ نصف رات یا نصف سے کم یا نصف سے زیادہ عبادت میں گذار۔اور قرآن کو پڑھتا رہا کر کیونکہ ہم تجھ پر ایک ایسی ذمہ داری نازل کرنے لگے ہیں جس کا اُٹھانا آسان کام نہیں۔
ان ابتدائی سورتوں کے مضامین سے ظاہ رہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی صفات۔ انسانی پیدائش کی غرض عبادت کی ضرورت۔ دُنیا میں شرارت اور گناہ کی ترقی وغیرہ کے مضامین بیان کرنے کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ پر آمادہ کرنے اور اس کے لئے آپؐ کے دل میں جوش پیدا کرنے پر خاص زور دیا گیا ہے۔ گویا ان آیات میں محمد رسول اللہ کو نبوت کے عظیم الشان کام کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ بغیر اس تیاری کے نہ تو آپؐ اس کام کی اہمیت کو سمجھ سکتے تھے جو آپ کے سپرد ہونے والا تھا۔ اور نہ آپ اس کام کو عمدگی سے انجام دے سکتے تھے پس ابتداء میں ایسے ہی کلام کی ضرورت تھی اسی طرح اس مضمون کے بعد خدا تعالیٰ کی صفات۔ ضرورِ نبوت تقویٰ اور پاکیزگی کے مضامین۔ ضرورت دعا۔ قضا و قدر بعث بعد الموت وغیرہ مضامین کے متعلق تعلیمات کے بیان کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ اس وقت تک کوئی جماعت قائم نہ ہوئی تھی او رنہ دین مکمل ہوا تھا پس ضروری تھا کہ اتبدائی ضروری امور کو اختصار کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ وہ اصولی باتیں جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کرنے والی تھیں لوگوں کے سامنے آ جائیں۔
لیکن جب قرآن مکمل ہو گیا جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی جب ان کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے بہت سے مضامین سے غیر مسلموں کو بھی واقفیت ہو گئی اور مسلمانوں کی نسل بھی چل پڑی جس نے ابتدائی اور اصولی باتیں اپنے ماں باپ سے بچپن میں ہی سیکھ لیں تو اب قرآن کریم کے پڑھنے والے کے لئے ایک اور تریب کی ضرورت پیش آئی جو آیندہ زمانہ میں ہمیشہ کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ اب اس مضمون کے ابتداء میں بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ اے محمدؐ رسول اللہ تیری قوم کی حالت خراب ہے اور گو ان میں قابلیت موجودہ مگر اس قابلیت سے وہ فائدہ نہیں اٹھا رہے پس تو اُٹھ اور اُن میں تبلیغ کر اور انہیں خدا تعالیٰ کی طرف بلا۔ اب تو قرآن کریم کے پہلے مخاطب وہ لوگ ہونگے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جن کے زمانہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے اب اس مضمون سے قرآن کریم کا شروع ہونا ضروری ہے جس میں مومنوں کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے نزول کی غرض کیا ہے اور مسلمان ہونے کے لحاظ سے ان پر کیا ذمہ داریاں ہیں اسی طرح اس زمانہ میں غیر مسلم بھی قرآن کو فلسفیانہ نگہ سے دیکھنے کی کوشش کرینگے اور یہ پوچھیں گے کہ دوسرے مذاہب کی موجودگی میں اسلام کی کیا ضرورت ہے۔ ایک مسلمان کونسی ایسی غرض پُوری کر رہا ہے جو پہلی اقوام کے لوگ نہیں کر سکتے تھے۔ اسی طرح وہ پہلی کتب کی تعلیمات اور اسلام کی تعلیم کا فتفصیلی مقابلہ کر کے دیکھنا چاہیں گے نیز اس پر بحث کرینگے کہ پہلے انبیاء نے جو خاتم النبین کے بارہ میں پیشگوئیاں کی ہیں اسلام اور بانئی اسلام ان پیشگوئیوں کے مصداق ٹھہرتے ہیں یا نہیں۔ غرض قرآن کریم کی تکمیل کے بعد اس کی طرف توجہ کرنے کا طریقہ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں دونوں ہی کے لئے مختلف ہو جاتا ہے اور ایک کامل کتاب تبھی اپنے کمال کو قائم رکھ سکتے ہے جبکہ وہ ان تبدیل شدہ حالات کو مدنظر رکھے اور قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے اس ضرورت کو پورا کیا ہے۔ نہ تورا نہ انجیل اور نہ اور کسی کتاب میں یہ حکمت مدنظر رکھی گئی ہے کہ ابتداء نزول میں پہلے مخاطبین کو مدنظر رکھ کر اور طرح ترتیب ہو اور مذہب کی اشاعت کے بعد اس وقت کے لوگوں کا خیال کرتے ہوئے کتاب کے مضامین کی ترتیب بدل دی گئی ہوتا ان تبدیل شدہ حالات کے مطابق وہ مضامین زیادہ سے زیادہ مؤثر ثابت ہوں پس قرآن کریم کی نزول کی ترتیب اور جمع کی ترتیب میں جو فرق ہے یہ قابلِ اعتراض امر نہیں بلکہ قرآن کریم کی فضیلت او ربرتری کی ایک علامت ہے۔
سورۂ بصرہ میں جیسا کہ اس کی تفسیر کے پڑھنے سے ثابت ہو گا فطرت انسانی کے پیدا کردہ ان طبعی سوالات کو حل کیا گیا ہے جو فلسفیانہ طور پر ایک مکمل مذہب کے متعلق پیدا ہو سکتے ہیں اور اس کا مضمون ہی بتاتا ہے کہ یہ سورۃ ابتداء میں رکھنے کے لئے ہی نازل کی گئی تھی بلکہ جیسا کہ بتایا جائے گا سورۃ فاتحہ کے مضامین کا اس میں جواب دیاگیا ہے اور اس کے مضامین سے اس کا خاص تعلق ہے جو اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ اس کو سب سے پہلے رکھنا اس کی لمبائی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سورۃ فاتحہ کے مضامین سے اس کے گہرے تعلق کی وجہ سے ہے۔
اس سورۃ کے متعلق ایک ادبی لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ لبید بن ربیعہ عامری جاہلیت کے مشہور شعراء میں سے گزرا ہے ہے اس کا ایک قصیدہ سبع مطلقہ میں شامل ہے یعنی اس کے کلام کو عرب کے بہترین سات قصائد میں شمار کیا گیا ہے۔ یہ شاعر آخر عمر میں اسلام لے آیا۔ اور سورۂ بقرہ کی فصیح زبان سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے شعر کہنا ہی چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اس سے اپنا نیا کلام سنانے کی فرمایش کی اس نے اس کے جواب میں سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی حضرت عمرؓ نے اسپر اسے کہا کہ میں نے تم سے اپنے شعر سنانے کو کہاہے۔ اس نے جواب دیا کہ مَاکُنْتُ لاقول بَیْتًا مِّنَ الشعر بعد اِذ عَلَّمَنِیَ اللّٰہُ البَقَرَۃ وَاٰلَ عِمْران یعنی جب اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۃ بقرہ اور آل عمران سکھا دی ہیں تو اب کس طرح ممکن ہے کہ اس کے بعد میں ایک شعر بھی کہوں۔ حضرت عمرؓ کو اس کا یہ جواب اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اس کا وظیفہ جو دو ہزار درہم سالانہ تھا بڑھا کر اڑھائی ہزار کر دیا (اسد الغابہ جلد چہارم حالات لبید بن ربیعہ صفحہ ۲۶۲) بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتا ہے مگر جب ہم لبید کے اس مرتبہ کو دیکھتے ہیں جس اسے عرب کے ادبی حلقہ میں اس زمانہ میں حاصل تھا جو عربی علم ادب کے کمال کا زمانہ کہلاتا ہے او رجس زمانہ کے شعراء کے کلام کو آج تک بہترین کلام سمجھا جاتا ہے اور پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اتنا زبردست شاعر جو خود بادشاہِ سخن کہلاتا تھا سورۂ بقرہ کی زبان سے اس قدر متاث رہوا کہ اس نے شعر کو جو اس کی رُوح کی غذا تھی جو اس کی عزت کا ذریعہ تھا جس نے اسے عرب کے حکمران حلقوںمیں صدر مقام پر بٹھا رکھا تھا سورۂ بقرہ کی زبان سے مرعوب ہو کر بالکل ترک کر دیا اور جب اس سے اپنا تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو اس نے حیرت سے جواب دیا کہ کیا سورۂ بقرہ کے بعد بھی کسی اور کلام کی ضرورت رہ جاتی ہے تو ہمیں مالنا پڑتا ہے کہ ایک معجزانہ کلام کے سوا یہ تاثیر اور کسی کلام سے پیدا نہیں ہو سکتی۔
خلاصۂ سورۂ بقرہ
پیشتر اس کے کہ میں سورۂ بقرہ کی آیات کا مطلب الگ الگ بیان کروں۔ میں سورۂ بقرہ کے مصامین کا خلاصہ بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے یہ بھی ثابت ہو جائیگا کہ سورۂ بقرہ کو باوجود آخر میں نازل ہونے کے پہلے کیوں رکھا گیا ہے اور اس کے مضامین کی ترتیب بھی مختصر طورپر ذہن میں آ جائے گی جس سے اس کے مطالب کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
میں سورۂ فاتحہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس کی تفسیر مجھے ایک فرشتہ نے رویا میں سکھائی تھی سورۂ بقرہ کی تفسیر مجھے اس طرح تو حاصل نہیں ہوئی لیکن اس میںکوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک القاء کے طو رپر مجھے اس کی تفسیر بھی سکھائی ہے اور جو شخص بھی ذرا غور سے دیکھے گا اسے معلوم ہو گا۔ کہ جو نکتہ اس بارہ میں مجھے بتایا گیا ہے وہ ساری سورۂ بقرہ کو ایک باترتیب مضمون کی صورت میں بدل دیتا ہے اور اس امر کے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یہ تفہیم صرف اور صرف فضل الٰہی سے حاصل ہوئی ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ستائیس سال کا عرصہ گذرا کہ میں چند دوستوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا سورۂ بقرہ کا درس تھا جب میں اس آیت پر پہنچا کہ رَبَّنَا وَا بْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَ کِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (بقرہ ع ۱۵) تو یکدم میرے دل پر القاء ہوا کہ یہ آیت اس سورۃ کے مضامین کی کنجی ہے اور اس سورۃ کے مضامین اس آیت کے مضامین کے مطابق اور اسی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں میں جب اس علم سے فائدہ اُٹھا کر سورہ بقرہ کا مطالعہ کیا تومیری حیرت اور عقیدت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ سورۂ بقرہ کو میں نے نہ صرف اس آیت کے مضامین کے مطابق پایا بلکہ اس کے مضامین باوجود مختلف قسم کے ہونے کے میرے ذہن میں ایسے مستحضر ہو گئے کہ مجھے یُوں معلوم ہوا کہ گویا اس کے مضامین موتیوں کی لڑی کی طرح پروئے ہوئے ہیں۔
اس آیت کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے مکہ میں ایک نبی کے مبعوث ہونے کے لئے کی ہے اور اس دعا کا مضمون یہ ہے کہ اس شہر اور اس قوم میں ایک ایسا نبی مبعوث ہو جو (۱) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان اور یقین کو درست اور مضبوط کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے دلائل لوگوں کے سامنے بیان کرے جو دُنیا کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے راستہ کے نشان اور شمع ہدایت ثابت ہوں (۲) وہ لوگوں کے سامنے ایک مکمل کتاب پیش کرے (۳)جو شریعت وہ دُنیا کے سامنے پیش کرے اس کے اندر احکام او رمذہب کی اور ان تمام دینی امور کی جن پر مذہب کی ترقی کا مدار ہے حکمت بھی بیان کی گئی ہو (۴) وہ ایسے ذرائع اختیار کرے اورایسے طریق بتائے جن سے قوم کی ترقی اور پاکیزگی کے سامان پیدا ہوں۔
ان مضامین کو سامنے رکھ کر جب میں نے سورۂ بقرہ کو دیکھا تو اس کے مضامین کو لفظاً لفظاً ان مضامین کے مطابق پایا بلکہ میں نے دیکھا کہ وہ مضامین بیان بھی اسی ترتیب سے ہوئے ہیں جس ترتیب سے ان کا اس آیت میں ذکر ہے اور ہر حصہ میں اس آیت کے الفاظ کی طرف اشارہ بھی کر دیا گیا ہے یعنی آیات کے مضمون میں آیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پھر کتاب اور حکمت کا مضمون بیان کیا ہے اور کتاب اور حکمت کے الفاظ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر تزکیہ کا مضمون بیان کیا ہے تو اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ مضامین کے لحاظ سے یُعَلِّمْھُمُ الْکِتٰبَ کا مضمون اکتیس رکوع تک بیان ہوا ہے اور پھر تزکیہ کا مضمون اکتیسویں رکوع سے شروع ہو کر آخر سورۃ پر یعنی پر یعنی چالیسویں رکوع پر ختم ہوا ہے جو شخص اس امر کو مدنظر رکھ کر سورۂ بقرہ کو پڑھے گا اس کے مطالب کی وسعت اور جامعیت اور ترتیب کی خوبی اور تاثیر کا حیرت انگیز مطالعہ کرے گا۔
خلاصہ رکوع اوّل
سورۂ بقرہ سورۂ فاتحہ کے بعد شروع ہوتی ہے۔ سورۂ فاتحہ میں طلبِ ہدایت کی دُعا سکھائی گئی تھی۔ سورۂ بقرہ کی پہلی آیات میں اس دُعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم نے سورۃ فاتحہ میں جس ہدایت کو طلب کیا تھا اور جو گزشتہ زمانہ کے منعم علیہ گروہ کی ہدایت ہے وہ یہی کتاب یعنی قرآن شریف ہے اور اس کے نزول کے ذریعہ سے فطرت کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے جو سابق ہدایتو ںکے مٹ جانے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے پیدا ہو کر عرش الٰہی کو ہلا رہی تھی پھر فرماتا ہے کہ قرآن کریم نے نہ صرف دنیا کے لئے ایک ہدایت نامہ پیش کیا ہے بلکہ ایک ایسا مکمل ہدایت نامہ پیش کیا ہے جو سب مذاہب کی صداقتوں پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے اس کے دعویٰ کی بنیاد اس پر نہیں کہ دوسرے مذاہب پر اعتراض کرے او ران کے متعلق دلوں میں شکوک پیدا کرے اور یہ کتاب انسان کے اخلاق اور اعملا ہی کو درست نہیں کرتی بلکہ ایسے ایسے مقام پر پہنچاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسے محبت خالص والا تعلق پیدا ہو جائے۔ اس کتاب کو ماننے والوں کے لئے امور اعتقادیہ بھی بیان کئے جائیں گے جن پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہو گا اور ان کے لئے عبادات کے طریق بھی بیان کئے جائیں گے جن پر عمل پیرا ہونا ان کے لئے ضروری ہو گا ان کے لئے حقوق العباد بھی بیان کئے جائیں گے اور ان پر چلنا بھی ان کے لئے ضروری ہو گا اور ان کے لئے سب صداقتوں اور سب سچے مذاہب کے بانیوں اور سب سچائیوں کا جو گزشتہ یا آیندہ زمانہ سے متعلق ہوں اس کتاب میں ذکر کیا جائے گا اور ان سب پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہو گا او ریہ ایمان رسمی نہ ہو گا بلکہ اس کے لئے انہیں قربانیاں کرنی پڑے گی اور لوگ مخالفت کریں گے لیکن وہ اپنی محالفت میں ناکام رہیں گے۔
خلاصہ رکوع دوم
اور کچھ لوگ منافقت سے تعلق پیدا کریں گے حالانکہ ان کے دلوں میں ایمان نہ ہو گا۔ اور کچھ لوگ ایمان تو رکھتے ہونگے مگر ان کے دل بزدلی سے پُر ہونگے پس بزدلی کی وجہ سے وہ اس کے دشمنوں سے ساز باز رکھیں گے ان دونوں گروہوں کی مخالفت اور منصوبہ بازی بھی اسلام کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔
خلاصہ رکوع تیسرا
پس جو بھی خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا پہے اسے اس مذہب میں داخل ہو کر خدائے واحد کی عبادت میں حصہ لینا چاہیئے اور تقویٰ کا مقام حاصل کرنا چاہیئے تا وہ قرآن کریم کی مدد سے خدا تعالیٰ تک رسائی پائے کہ پیدائش عالم کی غرص ہی یہ ہے اور اگر کوئی کہے کہ قرآن کریم کے اس دعویٰ کو ہم کیونکر تسلیم کریں ت وانہیں کہوکہ کسی نہ کسی مذہب کو تو تم تسلیم کرتے ہو اسے اس کی تعلیم کے مقابل پر رکھ کر دیکھ لو اگر اس میں اس سے اعلیٰ تعلیم موجود نہ ہو تو اسے رد کر دو ورنہ تو کو خود اپنے مسلمات کے رو سے ماننا پڑے گا کہ یہ الٰہی کتاب ہے جس میں پہلی الٰہی کتب سے بہتر تعلیم موجود ہے۔ نیز آسامانی نشانات کے بارہ میں بھی تم اس کتاب کے ماننے والوں سے مقابلہ کرکے دیکھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کن کے ساتھ ہے لیکن اگر سوچنے کی کوشش نہ کرو او ربلاوجہ انکار کرتے جائو تو اس میں کیا شبہ ہے کہ تم کو عذاب ملے گا اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جو لوگ اس اعلیٰ تعلیم کو مانیں گے انہیں اعلیٰ انعامات عطا ہونگے جو متواتر انہیں دیئے جائینگے تاکہ کوئی شخص ان انعامات کو اتفاقی حادثہ نہ کہہ سکے اور گو ہم نے ان انعامات کی طرف مختصر الفاظ میں اشارہ کیا ہے مگر اپنے وقت پر ان پیشگوئیوں کی عظمت ظاہر ہو کر رہے گی۔ اور منکروں کے لئے اعتراض کا لیکن مومنوں کے لئے زیادتی ایمان کا موجب ہو گی۔ او رمنکروں کا فائدہ نہ اُٹھانا ایک طبعی نتیجہ ہے کیونکہ بیمار آنکھ نور کو نہیں دیکھ سکتی۔ پھر فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی صداقت کے سمجھنے میں مشکل ہی کیا ہے یہ پہلا کلام نہیں۔ اس سے پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے مردہ قوموں کی طرف ہدایت آتی رہی اور اس کے ذریعہ سے لوگ زندہ کئے جاتے رہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ یہ سلسلہ اب ختم ہو جائے پس اب بھی اسی سنت کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حق آیا ہے اور آیندہ ایسا ہی ہوتا رہے گا پھر کیا مشکل ہے کہ جن اصول پر سابق صداقتوں کو پرکھا گیا تھا انہی پر قرآن کریم کی صداقت کو بھی پرکھ لیا جائے۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیوں نظامِ عالم کو نہیں دیکھتے کہ وہ ایک ارتقاء پر دلالت کرتا ہے جس میں الٰہی ہاتھ نظر آتا ہے پھر کیوں یہ اس ارتقاء کی آخری کڑی کو ماننے میں عذر کرتے ہیںحالانکہ ارتقاء کی آخری کڑی ہی مقصودِ اعلیٰ ہوتی ہے اسے چھوڑ دیا جائے تو سب نظام ہی ناممکن رہ جاتا ہے۔
خلاصہ رکوع چہارم
پھر اس نظام کی پہلی کڑی یعنی آدمؑ یعنی ملہم اوّل کا ذکر فرماتا ہے کہ آخر آدم کو تم مانتے ہو اس کی سچائی کا کیا ثبوت تمہارے پاس ہے جس طرح اس کی سچاوی کو اس زمانہ کے لوگوں نے مانا۔ اسی طرح محمد رسول اللہ کی صداقت کو پرکھا جا سکتا ہے اس کی ذات پر بھی اعتراض ہوئے اور معمولی لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ ملائکہ صفت انسانوں کی طرف سے اعتراض ہوئے۔ مگر کیا اس سے اس کی سچائی میں فرق آیا اللہ تعالیٰ نے اسی کی تائید کی اور پھر وہی ملائکہ صفت رہ سکے جنہوں نے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اس کے آگے تذلل سے گر گئے باقی شیطان بن گئے۔ پھر فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اگر آدم پر کلام نازل ہوا تھا تو پھر کسی اور کلام کی کیا ضرورت ہے کیونکہ آدم کے بعد اللہ تعالیٰ کیّ طرف سے متواتر اور حسبِ ضرورت کلام نازل ہوتا رہا ہے چنانچہ موجودہ زمانہ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا ان کی قوم میں نبی کے بعد نبی اصلاح کے لئے آئے اور چونکہ اس قوم نے بغاوت پر بغاوت کی۔ اللہ تعالیٰ نے مرکز الہام بدلنے کا فیصلہ کر لیا اور بنو اسمعٰیل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری کلام کا مورد بنایا اور اب بنی اسرائیل حسد کی وجہ سے آپؐ کی محالفت کرتے ہیں لیکن اس مخالفت کا بھی وہی نتیجہ ہو گا جو پہلے انبیاء کی مخالفت کا نتیجہ ہوا تھا۔
خلاصہ رکوع پانچ
پھر فرمایا بنی اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ان پر جو فضل ہوئے ہیں ہو حضرت ابراہیمؑ کے وعدوں کی وجہ سے ہوئے ہیں اور ابراہیمؑ سے جو وعدے ہوئے تھے وہ صرف بنو اسحاق کے بارہ میں نہ تھے بلکہ بنو اسمعٰیل کے حق میں بھی تھے۔ پس ضروری تھا کہ جب بنو اسحاق ذمہ داری کے ادا کرنے میں کوتاہی کریں تو بنو اسمعٰیل کے وعدہ کو پورا کیا جائے اور اسی وعدہ کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعٰیل کو وادی غیر ذی زرع یعنی مکہ میں رکھا تھا آخر بنو اسمعٰیل کی قربانی کا بدلہ ملنے کا وقت آ گیا چنانچہ اب ان میں سے نبی مبعوث کیا گیا ہے جس کا یہ کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات لوگوں کو سنائے انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاکیزہ کرے۔ (خلاصہ رکوع ۱۶) بنو اسرائیل کو اس پر چڑنے کا حق نہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کے آباء ابراہیم اسحاق یعقوب علیہم السلام نے انہیں نصیحت کی تھی کہ اصل عزت کامل فرمانبرداری میں ہے پس نہیں فرمانبرداری کر کے خدا تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنا چاہیئے اور باغی بنکر اس کے عذاب کو نہ بھڑکانہ چاہیئے۔
خلاصہ رکوع ۱۷،۱۸
پھر فرمایا کہ بنی اسرائیل محمدؐ رسول اللہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے گزشتہ نبیوں کا قبلہ ترک کر دیا ہے حالانکہ اوّل تو قبلہ مقصود بالذات شے نہیں صرف وحدت کے قیام کا ایک ذریعہ ہے دوسرے ابراہیم نے جو دُعا بنو اسمعٰیل کے حق میں کی تھی اس میں کعبہ کے قبلہ اور مکہ کے حج کی جگہ مقرر ہونے کی خبر دی گئی تھی۔ پس جب محمد رسول اللہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں تو ان کے لئے ضروری تھا کہ کعبہ کے قبلہ ہونے کا اعلان کریں ورنہ ان کی قوم ان برکات سے حصہ نہیں لے سکتی جو ابراہیمی دعا کے مطابق اس قبلہ سے وابستہ ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ کعبہ کی ظاہری و باطنی صفائی کریں ظاہری صفائی اس مقام کو فتح کر کے اور وہاں سے آلاتِ شرک کو دُور کر کے اور باطنی صفائی شرک اور کفر کے خیالات کو مٹا کر اور کعبہ کو قبلہ عالم بنا کر (خلاصہ رکوع ۱۹) پھر فرمایا اس کام میں مشکلات ہونگی اور کفار تلوار کے زور سے مسلمانو ںکو اسکام سے روکیں گے لیکن انہیں اس سے ڈرتا نہیں چاہیئے بلکہ دُعا اور کوشش سے اس کام میں لگا رہنا چاہیئے او ریاد رکھنا چاہیئے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہی ابدی زندگی پاتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ کوشش ضرور بار آور ہو گی اور مکہ فتح ہو گا اور انہیں اس کی ظاہری باطنی صفائی کا موقع مل جائے گا۔ (خلاصہ رکوع ۲۰)اس رکوع میں خاص طور پر آیات کا لفظ استعمال فرما کر یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جو باتیں ہم پہلے بیان کر آئے ہیں وہ یونہی نہیں بلکہ زمین و آسمان کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف اور قانون قدرت کے تمام مظاہروں سے انکی تصدیق ہوتی ہے یعنی اوّل تو قانون قدرت ایک روحانی قانون کے وجود اور اس کے ارتقاء کے ساتھ مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ دوسرے خود محمدؐ رسول اللہ کی تائید میں تم آسمان و زمین اور رات اور دن اور بادلوں اور ہوائوں اور خشکی اور تری کے سامانوں کو دیکھو گے اور تم کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کا پیارا ہے۔ تھی تو سب کائنات اس کی تائید میں لگی ہوئی ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایک نئی راہ تجویز کرتا ہے وہ تو ذلیل ہوا کرتا ہے اس رکوع میں آیات پڑھ کر سنانے کے مضمون کو ختم کیا گیا ہے۔
خلاصہ رکوع ۱۲
اس رکوع سے ابراہیمی پیشگوئی کے دوسرے پہلو کو لیا ہے یعنی شریعت اور اس کی حکمتوں کے بیان کو اور سب سے پہلے حلال اور طیب کھانے کی تعلیم دی ہے کیونکہ انسانی اعمال اس کے ذہنی حالت کے تابع ہیں اور ذہنی حالت غذا سے متاثر ہوتی ہے حلال وہ ہے جس کّی شریعت اجازت دے اور طیب وہ جس کی اصول صحت اور روں ملی اور ذوق صحیح اجازت دے۔ ممنوع غذائوں کے بارہ میں چار اصول بتائے کہ وہ غذائیں استعمال نہ کرو جو مردار ہوں یعنی ان میں سڑاندھ شروع ہو گئی ہو یا جو خون کی مانند ہوں یعنی زہروں پر مشتمل ہوں یا جو سورٔ کے گوشت کی طرح ہوں کہ وہ بد اخلاق جانور ہے اور اس کے استعمال سے انسان اس کے اخلاق کو قبول کر لیتا ہے یا جو بے غیرتی پیدا کرنے والی ہوں جیسے مشرکانہ رسوم کے کھانے وغیرہ وغیرہ۔ (خلاصہ رکوع ۲۲) اس رکوع میں اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کیا ے اللہ۔ یوم آخر۔ کتب سماویہ۔ اور انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے تا کسی سچائی کا انکار نہ ہو اور بندوں سے حسن سلوک بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور قومی چندے بھی ضروری ہیں اور اخلاق حسنہ صبر اور ایفائے عہد بھی ضروری ہیں اور انصاف کا قیام اور اپنے رشتہ داروں کی جائز مدد اور قوانین تمدن کا قیام بھی ضروری ہے جس کے اہم قانونوں میں سے ایک قانون وراثت بھی ہے (خلاصہ ع ۲۳) اخلاقی قانون کو پورا کرنے کے لئے ظاہری ریاضت بھی ضروری ہے چنانچہ اس کے لئے اسلام نے روزے مقرر کئے ہیں اس سے اخلاق درست ہوتے ہیں اور دعائوں کی توفیق ملتی اور ان میں اثر پیدا ہوتا ہے (خلاصہ رکوع ۲۴، ۲۵) اس رکوع میں حج کے قواعد بیان کئے گئے ہیں جو اجتماع امت کا ذریعہ ہے اور بتایا ہے کہ ایسے پر امن مقام کے رستہ میں جو لوگ فساد پیدا کرتے ہیں ان سے جنگ کرنی فساد نہیں بلکہ امن کا قیام ہے پس مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے جنگ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے اور بتایا ہے کہ ایک مرکز کے بغیر سب عالم ایک رسی میں نہیں بندھ سکتا پس حج کے حکم کو معمولی حکم نہ سمجھیں۔
خلاصہ رکوع ۲۶
اس میں احکام کی حکمتوں کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ شریعت کو فضول نہیں سمجھنا چاہیئے۔ ظاہر باطن کی درستی کا موجب ہوتا ہے اور شریعت کی محالفت کی اصل وجہ دُنیا کی محبت ہوتی ہے کہ انسان اپنے اوقات او راموال خدا کی راہ میں خرچ کرنا پسند نہیں کرتا اور بہانے بنا کر اس بوجھ سے بچنا چاہتا ہے ایسے ہی بہانو ںسے دُنیا میں اختلافات بڑھتے ہیں اور انبیاء کی لائی ہوئی تعلیم کو لوگ کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں حالانکہ روحانیت بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ پھر صدقہ خیرات کا ذکر کیا ہے کہ اس کا مصرف کیا ہے اور بتایا ہے کہ سب سے بڑا مصرف صدقہ کا جہاد فی سبیل اللہ ہے جبکہ لوگ دین میں دخل اندازی کریں اور حیرت ضمیر کو روکیں۔ (خلاصہ ع ۲۷) ایسے وقت میں جنگ ضروری ہوتی ہے اور مالی جانی قربانی لازمی۔ حتی کہ اگر دشمنانِ صداقت حج کے مہینوں میں بھی کہ عام حالتو ںمیں ان میں لڑائی منع ہے جنگ کریں تو تم کو بھی ان میں جنگ کر ناجائز ہو جائے گا۔ جنگ کے ایام میں لوگ جوئے اور شراب کی طرف رغبت کرتے ہیں تاکہ دل کو بہلائیں اور جنگ کے لئے روپیہ جمع کریں۔ فرمایا کہ مسلمانو ںکی جنگ تو ایک دینی جنگ ہے ان کے دل کے بہنے کا سامان تو اللہ تعالیٰ کی رضا میں موجود ہے۔ انہیں ان بُرے کاموں سے پرہیز چاہیئے۔ پھر بتایا کہ اموال کی قربانی کی حد کوئی نہیں جو زیادہ سے زیادہ قربانی جس سے دوسروں کے حقوق کو نقصان نہ پہنچتا ہو انسان کر سکے کرے۔ پھر فرمایا جنگوں کی وجہ سے کثرت سے تیامی رہ جائینگے ان کے بارہ میں حکم یاد رکھو کہ بہتر سے بہتر سلوک ان سے کرنا اور یاد رکھنا کہ مشرک عورتوں مردوں سے شادی نہ کرناکہ اس سے نظام میں خلل آتا ہے (خلاصہ رکوع ۲۸ تا ۳۱) پھر عورتوں کے عام احکام بیان فرمائے کہ حیض میں ان کے قریب نہ جائو اور ان سے حسنِ سلوک کرو اور اگر کسی مجبوری سے ان سے قطع تعلق کرنا پڑے تو چار ماہ سے زیادہ ایسا نہ کرو ہاں بالکل تعلق قائم نہ رکھ سکتے ہو تو طلاق دے دو۔ پھر طلاق کے احکام بیان کئے اور رضاحت اور بیوائوں کے بھی۔ اس جگہ کتاباور حکمت کا مضمون ختم ہوا (خلاصہ رکوع ۳۲، ۳۳) رکوع ۳۲ سے تزکیہ کے اصول بیان کرنے شروع کئے بتایا کہ قومی ترقی بغیر قربانی کے نہیں ہوتی پس یاد رکھو کہ وہی قوم زندہ ہو سکتی ہے جو اپنے لئے موت کو قبول کر لے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ احیاء موتیٰ اسی طرح کرتا ہے کہ ایسے احکام دیتا ہے جو قوم کو بمنزلہ موت نظر آتے ہیں مگر جب وہ ان پر عمل کر لیتی ہے تو اسے زندگی مل جاتی ہے۔
خلاصہ رکوع ۳۴
بتایا کہ زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے جلد سے جلد نیکی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہیئے پھر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارہ میں ایک مختصر مگر جامع بیان دیا جو آیۃ الکرسی کہلاتا ہے اور جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی بہترین آیت قرار دیا ہے۔ پھر فرمایا ایسی اعلیٰ صفات والے خدا سے تعلق کسی جبر کا محتاج نہیں بلکہ اس کا حُسن خود دلوں کو موہ لیتا ہے او ریہی تعلق مفید ہو سکتا ہے پس دین کے بارہ میں جبر سے کام نہ لو کیونکہ مذہب کی غرض تزکیہ ہے اور جبر سے دلوں کا تزکیہ نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ جن کو اپنے قُرب میں جگہ دیتا ہے ان کے دلوں کی تاریکی کو دلائل و براہین سے دُور کرتا ہے صرف ظاہری اقرار کو وہ پسند نہیں کرتا (خلاصہ رکوع ۳۵) اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاکیزگی عطا کرنے کے دو طریق ہیں اول افراد کی پاکیزگی جو براہِ راست بندو ںکو عطا کی جاتی ہے جیسے انبیاء کو۔ دوسرے قوام کی پاکیزگی جو انبیاء کے ذریعہ سے انہیں حاصل ہوتی ہے پھر فرمایا کہ پاکیزگی کی یہ اقسام ابراہیمؑ کی اولاد کو چار زمانو ںمیں خاص طو رپر ملنی مقدر ہیں (خلاصہ رکوع ۳۶) پھر فرمایا کہ قومی پاکیزگی کے حصول کے لئے جدوجہد کی بھی اور تعاون باہمی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ہاں کوئی یہ اعتراض کرے کہ تعاون باہمی تو ہر قوم کی ترقی کا ذریعہ ہے اس میں خدا تعالیٰ کے ماننے والوں کی کوئی شرط نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان سے آزاد ہو کر تعاون باہمی کرتے ہیں ان کے اعمال کے نتائج قربانیوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایسا کرتے ہیں ان کی قربانیوں کے نتائج ان کی کوششوں کے مقابلہ پر بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی علامت یہ ہے کہ (۱)وہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے احکام کے قیام کے لئے کرتے ہیں (۲) وہ اپنی قربانیوں کو خدا تعالیٰ کے لئے سمجھتے ہیں اور بندوں پر احسان نہیں جتاتے (خلاصہ رکوع ۳۷)جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں ان کے عمل کبھی ضائع نہیں ہو سکتے۔ اور ان کے دل قربانیوں پر مطمئن ہوتے ہیں اور ان کے اعمال میں پاکیزگی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ پھر بتایا کہ گو حُسن سلوک کسی سے بھی ہو اچھا کام ہے مگر جو لوگ دُنیا کی اصلاح میں مشغول ہوں ان سے حسنِ سلوک زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ وہی حُسن سلوک مفید ہو گا جو جائز طور پر کمائے ہوئے اموال سے ہو (خلاصہ رکوع ۳۸) فرمایا کہ سود کا کاروبار حسنِ سلوک اور تعاون باہمی روح کے خلاف ہے اس سے مومن کو بچنا چاہیئے۔ چنانچہ سود کا کاروبار کرنے والی قومیںلڑائی پر دلیر ہوتی ہیں اور امن عامہ کی پرواہ نہیں کرتیں اس بات سے مت ڈرو کہ سود کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی دُنیا میں ایسے سامان پیدا کر دیئے جائینگے کہ سود خوار قومیں تباہ ہو جائینگی (خلاصہ رکوع ۳۹)حسنِ سلوک اور تعاون باہمی کا ایک طریق قرض بھی ہے جو اپنے اموال کلی طو رپر اپنے حاجتمند بھائی کو نہیں دے سکتا لیکن قرض سے اس کی مدد کر سکتا ہے اسے اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے مگر قرض کا چونکہ کچھ مدت بعد مطالبہ ہوات ہے اس لئے قرص کو لکھ لینا چاہیئے اور گواہ مقرر کر لینے چاہئیں تا فساد نہ ہو اور اگر لکھنے والا نہ ہو تو شہادت کے طور پر کوئی چیز رہن رکھ دینی چاہیئے (خلاصہ رکوع ۴۰) مگر سب سے بڑا گر پاکیزگی اور طہارت کا (۱) اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھنا (۲) کلام الٰہی پر ایمان اور تدبر (۳) انبیاء اور صلحاء اور اشخاص متعلقہ کی دُعا ہے۔
(یہ خلاصہ ہے سورۃ بقرہ کا اور اس میں بلاواسطہ تو یہود و نصاریٰ اور قریش پر اس رنگ میں حجت تمام کی گئی ہے کہ ابراہیم کی ایک دُعا کا جو مقبول بارگاہ الٰہی ہو چکی پورا ہونا باقی تھا محمد رسول اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم کا وجود اس دُعا کو پُورا کرتا ہے پس اگر ان کے وجود کا انکار کیا جائے تو ابراہیم بھی جھوٹے بنتے ہیں اور ان کے جھوٹا ہونے سے موسویت اور مسیحیت بھی ساتھ ہی جھوٹی ہو جاتی ہیں اور بالواسطہ تمام دنیا پر اسلام کی صداقت ثابت کی گئی ہے کیونکہ انسان کی پیدائش بغیر مقصد کے نہیں ہو سکتی اور اس مقصد کو اگر کوئی کلام پورا کرتا ہے تو وہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا کلام ہے کیونکہ اسی سے معرفت الٰہی صحیح قانون اور فلسفۂ شریعت او رپاکیزگی قلب جیسے ضروری امور حاصل ہوتے ہیں۔
اگر کوئی ان نوٹوں کی مدد سے سورۂ بقرہ کو پڑھے گا تو میں سمجھتا ہوں اسے اس سورۃ میں ایک نیا لطف آئے گا اور اس کے مطالب کا ایک وسیع دروازہ اس کے لئے کھل جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
سُورۃ بقرہ کا تعلق سُورہ فاتحہ سے
سورۃ فاتہ کا تعلق تو کلام الٰہی کا خلاصہ ہونے کے وجہ سے سب ہی سورتوں سے ہے لیکن سورۃ بقرہ کو چونکہ اس کے معاً بعد رکھا گیا ہے اس سورۃ کا تعلق سورۃ فاتحہ سے یقینا سب سے زیادہ ہے چنانچہ اوّل تعلق تو اس کا اس سے یہ ہے کہ جس طرح سورۃ فاتحہ خلاصہ ہے سارے قرآن کریم کا۔ اسی طرح یہ سورۃ بھی خلاصہ ہے سب قرآن کا کیونکہ اس میں دلائل و براہین بھی بیان کئے گئے ہیں شریعت بھی اور فلسفۂ شریعت بھی اور پاکیزگی اور طہارت کے گر بھی بیان کئے گئے ہیں اور ابراہیمی دُعا میں آخری موعود کی بعثت کا یہی مقصد بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا تعلق سورۃ فاتحہ کا سورۃ بقرہ سے یہ ہے کہ اس میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دُعا سکھائی گئی تھی اور سورۂ بقرہ کی ابتداء بھی آیت ذٰلِک الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدیً لِّلْمُتَّقِیْنَ سے ہوئی ہے یعنی یہ سورۃ صراط مستقیم کی طرف لے جانے کے مقصد کو پورا کرتی ہے اور فاتحہ کی دُعا کی قبولیت کا ظاہری نشان ہے۔
۲؎ سورۃ البقرہ
چونکہ یہ حروف الگ الگ بولے جاتے ہیں انہیں حروف مقطعات کہتے ہیں جو ایک سے لے کر پانچ کی تعداد تک بعض سورتوں کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں حروف کی اقسام کے لحاظ سے یہ چودہ حرف ہیں اور ان کی تفصیل یہ ہے ا۔ ل۔ م۔ ص۔ ر۔ ک۔ ہ۔ ع۔ ع۔ ط۔ س۔ ج۔ ق۔ ن۔ ان میں سے ق اور نون اکیلا اکیلا ایک سورۃ کے پہلے آیا ہے۔ باقی دو دو یا زیادہ مل کر آئے ہیں ان کے معنوں کے بارہ میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے بعض نے تو لکھا ہے کہ یہ حروف خدا تعالیٰ کے اسرار میں سے ہیں اس لئے ان کے معنوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ بعض نے لکھا ہے کہ ان سے یہ مراد ہے کہ قرآن کریم بھی حروف ہجاء سے بنا ہے مگر پھر بھی معجزانہ کلام ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو کیوں عرب انہی حروف سے ایسا ہی کلام نہ بنا لیتے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ قسمیں ہیں جو سورۃ کے مضمون پر اللہ تعالیٰ نے کھائی ہیں۔ مگر سب مطالب ایسے معمولی ہیں کہ ان کی خاطر حروف مقطعات کا قرآنی سور کے شروع میں رکھنا نظر میں جنچتا نہیں۔ بعض نے ان کو بامعانی کلام کا خلاصہ قرار دیا ہے مثلاً الف لام میم کے معنے یہ کئے ہیں کہ اللہ جبریل محمدؐ یعنی اللہ تعالیٰ نے جبریل کے ذریعہ سے محمد (صلیٰ اللہ علیہ وسلم) پر یہ کلام نازل کیا ہے۔ یہ معنے الف لام میم کے حروف پر تو چسپان ہو جاتے ہیں۔ لیکن تمام حروف مقطعات کی اس طرح تشریح نہیں ہو سکتی۔ بعض نے ان حروف کے معنی یہ کئے ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر ہے جن کی تشریح بعد کی سورۃ میں کی گئی ہے اور صفات کے پہلے حروف یا بعض اہم حروف کو مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بیان کر دیا گیا جیسا کہ میں آگے چلے کر بیان کروں گا یہی معنی سب سے زیادہ درست اور شانِ قرآن اور شہادت قرآن کے مطابق ہیں بعض نے ان حروف سے ان آیات کے مضامین کے اوقات کی طرف اشارہ مراد لیا ہے یعنی حروف مقطعات سے جس قدر عدد نکلتے ہیں اس قدر عرصہ تک کے متعلق ان سورتوں میں واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ یا یہ کہ اس زمانہ کے حالات کی طرف ان سورتوں میں خاص طو رپر اشارہ کیا گیا ہے یہ معنی بھی جیسا کہ بتایا جائے گا درست معلوم ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کم سے کم ان کی تصدیق کرتی ہے بعض مغربی مصنفین نے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ ان کا بتوں کے نام ہیں جنہوں نے حضرت محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کے حکم سے یہ سورتیں لکھیں (سیہل بحوالہ گولیس) چنانچہ انہوں الف سے ابوبکر ع سے علی یا عمر س سے سعد ط سے طلحہ اور ھا سے ابوہریرہؓ وغیرہ مراد لئے ہیں یہ معنے اس ناواقفیت کا ایک اور ثبوت ہیں جس کے باوجود ہر مغربی مصنف اسلام کے بارہ میں علمیت کا دعویٰ کرنے پر تیار رہتا ہے لطف یہ ہے کہ ہ سے حضرت ابوہریرہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین سال پہلے اسلام لائے تھے جبکہ سورۂ مریم اور سورۂ طہ جن میں ہ آتی ہے دونوں ہی مکی ہیں اور ابوہریرہؓ کے اسلام لانے سے دس پندرہ سال پہلے نازل ہو چکی تھیں علاوہ ازیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ یہ حروف بھی الہامی ہیں۔
نیز یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر یہ سورتیں دوسرے صحابہ سے تیار کروائی گئی تھیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر افراد کو اپنے جھوٹے ہونے کا (نعوذ باللہ من ذالک) گواہ بنا لیا آخر جب باقی قرآن آپ نے (نعوذ باللہ من ذالک) خود بنایا تھا تو ان سورتوں کو صحابہ سے بنوانے کی کیا خاص غرض تھی اور کیوں ان کو ایک افتراء کا گواہ بنایا۔ اور اگر بفرض محال ایسا کیا بھی تھا تو ان نامو ںکو شروع میں رکھ کر اس افتراء کا ثبوت کیوں بہم پہنچایا ایسا کام تو ایک نیم عقل کا انسان بھی نہیں کر سکتا۔
اس امر کا ثبوت کہ ان حروف کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی وحی کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس حدیث سے ملات ہے جو بخاری نے آپنی کتاب تاریخ میں نیز ترمذی اور حاکم نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں۔ قالَ رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلَّمَ مَنْ قَرَئَ حرفًا من کتاب اللّٰہِ فَلَہُ بہِ حَسَنَۃٌ وَالْحَسنَۃُ بِعَشرِ امثا لِھَالا اَقولُ الٓمّٓ حرفٌ ولٰکن الف حرفٌ ولا حرفٌ و میم حرفٌ (ترمذی ابواب افضائل القرآن۔ باب ما جائَ فی من قَرَأ حرفاً من القرآن ما لہ من الاجر) اس روایت کو بزاز اور ابن شیبہ نے بھی عوف بن مالک الاشجعی کی سند پر نقل کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن کریم کا ایک حرف بھی پڑھے وہ جنت کا مستحق ہو گا اور اس کی یہ نیکی دس گنے ثواب کا مستحق اسے بنا دیگی اور میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمّٓ ایک حرف ہے بلکہ الٓمّٓ کا الف ایک مستقل حرف ہے اور لام ایک مستقل حرف ہے اور میم ایک مستقل حرف ہے۔ (اس جگہ حرف سے مُراد لفظ ہے قواعد نحو کے مدوّن ہونے سے پہلے حرف کا لفظ الفاظ کے لئے بھی عربی میں استعمال کیا جاتا تھا اسلامی زمانہ میں قواعد نحو کے مدوّن ہونے پر حرف کا لفظ حروف ہجاء یا ان الفاظ کے لئے مخصوص کر دیا گیا جو دوسرے لفظوں سے ملے بغیر مستقل معنی نہیں دیتے) اس شہادت کی موجودگی میں کون خیال کر سکتا ہے کہ یہ حروف کا بتو ںنے اپنے نام کے لئے بطور علامت کے سورتوں کے شروع میں رکھ دیئے تھے پھر لطف یہ ہے کہ دعویٰ تو یہ ہے کہ کا بتوں نے اپنے ناموں کی علامت کے طور پر یہ حروف لکھے تھے لیکن الٓمّٓ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اَمَرَلی مُحمد مجھے اس کے لکھنے کا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حکم دیا ہے ان معنوں سے تو کسی شخص کا نام بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ پھر یہ علامت کس بات کی ٹھہرے۔ اس حدیث سے بھی جو جابر بن عبداللہ سے ابھی بیان کی جائے گی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الٓمّٓ کو کو وحی الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
میں نے ایک معنی ان حروف کے یہ بتائے تھے کہ ان کے عدد کے مطابق سالوں کے واقعات کی طرف ان کے بعد کی سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے یہ معنی ایک یہودی عالم نے کئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس نے ان کو دہرایا آپؐ نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ ایک رنگ میں تصدیق کی۔ اس لئے یہ معنی بھی قابل غور ضرور ہیں اور تدبر کرنیوالوں کے لئے اس تفسیر سے کئی نئے مطالب کی راہ کھل جاتی ہے وہ حدیث جس میں اس تشریح کا ذکر آتا ہے یُوں ہے ابن اسحاق نے اور بخاری نے (اپنی تاریخ میں) نیز ابن جریر نے ابن عباس ے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے یوں روایت کی ہے مَرَٔاَ بُوْ یَاسِرِ بْنِ اَخْطَبَ فِیْ رِجَالٍ مِنْ یھود برَسولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ وَھُوَ یَتْلُوْ فَاتۃَ سودۃِ البقرۃ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ فَاَنٰی اَخَاہُ حُسَییّ بنَ اَخْطَبَ فِیْ رجَالٍ مِّنَ الْیَھُوْد فَقَالَ تَعْلَموُنَ وَاللّٰہِ لَقَدْ سَمِعْتُ محَّمدً ایَتْلُوْ فِیْمَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ فَقَّالَ اَنْتَ سَمِعْتَہ فَقال اَنْتَ سَمِعْہَ فَقَال نَعَمْ فَمَشَی حُییّ فِیْ اولٰٓک النَّفَرِ اِلیٰ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَا لُوْایَا مُحَمَّدُ اَلَمْ یُدْکَرْ اَنَّکَ تَتْلُوْ فِیْمَا اُنْزِلَ عَلَیْکَ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ قَالَ بَلیٰ قَالُوْا اَجَائَ کَ بِھٰدا جِبْرِیْل مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ قَالَ نَعَمْ قَالُوْا لَقَدْ بَعَثَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلِکَ الْاَنْبِیَائَ مَانعلمہ بَیّن لِنبیٍّ مِنُھم مادّۃ مُلِکہٖ وَمَا اَجَل امّتہ غیرکَ فَقَالَ حُیییّ بنُ اَخْطب و اقبل عَلیٰ مَنْ کَانَ معہ الا لف واحدۃ والام ثلاثون والمیم اَرْبَعُوْنَ فَھٰدِہ احدٰی وَسَبْعُوْنَ سَنَۃً اَفَتَدْ خُلُوْنَ فِیْ دِیْن نَبیّ اِنَّمَاُدّۃ لُکہٗ وَاَجَل اُمَّتِہٖ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فَقَالَ یَا مُحَمَّدَ ھَلْ مَعَ ھٰذا غَیْرُہٗ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَ مَا ذٰکَ قَال الٓمص قَالَ ھٰذِہٖ اَثْقَل وَ اَطْوَلَ الالف واحِدۃ واللَّام ثلثونَ وَالْمِیْم اَرْبَعُوْنَ وَالصَّاد تِسْعُوْن فَھٰذہ احدٰی وَّسِتُّونَ وَمأۃ سَنَۃً ھَلْ مَعَ ھٰذا یَا مُحَمَّد غَیْرہٗ قَالَ نَعَم قَالَ وَمَا ذٰکَ قَال الٓمٰ قَالَ ھٰذہ اثْقَلَ وَ اَطْوَلُ الالف واحدۃٌ وَاللَّامُ ثَلٰثُوْنَ والرّاء مأتان ھٰذہ احدٰی وَ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً وَ مأتَانِ فَھَلْ مَعَ ھٰذا غَیْرُہ قَالَ نَعَمْ الٓمرٰ قَالَ فَھٰذہٖ اَثْقل وَ اَطْوَل الالف واحدۃ واللام ثَلاثُوْنَ وَالْمِیْم اَرْبَعُوْنَ وَالرّاء مأتانِ فَھذہ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ سَنَۃً وَ مأتَان ثُمَّ قَالَ لَقَدْ لبس عَلَیْنَا اَمْرک یا مُحَمَّد حتّٰی مَانَدْدِیْ أقَلِیْلاً اُعْطَیْت اَمْ کَثِیْرًا ثُمَّ قَامُوْا فَقَالَ اَبُوْ یاسر لاَخِیْہ حییی ومن معہ من الاحبار مَاید رِیْکُمْ لَعَلّہٗ قَدْ جُمع ھٰذا لِمُحَمَّد کلّہ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ واحدٰی وَسِتُّوْ ن ومأۃ واحدٰی و ثَلاَثُوْن و ماتُمَانِ واحدٰ ی وَ سِبْعُوْنَ وَ مأتانِ فَذا لِکَ سبع مأۃ وَ اَرْبَع وَ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً فَقَالُوْا لَقَدْ تَشَا بَہَ عَلَیْنَا اَمْرُہ (بحوالہ فتح مصری صفحہ ۲۴) یعنی ابو یاسر بن اخطب (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشہور یہودی علماء سے تھا) کچھ یہود سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزرا جبکہ آپؐ سورۂ بقرہ کیاابتدائی آیات پڑھ رہے تھے یعنی الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ وہ یہ سُن کر اپنے بھائی حُیَّیْی بن اخطب کے پاس جبکہ وہ یہود کی ایک جماعت کے پاس بیٹھا ہوا تھا آیااور کہا تم کو کچھ معلوم ہے میں محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا پڑھتے سنا ہے خدا کی قسم میں نے سنا ہے کہ وہ اپنے اوپر نازَ ہونے والے کلام میں سے یہ کلام پڑھ رہے تھے الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ اس پر حُیَّیْینے کہا کیا فی الواقع تم نے یہ کلام سنا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں اسپر حُیَّیْی اپنے ساتھیوں کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کیا آپؐ کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاتی کہ آپ اپنے اوپر نازل ہونے والے کلام میں سے ایک یہ وحی بھی سناتے ہیں کہ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ آپؐ نے فرمایا یہ درست ہے اس نے کہا کیا یہ کلام جبریل نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر نازل کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہا حُیَّیْی نے کہا کہ آپؐ سے پہلے بھی انبیاء آئے ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ سوائے آپؐ کے ان میں سے کسی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حکومت کی مدت او راس کی قوم کا عرصہ بیان کیا ہو۔ پھر اس نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کیا اور کہا الف کا ایک لام کے تیس او رمیم کے چالیس یعنی کل اکہتر سال ہوئے کیا تم ایسے نبی کے دین کو قبول کرو گے جس کی حکموت کا عرصہ اور جس کی امت کا زمانہ کل اکہتر سال ہے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مخاطب ہوا اور پوچھا کہ اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کیا ان کے علاوہ اور حرف بھی آپؐ پر نازل ہوئے ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا کیا آپؐ نے فرمایا الٓمّٓصٓ اس نے کہا یہ اس نے کہا یہ زیادہ گراں ہے اور ص کے نوے کل ایک سوا کاسٹھ ہوئے پھر پوچھا کیا ان کے سوا اور حروف بھی آپ پر نازل ہوئے ہیں آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا وہ کیا آپؐ نے فرمایا الٓرٰ اس نے کہا یہ اس سے بھی زیادہ گراں اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس اور ر کے دوسو کل دوسو اکتیس ہوئے پھر کہنے لگا کیا ان کے سوا اور حروف بھی ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اور وہ الٓمّٓرٰ کے حروف ہیں اسپر وہ بولا کہ یہ تو پہلے سے بھی گراں اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس میم کے چالیس اور ر کے دوسو ہوئے کل دو سواکہتر سال کا عرصہ ہوا پھر کہنے لگا اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) آپؐ کا معامل ہم پر مشتبہ ہو گیا ہے پتہ نہیں لگتا آپؐ کو لمبی عمر عطا ہوئی ہے یا چھوٹی پھر وہ اور اس کے ساتھ اُٹھ کر چلے گئے راستہ میں ابو یاسر اے اپنے بھائی اور دوسرے یہودی علماء سے کہا کیا معلوم کہ یہ سب زمانے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کے لئے اکٹھے کر دئے گئے ہوں جن کی میزان سات سو چونتیس سال ہوتی ہے اس پر سب نے کہا کہ معاملہ کچھ مشتبہ ہی ہو گیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے ان حروف سے سالوں کی تعداد مُراد لی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے خیال کا اظہار بھی کیا تھا اور آپؐ نے اُن کے خیال کی تردید نہیں فرمائی۔
یہود کا یہ خیال کہ ان حروف سے امت محمدؐیہ کا زمانہ بتایا گیا ہے ایک بالبداہت غلط بات ہے کیونکہ امت محمدؐیہ تردید نہ کرنا بھی کچھ معنے ضرور کھتا ہے اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اور سورتوں کے مضامین کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حروف اپنی عدوی قیمت کے لحاظ سے اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے واقعات خاص طور پر اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں جس کی ابتداء میں وہ حروف آئے ہیں خواہ اس لحاظ سے کہ بعثت نبوی کے بعد اتنے عرصہ کے اختتام پر وہ واقعات شروع ہوئے اگر اس خیال کو درست سمجھا جائے تو یہ بات تو واضح ہے کہ سورۂ بقرہ کے واقعات بعثت کے بعد کے اکتہر سال کے واقعات کا مختصر خاکہ ہیں حضرت معاویہ ۶۰ھ میں فوت ہوئے ہیں اس میں تیرہ سال قبل ہجرت کے شامل کئے جائیں تو یہ ۷۳ھ ہوتا ہے یزید کی بیعت حضرت معاویہ نے وفات سے ایک دو سال پہلے لی ہے چونکہ اسی وقت سے اصل فتنہ شروع ۂوا ہے اس لئے ابتدائے اسلام اور ترقی اسلام کا زمانہ اکتہر سال ہوتا ہے اور اسی زمانہ کا نقشہ سورۂ بقرہ کھینچا گیا ہے۔ دوسری سورۃ مریم ہے اس سے پہلے کھٰیٰعص کے الفاظ ہیں جن کی مجموعی رقم ۱۹۵ ہوتی ہے سورۂ مریم میں مسیحیت کی ترقی کا ذکر ہے اور خصوصاً دوسری ترقی کا جو اسلامی ترقی کے بعد ہونی تھی۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال سے مسیحیت نے دوبارہ سر نکالا ہی یہی سال ہے جس میں اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ کوشش کی گئی کہ جس وقت معتصم باللہ مسیحی رومی حکومت کے خلاف لڑ رہا تھا اسے معزول کر کے عباس بن مامون کو خلیفہ مقرر کر دیا جائے اور اس طرح مسیحیوں کے مقابل پر اسلام کو ضعف پہنچایا جائے اسی زمانہ کے قریب مسیحیوں نے دوبارہ سپین پر حملہ کر کے اس کے کچھ حصے واپس لے لئا اور اسی زمانہ کے قریب یہ بدبختی کا واقعہ دیکھنے میں آیا کہ خلاف انلس نے خلاف عباسیہ کے خلاف روما کے عیسائی بادشاہ سے خفیہ معاہدہ کیا اور عباسی حکومت نے شاہ فرانس سے سپین کی اسلامی حکومت کے خلاف دوستانہ تعلقات قائم کئے اور اس طرح اسلامی سیاست میں مسیحیوں کو داخل کر کے مسیحیت کی ترقی اور اسلام کے تنزل کی داغ بیل ڈالی۔ میری رائے میں اگر دوسری سورتوں پر بھی غور کیا جائے تو زمانہ کے لحاظ سے کافی روشنی ان مضامین پر پڑے گی۔
اب میں حروف مقطعات کے بارہ میں وہ تحقیق لکھتا ہوں جس کی بنیاد حضرت ابن عباسؓ اور حضرت علیؓ کے کئے ہوئے معنوں پر ہے اور وہ تحقیق یہ ہے۔
حروف مقطعات اپنے اندر بہت سے راز رکھتے ہیں ان میں سے بعض راز بعض ایسے افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا قرآن کریم سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہیئے لیکن اس کے علاوہ یہ الفاظ قرآن کریم کے بعض مضامین کے لئے قفل کا بھی کام دیتے ہیں کوئی پہلے ان کو کھولے تب ان مضامین تک پہنچ سکتاہے جس جس حد تک ان کے معنوں کو سمجھتا جائے۔ اسی حد تک قرآن کریم کا مطلب کھلتا جائے گا۔
میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروف مقطعات بدلتے ہیں تو مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے اور جب کسی سورۂ کے پہلے حروف مقطعات استعمال کئے جاتے ہیں تو جس قدر سورتیں اس کے بعد ایسی آتی ہیں۔ جن کے پہلے مقطعات نہیں ہوتے ان میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات دُہرائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں۔
اس قاعدہ کے مطابق میرے نزدیک سورۂ بقرہ سے لیکر سورہ توبہ تک ایک ہی مضمون ہے اور یہ سب سورتیں الٓمّٓ سے تعلق رکھتی ہیں۔ سورۃ بقرہ الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورۃ ؑ العمران بھی الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورہ نساء سورہ مائدہ اور سورہ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں اور اس طرح گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں جن کی ابتداء الٓمّٓ سے ہوتی ہے ان کے بعد سورہ اعراف الٓمّٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں بھی وہی الٓمّٓ موجود ہے ہاں حرف ص کی زیادتی ہوئی ہے اس کے بعد سورۃ افعال اور براء ۃ حروف مقطعات سے خالی ہیں۔ پس سورۃ براء ۃ تک الٓمّٓ کا مضمون چلتا ہے سورۃ اعراف میں جو ص بڑھایا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حرف تصدیق کی طرف لیجاتا ہے۔ سورہ اعراف انفال اور توبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے سورۂ اعراف میں اصولی طور پر اور انفال اور توبہ میں تفصیلی طور پر تصدیق کی بحث ہے اس لئے وہاں ص کو بڑھا دیا گیا ہے۔
سورۂ یونس سے الٓمّٓ کی بجائے الٓرٰ شروع ہو گیا ہے ال تو وہی رہا اور مرکو بدلکرر کر دیا۔ پس یہاں مضمون بدل گیا۔ اور فرق یہ ہوا کہ بقرہ سے لیکر توبہ تک تو علمی نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لیکر سورۂ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لیکر سورۂ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی ہے اور واقعات کے نتائج پر بحث کو منحصر رکھا گیا ہے اس لئے فرمایا کہ الٓرٰیعنی اَنَا اللّٰہُ اَرٰی میں اللہ ہوں جو سب کچھ دیکھتا ہوں اور تمام دُنیا کی تاریخوں پر نظر رکھتے ہوئے اس کلام کو تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ غرض ان سورتوں میں رویت کی صفت پر زیادہ بحث کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں علم کی صفت پر زیادہ بحث تھی۔
میں فی الحال اس جگہ اختصاراً اتنی بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حروف مقطعات کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ بے معنی ہیں۔ اور انہیں یونہی رکھ دیا گیا ہے مگر ان لوگوں کی تردید خود حروف مقطعات ہی کر رہے ہیں چنانچہ جب ہم تمام قرآن پر ایک نظر ڈا ل کر یہ دیکھتے ہیں کہ کہاں کہا ںحروف مقطعات استعمال ہوئے ہیں تو ان میں ایک ترتیب نظر آتی ہے۔ سورۃ بقرہ الٓمّ سے شروعہ ہوتی ہہ پھر سورہ آل عمران الٓمّ سے شروع ہوتی ہے پھر سورۂ نساء سورۂ مائدہ سورہ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں پھر سورۂ اعراف الٓمّٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اور سورۂ انفعال اور براء ۃ خالی ہیں ان کے بعد سورۂ یونس سورۂ ہود سورۂ یوسف الٓرٰ سے شروع ہوتی ہیں اور سورہ رعد میں مر بڑہا کر الٓھّٓوٰ کر دیا گیا ہے لیکن جہاں الٓمّٓصٓ میں ص آخرمیں رکھا یہاں مرکور سے پہلے رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اگر کسی مقصد کے مدنظر رکھے بغیر زیادتی کی جاتی تو چاہیئے تھا کہ میم کو جو زائد کیا گیا تھا۔ ر کے بعد رکھا جاتا میم کو الٓرٰ کے درمیان رکھ دینا بتاتا ہے کہ ان حروف کے کوئی خاص معنے ہیںاور جب ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے الٓمّٓکی سورتیں ہیں۔ اور اس کے بعد الٓرٰ کی ۔ تو صاف طو رپر معلوم ہو جاتا ہے کہ مضمون کے لحاظ سے میم کو ر پر تقدم حاصل ہے اور سورۂ رعد جس میں میم او ر ر اکٹھے کروئے گئے ہیں اس میں میم کو ر سے پہلے رکھنا اس امر کو واضح کر دیتا ہے کہ یہ سب حروف خاص معنے رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو حروف خاص معنے رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو جو معنی تقدم رکھتے ہیں ہمیشہ مقدم ہی رکھا جاتا ہے۔ سورۂ رعد کے بعد ابراہیم اور حجر میں الٓرٰ استعمال کیا گیا نہیں ہوئے اور یہ سورتیں گویا پہلی سورتوں کے مضامین کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورۂ مریم ہے جس میں کھٰیٰعص کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ سورۂ مریم کے بعد سورۂ طٰہٰ ہے اور اس میں طٰہٰ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد انبیاء حج مؤمنوں نور اور فرقان میں حروف مقطعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ گویا یہ سورتیں طٰہٰ کے تابع ہیں۔ آگے سورۂ شعراء طٰسم سے شروع کی گئی ہے گویا طاء کو قائم رکھا گیا ہے اور ھا کی جگہ س اور میم لائے گئے ہیں اس کے بعد سورہ نمل ہے جو طٰسٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں سے میم کو اُڑا دیا گیا ہے اور طاء اور س قائم رکھے گئے ہیں اس کے بعد سورۂ قصص کی ابتدا پھر طٰسم سے کی گئی ہے گویا میم کے مضمون کو پھر شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورہ عنکبوت کو پھر الٓمّٓ سے شروع کیا گیا ہے اور وہ دوبارہ علم الٰہی کے مضمون کو نئے پیرایہ اور نئی ضرورت کے ماتحت شروع کیا گیا ہے (اگرچہ میں ترتیب پر اس وقت بحث نہیں کر رہا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ الٓمّٓ دوبارہ کیوں لایا گیا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سورۂ بقرہ سے الٓمّٓ کے مخاطب کفار تھے اور یہاں سے الٓمّٓ کے مخاطب مومن ہیں) سورۂ سجدہ کو بھی الٓمّٓ سے شروع کیا گیا ہے ان کے بعد سورۂ احزاب۔ سبا۔ فاطر۔ بغیر مقطعات کے ہیں اور گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورۂ یٰسٓ ہے جس کو یٰسٓ کے حروف سے شروع کیا گیا ہے اس کے بعد سورۂ صافات بغیر مقطعات کے ہے اس کے بعد سورہ صٓ حرف ص سے شروع کی گئی ہے پھر سورہ زمر حروف مقطعات سے خالی اور پہلی سورۃ کے تابع ہے اس کے بعد سورۂ مومن حٰمّٓ سے شروع کی گئی ہے اس کے بعد سورہ حٰمّٓ سجدہ کو بھی حٰمّٓ سے شروع کیا گیا ہے پھر سورۂ شوریٰ کو بھی حٰمّٓ سے شروع کیا گیا ہے لیکن ساتھ حروف عٓسٓقٓ بڑھائے گئے ہیں اس کے بعد سورۂ زخرف ہے اس میں بھی حٰمّٓ کے حروف ہی استعمال کئے گئے ہیں۔ پھر سورۂ دخان۔ جاثیہ اور احقاف بھی حٰمّٓ سے شروع ہوتی ہیں۔ ان کے بعد سورۂ محمد فتح اور حجرات بغیر مقطعات کے ہیں اور پہلی سورتوں کے تابع ہیں سورہ قٓ حرف ق سے شروع ہوتی ہے اور قرآن کریم کے آحر تک ایک ہی مضمون چلا جاتا ہے۔
یہ ترتیب بتا رہی ہے کہ یہ حروف یونہی نہیں رکھے گئے۔ پہلے الٓمّٓ آتا ہے پھر الٓمّٓصٓ آتا ہے جس میں ص کی زیادتی کی جاتی ہے۔ پھر الٓرٰ آتا ہے اور پھر الٓمّرٰٓ آتا ہے کہ جس میںمیم کی زیادتی کی جاتی ہے پھر کھٰیٰعص آتا ہے جس میں ص پر چار اور حروف کی زیادتی ہے پھر طٰہٰ لایا جاتا ہے۔ اور پھر اس میں کچھ تبدیلی کر کے طٰسٓمّٓ کر دیا جاتاہے۔ یہ ایک ہی قسم کے الفاظ کا متواتر لانا اور بعض کو بعض جگہ بدل دینا بعض جگہ اور رکھ دینا بتاتا ہے کہ خواہ یہ حروف کسی کی سمجھ میں آئیں جس نے انہیں رکھا ہے کسی مطلب کے لئے ہی رکھا ہے۔ اگر یونہی رکھے جاتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ کہیں ان کو بدل دیا جاتا کہیں زائد کر دیا جاتا کہیں کم کر دیا جاتا۔
علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے خود مخالفین اسلام کے ہی ایک استد لال سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ مقطعات کچھ معنی رکھتے ہیں۔ مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ قرآن کریم سورتوں کی ترتیب انکی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے ہے اب اگر یہ صحیح ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ سورتیں اپنی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے آگے پیچھے رکھی گئی ہے ایک قسم کے حروف مقطعات اکٹھے آتے ہیں الٓمّٓ کی سورتیں اکٹھی آ گئی ہی الٓرٰٓ کی اکٹھی طٰہٰاور اس کے مشترکات کی اکٹھی پھر الٓمّٓکی کٹھی حٰمّٓ کی اکٹھی۔ اگر سورتیں ان کے عجم کے مطابق رکھی گئی ہیں تو کیا یہ عجیب بات نہیں معلوم ہوتی کہ حروف مقطعات ایک خاص حجم پر دلالت کرتے ہیں اگر صرف یہی تسلیم کیا جائے تب بھی اس کے معنے یہ ہوں گے کہ حروف مقطعات کے کچھ معنی ہیں خواہ یہی معنی ہوں کہ وہ سورۃ کی لمبائی اور چھوٹائی پر دلالت کرتے ہیں مگر حق یہ ہے کہ ایک قسم کے حروف مقطعات کی سورتوں کا ایک جگہ پر جمع ہونا بتاتا ہے کہ ان کے معنوں میں اشتراک ہے اور یہ حروف سورتوں کے لئے بطور کنجیوں کے ہیں۔
میرے نزدیک حروف مقطعات کے معنوں کے لئے ہمیں قرآن کریم ہی کی طرف دیکھنا چاہیئے پہلی سورتوں میں الٓمّٓ آیا تھا چنانچہ سورہ بقرہ کے پہلے یہی حروف تھے اور ان کے بعد ذٰلِکَ الْکِتابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًیِ لِّلْمُتَّقِیْنِکا جملہ تھا اس کے بعد آل عمران میں الٓمّٓ آیا جس کے بعد اَللّٰہُ الَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ القَیُوْمُ نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ الحَقِّ آیا یاد رکھنا چاہیے کہ حقّ اور لَارَیْبَ کے دراصل ایک ہی معنے ہیں پس بقرہ میں بھی الٓمّٓ کے بعد ایسی کتاب کا ذکر تھا جس میں ریب نہ ہو اور اس جگہ بھی پھر اعراف میں الٓمّٓصٓ آیا اور اس کے بعد کِتَابٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَایَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْنِدَبِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ کی آیت رکھی گئی گویا یہاں بھی لَا رَیْبَ فِیْہِ والی کتاب کا ذکر ہوا ہے کیونکہ فَلَایَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ ایسی ہی کتاب پر دلالت کرتا ہے جو لَا رَیْبَ فِیْہِ کی صفت سے متصف ہو۔ ان ابتدائی سورتوں کے بعد وقفہ دے کر عنکبوت الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے فرماتا ہے الٓمّٓ o اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَ کُوْٓ اَنْ یَّقُوْ لُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ مَّتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنْ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَ قُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَo ان آیات میں بھی ایک یقینی کتاب کا ذکر کیا گیا ہے چنانچہ امتحان شک اور ریب کے دُور کرنے پر ہی دلالت کرتا ہے۔ پس اس سورۃ میں بھی وہی مضمون ہے جو سورۃ بقرہ وغیرہ میں تھا صرف فرق یہ ہے کہ بقرہ میں انسان بحیثیت مجموعی مخاطب تھے اور یہاں مومنوں سے کہا گیا ہے کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ابھی شک تمہارے دلوں میں باقی ہو اور ہم تم سے معاملہ کا ملین والا شروع کر دیں۔ سورۂ روم میں بھی یہی مصمون ہے گو بہت باریک ہو گیا ہے فرماتا ہے الٓمّٓ o غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَo خدا تعالیٰ کا کلام روم کے متعلق نازل ہوا ہے اور وہ ضرور پُورا کر رہے گا گویا بجائے سب کتاب کی طرف اشارہ کرنے کے ایک خاص حصّہ کی طرف اشارہ اور اس کے یقینی ہونے پر زور دیا ہے جیسا کہ مِنْ اور س کے حروف سے ظاہر ہے۔
سورۂ روم کے بعد سورۂ لقمان الٓمّٓ o تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ oھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَo الَِذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَo اُولٰٓکَ عَلیٰ ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ اُولٰٓکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنo اس سورۃ میں بھی حَکِیْم کا لفظ استعمال کر کے ایک یقینی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور گویا بقرہ کے ابتدائی مضمون کو دُہرا دیا گیا ہے اور اس کے بعد سورہ سجدہ ہے اس میں آتا ہے الٓمّٓ o تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ َلارَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَo یہاں بھی ایک بے ریب کتاب کا ذکر ہے پس ان سب آیات سے ظاہر ہے کہ جہاں الٓمّٓ آتا ہے اس کے بعد ایک خاص مضمون آتا ہے اور ایک یقینی علم کے نزول کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اب اس امر کی موجودگی میں کس طرح سمجھ لیا جائے کہ یہ الفاظ یونہی رکھ دیئے گئے ہیں۔ پس حق یہی ہے کہ الٓمّٓ کے حروف ازالہ شک اور یقین پر دلالت کرنے کے لئے آتے ہیں اور وہ چیز جس سے شک دُور ہوتا ہے اور یقین پیدا ہوتا ہے کامل علم ہی ہوتا ہے پس الٓمّٓ کے معنی یہی ہیں اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ میں اللہ ہوں جو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں پس اگر شک کو دُور کرنا اور یقین حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے کلام کی طرف توجہ کرو اور میری کتاب کو پڑھو۔
اب میں الٓرٰ کو لیتا ہوں ان حروف سے جو سورتیں شروع ہوتی ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو وہ بھی ایک ہی مضمون سے شروع ہوتی ہیں سورۂ یونس میں آتا ہے الٓرٰٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتّبِ الْحَکِیْمِo اَکَانَ للِنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَٓا اِلیٰ رَجُلٍ مِّنْہُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْط قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا الَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ o پھر سورۂ ہود میں آتا ہے۔ الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍہ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَط اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌo وَّاَنِ اسْتَغْفِرُ وْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا اِلیٰٓ اَجَلٍ مُّسَمًّی وُّ یُؤْتُ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗط وِانِْ تَوّلَّوْا فَاِنِیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍہo پھر سورۂ یوسف میں آتا ہے الٰٓرٰقف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُعِیْنِ o اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ o نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَٓا اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَق وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ پھر سورۂ رعد میں آتا ہے الٓمّٓ قف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِط وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایُؤْمِنُوْنَo اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَط کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّیط یُدَبِّرُالْاَ مْرَیُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَآئِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَo یہاں میم کا بھی اور راء کا بھی مضمون آ گیا۔ پھر سورۂ ابراہیم میں آتا ہے الٓرٰقف کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّہِمْ اِلیٰ صِرَاطِ الْعَزِیْزَ الْحَمِیْدِo اللّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِط وَ وَیْلٌ لِّلْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدٍo پھر سورہ حجر میں آتا ہے الٓرٰقف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ o رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْکَا لُوْا مُسْلِمِیْنَo… وَمَٓا اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا وَلَھَا کِتَابٌ مَّعْلُوْمٌo مَاتَسْبِقُ مِنْ اُمَّۃٍ اَجَلَھَا وَمَا یَسْتَاْ خِرُوْنَ۵ ان سب مقامات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دو مضامین پر زور دیا گیا ہے ایک پُرانی تاریخ پر جس میں سے خاص طو رپر شریروں کو سزا ملنے کے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے اور دوسرے پیدائش عالم کے مضمون پر۔ سورۂ یونس میں استفہام انکاری کے استعمال سے بتایا گیا ہے کہ نذیر و بشیر انبیاء ہمیشہ ہی آتے رہے ہیں۔ سورۂ ہود میں اوّل تو یہ قاعدہ بتایا ہے کہ کوئی قوم ایک ہی حالت پر قائم نہیں رہتی بلکہ ایک دائرہ کے اندر چکر لگاتی ہے او رپیدائش عالم کا ذکر کر کے بتایا کہ دُنیا کی ترقی قانونِ ارتقاء کے ماتحت ہے اس کے بعد سورۂ یوسف میں صاف الفاظ میں تاریخ عالم کی طرف اشارہ کیا ہے سورۂ رعد میں چونکہ میم زائد تھا اس میں الٓمّٓ اور الٓرٰ دو مضمونوں کو جمع کر دیا اور پہلے تو میم کی مناسبت سے ایک یقینی کلام کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے بعد پیدائشِ عالم کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائل ہے سورۂ ابراہیم میں پھر قانونِ قدرت کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ اسے دیکھو اس میں تمہیں ایک بیدار آقا کا ہاتھ نظر آئیگا سورۂ حجر میں پھر پچھلی تاریخ کی طرف توجہ دلائل ہے یہ امر ظاہر ہے کہ واقعات اور قانون کا تعلق دیکھنے سے ہے حقیقت تک وہی پہنچ سکتا ہے جس کی آنکھو ںکے سامنے واقعات ہوںیا جس کی آنکھوں کے سامنے کوئی قانون ظاہر ہو رہا پس ان سورتوں کا رویت کے ساتھ تعلق ہے اور الٓرٰ میں یہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ میں اللہ دیکھتا ہوں نہ ت وپُرانی تاریخ میری نظر سے پوشیدہ ہے اور نہ قانونِ قدرت کا اجراء یا پیدائش عالم میری نگاہ سے مخفی ہے پس رویت سے تعلق رکھنے والے اُمور میں میری ہی ہدایت کافی ہو سکتی ہے۔
ایک اور بات بھی حروف مقطعات کے متعلق یاد رکھنی چاہیئے کہ گو حروف مقطعات کے مضامین حروف کے اختلاف سے بدلتے رہتے ہیں لیکن ایک امر میں یہ سب حروف مشترک ہیں اور وہ یہ کہ جو سورتیں حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں ان کے مضمون کی ابتداء وحی الٰہی کے ذکر سے ہوتی ہے۔ اکثر میں تو صاف الفاظ میں کتاب یا قرآن کا لفظ ہی استعمال ۂوا ہے اور چند ایک میں کسی پرانی کتاب کی طرف اشارہ ہے جیسا سورۂ مریم میں یا کسی خاص کلام کی طرف اشارہ ہے جیسا سورۂ روم میں (یہ نوٹ جلد ۳ میں سورۂ یونس کی تفسیر میں چھپ چکا ہے لیکن چونکہ حالات کی مجبوری سے پہلی جلد بعد میں چھپ رہی ہے اس نوٹ کو سورۂ بقرہ میں درج کرنا پڑا۔ تاکہ شروع سے تفسیر پڑھنے والے پر بھی حروف مقطعات کی حقیقت واضح ہو جائے)
یہ دو معنے جو اوپر کئے گئے ہیں یعنی (۱) حروف مقطعات صفات الٰہیہ پر دلالت کرتے ہیں اور ہر حرف کسی ایسی صفت پر دلالت کرتا ہے جس کا ذکر اس سورۃ میں پایا جاتا ہے (۲) ان حروف سے اشارہ حروف کی عدوی قیمت کی طرف ہے اور جس قدرعہ دان حروف سے نکلتے ہیں اس قدر زمانہ کے حالات پر ان کے خاص طور پر روشنی پڑتی ہے دونو ںہی درست ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ایک کو درست اور دوسرے کو غلط کہا جائے اور اس بارہ میں ابتداء اسلام کے بعض آئمہ بھی مجھ سے متفق ہیں چنانچہ ابن ابی حاتم نے ابو جعفر رازی کی روایت سے ابو العالیہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے ایک حصّہ کا ترجمہ یہ ہے ’’ان حروف میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں (یعنی ال م اور دوسرے مقطعات میں سے) جو اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی گنجی نہ ہو اور نہ ان میں سے کوئی حرف ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتو ںمیں سے نہ ہو اور اس کی روشنی سے حاصل نہ ۂوا ہو اور ان میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں جو بعض اقوام کی تاریخ اور ان کے زمانہ پر دلالت نہ کرتا ہو‘‘ یعنی ان حروف سے یہ تینو ںمعنے بیک وقت ظاہر ہوتے ہیں ان سے صفات الٰہیہ پر بھی دلالت کی گئی ہے اور مختلف زمانوں کے بارہ میں پیشگوئی بھی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے معجزانہ کلام کا نمونہ بھی دکھایا گیا ہے اور ابو العالیہ کا یہ خیال نہایت درست اورمطابق حقیقت ہے۔ ابن جریر نے بھی اس روایت کو دوسرے لفظوں میں نقل کیا ہے اور اس کے مضمون کی تصدیق کی ہے۔
حروف مقطعات کی نسبت یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس غیر معمولی طریق کو قرآن کریم نے کیوں استعمال کیا کیوں نہ یہی مضمون سیدھی سادھی عبارت میں بیان کر دیا۔ تاکہ اوّل عربوں پر او ربعد میں دوسرے لوگوں پر اس کا سمجھنا آسان ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غیر معمولی طریق نہیں بلکہ عربوں میں یہ طریق کلامِ رائج تھا اور ان کے بڑے بڑے شاعر بھی اسے استعمال کرتے تھے اور نثر میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ع قُلْنَا قِفِیْ لَنَا فَقَالَتْ قاف ہم نے اس سے کہا کہ تو ذرا ہماری خاطر ٹھہر جا تو اس نے جواب میں قاف کہا یعنی وقَفْتُ لو میں کھڑی ہو گئی ہوں۔ اسی طرح ایک دوسرا شاعر کہتا ہے۔
بِالْخَیْرِ خَیْرَاتٌ وَاِنْ شرًا فَا
وَلَا اُرِیْدُ الشَّرَّ اِلاَّ اَنْ تَا
یعنی نیکی کے بدلہ میں نیکی کرونگا۔ لیکن اگر تیرا ارادہ بدی کرنیکا ہو تو میں اس کیلئے بھی تیار ہو ںاور میں بدی کا ارادہ نہیں رکھتا سوائْ اس کے کہ تیرا ارادہ ہو۔ اس شعر میں فَشَرٌّ کی جگہ صرف حرف فا استعمال کیا گیا ہے اور تَشَائُ یعنی تو چاہے کی جگہ صرف حرفِ تا استعمال کیا گیا ہے۔
آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی ہے کہ ’’مَنْ اَعَانَ علی قَتْلٍ مُؤْمنٍ بِشَطرِ کلمۃٍ لقی اللّٰہ عَزَّوجلَّ مکتوبٌ بَیْنَ عینیہ آیَسَ مِنْ رحمۃِ اللّٰہِ‘‘ (ابن ماجہ ابواب الدیات) یعنی جو شخص کسی مسلمان کے قتل میں ایک لفظ کا حصّہ استعمال کرتے (یعنی اُقْتُلْ کی جگہ اُقْ کہہ دے) تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں اُٹھے گا کہ اس کے ماتھے کے درمیان یہ لکھا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو گیا۔ پس عرب میں نظم و نثر میں جب قرینہ موجود ہو الفاظ کی جگہ حروف استعمال ہوتے تھے اور اس اسلوب کلام کا ایک لطیف نمونہ حروف مقطعات کے ذریعہ سے قرآن کریم نے دکھایا ہے۔ آج کل یورپ نے تو اس اسلوب کو بیحد استعمال کیا ہے ایم اے۔ بی اے۔ بی ٹی۔ ایم ڈی وغیرہ سینکڑوں ہزاروں حروف الفاظ کے قائم مقام استعمال ہو رہے ہیں۔ اور لوگ ان کے فائدہ کو سمجھتے ہیں۔
۱؎ حل لغات
ذٰلکت۔ اسم اشارہ ہے اور اشارہ بصید کے لئے آتا ہے جس کا ترجمہ اردو میں وہ ہے لیکن کبھی ھذا کے معنوں میں یعنی قریب کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے چنانچہ زجاج کا قول ہے ذٰلِکَ الْکِتٰبُ اَیْ ھٰذَا الْکِتٰبُ یعنی ذٰلِکَ الُکِتٰبُ کے معنی ہیں یہ کتاب (تاج العروس) لیکن ذٰلِکَ کو اشارہ بعید کے لوے تصور کرتے ہوئے بھی فٰلِکَ کے معنی یہ کے کئے جا سکتے ہیں کیونکہ کبھی قریب کی چیز کے لئے نہیں بلکہ اس کی شان کی بلندی کے اظہار کے لئے بھی استعمال کر دیا جاتا ہے (فتح البیان)
الکتٰبُ ۔ ال اور کتاب کا مجموعہ ہے اور معنوں کے علاوہ ال حرف تعریف بھی ہے اس صورت میں یہ کبھی عہد کے لئے ہوتا ہے اور کبھی جنس کے لئے جب عہد کے لئے ہو تو کبھی ذکری ہوتا ہے اور کبھی ذہنی اور کبھی حضور یعنی جس لفظ پر ال آئے کبھی تو اس سے یہ بتانا مقصصود ہوتا ہے کہ یہ وہی امر ہے جس کا ذکر کر آئے ہیں اور کبھی یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ ہماری مُراد اس چیز سے ہے جو ہم اور تم دونوں اپنے دلوں میں جانتے ہیں اور کبھی یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ جو سامنے چیز پڑی ہے میں اسی کا ذکر کر رہا ہوں۔ اور جب جنسی ہو تو استغراقی ہوتا ہے یعنی اس سے یہ مُراد ہوتی ہے کہ اس جنس کے سب افراد اس لفظ میں شامل ہیں۔ استغراقی آگے کبھی حقیقی ہوتا ہے جیسے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً۔ انسان ضعیف ہی پیدا کئے گئے ہیں اور کبھی مجازی۔ مجازی کی صورت میں ال لا کر یہ بتایا جاتا ہے کہ کامل فرد یہی ہے ورنہ حقیقتہً اس قسم کے اور افراد بھی موجود ہوتے ہیں اس کی مثال اَنْتَ الہَّجُل ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ بس تُو ہی مرد ہے باقی سب عورتیں ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ مرد کے کمالات کو اگر دیکھا جائے تو اس کی مکمل تعریف تجھ پر ہی صادق آتی ہے باقی مردوں میں کچھ نہ کچھ نقص ہیں استغراقی کے علاوہ جنسی ال تعریف حقیقت بیان کرنے کے لئے بھی آتا ہے جیسے اَلْاِنْسَانُ اَفْضَلُ مِنَ الْحَیَوَانِ انسان اپنی حقیقت کے لحاظ سے حیوان سے بہتر ہے۔ (اقرب)
کتابٌ۔ کتاب۔ کَتَبَ کا مصدر ہے اور اسی لحاظ سے ہر اس چیز کا نام کتاب رکھا گیا ہے جس میں مختلف مسائل کو فصل باب کے ساتھ لکھ دیا جائے تو رات کو بھی انہی معنوں میں کتاب کہتے ہیں اور ہر لکھی ہوئی تصنیف کو بھی کتاب کہتے ہیں اور کتاب کے معنی فرض کے بھی ہیں اور حکم کے بھی اور قضاء آسمانی کے بھی۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کو بھی کتاب کہتے ہیں اور خط کو بھی کتاب کہتے ہیں (اقرب)
پس اس لفظ کے اپنے اپنے محل پر مختلف معنی ہونگے کبھی فروض و احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت والی وحی کو کتاب کہیں گے اور کبھی صرف الہام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہرقطعی اور یقینی وحی کو کتاب کہیں گے خواہ کتابی صورت میں جمع کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔
ریبٌ۔ الظِّنَّۃُ وَالتُّھْمَۃ۔ تخمین سے بلا دلیل کوئی بات کہنا یا محض وہم سے کسی پر الزام لگانا اور اس کی سچائی میں شبہ کرنا۔ الشَّکٌ۔ شک۔ الَحْاَجَۃُ۔ مکی۔ ضرورت اور رَیْبُ الْمَنُوْنِ کے معنے ہیں زمانہ کے مصائب آفات (اقرب)
ریب کا لفظ قرآن کریم میں اور کئی جگہ استعمال ہوا ہے مثلاً اسی سورۃ میں فرماتا ہے وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاْتُوْ بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (بقرہ ع) اس جگہ مراد صداقت میں شبہ کے ہیں۔ اسی طرح سورۂ حج میں ہے یٰٓا اَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ (الحج عٰ) اس جگہ بھی بعث بعد الموت کی صداقت میں شک و شبہ کرنے کے معنے ہیں پھر سورۂ طور میں ہے اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَتَوَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ (الطور ع) یعنی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے جس کے متعلق ہم انتظار کر رہے ہیں کہ زمانہ کے مصائب آخر اسے ہلاک کر دینگے۔ اس جگہ ریب مضائب دہر اور ہلاکت کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔
قرآن کریم میں ریب کا لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً فرماتا ہے۔ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبٍ (ق ع ۲) نیکی سے بہت روکنے والا۔ حد سے بڑھنے والا۔ شک و شبہ کا شکار دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ اسی طرح سورۂ مومن میں آتا ہے کَذٰ لِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ھُوَ سُرِفٌ مُّرْتَابٌ (المومن ع ۴) یعنی اللہ تعالیٰ اسی طرح گمراہ قرار دیتا ہے یا ہلاک کرتا ہے اسے جو حد سے بڑھنے والا یا اپنے عقیدہ اور خیالات کی بنیاد غیر معقول شبہات و و ساوس پر رکھنے والا ہو۔ پس ریب اس شک کو نہیں کہتے جو علم کی زیادتی کا موجوب ہوتا ہو اور تحقیق میں حمد ہو بلکہ اس شک کو کہتے ہیں جو تعصب یا بدظنی کی وجہ سے ہو اور سچائی سے محروم کر دے چنانچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المدثر ع ۱) ہم نے یہ (مذکورہ بالا) کام اس لئے کیا ہے کہ تا اہل کتاب اور مومن ریب میں نہ پڑیں گویا مومن ریب میں نہیں پڑتا اور اللہ تعالیٰ مومن کو ریب سے بچاتا ہے حدیث میں آتا ہے دَعْ مَایُرِ یْبُکَ الیٰ مالا یَرِیْبُکَ (ترمذی مطبوعہ مطبع مجتبائی جلد دوم صفحہ ۷۴ ابواب صفۃ القیامۃ) یعنی جو چیز تیرے دل میں قلق اور وسوسہ پیدا کرے اسے چھوڑ دے اور اس چیز کو اختیار کر جس کے بارہ میں وسوسہ نہ ہو۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ریب اس شک کو کہتے ہیں جس کی بنیاد وسوسہ اور وہم پر ہو اور اس شک کو نہیں کہتے جو تحقیق و تدقیق کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
ھُدًی۔ الرَّشَادُ۔ سیدھے راستہ پر ہونا۔ اَلْبیَانُ بیان کرنا۔ الدَّ لَالَۃٌ۔ کسی امر کی طرف رہبری کرنا (اقرب) الھدایتہ الدَّلَالَۃُ بلُطْفٍ یعنی ہدایت (جو ھدًی کالم معنی دوسرا مصدر ہی) کے معنی محبت اور نرمی سے کسی امر کی طرف رہبری کرنے کے ہیں (مفردات) امام راغب کے نزدیک ہدایت کا لفظ قرآن کریم میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں آتا ہے (۱) ہر عقل یا سمجھ یا ضروری جزوی ادراک کی طاقت رکھنے والی شے (جیسے حیوانات وغیرہ کہ ادراک کامل ان کو حاصل نہیں ہوتا صرف جزوی یا سطحی ادراک ایسے ضروری امو رکا جو ان کی حیات اور محدود عمل تعلق رکھتے ہیں ان کو حاصل ہوتا ہے) کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام کا طریق بتانا۔ اس کی مثال قرآن کریم میں یہ ہے رَبُّناَ الَّذِیْٓ اَعطیٰ کُلَّ شَیًْ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی (طہٰ ع ۲) یعنی ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی عقل یا سمجھ یا اس کے ضروری تقاضوں کے مطابق اسے رہنمائی کی (میرے نزدیک اس جگہ ھَدٰی کے معنے یہ ہیں کہ ہر شے میں مناسب قوتیں پیدا کر کے پھر انہیں کام پر لگا دیا کیونکہ صرف قوتوں کا موجود ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں ابتدائی حرکت دیکر کام پر لگانا ان کی حیات کے شروع کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے بچہ پیدا ہوتا ہے تو گو پیدائش سے پہلے آلات تنفس کامل طور پر موجود ہوتے ہیں مگر باہر نکلنے کے بعد جب تنفس کے آلات کو ہوا لگنے یا پانی کا چھینٹا دینے سے ان میں حرکت پیدا ہوتی ہے بچہ کی عملی زندگی در حقیقت اسی وقت سے شروع ہوتی ہے جس طرح ایک گھڑی کے اندر سب ہی پُرزے موجود ہوتے ہیں مگر جب تک اسے کنجی دے کر حرکت نہ دی جائے پُرزے سے کام کرنا شروع نہیں کرتے غرض حیات کو شروع کرنے سے پہلے ایک ابتدائی دھکے کی ہر شے کو ضرورت ہوتی ہے اور ہدایت سے مُراد وہی حرکت اُولیٰ ہے اور اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو مناسب قویٰ کے ساتھ پیدا کیا ہے او رپھر حرکت اولی دیکر اسے مفوضہ کام پر لگا دیا ہے) علامہ راغب کے نزدیک ہدایت کے دوسرے معنے اس ارشاد کے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے بندوں تک پہنچاتا ہے اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا (سجدہ ع ۳) ہم نے بنی اسرائیل میں سے ایسے امام مقرر کئے جو ہمارے الہام سے لوگوں کو ہماری طرف بلاتے تھے۔ ہدایت کے تیسرے معنے ان کے نزدیک اس توفیق کے ہیں جو ہدایت پانے والوں کو ملتی ہے یعنی ہدایت ملنے کے بعد جو عمل کی توفیق یا فکر کی بلندی پیدا ہوتی ہے یا مزید ہدایت کے حصول کی خواہش پیدا ہوتی ہے وہ بھی ہدایت کہلاتی ہے اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے اَلَّذِیْنَ اھْتَدَ وَزْاَدَھُمْ ھُدًی (محمدؐ ع ۲) جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیتا ہے (یعنی عمل کی توفیق اور ہدایت کے سلسلہ میں مزید فکر کرکے اور علوم حاصل کرنے کا موقعہ عطا کرتا ہے) چوتھے معنی ہدایت کے انجام بخیر کے اور جنت کو پالینے کے ہیں اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے سَیَھْدِ یْھِمْ وَیُصْلِحُ بَالَھُمْ (محمدؐ ع ۱) اللہ تعالیٰ ان کا ا نجام بخیر کر کے انہیں جنت تک پہنچا دے گا اور ان کے حالات کو درست کر دے گا اور قرآن کریم میں جہاں یہ آات ہے یَھْدُوْنَ بَاَمْرِنَا (انبیاء ع ۵) وہ ہمارے حکم کے مطابق ہدایت دیتے تھے یالِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (رعد ع ۱) ہر قوم میں ہادی آیا ہے اس جگہ ہدایت سے مُراد لوگو ںکو ہدایت کی دعوت دینے کے ہیں اور ایسی آیات جیسے کہ اِنَّکَ لَاتَھْدِیْ مَنْ اَجْنَبْتَ اور ایسی آیات جن میں یہ ذکر ہے کہ کافروں اور ظالموں کو ہدایت نہیں مل سکتی۔ اس سے مُراد تیسیر اور چوتھی قسم کی ہدایتیں ہیں یعنی ہدایت پا جانے کے بعد توفیق عمل کا ملنا یا نور ایمان کا عطا ہونا یا جنت میں داخلہ کی نعمت کا حصول۔ پس ان آیات کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ کفار کو مذکور بالا انعامات نہیں مل سکتے (اور یہ ظاہر ہے کہ جو دوسری قسم کی ہدایت یعنی دعوت انبیاء کو قبول نہیں کرتا۔ وہ تیسری اور چوتھی قسم کی ہدایتوں کو جو دوسری قسم کی ہدایتوں کے نتائج ہیں حاصل نہیں کر سکتا) (مذکورہ بالا تمام مضمون سوائے ان عبارتوں کے جو خطوط و حدانی میں ہیں عربی کی مشہور لغت کی کتاب مفردات راغب سے لیاگیا ہے)
المُتَّقِیْن۔ متقی کی جمع ہے جو اِتَّقَی کا اسم فاعل ہے۔ اتقاء وقی سے باب افتعال کا فعل ماضی ہے وقی کے معنے ہیں بچایا حفاظت کی۔ اور اِتَّقَی کے معنے ہیں۔ بچا۔ اپنی حفاظت کی (اقرب) مگر اس لفظ کا استعمال دینی کتب کے محاورہ میں معصیت اور بُری اشیاء سے بچے کے ہیں اور خالی ڈر کے معنو ںمیں یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ وقایۃ کے معنی ڈھال یا اس ذریعہ کے ہیں جس سے انسان پنے بچائو کا سامان کرتا ہے بعض نے کہا ہے کہ اتقاء جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے تو انہی معنوں میں آتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنا نجات کے لئے بطور ڈھال بنا لیا۔
قرآن کریم میں تقویٰ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بارہ میں حضرت ابرہریرہؓ سے کسی نے پوچھا تو انہو ںنے جواب دیا کہ کانٹوں والی جگہ پر سے گزرو تو کیا کرتے ہو اس نے کہا یا اس سے پہلو بچا کر چلا جاتا ہوں یا اس سے پیچھے رہ جاتا ہوں یا آگے نکل جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بس اسی کا نام تقویٰ ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مقام پر کھڑا نہ ہو اور ہر طرح اس جگہ سے بچنے کی کوشش کرے ایک شاعر (ابن المعتنر) نے ان معنوں کو لطیف اشعار میں نظم کر دیا ہے وہ کہتے ہیں۔
خَلً الذّنُوْبَ صغیرَھاو٭ کبیرَھا ذاکَ التُّقٰی وَاصنَعْ کَماشٍ فَوْقَ٭ ضِ الشَّوْکِ یَحذ رُمَایرَیٰ لَاتَحْقَرَنَّ صغیرۃً٭ اِنَّ الجبالَ مِنّ الْحَصٰی (ابن کثیر) یعنی گناہوں کو چھوڑ دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے یہ تقویٰ ہے اور تو اس طریق کو اختیار کر جو کانٹوں والی زمین پر چلنے والا اختیار کرتا ہے یعنی وہ کانٹوں سے خوب بچتا ہے۔ اور تو چھوٹے گناہ کو حقیر نہ سمجھ کیونکہ پہاڑ کنکروں سے ہی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
تفسیر۔ ذٰلِکَ الْکِتَابُ۔ اس کے متعلق اعتراض کیا گیا ہے کہ ذالک تو اشارہ بعید کے لئے ہے پھر اس لفظ کو اس جگہ کیوں استعمال کیا گیا ہے بعض علماء نیپ اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ اشارہ قریب کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے (زجاج دیکھو حل لغات) بعض نے کہا ہے کہ گو اشارہ بعید کے لئے بھی ہے لیکن جب کسی چیز کا ذکر ختم ہو جائے تو وہ بھی بعید کے حکم میں ہوتی ہے چنانچہ عام طور پر گفتگو میں جس امر کا ذکر ہو چکا ہے اس کے بارہ میں ذٰلِکَ کہہ کر اشارہ کر دیتے ہیں چنانچہ عرب اپنی بات ختم کر کے کہتے ہیں ذَالِکَ مَالَا شَکَّ فِیْہِ اور ذٰلِکَ سے مُراد وہ بات ہوتی ہے جو اس نے ختم کی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے۔ لَافَارِضٌ وَّلا بِکُرٌ عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِکَ (بقرہ ع ۸) اس جگہ ذَلِکَ سے مُراد فارض اور بکر ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے پھر فرماتا ہے ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلُّمَنِیْ رَبِّیْ (یوسف ع ۵) اس جگہ بھی جو بات اوپر کہی ہے اس کی طرف ذٰلِکَ سے اشارہ کیا ہے (کشاف) ان آیتوں کے علاوہ اور آیات بھی قرآن کریم میں ہیں مثلا ذٰلِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ (سجدہ ع ۱) تِلْکَ حُجَّتُنَٓا اٰتَیْنَا ھَآ اِبْرَاھِیْمَ (انعام ع ۱۰) قران کریم میں دوسری جگہ ذٰلِکَ الْکِتَابُ کی جگہ ھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَالْنَاہُ مُبَارَکٌ بھی آیا ہے۔
غرض اوّل ذٰلِکَ عرب کے محاورہ کے مطابق ھٰذَا کے معنوں میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ دوم ضروری نہیں کہ جس چیز کے بارہ میں ذٰلِکَ آئے وہ دُور ہو۔ اگر ذہنی طور دُور ہو یعنی اس کا ذکر ختم ہو چکا ہو تو اس کے لئے بھی ذٰلِکَ کالفظ استعمال کر لیا جاتا ہے۔
اس تشریح کے ماتحت ذٰلِکَ الْکِتَابُ کے کئی معنے ہو سکتے ہیں (۱) یہ وہ کتاب ہے (۲) وہ یہ کتاب ہے (۳) یہی کامل کتاب ہے (۴) وہی کامل کتاب ہے۔
مذکورہ بالا معانی اس صورت میں ہیں کہ ذٰلِکَ مبتدا ہو اور اَلْکِتاب خبر۔ لیکن ایک صورت یہ بھی ہے کہ ذٰلِکَ کو مبتدا اور الکتاب کو عطف بیان اور لَارَیْبَ فِیْہِ کو اس کی خبر سمجھا جائے اس صورت میں اس کے معنی یُوں ہونگے (۱) یہ یعنی کامل کتاب اپنے اندر کوئی ریب کی بات نہیں رکھتی (۲) وہ کامل کتاب (یعنے ہدایت انبیاء) اپنے اندر کوئی ریب کی بات نہیں رکھتی۔
لغوی معنے بیان کرنے کے بعد اب میں تفسیری معنی بیان کرتا ہوں (۱) جن لوگوں نے الٓمّٓ کو سورۃ کا نام قرار دیا ہے انہوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ الٓمّٓ یہ کتاب ہے یعنے الٓمّٓ نام ہے اس سورۃ کا۔ یا یہ معنے کئے ہیں کہ الٓمّٓ ایک کامل کتاب ہے (۲) جنہوں نے ذٰلِکَ کا استعمال قرآن کریم کی عظمت شان کی وجہ سے قرار دیا ہے انہوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ عظیم الشان کلام وہ کتاب ہے جس کی تعریف صحفِ موسیٰ اور دوسری کتب میں آ چکی ہے (۳) بعض نے اشارۂ بعید لے کر یہ معنی کئے ہیں کے لوحِ محفوظ میں جو کتاب ہے وہ یہی ہے یعنے قرآن کریم۔ مگر یہ معنے بہت بعید ہیں اور الفاظ قرآنی ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس رنگ میں بعض قرآنی ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس رنگ میں بعض اور معنے بھی مفسّرین نے کئے ہیں مگر وہ سب کے سب اسی طرح بعد از قیاس ہیں اور ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ میرے نزدیک ان تینوں قسم کے معنوں میں سے دوسرے معنے ہی ایسے ہیں جو الفاظ قرآنیہ کے مطابق ہیں۔ کیونکہ مشہور عام بات کی طرف اس طرح اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ پہلے ادیان کے لوگ ایک کتاب کے منتظر تھے۔ انہیں مخابط کر کے قرآن شریف کے شروع میں کہا جا سکتا تھا کہ جس کتاب کے تم منتظر ہو یہ وہی کتاب ہے۔ مگر میرے نزدیک زیادہ صحیح معنے جو الفاظ قرآنیہ کے بالکل مطابق ہیں۔ دو ہیں۔
۱۔ یہی کامل کتاب ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں زَیْدُنِ الْعَادلُ زید ہی عادل ہے ہے اسی طرح یہ جملہ ہے ذٰلِکَ الْکِتَابُ کتاب کہلانے کی مستحق تو یہی کتاب ہے یعنی اَلْ جنسی استغراقی مجازی ہے ان معنوں کی رو سے کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ نہیں نکالنا پڑتا جس کا ذکر اس جگہ نہیں ہے اور یہ معنے مناسب موقع بھی ہیں۔ ایک الہامی کتاب جو دوسری کتب کی موجودگی میں اپنے آپ کو پیش کرے اسے ابتداء کلام میں ایسا ہی دعویٰ پیش کرنا چاہیئے کیونکہ لوگوں کے دلوں میں طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری کتب کی موجودگی میں یہ نئی کتاب کیوں پیش کی جاتی ہے۔ اس فطرقی سوال کے جواب میں قرآن کریم کے شروع میں ہی یہ الفاظ رکھ دیئے گئے کہ یہی کامل کتاب ہے اور متلاشیانِ حق کو بتلایا گیا کہ بیشک اس کے سوا اور کتب بھی موجود ہیں لیکن کتاب کا موجود ہونا اور شئے ہے اور اس کا انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنا اور شئے ہے۔ اگر کتاب کی غرض یہ ہے کہ انسان کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرے تو پھر صرف یہی کتاب اس غرض کو پورا کرتی ہے اس لئے دوسری کتب کی موجودگی میں بھی اس کی ضرورت ہے۔
الٓمّٓ کے حروف کو جن کے معنے اوپر بتائے جا چکے ہیں مدِّنظر رکھتے ہوئے بھی یہی معنے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں کے الفاظ اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ میرا علم جب اور جو تعلیم دُنیا کو دے وہی اس زمانہ کے لحاظ سے کامل اور مکمل تعلیم ہو سکتی ہے۔ نیز میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں ایک دعویٰ ہے جس کا ثبوت بھی چاہیئے اور اس کا سب سے بڑھ کر ثبوت یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی علمی چیز پیش کی جائے جو اپنی نظیر نہ رکھتی ہو پس الٓمّٓ کے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ذٰلِکَ الْکِتَابُ کے بہترین معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ یہی کامل کتاب ہے۔
جب ہم واقعات کو دیکھتے ہیں تو یہ دعویٰ قطعی طور پر ثابت ہے۔ بیشک قرآن کریم سے پہلے توریت انجیل و ید زند وغیرہ کتب موجود تھیں لیکن ان کی تعلیم اور قرآن کریم کی تعلیم کا مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ قرآن کی جامعیت کسی اور کتاب میں نہ ملیگی انجیل کا سب سے بڑا کمال محبت الہی پر زور ہے قرآن کریم میں وہ سب تعلیم موجود ہے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ توریت کا فخر جامع شریعت پر ہے لیکن شریعت کی جامعیت میں قرآن کریم کے آگے وہ بھی خم کھاتی ہے حالانکہ حجم میں قرآن کریم دو نوکتب سے چھوٹا ہے قرآن کریم کی یہ جامعیت ایسی کامل ہے کہ ایک مسلمان کے نزدیک شریعت کا مفہوم ہی دوسروں سے جداگانہ ہو گیا ہے۔ جب ایک مسلمان شریعت کا لفظ بولتا ہے تو فوراً اس کا ذہن اس طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ اس میں والدین اور اولاد کے تعلقات میاں بیوی کے تعلقات۔ شادی اور اس کے اغراض کے متعلق میاں بیوی کے فرائض کے متعلق۔ میاں بیوی کے انتخاب کے متعلق۔ وراثت کے متعلق۔ وصیت کے متعلق۔ ہمسایہ اور اہلِ محلہ کے متعلق تجارت اور زراعت کے متعلق۔ حاکم و محکوم کے تعلقات اور ذمہ داریوں اور حکومت کی نوعیت کے متعلق۔ مزدوروں اور مزدور رکھنے والوں کے متعلق۔ حکومتوں کے باہمی تعلقات کے متعلق۔ اقتصادی مسائل کی بنیادوں کے متعلق۔ انسانوں اور جانوروں کے متعلق۔ اور سب سے آخر میں لیکن سب سے مقدم یہ کہ اللہ اور بندہ اور اس کے رسولوں کے متعلق تفصیلی اور مکمل احکام ان کی حکمتوں سمیت بیان کئے گئے ہونگے یہ سب مسائل اور ان کے علاوہ اور بہت سے اپنی حکمتو ںسمیت قرآن کریم میں بیان ہیں اور ان کا عشر عشیر بھی اور کسی کتاب میں موجود نہیں۔
ویدوں کو لو۔ تو اوّل عام ہندو ویدوں کو جانتا بھی نہیں اور جو تھوڑے سے جانتے ہیں ان میں سے اکثر انہیں بطور منتر جنتر استعمال کرت ہیں اور جو اسے سمجھتے ہیں ان کے نزدیک بھی اس کی بڑی خوبی دُعائیں اور انسانی پیدائش کے فلسفہ پر جو مکمل اور تفصیلی بحث قرآن کریم نے کی ہے اس کے مقابل میں ویدوں کی تعلیم بالکل ماند پڑ جاتی ہے قرآن کریم کی دُعائیں انسانی فطرت کی باریکیوں پر مشتمل ہیں وہ لفاظی سے پُر نہیں وہ انسان کی ضروریات کو پہلے ننگا کر کے دیکھاتی ہیں پھر انہیں قدو سیت اور پاکیزگی کی چادر اُڑھاتی ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم انسانی پیدائش کی ایسی تفصیلات بیان کرتا ہے جو استعاروں میں چھپ کر انسانی دماغ کو پریشان نہیں کر دیتیں بلکہ اسے مشاہدہ اور تجربہ کے میدان میں کھڑا کر کے اس کے ذہن کو صاف کرتیں اور اس کے فکر کو جلا بخشتی ہیں اسلام نے انسان کے انجام کو یعنے مابعد الموت کے مسئلہ کوجس طرح بیان کیا ہے اس کے مقابل پر سب کتب شکست خوردہ ہیں۔ توریت خاموش ہے انجیل بالکل نامکمل سا ذکر کرتی ہے۔ ویدوں میں مابعدالموت کا کوئی ذکر نہیں۔ زر تشت کی کتاب میں کچھ ذکر ہے مگر صرف استعارہ کے ھو رپر اور مادی الفاظ میں دیا ہوا۔ اس کے مقابل پر قرآن کریم تفصیلاً بتاتا ہے کہ نیک و بد کو کیا جزاء ملے گی اور کس طرح ملے گی اس کی کیا کیفیت ہو گی اور اس کی غرض کیا ہو گی۔ دوسری زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کے حصول کے لئے کس جدوجہد کی ضرورت ہے جزاء سزا کے اُصول کیا ہیں۔
پھر فلسفہ اخلاق ہے جس پر مذہب کی بنیاد ہے اور دُنیاوی امن و امان کے قیام کا انحصار ہے اس مضمون کو بھی دوسری کتب نے یا چھو انہیں یا صرف اس کے حوالی کو چھو کر چھوڑ دیا ہے بدُھ کی تعلیم میں بیشک جذبات پر بحث ہے مگر قرآن کریم کی تعلیم کے مقابل پر وہ بھی کچھ نہیں۔ قرآن کریم نہ صرف جذبات پر بحث کرتا ہے بلکہ وہ ان کے پیدا ہونے کی وجوہ اور ان کی ضرورت اور پھر ان کے صحیح طور پر اختیار کرنے کے ذرائع پر بھی روشنی ڈالتا ہے وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جذبات کب اور کس صورت میں نیک ہوتے ہیں اور کب اور کس صورت میں بد۔ پھر یہ بھی بتاتا ہے کہ جذبات کو نیک کس طرح طرح بنایا جا سکتا ہے او ربد ہونے سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے او رایسے اثرات سے کس طرح اپنے نفس کو بچایا جاس کتا ہے جو جذبات کو بدی کی رو میں بہا دیتے ہیں۔
بُدھ کی تعلیم میں یہ تو یہ کہا گیا ہے کہ تم خواہشات کو ترک کرو تو گناہ سے بچ جائو گے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کونسی باتیں ہیں جن سے بدی کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ کونسے ذرائع ہیں جن کی مدد سے ان کو روکا جا سکتا ہے مگر قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ گناہ کا منبع کہاں ہے اور پھر وہ اس منبع کو روکنے کی تدبیر بھی ہمیں بتاتا ہے۔
اور ان سب تفصیلات کے باوجود قرآن کریم سب کتب سے جو الہامی ہونے کی دعویدار ہیں چھوٹا ہے جس کی وجہ سے اس کا پڑھنا۔ سمجھنا او ریاد رکھنا بہت آسان ہے حتیٰ کہ ہزاروں لاکھوں اس کے حافظ دنیا میں موجود ہیں۔ پس قرآن کریم کے شروع ہی میں اس دعویٰ کو پیش کرنا کہ یہی کامل کتاب ہے ایک ایسا دعویٰ ہے جو ضرورت کے مطابق ہونے کے علاوہ نہایت مناسب موقعہ پر پیش کیا گیا ہے۔
۲۔ ان معنوں کے علاوہ ایک اور معنی بھی اس آیت کے ہیں اور وہ بھی سیاق و سباق کے عین مطابق ہیں اور وہ یہ کہ سورۂ بقرہ سے پہلے سورہ فاتحہ ہے اس سورۃ میں ایک دُعا سکھائی گئی تھی کہ خدایا! مجھے سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام نازل کیا ہے۔ اس دُعا کا جواب ان الفاظ میں دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن ہدایت کو تم نے سورۃ فاتحہ میں طلب کیا تھا وہ یہی کتاب یعنے قرآن کریم ہے اس طرح ذٰلِکَ اشارہ بعید کے معنے ہیں دیتا ہے اور کسی اور تاویل کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ معنی سکھائے تو میں بہت خوش ہوا مگر کچھ عرصہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے ان معنوں کی طرف کم سے کم ایک عالم اسلام سبقت کر چکا ہے اور ہو علامہ ابو حیان کے اُستاد ابن جعفر بن ابراہیم بن الزبیر ہیں جنکی طرف منسوب کر کے علامہ ابوحیان نے یہ معنی اپنی تفسیر میں لکھے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہایت لطیف معنی ہیں۔ ان معنوں سے سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے تعلق پر بھی روشنی پڑتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ کا ر کھا جانا یونہی نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس کے مضامین سورہ فاتحہ کے جواب میں ہیں اور ذٰلِکَ کے معرف معنی کو بھی نہیں چھوڑنا پڑتا۔
اس آیت کا آخری حصہ یعنے ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ان معنوں کی مزید تصدیق کرتا ہے۔ گویا اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے جس ہدایت کو تم نے طلب کیا تھا وہ یہی کتاب ہے اور تم نے چونکہ معوملی ہدایت طلب نہیں کی۔ بلکہ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ گروہ کی ہدایت طلب کی ہے اس لئے ہم تم کو بتاتے ہیں کہ یہ کتاب ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن ہے یعنی معمولی ہدایت نہیں دیتی بلکہ کامل متقی کو اور اوپر لے جا کر اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کے اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں شامل کر دیتی ہے اور تمام انبیاء کی تعلیموں اور ان کے حاصل کردہ انعامات کی جامع ہے۔
لَارَیْبَ فِیْہِ۔ ریب کے معنے بتائے جا چکے ہیں۔ کہ تہمت۔ شک۔ کمی۔ نقص اور آفت و مصیبت کے ہیں۔
یہ سب کے سب معنی اس آیت میں چسپان ہوتے ہیں اور قرآن کریم کے متعلق اس میں چار دیویٰ کئے گئے ہیں۔
(۱) اس میں کسی ہستی کی حق تلفی نہیں کی گئی اور کسی پر ناواجب الزام نہیں لگایا گیا۔ نہ خدا تعالیٰ پر اس میں تہمت لگائی گئی ہے اور نہ کسی نبی یا رسول پر نہ ملائکہ پر نہ بنی نوع انسان پر نہ انسانی فطرت پر۔ غرض کسی کی اس حق تلفی نہیں کی گئی۔ کسی پر اتہام نہیں لگایا گیا۔ یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ اس کی نظیر دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں ملتی اور یہ ایسی زبردست صداقت ہے جس کی مثال اور کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم کے شروع کرتے ہی یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ اس کتاب کی دوسری کتب کی موجودگی میں کیا ضرورت تھٖی اس سوال کا سہل ترین جواب یہ ہو سکتا تھا کہ پہلی کتب کی بعض مضحکہ خیز باتیں پیش کر دی جاتیں اور کہا جاتا کہ ان کتب میں فلاں فلاں عیوب ہیں اس لئے ان سے دُنیا ہدایت نہیں پا سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اُتارا ہے یہ جواب باوجود اس اذعا کے کہ قرآن کریم سب نبیونکی تعلیم کی طرف ہدایت دینے کے لئے نازل ہوا ہے درست ہوتا کیونکہ قرآن کریم گو اس امر کا مدعی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی آتے رہے ہیں او ران میں سے بعض کو شریعت بھی ملی ہے اس امر کو تسلیم نہیں کرتا کہ ان انبیاء کی تعلیم موجودہ وقت میں بھی محفوظ ہے پس اس کا یہ جواب کہ موجودہ زمانہ میں پہلے نبیوں کی کتب غیر محفوظ ہیں اور خراب ہیں بالکل درست ہوتا اور مخالفین قرآن کریم کے لئے نہایت درجہ مسکت بھی ہوتا مگر ایک عظیم الشان بشارت کی اس رنگ کی ابتداء نفیس طبیعتوں پر گراں ضرور گذرتی۔ کیونکہ گو پہلی کتب کی غلطیوں پر مطلع کرنا قرآن کریم کے ضروری فرائض میں سے ہے مگر ابتداء ہیں میں اس مضمون کو چھیڑ دینا نہ تو ایک غیر معمولی شان کی کتاب کے شایاں تھا اور نہ اس سے اس عظمت و شوکت کا اظہار ہو سکتا تھا جو اس مضمون سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہم کسی فرد یا ہسی کو اس کے مقام سے نہیں گراتے بلکہ سب کے مناسب مقام اور درجہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس دعویٰ سے قرآن کریم نے ابتداء ہی میں اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے کسی قدر مشکلات پیدا کر لی ہیں؟ اعتراض کرنا آسان ہوتا ہے اور اعتراضوں پر ہی مختلف مذاہب کے مدعی اپنی تبلیغ کی بنیاد رکھتے ہیں لیکن قرآن کریم ابتدا ہی اس طرح کرتا ہے کہ اپنی ضرورت کے ثبوت کے لئے پہلے مذاہب کے نقائص کو پیش نہیں کرتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ میرا الکتاب یعنے کامل کتاب ہونپے کا دعویٰ اس امر پر مبنی نہیں کہ دوسری کتب میں نقص ہیں اور مجھ میں نہیں ہیں دوسروں کے مقابل میں نسبتی کمال کو اپنے سچا ہونے کّی دلیل نہیں دیتا بلکہ بغیر کسی مذہب پر اتہام لگانے کے اپنے ذاتی کمالات اور اپنے فضائل اور دینی امتیازی تعلیمات سے اپنی ضرورت اور اپنی صداقت کو ثابت کرتا ہوں۔ یہ مقام کیسا شاندار ہے اور پھر ساتھ ہی کیسا مشکل بھی؟ مگر قرآن کریم اسی کو اختیار کرتے ہوئے اپنی صداقت کو کامیاب طور پر ثابت کرتا ہے قرآن کریم اپنی سچائی کی دلیل یہ نہیں دیتا کہ دوسرے مذہب جھوٹے ہیں اس لئے ایک سچے مذہب کی ضرورت تھی جسے وہ پورا کرتا ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا نبی نہ گذرا ہو اور اسی طرح فرماتا ہے وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (رعد رکوع ۱) اور ہر قوم میں ایک ہادی ہماری طرف سے آ چکا ہے اور اسی طرح وہ تمام اقوام کے متعلق اصولی طو رپر اس امر کو تسلیم کر لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کے سمجھانے کے لئے بھی اپنی طرف سے ہدایت نامے بھجواتا رہا ہے اور اصولی طو رپر تمام مذاہب کو جو خدا تعالیٰ کی تصدیق کی مہر رکھتے ہیں جھوٹ اور فریب سے بری قرار دیتا ہے اور ان کی سچائی کا اقرار کرتا ہے برخلاف مثلاً یہود نصاریٰ اور آریو ںکے مذاہب کے کہ وہ اپنے سوا دوسرے مذاہب کو جھوٹا قرار دیتے ہیںاور یہ خیال کرتے ہیں کہ تورات انجیل اور وید کے سوا باقی سب جگہ ظلمت ہی ظلمت ہے اور ان اقوام کے سوا اللہ تعالیٰ نے باقی سب اقوام کو ہدایت کے سامانوں سے محروم کر دیا تھا بلکہ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے سوا اور سب اویان کسی نہ سکی شکل میں دوسرے مذاہب کو جھوٹا یا ادنیٰ ہی قرار دیتے ہیں لیکن اسلام ایسا نہیں کرتا وہ ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے آسمانی ہدایت کو ضروری قرار دیتا ہے اور اپنے اپنے زمانہ کے لئے سب کو کامل اور انسانی حاجتو ںکو پورا کرنے والا تسلیم کرتا ہے اور اس طرح قرآن کریم دوسرے مذاہب سے اتہام سے پاک ہونے میں بالکل ممتاز ہے۔
اگر تفصیلات کو دیکھا جائے تو اس میں بھی قرآن کریم کو اتہام سے پاک ہونے میں دوسرے مذاہب کے مقابل پر ایک امتیاز حاصل ہے سب سے ضروری وجود مذہب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا ہے وہ تمام مذاہب کا مرکزی نقطہ ہے۔ بظاہر یہ نہیں خیال کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کسی مذہب نے کوئی اتہام لگایا ہو گا لیکن ذرا سے تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ ناقابل فہم غلطی بھی انسان کر چکا ہے اور خوب پیٹ بھر کر چکا ہے۔ توریت خدا کی نسبت کہتی ہے کہ وہ دنیا کو پیدا کر کے تھک گیا اوراسے آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی حالانکہ جو تھک وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ دُنیا کو پیدا کر کے ساتویں دن اللہ تعالیٰ نے آرام کیا (پیدائش باب ۲۔ آیت ۲ و ۳ بعض اردو کے نسخوں میں مترجموں نے آرام کیا کی جگہ اعتراض کے ڈر سے فراغت پائی لکھ دیا ہے لیکن دوسرے نسخوں اور انگریزی کے نسخوں میں آرام کیا کے الفاظ ہی ہیں) اور یہ اللہ تعالیٰ پر اتہام ہے کہ وہ کام کرتے کرتے تھک گیا اور اُسے آرام کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن قرآن کریم اللہ تعالیٰ کو اس اتہام سے بری قرار دیتا ہے اور اس کی طرف سے یہ قول نقل فرماتا ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّہِ اَیَّامٍ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لَّغُوْب (ق ع ۳) یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو چھ اوقات میں پیدا کیا لیکن اس کام سے ہمیںکوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی اور نہ آرام کرنے کی حاجت پیدا ہوئی۔ اسی طرح مثلاً بائبل میں اللہ تعالیٰ کی نسبت لکھا ہے کہ ’’تب خداوند زمین پر انسان کے پیدا کرنے سے پچھتایا اور نہایت دلگیر ہوا۔‘‘ گویا انسان کو پیدا کرنا ایک غلطی تھی او راسپر نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو ندامت پیدا ہوئی اور وہ اسپر دلگیر ہوا۔ یہ اللہ تعالیٰ پر ایک اتہام ہے وہ خدا ہی کیا ہوا جو غلطی کرتا ہے اور انہیں جانتا کہ میرے فعل کا کیا نتیجہ ہو گا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ سبحان اور قدوس یعنے وہ سب عیبوں سے پاک ہے اور سب بزرگیوں کا مالک ہے اور اسی سورۃ میں آگے چل کر فرماتا ہے کہ اِنِّیْ اَعْلَمُ السَّمٰوتِ وَالْاَرْضِ (بقرہ ع ۳) یعنی میں اللہ آسمان و زمین کے متعلق تمام امور ابتدائے آفرنیش سے اور آئندہ کے تمام زمانوں کے متعلق خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ جس کو آسمان اور زمین کے متعلق پورا غیب حاصل تھا اور وہ اس کے حال اور مستقبل سے اچھی طرح واقف تھا اس کی نسبت کب یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس نے غلطی سے دنیا کو پیدا کر دیا اور بعد میں پچھتانے لگا۔
پھر ایک اصول کے طور پر قرآن کریم میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمِلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْم (جمعہ ع ۱) یعنے زمین و آسمانکا ذرّہ ذرّہ اللہ کے ہر عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس میں کس طرح اصولاً بائبل کے خیال کے خلاف تعلیم دی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سا دنیا کو پیدا کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی کیونکہ جو کام ایک فاعل بالارادہ غلطی سے کرتا ہے یا جو انجام کے لحاظ سے غلط ہو جاتا ہے وہ کام اپنے فاعل کے نقص پر ایک شہات ہوتا ہے اور اس کی کم علمی یا بصیرت کے صنعف پر دلالت کرتا ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ زمین اور آسمان میں جو بھی ہے انسان ہوں یا حیوا ہوں۔ فرشتے ہوں یا ارواح ہوں اسی طرح نباتات ہوں کہ جمادات ہوں باریک سے باریک ذرّہ ہو کہ بڑے سے بڑا سماوی کرہ ہو۔ سب کے سب اس بات پر شہادت دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک ہے اور اس نے زمین و آسمان کے پیدا کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی بلکہ آیت کا مضمون اس بات کو بھی پیش کر رہا ہے کہ مومن ہوں یا کافر مخلص ہوں یا منافق سب ہی باوجود اپنے منہ کے غلط بیانات اور دماغ کے مخالف خیالات کے اپنے وجود اور اپنے عمل سے اس امر کو ثابت کر رہے ہیں کہ زمین و آسمان کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ نے غلطی نہیں کی۔
اس کے بعد فرماتا ہے کہ اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کا وجود خدا تعالیٰ کے ملک قدوس عزیز اور حکیم ہونے پر دلالت کر رہا ہے یعنی نظامِ عالم اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک یعنی بادشاہ ہے اور اس کی طرف سے ایک قانون دنیا کو ملا ہے جس کی پابندی کرنے والے انعام پاتے ہیں اور خلاق ورزی کرنے والے سزا پاتے ہیں۔ ملک سے اس جگہ قانونِ شریعت مراد ہے یا قانون طبعی کا وہ حصہ جس کی خلاف ورزی کا انسان مرتکب ہو سکتا ہے جیسے مثلاًزیادہ کھا جانا یا آنکھ ناک کان سے زیادہ یا کم کام لینا۔ غرض اللہ تعالیٰ کا وہ قانون جس کی اطاعت جبراً نہیں کی جاتی بلکہ اس پر چلنے یا نہ چلنے کی بندے کو مقدرت حاصل ہوتی ہے اس کا ملوکیت والا قانون ہے کیونکہ بادشاہی قانون بھی ایسے ہی ہوتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے توڑنے کی طاقت ہوتی ہے گو ان کے توڑے پر وہ سزا پاتے ہیں۔ اس ملوکیت والے قانون پر عمل کرنے والے روحانی انعام اور طبعی قانون پر عمل کرنے والے طبعی انعام۔ اور یہ اس امر کا ثبوت ہے۔ کہ اس نظام عالم کا کوئی بادشاہ ہے چنانچہ انبیاء اور صلحاء کے ساتھ جو معاملہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ ایک قادر خدا کا جو تمام مخلوقات کا بادشاہ ہے ایک قطعی اور یقینی ثبوت ہے۔
اس کے بعد فرماتا ہے القدّوس وہ پاک اور تمام عیوب سے مبرا ہے یعنی اس کو ملوکیت کے معاملہ پر غور کرو تو تم کو معلوم ہو گا کہ اس کا معاملہ دنیوی بادشاہوں اور سلطنتو ںکا سا نہیں ہے کہ ان کے حکام اور بادشاہ اپنی حکومت کے قیام کے لئے ہر قسم کے اعمال کو جائر سمجھتے ہیں بلکہ اس کی صفت ملوکیت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اس سے اس کی قدوسیت ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کی طرف سے جو لوگ اس کے قانون کو جاری کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق سے متصف ہوتے ہیں اور جس قدر کوئی اس کا قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر نبی نوع انسان کا ہمدرد ہوتا ہے۔ اسی طرح جو اس کے طبعی قانون پر عمل کرتا ہے اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ فوائد اصل کرتا ہے اور طبعی نقائص سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے جاری کردہ قانون کے مطابق آنکھوں سے کام لینے والے کی آنکھیں مضبوط ہونگی اس کے قواعد کے مطابق معدہ سے کام لینے والے کا معدہ تمام بیماریوں سے بچا رہے گا۔ غرض اس کا قانون ایسا ہے کہ اس پر عمل اسنان کو مشقت اور تکلیف میں نہیں ڈالتا بلکہ اس پر عمل سے انسان قدوسیت کی چادر پہنتا ہے یعنی جس قدر عمل کرتا ہے اسی قدر نقصوں سے پاک ہوتا جاتا ہے۔ شرعی قانون پر عمل کرنے سے روحانی طہارت ملتی ہے اور طبعی قانون پر عمل کرنے سے جسمانی طہارت اور قوت حاصل ہوتی ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ وہ عَزِیْز بھی ہے یعنی اگر مخلوقات پر نگاہ ڈالو تو اس قانون کے علاوہ جو ملوکیت کے قانون کے مشابہ ہے او رجس پر عمل کرنے یا نہ کرنے پر انسان کو مقدرت حاصل ہے اس کا ایک اور بھی قانون فطرت کہنا چاہیئے۔ یہ قانون بھی دو قسم کا ہوتا ہے روحانی بھی اور جسمانی بھی۔ روحانی قانون تو وہ ہے جسے دین الفطرۃ کہتے ہیں اور جس میں تمام اخلاقی جذبات شامل اور جوہر مومن و کافر میں پایا جاتا ہے اور جو آخر ہر اس شخص کی ہدایت کو سمجھنا چاہے اس قانون سے بچنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔ مثلاً رحم اور شکر گذاری کے جذبات ہیں کہ ہر شخص میں پائے جاتے ہیں۔ ظالم سے ظالم میں بھی یہ جذبات پائے جاتے ہیں۔ کوئی انسان ان کے اثر سے بچ نہیں سکتا۔ ایک ڈاکو جو ہزاروں قتل کر کے ندامت محسوس نہیں کرتا اپنے بچے کی بیماری پر چیخیں مار کر رونے لگتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات دیکھا جاتا ہے۔ کہ ڈاکو اور چور بھی ان لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے جنہوں نے ان سے کبھی حسن سلوک کیا ہو۔ غرض بطور جذبۂ فطرت کے یہ مادے ہر انسان میں موجود ہیں گوبد استعمال کی وجہ سے بعض لوگ ان کا ساتعمال بہت محدود کر دیتے ہیں۔
جسمانی نظام میں یہ قانون ان طبعی خواص پر مشتمل ہے جن کے ماتحت تمام نظام عالم چل رہا ہے ایک دہر یہ خدا تعالیٰ کو مُنہ سے گالیاں دے لیتا ہے۔ لیکن اس کے اس قانون کی نافرمانی نہیں کر سکتا جو صفت عزیز کے ماتحت ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً خدا تعالیٰ نے اس کی زبان کو چکھنے کے لئے بنایا ہے اس میں یہ طاقت نہیں کہ زبان سے دیکھنے کا کام لے سکے۔ باوجود مذہب میں بغاوت کرنے کے وہ اس کے اس قانون کو بلا چون و چرا پابندی کرتا ہے۔ اسی طرح جو جو خواص اشیاء اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں وہ اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں کہ جس صورت میں خدا تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے اس قانون کے خلاف و نہیں جا سکتے۔ بیشک خواص اشیاء میں بھی تغیرات ہوتے ہیں مگر وہ تغیرات بھی دوسرے طبعی قانونوں کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اس دُنیا میں ایک قانون صفتِ عزیز کے ماتحت جاری ہے جس سے خدا تعالیٰ کے غلبہ اور قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس قانون کی ہر کہ دمہ پوری پابندی کرتا ہے اور پابندی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ملوکی قانون کی طرح اس کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی اور یہ قانون ایک عزیر ہستی پر دلالت کرتا ہے۔
پھر فرمایا ہے کہ شاید کسی کو اعتراض ہو کہ زبردست اور حیر سے کام لینا تو اچھا کام نہیں تو اس کا یہ جواب دیا کہ نہ ہر امر میں قدرت دینا اچھا ہے او رنہ ہر امر میں جبر جائز ہے۔ قدرت اپنی جگہ اچھی ہے اور جبر اپنی جگہ جائر ہے اور یہ دونوں مرحکمت کے ماتحت برتے جائیں تبھی نتائج اچھے نکلتے ہیں اگر قانونِ قدرت نہ بنایا جاتا تو تمام علمی ترقی انسان کی محدود ہو جاتی۔ کیونکہ کیمیا اور فزکس اور بایالوجی اور زوالوجی وغیرہ تمام علوم کی بنیاد ہی غیر متبدل قوانین اور خواص پر ہے۔ اگر آگ کبھی جلاتی اور کبھی پیاس بجھاتی اور پانی کبھی سرد کرتا اور کبھی آگ لگاتا تو کارخانۂ عالم ہی درہم برہم ہو جاتا۔ غرض قانونِ قدرت ہو یا قانونِ فطرت ہو ان کا غیر معتبدل ہونا زبردست حکمتوں کے ماتحت ہے اور بلاوجہ او ربے فائدہ نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس آیت میں آسمان و زمین کی پیدائش کو خدا تعالیٰ کی چار صفات الملک۔ القدوس۔ العزیز۔ اور الحکیم کا ظاہر ہے کہ یہ جو فعل الٰہی ان چار صفات کا اور خصوصاً حکمتِ الہٰی کا ظاہر کرنے والا ہو اس پر نادم ہونے یا پچھتانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معمولی سے معمولی شخص بھی اچھے کام پر پچھتایا نہیں کرتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے خاص اسی مضمون کو لیکر بھی وضاحت سے اس کی تردید کی ہے۔ فرماتا ہے۔ وَمَاخَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَابَیْنَھُمَالَا عِبِیْنَ (الانبیاء ع ۲) یعنی آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ہم نے اس کو یونہی بے سوچے ہوئے پیدا نہیں کیا یہ ہمارا کام کوئی کھیل نہیں بلکہ حکمت اور حق کے ساتھ اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس مضمون کی تائید میں فرماتا ہے۔ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَقِّ (العنکبوت ع ۴) یعنے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو ایک نہایت پختہ اور اٹل قانون کے ماتحت بنایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے متعلق سب سے بڑا اتہام شرک کا ہے۔ قرآن کریم سب کا سب اسی اتہام کے رو کے دلائل سے بھرا ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ کے شریک کئی قسم کے تجویز کئے گئے ہیں۔ بعض نے دو خدا تجویز کئے ہیں۔ ایک نور کا اور ایک ظلمت کا خدا۔ بعض نے تین خدا تجویز کئے ہیں۔ باپ۔ بیٹا اور روح القدس۔ بعض نے خدا تعالیٰ کے لئے بیویاں تجویز کی ہیں۔ بعض نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس نے بعض ہستیوں کو پیدا کر کے اپنی صفات ان میں بانٹ دی ہیں۔ اور مختلف صفات کے ظہور کے لئے مختلف دیوتا مقرر کر دیئے ہیں۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ بندوں میں سے بعض کو چن کر اپنے اختیارات کل یا بعض ان کو سونپ دیتا ہے۔ بعض تمام بڑے مظاہر قدرت کو خدا تعالیٰ کی صفات کا بالارادہ ظاہر کرنے والا قرار دیتے ہیں اور بعض لوگ مضر اشیاء اور خوف دلانے والے جانوروں کو دیوتا تجویز کرتے ہیں۔ بعض مظاہرِ حسن کو خدا کا مظہر اور الوہیت کی صفت سے متصف قرار دیتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان تمام قسم کے شرکوں کو تفصیل سے ردّ کیا ہے۔ اور ان عقائد کے غلط ہونے کے دلائل دیئے ہیں مگر اس مفصل مضمون کو حوالو ںکے ساتھ بیان کرنے کا یہ موقعہ نہیں۔ اگلے کسی موقعہ پر ان آیات کے ماتحت ان کا ذکر آ جائیگا جن مںی توحید ما شرک کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ (انشاء اللہ)
اسی طرح قرآن کریم کرنے اللہ تعالیٰ کی صفات کو بالتفصیل بیان کیا ہے جس کی مثال اور کسی کتاب میں نہیں ملتی اور اس طرح ان تمام اتہاموں سے جو مختلف صفات کے ناقص بیان سے یا ناقص طو رپر سمجھنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف مختلف مذاہب یا مختلف فلسفے منسوب کرتے چلے آئے ہیں اللہ تعالیٰ کو بری قرار دیا ہے۔ غرض قرآن کریم کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے درجہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جن امور کو اس کی طرف منسوب کرنے سے اس کی کسر شان ہوتی ہے انکو اس کی طرف منسوب کرنے سے قرآن کریم نے اجتناب کیا ہے بلکہ اُن کا بادلیل رد کیا ہے۔ اور جن امور سے اس کی وہ شان جو ایک معبود او رکامل الصفات خدا تعالیٰ میں ہونی چاہیئے ظاہر ہوتی ہے ان امو رک واس کی طرف منسوب کیا ہے اور نہایت بسط اور عمدگی سے اُن کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بعد کارخانۂ قدرت کے چلانیوالی ابتدائی علتوں میں ملائکہ کا وجود ہے۔ ملائکہ کو بھی قرآن کریم نے تمام نقائص اور عیوب سے جو ان کی ذات کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں پاک قرار دیا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے لَایَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْحَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْنَ (التحریم ع ۱) یعنے ملائکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اس کی پوری طرح اطاعت کرتے ہیں اور اس طرح ان تہمتوں کا رد کر دیا ہے جو مثلاً یہود کی طرف سے ملائکہ پر لگائی جاتی ہیں کہ فرشتوں نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اُس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ ہندوئوں میں ہے کہ دیوتائوں نے فلاں فلاں گناہ کیا اور اس تہمت سے فرشتوں کو بچانا ایک ضروری امر تھا کیونکہ فرشتے نیکی کی تحریرکوں کا سرچشمہ ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اگر ایک مصطفی پانی کے چشمہ کے متعلق شک اور شبہ پیدا ہو جائے تو انسان اُس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جائے گا اور نیکی کا وہ دروازہ اس کے لئے بند ہو جائے گا۔
تیسرا ستون انسان کی روحانی اور اخلاقی عمارت کی تکمیل کے لئے کلام الٰہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان یقین اور معرفت حاصل کرتا ہے۔ اس پر بھی مختلف مذاہب اور فلسفوں نے تہمت دھرنے سے دریغ نہیں کیا تھا مثلاً بعض یہ کہتے تھے کہ الہام صرف خیالاتِ صافیہ کا نام ہے حالانکہ محض خیالات کا نام الہام رکھ کر اس یقین اور اعتماد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے جو لفظی الہام کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ہر شخص اپنے خیال کا نام الہام رکھ سکتا ہے۔ اس بارہ میں قرآن کریم فرماتا ہے۔ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسیٰ تَکْلِیْمًا (نساء ع ۲۳) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بالمشافہ اور الفاظ میں باتیں کی تھیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی نسبت فرماتا ہے۔ وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ (التوبہ ع ۱) یعنی اگر ان مشرکوں میں سے جو تجھ سے برسرِ جنگ ہیں کوئی شخص تجھ سے پناہ مانگے تو اُسے پناہ دے تاکہ وہ اس کتاب کو سُن سکے جو تجھ پر نازل ہوئی ہے اور ساری کی ساری کلام اللہ سے ہے نیز کسی بندہ کا بنایا ہوا کوئی لفظ بھی اس میں شامل نہیں۔ پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے لام کو سُن لے اور چاہے کہ اپنے لوگوں کے پاس واپس جائے تو چاہیئے کہ حکومت کی حفاظت میں اُسے اس علاقہ میں جو اس کی اپنی قوم کا ہے اور اس کے لئے امن کی جگہ ہے تو اُسے واپس پہنچا دے۔
غرض قرآن کریم نے کتب سماویہ کو بھی اس تہمت سے بچایا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہو ںنے خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیئے ہیں۔
چوتھا ستون مذہب کی عمارت کا انبیاء کا وجود ہے ان کے متعلق بھی قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے وہ ہر اک اتہام سے پاک ہے۔ مثلاً ایک تو اصولی طو رپر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ انبیاء خدا تعالیٰ کے مقرب اور پاک لوگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَ اِذَا جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَٓا أوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِط اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَ مُوْا صَغَارٌ عِنْدَاللّٰہِ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَا نُوْایَمْکُرُوْنَ (انعام ع ۱۵) یعنی جب انبیاء خدا تعالیٰ کا معجزانہ کلام یا اس کے آسمانی نشانات دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تو گنہگار لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی براہ راست وہی نعمت ملے جو اللہ کے رسولوں کو ملی ہے تب ہم ایمان لائیں گے یہ لو گاپنے اعمال کو نہیں دیکھتے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا پاکیزہ کلام کس طرح نازل کر سکتا ہے جبکہ یہ گہنگار اور مجرم ہیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا بارکس پر رکھے یعنی اُسی کو یہ خلعت دیتا ہے جو پاکباز اور نیکوکار ہو مجرم نہ ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ گنہگار لوگ انبیاء والے انعامات کے طالب ہیں حالانکہ گنہگارو ںکو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے بدارادوں اور منصوبہ بازیوں کی وجہ سے ذلت اور سخت عذاب پہنچیگا۔ اس آیت میں اصولی طو رپر انبیاء کی پاکیزہ زندگی اور اُن کے تقدس کی شہادت دی گئی ہے اور اس طرح ان تمام خیالات کی تردید کر دی گئی ہے جو اللہ کے انبیاء پر لگائے جاتے ہیں خواہ اُن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ جسیا کہ مثلاً کرشن جی علیہ السلام کے بارہ میں خود اُنہی کے متبع کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرایا کرتے تھے اور عورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ چنانچہ ’’شریمد بھاگوت پر ان‘‘ اسکندھ صفحہ ۱۰ نمبر ۸؍۱۰ میں لکھا ہے کہ شری کرشن جی کی والدہ انہیں کہتی ہیں کہ:
’’بیٹا نو لاکھ گائیں میرے یہاں دُودھ دینے والی ہیں جتنا دُودھ ماکھن چاہیئے کھایا اور لٹایا کرو۔ دوسروں کے گھر ماکھن کھانے اور چرانے مت جایا کرو۔‘‘
اسی طرح برہم وی ورت پُورا ان کرشن جنم کھنڈ صفحہ ۴ ادھیائے ۷۲ میں تحریر ہے کہ۔
’’دن کے چھپنے پر اکرور جی اپنے گھر چلے گئے اور کرشن جی بھی کسی کے گھر چلے گئے۔ نند اور بلدیو سمیت کرشن جی گوبند بھگت کے ہاں ٹھیر۔ بھگت نے سب کاستکار (عزت) کیا جب سب پلنگوں پر سو گئے اور (مسماۃ) کبجا بھی سو گئی۔ تب کرشن جی بھی کبجا کے گھر چلے گئے۔ وہاں پر جا کر کبجا کو پلنگ پر سوئی ہوئی دیکھا۔ کرشن جی نے داسیوں (لونڈیوں) کو نہیں جگایا صرف کبجا کو جگا لیا۔ اس سے کرشن جی نے کہا اے سندوی نیند کو چھوڑ کر مجھ کو شرنگاہ دان (داد عیش) دے۔‘‘
اور اس عبارت کے بعد اور بہت کچھ خرافات ہیں جن کی نقل سے شرم و حیا اور حضرت کرشن کا ادب مانع ہے۔ مگر یہ سب من گھڑت باتیں دوسرے لوگوں کی ہیں۔ کرشن جی علیہ السلام ان باتوں سے پاک تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم سے اصولی طور پر سب ربانی مصلحین کی پاکیزگی کا ثبوت ملتا ہے۔
اسی طرح رامچندر جی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ سیتا جی سے آخری عمر میں بلاوجہ ناراض ہو گئے اور قطع تعلق کیا۔
(رامائن اتر کانڈ سرگ ۵۳)
جن انبیاء کا ذکر خاص مصالح کے ماتحت اور فوائد جلیلہ کے لئے قرآن کریم نے نام لے کر کیا ہے اُن کی شان کو قرآن کریم نے خاص طو رپر ذکر کیا ہے اور ان پر لگائے ہوئے اتہامات کو خاص طور پر ردّ کیا ہے۔ مثلاً بائبل کہتی ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور دیدہ دانستہ اللہ تعالیٰ کی نافرمائی کی۔ قرآن کریم فرماتا ہے وَلَقَدْ عَہِدْ نَآ اِلٓیٰ اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَسَِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا (طہ ع ۶) یعنی اے محمد رسول اللہ تجھ سے پہلے ہم نے آدم کو بھی بعض امور شریعت سے اطلاع دی تھی مگر ایک موقعہ پر وہ ایک حکم کے بارہ میں بھول گیا مگر اس کا ارادہ ہماری نافرمانی کرنے کا نہ تھا۔ یعنی آدم سے جو غلطی ہوئی تھی وہ بھول چوک کی قسم سے تھی جو گناہ نہیں کہلاتی اور دل کی تاریکی پر دلالت نہیں کرتی۔ اسی طرح بائبل میں لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے نعوذ باللہ منہ بعض پر جھوٹ بولا۔ مسلمانوں کی ایک جماعت نے بھی بعض احادیث سے دھوکا کھا کر اسی قسم کا عقیدہ بنا رکھا ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے وَابْرَاھِیْمَ اَلَّذِیْ وَفّی (النجم ع ۳) یعنی ابراہیم نے جو وعدہ اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اُسے کامل طو رپر پورا کر دیا۔ یعنی تمام اخلاق حسنہ کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ کیا عدل اور کیا احسان اور کیا عفو اور کیا ستاری اور کیا رأفت اور کیا شفقت علیٰ خلق اللہ اور کیا سچائی اور کیا معاملہ کی صحت۔ ہر ایک حکم جو خدا کی طرف سے اُسے دیا گیا تھا اُسے اُس نے پورا کیا اور معمولی طو رپر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ احکام الٰہی کے پوار کرنے میں دکھایا۔
بعض لوگوں نے کہا تھا کہ موسیٰ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مصریوں سے دھوکا سے اُن کے زیور مانگ لئے (خروج ب ۱۱ آیت ۲) اور پھر ان کو لے کر مصر سے بھاگ گئے۔ مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ وَلٰکِنَّا حُمِّلْنَٓا اَوْزَارً امِّنْ زِیْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَ فْنٰھَا (طہ ع ۴) یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ پر جانے کے بعد اُن کی قوم کے ایک حصہ نے شرک کیا اور حضرت موسیٰ نے آ کر اُن پر ناراضگی کا اظہار کیا تو اُن کی قوم نے جواب دیا کہ ہم نے اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ سامری کے ورغلانے سے کیا ہے۔ اور بات یُوں ہوئی ہے کہ مصری قوم کے زیورات جو ہمیں زبردستی دے دئے گئے تھے ہم اُنہیں اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتے تھے سامری کے کہنے پر ہم نے وہ زیورات اُسے دیدئے۔ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے تو الگ رہا بنی اسرائیل نے خود اپنے ارادہ سے بھی مصریوں کو دھوکا دینا نہ چاہا تھا بلکہ مصریوں نے خود ہی غدابوں سے گھبرا کر بنی اسرائیل کو اپنے زیورات دئے تھے تاکہ کسی طرح وہ چلے جائیں اور ان سے مصریوں کا پیچھا چھوٹے اور یہ کہ ان زیورات کو اپنے پاس رکھنے کی بنی اسرائیل کو بالکل کوئی خواہش نہ تھی۔
تورات میں کہا گیا تھا کہ موسیٰ کا ہاتھ معجزہ کی وجہ سے مبروص ہو گیا تھا (خروج باب ۴ آیت ۶) حالانکہ خود تورات ہی مبروص کو ناپاک قرار دیتی ہے (احباب باب ۱۳ آیت ۹،۱۰) اور برص ایک گھنائونی مرض ہے۔ مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ تَخْرُجُ بَیْضَٓائَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ (طہ ع ۱) یعنی ہاتھ کے سفید ہونے کا معجزہ کسی بیماری سے مشابہ نہ ہو گا بلکہ معجزانہ رنگ میں ہاتھ میں چمک پیدا ہو گی۔
تورات میں کہا گیا تھا کہ ہارون نے نعوذ باللہ من ذالک بنی اسرائیل کو ھچھڑا بنا کر دیا اور شرک کی راہ پر چلایا لیکن قرآنکریم فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھَارُوْنُ مِنْ قَبْلُ یَا قَوْمِ اِنَّمَا فُیِّنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ(طہ ع ۵) یعنی موسیٰ کے پہاڑ سے واپس آنے سے پہلے حضرت ہارونؑ بھی اپنی قوم کو شرک سے روکت رہے تھے اور اُن سے کہتے تھے کہ اے قوم اس بچھڑے کے ذریعہ سے تمہارا ایمان خراب کیا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمن ہے یہ بے حقیقت بچھڑا رب کس طرح ہو سکتا ہے پس تم میری فرمانبرداری کرو اور میرے حکم پر چلو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون شرک کرانے والوں میں سے نہ تھے بلکہ شرک کے روکنے والوں میں سے تھے۔ حضرت سلیمان پر یہود شرک کا الزام لگاتے ہیں اور گنہگار قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے’’جب سلیمان بوڑھا ہوا تو اس کی جورئووں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا۔‘‘ (اسلاطین باب ۱۱ آیت ۴) قرآن کریم اس الزام کو بھی ردّ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا (البقرہ ۱۲ ع ۱۲) یعنی سلیمان نے کوئی کفر والی بات نہیں کی بلکہ اس کا انکار کرنے والے اور اس پر الزام لگانے والے کافر تھے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہود نے الزام لگایا تھا کہ نعوذ باللہ من ذالک اُن کی پیدائش بدکاری کے نتیجہ میں تھی اور یہ کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک یوسف کے نطفہ سے بغیر شادی کے پیدا ہوئے تھے (انسائیکلو پیڈیا ٹینکا جلد ۵ صفحہ ۱۰۲ زیر لفظ CELSUS نیز دیکھو جوئش لائف آف کرائسٹ صفحہ ۱۲) اسی طرح بعض یہودی یہ الزام لگاتے تھے کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک ایک رومی سپاہی پینتھرا PENTHERA کے بیٹے تھے جن کا ناجائز تعلق حضرت مریم صدیقہ سے تھا (جوئش انسائکلو پیڈیا جلد ۷ صفحہ ۱۷۰ کالم اول) اسی طرح یہود کا یہ اعتراض تھا کہ انہیں شیطانی الہام ہوتا تھا اور ان کا تعلق بعل سے تھا جس کے معنے اُن کے محاورہ میںشیطان کے تھے۔ چنانچہ لکھا اور فقیہہ جو یروشلم سے آئے تھے کہتے تھے کہ اس کے ساتھ بعل زبول کا تعلق ہے اور یہ بھی کہ وہ بدروحوں کے سردار کی مدد سے بدروں کو نکالتا ہے (مرقس باب ۲ آیت ۲۲) قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو ان سب تہمتوں سے پاک قرار دیا ہے۔ اُن کی پیدائش کے متعلق فرماتا ہے وَالَّتِّیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ تُروْحِنَا وَجَعَلْنٰھَا وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء ۶ ع ۶) یعنی مریم جو حضرت عیسیٰ کی والدہ تھیں انہو ںنے اپنے تمام سوراخوں کو گناہ سے محفوظ رکھا تھا اور ان کو جو حمل ہوا تھا وہ ناپاک اور شیطانی روح کا نہ تھا بلکہ ایک پاک جو ہماری طرف سے تھی ان کے اندر داخل ہوئی تھیک اور ہم نے اس کو اور اس کے بیٹے عیسیٰ کو دنیا کے لیے ایک نشان بنایا تھا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے شیطان سے تعلق کے ازالہ کیلئے فرماتا ہے۔ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاَیَّدْ نَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرہ ۱۱ ع ۱۱) یعنی ہم نپے عیسیٰ بن مریم کو کھلے کھلے نشانات عطا فرمائے تھے اور اس کو روح القدس یعنی پاک الہام لانے والے فرشتے سے مدد دی تھی یعنی اُن کا الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اور فرشتے اس پر نازَ ہوتے تھے شیطان سے اُن کا تعلق نہ تھا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے اپنے تبعین نے بھی ایک شدید الزام اُن پر لگایا تھا کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک صلیب پر مر گئے تھے حالانکہ صلیبی موت تورات کے مطابق *** موت ہوتی ہے۔ چنانچہ عہد نامہ جدید میں لکھا ہے۔ ’’مسیح جو ہمارے لئے *** باا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ *** ہے‘‘ (گلتیوں باب ۲ آیت۱۳) قرآن کریم اس الزآم کو بھی رد فرماتا ہے چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے وَالسَّلاَمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (مریم ۵ ع ۲) یعنی جو لوگ مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا میری پیدائش حرامکاری کے نتیجہ میں تھی وہ بھی غلط کہتے ہیں کیونکہ میری پیدائش پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوئی تھی۔ اور جو لوگ کہینگے کہ میں صلیب پر لٹکایا جا کر *** موت مرا ہوں وہ بھی غلطی کریں گے کیونکہ میری موت بھی خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو گی اور *** کی موت سے میں بچایا جائوں گا۔ اور جو لوگ یہ کہیں گے کہ میں دوسروں کے گناہ اٹھا کر (نعوذ باللہ من ذالک) تین دن سزا بھگتوں گا وہ بھی غلطی کریں گے کیونکہ میرا بعث بعد الموت بھی خدا تعالیٰ کی سلامتی سے شروع ہو گا۔
حضرت مسیح کا مسیحیوں کی مزعومہ صلیبی موت کے بعد دوزخ میں جانا اور گویا اُن کی موت کی *** کے اثر کے نیچے ہونا انجیل نقودیمس کے باب ۲۱ سے ثابت ہے۔ نیز اپطرس ۱۸م۲۰؍۳ میں لکھا ہے۔ ’’کیونکہ مسیح نے بھی ایک بار گناہو ںکے واسطے دکھ اٹھایا یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئے۔ تاکہ وہ ہم کو خدا کے پاس پہنچائے۔ کہ وہ جسم کے حق میں تو مارا گیا لیکن روح میں زندہ کیا گیا جس میں ہو کے اس نے ان روحوں کے پاس جو قید تھیں جا کے منادی کی جو آگے نافرمانبردار تھیں۔ جس وقت کہ خدا کا صبر نوح کے دنو ںمیں جب کشتی تیار ہوتی تھی انتظار کرتا رہا۔‘‘
بائبل کی تفسیر میں جو متھیو پول MATTHEW POOL کی تصنیف شدہ ہے قید مراد دوزخ لیا گیا ہے۔
(تفسیر بائبل مصنفہ متھیوپول جلد صفحہ ۳ صفحہ ۹۱۱)
پانچوان ستون مذہب کا خود انسان کا وجود ہے کیونکہ وہ مہبط وحی ہے۔ اس ستون کو بھی بعض مذاہب نے گرانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً مسیحی مذہب کہتا ہے کہ انسانی روح آدم علیہ السلام کے گناہ کی وجہ سے گنہگار ہو گئی ہے او رانسان طبعاً میلان گناہ رکھتا ہے۔ رومیوں باب ۵ میں لکھا ہے۔ ’’پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا۔ اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیا۔‘‘ (آیت ۱۲)
او رہندو مذہب بھی ظاہر کرتا ہے کہ گویا انسان تمام کوششوں کے باوجود پاک نہیں ہو سکتا اور بار بار جونوں میں ڈالا جاتا ہے۔
(ستیارتھ پرکاش مصنفہ پنڈت دیانند جی بانی آریہ سماج ب ۹)
قرآن کریم نے ان مذاہب کے برخلاف انسانی فطرت کی براء ت کی ہے اور وہ فرماتا ہے۔ وَنَفْسٍ وَّمَاسَوّٰھَا فَاَ لْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْو ٰھَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰھَا( الشمس ۱۶ ع ۱) یعنی ہم نفسِ انسانی کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں کہ اسے ہم نے سب عیوب سے پاک پیدا کیا ہے اور اس کی فطرت میں نیکی اور بدی کے پہچاننے کی طاقت رکھی ہے۔ چنانچہ جو شخص اپنی روح کو بیرونی ملونیوں سے پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو شخص اس کی جبلی پاکیزگی کو دنیاوی آلائشوں سے گدلا کر دیتیا ہے اور اسے اس کے اعلیٰ مقام سے نیچے گرا دیتا ہے وہ ناکام ہو جاتا ہے یعنی انسانی روح اصل میں پاکیزگی لے کر آتی ہے اور بعد میں لوگ اُسے گندہ کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ آدم یا کسی اور کے گناہ کی وجہ سے وہ ناپاک ہو گئی ہے۔ اسی طرح تناسخ کے چکر کا اس طرح ردّ کرتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ تَتَوَ فّٰھُمُ الْمَلآَئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَیْکُمُ ادْخلوا ابعنۃ بما کنتم معملون (النحل ۱۰ ع ۴) یعنی وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے اُن سے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دائمی سلامتی تم کو ملیگی (سلام کا لفظ جو اسم ہے دائمی سلامتی پر دلالت کرتا ہے) جائو اور اپنے اعمال کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہو جائو۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُ وْافِفِی الْجَنَّۃِ خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَادَا امَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّامَاشَٓائَ رَبُّکَ عَطَائً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ (ہود ۹ ع ۹) یعنی جو لوگ سعید اور نیک ہونگے وہ جنت میں جائیں گے اس میں جنت کے آسمان زمین کے قیام تک اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع رہتے چلے جائیں گے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیئت کا فیصلہ بھی کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ان کو کبھی جنت سے نہیں نکالے گا اور اُن کو ایسا انعام بخشے گا جو کبھی بند نہ ہو گا۔
اس آیت سے انسانی فطرت کے اس حق کو جو دائمی نجارت کے متعلق ہے اور جسے آریہ صاحبان نے تناسخ کے عقیدہ سے باطل کر دیا ہے، قائم کر دیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ تمام اہم ہور جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اُن کے متعلق جو جو تہمتیں مختلف مذاہب کے پیرووں یا فلاسفروں نے لگائی تھیں اسلام نے ان کو دُور کیا ہے اور ہر اک تہمت سے خدا تعالیٰ کو ملائکہ کو کلام الٰہی کو انبیاء کو اور فطرتِ انسانی کو بری کیا ہے اور یہ ایسی خوبی ہے جو اور کسی کتاب میں اس کی موجودہ حالت میں نہیں پائی جاتی اور صرف قرآن کریم ہی ہ جو سب تہمتوں سے ان مبارک وجودوں اور اصولوں کو پاک کرتا ہے جو مذہب کے لئے بمنزلہ ستون کے ہیں اور یہ ایسا امر ہے کہ اگر قرآن کریم اس کے سوا اور کوئی کام نہ بھی کرتا تو صرف یہی کام دوسرے ادیان کی موجودگی کے باوجود اس کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھا۔
ظاہر ہے کہ جس کے دل میں خدا تعالیٰ کی نسبت بدظنی ہو گی اور وہ اس کی طاقتوں کے بارہ میں شک میں ہو گا وہ اس سے کامل تعلق پیدا کر کے اس کی بے پایاں رحمت سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا۔ اور جو ملائکہ کی نسبت بدظن ہو گا وہ ملائکہ سے تعلق جوڑ کر ان کی پاکیزہ تحریکوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔ اور جو انبیاء سے یا اُن میں سے کسی سے بدظن ہو گا اور وہ ان کے اعلیٰ نمونہ سے فائدہ نہ اُٹھا سکے گا۔ اور جو کلام الٰہی کے متعلق شبہ میں ہو گا وہ اس کی پاک کرنے والی تاثیرات سے محروم رہے گا۔ اور جو انسانی فطرت سے بدظن ہو گا وہ اپنے نفس کو پاک کرنے کی جدوجہد میں اس عزم اور ارادہ سے محروم رہے گا جو پاکیزگی کے حصول کے لئے ضروری ہے۔ پس لَارَیْبَ فِیْہِ کے مطابق تعلیم دے کر قرآن کریم نے انسان کو نیکی کے سر چشموں سے فائدہ اٹھانے، نیک نمونوں کو خضرِ راہ بنانے اور نہ ٹوٹنے والی امید کو اپنے دل میں جگہ دینے کی ایک ایسی راہ کھول دی ہے جو اس کی نجات کی ضامن اور اس کی کامیابی کی کفیل ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے رَیْب کے دوسرے معنے شک کے ہیں۔ پس لَارَیْبَ فِیْہِ کے یہ معنے بھی ہیں کہ قرآن کریم کی صداقت کا ایک مزید ثبوت اور اس کی ضرورت حقہ کا ایک زبردست گواہ یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک نہیں۔
جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود قرآن کریم پر اعتراض کرنے میں جلدی کرتے ہیں انہوں نے اس جملہ کے صرف یہی معنے کئے ہیں اور پھر اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کر کے کہ اس میں کوئی شک نہیں گویا خود اپنے مشکوک ہونے کا اعتراض کیا ہے کیونکہ جب دل میں چور نہ ہوتو انسان کو یہ خیال ہی نہیں ہو سکتا کہ لوگ مجھ پر جھوٹا ہونے کا الزام لگائیں گے (ویری بحوالہ رومن قرآن) اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس نادان معترض کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سورۂ بقرہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی وحی نہیں ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ اپنے دل کے خدشہ کی وجہ سے سے شک کی نفی کی گئی ہے بلکہ یہ سورۃ تو مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے جبکہ قرآن کریم کو نازل ہوتے ہوئے تیرہ سال سے زائد گذر چکے تھے اور اس عرصہ میں کفار ہزاروں شبہات قرآن کریم کے بارہ میں پیش کر چکے تھے۔ پس اس قدر عرصہ تک دشمنوں کے اعتراضات لینے کے بعد بھی اگر قرآن کریم کا حق نہیں کہ وہ یہ کہے کہ اس میں کوئی شک کی بات نہیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جو سچا ہو اُسے کبھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ سچا ہے ورنہ اس کی سچائی میں شک پڑ جائیگا۔ یہ دعویٰ بالبداہت باطل ہے اور کبھی کسی عقلمند نے اسے قبول نہیں کیا نہ کبھی کسی صادق نے اس پر عمل کیا ہے اور یہ نکتہ صرف رومن قرآن کے مصنف کے ہی ذہن میں آیا ہے اور ریورنڈویری ہی ایک ایسے شخص ہیں جن کو اس خلاف عقل دعویٰ کی تصدیق کی توفیق ملی ہے۔
مگر افسوس ہے کہ ان دونوں پادریوں کو خود اپنی مذہبی کتب پر غور سے مطالعہ کرنے کا کبھی موقعہ نہیں ملا۔ اگر وہ اپنی مذہبی کتب کا غور سے مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ وہ یہ اعتراض قرآن کریم کی صداقت کے خلاف نہیں کر رہے بلکہ خود اپنی کتب کے خلاف کر رہے ہیں چنانچہ مندرجۂ ذیل حوالے جو بہت سے حوالوں میں سے چند ہیں ثابت کرتے ہیں کہ بالکل اس قسم کے محاورات بائبل میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ا مثال ۸؍۸ ’’میرے منہ کی ساری باتیں صداقت سے ہیں ان میں کچھ ٹیڑھا ترچھا نہیں۔‘‘ بیعیاہ ۱۹؍۴۵ ’’میں خداوند سچ کہتا ہوں اور راستی کی باتیں فرماتا ہوں۔‘‘ تمطائوس (۱) طیطس ۸؍۳ ’’یہ بات سچ ہے۔‘‘ مکاشفات ۵؍۲۱، ۶؍۲۲ ’’یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔‘‘
ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ اپنی سچائی پر زور دینے کے لئے عہد نامہ قدیم اور جدید دونوں نے بالکل قرآن کریم کے مشابہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اور اگر اس قسم کے محاوروں کے استعمال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قائل اپنی سچائی کی نسبت شبہ رکھتا ہے تو یہ شبہ بہت زیادہ مصنفین عہد نامہ قدیم اور جدید کے دل میں پایا جاتا تھا۔ مگر حق یہ ہے کہ یہ اعتراض نہ بائبل پر پڑتا ہے نہ قرآن کریم پر۔ کیونکہ جب شبہات پیش کئے جائیں تو اپنے دعویٰ کی سچائی پر زور دینے کے لئے ایسے کلمات کا استعمال شک پر نہیں بلکہ یقین پر دلالت کرتا ہے۔ اور قرآن کریم میں یہ الفاظ ابتدائی سورتوں میں استعمال نہیں کئے گئے بلکہ ایک لمبے عرصہ کی محالفت کے بعد استعمال کئے گئے ہیں۔
اوپر کا جواب امر واقعہ کے لحاظ سے ہے ورنہ میرے نزدیک اس کتاب میںجو عالم الغیب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہو اگر شروع میں بھی ایسے کلمات پائے جائیں تو کسی شک پر دلالت نہیں کرتے۔ کیونکہ گو بندہ نہیں جانتا کہ اس کے دعویٰ کو لوگ کس نگاہ سے دیکھیں گے مگر خدا تعالیٰ تو جانتا ہے ہ اُس کے نازل کردہ کلام سے لوگ کس طرح پیش آئیں گے اور وہ اپنے علم کی بنا ئپر ایسے کلمات شروع میں ہی استعمال کر سکتا ہے او راس کا ایسا کرنا اس کے متشکک ہونے کا ثبوت نہ ہو گا بلکہ اس کے عالم الغیب ہونے کا ثبوت ہو گا۔
اوپر کے جوابات اس امر کو تسلیم کر کے دئے گئے ہیں کہ لَارَیْبَ فِیْہِ کا فقرہ محض صداقت قرآن کریم کی تاکید کیلئے استعمال ہوا ہے۔ مگر میرے نزدیک ریب کے معنے اگر صرف شک کے کئے جائیں تو اس صورت میں بھی یہ صرف صداقت کی تاکید کے طور پر استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنے اندر مزید صداقتیں رکھتا ہے جو قرآن کریم کے سچے ہونے کے دلائل پر مشتمل ہیں چنانچہ ’’اس میں کوئی شک نہیں‘‘ کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ یہ کلام ضرور سچا ہے اور دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ اس میں کوئی شکی بات نہیں۔
میں حل لغات کے موقعہ پر ثابت کر چکا ہوں کہ ریب اس شک کو نہیں کہتے جو تحقیقی کے راستہ میں حمد ہوتا ہے اور جس پر علمی ترقی کا مدار ہے بلکہ ریب اس شک کو کہتے ہیں جو بلاوجہ اور بدظنی پر مبنی ہو اور ان معنوں کی رُو سے ’’اس میں کوئی ریب نہیں‘‘ کے یہ معنے ہوئے کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جو بدظنی اور صداقت کے انکار پر مشتمل ہو یعنی اس میں جس قدر امور ہیں وہ تحقیقی ہیں ظنی نہیں۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ اس میں جس قدر امور ہیں تحقیقی ہیں ظنی نہیں کوئی معمولی دعویٰ نہیں بلکہ اگر یہ دعویٰ ثابت ہو جائے تو اس سے قرآن کریم کی صداقت پر ایک زبردست شاہد مہیا ہو جاتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں جس قدر امور بھی بیان کئے گئے ہیں سب کے لئے دلائل مہیا کئے گئے ہیں۔ مثلاً بائبل وید اور دیگر کتب خدا تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتی ہیں مگر اس کو ایک دعویٰ کے طو رپر پیش کرتی ہیں اس کے لئے کوئی دلیل نہیں دیتیں۔ مگر قرآن کریم اگر خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے توایسا مطالبہ کرنے کی تائید میں دلائل بھی دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کو زبردست شواہد سے ثابت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ ملائکہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے تو ملائکہ کے موجود ہونے کا ثبوت بھی دیتا ہے۔ اگر وہ قبولیت دعا کا عقیدہ پیش کرتا ہے تو اس کی تائید میں دلیلیں بھی دیتا ہے۔ اگر انبیاء پر ایمان لانے کو کہتا ہے تو ان کی صداقت کے ثبوت بھی بہم پہنچاتا ہے۔ اگر بعث بعد الموت منواتا ہے تو اس عقیدہ کو براہین تو یہ سے ثابت بھی کرتا ہے۔ غرض کوئی ایسا عقیدہ نہیں جسے قرآن کریم پیش کرتا ہو اور اس کی صداقت کے ثبوت میں اس نے دلائل بھی نہ دئے ہوں۔ چنانچہ ان امور کی تفصیل قرآن کریم کی مختلف آیات کی تفسیر میں آگے چل کر بیان ہو گی۔ پس لَارَیْبَ فِیْہ کہہ کر قرآن کریم نے اس امر کو پیش کیا ہے کہ گو قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے یعنی ہر ضروری امر کے متعلق اس میں بحث کی گئی ہے پھر بھی وہ ظنی اور شکی امور کو پیش نہیں کرتا بلکہ ہر امر کی دلیل ساتھ دیتا ہے اور تحقیق کے ساتھ ہر مسئلہ کو پیش کرتا ہے اور یہ امر قرآن کریم کی افضلیت کا ایک زبردست ثبوت ہے کیونکہ یہ امر تو آسان ہے کہ ایک دو امور جو تحقیقی طور پر ثابت ہو چکے ہوں ان کو با دلائل بیان کر دیا جائے لیکن یہ امر نہایت مشکل ہے کہ ہر ضروری امر کے متعلق بحث بھی کی جائے اور پھر ہر بات کا دلائل کے ساتھ ثابت بھی کیا جائے اور ظن اور گمان کی دح سے نکال کر یقین اور وثوق کے مقم پر کھڑا کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جو کتاب اپنے تمام دعاوی کو اس طرح پیش کرے گی اس کے سچا ہونے میں کسی منصف مزاج کو شک اور تردد نہ ہو سکے گا۔
لَارَیْبَ فِیْہ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ قرآن کریم کے محفوظ ہونے میں کوئی شک نہیں اور ذَالِکَ الْکِتَابُ کے بعد یہ الفاظ اس مضمون پر دلالت کرتے ہیں کہ اس کتاب کے بعد کوئی اور کتاب نازل نہ ہو گی اور یہ دنیا کے لئے آخری ہدایت نامہ ہے۔ کیونکہ جیسا کہ بتایا جا چکاہے ذَالِکَ الْکِتٰبُ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ یہ کام کتاب ہے اور تمام انسانی ضروریات کے پورا کرنے کا سامان اس میں موجود ہے اس قسم کی کتاب کے بعد دوسری کتاب اسی صورت میں نازل ہو سکتی ہے جب وہ محفوظ نہ رہے۔ کیونکہ نئے قانون کی دو ہی صورت میں ضرورت ہوتی ہے یا تو اس وقت جبکہ پہلا قانون ناقص ہو اور کسی وقت جا کر لوگوں کی ضروریات کے پورا کرنے سے قاصر ہو جائے یا پھر اس صورت میں کہ پہلا قانون دنیا سے کلی طور پر یا جزوی طور پر مفقود ہو جائے اور اسے دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہو سوذَالِکَ الْکِتٰبُ کے بعد لَارَیْبَ فِیْہِ فرما کر یہ بتایا کہ یہ کامل کتاب ہمیشہ زمانہ کی دست بُرد سے محفوظ رہے گی اور کوئی زمانہ ایسا نہ آئے گا کہ اس کے بارہ میں یہ شک کیا جا سکے کہ آیا اس کے الفاظ وہی ہیں جو کسی وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے تھے یا ان میں کوئی تغیر تبدل ہو گیا ہے؟ اور چونکہ ایسا زمانہ اس پر کوئی نہ آئے گا یہ کتاب منسوخ نہ ہو گی اور آئندہ سب زمانوں میں اسی کے مطابق لوگوں کو رُوحانی زندگی بسر کرنی پڑے گی۔ یہ مفہوم بھی قرآن کریم کی ایک زبردست خوبی پر دلالت کرتا ہے اور آج بھی جبکہ قرآن کریم کے نزول پر تیرہ سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے دوست تو الگ رہے دشمن بھی اس کے محفوظ ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ اور قرآن کریم اندرونی اور بیرونی شواہد بھی ایسے رکھتا ہے جو اُس کے محفوظ ہونے پر گواہ ہیں۔ چنانچہ سرولیم میور جیسا شحص بھی اس کے بارہ میں گواہی دیتا ہے کہ:
THERE IS OTHERWISE EVERY SECURITY INTERNAL AND EXTERNAL THAT WE POSSESS THAT TEXT WHICH MOHAM-MAD HIMSELF GAVE FORTH AND USED.
یعنی ’’ہمارے پاس ہر ایک قسم کی ضمانت موجود ہے۔ اندرونی شہادت کی بھی اور بیرونی کی بھی۔ کہ یہ کتاب جو ہمارے پاس ہے۔ وہی ہے جو خود محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی اور اُسے استعمال کیا کرتے تھے۔‘‘
(لائف آف محمد)
قرآن کریم کی یہ فضیلت ایسی ہے جو دوسری کتب کے مقابلہ پر اس کی ضرورت کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیتی ہے کیونکہ جس کلام کے محفوظ ہونے میں شک پڑ جائے اس پر عمل کرنے کے لیے انشراح صد رپیدا نہیں ہوتا اور مذہب کیلئے کامل انشراح کا ہونا ضروری ہے۔
بے شک قرآن کریم کے وقت میں عہد نامہ قدیم موجود تھا عہد نامہ جدید موجود تھا۔ وید موجود تھے۔ ژند اور اس کی شرح اوستا موجود تھی۔ مگر ان میں سے ایک کتاب بھی تو نہ تھی جو اس طرح محفوظ ہو جس طرح کہ وہ نازل ہوئی تھی۔ ژند اوستا کے متعلق تو خود پارسی بھی مقر ہیں کہ اس کے بہث سے حصے ضائع ہو چکے ہیں اور موجودہ ژند ایسی نامکمل صورت میں ہے کہ اس کے غیر محفوظ ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف ایلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۲ صفحہ ۲۶۷ پر لکھا ہے کہ شاہ یساسپ (VISHTASPA) زر تشت مذہب کا سر پرست تھا۔ اوستا کے دو نسخے سنہری حروف میں لکھوا کرا صطخرہ اور سمرقند میں رکھوائے ہوئے تھے۔ لیکن ۳۳۰ قبل مسیح سکندر کے حملہ کے دوران میں وہ دونوں نسخے تباہ کر دیئے گئے اور سکندراعظم کی تاخت و تاراج نے رر تشتی مذہب کی طاقت کو توڑ دیا۔ اور ان پانچ صدیوں میں جو اس کے بعد آئیں۔ سیلیسڈ SELEUCIDاور پارتھینPARTHIANکا عہد حکومت زر تشتی مذہب کی تاریخ میں تاریکی اور پستی کا زمانہ ہے جس کے نتیجہ میں اصل مذہبی کتابوں کا بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔ باوجود اس غفلت کے جو اس کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ مذہبی کتب کے معتدبہ حصے متفرق کتابوں میں اور علماء کے حافظہ میں یاد رہے۔
وید بھی غیر محفوظ ہیں اُن کے مختلف نسخے آپس میں اس قدر اختلاف رکھتے ہیں کہ اُن کے متغیر ہونے کی ایک کھلی دلیل ہیں حتیٰ کہ منتروں کے منتر بعض نسخوں میں موجود ہیں اور بعض میں نہیں اور بعض میں عبارت کسی طرح ہے اور بعض میں کسی طرح ہے چنانچہ زمانہ قدیم کے ہندو علماء میں سے ایک عالم نے آج سے کئی صدیاں قبل وید کے محروم ہونے کے متعلق ان الفاظ میں گواہی دی ہے کہ ’’وید بیاس نے تودو اپریگ میں چاروں ویدوں کا ذکر کیا ہے لیکن رشیوں کی اولاد نے علم کی خامی کی وجہ سے ویدو ں کو ایک دوسرے سے مختلف بنا دیا۔ کہیں منتروں کے ساتھ براہمن بھاگ (تفسیری حصہ) شامل کر دیا۔ اور کہیں اعراب اور الفاظ کے فرق سے رگ یجر اور سام وید کو کئی طرح کا بنا دیا۔ بعض جگہ ازراہِ تشریح و عام خیالات کے ذریعہ۔ نیز کلپ سوتروں کو ایشوری کلام میں شامل کر کے انہیں مختلف شکلوں میں تبدیل کیا گیا ہے‘‘ (کورم پوران پُورو آردھ۔ ادھیائے صفحہ ۲۰ شلوک صفحہ ۴۴ نا صفحہ ۴۶) ویدوں کے غیر محفوظ ہونے کے متعلق جو کچھ اُوپر لکھا گیا ہے اس کی تائید زمانہ حال کے ہندو اور آریہ سماجی پنڈت بھی کرتے ہیں جس سے وید کی موجودہ حالت کا پتہ لگتا ہے ۔ چنانچہ پنڈت جے دیو شرما اپنے سام وید بھاش (تفسیر) کے صفحہ ۲۹۵ میں لکھتے ہیں کہ ’’سام وید کے کئی نسخوں میں آرنیکت کانڈ (باب) نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح پنڈت تلسی رام سوامی اپنے سام وید بھاش جلد صفحہ ۲ صفحہ ۸۳۴ میں لکھتے ہیں کہ ’’سام وید کا جو نسخہ پنڈت ستیہ برت سام شرمی نے شائع کیا ہے اس میں ’’مہانامی منی سوکت‘‘ نہیں ہیں حالانکہ یہ آرنیک کا نڈ ار صانامنی سوکت آریوں کے شائع کردہ نسخہ مطبوعہ اجمیر میں موجود ہیں۔ مگر جو سام وید بنار س میں شائع ہوا ہے اس میں یہ دونوں باب نہیں پائے جاتے۔ ان دونوں میں ۶۵ منتر ہیں جو بعض نسخوں میں ہیں اور بعض میں نہیں یہی حالت رگوید، یجروید اور اتھروید کی ہے۔ چنانچہ اتھروید کی تحریف کے متعلق پنڈت ویدک منی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ’’حقیقت میں جتنی بری حالت اتھروید کی ہوئی ہے اتنی اور کسی ویدکی نہیں ہوئی سائن آچاریہ کے بعد بھی کئی سوکت (باب) اس میں شامل کئے گئے ہیں۔‘‘ (وید ستر دسو صفحہ ۹۷)
تورات بھی اپنے غیر محفوظ ہونے پر شاہد ہے مثلاً تورات میں جو حضرت موسیٰ کی کتاب ہے لکھا ہے۔ ’’سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق مو آب کی سر زمین میں مر گیا اور اُس نے اُسے مو آب کی ایک وادی میں بیت ففور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا۔‘‘ (استثنا باب ۳۴ آیت ۵،۶) پھر آیت۱۰ میں لکھا ہے کہ ’’اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا جس سے خداوند آمنے سامہنے آشنائی کرتا۔‘‘
اب ہر اک شخص سمجھ سکتا ہے کہ موسیٰ پر یہ کلام نازل نہیں ہو سکتا تھا کہ پھر موسیٰ مر گیا اور اب تک اس جیسا شحص کوئی پیدا نہیں ہوا۔ ضرور ہے کہ یہ فقرہ تورات میں موسیٰ کی وفات کے لمبے عرصہ بعد بڑھایا گیا ہو۔
واضح الحاقی عبارتوں کے علاوہ بائبل میں ایسے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی صورت میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتاب اس شکل میںموجود ہے جس شکل میں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر اختلافات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
پیدائش باب ۱ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے حشرات الارض اور جنگلی جانور پیدا کئے اور اس کے بعد انسان کو پیدا کیا۔ (آیت ۶۴ و ۲۵،۲۶) لیکن پیدائش باب ۲ میں لکھا ہے کہ آدم کی پیدائش کے بعد جانور اور آسمان کے پرندوں کو بنایا گیا۔ آیت ۱۹ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق پیدائش باب ۷ میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کہا کہ سب پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور ان کے مادے اپنی کشتی میں رکھ لے اور نوح نے ایسا ہی کیا (آیت او ۲، ۵) لیکن اسی بات کی ۸ اور ۹ آیت میں لکھا ہے کہ پاک چار پایوں میں سے دو دو نر اور مادے نوح کی کشتی میں داخل ہوئے جیسے کہ خدا نے فرمایا تھا۔ گویا ایک ہی جگہ پر دو تین آیتوں کے فرق پر اس قدر اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ دو تین آیتوں پہلے تو کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے سات سات جانور رکھنے کا حکم دیا اور نوح نے سات سات جانور ہی رکھے۔ لیکن دو تین آیتوں بعدیہ کہا گیا ہے کہ خدا نے دو دو جانور رکھنے کا حکم دیا تھا اور نوح علیہ السلام نے دو دو جانور ہی رکھے۔ اس قسم کے میسیوں اختلافات تورات میں پائے جاتے ہیں جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس شکل میں موجود نہیں جس شکل میں کہ موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی ورنہ ایسے صریح اختلافات پائے نہ جاتے۔
انا جیل کی بھی یہی حالت ہے اول تو اس امر کا ہی کوئی ثبوت نہیں کہ کون سی انجیل الہامی ہے اور کون سی نہیں کیونکہ اناجیل کئی ہیں۔ ان میں سے ہلاک کسی دلیل کے محض قرعہ ڈال کر چار انجیلوں کا انتخاب کر لیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ یہ زیادہ معتبر ہیں۔ پھر جو چار انجیلیں منتخب کر کے بنیادی کتب قرار دی گئی ہیں ان میں بھی مسیح کا کلام بہت تھوڑا ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام تو اس میں کوئی ہے ہی نہیں ہاں مسیح کی زبانی چند فقرات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ملتے ہیں۔ پس حقیقتاً ذخدا تعالیٰ کا الہام خواہ اس کے الفاظ میں ہو یا مسیح کے الفاظ میں انا جیل میں بہت کم ہے۔ ہاں تاریخی واقعات پر یہ کتاب مشتمل ہے جو کسی صورت میں الہام نہیں کہلا سکتے۔ بلکہ صرف بعض مورخوں کا نقطہ نگاہ ہے مگر اسی پریس نہیں ان اناجیل میں بھی کہ جو عہد نامہ جدید میں شامل کی گئی ہیں (۱) شدید اختلاف ہے اور (۲) اس کے مختلف زمانوں کے ترجموں میں بھی باہم شدید اختلاف ہے۔
پہلے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ متی باب ۱۰ آیت ۹، ۱۰ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے حواریوں کو یہ نصیحت کی کہ ’‘نہ سونا، نہ روپا، نہ تائیا اپنے کمر بندوں میں رکھو راستے کے لئے نہ جھولی نہ دو کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو‘‘ لیکن مرقس باب ۶ میں حضرت مسیح کی نصیحت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ’’اور حکم کیا کہ سفر کے لیے سوالاٹھی کے کچھ نہ لو نہ جھولی، نہ روٹی، نہ اپنے کمر بند میں پیسے۔ مگر جوتیاں پہنو پردہ کرتے مت پہنو‘‘ (آیت ۸،۹) یہ کیسا صریح اختلاف ہے۔ متی کا بیان ہے کہ مسیح نے کہا نہ جوتی لو نہ لاٹھی لومرقس کہتا ہے کہ مسیح نے یوں کہا کہ لاٹھی کے سوا کچھ نہ لو ہاں جوتی ضرور پہنو۔اسیطرح متی باب ۶۷ آیت ۴۴ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح کو صلیب کے موقعہ پر ان کے دو نو مصلوب ساتھیوں نے ملامت کی اور طعنے دئے۔ مرقس باب ۱۵ آیت ۳۹، ۴۰ میں لکھا ہے کہ ان چوروں میں سے جو اس کے ساتھ صلیب دئے گئے ایک نے اُسے طعنہ دیا لیکن دوسرے نے نہ صرف یہ کہ طعنہ نہیں دیا بلکہ طعنہ دینے والے کو ملامت کی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ان دو صلیب والوں میں سے ایک چور نے مسیح سے کہا ’’کہ اگر تو مسیح ہے تو آپ کو اور ہم کو بچا۔ دوسرے نے اُسے ملامت کر کے جواب دیا۔ کیا تو بھی خدا سے نہیں ڈرتا جس حال کہ اسی سزا میں گرفتار ہے‘‘ پھر آگے لکھا ہے ’’اور اُس نے یسوع سے کہا اے خداوند جب تو اپنی بادشاہت میں آوے مجھے یاد کیجئو‘‘ (آیت ۴۲) اس پر یسوع نے اُسے کہا کہ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج تو میرے ساتھ بہشت میں ہو گا‘‘ (آیت ۴۳) اسی طرح مرقس باب ۱۵ آیت ۲۵ میں لکھا ہے کہ مسیح کو صلیب تیسرے گھنٹے میں دی گئی۔ لیکن یوحنا باب ۱۹ آیت ۱۴ میں لکھا ہے کہ چھٹی گھڑی تک ابھی مسیح پیلا طوس کی کچہری میں موجود تھا۔ اسی طرح متی باب ۶۷ آیت ۵ میں لکھا ہے کہ یہوداہ اس کر یوطی جس نے مسیح علیہ السلام کو پکڑ وایا تھا۔ اُس نے پھانسی کے ذریعہ خود کشی کر لی لیکن اعمال باب ۱ آیت ۱۸ میں لکھا ہے کہ وہ اوندھے منہ گر گیا اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی ساری انتڑیاں نکل گئیں۔ اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب دئے جانے کے دوسرے دن کے متعلق اناجیل میں عجیب و غریب اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوحنا باب ۲۰ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ ہفتہ کے پہلے دن (یعنی اتوار کو) مریم میگدلینی قبر پر آئی لیکن متی باب ۲۷ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ سبت کے بعد (یعنی اتوار کے دن) پوپھٹنے کے بعد مریم میگدلینی اور دوسری مریم اس کی قبر کو دیکھنے آئیں۔ یعنی قبر پر آنیوالی دو عورتیں تھیں۔ مرقس باب ۱۶ آیت ۱ میں سا سے بھی اختلاف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اتوار کے دن مریم میگدلینی یعقوب کی ماں مریم اور سلومی یعنی تین عورتیں قبر پر آئیں۔ لیکن لو قا باب ۶۴ آیت ۱۰ میں کہا گیا ہے کہ مریم میگدلینی اور یوحنا اور مریم یعقوب کی ماں اور اَور عورتیں ساتھ تھیں۔ اور یہ سب مل کر قبر پر گئیں۔ گویا ہر ایک انجیل دوسری انجیل کے مخالف بیان دے رہی ہے۔ یوحنا ایک عورت کا جانا بیان کرتا ہے۔ متی دو عورتوں کا جانا بیان کرتا ہے۔ مرقس تین عورتوں کا جانا بیان کرتا ہے۔ اب یہ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب کلام خدا تعالیٰ کا ہے۔ یہ اور اسی قسم کے بہت سے اختلافات اناجیل میں پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ اناجیل شک و شبہ سے خالی نہیں۔
دوسرے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ متی باب ۱۷ میں ایک آیت نمبر ۲۱ یوں ہوا کرتی تھی۔ ’’مگر اس طرح کے دیو بغیر دعا و روزہ کے نہیں نکالے جاتے۔‘‘ ۱۹۳۰ء کے پہلے کی تمام اناجیل میں یہ آیت پائی جاتی تھی مگر ۱۹۳۰ء اور اس کے بعد کی اناجیل میں سے یہ آیت کی آیت ہی نکال دی گئی۔ متی باب ۱۹ آیت ۱۷ کے الفاظ پہلے انا جیل میں یوں ہوا کرتے تھے ’’تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے‘‘ لیکن ۱۹۳۰ء کی اناجیل میں اس فقرہ کو بدل کر یوں کر دیا گیا ہے ’’تو مجھ سے نیکی کی بات کیوں پوچھتا ہے‘‘ متی باب ۲۳ میں ایک آیت ۱۴ ہوا کرتی تھی جس کے الفاظ یوں تھے ’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کہ بیوائوں کے گھر نگل جاتے اور مکر سے لمبی نمازیں پڑھتے ہو اس سبب سے تم زیادہ تر سزا پائو گے۔‘‘ ۱۹۳۰ء کے نسخوں میں سے یہ آیت بالکل نکال دی گئی ہے۔ متی باب ۲۷ میں ایک آیت ۳۵ ہوتی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’تاکہ جو نبی نے کہا تھا پورا ہو۔ کہ انہوں نے میرے لباس آپس میں بانٹ لئے اور میرے لباس پر چٹھی ڈالی۔‘‘ مگر یہ آیت ۱۹۳۰ء کے نسخوں میں موجود نہیں۔ یوحنا باب ۵ میں ایک آیت ۴ ہوتی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’کیونکہ ایک فرشتہ بعضے وقت اس حوض میں اُتر کے اس پانی کو ہلاتا تھا۔ او رپانی کے ہلنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اُترتا کسی بیماری میں گرفتار ہو اس سے چنگا ہو جاتا تھا۔‘‘ یہ آیت ۱۹۳۰ء اور بعد کی اناجیل میں سے بالکل نکال دی گئی ہے۔ یوحنا باب ۷ آیت ۵۳ سے باب ۸ آیت ۱۱ تک نسخہ مطبوعہ مرزا پور میں موجود ہیں مگر نسخہ بحروف رومن اردو کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ساتویں باب لی ۵۳ آیت سے لیکر آٹھویں باب کی گیارہویں آیت تک کی عبارت اکثرقلمی نسخو ںمیں نہیں پائی جاتی۔ عیسائی علماء کا اپنا اقرار کہ بعض آیتیں جو اناجیل میں درج تھیں وہ در حقیقت اناجیل کا حصہ نہیں تھیں۔ اور پُرانے نسخوں کا آپس میں اختلاف کہ بعض آیتیں بعض میں پائی جاتی ہیں اور بعض میں نہیں۔ یہ امور اس بات کا صاف اور واضح ثبوت ہیں کہ موجودہ اناجیل شک اور شبہ سے پاک نہیں بلکہ اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ وہ ملاوٹ سے ہر گز محفوظ نہیں۔ اور خود عیسائیوں کے مسلمات کے رو سے محرف اور مبدل ہیں۔ پس ایسی کتب کی موجودگی کے باوجود خواہ وہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کی جاتی ہوں یقینا ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس کا ہر ہر لفظ قطعی اور یقینی ہو اور جس کی حفاظت کا دشمن اور دوست کو اقرار ہو۔ اور اس ضرورت کو قرآن کریم نے پورا کیا۔ اور اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض کرنا کہ پہلی کتب کی موجودگی میں اس کی کیا ضرورت ہے ایک بے معنے اعتراض تھا کیونکہ محرف مبدل کتب خود ایک محفوظ کتاب کا مطالبہ کرتی تھیں جس پر لوگ اس یقین سے عمل کر سکیں کہ اس کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس قرآن کریم نے اپنی ضرورت کی تائید میں اپنے کامل ہونے کی دلیل کے ساتھ یہ دلیل بھی پیش کی کہ ایمان کے لئے اس کتاب پر کامل یقین ضروری ہے جس پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے اور قرآن کریم سے پہلے کی سب کتاب اپنی موجودہ شکل میں مجروح اور مشکوک ہو چکی ہیں۔ پس ایک ایسی کتاب کی ضرورت پیدا ہو چکی ہے جس کے لفظ لفظ کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے میں شک نہ کیا جا سکے۔ پس اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے تاکہ جو لوگ اس پر عمل کریں اس یقین کے ساتھ عمل کریں کہ یہ تمام کا تمام محفوظ ہے اور ہر ہر لفظ اس کا اسی طرح ہے جس طرح حدا آنے نازل کیا ہے۔ یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کے بعد کوئی شخص قرآن کریم کی ضرورت کا انکار نہیں کر سکتا او رجس کے بعد پہلی کتب کا موجود ہونا اس کی ضرورت کو باطل نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں ان الفاظ میں یہ پیشگوئی بھی کر دی گئی ہے کہ یہ کتاب ہمیشہ محفوظ رہے گی اور کبھی بھی انسانی دستبرد کاشکار نہ ہو گی۔
۳۔ ریب کے ایک معنے ہلاک اور تباہی کے بھی ہیں۔ ان معنوں کے رُو سے لَارَیْبَ فِیْہِ کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ کتاب نہ صرف سب خوبیوں کی جامع ہے بلکہ سب نقائص سے پاک بھی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایک نسخہ کسی خاص مرض کے لئے مفید تو ہوتا ہے لیکن اس فائدہ کے ساتھ بعص اور نقصان بھی پہنچا دیتا ہے پس ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ جو ضرورت بھی انسان کو مذہب کے بارہ میں پیدا ہو قرآن کریم اس کو پورا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ اس پر عمل کرنے سے کسی اور جہت سے انسان کی روحانیت کو نقصان بھی نہیں پہنچتا۔ چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ سورۃ طہ میں فرماتا ہے مَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی (ع ۱) یعنی اس قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان دن یا دنیا میں نقصان اٹھائے بلکہ اس کی تعلیم مفید ہونے کے ساتھ بے ضرر بھی ہے۔ اس بارہ میں بھی آئدہ تفسیر میں متعدد مثالیں پیش کی جائیں گی (انشاء اللہ) جن سے معلوم ہو گا کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان کی روحانیت یا اخلاق کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ وہ خالص خیر ہی خیر ہے۔ او ریہ امر بھی اسے دوسری کتب پر ایک زبردست فوقیت عطا کرتا ہے۔
۴۔ چوتھے معنے رَیْب کے حَاجَۃٌ کے بتائے گئے تھے۔ ان معنوں کے رُو سے لَارَیْبَ فِیْہِ کے معنے یہ ہوں گے کہ اس کتاب میں کوئی دینی امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا بلکہ سب ضروری امور اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں چنانچہ یہ فضیلت بھی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور وہ ایک ایسی جامع کتاب ہے کہ کوئی انسانی ضرورت ایسی نہیں جس کے متعلق اس میں شافی تعلیم موجود نہیں۔ کوئی اعتقادی او رکوئی عملی اور کوئی اخلاقی اور کوئی اقتصادی اور کوئی مدنی امر نہیں جس کے بارہ میں قرآن کریم میں بحث نہ کی گئی ہو اور اس کے متعلق ہدایت نہ دی گئی ہو بلکہ باوجود قلیل الحجم ہونے کے قرآن کریم میں سب ضروری امور پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اور اسے قرآن کریم کا ایک زبردست معجزہ تسلیم کرنے پر مجبو رہو جاتا ہے۔ اس خوبی کی طرف شروع سے اس کے دشمنوں کی نگاہ بھی پڑتی چلی آئی ہے چنانچہ احادیث میں آتا ہے۔ کہ قَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ یَا اَمِیْرَ الْمُؤمِنِیْنَ لَوْ عَلَیْنَا اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتَ لَکُمْ الْاِ سْلَامَ دِیْنًا لَاتَّخَذْنَاہُ ذَالِکَ الْیَوْمَ عِیْدًا فَقَالَ عُمَرُ اِنِّیْ لَاَ عْلَمُ اَیَّ یَوْمِ اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ اُنْزِلَتْ یَوْمَ عَرَفَۃَ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ (ترمذی جلد دوم کتاب التفسیر زیر آیت الیوم اکملت لکم دینکم) کہ ایک یہودی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملا۔ اور کہنے لگا۔ کہ اگرہم پر آیت اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اترتی۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی دینی امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا بلکہ سب ضروری امور اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں اور قرآن مجید کامل کتاب ہے۔ تو ہم اس دن کو جس دن وہ آیت اُترتی عید کا دن مقرر کرتے۔ اور خوشی مناتے۔ کہ ہماری شریعت کامل شریعت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے خوب یاد ہے کہ کب او رکہاں یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ آیت حج کے ایام میں یوم عرفہ میں جمعہ کے روز نازل ہوئی۔ گویا تم تو ایک دن عید مناتے لیکن ہمارے لئے یہ دو عیدیں تھیں ایک جمعہ کا دن اور دُوسرا یوم عرفہ۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے آیت اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ پڑھی۔ اور پاس ہی ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے اُن سے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس روز عید مناتے۔ حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ یہ آیت نازل ہی ایسے ایام میں ہوئی جبکہ دو عیدیں جمع تھیں (ترمذی جلد دوم کتاب التفسیر)
خلاصہ کلام یہ کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ میں صرف اس امر کی تاکید نہیں کی گئی کہ یہ کلام سچا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ بلکہ ریب کے معنوں پر نظر کرتے ہوئے اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ (۱) اس میں کسی صداقت کا انکار نہیں ہے بلکہ سب صداقتوں کا اقرار کیا گیا ہے اور مذہب کے سب ضروریامو رپر سے تہمتوں اور بدگمانیوں کو دور کیا گیا ہے (۲) اس میں کوئی ظنی اور شکی بات نہیں بلکہ ہر بات دلیل سے بیان کی گئی ہے (۳) یہ کلام محفوظ اور یقینی ہے اور ہمیشہ محفوظ رہیگا (۴) اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو انسان کے لئے تکلیف اور تباہی کا وجب ہو (۵) اس میں سب ضروری امور بیان کر دیئے گئے ہیں اور کوئی ایسا مذہبی اخلاقی تمدنی اقتصادی سیاسی وغیرہ مسئلہ نہیں جس کے بارہ میں اس میں مکمل تعلیم نہ دی گئی ہو۔
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ان الفاظ یہ بتایا کہ (۱) قرآن کریم میں وصال الٰہی کی تڑپ پیدا کرنپے کے سامان موجود ہیں یعنی ہر فطرت صحیحہ کو اس کی تلاوت کے ذریعہ سے وہ ضروری دھکا لگتا ہے جس کے بغیر والہانہ اور عاشقانہ قدم ارواح اپنے معشوق حقیقی کی طرف نہیں اٹھا سکتیں۔ صرف فلسفیانہ خیالات کا پیدا ہونا انسان کے لئے کافی نہیں ہوتا کیونکہ فلسفہ صرف خیالات کو درست کرتا ہے ایک ناقابل برداشت جذبہ اس سے پیدا نہیں ہوتا مگر عمل کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فطرۃ انسانی کو ایک ایسا دھکا لگے کہ وہ آپ ہی آپ آگے بڑھتی چلی جائے۔ خدمت اور ایثار پر فلسفی زبردست تقریر کر سکتا ہے ایک جاہل ماں اس کا لاکھواں حصہ بھی بیان نہیں کر سکتی لیکن اپنے بچہ کے لئے جس ایثار اور قربانی کا عملی نمونہ وہ دکھاتی ہے ایک فلسفی بنی نوع انسان کے لئے اس نمونہ کا لاکھواں حصہ بھی پیش نہیں کر سکتا۔ پس جب تک کوئی کوئی کتاب ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ نہ ہو یعنی جن لوگوں کے خیالات و افکار دلیل اور بُرہان سے پاک ہو چکے ہوں اُن کے اندر عشق اور محبت کی آگ نہ بھڑکا دے اور ایک طرف خدا تعالیٰ کی طرف محبت سے بڑھتے چلے جانے اور دوسری طرف مخلوق کی طرف شفقت سے جھکتے چلے جانے کا بے پناہ جذبہ نہ پیدا کر دے وہ دنیا کی عملی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اور قرآن کریم ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے الفاظ سے اسی مقصد کے پورا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے انسانی فطرت کو وہ ابتدائی دھکا لگتا ہے جو اُسے عشق کیر اہ پر گامزن کر دیتا ہے۔
دوسرے معنے ہدایت کے اس ارشاد کے ہوتے ہیں جو نبیو ںکے ذریعہ سے انسانوں کو پہنچایا جاتا ہے۔ ان معنوں کے رُو سے اس جملہ کے معنے یہ ہوں گے کہ جو لوگ اس امر کے شائق ہیں کہ ان کو ان کے خالق و مالک کی طرف سے ہدایت ملتی رہے ان کی حواہش کے پوار کرنے کے بھی اس میں سامان موجود ہیں اور خواہ کسی درجہ کا متقی ہو اس کی راہنمائی کے لیے اس کتاب میں پاک اور مصفی الٰہی تعلیم موجود ہے جس سے متقی کے دل کو یہ تسکین حاصل ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنی عقل سے کام نہیں لے رہا۔ بلکہ اُسے خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت حاصل ہے جس کی مدد سے وہ ہر قدم یقین اور اطمینان سے اٹھا سکتا ہے اور شک و شبہ کی زندگی سے پاک ہو جاتا ہے۔
تیسرے معنے ہدایت کے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے عمل کی مزید توفیق اور فکر کی بلندی کے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے اس جملہ کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم میں ایسی قوت ہے کہ جب اس کے کسی حکم پر انسانع مل کرنے تو اسے مزید نیکیو ںکی توفیق ملتی ہے اور اس کے خیالات میں جلا پیدا ہوتی ے اور اس کا فکر اور اس کا حوصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور باریک در باریک تقویٰ کی راہیں اس پر کھولی جاتی ہیں۔ گویا وہ ایک لامتناہی نیکی اور تقویٰ کی نہ ختم ہونے والی راہوں پر چل پڑتا ہے اور اس کی ترقیات کی کوئی انتہاء مقرر نہیں کی جا سکتی۔ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَ ھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوھٰمْ (محمد ۶ع۲) یعنی جو لوگ ہدایت پا جائیں انہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ سے ہدایت میں اور بھی بڑھاتا ہے اور ان کے مناسب حال تقویٰ انہیں عطا کرتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے۔ کہ ہدایت اور تقویٰ کسی ایک مقام کا نام نہیں ہیں بلکہ ہدایت کے بھی مختلف مقامات ہیں اور تقویٰ کے بھی مختلف مقامات ہیں۔ قرآن کریم ہدایت یا فتو ںکو ان کے مقام سے اوپر کے مقام ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور پھر اس مقام کے مناسب حال تقویٰ کا مقام اس شخص کو دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ لامتناہی ترقیات کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُ وْافِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۳ ع ۷) یعنی جو لوگ ہماری محبت او رہمارے وصال کے حصول کے لئے ہمارے بتائے ہوئے قواعد کے مطابق (اس پر فینا کے الفاظ دلالت کرتے ہیں اور ان سے ایک مراد قرآن کریم ہے) جدوجہد کرتے ہیں انہیں ہم یکے بعد دیگرے ان راستوں کا پتہ بتاتے چلے جاتے ہیں جو ہم تک پہنچنے والے ہیں۔ اس آیت میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف ہدایت کے راستے محدود نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا راستہ ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے نُوْرُ ھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِ یْھِمْ وَبِاَیْمَا نِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر (التحریم ۱۰ ع ۲) یہ آیت مابعد الموت زندگی کے متعلق ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کو جب آنحضرت صلعم اور مومن جنت کی طرف جائیں گے تو ان کے ایمان و عمل کے نتیجہ میں پیدا شدہ نور ان کے آگے ہو گااور وہ یہ کہتے جائیں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے نور کو مکمل کر دے او رہماری کمزوریوں کو ڈھانپ دے تو ہر شئے پر قادر ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت صرف اسی دنیا میں نہیں بڑھتی بلکہ بعد الموت بھی ہدایت اور عرفان میں انسان ترقی کرے گا اور نئی طاقتیں اُسے ملتی جائیں گی۔ خلاصہ یہ کہ ہدایت کے لفظ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسری آیت قرآنیہ اس کی وموید ہیںکہ روحانی ترقیات غیر محدود ہیں اور قرآن کریم متقیوں کو ان اعلیٰ ترقیات کی طرف بڑھاتا لئے جاتا ہے۔
چوتھے معنے ہدایت کے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے قرآن کریم سے یہ ثابت ہیں کہ انجام بخیر اور جنت حاصل ہو جاتی ہے۔ ان معنوں کے رُو سے اس جملہ ی معنے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم میںایسی تعلیم ہے کہ جس کی امداد سے خدا ترس انسان اپنے منزل مقصود یعنی جنت کو حاصل کر لیتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ دعویٰ سب مذاہب ہی کرتے ہیں اور بظاہر اس مضمون میں کوئی جدت یا افضلیت نہیں پائی جاتی۔ لیکن جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ اس میں جنت کے حصول کے کیا معنے ہیں تو پھر یہ دعویٰ بالکل جدید اور نرالا ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جنت کے حصول کے یہ معنے نہیں کہ انسان مرنے کے بعد جنت میں داخل ہو جائے بلکہ مرنے کے بعد کی جنت کا حصول اس دنیا میں جنت کے حصول سے وابستہ ہے جسے اس دنیا میں جنت مل جائے صرف اسی کو بعد الموت جنت ملے گی۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ (الرحمن ع ۳) یعنی جو شخص تقویٰ کے سچے مقام پر ہوتا ہے اُسے دو جنتیں ملتی ہیں۔ ایک اس دنیا میں اور ایک اگلے جہان میں۔ اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰ خِرَۃِ اَعْمٰی (بنی اسرائیل ع ۸) یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو یعنی اُسے دیدار الٰہی نصیب نہ ہو وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا اور یدار الٰہی یا دوسرے الفاظ میںجنت سے محروم رہیگا۔
قرآن کریم کی اس تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے جنت کے ملنے کے معنے صرف یہ نہیں کہ مرنے کے بعد قرآن کریم کا مومن جنت حاصل کرے گا کیونکہ یہ صرف ایک دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان لانے والا اور اس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے والا شخص اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہو جاتا ہے اور ایمان بالغیب اس کے لئے ایمان بالمعاینہ ہو جاتا ہے۔ وہ صرف عقیدۃ اس امر کو نہیں مانتا کہ اسے مرنے کے بعد جنت مل جائے گی بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو اس کے لئے ظاہر کرتا ہے او راپنے وجود کو اس کے سامنے لے آتا ہے یہاں تک کہ وہ موت سے پہلے ہی اپنے آپ کو جنت میں محسوس کرنے لگتا ہے اور جسمانی موت صرف اُس کے مشاہدہ کو زیادہ روشن کرنے کا موجب ہوتی ہے ورنہ مشاہدہ اور دیدار الٰہی اُسے اسی دنیا میں میسر آ جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ ایسا مقام ہے جس کے بعد کوئی بے چینی اور شک باقی نہیں رہتا اور ایسا انسان ہر ٹھوکر اور ابتلاء سے محفوظ ہو جاتا ہے اور گویا اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کی گو دمیں جا بیٹھتا ہے۔ پس قرآن کا مومنوں کو قرآن کریم کے ذریعہ سے جنت ملنے کا دعویٰ کرنا محض ایک بے دلیل دعویٰ نہیں بلکہ وہ اسے ایک ایسی شہادت کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا جھوٹ اور سچ اسی دنیا میں آزمایا جا سکتا ہے۔ اور اسلام کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو اس دعویٰ کے لئے دلیل کے طور پر تھے اور جن کو اللہ تعالیٰ کا وصال اور دیدار کامل طو رپر اسی دنیا میں حاصل ہو گیا اور اسی دنیا میں جنت میں داخل ہو گئے۔ یعنی ہر قسم کے شیطانی حملوں سے محفوظ ہو گئے اور ہر قسم کی روحانی نعمتوں سے متمتع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ کلام کو انہو ںنے سُنا اور اس سے بالمشافہ انہو ںنے باتیں کیں اور اس کے زندہ نشانوں کو انہو ںنے اپنی ذات میں دیکھا اور دوسروں کے وجودوں میں انہیں دیکھایا۔
بعض لوگ اس آیت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت ہے تو معلوم ہوا کہ متقی پیدا کرنے کیلئے اور کسی کلام یا کتاب کی ضرورت ہے۔ سو یاد رہے کہ یہ اعتراض محض قلت تدبر سے پیدا ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم تقویٰ پیدا کرنے کا بھی مدعی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِینَتَہٗ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَالتَّقْویٰ وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَہَا (فتح ۱۱ ع ۳) یعنے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اپنی کتاب پر ایمان لانے والوں پر سکینت او راطمینان نازل کیا اور اُن سے تقویٰ کی حقیقت کو وابستہ کر دیا اور مومن بالقرآن ہی حقیقت تقویٰ کے مستحق اور اس کے اہل ہیں۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ سے اور اس پر ایمان لا کر انسان کو کامل تقویٰ میسر آتا ہے بلکہ ایسا تقویٰ میسر آتا ہے جو دائمی ہوتا ہے۔ بلکہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقویٰ کے اہل اور اس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھنے والے صرف مومنین قرآن ہیں۔
اس آیت کی موجودگی میں یہ اعتراض کرنا کہ گویا قرآن کریم صرف مقتیوں کو ہدایت دینے کا دعویٰ دار ہے تقویٰ پیدا کرنے کا دعویٰ نہیں کرتا بالبداہت باطل ہے۔ اس کے برخلاف قرآن کریم تو اس امر کا مدعی ہے کہ حقیقی تقویٰ صرف قرآن کریم پر ایمان لانے سے پیدا ہو سکتا ہے۔
اس آیت کے علاوہ قرآن کریم کی اور بہت سی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم صرف مقتیوں کے لیے ہدایت نہیں بلکہ سب بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے خواہ وہ روحانی زندگی میں اعلیٰ مقام پر ہوں یا ادنیٰ پر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی (آل عمران ۵ ع ۱۴) یہ قرآن تمام انسانوں کے لئے ضروری امور بیان کرتا ہے اور انہیں ہدایت دیتا ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآنی ہدایت صرف متقیوں کیلئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ قرآن کریم میں ہے ھُدًی لِّلنَّاسِ وبَیِّنَتٍ مِّنَ الْھُدٰی (البقرہ ۶ ع ۲۳) یعنی قرآن کریم سب انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی تمام اقسام بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ط (الکف ۲۰ ع ۸) یعنی اس قرآن میں تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے خواہ متقی ہو ںیا غیر متقی ہر بات اعلیٰ سے اعلیٰ پیرایہ میں بیان کر دی گئی ہے یعنی ہر انسان کی حالت کے مطابق اس میں ایسی تعلیم ہے جو اسے اوپر کے درجہ کی طرف لے جاتی ہے اور اس کی رحوانی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذا الْقُرْاٰن مِنْ کُلِّ مَثَلٍ (الروم ۹ چ ۶) اس آیت کے بھی قریباً وہی معنے ہیں جو اوپر کی آیت کے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں صَرَّفْنَا کہا گیا تھا یہاں صَرَّفْنَا کہا گیا ہے۔ اورصَرَّفْنَا میں اس امر پر زور ہے کہ مختلف پیرایوں سے اس ہدایت کو بیان کیا ہے۔ اور صَرَّفْنَا میں اس امر پر زور ہے کہ فطرت کی صحیح مثالوں اور واضح نمونوں کے مقابل پر رکھ رکھ کر ہدایت کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَیَذَّ کَّرُوْا (بنی اسرائیل ۵ ع ۵) یعنی قرآن کریم میں تمام ضروری امور ہدایت مختلف پیرایوں میں بیان کئے گئے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور فائدہ اٹھائیں۔ اس جگہ بھی متقیوں یا مومنوں کے لئے ہدایت کو مخصوص نہیں کیا گیا بلکہ تمام انسانوں کے لئے اسے پیش کیاگیا۔
قرآن کریم کی متعدد آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کی راہیں بھی قرآن کریم نے تمام انسانوں کے لئے بیان کی ہیں چناچنہ فرماتا ہے یَآ اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ ۳ ع ۳) یعنی اے انسانو (نہ کہ مومنو یا مسلمانو) اپنے اس رب کی جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا ہے عبادت کرو تاکہ تم متقی بنو۔ اسی طرح فرماتا ہے۔ وَکَذَ ایِکَ اَنْزَلْنَاہ قُرْآنًا عَرَبِیًّا وَّصَرَّ فْنَا فِیْہِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْن (طہ ۱۵ ع ۶) یعنی قرآن کریم کو ہم نے عربی زبان میں اتارا ہے اور اس میں تمام عذاب کی خبریں بھی بیان کی گئی ہیں تاکہ جو مومن نہیں وہ بھی متقی ہو جائیں۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم کافروں کو بھی متقی بناتا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر اس جگہ یہ کیوں فرمایا کہ قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت ہے یہ کیوں نہ فرمایا کہ قرآن کریم تقویٰ پیدا کرات ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ قرآن کریم کی افضلیت کا ذک ہے یعنی یہ بیان ہے کہ دوسری کتب کی موجودگی میں اس کتاب کی کیا ضرورت ہے۔ پس اس مضمون کے لحاظ سے ان اعلیٰ مقامات کے حصول کا ذکر ہی مناسب اور درست تھا جن میں قرآن کریم منفرد ہے او رجس میں اس کا مقابلہ کرنے کا دوسرے مذاہب کو دعویٰ تک بھی نہیں۔
اس جواب کے علاوہ اس اعتراض کا ایک اور بھی جواب ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں تقویٰ کی ایک اور بھی تعریف بیان کیگئی ہے اور اس تعریف کے رُو سے تقویٰ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے نہ کہ مذہب سے۔ چنانچہ سورہ شمس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَ ھَا وَتَقْوٰھَا۔ ہر انسان کو اس کی پیدائش کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک امتیازی قابلیت بخشی ہے جس کے ذریعہ سے وہ بُرے اور بھلے میں تمیز کرتا ہے۔ یہ قابلیت مسلمان یا غیر مسلمان کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہر انسان میں پیدا کی گئی ہے۔ پس اس تعریف کے مطابق تقویٰ کے معنے فطرت کی حفاظت کے ہیں نہ کسی خاص مذہب یا عقیدہ کے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہدایت وہی لوگ پا سکتے ہیں جو فطرۃ کو گندے اثرات سے پاک رکھتے ہیں ورنہ جو لوگ فطرت کو پاک رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور صداقت کے مانے سے انکار کرتے ہیں وہ ہدایت نہیں پا سکتے ان کو ہدایت تبھی مل سکتی ہے جب جبر سے کام لیا جائے۔ اور قرآن کریم جبر کے خلاف ہے۔
خلاصہ یہ کہ اوپر کی تعریف کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جو لوگ صداقت کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوں قرآن کریم ان کو ہدایت دیتا ہے اور اعلیٰ مدارج تک پہنچاتا ہے۔ او رلوگ ہدایت کو ماننے کیلئے تیار ہی نہ ہوں وہ گویا اپنی ہلاکت کا خود ہی فیصلہ کر دیتے ہیں اور انہیں ہدایت جبر ہی سے دی جا سکتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جبر سے جو ہدایت ملے اس کا فائدہ جبر کرنے والے کو حاصل ہو سکتا ہے اسے نہیں ہو سکتا جسے ہدایت دیجائے۔ جیسے مثلاً کسی سے زبردستی مال چھین کر صدقہ کر دیا جائے تو اس صدقہ کا کوئی فائدہ اُسے نہیں مل سکتا جو صدقہ کا قائل ہی نہیں اور صدقہ دینا ہی نہیں چاہتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں دوسری کتب کی موجودگی میں قرآن کریم کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ غیر الہامی کتب کی موجودگی میں تو اس کی یہ ضرورت ہے کہ بغیر آسمانی ہدایت کے انسان ہدایت پا ہی نہیں سکتا۔ اس لئے آسمانی ہدات کی ضرورت تھی جسے قرآن کریم نے پورا کیا ہے اور الہامی کتب کی موجودگی میں اس کی یہ ضرورت ہے کہ (۱) اس سے پہلے سب ہدایت نامے نامکمل تھے یہ مکمل ہے (۲) ان میں خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور یہ سب خرابیوں سے محفوظ ہے (۳) وہ سب ہدایت نامے ایک ایک قوم اور مذہب کے لئے تھے اور یہ ہدایت نامہ سب قوموں کے لئے ہے اور سب قوموں کے بزرگوں کی عزت قائم کرنے اور سب ضائع شدہ ہدایتو ںکو زندہ کرنے کے لئے آیا ہے۔ (۴) ان کتب میں بوجہ اندرونی بیرونی نقائص کے وصال الٰہی پیدا کرنیکی خاصیت باقی نہ رہی تھی اب اس کے ذریعہ سے پھر انسان کو وصال الٰہی حاصل کرنے او رکلام الٰہی سے مشرف ہونے کا موقعہ دیا جائے گا وغیرہا وغیرہا۔
اس چھوٹی سی آیت میں اس قدر وسیع مطالب کا بیان ہونا قرآن کریم کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کی مثال پیش کرنے سے دوسری کتب قاصر ہیں۔
مذکورہ بالا مضمون بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے بتائے ہوئے مطالب کی روشنی اور ہدایت میں لکھے گئے ہیں۔ لیکن بطور مثال میں ان بے شمار مطلالب سے جو ان کی کتب میں پائے جائے ہیں ایک نکتہ براہِ راست بھی ان کی طرف سے اس جگہ بیان کر دیتا ہوں۔ تا معلوم ہو کہ کس طرح انہوںنے اس آیت کے عمیق سمندر میں سے روحانیت کے ہوتی نکالے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہر شے کی تکمیل کے لئے چار علل کی تکمیل ضروری ہوتی ہے یعنی (۱) اس کے بنانے والا کامل ہو (۲) وہ جس مادہ سے بنائی جائے وہ اعلیٰ ہو (۳) اس کی شکل و صورت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو (۴) جو نتیجہ اس سے پیدا ہو وہ بھی اعلیٰ دجرہ کا ہو۔ گویا علمت فاعلی علت مادی علت صوری اور علت غائی۔ ان چار علتوں کے کمال سے کوئی چیز مکمل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے قرآن میں ہی اس کے حق میں چاروں علتوں کے مکمل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ الم جس کے معنے ہیں کہ میں اللہ سب سے زیادہ جانتا ہوں علت فاعلی کے مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا بنانے والا علم میں کامل ہے اور سب سے افضل ہے۔ پس ایسی علیم ہستی جس کتاب کو بنائیگی یقینا وہ ان تمام کتب سے افضل ہو گی جو ادنیٰ علم والی ہستیوں کی طرف سے تیار کی جائیں گی۔ ذَالِکَ الْکِتٰبُ یعنی یہی کامل کتاب ہے قرآن کریم کی علت مادی کے مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ تمام اعلیٰ اور ضروری مطالب اس کتاب میں موجود ہیں پس اس کا مادہ بھی دوسری کتب کے مادہ سے اعلیٰ اور مکمل ہے۔ لَا رَیْبَ فِیْہِ کہہ کر یہ بتایا کہ قرآن کریم اپنی بے مثل فصیح زبان اور غیر معمولی حفاظت کی وجہ سے اپنی ظاہری مشکل میں بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا اور محفوظ کلام ہے۔ پس اس کی علت صوری بھی تمام دوسری کتب سے مکمل اور اعلیٰ ہے۔ پھر ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کہ کر بتایا کہ دوسری کتب تو صرف متقی کے درجہ تک پہنچاتی ہیں مگر یہ کتاب متقیوں کو بلند مقامات پر لے جا کر اللہ تعالیٰ سے مکالمہ مخاطبہ کا شرف دلواتی ہے اور اس سے کامل اتحاد پیدا کر دیتی ہے پس اس کی علت غائی بھی دوسری کتب سے افضل اور اکمل ہے۔
یہ خلاصہ ہے بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک تحریر کا اور جو صاحبِ بصیرت اور پر غور کرے گا وہ ان سب مطالب کو جو اوپر بیان ہوئے ہیں بلکہ ان کے علاوہ اور مطالب بھی اس لطیف تفسیر میں مخفی پائیگا۔
۴؎ حل لغات
یُؤْمِنُوْنَ:۔ اٰمَنَ۔ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اٰمَنَہٗ اِیْمَانًا کے معنے ہیںاٰمَّنَہٗ: اس کو امن دیا اور جب اس کا صلہ حرف باء ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو معنے ہونگے صَدَّقَہٗ وَوَثَّقَ بِہٖ۔ اس کی امن دیا اور جب اس کا صلہ حرف باء ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو معنے ہونگے صَدَّقَہٗ وَوَثَّقَ بِہٖ اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا اور جب اٰمَنَ کے بعد لام صلہ ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو اس کے معنے ہونگے خَضَعَ وَ انْقَادَ: یعنی فرمانبرداری اختیار کی۔ مطیع ہو گیا اور کہنا مان لیا (اقرب) اَلْاِیْمَانْ: اَلَّصْدِیْقُ۔ ایمان جو اٰمَنَ کا مصدر ہے اس کے معنے تصدیق کرنے کے ہیں۔ (اقرب) تاج العروس میں ہے۔ اَلْاِیْمَانْ یَتَعَدَّی بِنَفْسِہٖ کَصَدَّقَ وَبِاْللَّامِ باِعْتبَارِ مَعْنَی الْاِذْعَانِ وَبِالْبَائِ باِغْتبَارِ مَعْنَی الْاِعْتِرَافِ اشَارَۃ اِلَی اَنَّ التَّصْدِیْقَ لَایُعْتَبرُ بِہُ وْن اِعْتِرَافٍ۔ کہ لفظ ایمان کبھی بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس کا صلہ لام آتا ہے اور اس میں اذعان یعنی فرمانبرداری کے معنے ملحوظ ہوتے ہیں۔ اور جب باء کے صلہ کے ساتھ استعمال ہو تو اس وقت اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ایمان کے معنے تصدیق کے ہیں اور تصدیق کے ساتھ اعتراف بھی ہوتا ہے اس لئے اس کو اعتراف کے معنے میں استعمال کر لیتے ہیں۔ پس یُؤْمِنُوْنَ کے تین معنے ہوں گے (۱) تصدیق کرتے ہیں (۲) اعتراف کرتے ہیں (۳) پختہ یقین اور اعتماد رکھتے ہیں۔
اَلْغَیْبُ:۔ غَاتَبَ (یَغِیْبُ) کا مصدر ہے کہتے ہیں غَابَتِ الشَّمْسُ وَغَیْرُھَا: اِذَا اسْتَتَرَتْ مِنَ الْعَیْنِ یعنی غَابَ کا لفظ سورج اور دیگر اشیاء کے لئے اس وقت بولتے ہیں جبکہ سورج اور دوسری چیزیں آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں وَاسْتُعْمِلَ فِیْ کُلِّ غَاِئبٍ عَنِ الْحَاسَّۃِ وَعَمَّا یَغِیْبُ عَنْ عِلْمِ الْاِنْسَانِ بِمَعْنَی الْغَائِبِ۔ جس کا علم جو اس ظاہری سے حاصل نہ ہو سکے یا جس کا علم انسان کو نہ ہو اُسے غائب کہتے ہیں۔ وَالْغَیْبُ فِیْ قَوْلِہٖ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ مَالَایَقَعُ تَحْتَ الْحَوَاسِّ وَلَا تَقْتَضِیْہِ بَدَ اَیۃُ الْعُقُوْلِ اور آیت یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ میں غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو حواس ظاہری سے معلوم نہ کی جا سکے اور سرسری نظر میں انسانی عقلیں اس تک نہ پہنچ سکیں (مفردات) لسان میں ہے وَقَوْلُدٗ تعالیٰ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ اَیْ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا غَابَ عَنْھُمْ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ میں غیب کے یہ معنے ہیں کہ جو باتی ںاُن کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں اُن پر ایمان لاتے ہیں۔ وَالْغَیْبُ مَاغَابَ عَنِ الْعُیُوْنِ وَاِنْ کَانَ مُحَصَّلًافِی الْقُلُوْبِ اَوْغَیْرَ مُحَصَّلٍ اور غیب کا لفظ ہر اس امر پر بولا جاتا ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو خواہ وہ ایسا امر ہو کہ دماغی طو رپر اس کا علم حاصل ہو یا ایسا ہو کہ عقلاً بھی اس کا علم حاصل ہو کُلُّ مَکَانٍ لَایُدْرٰی مَافِیْہِ فَھُوَ غَیْبٌ۔ ہر وہ جگہ جس کے متعلق معلوم نہ ہو کہ اس کے اند رکیا ہے اس کو غیب کہتے ہیں۔ وَکَذَا الِکَ الْمَوْضِعُ الَّذِیْ لَایُدْریٰ مَاوَ وَائَ ہٗ۔ اوری اسی طرح اس جگہ پر بھی غیب کا لفظ بولتے ہیں جس کے پیچھے کی اشیاء کا علم نہ ہو۔ نیز کہتے ہیں۔ غَابَ الرَّجُلُ غَیْبًا اَیْ سَافَرَ اَوْبَانَ۔ کہ فلاں شخص نے سفر کیا یا کسی سے جدا ہو گیا۔ پس غیب ہر وہ امر ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو نہ یہ کہ وہ موہوم اور بے ثبوت ہو۔ پس یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے معنے ہوں گے (۱)ہر وہ چیز (امر) جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور ظاہری حواس اُسے پانے سے قاصر ہیں لیکن وہ موجود ہے اور ایمانیات میں داخل ہے اس کے حق ہونے پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں (۲) اس زندگی کے بعد کے پیش آنیوالے حالات پر پختہ یقین رکھتے ہیں (۳) نیز اس کے یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ غیبوبت کی حالت میں یعنی علیحدگی میں بھی ایمان رکھتے ہیں اور ان میں منافقوں کی طرح دورنگی نہیں پائی جاتی۔
یُقِیْمُوْنَ:۔ اَقَامَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور قَامَ سے جو اس کا مجرد ہے بنا ہے۔ قِیَامٌ (کھڑا ہونا) کا لفظ جُلُوْسَّ (بیٹھ جانے) کا نقیض ہے۔ کہتے ہیں۔ قَامَ الْاَمْرُ۔ اِعْتَدَلَ معاملہ درست ہو گیا۔ قام علی الامر: دام و ثبت۔ یعنی کسی چیز پر دوام و ثبات اختیار کیا۔ قَامَ الْحَقُّ ظَہَرَ وَ ثَبَتَ حق ظاہر اور ثابت ہو گیا۔ اور اَقَامَ السُّوْقُ کے معنے ہیں نَفَقَتْ بازار بار رونق ہو گیا۔ اور اَقَامَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہیں اَدَامَ فِعْلَہَا نما زپر دوام اختیار کیا۔ اَقَامَ لِلصَّلٰوۃِ کے معنے ہیں نَادٰی لَہَا نماز کے لئے تکبیر کہی۔ اَقَامَ اللّٰہُ السُّوْقَ: جَعَلَہَانَا فِقَۃً اللہ تعالیٰ نے برکت دی اور بازار کو بارونق بنا دیا (اقرب) مفردات میں ہے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ اَیْ یُدِیْمُوْنَ فِعْلَہَا وَیُحَافِظُوْنَ عَلَیْہَا۔ نماز کو اس کی شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس پر دوام اختیار کرتے ہیں۔ نیز لکھا ہے اِنَّمَا خُصَّ لَفْظُ الْاِقَامَۃِ تَنْبِیْھًا اَنَّ الْمَقْصُوْدَ مِنْ فَعْلِہَا تَوْفِیَۃُ حقُوْقِہَا وَ شَرَائِطِہَا۔ کہ صلٰوۃ کے ذکر کے ساتھ اقامت کا لفظ اس لئے لایا گیا ہے تاکہ اس طرف توجہ مبذول کرائی جائے کہ نماز کے حقوق اور شرائط کو پوری طرح ادا کیا جائے نہ کہ صرف ظاہری صورت میں اس کو دادا کر دیا جائے۔ نسان میں اَلْقِیَامُ کے معنے اَلْعَزْمُ کے بھی لکھے ہیں یعنی کسی چیز کا پختہ ارادہ کر لینا۔
اَلصَّلٰوۃُ:۔ صَلَّی سے مشتق ہے اور اس کا وزن فَعْلَۃٌ ہے۔ الف دائو سے منقلب ہے۔ صَلَّی (یُصَلِّیْ) کے معنے دعا کرنے کے ہیں اور اَلصَّلٰوۃُ کے اصطلاحی معنے عِبَادَۃٌ فِیْہَا رکُوْعٌ وَسجُوْدٌ کے ہیں یعنی اس مخصوص طریق سے دعا کرنا جس میں رکوع و سجود ہوتے ہیں جس کو ہماری زبان میں نماز کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں جو بے تعلق نہیں بلکہ سب ایک ہی حقیقت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کے دوسرے معنے مندرجہ ذیل ہیں اَلرَّحْمَۃُ۔ رحمت۔ الدِّیْنُ۔ شریعت۔ الَاِسْتِغْفَار۔ بخشش مانگنا۔ الدعاء دعا (اقرب) التَّعْظِیْمُ۔ بڑائی کا اظہار۔ اَلْبَرَکَۃُ۔ برکت (تاج) وَالصَّلٰوۃُ مِنَ اللّٰہِ الرَّحْمَۃُ وَمِنَ الْمَلَآئِکَۃِ الْاِسْتِغْفَارُ وَمِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ الدُّعَائُ وَمِنَ الطَّیْرِ وَالْھَوَامِّر التَّسْبِیْحُ۔ اور صلوۃ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے رحم کرنے کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کیلئے استعمال ہو تو اس وقت اس کے معنے استغفار کے ہوتے ہیں اور جب مومنوں کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے دعا یا نماز کے ہوتے ہیں اور جب پرند اور حشرات کیلئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے تسبیح کرنے کے ہوتے ہیں۔ وَھِیَ لَاتَکُوْنُ اِلَّافِی الْخَیْرِ بِخَلَافِ الدُّعَائِ فَاِنَّہٗ یَکُوْنُ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ۔ اور لفظ صلوۃ صرف نیک دُعا کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن لفظ دعا، بد دعا اور نیک دعا دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لفظ صلوۃ کے ایک معنے حُسْنُ الثَّنَائِ مِنَ اللّٰہِ عَلَی الرَّسُوْلِ کے بھی ہیں یعنی جب صَلَّی فعل کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو اور مفعول آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہو تو اس وقت اس کے معنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم کی بہترین کے ہوتے ہیں۔ (اقرب) وَیُسَمَّی مَوْضِعْ الْعِبَادِۃِ الصَّلٰوۃَ اور عبادت گاہ کو بھی الَّصلٰوۃَ کہہ دیتے ہیں (مفردات) پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہونگے (۱) نماز کو باجماعت ادا کرتے ہیں (۲) نماز کو اس کی شرائط کے مطابق اور اس کے اوقات میں صحیح طو رپر ادا کرتے ہیں (۳) لوگوں کو نماز کی تعین کر کے مساجد کو بارونق بناتے ہیں (۴) نماز کی محبت اور خواہش لوگوں کے دلو ںمیں پیدا کرتے ہیں (۵) نماز پر دوام اختیا کرتے ہیں اور اس پر پابندی اختیار کرتے ہیں (۶) نماز کو قائم رکھتے ہیں یعنے گرنے سے بچاتے رہتے اور اس کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں۔
رَزَقْنَا:۔ رَزَقَ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے اور الرِّزْقُ (جورَزَقَ کا مصدر ہے) کے معنے اَلْعَطَائُ۔ عطا کرنا۔ دینا۔ جیسے کہتے ہیں رُزِقْتُ عِلْمًا کے مجھے علم دیا گیا ہے۔ اور اس کے ایک معنی حصہ کے بھی ہیں جیسے وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ (الواقعہ) کہ تم نے اپنے ذمہ یہ لگا لیا ہے کہ رسول اور خدا کی باتوں کا انکار کرتے ہو (مفردات) اقرب الموارد میں ہے۔ الرِّزْقُ۔ مَایُنْتَفَعُ بِہِ ہر وہ چیز جس سے نفع اُٹھایا جائے۔ اور رَزَقَہُ اللّٰہُ (یَرْزُقُ) رِزْقًا کے معنے ہیں اَوْصَلَ الیہِ رِزْقًا کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے ایسی اشیاء عطا فرمائیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ رزق اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو غذا کے طور پر استعمال کی جائے (مفردات) یُنْفِقُوْنَ:۔ اَنْفَقَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اِنْفَقَ مَالہٗ کے معنے ہیں صَرَفَہُ وَاَنْفَدَہٗ۔ مال کو خرچ کرتا رہا اور اس کو ختم کر دیا۔ اِنْفَاق کے اصل معنے کسی چیز کو مقبول اور ہاتھوں ہاتھ بک جانے والا بنا دینے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اَنْفَقَ التَّاجِرُ: نَفقَتْ تِجَارتُہٗ کہ تاجر کی تجارت خون چل پڑی اور سامان تجارت مقبول ہو کر فروخت ہونے لگا۔ اور اَنْفَقَ السِلْعَۃَ کے معنے ہیں رَوَّجَہَا۔ سامان کو ایسا بنا دیا کہ ہاتھوں ہاتھ بک جائے۔ چنانچہ جب کسی سامان تجارت کے گاہک زیادہ ہوں یا کسی عورت کی شادی کے خواہشمند زیادہ تعداد میں ہوں تو نفق کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں نَفَقَتِ الْمَرأْۃُ وَالسِّلعَۃُ اَیْ کَئُٔر طُلَّا بُہَا وَخُطَّا بُہَا یعنی اس عورت یا مال کے بہت سے خواہش کرنے والے یا طالب پیدا ہو گئے ہیں اور النَّافِقُ اس مال کو کہتے ہیں جو بازار میں جاتے ہی بک جائے (اقرب) پس مادہ کے لحاظ سے اس کے معنے نکالنے اور جاری کرنے اور مسلسل طو رپر مال کو خرچ کرنے کے ہیں۔
تفسیر۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے ایمان کے معنے یقین رکھنے اور فرمانبرداری کرنے کے ہوتے ہیں۔ جس کو یقین نہ ہو وہ مومن نہیں کہلا سکتا بلکہ منافق کہلاتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ البقرہ ع ۲ آیت صفحہ ۹ میں فرمایا وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰ خِرِوَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو مُنہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ دل سے اس امر کو نہیں مانتے۔ اسی طرح قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جن میں یقین ہو اور اطاعت نہ ہو وہ بھی مومن نہیں بلکہ کافر کہلاتے ہیں۔ جیسا کہ سورۃ النمل ع ۱ آیت ۱۵ میں فرمایا وَجَحَدُ وْابِہَا وَا سْتَیْقَنَتْھَٓا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۔ یعنی وہ اس کا انکار ظلم اور دشمنی سے کرتے ہیں حالانکہ اُن کے دل اس پر یقین رکھتے ہیں۔
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ اندھا دُھند مان لیتے ہیں۔ یہ معنے نہ زبان عرب کے رُو سے درست ہیں اور نہ قرآن کریم ہی ان معنوں کی تصدیق کرتا ہے۔ کیونکہ بے دلیل ماننے والوں کو قرآن نے بار بار الزام دیا ہے۔ جیسے کہ سورۃ انجم ع ۱ آیت ۲۴ میں فرمایا۔ اِنْ ھِیَ اِلَّا اَسْمَآئُ سَمَّیْتُمُوْھَا اَنْتُمْ وَاٰبَٓاؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطَانٍ اِنْ یَتَّبِعُونَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَھخوَی الْاَنْفُسُ۔ یعنی یہ تو چند نام ہیں جو تم لوگوں نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی رکھ دئے ہیں خدا تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل بیان نہیں کی۔ یہ لوگ صرف اپنے وہموں کی یا اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم دشمنان اسلام پر اعتراض کرتا ہے کہ وہ بے دلیل باتوں کو جن کے لئے نہ آسمانی دلیل ہوتی ہے نہ عقلی، مانتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور وہمی باتوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ پس جبکہ اللہ تعالیٰ وہمی باتوں کے ماننے کو قابل اعتراض قرار دیتا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ قرآن کریم کی ابتدا ہی میں وہ مسلمانوں کو بے دلیل باتوں کے ماننے کا حکم دے اور اس امر کو تقویٰ کا جزو قرار دے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ایمان دلائل اور براہین پر مبنی ہونا چاہیئے نہ کہ وہم اور گمان پر۔ چنانچہ سورۃ احقاف ع ۱ میں فرماتا ہے۔ قُلْ اَرَئَٔیْتُمْ مَّاتَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکَ فِی السَّمٰوٰتِ ط اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِنْ قَبْلِ ھٰذٓا اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ یعنی مجھے بتائو تو سہی کہ خدا کے سوا جن وجودوں کو تم پکارتے ہو کیا ان میں کوئی حقیقت بھی ہے اگر ہے تو مجھے بتائو تو کہ انہوں نے زمین میں سے کس چیز کو پیدا کیا ہے یا یہ تو ثابت کرو کہ آسمانی بادشاہت میں اُن کا کوئی حصہ ہے اور اگر تم سچے ہو ت واس کے َئے یا تو قرآن سے پہلے کی کسی آسمانی کتاب میں سے دلیل پیش کرو یا اپنے باپ دادوں کی بتائی ہوئی کسی علمی بات کو ہیش پیرو کرو۔ یعنی تمام شرکیہ مسائل نہ تو کسی آسمانی کتاب سے ثابت ہیں نہ کسی علمی دلیل سے ثابت ہو سکتے ہیں پھر ان پر ایمان لانا کس طرح جائز اور ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطَانًا فَھُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْابِہٖ یُشْرِکُوْنَ (روم ع ۴) یعنی کیا اللہ تعالیٰ کے شریک قرار دینے کی کوئی بھی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا کی ہو اور وہ شرک کی صداقت پر گواہ ہو اگر ایسا نہیں تو پھر بے دلیل بات کو یہ لوگ کس طرح مان رہے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے قُلْ ھَلْ عِنْدَ کُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِ جُوْہُ لَنَا اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اَلَّاتَخْرُسُوْنَ۔ قُلْ الِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ (انعام ع ۱۸ آیت ۱۴۹ و ۱۵۰) یعنی کفار سے کہدو کہ کیا تمہارے پاس اپنے دعاوی کی کوئی علمی دلیل بھی ہے جسے تم ہمارے سامنے پیش کر سکو تمہارے پاس ہر گز ایسی کوئی دلیل نہیں بلکہ تم تو صرف وہم کی پیروی کرتے ہو اور صرف ڈھکو نسلے مارتے ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ اے ہمارے رسول ان سے یہ بھی کہو کہ اللہ تعالیٰ تو وہ باتیں اپنے بندوں سے منواتا ہے جن کے دلائل مکمل طور پر موجود ہوتے ہیں۔ پس جو بات بے ثبوت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح مومنوں کی نسبت قرآن کریم میں فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُ وْا بِاٰیَاتِ رَبِّھِم لَمْ یَخِرُّ وْاعَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا (فرقان ع ۶) یعنی مومنون کے سامنے جب اُن کے رب کی آیات بیان کی جاتی ہیں تو وہ اُنہیں اندھا دُھند نہیں مانتے بلکہ سوچ سمجھ کر اور دلالئل کے ساتھ مانتے ہیں۔ نیز فمراتا ہے قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِٓیْ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ (یوسف ع ۱۲) اے ہمارے رسول اپنے منکروں سے کہہ دو کہ میرا راستہ مذکورہ بالاراستہ ہے میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں اور میں اور میرے متبع کسی بے دلیل بات کو نہیں مانتے بلکہ ہم سوچ سمجھ کر اور دلائل قطعیہ کی بناء پر جو شک و شبہ سے بالا ہوتے ہیں ایمان لاتے ہیں۔
قرآن کریم میں غیب کا لفظ جن معنوں میں استعمال ہوا ہے ان سے بھی ثابت ہے ہ اس سے مراد وہمی امور نہیں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (حجرات ع ۲) اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کے غیب کو جانتا ہے اس جگہ غیب کا لفظ حقیقت کے لوے بولا گیا ہے۔ کیونکہ اگر غیب کے معنے محض وہمی اور بے دلیل باتوں کے ہوں تو اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ بے دلیل اور وہمی باتوں کو جانتا ہے اور یہ ترجمہ بالبداہت غلط ہے اسی طرح فرماتا ہے ذَالِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ (سجدہ ع ۱) یعنی خدا ہی غیب اور ظاہر کو جانتا ہے اس آیت میں غیب کا لفظ یقینی مگر نظروں سے پوشیدہ امور کے لیے بولا گیا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ (انعام ع ۷) اللہ عالیٰ کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں۔ اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ غیب وہمی باتوں کا نام نہیں بلکہ ان تمام مخفی خزانوں کا نام ہے جو انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ متقی وہ ہیں جو بغیر دلیل کے قرآن کریم کی باتو ںکو مان لیتے ہیں کیونکہ یہ معنے قرآن کریم کی دوسری آیات کے خلاف ہیں۔
ریورنڈ ویری نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے نیچے لکھا ہے کہ جب مسلمان اپنی کتاب کے اسرار کو مانتے ہیں تو کیوں پہلی کتابوں کے اسرار کو جیسے کہ تثلیث یا کفارہ ہیں نہیں مانتے۔ مگر جیسا کہ ظاہر ہے یہ اعتراض یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے معنوں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ قرآن کریم کسی ایسے امر کو ماننے کی تلقین نہیں کرتا جو بے دلیل ہو بلکہ وہ تو ان دوسرے مذاہب پر جو بے دلیل باتی مانتے ہیں اعتراض کرتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے متبعین کی نسبت گواہی دیتا ہے کہ وہ ہر امر کو دلیل او ربرہان سے مانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کفارہ اور تثلیث کا اس لئے انکار نہیں کرتے کہ وہ اسرار میں سے ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ مسائل بے دلیل بلکہ خلاف عقل ہیں اگر ان کی کوئی دلیل ہوتی تو ان کے ماننے سے مسلمانو ںکو ہر گز انکار نہیں ہو سکتا تھا۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے کیا معنے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے غیب کے معنے ان امو رکے ہیں جو حواس ظاہری سے معلوم نہ ہو سکیں بلکہ ان کے ثابت کرنے کے لئے عقلی و تجرباتی دلائل کی ضرورت ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے امور بے دلیل نہیں کہلا سکتے۔ ہم ہزاروں اشیاء کو جو جسمانی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں مانتے ہیں حالانکہ حواسِ خمسہ سے ان کو محسوس نہیں کیا جاس کتا۔ مثلاً انسانی حافظہ ہے اس کا کوئی انکار کر سکتا ہے۔ مگر کوئی نہیں جو قوت حافظہ کو دیکھ سکے یا سونگھ سکے یا چکھ سکے یا سن سکے یا چھو سکے۔ اسی طرح شرم ہے جرأت ہے، محبت ہے، نفرت ہے، خود عقل اور فکر کی قوتیں ہیں ان کو کونسا شخص حواس خمسہ سے معلوم کر سکتا ہے۔ مگر کیا اس وجہ سے کہ ان کا علم حواس خمسہ سے نہیں ہوتا ان کا انکار کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح کئی اخلاقی مسائل ہیں جو حواس خمسہ سے معلوم نہیں ہو سکتے لیکن ہم ان پر یقین رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ حقیقت کہ عفو بالعموم دلوں سے بغض کو دور کرتا ہے۔ حسن سلوک مختلف انسانوں کو آپس میں رشتہ محبت سے جوڑ دیتا ہے سب دنیا کی تسلیم کردہ ہے مگر اس کو حواسہ خمسہ سے تو معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ماں اپنے بچہ سے حسن سلوک کرتی ہے لیکن وہ نہیں جانتی کہ اس حسن سلوک کے نتیجہ میں جو محبت پیدا ہو گی وہ اس کا کوء… مزہ بھی چکھ سکے گی یا نہیں۔ لیکن باوجود اس کے وہ محبت کرتی جاتی ہے۔ ایک استاد شاگردوں کو پڑھاتا ہے وہ نہیں جانتا کہ اس کی تعلیم کے نتیجہ میں اس کے طلباء کسی اعلیٰ درجہ کو پہنچیں گے یا نہیں مگر وہ پڑھانے سے باز نہیں رہتا۔ حکومتیں ملک کی حالت سدھارنے کے لئے ہزاروں جتن کرتی ہیں اور نہیں جانتیں کہ ان کے خوشگوار نتائج کب اور کس شکل میں پیدا ہوں گے مگر وہ آئندہ کی امید پر اور سابقہ تجربہ کی بناء پر اپنی کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ سپاہی نہیں جانتے کہ جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا لیکن اپنے ملک کی حفاظت میں جانیں دیتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب ایمان بالغیب ہی ہوتا ہے یا کچھ اور؟
خلاصہ یہ کہ ایمان بالغیب سے مراد (۱) ان سب صداقتوں پر ایمان لانا ہے جو حواس خمسہ سے معلوم نہیں کی جا سکتیں بلکہ ان کا ثبوت اور ذرائع سے معلوم ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے مومن سنتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے علوم غیبیہ ہیں جنہیں مومن پورا ہوتے دیکھتے ہیں اور اس کی زبردست قدرتیں ہیں جن کا ظہور مومن اپنے نفسوس اور باقی دنیا میں دیکھتے ہیں مگر باوجود ان باتوں کے خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے وہ حواس خمسہ سے محسوس نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح ملائکہ کا وجود ہے۔ ملائکہ ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتے نہ دوسرے حواس ظاہری سے معلوم کئے جا سکتے ہیں لیکن باوجود اس کے اُن کا وجود وہمی نہیں ہے بلکہ ان کے وجود پر قطعی دلائل ہیں جو قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر بیان کئے گئے ہیں۔ یا مثلاً ایک غیب موت کے بعد کی زندگی ہے قرآن کریم اسپر بے دلیل ایمان لانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے سچے ہونے پر زبردست دلائل دیتا ہے جو آئندہ مختلف مواقع پر بیان کئے جا ئیں گے۔
(۲) یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے بھی ہیں کہ متقی صرف ایسے کام نہیں کرتے کہ جن کے نتائج نقد بہ نقد مل جاتے ہیں۔ جیسے کہ تاجر سودا فروخت کرتا ہے اور اس کی قیمت وصول کر لیتا ہے۔ بلکہ ان کی زندگی اخلاقی زندگی ہوتی ہے اور وہ اخلاق کی قوت اور ان کے نیک نتائج پر ایمان رکھتے ہیں اور تاجرانہ ذہنیت کو ترک کر کے ایسی قربانیاں کرتے ہیں کہ جو آخر میں اُن کی قوم کو اور باقی دنیا کو اُبھار دیتی ہیں۔ مثلاً دنیا میں امن کے قیام کے لئے جہاد کا کرنا ایماب بالغیب کا ہی نتیجہ ہے۔ ورنہ کون جانتا ہے کہ وہ زندہ رہے گا اور لڑائی کے اچھے نتیجہ کو دیکھے گا۔ سپاہی جب کسی اچھے مقصد کیلئے میدان جنگ میں جاتا ہے تو وہ ایمان بالغیب کا ایک مظاہرہ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گیا تو یہ بھی اچھا ہے۔ لیکن اگر وہ اس کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے مر گیا تب بھی اس کا نتیجہ حق اور صداقت کے لئے اچھا نکلے گا۔
حق یہ ہے کہ جس قدر شاندار کام ہیں وہ سب ایمان بالغیب کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ تعلیم، صدقہ، حیرات، غرباء کے اُبھارنے کے لئے کوششیں، ملکی تنظیم سب ایمان بالغیب ہی کی اقسام ہیں۔ اگر انسان آئندہ نکلنے والے اچھے نتائج پر ظاہر نگاہ سے پوشیدہ ہوتے ہیں یقین نہ رکھے تو کبھی ایسی قربانیاں نہ کر سکے پس متقی کی علامت ایمان بالغیب بتا کر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ مومن ضروری دینی امور پر ایمان رکھنے کے علاوہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قربانیاں کرتا ہے اور تاجرانہ ذہنیت سے بالا ہو جاتا ہے اور اس امر پر اصرار نہیں کرتا کہ میں وہی کام کروں گا جن کا نقد بہ نقد نتیجہ نکلے۔ بلکہ جب اُسے یقین ہو جائے کہ جو کام اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے اچھا اور نیک ہے تو وہ ظاہری حالات سے بے پروا ہو کر اس یقین سے اس کام کے کرنے میں لگ جاتا ہے کہ خواہ حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں نیک کام کا نتیجہ نیک ہی نکلے گا اور اس امر کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ اس نتیجہ کو خود بھی دیکھے گایا نہیں۔
اگر کوئی شخص تعصّب سے آزاد ہو کر غور کرے تو ایمان بالغیب کا یہ مفہوم ایسا ہم ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم نے تمام قومی، ملی اور بنی نوع انسان کی ترقی کے لئے قربانیوں کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ ایمان بالغیب ہی تھا کہ جس نے صحابہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے وہ قربانیاں کرائیں جنہو ںنے عرب کی ہی نہیں بلکہ سب دنیاکی حالت بدل دی۔ اگر وہ تاجرانہ ذہنیت دکھاتے اور ایمان بالغیب کے ماتحت کام نہ کرتے تو دنیا میں ایسے شاندار نتائج کس طرح پیدا ہو سکتے تھے۔
اوپر جو معنے بیان ہوئے ہیں وہ تو ایمان بالغیب کے کامل اور اعلیٰ معنے ہیں۔ لیکن ایک معنے اس کے اور بھی ہیں جو ادنیٰ درجہ کے متقیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یہ ہیںکہ ادنیٰ درجہ کا تقویٰ یہ ہے کہ انسان ایمان بالغیب رکھے یعنی دلائل عقلیہ کے ساتھ اسے خدا تعالیٰ اور ملائکہ اور بعث بعد الموت پر یقین ہو گو وہ اس مقام پر نہ پہنچا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے حواس باطنی کے ساتھ نظر آنے لگے۔ یہ مقام تقویٰ کا ادنیٰ ہے یعنی اس تقویٰ کی بنیاد صرف دلائل پر ہوتی ہے مشاہدہ پر نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا (بقرہ ع ۴) یعنی اللہ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں رکھتا۔ پس ایک انسان جو ابھی تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا اور اُسے ان امور غیبیہ پر جو ہیں تو یقینی او رقطعی لیکن ہیں انسانی ادراک سے بالا ابھی ایسا ایمان اور یقین پید نہیں ہوا جو مشاہدہ کی حد تک پہنچا ہوا ہو اس سے اللہ تعالیٰ اس امر کا مطالبہ نہیں کرتا کہ جب تک اسے مشاہدہ اور تجبرہ اولا ایمان نصیب نہ ہوا ہو اُسے متقی اور مومن نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ اس سے صرف اس قدر مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان دلائل اور براہین پر غور کر کے جو امور غیبیہ کے ثبوت کیلئے اللہ تعالیٰ نے مہیا کئے ہیں ان پر ایمان لے آئے اور یہ امر اس کے متقی ہونے کے لئے ادنیٰ دجرہ کے طو رپر کافی ہو گا۔ اب دیکھو کہ یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو سب مدارج کے انسانوں کی ضرورت کو پورا کر دیتی ہے۔ اور ایسی ہی تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونیوالی کہلا سکتی ہے جو سب استعداد کے لوگوں کی ضرورتوں کو پُورا کرنے والی ہو۔ یہ ادنیٰ دجرہ تقویٰ کا انسان کی نجات محض کے لئے کافی ہے۔ ہاں جب وہ اس سے ترقی کرتا ہے تو اُسے ایمان بالغیب کا وہ درجہ میسر ہو جاتا ہے جو امور غیبیہ کو مشاہدہ کے رنگ میں اُس کے سامنے لے آتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی اس فرق کو ظاہر کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرماتے ہیں کہ احسان یہ ہے کہ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (مسلم کتاب الایمان) یعنی احسان اس کا نام ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا روحانی نظروں سے وہ تیرے سامنے موجود ہے اور تو اُسے دیکھتا ہے لیکن اگر یہ درجہ تجھے حاصل نہ ہو تو کم سے کم اس درجہ پر فائز ہو کہ تجھے یقین اور وثوق سے عبادت کے وقت یہ معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس حدیث میں ایمان بالغیب کے ان دونو ںدرجوں کو بیان کر دیا گیا ہے اعلیٰ درجہ کو بھی اور ادنیٰ درجہ کو بھی۔
جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے ایک معنے غیب کے غائب ہونے کی حاتل کے بھی ہوتے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے ایمان بالغیب کے یہ معنے بھی ہیں کہ جب انسان غیب کی حالت میں ہو یعنی لوگو ںکو نظروں سے پوشیدہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو۔ یعنی اس کا ایمان صرف قومی نہ ہو کہ جب اس کے ہم مذہب لوگ اس کے سامنے ہوں تب تو وہ ان عقائد کو تسلیم کرے جو اس کے مذہب نے اس کے سامنے پیش کئے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنے لوگوں سے جُدا ہو تو اس کا ایمان کمزور ہو جائے۔ غیب کے یہ معنے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں مثلاً فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ (انبیاء ع ۴) وہ مومن جو علیحدگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ (حدید ع ۳) یعنی ہم نے جنگ کے سامان اس لئے پیدا کئے ہیں تاکہ ظاہر ہو جائے کہ کون خدا تاعلیٰ اور اس کے رسول کا دل سے مددگار تھا اور صرف ظاہری دعویٰ نہیں کر رہا تھا۔ حضرت یوسفؑ کی نسبت آتا ہے اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ (یوسف ع ۷) جس کے یہی معنے ہیں کہ میں نے پس پشت نظروں سے اوجھل اپنے آقا کی خیانت نہیں کی۔
ان معنوں کے رُو سے ان لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ جو تقریریں سنتے ہیں یا وعظ کی مجالس میں بیٹھتے ہیں تو اُنہیں خوب جوش آ جاتا ہے۔ لیکن جب وہ علیحدگی میں جاتے ہیں تو ان کا ایمان کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ در حقیقت معمولی مذہب رکھتے ہیں اور ان کی حالت بھیڑ چال کی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی آراء کی رَو میں بہ جاتے ہیں ان کا اپنا مذہب کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ایسا ایمان بے حقیقت ہے ایمان وہی ہے کہ جوداتی ہو اور صرف دوسروں کے جو ش کو دیکھ کر بھڑک نہ اٹھتا ہو۔ اور جو شخص ذاتی ایمان نہیں رکھتا او راپنی قوم اور جماعت اور پر جوش واعظوں کی صحبت سے الگ ہو کر اسے دل کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے یا مٹ جاتا ہے وہ متقی نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ اس کا ایمان اپنا ایمان نہیں بلکہ عارضی طو رپر دوسرے لوگوں سے مانگا ہوا ایمان ہے ایسے لوگوں کی نسبت قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیَا طِینِہِمْ قَالُوْٓا اِنّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُشتَہْرِئُ وْنَ (بقرہ ع ۲) بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب مومنوں کی مجالس میں آتے ہیں تو اُن کی باتوں کو سُن کر او راُن کے یقین اور ایمان کو دیکھ کر متاثر ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی ان باتو ںپر ایمان لاتے ہیں لیکن جب اُن سے الگ ہوتے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی مجلس میں جاتے ہیں تو پھر اُن کی سی کہنے لگتے ہیں۔ اور ان کے خیالات سے متاثر ہو کر کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ہی ہم عقیدہ ہیں اور جو مومنوں کی ہاں میں ہاں ہم نے ملائی تھی یہ صرف ایک مذاق تھا۔ ایسے لوگوں کا ایمان در حقیت کوئی ایمان نہیں بلکہ یہ لوگ بے اصولے ہوتے ہیں۔ پس یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ متقی وہ ہوتا ہے جس کی زبان ہی ایمان کا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ اس کا دل بھی صداقت کا مصدق ہوتا ہے اور وہ جب مومنوں کی صحبت سے دُور ہوتا ہے مثلاً غیر ملکوں اور غیر مذاہب کے پیروئوں میں چلا جاتا ہے جہاں اس کے ہم مذہب نہیں ملتے تو بھی اس کا ایمان ڈگمگاتا نہیں یا کمزور نہیں ہوتا کیونکہ وہ دوسروں کی نقل کرنے والا نہیں تھا بلکہ یقین اور وثوق سے ایمان پر قائم تھا۔
اس مضمون سے اُن مسلمان طلباء کو جو تعلیم کی خاطر کالجوں میں داخل ہوتے ہیں یا دوسرے ممالک میں جاتے ہیں سبق حاصل کرنا چاہیئے اور اپنے ایمان کا مطالعہ کرنا چاہیئے کہ اگر وہ مومنوں کے ماحول سے جدا ہو کر کمزور ہو جاتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ انہوں نے اپنے مذہب کو سمجھ کر نہیں مانا تھا اور اُن کا ایمان ذاتی نہ تھا بلکہ صرف اپنے ماحول کی ایک صدائے باز گشت تھا۔
خلاصہ یہ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کہہ کر قرآن کریم نے بتایا ہے کہ قرآن کریم ان متقیوں کو جو مندرجہ ذیل ضفات اپنے اندر رکھتے ہیں اعلیٰ روحانی مقامات تک پہنچاتا ہے (۱) ان متقیوں کو بھی دلائل اور برابین سے روحانی دنیا سے تعلق رکھنے والے عقائد پر ان کی صداقت واضح ہو جانے کے بعد پورا ایمان لے آتے ہیں خواہ ابھی اس مقام پر نہ پہنچے ہوں کہ دلیل سے بڑھ کر ذاتی تجربہ نے بھی ان کے ایمان کو مضبوط کر دیا ہو (۲) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت کی اعلیٰ راہوں پر چلاتا ہے جن کا ایمان منافقت سے پاک ہو اور ان کا دل اور زبان اور عمل ایک ہو (۳) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت کی اعلیٰ راہو ںپر چلاتا ہے جن کا ایمان قومی نہ ہو بلکہ ذاتی ہو یہ نہ ہو کہ مومنوں کی مجلس میں مومن او رکافروں کی مجلس میں کافر بلکہ خواہ اُنہیں کیسی ہی مخالف سوسائٹی یا قوم میں رہنا پڑے اُن کا ایمان ڈانوا ڈول نہ ہو اور اُن کے مومنانہ عمل میں فرق نہ آئے (۴) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت دیتا ہے جو اِن ظاہری حواس سے محسوس نہ ہونے والی صداقتوں پر کامل یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں جن کا وجود دوسرے دلائل اور براہین سے ثابت ہے اور ایسے ایمان کو اپنے تجارب کی بناء پر کمال تک پہنچاتے ہیں (۵) ایسے متقیو ںکو بھی ہدایت کے اعلیٰ مقام تک پہنچاتا ہے جو تاجرانہ ذہنیت کو چھوڑ کر اخلاقی اور دینی نتائج پر یقین رکھتے ہیں اور ان قربانیوں کے نیک نتائج پر یقین رکھتے ہیں جو بظاہر حالات مقبول ہوتی نظر نہیں آتیں لیکن قومی ترقی اور ملی کامیابی کے لئے اُن کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے اور اپنے ذاتی فوائد کو قومی فوائد پر قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
جن متقیوں میں ان سے ایک یا زیادہ باتیں پائی جائیں وہ قرآن کریم کی اتباع میں حاصل ہونے والی اعلیٰ ہدایتوں کے مستحق سمجھے جاتے ہیں اور وہ ہدایت انہیں دی جاتی ہے۔
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچ کا ہے اقامۃ الصلٰوۃ کے معنے (۱) باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کے ہیں کیونکہ قَامَ عَلَی الْاَمْرِ کے معنے کسی چیز پر ہمیشہ قائم رہنے کے ہیں پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہوئے کہ نماز میں ناغہ نہیں کرتے۔ ایسی نماز جس میں ناغہ کیا جائے اسلام کے نزدیک نماز ہی نہیں کیونکہ نماز وقتی اعمال سے نہیں بلکہ اُس وقت مکمل عمل سمجھا جاتا ہے جبکہ تو بہ یا بلوغت کے بعد کی پہلی نماز سے لے کر وفات سے پہلے کی آخری نماز تک اس فرض میں ناغہ نہ کیا جائے جو لوگ درمیان میں نمازیں چھوڑتے رہتے ہیں اُن کی سب نمازیں ہی رد ہو جاتی ہیں۔ پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ بالغ ہو یا جب اُسے اللہ تعالیٰ توفیق دے اُس وقت سے موت تک نماز کا ناغہ نہ کرے کیونکہ نماز خدا تعالیٰ کی زیارت کا قائم مقام ہے اور جو شخص اپنے محبوب کی زیارت سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عشق کے دعویٰ کے خلاف خود ہی ڈگری دیتا ہے (۲) دوسرے معنے اِقَامَۃ کے اعتدال اور درستی کے ہیں اِن معنوں کے رُد سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہیں کہ متقی نماز کو اُس کی ظاہری شراوط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس کے لئے جو قواعد مقرر کئے گئے ہیں ان کو توڑتے نہیں۔ مثلاً تندرستی میں یا پانی کی موجودگی میں وضوء کر کے نما زپڑھتے ہیں اور وضو بھی ٹھیک طرح ان شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں جو اس کے لئے شریعت نے مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صحیح اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں نماز میں قیام رکوع سجدہ قعدہ کو عمدگی سے ادا کرتے ہیں۔ مقررہ عبارات اور دعائیں اور تلاوت اپنے اپنے موقع پر اچھی طرح اور عمدگی سے پڑھتے ہیں غرض تمام ظاہری شرائط کا خیال رکھتے اور انہیں اچھی طرح بجا لاتے ہیں۔
اس جگہ یاد رکھنا چاہیئے کہ گو شریعت کا حکم ہے کہ نماز کو اس کی مقررہ شرائط کے ماتحت ادا کیا جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب مجبوری ہو اور شرائط پوری نہ ہوتی ہوں تو نماز کو ترک ہی کر دے نماز بہرحال شرائط سے مقدم ہے۔ اگر کسی کو صاف کپڑا میسر نہ ہو تو وہ گندے کپڑوں میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے خصوصاً وہم کی بناء پر نماز کا ترک تو بالکل غیر معقول ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں کئی عورتیں اس وجہ سے نماز ترک کر دیتی ہیں کہ بچوں کی وجہ سے کپڑے مشتبہ ہیں۔ اور کئی مسافر نماز ترک کر دیتے ہیں کہ سفر میں طہارت کامل نہیں ہو سکتی۔ یہ سب شیطانی وساوس ہیں لَایُکَلِّفُ اللّٰہَ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا (بقرہ ع ۴۰) الٰہی حکم ہے جب تک شرائط کا پورا کرنا اختیار میں ہو اُن کے ترک میں گناہ ہے لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جا سکتی ہوں تو اُن کے میسر نہ آنے کی وجہ سے نماز کا ترک گناہ ہے۔ اور ایسا شخص معذور نہیں بلکہ نماز کا تارک سجھا جائے گا۔ پس اس بارہ میں مومنوں کو خاص طور پر ہوشیار رہنے کی ضرورت (۳) تیسرے معنے اِقَامَۃ کے کھڑا کرنے کے ہیں رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ نماز کو گرنے نہیں دیتے یعنی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کی نماز درست اور باشرائط ادا ہو اس میں ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو نماز پڑھنے والے مبتدی کو زیادہ اور عارف کو کسی کسی وقت پیش آتی رہتی ہیں یعنی اندرونی یا بیرونی تاثرات نماز سے توجہ ہٹا کر دوسرے خیالات میں پھنسا دیتے ہیں۔ یہ امر انسانی عادت میں داخل ہے کہ اس کا خیال مختلف جہالت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے اور خاص صدموں یا جوش یا محبت کے اثر کے سوا جبکہ ایک وقت تک خیالات میں کامل یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے انسانی دماغ اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہے اور ایک خیال سے دوسرا خیال پیدا ہو کر ابتدائی خیال سے کہیں کا کہیں لے جاتا ہے۔ اسی طرح بیرونی آوازیں یا پاس کے لوگوں کی حرکات یا کھٹکے، بو یا خوشبوٹ جگہ کی سختی یا نرمی اور اسی قسم کے اور اُمور انسانی ذہن کو اِدھر سے اُدھر پھرا دیتے ہیں۔ یہی مشکلات نمازی کو پیش آتی ہیں او راگ راپنے خیالات پر پوار قابو نہ ہو تو اُسے پریشان خیال بنائے رکھتی ہیں اور بعض اوقات وہ نماز کے مضمون کو بھول کر دوسرے خیالات میں پھنس جاتا ہے۔ اس حالت کی نسبت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میں اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ بعض نمازیوں کو یہ مشکل پیش آئے گی مگر انہیں گھبراتا نہیں چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر درجہ کے انسان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی نماز میں ایسی پریشان خیالی سے دو چار ہو تو اُسے مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور اپنی نماز کو بیکار نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں سے اسی قدر قربانی کی امید کرتا ہے جتنی قربانی اُن کے بس کی ہو پس ایسے نمازی جن کے خیالات پراگندہ ہو جاتے ہوں اگر نماز کو سنوار کر اور توجہ سے پڑھنے کی کوشش میں لگے رہیں تو چونکہ وہ اپنی نماز کو جب بھی وہ اپنے مقام سے گرے کھڑا کرنیکی کوشش میں لگے رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی نماز کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اُسے قبول کرے گا او راس نماز کو کھڑا کرنے کی کوشش کرنے والے کو متقیوں میں ہی شامل سمجھے گا۔
(۴) لُغت کے مذکورہ بالا معنوں کے رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک اور معنے بھی ہیں اور یہ کہ متقی دوسرے لوگوں کو نماز کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ کسی کام کو کھڑا کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ اُسے رائج کیا جائے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی جائے۔ پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے عامل متقی وہ بھی کہلائیں گے کہ جو خود نماز پڑھنے کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نماز کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور جو مسست ہیں انہیں تحریک کر کے چست کرتے ہیں۔ رمضان کے موقع پر جو لوگ تہجد کے لئے لوگوں کو جگاتے ہیں وہ بھی اس تعریف کے ماتحت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کی تعریف میں آتے ہیں۔
(۵) نماز باجماعت سے پہلے امام کے نماز پڑھانے کے قریب وقت میں اذان کے کلمات تھوڑی زیادتی کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں ان کلمات کو اِقَامَۃ کہتے ہیں اور نماز باجماعت بھی ان معنوں کے رُو سے اِقَامَۃ الصَّلٰوۃ کا مفہوم رکھتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں نماز کھڑی ہو گئی ہے۔ اس محاورہ کے مطابق یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہوںگے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور دوسروں سے ادا کرواتے ہیں۔
نماز باجماعت کی ضرورت کو عام طور پر مسلمان بھول گئے ہیں اور یہ ایک بڑا موجب مسلمانوں کے تفرقہ اور اختلاف کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عبادت میں بہت سی شخصی اور قومی برکتیں رکھی تھیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے انہیں بھلا دیا قرآن کریم نے جہاں بھی نماز کا حکم دیا نماز باجماعت کا حکم دیا ہے خالی نماز پڑھتے کا کہیں بھی حکم نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت اہم اصول دین میں سے ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کو دیکھ کر کہ جب بھی نماز کا حکم بیان ہوا ہے نماز باجماعت کے الفاظ میں ہوا ہے تو صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک نماز صرف تبھی ادا ہوتی ہے کہ باجماعت ادا کی جائے سوائے اس کے کہ ناقابل علاج مجبوری ہو۔ پس جو کوئی شحص بیماری یا شہر سے باہر ہونے یا نسیان یا دوسرے مسلمان کے موجود نہ ہونے کے عذر کے سوا نماز باجماعت کو ترک کرتا ہے خواہ وہ گھر پر نماز پڑھ بھی لے تو اس کی نماز نہ ہو گی اور وہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا۔
قرآن کریم میں نماز پڑھنے کا جہاں بھی حکم آیا ہے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے آیا ہے کبھی خالی صَلَّوْا کے الفاظ استمعال نہیں ہوئے یہ امر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ فرض نماز کو باجماعت ادا کیا جائے اور بغیر جماعت کے نماز صرف مجبوری کے ماتحت جائز ہے جیسے کوئی کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو اُسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے پس جس طرح کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو لیکن بیٹھ کر پڑھے تو یقینا وہ گہنگار ہو گا اسی طرح جسے باجماعت نماز کا موقع مل سکے مگر وہ باجماعت نماز ادا نہ کرے تو وہ بھی گہنگار ہو گا۔
آج کل بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جو باجماعت نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں اور باتو ںمیں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ نماز ہو چکتی ہے او رپھر افسوس کرتے ہیں کہ نماز چلی گئی۔ ان کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے کیونکہ وہ معمولی غفلت سے بہت بڑے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔
(۶) یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ نماز چستی او رہوشیاری سے ادا کی جائے کیونکہ سستی اور غفلت کی وجہ سے خیالات میں پراگندگی پیدا ہوتی ہے اور نماز کا مغز ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں لاتی ںڈھیلی چھوڑنے یا سہارا لگانے (مسلم جلد اول کتاب الصلوٰۃ باب کراھۃ الاختصار فی الصلوٰۃ) یا کہنیاں سجدہ کے وقت زمین پر ٹیکنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء فی الاعتدال فی السجود) اور اس کے بالمقابل رکوع میں کمر سیدھی رکھنے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی من لایقیم صلبہ) کھڑا ہوتے وقت یا رکوع میں ٹانگوں کو سیدھا رکھنے سجدہ میں پائوں گھٹنوں ہتھیلیوں اور ماتھے پر بوجھ رکھنے (ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی السجود علیٰ سبعہ اعتضاء) او رکمر اور پیٹ کو لاتوں سے جدا رکھنے انسانی کتاب افتتاح الصلوٰۃ باب صفۃ السجود و التجانی نی السجود دوالا عتدال فی السجود) اور قعدہ کے موقع پر دائیں پائوں کی انگلیوں کو قبلہ رُخ رکھ کر پائوں کھڑا رکھنے کا حکم دیا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء کیف الجلوس التشھد) کیونکہ یہ سب امور چستی اور ہوشیاری پیدا کرتے ہیں اور نیند اور اونگھ اور غفلت کو دُور کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اسلام نے نماز سے پہلے وضوء کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ سر اور جو ارح کے اعصاب کو تری اور سردی پہنچ کر جسم میں چستی اور خیالات میں یکسوئی پیدا ہو۔
اوپر جو معانی یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے لغوی معنوں سے استنباط کر کے لکھے گئے ہیں قرآن کریم اور احادیث سے بھی ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ مثلاً ایک معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ باقادگی سے نماز ادا کریں اور ناغے نہ کریں اس کے مفہوم کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے ہوتی ہے الَّذِیْنَ ھُمْ عَلیٰ صَلٰو تِھِمْ دَا ئِٓمُوْنَ (معارج ع ۱) یعنی مومن اپنی نمازوں میں ناغہ نہیں ہونے دیتے بلکہ ہمیشہ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے اعتدال اور درستی کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کئے گئے تھے ان کی تائید اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰو تِھِمْ خَاشِعُوْنَ کی آیت سے ہوتی ہے (مومنون ع ۱) یعنی مومن اپنی نمازوں میں خشوع اور فرمانبرداری کو مدنظر رکھتے ہیں یعنی ظاہری اور باطنی احکام جو نماز کے بارہ میں دئے گئے ہیں سب کو پورا کرتے ہیں۔
تیسرے معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ وہ نماز کو درست رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان معنوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلٰو تِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (مومنون ع ۱) مومن کامل اپنی نماز کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اُسے اعلیٰ اور کامل بنانے کی کشش میں لگے رہتے ہیں۔
چوتھے معنے یہ کئے گئے تھے کہ نماز باجماعت کی ترویج میں مومن لگے رہتے ہیں۔ اِن معنوں کی تصدیق قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا (طہ ع ۸) اے ہمارے مخاطب اپنے اہل کو نماز کی نصیحت کرتے رہا کرو۔ اور اس حکم کو کبھی نہ بھولو بلکہ نماز کی یاد دہانی کو ایک ضروری اور لازمی ذمہ داری سمجھ لو۔
اور یہ جو معنے کئے گئے تھے کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ سے مراد نماز باجماعت کے ہییں سو یہ مندرجہ ذیل آیت سے نکلتے ہیں وَاِذَا کُنْتُ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمْ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَعَکَ وَلْیَاْ خُذُٓوْا اَسْلِحَتَہُمْ (نساء ع ۱۵) یعنی جب تو مسلمانوں میں موجود ہو اور نمازیں ان کی امامت کرائے تو چاہیئے کہ مومن سب کے سب نماز باجماعت میں شامل نہ ہوں بلکہ بوجہ جنگ کے ان مںی سے صرف ایک حصہ نماز باجماعت میں شامل ہو اور وہ حصہ بھی اپنہ ہتھیار اٹھائے رہے۔ اس آیت میں اَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِقَامَۃ الصَّلٰوۃ سے مراد باجماعت نماز ہوتی ہے۔
ایک معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ نماز ہوشیاری اور چستی کی حالت میں ادا کرتے ہیں۔سو ان معنوں پر یہ آیت دلاتل کرتی ہے۔ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلٰو تِھِمْ سَاھُوْنَ (الماعون ع ۱) یعنی ان نمازیوں پر خدا کا عذاب نازل ہو گا جو اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں یعنی نماز تو پڑھتے ہیں مگر اُن کے دلو ںمیں پوری رغبت اور چستی نہیں ہوتی ایسی طرح ظاہری سستی اور غفلت کی طرف سے اس آیت میں اشارہ کیا ہے وَلاَیَاْ تُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَھُمْ کُسَالٰی (توبہ ع ۷) یعنی وہ جب بھی نماز پڑھتے ہیں اُن پرستی اور غفلت غالب ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے یَا بَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُ وْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْتِجدٍ (الاعراف ع ۳) یعنی اے مومنو ہر مسجد کے پاس جاتے ہوئے اپنی زینت کے سامان مکمل کر لیا کرو۔ یعنی وضوء کر لیا کرو اور ہوشیار ہو جایا کرو۔ اسی طرح فرمایا یَٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ (نساء ع ۷) یعنی اے مومنو جبکہ تمہارے خیالات پراگندہ ہوں نماز کے قریب مت جائو بلکہ اُسی وقت نماز پڑھو جبکہ تم یہ جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو یعنی دماغی پراگندگی یا سستی کی حالت میں انسان نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کی نماز خراب ہو جاتی ہے ایسی حالت میں نماز پڑھنی چنداں مفید نہیں ہوتی۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ خیالات پراگندہ ہوں تو نماز نہیں پڑھنی چاہیئے بلکہ یہ مراد ہے کہ خیالات کو پراگندگی سے بچائو اور ذہنی بیداری اور چستی پیدا کرو اور جو باتیں کہ پراگندگی کو پیدا کرنے والی ہیں اُنہیں دُور کرو۔ اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ نماز سے کچھ عرصہ پہلے اذان ہونی چاہیئے جسے سُنکر مسلمانوں کو اپنے کاروبار ترک کر کے نماز کی تیاری شروع کر دینی چاہیئے۔ اسی طرح یہ کہ نماز سے پہلے وضوء کرنا چاہیئے پھر مسجد میں جا کر یا گھر پر سنتیں پڑھنی چاہئیں پھر مسجد میں امام کے انتظار میں ذکر الٰہی کرنا چاہیئے۔ اِن سب کاموں سے ظاہری اور باطنی سستی دُور ہوتی ہے کیونکہ خیالات میں پراگندگی اور سستی اِسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ دھیان کسی اور طرف ہو۔ مگر جو شخص نماز سے پہلے اپنا کاروبار ترک کر دے گا اس کے خیالات جو تجارتی یا دوسرے کاروبار کی وجہ سے یا گھر کے جھگڑوں یا فکروں کی وجہ سے پراگندہ ہو رہے تھے آہستہ آہستہ نماز اور عبادت کی طرف پھر جائیں گے۔ پھر مسجد میں جانے اور سنتیں پڑھنے اور ذکرِ الٰہی کرنے کی وجہ سے وہ دوسری تمام طرفوں سے ہٹکر عبادت اور نماز کی طرف منتقل ہو جائیں گے اور وہ تمام ذرائع مہیا ہو جائینگے جن کی وجہ سے نماز میں خیالات کی یکسوئی پیدا ہو سکتی ہے۔ اِسی پراگندگی کی حالت کو دُور کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اس حالت میں پیشاب پاخانہ وغیرہ کی حاجت معلوم ہو نماز نہیں پڑھنی چاہیئے بلکہ پہلے ان حاجات کو پورا کرے پھر نماز پڑھے (ابو دائود کتاب الطہارۃ باب ایصلی الرجل وھو حاقن) اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِذَا وُضِعَ الْعَشَائُ وَاُقِیْمَت الصَّلٰوۃُ فَابْدَ ؤا بِالْعَشَائِ (بخاری کتاب الآ ذان باب اذاحمضر الطعام و اقیمت الصلوۃ) یعنی جب شام کا کھانا سامنے آ جائے تو عشاء کی نماز سے پہلے کھانا کھا لیا کرو۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کھانے سامنے آ جانے کے بعد خیال کھانے کی طرف رہے گا پس پہلے کھانا کھا کر نماز پڑھی جائے تاکہ طبیعت میں یکسوئی پیدا ہو۔ اس حدیث میں جو شام کے کھانے کا خاص طور پر ذکر ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل تو دوپہر کا کھانا نماز ظہرؔ سے اس قدر نہیں ٹکراتا جس قدر کہے شام کا کھانا عشاء کی نماز سے ٹکراتا ہے۔ دوسرے اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رات کو سونے سے کافی پہلے کھانا کھا لینا چاہیئے تا نیند پریشان نہ ہو اور بدہضمی کی شکایت پیدا نہ ہو۔ اگر شام کے کھانے کو عشاء کی نماز کے بعد کے لئے اٹھا رکھا جائے تو چونکہ اسلام عشاء کے بعد جلد سونے کی ہدایت دیتا ہے تاتہجد کے لئے اُٹھنے میں آسانی پیدا ہو شام کے کھانے اور سونے کے وقت میں تھوڑا فرق رہ جائے گا اور صحت خراب ہو گی۔
صَلٰوۃ کے معنے حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ دُعا، رحم دین، شریعت، استغفار، تعظیم، برکت او رمسلمانوں کی اصطلاحی عبادت کے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ بولا جائے تو اس کے معنے رحم اور برکت کے ہوتے ہیں اور جب بندوں کے لئے استعمال ہو تو دُعا، دین، شریعت، استغفار، تعظیم، عام عبادت یا مسلمانوں کی اصطلاحی عبادت کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ دُرود شریف کے لئے بھی صلوۃ کا لفظ بولا جاتا ہے اور اس کے معنے دعا اور برکت اور تعظیم کے ہوتے ہیں او رمطلب یہ ہوتا ہے کہ مومن اپنے آقا کے مدارج کی ترقی کے لئے دعا کریں۔ اس کے لئے خدا تعالیٰ سے برکت طلب کریں اور اس کی بڑائی بیان کریں۔ ان معنوں میں قرآن کریم میں یہ لفظ سورۂ احزاب میں استعمالل ہوا ہے۔ وہاں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَآ ئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اصَلُّوْ ا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (احزاب ع ۷) اللہ اپنے رسول پر برکات نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے اور اس کی بڑائی بیان کرتے ہیںپس اے مومنو تم بھی اس کے لئے دعائیں کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور اس کے تمام احکام کی کامل فرمانبرداری کرو۔ استغفار کے خالص معنوں میں یہ لفظ سورۂ توبہ میں استعمال ہوا ہے وہاں آتا ہے وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَھُمْ (توبہ ع ۱۳) اے رسول جن سچے مومنوں سے کمزوریاں ہو جائیں تو اُن کیلئے استغفار کر کیونکہ تیرا اُن کے لئے استعفار کرنا ان کی تسلی کا موجب ہوتا ہے۔
دعا کے معنوں میں بھی سورۂ توبہ میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے فرماتا ہے وَمِنَ الْاَ غَرابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰ خِرِوَ یَتَّخِذُ مَایُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَواَتِ الرَّسُوْلِ اَلَآ اِنَّھَا قُرْبَۃٌ لَّھُمْ سَیُدْ خِلُھُمُ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِۃٖ (التوبہ ع ۱۲) یعنی چھوٹے دیہات یا جنگلوں میں رہنے والے بعض عرب بھی ایسے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور یوم آخر پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ تعالیٰ کے قرب اور رسول کی دعائیں حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں اور خوب سن رکھو کہ ان کا یہ فعل خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ ان کی اس نیک نیتی اور رسول کی دعائوں کی وجہ سے اُن کو ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔
نماز کے معنو ںمیں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس میں اصطلاحی نماز کے علاوہ یہ امور بھی مدنظر ہوتے ہیں کہ نماز دعا ہے اور اس سے دین کا مغز پورا ہوتا ہے اور شریعت کی غرض پوری ہوتی ہے اور اس میں بندہ اپنی کمزوریوں کی معانی کی درخواست اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت کو طلب کرتا ہے چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُتْلُ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃِ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ (عنکبوت ع ۵) یعنی قرآن کریم کی تلاوت کر اور نماز باجماعت ادا کر یقینا نماز اُن بُری باتوں سے بھی کہ جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں اور ان سے بھی کہ جو سوسائٹی پر گراں گذرتی ہیں روکتی ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نماز کو ایک رسم کے طو رپر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ یہ عبادت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ بدی سے نفرت ہوتا ہے اور اندرونی پاکیزگی اس سے حاصل ہوتی ہے۔
یہ الفاظ استعمال فرما کر کہ نماز بدی سے روکتی ہے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نماز میں یہ ذاتی خوبی ہے کہ وہ بدی سے روکتی ہے۔ پس جس شحص کو باوجود نماز پڑھنے کے بدی سے نفرت پیدا نہ ہو اُس کی نماز میں ضرور نقص ہے اور یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میںاسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ متقی صرف رسمی طور پر نماز نہیں ادا کرتے بلکہ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی نماز کھڑی ہو جائے یعنی وہ اُن کی روحانیت کے لئے بطور سہارے کے بن جائے جس طرح ٹیک اور سہارے جب تک اپنی جگہ پر کھڑے رہیں چھتوں کو کھڑا رکھتے ہیں اسی طرح نماز جب کامل ہو جائے تو متقی کے تقویٰ کو سہارا دے کر اپنی جگہ پر کھڑا رکھتی ہے پس صرف نماز پڑھنے پر تسلی نہیں پانی چاہیئے بلکہ نماز کو کھڑا کرنا چاہیے تاکہ اس کے سہارے پر انسان کا تقویٰ بھی کھڑا رہے۔
اسلامی نماز۔ چونکہ قرآن کریم میں نماز قائم کرنے کا حکم یہاں پہلی دفعہ بیان ہوا ہے میں اسلامی نماز کی کیفیت کو اس جگہ مختصراً بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ جو غیر مسلم اس تفسیر کو پڑھیں انہیں نماز کے متعلق کچھ واقفیت ہو جائے۔
اسلامی نماز کے ادا کرنے سے پہلے وضو ء یاتمیم فرض ہے وضوء کا حکم اصل ہے اور تمیم کا حکم بطور قائم مقام کے ہے۔ (سورۃ مائدہ رکوع اول آیت ۴) وضوء پانی سے کیا جاتا ہے اور اس میں پہلے ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کے بعد کلی کر کے منہ صاف کیا جاتا ہے اور نتھنوں سے پانی اوپر کی طرف کھینچ کر ناک کو صاف کیا جاتا ہے اس کے بعد منہ دھویا جاتا ہے پھر کہنیو ںتک کہنیوں کو شامل کرتے ہوئے دونوں ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کے بعد ہاتھ گیلے کر کے سر کے بالوں پر ایک ثلث سے دو ثلث تک مسح کیا جاتا ہے او رپھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی سے کانو ںکے سوراخوں کو گیلا کیا جاتا ہے اور انگوٹھوں کو کانو ںکی پشت پر پھرایا جاتا ہے تاکہ کان کی پشت بھی گیلی ہو جائے اس کے بعد دونوں پائوں ٹخنوں تک دھوئے جاتے ہیں (بخاری تکاب الوضوء باب الوضوء ثلاثاً و نسانی کتاب الوضوء باب مسیح الاذنین مع الراس) باہو ںاور پائوں کے دھونے میں اس امر کو ملحوظ رھا جاتا ہے کہ دائیں طرف پہلے دھوئی جائے اور بائیں طرف بعد میں۔ (نسائی کتاب الوضوء باب بای الرجلین یبدا بالغل) وضوء کرتے وقت یہ نیت کرنی بھی ضروری ہوتی ہے کہ نماز کے لئے یا طہارت کے لئے وضوء کیا جا رہا ہے (نسائی کتاب الوضوء باب النیتہ فی الوضوء) اس سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ خیالات کی رو عبادت کی طرف پھر جائے اور اس وقت سے خیالات دوسرے کاموں کی طرف سے ہٹ جائیں یہ فعل ظاہری صفاء… کا بھی موجب ہوتا ہے کیونکہ جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے بوجہ بالعموم ننگا رہنے کے وہی گردو غبار کا نشانہ بنتے ہیں۔
ان اعضاء کا دھونا یا گیلا کرنا خیالات کے اجتماع کے لئے بھی مفید اور ضروری ہوتا ہے کیونکہ خیالات کی پراگندگی حواس خمسہ کے مقامات کی تیزی سے ہوتی ہے اور حواس خمسہ کے مقامات آنکھیں کان ناک اور منہ اور جسم ہیں۔ وضوء میں کلی کے ذریعہ سے منہ کو تر کیا جاات ہے اور اس میں یکسوئی کی قوت پیدا کی جاتی ہے۔ ناک میں پانی ڈال کر اُسے ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ منہ دھوتے ہوئے آنکھوں کو تری پہنچائی جاتی ہے۔ کانوں میں گیلی انگلیاں ڈال کر اور اُن کے پیچھے انگوٹھے کو حرکت دے کر کانوں کی حس کی پراگندگی کو دُور کیا جاتا ہے ۔ جسم کی زیادہ حس کو دُور کرنے کے لئے باہیں اور پائوں دھوئے جاتے ہیں۔ اور طبی تجربہ اس امر پر شاہد ہے کہ بخار کی تیزی کو دُور کرنے کے لئے صرف یا ہوں اور پائوں کا ٹھنڈے پانی سے دھونا یا تر کرنا سارے بدن سے بخار کی گرمی دور کرنے کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے۔ سر کی گرمی خیالات کو بہت پراگندہ کر دیتی ہے اس وجہ سے سر کا مسح رکھا گیا ہے جو سر کو ٹھنڈا کر کے سر کی گرمی کو دُور کرتا اور خیالات کے اجتماع میں ممد ہوتا ہے۔
اعصابی ماہرین ماہرین کے تجربہ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھوں او رپائوں کی انگلیوں کے ٹھنڈا کرنے سے بھی خیالات کی رَد کو بدلا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مسمریزم کے ماہرین کا تجربہ ہے کہ مسمریزم کے عمل کے بعد اگر ہاتھوں او رپائوں کو پانی ڈال کر ٹھنڈا کر لیا جائے تو اس دماغی برتی طاقت کے ضاوع ہونے سے انسان بچ جاتا ہے جو مسمریز کے عمل کے بعد دیر تک جاری رہ کر انسان کو کمزور کر دیتی ہے۔ پس ہاتھوں اور پائوں کے دھونے سے بھی ان خیالات کی رد کو رد کا جا سکتا ہے جو نماز سے پہلے انسان کے دماغ میں جاری وتی ہے اور اُسے پھیر کر عبادت اور ذکر الٰہی کی طرف لایا جا سکتا ہے۔
غرض وضوء ایک نہایت پر حکمت حکم ہے جس کے ایک جزو کی تجربہ اور علم الاعصاب تائید کرتے ہیں۔ وضوء کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے (دیکھو سورۂ مائدہ ع ۲)
جب پانی میسر نہ ہو یا انسان بیمار ہو یا وضوء سے بیماری کا خطرہ ہو۔ تو اس صورت میں اسلام نے تمیم کا حکم دیا ہے کہ (سورۂ مائدہ آیت ۶ و نساء ۴) اور وہ حکم یہ ہے کہ پاک مٹی یا کسی پاکیزہ گرد والی چیز پر ہاتھ مار کر اپنے منہ پر او رہاتھوں اور باہوں پر پھیر لے (بخاری کتاب التمیم باب التمیم للوجہ والکفین) یہ حکم بھی انہی حکمتوں سے پُر ہے کیونکہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ صاف اور پاک مٹی بھی پانی کا قائم مقام ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اسی حکمت کو کسی وقت سمجھ کر ہندو سادھوئوں نے جسم پر بھبوت ملنے کا طریقہ جاری کیا تھا مگر یہ بات اُن سے نظر انداز ہو گئی کہ یہ طریق ادنیٰ درجہ کا ہے او رپانی کے میسر نہ آنے یا استعمال نہ کر سکنے کی صورت میں ایک قائم مقام کے طور پر ہی استعمال ہو سکتا ہے ورنہ پانی کا استعمال بہرحال افضل اور اعلیٰ ہے۔ تمیم کا حکم بھی قرآن کریم میں مذکور ہے اور سورۃ نساء ع میں اس کا ذکر آتا ہے۔
مرد اور عورت کے شہوانی اجتماع کے بعد کے لئے ایک زائد حکم بھی ہے اور وہ یہ کہ نماز پڑھنے سے پہلے نہا بھی لے۔ اس حکم میں یہ حکمت ہے کہ یہ فعل جیسا کہ تجربہ اس پر شاہد ہے سارے جسم پر اثر کرتا ہے اور جسم کے ہر حصہ کی برتی طاقت میں ایک ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ پس اس کو ٹھنڈا کر کے سارے جسم کی برتی طاقت اور خیالات کے انتشار کو دُور کرنا عبادت کی تکمیل اور خدا تعالیٰ کے ساتھ حصول اتصال کے لئے ضروری ہے۔ اس کا حکم سورۃ نساء کے رکوع میں بیان ہے۔ مگر جس طرح بیماری اور پانی کے میسر نہ آنے کی صورت میں وضوء کی جگہ تمیم کو کافی قرار دیا گیا ہے اسی طرح ان دونوں صورتوں میں بھی غسل کی جگہ تمیم کو کافی قرار دیاگیا ہے۔
وضوء یا تمیم جو بھی صورت ہو اس کے بعد مسلمان کو حکم کہ اگر امن کی حالت ہو اور زمین پر ہو تو قبلہ رو کھڑا ہو کر (بخاری کتاب الصلوۃ باب التوجہ سخو القبلۃ) دونو ںہاتھ اٹھا کر اور ہاتھوں کو قبلہ رُو کر کے انگوٹھوں کو اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتے ہوئے (جس کے معنے ہیں اللہ سب سے بڑا ہے) کانو ںکی لوئوں تک لائے (ابو دائد کتاب الصلوۃ باب استفتاع الصلوۃ و نسائی کتاب الا فتتاح اصلوۃ باب موضع الا بہامین عندالرفع) او راس نیت کے ساتھ کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگا ہے دوسرے سب خیالات کو دور کر کے عبادت الٰہی کے خیال میں محو ہو جائے۔ اس طرح ہاتھ اُٹھانے میں علاوہ توجہ کے قیام کے یہ بھی حکمت ہے کہ یہ حرکت طبعی طور پر باقی سب امور کو ترک کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ پس اس حرکت سے مسلمان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کے سب خیالات اور کاموں سے علیحدہ ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔ ہاتھو ںکی اسی قسم کی حرکت کی طرف غالب نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے۔ ؎
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہوئے کرتے ہیں سلام
جس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں
پس اس حرکت سے مومن گویا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سب دنیا سے قطع تعلق کر کے اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے بیداری اور چستی بھی پیدا ہوتی ہے۔
اس کے بعد مسلمان اپنے سینہ پر ہاتھ باندھ لیتا ہے۔ (ابن حزیمہ بروایت وائل بن حجر) گویا مودب ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ عبارت کہتا ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالیٰ جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ (ترمذی ابواب الصلوۃ باب مایقول عند افتتاح الصلوۃ و نسائی کتاب الافتتاح باب الذکربین افتتاح الصلوۃ و نسائی کتاب الا فتتاح باب الدکر بین افتتاح الصلوۃ و بین القراۃ) یعنی اے اللہ توہر نقص سے جو تیرے مقام کے خلاف ہے پاک ہے او رہر خوبی سے جو تیری شان کے لائق ہے متصف ہے اور تیرا نام تمام برکتوں کا جامع ہے اور تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اس کے بعد وہ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھتا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ اے اللہ میں ہر اُس بد روح سے جو تیری درگاہ سے دور کی گئی ہے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ اس کا اثر مجھ پر نہ ہو اور میں تیری درگاہ سے دور ہونیوالوں میں شامل نہ ہو جائوں۔ پھر وہ سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے (نسائی کتاب الافتتاح باب البداء ۃ بقاتحتہ الکتاب قبل السورۃ و ایجاب قرأۃ فاتحتہ الکتاب) اس کے بعد وہ قرآن کریم کی کوئی سورۃ یا کم سے کم کسی سورۃ کا اتنا حصہ جو تین آیات پر مشتمل ہو پڑتا ہے او رپھر اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر رکوع میں چلا جاتا ہے (رکوع اُسے کہتے ہیں کہ انسان اس طرح کمر سیدھی کرے کہ اس کا سر اور لاتوں کا اوپر کا حصہ ایک دوسرے کے متاوزی ہو جائیں جھک جاتا ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتا ہے اور لاتیں بالکل سیدھی رکھتا ہے اور لاتیں بالکل سیدھی رکھتا ہے ان میں خم پیدا نہیں ہونے دیتا (نسائی کتاب افتتاح الصلوۃ باب الاعتدال فی الرکوع) پھر اس حالت میں وہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کا فقرہ کہتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میرا رب جو اپنی شان کی وسعت میں سب سے بڑھ کر ہے تمام نقائص سے پاک ہے۔ یہ فقرہ کم سے کم تین بار یا اس سے زیادہ طاق عدد میں وہ دہراتا ہے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع) پھر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر اس شخص کود عا کو سنتا ہے جو سچے دل سے اس کی تعریف بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ پوری طرح کھڑا ہو کر ہاتھ سیدھے چھوڑ کر یہ دعا مانگتا ہے کہ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ حَمَدً اکَثِیْراً طَیِّبًا سُبَارَکًافِیْہِ (نسائی کتاب الافتتاح مایقول الماموم اذارفع رأسہ من الرکوع) یعنی اے میرے رب سب تعریف تیرے ہی لئے ہے کثرت سے تعریف اور پاک تعریف جو سب تعریفوں کی جامع ہے۔ اس کے بعد وہ پھر اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر سجدہ میں چلا جاتا ہے۔ سجدہ اسے کہتے ہیں کہ انسان اپنی سات ہڈیوں پر زمین پر جھک جاتا ہے یعنی اس کا ماتھا زمین پر پوری طرح لگا ہوا ہو اس کے دونوں ہاتھ قبلہ رُو زمین پر رکھ ہوئے ہوں اور اس کے گھٹنے بھی زمین پر لگے ہوئے ہوں اور اس کے دونوں پائوں بھی زمین پر لگے ہوئے ہوں اس طرح کہ دونوں پائوں کی انگلیاں دبا کر قبلہ رُو کی ہوئی ہوں (مسلم جلد اول کتاب الصلوۃ باب فی اعضاء السجود) اس حالت میں مسلمان سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اے میرے رب تو اپنی شان کی بلندی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ یہ فقرہ وہ کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ کسی طاق عدد کے مطابق کہتا ہے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی التسبیح فی السجود) اس کے بعد وہ اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کربیٹھ جاتا ہے۔ اس طرح کہ اس کی بائیں لا سے تو تہہ کی ہوئی مگر اس کا پائوں اس طرح کھڑا ہو کہ انگلیاں قبلہ رخ ہوں۔ اس وقفہ میں وہ یہ دعا پڑھتا ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْ حَمْنِیْ وَاھْدِ نِیْ وَعَا فِنِیْ وَارْزُقْنِیْ (ابو دائود بحوالہ مشکوۃ کتاب الصلوۃ باب السجود و فضلہ) جس کے یہ معنے ہیں کہ اے میرے رب میرے گناہ معاف کر اور مجھ پر رحم کر اور مجھے سب صداقتوں کی طرف رہنمائی بخش اور مجھے تمام عیبوں سے محفوظ رکھ اور مجھے اپنے پاس سے حلال و طیب رزق عطا فرما۔ (بعض احادیث میں وَاجْبُرْنِیْ اور بعض میں وَارْفَعْنِیْ آتا ہے یعنی اے میرے رب میری تمام کمزوریوں کو دُور کر اور تمام نقصانات سے بچا۔ اور میرا قدم ہر گھڑی ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے) اس کے بعد وہ پھر بآواز بلند اللّٰہُ اَکْبَرْ کہ کر پہلے کی طرح سجدہ میں چلا جاتا ہے۔ اور پہلے سجدہ کی طرح دعا کر کے پھر اللّٰہُ اَکْبَرْکہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسے ایک رکعت کہتے ہیں اس کے بعد وہ پہلے کی طرح پھر ایک رکعت ادا کرتا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمْ وَبِحَمْدِکَ والی دعا جس سے اُس نے نماز شروع کی تھی وہ اسے حذف کر دیتا ہے اور صرف سورۂ فاتحہ سے نماز شروع کرتا ہے۔ اس دوسری رکعت کے ختم کرنے پر وُہ اس طرح بیٹھ جاتا ہے جس طرح کہ پہلے سجدہ اور دوسرے سجدہ کے درمیان بیٹھا تھا اور تشہد پڑھتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں اَلتَّحِیَّاتُ للّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ (بخاری کتاب الصلوۃ باب التشہد فی الآخرۃ) یعنی تمام وہ کلمات جو تعظیم کے لئے زبان سے نکل سکتے ہیں اور تمام وہ عبادات جو جسم انسانی بجالا سکتا ہے اور تمام وہ مالی قربانیاں جو کسی پاک ذات کے لئے پیش کی جا سکتی ہیں خدا تعالیٰ کا ہی حق ہیں اس کے سوا اور کوئی ہستی ان کی مستحق نہیں اور اے نبی تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اللہ تعالیٰ کا رحم تجھ پر اُترتا رہے اور اس کی برکتوں سے تو حصّہ پاتا رہے اور ہم پر جو اس نماز میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندے جو پہلے گذر چکے ہیں یا اس وقت موجود ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں ان سب پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور یہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
اس کے بعد وہ دُرود پڑھتا ہے جو مختلف الفاظ میں آتا ہے مگر مختصر دورد یہ ہے کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدً وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِلَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ (بخاری جلد دوم کتاب بدء الخلق باب یزفون النسلان نے المشی و مشکوۃ کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے معنے یہ ہیں کہ اے اللہ محمد پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل کر اور اسی طرح تمام ان لوگوں پر جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتے ہیں جس طرح تو نے ابراہیم پر اور ابراہیم سے تعلق رکھنے والوں پر فضل اور رحمت نازل کی تھی اور اے اللہ محمد صلعم پر اپنی برکتیں نازل کر اور ان پر بھی جو آپؐ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس طرح تو نے ابراہیم پر اور اس سے تعلق رکھنے والوں پر برکتیں نازل کی تھیں۔ اس کے بعد وہ بعض دعائیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں پڑھتا ہے مثلاً یہ کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَانْکُسَلِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنْ غَلْبَۃِ الدَّیْنِ وَ قَھْرِ الرِّجَالِ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب الاستعاذہ) یعنی اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ مجھے کوئی گھبرا دینے والی مصیبت پہنچے یا مجھے غم فکر دبالیں اور اے میرے رب میں تیری پناہ چاہات ہوں اس بات سے کہ میں وہ سامان کھو بیٹھوں جن سے میری زندگی کے کام چلتے ہیں یا وہ طاقتیں میری جاتی رہیں جنکی مجھے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ضرورت ہے اور اس سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس ترقی میں مدد دینے والے سامان تو موجود ہوں یا ترقی میں مدد دینے والی طاقتیں تو مجھے حاصل ہوں مگر اُن کے استعمال سے میں گریز کروں اور سستی اور کاہلی کا شکار ہو جائوں اور اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی اور بخل کی اخلاقی امراض سے۔ اور اے میرے رب اس بارہ میں بارہ میں بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے قرض دبالے اور میں لوگوں کی نظروں میں قرض نہ ادا کرنے کی وجہ سے ذلیل ہو جائوں اور اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ ایسے انسان مجھ پر مسلط ہو جائیں جو میرے حقوق کو تلف کریں اور مجھے ان ترقیات کے حصول سے روک دیں جو ہر انسان کے لئے تو نے اپنے فضل سے مقدر کر چھوڑی ہیں۔
یہ اور اسی قسم کی اور دعائیںہیں جو رسول کریم صلی اللہ سے ثابت ہیں ان دعائوں کو اس موقع پر مسلمان پڑھتا ہے یا جو اور دعائیں اپنی ضرورت کے مطابق مناسب سمجھتا ہے مانگتا ہے پھر وہ پہلے دائیں طرف منہ کر کے الَسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتا ہے اور اس کے بعد بائیں طرف منہ کر کے الَسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتا ہے اور اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے۔
یہ اس صورت میں ہے کہ نماز دو رکعت کی ہو اگر دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو بجائْ اِدھر اُدھر منہ پھیر کر السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہنے کے مسلمان اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر پھر کھڑا ہو جاتا ہے اور تین رکعت کی نماز ہو تو ایک رکعت او رپڑھ کر دوبارہ تشہد پڑھ کر سلام پھیرتا ہے اور اگر چار رکعت کی نماز ہو تو دو رکعت اور پڑھ کر پھر تشہد میں بیٹھ کر اور اوپر کی دعائیں اور کلمات پڑھ کر سلام پھیر دیتا ہے۔ جب دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو پہلے تشہد کے بعد ایک یا دو رکعت جو دو پڑھتا ہے ان میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے قرآن کریم کی زائد آیات نہیں پڑھتا۔
نماز مسلمانو ںپر پانچ وقت فرض ہے ایک نماز صبح کی جس کا وقت پوپھٹنے سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ہوتا ہے یعنی سورج نکلنے سے پہلے یہ نماز ختم ہو جانی چاہیئے اس نماز کی دو رکعت ہوتی ہیں ایک نماز سورج ڈھلنے سے لے کر اندازًا پونے تین گھنٹہ بعد تک پڑھی جاتی ہے گرمیوں میں یہ وقت ہندوستان میں کوئی تین گھنٹہ تک چلا جاتا ہے اس نماز کو ظہر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی چار رکعت ہوتی ہیں اس کے بعد تیسری نماز کا وقت شروع ہوتا ہے یہ نماز دھوپ کے زرد ہونے کے وقت تک پڑھی جا سکتی ہے اسے عصر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی بھی چار رکعت ہوتی ہیں اس کے بعد سورج ڈوبنے سے لے کر شفق یعنی مغرب کی طرف کی سرخی کے غائب ہونے تک چوتھی نماز کا وقت ہوتا ہے اور اسے مغرب کی نماز کہتے ہیں اس کی رکعتیں تین ہوتی ہیں پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھتے ہیں اور پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھتے ہیں اور دونوں سجدوں کے بعد تشہد میں بیٹھ کر اور جو دعائیں اوپر بیان ہو چکی ہیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے ہیں اس کے بعد پانچویں نماز کا وقت شروع ہوتا ہے جسے عشاء کی نماز کہتے ہیں اس کا وقت ہندوستان کے اوقات کے لحاظ سے غروب آفتاب سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد سے شروع ہوتا ہے اور نصف شب تک اور بعض کے نزدیک اس کے بعد تک بھی چلا جاتا ہے اس نماز کی رکعتیں بھی چار ہوتی ہیں جو رکعتیں بیان کی گئی ہیں یہ اس وقت کے لئے ہیں جبکہ انسان وطن میں موجود ہو یا ایسی جگہ پر ہو جہاں اس کی مستقل اقامت ہو۔ جب سفر میں ہو تو اس صورت میں صبح اور مغرب کی نمازوں کے سوا دوسری نمازیں آدھی پڑھی جاتی ہیں یعنی بجائے چار رکعتوں کے دو دو رکعت پڑھی جاتی ہیں بعض لوگوں میں غلطی سے یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ سفر میں آدھی نماز رہ گئی ہے لیکن اصل بات یہ نہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے جسے امام مالکؓ نے نقل کیا ہے (موطا امام مالک قصر الصلوۃ فی السفر) ثابت ہے کہ جب نماز فرض ہوئی ہے تو ظہر عصر اور عشاء کی دو رکعتیں ہی تھیں مگر بعد میں سفر کی حالت میں دو دو رکعتیں ہی رہنے دی گئیں لیکن حضر یعنی اقامت کے ایام میں دگنی نماز کر دی گئی۔ یعنی دو دو کی جگہ چار چار کعتوں کا حکم ملا۔
ان نمازوں میں سے صبح کی نماز باجماعت ہو تو امام سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا حصہ بلند آواز سے پڑھتا ہے اور مقتدی سورۃ فاتحہ ساتھ ساتھ آہستہ پڑھتے ہیں اور باقی قرارء ت صرف سنتے ہیں باقی حصہ نماز کا امام بھی آہستہ پڑھتا ہے سوائے تکبیروں اور سَمعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور آخری سلاموں کے ظہر کی نماز میں تمام رکعتوں میں امام آہستہ پڑھتا ہے اور اس کے پیچھے کے نمازی بھی اپنے طور پر سورہ فاتحہ اور قرآن کریم پڑھتے ہیں ۔ عصر کی نماز بھی اسی طرح ہوتی ہے مغرب کی نماز میں پہلی اور دو رکعتوں میں امام سورہ فاتحہ بلند پڑھتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کے مقتدی آہستہ آہستہ منہ میں سورہ فاتحہ پڑھتے جاتے ہیں سورۂ فاتحہ کے بعد امام قرآن کریم کا کچھ حصہ جب پڑھتا ہے تو مقتدی خاموش اس کے پڑھے ہوئے کو سنتے ہیں خوہ کچھ نہیں پڑھتے۔ آخری رکعت میں امام بھی دل میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور مقتدی بھی۔ عشاء کی نماز میں بھی پہلی دو رکعتو ںمیں اسی طرح امام بلند آواز سے سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ اور حصہ پڑھتا ہے اور مقتدی سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ اور حصہ پڑھتا ہے اور مقتدی سورہ فاتحہ منہ میں دہراتے ہیں اورقرآن کریم کا دوسرا حصہ صرف سنتے ہیں مگر آخری دو رکعتوں میں قیام کی حالت میں امام صرف سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور وہ بھی آہستہ آہستہ منہ میں اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر آہستہ آہستہ ہی منہ میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں تمام نمازو ںمیں باجماعت ہوں تو امام تکبیریں اور سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ رکوع سے کھڑے ہوتے وقت اور نماز کے خاتمہ کے بعد کا سلام بہرحال بلند آواز سے کہتا ہے کیونکہ مقتدیوں کو ساتھ چلانا بدنظر ہوتا ہے۔
ان پانچ فرض نمازوں کے علاوہ ایک نماز تر کہلاتی ہے اس نماز کی بھی مغرب کی طرح تین رکعتیں ہیں مگر فرق یہ ہے کہ مغرب کی نماز میں پہلے تشہد کے بعد جو تیسری رکعت پڑھی جاتی ہے اس میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی زائد تلاوت نہیں کی جاتی لیکن و ترکی نماز میں تیسری رکعت میں بھی سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی چند آیات یا کوئی چھوٹی سورۃ پڑھی جاتی ہے (ترمذی جلد اول کتاب الصلوۃ ابواب الوترباب ماجاء مایقرافی الوتر) دوسرا فرق اس میں یہ ہے کہ اس نماز کو مغرب کی نماز کے برخلاف دو حصوں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی یہ بھی جائز ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے (نسائی کتاب قیام اللیل و تطوع النہار باب کیف الوتر ثبلاث و باب یف الوتر بواحدۃ وکیف الوتربثلاث) یہ نماز عشاء کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہے اور تہجد کی نماز کے بعد بھی جس کا ذکر آگے آتا ہے۔
ان نمازوں کے علاوہ کچھ سنتیں ہوتی ہیں یعنی ایسی زائد نماز جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالالتزام ادا فرمایا کرتے تھے اور گو آپؐ ان کو فرض قرار نہ دیتے تھے لیکن ان کی تاکید کرتے رہتے تھے صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں ہیں اور بعد میں بھی چار رکعتیں ہیں۔ چار کی جگہ دو دو بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ عصر کے ساتھ کوئی ایسی سنتیں نہیں ہیں مغرب کے بعد دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور عشاء کے بعد بھی دو یا چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی من صلی فی یوم و لیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ من السنتہ مالہ من الفضل۔ وباب ماجاء فی الرکعتین بعد الظہر) اور انہی کے بعد مذکورہ بالا و تر پڑھے جاتے ہیںان سنتوں کے علاوہ ایک نماز تہجد کہلاتی ہے نصف سب کے بعد کسی وقت پوپھٹنے سے پہلے یہ نمار پڑھی جا سکتی ہے مگر جیسا کہ تہجد کے معنوں سے ظاہر ہے یہ نمار سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھنی جانی چاہیئے گو کسی وقت سونے کا وقت نہ ملے اور نصف شب گذر جائے تو یوں بھی پڑھ سکتا ہے مگر قرآن کریم نے جو اس کا نام رکھا ہے اس سے بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ عشاء کے بعد آدمی سو جائے اور سونے سے اُٹھ کر یہ نمار ادا کرے اس نماز کا روحانی ترقیات سے بہت گہرا تعلق ہے اور قرآن کریم میں اس کی خاص تعریف آئی ہے (دیکھو سورۂ مزمل آیت ۱ تا ۶) ان کے علاوہ بعض اور سنتیں بھی ہیں جو موکد تو نہیں یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خاص تاکید تو نہیں فرمائی مگر آپ جب موقع ملتا انہیں ادا کرتے تھے ان میں سے ایک اشراق کی نماز ہے یعنی جب سورج نیزہ دو نیزے اوپر آ جائے اسی طرح اور بعض نوافل ہیں لیکن حکم یہ ہے کہ جب سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو یا نصف النہار کا وقت ہو تو نماز ناجآئر ہے اور جب دھوپ زرد ہو جائے تب بھی ناپسندیدہ ہے۔
نمازوں کو ان کے مقررہ وقت پر پڑھنے کا حکم ہے لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے مثلاً بارش ہ اور بار بار مسلمانوں کا جمع ہونا مشکل ہو یا کوئی ایسا اجتماعی کام ہو جسے درمیان میں نہ چھوڑا جا سکتا ہو یا سفر ہو تو جائز ہے کہ ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملا کر پڑھ لیا جائے اس صورت میں بعض کے نزدیک درمیانی سنتیں معاف ہوتی ہیں اور بعض کے نزدیک پہلی اور پچھلی سنتیں بھی معاف ہوتی ہیں اور میرے نزدیک یہی آخری بات درست ہے معرب اور عشاء کو ملا کر پڑھنا بھی انہی حالات میں اور اسی طرح جائز ہے جس طرح کہ ظہر اور عصر کا۔ مگر صبح ظہر یا عصر مغرب یا عشاء صبح کا ملا کر پڑھنا جائز نہییں سوائے اس کے کہ کوئی ایسے شدید کام میں ہو کہ اس کا ترک جان کے لئے پر خطرہ ہو جیسے جہاد میں کہ اگر لڑائی سے ہٹ کر نماز پڑھے تو دشمن قتل کر دے گا یا مثلاً نہر یا دریا کا بند ٹوٹ جائے اور اس کے بند کرنے میں لوگ مشغول ہوں یا آگ لگ جائے اور اس کے بجھانے میں لوگ مشغول ہوں تو ایسے مواقع پر ان نمازوں کو بھی جمع کیا جا سکتا ہے جن کو امن کی حالت میں جمع نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ آفات ملک اور قوم اور شہر کی تباہی کا موجب ہوتی ہیں اس صورت میں بھی ان نمازوں کو جو عام طور پر جمع نہیں ہو سکتیں جمع کرنا جائز ہے کہ کوئی شخص بیہوش ہو جائے اور اس وقت ہوش آئے کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے مثلاً عصر کی نماز کے وقت بیہوش ہو اور عشاء کے وقت ہوش آئے تو عصر اور مغرب جمع کر کے پڑھ لے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے موقعہ پر ظہر، عصر مغرب اور عشاء جمع کیں مگر ان مجبوریوں کی وجہ سے جو اوپر بیان ہوئیں ان نمازوں کا جمع کرنا بھی جائر ہے جو عام طور ہر جمع نہیں کی جا سکتیں لیکن جو نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی جائے اسے دوسرے موقعہ پڑھنا جائز نہیں یعنی وہ نماز کے طو رپر قبول نہ ہو گی اس کا علاج صرف توبہ اور استغفار ہے ہاں بھول اور نسیان کے سبب سے یا سوتے رہنے کی وجہ سے جو نماز چھت جائے جب بھی یاد آ جائے یا آنکھ کھلے اس کا پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ ممنوع وقت نہ ہو جیسے سورج نکل رہا ہو تو سو کر اٹھنے والا انتظار کرے اور جب سورج پوری طرح نکل چکے تو اس وقت نماز ادا کرے۔
ان نمازوں کے علاوہ ایک جمعہ کی نماز ہے جو جمعہ کے دن ظہر کے وقت پڑھی جاتی ہے اس دن ظہر کی نماز نہیں پڑھی جاتی جمعہ کی نماز سے پہلے امام خطبہ پڑھتا ہے جس میں جب موقعہ کسی اسلامی مسئلہ یا مسلمانوں کی کسی ضرورت کے متعلق وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اس کے بعد وہ دو رکعت نماز پڑھاتا ہے جس میں برخلاف ظہر کی نماز کے سورۂ فاتحہ اور قرآن کریم کا حصہ بلند آواز سے پڑھا جاتا ہے سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے وقت مقتدی ساتھ ساتھ سورۂ فاتحہ کے الفاظ منہ میں آہستہ طور پر دہراتے جاتے ہیں ا ور دوسری قراء ت کے وقت صرف کلامِ الٰہی سنتے ہیں۔
اس کے علاوہ دو اور نمازیں ہوتی ہیں ایک رمضان کے بعد کی عید کی نماز او رایک حج کے موقعہ کی عید کی نماز۔ رمضان کے بعد کی عید پہلی شوال کو ہوتی ہے اس میں دو رکعت ہوتی ہیں اور سورۂ فاتحہ اور تلاوت بلند آواز سے امام پڑھتا ہے اور حج کے موقعہ کی عید حج کے دوسرے دن دسویں ذی الحجہ کو ہوتی ہے اس میں بھی دو رکعتیں ہوتی ہیں اور امام سورۂ فاتحہ اور مزید حصہ قرآن کریم کا بلند آواز سے پڑھتا ہے۔
یہ دونوں نمازی دن کے ابتدائی حصہ میں ہوتی ہیں روزوں کے بعد کی عید جسے عیدالفطر کہتے ہیں ذرا دیر سے پڑھی جاتی ہے اور حج کے بعد کی جسے عیدالاضحیہ کہتے ہیں ذرا سویرے پڑھی جاتی ہے۔
ان دونوں نمازوں کے ساتھ بھی خطبہ ہوتا ہے مگر جمع کے خطبہ کے برخلاف ان عیدو ںمیں خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے ان دونوں نمازوں سے پہلے اقامۃ نہیں کہی جاتی۔
ان نمازوں کے علاوہ ایک ضروری نماز جنازہ کی نماز ہے یہ فرض کفایہ ہے یعنی جب کوئی مسلمان فوت ہو اور کچھ مسلمان اس کا جنازہ پڑھ لیں تو سب کی طرف سے فرض کا ادا ہونا سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ کوئی مسلمان بھی ادا نہ کرے تو سب مسلمان جن کو علم ہوا اور وہ شامل نہ ہوئے مجرم سمجھے جاتے ہیں گویا جنازہ کی ادائیگی انفرادی ذمہ داری نہیں بلکہ قومی ذمہ داری ہے۔
جنازہ کی نماز میں دوسری نمازوں کے برخلاف رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے سب حصے کھڑے کھڑے ادا کئے جاتے ہیں (بخاری جلد اول باب فی الجنائز باب سنۃ الصلوۃ علی الجنائز) اور یہ جنازہ کی نماز میت کو سامنے رکھ کر پڑھائی جاتی ہے اور یہی وجہ اس میں رکوع اور سجدہ نہ ہونے کی ہے کیونکہ میت کے سامنے پڑے ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے کہ یہ رکوع اور سجدہ اس میت اس میت کو کیا جا رہا ہے اور ایسی لاش جو کسی بزرگ کی ہو اس کا جنازہ پڑھتے ہوئے کئی کمزور طبائع خود بھی اس خیال میں مبتلا ہو سکتی ہیں پس نماز جنازہ سے رکوع اور سجدہ کو اڑا دیا گیا تا شرک کا قلع قمع ہو۔
اس نماز کے چار حصے ہوتے ہیں امام قبلہ رو کھڑا ہو کر بلند آواز سے سینہ پر ہاتھ باندھ کر تکبیر کہہ کر اس نماز کو شروع کرتا ہے اس نماز سے پہلے اقامۃ نہیں کہی جاتی۔ پہلی تکبیر کے بعد منہ میں آہستہ آواز سے امام اور مقتدی اپنے اپنے طور پر سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے اور بغیر رکوع میں جانے کے اسی طرح کھڑے ہوئے منہ میں آہستہ آواز سے درود پڑھتا ہے اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر ایسا ہی کرتے ہیں اس کے بعد امام پھر تکبیر کہتا ہے اور اسی طرح کھڑے کھڑے میت کی بخشش کے لئے اگر وہ بالغ ہو دعا کرتا ہے اسی طرح دوسرے مسلمان مردوں عورتوں بڑوں چھوٹوں سب کے لئے عممواً اور میت کے پسماندگاں کے لئے خصوصاً دعا کرتا ہے اور مقتدی بھی یہی کام کرتے ہیں میت نابالغ ہو تو اس کے ماں باپ کے صبر اور نعم البدل کے لئے دعا کی جاتی ہے اور اس امر کے لئے کہ مرنے والے کو خدا تعالیٰ اس کے رشتہ داروں کے لئے اگلے جہاں میں رحمت اور بخشش کا ذریعہ بنا دے بعض مقررہ دعائوں کے علاوہ اپنے طور پر اپنی زبان میں بھی دُعا کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتااور تھوڑے سے وقفہ کے بعد سلام پھیر کر نماز کو ختم کر دیتا ہے۔
بعض اور قسم کی نمازیں بھی اسلام میں ہیں مثلاً استسقاء کی نماز جو قلت باراں اور خطرہ قحط کے وقت میں پڑھی جاتی ہے کسوف و خسوف کے موقعہ کی نماز۔ صلوٰۃ الحاجۃ یعنی کسی بڑی مصیبت کے دُور ہونے کے لئے یا دُور ہونے پر شکریہ کے طور پر یہ نماز پڑھی جاتی ہے مگر یہ نمازیں چونکہ کبھی کبھی ادا ہوتی ہیں میں ان کے بارہ میں اس جگہ کچھ لکھنا نہیں چاہتا فقہ کی کتابوں میں ان کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
تمام باجماعت ادا ہونے والی نمازوں کے لئے حکم ہے کہ امام آگے کھڑا ہو اور مقتدی اس کے پیچھے اتنے اتنے فاصلہ پر صفیں باندھ کر کھڑے ہوں کہ سب آسانی سے سجدہ کر سکیں صفوں کو درست کرنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص طو رپر زور دیتے تھے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ما جاء فی اقامۃ الصفوف) قرآن کریم سے بھی اس بارہ میں استدلال ہوتا ہے۔
نماز میں سجدہ اور قعدہ کے علاوہ باقی سب حصے کھڑے ہو کر ادا کئے جاتے ہیں لیکن بیمار کے لئے بیٹھ کر اور بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر اشارہ سے نماز پڑھنا جائر ہے۔
نماز کے وقت ادھر اُدھر دیکھنا نظر پھرانا بات کرنا یا نماز سے باہر والے کی بات کی طرف توجہ کرنا اور اسی قسم کے اور کام جو نماز کے فعل میں خلل ڈالیں منع ہوتے ہیں (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب الالتفات فی الصلوۃ و باب النظر فی الصلوۃ و باب تشمیت العاطس فی الصلوۃ) بلاوجہ کھانسنا ادھر ادھر ہلنا بھی ناجائز ہے یہ حکم پہلی تکبیر سے لے کر سلام تک کے وقت کے لئے ہے۔
جب نماز ایسے خوف کے وقت پڑھی جائے کہ نماز پڑھی تو جا سکتی ہو لیکن پورے اطمینان سے نہ پڑھی جا سکتی ہو جیسے مثلاً جنگ کا میدان ہو اور عملاً لڑائی نہ ہو رہی ہو لیکن دشمن حملہ کی تیاری میں ہو یا حملہ کا خوف ہو تو اس صورت میں کئی طرح نماز میں تخفیف جائز ہے ایک مسنون طریق یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ دو رکعتیں اور زیادہ خطرہ ہو تو ایک رکعت ادا کرے دوسرا حصہ دشمن کی طرف منہ کر کے کھڑا رہے جب پہلا حصہ ایک یا دو رکعت جیسا بھی موقعہ ہو ختم کرے تو جو حصہ کھڑا تھا وہ امام کے پیچھے آ جائے اور پہلا پیچھے ہٹ کر دشمن کی طرف منہ کر کے کھڑا رہے اگر دشمن قبلہ کی طرف ہو تو بہرحال سب کا منہ ایک ہی طرف ہو گا (مسلم جلد اول کتاب الصلوۃ باب صلوۃ الخوف) اس نماز کی مختلف صورتیں ہیں جو گیارہ تک پہنچتی ہیں اور خطرہ کی مختلف حالتوں کے مطابق ہیں اس جگہ ان سب کے بیان کا موقعہ نہیں خلاصہ یہ ہے کہ نماز باجماعت کا حکم خطرہ جنگ کی صورت میں مختلف صورتوں کے مطابق جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں بدلتا رہے گا اس نماز کا ذکر قرآن کریم میں سورہ نساء رکوع ۱۵ میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ جب خطرہ شدید ہو اور سواری پر یا پیدل دوڑ کر دشمن کے مقابلہ کے لئے جانا پڑے یا پیچھے ہٹنا پڑے تو سواری پر ہی یا دوڑتے ہوئے بھی نماز جائز ہے اور اسے جلدی جلدی ادا کرنے کی بھی اجازت ہے اس کا ذکر بھی سورۂ نساء کے رکوع ۱۵ میں آتا ہے۔
نماز قبلہ رُخ ہو کر پڑھی جاتی ہے یعنی جہاں بھی کوئی ہو کعبہ کی طرف منہ کر کے جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے کھڑا ہوتا ہے اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کی توجہ ایک مرکز کی طرف جمع ہو جاتی ہے یہ کعبہ کی طرف منہ کرنا اس لئے نہیں کہ اسلام نے کعبہ کو کوئی خدائی صفت دی ہے بلکہ جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اوریہ اسی سورۃ میں آگے آئے گا ایسا اس لئے کیا گیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح منہ کر کے کھڑے ہونے کا حکم باجماعت نماز کے لئے ضروری تھا اگر کوئی خاص جہت مقرر نہ کی جاتی اور صفوں میں کھڑے ہو کر ایک جگہ پر لوگ نماز نہ پڑھ سکتے کسی کا منہ کسی طرف ہوتا اور کسی کا کسی طرف تو نماز جماعتی عبادت کس طرح بنتی؟ پس جب جماعتی عبادت کے لئے کسی نہ کسی طرف منہ کرنا ضروری تھا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دے دیا جس کی نسبت اسلام کا وعدہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا یہی ہے (آل عمران آیت ۹۶) یہ گھر حضرت ابراہیمؑ سے بھی پہلے کا بنا ہوا ہے مگر حضرت ابراہیمؑ سے پہلے کسی وقت منہدم ہو گیا تھا جس پر خدا تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ نے اپنے لڑکے اسماعیل کی مدد سے اسے دوبارہ بنایا (بخاری جلد ۲ کتاب بدا الخلق باب یزفون النسلان فی المشی) اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ کسی وقت یہ مقام تمام سچے پرستاروں کا مرکز ہو گا (سورہ بقرہ آیت ۱۲۵ و حج آیت ۲۶) چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری کی (سورہ بقرہ آیت ۱۲۹ و سورہ جمعہ آیت ۲) اس لئے اسی مقام کو مسلمانوں کے ظاہری اجتماع کا مرکز بنایا گیا۔ تا انہیں ہمیشہ وہ فرض یاد رہے جو ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے جماعت مسلمین کے قیام کی غرض کے طو رپر مقرر کیا گیا تھا۔
اس کا ثبوت کہ کعبہ عبادت کا حصہ دار نہیں صرف اجتماع کا ذریعہ ہے یہ ہے کہ جب چلتی ہوئی کشتی یا کسی دوسرے سواری میں نماز ادا کرنی پڑے تو ایک دفعہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز شروع کر لینا کافی ہوتا ہے اس کے بعد سواری کا منہ کدھر بھی ہو جائے نماز میں خلل نہیں پڑتا (ترمذی جلد اول ابواب الصلوۃ باب الصلوۃ الی الراحلۃ و ابودائود کتاب الصلوۃ باب التطوع علی الراحلۃ) اور جب کعبہ کی طرف کا علم نہ ہو سکے تو نماز معاف نہیں ہو جاتی بلکہ جدھر منہ کر کے بھی نماز پڑھ لی جائے جائز ہے بلکہ ضروری ہے کہ نماز پڑھے خواہ کدھر ہی منہ کر کے نماز پڑھے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی الرجل یصلی لغیر القبلۃ فی الغیم)
اگر وضو اور تمیم دونوں نہ کر سکے تو اس صورت میں بھی میرے نزدیک نماز ادا کر سکتا ہو تو ادا کر لے جیسے مثلاً جہاز عرق ہو جائے اور کوئی شخص لائف بلٹ پہن کر سمند رمیں کودے پڑے اور عرصہ تک اسے بچانے والا کوئی نہ آوے تو نہ یہ وضو کر سکے گا نہ تمیم اس سورۃ میں اس کا اشارہ کے ساتھ ہی نماز پڑھ لینا درس ہو گا اور جن فقہاء کے نزدیک اس طرح پانی میں ہونا وضو ہی کا مترادف ہے ان کے خیال کی رو سے تو اس کا وضو ہی ہو گا کیونکہ وضو والے سب اعضاء دُھل چکے ہونگے۔
نماز کی شکل میں حکمت:
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں جو قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ مقرر کئے گئے ہیں یہ ایک رسمی سی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ہیئتوں کے اختیار کنے میں خاص کمتیں ہیں۔ جو نماز کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں اور نماز کا ان پر مشتمل ہونا اسے ایک رسمی عبادت نہیں بنات۔ ان ہیئتوں پر اس کا مشتمل ہونا اسے روحانیت کے لئے مکمل بناتا ہے اصل بات یہ ہے کہ انسانی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ جسم کا اثر روح پر اور روح کا اثر جسم پر پڑتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو رونی صورت بنائے اس کی آنکھو ںمیں کچھ دیر کے بعد آنسو آ جاتے ہیں اور دل بھی غمگین ہو جاتا ہے اور جس غمگین آدمی کے پاس بیٹھ کر لوگ ہنسیں او راسے ہنسائیں تھوڑی دیر کے بعد اس کے دل پر سے غم کا اثر کم ہونے لگتا ہے او راس کے اُلٹ یہ بھی ہوتا ہے کہ دل کے غم اور خوشی کا اثر انسان کے چہرہ اور دوسرے اعضاء پر پڑتا ہے حتیٰ کہ بعض دفعہ ایک رات کے صدمہ سے بعض لوگوں کے بال تک سفید ہو گئے ہیں اس طبعی قانوان کے مطابق اسلام نے عبادت الٰہی میں چند جسمانی افعال بھی شامل کئے ہیں تاکہ وہ ظاہری ہیئتیں جو ادب کا اظہار کرتی ہیں اس کے باطن میںبھی اسی قسم کاجذبہ پیدا کر دیں۔
ہم دیکھیت ہیں کہ دُنیا میں ادب اور احترام کے اظہار کے لئے محتلف اقوام نے مختلف شکلو ںکو اختیار کیا ہے بعض قوموں میں ادب کے اظہار کا طریق یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کے سامنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور بعض قوموں میں ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہونا ادب کے اظہار کی علامت ہے بعض میں رکوع کی طرح جھک جانا ادب کے اظہار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور بعض قومو ںمیں سجدہ کے طور پر گر جانا ادب کے انتہائی اظہار کے لئے دلامت مقرر کیا گیا ہے اور بعض قوموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھنا انتہائی ادب کے لئے علامت قرار دیا گیا ہے چنانچہ اسی وجہ سے مختلف اقوام میں عباد تکے وقت ان مختلف اقوام میں عبادت کے وقت ان مختلف صورتوں کو اختیار کیا جاتا ہے ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کے سامنے جسے وہ خدا تعالیٰ کا مظہر قرار دیتے تھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے اسی طرح بعض حالات میں ہو ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہوتے تھے مغربی ممالک میں گھٹنوں کے بل گرنیپ کی انتہائی تذلل کا مقام سمجھا جاتا ہے ہندوستان میں رکوع کی طرح جھکنا ادب کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح اپنے قابل تحریم بزرگوں اور بُتوں کے آگے سجدہ کیا جاتا ہے اسلام چونکہ سب دُنیا کے لئے ہے اس نے اپنی عبادت میں ان سب ط۔ریقوں کو جمع کر دیا ہے تاکہ ہر قوم کے لوگوں کے دلوں میں اس طریقِ عبادت سے وہ خشیت پیدا ہو جو عبادت میں پیدا ہنوے چاہیئے کیونکہ ایک تو اپنی قومی عادت کے ماتحت وہ اس خاص ہیئت سے زیادہ متاثر ہونگے دوسرے اپنی قلبی کیفیت کے ماتحت وہ ان مختلف ہیئتوں سے موقعہ کے مناسب زیادہ متاثر ہونگے کیونکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ انسان کے اندر جو مختلف تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ان کے ماتحت وہ کبھی تو شدت محبت اور شدتِ ادب کے وقت جھک جاتا ہے کبھی دوزانو ہو جاتا ہے کبھی سامنے کھما ہو جاتا ہے اور کبھی سجدہ میں گر جاتا ہے پس اس کے قلب کی جو بھی کیفیت ہو گی اس کے مطابق ہیئیت کے وقت اس کے قلب میں جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ اپنی عبادت سے پورا فائدہ اُٹھا سکے گا۔
علاوہ طبعی کیفیت کے محتلف جسمانی کیفیتوں کے ماتحت بھی ان مختلف حرکات کا اثر انسانی دل پر مختلف پڑتا ہے مثلاً ایک نزلہ کا مریض سجدہ میں تکلیف پاتا ہے او راس حالت میں اسے پورا جوش نہیں آتا لیکن کھڑے ہونے یا قعدہ کی حالت میں اسے پورا جوش دعا کے لئے پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اس کی صحت کے زیادہ مطابق ہوتی ہے مگر ایک دوسرا آدمی جس کی مثلاً لاتوں میں ضعف محسوس ہو رہا ہو سجدہ میں زیادہ جوش پاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے چونکہ عبادت کو ایک اجتماعی فعل قرار دیا ہے اور چونکہ اس نے سب قوموں کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس لئے اس نے اپنی عبادت میں ان تمام ہیئتوں کو جمع کر دیا ہے جن کے ذریعہ مختلف اقوام کو ادب و محبت کے اظہار کی عادت ہے اور جو مختلف حالتوں میں مختلف انسانوں کے دل میں عقیدت اور ادب کے جذبات کو اُبھار دیتی ہیں اور اس کی نماز ایسی جامع اور کامل ہے کہ اور کسی مذہب کی نماز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس خصوصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے اجتماعی نمازوں کا حکم دیا ہے کیونکہ جب مختلف استعدادوں کے لوگ ایک جگہ جمع ہوںتو ایک دوسرے کے قلب کی حالت کا اثر دوسرے پر پڑتا ہے اور کمزور قوی کی قوت ایمان کو اپنے دل پر تاثیر ڈالتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
چونکہ کبھی کبھی انسان کے دل میں خلوت میں عبادت کا جوش بھی پیدا ہوتا ہے اس لئے اسلام نے فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ تہجد کی نماز ہے اور اس طرح انسان کی اس مخصوص ضرورت کو بھی پورا کر دیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی نماز ان تمام طریقوں کی جامع ہے جو مختلف اقوام کے دلوں میں اس کیفیت کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے چلے آئے ہیں جو عباد ت کے لئے ضروری ہے اور اس میں ہر قوم ہر فرد کی قلبی حالت کو درست کرنے اور عبادت کا سچا جذبہ پیدا کرنے کی قوت موجود ہے او رجن ظاہری ہیئتوں کا اختیا رکرنا نماز میں لازمی قرار دیا گیا ہے ان سے نماز کی عظمت میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ اان کے ذریعہ سے مکمل ہوتی ہے اور دوسری عبادت پر اسے فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
ان ظاہری افعال کے علاوہ اسلامی نماز اللہ تاعلیٰٖ کی تسبیح تحمید اور تعظیم کے ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو سنگدل سے سنگدل انسان کے دل کو بھی نرم کر دیتی ہے اور اس میں ایسی دعائیں رکھی گئی ہیں جو انسانی فکر کو بہت بلند کر دیتی ہیں اور اس کے مقاصد کو اونصا کر دیتی ہیں اور اس کے جذبات کو نیکی او ر تقویٰ کے لئے اُبھار دیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ بھڑکا دیتی ہیں اور روحانی حصہ نماز کا وہی ہیں او ران کا دوسری اقوام کی عبادات سے اگر مقابلہ کیا جائے تو دونو ںمیں وہی نسبت معلوم ہوتا ہے جیسے سورج کے مقابلہ پر مٹی کا ایک دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اسلام نے عبادت کو تمام ظاہری دلکشیوں سے خالی رکھا ہے۔ نہ اس وقت گانا ہوتا ہے نہ باجا ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر دوسری اقوام کی اجتماعی عبادتوں میں ہوتا ہے بلکہ فقط سنجیدگی سے اللہ کے بندے اس کے حضور میں اپنی عقیدت کے پھول پیش کرتے ہیں اور اس کی محبت کی بھیک مانگتے ہیں اور باوجود اس کے کہ نماز ہفتہ میں ایک وقت ادا نہیں کی جاتی جیسا کہ اکثر مذاہب میں ہے بلکہ دن میں کم سے کم پانچ بار پڑھی جاتی ہے مگر پھر بھی اس بے دینی کے زمانہ میں بھی اس قدر مسلمان پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے ہیں کہ دوسرے تمام مذاہب کے افراد ملا کر ہفتہ میں ایک دفعہ کی عبادت بھی اس تعداد میں ادا نہیں کرتے یہ نماز کی روحانی کشش کا ایک بین ثبوت ہے اور مشاہدہ اس پر گواہ ہے۔
دوسری عبادت گاہوں میں باجے بجتے ہیں گانے گائے جاتے ہیں آرام کے لئے کرسیاں اور صوفے مہیا کئے جاتے ہیںاور صرف ہفتہ میں ایک بار بلایا جاتا ہے لیکن لوگ ہیں کہ پھر بھی ان سے دور بھاگتے ہیں لیکن یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے مخاطب سخت زمین پر سجدہ کرنے کے لئے پانچ وقت مساجد میں شوق سے جمع ہوتے ہیں اور بغیر کسی ظاہری دلکشی کے اور بغیر کسی مادی آرام کے کے سامان کے موجود ہونے کے وہ لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں کہ دُنیا کی سب نعمتیں اس کے آگے مات ہوتی ہیں اس مشاہدہ کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلامی عبادت صرف چند ظاہری رسوم کا مجموعہ ہے اور اس میں روحانیت کی نسبت جسمانی ہیئتوں کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے علم النفس اس پر شاہد ہے اور تجربہ بتا رہا ہے کہ اسلامی عبادت کی ظاہری شکل صرف ایک برتن کی حیثیت رکھتی ہے ورنہ اس کا مغز تو وہ پر معارف مضامین ہیں جو اس میں دہرائے جاتے ہیں اور وہ پر شوکت دعائیں اور وہ پر سوز التجائیں ہیں جو اس میںکی جاتی ہیں۔
بعض لوگ اعتراض کریت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کا حکم دینے سے کیا فائدہ۔ کیا وہ بندوں کی عبادت کا محتاج ہے تعظیم اور تکریم سے تو نادان انسان خوش ہوا کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی ذات کو تو اس سے ارفع ہونا چاہیئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کا فائدہ یہ نہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی شان بڑھتی ہے بلکہ عباد ت کی غرض اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایسا اتصال پیدا کرنا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر اخذ کر لے اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ صرف فکر انسان کے اندر وہ جذبہ نہیں پیدا کر سکتا جس سے وہ خدا تعالیٰ کی ذات میں اپنے آپ کو محو کرنے کی کوشش کرے ایسا جذبہ تو محبت کام سے ہی پیدا ہو سکتا ہے او رمحبت کامل محسن ہستی کے احسانوں کے کامل انکشاف سے پیدا ہوتی ہے اور نماز اس غرض کو پورا کرتی ہے کیونکہ نماز میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی شان کو سامنے لانے کے سامان مہیا کئے جاتے ہیں اگر کہو کہ جو انسان خدا تعالیٰ کی محبت پیداکرنا چاہے گا وہ خود ہی اپنے لئے اس کا موقع نکال لے گا اس کے لئے پانچ وقت کی نماز مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض قلت تدبر سے پیدا ہوا ہے انسانی طبیعت اس قسم کی ہے کہ اگر باقاعدگی سے اسے اس کے مقصد کی طرف توجہ نہ دلائی جائے تو وہ سستی کرنے لگتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے کمزور اور قوی سب کو اس اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لئے نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ کمزور بھی قوی کے ساتھ مل کر ان مواقع کو پاتے رہیں جو ان کے دلوں کے اندر صفائی پیدا کریں اور قومی ایمان والوں کے دلوں سے نکلنے والی مخفی تاثیرات کو اپنے اندر جذب کر کے صفائی قلب پیدا کر سکیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پانچ وقت کی نماز کا کیوں حکم دیا گیا ہے حالانکہ اس زمانہ میں مشاغل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ انتا وقت نمازوں کے لئے نکالنا مشکل ہے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر نماز کی غرض محبت الٰہی کی آگ بھڑکا کر اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے سہولت بہم پہنچانا ہے تو جس زمانہ میں مشاغل بڑھ جائیں اس زمانہ میں نماز کی ضرورت بڑھ جاتی ہے نہ کم ہوت جاتی ہے ظاہر ہے کہ جب مقصد کو بھلا دینے کے سامان کم ہوں گے اس وقت بار بار مقصد کی طرف توجہ دلانے کی اس قدر ضرورت نہ ہو گی جس قدر کہ اس وقت جب مقصد کو بھلا دینے کے سامان یادہ ہوں پس اگر اس زمانہ میں دنیوی مشاغل بڑھ گئے ہیں تو نماز کی ضرورت بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر نماز صرف ایک اظہار عقیدہ کا ذریعہ ہوتا تب یہ اعتراض کچھ وزن بھی رکھتا مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے نماز کی غرض صرف اقرار عبودیت نہیں بلکہ اس کی غرض تو انسانی نفس میں وہ استعداد پیدا کرنا ہے جس کی مدد سے وہ مادی دُنیا سے اُڑ کر روحانی عالم میں پہنچ سکے اور اس کا دماغ جسمانی خواہشات میں ہی الجھ کر نہ رہ جائے بلکہ اعلیٰ اخلاق کو حاصل کرے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت ع ۵) یعنی نماز صرف عبودیت کا اقرار نہیں بلکہ قلب انسانی کو جلا دینے والی شے ہے اور اس کی مدد سے انسان بدیو ںاور بد کرواریوں سے بچتا ہے اور اس کا وجودبنی نوع انسان کے لئے مفید بنتاہے اور وہ ملت و قوم کا ایک فائدہ بخش جزو ہو جاتا پس جو عمل کہ یہ خوبیاں رکھتا ہو مادی اشغال کی کثرت کے زمانہ میں اس کی ضرورت کم نہیں ہوتی بلکہ بہت بڑھ جاتی ہے اور حق تو یہ ہے کہ اس زمانہ میں بدامنی اور شورش اور نفسانفسی اور قوموں کی قوموں پر چڑھائی کا اصل سبب یہی ہے کہ لوگ سچی عبادت کا طریق لوگوں میں رائج ہوتا تو اس دُنیا کو پیدا کرنے والے مہربان آقا سے اتصال کی وجہ سے بغض اور نفرت کی جگہ محبت اور ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا۔
وَمِمَّا رَزَقْہٰمُ یُنْفِقُوْنَ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ رَزَقَ کے معنے دینے کے ہیں نہ کہ کھانے دینے کے رَزَقَہٗ کے یہ معنے نہیں کہ اسے کھانا کھلایا۔ بلکہ یہ ہیں کہ اسے کچھ دیا حواہ وہ کوئی ہی چیز کیوں نہ ہو عربی زبان میں دینے کے لئے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں رزق بھی اور ھبہ بھی اور ایتاء بھی او ربھی کئی الفاظ ہیں لیکن قرآن کریم میں یہی سات لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں ایتائِ تو صرف دینے کے معنے کسی کے پاس آنے کے ہوتے ہیں اور ایتاء کے معنے کسی کے پاس لانے کے ہوتے ہیں جس سے آگے دینے کے معنے ہو گئے کیونکہ کسی کے پاس کوئی چیز لانے سے مُراد غالب طور پر اسے وہ چیز دینا ہوتا ہے۔ غرض یہ لفظ محض دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہ چیز بڑی ہو یا چھوٹی اچھی ہو یا بُری اور قرآن کریم میں متعدد بار ان معنو ںمیں استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ عطاء ہے یہ لفظ آئی ہے زیادہ اہم مفہوم بیان کرتا ہے اور معمولی دینے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ بالعموم ایسی چیز کے دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جسے اس چیز کا حاصل کرنے والا ایک نعمت خیال کرتا ہو اور اسے شوق سے لے اس لفظ کو اسی موقعہ پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ چیز جو دی جائے اس کے لئے جسے دی جائے مفید اور کار آمد ہو چنانچہ عطاء کے معنی خدمت کے بھی ہوتے ہیں اور تعاطیٰ کے معنی ایڑیاں اُٹھا کر اور ہاتھ بلند کر کے کسی چیز کے لینے کے ہوتے ہیں من احسان اور انعام زیادہ تر حسن سلوک کے معنوں پر دلالت کرتے ہیں اور لینے والے کی کسی خاص حالت کو ظاہر کرنے کی بجائے دینے والے کے نیک جذبات پر دلالت کرتے ہیں۔ وطب کے معنوں میں اس امر پر زور ہے کہ دینے والے نے جو کچھ دیا ہے اس کے بدلہ میں کسی عوض یا بدلہ کی امید نہیں رکھی۔ رزق کا لفظ جو آیت زیر بحث میں استعمال ہوا ہے اس کے معنے بھی دینے کے ہیں لیکن اس کے معنوں میں یہ اشادہ پایا جاتا ہے کہ جو چیز دی گئی ہے اس نے لینے والے کی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ گویا علاوہ دینے کے معنوں کے اس میں پانے والے کی ضرورت کی طرف بھی اور اس کے پوار ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے اور چونکہ انسانی ضرورت بار بار پیدا ہوتی ہے رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو بار بار ضرورت کے مطابق نازل ہو چناچہ مفردات راغب میں لکھا ہے کہ الرِّزْقُ یُقَالُ لِلْعَطائِ الْجَارِی رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو بار بار نازل ہوتی رہے وَیُفَالُ لِلنَّصِیْبِ اور حصہ کو بھی کہتے ہیں یہ حصہ کے معنے بھی اسی وجہ سے پیدا ہوئے کہ رزق در حقیقت قدرِ کفایت کا نام ہے اور حصہ بھی اسی کا نام ہے کہ جس جس قدر کسی کو ضرور ت ہو اس کے مطابق اسے چیز مل جائے قرآن کریم میں آتا ہے وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ یعنی ہر جنس کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیئے ہیں۔
محض اردو دان طبقہ میں یہ طبقہ میں یہ غلط خیال رائج ہے کہ رزق کے معنی صرف کھانے پینے کی چیزوں کے ہیں حالانکہ اصل میں رزق کے معنے بقدر ضرورت سامان مہیا کر دینے کے ہیں بیشک انہی معنوں سے غذا کے معنے بھی پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ وہ بھی انسان کا ضروری حصہ ہیں مگر وہ اصل معنی نہیں ہیں بلکہ بعد میں ضمناً پیدا ہو گئے ہیں پس وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْقِقُوْنَ کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ بھی تم کو ہم نے دیا ہو خواہ علم ہو عزت ہو عقل ہو مال ہو دولت ہو اس میں سے ایک حصہ تم کو خرچ کرنا چاہیئے پس اس جملہ کے یہ معنے نہیں کہ جو کچھ تم کو کھانے پینے کی اشیاء ملی ہیں ان میں سے کچھ غریبو ںکو بھی کھلائو کیونکہ نہ تو اس جملہ میں غریبوں کا ذکر ہے نہ اس چیز کی تعیین ہے جسے خرچ کرنا ہے اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ جن اشیاء کو خدا تعالیٰ نے بغیر حد بندی کے چھوڑ دیا ہے ہم ان کے لئے اپنے پاس سے حد بندی مقرر کریں۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں رف اس قدر فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے تمہاری ضرورتوں کے مطابق دیا ہے اسے خرچ کرو یہ ضرورت کے مطابق ملنے والی چیز علم بھی ہو سکتا ہے عقل بھی جرأت بھی غیرت بھی وفا بھی ہاتھ پائوں کی خدمت بھی آنکھ ناک کی خدمت میں روپیہ پیسہ کی خدمت بھی۔ غرض کوئی چیز جس کی نسبت کہا جا سکے کہ خدا تعالیٰ نے دی ہے اور کسی ضرورت کے پورا کرنے کے لئے دی ہے اس کے خرچ کرنے کاحکم ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ روپیہ تو دوسروں کو امداد کے طو رپر دیتا ہو لیکن مثلاً کھانا نہ دیتا ہو لیکن مکان نہ دیتا ہو یا مکان تود یتا ہو مگر اپنے ہاتھوں سے خدمت نہ کرتا ہو یا ہاتھوں سے خدمت تو کرتا ہو مگر اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچاتا ہو تو وہ اس آیت پر پوری طرح عامل نہ سمجھا جائے گا اور اسی طرح اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہی اس آیت پر عامل نہیں جو غریبوں کو روپیہ دیتا ہے بلکہ وہ بھی عامل ہے جو لوگو ںکو علم پڑھاتا ہے اور وہ بھی عامل ہّے جو مثلاً بیوائوں یتیموں کے کام کر دیتا ہے اور وہ سپاہی بھی عامل ہے جو میدانِ جنگ میں ملک کی خاطر جان دینے کی نیت سے جاتا ہے اور وہ موجد بھی عامل ہے اور وہ موجد بھی عامل ہے جو رات دن کی محنت سے دُنیا کے فائدہ کے لئے کوئی ایجاد کرتا ہے۔
اس آیت پر غور کرنے والے لوگ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ہر طاقت اور ان کے قبضہ ہر سامان ایک حد تک دوسروں کے کام آئے ان فقہا نے اسلام کی ایک بڑی صداقت کو پا لیا جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عورت کا وہ زیور جو پہنا جائے اور کبھی کبھی دوسری غریب عورتوں کو پہننے کے لئے دیا جائے اس پر زکوٰۃ نہیں یہ ایک نہاتی سچی بات ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کو پاک کرنے کے لئے ہے او رجو مال خرچ ہو رہا ہو وہ جاری پانی کی طرح ہے اور کوئی چیز اسے گندہ نہیں کر سکتی۔ جو مال آج ایک فائدہ دے رہا ہے کل دوسرے کو وہ بہتے چشمے کی طرح ہے جس کا پانی اس وقت یہاں ہوتا ہے تو دوسرے منٹ آگے اسی لئے اسلام نے زمینداری تجارت وغیرہ سے منع نہیں کیا لیکن روپیہ یا سونا چاندی جمع کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ زمینداری تجارت وغیرہ سے زمیندار یا تاجر کے علاوہ دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا سرمایہ بھی ایک طرح خرچ ہو رہا ہوتا ہے مگر جو روپیہ جمع پڑا رہے وہ چونکہ دوسروں کے کام نہیں آتا اسے گناہ کا موجب قرار دیا اور یہاں تک فرما دیا کہ اس مال کو گرم کر کے اُن کے جمع کرنے والوں کے ہاتھوں پر داغ لگائے جائینگے (التوبہ آیت ۳۵)
دوسری شق خرچ کرنے کے مقام کی ہے اس آیت میں یہ کوئی ذکر نہیں کہ جو چیز خرچ کی جائے وہ کس پر خرچ کی جائے اس آیت میں کوئی لفظ غریب یا مسکین کا نہیں بلکہ محض یہ ہے کہ وہ اس عطیہ کو جو ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دیا گیا ہے خرچ کرتے ہیں۔
اس آیت میں غریبوں کا تو کیا ذکر ہے یہ بھی کوئی حد بندی نہیں کہ غیروں کو دیتے ہیں نہ یہ کہ اپنے عزیزوں کو دیتے ہیں اور نہ یہ کہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں پس جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے وہ شخص ہی اس آیت پر عمل نہیںکرتا جو اپنے مال میں سے کچھ غریبوں کو دیتا ہو بلکہ اس آیت کے مفہوم کے مطابق وہ باپ جو اپنی اولاد پر خرچ کرتا ہے اور وہ ماں جو اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے او روہ خاوند جو اپنی بیوی کو ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور وہ اولاد جو اپنے ماں باپ کا خیال رکھتا ہے سب ہی اس آیت کے احکام میں سے بعض احکام کو پورا کرتے ہیں کیونکہ اس آیت کے مفہوم میں ان سب لوگوں پر خرچ کرنا شامل ہے بلکہ اس آیت کے مفہوم میں وہ خرچ بھی شامل ہے جو ایک شخص خود اپنی ذات پر کرتا ہے۔ وہ شخص جو اپنے نفس کو اس کی ضرورت کے مطابق کھانا کھلاتا ہے اس آیت کے مفہوم کے ایک حصہ کو پورا کرنے والا ہے وہ شخص جو اپنے جسم کے لئے ضرورت کے مطابق کپڑا بناتا ہے اس آیت کے مفہوم کو پورا کرنے والا ہے۔
ہر وہ شحص جو اپنے نفس کے بارہ میں بحل سے کام لیتا ہے اور ضِرورت اور صحت کے مطابق کھانا نہیں کھاتا وہ اس حکم کو توڑنے والا ہے خواہ وہ دوسروں پر کس قدر ہی کیوں نہ خرچ کرے کیونکہ یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ غریبوں پر خرچ کرو بلکہ یہ آیت کرنے کے مقام کو بلا تعیین چھوڑکر خود انسان کے نفس کو بھی اس میں شامل کرتی ہے اور اس کی بیوی کو بھی اور اس کے بچے کو بھی۔ اور اس کے دوستوں کو بھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے اس آیت کے اس مفہوم کی خوب تشریح ہوتی ہے آپؐ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص کی شکایت کی گئی جو ہر روز روزہ رکھتا تھا رات بھر عبادت کرتا تھا اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے غافل تھا اس پر آپؐ نے فرمایا اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَ لِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِاَ ھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا فَاعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ یعنی تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی پر حق ہے اور تیری بیوی اور بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے پس ہر حق والے کو اس کا حق دے او رکسی کو محروم نہ کر۔ (ترمذی جلد دوم ابواب الزھد)
اس آیت نے ان تمام اقسام رہبانیت کو جن میں گندہ رہنے بھوکا رہنے اپنے عزیز رشتہ داروں کو حقوق سے غافل رہنے کا نام نیکی قرار دیا گیا ہے رد کر دیا ہے کیونکہ اسلام کے نزدیک متقی وہ ہے جو ان سب چیزوں کو خرچ کرے جو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں اور اس کی عطاء اس کے نفس کے لئے بھی ہو اور اس کے عزیزوں کے لئے بھی اور اس کے دوستوں کیلئے بھی ہو اور اسکے ہمسائیوں کے لئے بھی ہو اور غریبوں کے لئے بھی ہو اور امیروں کے لئے بھی ہو اور جان پہچان لوگوں کے لئے بھی ہو اور اجنبیوں کے لئے بھی ہو اور ہم وطنو ںکیلئے بھی ہو اور دُور سے آئے ہوئے مسافروں کے لئے بھی ہو اور انسانوں کے لئے بھی ہو اور حیوانوں کے لئے بھی ہو کیونکہ وہ حکم دیتا ہے کہ ہر نعمت سے خرچ کرو اور ہر ضروری مقام پر خرچ کرو۔
اس آیت سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ خدا کے دیئے ہوئے میں سے کچھ حصہ خرچ کرنے کا حکم ہے نہ یہ کہ سب ہی خرچ کر دے قرآن کریم کی دوسری آیات اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ اس طرح اپنے مال کو خرچ کرنا کہ اس کے پاس اپنے گزارہ کا سامان ہی ختم ہو جائے ناجائز ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْ لَۃً اِلیٰ عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُورًا (بنی اسرائیل ع ۳)یعنی نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن سے باندھ دے کہ خدا کی نعمتوں کا خرچ بالکل روک دے اور نہ ہاتھ ایسا کھول کہ سب مال ضائع ہو جائے اور لوگ تجھ کو ملامت کریں اور تو آئندہ مال کمانے کے سامانوں سے محروم رہ جائے مَحْسُوْرا سے کہتے ہیں جس کی طاقت ضائع ہو جائے اور اس کی کمزوری ظاہر ہو جائے اور اس آیت میں اس شخص سے مراد ہے جو آئندہ کی ترقی کے سامانوں سے محروم ہو جائے۔
اس جگہ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ تمام مال کا خرچ تو بُرا کہلا سکتا ہے مگر اس آیت میں تو علم اور فہم وغیرہ کے اخراجات کو بھی شامل کیا گیا ہے ان چیزوں میں سے کچھٖ خرچ کرنے کے کیا معنے ہیں کیا انسان اپنا سارا علم لوگوں کو نہ سکھائے یا اپنی عقل سے پوری طرح لوگو ںکو فائدہ نہ پہنچائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ علم اور فہم اور عقل خرچ کرنے سے بڑھتے ہیں پس ان میں سے کچھ خرچ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اس طرح علم مے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچائے یا فہم سے یا عقل سے کہ انکے بڑھنے کا منبع خراب ہو جائے مثلاً یہ ہلاک ہو جائے یا اس کی صحت ایسی طرح بگڑ جائے کہ اس کا علم یا فہم یا عقل کام دینے سے رُک جائیں مثلاً دماغ خراب ہو جائے۔ غرض علم اور فہم اور عقل کا بھی اسی قدر استعمال ہونا چاہیئے کہ ان کا چشمہ نہ سوکھ جائے کیونکہ جو شخص اپنے علم اور عقل سے لوگوں کو اس طرح فائدہ پہنچاتا ہے یا اپنے آپ کو اس طرح فائدہ پہنچاتا ہے کہ ان کے منبع میں خرابی واقع ہو جاتی ہے وہ اس آیت کے حکم کے خلاف عمل کرتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ کیا سارا مال حدا کی راہ میں خرچ کرنے والا گنہگار ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح علم اور فہم اور عقل کا منبع ہوتا ہے اور وہ اس کا راس المال ہوتا ہے اسی طرح مال کا بھی ایک منبع ہوتا ہے پس سارا مال خرچ کرنے سے یہی مراد ہو گی کہ وہ اس منبع تک کو خرچ نہ کر دے مثلاً ایک شخص کا رائس المال اگر اس کی قوت بازو اور اس کی عقل یا اس کا فن ہے تو ہ اگر اپنا وہ مال جو روپیہ کی صورت میں اس کے پاس ہے سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اس کا رائس المال موجود ہے وہ اس سے اور مال کما لے گا لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ اس کا رائس المال اس کی دماغی قوت یا جسمانی قوت نہیں بلکہ اسے اپنی روزی کمانے کے لئے کسی قدر مال کی ضرورت ہے تو اس کے لئے اپنا سارا مال خرچ کر دنیا جائز نہ ہو گا حضرت ابوبکرؓ تجارتی کامو ںمیں بہت ہوشیار تھے وہ اپنی عقل سے پھر مال پیدا کر لینے کا ملکہ رکھتے تھے مکہ سے نکلتے ہوئے ان کا سب مال قریباً ضائع ہو گیا لیکن مدینہ میں آ کر انہوں نے نے پھر اور مال کما لیا ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص چندہ کی تحریک کی آپؓ نے اپنے گھر کا سب اثاثہ چندہ میں دے دیا اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ابوبکرؓ اپنے گھر میں کیاچھوڑا ہے تو انہوں نے جواب دیا حضور اللہ اور اس کے رسول کا نام چھوڑا ہے (ترمذی جلد دوم ابواب المناقب مناقب ابی بکر الصدیقؓ) ایسے شخص کے لئے اپنا سارا مال دے دیناکوئی گنہ نہیں کیونکہ اس کا رائس المال اس کا دماغ ہے چنانچہ اس کے بعد بغیر اس کے کہ حضرت ابوبکرؓ لوگوں سے سوال کرتے آپ نے پھر اور مال کما لیا اور اپنا گزارہ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کرتے رہے کسی کے دست نگر نہ ہوئے پس سارے مال کی تعریف ہر شخص کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہو گی پیشہ ور کے لحاظ سے اور تاجر کے لحاظ سے اور اور اس تاجر کے لحاظ سے او رجو تجارت صرف روپیہ کہ زور سے نہیں کرتا بلکہ اپنے وسیع تجارتی علم اور تجربہ کے زور سے کرتا ہے او رمزید سرمایہ پیدا کر لینا اس کے لئے مشکل نہیں ہوتا بلکہ دوسرے لوگ اسے حود اپنا سرمایہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ اس کو سرمایہ دے کر خود اپنے مال کو بڑھائیں گے۔
مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ انسان کو حلال اشیاء خرچ کرنی چاہئیں یہ نیکی نہیں کہ حرام مال یا حرام اشیاء خرچ کرے بعض لوگ رشوتیں لے کر اور بعض ڈاکے ڈال کر مال جمع کرتے ہیں اور غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ نیکی کرتے ہیںحالانکہ بدی سے بدی پیدا ہو سکتی ہے نیکی نہیں ایسے لوگ بدیوں کی بنیاد رکھتے ہیں ان کا صر ف اس قدر کام تھا کہ جو خدا تعالیٰ نے ان کو دیا تھا اس میں سے خرچ کرتے اگر کوئی شخص دوسرے کے مال سے جس پر اس کا حق نہیں دوسرے کو کچھ دے دیتا ہے وہ اس حکم کا پورا کرنے والا نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اس رزق میں سے خرچ نہیںکرتا جو خدا تعالیٰ نے اسے دیا تھا بلکہ اس میں سے خرچ کرتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اسے نہیں دیا تھا اور یہ آیت کہتی ہے کہ جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے حرچ کرتے ہیں۔
اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مال خرچ کرنے پر گھبرانا عقل کے خلاف ہے کیونکہ یہاں خدا تعالیٰ کی نعمت کا نام رزق رکھا گیا ہے اور رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو جاری ہو اور جو ایک ہی دفعہ ختم نہ ہو جائے پس رزق کا لفظ استعمال کر کے اس جگہ یہ اشارہ کیا گیاہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق جو خرچ کرے گا اس کا مال بڑھے گا کم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر بار بار انعام کر لے گا۔ علم اور فہم اور عقل اور جسمانی قوتوں کے خرچ کرنے سے ان اشیاء کا بڑھنا تو ظاہرہی ہے جو شخص اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے اس کا علم ہمیشہ بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا جو لوگ درس و تدریس میں مشغول رہتے ہیں ان کا علم ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اسی طرح جو لوگ اپنی عقل اور اپنے فہم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان کی عقل اور ان کا فہم بڑھتا ہے گھٹتا نہیں اسی طرح جسمانی قوتوں کو صحیح طرح خرچ کرنے والے کی قوت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں اسی طرح مال خرچ کرنے والے کا مال بھی بڑھتا ہے مثلاً یہ ظاہر امر ہے کہ جو شخص اپنے مال کا کچھ حصہ اپنے نفس پر خرچ کرے گا اس کے جسم میں زیادہ کما سکے گا اسی طرح جو شخص صحیح طو رپر اپنی بیوی اور اپنی اولاد پر خرچ کرے گا اس کے ہاں کمانے والوں کی تعداد بڑھے گی جو اپنے ہمسائیوں پر اور دوستوں پر مال حرچ کرے گا اس کے معاون اور مددگار بڑہیں گے جو غربار پر خرچ کرے گا اس کی قوم کی مالی حالت ترقی کرے گی اور اس کا رد عمل خود اس کے مال کے بڑھنے کی صورت میں ہو گا غرض مال کا صحیح خرچ کبھی مال کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اسے بڑھاتا ہے پس علاوہ اس کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اس شحص پر روحانی طو رپر نازل ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے طبعی قوانین بھی اسی طرح بنائے ہیں کہ اُن کی مدد سے بھی ایسے حالات میں مال بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا اور صرف کم عقل لوگ اس قسم کے خرچ سے گھبراتے ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح وہ اپنے مالوں کو نقصان پہنچاتے ہیں محفوظ نہیں کرتے۔
شائد کوئی اعتراض کرے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی کیا ضرورت پیش آئی کہ بندوں کی وساطت سے دوسروں پر خرچ کر وائے کیوں نہ اس نے سب انسانوں کو براہِ راست ان کا حصہ دے دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محض طمت تدبر کا نتیجہ ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ بعض لوگ خرچ کرنے والے ہیں اور بعض دوسروں کی امداد پر گزارہ کرتے ہیں کیونکہ در حقیقت سب ہی لوگ ایک دوسرے پر خرچ کرنے والے ہیں امراء ظاہر میں غربا پر مال خرچ کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ غرباء بھی امراء پر خرچ کر رہے ہوتے ہیں ایک مالدار جو ایک گائوں میں رہتا ہے اس کے مال کی حفاظت ان سینکڑوں غرباء کی ہمسائیگی سے ہو رہی ہوتی ہے جو اس کے ساتھ گائوں میں رہتے ہیں ورنہ ڈاکو اور چور اس کو لوٹ لیں اگر اس کے گھر پر چور اور ڈاکو حملہ نہیں کرتے تو اس کا موجب صرف اس کے ملازم نہیں کرتے بلکہ اسی بستی میں رہنے والے سب لوگ ہوتے ہیں جن کے خوف سے ڈاکو اس کے گھر پر حملہ نہیں کرتے ایک امیر اپنی امارت غرباء کی مدد کے بغیر قائم ہی نہیں رکھ سکتا کیونکہ دولت مزدور کی مدد سے آتی ہے مزدور نہ ہو تو دولت کہاں سے آئے پس امیر ہی غریب کی مدد نہیں کرتا بلکہ غریب بھی امیر کی مدد کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے تعاون اور محبت کے قیام اور زیادتی کے لئے دنیا میں ایسا انتظام کیا ہے کہ ہر شخص کے مال میں کچھ دوسروں کا حصہ بھی رکھ دیا ہے تاباہمی ہمدردی اور تعاون سے محبت بڑھے اور تمدن ترقی کرے اگر ہر اک آزاد ہوتا تو مدنیت کبھی ترقی نہ کرتی اور وہ علوم جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتے ہیں کبھی پیدا نہ ہوتے پس رزق کا باہم ملا دینا ایک بڑی حکمت پر مبنی ہے۔
اس جگہ میں مالی خرچ کے متعلق کسی قدر تفصیل سے قرآنی تعلیم کو بیان کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قرآن کریم نے جو اس بارہ میں احکام دیئے ہیں اجمالی طور پر ذہن نشین ہو جائیں۔
قرآن کریم میں مالی خرچ کئی قسم کا بیان ہوا ہے۔ (۱) زکوٰۃ جو فرض ہے (۲) صدقہ جو نفلی ہے اور انسان کے اندرونی تقوی کے فیصلہ پر اسے چھوڑ دیا گیا ہے یہ آگے دو قسم کا ہے (الف) ان کے لئے صدقہ جو اپنی ضرورتوں کو پیش کر کے مطالبہ کر لیتے ہیں (باء) ان کے لئے صدقہ جو اپنی ضرورتوں کو پیش نہیں کرتے یہ آگے دو قسم کا ہے (۱) جو اپنی ضرورتوںکو پیش نہیں کرتے (۲) جو اپنی ضرورتوں کو پیش نہیں کر سکتے (۳) وہ خرچ جو انسان قومی ضروریات کے لئے کرتا ہے (۴) شکرانہ (۵) فدیہ (۶) کفارہ (۷) تعاونی خرچ جو مدنی نظام کی ترقی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے (۸) حق الخدمت (۹) ادا احسان (۱۰) تحفہ یہ دس قسم کے حرچ ہیں جو قرآن کریم سے ثابت ہیں اور جن خرچوں میں سے کسی ایک کا ترک بھی جب موقعہ اس کا مقتضی ہو اس آیت پر عمل کرنے سے انسان کو محروم کر دیتا ہے اور اس کے تقویٰ میں کمزوری پیدا کر دیتا ہے دُنیا میں بہت سے لوگ اس تقسیم کو مدنظر نہ رکھ کر اعلیٰ ثوابوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
(۱) زکوٰۃ وہ خرچ ہے جو قرآن کریم میں فرض کیا گیا ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ تمام انسانوں کی دولت دوسرے لوگوں کی مدد سے کمائی جاتی ہے اور اس کمائی میں بہت دفعہ دوسروں کا حق شامل ہوتا ہے جو باوجود انفرادی طور پر دوسروں کا حق ادا کر دینے کے پھر بھی دولتمند کے مال میں باقی رہ جاتا ہے مثلاً ایک مالدار آدمی ایک کان سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ کان کے مزدوروں کو ان کی مزدوری پوری طرح ادا بھی کر دے تو بھی وہ جو کچھ ان کو ادا کرتا ہے وہ ان کی مزدوری ہے مگر قرآنی تعلیم کے مطابق وہ لوگ بھی اس کان میں حصہ دار تھے کیونکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ دُنیا کے سب خزانے تمام بنی نوع انسان کے لئے پیدا کئے گئے ہیں نہ کہ کسی خاص شخص کے لئے پس مزدوری ادا کر دینے کے بعد بھی حق ملکیت جو مزدوروں کو حصال تھا ادا نہیں ہوتا اس کی ادائیگی کی یہ صورت ہو سکتی تھی کہ ان مزدوروں کو کچھ زائد رقم بھی دی جائے مگر اس سے بھی وہ حق ادا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس طرح ان چند مزدوروں کو تو ان کا حق ادا ہو جاتا مگر باقی دنیا بھی تو اس میں حصہ دار تھی ان کا حق ادا ہونے سے رہ جاتا۔ پس اسلام نے یہ حکم دیا کہ اس قسم کی کمائی میں سے کچھ حصہ حکومت کو ادا کیا جائے تاکہ وہ اسے تمام لوگوں پر مشترک طو رپر خرچ کرے۔
اسی طرح زمیندار جو زمین میں سے اپنی روزی پیدا کرتا ہے گو اپنی محنت کا پھل کھاتا ہے مگر وہ اس زمین سے بھی تو فائدہ اٹھاتا ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی تھی پس اس کی آمد میں سے بھی ایک حصہ حکومت کو قرآن کریم دلواتا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے اسے خرچ کیا جائے اسی طرح تجارت کرتنے والا بظاہر اپنے مال سے تجار تکرتا ہے لیکن اس کی تجارت کا مدار ملکی امن پر ہے اور اس امن کے قیام میں ملک کے ہر شخص کا حصہ ہے پس اس حصہ کو دلانے کے لئے اس کے مال پر بھی اسلام نے زکوٰۃ مقرر کی ہے تاکہ حکومت کے ذریعہ سے باقی لوگوں کا حق ادا ہو جائے اسی طرح جو شخص مال جمع کرتا ہے اس کے مال جمع کرنے کی وجہ سے دوسرے لوگ اس مال سے نفع حالص کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں جو اس مال میں ازل سے شریک مقرر کئے گئے تھے پس اس مال پر بھی شریعت نے زکوٰۃ مقر ر کی ہے گو جس وقت وہ مال کمایا گیا تھا اس پر زکوٰۃ دی گئی تھی لیکن پہلی زکوٰۃ تو اس حق کے بدلہ میں تھی جو اس مال میں دوسروں کو حاصل تھا اور دوسری زکوٰۃ اس وجہ سے ہے کہ اس مال کو بند رکھنے کی وجہ سے وہ اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیئے گئے۔
زکوٰۃ کے یہ تمام احکام قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں اور بعض کی تشریح بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے ہوتی ہے وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر تفسیر میں انشاء اللہ بیان ہوں گے اس جگہ زکوٰۃ کے اس اجمالی حکم کی طرف اشارہ کرنا کافی ہے جس میں اس حکم کی حکمت کو بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خُذْ مِنْ اَمْوَا الِھِمْ صَدَقَۃً تُطَہِرُ ھُمْ وَتُزِکِّیْھِمْ بِھَا (توبہ رکوع ۱۳) یعنی تمام ان مومنوں سے جو اسلامی حکومت تلے رہتے ہیں صدقہ لے اس طرح تو ان کے دلوں کو پاک کرے گا اور ان کے مالوں کو بھی دوسرے لوگوں کے مالوں کی طونی سے صاف کر دے گا اور قومی ترقی کے سامان پیدا کرے گا صدقہ سے مُراد اس جگہ زکوٰۃ مفروضہ ہے یہ لفظ صدقہ کا علاوہ ان متد اول معنوں کے جن بھی استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک زکوٰۃ مفروضہ بھی ہے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بغیر اس قسم کی زکوٰۃ لینے کے لوگوں کے مال پاک نہیں ہو سکتے کیونکہ جب تک لوگوں کا حق ادا نہ ہو مال پاک نہیں ہو سکتا اور نہ مالدار کا تقویٰ مکمل ہو سکتا ہے یہ زکوٰۃ حکومت لیتی ہے اور ایس کی معرفت خرچ ہو سکتی ہے یا حکومت نہ ہو تو اسلامی نظام اس کے وصول کرنے اور خرچ کرنے کا حقدار ہے جیسے کہ خذ یعنی لے کے لفظ سے ظاہر ہے (۲) نفلی صدقہ جس کی بناء رحم اور شفقت پر ہے یہ کسی مقدار معین معین میں فرض نہیں بلکہ ہمسائیوں کی ضرورت اور دینے والے کی مالی حالت او راس کے دل کے تقویٰ پر اسے چھوڑا گیا ہے صدقہ کا حکم اس شکل میں اس لئے دیا گیا ہے تا ہر شخص اپنے تقویٰ اور اپنی مالی حالت کے مطابق اسے ادا کرے چونکہ اس کی حکمت تعاون باہمی کی روح کو پیدا کرنا ہے اس لئے یہ خرچ حکومت کی وساطت سے نہیں رکھا گیا بلکہ ہر فرد کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ خود اس قسم کا خرچ کرے اس کا ارشاد قرآن کریم کی اس آیت میں اجمالاً کیا گیا ہے۔ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَا لَھُمْ بِا لَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّعَلَا نِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo(برقرہ رکوع ۳۸) یعنی جو لوگ اپنے مال رات اور دن خرچ کرتے ہیں اور پوشیدہ بھی خرچ کرتے ہیں اور ظاہر بھی خرچ کرتے ہیں وہ اپنے اجر اپنے رب کے پاس پائیں گے اور انہیں نہ آئیندہ کا خوف لا حق ہو گا اور نہ سابق کوتاہیوں پر انہیںکوئی گھبراہٹ لاحق ہو گی اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں زکوٰۃ کا ذکر نہیں جو فرض ہے اور حکومت کو ادا کی جاتی ہے کیونکہ زکوٰۃ مخفی خرچ نہیں کی جا سکتی پس یہ خرچ نفلی صدقہ کا ہے جو انسان خود کرتا ہے اور حسب موقعہ کبھی مخفی کرتا ہے کبھی ظاہر مخفی اس لئے تاکہ جس کی امداد کرتا ہے لوگوں میں شرمندہ نہ ہو اور ظاہر اس لئے کہ تا ان لوگوں کو بھی صدقہ کی تحریک ہو جو اس نیکی میں ابھی کمزور ہیں ورنہ اسے اپنی ذات کے لئے کسی شہرت کی تمنا نہیںہوتی ایسے لوگوں کی نبست فرماتا ہے کہ وہ اپنے اس فعل کا بدلہ خدا سے پائیں گے۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس حرچ کے دو مواقع قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں (۱) ان افرا دپر خرچ کیا جائے جو اپنی ضرورتوں کے لئے مطالبہ کر لیتے ہیں جیسے کہ وہ غرباء جو سوال کر لیتے ہیں اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اس اسلام ان پر بھی حسب موقعہ خرچ کرنے کو پسند کرتا ہے۔ چناچنہ فرماتا ہے وَفِٓیْ اَمْوَ الِھِمْ حَقٌ لِلسَّآئِلِ (ذاریات رکوع ۱) مومنوں کے اموال میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ قرآنی محاورہ میں مسائل سے مراد وہ عادی گدا گر نہیں کہ جنہوں نے سوال کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے کیونکہ اسلام ساول کو ناپسند کرتا ہے اور ایسا گداگر اسلامی نظام کی کسی شق میں بھی انہیں آ سکتا کیونکہ قرآن کریم تو کل علی للہ پر بڑا زور دیتا ہے اور سوال کرنا تو کل کے باکل بر خلاف ہے پھر قرآن کریم انسانی زندگی کو مفید طو رپر حرچ کرنے پر زور دیتا ہے اور عادی سوالی اپنی زندگی کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال سے سختی سے منع فرمایا ہے اور حضرت عمرؓ تو اس حکم پر عمل کرانے میں اس قدر شدت سے کام لیتے تھے کہ اگر کوئی ایسا سوالی ملتا تو آپ اس کی مانگی ہوئی چیزوں کو پھینک دیتے تھے او راسے محنت مزدوری کرنے کی تلقین کرتے تھے۔
سوالی سے مُراد وہ لوگ بھی نہیں جو معذور ہو ںاور کما نہ سکیں کیونکہ ان کا بوجھ اسلام نے قوم پر تسلیم کیا ہے اور زکوٰہ بھی ان لوگوں کے اخراجات کی متحمل ہے۔
پس جب ہم اسلام کے دوسرے احکامات کو ملا کر دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک سوالی وہ ہے جو در حقیقت محنت او رمزدوری سے کام تو لیتا ہے لیکن مثلاً اس کا پیشہ ایسا ہے کہ اس سے کافی آمدن نہیں ہو سکتی یا یہ کہ اس کے عیال زیادہ ہیں ایسے اشخاص میں سے اگر کوئی اپنے دوستوں سے سوال کرے تو گو اسلام نے اسے پسند تو نہیں کیا لیکن اسے منع نہیں کیا کیونکہ پوری محنت کے بعد بھی اگر اسکی ضرورت پوری نہ ہوتی تو گو اس کا سوال کرنا معیوب ہو مگر اسے حرام یا ممنوع نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آخر بھائی بھائیو ںکے بوجھ اُٹھاتے ہیں۔
دوسرا مصرف قرآن کریم نے ایسے صدقہ کا محروم لوگوں کا گروہ بتایا ہے چنانچہ اوپر کی آیت پوری اس طرح ہے وَفِٓیْ اَمْوَ الِھِمْ حَقٌ لِلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمرِ (ذاریات ع ۱) یعنی مومنوں کے مالوں میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے اور محروم لوگوں کا بھی یعنی جو باوجود غربت کے ساول نہیں کرتے اور اس طرح ان لوگوں کی توجہ میں نہیں آتے جو گہری نگاہ سے اپنے ہمسائیوں کو دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔
ان لوگوں کا ذکر قرآن کریم کی ایک اور آیت میں ان الفاظ میں آیا ہے لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْوصرُ وْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَا ھُمْ لَایَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا (بقرہ رکوع ۳۷) یعنی اے مومنو جو مال تم خرچ کرو اس میں سے ان بے مایہ لوگوں کو بھی دیا کرو جو دین یا ملت کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور اس شغل کی وجہ سے اِدھر ادھر پھر کر اپنی کمائی میں زیادتی نہیں کر سکتے لیکن باوجود مال کی کمی کے وہ اپنے نفس کو سوال کی وفات سے بچاتے اور خاموش رہتے ہیں اور اس وجہ سے وہ لوگ جو غور کرنے کے عادی نہیں انہیں خوشحال سمجھ لیتے ہیں حالانکہ تو اگر دیکھے تو ان کو ان کے چہروںسے پہچان لے گا وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔
اس کے آخری فقرہ سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیئے کہ وہ نرمی سے مانگ لیتے ہیں کیونکہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ وہ سوال کرتے ہی نہیں پس چمٹ کر نہیں مانگتے سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنی غربت کو چھپانے کے لئے امرا ئکا سایہ بننے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اس طرح سوال مجسم ہو کر انسان لوگوں سے جو فائدہ اٹھا سکتا ہے اس سے بھی محروم رہتے ہیں ایسے لوگوں پر خرچ کرنے پر قرآن کریم نے خاص زور دیا ہے۔
محروم کے دوسرے معنے یہ بھی ہیں کہ وہ سوال کر ہی نہ سکتے ہوں سو ان معنوں کے روسے اس میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو مثلاً گونگے بہرے ہیں یا پردہ دار عورتیں ہیں یا چھوٹے بچے ہیں یا پھر جانور ہیں کہ زبان ان کو قدرت نے عطا ہی نہیں کہ ان سب پر خرچ کرنا بھی صدقہ کی اقسام میں شامل ہے۔
قرآن کریم سے ثابت ہے کہ صدقہ رد بلا کے لئے مفید ہوتا ہے او راسلام آفات اور مصائب کے وقت اس قسم کے صدقات کی تحریک متواتر کرتا ہے۔
صدقہ میں وہ تمام اخراجات شامل ہیں جو ردِّ بلا کی غرض سے او رمصیبت کے وقت میں یا مصیبتوں کو دُور رکھنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں اسی کی ایک قسم کو نذر کہتے ہیں اس میں اور عام صدقہ میں یہ فرق ہے کہ عام صدقہ تو اس خرچ کو کہتے ہیں جو ردِّ بلاء کی امید میں کیا جاتا ہے اور نذر اس صدقہ کو کہتے ہیں جس کا وعدہ اس صورت میں کیا جائے کہ اگر فلاں مشکل دُور ہو جائے یا فلاں کام ہو جائے تو یہ خرچ کروں گا یا فلاں عبادت بجا لائوں گا۔ اس کا ذکر سورۂ دھر رکوع اول میں ہے جہاں فرماتا ہے وَیُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ مومن نذر کو پورا کرتے ہیں یعنی جب کسی خیرات یا نیک عمل کا عہد کرتے ہیں صلحاء امت میں سے جو بڑے پایہ کے صلحاء گزرے ہیں ان کا خیال ہے کہ گو نذر کا پوار کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک عہد ہے جو بندہ خدا تعالیٰ سے کرتا ہے لیکن اس طرح عہد کرنے سے کہ اگر خدا تعالیٰ فلاں مصیبت کو ٹلا دے تو اس اس قدر صدقہ کرونگا یہ بہتر ہے کہ پہلے ہی صدقہ کر کے اللہ تعالیٰ پر توکل کر لے بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ سے سودا کرنے کی کوشش کرے اور یہ خیال ان کا درست اور صحیح ہے امام بخاری نے امام مالک کے واسطہ سے حضرت عائشیہؓ سے روایت کی ہے قال مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ اَنْ یَعْصِیَہٗ فَلَا یَعْصِہًٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہو تو اسے پورا کرے اور جو ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو وہ نذر کو پورا کرکے نافرمانی نہ کرے۔ (بخاری جز رابع کتاب الغذور باب النذر فی الطاقہ)
(۳) تیسری قسم خرچ کی جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے وہ اخراجات ہیں جو قومی اور ملی ضرورتوں کے مواقع پر اچھے اور نیک افراد کرتے ہیں یہ اخراجات صدقہ نہیں کہلا سکتے کیونکہ ان سے مساکین کی ضرورتیں پوری نہیں کی جاتیں بلکہ غریب و امیر ان سے متمتع ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ساری قوم ان سے فائدہ اٹھاتی ہے جیسے گھر سے خرچ کر کے جہاد کے لئے جانا یا دوسرے کسی سپاہی کے اخراجات مہیا کرنا کہ وہ خرچ اس سپاہی پر نہیں ہوتا بلکہ قوم پر ہوتا ہے کیونکہ کوئی شخص اس لئے سواری طلب نہیں کرتا کہ تامیدانِ جنگ میں جا کر جان دے یا پانچ دس دن کے لئے روٹی نہیں مانگتا کہ اتنے دنوں میں اپنی موت کا سامان کرے پس اگر سپاہی کو ایام جنگ کے لئے کھانا مہیا کر دیا جائے یا اس کے لئے سواری مہیا کر کے دی جائے تو یہ قومی خرچ ہے فرد کی امداد نہیں کیونکہ جنگ اس شخص کا ذاتی کام نہیں بلکہ ملت کے فائدہ کا کام ہے۔
اسلام نے ان اخراجات پر زور دیا ہے اور یہ حکم زکوٰۃ و صدقہ سے الگ ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَا لًاوَّجَاھِدُ وْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذَا لِکُمْ خَیْرٌ تَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (توبہ ع ۶) کہ اگر ہلکے پھلکے ہو یعنی سواری مہیا ہے یا گھر کا انتظام مکمل ہے تب بھی جہاد کے لئے گھروں سے نکلو اور اگر بوجھ ہو یعنی خود بوجھ اٹھا کر جانا پڑے سواری نہ ہو یا پیچھے گھر کا کوئی انتظام نہ ہو تب بھی جماد کے لئے گھروں سے باہر نکلو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرو یہ تمہارے لئے اگر تم جانو تو بہتر ہو گا۔
اس آیت میں جو جان و مال کے خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ضروری نہیں کہ دوسروں پر خرچ کیا جائے۔ جو شخص صرف اپنے لئے سواری مہیا کرتا ہے تاکہ جہاد میں شامل ہوسکے یا اپنے لئے تلوار خریدتا ہے تاجہاد میں شریک ہو سکے یا اپنے لئے کچھ غلہ خریدتا ہے تاجہاد کے دنوں اسے کھا کر گزارہ کر سکے وہ ہر ایک چیز اپنے لئے خریدتا ہے۔ پس یہ معروف صدقہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس کا فاودہ وہ خود اٹھاتا ہے۔ مگر چونکہ یہ خرچ جو اس نے اپنے نفس پر کیا اپنے کسی شوق کو پورا کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ دین و ملت کی خدمت کیلئے کیا اور ایسی حالت میں کیا کہ بجائے لذت کا سامان مہیا کرنے کے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا۔ یہ خرچ خدا تعالیٰ کی رضاء کے مطابق خرچ ہے اور ثوابِ عظیم کا مستحق اس شخص کو بناتا ہے۔
اسی طرح اگر جہاد کی غرض سے یا کسی قومی خدمت کیلئے جو براہ راست اس سے متعلق نہیں۔ کوئی شخص کسی بھائی کی امداد کرتا ہے تو اس کا وہ خرچ بھی صدقہ نہیں۔ کیونکہ اس خرچ سے دوسرے بھائی کی ذاتی ضرورت پوری نہیں کی گئی بلکہ اس کے بدلہ میں اس سے ایک قومی کام لیا گیا ہے۔ سو یہ تیسری قسم کا خرچ ہے جو نہ زکوٰۃ ہے نہ صدقہ۔ مگر ہے نہایت ضروری۔ اور انسان کو بہت بڑے ثواب کا مستحق بنتا ہے۔ آج کل تلوار کا جہاد تو ہے نہیں۔ پس اشاعت اسلام یا تعلیم یا نظام جماعت کی مضبوطی اور اسی قسم کے دوسرے کاموں کے لئے جو رقوم دی جاتی ہیں وہ اسی مد میں شامل ہیں۔ اور جَاھِدُرْا بِاَ مْرَا لِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ کے حکم کے پہلے نصف کے پورا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مگر دوسرا نصف اسی صورت میں پوار ہو سکتا ہے کہ مال خرچ کرنے کے علاوہ کبھی کبھی اپنے کاموں کا حرج کر کے خود بھی کچھ دن تبلیغ کے لئے دے۔ یا ملی ترقی کی غرض سے تعلیم و تربیت کے کام میں حصہ لے۔
(۴) چوتھی قسم خرچ کی جسے اسلام نے پسند کیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے وہ خرچ ہے جو بطور شکرانہ کیا جاتا ہے۔ اس میں اور صدقہ میں یہ فر قہے کہ صدقہ تو کسی مصیبت کے دور کرنے یا کسی مقصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔ مگر شکرانہ کا خرچ حصول مقصد کے بعد یا بلا کے دُور ہونے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے کُُلْوا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ (انعام ع ۱۷) یعنی جو پھل یا غلہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس میں سے کھائو۔ اور جس وقت اس پھل یا غلہ کو کاٹو اس وقت خدا تعالیٰ کا حق بھی ادا کرو۔ یا یہ کہ اس غلہ یا پھل کو کاٹ کر اپنے قبضہ میں لانے کا حق بھی ادا کرو یعنی کچھ حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بطور شکر تقسیم کرو۔ بعض لوگوں نے اس کے معنے زکوٰۃ کے کئے ہیں اور بعض نے اس حکم کو زکوٰۃ سے منسوخ قرار دیا ہے۔ مگر حق یہی ہے جیسا کہ اس آیت کے موقعہ پر لکھا جائے گا۔ کہ نہ اس جگہ زکوٰۃ کا حکم ہے او رنہ یہ حکم زکوٰۃ سے منسوخ ہے بلکہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور تمہاری محنت ٹھکانے لگے تو اس شکریہ میں کہ خدا تعالیٰ نے تم کو اس قابل بنایا اللہ تعالیٰ کے غریب بندوں کو بھی اس میں سے کچھ حصہ دو۔ اس حکم پر بھی مسلمانوں میں بہت کم عمل رہ گیا ہے۔ حالانکہ یہ خرچ ایسا طبعی خرچ ہے کہ اسے بھولنا نہیں چاہیئے۔ او رہر کامیابی پر خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ نہ کچھ بطور شکرانہ خرچ کرنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ کامیابی پر الحمد للہ کہنے کا ایک عملی نمونہ ہے۔
(۵) خرچ کی پانچویں قسم جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے فدیہ ہے۔ فدیہ کے معنے صدقہ کے بھی ہیں۔ لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جو کمی کسی نیک عمل میں رہ جائے۔ اُسے خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ مال خرچ کر کے پورا کیا جائے۔ چنانچہ سورۃ بقرہ ع ۲۴ میں حج کے احکام میں لکھا ہے کہ ایام احرام میں سر نہیں منڈانا چاہیئے۔ لیکن اگر کسی کے سر میں کوئی بیمار ہو اور سر منڈوانا پڑے تو بطور فدیہ کچھ صدقہ کرے یا روزے رکھے یا قربانی دے۔ پس فدیہ وہ خرچ ہے جو کسی عمل میں کمی رہ جانے کے خیال سے دیا جاتا ہے۔ اور گویا عبادت کی اس کمی کو اس خرچ سے پورا کیا جاتا ہے۔
(۶) خرچ کی ایک چھٹی قسم قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا نام کفارہ ہے۔ کفارہ کا لفظ و بلا کرنے والے فعل کے بھی ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور اصطلاح بھی قرآن کریم کی ہے۔ اور اس کے رُو سے کفارہ اس خرچ یا اس عبادت کا نام ہے جو کسی گناہ کا وبال دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم مںی سورۃ مائدہ کے بارہویں اور تیرہویں رکوع میں آتا ہے۔ اس میں اور فدیہ میں یہ فرق ہے کہ فدیہ تو اس صورت میں ادا کیا جاتا ہے جب کوئی فعل اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کیا جائے اور اس اجازت سے کوئی حکم جو دسری صورت میں ضروری تھا ترک کرنا پڑے۔ یا جب کوئی عمل کر تو لیا جائے مگر اس خیال سے کہ اس میں کوئی کمی نہ رہ گئی ہو کچھ صدقہ کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر کفارہ اس صور ت میں دیا جاتا ہے کہ جب کوئی گناہ صادر ہو جائے۔ یا گناہ تو صادر نہ ہو لیکن گناہ کے صدور کے قریب ہو جائے اور اس کی غرض اس گناہ کے وبال سے بچنا اور توبہ کا ایک عملی نشان قاوم کرنا ہوتی ہے (اس مضمون کو تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ آیاتِ متعلقہ کے ماتحت بیان کیا جائے گا)
اس جگہ ایک لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ کہ قرآن کریم تو کفارہ کا مفہوم یہ لیتا ہے کہ ایک تائب اپنی توبہ کا عملی ثبوت دلی ندامت اور زبانی اقرار کے علاہو کچھ مالی یا جسمانی قربانی کے ذریعہ سے دے۔ لیکن مسیحیوں کے نزدیک کفارہ کا یہ مفہوم ہے کہ ایک اعلیٰ وجود نے اپنے آپ کو گنہگار کے پیدا ہونے سے بھی پہلے قربان کر دیا۔ گویا توبہ کا اس سے کوئی تعل ہی نہیں۔ کیونکہ توبہ تو الگ رہی مسیحیوں کا کفارہ گناہ بلکہ گہنگار کے پیدا ہونے سے بھی پہلے اداکیا جا چکا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے کفارہ کو توبہ سے دُور کا تعلق بھی نہیں ہو سکتا۔
(۷) ساتویں تقسم خرچ کی قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ مدنی نظام کی ترقی کے لئے کچھ اخراجات انسان پر واجب کئے گئے ہیں۔ جیسے خاوند کا بیوی پر خرچ اور باپ کا اولاد پر خرچ۔ ان اخراجات کو بھی قرآن کریم نے ضروری اور فرض مقرر کیا ہے۔ اور اگ رکوئی ان اخراجات سے گریز کرے تو اُسے گنہگار قرار دیا گیا ہے۔ اور اگر اسلامی حکومت ہو یا اسلام نظام ہو تو اس کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ یہ اخراجات جبراً کرائے۔ اس خرچ کی تفصیلات بھی آئندہ حسب موقع بیان ہوں گی۔
(۸) آٹھویں قسم خرچ کی جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے۔ حق الخدمت ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی کا کام کرے تو اس کا مناسب اجر اُسے دیا جائے اور اس سے نیک سلوک کیا جائے۔ اس خرچ کی ایک مثال قرآن کریم کا وہ حکم ہے جو اولاد کو دُودھ پلوانے کے متعلق آتا ہے۔ اس بارے میں قرآن کریم کا حکم ہے کہ اگر اپنے کسی بچہ کو کسی دوسرے عورت سے دُودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ دودھ پلانے والی عورت کو سَلَّمْتُمْ مَا اَتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (بقرہ ع ۳۰) یعنی جو حق الخدمت حسب دستور اور ملک کے اقتصادی حالات کے مطابق اور اپنی مالی حالت کے مطابق تم اُسے دینے کا وعدہ کرو اُس کے سپرد کر دو۔ اس حکم میں بتایا گیا ہے کہ حق الخدمت کے لئے ضروری ہے کہ (۱) بلا حجت ادا کر دیا جائے او راس کے ادا کرنے کا انسان ایسا عہد کر لے کہ گویا اداکر ہی دیا ہے (۲) اس کے ادا کرنے میں معروف کو مدنظر رکھا جائے یعنی (الف) کی اقتصادی حالت کے مطابق ادا کیا جائے یعنی اس قدر کم نہ ہو کہ اس وقت کی اقتصادی حالت کے مطابق اس کے دُودھ پلانے والی کا گذارہ نہ ہو سکے (ب) پہلی حد بندی تو کم سے کم تھی اس سے زائد یہ بھی مدنظر رکھو کہ اگر تمہاری مالی حالت عام لوگوں سے اچھی ہو تو ایسا حق الخدمت اداکرو جو تمہاری مالی حالت کے بھی مطابق ہو۔ یعنی کم سے کم حق الخدمت تو وہ ہو جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق گزارہ کے لئے کافی ہو۔ لیکن اگر ہو سکے تو اس سے زیادہ دو۔
اس حکم کے ذریعہ سے قرآن کریم نے حق الخدمت کا ایک ایسا زریں اصل بتا دیا ہے کہ اگر اس کے مطابق حق الخدمت مقرر کیا جائے تو مزدو راور مالک کے جھگڑوں کا بالکل خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس مضمون کو تفصیل سے آیت مذکورہ بالا اور اس کے ہم معنے آیات کے ماتحت بیان کیا جائے گا۔
(۹) نویں قسم خرچ کی قرآن کریم سے۔ اداء احسان کی ثابت ہوتی ہے۔ جیسے مثلاً والدین کی خدمت کا حکم ہے۔ یہ سلوک نہ تو حق الحدمت کہلا سکتا ہے کیونکہ والدین خدمت نہییں کرتے بلکہ ایک طبعی جوش سے بچے کی پرورش کرتے ہیں اور بچہ ان کو اس کام پر مقرر نہیں کرتا نہ کوئی اور انسان انہیں مقرر کرتا ہے اور نہ انہیں کسی بدلہ کی متنا ہوتی ہے۔ پس والدین کا سلوک بچے سے خدمت نہیں ہے بلکہ احسان ہے۔ اور اگر بڑا ہو کر کوئی بچہ اپنے والدین کی خدمت کرتاہے تو وہ ان کا حق الخدمت ادا نہیں کرتا۔ بلکہ اُن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی والدین کی نسبت فرماتا ہے وَوَصَّیْنَا الْاِنسانَ بِوَالِدَیْہِ (لقمان ع ۲) یعنی ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ پھر اسی جگہ آگے چل کر فرماتا ہے اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَ الِدَیْکَ یعنی ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ ہمارا بھی شکر کر اور اپنے والدین کا بھی۔ شکر کے لفظ سے یہ بتایا ہے کہ والدین کے ساتھ جو سلوک کر اس خیال سے نہ کر کہ میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں بلکہ احسان تو انہو ںنے تجھ پر کیا ہے۔ تو تو جو نیک معاملہ ان سے کرے گا وہ اظہار شکراور اقرار احسان کے طور پر ہو گا۔
قرآن کریم میں بعض جگہ والدین سے سلوک کا نام احسان بھی آیا ہے۔ جیسا کہ مثلاً اسی سورۃ میں یعنی سورۃ بقررہ میں فرماتا ہی وَبِالْوَ الِدَیْنِ اِحْسَانًا (ع ۱۰) یعنی والدین سے احسان کا سلوک کر۔ اس سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیئے کہ والدین سے سلوک بھی احسان کے معروف معنوں میں کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت میں احسان کا لفظ عام معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک اور معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کسی امر کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر دیا جاتا ہے۔ جیسے مثلاً ظلم کے بدلہ کا نام ظلم رکھ دیا جاتا ہے اور اس سے مراد ظلم نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے معنے ظلم کے بدلہ کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں اور دوسری آیات میں جہاں والدین کے لئے احسان کا لفظ آیا ہے اس کے معنے احسان کے بدلہ کے ہیں۔ لیکن ان کے سوا دوسرے لوگوں کی نسبت اس لفظ کا استعمال اپنے معروف معنوں میں ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اور الفاظ بھی اس محاورہ کے مطابق استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً اسی سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْمِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (بقرہ ع ۲۴) یعنی جو تم پر ظلم کرے اس پر اسی قدر ظلم کر سکتے ہو۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ ظلم کا اسی قدر بدلہ ظلم نہیں کہلا سکتا۔ پس بدلہ لینے والے کے لئے جو اعتداء کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے معنے محض بدلہ کے ہیں نہ کہ ظلم کے اسی طرح احسان کرنے والے کے حق میں جب احسان کرنے کرنے کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس کے معنے بدلہ احسان کے ہوتے ہیں نہ کہ احسان کے۔
اسی اداء احسان کے حکم کے نیچے اپنے اُستادوں اور دوسرے محسنوں یا ان کی اولادوں سے حسن سلوک بھی آ جاتا ہے۔ اور اس حکم کے ماتحت سب سے بڑے انسانی محسن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کا بدلہ بھی آ جاتا ہے۔ جو صحابہ کرام درود اور دعائوں اور خدمت کے ذریعہ سے ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ میرے نزیک رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کی اولاد کے لئے صدقہ جائز نہیں ت واس میں یہی حکمت تھی کہ کہ امت اسلامیہ کو بتایا جائے کہ اس محسن عظیم کی اولاد سے جو سلوک کیا جائے وہ صدقہ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ تو اس محسن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ایک ادنیٰ کوشش ہو گی۔
مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس مسئلہ کو خاش زور سے بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ایسے بے نفس تھے کہ آپؐ نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ کو حرام کر دیا۔ او راُنہیں یہ خیال نہیں آتا کہ آپؐ ایسے بے نفس تھے تو مسلمان ایسے نفس کے بندے کیو ںہو گئے ہیں کہ آپؐ کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ادنیٰ کوشش بھی نہیں کرتے۔ محسن کسی بدلہ کا خیال نہیں کرتا۔ مگر کیا جس پر احسان کیا جائے اس کی شرافت نفس اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ وہ محسن کے احسان کا شکریہ عمل سے ادا کرے۔ میرے نزدیک اس حکم سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانو ںکو یہ ادب سکھایا تھا کہ اگر حضرت رسالتمآب کی اولاد میں سے کوئی غریب ہو تو وُہ اس کے ساتھ حضور کے احسان کی یاد میں سلوک کریں۔ کیونکہ آپ کی اولاد کے ساتھ صدقہ کا معالہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ کیا اپنے بھائیون جیسا نہیں ہونا چاہیئے؟ افسوس کہ اس حکمت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان دو حکموں میں سے ایک کو توڑنے لگ گئے ہیں۔ یا تو وہ سادات پر صدقہ اور زکوٰۃ خرچ کرنے لگ گئے ہیں یا اُن کی خدمت سے بالکل محروم ہو گئے ہیں۔
مجھ پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں نے دیر سے اس نکتہ کو سمجھا ہے اور مجھے کئی دفعہ اس امر کی توفیق ملی ہے کہ غرباء سادات کی خدمت کروں۔ نہ اس خیال سے کہ میں اُن پر صدقہ کر رہا ہوں بلکہ اس خیال سے کہ اُن سے حسنِ سلوک اس احسان عظیم کے اقرار کی جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ہم پر کئے ہیں ایک ادنیٰ کوشش ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ کاش مسلمان اس نکتہ کو سمجھیں اور سادات کو صدقہ دینے یا ان کی مشکلات کو بالکل نظر انداز کرنے کے دو قبیح جرموں سے محفوظ ہو جائیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو شاید اللہ تعالیٰ بھی ان کی اولاد دوں پر رحم فرمائے۔
(۱۰) دسویں قسم جو قرآن کریم سے خرچ کی ثابت ہے وہ ہدیہ ہے۔ یعنی بغیر کسی سابق احسان یا صدقہ کے خیال کے ایک دوسرے کو موقعہ مناسب پر ہدیہ دیا جائے تاکہ آپس میں محبت بڑھے۔ اس کا بہترین موقعہ تو وہ ضیافت ہے جو ایک شخص دوسرے کی کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اس کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام دو نبیوں کے ذکروں میں آتا ہے۔ ضیافت صرف ایک صورت ہدیہ کی ہے ورنہ اور مناسب مواقع بھی اس حکم کے عمل کے نکل سکتے ہیں۔ افسوس مسلمانوں نے اس حکم کو بھی بھلا دیا ہے۔ اور مسافروں کی مہمان نوازی شاذو نادر کے طو رپر رہ گئی ہے بلکہ شہروں کے باشندے تو اس سے قریباً محروم ہی گئے ہیں۔ حالانکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ سلمنے اس کی اس قدر تاکید کی ہے کہ ضیافت کو ایک حق قرار دے دیا اور فرمایا کہ اگر کسی بستی کے باشندے ضیافت کا حق وصول کیا جا سکتا ہے۔ اس حق کی تمام تفصیلات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ یہاں اس قدر بیان کر دینا کافی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اس حق کی تشریح میں فرماتے ہیں تَھَا دَوْا تَحَابَّوْا (ابن عساکر بن ابی ہریرہ بحوالہ جامع الصغیر) یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے محبت میں ترقی ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا مجھے جبریل علیہ السلام نے ہمسایوں سے نیک سلوک کی اس قدر تاکیدکی کی میں نے سمجھا کہ اُسے وارث مقرر کر دیا جائے گا۔ (ترمذی جلد دوم ابواب البر والصلۃ باب ماجاء فی حق الجوار)
یہ خرچ صدقہ کی اقسام سے نہیں ہے بلکہ اخوت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور تمدن کی ترقی کے لئے نہایت ضروری احکام میں سے ہے۔
خلاصہ یہ کہ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں صرف صدقہ کا ذکر نہیں بلکہ اُوپر کے بیان کرو سب قسم کے اخراجات اس میں شامل ہیں۔ اور غریب امیر، بڑے چھوٹے سب کے بارہ میں اس میں نہایت لطیف احکام بیان ہوئے ہیں۔ اور تقویٰ کے قیام کے لئے یہ ایک ضروری امر ہے۔
آیت کے مضامین پر مجموعی نظر:
اِس آیت میں تین احکام بیان ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان صداقتوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے جو انسانی نظر سے پوشیدہ ہیں۔ او ربتایا ہے کہ صرف محسوسات پر ایمان رکھنا کوئی خوبی نہیں۔ کیونکہ ان کو تو ہر بیوقوف سے بیوقوف بھی مانتا ہے متقی کا مقام اس سے بالا ہے اور وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ ان صداقتوں پر بھی ایمان لائے جو ظاہر نظر سے پوشیدہ ہوتی ہیں اور یہی روحانیت کے کمال کی علامت ہے ورنہ دریا کو دریا سمجھنا او رپہاڑکو پہاڑ جاننا کوئی خوبی نہیں ہے دریا کو دریا ماننے والا عالم اور کامل نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ وہ شخص عالم سمجھا جاتا ہے جو اس دریا کے پیچھے نظر کرتا ہے۔ اور یہ تحقیق کرتا ہے کہ دریا کہاں سے آیا ہے کس طرح بنا ہے، کن طبعی تغیرات کے نتیجہ میں اس کو پانی حاصل ہوا ہے۔ اور اس پر بھی غور کرتا ہے کہ دریا سے اس وقت کیا کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اور یہ کہ وہ کدھر کو جاتا ہے او رکہاں گرتا ہے۔ غرض ایک دریا کو دیکھنے والے جاہل اور عالم میں یہی فرق ہے کہ جاہل صرف حاضر کو جانتا ہے اور عالم اس کے غائب حصہ کو بھی جانتا ہے۔ اور اسی کے جاننے سے وہ اس سے علمی اور عملی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ یہی حال روحانیات کے متعلق ایک عالم با عمل یا دوسرے لفظو ںمیں ایک متقی کا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس دنیا کے بارہ میں صرف اس پر قناعت نہیں کرتا جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہے بلکہ اس کے مبداء اور متھٰی کی تحقیق بھی کرتا ہے اور اس کے مخفی خزانوں کو بھی تلاش کرتا ہے اور اسی کا نام ایمان بالغیب ہے۔ اور یہ ظاہرہے کہ سوائے اس قسم کی تحقیق کے نہ علم کامل ہو سکتا ہے نہ عمل۔ پس ایمان بالغیب انسانی تکمیل کا ایک ایسا ضروری جزو ہے کہ اسے نظر اندار کر دینا صرف ایک جاہل کا کام ہو سکتا ہے۔
اس اہم اور ضروری امر پر زور دینے کے بعد اس کے لازمی نتائج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اول یہ کہ جب انسان اس عالم کے مبداء پر غور کرتا ہے اور اسکے پیدا کرنے والے وجود کو دلائل سے معلوم کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ شدید تعلق پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ کرتا ہے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں عبادت یا اقامتِ صلوۃ ہے۔ پھر جب اس کا روحانی تعلق اس مبداو کل سے ہو جاتا ہے تو لازماً اسے اس کے متعلقین او رمتوصلین کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے او ران کی بہتری کے لئے کوشش کرنے لگتا ہے۔ کیونکہ مبداء کل سے تعلق پیدا ہو جانے کے بعد اس کی مخلوق کی محبت بھی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے جس طرح کہ ماں باپ سے تعلق کے نتیجہ میں بھائیوں کی محبت پر بھی انسان مجبور ہو جاتا ہے۔ پس عبادت اور اقامتِ صلوٰۃ کے بعد متقی کا دوسرا کام وَمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ بتایا۔
اوپر کی تشریح سے ظاہ رہے کہ اس آیت میں ایمان بالغیب کے بعد اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ اور اس کے بعد َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کا رکھنا ایک اتفاقی امر نہیں۔ بلکہ ایک پُر حکمت ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔
اس جگہ ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے او روہ یہ ہے کہ اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ کو اس جگہ پہلے رکھا گیا ہے اور َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کو بعد میں رکھا گیا ہے۔ اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ رُوحانی عالم میں خدا تعالیٰ سے تعلق مخلوق سے تعلق پر مقدم ہے اور یہی طبعی اور درست ترتیب ہے۔ کیونکہ بغیر اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق کے مخلوق سے کامل محبت ہو ہی نہیں سکتی۔
اس معاملہ میں اسلام اور فلسفیوں کے خیالات میں اختلاف ہے۔ فلسفی کہتے ہیں اور بعض مذہب سے نامکمل تعلق رکھنے والے بھی ان کی تائید کرتے ہیں کہ جب مخلوق سے تعلق ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سے خود بخود ہی تعلق ہو جاتا ہے۔ اور اُن کے نزدیک جو شخص مخلوق سے تعلق کو درست کر لے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بھی آپ ہی آپ درست ہو جاتا ہے۔ پس اصل چیز جس کی طرف توجہ چاہیئے وہ مخلوق سے تعلق ہے۔ مگر ایک ادنی تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ بات بالبداہ، باطل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق سے نیک سلوک خدا تعالیٰ کی عباد ت کا حصہ ہے لیکن یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حصہ ہے لیکن یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا موجب ہو سکتا ہے۔ بلکہ حق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق مخلوق سے محبت کا موجب ہوات ہے او رجو لوگ اس کے الٹ خیال کرتے ہیں وہ اس امر کو نہیں دیکھتے کہ مشاہدہ کس امر کی تائید کرتا ہے۔ اگر وہ یہ دیکھتے کہ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق سے محبت کی ہے وہ کس پایہ کے تھے اور جو لوگ مخلوق سے محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پانے کے مدعی ہیں وہ اگر کہیں پائے جاتے ہیں تو کس پایہ کے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق سے محبت کرنے والوں میں سے حضرت ابراہیم‘ حضرت موسی‘ حضرت عیسی‘ حضرت کرشن‘ حضرت رام چندر اور حضرت زردشت ہیں اور میرے نزدیک حضرت بدھ اور حضرت کنفیوشس علیہم السلام بھی اور سب کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم۔ ان سب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انہو ںنے جس رنگ میں اور جس شان کی بنی نوع انسان اور باقی مخلوق کی خدمت کی ہے اس کی مثال دوسرے لوگوں میں کہاں پائی جاتی ہے؟ کوئی ایک شخص بھی جس نے مخلوق سے محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پایا ہو ان کے مقابل پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔اور ان کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اور حق یہ ہے کہ تاریخ ایسے وجود کو پیش ہی نہیں کرتی۔ جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس نے پہلے مخلوق سے محبتکی او رپھر خدا تعالیٰ کو پایا۔ لیکن ایسے ہزاروں لاکھوں آدمی دنیا میں گزرے ہیں کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو پایا اور اس کی محبت سے سرشار ہو کر اس کی مخلوق کی محبت کو حاصل کیا۔ پس جبکہ مشاہدہ اس امر پر شاہد ہے کہ خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق کی محبت کرنے والے تو ہزاروں لاکھو ںوجود دنیا میں گزرے ہیں لیکن مخلوق کی محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پانے والے کسی ایک وجود کا بھی پتہ نہیں ملتا۔ تو ایسی بے دلیل بات کے پیش کرنے کا فائدہ کیا۔
دوسرا پہلو اس سوال کا عقلی پہلو ہے۔ اگر اس پہلو سے غور کیا جائے تب بھی یہ دعویٰ کہ پہلے مخلوق کی محبت ہو تو اس سے خدا تعالیٰ آپ ہی مل جاتا ہے‘ درست ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ عقلی طور پر مخلوق کی محبت سے خدا تعالیٰ کے وجود کامل جانا ناممکن اور غیر معقول نظر آتا ہے۔ کیونکہ مخلوق کی محبت کی وجہ یا تو حب وطن ہو سکتی ہے یا طبیعت کی نرمی۔ اور ظاہر ہے کہ حب وطن کی وجہ سے جو بنی نوع انسان سے محبت کرتا ہے وہ وطنی تقاضا کے ماتحت ان دوسرے انسانوں سے جو اس کے وطنی نہیں ہیں دشمنی بھی کر سکتا ہے۔ اور اسے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا کوئی بھی موجب موجود نہیں بلکہ اس سے دور لے جانے والے موجبات پیدا ہوتے رہیں گے اور وہ بجائے خالق کی طرف جانے کے سیاسیات میں الجھ کر رہ جائے گا۔ اور اگر اس کا موجب طبعی نرمی ہو تب بھی ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کی طر ف ھھیرنے والا موجب کوئی موجود نہیں۔ کیونکہ ایسا شخص کسی عقلی سبب سے مخلوق سے حسن سلوک نہیں کرتا بلکہ محض طبعی نرمی کی وجہ سے ایسا کام کرتا ہے۔ اس لئے اس کی عقل اُسے کسی دوسرے راستہ کی طرف راہنمائی ہی نہیں کرتی اور نہ کر سکتی ہے۔
بعض لوگ اس موقعہ پر کہا کرتے ہیں کہ حب وطن نہیں بلکہ حب انسانیت انسان کو بنی نوع سے حسن سلوک کی طرف راغب کرتی ہے اور ایسا انسان یقینا سیاسیات سے بالا رہتا ہے لیکن یہ دعویٰ بھی بلا دلیل ہے۔ کیونکہ ہر فعل کا کوئی طبعی محرک ہوتا ہے اور اُسی کے مطابق اس کے خیالات کی رو دوسری اطراف کی طرف پھرتی ہے۔ پس اس صورت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ انسانیت کی محبت کی وجہ سے بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے والے شخص کے لئے محرک کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگ راس کے افعال کا محرک خدا تعالیٰ کی محبت نہیں توپھر اس کے لئے محرک یہی خیال ہو سکتا ہے کہ چونکہ باقی انسان بھی میری طرح کے انسان ہیں اس لئے بوجہ ہم جنس ہونے کے مجھے اُن سے محبت کرنی چاہیئے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص دوسرے انسانوں سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ اُسی کی طرح کے انسان ہیں وہ در حقیقت اپنے آپ سے محبت کرتا ہے اور اس کی اپنی ذات کی محبت اُسے کسی اپنے سے بالا وجود کی طرف توجہ نہیں دلا سکتی۔ او راس کا خاتمہ بھی اسی حالت میں ہو گا جس حالت پر کہ اس کی ابتداء ہوئی ہے اور وہ محض حب انسانیت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی حاصل نہیں کر سکتا۔
اب صر ف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ جو شخص مخلوق سے محبت کرے اُسے خدا تعالیٰ اس کے نیک فعل کی وجہ سے اپنی طرف کھینچ لے۔ مگر یہ حالت غیر طبعی ہے کیونکہ یہ صورت اسی شخص کے حق میں پوری ہو سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کا علم نہ رکھتے ہوئے مخلوق سے کامل محبت کرے۔ کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو عقلی طور پر علوم کر لیتا ہے او رپھر اس کی طرف سے منہ موڑ کر مخلوق کی خدمت پر کفایت کرتا ہے وہ تو ایک زبردست سچائی کا منکر ہے او رہدایت پانے کا مستحق نہیں۔ ہاں صرف وہ شخص اس حالت میں ہدایت پانے کا مستحق ہو سکتا ہے جسے خدا تعالیٰ کا علم حاصل نہیں ہوا لیکن اس نے اپنے فطری قویٰ کو صحیح طور پر استعمال کیا اور گو صانع کا وجود اس کی نگہ سے پوشیدہ رہا مگر اس نے اس قدر حصہ سے جو اسے نظر آتا تھا (یعنی مخلوق) اپنے تعلق کو مضبوط کر لیا۔ ایسا شخص بے شک باوجود مخلوق سے پہلے تعلق پیدا کرنے کے صانع کی طرف ہدایت پانے کا مستحق ہے۔ کیونکہ جس قدر حصہ پر عمل کرنااس کے لئے اس کے علم کے مطابق ممکن تھا اس نے اس پر عمل کر لیا اور اس قسم کی استثنائی حالتو ںمیں مخلوق کو پا کر خالق کو پالینے کے ہم بھی منکر نہیں۔ نہ قرآن کریم اس کے خلاف ہے۔ بلکہ قرآنکریم سے صاف ظاہر ہے کہ جو ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے جو اُسے میسر ہیں خدا تعالیٰ اُسے ان دوسرے سامانوں کی طرف ہدایت کرتا ہے جو اُسے میسر نہ تھے۔ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شہادت بھی اسے ثابت کرتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! مجھے ایمان تو اب نصیب ہوا ہے مگر ایمان سے پہلے بھی میں بنی نوع انسان سے نیک سلوک کیا کرتا تھا کیا میرے ان اعمال کا بھی مجھے کوئی صلہ ملے گا یا مجھے اب اپنی گزری ہوئی عمر کے اعمال کی تلافی کرنی چاہیئے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا اَسْلَفْتَ (مسلم کتاب الایماب باب بیان حکم عمل الکافر اذا اسلم بعدہ) یعنی تمہارے وہ عمل ضائع نہیں ہوئے بلکہ تم کو جو اسلام کی صداقت کے قبول کرنے کی توفیق ملی ہے یہ انہی اعمال کی وجہ سے ہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کا علم ہونے سے پہلے تم نے کئے گو خدا تعالیٰ کی رضاء جوئی کے لئے نہیں کئے مگر چونکہ اس میں تمہارا قصور نہ تھا خدا تعالیٰ نے ان کو بھی قبول کر لیا اور مخلوق سے نیکی نے تم کو خدا تعالیٰ کے عرفان اور اس پر ایمان کی طرف راہنمائی کی۔ لیکن اس جگہ سوال یہ نہیں کہ عدمِ علم کی صورت میں بطورِ استثناء انسان سے کیا سلوک کیا جا سکتا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ اگر شخص کو خدا تعالیٰ کے وجود کا علم ہو جائے تو پھر وہ اس سے تعلق پیدا کرکے اپنے نفس کی اصلاح میں جلدی کرے یا وہ اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی خدمت میں لگ جائے اور اقرار کرے کہ میں تواس ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو پائوں گا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند اس امر کی تائید کرے گا۔ کہ خدا تعالیٰ کا علم ہو جانے کے بعد بھی انسان کو اس سے منہ موڑ لینا چاہیئے اور مخلوق کی خدمت میں لگ جانا چاہیئے کہ یہی طبعی راستہ خدا تعالیٰ کی طرف سے منہ موڑ لینا ہدایت پانے کا موجب نہ ہو گا بلکہ ہدایت سے دُور جانے کا موجب ہو گا۔
خلاصہ یہ کہ مخلوق کی خدمت کر کے خدا تعالیٰ کو پانا ایک استثنائی صورت ہے۔ اور عدم علم کی صورت میں ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق کی محبت کا پیدا ہونا ایک طبعی راستہ ہے کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو پا کر اس کی عبادت میں لگ جائے گا وہ لازماً اس کی مخلوق سے بھی محبت کرے گا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کو پا لینے کے معنے یہ ہیں کہ اس کی صفات کا کامل علم اُسے ہو جائے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت عالمین اور صفت رحمانیت اور صفت رحیمیت اور صفت مالکیت یوم الدین کو معلوم کر لے گا وہ طبعاً اس کے بندوں سے اسی رنگ میں سلوک کرے گا جس رنگ میں کہ اس کا رب ان بندو ںسے سلوک کرتا ہے ورنہ وہ اس کے نقش کو اپنے دل میں پیدا نہیں کر سکتا۔ پس خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اس کے بندوں سے حسن سلوک کرنا ایک لازمی امر ہے اور خدا تعالیٰ کے تعلق کا ایک نشان ہے اور اسی طبعی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم نے اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ کو َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ سے پہلے رکھا ہے۔
۵؎ حل لغات
یُؤْمِنُوْنَ:۔کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اُنْزِلَ:۔ اَنْزَلَ سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اَنْزَلَ اللّٰہُ الْکَلَامَ کے معنے ہیںاَوْحَیٰ بِہِ۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کلام کو بذریعہ وحی نازل فرمایا (اقرب) پس وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ کے معنے ہوں گے اور وہ لوگ جو اس کلام پر جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے ایمان لاتے ہیں۔
اَلْاٰخِرَۃ:۔ اَلْاٰخِرُ کا مونث ہے اور اَلْاُ وْلٰی کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے (اقرب) یہاں پر اس کا موصوف محذوف ہے معینی یہ ہوں گے کہ آئندہ آنے والی، آئندہ ہونے والی۔
یُوْقِنُوْنَ:۔ اَیْقَنَسے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اَیْقَنَ الْاَمْرَ وَاَیْقَنَ بِہِ کے معنے ہیں عَلِمَہُ وَتَحَقَّقَہٗ۔ یعنی کسی بات کو معلوم کیا اور اس کی پوری تحقیق کرتے ہوئے اپنے شک و شبہ کو دور کر لیا۔ اور اَیْقِیْنَ (جو اَیْقَنَ کا مصدر ہے) کے معنے ہیں اِزَاحَۃُ الشَّکِّ وَتَحقِیْقُ الْاَمْرِ۔اپنے شک کو دور کر لینا اور کسی معاملہ کی پوری تحقیق کر کے حقیقت پر قائم ہو جانا۔ (اقرب)
تفسیر۔ اس آیت میں متقیو ںکی تین اور صفات بیان کی گئی ہیں اور اس آیت کی پہلی اور گزشتہ آیت کو ملا کر چوتھی علامت متقی کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمائی ہے کہ جو کلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے متقی اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس صفت کے بیان کے بیان کرنے میں یہ حکمت ہے کہ انسان کے لئے صرف نیک نیتی کافی نہیں ہوتی بلکہ صحیح طریق عمل کا اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ صر ف نیک نیتی اسی حالت میں کام آتی ہے۔ صرف نیک نیتی اسی حالت میں کام آتی ہے جبکہ صحیح طریق عمل کا معلوم کرنا اس کے لئے ناممکن ہو۔ لیکن جب صحیح ۔طریق عمل کا معلوم کرنا ممکن ہو تو نیک نیتی کا عذر نہ صرف یہ کہ غیر مقبول ہوتا ہے بلکہ غیر معقول بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص کی نیت نیک بھی ہو اور وہ پھر بھی صحیح طریق عمل کو نظر انداز کر دے اور اس کے معلوم کرنے سے اعراض کرے۔ نیک نیت تو وہی ہوتا ہے جو اپنی نیت کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔ لیکن جو شخص باوجود استطاعت کے صحیح طریق عمل کو چھوڑ دیتا ہے یا اُسے معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا وہ ت واپنے عمل سے اپنے دعویٰ کو باطل کرتا ہے اور اپنی بدنیتی پر آپ شاہد ہوتا ہے۔
چونکہ روحانی عالم میں صحیح طریق عمل دہی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا جائے اس لئے وہی شحص نیک نیت کہلائے گا کہ جو اس طریق کو معلوم کرنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اور چونکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعشت کے بعد وہی صحیح طریق عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ پر ظاہر کیا ہے۔ اس لئے وہی شخص روحانی مقاصد کو پا سکتا ہے جو آپؐ پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لائے۔ پس چوتھی صفت متقی کی یہ بیان کی گئی کہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لاتا ہو۔ کیونکہ جو شخص اس کلام پر ایمان نہیں لاتا جو اس کے زمانہ کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہو وہ ہدایت کی جزئیات سے نہ باخبر ہو سکتا ہے او رنہ اُن پر عمل کر سکتا ہے۔ او رظاہر ہے کہ جو کسی مقصد کے حصول کی تمام جزئیات سے واقف نہیں ہو اس مقصد کے حصول کی تمام جزئیات سے واقف نہیں وہ اس مقصد کو پا بھی نہیں سکتا۔ جو شخص کسی زبان کا عالم بننا چاہے اسے اس زبان کے الفاظ اور الفاظ کی صحیح بندش کے طریق اور اس میں خیالات کے اظہار کے مناسب طریق کو بھی سیکھنا ہو گا ورنہ اس زبان کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح تقویٰ کی تکمیل کے لئے یہ ضروری ہے کہ تقویٰ کی جزئیات کے بھی انسان واقف ہو۔ جو ان سے واقف نہ ہو گا اس کے خیالات اور عمل بسا اوقات تقویٰ کے خلاف ہوں گے اور بجائے تقویٰ میں ترقی کرنے کے وہ آہستہ آہستہ اس اجمالی تقویٰ کو بھی کھو بیٹھے گا جو اُسے نیک نیتی کی وجہ سے حاصل تھا کیونکہ خالی نیت انسان کو صحیح اعمال پر قادر نہیں کر سکتی۔ کوئی شخص کتنا ہی مضبوط ارادہ رکھا ہو کہ وہ صحیح زبان بولے گا لیکن اگر اُسے اس زبان کے الفاظ کا علم نہیں‘ اس کی بندشوں کا علم نہیں تو محض ارادہ سے وہ صحیح (زبان نہیں بول سکتا۔ پس اس جملہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اجمالی تقویٰ کے حاصل ہونے کے بعد متقی اس کی تفصیلات کو معلوم کر کے اس کے مطابق عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور چونکہ اس زمانہ میں تقویٰ کی تفصیلات وہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ سے ظاہر کی گئی ہیں اس لئے تقویٰ کے تفصیلی حصہ کو کامل کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا بھی ضرویر ہے۔
بعض لوگ اس آیت اور ایسی ہی بعض دوسری آیات سے یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان لانے کا حکم ہے نہ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ۔ اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو تسلیم کرنے کی نہ ضرورت ہے‘ نہ یہ جائز ہے بلکہ شرک ہے۔ یہ فرقہ چند سال سے ہندوستان میں پیدا ہوا ہے اور اصل میں خوارج کی ایک شاخ ہے کیونکہ خوارج میں بھی اصل جذبہ یہی کار فرما تھا کہ اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ وَالْاَمْرُ شُوْریٰ بَیْنَہُمْ یعنی حکم صرف خدا تعالیٰ کا ہے اس کے بع دجن امو رمیں کسی فیصلہ کی ضرورت ہو اس کا فیصلہ مسلمان اپنے مشورہ اور اتفاق سے کریں گے۔
ان لوگوں کو یہ دھوکا قرآن کریم کے مضامین پر غور نہ کرنے سے لگا ہے۔ ان کے اس وہم کی بنیاد اس پر ہے کہ چونکہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ متعدد آیات میں بیان ہوا ہے کہ وہ مکمل کتاب ہے اس لئے اور کسی شخص کی ہدایت یا تشریح کی کیا ضرورت ہے اس بنیاد میں غلو کر کے جہاں جہاں رسول پر ایمان لانے یا اس کی اطاعت کرنے کا حکم قرآن کریم میں آتا ہے اس کے معنے وہ قرآن کریم کے لیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہاں رسول سے مراد قرآن کریم ہے۔ یہ لوگ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ قرآن کریم میں کتب سماویہ کے نزول کا ذکر دو طرح آتا ہے ایک تو رسول کی طرف نسبت دے کر دوسرے اس کتاب کے ساتھ وابستہ گروہ سے نسبت دے کر۔ مثلاً قرآن کریم کی نسبت یہ الفاظ بھی ہیں کہ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ اور یہ بھی ہیں کہ وَھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمْ الْکِتٰبَ مُفَصَّلاً (انعام ع ۱۴) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے تم پر ایک کامل اور مفصل کتاب اتاری ہے غور کے قابل بات ہے کہ آخر یہ فرق قرآن کریم نے کیوں کیا ہے۔ کسی جگہ تو فرماتا ہے کہ یہ کتاب تم پر نازل ہوئی ہے اور کسی جگہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اگر دوسرے لوگوں کی طرف کتاب نازل ہوئی ہے اگر دوسرے لوگوں کی طرف کتاب نازل ہونے کی نسبت اس غرض سے کی گئی ہے کہ وہ کتاب اُن کے لئے نازل کی گئی ہے تو پھر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی صرف یہی کہا جاتا کہ جو کتاب تم پر نازل ہوئی ہے اس پر ایمان لائو۔ لیکن قرآن کریم نہ ایک جگہ بلکہ متواتر اس نسبتِ نزول کا ذکر کرتا ہے اور اس شخص کو پیش کرتاہے جس پر وہ کلام نازل ہوا ہے اور یہ طریق بیان اس کا آنحضرت علیہ السلام کی نسبت ہی نہیں بلکہ تمام سابق انبیاء کی نسبت بھی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں بھی وہ یہ فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ (بقرہ ع ۲۱۱) یعنی ہم نے موسیٰ کو ضرور کتاب دی تھی اور پھر ساتھ یہ بھی فرماتا ہے وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ (آل عمران ع ۲۰) یعنی اہل کتاب میں سے وُہ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی جو اے مسلمانوں تم پر نازل ہوا ہے اور اس پر بھی جو ان اہل کتاب پر نازل ہوا ہے۔ ان دو قسم کی نسبتوں سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں قوم پر نزول کتاب کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس امر پر زور دینا مطلوب ہے کہ اس قوم اور اس کتاب کے حالات بالکل متناسب ہیں اور اس قوم کے لئے اس کتاب پر عمل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں اور جہاں رسول پر کتاب نازل ہونے کا ذکر ہے وہاں اس مناسبت کی طرف اشارہ ہے جو اس رسول کی فطرۃ کو اس کتاب سے حاصل ہے اور صر ف کتاب کا ذکر ہی مطلوب نہیں۔ ملکہ یہ بتانا بھی مطلوب ہے کہ اس کتاب کی عملی تفسیر اور زندہ نمونہ اس کے وجود میں موجود ہے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو کسی جگہ اُنُزِلَ اِلَیْکُمْ اور کسی جگہ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ یا ٰاتَیْنَا مُوْسٰی کہہ کر دو مختلف نسبتوں کی طرف اشارہ نہ کیا جاتا بلکہ صرف یہ کہہ دیا جاتا کہ قرآنکریم پر ایمان لائو یا تو رات پر ایمان لائو جب کسی کتاب کا نام رکھ دیا جائے تو اس کا ذکر لمبے چوڑے جملوں سے عبث اور فضول ہو جاتا ہے اگر اس کی کلام حکیم میں کتاب کے نام کو چھوڑکر اور الفاظ میں اس کتاب کا ذکر کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اس طریق بیان میں کوئی زائد فائدہ مدنظر رکھا گیا ہے اور وہ فائدہ آیت زیر بحث میں یہی مدنظر ہے کہ کتاب کو منزل الیہ وجود کی طرف نسبت دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کتاب ہادی ہے بلکہ وہ وجود بھی ہادی ہے جس پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے چنانچہ اس اشارہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دوسری جگہ واضح الفاظ میں بھی بیان فرما دیا ہے ۔ فرماتا ہے وَ اِذَا جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُوتٰی مِثْلَ مَا اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ۔ اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (انعام ع ۱۵) یعنی جب کفار کو نبیوں کے الہام کے ذریعہ سے کوئی نشان دکھایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب تک اسی طرح ہم پر کلام نازل نہ ہو جس طرح ان مدعیانِ نوبت پر نازل ہوا ہے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے کہ اس کا کلام کس پر نازل ہو اور کس پر نازل نہ ہو۔ پس جس کو وہ اس کلام کے نزول کے مناسب حال سمجھتا ہے اسی کے ذریعہ کلام بھجواتا ہے۔ یہ آیت واضح طور پر اس امر کو ثابت کر دیتی ہے کہ کلام الٰہی محض ایک ہر کارہ کے ذریعہ سے نہیں بھیجا جاتا بلکہ وُہ ایک ایسے شخص کے ذریعہ سے بھجوایا جاتا ہے جو اس کا صحیح مفہوم لوگوں کو بتا سکے اور اس کا مطلب سمجھا سکے۔ اگر صرف الفاظ پہنچائے مطلوب ہوتے تو ہر نبی کی قوم میں اچھے اچھے ادیب موجود تھے ان کے ذریعہ سے وہ کلام پہنچایا جا سکتا تھا۔ مشہور ادیبوں اور شاعروں کو چھوڑ کر بالعموم اُمّیوں اور ظاہر بینوں کی نگاہ میں کم علم لوگوں کی معرفت اس کلام کو بھجوانے کے تویہی معنے ہیں کہ اس کلام کا مطلب بیان کرنے کی کلام لانپے والے سے امید کی جاتی ہے اور دوسروں کی نسبت اس کلام کی باریکیوں کو سمجھنے کا اُسے زیادہ اہل سمجھا جاتا ہے اور نہ صرف الفاظِ کتاب اُسے دئے جاتے ہیں بلکہ فہم کلام بھی اُسے عطا کیا جاتا ہے کہ کیونکہ اس کی فطرت اس کلام کے مفہوم کے مطابق اور مناسب ہوتی ہے اور جب یہ حقیقت ہو تو پھر یہ کہناکہ جب کلام موجود ہے تو کلام لانے والے میں اور ہم میںکیا فرق ہے ہم کلام پر ایمان لائیں گے اور اس کا مطلب خود سمجھیں گے کس قدر عقل کے خلاف ہے اور بالکل اسی قسم کا قول ہے جیسے کفار نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے بات ہی کرنی تھی تو ہم سے کیوں نہ کر دی درمیان میں ایک واسطہ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی کیا ہم اس کی بات کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ نہ خدا تعالیٰ نے ان کفار کے اعتراض کو درست سمجھا نہ یہ مومن کہلانے والے اپنے دعویٰ میں سچے ہیں۔ اور سچ یہی ہے کہ کلام الٰہی پر ایمان لانے میں کلام الٰہی لانے والے پر ایمان لانا اور اس کی تشریح کو قبول اور تسلیم کرنا بھی شامل ہے کیونکہ کلام الٰہی لفظی کلام ہوتا ہے اور کلام الٰہی لانے والا اس کا جسمانی نمونہ۔ اور اُسے اسی لئے منتخب کیا جاتا ہے تا وہ اپنے عمل سے اس کا نمونہ پیش کرے اور اپنے کلام سے اس کی تفسیر بیان کرے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسی تشریح کو قبول کیا جائے جو اُس تک یقینی طور پر پہنچی ہو نہ یہ کہ ہر رطب و یا بس جو کسی جھوٹے راوی نے اپنے سے پہلے چند معروف لوگوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی۔
چونکہ اس آیت سے بھی اس مضمون کا تعلق ہے اس جگہ اختصاراً اسے بیان کر دیا گیا ہے مفصل بحث اس کی ان آیات کے ماتحت آئے گی جو زیادہ وضاحت سے اس مضمون کی طرف اشارہ کرتی ہیں یا جن آیات سے مذکورہ بالا فاسد عقیدہ کے لوگ استدلال کرتے ہیں۔
اس جگہ ایک اور مضمون بھی وضاحت طلب ہے اور وُہ کلام کے اتارنے کا محاورہ ہے عام طو رپر جب اسلامی تعلیم سے ناواقف لوگ کلام الٰہی کے اترنے کا محاورہ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں تو خیال کر لیتے ہیں کہ شائد یہ کلام خدا تعالیٰ نے لکھ کر فرشتوں کو دیا اور وہ اسے آسمان پر سے زمین پر لائے اور رسول کے ہاتھ میں دے دیا۔ بلکہ غیر مذہب والوں کو کیا کہنا ہے خود مسلمانوں میں سے ایک بڑا طبقہ تعلیم اسلام سے ناواقفی کی وجہ سے اب یہی سمجھنے لگ گیا ہے کہ شائد کوئی چیز آسمان پر سے زمین پر مادی طو رپر اترتی ہے اور رسول کو ملتی ہے۔ لیکن یہ عقیدہ کئی غلطیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے (۱) ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ آسمان سے کیا مراد ہے (۲) انہوں نے غور نہیںکیا کہ فرشتے کیا ہیں اور ان کے اعمال کس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ (۳) انہوں نے یہ غور نہیں کیاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کس ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں (۴) انہوں نے غور نہیںکیا کہ نزول کے کیا معنے ہیں۔ ان چار امور پر غور نہ کرنے کے سبب سے ان کو مذکورہ بالا غلط عقیدہ میں مبتلا ہونا پڑا ہے۔
اوّل سوال یہ ہے کہ کیا نزول کے یہ معنے ہیں کہ کلام الٰہی آسمان سے مادی طور پر نازل ہوتا ہے جیسا کہ عوام مسلمانوں میں اور اُن سے سن سنا کر دوسرے مذاہب کے لوگوں میں پھیلا ہوا ہے۔ چنانچہ سیل مترجم قرآن انگریزی نے اپنے ترجمہ کے دیباچہ کے باب ۳ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام قرآن کریم ایک جدل میں جبریل فرشتہ کو دیا اور وہ اسے نچلے آسمان پر لے آئیاور یہاں سے آہستہ آہستہ انہو ںنے قرآن کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُتارا۔ (تفسیر ریورنڈی ویری جلد اول صفحہ ۱۰۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ایسی روایات کی بناز پر جو مسلمانوں میں بدقسمتی سے مشہور ہو گئے ہیں لیکن اُن کے معنوں پر انہوں نے غور نہیں کیا اور نہ ان کی صحت کی تصدیق کی مسیحیوں نے اس قسم کی تاریخ کی بنیاد رکھی ہے اور اس وجہ سے ہم ان پر یہ الزام تو نہیں لگا سکتے کہ انہوں نے یہ روایات خود بنا لی ہیں۔ لیکن جس رنگ میں اُنہوں نے ان روایات کو استعمال کیا ہے وہ ضرور قابل اعتراض ہے نیز وہ اس اعتراض کے نیچے ضرور ہیں کہ جن امور پر وہ اعتراض کرتے ہیں اسی قسم کے امور خود ان کی کتب میں موجود ہیں۔ جو تاویل وہ اپنی کتب میں کر لیتے ہیں دیانت اور تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ ایسی روایات یا ان قرآن کریم کی آیات کے متعلق جن میں انہیں کوئی ایسا مضمون نظر آتا وہ ویسی ہی تاویل کر لیتے مذہب تو خشیت اللہ اور تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ہارجیت کا اکھاڑہ بنانے کے لئے۔
موسیٰ کی کتاب پیدائش میں لکھا ہے کہ جب سدوم اور عمارہ میں گناہ بڑھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تباہی کی خبر دی تو وہ حضرت ابراہیم سے یوں گویا ہوا ’’میں اب اُتر کے دیکھوں گا کہ انہوں نے سراسر اس چلانے کے مطابق جو مجھ تک پہنچا، کیا ہے یا نہیں‘‘ (باب ۱۸ آیت ۲۱) اس آیت سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کامل نہیں اور وہ دوسروں سے خبریں سن کر ان کی تصدیق بعد میں کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ اس تصدیق کے لئے آپ آسمان سے اترنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اب اگر ان مسیحی مصنفین میں حقیقی دینی روح ہوتی اور وہ مذہب کو ایک جیت ہار کا اکھاڑہ نہ سمجھتے تو اس آیت کی موجودگی میں انہیں قرآن کریم کے اس مضمون پر کیونکر اعتراض ہو سکتا تھا کہ کلامِ الٰہی آسمان سے اُترتا ہے۔
۱؎ سوزۃ۔ سورۃ کے معنی عربی زبان میں مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) مَنْذِلَۃٌ یعنی درجہ (۲) شَرَفٌ یعنی بزرگی بڑائی (۳) عَلاَمَۃٌ یعنی نشان (۴) اونچی دیوار یا عمارت جو خوبصورت بھی ہو۔ (اقرب) (۵) یہ لفظ سُؤْرَۃ سے بھی ہو سکتا ہے یعنی اس میں ہمزہ ہے جو ماقبل مضموم کی وجہ سے وائو سے بدل گیا ہے۔ اس لفظ کے معنی بقیہ کے ہیں عرب کہتے ہیں ھوفی اَشأَر، النّاسِ یعنی وہ قوم کے بقیہ لوگوں میں سے ہے (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی) (۶) ایسی شے جو پُوری اور مکمّل ہو۔ عرب جوان تندرست اونٹنی کو سورۃ کہتے ہیں (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی) (آیندہ اس تفسیر کا حوالہ دیتے وقت سارے نام کی جگہ صرف قرطبی لکھا جائیگا)سُوْرَۃ کی جمع سُوَرٌہے یعنی سورتیں۔
قرآن کریم کے بعض ٹکڑوں کو سُوْرۃٌکیوں کہتے ہیں اس کے متعلق مختلف علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں بعض کے نزدیک اس لئے کہ ان کے پڑھنے سے انسان کا درجہ بڑھتا ہے بعض کے نزدیک اس لئے کہ اس سے بزرگی خالص ہوتی ہے بعض کے نزدیک اس لئے کہ سورتیں مضامین کے ختم ہونے کا نشان ہیں بعض کے نزدیک اس لئے کہ وہ ایک بلند اور خوبصورت روحانی عمارت کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس لئے کہ وہ سارے قرآن کا بقیہّ یا حصّہ ہیں۔ بعض کے نزدیک اس لئے کہ ان کے اندر ایک مکمل او رپورا مضمون آ جاتا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ یہ اختلاف صرف ذوقی ہے ورنہ سورۃ کے چھ معنی جو بیان ہوئے ہیں وہ چھ کے چھ ہی اس جگہ چسپا ہوتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کے معیّن ٹکڑوں کو سورۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ (۱) قرآن کریم کا حصّہ ہیں (۲) اور ان میں سے ہر اک میں ایک مکمّل او رپورا مضمون بیان ہوا ہے (۳) وہ بلند اور خوبصُورت روحانی تعمیر پر مشتمل ہیں جن میں داخل ہونے والا (۴) اعلیٰ مرتبہ اور (۵) بزرگی پاتا ہے اور (۶) ان پر عمل کرنے والے کو دوسرے لوگوں کے مقابل پر ایک خاص امتیاز حاصل ہو جاتا ہے۔)
سُورۃکا لفظ جو قرآن کریم کے خاص ٹکڑوں کی نسبت استعمال ہوا ہیں۔ یہ الہامی نام ہے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ ہے قرآن کریم میں اتا ہے۔ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّانَزَّ لْنا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (بقرہ ع ۳) پس سورۃ کا لفظ خود قرآن کریم نے استعمال فرمایا ہے اور الہامی نام ہے رسول کریم صلعم بھی یہ لفظ استعمال فرماتے تھے صحیح مسلم میں انسؓ سے روایت ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہ صَلّے اللّٰہ علیہ وسلّم اُنْزِلَتْ عَلَیَّ اٰنِفاً سُوَرۃٌ فَقَرَأَ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الکَوثَرَ (مسلم کتاب الصّلوۃ باب حجتہ من قال اَلْبسملۃُ اٰیۃٌ مِنْ اَوَّلِ کُلِّ سُورَۃٍ سِوَی بَرَاء ۃ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی مجھ پر ایک سورۃ اُتری ہے اور وہ یہ ہے بِسْمِ اللّٰہِ الرّحمٰنَ الرّحیمِ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْکَوثَر الخ اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلعم بھی قرآن کریم کے ان حصّوں کو جن کو آج مسلمان سورتیں کہتے ہیں سورۃ ہی کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے اور یہ بعد کا رکھا ہوا نام نہیں۔
سُورۃ الفاتحۃ
قرآن کریم کے ابتدا میں رکھی ہوئی اس مختصر سی سورۃ کا نام فاتحۃ الکتاب ہے جو مختصر ہو کر سورۃ الفاتحہ بن گیا ہے اردو دان لوگوں نے آگے اسے فارسی اسلوب پر سورۃ فاتحہ بنا دیا ہے اس کا یہ نام ترمذی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مروی ہے۔ عَنْ عُبَادَۃِ بنِ الصَامِتِ عَن النبیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰٓیہِ وسلّم قَالَ لاَصَلوٰۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرأ بِفَاتِحۃِ الکِتَابِ (ترمذی ابواب الصلوۃ ماجاء انہ لا صلوۃ الابفاتحۃ الکتاب) یعنی جب تک فاتحۃ الکتاب یعنی سورۃ فاتحہ نماز میں نہ پڑھی جائے نماز نہیں ہوتی۔ یہی روایت اس صحابی سے انہی الفاظ میں مسلم کتاب الصلوٰۃ باب و جوب قراء ۃ الفاتحہ میں بھی مروی ہے۔
اس سورۃ کے کئی نام ہیں جن میں سے مشہور نام جو بعض قرآن کریم سے اور بعض رسول کریم صلعم سے ثابت ہیں ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
سُورۃ الصّلوۃ
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَسَمْتُ الصَّلوٰۃَ بَیْنِی وَ بَیْنَ عَبْدِی نِصْفَینِ (مسلم باب و جوب قراء ۃ الفاتحتہ فی کل رکعتۃ) یہ روایت جابر ابن عبداللہؓ سے ابن جریر نے بھی نقل کی ہے (مصری جلد اوّل صفحہ ۶۶) میں نے صلوۃ (یعنی سورۃ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف کر کے تقسیم کر لیا ہے یعنی آدھی سورۃ میں صفات الہٰیہ کا ذکر ہے اور آدھی میں بندے کے حق میں دُعا ہے۔
سُورۃ اُلْحَمْد
ابو دائود میں حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے قَالَ رسولُ اللّٰہ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلّمَ اَلْحَمْدُللّٰہِ اُمُّ القُرْاٰنِ وَاُمُّ الْکِتَاِب وَالسَّبْعُ المَثَانِی یعنی سورۃ الحمدللہ کے دوسرے نام ام القرآن اور ام الکتاب اور السبع المثانی بھی ہیں۔ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب فاتحتہ الکتاب)
(۳و۴و۵) امّ القرآن۔ القرآن العظیم اور السبع المثانی یہ تین نام بھی اس سورۃ کے ہیں مسند امام احمد بن حنبل میں ابوہریرۃؓ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھی امر القرآن وھی السبع المثانی وھی القرآن العظیم۔ سورۃ فاتح امّ القرآن بھی ہے اور السبع المثانی بھی ہے اور القرآن العظیم بھی ہے (جلد دوم صفحہ ۴۴۸)
السبع المثانی کا لفظ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے وَلَقَدْ اٰتَیْفَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ (الحجر ع۶) پس یہ نام قرآن کریم کا رکھا ۂوا ہے۔
(۶) اُمُّ الْکِتاب۔ اس نام کا ذکر ابودائود میں حضرت ابوہریرۃؓ کی روایت میں موجود ہے اور اوپر نمبر ۶ میں اس کا ذکر آ چکا ہے۔
(۷)الشفاء ۔ یہ نام حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں۔ قَالَ رسولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وسَلَّمَ فَاتَحِہُ الکِتَابِ شِفَائٌ مِنْ کُلِّ دَائٍ۔ سورۃ فاتحہ ہر بیماری سے شفا دیتی ہے (دارمی) بیہقی فی شعب الایمان میں یہی روایت مروی ہے لیکن من کل داء کی جگہ من کل سم کے الفاظ ہیں یعنی ہر زہر کا علاج ہے۔
(۸) الرُّقْیَہ۔ یعنی دم کرنے والی سورۃ۔ یہ نام بھی حضرت ابو سعید خدری کی روایت مذکورہ مسند احمد بن حنبل و بخاری میں درج ہے (بخاری فضائل القرآن باب فاتحہ الکتاب اور مسند احمد بن حنبل جلد ۳) ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ کسی کو سانپ نے ڈس لیا تھا اس پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اسے شفا ہو گئی اس پر آپؐ نے فرمایا۔ ما یُدْریک انہارُقْیِۃٌ تم کو کس طرح معلوم ہوا کہ یہ دم کرنے والی سورۃ ہے۔ اس صحابی نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ بس میرے دل میں ہی یہ بات آ گئی۔
(۹)سورۃ الکنز بیہقی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اَعْطَا فِی فِیَما مَنُّ بِہٖ عَلَیَّ فَاتِحۃَ الکتابِ وَقَالَ ھِیَ کَنْزٌ مِنْ کُنُوزِ عَرْشِی (فتح البیان صفحہ ۱۹) یعنی رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے جو احسان فرما کر مجھے انعام دیئے ہیں ان میں سے ایک فاتحۃ الکتاب بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے سے فرمایا کہ یہ میرے عرش کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ فاتحہ نام میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ پس یہ نو نام قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ ان کے علاوہ اور نام بھی اس سورۃ کے صحابہ سے مروی ہیں۔ امام سیوطیؒ نے ان کی تعداد پچیس تک لکھی ہے۔ علاّمہ قرطبی تے بارہ نام لکھے ہیں۔ لیکن باقی نامو ںکا ثبوت چونکہ قرآن و حدیث سے مجھے نہیں ملا۔ میں نے انہیں بیان نہیں کیا۔
فاتحہ نام جو اس سورۃ کا بیان ۂوا ہے اس کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ نام پیشگوئی کے طو رپر پہلی کتاب میں بھی آیا ہے۔ چنانچہ مکاشفات باب ۱۰ آیت ۲ میں لکھا ہے۔
’’اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کتاب کھلی ہوتی تھی اور اس نے اپنا داہناں پاووں سمندر پر اور بایاں خشکی پر دھرا اور بڑی آواز سے جیسے ببر گرجتا ہے پُکارا۔ او رجب اس نے پکارا تب بادل نے گرجنے کی اپنی سات آوازیں دیں۔‘‘
اس سورۃ کا نام اور اس کی آیات کی تعداد بطور پیشگوئی مرقوم ہے۔ مترجم نے پیشگوئی کی اصل حقیقت سے ناآشنا ہونے کے باعث عبرانی لفظ فتوحہ کا ترجمہ کھلی ہوئی کتاب کیا ہے حالانکہ فتوحہ یعنی فاتحہ سورۃ کا نام بتایا گیا تھا اس پیشگوئی میں جو گرج کی سات آوازوں کا ذکر ہے ان سے مُراد اس سورۃ کی سات آیات ہیں۔ مسیحی مصنفین بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ مکاشفات کے مذکورہ بالا حوالہ میں مسیح کی آمد ثانی کے متعلق پیشگوئی ہے اور یہ بات بالکل درست ہے۔ پیشگوئی کے الفاظ سے ثابت ہے کہ آنے والے مسیح کے زمانہ تک یہ سورۃ مقفل رہے گی یعنی اس کا تفصیلی مفہوم مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہو گا۔ چنانچہ مکاشفات میں لکھا ہے کہ نبی کو ایک آسمانی آواز نے کہا کہ ’’بادل کی ان سات رعدوں سے جو بات ہوئی اس پر مُہر کر رکھ اور مت لکھ‘‘ (باب ادر س ۴)
میں نے تفصیلاً سورۃ فاتحہ کے نام اس لئے گنوائے ہیں تایہ بتائوں کہ سورتوں کے نام بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکھے ہوئے ہیں اور جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعض ناموں سے ثابت ہے آپؐ نے بھی وہ نام الہاماً اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر رکھے ہیں۔
دوسرے میری غرض ان ناموں کے گنوانے سے یہ ہے کہ ان سے سورۃ فاتحہ کے وسیع مطالب پر روشنی پڑتی ہے یہ تو نام در حقیقت دس مضمون ہیں جو سورۃ فاتحہ بیان کرتی ہے وہ فاتحۃ الکتاب ہے۔ یعنی قرآن کریم میں سب سے پہلے اس کے رکھنے کا حکم ہے دوسرے وہ مطالب قرآنی کے لیے بمنزلہ ایک کلید کے ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم کے مطالب کھلتے ہیں۔ پھر سورۃ فاتحہ سورۃ الحمد ہے یعنی اس سورۃ نے انسان اور بندہ کے تعلقات پر اور انسانی پیدائش پر اس رنگ میں روشنی ڈالی ہے کہ اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انسانی پیدائش اعلیٰ ترقیات کے لئے ہے اور یہ کہ خدا تعالیٰ کا تعلق بندوں سے رحم اور فضل کی بنیادوں پر قائم ہے۔ پھر وہ الصّلوٰۃ ہے یعنی کامل دعا اس میں سکھائی گئی ہے جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی اور وہ امّ الکتاب ہے اس میں وہ تمام علوم جن کے ذریعہ سے دوسروں کو خطاب کیا جاتا ہے بیان کروئے گئے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کتاب کریم یعنی قرآن مجید کے لئے بمنزلہ ماں کے ہے یعنی قرآن کریم کے نزول کا موجب وہ دعائیں ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں اور جو درد مند دلوں سے اُٹھ کر عرض عظیم سے قرآن کریم کو لائی ہیں اور وہ امّ القرآن ہے اس میں وہ تمام علوم جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بیان کر دیئے گئے ہیں اور وہ السبع المثانی ہے یعنی گو صرف سات آیتیں اس میں ہیں لیکن ہر ضرورت ان سے پُوری ہو جاتی ہے۔ روحانیت کا کوئی سوال ہو کسی نہ کسی آیت سے اس پر روشنی پائی جائیگی گویا علمی سوالوں کے حل کرتے وقت بار بار حوالہ کے طو رپر اس کی سات آیتیں دُہرائی جائیں گی اور اس لئے بھی وہ مثافی ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں اسے پڑھا جاتا ہے۔
وہ قرآن عظیم بھی ہے یعنی باوجود ام الکتاب اور امّ القرآن کہلانے کے وہ قرآن کریم کا حصہ بھی ہے اور اس سے الگ نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے قرآن عظیم سورۃ فاتحہ کو انہی معنوں سے کہا گیا ہے جس طرح ہم کسی سے کہتے ہیں قرآن سُنائو اور مراد اس سے ایک سورۃ ایک رکوع ہوتا ہے۔
سورۃ فاتحہ شفا ہے کہ اس میں تمام ان وساوس کا رد ہے جو انسان کے دل میں دین کے بارہ میں پیدا ہوتے ہیں او روہ رُقْیَۃ ہے کہ علاوہ دم کے طور پر استعمال ہونے کے اس کی تلاوت شیطان اور اس کی ذریت کے حملوں سے انسان کو کو بچاتی ہے اور دل میں ایسی قوت پیدا کرتی ہے کہ شیطان کے حملے بے ضرر ہو جاتے ہیں اور وہ کنز بھی ہے کہ علوم و فنون کے اس میں دریا بہتے ہیں۔ اُردو میں دریا کوزے میں بند کرنے کا ایک محاورہ ہے اس کا صحیح مفہوم شاید سورۃ فاتحہ کے سوا اور کسی چیز سے ادا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس سورۃ کے بارہ میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سمندر کوزہ میںبند کر دیا گیا ہے۔
غرض اسماء کے گنانے سے میرا منشاء پڑھنے والے کے ذہن کو ان وسیع مطالب کی طرف توجہ دلانا تھا جو رسول کریم صلعم نے مختلف ناموں کے ذریعہ سے اس سورۃ کے بیان فرمائے ہیں ورنہ حقیقت سے خالی نام کسی سورۃ کے نو چھوڑ سو بھی ہوں تو ان سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا اور رسول کریم صلعم ایسا بے فائدہ فعل ہر گز نہیں کر سکتے تھے۔ پس سوچنے والوں کے لئے ان ناموں میں ایک اعلیٰ روشنی اور کامل ہدایت ہے۔
فضائل سُورۃ فاتحہ
اس سورۃ کے بہت سے فضائل حدیثوں میں بیان ہیں۔ جن میں سے بعض کی طرف تو میں اس کے ناموں میں اشارہ کر چکا ہوں اور بعض جو زیادہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ان کا ذکر اب کرتا ہوں۔ نسائی نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلّم مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی اْلِانْجِیْلِ مِثْلَ اُمِّ الْقُرآنِ وَھِیَ الْسَّبْعُ المَثَانِی وَھِیَ مَقْسْومَۃ بَیْنیِ وَبَیْنَ عَبْدِی وَلِعَبْدِی مَاسَأَلَ (کتاب الافتتاح فضل فاتحۃ الکتاب) یعنی رسول اللہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے نہ توراۃ میں نہ انجیل میں کوئی ایسی سورہ اُتاری ہے جیسے کہ امّ القرآن (یعنی سورۃ فاتحہ) ہے اور اس کا ایک نام السبع المثانی بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارہ میں مجھے فرمایا ہے کہ وہ میرے اور میرے بندے کے درمیان بحصّہ مساوی بانٹ دی گئی ہے اور اس کے ذریعہ سے میرے بندے جو دُعا مجھ سے کریں گے وہ ضرور قبول کی جائے گی۔ یہ فضیلت نہایت اہم ہے کیونکہ اس میں ایک عملی گر بتایا گیا ہے جو انسان کے لئے دین و دُنیا میں مفید ہے یعنی جو دُعا اس کے ذریعہ سے کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ذریعہ دُعا کو قبول کر وا دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ ذریعہ کیا ہے؟ جیسا کہ اس سورۃ کی عبارت سے ظاہر ہے وہ ذریعہ اوّل بِسْمِ اللّٰہِ دوم اَلْحَمْدُللّٰہِ سوم الرَّحْمٰن۔ چہارم الرَّحْیِم او رپنجم مٰلکِ یَوْمِ الدِّیْن اور ششم ایَّاکَ نَعْبُدُ اور ہفتم ایّاک نَسْتَعِیْن ہے گویا جس طرح سات آیتوں کی یہ سورۃ ہے اسی طرح سات اصول دُعا کی قبولیت کے لیے اس میں بیان کئے گئے ہیں بِسْمِ اللّٰہ یہ بتایا گیا ہے کہ جس مقصد کے لئے دُعا کی جائے وہ نیک ہو یہ نہیں کہ جو چوری کے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے تو وہ بھی قبول کر لی جائے گی۔ خدا کا نام لیکر اور اس کی استعانت طلب کر کے جو دُعا کی جائے گی لازماً ایسے ہی کام کے متعلق ہو گی جس میں اللہ کی ذات بندہ کے ساتھ شریک ہو سکتی ہو۔ دیکھو ان مختصر الفاظ میں دُعا کے حلقہ کو کس طرح واضح کر دیا گیا ہے۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے۔ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی دُعائیں کرتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ ہماری دُعاقبول نہیں ہوئی۔ اسی طرح ناجائز مطالب کے لئے دُعائیں کرتے ہیںاور پھر شکایت کرتے ہیں کہ دُعا قبول نہیں ہوئی۔ بعض لوگوں نے جھوٹا جامہ زہد و اتقا کا پہن رکھا ہے اور ناجائر امور کے لئے تعویذ دیتے اور دُعائیں کرتے ہیں حالانکہ یہ سب دُعائیں اور تعویذ عاملوں کے مُنہ پر مارے جاتے ہیں۔ دوسرا اصلی اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن میں بتایا ہے یعنی دُعا ایسی ہو کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے دوسرے بندوں کا بلکہ سب دُنیا کا فائدہ ہو یا کم سے کم ان کا نقصان نہ ہو اور اس کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کے حمد ثابت ہوتی ہو اور اس پر کسی قسم کا الزام نہ آتا ہو۔ تیسرے یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو جنبش دی گئی ہو اور اس دُعا کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ظاہر ہوتی ہو۔ چوتھے یہ کہ اس دُعا کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے بھی ہو یعنی وہ نیکی کی ایک ایسی بنیاد ڈالتی ہو جس کا اثر دُنیا پر ایک لمبے عرصہ تک رہے اور جس کی وجہ سے نیک اور شریف لوگ متواتر فوائد حاصل کریں یا کم سے کم ان کے راستہ میں کوئی روک نہ پیدا ہوتی ہو۔ پانچویں یہ کہ دُعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا بھی خیال رکھا گیا ہو یعنی دُعا کرتے وقت ان ظاہری ذرائع کو نظر انداز نہ کر دیا گیا ہو جو صحیح نتائج پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کئے ہیں کیونکہ وہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے طریق کو چھوڑ کر اس سے مدد مانگنا ایک غیر معقول بات ہے گویا جہاں تک اسباب ظاہری کا تعلق ہے بشرطیکہ وہ موجود ہو ںیا ان کا مہیّا کرنا دُعا کرنے والے کے لئے ممکن ہو ان کا استعمال بھی دُعا کے وقت ضروری ہے ہاں اگر وہ موجود نہ ہو ںتو پھر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت اسباب سے بالا ہو کر ظاہر ہوتی ہے ایک اشارہ اس آیت میں یہ بھی کیا گیا ہے کہ دُعا کرنے والا دوسروں سے بخشش کا معاملہ کرتا ہو اور اپنے حقوق کے طلب کرنے میں سختی سے کام نہ لیتا ہو۔ چھٹا اصل یہ بتایا ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق ہو اور اس سے کامل اخلاص حاصل ہو اور وہ شرک اور مشرکانہ خیالات سے کلی طو رپر پاک ہو۔ اور ساتویں بات یہ بتائی ہے کہ وہ خدا کا ہی ہو چکا ہو اور اس کا کامل توکل اسے حاصل ہو اور غیر اللہ سے اس کی نظر بالکل ہٹ جائے اور وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ خواہ کچھ ہو جائے اور کوئی بھی تکلیف ہو۔ مانگوں گا تو خدا تعالیٰ ہی سے مانگوں گا۔
یہ سات امور وہ ہیں کہ جب انسان ان پر قائم ہو جائے تو وہ لعبدی ماسأل کا مصداق ہو جاتا ہے اور حق بات یہ ہے کہ اس قسم کی دُعا کا کامل نمونہ رسول کریم صلعم یا آپؐ کے کامل اتباع نے ہی دکھایا ہے اور انہی کے ذریعہ سے دُعائوں کی قبولیت کے ایسے نشان دُنیا نے دیکھے ہیں جن سے اندھوں کو آنکھیں اور بہروں کو کان اور گونگوں کو زبان عطا ہوئی ہے مگر اتباع رسول کا مقام بھی کسی کے لئے بند نہیں جو چاہے اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کر سکتا ہے اور اس مقام کو حاصل کر سکتا ہے۔
بخاریؒ نے سعید ابن المعلّی سے ایک روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ آئو۔ میں تمہیں قرآن کریم کی سب سے بڑی سورۃ سکھائوں اور پھر سورۃ فاتحہ سکھائی (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فاتحہ الکتاب) آپؐ نے جو اسے اعظم السُّوَر فرمایا تو اس کے یہی معنی ہیں کہ اس کے معانی اور مطالب لمبی لمبی سورتوں سے بھی زیادہ ہیں اور کیوں نہ ہو کہ یہ سارے قرآن کریم کے لئے بطور متن کے ہے۔
میں اس جگہ ایک اپنا مشاہدہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ میں چھوٹا ہی تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا۔ میں مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں اور سامنے میرے ایک وسیع میدان ہے۔ اس میدان میں اس طرح کی ایک آوار پیدا ہوئی جیسے برتن کو ٹھکورنے سے پیدا ہوتی ہے یہ آواز فضا میں پھیلتی گئی اور یُوں معلوم ہوا کہ گویا وہ سب فضاء میں پھیل گئی ہے اس کے بعد اس آواز کا درمیانی حصہ متمثل ہونے لگا او راس میں ایک چوکھٹا ظاہر ہونا شروع ہوا جیسے تصویروں کے چوکھٹے ہوتے ہیں پھر اس چوکھٹے میں کچھ ہلکے سے رنگ پیدا ہونے لگے آخر وہ رنگ روشن ہو کر ایک تصویر بن گئے اور اس تصویر میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ایک زندہ وجود بن گئی اور میں نے خیال کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ مجھ سے مخاطب ہوا اور اس نے مجھے کہا کہ کیا میں تم کو سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاووں تو میں نے کہا کہ ہاں آپ مجھے ضرور اس کی تفسیر سکھائیں پھر اس فرشتہ نے مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کی یہاں تک کہ وہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ایَّاکَ نَسْتَعِیْن تک پہنچا۔ یہاں پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ اس وقت تک جس قدر تفاسیر لکھی جا چکی ہیں وہ اس آیت تک ہیں۔ اس کے بعد کی آیات کی کوئی تفسیر اب تک نہیں لکھی گئی۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا۔ کیا میں اس کے بعد کی آیات کی تفسیر بھی تم کو سکھاووں اور میں نے کہا ہاںجس پر فرشتہ نے مجھے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمْ اور اس کے بعد کی آیات کی تفسیر سکھانی شروع کی اور جب وہ ختم کر چکا تو میری آنکھ کھل گئی اور جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ اس تفسیر کی ایک دو باتیں مجھے یاد تھیں۔ لیکن معاً بعد میں سو گیا اور جب اُٹھا تو تفسیر کا کوئی حصّہ بھی یاد نہ تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے ایک مجلس میں اس سورۃ پر کچھ بولنا پڑا اور میں نے دیکھا کہ اس کے نوے نئے مطالب میرے ذہن میں نازل ہو رہے ہیں اور میں سمجھ گیا کہ فرشتہ کے تفسیر سکھانے کا یہی مطلب تھا۔ چنانچہ اس وقت سے لیکر آج تک ہمیشہ اس سورۃ کے نئے نئے مطالب مجھے سکھائے جاتے ہیں۔ جن میں سے سینکڑوں میں مختلف کتابوں اور تقریریوں میں بیان کر چکا ہو ںاو راس کے باوجود خزانہ خالی نہیں ہوا۔ چنانچہ دُعا کے متعلق جوگر اس سورۃ میں بیان ہوئے ہیں اور جن کا ذکر میں اُوپر کر آیا ہوں وہ بھی انہی تجارت میں سے ہیں۔ کیونکہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھتے وقت میرے دل میں خیال گذرا کہ اس موقعہ پر بھی اللہ تعالیٰ کوئی نئے مطالب اس سورۃ کے کھولے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سات اصول کا انکشاف ہوا جو دُعا کے متعلق اس سورۃ میں بیان ہیں۔ فالحمدللّٰہِ علیٰ ذٰلک۔ اور جو کچھ لکھا گیا ہے محض خلاصہ کے طور پر لکھا گیا ہے ورنہ ان اصول میں بہت وسیع مطالب پوشیدہ ہیں۔ ذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰہ یُؤْتِیْمَنِْ یَّشَائِ۔
سُورۃ فاتحہ کا نزول
اس سورۃ کے نزول کے بارہ میں ابن عباسؓ قتادہ اور ابو العالیہ کا بیان ہے کہ یہ مکی سورۃ ہے اور ابوہریرۃؓ اور مجاہد اور اور عطاء اور زہری کا قول ہے کہ یہ مدنی ہے لیکن قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہو چکی تھی۔ کیونکہ اس کا ذکر سورہ الحجر میں جو بالا جماع مکی سورۃ ہے ان الفاظ میں آ چکا ہے۔ وَلَقَدْ آیَتَنَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَاِنِیْ وَ الْقُرْآنِ الْعَظِیْم (الحجر ع ۶) (قرطبی) بعض آئمہ کا خیال ہے کہ دو دفعہ یہ سورۃ نازل ہوئی ہے ایک دفعہ مکہ میں اور دوسری دفعہ مدینہ میں پس یہ مکی بھی ہے او رمدنی بھی (قرطبی میں بحوالہ ثعلبی یہ روایت لکھی ہے مگر ثعلبی کی تفسیر میں جو مطبوعہ الجزائر ہے یہ رائے درج نہیں۔ شائد ثعلبی کی کسی اور کتاب سے یہ رائے قرطبی نے درج کی ہو) میرے نزدیک یہی خیال درست ہے۔ اس کا مکی ہونا یقینی ہے اور اس کا مدنی ہونا کبھی معتبر رواۃ سے ثابت ہے۔ پس حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دس دفعہ نازل ہوئی ہے اور جب دوسرے نزول کا رسول کریم صلعم نے کسی مجلس میں ذکر کیا تو بعض لوگوں نے سمجھا کہ یہ سورۃ نازل ہی مدینہ میں ہوئی تھی۔ حالانکہ آپؐ کا مقصد اس سے لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ یہ سورۃ مدینہ میں بھی نازل ہوئی ہے۔ اس کے مکی ہونے کا یہ ثبوت بھی ہے کہ تمام روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ ہمیشہ سے نماز میں پڑھی جاتی رہی ہے اور نماز باجماعت مکہ میں ہی پڑھی جانی شروع ہو گئی تھی بلکہ شروع زمانہ سے ہی شروع ہو گئی تھی۔
سُورۃ فاتحہ قرآن کا حصّہ ہے
بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کا حصّہ نہیں ہے اور اس خیال کی دلیل یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے اپنے نسخہ میں سورۃ فاتحہ کو نہیں لکھا تھا مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے سورۃ فاتحہ اور معوذ تین یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس تینوں سورتیں قرآن کریم میں نہیں لکھی تھیں او ران کا یہ خیال تھا کہ سورۃ فاتحہ ہر سورۃ کے ساتھ چونکہ نماز میں پڑھی جاتی ہے اس لئے یہ ہر سورۃ کی تمہید ہے اور غالباً معوذ تین کے بارہ میں بھی ان کا یہ خیال تھا کہ بوجہ اس کے کہ ان کا مضمون مختلف نقصانات اور شرور سے بچنے کی دُعا پر مشتمل ہے اس لئے وہ گویا باوجود قرآن عظیم کا حصّہ ہونے کے متن قرآن سے باہر ہیں اور وہ غالباً انہیں بھی ہر سورۃ سے متعلق سمجھتے تھے۔ سورۃ فاتحہ کے بارہ میں تو ان کے اس خیال کا ذکر احادیث سے ثابت ہے چنانچہ ابوبکر الانباری نے عن الاعمش عن ابراھیم ایک حدیث نقل کی ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے نسخۂ قرآن میں سورۃ فاتحہ کیوں نہیں لکھی تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ لَوْکَتَبَتُہَا لَکَتبتُہَا مَعَ کُلِّ سُورَۃٍ۔ یعنی اگر میں سورۃَ بقرہ سے پہلے اسے لکھتا تو سب سورتوں کے ساتھ لکھتا یعنی یہ سورۃ ہر سورۃ سے متعلّق ہے اس لئے میں نے اسے حذف کر دیا ہے تایہ غلط فہمی نہ ہو کہ صرف سورۃ بقرہ کے ساتھ اس کا تعلّق ہے (قرطبی) معلوم ہوتا ہے یہی استدلال معوذ تین کے بارہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کیا ہے ورنہ وہ سورہ جسے رسول کریم صلعم نے صاف طو رپر قرآن کریم کی سورتوں میں سے سب سے بڑی قرار دیا ہے (بخاری عن سعید بن المعلّی) اسے کس طرح قرآن کریم سے خارج قرار دے سکتے تھے۔
سورۃ افتحہ ہر نماز میں اور ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے سوائے اس کے کہ مقتدی کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے امام رکوع میں جا چکا ہو اس صورت میں اسے تکبیر کہہ کر بغیر کچھ پڑھے رکوع میں چلے جانا چاہیئے۔ امام کی قراء ت ہی اس کی قراء ت سمجھ لی جائے گی۔ سورۃ فاتحہ کے نماز میں پڑھنے کی تاکید مختلف احادیث میں آئی ہے۔ مسلم میں آتا ہے حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے کہ قَالَ (رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّے اللّٰہ علیہ وسلّم) مَنْ صَلّٰی صَلوٰۃَّ لَمْ یَقْرَأَ فِیْہَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ فَھِیَ خِداجٌ (مسلم کتاب الصلوۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃٍ) یعنی جس نے نماز ادا کی مگر اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے اور بخاری مسلم میں عبادۃ بن الصامت کی روایت ہے کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ لاَصَلوٰۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتَحِۃِ الکِتَابِ (بخاری کتاب الصلوۃ باب وجوب قراء ۃ الامام و الماموم فی الصلوۃ کلہا نیز مسلم باب و جوب قراۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃٍ) یعنی جس نے فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی اور صحیح بن خزیمہ اور ابن حباب میں ابوہریرۃؓ سے بھی ایسی ہی روایت آتی ہے (قرطبی) نیز ابو دائود میں حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ اَمَرَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ اُنادِی اَنَّہٗ لَاصَلوٰۃَ اِلَّا بِقِراَء ۃِ فَاتِحَۃِ الکِتَابِ نَمَازَ ادَ (کتاب الصلوۃ باب من ترک القراء ۃ فی صلوتہ) یعنی رسول کریم صلعم نے مجھے حکم دیا کہ میں لوگوں میں اعلان کر دوں کہ کوئی نماز بغیر اس کے نہیں ہوسکتی کہ سورۃ فاتحہ او راس کے ساتھ کچھ اور حصہ قرآن کریم کا پڑھا جائے۔
صحابہ میں سے حضرت عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، ابوہریرۃؓ، ابی بن کعبؓ، ابو ایوب انصاریؓ، عبداللہ بن عمر بن العاصؓ، عبادۃ بن الصامت، ابو سعید ضدریؓ، عثمان بن ابی العاصؓ خوات بن جبیر اور عبداللہ بن عمر سے یہی عقیدہ احادیث میں مذکور ہے (قرطبی)
ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت آتی ہے کہ لَاصَلوٰ ۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ بِالْحَمْدِ لِلّٰہِ وَسُوَرۃٌ فِی فَرِیْضَۃٍ اَوْغَیْرِھَا یعنی جو شحص ہر رکعت میں الحمدللہ اور کوئی اور سورۃ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور یہ حکم فرض نماز اور غیر فرض نماز سب کے متعلق ہے (ابن ماجہ کو محققین نے ضعیف کہا ہے مگر جبکہ صحابہ کا تعامل یہی ہے کہ اس کے مضمون کی صحت میں کلام نہیں ہو سکتا۔ ابو دائود کی ایک اور روایت بھی اس کی تائید میں ہے اور وہ عبادۃ بن الصامت سے مروی ہے۔ نافع بن محمود بن الربیع انصاری کہتے ہیں کہ ایک جگہ حضرت عبادۃ امام الصلوٰۃ تھے ایک دفعہ وہ دیر سے پہنچے اور ابو نعیم نے نماز شروع کر ا دی۔ نماز شروع ہو چکی تھی کہ عبادۃ بھی آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا ہم صفوں میں کھڑے ہو گئے۔ ابو نعیم نے جب سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کی۔ تو میں نے سنا کہ عبادۃ بھی آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھتے رہے۔ جب نماز ختم ہوئی۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ جبکہ ابو نعیم بالج ہر نماز پڑھا رہے تھے آپ بھی ساتھ ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھتے جا رہے تھے یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہے کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ رسول کریم صلعم نے ایک دفعہ ہمیں نماز پڑھائی اور سلام پھیر کر جب بیٹھے تو پوچھا کہ جب میں بلند آواز سے نماز میں تلاوت کرتا ہوں تو کیا تم بھی منہ میں پڑھتے رہتے ہو۔ بعض نے کہا ہاں۔ بعض نے کہا نہیں اس پر آپؐ نے فرمایا لَاتَقْرَؤْا بِشیًٔ مِنَ القُرآنِ اِذَا جَھَرْتُ اِلَّابِاُمِّ القُرآنِ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب من ترک القرأۃ فی صلوتہ) جب میں بلند آواز سے قرآن کریم نماز میں پڑھوں تو سوائے سورۃ فاتحہ کے اور کسی سورۃ کی تلاوت تم ساتھ ساتھ نہ کرو۔ اس بارہ میں اور بہت سی احادیث بھی ہیں۔ مثلاً وار قطنی نے یزید بن شریک سے روایت کی ہے اور اسکے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے کہ سَأَلْتُ عُمَرَ عَنْ الْقِرَائَ ۃِ خَلْفَ الْاِمَاِ فَاَمًر فِی اَنْ اَقْرَأَ قُلْتُ وَ اِنْ کُنْتَ اَنْتَ قَالَ وَاِنْ کُنْتُ اَنَا قُلْتُ وَاِنْ جَرْتَ قَالَ وَاِنْ جَرْتُ۔ یعنی میں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ کیا میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھا کروں انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا کیا جب آپ نماز پڑھا رہے ہوں تب بھی۔ انہوں نے کہا خواہ میں نماز پڑھا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ کیا جب بلند آواز سے پڑھا رہے ہوں۔ تب بھی انہوں نے کہا ہاں تب بھی۔ (دار قطی جلد اوّل کتاب الصلوۃ باب و جوب قراء ۃ ام لکتاب فی الصلوۃ) حضرت مسیح موعودؑ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی چاہیے خواہ وہ جہرًا نماز پڑھا رہا ہو سوائے اس کے کہ مقتدی رکوع میں آ کر ملے۔ اس صورت میں وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں شامل ہو جائے اور امام کی قراء ت اس کی قراء ت سمجھی جائے گی۔ یہ ایک استثناء ہے استثناء سے قانون نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح یہ بھی استثناء ہے کہ کسی شخص کو سورۃ فاتحہ نہ آتی ہو۔ مثلاً نو مسلم ہے جس نے ابھی نماز نہیں سیکھی۔ یا بچہ ہو جسے ابھی قرآن نہیں آتا تو اس کی نماز فقط تسبیح و تکبیر سے ہو جائے گی خواہ وہ قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی نہ پڑھے سورۃ فاتحہ بھی نہ پڑھے۔
سُورۃ فاتحہ کے مضامین کا خلاصہ
سورۃ فاتحہ مضامین جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے قرآن کریم کے لئے بطور دیباچہ کے ہیں۔ قرآن کریم کے مضامین کو مختصر طو رپر اس میں بیان کر دیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والے کو شروع میں ہی قرآنی مطالب پر اجمالاً آگاہی ہو جائے۔ پہلے بسم اللہ سے شروع کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ایک مسلمان (۱) خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے (بسم اللہ) (۲) وہ اس امر پر بھی یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ فلسفیوں کے عقیدہ کے مطابق صرف دُنیا کے علّتِ اولیٰ کا کام نہیں دے رہا بلکہ دُنیا کے کام اس کے حکم اور اشارہ سے چل رہے ہیں اس لئے اس کی مدد اور اعانت بندہ کے لئے بہت کچھ کار آمد ہو سکتی ہے (بسم اللہ) (۳) وہ صرف ایک اندرونی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ مستقل وجود رکھتا ہے اور اس کا مستقل نام ہے اور مختلف صفات سے وہ متصف ہے (اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم) (۴) وہ منبع ہے سب ترقیات کا اور تمام سامان جن سے کام لے کر دُنیا ترقی کر سکتی ہے اسی کے قبضہ میں ہیں (الرّحمٰن) (۵) اس نے انسان کو اعلیٰ ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے۔ جب وہ اللہ کے پیدا کردہ سامانوں سے صحیح طو رپر کام لیتا ہے تو اس کے کام کے اعلیٰ نتائج پیدا ہوتے ہیں جو اسے مزید انعامات کے مستحق بنا دیتے ہیں اور بناتے چلے جاتے ہیں (الرّحیم) (۶) اس کے سب کاموں میں جامعیت اور کمال پایا جاتا ہے اور ہر حُسن سے وہ متصف ہے اور سب تعریفوں کا مالک ہے کیونکہ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے سب اسی کا پیدا کردہ ہے (اَلْحَمُدلِلّٰہِ رَبٌ العٰلمیْنَ) (۷) کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی نہیں جس کی ابتدا اور انتہاء یکساں ہو بلکہ اس کے سوا جس قدر اشیاء ہیں ادنیٰ حالت سے شروع ہوئی ہیں اور ترقی کرتے کرتے کمال کو پہنچی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سب اشیاء کا خالق ہے او رکوئی چیز آپ ہی آپ نہیں (ربّ العٰلمین) (۸) یہ دنیا ایک متنوع دنیا ہے یعنی اس کی ہزاروں شاخیں ہیں اور ہزاروں قسم کے مزاج ہیں پس کسی چیز کے سمجھنے کے لیے اس کی جنس پر غور کرنا چاہیئے۔ نہ کہ دوسری جنس کی اشیاء پر خدا تعالیٰ کا معاملہ ہر جنس سے اس کی حیثیت کے مطابق ہے۔ پس دنیا میں خدا تعالیٰ کے سلوک میں اگر اختلاف نظر آئے تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے۔ وہ اختلاف حالات کے اختلاف کی وجہ سے ہے نہ کہ ظلم کی وجہ سے یا عدم توجہ کی وجہ سے (رَبّ العٰالَمین)(۹) جس طرح اللہ تعالیٰ ہر کام لینے والی شے کا خالق نظر اتا ہے وہ ہر سامان کا بھی خالق نظر آتا ہے پس ہر چیز ہر وقت اس کی مدد کی محتاج ہے۔ (اَلرَّحْمٰن) (۱۰) پھر جس طرح خدا تعالیٰ اشیاء اور ان سامانو ںکا خالق ہے جن سے ان اشیاء نے فائدہ اُٹھانا ہے اسی طرح وہ ان نتائج پربھی تصّرف رکھتا ہے جو سامانوں کے استعمال کرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں مثلاً انسان کو بھی اس نے پیدا کیا ہے اور اس کھانے کو بھی اس نے پیدا کیا ہے جو اس کی زندگی کے لئے ضروری ہے اور پھر وہ اچھا یا بُرا خون جو اس کھانے کے استعمال سے پیدا ہو گا وہ بھی اسی کے حکم اور امر سے ہی ہو گا (اَلْرَّحِیم) (۱۱) پھر اس نے جزا سزا کا بھی ایک طریق مقرر کیا ہے یعنی ہر چیز اپنے حالات کے مطابق اپنے کامو ںکے اچھے یا بُرے نتائج کا مجومعی نتیجہ ایک دن دیکھ لیتی ہے یعنی کاموں کے نتیجے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک درمیانی کہ ہر کام کا نتیجہ کچھ نہ کچھ نکلتا آتا ہے او رایک آخری کہ سب کاموں کا مجموعی نتیجہ نکلتا ہے سو اللہ تعالیٰ نے صرف یہی انتظام نہیں کیا کہ ہر کام کا نتیجہ نکلے جس کی طرف رحیم کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے بلکہ اس نے یہ تدبیر بھی اختیار کی ہے کہ سب کاموں کا ایک مجموعی نتیجہ نکلے جس کے سبب سے وہ مٰلِکِ یَوْمِ الذِّیْن کہلاتا ہے۔ (۱۲) پس ایسی ہی ہستی اس امر کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسی سے محبت کا تعلق رکھا جائے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) (۱۳) پھر بتایا ہے کہ انسانی ترقی کا انحصار دو امر پر ہے۔ اعمالِ بدن اور اعمالِ قلب پر (اعمالِ قلب سے مُراد فکر خیال عقیدہ ارادہ وغیرہ ہیں) ان دونوں کی اصلاح ضروری ہے اور یہ اصلاح بغیر اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے نہیں ہو سکتی (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتِعِیْنُ)(۱۴) پھر یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ملنے کی اور ان کی اصلاح کی خود خواہش رکھتا ہے صرف اس امر کی ضرورت ہے کہ بندہ اس کی طرف جھکے اور اس کی ملاقات کے لیے اسی سے التجا کرے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم)(۱۵) پھر یہ بتایا ہے کہ بظاہر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے بہت سے راستے نظر آتے ہیں لیکن صرف راستہ کا معلوم ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ (الف) وہ راستہ سب سے چھوٹا ہوتا انسان جدوجہد کے دوران میں ہی ہلاک نہ ہو جائے (صِرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ) (ب) وہ راستہ دیکھا بھالا ہو اور اس پر چل کر لوگوں نے خدا کو پایا ہو تاکہ درمیانی خطرات اور ان کے علاج کا بندہ کو پہلے سے علم ہو جائے تادل مطمئن رہے اور مایوسی پیدا نہ ہو اور اچھے ساتھیوں کی صحبت نصیب رہے پس ایسا راستہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا چاہیئے (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ)(۱۶) ترقیات کے ملنے کی صورت میں دل میں کبر اور خود پسندی کے خیالات پیدا ہو کر انسان کو تباہ کر دیتے ہیں پس ان سے بچتے رہنا چاہیئے۔ اور ترقیات کو ظلم اور فساد کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیئے بلکہ امن اور خدمت کا ذریعہ بنانا چاہیئے۔ اور اللہ تعالیٰ ہے اس غرض کے لئے دُعائیں کرتے رہنا چاہیئے (غَیْرِ الْمّغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ)(۱۷) جس طرح انسان ترقیات کو ظلم کا ذریعہ بنا لیتا ہے کبھی وہ ادنیٰ اشیاء کو رحم اور ناجائز محبت کی وجہ سے اونچا درجہ بھی دے دیتا ہے۔ اس سے بھی بچنا چاہیئے اور اس نیکی کے حُصول کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہنا چاہیئے (وَلَا الضّآلِّیْن)
۲؎ حل لغات
(باء) بسم اللہ کی ابتداء ہیں جو باء آوی ہے وہ حروف ہجاء کا حرف نہیں بلکہ بامعنی حرف ہے عربی زبان میں حروف سے ہجاء کا کام لینے کے علاوہ معنوں کا کام بھی لیا جاتا ہے اور بعض حروف ہجاء کی علامت ہونے کے علاوہ بعض معنے بھی دیتے ہیں۔ ان حروف میں سے باء بھی ہے۔ یہ حروف ہجاء کا دوسرا حرف بھی ہے اور بامعنی حرفوں میں سے بھی ہے اس کے معنی معیت اور استعانت کے ہیں اور اس کا لفظی ترجمہ سے اور ساتھ ہے مگر چونکہ ان لفظوں سے معنی واضح نہیں ہوتے اس لئے لیکر ترجمہ کیا گیا ہے جو دونوں معنوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پکڑتے ہوئے اور اس سے مدد مانگنے ہوئے میں یہ کلام پڑھنے لگا ہوں۔
باء حروف جارہ میں سے ہے یعنی جس اسم پر یہ حرف آتے ہیں اس کے آخری حرف پر زیریا زیر کی علامت آتی ہے۔ عربی قاعدہ کی رُوسے ان حروف سے پہلے اکثر ایک متعلق مخدوف ہوتا ہے جو عبارت کے مفہوم کے مطابق نکال لیا جاتا ہے۔ اس آیت سے پہلے اِقرأْ یا اِشرَعْ بعض نے محذوف نکالا ہے یعنی پڑھ یا شروع کر۔ اور اس کی وجہ سورۃ علق کی یہ آیت بیان کی ہے۔ اَقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّک الَّذِیْ خَلَق۔ پس جو لفظ وہاں بیان ۂوا ہے وہی یا اس کے ہم معنی لفظ یہاں نکالا جائے گا۔ زمخشری نے اِقْرَاْ یا اِشْرَعْ کی جگہ جو امر کے صیفے ہیں اِقْرَاْ یا اِشْرَعْ جو مضارع کے صیغے ہیں محذوف نکالے ہیں یعنی میں پڑھتا ہوں یا شروع کرتا ہوں۔ اور اس کی جگہ بِسْمِ اللّٰہ کے بعد تجویز کی ہے یعنی میں پڑھتا ہوں اللہ کا نام لیکر کی بجائے میں اللہ کا نام لے کر پڑھتا ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں اللہ کے نام پر زور پیدا ہوتا ہے لیکن اگر پڑھتا ہوں پہلے رکھا جائے تو پڑھتا ہوں پر زور آ جاتا ہے۔ زمخشری کے یہ معنی لطیف ہیں میں نے ترجمہ میں انہی معنوں کو اختیار کیا ہے۔ زمخشری نے سورۃ علق میں جو اِقْرأْ پہلے آتا ہے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس موقعہ پر اِقْرأْ پر زور دینا منظور تھا کیونکہ رسول کریم صلعم پڑھنے سے ہچکچاتے تھے (بخاری) لیکن بِسْمِ اللّٰہ میں پڑھنے پر زور دینا مقصود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پڑھنے پر زور دینا مقصود ہے۔ اس لئے اس جگہ پڑھنے کا لفظ بعد میں مخدوف قرار دینا زیادہ مناسب ہے۔ زمخشری کی یہ تشریح بھی نہایت لطیف ہے۔ اور میں نے جو بِسْمِ اللّٰہ کے دہرانے کے دلائل بیان کئے ہیں۔ ان کے بالکل مطابق آتی ہے۔
(اسم) بسمن باء اور اسم سے مرکب ہے اسم کا ہمزہ گر کر بسم ہو گیا۔ عربی زبان میں بعض ہمارے بولے نہیں جاتے انہیں وصلی ہمزے کہتے ہیں۔ لیکن بسم اللہ میں ہمزہ لکھا بھی نہیں گیا۔ اس کی وجہ علمائِ صرف ونحو کثرت استعمال بتاتے ہیں۔ نسائی اور اخفش کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں سے پہلے جہاں بھی اسم کا لفظ آئے گا اس کا ہمزہ لکھا نہیں جائے گا لیکن فراّء کا خیال ہے کہ اس جگہ حذف چونکہ نقلاً ثابت ہے۔ ہم بسم اللہ میں تو حذف کر دیں گے۔ لیکن دوسرے صفات آلٰہیہ سے پہلے چونکہ ایسا کرنا نقلاً ثابت نہیں۔ ہم اس کے ہمزہ کو لکھنے میں ترک نہیں کریں گے (بحر محیط ۱۶؎)
اسم کے معنی صفت یا نام کے ہوتے ہیں (قاموس) اور یہ اس مر سے نہیں بلکہ وس م یا س م و سے بنا ہے وائو الف سے بدل گئی ہے جنہوں نے اسے وس م سے بنا ۂو اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی نشان اور علامت کے قرار رویئے کیونکہ وسم کے معنی نشان اور علامت کے ہوتے ہیں مگر جنہوں نے اسے س م و سے بنا ہوا اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی اونچا ہونے کے کئے ہیں۔ (اقرب)
(اللّٰہ)اللہ اس ذات پاک کا نام ہے جو ازلی ابدی اور الحی القیوم ہے او رمالک اور خالق اور رب سب مخلوق کا ہے اور اسم ذاتی ہے نہ کہ اسم صفاتی۔ عربی زبان کے سوا کسی اور زبان میں اس خالق و مالک کل کا کوئی ذاتی نام نہیں پایا جاتا۔ صرف عربی میں اللہ ایک ذاتی نام ہے جو صرف ایک ہی ہستی کے لوے بولا جاتا ہے اور بطور نام کے بولا جاتا ہے۔ اللہ کا لفظ بھی اسم جامد ہے مشتق نہیں۔ نہ یہ اور کسی لفظ سے بنا ہے اور نہ اس سے کوئی اور لفظ بنا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لاۃ یلینہ سے مشتق ہے جس کے معنی تستّر علو اور ارتفاع کے ہیں (اقرب) لیکن یہ درست نہیں بعض لوگ کہتے ہیں اللہ لاہ یلوہ سے نکلا ہے جس کے معنی چمکنے کے ہیں اور لاہ اللہ الخلق کے معنی ہیں۔ اللہ نے مخلوق پیدا کی۔ لیکن لسان العرب میں لکھا ہے کہ یہ معنی غیر معروف ہیں۔ پس یہ قیاس کہ یہ لاہَ یلُوہُ سے نکلا ہے بالکل غلط ہے۔ بعض لوگ اسے غیر زبان کا لفظ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سریانی کے لفظ لاھا سے نکلا ہے لیکن یہ بھی بالکل غلط ہے بلکہ سریانی زبان سے ناواقفیت کے نتیجہ میں ہے چنانچہ یورپین محققین کی رائے ہے کہ عربی کا لفظ الٰہ ابتدائی مادہ سے زیادہ قریب ہے۔ جرمن عالم NOLDEKEلکھتا ہے کہ عربی کا الٰہ اور عبرانی کے ایل پرانے زمانہ سے پہلو بہ پہلو چلے آتے ہیں اور عبرانی زبان جب عربی سے علیحدہ ہوئی ہے اس سے بھی پہلے سے یہ لفظ سامی زبانو ںمیں استعمال ہوتا تھا (انسائیکلو پیڈیا ببلیکا جلد ۳ زیر عنوان نیمز یعنی اسماء کی بحث)
(الرحمٰن) رحم سے ہے اور فَعْلان کے وزن پر ہے۔ اس وزن کے الفاظ امتلاء اور غلبہ پر دلالت کرتے ہیں (بحرِ محیط ۲۷؎) پس رحمن کے معنی یہ ہوئے کہ وسیع رحم کا مالک جو ہر اک پر حاوی ہے اور یہ رحم وہی ہو سکتا ہے جو بلا مبادلہ اور بغیر کسی استحقاق کے ہو کیونکہ ہر شخص حق کے طو رپر رحم کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
(اَلْرَّحِیْم) بھی رحم سے نکلا ہے اور فیصل کے وزن پر ہے جس کے معنوں میں تکرار اور استحقاق کے مطابق سلوک کا مفہوم پایا جاتا ہے (بحر محیط ۱۷؎) پس اس کے معنی ہوئے جو رحم کے حقدار کو اس کے کام کی اچھی جزاء دیتا ہے اور بار بار اس پر رحم نازل کرتا جاتا ہے۔
علم صرف کے زبردست امام ابو علی فارسی کہتے ہیں۔ اَلّْرَحْمٰنِ اِسْمٌ عَامٌ فِیْ جَمِیْعِ اَنْوُاعِ الہَّحْمَۃِ یَخْتَصُّ بِہٖ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَالْرَّحِیِمُ اِنّما ھُوَ فِی جِہَۃ الْمُؤمِنینَ وَ قَالَ تَعَالیٰ کَانَ بِالموُمِنینَ رَحیماً (فتح البیان ۲۵؎) یعنی الرحمٰن اسم عام ہے او رہر قسم کی رحمتوں پر مشتمل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مخصوص ہے اور الرّحیم مومنوں کی ذات سے تعلّق رکھتا ہے یعنی الرحیم کی رحمت نیکو کاروں سے مخصوص ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم کی آیت وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیْماً ہے۔ (احز اب ع۶)
ابن مسعودؓ اور ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے کہ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلرَّحْمٰنُ رَحْمٰنُ الدُّنْیا۔ وَالْرَّحیمُ۔ رَحِیْمُ الاٰخِرَۃِ (محیط ۱۷؎) رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ رحمن دُنیا کی رحمتوں پر نظر رکھتے ہوئے ہے اور الرحیم کا نام آخرت کی رحمتوں پر نظر کرتے ہوئے ہے۔ اس سے بھی معلوم ۂوا کہ رحمن کے معنے بلا مبادلہ اور بغیر استحقاق رحم کے ہیں کیونکہ اس قسم کا رحم زیادہ تر اس دُنیا میں جاری ہے اور رحیم کے معنی نیک کاموں کے اعلیٰ بدلہ کے ہیں کیونکہ آخرت مقام جزا ہے۔
تفسیر
قرآن کریم کی سب سورتیں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے شروع ہوتی ہیں۔ سوائے سورۃ برائۃ کے مگر اس کے بارہ میں زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ وہ الگ سورۃ نہیں بلکہ سورۃ انفال کا تتمہ ہے اور اس لئے اس میں الگ بسم اللّٰہ نہیں لکھی گئی۔ چنانچہ ابو دائود میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ان رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَایَعْرِفُ فَصْلَ السُّورَۃِ حَتَّیٰ یَنْزِلُ عَلَیْہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (ابو دائود کتاب الصّلوٰۃ باب مَنْ جَہُہ بِبِسمِ اللّٰہِ) یعنی جب ایک سورۃ کے بعد دوسری سورۃ نازل ہوتی تھی تو پہلے بسم اللہ نازل ۂوا کرتی تھی اور بسم اللہ کے بغیر رسول کریم صلعم کسی وحی کو دوسری سورۃ قرار نہیں دیا کرتے تھے۔ حاکم نے مستدرک میں بھی یہ روایت بیان کی ہے۔ (ابن کثیر) اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ہر نئی سورۃ سے پہلے بسم اللہ نازل وہتی تھی او رپہلی سورۃ کا اختتام ہی تب سمجھا جاتا تھا۔ جب بسم اللہ کے نزول سے دوسری سورۃ کے ابتداء کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ پس جبکہ بَرَاء ۃ سے پہلے بسم اللہ نازل نہیں ہوئی یا یُوں کہو کہ انفعال کے بعد بسم اللہ نازل ہو بَرَاء ۃکی آیات نازل نہیں ہوئیں تو یقینا وہ الگ سورۃ نہیں ہے بلکہ انفال کا حصّہ ہی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ تمام سورتوں سے پہلے جو بسم اللہ درج ہے وہ وحی الٰہی سے ہے اور قرآن کریم کا حصّہ ہے زائد نہیں۔
بسم اللہ کے متعلق بعض علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ہر سورۃ کا حصہ بسم اللہ نہیں بلکہ صرف سورۃ فاتحہ کا حصّہ بسم اللہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ کسی سورۃ کا حصّہ بھی بسم اللہ نہیں ہے لیکن یہ خیال درست نہیں۔ اوّل تو مذکور بالا حدیث ہی اس خیال کو ردّ کرتی ہے دوسرے بہت سی اور احادیث ہیں جن میں بسم اللہ کو رسول کریم صلعم نے سورتوں کا جزو قرار دیا ہے۔ مثلاً سورۃ فاتحہ کا حصّہ ہونے کے متعلق دارقطنی نے مرفوعاً ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیہ وَسَلّم اِذَا قَرَأْ تُمْ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاقْرَؤُا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِنَّہام اُمُّ القُرْانِ و اُمُّ الْکِتَاب وَالسَّبْعُ المَثَانِی وَ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم احدٰی آیہا (دار قطنی جلد اوّل باب و جوب قراء ۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصّلوٰۃ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم الحمدللہ پڑھو تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرو کیونکہ سورۃ فاتحہ امّ القرآن ہے اور امّ الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ میں بھی یہ روایت نقل کی ہے (مرفوع بھی اور موقوف بھی) (فتح البیان جلد اوّل)
اس حدیث میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دوسری سورتوں کا بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم حصّہ ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلعم نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے بلکہ اس کے حصّہ ہونے کی دلیل دی ہے اور وہ یہ کہ چونکہ یہ اُمّ الکتاب او رامّ القرآن ہے اس لیے بسم اللہ اس کے ساتھ ضرور پڑھنی چاہیئے اور یہ دلیل اسی صورت میں ٹھیک ہوتی ہے جب یہ آیت باقی سورتوں کا بھی حصّہ ہو اور دلیل بالاولیٰ کے طور پر کہا گیا ہو کہ جب باقی سورتوں کا بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ ہے۔ تو تم سمجھ سکتے ہو کہ سورۃ فاتحہ جو اُمّ الکتاب اور اُمّ القرآن ہے اس کا حصّہ بھی ضرور ہو گی پس اس کی تلاوت سے پہلے اس آیت کو ضرور پڑھا کرو۔
اس استدلال کے علاہو اور دلائل بھی اس بارہ میں ہیں مثلاً مسلم کی روایت ہے عن انس قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیہ وَسَلّم اُنْزِلَتْ عَلَیَّ سُورَۃٌ آنفَّا فَقَرَأْ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم انا اعطیناک الکوثر (مسلم باب حجتہ مَنْ قَالَ البسْمِلَۃُ اٰیۃٌ مِنْ اوّلِ کلِّ سورۃٍ) یعنی انسؓ کہتے ہیںکہ رسول کریم صلعم نے ایک دفعہ فرمایا کہ مجھ پر ابھی ایک سورۃ اُتری ہے جو یہ ہے بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم انا اعطیناک الکوثرپس آپؐ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سورزہ کوثر کا حصہ قرار دیا ہے بعض اور سورتوں کے متعلق بھی ایسی روایات ہیں۔
اس روایت پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے او رانسؓ انصاری ہیں جو ہجرت کے وقت آٹھ نو سال کے بچے تھے۔ حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آپؐ نے یہ بات سوزہ کے نازل ہوتے ہی فرمائی تھی پھر انسؓ نے اس کو کیونکر سن لیا۔ اگر دوسرے دلائل اس قول کی تائید میں نہ ہوتے تو یہ اعتراض یقینا اس حدیث کو ضعیف بنا دیتا لیکن دوسرے دلائل کی موجودگی میں اس اعتراض کو زیادہ وقعت حاصل نہیں کیونکہ صحابہ بعض دفعہ دوسرے صحابہ سے سن کر بھی روایات بیان کر دیتے تھے اور یہ امر مسلم ہے کہ جب کوئی روایت رسول کریم صلعم کی طرف کوئی صحابی منسوب کرے تو وہ بہرحال درست ہے کیونکہ کسی صحابی پر جھوٹ کا الزام ثابت نہیں ہوتا۔ اگر انسؓ نے رسول کریم صلعم کی طرف یہ قول منسوب فرمایا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپؐ نے کسی مہاجر صاحب سے یہ روایت سنی ہے اور جب صحابی تک روایت پہنچ گئی تو اس کے سچا ہونے میں شبہ نہ رہا۔
احناف کے متعلق جو بعض لوگ یہ خیال کرتے کہ وہ بسم اللہ کو گویا قرآن کریم کا حصہ نہیں سمجھتے یہ غلط ہے امام ابو حنیفہؓ کا یہ مذہب نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ آیت مستقل آیت ہے اور سورۃ کا حصہ نہیں۔ امام ابوبکر رازی جو حنفیوں کے آئمہ سے ہیں اپنی کتاب احکام القرآن جزء اوّل میں لکھتے ہیں۔ وَلَمَّا ثَبَتَ اَنَّہاَ لَیْسَتْ مِنْ اَوَائِلِ السُّوَرِواَنْ کَانَتْ آیۃً فِی مَوْضِعِہَا عَلَی وَجْہِ الْفصَلِ بَیْنَ السُّوْرتَیْنِ اُمِرْنَا بِالْاِبتِدَائِ بِہَا تَبَرّکاً۔ ترجمہ۔ اس وجہ سے کہ یہ ثابت ہو گیا ہیں کہ یہ آیت کسی سورۃ کا حصہ نہیں گو دو سورتوں کا فاصلہ بتانے کے لئے ایک مستقل آیت کے طور پر اُتاری گئی ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ نماز شروع کرنے کا حکم بطور تبرک کے دیا گیا ہے۔ پس یہ محض ناواقفوں کا خیال ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو احناف قرآن کا حصہ نہیں قرار دیتے بیشک وہ اسے کسی سورۃ کا حصہ نہیں قرار دیتے۔ لیکن قرآن کریم کا حصہ ضرور قرار دیتے ہیں۔ گو میرے نزدیک ان کا یہ عقیدہ بھی درست نہیں اور حق یہی ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورۃ کا حصہ ہے اور جیسا کہ آگے بیان ہو گا۔ ہر سورۃ کے پہلے اس کے رکھنے میں بہت سی حکمتیں ہیں۔
بسم اللّٰہ کی فضیلت
بسم اللہ کی فضیلت پر رسول کریم صلعم نے خاص زور دیا ہے آپؐ فرماتے ہیں کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَایُبْدَأُ فِیہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَقُطَعُ (اربعین حافظ عبدالقادر عن ابی ھریرۃ بحوالہ الدر رالمنشور) یعنی جس بڑے کام کو بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلعم نے یہ سنت قائم کی ہے کہ مسلمان اپنے سب کاموں کو بسم اللہ سے شروع کیا کریں۔ چنانچہ ایک حدیث ہے۔ أغْلُقْ بَابَک وَ اْ ذکُر اسْمَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَاَنَّ الشَّیْطٰنَ لاَیَفْتَحْ بَابَا مُغْلَقًا وَاْ طِفیْٔ مِصْبَا حَکَ وَاْ ذکُرْ اِسْمَ اللّٰہِ وَخَمِّرْ اِنَائَ کَ وَلَوْ بِعُوْدٍ تعرضہ و اذکُرْ اسمَ اللّٰہِ وَاوکِ سِقائَ کَ وَا ذَکُرْ اسْمَ اللّٰہِ عُزَّوَجَلّ (مسند احمد بن حنبل جلد ثالث صفحہ ۳۱۹) یعنی اپنا دروازہ بند کرتے ہوئے بھی بسم اللہ کہہ لیا کرو اور چراغ بجھاتے ہوئے بھی۔ اور برتن کو ڈہانکتے ہوئے بھی۔ او راپنی مشک کا مُنہ باندھتے ہوئے بھی۔ اسی طرح بیوی کے پاس جاتے ہوئے۔ وضو کرتے ہوئے کھانا کھاتے ہوئے۔ پاخانے میں داخل ہونے سے پہلے۔ لباس پہنتے ہوئے بسم اللہ کا کہنا دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے ایک خط کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے بھی اپنا خط بسم اللہ سے شروع کیا تھا۔ چنانچہ آتا ہے اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ وَ اِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (نمل ع ۲) یعنی یہ خط سلیمان کی طرف سے ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت نوحؒ کا ٍکر کر کے بھی قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے کشتی میں چڑھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ ازُ کَبُوْا فِیْہَا بِسْمِ اللّٰہِ مَحْرٖر مَا وَ مُرْسٰہَا (ہود ع ۴؍۴)
ہر سورۃ کے پہلے بِسْمِ اللّٰہ اس لئے رکھی گئی ہے کہ قرآن کریم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک خزانہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں کھولا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَایَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعہ ع ۳) سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ اس امر کے لئے چُن لے۔ دوسرے لوگ قرآنی اسرار کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح فرماتا ہے یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا (بقرہ ع ۳) قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ بعض کے لئے ہدایت کا موجوب اور بعض کے لئے گمراہی کا موجب بنا دیا ہے گویا لفظ اور عبادت تو سب کے لئے ایک ہے مگر اثر جُدا جُدا رنگ کا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اچھے اثر کو حاصل کرنے اور بُرے سے بچنے کے لئے اور اس کے اسرار کو سمجھنے کے لئے کیا ذریعہ اختیار کرنا چاہیئے سو اس کا جواب اِذَا اقَرَأتَ الْقُرْآنَ فَا سْتَعِذْ بِاللّٰہِ (نحل ع ۱۸) کے حکم سے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورۃ کے پہلے رکھ کر دیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم پڑھنے سے پہلے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سے شیطان کے حملہ سے بچنے کے لئے دُعا کر لیا کرو۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کا واسطہ دیکر اس کی مدد حاصل کر لیا کرو اس طرح گمراہی سے بچ جائو گے اور ہدایت حاصل ہو گی۔
دوسری وجہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ہر سورۃ کے پہلے رکھنے کی یہ ہے کہ بائبل میں لکھا تھا۔ کہ آخری زمانہ میں جو موسیٰ کا ایک مثیل آنے والا ہے۔ اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہو گا کہ ’’جو کوئی میری باتو ںکو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لونگا‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹) اس پیشگوئی کے مطابق مثیل موسیٰ کے لئے مقدر تھا کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی باتیں کرے اس سے پہلے کہہ لے کہ میں یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے نام پر کہہ رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں ۔ پس ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ رکھی جاتی۔ تاکہ ایک طرف تو موسیٰ کی پیشگوئی پوری ہو اور دوسری طرف یہود اور نصاریٰ کو تنبیہہ ہوتی رہے کہ اگر وہ اس کلام کو نہ سنیں گے تو موسیٰ علیہ السلام کے الہام کے مطابق اللہ تعالیٰ کی سزا کے مورد بنیں گے۔
تیسری وجہ اس آیت کو ہر سورۃ کے شروع میں رکھنے کی یہ ہے کہ بائبل میں لکھا تھا’’وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰) اس آیت میں بتایا گیا ہے جو شخص خدا تعالیٰ کا نام لے کر کوئی جھوٹی بات کہے گا اسے اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے گا۔ پس اس حکم کے مطابق قرآن کریم کی ہر سورۃ کی ابتداء میں بسم اللہ رکھی گئی تاکہ یہود و نصاریٰ پر خصوصاً اور باقی دُنیا پر عموماً حجت ہو اور اس حُکم کی موجودگی میں رسول کریم صلعم کی کامیابی اور ترقی کو دیکھ کر مرحق کا مثلاشی یہ سمجھ لے کہ آپؐ نے جو کچھ کہا خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا۔ اگر ایسا نہ ہوتو جب خدا تعالیٰ کا نام لے کر آپؐ نے اس کلام کو پیش کیا تھا کیوں آپؐ ہلاک نہ ہوتے۔ پس بسم اللہ یہود پر خصوصاً حجت ہے ہر سورۃ کے پہلے بسم اللہ رکھ کر گویا ایک سو چودہ دفعہ یہود کو ملزم بنایا گیا ہے اور محمدؐ رسول اللہ صلعم کی صداقت کی ایک سو چودہ دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔ اگر صرف قرآن کریم کے شروع میں یہ آیت ہوتی تو یہ بات حاصل نہ ہو سکتی تھی۔
چوتھی وجہ اس آیت کو ہر سورۃ کے شروع میں رکھنے کی یہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھنے والا تین حال سے خالی نہیں یا تو وہ تہی دست اور بے سرمایہ ہو گا یا گناہوں کے ارتکاب سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو بھڑکا چکا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے کا کوئی طبعی ذریعہ اس کے پاس نہ ہو گا یا پھر وہ دین کی راہ میں قربانی کرنے والا ہو گا۔ یہ ظاہر ہے کہ ان تینوں قسم کے لوگوںکی قلبی کیفیت الگ الگ ہو گی۔ پہلی قسم کا انسان حیران دوسری قسم کا مایوس اور تیسری قسم کا مغرور ہو سکتاہے۔ پہلی قسم کا انسان اس حیرانی میں مبتلا ہو گا کہ میں کہاں سے صداقت تلاش کروں۔ دوسری قسم کا انسان اس غم میں گھلا جا رہا ہو گا کہ میں کس منہ سے مانگوں۔ اور تیسری قسم کا اس اثر کے نیچے ہو گا کہ جو کچھ حاصل ہو سکتا تھا مجھے حاصل ہو گیا۔ دل کی ان تینوں کیفیتوں کے ماتحت انسان نفع حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ پس ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم رکھا گیا۔ تا جو تہی دست ہے اسے راستہ بتایا جائے کہ تہی دستوں کی مدد کرنے والا ایک خدا موجود ہے جو بغیر استحقاق کے فضل کرتا ہے اور جو نافرمانی کر کے اپنا حق کھو چکا ہے اسے توجہ دلائی جائے کہ مایوس نہ ہو۔ جس خدا نے یہ سورۃ اُتاری ہے وہ گناہوں کو بخشنے پر بھی آمادہ رہتا ہے اور جو قربانی کی وجہ سے مغرور ہو رہا ہو اسے توجہ دلائی جائے کہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے خزانے غیر محدود ہیں۔ پس کسی ایک جگہ پر قدم نہ روک کہ ابھی غیر متناہی ترقیات باقی ہیں۔ ظاہر ہے کہ دل کی اس قسم کی اصلاح کے بغیر قرآنی مطالب جس طرح کھل سکتے ہیں اس کے بغیر نہیں کھل سکتے۔ پس ہر سورۃ سے پہلے اس آیت کو رکھ کر قرآنی مطالب کے اظہار کا ایک زبردست ذریعہ مہیا کیا گیا ہے۔
پانچویں وجہ اس آیت کو ہر سورۃ سے پہلے رکھنے کی یہ ہے کہ یہ ہر سورۃ کے لیے کنجی کا کام دیتی ہے تمام دینی اور رُوحانی مسائل رَحْمٰن اور رَحِیْم دو صفات کے گرد چکر کھاتے ہیں۔ چونکہ غلط دو طرح دور ہوتی ہے کبھی تفصیل سے اور کبھی اجمال سے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر سورۃ کے شروع میں بسم اللہ رکھ دی تاکہ سورۃ کے مطالب میں جو اشتباہ پیدا ہوا سے پڑھنے والا بسم اللہ سے دُور کر لے یعنی جو مطلب وہ سمجھاتا ہے اگر رحمن اوررحیم کے مطابق ہو تو اسے درست سمجھے اور اگر اس کے خلاف ہو تو اسے غلط قرار دے۔ اس طرح بسم اللہ کی شارح سورۃ ہو جاتی ہے اور سورۃ کی مفسر بسم اللہ اور دونو ںکی مدد سے صحیح مفہوم پڑھنے والے کے ذہن نشین ہو جاتا ہے۔
بسم اللہ کی پہلی کتاب میں
بعض معترضین کہتے ہیں کہ بسم اللہ جس پر تم کو اس قدر ناز ہے پہلی کتب میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً زر شتی کتب میں بھی لکھا کہ بنام یزدان بخشائش گردا دار بعد کی فارسی میں اس کا اس طرح ترجمہ کیا ہے۔ بنام خداوند بخشا یندہ بخشائش گر (تفسیر ریورنڈوھیری) یا یہ کہ یہود میں بھی بسم اللہ کا رواج تھا۔ ان سے یکھ کر عربوں میں رائج ہوا اور پہلے پہل طائف کے امیر نے اس کا رواج دیا (راڈول ترجمہ قرآن) راڈول کا جواب تو یہ ہے کہ یہ قطعاً غلط ہے کہ عربوں میں اس صورت میں بسم اللہ کا رواج تھا عرب تو الرَّحْمٰن کے کثرت استعمال کو پسند ہی نہ کرتے تھے بہرحال اس کا کوئی تاریخی ثبوت چاہیئے کہ ان میں بسم اللہ اس شکل میں رائج تھی مگر ایسا ثبوت ہر گز موجود نہیں۔ باقی رہا کہ یہود میں بھی اس کا رواج تھا اگر اس سے یہ مراد ہے کہ زمانہ نبوی یا قریب زمانہ میں یہود کی قوم اس عبارت کو استعمال کیا کرتی تھی یا ان کی تاریخ میں اس کا ثبوت ملتا ہے تو یہ بالکل خلاف واقعہ ہے اور اگر یہ مراد ہے کہ خود قرآن کریم میں ہی لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اس آیت کو اپنے خط میں استعمال کیا تو یہ اول درجہ کی بددیانتی ہے کہ قرآن کریم کے حوالہ کو دوسروں کی طرف منسوب کر کے قرآن کریم پر اعتراض کا ذریعہ بنایا جائے۔ جب خود قرآن کریم حضرت سلیم علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ انہوں نے ملکہ سباء کو جو خط لکھا تھا اس میں یہ عبارت بھی تھی کہ اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (سورۃ نمل ع ۲) تو پھر یہ کہنا کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس سے پہلے اس آیت کا مضمون دُنیا میں رائج نہ تھا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ اسلام کا یہ دعویٰ نہیں کہ اس آیت کا مضمون نیا ہے۔ اللہ۔ رحمن۔ رحیم یہ سب ہی لفظ پہلے موجود تھے اور استعمال ہوتے تھے۔ اسلام کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اس کا وہ استعمال جو قرآن کریم میں ہوا ہے اس سے پہلے موجود نہیں۔ اگر کوئی دشمن اسلام اس کا ثبوت پیش کرے تو بیشک اس کی بات قابل توجہ ہو سکتی ہے مگر یہ ناممکن ہے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے کوئی بھی ایسی کتاب نہیں جس کی نسبت دعویٰ کیا گیا ہو کہ اس کا ہر ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس کوئی آسمانی کتاب نہیں جس کے ہر ٹکڑے سے پہلے یہ عبارت درج کی جا سکے سوائے قرآن کریم کے۔ بارقی رہا تبرک کے طو رپر اللہ اور اس کی صفات کا ذکر اپنے خطوں یا مضمونوں سے پہلے کرنا۔ سو یہ عام بات ہے۔ اس کا نہ اسلام کو انکار ہے نہ مسلمانو ںکو۔ اس امر میں اگر دوسرے لوگ مسلمانوں کے شریک ہوں توہزار دفعہ ہوں۔
باقی رہا ریورنڈوھیری کا اعتراض۔ سو اس کا بھی ایک جواب اوپر آ چکا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دونوں عبارتوں کے معنوں میں اس قدر فرق ہے کہ وہی ان کو ہم معنی قرار دے سکتا ہے جو عربی زبان سے ناواقف ہو۔ بخشائش گر اور دادار کا مفہوم رحمن اور رحیم کے مفہوم کا بیسواں حصہ بھی تو نہیں۔ (جیسا کہ اس سورۃ کے متعلق تفسیری نوٹوں سے معلوم ہو جائے گا) لیکن جس حد تک اس میں خوبی ہے اس کا ہمیں انکار نہیں۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ پہلی سب قوموں میں نبی گذرے ہیں اور آیت وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَا فَیْہَا لَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) اس پر شاہد ہے پھر اگر کوئی اچھا فقرہ زرد شتیوں کی کتب میں موجود ہو۔ تو مسلمانوں کو کیوں بُرا لگنے لگا۔ بُرا تو ریورنڈوھیری یا ان کے ہم مذہب لوگوں کو لگے گا۔ جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور بنو اسرائیل کی قوم سے باہر نبوت او رالہام کا نشان انہیں کہیں نہیں ملتا۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے زردشت خدا کا پیغامبر ہے اور ہمارے لئے واجب صدا احترام۔ اس کے کلام کا منبع قرآن کا منبع ہے۔ پس ان دونوں میں اشتراک یا موافقت کونسا قابلِ تعجب امر ہے۔
پہلے حل لغات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ کے لفظ کے بارہ میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسم مشتق ہے مگر جیسا کہ وہاں پر ثابت کیا جاچکا ہے یہ سب خیال غلط ہیں اور ائمہ نحوان کو ردّ کرتے ہیں چنانچہ سیبویہ اور خلیل دونوں کا خیال ہے کہ اللہ علم ہے اور کسی دوسرے لفظ سے مشتق بھی نہیں ہے (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ ۱۵۶ المطبعۃ المصریہ اور صفحہ ۸۵ طبع قدیم) اس کے دلائل مختلف علماء نے یہ دیئے ہیں کہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے لئے مستعمل نہیں ہے حتیّٰ کہ عرب کے مشرک بھی اور کسی معبود کے لئے یہ لفظ نہیں بولتے تھے۔ اگر ال اور الٰہ یا ال اور لٰہ سے یہ لفظ بنا ہوتا تو جس طرح یہ لفظ اوروں کے لئے بولے جاتے ہیں۔ اللہ کا لفظ بھی بولا جاتا مگر عرب ایسا ہر گز نہ کرتے تھے (۲) صفات الہٰیہ ہمیشہ اللہ کے لئے بطور صفت کے استعمال ہوتی ہیں لیکن اللہ کا لفظ اور کسی اسم کے لئے بطور صفت استعمال نہیں کیا جاتا اور یہی اصل علامت علم کی ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ سورۃ اربراہیم میں ہے اَلْعِزِیْز الْحَمِیْدِ اللّٰہِ (ابراہیم ع ۱) اس میں اللہ بطور صفت استعمال ہوا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ اس میں صفت کے طور پر نہیں بلکہ عطف بیان کے طور پر ساتعمال ہوا ہے او راس موقعہ پر علم کا استعمال جائز ہے۔ جیسے کہتے ہیں ھٰذِہِ الدَّارُ مِلْکٌ لِلْعَالِمِ الْفَاضِلِ زَیْدٍ۔ ایسے موقعہ پر علم کا استعمال اشتباہ کے دُور کرنے کے لئے ہوتا ہے اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ عزیر اور حمید سے مراد ہماری اللہ ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ ھُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (انعام ع ۱) سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ علم نہیں بلکہ صفاتی نام ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی نام اپنی صفات کے ساتھ مشہور ہو جاتا ہے تو وہ بھی صفاتی رنگ میں استعمال ہونے لگتا ہے جیسے حاتم۔ رستم کہ ہیں توخاص اشخاص کے نام۔ لیکن ایک سخاوت اور دوسرا بہادری کے لئے مشہور ہو گیا ہے اور اب حاتم کو سخی کی جگہ اور رستم کو بہادر کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً فلاں شخص رستم ہے فلاں حاتم ہے۔ اسی طرح اللہ کا لفظ چونکہ اپنی صفات کے ساتھ ایک کامل ہستی پر دلالت کرنے لگ گیا اس لئے یُوں کہنا جائز ہو گیا کہ آسمان میں وہی اللہ ہے یعنی تمام صفات میں کامل ذات جس کا نام اللہ ہے ایک ہی ہے اور دوسرا کوئی اس کے نام میں شریک نہیں اور نہ کام ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لفظ فَعَّال کے وزن پر ہے پس اس پر تنوین آنی چاہیئے لیکن استعمال میں تنوین نہیں آئی پس معلوم ہوا کہ ال اس کے اصلی حروف سے نہیں بلکہ ال تعریف کا ہے پس یہ لفظ مرکب ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قاعدہ میں استثناء ہو ہوتے ہیں۔ اللہ کے لفظ پر تنوین کا نہ آنا بھی ایک استثناء ہوتے ہیں۔ اللہ کے لفظ پر تنوین کا نہ آنا بھی ایک استثناء کی صورت ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ال پر اگر ندی کا حرف آئے تو اس کے بعد ایہا کا لفظ بڑھایا جاتا ہے۔ مثلاً اگر النّاس کو بلانا ہو تو کہیں گے یا یّہا الناس لیکن یا ایہا اللّٰہ نہیں کہا جاتا جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اللّٰہ کا ال اصلی ہے ال تعریف کا نہیں ہے۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ چونکہ اللہ کے لفظ کا ہمزہ وصلی ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ اصلی ہمزہ نہیں بلکہ زائد ہے اسی طرح جب اللہ پر لام آتا ہے یعنی لِللّٰہ کہتے ہیں۔ تو الف گر جاتا ہے یہ بھی ثبوت ہے کہ یہ اصلی ہمزہ نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمزہ کا گر جانا زائد ہمزہ کی علامت نہیں۔ اسم اور ابن کے ہمزے زائد نہیں ہیں بلکہ دوسرے حرف کے قائم مقام ہیں اور یہ بھی گر جاتے ہیں۔ چنانچہ بسم اللہ میں اسم کا ہمزہ گر گیا ہے حالانکہ وہ ہمزہ زائد نہیں بلکہ تبدیل شدہ ہے پس معلوم ہوا کہ ہمزہ کا وصلی ہونا یا گر جانا اس کے زائد ہونے کا ثبوت نہیں۔
غرض اللہ کے لفظ کا استعمال اسلام اور اسلام سے پہلے دونوں ہی زمانہ میں اس کے علم اور غیر مشتق ہونے پر دلالت کرتا ہے او رجو دلائل اس کی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس کے مشتق ہونے کے دیئے گئے ہیں وہ درست نہیں ہیں بلکہ دوسری مثالوں سے ان کی غلطی ثابت ہے۔
بسم اللہ میں اسم کی زیادتی
ایک اور سوال اس جگہ پیدا ہوتا ہے کہ کہنا تو یہ چاہیئے تھا کہ اللہ کی مدد مانگتے ہوئے قرآن کریم پڑھتا ہوں او رکہا یہ گیا ہے کہ اللہ کے نام کی مدد سے پڑھتا ہوں۔ نام کا لفظ کیوں زیادہ کیا گیا ہے اس کے مفصلہ ذیل جواب ہیں۔
(۱) باء استعانت کے علاوہ قسم کے لئے بھی آتی ہے اگر خالی یاللّٰہ ہوتا تو شُبہ ہو سکتا تھا کہ شائد قسم کھائی گئی ہے پس اس شبہ کے ازالہ کے لئے اسم کا لفظ بڑھایا گیا (۲) اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی ہے اور صفات ہی سے وہ پہچانا جاتا ہے۔ اس لئے اسم کا لفظ بڑھایا گیا۔ الرَّحْمٰن الرّحِیْم کے ذکر سے مُراد بھی یہی ہے کہ میں خدا تعالیٰ سے اس کی رحمانیت اور رحیمیت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتا ہوں (۳) یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں بھی برکت ہے اور ان کی طرف انسان کو توجہ رکھی چاہیئے (۴) قرآن کریم ایک بند خزانہ ہے اور جب کوئی کسی ایسے مکان میں جس میں داخلہ بلا اجازت ممنوع ہو داخل ہوتا ہے تو اس کے محافظوں کو … کو مالک کا حکم یا اجازت دکھاتا ہے یا اس کا ذکر کرتا ہے چنانچہ پولیس جب کسی کے گھر میں داخل ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ حکومت کے نام پر ہم داخل ہو رہے یا فلاں مال پر قبضہ کرتے ہیں پس اس جگہ نام کا لفظ بڑھا کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو شخص بسم اللہ پڑھ کر قرآن کریم پڑھتا ہے وہ گویا قرآن کریم کی خدمت پر مامور فرشتوں سے کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خود اس سورۃ کے پڑھنے کا حکم دیا ہے پس میرے لئے اس کے مطالب کے دروازے کھول دو اور وہ اختصاراً اس مضمون کو یُوں ادا کرتا ہے کہ اللّٰہ رحمٰن رحیم کے نام پر اس خزانہ کے کھولے جانے کی میں درحواست کرتا ہوں ظاہر ہے کہ جو اس طرح خدا تعالیٰ کے اذن سے قرآن کریم کی طرف متوجہ ہو گا۔ اس کے علوم سے حصہ پائے گا۔ لیکن جو اس کے اذن اور اس کے نام سے توجہ نہیں کرے گا بلکہ شرارت اور بعض سے توجہ کرے گا اس کے لئے اس کے خزانے نہیں کھولے جائینگے۔
پانچویں اور چھٹی حکمت اس کی ان دو پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کرنا ہے جو استثناء باب ۱۸۔ اور آیت ۲۰ میں مذکو رہیں او رجن کا ذکر میں اس سوال کی بحث میں کر آیا ہوں کہ ہر سورۃ کے شروع میں بسم اللہ کیوں دہرائی گئی ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ ان پیشگوئیوں میں لکھا تھا کہ وہ خدا کا نام لیکر کلام الٰہی سنائے گا پس ان پیشگوئیوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ضروری تھا کہ اسم کا لفظ اس جگہ بڑھایا جاتا۔
۳؎ حل لغات
اَلْحَمْدُ۔ حمد کے معنی تعریف کے ہیں۔ عربی میں تعریف کے لئے کئی الفاظ آتے ہیں۔ حمد۔ مدح شکر۔ ثناء۔ اللہ تعالیٰ نے حمد کا لف؍ چنا ہے جو بلاوجہ نہیں۔ شکر کے معنی احسان کے اقرار اور اس پر قدردانی کے اظہار کے ہوتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو صرف قدردانی کے معنی ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ حمد اس سے زیادہ مکمل لفظ ہے کیونکہ حمد صرف احسان کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شے کے حسن کے احساس کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شے کے حسن کے احساس اور اس پر اظہار پسندیدگی اور قدردانی کا نام بھی ہے۔ پس یہ لفظ زیادہ وسیع ہے۔
دوسرا لفظ ثناء ہے۔ ثناء کے اصل معنے دُہرانے کے ہوتے ہیں اور تعریف کو ثناء اس لئے کہتے ہیں کہ ذکر خیر لوگوں میں پھیل جاتا ہے اور لوگ وقتاً فوقتاً اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں (مفردات) یہ ظاہر ہے کہ ثناء میں ذاتی تجربہ سے زیادہ لوگوں میں ذکر خیر کے پھیلنے کی طرف اشارہ ہے اور گو یہ ایک خوبی ہے لیکن بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو ذاتی تعلق ہوتا ہے اس پر یہ لفظ اس قدر روشنی نہیں ڈالتا جس قدر کہ مدح کا لفظ ڈالتا ہے کیونکہ یہ لفظ ذاتی تشکر اور احسان مندی پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔
اب رہا مدح سو مدح کا لفظ جھوٹی اور سچی دونوں قسم کی تعریف کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن حمد صرف سچی تعریف کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے اُحْثُوا فی وجوہِ الْمَدّ احِیْنَ التُّرَابَ (مسند احمد بن صنبل جلد ۶) جھوٹی تعریف کرنے والوں کے مونہوں پر مٹی ڈالو۔ اسی طرح مدح ان اعمال کے متعلق بھی ہو سکتی ہے جو بغیر اختیار کے ہوں لیکن حمد انہی اعمال کے متعلق ہوتی ہے جو اختیار اور ارادہ سے کئے جائیں (مفردات) پس حمد کا لفظ مدح سے بہرحال افضل ہے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق زیادہ مناسب یہ جو میں نے کہا تھا کہ ثنا ایسی تعریف پر دلالت کرتا ہے جو لوگوں میں پھیل جائے اور یہ بھی ایک خوبی تو پیدا نہ ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ الحمد کے الفاظ سے یہ خوبی بھی پیدا ہو گئی ہے کیونکہ ال استغراق کے معنی دیتا ہے یعنی تمام افراد کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے پس اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کے معنے ہوئے۔ سب قسم کی تعریف۔ اور ہر شخص کی تعریف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی کا حق ہے ان معنوں میں ذکر خیر کی کثیر اشاعت آ جاتی ہے بلکہے ثناء سے بھی زیادہ اس عبارت سے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اشاعت کا مفہوم نکلتا ہے۔
رب۔ رب کے معنی اِنْشَائُ الشیِٔ حالاً فحالاً الی حدِّ التَّمامِ کے ہیں۔ (مفردات) یعنی کسی چیز کو پیدا کر کے تبدیلی طور پر کمال تک پہنچانا۔ خالی تربیت کے معنی بھی یہ دیتا ہے۔ خصوصاً جبکہ انسان کی طرف منسوب ہو مثلاً قرآن کریم میں ماں باپ کی نسبت آتا ہے کَمَادَ بَّیٰنِیْ صَغیْرًا (بنی اسرائیل ع ۳) یا اللہ میرے ماں باپ پر رحم فرمایا۔ جس طرح انہوں نے اس وقت میری تربیت کی جبکہ میں چھوٹا تھا۔ رب کے معنی مالک کے بھی ہوتے ہیں۔ (اقرب) اسی طرح سردار اور مطاع کے بھی (اقرب) جیسے قرآن کریم میں حضرت یوسفؑ کا قول ہے أُذْکُرْ فِیْ عِنْدَ رَبِّکَ۔ اور مصلح کے بھی معنی ہیں (اقرب) ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔ لیکن بغیر اضافت کے مطلق رب کا لفظ کبھی غیر اللہ کے َلئے استعمال نہیں ہو سکتا ۔ مثلاً ربّ الدّار۔ گھر کا مالک یا رِبَّ الْفَرَسِ۔ گھوڑے کا مالک تو انسان کو کہہ سکتے ہیں مگرجب خالی یہ کہیں کہ رب نے یوں کہا ہے یا کیا ہے تو اس کے معنے صرف اللہ تعالیٰ کے ہونگے (مفردات) رب کے معنے مفسرین نے خالق کے بھی کئے ہیں (بحر محیط)
العلمین۔ عَالَم کی جمع ہے اور مخلوق کی ہر صنف اور قسم عالم کہلاتی ہے۔ (مفردات) اور عَالَمُوْنَ یا عَالَمِیْن کے سوا اس کی جمع عَلاَلِم یا عَوَالِم بھی آتی ہے اور غیر ذوی العقول کی صفات میں سے ون یا یان کے صرف عالم یا یاسم دو لفظوں کی جمع بنتی ہے۔ اور عالم مخلوق کو اس لئے کہتے ہیں۔ کہ اس کے خالق کا پتہ لگتا ہے (اقرب) بعض مفسرین نے کہا کہ عالم کی جمع المون یا عالمین تب بنائی جاتی ہے جبکہ ذوی العقول کا ذکر ہو۔ مثلاً انسان فرشتے وغیرہ۔ مگر یہ قاعدہ لغت کے بھی خلاف ہے۔ اور قرآن کریم کے محاورہ کے بھی خلاف۔ لغت کا حوالہ اوپر گرر چکا ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت اس پر شاہد ہے۔ قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَۂمَا اِنْ کُنتُمْ مُوْقِنِیْنَ۔ قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٗ اَلَاتَسْمَّعُوِنَ قَالَ رَبُّکُمْ وُ ربُّ اٰبَآئِکُمُ الُاَ وَّلِیْنَ۔ قَالَ اِنَّ رَسُوْ لَکْمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَہُمَا اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ (شعر اء ع ۲) اس آیت میں عالمین میں انسانوں کے سوا آسمان زمین اور ان کے درمیان کی سب اشیاء اور مغرب اور مشرق اور ان کے درمیان کی سب اشیاء کو عالمین میں شامل بتایا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ حٰمّ سجدہ میں ہے قُلْ اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَ تَجْعَلُوْنَ لَہٗ اَنْدَادًا ذٰلکَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَ جَعَلَ فِیْھَا رَوَ اسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَ بَارَکَ فِیْہَا وَ قَدَّرَ فِیْہَآ اَقْوَ اتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَآئً لِّلعَّآئِلِینَ (حٰمٓ سجدہ ع ۲) اس آیت میں بھی زمین اور پہاڑوں وغیرہ کو عالمین میں شامل کیا گیا ہے حضرت مسیح موعودؑ بھی تحریر فرماتے ہیں۔ اِنَّ الْعَالِمَیْنَ عِبَارَۃٌ عَنْ کُلِّ مَوْجُوْدٍ سِوَی اللّٰہِ … سَوَائً کَانَ مِنْ عَالَمِ الْاَرْوَاحِ اَوْمِنْ عَالَمِ الْاَجْسَاِم… اَوْ کَالْشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَغَیْرِ ھَما مِنَ الْاَجْرامِ (اعجاز المسیح صفحہ ۴۸ طبع مصر) یعنی عالم سے مراد جاندار اور غیر جاندار سب اشیاء ہیں۔ اسی طرح سورج چاند وغیرہ کی قسم کے اجارم فلکی۔ غرض سب جاندار یا غیر جاندار اس میں شامل ہیں۔
جو صرف ذوی العقول کے لئے اسے قرار دیتے ہیں۔ وہ مَاھُوَ اِلاَّ ذِکْرِ لِّلْعَالَمِیْنَ (قلم ع ۲) کی آیات سے استدلال کرتے ہیں مگر یہ استدلال درست نہیں۔ کیونکہ جب اس کا استعمال غیر ذوی العقول کے لئے قرآن کریم میں موجود ہے۔ تو اس آیت کے متعلق صرف یہ کہا جائے گا کہ عام لفظ خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم میں یہی لفظ اس سے بھی خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے فرمایا ہے وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (بقرہ ع ۶) اے یہود ہم نے تم کو سب جہانوں پر فضیلت دی ہے حالانکہ مراد صرف اپنے زمانہ کے لوگ ہیں نہ کہ ہر زمانہ کے لوگ۔ کیونکہ خیر الامم مسلمانوں کو کہا گیا ہے۔ پس خاص معنوں کا استعمال جبکہ عام معنوں میں یہ لفظ استعمال ہو چکا ہے اس کے معنوں کو محدود نہیں کرتا۔ اور حق یہی ہے کہ عالَمِیْن میں ہر قسم کی مخلوق شامل ہیں۔ خواہ جاندار ہو یا غیرجاندار۔
تفسیر۔ اَلْحَمْدُلِللّٰہِ۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں نہ یہ کہ ہم کرتے ہیں۔ بلکہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ فرمایا ہے۔ اس طرح کئی معانی پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ اوّل مصدر کے استعمال سے عروف اور مجہول دونوں معنی پیدا کر دیئے گئے ہیں یعنی یہ بھی کہ سب حمد جو مخلوق کر سکتی ہے یا کرتی ہے خدا تعالیٰ کو ہی پہچنتی ہے اور وہ سب قسم کی تعریفوں کا مستحق ہے۔ کوئی اچھی بات نہیں جو اس میں نہ پائی جاتی ہو اور کوئی بری بات نہیں جس سے وہ پاک نہ ہو اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کی صحیح حمد کر سکتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے۔ بندے بندے کی تعریف کرتے ہیں لیکن بسا اوقات وہ غلط ہوتی ہے بعض دفعہ جس قدر کسی میں خوبی ہوتی ہے۔ اس کا اظہار نہیں کر سکتے اور بعض دفعہ ایسی تعریف کرتے ہیں۔ جو موصوف میں پائی نہیں جاتی۔ پس اصل حمد وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو بلکہ دوسرے لوگ تو الگ رہے انسان خود اپنی نسبت رائے قائم کرنے میں غلطی کر جاتا ہے اور اپنی طاقتوں کا غلط اندازہ لگا لیتا ہے۔ مگر جو بات خدا تعالیٰ بندہ کے متعلق فرماتا ہے نہ اس میں کوئی کمی ہوتی ہے نہ زیادتی۔ اگر الحمد کی بجائے احمد یا نحمد کے الفاظ ہوتے تو یہ معنی پیدا نہ ہو سکتے تھے۔
نیز اگر حمد کا صیغہ فعل استعمال کیا جاتا یعنی یہ کہا جاتا کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں تو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شائد انسان اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ انسان کی حمد محدود ہوتی ہے اور وہ صرف اپنے علم کے مطابق حمد کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ میں اس کے سوا غیر محدود اسباب حمد کے اور بھی پائے جاتے ہیں۔
غرص اَحْمَدُ یا نَحْمَدُ سے جو معنے پیدا ہو سکتے تھے وہ بھی الحمد میں پائے جاتے ہیں اور ان سے زائد بھی۔ اس لئے الحمدللّٰہ کے الفاظ کا اس مختصر سورۃ میں رکھنا جو سب مطالب کی جامع ہے ضروری تھا۔ بیشک قرآن کریم میں حمد مخلوق کی طرف بھی منسوب ہوئی ہے جیسا کہ فرمایا وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ (بصرہ ع ۴) لیکن کہیں بھی احمد یا نحمد کے الفاظ مخلوق کی طرف منسوب نہیں ہوئے۔ گونسّبِحُ اور نقدّس کے الفاظ یا یُسَبَحُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس میں اس امر کی طرف لطیفہ اشارہ ہے کہ خالص حمد کا مکمل طور پر سمجھنا بندہ کی شان سے بالا ہے حدیثوں میں یہ الفاظ آتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں الفاظ کے اور معنے ہوتے ہیں اور بندہ کے کلام میں اور۔ بندہ جب اپنی طرف سے ایک لفظ بولتا ہے تو اس کے معنے اتنے وسیع نہیں لئے جاتے جتنے وسیع کہ اس وقت لئے جاتے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کے کلام اور پھر کلام شریعت میں وہ الفاظ آئیں۔
لِلّٰہ کے الفاظ سے اس شبہ کو بھی دُور کیا ہے کہ حمد تو انسانو ںکی بھی کی جاتی ہے۔ پھر سب تعریف خدا تعالیٰ کی کس طرح ہوئی۔ اور وہ اس طرح کہ لام ملکیت ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے پس لام کے ذریعہ سے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد حقیقی ہوتی ہے اور غیر اللہ کی طفیلی۔ کیونکہ انسان میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ذاتی نہیں ہوتیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا شدہ ہوتی ہیں۔ پس جو تعریف کسی انسان کی کی جاتی ہے اس کا بھی اصل مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔
آیت کے مطالب
اس آیت کے بعض مطالب ذیل میں لکھے جاتے ہیں (۱) اس جہان کا خالق سب نقصوں سے پاک اور سب خوبیوں کا جامع ہے۔ (۲) وہ تمام مخلوق کی کنہ اور حقیقت سے واقف ہے اور اس کے سوا کوئی شخص بھی کسی چیز کی کامل ماہیت سے واقف نہیں۔ اس دعویٰ کا روشن ثبوت سائنس کی ترقی سے مل چکا ہے۔ مختلف اشیاء کی تحقیق میںسینکڑوں علماء لکھے ہوئے ہیں لیکن اب تک ادنیٰ سے ادنیٰ شے کی کامل حقیقت سے بھی کوئی آگاہ نہیں ہو سکا۔ اور ہر چیز کے متعلق تازہ انکشافات ہوتے چلے جا رہے ہیں (۳) خدا تعالیٰ کامل حمد کا مالک تب ہی ہو سکتا ہے کہ وہ رَبّ الْعالَمِیْن ہو۔ اگر رب العالمین نہ ہو تو وہ کامل حمد کا مالک نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح اس کا جسمانی نظام سب کے فائدہ میں لگا ہوا ہے۔ اس کا روحانی نظام بھی سب پر حاوی ہو۔ اور کوئی ملک اور کوئی قوم روحانی ترقی کے سامانوں سے محروم نہ ہو۔ پس اگر کوئی الہام کسی خاص قوم سے مخصص ہے۔ تو دوسری قوم کے لئے الگ الہام نازل ہونا چاہیئے۔ اور جب دوسری قوموں کے لئے الگ الہام نازل نہ ہو۔ تو ایسے وقت میں جو الہام نازل ہو وہ سب دنیا کی ہدایت کے لئے ہونا چاہیئے (پس جو مذاہب اس امر کے قائل ہیں کہ الہام صرف انہی کی قوم کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔ یا یہ کہ نجات صرف انہی کی قوم یا مذہب کا حق ہے غلطی پر ہیں)
(۴) انسانوں کے اندر جس قدر کمالات ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں۔ اس لئے جو نیکی بھی وہ کریں۔ اس کی تعریف کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے (۵) حمد کو ربوبیت عالمین کے ساتھ وابستہ کر کے یہ بتایا ہے کہ حقیقی خوشی انسان کو اسی وقت ہونی چاہیئے۔ جب اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین ظاہر ہو۔ جو شخص اپنے فائدہ پر خوش ہوتا ہے اور دُنیا کے نقصان کی طرف نگاہ نہیں کرتا۔ وہ اسلام کی تعلیم کو نہیں سمجھتا۔ حقیقی خوشی یہی ہے کہ سب دنیا آرام میں ہو۔
(۶) یہ فرما کر کہ اللہ تعالیٰ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے۔ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے ربوبیت کا محل ہے یعنی ارتقاء کے قانون کے ماتحت ہے۔ یہ بتایا ہے کہ دنیامیں کوئی چیز نہیں جس کی ابتداء اور انتہا یکساں ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ اور ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ کی طرف جاتی ہے۔ جس سے دو امر ثابت ہوتے ہیں۔ اوّل خدا تعالیٰ کے سوا ہر شے مخلوق ہے کیونکہ جو چیز ترقی کرتی اور تغیر پکڑتی ہے وہ آپ ہی آپ نہیں ہو سکتی۔
دوسرے ارتقاء کا مسئلہ درست ہے۔ ہر شے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف گئی ہے خواہ انسان ہو ںخواہ حیوان۔ خواہ نباتات ہوں خواہ جمادات۔ کیونکہ رب العالمین کے معنی یہ ہیں کہ ہر شے کو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جا کر اللہ تعالیٰ کمال تک پہنچاتا ہے پس ثابت ہوا کہ ارتقاء کا مسئلہ دُنیا کی ہرشے میں جاری ہے (۷) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتقاء مختلف وقتوں اور مدارج (STAGES)میں حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ رب کے معنی ہیں۔ اِنْشَائُ الشَیُٔ حالاًفحا لًا اِلیٰ حدِّ التَّمامِ چیز کو مختلف وقتوں اور مختلف درجو ںمیں ترقی دیکر کمال تک پہنچانا (نہ کہ ایک ہی کڑی کو مکمل کرنا)۔
(۸) یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتقاء اللہ تعالیٰ کے وجود کے منافی نہیں۔ کیونکہ فرمایا کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ارتقاء کے ذریعہ سے پیدائش خدا تعالیٰ کے عقیدہ کے خلاف نہیں پڑتی۔ بلکہ اس سے وہ حمد کا مستحق ثابت ہوتا ہے۔ اسی لئے رَبّ الٔعَالَمِیْن کے ساتھ اَلْحمدُلِلّٰہِ کے الفاظ استمعال فرمائے۔
(۹) اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کو لامتناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہ مختلف انواع و اقسام کی مخلوق کو ادنیٰ حالت سے اُٹھا کر اعلیٰ تک پہنچاتا ہے اور یہ مضمون صحیح نہیں ہو سکتا جب تک ہر مقام اور درجہ سے اوپر کوئی اور درجہ تسلیم نہ کیا جائے۔
(۱۰) سب سے آخر میں یہ کہ اس سورۃ کو جو سب سے پہلی سورۃ ہے اور قرآن کریم کے مطالب کا خلاصہ اَلْحَمدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سے شروع کر کے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل حمد اب شروع ہو گی کیونکہ اسلام جو رب العالمین کی صفت کا کامل مظہر ہے سب دنیا کی طرف آیا ہے اور جسمانی عالم کی طرح روحانی عالم میں بھی اتحاد پیدا کر دیا گیا ہے پہلے جب مختلف اقوام کی طرف الگ رسول آتے تھے۔ بعض نادان متبع دسرے انبیاء کی تعلیم کو غلط سمجھ کر ان کی تردید کرتے تھے ہندو کہتے ہم یہودا کو نہیں جانتے پر میشور کو جانتے ہیں یہود پر میشور پر ہنسی اُڑاتے۔ لیکن اسلام کے ظہور سے سب دنیا کے لئے ایک دین ہو گیا۔ اور ہندی اور چینی اور مصری اور ایرانی اور مغربی اور مشرقی سب خدا کی تعریف میں لگ گئے اور یہ تسلیم کیا گیا کہ ہر قوم کا خدا الگ نہیں ہے بلکہ سب اقوام کا خدا ایک ہی ہے۔
۴؎ حل لغات
رَحْمٰنِ اور رَحِیْم کے لئے دیکھو لغت ۲؎ سورۃ ہذا۔
تفسیر۔ الرحمن الرحیم۔ ان الفاظ کے معنی بسم اللہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ان دونوں صفات کا ذکر میں ہو چکا ہے بِسْمِ اللّٰہِ الرّحْمٰنِ الرّحِیْمِ میں ہو چکا ہے پھر ان کو دُہرایا کیوں گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بسم اللہ میں ایک مستقل مضمون بیان ہوا ہے اور وہ ہر سورۃ کی کنجی ہے۔ اس لئے سورۃ کے مضمون میں اگر اپنے موقعہ پر انہی صفات کو دوبارہ بیان کیا جائے۔ تو یہ امر تکرار نہیں کہلا سکتا۔ چنانچہ یہاں بھی اسی حکمت سے ان صفات کو دُہرایا گیا ہے۔ رب العالمین میں یہ مضمون بتایا گیا تھا۔ کہ خدا تعالیٰ پیدا کر کے آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ اعلیٰ ترقیات تک پہنچاتا ہے۔ آیت زیر تفسیر میں الرّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے الفاظ سے طریق ربوبیت بتایا ہے اور وہ یہ کہ (۱) اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے اس نے ہر چیز کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو اِس کی ترقی میں حمد ہوتے ہیں اور باریک دربار یک سامان پیدا کر کے مخفی اور مخفی قوتوں کو قوت ظہور عطا فرمائی ہے۔ اور ترقی کے ذرائع بہم پہنچائے ہیں۔ انسان حیوان نباتات جمادات سب اپنے گرد و پیش سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اپنے قیام یا اپنی تکمیل کے سامان حاصل کر رہے ہیں (۲) وہ رَحِیْم ہے پس جب کوئی مخلوق اپنے فرائض کو اچھی طرح ادا کرتی ہے تو اس کی قدر دانی کی جاتی ہے اور اس پر خاص فضل کیا جاتا ہے اور مزید ترقی کی اس میں اُمنگ پیدا کی جاتی ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ لامتنا ہی طور پر چلا جاتا ہے۔
الرَّحْمٰن۔ ایسی صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کا استعمال دوسروں پر نہیں ہوتا سوائے اضافت کے جیسا کہ مسیلمہ کذاب اپنے آپ کو رحمٰن یمامہ کہلواتا تھا۔ اس کے معنی جیسا کہ بتایا جا چکا ہے بلا مبادلہ اور بلا استحقاق رحم کرنے کے ہیں۔ اور اس مفہوم میںکفارہ کا رد پایا جاتا ہے۔ کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ اللہ تعالیٰ بلا استحقاق رحم نہیں کر سکتا۔ مسیحیوں کو اس کا اس قدر احساس ہے کہ عرب کے نصاریٰ بھی جب اپنی تصنیفات یا خطوں پر خدا تعالیٰ کا نام لکھتے ہیں تو بسم اللہ کے بعد اور صفات کا ذکر کر دیتے ہیں۔ رحمٰن کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ سوائے ایسے شخص کے جو اسلامی تمدن سے متاثر ہو۔ مثلاً یہ لکھ دیں گے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الکریم الرَّحِیْم یا اور کوئی صفت بیان کر دینگے۔ رحمٰن کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان کا دل مانتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ رحمن ہے تو پھر اس کے لئے مسیح کا کفارہلئے بغیر بندوں کے گناہ بخشنا کچھ بھی مشکل نہیں۔
رحیم کی صفت میں تناسخ کا ردّ ہے۔ کیونکہ تناسخ کی بنیاد محدود عمل کی غیر محدود جزاء نہ مل سکنے کا عقیدہ ہے صفت رحیم بتاتی ہے۔ کہ محدود عمل کی غیر محدود جزاء نہیں ملتی بلکہ نیک عمل کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مکرر ہوتا ہے پس اس کے بدلہ میں جزاء بھی مکرر ملتی ہے۔ رحیم کا لفظ بار بار رحم کرنے پر دلالت کرتا ہے اور بار بار رحم کے معنے یہ نہیں کہ ایک ہی فعل کا بار بار انعام ملتا ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ جو شخص نیکی کی حقیقت کو سمجھتا ہے وہ باربار نیک اعمال بجا لاتا ہے اور کم سے کم اس کے دل میں بار بار نیک عمل بجا لانیکی خواہش ضرور پائی جاتی ہے پس ہر دفعہ جب نیک عمل کی جزا بندہ کو ملتی ہے اور نیکی کرنے کی طاقت اور اس کے بار بار بجا لانے کی خواہش اور بھی ترقی کی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس پر پھر رحم کرتا ہے اور مومن کی نیکی کی خواہش او ربھی زیادہ ہو جاتی ہے اور وہ نیکی کے کاموں میں اور بھی بڑھ جاتا ہے اور اس طرح رحم بار بار نازل ہوتا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا رحم صرف گذشتہ فعل پر انعام کا رنگ ہی نہیں رکھتا بلکہ آیندہ نیکی کے لئے ایک بیج کا کام بھی دیتا ہے۔
در حقیقت محمدود عمل کا خیال ہندوئوں میں محض اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ انہوں نے جنت کو بیکاری او ربے عملی کا ایک مقام سمجھ لیا ہے اور ان کو سمجھنا بھی ایسا ہی چاہیئے کیونکہ وہ نجات کے معنی نروان یعنی تمام خواہشات ا ور اعمال سے آزاد ہونا سمجھتے ہیں۔ پس ان کے نزدیک عمل اسی دُنیا میں ختم ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے محدود ہوتا ہے۔ اور چونکہ عمل محدود ہوتا ہے ان کے نزدیک اس کا بدلہ بھی محدود ہونا چاہیئے۔ مگر اسلام بار بار رحم اور بار بار عمل کے مسئلہ کو پیش کرتا ہے اور جنت کو دارالعمل ہی قرار دیتا ہے جب خدا تعالیٰ رب العالمین ہے تو جنت بھی تو ایک عالم ہے وہاں بھی ترقی ہو گی۔ ورنہ رب العالمین صحیح نہیں ٹھہرتا۔ اور جب انسان وہاں بھی ترقی کرے گا۔ تو لازماً اس کے تقویٰ اور اس کی محبت الٰہی میں بھی ترقی ہو گی اورجب ان چیزوں میں ترقی ہو گی تو اس ترقی کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کا رحم بھی پھر سے نازل ہو گا۔ اور جب یہ رحم اور عمل کا بار بار تبادلہ ہوتا رہے گا تو نجات کا وقت محدود کس طرح ہو سکتا ہے اس دنیا اور اگلے جہاں کے عمل میں صرف یہ فرق ہے کہ اس دُنیا میں تنزل کا خطرہ بھی ساتھ لگا ہوا ہے۔ مگر اگلے جہان میں صرف ترقی ہو گی تنزل نہ ہو گا۔ ورنہ روحانی عمل اور روحانی ترقی وہاں بھی ہو گی۔ پس محدود عمل اور غیر محدود جزاء کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
۵؎ حل لغات
مالکِ ملَک اور مِلک تین ملتے مجلتے ہوئے لفظ ہیں۔ مالک جسے کسی چیز پر جائز قبضہ اور اقتدار حاصل ہو۔ ملک۔ فرشتہ۔ اور ملک بادشاہ یعنی جسے سیاسی اقتدار حاصل ہو۔
یَوْم۔ اس کے معنی مطلق وقت کے ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (حج ع ۶) خدا تعالیٰ کا بعض دن ہزار سال کا ہوتا ہے ایک شاعر کہتا ہے یو ماہ یومر ندیً ویوم طعاء ن میرے ممدوح پر دو ہی قسم کے وقت آتے ہیں۔ یا ِتو وہ سخاوت میں مشغول وتا ہے یا دشمنو ںکو قتل کرنے میں اسی طرح عرب کہتے ہیں۔ یو ماہُ یومُ نُعمٍ ویوم بُؤسٍ ای الدّھر۔ یعنی زمانہ دو حال سے خالی نہیں یا تو اسنان کے لئے نعمتیں لاتا ہے یا تکالیف لاتا ہے۔ (لسان العرب) اسی طرح سیبویہ کا قول ہے کہ عرب کہتے ہیں۔ اَنَا الْیَوْمَ اَفْعَلُ کَذَا الاَ یُرِ یْدُونَ یَوْمًا بِعَیْنِہٖ وَلٰکِنَّھُمْ یُرِیْدُونَ الْوَقْتَ الْحَاضِرَ (لسان العرب) یعنی جب کہتے ہیں کہ میں آج کے دن اس اس طرح کروں گا۔ تو اس سے مراد چوبیس گھنٹہ والا دن نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے مراد صرف موجودہ وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ جو قرآن کریم میں آتا ہے۔ اس سے بھی مُراد معروف دن نہیں بلکہ زمانہ اور وقت مراد ہے (لسان العرب) پھر لکھا ہے وَقَدْ یُرَادُ بِالْیَوِمَ اَلْوَقْتُ مُطْلَقًا وَمِنْہُ الحَدِیْثُ تِلْکَ اَیَّامُ الْھَرَجُ اَیْ وَقْتہٌ (لسان العرب) یعنی کبھی یوم سے مطلق وقت مراد ہوتا ہے جیسے حدیث میں ہے کہ یہ دن فتنہ اور لڑائی کے دن ہیں۔ مراد یہ کہ یہ فتنہ اور لڑائی کا زمانہ ہے۔
الدین۔ الجزاء و المکافاۃ۔ بدلہ۔ الطاعۃ اطاعت۔ الحساب۔ محاسبہ۔ القھر و الغلبہ والا ستعلاء غلبتہ السطان و الملک و الحکم۔ تصرف۔ حکومت۔ السیرۃ خصلت۔ التدبیر۔ تدبیر۔ اِسْمٌ لِجَمِیِعَ مایُعْبَدُ بِہٖ اللّٰہُ وہ تمام طریقے جن سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے وہ سب دین کہلاتے ہیں۔ یعنی شریعت۔ نیز اس کے معنی ہیں الِملَّۃ مذہب۔ الوَرَعُ۔ نیکی۔ المَعصیۃ نافرمانی۔ الحال۔ کیفیت القضاء فیصلہ۔ العادۃ۔ عادت۔ الشان۔ خاص حالت (اقرب)
تفسیر۔ آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزا کے وقت کا مالک ہے۔ شریعت کے وقت مالک ہے۔ فیصلہ کے وقت کا مالک ہے۔ شریعت کے وقت کا مالک ہے۔ مذہب کے زمانہ کا مالک ہے۔ نیکی کے زمانہ کا مالک۔ گناہ کے زمانہ کا مالک ہے۔ محاسبہ کے وقت کا مالک ہے۔ اطاعت کے وقت کا مالک ہے۔ غلبہ کے وقت کا مالک ہے۔ خاص اور اہم حالتوں کا مالک ہے۔
عام طور پر تو اس کے معنی قیامت کے دن کا مالک کئے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ لغت سے ظاہر ہے۔ یہ معنی محض تفسیری ہیں لغوی نہیں۔ دین کے ایک معنی جزاء سزا کے ہیں۔ اور جزاء سزا کامل مظاہرہ چونکہ قیامت کے دن ہو گا۔ اس لئے مفسرین نے جزاء سزا کے معنوں کی بنیاد پر اس آیت کے یہ معنی کر دیئے کہ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ حالانکہ لغت کے رو سے اس آیت کے مختلف معنی ہوتے ہیں اور سب کے سب قرآنی مطالب کے مطابق اور درست ہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ایک معنوں کو تو لے لیا جائے اور دوسروں کو چھوڑ دیا جائے۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے۔ مفسرین اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزا کے وقت کا مالک ہے۔ ان معنوں کے رو سے ایک تو اس آیت کی یہ تشریح ہو گی۔ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ یعنی اس دن جزاء سزا میں کسی اور کا دخل نہ ہو گا بلکہ جزاء سزا صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی۔ اس طرح اس دُنیا اور اگلے جہان کے نتائج میں فرق بتایا ہے کہ اس دُنیا میں تو اچھے برے افعال کی جزاء سزاء انسانوں کے ذریعہ سے بھی ملتی ہے اور اس میں لوگوں سے غلطی بھی ہو جاتی ہے مگر قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ ہی جزاء سزاء دے گا۔ اور یہ ناممکن ہو گا کہ کسی پر ظلم ہو اور اسے بے گناہ سزا مل جائے یا جُرم سے زیادہ سزا مل جائے۔ نیز مجرم کے لئے بھی ناممکن ہو گا کہ جھوٹ فریب سے کام لے کر سزا سے محفوظ ہو جائے۔
نیز اس میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزاء کے وقت صرف بطور مِلک نہیں کام کریگے بلکہ بطور مالک کام کرے گا۔ مِلک یعنی بادشاہ جب فیصلہ کرتا ہے تو اس کا کام صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ انصاف کیا ہے۔ کیونکہ جن امور کا فیصلہ وہ کرتا ہے وہ مدعی اور مدعا علیہ کے حقوق کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں۔ اس لئے اسے یہ اختیار نہیں ہوتا۔ کہ وہ کسی کو معاف کر دے لیکن اللہ تاعلیٰ چونکہ بادشاہ ہی نہیں بلکہ مالک بھی ہے اس لئے اُسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حق میں سے جس قدر چاہے معاف کر دے۔ اس مضمون سے ایک طرف تو امید کا ایک اہم پہلو پیدا کر دیا گیا ہے او رمایوسی سے انسان کو بچا لیا گیا ہے۔ دوسری طرف انسان کو ہوشیار بھی کر دیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے رحم سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کا خیال دل میں نہ لانا۔ کیونکہ مالک ہونے کے لحاظ سے جہاں وہ رحم کر سکتا ہے۔ وہاں اپنی پیدائش کو گندہ دیکھنا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ گویا امید اور خوف کے خیالات یکساں پیدا کر کے انسان کے اندر چستی او رہمت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ برخلاف مسیحی نجات کی تعلیم کے کہ ایک طرف انصاف کا غلط مفہوم پش کر کے گناہ پر دلیر کر دیا گیا ہے گویا مسیحی عقیدہ کے دونو ںپہلوئوں نے پاکیزگی کی نہیں بکہ گناہ کی مدد کی ہے حد سے زیادہ مایوسی نے بھی گناہ ہی پیدا کیا ہے اور حد سے زیادہ امید نے بھی گناہ ہی پیدا کیا ہے کچھ لوگ تو پاکیزگی سے مایوس ہو کر نیکی کو چھوڑ بیٹھیں گے اور کچھ لوگ کفارہ پر توکل کر کے گناہ پر دلیر ہو جائینگے۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ شریعت اور مذہب کے وقت کا مالک ہے۔ اس میں ایک لطیف مضمون قانونِ قدرت کے بارہ میں بیان کیاگیا ہے عام طور پر خدا تعالیٰ کی معاملہ دُنیا کے ساتھ عام قانونِ قدرت کے ماتحت ہوتا ہے۔ لیکن جس زمانہ میں مذہب یا شریعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ صفت مالکیت کا اظہار کرتا ہے۔ یعنی نہ صرف بادشاہت کا ظہور ہوتا ہے جو عام قانون سے تعلق رکھتا ہے۔ بلکہ ان دنوں مالکیت کی صفت کا خاص طور پر ظہور ہوتا ہے یعنی خاص تصرف سے اللہ تعالیٰ کام لیتا ہے اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کی باریکیوں سے واقف نہیں بظاہر قانونِ قدرت کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہیں ایک بیچارہ اور بے کس وجود دُنیا کے سامنے آ کر دعویٰ پیش کرتا ہے۔ سب لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن باوجود ظاہری سامانوں کے مخالف ہونے کے وہ شخص کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح او ربہت سے معاملات میں دُعائوں اور معجزات کے ذریعہ سے ایسے واقعات ظاہر ہوتے ہیں کہ دنیا انہیں دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے در حقیقت ان واقعات کی حکمت یہی ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی روحانی سلسلہ کو چلاتا ہے یا کسی شریعت کی بنیاد قائم کرتا ہے توان ایام میں اپنی ملوکیت کیں نہیں بلکہ مالکیت کی صفت کو خاص طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یعنی عام قانون کی بجائے اپنے خاص طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یعنی عام قانون کی بجائے اپنے خاص قانون کو جو سا کے محبوبوں سے مخصوص ہے ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے اور ایسے واقعات ان دنوں میں ظاہر ہوتے ہیں جو خارق عادت نظر آتے ہیں۔ ہر نبی کے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی سنت اسی طرح ظاہر ہوتا چلی آئی ہے۔ اور اس سورۃ میں بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی اسی طرح ہو گا۔ خارق عادت واقعات سے جو بظاہر قانونِ قدرت کے مخالف نظر آئینگے۔ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرے گا۔ اور یہ امر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہ زمانہ قیام شریعت کا ہے۔ اور محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔
ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیکی کے وقت کا اور گناہ کے وقت کا مالک ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا پر دو دور آتے ہیں۔ ایک دور تو وہ ہوتا ہے جبکہ نیکی اور بدی یکساں طور پر دنُیا میں پائی جاتی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا عام قانون دنیا میں جاری رہتا ہے لیکن ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ دُنیا میں گناہ ہی گناہ پھیل جاتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ مالک کی حیثیت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور اپنے باغ کی اصلاح کرتا ہے اور نبی مبعوث فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ایک قوم دنیا میں ایسی قائم ہو جاتی ہے جو نیکی کے مقام کے مقام پر اس طرح قائم ہوتی ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہے گویا وہ سب کی سب نیک ہے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیروں کے ذریعہ اس قوم کی تائید کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم اپنے اس معیار کو کھو دیتی ہے۔ اور اس میں نیکی بدی کی متوازی تحریکیں جا رہی ہو جاتی ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیر کو واپس کر لیتا ہے اور عام قانونِ قدرت کے ماتحت اس سے معاملہ کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم ایک وقت میں جا کر بالکل خراب ہو جاتی ہے۔ تب سنت اللہ کے ماتحت پھر اللہ تعالیٰ مالکیت کی صفت کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر نبی مبعوث ہوتا ہے پھر گناہ کا قلع قمع کیا جاتا ہے پھر ایک پاکوں کی جماعت بنائی جاتی ہے اور اس تمام عرصہ میں قدرت خاص یعنی مالکانہ قدرت اور تصرف کا ظہور ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ پھر وہ قوم نیکی کے اعلیٰ معیار سے نیچے گر جاتی ہے او رپھر وہی پہلا سا دور شروع ہو جاتا ہے۔
ایک معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اطاعت کے وقت کا مالک ہے یعنی وہی قانون خاص جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور جو اقوام کے متعلق جاری ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خاص افراد کے لئے بھی جاری کرتا ہے یعنی جب کسی شخص کی زندگی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں گذرنے لگتی ہے تو اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ خاص قدرت کا اظہار کتا ہے اور وہ انسان عام انسانوں کی طرح نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے خاص قدرت کا اظہار کرتا ہے۔
ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہم حالتو ںکے وقت کا مالک ہے۔ اس سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دُنیامیں ہر کام ایک زنجیر سے مشابہت رکھتا ہے یعنی منفرد نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی بہت سی کڑیاں ہوتی ہیں۔ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اس کی بیماری اس دن کی کسی غلطی کے نتیجہ میں نہیں ہوتی۔ نہ تندرستی اس دن کی کسی غلطی کے نتیجہ میں نہیں ہوتی۔ نہ تندرستی اس دن کی ورزش یا غذا کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پس انسان کے اعمال دو نتیجے پیدا کرتے ہیں۔ ایک نتیجہ تو عارضی اور وقتی ہوتا ہے۔ اور ایک نتیجہ آخری او رمستقل ہوتا ہے۔ ایک بے احتیاط آدمی آنکھوں کا غلط استمعال کرتا ہے تو اس کی آنکھیں دکھنے آ جاتی ہیں۔ مگر علاج سے اچھی ہو جاتی ہیں۔ پھر بے احتیاطی کرتا ہے پھر دیکھنے آ جاتی ہیں پھر علاج کرتا ہے پھر اچھی ہو جاتی ہیں۔ آخر ایک دن نظر جاتی ہی رہتی ہے اور علاج بپے فائدہ ہو جاتا ہے ایک محنتی طالب سلم سبق یاد کرتا ہے دوسرے دن اُستاد اس سے خوش ہو جاتا ہے یہ نتیجہ تو ساتھ کے ساتھ نکلتا رہتا ہے مگر اس محنت کا ایک خوشگوار اثر اس کے دماغ پر پڑتا جاتا ہے او راس کتابی علم کے علاوہ جو سبق یاد کرنے سے اسے حاصل ہو رہا تھا۔ ایک ذہانت ایک علم کی باریکیوں کے سمجھنے کا ملکہ اس کے دماغ میں پیدا ہوتا چلا جاتا ہے جو ایک دن اسے دنیا کا مرجع اور ممدوح بنا دیتا ہے یہ آخری نتائج ایسے باریک طور پر پیدا ہوتے ہیں کہ ساتھ اور دوست بھی اسے دیکھ نہیں سکتے اور اس کی وجہ سمجھ نہیں سکتے۔
اس مضمون سے اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ آخری اور مستقل کامیابی اللہ تعالیٰ کے تعلق سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ بیشک انسان عام قانون کی فرمانبرداری کر کے عزت اور رتبہ حاصل کر لیتا ہے لیکن ایک آخری نتیجہ جو اعمال کی زنجیر کے مکمل ہونے سے پیدا ہوتا ہے اصل میں وہی قابل قدر شے ہے خصوصاً جو موت کے وقت ایمان کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ اسی پر اگلے جہان کی زندگی کا انحصار ہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن سے یہ مُراد نہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ اس دُنیاکا مالک نہیں ہے بلکہ اگر اس آیت کے معنی قیامت کے دن کے مالک کے کئے جائیں تب بھی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ظاہری طو رپر بھی کوئی مالک نہ ہو گا جیسا کہ فرمایا وَمَآ اَدْرٰکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٍ لَّنَفْسٍ شَیْئًا وَالْاَ مْرُیَوُ مَئِذٍلِلّٰہِ (انغطار) یعنی تم کو کیا معلوم کہ یوم الدین کیا ہے۔ یوم الدین وہ دن ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ اور صرف خدا تعالیٰ کا حکم جاری ہو گا۔ پس مالک سے مراد یہ ہے کہ اس دُنیا میں جو ظاہر میں بادشاہ اور حاکم اور مالک نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ اگلے جہان میں ختم ہو جائے گا۔ اور یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جہان ا مالک نہیں ہے۔
ان چاروں صفات میں اور جس ترتیب سے وہ بیان ہوئی ہیں سلوک کا ایک اعلیٰ نکتہ بیان کیا گیا ہے جب ہم اس امر کو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا مقام اعلیٰ ہے اور بندہ کا ادنیٰ تو یہ امر ہمارے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف متوجہ ہو گا تو اوپر سے نیچے کی طرف آئے گا لیکن جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو نیچے سے اوپرکی طرف جائے گا۔ اس نکتہ کو سمجھ لینے کے بعد ان صفات کو دیکھ کر جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں ہم سمجھ سکتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف (۱) رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (۲) رحمٰن (۳) رحیم (۴) مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفات سے درجہ بدرجہ تنزل کرتا ہے۔ یعنی جب وہ اپنے بندہ پر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ تو پہلے رب العالمین کی صفت کا ظہور ہوتا ہے یعنی وہ ایسے ماحول تیار کرتا ہے جن میں اس کے منظور اور محبوب بندہ کی صحیح نشوونما ہو سکے۔ پھر وہ ان سامانوں کو اپنے بندہ کے ہاتھ میں دیتا ہے جن سے وہ روحانی ترقی کر سکے۔ پھر بندہ جب ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرتا ہے اور انعامات کے ایک لمبے سلسلہ کے بعد بندہ کی جدوجہد کا آخری نتیجہ نکالتا ہے یعنی اسے دنیا پر غالب کر دیتا ہے اور اپنی مالکیت کی صفت اس کے لئے ظاہر کر کے اسے دنیا پر غلبہ دے دیتا ہے۔
اس کے برخلاف جب ہندو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسے پہلے مالک کی صفت کا مظہر ہونا پڑتا ہے یعنی وہ انصاف اور عدل کو دنیا میں جاری کرتا ہے مگر اس کے انصاف کے ساتھ رحم کی ملونی ہوتی ہے۔ اور عفو کا پہلو غالب ہوتا ہے جس کے معنے ایصال شر سے اجتناب کے ہیں۔ جب بندہ اور ترقی کرتا ہے۔ تو رحیمیت کی صفت کا مظہر ہو جاتا ہے۔ یعنی جو لوگ اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ان کے کاموں کی قدردانی کرتا ہے بلکہ ان کے حق سے زیادہ ان پر انعام کرتا ہے یعنے ایصال خیر کی عادت اس میں پائی جاتی ہے جسے احسان کہتے ہیں۔ پھر اس کے اوپر انسان ترقی کرتا ہے۔ اور رحمانیت کی صفت کا ظہور اس کے ذریعہ سے ہونا شروع ہوتا ہے اور وہ اپنے پرائے سب سے نیک سلوک کرنا شروع کرتا ہے اور اس کا دل وسیع ہو جاتا ہے۔ اور وہ رحمانیت کا مظہر بن جاتا ہے کافر و مومن سب کی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اور خواہ کسی نے اس سے حسن سلوک کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سب سے نیک سلوک کرے۔ اسے اِیْتَائِ ذِی الْقُرْبیٰ کی حالت کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح ماں اپنے بچہ کی خدمت اطاعت کا خیال کئے بغیر یا کسی بدلہ کی امید رکھے بغیر کرتی ہے اسی طرح یہ شخص بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہو جاتا ہے پھر اس مقام سے ترقی کر کے انسان رب العالمین کا مظہر ہو جاتا ہے یعنی اس کی نظر فرد سے اُٹھ کر نظام تک جا پہنچتی ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو دنیا کا نگران اور داروغہ سمجھ لیتا ہے اور دنیا کی اصلاح کی طرف بحیثیت مجموعی توجہ کرتا ہے اور سوسائٹی کی حالت کو بدل ڈالتا ہے۔ یہ صعود اور ہبوط کی راہیں جو ان صفات میں بیان کی گئی ہیں۔ سلوک کے اعلیٰ گر اپنے اندر محفی رکھتی ہیں اور سالکوں کے لئے ایک عظیم الشان رحمت ہیں۔
۶؎ حل لغات
اِیَّاکَ عام قاعدہ کے رو سے لَعْبُدُکَ چاہئے تھا مگر معنوں میں اختصاص پیدا کرنے کے لئے ک کو پہلے لایا گیا۔ اور چونکہ ک اکیلا پہلے نہیں آ سکتا اس لئے ایا کو ضمیر منصوبہ ہے اس پر پڑھایا گیا۔ پس اِیَّاکَ نَصْبُدُ کے معنی ہوئے ہم تجھے عبادت کے لئے مخصوص کرتے ہیں۔
نَعْبُدُ ہم عبادت کرتے ہیں۔ اس کا ماضی عَبَدَ ہے اور اس کے مندرجہ ذیل معنی ہیں۔ عَبَدَ اللّٰہَ طاعَ لُہٗ وَخَضَعَ وَ ذَلَّ وَ خَدَمَہٗ وَالْتَزَمَ شَرَائعَ دِیْنِہِ وَ وَحَّدَہٗ (اقرب) یعنی عبد کے معنی ہیں اس کی اطاعت کی اور اس کے حکم کے آگے سر جھکایا اور اس کی خدمت کی اور اس کے دین کے احکام پر مستقل طور پر عمل کرنے لگا اور اس کی توحید کا اقرار کیا۔
عبد کے ایک معنی کسی کے نقش قبول کرنے کی ہیں چنانچہ کہتے ہیں۔ طریق معبّدٌ اے مذتّلٌ ایسا رستہ جو کثرت آمدو رفت سے اس طرح ہو گیاہو کہ پائوں کے نقش قبول کرنے لگ جائے۔
پس عبادت ایک ایسی کامل ہستی کی ہو سکتی ہے جو اپنے کمالات میں منفرد ہو اور اس کا کوئی شریک نہ ہو اور جس کی اطاعت افر فرمابرداری انسان کے لئے ممکن ہو کیونکہ جس کی فرمانبرداری ممکن ہی نہ ہو اس کی عبادت ایک بیمعنی لفظ ہو گا۔
یہ ظاہر ہے کہ ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی نہیں جس کی حقیقی معنوں میں فرمانبرداری کی جا سکے اور جس کی ذات کو چن کر انسان اسی کا ہو جائے اس کے سوا جس کی بھی انسان اطاعت کرے وہ اطاعت محدود ہو گی اور پھر اس کے سوا اور وجود بھی یا اور قانون بھی ایسے ہوں گے جن کی اطاعت پر انسان مجبو رہو گا۔
نَسْتَعِیْن ۔ استعانتہ سے ہے جس کے معنی مدد حاصل کرنے یا طلب کرنے کے ہیں۔ پس ایّاکَ نَسْتَعِیْن کے معنے ہوئے ہم مدد طلب کرنے کے لئے تجھے مخصص کرتے ہیں یعنی اور کسی لائق نہیں سمجھتے کہ اس سے مدد طلب کریں۔
تفسیر۔ اَلْحَمْدَلِلّٰہِ سے لے کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن تک کی عبارت سے یُوں ظاہر ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ بندہ کی نظر سے اوجھل ہے اور وہ اس کی تعریف کر رہا ہے۔ لیکن ایّاک نَعْبُدُ سے یک دم خدا تعالیٰ کو مخاطب کر لیا گیا ہے بعض نادانوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ یہ حسنِ کلام کے خلاف ہے۔ حالانکہ یہ حسنِ کلام کے خلاف نہیں۔ بلکہ حسنِ کلام کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے وہ بندہ کو نظر نہیں آتی۔ اس کی صفات کے ذریعہ سے وہ اسے شناخت کرتا ہے۔ اور اس کے ذکر کے ذریعہ سے وہ اس کے قریب ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل کی آنکھیں اسے دیکھ لیتی ہیں۔ ان آیات میں سلوک کے اس نکتہ کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ رَبّ الْعَالَمِیْن رَحْمٰن۔ رَحِیْم۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفات پر جب انسان غور کرتا ہے۔ تو اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت شدید طور پر اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے تب وہ روحانی طو رپر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف اور اس کی محبت سے مغلوب ہو کر بے اختیار چلا اٹھتا ہے۔ کہ اے رب میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ پس اس طرح ضمائر کر بدل کر اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ قرآن کریم میں بتائی ہوئی صفات پر غور کرنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی ملاقات حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بندہ کے سامنے آ جاتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے عن ابی ھُریرۃ عن رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہِ عُلیہ وسلم یقول اللّٰہ قسمتُ الصّلوٰۃ بَیْنِی و بین عبدی نِصْفین فنصفہالی و نصفہا لعبدی و لعبدی ماسألَ فاِذَا قال العبدُ الحمدُلِلّٰہِ ربّ العالمین قال اللّٰہُ حَمَدَنی عبدی واذا قال الرَّحْمٰن الرَّحیم۔ قال اثنٰی عَلَیّ عبدی و اذا قال مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن قال مجد نی عبدی و ربما قال فَوَّضَ اِلیّ عبدی و اذا قال اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن قال ھذا بینی و بین عبدی و لعبدی ماسأل و اذا قال اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم الخ (الیٰ اٰخرسورۃ) قال ھذا العبدی و لعبدی ماسال (مسلم کتاب الصلوۃ باب و جوب قراء ۃ الفاتحہ فی کل رکتہ) یعنی حضرت ابوہریرۃ فرماتے ہیں کہ بیٹے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے سورۃ فاتحہ کو اپنے اور اپنے بندہ کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ پس اس کا نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے۔ اور میرا بندہ جو کچھ مجھ سے (اس کے ذریعہ سے طلب کرتا ہے) وہ میں اسے دُونگا۔ جب بندہ میرے بندے نے میری حمد کی۔اور جب بندہ کہتا ہے اَلرَّحَمٰنِ الرَّحِیْم تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی ہے۔ او رجب بندہ کہتا ہے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے اپنا معاملہ میرے سپرد کر دیا ہے۔ او رجب بندہ کہات ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اُسے دُونگا۔ پھر جب بندہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمسے لے کر آخر تک کی آیات پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ دعا میرے بندے کے لئے ہے اور یہ سب کچھ میرے بندہ کو ملے گا۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل امو رکا استنباط ہوتا ہے۔ اول حمد ثنا اور تمجید میں فرق ہے۔ دوم مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی آیت کامل تو کل پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی اس میں یہ اشارہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو آخری نتائج کا مرتب کرنے والا قرار دے کر جب اَلْحَمْدُ کہتا ہے تو گویا وہ اس امر پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ درست ہے اور مجھے منظور ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ پر اس طرح توکل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کیوں نہ اس سے بخشش اور نرمی کا معاملہ کرے۔سوم یہ کہ اس سورۃ میں جن انعامات کے حصول کے لئے دُعا سکھائی گئی ہے وہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم ضرور ملیں گے کیونکہ اس دُعا کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ لعبدی ماسأل میرے بندہ نے جو کچھ مانگا ہے اُسے ضرور ملے گا۔
اس آیت میں نَعْبُدُ پہلے اور نَسْتَعِیْن بعد میں۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی توفیق تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی حاصل ہو سکتی ہے پھرنَعْبُدُ کو پہلے کیو ںرکھا۔ نَسْتَعِیْن پہلے چاہیئے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک عبادت بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتی ہے لیکن اس جگہ اعانت کا ذکر نہیں بلکہ استعانت کا ذکر ہے۔ یعنی مدد مانگنے کا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ جب بندہ کے دل میں عبودیت اور عبادت کا خیال پیدا ہو گا۔ اس کے بعد ہی وہ اللہ تعالیٰ دے دُعا مانگنے کا خیال کرے گا۔ جو عبادت کی طرف راغب ہی نہ ہو وہ مدد کیوں طلب کرے گا پس گو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اعانت کے بغیر عبادت کی توفیق نہیں ملتی لیکن استعانت یعنی بندہ کا اللہ تعالیٰ کے دروازہ پرجُھکنا عباد ت کا خیال آنے کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نعبدُ کو پہلے اور نستعین کو بعد میں رکھا گیا ہے۔
دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ارادہ بندہ کی طرف سے ہوتا ہے اور عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ اگر ارادہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو انسان کے اعمال اضطراری اعمال ہو جائیں۔ پس اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ جب بندہ کے دل میں عبادت کا خیال پیدا ہو۔ اسے اللہ تعالیٰ سے تکمیل ارادہ کے لئے دُعا کرنی چاہیئے اور کہنا چاہیئے کہ اے میرے رب میں تیری عبادت کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر اس عہد کی تکمیل تیری تیری عباد ت کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر اس عہد کی تکمیل تیری امداد کے سوا نہیں ہو سکتی۔ اس لئے تو میری مدد کر او رمجھے اس امر کی تفیق دے کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کروں۔
عبادت کامل تذال کا نام ہے۔ پس عبادت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو بندہ اپنے اندر پیدا کر لے عبادت کی ظاہری علامات صرف قلبی کیفیت کو بدلنے کے لئے مقرر ہیں۔ ورنہ اس میں کوئی شک انہیں کہ عبادت دل کی کیفیت اور اس کے ماتحت انسانی اعمال کے صدور کا نام ہے اور خاص اوقات کی تعیین اور قبلہ رو ہونا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا یا رکوع سجود کرنا یہ اصل عبادت نہیں بلکہ جسم کی ظاہری حالت کا اثر چونکہ دل پر ہوتا ہے اور توجہ بھی قائم ہوتی ہے نماز کے لئے کچھ ظاہری علامات بھی مقرر کر دی گئی ہیں۔ مگر وہ بمنزلہ برتن کے ہیں۔ جس میں معرفت کا دودھ ڈالا جاتا ہے یا بطور چھلکے کے ہیں جس میں عبادت کا مغز رہتا ہے۔
اس آیت میں اور بعد کی آیات میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی یوں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عبادت کرتے ہیں‘‘ اور ’’ہم مدد مانگتے ہیں‘‘ اور ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام ایک مدنی مذہب ہے وہ سب کے لئے ترقی چاہتا ہے۔ نہ کہ کسی ایک شخص کے لئے اور یہ بھی کہ ہر مسلمان دوسرے کا نگران مقرر کیا گیا ہے اس کا یہی کام نہیں کہ وہ خود عبادت کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کو عبادت کی تحریک کرے او راس وقت تک تحریک نہ چھوڑے جب تک وہ اس کے ساتھ عبادت کرنے میں شامل نہ ہو جائیں۔ اور وہ آپ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی توکل کی تعلیم دے اور اس وقت تک بس نہ کرے جب تک وہ توکل میں اس کے ساتھ شامہ نہ ہو جائیں اور وہ خود ہی ہدایت کا طالب نہ ہو بلکہ دوسروں کو بھی ہدایت طلب کرنے کی نصیحت کرے۔ او ربس نہ کرے جب تک ان کے دل میں بھی ہدایت طلب کرنے کی تڑپ پیدا ہو کر وہ اس کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں۔ اور خود بھی ہر دعا میں ’’میں‘‘ کی جگہ ہم کا لفظ استعمال نہ کرنے لگیں۔یہی تبلیغی اور تربیتی روح ہے جس نے اسلام کو چند سالوں میں کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔ اور گر آج مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو صرف اسی جذبہ کو اپنے دل میںپیدا کر کے جب تک مسلمان نَعْبُدُ اور نَسْتَعِیْن اور اِھْدِنَا کے الفاظ نہیں کہتے۔ جب تک ان الفاظ کو سچے طور پر کہنے کیلئے جدوجہد نہیں کرتے۔ اس وقت تک ان کا نہ دین میں ٹھکانا ہو گا نہ دُنیا میں۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت بھی اور استعانت بھی اور طلب ہدایت بھی بحیثیت جماعت ہی ہو سکتی ہے کیونکہ اکیلا آدمی صرف ایک محدود عرصہ کے لئے اور ایک محدود دائرہ میں عبادت کو قائم کر سکتا ہے۔ ہاں جو اپنی اولاد کو بھی اور اپنے ہمسائیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے وہ عبادت کا دائرہ وسیع کر دیتا ہے اور اس کا زمانہ ممتد کر دیتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ سچا عبد وہی ہے۔ جو اپنے آقا کی ملمو کہ اشیاء کو دشمن کے ہاتھ میں نہ پڑنے دے جو اپنے آقا کے باغ کو لٹتے دیکھتا اور اس کیلئے جدوجہد نہیں کرتا وہ ہر گز سچا بندہ نہیں کہلا سکتا۔
اِیّاکَ نَعْبُدُ و اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی آیت میں جبر اور قدر کے متعلق جو غلط خیالات لوگوں میں پھیل رہے ہیں۔ ان کا بھی رد کیا گیا ہے انسانی اعمال کے بارہ میں لوگوں میں دو غلط فہمیاں پیدا ہیں بعض تو یہ کہتے ہیں کہ جس قدر اعمال انسان سے سر زد ہو رہے ہیں جبر کے ماتحت ہیں یعنی انسان ان کے کرنے پر مجبور ہے۔ یہ خیال مذہبی لوگوں میں بھی ہے اور فلسفیوں میں بھی۔ اور اب علم النفس کے ماہرین کا ایک گروہ بھی ایک رنگ میں اس کا قائل ہو رہا ہے اور ان کا سردار ڈاکٹر فرائڈ آسٹرین پروفیسر ہے جو لوگ اس عقیدہ پر غلط مذہبی عقیدہ کی وجہ سے قائم ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے جس طرح ایک انجینئر جب عمارت بناتا ہے تو کسی اینٹ کو پاخانہ میں اور کسی کو بالاخانہ میں لگاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ محتار ہے کہ جسے چاہے نیک بنائے اور جسے چاہے بدکار بنائے۔سو اس نے بعض کو نیک اور بعض کو بدکار بنایا ہے۔ مسیحیوں نے ورثہ کا گناہ تسلیم کر کے جبر کے مسئلہ کو رائج کیا ہے۔ کیونکہ جب انسان ورثہ کے گناہ سے کفارہ کے بغیر آزاد نہیں ہو سکتا تو جس قدر لوگ کفارہ پر ایمان نہیں لاتے گنہگار ہونے پر مجبور ہیں۔ تناسخ کا مسئلہ بھی جبر کی تائید میں ہے۔ کیونکہ جو جون سابق گناہ کی سزا میں ملی ہے لازماً ان دح بندیوں کے نیچے رہے گی جو ساقبہ گناہ کی وجہ سے اس پر لگا دی گئی ہیں فلسفیوں کے عقیدہ کی بنیاد صرف تجربہ پر تھی کہ باوجود کوشش کے بعض لوگ گناہ سے بچ نہیں سکتے۔ لیکن ڈاکٹر فرائڈ نے اس مسئلہ کو علمی مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چونکہ انسان کی تعلیم ک زمانہ اس کے ارادہ کے زمانہ سے پہلے شروع ہوتا ہے یعنی بچپن سے۔ اور ارادہ اور اختیار بلوغ کے وقت پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اس کا ارادہ آزاد ہے۔ بلکہ جس چیز کو ہم ارادہ کہتے ہیں در حقیقت وہ وہی میلان ہے جو بچپن کے اثرات کے نتیجہ میں اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ انسان اپنے افعال کو با ارادہ اور خیالات کو آزاد سمجھتا ہے لیکن در حقیقت وہ صرف بچپن کے تاثرات کے نتائج ہیں۔ اور چونکہ وہ اس کے نفس کا جزو بن گئے ہیں۔ وہ اسے بیرونی اثر خیال نہیں کرتا بلکہ اپنا ارادہ سمجھتا ہے۔
ڈاکٹر فرائڈ کے یہ خیالات نئے نہیں اسلام میں ان کی سند ملتی ہے جیسے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کہ بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ مگر اَبَوَاہُ یُہَوِّدَاِنہِ اَوْیُنَصِّرانِہِ (بخاری کتاب الجنائز باب ماقیل فی اولاد المشرکین) اس کے ماں باپ اسے یہودی یا مسیحی بنا دیتے ہیں۔ یعنی ان کی تربیت کے اثر سے وہ بڑا ہونے سے پہلے ان کے غلط خیالات کو قبول کر لیتا ہے او ربے سمجھے بوجھے ان کے راستہ پر چل کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کی پیدائش پرع اس کے کان میں اذان کہنے کا حکم دے کر بچپن کے اثرات کی وسعت اور اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں قرآن کریم نے ان خیالات کو غلط حصہ کی تردید کی ہے کیونکہ جبر کی صورت میں جزآء سزاء ایک بے معنی فعل ہو جاتا ہے اور اِیَّاکَ نَعْبُدُکہہ کر بتایا ہے کہ انسانی ارادہ اپنی ذات میں آزاد ہے۔ گو ایک حد تک وہ محدود ہو لیکن اس کے اس حد تک آزاد ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ کہ وہ ہدایت کو دیکھ کر اپنے لئے ایک نیا راستہ اختیار کرلے مثلاً گو انسان برے اثرات کے تابع ہو لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی صفات پر وہ غور کرے تو اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی آواز اس کے اندر سے پیدا ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر فرائڈ اور ان کے شاگرد اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں۔ کہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور خیالات بھی بدلتے رہتے ہیں دنیا کبھی ایک حال پر قائم نہیں رہتی۔ اگر بچپن کے اثرات ایسے ہی زبردست ہوتے کہ ان سے انسان آزاد نہ ہو سکتا تو چاہیئے تھا۔ کہ آدم سے لے کر اس وقت تک دنیا ایک ہی راہ پر گامزن رہتی۔ لیکن اس میں بار ہا تغیر ہوا ہے۔ اور ہو رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ایسے تغیرات ممکن ہیں۔ جو انسان کے خیالات کی رو کو اس سمت سے بدل دیں۔ جن پر اس کے بچپن کے تاثرات اسے چلا رہے تھے قرآن کریم نے اس کے نہایت زبردست دلائل دیئے ہیں۔ مگر اس جگہ ان کی تفصیل کا موقعہ نہیں یہاں صرف اجمالی طور پر اس آیت سے جو استدلال ہوتا تھا۔ اسے بیان کر دیا گیا ہے۔
جبر کے عقیدہ کے بالکل مخالف ایک اور خیال بھی ہے اور یہ ہے کہ انسان اپنے خیالات میں بالکل آزاد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں کوئی دخل نہیں دیتا۔ اسلام اس خیال کو بھی رد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم ان اثرات کو جو گردو پیش سے انسان پر پڑ رہے ہیں بالکل نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پس ضروری ہے کہ ایک بالا ہستی جو تمام اثرات سے بلا ہے انسان کی نگران رہے اور ایسے بداثرات جب خطرناک صورت اختیار کر جائیں۔ تو انسان کی مدد کر کے ان سے اسے بچائے۔ اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی دعا سکھا کر اس طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ تمہارا خدا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھا بلکہ تمہاری مجبوریوں کو دیکھ رہا ہے۔ پس تم اس کے مانگو تو وہ تم کو دے گا۔ کھٹکھٹائو تو وہ تمہارے لئے کھولے گا۔
۷؎ حل لغات
اِھْدِنَا ھدی سے ہے کہتے ہیں ھَداہ اِلَی الطریق بَیَّنَہ لَہٗ اسے رستہ بتایا۔ ھَدَی العُرُوسَ اِلیٰ بَعْلَہِا زَنَّھا اِلَیْہِ دُلہن کو اس کے خاوند تک لے گیا۔ ھَدیٰ فُلاَنًا تَقَدَّمَدٗ اس کے آگے آگے چلا کہتے ہیں۔
جَائَ تِ الخَیْلُ یَھْدِیْہَا فَرَسٌ اَشْقَرُ اَیْ یَتَقَدَّ مُہَا۔ گھوڑے آئے جبکہ ان کے آگے آگے ایک سرخ رنگ کا گھوڑا دوڑتا چلا آ رہا تھا (اقرب) پس ھدیٰ کے تین معنی ہیں راستہ دکھانا۔ راستہ تک پہنچانا اور آگے آگے چل کر منزل مقصود تک لئے جانا۔
قرآن کریم میں بھی ھدایۃ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک معنی اس کے کام کی طاقتیں پیدا کر کے کام پر لگا دینے کے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں آتا ہے اَعْطیٰ کُلَّ شَیًُ خَلْقَہ ثُمّ ھَدَٰی (طہ ۱ ع ۲) یعنی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ نے اس کے مناسب حال کچھ طاقتیں پیدا کیں پھر اسے اس کے مفوضہ کام پر لگا دیا۔ دوسرے معنی ہدایت کے قرآن کریم سے ہدایت کی طرف بلانے کے معلوم ہوتیہیں۔ مثلاً فرمایا وَجَعَلنَا مِنْھَمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِناَ (سجدہ ع ۳) اور ہم نے ان میں سے امام بنائے جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کو تورات کی طرف بلاتے تھے۔ تیسرے معنی ہدایت کے قرآن کریم سے چلاتے لئے آنے کے ہیں جیسے کہ جنتیوں کی نسبت آتا ہے کہ وہ کہیں گے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَ نٰا لِھٰذَا (اعراف ع ۵) سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو ہمیں جنت کی طرف چلاتا لایا اور جس نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا۔ اسی طرح ہدایت کے معنی سیدھے راستہ کے ساتھ موانست پیدا کرنے کے بھی ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہٗ (تغابن ع ۲) جو اللہ پر کامل ایمان لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ہدایت سے موانست پیدا کر دیتا ہے اور اچھی باتوں سے اسے رغبت ہو جاتی ہے۔ اس آیت میں راہ دکھانے کے معنی نہیں ہو سکتے کیونکہ جو ایمان لاتا ہے اسے راہ تو پہلے ہی مل چکا۔ ہدایت کے معنی کامیابی کے بھی قرآن کریم میں آتے ہیں سورۂ نور میں منافقوں کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ کہتے تو یہ ہی کہ انہیں جنگ کا حکم دیا جائے تو وہ ضرور اس کے لئے نکل کھڑے ہونگے لیکن عمل ان کا کمزور ہے فرماتا ہے قسمیں نہ کھائو عملاً اطاعت کرو۔ کیونکہ اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔ پھر فرماتا ہے اے رسول ان کے کہدے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اھاعت کرو۔ پھر اگر اس حکم کے باوجود تم پھر گئے تو رسول پر اس کی ذمہ داری ہے۔ تم پر تمہاری۔ اور یاد رکھو کہ اِنْ تُطِیْعُوْۃَ تھْتَدُوْا (نور ع ۷) اگر تم رسول کی بات اس بارہ میں مان لوگے تو نقصان نہ ہو گا بلکہ تم کا میاب ہو جائوگے اور فتح پائو گے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے اَلَّذِیْنَ اھْتَدَوُا زَادَ ھُمْ ھُدًی (سورہ محمد ع ۲) جو لوگ اس ہداتی کو جو انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ اپنے نفس میں جذب کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور ہدایت کرتا ہے قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوات ہے کہ ہدایت کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ اس کے بے انتہا مدارج ہیں۔ ہدایت کے ایک درجہ سے اوپر دوسرا درجہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب ہو جاتے ہیں انہیں ایک درجہ کے بعد دوسرے درجہ سے روشناس کرایا جاتا ہے۔
صراط۔ راستہ یہ لفظ ص سے بھی لکھا جاتا ہے اور س سے بھی صراط یا سراط ایسے راستہ کو کہتے ہیں جو صاف ہو۔ چنانچہ عربی کا محاورہ ہے سَرَطْتُ الطعَامَ میں نے بسہولت نگل لیا۔ اور اچھے اور ہموار راستہ کو سراط یا صراط اس لئے کہتے ہیں کہ گویا اس پر چلنے والا اسے کھاتا جاتا ہے۔ (مفردات)
مستقیم۔ استقامۃ سے ہے۔ مفردات میں ہے۔ اَلْاِسْتَقَامَۃُ یُقَالُ فی الطویقِ الذی یکونُ علی خطٍّ مُسْتَوٍربہِ شُبِّہَ طریقُ المحقِّ نحو اِھْدِنَا الصّراط المستقیم یعنی استقامۃ اس راستہ کے لیے بولا جاتا ہے جو سیدھا ہو اور اس وجہ سے جو شخص راستی پر ہو۔ اس کے طریق کو بھی مستقیم کہتے ہیں۔ چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی آیت میں یہی معنی ہیں۔
تفسیر۔ اس آیت میں ایسی اعلیٰ اور مکمل دُعا سکھائی گئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ دعا کسی خاص امر کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے متعلق ہے اور دینی اور دنیوی ہر کام کے متعلق اس دعا سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہر کام خواہ دینی ہو یا دنیاوی اس کے پورا کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی طریق ہوتا ہے اگر اس طریق کو اختیار کیا جائے تو کامیابی ہو گی ورنہ نہ ہو گی۔ پھر بعض دفعہ کئی طریق ایک کام کو کرنے کے نظر آتے ہیں۔ جن میں سے بعض ناجائز ہوتے ہیں اور بعص جائز۔ جو جائز راستے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو مراد تک جلدی پہنچا دیتے ہیںاور بعض دیر سے پہنچاتے ہیں۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں۔ کہ وہ ہماری اس طریق کی طرف راہنمائی کرے جو اچھا اور نیک ہو اور جس پر چل کر ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور جلد سے جلد کامیاب ہوں کیسی سادہ اور کیسی مکمل یہ دعا ہے او رپھر کیسی وسیع ہے زندگی کا وہ کونسا مقصد ہے جس کے متعلق ہم اس دعاکو استعمال نہیں کر سکتے اور جو شخص یہ دعا مانگنے ا عادی ہو وہ کس کس رنگ میں اپنی محنت کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرایا جائے گا کہ ہر مقصد کے حصول کے لئے اچھے طریق بھی ہیں او ربرے طریق بھی ہیں اور یہ کہ اسے ہمیشہ اچھے طریق کے تلاش کرنے اور اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے پھر اچھے طریقوں میں سے بھی اس طرق کو اختیار کرنا چاہیے جو سب سے قریب ہو اس کا دماغ کس طرح اس تعلیم کو اپنے اندر جذب کریگا ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا کہ اسے صراط مستقیم دکھایا جائْ اس کا دماغ خود بھی اس خیال سے متاثر ہو گا اور اس کی اپنی کوشش بھی اپنے سب کاموں میں ایسے ہی راستہ کی تلاش میں خرچ ہو گی اور جو شخص اپنے کاموں میں ان اصول کو مدنظر رکھے گا کہ (۱) میرے سب کام جائز ذرائع سے ہوں (۲) میں کسی ایک مقام پر پہنچ کر تسلی نہ پا جائوں بلکہ غیر محدود ترقی کی خواہش میرے دل میں رہے (۳) اور میرے وقت ضائع نہ ہو بلکہ ایسے طریق سے کام کروں کہ تھوڑے سے تھوڑے وقت میں ہر کام کو پورا کر لوں اس کے مقاصد کی بلندی اور اس کے اعمال کی درستی اور اس کی محنت کی باقاعدگی میں کیا شک کیا جا سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اس دعا کو اخلاص سے مانگتے رہیں اور اس کے مطالب کو ذہن نشین کریں تو دعا کے رنگ میں تو جو فائدہ ہو گا وہ تو ہو گا ہی اس کا جو اثر طبعی طور پر مسلمانوں کے دماغ پر ہو گا وہ بھی کچھ کم قابل قدر نہیں ہے۔
بعض معترض کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر نماز میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کہنے کا حکم دیا گیاتھا اور ان کے رسول بھی یہ دُعا روزانہ مانگتے تھے پھر کیا انہیں صراط مستقیم مل نہ تھی کہ بار بار یہ دعا مانگتے تھے ۔ کس قدر مضحکہ خیز یہ اعتراض ہے او رکس قدر تعجب ہے کہ پڑھے لکھے مسیحی اور ہندو بے تکلفی سے یہ اعتراض بیان کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ مسلمان اب اس کا کیا جواب دیں گے۔ اوّل تو جیسا کہ اوپر ہدایت کے معنے بیان ہو چکے ہیں ہدایت کے معنے صرف کسی بات کے بتائے کے نہیں ہوتے بلکہ بتانے۔ اس تک لے جانے اور آگے ہو کر لئے چلے جانے کے ہوتے ہیں پس مختلف قسم کے دُعا کرنے والوں کے لئے اس کے مختلف معنے ہونگے وہ جنہیں ہدایت کا علم بھی ابھی حاصل نہیں ہوا ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے یہ معنی ہونگے کہ ہمیں بتا کہ ہدایت کیا ہے اور کس مذہب یا کس طریق میں ہے اور جن لوگوں کو ہدایت کا علم تو ہو چکا ہے لیکن اس کے قبول کرنے میں ان کے لئے مشکلات ہیں نفس میں کمزوری ہے یا دوست احباب ایسے مخالف ہیں کہ صداقت قبول کرنے سے باز رکھ رہے ہیں یا رہبر کامل دور ہے اور اس تک پہنچنا مشکل ہے یا اس علاقہ میں صحبت صالح میسر نہیں اس شخص کے لحاظ سے اس دُعا کے یہ معنے ہونگے کہ مجھے ہدایت تک پہنچا دے یعنی علمی رنگ میں تو میں ہدایت کو سمجھ گیا ہو مگر عملی طو رپر اس کے اختیار کرنے میں جو دقتیں ہیں انہیں بھی دور کر دے۔ لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہے جسے علمی طور پر بھی ہدایت میسر آ گئی ہے او رعملی مشکلات بھی دور ہو گئی ہیں اور وہ ہدایت میسر آ گئی ہے اور عملی مشکلات بھی دور ہو گئی ہیں اور وہ ہدایت کے راستے پر قدم زن ہے تو اس کے لئے اس دُعا کے یہ معنے ہونگے کہ اے خدا تیری ہدایت وسیع ہے اور عرفان کی راہیں غیر محدود ہیں مجھے اپنے فضل سے ہدایت کے راستہ پر آگے بڑھاتا لئے چل میرا قدم کسی جگہ نہ ٹھیرے اور میں صداقت کے اسرار سے زیادہ سے زیادہ واقف ہوتا جائوں اور آگے سے زیادہ مجھے اس پر عمل کرنے کی توفیق ملتی جائے۔ ان تینوں معنوں کو مدنظر رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ کوئی انسان بھی ایسا ہو سکتا ہے جسے کسی وقت بھی اس دُعا سے استغنا حاصل ہو جائے مسلمانوں کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیشک بہت کامل تھے لیکن اسلام کا خدا غیر محدود طاقتوں والا ہے کوئی کتنی بھی ترقی کر جائے پھر بھی ترقی کّی گنجائش اس کے لئے باقی رہتی ہے اور پھر بھی اس کے لئے ضرورت باقی رہتی ہے کہ وہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کرتا رہے۔
دین تو دین دنیا کے متعلق بھی انسان کا علم بڑھتا رہتا ہے اور کوئی علم بھی تو ایسا نہیں جس میں مزید ترقی کی گنجائش نہ ہو پس دُنیا کے کاموں میں بھی انسان محتاج ہے کہ ہمیشہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا کرتا رہے کہ اس کے ذریعہ سے علم کی ترقی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دُعا بجائے محل اعتراض ہونے کے علم کے بارہ میں اسلام کا ایسا وسیع نظریہ پیش کرتی ہے جو قرآن کریم کی برتری کی ایک زبردست دلیل ہے قرآن پہلے مذاہب کی موجودگی میں آیا اور انہیں منسوخ کر کے اس نے ایک نئے اور مکمل دین کے قیام کا دعویٰ کیا مگر باوجود اس کے اس نے دوسرے ادیان کی طرح یہ نہیں کہا کہ اس کے زمانہ میں علم ختم ہو گیا بلکہ یہ کہا کہ اس کے ذریعہ سے علم کی زیادتی ہمیشہ ہوتی رہے گی اور اس کے لئے مسلمانوں کو دُعا سکھائی اور ان پر واجب کیا کہ وہ اسے ہر روز تیس پنتیس دفعہ پڑھا کریں اس طرح اس نے علم کی ترقی کے لئے انسانی نظریہ کو کس قدر وسیع کر دیا ہے۔
بعض لوگ اس نظریہ پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس سے تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم آخری ہدایت نامہ نہیں کیونکہ اگر علم کی زیادتی ہوتی رہتی ہے تو کیوں تسلیم نہ کیا جائے کہ کسی وقت قرآن کریم بھی منسوخ ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی اس سے بہتر کتاب لے لیگی اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ قرآن کریم سے بہتر کتاب کوئی لے آئے اور قرآن کریم کو منسوخ قرار دیدے لیکن تیرہ سو سال میں تو ایسی کتاب کوئی آئی نہیں فلسفیوں اور غلط مذاہب کے دلدادوں نے بہت زور لگایا لیکن اب تک ناکام ہی رہے ہیں پس جبکہ ایسی کوئی کتاب اب تک ناکام ہی رہے ہیں پس جبکہ ایسی کوئی کتاب اب تک مقابل پر پیش نہیں کی جاتی تو ہم اس پر غور ہی کیوں کریں۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ قرآن روحانی عالم ہے جو جسمانی عالم کا حال ہے وہی اس کا ہے دنیوی امور میں بھی انسانی علم ہر روز ترقی کرتا ہے مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ ہر روز نئی دنیا بنتی ہے بلکہ اسی پرانی دنیا کے اسرار اور غوامض لوگوں پر ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے نزول کے بعد جو روحانی عالم ہے کسی نئی کتاب کی ضرورت نہیں رہی مگر علم کی ترقی میں اس نے روک نہیں پیدا کی۔ جس طرح مادی قانون کے مطالعہ سے دنیوی علم میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح قآن کریم اپنے اندر وسیع اور انسانی پرواز کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر محدود علم رکھتا ہے جو لوگ اس پر غور کرتے ہیں جس قدر اخلاص ان کی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا میں ہوتا ہے اسی کے مطابق قرآن کریم کے اسرار ان پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ پس باوجود قرآن کریم کے آخری کتاب ہونے کے علم کی ترقی میں کمی نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بھی اس ترقی کی رفتار تیز ہو گئی ہے قرآن کریم کے صریح ارشاد سے ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ فرماتا ہے اَلَّذِِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی (محمدؐ ع ۲) جو لوگ ہدایت پاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ پھر او رہدایت دیتا ہے پس ہدایت کسی ایک شے کا نام نہیں بلکہ صداقتوں کی ایک وسیع زنجیر کا نام ہے جس کی ایک کڑی ختم ہوتی ہے تو دوسری سامنے آ جاتی ہے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں جس کے بارہ میں شانی علم قرآن کریم میں نہیں اس حقیقت کی موجودگی میں کسی دوسری شریعت کا پیغام سننا ایسا ہی ہے جیسے چشمہ پر بیٹھا ہوا انسان پانی کی تلاش کے لئے نکل کھڑا ہو۔
مجھے تعجب آتا ہے ان لگوں پر جو ہر روز اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا مانگتے ہیں او رپھر خیال کرتے ہیں کہ جو کچھ پہلے مفسر لکھ گئے اس سے بڑھ کر کچھ لکھنا ناجائز ہے ان کے بیان کردہ علوم کے باہر کوئی علم قرآن کریم میں نہیں ہے اگر یہ بات سچ ہے تو وہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا کیوں مانگتے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کے دینے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں انہیں پرانی تفسریں خرید کر یا دوسروں سے مانگ کر پڑھ لینی چاہئیں اور اس دُعا میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔
یہ دُعا ایسی جامع ہے کہ دین اور دُنیا کے ہر معاملہ میں اس سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے او رہدایت کا طالب خواہ کسی مذہب کا ہو اس سے فائدہ اُٗٹھانے میںکوئی عذر پیش نہیں کر سکتا۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم میں صرف سیدھے اور بے نقص راستہ دکھانے کی التجاء ہے کسی مذہب کا نام نہیں کسی خاص طریقہ کا ذکر نہیں۔ کسی معین اصل کی طرف اشارہ نہیں صرف اور صرف صداقت اور غیر مخلوط اور خالص صداقت کی درخواست ہے جسے ہر شخص اپنے عقیدہ اور خیال کو نقصان پہنچائے بغیر دہرا سکتا ہے۔ ایک مسیحی ایک یہودی ایک ہندو ایک زردشتی ایک بدھ ایک ہدریہ بھی ان الفاظ پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ دہریہ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا لیکن وہ یُوں کہہ سکتا ہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو میں اس سے کہتا ہو ںکہ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ پس یہ دُعا جامع بے ضرر اور عام ہے ہر شخص ہر حالت میں اس کا محتاج ہے اور اس کے مانگنے میں اسے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ میرا تجربہ ہے کہ جن غیر مذاہب کے لوگوں نے میرے کہے پر یہ دُعا مانگی ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر اسلام کی سچائی کھول دی ہے اور میں تجربہ کی بناء پر یقین رکھتا ہوں کہ جو کوئی بھی سچے دل سے یہ دُعا مانگے گا اس کی ہدایت کے لئے ضرور کوئی سامان حدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا جائے گا کہ یہ ممکن نہیں کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا موجود ہو اور ہدایت کے لئے چلانے والا اس کے دروازہ سے مایوس آئے۔
۸؎ حل لغات
اَنٔعَمْتَ۔ انعام سے ہے انعام کے معنی فضل کرنے اور زیادہ کے ہیں (اقرب) یہ لفظ ہمیشہ اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ منعم علیہ یعنی جس پر احسان ہوا ہو عقل والی ہستی ہو (مفردات) غیر ذوی العقول کی نسبت مثلاً گھوڑے بیل کی نسبت کبھی نہیں کہیں گے کہ فلاں شخص نے اس گھوڑے یا بیل پر انعام کیا ہاں یہ کہیں گے کہ فلاں انسان پر انعام کیا۔
اَنْغَضَبُ۔ ثَورَانُ دَمِ القلَبِ اِرَادَۃ الْانْتِقَامِ غضب جرم کی سزا دینے کے ارادہ پر دل میں خون کے جوش مارنے کو کہتے ہیں قَالَ علیہ السّلام اتقُوا لغضبَ فاِنَّہٗ جَمْرۃٌ تُو قَدُ فی قَلبِ ابنِ آدمَ الَمْ تَرَ والی انتفاخِ اَوْدَاجِہِ و حُمْرَۃِ عَیْفَیْہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں غضب سے بچو کیونکہ وہ ایک چنگاری ہے جو ابن آدم کے دل میں سلگائی جاتی ہے پھر فرمایا کیا تم نے دیکھا نہیں کہ جب کسی کو غضب آتا ہے تو اس کی رگیں پھول جاتی ہیں اور اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں وَاِذَا وُصِفَ اللّٰہُ تَعَالیٰ بِہٖ فَالْمرَادُاَلاِ نتقامُ دُوْنَ غَیْرِہِ اورجب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو تو اس کے معنی صرف جُرم کی سزا دینے کے ہوتے ہیں دوسری باتیں اس وقت مدنظر نہیں ہوتیں (مفردات) پر غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ کے یہ معنی ہوئے کہ جن کے افعال کو اللہ تعالیٰ نے برا قرار دیکر ان کے لئے سزا کا فیصلہ کر لیا ہے۔
وَلَا الضّالّین۔ ضَلَّ کے معنے سیدھے راستہ سے ہٹ جانے کے ہیں اور یہ لفظ ہدایت کے مقابل پر ہے اور ضلال کا لفظ راستی سے خلاف ہر فعل پر بولا جاتا ہے خواہ دانستہ ہو یا نادانستہ۔ معمولی فعل ہو یا کوئی بڑا جرم ہو (مفردات) ضَلَ کے معنے کسی کام میں منہمک ہو جانے کے بھی ہیں قرآن کریم میں آتا ہے۔ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (کہف ع ۱۲) ان کی تمام کوششیں دنیا کی زندگی میں ہی لگی ہوئی ہیں اور وہ بالکل دنیا کے کاموں میں ہی منہمک ہیں۔ یہ معنے وَوَجَدَکَ ضَالاً فَھَدٰی (الضحیٰ) کی آیت میں ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جب ہم نے تجھے اپنی محبت میں منہمک دیکھا اور اپنے عشق میں کھویا ہوا پایا تو اس کے نتیجہ میں ہم نے اپنی ذات تک تیری راہنمائی فرمائی اردومیں بھی کھویا ہوا کھویا رہنا انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہتے ہیں فلاں شخص تو آج کل کچھ کھویا کھویا سا رہتا ہے یعنی کسی خاص خیال میں محو رہتا ہے انگریزی میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے۔ میں صرف ان حوالوں سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک طبعی محاورہ ہے اور فطرت انسانی سے ایک نہایت قریب مناسبت رکھتا ہے اس وجہ سے بہت سی زبانوں نے اسے اختیار کر لیا ہے۔
وَوَجَدَکَ ضَالاً فَھَدٰی کے معنی بالکل اسی محاورہ کے مطابق ہیں یعنی محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشق الٰہی میں محو ہو گئے تھے اور ہر وقت کھوئے کھوئے رہنے لگ گئے تھے اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ اداد پسند آئی اور یہ عشق اس کے عشق کو جذب کرنے کا موجب ہو گیا۔ پس جو عاشق اس کے عشق میں کھویا گیا تھا وہ اسے خود جا کر اپنے دروازہ تک لے آیا۔ مگر یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ضَلَّ کا لفظ عام طور پر برے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے پس جب اچھے معنوں میں استعمال ہو تو اس کے لئے کسی قرینہ کی ضرورت ہو گی جیسے اوپر کی آیت میں فھدٰی کا قرینہ ہے۔
تفسیر۔ جب سیدھے راستہ کے دکھانے کی دُعا سکھائی تو اس میں اس امر کو بھی شامل کیا کہ وہ راستہ ان لوگوں کا ہو جن پر تُو نے انعام کیا ہے یعنی معمولی راستہ نہ ہو بلکہ اعلیٰ اور ترقی یافتہ ارواج کا راستہ ہو۔
یہ کیسا شاندار مقصد ہے جوہر مسلمان کے سامنے اسلام نے پہلی ہی سورۃ میں رکھا ہے اسے نیکیوں میں اور اچھی چیزوں میں صرف نیکی کی خواہش نہیں رکھنی چاہیئے بلکہ انعام جیتنے اولوں کی جماعت میں شامل ہونے کی خواہش رکھنی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والا چھوٹے درجہ پر صبر نہیں کر سکتا۔ خدا تعالیٰ کی محبت انسان کے دل میں ایسی وسعت پیدا کر دیتی ہے کہ وہ معمولی ترقی پر خوش نہیں ہوتا۔ وہ حوش ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی جستجو کے بعد کونسی چیز ہے جو اسے خوش کر سکے گی جو خدا تعالیٰ کا طالب ہوا وہ ساری ترقیات کا طالب ہوا۔ اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھا وہ کسی ترقی کو بھی آخری ترقی نہیں سمجھ سکتا۔ مگر مومن کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا مقام یہ ہے کہ یہ خواہش صرف اس کے دل سے پیدا نہیں ہوتی اس کا رب بھی اسے یہی تعلیم دیتا ہے کہ دیکھنا چھوٹے درجہ پر راضی نہ ہو جانا مجھ سے نیکی مانگو مگر معمولی نیکی نہیں بلکہ وہ نیکی جو ان لوگوں کو حاصل تھی جنہوں نے نیکیوں کی دور میں انعام حاصل کئے تھے اور کسی ایک دور کے انعام حاصل کرنے والوں کا انعام نہیں بلکہ سب انعام پانے والوں کے انعام مجھ سے طلب کرو۔
لغت کے متعلق تو میں اوپر بتا آیا ہو ںکہ انعام کے کوئی خاص معنے نہیں بلکہ ہر اچھی چیز کو جو خوشنودی کے اظہار کے لئے کسی کو دی جائے وہ انعام ہے خواہ وہ دنیوی ہو یا دینی۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ انہی وسیع معنوں میں آیا ہے سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعُرَضَ وَنَأَ بِجَا نِبِہٖ (بنی اسرائیل ۹) یعنی جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھر لیتا ہے او رایک طرف ہو جاتا ہے یعنی بجائے انعام پر شکر گزار ہونے کے ہماری طرف سے غافل ہو جاتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ انعام کے معنے دنیا کے سامان علم۔ ہنر دنیاوی عزتیں وغیرہ بھی ہیں کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو ایک احسان کا رنگ بھی رکھتی ہیں اور بہت سے لوگ ان احسانات کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کو بھلا دیتے ہیں۔
مصائب اور مشکلات سے بچا لینے کا نام بھی قرآن کریم میں نعمت آیا ہے۔ فرماتا ہے۔ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذُ کُرَوَ انِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْھَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَبْسٔطَؤٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھْمُ فَکَفَّ اَیْرِیَھٔمْ عَنْکُمً وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَ کَّلِ الْمْؤْمِنُوْنَ (المائدہ: ع ۲) اے مومنو اللہ تاعلیٰ کی نعمت کو یاد کرو جب ایک قوم (بُری نیّت سے) تمہاری طرف ہاتھ بڑہانے کا قصد کر رہی تھی تو ہم نے ان کے ہاتھوں کو تم (تک پہنچنے) سے روکے رکھا اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ احتیار کرو اور مومنوں کو چاہیئے کہ اللہ پر ہی توکل کیا کریں۔ اس آیت میں دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے کا نام نعمت رکھا گیا ہے۔
مگر جہاں ہر احسان نعمت ہے وہاں اس کا بھی انکار نہیں کیا جاس کتا کہ بعض احسان خاص طور پر نعمت کہلانے کے مستحق ہیں۔ کیونکہ وہ مختلف قسم کے احسانوں میں سے چوٹی کے احسان ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذَکُرٔوْ انِعْمَہٌ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکٗمْ مَّلُوْکَّا وَّاتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَ (مائدہ ع ۴) یعنی اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم اللہ نے جو تم پر نعمت کی ہے اسے ہر وقت اپنی نگاہ میں رکھو اور وہ نعمت یہ ہے کہے اس نے تم میں سے نبی بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو نسل انسانی کی مختلف اقوام میں سے اور کسی قوم کو نہ دیا تھا۔ اس آیت میں ان اشیاء کو جو انسان کے لئے نعمت قرار پا سکتی ہیں گنا گیا ہے اور یہود کو بتایا ہے کہ ان سب اقسام میں سے انہیں کثیر حصہ دیا گیا ہے۔
انسانی کمالات تین قسم کے ہوتے ہیں (۱) دنیوی ذاتی (۲) دینی ذاتی (۳) اور دینی دنیوی نسبتی یعنی علاوہ دنیوی اور دینی کمالات کی قسموں کے ایک کمال کی قسم یہ بھی ہے کہ کسی فرد یا قوم کو اپنے رقیبو ںپر کیا فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت کی اس قسم کی طرف انسان فطرتاً بہت راغب ہوتا ہے یعنی وہ صرف کمال کا طالب نہیں ہوتا بلکہ ایسے کمال کا طالب ہوتا ہے جو اسے اپنے ہمعصروں اور قیبوں پر فضیلت بخشے۔ مذکور بالا آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی طرف تینوں قسم کے کمالات منسوب فرمائے ہیں (۱) ان پر دنیوی انعامات ہوئے یہاں تک کہ وہ قوم ایک لمبے عرصہ تک بادشاہت کی وارث کی گئی۔
تمام دنیوی کمالات اپنے نشوو پانے کے لئے بادشاہت چاہتے ہیں اور جس قوم میں بادشاہت آ جائے اسے دنیوی ترقی کے سب اسباب میسر آ جاتے ہیں خواہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے یا نہ اُٹھائے اس لئے کسی قوم میں ایک لمبے عرصہ تک بادشاہت کا وجود قائم کر دینے کے یہ معنے ہیں کہ دنیوی ترقیات کے سب رستے اس کے لئے کھول دیئے گئے (۲) جس طرح بادشاہت دنیوی کامیابیوں کا ذریعہ ہے اس کی آخری منتہاء ہے اسّی طرح دینی کامیابیوں کا ذریعہ اور دینی ترقی کی منتہاء نبوت ہے اس بارہ میں حضرت موسیٰ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ وہ ذریعہ اور وہ انتہائی انعام بھی تم کو دیا گیا ہے۔ اور ایک دو نبی نہیں بلکہ ایک لمبا سلسلہ انبیاء کا تم کو عطا ہوا ہے۔
(۳) تیسرا انعام نسبتی ترقی ہے یعنی دنیوی یا دینی انعامات نہ ملیں بلکہ دوسری اقوام کے مقابلہ میں بھی زیادہ ملیں۔ جس سے ہمعصروں پر عزت اور فوقیت حاصل ہو حضرت موسیٰ علیہ السلام وَاٰتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْن فرما کر اپنی قوم کو توجہ دلاتے ہیں کہ دوسری اقوام پر برتری کا انعام بھی اللہ تعالیٰ نے تم کو بخشا ہے تم کو بادشاہت ہی نہیں دی بلکہ شہنشاہیت بھی دی ہے اور نبوت ہی نہیں دی بلکہ ایسے انبیاء عطا کئے جو دوسرے نبیوں کے لئے مشعل ہدایت کا کام دینے والے ہیں اور جن کے ماتحت اور انبیاء ہیں پس تینوں قسم کے انعام تم کو حاصل ہیں دنیوی بھی اور دینی بھی اور دوسری قوموں پر دنیوی اور دینی برتری بھی۔
یہ قول تو موسیٰ علیہ السلام کا ہے لین عبارت قرآن کریم کی ہے ایک مبصر اس کے الفاظ کے اختصار او راس کے معانی کی وسعت کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
صَراطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کے الفاظ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم سے مل کر معنوں میں بہت وسعت پیدا کر دی ہے ان الفاظ نے ایک مسلمان کا مقصود صرف یہ نہیں قرار دیا کہ وہ اپنے مقرر کردہ مقاصد کے حصول کے لئے سیدھا راستہ مانگے بلکہ یہ اصل قرار دیا ہے کہ وہ مقاصد عالیہ کے بارہ میں بھی اللہ تعالیٰ سے التجا کرے اور درخواست کرے کہ ہدایت کے راستے ہی مجھے نہ دکھا اور صرف منعم علیہ گروہ میں مجھے شامل نہ کر بلکہ ہدایت کے وہ طریقے اور تعلیم میں اور عرفان کی راہیں بھی مجھے سکھا جو منعم علیہ گروہ پر اس سے پہلے ظاہر کئے جا چکے ہیں یہ اعلیٰ امیدیں پیدا کر کے قرآن کریم نے امتِ محمد یہ پر ایک بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔
گو اس واضح تعلیم کی موجودگی میں اس امر کے ثبوت کے لئے کہ مسلمانوں کے ہر قسم کی ذاتی ترقیات کے راستے کھلے ہیں کسی مزید ثبوت کی ضرورت تو نہ تھی مگر چونکہ مسلمانوں میں عام طور پر مایوسی پیدا ہو گئی ہے ہم قرآن کریم سے دیکھتے کہ اس ہدایت طلبی کے معنے قرآن کریم نے کیا لئے ہیں اور کیا اس دُعا کی قبولیت کا بھی کوئی وعدہ کیا ہے یا نہیں سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ اَفَّھُمْ فَعَلُوْا مَایُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَتُبِیْتًاo وَّاذً الَّاٰ تَیْنٰہُمْ مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرً ا عَظِیْمًا وَّ لَھَدَ یْنٰہُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِیْمًاo وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُ ولٰٓکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓکَ رَفِیْقًاo(نساء ع ۹) یعنی اگر کمزور مسلمان بجائے نافرمانیوں کے حقیقی اطاعت کا نمونہ دکھائیںاور) جو ان سے کہا جاتا ہے اس پر عمل کریں ت واس کا نتیجہ ان کے حق میں بہت ہی اچھا نکلے۔اور اس سے ان کے ایمان مضبوط ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے انہیںبہت بڑا اجر ملے اور اللہ تعالیٰ انہیں صراط مستقیم دکھائے اور انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ جو اللہ اور اس کے اس رسول یعنی محمدؐ رسلو اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے منعم علیہ لوگوں میں شامل کرات ہے یعنی نبیوں میں صدیقوں میں شہیدوں میں اور صالحین میں اور یہ لوگ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کے لئے جو انعامات مقدر ہیں ان کا ذکر ہے اور وہی سورۃ فاتحہ والے الفاظ ہیں یعنی صراط مستقیم دکھانا اور صراط مستقیم بھی ان کا جو منعم علیہ گروہ تھا۔ وہ منعم علیہ گروہ کی تشریح فرمائی ہے نبی صدیق شہید اور صالح جس سے معلوم ہُوا کہ امت محمدؐ یہ کو سورہ فاتحہ میں جن اعلیٰ انعامات کے طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے دینی لحاظ سے اس کے مراد اعلیٰ روحانی مقامات ہیں او راللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سب کے سب مسلمانو ںکو ملیں گے۔
بعض لوگ اس موقعہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ سورۃ نساء کی آیت میں مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ہے یعنی وہ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہونگے نہ کہ ان میں سے۔ اس اعتراض کی کمزوری خود ہی ظاہر ہے اگر مَعَ کا لفظ نبیوں کے ساتھ ہوتا تب تو کہا جا سکتا تھا کہ امت محمدؐ یہ میں نبی نہ ہونگے مگر ایسے لوگ ہونگے جو نبیوںکے ساتھ رہیں گے لیکن قرآن کریم نے مَعَ کا لفظ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کے ساتھ لگایا ہے پس اگر مَعَ کے معنے یہ کئے جائیں کہ جس لفظ پر مع آیا ہے وہ درجہ مسلمانوں کو نہ ملے گا بلکہ اس درجہ کی معیت ملے گی تو پھر اس آیت کے یہ معنی بنیں گے کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی منعم علیہ یعنی انعام پانے والا نہیں ہو گا بلکہ صرف یہ ہو گا کہ ان کے کچھ افراد انعام پانے والوں کے ساتھ رہیں گے اور ان معنوں کو قرآن۔ حدیث اور عقل سلیم رد کرتی ہے۔
اگر کہا جائے کہ مَعَ کا لفظ در حقیقت اس تشریح کے ساتھ لگتا ہے جو اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کی اس آیت میں کی گئی ہے تو بھی یہ اعتراض بالبدامت غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ تشریح میں چار گروہوں کا ذکر ہے نبیوں شدیقوں شہیدوں اور صالحوں کا۔ اب اگر مَعَ کے معنے صرف معیت کے ہیں نہ کہ گروہ میں شمولیت کے تو پھر اس تشریح کے مطابق اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ مسلمان نبی نہ ہونگے بلکہ نبیوں کے ساتھ رہیں گے۔ صدیق نہ ہوں گے بلکہ صدیقوں کے ساتھ رہیں گے۔ اسی طرح شہیدوں اور صالح نہ ہونگے بلکہ شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ رہیں گے اس سے زیادہ غلط معنے اور کیا ہو سکتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اُمت محمدؐیہ کی ہتک کیا ہو سکتی ہے کہ اس امت میں نبی تو الگ رہے صدیق اور شہید اور صالح بھی نہ ہونگے ۔
بعض لوگوں نے اس جگہ پر اعتراض کیا ہے کہ نبوت تو موہبت ہے اس کے لئے دُعا کے کیا معنی اس کا جواب یہ ہے کہ دُعا اس امر کے لئے کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ اسے اعلیٰ سے اعلیٰ انعام عطا فرمائے۔ یہی اس آیت کا مفہوم ہے آگے یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ وہ جس پر جو چاہے انعام کرے اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رسَالَتَہٗ (انعام ع ۱۵) نبوت بیشک موہبت ہے مگر یہ موہبت ابوجہل پر کیو ںنہ ہوئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیو ںہوئی۔ موہبت کو جذب کرنے کے لئے بھی تو ایثار اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے دوسرے یہ کون کہتا ہے کہ مومن کو یہ سکھایا گیا ہے کہ وہ دُعا کرے کہ یا اللہ مجھے نبوت عطا کر۔ ایسی دعائیں روحانی امور تو الگ رہے دنیوی امور کے لئے بھی بعض دفعہ ناپسندیدہ اور مکروہ ہونگی۔ کوئی بڑھتی یہ دعا شروع کر دے کہ یا اللہ مجھے کالج کا پرنسپل بنا دے۔ یا کوئی لولا لنگڑا یہ دعا کرے کہ یا اللہ مجھے … کا سپہ سالار بنا دے تو یہ دعائیں لغو اور فضول ہونگی۔ دُعائوں کی قبولیت حالات اور مصالح آسمانی کے ماتحت ہوتی ہیں۔ پس مومن کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ روحانی مقامات کے لئے نام لے لے کر دعا کرے۔ نبوت تو الگ رہی اگر کوئی یہ دعا کرے کہ یا اللہ مجھے صدیق بنا دے۔ مجھے قطب بنا دے۔ مجھے شہید بنا دے۔ تو یہ دعا بھی ناپسندیدہ ہو گی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا کہہ کر دعا سکھائی ہے اِھْدِنِیْ کے الفاظ نہیں رکھے کیونکہ جمع کے الفاظ میں قومی ترقی کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قوم میں سے جسے جس قرب کے مقام کے لئے چنا جا سکتا ہے اس کے لئے اسے چن لیتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ دعا حصول انعام کے لئے ہے پس جب نبوت بھی موہبت یعنی انعام ہے تو اگر اس دعا کو قبول کے لئے حصول نبوت کی دعا قرار دیا جائْ ت واس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس دعا میں ہر قسم کے انعامات کے طلب کرنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور تمام کاموں میں صحیح راہ نمائی کی دعا سکھائی گئی ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ سب انعامات مسلمانوں کو ملیں گے او ران میں وہ خود نبوت کو شامل فرماتا ہے پس اس انعام کو الگ رکھنے کا حق کس کو حاصل نہیں۔
اس جگہ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین ہیں تو آپؐ کے بعد نبی کس طرح آ سکتا ہے سو اس اعتراض کا جواب بھی سورٔ نساو کی آیت میں موجود ہے کیونکہ اس آیت میں وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْل کے الفاظ ہیں یعنی اللہ اور محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے کو یہ انعام ملیں گے اور یہ ظاہر ہے کہ جو مطیع ہو گا اس کا کام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام سے الگ نہیں ہوسکتا۔ نہ وہ کوئی شریعت لا سکتا ہے پس جو نبی محمد رسول اللہ کے تابع ہو گا وہ خاتم النبین کے خلاف نہیں بلکہ اس کے معنوں کو مکمل کرنے والا ہو گا۔
ایک صاحب جو اس زمانہ کے مفسر ہیں۔ اور اپنے ترجمہ قرآن کریم کو بار بار پیش کرنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر یہ دُعا نبوت کے حصول کے لئے ہوتی تو کم از کم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام نبوت سے کھڑا ہونے سے پہلے سکھائی جاتی مگر قرآن کریم میں اس کا موجود ہونا بتاتا ہے کہ مقام نبوت کے ملنے کے بعد سکھائی گئی پس نبوت عطا فرمانے کے بعد اس دُعا کا سکھانا بتاتا ہے کہ حصول نبوت کے لئے یہ دعا نہیں۔ یہ اعتراض انتہاء درجہ کا بودا اور مصنف کے قلت تدبیر پر دلالت کرتا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم میں جو دعا سکھائی گئی ہے وہ تو ایک طبعی دعا ہے ان الفاظ میں دعا کرنا صرف اس لئے بابرکت ہے کہ قرآنی الفاظ مبارک ہیں اور غلطی سے پاک ورنہ تمام حق کے متلاشی خواہ کسی مذہب کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں جب ان کے دل میں صداقت کے پانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ انہی کے ہم معنی الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اور اپنے پیاروں کا راستہ رکھا۔ کیا کوئی معقول انسان بھی یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نبوت سے پہلے یہ خواہش پیدا نہ ہوئی تھی کہ خدا تعالیٰ انہیں سیدھا راستہ دکھائے اور اپنے پیاروں کی راہ پر چلائے۔ اس قسم کا تو خیال بھی انسان کو کافر بنا دیتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی تڑپ ہی تو تھی جس نے خدا تعالیٰ کے فضل کو اپنی طرف جذب کیا اس تڑپ کو ہی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآنی الفاظ نے صرف یہ فرق پیدا کیا ہے کہ اول الفاظ ایسے چنے ہیں جو کامل ہیں۔ اور ہر نقص سے پاک ہیں۔ دوسرے ان کے ذریعہ سے ان کے دل میں بھی تڑپ نہ ہوتی۔ تیسرے امید پیدا کر دی گئی ہے کہ ایسی دعا کرو گے تو قبول ہو گی۔ بلکہ حکم دیا ہے کہ یہ دعا کرو۔ ورنہ یہ خیال کرنا کہ اس قسم کا مفہوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیدا نہیں ہوتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بھی ہتک ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تو سیدھا راستہ پانے کی کوئی تڑپ نہ تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے زبردستی آپؐ کو نبی بنا دیا (نعوذ باللّٰہِ مِنْ ذٰلکَ الخرافات)
پھر اگر یہ اعتراض معقول ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے نزول سے پہلے نیک تھے یا نہیں خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار تھے یا نہیں۔ خدا تعالیٰ کا قرب انہیں قرآن کریم کے نزول سے پہلے حاصل تھا یا نیں۔ اگر ان باتوں کے جواب اثبات میں ہیں تو کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ پھر ہمیں اس نماز کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اس قسم کے روزہ کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اس قسم کے جہاد کی کیا ضرورت ہے۔ یا اور دوسرے شرعی احکام کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تقویٰ اور محبت الٰہی بغیر ان احکام پر عمل کرنے کے حاصل ہو گیا تھا تو ہمیں بھی ان کے بغیر حاصل ہو جائے گا۔ بلکہ دین کے معاملات ک وجانے دو۔ دنیوی چیزوں میں ہی اگر کوئی کہے کہ پہلی مرغی یا پہلا انڈا کیونکر بنا تھا۔ پہلا دانہ اور پہلا درخت کیونکر بنا تھا۔ اب بھی اسی طرح بن جائیگا ہمیں ان کے پیدا کرنے کے لئے قانون قدرت کے مطابق کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے تو اس شخص کو ہر کوئی نادان کہے گا خدا تعالیٰ کا قانون اس وقت کے لئے جب بیج مٹ جاتا ہے اور ہے اور جب بیج پیدا کر دیا جاتا ہے اور ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کے نزول سے پہلے دنیا سے پاکیزہ تعلیم مٹ چکی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک فطرت میں جذبات محبت پیدا ہوئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بغیر اس کے کہ وہ خاص الافظ یا خاص انداز میں بیان کئے جاتے ان کو قبول کیا اور نوازا۔ لیکن جب قرآن کریم نازل ہو گیا۔ ہر اک امر کے لئے خاص قواعد بن گئے تو اب ان کے بغیر وہ نعمتیں حاصل نہیں ہو سکتیں جو اس سے پہلے حاصل ہو سکتی تھیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اور شریعت کی بنیاد رکھ دی اور اب اس قانون اور شریعت سے باہر رہنے والا ہر گزکامیاب نہیں ہو سکتا۔
اس سوال پر ایک او رپہلو سے بھی نظر کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ کیا بہی صرف ایک عہدہ کا نام ہے یا نبی کے لئے تقویٰ طہارت اور قرب الی اللہ کّی بھی شرط ہے اگر ان باتوں کا پایا جانا نبی کے لئے شرط ہے ت وپھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ غیر نبی نبی سے تقویٰ اور طہارت اور قرب الی اللہ میں زیادہ ہو۔ اگر تو اس کا جواب یہ مفسر اور ان کے ہمنوا یہ دیں کہ ہاں یہ ممکن ہے کہ ایک غیر نبی تقویٰ طہارت اور قرب الی اللہ میں نبی سے بڑھ کر ہو توپھر نزاع لفظی رہ جاتی ہے۔ لیکن اگر اس سوال کا جواب یہ ہو کہ غیر نبی نبی سے ان باتوں میں افضل نہیں ہو سکتا تو جو شخص یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ظلی بروزی اور نبوت محمدؐیہ کی تابع نبوت بھی نہیں ہو سکتی وہ یہ کہتا ہے کہ اس امت میں کوئی شحص قرب الی اللہ کے اس مقام کو نہیں پہنچ سکتا جو مقام پر پہلے لوگ پہنچے تھے اور ایسا دعویٰ کرنے والا شخص یقینا امتِ محمدؐیہ کو انعام سے محروم قرار دیتا ہے۔
ایک اعتراض انہی مفسر صاحب نے یہ کیا ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں ایک مسلمان کی بھی دعا اس بارہ میں قبول نہ ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت تو دعا کی قبول نہ ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت تو دعا کی مقدار اور نوعیت پر منحصر ہے یہ معترض صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ صدیقت کا مقام اس امت میں مل سکتا ہے پس یہی سوال ان کے مسلمات کے متعلق بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس امت میں کتنے لوگوں کو صدیقیت کا مقام ملا ہے اگر گزشتہ تیرہ سو سال میں صرف ابوبکرؐ کو ملا ہے تو یہی اعتراض پھر بھی پڑے گا کہ کیا تیرہ سو سال میں یہ دعا او رکسی کے حق میں قبول ہی نہ ہوئی اور اگر اوروں کو بھی ملا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اشخاص عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ سے بڑھ کر تھے یا کم۔ اگر کم تھے تو پھر یہ کیونکر ہوا کہ کم درجہ کے لوگ صدیق بن گئے اور بڑے درجہ کے لوگ شہید تک ترقی پا سکے صدیق نہ کہلا سکے۔
غرض جو اعتراض نبوت کے اجراء پر ہوتا ہے وہی اعتراض صدیقیت کا دروازہ کھلا تسلیم کر کے اس پر ہوتا ہے پس یہ اعتراض محض قلت تدبر کی وجہ سے ہے حقیقت پر مبنی نہیں۔
اس آیت کے بارہ میں ایک اور نکتہ بیان کر دینا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کے جو نام بتائے ہیں ان میں سے دو نام ام القرآن اور ام الکتاب بھی ہیں (ابو دائود کتاب الصلوۃ) میرے نزدیک یہ نام قرآن کریم ہی سے مستنبط ہیں اور ان کا ماخذ یہی آیت ہے۔ اس آیت اور پہلی آیت میں بتایا ہے کہ عباد ت الٰہی کی آخری منزل یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے منعم علیہ گروہ والا صراط مستقیم طلب کرے۔ اب اگر یہ دعا قبول ہو سکتی ہے تو ظاہر ہے کہ جب انسانی دل سے یہ حیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی طرف پکا۔ بلند ہو گی کہے ہم تبہ ہو رہے ہیں ہمارے لئے ہدایت کا راستہ کھولا جائے اور اس کے ساتھ اس زمانہ کے اس مکمل اور پاکیزہ دل کی التجا اور تڑپ بھی شامل ہو جائے گی جسے اللہ تعالیٰ نے اس زڑانہ کا مرد میدان بنایا ہے تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا رحم جوش مارے گا اور فضل الٰہی اور ہدایت کی صورت میں نازل ہو گا اسی طرح ہر زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا چلا جائیگا۔
نوحؒ کے وقت کے مظلوموں کی دعائیں حضرت نوح علیہ السلام کے مطہر قلب کی گریہ و زاری سے مل کر اس کلام کو لائی تھیں جو نوع علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت کی ارواح کی پکار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب صافی کی تڑپ کے ساتھ مل کر صحفِ ابراہیم کے نزول کا موجب ہوئی تھی۔ یہی قصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ گزرا اور اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نزول قرآن کریم سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے الگ ہو کر غارِ حرا میں جا کر دعائیں اور عبادت کیا کرتے تھے یہ تو قلب اطہر کی حالت تھی جو اپنے خیالات کو پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے اس کے علاوہ دنیا کی مخفی آہیں بھی آسمان کی طرف بلند ہو رہی تھیں ان سب نے مل کر خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کیا اور قرآن کریم نازل ہوا۔ پس اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ در حقیقت اسی حالت کا نقشہ ہے جو نزول کلام سے پہلے دُنیا کی ہوتی ہے خصوصاً اس زمانہ کی پاکیزہ ارواح کی جن کے دل سے صرف آہ ہی نہیں اٹھتی بلکہ ان کے دماغ میں بھی ایک تلاطم برپا ہوتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں اس زمانہ کا کلام نازل ہوتا ہے پس چونکہ یہ دُعا سورۂ فاتحہ میں نازل ہوئی ہے او ریہی دُعا ہے جو کلام الٰہی کے نزول کا موجب ہوئی ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کا نام ام القرآن اور ام الکتاب رکھا۔ یعنی سورۂ فاتحہ میں وہ مضمون بیان ہوا ہے جو نزول قرآن کا موجب وا اور چونکہ کسی امر کے وجود کا موجب بمنزلہ ماں کے ہوتا ہے اس لئے سورۃ فاتحہ ام القرآن کہلائی۔
یہ بھی یاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سورۃ فاتحہ کو قرآن عظیم قرار دیا ہے اس کے یہ معنے نہیں کہ سورۂ فاتحہ قرآن عظیم ہے اور باقی قرآن چھوٹا ہے کیونکہ یہ امر بالبداہت غلط ہے پس اس کی وجہ اور ہے اور میرے نزدیک وہ وجہ ام القرآن اور ام الکتاب والے نام ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن اور ام الکتاب کہا تو آپؐ نے خیال فرمایا کہ اس سے الگ ہے اس لئے آپؐ نے اس کا نام قرآن عظیم بھی رکھا تاکہ مسلمانوں پر یہ واضح رہے کہ سورہ فاتحہ قرآن کریم سے باہر نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے کسی چیز کا حصہ بھی چونکہ پوری چیز کے نام میں شریک ہوتا ہے اس لئے آپؐ نے سورۃ فاتحہ کو قرآن عظیم فرمایا۔ ہم ہمیشہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ سننا چاہیں تو کہتے ہیں کہ حافظ صاحب قرآن کریم پڑھ رہا ہے یا ایک آیت میں جو مضمون ہوتا ہے اس کے بارہ میں کہتے ہیں کہ قرآن یُوں کہتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہمارے نزدیک صرف وہ سورۃ آیا آیت قرآن ہے باقی قرآن نہیں بلکہ ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ سورۃ یا وہ آیت جسے ہم پڑھتے ہیں یا جس کا حوالہ دیتے ہیں قرآن کا حصہ ہے۔
اس جگہ ایک اور لطیفہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن اور ام الکتاب بھی فرمایا ہے اور قرآن عظیم بھی فرمایا ہے گویا ایک طرف اسے ذریعہ پیدائش قرار دیا دوسری طرف اسے وہ چیز بھی قرار دیا جو اس سے پیدا ہوئی ہے اس میں ایک زبردست روحانی نکتہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ روحانی دنیا میں پہلی حالت دوسری حالت کی پیدا کرنے والی ہوتی ہے اس لئے پہلی حالت ایک جہت سے ماں کہلاتی ہے اور بعدکی حالت اولاد کہلاتی ہے اسی نسبت سے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن بھی کہا گیا اور بوجہ اس کے کہ وہ خود قرآن بھی ہے اسے قرآن بھی کہا گیا۔ انسانوں کے متعلق بھی ایسے ہی تغیرات کے مواقع پر اس قسم کے تشبیہی الفاظ استعمال کر لئے جاتے ہیں چنانچہ سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں کی مثال اِمْرَأَۃ فِرْعَوْن اور مَرْیَم بنت عِمْرَان سے دی جا سکتی ہے اور جن مومنوں کی مثال مریم بنت عمران سے دی ہے ان کے متعلق آخر میں فرمایا ہے فَنَفَغْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدّقَتْ بکَاِمَاتِ رَبِّہاَ وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ (سورہ تحریم ع ۲) ہم نے اس کے ادنر اپنا کلام پھونکا اور وہ اپنے رب کے کلام پر او راس کی کتابوں پر ایمان لائی اور آخر وہ ایک فرمانبردار مرد کی طرح ہو گئی یعنی جو لوگ مریمی صفت ہوتے ہیں جب ترقی کرتے کلام الٰہی کے مورد ہو جاتے ہیں تو مسیحی نفس بن جاتے ہیں۔
غرض سورہ فاتحہ کا نام ام القرآن اور ام الکتاب بھی رکھنا اور اسے قرآن عظیم بھی کہنا اسلامی اصطلاحات پر ایک لطیف روشنی ڈالتا ہے او ران لوگوں کے لئے اس میں ہدایت ہے جو اس مسئلہ کو نہیں سمجھ سکے کہ امت محمدیہ کے ایک شخص کا نام کس طرح مریم بھی رکھا گیا اور عیسیٰ بھی۔ اگر سورہ فاتحہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی ام بھر فرماتے ہیں اور قرآن بھی۔ توایک سچے مسلمان کے لئے اس امر کا سمجھنا کیا مشکل ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو مریم بھی فرماتا ہے اور عیسیٰ بھی۔ اس کی وہ حالت جب وہ حدا کے سامنے اس زمانہ میں ایک مسیح کے ظہور کے لیے چلا رہی تھی مریمی حالت تھی اور اس کی وجہ سے وہ مریم کہلایا جس طرح سورۃ فاتحہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کی وجہ سے جو ایک ہدایت نامہ کے لئے پکار رہی تھی ام القرآن اور ام الکتاب کہلائی۔ لیکن جب اس فرد کامل کی دعا سنی گئی اور خدا تعالیٰ نے اسی کو دنیا کے لئے مسیحی نفس عطا کر کے مبعوث فرما دیا تو وہ عیسیٰ کہلایا۔ جس طرح اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی پکار نے بلند ہو کر جب قرآن کریم کو دنیا کی طرف کھینچا اور یہ دُعا خود اس کا حصہ بن گئی تو ام القرآن اور ام الکتاب کہلانے کے بعد وہ قرآن عظیم کہلانے لگی۔
اس دعا کے باہر میں ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جسے صحابہ نے مدنظر رکھا اور ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں مل سکتی اور اگر بعد کے مسلمان بھی اسے یاد رکھتے تو یقینا وہ بھی ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے کہ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ کے لئے یادگار رہ جاتا۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس زرین ہدایت کو جو اس آیت میں بیان کی گئی تھی۔ بھلا دیا اور اس معیار سے گر گئے جس پر کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ اگر آج بھی مسلمان اس ہدایت کو اپنا ملمح نظر بنا لیں تو سب تکلیفیں ان کی فوراً دُور ہو سکتی ہیں اور پھر وہ بے مثال عزت اور رفعت حاصل کر سکتے ہیں۔
وہ سبق جو اس آیت میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ ہر قوم کا ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ اسی طرح دُنیا کی پیدائش کا بھی ایک مقصد ہے جو قوم اس مقصد کو پورا کر دے دُنیا کی پیدائش کا اصل مقصود کہلانے کی وہی قوم مستحق ہو گی آدم علیہ السلام دُنیا میں آئے اور کچھ نیکیاں انہوں نے دُنیا کو بتائیں اس زمانہ کے لوگوں کے لئے وہ نہایت اعلیٰ تعلیم پر مشتمل تھیں۔ ان نیکیوں پر عمل کر کے اس زمانہ کے لوگوں نے بہت بڑی روحانی اور اخلاقی تبدیلی پیدا کی اور ان کی ذہنی قومیں پہلے لوگوں سے بہت آگے نکل گئیں مگر ابھی انسان اس کمال کو نہ پہنچا تھا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا پس اس کی ترقی کے لئے جستجو جاری رہی یہاں تک کہ نوع علیہ السلام پیدا ہوئے اور وہ انسان کو ترقی کی بلندی پر ایک منزل اور اونچا لے گئے مگر انسان نے گو نوح علیہ السلام کے ذریعہ سے روحانی اور اخلاقی اور ذہنی طو رپر ترقی کی مگر ابھی وہ مقصد حاصل نہ ہوا تھا جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا چنانچہ آپؐ کے بعد اور نبی آیا اور اس کے بعد اور۔ اور اس کے بعد اور۔ اور یہ سلسلہ چلتا چلا گیا یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ظاہر ہوئی اور آپؐ نے تمام راز ہائے سربستہ جو انسان پر اب تک پوشیدہ تھے ظاہر کر دیئے اور دینی اور ذہنی اور اخلاقی ترقی کے لئے جس قدر ضروری امور تھے وہ سب کے سب بیان کر دیئے اور گویا علمی طور پر مذہب کو کمال تک پہنچا دیا۔ اور اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ کا اعلان کر دیا مگر جب تک اس اعلیٰ تعلیم کو جامہ عمل نہ پہنایا جاتا اس کے نزول کی غرض پوری نہ ہو سکتی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پوری طرح کامیاب نہیں کہلا سکتی تھی پس اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں مسلمان کو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا سکھائی اور کہا کہ ہمیشہ اپنے سامنے یہ مقصد رکھو کہ جس مقامِ محمود کو سامنے رکھ کر اس دُنیا نے شروع سے رُوحانی سفر احتیار کیا ہے اور جس کی مختلف منزلوں تک مختلف انبیاء انسانوں کو پہنچاتے چلے آئے ہیںاور جس کی آخری منزل تک پہنچانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا ہے اس تک تم پہنچ جائو۔
پس سارے کے سارے منعم علیہ گروہ کی نعمتو ں سے ہمیں حصہ دے کے یہ معنی ہیں کہ اے خدا ہم کو آدم کی امت کی نیکیاں دے او رپھر ہماری ذہنی ترقی نوح کی امت کی طرح کر پھر ابراہیم کی امت کے مقام پر پہنچا اور پھر موسیٰ کی امت کے کمالات ہمیں دے اور پھر مسیح کی روحانیت کے اثر سے ہمیں حصہ دے اور اس طرح منزل بہ منزل روحانی بلندیوں پر چڑھاتے ہوئے بالآخر مقام محمدؐ پر ہم کو قائم کر دے تاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو اور وہ مقام محمود پر ـفائز ہو جائیں غرض صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے مُراد انسانی کمال کی وہ آخری منزل ہے جس کی طرف شروع سے انسانی قافلہ بڑھتا آ رہا ہے اور جس کی مختلف منزلوں کی راہنمائی مختلف زمانہ کے انبیاء کے سپرد تھی اور جس کی آخری منزل تک پہنچانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا تھا اور اس دعا کے ذریعہ اس امت محمدؐیہ کے افراد درخواست کرتے ہیں کہ الٰہی دین کی تکمیل تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے تو نے کر ہی دی ہے اب یہ امر باقی ہے کہ ہم لوگوں کے اعمال بھی اس دین کے مطابق ہو جائیں اور ہم ان تمام مخفی اور اعلی قوتوں کا اظہار کریں جن کی مختلف انبیاء کے ذریعے سے نشوونما کی جا چکی ہے اور جن کا پیدا کرنا انسانی پیدائش کا آخری اور اور اعلیٰ مقصد ہے سو اس کام کے لئے ہم کھڑے ہو گئے ہیں اب تو ہماری مدد کر اور ان سب منازل عرفان کو یکجائی طو رپر طے کرا دے جنہیں فرداً مختلف انبیاء کے ذریعہ سے مختلف اقوام طے کر چکی ہیں تاکہ انسانی پیدائش کا مقصد امتِ محمدؐیہ کے ذریعہ سے پورا ہو جائے۔
صحابہؓ نے اس مقصد کو سامنے رکھا اور زمانہ سابق کی سب اقوام کے اخلاق کو یکجائی طور پر اپنے وجود میں پیدا کر کے ایک بے مثال نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا آج اگر ہماری جماعت اس مقصد کو پھر اپنے سامنے رکھ لے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمود پر مبعوث ہونے کا وقت او ربھی قریب ہو جائے گا اور دنیا اپنی پریشان گن بے تابیوں سے محفوظ ہو جائے گی۔
ہر شخص یا قوم جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے اس کے غضب کو بھڑکا چکی ہو مَعْضُوْب عَلَیْھِمْ میں شامل ہے اسی طرح ہر قوم جو غیر اللہ کی محبت میں کھوئی گئی ہو اور اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھی ہو وہ ضال ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں لفظوں کے خاص معنے بھی کئے ہیں امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں عدمی بن حاتم سے ایک لمبی روایت نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں ہے۔ قال (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) انَّ الْمَغْضُوْبَ عَلَیْھِم ایہودُ وانَّ الضّالَینَ النصَاریٰ۔ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں۔ اسی طرح ترمذی نے بھی یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے بارہ میں کہا ہے کہ حسن غریب ابن مردویہ نے ابو ذر غفاریؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسألتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ وسلَّم عن الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمُ قَالَ ایہود و قلتُ الضّالّین قَالَ النصَاریٰ (بحوالہ فتح البیان جلد اول) یعنی حضرت ابو ذر فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلیہ اللہ علیہ وسلم سے پوچھا مغضوب علیھم کون ہیں آپؐ نے فرمایا۔ یہود پھر میں نے کہا کہ ضالین کون ہیں تو آپؐ نے فرمایا۔ نصاریٰ۔
بہت سے صحابہؓ سے بھی یہ معنے ثابت ہیں مثلاً ابن عباس اور عبداللہ بن مسعود ابن ابی حاتم تو یہاں تک کہتے ہیں وَلَا اَعْلَمُ بَیْنَ الْمُفَسِّرِیْنَ فِی ھٰذَا اِخْتِلَافاً۔ یعنی تمام مفسرین ان معنوں پر متفق ہیں اور اس بارہ میں میں نے ان میں کوئی اخلاف نہیں دیکھا (ابن کثیر)
قرآنی آیات سے بھی ان معنوں پر استدلال ہو سکتا ہے کیونکہ یہود کی نسبت قرآن کریم میں بار بار غضب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورہ بقرہ میں ہی فرماتا ہے۔ فَبَآئَ وَ بِغَضَبٍ عَلی غَضَب (ع ۱۱) یہود خدا کے متواتر غضب کو لے کر اس طرح بن گئے کہ گویا خدا تعالیٰ کا غضب انہی کے لئے ہے۔ اس کے برخلاف نصاریٰ کے لئے ضَلَّ کا لفظ آیا ہے جیسے فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیٔہُمْ فِی الَّحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (کہف ع ۱۲) اسی طرح سورۂ مائدہ میں مسیحیوں کا ذکر کر کے اور مسیح اور ان کی والدہ کو خدائی کا رتبہ دینے کا بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لَاتَعْلُوا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْ اکَثِیْرًا وَّضَلُّوْ اعَنْ سَوَآئِ السَّجِیْل (مائدہ ع ۱۰) اے اہل کتاب (یعنی نصارے کیونکہ اس جگہ انہی کا ذکر ہے) اپنے مذہبی خیالات میں غلو سے کام نہ لو اور ایسے لوگوں کے خیالات او رانکی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے سے گمراہ چلے آ رہے ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر چکے ہیں اور سیدھے راستہ سے بھٹک چکے ہیں یعنی عام نصاریٰ کو بتایا ہے کہ سب نصارے شرک کے عقیدہ کے قائَنہ تھے ان میں سے موجد بھی تھے او رمشرک بھی۔ مشرک گروہ جو سیح کو خدا قرار دیتا تھا وہ خود بھی گمراہ تھا اور اس نے باقی مسیحیوں میں بھی اپنا عقیدہ پھیلانا شروع کیا اور اکثر حصہ کو اس گمراہی کے عقیدہ پر لے آیا۔ اور جو سیدھا راستہ توحید کا تھا اُسے چھوڑ دیا۔
غرض قرآن کریم سے بھی اور اقوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ مفضوب علیہم میں خاص طو رپر یہود مراد ہیں اور ضالین سے خاص طور پر نصاریٰ مراد ہیں۔
یہ آیت اَلَّذِیْنَ کا یا اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں جو ھم کی ضمیر ہے اس کا بدل ہے او راس کامفہوم یہ ہے کہ اے اللہ ہمیں منعم علیہ گروہ کے راستہ پر چلا اور منعم علیہ سے ہماری مراد ایسے منعم عیہ ہیں جو بعد میں تیرے غضب کے مورد نہ ہو گئے ہوں یا جو کسی اور کی محبت میں تجھے چھوڑ نہ بیٹھے ہوں۔ اس مضمون میں مومن کے لئے خشیت کا بہت بڑا سامان مہیا ہے اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک انسان اس مقام تک نہ پہنچ جائے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں اسے کبھی مطمئن نہیں ہونا چاہیئے اور جدوجہد میں لگا رہنا چاہئے کہ اس کا قدم زیادہ سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تقویٰ کی راہو ںپر پڑتا رہے تا ایسا نہ ہو کہ تھوڑی سی غفلت سے وہ اپنے مقام سے گر کرتبہ اور برباد ہو جائے۔
اس آیت میں ایک بہت بڑی پیشگوئی ہے جو ہر سوچنے والے کے لئے ترقی ایمان کا موجب ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس وقت یہود اور نصاریٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ تھے بلکہ کفار مکہ آپؐ کے مقابلہ پر تھے۔ یہود اور نصاریٰ کی تعداد مکہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی او رنہ ان کا حکومت میں کوئی دخل تھا پھر کیا وجہ ہے کہ اس سورۃ میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر مشرک ہونے سے بچائے بلکہ یہ سکھایا گیا ہے کہ دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ کے طریق پر چلنے سے بچائے مشرکین کا ذکر چھوڑ کر یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مشرکین مکہ کا مذہب ہمیشہ کے لیے تبہ ہو جائے گا اس لئے اس دعا کی ضرورت ہی نہیں کہ خدا مسلمانوں کو مشرکین مکہ سا ہونے سے بچائے لیکن یہود اور نصاریٰ کا مذہب قائم رہے گا اس لئے اس بارہ میں دعا کرنے کی ضرورت رہے گی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ میں شامل ہونے سے بچائے۔
اس آیت میں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مسیحی تو اپنے مذہب میں مسلمانو ںکو شامل کرتے ہیں اس لئے اس دُعا کی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصارے کے فتنہ سے بچائے۔ لیکن یہود تو بالعموم غیر مذاہب کے افرا دکو اپنے اندر شامل نہیں کرتے پھر اس دعا کی کیا ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں یہود ہونے سے بچائے خدا تاعلیٰ کا کلام ایک بے معنی اور بے ضرورت دعا کے کرانے کا مجرم نہیں ہو سکتا نہ یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسی غیر ضروری دعا دن میں تیس چالیس بار پڑھنے کا حکم دیں گے۔ پس مسلمانوں کو غور کرنا چاہیئے کہ یہودی فتنہ کسی اور رنگ میں تو ان کے لئے ظاہر نہیں ہونے والا۔ کیا یہ تو ان کے لئے ظاہر نہیں ہونے والا۔ کیا یہ تو ممکن نہیں کہ آنے والے مسیح کا انکار کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت یہود کے مشابہ ہو جائے گی۔ اوریہ حالت اس وقت ہو گی جبکہ مسیحی فتنہ بھی بڑے زور سے اسلام پر حملہ کر رہا ہو گا۔ پس ایک طرف توایک مثیل مسیح کا انکار کر کے انہیں یہود سے مشابہت ہو جائیگی اور وہ خدا تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جائینگے دوسری طرف مسیحیت ان پر حملے کر کے ان کے ہزاروں جگر کے ٹکڑے ان سے چھین کر لے جائے گی۔ کی یہ آیت ایک زبردست پیشگوئی نہیں ہے۔ کیا اس سے فائدہ اٹھا کر وہ ان دو آگوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔
اس سورۃ پر نظر غائر ڈالنے سے ایک اور لطیف خوبی کاپتہ چلتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کّی آیات میں رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ صفات الٰہیہ اور دُعائوں کا بیان بالکل ایک دوسرے کے مقابل میں ہوا چنانچہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ (یعنی سب تعریف اللہ کے لئے ہے) کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) ہے جس سے بتایا ہے کہ جونہی انسان معلوم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب خوبیو ںکا جامع ہے تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں پھر رَبّ الْعٰلَمِیْنَ کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کو رکھا ہے کیونکہ جب انسان کو یقین ہو جائے کہ ہمارا خدا ہر ایک ذرہ ذرہ ہو خالق اور محسن ہے تو وہ کہہ اُٹھتا ہے کہ ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ اسی طرح الرَّحْمٰن کے مقابلہ میں جس کے معنے بغیر محنت اور مبادلہ کے دینے والا۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کو رکھا ہے۔ کیونکہ جب انسان دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے کسی عمل کے بغیر اس کی تمام ضروریات کو پورا کیا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ میری سب سے بڑی ضرورت تو حضور تک پہنچنا ہے اس کے پورا کرنے کے سامان بھی پیداکیجئے۔ پھر الرَّحِیْم (یعنی محنت کا عمدہ بدلہ دینے والا) کے مقابلہ میں صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ رکھا یعنی ایسے لوگوں کا رستہ دکھایئے جن پر آپ نے انعام کئے ہیںسیدھے راستہ پر چلاتے چلاتے مجھے ان انعامات کا وارث کر دیجئے جو پہلے لوگوں کو ملے ہیں۔کیونکہ رحمیت چاہتی ہے کہ کسی کام کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ پھر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کے مقابلہ میں غَیْرِ الْمَغْضُبْوبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن کو رکھا کیونکہ جب انسان کو یقین ہو کہ میرے اعمالا کا حساب لیا جائے گا۔ تو فوراً اس کے دل میں ناکامی کا خو ف بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ پس بندہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن پر غور کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کی دُعا کرتا ہے۔
اس سورۂ شریفہ کی آیات پر اگر نظر غور ڈالی جائے اور ان کی ترتیب کو چشم تعمق سے ملاخطہ کیا جائے تو صاف عیاں ہو جاتا ہے کہ اس میں انسان کے لئے تبدریج روحانی منازل طے کرنے اور منزل بہ منزل چل کر آخر قر الٰہی کا شرف حاصل کرنے کی ہدایت مندرج ہیں کسی ذات کی فرمانبرداری یا عبادت دو ہی وجہ سے ہوتی ہے یا محبت سے یا خوف سے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں اپنی دونوں قسم کی صفات کی طرف متوجہ کیا ہے بعض لوگ جن کی طبیعت میں احسان کی قدر کا مادہ زیادہ ہوتا ہے احسان کو دیکھ کر فرمانبرداری کرتے ہیں اور بعض لوگ احسانوںکی پرواہ بھی نہیں کرتے مگر خوف ان کو فرمانبرداری پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن دانا انسان کا یہ کام ہے کہ پہلے محبت سے کام لے اور اگر اس سے کام نہ چلے تو پھر خوف دلائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس سورۃ میں پہلے اپنی ان صفات کا بیان کیا ہے جن پر غور کرنے سے انسان کا دل محبت الٰہی سے پر ہو جاتا ہے اس کا نام اللہ ہے یعنی سب خوبیوں کا جامع اور سب نقائص سے منزہ ہے۔ سب اشیاء کا خالق او ران کا رازق ہے۔ مومن و کافر سب کی ربوبیت کرتا ہے۔ اس نے ہماری زیست کے وہ سامان جن سے ہم واقف بھی نہیں ہمارے لئے پیدا کئے ہیں۔ اور ہم جو نیک عمل کریں ان کا بہتر سے بہتر انعام دیتا ہے جو لوگ کسی چیز کی خوبصورتی یا اس کے احسان کو دیکھ کر فرمانبرداری کرنے کے عادی ہیں وہ ان صفات کو دیکھ کر بے اختیار اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ کر اُس کے آگے جھک جاتے ہیں لیکن جو لوگ محبت کے اثرات سے ناواقف ہوتے ہیں اور سخت لوگ کے عادی ہوتے ہیں وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت پر جب غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزاء کے دن کا مالک ہے اور ایک دن اس کے سامنے حاضر ہو کر اس کے سب انعامات کا حساب دینا ہو گا وہ خوف کی وجہ سے بے اختیار ہو کر اس کے آگے گردن جھکا دیتے ہیں اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ اٹھتے ہیں۔ غرض کوئی انسان ہو خواہ محبت سے متاثر ہونے والا خواہ خوف سے ماننے والا سورۃ فاتحہ کی ان ابتدائی آیات کو پڑھ کر بے اختیار اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ اٹھتا ہے لیکن ساتھ ہی جب وہ ایک طرف تو اپنی کمزوری کو دیکھتا ہے اور دوسری طر فاس شبہ خوباں کے حسن و احسان یا اس کی عظمت و جبروت کا مطالعہ کرتا ہے۔ تو بے اختیار ہو کر اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے ساتھ وَاِیَّاَک نَسْتَعِیْن بھی کہہ اُٹھتا ہے۔ یعنی میں تو حضور کا فرمانبردار ہوں۔ اور آپ ہی کی عبادت کرتا ہوں لیکن جو حق عبادت ہے۔ وہ مجھ سے ادا نہیں ہو سکتا اس لئے میں آپ ہی سے مدد چاہتا ہوں کہ آپ اس کام میں میری مدد فرمائیں اور حق عبادت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں جب محبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے اور عظمت الٰہی اس حد تک بندہ کو متاثر کر دیتی ہے تو پھر جیسا کہ فطرت انسانی کا تقاضا ہے وہ بے اختیار اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کہہ اٹھتا ہے یعنی مجھے سیدھا راستہ دکھایئے اور سیدھا راستہ ہمیشہ باقی راستوں سے اقرب ہی ہوتا ہے پس یہ کلام محبت کے کمال کو ظاہر کرتا ہے کہے اے اللہ اب میں آپ دُور نہیں رہ سکتا۔ آپ مجھے وہ سب سے نزدیک افراط و تفریط سے پاک راستہ دکھائیں جس پر چل کر میں جلد سے جلد آپ تک پہنچ جائوں لیکن چونکہ دربار شاہی میں باریاب ہونے والے لوگ مختلف مدارج کے ہوتے ہیں بعض عام درباری اور بعض خاص الخاص لوگ اس لئے عین فطرت کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا سکھلائی۔ یعنی اے مولیٰ آپ مجھے سیدھا راستہ بھی دکھائیں اور مجھ پر یہ فضل بھی کریں کہ منعم علیہ لوگوں کا راستہ دکھائیں یعنی حصور کے دربار میں میرا داخلہ عام لوگوں میں ہو کر نہ ہو۔ بلکہ آپ کے خاص پیاروں میں میں شامل ہو جائوں اور عاشق ہوتے ہوئے معشوق بھی بن جائوں اور جس طرح میں آپ سے محبت کرتا ہوں جناب بھی مجھ سے محبت کرنے لگ جائیں (کیونکہ منعم علیہ گروہ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا محبوب گروہ ہے اور جو جماعت انعام ہی انعام کی مستحق ہوتی ہے وہی پیاری جماعت ہوتی ہے) اس طرح بندہ اس مقام محبت کو چاہتا ہے جس میں کوئی پردۂ مغائرت نہ رہے اب گویا انسان کمال کو پہنچ جاتا ہے اور عاشق و معشوق ایک ہو جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ایمان بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرِّجَائِ ہے اس لئے جب انسان اس رُوحانی لذّت کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کی تمنا ہوتی ہے کہ یہ مقام اس کو ہمیشہ حاصل رہے اور اس پر اس کو ثبات نصیب ہو اس لئے مولیٰ کریم نے انسان کو اپنے حضور یہ عرض کرنا سکھلایا کہ آپ یہ فضل بھیکریں کہ اس ملاقات کے بعد میں آپ سے کسی طرح بھی جدا نہ ہوں اور چونکہ جدائی کے دو طریق ہوتے ہیں یا تو یہ کہ معشوق ناراض ہو کر نکال دے اور یا یہ کہ عاشق ہی عشق ترک کر کے علیحدہ ہو جائے اس لئے دونوں صورتوں کو بیان کرنے کے لئے فرمایا کہ غَیُرِ الْمَغْضُوُبِ عَلَیْہِمْ یعنی نہ تو ایسا ہو کہ آپ میری کسی غلطی کی وجہ سے مجھ پر ناراض ہو جائیں وَلَا الضَّالِّیْن اور نہ ایسا ہو کہ منزل مقصود کو پہنچ کر میرے ہی دل میں آپ کے سوا کسی اور شے کا عشق پیدا ہو جائے اور میں آپ کو چھوڑ کر کسی اور طرف چلا جائوں۔
یہ ایک ایسی کامل اور جامع دُعا ہے جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے رحم سے انسان کو اپنے حضور عرض کرنے کے لئے تعلیم کی ہے کہے جس کے مقابلہ میں کوئی اور مذاہب اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتا۔ غور کرو کس طرح انسانی فطرت کا اول سے آخر تک نقشہ کھینچ دیا ہے اور کس طرح تمام قسم کے متفرق خیالات کے لوگوں کا علاج اس چھوٹی سی سورۃ میں بتا دیا ہے پس جو سمجھنے والے ہیں سمجھیں اور جو سوچنے والے ہیں سوچیں کہ دُنیا کا نجات دہندہ مذہب سوائے اسلام کے اور روحانی بیماریوں کا علاج سوائے قرآن کے کوئی نہیں۔
آمین۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جب سورۃ فاتحہ کو غَیْرِ الْمَغُضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن پر ختم کرتے تو آمین کہتے ہیں جس کے معنے اللّٰھُمَّ اسُتَجِبْ لَنَا کے ہیں۔ یعنی اے اللہ ہماری یہ عرض قبول فرما۔ اور باتباع ارشاد نبویؐ صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی عمل ثابت ہے۔
٭……٭……٭……٭
ان آیات میں منافقوں کی حالت کا وہی نقشنہ کھینچا گیا ہے جو اوپر کی آیت میں شیطان کا کھینچا گیا ہے یہ بھی قسمیں کھاتے تھے جس طرح شیطان نے قسمیں کھائیں تھیں یہ بھی اپنے اخلاص کا دعویٰ کرتے تھے جس طرح شیطان نے کیا تھا اور ان کی باتیں بھی بظاہر ایسی ہوتی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دھوکا کھا جاتے کہ بڑے اچھے مشورے دے رہے ہیں اسی طرح شیطان کی بات پر آدم نے یقین کر لیا صرف فرق یہ ہے کہ سید ولد آدم چونکہ آخری نبی تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان شیطانوں کے حملہ سے اپنے الہام سے بروقت خبردار کر دیا اور وہ اسلام کو عارضی نقصان بھی نہ پہنچا سکے مگر آدم کا شیطان یا اپنے وقت کا عبداللہ بی ابی ابن سلول عارضی طور پر آدم کو جنت سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔
شیطان کا یہ کہنا کہ میں آپ کا مخلص ہوں اسی لئے تھا کہ آدم علیہ السلام کو یقین دلائے کہ ابلیس اور اس کی ذریت سے بچنے کا حکم بیشک آپ کو ملا تھا میں تو اب آپ کا مخلص ہوں اس لئے اب میں ابلیس کی ذریت سے نہیں رہا بلکہ آپ کی ذریت سے ہو گیا ہوں اس کی ان چکنی چپڑی باتوں سے آدم علیہ السلام کو دھوکا لگ گیا اور انہوں نے سمجھا کہ یہ سچ تو کہتا ہے جب یہ ہمارا مخلص ہو گیا ہے تو اب اس سے بچنے کی کیا ضرورت ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خبردار کر دیا کہ منہ سے یہ منافق کس قدر ہی اخلاص کے دعوے کریں مگر ھُمُ الْعُدُ وُّفَا حْذَرْ ھُمْ اصل دشمن یہی ہیں پس تُو ان سے بچ۔
اب سوال کا یہ دوسرا پہلو حل کرنے کے قابل رہ جاتا ہے کہ شیطان چونکہ ابلیس کے علاوہ اور وجود تھا اس لئے اس نے اپنے مومن اور مخلص ہونے کا دھوکا دے کر حضرت آدمؑ کو غافل کر دیا مگر وہ بات جو اس نے کی ہو گی وہ تو خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہی ہو گی پھر اس بات کے ماننے کے لئے آدم علیہ السلام کس طرح تیار ہو گئے اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح آدمی ایک غلط جبہ پہن کر دوسرے کو دھوکا دے دیتا ہے اسی طرح وہ باریک امور میں غلط امور کو غلط رنگ دے کر اچھا بنا کر بھی دکھا دیتا ہے۔ دیکھو اسی سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُٓوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (بقرہ ع ۲) یعنے جب ان منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ کفار سے میل جول رکھ کر فساد پیدا نہ کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ واہ ہم پر فساد کا الزام لگاتے ہو حالانکہ ہم ہی اصلاح کی سچی کوشش کرنے والے دبائیں اور مسلمانوں کی طرف ان کو مائل کریں۔ اس جواب میں انہوں نے اپنے برے فعل کی اچھی توجیہ کر دی ہے اور اس طرح مسلمانوں کو بھی رغبت دلائی ہے کہ تم بھی اسی طرح کرو تاکہ فساد جاتا رہے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے بھی یہی طریق اختیار کیا تھا چنانچہ فرماتا ہے شیطان نے آدم علیہ السلام کو شجرۂ ممنوعہ کے قریب لے جانے کے لئے کہا کہ قَالَ مَانَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْتَکُوْنَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ (اعراف ع ۲) یعنے شیطان نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ کو شجرۂ ممنوعہ سے بچنے کی حکمت پر غور کرنا چاہیئے صرف حکم کے ظاہری الفاظ کو نہیں دیکھنا چاہیئے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ اس شجرہ سے بچ کر آپ فرشتے ہو جائیں اور ہمیشہ کی زندگی پائیں پس جب یہ حکم آپ کو نیک بنانے اور دائمی زندگی دینے کے لئے تھا تو اب اگر اس شجرہ کے قریب جانے سے وہی غرض پوری ہوتی ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی رُوح کو مقدم رکھتے ہوئے اب آپ کو اس کے قرب جانے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے اور اس کے قریب جانے کو ہی منشائے الٰہی کو پُورا کرنے والا سمجھنا چاہیئے چنانچہ دوسری جگہ اس کی تشریح یُوں آتی ہے فَوَسْوَسَ اِلَیْہِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یَآ اٰدَمُ ھَلْ اَدُلُّکَ عَلیٰ شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّایَبْلیٰ (طہ ع ۷) عینی شیطان نے آدم علیہ السلام کو یہ دھوکا دیا کہ اے آدم کیا تم کو وہ درخت بتائوں جو دائمی زندگی بخشنے والا ہے اور ایسی بادشاہت بحشے گا جو کبھی تباہ نہ ہو گی (یعنے فرشتوں جیسی زندگی جو کبھی تنزل کی طرف نہیں جاتے)
سورۂ اعراف کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے اس امر کو آدم علیہ السلام کے سامنے رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس درخت سے اس لئے روکا تھا کہ تا اس سے رُک کر آپ فرشتے ہو جائیں اور دائمی زندگی پائیں اور طٰہٰ کی آیت بتاتی ہے کہ اس درخت کے قریب لے جانے کے لئے اس نے کہا کہ اس کے قریب جا کر آپ دائمی زندگی پائینگے ان دونوں آیتوں کو ملا کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا فریب یہی تھا کہ اس نے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی بات کی تصدیق کر کے آدم علیہ السلام کے سامنے اپنے ایمان کا ثبوت دیا دوسری طرف اجتہاد کی آڑ لے کر یہ بتایا کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی غرض اور اس کا منشاء اس درخت سے دُور رہ کر نہیں بلکہ اس کے قریب جا کر پُورا ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے اور اس کے حکم کی رُوح کو مقدم رکھتے ہوئے اب آپ کو اس درخت کے قریب جانا چاہیئے آدم علیہ السلام اس کے اس دھوکے میں آ گئے اور اس کی بات کو مان لیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنت دُکھ کا مقام بن گئی۔ ظاہر ہے کہ اس قسم ا دھوکا بعض باریک مسائل کے متعلق خواص کو بھی لگ سکتا ہے اور آدم علیہ السلام تو پہلے نبی تھے ان سے پہلے اسی قسم کی مثالیں عبرت کے لئے موجود نہ تھیں بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ لوگوں کی عبرت کے لئے ان سے اس غلطی کے صدور کو روا رکھا ہو۔
ہمارے زمانہ میں بھی عام مسلمان باوجود پہلی قوموں میں عبرت کی مثالوں کے موجود ہونے کے اس قسم کے اجتہادوں سے دھوکا کھا رہے ہیں مثلاً تاجروں کو بعض علماء یہ دھوکا دیتے ہیں کہ سود جو اسلام نے منع کیا تھا وہ وہ سود نہ تھا جو اب بنکوں کو دینا پڑتا ہے موجودہ سود سے بچنا تو قوم کو تباہ کرتا ہے اور اس سود کا لینا قوم کو تباہ کرتا تھا اس لئے اب بنکوں کا سود لینا منع نہیں بلکہ قومی زندگی کے لئے ضروری ہے اور کئی مسلمان جو دل سے اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے خواہشمند ہیں اس دھوکے میں آ کر سود لے رہے ہیں اسی طرح بعض لوگوں نے عورتوں کو دھوکا دیا ہے کہ عرب کا ملک جاہل تھا اور پردہ نہ کرنے کی وجہ سے اس وقت کی عورتیں گمراہ ہو سکتی تھیں لیکن اب تعلیم کا زمانہ ہے اب پردہ چھوڑنے میں حرج نہیں بلکہ مسلمان عورتوں کے باہر آنے میں اسلام کی مضبوطی ہے اور کئی عورتیں جو دل سے اسلام سے محبت رکھتی ہیں اس دھوکے میں آ کر پردہ چھوڑ رہی ہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ وہ کیا امر تھا جس کے بارہ میں شیطان نے دھوکا دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مصلحت سے اس امر کو پوشیدہ رکھا ہے پس اجمالاً اس امر پر یقین رکھنا کافی ہے کہ ممنوع باتوں میں سے کسی ایک کو جس کے بارہ میں دھوکا لگ سکتا تھا شیطان نے پیش کیا اور اس کی نسبت یہ دھوکا دیا کہ حالات کے بدل جانے کی وجہ سے اب اس کا ترک دین کے لئے مضر ہے جس طرح کہ پہلے اس کا اختیار کرنا دین کے لئے مضر تھا ممکن ہے کہ اس وقت کے دشمنوں سے تعلقات پیدا کرنے کے متعلق ہی تحریک کی ہو جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے منافق کہا کرتے تھے۔ ہماری جماعت کو بھی اس بارہ میں ایک حصہ سے اس قسم کا تلخ تجزبہ ہوا ہے اور حال کے زمانہ کی یہ دو مثالیں ہمیں اس طرف رہبری کرتی ہیں کہ آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی شیطان نے کوئی ایسی ہی چال چلی تھی۔
شائد کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ جب اس امر کو جس کے باہر میں شیطان نے آدم علیہ السلام کو دھوکا دیا تھا ظاہر نہیں کیا گیا تو (۱) اس سے ہم فائدہ کیا اُٹھا سکتے ہیں (۲) دشمنانِ قرآن پر یہ مبہم بیان محبت کیونکر ہو سکتا ہے۔
پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس واقعہ سے جس امر سے ہوشیار کرنا ہمیں مقصود ہے وہ صرف یہ ہے کہ کبھی دشمن نیکی کے جبہ میں آ کر اور بری بات کو نیک توجیہہ کے پردہ چھپا کر گمراہ کرناچاہتا ہے مسلمانوں کو اس سے ہوشیار رہنا چاہیئے یہ غرض اس مضمون سے روز روشن کی طرح واضح ہے باقی رہا یہ کہ آدم علیہ السلام کو کسی خاص امر میں شیطان نے دھوکا دیا تھا اس کا بیان کرنا ضروری نہیں کیونکہ ہر زمانہ میں شیطان نیا رنگ اختیار کرتا ہے اگر اس خاص امر کو بیان کر بھی دیا جاتا تو مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ نہ ہو سکتا تھا جس قدر واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ مومنوں کو منافقو ںکی چالبازیوں سے ہوشیار کرنے کے لئے کافی واضح اور بین ہے۔
دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ منکرین قرآن کے فائدہ اُٹھانے کا یہاں سوال ہی نہیں قرآن کریم کی تعلیم دو حصوں پر مشتمل ہے (۱) وہ حصہ جو مومن و کافر سب کے لئے مشترک ہے (۲) وہ حصہ جو صرف مومنوں کے لئے نصیحت اور فائدہ کا موجب ہے جن حصص میں عقلی دلائل اور معجزات عامہ اور مختلف مذاہب کی کتب کے نقلی دلائل بیان ہوئے ہیں وہ تو مومن وہ کافر یا مومنوں اور خاص خاص مذاہب کے کافروں کے لئے حجت ہیں اور جن حصوں میں خالص روحانی امور بیان ہوئے ہیں وہ صرف مومنوں کے لئے مفید ہیں اور کافروں کے لئے اسی وقت مفید ہو سکتے ہیں جب پہلے ان کے عقائد کی اصلاح ہو جائے اور یہ حصہ صرف مومنوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے کفار کو اگر اس کی حکمت سمجھ میں نہ آئے تو کوئی اعتراض کی بات نہیں جس طرح ایک دہریہ کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا نبوت کے دلائل بیان کرنے سے رُکا نہیں جا سکتا اسی طرح جو لوگ کسی خاص نبی کو نہیں مانتے ان کی وجہ سے اس نبی کے اتباع کے فائدہ کی باتوں کے بیان کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔
اِھْبِطُوْا کے لفظ سے دھوکا کھا کر بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آدم علیہ السلام آسمان پر تھے پھر انہیں زمین پر پھینکا گیا مگر جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے اس لفظ کے معنے چلے جانے کے بھی ہوت ہیں اور اس امر کو دیکھنے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین میں خلیفہ بنایا تھا اس جگہ اس کے یہی معنے ہیں قرآن کریم میں ان معنوں میں یہ لفظ دوسری جگہ پر بھی استعمال ہوا ہے مثلاً بنی اسرائیل کی نسبت فرماتا ہے اِھْبِطُوْا مِصْرًا (بقرہ ع ۷) شہر کی طرف چلے جائو یا شہر میں داخل ہو جائو۔
۳۸؎ حل لغات
تَلَقّٰی:۔ لَقِیَ سے باب تفعل کا واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور تَلَقَّاہُ کے معنے ہیں اِسْتَقْبَلَہُ اس کو آگے سے جا کر ملا۔ چنانچہ کہتے ہیں فُلَانٌ یَتَلَقّٰی فُلَانًا اَیْ یَسْتَقْبِلُہٗ فلاں شخص فلاں کو آگے سے جا کر ملتا ہے اور تَلَقَّی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍ کے معنے ہیں اَخَذَ ھَا عَنْہُ کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کلمات لئے وَقِیْلَ تَعَلَّمَہَا بعض نے اس کا پورا مفہوم یُوں ادا کیا ہے کہ انہوں نے سیکھے (لسان) اقرب میں لکھا ہے کہ تَلَقَّی الشَّیْئَ کے معنے ہیں لَقِیَہٗ کسی کو آگے جا کر ملا (کسی چیز کو آگے جا کر لیا) او رجب تَلَقَّی الشَّیْئَ مِنْہُ کہیں تو اس کے معنے ہونگے تَلَقَّنَہُ کسی کے منہ سے کوئی بات بالمشافہ سن کر اخذ کی اور اس کو ضبط کر لیا (اقرب) پس تَلَقَّی اٰدَمُ مِنْ رَّبِہٖ کے معنے ہوں گے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ دعائیہ کلمات بذریعہ الہام سیکھے۔
کَلِمٰتٌ:۔ کَلِمَۃٌ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں اللَّفْظَہُ منہ سے بولا ہوا مفرد لفظ وَکُلُّ مَایَنْطِقُ بِہٖ الْاِنْسَانُ مُفْرَدًا کَانَ اَوْمُرَ کَّبًا نیز ہر اس بات پر بھی جو انسان بولے خواہ وہ مفرد ہو یا مرکب کَلِمَۃٌ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ کَلِمَۃٌ کے ایک معنے اَلْخُطْبَۃُ وَالقَصِیْدَۃُ کے بھی ہیں۔ یعنی خطبہ اور قصیدہ (اقرب)
تَابَ:۔ تَابَ اِلَیْہ وَعَلَیْہِ کے معنے ہیں رَجَعَ عَلَیْہِ بِفَضْلِہاللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوا (اقرب)
تَوَّابٌ:۔ تَوَّابٌ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنے ہیں فضل کے ساتھ بہت متوجہ ہونے والا۔
اَلرَّحِیْم:۔ اس کے دیکھو حل لغات سورہ فاتحہ ۲؎
تفسیر۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت آدم کو شیطان نے دھوکا دے دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی غلطی سے آگاہ کیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دُعا کی رَبَّنَا خَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْ حَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (اعراف ع ۲) یعنی اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اور اگر تو ہماری غلطی کو معاف نہ فرمائے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائینگے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ یہی دُعا انہوں نے سیکھی تھی۔
اس آیت میں ایک اور لطیف بات بتائی گئی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کی جاذب زیادہ تر وہی دُعائیں ہوتی ہیں جو وہ خود سکھاتا ہے بہت سے انسان اپنی طرف سے دُعائیں بناتے ہیں لیکن وہ ایسی ناقص اور لغو ہوتی ہیں کہ بعض اوقات وہ دُعائوں کی بجائے بد دُعائوں کا مفہوم ادا کرتی یں اس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنے الفاظ میں دُعا مانگے ہی نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق پیدا کرے کہ جب وہ کسی مصیبت یا مشکل میں گرفتار ہو تو آدم اور دوسرے بزرگوں کی طرح اللہ تعالیٰ خود ہی اسے وہ دعا سکھلا دے جس کے مانگے سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکے۔
۳۹؎ حل لغات
اِمَّا:۔ اِنْ اور مَاسے مرکب ہے (مغنی) اِنْ حرف شرط ہے۔ اور مَا تاکید کے لئے زائد لایا گیا ہے۔
ھُدًی:۔ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ فاتحہ ۷؎ و سورہ ہذا ۳؎
خَوْفٌ:۔ خَوْفٌ کے معنے ہیں اِنْفِعَالٌ فِے النَّفْسِ یَحْدُثُ لِتَوَقُّعِ مَایَرِدُ مِنَ الْمَکْرُوْہِ اَوْیَفُوْتُ مِنَ الْمَحْبُوْبِکسی آیندہ وقت میں کسی ناپسندیدہ امر کے وقوع پذیر ہونے یا کسی پسندیدہ چیز کے ہاتھ سے چلے جانے کے خیال سے جو طبیعت پر گھبراہٹ طاری ہوتی ہے اسے خوف کے نام سے موسوم کرتے ہیں (اقرب)
یَحْزَنُوْنَ:۔ حَزِنَ (یَحْزَنُ) حَزَنًا سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور حَزِنَ لَہٗ وَ عَلَیْہِ کے معنے ہیں ضِدُّ سر غمگین ہوا (اقرب) اَلْحُزْنُ کے معنے ہیں الْغَمُّ غم و اندوہ خَلَافُ السُرُوْدِ خوشی کے متضاد معنے دیتا ہے یعنی غمگینی۔ نیز لکھا ہے کہ اَلْحَزْنُ اَلْغَمُّ الْحَاصِلُ لِوَ قُوْعِ مَکْرُوْہٍ اَوْ فُوَاتِ مَحْبُوْبٍ فِی الْمَاضِیْ زمانہ ماضی میں کسی ناپسندیدہ امر کے وقوع پذیر ہونے یا کسی پسندیدہ چیز کے ہاتھ سے چلے جانے کی وجہ سے جو طبیعت میں افسوس پیدا ہوتا ہے اُسے حزن کے نام سے تعبیر کرتے ہیں (تاج) مفردات راغب میں ہے اَلْحُزْنُ:۔ خُشُوْنَۃٌ فِی النَّفْسِ لِمَا یَحْصُلُ فِیْہِ مِنَ الْغَمِّ دل کی بیقراری جو غم کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے وَیُضَادُّہُ الْفَرْحُ اور اس کے بالمقابل فرح کا لفظ بولا جاتا ہے (مفردات) خوف اور حزن میں یہ فرق ہے کہ خوف آیندہ زمانے کے متعلق ہوتا ہے اور حزن کسی گذشتہ واقعہ کی بنا پر ہوتا ہے۔
تفسیر۔ اس آیت میں اِھْبِطُوْا جمع کا لفظ ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس جنت میں صرف آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی نہ تھے بلکہ آدم کے اتباع بھی تھے۔
اس آیت میں وعدہ کیا گیا ہے کہ آدم کی اولاد میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی طرف بلاتے رہیں گے اور ایسے لوگ جو ہدایت کو مان لینگے وہ اسی دنیا میں جنت میں آ جائینگے یعنی ان کے دلوںمیں ایسی ایمانی قوت پیدا ہو جائیگی کہ ہر حالت میں ان کے دل مطمئن رہیں گے اور خوف یعنی آیندہ نقصانات کا ڈر اور حزن یعنی پچھلے نقصانات پر افسوس ان کو غمگین نہ کر سکے گا بلکہ ان کا دل جنت کا قائم مقام ہو جائے گا اور مابعدالموت الٰہی انعامات کے وارث ہوں گے۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کے بعد وحی کا سلسلہ ختم نہیں ہو گیا بلکہ اسی وقت سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ آیندہ بھی وحی الٰہی آتی رہے گی اور اس کے ماننے والوں پر اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے رہینگے۔
۴۰؎ حل لغات
کَذَّبُوْا:۔ کَذَّبَ سے جمع کا صیغہ ہے۔ اور کَذَّبَ کے معنے ہیں جَعَلَہُ کَاذِبًا وَنَسَبَہٗ اِلَی الْکِذْبِ اُسے جھٹلایا۔ اور اس کی نسبت جھوٹ کی طرف کی۔ وَقِیْلَ قَالَ لَہٗ کَذَبْتَ اور بعض نے کہا ہے کہ کَذَّبِ کے معنے ہیں کسی کو یہ کہا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے اور جب کَذَّبَ بِالْاَ مْرِتَکْذِیْبًا وَکِذَّابًا کا فقرہ بولیں تو معنے یہ ہونگے اَنْکَرَہُ و حَجَدَہٗ کہ کسی معاملہ کا انکار کیا (اقرب) پس کَذَّبُوْا کے معنے ہونگے انہوں نے جھٹلایا۔
اٰیٰتٌ:۔ اٰیَۃَ کی جمع ہے اور اٰیَۃٌ کے معنے علامت۔ نشان اور دلیل کے ہوتے ہیں نیز قرآن کریم کے ہر ایسے ٹکڑے کو جسے کسی لفظی نشان کے ساتھ دوسرے جدا کر دیا گیا ہو اٰیَۃٌ کہتے ہیں۔ (تاج)
خٰلِدُوْنَ:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۲۶؎
تفسیر۔ یعنی جو لوگ ہدایت کو چھوڑ کر ان نشانوں کا انکار کرینگے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی شناخت کے لئے اس وقت پیدا کئے ہونگے وہ ایک آگ میں پڑ جائینگے۔ اور دلی اطمینان اور قلبی راحت ان کو حاصل نہ ہو گی خواہ بظاہر ہزاروں نعمتوں میں گھرے ہوئے ہوں اور مابعدالموت سزائوں کے وارث ہوں گے۔
وَھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۔ خلود کے معنے ہیں ایک لمبا عرصہ رہنا۔ دیکھو کلیات ابی البقاء وَفِی الْاَضْلِ اَلتَّبَاتَ الْمَدِیْدُ دَامَ اَمْ لَمْ یَدُمْ یعنی خلود کے اصل معنے ایک لمبا عرصہ تک رہنے کے ہیں خواہ ہمیشہ رہیں یا نہ رہیں یہ معنے نہیں کہ وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اسلام دائمی عذاب کا قائل نہیں۔ بلکہ دوزخ کو ایک شفا خانہ کی طرح قرار دیتا ہے جس میں لوگ صرف اصلاح کے لئے داخل کئے جائینگے اسلام کا خدا غیظ اور کینہ کے طور پر انتقام نہیں لیتا بلکہ وہ سزا کی یہ وجہ بیان فرماتا ہے کہ انسان کی اصلاح ہو جائے جب یہ بات حاصل ہو جاتی ہے تو عذاب ٹل جاتا ہے اسی لئے حدیث بات حاصل ہو جاتی ہے تو عذاب ٹل جاتا ہے اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ دوزخ پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس میں کوئی بھی دوزخی نہ رہے گا اور نسیم اس کے دروازے ہلائیگی۔ (تفسیر معالم التنزیل سورۃ ہود زیر آیت اَمَّا الَّذِیْنَ شَقَوْا) گو یہ واقعہ کسی پچھلے زمانہ میں انسانی نسل کے کسی خاص جد کے ساتھ بھی گزرا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بیان فرمانے میں ایک ایسا رنگ اختیار کیا ہے جس سے ہر ایک مسلمان نصیحت حاصل کر سکتا ہے او ریہی وجہ ہے کہ بہت سی باتوں کا ذکر بطور قصہ کے نہیں کیا بلکہ ایسے الفاظ میں ان کو ظاہرکیا ہے کہ جنہیں ہر انسان اپنے پر چسپان کر سکے مثلاً یہ کہ اسماء کی نسبت بتایا کہ وہ کیا تھے نہ شجرہ کی نسبت بیان کیا کہ وہ کونسا تھا پھر جہاں آدم کو بہکانے والے کا ذکر ہے وہاں ابلیس کی جگہ شیطان کا لفظ رکھ کر بتا دیا ہے کہ ابلیس کے اضلال چاروں طرف موجود ہیں تایہ واقعہ لوگوں کے لئے نصیحت اور فائدہ کا موجب ہو اور ایسا نہ ہو کہ وہ ایک قصے کے طور پر اسے پڑھیں۔ ہر ایک انسان جو پیدا ہوتا ہے وہ آدم ہے ملائکہ کو جو دنیا کے رُوحانی نظم و نسق کو قائم رکھنے کے لئے ایک واسطہ کے طور پر پیدا کئے گئے ہیں انہیں اس کی مدد کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ملائکہ جن اشیاء کے نگران ہیں وہ سب انسان کی مدد کرتی اور اس کی زندگی کو بہ آرام بنانے میں کار آمد ہوتی ہیں۔ لیکن بعض شریر لوگ دوسرے بھائیوں کا سکھ نہیں دیکھ سکتے وہ شیطان بن کر ان کو اس رُوحانی جنت سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو ہر ایک انسان کو اس کی پیدائش سے ملا ہے اور بہت کچھ دکھ دیتے ہیں۔ لیکن وہ جو آدم کی طرح اپنے رب کے حضور جھکتا ہے اور اس سے اپنی مصیبت کے دُور کرنے کی التجا کرتا ہے آخر کامیاب ہو جاتا ہے اور ہر خوف و حزن کی حد سے باہر نکل جاتا ہے لیکن جو لوگ آدم کے نقش قدم پر نہیں چلتے بلکہ ابتلائوں میں اُن کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور شیطان سے صلح کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو رد کر دیتے ہیں وہ دُکھ میں پڑ جاتے اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک سورج جو چڑھتا ہے اس واقعہ کو بار بار دُہرا رہا ہے۔ لیکن نادان انسان جو خود ہزاروں خطرناک بدیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ آدم پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ اس نے شیطان کا کہنا کیوں مانا۔ حالانکہ آدم بھول کر ایک غلطی کا مرتکب ہوا تھا اور یہ معترض اپنے دل میں شیطان کو لئے بیٹھا ہوتا ہے اور آدم پر اعتراض کرتے ہوئے نہیں شرماتا۔ بعض مفسرین نے اصل حقیقت سے قطع نطر کر کے اس جگہ عجیب عجیب قصے بیان کئے ہیں جن کی صحت کا ثبوت نہ قرآن مجید سے ملتا ہے نہ احادیث صحیحہ سے پس ان کی طرف توجہ نہیں ہونی چاہیئے اور غیر مذاہب کی طرف سے ان کی بناء پر کوئی اعتراض قرآن مجید پر آ سکتا ہے۔
مذکورہ بالا آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے علاوہ انسان کو اس کے ذاتی حالات کی طرف توجہ دلانے کے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کی طرف بھی لطیف طور پر توجہ دلائی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ (۱) الہام الٰہی میں انسانی برتری کا ذریعہ ہے۔ بشر کو دوسرے حیوانات پر فضیلت الہام الٰہی کے ذریعہ سے ہی ملی پس جو اقوام الہام الٰہی سے محروم ہیں یا اس کی قدر نہیں کرتیں وہ حیوانیت کو انسانیت پر ترجیح دینے کی مجرم ہیں۔ اور تمدنی ترقی کے راستہ میں روک ثابت ہو رہی ہیں اور ہونگی۔ وہی لوگ تمدنی ترقی کا موجب ہوتے ہیں جو آسمانی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ اس زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہنے والے ایک جدید اور مفید تمدن کی بنیاد رکھیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت کے مطابق اس جدید رُوحانی سلسلہ کے متبع ایک جدید اور عظیم الشان تمدن کے بانی ہوئے موجودہ مغربی تمدن گو بہت شاندار نظر آتا ہے مگر وہ بہت حد تک اسلامی تمدن کا خوشہ چین ہے اور جس حد تک وہ اس کے خلاف چلا ہے امن کا موجب نہیں ہوا۔ بلکہ فساد اور خونریزی کا موجب ہوا ہے (۲) جب بھی کوئی نئی اصلاح دنیا کے لوگوں کے سامنے آتی ہے دنیا اس کی مخالفت کرتی ہے وہ ایسی عظیم الشان ہوتی ہے کہ شروع شروع میں نیکوکار بھی اس کی گہرائیوں اور تاثیروں کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسلام کے ظہور کے وقت میں ایسا ہی ہونا لازمی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا (۳) نیک لوگ بعد میں اپنی غلطی تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کی عظمت کے قائل ہو جاتے اور اس کی تائید میں لگ جاتے ہیں لیکن شریر مخالف مقابلہ شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی اسلام سے ہوا اور ہو گا چنانچہ تمام نیک فطرت لوگ ایک ایک کر کے اسلام میں داخل ہوئے اور اس کی تائید میں لگ گئے لیکن ابلیس مزاج نافرمانی پر اُتر آئے (۴) جب ظاہری مخالفت ناکام رہتی ہے تو الٰہی سلسلوں کے دشمن ان میں شامل ہو کر ان کی مخالفت کرتے ہیں جیسا کہ آدم کے وقت میں شیطان نے کیا اور ایسا ہی معاملہ اسلام سے وہ کرینگے اور کر رہے ہیں لیکن جس طرح آدم کا شیطان ناکام رہا اور حقیقی نقصان آدم علیہ السلام کو نہ پہنچا سکا۔ یہ منافق بھی اسلام کو کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور باوجود ان کی مخالفت کے اسلام ترقی کرے گا اور اس کے دشمن ایک دائمی عذاب میں مبتلا ہونگے (۵) الٰہی ہدایت کا سلسلہ محدود نہیں ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ ہدایت بھجواتا رہے گا اگر ہدایت کا سلسلہ محدود ہوتا تو پھر اسے پہلے نبی کے ساتھ ہی بند ہو جانا چاہیئے تھا جیسا کہ مثلاً ہندوئوں کا خیال ہے لیکن وہ آدم اوّل کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ آدم اوّل کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے آیندہ ہدایتوں کے آنے کی خبر دی۔ پس آیندہ کسی وقت میں اس کا بند ہو جانا خلافِ عقل و خلافِ وحی الٰہی ہے (۶) جو لوگ آسمانی ہدایت پر ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ان کی سابق خطائوں کے ہداثرات سے بچا لیتا ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام سے ہوا اور آیندہ کا ہر قدم ان کا ایسا مضبوط پڑتا ہے کہ مستقبل کے خطرات کم ہوتے ہوتے بالکل مٹ جاتے ہیں پس خدا تعالیٰ کے اس وعدہ پر ایمان رکھتے ہوئے مومن دلیر بہادر اور جری ہوتا ہے وہ قربانیوں کے وقت عواقب اور انجام سے نہیں ڈرتا کیونکہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی اس کے لئے ایسا عروہ وتقی ہے کہ اسے پکڑنے کے بعد وہ ہر دُکھ سے محفوظ ہو گیا اگر وہ جیتا رہا تو دنیا کا رہنما ہو گا اگر مارا گیا تو خدا تعالیٰ کی محبت بھری گود میں۔ پس اسے کس امرکا خوف ہو سکتا ہے؟
۴۱؎ حل لغات
بَنِیْ اِسْرَائِیْل:۔اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے جو بائبل کے بیان کے مطابق ان کو ان کی بہادری کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا۔ تورات میں آتا ہے ’’کہ تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کیونکہ تُو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔‘‘ (پیدائش باب ۳۲ آیت ۲۸) عبرانی کی لغت میں لکھا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لقب کے علاوہ ان کی نسل پر (بھی) یہ لفظ بولا جاتا ہے یعنی کبھی بنی اسرائیل کو خالی اسرائیل بھی کہہ دیتے ہیں۔ عربی اسرائیل کا عبرانی تلفظ یَسْرَائِیْل ہے اور یہ مرکب ہے یسر اور ایل سے۔ یسر کے معنے ہیں جنگجو بہادر سپاہی۔ اور ایل کے معنے ہیں خدا۔ پس یسرائیل کے معنے ہوئے خدا کا بادر سپاہی عربی زبان کے لحاظ سے یہ لفظ اسر اور ایل سے مرکب ہے گو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ کلیتہً عبرانی لفظ ہو اور عربی میں مستعار طور پر استعمال ہوتا ہو لیکن عربی زبان اور عبرانی زبان در حقیقت ایک ہی ہیں اور ہماری تحقیق میں عبرانی زبان عربی کی بگڑی ہوئی صورت ہے یورپین مصنفوں میں سے بھی بعض اس خیال کے ہیں گو اکثر مذہبی تعصب کی وجہ سے ان دونوں زبانوں کو ایک اور زبان کی شاخ ہی قرار دیتے ہیں بلکہ بعض تو عربی کو عبرانی کی شاخ تک قرار دے دیتے ہیں لیکن یہ موقعہ اس بحث کا نہیں اس موقعہ کے مناسب حال اس قدر کہنا کافی ہے کہ عربی اور عبرانی کا اشتراک ایک مسلمہ حقیقت ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اصل میں عربی ہے اور عبرانی زبان میں اس کی شکل بدل گئی ہے اور ہمزہ نے یاء کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عربی زبان میں اَسَرَا لزَّجُلُ کے معنے ہیں قَبَضَ عَلَیْہِ وَ اَخَذَہٗ (اقرب) یعنی فلاں شخص اپنے مدمقابل پر غالب آ گیا اور اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ان معنوں کے اعتبار سے اِسْر کے معنے ہونگے وہ شخص جس کے اندر بہادری اور قوت ہو اور وہ اپنے مدمقابل پر غلبہ پا کر اسے اپنی گرفت میں لے لے۔ اگر عبرانی کے تلفظ اور رسم الخط کو دیکھا جائے تو یَسْر کے معنے ہیں اَللِّیْنُ وَالْاِ نْقِیَادُ (لسان) کسی کی بات کو آسانی سے قبول کر لینا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔
لفظ اِیْل عربی زبان میں خدا تعالیٰ کے معنوں میں نہیں آتا۔ ہاں اگر غور کیا جائے تو اس کے حقیقی معنے اللہ تعالیٰ پر ہی صادق آتے ہیں کیونکہ یہ آلَ سے بنا ہے اور آلَ کا اسم فاعل آئِلٌ بنتا ہے اور اِیْل اس سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے آلَ کے معنے ہیں سَاسَ یعنی اس نے نگہداشت کی۔ چنانچہ کہتے ہیں آلَ الرَّجُلُ اَھْلَہٗ اَیْ سا سَہُمْ کہ فلاں شخص نے اپنے کنبہ کی پوری نگہداشت کی (اقرب) نیز کہتے ہیں آلَ الْمَلِکُ الرَّعِیَّۃَ کے بادشاہ نے اپنی رعیت کی نگرانی رکھی اور رعیت کے ساتھ تعلق رکھنے والے امور کی تدبیر کی۔ نیز کہتے ہیں آلَ عَلَی الْقَوْمِ۔ وَلِیَ کہ وہ قوم پر بادشاہ ہو گیا۔ پس آئِلٌ کے معنے ہوئے مدبر۔ حاکم۔ بادشاہ۔ اور اِیْلٌ کے معنے ہونگے ایسی ہستی جس کی ذات میں تدبیر امور اور حکومت اور یہ صفات سوائے خدا تعالیٰ کے کسی اور ذات میں نہیں پائی جاتیں۔ کیونکہ وہی ایک ذات ہے جو ازلی اور ابدی ہے۔ آلَ کے ایک معنے لوٹنے کے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے اِیْل کے معنے ہونگے کہ وہ ذات جس کے اندر لوٹنے کی صفت پائیداری اور ہمیشگی کے ساتھ پائی جاتی ہے اور یہی معنے بلفظ دیگر تَوَّابٌ کے ہیں۔ یعنی بار بار رحمت کے ساتھ اپنے بندوں پر لوٹنے والا۔
الغرض پہلے مادہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل کے معنے مندرجہ ذیل ہونگے (۱) ازلی ابدی بادشاہ (یعنی خدا تعالیٰ) کا سخت گرفت رکھنے والا بندہ (۲) ازلی ابدی مدبر ہستی کا سخت گرفت رکھنے والا بندہ (۳) بار بار لوٹنے والے کا (یعنی تواب خدا کا) بہادر بندہ۔
دوسرے مادہ یعنی یَسْر کے لحاظ سے اسرائیل کے معنے ہونگے اللہ تعالیٰ کا پورا مطیع و فرمانبردار اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لینے والا۔ عبرانی زبان چونکہ عربی سے نکلی ہے اس لئے اگرچہ اسرائیل کا تلفظ عبرانی میں بدل گیا اور اِسْر کو یَسر اور اِیْل کو ایل (نرم زبان سے یعنی زبر اور زیر کے درمیانی تلفظ سے) کر دیا گیا اور عربی زبان جو کہ اپنے اصل معنے کا انکشاف کرتی ہے عبرانی نے اسے محدود کر دیا۔ کیونکہ عبرانی میں اسرائیل کے معنے صرف خدا کے جنگجو بہادر سپاہی کے ہیں لیکن عربی زبان میں جہاں یہ معنے کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ یہ لفظ یَسْر سے بھی صفت مشتبہ کا صیغہ بن سکتا ہے اور یہ لفظ اس خاص حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو انبیاء کی فطرت میں پائی جاتی ہے یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے لئے سر تسلیم خم رکھنا۔ گویا اسرائیل اس شخص کو کہیں گے جو اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار ہو اور اس کے احکام کے ماننے کے لئے ہر وقت اپنے تئیں تیار رکھے۔ ان معنوں کی تصدیق تاج العروس والے نے بھی کی ہے چنانچہ لکھا ہے کہ مَعْنَاہُ صَفْوَۃُ اللّٰہِ وَقِیْلَ عَبْدُاللّٰہِ کہ اسرائیل کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ کیا ہوا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کے احکام کا فرمانبردار۔ بعض لوگوں نے اس کے معنے سَرِیُّ اللّٰہِ کے کے کئے ہیں (تاج) سَرِیٌّ کے معنے عربی زبان میں صاحب شرف و مروت اور فیاض کے یا معزز شریف سردار کے ہیں۔ لیکن میں اس بات کی تصریح کر دی گئی ہے کہ یَسْرٌ کے حقیقی معنے سَرِیٌّ کے نہیں ہاں اس سے ملتا جلتا مفہوم ہے (اصل بات یہ ہے کہ یَسْرٌ چونکہ جنگجو بہادر کو کہتے ہیں اور ایسا شخص ہی سرادرِ لشکر ہو سکتا ہے جو بہادر اور جنگجو ہو اور عرب لوگ بھی ایسے شخص کو سردار مانتے تھے جو صاحبِ شرف اور مروت اور فیاض ہو اور ایسا شخص ہی جنگوں میں پیشرو ہو سکتا تھا تو گویا ان معنوں کے لحاظ سے یَسْرٌ کے معنے سَرِیٌّ کے مشابہ ہو گئے)۔
اُذْکُرُوْا:۔ امر حاضر جمع کا صیغہ ہے اور ذَکَرَ الشَّیْئَ (یَدْکُرً ذِکْرًا وَتَذْ کارًا) کے معنے ہیں حَفِظَہٗ فِی ذِھْنِہٖ کسی چیز کو اپنے ذہن میں یاد کر لیا اور جب ذَکَرَ الشَّیْئَ بِلِسَانِہِ کہیں تو معنے ہونگے قَالَ فِیْہِ شَیْئًا کہ اس نے کسی بات کے متعلق اپنی زبان سے کچھ کہا۔ اور ذَکَرَ لِفُلَانٍ حَدِیْثًا کے معنے ہیں قَالَہٗ لَہٗ کوئی بات بیان کی جب ذَکَرَ مَا کَانَ قَدْنَسِیَ کا فقرہ بولیں تو اس کے معنے ہونگے فَطَنَ بِہٖ کسی بھولی ہوئیبات کی یاد تازہ ہو گئی (اقرب) امام راغب لکھتے ہیں اَلذِّکْرُ تَارَۃً یُقَالُ وَیُرَادُبِہٖ ھُیْئَۃٌ لِلنَّفْسِ بِھَا یُمْکِنُ لِلْاِنْسَانِ اَنْ یَحْفَظَ مَایَقْتَنِیْہِ مِنَ الْمَعْرِفَۃِ کہ ذکر کا لفظ بول کر کبھی نفس کی وہ ہیئت مُراد لی جاتی ہے جس کے ذریعہ سے انسان کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ وہ معلوم شدہ باتوں کو یاد رکھ سکے وَھُوَ کَا لْحِفْظِ اِلَّا اَنَّ الْحِفْظَ یُقَالُ اِعْتِبَارًا بِاِحْرَازِہِ وَالذِّکْرُ یُقِالُ اِعْتَبَارًا بِاِسْتِحْضَارِہٖ۔ اور ان مذکورہ بالا معنوں میں ذکر کا لفظ حفظ کے لفظ کے ہم معنی ہے ہاں حفظ اور ذکر ہر دو کے مفہوم میں تھوڑا سا امتیاز ہے حفظ کسی شخص کے یاد کرنے پر اس وقت بولیں گے۔ جب وہ ذہن میں بعض باتوں کو جمع کرتا چلا جائے اور ذکر اس کے اس طور پر یاد رکھنے کو کہیں گے کہ اس کو وہ باتیں مستحضر رہیں اور جب چاہے انہیں استعمال کر لے وَتَارَۃً یُقَالُ لِحَضُوْرِ الشَّیْئِ الْقَلْبَ اَوِلْقَوْلَ اور کبھی دل میں کسی امر کا خیال لانے یا زبان پر کسی بات کے لانے کا نام ذکر رکھا جاتا ہے وَلِذٰ لِکَ قِیْلَ اَلذِّکْرُ ذِکْرَ اِن ذِکْرٌ بِالْقَلْبِ وَ ذِکْرٌ بِاللِسَّانِ اسی لئے کہتے ہیں کہ ذکر دو طرح ہوتا ہے (۱) قلبی ذکر (۲) زبانی ذکر وَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا ضَرْ بَانِ ذِکْرٌ عَنْ نِسْیَانٍ وَ ذِکْرٌ لَاعَنْ نِسْیانٍ بَلْ عَنْ اِدَامَۃِ الحِفْظِ کہ خواہ قلبی ذکر ہو یا قولی ہر دو کی دو دو قسمیں ہیں (۱) بھول جانے کے بعد کیس بات کا یاد کرنا (۲) یا بغیر بھولنے کے یاد رکھنا (مفردات) پس اُذْکُرُوْا کے معنے ہونگے۔ تم یاد کرو۔
نِعْمَتِیْ:۔ اَلنِّعْمَۃُ کے معنے ہیں اَلٰصَّنِیْعَۃُ وَالْمِنَّۃُ احسان۔ مَا اُنْعِمَ بِہٖ عَلَیْکَ مِنْ رِزْقٍ وَ مَالٍ وَغَیْرِہٖ۔ وہ مال یا رزق یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز جو بطور انعام ملے۔ اَلْمَسَرَّۃُ۔ خوشی۔ اَلْیَدُ الْبَیْضَائُ الصَّالِحَۃُ ایسا احسان جس میں کوئی کدورت او رکمی نہ ہو۔ وَفِی الْکُلِّیاتِ اَلنِّعْمَۃُ فِی اَصْل وَضْعِمَا ’’اَلْحَالَۃُ الَّتِیْ یَسْتَلِذُّ بِھَا اِلْاِنْسَانُ‘‘ وَھٰذَا مَبْنِیٌّ عَلیٰ مَا اشْتَھَرَ عِنْدَ ھُمْ مِن اَنَّ النِّعْمَۃَ بِالْکَسْرِ لِلْحَالَۃِ وَ بِالْفَتْحِ لِلْمَرَّۃِ۔ اور کلیات ابی البقاء میں یوں لکھا ہے کہ نعمت اصل وضع کے لحاظ سے اس حالت کو کہتے ہیں جس سے انسان لذت اُٹھاتا ہے اور یہ اس بناء پر ہے کہ حالت بیان کرنے کے لئے عربی زبان میں فَعْلَۃٌ اور کسی کام کے ایک ہونے کا اظہار کرنے کے لئے فَعْلَۃٌ کا وزن لاتے ہیں اور نِعْمَۃٌ ان کی زیر سے چونکہ فَعْلَۃٌ کے وزن پر ہے اس لئے اس میں نعمت والی حالت کے معنے پائے جاتے ہیں۔ وَنِعْمَۃُ اللّٰہِ۔ مَا اَعْطَاہُ اللّٰہُ لِلْعَبْدِ مِمَّالَایَتَمَنَّی غَیْرَہٗ اَنْ یُعْطِیَہٗ اِیَّاہُ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اپنے بندے پر وہ احسان ہے جس کے بعد بندہ اس کے متعلق کسی اور سے خواہش نہیں رکھتا۔ اس کی جمع اَنْعُمٌ اورنِعَمٌ آتی ہے اور جب فُلَانٌ وَاسِعُ النِّعْمَۃِ کہیں تو اس کے معنے ہونگے وَاسِعُ الْمَالِ یعنے فلاں مالدار ہے (اقرب)
اَلْعَھْدُ:۔ کے مصدری معنے ہیں حِفْظُ الشَّیْئِ وَ مُرَاعَاتُہٗ حَالًا بَعْدَ حَالٍ۔ کسی چیز کی حفاظت کرنا اور وقتاً فوقتاً اس کی دیکھ بھال کرتے رہنا۔ وَسُمِّیَ الْمَوْثِقُ الَّذِیْ یَلْزَمُ مُرَاعَاتُہٗ عَھْدًا۔ اور اس عہد و پیمان کو جس کی ہر لحاظ سے حفاظت کی جائے عہد کے نام سے موسوم کرتے ہیں وَعَھْدُ اللّٰہِ تَارَۃً یَکُوْنُ بِمَارَ کَزَہٗ فِیْ عُقُوْلِنَا اور اللہ تعالیٰ کا بندوں سے عہد تین طور پر ہے (۱) یہ کہ بعض باتیں اس نے فطرت انسانی میں رکھ دی ہیں اور اس عہد کی حفاظت اس طور پر کی جا سکتی ہے کہ خلاف فطرت کام نہ کیا جائے (۲) وَتَارَۃً یَکُوْنُ بِمَا اَمَرَنَا بِہٖ بِالْکِتَابِ وَبِسُنَّۃِ رُسُلِہِ اور کبھی اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں سے عہد لینے سے یہ مُراد ہوتی ہے کہ وہ باتیں جو اس نے اپنی نازل کردہ کتاب اور اپنے رسولوں کی سنت کے ذریعہ ہمارے پاس بھیجی ہیں ہم ان کو بجالائیں (۳) وَتَارَۃً بِمَا نَلْتَزِمُہٗ بعض اوقات اس بات کو بھی عہد کہہ دیتے ہیں جو برضاور غبت اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے ذمہ لگایا جائے کہ میں خدا تعالیٰ کی خاطر فلاں جائز کام ضرور کرونگا (مفردات) تاج العروس میں ہے اَلْعَھْدُ اَلْوَصِیَّۃُ وَالْاَ مْرُ کہ عہد کے معنے کسی تاکیدی حکم کے ہوتے ہیں نیز اس کے معنے ہیں اَلْمَوْثِقُ وَ الْیَمِیْنُ پکا عہد و پیمان۔ قسم۔ اَلْحِفَاظُ وَرَعَایَۃُ الحُرْمَۃِ کسی بات کی حفاظت اور اس کی حرمت کی نگہداشت کرنا۔ اَلْاَمَانُ امان۔ اَلذِّمَّۃُ ذمہ۔ اَلْاِ لْتِقَائُ ملنا۔ ملاقات۔ اَلْمَعْہِفَۃُ کسی چیز کو جاننا۔ اَلزِّمَانُ۔ زمانہ۔ اَلْوَفَائُ وفا۔ تَوْحِیْدُ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ اللہ تعالیٰ کو واحد گرداننا اَلضَّمَانُ۔ ضمانت۔ اَلَّذِیْ یُکْتَبُ لِلْوُلَاۃِ۔ پروانہ شاہی جو کسی شخص کو کئی ملک کا حاکم مقرر کرتے وقت لکھ کر دیا جاتا ہے۔ (تاج)
اِرْھَبُوْنِ:۔ اِرْھَبُوْا۔ جمع مخاطب کا صیغہ امر ہے اور رَھِبَ الرَّجُلُ (یَوْھَبُ رَھْبَۃً) کے معنے ہیں خَافَ ڈر گیا (اقرب) اِرْھَبُوْنِ اصل میں اِرْھَبُوْنِیْ تھا۔ یہ کو گراد یا گیا اور نون وقایۃ کے کسرہ پر اکتفا کیا گیا۔ اِرْھَبُوْنَ کے معنے ہیں۔ مجھ سے ڈرو۔
تفسیر۔ ترتیب مضمون:۔ آدم علیہ السلام کی مثال دے کر یہ بتایا گیا تھا کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کوئی نیا دعویٰ نہیں بلکہ جب بشر کی عقل مکمل ہوئی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پر الہام نازل کیا تھا۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب شروع میں الہام نازل کر دیا تو پھر اور کسی الہام کی کیا ضرورت ہے کیا وہ الہام کافی نہیں۔ یہ سوال عام ہے اور اکثر نبوت کے مخالف بلکہ پُرانے مذہب کے مدعیان بھی یہ اعتراض کرتے چلے آتے ہیں۔ مخالفین نبوت کے اعتراض کی غرض تو صرف نبوت میں شک پیدا کرنا ہوتی ہے وہ اس اعتراض سے صرف یہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ موجودہ مدعی غلطی پر ثابت ہو گا سابق کا کوئی دعویدار اور نائب موجود ہی نہیں کہ اس کی اطاعت کا سوال ہی لیکن جو مذاہب قدیم ہیں ان کی غرض اس سوال سے یہ ہوتی ہے کہ ہمارے مذہب کی موجودگی میں اور کسی نبی کی ضرورت نہیں۔ اس سوال کا دو طرح جواب دیا جا سکتا ہے ایک اس طرح کہ عقلاً نبوت کی ضرورت ثابت کی جائے دوسرے اس طرح کہ واقعات کی شہادت سے ثابت کر دیا جائے کہ نبوت آدم علیہ السلام کے بعد بھی جاری رہی۔ قرآن کریم نے نبوت کے اجراء کی ضرورت کو عقلی طور پر کئی دوسرے مقامات پر ثابت کیا ہے مگر اس جگہ دوسرے طریق جواب کو اختیار کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام کے قریب زمانہ تک نبوۃ کے مدعی ہوتے رہے ہیں پس یہ کہنا کہ پہلی شریعت کے بعد اور کسی شریعت یا وحی نبوت کی ضرورت نہیں درست نہیں۔ جن لوگوں کی صداقت شواہد اور دلائل سے ثابت ہو چکی ہو ان کے دعویٰ کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے تھے تو پہلی وحی کے بعد دوسرے زمانوں کی وحیوں کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر پہلی وحی کے بعد بھی الہام ہوتا رہا بلکہ اسلام کے قریب زمانہ تک بھی خدا تعالیٰ کے نبی آتے رہے تو پھر اسلام کی وحی پر اس بناء پر اعتراض کرنا کہ پہلی وحی کے بعد دوسری وحی کی ضرورت نہیں کس طرح درست ہو سکتا ہے؟
اس طریق جواب کو اختیار کرنے میں ایک مزید فائدہ بھی تھا اور وہ یہ کہ قرآن کریم کے پہلے مخاطبین میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو یہودی مذہب یا عیسوی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور انہی کے نبیوں کو قرآن کریم نے وحی کے جاری ہونے کے ثبوت میں پیش کیا ہے اس سلسلۂ نبوت کی ایک کڑی جس کے بغیر ان پہلے نبیوں کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ بنو اسمعیل میں ایک نبی کا وجود بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے یہ خبر دی گئی تھی کہ بنو اسماعیل میں بھی ایک نبی ہو گا۔ اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد کے نبیوں نے اس نبی کی آمد کی مزید وضاحت کی تھی۔ پس ان انبیاء کی وحی کو بطور شہادت پیدا کرنے میں دو فائدے تھے ایک تو وحی کے اجراء کا ثبوت دوسرے اس امر کا ثبوت کہ اس سلسلۂ نبوت کے بعد وحی الٰہی کا بنو اسماعیل کی طرف منتقل ہونا لازمی اور ضروری تھا پس وحی نبوت کا اجراء ہی ثابت نہیں بلکہ اس کا آخری زمانہ کے مورد کا بنو اسمٰعیل اور عرب میں ہونا بھی ضروری تھا۔
چنانچہ اس دلیل کو بیان کرنے کے لئے اس رکوع سے بنو اسرائیل کو مخاطب کر لیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ اے بنی اسرائیل تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو او راس امر کی سچی گواہی دو کہ خدا تعالیٰ کا الہام دنیا میں ہمیشہ نازل ہوتا رہا ہے اور تم بھی اس کے مہبط رہے ہو۔ بلکہ یہ بھی کہ تمہاری کتب میں یہ بھی موجود ہے کہ ایک دن وحی الٰہی کا سلسلہ تم سے ہٹ کر تمہارے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
اسرائیل
پیشتر اس کے کہ میں اس اجمال کی تفصیل بیان کروں۔ میں بنو اسرائیل کے لفظ کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے اسحاق علیہ السلام تھے۔ ان کے بیٹے کا نام یعقوب (علیہ السلام) تھا۔ جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد تھے۔ حضرت یعقوب یہود میں خاص حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی قوم کا نسلی امتیاز انہی کے نام سے قائم ہے۔ اسرائیل کا نام خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملا تھا جس کی وجہ سے ان کی اولاد بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہلائی۔ بائبل میں لکھا ہے کہ یعقوب علیہ السلام سے ایک سفر کے دوران میں رات کے وقت ایک شخص نے کشتی لڑنی شروع کی اور ساری رات کشتی لڑتا رہا۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ کُشتی لڑنے والا خدا تعالیٰ تھا (پیدائش باب ۳۲ آیت ۳۰) صبح کے وقت اس کُشتی لڑنے والے نے حضرت یعقوبؑ سے ان کا نام پوچھا تو انہو ںنے یعقوب نام بتایا اس پر اس نے کہا کہ ’’تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کہ تُو نے خدا اور خلق پاس قوت پائی اور غالب ہوا۔‘‘ (پیدائش باب ۳۲ آیت ۲۸) بائبل کے شارحین کُشتی لڑنے والے کو فرشتہ کہتے ہیں گو اس کا کوئی ثبوت نہیں دیتے بہرحال وہ فرشتہ ہو یا خدا تعالیٰ عالم تمثیل میں انہوں نے دیکھا ہو۔ اس نے حضرت یعقوبؑ کو اسرائیل کا نام دیا۔ اور اس کے معنے بھی بتا دیئے کہ خدا تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک وہ قوی سمجھا گیا اور غالب ہوا۔ پس اسرائیل کے معنے بائبل کے بیان کے مطابق خدا کا قوی بندہ یا خدا کا غالب بندہ ہیں لغت کے معنے حل لغات میں بتائے جا چکے ہیں کہ خدا کے ہیں بہرحال حضرت یعقوبؑ کو رویا۔ یا کشف میں اسرائیل کا نام دیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے ان کی اولاد بنو اسرائیل کہلائی۔
بنو اسرائیل اور یہودی
گو اس آیت میں یہودی کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں یہودی یا اس کی جمع ھود کا لفظ استعمال ہوا ہے اور مناسب ہے کہ ان دونوں لفظوں کا فرق بھی بتا دیا جائے تا معلوم ہو سکے کہ بنو اسرائیل کا لفظ کس موقعہ پر استعمال ہوتا ہے اور یہودی کا لفظ کس موقعہ پر استعمال ہوتا ہے۔
بنو اسرائیل کا لفظ قرآن کریم میں اڑتیس جگہ استعمال ہوا ہے اور یہودی کا لفظ نو جگہ اور ھود یہود کی جمع کے معنو ںمیں تین دفعہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ ان مقامات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی یا ھُوْد جہاں بھی استعمال ہوا ہے مذہب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی جہاں حضرت یعقوب کی نسل کی طرف اشارہ مقصود ہے وہاں تو بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کیا ہے اور جہاں ان لوگوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو اپنے آپ کو موسیٰ کے پیرو کہتے تھے وہاں یہودی یا ھود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ ھود کا لفظ جن تین جگہ پر استعمال ہوا ہے اس کے ساتھ نصاریٰ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ گویا یہودی مذہب اور نصرانی مذہب کے متبعین کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے اسی طرح یہود کا لفظ جن نو مقامات میں استعمال کیا گیا ہے ان میں سے بھی آٹھ مقامات میں نصاریٰ کے مقابل پر استعمال کیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ وہاں اسرائیلی قوم مراد نہیں بلکہ موسوی مذہب مراد ہے۔ باقی ایک مقام میں نصارے کا لفظ ساتھ استعمال نہیں۔ یعنی مائدہ رکوع صفحہ ۹؍۱۳ میں۔ اس کی بھی سب آیتیں واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔ کہ اس جگہ یہودی مذہب کے پیروئوں کا ذکر ہے نہ کہ کسی نسل کے لوگوں کا۔ کیونکہ اس میں عقائد پر بحث ہے۔ اس کے بالمقابل بنی اسرائیل کا لفظ جہاں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ اور قرآن کریم کے کسی ایک مقام پر بھی اسے نصاریٰ کے مقابل پر استعمال نہیں کیا گیا۔
اس امتیاز کی وجہ سے جہاں تو بنی اسرائیل کا لفظ استعمال ہوا ہے اس میں ایسے لوگ بھی مخاطب ہو سکتے ہیں جو یہودی مذہب تو چھوڑ چکے ہوں لیکن ہوں حضرت یعقوبؑ کی نسل سے مثلاً ان میں سے عیسائی یا مسلمان ہو جانے والے لوگ اسی طرح جہاں یہود یا ھود کا لفظ استعمال ہوا ہے اس میں ایسے لوگ بھی شامل سمجھے جا سکتے ہیں جو بنی اسرائیل سے تو نہ ہو ںلیکن موسوی مذہب کو مانتے ہوں۔
شائد کسی کو یہ شبہ گزرے کہ یہودی لوگ تو اپنے مذہب میں کسی کو داخل نہیں کرتے اس لئے جہاں یہ ممکن ہو سکتا ہے کہے بنی اسرائیل میں سے بعض نصرانی یا مسلمان ہو گئے ہوں وہاں یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ کوئی غیر اسرائیلی یہودی مذہب میں داخل ہو گیا ہو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک بنی اسرائیل موسوی مذہب کو اپنے لئے مخصوص سمجھتے تھے مگر اس میں بعض مستثنیات بھی تھے اور بعض قسم کے لوگوں کو یہودی مذہب میں شامل کرنے کی اجازت بھی ہوتی تھی مثال کے طور پر یہودیوں کے غَام یا ان کے ملک میں آ کر اور ان کے تابع ہو کر بسنے والے لوگوں کو یہودی مذہب قبول کرنے کی اجازت ہوتی تھی چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب خروج میں لکھا ہے کہ ’’اور اگر کوئی بیگانہ تمہارے ساتھ مقیم ہو۔ اور خداوند کی فسح کیا چاہے (یعنی یہود کی تہواروں میں شامل ہونا چاہے) تو اس کے سب مرد اپنا ختنہ کروائیں۔ تب وہ نزدیک آئے اور فسح کرے۔ اور اب وہ گویا تمہاری زمین میں پیدا ہوا ہے۔ کیونکہ نامختون انسان اسے نہ کھائے گا۔ وطنی اور بیگانے کی جو تمہارے بیچ میں ہے ایک شریعت ہو گی‘‘ (خروج باب ۱۲ آیت ۴۸؍۴۹) ان آیات سے ظاہر ہے کہ موسوی شریعت گو اپنے آپ کو بنی اسرائیل سے مخصوص قرار دیتی ہے۔ لیکن سوسائٹی میں ایک جہتی قائم رکھنے کے لئے اس امر کی اجازت دیتی ہے کہ جو لوگ بنی اسرائیل کے درمیان آ کر بس جائیں اور ان کے ساتھ مل کر ایک حکومت کا جزو بننا چاہیں وہ موسوی شریعت میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح استثناء باب ۲۳ ۔ آیت ۳ تا ۸ میں ان قومونکی لسٹ بتائی ہے۔ جن کے افراد بعض قیود کے ماتحت یہودی نظام میں شامل ہو سکتے ہیں۔
یسعیاہ میں لکھا ہے ’’اور بیگانے کی اولاد بھی جنہوں نے اپنے آپ کو خداوند سے پیوستہ کیا ہے اس کی بندگی کریں اور خداوند کے نام کو عزیز رکھیں۔ اور اس کے بندے ہوویں دے سب جو سبت کو حفظ کر کے اسے ناپاک نہ کریں۔ اور میرے عہد کو لیئے رہیں۔ میں ان کو بھی اپنے مقدس پہاڑ پر لائونگا۔ اور اپنی عبادت گاہ میں انہیں شادمان کرونگا اور ان کی سوختنی قربانیاں اور ان کے ذبائح میرے مذبح پر مقبول ہونگے کیونکہ میرا گھر ساری قوموں کی عبادت گاہ کہلائے گا۔‘‘ (باب ۵۶ آیت ۶۔۷) عہد کو قائم رکھیں سے اس جگہ مُراد ختنہ کرانا ہے کیونکہ عہد ارباہیمی کی علامت ختنہ کو قرار دیا گیا تھا اِس کی تائید استثناء باب ۱۲ کے مذکورہ بالا حوالہ سے بھی ہوتی ہے۔
مشہور یہودی عالم جوزیفس لکھتا ہے کہ مذہب بدل کر یہودی بننے والا شخص وہ ہے جو یہودی رسوموں کو اختیار کرے اور جو یہودی قانون کی اتباع کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی اس رنگ میں عبادت کرتے ہوئے کہ جس رنگ میں کہ یہود عبادت کرتے ہیں (یہودی ہو جائے) جوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۰)
بائبل سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ عملاً بھی بعض لوگ موسوی مذہب کو قبول کر لیتے تھے چنانچہ بائبل کی ایک کتاب روت نامی ہے یہ روت جس کا اس میں ذکر ہے۔ موآبی لڑکی تھی جو ایک اسرائیلی سے بیاہی گئی اور اس نے موسوی مذہب کو قبول کر لیا تھا۔ اسی طرح غرا باب ۳ آیت ۲ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسوری لوگ جو فلسطین میں بس گئے تھے انہوں نے بھی یہودی طریقہ کو اختیار کر لیا تھا تاریخ سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ رومی مورخین ٹیسیٹس (Tactus)ڈیوکیسیس (Diocassious)وغیر ہم نے اپنی کتب میں ان رومیو ںکا ذکر کیا ہے جنہوں نے یہودی مذہب کو قبول کر لیا تھا (جوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۰) اسلامی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کے عربو ںمیں سے بھی بعض لوگوں نے یہودی مذہب کو اختیار کیا ہوا تھا۔ چنانچہ کعب بن اشرف مشہور دشمن اسلام جس نے معاہدین میں شامل ہونے کے باوجود دشمنانِ اسلام کو مدینہ پر چڑھائی کے لئے اکسایا تھا اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے کئے تھے اور اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا تھا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے تھا۔ اس کا باپ بنو بنہان قبیلہ کا عرب تھا ایک شخص اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور وہ بھاگ کر مدینہ آ گیا وہاں اس نے یہودی قبیلہ بنو نضیر سے معاہدہ کر لیا اور اسی قبیلہ کی ایک لڑکی عقیلہ بنت ابی تحقیق سے شادی کر لی اور اس طرح یہودیوں میں شامل ہو گیا آگے اس کا بیٹا کعب بھی یہودی المذہب رہا (زرقانی جلد ۲ صفحہ ۸ زیر عنوان قتل کعب ابن الاشرف)
اسی طرح بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مشرکین مدینہ نذر کے طو رپر اپنی اولاد کو یہود میں داخل کرنے کا اقرار کر لیتے تھے اور وہ بڑے ہو کر یہودی مذہب کے ہو جاتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے ’’کَانَتِ الْمَرْأَۃُ تَکُوْنُ مِقْلَاۃً فَتَجْعَلُ عَلیٰ نَفْسِہَا اِنْ عَاشَ لَھَا وَلَدٌ اَنْ تُھَوِّدَہٗ فَلَمَّا اُجْلِیَتْ بَنُوالنَّضِیْرِ کَانَ فِیْہِمْ مِنْ اَبْنَائِ الْاَنْصَارِ فَقَالُوْالَا نَدَعُ اَبْنَائَ نَافَانْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ کہ مدینہ کی عورتوں میں سے جب کسی عورت کے بچے بچپن میں ہی فوت ہو جاتے تو وہ نذر مان لیتی کہ اگراس کا بچہ بچ جائے تو وہ اس کو یہودی مذہب میں داخل کر دیگی۔ چنانچہ جب بنو نضیر کو جلا دطن کیا گیا۔ تو ان میں انصار مدینہ کے ایسے بچے تھے جن کو یہودی بنایا گیا تھا۔ تو انصار نے ان کو ان کے ساتھ بھیجنے سے انکار کیا۔ اس وقت یہ آیت لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ط نازل ہوئی کہ مذہب کے بارے میں کوئی جبر نہیں کیا جا سکتا (ابو دائود کتاب الجہاد باب فی الاسیر یکرہ علی الاسلام)
خلاصہ یہ ہے کہ موسوی مذہب کے بنی اسرائیل کیلئے مخصوص ہونے کے یہ معنے نہیں کہ کوئی غیر اسرائیلی کبھی یہودی ہو ہی نہ سکتا تھا بلکہ خود حضرت موسیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق غلام یا تابع رہنے والے لوگ اگر موسوی دین پر عمل کریں اور ختنہ کرالیں تو وہ موسوی مذہب میں داخل ہو سکتے تھے موسوی مذہب کے اسرائیلیوں تک مخصوص ہونے کے صرف یہ معنے ہیں کہ یہ مذہب تبلیغی نہیں اور انہیں حکم نہیں کہ دوسری قوموں میں جا کر تبلیغ کریں اور اس میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص ترقیات کے وعدے ہیں دوسری اقوام کو طفیلی تابع کے طور پر اگر کامل طور پر ان سے مل جائیں حصہ دیا جا سکتا ہے برخلاف اسلام کے کہ اس کے پیروئوں کو تبلیغ کرنے اور استثنائی طور پر نہیں بلکہ قاعدہ کلیہ کے طور پر ساری دُنیا میں اسلام پھیلانے کا حکم ہے اور اس میں داخل ہونے والوں سے کوئی وعدہ نہیں جو صرف عربوں سے مخصوص ہو بلکہ ہر وعدہ اپنی انتہائی صورت میں اسی طرح غیر عربوں کے لئے ہے جس طرح کہ عربوں کے لئے۔
خلاصہ یہ کہ چونکہ موسوی دین کے تابع لوگوں کو استثنائی صورتوں میں غیر اسرائیلیوں کو بھی اپنے دین میں شامل کرنے کی اجازت تھی اور محدود تعداد غیر قوموں کی ان میں شامل بھی ہوتی رہتی تھی اس لئے ضروری تھا کہ بنی اسرائیل کے سوا ان کا کوئی اور نام بھی ہوتا جس کے ذریعہ سے اس کے افراد کی قوم کی طرف نہیں بلکہ مذہب کی طرف نسبت ثابت کی جاتی۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے آہستہ آہستہ یہودی کے لفظ کو اختیار کیا گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب زمانہ میں چونکہ ایسے لوگ بہت کم تھے جو باوجود غیر اسرائیل ہونے کے یہودی مذہب قبول کریں انہیںاپنے اندر رہنے والے غیر یا بیگانہ کے لفظ سے یاد کیا جاتا تھا مگر جب حضرت دائود علیہ السلام کے ذریعہ سے بنی اسرائیل میں حکومت آ گئی اور ان کی حکومت کا حلقہ وسیع ہو گیا اور غیر قومیں اسرائیلیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں اور اسرائیلی حکومت تلے بسنے والوں میں سے ایک خاصے طبقے نے موسوی مذہب احتیار کر لیا تب یہ ضرورت بشدت محسوس ہوئی کہ اسرائیل کے سوا کوئی اور نام بھی ہو جو ایسے لوگوں پر بھی مشتمل ہو۔
اس نام کا انتخاب بعض سیاسی حالات نے خود ہی کر دیا اور وہ اس طرح کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد ان کا لڑکا ایک دنیا دار آدمی تھا اس کی تخت نشینی پر بنی اسرائیل کے سردار اس کے پاس ملنے آوے اور اس سے قانون میں بعض نرمیاں کرنے کی درخواست کی اس پر اس نے اپنے نوجوان دوستوں کے مشورہ سے انہیں سخت جواب دیا اور دھتکار کر دربار سے رخصت کر دیا اس پر بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے دس کے سرداروں نے دربار سے باہر نکلتے ہی بغاوت کا فیصلہ کر لیا اور رحبعام بن سلیمان سے باغی ہو گئے اور جعام کے ماتحت صرف یہود کا علاقہ (جسے اب فلسطین کہتے ہیں) اور یہود اور بن یامین دو قبیلوں کے آدمی رہ گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت دائود یہودا کے قبیلہ میں سے تھے اور بن یامین کے قبیلہ میں وہ پیدا ہوئے تھے اور انہیں کی مدد سے انہوں نے پہلے یہودا قبیلہ کے علاقہ کو اور پھر باقی اسرائیل کے علاقہ کو فتح کیا تھا (زیر لفظ دائود جوش انسائیکلو پیڈیا) پس ان دونوں قبیلوں میں آپس میں بہت جوڑ تھا اور اس بغاوت کے وقت میں وہ اکٹھے رہے۔
اس بغاوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیلیوں کی دو حکومتیں ہو گئیں ایک اس وجہ سے کہ حضرت دائود یہودا قبیلہ میں سے تھے (۰۱ تو اریخ باب ۱ ۳ و ۹ تا ۱۵ نیز متی باب ۱ آیت ۲ ولوقا باب۳ آیت ۳۳) اور یہودا کے علاقہ میں رہتے تھے یہود یہ کہلائی اس میں یہود اور بن یامین قبائل کے افراد شامل تھے (۲ تواریخ باب ۱۱ آیت ۱) اور دوسری اس وجہ سے کہ اسرائیل کے اکثر قبائل اس میں شامل تھے اسرائیل کی حکومت کہلائی یہود یہ حکومت کا زور فلسطین میں تھا تو اسرائیل کی حکومت کا شمالی فلسطین اور مغربی شام کی طرف۔ اس اختلاف کے بعد اسرائیل کی حکومت متواتر بت پرستی کی طرف راغب ہوتی گئی اور تورات کے علماء اسے چھوڑ کر یہودیہ کی طرف بھاگ آئے اور موسوی مذہب کا گڑھ یہودیہ کی حکومت بن گئی جو آہستہ آہستہ موسوی مذہب کی واحد علمبردار ہو گئی چنانچہ پہلے تو اسرائیل کے حکومت کے باشندوں اور یہودیہ کی حکومت کے باشندوں میں فرق کرنے کے لئے یہودیہ کے باشندوں کو یہودی کہا جانے لگا لیکن جوں جوں مذہبی اختلاف کی خلیج بڑھتی گئی یہودی کا لفظ مقام رہائش کو بتانے کی بجائے مذہب کو بتانے کے لئے استعمال ہونے لگا اور عزیز اور نحمیاہ دو نبیوں کے ذریعہ سے جب یہودیہ دوبارہ بسایا گیا اور مذہب موسوی کی باگ ڈور کلی طور پر یہودا کے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی تو یہودی کا لفظ نسلی امتیاز یا مقام رہائش کے معنوں سے بالکل الگ ہو کر مذہب (موسوی کے پیرو) کے معنو ںمیں استعمال ہونے لگا کیونکہ اس زمانہ سے موسوی مذہب کا احیاء صرف یہودا کے لوگوں کے ذریعہ سے ہی ہوتا تھا اور جب یہ لفظ خالص مذہبی معنوں میں استعمال ہونے لگا تو اس کا اطلاق ان غیر اسرائیلی لوگوں پر بھی کیا جانے لگا جو نسلاً تو اسرائیلی نہ تھے لیکن مذہباً موسوی مذہب کے پیرو تھے۔ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں جبکہ اسرائیلیوں کا ایک حصہ حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تو اسرائیلیوں کی بھی دو اقسام ہو گئیں ایک جو یہودی مذہب پر تھے اور دوسرے جو مسیحی تھے اسلام نے آ کر اسرائیلیوں میں سے بعض کو مسلمان بنا لیا اور اس طرح ایسے اسرائیلی بھی ہو گئے جن کا مذہب اسلام تھا۔
خلاصہ یہ کہ یہودیہ کے رہنے والوں میں چونکہ موسوی مذہب نے فروغ پایا اور تمام بڑے انبیاء وہیں پیدا ہوئے یا اسی سے تعلق رکھتے تھے جیسے یرمیاہ حزقیل دانئیل عزرا نحمیاہ وغیر ہم۔ اور اسرائیلی حکومت میں بت پرستی رائج ہوا گئی۔ یہودیہ کی حکومت کے توابع یہودکے نام سے مشہور ہوئے اور چونکہ اس زمانہ میں بہت سے غیر اسرائیلی بھی موسوی مذہب میں داخل ہوئے۔ مذہب موسوی رکھنے والوں کا نام قوم سے ممتاز کرنے کے لئے یہودی ہو گیا۔ اور اسلام سے چند صدی پہلے یہودی کے معنے موسوی مذہب رکھنے والے کے ہو گئے۔ مگر چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعدے جو دُنیاوی عزت اور اعلیٰ روحانی مراتب سے متعلق تھے ان کی نسلوں سے خاص تھے بنی اسرائیل کا لفظ الگ طو رپر قومی امتیاز کو بتانے کے لئے قائم رہا۔
میں نے کسی قدر تفصیل سے یہ امر اس لئے بیان کیا ہے تایہ بتائوں کہ قرآن کریم جس پر یہودی مذہب اور اسرائیلی تاریخ سے ناواقفیت کا الزام لگایا جاتا ہے اس امتیاز کوصحیح طور پر بیان کرتا ہے یعنی جہاں مذہب کا سوال ہوتا ہے یہودی کا لفظ استعمال کرتا ہے لیکن جہاں ان قومی وعدوں کا ذکر کرتا ہے جو آل ابراہیم یا آل موسیٰ ؑ یا آل دائود سے خاص تھے یا موسوی انبیاء کے مخاطبین کا ذکر کرتا ہے وہاں یہودی کا لفظ استعمال نہیں فرماتا بلکہ بنی اسرائیل کا لفظ استعمال فرماتا ہے کیونکہ وہ وعدے موسوی دین اختیار کرنے والوں سے نہ تھے بلکہ ان بنی اسرائیل سے تھے جو خدا تعالیٰ کے عہد کو قائم رکھیں خواہ موسوی دین پر ہوں خواہ اس کے بعد آنے والے کسی اور الٰہی دین پر ہوں جیسے کہ مسلمان ہونے والے بنی اسرائیل مگر لطیفہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ان معترضین کا جو قرآن کریم پر اسرائیلی تاریخ سے ناواقفیت کا الزام لگاتے ہیں یہ حالں ہے کہ ان کی مذہبی کتب تک اس بارہ میں غلطی کر جاتی ہیں چنانچہ اناجیل نے بھی اس بارہ میں غلطی کی ہے مثلاً مسیح علیہ السلام کی نسبت لکھا ہے ’’یہودیوں کا بادشاہ‘‘ چنانچہ لکھا ہے کہ پیلاطوس نے مسیح علیہ السلام سے پوچھا ’’کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے یسوع نے اس سے کہاں ہاں تو سچ کہتا ہے‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۱۱ مرقس باب ۱۵ ۲ ولوقا باب ۲۳ ۳) اس بادشاہت کے دعویٰ کی بنیاد ذکریاہ نبی کی کتاب پر ہے اس میں لکھا ہے ’’اے صیحون کی بیٹی تو نہایت خوشی کر اے یروشلم کی بیٹی تو خوب للکار کہ دیکھو تیرا بادشاہ تجھ پاس آتا ہے‘‘ (ذکریاہ باب ۹ آیت ۹ آیت) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ ذکریاہ نے ایک اسرائیلی بادشاہ کی خبر دی ہے جو یروشلم کو پھر اس کی سابق شوکت پر لائے گا پس اس سیمراد اسرائیلیوں کا بادشاہ ہے نہ یہود کا بادشاہ چنانچہ یوحنا باب۱ آیت ۴۹ میں لکھا ہے’’تو اسرائیل کا بادشاہ ہے‘‘ اور یہی درست ہے کیونکہ موسوی سلسلہ کے ترقی کے وعدے بنی اسرائیل سے مخصوص تھے نہ کہ ہر یہودی مذہب کو قبول کرنے والے سے۔ اسی طرح حضرت مسیح کاخطاب صرف بنی اسرائیل سے تھا چنانچہ لکھا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب اپنے مریدوں کو تبلیغ کے لئے بھجوایا تو کہا کہ ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۵) یاد رہے کہ سامری مخلوط نسل کے آدمی تھے اور اکثر ان میں سے یہودی باپوں کی نسل میں سے تھے اور تورات کو مانتے تھے اور اسی پر ان کا عمل تھا۔ جب سامریوں تک سے علیحدہ رہنے کا حکم مسیح نے دیا تو جو بالکل غیر قومیں ہیں ان کا کیا ذکر ہے۔
یہ غلطی مسیحیوں کو ایسی چمٹی ہے کہ آج تک وہ اس غلطی میں مبتلا ہیں چنانچہ آج جرمنی اور بعض دوسرے یورپین ممالک میں اسرائیلی نسل کے خلاف جو جوش پیدا ہے اس میں یہی کہا جاتا ہے کہ ’’یہودیوں‘‘ کو ملک سے نکال دو اور اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ جو موسوی مذہب کے تابع ہیں ان کو ملک سے نکال دو بلکہ یہ مخالفت ان لوگوں کے خلاف بھی ہے جو نصرانی مذہب اختیار کر چکے ہیں حالانکہ وہ بنی اسرائیل تو بیشک ہیں مگر یہودی کسی صورت میں بھی نہیں کیونکہ اپنا مذہب تبدیل کر چکے ہیں جرمنی میں تو یہجوش اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ جن لوگوں کی رگوں میں کسی اسرائیلی عورت کا خون بھی ہے اسے بھی ملک کا دشمن قرار دیا جاتا ہے لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ یہ یہودی ہیں یا یہودی خون ان کے اندر ہے حالانکہ نہ وہ یہودی مذہب کے پابند ہیں اور نہ ان مائوں کا مذہب یہودی تھا جن کی وہ اولاد ہیں بلکہ ان کی مائیں بھی مسیحی تھیں اور ان کی نسل بھی مسیحی ہے۔
غرض اس علمی زمانہ میں بھی کہ جس کی عملی ترقی پر یورپ کو اس قدر ناز ہے اسرائیلی اور یہودی کے فرق کو بالکل نہیں سمجھا جاتا لیکن قرآن کریم نے تیرہ سو سال پہلے اس فرق کو تسلیم کیا ہے اور جہاں جہاں نسلی ترقی کے وعدوں کا ذکر ہے یا نبیوں کے خطاب کا ذکر ہے وہاں بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کیا ہے اور جہاں صرف مذہب کا ذکر ہے وہاں یہودی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چنانچہ آیات زیر تفسیر میں چونکہ ان وعدوں کی طرف اشارہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے یا ان وعدوں کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ابراہیمی نسل سے تھے اس لئے ان آیات میں اور ان کے بعد کی آیات میں ہر جگہ لِبَنِٓیْ اِسْرَآئِیلَ کہا گیا ہے ایک جگہ بھی یہودی کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ اُذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ۔ اُذْکُرُوْا نِعْمَتِیْ نہیں فرمایا بلکہ اس کے بعد اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ زائد کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ صرف اپنی نعمت نہیں جتائی بلکہ اس سے زائد مضمون کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عربی زبان کے قواعد کے مطابق جب حروف یا الفاظ میں زیادتی کی جائے تو وہ جدید یا زائد مضمون پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے پس اس آیت میں اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ وہ نعمت ہے جو تمہاری قوم کے لئے خاص ہے۔
اللہ تعالیٰ کی دو قسم کی نعمتیں ہوتی ہیں ایک وہ جو عام ہیں مومن و کافر کو مل رہی ہیں جیسے ہوا پانی آگ خوراک وغیرہ لیکن ایک اس کی نعمتیں وہ ہیں جو خاص شرائط پورا کرنے والے مقربوں کو ملتی ہیں یا خاص وعدوں کے مطابق نازل ہوتی ہیں اگر تو عام نعمتوں کا ذکر ہوتا ہے جو خاص وعدہ کے مطابق نہیں ملتیں بلکہ ہر کافر و مومن پر نازل ہوتی ہیں تو خالی اُذْکُرُوْا نِعَمِیْ کہنا کافی تھا لیکن اس جوہ اول تو نِعْمَتِیْ کا لفظ مفرد رکھا گیا ہے جس سے خاص نعمت مراد ہے اور پھر اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ کے الفاظ بڑھائے گئے ہیں اور بتایا ہے کہ وہ نعمت تم پر خاص تھی دوسرے لوگ دُنیا کے اس میں شامل نہ تھے۔
یہ نعمت کیا ہے؟ اسے ہم قرآن کریم سے ہی دیکھتے ہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ ذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّ اٰتٰمکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَo (مائدہ ع ۴) یعنے یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جبکہ اس نے تم میں بہت سے انبیاء مبعوث فرمائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو اور کسی کو جہانو ںمیں سے نہ دیا تھا۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے جو انہوں نے اس وقت بنی اسرائیل سے کہا تھا جب وہ ارضِ مقدسہ کے قریب پہنچ گئی تھی اور اس میں داخل ہونے کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تک موسیٰ علیہ السلام کی قوم بادشاہ نہ بنی تھی بلکہ ابھی تک جنگلوں میں سرگردان پھر رہی تھی اس سے پہلے بھی کسی زمانہ میں وہ بادشاہ نہ بنی تھی کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت یوسف ؑ تک ان میں سے کوئی بادشاہ نہ ہوا تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد تو وہ مصر میں غلام ہو کر رہی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اسے اس غلامی سے نکالا گیا لیکن بادشاہت اب تک اسے نصیب نہ ہوئی تھی صرف اس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ارضِ مقدسہ میں اسے بادشاہت دی جائے گی اور جیسا کہ اگلی آیت میں بتایا گیا ہے اس قول تک وہ ارض مقدسہ میں داخل نہ ہوئی تھی پس جَعَلَکُمْ مُّلُوْکَا سے یہ مراد نہیں کہ تم کو گزشتہ زمانہ میں بادشاہ بنایا گیا تھا بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ تم کو بادشاہ بنانے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور چونکہ ساری آیت میں مضمون کا ایک ہی سلسلہ پیش کیا گیا ہے اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ بھی خدا تعالیٰ کے آیندہ وعدے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس میں سابق انبیاء کا ذکر نہیں۔ اور مطلب اس قول کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو یاد کرو جو اس نے تم سے کیا ہے کہ وہ تم میں سے کثرت سے نبی بنائے گا اور تم کو بادشاہ بنائے گا اور تم کو وہ کچھ دے گا جو اور کسی قوم کو نہیں دیا گیا گویا سابق شوکت کا ذکر نہیں بلکہ آیندہ ملنے والی شوکت کا ذکر ہے اور ماضی کے الفاظ حتمی وعدہ کے لحاظ سے استعمال کئے گئے ہیں نہ اس لئے کہ ایسا گزشتہ زمانہ میں ہو چکا ہے اس وعدہ کو یاد دلا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو ارض مقدسمہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور بتایا کہ وہ وعدہ ارضِ مقدسہ میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے پس تم ارض مقدسہ کو فتح کرنے میں دیر نہ کرو تاکہ اس وعدہ کا ظہور شروع ہو جائے۔
آیندہ زمانہ کے واقعات نے اس وعدہ کو پورا ہونے کا عملی ثبوت بہم پہنچا دیا اور بنی اسرائیل میں کثرعت سے نبی آئے اور ان کو بادشاہ بنا دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ایک لمبے سلسلہ کے ذریعہ سے ان پر پے در پے روحانی علوم کھولے جس کی مثال اور کسی گزشتہ قوم میں نہیں ملتی۔
یہ وعدہ کب ہوا؟ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وعدہ کی ابتداء ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے شروع ہوئی بائبل میں لکھا ہے ’’تب اس نے اسے (ابراہیم کو) کہا کہ میں خداوند ہوں جو تجھے کسدیوں کے اور سے نکال لایا کہ تجھ کو یہ ملک میراث میں دُوں‘‘ (پیدائش باب ۱۵ آیت ۷) اس کے آگے اسی باب میں بتایا ہے کہ یہ وعدہ اس طرح پورا ہو گا کہ پہلے ان کی قوم ایک اور ملک میں جا کر غلام بنے گی اور چار پشت بعد ان کو وہاں سے نکالا جائے گا وہاں سے نکالا جانے کے بعد وہ فلسطین میں بستے ہیں ابھی تک ان کے گناہ اس حد کو نہیں پہنچے کہ ان کو سزا دے کر اس ملک سے نکالا جائے۔ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ پہلے وعدہ ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا اور اس کے پورا ہونے کا وقت وہ بنایا گیا تھا جب بنی اسرائیل مصر میں غلام بن کر رہنے کے بعد وہاں سے نکلیں گے اور یہ زمانہ جیسا کہ بائبل تاریخ اور قرآن کریم سے ثابت ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تھا۔ پس ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو قول بتایا گیا ہے اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعدہ کی طرف اشارہ ہے کہا جا سکتا ہے کہ اس وعدہ میں بادشاہت کا تو ذکر ہے مگر نبوت کا ذکر نہیں مگر بائبل کے دوسرے مقامات کو ملا کر اس حصہ کا بھی پتہ لگ جاتا ہے۔ چنانچہ سترھویں باب میں لکھا ہے ’’اور میں اپنے اور تیرے درمیان عہد کرتا ہوں کہ میں تجھے نہایت بڑہائونگا تب ابراہیم منہ کے بل گرا اور خدا اس سے ہمکلام ہو کر بولا کہ دیکھ میں جو ہوں میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قومو ںکا باپ ہو گا اور تیرا نام پھر ابرام نہ کہلایا جائے گا بلکہ تیرا نام ابرہام ہو گا (جس کا عربی تلفظ ابراہیم ہے) کیونکہ میں نے تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرایا اور میں تجھے بہت برومند کرتا ہوں اور قومیں تجھ سے پیدا ہونگی اور بادشاہ تجھ سے نکلینگے اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کے پشت در پشت کے لئے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہو کرتا ہوں کہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہونگا اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ کے لئے ملک ہو اور میں ان کا خدا ہونگا۔‘‘ (باب ۱۶ آیت ۲ تا ۸) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خدا تعالیٰ نے دو وعدے کئے تھے ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی قوم کو کنعان میں داخل کرے گا اور اس کے بعد (۱) انہیں وہاں کا بادشاہ کرے گا (۲) دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کا خدا ہوگا۔ خدا ہونے کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں روحانی ترقیات کا وعدہ ہے کیونکہ بادشاہت میں دنیاوی ترقیات کا وعدہ آ چکا تھا۔
اوپر کے حوالہ سے ثابت ہو جاتا ہے کہ بائبل کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی اولاد آیندہ زمانہ میں کنعان میں آئے گی اور ان کو بادشاہت اور اعلیٰ روحانی ترقیات عطا ہونگی۔ یہ وعدہ بعد میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے بھی دہرایا گیا ہے لیکن ابتداء اس کا اظہار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے ہی کیا گیا تھا پس سورۂ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت میں جس نبوت اور بادشاہت کے دیئے جانے کا ذکر ہے وہی موعود بادشاہت اور نبوت ہے اور آیت زیر تفسیر میں نعمت سے مُراد وہی نعمت مراد ہے جس کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے اور جس کا ثبوت بائبل سے میں پیش کر چکا ہوں اس نعمت کو یاد دلا کر یہ اشارہ کیا ہے کہ انعام نبوۃ آدم پر ختم نہیں ہو چکا بلکہ بنی اسرائیل میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ ایک لمبا سلسلہ نبوت کا جاری رہا ہے۔
قرآن کریم میں بھی اسی سورۃ میں اس موعود نعمت کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں کیا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَ اِذِا بْتَلٰٓی اِبْراھٖمَ رَبُّہٗ بَکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط قَالَ لاَیَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَo (بقرہ ع ۱۵) یعنی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی بعض کلمات کے ذریعہ آزمائش کی تو ابراہیم نے ان احکام الٰہی کو پورا کر دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے لوگوں کے لئے امام بنانے والا ہوں تب ابراہیم ؑ نے عرض کیا کہ میری اولاد میں سے بھی بعض کو امام بنایا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچے گا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ (۱) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امام وبنانے یعنی اولوالام نبی کے درجہ پر فائز کرنے کا وعدہ فرمایا (۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی نست بھی اس وعدہ فرمایا (۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی نسبت بھی اس وعدہ کی توسیع کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے مشروط وعدہ فرمایا یعنے وعدہ کیا کہ تمہاری اولاد میں سے بعض اس عہد سے حصہ پائینگے مگر حصہ پانے والے وہی ہونگے جو قومی ظلم کے ذریعہ سے اپنے آپ کو محروم نہ کر چکے ہوں۔
وَاَوْ فُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ اس جملہ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو آخری قوم جس میں الہام کا سلسلہ دیر تک جاری رہا بنی اسرائیل کی قوم تھی لیکن ان سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ مشروط تھا جب تک بنی اسرائیل اس وعدہ کے مستحق رہے اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو پورا کرتا رہا مگر جب بنی اسرائیل کلی طور پر اس عہد کے انعامات کے ناقابل ہو گئے تو لازماً وہ عہد دوسری طرف منتقل ہو گیا۔ اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو وعدہ کیا گیا تھا اس کا ذکر آ چکا ہے وہ وعدہ یہ تھا کہ ان کی اولاد میں بھی بنی ہونگے مگر جب ان کی اولاد کا کئی حصہ ظالم ہو جائے گا تو پھر وہ اس عہد کا مستحق نہیں رہے گا اور عہد اولاد کے دوسرے حصہ کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
بائبل میں بھی اس عہد کے مشروط ہونے کا ذکر ہے پیدائش باب ۱۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر اک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کو کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۹ تا ۱۱) ’’اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اس نے میرا عہد توڑا‘‘ (آیت ۱۴)
ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی اولاد کی نسبت جو عہد کیا گیا تھا وہ مشروط تھا اور اس کی ظاہری علامت ختنہ تھا اور صاف کہہ دیا گیا تھا کہ اولاد میں سے جو اس عہد کی پابندی نہ کرینگے خدا تعالیٰ کا عہد بھی ان سے کوئی نہ رہے گا اور ان کو وہ انعامات نہ ملیں گے جن کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے وعدہ کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اس وعدہ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ یہ اس عہد کا نشان ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ بندہ کی طرف سے عہد ختنہ کا نہیں بلکہ عہد اور ہے ہاں اس کا ظاہری نشان ختنہ ہے یہود نے اس کو نہ سمجھا اور صرف ختنہ پر خوش ہو گئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہود کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ صرف کسی ایک حکم پر عمل کر کے خوش نہ ہوں اور یہ نہ سمجھیں کہ اس کے ذریعہ سے انہوں نے عہد کا اپنا حصہ پورا کر دیا ہے وہ اپنی قوم کو خدا تعالیٰ کا یہ حکم پہنچاتے ہیں۔ ’’پر اگر تم میرے سننے والے نہ ہو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو اور میری سنتوں کو حقیر جانو یا تمہارے دل میری عدالتوں کو ناپسند کریں ایسا کہ تم میرے حکموں پر عمل نہ کرو اور مجھ سے عہد شکنی کرو تو میں بھی تم سے ویسا ہی کرونگا اور خوف اور سل اور تپ سوزاں کو تمہارے اوپر غالب کرائونگا جس سے تمہاری آنکھیں پھوٹیں اور دل دکھیں اور تم اپنے بیج بے فائدہ بوئوگے اس لئے کہ تمہارے دشمن اسے کھائیں گے اور میرا چہرہ تمہارے برخلاف ہو گا‘‘ (احباب باب ۲۶ آیت ۱۴ تا ۱۷) (آخری الفاظ کو عہد کے ان الفاظ کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیئے کہ میں تیرا اور تیری نسل کا خدا ہونگا) اس حوالہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ختنہ صرف ایک ظاہری نشان تھا ورنہ اصل عہد جس کی پابندی کی حضرت ابراہیم کی اولاد سے توقع کی گئی تھی یہ تھا کہ وہ دل کے پاک ہوں خدا تعالیٰ کی سنتو ںپر مطمئن ہوں اور اس کے سب احکام پر عمل کریں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کے نبیوں نے بھی اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کیا ہے یرمیاہ نبی نبی اسرائیل کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اسرائیل کے سارے گھرانے کے دل نامختوں ہیں‘‘ (باب ۹ آیت ۲۶) اسی طرح فرماتے ہیں ’‘دیکھ وے دن آتے ہیں خداوند کہتا ہے کہ میں ان سب کو جو مختون ہیں نامختون کے ساتھ سزا دوں گا۔‘‘ (باب ۹ آیت ۲۵) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یرمیاہ نبی جسم کے مختون ہونے کو عہد کا پورا کرنا نہیں سمجھتے بلکہ دل کے مختون ہونے کو اصل ذریعہ عہد کے پورا کرنے کا قرار دیتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واسطہ سے ایک معاہدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد سے کیا تھا۔ اس معاہدہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم کی اولاد سے خدا رسیدہ لوگ پیدا کرے گا جو قرآن کریم کے بیان کے مطابق امام یعنی اولوالعزم نبی ہونگے اور دوسرے یہ کہ وہ انہیں کنعان کا ملک بطور میراث دے گا جس کے وہ بادشاہ ہونگے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وحی چونکہ اصل صورت میں محفوظ نہیں اس کا جس قدر حوالہ بائبل سے مل سکتا ہے بیشک اس میں ختنہ کی پوری تشریح نہیں مگر حضرت موسیٰ کی کتاب احبار اور یرمیاہ نبی کی وحی سے میں نے ثابت کر دیا ہے کہ ختنہ سے مراد صرف ظاہری ختنہ نہیں بلکہ اصل مراد دل کی صفائی اور کامل فرمانبرداری ہے جسمانی ختنہ اس کے لئے بطور علامت قرار دیا گیا ہے۔
اس تشریح کے مطابق آیت زیر تفسیر کے معنے یہ ہوئے کہ اے بنی اسرائیل یاد کرو کہ ہمارے تمہارے درمیان ایک عہد ہوا تھا اس عہد کا جو حصہ ہمارے متعلق تھا وہ ہم نے پورا کر دیا تم می سے پے در پے نبی بھی بھجوائے اور بادشاہ بھی بنائے اور اس کے بالمقابل جو حصہ عہد کا تم سے تعلق رکھتا تھا وہ تم نے پورا نہ کیا اور تمہارے دل نامختون ہو گئے اور تم نے اپنے خدا کے حکمو ںکو بھلا دیا اور اس کے نتیجہ میںتمہارے دلو ںمیں غیر اللہ کا خوف جاگزیں ہو گیا اگر تم اپنے حصہ عہد کو پورا کرو تو میں بھی پھر اپنے عہد کو تم سے پورا کرنے کو تیار ہوں لیکن تمہارا یہ امید کرنا کہ میں تو عہد کے اس حصہ کو پورا کرتا جائوں جو مجھ سے تعلق رکھتا ہے لیکن تم متواتر اس حصہ کو نظر انداز کرتے جائو جو تمہارے متعلق ہے درست نہیں۔
جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہی عہد دوسرے انبیاء کے ذریعہ سے پھر دہرایا گیا ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو اسرائیلی قوم کی شریعت لانے والے تھے ان کے ذریعہ سے بھی یہ عہد دہرایا گیا تھا۔ یہ عہد ایسا مشہور و معروف ہے کہ بائبل میں بیسویں جگہ اس کا ذکر آتا ہے اور بار بار اسے عہد کے نام سے پکارا گیا ہے خروج باب ۲۰ میں وہ دس احکام جو حضرت موسیٰ ؑ کی معرفت دیئے گئے اور بنی اسرائیل کے ساتھ ایک نیا عہد باندھا گیا تفصیلاً درج ہیں۔ استثناء باب ۵ آیت ۲ اور باب ۱۸ آیت ۱۸ و ۱۹ کو ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ سینا پہاڑ پر یا حورب پر جو نام کوہ سینا کا کتاب استثنا میں مستعمل ہے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو بلا کر دس حکم دیئے۔ اور بنی اسرائیل سے ایک نیا عہد باندھا (استثنا باب ۵ آیت ۲) اور کہا کہ اگر وہ ان احکام کے پابند رہیں تو میں ان کی قوم کو زندہ رکھونگا اور ان کا بھلا ہو گا اور ارضِ مقدس پر ان کے قبضہ کی مہلت لمبی ہوتی چلی جائے گی (استثناء باب ۵ آیت ۳۳) جس وقت یہ احکام نازل ہو رہے تھے اور خدا تعالیٰ کا جلال کوہ سینا یا حورب پر ظاہر ہو رہا تھا۔ خطرناک بجلی چمک رہی تھی۔ اور مہیب آوازیں آ رہی تھیں جسے دیکھ کر بنی اسرائیل جو خدا تعالیٰ سے عہد باندھنے کے لئے اپنے خیموں سے باہر نکل کر دامنِ کوہ میں کھڑے تھے ڈر گئے اور انہوں نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہم اس کلام کو نہیں سنتے تو خدا سے سن کر ہمیں سنا دیا کر ہم ڈرتے ہیں کہ ہم اس کلام کو سن کر مر نہ جائیں (خروج باب ۲۰ آیت ۱۹) اس پر خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے اچھا کہا ہے جب تک یہ ان احکام پر کاربند ہونگے برکت پائیں گے لیکن آیندہ جب کوئی نبی تیری مانند کھڑا کیا جائے گا (یعنی ان میں سے نہ ہو گا) کو حضرت موسیٰ نے کہا ہے کہ تم میں سے تمہارے بھائیوں میں سے نبی کھڑا کیا جائے گا (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵) لیکن اوّل تو یہ خدا تعالیٰ کے اس کلام کے خلاف ہے جو اس نے موسیٰ ؑ سے کیا۔ کیونکہ اس میں ’’تم میں سے‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ صرف یہی ہے کہ تیرے بھائیوں سے۔ دوم یہ فقرہ ہی بے معنی ہے کہ تم میں سے تمہارے بھائیوں میں سے جبکہ اس کلام کے سب بنی اسرائیل مخاطب تھے تو پھر تم میں سے کہہ کر تمہارے بھائیوں میں سے کہنا لغو تھا۔ جب بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا جائے گا کہ تمہارے بھائیوں سے نبی کھڑا کیا جائے گا۔ تو وہ بنی اسرائیل کے سوا کسی اور قوم میں سے ہو گا نہ ان میں سے اور اگر ان میں سے ہو تو پھر بھائیوں سے نہیں کہلا سکتا۔
سو بنی اسرائیل کے بھائیو ںمیں سے نبی کھڑا کرنا تو سزا کے طور پر تھا۔ اگر انہیں میں سے نبی ہو۔ تو سزا نہیں رہتی۔ جیسا کہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۶ میں لکھا ہے ’’اس سب کی مانند جو تو نے خداوند اپنے خدا سے حورب میں مجمع کے دن مانگا اور کہا کہ ایسا نہ ہو کہ میں خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ میں پھر دیکھوں تاکہ میں مر نہ جائوں‘‘ پھر لکھا ہے ’’اور خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا۔ سو اچھا کہا۔ میں ان کے لئے ان کے بھائیوںمیں سے تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا۔ اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالونگا۔اور جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا‘‘ (آیت ۱۷ و ۱۸) اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ بنی اسرائیل نے خدا کا کلام سننے سے انکار کر دیا جو کلام کہ شریعت کے متعلق تھا تو آیندہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے شریعت کا دروازہ بند کر دیا اور کہا کہ جب کسی ایسے نئے نبی کی ضرورت ہو گی جو موسیٰ کی مانند ہو تو وہ ان کے بھائیوں میں سے کھڑا کیا جائے گا۔ اس عہد کے ماتحت بنی اسرائیل کو ہر قسم کی ترقی ملتی رہی اور ان کی روحانی زندگی کے لئے بادشاہ ہوتے رہے۔ اور ان کو سوائے ایک قلیل درمیانی مدت کے ارضِ مقدس پر حکومت میسر رہی گو مسیح کے نزول کے بعد ارض مقدس پر حکومت میسر رہی گو میسح کے نزول کے بعد ارض مقدس کا قبضہ اس گروہ کے ہاتھ آ گیا جو مسیح کا ماننے والا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اسی عہد کی طرف اہل کتاب کو متوجہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہم سے تمہارا ایک عہد تھا۔ جس کے پورا کرنے کی صورت میں ہم نے تم سے برکت کی زندگی کا وعدہ کیا تھا۔ تم اگر اس عہد کو پورا کرو۔ تو میں اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے تیار ہوں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد کا ذکر قرآن کریم میں ہے جو اوپر گذر چکا ہے مذکورہ بالا موسوی عہد کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجود ہے فرماتا ہے وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍط فَسَاَ کْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَo اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَ ھُمْ فِی التَّوْرٰلۃِ وَالْاَ نْجِیْلِ زیَاْ مُرُ ھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَ ھُمْ وَالْاَ غْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّ رُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِٓیْ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o(اعراف ع ۱۹) یعنی میری رحمت ہر ایک چیز پر وسیع ہے میں ضرور ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ کریں اور زکوۃ دیں اور ہماری آیات پر ایمان لائیں اسے لازم کردونگا (خواہ وہ کسی قوم کے ہوں) ہاں ان لوگوں کے لئے جو اس رسول نبی اور اُمی کی فرمانبرداری کرتے ہیں جسے وہ اپنی اپنی کتب تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیںاچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے او رپاک چیزوں کو ان کے لئے حلال کرتا ہے (برخلاف یہود کے جو بہت سی پاک چیزوں کو اپنی تنگ ظرفی کی وجہ سے حرام قرار دیتے ہیں) اور گندی چیزوں کو حرام کرتا ہے (برخلاف نصاریٰ کے جو سور اور خون جیسی ممنوع اور بُری چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں) اور ان کے کمرتوڑ دینے والے بوجھوں کو دُور کرتا ہے اسی طرح ان طوقوں کو بھی جو ان کے گلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ پس وہ جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی زبانوں اور تلواروں سے اس کی اعانت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اُتارا گیا ہے (یعنی قرآن کریم) وہ ضرور کامیاب ہو نگے یعنی باوجود غیر عرب ہونے کے ان برکات سے حصہ پائینگے جو عرب کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت سے وابستہ ہیں کیونکہ وہ کسی ایک قوم کا نبی نہیں بلکہ سب دُنیا کا نبی ہے چنانچہ اگلی آیت میں اس مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرماتا ہے قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ انِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًاط تو کہہ دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں یعنی مجھ پر ایمان لانے والے سب کے سب ان انعامات کے وارث ہونگے جن کا مجھ سے وعدہ ہے اور صرف میری قوم ہی کے لوگ ان سے فائدہ نہ اٹھائیں گے۔
اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد کا ذکر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں ایک نبی امی کا ذکر موجود ہے اور اس پر ایمان لانے کا حکم ہے اور اس کی اطاعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کے پورا ہونے کا تعلق ہے جو حصرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کی قوم سے کیا گیا تھا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جب وہ مورعود نبی آئے گا تو اس وقت اس عہد کو جو موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے کیا گیاتھا اللہ تعالیٰ صرف انہی سے پورا کرے گا جو اس پر ایمان لائینگے چنانچہ لکھا ہے ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سے ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا او رجو کچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اُس سے لُوں گا‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸؍۱۹) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل کے متعلق جو وعدہ کیا تھا اس کا زمانہ اس موعود نبی کی بعثت تک تھا اس کی بعثت کے بعد یہ شرط تھی کہ اگر بنی اسرائیل اس نبی کو مانینگے تو انعام پائینگے ورنہ سزا پائینگے اور اسی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِ کُمْ تم اپنا عہد مجھ سے پوراکرو تو میں اپنا عہد تم سے پُورا کرونگا۔
اس جگہ دو شبہات پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ ہر نبی کے منکروں کو ہی سزا ملتی ہے اور بنی اسرائیل میں موسیٰ کے بعد بہت سے نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گذر چکے تھے جن کا انہوں نے انکار کیا پس عہد ت واس وقت ہی ٹوٹ چکا تھا پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پیشگوئی کا خاص تعلق کیونکر ہوا (۲) دوسرے یہ کہ اگر پیشگوئی محمد رسول اللہ صلعم کے متعلق تھی تو ان کی بعثت سے بنی اسرائیل کا زمانہ تو ختم ہو گیا پھر یہ کیوں کہا گیا ہے کہ تم اپنا عہد پورا کرو تو میں اپنا عہد پورا کروں گا۔ بنی اسرائیل کے تبوہ کر لینے سے نبوت ان کی قوم میں واپس تو جا نہ سکتی تھی پھر یہ الفاظ کیوں کہے گئے۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بہت سے نبیوں کا انکار کیا لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ وہ چونکہ ان کے قومی نبی تھے بعد میں ان کے حالات اور الہام ان کی مقدس کتب کے مجموعہ میں شامل ہو گئے پس وہ انکار عارضی تھا اس سے قومی تفریق نہیں ہوتی تھی۔ اس وجہ سے قوم ان انبیاء کی معرفت آنے والے انعامات سے محروم نہ ہوتی تھی۔ ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہ عرب نے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا لیکن آخر میں ان پر ایمان لے آئی ہاں آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار بنی اسرائیل نے شدت سے کیا اور بعد میں ان پر ایمان بھی نہ لائے لیکن بہرحال وہ بھی اسرائیلی نبی تھے اور بنی اسرائیل کا وہ حصہ جو ان پر ایمان لایا اس عہد کے تسلسل کو قائم رکھنے والا تھا اور اگر وہ اپنے عہد کو قائم رکھتا تو نبوت کا انعام پھر بھی ان کو ملتا لیکن انہوں نے بھی اس عہد کو قائم نہ رکھا اور نبوت دوسری طرف منتقل ہو گئی۔
یہود نے تو عہد کے روحانی پہلو کو بھلا یعنی دل کی پاکیزگی کو نظر انداز کر کے خدا تعالیٰ سے عہد کو توڑ دیا اور جو بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے انہوں نے بظاہری ختنہ کو چھوڑ کر عہد کے نشان کو مٹا دیا پس اس طرح بنی اسرائیل کا کوئی حصہ بھی عہد پر قائم نہ رہا اور خدا تعالیٰ نے عہد کو بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل کر دیا۔
خلاصہ یہ کہ گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بنی اسرائیل نے نبیوں کا انکار کیا لیکن وہ انکار عارضی ہوتا تھا اور بع دمیں وہ اس بنی کو قومی نبی کے طور پر تسلیم کر لیتے تھے سوائے حضرت مسیح کے کہ جن کو بنی اسرائیل کی باقی قوم نے قبول نہ کیا لیکن چونکہ وہ اسرائیلی نبی تھے اسرائیل ہی کی طرف آئے تھے اور جیسا کہ اناجیل سے ثابت ہے موسوی شریعت پر چلنے کا ہی حکم دیتے تھے اور ان کے پہلے مومن اسرائیل میں سے ہی تھے اس لئے ان پر ایمان لانے والے اسرائیلیوں کے ذریعہ سے وہ وعدہ قومی طور پر پورا ہوتا رہا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اور رنگ کا تھا۔ آپ موسوی شریعت کے تابع نہ تھے بلکہ موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کے مطابق ایک نئی شریعت لائے تھے اور اسرائیل کی طرف مبعوث نہ تھے بلکہ سب دنیا کی طرف مبعوث تھے پس آپ کے ذریعہ سے جو دین قائم ہوا وہ موسوی دین کا تسلسل نہ تھا اور اسرائیل اس پر قومی فخر نہ کر سکتے تھے اور ان کی قومی برتری کا دور اس سے ختم ہو جاتا تھا اس لئے فرمایا گیا کہ چونکہ تم نے اپنا عہد توڑ دیا ہم نے بھی اپنا عہد ختم کر دیا۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ گو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اسرائیلی نبیوں کا تسلسل ٹوٹ گیا اور بنی اسرائیل کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے وہ تسلسل پہلی شکل میں پھر قائم نہ ہو سکتا تھا لیکن پھر بھی اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْد کُمْ کے ارشاد کے مطابق بنی اسرائیل پر خدا تعالیٰ کی رحمتو ںکا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰ تِھِمْ وَلَاَدْ خَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِo وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰلۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْ قِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ مِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْصِدَۃٌط وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَایَعْمَلُوْنَo یٰٓا یُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗط وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo (مائہد ع ۹ و ع ۱۰) یعنی اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ سے کام لیتے تو ہم ان کی غلطیوں پر پردہ ڈال دیتے اور ہم انہیں نعمت والی جنتو ںمیں جگہ دیتے اور اگر وہ تورات کو قائم کرتے اور انجیل کو اور اس کلام کو بھی جوان پر (یعنے موجودہ زمانہ کے اہل کتاب پر) ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تو وہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے یعنی روحانی غذا کے دروازے ان کیلئے کھولے جاتے اور آسمانی الہام ان پر نازل ہوتا وہ اپنے قدموں کے نیچے سے بھی کھاتے یعنی مادی انعامات بھی ان پر نازل ہوتے۔ ان میںسے ایک جماعت میانہ رو ہے (یعنی جو اسلام لے آئے ہیں) اور اکثر ان میں سے بُرے عمل کرتے ہیں۔ اے رسول جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے اسے پوری طرح پہنچا اور اگر تُو ایسا نہ کرے گا تو گویا تُو نے کوئی حصہ بھی کلام الٰہی کا نہیں پہنچایا اور اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملوں سے بچائیگا اللہ تعالیٰ کافروں کو کامیابی کا راستہ کبھی نہیں دکھاتا۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تورات اور انجیل کے ماننے والے اگر ان کی تعلیم کو مانتے ہوئے اس کلام کو جو آخری زمانہ میں ان کی ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے مان لیں اور ایمان اور تقویٰ سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے الہام اور رزق طیب کا دروازہ کھول دے گا اور اپنی سابق بدیوں کے عذاب سے وہ محفوط ہو جائینگے گویا اس رنگ میں اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو ان سے پُورا کرے گا اور ان اُن کو آسمانی و دنیاوی انعامات سے متمتع کرے گا پھر فرمایا ہے کہ اے رسول ان اقوام کو خوب تبلیغ کرتا ان پر حجت پوری ہو جائے اور ان میں سے جو بچائے جا سکیں بچائے جائیں پس گو نبوت حسب پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے نکال کر بنی اسمٰعیل میں آ گئی لیکن پھر بھی اگر بنی اسرائیل اپنے عہد کو پورا کرنے میں لگ جائیں تو ان کے لئے خدا تعالیٰ اپنے عہد کو پوراکرنے کے لئے تیار ہے۔ استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس آیت میں ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل کو ایمان لانے کی ہدایت کے بعد یہ آیت رکھی گئی ہے کہ اے رسول جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے سارا کا سارا پہنچا دے اور یہی الفاظ استثناء کی پیشگوئی کے آخر میں ہیں کیونکہ وہاں لکھا ہے ’’اور جو کچھ میں اسے فرمائونگا وہ سب ان سے کہے گا‘‘ (باب ۱۸ آیت ۱۸)
آیت اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِ کُمْ سے یہ استدلال بھی ہوتا ہے کہ امت محمدیہ میں غیر تشریعی نبوت کا دروازہ بند نہیں اور وہ اس طرح کہے اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل سے فرماتا ہے کہ اگر تم میرا عہد پورا کرو یعنی خدا کی باتو ںکو مان لو اور وقت کے نبی محمد رسول اللہ پر ایمان لائو تو میں نے جو تم سے عہد کیا تھا وہ میں پھر تم سے پوار کروں گا اور اوپر بتایا جا چکا ہے کہ وہ عہد یہ تھا کہ ان سے نبی پیدا ہوتے رہیں گے پس معلوم ہوا کہ امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ مسدود نہیں صرف شریعت ختم ہوئی ہے ورنہ بے شریعت والے اور قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم کے تابع اور خادم نبی اب بھی پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ممکن نہ تھا تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کے کیا معنے ہوئے کہ اگر اب بھی تم اپنا عہد پورا کرو تو میں تم سے اپنا عہد پورا کروں گا یہ قول اسی وقت درست ہو سکتا ہے جبکہ امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ کھلا ہو اور بنی اسرائیل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو اس کا وعدہ دیا جائے۔
یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مذکورہ بالا پیشگوئی کے مطابق بنی اسرائیل میں آیندہ شرعی نبوت کا دروازہ مسدود ہو چکا تھا اور صرف موسوی شریعت کے تابع نبوت کا دروازہ کھلا تھا کیونکہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ میں صاف لکھا تھا کہ شریعت والا نبی آیندہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے آئے گا پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی ان میں بغیر شریعت کے نبی آتے تھے اور نبوت محمدیہ پر ایمان لانے کے بعد بھی یہ دروازہ ان کے لئے بند نہ تھا۔ پس فرمایا کہ اگر اب بھی اپنے عہد کو پورا کرنے لگو تو اس انعام سے حصہ پا سکتے ہو۔
وَاِیَّایَ فَارْ ھَبُوْنِ عام طور پر اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ پس مجھ ہی سے ۔رو مگر یہ پورے معنے اس جملہ کے نہیں کیونکہ اِیَّایَ مفعول ہے اور اس کا فعل محذوف نکالنا صروری ہے جو اگلے الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اِرْھَبُوْا ہے پس وَاِیَّایَ کے معنے ہوئے اور ڈرو مجھ سے اس کے بعد فا آیا ہے جو امر محذوف پر دلالت کرتا ہے اور وہ امر بھی عبارت کے مطابق ہی نکالنا ہو گا اور وہ اِرْھَبُوْا ہی ہو سکتا ہے پس محذوف کو ظاہر کر کے عبارت یہ ہو گی وَارْھَبُوْا اِیَّایَ اِرْھَبُوْا فَارْ ھَبُوْنَ۔ اور ترجمہ یہ ہو گا کہ او رمجھ ہی سے ڈرو ڈر جائو پس مجھ ہی سے ڈرو گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے خوف کو تین دفعہ بیان کیاگیا ہے۔
اس جگہ بعض مغرب کے فلسفہ سے متاثر لوگوں کو شائد یہ وہم ہو کہ خدا تعالیٰ کے خوف پر اس قدر زور کیوں دیا گیا ہے ایسے لوگوں کا ایک جواب تو یہ ہے کہ خوف بُری چیز نہیں خوف تقویٰ کے پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے انسان مختلف حالتوں کے ہوتے ہیں بعض محبت سے مانتے ہیں اور بعض خوف سے۔ پس جس ہستی کے مدنظر اصلاح ہو گی وہ خوف اور محبت دونوں سے کام لے گی۔ فلسفہ انسان کی اصلاح نہیں کر سکتا اصلاح تو مرض کے مطابق علاج کرنے سے ہوتا ہے پس جو لوگ گندے ہو چکے ہوں ان کو ان کے عیوب کے بدنتائج سے ڈرا کر ہی ان کی اصلاح کی جا سکتی ہے جو اس طریق کو استعمال نہ کرے گا۔ اصلاح کے کام میں ناکام رہے گا۔
دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ رَھْبٌ کے معنے عام خوف کے نہیں بلکہرَھْبٌ کے معنوں میں کوشش اور جدوجہد کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے چنانچہ عرب کہتے ہیں دُھِبَتِ النَّاقۃُ اور اس کے معنے ہوتے ہیں جَہَدَھَا السَّیْرُ یعنی اونٹنی خون دوڑائی گئی اور تھک گئی۔ پس رَھْبٌ اس خوف کو کہتے ہیں جو کام کی طرف رغبت پیدا کرے اسی وجہ سے عابد لوگوں کو راہب کہتے ہیں۔
ایک اور شبہ کا ازالہ بھی میں اس جگہ کر دینا چاہتا ہو ںکہا جا سکتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑ تو بڑے بھائی تھے ان کی نسل کو ایک لمبے عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے انعام سے کیوں محروم رکھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بنو اسحاق گو بعد میں کیسے ہی بگڑے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سینکڑوں سال تک انہو ںنے دین کی شمع کو اُٹھائے رکھا اس لئے وہ یقینا خدا تعالیٰ کے خاص فضلوں کے وارث ہوئے۔ بنو اسمٰعیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک اس رتبہ کو نہیں پہنچے اس لئے بقدر ضرورت ہی انہیں انعام ملا۔ ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے جوہر کامل بنو اسمٰعیل میں سے ہوئے کہ جنہوں نے سب کمی کو پورا کر دیا۔ اور چونکہ آپؐ حاتم النبین ہونے والے تھے اس لئے ضروری تھا کہ سب دسرے انبیاء کو جو براہِ راست نبوت کے مقام پر کھڑے ہونے والے تھے پہلے گذرنے دیا جاتا تا آخر میں آپ تشریف لاتے اور شریعت والی اور براہِ راست نبوت کا دروازہ مسدود کر دیا جاتا۔
۴۲؎ حل لغات
اٰمِنُوْا:۔امر حاضر جمع کا صیغہ ہے مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۂ ہذا ۴؎ و ۱۴؎
اَنْزَلْتُ:۔ اَنْزَلَ سے واحد متکلم کا صیغہ ہے اور اَنْزَلَ کے لئے دیکھو۔ حل لغات سورۃ ہذا ۵؎
مُصَدِّقًا:۔ صَدَّقَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور صَدَّقَہٗ کے معنے ہیں۔ ضِدُّ کَذَّبَہٗ اسے سچا قرار دیا اور اَلتَّصْدِیْقُ کے معنے ہیں نِسْبَۃُ الصِّدْقِ بِالْقَلْبِ اَوِ اللِّسانِ اِلی الْقَائِلِ۔ کسی بات کرنے والے کو اس کی بات میں دل سے سچا سمجھنا یا زبان سے سچا قرار دینا۔ وَقِیْلَ ھُوَ اَنْ تُنْسِبَ بِاِخْتِیارِکَ الصِّدْقَ اِلَی الْمُخْبِرِ اور بعض نے تصدیق کے یہ معنے کئے ہیں کہ اپنے احتیار سے سوچ سمجھ کر مخبر کی طرف صدق کا منسوب کرنا تصدیق کہلاتا ہے۔ نیز لکھا ہے اَلْمُصَدِّقُ۔ اَلَّذِیْ یُصَدِّ قُکَ فِیْ حَدِیْثِکَ کہ جو کسی کی باتوں کو سچا قرار دے اسے اس کا مصدق کہیں گے (اقرب)
کَافِرِ:۔ کَفَرَ سے اسم فاعل ہے اور کَفَرَ کے معنے کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۷ و ۲۵؎
لَاتَشْتَرُوْا:۔ نہی مخاطب کا جمع کا صیغہ ہے اِشْتَرٰی کے معنے کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۱۷؎
بِاٰیَاتِیْ:۔ اٰیٰتٌ اَیَۃٌ کی جمع ہے اٰیٰۃٌ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴۰؎
اَلثَّمَنُ:۔ مَاقَدَّرَہٗ الْعَاقِدَانِ عِوَضًا لِلْمَبِیْعِ کہ خرید و فروخت کرنے والے جو کسی چیز کی قیمت ٹھہراتے ہیں وہ ثمن کہلاتی ہے (اقرب) مفردات میں ہے اَلثَّمَنُ اِسْمٌ لِمایَاْخُذُہُ البَائِعُ فِیْ مُقَابَلَۃِ الْمَبِیْعِ عَیْنًا کَانَ اَوْسِلْعَۃً کہ ثمن اس چیز کو کہتے ہیں جس کو بیچنے والا بیچی ہوئی چیز کے بدلہ میں لیتا ہے خواہ نقدی کی صورت میں ہو یا سامان کی وَکُلُّ مَایَحْصُلُ عِوَضًا عَنْ شَیْئٍ فَھُوَ ثَمَنُہٗ ہر وہ چیز جو کسی چیز کے عوض حاصل کی جائے اس پر بھی ثمن کا لفظ بول دیا جاتا ہے (مفردات) لسان میں لکھا ہے کہ اَلثَّمَنُ مَاتَسْتَحِقُّ بِہٖ الشَّیْئَ ثمن ہر اس چیز پر بولینگے جس کے ذریعہ کسی دوسری چیز کے لینے کا حق ہو جائے وَالثَّمَنُ ثَمَنُ الْبَیْعِ وَثَمَنُ کُلِّ شَیْئٍ قِیْمَتُہٗ کہ ثمن کا لفظ کسی چیز کی سا قیمت پر بھی بولا جاتا ہے جو کسی چیز کی اصل قیمت ہو (یعنی بعض اوقات ایک چیز کی اصلی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن بکتی کم قیمت پر ہے تو اصل قیمت پر اور اس قیمت پر جس پر وہ بک رہی ہوتی ہے ثمن کا لفظ بولا جاتا ہے) فرار کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں بھی ثمن پر نصب آئی ہے اور مبیع پر باء داخل کی گئی ہے وہاں ان دونوں میں سے کوئی بھی معین ثمن نہیں ہوتی۔ ہر دو اشیاء میں سے جس کو چاہیں ثمن بنا سکتے ہیں مثلاً جب یہ کہیں کہ اِشْتَرَیْتُ ثَوْبًا بِکَسَائٍ کہ میں نے چادر دے کر کپڑا خریدا۔ تو اس میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کپڑا چادر کی قیمت ہے گویا ہر دو اشیاء ایک دوسرے کی قیمت بن سکتی ہیں او رجب یہ بتانا مقصود ہو کہ فلاں چیز اتنی رقم سے خریدی گئی ہے اور وہاں مال کا ذکر ہو تو اس وقت مال کو ثمن کہیں گے اور اس پر باء داخل ہو گی جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق آتا ہے وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَا ھِمَ کہ قافلہ والوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو چند دراہم دے کرخرید لیا تو یہاں درہم ثمن بن سکتے ہیں (لسان)
اِتّقُوْنِ:۔ اِتَّقُوْا امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے نِ نِیْ کا قائم مقام ہے۔ اِتَّقُوْنِ کے معنے ہیں۔ مجھ سے ڈرو اِتَّقٰی کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۳؎
تفسیر۔ اس آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ کے معنے استثناء باب ۱۸ کے موعود نبی کو قبول کرنا ہے کیونکہ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ کے بعد اٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ کہا گیا ہے جس سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایفار عہد اور خدا تعالیٰ کا خوف اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا یہ سب امور ان انعامات کی تکمیل کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والے ہیں جو بنی اسرائیل کے لئے مقرر تھے۔
بِمَا اَنْزَلْتَ۔ اَنْزَلْتُ کے بعد ضمیر واحد غائب محذوف ہے کیونکہ مَا کی طرف ضمیر کا پھرنا ضروری ہے پس اصل جملہ یہ ہو گا بِمَا اَنْزَلْتُہٗ یعنی اس پر ایمان لائو جسے میں نے نازل کیا ہے۔
مُصَدِ قًالِّمَا مَعَکُمْ۔ یہ جملہ اَنْزَلْتُ کے بعد جو ضمیر محذوف ہے اس کا حال ہے اور مطلب یہ ہے کہ میرے اُتارے ہوئے اس کلام پر ایمان لائو جو اس کا جو تمہارے پاس ہے مصدق ہے مطلب یہ ہے کہ اس کلام کے ذریعہ سے موسیٰ علیہ السلام کی استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والی پیشگوئی پوری ہوئی ہے اسی طرح اور بنی اسرائیل کے نبیوں کی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں پس اس کلام اور اس کے لانے والے پر ایمان لانا اپنے سابق الہامی کلام کی تصدیق کرنا ہے اور اس کے حکم پر عمل کرنا ہے اور اس کو نہ ماننا اس کلام کی تکذیب اور تردید ہی گویا بنی اسرائیل میں نئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیش کردہ کلام الٰہی قرآن کریم پر ایمان لاتا ہے وہ حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں پر بھی ایمان لاتا ہے کیونکہ انہوں نے ان کی خبر دی تھی اور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل شدہ کلام کو رد کرتا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کو بھی رد کرتا ہے کیونکہ وہ ان کی تصدیق کو ٹھکرا دیتا ہے۔ پس وہ ان انعامات کا مستحق نہیں رہتا جو ان کی تصدیق اور ان پر ایمان لانے سے وابستہ کئے گئے تھے۔
ایک غیر مسلم سوال کر سکتا ہے کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں آنے والے انبیاء نے واقعہ میں کسی ایسے نبی کی خبر دی تھی جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے پورا کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دُنیا کی ہر قوم میں ایک آخری زمانہ کے نبی کی خبر دی گئی تھی اور اس کی بعض علامات بھی بتائی گئی تھیں جو پورے طو رپر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پوری ہو گئیں خصوصاً اسرائیلی نبیو ںکی پیشگوئیاں تو اس بارہ میں بکثرت ملتی ہیں اس کثرت سے کہ ان پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
اس آیت میں سب انبیاء اور اقوام کی پیشگوئیوں کا ذکر نہیں اس لئے اس وقت میں ان کو بیان نہیں کرتا لیکن مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ کے مضمون کی مطابقت سے بنی اسرائیل کے نبیو ںکی پیشگوئیوں کا ذکر چونکہ ضروری ہے میں اختصار کے ساتھ ان کا ذکر اس جگہ کرتا ہوں۔
تصدیق نمبر۱
پہلی تصدیق قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کرتا تھا جنہوں نے بنو اسمٰعیل کی ترقی کی پیشگوئی کی تھی اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے اور آپ پر وحی نازل نہ ہوتی تو حضرت ابراہیم جھوٹے قرار پاتے۔ حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ ’’اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دونگا اور اسے برومند کرونگا اور اسے بہت بڑھائونگا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہونگے اور میں اسے بڑی قوم بنائونگا‘‘ (پیدائش باب ۱۷ ۲۰ و ۲۱) اس پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسحاق کی اولاد سے وعدہ تھا کہ انہیں بہت بڑھائونگا اور اسے برکت دونگا اور اس سے بڑی قوم بنائونگا۔ اسی طرح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق بھی وعدہ تھا گو باوجود اس کے بائبل میں لکھا ہے کہ یہ عہد اسحاق کی اولاد سے پورا ہو گا مگر یہ تو قلم درکفِ دشمن کی وجہ سے ہے ورنہ ساری باتیں جو حضرت اسحاق کی نسبت کہی گئی تھیں حضرت اسمٰعیل کی نسبت بھی کہی گئیں۔ تو پھر عہد کا حضرت اسحاق سے مخصوص ہونا بے معنی ہے بائبل کے قول کے مطابق خدا کا کلام حضرت ہاجرہ پر بھی نازل ہوا تھا اور اس میں اسمٰعیل ؑ کی نسبت یہ پیشگوئی تھی ’‘میں تیری اولاد کو بہت بڑھائونگا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے گی اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو حاملہ ہے اور ایک بیٹا جنے گی اس کا نام اسمٰعیل رکھنا کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا وہ وحشی آدمی ہو گا اس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہونگے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودو باش کرے گا۔‘‘ (پیدائش باب ۱۶ آیت ۔ ۱ تا ۱۲) گو یہ الہام ہاجرہؓ پر نازل ہوا ہے مگر موسیٰ کی وحی میں اسے شامل کر کے اس کے خدائی الہام ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے پس یہ الہام بھی اسی طرح بنی اسرائیل پر حجت ہے جس طرح حضرت ابراہیم کا اپنا الہام۔ اس الہام میں یہ امو ربیان ہیں کہ (۱) حضرت اسمٰعیل کی اولاد بھی حضرت اسحاق کی اولاد کی طرح بے انتہا ترقی کریگی حتٰی کہ گنی نہ جا سکے گی (۲) اسے ایسی عظمت ملے گی کہ سب دُنیا اس سے حسد کریگی (۳) باوجود اس کے کہ سب دُنیا اس کی مخالفت کرے گی وہ ان سے دبے گی نہیں بلکہ ان کے مقابل پر عزت کی زندگی بسر کرے گی۔
اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ بنو اسمٰعیل کے لئے عالمگیر عزت شہرت اور عظمت مقدر کی گئی تھی اس قدر کہ اس کے نتیجہ میں دُنیا کی سب قومیں ان سے حسد کرنے لگینگی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق آ کر یہی دعویٰ کیا کہ وہ ایسی عظمت حاصل کرینگے کہ سب دُنیا ان پر حسد کرنے لگے گی خصوصاً بنو اسحاق۔ اور یہ کہ آپ کو سب دُنیا پر خدا تعالیٰ غلبہ دے گا۔ اس دعویٰ کے ساتھ گویا آپ نے حضرت ابراہیم ؑ علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کے الہاموں کو پورا کرنے کا دعویٰ کیا اگر آپ ظاہر نہ ہوتے تو ظاہر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوتی جو انہوں نے حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد کے بارہ میں کی تھی اور نہ ہاجرہ پر نازل ہونے والا الہام جو بائبل میں موجود ہے پورا ہوتا مگر رسول کریمؐ کی بعثت کے ساتھ یہ دونوں الہام پورے ہو گئے اور قرآن کریم بائبل کا مصدق ہو گیا یعنی اس کے الہام کو سچا کرنے والا۔
یہ جو بائبل میں ہے کہ حضرت اسحاق اس عہد کو پورا کرنے والے ہونگے جو حضرت ابراہیم ؑ سے ہوا تھا اس کا ایک جواب تو میں پہلے دے آیا ہوں کہ بائبل انسانوں کی دست برد سے پاک نہیں بنو اسحاق کو بنو اسمٰعیل سے سخت عداوت تھی۔ پس جو کتاب زمانہ جہالت میں ایک لمبے عرصہ تک ان کے ہاتھو ںمیں رہی خدا ہی جانے کہ اس میں انہوں نے کیا کیا تحریف کی ہو گی۔ دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ بائبل کے وہ نسخے جو عزانبی کے بعد تاریخی زمانہ میں لکھے گئے ہیں ان میں ہی کافی اختلاف ہے یہودیوں سامریں اور مسیحیوں کی بائبل کے نسخو ںمیں اختلاف پایا جاتا ہے گو اصولی طور پر وہ متفق ہیں لیکن پھر بھی کافی اختلاف موجود ہے جب یہ اختلاف تاریخی زمانہ کا ہے تو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ عزرا نبی سے پہلے زمانہ میں کیا کیا دست بُرد یہودی کتب میں کر چکے ہونگے۔
اگر اس دست برد کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی میں کہتا ہوں کہ ان پیشگوئیوں کو دیکھتے ہوئے جو حضرت اسمٰعیل کے حق میں بائبل میں اس وقت تک موجود ہیں ہم جائز طو رپر کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو بائبل میں لکھا ہے کہ ’’لیکن میں اسحاق سے جس کو سرہ دوسرے سال اسی وقت معین میں جنے گی اپنا عہد قائم کرونگا‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۱) اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ یہ عہد ابتداء اسحاق کی اولاد کے ذریعہ پورا ہونا شروع ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ پہلے یہ عہد ایک لمبے عرصہ تک بنو اسحاق کے ذریعہ سے پورا ہوتا رہا پھر خدا تعالیٰ نے اسے بنو اسمٰعیل کی طرف منتقل کر دیا۔
اور اس امر کی وجہ کہ گو اسحاق چھوٹے تھے مگر خدا تعالیٰ کا عہد پہلے ان کی والاد کے ذریعہ سے پُورا ہونا شروع ہوا ہے یہ ہے کہ حضرت اسمٰعیل کی اولاد کو وہ نبوت ملنی تھی جو منسوخ نہ ہونے والی تھی اگر ان کے ذریعہ سے پہلے عہد پورا ہوتا تو بنو اسحاق نعمت سے بالکل محروم رہ جاتے پس اللہ تعالیٰ نے پہلے بنو اسحاق کو ایک لمبے عرصہ تک نبوت کے انعام سے حصہ دیا اس کے بعد بنو اسمٰعیل میں وہ نبی مبعوث فرما دیا جو خاتم النبین تھا اور جس کی شریعت کو کسی اور شریعت نے منسوخ نہ کرنا تھا بلکہ اس نے قیامت تک دُنیا پر حکومت کرنی تھی۔
اس امر کا قطعی ثبوت کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے جو عہد تھا اس میں حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد بھی شامل تھی اس سے ملتا ہے کہ جس طرح عہد کا ظاہری نشان بندوں کی طرف سے ختنہ قرار دیا گیا تھا اسی طرح عہد کا ظاہری نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے کنعان کی حکومت قرار دیا گیا تھا۔ بائبل کا حوالہ میں اوپر نقل کر آیا ہوں لیکن اس جگہ مضمون کو واضح کرنے کے لئے پھر لکھ دیتا ہوں لکھا ہے ’’اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کے پشت در پشت کے لئے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہو کرتا ہو ںکہ میں تیرا اور تیرے نسل کو کنعان کا تمام لک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ کہ لئے ملک ہو اور میں ان کا خدا ہونگا۔ پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو۔ سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جاوے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘۔ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۷ تا ۱۱) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ عہد خداوندی کے مادی حصہ کی دو شقیں تھیں ایک شق اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتی تھی اور وہ آل ابراہیم ؑ کو کنعان کی بادشاہت دینے کا وعدہ تھا۔ اور دوسری شق آل ابراہیم سے تعلق رکھتی تھی اور وہ ختنہ کرانے کی رسم تھی خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ ہمیشہ آل ابراہیم کے پاس کنعان رہے گا اور آل ابراہیم سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی ہمیشہ نرینہ اولاد کا ختنہ کرائیں۔ ایک زمانہ وہ آیا کہ حدا تعالیٰ نے کنعان یہود سے لے کر میسحیوں کو دے دیا بوجہ اس کے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسرائیلی نبی تھے اس وقت بھی پیشگوئی قائم رہی اور کنعان آل ابراہیم کے قبضہ میں ہی رہا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معاً بعد سے لے کر ۱۹۱۸ء تک اندازاً تیرہ سو سال تک یہ ملک مسلمانوں کے پاس رہا اگر تو بنو اسمٰعیل آل ابراہیم کے وعدہ میں شامل نہ تھے او رپھر بھی یہ ملک تیرہ سو سال ان کے اتباع کے قبضہ میں رہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی قطعاً باطل ٹھہرتی ہے لیکن چونکہ خدا کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی ثابت ہوا کہ بنو اسمٰعیل عہد ابراہیم میں بنو اسحاق سے برابر کے شریک تھے۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی اس فعلی شہادت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ عہد ابراہیم میں بنو اسمٰعیل بھی شامل تھے اس وجہ سے ان کے قبضہ میں کنعان کا آنا عہد الٰہی کے پورا ہونے کے تسلسل میں تھا۔ تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عہد الٰہی کا رُوحانی حصہ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبوت کا ملنا اور بندہ کی طرف سے ول کا ختنہ کرنا بھی بنو اسمٰعیل کے حق میں پورا ہونا ضروری تھا اور یہ ایفاء عہد خدا تعالیٰ او ربندہ کی طرف سے جہاں تک بنو اسمٰعیل کا تعلق ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پورا ہوا اور نہ بنو اسمٰعیل میں سے کوئی اور ایسا وجود پیش کیا جائے جس کی ذات سے یہ وعدہ پورا ہوا ہو۔
تصدیق نمبر ۲
دوسری تصدیق قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کلام کی کی۔
(۱) کتاب استثناء میں لکھا تھا ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔ او رجو کچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتو ںکو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جاوے‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹ تا ۲۱) اس پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی کہ (الف) آیندہ بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے ایک نبی کھڑا کیا جائے گا (باء) وہ موسیٰ کی ماندن ہو گا یعنی صاحب شریعت ہو گا اور اس کے واقعات سے ملتے جلتے ہونگے (ج) اس کی زبان پر خدا تعالیٰ کا کلام جاری ہو گا یعنی اس کا الہام کل کا کل لفظی ہو گا یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم کو اپنے الفاظ میں بیان کرے (د) وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو نڈر ہو کر لوگوں کے سامنے بیان کرے گا اور سارا کلام الٰہی لوگوں کو سنائے گا (ہ) اور جو الہام سنائے گا خدا کا نام لے کر سنائے گا اورشرک کی تردید کرنے والا ہو گا (ر) اگر کوئی شخص اس پیشگوئی کا جھوٹا مصداق بننے کی کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ ہلاک ہو جائْ (یاد رہے کہ انگریزی زبان میں اس جگہ یہ الفاظ ہیں He shall die یعنی وہ ہلاک ہو گا نہ کہ وہ قتل کیا جائے جیسا کہ اُردو میں ہے)
ان پیشگوئیوں کے مطابق (الف) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسمٰعیل میں سے یعنی بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے ظاہر ہوئے۔
(باء) آپ نے مثیل موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاo(مزمل ع ۱) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھجوایا ہے جو تم پر گواہ ہے اسی طرح جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھجوایا تھا یعنی موسیٰ ؑ۔ آپؐ موسیٰ علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت نبی تھے اور آپؐ کے حالات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑی مشابہت رکھتے ہیں یعنی ایک کامل شریعت آپؐ کو دی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح آپؐ سے وعدہ کیا گیا کہ آپؐ کی امت میں سے متواتر مجددین آتے رہیں گے اور یہ کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا آخری خلیفہ حضرت مسیح تھے اسی طرح قریباً اتنا ہی عرصہ بعد بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود بن کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے (ج) آپ نے دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام آپ کی زبان پر جاری ہے یعنی اپنی وحی کے جو الفاظ آپ پیش کرتے ہیں وہ بعینہٖ وہ الفاظ ہیں جو آپ کے دل پر نازل ہوئے تمام گذشتہ نبیوں کی کتب کو پڑھ کر دیکھ لو ان میں خدا کا کلام کم اور بندہ کا زیادہ ہوتا ہے۔ انجیل میں تو شاید ایک دو فقرے ہی خدا کے ہیں باقی سب کچھ مسیح کا اپنا کلام یا انجیل کے داستان نویسوں کا نوشتہ ہے صرف قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے کہ الف سے یاء تک خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔
غرض میں اپنا کلام اس کے مُنہ میں ڈالوں گا سے یہی مُراد تھا کہ پہلے انبیاء کا سارا کلام لفظی نہ ہوتا تھا بلکہ اکثر حصہ ان کے دل پر بطور مفہوم نازل ہوتا یا بطور نظارہ دکھایا جاتا اور بعد میں وہ اسے اپنے الفاظ میں بیان کرتے۔ محمد رسول اللہ صلعم کی یہ خصوصیت اس پیشگوئی میں بتائی گئی کہ وہ خدا تعالیٰ کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان کرینگے اور جو الفاظ وہ اپنے منہ سے خدا تعالیٰ کا منشاء بتانے کے لئے نکالیں گے وہ خود خدا تعالیٰ ہی کے الفاظ ہونگے پس فرمایا کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا یعنی باقی انبیاء کے تو دلو ںپر کلام نازل ہوتا تھا اور مُنہ تک آتے ہوئے وہ نبیوں کے کلام کے لباس میں ملبوس ہو جاتا تھا مگر محمد رسول اللہ صلعم کے دل پر بھی خدا تعالیٰ کا کلام اُتارا جائے گا اور منہ پر بھی وہی لفظ بعینہٖ جاری ہونگے جو خدا تعالیٰ نے کہے ہونگے اسی کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ ہے کہ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وِحْیٌ یُّوْحٰی (النجم ع ۱) محمد رسول اللہ اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کے منشاء کو الفاظ کا جامہ نہیں پہناتے بلکہ صرف وہی الفاظ وحی کے جو خدا تعالیٰ نے معین شکل میں ان کے دل پر نازل کئے ہیں دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں (د) آپؐ نے خدا تعالیٰ کے کلام کو نڈر ہو کر سنایا اور سارا کلام سنایا چنانچہ قرآن کریم کا وجود اس پر شاہد ہے شدید مخالفت آپؐ کی کی گئی اور کفار نے ہزار لالچ آپ کو دی کہ کسی طرح بعض حصے جو ان کے بتوں کے خلاف تھے حذف کر دیئے جائیں یا کمزور کر دیئے جائیں مگر آپؐ نے ذرا ان کی پروا نہیں کی اور خدا تعالیٰ کا کلام پورا کا پورا اصلی شکل میں لوگوں تک پہنچا دیا چنانچہ قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں ہے فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعْضَ مَایُوْحٰی اِلَیْکَ وَضَآئِقٌ بِہٖ صَدْرَکَ اَنْ یَّقُوْ لُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزً اَوْجَآئَ مَعَہٗ مَلَکٌ اِنَّمَا اَنْتَ نَذِیْرٌ وَاللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌo (ہود ع ۲) یعنی تیرے مخالف اس امر کی طمع رکھتے ہیں کہ شائد ان کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر تو اس وحی میں سے جو تجھ پر نازل کی گئی ہے کچھ چھوڑ دے اور شائد کہ تیرا سینہ ان کے اس اعتراض سے ڈر کر کہ کیوں اس کے ساتھ خزانہ نہیں اترا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ آسمان سے تائید کے لئے نہیں آیا بعض حصہ وحی کا چھوڑ دے مگر ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ تو ایک ڈرانے والا ہے۔ ڈرانے والا ان لوگوں سے کس طرح ڈر سکتا ہے جن کے متعلق تباہی کی خبر دی گئی ہے اور اللہ تو ہر چیز پر نگران ہے پھر اس کے حکم سے کوئی باہر کیونکر نکل سکتا ہے (اس آیت کی پوری تفسیر کے لئے دیکھو نمبر ۱۲ سورۂ ہود) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس امر پر شہادت دی اور لوگوں سے بھی دلوائی کہ آپؐ نے خدا تعالیٰ کا کلام سب کا سب دُنیا کو پہنچا دیا چنانچہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر جب آپؐ کو یہ قرآنی وحی ہوئی کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (مائدہ ع ۱) آج میں نے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے تو آپؐ نے تمام مسلمانوں کے سامنے دوبارہ مسلمانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور پھر فرمایا اَللَّھُمَّ ھَکْ بَلَّغْتُ اے لوگو خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر بتائو کیا میں نے خدا تعالیٰ کا حکم پوری طرح دنیا کو پہنچا دیا ہے یا نہیں؟ اس پر سب صحابہ یک زبان ہو کر بولے اَللّٰہُمَ نَعَمْ ہم اللہ تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح پہنچا دیا ہے اس پر آپ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ۔ اے خدا تو اس پر گواہ رہ کہ یہ سب لوگ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ تبلیغ کلام الٰہی کا کام میں نے پورا کر دیا۔ (سیرۃ ابن ہشام جلد سوم)
اس پیشگوئی کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ چونکہ موعود نبی خاتم النبین ہونے والا تھا اس پر جو دینی وحی ہو گی دُنیا کو پہنچانے کے لئے ہوگی تاکہ دین کا کوئی حصہ نامکمل نہ رہ جائے۔ اس سے پہلے کے نبیوں کا یہ حال نہ تھا ان پر دین کے بعض اسرار کھولے جاتے تھے مگر انھیں ان کے بتانے کی اجازت نہ ہوتی تھی کیونکہ ان کے زمانہ کے لوگ اس کے سمجھنے کے قابل نہ ہوتے تھے گو نبی کا ترقی یافتہ دماع اسے سمجھنے کے قابل نہ ہوتے تھے گو نبی کا ترقی یافتہ دماغ اسے سمجھنے کے قابل ہوتا تھا پس یہ کہنا کہ وہ نبی سب کچھ جو اسے کہا جائْ گا لوگوں سے کہہ دے گا اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کے زمانہ میں انسانی دماغ مکمل ہو چکا ہو گا اور آخری اور کامل شریعت جو تمام اسرار روحانی پر مشتمل ہوگی اسے دیدی جائیگی اور اسے حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنی امت کو سب باتیں سکھا دے کیونکہ وہ ان کے سننے کے اہل ہیں ان معنوں کی طرف انجیل میں بھی اشارہ ہے حضرت مسیح فرماتے ہیں ’‘میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تم سے کہوں۔ پر اب تم ان کی بردشات نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنے روح حق آوے توب وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی۔‘‘ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ و ۱۳) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیحؑ نے اپنی سب وحی لوگوں کو نہ سنائی کیونکہ وہ ان کے لئے خاص تھی ان کی امت اسے سمجھنے کے قابل نہ تھی لیکن انہوں نے یہ خبر دے دی کہ ان کے بعد ایک روح حق آئے گی وہ لوگوں کو سب باتیں سنا دیگی کیونکہ اس وقت لوگ سب باتوں کے سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے گویا وہ روح حق خاتم النبین کے مقام پر فائز ہو گی۔
(ہ) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ وہ آنے والا جو کچھ کہے گا خدا کا نام لے کر کہے گا اس طرح پورا ہوا ہے کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کی آیت رکھی گئی ہے جس کے معنے ہیں میں اللہ جو رحمن و رحیم ہے اس کا نام لے کر اس کلام کو پیش کرتا ہوں (د) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ اس کے منکر ہلاک ہونگے جس شان سے محمد رسول اللہ صلعم کی نسبت پورا ہوا ہے اس کے دشمن بھی معترف ہیں گو وہ اسے دنیوی سامانوں کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ایک خلافِ عقل و خلاف واقعہ اعتراض ہے (ر) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ جو شخص اس پیشگوئی کا جھوٹا مصداق بنے گا اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دے گا نہایت شان سے پورا ہوا باوجود اس کے کہ محمد رسول اللہ صلعم اکیلے تھے اور ان کے دشمنوں نے انہیں ہلاک کرنے کے لئے پورا زور لگایا وہ ہر میدان میں کامیاب ہوئے اور کوئی شخص انہیں نقصان نہ پہنچا سکا اور یہ امر اتفاقی طو رپر نہیں ہوا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کہدیا تھا اور دُنیا کو یہ حکم سنا دیا گیا تھا کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (مائدہ ع ۱۰)
آپکا دشمنوں کے منصوبوں سے غیر معمولی طور پر محفوظ رہنا ایک ایسا نشان ہے کہ بہت سے سخت دشمنو ںکی ہدایت کا موجب ہوا ہے چنانچہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ہند ابو سفیان کی بیوی فتح مکہ کے بع دجب دوسری عورتوں سے مل کر بیعت کرنے کے لئے آئی اور آپ نے عورتوں سے اقرار لیا کہہم شرک نہیں کرینگی اس پر ہند جوش سے بول پڑی کہ کیا ہم اب بھی شرک کر سکتی ہیں حالانکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ تو اکیلا تھا اور ہم لوگ ایک مضبوط جتھا تھے ہم نے اپنا سارا زور تجھے تباہ کرنے کے لئے خرچ کیا لیکن باوجود اس کے تجھے ہلاک نہ کر سکے اگر بتوں میں کوئی بھی طاقت ہوتی تو ہم تجھے تبہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے مگر نتیجہ الٹا نکلا ہم ہلاک ہوئے اور تو کامیاب (العروض الائف جلد دوم)
اب غور کرو کہ اگر بنو اسمٰعیل میں سے کوئی نبی شریعت کے ساتھ موسیٰ کے نقش قدم پر ظاہر نہ ہوتا اگر باوجود مخالفت کے وہ خدا کا کلام لوگوںکو نہ سناتا اور سب کا سب کلام نہ سناتا اور اس کے دشمن تباہ نہ ہوتے اور وہ باوجود شمنوں کے زور اور ان کی مخالفت کے کامیاب نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ اس کے منہ میں اپنا کلام نہ ڈالتا تو موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی اور اس کی سچائی کس طرح ثابت ہوتی پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نے موسیٰ علیہ السلام کو جھوٹ کے الزام سے بچایا اور ان کی تصدیق کا موجب ہوئی۔
تصدیق نمبر ۳
موسیٰ علیہ السلام نے ایک اور پیشگوئی کی تھی کہ ’’اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔‘‘
(استثناء باب ۳۳ آیت ۲) اس پیشگوئی میں تین آسمانی نشانوں کا ذکر ہے ایک سینا سے خدا تعالیٰ کے جلوہ گر ہونے کی جس سے حضرت موسیٰ ؑ کی ترقی کی طرف اشارہ ہے دوسرے شعیر سے خدا تعالیٰ کے طلوع کی اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور کی خبر تھی جو شعیر کے علاقہ میں ظاہر ہوئے۔
تیسرے الٰہی جلوہ کے ظہور کا مقام فاران بتایا گیا ہے اور اس جلوہ کی تفصیل پہلے دونوں جلووں کی تفصیل پہلے دونوں جلووں سے زیادہ بیان کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہاسی جلوہ کا ذکر اس جگہ اصل میں مقصود ہے۔ اس جلوہ کا مقام فاران بتایا گیا ہے اور اس جلوہ کے ظہور کی کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ دس ہزار قدوسیوں کی معیت میں وہ وہ گا۔ اور اس کی مزید خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ جس شخص کے ذریعہ سے وہ جلوہ ظاہر ہو گا اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ہو گی۔ یہ تینوں نشانیاں تمام و کمال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پائی جاتی ہیں آپؐ قرآن کریم کی واضح پیشگوئیوں کے مطابق جب کفار مکہ پر غالب آ کر مکہ میں داخل ہوئے تو فاران کی طرف سے ہی آپؐ کا داخلہ ہوا کیونکہ مدینہ اور مکہ کے درمیان میں فاران کی وادی واقع ہے اور جس وقت آپ مکہ پر حملہ آور ہوئے آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کا لشکر تھا اور آپ ایک آتشی شریعت دُنیا کے لئے لائے تھے یعنی جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے انسان کی بدیو ںاور اس کے گناہوں کو جلا دینے والی ہے اور اس لحاظ سے بھی وہ آتشی شریعت ہے کہ اس میں نہ صرف ماننے والوں کے لئے انعامات کے وعدے ہیں بلکہ منکرو ںاور شریروں کے لئے سزائوں کا بھی ذکر ہے۔
اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر نہ ہوتے انھیں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ کرنی پڑتی۔ اور پھر خدا تعالیٰ آپؐ کو دشمنوں پر غلبہ نہ دیتا آپؐ کے ہاتھ پر مکہ فتح نہ ہوتا آپؐ کیس اتھ اس وقت دس ہزار صحابہ نہ ہوتے آپؐ کے ہاتھ میں ایک کامل شریعت جو صرف مومنوں کے لئے ترقی کی خبر دینے والی نہ تھی بلکہ دشمنانِ حق کی سزائوں کی خبروں پر بھی مشتمل تھی نہ ہوتی تو استثناء باب ۳۳ آیت ۲ کی پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وحی کی تصدیق کس طرح ہوتی پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اس پیشگوئی کو پورا کرنے اور اسے سچا ثابت کرنے کا موجب ہو کر مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ ثابت ہوئی۔
تصدیق نمبر ۴
تصدیق نمبر ۴ حضرت سلیمان علیہ السلام کے الہام کی ہے حضرت سلیمان علیہ السلام غزل الغزلات میں فرماتے ہیں۔ ’’میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ دس ہزار آدمیو ںکے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے اور اس کا سر ایسا ہے جیسا چوکھا سونا اس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوے کی سی کالی ہیں اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو لب دریا دودھ میں نہا کے تمکنت سے بیٹھے ہیں اس کے رخسارے پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاری کی مانند ہیں اس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا امر ٹپکتا ہے اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میں ترسیس کے جواہر جڑے گئے اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم کے گل بنے ہوں۔ اس کے پیر ایسے جیسے سنگ مرمر کے ستون جو سونے کے پایوں پر کھڑے کئے جاویں اس کی قامت لبنان کی سی وہ خوبی میں رشک سروہے اس کا منہ شیرینی ہے ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیوں یہ میرا پیارا یہ میرا جانی ہے‘‘ (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۶) اس پیشگوئی میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بتایا ہے جو تاریخ سے سرخ و سفید ثابت ہے پھر فتح مکہ کا نقشہ کھینچا ہے اور بتیا ہے کہ آپؐ دس ہزار آدمیوں کے ساتھ فتح مندانہ اپنے ملک کو واپس آئینگے یہ دس ہزار آدمی وہی دس ہزار قدوسی ہیں جن کا ذکر استثناء باب ۳۳ کی پیشگوئی میں تصدیق نمبر ۳ میں گزر چکا ہے پھر آخر میں آپ کا نام بھی بتا دیا ہے یعنی محمد اس نام کو چھپانے کے لئے بائبل کے مترجموں نے اُردو میں عشق انگیز کے الفاظ لکھ دیئے ہیں لیکن عبرانی زبان کے اصل الفاظ جو اس جگہ ہیں اُن کا اردو ترجمہ یوں ہے ’’ہاں وہ محمدیم ہے محمدیم میں ی اور م ادب کیلئے بڑھائے گئے ہیں جیسے الوہ جس کے معنے خدا کے ہیں اسے بائبل میں بہت جگہ الوھیم لکھا جاتا ہے پس ہاں وہ محمدیم کے معنے ہیں ہاں وہ بزرگ محمد ہے چنانچہ اس پیشگوئی کی وجہ سے یہ دیکھتے ہوئے کہ کئی نشانات ظہور محمد کے ظاہر ہو چکے ہیں لوگ اپنے بچوں کے نام محمد رکھنے لگ گئے تھے چنانچہ مدینہ میں بھی کئی ایک شخص کا نام ان کے والدین نے محمد رکھے ہوئے تھے چنانچہ ان میں سے ایک محمد بن احیحہ بھی تھے جو صحابہ میں شمار ہوتے ہیں (اسد الغابہ جلد ۴) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نے اس پیشگوئی کی بھی تصدیق کی۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کا کلام نہ اُترتا تو سلیمان علیہ السلام کی یہ پیشگوئی جھوٹی جاتی۔
تصدیق نمبر ۵
’’وہ کس کو دانش سکھاوے گا کس کو وعظ کر کے سمجھاوے گا۔ ان کو جن کا دودھ چڑھایا گیا۔ جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے۔ کیونکہ حکم پر حکم۔ حکم پر حکم۔ قانون پر قانون قانوں پر قانون ہوتا جاتا۔ تھوڑا یہاں۔ تھوڑا وہاں۔ ہاں وہ وحشی کے سے ہونٹھوں اور اجنبی زبان سے اس گروہ کے ساتھ باتیں کرے گا۔ کہ اس نے اُن سے کہا کہ یہ وہ آرام گاہ ہے تم ان کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیء اور یہ چین کی حالت ہے پردے شنوانہ ہوئے سو خدا کا کلام ان سے یہ ہو گا حکم پر حکم حکم پر حکم۔ قانون پر قانون۔ قانون پر قانون۔ تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں۔ تاکہ دے چلے جاویں۔ اور پچھاڑی گریں اور شکست کھاویں اور دام میں پھنیں اور گرفتار ہوویں (یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۹ تا ۱۳) اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ایک زمانہ میں (۱) اسی قوم کے پاس آئے گا جو الہام کے دودھ سے محروم کر دی گئی اور جو اپنی والدہ سے جدا کئے گئے یعنی نبوت پانے کے بعد اس سے محروم کر دیئے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت آئے جب نبوت پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا تھا اور آپ نے بنی اسرائیل کو بھی مخاطب کیا جو الہام کے دودھ سے محروم کر دیئے گئے تھے اور نبوت کی چھاتیوں سے جدا کر دیئے گئے تھے۔ قرآن کریم میں آتا ہے یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ قَلجَآئَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلیٰ فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآئَ نَا مِنْ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ وَاللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (مائدہ ع ۳) یعنی اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے رسولوں کے ناغہ کے بعد وہ تمہارے فائدے کی باتیں بیان کرتا ہے تایہ نہ کہو کہ ہمارے پاس تو نہ کوئی خوشخبری دیے والا آیا نہ ڈرانے والا پس خوب سن لو کہ تمہارے پاس اب ایک خوشخبری دینے والابھی اور ڈرانے والا بھی آ گیا ہے۔ اور اللہ ہر امر پر خوب قادر ہے غرص اسی آیت میں یسعیاہ نبی کے ان الفاظ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ’’وہ کس کو دانش سکھائے گا کس کو وعظ کر کے سمجھا ویگا ان کو جن کا دودھ چھڑایا گیا جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے‘‘ (۲) دوسرے وہ کلام جو اس قوم کے لئے نازل ہو گا یکدم نازل نہ ہو گا نہ کسی ایک شہر میں نازل ہو گا بلکہ حکم پر حکم اور قانون پر قانون مختلف مقامات پر اُترینگے۔ قرآن کریم اسی طرح اُترا کچھ مکہ میں کچھ مدینہ میں کچھ سفروں میں حتٰی کہ دشمنوں نے اعتراض کیا کہ لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَّاحِدۃً (فرقان ع ۳) یعنی کیوں محمدیہؐ پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ نہ اُترا۔ اور باوجود یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مسیحی لوگ آج تک قرآن کریم پر یہ اعتراض کرتے جاتے ہیں اور اس طرح اپنی قلموں سے اس امر کا ثبوت مہیا کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مصداق تھے (۳) تیسرے وہ کلام ایک عرب کی زبان سے نایا جائے گا اور غیر زبان یعنی عربی زبان میں سنایا جائے گا کیونکہ وحشی کا لفظ عرب پر دلالت کرتا ہے اوپر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۲ کا حوالہ دیا جاچ کا ہے جس میں حصرت ہاجرہ کو اللہ تعالیٰ نے حصرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کی خبر دی تھی اس میں لکھا تھا ’’وہ (یعنی اسماعیل) وحشی آدمی ہو گا۔ پس وحشی حضرت اسماعیل ؑ کا نام ہے جو بائبل میں آتا ہے اور در حقیقت عرب کا ترجمہ ہے جو تعصب کی وجہ سے بنو اسرائیل نے وحشی کے لفظ سے کیا ہے ع ر ب کے معنے عربی زبان میں اظہار کے ہوتے ہیں اور عبر عربو ںکا نام اسی لئے ہے کہ وہ خیموں میں رہتے تھے ادب کے دلدادہ تھٖے اور نہاتی فصیح بلیغ کلام کرتے تھے خیموں اور بادیہ میں رہنپے کی وجہ سے ان کے مخالف بجائے خیموں میں رہنے والوں کے انہیں وحشی کہتے تھے بائبل نے بھی یہی طریق اختیاء کیا اور جہاں حضرت اسماعیل کا ذکر آیا وہاں بھی انہیں وحشی کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ اور جہاں ان کی اولاد میں سے آنے والے نبی کی ذکر آیا وہاں بھی بجائے یوں کہنے کے کہ وہ اسماعیل کی اولاد میں سے ہو گا یہ لکھ دیا کہ وہ وحشی کے ہونٹوں سے کلام کرے گا گو قرآن کریم عربی زبان میں ہے اور ہر اک کو نظر آتا ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی مگر پھر بھی یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتَابٌ مُوْسٰٓی اِمَا مًا وَّ َرحْمَۃً وَ ھٰذَا کِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِّیًا لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَ بُشْرٰی لِلْمُحْسِنِیْنَo(احقاف ع ۲) یعنی اس قرآن سے پہلے موسیٰ کی کتاب گذر چکی ہے یہ قرآن اس کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہے چنانچہ انہی پیشگوئیوں کے مطابق یہ عربی زبان میں اُترا ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور محسنوں کو بشارت دے اس جگہ قرآن کریم کا عربی زبان میں ہونا موسوی کتب کی تصدیق کا موجب قرار دیا ہے اس سے اشارہ کتاب پیدائش کی اس پیشگوئی کی طرف ہے جس میں حضرت اسماعیل کو وحشی یعنی عرب قرار دیا گیا ہے اور دوسرے استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی اس پیشگوئی کی طرف جس میں کہا گیا تھا کہ آیندہ شریعت والا کلام بنو اسحاق میں سے کسی فرد پر نہیں بلکہ ان کے بھائی بنو اسماعیل پر اُتارا جائْ گا اور ضممناً حضرت یسعیاہ کی پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ ہو گیا جو حضرت موسیٰ کے تابع نبی تھے اور جن کی مذکورہ بالا پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں بیان شدہ پیشگوئی کی مزید وضاحت تھی (۴) چوتھے یہ بتایا گیا تھا کہ وہ نبی یہود سے کہے گا کہ اس کا جائے رہائش آرامگاہ یعنی امن کا مقام ہے پس تم اُن کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیو۔ اس طرح تم چین سے رہو گے مگر یہود نبی کی است بات کو نہ مائینگے اور اسجگہ کو آرامگاہ نہ بننے دینگے اور تھکے ہوئوں کو تکلیف دیں گے یہ امر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ پر صادق آتا ہے آپؐ نے مدینہ منورہ کو جہاں یہود بھی رہتے تھے مکہ مکرمہ کی طرح امن کی جگہ قرار دیا اور یہود سے مدینہ منورہ کو با امن رکھنے کے لئے معاہدہ کیا (سیرت حلبیہ جلد ۲) لیکن انھوں نے تھکے ہوئوں کو یعنی مہاجرین کو جو دُور سے سفر کر کے آئے تھے آرام سے نہ رہنے دیا اور مطابق پیشگوئی خود بھی چین نہ پایا (۵) پانچویں اس پیشگوئی میں تھا۔ حکم پر حکم نازل ہو گا ’’تاکہ دے چلے جاویں اور پچھاڑی گریں اور شکست کھاویں اور دام میں پھنسیں اور گرفتار ہوویں‘‘۔ یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پوری ہوئی۔ یہود نے جب تھکے ہوئوں کو آرام میں نہ رہنپے دیا تو وہ چلے بھی گئے یعنی کچھ ان میں سے مدینہ سے جلاوطن کئے گئے وہ ’’پچھاڑی بھی گرے‘‘ یعنی بعض قتل بھی کئے گئے انہوں نے شکست بھی کھائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور دام میں پھنسے اور گرفتار بھی ہوئے بعض ان میں سے غلام بھی بنائے گئے۔
یہ کیسی واضح پیشگوئی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کتاب عَرَبِّیٌ مُّبِیْنٌ نازل نہ ہوتی اور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کی اس طرح تصدیق نہ ہوتی تو یسعیاہ جھوٹے قرار پاتے لیکن قرآن کریم کے ذریعہ سے ان کی پیشگوئی پوری ہو کر ان کے کلام کی تصدیق ہو گئی۔
تصدی نمبر ۶
یہی یسعیاہ نبی فرماتے ہیں ’’باوجود اس کے خداوند یہودا یوں فرماتا ہے دیکھو میں صیحون میں بنیاد کے لئے ایک پتھر رکھونگا ایک آزمایا ہوا پتھر کونے کے سرے کا ایک مہنگ مولا ایک مضبوط نیو والا پتھر اس پر جو ایمان لاوے اتاولی نہ کرے گا ‘‘ (یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۱۶) حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہو گیا ہے یہ خداوند سے ہوا جو ہماری نظروں میں عجیب ہے‘‘ (زبور ۱۱۸۔ آیت ۲۲ و ۲۳) پھر فرماتے ہیں ’’مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے ہم خداوند کے گھر میں سے تم کو مبارک بادی دیتے ہیں‘‘ (آیت ۲۶) پھر اسی بارہ میں دانیال علیہ السلام پر الہام نازل ہوا اس کا قصہ یوں ہے کہ بنو کد نضر بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جسے وہ بھول گیا اس نے اپنے منجموں سے اس کا حال پوچھا مگر انہوں نے بھولی ہوئی خواب کی تعبیر بتانے سے معذوری ظاہر کی اس پر بادشاہ نے ان کے قتل کا حکم دیا دانیال نبی جو یروشلم سے لائے ہوئے قیدیوں میں سے تھے انہوں نے یہ حال سنا تو اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور اس نے ان کو خواب اور اس کی تعبیر بتا دی اس پر انہوں نے بادشاہ سے خواب اور اس کی تعبیر بتانے پر آمادگی ظاہر کی اور مندرجہ ذیل الفاظ میں خواب اور اس کی تعبیر بتائی ’’تو نے اے بادشاہ نظر کی تھی اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اس کی صورت ہیبت ناک تھی اس مور ت کا سر خالص سونے کا تھا اس کا سینہ اور اس کے بازو چاندی کا۔ اس کا شکم اور رانیں تانبے کی تھیں اس کی ٹانگیں لوہے کی۔ اور اس کے پائوں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے اور تو اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے نکلا جو اس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تب لوہا اور ٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کے مانند ہوئے اور ہوا انہیں اُڑا لے گئی یہاں تک کہ ان کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اس مورت کو مارا ایک بڑا پہام بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا وہ خواب یہ ہے اور اس کی تعبیر بادشاہ کے حضور بیان کرتا ہوں تو اے بادشاہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس لئے کہ آسمان کے خدا نے تجھٖے ایک بادشاہت اور توانائی اور قوت اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کر دیئے اور تجھے ان سبھوں کا حاکم کیا۔ تو ہی وہ سونے کا سر ہے اور تیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہو گی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کریگی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہو گی اور جس طرح کہ لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے ہاں لوہے کی طرح سے جو سب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اسی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی اور جو کہ تُو نے دیکھا کہ اس کے پائوں اور انگلیاں کچھ تو کمہار کی ماٹی کی۔ اور کچھ لوہے کی تھیں سو اس سلطنت میں تفرقہ ہو گا۔ مگر جیسا کہ تو نے دیکھا کہ اس میں لوہا گلاوے سے ملا ہوا تھا۔ سو لوہے کی توانائی اس میں ہو گی اور جیسا کہ پائوں کی انگلیاں کچھ لوہے کی اور کچھ ماٹی کی تھیں۔ سو وہ سلطنت کچھ قوی کچھ ضعیف ہو گی اور جیسا تو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے آپ کو انسان کی نسل سے ملا دینگے لیکن جیسا لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیساوے باہم میل نہ کھاوینگے اور ان بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہو ویگی اور ان سب مملکتو ںکو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تا ابد قائم رہے گی جیسا کہ تو نے دیکھا کہ وہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے اس کو پہام سے کاٹ نکالے آپ سے نکلا اور اس نے لوہے اور تانبے اور مٹی او رچاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا خدا تعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یققینی ہے اور اس کی تعبیر یقینی‘‘ (دانیال باب ۲ آیت ۳۱ تا ۴۵) ان تین انبیاء کی بتائی ہوئی خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک روحانی بادشاہ کا ظہور ہونے والا تھا جس نے کونے کے پتھر کی حیثیت پانی تھی یعنی وہ روحانی سلسلہ کا آخری وجود ہونے والا تھا۔ وہ پتھر بڑا قیمتی ہو گا مضبوط نے والا۔ جو اس پر ایمان لائینگے صاحب وقار ہونگے اور جلد باز نہ ہوں گے وہ پتھر ایسا ہو گا جسے معماروں نے رد کیا ہوا ہو گا وہ زبردست بادشاہوں کو کچل ڈالے گا وہ ان گھڑ پتھر ہو گا اور کسی انسان کے ہاتھ نے اسے نہ گھڑا ہو گا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اس پیشگوئی کا ذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ ’’ایک اور تمثیل سنو۔ ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اس کی چاروں طرف روندھا اور اس کی بیچ میں کھود کے کو لہوگاڑ اور برج بنایا اور باغبان کو سونپ کے آپ پردیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا اس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں پاس بھیجا کہ اس کا پھل لادیں پر ان باغبانو ںنے اس کے نوکروں کو پکڑ کے ایک کوپیٹا اور ایک کو مار ڈالا اور ایک کو پتھرائو کیا۔ پھر اس نے اور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کے تھے بھیجا انہوں نے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا آخر اس نے اپنے بیٹے کو ان کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے لیکن جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا آپس میں کہنے لگے وارث یہی ہے آئو اسے مار ڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہو جائے اور اسے پکڑ کے اور انگورستان کے باہر لے جا کر قتل کیا جب انگورستان کا مالک آوے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا وے اے بولے ان بدوں کو بری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اسے موسم پر میوہ پہنچاویں یسوع نے انہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راج گیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کے میوہ لا دے دی جائیگی‘‘۔ (متی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۳) اس حوالہ میں حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک تمثیل دی ہے اور بتایا ہے کہ بنی اسرائیل نے بہت سے نبیوں کا انکار کیا آخر خدا تعالیٰ نے ایک ایسے نبی کو بھیجا جو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا یعنی خود مسیح علیہ السلام لیکن بنی اسرائیل ان کا بھی انکار کریں گے اور انہیں قتل کریں گے یعنی قتل کرنے کی کوشش کرینگے جیسا کہ دوسرے حوالوں سے جو اپنے وقت پر بیان ہونگے ثابت ہے) اس پر ایک ایسا نبی آئے گا جو خدا تعالیٰ کا ظہور کہلائے گا اور وہ کونے کا پتھر ہو گا اس کی آمد پر بنی اسرائیل کو مکمل سزا دی جائے گی اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت ایک ایسی قوم کے سپرد کی جائے گی جو خدا تعالیٰ کو وقت پر میوہ پہنچائیں گے یعنی خدا تعالیٰ کے احکام کو پوری طرح بجا لائیں گے وہ پتھر اس شان کا ہو گا جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا اور جو اس پر گرے گا وہ بھی چور چور ہو گا۔
یہ پیشگوئیاں جن کے بیان کرنے میں چار نبیوں نے حصہ لیا ہے یعنی دائود۔ یسعیاہ دانیال اور حضرت مسیحؑ ایسی واضح طور پر رسوال کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری ہوتی ہیں کہ سوائے تعصب سے اندھے شخص کے کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا آپ بنو اسماعیل میں سے تھے جن کو بنو اسحاق نے ہمیشہ رد کیا اور ابراہیم ؑ کی برکتوں سے ہمیشہ محروم رکھنے کی کوششیں کیں آپ نے خود دعویٰ فرمایا کہ میں کونے کا پتھر ہوں چنانچہ آپ فرماتے ہیں مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآئِ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بُنْیَانًا فَاَ حْسَنَہٗ وَاَجْمَلَہٗ فَجَعَلَ النَّاسُ یُطِیْفُوْنَ بِہٖ یَقُوْلُوْنَ مَارَئَ یْنَا بُنْیَانًا اَحْسَنَ مِنْ ھٰذَا اِلَّا ھٰذِہِ اللَّبِنَۃَ فَکُنْتُ اَنَا تِلْکَ اللَّبِنَۃَ (مسلم جلد ۴ کتاب الفضائل) یعنی میرا اور دوسرے انبیاء کا حال یُوں ہے کہ جیسے کسی نے ایک عمدہ اور خوبصورت محل تیار کیا پھر لوگ کثرت سے اسے دیکھنے کے لئے آنے لگے اور کہتے تھے کہ ہم نے اس سے عمدہ محل کوئی نہیں دیکھا ہاں یہ کونہ اس کا ننگا ہے پھر خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا اور میں وہ کونے کا پتھر ہوں۔ آپؐ کا وجود نہایت قیمتی وجود تھا اور آپ کی بنیاد مضبوط جیسا کہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ باوجود دُنیا کی شدید مخالفت کے تیرہ سو سال سے آپؐ کے مقام کو کوئی نہیں ہلا سکا۔ آپؐ کے صحابہ مسیح کے حواریوں کی طرح جلد بازی کرنے والے نہ تھے بلکہ نہایت صاحبِ وقار تھے مسیح کے حواریوں کا تو یہ حال تھا کہ جب مسیحؑ کو رومی سلطنت نے پکڑا تو وہ ان کا انکار کر بیٹھے اور تتر بتر ہو گئے (متی باب ۲۶ آیت ۵۶۔ ۷۰۔ ۷۲۔ ۷۴) مگر آپؐ کے صحابہ نے خطرناک مواقع پر کہا کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑینگے بائیں بھی اور آگے بھی لڑینگے پیچھے بھی اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے قرآن کریم ان کی شان میںفرماتا ہے وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّ اِذَا خَا طَبَھُمُ الْجَا ھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا (فرقان ع ۶) یعنی محمد رسول اللہ پر ایمان لانے والے اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ زمین پر بڑے اطمینان سے چلتے ہیں اور جلد بازی سے کام نہیں لیتے اور جب جاہل لوگ ان کو گالیاں دیتے ہیں تو وہ غصہ میں آ کر گالیاں نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہم تو تمہاری سلامتی چاہتے ہیں پھر فرماتا ہے وَ اِذَا مَرُّوْا بِا للَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا (فرقان ع ۶) یعنی جب وہ لہو ولعب کے امور کے مواقع کے پاس سے گزرتے ہیں تو دنیوی لذات سے متاثر ہو کر ان میں شامل نہیں ہو جاتے جیسے کہ مسیح کی اُمت ہے کہ ذکر الٰہی کو بُھول کر ناچ گانے اور موسیقی میں مشغول ہو گئی ہے بلکہ وہ اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے اُخروی زندگی کی طرف جس کے پھل دیر سے ملتے ہیں آگے بڑھ جاتے ہیں۔
پھر اس کونے کے پتھر کی شان یہ بتائی تھی کہ اس کا آنا خدا تعالیٰ کا آنا کہلائے گا اور وہ خدا تعالیٰ کے نام پر آئے گا۔ مسیح علیہ السلام نے اس کی مزید تشریح یہ کر دی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے نام پر آنے والا خدا کا بیٹا کہلانے والے کے بعد آئے گا چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد تشریف لائے اور آپ کا آنا خدا کا آنا کہلایا۔ چنانچہ آپؐ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَا یِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَا یِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ (فتح ع ۱) یعنی وہ لوگ جو تیرے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں تیرا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے۔
ان الفاظ میں کہ آپ کا آنا خدا کا آنا ہے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ آپ مثیل موسیٰ ہونگے کیونکہ حضرت موسیٰ کی نسبت آتا ہے کہ وہ خدا کی مانند تھا۔ چنانچہ خروج باب ۷ آیت ۱ میں ہے کہ ’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا۔ دیکھ میں نے تجھٖے فرعون کے لئے خدا سا بنایا‘‘ پس خدا کے مانند ہونے کے معنے دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ وہ مثیل موسیٰ ہو گا اور اس طرح گویا استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پھر اس پیشگوئی میں ہے کہ وہ پتھر جس پر گرے گا اسے پیش ڈالے گا اور جو اس پر گرے گا چور چور ہو گا سو ایسا ہی آپ سے ہوا۔ باوجود انتہائی غربت اور کمزوری کے ساری قوموں سے آپؐ کی لڑائی ہوئی اور آپؐ کامیاب رہے حضرت مسیح علیہ السلام نے تو آپؐ کی جنگوں کا نقشہ ہی کھینچ دیا ہے یعنی فرماتے ہیں۔ ’’جو اس پتھر پر گرے گا وہ چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا‘‘ یعنی اس کی جنگوں کی یہ کیفیت ہو گی کہ پہلے دشمن اس پر حملہ کرے گا اور سخت نقصان اٹھاتا رہے گا بعد میں وہ دشمن پر حملہ کرے گا اور اسے تباہ کر دے گا اسی طرح آپ سے ہوا کہ پہلے آپ کے دشمن آپ پر حملہ کرتے رہے اور چور ہوتے رہے بعد میں آپ نے حملہ کیا اور ان کی شوکت کو بالکل توڑ دیا۔ دانیال نبی نے یہ خبر بھی دی تھی کہ اس کی جنگ اپنی ہی قوم سے نہ ہو گی بلکہ اس کے زمانہ کی زبردست حکومتوں سے بھی ہو گی اور وہ بھی اس کے ہاتھوں تباہ ہونگی چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں آپ کی پیشگوئی کے مطابق قیصر کی حکومت تباہ ہوئی دانیال نبی نے اس حکومت کے مذہب کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے فرماتے ہیں ’’اور جیسا تو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے کو انسان کی نسل سے ملا دیں گے لیکن جیسے لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیسا وے باہم میل نہ کھائیں گے‘‘ (دانیال باب ۲ آیت ۴۳) اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ قوم ایک ایسے مذہب سے وابستہ ہو گی جس میں داخل ہونے کا اسے حق نہ ہو گا کیونکہ یہ فرمانا کہ وہ قوم اپنے آپ کو انسان کی نسل سے ملاویگی۔ اس سے یہ مراد تو نہیں ہوسکتی کہ وہ انسان نہ ہونگے کیونکہ انسان ہونا تو ان کا ظاہر ہے پس اس کے کوئی معنے کرنے پڑینگے اور وہ معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ابن آدم سے ملانے کی کوشش کرینگے یعنی مسیح علیہ السلام سے لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہو گا کیونکہ ابن آدم یعنی مسیح تو صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے گا غیر قوموں کو اس کے مذہب میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہ ہوگی جیسے کہ خود مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں ’’میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی پاس نہیں بھیجا گیا‘‘ (متی باب ۱۵ آیت ۲۴) اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے جب اپنے بعض حواریوں کو مبلغ بنا کر بھیجوایا تو انہیں مندرجہ ذیل الفاظ میں حکم دیا۔ ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۵) پس رومی لوگ جو اپنے آپ کو مسیحی کہتے تھے ان کی مثال ایسے وجود کی تھی جو اپنے آپ کو ایسی نسل میں شامل کرتا ہے جس میں وہ شامل ہونے کا حق نہیں رکھتا اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ انسان سے مراد مسیح ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نام بار بار انجیل میں ابن آدم آتا ہے چنانچہ متی باب ۲۴ آیت ۲۷ میں لکھا ہے ’’جیسے بجلی پورب سے کوندھ کے پچھم تک چمکتی ویسا ہی ابن آدم کا آنا بھی ہو گا‘‘ پس انسان سے مراد اس جگہ ابن آدم کے ساتھ اپنے آپ کو منسوب کرنا ہے۔
پھر لکھا تھا کہ وہ ان گھڑ پتھر ہو گا اس سے مراد یہ تھی کہ وہ پڑھا لکھا نہ ہو گا اور انسانوں نے اسے تعلیم نہ دی ہو گی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے اور قرآن کریم نے اس پیشگوئی کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے اَلَّذِیْنَ یِتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَ ھُمْ فِی التَّوْرٰلۃِ وَالْاِ نْجِیْلِ (اعراف ع ۱۰۹) یعنی وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اس رسول نبی اور امی کی جس کا ذکر تورات اور انجیل میں موجود ہے اس آیت میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تورات اور انجیل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تین ناموں سے کیا گیا ہے۔ر سول کے نام سے نبیکے نام سے۔ اور امی یعنی ان پڑھ کے نام سے اور جیسا کہ اوپر کے حوالجات میں بتایا گیا ہے عہد نامہ قدیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان گھڑے پتھر کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور انجیل نے اس پیشگوئی کی تصدیق کی ہے اور گویا عربی زبان کے محاورہ کے مطابق آپ کے امی ہونے کی خبر دی ہے۔
بعض لوگ اس پیشگوئی کو نادانی سے مسیح ناصری پر چسپان کرتے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ مسیح ان پڑھ نہ تھا اس کے انسان اُستاد تھے چنانچہ لکھا ہے ’’تب یسوع جلیل سے یردن کے کنارے یوحنا کے پاس آیا تاکہ اس سے ہتپسمہ پاوے‘‘ (متی باب ۳ آیت ۱۳) پھر لکھا ہے ’’اور یسوع بپتسمہ پا کے وہیں پانی سے نکل کے اوپر آیا‘‘ (آیت ۱۶) پس مسیح نے نہ صرف مادی تعلیم پائی بلکہ رُوحانی تعلیم کے لئے بھی وہ یحییٰ ؑ کا شاگرد ہوا پس وہ امی نہیں کہلا سکتا اور اس پیشگوئی کے مصداق کے لئے امی ہونے کی شرط ہے نیز مسیح میں یہ بات بھی پائی نیں جاتی کہ جو اس پر گرے چور چور ہو جائے اور جس پر وہ گرے اسے نیست کر دے لوگ مسیح پر گرے اور اسے ایذاء دی اور اسے کسی پر گرنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔
اب اگر یہ پیشگوئیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری نہ ہوتیں تو دائود۔ یسعیاہ۔ دانیال۔ اور مسیح علیہ السلام سب کے سب نعوذ باللہ من ذالک جھوٹے قرار پاتے۔ پس ان پیشگوئیوں کو پورا کر کے قرآن کریم نے ان انبیاء کے کلام کی تصدیق کی ہے۔
تصدیق نمبر ۷
کتاب اعمال میں لکھا ہے ’’پس توبہ کرو اور متوجہ ہو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں تاکہ خداوند کے حضور سے تازگی بحش ایام آویں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی ضرور ہے کہ آسمان اسے لئے رہے اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آویں کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھاویگا جو کچھ وہ تمہیں کہے اس کی سب سنو اور ایسا ہو گا کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا بلکہ سب نبیوں نے سموایل سے لے کے پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی ہے تم نبیوں کی اولاد اور اس عہد کے ہو جو خدا نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابرھام سے کہا کہ تیری اولاد سے دُنیا کے سارے گھرانے برکت پاویں گے تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے پھیر کے برکت دے‘‘ (اعمال باب ۳ آیت ۱۹ تا ۲۶) یہ پیشگوئی اعمال میں ہے لیکن ظاہر ہے کہ پیشگوئی بہرحال حضرت مسیح علیہ السلام نے کی ہو گی کیونکہ حواری انہی کے اقوال کو نقل کرتے ہیں اور مسیحیوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ حواری جو کچھ کہتے تھے مسیح کے روحانی اثر کے نیچے کہتے تھے اسی وجہ سے حواریوں کے اعمال و اقوال کو انہو ںنے الہامی نوشتوں میں جگہ دی ہے اور بائبل کا حصہ قرار دیا علاوہ ازیں جیسا کہ تصدیق نمبر ۶ میں بیان کیا جا چکا ہے حضرت مسیح علیہ السلام نپے دوسرے لفظوں میں اس پیشگوئی کو بیان کیا ہے پس جو کچھ اعمال کے حوالہ میں کہا گیا ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ حصرت مسیح علیہ السلام کا کہا ہوا ہے۔
اس حوالہ میں مندرجہ ذیل امور بیان ہوئے ہیں (۱) مسیح علیہ السلام دبارہ دُنیا میں نازل نہ ہونگے جب تک کہ وہ پیشگوئی موسیٰ کی پوری نہ ہو لے کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ایک نبی موسیٰ کی مانند آئے گا (۲) موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ سمو ایل سے لے کر آخر تک سب نبیوں نے اس آنے والے کی خبر دی ہے (۳) مسیح اوّل کی آمد اس نبی کے لئے بشارت دینے والے کی تھی کیونکہ لکھا ہے تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم کو اپنی بدیوں سے پھیر کے برکت دے۔
میں اوپر ثابت کر آیا ہوں کہ موسیٰ کی مانند نبی یا انجیل کے محاورہ کے مطابق وہ نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے پس اس پیشگوئی میں جو کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ مسیح آسمان پر ہی رہے جب تک سب پیشگوئیاں خصوصاً مثیل موسیٰ کے آنے کی پیشگوئی پوری نہ ہو جائے۔ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر دی گئی تھی نیر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح کی پہلی آمد اسلئے تھی کہ تا وہ اس نبی کے لئے راستہ صاف کریں اور لوگوں کے دلوں کو گناہوں سے صاف کر دیں تا وہ اس پر ایمان لائیں کیونکہ لکھا ہے خدائے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا۔ یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ مسیح کی آمد بطور ایک مبشر کے تھی اور غرض یہ تھی کہ کچھ لوگوں کے دل صاف ہو جائیں اور یہودیت کی سختی ان کے دلو ںپر سے جاتی رہے اور ایسا ہی ہوا قرآن کریم فرماتا ہے لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَا وَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَ بَھُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَّ اَنَّھُمْ لَایَسْتَکْبِرُوْنَo وَ اِذَا سِمِعُوْا مَٓا اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَ فُوْا مِنَ الْحَقِّ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَo (مائدہ ع ۱۱) یعنے مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تو یہود کو پائے گا اسی طرح مشرک لوگوں کو اور مسلمانوں سے محبت کرنے میں سب سے زیادہ قریب تو ان لوگوںکو پائے گا جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں یہ اس لئے ہے کہ ان میں پادریوں اور زاہدوں کا گروہ پایا جاتا ہے اور اس لئے بھی کہ ان میں فروتنی پائی جاتیہے اور اس جب وہ اس کلام کو جو ہمارے اس رسول پر نازل ہوا ہے سنتے ہیں تو اس وجہ سے کہ انہوں نے سچ کو پہچان لیا ہے تجھے ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں اے رب ہم ایمان لے آئے ہمارا نام بھی گواہوں میں لکھ لے۔
غرض قرآن کریم بھی مسیح کی اس پیشگوئی کی تصدیق کرتا ہے کہ مسیح نے پہلے آ کر بہتوں کے دلو ںکو گناہوں سے پھیر دیا اور انہیں برکت دی حتٰی کہ وہ اس نبی کو جو موسیٰ کی مانند تھا ماننے کے قابل ہو گئے۔
اوپر کی پیشگوئی کو پورا کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح اور سمو ایل سے لے کر آخر تک کے سب نبیوں کی تصدیق کی۔ اگر آپؐ نہ آتے تو یہ سب کے سب بھوٹے ٹھہرتے۔
پیشگوئیاں تو بہت ہیں جن کو پورا کر کے آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے انبیاء کے کلام کی تصدیق کی ہے مگر میں اس موقعہ پر اس پر بس کرتا ہوں انہی مثالوں سے ہر غیر متعصب اس امر کو سمجھ سکے گا کہ قرآن کریم کا بنی اسرائیل سے یہ کہنا کہ وَ اٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ کیسا سچا دعویٰ ہے قرآن کریم بنی اسرائیل کی کتب کی خبروں کو پورا کرنے والا ہے بنی اسرائیل میں سے جو کوئی اس کا انکار کرتا ہے وہ اس کا انکار نہیں کرتا وہ اپنی کتب کا انکار کرتا ہے جنہوں نے اس کے ظہور کی خبر دی تھی۔
بعض مسیحی مصنف اس آیت کی نسبت اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قرآن کریم نے اس آیت میں یہ اعلان کیا ہے کہ جو کچھ تمہاری موجودہ کتب میں لکھا ہے وہ سب سچ ہے اور یہ معنے کر کے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ جبکہ قرآن کریم کے نزدیک موجودہ بائبل درست ہے تو پھر قرآن کریم جھوٹا ہوا کیونکہ وہ موجودہ بائبل کے خلاف مضامین بیان کرتا ہیں میری سمجھ میں یہ ذہنیت کبھی بھی نہیں آتی کہ چونکہ الف باء کو سچا کہتا ہے اس لئے وہ جھوٹا ہے یہ تو گویا احسان کا بدلہ ظلم سے دینا ہے مگر جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں۔ اس آیت کے وہ معنے ہیں ہی نہیں جو یہ پادری صاحب کرتے ہیں انہیں تصدیق کے لفظ سے دھوکا لگا ہے حالانکہ تصدیق کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے کسی کو سچا کہنے کے معنوں میں بھی اور اس کی بات کو پورا کرنے کے معنو ںمیں بھی۔ اور یہاں وہ دوسرے معنے ہیں قرآن کریم دوسری جگہ فرماتا ہے وَاِذْ اُخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٰنَ لَمَٓا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبِ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَئَ اَقْرَرْ تَمْ وَاَخَذْ تُمْ عَلیٰ ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُٓوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّن الشّٰھِدِیْنَo فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُ ولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَo (آل عمران ع ۹) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ فرماتے ہوئے پختہ عہد لیا کہ میرے تم کو کتاب اور حکمت دینے کے بعد جو ایسا رسول آئے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ اس کا مصدق ہو تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا پھر فرمایا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس بارہ میں مجھ سے پختہ عہد باندھتے ہو انہوں نے جواب میں کہا کہ ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اس پر فرمایا کہ اب تم بھی گواہ رہو اور میں بھی تمہارا گواہ رہونگا اور یہ بھی یاد رکھو کہ اب اس عہد کے بعد جو لوگ اس سے پھر جائینگے وہ فاسقوں میں سے گنے جائینگے۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک تمام انبیاء کو ایک ایسے نبی کے آنے کی خبر دی گئی تھی جو سب انبیاء کی کتب کی تصدیق کرے گا اور اس پر ایمان لانا سب قوموں کے لئے ضروری ہو گا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نبیوں کے متعلق فرماتا ہے۔ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) کوئی قوم ایسی نہیں گزری کہ اس میں نبی نہ آیا ہو پھر اس کے بعد فرمایا ہے وَالَّذِیْٓ اَوحَیْنَآ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتْبِ ھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ اِنَّ اللّٰہ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ بَصِیْرٌo (فاطر ع ۴) یعنی جو کتاب اللہ تعالیٰ نے تجھ پر وحی سے نازل کی ہے وہ ساری کی ساری حق ہے اور اس سے پہلے جس قدر و حیاں نازل ہو چکی ہیں سب کی مصدق ہے اور اللہ تعالیٰ یقینا اپنے بندوں سے خبردار اور ان کے حال کا دیکھنے والا ہے ان آیات کو پہلی آیت کے ساتھ ملا کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی سب دُنیا میں اور ہر قوم میں آوے ہیں اور یہ کہ اس آیت کا موعود نبی ہر نبی کی کتاب کا مصدق ہو گا اور ہر نبی کی امت کو اس پر ایمان لانا ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس قسم کی تصدیق قرآن کریم بائبل کی کرتا ہے ویسی ہی تصدیق وہ دیدوں کی بھی کرتا ہے اور ویسی ہی تصدیق وہ ژند کی بھی کرتا ہے اور ویسی ہی ان تمام نبیوں کی کتب کی جو دُنیا کے کسی گوشہ میں گذرے ہوں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب کتب کی موجودہ شکلو ںمیں شدید اختلاف ہے اگرانہیں موجودہ شکل میں درست قرار دیا جائے تو چونکہ وہ ایک دوسرے کی مکذب ہیں مذہب کا کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ او رہم انہیں موجودہ شکل میں خدا تعالیٰ کیکتاب کہہ کر گویا خود ان نبیوں کی تکذیب کرتے ہیں جن کی طرف وہ منسوب ہیں مثلاً کیا ہم موجودہ تورات کو کلی طور پر موسیٰ ؑ کا الہام کہہ سکتے ہیں اس میں تو یہ لکھا ہے ’’سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سر زمین میں مر گیا اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘ (استثناء باب ۳۴ آیت ۵ و ۶) پھر لکھا ہے۔ ’’اور نون کا بیٹا یشوع دانائی کی روح سے معمور ہوا کیونکہ موسیٰ نے اپنے ہاتھ اس پر رکھے تھے اور بنی اسرائیل اس کے شنوا ہوئے اور جیسا خداوند نے موسیٰ کو فرمایا تھا انہو ںنے ویسا ہی کیا۔ اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اُٹھا جس سے خداوند آمنے سامنے آشنائی کرتا۔‘‘ (استثناء باب ۳۴ آیت ۹ و ۱۰) ان آیات سے طاہر ہے کہ یہ موسیٰ کی وفات کے لمبے عرصہ بعد لکھی گئی ہیں بلکہ اس وقت جبکہ موسیٰ کی قبر کا نشان تک مٹ گیا تھا اور بہت سے نبی بنی اسرائیل میں آ چکے تھے کیونکہ لکھا ہے اب تک موسیٰ کی مانند نبی بنی اسرائیل میں کوئی نہیں آیا۔ کیا کوئی عقلمند مان سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ اپنی وفات کے سینکڑوں سال بعد دوبارہ دُنیا میں آئے تھے اور یہ الفاظ اپنی کتاب میں بڑھا گئے تھے اگر ایسا نہیں بلکہ کسی اور ہاتھ نے صدیوں بعد موسیٰ کی کتاب کے آخر میں یہ الفاظ بڑھا دیئے تھے تو کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے اور کیا کیا اس کتاب میں نہ بڑہا دیا ہو گا پھر قرآن کریم کی تصدیق ہم کس کس آیت پر چسپان کریں اور کیونکر معلوم کریں کہ اس مخرف کتاب میں کہ جسے آج بائبل کے اپنے علماء بھی بہت سے ہاتھوں اور بہت سے زمانوں کا لکھا ہوا بتاتے ہیں کونسا کلام خدا کا ہے جس کی ہم تصدیق کریں۔ او رکونسا انسانوں کا ہے کہ جسے ہم رد کرنے کے مجاز ہوں۔
اسی طرح انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے کہا کہ ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے‘‘ (متی باب ۱۶ آیت ۲۸) لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ سب لوگ مر گئے اور اس وقت تک ان کی سوسو پشت مر چکی ہے مگر مسیحیوں کے نزدیک ابھی تک ابن آدم اپنی بادشاہت میں نہیں آیا اگر مسیح کی آمد سے اس کی قوم کی ترقی مراد لی جائے تب بھی یہ بات غلط ہوئی کیونکہ مسیحیوں کو ترقی تین سو سال واقعہ صلیب کے بعد ملی اور اس وقت تک ایک آدمی بھی مسیح کے زمانہ کا زندہ نہ تھا اب یہ پادیر صاحبان جو تصدیق کے معنے اس کے سچا ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ ہمیں بتائیں کہ قرآن کریم اس قسم کی باتو ںکی کس طرح تصدیق کر سکتا ہے۔
بڑی بات تو یہ ہے کہ مسیحی صاحبان کے نزدیک اناجیل میں مسیح کی خدائی اور اقنون ثلاثہ کا ذکر ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلَاثَۃٍ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّاِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (مائدہ ع ۱۰) یعنی وہ لوگ جو کہتے ہیں اللہ تین اقنوم میں سے ایک اقنوم ہے (یعنی نصاریٰ) وہ کافر ہیں اور حق یہی ہے کہ دُنیا کا معبود صرف ایک ہی ہے اور اگ ریہ شرک کرنے والے لوگ اپنے شرک سے رکیں گے نہیں تو جو ان میں سے کفر پر اصرار کریں گے انہیں درد ناک عذاب پہنچے گا۔ یہ آیت اور ایسی ہی او ربہت سی آیات صاف بتاتی ہیں کہ قرآن کریم اس انجیل کا یقینا مصدق نہیں جسے مسیحی لوگ پیش کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم انجیل کے اس مفہوم کا ہر گز مصدق نہیں جسے آج کل کے مسیحی لوگ پیش کرتے ہیں پھر ان معنوں سے مسیحی لوگ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ تصدیق انسانوں کی دو طرح ہوتی ہے۔ اوّل یہ کہ کسی انسان کو راستباز کہا جائے دوم یہ کہ اس کی کسی بات کو سچا ثابت کر دیا جائے خواہِ زبان سے مثلاً کہا جائے کہ اس قول میں یہ سچا ہے یا فعل سے کہ عملاً اس کے قول کی تصدیق کی جائے مثلاً اس نے اس کے متعلق کسی کام کے کرنے کی خبر دی ہو اور یہ وہ کام کر دے لیکن کتب سماویہ کی تصدیق تین طرح ہوتی ہے اس طرح بھی کہ انہیں کلی طور پر سچا کہا جائے اس طرح بھی کہ ان کے بعض حصص کی تصدیق کی جائے اور اس طرح بھی کہ ان کی ابتدائی حالت کی تصدیق کی جائے اور اس طرح بھی کہ ان کی ابتدائی حالت کی تصدیق کی جائے مثلاً اس امر کا اقرار کہ وہ ابتداء میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں اور ان کے پیش کرنے والے راستباز تھے جھوٹے نہ تھے گو اب اس کتاب میں لوگوں نے خرابیاں پیدا کر دی ہیں۔
میں ثابت کر چکا ہوں کہ کلی تصدیق پہلی کتب کی نہ تو ممکن ہے اور نہ قرآن کریم ایسا کر سکتا ہے ممکن اس لئے نہیں کہ وہ سب کتب اس وقت دُنیا میں موجود ہی نہیں اور قرآن کریم کی شان کے لائق اس لئے نہیں کہ وہ خود ہی ان کتب کی غلطیاں بیان کرتا ہے پس جب وہ ان کتب کی غلطیاں بیان کرتا ہے تو ان کی تصدیق کیونکر کر سکتا ہے۔ اب صرف دو طرف تصدیق کے رہ گئے۔ جزئی تصدیق یا ابتدائی حالت کی تصدیق۔ سو سابق کتب کی تصدیق قرآن کریم انہی دو طریق سے کرتا ہے جو کتب تو دنیا میں موجود ہیں ان کی تو دونوں قسم کی تصدیق کرتا ہے یعنی ان کے بعض مسائل کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی بعض پیشگوئیوں کو اپنی ذات میں پُورا کر کے انہیں سچا ثابت کرتا ہے دوسری تصدیق وہ یہ بھی کرتا ہے کہ سب کتب سماویہ کے متعقل وہ یہ خبر دیتا ہے کہ جس وقت انہیں دُنیا کے سامنے پیش کیا گیا وہ سچی تھیں۔ وہ حصرت آدمؑ کے الہام۔ حضرت نوحؑ کے الہام حضرت ابراہیمؑ کے الہام حضرت موسیٰ ؑ کے الہام حضرت مسیحؑ کے الہام حضرت کرشنؑ کے الہام حضرت رامچندرؑ کے الہام حضرت زردشتؑ کے الہام۔ اور باقی ان تمام انبیاء کے الہامو ںکی تصدیق کرتا ہے جو وقتاً فوقتاً اور مختلف ملکوں اور قوموں میں ظاہر ہوئے خواہ ان کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں چنانچہ فرماتا ہے وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ وَ مَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ فَاِذَ اجَآئَ اَمْرُ اللّٰہِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَھُنَا لِکَ الْمُبْطِلُوْنَo (مومن ع ۸) یعنے اے محمد رسول اللہ ہم تجھ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے قرآن میں کیا ہے اور بعض کا نہیں کیا اور یاد رکھو کہ کسی رسول کی یہ طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی نشان لے آئے پس جب اللہ کا حکم آ جائے تو سچائی کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور جو بھی جھوٹا ہو ہلاک ہو جاتا ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف وہی نبی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں ان کے سوا اور لوگ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آ چکے ہیں پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ جن کا ذکر قرآن کریم میں نہیںہم کیونکر جانیں کہ وہ سچے تھے تو اس کی یہ علامت بتائی ہے کہ رسول نشان لے کر آتا ہے اور نشان خدا تعالیٰ کی امداد کے بغیر کوئی نہیں دکھا سکتا۔ پس جو نشان دکھاتا ہے وہ یقینا سچا ہے پھر یہ سوال ہو سکتا تھا کہ بہت سے نشان عینی شہادت اور واقعات کے تفصیلی علم کو چاہتے ہیں اور مختلف اقوام جن لوگوں کو بطور اپنے نبیوں کے پیش کرتی ہیں ان کے تفصیلی حالات کا ہمیں علم نہیں پھر ان کی سچائی کو کس طرح معلوم کریں تو اس سوال کا جواب اس طرح دیا کہ ایک نشان ایسا ہے جو سب نبیوں میں مشترک ہے اور وہ اپنی شہادت ہر وقت ساتھ رکھتا ہے وہ یہ کہ جب کوئی نبی دنیا میں آتاہے آخر کار (۱) اس کے مخالف ہلاک ہو جاتے ہیں اور (۲) اس کا نام دُنیا میں رہ جاتا ہے اور اس کے اتباع کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے جس مدعی الہام کی تائید میں یہ امر دیکھو سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ کی تائید اس کے حق میں ہے اور وہ جھوٹا نہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم صرف انہی انبیاء کا مصدق نہیں جن کے نام اس نے لئے ہیں بلکہ اُن انبیاء کا بھی مصدق ہے جن کے نام اس نے نہیں لئے اور جب وہ ایسے انبیاء کا مصدق ہے تو ان کے کلام کا بھی مصدق ہے اور اس ناپید یا غیر مذکور کلام کی تصدیق اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اجمالاً ایمان لایا جائے کہ وہ سچے ہیں پس تصدیق کے دوسرے معنے اجمالی ایمان کے ہیں یعنی ان کلاموں کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی اور ایسی ہی تصدیق قرآن کریم یہود و نصاریٰ کی کتب کی بھی کرتا ہے پس اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ قرآن کریم ان کی موجودہ صورت کو صحیح قرار دیتا ہے ظلم ہے اور دیگر آیاتِ قرآنیہ اور واقعات اور خود ان کی کتب کی اندرونی شہادت کے خلاف ہے۔
یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آیت زیر بحث میں تورات انجیل کی تصدیق کا ذکر نہیں بلکہ لِمَا مَعَکُمْ کی تصدیق کا ذکر ہے یعنے قرآن جو کچھ ان کے پاس ہے اس کا مصدق ہے اب اگر ان الفاظ کے وسیع معنے لئے جائیں تو ان کے یہ معنے ہونگے کہ ان کے قصوں کہانیوں کو بھی وہ تصدیق کرتا ہے لیکن یہ معنے بالبداہت باطل ہیں اور یہ ماننا پڑے گا کہ ان الفاظ کو بعض قیود سے مقید کرنا ہو گا اور وہ قیود معقول طور پر یہی ہو سکتی ہیں (۱) اس کے یہ معنے لئے جائیں کہ جو مضمون اس قسم کی آیات سے پہلے یا بعد میں بیان ہو رہا ہے یہ الفاظ ساری کتاب کی نہیں بلکہ صرف اس کی تصدیق کے بارہ میں ہیں اور یہ مطلب لیا جاوے کہ اس مسئلہ کے متعلق جو تعلیم ہماری ہے وہی تمہاری کتب میں ہے پس تصدیق خاص ہو گی نہ کہ عام۔ انہی معنوں کے رو سے میں نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ قرآن کریم تمہاری کتب میں بیان شدہ پیشگوئیوں کی تصدیق کرتا ہے یعنی انہیں پورا کرتا ہے (۲) یا پھر لِمَا مَعَکُمْ کو اس حد بندی سے محدود کیا جائے گا کہ تمہارے پاس جو خدا کا کلام ہے اس کی تصدیق قرآن کریم کرتا ہے اور ان معنوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں اس میں کیا شک ہے کہ پہلی کتب میں جو خدا کا کلام ہے اس کی تصدیق ہر دوسرے آسمانی کلام کو کرنی چاہیئے مگر اس تصدیق کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ جو کچھ بھی ان کتب میں ہے وہ ضرور خدا کا کلام ہے۔
اس سوال کے متعلق ایک اور بات بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ پہلی کتب کے لئے جس جس جگہ قرآن کریم میں تصدیق کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس کا صلہ لام آیا ہے سو اے دو جگہوں کے جہاں کوئی صلہ استعمال نہیں ہوا لیکن جہاں قرآن کریم یا رسول کریم کی نسبت یہ لفظ آیا ہے وہاں اس کا صلہ با آتا ہے اور لغت سے بھی ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تصدیق کے معنے اس کوسچا قرار دینے کے ہوں وہا ںباصلہ آتا ہے پس اس اختلاف سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جہاں جہاں پرانی کتب کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس کے اور معنے ہیں اور وہ یہی ہو سکتے ہیں کہ پہلی کتب میں جو پیشگوئیاں تھیں قرآن کریم ان کا پورا کرنے والا ہے یہ نہیں کہ ان کے اندر جو کچھ غلط یا درست لکھا ہوا ہے اس کو سچا قرار دیتا ہے قرآن کریم کی بعض آیات بھی اس استدلال کی تصدیق کرتی ہیں۔ سورۂ احقاف میں ہے قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ کَفَرْ تُمْ بِہٖ وَ شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ بَنِٓیْ اِسْرَآئِیْلَ عَلیٰ مِثْلِہٖ فَاٰ مَنَ وَ اسْتَکْبَرْ تُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَoوَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْالِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ وَ اِذْ لَمْ یَھْتَدُوْا بِہٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ ھٰذَا اِفْکٌ قَدِیْمٌo وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَا مًا وَّرَحْمَۃً وَھٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَبُشْرٰی لِلْمُحْسِنِیْنَo (احقاف ع ۱ و ع ۲) یعنے اے لوگو بتائو تو سہی کہ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی اور تم نے اس کا انکار کر دیا تو کیا بنے گا اور استھ ہی یہ بات بھی ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ نے اپنے مثل نبی آنے کی خبر دی ہے پس وہ تو ایمان لے آیا اور تم نے تکبر سے کام لیا یاد رکھو کہ اللہ ظالموں کو کبھی کامیاب نہیں کرتا اور کافر مسلمانوں کے حق میں کہتے ہیں کہ اگر اس کلام میں کوئی بھلائی ہوتی تو یہ لوگ ہم سے پہلے کس طرح ایمان لے آتے بات یہ ہے کہ چونکہ ان کو ہدایت نہیں ملی اب تو انہو ںنے یہی کہنا ہوا کہ پہلے کلام بھی جھوٹے تھے یہ بھی ویسا ہی جھوٹ ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گذر چکی ہے جو لوگوں کو ہدایت دیتی تھی اور رحمت کا موجب تھی اور اب یہ کتاب اس کی مصدق ہے اور عربی زبان میں نازل ہوئی ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور محسنوں کو بشارت دے۔
ان آیات سے پہلے کی آیات پڑھو تو معلوم ہو گا کہ اس جگہ یہود نہیں بلکہ کفار مکہ مخاطب ہیں ان سے کہا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اپنے مثیل کی خبر دی تھی (جس میں یہ بھی خبر تھی کہ وہ بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا) اب کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ موسیٰ ؑ نے بنو اسحاق میں سے ہوا کر اس پر ایمان کا اظہار کیا اور تم جن کو عزت ملی تھی اپنی قوم کے نبی کے ماننے میں تکبر سے کام لے رہے ہو اس پر کفار کا اعتراض بیان فرمایا ہے کہ ہم تو اس کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں اور اس کا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ اس کو ماننے والے ادنیٰ لوگ ہیں بڑے لوگ تو سب اس کے مخالف ہیں اگر یہ سچا ہوتا تو سب سے پہلے ہمیں اس پر ایمان لانے کا موقعہ ملتا۔ اس کا جواب یہ فرمایا کہ اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گذر چکی ہے جو اپنی ہدایت اور فائدہ کے لحاظ سے اپنی سچائی کا ثبوت دے چکی ہے اس میں اس کتاب کے بارہ میں پیشگوئیاں ہیں جن کو یہ کتاب پورا کرتی ہے چنانچہ ان پیشگوئیوں کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس کتاب پورا کرتی ہے چنانچہ ان پیشگوئیوں کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان عربی ہو گی اور دوسری یہ کہ اس کی قوم کے لوگ اس کے مخالف ہونگے اب ان صدیوں پہلے کی پیشگوئیوں کو جب یہ کتاب پورا کرتی ہے تو تم اس کا انکار کیونکر کر سکتے ہو۔
آیندہ شریعت کے عربی زبان میں ہونے کی پیشگوئی استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ سے نکلتی ہے جہاں بتایا ہے کہ آنے والا موعود بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے ہو گا اور اس کی مخالفت کی خبر استثناء باب ۳۳ آیت ۲ سے نکلتی ہے جہاں لکھا ہے کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا اور اس کے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت ہو گی یعنی وہ ضرورت کے موقعہ پر جنگ کرے گا اور جنت کی اجازت دے گا۔ ظاہر ہے کہ جنگ کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب قوم مخالفت کرے اور مخالف زبردست ہوں۔ پس مکہ والوں کا یہ کہنا کہ ہم جو بڑے لوگ ہیں ایمان نہیں لاتے یہ ان کے سچا ہونے کی دلیل نہیں بلکہ قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے موسیٰ ؑ کی خبر کا ایک اور حصہ پورا ہوا اور ایک طرف اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہوئی تو دوسری طرف حضرت موسیٰ کی سچائی ظاہر ہوئی۔
اس آیت سے تصدیق کے معنے بالکل واضخ ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ زبانی تصدیق کہ تورات سچی ہے کفار مکہ پر کیا اثر کر سکتی تھی وہ قرآن اور تورات دونو ںکو جھوٹا سمجھتے تھے کفار مکہ پر وہی تصدیق حجت ہو سکتی تھی جس میں کسی پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیونکہ پیشگوئی خواہ کسی نبی کی ہو چونکہ علم غیب پر مشتمل ہوتی ہے ہر ایک شخص پر حجت ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ سورۂ احقاف کی مذکورہ بالا آیت میں تصدیق کے معنے پیشگوئی پورا کرنے کے سوا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے اور یہی معنی ہیں جو مُصَدِّقُ لِّمَا مَعَکُمْ والی آیت اور اسی قسم کی دوسری آیات میں استعمال ہوئے ہیں وَلَا تَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍبِہٖ۔ اس جملہ کا پہلا حصہ جمع ہے اور دوسرا مفرد یعنی لَاتَکُوْنُوْا کے معنے ہیں کہ اے بنی اسرائیل تم نہ بنو اور اس کا جواب کہ کیا نہ بنو یہ دیا ہے کہ اوّل کافر نہ بنو اور کاف رمفرد ہے اُردو کے لحاظ سے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اردو میں ایسے موقعہ پر مفرد کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں لیکن عربی کے محاورہ کے مطابق یہ قابلِ اعتراض ہے کیونکہ عربی میں اس جگہ جمع کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ عربی کے علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جب افعال التفصیل کا صیغہ استعمال ہو جیسا کہ اوّل کا لفظ ہے اور وہ کسی ایسے نکرہ کی طرف مضاف ہو جو صفت کا صیغہ ہو جیسا کہ کافر کا لفظ ہے تو اس وقت اس نکرہ کو جو صفت کا صیغہ ہو مفرد لانا بھی جائز ہے اور جمع لانا بھی جائز ہے اور اس کی مثال کے طو رپر فراء نے ایک شاعر کا یہ شعر نقل کیا ہے ؎
وَاِذَا ھُمُ طَعِمٌ فَاَلْأَمُ طَاعِمٍ
وَاِذَا ھُمُ جَاعُوْا فَشَرُّ جِیَاعٍ
یعنی جب وہ قوم کھاتی ہے تو کھانے والوں میں سے سب سے بری ہوتی ہے اور جب وہ بُھوکی ہوتی ہے تو بھوکوں میں سے بدتریں ہوتی ہے۔ اس شعر میں پہلے مصرعہ میں طَاعِمٍ کافر کی طرح مفرد آیا ہے لیکن دوسرے مصرعہ میں جِیَاعٍ جمع کا صیغہ آیا ہے گویا ایک ہی شعر میں دونوں طرح کا محاورہ استعمال ہو گیا ہے۔
جب صفت نکرہ افعال تفضیل کا مضاف الیہ ہو تو فرار کے نزدیک مَنْ کے بعد فعل استعمال کر کے اس کے معنے کئے جاتے ہیں مثلاً اس شعر میں طَاعِم کے معنے مَنْ طَعَمَ کئے جائینگے اور آیت میں کافر کے معنے مَنْ کَفَرَ کئے جائیں گے بعض دوسرے نحویوں نے کہا ہے کہ اس صور ت میں یہ تو جیہہ ہو گی کہ اوّل فریق کا فربہ یعنی ابتداء ہی میں کفر کرنے والے گروہ میں شامل نہ ہو۔ بعض دوسروں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ وَلَا یَکُنْ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْکُمْ اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ تم میں سے ہر ایک اوّل درجہ کے کافروں میں سے نہ بنے سیبویہ امام لغت کہتے ہیں کہ ایسے موقعہ پر مفرد نکرہ جمع کے معنے دیتا ہے اور اس جملہ کی ترکیب یوں ہے لَاتَکُوْلُوْا اَوَّلَ کَافِرِیْنَ بِہٖ اوّل درجہ کے کافروں میں سے نہ بنو (بحر محیط زمخشری) اس کے یہ معنے نہیں کہ پہلے کافر نہ بنو ہاں دوسروں کے بعد بیشک کف رکرو۔ یہ عربی کا محاورہ ہے کہ ایک حصہ جملہ کا بیان کر دیتے ہیں اور دوسرا چھوڑ دیتے ہیں اسے وہ تحسین کلام میں سے سمجھتے ہیں اس کے رو سے جملہ یہ ہو گا کہ لَاتَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ وَلَاتَکُوْنُوْا اٰخِرَ کَافِرٍ بِہٖ یعنی نہ اس کے کفر میں جلدی کرو اور نہ بعد میں کفر کرو۔ اس کی مثال مفسرین اس شعر سے دیتے ہیں۔ ؎
مِنْ اُنَاسٍ لَیْسَ فِیْ اَخْلَا قِھِمْ
عَاجِلُ الْفُحْشِ وَلَا سُوْئُ جَزَعٍ
وہ شخص ایسے لوگوں میں شامل ہے جن کے اخلاق میں نہ تو فحش میں جلدی کرنا شامل ہے اور نہ سخت گھبرانا۔ وہ کہتے ہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ فوراً فحش کو اختیار نہیں کرتا بلکہ دیر سے کرتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ فحش کو نہ جلدی اختیار کرتا ہے نہ دیر سے (بحر محیط)
میرے نزدیک اس کی ایک اور تشریح بھی ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ جب یہ کتاب تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کی مصدق ہے تو تمہارا اس کتاب کا انکار کرنا اوّل درجہ کا کفر ہو گا کیونکہ جو لوگ جاہل ہیں ان کا انکار نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور انہیں معذور سمجھا جا سکتا ہے لیکن تم کو معذور نہیں سمجھا جا سکتا۔ گویا یہ مُراد نہیں کہ چھوٹا کفر جائز ہے یا بعد میں انکار کرنا جائز ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ کفر بہرحال ناجائز ہے مگر تمہارا کفر تو اوّل درجہ کا کفر ہے اور زیادہ خطرناک ہے یا یہ کہ تم کو کفار کی اوّل صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ یہ محاورہ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی استعمال ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَمَا اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (ق ع ۲) میں اپنے بندوں پر بہت بڑا ظلم کرنے والا نہیں ہوں اس کے یہ معنے نہیں کہ میں تھوڑا ظلم کر لیتا ہوںبلکہ یہ معنے ہیں کہ پہلا مضمون جو گذرا ہے اگر اسے تسلیم کیا جائے تو اللہ تعالیٰ بڑا ظالم ثابت ہوتا ہے مگر وہ ایسا نہیں ہے اُردو میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے کہتے ہیں اتنا قہر کیوں توڑتے ہو ںاس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ چھوٹا قہر بیشک توڑو بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی پر ظلم کرنا تو ناجائز ہے پھر تم اس قدر بڑا ظلم کیو ںکرتے ہو یا یہ کہ جھوٹ بولنا تو ناپسندیدہ ہے پھر تم اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولتے ہو۔
کَافِرٍبِہٖ میں ہ کی ضمیر بِمَا اَنْزَلْتُ میں میں جو مَا ہے اس کی طرف بھی جا سکتی ہے اس صورت میں اس کے معنے ہونگے کہ خدا تعالیٰ کے نئے کلام یعنی قرآن کریم کے کافرنہ بنو اور لِمَا مَعَکُمْ کے مَا کی طرف بھی جا سکتی ہے اس صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ یہ قرآن تو تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کو پُورا کرنے والا ہے دوسرے لوگ ان پیشگوئیوں کے مُنکر ہوں تو ہوں تم کیوں دوسروں سے بھی جلدی کر کے خود اپنی کتب کی تکذیب کرتے ہو۔
وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا میری آیات کو چھوڑ کر تھوڑی قیمت نہ لو۔ مسلمانونکی بدقسمتی ہے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کے معنوں کو بگاڑنے والے لوگ پیدا ہو گئے ہیں۔ بعض ملا چار پانچ آنہ والا قرآن خرید کر دیہاتیوں کے ہاتھوں میں دو چار روپیہ کو فروخت کرتے ہیں اور کوئی اعتراض کرے تو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو مردوں پر جو قُلْ کئے جاتے ہیں ان میں بھی اس بیہودہ خیال پر بناء رکھ کر قرآن بخشا جاتا ہے یہ سب بیہودہ خیالات ہیں اور اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں اگر اس آیت کے یہ معنے ہوتے تو الفاظ یوں ہوتے وَلَا تَشْتَرُوْا اٰیٰتِیْ بِثَمَنِ قَلِیْلٍ کیونکہ عربی محاورہ کے مطابق ب قیمت پر آیا کرتی ہے پس تھوڑی قیمت لینی مراد ہوتی تو ب ثمن پر آتی مگر ب ثمن پر نہیں بلکہ آیات پر آئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اشتراء کا لفظ خریدو فروخت کے معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوا بلکہ استبدال کے معنوں میں استعمال ہوا ہے (بحر محیط) نوٹ نمبر ۱۷ میں بتایا جا چکا ہے کہ لغت کے رو سے ایک معنے اشتراء کے یہ بھی ہیں کہ ایک چیز کو چھوڑ دیا اور دوسری کو لے لیا۔ لغت میں لکھا ہے وَکُلَّ مَنْ تَرَکَ شَیْئًا وَتَمَسَّکَ بِغَیْرِہٖ فَقَدِ اشْتَرٰلہُ (اقرب) یعنی جو شخص ایک چیز کو ترک کر دے اور دوسری کو اختیار کرے اس کے لئے بھی اشتراء کا لفظ عربی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس آیت میں یہی معنے ہیں اور یہ مطلب نہیں کہ میری آیات دے کر تھوڑا مال نہ لو بلکہ یہ معنے ہیں کہ میری آیات کو نہ چھوڑو اور تھوڑے مال کو اختیار نہ کرو تھوڑے مال سے مراد دُنیا ہے کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ (نساء ع ۱۱) دنیا کا سب سامان تھوڑا ہے پس مراد یہ ہے کہ دین چھوڑ کر دُنیا کو اختیار نہ کرو۔ اس میں بنی اسرائیل کو زجر کی ہے کہ تمہارا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے سے انکار کرنا باوجود اس کے کہ تمہاری کتب میں ان کی پیشگوئیاں موجود ہیں محض اپنی لیڈری کے کھوئے جانے کے خوف سے ہے تم کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا گراں گذرتا ہے اور ان کی محافلت کر کے اپنی قوم کی سرداری قائم رکھنا زیادہ عزیز ہے گویا دنیا کی معمولی عزت اور تھوڑے سے پیسوں کے لئے تم ان پیشگوئیوں کو ترک کر رہے ہو جو تمہاری کتب میں موجود ہیں۔
حدیثوں میں آتا ہے دو یہودی عالم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے واپس جاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ نبی وہی ہے جس کا ذکر ہماری کتب میں آتا ہے لیکن ماننا تو نہیں کیونکہ ہماری جماعت کے لوگ ہمیں قتل کر دیں گے یہی ذہنیت ہے جو اکثر لوگوں کو سچائی سے محروم کر دیتی ہے۔
(مسند احمد حنبل جلد رابع نمبر ۲۳۹)
وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ۔ اس فقرہ کی بناوٹ بھی وَ اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ کی طرح ہے (دیکھو نوٹ نمبر ۴۱ سورۃ ہذا ) اور یہ پورا جملہ یوں ہوتا ہے وَاتَّقُوْا اِیَّایَ تَنَبَّھُوْا فَاتَّقُوْنِ مجھ سے ڈرو ہوشیار ہو جائو اور مجھ سے ڈرو اس میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان دُنیا کو اس لئے اختیار کرتا ہے کہ زندگی میں تکلیف سے ڈرتا ہے مگر یہ ڈر عبث ہے کیونکہ تکلیف اور آرام خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے پس دُنیا کا آرام بھی خدا تعالیٰ کو خوش کر کے مل سکتا ہے اسے چھوڑ کر نہیں مل سکتا۔
۴۳؎ حل لغات
لاَتَلْبِسُوْنہی جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور لَبَسَ عَلَیْہِ (یَلْبِسُ) الْاَمْرَ لَبْسًا کے معنے ہیں خَلَطَہٗ وَجَعَلَہٗ مُشْتَبِھًا بِغَیْرِہٖ ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ کے ساتھ ملا کر مشتبہ کر دیا (اقرب) پس لَاتَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ کے معنے ہونگے کہ حق کو باطل کے ساتھ نہ ملائو۔
اَلْحَقُّ:۔ اَلْحَقُّ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۲۷؎
اَلْبَاطِلُ:۔ اَلْبَاطِلُ نَقِیْضُ الْحَقِّ وَھُوَ مَالَاثَبَاتَ لَہٗ عِنْدَ الْفحْصِ۔ یعنی باطل حق کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور باطل اس چیز پر بولتے ہیں جس کی تحقیق کی جائے تو کوئی حقیقت نہ نکلے (مفردات)
تفسیر۔ تَلْبِسُوْا لَبَسَ سے بنا ہے۔ لَبَسَ ضَرَبَ بَضْرِبُ کے وزن پر بھی آتا ہے اور عَلِمَ یَعْلَمُ کے وزن پر ہو تو اس کے معنے پہننے کے ہوتے ہیں۔ لباس اسی میں سے بنا ہے اس آیت میں چونکہ تَلْبِسُوْا ہے یعنی ب کے نیچے زیر ہے اس لئے اس کے معنے مخلوط کر کے مشتبہ بنا دینے کے ہیں اور آیت کا یہ ترجمہ ہے کہ حق میں باطل ملا کر اسے مشتبہ نہ بنا دو۔ انبیاء کے دشمن ہمیشہ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں یعنے کوئی سچی بات لی اور اس میں ایک جھوٹ ملا دیا اور شور مچا دیا کہ مدعی کا دعویٰ جھوٹا ہے یہود سب علامتوں کو تسلیم کر کے کبھی کہدیتے کہ اصل علامت آنے والے کی یہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہو گا کبھی کہدیتے کہ اصل علامت یہ ہے کہ وہ یروشلم میں ظاہر ہو گا اس طرح عوام کی سچ قبول کرنے سے محروم کر دیتے ہیں حالانکہ صداقت کے پہچاننے میں اصل چیز جسے مدنظر رکھا جاتا ہے یہ ہے کہ موعود اس غرض کو پُورا کرتا ہو جس کے لئے اس کی خبر دی گئی تھی اس زمانہ میں ظاہر ہو جس میں اس کے ظہور کی سب سے زیادہ ضرورت ہو اور کچھ حصہ پیشگوئیوں کا ظاہر میں اس کے حق میں پورا ہو جائے ورنہ پیشگوئیوں میں چونکہ اخفاء کو مدنظر رکھا جاتا ہے کچھ حصہ ان کا تعبیر طلب ہوتا ہے بیشک بعض جگہ بنی اسرائیل میں سے اُس نبی کے آنے کی خبر ہے مگر چونکہ دوسری جگہ بنو اسمٰعیل میں سے ہونے کی خبر ہے اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ اس کی قوم بنی اسرائیل کی برکات کی وارث ہو گی اور گویا آیندہ زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کی قائم مقام ہو گی۔ اور صیحون میں اس کے ظاہر ہونے کے الفاظ بیشک آتے ہیں لیکن اس کے معنے صر فیہ ہیں کہ جس جگہ وہ ظاہر ہو گا وہ بھی خدا تعالیٰ کے مقدس مقامات میں سے ہو گا یعنی مکہ بہت سی دوسری علامات کے حرف بہ حرف پورا ہو جانے کے بعد اور سب سے زیادہ یہ کہ اس زمانہ میں ظاہر ہونے کے بعد جس میں کہ اس موعود کو ظاہر ہونا چاہیئے تھا اور وہ کام کرنے کے بعد جو اس کے لئے مقدر تھا پھر بنی اسرائیل کا یہ اعتراض کہ فلاں فلاں پیشگوئی ابھی پوری نہیں ہوئی یا لفظاً پوری نہیں ہوئی محض حق اور باطل کو ملانے والی بات تھی اور لوگوں کو حق کے قبول کرنے سے روکنے کی ایک ناواجب کوشش۔ مگر ایسی کوششیں نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھیں نہ محمد رسول اللہ صلیہ اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوئیں اور نہ آیندہ کبھی ہونگی۔
وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ۔ اس جملہ کا پہلے جملہ پر عطف ہے اس لئے وہی لَاجو جو پہلے گذر چکا ہے دوبارہ دہرایا جائیگا اور جملہ یوں ہو گا وَلَاتَکْتُمُوا الْحَقّ۔ اور تم حق کو نہ چھپائو۔ یہ بنی اسرائیل کی دوسری شرارت بتائی وہ ان پیشگوئیوں کے چھپانے کی کوشش کرتے تھے جن سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت ہوتی تھی۔ گویا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت ہوتی تھی۔ گویا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح مقابلہ کرتے تھے۔ اوّل اس طرح کہ پیشگوئیوں کو مخلوط کر کے بیان کر دیتے تھے۔ مثلاً لفظاً پورا ہونے والی پیشگوئیوں سے تعبیری پیشگوئیوں کو ملا دیتے تھے یا موعود آخر الزمان کی پیشگوئیوں کے ساتھ بعض سابق نبیوںکے متعلق جو پیشگوئیوں تھیں انہیں ملا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بھی آنے والے کی علامت ہے حالانکہ وہ کسی اور نبی کی علامت ہوتی تھی اور اس کے وجود میں پوری ہو چکی تھی (اسی طرح آج کل بعض علمائے اسلام کرتے ہیں اسلام نے بہت سے مہدیوں کی خبر دی ہے بعض آ چکے اور اپنے متعلق پیشگوئیوں کو پورا کر چکے۔ مگر یہ علماء آنے والے مہدی کے بارہ میں ان پیشگوئیوں کو بتا کر ان پیشگوئیوں کو مشتبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس کے بارہ میں ہیں اور پہلے زمانہ میں پوری ہو چکی ہیں) دوسرا حربہ وہ یہ استعمال کرتے تھے کہ بعض پیشگوئیوں کو عوام کی نطر سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور ان کا ذکر اپنے وعظوں پر چھوڑ جاتے تھے ا ور اگر مسلمان انہیں بیان کرتے تو صاف انکار کر دیتے تھے اگر کوئی واقف آدمی ان کو مجبور کر دیتا تو بہانے تراشنے لگ جاتے۔
وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ ورانحالیکہ تم جانتے ہو یعنی یہ حق و باطل کو ملانا اور بعض حق کو چھپانا اتفاقی حادیثہ نہیں اور نہ غلطی کی وجہ سے ہے بلکہ تم ایسا دیدہ و دانستہ کرتے ہو اور جو دیدہ و دانستہ ایسے گناہ کا مرتکب ہو ہر گز خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث نہیں ہو سکتا۔
۴۴؎ حل لغات
اَقِیْمُوْا۔ امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے۔ اَقَامَ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اَلصَّلٰوۃُ۔ اَلصَّلٰوۃُ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اَلزَّکوٰۃُ:۔ زَکَا (یَزْکُوْا) تَزْکِیَۃً کا اسم ہے اور زَکَی الشَّیْئُ کے معنے ہیں نَمَا کوئی چیز زیادہ اور بکثرت ہو گئی کہتے ہیں زَکَا الرَّجُلُ۔ صَلَحَ وَ تَنَعَّمُ وَکَانَ فِیْ خَصْبٍ۔ کوئی شخص اچھی عمدہ حالت میں ہو گیا۔ خوشحالی میں ہو گیا (کیونکہ زَکَتِ الْاَرْضَ اس وقت بولتے ہیں جبکہ وہ سرسبز ہو جائے) اور جب زَکَّاہُ اللّٰہُ کہیں تو اس کے معنے ہونگے اَنْمَاہُ اللہ تعالیٰ نے اس کو پروان چڑھایا۔ طَھَّرَہٗ اسے پاکیزہ کیا۔ زَکَّی فُلَانٌ مَالَہٗ کے معنے ہیں اَدَّی عَنْہُ زَکوٰۃً اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی اور جب زَکَّی نَفْسَہٗ کہیں تو معنے ہونگے کہ مَدَحَھَا اپنے نفس کو اس نے تعریف کے قابل بنایا اور تَزَکَّی کے معنے ہیں تَصَدَّقَ اس نے صدقہ دیا اور اَلزَّکوٰۃُ کے معنے ہیں صَفْوَۃُ الشَّیْئِ اعلیٰ درجہ کی چیز طَاعَۃُ اللّٰہِ اللہ کی اطاعت۔ مَا اَخْرَجْتَہٗ مِنْ مَالِکَ لِتُطَھِّرَہٗ بِہٖ۔ مال کا وہ حصہ جو بطور زکوۃ نکالا جاتا ہے تاکہ باقی مال پاک ہو جائے۔ وَقِیْلَ سُمِّیَتِ الصَّدَقَہُ بِالزَّکوٰۃِ لِاَنَّھَا تَزِیْدُ فِی الْمَالِ الَّذِیْ تُخْرَجُ مِنْہُ وَ تُوَفِّرُہٗ وَتَقِیْہِ مِنَ الْاٰفَاتِ۔ اور صدقہ کا نام اس لئے زکوۃ رکھا گیا ہے کیونکہ جس مال سے زکوۃ نکالی جائے وہ اس مال میں برکت ڈالتی ہے اور اس کو بڑھاتیہے اور اُسے آفات سے بچاتی ہے (اقرب)
اِرْکَعُوْا:۔ امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور رَکَعَ الْمُصَلِّی (رَکْعًاوَ رُکُوْعًا) کے معنے ہیں طَأْطَأَ رَاْسَہٗ۔ نمازی نے اپنا سر نیچے کیا اور جب رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ کہیں تو معنے ہونگے اِطْمَأَنَّ اِلَیْہِ اس نے اللہ کی طرف تسلی پائی۔ نیز رَکَعَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں اِنْحَطَّتْ حَالَتُہٗ وَ افْتَقَّرَ اس کی مالی حالت کمزور ہو گئی اور وہ محتاج ہو گیا (یہ مجازی معنے ہیں) اور رَکَعَ الْمُصَلِّی فِی الصَّلٰوۃِ رُکُوْعًا کے معنے ہیں خَفَضَ رَأْسَہٗ بَعْدَ قَوْمَۃِ الْقِرَائَ ۃ حَتّٰی تَنَالَ رَاحَتَاہُ رُکْبَتَیْہِ اَوْحَتّٰی یَطْمَئِنَّ ظَھْرُہٗ۔ نمازی نے قراء ت کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کمر کو جھکایا نیز لکھا ہے وَالرَّاکِعُ کُلُّ شَیْئٍ یَخْفِضُ رَأْسُہٗ اور ہر اس چیز پر جو سر نیچے جھکائے رکھتی ہے رَاکِع کا لفظ بولتے ہیں (اقرب) مفردات میں ہے اَلرُّکُوْعُ اَلْاِنْحِنَائُ کہ رکوع کے معنے جھک جانے کے ہیں فَتَارَۃً یُسْتَعْمَلُ فِی الْھَیْئَۃِ الْمَخْصُوْصَۃِ فِی الصَّلٰوۃِ وَ تَارَۃً فِی التَّوَاضُعِ وَالتَّذَلُّلِ اِمَّا فِی الْعِبَادَۃِ وَ اِمَّا فِیْ غَیْرِ ھَا کبھی تو یہ لفظ اس مخصوص ہیئت پر استعمال کیا جاتا ہے جو نماز میں کی جاتی ہے۔ یعنی قرأت کے ختم کرنے کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا اور کبھی یہ لفظ عاجزی کرنے اور تذلل اختیار کرنے پر بولا جاتا ہے خواہ یہ عاجزی نماز میں کی جائے یا اس کے علاوہ کسی اور حالت یا مقام میں (مفردات) تاج العروس میں ہے کُلُّ شَیْئٍ یَنْکَبُّ لِوَجْھِہِ فَتَمَسُّ رُکْبَتَیْہِ الْاَرْضَ اَوْلَا تَمَسُّہَا بَعْدَ اَنْ یَخْفِضَ رَأْسَہٗ فَھُرَ رَاکِعٌ کہ ہر اُس چیز پر جو اوندھے منہ ہو کر چلتی ہے رَاکِعٌ کا لفظ بولتے ہیں (گویا اس کی ہیئت کذائی عاجزی پر دلالت کرتی ہے) وَقَالَ ثَعْلَبٌ اَلرُّکُوْعُ: الٓخُضُوْعُ لغت کے مشہور امام ثعلب کہتے ہیں کہ رکوع کے معنے عاجزی کرنے کے ہوتے ہیں وَکَانَتِ الْعَرَبُ فِی الْجَا ھِلِیَّۃِ تُسَمِّی الْحَنِیْفَ رَاکِعًا اِذَا لَمْ یَعْبُدِ الْاَ وْ ثَانَ وَ یَقُوْلُوْنَ رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ اور عرب لوگ قبل اسلام موحد کر راکع کہتے تھے کیونکہ وہ بتو ںکی پوجا نہ کرتا تھا اور اس کے لئے راکع کا لفظ اس لئے استعمال کرتے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی اور اس کے سامنے عاجزی اختیار کی (تاج) الغرض رَکَعَ کے لفظ کے اندع عاجزی اور تذلل کے معنے پائے جاتے ہیں پس رَاکِعٌ کے معنے ہونگے (۱) عاجزی کرنے والا (۲) اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرنے والا۔ اور اِرْکَعُوْا کے معنے ہونگے تم عاجزی کرو۔ (۲) تم اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرو۔
تفسیر۔ پہلی آیات میں ایمان کی درستی کی بنی اسرائیل کو ہدایت کی تھی اب اعمال کی درستی کی طرف توجہ دلائی ہے اور فرماتا ہے کہ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اپنے ایمان کی تکمیل تمہارے لئے ضروری ہے اسی طرح آپ پر ایما لا کر اپنے اعمال کی درستی تمہارے لئے ضروری ہے بیشک تم اپنے رنگ میں عبادت کرتے ہو مگر اب وہ عبادات تمہاری مقبول نہیں۔ اب تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے مطابق نمازیں پڑھو گے تو عبادت قبول ہو گی۔ اسی طرح بیشک تم قومی چندے دیتے ہو مگر اب تو شریعت محمدیہ کے مطابق زکوٰۃ نہ دو گے تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہ کر سکو گے اسی طرح بیشک تمہاری عبادات اور تمہارے اعمال شرک سے ایک حد تک پاک ہونگے مگر اب وہ معیار توحید کا جو پہلے تھا بدل گیا ہے اب تو اس وقت تک تم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں ہو سکتے جب تک اس معیار توحید کو قائم نہ کرو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔
وَاٰتُوا الزَّکوٰۃَ میں زکوٰۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ ایک مقررہ طریقہ اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ہے زکوٰۃ کے بارے میں آ گے چل کر تفصیلی بحث ہو گی اسی سلسلہ میں نوٹ ۳؎ سورہ ہذا بھی دیکھ لینا چاہیئے جس میں اسلام ذمہ داریاں مال کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔
وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ۔ میں جو لفظ رَکَعَ استعمال ہوا ہے اس کے بارہ میں حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ اس کے معنے علاوہ رکوع یعنی جھکنے کے موحدانہ زندگی بسر کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت الاساس میں لکھا ہے کَانَتِ الْعَرَبُ تُسَمِّی مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَلَمْ یَعْبُدِ الْاَوْثَانَ رَاکِعًا۔ یعنی عرب لوگ اسے جو اللہ پر ایمان لاتا ہو اور بتوں کی پوجا نہ کرتا ہو رَاکِعٌ کہتے ہیں اسی طرح لسان العرب میں لکھا کہ رَاکِعٌ توجہ کو خالص ایک طرف کر دینے والے کو کہتے ہیں اور اس کی تائید میں نابغہ ذبیانی کا یہ شعر لکھا ہے ؎
سَیَبْلُغُ عُذْرًا اَوْنَجَا حًا مِنِ امْرَئٍ
اِلیٰ رَبِّہٖ رَبِّ الْبَرِیَّۃِ رَاکِعُ
یعنی وہ شخص جو صرف اپنے رب کی طرف جو سب دُنیا کا رب ہے خالص طور پر متوجہ ہو جانا ہے ضرور یا نجات پا جائے گا یا معذور قرار پا جائے گا۔ پس وَارْا کَعُوْا مَعَ الرَّا کِعِیْنَ کے معنے اس جگہ نماز کے رکوع کے نہیں کیونکہ نماز میں صرف رکوع ہی نہیں ہوتا بلکہ رکوع کے سوا اور اجزاء بھی ہوتے ہیں پس کوئی وجہ نہ تھی کہ صرف رکوع کا ذکر کیا جاتا۔ دوسرے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ میں نہ صرف خالی نماز کا بلکہ باجماعت نماز کا ذکر ہو چکا ہے جس میں قیام رکوع سجدہ سب ہی شامل ہیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ساری نماز کا جس میں رکوع بھی شامل ہے ذکر کر کے صرف رکوع کا الگ ذکر کیا جائے۔ پس ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رکوع کے معنے اور ہیں نماز والے رکوع کے نہیں اور وہ معنے میں اوپر بیان کر چکا ہوں پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کی تلقین کی پھر مسلمانو ںکی طرح زکوٰۃ دینے کی تلقین کی پھر یہ حکم دیا کہ مسلمانوں کی طرح اپنے سب اعمال کو خدا تعالیٰ کے َئے کر دو اور کامل توحید کو اختیار کر لو شرک کی ملونی کو اپنے اعمال سے بالکل جدا کر دو تب جا کر تم ان فضلوں کے دوبارہ وارث ہو سکو گے جن کا وعدہ عہد ابراہیم میں بیان ہوا ہے۔
اس تشریح کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ تا کوئی یہ دھوکا نہ کھائے کہ یہود کے لئے تورات کے احکام پر عمل کرنا اب بھی کافی ہے اور یہ امر واضح ہو جائے کہ اب عمل صالح سے مُراد وہی عمل ہو گا جو شریعت محمدیہ میں نازل ہوا ہے اور اسی صورت میں مقبول ہو گا کہ اسلامی طریق کے مطابق ادا کیا جائے۔
۴۵؎ حل لغات
اَلْمِرُّ۔ اَلصِّلَۃُ۔انعام احسان اور عطیہ۔ اَلَّطَّاعَۃُ فرما نبرداری۔ اَلصِّدْقُ سچائی (اقرب) تاج العروس میں ہے اَصْلُ مَعْنَی البِرِّ اَلسَّعَۃُ کہ بر کے اصل معنے وسعت کے ہوتے ہیں ثُمَّ ھَاعَ فِی الشَّفْقَۃِ وَالْاِ حْسَانِ والصِّلَۃِ پھر یہ لفظ شفقت۔ احسان اور انعام عطیہ وغیرہ کے معنوں میں مشہور ہو گیا۔ ابو منصور جو لغت کے امام ہیں کہتے ہیں کہے اَلْبِرُّ خَیْرُ الدُّنَیا وَالْاٰخِرَۃِ۔ بر کے لفظ کے اندر دُنیا و آخرت ہر دو کی بھلائیاں آ جاتی ہیں۔ نیز اَلْبِرُّ کے معنے ہیں اَلصَّلَاحُ صلاحیت۔ اَلْخَیْرَ بھلائی۔ اَلْاِتِّسَاعُ فِے الْاِحْسَانِ اِلَی النَّاسِ۔ لوگوں کے ساتھ احسان کرنے میں وسعت (تاج العروس)
تَنْسَوْنَ۔ نَسِیَ (یَنْسٰی) سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور نَسِیَ الشَّیْئَ نَسْیًا کے معنے ہیں ضِدُّ حِفِظَہٗ کسی چیز کو بھول گیا۔ قَالَ الرَّاغِبُ ’’اَلنِّسْیَانُ تَرْکُ الْاِنْسَانِ ضَبْطَ مَا اسْتُوْدِعَ اِمَّا لضَعْفِ قَلْبٍ وَ اِمَّا عَنْ غَفْلَۃٍ وَ اِمَّا عَنْ قَصْدٍ حَتّٰی یَنْحَذِفَ عَنِ القَلْبِ ذِکرُہٗ‘‘ امام راغب لکھتے ہیں کہ انسانی دماغ میں جو باتیں محفوظ ہوں ان کو اس کا ضائع کر دینا نسیان کہلاتا ہے واہ یہ ضائع کرنا اس کی دماغی کمزوری کا نتیجہ ہو خواہ غفلت کی وجہ سے ہو یا ارادۃً ہو حتٰی کہ ان باتو ںکا نقش ذہن سے مٹ جائے (اقرب) تاج العروس میں لفظ نسیان کی تشریح میں لکھا ہے اَکْثَرُ اَھْلِ اَللُّغَۃِ فَسَّرُوْہُ بِالتَّرْکِ کہ اکثر اہل لغت نے نسیان کے معنے چھوڑنے کے کئے ہیں پھر امام ثعلب جو عربی لغت کے مشہور اما م ہیں ان کا قول آیت نَسُو اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ کی تشریح میں لکھا ہے کہ لَایَنْسَی اللّٰہُ عَزُّوَجَلَّ اِنَّمَا مَعَنَاہُ تَرَکُوا اللّٰہَ فَتَرَ کَھُمْ یعنی اللہ تعالیٰ کی شان سے یہ امر بعید ہے کہ وہ کسی چیز کو بھول جائے۔ اس لئے آیت نَسُو اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ میںنسیان کے معنے چھوڑنے کے ہیں یعنی لوگوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو چھوڑ دیا (تاج) پھر لکھا ہے وَ اِذَا نُسِبَ ذٰلِکَ اِلَی اللّٰہِ فَھُوَ تَرْکُہٗ اِیَّا ھُمْ اِسْتِہَانۃً وَ مَجَازَاۃً لِمَا تَرَکوہُ۔ جب لفظ نسیان اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنے چھوڑنے کے ہوتے ہیں کیونکہ جب لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دیتے ہیں اور اُس کے احکام سے رُو گردانی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ایسے اعمال کے بدلہ میں ان کو چھوڑ دیتا ہے (تاج) اقرب میں لَا تَنْسُوُ الْفَضْلَ کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں لَا تَقْصُدُ وا التَّرْکَ وَالْاِھْمَالَ کہ اپنی فضیلت کو چھوڑنے کا قصد نہ کرو (اقرب) پس تَنْسوْنَ کے معنے ہونگے تم بھلاتے ہو۔ فراموش کرتے ہو۔ تم چھوڑتے ہو۔
اَنْفُسَکُمْ:۔ اَنْفُسٌ نَفْسٌ کی جمع ہے اور اَلنَّفْسُ کے معنے ہیں اَلرُّوْحُ۔ رُوح۔ اَلْجِسْمُ جم وَیُرَادُ بالنَّفْسِ اَلشَّخْصُ وَالْاِنْسَانُ بِجُمْلَتِہٖ بعض اوقات نفس کا لفظ بول کر رُوح اور جسم کا مجموعہ انسان اور اس کا خاص تشخص مراد لیاجاتا ہے۔ اَلْعَظْمَۃُ۔ عظمت اَلْعِزَّۃُ عزت۔ اَلْھِمَّۃُ ہمت۔ اَلْاِرَادَۃُ۔ ارادہ اَلرَّأَیُ رائے (اقرب)
تَتْلُوْنَ:۔ تَلیٰ (یَتْلُوْ) سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور تَلَا الکَلَامَ تِلَاوَۃً کے معنے ہونگے تم پڑھتے ہو۔
تَعْقِلُوْنَ:۔ عَقَلَ (یَعْقِلُ) سے مضارع مخاطب جمع کا صیغہ ہے اور عَقَلَ الدَّوَائُ الْبَطْنَ کے معنے ہیں اَمْسَکَۃٗ دوائی نے پیٹ کو روک دیا یعنی قبض کر دی اور جب عَقَلَ الْغُلَامُ کہیں تو معنے ہوں گے اَدْرَکَ لڑکا بالغ ہو گیا یعنی اچھی اور بُری باتوں کو سمجھنے لگ گیا اور عَقَلَ الشَّیْئَ عَقْلًا کے معنے ہیں فَھِمَہٗ وَ تَدَبَّرَہٗ کسی چیز کو سمجھا اور اس کے متعلق غور و فکر کیا عَقَلَ الْبَعِیْرَ:۔ ثَنٰی وَظِیْفَہٗ مَعَ ذَرَاعِہِ فَشَدَّ ھُمَا معًا بِحَبْلٍ اُونٹ کی ٹانگ کو اس کی ران کے ساتھ باندھ دیا۔ عَقَلَ الْوَعْلُ عَقْلًا کے معنے ہیں صَعَدَ وَامْتَنَعَ فِی الْجَبَلِ الْعَالِی پہاڑی بکر اپہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں جا کر رُک کر محفوظ ہو گیا۔ نیز اَلْعَقْلُ کے معنے ہیں نُوْرً رُوْحَانِیٌّ بِہٖ تُدْرِکُ النَّفْسُ الْعَلُوْمَ الضَّرُوْرِیَّۃَ وَالنَّظَوِیَّۃَ کہ عقل اس روحانی روشنی کا نام ہے جس کے ذریعہ سے نفس بدیہی باتوں کو یا غورو فکر سے معلوم ہونے والی باتوں کو معلوم کرتا ہے (اقرب) پس اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ کے معنے ہونگے (۱) کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے (۲) کیا تم اپنی ناواجب حرکات سے رکتے نہیں۔
تفسیر۔ بِرٌّ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں لکھا جا چکا ہے اعلیٰ درجہ کے احسان اور نیکی کے ہوتے ہیں اس آیت میں توجہ دلائی ہے کہ بنی اسرائیل اپنی کتب کے حکم کے مطابق لوگوں کو بہت احسان کرنے اور نیکی کرنے کا حکم دیتے تھے لیکن اپنا یہ حال تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے عظیم الشان نبی کو صرف دنوی نقصان کے ڈر کے مارے قبول نہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو تو اپنی جانوں کو بھی تو نہ بھولو ان کا حق تو تم پر زیادہ ہے۔ نسیان کے معنے چھوڑنے کے بھی ہیں اس کے رو سے یہ معنی ہونگے کہ لوگوں کو اعلیٰ نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو چھوڑ دیتے ہو انہیں ایسا حکم کیوںنہیں دیتے کہ تمہارا عمل تمہارے قول کے خلاف نہ ہو۔
وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتابَ کے یہ معنے نہیں کہ تمہاری کتاب محرف مبدل نہیں جیسا کہ بعض ناواقف نتیجہ نکالتے ہیں بلکہ کتاب کا ذکر پہلے حکم کے سلسلہ میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم تو اپنی کتاب پڑھتے ہو اس میں تو یہ حکم نہیں کہ دوسروں کو تو نیکی کا حکم دو اور اپنے آپ کو بد راہ پر چلائو پس جب تم جس کتاب کو مانتے ہو وہ بھی اس طریق کو جائز نہیں قرار دیتی تو تم نے اس طریق کو کیوں اختیار کر رکھا ہے چاہیئے کہ جس طرح دوسروں کو قربانی کا حکم دیتے ہو خود بھی حق کے لئے قربانی کرو اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ پھر کیا تم باز نہیں آتے یعنی اگر تمہاری کتب میں یہ تعلیم نہ ہوتی کہ اپنے نفس کو بھی نیکی راہ پر چلائو تو تم کو معذور سمجھا جا سکتا تھا لیکن اس تعلیم کی موجودگی میں تمہارا نیکی کے راستہ سے بھٹکنا تو سخت افسوسناک ہے پس کسی دوسرے کی نہیں مانتے تو اپنی کتاب کے حکم ہی کو مانو اور نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلو۔
۴۶؎ حل لغات
اِسْتَعِیْنُوْاامر حاضر جمع کا صیغہ ہے اور اِسْتِعَانَۃٌ کے معنے مدد طلب کرنے یا مدد حاصل کرنے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اِسْتَعَنْتُہٗ فَاَعَانَتِیْ میں نے اس سے مدد طلب کی تو اس نے مدد دے دی (اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھو سورہ فاتحہ ۶؎
اَلصَّبْرُ:۔ صَبْرٌ کے معی ہیں تَرْکُ الشِّکْوٰی مِنْ اَلَمِ الْبَلْوٰیِ لِغَیْرِ اللّٰہِ لَا اِلَی اللّٰہِ کہ مصیبت کے دُکھ کا شکوٰی خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کے پاس نہ کرنا فَاِذَا دَعَا اللّٰہَ الْعَبْدُ فِیْ کَشْفِ الضُّرِّ لَایُقْدَحُ فِیْ صَبْرِہٖ اگر بندہ اپنی رفع مصیبت خدا تعالیٰ کے پاس فریاد کرے تو اس کے صبر پر اعتراض نہ کیا جائے۔ کلیات ابی البقاء میں لکھا ہے کہ اَلصَّبْرُ فِی الْمُصِیْبَۃِ کہ صبر مصیبت کے وقت ہوتا ہے وَصَبَرَ الرَّجُلُ عَلَی الْاَمْرِ نَقِیْضُ جَزِعَ اَیْ جَرُؤَ و شَجُعَ وَتَجَدَّرَ اور صبر جزع یعنی شکوٰی کرنے اور گھبرانے کے مقابل کا لفظ ہے اور صبر کے معنے ہوتے ہیں دلیری دکھائی جرأت دکھائی ہمت دکھائی اور صَبَر عَنِ الشَّیْئِ کے معنے ہیں اَمْسَکَ عَنْہُ کسی چیز سے رُکا رہا۔ صَبَرَ الدَّابَۃَ حَبسَہَا بِلَا عَلَفٍ اور جب صَبَرَ کا مفعول دَابۃ کا کا لفظ ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جانور کو چارہ نہ دیا نیز کہتے ہیں صَبَرْتُ نَفْسِیْ عَلیٰ کَذَا۔ حَبَسْتُھَا کہ میں فلاں بات پر ثابت قدمی دکھائی چنانچہ محاورہ ہے صَبَرْتُ عَلیٰ مَا اَکْرَہُ وَ صَبَرْتُ عَمَّا اُحِبُّ یعنے جب صَبَرَ کا صلہ عَلٰی ہو تو اس کے معنے کسی امر پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں اور جب اس کا صلہ عَنْ ہو تو اس کے معنے کسی چیز رُکنے یا کسی کو اس سے روک دینے کے ہوتے ہیں (اقرب) پس صَبْرٌ کے معنے (۱) بدیوں سے رُکتے رہنا اور نیکیوں پر ثابت قدم رہنا (۲) خدا تعالیٰ کے راستہ میں تکلیف پر جزع فزع نہ کرنا۔
اَلصَّلوٰۃُ:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اَلْخٰشِعِیْنَ:۔ خٰشِعِیْنَ اور خٰشِعُوْنَ خَاشِعٌ کی جمع ہے جو خَشَعَ سے اسم فاعل ہے۔ خَشَعَ کے معنے ذَلَّ وَتَطَأْمَنَ تابعدار ہو گیا اور عاجزی کا اظہار کیا اور خَشَعَ بِبَصَرِہٖ کے معنے ہیں غَضَّہٗ آنکھ نیچے کر لی۔ نھایۃ میں لکھا ہے کہ اَلْخُشُوْعُ فِیْ الصَّوْتِ وَالْبَصَرِ کَالْخُضُوْعِ فِی الْبَدَنِ جس طرح بدن کی عاجزی اور کمزوری ظاہر کرنے کے خضوع کا لفظ بولا جاتا ہے اسی طرح آواز کے کمزور ہونے اور آنکھ کے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے خشوع کا لفظ استعمال ہوتا ہے (اقرب) مفردات میں ہے کہ اَلْخُشُوْعُ اَلضَّرَاعَۃُ خشوع کے معنے عاجزی کرنے ہوتے ہیں وَاَکْثَرُ مَا یُسْتَعْمَلُ الْخُشُوْعُ فِیْمَا یُوْجَدُ عَلَی الْجَوَارِح وَالضَّرَاعَۃُ اَکْثَرُ مَا تُسْتَعْمَلُ فِیْمَا یُوْجَدُ فِی الْقَلْبِ کہ خشوع کا استعمال اکثر اس عاجزی پر ہوتا ہے جو اعضاء سے ظاہر ہو رہی ہے اور تضرع اکثر دل میں عاجزی پیدا ہو جانے کے متعلق بولا جاتا ہے (مفردات) پس خٰشِعِیْنَ کے معنے ہونگے عاجزی اختیار کرنے والے۔ فروتنی اختیار کرنے والے۔
تفسیر۔ صداقت کے قبول کرنے میں دو روکیں ہوتی ہیں (۱) حکومت قوم رشتہ داروں اور دوستوں کا دبائو جو حق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یا ضد تعصب یا خود غرضی کی وجہ سے حق کو قبول نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی قبول نہیں کرنے دیتے (۲) سابق عادات یا گناہوں کا زنگ دل کو مردہ کر دیتا ہے اور ہمت کو سلب کر دیتا ہے۔
اس آیت میں ان دونوں روکوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا ہے کہ اے بنی اسرائیل اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو اسے قبول کرنے میں دیر نہ کرو بیشک تم کو تمہارے ہم قوموں اور رشتہ داروں دوستوں کی طرف سے روکا جائے گا تم پر ظلم کیا جائے گا۔ تکلیفیں دی جائینگی مگر ان باتوں کی پروا نہ کرو اور صبر کی پسندیدہ عادت سے اس روک کا مقابلہ کرو دوسرے اپنے دل کو صاف کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو تاکہ دل کے زنگ دور ہوں اور تم میں صداقت کو قبول کرنے کی اہلیت پیدا ہو۔
ایک اور نفسیانی نکتہ بھی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی کام کی درستی کے لئے دو امور کی ضرورت ہوتیہے اول بیرونی بد اثرات سے حفاظت ہو دوسرے اندرونی طاقت کو بڑھایا جائے اس آیت میں صبر کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بیرونی بد اثرات کا مقابلہ کرو اور صلوٰۃ کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر کے اس کے فضلوں کو جذب کرو اس طرح کمزوری کے راستے بند ہونگے اور طاقت کے حصول کے دروازے کھل جائیں گے اور تم کامیاب ہو جائو گے حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ صبر کے معنے صرف جزع فزع سے بچنے کے ہی نہیں ہوتے بلکہ برے خیالات کا اثر قبول کرنے سے رکنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے بھی ہوتے ہیں اوپر کی تفسیر میں یہی معنے مُراد ہیں جب کوئی بد اثرات کو رد کرے اور نیک اثرات کو قبول کرنے کی عادت ڈالے جو دعائوں سے حاصل ہو سکتی ہے تو اس کے دل میں روحانیت پیدا ہو کر جو کام پہلے مشکل نظر آتا تھا آسان ہو جاتا ہے اور روحانی ترقی کی جنگ میں اسے فتح حاصل ہوتی ہے۔
اگلے جملہ میں جو کَبِیْرَۃٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے معنے بڑی کے ہیں اور اس آیت میں موقعہ کے لحاظ سے مشکل امر کے معنے ہوتے ہیں اور خَاشِع کے معنے ڈرتے والے کے ہوتے ہیں لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ جس جگہ بھی استعمال ہوا ہے اس ہستی سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اس ہستی سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جس سے ڈرنا مناسب ہو چنانچہ خَاشِع کا لفظ سارے قرآن کریم میں یا تو خدا تعالیٰ سے ڈرنے یا اس کے عذاب سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ بندوں یا دوسری چیزوں سے ڈرنے کے معنوں میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ اس قسم کا علاج بتانا آسان ہے اس پر عمل کرنا مشکل ہے پس اس کا جواب وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ میں دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس علاج پر عمل مشکل کام ہے لیکن جو خَاشِع ہو جائے اس کے لئے مشکل نہیں رہتا گویا گناہوں اور کمزوریوں سے بچنے کا حقیقی علاج خدا تعالیٰ پر ایمان ہے بغیر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کے انسان دوسری تدبیروں سے گناہ سے نہیں بچ سکتا۔ دُنیا نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے لیکن افسوس کہ وہ بار بار اس نکتہ کو بھول جاتی ہے حقیقی نیکی اور کامل نیکی کبھی بھی خدا تعالیٰ پر کامل یقین کے بغیر نہیں پیدا ہوتی فلسفیانہ دلائل انسان کے اندر سچا تقویٰ نہیں پیدا کر سکتے۔ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان کے بعد خوف بدیوں سے پیدا ہوتا ہے وہ اور کسی طرح پیدا نہیں ہوتا اسی وجہ سے انبیاء کی جماعتوں نے جو نیکی اور قربانی کا نمونہ دکھایا ہے وہ اور کوئی جماعت دُنیا کی نہیں دکھا سکتی۔
اس آیت میں جس محبت اور خیر خواہی سے بنی اسرائیل کو نصیحت کی گئی ہے وہ اس اعلیٰ روح کا جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے ایک بین ثبوت ہے لفظ لفظ سے ان کی خیر خواہی ٹپکتی ہے اور ان الفاظ کا کہنے والا بنی اسرائیل کو غلطی سے بچانے کا پورا خواہشمند معلوم ہوتا ہے بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ کلام محمد رسول اللہ کا ہے اور وہ اس طرح یہودیوں میں اپنے آپ کو مقبول بنانا چاہتے تھے مگر اس آیت کے الفاظ پر غور کرو کیا یہ الفاظ کسی شہرت کے طالب کے ہو سکتے ہیں پھر یہ بھی سوچو کہ بنی اسرائیل نے باوجود اس نصیحت کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت قوم کے نہیں مانا مگر اس سے کس کا نقصان ہوا کیا اسلام کو اس سے کوئی نقصان بھی پہنچا۔ جس وقت یہ نصیحت کی گئی تھی صرف چند سو آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے لیکن اب چارلیس کروڑ آدمی آپؐ کا کلمہ پڑھ رہا ہے ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ہے اور اب پھر ان کی ترقی کے سامان اللہ تعالیٰ پیدا کر رہا ہے۔ بنی اسرائیل اگر آپ پر ایمان لے آتے تو وہ ان حالات میں اور کیا تبدیلی کر دیتے اگر کچھ فائدہ تھا تو انہی کا تھا۔ ان میں سے لاکھوں مسیحی ہوئے ہیں مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا ہے ملکوں میں سے نکالا جانا۔ جائدادوں کا لُوٹا جانا ان کا حصہ ہے اور نہ وہ اِدھر کے رہے ہیں نہ اُدھر کے۔ اگر اسلام لاتے تو آج کروڑوں مسلمانوں کے برابر کے شریک ہوتے اور کوئی ان کو غیر قرار دے کر دُکھ نہ دیتا پس ان حالات کے باوجود مسیحی مصنفوں کا یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھے ایک خلافِ عقل اور خلافِ واقع اعتراض ہے محض بنی اسرائیل کے فائدہ کی ایک بات کہی گئی تھی انہوں نے نہ مانا اور تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔
۴۸؎ حل لغات
یَظُنُّوْنَ۔ ظَنَّسے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور ظَنَّ الشَّیْئَ کے معنے عَلِمَہٗ وَاسْتَیْقَنَہٗ کہ کسی چیز کو معلوم کیا اور اس کے متعلق یقین کر لیا اور اَلظَّنُّ کے معنے کے ماتحت لکھا ہے ھُوَ الْاِعْتِقَادُ الرَّاجِحُ مَعَ اِحْتِمَالِ النَّقِیْضِ وَیُسْتَعْمَلُ فِی الْیَقِیْنِ وَالشَّکِّ یعنی ظن کے معنے زیادہ تر خیال غالب کے ہوتے ہیں اور بعض وقت وہ یقین زیادہ تر خیال غالب کے ہوتے ہیں اور بعض وقت وہ یقین کے معنے میں اور بعض وقت شک کے معنے میں بھی استعمال ہوتا ہے (اقرب) اس آیت میں ظن بمعنے یقین کے استعمال ہوا ہے اور یَظُنُّوْنَ کے معنے ہیں وہ یقین رکھتے ہیں۔
تفسیر قرآن کریم کا یہ عام طریق ہے کہ جب کسی لفظ کو خاص معنوں میں استعمال کرتا ہے تو اس اصطلاح کی ساتھ ہی تشریح بھی کر دیتا ہے اس آیت میں بھی قرآنی اصطلاح کے مطابق خَاشِعِیْنَ کے معنے بتائے گئے ہیں خَاشِعٌ چونکہ ڈرنے والے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اس جگہ عام ڈرنیوالے کے معنوں میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور ایک دن اس کے سامنے حاضر ہونے پر انہیں پورا یقین ہے۔
پس خَاشِعِیْنَ کے معنے اوپر کی آیت میں صرف ڈرنے والے کے نہیں کئے جائیں گے بلکہ اس سے مراد وہ شخص لیا جائے گا جس کا خوف خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین سے پیدا ہوتا ہے اور اس خوف کی بناء نقصان کے ڈر پر نہیں بلکہ اس امر پر ہے کہ میں اعلیٰ ترقیات سے محروم نہ رہ جائوں گویا یہ ڈر ایک بزدلی کا ڈر نہیں بلکہ ایک عارف کی گھبراہٹ ہے جو دلیر سے دلیر آدمی میں بھی پائی جاتی ہے اور پائی جانی چاہیئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہود کو دُنیاوی تکلیفوں سے ڈرنے سے روکتے ہوئے یہ فقرہ استعمال کیا گیا ہے کہ اس ڈر کا دُور کرنا ہے تو مشکل مگر خَاشِعِیْنَ کے لئے مشکل نہیں ڈر کے عام معنوں کے رو سے یہ فقرہ عجیب معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کی ظاہری شکل یوں بنتی ہے کہ لوگوں سے ڈرو نہیں بیشک ڈرنے سے بچنا مشکل ہے مگر ڈرنے والوں کے لئے مشکل نہیں۔ مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے۔ اَلْخُشُوْعُ کے معنے عام ڈر کے نہیں بلکہ ایک کامل ہستی پر ایمان رکھتے ہوئے قرب سے محروم رہنے کے خوف کے ہیں اور ان معنوں کی رو سے اس فقرہ میں کوئی امر قابلِ تعجب نہیں اور اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ دنیوی مشکلات سے نہ ڈرو یہ بیشک مشکل امر ہے لیکن جو لوگ اپنے لئے ایک اعلیٰ مقصد قرار دے لیں اور اس مقصد کو چھوڑنا ان پر سخت گراں گزرنے لگے ان کے لئے ایسے خطرات برداشت کرنے مشکل نہیں رہتے اس قسم کا ۔ر درحقیقت بہادری اور احتیاط کی ایک قسم ہے نہ کہ بزدلی کا مظاہرہ۔
وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو مابعدالموت زندگی پر اس کے مناسب حال زور دیتا ہے اسلام کے سوا کوئی اور مذہب تقویٰ کی بنیاد کو بعدالموت زندگی پر نہیں رکھتا۔ اسلام اس دُنیا کی زندگی کو ایک لمبی زندگی کی ایک کڑی قرار دیتا ہے جس میں انسانی روح کی تکمیل ہوتی ہے وہ اس زندگی کے ختم ہونے کو رُوح کی کشمکش کا خاتمہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس کے بعد بھی اس کشمکش کو جاری بتات ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس زندگی میں انسان نسبتی طو رپر اندھیرے میں کوشش کرتا ہے اور مرنے کے بعد نیک و بد دونو ںکو ایک بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جس کی رہنمائی میں وہ آیندہ ترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ بد لوگ اپنے پیدا کردہ ماحول سے نجات پانے کے لئے اور نیک لوگ مزید ترقیات کے لئے یہی وہ یقین ہے جس نے سچے مسلمانوں کو ہمیشہ موت سے نڈر بنائے رکھا ہے اورجب بھی اس ایمان کے ساتھ مسلمان اُٹھتے ہیں دُنیا پر غالب آتے ہیں۔ جو لوگ اس دُنیا کو اپنی ترقیات کا انجام سمجھتے ہیں کبھی نیکی کے لئے جدوجہد نہیں کر سکتے جو بعد الموت زندگی پر ایمان لانے والے کر سکتے ہیں اس دُنیا کو منتہا قرار دینے والے بار بار دنیاوی لذات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور جسمانی آرام کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔
۴۹؎ حل لغات
اِتَّقُوْا۔ اِتَّقُوْاامر مخاطب کا جمع کا صیغہ ہے اِتَّقٰی کے لئے دیکھو حل لغات سورہ بقرہ ۴؎
یَوْمًا:۔ یَوم کے معنے کے لئے دیکھو حل لغات سورہ فاتحہ ۵؎
لَاتَجْزِیٰ:۔ جَزیٰ سے مضارع منفی واحد مونث غائب کا صیغہ ہے اور اَلْجَزَائُ (جو جَزٰی کا مصدر ہے) کے معنے ہیں اَلْمُکَافَأَۃُ عَلَی الشَّیْئِ کسی بات پر کسی کو کوئی بدلہ دینا اور جب کہیں کہ جَزَی الشَّیْئُ تو اس کے معنے ہونگے کَفٰی ایک چیز دوسری چیز کی ساری باتوں
۱؎ سورۃ البقرہ
اس سورۃ کا نام سورۃ البقرہ ہے جیسا کہ مختلف احادیث سے ثابت ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے گو احادیث سے یہ امر ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے خود ہی یہ نام رکھا یا اللہ تعالیٰ کے فرمانے کے مطابق رکھا۔ مگر میرا اپنا یقین یہی ہے کہ سورتوں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکھے گئے ہیں۔ اس سورۃ کے نام کے متعلق جو روایات ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں۔
ترمذی میں ہے عن ابی ھریرۃَ قال قال رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلَّمَ لکلّ شیًٔ سَنامٌ وانَّ سنامَ القراٰنِ سورۃُ البقرۃ وفیہا اٰیہٌ ھِیَ سَیِّدَۃُ اٰیِ القراٰنِ ھی آیۃ الکرْسی (ترمذی جلد دوم ابواب فضال القرآن) یعنی ہر چیز کا ایک چوٹی کا حصہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کی چوٹی کا حصہ سورۃ البقرہ ہے اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کریم کی سب آیت کی سردار ہے اور وہ آیۃ الکرسی ہے۔
یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور مختلف وقتوں میں نازل ہوتی رہی ہیں اور بعض کے نزدیک اس کی ایک آیت آخری ایام حجتہ الوداع کے موقع پر قربانی کے دن نازل ہوئی تھی اور وہ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ (بقرہ ع ۳۸) کی آیت ہے اس سورۃ کی رباء کی آیات (یعنی سود کے احکام پر مشتمل آیات) قرآن کریم کی آخری زمانہ میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہیں۔
ترمذی نے ابوہریرۃ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج بھجوائی جو آدمی اس کے لئے چنے گئے۔ آپؐ نے اُن سے قرآن کریم سنا۔ آخر آپؐ ایک شخص کی طرف متوجہ ہوئے جو ان سب سے چھوٹی عمر کا تھا اور اس سے پوچھا کہ تم کو کتنا حصہ قرآن کریم کا یاد ہے اس نے کہاں فلاں فلاں سورۃ کے علاوہ سورۃ بقرہ بھی یاد ہے آپؐ نے فرمایا کہ کیا سورۃ البقرہ کو یاد ہے؟ اس نے کہا ںہاں یا رسول اللہ آپؐ نے فرمایا۔ بس تو تم اس لشکر کے سردار مقرر کئے جاتے ہو۔ اس پر اس قوم کے سرداروں میں سے ایک شخص نے کہا کہ خدا کی قسم میں سورۃ بقرہ کے یاد کرنے سے صرف اس لئے رکا رہا ہوں کہ کہیں مجھے بعد میں بھول نہ جائے۔ یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن سیکھو اور اسے پڑھتے رہا کرو کیونکہ جو شخص قرآن سیکھتا ہے او رپھر اسے پڑھتا رہتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس تھیلی کی سی ہے جس میں مشک بھرا ہوا ہو اور اس کی خوشبو نکل نکل کر سارے مکان میں پھیل رہی ہو۔ اور جو شخص قرآن سیکھ کر سو جائے اس حالت میں کہ قرآن اس کے اند رہو اس کی مثال اس تھیلی کی سی ہے جس میں مشک بند پڑا ہو (ترمذی جلد دوم ابواب فضائل القرآن۔ ابن ماجہ نے بھی اس روایت کو جزواً روایت کیا ہے)
ابن مردویہ نے عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ کی تلاوت کی جائے اس سے شیطان بھاگ جاتا ہے (ابن کثیر)
اسی طرح دارمی نے اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت درج کی ہے کہ جو شخص سورۃ بقرہ کی دس آیتیں رات کے وقت پڑھے صبح تک شیطان اس کے گھر میں داخل نہیں ہوتا۔ یعنی سورۃ بقرہ کے ابتداء کی چار آیتیں آیتہ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور سورۂ بقرہ سے آخر کی تین آیتیں جو لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ کے الفاظ سے شروع ہوتی ہیں (یہ آخری رکوع ہے جس میں صرف تین آیتیں ہیں) (ابن کثیر)
بظاہر سورتوں کے ذاتی فضائل کا ذکر ایک تعلیم یافتہ آدمی پر گراں گزرتا ہے کیونکہ کسی سورۃ کا صرف سورۃ کے ہونے کے لحاظ سے کوئی خاص اثر رکھنا بے معنی سا معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اس امر کو اس نگہ سے دیکھا جائے کہ ہر سورۃ خاص مضمون پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ مضمون ضرور قلب پر کوئی اثر چھوڑتا ہے تو فضائل کا بیان آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سورۃ بقرہ کے یاد کرنے پر ایک نوجوان کو لشکر کا امیر بنا دیا۔ اس میں کئی حکمتیں تھیں۔ اوّل آپؐ نے اس طرح دوسرے لوگوں کے دلوں میں زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کرنے اور یاد رکھنے کی خواہش پیدا کی۔ اسلامی لشکروں کی سرداری مالی لحاظ سے منفعت بخش نہ تھی مگر اپنے روحانی باپ کی خوشنودی کی جو قدر صحابہ کے دل میں تھی اسے صرف محبت کی چاشنی سے واقف لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں دوسرے اس میں یہ بھی حکمت تھی کہ اس زمانہ میں جو سردار لشکر ہوتا تھا وہی عام طو رپر امام الصلوٰۃ بھی ہوتا تھا اور اسی سے لوگ مسائل وغیرہ بھی دریافت کرتے تھے۔ اور سورۃ بقرہ میں باقی سب سورتوں سے زیادہ مسائل بیان ہوئے ہیں یہاں تک کہ حضرت ابن العربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استادوں میں سے ایک اُستاد سے سُنا ہے کہ سورۃ بقرہ میں ایک ہزار حکم ہے اور ایک ہزار مناہی ہے اور ایک ہزار فیصلے اور ایک ہزار خبریں ہیں (قرطبی) یہ صوفیانہ رنگ کی بات ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ سورۃ بقرہ میں مضامین کی نوعیت اور احکام اسلام کی وسعت اس قدر ہے کہ دوسری سورتوں میں سے کسی میں بھی اس قدر نہیں ہے۔
یہ جو آپؐ نے فرمایا کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے اس میں شیطان نہیں آتا اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس سورۃ میں شیطانی وساوس کا ایسا رد موجود ہے کہ اس پر غور کرنے کے بعد شیطان گھر میں نہیں آ سکتا اور یہ جو فرمایا کہ صبح تک شیطان نہیں آتا اس سے اس طرف اشارہ کیا کہ تعلیم خواہ کیسی اعلیٰ ہو جب تک بار با دہرائی نہ جائے دل پر پورا اثر نہیں ہوتا اور نیک اثر خواہ کس قدر اعلیٰ ہو کچھ عرصہ کے بعد اگر اس کی تجدید نہ کی جائے زائل ہو جاتا ہے۔
اور یہ جو فرمایا کہ جو شخص سورۂ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیۃ الکرسی اور اس کے ساتھ کی دو آیتیں اور سورۂ بقرہ کی آخری تین آیتیں پڑھے اس کے گھر سے بھی شیطان بھاگ جاتا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے کہ ان آیتوں میں اسلام کا خلاصہ ہے سورہ بقرہ کی پہلی آیتوں میں پاک عملی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے آیتہ الکرسی میں صفات باری کا نہایت لطیف نقشہ ہے اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتوں میں دل کو پاک کر دینے والی دُعائیں ہیںاور یہ تین چیزیں یعنی (۱) الٰہی کلام کی متبع میں نیک اعمال کا بجا لانا (۲) صفات الٰہیہ پر غور کرنا (۳) او ران دونوں باتوں کے ساتھ دعا میں مشغول رہنا اور اپنے آپ کو آستانہ الٰہی پر گرا دینا جب اکٹھی ہو جائیں تو انسان کہ دل پاک ہو جاتا ہے اور شیطان بھاگ جاتا ہے۔
سورتوں کی ترتیب
یہ سورۃ قرآن کریم کی تفصیل سورتوں میں سے پہلی سورۃ ہے لیکن نزول کے لحاظ سے یہ سورۃ کلام الٰہی کے نزول کے چودھویں سال میں جا کر نازل ہونی شروع ہوئی اور کئی سال تک نازل ہوتی رہی۔ بالآخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ ہی عرصہ پہلے مکمل ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیوں نہ قرآن کریم کو اسی ترتیب سے جمع کیاگیا جس ترتیب سے کہ قرآن کریم نازل ہوا تھا؟ بعض دشمنانِ اسلام اور بعض مسلمانوں تک نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ سورتوں کی لمبائی چھوٹائی کے لحاظ سے قرآن کریم کو جمع کر دیا گیا ہے اور کسی معنوی ترتیب کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ یہ دعویٰ ایک نہایت لغو اور حقیقت سے دُور دعوی ہے کہ کیونکہ (۱) قرآن کریم کی سورتوں کی موجودہ ترتیب خود اس دعویٰ کو باطل کرتی ہے پہلی سورۃ فاتحہ ہے جو نہایت چھوٹی اور سات آیتوں کی سورۃ ہے۔ دوسری بقرۃ نہایت لمبی ہے تیسری آل عمران ہے جس کے بیس رکوع ہیں لیکن چوتھی نساء کے چوبیس رکوع ہیں اسی طرح اگلی سورتوں میں بھی کئی جگہ پر فرق ہے پس یہ کہنا کہ لمبائی کے مطابقوں سورتوں کو آگے پیچھے رکھ دیا گیا ہے درست نہیں۔ (۲) قرآن کا جمع کرنا کسی بندہ کا فعل نہیں بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فعل نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ (القیامتہ ع ۱) یعنی قرآن کریم کا جمع کرنا اور اس کا دُنیا میں پھیلانا یہ دونو ںکام میں خود کروں گا اور میرے خاص حکم اور نگرانی سے یہ کام ہوں گے پس ایک مسلمان کے نزدیک تو یہ انسانی کام ہو ہی نہیں سکتا اور غیر مسلموں کے لئے وہ جواب ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے (۳) تیسرا جواب یہ ہے کہ سب سورتوں کے مضامین میں ترتیب موجود ہے اگر صرف لمبائی اور اختصار پر انہیں آگے پیچھے رکھا گیا تھا تو پھر سورتوں کے مضامین میں جوڑ اور اتصال کیونکر پیدا ہو گیا۔ جیسا کہ آگے چل کر تفسیر میں انشاء اللہ ثابت کیا جائے گا اور جس کا علم ہر سورۃ کے شروع اور آخر کے نوٹوں کو پڑھنے سے اس تفسیر کا مطالعہ کرنے والو ںکو ہو جائے گا۔ پس عیاں راچہ بیاں۔
بیشک یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگرموجودہ ترتیب خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کیوںنہ اسی تریب میں اُتارا جو اس وقت موجود ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کلامِ حکیم کے لئے یہ امر لازمی ہے کہ اس کے اُترنے کی ترتیب اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب الگ الگ ہو جب کوئی ایسا نبی دنیا میں آئے جو نئی شریعت لانے والا ہو اور جس نے عقائد اور اعمال کے متعلق ایک مکمل ہدایت نامہ دُنیا کو دینا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے اس کے الہام کا ابتدائی حصہ ترتیب تدوین کے لحاظ سے ابتدائی نہ ہو کیونکہ جن باتو ںکی ابتدائی دعویٰ کے وقت جبکہ لوگ اس نئے دین سے بالکل ناواقف ہوں گے سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرور ت ہو گی ان باتوں کو اس وقت سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرورت ہو گی جبکہ لوگ اس کے کلام سے ایک حد تک واقف ہو چکے ہونگے۔ پس اسی حکمت کے مطابق قرآن کریم کے نزول کی ترتیب او رہے اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب اور ہے چناچنہ سورتوں کے نزول کا سوال آیتوں کے نزول کی کیفیت سے حل ہو جاتا ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپؐ کا بتوں کو بلوا کر حکم فرما دیتے تھے کہ فلاں آیت کو فلاں جگہ پر رکھو او رفلاں کو فلاں جگہ پر (ابو دائود۔ ترمذی۔ احمد بحوالہ مشکوٰۃ کتاب فضائل القرآن نیز فتح الباری جلد ۹ صفحہ ۱۹،۲۰،۳۹) اگر صرف نزول کی ترتیب کافی ہوتی تو جب کوئی آیت نازَ ہوتی اسے اس سے پہلے کی نازل شدہ آیتوں کے ساتھ رکھ دیا جاتا۔
سورۃ بقرہ ہی کو دیکھ لو۔ اس کی رباء کی آیات قرآن کریم کے سب سے آخر میں نازل ہونے والے ٹکڑوں میں سے ایک ہیں لیکن وہ سورۃ بقرہ کے آحر میں نہیں رکھی گئیں۔ بلکہ کئی رکوع پہلے رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح وَاتَّقُوْا یَوْمًا والی آیت جس کی نسبت احادیث میں آتا ہے کہ حجتہ الوداع میں نازل ہوئی سورۃ کے آخر میں نہیں رکھی گئی۔ پس معلوم ہوا کہ آیتیں جس ترتیب سے نازَ ہوتی تھیں اسی ترتیب سے انہیں سورتوں میں نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ مضمون کے لحاظ سے رکھا جاتا تھا۔ بعینہٖ یہی صورت سورتوں کی ترتیب کی ہے وہ بھی مضامین کے لحاظ سے جمع کی گئی ہے نہ کہ نزول کے وقت کے لحاظ سے۔
یاد رہے کہ بس سے پہلے جو سورۃ نازل ہوئی یا یُوں کہو کہ جس سورۃ کی بعض آیات نازل ہوئی وہ سورۃ العلق ہے۔ اس کی جو آیات سب سے پہلے نازل ہوئیںیہ ہیں اِقْرَاْبِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقِ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَ کْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔ ان آیات میں تبلیغ کے شروع کرنے کا حکم ہے اور بتایا گیا ہے کہ تبلیغ کا حق انسان پر اس لئے ہے کہ اس کا ایک رب ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں محبت اور تعلق کا مادہ پیدا کیا ہے نیز اس نے انسان کے اندر ترقی کی قوتی رکھیں ہیں اور وہ اپنے بندے پر فضل کر کے اسے بڑھانا چاہتا ہے اور اس غرض سے اس نے انسان کو تحریر و تصنیف کا مادہ عطا کیا ہے تاکہ وہ اپنے علم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھائے بلکہ دوسروں تک بھی اسے پہنچائے اور آیندہ کے لئے بھی ان علوم کو محفوظ کر دے پھر فرماتا ہے کہ علمی ترقی کا مادہ اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی طاقت اس کے اندر رکھ کر اور علم کے محفوظ کرنے کا طریقہ بتانے کے بعد اس نے علم کی ترقی کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو ہر زمانہ میں علم کی ترقی کا موجب ہوتے رہیں گے اور انسان نئی سے نئی باتیں معلوم کرتا رہے گا جو اس کے باپ دادوں کو معلوم نہیں تھیں۔ ان آیات میں قرآن کریم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان کا ایک خالق ہے یہ بتایا ہے کہ انسان ہدایت کا محتاج ہے او راس کے اند رہدایت پانے اور ترقی کرنے کی قوت پیدا کی گئی ہے جس کے ابھارنے کے لئے یہ الہام نازل ہوا ہے۔ یہ سب باتیں وہ ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے وقت سب سے مقدم ہیں سب سے پہلا مخاطب انسان کا اپنا نفس ہوتا ہے جب تک اس کا اپنا دل جوش اور اخلاص اور کام کی اہمیت اور ضرورت کے احساس سے پُر نہ ہو وہ کبھی ایسے کامو ںکے لئے آمادہ نہیں ہو سکتا۔ جو اس کی جان اور اس کے آرام کی قربانی کا مطالبہ کرتے ہوں۔ چنانچہ سب سے پہلی قرآنی آیات میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے صرف اسی سورۃ میں نہیں بلکہ دوسری سورتیںجو ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے۔ مثلاً سورۂ مُدَّثّر پہلی سورتوں میں سے ہے اس کی ابتدائی آیات بھی اسی مضمون کی ہیں فرماتا ہے یٰٓا اَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَانْدِرْ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ اے ماموریت کا خلعت پہننے والے اُٹھ اور لوگوں کو ہوشیار کر اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر سورۂ مُزَّمِّل بھی ابتدائی سورتوں میں سے ہے اس کی ابتداء بھی اسی طرح کی ہے۔ یٰٓاَ یُّھَا الْمُزَّمِّلُ قَمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً نِّصْفَہٗ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً اَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاًo اِنَّا سَنُلُقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًاoیعنی اے نبوت کی چادر اوڑھنے والے راتوں کو جاگ کر عبادت کیا کر۔ نصف رات یا نصف سے کم یا نصف سے زیادہ عبادت میں گذار۔اور قرآن کو پڑھتا رہا کر کیونکہ ہم تجھ پر ایک ایسی ذمہ داری نازل کرنے لگے ہیں جس کا اُٹھانا آسان کام نہیں۔
ان ابتدائی سورتوں کے مضامین سے ظاہ رہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی صفات۔ انسانی پیدائش کی غرض عبادت کی ضرورت۔ دُنیا میں شرارت اور گناہ کی ترقی وغیرہ کے مضامین بیان کرنے کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ پر آمادہ کرنے اور اس کے لئے آپؐ کے دل میں جوش پیدا کرنے پر خاص زور دیا گیا ہے۔ گویا ان آیات میں محمد رسول اللہ کو نبوت کے عظیم الشان کام کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ بغیر اس تیاری کے نہ تو آپؐ اس کام کی اہمیت کو سمجھ سکتے تھے جو آپ کے سپرد ہونے والا تھا۔ اور نہ آپ اس کام کو عمدگی سے انجام دے سکتے تھے پس ابتداء میں ایسے ہی کلام کی ضرورت تھی اسی طرح اس مضمون کے بعد خدا تعالیٰ کی صفات۔ ضرورِ نبوت تقویٰ اور پاکیزگی کے مضامین۔ ضرورت دعا۔ قضا و قدر بعث بعد الموت وغیرہ مضامین کے متعلق تعلیمات کے بیان کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ اس وقت تک کوئی جماعت قائم نہ ہوئی تھی او رنہ دین مکمل ہوا تھا پس ضروری تھا کہ اتبدائی ضروری امور کو اختصار کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ وہ اصولی باتیں جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کرنے والی تھیں لوگوں کے سامنے آ جائیں۔
لیکن جب قرآن مکمل ہو گیا جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی جب ان کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے بہت سے مضامین سے غیر مسلموں کو بھی واقفیت ہو گئی اور مسلمانوں کی نسل بھی چل پڑی جس نے ابتدائی اور اصولی باتیں اپنے ماں باپ سے بچپن میں ہی سیکھ لیں تو اب قرآن کریم کے پڑھنے والے کے لئے ایک اور تریب کی ضرورت پیش آئی جو آیندہ زمانہ میں ہمیشہ کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ اب اس مضمون کے ابتداء میں بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ اے محمدؐ رسول اللہ تیری قوم کی حالت خراب ہے اور گو ان میں قابلیت موجودہ مگر اس قابلیت سے وہ فائدہ نہیں اٹھا رہے پس تو اُٹھ اور اُن میں تبلیغ کر اور انہیں خدا تعالیٰ کی طرف بلا۔ اب تو قرآن کریم کے پہلے مخاطب وہ لوگ ہونگے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جن کے زمانہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے اب اس مضمون سے قرآن کریم کا شروع ہونا ضروری ہے جس میں مومنوں کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے نزول کی غرض کیا ہے اور مسلمان ہونے کے لحاظ سے ان پر کیا ذمہ داریاں ہیں اسی طرح اس زمانہ میں غیر مسلم بھی قرآن کو فلسفیانہ نگہ سے دیکھنے کی کوشش کرینگے اور یہ پوچھیں گے کہ دوسرے مذاہب کی موجودگی میں اسلام کی کیا ضرورت ہے۔ ایک مسلمان کونسی ایسی غرض پُوری کر رہا ہے جو پہلی اقوام کے لوگ نہیں کر سکتے تھے۔ اسی طرح وہ پہلی کتب کی تعلیمات اور اسلام کی تعلیم کا فتفصیلی مقابلہ کر کے دیکھنا چاہیں گے نیز اس پر بحث کرینگے کہ پہلے انبیاء نے جو خاتم النبین کے بارہ میں پیشگوئیاں کی ہیں اسلام اور بانئی اسلام ان پیشگوئیوں کے مصداق ٹھہرتے ہیں یا نہیں۔ غرض قرآن کریم کی تکمیل کے بعد اس کی طرف توجہ کرنے کا طریقہ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں دونوں ہی کے لئے مختلف ہو جاتا ہے اور ایک کامل کتاب تبھی اپنے کمال کو قائم رکھ سکتے ہے جبکہ وہ ان تبدیل شدہ حالات کو مدنظر رکھے اور قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے اس ضرورت کو پورا کیا ہے۔ نہ تورا نہ انجیل اور نہ اور کسی کتاب میں یہ حکمت مدنظر رکھی گئی ہے کہ ابتداء نزول میں پہلے مخاطبین کو مدنظر رکھ کر اور طرح ترتیب ہو اور مذہب کی اشاعت کے بعد اس وقت کے لوگوں کا خیال کرتے ہوئے کتاب کے مضامین کی ترتیب بدل دی گئی ہوتا ان تبدیل شدہ حالات کے مطابق وہ مضامین زیادہ سے زیادہ مؤثر ثابت ہوں پس قرآن کریم کی نزول کی ترتیب اور جمع کی ترتیب میں جو فرق ہے یہ قابلِ اعتراض امر نہیں بلکہ قرآن کریم کی فضیلت او ربرتری کی ایک علامت ہے۔
سورۂ بصرہ میں جیسا کہ اس کی تفسیر کے پڑھنے سے ثابت ہو گا فطرت انسانی کے پیدا کردہ ان طبعی سوالات کو حل کیا گیا ہے جو فلسفیانہ طور پر ایک مکمل مذہب کے متعلق پیدا ہو سکتے ہیں اور اس کا مضمون ہی بتاتا ہے کہ یہ سورۃ ابتداء میں رکھنے کے لئے ہی نازل کی گئی تھی بلکہ جیسا کہ بتایا جائے گا سورۃ فاتحہ کے مضامین کا اس میں جواب دیاگیا ہے اور اس کے مضامین سے اس کا خاص تعلق ہے جو اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ اس کو سب سے پہلے رکھنا اس کی لمبائی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سورۃ فاتحہ کے مضامین سے اس کے گہرے تعلق کی وجہ سے ہے۔
اس سورۃ کے متعلق ایک ادبی لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ لبید بن ربیعہ عامری جاہلیت کے مشہور شعراء میں سے گزرا ہے ہے اس کا ایک قصیدہ سبع مطلقہ میں شامل ہے یعنی اس کے کلام کو عرب کے بہترین سات قصائد میں شمار کیا گیا ہے۔ یہ شاعر آخر عمر میں اسلام لے آیا۔ اور سورۂ بقرہ کی فصیح زبان سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے شعر کہنا ہی چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اس سے اپنا نیا کلام سنانے کی فرمایش کی اس نے اس کے جواب میں سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی حضرت عمرؓ نے اسپر اسے کہا کہ میں نے تم سے اپنے شعر سنانے کو کہاہے۔ اس نے جواب دیا کہ مَاکُنْتُ لاقول بَیْتًا مِّنَ الشعر بعد اِذ عَلَّمَنِیَ اللّٰہُ البَقَرَۃ وَاٰلَ عِمْران یعنی جب اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۃ بقرہ اور آل عمران سکھا دی ہیں تو اب کس طرح ممکن ہے کہ اس کے بعد میں ایک شعر بھی کہوں۔ حضرت عمرؓ کو اس کا یہ جواب اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اس کا وظیفہ جو دو ہزار درہم سالانہ تھا بڑھا کر اڑھائی ہزار کر دیا (اسد الغابہ جلد چہارم حالات لبید بن ربیعہ صفحہ ۲۶۲) بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتا ہے مگر جب ہم لبید کے اس مرتبہ کو دیکھتے ہیں جس اسے عرب کے ادبی حلقہ میں اس زمانہ میں حاصل تھا جو عربی علم ادب کے کمال کا زمانہ کہلاتا ہے او رجس زمانہ کے شعراء کے کلام کو آج تک بہترین کلام سمجھا جاتا ہے اور پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اتنا زبردست شاعر جو خود بادشاہِ سخن کہلاتا تھا سورۂ بقرہ کی زبان سے اس قدر متاث رہوا کہ اس نے شعر کو جو اس کی رُوح کی غذا تھی جو اس کی عزت کا ذریعہ تھا جس نے اسے عرب کے حکمران حلقوںمیں صدر مقام پر بٹھا رکھا تھا سورۂ بقرہ کی زبان سے مرعوب ہو کر بالکل ترک کر دیا اور جب اس سے اپنا تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو اس نے حیرت سے جواب دیا کہ کیا سورۂ بقرہ کے بعد بھی کسی اور کلام کی ضرورت رہ جاتی ہے تو ہمیں مالنا پڑتا ہے کہ ایک معجزانہ کلام کے سوا یہ تاثیر اور کسی کلام سے پیدا نہیں ہو سکتی۔
خلاصۂ سورۂ بقرہ
پیشتر اس کے کہ میں سورۂ بقرہ کی آیات کا مطلب الگ الگ بیان کروں۔ میں سورۂ بقرہ کے مصامین کا خلاصہ بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے یہ بھی ثابت ہو جائیگا کہ سورۂ بقرہ کو باوجود آخر میں نازل ہونے کے پہلے کیوں رکھا گیا ہے اور اس کے مضامین کی ترتیب بھی مختصر طورپر ذہن میں آ جائے گی جس سے اس کے مطالب کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
میں سورۂ فاتحہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس کی تفسیر مجھے ایک فرشتہ نے رویا میں سکھائی تھی سورۂ بقرہ کی تفسیر مجھے اس طرح تو حاصل نہیں ہوئی لیکن اس میںکوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک القاء کے طو رپر مجھے اس کی تفسیر بھی سکھائی ہے اور جو شخص بھی ذرا غور سے دیکھے گا اسے معلوم ہو گا۔ کہ جو نکتہ اس بارہ میں مجھے بتایا گیا ہے وہ ساری سورۂ بقرہ کو ایک باترتیب مضمون کی صورت میں بدل دیتا ہے اور اس امر کے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یہ تفہیم صرف اور صرف فضل الٰہی سے حاصل ہوئی ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ستائیس سال کا عرصہ گذرا کہ میں چند دوستوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا سورۂ بقرہ کا درس تھا جب میں اس آیت پر پہنچا کہ رَبَّنَا وَا بْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَ کِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (بقرہ ع ۱۵) تو یکدم میرے دل پر القاء ہوا کہ یہ آیت اس سورۃ کے مضامین کی کنجی ہے اور اس سورۃ کے مضامین اس آیت کے مضامین کے مطابق اور اسی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں میں جب اس علم سے فائدہ اُٹھا کر سورہ بقرہ کا مطالعہ کیا تومیری حیرت اور عقیدت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ سورۂ بقرہ کو میں نے نہ صرف اس آیت کے مضامین کے مطابق پایا بلکہ اس کے مضامین باوجود مختلف قسم کے ہونے کے میرے ذہن میں ایسے مستحضر ہو گئے کہ مجھے یُوں معلوم ہوا کہ گویا اس کے مضامین موتیوں کی لڑی کی طرح پروئے ہوئے ہیں۔
اس آیت کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے مکہ میں ایک نبی کے مبعوث ہونے کے لئے کی ہے اور اس دعا کا مضمون یہ ہے کہ اس شہر اور اس قوم میں ایک ایسا نبی مبعوث ہو جو (۱) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان اور یقین کو درست اور مضبوط کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے دلائل لوگوں کے سامنے بیان کرے جو دُنیا کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے راستہ کے نشان اور شمع ہدایت ثابت ہوں (۲) وہ لوگوں کے سامنے ایک مکمل کتاب پیش کرے (۳)جو شریعت وہ دُنیا کے سامنے پیش کرے اس کے اندر احکام او رمذہب کی اور ان تمام دینی امور کی جن پر مذہب کی ترقی کا مدار ہے حکمت بھی بیان کی گئی ہو (۴) وہ ایسے ذرائع اختیار کرے اورایسے طریق بتائے جن سے قوم کی ترقی اور پاکیزگی کے سامان پیدا ہوں۔
ان مضامین کو سامنے رکھ کر جب میں نے سورۂ بقرہ کو دیکھا تو اس کے مضامین کو لفظاً لفظاً ان مضامین کے مطابق پایا بلکہ میں نے دیکھا کہ وہ مضامین بیان بھی اسی ترتیب سے ہوئے ہیں جس ترتیب سے ان کا اس آیت میں ذکر ہے اور ہر حصہ میں اس آیت کے الفاظ کی طرف اشارہ بھی کر دیا گیا ہے یعنی آیات کے مضمون میں آیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پھر کتاب اور حکمت کا مضمون بیان کیا ہے اور کتاب اور حکمت کے الفاظ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر تزکیہ کا مضمون بیان کیا ہے تو اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ مضامین کے لحاظ سے یُعَلِّمْھُمُ الْکِتٰبَ کا مضمون اکتیس رکوع تک بیان ہوا ہے اور پھر تزکیہ کا مضمون اکتیسویں رکوع سے شروع ہو کر آخر سورۃ پر یعنی پر یعنی چالیسویں رکوع پر ختم ہوا ہے جو شخص اس امر کو مدنظر رکھ کر سورۂ بقرہ کو پڑھے گا اس کے مطالب کی وسعت اور جامعیت اور ترتیب کی خوبی اور تاثیر کا حیرت انگیز مطالعہ کرے گا۔
خلاصہ رکوع اوّل
سورۂ بقرہ سورۂ فاتحہ کے بعد شروع ہوتی ہے۔ سورۂ فاتحہ میں طلبِ ہدایت کی دُعا سکھائی گئی تھی۔ سورۂ بقرہ کی پہلی آیات میں اس دُعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم نے سورۃ فاتحہ میں جس ہدایت کو طلب کیا تھا اور جو گزشتہ زمانہ کے منعم علیہ گروہ کی ہدایت ہے وہ یہی کتاب یعنی قرآن شریف ہے اور اس کے نزول کے ذریعہ سے فطرت کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے جو سابق ہدایتو ںکے مٹ جانے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے پیدا ہو کر عرش الٰہی کو ہلا رہی تھی پھر فرماتا ہے کہ قرآن کریم نے نہ صرف دنیا کے لئے ایک ہدایت نامہ پیش کیا ہے بلکہ ایک ایسا مکمل ہدایت نامہ پیش کیا ہے جو سب مذاہب کی صداقتوں پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے اس کے دعویٰ کی بنیاد اس پر نہیں کہ دوسرے مذاہب پر اعتراض کرے او ران کے متعلق دلوں میں شکوک پیدا کرے اور یہ کتاب انسان کے اخلاق اور اعملا ہی کو درست نہیں کرتی بلکہ ایسے ایسے مقام پر پہنچاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسے محبت خالص والا تعلق پیدا ہو جائے۔ اس کتاب کو ماننے والوں کے لئے امور اعتقادیہ بھی بیان کئے جائیں گے جن پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہو گا اور ان کے لئے عبادات کے طریق بھی بیان کئے جائیں گے جن پر عمل پیرا ہونا ان کے لئے ضروری ہو گا ان کے لئے حقوق العباد بھی بیان کئے جائیں گے اور ان پر چلنا بھی ان کے لئے ضروری ہو گا اور ان کے لئے سب صداقتوں اور سب سچے مذاہب کے بانیوں اور سب سچائیوں کا جو گزشتہ یا آیندہ زمانہ سے متعلق ہوں اس کتاب میں ذکر کیا جائے گا اور ان سب پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہو گا او ریہ ایمان رسمی نہ ہو گا بلکہ اس کے لئے انہیں قربانیاں کرنی پڑے گی اور لوگ مخالفت کریں گے لیکن وہ اپنی محالفت میں ناکام رہیں گے۔
خلاصہ رکوع دوم
اور کچھ لوگ منافقت سے تعلق پیدا کریں گے حالانکہ ان کے دلوں میں ایمان نہ ہو گا۔ اور کچھ لوگ ایمان تو رکھتے ہونگے مگر ان کے دل بزدلی سے پُر ہونگے پس بزدلی کی وجہ سے وہ اس کے دشمنوں سے ساز باز رکھیں گے ان دونوں گروہوں کی مخالفت اور منصوبہ بازی بھی اسلام کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔
خلاصہ رکوع تیسرا
پس جو بھی خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا پہے اسے اس مذہب میں داخل ہو کر خدائے واحد کی عبادت میں حصہ لینا چاہیئے اور تقویٰ کا مقام حاصل کرنا چاہیئے تا وہ قرآن کریم کی مدد سے خدا تعالیٰ تک رسائی پائے کہ پیدائش عالم کی غرص ہی یہ ہے اور اگر کوئی کہے کہ قرآن کریم کے اس دعویٰ کو ہم کیونکر تسلیم کریں ت وانہیں کہوکہ کسی نہ کسی مذہب کو تو تم تسلیم کرتے ہو اسے اس کی تعلیم کے مقابل پر رکھ کر دیکھ لو اگر اس میں اس سے اعلیٰ تعلیم موجود نہ ہو تو اسے رد کر دو ورنہ تو کو خود اپنے مسلمات کے رو سے ماننا پڑے گا کہ یہ الٰہی کتاب ہے جس میں پہلی الٰہی کتب سے بہتر تعلیم موجود ہے۔ نیز آسامانی نشانات کے بارہ میں بھی تم اس کتاب کے ماننے والوں سے مقابلہ کرکے دیکھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کن کے ساتھ ہے لیکن اگر سوچنے کی کوشش نہ کرو او ربلاوجہ انکار کرتے جائو تو اس میں کیا شبہ ہے کہ تم کو عذاب ملے گا اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جو لوگ اس اعلیٰ تعلیم کو مانیں گے انہیں اعلیٰ انعامات عطا ہونگے جو متواتر انہیں دیئے جائینگے تاکہ کوئی شخص ان انعامات کو اتفاقی حادثہ نہ کہہ سکے اور گو ہم نے ان انعامات کی طرف مختصر الفاظ میں اشارہ کیا ہے مگر اپنے وقت پر ان پیشگوئیوں کی عظمت ظاہر ہو کر رہے گی۔ اور منکروں کے لئے اعتراض کا لیکن مومنوں کے لئے زیادتی ایمان کا موجب ہو گی۔ او رمنکروں کا فائدہ نہ اُٹھانا ایک طبعی نتیجہ ہے کیونکہ بیمار آنکھ نور کو نہیں دیکھ سکتی۔ پھر فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی صداقت کے سمجھنے میں مشکل ہی کیا ہے یہ پہلا کلام نہیں۔ اس سے پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے مردہ قوموں کی طرف ہدایت آتی رہی اور اس کے ذریعہ سے لوگ زندہ کئے جاتے رہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ یہ سلسلہ اب ختم ہو جائے پس اب بھی اسی سنت کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حق آیا ہے اور آیندہ ایسا ہی ہوتا رہے گا پھر کیا مشکل ہے کہ جن اصول پر سابق صداقتوں کو پرکھا گیا تھا انہی پر قرآن کریم کی صداقت کو بھی پرکھ لیا جائے۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیوں نظامِ عالم کو نہیں دیکھتے کہ وہ ایک ارتقاء پر دلالت کرتا ہے جس میں الٰہی ہاتھ نظر آتا ہے پھر کیوں یہ اس ارتقاء کی آخری کڑی کو ماننے میں عذر کرتے ہیںحالانکہ ارتقاء کی آخری کڑی ہی مقصودِ اعلیٰ ہوتی ہے اسے چھوڑ دیا جائے تو سب نظام ہی ناممکن رہ جاتا ہے۔
خلاصہ رکوع چہارم
پھر اس نظام کی پہلی کڑی یعنی آدمؑ یعنی ملہم اوّل کا ذکر فرماتا ہے کہ آخر آدم کو تم مانتے ہو اس کی سچائی کا کیا ثبوت تمہارے پاس ہے جس طرح اس کی سچاوی کو اس زمانہ کے لوگوں نے مانا۔ اسی طرح محمد رسول اللہ کی صداقت کو پرکھا جا سکتا ہے اس کی ذات پر بھی اعتراض ہوئے اور معمولی لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ ملائکہ صفت انسانوں کی طرف سے اعتراض ہوئے۔ مگر کیا اس سے اس کی سچائی میں فرق آیا اللہ تعالیٰ نے اسی کی تائید کی اور پھر وہی ملائکہ صفت رہ سکے جنہوں نے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اس کے آگے تذلل سے گر گئے باقی شیطان بن گئے۔ پھر فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اگر آدم پر کلام نازل ہوا تھا تو پھر کسی اور کلام کی کیا ضرورت ہے کیونکہ آدم کے بعد اللہ تعالیٰ کیّ طرف سے متواتر اور حسبِ ضرورت کلام نازل ہوتا رہا ہے چنانچہ موجودہ زمانہ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا ان کی قوم میں نبی کے بعد نبی اصلاح کے لئے آئے اور چونکہ اس قوم نے بغاوت پر بغاوت کی۔ اللہ تعالیٰ نے مرکز الہام بدلنے کا فیصلہ کر لیا اور بنو اسمعٰیل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری کلام کا مورد بنایا اور اب بنی اسرائیل حسد کی وجہ سے آپؐ کی محالفت کرتے ہیں لیکن اس مخالفت کا بھی وہی نتیجہ ہو گا جو پہلے انبیاء کی مخالفت کا نتیجہ ہوا تھا۔
خلاصہ رکوع پانچ
پھر فرمایا بنی اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ان پر جو فضل ہوئے ہیں ہو حضرت ابراہیمؑ کے وعدوں کی وجہ سے ہوئے ہیں اور ابراہیمؑ سے جو وعدے ہوئے تھے وہ صرف بنو اسحاق کے بارہ میں نہ تھے بلکہ بنو اسمعٰیل کے حق میں بھی تھے۔ پس ضروری تھا کہ جب بنو اسحاق ذمہ داری کے ادا کرنے میں کوتاہی کریں تو بنو اسمعٰیل کے وعدہ کو پورا کیا جائے اور اسی وعدہ کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعٰیل کو وادی غیر ذی زرع یعنی مکہ میں رکھا تھا آخر بنو اسمعٰیل کی قربانی کا بدلہ ملنے کا وقت آ گیا چنانچہ اب ان میں سے نبی مبعوث کیا گیا ہے جس کا یہ کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات لوگوں کو سنائے انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاکیزہ کرے۔ (خلاصہ رکوع ۱۶) بنو اسرائیل کو اس پر چڑنے کا حق نہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کے آباء ابراہیم اسحاق یعقوب علیہم السلام نے انہیں نصیحت کی تھی کہ اصل عزت کامل فرمانبرداری میں ہے پس نہیں فرمانبرداری کر کے خدا تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنا چاہیئے اور باغی بنکر اس کے عذاب کو نہ بھڑکانہ چاہیئے۔
خلاصہ رکوع ۱۷،۱۸
پھر فرمایا کہ بنی اسرائیل محمدؐ رسول اللہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے گزشتہ نبیوں کا قبلہ ترک کر دیا ہے حالانکہ اوّل تو قبلہ مقصود بالذات شے نہیں صرف وحدت کے قیام کا ایک ذریعہ ہے دوسرے ابراہیم نے جو دُعا بنو اسمعٰیل کے حق میں کی تھی اس میں کعبہ کے قبلہ اور مکہ کے حج کی جگہ مقرر ہونے کی خبر دی گئی تھی۔ پس جب محمد رسول اللہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں تو ان کے لئے ضروری تھا کہ کعبہ کے قبلہ ہونے کا اعلان کریں ورنہ ان کی قوم ان برکات سے حصہ نہیں لے سکتی جو ابراہیمی دعا کے مطابق اس قبلہ سے وابستہ ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ کعبہ کی ظاہری و باطنی صفائی کریں ظاہری صفائی اس مقام کو فتح کر کے اور وہاں سے آلاتِ شرک کو دُور کر کے اور باطنی صفائی شرک اور کفر کے خیالات کو مٹا کر اور کعبہ کو قبلہ عالم بنا کر (خلاصہ رکوع ۱۹) پھر فرمایا اس کام میں مشکلات ہونگی اور کفار تلوار کے زور سے مسلمانو ںکو اسکام سے روکیں گے لیکن انہیں اس سے ڈرتا نہیں چاہیئے بلکہ دُعا اور کوشش سے اس کام میں لگا رہنا چاہیئے او ریاد رکھنا چاہیئے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہی ابدی زندگی پاتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ کوشش ضرور بار آور ہو گی اور مکہ فتح ہو گا اور انہیں اس کی ظاہری باطنی صفائی کا موقع مل جائے گا۔ (خلاصہ رکوع ۲۰)اس رکوع میں خاص طور پر آیات کا لفظ استعمال فرما کر یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جو باتیں ہم پہلے بیان کر آئے ہیں وہ یونہی نہیں بلکہ زمین و آسمان کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف اور قانون قدرت کے تمام مظاہروں سے انکی تصدیق ہوتی ہے یعنی اوّل تو قانون قدرت ایک روحانی قانون کے وجود اور اس کے ارتقاء کے ساتھ مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ دوسرے خود محمدؐ رسول اللہ کی تائید میں تم آسمان و زمین اور رات اور دن اور بادلوں اور ہوائوں اور خشکی اور تری کے سامانوں کو دیکھو گے اور تم کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کا پیارا ہے۔ تھی تو سب کائنات اس کی تائید میں لگی ہوئی ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایک نئی راہ تجویز کرتا ہے وہ تو ذلیل ہوا کرتا ہے اس رکوع میں آیات پڑھ کر سنانے کے مضمون کو ختم کیا گیا ہے۔
خلاصہ رکوع ۱۲
اس رکوع سے ابراہیمی پیشگوئی کے دوسرے پہلو کو لیا ہے یعنی شریعت اور اس کی حکمتوں کے بیان کو اور سب سے پہلے حلال اور طیب کھانے کی تعلیم دی ہے کیونکہ انسانی اعمال اس کے ذہنی حالت کے تابع ہیں اور ذہنی حالت غذا سے متاثر ہوتی ہے حلال وہ ہے جس کّی شریعت اجازت دے اور طیب وہ جس کی اصول صحت اور روں ملی اور ذوق صحیح اجازت دے۔ ممنوع غذائوں کے بارہ میں چار اصول بتائے کہ وہ غذائیں استعمال نہ کرو جو مردار ہوں یعنی ان میں سڑاندھ شروع ہو گئی ہو یا جو خون کی مانند ہوں یعنی زہروں پر مشتمل ہوں یا جو سورٔ کے گوشت کی طرح ہوں کہ وہ بد اخلاق جانور ہے اور اس کے استعمال سے انسان اس کے اخلاق کو قبول کر لیتا ہے یا جو بے غیرتی پیدا کرنے والی ہوں جیسے مشرکانہ رسوم کے کھانے وغیرہ وغیرہ۔ (خلاصہ رکوع ۲۲) اس رکوع میں اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کیا ے اللہ۔ یوم آخر۔ کتب سماویہ۔ اور انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے تا کسی سچائی کا انکار نہ ہو اور بندوں سے حسن سلوک بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور قومی چندے بھی ضروری ہیں اور اخلاق حسنہ صبر اور ایفائے عہد بھی ضروری ہیں اور انصاف کا قیام اور اپنے رشتہ داروں کی جائز مدد اور قوانین تمدن کا قیام بھی ضروری ہے جس کے اہم قانونوں میں سے ایک قانون وراثت بھی ہے (خلاصہ ع ۲۳) اخلاقی قانون کو پورا کرنے کے لئے ظاہری ریاضت بھی ضروری ہے چنانچہ اس کے لئے اسلام نے روزے مقرر کئے ہیں اس سے اخلاق درست ہوتے ہیں اور دعائوں کی توفیق ملتی اور ان میں اثر پیدا ہوتا ہے (خلاصہ رکوع ۲۴، ۲۵) اس رکوع میں حج کے قواعد بیان کئے گئے ہیں جو اجتماع امت کا ذریعہ ہے اور بتایا ہے کہ ایسے پر امن مقام کے رستہ میں جو لوگ فساد پیدا کرتے ہیں ان سے جنگ کرنی فساد نہیں بلکہ امن کا قیام ہے پس مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے جنگ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے اور بتایا ہے کہ ایک مرکز کے بغیر سب عالم ایک رسی میں نہیں بندھ سکتا پس حج کے حکم کو معمولی حکم نہ سمجھیں۔
خلاصہ رکوع ۲۶
اس میں احکام کی حکمتوں کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ شریعت کو فضول نہیں سمجھنا چاہیئے۔ ظاہر باطن کی درستی کا موجب ہوتا ہے اور شریعت کی محالفت کی اصل وجہ دُنیا کی محبت ہوتی ہے کہ انسان اپنے اوقات او راموال خدا کی راہ میں خرچ کرنا پسند نہیں کرتا اور بہانے بنا کر اس بوجھ سے بچنا چاہتا ہے ایسے ہی بہانو ںسے دُنیا میں اختلافات بڑھتے ہیں اور انبیاء کی لائی ہوئی تعلیم کو لوگ کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں حالانکہ روحانیت بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ پھر صدقہ خیرات کا ذکر کیا ہے کہ اس کا مصرف کیا ہے اور بتایا ہے کہ سب سے بڑا مصرف صدقہ کا جہاد فی سبیل اللہ ہے جبکہ لوگ دین میں دخل اندازی کریں اور حیرت ضمیر کو روکیں۔ (خلاصہ ع ۲۷) ایسے وقت میں جنگ ضروری ہوتی ہے اور مالی جانی قربانی لازمی۔ حتی کہ اگر دشمنانِ صداقت حج کے مہینوں میں بھی کہ عام حالتو ںمیں ان میں لڑائی منع ہے جنگ کریں تو تم کو بھی ان میں جنگ کر ناجائز ہو جائے گا۔ جنگ کے ایام میں لوگ جوئے اور شراب کی طرف رغبت کرتے ہیں تاکہ دل کو بہلائیں اور جنگ کے لئے روپیہ جمع کریں۔ فرمایا کہ مسلمانو ںکی جنگ تو ایک دینی جنگ ہے ان کے دل کے بہنے کا سامان تو اللہ تعالیٰ کی رضا میں موجود ہے۔ انہیں ان بُرے کاموں سے پرہیز چاہیئے۔ پھر بتایا کہ اموال کی قربانی کی حد کوئی نہیں جو زیادہ سے زیادہ قربانی جس سے دوسروں کے حقوق کو نقصان نہ پہنچتا ہو انسان کر سکے کرے۔ پھر فرمایا جنگوں کی وجہ سے کثرت سے تیامی رہ جائینگے ان کے بارہ میں حکم یاد رکھو کہ بہتر سے بہتر سلوک ان سے کرنا اور یاد رکھنا کہ مشرک عورتوں مردوں سے شادی نہ کرناکہ اس سے نظام میں خلل آتا ہے (خلاصہ رکوع ۲۸ تا ۳۱) پھر عورتوں کے عام احکام بیان فرمائے کہ حیض میں ان کے قریب نہ جائو اور ان سے حسنِ سلوک کرو اور اگر کسی مجبوری سے ان سے قطع تعلق کرنا پڑے تو چار ماہ سے زیادہ ایسا نہ کرو ہاں بالکل تعلق قائم نہ رکھ سکتے ہو تو طلاق دے دو۔ پھر طلاق کے احکام بیان کئے اور رضاحت اور بیوائوں کے بھی۔ اس جگہ کتاباور حکمت کا مضمون ختم ہوا (خلاصہ رکوع ۳۲، ۳۳) رکوع ۳۲ سے تزکیہ کے اصول بیان کرنے شروع کئے بتایا کہ قومی ترقی بغیر قربانی کے نہیں ہوتی پس یاد رکھو کہ وہی قوم زندہ ہو سکتی ہے جو اپنے لئے موت کو قبول کر لے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ احیاء موتیٰ اسی طرح کرتا ہے کہ ایسے احکام دیتا ہے جو قوم کو بمنزلہ موت نظر آتے ہیں مگر جب وہ ان پر عمل کر لیتی ہے تو اسے زندگی مل جاتی ہے۔
خلاصہ رکوع ۳۴
بتایا کہ زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے جلد سے جلد نیکی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہیئے پھر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارہ میں ایک مختصر مگر جامع بیان دیا جو آیۃ الکرسی کہلاتا ہے اور جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی بہترین آیت قرار دیا ہے۔ پھر فرمایا ایسی اعلیٰ صفات والے خدا سے تعلق کسی جبر کا محتاج نہیں بلکہ اس کا حُسن خود دلوں کو موہ لیتا ہے او ریہی تعلق مفید ہو سکتا ہے پس دین کے بارہ میں جبر سے کام نہ لو کیونکہ مذہب کی غرض تزکیہ ہے اور جبر سے دلوں کا تزکیہ نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ جن کو اپنے قُرب میں جگہ دیتا ہے ان کے دلوں کی تاریکی کو دلائل و براہین سے دُور کرتا ہے صرف ظاہری اقرار کو وہ پسند نہیں کرتا (خلاصہ رکوع ۳۵) اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاکیزگی عطا کرنے کے دو طریق ہیں اول افراد کی پاکیزگی جو براہِ راست بندو ںکو عطا کی جاتی ہے جیسے انبیاء کو۔ دوسرے قوام کی پاکیزگی جو انبیاء کے ذریعہ سے انہیں حاصل ہوتی ہے پھر فرمایا کہ پاکیزگی کی یہ اقسام ابراہیمؑ کی اولاد کو چار زمانو ںمیں خاص طو رپر ملنی مقدر ہیں (خلاصہ رکوع ۳۶) پھر فرمایا کہ قومی پاکیزگی کے حصول کے لئے جدوجہد کی بھی اور تعاون باہمی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ہاں کوئی یہ اعتراض کرے کہ تعاون باہمی تو ہر قوم کی ترقی کا ذریعہ ہے اس میں خدا تعالیٰ کے ماننے والوں کی کوئی شرط نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان سے آزاد ہو کر تعاون باہمی کرتے ہیں ان کے اعمال کے نتائج قربانیوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایسا کرتے ہیں ان کی قربانیوں کے نتائج ان کی کوششوں کے مقابلہ پر بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی علامت یہ ہے کہ (۱)وہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے احکام کے قیام کے لئے کرتے ہیں (۲) وہ اپنی قربانیوں کو خدا تعالیٰ کے لئے سمجھتے ہیں اور بندوں پر احسان نہیں جتاتے (خلاصہ رکوع ۳۷)جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں ان کے عمل کبھی ضائع نہیں ہو سکتے۔ اور ان کے دل قربانیوں پر مطمئن ہوتے ہیں اور ان کے اعمال میں پاکیزگی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ پھر بتایا کہ گو حُسن سلوک کسی سے بھی ہو اچھا کام ہے مگر جو لوگ دُنیا کی اصلاح میں مشغول ہوں ان سے حسنِ سلوک زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ وہی حُسن سلوک مفید ہو گا جو جائز طور پر کمائے ہوئے اموال سے ہو (خلاصہ رکوع ۳۸) فرمایا کہ سود کا کاروبار حسنِ سلوک اور تعاون باہمی روح کے خلاف ہے اس سے مومن کو بچنا چاہیئے۔ چنانچہ سود کا کاروبار کرنے والی قومیںلڑائی پر دلیر ہوتی ہیں اور امن عامہ کی پرواہ نہیں کرتیں اس بات سے مت ڈرو کہ سود کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی دُنیا میں ایسے سامان پیدا کر دیئے جائینگے کہ سود خوار قومیں تباہ ہو جائینگی (خلاصہ رکوع ۳۹)حسنِ سلوک اور تعاون باہمی کا ایک طریق قرض بھی ہے جو اپنے اموال کلی طو رپر اپنے حاجتمند بھائی کو نہیں دے سکتا لیکن قرض سے اس کی مدد کر سکتا ہے اسے اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے مگر قرض کا چونکہ کچھ مدت بعد مطالبہ ہوات ہے اس لئے قرص کو لکھ لینا چاہیئے اور گواہ مقرر کر لینے چاہئیں تا فساد نہ ہو اور اگر لکھنے والا نہ ہو تو شہادت کے طور پر کوئی چیز رہن رکھ دینی چاہیئے (خلاصہ رکوع ۴۰) مگر سب سے بڑا گر پاکیزگی اور طہارت کا (۱) اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھنا (۲) کلام الٰہی پر ایمان اور تدبر (۳) انبیاء اور صلحاء اور اشخاص متعلقہ کی دُعا ہے۔
(یہ خلاصہ ہے سورۃ بقرہ کا اور اس میں بلاواسطہ تو یہود و نصاریٰ اور قریش پر اس رنگ میں حجت تمام کی گئی ہے کہ ابراہیم کی ایک دُعا کا جو مقبول بارگاہ الٰہی ہو چکی پورا ہونا باقی تھا محمد رسول اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم کا وجود اس دُعا کو پُورا کرتا ہے پس اگر ان کے وجود کا انکار کیا جائے تو ابراہیم بھی جھوٹے بنتے ہیں اور ان کے جھوٹا ہونے سے موسویت اور مسیحیت بھی ساتھ ہی جھوٹی ہو جاتی ہیں اور بالواسطہ تمام دنیا پر اسلام کی صداقت ثابت کی گئی ہے کیونکہ انسان کی پیدائش بغیر مقصد کے نہیں ہو سکتی اور اس مقصد کو اگر کوئی کلام پورا کرتا ہے تو وہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا کلام ہے کیونکہ اسی سے معرفت الٰہی صحیح قانون اور فلسفۂ شریعت او رپاکیزگی قلب جیسے ضروری امور حاصل ہوتے ہیں۔
اگر کوئی ان نوٹوں کی مدد سے سورۂ بقرہ کو پڑھے گا تو میں سمجھتا ہوں اسے اس سورۃ میں ایک نیا لطف آئے گا اور اس کے مطالب کا ایک وسیع دروازہ اس کے لئے کھل جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
سُورۃ بقرہ کا تعلق سُورہ فاتحہ سے
سورۃ فاتہ کا تعلق تو کلام الٰہی کا خلاصہ ہونے کے وجہ سے سب ہی سورتوں سے ہے لیکن سورۃ بقرہ کو چونکہ اس کے معاً بعد رکھا گیا ہے اس سورۃ کا تعلق سورۃ فاتحہ سے یقینا سب سے زیادہ ہے چنانچہ اوّل تعلق تو اس کا اس سے یہ ہے کہ جس طرح سورۃ فاتحہ خلاصہ ہے سارے قرآن کریم کا۔ اسی طرح یہ سورۃ بھی خلاصہ ہے سب قرآن کا کیونکہ اس میں دلائل و براہین بھی بیان کئے گئے ہیں شریعت بھی اور فلسفۂ شریعت بھی اور پاکیزگی اور طہارت کے گر بھی بیان کئے گئے ہیں اور ابراہیمی دُعا میں آخری موعود کی بعثت کا یہی مقصد بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا تعلق سورۃ فاتحہ کا سورۃ بقرہ سے یہ ہے کہ اس میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دُعا سکھائی گئی تھی اور سورۂ بقرہ کی ابتداء بھی آیت ذٰلِک الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدیً لِّلْمُتَّقِیْنَ سے ہوئی ہے یعنی یہ سورۃ صراط مستقیم کی طرف لے جانے کے مقصد کو پورا کرتی ہے اور فاتحہ کی دُعا کی قبولیت کا ظاہری نشان ہے۔
۲؎ سورۃ البقرہ
چونکہ یہ حروف الگ الگ بولے جاتے ہیں انہیں حروف مقطعات کہتے ہیں جو ایک سے لے کر پانچ کی تعداد تک بعض سورتوں کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں حروف کی اقسام کے لحاظ سے یہ چودہ حرف ہیں اور ان کی تفصیل یہ ہے ا۔ ل۔ م۔ ص۔ ر۔ ک۔ ہ۔ ع۔ ع۔ ط۔ س۔ ج۔ ق۔ ن۔ ان میں سے ق اور نون اکیلا اکیلا ایک سورۃ کے پہلے آیا ہے۔ باقی دو دو یا زیادہ مل کر آئے ہیں ان کے معنوں کے بارہ میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے بعض نے تو لکھا ہے کہ یہ حروف خدا تعالیٰ کے اسرار میں سے ہیں اس لئے ان کے معنوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ بعض نے لکھا ہے کہ ان سے یہ مراد ہے کہ قرآن کریم بھی حروف ہجاء سے بنا ہے مگر پھر بھی معجزانہ کلام ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو کیوں عرب انہی حروف سے ایسا ہی کلام نہ بنا لیتے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ قسمیں ہیں جو سورۃ کے مضمون پر اللہ تعالیٰ نے کھائی ہیں۔ مگر سب مطالب ایسے معمولی ہیں کہ ان کی خاطر حروف مقطعات کا قرآنی سور کے شروع میں رکھنا نظر میں جنچتا نہیں۔ بعض نے ان کو بامعانی کلام کا خلاصہ قرار دیا ہے مثلاً الف لام میم کے معنے یہ کئے ہیں کہ اللہ جبریل محمدؐ یعنی اللہ تعالیٰ نے جبریل کے ذریعہ سے محمد (صلیٰ اللہ علیہ وسلم) پر یہ کلام نازل کیا ہے۔ یہ معنے الف لام میم کے حروف پر تو چسپان ہو جاتے ہیں۔ لیکن تمام حروف مقطعات کی اس طرح تشریح نہیں ہو سکتی۔ بعض نے ان حروف کے معنی یہ کئے ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر ہے جن کی تشریح بعد کی سورۃ میں کی گئی ہے اور صفات کے پہلے حروف یا بعض اہم حروف کو مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بیان کر دیا گیا جیسا کہ میں آگے چلے کر بیان کروں گا یہی معنی سب سے زیادہ درست اور شانِ قرآن اور شہادت قرآن کے مطابق ہیں بعض نے ان حروف سے ان آیات کے مضامین کے اوقات کی طرف اشارہ مراد لیا ہے یعنی حروف مقطعات سے جس قدر عدد نکلتے ہیں اس قدر عرصہ تک کے متعلق ان سورتوں میں واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ یا یہ کہ اس زمانہ کے حالات کی طرف ان سورتوں میں خاص طو رپر اشارہ کیا گیا ہے یہ معنی بھی جیسا کہ بتایا جائے گا درست معلوم ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کم سے کم ان کی تصدیق کرتی ہے بعض مغربی مصنفین نے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ ان کا بتوں کے نام ہیں جنہوں نے حضرت محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کے حکم سے یہ سورتیں لکھیں (سیہل بحوالہ گولیس) چنانچہ انہوں الف سے ابوبکر ع سے علی یا عمر س سے سعد ط سے طلحہ اور ھا سے ابوہریرہؓ وغیرہ مراد لئے ہیں یہ معنے اس ناواقفیت کا ایک اور ثبوت ہیں جس کے باوجود ہر مغربی مصنف اسلام کے بارہ میں علمیت کا دعویٰ کرنے پر تیار رہتا ہے لطف یہ ہے کہ ہ سے حضرت ابوہریرہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین سال پہلے اسلام لائے تھے جبکہ سورۂ مریم اور سورۂ طہ جن میں ہ آتی ہے دونوں ہی مکی ہیں اور ابوہریرہؓ کے اسلام لانے سے دس پندرہ سال پہلے نازل ہو چکی تھیں علاوہ ازیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ یہ حروف بھی الہامی ہیں۔
نیز یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر یہ سورتیں دوسرے صحابہ سے تیار کروائی گئی تھیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر افراد کو اپنے جھوٹے ہونے کا (نعوذ باللہ من ذالک) گواہ بنا لیا آخر جب باقی قرآن آپ نے (نعوذ باللہ من ذالک) خود بنایا تھا تو ان سورتوں کو صحابہ سے بنوانے کی کیا خاص غرض تھی اور کیوں ان کو ایک افتراء کا گواہ بنایا۔ اور اگر بفرض محال ایسا کیا بھی تھا تو ان نامو ںکو شروع میں رکھ کر اس افتراء کا ثبوت کیوں بہم پہنچایا ایسا کام تو ایک نیم عقل کا انسان بھی نہیں کر سکتا۔
اس امر کا ثبوت کہ ان حروف کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی وحی کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس حدیث سے ملات ہے جو بخاری نے آپنی کتاب تاریخ میں نیز ترمذی اور حاکم نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں۔ قالَ رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلَّمَ مَنْ قَرَئَ حرفًا من کتاب اللّٰہِ فَلَہُ بہِ حَسَنَۃٌ وَالْحَسنَۃُ بِعَشرِ امثا لِھَالا اَقولُ الٓمّٓ حرفٌ ولٰکن الف حرفٌ ولا حرفٌ و میم حرفٌ (ترمذی ابواب افضائل القرآن۔ باب ما جائَ فی من قَرَأ حرفاً من القرآن ما لہ من الاجر) اس روایت کو بزاز اور ابن شیبہ نے بھی عوف بن مالک الاشجعی کی سند پر نقل کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن کریم کا ایک حرف بھی پڑھے وہ جنت کا مستحق ہو گا اور اس کی یہ نیکی دس گنے ثواب کا مستحق اسے بنا دیگی اور میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمّٓ ایک حرف ہے بلکہ الٓمّٓ کا الف ایک مستقل حرف ہے اور لام ایک مستقل حرف ہے اور میم ایک مستقل حرف ہے۔ (اس جگہ حرف سے مُراد لفظ ہے قواعد نحو کے مدوّن ہونے سے پہلے حرف کا لفظ الفاظ کے لئے بھی عربی میں استعمال کیا جاتا تھا اسلامی زمانہ میں قواعد نحو کے مدوّن ہونے پر حرف کا لفظ حروف ہجاء یا ان الفاظ کے لئے مخصوص کر دیا گیا جو دوسرے لفظوں سے ملے بغیر مستقل معنی نہیں دیتے) اس شہادت کی موجودگی میں کون خیال کر سکتا ہے کہ یہ حروف کا بتو ںنے اپنے نام کے لئے بطور علامت کے سورتوں کے شروع میں رکھ دیئے تھے پھر لطف یہ ہے کہ دعویٰ تو یہ ہے کہ کا بتوں نے اپنے ناموں کی علامت کے طور پر یہ حروف لکھے تھے لیکن الٓمّٓ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اَمَرَلی مُحمد مجھے اس کے لکھنے کا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حکم دیا ہے ان معنوں سے تو کسی شخص کا نام بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ پھر یہ علامت کس بات کی ٹھہرے۔ اس حدیث سے بھی جو جابر بن عبداللہ سے ابھی بیان کی جائے گی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الٓمّٓ کو کو وحی الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
میں نے ایک معنی ان حروف کے یہ بتائے تھے کہ ان کے عدد کے مطابق سالوں کے واقعات کی طرف ان کے بعد کی سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے یہ معنی ایک یہودی عالم نے کئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس نے ان کو دہرایا آپؐ نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ ایک رنگ میں تصدیق کی۔ اس لئے یہ معنی بھی قابل غور ضرور ہیں اور تدبر کرنیوالوں کے لئے اس تفسیر سے کئی نئے مطالب کی راہ کھل جاتی ہے وہ حدیث جس میں اس تشریح کا ذکر آتا ہے یُوں ہے ابن اسحاق نے اور بخاری نے (اپنی تاریخ میں) نیز ابن جریر نے ابن عباس ے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے یوں روایت کی ہے مَرَٔاَ بُوْ یَاسِرِ بْنِ اَخْطَبَ فِیْ رِجَالٍ مِنْ یھود برَسولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ وَھُوَ یَتْلُوْ فَاتۃَ سودۃِ البقرۃ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ فَاَنٰی اَخَاہُ حُسَییّ بنَ اَخْطَبَ فِیْ رجَالٍ مِّنَ الْیَھُوْد فَقَالَ تَعْلَموُنَ وَاللّٰہِ لَقَدْ سَمِعْتُ محَّمدً ایَتْلُوْ فِیْمَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ فَقَّالَ اَنْتَ سَمِعْتَہ فَقال اَنْتَ سَمِعْہَ فَقَال نَعَمْ فَمَشَی حُییّ فِیْ اولٰٓک النَّفَرِ اِلیٰ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَا لُوْایَا مُحَمَّدُ اَلَمْ یُدْکَرْ اَنَّکَ تَتْلُوْ فِیْمَا اُنْزِلَ عَلَیْکَ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ قَالَ بَلیٰ قَالُوْا اَجَائَ کَ بِھٰدا جِبْرِیْل مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ قَالَ نَعَمْ قَالُوْا لَقَدْ بَعَثَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلِکَ الْاَنْبِیَائَ مَانعلمہ بَیّن لِنبیٍّ مِنُھم مادّۃ مُلِکہٖ وَمَا اَجَل امّتہ غیرکَ فَقَالَ حُیییّ بنُ اَخْطب و اقبل عَلیٰ مَنْ کَانَ معہ الا لف واحدۃ والام ثلاثون والمیم اَرْبَعُوْنَ فَھٰدِہ احدٰی وَسَبْعُوْنَ سَنَۃً اَفَتَدْ خُلُوْنَ فِیْ دِیْن نَبیّ اِنَّمَاُدّۃ لُکہٗ وَاَجَل اُمَّتِہٖ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فَقَالَ یَا مُحَمَّدَ ھَلْ مَعَ ھٰذا غَیْرُہٗ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَ مَا ذٰکَ قَال الٓمص قَالَ ھٰذِہٖ اَثْقَل وَ اَطْوَلَ الالف واحِدۃ واللَّام ثلثونَ وَالْمِیْم اَرْبَعُوْنَ وَالصَّاد تِسْعُوْن فَھٰذہ احدٰی وَّسِتُّونَ وَمأۃ سَنَۃً ھَلْ مَعَ ھٰذا یَا مُحَمَّد غَیْرہٗ قَالَ نَعَم قَالَ وَمَا ذٰکَ قَال الٓمٰ قَالَ ھٰذہ اثْقَلَ وَ اَطْوَلُ الالف واحدۃٌ وَاللَّامُ ثَلٰثُوْنَ والرّاء مأتان ھٰذہ احدٰی وَ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً وَ مأتَانِ فَھَلْ مَعَ ھٰذا غَیْرُہ قَالَ نَعَمْ الٓمرٰ قَالَ فَھٰذہٖ اَثْقل وَ اَطْوَل الالف واحدۃ واللام ثَلاثُوْنَ وَالْمِیْم اَرْبَعُوْنَ وَالرّاء مأتانِ فَھذہ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ سَنَۃً وَ مأتَان ثُمَّ قَالَ لَقَدْ لبس عَلَیْنَا اَمْرک یا مُحَمَّد حتّٰی مَانَدْدِیْ أقَلِیْلاً اُعْطَیْت اَمْ کَثِیْرًا ثُمَّ قَامُوْا فَقَالَ اَبُوْ یاسر لاَخِیْہ حییی ومن معہ من الاحبار مَاید رِیْکُمْ لَعَلّہٗ قَدْ جُمع ھٰذا لِمُحَمَّد کلّہ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ واحدٰی وَسِتُّوْ ن ومأۃ واحدٰی و ثَلاَثُوْن و ماتُمَانِ واحدٰ ی وَ سِبْعُوْنَ وَ مأتانِ فَذا لِکَ سبع مأۃ وَ اَرْبَع وَ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً فَقَالُوْا لَقَدْ تَشَا بَہَ عَلَیْنَا اَمْرُہ (بحوالہ فتح مصری صفحہ ۲۴) یعنی ابو یاسر بن اخطب (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشہور یہودی علماء سے تھا) کچھ یہود سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزرا جبکہ آپؐ سورۂ بقرہ کیاابتدائی آیات پڑھ رہے تھے یعنی الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ وہ یہ سُن کر اپنے بھائی حُیَّیْی بن اخطب کے پاس جبکہ وہ یہود کی ایک جماعت کے پاس بیٹھا ہوا تھا آیااور کہا تم کو کچھ معلوم ہے میں محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا پڑھتے سنا ہے خدا کی قسم میں نے سنا ہے کہ وہ اپنے اوپر نازَ ہونے والے کلام میں سے یہ کلام پڑھ رہے تھے الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ اس پر حُیَّیْینے کہا کیا فی الواقع تم نے یہ کلام سنا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں اسپر حُیَّیْی اپنے ساتھیوں کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کیا آپؐ کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاتی کہ آپ اپنے اوپر نازل ہونے والے کلام میں سے ایک یہ وحی بھی سناتے ہیں کہ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ آپؐ نے فرمایا یہ درست ہے اس نے کہا کیا یہ کلام جبریل نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر نازل کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہا حُیَّیْی نے کہا کہ آپؐ سے پہلے بھی انبیاء آئے ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ سوائے آپؐ کے ان میں سے کسی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حکومت کی مدت او راس کی قوم کا عرصہ بیان کیا ہو۔ پھر اس نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کیا اور کہا الف کا ایک لام کے تیس او رمیم کے چالیس یعنی کل اکہتر سال ہوئے کیا تم ایسے نبی کے دین کو قبول کرو گے جس کی حکموت کا عرصہ اور جس کی امت کا زمانہ کل اکہتر سال ہے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مخاطب ہوا اور پوچھا کہ اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کیا ان کے علاوہ اور حرف بھی آپؐ پر نازل ہوئے ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا کیا آپؐ نے فرمایا الٓمّٓصٓ اس نے کہا یہ اس نے کہا یہ زیادہ گراں ہے اور ص کے نوے کل ایک سوا کاسٹھ ہوئے پھر پوچھا کیا ان کے سوا اور حروف بھی آپ پر نازل ہوئے ہیں آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا وہ کیا آپؐ نے فرمایا الٓرٰ اس نے کہا یہ اس سے بھی زیادہ گراں اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس اور ر کے دوسو کل دوسو اکتیس ہوئے پھر کہنے لگا کیا ان کے سوا اور حروف بھی ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اور وہ الٓمّٓرٰ کے حروف ہیں اسپر وہ بولا کہ یہ تو پہلے سے بھی گراں اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس میم کے چالیس اور ر کے دوسو ہوئے کل دو سواکہتر سال کا عرصہ ہوا پھر کہنے لگا اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) آپؐ کا معامل ہم پر مشتبہ ہو گیا ہے پتہ نہیں لگتا آپؐ کو لمبی عمر عطا ہوئی ہے یا چھوٹی پھر وہ اور اس کے ساتھ اُٹھ کر چلے گئے راستہ میں ابو یاسر اے اپنے بھائی اور دوسرے یہودی علماء سے کہا کیا معلوم کہ یہ سب زمانے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کے لئے اکٹھے کر دئے گئے ہوں جن کی میزان سات سو چونتیس سال ہوتی ہے اس پر سب نے کہا کہ معاملہ کچھ مشتبہ ہی ہو گیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے ان حروف سے سالوں کی تعداد مُراد لی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے خیال کا اظہار بھی کیا تھا اور آپؐ نے اُن کے خیال کی تردید نہیں فرمائی۔
یہود کا یہ خیال کہ ان حروف سے امت محمدؐیہ کا زمانہ بتایا گیا ہے ایک بالبداہت غلط بات ہے کیونکہ امت محمدؐیہ تردید نہ کرنا بھی کچھ معنے ضرور کھتا ہے اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اور سورتوں کے مضامین کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حروف اپنی عدوی قیمت کے لحاظ سے اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے واقعات خاص طور پر اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں جس کی ابتداء میں وہ حروف آئے ہیں خواہ اس لحاظ سے کہ بعثت نبوی کے بعد اتنے عرصہ کے اختتام پر وہ واقعات شروع ہوئے اگر اس خیال کو درست سمجھا جائے تو یہ بات تو واضح ہے کہ سورۂ بقرہ کے واقعات بعثت کے بعد کے اکتہر سال کے واقعات کا مختصر خاکہ ہیں حضرت معاویہ ۶۰ھ میں فوت ہوئے ہیں اس میں تیرہ سال قبل ہجرت کے شامل کئے جائیں تو یہ ۷۳ھ ہوتا ہے یزید کی بیعت حضرت معاویہ نے وفات سے ایک دو سال پہلے لی ہے چونکہ اسی وقت سے اصل فتنہ شروع ۂوا ہے اس لئے ابتدائے اسلام اور ترقی اسلام کا زمانہ اکتہر سال ہوتا ہے اور اسی زمانہ کا نقشہ سورۂ بقرہ کھینچا گیا ہے۔ دوسری سورۃ مریم ہے اس سے پہلے کھٰیٰعص کے الفاظ ہیں جن کی مجموعی رقم ۱۹۵ ہوتی ہے سورۂ مریم میں مسیحیت کی ترقی کا ذکر ہے اور خصوصاً دوسری ترقی کا جو اسلامی ترقی کے بعد ہونی تھی۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال سے مسیحیت نے دوبارہ سر نکالا ہی یہی سال ہے جس میں اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ کوشش کی گئی کہ جس وقت معتصم باللہ مسیحی رومی حکومت کے خلاف لڑ رہا تھا اسے معزول کر کے عباس بن مامون کو خلیفہ مقرر کر دیا جائے اور اس طرح مسیحیوں کے مقابل پر اسلام کو ضعف پہنچایا جائے اسی زمانہ کے قریب مسیحیوں نے دوبارہ سپین پر حملہ کر کے اس کے کچھ حصے واپس لے لئا اور اسی زمانہ کے قریب یہ بدبختی کا واقعہ دیکھنے میں آیا کہ خلاف انلس نے خلاف عباسیہ کے خلاف روما کے عیسائی بادشاہ سے خفیہ معاہدہ کیا اور عباسی حکومت نے شاہ فرانس سے سپین کی اسلامی حکومت کے خلاف دوستانہ تعلقات قائم کئے اور اس طرح اسلامی سیاست میں مسیحیوں کو داخل کر کے مسیحیت کی ترقی اور اسلام کے تنزل کی داغ بیل ڈالی۔ میری رائے میں اگر دوسری سورتوں پر بھی غور کیا جائے تو زمانہ کے لحاظ سے کافی روشنی ان مضامین پر پڑے گی۔
اب میں حروف مقطعات کے بارہ میں وہ تحقیق لکھتا ہوں جس کی بنیاد حضرت ابن عباسؓ اور حضرت علیؓ کے کئے ہوئے معنوں پر ہے اور وہ تحقیق یہ ہے۔
حروف مقطعات اپنے اندر بہت سے راز رکھتے ہیں ان میں سے بعض راز بعض ایسے افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا قرآن کریم سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہیئے لیکن اس کے علاوہ یہ الفاظ قرآن کریم کے بعض مضامین کے لئے قفل کا بھی کام دیتے ہیں کوئی پہلے ان کو کھولے تب ان مضامین تک پہنچ سکتاہے جس جس حد تک ان کے معنوں کو سمجھتا جائے۔ اسی حد تک قرآن کریم کا مطلب کھلتا جائے گا۔
میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروف مقطعات بدلتے ہیں تو مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے اور جب کسی سورۂ کے پہلے حروف مقطعات استعمال کئے جاتے ہیں تو جس قدر سورتیں اس کے بعد ایسی آتی ہیں۔ جن کے پہلے مقطعات نہیں ہوتے ان میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات دُہرائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں۔
اس قاعدہ کے مطابق میرے نزدیک سورۂ بقرہ سے لیکر سورہ توبہ تک ایک ہی مضمون ہے اور یہ سب سورتیں الٓمّٓ سے تعلق رکھتی ہیں۔ سورۃ بقرہ الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورۃ ؑ العمران بھی الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورہ نساء سورہ مائدہ اور سورہ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں اور اس طرح گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں جن کی ابتداء الٓمّٓ سے ہوتی ہے ان کے بعد سورہ اعراف الٓمّٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں بھی وہی الٓمّٓ موجود ہے ہاں حرف ص کی زیادتی ہوئی ہے اس کے بعد سورۃ افعال اور براء ۃ حروف مقطعات سے خالی ہیں۔ پس سورۃ براء ۃ تک الٓمّٓ کا مضمون چلتا ہے سورۃ اعراف میں جو ص بڑھایا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حرف تصدیق کی طرف لیجاتا ہے۔ سورہ اعراف انفال اور توبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے سورۂ اعراف میں اصولی طور پر اور انفال اور توبہ میں تفصیلی طور پر تصدیق کی بحث ہے اس لئے وہاں ص کو بڑھا دیا گیا ہے۔
سورۂ یونس سے الٓمّٓ کی بجائے الٓرٰ شروع ہو گیا ہے ال تو وہی رہا اور مرکو بدلکرر کر دیا۔ پس یہاں مضمون بدل گیا۔ اور فرق یہ ہوا کہ بقرہ سے لیکر توبہ تک تو علمی نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لیکر سورۂ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لیکر سورۂ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی ہے اور واقعات کے نتائج پر بحث کو منحصر رکھا گیا ہے اس لئے فرمایا کہ الٓرٰیعنی اَنَا اللّٰہُ اَرٰی میں اللہ ہوں جو سب کچھ دیکھتا ہوں اور تمام دُنیا کی تاریخوں پر نظر رکھتے ہوئے اس کلام کو تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ غرض ان سورتوں میں رویت کی صفت پر زیادہ بحث کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں علم کی صفت پر زیادہ بحث تھی۔
میں فی الحال اس جگہ اختصاراً اتنی بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حروف مقطعات کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ بے معنی ہیں۔ اور انہیں یونہی رکھ دیا گیا ہے مگر ان لوگوں کی تردید خود حروف مقطعات ہی کر رہے ہیں چنانچہ جب ہم تمام قرآن پر ایک نظر ڈا ل کر یہ دیکھتے ہیں کہ کہاں کہا ںحروف مقطعات استعمال ہوئے ہیں تو ان میں ایک ترتیب نظر آتی ہے۔ سورۃ بقرہ الٓمّ سے شروعہ ہوتی ہہ پھر سورہ آل عمران الٓمّ سے شروع ہوتی ہے پھر سورۂ نساء سورۂ مائدہ سورہ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں پھر سورۂ اعراف الٓمّٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اور سورۂ انفعال اور براء ۃ خالی ہیں ان کے بعد سورۂ یونس سورۂ ہود سورۂ یوسف الٓرٰ سے شروع ہوتی ہیں اور سورہ رعد میں مر بڑہا کر الٓھّٓوٰ کر دیا گیا ہے لیکن جہاں الٓمّٓصٓ میں ص آخرمیں رکھا یہاں مرکور سے پہلے رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اگر کسی مقصد کے مدنظر رکھے بغیر زیادتی کی جاتی تو چاہیئے تھا کہ میم کو جو زائد کیا گیا تھا۔ ر کے بعد رکھا جاتا میم کو الٓرٰ کے درمیان رکھ دینا بتاتا ہے کہ ان حروف کے کوئی خاص معنے ہیںاور جب ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے الٓمّٓکی سورتیں ہیں۔ اور اس کے بعد الٓرٰ کی ۔ تو صاف طو رپر معلوم ہو جاتا ہے کہ مضمون کے لحاظ سے میم کو ر پر تقدم حاصل ہے اور سورۂ رعد جس میں میم او ر ر اکٹھے کروئے گئے ہیں اس میں میم کو ر سے پہلے رکھنا اس امر کو واضح کر دیتا ہے کہ یہ سب حروف خاص معنے رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو حروف خاص معنے رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو جو معنی تقدم رکھتے ہیں ہمیشہ مقدم ہی رکھا جاتا ہے۔ سورۂ رعد کے بعد ابراہیم اور حجر میں الٓرٰ استعمال کیا گیا نہیں ہوئے اور یہ سورتیں گویا پہلی سورتوں کے مضامین کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورۂ مریم ہے جس میں کھٰیٰعص کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ سورۂ مریم کے بعد سورۂ طٰہٰ ہے اور اس میں طٰہٰ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد انبیاء حج مؤمنوں نور اور فرقان میں حروف مقطعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ گویا یہ سورتیں طٰہٰ کے تابع ہیں۔ آگے سورۂ شعراء طٰسم سے شروع کی گئی ہے گویا طاء کو قائم رکھا گیا ہے اور ھا کی جگہ س اور میم لائے گئے ہیں اس کے بعد سورہ نمل ہے جو طٰسٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں سے میم کو اُڑا دیا گیا ہے اور طاء اور س قائم رکھے گئے ہیں اس کے بعد سورۂ قصص کی ابتدا پھر طٰسم سے کی گئی ہے گویا میم کے مضمون کو پھر شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورہ عنکبوت کو پھر الٓمّٓ سے شروع کیا گیا ہے اور وہ دوبارہ علم الٰہی کے مضمون کو نئے پیرایہ اور نئی ضرورت کے ماتحت شروع کیا گیا ہے (اگرچہ میں ترتیب پر اس وقت بحث نہیں کر رہا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ الٓمّٓ دوبارہ کیوں لایا گیا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سورۂ بقرہ سے الٓمّٓ کے مخاطب کفار تھے اور یہاں سے الٓمّٓ کے مخاطب مومن ہیں) سورۂ سجدہ کو بھی الٓمّٓ سے شروع کیا گیا ہے ان کے بعد سورۂ احزاب۔ سبا۔ فاطر۔ بغیر مقطعات کے ہیں اور گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورۂ یٰسٓ ہے جس کو یٰسٓ کے حروف سے شروع کیا گیا ہے اس کے بعد سورۂ صافات بغیر مقطعات کے ہے اس کے بعد سورہ صٓ حرف ص سے شروع کی گئی ہے پھر سورہ زمر حروف مقطعات سے خالی اور پہلی سورۃ کے تابع ہے اس کے بعد سورۂ مومن حٰمّٓ سے شروع کی گئی ہے اس کے بعد سورہ حٰمّٓ سجدہ کو بھی حٰمّٓ سے شروع کیا گیا ہے پھر سورۂ شوریٰ کو بھی حٰمّٓ سے شروع کیا گیا ہے لیکن ساتھ حروف عٓسٓقٓ بڑھائے گئے ہیں اس کے بعد سورۂ زخرف ہے اس میں بھی حٰمّٓ کے حروف ہی استعمال کئے گئے ہیں۔ پھر سورۂ دخان۔ جاثیہ اور احقاف بھی حٰمّٓ سے شروع ہوتی ہیں۔ ان کے بعد سورۂ محمد فتح اور حجرات بغیر مقطعات کے ہیں اور پہلی سورتوں کے تابع ہیں سورہ قٓ حرف ق سے شروع ہوتی ہے اور قرآن کریم کے آحر تک ایک ہی مضمون چلا جاتا ہے۔
یہ ترتیب بتا رہی ہے کہ یہ حروف یونہی نہیں رکھے گئے۔ پہلے الٓمّٓ آتا ہے پھر الٓمّٓصٓ آتا ہے جس میں ص کی زیادتی کی جاتی ہے۔ پھر الٓرٰ آتا ہے اور پھر الٓمّرٰٓ آتا ہے کہ جس میںمیم کی زیادتی کی جاتی ہے پھر کھٰیٰعص آتا ہے جس میں ص پر چار اور حروف کی زیادتی ہے پھر طٰہٰ لایا جاتا ہے۔ اور پھر اس میں کچھ تبدیلی کر کے طٰسٓمّٓ کر دیا جاتاہے۔ یہ ایک ہی قسم کے الفاظ کا متواتر لانا اور بعض کو بعض جگہ بدل دینا بعض جگہ اور رکھ دینا بتاتا ہے کہ خواہ یہ حروف کسی کی سمجھ میں آئیں جس نے انہیں رکھا ہے کسی مطلب کے لئے ہی رکھا ہے۔ اگر یونہی رکھے جاتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ کہیں ان کو بدل دیا جاتا کہیں زائد کر دیا جاتا کہیں کم کر دیا جاتا۔
علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے خود مخالفین اسلام کے ہی ایک استد لال سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ مقطعات کچھ معنی رکھتے ہیں۔ مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ قرآن کریم سورتوں کی ترتیب انکی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے ہے اب اگر یہ صحیح ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ سورتیں اپنی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے آگے پیچھے رکھی گئی ہے ایک قسم کے حروف مقطعات اکٹھے آتے ہیں الٓمّٓ کی سورتیں اکٹھی آ گئی ہی الٓرٰٓ کی اکٹھی طٰہٰاور اس کے مشترکات کی اکٹھی پھر الٓمّٓکی کٹھی حٰمّٓ کی اکٹھی۔ اگر سورتیں ان کے عجم کے مطابق رکھی گئی ہیں تو کیا یہ عجیب بات نہیں معلوم ہوتی کہ حروف مقطعات ایک خاص حجم پر دلالت کرتے ہیں اگر صرف یہی تسلیم کیا جائے تب بھی اس کے معنے یہ ہوں گے کہ حروف مقطعات کے کچھ معنی ہیں خواہ یہی معنی ہوں کہ وہ سورۃ کی لمبائی اور چھوٹائی پر دلالت کرتے ہیں مگر حق یہ ہے کہ ایک قسم کے حروف مقطعات کی سورتوں کا ایک جگہ پر جمع ہونا بتاتا ہے کہ ان کے معنوں میں اشتراک ہے اور یہ حروف سورتوں کے لئے بطور کنجیوں کے ہیں۔
میرے نزدیک حروف مقطعات کے معنوں کے لئے ہمیں قرآن کریم ہی کی طرف دیکھنا چاہیئے پہلی سورتوں میں الٓمّٓ آیا تھا چنانچہ سورہ بقرہ کے پہلے یہی حروف تھے اور ان کے بعد ذٰلِکَ الْکِتابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًیِ لِّلْمُتَّقِیْنِکا جملہ تھا اس کے بعد آل عمران میں الٓمّٓ آیا جس کے بعد اَللّٰہُ الَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ القَیُوْمُ نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ الحَقِّ آیا یاد رکھنا چاہیے کہ حقّ اور لَارَیْبَ کے دراصل ایک ہی معنے ہیں پس بقرہ میں بھی الٓمّٓ کے بعد ایسی کتاب کا ذکر تھا جس میں ریب نہ ہو اور اس جگہ بھی پھر اعراف میں الٓمّٓصٓ آیا اور اس کے بعد کِتَابٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَایَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْنِدَبِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ کی آیت رکھی گئی گویا یہاں بھی لَا رَیْبَ فِیْہِ والی کتاب کا ذکر ہوا ہے کیونکہ فَلَایَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ ایسی ہی کتاب پر دلالت کرتا ہے جو لَا رَیْبَ فِیْہِ کی صفت سے متصف ہو۔ ان ابتدائی سورتوں کے بعد وقفہ دے کر عنکبوت الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے فرماتا ہے الٓمّٓ o اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَ کُوْٓ اَنْ یَّقُوْ لُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ مَّتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنْ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَ قُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَo ان آیات میں بھی ایک یقینی کتاب کا ذکر کیا گیا ہے چنانچہ امتحان شک اور ریب کے دُور کرنے پر ہی دلالت کرتا ہے۔ پس اس سورۃ میں بھی وہی مضمون ہے جو سورۃ بقرہ وغیرہ میں تھا صرف فرق یہ ہے کہ بقرہ میں انسان بحیثیت مجموعی مخاطب تھے اور یہاں مومنوں سے کہا گیا ہے کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ابھی شک تمہارے دلوں میں باقی ہو اور ہم تم سے معاملہ کا ملین والا شروع کر دیں۔ سورۂ روم میں بھی یہی مصمون ہے گو بہت باریک ہو گیا ہے فرماتا ہے الٓمّٓ o غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَo خدا تعالیٰ کا کلام روم کے متعلق نازل ہوا ہے اور وہ ضرور پُورا کر رہے گا گویا بجائے سب کتاب کی طرف اشارہ کرنے کے ایک خاص حصّہ کی طرف اشارہ اور اس کے یقینی ہونے پر زور دیا ہے جیسا کہ مِنْ اور س کے حروف سے ظاہر ہے۔
سورۂ روم کے بعد سورۂ لقمان الٓمّٓ o تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ oھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَo الَِذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَo اُولٰٓکَ عَلیٰ ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ اُولٰٓکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنo اس سورۃ میں بھی حَکِیْم کا لفظ استعمال کر کے ایک یقینی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور گویا بقرہ کے ابتدائی مضمون کو دُہرا دیا گیا ہے اور اس کے بعد سورہ سجدہ ہے اس میں آتا ہے الٓمّٓ o تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ َلارَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَo یہاں بھی ایک بے ریب کتاب کا ذکر ہے پس ان سب آیات سے ظاہر ہے کہ جہاں الٓمّٓ آتا ہے اس کے بعد ایک خاص مضمون آتا ہے اور ایک یقینی علم کے نزول کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اب اس امر کی موجودگی میں کس طرح سمجھ لیا جائے کہ یہ الفاظ یونہی رکھ دیئے گئے ہیں۔ پس حق یہی ہے کہ الٓمّٓ کے حروف ازالہ شک اور یقین پر دلالت کرنے کے لئے آتے ہیں اور وہ چیز جس سے شک دُور ہوتا ہے اور یقین پیدا ہوتا ہے کامل علم ہی ہوتا ہے پس الٓمّٓ کے معنی یہی ہیں اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ میں اللہ ہوں جو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں پس اگر شک کو دُور کرنا اور یقین حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے کلام کی طرف توجہ کرو اور میری کتاب کو پڑھو۔
اب میں الٓرٰ کو لیتا ہوں ان حروف سے جو سورتیں شروع ہوتی ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو وہ بھی ایک ہی مضمون سے شروع ہوتی ہیں سورۂ یونس میں آتا ہے الٓرٰٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتّبِ الْحَکِیْمِo اَکَانَ للِنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَٓا اِلیٰ رَجُلٍ مِّنْہُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْط قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا الَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ o پھر سورۂ ہود میں آتا ہے۔ الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍہ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَط اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌo وَّاَنِ اسْتَغْفِرُ وْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا اِلیٰٓ اَجَلٍ مُّسَمًّی وُّ یُؤْتُ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗط وِانِْ تَوّلَّوْا فَاِنِیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍہo پھر سورۂ یوسف میں آتا ہے الٰٓرٰقف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُعِیْنِ o اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ o نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَٓا اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَق وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ پھر سورۂ رعد میں آتا ہے الٓمّٓ قف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِط وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایُؤْمِنُوْنَo اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَط کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّیط یُدَبِّرُالْاَ مْرَیُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَآئِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَo یہاں میم کا بھی اور راء کا بھی مضمون آ گیا۔ پھر سورۂ ابراہیم میں آتا ہے الٓرٰقف کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّہِمْ اِلیٰ صِرَاطِ الْعَزِیْزَ الْحَمِیْدِo اللّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِط وَ وَیْلٌ لِّلْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدٍo پھر سورہ حجر میں آتا ہے الٓرٰقف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ o رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْکَا لُوْا مُسْلِمِیْنَo… وَمَٓا اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا وَلَھَا کِتَابٌ مَّعْلُوْمٌo مَاتَسْبِقُ مِنْ اُمَّۃٍ اَجَلَھَا وَمَا یَسْتَاْ خِرُوْنَ۵ ان سب مقامات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دو مضامین پر زور دیا گیا ہے ایک پُرانی تاریخ پر جس میں سے خاص طو رپر شریروں کو سزا ملنے کے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے اور دوسرے پیدائش عالم کے مضمون پر۔ سورۂ یونس میں استفہام انکاری کے استعمال سے بتایا گیا ہے کہ نذیر و بشیر انبیاء ہمیشہ ہی آتے رہے ہیں۔ سورۂ ہود میں اوّل تو یہ قاعدہ بتایا ہے کہ کوئی قوم ایک ہی حالت پر قائم نہیں رہتی بلکہ ایک دائرہ کے اندر چکر لگاتی ہے او رپیدائش عالم کا ذکر کر کے بتایا کہ دُنیا کی ترقی قانونِ ارتقاء کے ماتحت ہے اس کے بعد سورۂ یوسف میں صاف الفاظ میں تاریخ عالم کی طرف اشارہ کیا ہے سورۂ رعد میں چونکہ میم زائد تھا اس میں الٓمّٓ اور الٓرٰ دو مضمونوں کو جمع کر دیا اور پہلے تو میم کی مناسبت سے ایک یقینی کلام کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے بعد پیدائشِ عالم کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائل ہے سورۂ ابراہیم میں پھر قانونِ قدرت کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ اسے دیکھو اس میں تمہیں ایک بیدار آقا کا ہاتھ نظر آئیگا سورۂ حجر میں پھر پچھلی تاریخ کی طرف توجہ دلائل ہے یہ امر ظاہر ہے کہ واقعات اور قانون کا تعلق دیکھنے سے ہے حقیقت تک وہی پہنچ سکتا ہے جس کی آنکھو ںکے سامنے واقعات ہوںیا جس کی آنکھوں کے سامنے کوئی قانون ظاہر ہو رہا پس ان سورتوں کا رویت کے ساتھ تعلق ہے اور الٓرٰ میں یہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ میں اللہ دیکھتا ہوں نہ ت وپُرانی تاریخ میری نظر سے پوشیدہ ہے اور نہ قانونِ قدرت کا اجراء یا پیدائش عالم میری نگاہ سے مخفی ہے پس رویت سے تعلق رکھنے والے اُمور میں میری ہی ہدایت کافی ہو سکتی ہے۔
ایک اور بات بھی حروف مقطعات کے متعلق یاد رکھنی چاہیئے کہ گو حروف مقطعات کے مضامین حروف کے اختلاف سے بدلتے رہتے ہیں لیکن ایک امر میں یہ سب حروف مشترک ہیں اور وہ یہ کہ جو سورتیں حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں ان کے مضمون کی ابتداء وحی الٰہی کے ذکر سے ہوتی ہے۔ اکثر میں تو صاف الفاظ میں کتاب یا قرآن کا لفظ ہی استعمال ۂوا ہے اور چند ایک میں کسی پرانی کتاب کی طرف اشارہ ہے جیسا سورۂ مریم میں یا کسی خاص کلام کی طرف اشارہ ہے جیسا سورۂ روم میں (یہ نوٹ جلد ۳ میں سورۂ یونس کی تفسیر میں چھپ چکا ہے لیکن چونکہ حالات کی مجبوری سے پہلی جلد بعد میں چھپ رہی ہے اس نوٹ کو سورۂ بقرہ میں درج کرنا پڑا۔ تاکہ شروع سے تفسیر پڑھنے والے پر بھی حروف مقطعات کی حقیقت واضح ہو جائے)
یہ دو معنے جو اوپر کئے گئے ہیں یعنی (۱) حروف مقطعات صفات الٰہیہ پر دلالت کرتے ہیں اور ہر حرف کسی ایسی صفت پر دلالت کرتا ہے جس کا ذکر اس سورۃ میں پایا جاتا ہے (۲) ان حروف سے اشارہ حروف کی عدوی قیمت کی طرف ہے اور جس قدرعہ دان حروف سے نکلتے ہیں اس قدر زمانہ کے حالات پر ان کے خاص طور پر روشنی پڑتی ہے دونو ںہی درست ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ایک کو درست اور دوسرے کو غلط کہا جائے اور اس بارہ میں ابتداء اسلام کے بعض آئمہ بھی مجھ سے متفق ہیں چنانچہ ابن ابی حاتم نے ابو جعفر رازی کی روایت سے ابو العالیہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے ایک حصّہ کا ترجمہ یہ ہے ’’ان حروف میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں (یعنی ال م اور دوسرے مقطعات میں سے) جو اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی گنجی نہ ہو اور نہ ان میں سے کوئی حرف ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتو ںمیں سے نہ ہو اور اس کی روشنی سے حاصل نہ ۂوا ہو اور ان میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں جو بعض اقوام کی تاریخ اور ان کے زمانہ پر دلالت نہ کرتا ہو‘‘ یعنی ان حروف سے یہ تینو ںمعنے بیک وقت ظاہر ہوتے ہیں ان سے صفات الٰہیہ پر بھی دلالت کی گئی ہے اور مختلف زمانوں کے بارہ میں پیشگوئی بھی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے معجزانہ کلام کا نمونہ بھی دکھایا گیا ہے اور ابو العالیہ کا یہ خیال نہایت درست اورمطابق حقیقت ہے۔ ابن جریر نے بھی اس روایت کو دوسرے لفظوں میں نقل کیا ہے اور اس کے مضمون کی تصدیق کی ہے۔
حروف مقطعات کی نسبت یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس غیر معمولی طریق کو قرآن کریم نے کیوں استعمال کیا کیوں نہ یہی مضمون سیدھی سادھی عبارت میں بیان کر دیا۔ تاکہ اوّل عربوں پر او ربعد میں دوسرے لوگوں پر اس کا سمجھنا آسان ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غیر معمولی طریق نہیں بلکہ عربوں میں یہ طریق کلامِ رائج تھا اور ان کے بڑے بڑے شاعر بھی اسے استعمال کرتے تھے اور نثر میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ع قُلْنَا قِفِیْ لَنَا فَقَالَتْ قاف ہم نے اس سے کہا کہ تو ذرا ہماری خاطر ٹھہر جا تو اس نے جواب میں قاف کہا یعنی وقَفْتُ لو میں کھڑی ہو گئی ہوں۔ اسی طرح ایک دوسرا شاعر کہتا ہے۔
بِالْخَیْرِ خَیْرَاتٌ وَاِنْ شرًا فَا
وَلَا اُرِیْدُ الشَّرَّ اِلاَّ اَنْ تَا
یعنی نیکی کے بدلہ میں نیکی کرونگا۔ لیکن اگر تیرا ارادہ بدی کرنیکا ہو تو میں اس کیلئے بھی تیار ہو ںاور میں بدی کا ارادہ نہیں رکھتا سوائْ اس کے کہ تیرا ارادہ ہو۔ اس شعر میں فَشَرٌّ کی جگہ صرف حرف فا استعمال کیا گیا ہے اور تَشَائُ یعنی تو چاہے کی جگہ صرف حرفِ تا استعمال کیا گیا ہے۔
آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی ہے کہ ’’مَنْ اَعَانَ علی قَتْلٍ مُؤْمنٍ بِشَطرِ کلمۃٍ لقی اللّٰہ عَزَّوجلَّ مکتوبٌ بَیْنَ عینیہ آیَسَ مِنْ رحمۃِ اللّٰہِ‘‘ (ابن ماجہ ابواب الدیات) یعنی جو شخص کسی مسلمان کے قتل میں ایک لفظ کا حصّہ استعمال کرتے (یعنی اُقْتُلْ کی جگہ اُقْ کہہ دے) تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں اُٹھے گا کہ اس کے ماتھے کے درمیان یہ لکھا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو گیا۔ پس عرب میں نظم و نثر میں جب قرینہ موجود ہو الفاظ کی جگہ حروف استعمال ہوتے تھے اور اس اسلوب کلام کا ایک لطیف نمونہ حروف مقطعات کے ذریعہ سے قرآن کریم نے دکھایا ہے۔ آج کل یورپ نے تو اس اسلوب کو بیحد استعمال کیا ہے ایم اے۔ بی اے۔ بی ٹی۔ ایم ڈی وغیرہ سینکڑوں ہزاروں حروف الفاظ کے قائم مقام استعمال ہو رہے ہیں۔ اور لوگ ان کے فائدہ کو سمجھتے ہیں۔
۱؎ حل لغات
ذٰلکت۔ اسم اشارہ ہے اور اشارہ بصید کے لئے آتا ہے جس کا ترجمہ اردو میں وہ ہے لیکن کبھی ھذا کے معنوں میں یعنی قریب کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے چنانچہ زجاج کا قول ہے ذٰلِکَ الْکِتٰبُ اَیْ ھٰذَا الْکِتٰبُ یعنی ذٰلِکَ الُکِتٰبُ کے معنی ہیں یہ کتاب (تاج العروس) لیکن ذٰلِکَ کو اشارہ بعید کے لوے تصور کرتے ہوئے بھی فٰلِکَ کے معنی یہ کے کئے جا سکتے ہیں کیونکہ کبھی قریب کی چیز کے لئے نہیں بلکہ اس کی شان کی بلندی کے اظہار کے لئے بھی استعمال کر دیا جاتا ہے (فتح البیان)
الکتٰبُ ۔ ال اور کتاب کا مجموعہ ہے اور معنوں کے علاوہ ال حرف تعریف بھی ہے اس صورت میں یہ کبھی عہد کے لئے ہوتا ہے اور کبھی جنس کے لئے جب عہد کے لئے ہو تو کبھی ذکری ہوتا ہے اور کبھی ذہنی اور کبھی حضور یعنی جس لفظ پر ال آئے کبھی تو اس سے یہ بتانا مقصصود ہوتا ہے کہ یہ وہی امر ہے جس کا ذکر کر آئے ہیں اور کبھی یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ ہماری مُراد اس چیز سے ہے جو ہم اور تم دونوں اپنے دلوں میں جانتے ہیں اور کبھی یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ جو سامنے چیز پڑی ہے میں اسی کا ذکر کر رہا ہوں۔ اور جب جنسی ہو تو استغراقی ہوتا ہے یعنی اس سے یہ مُراد ہوتی ہے کہ اس جنس کے سب افراد اس لفظ میں شامل ہیں۔ استغراقی آگے کبھی حقیقی ہوتا ہے جیسے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً۔ انسان ضعیف ہی پیدا کئے گئے ہیں اور کبھی مجازی۔ مجازی کی صورت میں ال لا کر یہ بتایا جاتا ہے کہ کامل فرد یہی ہے ورنہ حقیقتہً اس قسم کے اور افراد بھی موجود ہوتے ہیں اس کی مثال اَنْتَ الہَّجُل ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ بس تُو ہی مرد ہے باقی سب عورتیں ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ مرد کے کمالات کو اگر دیکھا جائے تو اس کی مکمل تعریف تجھ پر ہی صادق آتی ہے باقی مردوں میں کچھ نہ کچھ نقص ہیں استغراقی کے علاوہ جنسی ال تعریف حقیقت بیان کرنے کے لئے بھی آتا ہے جیسے اَلْاِنْسَانُ اَفْضَلُ مِنَ الْحَیَوَانِ انسان اپنی حقیقت کے لحاظ سے حیوان سے بہتر ہے۔ (اقرب)
کتابٌ۔ کتاب۔ کَتَبَ کا مصدر ہے اور اسی لحاظ سے ہر اس چیز کا نام کتاب رکھا گیا ہے جس میں مختلف مسائل کو فصل باب کے ساتھ لکھ دیا جائے تو رات کو بھی انہی معنوں میں کتاب کہتے ہیں اور ہر لکھی ہوئی تصنیف کو بھی کتاب کہتے ہیں اور کتاب کے معنی فرض کے بھی ہیں اور حکم کے بھی اور قضاء آسمانی کے بھی۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کو بھی کتاب کہتے ہیں اور خط کو بھی کتاب کہتے ہیں (اقرب)
پس اس لفظ کے اپنے اپنے محل پر مختلف معنی ہونگے کبھی فروض و احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت والی وحی کو کتاب کہیں گے اور کبھی صرف الہام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہرقطعی اور یقینی وحی کو کتاب کہیں گے خواہ کتابی صورت میں جمع کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔
ریبٌ۔ الظِّنَّۃُ وَالتُّھْمَۃ۔ تخمین سے بلا دلیل کوئی بات کہنا یا محض وہم سے کسی پر الزام لگانا اور اس کی سچائی میں شبہ کرنا۔ الشَّکٌ۔ شک۔ الَحْاَجَۃُ۔ مکی۔ ضرورت اور رَیْبُ الْمَنُوْنِ کے معنے ہیں زمانہ کے مصائب آفات (اقرب)
ریب کا لفظ قرآن کریم میں اور کئی جگہ استعمال ہوا ہے مثلاً اسی سورۃ میں فرماتا ہے وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاْتُوْ بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (بقرہ ع) اس جگہ مراد صداقت میں شبہ کے ہیں۔ اسی طرح سورۂ حج میں ہے یٰٓا اَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ (الحج عٰ) اس جگہ بھی بعث بعد الموت کی صداقت میں شک و شبہ کرنے کے معنے ہیں پھر سورۂ طور میں ہے اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَتَوَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ (الطور ع) یعنی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے جس کے متعلق ہم انتظار کر رہے ہیں کہ زمانہ کے مصائب آخر اسے ہلاک کر دینگے۔ اس جگہ ریب مضائب دہر اور ہلاکت کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔
قرآن کریم میں ریب کا لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً فرماتا ہے۔ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبٍ (ق ع ۲) نیکی سے بہت روکنے والا۔ حد سے بڑھنے والا۔ شک و شبہ کا شکار دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ اسی طرح سورۂ مومن میں آتا ہے کَذٰ لِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ھُوَ سُرِفٌ مُّرْتَابٌ (المومن ع ۴) یعنی اللہ تعالیٰ اسی طرح گمراہ قرار دیتا ہے یا ہلاک کرتا ہے اسے جو حد سے بڑھنے والا یا اپنے عقیدہ اور خیالات کی بنیاد غیر معقول شبہات و و ساوس پر رکھنے والا ہو۔ پس ریب اس شک کو نہیں کہتے جو علم کی زیادتی کا موجوب ہوتا ہو اور تحقیق میں حمد ہو بلکہ اس شک کو کہتے ہیں جو تعصب یا بدظنی کی وجہ سے ہو اور سچائی سے محروم کر دے چنانچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المدثر ع ۱) ہم نے یہ (مذکورہ بالا) کام اس لئے کیا ہے کہ تا اہل کتاب اور مومن ریب میں نہ پڑیں گویا مومن ریب میں نہیں پڑتا اور اللہ تعالیٰ مومن کو ریب سے بچاتا ہے حدیث میں آتا ہے دَعْ مَایُرِ یْبُکَ الیٰ مالا یَرِیْبُکَ (ترمذی مطبوعہ مطبع مجتبائی جلد دوم صفحہ ۷۴ ابواب صفۃ القیامۃ) یعنی جو چیز تیرے دل میں قلق اور وسوسہ پیدا کرے اسے چھوڑ دے اور اس چیز کو اختیار کر جس کے بارہ میں وسوسہ نہ ہو۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ریب اس شک کو کہتے ہیں جس کی بنیاد وسوسہ اور وہم پر ہو اور اس شک کو نہیں کہتے جو تحقیق و تدقیق کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
ھُدًی۔ الرَّشَادُ۔ سیدھے راستہ پر ہونا۔ اَلْبیَانُ بیان کرنا۔ الدَّ لَالَۃٌ۔ کسی امر کی طرف رہبری کرنا (اقرب) الھدایتہ الدَّلَالَۃُ بلُطْفٍ یعنی ہدایت (جو ھدًی کالم معنی دوسرا مصدر ہی) کے معنی محبت اور نرمی سے کسی امر کی طرف رہبری کرنے کے ہیں (مفردات) امام راغب کے نزدیک ہدایت کا لفظ قرآن کریم میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں آتا ہے (۱) ہر عقل یا سمجھ یا ضروری جزوی ادراک کی طاقت رکھنے والی شے (جیسے حیوانات وغیرہ کہ ادراک کامل ان کو حاصل نہیں ہوتا صرف جزوی یا سطحی ادراک ایسے ضروری امو رکا جو ان کی حیات اور محدود عمل تعلق رکھتے ہیں ان کو حاصل ہوتا ہے) کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام کا طریق بتانا۔ اس کی مثال قرآن کریم میں یہ ہے رَبُّناَ الَّذِیْٓ اَعطیٰ کُلَّ شَیًْ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی (طہٰ ع ۲) یعنی ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی عقل یا سمجھ یا اس کے ضروری تقاضوں کے مطابق اسے رہنمائی کی (میرے نزدیک اس جگہ ھَدٰی کے معنے یہ ہیں کہ ہر شے میں مناسب قوتیں پیدا کر کے پھر انہیں کام پر لگا دیا کیونکہ صرف قوتوں کا موجود ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں ابتدائی حرکت دیکر کام پر لگانا ان کی حیات کے شروع کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے بچہ پیدا ہوتا ہے تو گو پیدائش سے پہلے آلات تنفس کامل طور پر موجود ہوتے ہیں مگر باہر نکلنے کے بعد جب تنفس کے آلات کو ہوا لگنے یا پانی کا چھینٹا دینے سے ان میں حرکت پیدا ہوتی ہے بچہ کی عملی زندگی در حقیقت اسی وقت سے شروع ہوتی ہے جس طرح ایک گھڑی کے اندر سب ہی پُرزے موجود ہوتے ہیں مگر جب تک اسے کنجی دے کر حرکت نہ دی جائے پُرزے سے کام کرنا شروع نہیں کرتے غرض حیات کو شروع کرنے سے پہلے ایک ابتدائی دھکے کی ہر شے کو ضرورت ہوتی ہے اور ہدایت سے مُراد وہی حرکت اُولیٰ ہے اور اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو مناسب قویٰ کے ساتھ پیدا کیا ہے او رپھر حرکت اولی دیکر اسے مفوضہ کام پر لگا دیا ہے) علامہ راغب کے نزدیک ہدایت کے دوسرے معنے اس ارشاد کے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے بندوں تک پہنچاتا ہے اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا (سجدہ ع ۳) ہم نے بنی اسرائیل میں سے ایسے امام مقرر کئے جو ہمارے الہام سے لوگوں کو ہماری طرف بلاتے تھے۔ ہدایت کے تیسرے معنے ان کے نزدیک اس توفیق کے ہیں جو ہدایت پانے والوں کو ملتی ہے یعنی ہدایت ملنے کے بعد جو عمل کی توفیق یا فکر کی بلندی پیدا ہوتی ہے یا مزید ہدایت کے حصول کی خواہش پیدا ہوتی ہے وہ بھی ہدایت کہلاتی ہے اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے اَلَّذِیْنَ اھْتَدَ وَزْاَدَھُمْ ھُدًی (محمدؐ ع ۲) جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیتا ہے (یعنی عمل کی توفیق اور ہدایت کے سلسلہ میں مزید فکر کرکے اور علوم حاصل کرنے کا موقعہ عطا کرتا ہے) چوتھے معنی ہدایت کے انجام بخیر کے اور جنت کو پالینے کے ہیں اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے سَیَھْدِ یْھِمْ وَیُصْلِحُ بَالَھُمْ (محمدؐ ع ۱) اللہ تعالیٰ ان کا ا نجام بخیر کر کے انہیں جنت تک پہنچا دے گا اور ان کے حالات کو درست کر دے گا اور قرآن کریم میں جہاں یہ آات ہے یَھْدُوْنَ بَاَمْرِنَا (انبیاء ع ۵) وہ ہمارے حکم کے مطابق ہدایت دیتے تھے یالِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (رعد ع ۱) ہر قوم میں ہادی آیا ہے اس جگہ ہدایت سے مُراد لوگو ںکو ہدایت کی دعوت دینے کے ہیں اور ایسی آیات جیسے کہ اِنَّکَ لَاتَھْدِیْ مَنْ اَجْنَبْتَ اور ایسی آیات جن میں یہ ذکر ہے کہ کافروں اور ظالموں کو ہدایت نہیں مل سکتی۔ اس سے مُراد تیسیر اور چوتھی قسم کی ہدایتیں ہیں یعنی ہدایت پا جانے کے بعد توفیق عمل کا ملنا یا نور ایمان کا عطا ہونا یا جنت میں داخلہ کی نعمت کا حصول۔ پس ان آیات کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ کفار کو مذکور بالا انعامات نہیں مل سکتے (اور یہ ظاہر ہے کہ جو دوسری قسم کی ہدایت یعنی دعوت انبیاء کو قبول نہیں کرتا۔ وہ تیسری اور چوتھی قسم کی ہدایتوں کو جو دوسری قسم کی ہدایتوں کے نتائج ہیں حاصل نہیں کر سکتا) (مذکورہ بالا تمام مضمون سوائے ان عبارتوں کے جو خطوط و حدانی میں ہیں عربی کی مشہور لغت کی کتاب مفردات راغب سے لیاگیا ہے)
المُتَّقِیْن۔ متقی کی جمع ہے جو اِتَّقَی کا اسم فاعل ہے۔ اتقاء وقی سے باب افتعال کا فعل ماضی ہے وقی کے معنے ہیں بچایا حفاظت کی۔ اور اِتَّقَی کے معنے ہیں۔ بچا۔ اپنی حفاظت کی (اقرب) مگر اس لفظ کا استعمال دینی کتب کے محاورہ میں معصیت اور بُری اشیاء سے بچے کے ہیں اور خالی ڈر کے معنو ںمیں یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ وقایۃ کے معنی ڈھال یا اس ذریعہ کے ہیں جس سے انسان پنے بچائو کا سامان کرتا ہے بعض نے کہا ہے کہ اتقاء جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے تو انہی معنوں میں آتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنا نجات کے لئے بطور ڈھال بنا لیا۔
قرآن کریم میں تقویٰ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بارہ میں حضرت ابرہریرہؓ سے کسی نے پوچھا تو انہو ںنے جواب دیا کہ کانٹوں والی جگہ پر سے گزرو تو کیا کرتے ہو اس نے کہا یا اس سے پہلو بچا کر چلا جاتا ہوں یا اس سے پیچھے رہ جاتا ہوں یا آگے نکل جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بس اسی کا نام تقویٰ ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مقام پر کھڑا نہ ہو اور ہر طرح اس جگہ سے بچنے کی کوشش کرے ایک شاعر (ابن المعتنر) نے ان معنوں کو لطیف اشعار میں نظم کر دیا ہے وہ کہتے ہیں۔
خَلً الذّنُوْبَ صغیرَھاو٭ کبیرَھا ذاکَ التُّقٰی وَاصنَعْ کَماشٍ فَوْقَ٭ ضِ الشَّوْکِ یَحذ رُمَایرَیٰ لَاتَحْقَرَنَّ صغیرۃً٭ اِنَّ الجبالَ مِنّ الْحَصٰی (ابن کثیر) یعنی گناہوں کو چھوڑ دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے یہ تقویٰ ہے اور تو اس طریق کو اختیار کر جو کانٹوں والی زمین پر چلنے والا اختیار کرتا ہے یعنی وہ کانٹوں سے خوب بچتا ہے۔ اور تو چھوٹے گناہ کو حقیر نہ سمجھ کیونکہ پہاڑ کنکروں سے ہی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
تفسیر۔ ذٰلِکَ الْکِتَابُ۔ اس کے متعلق اعتراض کیا گیا ہے کہ ذالک تو اشارہ بعید کے لئے ہے پھر اس لفظ کو اس جگہ کیوں استعمال کیا گیا ہے بعض علماء نیپ اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ اشارہ قریب کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے (زجاج دیکھو حل لغات) بعض نے کہا ہے کہ گو اشارہ بعید کے لئے بھی ہے لیکن جب کسی چیز کا ذکر ختم ہو جائے تو وہ بھی بعید کے حکم میں ہوتی ہے چنانچہ عام طور پر گفتگو میں جس امر کا ذکر ہو چکا ہے اس کے بارہ میں ذٰلِکَ کہہ کر اشارہ کر دیتے ہیں چنانچہ عرب اپنی بات ختم کر کے کہتے ہیں ذَالِکَ مَالَا شَکَّ فِیْہِ اور ذٰلِکَ سے مُراد وہ بات ہوتی ہے جو اس نے ختم کی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے۔ لَافَارِضٌ وَّلا بِکُرٌ عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِکَ (بقرہ ع ۸) اس جگہ ذَلِکَ سے مُراد فارض اور بکر ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے پھر فرماتا ہے ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلُّمَنِیْ رَبِّیْ (یوسف ع ۵) اس جگہ بھی جو بات اوپر کہی ہے اس کی طرف ذٰلِکَ سے اشارہ کیا ہے (کشاف) ان آیتوں کے علاوہ اور آیات بھی قرآن کریم میں ہیں مثلا ذٰلِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ (سجدہ ع ۱) تِلْکَ حُجَّتُنَٓا اٰتَیْنَا ھَآ اِبْرَاھِیْمَ (انعام ع ۱۰) قران کریم میں دوسری جگہ ذٰلِکَ الْکِتَابُ کی جگہ ھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَالْنَاہُ مُبَارَکٌ بھی آیا ہے۔
غرض اوّل ذٰلِکَ عرب کے محاورہ کے مطابق ھٰذَا کے معنوں میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ دوم ضروری نہیں کہ جس چیز کے بارہ میں ذٰلِکَ آئے وہ دُور ہو۔ اگر ذہنی طور دُور ہو یعنی اس کا ذکر ختم ہو چکا ہو تو اس کے لئے بھی ذٰلِکَ کالفظ استعمال کر لیا جاتا ہے۔
اس تشریح کے ماتحت ذٰلِکَ الْکِتَابُ کے کئی معنے ہو سکتے ہیں (۱) یہ وہ کتاب ہے (۲) وہ یہ کتاب ہے (۳) یہی کامل کتاب ہے (۴) وہی کامل کتاب ہے۔
مذکورہ بالا معانی اس صورت میں ہیں کہ ذٰلِکَ مبتدا ہو اور اَلْکِتاب خبر۔ لیکن ایک صورت یہ بھی ہے کہ ذٰلِکَ کو مبتدا اور الکتاب کو عطف بیان اور لَارَیْبَ فِیْہِ کو اس کی خبر سمجھا جائے اس صورت میں اس کے معنی یُوں ہونگے (۱) یہ یعنی کامل کتاب اپنے اندر کوئی ریب کی بات نہیں رکھتی (۲) وہ کامل کتاب (یعنے ہدایت انبیاء) اپنے اندر کوئی ریب کی بات نہیں رکھتی۔
لغوی معنے بیان کرنے کے بعد اب میں تفسیری معنی بیان کرتا ہوں (۱) جن لوگوں نے الٓمّٓ کو سورۃ کا نام قرار دیا ہے انہوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ الٓمّٓ یہ کتاب ہے یعنے الٓمّٓ نام ہے اس سورۃ کا۔ یا یہ معنے کئے ہیں کہ الٓمّٓ ایک کامل کتاب ہے (۲) جنہوں نے ذٰلِکَ کا استعمال قرآن کریم کی عظمت شان کی وجہ سے قرار دیا ہے انہوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ عظیم الشان کلام وہ کتاب ہے جس کی تعریف صحفِ موسیٰ اور دوسری کتب میں آ چکی ہے (۳) بعض نے اشارۂ بعید لے کر یہ معنی کئے ہیں کے لوحِ محفوظ میں جو کتاب ہے وہ یہی ہے یعنے قرآن کریم۔ مگر یہ معنے بہت بعید ہیں اور الفاظ قرآنی ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس رنگ میں بعض قرآنی ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس رنگ میں بعض اور معنے بھی مفسّرین نے کئے ہیں مگر وہ سب کے سب اسی طرح بعد از قیاس ہیں اور ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ میرے نزدیک ان تینوں قسم کے معنوں میں سے دوسرے معنے ہی ایسے ہیں جو الفاظ قرآنیہ کے مطابق ہیں۔ کیونکہ مشہور عام بات کی طرف اس طرح اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ پہلے ادیان کے لوگ ایک کتاب کے منتظر تھے۔ انہیں مخابط کر کے قرآن شریف کے شروع میں کہا جا سکتا تھا کہ جس کتاب کے تم منتظر ہو یہ وہی کتاب ہے۔ مگر میرے نزدیک زیادہ صحیح معنے جو الفاظ قرآنیہ کے بالکل مطابق ہیں۔ دو ہیں۔
۱۔ یہی کامل کتاب ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں زَیْدُنِ الْعَادلُ زید ہی عادل ہے ہے اسی طرح یہ جملہ ہے ذٰلِکَ الْکِتَابُ کتاب کہلانے کی مستحق تو یہی کتاب ہے یعنی اَلْ جنسی استغراقی مجازی ہے ان معنوں کی رو سے کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ نہیں نکالنا پڑتا جس کا ذکر اس جگہ نہیں ہے اور یہ معنے مناسب موقع بھی ہیں۔ ایک الہامی کتاب جو دوسری کتب کی موجودگی میں اپنے آپ کو پیش کرے اسے ابتداء کلام میں ایسا ہی دعویٰ پیش کرنا چاہیئے کیونکہ لوگوں کے دلوں میں طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری کتب کی موجودگی میں یہ نئی کتاب کیوں پیش کی جاتی ہے۔ اس فطرقی سوال کے جواب میں قرآن کریم کے شروع میں ہی یہ الفاظ رکھ دیئے گئے کہ یہی کامل کتاب ہے اور متلاشیانِ حق کو بتلایا گیا کہ بیشک اس کے سوا اور کتب بھی موجود ہیں لیکن کتاب کا موجود ہونا اور شئے ہے اور اس کا انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنا اور شئے ہے۔ اگر کتاب کی غرض یہ ہے کہ انسان کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرے تو پھر صرف یہی کتاب اس غرض کو پورا کرتی ہے اس لئے دوسری کتب کی موجودگی میں بھی اس کی ضرورت ہے۔
الٓمّٓ کے حروف کو جن کے معنے اوپر بتائے جا چکے ہیں مدِّنظر رکھتے ہوئے بھی یہی معنے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں کے الفاظ اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ میرا علم جب اور جو تعلیم دُنیا کو دے وہی اس زمانہ کے لحاظ سے کامل اور مکمل تعلیم ہو سکتی ہے۔ نیز میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں ایک دعویٰ ہے جس کا ثبوت بھی چاہیئے اور اس کا سب سے بڑھ کر ثبوت یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی علمی چیز پیش کی جائے جو اپنی نظیر نہ رکھتی ہو پس الٓمّٓ کے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ذٰلِکَ الْکِتَابُ کے بہترین معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ یہی کامل کتاب ہے۔
جب ہم واقعات کو دیکھتے ہیں تو یہ دعویٰ قطعی طور پر ثابت ہے۔ بیشک قرآن کریم سے پہلے توریت انجیل و ید زند وغیرہ کتب موجود تھیں لیکن ان کی تعلیم اور قرآن کریم کی تعلیم کا مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ قرآن کی جامعیت کسی اور کتاب میں نہ ملیگی انجیل کا سب سے بڑا کمال محبت الہی پر زور ہے قرآن کریم میں وہ سب تعلیم موجود ہے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ توریت کا فخر جامع شریعت پر ہے لیکن شریعت کی جامعیت میں قرآن کریم کے آگے وہ بھی خم کھاتی ہے حالانکہ حجم میں قرآن کریم دو نوکتب سے چھوٹا ہے قرآن کریم کی یہ جامعیت ایسی کامل ہے کہ ایک مسلمان کے نزدیک شریعت کا مفہوم ہی دوسروں سے جداگانہ ہو گیا ہے۔ جب ایک مسلمان شریعت کا لفظ بولتا ہے تو فوراً اس کا ذہن اس طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ اس میں والدین اور اولاد کے تعلقات میاں بیوی کے تعلقات۔ شادی اور اس کے اغراض کے متعلق میاں بیوی کے فرائض کے متعلق۔ میاں بیوی کے انتخاب کے متعلق۔ وراثت کے متعلق۔ وصیت کے متعلق۔ ہمسایہ اور اہلِ محلہ کے متعلق تجارت اور زراعت کے متعلق۔ حاکم و محکوم کے تعلقات اور ذمہ داریوں اور حکومت کی نوعیت کے متعلق۔ مزدوروں اور مزدور رکھنے والوں کے متعلق۔ حکومتوں کے باہمی تعلقات کے متعلق۔ اقتصادی مسائل کی بنیادوں کے متعلق۔ انسانوں اور جانوروں کے متعلق۔ اور سب سے آخر میں لیکن سب سے مقدم یہ کہ اللہ اور بندہ اور اس کے رسولوں کے متعلق تفصیلی اور مکمل احکام ان کی حکمتوں سمیت بیان کئے گئے ہونگے یہ سب مسائل اور ان کے علاوہ اور بہت سے اپنی حکمتو ںسمیت قرآن کریم میں بیان ہیں اور ان کا عشر عشیر بھی اور کسی کتاب میں موجود نہیں۔
ویدوں کو لو۔ تو اوّل عام ہندو ویدوں کو جانتا بھی نہیں اور جو تھوڑے سے جانتے ہیں ان میں سے اکثر انہیں بطور منتر جنتر استعمال کرت ہیں اور جو اسے سمجھتے ہیں ان کے نزدیک بھی اس کی بڑی خوبی دُعائیں اور انسانی پیدائش کے فلسفہ پر جو مکمل اور تفصیلی بحث قرآن کریم نے کی ہے اس کے مقابل میں ویدوں کی تعلیم بالکل ماند پڑ جاتی ہے قرآن کریم کی دُعائیں انسانی فطرت کی باریکیوں پر مشتمل ہیں وہ لفاظی سے پُر نہیں وہ انسان کی ضروریات کو پہلے ننگا کر کے دیکھاتی ہیں پھر انہیں قدو سیت اور پاکیزگی کی چادر اُڑھاتی ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم انسانی پیدائش کی ایسی تفصیلات بیان کرتا ہے جو استعاروں میں چھپ کر انسانی دماغ کو پریشان نہیں کر دیتیں بلکہ اسے مشاہدہ اور تجربہ کے میدان میں کھڑا کر کے اس کے ذہن کو صاف کرتیں اور اس کے فکر کو جلا بخشتی ہیں اسلام نے انسان کے انجام کو یعنے مابعد الموت کے مسئلہ کوجس طرح بیان کیا ہے اس کے مقابل پر سب کتب شکست خوردہ ہیں۔ توریت خاموش ہے انجیل بالکل نامکمل سا ذکر کرتی ہے۔ ویدوں میں مابعدالموت کا کوئی ذکر نہیں۔ زر تشت کی کتاب میں کچھ ذکر ہے مگر صرف استعارہ کے ھو رپر اور مادی الفاظ میں دیا ہوا۔ اس کے مقابل پر قرآن کریم تفصیلاً بتاتا ہے کہ نیک و بد کو کیا جزاء ملے گی اور کس طرح ملے گی اس کی کیا کیفیت ہو گی اور اس کی غرض کیا ہو گی۔ دوسری زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کے حصول کے لئے کس جدوجہد کی ضرورت ہے جزاء سزا کے اُصول کیا ہیں۔
پھر فلسفہ اخلاق ہے جس پر مذہب کی بنیاد ہے اور دُنیاوی امن و امان کے قیام کا انحصار ہے اس مضمون کو بھی دوسری کتب نے یا چھو انہیں یا صرف اس کے حوالی کو چھو کر چھوڑ دیا ہے بدُھ کی تعلیم میں بیشک جذبات پر بحث ہے مگر قرآن کریم کی تعلیم کے مقابل پر وہ بھی کچھ نہیں۔ قرآن کریم نہ صرف جذبات پر بحث کرتا ہے بلکہ وہ ان کے پیدا ہونے کی وجوہ اور ان کی ضرورت اور پھر ان کے صحیح طور پر اختیار کرنے کے ذرائع پر بھی روشنی ڈالتا ہے وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جذبات کب اور کس صورت میں نیک ہوتے ہیں اور کب اور کس صورت میں بد۔ پھر یہ بھی بتاتا ہے کہ جذبات کو نیک کس طرح طرح بنایا جا سکتا ہے او ربد ہونے سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے او رایسے اثرات سے کس طرح اپنے نفس کو بچایا جاس کتا ہے جو جذبات کو بدی کی رو میں بہا دیتے ہیں۔
بُدھ کی تعلیم میں یہ تو یہ کہا گیا ہے کہ تم خواہشات کو ترک کرو تو گناہ سے بچ جائو گے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کونسی باتیں ہیں جن سے بدی کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ کونسے ذرائع ہیں جن کی مدد سے ان کو روکا جا سکتا ہے مگر قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ گناہ کا منبع کہاں ہے اور پھر وہ اس منبع کو روکنے کی تدبیر بھی ہمیں بتاتا ہے۔
اور ان سب تفصیلات کے باوجود قرآن کریم سب کتب سے جو الہامی ہونے کی دعویدار ہیں چھوٹا ہے جس کی وجہ سے اس کا پڑھنا۔ سمجھنا او ریاد رکھنا بہت آسان ہے حتیٰ کہ ہزاروں لاکھوں اس کے حافظ دنیا میں موجود ہیں۔ پس قرآن کریم کے شروع ہی میں اس دعویٰ کو پیش کرنا کہ یہی کامل کتاب ہے ایک ایسا دعویٰ ہے جو ضرورت کے مطابق ہونے کے علاوہ نہایت مناسب موقعہ پر پیش کیا گیا ہے۔
۲۔ ان معنوں کے علاوہ ایک اور معنی بھی اس آیت کے ہیں اور وہ بھی سیاق و سباق کے عین مطابق ہیں اور وہ یہ کہ سورۂ بقرہ سے پہلے سورہ فاتحہ ہے اس سورۃ میں ایک دُعا سکھائی گئی تھی کہ خدایا! مجھے سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام نازل کیا ہے۔ اس دُعا کا جواب ان الفاظ میں دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن ہدایت کو تم نے سورۃ فاتحہ میں طلب کیا تھا وہ یہی کتاب یعنے قرآن کریم ہے اس طرح ذٰلِکَ اشارہ بعید کے معنے ہیں دیتا ہے اور کسی اور تاویل کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ معنی سکھائے تو میں بہت خوش ہوا مگر کچھ عرصہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے ان معنوں کی طرف کم سے کم ایک عالم اسلام سبقت کر چکا ہے اور ہو علامہ ابو حیان کے اُستاد ابن جعفر بن ابراہیم بن الزبیر ہیں جنکی طرف منسوب کر کے علامہ ابوحیان نے یہ معنی اپنی تفسیر میں لکھے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہایت لطیف معنی ہیں۔ ان معنوں سے سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے تعلق پر بھی روشنی پڑتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ کا ر کھا جانا یونہی نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس کے مضامین سورہ فاتحہ کے جواب میں ہیں اور ذٰلِکَ کے معرف معنی کو بھی نہیں چھوڑنا پڑتا۔
اس آیت کا آخری حصہ یعنے ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ان معنوں کی مزید تصدیق کرتا ہے۔ گویا اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے جس ہدایت کو تم نے طلب کیا تھا وہ یہی کتاب ہے اور تم نے چونکہ معوملی ہدایت طلب نہیں کی۔ بلکہ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ گروہ کی ہدایت طلب کی ہے اس لئے ہم تم کو بتاتے ہیں کہ یہ کتاب ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن ہے یعنی معمولی ہدایت نہیں دیتی بلکہ کامل متقی کو اور اوپر لے جا کر اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کے اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں شامل کر دیتی ہے اور تمام انبیاء کی تعلیموں اور ان کے حاصل کردہ انعامات کی جامع ہے۔
لَارَیْبَ فِیْہِ۔ ریب کے معنے بتائے جا چکے ہیں۔ کہ تہمت۔ شک۔ کمی۔ نقص اور آفت و مصیبت کے ہیں۔
یہ سب کے سب معنی اس آیت میں چسپان ہوتے ہیں اور قرآن کریم کے متعلق اس میں چار دیویٰ کئے گئے ہیں۔
(۱) اس میں کسی ہستی کی حق تلفی نہیں کی گئی اور کسی پر ناواجب الزام نہیں لگایا گیا۔ نہ خدا تعالیٰ پر اس میں تہمت لگائی گئی ہے اور نہ کسی نبی یا رسول پر نہ ملائکہ پر نہ بنی نوع انسان پر نہ انسانی فطرت پر۔ غرض کسی کی اس حق تلفی نہیں کی گئی۔ کسی پر اتہام نہیں لگایا گیا۔ یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ اس کی نظیر دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں ملتی اور یہ ایسی زبردست صداقت ہے جس کی مثال اور کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم کے شروع کرتے ہی یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ اس کتاب کی دوسری کتب کی موجودگی میں کیا ضرورت تھٖی اس سوال کا سہل ترین جواب یہ ہو سکتا تھا کہ پہلی کتب کی بعض مضحکہ خیز باتیں پیش کر دی جاتیں اور کہا جاتا کہ ان کتب میں فلاں فلاں عیوب ہیں اس لئے ان سے دُنیا ہدایت نہیں پا سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اُتارا ہے یہ جواب باوجود اس اذعا کے کہ قرآن کریم سب نبیونکی تعلیم کی طرف ہدایت دینے کے لئے نازل ہوا ہے درست ہوتا کیونکہ قرآن کریم گو اس امر کا مدعی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی آتے رہے ہیں او ران میں سے بعض کو شریعت بھی ملی ہے اس امر کو تسلیم نہیں کرتا کہ ان انبیاء کی تعلیم موجودہ وقت میں بھی محفوظ ہے پس اس کا یہ جواب کہ موجودہ زمانہ میں پہلے نبیوں کی کتب غیر محفوظ ہیں اور خراب ہیں بالکل درست ہوتا اور مخالفین قرآن کریم کے لئے نہایت درجہ مسکت بھی ہوتا مگر ایک عظیم الشان بشارت کی اس رنگ کی ابتداء نفیس طبیعتوں پر گراں ضرور گذرتی۔ کیونکہ گو پہلی کتب کی غلطیوں پر مطلع کرنا قرآن کریم کے ضروری فرائض میں سے ہے مگر ابتداء ہیں میں اس مضمون کو چھیڑ دینا نہ تو ایک غیر معمولی شان کی کتاب کے شایاں تھا اور نہ اس سے اس عظمت و شوکت کا اظہار ہو سکتا تھا جو اس مضمون سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہم کسی فرد یا ہسی کو اس کے مقام سے نہیں گراتے بلکہ سب کے مناسب مقام اور درجہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس دعویٰ سے قرآن کریم نے ابتداء ہی میں اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے کسی قدر مشکلات پیدا کر لی ہیں؟ اعتراض کرنا آسان ہوتا ہے اور اعتراضوں پر ہی مختلف مذاہب کے مدعی اپنی تبلیغ کی بنیاد رکھتے ہیں لیکن قرآن کریم ابتدا ہی اس طرح کرتا ہے کہ اپنی ضرورت کے ثبوت کے لئے پہلے مذاہب کے نقائص کو پیش نہیں کرتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ میرا الکتاب یعنے کامل کتاب ہونپے کا دعویٰ اس امر پر مبنی نہیں کہ دوسری کتب میں نقص ہیں اور مجھ میں نہیں ہیں دوسروں کے مقابل میں نسبتی کمال کو اپنے سچا ہونے کّی دلیل نہیں دیتا بلکہ بغیر کسی مذہب پر اتہام لگانے کے اپنے ذاتی کمالات اور اپنے فضائل اور دینی امتیازی تعلیمات سے اپنی ضرورت اور اپنی صداقت کو ثابت کرتا ہوں۔ یہ مقام کیسا شاندار ہے اور پھر ساتھ ہی کیسا مشکل بھی؟ مگر قرآن کریم اسی کو اختیار کرتے ہوئے اپنی صداقت کو کامیاب طور پر ثابت کرتا ہے قرآن کریم اپنی سچائی کی دلیل یہ نہیں دیتا کہ دوسرے مذہب جھوٹے ہیں اس لئے ایک سچے مذہب کی ضرورت تھی جسے وہ پورا کرتا ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا نبی نہ گذرا ہو اور اسی طرح فرماتا ہے وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (رعد رکوع ۱) اور ہر قوم میں ایک ہادی ہماری طرف سے آ چکا ہے اور اسی طرح وہ تمام اقوام کے متعلق اصولی طو رپر اس امر کو تسلیم کر لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کے سمجھانے کے لئے بھی اپنی طرف سے ہدایت نامے بھجواتا رہا ہے اور اصولی طو رپر تمام مذاہب کو جو خدا تعالیٰ کی تصدیق کی مہر رکھتے ہیں جھوٹ اور فریب سے بری قرار دیتا ہے اور ان کی سچائی کا اقرار کرتا ہے برخلاف مثلاً یہود نصاریٰ اور آریو ںکے مذاہب کے کہ وہ اپنے سوا دوسرے مذاہب کو جھوٹا قرار دیتے ہیںاور یہ خیال کرتے ہیں کہ تورات انجیل اور وید کے سوا باقی سب جگہ ظلمت ہی ظلمت ہے اور ان اقوام کے سوا اللہ تعالیٰ نے باقی سب اقوام کو ہدایت کے سامانوں سے محروم کر دیا تھا بلکہ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے سوا اور سب اویان کسی نہ سکی شکل میں دوسرے مذاہب کو جھوٹا یا ادنیٰ ہی قرار دیتے ہیں لیکن اسلام ایسا نہیں کرتا وہ ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے آسمانی ہدایت کو ضروری قرار دیتا ہے اور اپنے اپنے زمانہ کے لئے سب کو کامل اور انسانی حاجتو ںکو پورا کرنے والا تسلیم کرتا ہے اور اس طرح قرآن کریم دوسرے مذاہب سے اتہام سے پاک ہونے میں بالکل ممتاز ہے۔
اگر تفصیلات کو دیکھا جائے تو اس میں بھی قرآن کریم کو اتہام سے پاک ہونے میں دوسرے مذاہب کے مقابل پر ایک امتیاز حاصل ہے سب سے ضروری وجود مذہب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا ہے وہ تمام مذاہب کا مرکزی نقطہ ہے۔ بظاہر یہ نہیں خیال کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کسی مذہب نے کوئی اتہام لگایا ہو گا لیکن ذرا سے تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ ناقابل فہم غلطی بھی انسان کر چکا ہے اور خوب پیٹ بھر کر چکا ہے۔ توریت خدا کی نسبت کہتی ہے کہ وہ دنیا کو پیدا کر کے تھک گیا اوراسے آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی حالانکہ جو تھک وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ دُنیا کو پیدا کر کے ساتویں دن اللہ تعالیٰ نے آرام کیا (پیدائش باب ۲۔ آیت ۲ و ۳ بعض اردو کے نسخوں میں مترجموں نے آرام کیا کی جگہ اعتراض کے ڈر سے فراغت پائی لکھ دیا ہے لیکن دوسرے نسخوں اور انگریزی کے نسخوں میں آرام کیا کے الفاظ ہی ہیں) اور یہ اللہ تعالیٰ پر اتہام ہے کہ وہ کام کرتے کرتے تھک گیا اور اُسے آرام کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن قرآن کریم اللہ تعالیٰ کو اس اتہام سے بری قرار دیتا ہے اور اس کی طرف سے یہ قول نقل فرماتا ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّہِ اَیَّامٍ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لَّغُوْب (ق ع ۳) یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو چھ اوقات میں پیدا کیا لیکن اس کام سے ہمیںکوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی اور نہ آرام کرنے کی حاجت پیدا ہوئی۔ اسی طرح مثلاً بائبل میں اللہ تعالیٰ کی نسبت لکھا ہے کہ ’’تب خداوند زمین پر انسان کے پیدا کرنے سے پچھتایا اور نہایت دلگیر ہوا۔‘‘ گویا انسان کو پیدا کرنا ایک غلطی تھی او راسپر نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو ندامت پیدا ہوئی اور وہ اسپر دلگیر ہوا۔ یہ اللہ تعالیٰ پر ایک اتہام ہے وہ خدا ہی کیا ہوا جو غلطی کرتا ہے اور انہیں جانتا کہ میرے فعل کا کیا نتیجہ ہو گا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ سبحان اور قدوس یعنے وہ سب عیبوں سے پاک ہے اور سب بزرگیوں کا مالک ہے اور اسی سورۃ میں آگے چل کر فرماتا ہے کہ اِنِّیْ اَعْلَمُ السَّمٰوتِ وَالْاَرْضِ (بقرہ ع ۳) یعنی میں اللہ آسمان و زمین کے متعلق تمام امور ابتدائے آفرنیش سے اور آئندہ کے تمام زمانوں کے متعلق خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ جس کو آسمان اور زمین کے متعلق پورا غیب حاصل تھا اور وہ اس کے حال اور مستقبل سے اچھی طرح واقف تھا اس کی نسبت کب یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس نے غلطی سے دنیا کو پیدا کر دیا اور بعد میں پچھتانے لگا۔
پھر ایک اصول کے طور پر قرآن کریم میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمِلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْم (جمعہ ع ۱) یعنے زمین و آسمانکا ذرّہ ذرّہ اللہ کے ہر عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس میں کس طرح اصولاً بائبل کے خیال کے خلاف تعلیم دی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سا دنیا کو پیدا کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی کیونکہ جو کام ایک فاعل بالارادہ غلطی سے کرتا ہے یا جو انجام کے لحاظ سے غلط ہو جاتا ہے وہ کام اپنے فاعل کے نقص پر ایک شہات ہوتا ہے اور اس کی کم علمی یا بصیرت کے صنعف پر دلالت کرتا ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ زمین اور آسمان میں جو بھی ہے انسان ہوں یا حیوا ہوں۔ فرشتے ہوں یا ارواح ہوں اسی طرح نباتات ہوں کہ جمادات ہوں باریک سے باریک ذرّہ ہو کہ بڑے سے بڑا سماوی کرہ ہو۔ سب کے سب اس بات پر شہادت دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک ہے اور اس نے زمین و آسمان کے پیدا کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی بلکہ آیت کا مضمون اس بات کو بھی پیش کر رہا ہے کہ مومن ہوں یا کافر مخلص ہوں یا منافق سب ہی باوجود اپنے منہ کے غلط بیانات اور دماغ کے مخالف خیالات کے اپنے وجود اور اپنے عمل سے اس امر کو ثابت کر رہے ہیں کہ زمین و آسمان کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ نے غلطی نہیں کی۔
اس کے بعد فرماتا ہے کہ اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کا وجود خدا تعالیٰ کے ملک قدوس عزیز اور حکیم ہونے پر دلالت کر رہا ہے یعنی نظامِ عالم اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک یعنی بادشاہ ہے اور اس کی طرف سے ایک قانون دنیا کو ملا ہے جس کی پابندی کرنے والے انعام پاتے ہیں اور خلاق ورزی کرنے والے سزا پاتے ہیں۔ ملک سے اس جگہ قانونِ شریعت مراد ہے یا قانون طبعی کا وہ حصہ جس کی خلاف ورزی کا انسان مرتکب ہو سکتا ہے جیسے مثلاًزیادہ کھا جانا یا آنکھ ناک کان سے زیادہ یا کم کام لینا۔ غرض اللہ تعالیٰ کا وہ قانون جس کی اطاعت جبراً نہیں کی جاتی بلکہ اس پر چلنے یا نہ چلنے کی بندے کو مقدرت حاصل ہوتی ہے اس کا ملوکیت والا قانون ہے کیونکہ بادشاہی قانون بھی ایسے ہی ہوتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے توڑنے کی طاقت ہوتی ہے گو ان کے توڑے پر وہ سزا پاتے ہیں۔ اس ملوکیت والے قانون پر عمل کرنے والے روحانی انعام اور طبعی قانون پر عمل کرنے والے طبعی انعام۔ اور یہ اس امر کا ثبوت ہے۔ کہ اس نظام عالم کا کوئی بادشاہ ہے چنانچہ انبیاء اور صلحاء کے ساتھ جو معاملہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ ایک قادر خدا کا جو تمام مخلوقات کا بادشاہ ہے ایک قطعی اور یقینی ثبوت ہے۔
اس کے بعد فرماتا ہے القدّوس وہ پاک اور تمام عیوب سے مبرا ہے یعنی اس کو ملوکیت کے معاملہ پر غور کرو تو تم کو معلوم ہو گا کہ اس کا معاملہ دنیوی بادشاہوں اور سلطنتو ںکا سا نہیں ہے کہ ان کے حکام اور بادشاہ اپنی حکومت کے قیام کے لئے ہر قسم کے اعمال کو جائر سمجھتے ہیں بلکہ اس کی صفت ملوکیت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اس سے اس کی قدوسیت ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کی طرف سے جو لوگ اس کے قانون کو جاری کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق سے متصف ہوتے ہیں اور جس قدر کوئی اس کا قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر نبی نوع انسان کا ہمدرد ہوتا ہے۔ اسی طرح جو اس کے طبعی قانون پر عمل کرتا ہے اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ فوائد اصل کرتا ہے اور طبعی نقائص سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے جاری کردہ قانون کے مطابق آنکھوں سے کام لینے والے کی آنکھیں مضبوط ہونگی اس کے قواعد کے مطابق معدہ سے کام لینے والے کا معدہ تمام بیماریوں سے بچا رہے گا۔ غرض اس کا قانون ایسا ہے کہ اس پر عمل اسنان کو مشقت اور تکلیف میں نہیں ڈالتا بلکہ اس پر عمل سے انسان قدوسیت کی چادر پہنتا ہے یعنی جس قدر عمل کرتا ہے اسی قدر نقصوں سے پاک ہوتا جاتا ہے۔ شرعی قانون پر عمل کرنے سے روحانی طہارت ملتی ہے اور طبعی قانون پر عمل کرنے سے جسمانی طہارت اور قوت حاصل ہوتی ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ وہ عَزِیْز بھی ہے یعنی اگر مخلوقات پر نگاہ ڈالو تو اس قانون کے علاوہ جو ملوکیت کے قانون کے مشابہ ہے او رجس پر عمل کرنے یا نہ کرنے پر انسان کو مقدرت حاصل ہے اس کا ایک اور بھی قانون فطرت کہنا چاہیئے۔ یہ قانون بھی دو قسم کا ہوتا ہے روحانی بھی اور جسمانی بھی۔ روحانی قانون تو وہ ہے جسے دین الفطرۃ کہتے ہیں اور جس میں تمام اخلاقی جذبات شامل اور جوہر مومن و کافر میں پایا جاتا ہے اور جو آخر ہر اس شخص کی ہدایت کو سمجھنا چاہے اس قانون سے بچنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔ مثلاً رحم اور شکر گذاری کے جذبات ہیں کہ ہر شخص میں پائے جاتے ہیں۔ ظالم سے ظالم میں بھی یہ جذبات پائے جاتے ہیں۔ کوئی انسان ان کے اثر سے بچ نہیں سکتا۔ ایک ڈاکو جو ہزاروں قتل کر کے ندامت محسوس نہیں کرتا اپنے بچے کی بیماری پر چیخیں مار کر رونے لگتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات دیکھا جاتا ہے۔ کہ ڈاکو اور چور بھی ان لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے جنہوں نے ان سے کبھی حسن سلوک کیا ہو۔ غرض بطور جذبۂ فطرت کے یہ مادے ہر انسان میں موجود ہیں گوبد استعمال کی وجہ سے بعض لوگ ان کا ساتعمال بہت محدود کر دیتے ہیں۔
جسمانی نظام میں یہ قانون ان طبعی خواص پر مشتمل ہے جن کے ماتحت تمام نظام عالم چل رہا ہے ایک دہر یہ خدا تعالیٰ کو مُنہ سے گالیاں دے لیتا ہے۔ لیکن اس کے اس قانون کی نافرمانی نہیں کر سکتا جو صفت عزیز کے ماتحت ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً خدا تعالیٰ نے اس کی زبان کو چکھنے کے لئے بنایا ہے اس میں یہ طاقت نہیں کہ زبان سے دیکھنے کا کام لے سکے۔ باوجود مذہب میں بغاوت کرنے کے وہ اس کے اس قانون کو بلا چون و چرا پابندی کرتا ہے۔ اسی طرح جو جو خواص اشیاء اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں وہ اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں کہ جس صورت میں خدا تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے اس قانون کے خلاف و نہیں جا سکتے۔ بیشک خواص اشیاء میں بھی تغیرات ہوتے ہیں مگر وہ تغیرات بھی دوسرے طبعی قانونوں کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اس دُنیا میں ایک قانون صفتِ عزیز کے ماتحت جاری ہے جس سے خدا تعالیٰ کے غلبہ اور قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس قانون کی ہر کہ دمہ پوری پابندی کرتا ہے اور پابندی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ملوکی قانون کی طرح اس کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی اور یہ قانون ایک عزیر ہستی پر دلالت کرتا ہے۔
پھر فرمایا ہے کہ شاید کسی کو اعتراض ہو کہ زبردست اور حیر سے کام لینا تو اچھا کام نہیں تو اس کا یہ جواب دیا کہ نہ ہر امر میں قدرت دینا اچھا ہے او رنہ ہر امر میں جبر جائز ہے۔ قدرت اپنی جگہ اچھی ہے اور جبر اپنی جگہ جائر ہے اور یہ دونوں مرحکمت کے ماتحت برتے جائیں تبھی نتائج اچھے نکلتے ہیں اگر قانونِ قدرت نہ بنایا جاتا تو تمام علمی ترقی انسان کی محدود ہو جاتی۔ کیونکہ کیمیا اور فزکس اور بایالوجی اور زوالوجی وغیرہ تمام علوم کی بنیاد ہی غیر متبدل قوانین اور خواص پر ہے۔ اگر آگ کبھی جلاتی اور کبھی پیاس بجھاتی اور پانی کبھی سرد کرتا اور کبھی آگ لگاتا تو کارخانۂ عالم ہی درہم برہم ہو جاتا۔ غرض قانونِ قدرت ہو یا قانونِ فطرت ہو ان کا غیر معتبدل ہونا زبردست حکمتوں کے ماتحت ہے اور بلاوجہ او ربے فائدہ نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس آیت میں آسمان و زمین کی پیدائش کو خدا تعالیٰ کی چار صفات الملک۔ القدوس۔ العزیز۔ اور الحکیم کا ظاہر ہے کہ یہ جو فعل الٰہی ان چار صفات کا اور خصوصاً حکمتِ الہٰی کا ظاہر کرنے والا ہو اس پر نادم ہونے یا پچھتانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معمولی سے معمولی شخص بھی اچھے کام پر پچھتایا نہیں کرتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے خاص اسی مضمون کو لیکر بھی وضاحت سے اس کی تردید کی ہے۔ فرماتا ہے۔ وَمَاخَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَابَیْنَھُمَالَا عِبِیْنَ (الانبیاء ع ۲) یعنی آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ہم نے اس کو یونہی بے سوچے ہوئے پیدا نہیں کیا یہ ہمارا کام کوئی کھیل نہیں بلکہ حکمت اور حق کے ساتھ اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس مضمون کی تائید میں فرماتا ہے۔ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَقِّ (العنکبوت ع ۴) یعنے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو ایک نہایت پختہ اور اٹل قانون کے ماتحت بنایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے متعلق سب سے بڑا اتہام شرک کا ہے۔ قرآن کریم سب کا سب اسی اتہام کے رو کے دلائل سے بھرا ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ کے شریک کئی قسم کے تجویز کئے گئے ہیں۔ بعض نے دو خدا تجویز کئے ہیں۔ ایک نور کا اور ایک ظلمت کا خدا۔ بعض نے تین خدا تجویز کئے ہیں۔ باپ۔ بیٹا اور روح القدس۔ بعض نے خدا تعالیٰ کے لئے بیویاں تجویز کی ہیں۔ بعض نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس نے بعض ہستیوں کو پیدا کر کے اپنی صفات ان میں بانٹ دی ہیں۔ اور مختلف صفات کے ظہور کے لئے مختلف دیوتا مقرر کر دیئے ہیں۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ بندوں میں سے بعض کو چن کر اپنے اختیارات کل یا بعض ان کو سونپ دیتا ہے۔ بعض تمام بڑے مظاہر قدرت کو خدا تعالیٰ کی صفات کا بالارادہ ظاہر کرنے والا قرار دیتے ہیں اور بعض لوگ مضر اشیاء اور خوف دلانے والے جانوروں کو دیوتا تجویز کرتے ہیں۔ بعض مظاہرِ حسن کو خدا کا مظہر اور الوہیت کی صفت سے متصف قرار دیتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان تمام قسم کے شرکوں کو تفصیل سے ردّ کیا ہے۔ اور ان عقائد کے غلط ہونے کے دلائل دیئے ہیں مگر اس مفصل مضمون کو حوالو ںکے ساتھ بیان کرنے کا یہ موقعہ نہیں۔ اگلے کسی موقعہ پر ان آیات کے ماتحت ان کا ذکر آ جائیگا جن مںی توحید ما شرک کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ (انشاء اللہ)
اسی طرح قرآن کریم کرنے اللہ تعالیٰ کی صفات کو بالتفصیل بیان کیا ہے جس کی مثال اور کسی کتاب میں نہیں ملتی اور اس طرح ان تمام اتہاموں سے جو مختلف صفات کے ناقص بیان سے یا ناقص طو رپر سمجھنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف مختلف مذاہب یا مختلف فلسفے منسوب کرتے چلے آئے ہیں اللہ تعالیٰ کو بری قرار دیا ہے۔ غرض قرآن کریم کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے درجہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جن امور کو اس کی طرف منسوب کرنے سے اس کی کسر شان ہوتی ہے انکو اس کی طرف منسوب کرنے سے قرآن کریم نے اجتناب کیا ہے بلکہ اُن کا بادلیل رد کیا ہے۔ اور جن امور سے اس کی وہ شان جو ایک معبود او رکامل الصفات خدا تعالیٰ میں ہونی چاہیئے ظاہر ہوتی ہے ان امو رک واس کی طرف منسوب کیا ہے اور نہایت بسط اور عمدگی سے اُن کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بعد کارخانۂ قدرت کے چلانیوالی ابتدائی علتوں میں ملائکہ کا وجود ہے۔ ملائکہ کو بھی قرآن کریم نے تمام نقائص اور عیوب سے جو ان کی ذات کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں پاک قرار دیا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے لَایَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْحَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْنَ (التحریم ع ۱) یعنے ملائکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اس کی پوری طرح اطاعت کرتے ہیں اور اس طرح ان تہمتوں کا رد کر دیا ہے جو مثلاً یہود کی طرف سے ملائکہ پر لگائی جاتی ہیں کہ فرشتوں نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اُس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ ہندوئوں میں ہے کہ دیوتائوں نے فلاں فلاں گناہ کیا اور اس تہمت سے فرشتوں کو بچانا ایک ضروری امر تھا کیونکہ فرشتے نیکی کی تحریرکوں کا سرچشمہ ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اگر ایک مصطفی پانی کے چشمہ کے متعلق شک اور شبہ پیدا ہو جائے تو انسان اُس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جائے گا اور نیکی کا وہ دروازہ اس کے لئے بند ہو جائے گا۔
تیسرا ستون انسان کی روحانی اور اخلاقی عمارت کی تکمیل کے لئے کلام الٰہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان یقین اور معرفت حاصل کرتا ہے۔ اس پر بھی مختلف مذاہب اور فلسفوں نے تہمت دھرنے سے دریغ نہیں کیا تھا مثلاً بعض یہ کہتے تھے کہ الہام صرف خیالاتِ صافیہ کا نام ہے حالانکہ محض خیالات کا نام الہام رکھ کر اس یقین اور اعتماد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے جو لفظی الہام کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ہر شخص اپنے خیال کا نام الہام رکھ سکتا ہے۔ اس بارہ میں قرآن کریم فرماتا ہے۔ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسیٰ تَکْلِیْمًا (نساء ع ۲۳) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بالمشافہ اور الفاظ میں باتیں کی تھیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی نسبت فرماتا ہے۔ وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ (التوبہ ع ۱) یعنی اگر ان مشرکوں میں سے جو تجھ سے برسرِ جنگ ہیں کوئی شخص تجھ سے پناہ مانگے تو اُسے پناہ دے تاکہ وہ اس کتاب کو سُن سکے جو تجھ پر نازل ہوئی ہے اور ساری کی ساری کلام اللہ سے ہے نیز کسی بندہ کا بنایا ہوا کوئی لفظ بھی اس میں شامل نہیں۔ پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے لام کو سُن لے اور چاہے کہ اپنے لوگوں کے پاس واپس جائے تو چاہیئے کہ حکومت کی حفاظت میں اُسے اس علاقہ میں جو اس کی اپنی قوم کا ہے اور اس کے لئے امن کی جگہ ہے تو اُسے واپس پہنچا دے۔
غرض قرآن کریم نے کتب سماویہ کو بھی اس تہمت سے بچایا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہو ںنے خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیئے ہیں۔
چوتھا ستون مذہب کی عمارت کا انبیاء کا وجود ہے ان کے متعلق بھی قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے وہ ہر اک اتہام سے پاک ہے۔ مثلاً ایک تو اصولی طو رپر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ انبیاء خدا تعالیٰ کے مقرب اور پاک لوگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَ اِذَا جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَٓا أوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِط اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَ مُوْا صَغَارٌ عِنْدَاللّٰہِ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَا نُوْایَمْکُرُوْنَ (انعام ع ۱۵) یعنی جب انبیاء خدا تعالیٰ کا معجزانہ کلام یا اس کے آسمانی نشانات دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تو گنہگار لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی براہ راست وہی نعمت ملے جو اللہ کے رسولوں کو ملی ہے تب ہم ایمان لائیں گے یہ لو گاپنے اعمال کو نہیں دیکھتے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا پاکیزہ کلام کس طرح نازل کر سکتا ہے جبکہ یہ گہنگار اور مجرم ہیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا بارکس پر رکھے یعنی اُسی کو یہ خلعت دیتا ہے جو پاکباز اور نیکوکار ہو مجرم نہ ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ گنہگار لوگ انبیاء والے انعامات کے طالب ہیں حالانکہ گنہگارو ںکو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے بدارادوں اور منصوبہ بازیوں کی وجہ سے ذلت اور سخت عذاب پہنچیگا۔ اس آیت میں اصولی طو رپر انبیاء کی پاکیزہ زندگی اور اُن کے تقدس کی شہادت دی گئی ہے اور اس طرح ان تمام خیالات کی تردید کر دی گئی ہے جو اللہ کے انبیاء پر لگائے جاتے ہیں خواہ اُن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ جسیا کہ مثلاً کرشن جی علیہ السلام کے بارہ میں خود اُنہی کے متبع کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرایا کرتے تھے اور عورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ چنانچہ ’’شریمد بھاگوت پر ان‘‘ اسکندھ صفحہ ۱۰ نمبر ۸؍۱۰ میں لکھا ہے کہ شری کرشن جی کی والدہ انہیں کہتی ہیں کہ:
’’بیٹا نو لاکھ گائیں میرے یہاں دُودھ دینے والی ہیں جتنا دُودھ ماکھن چاہیئے کھایا اور لٹایا کرو۔ دوسروں کے گھر ماکھن کھانے اور چرانے مت جایا کرو۔‘‘
اسی طرح برہم وی ورت پُورا ان کرشن جنم کھنڈ صفحہ ۴ ادھیائے ۷۲ میں تحریر ہے کہ۔
’’دن کے چھپنے پر اکرور جی اپنے گھر چلے گئے اور کرشن جی بھی کسی کے گھر چلے گئے۔ نند اور بلدیو سمیت کرشن جی گوبند بھگت کے ہاں ٹھیر۔ بھگت نے سب کاستکار (عزت) کیا جب سب پلنگوں پر سو گئے اور (مسماۃ) کبجا بھی سو گئی۔ تب کرشن جی بھی کبجا کے گھر چلے گئے۔ وہاں پر جا کر کبجا کو پلنگ پر سوئی ہوئی دیکھا۔ کرشن جی نے داسیوں (لونڈیوں) کو نہیں جگایا صرف کبجا کو جگا لیا۔ اس سے کرشن جی نے کہا اے سندوی نیند کو چھوڑ کر مجھ کو شرنگاہ دان (داد عیش) دے۔‘‘
اور اس عبارت کے بعد اور بہت کچھ خرافات ہیں جن کی نقل سے شرم و حیا اور حضرت کرشن کا ادب مانع ہے۔ مگر یہ سب من گھڑت باتیں دوسرے لوگوں کی ہیں۔ کرشن جی علیہ السلام ان باتوں سے پاک تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم سے اصولی طور پر سب ربانی مصلحین کی پاکیزگی کا ثبوت ملتا ہے۔
اسی طرح رامچندر جی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ سیتا جی سے آخری عمر میں بلاوجہ ناراض ہو گئے اور قطع تعلق کیا۔
(رامائن اتر کانڈ سرگ ۵۳)
جن انبیاء کا ذکر خاص مصالح کے ماتحت اور فوائد جلیلہ کے لئے قرآن کریم نے نام لے کر کیا ہے اُن کی شان کو قرآن کریم نے خاص طو رپر ذکر کیا ہے اور ان پر لگائے ہوئے اتہامات کو خاص طور پر ردّ کیا ہے۔ مثلاً بائبل کہتی ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور دیدہ دانستہ اللہ تعالیٰ کی نافرمائی کی۔ قرآن کریم فرماتا ہے وَلَقَدْ عَہِدْ نَآ اِلٓیٰ اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَسَِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا (طہ ع ۶) یعنی اے محمد رسول اللہ تجھ سے پہلے ہم نے آدم کو بھی بعض امور شریعت سے اطلاع دی تھی مگر ایک موقعہ پر وہ ایک حکم کے بارہ میں بھول گیا مگر اس کا ارادہ ہماری نافرمانی کرنے کا نہ تھا۔ یعنی آدم سے جو غلطی ہوئی تھی وہ بھول چوک کی قسم سے تھی جو گناہ نہیں کہلاتی اور دل کی تاریکی پر دلالت نہیں کرتی۔ اسی طرح بائبل میں لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے نعوذ باللہ منہ بعض پر جھوٹ بولا۔ مسلمانوں کی ایک جماعت نے بھی بعض احادیث سے دھوکا کھا کر اسی قسم کا عقیدہ بنا رکھا ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے وَابْرَاھِیْمَ اَلَّذِیْ وَفّی (النجم ع ۳) یعنی ابراہیم نے جو وعدہ اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اُسے کامل طو رپر پورا کر دیا۔ یعنی تمام اخلاق حسنہ کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ کیا عدل اور کیا احسان اور کیا عفو اور کیا ستاری اور کیا رأفت اور کیا شفقت علیٰ خلق اللہ اور کیا سچائی اور کیا معاملہ کی صحت۔ ہر ایک حکم جو خدا کی طرف سے اُسے دیا گیا تھا اُسے اُس نے پورا کیا اور معمولی طو رپر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ احکام الٰہی کے پوار کرنے میں دکھایا۔
بعض لوگوں نے کہا تھا کہ موسیٰ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مصریوں سے دھوکا سے اُن کے زیور مانگ لئے (خروج ب ۱۱ آیت ۲) اور پھر ان کو لے کر مصر سے بھاگ گئے۔ مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ وَلٰکِنَّا حُمِّلْنَٓا اَوْزَارً امِّنْ زِیْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَ فْنٰھَا (طہ ع ۴) یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ پر جانے کے بعد اُن کی قوم کے ایک حصہ نے شرک کیا اور حضرت موسیٰ نے آ کر اُن پر ناراضگی کا اظہار کیا تو اُن کی قوم نے جواب دیا کہ ہم نے اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ سامری کے ورغلانے سے کیا ہے۔ اور بات یُوں ہوئی ہے کہ مصری قوم کے زیورات جو ہمیں زبردستی دے دئے گئے تھے ہم اُنہیں اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتے تھے سامری کے کہنے پر ہم نے وہ زیورات اُسے دیدئے۔ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے تو الگ رہا بنی اسرائیل نے خود اپنے ارادہ سے بھی مصریوں کو دھوکا دینا نہ چاہا تھا بلکہ مصریوں نے خود ہی غدابوں سے گھبرا کر بنی اسرائیل کو اپنے زیورات دئے تھے تاکہ کسی طرح وہ چلے جائیں اور ان سے مصریوں کا پیچھا چھوٹے اور یہ کہ ان زیورات کو اپنے پاس رکھنے کی بنی اسرائیل کو بالکل کوئی خواہش نہ تھی۔
تورات میں کہا گیا تھا کہ موسیٰ کا ہاتھ معجزہ کی وجہ سے مبروص ہو گیا تھا (خروج باب ۴ آیت ۶) حالانکہ خود تورات ہی مبروص کو ناپاک قرار دیتی ہے (احباب باب ۱۳ آیت ۹،۱۰) اور برص ایک گھنائونی مرض ہے۔ مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ تَخْرُجُ بَیْضَٓائَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ (طہ ع ۱) یعنی ہاتھ کے سفید ہونے کا معجزہ کسی بیماری سے مشابہ نہ ہو گا بلکہ معجزانہ رنگ میں ہاتھ میں چمک پیدا ہو گی۔
تورات میں کہا گیا تھا کہ ہارون نے نعوذ باللہ من ذالک بنی اسرائیل کو ھچھڑا بنا کر دیا اور شرک کی راہ پر چلایا لیکن قرآنکریم فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھَارُوْنُ مِنْ قَبْلُ یَا قَوْمِ اِنَّمَا فُیِّنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ(طہ ع ۵) یعنی موسیٰ کے پہاڑ سے واپس آنے سے پہلے حضرت ہارونؑ بھی اپنی قوم کو شرک سے روکت رہے تھے اور اُن سے کہتے تھے کہ اے قوم اس بچھڑے کے ذریعہ سے تمہارا ایمان خراب کیا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمن ہے یہ بے حقیقت بچھڑا رب کس طرح ہو سکتا ہے پس تم میری فرمانبرداری کرو اور میرے حکم پر چلو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون شرک کرانے والوں میں سے نہ تھے بلکہ شرک کے روکنے والوں میں سے تھے۔ حضرت سلیمان پر یہود شرک کا الزام لگاتے ہیں اور گنہگار قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے’’جب سلیمان بوڑھا ہوا تو اس کی جورئووں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا۔‘‘ (اسلاطین باب ۱۱ آیت ۴) قرآن کریم اس الزام کو بھی ردّ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا (البقرہ ۱۲ ع ۱۲) یعنی سلیمان نے کوئی کفر والی بات نہیں کی بلکہ اس کا انکار کرنے والے اور اس پر الزام لگانے والے کافر تھے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہود نے الزام لگایا تھا کہ نعوذ باللہ من ذالک اُن کی پیدائش بدکاری کے نتیجہ میں تھی اور یہ کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک یوسف کے نطفہ سے بغیر شادی کے پیدا ہوئے تھے (انسائیکلو پیڈیا ٹینکا جلد ۵ صفحہ ۱۰۲ زیر لفظ CELSUS نیز دیکھو جوئش لائف آف کرائسٹ صفحہ ۱۲) اسی طرح بعض یہودی یہ الزام لگاتے تھے کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک ایک رومی سپاہی پینتھرا PENTHERA کے بیٹے تھے جن کا ناجائز تعلق حضرت مریم صدیقہ سے تھا (جوئش انسائکلو پیڈیا جلد ۷ صفحہ ۱۷۰ کالم اول) اسی طرح یہود کا یہ اعتراض تھا کہ انہیں شیطانی الہام ہوتا تھا اور ان کا تعلق بعل سے تھا جس کے معنے اُن کے محاورہ میںشیطان کے تھے۔ چنانچہ لکھا اور فقیہہ جو یروشلم سے آئے تھے کہتے تھے کہ اس کے ساتھ بعل زبول کا تعلق ہے اور یہ بھی کہ وہ بدروحوں کے سردار کی مدد سے بدروں کو نکالتا ہے (مرقس باب ۲ آیت ۲۲) قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو ان سب تہمتوں سے پاک قرار دیا ہے۔ اُن کی پیدائش کے متعلق فرماتا ہے وَالَّتِّیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ تُروْحِنَا وَجَعَلْنٰھَا وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء ۶ ع ۶) یعنی مریم جو حضرت عیسیٰ کی والدہ تھیں انہو ںنے اپنے تمام سوراخوں کو گناہ سے محفوظ رکھا تھا اور ان کو جو حمل ہوا تھا وہ ناپاک اور شیطانی روح کا نہ تھا بلکہ ایک پاک جو ہماری طرف سے تھی ان کے اندر داخل ہوئی تھیک اور ہم نے اس کو اور اس کے بیٹے عیسیٰ کو دنیا کے لیے ایک نشان بنایا تھا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے شیطان سے تعلق کے ازالہ کیلئے فرماتا ہے۔ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاَیَّدْ نَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرہ ۱۱ ع ۱۱) یعنی ہم نپے عیسیٰ بن مریم کو کھلے کھلے نشانات عطا فرمائے تھے اور اس کو روح القدس یعنی پاک الہام لانے والے فرشتے سے مدد دی تھی یعنی اُن کا الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اور فرشتے اس پر نازَ ہوتے تھے شیطان سے اُن کا تعلق نہ تھا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے اپنے تبعین نے بھی ایک شدید الزام اُن پر لگایا تھا کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک صلیب پر مر گئے تھے حالانکہ صلیبی موت تورات کے مطابق *** موت ہوتی ہے۔ چنانچہ عہد نامہ جدید میں لکھا ہے۔ ’’مسیح جو ہمارے لئے *** باا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ *** ہے‘‘ (گلتیوں باب ۲ آیت۱۳) قرآن کریم اس الزآم کو بھی رد فرماتا ہے چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے وَالسَّلاَمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (مریم ۵ ع ۲) یعنی جو لوگ مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا میری پیدائش حرامکاری کے نتیجہ میں تھی وہ بھی غلط کہتے ہیں کیونکہ میری پیدائش پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوئی تھی۔ اور جو لوگ کہینگے کہ میں صلیب پر لٹکایا جا کر *** موت مرا ہوں وہ بھی غلطی کریں گے کیونکہ میری موت بھی خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو گی اور *** کی موت سے میں بچایا جائوں گا۔ اور جو لوگ یہ کہیں گے کہ میں دوسروں کے گناہ اٹھا کر (نعوذ باللہ من ذالک) تین دن سزا بھگتوں گا وہ بھی غلطی کریں گے کیونکہ میرا بعث بعد الموت بھی خدا تعالیٰ کی سلامتی سے شروع ہو گا۔
حضرت مسیح کا مسیحیوں کی مزعومہ صلیبی موت کے بعد دوزخ میں جانا اور گویا اُن کی موت کی *** کے اثر کے نیچے ہونا انجیل نقودیمس کے باب ۲۱ سے ثابت ہے۔ نیز اپطرس ۱۸م۲۰؍۳ میں لکھا ہے۔ ’’کیونکہ مسیح نے بھی ایک بار گناہو ںکے واسطے دکھ اٹھایا یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئے۔ تاکہ وہ ہم کو خدا کے پاس پہنچائے۔ کہ وہ جسم کے حق میں تو مارا گیا لیکن روح میں زندہ کیا گیا جس میں ہو کے اس نے ان روحوں کے پاس جو قید تھیں جا کے منادی کی جو آگے نافرمانبردار تھیں۔ جس وقت کہ خدا کا صبر نوح کے دنو ںمیں جب کشتی تیار ہوتی تھی انتظار کرتا رہا۔‘‘
بائبل کی تفسیر میں جو متھیو پول MATTHEW POOL کی تصنیف شدہ ہے قید مراد دوزخ لیا گیا ہے۔
(تفسیر بائبل مصنفہ متھیوپول جلد صفحہ ۳ صفحہ ۹۱۱)
پانچوان ستون مذہب کا خود انسان کا وجود ہے کیونکہ وہ مہبط وحی ہے۔ اس ستون کو بھی بعض مذاہب نے گرانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً مسیحی مذہب کہتا ہے کہ انسانی روح آدم علیہ السلام کے گناہ کی وجہ سے گنہگار ہو گئی ہے او رانسان طبعاً میلان گناہ رکھتا ہے۔ رومیوں باب ۵ میں لکھا ہے۔ ’’پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا۔ اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیا۔‘‘ (آیت ۱۲)
او رہندو مذہب بھی ظاہر کرتا ہے کہ گویا انسان تمام کوششوں کے باوجود پاک نہیں ہو سکتا اور بار بار جونوں میں ڈالا جاتا ہے۔
(ستیارتھ پرکاش مصنفہ پنڈت دیانند جی بانی آریہ سماج ب ۹)
قرآن کریم نے ان مذاہب کے برخلاف انسانی فطرت کی براء ت کی ہے اور وہ فرماتا ہے۔ وَنَفْسٍ وَّمَاسَوّٰھَا فَاَ لْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْو ٰھَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰھَا( الشمس ۱۶ ع ۱) یعنی ہم نفسِ انسانی کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں کہ اسے ہم نے سب عیوب سے پاک پیدا کیا ہے اور اس کی فطرت میں نیکی اور بدی کے پہچاننے کی طاقت رکھی ہے۔ چنانچہ جو شخص اپنی روح کو بیرونی ملونیوں سے پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو شخص اس کی جبلی پاکیزگی کو دنیاوی آلائشوں سے گدلا کر دیتیا ہے اور اسے اس کے اعلیٰ مقام سے نیچے گرا دیتا ہے وہ ناکام ہو جاتا ہے یعنی انسانی روح اصل میں پاکیزگی لے کر آتی ہے اور بعد میں لوگ اُسے گندہ کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ آدم یا کسی اور کے گناہ کی وجہ سے وہ ناپاک ہو گئی ہے۔ اسی طرح تناسخ کے چکر کا اس طرح ردّ کرتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ تَتَوَ فّٰھُمُ الْمَلآَئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَیْکُمُ ادْخلوا ابعنۃ بما کنتم معملون (النحل ۱۰ ع ۴) یعنی وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے اُن سے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دائمی سلامتی تم کو ملیگی (سلام کا لفظ جو اسم ہے دائمی سلامتی پر دلالت کرتا ہے) جائو اور اپنے اعمال کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہو جائو۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُ وْافِفِی الْجَنَّۃِ خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَادَا امَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّامَاشَٓائَ رَبُّکَ عَطَائً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ (ہود ۹ ع ۹) یعنی جو لوگ سعید اور نیک ہونگے وہ جنت میں جائیں گے اس میں جنت کے آسمان زمین کے قیام تک اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع رہتے چلے جائیں گے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیئت کا فیصلہ بھی کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ان کو کبھی جنت سے نہیں نکالے گا اور اُن کو ایسا انعام بخشے گا جو کبھی بند نہ ہو گا۔
اس آیت سے انسانی فطرت کے اس حق کو جو دائمی نجارت کے متعلق ہے اور جسے آریہ صاحبان نے تناسخ کے عقیدہ سے باطل کر دیا ہے، قائم کر دیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ تمام اہم ہور جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اُن کے متعلق جو جو تہمتیں مختلف مذاہب کے پیرووں یا فلاسفروں نے لگائی تھیں اسلام نے ان کو دُور کیا ہے اور ہر اک تہمت سے خدا تعالیٰ کو ملائکہ کو کلام الٰہی کو انبیاء کو اور فطرتِ انسانی کو بری کیا ہے اور یہ ایسی خوبی ہے جو اور کسی کتاب میں اس کی موجودہ حالت میں نہیں پائی جاتی اور صرف قرآن کریم ہی ہ جو سب تہمتوں سے ان مبارک وجودوں اور اصولوں کو پاک کرتا ہے جو مذہب کے لئے بمنزلہ ستون کے ہیں اور یہ ایسا امر ہے کہ اگر قرآن کریم اس کے سوا اور کوئی کام نہ بھی کرتا تو صرف یہی کام دوسرے ادیان کی موجودگی کے باوجود اس کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھا۔
ظاہر ہے کہ جس کے دل میں خدا تعالیٰ کی نسبت بدظنی ہو گی اور وہ اس کی طاقتوں کے بارہ میں شک میں ہو گا وہ اس سے کامل تعلق پیدا کر کے اس کی بے پایاں رحمت سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا۔ اور جو ملائکہ کی نسبت بدظن ہو گا وہ ملائکہ سے تعلق جوڑ کر ان کی پاکیزہ تحریکوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔ اور جو انبیاء سے یا اُن میں سے کسی سے بدظن ہو گا اور وہ ان کے اعلیٰ نمونہ سے فائدہ نہ اُٹھا سکے گا۔ اور جو کلام الٰہی کے متعلق شبہ میں ہو گا وہ اس کی پاک کرنے والی تاثیرات سے محروم رہے گا۔ اور جو انسانی فطرت سے بدظن ہو گا وہ اپنے نفس کو پاک کرنے کی جدوجہد میں اس عزم اور ارادہ سے محروم رہے گا جو پاکیزگی کے حصول کے لئے ضروری ہے۔ پس لَارَیْبَ فِیْہِ کے مطابق تعلیم دے کر قرآن کریم نے انسان کو نیکی کے سر چشموں سے فائدہ اٹھانے، نیک نمونوں کو خضرِ راہ بنانے اور نہ ٹوٹنے والی امید کو اپنے دل میں جگہ دینے کی ایک ایسی راہ کھول دی ہے جو اس کی نجات کی ضامن اور اس کی کامیابی کی کفیل ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے رَیْب کے دوسرے معنے شک کے ہیں۔ پس لَارَیْبَ فِیْہِ کے یہ معنے بھی ہیں کہ قرآن کریم کی صداقت کا ایک مزید ثبوت اور اس کی ضرورت حقہ کا ایک زبردست گواہ یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک نہیں۔
جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود قرآن کریم پر اعتراض کرنے میں جلدی کرتے ہیں انہوں نے اس جملہ کے صرف یہی معنے کئے ہیں اور پھر اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کر کے کہ اس میں کوئی شک نہیں گویا خود اپنے مشکوک ہونے کا اعتراض کیا ہے کیونکہ جب دل میں چور نہ ہوتو انسان کو یہ خیال ہی نہیں ہو سکتا کہ لوگ مجھ پر جھوٹا ہونے کا الزام لگائیں گے (ویری بحوالہ رومن قرآن) اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس نادان معترض کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سورۂ بقرہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی وحی نہیں ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ اپنے دل کے خدشہ کی وجہ سے سے شک کی نفی کی گئی ہے بلکہ یہ سورۃ تو مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے جبکہ قرآن کریم کو نازل ہوتے ہوئے تیرہ سال سے زائد گذر چکے تھے اور اس عرصہ میں کفار ہزاروں شبہات قرآن کریم کے بارہ میں پیش کر چکے تھے۔ پس اس قدر عرصہ تک دشمنوں کے اعتراضات لینے کے بعد بھی اگر قرآن کریم کا حق نہیں کہ وہ یہ کہے کہ اس میں کوئی شک کی بات نہیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جو سچا ہو اُسے کبھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ سچا ہے ورنہ اس کی سچائی میں شک پڑ جائیگا۔ یہ دعویٰ بالبداہت باطل ہے اور کبھی کسی عقلمند نے اسے قبول نہیں کیا نہ کبھی کسی صادق نے اس پر عمل کیا ہے اور یہ نکتہ صرف رومن قرآن کے مصنف کے ہی ذہن میں آیا ہے اور ریورنڈویری ہی ایک ایسے شخص ہیں جن کو اس خلاف عقل دعویٰ کی تصدیق کی توفیق ملی ہے۔
مگر افسوس ہے کہ ان دونوں پادریوں کو خود اپنی مذہبی کتب پر غور سے مطالعہ کرنے کا کبھی موقعہ نہیں ملا۔ اگر وہ اپنی مذہبی کتب کا غور سے مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ وہ یہ اعتراض قرآن کریم کی صداقت کے خلاف نہیں کر رہے بلکہ خود اپنی کتب کے خلاف کر رہے ہیں چنانچہ مندرجۂ ذیل حوالے جو بہت سے حوالوں میں سے چند ہیں ثابت کرتے ہیں کہ بالکل اس قسم کے محاورات بائبل میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ا مثال ۸؍۸ ’’میرے منہ کی ساری باتیں صداقت سے ہیں ان میں کچھ ٹیڑھا ترچھا نہیں۔‘‘ بیعیاہ ۱۹؍۴۵ ’’میں خداوند سچ کہتا ہوں اور راستی کی باتیں فرماتا ہوں۔‘‘ تمطائوس (۱) طیطس ۸؍۳ ’’یہ بات سچ ہے۔‘‘ مکاشفات ۵؍۲۱، ۶؍۲۲ ’’یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔‘‘
ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ اپنی سچائی پر زور دینے کے لئے عہد نامہ قدیم اور جدید دونوں نے بالکل قرآن کریم کے مشابہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اور اگر اس قسم کے محاوروں کے استعمال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قائل اپنی سچائی کی نسبت شبہ رکھتا ہے تو یہ شبہ بہت زیادہ مصنفین عہد نامہ قدیم اور جدید کے دل میں پایا جاتا تھا۔ مگر حق یہ ہے کہ یہ اعتراض نہ بائبل پر پڑتا ہے نہ قرآن کریم پر۔ کیونکہ جب شبہات پیش کئے جائیں تو اپنے دعویٰ کی سچائی پر زور دینے کے لئے ایسے کلمات کا استعمال شک پر نہیں بلکہ یقین پر دلالت کرتا ہے۔ اور قرآن کریم میں یہ الفاظ ابتدائی سورتوں میں استعمال نہیں کئے گئے بلکہ ایک لمبے عرصہ کی محالفت کے بعد استعمال کئے گئے ہیں۔
اوپر کا جواب امر واقعہ کے لحاظ سے ہے ورنہ میرے نزدیک اس کتاب میںجو عالم الغیب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہو اگر شروع میں بھی ایسے کلمات پائے جائیں تو کسی شک پر دلالت نہیں کرتے۔ کیونکہ گو بندہ نہیں جانتا کہ اس کے دعویٰ کو لوگ کس نگاہ سے دیکھیں گے مگر خدا تعالیٰ تو جانتا ہے ہ اُس کے نازل کردہ کلام سے لوگ کس طرح پیش آئیں گے اور وہ اپنے علم کی بنا ئپر ایسے کلمات شروع میں ہی استعمال کر سکتا ہے او راس کا ایسا کرنا اس کے متشکک ہونے کا ثبوت نہ ہو گا بلکہ اس کے عالم الغیب ہونے کا ثبوت ہو گا۔
اوپر کے جوابات اس امر کو تسلیم کر کے دئے گئے ہیں کہ لَارَیْبَ فِیْہِ کا فقرہ محض صداقت قرآن کریم کی تاکید کیلئے استعمال ہوا ہے۔ مگر میرے نزدیک ریب کے معنے اگر صرف شک کے کئے جائیں تو اس صورت میں بھی یہ صرف صداقت کی تاکید کے طور پر استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنے اندر مزید صداقتیں رکھتا ہے جو قرآن کریم کے سچے ہونے کے دلائل پر مشتمل ہیں چنانچہ ’’اس میں کوئی شک نہیں‘‘ کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ یہ کلام ضرور سچا ہے اور دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ اس میں کوئی شکی بات نہیں۔
میں حل لغات کے موقعہ پر ثابت کر چکا ہوں کہ ریب اس شک کو نہیں کہتے جو تحقیقی کے راستہ میں حمد ہوتا ہے اور جس پر علمی ترقی کا مدار ہے بلکہ ریب اس شک کو کہتے ہیں جو بلاوجہ اور بدظنی پر مبنی ہو اور ان معنوں کی رُو سے ’’اس میں کوئی ریب نہیں‘‘ کے یہ معنے ہوئے کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جو بدظنی اور صداقت کے انکار پر مشتمل ہو یعنی اس میں جس قدر امور ہیں وہ تحقیقی ہیں ظنی نہیں۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ اس میں جس قدر امور ہیں تحقیقی ہیں ظنی نہیں کوئی معمولی دعویٰ نہیں بلکہ اگر یہ دعویٰ ثابت ہو جائے تو اس سے قرآن کریم کی صداقت پر ایک زبردست شاہد مہیا ہو جاتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں جس قدر امور بھی بیان کئے گئے ہیں سب کے لئے دلائل مہیا کئے گئے ہیں۔ مثلاً بائبل وید اور دیگر کتب خدا تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتی ہیں مگر اس کو ایک دعویٰ کے طو رپر پیش کرتی ہیں اس کے لئے کوئی دلیل نہیں دیتیں۔ مگر قرآن کریم اگر خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے توایسا مطالبہ کرنے کی تائید میں دلائل بھی دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کو زبردست شواہد سے ثابت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ ملائکہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے تو ملائکہ کے موجود ہونے کا ثبوت بھی دیتا ہے۔ اگر وہ قبولیت دعا کا عقیدہ پیش کرتا ہے تو اس کی تائید میں دلیلیں بھی دیتا ہے۔ اگر انبیاء پر ایمان لانے کو کہتا ہے تو ان کی صداقت کے ثبوت بھی بہم پہنچاتا ہے۔ اگر بعث بعد الموت منواتا ہے تو اس عقیدہ کو براہین تو یہ سے ثابت بھی کرتا ہے۔ غرض کوئی ایسا عقیدہ نہیں جسے قرآن کریم پیش کرتا ہو اور اس کی صداقت کے ثبوت میں اس نے دلائل بھی نہ دئے ہوں۔ چنانچہ ان امور کی تفصیل قرآن کریم کی مختلف آیات کی تفسیر میں آگے چل کر بیان ہو گی۔ پس لَارَیْبَ فِیْہ کہہ کر قرآن کریم نے اس امر کو پیش کیا ہے کہ گو قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے یعنی ہر ضروری امر کے متعلق اس میں بحث کی گئی ہے پھر بھی وہ ظنی اور شکی امور کو پیش نہیں کرتا بلکہ ہر امر کی دلیل ساتھ دیتا ہے اور تحقیق کے ساتھ ہر مسئلہ کو پیش کرتا ہے اور یہ امر قرآن کریم کی افضلیت کا ایک زبردست ثبوت ہے کیونکہ یہ امر تو آسان ہے کہ ایک دو امور جو تحقیقی طور پر ثابت ہو چکے ہوں ان کو با دلائل بیان کر دیا جائے لیکن یہ امر نہایت مشکل ہے کہ ہر ضروری امر کے متعلق بحث بھی کی جائے اور پھر ہر بات کا دلائل کے ساتھ ثابت بھی کیا جائے اور ظن اور گمان کی دح سے نکال کر یقین اور وثوق کے مقم پر کھڑا کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جو کتاب اپنے تمام دعاوی کو اس طرح پیش کرے گی اس کے سچا ہونے میں کسی منصف مزاج کو شک اور تردد نہ ہو سکے گا۔
لَارَیْبَ فِیْہ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ قرآن کریم کے محفوظ ہونے میں کوئی شک نہیں اور ذَالِکَ الْکِتَابُ کے بعد یہ الفاظ اس مضمون پر دلالت کرتے ہیں کہ اس کتاب کے بعد کوئی اور کتاب نازل نہ ہو گی اور یہ دنیا کے لئے آخری ہدایت نامہ ہے۔ کیونکہ جیسا کہ بتایا جا چکاہے ذَالِکَ الْکِتٰبُ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ یہ کام کتاب ہے اور تمام انسانی ضروریات کے پورا کرنے کا سامان اس میں موجود ہے اس قسم کی کتاب کے بعد دوسری کتاب اسی صورت میں نازل ہو سکتی ہے جب وہ محفوظ نہ رہے۔ کیونکہ نئے قانون کی دو ہی صورت میں ضرورت ہوتی ہے یا تو اس وقت جبکہ پہلا قانون ناقص ہو اور کسی وقت جا کر لوگوں کی ضروریات کے پورا کرنے سے قاصر ہو جائے یا پھر اس صورت میں کہ پہلا قانون دنیا سے کلی طور پر یا جزوی طور پر مفقود ہو جائے اور اسے دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہو سوذَالِکَ الْکِتٰبُ کے بعد لَارَیْبَ فِیْہِ فرما کر یہ بتایا کہ یہ کامل کتاب ہمیشہ زمانہ کی دست بُرد سے محفوظ رہے گی اور کوئی زمانہ ایسا نہ آئے گا کہ اس کے بارہ میں یہ شک کیا جا سکے کہ آیا اس کے الفاظ وہی ہیں جو کسی وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے تھے یا ان میں کوئی تغیر تبدل ہو گیا ہے؟ اور چونکہ ایسا زمانہ اس پر کوئی نہ آئے گا یہ کتاب منسوخ نہ ہو گی اور آئندہ سب زمانوں میں اسی کے مطابق لوگوں کو رُوحانی زندگی بسر کرنی پڑے گی۔ یہ مفہوم بھی قرآن کریم کی ایک زبردست خوبی پر دلالت کرتا ہے اور آج بھی جبکہ قرآن کریم کے نزول پر تیرہ سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے دوست تو الگ رہے دشمن بھی اس کے محفوظ ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ اور قرآن کریم اندرونی اور بیرونی شواہد بھی ایسے رکھتا ہے جو اُس کے محفوظ ہونے پر گواہ ہیں۔ چنانچہ سرولیم میور جیسا شحص بھی اس کے بارہ میں گواہی دیتا ہے کہ:
THERE IS OTHERWISE EVERY SECURITY INTERNAL AND EXTERNAL THAT WE POSSESS THAT TEXT WHICH MOHAM-MAD HIMSELF GAVE FORTH AND USED.
یعنی ’’ہمارے پاس ہر ایک قسم کی ضمانت موجود ہے۔ اندرونی شہادت کی بھی اور بیرونی کی بھی۔ کہ یہ کتاب جو ہمارے پاس ہے۔ وہی ہے جو خود محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی اور اُسے استعمال کیا کرتے تھے۔‘‘
(لائف آف محمد)
قرآن کریم کی یہ فضیلت ایسی ہے جو دوسری کتب کے مقابلہ پر اس کی ضرورت کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیتی ہے کیونکہ جس کلام کے محفوظ ہونے میں شک پڑ جائے اس پر عمل کرنے کے لیے انشراح صد رپیدا نہیں ہوتا اور مذہب کیلئے کامل انشراح کا ہونا ضروری ہے۔
بے شک قرآن کریم کے وقت میں عہد نامہ قدیم موجود تھا عہد نامہ جدید موجود تھا۔ وید موجود تھے۔ ژند اور اس کی شرح اوستا موجود تھی۔ مگر ان میں سے ایک کتاب بھی تو نہ تھی جو اس طرح محفوظ ہو جس طرح کہ وہ نازل ہوئی تھی۔ ژند اوستا کے متعلق تو خود پارسی بھی مقر ہیں کہ اس کے بہث سے حصے ضائع ہو چکے ہیں اور موجودہ ژند ایسی نامکمل صورت میں ہے کہ اس کے غیر محفوظ ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف ایلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۲ صفحہ ۲۶۷ پر لکھا ہے کہ شاہ یساسپ (VISHTASPA) زر تشت مذہب کا سر پرست تھا۔ اوستا کے دو نسخے سنہری حروف میں لکھوا کرا صطخرہ اور سمرقند میں رکھوائے ہوئے تھے۔ لیکن ۳۳۰ قبل مسیح سکندر کے حملہ کے دوران میں وہ دونوں نسخے تباہ کر دیئے گئے اور سکندراعظم کی تاخت و تاراج نے رر تشتی مذہب کی طاقت کو توڑ دیا۔ اور ان پانچ صدیوں میں جو اس کے بعد آئیں۔ سیلیسڈ SELEUCIDاور پارتھینPARTHIANکا عہد حکومت زر تشتی مذہب کی تاریخ میں تاریکی اور پستی کا زمانہ ہے جس کے نتیجہ میں اصل مذہبی کتابوں کا بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔ باوجود اس غفلت کے جو اس کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ مذہبی کتب کے معتدبہ حصے متفرق کتابوں میں اور علماء کے حافظہ میں یاد رہے۔
وید بھی غیر محفوظ ہیں اُن کے مختلف نسخے آپس میں اس قدر اختلاف رکھتے ہیں کہ اُن کے متغیر ہونے کی ایک کھلی دلیل ہیں حتیٰ کہ منتروں کے منتر بعض نسخوں میں موجود ہیں اور بعض میں نہیں اور بعض میں عبارت کسی طرح ہے اور بعض میں کسی طرح ہے چنانچہ زمانہ قدیم کے ہندو علماء میں سے ایک عالم نے آج سے کئی صدیاں قبل وید کے محروم ہونے کے متعلق ان الفاظ میں گواہی دی ہے کہ ’’وید بیاس نے تودو اپریگ میں چاروں ویدوں کا ذکر کیا ہے لیکن رشیوں کی اولاد نے علم کی خامی کی وجہ سے ویدو ں کو ایک دوسرے سے مختلف بنا دیا۔ کہیں منتروں کے ساتھ براہمن بھاگ (تفسیری حصہ) شامل کر دیا۔ اور کہیں اعراب اور الفاظ کے فرق سے رگ یجر اور سام وید کو کئی طرح کا بنا دیا۔ بعض جگہ ازراہِ تشریح و عام خیالات کے ذریعہ۔ نیز کلپ سوتروں کو ایشوری کلام میں شامل کر کے انہیں مختلف شکلوں میں تبدیل کیا گیا ہے‘‘ (کورم پوران پُورو آردھ۔ ادھیائے صفحہ ۲۰ شلوک صفحہ ۴۴ نا صفحہ ۴۶) ویدوں کے غیر محفوظ ہونے کے متعلق جو کچھ اُوپر لکھا گیا ہے اس کی تائید زمانہ حال کے ہندو اور آریہ سماجی پنڈت بھی کرتے ہیں جس سے وید کی موجودہ حالت کا پتہ لگتا ہے ۔ چنانچہ پنڈت جے دیو شرما اپنے سام وید بھاش (تفسیر) کے صفحہ ۲۹۵ میں لکھتے ہیں کہ ’’سام وید کے کئی نسخوں میں آرنیکت کانڈ (باب) نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح پنڈت تلسی رام سوامی اپنے سام وید بھاش جلد صفحہ ۲ صفحہ ۸۳۴ میں لکھتے ہیں کہ ’’سام وید کا جو نسخہ پنڈت ستیہ برت سام شرمی نے شائع کیا ہے اس میں ’’مہانامی منی سوکت‘‘ نہیں ہیں حالانکہ یہ آرنیک کا نڈ ار صانامنی سوکت آریوں کے شائع کردہ نسخہ مطبوعہ اجمیر میں موجود ہیں۔ مگر جو سام وید بنار س میں شائع ہوا ہے اس میں یہ دونوں باب نہیں پائے جاتے۔ ان دونوں میں ۶۵ منتر ہیں جو بعض نسخوں میں ہیں اور بعض میں نہیں یہی حالت رگوید، یجروید اور اتھروید کی ہے۔ چنانچہ اتھروید کی تحریف کے متعلق پنڈت ویدک منی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ’’حقیقت میں جتنی بری حالت اتھروید کی ہوئی ہے اتنی اور کسی ویدکی نہیں ہوئی سائن آچاریہ کے بعد بھی کئی سوکت (باب) اس میں شامل کئے گئے ہیں۔‘‘ (وید ستر دسو صفحہ ۹۷)
تورات بھی اپنے غیر محفوظ ہونے پر شاہد ہے مثلاً تورات میں جو حضرت موسیٰ کی کتاب ہے لکھا ہے۔ ’’سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق مو آب کی سر زمین میں مر گیا اور اُس نے اُسے مو آب کی ایک وادی میں بیت ففور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا۔‘‘ (استثنا باب ۳۴ آیت ۵،۶) پھر آیت۱۰ میں لکھا ہے کہ ’’اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا جس سے خداوند آمنے سامہنے آشنائی کرتا۔‘‘
اب ہر اک شخص سمجھ سکتا ہے کہ موسیٰ پر یہ کلام نازل نہیں ہو سکتا تھا کہ پھر موسیٰ مر گیا اور اب تک اس جیسا شحص کوئی پیدا نہیں ہوا۔ ضرور ہے کہ یہ فقرہ تورات میں موسیٰ کی وفات کے لمبے عرصہ بعد بڑھایا گیا ہو۔
واضح الحاقی عبارتوں کے علاوہ بائبل میں ایسے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی صورت میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتاب اس شکل میںموجود ہے جس شکل میں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر اختلافات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
پیدائش باب ۱ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے حشرات الارض اور جنگلی جانور پیدا کئے اور اس کے بعد انسان کو پیدا کیا۔ (آیت ۶۴ و ۲۵،۲۶) لیکن پیدائش باب ۲ میں لکھا ہے کہ آدم کی پیدائش کے بعد جانور اور آسمان کے پرندوں کو بنایا گیا۔ آیت ۱۹ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق پیدائش باب ۷ میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کہا کہ سب پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور ان کے مادے اپنی کشتی میں رکھ لے اور نوح نے ایسا ہی کیا (آیت او ۲، ۵) لیکن اسی بات کی ۸ اور ۹ آیت میں لکھا ہے کہ پاک چار پایوں میں سے دو دو نر اور مادے نوح کی کشتی میں داخل ہوئے جیسے کہ خدا نے فرمایا تھا۔ گویا ایک ہی جگہ پر دو تین آیتوں کے فرق پر اس قدر اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ دو تین آیتوں پہلے تو کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے سات سات جانور رکھنے کا حکم دیا اور نوح نے سات سات جانور ہی رکھے۔ لیکن دو تین آیتوں بعدیہ کہا گیا ہے کہ خدا نے دو دو جانور رکھنے کا حکم دیا تھا اور نوح علیہ السلام نے دو دو جانور ہی رکھے۔ اس قسم کے میسیوں اختلافات تورات میں پائے جاتے ہیں جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس شکل میں موجود نہیں جس شکل میں کہ موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی ورنہ ایسے صریح اختلافات پائے نہ جاتے۔
انا جیل کی بھی یہی حالت ہے اول تو اس امر کا ہی کوئی ثبوت نہیں کہ کون سی انجیل الہامی ہے اور کون سی نہیں کیونکہ اناجیل کئی ہیں۔ ان میں سے ہلاک کسی دلیل کے محض قرعہ ڈال کر چار انجیلوں کا انتخاب کر لیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ یہ زیادہ معتبر ہیں۔ پھر جو چار انجیلیں منتخب کر کے بنیادی کتب قرار دی گئی ہیں ان میں بھی مسیح کا کلام بہت تھوڑا ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام تو اس میں کوئی ہے ہی نہیں ہاں مسیح کی زبانی چند فقرات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ملتے ہیں۔ پس حقیقتاً ذخدا تعالیٰ کا الہام خواہ اس کے الفاظ میں ہو یا مسیح کے الفاظ میں انا جیل میں بہت کم ہے۔ ہاں تاریخی واقعات پر یہ کتاب مشتمل ہے جو کسی صورت میں الہام نہیں کہلا سکتے۔ بلکہ صرف بعض مورخوں کا نقطہ نگاہ ہے مگر اسی پریس نہیں ان اناجیل میں بھی کہ جو عہد نامہ جدید میں شامل کی گئی ہیں (۱) شدید اختلاف ہے اور (۲) اس کے مختلف زمانوں کے ترجموں میں بھی باہم شدید اختلاف ہے۔
پہلے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ متی باب ۱۰ آیت ۹، ۱۰ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے حواریوں کو یہ نصیحت کی کہ ’‘نہ سونا، نہ روپا، نہ تائیا اپنے کمر بندوں میں رکھو راستے کے لئے نہ جھولی نہ دو کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو‘‘ لیکن مرقس باب ۶ میں حضرت مسیح کی نصیحت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ’’اور حکم کیا کہ سفر کے لیے سوالاٹھی کے کچھ نہ لو نہ جھولی، نہ روٹی، نہ اپنے کمر بند میں پیسے۔ مگر جوتیاں پہنو پردہ کرتے مت پہنو‘‘ (آیت ۸،۹) یہ کیسا صریح اختلاف ہے۔ متی کا بیان ہے کہ مسیح نے کہا نہ جوتی لو نہ لاٹھی لومرقس کہتا ہے کہ مسیح نے یوں کہا کہ لاٹھی کے سوا کچھ نہ لو ہاں جوتی ضرور پہنو۔اسیطرح متی باب ۶۷ آیت ۴۴ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح کو صلیب کے موقعہ پر ان کے دو نو مصلوب ساتھیوں نے ملامت کی اور طعنے دئے۔ مرقس باب ۱۵ آیت ۳۹، ۴۰ میں لکھا ہے کہ ان چوروں میں سے جو اس کے ساتھ صلیب دئے گئے ایک نے اُسے طعنہ دیا لیکن دوسرے نے نہ صرف یہ کہ طعنہ نہیں دیا بلکہ طعنہ دینے والے کو ملامت کی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ان دو صلیب والوں میں سے ایک چور نے مسیح سے کہا ’’کہ اگر تو مسیح ہے تو آپ کو اور ہم کو بچا۔ دوسرے نے اُسے ملامت کر کے جواب دیا۔ کیا تو بھی خدا سے نہیں ڈرتا جس حال کہ اسی سزا میں گرفتار ہے‘‘ پھر آگے لکھا ہے ’’اور اُس نے یسوع سے کہا اے خداوند جب تو اپنی بادشاہت میں آوے مجھے یاد کیجئو‘‘ (آیت ۴۲) اس پر یسوع نے اُسے کہا کہ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج تو میرے ساتھ بہشت میں ہو گا‘‘ (آیت ۴۳) اسی طرح مرقس باب ۱۵ آیت ۲۵ میں لکھا ہے کہ مسیح کو صلیب تیسرے گھنٹے میں دی گئی۔ لیکن یوحنا باب ۱۹ آیت ۱۴ میں لکھا ہے کہ چھٹی گھڑی تک ابھی مسیح پیلا طوس کی کچہری میں موجود تھا۔ اسی طرح متی باب ۶۷ آیت ۵ میں لکھا ہے کہ یہوداہ اس کر یوطی جس نے مسیح علیہ السلام کو پکڑ وایا تھا۔ اُس نے پھانسی کے ذریعہ خود کشی کر لی لیکن اعمال باب ۱ آیت ۱۸ میں لکھا ہے کہ وہ اوندھے منہ گر گیا اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی ساری انتڑیاں نکل گئیں۔ اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب دئے جانے کے دوسرے دن کے متعلق اناجیل میں عجیب و غریب اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوحنا باب ۲۰ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ ہفتہ کے پہلے دن (یعنی اتوار کو) مریم میگدلینی قبر پر آئی لیکن متی باب ۲۷ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ سبت کے بعد (یعنی اتوار کے دن) پوپھٹنے کے بعد مریم میگدلینی اور دوسری مریم اس کی قبر کو دیکھنے آئیں۔ یعنی قبر پر آنیوالی دو عورتیں تھیں۔ مرقس باب ۱۶ آیت ۱ میں سا سے بھی اختلاف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اتوار کے دن مریم میگدلینی یعقوب کی ماں مریم اور سلومی یعنی تین عورتیں قبر پر آئیں۔ لیکن لو قا باب ۶۴ آیت ۱۰ میں کہا گیا ہے کہ مریم میگدلینی اور یوحنا اور مریم یعقوب کی ماں اور اَور عورتیں ساتھ تھیں۔ اور یہ سب مل کر قبر پر گئیں۔ گویا ہر ایک انجیل دوسری انجیل کے مخالف بیان دے رہی ہے۔ یوحنا ایک عورت کا جانا بیان کرتا ہے۔ متی دو عورتوں کا جانا بیان کرتا ہے۔ مرقس تین عورتوں کا جانا بیان کرتا ہے۔ اب یہ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب کلام خدا تعالیٰ کا ہے۔ یہ اور اسی قسم کے بہت سے اختلافات اناجیل میں پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ اناجیل شک و شبہ سے خالی نہیں۔
دوسرے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ متی باب ۱۷ میں ایک آیت نمبر ۲۱ یوں ہوا کرتی تھی۔ ’’مگر اس طرح کے دیو بغیر دعا و روزہ کے نہیں نکالے جاتے۔‘‘ ۱۹۳۰ء کے پہلے کی تمام اناجیل میں یہ آیت پائی جاتی تھی مگر ۱۹۳۰ء اور اس کے بعد کی اناجیل میں سے یہ آیت کی آیت ہی نکال دی گئی۔ متی باب ۱۹ آیت ۱۷ کے الفاظ پہلے انا جیل میں یوں ہوا کرتے تھے ’’تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے‘‘ لیکن ۱۹۳۰ء کی اناجیل میں اس فقرہ کو بدل کر یوں کر دیا گیا ہے ’’تو مجھ سے نیکی کی بات کیوں پوچھتا ہے‘‘ متی باب ۲۳ میں ایک آیت ۱۴ ہوا کرتی تھی جس کے الفاظ یوں تھے ’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کہ بیوائوں کے گھر نگل جاتے اور مکر سے لمبی نمازیں پڑھتے ہو اس سبب سے تم زیادہ تر سزا پائو گے۔‘‘ ۱۹۳۰ء کے نسخوں میں سے یہ آیت بالکل نکال دی گئی ہے۔ متی باب ۲۷ میں ایک آیت ۳۵ ہوتی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’تاکہ جو نبی نے کہا تھا پورا ہو۔ کہ انہوں نے میرے لباس آپس میں بانٹ لئے اور میرے لباس پر چٹھی ڈالی۔‘‘ مگر یہ آیت ۱۹۳۰ء کے نسخوں میں موجود نہیں۔ یوحنا باب ۵ میں ایک آیت ۴ ہوتی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’کیونکہ ایک فرشتہ بعضے وقت اس حوض میں اُتر کے اس پانی کو ہلاتا تھا۔ او رپانی کے ہلنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اُترتا کسی بیماری میں گرفتار ہو اس سے چنگا ہو جاتا تھا۔‘‘ یہ آیت ۱۹۳۰ء اور بعد کی اناجیل میں سے بالکل نکال دی گئی ہے۔ یوحنا باب ۷ آیت ۵۳ سے باب ۸ آیت ۱۱ تک نسخہ مطبوعہ مرزا پور میں موجود ہیں مگر نسخہ بحروف رومن اردو کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ساتویں باب لی ۵۳ آیت سے لیکر آٹھویں باب کی گیارہویں آیت تک کی عبارت اکثرقلمی نسخو ںمیں نہیں پائی جاتی۔ عیسائی علماء کا اپنا اقرار کہ بعض آیتیں جو اناجیل میں درج تھیں وہ در حقیقت اناجیل کا حصہ نہیں تھیں۔ اور پُرانے نسخوں کا آپس میں اختلاف کہ بعض آیتیں بعض میں پائی جاتی ہیں اور بعض میں نہیں۔ یہ امور اس بات کا صاف اور واضح ثبوت ہیں کہ موجودہ اناجیل شک اور شبہ سے پاک نہیں بلکہ اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ وہ ملاوٹ سے ہر گز محفوظ نہیں۔ اور خود عیسائیوں کے مسلمات کے رو سے محرف اور مبدل ہیں۔ پس ایسی کتب کی موجودگی کے باوجود خواہ وہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کی جاتی ہوں یقینا ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس کا ہر ہر لفظ قطعی اور یقینی ہو اور جس کی حفاظت کا دشمن اور دوست کو اقرار ہو۔ اور اس ضرورت کو قرآن کریم نے پورا کیا۔ اور اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض کرنا کہ پہلی کتب کی موجودگی میں اس کی کیا ضرورت ہے ایک بے معنے اعتراض تھا کیونکہ محرف مبدل کتب خود ایک محفوظ کتاب کا مطالبہ کرتی تھیں جس پر لوگ اس یقین سے عمل کر سکیں کہ اس کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس قرآن کریم نے اپنی ضرورت کی تائید میں اپنے کامل ہونے کی دلیل کے ساتھ یہ دلیل بھی پیش کی کہ ایمان کے لئے اس کتاب پر کامل یقین ضروری ہے جس پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے اور قرآن کریم سے پہلے کی سب کتاب اپنی موجودہ شکل میں مجروح اور مشکوک ہو چکی ہیں۔ پس ایک ایسی کتاب کی ضرورت پیدا ہو چکی ہے جس کے لفظ لفظ کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے میں شک نہ کیا جا سکے۔ پس اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے تاکہ جو لوگ اس پر عمل کریں اس یقین کے ساتھ عمل کریں کہ یہ تمام کا تمام محفوظ ہے اور ہر ہر لفظ اس کا اسی طرح ہے جس طرح حدا آنے نازل کیا ہے۔ یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کے بعد کوئی شخص قرآن کریم کی ضرورت کا انکار نہیں کر سکتا او رجس کے بعد پہلی کتب کا موجود ہونا اس کی ضرورت کو باطل نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں ان الفاظ میں یہ پیشگوئی بھی کر دی گئی ہے کہ یہ کتاب ہمیشہ محفوظ رہے گی اور کبھی بھی انسانی دستبرد کاشکار نہ ہو گی۔
۳۔ ریب کے ایک معنے ہلاک اور تباہی کے بھی ہیں۔ ان معنوں کے رُو سے لَارَیْبَ فِیْہِ کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ کتاب نہ صرف سب خوبیوں کی جامع ہے بلکہ سب نقائص سے پاک بھی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایک نسخہ کسی خاص مرض کے لئے مفید تو ہوتا ہے لیکن اس فائدہ کے ساتھ بعص اور نقصان بھی پہنچا دیتا ہے پس ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ جو ضرورت بھی انسان کو مذہب کے بارہ میں پیدا ہو قرآن کریم اس کو پورا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ اس پر عمل کرنے سے کسی اور جہت سے انسان کی روحانیت کو نقصان بھی نہیں پہنچتا۔ چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ سورۃ طہ میں فرماتا ہے مَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی (ع ۱) یعنی اس قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان دن یا دنیا میں نقصان اٹھائے بلکہ اس کی تعلیم مفید ہونے کے ساتھ بے ضرر بھی ہے۔ اس بارہ میں بھی آئدہ تفسیر میں متعدد مثالیں پیش کی جائیں گی (انشاء اللہ) جن سے معلوم ہو گا کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان کی روحانیت یا اخلاق کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ وہ خالص خیر ہی خیر ہے۔ او ریہ امر بھی اسے دوسری کتب پر ایک زبردست فوقیت عطا کرتا ہے۔
۴۔ چوتھے معنے رَیْب کے حَاجَۃٌ کے بتائے گئے تھے۔ ان معنوں کے رُو سے لَارَیْبَ فِیْہِ کے معنے یہ ہوں گے کہ اس کتاب میں کوئی دینی امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا بلکہ سب ضروری امور اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں چنانچہ یہ فضیلت بھی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور وہ ایک ایسی جامع کتاب ہے کہ کوئی انسانی ضرورت ایسی نہیں جس کے متعلق اس میں شافی تعلیم موجود نہیں۔ کوئی اعتقادی او رکوئی عملی اور کوئی اخلاقی اور کوئی اقتصادی اور کوئی مدنی امر نہیں جس کے بارہ میں قرآن کریم میں بحث نہ کی گئی ہو اور اس کے متعلق ہدایت نہ دی گئی ہو بلکہ باوجود قلیل الحجم ہونے کے قرآن کریم میں سب ضروری امور پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اور اسے قرآن کریم کا ایک زبردست معجزہ تسلیم کرنے پر مجبو رہو جاتا ہے۔ اس خوبی کی طرف شروع سے اس کے دشمنوں کی نگاہ بھی پڑتی چلی آئی ہے چنانچہ احادیث میں آتا ہے۔ کہ قَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ یَا اَمِیْرَ الْمُؤمِنِیْنَ لَوْ عَلَیْنَا اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتَ لَکُمْ الْاِ سْلَامَ دِیْنًا لَاتَّخَذْنَاہُ ذَالِکَ الْیَوْمَ عِیْدًا فَقَالَ عُمَرُ اِنِّیْ لَاَ عْلَمُ اَیَّ یَوْمِ اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ اُنْزِلَتْ یَوْمَ عَرَفَۃَ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ (ترمذی جلد دوم کتاب التفسیر زیر آیت الیوم اکملت لکم دینکم) کہ ایک یہودی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملا۔ اور کہنے لگا۔ کہ اگرہم پر آیت اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اترتی۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی دینی امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا بلکہ سب ضروری امور اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں اور قرآن مجید کامل کتاب ہے۔ تو ہم اس دن کو جس دن وہ آیت اُترتی عید کا دن مقرر کرتے۔ اور خوشی مناتے۔ کہ ہماری شریعت کامل شریعت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے خوب یاد ہے کہ کب او رکہاں یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ آیت حج کے ایام میں یوم عرفہ میں جمعہ کے روز نازل ہوئی۔ گویا تم تو ایک دن عید مناتے لیکن ہمارے لئے یہ دو عیدیں تھیں ایک جمعہ کا دن اور دُوسرا یوم عرفہ۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے آیت اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ پڑھی۔ اور پاس ہی ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے اُن سے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس روز عید مناتے۔ حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ یہ آیت نازل ہی ایسے ایام میں ہوئی جبکہ دو عیدیں جمع تھیں (ترمذی جلد دوم کتاب التفسیر)
خلاصہ کلام یہ کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ میں صرف اس امر کی تاکید نہیں کی گئی کہ یہ کلام سچا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ بلکہ ریب کے معنوں پر نظر کرتے ہوئے اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ (۱) اس میں کسی صداقت کا انکار نہیں ہے بلکہ سب صداقتوں کا اقرار کیا گیا ہے اور مذہب کے سب ضروریامو رپر سے تہمتوں اور بدگمانیوں کو دور کیا گیا ہے (۲) اس میں کوئی ظنی اور شکی بات نہیں بلکہ ہر بات دلیل سے بیان کی گئی ہے (۳) یہ کلام محفوظ اور یقینی ہے اور ہمیشہ محفوظ رہیگا (۴) اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو انسان کے لئے تکلیف اور تباہی کا وجب ہو (۵) اس میں سب ضروری امور بیان کر دیئے گئے ہیں اور کوئی ایسا مذہبی اخلاقی تمدنی اقتصادی سیاسی وغیرہ مسئلہ نہیں جس کے بارہ میں اس میں مکمل تعلیم نہ دی گئی ہو۔
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ان الفاظ یہ بتایا کہ (۱) قرآن کریم میں وصال الٰہی کی تڑپ پیدا کرنپے کے سامان موجود ہیں یعنی ہر فطرت صحیحہ کو اس کی تلاوت کے ذریعہ سے وہ ضروری دھکا لگتا ہے جس کے بغیر والہانہ اور عاشقانہ قدم ارواح اپنے معشوق حقیقی کی طرف نہیں اٹھا سکتیں۔ صرف فلسفیانہ خیالات کا پیدا ہونا انسان کے لئے کافی نہیں ہوتا کیونکہ فلسفہ صرف خیالات کو درست کرتا ہے ایک ناقابل برداشت جذبہ اس سے پیدا نہیں ہوتا مگر عمل کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فطرۃ انسانی کو ایک ایسا دھکا لگے کہ وہ آپ ہی آپ آگے بڑھتی چلی جائے۔ خدمت اور ایثار پر فلسفی زبردست تقریر کر سکتا ہے ایک جاہل ماں اس کا لاکھواں حصہ بھی بیان نہیں کر سکتی لیکن اپنے بچہ کے لئے جس ایثار اور قربانی کا عملی نمونہ وہ دکھاتی ہے ایک فلسفی بنی نوع انسان کے لئے اس نمونہ کا لاکھواں حصہ بھی پیش نہیں کر سکتا۔ پس جب تک کوئی کوئی کتاب ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ نہ ہو یعنی جن لوگوں کے خیالات و افکار دلیل اور بُرہان سے پاک ہو چکے ہوں اُن کے اندر عشق اور محبت کی آگ نہ بھڑکا دے اور ایک طرف خدا تعالیٰ کی طرف محبت سے بڑھتے چلے جانے اور دوسری طرف مخلوق کی طرف شفقت سے جھکتے چلے جانے کا بے پناہ جذبہ نہ پیدا کر دے وہ دنیا کی عملی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اور قرآن کریم ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے الفاظ سے اسی مقصد کے پورا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے انسانی فطرت کو وہ ابتدائی دھکا لگتا ہے جو اُسے عشق کیر اہ پر گامزن کر دیتا ہے۔
دوسرے معنے ہدایت کے اس ارشاد کے ہوتے ہیں جو نبیو ںکے ذریعہ سے انسانوں کو پہنچایا جاتا ہے۔ ان معنوں کے رُو سے اس جملہ کے معنے یہ ہوں گے کہ جو لوگ اس امر کے شائق ہیں کہ ان کو ان کے خالق و مالک کی طرف سے ہدایت ملتی رہے ان کی حواہش کے پوار کرنے کے بھی اس میں سامان موجود ہیں اور خواہ کسی درجہ کا متقی ہو اس کی راہنمائی کے لیے اس کتاب میں پاک اور مصفی الٰہی تعلیم موجود ہے جس سے متقی کے دل کو یہ تسکین حاصل ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنی عقل سے کام نہیں لے رہا۔ بلکہ اُسے خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت حاصل ہے جس کی مدد سے وہ ہر قدم یقین اور اطمینان سے اٹھا سکتا ہے اور شک و شبہ کی زندگی سے پاک ہو جاتا ہے۔
تیسرے معنے ہدایت کے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے عمل کی مزید توفیق اور فکر کی بلندی کے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے اس جملہ کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم میں ایسی قوت ہے کہ جب اس کے کسی حکم پر انسانع مل کرنے تو اسے مزید نیکیو ںکی توفیق ملتی ہے اور اس کے خیالات میں جلا پیدا ہوتی ے اور اس کا فکر اور اس کا حوصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور باریک در باریک تقویٰ کی راہیں اس پر کھولی جاتی ہیں۔ گویا وہ ایک لامتناہی نیکی اور تقویٰ کی نہ ختم ہونے والی راہوں پر چل پڑتا ہے اور اس کی ترقیات کی کوئی انتہاء مقرر نہیں کی جا سکتی۔ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَ ھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوھٰمْ (محمد ۶ع۲) یعنی جو لوگ ہدایت پا جائیں انہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ سے ہدایت میں اور بھی بڑھاتا ہے اور ان کے مناسب حال تقویٰ انہیں عطا کرتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے۔ کہ ہدایت اور تقویٰ کسی ایک مقام کا نام نہیں ہیں بلکہ ہدایت کے بھی مختلف مقامات ہیں اور تقویٰ کے بھی مختلف مقامات ہیں۔ قرآن کریم ہدایت یا فتو ںکو ان کے مقام سے اوپر کے مقام ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور پھر اس مقام کے مناسب حال تقویٰ کا مقام اس شخص کو دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ لامتناہی ترقیات کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُ وْافِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۳ ع ۷) یعنی جو لوگ ہماری محبت او رہمارے وصال کے حصول کے لئے ہمارے بتائے ہوئے قواعد کے مطابق (اس پر فینا کے الفاظ دلالت کرتے ہیں اور ان سے ایک مراد قرآن کریم ہے) جدوجہد کرتے ہیں انہیں ہم یکے بعد دیگرے ان راستوں کا پتہ بتاتے چلے جاتے ہیں جو ہم تک پہنچنے والے ہیں۔ اس آیت میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف ہدایت کے راستے محدود نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا راستہ ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے نُوْرُ ھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِ یْھِمْ وَبِاَیْمَا نِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر (التحریم ۱۰ ع ۲) یہ آیت مابعد الموت زندگی کے متعلق ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کو جب آنحضرت صلعم اور مومن جنت کی طرف جائیں گے تو ان کے ایمان و عمل کے نتیجہ میں پیدا شدہ نور ان کے آگے ہو گااور وہ یہ کہتے جائیں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے نور کو مکمل کر دے او رہماری کمزوریوں کو ڈھانپ دے تو ہر شئے پر قادر ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت صرف اسی دنیا میں نہیں بڑھتی بلکہ بعد الموت بھی ہدایت اور عرفان میں انسان ترقی کرے گا اور نئی طاقتیں اُسے ملتی جائیں گی۔ خلاصہ یہ کہ ہدایت کے لفظ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسری آیت قرآنیہ اس کی وموید ہیںکہ روحانی ترقیات غیر محدود ہیں اور قرآن کریم متقیوں کو ان اعلیٰ ترقیات کی طرف بڑھاتا لئے جاتا ہے۔
چوتھے معنے ہدایت کے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے قرآن کریم سے یہ ثابت ہیں کہ انجام بخیر اور جنت حاصل ہو جاتی ہے۔ ان معنوں کے رُو سے اس جملہ ی معنے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم میںایسی تعلیم ہے کہ جس کی امداد سے خدا ترس انسان اپنے منزل مقصود یعنی جنت کو حاصل کر لیتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ دعویٰ سب مذاہب ہی کرتے ہیں اور بظاہر اس مضمون میں کوئی جدت یا افضلیت نہیں پائی جاتی۔ لیکن جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ اس میں جنت کے حصول کے کیا معنے ہیں تو پھر یہ دعویٰ بالکل جدید اور نرالا ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جنت کے حصول کے یہ معنے نہیں کہ انسان مرنے کے بعد جنت میں داخل ہو جائے بلکہ مرنے کے بعد کی جنت کا حصول اس دنیا میں جنت کے حصول سے وابستہ ہے جسے اس دنیا میں جنت مل جائے صرف اسی کو بعد الموت جنت ملے گی۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ (الرحمن ع ۳) یعنی جو شخص تقویٰ کے سچے مقام پر ہوتا ہے اُسے دو جنتیں ملتی ہیں۔ ایک اس دنیا میں اور ایک اگلے جہان میں۔ اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰ خِرَۃِ اَعْمٰی (بنی اسرائیل ع ۸) یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو یعنی اُسے دیدار الٰہی نصیب نہ ہو وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا اور یدار الٰہی یا دوسرے الفاظ میںجنت سے محروم رہیگا۔
قرآن کریم کی اس تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے جنت کے ملنے کے معنے صرف یہ نہیں کہ مرنے کے بعد قرآن کریم کا مومن جنت حاصل کرے گا کیونکہ یہ صرف ایک دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان لانے والا اور اس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے والا شخص اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہو جاتا ہے اور ایمان بالغیب اس کے لئے ایمان بالمعاینہ ہو جاتا ہے۔ وہ صرف عقیدۃ اس امر کو نہیں مانتا کہ اسے مرنے کے بعد جنت مل جائے گی بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو اس کے لئے ظاہر کرتا ہے او راپنے وجود کو اس کے سامنے لے آتا ہے یہاں تک کہ وہ موت سے پہلے ہی اپنے آپ کو جنت میں محسوس کرنے لگتا ہے اور جسمانی موت صرف اُس کے مشاہدہ کو زیادہ روشن کرنے کا موجب ہوتی ہے ورنہ مشاہدہ اور دیدار الٰہی اُسے اسی دنیا میں میسر آ جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ ایسا مقام ہے جس کے بعد کوئی بے چینی اور شک باقی نہیں رہتا اور ایسا انسان ہر ٹھوکر اور ابتلاء سے محفوظ ہو جاتا ہے اور گویا اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کی گو دمیں جا بیٹھتا ہے۔ پس قرآن کا مومنوں کو قرآن کریم کے ذریعہ سے جنت ملنے کا دعویٰ کرنا محض ایک بے دلیل دعویٰ نہیں بلکہ وہ اسے ایک ایسی شہادت کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا جھوٹ اور سچ اسی دنیا میں آزمایا جا سکتا ہے۔ اور اسلام کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو اس دعویٰ کے لئے دلیل کے طور پر تھے اور جن کو اللہ تعالیٰ کا وصال اور دیدار کامل طو رپر اسی دنیا میں حاصل ہو گیا اور اسی دنیا میں جنت میں داخل ہو گئے۔ یعنی ہر قسم کے شیطانی حملوں سے محفوظ ہو گئے اور ہر قسم کی روحانی نعمتوں سے متمتع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ کلام کو انہو ںنے سُنا اور اس سے بالمشافہ انہو ںنے باتیں کیں اور اس کے زندہ نشانوں کو انہو ںنے اپنی ذات میں دیکھا اور دوسروں کے وجودوں میں انہیں دیکھایا۔
بعض لوگ اس آیت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت ہے تو معلوم ہوا کہ متقی پیدا کرنے کیلئے اور کسی کلام یا کتاب کی ضرورت ہے۔ سو یاد رہے کہ یہ اعتراض محض قلت تدبر سے پیدا ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم تقویٰ پیدا کرنے کا بھی مدعی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِینَتَہٗ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَالتَّقْویٰ وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَہَا (فتح ۱۱ ع ۳) یعنے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اپنی کتاب پر ایمان لانے والوں پر سکینت او راطمینان نازل کیا اور اُن سے تقویٰ کی حقیقت کو وابستہ کر دیا اور مومن بالقرآن ہی حقیقت تقویٰ کے مستحق اور اس کے اہل ہیں۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ سے اور اس پر ایمان لا کر انسان کو کامل تقویٰ میسر آتا ہے بلکہ ایسا تقویٰ میسر آتا ہے جو دائمی ہوتا ہے۔ بلکہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقویٰ کے اہل اور اس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھنے والے صرف مومنین قرآن ہیں۔
اس آیت کی موجودگی میں یہ اعتراض کرنا کہ گویا قرآن کریم صرف مقتیوں کو ہدایت دینے کا دعویٰ دار ہے تقویٰ پیدا کرنے کا دعویٰ نہیں کرتا بالبداہت باطل ہے۔ اس کے برخلاف قرآن کریم تو اس امر کا مدعی ہے کہ حقیقی تقویٰ صرف قرآن کریم پر ایمان لانے سے پیدا ہو سکتا ہے۔
اس آیت کے علاوہ قرآن کریم کی اور بہت سی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم صرف مقتیوں کے لیے ہدایت نہیں بلکہ سب بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے خواہ وہ روحانی زندگی میں اعلیٰ مقام پر ہوں یا ادنیٰ پر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی (آل عمران ۵ ع ۱۴) یہ قرآن تمام انسانوں کے لئے ضروری امور بیان کرتا ہے اور انہیں ہدایت دیتا ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآنی ہدایت صرف متقیوں کیلئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ قرآن کریم میں ہے ھُدًی لِّلنَّاسِ وبَیِّنَتٍ مِّنَ الْھُدٰی (البقرہ ۶ ع ۲۳) یعنی قرآن کریم سب انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی تمام اقسام بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ط (الکف ۲۰ ع ۸) یعنی اس قرآن میں تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے خواہ متقی ہو ںیا غیر متقی ہر بات اعلیٰ سے اعلیٰ پیرایہ میں بیان کر دی گئی ہے یعنی ہر انسان کی حالت کے مطابق اس میں ایسی تعلیم ہے جو اسے اوپر کے درجہ کی طرف لے جاتی ہے اور اس کی رحوانی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذا الْقُرْاٰن مِنْ کُلِّ مَثَلٍ (الروم ۹ چ ۶) اس آیت کے بھی قریباً وہی معنے ہیں جو اوپر کی آیت کے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں صَرَّفْنَا کہا گیا تھا یہاں صَرَّفْنَا کہا گیا ہے۔ اورصَرَّفْنَا میں اس امر پر زور ہے کہ مختلف پیرایوں سے اس ہدایت کو بیان کیا ہے۔ اور صَرَّفْنَا میں اس امر پر زور ہے کہ فطرت کی صحیح مثالوں اور واضح نمونوں کے مقابل پر رکھ رکھ کر ہدایت کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَیَذَّ کَّرُوْا (بنی اسرائیل ۵ ع ۵) یعنی قرآن کریم میں تمام ضروری امور ہدایت مختلف پیرایوں میں بیان کئے گئے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور فائدہ اٹھائیں۔ اس جگہ بھی متقیوں یا مومنوں کے لئے ہدایت کو مخصوص نہیں کیا گیا بلکہ تمام انسانوں کے لئے اسے پیش کیاگیا۔
قرآن کریم کی متعدد آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کی راہیں بھی قرآن کریم نے تمام انسانوں کے لئے بیان کی ہیں چناچنہ فرماتا ہے یَآ اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ ۳ ع ۳) یعنی اے انسانو (نہ کہ مومنو یا مسلمانو) اپنے اس رب کی جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا ہے عبادت کرو تاکہ تم متقی بنو۔ اسی طرح فرماتا ہے۔ وَکَذَ ایِکَ اَنْزَلْنَاہ قُرْآنًا عَرَبِیًّا وَّصَرَّ فْنَا فِیْہِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْن (طہ ۱۵ ع ۶) یعنی قرآن کریم کو ہم نے عربی زبان میں اتارا ہے اور اس میں تمام عذاب کی خبریں بھی بیان کی گئی ہیں تاکہ جو مومن نہیں وہ بھی متقی ہو جائیں۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم کافروں کو بھی متقی بناتا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر اس جگہ یہ کیوں فرمایا کہ قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت ہے یہ کیوں نہ فرمایا کہ قرآن کریم تقویٰ پیدا کرات ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ قرآن کریم کی افضلیت کا ذک ہے یعنی یہ بیان ہے کہ دوسری کتب کی موجودگی میں اس کتاب کی کیا ضرورت ہے۔ پس اس مضمون کے لحاظ سے ان اعلیٰ مقامات کے حصول کا ذکر ہی مناسب اور درست تھا جن میں قرآن کریم منفرد ہے او رجس میں اس کا مقابلہ کرنے کا دوسرے مذاہب کو دعویٰ تک بھی نہیں۔
اس جواب کے علاوہ اس اعتراض کا ایک اور بھی جواب ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں تقویٰ کی ایک اور بھی تعریف بیان کیگئی ہے اور اس تعریف کے رُو سے تقویٰ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے نہ کہ مذہب سے۔ چنانچہ سورہ شمس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَ ھَا وَتَقْوٰھَا۔ ہر انسان کو اس کی پیدائش کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک امتیازی قابلیت بخشی ہے جس کے ذریعہ سے وہ بُرے اور بھلے میں تمیز کرتا ہے۔ یہ قابلیت مسلمان یا غیر مسلمان کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہر انسان میں پیدا کی گئی ہے۔ پس اس تعریف کے مطابق تقویٰ کے معنے فطرت کی حفاظت کے ہیں نہ کسی خاص مذہب یا عقیدہ کے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہدایت وہی لوگ پا سکتے ہیں جو فطرۃ کو گندے اثرات سے پاک رکھتے ہیں ورنہ جو لوگ فطرت کو پاک رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور صداقت کے مانے سے انکار کرتے ہیں وہ ہدایت نہیں پا سکتے ان کو ہدایت تبھی مل سکتی ہے جب جبر سے کام لیا جائے۔ اور قرآن کریم جبر کے خلاف ہے۔
خلاصہ یہ کہ اوپر کی تعریف کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جو لوگ صداقت کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوں قرآن کریم ان کو ہدایت دیتا ہے اور اعلیٰ مدارج تک پہنچاتا ہے۔ او رلوگ ہدایت کو ماننے کیلئے تیار ہی نہ ہوں وہ گویا اپنی ہلاکت کا خود ہی فیصلہ کر دیتے ہیں اور انہیں ہدایت جبر ہی سے دی جا سکتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جبر سے جو ہدایت ملے اس کا فائدہ جبر کرنے والے کو حاصل ہو سکتا ہے اسے نہیں ہو سکتا جسے ہدایت دیجائے۔ جیسے مثلاً کسی سے زبردستی مال چھین کر صدقہ کر دیا جائے تو اس صدقہ کا کوئی فائدہ اُسے نہیں مل سکتا جو صدقہ کا قائل ہی نہیں اور صدقہ دینا ہی نہیں چاہتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں دوسری کتب کی موجودگی میں قرآن کریم کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ غیر الہامی کتب کی موجودگی میں تو اس کی یہ ضرورت ہے کہ بغیر آسمانی ہدایت کے انسان ہدایت پا ہی نہیں سکتا۔ اس لئے آسمانی ہدات کی ضرورت تھی جسے قرآن کریم نے پورا کیا ہے اور الہامی کتب کی موجودگی میں اس کی یہ ضرورت ہے کہ (۱) اس سے پہلے سب ہدایت نامے نامکمل تھے یہ مکمل ہے (۲) ان میں خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور یہ سب خرابیوں سے محفوظ ہے (۳) وہ سب ہدایت نامے ایک ایک قوم اور مذہب کے لئے تھے اور یہ ہدایت نامہ سب قوموں کے لئے ہے اور سب قوموں کے بزرگوں کی عزت قائم کرنے اور سب ضائع شدہ ہدایتو ںکو زندہ کرنے کے لئے آیا ہے۔ (۴) ان کتب میں بوجہ اندرونی بیرونی نقائص کے وصال الٰہی پیدا کرنیکی خاصیت باقی نہ رہی تھی اب اس کے ذریعہ سے پھر انسان کو وصال الٰہی حاصل کرنے او رکلام الٰہی سے مشرف ہونے کا موقعہ دیا جائے گا وغیرہا وغیرہا۔
اس چھوٹی سی آیت میں اس قدر وسیع مطالب کا بیان ہونا قرآن کریم کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کی مثال پیش کرنے سے دوسری کتب قاصر ہیں۔
مذکورہ بالا مضمون بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے بتائے ہوئے مطالب کی روشنی اور ہدایت میں لکھے گئے ہیں۔ لیکن بطور مثال میں ان بے شمار مطلالب سے جو ان کی کتب میں پائے جائے ہیں ایک نکتہ براہِ راست بھی ان کی طرف سے اس جگہ بیان کر دیتا ہوں۔ تا معلوم ہو کہ کس طرح انہوںنے اس آیت کے عمیق سمندر میں سے روحانیت کے ہوتی نکالے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہر شے کی تکمیل کے لئے چار علل کی تکمیل ضروری ہوتی ہے یعنی (۱) اس کے بنانے والا کامل ہو (۲) وہ جس مادہ سے بنائی جائے وہ اعلیٰ ہو (۳) اس کی شکل و صورت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو (۴) جو نتیجہ اس سے پیدا ہو وہ بھی اعلیٰ دجرہ کا ہو۔ گویا علمت فاعلی علت مادی علت صوری اور علت غائی۔ ان چار علتوں کے کمال سے کوئی چیز مکمل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے قرآن میں ہی اس کے حق میں چاروں علتوں کے مکمل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ الم جس کے معنے ہیں کہ میں اللہ سب سے زیادہ جانتا ہوں علت فاعلی کے مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا بنانے والا علم میں کامل ہے اور سب سے افضل ہے۔ پس ایسی علیم ہستی جس کتاب کو بنائیگی یقینا وہ ان تمام کتب سے افضل ہو گی جو ادنیٰ علم والی ہستیوں کی طرف سے تیار کی جائیں گی۔ ذَالِکَ الْکِتٰبُ یعنی یہی کامل کتاب ہے قرآن کریم کی علت مادی کے مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ تمام اعلیٰ اور ضروری مطالب اس کتاب میں موجود ہیں پس اس کا مادہ بھی دوسری کتب کے مادہ سے اعلیٰ اور مکمل ہے۔ لَا رَیْبَ فِیْہِ کہہ کر یہ بتایا کہ قرآن کریم اپنی بے مثل فصیح زبان اور غیر معمولی حفاظت کی وجہ سے اپنی ظاہری مشکل میں بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا اور محفوظ کلام ہے۔ پس اس کی علت صوری بھی تمام دوسری کتب سے مکمل اور اعلیٰ ہے۔ پھر ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کہ کر بتایا کہ دوسری کتب تو صرف متقی کے درجہ تک پہنچاتی ہیں مگر یہ کتاب متقیوں کو بلند مقامات پر لے جا کر اللہ تعالیٰ سے مکالمہ مخاطبہ کا شرف دلواتی ہے اور اس سے کامل اتحاد پیدا کر دیتی ہے پس اس کی علت غائی بھی دوسری کتب سے افضل اور اکمل ہے۔
یہ خلاصہ ہے بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک تحریر کا اور جو صاحبِ بصیرت اور پر غور کرے گا وہ ان سب مطالب کو جو اوپر بیان ہوئے ہیں بلکہ ان کے علاوہ اور مطالب بھی اس لطیف تفسیر میں مخفی پائیگا۔
۴؎ حل لغات
یُؤْمِنُوْنَ:۔ اٰمَنَ۔ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اٰمَنَہٗ اِیْمَانًا کے معنے ہیںاٰمَّنَہٗ: اس کو امن دیا اور جب اس کا صلہ حرف باء ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو معنے ہونگے صَدَّقَہٗ وَوَثَّقَ بِہٖ۔ اس کی امن دیا اور جب اس کا صلہ حرف باء ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو معنے ہونگے صَدَّقَہٗ وَوَثَّقَ بِہٖ اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا اور جب اٰمَنَ کے بعد لام صلہ ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو اس کے معنے ہونگے خَضَعَ وَ انْقَادَ: یعنی فرمانبرداری اختیار کی۔ مطیع ہو گیا اور کہنا مان لیا (اقرب) اَلْاِیْمَانْ: اَلَّصْدِیْقُ۔ ایمان جو اٰمَنَ کا مصدر ہے اس کے معنے تصدیق کرنے کے ہیں۔ (اقرب) تاج العروس میں ہے۔ اَلْاِیْمَانْ یَتَعَدَّی بِنَفْسِہٖ کَصَدَّقَ وَبِاْللَّامِ باِعْتبَارِ مَعْنَی الْاِذْعَانِ وَبِالْبَائِ باِغْتبَارِ مَعْنَی الْاِعْتِرَافِ اشَارَۃ اِلَی اَنَّ التَّصْدِیْقَ لَایُعْتَبرُ بِہُ وْن اِعْتِرَافٍ۔ کہ لفظ ایمان کبھی بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس کا صلہ لام آتا ہے اور اس میں اذعان یعنی فرمانبرداری کے معنے ملحوظ ہوتے ہیں۔ اور جب باء کے صلہ کے ساتھ استعمال ہو تو اس وقت اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ایمان کے معنے تصدیق کے ہیں اور تصدیق کے ساتھ اعتراف بھی ہوتا ہے اس لئے اس کو اعتراف کے معنے میں استعمال کر لیتے ہیں۔ پس یُؤْمِنُوْنَ کے تین معنے ہوں گے (۱) تصدیق کرتے ہیں (۲) اعتراف کرتے ہیں (۳) پختہ یقین اور اعتماد رکھتے ہیں۔
اَلْغَیْبُ:۔ غَاتَبَ (یَغِیْبُ) کا مصدر ہے کہتے ہیں غَابَتِ الشَّمْسُ وَغَیْرُھَا: اِذَا اسْتَتَرَتْ مِنَ الْعَیْنِ یعنی غَابَ کا لفظ سورج اور دیگر اشیاء کے لئے اس وقت بولتے ہیں جبکہ سورج اور دوسری چیزیں آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں وَاسْتُعْمِلَ فِیْ کُلِّ غَاِئبٍ عَنِ الْحَاسَّۃِ وَعَمَّا یَغِیْبُ عَنْ عِلْمِ الْاِنْسَانِ بِمَعْنَی الْغَائِبِ۔ جس کا علم جو اس ظاہری سے حاصل نہ ہو سکے یا جس کا علم انسان کو نہ ہو اُسے غائب کہتے ہیں۔ وَالْغَیْبُ فِیْ قَوْلِہٖ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ مَالَایَقَعُ تَحْتَ الْحَوَاسِّ وَلَا تَقْتَضِیْہِ بَدَ اَیۃُ الْعُقُوْلِ اور آیت یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ میں غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو حواس ظاہری سے معلوم نہ کی جا سکے اور سرسری نظر میں انسانی عقلیں اس تک نہ پہنچ سکیں (مفردات) لسان میں ہے وَقَوْلُدٗ تعالیٰ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ اَیْ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا غَابَ عَنْھُمْ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ میں غیب کے یہ معنے ہیں کہ جو باتی ںاُن کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں اُن پر ایمان لاتے ہیں۔ وَالْغَیْبُ مَاغَابَ عَنِ الْعُیُوْنِ وَاِنْ کَانَ مُحَصَّلًافِی الْقُلُوْبِ اَوْغَیْرَ مُحَصَّلٍ اور غیب کا لفظ ہر اس امر پر بولا جاتا ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو خواہ وہ ایسا امر ہو کہ دماغی طو رپر اس کا علم حاصل ہو یا ایسا ہو کہ عقلاً بھی اس کا علم حاصل ہو کُلُّ مَکَانٍ لَایُدْرٰی مَافِیْہِ فَھُوَ غَیْبٌ۔ ہر وہ جگہ جس کے متعلق معلوم نہ ہو کہ اس کے اند رکیا ہے اس کو غیب کہتے ہیں۔ وَکَذَا الِکَ الْمَوْضِعُ الَّذِیْ لَایُدْریٰ مَاوَ وَائَ ہٗ۔ اوری اسی طرح اس جگہ پر بھی غیب کا لفظ بولتے ہیں جس کے پیچھے کی اشیاء کا علم نہ ہو۔ نیز کہتے ہیں۔ غَابَ الرَّجُلُ غَیْبًا اَیْ سَافَرَ اَوْبَانَ۔ کہ فلاں شخص نے سفر کیا یا کسی سے جدا ہو گیا۔ پس غیب ہر وہ امر ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو نہ یہ کہ وہ موہوم اور بے ثبوت ہو۔ پس یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے معنے ہوں گے (۱)ہر وہ چیز (امر) جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور ظاہری حواس اُسے پانے سے قاصر ہیں لیکن وہ موجود ہے اور ایمانیات میں داخل ہے اس کے حق ہونے پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں (۲) اس زندگی کے بعد کے پیش آنیوالے حالات پر پختہ یقین رکھتے ہیں (۳) نیز اس کے یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ غیبوبت کی حالت میں یعنی علیحدگی میں بھی ایمان رکھتے ہیں اور ان میں منافقوں کی طرح دورنگی نہیں پائی جاتی۔
یُقِیْمُوْنَ:۔ اَقَامَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور قَامَ سے جو اس کا مجرد ہے بنا ہے۔ قِیَامٌ (کھڑا ہونا) کا لفظ جُلُوْسَّ (بیٹھ جانے) کا نقیض ہے۔ کہتے ہیں۔ قَامَ الْاَمْرُ۔ اِعْتَدَلَ معاملہ درست ہو گیا۔ قام علی الامر: دام و ثبت۔ یعنی کسی چیز پر دوام و ثبات اختیار کیا۔ قَامَ الْحَقُّ ظَہَرَ وَ ثَبَتَ حق ظاہر اور ثابت ہو گیا۔ اور اَقَامَ السُّوْقُ کے معنے ہیں نَفَقَتْ بازار بار رونق ہو گیا۔ اور اَقَامَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہیں اَدَامَ فِعْلَہَا نما زپر دوام اختیار کیا۔ اَقَامَ لِلصَّلٰوۃِ کے معنے ہیں نَادٰی لَہَا نماز کے لئے تکبیر کہی۔ اَقَامَ اللّٰہُ السُّوْقَ: جَعَلَہَانَا فِقَۃً اللہ تعالیٰ نے برکت دی اور بازار کو بارونق بنا دیا (اقرب) مفردات میں ہے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ اَیْ یُدِیْمُوْنَ فِعْلَہَا وَیُحَافِظُوْنَ عَلَیْہَا۔ نماز کو اس کی شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس پر دوام اختیار کرتے ہیں۔ نیز لکھا ہے اِنَّمَا خُصَّ لَفْظُ الْاِقَامَۃِ تَنْبِیْھًا اَنَّ الْمَقْصُوْدَ مِنْ فَعْلِہَا تَوْفِیَۃُ حقُوْقِہَا وَ شَرَائِطِہَا۔ کہ صلٰوۃ کے ذکر کے ساتھ اقامت کا لفظ اس لئے لایا گیا ہے تاکہ اس طرف توجہ مبذول کرائی جائے کہ نماز کے حقوق اور شرائط کو پوری طرح ادا کیا جائے نہ کہ صرف ظاہری صورت میں اس کو دادا کر دیا جائے۔ نسان میں اَلْقِیَامُ کے معنے اَلْعَزْمُ کے بھی لکھے ہیں یعنی کسی چیز کا پختہ ارادہ کر لینا۔
اَلصَّلٰوۃُ:۔ صَلَّی سے مشتق ہے اور اس کا وزن فَعْلَۃٌ ہے۔ الف دائو سے منقلب ہے۔ صَلَّی (یُصَلِّیْ) کے معنے دعا کرنے کے ہیں اور اَلصَّلٰوۃُ کے اصطلاحی معنے عِبَادَۃٌ فِیْہَا رکُوْعٌ وَسجُوْدٌ کے ہیں یعنی اس مخصوص طریق سے دعا کرنا جس میں رکوع و سجود ہوتے ہیں جس کو ہماری زبان میں نماز کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں جو بے تعلق نہیں بلکہ سب ایک ہی حقیقت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کے دوسرے معنے مندرجہ ذیل ہیں اَلرَّحْمَۃُ۔ رحمت۔ الدِّیْنُ۔ شریعت۔ الَاِسْتِغْفَار۔ بخشش مانگنا۔ الدعاء دعا (اقرب) التَّعْظِیْمُ۔ بڑائی کا اظہار۔ اَلْبَرَکَۃُ۔ برکت (تاج) وَالصَّلٰوۃُ مِنَ اللّٰہِ الرَّحْمَۃُ وَمِنَ الْمَلَآئِکَۃِ الْاِسْتِغْفَارُ وَمِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ الدُّعَائُ وَمِنَ الطَّیْرِ وَالْھَوَامِّر التَّسْبِیْحُ۔ اور صلوۃ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے رحم کرنے کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کیلئے استعمال ہو تو اس وقت اس کے معنے استغفار کے ہوتے ہیں اور جب مومنوں کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے دعا یا نماز کے ہوتے ہیں اور جب پرند اور حشرات کیلئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے تسبیح کرنے کے ہوتے ہیں۔ وَھِیَ لَاتَکُوْنُ اِلَّافِی الْخَیْرِ بِخَلَافِ الدُّعَائِ فَاِنَّہٗ یَکُوْنُ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ۔ اور لفظ صلوۃ صرف نیک دُعا کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن لفظ دعا، بد دعا اور نیک دعا دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لفظ صلوۃ کے ایک معنے حُسْنُ الثَّنَائِ مِنَ اللّٰہِ عَلَی الرَّسُوْلِ کے بھی ہیں یعنی جب صَلَّی فعل کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو اور مفعول آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہو تو اس وقت اس کے معنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم کی بہترین کے ہوتے ہیں۔ (اقرب) وَیُسَمَّی مَوْضِعْ الْعِبَادِۃِ الصَّلٰوۃَ اور عبادت گاہ کو بھی الَّصلٰوۃَ کہہ دیتے ہیں (مفردات) پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہونگے (۱) نماز کو باجماعت ادا کرتے ہیں (۲) نماز کو اس کی شرائط کے مطابق اور اس کے اوقات میں صحیح طو رپر ادا کرتے ہیں (۳) لوگوں کو نماز کی تعین کر کے مساجد کو بارونق بناتے ہیں (۴) نماز کی محبت اور خواہش لوگوں کے دلو ںمیں پیدا کرتے ہیں (۵) نماز پر دوام اختیا کرتے ہیں اور اس پر پابندی اختیار کرتے ہیں (۶) نماز کو قائم رکھتے ہیں یعنے گرنے سے بچاتے رہتے اور اس کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں۔
رَزَقْنَا:۔ رَزَقَ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے اور الرِّزْقُ (جورَزَقَ کا مصدر ہے) کے معنے اَلْعَطَائُ۔ عطا کرنا۔ دینا۔ جیسے کہتے ہیں رُزِقْتُ عِلْمًا کے مجھے علم دیا گیا ہے۔ اور اس کے ایک معنی حصہ کے بھی ہیں جیسے وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ (الواقعہ) کہ تم نے اپنے ذمہ یہ لگا لیا ہے کہ رسول اور خدا کی باتوں کا انکار کرتے ہو (مفردات) اقرب الموارد میں ہے۔ الرِّزْقُ۔ مَایُنْتَفَعُ بِہِ ہر وہ چیز جس سے نفع اُٹھایا جائے۔ اور رَزَقَہُ اللّٰہُ (یَرْزُقُ) رِزْقًا کے معنے ہیں اَوْصَلَ الیہِ رِزْقًا کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے ایسی اشیاء عطا فرمائیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ رزق اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو غذا کے طور پر استعمال کی جائے (مفردات) یُنْفِقُوْنَ:۔ اَنْفَقَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اِنْفَقَ مَالہٗ کے معنے ہیں صَرَفَہُ وَاَنْفَدَہٗ۔ مال کو خرچ کرتا رہا اور اس کو ختم کر دیا۔ اِنْفَاق کے اصل معنے کسی چیز کو مقبول اور ہاتھوں ہاتھ بک جانے والا بنا دینے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اَنْفَقَ التَّاجِرُ: نَفقَتْ تِجَارتُہٗ کہ تاجر کی تجارت خون چل پڑی اور سامان تجارت مقبول ہو کر فروخت ہونے لگا۔ اور اَنْفَقَ السِلْعَۃَ کے معنے ہیں رَوَّجَہَا۔ سامان کو ایسا بنا دیا کہ ہاتھوں ہاتھ بک جائے۔ چنانچہ جب کسی سامان تجارت کے گاہک زیادہ ہوں یا کسی عورت کی شادی کے خواہشمند زیادہ تعداد میں ہوں تو نفق کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں نَفَقَتِ الْمَرأْۃُ وَالسِّلعَۃُ اَیْ کَئُٔر طُلَّا بُہَا وَخُطَّا بُہَا یعنی اس عورت یا مال کے بہت سے خواہش کرنے والے یا طالب پیدا ہو گئے ہیں اور النَّافِقُ اس مال کو کہتے ہیں جو بازار میں جاتے ہی بک جائے (اقرب) پس مادہ کے لحاظ سے اس کے معنے نکالنے اور جاری کرنے اور مسلسل طو رپر مال کو خرچ کرنے کے ہیں۔
تفسیر۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے ایمان کے معنے یقین رکھنے اور فرمانبرداری کرنے کے ہوتے ہیں۔ جس کو یقین نہ ہو وہ مومن نہیں کہلا سکتا بلکہ منافق کہلاتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ البقرہ ع ۲ آیت صفحہ ۹ میں فرمایا وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰ خِرِوَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو مُنہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ دل سے اس امر کو نہیں مانتے۔ اسی طرح قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جن میں یقین ہو اور اطاعت نہ ہو وہ بھی مومن نہیں بلکہ کافر کہلاتے ہیں۔ جیسا کہ سورۃ النمل ع ۱ آیت ۱۵ میں فرمایا وَجَحَدُ وْابِہَا وَا سْتَیْقَنَتْھَٓا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۔ یعنی وہ اس کا انکار ظلم اور دشمنی سے کرتے ہیں حالانکہ اُن کے دل اس پر یقین رکھتے ہیں۔
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ اندھا دُھند مان لیتے ہیں۔ یہ معنے نہ زبان عرب کے رُو سے درست ہیں اور نہ قرآن کریم ہی ان معنوں کی تصدیق کرتا ہے۔ کیونکہ بے دلیل ماننے والوں کو قرآن نے بار بار الزام دیا ہے۔ جیسے کہ سورۃ انجم ع ۱ آیت ۲۴ میں فرمایا۔ اِنْ ھِیَ اِلَّا اَسْمَآئُ سَمَّیْتُمُوْھَا اَنْتُمْ وَاٰبَٓاؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطَانٍ اِنْ یَتَّبِعُونَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَھخوَی الْاَنْفُسُ۔ یعنی یہ تو چند نام ہیں جو تم لوگوں نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی رکھ دئے ہیں خدا تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل بیان نہیں کی۔ یہ لوگ صرف اپنے وہموں کی یا اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم دشمنان اسلام پر اعتراض کرتا ہے کہ وہ بے دلیل باتوں کو جن کے لئے نہ آسمانی دلیل ہوتی ہے نہ عقلی، مانتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور وہمی باتوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ پس جبکہ اللہ تعالیٰ وہمی باتوں کے ماننے کو قابل اعتراض قرار دیتا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ قرآن کریم کی ابتدا ہی میں وہ مسلمانوں کو بے دلیل باتوں کے ماننے کا حکم دے اور اس امر کو تقویٰ کا جزو قرار دے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ایمان دلائل اور براہین پر مبنی ہونا چاہیئے نہ کہ وہم اور گمان پر۔ چنانچہ سورۃ احقاف ع ۱ میں فرماتا ہے۔ قُلْ اَرَئَٔیْتُمْ مَّاتَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکَ فِی السَّمٰوٰتِ ط اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِنْ قَبْلِ ھٰذٓا اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ یعنی مجھے بتائو تو سہی کہ خدا کے سوا جن وجودوں کو تم پکارتے ہو کیا ان میں کوئی حقیقت بھی ہے اگر ہے تو مجھے بتائو تو کہ انہوں نے زمین میں سے کس چیز کو پیدا کیا ہے یا یہ تو ثابت کرو کہ آسمانی بادشاہت میں اُن کا کوئی حصہ ہے اور اگر تم سچے ہو ت واس کے َئے یا تو قرآن سے پہلے کی کسی آسمانی کتاب میں سے دلیل پیش کرو یا اپنے باپ دادوں کی بتائی ہوئی کسی علمی بات کو ہیش پیرو کرو۔ یعنی تمام شرکیہ مسائل نہ تو کسی آسمانی کتاب سے ثابت ہیں نہ کسی علمی دلیل سے ثابت ہو سکتے ہیں پھر ان پر ایمان لانا کس طرح جائز اور ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطَانًا فَھُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْابِہٖ یُشْرِکُوْنَ (روم ع ۴) یعنی کیا اللہ تعالیٰ کے شریک قرار دینے کی کوئی بھی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا کی ہو اور وہ شرک کی صداقت پر گواہ ہو اگر ایسا نہیں تو پھر بے دلیل بات کو یہ لوگ کس طرح مان رہے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے قُلْ ھَلْ عِنْدَ کُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِ جُوْہُ لَنَا اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اَلَّاتَخْرُسُوْنَ۔ قُلْ الِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ (انعام ع ۱۸ آیت ۱۴۹ و ۱۵۰) یعنی کفار سے کہدو کہ کیا تمہارے پاس اپنے دعاوی کی کوئی علمی دلیل بھی ہے جسے تم ہمارے سامنے پیش کر سکو تمہارے پاس ہر گز ایسی کوئی دلیل نہیں بلکہ تم تو صرف وہم کی پیروی کرتے ہو اور صرف ڈھکو نسلے مارتے ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ اے ہمارے رسول ان سے یہ بھی کہو کہ اللہ تعالیٰ تو وہ باتیں اپنے بندوں سے منواتا ہے جن کے دلائل مکمل طور پر موجود ہوتے ہیں۔ پس جو بات بے ثبوت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح مومنوں کی نسبت قرآن کریم میں فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُ وْا بِاٰیَاتِ رَبِّھِم لَمْ یَخِرُّ وْاعَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا (فرقان ع ۶) یعنی مومنون کے سامنے جب اُن کے رب کی آیات بیان کی جاتی ہیں تو وہ اُنہیں اندھا دُھند نہیں مانتے بلکہ سوچ سمجھ کر اور دلالئل کے ساتھ مانتے ہیں۔ نیز فمراتا ہے قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِٓیْ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ (یوسف ع ۱۲) اے ہمارے رسول اپنے منکروں سے کہہ دو کہ میرا راستہ مذکورہ بالاراستہ ہے میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں اور میں اور میرے متبع کسی بے دلیل بات کو نہیں مانتے بلکہ ہم سوچ سمجھ کر اور دلائل قطعیہ کی بناء پر جو شک و شبہ سے بالا ہوتے ہیں ایمان لاتے ہیں۔
قرآن کریم میں غیب کا لفظ جن معنوں میں استعمال ہوا ہے ان سے بھی ثابت ہے ہ اس سے مراد وہمی امور نہیں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (حجرات ع ۲) اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کے غیب کو جانتا ہے اس جگہ غیب کا لفظ حقیقت کے لوے بولا گیا ہے۔ کیونکہ اگر غیب کے معنے محض وہمی اور بے دلیل باتوں کے ہوں تو اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ بے دلیل اور وہمی باتوں کو جانتا ہے اور یہ ترجمہ بالبداہت غلط ہے اسی طرح فرماتا ہے ذَالِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ (سجدہ ع ۱) یعنی خدا ہی غیب اور ظاہر کو جانتا ہے اس آیت میں غیب کا لفظ یقینی مگر نظروں سے پوشیدہ امور کے لیے بولا گیا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ (انعام ع ۷) اللہ عالیٰ کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں۔ اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ غیب وہمی باتوں کا نام نہیں بلکہ ان تمام مخفی خزانوں کا نام ہے جو انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ متقی وہ ہیں جو بغیر دلیل کے قرآن کریم کی باتو ںکو مان لیتے ہیں کیونکہ یہ معنے قرآن کریم کی دوسری آیات کے خلاف ہیں۔
ریورنڈ ویری نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے نیچے لکھا ہے کہ جب مسلمان اپنی کتاب کے اسرار کو مانتے ہیں تو کیوں پہلی کتابوں کے اسرار کو جیسے کہ تثلیث یا کفارہ ہیں نہیں مانتے۔ مگر جیسا کہ ظاہر ہے یہ اعتراض یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے معنوں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ قرآن کریم کسی ایسے امر کو ماننے کی تلقین نہیں کرتا جو بے دلیل ہو بلکہ وہ تو ان دوسرے مذاہب پر جو بے دلیل باتی مانتے ہیں اعتراض کرتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے متبعین کی نسبت گواہی دیتا ہے کہ وہ ہر امر کو دلیل او ربرہان سے مانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کفارہ اور تثلیث کا اس لئے انکار نہیں کرتے کہ وہ اسرار میں سے ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ مسائل بے دلیل بلکہ خلاف عقل ہیں اگر ان کی کوئی دلیل ہوتی تو ان کے ماننے سے مسلمانو ںکو ہر گز انکار نہیں ہو سکتا تھا۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے کیا معنے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے غیب کے معنے ان امو رکے ہیں جو حواس ظاہری سے معلوم نہ ہو سکیں بلکہ ان کے ثابت کرنے کے لئے عقلی و تجرباتی دلائل کی ضرورت ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے امور بے دلیل نہیں کہلا سکتے۔ ہم ہزاروں اشیاء کو جو جسمانی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں مانتے ہیں حالانکہ حواسِ خمسہ سے ان کو محسوس نہیں کیا جاس کتا۔ مثلاً انسانی حافظہ ہے اس کا کوئی انکار کر سکتا ہے۔ مگر کوئی نہیں جو قوت حافظہ کو دیکھ سکے یا سونگھ سکے یا چکھ سکے یا سن سکے یا چھو سکے۔ اسی طرح شرم ہے جرأت ہے، محبت ہے، نفرت ہے، خود عقل اور فکر کی قوتیں ہیں ان کو کونسا شخص حواس خمسہ سے معلوم کر سکتا ہے۔ مگر کیا اس وجہ سے کہ ان کا علم حواس خمسہ سے نہیں ہوتا ان کا انکار کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح کئی اخلاقی مسائل ہیں جو حواس خمسہ سے معلوم نہیں ہو سکتے لیکن ہم ان پر یقین رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ حقیقت کہ عفو بالعموم دلوں سے بغض کو دور کرتا ہے۔ حسن سلوک مختلف انسانوں کو آپس میں رشتہ محبت سے جوڑ دیتا ہے سب دنیا کی تسلیم کردہ ہے مگر اس کو حواسہ خمسہ سے تو معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ماں اپنے بچہ سے حسن سلوک کرتی ہے لیکن وہ نہیں جانتی کہ اس حسن سلوک کے نتیجہ میں جو محبت پیدا ہو گی وہ اس کا کوء… مزہ بھی چکھ سکے گی یا نہیں۔ لیکن باوجود اس کے وہ محبت کرتی جاتی ہے۔ ایک استاد شاگردوں کو پڑھاتا ہے وہ نہیں جانتا کہ اس کی تعلیم کے نتیجہ میں اس کے طلباء کسی اعلیٰ درجہ کو پہنچیں گے یا نہیں مگر وہ پڑھانے سے باز نہیں رہتا۔ حکومتیں ملک کی حالت سدھارنے کے لئے ہزاروں جتن کرتی ہیں اور نہیں جانتیں کہ ان کے خوشگوار نتائج کب اور کس شکل میں پیدا ہوں گے مگر وہ آئندہ کی امید پر اور سابقہ تجربہ کی بناء پر اپنی کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ سپاہی نہیں جانتے کہ جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا لیکن اپنے ملک کی حفاظت میں جانیں دیتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب ایمان بالغیب ہی ہوتا ہے یا کچھ اور؟
خلاصہ یہ کہ ایمان بالغیب سے مراد (۱) ان سب صداقتوں پر ایمان لانا ہے جو حواس خمسہ سے معلوم نہیں کی جا سکتیں بلکہ ان کا ثبوت اور ذرائع سے معلوم ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے مومن سنتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے علوم غیبیہ ہیں جنہیں مومن پورا ہوتے دیکھتے ہیں اور اس کی زبردست قدرتیں ہیں جن کا ظہور مومن اپنے نفسوس اور باقی دنیا میں دیکھتے ہیں مگر باوجود ان باتوں کے خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے وہ حواس خمسہ سے محسوس نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح ملائکہ کا وجود ہے۔ ملائکہ ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتے نہ دوسرے حواس ظاہری سے معلوم کئے جا سکتے ہیں لیکن باوجود اس کے اُن کا وجود وہمی نہیں ہے بلکہ ان کے وجود پر قطعی دلائل ہیں جو قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر بیان کئے گئے ہیں۔ یا مثلاً ایک غیب موت کے بعد کی زندگی ہے قرآن کریم اسپر بے دلیل ایمان لانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے سچے ہونے پر زبردست دلائل دیتا ہے جو آئندہ مختلف مواقع پر بیان کئے جا ئیں گے۔
(۲) یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے بھی ہیں کہ متقی صرف ایسے کام نہیں کرتے کہ جن کے نتائج نقد بہ نقد مل جاتے ہیں۔ جیسے کہ تاجر سودا فروخت کرتا ہے اور اس کی قیمت وصول کر لیتا ہے۔ بلکہ ان کی زندگی اخلاقی زندگی ہوتی ہے اور وہ اخلاق کی قوت اور ان کے نیک نتائج پر ایمان رکھتے ہیں اور تاجرانہ ذہنیت کو ترک کر کے ایسی قربانیاں کرتے ہیں کہ جو آخر میں اُن کی قوم کو اور باقی دنیا کو اُبھار دیتی ہیں۔ مثلاً دنیا میں امن کے قیام کے لئے جہاد کا کرنا ایماب بالغیب کا ہی نتیجہ ہے۔ ورنہ کون جانتا ہے کہ وہ زندہ رہے گا اور لڑائی کے اچھے نتیجہ کو دیکھے گا۔ سپاہی جب کسی اچھے مقصد کیلئے میدان جنگ میں جاتا ہے تو وہ ایمان بالغیب کا ایک مظاہرہ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گیا تو یہ بھی اچھا ہے۔ لیکن اگر وہ اس کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے مر گیا تب بھی اس کا نتیجہ حق اور صداقت کے لئے اچھا نکلے گا۔
حق یہ ہے کہ جس قدر شاندار کام ہیں وہ سب ایمان بالغیب کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ تعلیم، صدقہ، حیرات، غرباء کے اُبھارنے کے لئے کوششیں، ملکی تنظیم سب ایمان بالغیب ہی کی اقسام ہیں۔ اگر انسان آئندہ نکلنے والے اچھے نتائج پر ظاہر نگاہ سے پوشیدہ ہوتے ہیں یقین نہ رکھے تو کبھی ایسی قربانیاں نہ کر سکے پس متقی کی علامت ایمان بالغیب بتا کر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ مومن ضروری دینی امور پر ایمان رکھنے کے علاوہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قربانیاں کرتا ہے اور تاجرانہ ذہنیت سے بالا ہو جاتا ہے اور اس امر پر اصرار نہیں کرتا کہ میں وہی کام کروں گا جن کا نقد بہ نقد نتیجہ نکلے۔ بلکہ جب اُسے یقین ہو جائے کہ جو کام اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے اچھا اور نیک ہے تو وہ ظاہری حالات سے بے پروا ہو کر اس یقین سے اس کام کے کرنے میں لگ جاتا ہے کہ خواہ حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں نیک کام کا نتیجہ نیک ہی نکلے گا اور اس امر کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ اس نتیجہ کو خود بھی دیکھے گایا نہیں۔
اگر کوئی شخص تعصّب سے آزاد ہو کر غور کرے تو ایمان بالغیب کا یہ مفہوم ایسا ہم ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم نے تمام قومی، ملی اور بنی نوع انسان کی ترقی کے لئے قربانیوں کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ ایمان بالغیب ہی تھا کہ جس نے صحابہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے وہ قربانیاں کرائیں جنہو ںنے عرب کی ہی نہیں بلکہ سب دنیاکی حالت بدل دی۔ اگر وہ تاجرانہ ذہنیت دکھاتے اور ایمان بالغیب کے ماتحت کام نہ کرتے تو دنیا میں ایسے شاندار نتائج کس طرح پیدا ہو سکتے تھے۔
اوپر جو معنے بیان ہوئے ہیں وہ تو ایمان بالغیب کے کامل اور اعلیٰ معنے ہیں۔ لیکن ایک معنے اس کے اور بھی ہیں جو ادنیٰ درجہ کے متقیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یہ ہیںکہ ادنیٰ درجہ کا تقویٰ یہ ہے کہ انسان ایمان بالغیب رکھے یعنی دلائل عقلیہ کے ساتھ اسے خدا تعالیٰ اور ملائکہ اور بعث بعد الموت پر یقین ہو گو وہ اس مقام پر نہ پہنچا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے حواس باطنی کے ساتھ نظر آنے لگے۔ یہ مقام تقویٰ کا ادنیٰ ہے یعنی اس تقویٰ کی بنیاد صرف دلائل پر ہوتی ہے مشاہدہ پر نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا (بقرہ ع ۴) یعنی اللہ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں رکھتا۔ پس ایک انسان جو ابھی تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا اور اُسے ان امور غیبیہ پر جو ہیں تو یقینی او رقطعی لیکن ہیں انسانی ادراک سے بالا ابھی ایسا ایمان اور یقین پید نہیں ہوا جو مشاہدہ کی حد تک پہنچا ہوا ہو اس سے اللہ تعالیٰ اس امر کا مطالبہ نہیں کرتا کہ جب تک اسے مشاہدہ اور تجبرہ اولا ایمان نصیب نہ ہوا ہو اُسے متقی اور مومن نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ اس سے صرف اس قدر مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان دلائل اور براہین پر غور کر کے جو امور غیبیہ کے ثبوت کیلئے اللہ تعالیٰ نے مہیا کئے ہیں ان پر ایمان لے آئے اور یہ امر اس کے متقی ہونے کے لئے ادنیٰ دجرہ کے طو رپر کافی ہو گا۔ اب دیکھو کہ یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو سب مدارج کے انسانوں کی ضرورت کو پورا کر دیتی ہے۔ اور ایسی ہی تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونیوالی کہلا سکتی ہے جو سب استعداد کے لوگوں کی ضرورتوں کو پُورا کرنے والی ہو۔ یہ ادنیٰ دجرہ تقویٰ کا انسان کی نجات محض کے لئے کافی ہے۔ ہاں جب وہ اس سے ترقی کرتا ہے تو اُسے ایمان بالغیب کا وہ درجہ میسر ہو جاتا ہے جو امور غیبیہ کو مشاہدہ کے رنگ میں اُس کے سامنے لے آتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی اس فرق کو ظاہر کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرماتے ہیں کہ احسان یہ ہے کہ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (مسلم کتاب الایمان) یعنی احسان اس کا نام ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا روحانی نظروں سے وہ تیرے سامنے موجود ہے اور تو اُسے دیکھتا ہے لیکن اگر یہ درجہ تجھے حاصل نہ ہو تو کم سے کم اس درجہ پر فائز ہو کہ تجھے یقین اور وثوق سے عبادت کے وقت یہ معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس حدیث میں ایمان بالغیب کے ان دونو ںدرجوں کو بیان کر دیا گیا ہے اعلیٰ درجہ کو بھی اور ادنیٰ درجہ کو بھی۔
جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے ایک معنے غیب کے غائب ہونے کی حاتل کے بھی ہوتے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے ایمان بالغیب کے یہ معنے بھی ہیں کہ جب انسان غیب کی حالت میں ہو یعنی لوگو ںکو نظروں سے پوشیدہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو۔ یعنی اس کا ایمان صرف قومی نہ ہو کہ جب اس کے ہم مذہب لوگ اس کے سامنے ہوں تب تو وہ ان عقائد کو تسلیم کرے جو اس کے مذہب نے اس کے سامنے پیش کئے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنے لوگوں سے جُدا ہو تو اس کا ایمان کمزور ہو جائے۔ غیب کے یہ معنے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں مثلاً فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ (انبیاء ع ۴) وہ مومن جو علیحدگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ (حدید ع ۳) یعنی ہم نے جنگ کے سامان اس لئے پیدا کئے ہیں تاکہ ظاہر ہو جائے کہ کون خدا تاعلیٰ اور اس کے رسول کا دل سے مددگار تھا اور صرف ظاہری دعویٰ نہیں کر رہا تھا۔ حضرت یوسفؑ کی نسبت آتا ہے اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ (یوسف ع ۷) جس کے یہی معنے ہیں کہ میں نے پس پشت نظروں سے اوجھل اپنے آقا کی خیانت نہیں کی۔
ان معنوں کے رُو سے ان لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ جو تقریریں سنتے ہیں یا وعظ کی مجالس میں بیٹھتے ہیں تو اُنہیں خوب جوش آ جاتا ہے۔ لیکن جب وہ علیحدگی میں جاتے ہیں تو ان کا ایمان کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ در حقیقت معمولی مذہب رکھتے ہیں اور ان کی حالت بھیڑ چال کی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی آراء کی رَو میں بہ جاتے ہیں ان کا اپنا مذہب کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ایسا ایمان بے حقیقت ہے ایمان وہی ہے کہ جوداتی ہو اور صرف دوسروں کے جو ش کو دیکھ کر بھڑک نہ اٹھتا ہو۔ اور جو شخص ذاتی ایمان نہیں رکھتا او راپنی قوم اور جماعت اور پر جوش واعظوں کی صحبت سے الگ ہو کر اسے دل کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے یا مٹ جاتا ہے وہ متقی نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ اس کا ایمان اپنا ایمان نہیں بلکہ عارضی طو رپر دوسرے لوگوں سے مانگا ہوا ایمان ہے ایسے لوگوں کی نسبت قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیَا طِینِہِمْ قَالُوْٓا اِنّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُشتَہْرِئُ وْنَ (بقرہ ع ۲) بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب مومنوں کی مجالس میں آتے ہیں تو اُن کی باتوں کو سُن کر او راُن کے یقین اور ایمان کو دیکھ کر متاثر ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی ان باتو ںپر ایمان لاتے ہیں لیکن جب اُن سے الگ ہوتے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی مجلس میں جاتے ہیں تو پھر اُن کی سی کہنے لگتے ہیں۔ اور ان کے خیالات سے متاثر ہو کر کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ہی ہم عقیدہ ہیں اور جو مومنوں کی ہاں میں ہاں ہم نے ملائی تھی یہ صرف ایک مذاق تھا۔ ایسے لوگوں کا ایمان در حقیت کوئی ایمان نہیں بلکہ یہ لوگ بے اصولے ہوتے ہیں۔ پس یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ متقی وہ ہوتا ہے جس کی زبان ہی ایمان کا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ اس کا دل بھی صداقت کا مصدق ہوتا ہے اور وہ جب مومنوں کی صحبت سے دُور ہوتا ہے مثلاً غیر ملکوں اور غیر مذاہب کے پیروئوں میں چلا جاتا ہے جہاں اس کے ہم مذہب نہیں ملتے تو بھی اس کا ایمان ڈگمگاتا نہیں یا کمزور نہیں ہوتا کیونکہ وہ دوسروں کی نقل کرنے والا نہیں تھا بلکہ یقین اور وثوق سے ایمان پر قائم تھا۔
اس مضمون سے اُن مسلمان طلباء کو جو تعلیم کی خاطر کالجوں میں داخل ہوتے ہیں یا دوسرے ممالک میں جاتے ہیں سبق حاصل کرنا چاہیئے اور اپنے ایمان کا مطالعہ کرنا چاہیئے کہ اگر وہ مومنوں کے ماحول سے جدا ہو کر کمزور ہو جاتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ انہوں نے اپنے مذہب کو سمجھ کر نہیں مانا تھا اور اُن کا ایمان ذاتی نہ تھا بلکہ صرف اپنے ماحول کی ایک صدائے باز گشت تھا۔
خلاصہ یہ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کہہ کر قرآن کریم نے بتایا ہے کہ قرآن کریم ان متقیوں کو جو مندرجہ ذیل ضفات اپنے اندر رکھتے ہیں اعلیٰ روحانی مقامات تک پہنچاتا ہے (۱) ان متقیوں کو بھی دلائل اور برابین سے روحانی دنیا سے تعلق رکھنے والے عقائد پر ان کی صداقت واضح ہو جانے کے بعد پورا ایمان لے آتے ہیں خواہ ابھی اس مقام پر نہ پہنچے ہوں کہ دلیل سے بڑھ کر ذاتی تجربہ نے بھی ان کے ایمان کو مضبوط کر دیا ہو (۲) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت کی اعلیٰ راہوں پر چلاتا ہے جن کا ایمان منافقت سے پاک ہو اور ان کا دل اور زبان اور عمل ایک ہو (۳) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت کی اعلیٰ راہو ںپر چلاتا ہے جن کا ایمان قومی نہ ہو بلکہ ذاتی ہو یہ نہ ہو کہ مومنوں کی مجلس میں مومن او رکافروں کی مجلس میں کافر بلکہ خواہ اُنہیں کیسی ہی مخالف سوسائٹی یا قوم میں رہنا پڑے اُن کا ایمان ڈانوا ڈول نہ ہو اور اُن کے مومنانہ عمل میں فرق نہ آئے (۴) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت دیتا ہے جو اِن ظاہری حواس سے محسوس نہ ہونے والی صداقتوں پر کامل یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں جن کا وجود دوسرے دلائل اور براہین سے ثابت ہے اور ایسے ایمان کو اپنے تجارب کی بناء پر کمال تک پہنچاتے ہیں (۵) ایسے متقیو ںکو بھی ہدایت کے اعلیٰ مقام تک پہنچاتا ہے جو تاجرانہ ذہنیت کو چھوڑ کر اخلاقی اور دینی نتائج پر یقین رکھتے ہیں اور ان قربانیوں کے نیک نتائج پر یقین رکھتے ہیں جو بظاہر حالات مقبول ہوتی نظر نہیں آتیں لیکن قومی ترقی اور ملی کامیابی کے لئے اُن کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے اور اپنے ذاتی فوائد کو قومی فوائد پر قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
جن متقیوں میں ان سے ایک یا زیادہ باتیں پائی جائیں وہ قرآن کریم کی اتباع میں حاصل ہونے والی اعلیٰ ہدایتوں کے مستحق سمجھے جاتے ہیں اور وہ ہدایت انہیں دی جاتی ہے۔
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچ کا ہے اقامۃ الصلٰوۃ کے معنے (۱) باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کے ہیں کیونکہ قَامَ عَلَی الْاَمْرِ کے معنے کسی چیز پر ہمیشہ قائم رہنے کے ہیں پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہوئے کہ نماز میں ناغہ نہیں کرتے۔ ایسی نماز جس میں ناغہ کیا جائے اسلام کے نزدیک نماز ہی نہیں کیونکہ نماز وقتی اعمال سے نہیں بلکہ اُس وقت مکمل عمل سمجھا جاتا ہے جبکہ تو بہ یا بلوغت کے بعد کی پہلی نماز سے لے کر وفات سے پہلے کی آخری نماز تک اس فرض میں ناغہ نہ کیا جائے جو لوگ درمیان میں نمازیں چھوڑتے رہتے ہیں اُن کی سب نمازیں ہی رد ہو جاتی ہیں۔ پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ بالغ ہو یا جب اُسے اللہ تعالیٰ توفیق دے اُس وقت سے موت تک نماز کا ناغہ نہ کرے کیونکہ نماز خدا تعالیٰ کی زیارت کا قائم مقام ہے اور جو شخص اپنے محبوب کی زیارت سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عشق کے دعویٰ کے خلاف خود ہی ڈگری دیتا ہے (۲) دوسرے معنے اِقَامَۃ کے اعتدال اور درستی کے ہیں اِن معنوں کے رُد سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہیں کہ متقی نماز کو اُس کی ظاہری شراوط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس کے لئے جو قواعد مقرر کئے گئے ہیں ان کو توڑتے نہیں۔ مثلاً تندرستی میں یا پانی کی موجودگی میں وضوء کر کے نما زپڑھتے ہیں اور وضو بھی ٹھیک طرح ان شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں جو اس کے لئے شریعت نے مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صحیح اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں نماز میں قیام رکوع سجدہ قعدہ کو عمدگی سے ادا کرتے ہیں۔ مقررہ عبارات اور دعائیں اور تلاوت اپنے اپنے موقع پر اچھی طرح اور عمدگی سے پڑھتے ہیں غرض تمام ظاہری شرائط کا خیال رکھتے اور انہیں اچھی طرح بجا لاتے ہیں۔
اس جگہ یاد رکھنا چاہیئے کہ گو شریعت کا حکم ہے کہ نماز کو اس کی مقررہ شرائط کے ماتحت ادا کیا جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب مجبوری ہو اور شرائط پوری نہ ہوتی ہوں تو نماز کو ترک ہی کر دے نماز بہرحال شرائط سے مقدم ہے۔ اگر کسی کو صاف کپڑا میسر نہ ہو تو وہ گندے کپڑوں میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے خصوصاً وہم کی بناء پر نماز کا ترک تو بالکل غیر معقول ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں کئی عورتیں اس وجہ سے نماز ترک کر دیتی ہیں کہ بچوں کی وجہ سے کپڑے مشتبہ ہیں۔ اور کئی مسافر نماز ترک کر دیتے ہیں کہ سفر میں طہارت کامل نہیں ہو سکتی۔ یہ سب شیطانی وساوس ہیں لَایُکَلِّفُ اللّٰہَ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا (بقرہ ع ۴۰) الٰہی حکم ہے جب تک شرائط کا پورا کرنا اختیار میں ہو اُن کے ترک میں گناہ ہے لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جا سکتی ہوں تو اُن کے میسر نہ آنے کی وجہ سے نماز کا ترک گناہ ہے۔ اور ایسا شخص معذور نہیں بلکہ نماز کا تارک سجھا جائے گا۔ پس اس بارہ میں مومنوں کو خاص طور پر ہوشیار رہنے کی ضرورت (۳) تیسرے معنے اِقَامَۃ کے کھڑا کرنے کے ہیں رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ نماز کو گرنے نہیں دیتے یعنی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کی نماز درست اور باشرائط ادا ہو اس میں ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو نماز پڑھنے والے مبتدی کو زیادہ اور عارف کو کسی کسی وقت پیش آتی رہتی ہیں یعنی اندرونی یا بیرونی تاثرات نماز سے توجہ ہٹا کر دوسرے خیالات میں پھنسا دیتے ہیں۔ یہ امر انسانی عادت میں داخل ہے کہ اس کا خیال مختلف جہالت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے اور خاص صدموں یا جوش یا محبت کے اثر کے سوا جبکہ ایک وقت تک خیالات میں کامل یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے انسانی دماغ اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہے اور ایک خیال سے دوسرا خیال پیدا ہو کر ابتدائی خیال سے کہیں کا کہیں لے جاتا ہے۔ اسی طرح بیرونی آوازیں یا پاس کے لوگوں کی حرکات یا کھٹکے، بو یا خوشبوٹ جگہ کی سختی یا نرمی اور اسی قسم کے اور اُمور انسانی ذہن کو اِدھر سے اُدھر پھرا دیتے ہیں۔ یہی مشکلات نمازی کو پیش آتی ہیں او راگ راپنے خیالات پر پوار قابو نہ ہو تو اُسے پریشان خیال بنائے رکھتی ہیں اور بعض اوقات وہ نماز کے مضمون کو بھول کر دوسرے خیالات میں پھنس جاتا ہے۔ اس حالت کی نسبت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میں اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ بعض نمازیوں کو یہ مشکل پیش آئے گی مگر انہیں گھبراتا نہیں چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر درجہ کے انسان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی نماز میں ایسی پریشان خیالی سے دو چار ہو تو اُسے مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور اپنی نماز کو بیکار نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں سے اسی قدر قربانی کی امید کرتا ہے جتنی قربانی اُن کے بس کی ہو پس ایسے نمازی جن کے خیالات پراگندہ ہو جاتے ہوں اگر نماز کو سنوار کر اور توجہ سے پڑھنے کی کوشش میں لگے رہیں تو چونکہ وہ اپنی نماز کو جب بھی وہ اپنے مقام سے گرے کھڑا کرنیکی کوشش میں لگے رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی نماز کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اُسے قبول کرے گا او راس نماز کو کھڑا کرنے کی کوشش کرنے والے کو متقیوں میں ہی شامل سمجھے گا۔
(۴) لُغت کے مذکورہ بالا معنوں کے رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک اور معنے بھی ہیں اور یہ کہ متقی دوسرے لوگوں کو نماز کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ کسی کام کو کھڑا کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ اُسے رائج کیا جائے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی جائے۔ پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے عامل متقی وہ بھی کہلائیں گے کہ جو خود نماز پڑھنے کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نماز کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور جو مسست ہیں انہیں تحریک کر کے چست کرتے ہیں۔ رمضان کے موقع پر جو لوگ تہجد کے لئے لوگوں کو جگاتے ہیں وہ بھی اس تعریف کے ماتحت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کی تعریف میں آتے ہیں۔
(۵) نماز باجماعت سے پہلے امام کے نماز پڑھانے کے قریب وقت میں اذان کے کلمات تھوڑی زیادتی کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں ان کلمات کو اِقَامَۃ کہتے ہیں اور نماز باجماعت بھی ان معنوں کے رُو سے اِقَامَۃ الصَّلٰوۃ کا مفہوم رکھتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں نماز کھڑی ہو گئی ہے۔ اس محاورہ کے مطابق یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہوںگے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور دوسروں سے ادا کرواتے ہیں۔
نماز باجماعت کی ضرورت کو عام طور پر مسلمان بھول گئے ہیں اور یہ ایک بڑا موجب مسلمانوں کے تفرقہ اور اختلاف کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عبادت میں بہت سی شخصی اور قومی برکتیں رکھی تھیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے انہیں بھلا دیا قرآن کریم نے جہاں بھی نماز کا حکم دیا نماز باجماعت کا حکم دیا ہے خالی نماز پڑھتے کا کہیں بھی حکم نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت اہم اصول دین میں سے ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کو دیکھ کر کہ جب بھی نماز کا حکم بیان ہوا ہے نماز باجماعت کے الفاظ میں ہوا ہے تو صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک نماز صرف تبھی ادا ہوتی ہے کہ باجماعت ادا کی جائے سوائے اس کے کہ ناقابل علاج مجبوری ہو۔ پس جو کوئی شحص بیماری یا شہر سے باہر ہونے یا نسیان یا دوسرے مسلمان کے موجود نہ ہونے کے عذر کے سوا نماز باجماعت کو ترک کرتا ہے خواہ وہ گھر پر نماز پڑھ بھی لے تو اس کی نماز نہ ہو گی اور وہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا۔
قرآن کریم میں نماز پڑھنے کا جہاں بھی حکم آیا ہے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے آیا ہے کبھی خالی صَلَّوْا کے الفاظ استمعال نہیں ہوئے یہ امر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ فرض نماز کو باجماعت ادا کیا جائے اور بغیر جماعت کے نماز صرف مجبوری کے ماتحت جائز ہے جیسے کوئی کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو اُسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے پس جس طرح کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو لیکن بیٹھ کر پڑھے تو یقینا وہ گہنگار ہو گا اسی طرح جسے باجماعت نماز کا موقع مل سکے مگر وہ باجماعت نماز ادا نہ کرے تو وہ بھی گہنگار ہو گا۔
آج کل بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جو باجماعت نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں اور باتو ںمیں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ نماز ہو چکتی ہے او رپھر افسوس کرتے ہیں کہ نماز چلی گئی۔ ان کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے کیونکہ وہ معمولی غفلت سے بہت بڑے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔
(۶) یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ نماز چستی او رہوشیاری سے ادا کی جائے کیونکہ سستی اور غفلت کی وجہ سے خیالات میں پراگندگی پیدا ہوتی ہے اور نماز کا مغز ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں لاتی ںڈھیلی چھوڑنے یا سہارا لگانے (مسلم جلد اول کتاب الصلوٰۃ باب کراھۃ الاختصار فی الصلوٰۃ) یا کہنیاں سجدہ کے وقت زمین پر ٹیکنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء فی الاعتدال فی السجود) اور اس کے بالمقابل رکوع میں کمر سیدھی رکھنے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی من لایقیم صلبہ) کھڑا ہوتے وقت یا رکوع میں ٹانگوں کو سیدھا رکھنے سجدہ میں پائوں گھٹنوں ہتھیلیوں اور ماتھے پر بوجھ رکھنے (ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی السجود علیٰ سبعہ اعتضاء) او رکمر اور پیٹ کو لاتوں سے جدا رکھنے انسانی کتاب افتتاح الصلوٰۃ باب صفۃ السجود و التجانی نی السجود دوالا عتدال فی السجود) اور قعدہ کے موقع پر دائیں پائوں کی انگلیوں کو قبلہ رُخ رکھ کر پائوں کھڑا رکھنے کا حکم دیا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء کیف الجلوس التشھد) کیونکہ یہ سب امور چستی اور ہوشیاری پیدا کرتے ہیں اور نیند اور اونگھ اور غفلت کو دُور کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اسلام نے نماز سے پہلے وضوء کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ سر اور جو ارح کے اعصاب کو تری اور سردی پہنچ کر جسم میں چستی اور خیالات میں یکسوئی پیدا ہو۔
اوپر جو معانی یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے لغوی معنوں سے استنباط کر کے لکھے گئے ہیں قرآن کریم اور احادیث سے بھی ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ مثلاً ایک معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ باقادگی سے نماز ادا کریں اور ناغے نہ کریں اس کے مفہوم کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے ہوتی ہے الَّذِیْنَ ھُمْ عَلیٰ صَلٰو تِھِمْ دَا ئِٓمُوْنَ (معارج ع ۱) یعنی مومن اپنی نمازوں میں ناغہ نہیں ہونے دیتے بلکہ ہمیشہ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے اعتدال اور درستی کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کئے گئے تھے ان کی تائید اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰو تِھِمْ خَاشِعُوْنَ کی آیت سے ہوتی ہے (مومنون ع ۱) یعنی مومن اپنی نمازوں میں خشوع اور فرمانبرداری کو مدنظر رکھتے ہیں یعنی ظاہری اور باطنی احکام جو نماز کے بارہ میں دئے گئے ہیں سب کو پورا کرتے ہیں۔
تیسرے معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ وہ نماز کو درست رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان معنوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلٰو تِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (مومنون ع ۱) مومن کامل اپنی نماز کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اُسے اعلیٰ اور کامل بنانے کی کشش میں لگے رہتے ہیں۔
چوتھے معنے یہ کئے گئے تھے کہ نماز باجماعت کی ترویج میں مومن لگے رہتے ہیں۔ اِن معنوں کی تصدیق قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا (طہ ع ۸) اے ہمارے مخاطب اپنے اہل کو نماز کی نصیحت کرتے رہا کرو۔ اور اس حکم کو کبھی نہ بھولو بلکہ نماز کی یاد دہانی کو ایک ضروری اور لازمی ذمہ داری سمجھ لو۔
اور یہ جو معنے کئے گئے تھے کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ سے مراد نماز باجماعت کے ہییں سو یہ مندرجہ ذیل آیت سے نکلتے ہیں وَاِذَا کُنْتُ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمْ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَعَکَ وَلْیَاْ خُذُٓوْا اَسْلِحَتَہُمْ (نساء ع ۱۵) یعنی جب تو مسلمانوں میں موجود ہو اور نمازیں ان کی امامت کرائے تو چاہیئے کہ مومن سب کے سب نماز باجماعت میں شامل نہ ہوں بلکہ بوجہ جنگ کے ان مںی سے صرف ایک حصہ نماز باجماعت میں شامل ہو اور وہ حصہ بھی اپنہ ہتھیار اٹھائے رہے۔ اس آیت میں اَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِقَامَۃ الصَّلٰوۃ سے مراد باجماعت نماز ہوتی ہے۔
ایک معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ نماز ہوشیاری اور چستی کی حالت میں ادا کرتے ہیں۔سو ان معنوں پر یہ آیت دلاتل کرتی ہے۔ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلٰو تِھِمْ سَاھُوْنَ (الماعون ع ۱) یعنی ان نمازیوں پر خدا کا عذاب نازل ہو گا جو اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں یعنی نماز تو پڑھتے ہیں مگر اُن کے دلو ںمیں پوری رغبت اور چستی نہیں ہوتی ایسی طرح ظاہری سستی اور غفلت کی طرف سے اس آیت میں اشارہ کیا ہے وَلاَیَاْ تُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَھُمْ کُسَالٰی (توبہ ع ۷) یعنی وہ جب بھی نماز پڑھتے ہیں اُن پرستی اور غفلت غالب ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے یَا بَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُ وْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْتِجدٍ (الاعراف ع ۳) یعنی اے مومنو ہر مسجد کے پاس جاتے ہوئے اپنی زینت کے سامان مکمل کر لیا کرو۔ یعنی وضوء کر لیا کرو اور ہوشیار ہو جایا کرو۔ اسی طرح فرمایا یَٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ (نساء ع ۷) یعنی اے مومنو جبکہ تمہارے خیالات پراگندہ ہوں نماز کے قریب مت جائو بلکہ اُسی وقت نماز پڑھو جبکہ تم یہ جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو یعنی دماغی پراگندگی یا سستی کی حالت میں انسان نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کی نماز خراب ہو جاتی ہے ایسی حالت میں نماز پڑھنی چنداں مفید نہیں ہوتی۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ خیالات پراگندہ ہوں تو نماز نہیں پڑھنی چاہیئے بلکہ یہ مراد ہے کہ خیالات کو پراگندگی سے بچائو اور ذہنی بیداری اور چستی پیدا کرو اور جو باتیں کہ پراگندگی کو پیدا کرنے والی ہیں اُنہیں دُور کرو۔ اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ نماز سے کچھ عرصہ پہلے اذان ہونی چاہیئے جسے سُنکر مسلمانوں کو اپنے کاروبار ترک کر کے نماز کی تیاری شروع کر دینی چاہیئے۔ اسی طرح یہ کہ نماز سے پہلے وضوء کرنا چاہیئے پھر مسجد میں جا کر یا گھر پر سنتیں پڑھنی چاہئیں پھر مسجد میں امام کے انتظار میں ذکر الٰہی کرنا چاہیئے۔ اِن سب کاموں سے ظاہری اور باطنی سستی دُور ہوتی ہے کیونکہ خیالات میں پراگندگی اور سستی اِسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ دھیان کسی اور طرف ہو۔ مگر جو شخص نماز سے پہلے اپنا کاروبار ترک کر دے گا اس کے خیالات جو تجارتی یا دوسرے کاروبار کی وجہ سے یا گھر کے جھگڑوں یا فکروں کی وجہ سے پراگندہ ہو رہے تھے آہستہ آہستہ نماز اور عبادت کی طرف پھر جائیں گے۔ پھر مسجد میں جانے اور سنتیں پڑھنے اور ذکرِ الٰہی کرنے کی وجہ سے وہ دوسری تمام طرفوں سے ہٹکر عبادت اور نماز کی طرف منتقل ہو جائیں گے اور وہ تمام ذرائع مہیا ہو جائینگے جن کی وجہ سے نماز میں خیالات کی یکسوئی پیدا ہو سکتی ہے۔ اِسی پراگندگی کی حالت کو دُور کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اس حالت میں پیشاب پاخانہ وغیرہ کی حاجت معلوم ہو نماز نہیں پڑھنی چاہیئے بلکہ پہلے ان حاجات کو پورا کرے پھر نماز پڑھے (ابو دائود کتاب الطہارۃ باب ایصلی الرجل وھو حاقن) اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِذَا وُضِعَ الْعَشَائُ وَاُقِیْمَت الصَّلٰوۃُ فَابْدَ ؤا بِالْعَشَائِ (بخاری کتاب الآ ذان باب اذاحمضر الطعام و اقیمت الصلوۃ) یعنی جب شام کا کھانا سامنے آ جائے تو عشاء کی نماز سے پہلے کھانا کھا لیا کرو۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کھانے سامنے آ جانے کے بعد خیال کھانے کی طرف رہے گا پس پہلے کھانا کھا کر نماز پڑھی جائے تاکہ طبیعت میں یکسوئی پیدا ہو۔ اس حدیث میں جو شام کے کھانے کا خاص طور پر ذکر ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل تو دوپہر کا کھانا نماز ظہرؔ سے اس قدر نہیں ٹکراتا جس قدر کہے شام کا کھانا عشاء کی نماز سے ٹکراتا ہے۔ دوسرے اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رات کو سونے سے کافی پہلے کھانا کھا لینا چاہیئے تا نیند پریشان نہ ہو اور بدہضمی کی شکایت پیدا نہ ہو۔ اگر شام کے کھانے کو عشاء کی نماز کے بعد کے لئے اٹھا رکھا جائے تو چونکہ اسلام عشاء کے بعد جلد سونے کی ہدایت دیتا ہے تاتہجد کے لئے اُٹھنے میں آسانی پیدا ہو شام کے کھانے اور سونے کے وقت میں تھوڑا فرق رہ جائے گا اور صحت خراب ہو گی۔
صَلٰوۃ کے معنے حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ دُعا، رحم دین، شریعت، استغفار، تعظیم، برکت او رمسلمانوں کی اصطلاحی عبادت کے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ بولا جائے تو اس کے معنے رحم اور برکت کے ہوتے ہیں اور جب بندوں کے لئے استعمال ہو تو دُعا، دین، شریعت، استغفار، تعظیم، عام عبادت یا مسلمانوں کی اصطلاحی عبادت کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ دُرود شریف کے لئے بھی صلوۃ کا لفظ بولا جاتا ہے اور اس کے معنے دعا اور برکت اور تعظیم کے ہوتے ہیں او رمطلب یہ ہوتا ہے کہ مومن اپنے آقا کے مدارج کی ترقی کے لئے دعا کریں۔ اس کے لئے خدا تعالیٰ سے برکت طلب کریں اور اس کی بڑائی بیان کریں۔ ان معنوں میں قرآن کریم میں یہ لفظ سورۂ احزاب میں استعمالل ہوا ہے۔ وہاں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَآ ئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اصَلُّوْ ا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (احزاب ع ۷) اللہ اپنے رسول پر برکات نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے اور اس کی بڑائی بیان کرتے ہیںپس اے مومنو تم بھی اس کے لئے دعائیں کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور اس کے تمام احکام کی کامل فرمانبرداری کرو۔ استغفار کے خالص معنوں میں یہ لفظ سورۂ توبہ میں استعمال ہوا ہے وہاں آتا ہے وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَھُمْ (توبہ ع ۱۳) اے رسول جن سچے مومنوں سے کمزوریاں ہو جائیں تو اُن کیلئے استغفار کر کیونکہ تیرا اُن کے لئے استعفار کرنا ان کی تسلی کا موجب ہوتا ہے۔
دعا کے معنوں میں بھی سورۂ توبہ میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے فرماتا ہے وَمِنَ الْاَ غَرابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰ خِرِوَ یَتَّخِذُ مَایُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَواَتِ الرَّسُوْلِ اَلَآ اِنَّھَا قُرْبَۃٌ لَّھُمْ سَیُدْ خِلُھُمُ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِۃٖ (التوبہ ع ۱۲) یعنی چھوٹے دیہات یا جنگلوں میں رہنے والے بعض عرب بھی ایسے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور یوم آخر پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ تعالیٰ کے قرب اور رسول کی دعائیں حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں اور خوب سن رکھو کہ ان کا یہ فعل خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ ان کی اس نیک نیتی اور رسول کی دعائوں کی وجہ سے اُن کو ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔
نماز کے معنو ںمیں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس میں اصطلاحی نماز کے علاوہ یہ امور بھی مدنظر ہوتے ہیں کہ نماز دعا ہے اور اس سے دین کا مغز پورا ہوتا ہے اور شریعت کی غرض پوری ہوتی ہے اور اس میں بندہ اپنی کمزوریوں کی معانی کی درخواست اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت کو طلب کرتا ہے چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُتْلُ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃِ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ (عنکبوت ع ۵) یعنی قرآن کریم کی تلاوت کر اور نماز باجماعت ادا کر یقینا نماز اُن بُری باتوں سے بھی کہ جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں اور ان سے بھی کہ جو سوسائٹی پر گراں گذرتی ہیں روکتی ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نماز کو ایک رسم کے طو رپر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ یہ عبادت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ بدی سے نفرت ہوتا ہے اور اندرونی پاکیزگی اس سے حاصل ہوتی ہے۔
یہ الفاظ استعمال فرما کر کہ نماز بدی سے روکتی ہے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نماز میں یہ ذاتی خوبی ہے کہ وہ بدی سے روکتی ہے۔ پس جس شحص کو باوجود نماز پڑھنے کے بدی سے نفرت پیدا نہ ہو اُس کی نماز میں ضرور نقص ہے اور یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میںاسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ متقی صرف رسمی طور پر نماز نہیں ادا کرتے بلکہ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی نماز کھڑی ہو جائے یعنی وہ اُن کی روحانیت کے لئے بطور سہارے کے بن جائے جس طرح ٹیک اور سہارے جب تک اپنی جگہ پر کھڑے رہیں چھتوں کو کھڑا رکھتے ہیں اسی طرح نماز جب کامل ہو جائے تو متقی کے تقویٰ کو سہارا دے کر اپنی جگہ پر کھڑا رکھتی ہے پس صرف نماز پڑھنے پر تسلی نہیں پانی چاہیئے بلکہ نماز کو کھڑا کرنا چاہیے تاکہ اس کے سہارے پر انسان کا تقویٰ بھی کھڑا رہے۔
اسلامی نماز۔ چونکہ قرآن کریم میں نماز قائم کرنے کا حکم یہاں پہلی دفعہ بیان ہوا ہے میں اسلامی نماز کی کیفیت کو اس جگہ مختصراً بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ جو غیر مسلم اس تفسیر کو پڑھیں انہیں نماز کے متعلق کچھ واقفیت ہو جائے۔
اسلامی نماز کے ادا کرنے سے پہلے وضو ء یاتمیم فرض ہے وضوء کا حکم اصل ہے اور تمیم کا حکم بطور قائم مقام کے ہے۔ (سورۃ مائدہ رکوع اول آیت ۴) وضوء پانی سے کیا جاتا ہے اور اس میں پہلے ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کے بعد کلی کر کے منہ صاف کیا جاتا ہے اور نتھنوں سے پانی اوپر کی طرف کھینچ کر ناک کو صاف کیا جاتا ہے اس کے بعد منہ دھویا جاتا ہے پھر کہنیو ںتک کہنیوں کو شامل کرتے ہوئے دونوں ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کے بعد ہاتھ گیلے کر کے سر کے بالوں پر ایک ثلث سے دو ثلث تک مسح کیا جاتا ہے او رپھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی سے کانو ںکے سوراخوں کو گیلا کیا جاتا ہے اور انگوٹھوں کو کانو ںکی پشت پر پھرایا جاتا ہے تاکہ کان کی پشت بھی گیلی ہو جائے اس کے بعد دونوں پائوں ٹخنوں تک دھوئے جاتے ہیں (بخاری تکاب الوضوء باب الوضوء ثلاثاً و نسانی کتاب الوضوء باب مسیح الاذنین مع الراس) باہو ںاور پائوں کے دھونے میں اس امر کو ملحوظ رھا جاتا ہے کہ دائیں طرف پہلے دھوئی جائے اور بائیں طرف بعد میں۔ (نسائی کتاب الوضوء باب بای الرجلین یبدا بالغل) وضوء کرتے وقت یہ نیت کرنی بھی ضروری ہوتی ہے کہ نماز کے لئے یا طہارت کے لئے وضوء کیا جا رہا ہے (نسائی کتاب الوضوء باب النیتہ فی الوضوء) اس سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ خیالات کی رو عبادت کی طرف پھر جائے اور اس وقت سے خیالات دوسرے کاموں کی طرف سے ہٹ جائیں یہ فعل ظاہری صفاء… کا بھی موجب ہوتا ہے کیونکہ جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے بوجہ بالعموم ننگا رہنے کے وہی گردو غبار کا نشانہ بنتے ہیں۔
ان اعضاء کا دھونا یا گیلا کرنا خیالات کے اجتماع کے لئے بھی مفید اور ضروری ہوتا ہے کیونکہ خیالات کی پراگندگی حواس خمسہ کے مقامات کی تیزی سے ہوتی ہے اور حواس خمسہ کے مقامات آنکھیں کان ناک اور منہ اور جسم ہیں۔ وضوء میں کلی کے ذریعہ سے منہ کو تر کیا جاات ہے اور اس میں یکسوئی کی قوت پیدا کی جاتی ہے۔ ناک میں پانی ڈال کر اُسے ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ منہ دھوتے ہوئے آنکھوں کو تری پہنچائی جاتی ہے۔ کانوں میں گیلی انگلیاں ڈال کر اور اُن کے پیچھے انگوٹھے کو حرکت دے کر کانوں کی حس کی پراگندگی کو دُور کیا جاتا ہے ۔ جسم کی زیادہ حس کو دُور کرنے کے لئے باہیں اور پائوں دھوئے جاتے ہیں۔ اور طبی تجربہ اس امر پر شاہد ہے کہ بخار کی تیزی کو دُور کرنے کے لئے صرف یا ہوں اور پائوں کا ٹھنڈے پانی سے دھونا یا تر کرنا سارے بدن سے بخار کی گرمی دور کرنے کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے۔ سر کی گرمی خیالات کو بہت پراگندہ کر دیتی ہے اس وجہ سے سر کا مسح رکھا گیا ہے جو سر کو ٹھنڈا کر کے سر کی گرمی کو دُور کرتا اور خیالات کے اجتماع میں ممد ہوتا ہے۔
اعصابی ماہرین ماہرین کے تجربہ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھوں او رپائوں کی انگلیوں کے ٹھنڈا کرنے سے بھی خیالات کی رَد کو بدلا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مسمریزم کے ماہرین کا تجربہ ہے کہ مسمریزم کے عمل کے بعد اگر ہاتھوں او رپائوں کو پانی ڈال کر ٹھنڈا کر لیا جائے تو اس دماغی برتی طاقت کے ضاوع ہونے سے انسان بچ جاتا ہے جو مسمریز کے عمل کے بعد دیر تک جاری رہ کر انسان کو کمزور کر دیتی ہے۔ پس ہاتھوں اور پائوں کے دھونے سے بھی ان خیالات کی رد کو رد کا جا سکتا ہے جو نماز سے پہلے انسان کے دماغ میں جاری وتی ہے اور اُسے پھیر کر عبادت اور ذکر الٰہی کی طرف لایا جا سکتا ہے۔
غرض وضوء ایک نہایت پر حکمت حکم ہے جس کے ایک جزو کی تجربہ اور علم الاعصاب تائید کرتے ہیں۔ وضوء کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے (دیکھو سورۂ مائدہ ع ۲)
جب پانی میسر نہ ہو یا انسان بیمار ہو یا وضوء سے بیماری کا خطرہ ہو۔ تو اس صورت میں اسلام نے تمیم کا حکم دیا ہے کہ (سورۂ مائدہ آیت ۶ و نساء ۴) اور وہ حکم یہ ہے کہ پاک مٹی یا کسی پاکیزہ گرد والی چیز پر ہاتھ مار کر اپنے منہ پر او رہاتھوں اور باہوں پر پھیر لے (بخاری کتاب التمیم باب التمیم للوجہ والکفین) یہ حکم بھی انہی حکمتوں سے پُر ہے کیونکہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ صاف اور پاک مٹی بھی پانی کا قائم مقام ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اسی حکمت کو کسی وقت سمجھ کر ہندو سادھوئوں نے جسم پر بھبوت ملنے کا طریقہ جاری کیا تھا مگر یہ بات اُن سے نظر انداز ہو گئی کہ یہ طریق ادنیٰ درجہ کا ہے او رپانی کے میسر نہ آنے یا استعمال نہ کر سکنے کی صورت میں ایک قائم مقام کے طور پر ہی استعمال ہو سکتا ہے ورنہ پانی کا استعمال بہرحال افضل اور اعلیٰ ہے۔ تمیم کا حکم بھی قرآن کریم میں مذکور ہے اور سورۃ نساء ع میں اس کا ذکر آتا ہے۔
مرد اور عورت کے شہوانی اجتماع کے بعد کے لئے ایک زائد حکم بھی ہے اور وہ یہ کہ نماز پڑھنے سے پہلے نہا بھی لے۔ اس حکم میں یہ حکمت ہے کہ یہ فعل جیسا کہ تجربہ اس پر شاہد ہے سارے جسم پر اثر کرتا ہے اور جسم کے ہر حصہ کی برتی طاقت میں ایک ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ پس اس کو ٹھنڈا کر کے سارے جسم کی برتی طاقت اور خیالات کے انتشار کو دُور کرنا عبادت کی تکمیل اور خدا تعالیٰ کے ساتھ حصول اتصال کے لئے ضروری ہے۔ اس کا حکم سورۃ نساء کے رکوع میں بیان ہے۔ مگر جس طرح بیماری اور پانی کے میسر نہ آنے کی صورت میں وضوء کی جگہ تمیم کو کافی قرار دیا گیا ہے اسی طرح ان دونوں صورتوں میں بھی غسل کی جگہ تمیم کو کافی قرار دیاگیا ہے۔
وضوء یا تمیم جو بھی صورت ہو اس کے بعد مسلمان کو حکم کہ اگر امن کی حالت ہو اور زمین پر ہو تو قبلہ رو کھڑا ہو کر (بخاری کتاب الصلوۃ باب التوجہ سخو القبلۃ) دونو ںہاتھ اٹھا کر اور ہاتھوں کو قبلہ رُو کر کے انگوٹھوں کو اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتے ہوئے (جس کے معنے ہیں اللہ سب سے بڑا ہے) کانو ںکی لوئوں تک لائے (ابو دائد کتاب الصلوۃ باب استفتاع الصلوۃ و نسائی کتاب الا فتتاح اصلوۃ باب موضع الا بہامین عندالرفع) او راس نیت کے ساتھ کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگا ہے دوسرے سب خیالات کو دور کر کے عبادت الٰہی کے خیال میں محو ہو جائے۔ اس طرح ہاتھ اُٹھانے میں علاوہ توجہ کے قیام کے یہ بھی حکمت ہے کہ یہ حرکت طبعی طور پر باقی سب امور کو ترک کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ پس اس حرکت سے مسلمان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کے سب خیالات اور کاموں سے علیحدہ ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔ ہاتھو ںکی اسی قسم کی حرکت کی طرف غالب نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے۔ ؎
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہوئے کرتے ہیں سلام
جس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں
پس اس حرکت سے مومن گویا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سب دنیا سے قطع تعلق کر کے اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے بیداری اور چستی بھی پیدا ہوتی ہے۔
اس کے بعد مسلمان اپنے سینہ پر ہاتھ باندھ لیتا ہے۔ (ابن حزیمہ بروایت وائل بن حجر) گویا مودب ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ عبارت کہتا ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالیٰ جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ (ترمذی ابواب الصلوۃ باب مایقول عند افتتاح الصلوۃ و نسائی کتاب الافتتاح باب الذکربین افتتاح الصلوۃ و نسائی کتاب الا فتتاح باب الدکر بین افتتاح الصلوۃ و بین القراۃ) یعنی اے اللہ توہر نقص سے جو تیرے مقام کے خلاف ہے پاک ہے او رہر خوبی سے جو تیری شان کے لائق ہے متصف ہے اور تیرا نام تمام برکتوں کا جامع ہے اور تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اس کے بعد وہ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھتا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ اے اللہ میں ہر اُس بد روح سے جو تیری درگاہ سے دور کی گئی ہے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ اس کا اثر مجھ پر نہ ہو اور میں تیری درگاہ سے دور ہونیوالوں میں شامل نہ ہو جائوں۔ پھر وہ سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے (نسائی کتاب الافتتاح باب البداء ۃ بقاتحتہ الکتاب قبل السورۃ و ایجاب قرأۃ فاتحتہ الکتاب) اس کے بعد وہ قرآن کریم کی کوئی سورۃ یا کم سے کم کسی سورۃ کا اتنا حصہ جو تین آیات پر مشتمل ہو پڑتا ہے او رپھر اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر رکوع میں چلا جاتا ہے (رکوع اُسے کہتے ہیں کہ انسان اس طرح کمر سیدھی کرے کہ اس کا سر اور لاتوں کا اوپر کا حصہ ایک دوسرے کے متاوزی ہو جائیں جھک جاتا ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتا ہے اور لاتیں بالکل سیدھی رکھتا ہے اور لاتیں بالکل سیدھی رکھتا ہے ان میں خم پیدا نہیں ہونے دیتا (نسائی کتاب افتتاح الصلوۃ باب الاعتدال فی الرکوع) پھر اس حالت میں وہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کا فقرہ کہتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میرا رب جو اپنی شان کی وسعت میں سب سے بڑھ کر ہے تمام نقائص سے پاک ہے۔ یہ فقرہ کم سے کم تین بار یا اس سے زیادہ طاق عدد میں وہ دہراتا ہے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع) پھر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر اس شخص کود عا کو سنتا ہے جو سچے دل سے اس کی تعریف بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ پوری طرح کھڑا ہو کر ہاتھ سیدھے چھوڑ کر یہ دعا مانگتا ہے کہ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ حَمَدً اکَثِیْراً طَیِّبًا سُبَارَکًافِیْہِ (نسائی کتاب الافتتاح مایقول الماموم اذارفع رأسہ من الرکوع) یعنی اے میرے رب سب تعریف تیرے ہی لئے ہے کثرت سے تعریف اور پاک تعریف جو سب تعریفوں کی جامع ہے۔ اس کے بعد وہ پھر اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر سجدہ میں چلا جاتا ہے۔ سجدہ اسے کہتے ہیں کہ انسان اپنی سات ہڈیوں پر زمین پر جھک جاتا ہے یعنی اس کا ماتھا زمین پر پوری طرح لگا ہوا ہو اس کے دونوں ہاتھ قبلہ رُو زمین پر رکھ ہوئے ہوں اور اس کے گھٹنے بھی زمین پر لگے ہوئے ہوں اور اس کے دونوں پائوں بھی زمین پر لگے ہوئے ہوں اس طرح کہ دونوں پائوں کی انگلیاں دبا کر قبلہ رُو کی ہوئی ہوں (مسلم جلد اول کتاب الصلوۃ باب فی اعضاء السجود) اس حالت میں مسلمان سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اے میرے رب تو اپنی شان کی بلندی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ یہ فقرہ وہ کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ کسی طاق عدد کے مطابق کہتا ہے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی التسبیح فی السجود) اس کے بعد وہ اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کربیٹھ جاتا ہے۔ اس طرح کہ اس کی بائیں لا سے تو تہہ کی ہوئی مگر اس کا پائوں اس طرح کھڑا ہو کہ انگلیاں قبلہ رخ ہوں۔ اس وقفہ میں وہ یہ دعا پڑھتا ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْ حَمْنِیْ وَاھْدِ نِیْ وَعَا فِنِیْ وَارْزُقْنِیْ (ابو دائود بحوالہ مشکوۃ کتاب الصلوۃ باب السجود و فضلہ) جس کے یہ معنے ہیں کہ اے میرے رب میرے گناہ معاف کر اور مجھ پر رحم کر اور مجھے سب صداقتوں کی طرف رہنمائی بخش اور مجھے تمام عیبوں سے محفوظ رکھ اور مجھے اپنے پاس سے حلال و طیب رزق عطا فرما۔ (بعض احادیث میں وَاجْبُرْنِیْ اور بعض میں وَارْفَعْنِیْ آتا ہے یعنی اے میرے رب میری تمام کمزوریوں کو دُور کر اور تمام نقصانات سے بچا۔ اور میرا قدم ہر گھڑی ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے) اس کے بعد وہ پھر بآواز بلند اللّٰہُ اَکْبَرْ کہ کر پہلے کی طرح سجدہ میں چلا جاتا ہے۔ اور پہلے سجدہ کی طرح دعا کر کے پھر اللّٰہُ اَکْبَرْکہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسے ایک رکعت کہتے ہیں اس کے بعد وہ پہلے کی طرح پھر ایک رکعت ادا کرتا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمْ وَبِحَمْدِکَ والی دعا جس سے اُس نے نماز شروع کی تھی وہ اسے حذف کر دیتا ہے اور صرف سورۂ فاتحہ سے نماز شروع کرتا ہے۔ اس دوسری رکعت کے ختم کرنے پر وُہ اس طرح بیٹھ جاتا ہے جس طرح کہ پہلے سجدہ اور دوسرے سجدہ کے درمیان بیٹھا تھا اور تشہد پڑھتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں اَلتَّحِیَّاتُ للّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ (بخاری کتاب الصلوۃ باب التشہد فی الآخرۃ) یعنی تمام وہ کلمات جو تعظیم کے لئے زبان سے نکل سکتے ہیں اور تمام وہ عبادات جو جسم انسانی بجالا سکتا ہے اور تمام وہ مالی قربانیاں جو کسی پاک ذات کے لئے پیش کی جا سکتی ہیں خدا تعالیٰ کا ہی حق ہیں اس کے سوا اور کوئی ہستی ان کی مستحق نہیں اور اے نبی تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اللہ تعالیٰ کا رحم تجھ پر اُترتا رہے اور اس کی برکتوں سے تو حصّہ پاتا رہے اور ہم پر جو اس نماز میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندے جو پہلے گذر چکے ہیں یا اس وقت موجود ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں ان سب پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور یہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
اس کے بعد وہ دُرود پڑھتا ہے جو مختلف الفاظ میں آتا ہے مگر مختصر دورد یہ ہے کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدً وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِلَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ (بخاری جلد دوم کتاب بدء الخلق باب یزفون النسلان نے المشی و مشکوۃ کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے معنے یہ ہیں کہ اے اللہ محمد پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل کر اور اسی طرح تمام ان لوگوں پر جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتے ہیں جس طرح تو نے ابراہیم پر اور ابراہیم سے تعلق رکھنے والوں پر فضل اور رحمت نازل کی تھی اور اے اللہ محمد صلعم پر اپنی برکتیں نازل کر اور ان پر بھی جو آپؐ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس طرح تو نے ابراہیم پر اور اس سے تعلق رکھنے والوں پر برکتیں نازل کی تھیں۔ اس کے بعد وہ بعض دعائیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں پڑھتا ہے مثلاً یہ کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَانْکُسَلِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنْ غَلْبَۃِ الدَّیْنِ وَ قَھْرِ الرِّجَالِ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب الاستعاذہ) یعنی اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ مجھے کوئی گھبرا دینے والی مصیبت پہنچے یا مجھے غم فکر دبالیں اور اے میرے رب میں تیری پناہ چاہات ہوں اس بات سے کہ میں وہ سامان کھو بیٹھوں جن سے میری زندگی کے کام چلتے ہیں یا وہ طاقتیں میری جاتی رہیں جنکی مجھے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ضرورت ہے اور اس سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس ترقی میں مدد دینے والے سامان تو موجود ہوں یا ترقی میں مدد دینے والی طاقتیں تو مجھے حاصل ہوں مگر اُن کے استعمال سے میں گریز کروں اور سستی اور کاہلی کا شکار ہو جائوں اور اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی اور بخل کی اخلاقی امراض سے۔ اور اے میرے رب اس بارہ میں بارہ میں بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے قرض دبالے اور میں لوگوں کی نظروں میں قرض نہ ادا کرنے کی وجہ سے ذلیل ہو جائوں اور اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ ایسے انسان مجھ پر مسلط ہو جائیں جو میرے حقوق کو تلف کریں اور مجھے ان ترقیات کے حصول سے روک دیں جو ہر انسان کے لئے تو نے اپنے فضل سے مقدر کر چھوڑی ہیں۔
یہ اور اسی قسم کی اور دعائیںہیں جو رسول کریم صلی اللہ سے ثابت ہیں ان دعائوں کو اس موقع پر مسلمان پڑھتا ہے یا جو اور دعائیں اپنی ضرورت کے مطابق مناسب سمجھتا ہے مانگتا ہے پھر وہ پہلے دائیں طرف منہ کر کے الَسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتا ہے اور اس کے بعد بائیں طرف منہ کر کے الَسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتا ہے اور اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے۔
یہ اس صورت میں ہے کہ نماز دو رکعت کی ہو اگر دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو بجائْ اِدھر اُدھر منہ پھیر کر السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہنے کے مسلمان اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر پھر کھڑا ہو جاتا ہے اور تین رکعت کی نماز ہو تو ایک رکعت او رپڑھ کر دوبارہ تشہد پڑھ کر سلام پھیرتا ہے اور اگر چار رکعت کی نماز ہو تو دو رکعت اور پڑھ کر پھر تشہد میں بیٹھ کر اور اوپر کی دعائیں اور کلمات پڑھ کر سلام پھیر دیتا ہے۔ جب دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو پہلے تشہد کے بعد ایک یا دو رکعت جو دو پڑھتا ہے ان میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے قرآن کریم کی زائد آیات نہیں پڑھتا۔
نماز مسلمانو ںپر پانچ وقت فرض ہے ایک نماز صبح کی جس کا وقت پوپھٹنے سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ہوتا ہے یعنی سورج نکلنے سے پہلے یہ نماز ختم ہو جانی چاہیئے اس نماز کی دو رکعت ہوتی ہیں ایک نماز سورج ڈھلنے سے لے کر اندازًا پونے تین گھنٹہ بعد تک پڑھی جاتی ہے گرمیوں میں یہ وقت ہندوستان میں کوئی تین گھنٹہ تک چلا جاتا ہے اس نماز کو ظہر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی چار رکعت ہوتی ہیں اس کے بعد تیسری نماز کا وقت شروع ہوتا ہے یہ نماز دھوپ کے زرد ہونے کے وقت تک پڑھی جا سکتی ہے اسے عصر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی بھی چار رکعت ہوتی ہیں اس کے بعد سورج ڈوبنے سے لے کر شفق یعنی مغرب کی طرف کی سرخی کے غائب ہونے تک چوتھی نماز کا وقت ہوتا ہے اور اسے مغرب کی نماز کہتے ہیں اس کی رکعتیں تین ہوتی ہیں پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھتے ہیں اور پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھتے ہیں اور دونوں سجدوں کے بعد تشہد میں بیٹھ کر اور جو دعائیں اوپر بیان ہو چکی ہیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے ہیں اس کے بعد پانچویں نماز کا وقت شروع ہوتا ہے جسے عشاء کی نماز کہتے ہیں اس کا وقت ہندوستان کے اوقات کے لحاظ سے غروب آفتاب سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد سے شروع ہوتا ہے اور نصف شب تک اور بعض کے نزدیک اس کے بعد تک بھی چلا جاتا ہے اس نماز کی رکعتیں بھی چار ہوتی ہیں جو رکعتیں بیان کی گئی ہیں یہ اس وقت کے لئے ہیں جبکہ انسان وطن میں موجود ہو یا ایسی جگہ پر ہو جہاں اس کی مستقل اقامت ہو۔ جب سفر میں ہو تو اس صورت میں صبح اور مغرب کی نمازوں کے سوا دوسری نمازیں آدھی پڑھی جاتی ہیں یعنی بجائے چار رکعتوں کے دو دو رکعت پڑھی جاتی ہیں بعض لوگوں میں غلطی سے یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ سفر میں آدھی نماز رہ گئی ہے لیکن اصل بات یہ نہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے جسے امام مالکؓ نے نقل کیا ہے (موطا امام مالک قصر الصلوۃ فی السفر) ثابت ہے کہ جب نماز فرض ہوئی ہے تو ظہر عصر اور عشاء کی دو رکعتیں ہی تھیں مگر بعد میں سفر کی حالت میں دو دو رکعتیں ہی رہنے دی گئیں لیکن حضر یعنی اقامت کے ایام میں دگنی نماز کر دی گئی۔ یعنی دو دو کی جگہ چار چار کعتوں کا حکم ملا۔
ان نمازوں میں سے صبح کی نماز باجماعت ہو تو امام سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا حصہ بلند آواز سے پڑھتا ہے اور مقتدی سورۃ فاتحہ ساتھ ساتھ آہستہ پڑھتے ہیں اور باقی قرارء ت صرف سنتے ہیں باقی حصہ نماز کا امام بھی آہستہ پڑھتا ہے سوائے تکبیروں اور سَمعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور آخری سلاموں کے ظہر کی نماز میں تمام رکعتوں میں امام آہستہ پڑھتا ہے اور اس کے پیچھے کے نمازی بھی اپنے طور پر سورہ فاتحہ اور قرآن کریم پڑھتے ہیں ۔ عصر کی نماز بھی اسی طرح ہوتی ہے مغرب کی نماز میں پہلی اور دو رکعتوں میں امام سورہ فاتحہ بلند پڑھتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کے مقتدی آہستہ آہستہ منہ میں سورہ فاتحہ پڑھتے جاتے ہیں سورۂ فاتحہ کے بعد امام قرآن کریم کا کچھ حصہ جب پڑھتا ہے تو مقتدی خاموش اس کے پڑھے ہوئے کو سنتے ہیں خوہ کچھ نہیں پڑھتے۔ آخری رکعت میں امام بھی دل میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور مقتدی بھی۔ عشاء کی نماز میں بھی پہلی دو رکعتو ںمیں اسی طرح امام بلند آواز سے سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ اور حصہ پڑھتا ہے اور مقتدی سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ اور حصہ پڑھتا ہے اور مقتدی سورہ فاتحہ منہ میں دہراتے ہیں اورقرآن کریم کا دوسرا حصہ صرف سنتے ہیں مگر آخری دو رکعتوں میں قیام کی حالت میں امام صرف سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور وہ بھی آہستہ آہستہ منہ میں اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر آہستہ آہستہ ہی منہ میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں تمام نمازو ںمیں باجماعت ہوں تو امام تکبیریں اور سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ رکوع سے کھڑے ہوتے وقت اور نماز کے خاتمہ کے بعد کا سلام بہرحال بلند آواز سے کہتا ہے کیونکہ مقتدیوں کو ساتھ چلانا بدنظر ہوتا ہے۔
ان پانچ فرض نمازوں کے علاوہ ایک نماز تر کہلاتی ہے اس نماز کی بھی مغرب کی طرح تین رکعتیں ہیں مگر فرق یہ ہے کہ مغرب کی نماز میں پہلے تشہد کے بعد جو تیسری رکعت پڑھی جاتی ہے اس میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی زائد تلاوت نہیں کی جاتی لیکن و ترکی نماز میں تیسری رکعت میں بھی سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی چند آیات یا کوئی چھوٹی سورۃ پڑھی جاتی ہے (ترمذی جلد اول کتاب الصلوۃ ابواب الوترباب ماجاء مایقرافی الوتر) دوسرا فرق اس میں یہ ہے کہ اس نماز کو مغرب کی نماز کے برخلاف دو حصوں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی یہ بھی جائز ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے (نسائی کتاب قیام اللیل و تطوع النہار باب کیف الوتر ثبلاث و باب یف الوتر بواحدۃ وکیف الوتربثلاث) یہ نماز عشاء کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہے اور تہجد کی نماز کے بعد بھی جس کا ذکر آگے آتا ہے۔
ان نمازوں کے علاوہ کچھ سنتیں ہوتی ہیں یعنی ایسی زائد نماز جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالالتزام ادا فرمایا کرتے تھے اور گو آپؐ ان کو فرض قرار نہ دیتے تھے لیکن ان کی تاکید کرتے رہتے تھے صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں ہیں اور بعد میں بھی چار رکعتیں ہیں۔ چار کی جگہ دو دو بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ عصر کے ساتھ کوئی ایسی سنتیں نہیں ہیں مغرب کے بعد دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور عشاء کے بعد بھی دو یا چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی من صلی فی یوم و لیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ من السنتہ مالہ من الفضل۔ وباب ماجاء فی الرکعتین بعد الظہر) اور انہی کے بعد مذکورہ بالا و تر پڑھے جاتے ہیںان سنتوں کے علاوہ ایک نماز تہجد کہلاتی ہے نصف سب کے بعد کسی وقت پوپھٹنے سے پہلے یہ نمار پڑھی جا سکتی ہے مگر جیسا کہ تہجد کے معنوں سے ظاہر ہے یہ نمار سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھنی جانی چاہیئے گو کسی وقت سونے کا وقت نہ ملے اور نصف شب گذر جائے تو یوں بھی پڑھ سکتا ہے مگر قرآن کریم نے جو اس کا نام رکھا ہے اس سے بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ عشاء کے بعد آدمی سو جائے اور سونے سے اُٹھ کر یہ نمار ادا کرے اس نماز کا روحانی ترقیات سے بہت گہرا تعلق ہے اور قرآن کریم میں اس کی خاص تعریف آئی ہے (دیکھو سورۂ مزمل آیت ۱ تا ۶) ان کے علاوہ بعض اور سنتیں بھی ہیں جو موکد تو نہیں یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خاص تاکید تو نہیں فرمائی مگر آپ جب موقع ملتا انہیں ادا کرتے تھے ان میں سے ایک اشراق کی نماز ہے یعنی جب سورج نیزہ دو نیزے اوپر آ جائے اسی طرح اور بعض نوافل ہیں لیکن حکم یہ ہے کہ جب سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو یا نصف النہار کا وقت ہو تو نماز ناجآئر ہے اور جب دھوپ زرد ہو جائے تب بھی ناپسندیدہ ہے۔
نمازوں کو ان کے مقررہ وقت پر پڑھنے کا حکم ہے لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے مثلاً بارش ہ اور بار بار مسلمانوں کا جمع ہونا مشکل ہو یا کوئی ایسا اجتماعی کام ہو جسے درمیان میں نہ چھوڑا جا سکتا ہو یا سفر ہو تو جائز ہے کہ ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملا کر پڑھ لیا جائے اس صورت میں بعض کے نزدیک درمیانی سنتیں معاف ہوتی ہیں اور بعض کے نزدیک پہلی اور پچھلی سنتیں بھی معاف ہوتی ہیں اور میرے نزدیک یہی آخری بات درست ہے معرب اور عشاء کو ملا کر پڑھنا بھی انہی حالات میں اور اسی طرح جائز ہے جس طرح کہ ظہر اور عصر کا۔ مگر صبح ظہر یا عصر مغرب یا عشاء صبح کا ملا کر پڑھنا جائز نہییں سوائے اس کے کہ کوئی ایسے شدید کام میں ہو کہ اس کا ترک جان کے لئے پر خطرہ ہو جیسے جہاد میں کہ اگر لڑائی سے ہٹ کر نماز پڑھے تو دشمن قتل کر دے گا یا مثلاً نہر یا دریا کا بند ٹوٹ جائے اور اس کے بند کرنے میں لوگ مشغول ہوں یا آگ لگ جائے اور اس کے بجھانے میں لوگ مشغول ہوں تو ایسے مواقع پر ان نمازوں کو بھی جمع کیا جا سکتا ہے جن کو امن کی حالت میں جمع نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ آفات ملک اور قوم اور شہر کی تباہی کا موجب ہوتی ہیں اس صورت میں بھی ان نمازوں کو جو عام طور پر جمع نہیں ہو سکتیں جمع کرنا جائز ہے کہ کوئی شخص بیہوش ہو جائے اور اس وقت ہوش آئے کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے مثلاً عصر کی نماز کے وقت بیہوش ہو اور عشاء کے وقت ہوش آئے تو عصر اور مغرب جمع کر کے پڑھ لے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے موقعہ پر ظہر، عصر مغرب اور عشاء جمع کیں مگر ان مجبوریوں کی وجہ سے جو اوپر بیان ہوئیں ان نمازوں کا جمع کرنا بھی جائر ہے جو عام طور ہر جمع نہیں کی جا سکتیں لیکن جو نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی جائے اسے دوسرے موقعہ پڑھنا جائز نہیں یعنی وہ نماز کے طو رپر قبول نہ ہو گی اس کا علاج صرف توبہ اور استغفار ہے ہاں بھول اور نسیان کے سبب سے یا سوتے رہنے کی وجہ سے جو نماز چھت جائے جب بھی یاد آ جائے یا آنکھ کھلے اس کا پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ ممنوع وقت نہ ہو جیسے سورج نکل رہا ہو تو سو کر اٹھنے والا انتظار کرے اور جب سورج پوری طرح نکل چکے تو اس وقت نماز ادا کرے۔
ان نمازوں کے علاوہ ایک جمعہ کی نماز ہے جو جمعہ کے دن ظہر کے وقت پڑھی جاتی ہے اس دن ظہر کی نماز نہیں پڑھی جاتی جمعہ کی نماز سے پہلے امام خطبہ پڑھتا ہے جس میں جب موقعہ کسی اسلامی مسئلہ یا مسلمانوں کی کسی ضرورت کے متعلق وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اس کے بعد وہ دو رکعت نماز پڑھاتا ہے جس میں برخلاف ظہر کی نماز کے سورۂ فاتحہ اور قرآن کریم کا حصہ بلند آواز سے پڑھا جاتا ہے سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے وقت مقتدی ساتھ ساتھ سورۂ فاتحہ کے الفاظ منہ میں آہستہ طور پر دہراتے جاتے ہیں ا ور دوسری قراء ت کے وقت صرف کلامِ الٰہی سنتے ہیں۔
اس کے علاوہ دو اور نمازیں ہوتی ہیں ایک رمضان کے بعد کی عید کی نماز او رایک حج کے موقعہ کی عید کی نماز۔ رمضان کے بعد کی عید پہلی شوال کو ہوتی ہے اس میں دو رکعت ہوتی ہیں اور سورۂ فاتحہ اور تلاوت بلند آواز سے امام پڑھتا ہے اور حج کے موقعہ کی عید حج کے دوسرے دن دسویں ذی الحجہ کو ہوتی ہے اس میں بھی دو رکعتیں ہوتی ہیں اور امام سورۂ فاتحہ اور مزید حصہ قرآن کریم کا بلند آواز سے پڑھتا ہے۔
یہ دونوں نمازی دن کے ابتدائی حصہ میں ہوتی ہیں روزوں کے بعد کی عید جسے عیدالفطر کہتے ہیں ذرا دیر سے پڑھی جاتی ہے اور حج کے بعد کی جسے عیدالاضحیہ کہتے ہیں ذرا سویرے پڑھی جاتی ہے۔
ان دونوں نمازوں کے ساتھ بھی خطبہ ہوتا ہے مگر جمع کے خطبہ کے برخلاف ان عیدو ںمیں خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے ان دونوں نمازوں سے پہلے اقامۃ نہیں کہی جاتی۔
ان نمازوں کے علاوہ ایک ضروری نماز جنازہ کی نماز ہے یہ فرض کفایہ ہے یعنی جب کوئی مسلمان فوت ہو اور کچھ مسلمان اس کا جنازہ پڑھ لیں تو سب کی طرف سے فرض کا ادا ہونا سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ کوئی مسلمان بھی ادا نہ کرے تو سب مسلمان جن کو علم ہوا اور وہ شامل نہ ہوئے مجرم سمجھے جاتے ہیں گویا جنازہ کی ادائیگی انفرادی ذمہ داری نہیں بلکہ قومی ذمہ داری ہے۔
جنازہ کی نماز میں دوسری نمازوں کے برخلاف رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے سب حصے کھڑے کھڑے ادا کئے جاتے ہیں (بخاری جلد اول باب فی الجنائز باب سنۃ الصلوۃ علی الجنائز) اور یہ جنازہ کی نماز میت کو سامنے رکھ کر پڑھائی جاتی ہے اور یہی وجہ اس میں رکوع اور سجدہ نہ ہونے کی ہے کیونکہ میت کے سامنے پڑے ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے کہ یہ رکوع اور سجدہ اس میت اس میت کو کیا جا رہا ہے اور ایسی لاش جو کسی بزرگ کی ہو اس کا جنازہ پڑھتے ہوئے کئی کمزور طبائع خود بھی اس خیال میں مبتلا ہو سکتی ہیں پس نماز جنازہ سے رکوع اور سجدہ کو اڑا دیا گیا تا شرک کا قلع قمع ہو۔
اس نماز کے چار حصے ہوتے ہیں امام قبلہ رو کھڑا ہو کر بلند آواز سے سینہ پر ہاتھ باندھ کر تکبیر کہہ کر اس نماز کو شروع کرتا ہے اس نماز سے پہلے اقامۃ نہیں کہی جاتی۔ پہلی تکبیر کے بعد منہ میں آہستہ آواز سے امام اور مقتدی اپنے اپنے طور پر سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے اور بغیر رکوع میں جانے کے اسی طرح کھڑے ہوئے منہ میں آہستہ آواز سے درود پڑھتا ہے اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر ایسا ہی کرتے ہیں اس کے بعد امام پھر تکبیر کہتا ہے اور اسی طرح کھڑے کھڑے میت کی بخشش کے لئے اگر وہ بالغ ہو دعا کرتا ہے اسی طرح دوسرے مسلمان مردوں عورتوں بڑوں چھوٹوں سب کے لئے عممواً اور میت کے پسماندگاں کے لئے خصوصاً دعا کرتا ہے اور مقتدی بھی یہی کام کرتے ہیں میت نابالغ ہو تو اس کے ماں باپ کے صبر اور نعم البدل کے لئے دعا کی جاتی ہے اور اس امر کے لئے کہ مرنے والے کو خدا تعالیٰ اس کے رشتہ داروں کے لئے اگلے جہاں میں رحمت اور بخشش کا ذریعہ بنا دے بعض مقررہ دعائوں کے علاوہ اپنے طور پر اپنی زبان میں بھی دُعا کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتااور تھوڑے سے وقفہ کے بعد سلام پھیر کر نماز کو ختم کر دیتا ہے۔
بعض اور قسم کی نمازیں بھی اسلام میں ہیں مثلاً استسقاء کی نماز جو قلت باراں اور خطرہ قحط کے وقت میں پڑھی جاتی ہے کسوف و خسوف کے موقعہ کی نماز۔ صلوٰۃ الحاجۃ یعنی کسی بڑی مصیبت کے دُور ہونے کے لئے یا دُور ہونے پر شکریہ کے طور پر یہ نماز پڑھی جاتی ہے مگر یہ نمازیں چونکہ کبھی کبھی ادا ہوتی ہیں میں ان کے بارہ میں اس جگہ کچھ لکھنا نہیں چاہتا فقہ کی کتابوں میں ان کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
تمام باجماعت ادا ہونے والی نمازوں کے لئے حکم ہے کہ امام آگے کھڑا ہو اور مقتدی اس کے پیچھے اتنے اتنے فاصلہ پر صفیں باندھ کر کھڑے ہوں کہ سب آسانی سے سجدہ کر سکیں صفوں کو درست کرنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص طو رپر زور دیتے تھے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ما جاء فی اقامۃ الصفوف) قرآن کریم سے بھی اس بارہ میں استدلال ہوتا ہے۔
نماز میں سجدہ اور قعدہ کے علاوہ باقی سب حصے کھڑے ہو کر ادا کئے جاتے ہیں لیکن بیمار کے لئے بیٹھ کر اور بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر اشارہ سے نماز پڑھنا جائر ہے۔
نماز کے وقت ادھر اُدھر دیکھنا نظر پھرانا بات کرنا یا نماز سے باہر والے کی بات کی طرف توجہ کرنا اور اسی قسم کے اور کام جو نماز کے فعل میں خلل ڈالیں منع ہوتے ہیں (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب الالتفات فی الصلوۃ و باب النظر فی الصلوۃ و باب تشمیت العاطس فی الصلوۃ) بلاوجہ کھانسنا ادھر ادھر ہلنا بھی ناجائز ہے یہ حکم پہلی تکبیر سے لے کر سلام تک کے وقت کے لئے ہے۔
جب نماز ایسے خوف کے وقت پڑھی جائے کہ نماز پڑھی تو جا سکتی ہو لیکن پورے اطمینان سے نہ پڑھی جا سکتی ہو جیسے مثلاً جنگ کا میدان ہو اور عملاً لڑائی نہ ہو رہی ہو لیکن دشمن حملہ کی تیاری میں ہو یا حملہ کا خوف ہو تو اس صورت میں کئی طرح نماز میں تخفیف جائز ہے ایک مسنون طریق یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ دو رکعتیں اور زیادہ خطرہ ہو تو ایک رکعت ادا کرے دوسرا حصہ دشمن کی طرف منہ کر کے کھڑا رہے جب پہلا حصہ ایک یا دو رکعت جیسا بھی موقعہ ہو ختم کرے تو جو حصہ کھڑا تھا وہ امام کے پیچھے آ جائے اور پہلا پیچھے ہٹ کر دشمن کی طرف منہ کر کے کھڑا رہے اگر دشمن قبلہ کی طرف ہو تو بہرحال سب کا منہ ایک ہی طرف ہو گا (مسلم جلد اول کتاب الصلوۃ باب صلوۃ الخوف) اس نماز کی مختلف صورتیں ہیں جو گیارہ تک پہنچتی ہیں اور خطرہ کی مختلف حالتوں کے مطابق ہیں اس جگہ ان سب کے بیان کا موقعہ نہیں خلاصہ یہ ہے کہ نماز باجماعت کا حکم خطرہ جنگ کی صورت میں مختلف صورتوں کے مطابق جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں بدلتا رہے گا اس نماز کا ذکر قرآن کریم میں سورہ نساء رکوع ۱۵ میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ جب خطرہ شدید ہو اور سواری پر یا پیدل دوڑ کر دشمن کے مقابلہ کے لئے جانا پڑے یا پیچھے ہٹنا پڑے تو سواری پر ہی یا دوڑتے ہوئے بھی نماز جائز ہے اور اسے جلدی جلدی ادا کرنے کی بھی اجازت ہے اس کا ذکر بھی سورۂ نساء کے رکوع ۱۵ میں آتا ہے۔
نماز قبلہ رُخ ہو کر پڑھی جاتی ہے یعنی جہاں بھی کوئی ہو کعبہ کی طرف منہ کر کے جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے کھڑا ہوتا ہے اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کی توجہ ایک مرکز کی طرف جمع ہو جاتی ہے یہ کعبہ کی طرف منہ کرنا اس لئے نہیں کہ اسلام نے کعبہ کو کوئی خدائی صفت دی ہے بلکہ جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اوریہ اسی سورۃ میں آگے آئے گا ایسا اس لئے کیا گیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح منہ کر کے کھڑے ہونے کا حکم باجماعت نماز کے لئے ضروری تھا اگر کوئی خاص جہت مقرر نہ کی جاتی اور صفوں میں کھڑے ہو کر ایک جگہ پر لوگ نماز نہ پڑھ سکتے کسی کا منہ کسی طرف ہوتا اور کسی کا کسی طرف تو نماز جماعتی عبادت کس طرح بنتی؟ پس جب جماعتی عبادت کے لئے کسی نہ کسی طرف منہ کرنا ضروری تھا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دے دیا جس کی نسبت اسلام کا وعدہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا یہی ہے (آل عمران آیت ۹۶) یہ گھر حضرت ابراہیمؑ سے بھی پہلے کا بنا ہوا ہے مگر حضرت ابراہیمؑ سے پہلے کسی وقت منہدم ہو گیا تھا جس پر خدا تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ نے اپنے لڑکے اسماعیل کی مدد سے اسے دوبارہ بنایا (بخاری جلد ۲ کتاب بدا الخلق باب یزفون النسلان فی المشی) اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ کسی وقت یہ مقام تمام سچے پرستاروں کا مرکز ہو گا (سورہ بقرہ آیت ۱۲۵ و حج آیت ۲۶) چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری کی (سورہ بقرہ آیت ۱۲۹ و سورہ جمعہ آیت ۲) اس لئے اسی مقام کو مسلمانوں کے ظاہری اجتماع کا مرکز بنایا گیا۔ تا انہیں ہمیشہ وہ فرض یاد رہے جو ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے جماعت مسلمین کے قیام کی غرض کے طو رپر مقرر کیا گیا تھا۔
اس کا ثبوت کہ کعبہ عبادت کا حصہ دار نہیں صرف اجتماع کا ذریعہ ہے یہ ہے کہ جب چلتی ہوئی کشتی یا کسی دوسرے سواری میں نماز ادا کرنی پڑے تو ایک دفعہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز شروع کر لینا کافی ہوتا ہے اس کے بعد سواری کا منہ کدھر بھی ہو جائے نماز میں خلل نہیں پڑتا (ترمذی جلد اول ابواب الصلوۃ باب الصلوۃ الی الراحلۃ و ابودائود کتاب الصلوۃ باب التطوع علی الراحلۃ) اور جب کعبہ کی طرف کا علم نہ ہو سکے تو نماز معاف نہیں ہو جاتی بلکہ جدھر منہ کر کے بھی نماز پڑھ لی جائے جائز ہے بلکہ ضروری ہے کہ نماز پڑھے خواہ کدھر ہی منہ کر کے نماز پڑھے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی الرجل یصلی لغیر القبلۃ فی الغیم)
اگر وضو اور تمیم دونوں نہ کر سکے تو اس صورت میں بھی میرے نزدیک نماز ادا کر سکتا ہو تو ادا کر لے جیسے مثلاً جہاز عرق ہو جائے اور کوئی شخص لائف بلٹ پہن کر سمند رمیں کودے پڑے اور عرصہ تک اسے بچانے والا کوئی نہ آوے تو نہ یہ وضو کر سکے گا نہ تمیم اس سورۃ میں اس کا اشارہ کے ساتھ ہی نماز پڑھ لینا درس ہو گا اور جن فقہاء کے نزدیک اس طرح پانی میں ہونا وضو ہی کا مترادف ہے ان کے خیال کی رو سے تو اس کا وضو ہی ہو گا کیونکہ وضو والے سب اعضاء دُھل چکے ہونگے۔
نماز کی شکل میں حکمت:
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں جو قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ مقرر کئے گئے ہیں یہ ایک رسمی سی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ہیئتوں کے اختیار کنے میں خاص کمتیں ہیں۔ جو نماز کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں اور نماز کا ان پر مشتمل ہونا اسے ایک رسمی عبادت نہیں بنات۔ ان ہیئتوں پر اس کا مشتمل ہونا اسے روحانیت کے لئے مکمل بناتا ہے اصل بات یہ ہے کہ انسانی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ جسم کا اثر روح پر اور روح کا اثر جسم پر پڑتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو رونی صورت بنائے اس کی آنکھو ںمیں کچھ دیر کے بعد آنسو آ جاتے ہیں اور دل بھی غمگین ہو جاتا ہے اور جس غمگین آدمی کے پاس بیٹھ کر لوگ ہنسیں او راسے ہنسائیں تھوڑی دیر کے بعد اس کے دل پر سے غم کا اثر کم ہونے لگتا ہے او راس کے اُلٹ یہ بھی ہوتا ہے کہ دل کے غم اور خوشی کا اثر انسان کے چہرہ اور دوسرے اعضاء پر پڑتا ہے حتیٰ کہ بعض دفعہ ایک رات کے صدمہ سے بعض لوگوں کے بال تک سفید ہو گئے ہیں اس طبعی قانوان کے مطابق اسلام نے عبادت الٰہی میں چند جسمانی افعال بھی شامل کئے ہیں تاکہ وہ ظاہری ہیئتیں جو ادب کا اظہار کرتی ہیں اس کے باطن میںبھی اسی قسم کاجذبہ پیدا کر دیں۔
ہم دیکھیت ہیں کہ دُنیا میں ادب اور احترام کے اظہار کے لئے محتلف اقوام نے مختلف شکلو ںکو اختیار کیا ہے بعض قوموں میں ادب کے اظہار کا طریق یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کے سامنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور بعض قوموں میں ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہونا ادب کے اظہار کی علامت ہے بعض میں رکوع کی طرح جھک جانا ادب کے اظہار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور بعض قومو ںمیں سجدہ کے طور پر گر جانا ادب کے انتہائی اظہار کے لئے دلامت مقرر کیا گیا ہے اور بعض قوموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھنا انتہائی ادب کے لئے علامت قرار دیا گیا ہے چنانچہ اسی وجہ سے مختلف اقوام میں عباد تکے وقت ان مختلف اقوام میں عبادت کے وقت ان مختلف صورتوں کو اختیار کیا جاتا ہے ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کے سامنے جسے وہ خدا تعالیٰ کا مظہر قرار دیتے تھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے اسی طرح بعض حالات میں ہو ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہوتے تھے مغربی ممالک میں گھٹنوں کے بل گرنیپ کی انتہائی تذلل کا مقام سمجھا جاتا ہے ہندوستان میں رکوع کی طرح جھکنا ادب کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح اپنے قابل تحریم بزرگوں اور بُتوں کے آگے سجدہ کیا جاتا ہے اسلام چونکہ سب دُنیا کے لئے ہے اس نے اپنی عبادت میں ان سب ط۔ریقوں کو جمع کر دیا ہے تاکہ ہر قوم کے لوگوں کے دلوں میں اس طریقِ عبادت سے وہ خشیت پیدا ہو جو عبادت میں پیدا ہنوے چاہیئے کیونکہ ایک تو اپنی قومی عادت کے ماتحت وہ اس خاص ہیئت سے زیادہ متاثر ہونگے دوسرے اپنی قلبی کیفیت کے ماتحت وہ ان مختلف ہیئتوں سے موقعہ کے مناسب زیادہ متاثر ہونگے کیونکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ انسان کے اندر جو مختلف تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ان کے ماتحت وہ کبھی تو شدت محبت اور شدتِ ادب کے وقت جھک جاتا ہے کبھی دوزانو ہو جاتا ہے کبھی سامنے کھما ہو جاتا ہے اور کبھی سجدہ میں گر جاتا ہے پس اس کے قلب کی جو بھی کیفیت ہو گی اس کے مطابق ہیئیت کے وقت اس کے قلب میں جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ اپنی عبادت سے پورا فائدہ اُٹھا سکے گا۔
علاوہ طبعی کیفیت کے محتلف جسمانی کیفیتوں کے ماتحت بھی ان مختلف حرکات کا اثر انسانی دل پر مختلف پڑتا ہے مثلاً ایک نزلہ کا مریض سجدہ میں تکلیف پاتا ہے او راس حالت میں اسے پورا جوش نہیں آتا لیکن کھڑے ہونے یا قعدہ کی حالت میں اسے پورا جوش دعا کے لئے پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اس کی صحت کے زیادہ مطابق ہوتی ہے مگر ایک دوسرا آدمی جس کی مثلاً لاتوں میں ضعف محسوس ہو رہا ہو سجدہ میں زیادہ جوش پاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے چونکہ عبادت کو ایک اجتماعی فعل قرار دیا ہے اور چونکہ اس نے سب قوموں کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس لئے اس نے اپنی عبادت میں ان تمام ہیئتوں کو جمع کر دیا ہے جن کے ذریعہ مختلف اقوام کو ادب و محبت کے اظہار کی عادت ہے اور جو مختلف حالتوں میں مختلف انسانوں کے دل میں عقیدت اور ادب کے جذبات کو اُبھار دیتی ہیں اور اس کی نماز ایسی جامع اور کامل ہے کہ اور کسی مذہب کی نماز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس خصوصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے اجتماعی نمازوں کا حکم دیا ہے کیونکہ جب مختلف استعدادوں کے لوگ ایک جگہ جمع ہوںتو ایک دوسرے کے قلب کی حالت کا اثر دوسرے پر پڑتا ہے اور کمزور قوی کی قوت ایمان کو اپنے دل پر تاثیر ڈالتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
چونکہ کبھی کبھی انسان کے دل میں خلوت میں عبادت کا جوش بھی پیدا ہوتا ہے اس لئے اسلام نے فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ تہجد کی نماز ہے اور اس طرح انسان کی اس مخصوص ضرورت کو بھی پورا کر دیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی نماز ان تمام طریقوں کی جامع ہے جو مختلف اقوام کے دلوں میں اس کیفیت کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے چلے آئے ہیں جو عباد ت کے لئے ضروری ہے اور اس میں ہر قوم ہر فرد کی قلبی حالت کو درست کرنے اور عبادت کا سچا جذبہ پیدا کرنے کی قوت موجود ہے او رجن ظاہری ہیئتوں کا اختیا رکرنا نماز میں لازمی قرار دیا گیا ہے ان سے نماز کی عظمت میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ اان کے ذریعہ سے مکمل ہوتی ہے اور دوسری عبادت پر اسے فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
ان ظاہری افعال کے علاوہ اسلامی نماز اللہ تاعلیٰٖ کی تسبیح تحمید اور تعظیم کے ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو سنگدل سے سنگدل انسان کے دل کو بھی نرم کر دیتی ہے اور اس میں ایسی دعائیں رکھی گئی ہیں جو انسانی فکر کو بہت بلند کر دیتی ہیں اور اس کے مقاصد کو اونصا کر دیتی ہیں اور اس کے جذبات کو نیکی او ر تقویٰ کے لئے اُبھار دیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ بھڑکا دیتی ہیں اور روحانی حصہ نماز کا وہی ہیں او ران کا دوسری اقوام کی عبادات سے اگر مقابلہ کیا جائے تو دونو ںمیں وہی نسبت معلوم ہوتا ہے جیسے سورج کے مقابلہ پر مٹی کا ایک دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اسلام نے عبادت کو تمام ظاہری دلکشیوں سے خالی رکھا ہے۔ نہ اس وقت گانا ہوتا ہے نہ باجا ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر دوسری اقوام کی اجتماعی عبادتوں میں ہوتا ہے بلکہ فقط سنجیدگی سے اللہ کے بندے اس کے حضور میں اپنی عقیدت کے پھول پیش کرتے ہیں اور اس کی محبت کی بھیک مانگتے ہیں اور باوجود اس کے کہ نماز ہفتہ میں ایک وقت ادا نہیں کی جاتی جیسا کہ اکثر مذاہب میں ہے بلکہ دن میں کم سے کم پانچ بار پڑھی جاتی ہے مگر پھر بھی اس بے دینی کے زمانہ میں بھی اس قدر مسلمان پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے ہیں کہ دوسرے تمام مذاہب کے افراد ملا کر ہفتہ میں ایک دفعہ کی عبادت بھی اس تعداد میں ادا نہیں کرتے یہ نماز کی روحانی کشش کا ایک بین ثبوت ہے اور مشاہدہ اس پر گواہ ہے۔
دوسری عبادت گاہوں میں باجے بجتے ہیں گانے گائے جاتے ہیں آرام کے لئے کرسیاں اور صوفے مہیا کئے جاتے ہیںاور صرف ہفتہ میں ایک بار بلایا جاتا ہے لیکن لوگ ہیں کہ پھر بھی ان سے دور بھاگتے ہیں لیکن یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے مخاطب سخت زمین پر سجدہ کرنے کے لئے پانچ وقت مساجد میں شوق سے جمع ہوتے ہیں اور بغیر کسی ظاہری دلکشی کے اور بغیر کسی مادی آرام کے کے سامان کے موجود ہونے کے وہ لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں کہ دُنیا کی سب نعمتیں اس کے آگے مات ہوتی ہیں اس مشاہدہ کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلامی عبادت صرف چند ظاہری رسوم کا مجموعہ ہے اور اس میں روحانیت کی نسبت جسمانی ہیئتوں کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے علم النفس اس پر شاہد ہے اور تجربہ بتا رہا ہے کہ اسلامی عبادت کی ظاہری شکل صرف ایک برتن کی حیثیت رکھتی ہے ورنہ اس کا مغز تو وہ پر معارف مضامین ہیں جو اس میں دہرائے جاتے ہیں اور وہ پر شوکت دعائیں اور وہ پر سوز التجائیں ہیں جو اس میںکی جاتی ہیں۔
بعض لوگ اعتراض کریت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کا حکم دینے سے کیا فائدہ۔ کیا وہ بندوں کی عبادت کا محتاج ہے تعظیم اور تکریم سے تو نادان انسان خوش ہوا کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی ذات کو تو اس سے ارفع ہونا چاہیئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کا فائدہ یہ نہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی شان بڑھتی ہے بلکہ عباد ت کی غرض اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایسا اتصال پیدا کرنا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر اخذ کر لے اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ صرف فکر انسان کے اندر وہ جذبہ نہیں پیدا کر سکتا جس سے وہ خدا تعالیٰ کی ذات میں اپنے آپ کو محو کرنے کی کوشش کرے ایسا جذبہ تو محبت کام سے ہی پیدا ہو سکتا ہے او رمحبت کامل محسن ہستی کے احسانوں کے کامل انکشاف سے پیدا ہوتی ہے اور نماز اس غرض کو پورا کرتی ہے کیونکہ نماز میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی شان کو سامنے لانے کے سامان مہیا کئے جاتے ہیں اگر کہو کہ جو انسان خدا تعالیٰ کی محبت پیداکرنا چاہے گا وہ خود ہی اپنے لئے اس کا موقع نکال لے گا اس کے لئے پانچ وقت کی نماز مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض قلت تدبر سے پیدا ہوا ہے انسانی طبیعت اس قسم کی ہے کہ اگر باقاعدگی سے اسے اس کے مقصد کی طرف توجہ نہ دلائی جائے تو وہ سستی کرنے لگتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے کمزور اور قوی سب کو اس اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لئے نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ کمزور بھی قوی کے ساتھ مل کر ان مواقع کو پاتے رہیں جو ان کے دلوں کے اندر صفائی پیدا کریں اور قومی ایمان والوں کے دلوں سے نکلنے والی مخفی تاثیرات کو اپنے اندر جذب کر کے صفائی قلب پیدا کر سکیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پانچ وقت کی نماز کا کیوں حکم دیا گیا ہے حالانکہ اس زمانہ میں مشاغل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ انتا وقت نمازوں کے لئے نکالنا مشکل ہے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر نماز کی غرض محبت الٰہی کی آگ بھڑکا کر اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے سہولت بہم پہنچانا ہے تو جس زمانہ میں مشاغل بڑھ جائیں اس زمانہ میں نماز کی ضرورت بڑھ جاتی ہے نہ کم ہوت جاتی ہے ظاہر ہے کہ جب مقصد کو بھلا دینے کے سامان کم ہوں گے اس وقت بار بار مقصد کی طرف توجہ دلانے کی اس قدر ضرورت نہ ہو گی جس قدر کہ اس وقت جب مقصد کو بھلا دینے کے سامان یادہ ہوں پس اگر اس زمانہ میں دنیوی مشاغل بڑھ گئے ہیں تو نماز کی ضرورت بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر نماز صرف ایک اظہار عقیدہ کا ذریعہ ہوتا تب یہ اعتراض کچھ وزن بھی رکھتا مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے نماز کی غرض صرف اقرار عبودیت نہیں بلکہ اس کی غرض تو انسانی نفس میں وہ استعداد پیدا کرنا ہے جس کی مدد سے وہ مادی دُنیا سے اُڑ کر روحانی عالم میں پہنچ سکے اور اس کا دماغ جسمانی خواہشات میں ہی الجھ کر نہ رہ جائے بلکہ اعلیٰ اخلاق کو حاصل کرے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت ع ۵) یعنی نماز صرف عبودیت کا اقرار نہیں بلکہ قلب انسانی کو جلا دینے والی شے ہے اور اس کی مدد سے انسان بدیو ںاور بد کرواریوں سے بچتا ہے اور اس کا وجودبنی نوع انسان کے لئے مفید بنتاہے اور وہ ملت و قوم کا ایک فائدہ بخش جزو ہو جاتا پس جو عمل کہ یہ خوبیاں رکھتا ہو مادی اشغال کی کثرت کے زمانہ میں اس کی ضرورت کم نہیں ہوتی بلکہ بہت بڑھ جاتی ہے اور حق تو یہ ہے کہ اس زمانہ میں بدامنی اور شورش اور نفسانفسی اور قوموں کی قوموں پر چڑھائی کا اصل سبب یہی ہے کہ لوگ سچی عبادت کا طریق لوگوں میں رائج ہوتا تو اس دُنیا کو پیدا کرنے والے مہربان آقا سے اتصال کی وجہ سے بغض اور نفرت کی جگہ محبت اور ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا۔
وَمِمَّا رَزَقْہٰمُ یُنْفِقُوْنَ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ رَزَقَ کے معنے دینے کے ہیں نہ کہ کھانے دینے کے رَزَقَہٗ کے یہ معنے نہیں کہ اسے کھانا کھلایا۔ بلکہ یہ ہیں کہ اسے کچھ دیا حواہ وہ کوئی ہی چیز کیوں نہ ہو عربی زبان میں دینے کے لئے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں رزق بھی اور ھبہ بھی اور ایتاء بھی او ربھی کئی الفاظ ہیں لیکن قرآن کریم میں یہی سات لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں ایتائِ تو صرف دینے کے معنے کسی کے پاس آنے کے ہوتے ہیں اور ایتاء کے معنے کسی کے پاس لانے کے ہوتے ہیں جس سے آگے دینے کے معنے ہو گئے کیونکہ کسی کے پاس کوئی چیز لانے سے مُراد غالب طور پر اسے وہ چیز دینا ہوتا ہے۔ غرض یہ لفظ محض دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہ چیز بڑی ہو یا چھوٹی اچھی ہو یا بُری اور قرآن کریم میں متعدد بار ان معنو ںمیں استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ عطاء ہے یہ لفظ آئی ہے زیادہ اہم مفہوم بیان کرتا ہے اور معمولی دینے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ بالعموم ایسی چیز کے دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جسے اس چیز کا حاصل کرنے والا ایک نعمت خیال کرتا ہو اور اسے شوق سے لے اس لفظ کو اسی موقعہ پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ چیز جو دی جائے اس کے لئے جسے دی جائے مفید اور کار آمد ہو چنانچہ عطاء کے معنی خدمت کے بھی ہوتے ہیں اور تعاطیٰ کے معنی ایڑیاں اُٹھا کر اور ہاتھ بلند کر کے کسی چیز کے لینے کے ہوتے ہیں من احسان اور انعام زیادہ تر حسن سلوک کے معنوں پر دلالت کرتے ہیں اور لینے والے کی کسی خاص حالت کو ظاہر کرنے کی بجائے دینے والے کے نیک جذبات پر دلالت کرتے ہیں۔ وطب کے معنوں میں اس امر پر زور ہے کہ دینے والے نے جو کچھ دیا ہے اس کے بدلہ میں کسی عوض یا بدلہ کی امید نہیں رکھی۔ رزق کا لفظ جو آیت زیر بحث میں استعمال ہوا ہے اس کے معنے بھی دینے کے ہیں لیکن اس کے معنوں میں یہ اشادہ پایا جاتا ہے کہ جو چیز دی گئی ہے اس نے لینے والے کی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ گویا علاوہ دینے کے معنوں کے اس میں پانے والے کی ضرورت کی طرف بھی اور اس کے پوار ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے اور چونکہ انسانی ضرورت بار بار پیدا ہوتی ہے رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو بار بار ضرورت کے مطابق نازل ہو چناچہ مفردات راغب میں لکھا ہے کہ الرِّزْقُ یُقَالُ لِلْعَطائِ الْجَارِی رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو بار بار نازل ہوتی رہے وَیُفَالُ لِلنَّصِیْبِ اور حصہ کو بھی کہتے ہیں یہ حصہ کے معنے بھی اسی وجہ سے پیدا ہوئے کہ رزق در حقیقت قدرِ کفایت کا نام ہے اور حصہ بھی اسی کا نام ہے کہ جس جس قدر کسی کو ضرور ت ہو اس کے مطابق اسے چیز مل جائے قرآن کریم میں آتا ہے وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ یعنی ہر جنس کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیئے ہیں۔
محض اردو دان طبقہ میں یہ طبقہ میں یہ غلط خیال رائج ہے کہ رزق کے معنی صرف کھانے پینے کی چیزوں کے ہیں حالانکہ اصل میں رزق کے معنے بقدر ضرورت سامان مہیا کر دینے کے ہیں بیشک انہی معنوں سے غذا کے معنے بھی پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ وہ بھی انسان کا ضروری حصہ ہیں مگر وہ اصل معنی نہیں ہیں بلکہ بعد میں ضمناً پیدا ہو گئے ہیں پس وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْقِقُوْنَ کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ بھی تم کو ہم نے دیا ہو خواہ علم ہو عزت ہو عقل ہو مال ہو دولت ہو اس میں سے ایک حصہ تم کو خرچ کرنا چاہیئے پس اس جملہ کے یہ معنے نہیں کہ جو کچھ تم کو کھانے پینے کی اشیاء ملی ہیں ان میں سے کچھ غریبو ںکو بھی کھلائو کیونکہ نہ تو اس جملہ میں غریبوں کا ذکر ہے نہ اس چیز کی تعیین ہے جسے خرچ کرنا ہے اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ جن اشیاء کو خدا تعالیٰ نے بغیر حد بندی کے چھوڑ دیا ہے ہم ان کے لئے اپنے پاس سے حد بندی مقرر کریں۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں رف اس قدر فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے تمہاری ضرورتوں کے مطابق دیا ہے اسے خرچ کرو یہ ضرورت کے مطابق ملنے والی چیز علم بھی ہو سکتا ہے عقل بھی جرأت بھی غیرت بھی وفا بھی ہاتھ پائوں کی خدمت بھی آنکھ ناک کی خدمت میں روپیہ پیسہ کی خدمت بھی۔ غرض کوئی چیز جس کی نسبت کہا جا سکے کہ خدا تعالیٰ نے دی ہے اور کسی ضرورت کے پورا کرنے کے لئے دی ہے اس کے خرچ کرنے کاحکم ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ روپیہ تو دوسروں کو امداد کے طو رپر دیتا ہو لیکن مثلاً کھانا نہ دیتا ہو لیکن مکان نہ دیتا ہو یا مکان تود یتا ہو مگر اپنے ہاتھوں سے خدمت نہ کرتا ہو یا ہاتھوں سے خدمت تو کرتا ہو مگر اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچاتا ہو تو وہ اس آیت پر پوری طرح عامل نہ سمجھا جائے گا اور اسی طرح اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہی اس آیت پر عامل نہیں جو غریبوں کو روپیہ دیتا ہے بلکہ وہ بھی عامل ہے جو لوگو ںکو علم پڑھاتا ہے اور وہ بھی عامل ہّے جو مثلاً بیوائوں یتیموں کے کام کر دیتا ہے اور وہ سپاہی بھی عامل ہے جو میدانِ جنگ میں ملک کی خاطر جان دینے کی نیت سے جاتا ہے اور وہ موجد بھی عامل ہے اور وہ موجد بھی عامل ہے جو رات دن کی محنت سے دُنیا کے فائدہ کے لئے کوئی ایجاد کرتا ہے۔
اس آیت پر غور کرنے والے لوگ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ہر طاقت اور ان کے قبضہ ہر سامان ایک حد تک دوسروں کے کام آئے ان فقہا نے اسلام کی ایک بڑی صداقت کو پا لیا جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عورت کا وہ زیور جو پہنا جائے اور کبھی کبھی دوسری غریب عورتوں کو پہننے کے لئے دیا جائے اس پر زکوٰۃ نہیں یہ ایک نہاتی سچی بات ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کو پاک کرنے کے لئے ہے او رجو مال خرچ ہو رہا ہو وہ جاری پانی کی طرح ہے اور کوئی چیز اسے گندہ نہیں کر سکتی۔ جو مال آج ایک فائدہ دے رہا ہے کل دوسرے کو وہ بہتے چشمے کی طرح ہے جس کا پانی اس وقت یہاں ہوتا ہے تو دوسرے منٹ آگے اسی لئے اسلام نے زمینداری تجارت وغیرہ سے منع نہیں کیا لیکن روپیہ یا سونا چاندی جمع کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ زمینداری تجارت وغیرہ سے زمیندار یا تاجر کے علاوہ دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا سرمایہ بھی ایک طرح خرچ ہو رہا ہوتا ہے مگر جو روپیہ جمع پڑا رہے وہ چونکہ دوسروں کے کام نہیں آتا اسے گناہ کا موجب قرار دیا اور یہاں تک فرما دیا کہ اس مال کو گرم کر کے اُن کے جمع کرنے والوں کے ہاتھوں پر داغ لگائے جائینگے (التوبہ آیت ۳۵)
دوسری شق خرچ کرنے کے مقام کی ہے اس آیت میں یہ کوئی ذکر نہیں کہ جو چیز خرچ کی جائے وہ کس پر خرچ کی جائے اس آیت میں کوئی لفظ غریب یا مسکین کا نہیں بلکہ محض یہ ہے کہ وہ اس عطیہ کو جو ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دیا گیا ہے خرچ کرتے ہیں۔
اس آیت میں غریبوں کا تو کیا ذکر ہے یہ بھی کوئی حد بندی نہیں کہ غیروں کو دیتے ہیں نہ یہ کہ اپنے عزیزوں کو دیتے ہیں اور نہ یہ کہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں پس جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے وہ شخص ہی اس آیت پر عمل نہیںکرتا جو اپنے مال میں سے کچھ غریبوں کو دیتا ہو بلکہ اس آیت کے مفہوم کے مطابق وہ باپ جو اپنی اولاد پر خرچ کرتا ہے اور وہ ماں جو اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے او روہ خاوند جو اپنی بیوی کو ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور وہ اولاد جو اپنے ماں باپ کا خیال رکھتا ہے سب ہی اس آیت کے احکام میں سے بعض احکام کو پورا کرتے ہیں کیونکہ اس آیت کے مفہوم میں ان سب لوگوں پر خرچ کرنا شامل ہے بلکہ اس آیت کے مفہوم میں وہ خرچ بھی شامل ہے جو ایک شخص خود اپنی ذات پر کرتا ہے۔ وہ شخص جو اپنے نفس کو اس کی ضرورت کے مطابق کھانا کھلاتا ہے اس آیت کے مفہوم کے ایک حصہ کو پورا کرنے والا ہے وہ شخص جو اپنے جسم کے لئے ضرورت کے مطابق کپڑا بناتا ہے اس آیت کے مفہوم کو پورا کرنے والا ہے۔
ہر وہ شحص جو اپنے نفس کے بارہ میں بحل سے کام لیتا ہے اور ضِرورت اور صحت کے مطابق کھانا نہیں کھاتا وہ اس حکم کو توڑنے والا ہے خواہ وہ دوسروں پر کس قدر ہی کیوں نہ خرچ کرے کیونکہ یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ غریبوں پر خرچ کرو بلکہ یہ آیت کرنے کے مقام کو بلا تعیین چھوڑکر خود انسان کے نفس کو بھی اس میں شامل کرتی ہے اور اس کی بیوی کو بھی اور اس کے بچے کو بھی۔ اور اس کے دوستوں کو بھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے اس آیت کے اس مفہوم کی خوب تشریح ہوتی ہے آپؐ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص کی شکایت کی گئی جو ہر روز روزہ رکھتا تھا رات بھر عبادت کرتا تھا اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے غافل تھا اس پر آپؐ نے فرمایا اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَ لِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِاَ ھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا فَاعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ یعنی تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی پر حق ہے اور تیری بیوی اور بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے پس ہر حق والے کو اس کا حق دے او رکسی کو محروم نہ کر۔ (ترمذی جلد دوم ابواب الزھد)
اس آیت نے ان تمام اقسام رہبانیت کو جن میں گندہ رہنے بھوکا رہنے اپنے عزیز رشتہ داروں کو حقوق سے غافل رہنے کا نام نیکی قرار دیا گیا ہے رد کر دیا ہے کیونکہ اسلام کے نزدیک متقی وہ ہے جو ان سب چیزوں کو خرچ کرے جو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں اور اس کی عطاء اس کے نفس کے لئے بھی ہو اور اس کے عزیزوں کے لئے بھی اور اس کے دوستوں کیلئے بھی ہو اور اسکے ہمسائیوں کے لئے بھی ہو اور غریبوں کے لئے بھی ہو اور امیروں کے لئے بھی ہو اور جان پہچان لوگوں کے لئے بھی ہو اور اجنبیوں کے لئے بھی ہو اور ہم وطنو ںکیلئے بھی ہو اور دُور سے آئے ہوئے مسافروں کے لئے بھی ہو اور انسانوں کے لئے بھی ہو اور حیوانوں کے لئے بھی ہو کیونکہ وہ حکم دیتا ہے کہ ہر نعمت سے خرچ کرو اور ہر ضروری مقام پر خرچ کرو۔
اس آیت سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ خدا کے دیئے ہوئے میں سے کچھ حصہ خرچ کرنے کا حکم ہے نہ یہ کہ سب ہی خرچ کر دے قرآن کریم کی دوسری آیات اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ اس طرح اپنے مال کو خرچ کرنا کہ اس کے پاس اپنے گزارہ کا سامان ہی ختم ہو جائے ناجائز ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْ لَۃً اِلیٰ عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُورًا (بنی اسرائیل ع ۳)یعنی نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن سے باندھ دے کہ خدا کی نعمتوں کا خرچ بالکل روک دے اور نہ ہاتھ ایسا کھول کہ سب مال ضائع ہو جائے اور لوگ تجھ کو ملامت کریں اور تو آئندہ مال کمانے کے سامانوں سے محروم رہ جائے مَحْسُوْرا سے کہتے ہیں جس کی طاقت ضائع ہو جائے اور اس کی کمزوری ظاہر ہو جائے اور اس آیت میں اس شخص سے مراد ہے جو آئندہ کی ترقی کے سامانوں سے محروم ہو جائے۔
اس جگہ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ تمام مال کا خرچ تو بُرا کہلا سکتا ہے مگر اس آیت میں تو علم اور فہم وغیرہ کے اخراجات کو بھی شامل کیا گیا ہے ان چیزوں میں سے کچھٖ خرچ کرنے کے کیا معنے ہیں کیا انسان اپنا سارا علم لوگوں کو نہ سکھائے یا اپنی عقل سے پوری طرح لوگو ںکو فائدہ نہ پہنچائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ علم اور فہم اور عقل خرچ کرنے سے بڑھتے ہیں پس ان میں سے کچھ خرچ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اس طرح علم مے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچائے یا فہم سے یا عقل سے کہ انکے بڑھنے کا منبع خراب ہو جائے مثلاً یہ ہلاک ہو جائے یا اس کی صحت ایسی طرح بگڑ جائے کہ اس کا علم یا فہم یا عقل کام دینے سے رُک جائیں مثلاً دماغ خراب ہو جائے۔ غرض علم اور فہم اور عقل کا بھی اسی قدر استعمال ہونا چاہیئے کہ ان کا چشمہ نہ سوکھ جائے کیونکہ جو شخص اپنے علم اور عقل سے لوگوں کو اس طرح فائدہ پہنچاتا ہے یا اپنے آپ کو اس طرح فائدہ پہنچاتا ہے کہ ان کے منبع میں خرابی واقع ہو جاتی ہے وہ اس آیت کے حکم کے خلاف عمل کرتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ کیا سارا مال حدا کی راہ میں خرچ کرنے والا گنہگار ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح علم اور فہم اور عقل کا منبع ہوتا ہے اور وہ اس کا راس المال ہوتا ہے اسی طرح مال کا بھی ایک منبع ہوتا ہے پس سارا مال خرچ کرنے سے یہی مراد ہو گی کہ وہ اس منبع تک کو خرچ نہ کر دے مثلاً ایک شخص کا رائس المال اگر اس کی قوت بازو اور اس کی عقل یا اس کا فن ہے تو ہ اگر اپنا وہ مال جو روپیہ کی صورت میں اس کے پاس ہے سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اس کا رائس المال موجود ہے وہ اس سے اور مال کما لے گا لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ اس کا رائس المال اس کی دماغی قوت یا جسمانی قوت نہیں بلکہ اسے اپنی روزی کمانے کے لئے کسی قدر مال کی ضرورت ہے تو اس کے لئے اپنا سارا مال خرچ کر دنیا جائز نہ ہو گا حضرت ابوبکرؓ تجارتی کامو ںمیں بہت ہوشیار تھے وہ اپنی عقل سے پھر مال پیدا کر لینے کا ملکہ رکھتے تھے مکہ سے نکلتے ہوئے ان کا سب مال قریباً ضائع ہو گیا لیکن مدینہ میں آ کر انہوں نے نے پھر اور مال کما لیا ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص چندہ کی تحریک کی آپؓ نے اپنے گھر کا سب اثاثہ چندہ میں دے دیا اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ابوبکرؓ اپنے گھر میں کیاچھوڑا ہے تو انہوں نے جواب دیا حضور اللہ اور اس کے رسول کا نام چھوڑا ہے (ترمذی جلد دوم ابواب المناقب مناقب ابی بکر الصدیقؓ) ایسے شخص کے لئے اپنا سارا مال دے دیناکوئی گنہ نہیں کیونکہ اس کا رائس المال اس کا دماغ ہے چنانچہ اس کے بعد بغیر اس کے کہ حضرت ابوبکرؓ لوگوں سے سوال کرتے آپ نے پھر اور مال کما لیا اور اپنا گزارہ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کرتے رہے کسی کے دست نگر نہ ہوئے پس سارے مال کی تعریف ہر شخص کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہو گی پیشہ ور کے لحاظ سے اور تاجر کے لحاظ سے اور اور اس تاجر کے لحاظ سے او رجو تجارت صرف روپیہ کہ زور سے نہیں کرتا بلکہ اپنے وسیع تجارتی علم اور تجربہ کے زور سے کرتا ہے او رمزید سرمایہ پیدا کر لینا اس کے لئے مشکل نہیں ہوتا بلکہ دوسرے لوگ اسے حود اپنا سرمایہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ اس کو سرمایہ دے کر خود اپنے مال کو بڑھائیں گے۔
مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ انسان کو حلال اشیاء خرچ کرنی چاہئیں یہ نیکی نہیں کہ حرام مال یا حرام اشیاء خرچ کرے بعض لوگ رشوتیں لے کر اور بعض ڈاکے ڈال کر مال جمع کرتے ہیں اور غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ نیکی کرتے ہیںحالانکہ بدی سے بدی پیدا ہو سکتی ہے نیکی نہیں ایسے لوگ بدیوں کی بنیاد رکھتے ہیں ان کا صر ف اس قدر کام تھا کہ جو خدا تعالیٰ نے ان کو دیا تھا اس میں سے خرچ کرتے اگر کوئی شخص دوسرے کے مال سے جس پر اس کا حق نہیں دوسرے کو کچھ دے دیتا ہے وہ اس حکم کا پورا کرنے والا نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اس رزق میں سے خرچ نہیںکرتا جو خدا تعالیٰ نے اسے دیا تھا بلکہ اس میں سے خرچ کرتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اسے نہیں دیا تھا اور یہ آیت کہتی ہے کہ جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے حرچ کرتے ہیں۔
اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مال خرچ کرنے پر گھبرانا عقل کے خلاف ہے کیونکہ یہاں خدا تعالیٰ کی نعمت کا نام رزق رکھا گیا ہے اور رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو جاری ہو اور جو ایک ہی دفعہ ختم نہ ہو جائے پس رزق کا لفظ استعمال کر کے اس جگہ یہ اشارہ کیا گیاہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق جو خرچ کرے گا اس کا مال بڑھے گا کم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر بار بار انعام کر لے گا۔ علم اور فہم اور عقل اور جسمانی قوتوں کے خرچ کرنے سے ان اشیاء کا بڑھنا تو ظاہرہی ہے جو شخص اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے اس کا علم ہمیشہ بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا جو لوگ درس و تدریس میں مشغول رہتے ہیں ان کا علم ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اسی طرح جو لوگ اپنی عقل اور اپنے فہم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان کی عقل اور ان کا فہم بڑھتا ہے گھٹتا نہیں اسی طرح جسمانی قوتوں کو صحیح طرح خرچ کرنے والے کی قوت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں اسی طرح مال خرچ کرنے والے کا مال بھی بڑھتا ہے مثلاً یہ ظاہر امر ہے کہ جو شخص اپنے مال کا کچھ حصہ اپنے نفس پر خرچ کرے گا اس کے جسم میں زیادہ کما سکے گا اسی طرح جو شخص صحیح طو رپر اپنی بیوی اور اپنی اولاد پر خرچ کرے گا اس کے ہاں کمانے والوں کی تعداد بڑھے گی جو اپنے ہمسائیوں پر اور دوستوں پر مال حرچ کرے گا اس کے معاون اور مددگار بڑہیں گے جو غربار پر خرچ کرے گا اس کی قوم کی مالی حالت ترقی کرے گی اور اس کا رد عمل خود اس کے مال کے بڑھنے کی صورت میں ہو گا غرض مال کا صحیح خرچ کبھی مال کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اسے بڑھاتا ہے پس علاوہ اس کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اس شحص پر روحانی طو رپر نازل ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے طبعی قوانین بھی اسی طرح بنائے ہیں کہ اُن کی مدد سے بھی ایسے حالات میں مال بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا اور صرف کم عقل لوگ اس قسم کے خرچ سے گھبراتے ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح وہ اپنے مالوں کو نقصان پہنچاتے ہیں محفوظ نہیں کرتے۔
شائد کوئی اعتراض کرے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی کیا ضرورت پیش آئی کہ بندوں کی وساطت سے دوسروں پر خرچ کر وائے کیوں نہ اس نے سب انسانوں کو براہِ راست ان کا حصہ دے دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محض طمت تدبر کا نتیجہ ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ بعض لوگ خرچ کرنے والے ہیں اور بعض دوسروں کی امداد پر گزارہ کرتے ہیں کیونکہ در حقیقت سب ہی لوگ ایک دوسرے پر خرچ کرنے والے ہیں امراء ظاہر میں غربا پر مال خرچ کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ غرباء بھی امراء پر خرچ کر رہے ہوتے ہیں ایک مالدار جو ایک گائوں میں رہتا ہے اس کے مال کی حفاظت ان سینکڑوں غرباء کی ہمسائیگی سے ہو رہی ہوتی ہے جو اس کے ساتھ گائوں میں رہتے ہیں ورنہ ڈاکو اور چور اس کو لوٹ لیں اگر اس کے گھر پر چور اور ڈاکو حملہ نہیں کرتے تو اس کا موجب صرف اس کے ملازم نہیں کرتے بلکہ اسی بستی میں رہنے والے سب لوگ ہوتے ہیں جن کے خوف سے ڈاکو اس کے گھر پر حملہ نہیں کرتے ایک امیر اپنی امارت غرباء کی مدد کے بغیر قائم ہی نہیں رکھ سکتا کیونکہ دولت مزدور کی مدد سے آتی ہے مزدور نہ ہو تو دولت کہاں سے آئے پس امیر ہی غریب کی مدد نہیں کرتا بلکہ غریب بھی امیر کی مدد کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے تعاون اور محبت کے قیام اور زیادتی کے لئے دنیا میں ایسا انتظام کیا ہے کہ ہر شخص کے مال میں کچھ دوسروں کا حصہ بھی رکھ دیا ہے تاباہمی ہمدردی اور تعاون سے محبت بڑھے اور تمدن ترقی کرے اگر ہر اک آزاد ہوتا تو مدنیت کبھی ترقی نہ کرتی اور وہ علوم جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتے ہیں کبھی پیدا نہ ہوتے پس رزق کا باہم ملا دینا ایک بڑی حکمت پر مبنی ہے۔
اس جگہ میں مالی خرچ کے متعلق کسی قدر تفصیل سے قرآنی تعلیم کو بیان کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قرآن کریم نے جو اس بارہ میں احکام دیئے ہیں اجمالی طور پر ذہن نشین ہو جائیں۔
قرآن کریم میں مالی خرچ کئی قسم کا بیان ہوا ہے۔ (۱) زکوٰۃ جو فرض ہے (۲) صدقہ جو نفلی ہے اور انسان کے اندرونی تقوی کے فیصلہ پر اسے چھوڑ دیا گیا ہے یہ آگے دو قسم کا ہے (الف) ان کے لئے صدقہ جو اپنی ضرورتوں کو پیش کر کے مطالبہ کر لیتے ہیں (باء) ان کے لئے صدقہ جو اپنی ضرورتوں کو پیش نہیں کرتے یہ آگے دو قسم کا ہے (۱) جو اپنی ضرورتوںکو پیش نہیں کرتے (۲) جو اپنی ضرورتوں کو پیش نہیں کر سکتے (۳) وہ خرچ جو انسان قومی ضروریات کے لئے کرتا ہے (۴) شکرانہ (۵) فدیہ (۶) کفارہ (۷) تعاونی خرچ جو مدنی نظام کی ترقی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے (۸) حق الخدمت (۹) ادا احسان (۱۰) تحفہ یہ دس قسم کے حرچ ہیں جو قرآن کریم سے ثابت ہیں اور جن خرچوں میں سے کسی ایک کا ترک بھی جب موقعہ اس کا مقتضی ہو اس آیت پر عمل کرنے سے انسان کو محروم کر دیتا ہے اور اس کے تقویٰ میں کمزوری پیدا کر دیتا ہے دُنیا میں بہت سے لوگ اس تقسیم کو مدنظر نہ رکھ کر اعلیٰ ثوابوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
(۱) زکوٰۃ وہ خرچ ہے جو قرآن کریم میں فرض کیا گیا ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ تمام انسانوں کی دولت دوسرے لوگوں کی مدد سے کمائی جاتی ہے اور اس کمائی میں بہت دفعہ دوسروں کا حق شامل ہوتا ہے جو باوجود انفرادی طور پر دوسروں کا حق ادا کر دینے کے پھر بھی دولتمند کے مال میں باقی رہ جاتا ہے مثلاً ایک مالدار آدمی ایک کان سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ کان کے مزدوروں کو ان کی مزدوری پوری طرح ادا بھی کر دے تو بھی وہ جو کچھ ان کو ادا کرتا ہے وہ ان کی مزدوری ہے مگر قرآنی تعلیم کے مطابق وہ لوگ بھی اس کان میں حصہ دار تھے کیونکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ دُنیا کے سب خزانے تمام بنی نوع انسان کے لئے پیدا کئے گئے ہیں نہ کہ کسی خاص شخص کے لئے پس مزدوری ادا کر دینے کے بعد بھی حق ملکیت جو مزدوروں کو حصال تھا ادا نہیں ہوتا اس کی ادائیگی کی یہ صورت ہو سکتی تھی کہ ان مزدوروں کو کچھ زائد رقم بھی دی جائے مگر اس سے بھی وہ حق ادا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس طرح ان چند مزدوروں کو تو ان کا حق ادا ہو جاتا مگر باقی دنیا بھی تو اس میں حصہ دار تھی ان کا حق ادا ہونے سے رہ جاتا۔ پس اسلام نے یہ حکم دیا کہ اس قسم کی کمائی میں سے کچھ حصہ حکومت کو ادا کیا جائے تاکہ وہ اسے تمام لوگوں پر مشترک طو رپر خرچ کرے۔
اسی طرح زمیندار جو زمین میں سے اپنی روزی پیدا کرتا ہے گو اپنی محنت کا پھل کھاتا ہے مگر وہ اس زمین سے بھی تو فائدہ اٹھاتا ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی تھی پس اس کی آمد میں سے بھی ایک حصہ حکومت کو قرآن کریم دلواتا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے اسے خرچ کیا جائے اسی طرح تجارت کرتنے والا بظاہر اپنے مال سے تجار تکرتا ہے لیکن اس کی تجارت کا مدار ملکی امن پر ہے اور اس امن کے قیام میں ملک کے ہر شخص کا حصہ ہے پس اس حصہ کو دلانے کے لئے اس کے مال پر بھی اسلام نے زکوٰۃ مقرر کی ہے تاکہ حکومت کے ذریعہ سے باقی لوگوں کا حق ادا ہو جائے اسی طرح جو شخص مال جمع کرتا ہے اس کے مال جمع کرنے کی وجہ سے دوسرے لوگ اس مال سے نفع حالص کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں جو اس مال میں ازل سے شریک مقرر کئے گئے تھے پس اس مال پر بھی شریعت نے زکوٰۃ مقر ر کی ہے گو جس وقت وہ مال کمایا گیا تھا اس پر زکوٰۃ دی گئی تھی لیکن پہلی زکوٰۃ تو اس حق کے بدلہ میں تھی جو اس مال میں دوسروں کو حاصل تھا اور دوسری زکوٰۃ اس وجہ سے ہے کہ اس مال کو بند رکھنے کی وجہ سے وہ اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیئے گئے۔
زکوٰۃ کے یہ تمام احکام قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں اور بعض کی تشریح بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے ہوتی ہے وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر تفسیر میں انشاء اللہ بیان ہوں گے اس جگہ زکوٰۃ کے اس اجمالی حکم کی طرف اشارہ کرنا کافی ہے جس میں اس حکم کی حکمت کو بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خُذْ مِنْ اَمْوَا الِھِمْ صَدَقَۃً تُطَہِرُ ھُمْ وَتُزِکِّیْھِمْ بِھَا (توبہ رکوع ۱۳) یعنی تمام ان مومنوں سے جو اسلامی حکومت تلے رہتے ہیں صدقہ لے اس طرح تو ان کے دلوں کو پاک کرے گا اور ان کے مالوں کو بھی دوسرے لوگوں کے مالوں کی طونی سے صاف کر دے گا اور قومی ترقی کے سامان پیدا کرے گا صدقہ سے مُراد اس جگہ زکوٰۃ مفروضہ ہے یہ لفظ صدقہ کا علاوہ ان متد اول معنوں کے جن بھی استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک زکوٰۃ مفروضہ بھی ہے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بغیر اس قسم کی زکوٰۃ لینے کے لوگوں کے مال پاک نہیں ہو سکتے کیونکہ جب تک لوگوں کا حق ادا نہ ہو مال پاک نہیں ہو سکتا اور نہ مالدار کا تقویٰ مکمل ہو سکتا ہے یہ زکوٰۃ حکومت لیتی ہے اور ایس کی معرفت خرچ ہو سکتی ہے یا حکومت نہ ہو تو اسلامی نظام اس کے وصول کرنے اور خرچ کرنے کا حقدار ہے جیسے کہ خذ یعنی لے کے لفظ سے ظاہر ہے (۲) نفلی صدقہ جس کی بناء رحم اور شفقت پر ہے یہ کسی مقدار معین معین میں فرض نہیں بلکہ ہمسائیوں کی ضرورت اور دینے والے کی مالی حالت او راس کے دل کے تقویٰ پر اسے چھوڑا گیا ہے صدقہ کا حکم اس شکل میں اس لئے دیا گیا ہے تا ہر شخص اپنے تقویٰ اور اپنی مالی حالت کے مطابق اسے ادا کرے چونکہ اس کی حکمت تعاون باہمی کی روح کو پیدا کرنا ہے اس لئے یہ خرچ حکومت کی وساطت سے نہیں رکھا گیا بلکہ ہر فرد کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ خود اس قسم کا خرچ کرے اس کا ارشاد قرآن کریم کی اس آیت میں اجمالاً کیا گیا ہے۔ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَا لَھُمْ بِا لَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّعَلَا نِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo(برقرہ رکوع ۳۸) یعنی جو لوگ اپنے مال رات اور دن خرچ کرتے ہیں اور پوشیدہ بھی خرچ کرتے ہیں اور ظاہر بھی خرچ کرتے ہیں وہ اپنے اجر اپنے رب کے پاس پائیں گے اور انہیں نہ آئیندہ کا خوف لا حق ہو گا اور نہ سابق کوتاہیوں پر انہیںکوئی گھبراہٹ لاحق ہو گی اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں زکوٰۃ کا ذکر نہیں جو فرض ہے اور حکومت کو ادا کی جاتی ہے کیونکہ زکوٰۃ مخفی خرچ نہیں کی جا سکتی پس یہ خرچ نفلی صدقہ کا ہے جو انسان خود کرتا ہے اور حسب موقعہ کبھی مخفی کرتا ہے کبھی ظاہر مخفی اس لئے تاکہ جس کی امداد کرتا ہے لوگوں میں شرمندہ نہ ہو اور ظاہر اس لئے کہ تا ان لوگوں کو بھی صدقہ کی تحریک ہو جو اس نیکی میں ابھی کمزور ہیں ورنہ اسے اپنی ذات کے لئے کسی شہرت کی تمنا نہیںہوتی ایسے لوگوں کی نبست فرماتا ہے کہ وہ اپنے اس فعل کا بدلہ خدا سے پائیں گے۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس حرچ کے دو مواقع قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں (۱) ان افرا دپر خرچ کیا جائے جو اپنی ضرورتوں کے لئے مطالبہ کر لیتے ہیں جیسے کہ وہ غرباء جو سوال کر لیتے ہیں اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اس اسلام ان پر بھی حسب موقعہ خرچ کرنے کو پسند کرتا ہے۔ چناچنہ فرماتا ہے وَفِٓیْ اَمْوَ الِھِمْ حَقٌ لِلسَّآئِلِ (ذاریات رکوع ۱) مومنوں کے اموال میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ قرآنی محاورہ میں مسائل سے مراد وہ عادی گدا گر نہیں کہ جنہوں نے سوال کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے کیونکہ اسلام ساول کو ناپسند کرتا ہے اور ایسا گداگر اسلامی نظام کی کسی شق میں بھی انہیں آ سکتا کیونکہ قرآن کریم تو کل علی للہ پر بڑا زور دیتا ہے اور سوال کرنا تو کل کے باکل بر خلاف ہے پھر قرآن کریم انسانی زندگی کو مفید طو رپر حرچ کرنے پر زور دیتا ہے اور عادی سوالی اپنی زندگی کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال سے سختی سے منع فرمایا ہے اور حضرت عمرؓ تو اس حکم پر عمل کرانے میں اس قدر شدت سے کام لیتے تھے کہ اگر کوئی ایسا سوالی ملتا تو آپ اس کی مانگی ہوئی چیزوں کو پھینک دیتے تھے او راسے محنت مزدوری کرنے کی تلقین کرتے تھے۔
سوالی سے مُراد وہ لوگ بھی نہیں جو معذور ہو ںاور کما نہ سکیں کیونکہ ان کا بوجھ اسلام نے قوم پر تسلیم کیا ہے اور زکوٰہ بھی ان لوگوں کے اخراجات کی متحمل ہے۔
پس جب ہم اسلام کے دوسرے احکامات کو ملا کر دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک سوالی وہ ہے جو در حقیقت محنت او رمزدوری سے کام تو لیتا ہے لیکن مثلاً اس کا پیشہ ایسا ہے کہ اس سے کافی آمدن نہیں ہو سکتی یا یہ کہ اس کے عیال زیادہ ہیں ایسے اشخاص میں سے اگر کوئی اپنے دوستوں سے سوال کرے تو گو اسلام نے اسے پسند تو نہیں کیا لیکن اسے منع نہیں کیا کیونکہ پوری محنت کے بعد بھی اگر اسکی ضرورت پوری نہ ہوتی تو گو اس کا سوال کرنا معیوب ہو مگر اسے حرام یا ممنوع نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آخر بھائی بھائیو ںکے بوجھ اُٹھاتے ہیں۔
دوسرا مصرف قرآن کریم نے ایسے صدقہ کا محروم لوگوں کا گروہ بتایا ہے چنانچہ اوپر کی آیت پوری اس طرح ہے وَفِٓیْ اَمْوَ الِھِمْ حَقٌ لِلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمرِ (ذاریات ع ۱) یعنی مومنوں کے مالوں میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے اور محروم لوگوں کا بھی یعنی جو باوجود غربت کے ساول نہیں کرتے اور اس طرح ان لوگوں کی توجہ میں نہیں آتے جو گہری نگاہ سے اپنے ہمسائیوں کو دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔
ان لوگوں کا ذکر قرآن کریم کی ایک اور آیت میں ان الفاظ میں آیا ہے لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْوصرُ وْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَا ھُمْ لَایَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا (بقرہ رکوع ۳۷) یعنی اے مومنو جو مال تم خرچ کرو اس میں سے ان بے مایہ لوگوں کو بھی دیا کرو جو دین یا ملت کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور اس شغل کی وجہ سے اِدھر ادھر پھر کر اپنی کمائی میں زیادتی نہیں کر سکتے لیکن باوجود مال کی کمی کے وہ اپنے نفس کو سوال کی وفات سے بچاتے اور خاموش رہتے ہیں اور اس وجہ سے وہ لوگ جو غور کرنے کے عادی نہیں انہیں خوشحال سمجھ لیتے ہیں حالانکہ تو اگر دیکھے تو ان کو ان کے چہروںسے پہچان لے گا وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔
اس کے آخری فقرہ سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیئے کہ وہ نرمی سے مانگ لیتے ہیں کیونکہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ وہ سوال کرتے ہی نہیں پس چمٹ کر نہیں مانگتے سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنی غربت کو چھپانے کے لئے امرا ئکا سایہ بننے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اس طرح سوال مجسم ہو کر انسان لوگوں سے جو فائدہ اٹھا سکتا ہے اس سے بھی محروم رہتے ہیں ایسے لوگوں پر خرچ کرنے پر قرآن کریم نے خاص زور دیا ہے۔
محروم کے دوسرے معنے یہ بھی ہیں کہ وہ سوال کر ہی نہ سکتے ہوں سو ان معنوں کے روسے اس میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو مثلاً گونگے بہرے ہیں یا پردہ دار عورتیں ہیں یا چھوٹے بچے ہیں یا پھر جانور ہیں کہ زبان ان کو قدرت نے عطا ہی نہیں کہ ان سب پر خرچ کرنا بھی صدقہ کی اقسام میں شامل ہے۔
قرآن کریم سے ثابت ہے کہ صدقہ رد بلا کے لئے مفید ہوتا ہے او راسلام آفات اور مصائب کے وقت اس قسم کے صدقات کی تحریک متواتر کرتا ہے۔
صدقہ میں وہ تمام اخراجات شامل ہیں جو ردِّ بلا کی غرض سے او رمصیبت کے وقت میں یا مصیبتوں کو دُور رکھنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں اسی کی ایک قسم کو نذر کہتے ہیں اس میں اور عام صدقہ میں یہ فرق ہے کہ عام صدقہ تو اس خرچ کو کہتے ہیں جو ردِّ بلاء کی امید میں کیا جاتا ہے اور نذر اس صدقہ کو کہتے ہیں جس کا وعدہ اس صورت میں کیا جائے کہ اگر فلاں مشکل دُور ہو جائے یا فلاں کام ہو جائے تو یہ خرچ کروں گا یا فلاں عبادت بجا لائوں گا۔ اس کا ذکر سورۂ دھر رکوع اول میں ہے جہاں فرماتا ہے وَیُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ مومن نذر کو پورا کرتے ہیں یعنی جب کسی خیرات یا نیک عمل کا عہد کرتے ہیں صلحاء امت میں سے جو بڑے پایہ کے صلحاء گزرے ہیں ان کا خیال ہے کہ گو نذر کا پوار کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک عہد ہے جو بندہ خدا تعالیٰ سے کرتا ہے لیکن اس طرح عہد کرنے سے کہ اگر خدا تعالیٰ فلاں مصیبت کو ٹلا دے تو اس اس قدر صدقہ کرونگا یہ بہتر ہے کہ پہلے ہی صدقہ کر کے اللہ تعالیٰ پر توکل کر لے بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ سے سودا کرنے کی کوشش کرے اور یہ خیال ان کا درست اور صحیح ہے امام بخاری نے امام مالک کے واسطہ سے حضرت عائشیہؓ سے روایت کی ہے قال مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ اَنْ یَعْصِیَہٗ فَلَا یَعْصِہًٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہو تو اسے پورا کرے اور جو ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو وہ نذر کو پورا کرکے نافرمانی نہ کرے۔ (بخاری جز رابع کتاب الغذور باب النذر فی الطاقہ)
(۳) تیسری قسم خرچ کی جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے وہ اخراجات ہیں جو قومی اور ملی ضرورتوں کے مواقع پر اچھے اور نیک افراد کرتے ہیں یہ اخراجات صدقہ نہیں کہلا سکتے کیونکہ ان سے مساکین کی ضرورتیں پوری نہیں کی جاتیں بلکہ غریب و امیر ان سے متمتع ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ساری قوم ان سے فائدہ اٹھاتی ہے جیسے گھر سے خرچ کر کے جہاد کے لئے جانا یا دوسرے کسی سپاہی کے اخراجات مہیا کرنا کہ وہ خرچ اس سپاہی پر نہیں ہوتا بلکہ قوم پر ہوتا ہے کیونکہ کوئی شخص اس لئے سواری طلب نہیں کرتا کہ تامیدانِ جنگ میں جا کر جان دے یا پانچ دس دن کے لئے روٹی نہیں مانگتا کہ اتنے دنوں میں اپنی موت کا سامان کرے پس اگر سپاہی کو ایام جنگ کے لئے کھانا مہیا کر دیا جائے یا اس کے لئے سواری مہیا کر کے دی جائے تو یہ قومی خرچ ہے فرد کی امداد نہیں کیونکہ جنگ اس شخص کا ذاتی کام نہیں بلکہ ملت کے فائدہ کا کام ہے۔
اسلام نے ان اخراجات پر زور دیا ہے اور یہ حکم زکوٰۃ و صدقہ سے الگ ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَا لًاوَّجَاھِدُ وْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذَا لِکُمْ خَیْرٌ تَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (توبہ ع ۶) کہ اگر ہلکے پھلکے ہو یعنی سواری مہیا ہے یا گھر کا انتظام مکمل ہے تب بھی جہاد کے لئے گھروں سے نکلو اور اگر بوجھ ہو یعنی خود بوجھ اٹھا کر جانا پڑے سواری نہ ہو یا پیچھے گھر کا کوئی انتظام نہ ہو تب بھی جماد کے لئے گھروں سے باہر نکلو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرو یہ تمہارے لئے اگر تم جانو تو بہتر ہو گا۔
اس آیت میں جو جان و مال کے خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ضروری نہیں کہ دوسروں پر خرچ کیا جائے۔ جو شخص صرف اپنے لئے سواری مہیا کرتا ہے تاکہ جہاد میں شامل ہوسکے یا اپنے لئے تلوار خریدتا ہے تاجہاد میں شریک ہو سکے یا اپنے لئے کچھ غلہ خریدتا ہے تاجہاد کے دنوں اسے کھا کر گزارہ کر سکے وہ ہر ایک چیز اپنے لئے خریدتا ہے۔ پس یہ معروف صدقہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس کا فاودہ وہ خود اٹھاتا ہے۔ مگر چونکہ یہ خرچ جو اس نے اپنے نفس پر کیا اپنے کسی شوق کو پورا کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ دین و ملت کی خدمت کیلئے کیا اور ایسی حالت میں کیا کہ بجائے لذت کا سامان مہیا کرنے کے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا۔ یہ خرچ خدا تعالیٰ کی رضاء کے مطابق خرچ ہے اور ثوابِ عظیم کا مستحق اس شخص کو بناتا ہے۔
اسی طرح اگر جہاد کی غرض سے یا کسی قومی خدمت کیلئے جو براہ راست اس سے متعلق نہیں۔ کوئی شخص کسی بھائی کی امداد کرتا ہے تو اس کا وہ خرچ بھی صدقہ نہیں۔ کیونکہ اس خرچ سے دوسرے بھائی کی ذاتی ضرورت پوری نہیں کی گئی بلکہ اس کے بدلہ میں اس سے ایک قومی کام لیا گیا ہے۔ سو یہ تیسری قسم کا خرچ ہے جو نہ زکوٰۃ ہے نہ صدقہ۔ مگر ہے نہایت ضروری۔ اور انسان کو بہت بڑے ثواب کا مستحق بنتا ہے۔ آج کل تلوار کا جہاد تو ہے نہیں۔ پس اشاعت اسلام یا تعلیم یا نظام جماعت کی مضبوطی اور اسی قسم کے دوسرے کاموں کے لئے جو رقوم دی جاتی ہیں وہ اسی مد میں شامل ہیں۔ اور جَاھِدُرْا بِاَ مْرَا لِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ کے حکم کے پہلے نصف کے پورا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مگر دوسرا نصف اسی صورت میں پوار ہو سکتا ہے کہ مال خرچ کرنے کے علاوہ کبھی کبھی اپنے کاموں کا حرج کر کے خود بھی کچھ دن تبلیغ کے لئے دے۔ یا ملی ترقی کی غرض سے تعلیم و تربیت کے کام میں حصہ لے۔
(۴) چوتھی قسم خرچ کی جسے اسلام نے پسند کیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے وہ خرچ ہے جو بطور شکرانہ کیا جاتا ہے۔ اس میں اور صدقہ میں یہ فر قہے کہ صدقہ تو کسی مصیبت کے دور کرنے یا کسی مقصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔ مگر شکرانہ کا خرچ حصول مقصد کے بعد یا بلا کے دُور ہونے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے کُُلْوا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ (انعام ع ۱۷) یعنی جو پھل یا غلہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس میں سے کھائو۔ اور جس وقت اس پھل یا غلہ کو کاٹو اس وقت خدا تعالیٰ کا حق بھی ادا کرو۔ یا یہ کہ اس غلہ یا پھل کو کاٹ کر اپنے قبضہ میں لانے کا حق بھی ادا کرو یعنی کچھ حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بطور شکر تقسیم کرو۔ بعض لوگوں نے اس کے معنے زکوٰۃ کے کئے ہیں اور بعض نے اس حکم کو زکوٰۃ سے منسوخ قرار دیا ہے۔ مگر حق یہی ہے جیسا کہ اس آیت کے موقعہ پر لکھا جائے گا۔ کہ نہ اس جگہ زکوٰۃ کا حکم ہے او رنہ یہ حکم زکوٰۃ سے منسوخ ہے بلکہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور تمہاری محنت ٹھکانے لگے تو اس شکریہ میں کہ خدا تعالیٰ نے تم کو اس قابل بنایا اللہ تعالیٰ کے غریب بندوں کو بھی اس میں سے کچھ حصہ دو۔ اس حکم پر بھی مسلمانوں میں بہت کم عمل رہ گیا ہے۔ حالانکہ یہ خرچ ایسا طبعی خرچ ہے کہ اسے بھولنا نہیں چاہیئے۔ او رہر کامیابی پر خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ نہ کچھ بطور شکرانہ خرچ کرنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ کامیابی پر الحمد للہ کہنے کا ایک عملی نمونہ ہے۔
(۵) خرچ کی پانچویں قسم جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے فدیہ ہے۔ فدیہ کے معنے صدقہ کے بھی ہیں۔ لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جو کمی کسی نیک عمل میں رہ جائے۔ اُسے خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ مال خرچ کر کے پورا کیا جائے۔ چنانچہ سورۃ بقرہ ع ۲۴ میں حج کے احکام میں لکھا ہے کہ ایام احرام میں سر نہیں منڈانا چاہیئے۔ لیکن اگر کسی کے سر میں کوئی بیمار ہو اور سر منڈوانا پڑے تو بطور فدیہ کچھ صدقہ کرے یا روزے رکھے یا قربانی دے۔ پس فدیہ وہ خرچ ہے جو کسی عمل میں کمی رہ جانے کے خیال سے دیا جاتا ہے۔ اور گویا عبادت کی اس کمی کو اس خرچ سے پورا کیا جاتا ہے۔
(۶) خرچ کی ایک چھٹی قسم قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا نام کفارہ ہے۔ کفارہ کا لفظ و بلا کرنے والے فعل کے بھی ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور اصطلاح بھی قرآن کریم کی ہے۔ اور اس کے رُو سے کفارہ اس خرچ یا اس عبادت کا نام ہے جو کسی گناہ کا وبال دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم مںی سورۃ مائدہ کے بارہویں اور تیرہویں رکوع میں آتا ہے۔ اس میں اور فدیہ میں یہ فرق ہے کہ فدیہ تو اس صورت میں ادا کیا جاتا ہے جب کوئی فعل اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کیا جائے اور اس اجازت سے کوئی حکم جو دسری صورت میں ضروری تھا ترک کرنا پڑے۔ یا جب کوئی عمل کر تو لیا جائے مگر اس خیال سے کہ اس میں کوئی کمی نہ رہ گئی ہو کچھ صدقہ کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر کفارہ اس صور ت میں دیا جاتا ہے کہ جب کوئی گناہ صادر ہو جائے۔ یا گناہ تو صادر نہ ہو لیکن گناہ کے صدور کے قریب ہو جائے اور اس کی غرض اس گناہ کے وبال سے بچنا اور توبہ کا ایک عملی نشان قاوم کرنا ہوتی ہے (اس مضمون کو تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ آیاتِ متعلقہ کے ماتحت بیان کیا جائے گا)
اس جگہ ایک لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ کہ قرآن کریم تو کفارہ کا مفہوم یہ لیتا ہے کہ ایک تائب اپنی توبہ کا عملی ثبوت دلی ندامت اور زبانی اقرار کے علاہو کچھ مالی یا جسمانی قربانی کے ذریعہ سے دے۔ لیکن مسیحیوں کے نزدیک کفارہ کا یہ مفہوم ہے کہ ایک اعلیٰ وجود نے اپنے آپ کو گنہگار کے پیدا ہونے سے بھی پہلے قربان کر دیا۔ گویا توبہ کا اس سے کوئی تعل ہی نہیں۔ کیونکہ توبہ تو الگ رہی مسیحیوں کا کفارہ گناہ بلکہ گہنگار کے پیدا ہونے سے بھی پہلے اداکیا جا چکا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے کفارہ کو توبہ سے دُور کا تعلق بھی نہیں ہو سکتا۔
(۷) ساتویں تقسم خرچ کی قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ مدنی نظام کی ترقی کے لئے کچھ اخراجات انسان پر واجب کئے گئے ہیں۔ جیسے خاوند کا بیوی پر خرچ اور باپ کا اولاد پر خرچ۔ ان اخراجات کو بھی قرآن کریم نے ضروری اور فرض مقرر کیا ہے۔ اور اگ رکوئی ان اخراجات سے گریز کرے تو اُسے گنہگار قرار دیا گیا ہے۔ اور اگر اسلامی حکومت ہو یا اسلام نظام ہو تو اس کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ یہ اخراجات جبراً کرائے۔ اس خرچ کی تفصیلات بھی آئندہ حسب موقع بیان ہوں گی۔
(۸) آٹھویں قسم خرچ کی جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے۔ حق الخدمت ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی کا کام کرے تو اس کا مناسب اجر اُسے دیا جائے اور اس سے نیک سلوک کیا جائے۔ اس خرچ کی ایک مثال قرآن کریم کا وہ حکم ہے جو اولاد کو دُودھ پلوانے کے متعلق آتا ہے۔ اس بارے میں قرآن کریم کا حکم ہے کہ اگر اپنے کسی بچہ کو کسی دوسرے عورت سے دُودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ دودھ پلانے والی عورت کو سَلَّمْتُمْ مَا اَتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (بقرہ ع ۳۰) یعنی جو حق الخدمت حسب دستور اور ملک کے اقتصادی حالات کے مطابق اور اپنی مالی حالت کے مطابق تم اُسے دینے کا وعدہ کرو اُس کے سپرد کر دو۔ اس حکم میں بتایا گیا ہے کہ حق الخدمت کے لئے ضروری ہے کہ (۱) بلا حجت ادا کر دیا جائے او راس کے ادا کرنے کا انسان ایسا عہد کر لے کہ گویا اداکر ہی دیا ہے (۲) اس کے ادا کرنے میں معروف کو مدنظر رکھا جائے یعنی (الف) کی اقتصادی حالت کے مطابق ادا کیا جائے یعنی اس قدر کم نہ ہو کہ اس وقت کی اقتصادی حالت کے مطابق اس کے دُودھ پلانے والی کا گذارہ نہ ہو سکے (ب) پہلی حد بندی تو کم سے کم تھی اس سے زائد یہ بھی مدنظر رکھو کہ اگر تمہاری مالی حالت عام لوگوں سے اچھی ہو تو ایسا حق الخدمت اداکرو جو تمہاری مالی حالت کے بھی مطابق ہو۔ یعنی کم سے کم حق الخدمت تو وہ ہو جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق گزارہ کے لئے کافی ہو۔ لیکن اگر ہو سکے تو اس سے زیادہ دو۔
اس حکم کے ذریعہ سے قرآن کریم نے حق الخدمت کا ایک ایسا زریں اصل بتا دیا ہے کہ اگر اس کے مطابق حق الخدمت مقرر کیا جائے تو مزدو راور مالک کے جھگڑوں کا بالکل خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس مضمون کو تفصیل سے آیت مذکورہ بالا اور اس کے ہم معنے آیات کے ماتحت بیان کیا جائے گا۔
(۹) نویں قسم خرچ کی قرآن کریم سے۔ اداء احسان کی ثابت ہوتی ہے۔ جیسے مثلاً والدین کی خدمت کا حکم ہے۔ یہ سلوک نہ تو حق الحدمت کہلا سکتا ہے کیونکہ والدین خدمت نہییں کرتے بلکہ ایک طبعی جوش سے بچے کی پرورش کرتے ہیں اور بچہ ان کو اس کام پر مقرر نہیں کرتا نہ کوئی اور انسان انہیں مقرر کرتا ہے اور نہ انہیں کسی بدلہ کی متنا ہوتی ہے۔ پس والدین کا سلوک بچے سے خدمت نہیں ہے بلکہ احسان ہے۔ اور اگر بڑا ہو کر کوئی بچہ اپنے والدین کی خدمت کرتاہے تو وہ ان کا حق الخدمت ادا نہیں کرتا۔ بلکہ اُن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی والدین کی نسبت فرماتا ہے وَوَصَّیْنَا الْاِنسانَ بِوَالِدَیْہِ (لقمان ع ۲) یعنی ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ پھر اسی جگہ آگے چل کر فرماتا ہے اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَ الِدَیْکَ یعنی ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ ہمارا بھی شکر کر اور اپنے والدین کا بھی۔ شکر کے لفظ سے یہ بتایا ہے کہ والدین کے ساتھ جو سلوک کر اس خیال سے نہ کر کہ میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں بلکہ احسان تو انہو ںنے تجھ پر کیا ہے۔ تو تو جو نیک معاملہ ان سے کرے گا وہ اظہار شکراور اقرار احسان کے طور پر ہو گا۔
قرآن کریم میں بعض جگہ والدین سے سلوک کا نام احسان بھی آیا ہے۔ جیسا کہ مثلاً اسی سورۃ میں یعنی سورۃ بقررہ میں فرماتا ہی وَبِالْوَ الِدَیْنِ اِحْسَانًا (ع ۱۰) یعنی والدین سے احسان کا سلوک کر۔ اس سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیئے کہ والدین سے سلوک بھی احسان کے معروف معنوں میں کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت میں احسان کا لفظ عام معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک اور معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کسی امر کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر دیا جاتا ہے۔ جیسے مثلاً ظلم کے بدلہ کا نام ظلم رکھ دیا جاتا ہے اور اس سے مراد ظلم نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے معنے ظلم کے بدلہ کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں اور دوسری آیات میں جہاں والدین کے لئے احسان کا لفظ آیا ہے اس کے معنے احسان کے بدلہ کے ہیں۔ لیکن ان کے سوا دوسرے لوگوں کی نسبت اس لفظ کا استعمال اپنے معروف معنوں میں ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اور الفاظ بھی اس محاورہ کے مطابق استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً اسی سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْمِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (بقرہ ع ۲۴) یعنی جو تم پر ظلم کرے اس پر اسی قدر ظلم کر سکتے ہو۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ ظلم کا اسی قدر بدلہ ظلم نہیں کہلا سکتا۔ پس بدلہ لینے والے کے لئے جو اعتداء کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے معنے محض بدلہ کے ہیں نہ کہ ظلم کے اسی طرح احسان کرنے والے کے حق میں جب احسان کرنے کرنے کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس کے معنے بدلہ احسان کے ہوتے ہیں نہ کہ احسان کے۔
اسی اداء احسان کے حکم کے نیچے اپنے اُستادوں اور دوسرے محسنوں یا ان کی اولادوں سے حسن سلوک بھی آ جاتا ہے۔ اور اس حکم کے ماتحت سب سے بڑے انسانی محسن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کا بدلہ بھی آ جاتا ہے۔ جو صحابہ کرام درود اور دعائوں اور خدمت کے ذریعہ سے ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ میرے نزیک رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کی اولاد کے لئے صدقہ جائز نہیں ت واس میں یہی حکمت تھی کہ کہ امت اسلامیہ کو بتایا جائے کہ اس محسن عظیم کی اولاد سے جو سلوک کیا جائے وہ صدقہ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ تو اس محسن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ایک ادنیٰ کوشش ہو گی۔
مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس مسئلہ کو خاش زور سے بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ایسے بے نفس تھے کہ آپؐ نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ کو حرام کر دیا۔ او راُنہیں یہ خیال نہیں آتا کہ آپؐ ایسے بے نفس تھے تو مسلمان ایسے نفس کے بندے کیو ںہو گئے ہیں کہ آپؐ کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ادنیٰ کوشش بھی نہیں کرتے۔ محسن کسی بدلہ کا خیال نہیں کرتا۔ مگر کیا جس پر احسان کیا جائے اس کی شرافت نفس اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ وہ محسن کے احسان کا شکریہ عمل سے ادا کرے۔ میرے نزدیک اس حکم سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانو ںکو یہ ادب سکھایا تھا کہ اگر حضرت رسالتمآب کی اولاد میں سے کوئی غریب ہو تو وُہ اس کے ساتھ حضور کے احسان کی یاد میں سلوک کریں۔ کیونکہ آپ کی اولاد کے ساتھ صدقہ کا معالہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ کیا اپنے بھائیون جیسا نہیں ہونا چاہیئے؟ افسوس کہ اس حکمت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان دو حکموں میں سے ایک کو توڑنے لگ گئے ہیں۔ یا تو وہ سادات پر صدقہ اور زکوٰۃ خرچ کرنے لگ گئے ہیں یا اُن کی خدمت سے بالکل محروم ہو گئے ہیں۔
مجھ پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں نے دیر سے اس نکتہ کو سمجھا ہے اور مجھے کئی دفعہ اس امر کی توفیق ملی ہے کہ غرباء سادات کی خدمت کروں۔ نہ اس خیال سے کہ میں اُن پر صدقہ کر رہا ہوں بلکہ اس خیال سے کہ اُن سے حسنِ سلوک اس احسان عظیم کے اقرار کی جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ہم پر کئے ہیں ایک ادنیٰ کوشش ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ کاش مسلمان اس نکتہ کو سمجھیں اور سادات کو صدقہ دینے یا ان کی مشکلات کو بالکل نظر انداز کرنے کے دو قبیح جرموں سے محفوظ ہو جائیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو شاید اللہ تعالیٰ بھی ان کی اولاد دوں پر رحم فرمائے۔
(۱۰) دسویں قسم جو قرآن کریم سے خرچ کی ثابت ہے وہ ہدیہ ہے۔ یعنی بغیر کسی سابق احسان یا صدقہ کے خیال کے ایک دوسرے کو موقعہ مناسب پر ہدیہ دیا جائے تاکہ آپس میں محبت بڑھے۔ اس کا بہترین موقعہ تو وہ ضیافت ہے جو ایک شخص دوسرے کی کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اس کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام دو نبیوں کے ذکروں میں آتا ہے۔ ضیافت صرف ایک صورت ہدیہ کی ہے ورنہ اور مناسب مواقع بھی اس حکم کے عمل کے نکل سکتے ہیں۔ افسوس مسلمانوں نے اس حکم کو بھی بھلا دیا ہے۔ اور مسافروں کی مہمان نوازی شاذو نادر کے طو رپر رہ گئی ہے بلکہ شہروں کے باشندے تو اس سے قریباً محروم ہی گئے ہیں۔ حالانکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ سلمنے اس کی اس قدر تاکید کی ہے کہ ضیافت کو ایک حق قرار دے دیا اور فرمایا کہ اگر کسی بستی کے باشندے ضیافت کا حق وصول کیا جا سکتا ہے۔ اس حق کی تمام تفصیلات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ یہاں اس قدر بیان کر دینا کافی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اس حق کی تشریح میں فرماتے ہیں تَھَا دَوْا تَحَابَّوْا (ابن عساکر بن ابی ہریرہ بحوالہ جامع الصغیر) یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے محبت میں ترقی ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا مجھے جبریل علیہ السلام نے ہمسایوں سے نیک سلوک کی اس قدر تاکیدکی کی میں نے سمجھا کہ اُسے وارث مقرر کر دیا جائے گا۔ (ترمذی جلد دوم ابواب البر والصلۃ باب ماجاء فی حق الجوار)
یہ خرچ صدقہ کی اقسام سے نہیں ہے بلکہ اخوت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور تمدن کی ترقی کے لئے نہایت ضروری احکام میں سے ہے۔
خلاصہ یہ کہ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں صرف صدقہ کا ذکر نہیں بلکہ اُوپر کے بیان کرو سب قسم کے اخراجات اس میں شامل ہیں۔ اور غریب امیر، بڑے چھوٹے سب کے بارہ میں اس میں نہایت لطیف احکام بیان ہوئے ہیں۔ اور تقویٰ کے قیام کے لئے یہ ایک ضروری امر ہے۔
آیت کے مضامین پر مجموعی نظر:
اِس آیت میں تین احکام بیان ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان صداقتوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے جو انسانی نظر سے پوشیدہ ہیں۔ او ربتایا ہے کہ صرف محسوسات پر ایمان رکھنا کوئی خوبی نہیں۔ کیونکہ ان کو تو ہر بیوقوف سے بیوقوف بھی مانتا ہے متقی کا مقام اس سے بالا ہے اور وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ ان صداقتوں پر بھی ایمان لائے جو ظاہر نظر سے پوشیدہ ہوتی ہیں اور یہی روحانیت کے کمال کی علامت ہے ورنہ دریا کو دریا سمجھنا او رپہاڑکو پہاڑ جاننا کوئی خوبی نہیں ہے دریا کو دریا ماننے والا عالم اور کامل نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ وہ شخص عالم سمجھا جاتا ہے جو اس دریا کے پیچھے نظر کرتا ہے۔ اور یہ تحقیق کرتا ہے کہ دریا کہاں سے آیا ہے کس طرح بنا ہے، کن طبعی تغیرات کے نتیجہ میں اس کو پانی حاصل ہوا ہے۔ اور اس پر بھی غور کرتا ہے کہ دریا سے اس وقت کیا کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اور یہ کہ وہ کدھر کو جاتا ہے او رکہاں گرتا ہے۔ غرض ایک دریا کو دیکھنے والے جاہل اور عالم میں یہی فرق ہے کہ جاہل صرف حاضر کو جانتا ہے اور عالم اس کے غائب حصہ کو بھی جانتا ہے۔ اور اسی کے جاننے سے وہ اس سے علمی اور عملی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ یہی حال روحانیات کے متعلق ایک عالم با عمل یا دوسرے لفظو ںمیں ایک متقی کا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس دنیا کے بارہ میں صرف اس پر قناعت نہیں کرتا جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہے بلکہ اس کے مبداء اور متھٰی کی تحقیق بھی کرتا ہے اور اس کے مخفی خزانوں کو بھی تلاش کرتا ہے اور اسی کا نام ایمان بالغیب ہے۔ اور یہ ظاہرہے کہ سوائے اس قسم کی تحقیق کے نہ علم کامل ہو سکتا ہے نہ عمل۔ پس ایمان بالغیب انسانی تکمیل کا ایک ایسا ضروری جزو ہے کہ اسے نظر اندار کر دینا صرف ایک جاہل کا کام ہو سکتا ہے۔
اس اہم اور ضروری امر پر زور دینے کے بعد اس کے لازمی نتائج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اول یہ کہ جب انسان اس عالم کے مبداء پر غور کرتا ہے اور اسکے پیدا کرنے والے وجود کو دلائل سے معلوم کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ شدید تعلق پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ کرتا ہے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں عبادت یا اقامتِ صلوۃ ہے۔ پھر جب اس کا روحانی تعلق اس مبداو کل سے ہو جاتا ہے تو لازماً اسے اس کے متعلقین او رمتوصلین کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے او ران کی بہتری کے لئے کوشش کرنے لگتا ہے۔ کیونکہ مبداء کل سے تعلق پیدا ہو جانے کے بعد اس کی مخلوق کی محبت بھی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے جس طرح کہ ماں باپ سے تعلق کے نتیجہ میں بھائیوں کی محبت پر بھی انسان مجبور ہو جاتا ہے۔ پس عبادت اور اقامتِ صلوٰۃ کے بعد متقی کا دوسرا کام وَمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ بتایا۔
اوپر کی تشریح سے ظاہ رہے کہ اس آیت میں ایمان بالغیب کے بعد اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ اور اس کے بعد َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کا رکھنا ایک اتفاقی امر نہیں۔ بلکہ ایک پُر حکمت ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔
اس جگہ ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے او روہ یہ ہے کہ اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ کو اس جگہ پہلے رکھا گیا ہے اور َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کو بعد میں رکھا گیا ہے۔ اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ رُوحانی عالم میں خدا تعالیٰ سے تعلق مخلوق سے تعلق پر مقدم ہے اور یہی طبعی اور درست ترتیب ہے۔ کیونکہ بغیر اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق کے مخلوق سے کامل محبت ہو ہی نہیں سکتی۔
اس معاملہ میں اسلام اور فلسفیوں کے خیالات میں اختلاف ہے۔ فلسفی کہتے ہیں اور بعض مذہب سے نامکمل تعلق رکھنے والے بھی ان کی تائید کرتے ہیں کہ جب مخلوق سے تعلق ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سے خود بخود ہی تعلق ہو جاتا ہے۔ اور اُن کے نزدیک جو شخص مخلوق سے تعلق کو درست کر لے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بھی آپ ہی آپ درست ہو جاتا ہے۔ پس اصل چیز جس کی طرف توجہ چاہیئے وہ مخلوق سے تعلق ہے۔ مگر ایک ادنی تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ بات بالبداہ، باطل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق سے نیک سلوک خدا تعالیٰ کی عباد ت کا حصہ ہے لیکن یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حصہ ہے لیکن یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا موجب ہو سکتا ہے۔ بلکہ حق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق مخلوق سے محبت کا موجب ہوات ہے او رجو لوگ اس کے الٹ خیال کرتے ہیں وہ اس امر کو نہیں دیکھتے کہ مشاہدہ کس امر کی تائید کرتا ہے۔ اگر وہ یہ دیکھتے کہ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق سے محبت کی ہے وہ کس پایہ کے تھے اور جو لوگ مخلوق سے محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پانے کے مدعی ہیں وہ اگر کہیں پائے جاتے ہیں تو کس پایہ کے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق سے محبت کرنے والوں میں سے حضرت ابراہیم‘ حضرت موسی‘ حضرت عیسی‘ حضرت کرشن‘ حضرت رام چندر اور حضرت زردشت ہیں اور میرے نزدیک حضرت بدھ اور حضرت کنفیوشس علیہم السلام بھی اور سب کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم۔ ان سب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انہو ںنے جس رنگ میں اور جس شان کی بنی نوع انسان اور باقی مخلوق کی خدمت کی ہے اس کی مثال دوسرے لوگوں میں کہاں پائی جاتی ہے؟ کوئی ایک شخص بھی جس نے مخلوق سے محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پایا ہو ان کے مقابل پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔اور ان کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اور حق یہ ہے کہ تاریخ ایسے وجود کو پیش ہی نہیں کرتی۔ جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس نے پہلے مخلوق سے محبتکی او رپھر خدا تعالیٰ کو پایا۔ لیکن ایسے ہزاروں لاکھوں آدمی دنیا میں گزرے ہیں کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو پایا اور اس کی محبت سے سرشار ہو کر اس کی مخلوق کی محبت کو حاصل کیا۔ پس جبکہ مشاہدہ اس امر پر شاہد ہے کہ خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق کی محبت کرنے والے تو ہزاروں لاکھو ںوجود دنیا میں گزرے ہیں لیکن مخلوق کی محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پانے والے کسی ایک وجود کا بھی پتہ نہیں ملتا۔ تو ایسی بے دلیل بات کے پیش کرنے کا فائدہ کیا۔
دوسرا پہلو اس سوال کا عقلی پہلو ہے۔ اگر اس پہلو سے غور کیا جائے تب بھی یہ دعویٰ کہ پہلے مخلوق کی محبت ہو تو اس سے خدا تعالیٰ آپ ہی مل جاتا ہے‘ درست ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ عقلی طور پر مخلوق کی محبت سے خدا تعالیٰ کے وجود کامل جانا ناممکن اور غیر معقول نظر آتا ہے۔ کیونکہ مخلوق کی محبت کی وجہ یا تو حب وطن ہو سکتی ہے یا طبیعت کی نرمی۔ اور ظاہر ہے کہ حب وطن کی وجہ سے جو بنی نوع انسان سے محبت کرتا ہے وہ وطنی تقاضا کے ماتحت ان دوسرے انسانوں سے جو اس کے وطنی نہیں ہیں دشمنی بھی کر سکتا ہے۔ اور اسے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا کوئی بھی موجب موجود نہیں بلکہ اس سے دور لے جانے والے موجبات پیدا ہوتے رہیں گے اور وہ بجائے خالق کی طرف جانے کے سیاسیات میں الجھ کر رہ جائے گا۔ اور اگر اس کا موجب طبعی نرمی ہو تب بھی ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کی طر ف ھھیرنے والا موجب کوئی موجود نہیں۔ کیونکہ ایسا شخص کسی عقلی سبب سے مخلوق سے حسن سلوک نہیں کرتا بلکہ محض طبعی نرمی کی وجہ سے ایسا کام کرتا ہے۔ اس لئے اس کی عقل اُسے کسی دوسرے راستہ کی طرف راہنمائی ہی نہیں کرتی اور نہ کر سکتی ہے۔
بعض لوگ اس موقعہ پر کہا کرتے ہیں کہ حب وطن نہیں بلکہ حب انسانیت انسان کو بنی نوع سے حسن سلوک کی طرف راغب کرتی ہے اور ایسا انسان یقینا سیاسیات سے بالا رہتا ہے لیکن یہ دعویٰ بھی بلا دلیل ہے۔ کیونکہ ہر فعل کا کوئی طبعی محرک ہوتا ہے اور اُسی کے مطابق اس کے خیالات کی رو دوسری اطراف کی طرف پھرتی ہے۔ پس اس صورت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ انسانیت کی محبت کی وجہ سے بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے والے شخص کے لئے محرک کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگ راس کے افعال کا محرک خدا تعالیٰ کی محبت نہیں توپھر اس کے لئے محرک یہی خیال ہو سکتا ہے کہ چونکہ باقی انسان بھی میری طرح کے انسان ہیں اس لئے بوجہ ہم جنس ہونے کے مجھے اُن سے محبت کرنی چاہیئے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص دوسرے انسانوں سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ اُسی کی طرح کے انسان ہیں وہ در حقیقت اپنے آپ سے محبت کرتا ہے اور اس کی اپنی ذات کی محبت اُسے کسی اپنے سے بالا وجود کی طرف توجہ نہیں دلا سکتی۔ او راس کا خاتمہ بھی اسی حالت میں ہو گا جس حالت پر کہ اس کی ابتداء ہوئی ہے اور وہ محض حب انسانیت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی حاصل نہیں کر سکتا۔
اب صر ف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ جو شخص مخلوق سے محبت کرے اُسے خدا تعالیٰ اس کے نیک فعل کی وجہ سے اپنی طرف کھینچ لے۔ مگر یہ حالت غیر طبعی ہے کیونکہ یہ صورت اسی شخص کے حق میں پوری ہو سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کا علم نہ رکھتے ہوئے مخلوق سے کامل محبت کرے۔ کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو عقلی طور پر علوم کر لیتا ہے او رپھر اس کی طرف سے منہ موڑ کر مخلوق کی خدمت پر کفایت کرتا ہے وہ تو ایک زبردست سچائی کا منکر ہے او رہدایت پانے کا مستحق نہیں۔ ہاں صرف وہ شخص اس حالت میں ہدایت پانے کا مستحق ہو سکتا ہے جسے خدا تعالیٰ کا علم حاصل نہیں ہوا لیکن اس نے اپنے فطری قویٰ کو صحیح طور پر استعمال کیا اور گو صانع کا وجود اس کی نگہ سے پوشیدہ رہا مگر اس نے اس قدر حصہ سے جو اسے نظر آتا تھا (یعنی مخلوق) اپنے تعلق کو مضبوط کر لیا۔ ایسا شخص بے شک باوجود مخلوق سے پہلے تعلق پیدا کرنے کے صانع کی طرف ہدایت پانے کا مستحق ہے۔ کیونکہ جس قدر حصہ پر عمل کرنااس کے لئے اس کے علم کے مطابق ممکن تھا اس نے اس پر عمل کر لیا اور اس قسم کی استثنائی حالتو ںمیں مخلوق کو پا کر خالق کو پالینے کے ہم بھی منکر نہیں۔ نہ قرآن کریم اس کے خلاف ہے۔ بلکہ قرآنکریم سے صاف ظاہر ہے کہ جو ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے جو اُسے میسر ہیں خدا تعالیٰ اُسے ان دوسرے سامانوں کی طرف ہدایت کرتا ہے جو اُسے میسر نہ تھے۔ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شہادت بھی اسے ثابت کرتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! مجھے ایمان تو اب نصیب ہوا ہے مگر ایمان سے پہلے بھی میں بنی نوع انسان سے نیک سلوک کیا کرتا تھا کیا میرے ان اعمال کا بھی مجھے کوئی صلہ ملے گا یا مجھے اب اپنی گزری ہوئی عمر کے اعمال کی تلافی کرنی چاہیئے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا اَسْلَفْتَ (مسلم کتاب الایماب باب بیان حکم عمل الکافر اذا اسلم بعدہ) یعنی تمہارے وہ عمل ضائع نہیں ہوئے بلکہ تم کو جو اسلام کی صداقت کے قبول کرنے کی توفیق ملی ہے یہ انہی اعمال کی وجہ سے ہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کا علم ہونے سے پہلے تم نے کئے گو خدا تعالیٰ کی رضاء جوئی کے لئے نہیں کئے مگر چونکہ اس میں تمہارا قصور نہ تھا خدا تعالیٰ نے ان کو بھی قبول کر لیا اور مخلوق سے نیکی نے تم کو خدا تعالیٰ کے عرفان اور اس پر ایمان کی طرف راہنمائی کی۔ لیکن اس جگہ سوال یہ نہیں کہ عدمِ علم کی صورت میں بطورِ استثناء انسان سے کیا سلوک کیا جا سکتا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ اگر شخص کو خدا تعالیٰ کے وجود کا علم ہو جائے تو پھر وہ اس سے تعلق پیدا کرکے اپنے نفس کی اصلاح میں جلدی کرے یا وہ اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی خدمت میں لگ جائے اور اقرار کرے کہ میں تواس ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو پائوں گا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند اس امر کی تائید کرے گا۔ کہ خدا تعالیٰ کا علم ہو جانے کے بعد بھی انسان کو اس سے منہ موڑ لینا چاہیئے اور مخلوق کی خدمت میں لگ جانا چاہیئے کہ یہی طبعی راستہ خدا تعالیٰ کی طرف سے منہ موڑ لینا ہدایت پانے کا موجب نہ ہو گا بلکہ ہدایت سے دُور جانے کا موجب ہو گا۔
خلاصہ یہ کہ مخلوق کی خدمت کر کے خدا تعالیٰ کو پانا ایک استثنائی صورت ہے۔ اور عدم علم کی صورت میں ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق کی محبت کا پیدا ہونا ایک طبعی راستہ ہے کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو پا کر اس کی عبادت میں لگ جائے گا وہ لازماً اس کی مخلوق سے بھی محبت کرے گا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کو پا لینے کے معنے یہ ہیں کہ اس کی صفات کا کامل علم اُسے ہو جائے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت عالمین اور صفت رحمانیت اور صفت رحیمیت اور صفت مالکیت یوم الدین کو معلوم کر لے گا وہ طبعاً اس کے بندوں سے اسی رنگ میں سلوک کرے گا جس رنگ میں کہ اس کا رب ان بندو ںسے سلوک کرتا ہے ورنہ وہ اس کے نقش کو اپنے دل میں پیدا نہیں کر سکتا۔ پس خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اس کے بندوں سے حسن سلوک کرنا ایک لازمی امر ہے اور خدا تعالیٰ کے تعلق کا ایک نشان ہے اور اسی طبعی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم نے اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ کو َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ سے پہلے رکھا ہے۔
۵؎ حل لغات
یُؤْمِنُوْنَ:۔کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اُنْزِلَ:۔ اَنْزَلَ سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اَنْزَلَ اللّٰہُ الْکَلَامَ کے معنے ہیںاَوْحَیٰ بِہِ۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کلام کو بذریعہ وحی نازل فرمایا (اقرب) پس وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ کے معنے ہوں گے اور وہ لوگ جو اس کلام پر جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے ایمان لاتے ہیں۔
اَلْاٰخِرَۃ:۔ اَلْاٰخِرُ کا مونث ہے اور اَلْاُ وْلٰی کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے (اقرب) یہاں پر اس کا موصوف محذوف ہے معینی یہ ہوں گے کہ آئندہ آنے والی، آئندہ ہونے والی۔
یُوْقِنُوْنَ:۔ اَیْقَنَسے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اَیْقَنَ الْاَمْرَ وَاَیْقَنَ بِہِ کے معنے ہیں عَلِمَہُ وَتَحَقَّقَہٗ۔ یعنی کسی بات کو معلوم کیا اور اس کی پوری تحقیق کرتے ہوئے اپنے شک و شبہ کو دور کر لیا۔ اور اَیْقِیْنَ (جو اَیْقَنَ کا مصدر ہے) کے معنے ہیں اِزَاحَۃُ الشَّکِّ وَتَحقِیْقُ الْاَمْرِ۔اپنے شک کو دور کر لینا اور کسی معاملہ کی پوری تحقیق کر کے حقیقت پر قائم ہو جانا۔ (اقرب)
تفسیر۔ اس آیت میں متقیو ںکی تین اور صفات بیان کی گئی ہیں اور اس آیت کی پہلی اور گزشتہ آیت کو ملا کر چوتھی علامت متقی کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمائی ہے کہ جو کلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے متقی اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس صفت کے بیان کے بیان کرنے میں یہ حکمت ہے کہ انسان کے لئے صرف نیک نیتی کافی نہیں ہوتی بلکہ صحیح طریق عمل کا اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ صر ف نیک نیتی اسی حالت میں کام آتی ہے۔ صرف نیک نیتی اسی حالت میں کام آتی ہے جبکہ صحیح طریق عمل کا معلوم کرنا اس کے لئے ناممکن ہو۔ لیکن جب صحیح ۔طریق عمل کا معلوم کرنا ممکن ہو تو نیک نیتی کا عذر نہ صرف یہ کہ غیر مقبول ہوتا ہے بلکہ غیر معقول بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص کی نیت نیک بھی ہو اور وہ پھر بھی صحیح طریق عمل کو نظر انداز کر دے اور اس کے معلوم کرنے سے اعراض کرے۔ نیک نیت تو وہی ہوتا ہے جو اپنی نیت کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔ لیکن جو شخص باوجود استطاعت کے صحیح طریق عمل کو چھوڑ دیتا ہے یا اُسے معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا وہ ت واپنے عمل سے اپنے دعویٰ کو باطل کرتا ہے اور اپنی بدنیتی پر آپ شاہد ہوتا ہے۔
چونکہ روحانی عالم میں صحیح طریق عمل دہی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا جائے اس لئے وہی شحص نیک نیت کہلائے گا کہ جو اس طریق کو معلوم کرنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اور چونکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعشت کے بعد وہی صحیح طریق عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ پر ظاہر کیا ہے۔ اس لئے وہی شخص روحانی مقاصد کو پا سکتا ہے جو آپؐ پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لائے۔ پس چوتھی صفت متقی کی یہ بیان کی گئی کہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لاتا ہو۔ کیونکہ جو شخص اس کلام پر ایمان نہیں لاتا جو اس کے زمانہ کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہو وہ ہدایت کی جزئیات سے نہ باخبر ہو سکتا ہے او رنہ اُن پر عمل کر سکتا ہے۔ او رظاہر ہے کہ جو کسی مقصد کے حصول کی تمام جزئیات سے واقف نہیں ہو اس مقصد کے حصول کی تمام جزئیات سے واقف نہیں وہ اس مقصد کو پا بھی نہیں سکتا۔ جو شخص کسی زبان کا عالم بننا چاہے اسے اس زبان کے الفاظ اور الفاظ کی صحیح بندش کے طریق اور اس میں خیالات کے اظہار کے مناسب طریق کو بھی سیکھنا ہو گا ورنہ اس زبان کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح تقویٰ کی تکمیل کے لئے یہ ضروری ہے کہ تقویٰ کی جزئیات کے بھی انسان واقف ہو۔ جو ان سے واقف نہ ہو گا اس کے خیالات اور عمل بسا اوقات تقویٰ کے خلاف ہوں گے اور بجائے تقویٰ میں ترقی کرنے کے وہ آہستہ آہستہ اس اجمالی تقویٰ کو بھی کھو بیٹھے گا جو اُسے نیک نیتی کی وجہ سے حاصل تھا کیونکہ خالی نیت انسان کو صحیح اعمال پر قادر نہیں کر سکتی۔ کوئی شخص کتنا ہی مضبوط ارادہ رکھا ہو کہ وہ صحیح زبان بولے گا لیکن اگر اُسے اس زبان کے الفاظ کا علم نہیں‘ اس کی بندشوں کا علم نہیں تو محض ارادہ سے وہ صحیح (زبان نہیں بول سکتا۔ پس اس جملہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اجمالی تقویٰ کے حاصل ہونے کے بعد متقی اس کی تفصیلات کو معلوم کر کے اس کے مطابق عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور چونکہ اس زمانہ میں تقویٰ کی تفصیلات وہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ سے ظاہر کی گئی ہیں اس لئے تقویٰ کے تفصیلی حصہ کو کامل کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا بھی ضرویر ہے۔
بعض لوگ اس آیت اور ایسی ہی بعض دوسری آیات سے یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان لانے کا حکم ہے نہ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ۔ اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو تسلیم کرنے کی نہ ضرورت ہے‘ نہ یہ جائز ہے بلکہ شرک ہے۔ یہ فرقہ چند سال سے ہندوستان میں پیدا ہوا ہے اور اصل میں خوارج کی ایک شاخ ہے کیونکہ خوارج میں بھی اصل جذبہ یہی کار فرما تھا کہ اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ وَالْاَمْرُ شُوْریٰ بَیْنَہُمْ یعنی حکم صرف خدا تعالیٰ کا ہے اس کے بع دجن امو رمیں کسی فیصلہ کی ضرورت ہو اس کا فیصلہ مسلمان اپنے مشورہ اور اتفاق سے کریں گے۔
ان لوگوں کو یہ دھوکا قرآن کریم کے مضامین پر غور نہ کرنے سے لگا ہے۔ ان کے اس وہم کی بنیاد اس پر ہے کہ چونکہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ متعدد آیات میں بیان ہوا ہے کہ وہ مکمل کتاب ہے اس لئے اور کسی شخص کی ہدایت یا تشریح کی کیا ضرورت ہے اس بنیاد میں غلو کر کے جہاں جہاں رسول پر ایمان لانے یا اس کی اطاعت کرنے کا حکم قرآن کریم میں آتا ہے اس کے معنے وہ قرآن کریم کے لیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہاں رسول سے مراد قرآن کریم ہے۔ یہ لوگ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ قرآن کریم میں کتب سماویہ کے نزول کا ذکر دو طرح آتا ہے ایک تو رسول کی طرف نسبت دے کر دوسرے اس کتاب کے ساتھ وابستہ گروہ سے نسبت دے کر۔ مثلاً قرآن کریم کی نسبت یہ الفاظ بھی ہیں کہ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ اور یہ بھی ہیں کہ وَھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمْ الْکِتٰبَ مُفَصَّلاً (انعام ع ۱۴) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے تم پر ایک کامل اور مفصل کتاب اتاری ہے غور کے قابل بات ہے کہ آخر یہ فرق قرآن کریم نے کیوں کیا ہے۔ کسی جگہ تو فرماتا ہے کہ یہ کتاب تم پر نازل ہوئی ہے اور کسی جگہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اگر دوسرے لوگوں کی طرف کتاب نازل ہوئی ہے اگر دوسرے لوگوں کی طرف کتاب نازل ہونے کی نسبت اس غرض سے کی گئی ہے کہ وہ کتاب اُن کے لئے نازل کی گئی ہے تو پھر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی صرف یہی کہا جاتا کہ جو کتاب تم پر نازل ہوئی ہے اس پر ایمان لائو۔ لیکن قرآن کریم نہ ایک جگہ بلکہ متواتر اس نسبتِ نزول کا ذکر کرتا ہے اور اس شخص کو پیش کرتاہے جس پر وہ کلام نازل ہوا ہے اور یہ طریق بیان اس کا آنحضرت علیہ السلام کی نسبت ہی نہیں بلکہ تمام سابق انبیاء کی نسبت بھی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں بھی وہ یہ فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ (بقرہ ع ۲۱۱) یعنی ہم نے موسیٰ کو ضرور کتاب دی تھی اور پھر ساتھ یہ بھی فرماتا ہے وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ (آل عمران ع ۲۰) یعنی اہل کتاب میں سے وُہ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی جو اے مسلمانوں تم پر نازل ہوا ہے اور اس پر بھی جو ان اہل کتاب پر نازل ہوا ہے۔ ان دو قسم کی نسبتوں سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں قوم پر نزول کتاب کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس امر پر زور دینا مطلوب ہے کہ اس قوم اور اس کتاب کے حالات بالکل متناسب ہیں اور اس قوم کے لئے اس کتاب پر عمل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں اور جہاں رسول پر کتاب نازل ہونے کا ذکر ہے وہاں اس مناسبت کی طرف اشارہ ہے جو اس رسول کی فطرۃ کو اس کتاب سے حاصل ہے اور صر ف کتاب کا ذکر ہی مطلوب نہیں۔ ملکہ یہ بتانا بھی مطلوب ہے کہ اس کتاب کی عملی تفسیر اور زندہ نمونہ اس کے وجود میں موجود ہے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو کسی جگہ اُنُزِلَ اِلَیْکُمْ اور کسی جگہ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ یا ٰاتَیْنَا مُوْسٰی کہہ کر دو مختلف نسبتوں کی طرف اشارہ نہ کیا جاتا بلکہ صرف یہ کہہ دیا جاتا کہ قرآنکریم پر ایمان لائو یا تو رات پر ایمان لائو جب کسی کتاب کا نام رکھ دیا جائے تو اس کا ذکر لمبے چوڑے جملوں سے عبث اور فضول ہو جاتا ہے اگر اس کی کلام حکیم میں کتاب کے نام کو چھوڑکر اور الفاظ میں اس کتاب کا ذکر کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اس طریق بیان میں کوئی زائد فائدہ مدنظر رکھا گیا ہے اور وہ فائدہ آیت زیر بحث میں یہی مدنظر ہے کہ کتاب کو منزل الیہ وجود کی طرف نسبت دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کتاب ہادی ہے بلکہ وہ وجود بھی ہادی ہے جس پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے چنانچہ اس اشارہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دوسری جگہ واضح الفاظ میں بھی بیان فرما دیا ہے ۔ فرماتا ہے وَ اِذَا جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُوتٰی مِثْلَ مَا اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ۔ اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (انعام ع ۱۵) یعنی جب کفار کو نبیوں کے الہام کے ذریعہ سے کوئی نشان دکھایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب تک اسی طرح ہم پر کلام نازل نہ ہو جس طرح ان مدعیانِ نوبت پر نازل ہوا ہے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے کہ اس کا کلام کس پر نازل ہو اور کس پر نازل نہ ہو۔ پس جس کو وہ اس کلام کے نزول کے مناسب حال سمجھتا ہے اسی کے ذریعہ کلام بھجواتا ہے۔ یہ آیت واضح طور پر اس امر کو ثابت کر دیتی ہے کہ کلام الٰہی محض ایک ہر کارہ کے ذریعہ سے نہیں بھیجا جاتا بلکہ وُہ ایک ایسے شخص کے ذریعہ سے بھجوایا جاتا ہے جو اس کا صحیح مفہوم لوگوں کو بتا سکے اور اس کا مطلب سمجھا سکے۔ اگر صرف الفاظ پہنچائے مطلوب ہوتے تو ہر نبی کی قوم میں اچھے اچھے ادیب موجود تھے ان کے ذریعہ سے وہ کلام پہنچایا جا سکتا تھا۔ مشہور ادیبوں اور شاعروں کو چھوڑ کر بالعموم اُمّیوں اور ظاہر بینوں کی نگاہ میں کم علم لوگوں کی معرفت اس کلام کو بھجوانے کے تویہی معنے ہیں کہ اس کلام کا مطلب بیان کرنے کی کلام لانپے والے سے امید کی جاتی ہے اور دوسروں کی نسبت اس کلام کی باریکیوں کو سمجھنے کا اُسے زیادہ اہل سمجھا جاتا ہے اور نہ صرف الفاظِ کتاب اُسے دئے جاتے ہیں بلکہ فہم کلام بھی اُسے عطا کیا جاتا ہے کہ کیونکہ اس کی فطرت اس کلام کے مفہوم کے مطابق اور مناسب ہوتی ہے اور جب یہ حقیقت ہو تو پھر یہ کہناکہ جب کلام موجود ہے تو کلام لانے والے میں اور ہم میںکیا فرق ہے ہم کلام پر ایمان لائیں گے اور اس کا مطلب خود سمجھیں گے کس قدر عقل کے خلاف ہے اور بالکل اسی قسم کا قول ہے جیسے کفار نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے بات ہی کرنی تھی تو ہم سے کیوں نہ کر دی درمیان میں ایک واسطہ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی کیا ہم اس کی بات کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ نہ خدا تعالیٰ نے ان کفار کے اعتراض کو درست سمجھا نہ یہ مومن کہلانے والے اپنے دعویٰ میں سچے ہیں۔ اور سچ یہی ہے کہ کلام الٰہی پر ایمان لانے میں کلام الٰہی لانے والے پر ایمان لانا اور اس کی تشریح کو قبول اور تسلیم کرنا بھی شامل ہے کیونکہ کلام الٰہی لفظی کلام ہوتا ہے اور کلام الٰہی لانے والا اس کا جسمانی نمونہ۔ اور اُسے اسی لئے منتخب کیا جاتا ہے تا وہ اپنے عمل سے اس کا نمونہ پیش کرے اور اپنے کلام سے اس کی تفسیر بیان کرے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسی تشریح کو قبول کیا جائے جو اُس تک یقینی طور پر پہنچی ہو نہ یہ کہ ہر رطب و یا بس جو کسی جھوٹے راوی نے اپنے سے پہلے چند معروف لوگوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی۔
چونکہ اس آیت سے بھی اس مضمون کا تعلق ہے اس جگہ اختصاراً اسے بیان کر دیا گیا ہے مفصل بحث اس کی ان آیات کے ماتحت آئے گی جو زیادہ وضاحت سے اس مضمون کی طرف اشارہ کرتی ہیں یا جن آیات سے مذکورہ بالا فاسد عقیدہ کے لوگ استدلال کرتے ہیں۔
اس جگہ ایک اور مضمون بھی وضاحت طلب ہے اور وُہ کلام کے اتارنے کا محاورہ ہے عام طو رپر جب اسلامی تعلیم سے ناواقف لوگ کلام الٰہی کے اترنے کا محاورہ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں تو خیال کر لیتے ہیں کہ شائد یہ کلام خدا تعالیٰ نے لکھ کر فرشتوں کو دیا اور وہ اسے آسمان پر سے زمین پر لائے اور رسول کے ہاتھ میں دے دیا۔ بلکہ غیر مذہب والوں کو کیا کہنا ہے خود مسلمانوں میں سے ایک بڑا طبقہ تعلیم اسلام سے ناواقفی کی وجہ سے اب یہی سمجھنے لگ گیا ہے کہ شائد کوئی چیز آسمان پر سے زمین پر مادی طو رپر اترتی ہے اور رسول کو ملتی ہے۔ لیکن یہ عقیدہ کئی غلطیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے (۱) ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ آسمان سے کیا مراد ہے (۲) انہوں نے غور نہیںکیا کہ فرشتے کیا ہیں اور ان کے اعمال کس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ (۳) انہوں نے یہ غور نہیں کیاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کس ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں (۴) انہوں نے غور نہیںکیا کہ نزول کے کیا معنے ہیں۔ ان چار امور پر غور نہ کرنے کے سبب سے ان کو مذکورہ بالا غلط عقیدہ میں مبتلا ہونا پڑا ہے۔
اوّل سوال یہ ہے کہ کیا نزول کے یہ معنے ہیں کہ کلام الٰہی آسمان سے مادی طور پر نازل ہوتا ہے جیسا کہ عوام مسلمانوں میں اور اُن سے سن سنا کر دوسرے مذاہب کے لوگوں میں پھیلا ہوا ہے۔ چنانچہ سیل مترجم قرآن انگریزی نے اپنے ترجمہ کے دیباچہ کے باب ۳ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام قرآن کریم ایک جدل میں جبریل فرشتہ کو دیا اور وہ اسے نچلے آسمان پر لے آئیاور یہاں سے آہستہ آہستہ انہو ںنے قرآن کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُتارا۔ (تفسیر ریورنڈی ویری جلد اول صفحہ ۱۰۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ایسی روایات کی بناز پر جو مسلمانوں میں بدقسمتی سے مشہور ہو گئے ہیں لیکن اُن کے معنوں پر انہوں نے غور نہیں کیا اور نہ ان کی صحت کی تصدیق کی مسیحیوں نے اس قسم کی تاریخ کی بنیاد رکھی ہے اور اس وجہ سے ہم ان پر یہ الزام تو نہیں لگا سکتے کہ انہوں نے یہ روایات خود بنا لی ہیں۔ لیکن جس رنگ میں اُنہوں نے ان روایات کو استعمال کیا ہے وہ ضرور قابل اعتراض ہے نیز وہ اس اعتراض کے نیچے ضرور ہیں کہ جن امور پر وہ اعتراض کرتے ہیں اسی قسم کے امور خود ان کی کتب میں موجود ہیں۔ جو تاویل وہ اپنی کتب میں کر لیتے ہیں دیانت اور تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ ایسی روایات یا ان قرآن کریم کی آیات کے متعلق جن میں انہیں کوئی ایسا مضمون نظر آتا وہ ویسی ہی تاویل کر لیتے مذہب تو خشیت اللہ اور تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ہارجیت کا اکھاڑہ بنانے کے لئے۔
موسیٰ کی کتاب پیدائش میں لکھا ہے کہ جب سدوم اور عمارہ میں گناہ بڑھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تباہی کی خبر دی تو وہ حضرت ابراہیم سے یوں گویا ہوا ’’میں اب اُتر کے دیکھوں گا کہ انہوں نے سراسر اس چلانے کے مطابق جو مجھ تک پہنچا، کیا ہے یا نہیں‘‘ (باب ۱۸ آیت ۲۱) اس آیت سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کامل نہیں اور وہ دوسروں سے خبریں سن کر ان کی تصدیق بعد میں کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ اس تصدیق کے لئے آپ آسمان سے اترنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اب اگر ان مسیحی مصنفین میں حقیقی دینی روح ہوتی اور وہ مذہب کو ایک جیت ہار کا اکھاڑہ نہ سمجھتے تو اس آیت کی موجودگی میں انہیں قرآن کریم کے اس مضمون پر کیونکر اعتراض ہو سکتا تھا کہ کلامِ الٰہی آسمان سے اُترتا ہے۔