وَلَاتَقُوْ
تَشْعُرُوْنَo
وقت وہ فارم پُر کرتے ہیں جو داخلہ کیلئے محکمہ تعلیم کی طرف سے مقرر ہوتا ہے ۔امتحان کیلئے یونیورسٹی کا فارم پُر کرتے ہیںاور اس میں ذراسی غلطی ہونے سے بھی اُن کا دل دھڑکنے لگ جاتا ہے ۔ اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں کام خراب نہ ہو جائے ۔ مگر خدا تعالیٰ سے بغیر کوئی فارم پُر کرنے کے اور بغیر کسی شرط پر عمل کرنے کے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ حضور اپنے ملائکہ کی فوج بھیجکر ہماری مدد کیجئے۔حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہاں بھی ایک فارم کی ضرورت ہے ۔ جب تک وہ فارم پُر کر کے اُسپر دستخط نہ کئے جائیں ۔اُس وقت تک خدا تعالیٰ کی نصرت شامل حال نہیں ہو سکتی اور وہ صبر اور صلوٰۃ کا فرم ہے ۔ جب تک صبر اور صلوٰ ۃ کے فارم پر دستخظ نہ کروگے تب تک خدا تعالیٰ کی مدد حاصل نہیں ہو سکے گی۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔اس جگہ اللہ تعالیٰ نے صلوٰۃ کے لفظ کو اُڑادیا ہے ۔ اور صرف َ مَعَ الصّٰبِرِیْنکے الفاظ رکھے ہیں۔ مَعَ اْلُمصَلِّیْنَ نہیں فرمایا ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں صابر کا لفظ اپنے اندر استقلال کے معنے رکھتے ہے اور صابر کا لفظ صرف صبر کا قائم مقام نہیں بلکہ صبر اور صلوٰۃ دونوں کا قائم مقام ہے ۔پس اس کے صرف یہ معنے نہیں کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے بلکہ اسکے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صبرو صلوٰۃ دونوں استقلال کے ساتھ قائم رہنے والوں کے ساتھ ہے ۔ کیونکہ دعا بھی وہی قبول ہوتی ہے جو استقلال سے کی جائے ۔ پس اللہ تعالیٰ صبر کرنیوالوں کے ساتھ رہے کہ یہ معنے ہیں ۔ کہ اگر صبر اور صلوٰۃ کے ذرائع کو استقلال سے استعمال کر و گے تو کامیاب ہو جاؤگے ۔
اِس آیت میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے جو کچھ عرصہ تکلیف برداشت کرتے اور یہ کہنے لگے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تو ہماری سُنتا ہی نہیں ۔ہم تو اُسے پکار پکار کر تھک گئے اب دعا کرنیکا کیا فائدہ ۔اور بعض لوگوں کو تو اس قدر ٹھوکر لگتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے ہی منکر ہو جاتے ہیں۔پس اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَکہہ کر بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی کوحاصل ہوگی جو مشکلات کے وقت استقامت دکھا ئیگا اور صبر اور صلوٰ ۃ کے ذرائع کو استقلال سے استعمال کرتا چلا جائیگا۔
۶۹؎حل لغات:۔ لَا تَقُوْلُوْ الِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتُٗ۔جب قَالَ کے بعد صلہ کے طور پر لام آئے تو اُس کے معنے خطاب کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب قَالَ لِفُلَافٍ کہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اُس نے فلاں کو کہا ۔ اِسی طرح قَالَ لِفُلَافٍکے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ اُس کے حق میں کہا ۔ پس اس آیت میں دونوں معنے ہیں ۔ یہ بھی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارے جاتے ان کو مردہ مت کہواور یہ بھی کہ تم اُن کے بارہ میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں۔ اس آیت میں اَمْوَاتُٗ سے پہلے اور بَلْ کے بعد دونون جگہ ھُمْ محذوت ہے ۔ پس عبادت یوں ہوگی ھُمْ اَمْوَاتُٗ بَلْ ھُمْ لَحْیَآئُٗ۔
اَمْوَاتُٗکیلئے دیکھیں حل لغات سورۃ بقرۃ ۶۹؎یَّشْعُرُوْنَ :۔ دیکھیں حل لغات سورۃ بقرہ۱۵؎
تفسیر :۔ اِس آیت میں خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونیوالوں کو اس لئے زندہ کہا گیا ہے ۔ کہ اہل عرب میں یہ رواج تھا کہ جو لوگ ماریجائیں اور اُن کا بدلہ لے لیا جائے اُن کلئے تو وہ اَحْیَاء کا لفظ استعمال کرتے تھے اور اُن کو زندہ کہتے تھے ۔لیکن جن مقتولوں کا بدلہ نہ لیا جائے وہ انہیں اَمْوَاتُٗ یعنی مردے کہا جاتے تھے ۔یہ محاورہ اُن میں اس لئے رائج ہوا کہ عربوں میں یہ مشہور تھا کہ جو شخص ماراجائے اور اس کا بدلہ نہ لیا جائے اُس کی روح الو کی شکل میں آکر چیختی رہتی ہے اور جب اس کا بدلہ لے لیا جائے تب وہ آرام کرتی ہے ۔ اس سے ان میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ جس مقتول کا بدلہ لے لیا جائے وہ زندہ ہوتا ہے ۔اور جس کا بدلہ نہ لیا جائے وہ مردہ ہوتا ہے ۔چنانچہ انہی معنوں میں ایک شاعر حارث بن حلزہ نے کہا ہے کہ ؎
اِنْ فَبِشْتُمْ مَا بَیْنَ مَلْحَۃَ فَالصَّاقِبٖ
فِیْھاَ ا لْاَ مْوَ تُ وَ ا لْاَ حْیَآء‘
(سبعہ معلقات قصیدہ نمبر۷)
اس میں شاعر فریق مخالفکو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ تم بڑے شریف اور معزز ہو مگر ایسا ہرگز نہیں تم ملحہ اور صاقب کے درمیان جہاں ہمارے اور تمہارے در میان جنگ ہوئی تھی جائو اور وہاں قبریں کھود کر دیکھو تو اُن میں تمہیں کچھ مردے دکھائی دینگے اور کچھ زندہ۔ یعنی تم نے اپنی قوم کے مقتولوں کا بدلہ نہیں لیا۔ اس لئے وہ مردہ ہیں مگر ہمارے جو آدمی نکلیں گے وہ بزبان حال بتاتے جائیں گے کہ وہ زندہ ہیں کیونکہ ان کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ اس میں اس بارہ میں اتینی غیرت تھی کہ اگر کسی مقتول کا بدلہ نہ لیا جاتا تو وہ اُسے حد درجہ کے بے غیرتی سمجھتے تھے کیونکہ ان میں یہ روایت چلی آتی تھی کہ جس مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے اس کی رُوح اُلو بن کر رات دن چیختی رہتی ہے اور جب اس کا بدلہ لے لیا جائے تب وہ نجات پاتی ہے۔ پس شاعر کہتا ہے کہ تم ہمارے باپ دادوں کی قبریں کھود کر دیکھو اور ان سے پوچھو کہ ان کا بدلہ الے لیا گیا ہے یا نہیں ہم نے انکی بجائے دشمن قبیلہ کے کئی کئی اشخاص مار دیئے ہیں۔ پس ہمارے باب دادا مرے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں۔ اگر اُن میں کچھ لوگ مرے ہوئے نظر آئیں تو وہمارے باپ دادا نہیں ہونگے بلکہ تمہارے باپ دادا ہونگے غرض جس مقتول کا بدلہ لے لیا جائے اہل عرب کے محاورہ کے مطابق وہ زندہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جو مسلمان شہید ہو گئے ہیں تم انہیں مردہ مت کہو۔ وہ خداتعالیٰ کے زندہ سپاہی ہیں۔ اور خداتعالیٰ ان کا ضرور بدلہ لے گا۔ چنانچہ اگر ایک صحابیؓ مارا گیا تو اس کے مقابلہ پر مشرکوں کے پانچ پانچ آدمی مارے گئے۔ اور ہر جنگ میں کفار مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہلاک ہوئے۔ سوائے جنگ ِ اُحد کے کہ اس میں بہت سے مسلمان مارے گئے تھے مگر اُن کا بدلہ بھی خداتعالیٰ نے دوسری جنگوں میں لے لیا۔
دوسرے معنی محاورہ میں اس کے یہ ہوتے ہیں کہ جس شخص کا کام جاری رکھنے والے لوگ پیچھے باقی ہوں اس کے نسبت بھی کہتے ہیں۔ مَامَاتَ کہ وہ مرا نہیں اور مردہ اسے کہتے ہیں جو مرے اور اس کا کوئی اچھا اور نیک قائم مقام نہ ہو۔ چنانچہ عبدالملک بادشاہ نے زہری کے ایک مدرسہ کا معائنہ کیا تو اس مدرسہ کے طلباء میں اصمعی بھی تھے جو بہت بڑے مشہور نجومی گزرے ہیں۔ بادشاہ نے اصمعی کا امتحان لیا اور اس سے کوئی سوال پوچھا تو اصمعی نے اس کا نہایت معقول جواب دیا۔ بادشاہ نے اس کا جواب سن کر خوش ہو کر زہری سے کہا کہا مَامَاتَ مَنْ خَلَفَ مِثْکَ کہ وہ شخص نہیں مرا جس نے ایسے لوگ پیچھے چھوڑے ہوں جیسا کہ تو نے چھوڑے ہیں۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ یہ لوگ مردہ نہیں کہلا سکتے کیونکہ جس کام کے لئے انہوں نے جان دی ہے اس کے چلانے والاے لوگ موجود ہیں۔ اور ایک کے مرنے پر دو اس کی جگہ لینے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پس ان کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اچھے قائم مقام پیدا کر دیئے ہیں۔ اور یہ لوگ اپنی تعداد میں پہلے سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ مردہ تو وہ ہوتا ہے جس کا بعد میں کوئی اچھا قائم مقام نہ ہو مگر ان کے تو بہت سے قائم مقام پیدا ہو گئے ہیں اور اائندہ بھی ایسا ہی ہو گا کہ ہم ان میں سے ایک ایک کی جگہ کئی کئی قائم مقام پیدا کرتے چلے جائیں گے اور وہ قوم کبھی مرتی نہیں جس کے افراد اپنے شہداء کی جگہ لیتے چلے جائیں جو قوم اپنے قائم مقام پیدا کرتی چلی جاتی ہے وہ خواہ کتنی بھی چھوٹی ہو اسے کوئی مار نہیں سکتا پس فرماتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مسلمان مارئے گئے ہیں مسلمان مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں۔ اگر ان میں سے ایک مرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اگر جنگ بدر میں کچھ مسلمان مارتے گئے تو اُحد میں اس سے زیادہ کھڑے ہو گئے۔اُحد میں کچھ تکلیف پہنچی اور کچھ مسلمان مارے گئے تو غزوہ خندق میں اس سے زیادہ کھڑے ہو گئے۔ اور غزوہ خندق کے مقابلہ میں فتح مکہ کے موقعہ پر زیادہ لوگ آئے اور اگر فتح مکہ کے موقعہ پر ان کو کچھ نقصان پہنچاتو جنگ تبوک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کہیں زیادہ تعداد لے لگئے۔ غرض ہر قدم پر پہلے سے زیادہ قربانی کرنے والے لوگ اُن میں موجود ہوتے تھے۔ اور جو قوم قربانی کے اس مقام پر پہنچ جاتی ہے اُسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا اور ایسی قوم وہی ہوتی ہے جسے خداتعالیٰ خود کھڑا کرتا ہے۔
تیسرے معنے محاورہ میں اس کے یہ ہوتے ہیں کہ وہ رنج و غم سے آزاد ہیں۔ یعنی جس کا آخری حال یہ ہوا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی راہ میں قتل کیا گیا۔ اُسے اگلے جہان میں کیا دُکھ پہنچنا ہے۔ پس چونکہ وہ خوش و خرم ہیں اور اس زندگی سے اعلیٰ زندگی پا چکے یہں اس لئے ان کو مردہ نہ کہو۔کیونکہ موت غم کی حالت پر دلالت کرتی ہے ورنہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد زندگی تو کافر و مومن سب کو ملیگی پس اُن کو مردہ نہ کہنے سے یہ منشاء ہے کہ مردہ کہنے میں دُکھ کا مفہوم پایا جاتا ہے حالانکہ وہ سُکھ میں ہیں اور اُن کو خداتعالیٰ کی طرف سے انعامات مل رہے یہں پھر انہیں مردہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ شہید کو ایک اعلیٰ حیات مرنے کے بعد ہی مل جاتی ہے۔ جبکہ دوسرے لوگوں کو عرصہ تک ایک درمیانی حالت میں رہنا پڑتا ہے۔ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید تین دن کے اندر اندر زندہ ہوجاتا ہے۔ اور اس کمال کو حاصل کر لیتا ہے جسے دوسرا شخص ایک لمنے عرصے میں حاصل کرتا ہے۔ پس فرماتا ہے ان لوگوں نے مرکر فوراً وہ زندگی حاصل کر لی ہے جس میں رُوح کو کمال حاصل ہو جاتا ہے ورنہ عام زندگی میں تو سب لوگ شریک ہوتے ہیں۔ حتیّٰ کہ ابوجہل کو بھی وہ زندگی حاصل ہو گی اگر وہ زندگی اُسے حاصل نہیں تو وہ جہنم میں کیسے جائیگا۔ پس زندگی تو مومن اور کافر دونوں کو حاصل ہوگی۔لیکن شہید چونکہ خداتعالیٰ کی خاطر اپنی زندگی دے دیتا ہے۔ اس لئے اُسے مرنے کے بعد ہی ایک اعلیٰ حیات مل جاتی ہے۔
پھر اس آیت میں شہید کو زندہ قرار دینے کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ راہ میں جان دینے میں مومن کو صرف یہی خدشہ ہوتا ہے کہ اگر میں مرگیا تو اعمال صالحہ سے محروم رہ جائوں گا۔ مثلاً ایک شخص کی عمر چالیس سال ہے ۔ اگر ساٹھ سال تک وہ اور زندہ رہتا تو اس عرصہ میں وہ ایک بہت سی نیکیاں کر سکتا تھا۔ پس موت کے راستہ میں صرف یہی ایک خیال اس کے لئے روک بن سکتا ہے ورنہ اگر وہ صحیح طور پر آخرت کو مقدم کرتا ہے تو کوئی دنیوی خیال اس کے راستہ میں روک بن ہی نہیں سکتا۔ یہی ایک خیال ہے جو اُسے جان دینے سے روک سکتا ہے کہ اتنی مدت کی نمازوں روزوں جہاد اور تبلیغ سے محروم رہ جائوں گا اس شبہ کی معقولیت کو اللہ تعالیٰ نے بھی تسلیم کیا ہے اور پھر اس کا جواب بھی دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَات’‘ بَلْ اَحْیَآء‘۔ تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والوں کو مُردہ مت کہو وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں۔یعنی شہید کے اعمال کبھی ختم نیہں ہو سکتے وہ زندہ ہے اور اس کے اعمال ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں۔ اس نے خدا کے لئے اپنی جان قربان کر دی اور خدا نے نہ چاہا کہ اُس کے اعمال ختم ہو جائیں۔ کوئی دن نہیں گذرتا کہ تم نمازیں پڑھو اور ان کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اُن سے محروم رہے کوئی رمضان نہیں گذرتا کہ تم اُسکے روزے رکھو اور اُن کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اس سے محروم رہے۔ کوئی حج نہیں کہ تم تکلیف اٹھا کر اس کا ثواب حاصل کرو اور شہید اس ثواب سے محروم رہے غرض وہ لوگ وہی برکتیں حاصل کر رہے ہیں جو تم کر رہے ہو اور اس طرح خداتعالیٰ کے قرب میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں جس طرح تم بڑھتے جا رہے ہو۔پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فلسفۂ موت و حیات پر نہایت لطیف رنگ میں روشنی ڈالی ہے۔ اور بتایا ہے کہ شہادت کا مقام حاصل کرنے والوں کو دائمی حیات حاصل ہوتی ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی فوجوں نے مارا ہو گا۔ وہ کس قدر خوش ہوئی ہونگی اور انہوں نے کس مسرت سے کہا ہو گا کہ لو یہ قصہ ختم ہو گیا۔ مگر کیا واقعہ میں وہ قصہ ختم ہو گیا؟ دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام حسین ؓ آج بھی زندہ ہیں۔ مگر یزید کو اس وقت بھی مردہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے رستہ میں قربان ہوتا ہے تو اس کا خون رائیگاں نہیں جاتا بلکہ اس کی جگہ اللہ تعالیٰ ایک قوم لاتا اور اپنے سلسلہ میں داخل کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں تم انہیں مردہ مت کہو کیونکہ وہ زندہ ہیں۔ خداتعالیٰ نے ان لوگوں کو زندہ اس لئے بھی کہا کہ جب ایک شخص کی جگہ دس کھڑے ہو گئے تو وہ مرا کہاں۔ اور جب وہ مرا نہیں تو اُسے مردہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ کے مقربین اور اس کی راہ میں شہید ہونے والے کبھی نہیں مرتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر لٹکائے گئے اور پھر وہ زندہ ہی صلیب سے اُتارے گئے گو جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے بعض نے یہ بھی سمجھا کہ آپ مر گئے ہیں۔ مگر آپ کو صلیب پر لٹکانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ اس صلیب پر لٹکانے کے جرم میں آج بھی جب کہ اس واقعہ پر انیس سو سال کا عرصلہ گذر چکا ہے یہود صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں۔ حالانکہ پچاس ساٹھ سال کے بعد لوگ اپنے دادوں پڑدادوں کا نام تک بھول جاتا ہیں بیسیوں آدمی ہیں جو مجھ سے ملتیہ یں اور میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ آپ کے دادا کا کیا نام تھا تو وہ بتا نہیں سکتے۔ اور کہتے ہیں پتہ نہیں کیا نام تھا اور اگر دادا کا نام لوگ جانتے بھی ہوں تو سو سال پہلے کے آباء کو تو لاکھوں کروڑوں میں سے کوئی ایک جانتا ہے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارنے کی کوشش پر انیس سوسال گذر گئے اور آج تک یہودیوں کو پھانسیاں مل رہی ہیں۔ اسی طرح مکہ کے جن اکابر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مارنا چاہا۔ کیا آج دنیا میں ان لوگوں کا کوئی نام لیوا ہے؟ اُحد کے مقام پر ابوسفیان نے آواز دی تھی اور کہا تھا کیا تم میں محمد( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو مارڈالا ہے ۔ پھر اس نے آواز دی۔ کیا تم میں ابو بکرؓ ہے؟ اور جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار ڈالا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں عمرؓ ہے؟ جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے عمرؓ کو بھی مار ڈالا ہے ۔لیکن آج جائو اور دنیا کے کناروں پر اس آواز دینے والے کے ہمنوا کفار کے سردار ابوجہل کو بلائو اور آواز دو ۔ کہ کیا تم میں ابوجہل ہے۔ تو تم دیکھو گے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام پر تو کروڑوں آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی اور ساری دنیا بول اُٹھیگی کہ ہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم میں موجود ہیں کیونکہ آپکی نمائندگی کا شرف ہمیں حاصل ہے۔ لیکن ابوجہل کو بلانے پر تمہیں کسی گوشہ سے بھی آواز اٹھتی سنائی نہیں دیگی۔ ابوجہل کی اولاد آج بھی دنیا میں موجود ہے مگر کسی کو جرات نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ میں ابوجہل کی اولاد میں سے ہوں۔ شاید عتبہ اور شیبہ کی اولاد بھی آج دنیا میں موجود ہو۔ مگر کیا کوئی کہتا ہے کہ میں عتبہ اور شیبہ کی اولاد ہوں۔ پس خداتعالیٰ کی راہ میں مارے جانے والے کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ قیامت تک زندہ رہتے ہیں اور آئندہ نسلیں ان کا نام لے لے کر ان کے لئے دعائیں کرتی ہیں ان کی خوبیوں کو یاد رکھتی ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کے متعلق مفسریں سے جو میں اختلاف رکھتا ہوں اس میں میں حق پر ہوں۔ اگر وہاں فتح مکہ مراد نہ لی جائے بلکہ تحویل قبلہ مراد لیں تو اس آیت کا یہاں کوئی تعلق ہی معلوم نہیں ہوتا۔ نماز اور قبلہ کے ذکر میں شہیداء کا ذکر کیسے آگیا۔ جنگ کے ساتھ شہداء کا ذکر قابلِ تسلیم بھی ہے لیکن تحویل قبلہ کے ساتھ اس کا ذکر بالکل بے جوڑ معلوم ہوتا ہے۔ پس یہ آیت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پہلی آیت وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ سے مراد فتح مکہ ہی ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اگر فتح مکہ کی غرض سے تمہیں لڑائیاں کرنی پڑیں تو گھبرانا نہیں کیونکہ اس میں تمہاری زندگی ہے اور جو لوگ مارے جائیں ان کو مردہ مت کہو۔ کیونکہ وہ زندہ ہیں اور جو لوگ اپنی نادانی سے اُن کو مردہ کہتے ہیں ان کے نفس میں اتنی حِس ہی نہیں کہ وہ اس کی اہمیت کو محسوس کریں اس میں ان معترضین کا بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ لڑائیوں کی اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو فرماتا ہے کہ تمہاری آنکھیں اس بینائی سے جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو عطا کی ہے محروم ہیں۔ تم کو کیا معلوم کہ اسلام کی فتح کی بنیاد انہی لوگوں کے ہاتھ سے رکھی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ہاں مارے جانے والے اس کو خوب سمجھتے ہیں کہ ہمارے شہید ہونے سے اسلام کو کیا فائدہ ہو گا۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک فعہ حضرت جابربن عبداللہ کو دیکھا کہ وہ بہت افسردہ اور غمگین کھڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا تم کیوں غمگین ہو۔ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! میرے والد اُحد کی جنگ میں مارے گئے ہیں اور انہوں نے اپنے پیچھے بہت بڑا عیال اور قرضہ چھوڑا ہے اس لئے میں افسردہ ہوں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ کیا میں تمہیں خوشخبری نہ دوں کہ موت کے بعد تمہارے والد کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ وہ خداتعالیٰ کے سامنے جب زندہ ہو کر حاضر ہوئے توا للہ تعالیٰ نے ان سے خو ش ہو کر بالمشافہ کلام کیا اور فرمایا۔ اے مریے بندے تو مجھ سے جو کچھ مانگنا چاہتا ہے مانگ میں تجھے دوںگا۔ انہوں نے عرض کیا حضور میری صرف اتنی ہی خواہش ہے کہ میں پھر زندہ ہو کر دنیا میں جائوں اور ااپ کیر اہ میں مارا جائوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ایسا کر تو سکتا ہوں مگر میں یہ قانون بنا چکا ہوں کہ جو ایک دفعہ مر جائے اس کو دنیا میں واپس نہیں بھیجوں گا۔
(ترمذی جلد ۳ ابواب التفسیر سورہ آل عمران) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو سچا ایمان لاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارا مرنا قوم کو زندہ کرنے کا موجب ہو گا اور آخرت میں بھی ہمارے لئے بہت بڑا ثواب کا موجب ہو گا اس لئے وہ موت کو کوئی خوف والی چیز نہیں سمجھتے۔ وہ خداتعالیٰ کی رہ میں جان دے کر بھی زندہ ہوتے ہیں اور جانیں نہ دینے والے زندہ رہ کر بھی مردہ ہوتے ہیں۔چنانچہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو انذاری پیشگوئی فرمائی تھی جب اس کی میعاد گذر گئی اور آتھم نہ مرا تو ظاہربین لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ ایک دفعہ نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی بعض لوگوں نے ہنسی اڑانی شروع کر دی کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور آتھم ابی تک زندہ ہے اُس وقت دربار میں خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی بیٹھے ہوئے تھے جن کے نواب صاحب مرید تھے۔باتوںباتوں میں نواب صاحب سے مونہہ سے بھی یہ فقرہ نکل گیا کہ ہاں! مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اس پر خواجہ غلام فریم صاحب جوش میں آگئے۔ اور انہوں نے بڑے جلال سے فرمایا کہ کون کہتا ہے کہ آتھم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش نظر آرہی ہے اس پر نواب صاحب خاموش ہو گئے توبعض لوگوں ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر زندہ معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً مردہ ہوتے ہیں۔ اور بعض مردہ نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً زندہ ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ زندہ ہوتیہ یں ان میں سے ہزاروں روحانی نگاہ رکھنے والوں کو مرادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قبرستان میں رہتے تھے ایک دفعہ کسی نے ان سے کہا کہ آپ زندوں کو چھوڑ کر قبرستان میں کیوں آگئے ہیں۔ پس رُوحانی مردوں اور رُوحانی زندوں کو پہچاننا ہر ایک کا کام نہیں۔ مگر اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک ظاہری علامت ایسی بتا دی ہے جس سے روحانی مردوں اور زندوں کو پہچاننے میں بڑی حد تک آسانی ہوتی ہے۔
وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔ شعور وہ علم ہوتا ہے جو انسان کے اندر کی طرف سے باہر کو آتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی دوسرے سے کوئی بات سن کر ایک نتیجہ قائم کرے تو وہ شعور نہیں کہلائیگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکیگا کہ میں نے شعور حاصل کر لیا۔ بلکہ یہ کہگا کہ مجھے علم ہو گیا۔ لیکن اگر اس کے نفس کے اندر سے وہ بات پیدا ہو تو وہ کہگا مجھے فلاں بات کا شعور ہوا۔ چنانچہ جب ایک بچہ بالغ ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہوہ شعور کی عمر تک پہنچ گیا حالانکہ اس کو علم پہلے بھی حاصل ہوتا ہے بالوں کو شعار اسی لئے کہتے ہیں وہ اندر سے باہر کی طرف آتے ہین اور شعار لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے ساتھ چمٹا ہوا ہوتا ہے اور شعر کو بھی اس لئے شعر کہتے ہیں کہ اس کے الفاظ اندر سے باہر آتے ہیں اور اس کا مضمون ایسا ہوتا ہے جو انسان کے اندرونی احساسات کا ترجمان ہوتا ہے اور اُسے پڑھ کر انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ بات تو میرے اندر بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ غالب اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ۔ ؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ ج اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ باتیں کہ شہداء کو ایک اعلیٰ درجہ کی حیات حاصل ہے۔ یا ایک ایک شہید کی جگہ لینے کیلئے پچا پچاس ور سو سو آدمی آئیں گے یا دو رنج و غم سے کلی طور پرآزاد ہیں۔ یا ان کے خون رائیگاں نہیں جائیں گے انسانی شعور سے تعلق رکھتی ہیں اگر کوئی شخص فطرتِ صحیحہ پر غور کرنے کا عادی ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ماں جب تک اپنی جان کی قربانی پیش نہیں کرتی اُسے بچہ حاصل نہیں ہوتا۔ دانہ جب تک خاک میں مل کر اپنی جان کو نہیں کھوتا وہ ایک سے ساتھ سو دانوں میں تبدیل نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی قوم زندہ نہیں ہو سکتی جب تک اس کے افراد جانوں کو ایک بے حقیقت شیٗ سمجھ کر اُسے قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار نہ ہوں اور کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جب تک اس کے افراد کے دلوں میں اپنے شہداء کا پورا احترام نہ ہو۔ یہ ایک فطرتی آواز ہے جو شعور کے کانوں سے سنی جا سکتی ہے مگر جن لوگوں کو شعور حاصل نہیں۔ وہ بات بات پر اعتراض کرتے رہتے ہیں اور جب بھی کسی مالی یا جانی قربانی کا مطالبہ کیا جائے ان کے قدم لڑکھڑانے لگ جاتے ہیں۔ اور وہ ان لوگوں کو بیوقوف سمجھتے جو اپنے آپ کو قربانیوں کی آگ میں جھونکنے کے لئے آگے نکل آتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہے کہ تم اپنے شعور سے کام لو اور شہدا ء کو مردہ کہہ کر ان کی بے حرمتی مت کرو۔ وہ مردہ نہیں بلکہ حقیقتاً وہی زندہ ہیں۔ کیونکہ تاریخ ان
وَلَنَبْلُوَ نَّکُمْ
وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَo
کے نام کو زندہ رکھی گی اور آئندہ آنے والی نسلیں انہیں کے نقشِ قدم پر چلیں گی اور ان کے کارناموں کو یاد رکھیں گی اورہمیشہ ان کی بلندی درجات اور مغرفرت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعائیں کرتی رہیں گی۔ تم اُسے زندہ سمجھتے ہو جو جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہو حالانکہ زندہ وہ ہے جس نے مرکر اپنی قوم کو زندہ کر دیا اگر تمہیں شہداء بھی مردہ نظر آتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا شعور ناقص ہے تم اس کی اصلاح کرو اور زندگی اور موت کے سلسلہ کو سمجھنے کی کوشش کرو۔
۷۰؎ حل لغات:۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ: بَلَا ء’‘ کسی کے خیر اور شر کے ظاہر کرنے کو کہتے ہیں اور یہ ظاہر کرنا تین اگراض کے لئے ہوتا ہے۔ اول اپنا علم بڑھانے کے لئے جیسے اُستاد اپنے شاگرد کا اس غرض کے لئے امتحان لیتا ہے کہ اُسے معلوم ہو کہ طالب علم نے اپنا سبق یاد کیا ہے یا نہیں۔ دوم اس لئے کہ جس کو ابتلاء میں ڈالا گیا ہے اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کی کیسی حالت ہے کیونکہ عام لوگ خود بھی نہیں جانتے کہ جلاں بات ہم میں ہے یا نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ منافقوں کے متعلق فرماتا ہے وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ(بقرۃ ع۲)یعنی منافق فسادی ہیں مگر وہ اس امر کو سمجھتے نہیں کہ ہم فساد کر رہے ہیں۔ سوم۔ اس لئے کہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ اس شخص کی ایمانی حالت کیسی ہے۔ یہ مثال اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑسے سوال کیا تو اس کی غرض یہ تھی کہ فرشتوں کو معلوم ہو کہ آدم ؑ میں کیا کیا طاقتیں ہیں۔ خدا تعالیٰ چونکہ غلیم و خبیر ہے ۔ اس لئے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتا ہے تو پچھلے دو مونوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نہ کہ پہلے ہیں اگر ابتلاء نہ آئے تو انسان ایمان میں ترقی نہ کر سکے۔ اور اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس کے ایمان کی کیا حالت ہے۔(مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورۃ بقرہ۵۰؎)
ثَمَرات: اس کے معنے پھلوں کے بھی ہوتے ہیں اور کوششوں کے نتائج کے بھی۔
وَبَشِّرِالصّٰبِرِیِنْ: بشارت ایسی خبر کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے چہرہ پر اثر پڑے۔ خواہ وہ خوشی کی خبر ہو یا غم کی۔
تفسیر:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ قسم کے ابتلائوں کا ذکر فرمایا ہے اور کہا ہے کہ ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم ان ابتلائوں میں سے گذرے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ ایک ابتلاء تو یہ ہو گا کہ دشمنوں کے حملوں کا خوف تمہیں لاحق ہو گا۔ ساری قومیں تمہارے خلاف کھڑی ہو جائیں گی۔ اور تم یہ حملہ کریں گی۔ حکومتیں تم سے ناراض ہو جائیں گی۔ اور تمہیں مٹانے کی کوشش کرینگی۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن سے بزدل لوگ ڈر جاتے ہیں اور کہتے ہیں خدا جانے اب کیا ہو گا اور بہت سے لوگوں کے حوصلے اس خوف کی وجہ سے پست ہو جاتے ہیں ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ پبلک اور حکومت نے ہمارے خلاف جتھہ بنا لیا ہے یا پنچائت نے ہمارے خلاف فیصلہ کر دیا ہے۔
پھر اس سے ترقی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھوک کے ذریعے مومنوں کے ثباتِ قسم کا امتحان لیتا ہے۔ بھوک کی تکلیف سے یہ مراد ہے کہ جب خداتعلایٰ کے مامور کی آواز پر ایک گروہ جمع ہو جاتا ہے تو لوگ ان کا بئیکاٹ کر دیتے ہیں۔ ملازمتوں سے برخواست کر دیتے ہیں۔ دوکانوں سے سودا نہیں دیتے۔ پیشہ وروں سے کام لینا بند کر دیتے ہیں گویا پہلے تو صرف دھمکیاں دیتے ہیں جن کی وجہ سے خوف لاحق ہوتا ہے کہ وہ کہیں نقصان نہ پہنچادیںمگر دوسرے قدم پر وہ عملی رنگ میںبھوک اور افلاس کے سامان پیدا کر دیتے ہیں مثلاً یہ کہ ان کو کوئی سودا نہیں دینا۔ ان کے پاس غلہ نہیں بیچنا جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تو ہر قسم کے کھانے پینے کی چیزیں روک لی گئیں اور یہ بائیکاٹ کا سلسلہ ایک لمبے عرصے تک جاری رہا۔
پھر فرماتا ہے کہ ان مصائب کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تمہارے مالوں کا لوٹنا بھی جائز قرار دے دیا جائیگا۔ گویا پہلے تو اپنے پاس سے مال واسباب اور سودا اور غلہ وغیرہ دینا بند کیا جائیگا اور پھر مومنوں کے پس جو کچھ اندوختہ ہو گا اُسے بھی لوٹنا جائز قرار دے دیا جائیگا۔ لیکن جب اس سے بھی کچھ نہیں بنتا تو پھر وہ مومنوں کی جانوں پر حملہ شروع کر دیتے ہیں۔لیکن جب وہ جان دینے سے بھی باز نہیں آتے تو ان کی اولادوں پر حملے کرنے لگ جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے ہمارے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر بعض خبیث الطبع لوگ ایسے بھی آتے ہیں جو احمدیوں کے بچے اُٹھا کر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہا س ذریعہ سے جماعت کو دکھ پہنچائیں اسی طرح ثمرات کے نقصان سے یہ بھی مراد ہے کہ دشمن ان کی کوششوں میں رخنہ ڈالیں گے اور انہیں مکٹلف قسم کے منافع سے محروم کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ادنیٰ درجہ کے مومنوں پر جو ابتلاء آتے ہیں وہ تو اس لئے آتے ہیں کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کی ایمانی حالت کیسی ہے۔ اور جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں پر آتے ہیں وہ اس لئے آتے ہیں کہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ ان کی کیا حالت ہے۔ عام طور پر لوگ اپنے متعلق خیال کرتے ہیں کہ انہیں ایمان میں ثباتِ قدم حاصل ہے مگر موقعہ آنے پر ان سے کزوری ظاہر ہو جاتی ہے اور ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے اندر یہ یہ کمزوری ہے اور وہ اس کو دور کرنے کی وشش کرتے ہیں پھر ابتلاء آتا ہے تو انکو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر فلاں نقص بھی موجود ہے اور وہ اُسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر ابتلاء آتا ہے تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر فلاں نقص بھی موجود ہے اور و ہ اُسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ وہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر اس لئے ابتلاء لائے جاتے ہیں تاکہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ یہ کیسے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے ہیں کہ کوئی مصیبت ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کرتی۔ غرض بتایا کہ ہم تمہارے اندرونہ کو ظاہر کرنے کے لئے پانچ قسم کے ابتلاء تم پر وارد کرینگے۔ جن میں سے ایک خوف ہو گا جو بیرونی دکھ کا نام ہے دوسرا ابتلاء بھوک کا ہو گا۔ جو اندرونی تکلیف ہے۔گویا بعض کوبیرونی دکھوں اور تکالیف کے ذریعہ اور بعض کو اندرونی تکلیفوں کے ذریعہ سے ہم آزمائیں گے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لڑائی کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں مگر بھوک کو برداشت نہیں کر سکتے۔ فوجوں میں سپاہی لڑتے ہیں مگر چونکہ وہ بھوک کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لئے انہیں چنے وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ مگر مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی وہ خدا کے لئے بھوکا رہنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ کو باہر بھیجا تو ان میں سے کسی نے بھی یہ نہ پوچھا کہ ہم کھائینگے کیا۔ چنانچہ وہ پتے کھا کر گذارہ کرتے تھے۔ اسی طرح ایک دفعہ انہوں نے کھجوروں کی گٹھلیاں کھا کر گذارہ کیا۔ پس فرمایا ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ تم بہادر ہو یا نہیں اور یہ بھی کہ تم بھوک برداشت کرتے ہو یا نہیں۔
الَّذِیْنَ اِذَآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo
پھر بعض لوگ بھوک اور خوف تو برداشت کر لیتے ہیں مگر مال کے خطرہ کو برداشت نہیں کر سکتے بعض مال کے خطرہ کو برداشت کر لیتے ہیں مگر جان کے خطرہ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ پس فرماتا ہے تمہیں مالی اور جانی نقصانات بھی برداشت کرنے پڑیں گے اور بعض دفعہ اپنی کوششوں کے نتائج سے بھی محروم رہنا پڑیگا۔ ثمرات کے کم ہونے کی مثال اُحد کی جنگ ہے کہ ہو کفار سے لڑے بھی اور شہید بھی ہوئے مگر انہیں اس کا ثمرہ نہ ملا۔ اسی طرح ثمرات کے نقصان میں تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ کی بربادی بھی شامل ہے۔ جو جنگ کا ایک لازمی نتیجہ ہوتی ہے غرض بتایا کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہو گا کہ تم کام کرو گے مگر اس کے فوائد تمہاری امیدوں کے مطابق نہیں نکلیںگے۔ مگر فرمایا وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ وہ لوگ جو ان تمام ابتلائوں کو برداشت کرلیں گے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں گے۔ ان کو کوئی ڈر نہیں۔ وہ کہتے ہیں لوگ ہمیں ڈراتے ہیں تو بے شک ڈرائیں۔ اگر ہمارا مقاطعہ کرتے ہیں تو بے شک کریں۔ اگر وہ ہمیں سودا سلف نہیںدیتے تو بے شک نہ دیںہم تو خداتعالیٰ کے رستے میں قربانیوں کرتے چلے جائیں گے۔ اسی طرح اگر وہ ہمارے مال لوٹنے پر آئے ہیں تو بے شک لوٹ لیں اور پھر جب وہ ان کی جانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں توکہتے ہیں کہ تم ہمیں قتل کر کے ان کی تباہی کا سامان پیدا کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اچھا تم یہ کام بھی کر کے دیکھ لو۔ ہمیں تمہارے ان کاموں کی بھی پروا نہیں۔ غرض ابتداء سے انتہا تک وہ ان کے ہر حملہ کے مقابلہ میں قائم رہتے ہیں اور یہی کہتے رہتے ہیں کہ جو کچھ تمہاری مرضی ہے کر کے دیکھ لو۔ تم ہمیں صداقت سے منحرف نہیں کر سکتے۔ جب وہ پانچوں قسم کے ابتلائوں سے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ ان میں ثابت قدم رہتے ہیں اور استقلال سے ان کو برداشت کرتے ہیں تو اللہ تعالیی انہیں بشارت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مبارک ہو تمہارے ایمان کی پختگی ثابت ہو گی۔ تم امتحان میں پاس ہو گئے اب تم اگلی جماعت کی تیاری کرو۔
اس آیت سے بھی پتہ لگتا ہے کہ مِنْ حِیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ میں قبلہ کی طرف منہ کرنے کا ذکر نہ تھا بلکہ فتح مکہ کا ذکر تھا۔ ورنہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مارے جانے اور ان ابتلائوں میں پڑنے کا کیا تعلق تھا۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس آیت میں یہی حکم دیا گیا تھا کہ تم نے مکہ فتح کرنا ہے۔ مگر وَلَنَبْلَُ نَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ میں بتایا کہ کام آسانی سے نہیں ہو گا بلکہ تمہیں سخت تکالیف میں سے گذرنا ہو گا۔لیکن یہ تکالیف تمہارے لئے بہتر ہو نگی کیونکہ ان سے تمہارے ایمانوں کی پختگی ظاہر ہو جائیگی۔
۷۱؎ حل لغات:۔مُصِیْبَۃ’‘۔ ہمارے ملک میں مصیبت ان تکلیف دہ واقعات کو کہتے ہیں جو انسان کو پیش آتے ہیں۔ لیکن عربی زبان میں مصیبت ایسی چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو بہر حال پہنچنے والی ہو۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان مشکلات سے بھاگتا اور ناپسندیدہ باتوں سے کنارہ کشی کرتا ہے۔ اور جو چیزیں اس کی خوشی اور مسرت کا باعث ہوتی ہیں اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے پس جس چیز کی طرف انسان خود بخود جائے وہ پہنچنے والی نہیں کہلاسکتی۔لیکن جس سے انسان بھاگے اور وہ اُسے پکڑلے وہ پہنچنے والی کہلاتی ہے۔ اور چونکہ مصیبت سے ہر انسان بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی مصیبت اسے آچمٹتی ہے۔ اس لئے عربی زبان میں ایسی چیز کو جو انسان کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس کے پاس پہنچ کر رہے مصیبت کہتے ہیں۔ لیکن اُردو میں خالص اس کے وہی معنے رہ گئے ہیں جو عربی میں ضمنی تھے اور مصیبت صرف اس بات کو کہتے ہیں جو تکلیف دہ ہو۔
تفسیر:۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ جزع فزع کرنے کی بجائے پورے یقین اور ایمان کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اُسی کی طرف ہم لوٹنے والے ہیں۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے امید رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو وہ گھبرانے اور جزع فزع کرنے کی بجائے خداتعالیٰ پر توکل رکھیں اور اُسی کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے سچے دل سے یہ کہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے مگر اپنے اندر نہایت وسیع مطالب رکھتا ہے۔
(۱) اس فقرے میں دو جملے ہیں۔ ایک تو اِنَّا لِلّٰہِہے یعنی ہم اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ اور دوسراوَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَہے۔ یعنی ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پہلا جملہ اس مضمون پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی مالک اپنی چیز کو اپنے ہاتھوں تباہ نہیں کرتا بلکہ اسے محفوظ رکھنے کو کوشش کرتا ہے وہ مالک برا ہی بیوقوف ہوگا جو اپنی چیز کو آپ تباہ کرنے کی کوشش کرے۔ پس اگر بندہ محض خدا کا ہو جائے اور اُسی کو اپنا حقیقی مالک سمجھے تو اس کے دل میں یہ وہم بھی نہیں آسکتا ہے کہ وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے واپس لے لی ہے۔ یا وہ مصائب جو مجھ پر نازل ہو رہے ہیں ان میں میری تباہی اور بربادی مقصود ہے۔ جو مومن یہ یقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا ہوں اور جس طرح ماں اپنے بچہ کو گود میں رکھتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ نے بھی مجھے اپنی گود میں اٹھایا ہوا ہے وہ یہ تصور بھی کس طرح کر سکتا ہے کہ میں تباہ ہو جاونگا۔ اور میری تکلیف مجھ سے دور نہیں کی جائیں گی۔ محافظ کا تو فرض ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کو ہر نقصان سے بچائے پھر اللہ تعالیٰ جوتمام محافظوں سے بڑا محافظ ہے کب کسی مومن کو تباہ کر سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ جب کوئی چیز اپنے بندے سے واپس لیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس چیز کو تباہ کرنا چاہتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے زیادہ بہتر جگہ میں رکھتا ہے۔ اس کی مثال باکل ایسی ہی ہے جیسے عورتیں انے گھروں کی صفائی کرتے وقت سامان وغیرہ کو ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیتی ہیں تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ عورتیں اپنی چیزوں کو اِدھر اُدھر رکھیں تو وہ رونے لگ جائیں۔ یا مثلاً زمیندار کھیت میں بیج ڈالتا ہے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیج کو ضائر کر رہا ہے مگر وہ روتا نہیں اس لئے کہ اس کا نتیجہ تباہی نہیں بلکہ ترقی ہوتا ہے۔ چنانچہ وہی بیج جب کچھ عرصلہ کے بعد اُسے لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی شکل میں واپس ملتا ہے اتو اس کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح بندہ اگر یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کریگا اُس میں میری بہتری ہو گی تو کبھی بھی جزع فزع اور بے صبری کا اظہار نہ کرے۔ جب انسان ایک خوبصورت عمارت بناتا اور پہلی عمارت کو توڑتا پھوڑتا ہے تو اُس پر روتا نہیں۔ بلکہ خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کپڑے کا دل اور اس کی آنکھیں ہوتیں تو جب درزی اُسے کاٹتا تو وہ رونے کی بجائے خوش ہوتا کہ یہ مجھے اچھا بنانے لگا ہے۔ یہی حال انسان کا ہے اگر انسان یہ یقین رکھے کہ خداتعالیٰ میرا مالک ہے اور وہ جو تبدیلی بھی کریگا میرے فائدے کے لئے کریگا تو وہ جزع فزع نہیں کر سکتا۔ ہاں غم کا اظہار کرنا صبر کے خلاف نہیں ہوتا۔ شادی کے وقت لڑکیاں اپنے گھروں کو رخصت ہوتی ہیں تو ماں باپ رونے لگ جاتے ہیں مگر یہ جزع فزع نہیں کہلاتا۔ کیونکہ غم درحقیقت ایک قدرتی احسا س ہے۔ جو مصیبت کے وقت ہر انسان کے اندر پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس کی علامت دل پر بوجھ ہونا اور آنکھوں میں آنسو آجانا ہے لیکن جزع فزع کرنے والا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ خدا نے اُسے تباہ کر دیا ہے اور یہ چیز مومنانہ توکل اور ایمان کے بالکل خلاف ہے۔ پس اَنَّا لِلّٰہِ یہ بتاتا گیا ہے کہ مصیبت یا ابتلاء کے آنے پر کافر تو یہ سمجھتا ہے کہ میں مارا گیا لیکن مومن یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بلا میں بھی میرے لئے کوئی خیر اور برکت کا پہلو پوشیدہ رکھا ہو گا۔
(۲) اِنَّا لِلّٰہِ کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ مومن کو جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ جھٹ کہتا ہے کہ میرا تو اس چیز کے ساتھ صرف ایک عارضی تعلق تھا اصل تعلق تو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اور اُسی کی کاطر اس چیز سے بھی میرا تعلق تھا اب اگر اُس نے اپنی کسی حکمت کے باعث یہ چاہا ہے کہ میرا اس چیز سے تعلق ٹوٹ جائے تو میں اس کے فعل پر کیوں اعتراض کروں۔ اس کی مثال حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی میں بھی ملتی ہے۔ ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ ماںباپ کو عموماً چھوٹے بچے بہت پیارے ہوتے ہیں اس لحاظ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس سے بہت اُنس تھا اور پھر اس لئے بھی آپ اس سے زیادہ پیار کرتے تھے کہ وہ عموماً بیمار رہتا تھا۔ میری عمر جب وہ فوت ہوا اٹھاراہ سال کے قریب تھی اس کی آخری بیماری کے ایام میں اس کا علاج کرنے میں بہت سے معالج مصروف تھے مثلا حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس روز صبح کی نماز پڑھ کر گھر آئے تو ساتھ ہی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور ڈاکٹر صاحبان بھی آگئے۔ اس وقت اسے ضعف کی شکایت تھی۔ لیکن چہرہ سے اچھی حالت معلوم ہوتی تھی ڈاکٹروں نے اُسے دیکھ کر کہا کہ اب افاقہ معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ مطمئن ہو گئے لیکن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ چونکہ زیادہ تجربہ کار تھے اس لئے آپ نے فوراً معلوم کر لیا کہ بچہ کی حالت نازک ہے۔ انہو ں نے گھبرا کر فوراً نبض دیکھنی شروع کر دی۔ لیکن نبض کی حرکت معلوم نہ ہوئی۔ کیونکہ جوں جوں انسان موت کے قریب ہوتا جاتا ہے اس کی نبض پیچھے ہٹنی شروع ہو جاتی ہے۔ پھر آپ نے اس کی بغل میں ہاتھ رکھا وہاں بھی نبض نہ ملی ۔ جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ نبض نہیںملتی تو آپ نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور جلدی مشک دیجیئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹرنک میں سے مشک نکلالنے کے لئے تشریف لے گئے تو چونکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت تھی اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبارک احمد سے بہت پیار رکھتے ہیں اس لئے آپ نے جب دیکھا کہ مبارک احمد فوت ہو رہا ہے تو آپ کو اتنی گھبراہٹ ہوئی کہ آپ کھڑے بھی نہ رہ سکے ۔زمین پر بیٹھ گئے اور فرمایا حضور جلدی سے مشک لائیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس فقرہ سے سمجھ گئے کہ بچے کی حالت اچھی نہیں اور ویسے ہی بغیر مشک لئے واپس آگئے۔ اور فرمایا کیا بچہ فوت ہو گیا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ہاں حضور فوت ہو گیا ہے۔ آپ نے فوراً اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنپڑھا۔ اور بجائے کسی گھبراہٹ کا اظہار کرنے کے باہر کے احمدیوں کو خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مومنوں پر ابتلاء آیا ہی کرتے ہیں۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ بلکہ اپنے ایمان کو پختہ رکھنا چاہیے اور پھر لکھاکہ مبارک احمد کی وفات کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے مجھے خبر دے دی تھی کہ یہ چھوٹی عمر میں ہی اُٹھا لیا جائیگا۔ پس اس کے فوت ہونے سے خداتعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہو گئی۔ پھر آپ نے اس کے کتبہ کے لئے جو اشعار لکھے۔ اُن میں سے ایک یہ بھی مصرع ہے کہ ع
بُلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جان فد اکر
یہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن کا ہی ایک رنگ میں مفہوم رکھتاہے۔ غرض مومن کو جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرا تو کدا سے تعلق ہے اگر میرے کسی عزیز کو خداتعالیٰ نے اپنے پاس بُلا لینا مناسب سمجھا ہے تو مجھے اس پر کیا شکوہ ہو سکتا ہے اُسی کی چیز تھی اور وہی بلانے کا حق دار تھا پس۔ اِنَّا لِلّٰہِکے ایک تو یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تباہ نہیں کریگا اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ ہمارا خدا راضی ہے اس میں ہم بھی راضی ہیں۔
(۳) تیسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اَنَا لِلّٰہِ نہیں فرمایا بلکہ اِنَّا لِلّٰہِ فرمایا ہے تاکہ یہ اقرار صرف انفرادی رنگ میں نہ ہو بلکہ ہر انسان علیٰ وجہ البصیرت اس یقین پر قائم ہو کہ دنیا کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی ہے اور ہمارا ان سے محض عارضی تعلق ہے۔ پس نہ صرف مجھے بلکہ دنیا کے کسی انسان کوبھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خداتعالیٰ کے کسی فعل پر اعتراض کرے یا اس کی کسی تلخ قاش پر اپنا مونہہ بنانا شروع کر دے میثنوی رومی میں حضرت لقمانؓ کے متعلق جن کو بعض لوگ نبی بھی سمجھتے ہیں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہو ابھی چھوٹے ہی تھے کہ انہیں کسی نے ان کے والدین کی وفات کی وجہ سے غلام بنا لیا اور ایک تاجر کے پاس بیچ دیا۔ اس تاجر نے انہیں ذہین اور ہوشیار سمجھ کر ان سے غلاموں والا سلوک ترک کر دیا اور ان سے محبت کرنے لگا۔ ایک دن کسی نے اس کو تحفۃً ایک خربوزہ پیش کیا جو بظاہر بہت اچھا تھا۔ اس نے ایک قاش کاٹ کر حضرت لقمان کو دی۔ حضرت لقمان نے پھر مزے لے لے کر کھائی ۔ حتی کہ تاجر نے یہ سمجھ کر کہ یہ بڑا میٹھا خربوزہ ہے ایک قاش خود بھی چھکی تو اسے معلوم ہوا کہ نہایت کڑوا خربوزہ ہے۔ اس پر وہ حضرت لقمان کو خفا ہا کہ تم نے بتایا کیوںنہیں۔ اگر تم بتا تے تو میں تمہیں اور کڑوی قاشیں نہ کھلاتا۔ حضرت لقمان نے کہا کہ جس ہاتھ سے اتنی میٹھی قاشیں میں کھائی ہوئی تھیں کیا میں اتنا ہی بے شرم تھا کہ اس کی ایک دو قاشوں کو کڑوی سمجھ کر رد کر دیتا۔ تواِنَّالِلّٰہِ کا بھی یہی مفہوم ہے۔کہ وہ خدا جس نے ہمیں اتنی بڑی نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں اگر اس نے کسی حکمت کے ماتحت ایک نعمت واپس لے لی ہے یا ہزاروں خوشیوں کے ہوتے ہوئے ایک مصیبت ہم پر آگئی ہے تو کیا ہوا سب کچھ تو اسی کا دیا ہوا ہے۔ اگر وہ اپنی مرضی سے ایک چیز واپس لے لیتا ہے تو اس پر جزع فزع کرنے سے زیادہ اور کیا حماقت ہو سکتی ہے۔
(۴) چوتھے معنے جو اس سے زیادہ اعلیٰ اور مومن کے مقام کے مطابق ہیں وہ یہ ہیں کہ نہ صرف سب کی سب نعمتیں اُسی کی ہیں اور وہی اس کا حقیقی مالک ہے اگر ایک نعمت اس نے واپس لے لی تو کیا ہوا۔ بلکہ ہمارے پاس جو کچھ باقی ہے اگر وہ بھی ہم سے لے لینا چاہے تو ہم باقی چیزیں بھی اس کی راہ میں دینے کے لئے تیار ہیں۔چنانچہ صحابہؓ کرم میں اس کی بہت سے مثالیں ملتی ہیں۔ حضر ت عثمان بن مظعونؓ ایک بڑے مخلص صحابی تھے اور مکی زندگی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سے اتنی محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد جب آپؐ کے بیٹے حضرت ابراہیم ؓ فوت ہوئے تو آپؓ نے انہیں فرمایا کہ جا اپنے بھائی عثمان بن مظعونؓ کے پاس ۔ گویا ان کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا قرار دیا۔ وہ کسی رئیس کے بیٹے ان کے والد فوت ہو گئے تو ان کے باپ کے کسی دوست نے ان کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اعلان کر دیا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے کوئی شخص اسے تکلیف نہ دے۔ چند دن تو وہ آزاد نہ طور پر پھرتے رہے اور انہیں کسی نے کوئی تکلیف نہ دی لیکن ایک دن انہوں نے دیکھا کہ بعض کمزور مسلمانوں اور غلاموں کو کفار سخت تکلیف دے رہے ہیں اور انہیں تپتی ریت پر لٹا کر دکھ دے رہے ہیں ان سے یہ نظارہ برداشت نہ ہو سکا تو فوراً گھر آکر اُس ریئس سے کہا کہ چچا مہربانی کر کے اپنی پناہ واپس لے لو۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ دوسرے مسلمانوں کو تو لوگ سخت سے سخت سزائیں دیں اور میں مزے سے اِدھراُدھر پھروں۔ چنانچہ اُس ریئس نے اپنی اپنی پناہ کا اعلان منسوخ کر دیا۔ اسی اثناء میں لبید جو ایک بہت بڑا شاعر تھا(اور جو بعد میںمسلمان بھی ہو گیا) وہ مکہ میں آیا اور لوگوں نے اس کے اعزاز میں ایک مجلس مشاعرہ قائم کی۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ اور وہ ریئس بھی وہیں تھے اکثر شعراء نے اپنے اپنے شعر پڑھے۔ پھر لبید کی باری آئی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ
اَلَا کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللّٰہُ بَاطِل‘
یعنی سُنو! کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے سوا فنا ہونیوالی ہے ابھی انہوں نے یہ مصرع پڑھا ہی تھا کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ بول اُٹھے کہ خوب کہا ٹھیک کہا۔ اس پر لبید کو غصہ آیا کہ کیا میں اتنا ہی حقیر ہوں کہ اس چھوٹے سے بچے کی تصدیق کا محتاج ہوں۔ اور اس نے اہل مجلس کو غیر دلائی کہ یہ کیا بدتہذیبی ہے جو تم لوگوں نے اختیار کر لی ہے کہ ایک بچہ مجھے داد دیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان بن مظعون کو ڈانٹا اور کہا کہ خبردار آئندہ ایسا نہ کرنا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرا مصرع پڑھا ع
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَا لَۃَ زَائِل‘
یعنی ہر نعمت ایک دن زائل ہونے والی ہے۔ اس پر حضرت عثمان بن مظعون پرھ بول اُٹھے اور کہنے لگے۔ یہ درست نہیں جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہو نگی۔ لبید کو سخت غصہ آیا اور اس نے پھر لوگوں کو غیرت دلائی کہ تم نے میری بے عزتی کی ہے اب میں کوئی شعر نہیں پڑھوں گا۔ اس پر ایک شخص کو اتنا جوش آیا کہ اس نے اُٹھکر حضر ت عثمان بن مظعون کے منہ پر ایک مکا مارا جس کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ نکل گئی۔ ان کے وہ ہمدرد ریئس جنہوں نے ان کو پناہ دے رکھی تھی وہ بھی وہی پاس بیٹھے تھے ۔ چونکہ وہ اتنی طاقت نہیں رکھتے تھے کہ دوسروں کے مقابلہ میں کھڑے ہو سکیں اس لئے انہوں نے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو ہی ڈانٹنا شروع کر دیا۔ اور جس طرح کسی غریب عورت کے بچے کو کوئی امیر آدمی کا بچہ مار جائے تو وہ اپنے بچے کو ہی ڈانٹتی ہے اور کہتی ہے کہ تو گھر سے کیوں باہر نکلا تھا۔ اسی طرح انہوں نے بھی حضرت عثمان بن مظعونؓ کو ڈانٹنا شروع کیا کہ تجھے میں نے نہیں کہا تھا کہ میری پناہ سے نہ نکلو۔ اب دیکھا اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ اس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ نے جواب میں کہا چچا! آپ کو تو میری ایک آنکھ کے نکلنے کا افسوس ہے اور میری تو دوسری آنکھ بھی خداتعالیٰ کے راستے میں نکلنے کے لئے تیار ہے۔ تو حقیقی مومن قربانی سے گھبراتا نہیں بلکہ جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا اس کی کوئی قیمتی متاع ضائع ہو جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ مرنے والا اور باقی رہنے والے ساب اس کے ہی ہیں۔ پس اگر وہ اللہ کی چیز تھی اورہ م بھی اسی کے ہیں تو اللہ تعالیٰ اگر اپنے ایک غلام کے پاس رکھوائی ہوئی امانت واپس لے گیا تو اسے شکوہ کیا کیا حق ہے۔ میں تو سب کچھ اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔
(۵) مگر یہ پہلا حصہ کچھ استفناء ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر دوسرا حصہ اس کے ساتھ لگادیا کہ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اور اس طرح اس تعزیت کو مکمل فرما دیا۔ پہلے فرمایا تھا کہ اگر ہم تم کو کوئی انعام دیتے ہیں اور پھر وہ انعام تم سے لے لیتے ہیں تو تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میرے محسن نے فلاں چیز مجھے دی تھی اور میں اس سے پانچ سال یا دس سال یا بیس سال یا تیس سال یا چالیس سال یا پچاس سال تک فائدہ اٹھاتا رہا اس کے بعد وہ اپنی امانت مجھ سے کیوں لے گیا۔ اس بات پر اُسے شکوے کا کیا حق ہے۔ یہ تو اس کا احسان تھا کہ جتنی مدت وہ چیز اس کے پاس رہی اس سے وو پوری طرح فائدہ اُٹھاتا رہا۔ اب کے بعد فرماتا ہے کہ یاد رکھو اگر تمہارا کوئی عزیز ہم نے تم سے دُدا کر دیا ہے تو مومن کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ دنیا سے کسی کااُٹھ جانا دائمی جُدائی کا موجب تو نہیں ہوتا۔ اگر یہ دائمی جُدائی ہوتی اور فرض کرو کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہ ہوتی۔ تب بھی کیا خدا کا حق نہیں تھا کہ جو چیز اُس نے دی ہے وہ اُسے واپس لے لے۔ لیکن وہ زائد وعدہ یہ کرتا ہے کہ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ ایک شخص اگر خدا کی طرف گیا ہے تو ہم بھی ایک دن اُسی کی طرف چلے جائیں گے ۔فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے پہلے سفر طے کر لیا اور کوئی بعد میں سفر کے لئے چل پڑیگا ورنہ منزل مقصود سب کی ایک ہی ہے اور جب منزل مقصود ایک ہے ہے تو اس میں گھبراہٹ کی کونسی بات ہے۔ بچے بعض دفعہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ولایت بھیج دیئے جاتے ہیں ۔ اب کسی کی زندگی کا کیا اعتبار ہوتاہ ے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک یا دو دن بھی اور زندہ رہیگا۔ نہ والدین جانتے ہیں کہ انہوں نے اتنا عرصہ زندہ رہنا ہے نہ لڑکے جانتے ہیں کہ ان کی زندگی کب تک ہے۔ مگر باوجود اس کے جب لڑکوں کو پڑھنے کے لئے ولایت بھیجا جاتا ہے تو پانچ پانچ چھ چھ دس دس سال تک مائیں صبر کرتی ہیں باپ صبر کرتے ہیں اور وہ گھبراہٹ سے کام نہیں لیتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخر ہمارے بچے ایک دن آجائیںگے۔ یا اگر کسی سفر پر کوئی شخص پہلے چل پڑتا ہے اور دوسروں نے بھی وہیں جانا ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم چند دن مے بعد اُس سے جا ملیں گے جانا تو ہے ہی۔تو اللہ تعالیی فرماتا ہے کہ پہلے یہ اقرار کرو کہ خدا نے ہم پر جو احسان کیا ہے ہم اس کے شکر گذار ہیں پھر یہ بھی سمجھ لو کہ تم سارے ایک دن خدا کے پاس جمع ہونے والے ہو اور اس کے پاس پہنچ کر اکٹھے ہو جائو گے۔ پس فرماتا ہے کہ جب تم سارے ایک دن اکٹھے ہو تو خدا کے فعل پر شکوہ یاجزع فزع کتنی بڑی نادانی ہے۔ اگر تم جزع فزع کر وگے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا اپنے عزیزوں سے آخری اتصال کمزور ہو جائیگا۔ کیونکہ جس خُدا کے اختیار میں یہ ہے کہ وہ اگلے جہان میں سب کو اکٹھا کر دے اس کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ وہ اگلے جہان میں بعض کو خدا جُدا رکھے۔ پس مومن کی اصل تعزیت اِنَّالَلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی ہے۔ باقی جہاں تک جسم کا تعلق ہے جسم جب کٹتا ہے تو ضرور دکھ پاتا ہے۔ صحابہؓ جنگوں میں شہید ہوئے اور اپنی خوشی سے شہید ہوئے۔ لیکن جہاں تک جسم کے کٹنے کا سوال ہے ان کو ضرور تکلیف ہوئی پس جسم بے شک دُکھ پاتا ہے مگر اللہ تعالیی کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے اُس بندے پر جس کی رُوح خدا کے آستانہ پر جُھکی رہے اور اس سے کہے کہ اے میرے رب! مجھے کوئی شکوہ نہیں تو نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا۔ یہی عین مصلحت تھی اور یہی چیز میرے لئے بہتر تھی۔ تیرا فعل بالکل درست ہے اور گو مجھے سمجھ میں نہ آئے مگر میں یہی کہتا ہوں کہ تیرا کوئی کام حکمت کے بغیر نہیں۔
(۶) پھر اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَمیں ایک اور مضمون بھی بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ جب کوئی رنج انسان کو پہنچتا ہے۔ تو فطرت کہتی ہے کہ میرے اندر آخر کوئی کمزوری تھی ۔ تبھی تو مجھے یہ دُکھ پہنچا۔ اگر میں طاقتور ہوتا تو یہ دُکھ کیوں پہنچتا۔ اب اس دُکھ کو کوئی طاقتور ہی دُور کر سکتا ہے۔ غرض رنج ہمیشہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت مد د کرے۔ اور جب انسانی ذہن کو فطرت اس طرف لے جاتی ہے کہ اب کوئی غیر طاقت ہی مدد کرے تو معًا اس کا دل اِدھر مائل ہوتا ہے۔ کہ الہ تعالیی کے سوا کون ہے جو اس دُکھ کو دُور کرے۔ چنانچہ اُس وقت وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا ہی ہوں اور میں اسی سے مدد مانگتا ہوں اس کے سوااور کون ہو سکتا ہے جو میری مدد کرے۔اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَکے بے شک یہ بھی معنے ہیں کہ آخر ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے لیکن اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ اگر ہم نے لوٹنا ہے تو خداتعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ اگرہم نے گریہ وزاری کرنی ہے تو اس کے سامنے ہی کرنی ہے۔ پس اسلام نے یہ سبق فطرت کے تقاضا کے عین مطابق دیا ہے جب کوئی رنج پہنچتا ہے تو یہ انسان کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے اس لئے وہ اُسے خود دور نہیں کر سکتا ۔ وہ طبعًا یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے دوست اور عزیز اس کی مدد کریں۔ مگر فرمایا یاد رکھو تمہارا سب سے بڑاعزیز اور دوست خداتعالیٰ ہے ۔ تم اس کے سامنے جھکو اور اس سے مدد طلب کرو۔ جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سبق پر عمل کرتے ہیں وہ ناکام و نامراد نہیں رہتے۔ ناکام و نامراد وہی ہوتا ہے جو غیر بطعی فعل کرتا ہے۔ مثلاً رات کو ڈاکہ پڑتا ہے تو عقلمند شخص اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس جاتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے لیکن بیوقوف انسان دوڑ کر جنگل کی طرف چلا جاتا ہے حالانکہ جنگل میں اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں وہتا۔ اسی طرح روحانی دنیا میں ایک عقل مند انسان تو اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے لیکن بیوقوف یو نہی ہائے اماں ہائے اماں! کہتا رہتا ہے۔ اب صاف ظاہر ہے کہ اماں نے کیا کرنا ہے جو کچھ کرنا ہے خداتعالیٰ نے ہی کرنا ہے اور وہ خداتعالیٰ کے پاس جاتا نہیں وہ اس کے پاس جاتا ہے جو کچھ نہیں کر سکتا۔ پس انسان کا فرض ہے کہ جب اُسے کوئی رنج پہنچے تو وہ فوراًاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہے۔ یعنی اگر مجھ پر مصیبت آگئی ہے تو بقول پنجابی بزرگوں کے ’’ملا کی دوڑ مسیت تک‘‘ میں نے تو خداتعالیٰ کے طرف جانا ہے اور اس سے مدد طلب کرنی ہے اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے اپنی برکات سے حصہ دیتا اور اس کے مصائب کو دور فرماتا ہے۔
(۷)اسی طرح اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتامیں یہ لطیف مضمون بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے غلام ہیں اور اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پس اگر ہم صبر سے کام لیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اس صدمہ کا بہتر بدلہ مل جائے گا۔ پھر ہمیں کسی جزع فزع کی کیا ضرورت ہے۔ گھبراہٹ صرف اسے ہو سکتی ہے جو یہ سمجھتا ہو ک دُکھوں اور تکالیف کے بدلہ میں کوئی جزا مقدر نہیں۔ مگر مومن تو سمجھتے ہیں کہ جب ہم خداتعالیٰ کے پاس جائینگے تو وہ ہمارے دکھوں کا بدلہ اپنے غیر معمولی انعامات کی شکل میں ہمیں عطا فرمائیگا۔ اور جب کوئی ایمان اور یقین کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو تو اسے بے صبری دکھانے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صابرین کی تعریف فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ ہمارے نزدیک کون لوگ صابر ہیں۔ اسلام کے نزدیک صابرین کی یہ تعریف ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی توجہ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو پھر مایوسی کیسی ایک بچہ جب ماں کی گود میں ہوتا ہے تو وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ اسی طرح وہ بھی اپنے ااپ کو خداتعالیٰ کی گود میں سمجھتے ہیں اس لئے کسی مصیبت کے آنے پر مایوس نہیں ہوتے۔ اور اگر صبر کے معنے بدی سے رُکنے کے سمجھے جائیں تو پھر اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ جب اُن پر کوئی ایسی تکلیف آتی ہے جس سے انسان بدی کی طرف مائل ہو تا ہے ۔ جیسے قحط ہے کہ اس میں لوگ چوریاں وغیرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ تب بھی وہ خداتعالیٰ ہی کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اگر صبر سے مراد نیکی پر قائم رہنا ہو تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ جب کوئی شیطانی تحریک انہیں نیکی سے منحرف کر نا چاہے تو اس وقت بھی وہ فوراً خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہین اور اسی سے اپنے روحانی پیوند کا اظہار کرتے ہیں۔
غرض یہ بظاہر ایک چھوٹا سا جملہ ہے مگر اپنے اندر بڑے وسع مطالب رکھتا ہے۔ اور جو لوگ صاحب حال ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس فقرہ کے کہنے سے جن تکالیف کا ازالہ ممکن ہو اُن کا تو ازالہ ہو جاتا ہے اور جن کا ازالہ ناممکن ہو ان کا نسان کو کسی اور رنگ میں بدلہ مل جاتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ مردے اس دنیا مین واپس نہیں آتے۔ پس اگر کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس سنت اور فیصلہ کے ماتحت وہ زندہ ہو کر اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا۔ لیکن اگر یہ فقرہ پورے ایمان اور اخلاص کے ساتھ کہا جائے تو کہنے
اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ
ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o
والے کو کسی نہ کسی رنگ میں اس کا بدلہ ضرور مل جاتا ہے۔ اور اگر اسان کا کوئی ایسا نقصان ہو جائے جس کا بدلہ ملنا ممکن ہو مگر وہ پھر بھی نہ ملے تو اس کے متعلق یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص اس میں روک بن رہی ہے ورنہ اس کا بدلہ ضرور مل جاتا۔
۷۲؎ حل لغات:۔ صَلٰوۃ’‘:جیسا کہ اوپر حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کیصَلٰوۃ’‘ کئی معنے ہیں۔ مگر جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے صرف مغفرت اور حسنِ ثناء کے ہوتیہ یں۔ عبادت کے معنے اس لئے چسپاں نہیں ہو سکتے کہ عبادت خداتعالیٰ کی کی جاتی ہے اس کی طرف سے آتی نہیں۔ اسی طرح رحمت کے معنے بھی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ صَلٰوۃ کے ساتھ ہی رحمت کا لفظ بھی آگیا ہے۔ پس اس جگہ اس کے معنے صرف یہ یہیں کہ ان لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف سے مغفرت حاصل ہو گی یا انہیں ثنائے جمیل عطا کی جائیگی۔
تفسیر:۔ اس آیت میں بتایا کہ جو لوگ ارضی اور سماوی آفات پر سچے دل سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی مغفرت سے حصہ دیتا ہے یعنی وہ ان کے نقصانات کا ازالہ کرتا اور ان کی ناکامی کو کامیابی میں اوفر تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے۔ اسی طرح اُن پر اللہ تعالیٰ کا فضل حسن ثناء کی صورت میں نازل ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نیک شہرت دنیا میں قائم کر دیتا ہے اور لوگوں کی زبانوں پر ان کا ذکر خیر جاری ہو جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت کے لئے کتنی بری قربانیوں سے کام لیا تھا۔ انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں اور اولادوں کو بلا دریغ قربان کر دیا اور کسی بڑی سے بری مصیبت کی وبھی پرواہ نہ کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج دشمنان اسلام تک بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں مگر جب صحابہؓ کی قربانیوں کا ذکر آتا ہے تو وہ یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے جو نمونہ دکھایا وہ یقینا بے مثال تھا۔ ایک فرانسیسی مورخ لکھتا ہے کہ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر آتی ہے کہ ہمیں چند آدمی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس مدینہ کی ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد میں جس پرکھجور کی شاخوں کی چھت پڑی ہوئی تھی اور جو ذرا سی بارش سے بھی ٹپکنے لگ جاتی تھی آہستہ آہستہ سرگوشیاں کرتے دکھائی دیتے تھے۔ اور جب ہم ان کے قریب پہنچ کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ آپس میں کی اباتیں کر رہے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ہم قیصر و کسریٰ کو کس طرح شکست دیں اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چند سالوں کے اندر اندر واقعہ میں ایسا ہی ہو گیا۔ اور ان بے سرو سامان اور کمزور درویشوں نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو پاش پاش کر دیا۔ غرض اشد ترین دشمنوں نے بھی تسلیم کر لیا کہ مسلمانوں کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی تھی اور وہ ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے۔
یہاں صَلٰوۃ اور رحمۃ کو اکٹھا کرنے میں یہ حکمت ہے کہ دنیا میں ھکومتوں کی طرف سے عزت افزائی کے دو ہی طریق مقرر ہیں ۔ یا تو کوئی خاص اعزاز بخشا جاتا ہے یا مادی رنگ میں کوئی انعام دیا جاتا ہے جیسے اعزازی طور پر لوگوں کو خطابات دیئے جاتے ہیں اور مادی طور پر انہیں مربعے وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ مگر گورنمنٹ کے خطابات تو بے حقیقت ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ ایک ایسے شخص کو خان بہادر کا خطاب دے دیتی ہے جو بزدل ہوتا ہے اور چوہے سے بھی ڈر جاتا ہے۔ مگر خداتعالیٰ کی طرف سے جسے کوئی خطاب دیا جاتا ہے وہ اس کا سچ مچ اہل ہوتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ دونوں طرف دھوکا کھا جاتے ہیں۔ وہ گورنمنٹ کے خانبہادروں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے حالانکہ جب خداتعالیٰ کسی کو کوئی خطاب دیتا ہے تو اس کے اوصاف بھی اس میں پیدا کر دیتا ہے ۔ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص جو احمدی تھا مگر اس کے دماغ میں کچھ نقص تھا قادیان آیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگا کہ مجھے الہام ہوتا ہے کہ تو محمدؐ ہے تو موسیٰ ؑ ہے تو عیسیٰ ؑ ہے۔۔ آپ نے فرمایاکیا اس کے بعد تمہیں وہ کچھ ملتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ ملا تھا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا۔ وہ کہنے لگا ملتا تو کچھ نہیں آپ نے فرمایا پھر یہ شیطانی الہام ہے ۔کیونکہ خداتعالیٰ تو یہ تمسخر نہیں کرتا نہ کہ کسی کو کوئی خطاب دے اور اس کے اوصاف اس میں پیدا نہ کرے۔ خداتعالیٰ تو جب کسی کو کوئی خطاب بخشتا ہے تو اس کے مطابق اُسے طاقتیں بھی دیتا ہے۔ یہ شیطان ہے جو تمہیں دیتا تو کچھ نہیں مگر تمہارا نام موسیٰ اور عیسیٰ اور محمدؐ رکھتا چلا جاتا ہے۔ غرض صلوٰۃ کا تعلق روحانی انعامات سے ہوتا ہے اور رحمت کا تعلق ان مادی انعامات سے ہوتا ہے جس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں پس بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ابتلائوں میں ثابت قدم رہنے والوں کو روحانی برکات سے بھی مستفیض کرتا ہے اور انہیں مادی فوائد اور ترقیات جو ماحول سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی عطا کرتاہے۔
وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ۔ اس جگہ ہدایت سے مراد صرف صراطِ مستقیم پر چلنا نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی ہدایت یافتہ اور صراطِ مستقیم پر قائم ہوتے ہیں۔ یہاں یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کے راستہ پر لئے جائے گا اور وہ اپنے اخلاص اور ایمان میں آگے ہی آگے بڑھتے جائینگے۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ مشکلات اور مصائب میں اللہ تعالیٰ انہیں صحیح راستہ بتاتا جائیگا اور مشکلات کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی انہیں نظر آتا جائیگا۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ بندہ جب سچے دل سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتا ہے اور مصائب پر صبر سے کام لیتا ہے تو مومن کی یہ حالت دیکھ کر اللہ تعالیٰ بھی عرش پر بیتاب ہو جاتا ہے۔ اور وہ اس محبت اور اخلاص کی جزا دینے کے لئے اُسے اپنی ہدایت کی راہوں پر چلاتے ہوئے منزلِ مقصود پر پہنچا دیتاہ ے۔ گویا صبر اور استقامت کے نتیجہ میں وہ منعم علیہ گروہ میں شامل ہو جاتا ہے اور وصلِ الہٰی کے دروازے اس پر کھول دیئے جاتے ہیں۔ غرض تین قسم کے انعامات کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (۱)اول ہدایت کی راہوں میں ترقی(۲) دوم مشکلات میں صحیح راہنمائی(۳) سوم خداتعالیٰ کا دائمی وصال۔ اور جن کو یہ فوائد حاصل ہوں ان کو اپنے کسی عارضی نقصان کا خیال بھی کس طرح آسکتا ہے۔
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ
شَاکِر’‘ عَلِیْم’‘o
۷۳؎ حل لغات:۔ صَفَا: صَفَاۃ’‘ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں سخت موٹے پتھر جن پر مٹی نہ ہو۔ اور کھیتی بھی نہ ہو سکے۔ صفا بیت اللہ کے پاس بڑے بڑے پتھروں کی ایک پہاڑی کا بھی نام ہے۔
اَلْمَرْوَۃَ: یہ مَرْو کا مفرد ہے اور مروہ ان سفید چھوٹے چھوٹے چمکتے ہوئے چقماتی صفت رکھنے والے پتھروں کو کہتے ہیں جن سے لوگ آگے نکالتے ہیں۔ مروہ بھی ایک پہاڑی کانام ہے جو بیت اللہ کے پاس ہے اور اس کی وجہ تسمید یہ ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنی ہوئی ہے۔ غرض صفا اور مروہ دو پہاڑیوں کا نام ہے جو خانہ کعبہ کے پاس ہیں۔ اور اب خانہ کعبہ وسیع ہو کر انکو آ لگا ہے اور ایک دروازہ ان میں آکر کھلتا ہے ان پر ایک بازار ہے جو سوقِ صفا کہلاتا ہے اور شہر کا حصہ ہے اور اسی بازار میں اب سعی ہوتی ہے پہلے دونوں پہاڑیاں الگ الگ تھیں لیکن اب بھرتی پڑ کر مل گئی ہیں اور ایک ہی معلوم ہوتی ہیں صرف دو نشان لوگوں نے سعی کے لئے بنا رکھے ہیں جس سے سعی شروع کرنے اور ختم کرنے کا حال انسان کو معلوم ہوتا ہے۔
اِعْتَمَرَ:۔ اِعْتَمَرَالْمَکَافَ کے معنے ہوتے ہیں قَصَدَہ‘ وَ زَارَہ‘۔ کسی بزرگی رکھنے والے مکان کی طرف جانے کا قصد کیا۔ اور اس کی زیارت کی۔ اسی طرح کہتے ہیں اِتَّخَذْ نَا نَادِیًا نَعْتَمِرُہ‘۔ کہ ہم نے ایک ایسی مجلس قائم کی ہے جس میں ہم بار بار جاتے ہیں اور ہماری آپس میں ملاقات ہوتی ہے پس اعتماد کے اصل معنے کسی شہر کی زیارت یا کسی ایسے مکان کی طرف جانے کے ہیں جو اپنی بزرگی یا دوستوں کی ملاقات کے لحاظ سے قابلِ اعزاز ہو۔ لیکن شریعت میں طواف بیت اللہ اور صفا اور مروہ کی سعی کا نام ہے۔ اور یہ عبادت سال کے ہر حصہ میں ہو سکتی ہے لیکن حج کا ایک خاص وقت مقرر ہے اسی طرح حج اور عمرہ میں یہ فرق ہے کہ عمرہ میں وہیں سے احرام باندھ لیتے اور سر منڈا لیتے ہیں۔ لیکن حج میں مقرر جگہوں سے احرام باندھنا ضروری ہوتا ہے۔
جُنَاح’‘: جَنَحَ کے معنے ہوتے ہیں مَالَ یعنی جُھک گیا۔ پروں کو بھی اور بازوئوں کوبھی اسی لئے جناح کہتے ہیں اور گناہ کو بھی جناح اسی لئے کہتے ہیں کہ اس میں انسان بدی کی طرف جُھک جاتا ہے گناہ کا لفظ دراصل جناح کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
یَطَّوَّفَ: طَوَّفَ حَوْلَ الشَّیْئِ وَبِہِ کے معنے ہیں طَافَ وَاَکْثَرَ الْمَشْیَ حَوْلَہُ اس نے کسی چیز کے ارد گرد چکر لگایا اور کثرت کے ساتھ گھوما (اقرب) طَافَ یَطُوْفُ بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔چنانچہ لسان العرب میں لکھاہے طَافَ بِالْقَوْمِ وَ عَلَیْھِمْ کے معنے ہیں اِسْتَدَارَوَجَآئَ مِنْ نَوَاحِیْہِ اس نے چکر لگایا اور کناروں کی طرف سے اس کے پاس آیا انہی معنوں میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جنتیوںکی نسبت فرماتا ہے یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَان’‘ مُّخَلَّدُوْنَ (واقعہ آیت۱۸) یعنی اُن کے پاس بار بار نوجوان خادم اُن کی خدمت کے لئے آئیں گے اس جگہ صفا اور مروہ کے گرد گھومنا مراد نہیں بلکہ بار بار اُن کے پاس جانا مراد ہے۔
تَطَوَّع کے معنے ہیں تَبَرَّعَ بِلَا قَصْدِ اُجْرَۃٍ بِاحْتِمَالِ مُشَقَّۃٍ کسی نیکی کو بغیر اُجرت اور بدلہ کی خواہش کے کرنا(۲) تکلیف اٹھا کر کوئی کام کرنا۔ اسی لئے والنٹیر کو عربی زبان میں مطاوع کہتے ہیں ۔کیونکہ وہ بغیر تنخواہ کے آنریری طو پر کام کرتا ہے۔
شَاِکِر’‘: جب یہ لفظ خداتعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ انعام نازل کرتا ہے یا حکم بجا لانے پر جزا دیتا ہے۔ اور جب یہ بندہ کے لئے آئے تو اُس وقت اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا شکر گزار ہوتا ہے۔
تفسیر:۔ اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اِللّٰہِ فرماتا ہے صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں یقینا اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ہیں۔ یہ وہ پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان حج اور عمرہ میں خانہ کعبہ کے طواف کے بعد سعی کی جاتی ہے او رسات دفعہ چکر لگایا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ چودہ دفعہ دوڑنا چاہیے۔ مگر یہ کمزور خیال ہے ۔ اصل میں سات دفعہ ہی سعی ہے اور یہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے صفا سے شروع کر کے مروہ پر جاتے ہیں اور وہاں سے صفا پرآتے ہیں۔ یہ سعی چونکہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کی یاد گار ہے اس لئے یہ پہاڑیاں اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور بچے اسمٰعیل کو عرب کی بے آب و گیاہ دادی میں چھوڑ آئو۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم کی تعمیل کی اور حضرت ہاجرہ اور اسمٰعیل کو انہوں نے خانہ کعبہ کے پاس لا کر بسا دیا جہاں پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کی ایک پتی تک نہ تھی۔ صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوروں کی آپ نے انہیں دی اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دُعائیں مانگتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ جب پانی ختم ہوا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی۔ اور آخر شدت پیاس کی وجہ سے وہ تڑپنے لگ گئے حضڑت ہاجرہ سے اُن کی پیاس کی تکلیف دیکھی نی گئی۔ اور وہ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑیں۔ مگر پانی نہ ملا۔ قریب ہی صفا پہاڑی تھی وہ دوڑ کر اُس پر چڑھ گئیں۔ کہ شاید کوئی شخص نظر آئے اور وہ اُس سے پانی مانگیں۔ مگر جب وہاں سے کوئی شخص دکھائی نہ دیا تو دوسری پہاڑی مروہ پر دوڑ کر چڑھ گئیں اور ہاں سے بھی کوئی آدمی نظر نہ آیا۔تو پھر صفا کی طرف آئیں اور اس طرھ انہوں نے سات چکر کاٹے۔ آخر چکر میں جب وہ مروہ پر تھیں ان کو ایک آواز آئی حضرت ہاجرہ نے پکار کر کہا۔کہ اے شخص جس کی یہ آواز ہے اگر تو ہماری مدد کر سکتا ہے تو کر۔ یہ آواز اللہ تعالیٰ کے ایک فرشتہ کی تھی۔ اُس نے کہا ہاجرہ جا اور دیکھ کہ اسمٰعیل کے پائوں کے نیچے خداتعالیٰ نے ایک چشمہ پھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ وہ واپس آئیں اور انہوں نے دیکھا کہ جہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام شدتِ پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے تھے۔ وہاں پانی کا ایک چشمہ پھوٹ رہا ہے اور بڑے زور سے اس میں سے پانی نکل رہا ہے۔ زمزم کا کنواں وہی چشمہ ہے جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لئے معجزانہ طور پر پھوڑا گیا تھا۔ چنانچہ اس چشمہ کی وجہ سے اس قدر ترقی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے وہاں عظیم الشان شہر قائم کر دیا۔
غرض صفا اور مروہ کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ صبر کرتے اور استقامت کے ساتھ خدمت دین میں حصہ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ ہاجرہ اور اسمٰعیل کی طرف انہیں اپنے آسمانی نشانات دکھاتا اور دائمی زندگی اور غیر معمولی انعامات عطا کرتا ہے۔ اگر تم بھی صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ایسے ہی انعامات سے نوایگا اور تمہیں بھی شعائر اللہ میں داخل کردیگا۔
فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا۔ چونکہ بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ صفا اور مروہ پر جانا گناہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَاجُنَاحَ ورنہ یہ مراد نہیں کہ جائو یا نہ جائو تمہارا اختیار ہے ۔ کیونکہ حج اور عمرہ میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی ضروری ہوتی ہے اسی طرح فَلَاجُنَاحَ کے یہ معنے ہیں کہ طواف جائز ہے۔ کیونکہ جب اس چیز کے متعلق جسے لوگ حرام جانیں فتویٰ دیا جائے تو اس وقت اس فقرہ کے معنے صرف اس خیال کی نفی کرنی ہوتی ہے نہ کہ اس کا جواز بتانا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہی مذہب تھا کہ طواف ضروری ہے چنانچہ بخاری جلد اول باب و جوب الصفا و المروۃ وجعل من شائر اللہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے عروہ بن زبیر سے ایک روایت مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ طواف جائز ہے ضروری نہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ بِئْسَمَا قُلْتَ یَا بْنَ اُخقتِیْ اِنَّ ھٰذِہِ لَوْ کَانَتْ کَمَا اَوَّ لْتَھَا عَلَیْہِ کَانَتْ لَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ لَایَطَّوَّ فَ بِھِمَا۔یعنی اے میرے بھانجے تو نے یہ بہت ہی غلط استدلال کیا ہے۔ اگر یہ بات اسی رنگ میں ہوتی جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو عبارت یوں ہوتی کہ لَاجُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ لَا یَطَّوَّفَ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَیْنَھُمَا فَلَیْسَ لِاَ حَدٍ اَنْ یَّتْرُکَ الطَّوَافَ بَیْنَھُمَا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یہی تھی کہ آپ صفا اور مروہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ پس کس شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس سنت کے خلاف معنی کرے بہر حال حضرت عمروہ بن زبیر جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے ان کا یہی مذہب تھا کہ طواف ضروری نہیں۔ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ حضرت انؓ عطا اور مجاہد کابھی یہی قول ہے کہ طواف ضروری نہیں۔ امام احمد بن حنبل کا یہ مذہب ہے کہ یہ ضروری تو نہیں مگر کسی شخص کو نہیں چاہیے کہ وہ جان بوجھ کر طواف چھوڑے ہاں اگر بلا ارادہ چھوٹ جائے تو کوئی گناہ نہیں مگر مناسب یہی ہے کہ نہ چھوڑے امام شافعی اور مالک کے نزدیک صفا اور مروہ کا طواف واجب ہے اور ارکانِ حج میں سے ہے اور ثوری اور امام ابوحنیفہؓ کے نزدیک اگر کوئی چھوڑ دے اور بغیر طواف کئے حج پورا کرے تو اُس پر قربانی لازم ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّف بِھِمَا کہنے کی وجہ سے بتائی ہے کہ انصار مسلمان ہونے سے پہلے منات بُت کے لئے احرام باندھا کرتے تھے جس کی مشعل کے پاس لوگ عبادت کیا کرتے تھے اور اس زمانہ میں جو شخص احرام باندھتا وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتا تھا۔ جب وہ لوگ مسلمان ہو گئے تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارہ میں دریافت کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم صفا اور مروہ کی سعی گناہ سمجھا کرتے تھے لیکن اب اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی(بخاری کتاب الحج) پس چونہ اس وقت ایک جماعت ایسی تھی جو صفا اور مروہ کے درمیان طواف کرنے کو جائز نہیں سمجھتی تھی اس لئے اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ اس میں کوئی گناہ تو نہیں۔ تو اس کا جواب یہی ہو گا کہ کوئی گناہ نہیں۔ باقی رہا یہ سوال کہ یہ سعی صرف جائز ہے یا واجب تو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے صرف یہ بحث اُٹھائی ہے کہ جو لوگ اس کام کو غلطی اور گناہ قرار دیتے ہیں وہ درست نہیں کہتے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اس کا ضروری ہونا ثابت ہے ۔ پس لَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ یہ کام اختیاری ہے کوئی کرے یا نہ کرے یا کرے بلکہ درحقیقت یہ نصیحت کا ایک طریق ہے کہ جب کسی ضرویر بات کی طرف انسان توجہ نہ کرے تو کہتے ہیں کہ یہ بات گناہ نہیں۔ یعنی تم نے جو ادھر توجہ نہیں کی تو شاید گناہ سمجھ کر نہیں کی حالانکہ یہ تو ضروری بات تھی ان معنوں کو سورۃ نساء کی یہ آیت بالکل حل کر دیتی ہے۔ کہ وَاِنِ امْرَاَ ۃ’‘ خَافَتْ مِنْ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَھُمَا صُلْحَا بَیْنَھُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْر’‘(نساء آیت ۱۲۹) یعنی اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے نشوز یا اعراض سے ڈرتی ہو۔ تو اگر وہ آپس میں کسی طریق پر صلح کر لیں تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں اور صلح بہت اچھی چیز ہے۔ اس آیت میں فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَا کے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کا بھی یہی مطلب ہے کہ میاںبیوی سوچیں کہ صلح سے رہنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اگر عورت کے قصور کی وجہ سے مرد کو غصہ ہے۔ تو وہ چھوڑ دے اور اگر عورت کا قصور نہیں تو مرد اپنی اصلاح کر لے۔ پس جس طرح اس آیت میں صلح کے متعلق فَلَا جُنَاحَ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اسی طرح فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا میں جہاں اسے ناجائز سمجھنے والوں کے خیال کی نفی کی گئی ہے وہاں لوگوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے کہ صفا اور مروہ کا طواف کوئی گناہ کی بات نہیں یعنی تم جو ادھر تو جہ نہیں کر رہے تو شاید گناہ سمجھ کر نہیں کر رہے حالانکہ یہ تو ضروری بات ہے۔
وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص نیکی کے کاموں میں اس لئے حصہ لیتا ہے کہ ان کے بدلہ میں اُسے کوئی چیز مل جائے تو یہ ایک سودا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے سودا کرنا کوئی پسندیدہ فعل نہیں۔ عبادت تو انسان کو اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کے شکر کے طور پر بجا لانی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے اُس پر کئے ہیں۔ نہ اس لئے کہ اگر میں نے عبادت نہ کی تو مجھے کوئی انعام نہیں ملیگا۔ عبادت کے مقابلہ میں انعام کی خواہش ایک ادنیٰ خواہش ہے۔ اصل مقام یہی ہے کہ انسان محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے بے پایاں احسانات کے شکر کے طور پر اپنا سر اُس کے حضور جھکا ئے اور رات دن اُس کی عبادت میں مشغول رہے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہییے کہ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا کے الفاظ سے وجوب طواف کی نفی نہیں کی گئی بلکہ مراد یہ ہے کہ عمرہ جتنی بار کرو اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا۔ اسی طرح حج بھی اگر ایک سے زیادہ دفعہ کر سکو تو یہ بھی تمہارے لئے موجب ثواب ہو گا۔ گویا اس آیت میں وجوبِ طواف کی نفی نہیں بلکہ یہ تحریک کی گئی ہے کہ حج اور عمرہ دونوں باربار کرنے چاہیں اور بار بار ان مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے آتے رہنا چاہیے۔
فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِر’‘ عَلِیْم’‘۔ فرمایاتم خدا تعالیٰ سے دودا نہ کرو بلکہ اُسی پر سچا توکل رکھو ۔ وہ تمہاری نیکیوں کو کبھی ضائع نہیں کریگا اور تمہیں خود ان کی بہتر سے بہتر جزا دیگا ۔ وہ بہت قدردان اور بہت جاننے والا ہے ۔ شاکر کے ساتھ علیم کا اضافہ اس لئے فرمای اکہ اسنان کو جو جزائیں ملتی ہیں اُنکی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ بعض جزائیں انسان کو تباہ کر دینے والی ہوتی ہیں اور بعض اس کیلئے مفید اور بابرکت ہوتی ہیں ۔ اگر کسی اندھے کو عینک لگانے کیلئے دی جائے یا کسی جذامی کو اچھے کپڑے دے دئیے جائیں گتو ہو چیزیں اُن کے کسی کام نہیں آسکتیں ۔ خواہ وہ کتنی قیمتی کیوں نہ ہوں ۔ اس لئے فرمایا میں تمہارے حالات کوخوب جانتا ہون اُنہی کے مطابق میں تمہیں انعام دو ںگااور تمہیں ایسی جزا دو نگا جو تمہیں دائمی طور پر فائدہ پہنچا نیوالی ہوگی۔
ترتیب وربط:۔ اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ والی آیت میں بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ اْلَمسْجِدِ الْحًرامِ سے جو استدلال میں نے کیا تھا وہی صحیح ہے ۔ کیونکہ تحویل قبلہ کے
اِنَّ الَّذِیْنَ
اللّٰعِنُوْنَo
مسئلہ سے صفا اور مروہ کے شعائر ہونیکا کوئی تعلق نیہں اور پرھ مسلمان تو وہاں جاہی نہیں سکتے تھے کہ صفا اور مروہ کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ۔دراصل اس آیت میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم فتح مکہ کی کوشش کرو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے لئے حج کا راستہ جائیگا ۔اور صفا اور مروہ پر جانا بھی تمہارے لئے ممکن ہو جائیگا۔
۷۴؎ حل لغات:۔ بَیِّنٰتُٗ ۔بَیِنَۃُٗ کی جمع ہے اوربَیِّنٰتُٗاُن براہین اور نشانات کو کہتے ہیںجو اپنی صداقت پر آپ شاہد ہوتے ہیں۔ (مزید تشریح کیلئے دیکھیں حل لُغات سورۃ نحل ۲۵؎)
ھُدٰ وہ تعلیمات جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ اور انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں۔
لَعْنَۃُٗ دور کرنے کو کہتے ہیں۔ یعنی کسی کو دھتکاریا جھڑک کر دور کر دینا ۔ یا اُسے پاس نہ آنے دینا۔
تفسیر:۔ لَا عِن’‘ کے معنے *** کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ مگر *** کرنے والے دو قسم کے ہو سکتے ہیں۔ اول وہ شخص جسے دوسروں پر لعنتیں ڈالنے اور بُرا بھلا کہنے کی عادت ہو۔ یہ معنی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے کیونکہ جو شخص اپنے بھائیوں پر لعنتیں ڈالنے والا ہو وہ بد اخلاق اور منافق ہوتا ہے اور قرآن کریم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے بد اخلاق اور منافق ہوتا ہے اور قرآن کریم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے بد اخلاق اور منافق طبع لوگ خداتعالیٰ کا ساتھ دیں۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا ظل نہیں ہوتے۔
لَا عِن’‘سے ایسا شخص بھی مراد ہو سکتا ہے جس کے سپرد اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہو اور وہ لوگ جن کو ایسے فرائض سپرد کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص پر *** پڑے گی اور فلاں اس کے غضب کا شکار ہو گا۔ پس لَاعِنُوْن سے راد وہ ہستیاں ہیں جنہیں خداتعالیٰ کی طرف سے *** کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
اَلْکِتٰب سے مراد اس جگہ قرآن کریم ہے اور الناس سے مراد یہودی نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جنگ کے اعلان کے ساتھ جو ابھی ہوا نہیں بلکہ اس کی طرف اشارے ہو رہے ہیں منافقوں کی منافقت ظاہر ہو جائیگی۔ چنانچہ فرماتا ہے یہ دشمن ایمان لوگ جن کے دلوں میںمنافقت ہے جب ان کو قربانی کے احکام سُنائے جاتے ہیں تو وہ ایسی تعلیموں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ان باتوں کو مخالفوں کے ٍسامنے پیش کیا جائے۔ اس قسم کے لوگ ہمیشہ علیحدگی میں کہا کرتے ہیں کہ مانا کہ یہ باتیں درست ہیں مگر ان کو دشمنوں کیسامنے پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے لوگوں کی طرف سے خواہ مخواہ مخالفت ہو گی۔ غرض الہٰی سلسلوں میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے احکام نازل ہوتے ہیں جن پر عمل کرنا مخالفوں کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے تو ایسا طبقہ جو دوسروں کی ناراضگی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے مداہنت سے کام لیکر ان کو چُھپا نا شروع کردیتا ہے تاکہ نہ لوگوں کو صحیح تعلیم کا علم ہو اور نہ ان کا جذبہ مخالفت بھڑکے اس قسم کی مداہنت کمزوری کے دور میں نہیں ہوتی۔ بلکہ طاقت اور غلبہ کے دور میں ہوتی ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ میں رہے منافقین کا کوئی فتنہ نہیں اُٹھا لیکن جب مدنی زندگی آئی اور اسلام نے طاقت پکڑنی شروع کر دی اور یہ اعلان ہونے لگے کہ جب تک مکہ فتح نہ ہو تم نے جنگ کو جاری رکھنا ہے تو جو لوگ کمزور ایمان والے تھے انہوں نے کافروں سے اپنی حفاظت کی طرح ڈالنی شروع کر دی اور کفار کے پاس جا جا کر اس رنگ میں باتیں کرنی شروع کیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو بڑے اچھے آدمی ہیں وہ تو نہیں چاہتے کہ لڑائی ہو مگر جو شیلی طبائع والے ان کو اُکساتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لڑائی ہو جائے اسی طرح بعض لوگ کلام الہٰی پر پردہ ڈالتے اور اُسے چُھپاتے اور دشمنوں کو جا جا کر کہتے کہ تم تسلی رکھو تم پر کوئی تباہی نہیں آسکتی حالانکہ اگر کفار کے متعلق کوئی خبر دی جائے اور ان کو بتایانہ جائے کہ تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے فلاں انذاری پیشگوئی کی ہے تو پیشگوئی کی شان اور اس کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن اگر پہلے سے کہہ دیا جائے کہ تم پر عذاب آئیگا۔ تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تم توبہ کر لو تو عذاب کے آنے پر ان پر حجت قائم ہو سکتی ہے۔ اور عقلمندوں کے لئے ایک ایک بہت بڑانشان بن جاتا ہے لیکن منافق محض اس لئے کہ ہمارے تعلقات خراب نہ ہو جائیں ایسی باتوں کو چھپاتے ہیں اور ڈر کے مارے ظاہر نہیں کرتے ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ برکتوں سے کلی طور پر محروم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کی *** کے علاوہ جن لوگوں کو خداتعالیٰ نے *** کا اختیار دیا ہوا ہے وہ بھی ان پر *** ڈالیں گے ۔ جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے مامورین نے بھی اپنے دشمنوں پر لعنتیں ڈالیں۔ بلکہ اب تک لوگ ان پر لعنتیں ڈالتے رہتے ہیں اور قیامت تک ان پر لعنتیں پڑتی رہیں گی۔
بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بعض جگہ کئی کئی صفوں میں مخالفین پر *** ڈالی ہے۔ اور آپ متواتر *** *** *** لکھتے چلے گئے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ انہیں گالیاں دی ہیں۔ حالانکہ آپ نے گالیاں نہیں دیں بلکہ ایک خدائی فیصلہ کا اعلان کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ لوگ اپنے بُرے اعمال کی وجہ سے خداتعالیٰ کی رحمت سے دُور چلے گئے ہیں۔ جس طرح ایک مجسٹریٹ اگر کسی مجرم کو چھ ماہ قید کی سزا دے تو اس سزا کو درست اور قابلِ قبول قرر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا شخص جسے گورنمنٹ نے فیصلہ کا کوئی اختیار نہ دیا ہو کسی مجرم کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ اُسے قید کر دیا جائے تو سب لوگ اُسے پاگل تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے انبیاء بھی رُوحانی عالم کے مجئسٹریٹ ہوتے ہیں۔ اگر وہ مجرموں کو مجرم قرار نہ دیں اور اُن کے بارہ میں اپنا فیصلہ نافذ نہ کریں تو وہ خود مجرم بنتے ہیں۔ پس اُن کا کسی پر *** ڈالنا قانون کے تابع ہوتا ہے اور ایسا کہنا اُن کے فرائضِ منصبی کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے لیکن دوسرے لوگ جو بلاوجہ لعنتیں ڈالتے رہتے ہیں وہ اپنی بداخلاقی اور کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُنہیں دوسروں پر *** ڈالنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔
اِلَّا الَّذِیْنَ
التَّوََّابُ الرَّحِیْمُo
۷۵؎ تفسیر:۔ ہمارے ملک میں عام طور پر عام طور پر لوگ توجہ صرف اس بات کا نام سمجھتے ہیں کہ زبان سے ایک دو دفعہ یہ فقرہ دہرادیا جائے کہ میری توبہ اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم ایسا کہہ دیں تو ہمارے سارے گناہ بخشے گئے۔ حالانکہ صرف منہ سے توبہ توبہ کہہ دینا اور اپنے اعمال میں کوئی تغیر پیدا نہ کرنا کسی انسان کو مغفرت کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ توبہ درحقیقت تین باتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اول زبان سے اپنے قصور کا اعتراف کرنا۔ دوم اپنی غلطی کے متعلق دل میں ندامت پیدا ہونا۔ سوم جو قصور کیا ہے اس کا عملاً ازالہ کرنا ۔گویا جس مقام پر انسان غلطی کرنے سے پہلے کھڑا ہو اُسی مقام پر وہ رجوع کر کے آجئے اس قسم کی توبہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک بہٹ بڑا انقلاب ہے جو انسانی روح میں واقع ہوتا ہے کیونکہ انسان کے دل میں اپنے گناہوں سے شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہونا۔ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت اور روحانیت کے حصول کی خواہش پیدا ہونا اس کے دل کا اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے پگھل جانا۔ اس کی سفلی خواہشات پر ایک موت کا وارد ہو جانا ایسا ہی ہے جیسے اُس نے اپنے آپ کو خدا کے لئے صلیب پر لٹکا لیا۔ اور اپنی پہلی زندگی پر موت وارد کر لی۔ عیسائی لوگ جو اسلامی توبہ کی حقیقت سے ناواقف ہیں بالعموم اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے توبہ کا دروازہ کھول کر گناہ کا دروازہ کھول دیا ہے۔ حالانکہ اسلام جس توبہ کو پیش کرتا ہے وہ مکمل ہی نہیں ہو سکتی جب تک انسان زبان سے اپنے قصور کا اقرار اور دل سے اپنے فعل پر ندامت کا اظہار نہ کرے اور آئندہ اس سے مجتنب رہنے کا پختہ عہد کرتے ہوئے گذشتہ قصور کا ازالہ بھی نہ کرے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی توبہ گناہ پر دلیری پیدا کر دیتی ہے۔ گناہ پر دلیری تو اُن کا یہ عقیدہ پیدا کرتا ہے کہ ہمارے تمام گناہ مسیح نے اٹھا لئے ہیں۔ اب ہمیں کسی فکر کی ضرورت نہیں لیکن وہ توبہ جسے اسلام پیش کرتا ہے اور جو گذشتہ افعال کے کلی ترک اور آئندہ کے لئے کلی طور پر نیکی کے راستہ کو اختیار کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف صدق دل سے رجوع کرنے کے نام ہے وہ گناہ پر دلیری پیدا نہیں کر تی بلکہ گناہ کو بیخ دبُن سے اکھیڑ دیتی ہے اور انسان کو ایک نیا روحانی انسان بنا دیتی ہے۔ اس قسم کی توبہ کرنیوالوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو پوری طر ح خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اور دل میں ندامت پیدا کرتے اور اپنے گناہ کو دور کرتے ہیں اور پھر یہیں تک بس نہیں کرتے بلکہ اَصْلُحُوْا وہ دوسروں سے بھی عیوب دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ان میں اتنا تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور انہیں بدیوں سے اتنا بُغض ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اپنی اصلاح نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی بدیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں وَبَیَّنُوْا اور نہ صرف اپنے گرد و پیش کی اصلاح کرتے ہیں بلکہ علی الاعلان دُنیا کے سامنے اس بات کو پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور اسی میں دنیا کی نجات ہے فَاُولٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ فرماتا ہے جب کوئی شخص ایسی توبہ کرتا ہے تو میں بھی فضل کے ساتھ اُس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْا
وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَo
توبہ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے رجوع برحمت ہونے اور فضل نازل کرنے کے ہوتیہ یں۔ لیکن جب بندے کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی ندامت کا اظہار کرنے اور جرم کا اقرار کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف جھک جانے کے ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے جرم کا اقرار کر کے ندامت کا اظہار کریں اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور دوسروں کی بھی اصلاح کریں اور اسلام پر پوری مضبوطی سے قائم ہو جائیں۔ ایسے لوگوں کے قصور کو معاف کر کے میں پھر انکو اس مقام پر لا کھڑا کرتا ہوں جہاں وہ پہلے ہوتے ہیں اور پھر میں اپنے پُرانے طریق پر ان کے لئے فضلوں کا سلسلہ شروع کر دیتا ہوں کیونکہ میں بڑا شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہوں۔
۷۶؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے ان توبہ کرنے والوں کے بالمقابل جو لوگ کفر کی حالت میں ہی مر گئے۔ ان پر خداتعالیٰ کی *** ہو گی۔ اسی طرح ملائکہ اور سارے انسانوں کی *** ہو گی۔
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ سارے انسانوں کی اُن پر *** ہو گی اس میں اور پہلی آیت میں جس *** کا ذکر کیا گیا ہے اس میں یہ فرق ہے کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ نے صرف خاص لوگوں کو *** کرنے کی اجازت دی تھی ۔ کیونکہ وہاں *** سے مراد اُن کی تباہی کی پیشگوئی تھی جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء کیا کرتے ہیں۔ مگر یہاں اُن کے متعلق پیشگوئی کرنا مقصود نہیں ۔کیونکہ یہاں *** رکرنیوالوں میں سب لوگوں کو شامل کر لیا گیا ہے۔ اور سارے کے سارے لوگ تباہی کی پیشگوئیاں نہیں کیا کرتے ۔ پس یہاں وہ *** مراد ہے جو فطرتی طور پر انسان کے دل سے اٹھتی ہے مثلاً اگر ایک چور کے سامنے بھی اگر چوری کا ذکر ہو تو وہ فوراً کہہ اُٹھتا ہے کہ چور بہت بُرے ہوتے ہیں حالانکہ وہ خود اس فعل کا مرتکب ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس کی فطرت اسے بُرا قرار دیتی ہے۔ اسی طرح یہاں *** کرنے سے یہ مراد ہے کہ کفار کے افعال پر ہر ایک شخص خواہ نیک ہو خواہ بد فطرتی طور پر *** کرتا ہے بلکہ ایک مجرم خواہ اپنی ذات کو بُرا نہ کہے مگر جرم کو ضرور بُرا کہے گا اور اسی کا نام *** ہے۔ خدا اور ملائکہ صفت انسان تو علی الاعلان *** کرتے ہیں لیکن باقی دنیا فطری اور اصولی طور پر *** کرتے ہے۔ جیسے کوئی قوم جھوٹ کو اچھا نہیں سمجھتی۔کوئی قوم غیبت چوری اور قتل وغیر ہ کو اچھا نہیں سمجھتی۔ ہاں انفرادی طور پر اگر کوئی ان کا ارتکاب کرے تو خود اس کا اپنا نفس اسے شرمندہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے بے ایمانی کا ارتکاب ہے۔ اس جگہ اسی قسم کی *** مراد ہے کہ خوہ اپنے فعل وہ وہ برا نہ کہیں مگر دوسروں کے اُسی قسم کے فعل کو دیکھ کر وہ ضرور بُرا کہتے ہیں چنانچہ کسی سے پوچھ کر دیکھ لو وہ یہی کہیگا کہ جھوٹ بُرا ہے غیبت بُری ہے چوری بُری ہے قتل بُرا ہے ظلم بُرا ہے ۔
وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ الرَّحِیْمُo
حالانکہ بعض دفعہ وہ خود ان جرائم کا مرتکب ہوتا ہے اسی طرح کوئی قوم بحیثیت قوم اندھیرے میں چھپ کر کسی کو مار ڈالنے کو اچھا نہیں سمجھتی ۔ کوئی قوم بحیثیت قوم چوری کو اچھا فعل نہیں سمجھتی کوئی قوم بحیثیت غیبت کو اچھا خیال نہیں کرتی۔ اسی طرح وہ افراد جو اس قسم کے کاموں کو کرتے وقت انہیں اچھا خیال کرتے ہیں وہ بھی دوسرے موقعہ پر انہیں بُرا اور ناجائز سمجھتے ہیں ۔ غرض یہ *** ایسی ہے جو کہیں نہیں مٹتی۔ کیونکہ انسانی فطر اس کی ہمنوا ہوتی ہے۔
پھر فرماتا ہے خٰلِدِیْنَ فِیْھَایہ قانون ایسا ہے جو ہمیشہ قائم رہیگا۔ کئی فلسفے اور تہذیبیں بدل گئیں مگر یورپ آج بھی یہی کہتا ہے کہ جھوٹ بُرا ہے ظلم بُرا ہے چوری پُری ہے غیبت بُری ہے۔ یہ *** قائم ہے اورہمیشہ قائم رہے گی۔ یونانی اور ایرانی فلسفہ بھی یہی کہتا ہے یوروپین فلسفہ بھی یہی کہتا ہے غرض یہ ایک نہ مٹنے والا اصل ہے اس میں کبھی تغیر نہیں آسکتا۔ کل اگر کوئی اور تہذیب آئیگی تو وہ بھی یہی کہے گی اس کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتی۔
لَایُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَاَبُ وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَ فرماتا ہے کہ جب منکرین انبیاء کا پیمانہ عمل لبریز ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ آسمانی عذاب میں جکڑے جاتے ہیں اور یہ عذاب ایسا ہوتا ہے کہ نہ تو اسے ہلکا کیا جاتا ہے اور نہ انہیں ڈھیل دی جاتا ہے ۔ ہاں عذاب کے آنے سے پہلے پہلے ان کے لئے موقعہ ہوتا ہے کہ وہ توبہ کر لیں ۔لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے کوئی فائدہ نہ اٹھائیں اور انکار پر کمر بستہ رہیں اور خدائی نشانات کی تضحیک کرتے رہیں تو ایک دن عذاب الہٰی کے کوڑے ان پر برسنے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی شیخ و پکار بالکل عبث ہوتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو وہ لوگ جنہوں نے خداتعالیٰ کے فرستادوں کا مقابلہ کیا۔ ہزاروں سال گذرنے کے باوجود آج بھی ان پر *** پڑ رہی ہے۔ نمرود کو ہلاک ہوئے ہزاروں سال گذر گئے ہیں ۔ فرعون کو سمندر میں ڈوبے ہزاروں سال گذر گئے وہ فقیہی اور فریسی جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا تھا ان پر بھی دو ہزار سال گذر گئے ابوجہل کو جنگِ بدر میں ہلاک ہوئے بھی چودہ سو سال ہو گئے مگر آج بھی ہر شریف انسان نمرود کا نام لیتا ہے تو اس پر *** ڈالتا ہے فرعون کا نام لیتا ہے تو اس پر *** ڈالتا ہے فقیہیوں اور فریسیوں کا ذکر آتا ہے تو ان پر *** ڈالتا ہے ابوجہل کا ذکر آتا ہے تو ان پر *** ڈالتا ہے۔ اور پھر اگلے جہان میں جو انہیں عذاب دیا جا رہا ہے اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ غرض یہ عذاب برابر جاری ہے۔ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کا مقابلہ کیا۔
۷۷؎ تفسیر:۔فرماتا ہے تمہارا خدا تو ایک ہی خدا ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور پھر وہ رحمٰن اور رحیم ہے ایسی کامل صفات رکھنے والے خدا پر ایمان رکھتے ہوئے تمہیں اپنے دشمنوں سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہاری حفاظت کے لئے تمہارا خدا موجود ہے۔ پس تم اس پر توکل رکھو اور اُسی سے مدد مانگتے رہو۔ وہ تمہارا دشمن کو تم پر کبھی غالب نہیں آنے دیگا۔ اور خواہ تمہاری کشتی مشکلات کے بھنور میں کتنے بھی چکر کھائے پھر بھی وہ تمہیں اس میں سے نکال کر ساحل کامیابی پر پہنچا دے گا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں بہشتی مقبرہ سے ایک کشتی پر آرہا ہوں اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ راستہ میں کثرت سے پانی ہے اور ایک طوفان سا آیا ہوا معلوم ہوتا ہے جب ہم پُل والی جگہ کے قریب پہنچے ۔جہاں صرف دو لکڑیاں لوگوں کے آنے جانے کے لئے رکھی رہتی تھیں تو وہاں میں کیا دیکھتا ہوں کہ کشتی بھنور میں پھنس گئی ہے اور چکر کھانے لگی ہے اس سے سب لوگ جو کشتی میں بیٹھے تھے ڈرنے لگے جب ان کی حالت مایوسی تک پہنچ گئی تو یکدم پانی میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک تحریر تھی اور اس میں لکھا تھا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے ان سے درخواست کرو تو کشتی بھنور میں سے نکل جائیگی۔ میں نے کہا۔ یہ تو شرک ہے میں اس کے لئے ہرگز تیار نہیں خواہ ہماری جان چلی جائے میں جوں جوں انکار کرتا گیا چکر بڑھتے گئے۔ اس پر میرے ساتھیوں میں سے بعض نے کہا کہ اس میں کیا حرج ہے۔ اور انہوں نے پیر صاحب کے نام ایک رقعہ لکھ کر بغیر میرے علم کے پانی میں ڈال دیا جب مجھے علم ہوا تو میں نے جوش سے کہا کہ یہ شرک ہے اور میں نے فوراً پانی میں چھلانگ لگا دی اور کود کر وہ کاغذ پکڑ لیا اور اُسے باہر لے آیا اور جونہی میں نے ایسا کیا کشتی بھنور میں سے نکل گئی۔ پس مومن پر خواہ کتنی بھی مشکلات آئیں اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر توکل رکھے اور اُس کے سوا کسی اور کا خوف اپنے دل میں نہ پیدا ہونے دے۔
یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ اچھا اگر وہی ایک معبود ہے تو ہمیں کیا معلوم کہ وہ ہم سے کیا معاملہ کریگا۔ اس لئے فرمایا کہ وہ رحمٰن اور رحیم ہے۔ وہ ہمیشہ محبت کا ہی معاملہ کرتا ہے اور بندہ کو نہیں چھوڑتا۔ سوائے اس کے کہ بندہ اُسے خود چھوڑ دے۔ وہ پہلے بغیر کسی عمل کے انسان پر اپنے بے انتہا فضل نازل کرتا ہے اور جب ان سا مانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو رحیمیت کے ماتحت اس پر مزید احسان کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔ خداتعالیٰ کے رحمٰن و رحیم ہونے کی مثال درحقیقت اس بوڑھے کے کھجور لگانے کی سی ہے جس نے بادشاہ سے دو تین دفعہ کئی ہزار روپیہ انعام کے طور پر لے لیا تھا۔ بادشاہ کا خزانہ تو محدود تھا س لئے وہ منہ پھیر کر چلا گیا مگر ہمارے خدا کا خزانہ محدود نہیں ۔ ہمارا بادشاہ تو خود کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ اور پھر مانگتے چلے جائو تاکہ میں تمہیں دیتا چلا جائوں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے انتہا فضل کرنیوالا اور بار بار رحم کرنے والا اس کے خزانے غیر محدود ہیں وہ کہتا ہے کہ تم پھر کام کرو تو میں پھر تمہیں انعام دونگا۔ پھر کرو تو میں پھر دونگا۔ اور ہمیشہ تمہیں اپنے انعامات سے حصہ دیتا چلا جائوںگا۔
اسجگہ اِلٰھُکُمْ سے جو شبہ پیدا ہوتا تھا کہ شاید کسی اور کا خدابھی ہو گا یا کئی خدا ہوتے ہون گے اس کا ازالہ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سے کر دیا اور الرَحْمٰنُ الرَّحِیْمُ سے اس کی کامل صفات بیان کر کے مقلاً بھی کسی اور اِلٰہ کی ضرورت نہ رہنے دی۔
ترتیب وربط:۔ اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ابراہیمی دعا کے مطابق ہم نے تمہارا منہ بیت اللہ کی طرف کر دیا اور پھر فتح مکہ پر اس نے خاص طور پر زور دیا اور بتایا کہ لوگ فتح مکہ کا انتظار کر رہے ہیں فتح ہونے پر وہ اسلام میں جوق در جوق داخل ہو جائیںگے اور چونکہ جنگوں میں کئی قسم کی تکالیف پیش آتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے صبر کی تلقین کی اور دعائیں مانگنے کی طرف توجہ دلائی اور ساتھ ہی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہؓ کی قربانیوں کی مثال بیان کر کے اس حقیقت کو واضح کیا کہ جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انکو کبھی ضائع نہیں کرتا پھر حج اور عمرہ اور صفا اور مروہ کے طواف کا ذکر کے کے اس طرف اشارہ فرمایا۔ کہ ہم نے جو تمہیں حج کا حکم دیا ہے تو ضڑور ہے کہ وہ وقت آئے کہ جس میں تم آسانی سے حج کر سکو۔ اور صفا اور مروہ کا طواف کر سکو۔ غرض ان آیات میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مکہ ایک دن ضرور فتح ہو گا کیونکہ جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں اس وقت کفار مسلمانوں کو بیت اللہ کے قریب بھی نہیں آنے دیتے تھے۔ بلکہ اس کے کئی سال بعد بھی کفار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طواف نہیں کرنے دیا۔ مگر بتایا کہ ایک وقت آئیگا کہ مکہ پر تمہارا قبضہ ہو گا اور تمہیں حج اور عمرہ میں کسی قسم کی دقت کا سامنا پیش نہیں
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ
لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَo
پڑیگا۔ اور پھر آخر میں فرمایا کہ تمہارا خدا یک ہی خدا ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ رحمٰن اور رحیم ہے پس تمہیں اُسی سے تعلق رکھنا چاہیے۔ اور دشمنوں کی کثرت کو دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی توحید کو دنیا میں قائم کریگا اور تمہیں اپنی رحمانیت اور رحیمیت کے نظارے دکھائیگا۔
۷۸؎ حل لغات:۔ اِخْتِلَاف’‘۔ یہ اِخْتَلَفَ کا مصدر ہے اور اِخْتَلَفَ زیْد’‘ عَمْرًد کے معنے ہیں کَانَ خَلِیْفَتُہ‘ یعنی زید عمرو کا قائم مقام ہوا۔وَجَعَلَہ‘ خَلْفَہ‘ اُسے اپنے پیچھے کیا۔ اسی طرھ اس کے ایک معنے ہیں اَخَذَہ‘ مِنْ خَلْفِہٖ۔ اُسے پیچھے سے پکڑا۔(اقرب)
مفردات امام راغب میں لکھا ہے اِنَّ نِی اخَتَلَفِ اللَّیْلِ وَالنَّھْارِ کے معنے ہیں فِیْ مَجِیْ ئِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھَمَا خَلْفَ الْاٰخِرِ وَتَعَاقُبِھَا۔ یعنی رات اور ان کا ایک دوسرے کے آگے پیچھے آنا(مفردات)
اَلْفُلَک کے معنے ہیں اَلسَّفِیْنَۃُ۔ کشتی (اقرب) یہ لفظ مذکر بھی استعمال ہوتا ہے اور مونث بھی۔ اس طرح یہ لفظ واحد اور جمع دونوں طرح بولا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں دونوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ایک جگہ آتا ہے اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ (الصافات آیت۱۴۱) یہ واحد کی مثال ہے۔ دوسری جگہ فرماتا ہے حِتّٰی اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِھِمْ بِرِ یْحٍ طَیِّبَۃٍ(یونس آیت۲۳) اس میں فُلْک کی طرف ھُمْ جو جمع کی ضمیر ہے پھیری گئی ہے گویا یہاں یہ لفظ جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
تفسیر:۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ وَّ احِد’‘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ یعنی تمہارا معبود اپنی ذات میں اکیالا اور واحد خدا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ بے انتہا کرم کرنیوالا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اب اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمایت اور رحیمیت کے مختلف نظائر کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ہستی کو ثبوت پیش کیا ہے ۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کی طرف بنی نوع انسان کو توجہ دلاتا ہے۔ اور فرماتا ہے کہ اس پیدائش میں عقلمند قوم کے لئے بڑے بھاری نشان ہیں۔ یعنی اگر وہ سوچیں اور غور سے کام لیں تو اس امر کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کا انسانی زندگی کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ اور یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن کے پیچھے صرف اللہ تعالیٰ کی رحمایت کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔ انسان کی کسی کوشش اور عمل کا اس میں دخل نہیں چنانچہ دیکھ لو ہوا اور پانی اور سورج اور چاند اور ستارے انسان کے کسی عمل کے نتیجہ میں اسے نہیں ملے بلکہ محض اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمایت کے ظہور کے طور پر ان کو بنی نوع انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو انسان ایک لمحہ کیلئے بھی دنیا میں زندہ نہ رہ سکتا۔ پھر آسمانوں اور زمین میں اگر ایک معین قانون کام نہ کر رہا ہوتا اور ایک غیر متبدل نظام جاری نہ ہوتا تب بھی انسانی زندگی بے کار ہو کر رہ جاتی۔مگر اللہ تعالیٰ نے جہاں دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے بنائی وہاں اس نے ہرچیز کو ایک قانون کا بھی پابند بنا دیا تاکہ انسان بغیر کسی خطرہ کے ترقی کر سکے۔ اور زمین اور آسمان کی ہر چیز اس کی خدمت میں مصروف رہے اس حقیقت کو ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰت طِبَاقًاط مَاتَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوْتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ لا ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍہ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّ تَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ھُوَ حَسِیْر’‘(سورۃ الملک آیت۴،۵)یعنی بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے ساتھ آسمان درجہ بدرجہ بنائے اور تو رحمٰن خدا کی پیدائش میں کوئی رخنہ نہیں دیکھتا ۔ تو اپنی آنکھ کو اِدھر اُدھر پھیر کر اچھی طرح دیکھ۔ کیا تجھے خدا کی مخلوق میں کسی جگہ بھی کوئی نقص نظر آتا ہے پھر بار بار اپنی نظر کو چکر دے آخر وہ تیری طرف نکام ہو کر لوٹ آئیگی او ر وہ تھکی ہوئی ہو گی۔ یعنی اُسے نظامِ عالم میں کوئی بھی خلافِ قانون بات یا نقص نظر نہیں آئیگا۔ غرض کارخانہ عالم کا ایک معین قانون سے وابستہ ہونا اور زمین آسمان اور سورج اور چاند اور ستاروں کاا س قانون کے ماتحت ہمیشہ چلتے چلے جانا اور کبھی اس میں کوئی انحراف واقع نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ اس کائنات کو بنانے والایقینا ایک خدا ہے۔ اگر ایک سے زیادہ بنانے والاے ہوتے جیسا کہ عیسائی تین خدائوں کے قائل ہیں توایک ہی قانون ہر جگہ کام کرتا دکھائی نہ دیتا بلکہ اس میں ضرور کوئی نہ کوئی رخنہ واقع ہو جاتا پس آسمانوں اور زمین کی پیدائش کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کا ثبوت کر دیا کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اپنی مخلوق پر بے انتہا کرم کریوالا اور انہیں ایسے انعامات سے فیضیاب کرنے والا ہے جن میں بندوں کی کسی کوشش یا عمل کا دخل نہیں۔ اسی طرح آسمانوں اور شمین کی پیدائش اس کی صفت رحیمیت کا بھی ثبوت ہے کیونکہ دنیا میں جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بہتر سے بہتر نتائج پیدا کرتا ہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے زمین میں ہل چلایا ہو اور بیج ڈالا ہو اور پانی دیا ہو اور نگرانی کی ہو اور پھر اسے ایک دانہ کے بدلہ میں کئی کئی سو دانے نہ ملے ہوں۔ یا کسی نے صحیح محنت کی ہو اور وہ اپنی محنت کے پھل سے محروم رہا ہو۔ یہ دونوں صفات پہلو بہ پہلو چل رہی ہیں۔ رحمانیت کا بھی ظہور ہو رہا ہے اور رحیمیت کا بھی ظہور ہو رہا ہے اور ہر چیز اپنے وجود سے خداتعالیٰ کی طرف انگلی اُٹھا کر اس کی ہستی کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔
درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم ایسا ہے جو دوسری چیزوں کے علم اور معرفت کے بعد حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ کلی علم ہے بعض چیزیں اپنی ذات میں نظر آنے والی ہوتیہ یں ان کے دیکھنے سے انسان کو ان کا علم ہو جات اہے۔ مثلاً بچہ کے سامنے اگرہم انگلی رکھیں اور قطع نظر اس سے کہ وہ اس قسم کی تفصیلات معلوم کرے کہ اُس انگلی کے پیچھے ایک پنجہ ہے اور اس پنجہ کے پیچھے ایک بازو ہے اور اس بازو کے پیچھے ایک کندھا ہے۔ وہ کندھا گردن کے واسطہ سے سر سے ملتا ہے اور اس سر میں ایک دماغ ہے جس کے حکم سے ان چیزون نے حرکت کی ہے اور پھر یہ انگلی میرے سامنے آئی ہے۔ وہ یہ سمجھ لے گا کہ اتنی لمبی اور اتنی موٹی ایک چیز میرے سامنے آگئی ہے پاس انگلی کا علم باقی علم کی ضرورت کا پابند نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم کلی علم کے طور پر ہے اور جب تک جزئیات کا علم نہ ہو اس وقت تک کلی علم حاصل نہیں ہو سکتا ۔ ہم خداتعالیٰ تک اس کی مخلوقات کے ذریعے سے پہنچتے ہیں اور پھر اس میں بھی تکمیل کے بعد تکمیل اور وسعت کے بعد وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک چیز کے علم کے بعد دوسری چیز کا علم حاصل ہوتا ہے اور دوسری چیز کے بعد تیسری چیز کا ۔ اور تیسری چیز کے بعد چوتھی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مخلوق کی جزئیات کا علم ہوتے ہوتے انسان خداتعالیٰ تک معرفت پیدا کرتا جاتا ہے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان بھی اگر غور کرے تو اس کے لئے بھی خداتعالیٰ کی ہستی کی دلیل موجود ہے ۔ جیسے ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا کہ تم خدا کو کیوں مانتے ہو تو وہ ہنس پڑا کہ میں اتنا پاگل تو نہیں ہوں کہ خدا کو بھی نہ پہچان سکوں۔ بکریوں کی مینگنیاں راستہ میں پڑی ہوئی ہوتی ہیں تو میں ان کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہوں کہ یہاں سے بکری گذری ہے اونٹ کا پاخانہ پڑا ہوا ہو تو اُسے دیکھ کر میں سمجھ لیتا ہوں کہ ادھر سے اُونٹ گذرا ہے تو کیا اتنی وسیع دنیا کو دیکھ کر میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک خدا موجود ہے جو اس ساری دنیا کا خالق اور اس نظام کا پیدا کرنیوالا ہے۔ یہ ایک بسیط علم ہے جس پر فلسفیوں نے اعتراض کیا ہے کہ آخر اتفاقات بھی تو ہوتے ہیں ۔ اس لئے خالی خالی زمین و آسمان کی پیدائش اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ ان کا کوئی خالق ہے۔ بعض چیزیں اتفاقا بھی ہو جاتی ہیں اور تمام لوگ کہتے ہیں کہ یہ اتفاقی بات ہے۔ قرآن مجید نے فلسفیوں اور مفکرین یورپ کے اس اعتراض کی تردید میں یہ دلیل دی ہے کہ خالی اس دنیا کا وجود بیشک خداتعالیٰ کے خالق ہونے کی مکمل دلیل نہیں اور تم اس کو اتفاقی کہہ سکتے تھے مگر اس تمام عالم میں ایک ترتیب کا پایاجانا اور ہرچیز کی دوسری چیز کے ساتھ جوڑ موجود ہونا یہ سب کچھ اتفاقی نہیں بلکہ اس دنیا کی ترتیب اور ہر چیز کا دوسری چیز کے ساتھ جوڑ اور ہر ذرہ کی حکمت یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اس سارے نظام اور ساری دنیا کا پیدا کرنیوالا خدا موجود ہے جس نے حکمت کے ماتحت اس ساری دنیا کو پیدا کیا ہے اُس نے انسان کی آنکھ پیدا کی جس میں دیکھنے کی طاقت رکھی تو اس کے مقابل میں سورج کے اندر روشنی پیدا کی جس کے ذریعہ سے انسان دیکھتا ہے ناک پیدا کی جس سے انسان سونگھتا ہے تو اس کے مقابل میں خوشبو پیدا کی۔ کان پیدا کی جس سے انسان سنتا ہے تو اس کے مقابل میں ہوا میں یہ خصوصیت رکھی کہ وہ جنبش کرتی ہے اور اس کے ذریعہ سے کان تک آواز پہنچتی ہے ۔ اب کیا دیکھنے کے لئے آنکھ اگر اتفاقاً پیدا ہو گئی ہے تو اس کے مقابل میں سورج کی روشنی بھی اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ سونگھنے کے لئے اگر ناک اتفاقاً پیدا ہو گئی تو کیا اس کے مقابل خوشبو بھی اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ اگر سننے کے لئے کان اتفاقاً پیدا ہو گئے تو کیا اس کے مقابل میں ہوا کے اندر بھی جنبش کر کے کانوں تک آواز پہنچانے کی قابلیت اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ پاس ان چیزوں کے اندر اگر کوئی جوڑ نہ وہوتا کوئی ترتیب نہ ہوتی اور کوئی حکمت نہ ہوتی تو انکو اتفاق کہا جاسکتا تھا لیکن دنیا کا کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں کوئی ترتیب نہ ہو کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں حکمت نہ ہو۔ کوئی چیزایسی نہیں جس کا کسی دوسری چیز سے جوڑ اور وابستگی نہ ہو تو ہم کس طرح مان لیں کے یہی ساری کی ساری چیزیں اور یہ سارے کا سارا نظام خود بخود اور اتفاقی ہے۔ مگر یہ دلیل اُسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے جب انسان بڑا ہو اور ان چیزوں پر غور کرے۔ آنکھوں سے دیکھ دل و دماغ سے سوچے ادھر ان چیزوں پر نگا ڈالنے ادھر اپنے دل کے جذبات پر غور کرے۔ سورج اور چاند کی روشنی کو دیکھے ہوا اور اس کے اثرات پر غور رکے۔ گرمی اور سردی کے اثرات کو دیکھے سبزیوں اور ترکاریوں کے پیدا ہونے اور ان کی خاصیتوں پر غور کرے جب تک وہ ان چیزوں پر غور کرنے اور ان سے نتیجہ نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ تک کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ یہ بات خلافِ عقل ہے کہ ایک بچہ ان تمام چیزوں پر غور کر کے اس نتیجہ تک پہنچ جائے کہ ایک خدا موجود ہے۔ بچہ توسب سے پہلے اپنی ماں سے روشناس ہوتا ہے اور اسی کو سب کچھ سمجھتا ہے پھر جب اس کو پتہ لگتا ہے کہ ماں کو بھی سب چیزیں باپ ہی لا کر دیتا ہے تو پھر وہ باپ سے محبت کرتا ہے بڑا ہو کر جب اپنی گلی کے بچوں سے کھیلتا ہے تو پھر ان سے محبت کرتا ہے اگر اس کا کوئی دوست نہ ملے تو رونے لگ جاتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ میرے دوست کو بلائو اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں۔ پھر کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کا شوق پیدا ہوتا ہے تو ان سے محبت کرتا ہے۔ اگر اُس کی مرضی کے مطابق کھانا نہ ملے یا مرضی کے مطابق کپڑا نہ ملے تو روٹھ جاتا ہے کہ میرا اس کے بغیر گذارہ نہیں پھر اور بڑا ہوتا ہے تو سیر وشکار سے محبت کرتا ہے اور ان چیزوں کے بغیر اپنی زندگی بے لطف سمجھتا ہے۔ غرض یہ چیزیں ایک ایک کر کے اس کے سامنے آتی ہیں اور ہر ایک کے متعلق وہ یہی اندازہ لگاتا ہے کہ اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں۔ گویا وہی اس کا خدا ہوتا ہے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ ان چیزوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے پہلے ماں سے محبت ہوتی ہے تو اُسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے پھر باپ سے محبت ہوتی ہے تو اسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے۔ پھربھائیوں اور دوستوں سے محبت سے محبت ہوتی ہے تو ان کو اپنا خدا سمجھتا ہے پھر کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں سے محبت ہوتی ہے تو ان کو اپنا خدا سمجھتا ہے۔یہاں تک کہ جب عاقل و بالغ ہوجاتا ہے تو پھر اگر اس پر خدا کا فضل ہو جائے اچھا استاد مل جائے جو اسے علم سکھائے اور ماں باپ بھی اچھی طرح تربیت کرنے والے ہوں تب وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر حقیقی خدا کی طرف آجائیگا اور سمجھ لیگا کہ یہ سب نقلی خدا تھے جن کو میں نے اپنی خواہشات کے ماتحت سب کچھ سمجھ رکھا تھا۔ اصل خدا تو وہ ہے جو ان سب کا پیدا کرنیوالا ہے غرض پہلے غیر اللہ کی محبت انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی کا سارا انحصار انہی پر ہے۔ لیکن ایک ایک کر کے پھر ان کو چھوڑتا چلا جاتا ہے پہلے ماں کی گود کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور اس سے الگ ہونے میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے ۔ پھر بڑا ہوتا ہے تو بھائیوں اور دوستوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور اپنی زندگی کا تمام سُکھ اور راحت انہیں کے ساتھ کھیلنے میں سمجھتا ہے جب ان کے ساتھ مل کر کھیل ریا ہو تو ماں کے بلانے پر بھی نہیں جاتا۔ اس کی ساری خوشی کھیلنے میں ہوتی ہے۔ پھر اور بڑا ہوتا ہے تو سیر و شکار سے محبت ہوتی ہے پھر صحن اور گلی میں کھیلنے کو بھول جاتا ہے اور اس کی ساری خوشیاں سیر وشکار میں مرکوز ہو جاتی ہیں اگر اس کو ان چیزوں سے روکا جائے تو اس میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے لیکن آہستہ آہستہ آپ ہی آپ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو غور و فکر کے بعد خدا کی حقیقی شکل اس کو نظر آجاتی ہے اور ان تمام چیزوں کو لغو سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے اسی ترتیب طبعی کے ماتحت مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے ایک ستارہ کو چمکتا ہوا دیکھا تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ پھر چاند کو دیکھا کہ ستارہ سے بڑا اور اس سے زیادہ روشن ہے تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ پھر سورج کو دیکھا کے ستارے اور چاند دونوں سے بہت بڑا اور اس سے زیادہ روشن ہے تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ مگر جب ایک ایک کر کے سب چُھپ گئے تو آپ نے فرمایا اِنِّیْ وَجَّھْتُ وِجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ(انعام ع۹) یعنی میں نے تمام کج راہوں سے بچتے ہوئے اپنی توجہ اس خدا کی طرف پھیر دی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آخر میں آپ خدا تعالیٰ پر ایمان لے آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ واقعہ تو درست نہیں مگر مفسرین کا دماغ اس بات تک صحیح پہنچا ہے کہ انسان دماغ بغیر الہام کے جب ہدایت پاتا ہے تو ادنیٰ سے اعلیٰ تک جاتا ہے بچے کے نزدیک ابتداء میں اُس کی ماں ہی سب کچھ ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں اُس کا خدا ہوتی ہے بلکہ اس کی ماں کی بھی خبر نہیں ہوتی وہ سب سے پہلے پستان ہی کو خدا سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مجھے اس سے دودھ ملتا ہے اگر پستان نہ ملے تو روتا ہے پھر ماں کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ پھر باپ کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ پھر بھائی سے محبت کرتا ہے پھر ساتھ کھیلنے والوں سے محبت کرتا ہے گلی اور محلے والوں کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے پھر دوسری ضروریات کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر اپنا مقصود سمجھتا ہے ۔ مگر آہستہ آہستہ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ چیزیں اسے خدا تک پہنچا دیتی ہیں۔ اگر سال یا چھ مہینے کے بچہ کے اندر بولنے اور سمجھنے کی طاقت ہوتی اور اُسے کہا جاتا کہ تُو بڑا ہو کر اپنی ماں کی گود کو چھوڑ دیگا تو وہ اس بات سے اتنا حیران ہوتا جتنا کہ ایک سائنسدان اس بات سے حیران ہوتاکہ اُسے کہا جائے آگ جلاتی نہیں بلکہ بجھاتی ہے یا سورج روشنی نہیں دیتا۔یا چاند کی روشنی مکتسب نہیں بلکہ آپ ہی آپ ہے ۔ غرض جس طرح ایک سائنسدان ان اوپر کی باتوں سے حیران ہوگا وہ بچہ بھی اگر اس کو یہ بات سمجھائی جا سکتی کہ ایک دن وہ اپنی ماں کی گود سے اُتر جائیگا اور اس کی رغبت اپنی ماں سے کم ہو جائیگی حیران ہو تا۔ اگر سات آٹھ سال کے بچہ کو یہ بات کہہ دی جائے کہ بڑا ہو کر تو ایک عورت سے شادی کرے گا اور اس سے تیری رغبت زیادہ ہو جائیگی اور تو اپنی ماں کو چھوڑ دیگا تو وہ کہیگا کہ میں ایسا پاگل تو نہیں ہوں کہ اپنی ماں کو چھوڑدوں وہ اور ہونگے جو ایسا کرتے ہیں میں تو کبھی اس طرح نہیں کرونگا۔ پس یہ ایک فطرتی چیز ہے کہ انسان مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے اور جس وقت وہ اس چیز سے رغبت کر رہا ہوتاہے اس وقت وہ یہ وہم بھی نہیں کر سکتا کہ ایک دن میں اس چیز کو چھوڑ دونگا۔ اور جب بڑا ہوتا ہے تو پھر اس بات کا اسے خیال بھی نہیں آتا کہ کسی وقت میں اس چیز سے رغبت رکھتا تھا اور اس کے بغیر اپنی زندگی حرام سمجھتا تھا۔ یہی معنے اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اللّٰہ کے ہیں کہ پہلے انسان غیر اللہ کی طرف توجہ کرتا ہے جو بظاہر غیر اللہ کا راستہ ہے مگر اللہ تک پہنچنے کا اصل راستہ یہی ہے۔ اگر بچہ کے اندر پستان کی محبت نہ ہوتی تو اُس کے اندر ماں کی محبت بھی کبھی نہ ہوتی۔ اگر بچہ کو ماں سے محبت نہ ہوتی تو اس کو باپ سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی۔ اگر بچہ کو باپ سے محبت نہ ہوتی تو اس کو بھائی اور بہنوں سے محبت نہ ہوتی تو اس کو دوستوں اور ساتھ کھیلنے والوں سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی۔ اگو اگر اس کو اپنے اپنے وقت پر ان اشیاء سے رغبت نہ ہوتی تو سچی بات یہ ہے کہ خدا کو بھی اپنے وقت پر نہ پا سکتا۔ بات یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت میں جو خلا محسوس کرتا ہے اُس کو پُر کرنے کے لئے وہ مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہ چیز میری ضرورت کو پورا کردے۔ جب اُس چیز سے اس کی تسلی نہیں ہوتی تو پھر دوسری چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید اس چیز سے میری ضرورت پوری ہو جائے۔ جب اس سے بھی اسے طمانیت حاصل نہیں ہوتی تو پھر چوتھی چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہی میرا مقصود ہو۔ یہاں تک کہ ایک ایک کر کے ان تمام چیزوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور آخر خداتک جا پہنچتا ہے اور جب اس کو اللہ مل جاتا ہے تو اس کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر اس مقام سے نہیں ہلتا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّ اِلیٰ رَبِّکَ الْمُنتَھٰی(نجم آیت ۴۳) کہ ان تمام چیزوں میں سے جو غیر اللہ ہیں گذر کر ایک دن انسان اپنی منزل مقصود یعنی خدا تک پہنچتا ہے اور وہ فورا ہی اس منزل پر نہیں پہنچ جاتا بلکہ راستہ میں کئی چیزیں آتی ہیں جن کو بچپن کی وجہ سے خدا سمجھ لیتا ہے مگر آہستہ آہستہ اُن سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور ہر چیز اس کی انگلی پکڑ کر اُس کو خدا کے قریب کر دیتی ہے۔
زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر تم نظامِ عالم پر غور کرو تو تمہیں ذرہ ذرہ میں خداتعالیٰ کو وجود نظر آئیگا۔ اور تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جس قدر اشیاء پیدا کی ہیں ان تمام کو حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے یعنی ان کی پیدائش بلاوجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی بہت بڑا مقصد کام کر رہا ہے اور چونکہ وہ مقصد اس دنیا میں پورا ہوتانظر نہیں آتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسانی زندگی اسی دنیا تک محدود نہ ہو تاکہ وہ اس نظام کی عظمت کے مطابق اس اعلیٰ مقام کو حاصل کر کے جس کے لئے اس کی پیدائش معرض، وجود میں آئی ہے ۔ اگر انسان کی زندگی صرف اس دنیا تک ختم ہو جانے والی ہوتی تو اس کے لئے اتنا بڑا نظام جاری کرنا جس کے اسرار کو علوم کی انتہائی ترقی کے باوجود ابھی تک سائنسدان بھی معلوم نہیں کر سکے ایک لغو اور خلافِ عقل فعل قرار پاتا ہے۔
مجھے یاد ہے ۱۹۴۶ء میں جب ہم نے قادیان میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کے لئے ڈاکٹر سرشانتی سرذب صاحب بھٹنا گر ڈاکٹر سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ گورنمنٹ آف انڈیا کو بلوایا تو انہوں نے تقریر کرتے ہوئے یہی کہا کہ آج سائنسدان کے غرور کا سار اس قدر نیچا ہو چکا ہے کہ وہ ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ سائنس ان اشیاء کی بھی مناسب تشریح کر سکتی ہے جو ظاہری طور پر ہمیں نظر آتی ہیں اور جب زمین اور آسمان میں اس قدر اسرار پائے جاتے ہیں کہ سائنس اپنی تمام ترقی کے باوجود ابی مادیات میں سے بھی ایک بہت چھوٹے سے حصے کی تشریح کر سکی ہے تو پھر اس وسیع کائنات کو جس وجود کے لئے ایک خادم کے طور پر پیدا کیا گیا ہے اس کی پیدائش کو عبث قرار دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
پھر فرماتا ہے وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ۔ رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں بھی عقلمند لوگوں کے لئے بڑے بھاری نشان ہیں۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمانیت کا ثبوت پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے اور سورج اور چاند اور ستارے وغیرہ بنائے۔ اسی طرح اُس نے اپنی رحمانیت کے ماتحت یہ بھی انتظام کیا ہو اہے کہ رات اور دن کا ایک تسلسل جاری ہے۔ اور ہر رات کے بعد ایک دن کا ظہور ہوتا ہے۔ اگر رات نہ آتی تو انسان اپنی طاقتوں کو کھو بیٹھتا۔ اور اگر دن نہ چڑھتا تو انسانی زندگی بے کار ہو کر رہ جاتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ کے ماتحت رات اور دن بنادیئے تاکہ انسان اپنی نیند پوری کر کے قویٰ میں تازگی حاصل کرے اور دن بھر کام کر کے اپنے آپ کو مفید وجود بنائے رات اور دن کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے روحانی رنگ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ نے مادی ظلمت کو دور کرنے کے لئے انتظام کر رکھا ہے روحانی طور پر بھی ظلمت اور نور کا ایک سلسلہ جاری ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر رکھے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں روحانی ظلمتیں کا فور ہوتی رہتی ہیں۔ ان سامانوں میں سے ایک تو یہ ہے کہ ملائکہ انسانی قلوب میں نیک تحریکات کرتے رہتے ہیں اور انہیں ظلمات سے بچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن جب بنی نوع انسان کی اکثریت ظلمت میں گرفتار ہو جائے اور ملکی تحریکات ان پر اثر نہ کریں اور شیطان ان پر تسلط جمالے تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور مامورین کے ذریعہ ان کی ظلمتوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لوگ روحانی عالم کے آفتاب و ماہتاب ہوتے ہیں اور ان پر ایمان لانے والے ستاروں کی طرح دنیا کی ہدایت کا موجب بنتے ہیں۔ غرض اِخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھارِ میں اللہ تعالیٰ نے رحمانیت کے اس فیضان کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے ڈریعہ ملائکہ اور انبیاء اور مامورین اور مجددین اور اولیاء وغیرہ بنی نوع انسان کو ظلمات سے نور کی طرف لے جاتے ہیں اور دنیا کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں۔
وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ جیسے کشتیوں اور جہازوں کے بغیر تم سمندروں میں نہ ایک طرف کا مال دوسری طرف پہنچا سکتے ہو اور نہ وہاں سے کوئی مال اپنے استعمال کے لئے لاسکتے ہو ۔ اسی طرح خداتعالیٰ نے رُوحانی دنیا میں بھی بعض ایسے وجود بنائے ہیں جو لوگوں کے لئے کشتی کاکام دیتے ہیں وہ خداتعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے فیضان لاتے ہیں اور تمہیں زمین سے اُٹھا کر خداتعالیٰ تک پہنچا دیتے ہیں پھر جس طرح وہی شخص سمندری طوفانوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جو کشتی میں سوار ہو اسی طرح روحانی بلائوں اور آفات سے بھی وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو اپنے زمانہ کے روحانی نجات دہندہ کی کشتی میں سوار ہو۔
وَمَااَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئٍ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ زمین کو حیاتِ تازہ بخشنے کے لئے آسمان سے پانی نازل فرماتا ہے اسی طرح وہ لوگوں کی روحانی تشنگی فرو رکرنے کے لئے آسمان سے ہی وحی نازل کیا کرتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ جسمانی بارش کو تو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں لیکن جب آسمان سے وحی الہٰی کی بارش ہوتی ہے تو اس سے فائدہ اتھانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ سے وحی الہٰی کی بارش سے فائدہ اُٹھانے اور نہ اُٹھانیوالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں تین قسم کے آدمی پائے جاتے ہیں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی مثال اچھی زمین کی طرح ہوتی ہے۔ جو نرم ہو پانی کو اپنے اندر جذب کرنے کی قابلیت رکھتی ہو اور پھر اچھی کھیتی اُگاسکتی ہو۔ جب بارش نازل ہوتی ہے تو وہ زمین بارش کے پانی کو سمیٹ لیتی اور اُسے اپنے اندر جذب کرلیتی ہے اور پھر زمین سے کھتی نکلتی اور لوگوں کے کام آتی ہے گویا وہ خود بھی پانی پیتی ہے اور باقی لوگوں کے کام آتی ہے گویا وہ خود بھی پانی پیتی ہے اور باقی لوگوں کے لئے بھی غذا مہیاکرتی ہے۔ اور دوسری قسم کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی مثال اس زمین کی طرح ہوتی ہے جو سخت ہو لیکن اپنے اندر نشیب رکھتی ہو۔ جب پانی گِرتا ہے تو وہ اس زمین میں جمع ہو جاتا ہے اور گو ایسی زمین خود پانی نہیں پیتی لیکن چونکہ وہ پانی کو جمع کر لیتی ہے اس لئے وہ پانی جانور پیتے ہیں آدمی استعمال کرتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو اس پانی سے سیراب کرتے ہیں لیکن ایک تیسری قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی مثال اس سخت اور پتھریلی زمین کی طرح ہوتی ہے جو نہ صرف سخت اور پتھریلی ہو بلکہ مسطح اور ہموار بھی ہو۔ اس میں کوئی گڑھا نہ ہو جب آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے تو نہ وہ آپ پانی پیتی ہے کیونکہ وہ سخت اور پتھریلی ہوتی ہے اور نہ پانی جمع کرتی ہے کیونکہ وہ مسطح اور ہموار ہوتی ہے۔ پھر فرمایا پہلی مثال تو اس شخص کی ہے جو عالم باعمل ہو۔ وہ دین حاصل کرتا ہے اور نہ صرف خود اس کے احکام پر عمل کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے اور ان کو عامل بنانے کی کوشش کرتا ہے گویا وہ عالم بھی ہوتا ہے اور عامل بھی ہوتا ہے۔ وہ تعلیم بھی حاصل کرتا ہے اور معلم بھی ہوتا ہے۔ لیکن تیسری قسم کا آدمی نہ عامل ہوتا ہے اور نہ معلم ہوتا ہے نہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ دوسری مثال بوجہ اس کے کہ دونوں مثالوں سے حل ہو جاتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی مگر ہر شخص ادنیٰ غور سے سمجھ سکتا ہے کہ دوسری مثال اس شخص کی ہے جو معلم تو ہے مگر عامل نہیں۔ وہ دین سیکھتا ہے اُس کے احکام سنتا ہے اس کی تعلیموں سے واقفیت رکھتا ہے مگر خود دیندار نہیں ہوتا۔ ایسا شخص چونکہ خدا اور اس کے رسول کی باتیں دوسروں تک پہنچاتا رہتا ہے اس لئے وہ بھی ایک مفید وجود ہوتا ہے گو ذاتی طور پر وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں قسم کے انسانوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کے آنے پر یہی تین گروہ دنیا میں نظر آتے ہیں یعنی کچھ تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان کی تعلیموں پر عمل کرتے ہیں اور وحی الہٰی کی بارش سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اعراض سے کام لیتے ہیں اور انبیاء کا انکار کر دیتے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دین کو سمجھتے تو ہیں مگر اپنی غفلت اور سستی کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ مادی بارش کا ذکر فرماکر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جس طرح تم بارش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہو۔ اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم اس روحانی بارش سے بھی فائدہ اُٹھائو ہو محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل ہوئی اور ان پتھروں کی طرح مت بنو جو بارش کا کوئی قطرہ اپنے اندر جذب نہیں کرتے۔ پھر جس طرح آسمان سے بارش برستی ہے توزمین کی اندرونی تہوں میں جو پانی مخفی ہوتا ہے اس میں بھی جو ش پیدا ہوتا ہے اور کنوئوں کا پانی بھی چڑھ آتا ہے اسی طرح انبیاء پر جب وحی الہٰی کی بارش نازل ہوتی ہے تو عوام الناس کو بھی کثرت کے ساتھ خوابیں آنی شروع ہو جاتی ہیں اور ان کی توجہ بھی خداتعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے چنانچہ اس زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی صداقت میں ہزار ہا لوگوں کو خوابیں آئیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کی خوابیں اکٹھی کی جائیں تو ایک بہت بڑی کتاب بن سکتی ہے۔
اسی طرح وحی الہٰی کے فیضان کے دائرہ کو اللہ تعالیٰ اس رنگ میں بھی وسیع کر دیتا ہے کہ جو لوگ انبیاء پر ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ ان کے دماغوں میں بھی ایک نئی روشنی پیدا کر دیتا ہے اور ان کی عقلیں تیز ہو جاتی ہیں ان کا فکر بلند ہو جاتا ہے ان کی فراست ترقی کرجاتی ہے اور ان کی دماغی صلاحیتیں زیادہ تیز ی سے اُبھرنے لگتی ہیں۔
پھر فرماتا ہے خداتعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَۃٍ۔ اس نے زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اس میں مادی جانوروں کے علاوہ ان لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو انبیاء کے آنے سے پہلے مردہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں روحانی زندگی کی کوئی رمق تک نظر نہیں آتی لیکن جب آسمانی صُور پُھونکا جاتا ہے تو اس وقت ایسے مردہ بھی زندہ ہو جاتے ہیں اور لولے لنگڑے بھی چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر یہ لوگ جو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف علوم و فنون اور مختلف قابلیتوں کے مالک ہوتے ہیں نبی کی آواز پر لبیک کہنے کے بعد دین کی اشاعت کے لئے دنیا میں چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور اپنی تبلیغی جدوجہد سے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو دین کی طرف کھینچ لاتے ہیں جو اس کے دین کی رونق اور تازگی کا موجب بنتے ہیں۔ ان معنوں کے لحاظ سے دَآبَّۃٍ سے ان مومنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو زمین کی روحانی رونق اور آبادی کا باعث ہوتے ہیں اور جن سے موجودہ اور آئندہ نسلیں ہزاروں قسم کے مادی اور روحانی فوائد اُٹھاتی ہیں۔
وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ رحیمیت کا ثبوت پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ صفتِ رحمانیت کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے جس قدر فیضان ہیں ان میں تو کافر بھی برابر کے شریک ہیں لیکن رحیمیت کے دائرہ میں جب مومن اور کافر کا مقابلہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تائید مومنوں کو کامیاب کرتی اور کفار کو ان کے بد ارادوں میں ناکام کر دیتی ہے اس جگہ استعارہ کے طور پر ہوائوں سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو خاص خاص وقتوں میں چلا کرتی ہیں خصوصاً وہ ہوائیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے چلیں اور جنہوں نے آپ کے انوار کو ساری دنیا میں پھیلا دیا مثلاً جنگِ بدر کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریت اور کنکریوں کی ایک مٹھی پھینکی تو اُسی وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی تیز ہوا چلی جس نے مومنوں کی تائید کی۔ اور کفار کو ایسا بے دست و پا کر دی اکہ تھوڑی دیر میں ہی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور کفار کے بڑے بڑے لیڈر خاک و خون میں تڑپنے لگے اور ان کے مسلح اور آزمودہ کار سپاہی میدان سے منہ پھیر کر بھاگ نکلے۔
پھر غزوہ احزاب میں بھی ایساہی ہوا اور خداتعالیٰ نے آپ کی تائید میں ہوا چلائی اور کفار بد حواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک رات سخت آندھی چلی جس نے قناطوں کے پردے توڑ دیئے۔ چولھوں پر سے ہنڈیاں گرادیں اور بعض قبائل کی آگیں بُجھ گئیں۔ مشرکین عرب میں یہ رواج تھا کہ وہ ساری رات آگ جلائے رکھتے تھے اور اس کو نیک شگون سمجھتے تھے اور جس کی آگ بُجھ جاتی تھی وہ خیال کرتا تھا کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے اور وہ اپنا خیمہ اٹھار کر لڑائی کے میدان سے پیچھے ہت جاتا تھا جن قبائل کی آگ بجھی انہوں نے اس رواج کے مطابق اپنے خیمے اٹھائے اور پیچھے کو چل پڑے۔ انکو دیکھ کر ارد گرد کے قبائل نے سمجھا کہ شاید یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر شبخون مار دیا ہے اور ہمارے آس پاس کے قبائل بھاگ رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی جلدی جلدی اپنے ڈیرے سمیٹے اور میدان سے بھاگنا شروع کر دیا۔ ابوسفیان اپنے خیمہ میں آرام سے لیٹا تھا کہ اس واقعہ کی خبر اُسے بھی پہنچی وہ گھبرا کر اپنے بندھے ہوئے اونٹ پر چڑھ بیٹا اور اس کو ایڑیاں مارنی شروع کر دیں۔ آخر کسی نے اُسے توجہ دلائی کہ وہ یہ کیا حماقت کر رہا ہے اس پر اس کے اونٹ کی رسیاں کھولی گئیں اور وہ بھی اپنے ساتھیوں سمیت میدان سے بھاگ گیا۔
پھر ہوائوں کی طرح بارشیں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں برسیں اور بادلوں نے بھی آپ کا ساتھ دیا چنانچہ جنگِ بدر کے موقعہ پر جبکہ صحابہؓ کو پانی کی سخت ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کر دی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو پانی بھی مل گیا اور ان کی زمین بھی جو ریتیلی تھی اور میدان جنگ بننے والی تھی سخت ہو گئی۔ اُدھر کافروں کی زمین جو سخت تھی بارش کی وجہ سے ایسی خراب ہو گئی کہ وہ اُس پر پھسلنے لگ گئے۔ اسی طرح مدینہ میں آپ کی دُعا کی برکت سے ایک دفعہ کئی دن بارش ہوتی رہی لیکن جب وہ بارش تکلیف کی صورت اختیار کرنے لگی اور مومنوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو آپ ہی کی دُعا کی برکت سے وہ رُکی اور مدینہ سے ہٹ کر اردگرد کے علاقوں پر برسنے لگ گئی۔
اسی طرح جب مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید مخالفت کی اور بار بار عذاب کا مطالبہ کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان پر ویسا ہی سات سالہ قحط نازل فرمائے جیسا کہ اس نے یوسف کے زمانہ میں نازل کیا تھا۔ جنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ کی اس بد دُعا کی وجہ سے حجاز میں ایسا شدید قحط پڑا کہ لوگوں کو مردار اور ہڈیاں اور چمڑے تک کھانے پڑے اور ان کی صحتیں اس قدر کمزور ہو گئیں کہ انہیں ہر وقت آنکھوں کے سامنے دھواں سا نظر آتا تھا اور یہ عذاب پورے سات سال تک ممتد رہا۔ آخر لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے درخواست کی کہ مضر یعنی قبائلِ حجاز کے لئے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی تکلیف کو دُور کرے۔ چنانچہ آپؓ نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے بارشیں فرمائیں اور قحط دُور ہوا۔ بلکہ ایک روایت میں ذکر آتا ہے کہ خود ابوسفیان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا
وَمِنَ النَّاسِ
شَدِیْدُ الْعَذَابِo
کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تیری قوم ہلاک ہو گئی۔ دعا کر کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دُور کرے۔ چنانچہ آپ نے دُعا فرمائی اور یہ عذاب دُور ہوا(بخاری جلد ۳ کتاب اتفسیر القرآن سورۃ دُخان) یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہوائیں بھی مسخر کر دی تھیں اور بادل بھی مسخر کر دیئے تھے اور کامل مومنوں کے لئے بھی وہ ایسا ہی کیا کرتا ہے بے شک ہوائیں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں اور بارشیں ہمیشہ برستی رہتی ہیں مگر بدر اور احزاب کی ہوائوں نے بتا دیا کہ وہ مومنوں کے لئے بشارت اور کافروں کے لئے عذاب تھیں اسی طرح بارشیں بھی بے شک عام طور پر ہوتی رہتی ہیں مگر بدر اور مدینہ کی بارشوں نے بتا دیا کہ وہ مسخر شدہ تھیں اور مسخر شدہ بارشیں اور ہوائیں ہمیشہ مومنوں کی تائید اور کفار کی تذلیل کے لئے جاری ہوتی ہیں اور ایسے امور تقدیر خاص کے ماتحت جاری ہوتے ہیں۔
۷۹؎ حل لغات:۔ اَنْدَادًا : یہ نِدّ’‘ کی جمع ہے اور اَلنِّدُّ کے معنے ہیں اَلْمِثقلُ وَلَایَکُوْنُ اِلَّا مُخَالِفًا نِدّ مثل کو کہتے ہیں۔ اور یہ لفظ ہمیشہ مد مقابل کے لئے بولا جاتا ہے۔ یُقَالُ مَالَہ‘ نِدّ’‘ اَیْ مَالَہ‘ نَظِیْر’‘ کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی نِد نہیں یعنی اس کا کوئی نظیر نہیں اس کی جمع انداد آتی ہے۔
یہاں اَذْ۔ حِیْنَ کے معنے میں استعمال ہوا ہے اور حین کے معنے وقت کے ہیں۔
اسی طرح اسجگہ لَوْ کی جزاء محذوف ہے جو کہ یَعْلَمُوْا ہے۔ معنے اس طرح ہونگے کہ اگر یہ ظالم لوگ اس گھڑی کو جس میں اُن پر عذاب نازل ہو گا دیکھ لیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ سب قوت اللہ ہی کے لئے ہے۔
تفسیر:۔ قرآن کریم میں مشرکوں کے معبودوں کے لئے چار الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ (۱) نِدّ (۲) شریک (۳) اِلٰہ (۴)رب ۔اور یہ چاروں نام چار قسم کے شرکوں پر دلالت کرتے ہیں۔ نِدّ شریک فی الجوہر کو کہتے ہیں یعنی ایسی ہستی کو جس کی محض عبادت ہی مدنظر نہ ہو بلکہ جیسے خداتعالیٰ کی ذات ہے ویسے ہی اس چیز کو ازروئے ذات سمجھا جائے اور شریک وہ ہے جسے کاموں میں شریک باری تعالیٰ قرار دیا جائے خواہ بعض صفات میں یا کل صفات میں خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے اور اِلٰہ یعنی معبود کا لفظ جب خداتعالیٰ مشرکوں کی نسبت استعمال کرے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ یہ لفظ بھی نِد سے وسیع ہے کیونکہ عام طور پر وہ بھی اِلٰہ قرار دیئے جاتے ہیں جو خداتعالیٰ کے شریک فی الجوہر تسلیم نہیں کیے جاتے۔ جیسے ہندئوئوں وغیرہ کے دیوتا ہیں اور رب ان ہستیوں کو کہا جاتا ہے جن کی ہر ایک بات بلا تمیز خیر و شر مان لی جائے بغیر اس کے کہ لوگ ان کی عبادت کریں یا انہیں خداتعالیٰ کی صفات میں شریک قرار دیں۔ ان چاروں قسم کے شرکوں کی مثالیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ نِدّ قرار دینے والی مسیحی اقوام ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا قرار دیتی ہیں وہ انہیں صفاتِ الوہیت کی وجہ سے خدا قرار نہیں دیتیں بلکہ اس وجہ سے خدا قرار دیتی ہیں کہ ان کے نزدیک وہ ازلی ابدی ہیں۔یعنی وہ انہیں شریک فی الجوہر ہونے کے لحاظ سے کدا مانتی ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدائی کی وہ تمام صفات جو ذات کے لحاظ سے خداتعالیٰ میں موجود ہونی ضروری ہیں ان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یا جیسے پارسی لوگ دو الگ الگ خدائوں کے قائل ہیں۔ یزدان کو وہ روشنی کا خدا سمجھتے ہیں اور اہرمن کو تاریکی کا خدا قرار دیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بعض ہستیوں کو صرف شریک قرار دیتے ہیں یعنی بعض کاموں میں انہیں متصرف تو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کی پرستش نہیں کرتے گویا انہیں صرف شریک فی الصفات مانتے ہیں جیسا کہ عرب کے لوگ تھے وہ جنات وغیرہ کو حکم اور تصرف میں تو خداتعالیٰ کا شریک قرر دیتے تھے مگر انہیں معبود یا رب یا نِدّ خیال نہیں کرتے تھے صرف اُن کا یہ اعتقاد تھا کہ فلاں وادی میں جسے وہ سید الوادی قرار دیتے تھے جن متصرف ہے اور وہ اس میں آتا جاتا ہے۔ وہ اس کا ادب بھی کرتے تھے اور خداتعالیٰ کی طرفح اس سے ڈرتے بھی تھے لیکن اس کی عبادت نہیں کرتے تھے۔
اِلٰہ یعنی معبود کا لفظ نِدّ سے وسیع ہے۔ چنانچہ کئی لوگ ایسے ہیں جو بعض ہستیوں کو معبود تو سمجھتے ہیں اور اُن کی عبادت بھی کرتے ہیں مگر انہیں خدا تعالیٰ کا شریک فی الجوہر تسلیم نہیں کرتے ۔ جیسے ہندو اپنے دیوتائوں کی عبادت کرتے ہیں مگر اُن کو متصرف یا شریک فی الجوہر قرار نہیں دیتے ۔ اسی طرح ان میں ماں باپ کی عبادت بھی پائی جاتی ہے مگر ان کو شریک یا رب یا نِدّ نہیں سمجھا جاتا۔ چوتھا نام رب ہے اور گو اس کے اصل معنے پیدا کرکے کمال تک پہنچانے والے کے ہیں۔ مگر اصطلاح مذاہب میں ہر ایک مربی اور سردار کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اس سے ایسے لوگ مراد ہوتے ہیں جن کی ہر ایک بات بلاتمیز خیر و شر مان لی جائے۔جیسے گم گشتہ اقوام میں پیروں فقیروں کے متعلق اعتقادرکھا جاتا ہے۔ اسلام اجتہادی مسائل میں دوسروں کی اطاعت جائز قرار دیتا ہے لیکن جس شخص کی خدا اور انبیاء کے حکم کے خلاف نصوص صریحہ میں اطاعت کی جائے وہ گویا رب سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِنَّخَذُوْا اَحْبَارَ ھُمْ وَرُحْبَانَہُمْ اَرْ بَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ(توبہ آیت ۳۱) یعنی یہود نے اپنے اھباء اور راہبوں کو خدا کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔
ان چاروں الفاظ میں سے اِلٰہ اور رب کے الفاظ تو خداتعالیٰ کے لئے بھی استعمال کر لئے جاتے ہیں لیکن نِدّ اور شریک کے الفاظ صرف معبود ان باطلہ کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ جہاں نِدّ کا لفظ استعمال ہوگا وہاں شریک فی الجوہر مراد ہو گا۔(اگر جوہر میں مشابہت نہ ہو تو وہ چیز مثل کہلائیگی نِدّ نہیں۔) اور جس جگہ شریک کا لفظ استعمال ہو گا وہاں شریک فی الصفات مراد ہو گا خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے اور جہاں اِلٰہ یعنی معبود کا لفط ہو گا وہاں صرف عبادت کو مدنظر رکھا جائیگا۔ خواہ انہیں خدا کا شریک فی الجوہر تسلیم نی کیا جائے۔ اور جہاں رب کا لفظ استعمال ہو گا وہاں ایسی ہستیاں مراد ہونگی جن کی ہر ایک بات خیر و شر کی تمیز کے بغیر مان لی جائے اور خدا اور اس کے رسول کے احکام کی پرواہ نہ کی جائے قرآن کریم میں ان سب اقسام کے شریک کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ قُلْ یَآ اَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآ ئٍ بِیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شُیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْتَوَ لَّوْا فَقُوْ لُو ا اشْھَدُوْ ابِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔(آل عمران آیت ۶۵)یعنی تو کہہ دے کہ اے اہل کتاب کم سے کم ایک ایسی بات کی طرف تو آجائو جو ہمارے اور تمہاراے درمیان مشترک ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ہم آپس میں ایک دوسرے کے رب نہ بنایا کریں ۔لیکن اگر اس دعوتِ اتحاد کے بعد بھی وہ لوگ پھر جائیں تو ان سے کہدو کہ تم گواہ رہو کہ ہم خداتعالیٰ کے فرمانبردار ہیں۔ اس آیت میں (۱) لَانَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ (۲) وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا (۳) وَلَا یَتَّحِذُ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْ بَابْا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فرمایا کہ اِلٰہ یعنی معبود اور شریک اور رب تینوں اقسامِ شرک کی نفی تو صراحتًا کی گئی ہے۔ مگر نِدّ کی ضمنی طور پر نفی کی گئی ہے۔ کیونکہ نِدّ ان تینوں کے اندر شامل ہے۔ یعنی جو نِدّ ہو گا۔ وہ بغیر عبادت اور شرک فی الصفات اور اطاعتِ کامل کے نہیں ہو گا۔ اور جب غیر اللہ کی عبادت اور شریک فی الصفات اور رب بنانے کو گناہ قرار دے دیا گیا تو نِدّ کی خود بخود نفی ہو گئی لیکن اس کے علاوہ لَا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ سے بھی نِدّ کی نفی ہو جاتی ہے۔
غرض اسلام توحید کے جس بلند ترین مقام پر بنی نوع انسان کو پہنچانا چاہتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان نہ تو کسی کو خداتعالیٰ کا شریک فی الجوہر سمجھے ۔ نہ کسی کو اس کے کام میں شریک قرار دے خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے۔ نہ غیر اللہ میں سے کسی کی پرستش کی جائے اور نہ خدا اور اس کے انبیاء کے احکام کے خلاف کسی کی اس طرح اطاعت کی جائے جس طرح خداتعالیٰ کی اطاعت کی جاتی ہے۔ یہ تمام چیزیں توحید حقیقی کے منافی ہیں۔
یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ کے دو معنے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ان انداد سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی خدا تعالیٰ سے کرنی چاسہیے اتنی ہی وہ اپنے انداد سے بھی کرتے ہیں۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ خداتعالیٰ سے بھی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے دلوں میں خداتعالیٰ سے کوئی حقیقی محبت نہیں پائی جاتی ۔پہلے معنے کے لحاظ سے تو دونوں سے ان کی محبت یکساں معلوم ہوتی ہے لیکن دوسرے معنے کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا خدا تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ محض ایک لاف زنی ہے۔ ورنہ ان دونوں محبتوں میں بڑا بھاری فرق ہوتا۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ کے بھی دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ مومن مشرکوں کی نسبت خداتعالیٰ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ یعنی جو محبت مشرکوں کو خداتعالیٰ سے ہے اس سے بہت زیادہ محبت مومن اپنے خدا سے کرتے ہیں۔ یا مشرک اپنے بتوں سے جو محبت کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ محبت مومن اپنے خداتعالیٰ سے کرتے ہیں۔ اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ مومن خداتعالیٰ کے سوا دوسری چیزوں سے جو محبت کرتے ہیں ان تمام چیزوں کی محبت کی نسبت وہ خداتعالیٰ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اگر دونوں محبتوں کا مقابلہ ہو جائے تو خداتعالیٰ کی محبت کا پہلو ہمیشہ بھاری ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر اس محبت کی ان الفاظ میں تشریح فرمائی ہے کہ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآئُ کُمْ وَاَبْنَآئُ کُمْ وَاِخْوَ انُکُمْ وَاَزْوَ اجُکُمْ وَ عَشِیْرَ تُکُمْ وَاَمْوَالُ اِقْتَرَ فْتُمُرْ ھَا وَتِجَارَۃ’‘ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْ ضَونَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمق مِنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَا دٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(توبہ آیت۲۴)یعنی کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے بگڑ جانے سے تم ڈرتے ہو اور گھر جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ خدا اور اس کے رسول سے اور خدا کے راستہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ پیارے ہیں تو تم کو خدا سے کوئی محبت نہیں۔ تب تم اللہ تعالیٰ کے عذاب کا انتظار کرو۔ اور خداتعالیٰ ایسے نافرمانوں کو کبھی اپنا راستہ نہیںدکھاتا۔ یعنی کامل محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان اس کی خاطر ہر ایک چیز کو قربان کر دے۔ اگر اس بات کے لئے وہ تیار نہیں تو منہ کی باتیں اس کے لئے کچھ بھی مفید نہیں یوں تو ہر شخص کہہ دیتا ہے کہ مجھے خدا سے محبت ہے اور اس کے رسول سے محبت ہے بلکہ مسلمان کہلانیوالا کوئی بھی شخص نہیں ہوگا جو یہ کہتا ہو کہ مجھے خدا سے اور اس کے رسول سے محبت نہیں ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس اقرار کا اثر اس کے اعمال پر اس کے جو روح پر اور اس کے اقوال پر کیا پڑتا ہے۔ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے آپ کوسرشار بتاتے ہیں ور آپ کی تعریف میں نعتیں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو خود بھی نعتیں کہتے ہیں۔ آپ کے احکام کی فرمانبرداری کی طرف ان کو کچھ بھی توجہ نہیں ہوتی وہ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس سے ملنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی عزیز آجائے تو وہ سو کام چھوڑ کر اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے۔ اپنے دوستوں اور پیاروں کی ملاقات کا موقعہ ملے تو پھُولا نہیں سماتا۔ حکام کے حضور شرف بار یابی حاصل ہو تو اس کی گردن فخر سے اونچی ہو جاتی ہے لیکن لوگ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ااور نماز کے قریب بھی نہیں جاتے۔ یا نماز پڑھتے ہیں تو اس طرح کہ کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی۔ یا اگر باقاعدہ بھی پڑھی تو ایسی جلدی جلدی پڑھتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ سجدہ سے انہوں نے کب سر اٹھایا اور کب دوبارہ سجدہ کیا جس طرح مرغا چونچیں مار کر دانہ اٹھاتا ہے اسی طرح وہ بھی سجدہ کر لیتے ہیں نہ خشوع ہوتا ہے نہ خضوع۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے روزہ کا بدلہ اپنے آپ کو قرار دیا ہے۔ مگر لوگ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کا دامن پکڑنے کے لئے نہیں جاتے۔ اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ خداتعالیٰ کی محبت ظاہر کرتے ہیں لیکن لوگوں کے حقوق دباتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ بہتان باندھتے ہیں غیبتیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے عشق کا اظہار کرتے ہیں لیکن قرآن کریم کا مطالعہ اور اس پر غور کرنے کی توفیق ان کو نہیں ملتی۔ غرض محبت کا دعویٰ اور شے ہے اور حقیقی محبت اور شے ہے۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ انسان اس وقت تک کبھی سچا مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ عملاً خداتعالیٰ سے ایسی محبت نہ کرے کہ اس کے مقابلہ میں نہ ماں باپ کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بیٹوں کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بھائیوں کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بیویوں کی محبت ٹھہر سکے نہ قبیلہ اور قوم کی محبت ٹھہر سکے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ ثَلَا ث’‘ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلَا وَۃَ الْاِیْمَانِ اَنْ یَکُوْنَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ‘ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا وَاَنْ یُّحِبَّ الْمَرْ ئَ لَا یُحِبُّہ‘ اِلَّا لِلّٰہِ وَاَنْ یَکْرَہَ اَنْ یَعُوْدَ فِی االْکُفْرِ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ(بخاری جلد اول کتاب الایمان) یعنی جس شخص میں یہ تین باتیں پائی جائیں اس کے متعلق سمجھ لو کہ اُسے حلاوتِ ایمان حاصل ہو گئی ہے۔ اول یہ کہ خدا اور اس کا رسول اس کی نگاہ میں تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہو۔ دوم انسان دوسرے سے محض اللہ کے لئے محبت کرے سوم۔ ایمان لانے کے بعد وہ کفر کی طرف لوٹنا ایسا ہی ناپسند کرے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔
وَلَوْ یَرْی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْ یَرَدْنَ الْعَذَابَ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آج تو یہ لوگ
اَذْتَبَرَّ اَالَّذِیْنَ
بِھِمُ الْاَسْبَابُo
اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں اور بتوں کو خداتعالیٰ کا شریک قرار دے رہے ہیں لیکن اگر یہی لوگ اس وقت کا نظارہ اپنے ذہنوں میں لا سکیں جب وہ عذاب کو دیکھنے گے تو انہیں سب کچھ بھول جائے اور انہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کا شریک بنانا کوئی معمولی گناہ نہیں۔ اس وت تو یہ لا علمی اور جہالت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں لیکن اگر یہ ُس وقت کا تصور کر سکیں جب ان پر اپنے معبودوں کی بے بضاعتی روشن ہو جائیگی تو وہ ایسا کبھی نہ کریں جیسا کہ فتح مکہ کے موقعہ ہر تمام کفار نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ان کے معبود ان کے کسی کام نہ آئے بلکہ وہ توڑ پھوڑ کر پھینک دیئے گئے اور بیت اللہ کو خدائے واحد کی عبادت کے لئے پاک کر دیا گیا۔
اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اخروی عذاب کی بھی تفصیل بیان فرمائی ہے جو کفار کو ملیگا اور بتایا ہے کہ انہیں تمثیلی طور پر سانپ اور بچھو اور اسی قسم کی اور خوفناک چیزیں نظر آئیں گی۔ جو درحقیقت انہی کے اعمال کی ایک شکل ہونگی۔ کیونکہ دنیا میں انہوں نے سانپوں کی طرح لوگوں ڈسا اور بچھوئوں کی طرف نیش زنی سے کام لیا اور درندوں کی طرح لوگوں کو چیرا پھاڑا اس لئے خداتعالیٰ کی سزا کے لئے سانپوں اور بچھوئوں کو ہی اُن پر مسلط کر دیگا اور انہیں اپنے اعمال کی سزا دیگا۔
یہ آیت اپنے مضمون کے لحاظ سے پہلی آیت سے نہایت گہرا تعلق رکھتی ہے۔ بلکہ درحقیقت یہ دونوں آیات ایک ہی مضمون کی حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ باوجود ان دلائل کے جو حق و باطل میں فرق کرینوالے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا کا ذرہ ذرہ خداتعالیٰ کی وحدانیت کا ثبوت دے رہا ہے اور باوجود اس کے کہ یہ لوگ خداتعالیٰ کی تقدیر خاص کو بھی دیکھ رہے ہیں جو مومنوں کے حق میں جاری ہے پھر بھی یہ لوگ خداتعالیٰ کے نِد قرار دے رہے ہیں اور ان سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی خداتعالیٰ سے کرنی چاہیے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ تباہ ہونے والے ہیں۔
۸۰؎ حل لغات:۔ تَبَّرَّأَ باب تفعل سے ماضی کا صیغہ ہے اور اس کے معنے ہیں تَخَلَّصَ یعنی اُس نے چھٹکارا حاصل کر لیا(اقرب) اور اَلتَّبَرِّی (مصدر) کے معنے ہیں اَلتَّغَصِّی مِمَّا یُکْرَ ہُ مُجَاوَرَتُہ‘ یعنی ناپسندیدہ چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا(مفردات) پس آیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ معبود اِن باطلہ یا وہ ہستیاں جنہیں خداتعالیٰ کا شریک قرار دیا جاتا ہے عبادت کرنے والوں کو ناپسندیدہ قرار دینگے۔ اور اپنے آپ کو پاک ٹھہرائیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو ایسے اعمال کرنے والوں کے ساتھ نہ تھے۔
اَلَاسْبَابُ : سَبَب’‘ کی جمع ہے اور اَلسَّبَبُ کے معنے ہیں مَایُتَوَ صَّلُ بِہٖ اِلیٰ غَیْرِہٖ۔ وہ چیز جس کے ذریعہ سے غیر تک پہنچا جائے۔ اسی طرح اس کے معنے رستہ محبت اور قرابت کے بھی ہیں۔
وَقَالَ الَّذِیْنَ
مِنَ النَّارِo
تفسیر:۔ فرماتا ہے ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ جن کو یہ لوگ نِد قرار دیتے ہیں وہ بھی اس وقت کہہ اُٹھیں گے کہ خدایا ہمارا دن ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور اس طرح ان سے اپنی برات اور نفرت کا اظہار کرینگے اور خدائی عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
وَتَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْاَسْبَابَ۔ اور ان کی نجات کے تمام ذرائع منقطع ہو جائیں گے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ باء بمعنے عَنْ بھی آتی ہے اور باء بمعنے سبب بھی آتی ہے۔ اور با قعدیہ کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے یعنی فعل لازم کو متعدی بنانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ پہلی صورت میں عَنْ کے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ ان کے اسباب ان سے کٹ جائیں گے یعنی وہ چیزیں جو ان کے پاس تھیں اور جن کی نسبت وہ خیال کیا کرتے تھے کہ ہم ان کی وجہ سے خداتعالیٰ تک پہنچ جائینگے یا وہ قرابتیں اور محبتیں جو رشتہ داری کی وجہ سے انہیںحاصل تھیں وہ سب کی سب کٹ جائینگی اور ان کے تمام سہارے جاتے رہیں گے۔
باء کے معنے سبب لینے کی صورت میں یہاں ایک محذوف ماننا پڑے گا اور عبادت یوں ہو گئی کہ وَتَقَطَّعَتْ بِسَبَبِ کُفْرِ ھِمُ الْاَسْبَابَ کہ ان کے کفر کی وجہ سے اُن کے تمام ذرائع کامیابی جاتے رہیں گے۔ اور وہ تباہ ہو جائیںگے۔
تیسری صورت میں اس کا یہ مطلب ہو گا کہ جن چیزوں کو وہ خداتعالیٰ کے وصال کا ذریعہ قرار دیتے ہیں یا وہ ضائع جن کو وہ خداتعالیٰ تک پہنچانیوالا سمجھتے ہیں وہی ان کو کاٹ دیں گے اور ان کی تباہی کا موجب بن جائیںگے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَا تَتَّبِعُواالسُّبُلَ فَتَغَرَّقَ بِکُمْ مَنْ سَبِیْلِہٖ ط (انعام آیت۱۵۴) کہ تم مختلف راستوں کے پیچھے نہ پڑو۔ ورنہ وہ تمہیں صحیح راستہ سے منحرف کر دینگے اور تمہیں ادھر اُدھر لے جا کر تباہ کر دینگے۔
۸۱؎ حل لغات:۔ کَرَّۃً: اَلْکَرَّۃُ بِالْفَتْحِ اَلْمَرَّۃُ یعنی کرۃ کے معنے ایک دفعہ کے ہیں (اقرب) اَلْکَرُّ (مصدر) اَلْعَطْفُ عَلَی الشَّیْئِ کسی چیز کی طرف لوٹنا(مفردات)پس آیت کے معنے یہ ہونگے کہ وہ کہینگے کہ کاش ہمیں ایک دفعہ اور لوٹنے کا موقعہ مل جائے۔
تفسیر:۔ فرمایا اس دنیا میں تو تم خداتعالیٰ کے شریک بناتے اور اس کے نِدّ قرار دیتے ہو مگر وہاں جا کر تمہارا یہ حال ہو گا کہ تم واپس اس دنیا مین آنے کی خواہش کرو گے اور کہو گے ہم تو خیال کرتے تھے کہ یہ معبود ہمارے کام آئینگے مگر انہوں نے تو موقعہ پر آکر دھوکا دے دیا۔ اس لئے ہمیں ایک بار پھر دنیا میں لوٹا تاکہ ہم بھی اُن سے ایسا ہی بے وفائی کا سلوک کرسکیں۔
کَذٰلِکَ یُوِ یْھِمُ اللّٰہُ اَعْمَا لَھُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْھِمْ فرماتا ہے ہم اُن کے اعمال انہیں اس حال میں دکھائیں گے کہ وہ حَسَرَاتٍ ہونگے۔ یعنی وہ اعمال انہیں حسرتیں ہی حسرتیں نظر آئیں گے اور وہ حسرتیں ایسی ہونگی کہ جن کا وبال انہیں پر پڑیگا یعض حسرتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا غیروں پر اثر پڑتا ہے مگر فرماتا ہے وہ ایسی حسرتیں ہونگی جن کا اثر خود انہیں پر پڑے گا دوسروں پر نہیں۔ اس جگہ اگر حَسَرَاتٍ کو مفعول قرار دیا جائے تو رواتت قلبی مراد ہو گی اور معنے یہ ہونگے کہ وہ خداتعالیٰ سے کہیں گے کہ اگر ہمیں مبلغ بنا کر دنیا میں بھیج دیا جائے تو ہم وہاں جاکر شوربرپا کر دیں گے کہ خداتعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔
وَمَا ھُمْ بِخَارِ جِیْنَ مِنَ النَّار سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ دوزخی آگ سے نکالے نہیں جائیں گے کیونکہ اس جگہ خداتعالیٰ کے سلوک کا ذکر نہیں بلکہ ان کی اپنی کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ خود اپنی ذاتی جدوجہد اور کوشش سے اس میں سے نکل نہیں سکیں گے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے اگر ہم کہیں کہ بیمار ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور پھر اسے دوسرے دن ہسپتال لے جایا جائے تو کوئی شخص یہ نہیں کہیگا کہ کل تو تم نے یہ کہا تھا کہ بیمار ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور آج تم اس کو ہسپتال داخل کر آئے ہو۔ کیونکہ ہمارایہ مطلب نہیں تھا کہ غیر بھی اُسے وہاں نہیں لیجا سکتے اسی طرح اس آیت میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود دوزخ سے نہیں نکل سکیں گے ۔چنانچہ اس کی وجاحت قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہو جاتی ہے کہ کُلَّمَآ اَرَادُوْآ اَنْ یَّخْرُ جُوٰامِنْھَآاُعِیْدُ وْا فِیْھَا وَقِیْلَ لَھُمْ ذُوْ قُوْاعَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ(سجدۃ آیت۲۱) یعنی جب کبھی وہ دوزخ سے نکلنے کا ارادہ کرینگے تو پھر اُسی کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا کہ اب دوزخ کا وہ عذاب چکھو جس کو تم جھٹلا یا کرتے تھے۔ پس اس جگہ جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود اس عذاب سے نکل نہیں سکیں گے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ خداتعالیٰ بھی انہیں دوزخ سے نہیں نکالے گا اور انہیں دائمی عذاب میں مبتلا رکھے گا۔
دراصل اس بارہ میں بھی مومنوں اور کافروں میں بہت بڑا فرق رکھا گیا ہے ۔ مومنوں کے لئے تو جنت حق قرار دیا گیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ (توبہ آیت۱۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانین اور ان کے اموال اس وعدہ کے ساتھ خرید لئے ہیں کہ ان کو جنت ملے گی گویا یہ ایک سودا ہے جو ان کا خدا تعالیٰ سے ہو چکا۔ یوں تو کسی کا بھی خداتعالیٰ پر کوئی ذاتی حق نہیں مگر جس حق کو خداتعالیٰ خود تسلیم کرلے وہ تو حق ہی سمجھا جائیگا۔ مگر کافروں کے لئے فرمایا کہ اگر وہ دوزخ کی تکالیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو نہیں نکل سکیں گے عربی زبان میں جو باء تاکید کے لئے آتی ہے اس کے معنے ہرگز کے ہوتے ہیں۔ پس اس جگہ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ میں تاکید کے معنے پائے جاتے ہیں۔ یعنی وہ اپنی ذاتی جد و جہد کے ساتھ جہنم میں سے ہرگز نکل نہیں سکیں گے۔ ہاں جب خداتعالیٰ چاہے گا تو انہیں دوزخ سے نکال لے گا۔ جیسا کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جہنم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جب کہ اُس میں کوئی بھی نہیں رہے گا اور ہوا اس کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گی۔(کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۲۴۵)
یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ
عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘o
۸۲؎ حل لغات:۔ طَیَّبًا۔ طَابَ سے صفت مشبہ ہے اور طَیِّب’‘ کے معنے ہیں۔ اَلْحَلَالُ۔ حلال اور جب مَال’‘ طَیِّب’‘کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں ایسا مال جو شرعی لحاظ سے حلا ل ہو(اقرب)
پھر لکھا ہے وَاَصْلُ الطَّیِّبِ مَاتَسْتَلِذُّہُ الْحَوَاسُّ وَمَا تَسْتَلِذُّہُ النَّفْسُ۔ اور درحقیقت طیب اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسانی حواس لذیذ قرار دیں اور جس سے انسان کا دل لطف اندوز ہو۔ پس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ایسی چیزیں کھائو جو شرعی لحاظ سے حلال ہوں اور ظاہری لحاظ سے بھی تم انہیں لذیذ اور پسندیدہ سمجھو۔
خُطُوَات کے معنے ہیں طُرُق’‘ وَسُبُل’‘ رستے اور طریق۔ اس کا مفرد خُطْوَ ۃ’‘ ہے جس کے معنے مَابَیْنَ الْقَدَمَیْنِ کے ہیں یعنی دو قدموں کے درمیان کی جگہ اور فاصلہ(اقرب)
تفسیر:۔ اس رکوع سے اللہ تعالیٰ نے ابراہیمی پیشگوئی کے اس دوسرے پہلو کو بیان کرنا شروع کیا ہے کہ یُعَلِمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَ یعنی وہ نبی انہیں شریعت اور اس کے اسرار سے آگاہ کر ے گا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے سب سے پہلے حلال اور طیب کھانے کی تعلیم کو لیا ہے۔ کیونکہ انسانی اعمال اس کی ذہنی حالت کے تابع ہوتے ہیں اور ذہنی حالت غذا سے متاثر ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے لوگو! جو کچھ زمین میں ہے اُس میں سے حلال اور طیب اشیاء کا استقلال کرو۔ یعنی تم صرف یہی نہ دیکھا کرو کہ جو کچھ تم کھا رہے ہو وہ حلال ہے یا نہیں بلکہ یہ بھی دیکھ لیا کرو کہ وہ طیب بھی ہے یا نہیں اگر کسی چیز کا کھانا تمہارے مناسب حال نہ ہو خواہ اس لحاظ سے کہ وہ تمہاری صحت کے لئے مضر ہو یا اس لحاظ سے کہ ملکی اور قومی حالات کی وجہ سے تمہیں اس کے کھانے کی عادت نہ ہو یا اس وجہ سے کہ تمہاری طبیعت اس سے انقباض محسوس کرتی ہو۔ تو تم محض یہ دیکھ کر کہ شریعت نے اسے حلال قرار دیا ہے اسے مت کھائو۔ کیونکہ تمہارے لئے کھانے میں صرف حرام و حلال کا امتیاز مدنظر رکھنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تم ایسی چیزوں کا انتخاب کیا کرو جو تمہاری طبیعت اور تمہارے ماحول اور تمہارے معمول کے مطابق ہوں اور جن کا کوئی مضر اثر تم پر پڑنے کا امکان نہ ہو۔ مثلاً نزلہ اور زکام اور کھانسی میں تُرش اشیاء کا استعمال کھانسی کو اور بھی بڑھا دیتا ہے اب اگر کوئی شخص کھانسی میں تُرش میوے استعمال کرتا ہے یا اسہال میں گوشت روٹی استعمال کرتا ہے توخواہ یہ چیزیں حلال کیوں نہ ہوں اس وجہ سے کہ وہ اس کے لئے ٹھیک نہیں ہیں ان کا استعمال اسے نقصان پہنچائیگا پس اس جگہ طیب کو حلال کے ساتھ لگا کر یہ بتایا ہے کہ صرف حلال کھانا ہی مومن کا کام نہیں بلکہ یہ دیکھنا بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چیز طیب ہو یعنی گندی اور سڑی ہوئی نہ ہو مضر صحت نہ ہو۔ جو ساتھ کھانا کھانے والے لوگ ہوں ان کی طبائع کے خلاف نہ ہو۔
وَلَا تَتَّبِعُوْا اخُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ۔ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو ۔ یعنی ایسا نہ کرو کہ جس طرف شیطان جا
اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ
مَا لَاتَعْلَمُوْنَo
رہا ہے اُسی طرف تم بھی چلنا شروع کر دو۔ وہ تمہارا دشمن ہے اور دشمن سے ہمیشہ دُور رہنا چاہیے نہ کہ اُس کی پیروی کرنی چاہیے۔
کھانے پینے کے ذکر کے بعد شیطان کا ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اگر تم حلال اور پھر حالا میں سے بھی طیب رزق چھوڑ دو گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ تم شیطان کے پیچھے چل پڑوگے کیونکہ انسان جو کچھ کھاتا ہے اس سے جسم تیار ہوتا ہے اور ناجائز یا مضر اشیاء کے استعمال سے تیار شدہ جسم یقینا انسان کو بدی کی طرف لے جائیگا نیکی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔
۸۳؎ حل لغات:۔ اِنَّمَا: (اِنَّ کے ساتھ مَا زائدہ ہے) لغت میں لکھا ہے اِذَا اُدْخِلَ عَلَیْہِ مَا یَبْطُلُ عَمَلُہ‘ وَیَقْتَضِیْ اِثْبَاتَ الْحُکْمِ وَصَرْ فِہٖ عَمَّا عَدَاہ‘۔ جب اِنَّ پر مَا داخل ہو جائے تو اس کا عمل باطل ہو جاتا ہے اور بعد میں مذکور چیز کے لئے کسی بات کو ثابت کرنے اور باقی (غیر مذکور) چیزوں سے اس بات کی نفی کرنے کا مقتضی ہوتا ہے۔ (مفردات)
اَلسُّوْئُ: کُلُّ مَا یُغَمُّ الْاِنْسَانَ مِنَ الْاُمُوْرِ الدُّ نْیوِ یَّۃِ وَالْاُخْرَوِیَّۃِ وَمِنَ الْاَ حْوَالِ النَّفْسِیَّۃ، وَالْبَدَنِیَّۃِ وَالْخَارِجَۃِ۔ یعنی اَلسُّوْئَ سے مراد وہ تمام غمزدہ کر دینے والی تکالیف ہیں جو انسان کو دنیوی اور اُخروی امور نیز رُوحانی اور جسمانی اور دوسرے حالات کی وجہ سے زندگی میں پیش آتی ہیں۔(مفرادت)
اَلْفَحْشَآء:۔ اَلْفَحْشَائُ وَالْفَاحِشَۃُ مَایَشْتَدُّ قُبْحُہ‘ مِنَ الذُّنُوْبِ ۔ وَالْبُخْلُ فِیْ اَدَا ئِ الذَّکوٰۃِ وَقِیْلَ کُلُّ مَا نَھَی اللّٰہُ عَنْہُ۔ یعنی فَحْشَاء اور فَاحِشَۃ سے مراد سخت بُرائی والا گناہ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میںبخل کرنا۔ اور بعض کے نزدیک ہر وہ کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہو۔(اقرب)
اَلْفُحْشُ وَالْفَحْشَا ئُ وَالْفَاحِشَۃُ مَا عَظُمَ قُبْحَہ‘ مِنَ الْاَ فْعَالِ وَالْاَ قْوَالِ۔ فحش۔ فحشاء اور فاحشہ سے ہر ایسا قول یا فعل مراد ہے جو بہت ہی بُرا ہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ شیطان کے پیچھے چلنے کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر انسان کو مختلف قسم کی بُرائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے جیسے بدظنی ہے یا جھوٹ ہے یا کینہ ہے یا جہالت ہے یا سُستی اور غفلت ہے یا بُزدلی ہے یا تکبر ہے یا بے غیرتی ہے یا ناشکری ہے یہ وہ بُرائیاں ہیں جن سے صرف انسان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچتا ہے اور جن کی طرف سوء کے لفظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن جب انسان اپنی اصلاح نہیں کرتا تو دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فحشاء یعنی ایسی بدیاں کرواتا ہے جن کا دوسرے لوگوں پر بھی اثر پڑتا ہے جیسے خیانت اور تہمت اور ظلم اور دھوکا اور قتل اور چوری اور مارپیٹ اور گالی اور ناواجب طرفداری اور رشوت وغیرہ ایسے جرائم ہیں جو دوسروں سے تعلق رکھتے ہیں پھر وہ بدیوں میں اور زیادہ بڑھاتا ہے اور آخر انسان کو خدا کے مقابلہ میں کھڑا کر دیتا ہے۔ یا انسان کے اندر ایسی بے حیائی پیدا کر دیتا ہے کہ اُسے دوسروں کے سامنے بھی برائیوں کے ارتکاب میں کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا۔ اور وہ بر ملا خدائی احکام
وَاِذَ اقِیْلَ
لَا یَھْتَدُوْنَo
کے خلاف لب کشائی شروع کر دیتا ہے یا اُس پر افتراء پروازی شروع کر دیتا ہے۔ گویا پہلے تو وہ ایسی بدیاں کرواتا ہے جن کا ضر صرف اس کی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ پھر غیرتِ انسانی مٹتی ہے تو ایسی بدیاں کرواتا ہے جن سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں۔ پھر اور ترقی کر کے اس کی زبان سے ایسی باتیں نکلواتا ہے جو خداتعالیٰ ی ہتک کرنے والی اور اس کا مضحکہ اڑانے والی ہوتی ہیں۔ اور اس طرح وہ درجہ بدرجہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے غرض شیطان کبھی یکدم بڑے گناہ پر انسان کو آمادہ نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے وساوس کی یہ ترتیب ہوتی ہے کہ وہ پہلے چھوٹی بدی کا حکم دیتا ہے پھر بے حیائی پر آمادہ کرتا ہے۔ اور پھر خدا پر جھوٹ باندھنے کے لئے تیار کر دیتا ہے ۔ گویا چھوٹی نافرمانی سے شروع کر کے اُسے انتہا تک لے جاتا ہے۔
۸۴؎ تفسیر:۔ اس آیت میں بتایا کہ شیطان کی پیروی کرنے کا ایک یہ نتیجہ بھی نکلنا ہے کہ اگر لوگوں کو خداتعالیٰ کی بات ماننے کے لئے کہا جائے تو ان کی عقل ایسی ماری جاتی ہے کہ وہ کہدیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی بات مانین گے اور اُنہیں کے پیچھے چلیں گے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت فرمایا تو مکہ والوں نے آپ کا شدیدمقابلہ کیا ۔ وہ لوگ آخر کیوں مقابلہ کرتے تھے اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ کیا ہم اس مذہب کو چھوڑ دیں جس پر ہمارے آبائو اجداد قائم تھے۔ گویا وہ کسی چیز کے ذاتی حُسن کو نہیں دیکھتے تھے بلکہ صرف حسنِ اضافی اُن کے پیش نظر تھا اور باوجود اس کے کہ وہ جاہلانہ باتیں تھیں اُن لوگوں نے ان کے لئے اپنا مال اور اپنے عزیزوں اور اقرباء تک قربان کر دیئے تاکہ وہ چیزیں جو ان کی ہیں بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ اگر تمہارے باپ دادا بیوقوف ہوں تو کیا پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو وہ کرتے چلے آئے ہیں یعنی تمہارے باپ دادا تو اپنی بیوقوفی کی وجہ سے تباہ ہوئے تھے کیا تم بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر تباہ ہونا چاہتے ہو۔
ہمارے سلسلہ میں بھی لوگوں کے داخل ہونے میں سب سے بڑی روک یہی ہے کہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا وہ باتیں جنہیں پہلے لوگ سالہا سال سے مانتے چلے آئیں ہیں ہم چھوڑدیں یہ تو بڑی مشکل بات ہے ۔ غرض اس آیت میں مخالفین اسلام کا سب سے بڑا عتراض یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم تو اسی طریق کی پیروی کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا تھا اس جگہ قَالُوْا سے یہ مراد نہیں کہ وہ منہ سے بھی ایسا کہتے ہیں بہت لوگ منہ سے بھی کہتے ہیں لیکن بہت ہیں جو منہ سے نہیں کہتے مگر پھر بھی ان کا انکار کی وجہ یہی ہوتی ہے۔ اور قول کا لفظ ان معنوں میں عربی زبان میں استعمال ہو جاتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں اِمْثَلَاَ الْحَوْضُ وَقَالَ قَطْنِیْ یعنی حوض بھر گیا اور اس نے زبان حال سے یہ کہا کہ بس بس۔ اس آیت میں بھی اسی محاورہ کے مطابق قول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ
لَا یَعْقِلُوْنَo
اللہ تعالیٰ مخالفین اسلام کے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اتنا تو سوچیں کہ اگر ان کے باپ دادے ایسے ہوں کہ وہ کچھ بھی عقل نہ رکھتے ہوں اور نہ راہ راست پر ہوں تو کیا پھر بھی وہ ان کے پیچھے چلتے چلے جائیں گے یعنی کسی کی اتباع دو ہی طرح ہوتی ہے یا تو وہ بڑا عقلمند ہو اور یا پھر خداتعالیٰ سے اُس نے ہدایت پائی ہوئی ہو۔ لیکن اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو کیا پھربھی اُس کی اِتباع کی جاتی ہے؟ اور تمہارے باپ دادوں کی تعلیم ان دونوں امور سے خالی ہے نہ عقل کے مقابلہ میں ٹھہرتی ہے اور نہ آسمانی شہادت اُس کی تائید میں ہے یہ ایک عجیب بات ہے کہ لوگ اپنے باپ دادا سے دین کے بارے میں تو اختلاف نہیں کرنا چاہتے لیکن دنیوی امور کے بارہ میں وہ روزانہ اُن سے اختلاف کرتے ہیں ہزار ہا مثالیں اس امر کی پائی جاتی ہیں کہ دنیوی امور میں لوگوں نے اپنے باپ دادا کی اقتداء نہیں کی بلکہ انہوں نے صرف یہ دیکھا کہ اُن کا فائدہ کس امر میں ہے وہ روزانہ ریلوں میں چڑھتے ہیں اور کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہمارے باپ دادا تو گدھوں پر سوار ہوتے تھے ہم ریل گاڑیاں پر کیوں سوار ہوں اسی طرح عقلی اور علمی باتوں میں ان کی پیروی نہیں کرتے بلکہ نئی روشنی کے علوم سے فائدہ اُٹھاتے اور ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر دین کا معاملہ ہو تو ان کے باپ دادے بڑے عقلمند بن جاتے ہیں۔ حالانکہ خود اُن کا عمل اس طریق کے خلاف گواہی دے رہا ہوتا ہے مگر ایسی صاف اور موٹی بات بھی جب انکے سامنے رکھی جاتی ہے تو وہ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور صداقت سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
۸۵؎ حل لغات:۔ یَنْعِقُ: نَعَقَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور نَعَقَ الرَّاعِیْ بِغَنَمِہٖ کے معنے ہیں صَاح۔ بِھَاوَ زَجَرَھَا۔ چروا ہے نے اپنی بکریوں کو آواز دی اور اُن کو ڈانٹا۔ اور جب نَعَقَ الْغُرَابُ کہیں تو معنے ہونگے صَاحَ کوے نے کائیں کائیں کی۔ اور نَعَقَ الْمُؤَذِّنُ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْتَہ‘ بِالْاَ ذَانِ۔ موذن نے اذان کے لئے اپنی آواز بلند کی۔(اقرب)
نِدَآء’‘: اَلنِّدَائُ کے معنے ہیں رَفْعُ الصَّوْتِ وَ ظُھُوْرُ ہ‘۔ آواز کا بلند اور واضح ہونا۔(اقرب)
تفسیر:۔ زیرتفسیر آیت ایک تمثیلِ مرکب ہے جس میں حذفِ مضاف سے کام لیا گیا ہے اور دَاعِیٰ کا لفظ اس میں محذوف ہے۔ یعنی اصل عبارت یوں ہے کہ مَثَلُ دَاعِی الَّذِیْنَ کَفَرُوْ اکَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کفار کے داعی ہیں ۔ آپ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو جانوروں کو اپنی طرف بلانے کے لئے آواز دیتا ہے۔ مگر وہ جانور اُس کی آواز کے سوا اور کچھ نیہں سُنتے گویا یہ کفار بھی رات اور دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سُنتے ہیں اور صبح وہ شام انہیں وحی الہٰی اُنائی جاتی ہے۔ ہر وقت ان کے کانوں میں نیکی اور تقویٰ اور خدا ترسی کی باتیں ڈالی جاتی ہیں مگر یہ لوگ جانوروں کی طرح الفاظ تو سنتے ہیں اور آواز تو ان کے کانوں میں پڑتی ہے لیکن اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور اپنی پُرانی ڈگر پر چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس تمثیل میں بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے لئے ایک داعی کے طور پر ہیں۔ اور کفار آپ کے لئے ریوڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؐ ان کو اپنی طرف بلاتے ہیں اور آپؐ کی دُعا اور نداء بھی وہ سنتے ہیں مگر وہ جانوروں کی طرح اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے گویا جانوروں کو بلانے والے کا سا حال ہمارے نبی کا ہوتا ہے کہ اس کی بات کو یہ لوگ سمجھتے نہیں۔ اس تشریح پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہٖ کے کل اجزاء میں مطابقت ہونی ضروری ہوتی ہے مگر وہ یہاں موجودنہیں اس کا جواب یہ ہے کہ تمثیلِ مرکب میں مشبہ اور مشبہ بہٖ کے تمام افراد میں مطابقت نہیں دیکھی جاتی بلکہ صرف اتنی بات دیکھی جاتی ہے کہ آیا ان میں کسی خاص بات میں مشابہت پائی جاتی ہے یا نہیں اور اگر ہو تو تشبیہ درست سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ سیبویہ کا یہی قول ہے کہ مرکب تمثیل میں تمام اجزاء مشبہ کا مشبہ بہٖ کے اجزاء کے مطابق ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے صرف بعض اجزاء کی مطابقت ہی کافی سمجھی جاتی ہے۔
ان معنوں پر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کفار کی مثال بھیڑ بکریوں کی سی ہے تو بھیڑ بکریاں تو داعی کی آواز سنتی ہیں اور کفار بھی سُنتے ہیں پھر اُن کو صُمّ’‘ کیوں کہا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ صُمّ’‘ سے یہاں یہ مراد نہیں کہ وہ جسمانی طور پر بہرے ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کے کان حق بات سننے سے قاصر ہیں اور صُمّ’‘ کے بعد بُکْم’‘ کے یہ معنے ہیں کہ وہ حق بات کہہ نہیں سکتے اسی طرح صُمّ’‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ حق بات کو دیکھ نہیں سکتے اسی طرح صُمّ’‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ حق بات سن نہیں سکتے گویا وہ آواز تو سنتے ہیں لیکن اس کی حقیقت نہیں سمجھتے اور نہ اس کے مطابق اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں پس جہاں سُننے کا ذکر ہے وہاں یہ مراد ہے کہ وہ صرف الفاظ سُنتے ہیں اور جہاں نہ سُننے کا ذکر ہے وہاں حقیقت کا سُننا مراد ہے اور جہاں نہ سُننے کا ذکر ہے وہاں حقیقت کا سُننا مراد ہے اور حقیقت کے سمجھنے کی نفی سے دُعا اور نداء کے سننے کی نفی نہیں ہو سکتی۔ اور یا پھر صُمّ’‘ سے ایسے لوگ مراد ہیں جن سے کسی فائدہ کی امید نہ کی جاتی ہو کہ یہ معنے بھی لُغتاً ثابت ہیں چنانچہ اقرب الموارد جو لُغت کی مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے اَلْاَ صُمُّ اَلْاَ صُمُّ اَیْضماً اَلرَّجُلُ لَا یُطْمَعُ فِیْہِ یعنی ایسے شخص کو بھی اصم کہتے ہیں جس سے کسی بھلائی کی اُمید نہ کی جا سکے۔
دوسرے معنے اس کے یہ یہں کہ ان کفار کی مثال جانوروں کی طرح ہے جن کو بلانے والا اپنی طرف بلاتا ہے اور جانور بلانے والے کی آواز سُن کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔۔ گو اس کے الفاظ کا مطلب اور مفہوم نہیں سمجھتے اس ی طرح یہ لوگ بھیڑ چال کے طور پر ایک دوسرے کی اتباع کرتے ہیں اوریہ کبھی غور نہیں کرتے کہ کہنے والا کیا کہتا ہے اور آیا اس پر عمل کرنا ان کے لئے مفید ہے یا مضر۔ وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ ہمارے سردار یا ہمارے لیڈر نے فلاں بات کہی ہے یا ہماری قوم یا برادری ایسا کہتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی عقل و فہم اور تدبر کے تمام دروازے بند کر لیتے ہیں اور اندھا دھند اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔ پس ان کی مثال جانوروں کی سی ہے کہ دوسرے کی بات سن کر یہ لوگ اس پر غور کرنے کے عادی نہیں بلکہ اندھی تقلید کے خوگر ہیں ۔ گویا ان کے کان بھی ہیں مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ انہیں جس طرف بلایا جا رہا ہے وہ ہلاکت اور بربادی کی جگہ ہے یا امن اور سلامتی کا مقام ہے۔ ان کی زبانیں بھی ہیں مگر دلیری سے حق بات کہنے کی جرات کھو بیٹھی ہیں اور ان کی آنکھیں بھی ہیں مگر سلامتی کی راہ ان کو دکھائی نہیں دیتی۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ان کفار کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو چیختا اور چلاتا اور بتوں کو اپنی مدد کے لئے بلاتا
یَٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ
تَعْبُدُوْنَo
ہے اور اس کا بلانا دو طرح ہے ایک دعا کے ذریعہ سے دوسرا نداء کے ذریعہ سے۔ نداء ایسی آواز کو کہتے ہیں جو سنی جائے یا نہ سُنی جائے اور دعا اس آواز کو کہتے ہیں جو سنی جائے۔ فرماتا ہے وہ بت جن کو یہ لوگ اپنی مد دکے لئے پکارتے ہیں۔ وہ نہ ان کی دُعا سنتے ہیں نہ نداء۔ گویا ان کفار کا کام محض دعا اور نداء ہی ہے ورنہ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی نہیںسُنتے ۔ نہ دُعا سنتے ہیں نہ نداء سنتے ہیں اس لئے ان کے بلانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس صورت میں اِلَّا کو زائدہ تسلیم کرنا ڑیگا ار یا پھر یہ فقرہ اس طرح ہو گاک کہ لَا یَسْمَعُ اِلَّا ھُوَ یَدْ ھُوْا دُعَائً وَ نَدَائً۔ یعنی وہ بُت تو کچھ نہیں سنتے مگر وہ پکارنے والا برابر دُعائیں کئے چلا جاتا ہے اور آوازیں دیتا چلا جاتا ہے۔ ان معنوں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ چیختے چلاتے ہیں تو پھر وہ بُکْم’‘ کیسے ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بُکْم’‘ کے یہ معنے ہیں کہ وہ حقیقت کا اپنی زبان سے اقرار کرنے کے لحاظ سے گونگے ہیں۔ اور اس کی دلیل صُمّ’‘ اور عَمْی’‘ کے الفاظ ہیں جیسے صُمّ’‘ سے ایسے لوگ مراد ہیں جن کے کان حق بات کے سُننے سے بہرے ہیں اور عُمْی’‘ سے مراد حق کو نہ دیکھنے والاے لوگ ہیں اسی طرح بُکْم’‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو روحانی نقطہ نگاہ سے گونگے ہیں۔ اور جو سچائی کا برملا اظہار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اگر یہاں صرف بُکْم’‘ کا لفظ ہوتا تو اعتراض درست ہوتا۔ لیکن صُم’‘ اور عُمْی’‘ کے الفاظ نے صحیح معنے واضح کر دیئے۔
ترتیب و ربط:۔ اس آیت کا آیت ماقبل سے پہلے معنوں کے لحاظ سے یہ تعلق ہے کہ پہلی آیت میں خداتعالیٰ نے فرمایا تھا وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا کہ جب انہیں خداتعالیٰ کی طرف بلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا اس کی اتباع کرو تو وہ اُسے سنکر اعراض اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریق کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں دعوتِ حق دینا ایسا ہی ہے جیسے جانوروں کو اپنی طرف بلانا۔ یہ لوگ بھی آپ کی آواز سُنتے ہیں مگر سمجھتے نہیں کہ اس آواز پر لبیک کہنا کس قدر ضروری ہے اور وہ اپنے باپ دادا کے طریق پر چلتے چلے جاتے ہیں۔
دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا پہلی آیت سے یہ تعلق ہے کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآئُ ھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ کہ یہ لوگ اپنے باپ دادا کے پیچھے چلنے کے تو بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کے باپ دادا اپنے بتوں کو پکارتے اور آوازیں دیتے تھک گئے اور کچھ بھی نتیجہ برآمد نہ ہوا ۔ ایسی صورت میں ان کا یہ کہنا کہ ہم اپنے باپ دادا ہی کی پیروی کر ینگے ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی بتوں کو بلائے اور اس کا بلانا بالکل بیکار ثابت ہو اور اُسے کوئی جواب نہ ملے پاس ان لوگوں کا بھی اپنے بتوں کے سامنے چیخنا چلانا انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔
۸۶؎ تفسیر:۔ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اسلامی شریعت نے صرف حلال چیزوں کے کھانے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ حلال میں سے بھی طیب اشیاء کے استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور یہ اسلام کی ایسی امتیازی خصوصیت ہے جس میں کوئی اور مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس نے حلال کے مقابلہ میں صرف حرام کا درجہ ہی نہیں رکھا بلکہ اس سے اتر کر ا نے بعض چیزوں کو مکروہ بھی قرار دیا ہے اور مومنوں کے لئے ان کا استعمال ناپسند فرمایا ہے گویا چار مختلف مدارج ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے اول طیب دوم حلال سوم حرام چہارم مکروہ۔ حلال ترقی کرتے کرتے طیب تک پہنچ جاتا ہے اور حرام گرتے گرتے مگروہ تک آجاتا ہے غرض اسلام اور دیگر مذاہب میں یہ فرق ہے کہ دوسرے مذاہب صرف حلال حرام تک اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں اور اسلام حلال اور حرام کے علاوہ بعض چیزوں کو طیب یا مکروہ بھی قرار دیتا ہے۔ اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کونسی چیزیں بعض حالات میں حلال ہو جاتی ہیںگو اصل میں حرام ہوں اور کون سی چیزیں بعض حالات میں حرام ہو جاتی ہیں گو اصل میں حلال ہوں اور اس طرح موازنہ اشیاء کو قائم کرتا اور ایک لطیف باب گناہ اور نیکی کے امتیاز کے لئے کھول دیتا ہے مثلا ہماری شریعت میں لوگوں کو ایذاء دینے سے منع کیا گیا ہے۔ اب اگر حلال چیز سے کسی وقت دوسروں کو ایذاء پہنچ جائے تو اس وقت اس کا استعمال کرنا بھی حرام ہا جائیگا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ اَکَلَ مِنْ ھٰذِہِ الشَّجَرِ یَعْنِی الثُوْمَ فَلَا یَاتِیَنَّ الْمَسَاجِدَ۔ (مسلم جلد اول کتاب المساجد) یعنی جو شخص کچے لہسن کا استعمال کر اسے چاہیے کہ مسجد میں نہ آئے۔ ایک دوسری حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے کہ فَاِنَّ الْمَلَا ئِکَۃَ تَاَذّٰی مِمَّا تَآ ذّٰی مِنْہُ الْاِنْسُ کہ ملائکہ بھی ان چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جن سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔(مسلم جلد اول کتاب المساجد) اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ باوجود اس کے کہ لہسن کھانا جائز ہے پھر بھی مساجد میں آنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن اور پیاز وغیرہ کا کھانا ممنوع قرار دے دیا ۔ اور ایسے شخص کو نماز باجماعت سے بھی روک دیا۔ ورنہ نماز تو کسی صورت میں بھی چھوڑی نہیں جاسکتی اور اگر مسجد میں نماز نہیں پڑھے گا تو بہر حال اُسے گھر پر نماز پڑھنی پڑے گی۔ لیکن اس وجہ سے کہ وہ دوسروں کے لئے دُکھ اور تکلیف کا موجب نہ بنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص اجتماعی عباردت سے الگ رہے تاکہ مومنوں کو تکلیف نہ ہو۔ غرض یہ اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اس نے نہ صرف حلت و حرمت کے مسائل بیان کئے بلکہ اس نے یہ بھی بتادیا ہے کہ کھانے کی چیزوں میں سے ادنیٰ درجہ کراہت کا ہے پس مومنوں کو حلال اور حرام پر ہی نظر نہیں رکھنی چاہیے بلکہ انہیں تقویٰ کی باریک راہیں اختیار کرتے ہوئے حلال میں سے بھی طیب چیزوں کو اختیار کرنا چاہیے اور حرام چیزیں تو الگ رہیں مکروہ چیزوں کے پاس پھٹکنے سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حلال کی بجائے صرف طیب کا لفظ رکھا ہے جس کی وجہ ہے کہ یہاں خاص طور پر مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے یعنی اعلیٰ درجہ کے مومنوں کو۔ ورنہ اس رکوع کے شروع میں بھی یٰٓاَ یُّھَاالنَّاسُ کُلُوْامِمَّا فِی الْاَرْض، حَلٰلاً طَیِّبًا میں اَلنَّاسُ سے مراد مومن ہی تھے کیونکہ کفار کو قرآن کریم مسائل تفصیلی میں حکم نہیں دیتا۔ لیکن ہواں اَلنَّاسُ سے ادنیٰ درجہ کے مومن مراد تھے جو طبعی خواہشات کی طرف جھکنے والے تھے۔ اسی لئے وہاں ان کی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ حکم دیا کہ کُلُوْا مِمَّا فِالْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا یعنی جو کچھ حلال اور طیب ہے کھائو۔ کیونکہ ہو سکتا تھا کہ وہ صرف طیبات تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھ سکتے بلکہ خالص حلت و حرمت کے دائرہ کے اندر ہی رہنا چاہیے اور زیادہ پابندیاں اپنے لئے برداشت نہ کر سکیں لیکن یہاں خاص درجہ کے مومنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم یدا کہ کُلُوْامِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَ قْنٰکُمْ تم صرف وہ طیبات استعمال کرو جو ہم نے تمہیں عطا کی
اِنَّمَا حَرَّمَ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
ہیں۔ یہی وجہ ے کہ پہلے حکم کے نتیجہ میں فرمایا تھا کہ تم شیطان کے پیچھے چلنے سے بچ جائئو گے لیکن یہاں یہ فرمایا کہ اگر تم صرف طیبات ہی استعمال کر و گے تو اس کے نتیجہ میں تم اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لا سکو گے یعنی تمہیں ایسے نیک اعمال کی توفیق ملے گی جو تمہاری روح کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ کی طرف کھینچ کر لے جائیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر وضاحتاً فرمایا کہ یٰٓاَ یَّھَاالرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا(مومنوں آیت۵۲) یعنی اے ہمارے رسولو! تم طیبات کھائو اور مناسب حال اعمال بجا لائو۔ گویا اسلام نے انسانی اعمال اور اخلاق پر غذا کے اثرات کو واضح طور پر تسلیم فرمایا ہے اور مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس نقطہ کو ہمیشہ مدنظر رکھیں اور غذائی معاملات میں طیبات کو ترجیح دیا کریں تاکہ ان کے اخلاق بھی متوازن رہیں اور ان میں ناواجب اونچ نیچ کا کوئی پہلو دکھائی نہ دے۔ غرض یہاں اعلیٰ درجہ کے ایمان کے مناسب حال کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ فرمایا۔ اور جب انسان طیبات پر حصر کر لیگا تو نہ صرف یہ کہ وہ منہیات سے بچ جائیگا بلکہ وہ صالحات کی بھی توفیق پائیگا۔ پس اعلیٰ درجہ کے مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حلال بھی نہ کھائے بلکہ خاص طور پر طیب کو مدنظر رکھے یا پھر اس آیت میں صرف طیب کو اس لئے بیان کر دیا کہ حلال اسی میں آجاتا ہے۔
۸۷؎ حل لغات:۔ اَلْمَیْتَۃُ۔ اَلْمَیْتَۃُ مَالَمْ تَلْحَفْہُ الذَّکوٰۃُ۔ وَالْحَیَوَانُ الَّذِیْ یَمُوْتُ حَتْفَ اَنْغِہٖ(اقرب) اَلْمَیْتَہُ مَیْت’‘ کا مونث ہے۔ اور مَیْتَۃ’‘ سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو بغیر کسی بیرونی سبب کے مرے اور اُسے ذبح نہ کیا جائے (اقرب) اور مَیْتَۃ’‘ سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو بغیر کسی بیرونی سبب کے مرے اور اُسے ذبح نہ کیا جائے۔(اقرب)
اور شریعت اسلام کے نزدیک اُسے بھی مُردار ہی کہتے ہیں جو ذبح نہ ہو خواہ ایسا جانور خودبخود مر جائے یا کوئی دوسرا اُسے مار دے۔
دَم’‘ کے معنے کون کے ہیں اور اس سے مراد دِم مسفع، ہے جو ذبح کرنے سے بہ جاتا ہے۔ اندر کا خون مراد نہیں۔
اُضْطُرَّ:ضَرَّ سے باب افتعال کا ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اِضْطَرَّہ‘ اِلَیْہِ کے معنے ہیں اَحْوَجَہ‘ وَاَلْجَاہ‘ فَاضْطُرَّ بِصِیْغَۃِ الْمَجْھُوْلِ اَیْ اُلْجِیَٔ(اقرب) اضطرار کسی شخص کو ایسے کام پر مجبور کر دینے کو کہتے ہیں جو اس کے لئے باعث ضر ر ہو یا اُسے ناپسند ہو۔ یہ مجبوری خواہ بیرونی ہو جیسے تہد ید و تخویف یا اندرونی ہو جیسے قدرتی مطالبات اور طبعی حوائج یعنی بھوک وغیرہ ان دونوں میں سے کسی قسم کی مجبوری کے ماتحت انسان کام کرے تو اُسے اضطرار کہتے ہیں۔
بَاغٍ:بَغَیَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور اَلْبَغْیُ کے معنے ہیں(ا) اَلظُّلْمُ۔ ظلم (۲) اَلْجُرْمُ وَالْجِنَایَۃُ ۔ قصور (۳)اَلْعِصْیَانُ۔ نافرمانی (۴) کُلُّ مُجَاوَزَۃٍ وَاِفًرَاطٍ عَلَی الْمِقْدَارِ الَّذِیْ ھُوَ حَدُّ الشَّیْ ئِ فَھُوَ بَغْی’‘ ۔ کسی مقررہ حد سے تجاوز کرنا بھی بغی ہے(اقرب)
اور اَلْبَاغِی سے مراد ہے (۱) اَلطَّالِبُ۔ چاہنے والا (۲) اَلظَّالِمُ ظالم (۳) وَاَلْعَاصِی عَلَی اللّٰہِ وَالنَّاسِ۔ اور وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور لوگوں کی مخالفت میں کھڑا ہوجائے۔
عَادٍ: حد سے گذر جانے والا یعنی جو قانون پر عمل کرتے کرتے کچھ زیادتی یا کمی کر دے۔
اِثْم’‘:اس جگہ اس کے معنے سزا کے ہیں۔ سبب کو مسبب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ سزا کا سبب گناہ ہوتا ہے۔ (۲)اِثْم’‘ کے معنے گناہ کے بھی ہو سکتے ہیں ۔
اُھِلَّ: اَھَلَّ سے فعل ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اَھَلَّ الْھِلَالُ وَاُھِلَّ (مجھولًا) کے معنے ہیں ہلال ظاہر ہو گیا (۲)اَھَلَّ الْقَوْمُ الْھِلَالَ رَفَعُوْا اَصْوَا مَّھُمْ عِنْدَ رُوْیَتِہٖ۔ لوگوں نے ہلال پر آواز بلند کی (چاند کو ہلال اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کے دیکھنے پر آواز بلند کی جاتی ہے)(۳) اور اَھَلَّ الصَّبِیُّ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْنَہُ بِالْبُکَائِ یعنی بچہ رونے لگا۔ (۴) اور اَھََلَّ الرَّجُلُ کہیں تو معنے ہونگے نَظَرَ اِلَی الْھِلَالِ آدمی نے ہلال دیکھا (۵) اور اَھَلَّ الشَّھْرُ کے معنے ہیں ظَھَرَ ھِلَا لُہ‘ نئے مہینے کا ہلال نکالا (۶) اَھَلَّ السَّیْفُ بِغُلَانٍ کے معنے ہیں قَطَعَ فِیْہِ تلوار نے اُسے کاٹ دیا۔ (۷) اَھَلَّ الْعَطْشَانُ کے معنے ہیں رَفَعَ لِسَانَہ‘ اِلیٰ لُھَاتِہٖ لِیَعْتَمِعَ لَہُ رِیْقُہ‘ یعنی پیاسے نے اپنی زبان تھوک سے تر کرنے کے لئے حلق کے قریب کی۔ (۸) اَھَلَّ اللّٰہُ السِّحَابَ کے معنے ہیں خداتعالیٰ نے بادل برسایا (۹) اَھَلَّ الشَّھْرَ کے ہیں رَایَ الْھِلَالَ چاند دیکھا۔ (۱۰) اَھَلَّ اْ لُملَبِیّ کے معنے ہیں رفَعَ صَوْنَہ‘ بِالتَّلْبِیَۃِ بُفَالَ اَھَلَّالْمُحْرِمُ بِالْحِجّ وَالْعُمْرَۃِ لَبّٰی وَرَفَعَ صَوْ تَہ‘۔ محرم نے حج اور عمرہ کے لئے تلبید کیا اور آواز بلند کی۔ (۱۱) اَھَلَّ فُلَان’‘ بِذِکْرِ اللّٰہِ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْتَہ‘ بِہٖ عِنْدَ نِعْمَۃ اَوْرُوْیَۃِ شَیْ ء یُعْجِبُہ‘ فلاں شخص نے کوئی نعمت دیکھ کر ذکر الہٰی کے لئے اپنی آواز بلند کی (۱۲) اَھَلَّ بِالنَّسْمِیَۃِ عَلیٰ الذَّ بِیْحَۃِ کے معنے ہیں کے معنے ہیں قَالَ بِسْمِ اللّٰہِ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا۔ وَمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہکے معنے ہیں نُوْدِیَ عَلَیْہِ بِغَیْرِ اسْمِ اللّٰہِ عِنْدَ ذبْحِہٖ۔ جو جانور خداتعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لے کر ذبح کیا جائے(اقرب)
تفسیر:۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ میں جن اشیاء کے کھانے سے منع کیا گی اہے۔ وہ دو قسم کی ہیں اول حرام دوم ممنوع۔ لُغۃً توحرام کا لفظ دونوں قسموں پر حاوی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اس آیت میں صرف چار چیزوں کو ھرام قرار دیا ہے۔ یعنی مردار ، خون، سور کا گوشت اور وہ تمام چیزیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام سے نامزد کر دی اگیا ہو ان کے سوا بھی شریعت میں بعض اور چیزوں کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ لیکن وہ چیزیں اشیاء ممنوعہ کی فہرست میں تو آئیں گی۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق حرام نہیں ہونگی۔ جیسے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نَھیٰ عَنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَعَنْ کُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ(مسلم جلد ۲ کتاب الصید والذبائح) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے کو کھانا ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ نَھٰی لُحُوْمِ الْحُمُرِ الْاِنْسِیَّۃ، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔(مسلم جلد ۲ کتاب الصید دالذبائح)
یہ احکام اس آیت یا دوسری آیات کے مضمون کے مخالف نہیں ہیں۔ کیونکہ جس طرح اوامر کئی قسم کے ہیں بعض جرض ہیں بعض واجب ہیں اور بعض سنت ہیں۔ اسی طرح نہی بھی کئی اقسام کی ہے۔ ایک نہی محرمہ ہے اور یاک نہی مانعہ ہے اور ایک نہی تنزیہی ہے۔ پس حرام چار اشیاء ہیں باقی ممنوع ہیں اور ان سے بھی زیادہ وہ ہیں جن کے متعلق نہی تنزیہی ہے کہ انسان ان سے بچے حرام اور ممنوع میں وہی نسبت ہے جو فرض اور واجب میں ہے۔ پس جن اشیاء کو قرآن کریم نے حرام کہا ہے ان کی حرمت زیادہ سخت ہے اور جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے وہ حرمت میں ان سے نسبتا کم ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے احکام میں ان کی مثال فرض اور واجب اور سنت کی سی ہے حرام تو بمزلہ فرض کے ہے اور منع بمنزلہ واجب کے جس طرح فرض اور واجب میں فرق ان کی سزائوں کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اسی طرح جن اشیاء کی حرمت قرآن کریم میں آئی ہے اگر انسان اُن کو استعمال کرے گا تو اس کی سزا زیادہ سخت ہو گئی اور جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ان کے استعمال سے اس سے کم درجہ کی سزا ملے گی لیکن بہر حال دونوں جرم قابل گرفت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوں گے حرام فعل کا ارتکاب کرنے سے انسان کے ایمان پر اثر پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ لازماً بدی ہوتی ہے۔ لیکن دوسری چیزوں کے استعمال کا نتیجہ لازماً بدی اور بے ایمانی کے رنگ میں نہیں نکلتا۔ چنانچہ دیکھ لو ۔ مسلمانوں میں سے بعض ایسے فرقے جو ان اشیاء کو مختلف تاویلات کے ذریعے جائز سمجھتے اور انہیں کھالیتے ہیں جیسے مالکی ان کا اثر انکے ایمان پر نہیں پڑتا۔ اور ان میں نے ایمانی اور بدی پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ گذشتہ دور میں تو ان میں اولیاء اللہ بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ لیکن خنزیر کا گوشت یا مردار کھانے والا کوئی شخص ولی اللہ نظر نہیں آئیگا۔ پس حرمت کے بھی مدارج ہیں اور ان چاروں حرام چیزوں کے سوا باقی تمام ممنوعات ہیں جن کو عام اصلاح میں حرام کہا جاتا ہے ورنہ قرآنی اصطلاح میں وہ حرام نہیں ہیں۔ دراصل ایک حرمت ایسی ہے۔ جو صرف لُغتاً حرمت کہلاتی ہے اس لحاظ سے ہر وہ چیز جس سے کسی دوسرے کو منع کر دیا جائے حرام کہلائیگی۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کی ہوئی چیز جس سے کسی دوسرے کو منع کر دیا جائے حرام کہلائیگی۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کی ہوئی چیزیں ہیں۔لیکن قرآنی اصطلاح میں صرف یہی چار چیزیں حرام ہیں۔
اس آیت میں مردار کھانے سے اللہ تعالیٰ نے اس لئے روکا ہے کہ مردار کا خون بہت سی زہروں پر مشتمل ہوتا ہے اور مُردار کی نسبت اغلب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ بیماری سے یا زہر سے یا زہریلے جانوروں کے کاٹے سے مرا ہو۔ اور یہ سب حالتیں ایسی ہیں کہ ان میں جانور کا گوشت استعمال کرنیکے قابل نہیں رہتا اور اگر گِر کر یا کسی ار صدمہ سے مرا ہو تب بھی قاعدہ ہے کہ سخت صدمہ کا اثر فوراً خون میں زہر پیدا کر دیتا ہے پس درحقیقت کھانے کے قابل صرف وہی گوشت ہوتا ہے جو ذبح کئے ہوئے جانور کا ہو۔ ورنہ اُس کا لازماً بد اثر ہو گا۔ اور یہ چیز صرف خیالی نہیں بلکہ موجودہ طب نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ خواہ کوئی جانور عمر طبعی پا کر بوجہ بڈھا ہونے کے مرے یا کسی اونچے مقام سے گر کر ہلاک ہو یا کسی صدمہ سے جانبر نہ ہو سکے یا کسی بیماری کا شکار ہو اس کے کون میں کئی قسم کے خطرناک جراثیم اور کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ میڈیکل جیورس پروڈنسMIDICAL JURISPRUDENCEجو ڈاکٹر کی ایک مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ مردہ کے گوشت میں بہت جلد کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں جن سے ایسے زہر پیدا ہوتے ہیں جنہیںAL-KALIDES CADAVERICEیاPTOMAINES کہتے ہین۔ یہ زہر سخت مہلک ہوتے ہیں اور ان کا اثر کچلا اور ایڑوپین کے مشابہ ہوتا ہے (صفحہ۵۲۲)
اِسی طرح خون بھی مختلف قسم کے زہروں پر مشتمل ہوتا ہے اور صحت کے لئے سخت مضر چیز ہے۔ فزیالوجی والے لکھتے ہیں کہ کون انسانی بدن میں ایک ایسے گڑھے کی طرح ہوتا ہے جس میں بے حد مچھلیاں اور مینڈک اور کیڑے ہر وقت اپنی غذا بھی اُس سے لیتے ہوں اور اپنا فضلہ بھی اس میں پھینکتے ہوں۔ کیونکہ اس میں بے انتہا سیلز تیر رہے ہوتے ہیں اور ہروقت اُسے خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خون کا ہی کام ہے کہ وہ ٹشوز سے مردہ مادہ کو ان آرگنز تک لے جاتا ہے جو اُسے خون سے صاف اور علیٰحدہ کرتے ہیں۔ پس خون مختلف قسم کے زہروں اور ردی مادوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور جسم کے اندر خداتعالیٰ نے اُس کے صاف کرنے کے لئے کئی سامان بنائے ہوئے ہیں لیکن جب وہ جسم سے باہر آجائے تو اُس کے زہر اُس کے اندر ہی رہ جاتے ہیں اور اس کا استعمال صحت کے لئے سخت مضر ہوتا ہے۔ اور چند منٹ میں خراب ہو جاتا ہے بلکہ ہوا کے کیڑے مل کر بہت جلد نشوونما پا جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ گوشت جس سے خون دھویا جائے دیر تک رہتا ہے بہ نسبت اس کے جسے خون لگا ہوا ہو۔ پس خون کا بد اثر بھی ظاہر ہے۔
خنزیر کے گوشت کا اثر بھی انسان کے جسم اور اُس کے اخلاق پر نہایت بُرا پڑتا ہے۔ جسم پر تو اُس کا اس طرح گندہ اثر پڑتا ہے کہ اس کے گند اور کیچڑ میں رہنے اور گندی ذہنیت کو پسند کرنے کے سبب سے اس کے گوشت سے کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ مسٹرJOHN ATHAN NICHOLSONُٓٓاپنی کتاب SWINE FLESH میں لکھتے ہیں :۔
IT IS EXCEPTIONAL EVIDENCE AGAINST THE HATEFUL HOG WHEN WE SY TAPE WORM, SCROFULA, CANCER AND ENEYSTER TRICHINA AND UNKNOWN AMONG STRICT JEWS. THEY NEVER TOUCH THE HOG FLESH.
یعنی سور کا گوشت کے متعلق ایک غیر معمولی عجیب شہادت یہ ہے کہ کدو دانیاور سِل کا مادہ یہودیوں کے اندر اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ اگر ان کی یہ بات پوری طور پر تسلیم نہ بھی کی جائے تب بھی اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ سور خور قوموں میں یہ بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں۔
سور کے گوشت سے ایک مہلک بیماری پیدا ہوتی ہے جسےTRICHINOSISکہتے ہیں۔ اس میں پہلے ہیضہ کی علامات ظاہر ہوتی ہیں پھر بخار ہوجاتا ہے پھر بدن میں درد شروع ہو جاتا ہے اور آخر میں نمونیا ہو جاتا ہے۔ میڈیکل جمیورس پروڈنس میں لکھا ہے کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں۔
اسی طرح سور کے گوشت سے آنتوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں جو کدو دانہ کے مشابہ ہوتے ہیں اور سالہا سال تک رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ایف بٹلر ایم ۔ڈی۔ ایف ۔آر۔سی ۔پی اپنی کتاب ’’پریکٹس آف میڈیسن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سور میں یہ بیماری پاخانہ کھانے سے پیدا ہوتی ہے لیکن ان ضرروں سے بھی بڑھ کر بلکہ اصل باعث اس کی حرمت کا دو خرابیاں ہیں جو اخلاق میں پیدا ہوتی ہیں۔ صرف سورہی ایک ایسا جانور ہے جس میں نر کو نر پر پھاندنے کی عادت ہے پس وہ لوگ جو سور کا گوشت کھانے کے عادی ہیں ان میں بھی دیوٹی بڑھ جاتی ہے اور حیا کا مادہ کم ہو جاتا ہے۔
پھر اس میں شجاعت بھی نہیں ہوتی بلکہ تہور کی عادت ہوتی ہے جس وقت اپسے غصہ آجائے وہ آگے پیچھے نہیں دیکھتا بلکہ سیدھا حملہ کرتا ہے او راسی عادت کی وجہ سے شکار اسے جلد مار لیتا ہے۔ جب شکار ی اُسے گولی مارتا ہے تو وہ غصہ میں سیدھا حملہ کرتا ہے اور اس طرح جلدی گِر جاتا ہے۔ اسی طرح جو قوم سور کا گوشت کھانے والی ہوگی اس میں بھی شجاعت نہیں پائی جائیگی بلکہ تہور پایا جائیگا۔
بانی سلسلہ احمدیہ اپنی مشہور تصنیف’’اسلامی اصولوں کی فلاسفی‘‘ میں خنزیر کی حرمت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:۔
’’ایک نکتہ اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ خنزیر جو حرام کیا گیا ہے خدا نے ابتداء سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے یونکہ خنزیر کا لفظ خنز اور اَر سے مرکب ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں اس کو فاسد اور خراب دیکھتا ہوں۔ خنز کے معنے بہت فاسد۔ آرٰ کے معنے دیکھتا ہوں پس اس جانور کا نام جو ابتداء سے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سور کہتے ہیں یہ لفظ بھی سور اور اَر سے مرکب ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میں اس کو بہت بُرا دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔ اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں یعنی بہت فاسد اس کی تشریح کی حاجت نہیں اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانونِ قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بدن اور روح پر پلید ہی ہو۔ کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذائوں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کااثر بھی بد ہی پڑے گا جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی)
چوتھی چیز جسے حرام قرار دیا گیا ہے وہ ہے جوشرک کے طور پر ذبح کی جائے اور ا سکے قربان کرنے کا باعث خداتعالیٰ کے سوا اور ہستیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش ہو۔ چونکہ اس میں خدائے وحد لا شیرک کی ہتک کی جاتی ہے اور اس کی صفات دوسری ہستیوں کو دی جاتی ہیں اس لئے اس کو استعمال کرنا انسان کو بے غیرت بناتا ہے بلکہ درحقیقت ایسے جانور کو کھانا دلی ناپانی اور بے غیرتی کی علامت ہے۔ پس اسلام نے اس کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ یہ حرمت اس کے بطعی نقصانات سے نہیں بلکہ دینی نقصانات کی وجہ سے ہے کیونکہ جو شخص کسی ایسے جانور کا گوشت کھاتا ہے جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو وہ اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ اُسے خداتعالیٰ کی توحید سے کوئی محبت نہیں۔ وہ بظاہر خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے مگر اپنے باطن میں اس نے اور بھی کئی بُت چُھپا رکھے ہیں جن کی وہ پرستش کرتا ہے۔ پس اس کا کھانا اس کے دل کو ناپاک کرتا اور اُسے مشرکوں کا ہمرنگ بنا دیتا ہے۔
عیسائی لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے تورات کی نقل کرتے ہوئے ان اشیاء کو حرام قرار دیا ہے کسی حکمت کی وجہ سے ان کو حرام قرار نہیں دیا۔ مگر ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو تورات نے حرام کیا ہے مگر قرآن نے حرام نہیں کیا مثلاً اونٹ کو تورات میں حرام قرار دیا گیا ہے (احبار باب۱۱آیت۴) لیکن اسلام میں اس کا کھانا جائز ہے اگر کہو کہ عربوں کی خاطر اُسے حرام نہیں کیا گیا۔ تو میں کہتا ہوں کہ خرگوش کو بھی تورات میں حرام کیا گیا ہے (احبار باب۱۱ آیت۶) لیکن اسلام میں اس کا کھانا بھی جائز ہے۔ اگر اونٹ عربوں کی خاطر حلال کیا گیا تھا تو خرگوش کو حلال قرار دینے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ پھر اگر یہ احکام تورات کی ہی نقل ہوتے تو چاہیے تھا کہ تورات کے تمام احکام کو نقل کر لیا جاتا۔ مگر قرآن کریم نے اس کے بہت سے احکام کو چھوڑ دیا ہے۔ مثلا تورات نے مردار کھانے والے کے لئے یہ سزار مقرر کی ہے کہ وہ ناپاک ہو جائیگا اور کپڑے دھونے کے بعد بھی شام تک ناپاک رہیگا (احبار باب۱۱ آیت۳۹۔۴۰) لیکن قرآن کریم نے اس بے معنی بات کو چھوڑ دیا۔ پاس یہ کہنا کہ قرآن نے تورات کی نقل کی ہے واقعات کے لحاظ سے بالکل غلط بات ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ تورات تو حرمت کی کوئی وجہ بیان نہیں کی لیکن قرآن کریم حرمت کی وجہ بھی بتاتا ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ فرماتاہے ۔ قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُھَرَّ مًا مَّسْفُوْ حًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہُ رِجْس’‘ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ (انعام آیت۱۴۶)یعنی تو اس سے کہہ دے کے جو کچھ میری طرف نازل کیا گیا ہے میں تو اس میں اُس شخص پر جو کسی چیز کو کھانا چاہے سوائے مردار یا بہتے ہوئے خون یا سور کے گوشت کے کوئی چیز حرام نہیں پاتا۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک چیز نجس ہے یا میں فسق کو حرام پاتا ہوں۔ یعنی اس چیز کو جس پر خداتعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ لیکن جو شخص اس کے کھانے پر مجبور ہو جائے بغیر اس کے کہ وہ شریعت کا مقابلہ کرنے والا ہو یا حد سے نکلنے والا ہو یعنی وہ جان بوجھ کر ایسے موقعہ پر نہ گیا ہو یا کھاتے وقت ضرورت سے زیادہ نہ کھائے تو وہ یاد رکھے کہ تیرا رب یقینا بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے یعنی ایسا شخص اگر ان کھانوں کو کھالے تو اللہ تعالیٰ اُس کو اُن کے بد اثرات سے بچا لیگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مردہ اور بہا ہوا خون اور سور کا گوشت حرام کرنے کی وجہ ان کا تکلیف دہ ہونا ہے کیونکہ رجس کے معنے گند اور عذاب کے ہوتے ہیں پس مراد یہ ہے کہ یہ چیزیں گندی ہیں اور انسان کے لئے رُوحانی اور جسمانی طور پر موجب دکھ ہیں۔
اس کے علاوہ سورۃ مائدہ آیت ۴ اور سورۃ نحل آیت ۱۱۶ میں بھی حلال اور حرام اشیاء کا ذکر ہے اور سب میں یہی چیزیںبیان کی گئی ہیں۔ سوائے سورۃ مائدہ کے کہ وہاں مَیْتَۃ’‘ کی تشریح کر کے بتایا ہے کہ اس میں گلا گھونٹا ہوا یا لاٹھی سے مارا ہوا جانور یا سینگ لگنے سے مرا ہوا جانور یا وہ جانور جسے کسی درندے نے کھا لیا ہو وہ بھی مردار کے حکم میں شامل ہے۔
اُھِلَّ بِہٖ بِغَیْرِ اللّٰہِ کو اس نے علحیٰدہ بیان کیا ہے کہ اگرچہ اس سے ظاہری طور پر کوئی نقصان معلوم نہیں ہوتا مگر اس کے استعمال کرنے سے روحانی رنگ میں یہ بُرا نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کے اندر باحت اور بے دینی پیدا ہو جاتی ہے اور خدتعالیٰ سے اس کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ پس بائیبل نے تو بغیر کوئی حکمت واضح کرنے کے بعض چیزوں کو حرام قرار دے دیا ۔ مگر قرآن کریم نے حرام کرنے کی وجہ بھی بتائی ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حلت و حرمت کے مسائل تورات سے نقل کر لئے گئے ہیں۔
فَمَن ِاضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ میں پہلی شرط تو یہ رکھی کہ یہ استثنیٰ صرف اس شخص کے لئے ہے جو مفطر ہو جائے اور اضطرار کے معنے کسی شخص کو کسی ایسے کام پر مجبور کر دینے کے ہیں جو اس کے لئے باعثِ ضر ر یا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ اور یہ مجبوری دو قسم کی وہتی ہے ایک بیرونی تہدید و تخویف اور ایک اندرونی جیسے ہیجانِ جذبات اور مطالبات نیچر وغیرہ (مفردات راغب) دوسری شرط یہ رکھی کہ وہ عادی یعنی حد سے گذرنے والا نہ ہو۔ باغی کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی پنے کسی عیسائی دوست کے گھر میں بیٹھا ہوا ہو اور وہ بے تکلفی سے گھر والوں سے کہے کہ مجھے کچھ کھانے کے لئے دو اور وہ سور کا گوشت سامنے رکھ دیں تو وہ اُسے بے تکلف کھناے لگ جائے۔ یہ بغاوت اور نافرمانی ہو گی۔ سور کا گوشت کھانا صر ف اُس وقت جائز ہو گا جب وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو اور اُسے کھانے کے لئے سور کے گوشت کے سوا اور کوئی چیز کھانے کی میسر نہ آرہی ہو۔ کیونکہ اس وقت اس کے استعمال میں نقصان کم اور عدمِ استعمال میں نقصان زیادہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وَلَا عَادٍ فرما کر بتا دیا کہ مضطر کو بھی کلی طور پر اجازت نہیں دی گئی کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لے بلکہ صرف اتنا کھانے کی اجازت دی گئی ہے جس سے اس کی زندگی قائم رہ سکے اگر وہ ان حدود کا خیال رکھیگا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر وہ اس خیال سے اکہ آج تو پہلی مرتبہ سور کا گوشت کھانے کا موقعہ ملا ہے خوب سیر ہو کر کھا لے تو یہ ناجائز ہو گا۔بہر حال اٖطرار تاویلی نہیں بلکہ حقیقی ہونا چاہیے تب ان چیزوں کا استعمال اس کے لئے جائز ہو گا۔
آخر میں فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایسی مجبوری کی حالت میں کھانے والے پر کوئی گناہ نہیں تو بخشنے کے کیا معنے ہوئے۔ اور اگر ایسی حالت میں کھانا بھی گناہ ہے تو پھر فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ کا کی امطلب ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے پتہ لگتا ہے کہ انسان سے جو کمزوریاں سر زد ہوتی ہیں۔ چونکہ اس جگہ ایسے لوگوں کا ذکرکیا جا رہا تھا جنہیں مجبوری کی حالت میں لحمِ خنزیر وغیرہ استعمال کرنے کا اجازت دی گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ تمہارا اس حالت کو پہنچنا بتاتا ہے کہ تم تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز نہیں تھے ورنہ خداتعالیٰ تمہیں اس حالت سے بچا لیتا اور تمہارے رزق کے لئے غیب سے کوئی اور صورت پیدا فرما دیتا۔ آخر آج تک اُمتِ محمدیہ میں لاکھوں اولیاء اللہ گذرے ہیں کیا کسی ادنیٰ سے ادنیٰ ولی کے متعلق بھی یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اُس پر ایسا فاقہ آیا کہ وہ مردار یا سور کا گوشت کھانے پر مجبور ہو گیا۔ اگر نہیںتو پھر ایسے شخص کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ اُس سے اپنی پہلی زندگی میں کوئی نہ کوئی قصور ایسا ضرور سرزد ہواہے جس کی پاداش میں اُسے یہ دن دیکھنا پڑا کہ وہ مومن کہلاتے ہئوے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے ہوتے ہوئے سور کا گوشت کھانے پر مجبور ہو گیا۔ بے شک ایسی حالت میں اُس کا بقدر ضرورت چند لقمے لے لینا اور موت سے اپنے آپ کو بچا لینا جائز ہے لیکن چونکہ اس کی یہ حالت کسی مخفی شامت اعمال کا نتیجہ ہو گی اس لئے اُسے چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لے کر اپنی گذشتہ کمزوریوں پر ندامت کے آنسو بہائے۔ خداتعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفارء سے کام لے اور دُعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کمزوریوں کو معاف فرمائے اور ان پر پردہ ڈالے اور اُسے اپنی مغفرت کے دامن میں لے لے۔ اگر وہ سچے دل سے ایسا کریگا تو وہ اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائے گا۔ اور آئندہ اس قسم کے حالات میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہو جائے گا۔
ایک صحابی کا واقعہ ہے انہیں جنگ میں پکڑ کر اور قید کر کے قیصر کے پاس بھیجا گیا۔ اس نے چاہا کہ انہیں قتل کر دے۔ مگر
اِنَّ الَّذِیْنَ
عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘o
اس کے مصاحبوں نے کہا کہ قتل نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ مسلمان بھی ہمارے قیدیوں کو قتل نہیں کرتے اور اگر عمرؓ کو پتہ لگ گیا کہ اُن کے ایک آدمی کہ قتل کیا گیا ہے تو وہ اس کا سختی سے انتقام لیں گے۔ قیصر نے کہا میں تو چاہتا ہوں کہ اسے ایسی سزا دوں جو دوسروں کے لئے باعثِ عبرت ہو۔ اس پر انہوں نے کہا۔ اسے سور کا گوشت کھلانا چاہیے۔ چنانچہ انوں نے اس صحابی کو چند دن بھوکا رکھا اور پھر سور کا گوشت کھانے کو دیا اس نے کھانے سے سختی سے انکار کر دیا وہ اُسے کھانے پر مجبور کر رہے تھے کہ قیصر کے سر میں شدید درد شروع ہوگئی جس کا اُن سے کوئی علاج نہ ہو سکا۔ اس کے مصاحبوں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے یہ اس شخص کو تکلیف دینے کی وجہ سے ہے۔ اخر یہ قرار پایا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کو دُعا کے لئے لکھا جائے۔ اور چونکہ ایسی صورت میں ان کے لئے یہ مناسب نہ تھا کہ ایک مسلمان پر وہ ایسی سختی کریں ورنہ دعا مشکل تھی۔ اس لئے وہ مجبور ہو کر اُسے کھانا دینے لگے گئے پس جو لوگ ایمان میں پختہ ہوتے ہیں خداتعالیٰ ان پر ایسا موقعہ ہی نیہں لاتا کہ انہیں حرام چیز کھانی پڑے خداتعالیٰ خود ان کے لئے ہر قسم کی خیرو برکت کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔
اس کادوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی موقعہ پر انتہائی مجبوری کی وجہ سے مردار یا سور کا گوشت استعمال کر لیا جائے تو جن زہریلے اثرات کی وجہ سے شریعت نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بہر حال ایک مومن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج کا تدارک اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان غفور اور رحیم خدا کا دامن مظبوطی سے پکڑے اور اُسے کہے کہ اے خدا میں نے تو تیری اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لئے اس زہریلے کھانے کو کھالیا ہے لیکن اب تو ہی فضل فرما اور ان مہلک اثرات سے میری روح اور جسم کو بچا جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسی حکمت کے باعث آخر میں اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ کہاگیا ہے۔تاکہ انسان مطمئن نہ ہوجائے بلکہ بعد میں بھی وہ اس کی تلافی کی کوشش کرتا رہے اور خداتعالیٰ سے اُس کی حفاظت طلب کرتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غالبًا شریعت کی اسی رخصت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کسی حاملہ عورت کی حالت ایسی ہو جائے کہ مرد ڈاکٹر کی مدد کے بغیر اُس کا بچہ پیدا نہ ہو سکتا ہو اور وہ مرد ڈاکٹر کی مدد نہ لے اور اُسی حال میں مر جائے تو اس عورت کی موت خود کشی سمجھی جائے گی۔ اسی طرح انسان کی ایسی حالت ہو جائے کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگے اور وہ سور یا مردار کا گوشت کسی قدر کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
۸۸؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ وہ لوگ جو اس عظیم الشان تعلیم کو چھپاتے ہیں جسے خدانے لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے اور اس کے بدلہ میں دنیوی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ انڈیلتے ہیں۔ یہ آیت حلت و حرمت کے مسائل کے بیان کرنے کے معًا بعد لا کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس طرح مردار اور خود اور سور کا گوشت تم پر حرام ہے اور جس طرح غیر اللہ کے نام پرذبح کیا ہوا جانور کھانا تمہارے لئے گناہ ہے اسی طرح یاد رکھو کہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیے دینا اور خداتعالیٰ کو چھوڑ دینا بھی مُردار اور سور کا گوشت کھانے سے کم نہیں۔ جس طرح وہ حرام خور ی ہے اسی طرح یہ بھی حرامخوری ہے کہ انسان دین سے واقف ہوتے ہوئے کلمہ حق کہنتے سے احتراز کرے۔ اور ڈرے کہ اگر میں نے اپنے عقیدہ کو نہ چھپایا یا خدا اور اس کے رسول کے احکام پر بر ملا اظہار کر دیا تو میری ملازمت جاتی رہے گی یا میری تجارت ماری جائیگی یا میرے دوستوں کے حلقہ میں میری عزت کم ہو جائیگی۔ فرماتا ہے جو لوگ صحیح علم رکھنے کے بعد بھی منافقت سے کام لیتے ہیں اور دنیوی مفاد کو دینی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں انگارے ڈال رہے ہیں۔
مَایَا کُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ۔ اس آیت میں بُطُوْن کا لفط تاکید کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور فِیْ بُطُوْنِھِمْ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کے بطون کے اندر آگ کا عذاب پیدا کیا جائے گا۔ یعنی انہیں اندرونی عذاب دیا جائیگا جو بیرونی عذاب سے زیادہ سخت ہوتا ہے اسی مفہوم کو ایک شاعر نے اس طرح ادا کیا ہے کہ ؎
دُخُوْلُ النَّارِ لِلْمَھْجُوْرِ خَیْر’‘
مِنَ الْھِجْرِ الَّذِیْ ھُوَ یَتَّقِیْہِ
لِاَنَّ دُخُوْ لَہ‘ فِی النَّارِ اَدْنٰی
عَذَابًا مِنْ دُخُوْلِ النَّارِ فِیْہِ
یعنی ایک مہجور انسان جو اپنے محبوب کے فراق میں نالہ و فریاد کر رہا ہو اس کا آگ میں داخل ہو جانا اس جدائی کی آگ سے زیادہ آسان ہوتا ہے جس سے وہ بچنا چاہتا ہے ۔ کیونکہ اس کا آگ کے اندر داخل ہونا اس سے کم تکلیف دہ ہے کہ آگ اس کے اندر داخل ہو جائے اور وہ اس کے رگ و ریشہ کو جلا کر راکھ کر دے۔ اسی محاورہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ آگ میں داخل کئے جائیں گے بلکہ فرمایا کہ وہ آگ اپنے پیٹوں میں ڈال رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے ایک اندرونی جہنم تیار کر رہے ہیں ۔ گویا اس آیت میں سبب کی جگہ مسبب استعمال ہوا ہے۔
وَلَایُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یُوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے قیامت کے دن کلام تک نہیں کرے گا۔ یہ ایک عظیم الشان نکتہ تھا۔ جسے افسوس کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے فراموش کر دیا۔ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ان سے نہیں بولیگا۔ حالانکہ قیامت کا دن وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافروں سے بھی کلام کرے گا ۔ جیسا کہ دوسری جگہ قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَیُوْمَ یُنَّادِیْھِمْ فَیَقُوْلَ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ(قصص آیت۶۶) یعنی اس دن خداتعالیٰ کفار کو پکارے گا اور کہیگا تم نے میرے رسولوں کے پیغام کا کیا جواب دیا تھا ۔ پس قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کا کفار سے بھی کلام کرنا ثابت ہے تو بعض لوگوں سے اس کا
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ
عَلَی النَّارِo
منہ پھیر لینا اور ان سے کلام تک نہ کرنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے شدید ناراض ہو گا۔ ار وہ نہیں چاہیگا کہ ان سے زجر کے رنگ میں بھی کلام کرے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کا کلام نہ کرنا اس کی ناراضگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر اس زمانہ کے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا اپنے بندوں سے کلام نہ کرنا نعوذباللہ ایک بڑی نعمت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل امتِ محمدیہ کو حاصل ہوئی حالانکہ خیرِ اُمت کی علامت یہ ہونی چاہیے تھی کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت کا دروازہ ان پر زیادہ سے زیادہ کھولتا اور پہلی قوموں سے بھی زیادہ نہیں شرفِ مکالمہ و مخاطبہ عطا فرماتا۔ مگر انہوں نے زحمت کو رحمت سمجھ لیا اور خداتعالیٰ سے دوری کو ایک انعام سمجھ کر اُسے حرز جان بنا لیا۔
اس آیت کا ایک یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کا کلام نہیں کریگا۔ اور یہ عام محاورہ ہے ہماری زبان میں بھی کہتے ہیں کہ میں تم سے بات نہیں کرونگا۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میں تم سے دوستانہ کلام نہیں کرونگا پس اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس روز ان سے دوستانہ کلام نہیں کریگا۔ بلکہ اس کا کلام ایسا ہی ہوگا جیسے ایک جج کسی مجرم کو سزا کاحکم سُناتے وقت کلام کرتا ہے ۔ مگر بہر حال خواہ کوئی معنے لئے جائیں خداتعالیٰ کا ترک گفتگو اس کی ناراضگی کی نشانی ہے۔ مگر مسلمان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نعوذباللہ خداتعالیٰ کا اُمت محمدیہ پر یہ انعام نازل ہوا کہ اس نے ان سے کلام کرنا ترک کر دیا اور وحی اور الہام کے سلسلہ کو منقطع کر دیا۔
پھر فرمایا وَلَا یُزَکِّیْھِمْ۔ چونکہ اسلام کی رو سے کفار کو دوزخ میں ڈالنے کی غرض ہی یہی ہے کہ ان کا تزکیہ ہو اس لئے وَلَا ئُزَکِّیْھِمْ کے یہ معنے نہیں کہ وہ انہیں پاک نہیں کریگا۔ بلکہ یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک قرار نہیں دے گا۔
ترتیب وربط:۔ ان آیات میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ساتھ ہی یہود کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے چنانچہ اِنَّمَا حَرَّ مَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ میں ان کے اس اعتراض کو دور کیا گیا ہے کہ یہ نبی ان چیزوں کو کیوں حلال کرتا ہے جو شریعت موسویہ میں حرام تھیں۔اگر یہ ان پیشگوئیوں کا مصداق ہے تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہیہ اعتراض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ جو احکام کسی خاص وقت کے مناسب حال تھے ان کو دوام کا رنگ نہیں دیا جا سکتا تھا اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے یہود کے ہاں اونٹ حرام تھا۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت حلال تھا۔ پس جس طرح موسیٰ علیہ السلام سے قبل بعض چیزیں حلال تھیں اور کئی انبیاء تک ان کو استعمال کرتے رہے مگر بعد میں ان کو حرام کر دی گیا۔ اسی طرح موسوی شریعت کے بعد بھی خداتعالیٰ اختیار رکھتا تھا کہ وہ بعض حرام سمجھی جانے والی چیزوں کو حلال کر دیتا۔ پس اس پر اعتراض کرنا نادانی کی علامت ہے۔
۸۹؎ حل لغات:۔ اِشْتَرٰی اور اَلضَّلٰلَۃَ کی حل لغات کے لئے دیکھیں تفسیر سورۃ بقرہ حل لغات۱۷؎
نیز اَلْھُدٰی کی حل لغات کیل ئے دیکھیں سورۃ البقرۃ حل لغات۳؎ اور ۷؎۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ
شِقَاقٍم بَعِیْدٍo
تفسیر:۔ فرماتا ہے یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کی بجائے گمراہی اور مغفرت کی بجائے عذاب کو اختیار کر لیا ہے۔ پس آگ کے عذاب پر ان کی برداشت تعجب انگیز ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کوئی جبر نہیں کیا بلکہ اُسے نیکی اور بدی کے اختیار کرنے پر کامل مقدرت بخشی ہے۔ اور پھر انبیاء کے ذریعہ اس نے بنی نوع انسان کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ ہدایت کی اہے اور ضلالت کیا ہے اب یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی عطا کر دہ عقل اور اس کے کلام سے فائدہ اٹھا کر ہدایت کی راہ اختیار کرے یا شیطان کے پیچھے چل کر ضلالت کو اختیار کر لے اگر وہ ضلالت کو ہدایت پر ترجیح دیتا ہے تو اس کے نتائج بھی طبعی طور پر اسے عذاب کی صورت میں برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی اس جسارت اور نابینائی پر تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ اور فرماتا ہے فَمَا اَصْبَرَ ھُمْ عَلَی النَّارِ۔ جب انہوں نے مغفرت پر عذاب کو ترجیح دی ہے تو ان کو عذاب کو برداشت کر لینے کی جرات بڑی تعجب انگیز ہے۔
اس آیت کے متعلق یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا خداتعالیٰ بھی تعجب کا اظہار کیا کرتا ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات کلام میں حقیقی تعجب مراد نہیں ہوتا بلکہ اس سے یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ کیسی بے وقوفی کر رہے ہیں کیا یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی جسے اپنے اوپر وارد کر کے وہ صبر کرتے ۔ پس فَمَا اَصْبَرَ ھُمْ عَلَی النَّارِ کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ واقعہ میں بڑے صبر کرنے والے ہیں اور خداتعالیٰ ان کے صبر کی تعریف کر رہا ہے یا ان کے صبر پر تعجب کا اظہار کر رہا ہے بلکہ یہ تعریض ہے اور اس سے لوگوں کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان بیوقوفوں کی موجودہ حالت بتاتی ہے کہ یہ لوگ عذاب پر بہت ہی صبر کرنیوالے ہیں۔ نہ یہ کہ عذاب پر وہ واقعہ میں صبر کرینگے کیونکہ معمولی عذاب بھی انسان کی قوتِ برداشت سے باہر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر مَا کو استفہامیہ قرار دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ کس چیز نے انہیں آگ پر صبر کرنیوالا بنا دیا؟ اور اگرمَا کو فافیہ قرار دیا جائے تو پرھ اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ مَااَصْبَرَ ھُمُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ۔ اللہ تعالیٰ انہیں آگ پر صبر نہ دے۔یعنی خوب سزا دے اور وہ سزا ان کو اچھی طرح محسوس ہو۔
۹۰؎ حل لغات:۔شِقَاق’‘: شَاقَّ کا مصدر ہے اور شَاتہ‘ کے معنے ہیں خَالَفَہ‘ وَعَادَاہُ۔ وَحَقِیْقَتُہ‘ اَنَّ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا فِیْ شِقٍّ غَیْرِ شِقِّ صَلِبِہٖ یعنی اس نے اس کے مخالفت اور دشمنی کی اور اس کی حقیقت معنے یہ ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی مخالف جانب سے آیا(اقرب)
تفسیر:۔ فرماتا ہے یہ عذاب انہیں اس وجہ سے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بڑے بھاری احسانات سے کام لیتے ہوئے انہیں ایک ایسا قانون بخشا تھا جس کا ایک ایک حرف صداقت پر مشتمل ہے۔ مگر ان لوگوں نے انتہا درجہ کی عداوت اور دشمنی میں مبتلا ہونے کی وجہ
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ
ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo
سے اُسے ٹھکرا دیا۔ اور خدائی پیغام کے منکر بن گئے۔
شِقَاقٍ بَعِیْدٍ سے ایسی عداوت مراد ہے جو اپنی شدت میں انتہا درجہ تک پہنچی ہوئی ہو اور جس کا سلسلہ ایک طویل مدت تک بھی منقطع نہ ہو۔
۹۱؎ حل لغاتـ:۔ اَلْبِرُّ: اَلصِّلَۃُ وَ الطَّاعَۃُ وَالصِّدْقُ۔ بِرّ کے معنے صلہ رحمی اطاعت اور سچائی کے ہیں(اقرب)
مفرداتِ امام راغب میں لکھا ہے۔ اَلْبِرُّ: اَلتَّوَسُّعُ فِیْ فِعْلِ الْخَیْرِ۔ پھر لکھا ۔ بَرَّ الْعَبْدُ رَبَّہ‘ اَیْ تَوَ سَّعَ فِیْ طَاعَتِہٖ فَمِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ اَلثَّوَابُ وَفِی الْعَبْدِ الَطَّاعَۃُ۔ یعنی بِرّ کے معنے ہیں نیکی میں وسعت اختیار کرنا۔ چنانچہ بَرَّ الْعَبْدُ رَبَّہُ کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں وسعت اختیار کی۔ برّ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس سے مراد ثواب دینا ہے اوراگر بندے کی طرف منسوب ہو تو اس سے مراد اطاعت کرنا ہے۔
اَلْبَاسَآئُ کے معنے ہیں اَلشِّدَّۃُ شدت (۲) اِسْم’‘ الْحَرْبِ جنگ (۳) اَلْمُشَقَّۃُ وَالضَّرْبُ مشقت اور مار۔
اَلضَّرَّآء کے معنے ہیں(۱)اَلزَّمَانَۃُ قحط (۲) اَلشِّدَّۃُ سختی و مصیبت (۳) اَلنَّقْصُ فِی الْاِمْوَالِ وَالْا نْفُسِ مال اور افرادمیں کمی (۴) فَظِیْضُ السَّرَّآئِ یہ سَرَّاء یعنی فراخی کا اُلٹ ہے۔(اقرب)
اَلْبَاسُ: کے معنے ہیں (ا) اَلْفَقْرُ مالی مشکلات۔ (۲) اَلْعَذَابُ عذاب (۳) اَلشِّدَّۃ فِی الْحَرْبِ جنگ کی سختی (۴) اَلْقُوَّۃُ قوت ۔ قرآن کریم میں آتا ہے وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْس’‘ شَدِیْد’‘ کہ ہم نے لوہے کو نازل کیا جس میں بڑی قوت ہے۔
تفسیر:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیکی اور تقویٰ کے متعلق اسلامی نقطہء نگاہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور بتایا کہ حقیقی نیکی کس چیز کا نام ہے۔ اگر غور سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں نیکی اور تقویٰ کے متعلق بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور مختلف جماعتوں اور مختلف قوموں اور مختلف زمانہ کے لوگوں کے نزدیک نیکی کی تعریف مختلف رہی ہے۔ غرباء نیکی کی کچھ اور تعریف کرتے ہیں اور اُمراء کچھ اور کرتے ہیں۔ پھر ممالک کے لحاظ سے بھی نیکی کی تعریف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں حاجی بڑے نیک شمار ہوتے ہیں یہاںتک کہ ایک شخص خواہ صوم و صلوٰۃ اور دوسرے احکام شرعی کا کتنا ہی پابند کیوں نہ ہو لگ اس کے مقابلہ میں حاجی کو ترجیح دینگے خواہ اس نے سفر حج میں اپنے اوقات فضول اور لغو طور پر ہی ضائع کئے ہوں۔ اور حج کرنے کے بعد بھی اپنے اندر کوئی تغیر پیدا نہ کیا ہو۔ اور صوم و صلوٰۃ کا بھی چنداں پابند نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک ریل کے سٹیشن پر ایک نابینا بڑھیا بیٹھی تھی کہ ایک شخص نے اس کی چادر اُٹھالی۔ بڑھیا کو جب پتہ لگا کہ چاردر غائب ہے تو اس نے آواز دی کر کہا۔ کہ بھائی حانی! مجھ غریب کی چادر کیوں لی ہے۔ میرے پاس تو اَور کوئی کپڑا نیہں میں تو سردی سے ٹھٹھر کر مر جائوں گی۔ وہ چادر تو اس شخص نے لا کر رکھ دی مگر پوچھا کہ تجھے کس طرح پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ ایسے کام حاجی ہی کیا کرتے ہیں۔ اب دیکھو کووہ عورت اس سے واقف نہ تھی ار نہ اس کی آنکھیں سلامت تھیں مگر اس نے پہچان لیا کہ ایسی سنگدلی حاجی میں ہی پائی جاسکتی ہے لیکن باوجود اس کے پھر بھی عام طور پر ہمارے ملک میںحاجیوں کو بڑا نیک سمجھا جاتا ہے لیکن عرب میں جائو تو وہ لوگ حج کو نیکی قرار دینگے۔ بلکہ ان میں نیکی سخاوت کو سمجھا جائیگا۔ وہ لوگ اگر کسی کی نیکی کی تعریف کرینگے تو کہنگے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے کیونکہ بڑا سخی ہے۔ اسی طرح اب یورپ میں اسلام پھیلے تو وہاں روزے کو بڑی نیکی سمجھا جائیگا کیونکہ وہ لوگ کثرت سے کھانے پینے والے ہیں۔ پس جب ان کو کھانے پینے سے رکنا پڑے گا تو وہ حج اور زکوٰۃ اور نما زوغیرہ احکام شرعی کی بجا آوری کو اعلیٰ نیکی قرار دینے کی بجائے صرف روزہ رکھنے کو سب سے بڑی نیکی قرار دینگے۔ پھر ہمارے ملک میں یہ بھی بڑی نیکی خیال کی جاتی ہے کہ کوئی شخص نماز کا پابند ہو۔ ایسے شخص کے متعلق بھی لو گ کہتے ہیں کہ بڑا نیک ہے کیونکہ نماز پا بند ہے۔ لیکن صحابہؓ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندی نماز نہیں تھا کیونکہ وہ لوگ نیکی کے اس اعلیٰ مقام پر کھڑے تھے جہاں صرف پابندے نماز کو بڑی نیکی قرار دینا ایسی ہی بات تھی جیسے کہا جائے جلاں شخص بڑا بہادر ہے کیونکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا ہے یا فلان شخص بڑا تیز نظر ہے کیونہک اس کی ماں جو اس کے پاس بیٹھی تھی اسے اس کی پہچان لیا ہے۔ یا فلاں شخص کا معدہ بڑا ہی مضبوط ہے کیونکہ اس نے ایک چنا ہضم کر لیا۔ پاس جیسا کہ بہادری تیز فطری اور مضبوطی معدہ کے یہ معیار نہایت مضحکہ خیز ہیں اسی طرح صحابہؓ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندی نماز مضحکہ خیز تھا۔ کیونکہ وہ لوگ دین کے لئے بڑی بری قربانیاں اور سخت آزمائشوں کو نیکی سمجھتے تھے اور جس شخص میں یہ باتیں زیادہ پاتے تھے اس کو نیک سمجھتے تھے پس نیک اور نیکی کی تعریف ہر زمانہ ہر ملک ہر قوم میں جُدا جدا اور مختلف رہی ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ پھیرنا کوئی نیکی نہیں۔ اگر کوئی شخص قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور اُس کی نماز میں وہ اخلاص نہیں جو حقیقی نماز میں ہوتا ہے تو اسے قبلہ کی طرف منہ کر کے بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ نیکی منہ کے کسی طرف پھیر لینے کا نام نہیں۔ بلکہ نیکی نام ہے اس کیفیت کا جو دل کے اندر پیدا ہوتی ہے اور ظاہری حرکات اس کیفیت کا ایک نشان ہیں۔ پس اگر ان ظاہری حرکات میں وہ چیز نہیں جس کا دل سے تعلق ہے تو یہ ظاہری حرکات کچھ چیز نہیں۔ محض قبلہ کی طرف رُخ کرنا یا نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا یا حج کرنا یہ تمام باتیں دلی کیفیت نہ ہونے کے باعث ہیج ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ یہ وہ ہتھیار ہیں جو بغیر اس قلبی کیفیت کے دُند اور ناکارہ ہوتے ہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص کے پاس تلوار تو ہو مگر کُند ہو یا ہتھیار تو ہوں مگر زنگ خوردہ ہوں پس جس طرح ہتھیاروں کی قیمت ان کی تیزی اور صفائی سے وابستہ ہے اسی طرح ان اعمال کی قدروقیمت خداتعالیٰ کی نظر میں اُسی وقت ہوتی ہے جبکہ ان کے ذریعے خداتعالیٰ کی رضا جوئی مقصود ہو۔
اس آیت میں نیکی کی علامات بیان کی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کے نزدیک حقیقی نیکی کیا چیز ہے فرماتا ہے مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنا نیکی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاص اور سوز و گداز کی کیفیت بھی ہونی چاہیے اگر اس کے نتیجہ میں دُوائوں اور ذکرِ الہٰی کی عادت پیدا نہیں ہوتی اگر اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔ اگر اس کے نتیجہ میںیتیموں اور غریبوں اور مسکینوں کی محبت ترقی نہیں کرتی تو محض مشرق و مغرب کی طرف منہ کر لینا کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ مشرق و مغرب کی طرف منہ پھیرنے کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس لئے ذکر فرمایا ہے کہ چند رکوع قبل اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَ لُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ(آیت۱۱۶) یعنی اے مسلمانو! بے شک آج تم کمزور سمجھے جاتے ہولیکن یاد رکھو مشرق و مغرب سب اللہ کا ہی ہے ہم ایک دن ان لوگوں سے حکومت چھین کر تمہیں مشرق و مغرب کا حکمران بنا دینگے اور تم جس طرف بھی اپنے لشکر لے کر نکلو گے تم اللہ کے وجود کو جلوہ گر پائوگے یعنی قدم قدم پر تمہیں فتوحات نصیب ہو نگی اور قدم قدم پر خداتعالیٰ تمہارے لئے اپنے نشانات ظاہر فرمائیگا۔ پس چونکہ مسلمانوں کی دنیوی فتوحات کی پہلے پیشگوئی کی جا چکی ہے جس کے مطابق انہوں نے مشرق و مغرب کا حکمران بننا تھا۔ اور جب کسی قوم کو دنیوی فتوحات حاصل ہو جائیں تو اس بات کا شدید خطرہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں دنیا کی طرف ہی نہ جھک جائے اور خداتعالیٰ سے مخلصانہ تعلق جو اس کی فتوحات کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے اس کو نظر انداز نہ کر دے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو ان کی اعتقادی اور عملی اصلاح کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَ لُّوْا وُجُوْ ھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ یعنی کامل نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق و مغرب کے ملکوں پر اپنا تسلط جما لو اور فتوحات پر فتوحات حاصل کرتے چلے جائو بے شک یہ بھی اللہ تعالی کا ایک بڑا بھاری انعام ہے مگر کامل نیکی صرف مادی فتوحات کا نام نہیں بلکہ نام ہے اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر اور ملائکہ پر اور قرآن کریم پر اور تمام نبیوں پر سچے دل سے ایمان لانیکا اور کامل نیکی نام ہے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سائلوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے اپنے اموال خرچ کرنے کا ۔ اسی طرح کامل نیکی نام ہے نمازیں قائم کرنیکا اور زکوٰۃ دینے کا اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے کا اور مالی مشکلات اور بیماریوں اور جنگ میں صبر اور استقامت سے کام لینے کا پس بے شک دنیوی فتوحات بھی حاصل کرو مگر اس بات کو مت بھولو کہ صرف ملکوں پر غلبہ حاصل کرنا تمہارا مقصود نہیں بلکہ تمہارا مقصد اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنا اور اس کی مخلوق کی سچی خدمت کرنا ہے اور یہی وہ غرض ہے جو ہر وقت تمہاری نظروں کے سامنے رہنی چاہیے اس کے بعد فرماتا ہے وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بَاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ اس حصہ آیت کا لفظی ترجمہ یہ بنتا ہے کہ’’ نیکی وہ ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ معنے درست نہیں۔ اَلْبِرَّ اسم ہے اور اس کے بعد ایسی خبر آنی چاہیے جو اس کے مطابق ہو۔ لیکن مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اس کے مطابق نہیں ۔ اسلئے یہاں بعض الفاظ محذوف سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ نحویوں نے اس کی تین توجیہات کی ہیں۔ اول مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ میں مَنْ سے پہلے بِرُّ کا لفظ محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ بِرُّ مَنْ اٰمَنَ یعنی کامل نیکی تو اس شخص کی نیکی ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر سچے دل سے ایمان لایا۔ عربی زبان میں بالعموم ایسا ہوتا ہے کہ مضاف کو حذف کر دیا جاتا ہے جیسے سورہ یوسف میں آتا ہے وَاسْئَلِ الْقَرْیَۃَ اس کے لفظی معنے یہ ہیں کہ بستی سے پوچھو۔حالانکہ بستی سے کوئی نہیں پوچھا کرتا بلکہ بستی والوں سے پوچھا کرتا ہے۔ پس جس طرح وَاسْئَلِ الْقَرْیَۃَ سے مراد وَاسْئَلْ اَھْلَ الْقَرْیَۃِ ہے اور اس جملہ میں اھل کا لفظ محذوف ہے۔ اسی طرح مِنْ اٰمَنَ سے پہلے بَرُّ کا لفظ محذوف ہے(سیبو یہ جلد اول صفحہ۱۰۸)
دوسری صورت یہ ہے کہ اَلْبِرُّ کو مصدر سمجھ کر اس کے معنے اسم فائل کے لئے جائیں اور عبارت کا مفہوم یہ نکالا جائے کہ وَلٰکِنَّ الْبَآرَّ مَنْ اٰمَنَ یعنی بڑا نیک اور محمد رسو ل اللہ ؐ کا کامل متبع وہ ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر اور کتبِ سماویہ پر اور سارے نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اپنے مال کو بوجود تنگی کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے غریبوں میں تقسیم کر تا رہتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ اَلْبِرُّ کے لفظ سے پہلے ذُوْ کا کلمہ محذوف سمجھا جائے اور عبارت یوں ہو کہ وَلٰکِنْ ذَالْبِرِّمَنْ اٰمَنَ یعنی کامل نیکی رکھنے والا وہ شخص ہے جو اللہ پر ایمان لایا۔گویا اس آیت کے مفہوم کو تین صورتیں واضح کرتی ہیں اور آیت کے اگلے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوںصورتیں ہی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہیں۔ کیونکہ اس آیت کے بعد وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ کے الفاظ آتے ہیں اور اَلْمُوْفُونَ حالتِ رفع میں ہے اور اَلصَّابِرِیْنَ حالتِ نصب میں۔ اگر اَلْبَارَّ مَنْ اٰمَنَ یا ذَاالبِّرِ مَنْ اٰمَنَ والی ترکیب صحیح سمجھی جائے تو اَلْمُوْفُوْنَ مرفوع نہیں آسکتا۔اور اگر بِرُّ مَنْ اٰمَنَ صحیح سمجھا جائے تو الَصَّابِرِیْنَ حالت نصبی میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت دو مختلف کلمات کو دو صورتوں میں استعمال کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ یہاں تینوں صورتیں ترکیب کے لحاظ سے درست ہیں اور تینوں معنے ہی خداتعالیٰ کے منشا کے مطابق ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی کے لئے پہلی شرط جو کسی صورت میں بھی بدل نہیں سکتی یہ ہے کہ انسان کو ایمان باللہ حاصل ہو ۔ کبھی کوئی زمانہ ایسا نہیں آسکتا جس میں یہ کہا جا سکے کہ ایمان باللہ کی اب ضرورت نہیں رہی۔ دوسرے یوم آخرت پر ایمان ہو۔ یہ حکم بھی کبھی نہیںبدل سکتا ۔تیسرے ملائکہ پر ایمان ہو یہ صداقت بھی ہمیشہ سے چلی آئی ہے اور چلی جا ئیگی ۔چہارم کتاب یعنی وحی الہٰی پر ایمان ہو۔ اس جگہ الکتاب کا لفظ اللہ تعالیٰ نے واحد رکھا ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی نیہں ہونی چاہیے کہ کسی ایک کتاب پر بھی ایمان لانا کافی ہے بلکہ الکتاب سے مراد یہ ہے کہ وہ ساری وحی الہٰی پر ایمان لانے والا ہو۔ خواہ کسی پہلے زمانہ میں نازل ہو چکی ہو۔ یا آئندہ نازل ہو۔ پنجم اسے نبیوں پر ایمان ہو۔ یہ پانچوں نیکیاں ایسی ہیں جن کے بغیر کبھی کوئی شخص روحانیت کا ادنیٰ سے ادنیٰ مقام بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اعمال کی طرف توجہ کی ہے اور سب سے پہلے مال خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے مگر اس کے لئے بھی صرف اٰتَی الْمَالَ نہیں فرمایا کیونکہ اگر انسان ناجائز طور پر مال خرچ کر دے تو یہ نیکی نہیں بلکہ بدی ہے۔ اس لئے اٰتَی الْمَالَ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے عَلیٰ حُبِّہٖ رکھا اور حُبِّہٖ کی ضمیر مال کی طرف جا سکتی ہے اور اِیْتَائِ مال کی طر ف بھی جا سکتی ہے اور اس شخص کی طرف بھی جا سکتی ہے جسے مال دیا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ اٰتَی الْمَالَ عَلیٰ حُبِّ الْمَالِ یعنی باوجود مال کے وہ اُسے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّ اِیْتَا ئِ الْمَالِ۔ یعنی وہ اپنا مال چٹی سمجھ کر نہ دے بلکہ اُسے صدقہ و خیرات دینے کا شوق ہو۔ اور وہ اس نیکی میں ایک لذت محسوس کرتے ہوئے اپنا مال پیش کرے۔ تیسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ جسے مال دے اسے ذلیل سمجھ کر نہ دے بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر دے۔ اسی طرح اس کی عادات بگاڑنے کے لئے نہ دے بلکہ اس لئے دے کہ وہ اُسے اچھے کاموں میں لگائے۔ اورترقی کرے۔ چوتھی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّ اللّٰہِ ہو اللہ کی رضا اور اس کی محبت کے حصول کے لئے مال دے کوئی دنیوی مفاد یا شہرت اس کے پیچھے کام نہ کر رہی ہو۔ ان چار شرائط کے ساتھ مال خرچ کرنا کبھی ناپسندیدہ نہیں ہو سکتا۔ یا یوں سمجھ لو کہ یہ مال خرچ کرنے کے چار مدارج ہیں پہلا درجہ ادنیٰ ہے جس کی طرف قریب کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ دوسرا درجہ ادنیٰ ہے جس کی طرف قریب کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ دوسرا درجہ اس سے اعلیٰ ہے ۔ تیسرا درجہ اس سے بھی اعلیٰ ہے اور چوتھا درجہ سب سے اعلیٰ ہے۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں مال کی محبت ہو اور پھر بھی وہ اسے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ نیک کاموں میں روپیہ خرچ کرنے کی اُسے عادت ہو گئی ہو اور اس کا مزہ اس نے چکھا ہوا ہو جس کی وجہ سے وہ خود دلی شوق اور محبت سے اس قسم کی نیکیوں کی تلاش میں رہے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ جسے مال دیا جائے اُسے اپنا بھائی سمجھ کر دیا جائے تاکہ وہ اُسے اچھے کاموں میں لگائے اور ترقی کرے لیکن پھر اس سے بھی اوپر ایک اور درجہ ہے اور وہ یہ کہ اس کے اس انفاق میں خالص اللہ تعالیٰ کی محبت کام کر رہی ہو۔ وہ اس وجہ سے مال خرچ نہ کرے کہ اسے مال خرچ کرنے کی عادت ہو چکی ہے یا اُسے اپنے غریب بھائیوں سے محبت ہے بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا اس کے پیش نظر ہو اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے وہ دوسروں سے حسنِ سلوک کرے۔ یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور اسے صوفیاء نے اتنا بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض نے یہاںتک کہا ہے کہ ہمیں نہ جنت کی ضروت ہے نہ دوزخ کی بلکہ صرف خداتعالیٰ کی ضرورت ہے ۔ اگر خداتعالیٰ دوزخ میں پڑنے سے ملتا ہو تو ہم اس میں بھی جانے کے لئے تیار ہیں ۔ یہ بہت بلند مقام ہے۔ کیونکہ اس مقام پر سوائے خداتعالیٰ کے اور کوئی چیز انسان کے سامنے نہیں رہتی صرف خدا ہی خدا رہ جاتا ہے اوفر اس کا حُسن انسان پر اس قدر ممستولی ہو جاتا ہے کہ اس کے سوا کوئی اور چیز اُسے نظر ہی نہیں آتی۔
اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ خدا کی محبت کے لئے کہاں خرچ کرے۔ سو اس کی تشریح بھی کر دی اور بتایا کہ (۱) وہ قرابت والوں کو دے اس لئے کہ انسان پر ان کا بڑا حق ہوتا ہے۔ مثلاً ماں پاب ہیں جو بچوں کی پرورش اور ان کی نگہداشت کے لئے اتنی بڑی قربانیاں کرتے ہیں جن کی مثال کسی اور جگہ نہیں مل سکتی۔ اسی طرح دوسرے رشتہ دا اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ اگر وہ حاجت مد ہوںت و ان کی امداد کی جائے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ (۲) پھر فرمایا کہ وہ یتامیٰ کو دے چونکہ ان کی خبر گیری کرنیوالا کوئی نہیں ہوتا اس لئے ان کے حقوق کو مدنظر رکھنے کی تعلیم دی۔ (۳) تیسرے نمبر پر مساکین کو رکھا جن کے پاس اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مال بھی نہیں ہوتا۔ اور وہ لوگوں کے سامنے دست سوال بھی دراز نہیں کرتے۔ گویا وہ اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں کہ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَانًا۔ وہ غربت کے باوجود اپنے اندر اخلاقی بلندی رکھتے ہیں اور اپنے و قار کو قائم رکھنے کے لئے دوزروں سے مانگنے کی ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔(۴) چوتھے نمبر پر مسافر کو رکھا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے غربت کی شرط نہیں لگائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں غربت مسافروں کی امداد کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں اگر کسی اسودہ حال مسافر کی مدد کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے وہ مالدار تو ہو مگر راستہ میں اس کا مال ضائع ہو گیا ہو۔ اگر ایسا ہو تو وہ بطور حق بھی لے سکتا ہے اور کوئی چیز گرد رکھ کر بھی اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ اسی طرھ حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ ملکی اور غیر ملکی مسافروں اور سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے بعد پانچویں نمبر پر سائل کو رکھا۔ اس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ غریب اورمفلس ہے تو اُسے ابن السبیل کہ اجا سکتا ہے کہ اگر وہ غریب اور مفلس ہے تو اُسے ابن السبیل کے بعد کیوں رکھا ہے۔
سو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے سوال کرنا پسندیدہ قرار نہیں دیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جس شخص کے پاس ایک وقت کا کھانا ہے اور پھر بھی وہ سوال کرتا ہے وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ اسی طرح حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غصہ آیا اور آپ نے اس سے آٹا چھین کر اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور فرمایا اب مانگ آپ کی اس سے غرض یہ تھی کہ وہ لوگوں کے لئے بار نہ بنے بلکہ خود کام کرے اور دوسروں سے مانگ کر کھانے کی ذلت سے بچے پس چونکہ اسلام نے مانگ کر کھانا ناپسند کیا ہے اس لئے یہ بتانے کیلئے کہ سوال کرنا ایک ناپسندیدہ امر ہے مسائل کو سب سے آخر میں رکھا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں اعلیٰ درجہ کے اخلاق پیدا ہوں اور بجائے اس کے کہ لوگ سوال کرتے پھریں۔ وہ خود لوگوں کی ضروریات کا پتہ لگا کر ان کو پورا کیا کریںتاکہ ان کے لئے سوال کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
وَفِی الرِّقَاب۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر روپیہ خرچ کرنے کا ذکر کیا ہے جو قید میں پڑے ہوئے ہوں۔ اس جملہ میں ایک مضاف محذوف ہے جو فَکُ کا لفظ ہے۔ یعنی اصل عبارت یوں ہے کہ وَفِیْ فَکِّ الرِّقَابِ۔ اس گروہ کو پیچھے رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں میں زیادہ تر غیر مذاہب کے ہی قیدی ہو سکتے ہیں۔ اور قاعدہ ہے کہ اقرب کا حق دوسروں سے مقدم ہوتا ہے۔ ابن السبیل کو تو مہمان کے طور پر رکھا ہے کہ خواہ وہ کافر ہو اُسے بھی دو۔ مگر قیدی تو ایسے ہی لوگ ہونگے جو مسلمانوں کے مقابلہ میںلڑائی کے لئے آئے ہونگے۔ اس لئے فِی الرِّقَابِ کو بعد میں رکھا۔ لیکن یہ بھی اسلام کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ اُسی شخص کے متعلق جو مسلمانوں کو مارنے کے لئے آیاتھا کہتا ہے کہ اسے روپیہ دے کر آزاد کرادو۔ اسی طرح فِی الرِّقَابِ میں قرضدار اور ضامن کو امداد دینا بھی شامل ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہر قسم کے صدقات دیئے لیکن غلام آزاد کرنیکا موقعہ نہیں ملا میں جب حج کے لئے مکہ گیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ اگر سو دو سو روپیہ میں کوئی غلام مل جائے تو میری طرف سے آزاد کر دینا مگر مجھے کوئی غلام نہ ملا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی بھی توفیق عطا فرمادی۔ چنانچہ مرزا محمد اشرف صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ کی روایت ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے دو غلام آزاد کر وا دیئے تھے۔
پھر فرماتا ہے وَاَتَامَ الصَّلوٰۃَ وَاٰتَی الذَّکوٰۃَ کامل نیک وہ شخص ہے جس نے نماز کو قائم رکھا اور زکوٰۃ دی۔ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے وسیع معنے ہیں۔ مگر شریعت نے ان کو اپنی ایک مخصوص اصطلاح نماز اور زکوٰۃ ہی مراد ہے۔ جن میں سے ایک خدا اور انسان کے تعلقات کو استوار کرتی اور دوسری انسان اور انسان کے باہمی تعلقات میں رابط قائم کرتی ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ صرف مال خرچ کرنے سے تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتے۔ بلکہ تمہارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ تم نمازیں قائم کرو۔ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ گویا حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جب تک ایک منظم رنگ میں ادا نہ کیا جائے اُس وقت تک انسان نیکی کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتا۔
پھر فرمایا۔ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ۔ نیکی اورتقویٰ کا اعلیٰ مقام جن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے ان کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ معاہدات کی پابندی کرتے ہیں اور اگر لوگ ان پر سختی کریں یاظلم سے کام لیں تو وہ صبر سے کام لیتے ہیں۔ گویا ایک طرف تو وہ اسلامی تمدن کو قائم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور کبھی بدعہدی یا دھوکا بازی سے کام نہیں لیتے اور دوسری طرف اگر مذہبی قومی اور ملکی ضرورت کے لئے انہیں سختیاں بھی برداشت کرنی پڑیں تو وہ استقلال کے ساتھ ان کو برداشت کرتے ہیں اور استقامت کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں۔ اس جگہ عہد سے مراد صرف زبانی عہد ہی نہیں بلکہ تمدن سے تعلق رکھنے والے تمام اہم مسائل بھی اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ تمدن دنیا میں ایک دوسرے کے حقوق کی اسی رنگ میں حفاظت ہوتی ہے کہ ہر شخص سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے دائرہ سے تجاوز نہ کرے اور دوسروں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو تمدن کو قائم کرنے والے سمجھے جاتے ہیں اور اگر اس کے خلاف عمل کریں تو فتنہ و فساد پیدا کرنے والے قرار پاتے ہیں۔ اسلام چونکہ صلح و آشتی اور محبت کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے اس لئے اس نے کامل الایمان لوگوں کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ وہ معاہدات کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بتایا کہ وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَھِیْنَ الْبَاْسِ۔ وہ فقرہ فاقہ اور تنگیوں میں صبر سے کام لیتے ہیں اور جسمانی دکھوں اور مصائب میں بھی صبر سے کام لیتے ہیں۔ اس جگہ اَلْبَاسَآئِ سے مالی مشکلات اور ضَرَّاء سے جسمانی مشکلات اور امراض وغیرہ مراد ہیں اور بَاْس سے شدتِ حرب مراد ہے۔ گویا ادنیٰ سے اعلیٰ ابتلائوں کی طرف ترقی کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ یہ لڑائیاں جن کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے دوقسم کی ہو سکتی ہیں ایک وہ جو بھائیوں بھائیوں میں ہوں اور دوسری وہ جو غیروں سے ہوں۔ اگر آپس میں جھگڑا ہو تو وہ اَلصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ کے مطابق اپنے حقوق کو خود چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور سچے ہو کر جھوٹوں کا ساتذ لل اختیار کرتے ہیں اور اگر غیروں سے ہو تو وہ بھاگتے نہیں بلکہ دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے اور قیام امن کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتے ہیں۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَ قُوْا۔ فرماتاہے یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدق و وفا کا نمونہ دکھایا۔ وَاُولٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ اور یہی لوگ مصائب اور دکھوں سے نجات پانے والے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت اس لئے بیان کی کہ انسان کو سب سے زیادہ تکلیف اپنے حقوق کو پامال ہوتے دیکھ کر ہوتی ہے۔ دوسرے سے حسن سلوک کو تو وہ احسان سمجھتا ہے مگر جب کوئی شخص اُسے دکھ پہنچاتا ہے تو وہ اپنی ہتک محسوس کرتا ہے۔ پس چونکہ یہ ان کی غیر معمولی قربانی تھی کہ انہوں نے خدا کے لئے دوسروں کے مظالم سہے اس لئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو میں خصوصیت کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ یہ سچے اور راستباز لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے ہیں یعنی انہوں نے اپنے ایمان کو عملی طور پر سچا کر کے دکھا دیا ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو مصائب سے بچنے والے ہیں۔ کیونکہ مصائب اگر آسمانی ہوں تو ان کا علاج یہ ہوتا ہے کہ لوگ خداتعالیٰ پر ایمان لائیں اور اس کی عبادت کریں اور اگر تمدنی مصائب ہوں تو ان کا علاج یہ ہوتا ہے کہ تمدنی قوانین کو مدنظر رکھیں۔ اور یہ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر بھی عمل کرنے والے ہیں اور تمدنی خرابیوں سے بھی بچنے والے ہیں۔ پس یہ لوگ دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتے۔ جو قوم ذلیل یاہلاک ہو گی وہ یا تو خداتعالیٰ کو چھوڑ کر ہلاک ہو گی یا تمدنی قوانین کو نظر انداز کر کے اپنی ہلاک مول لے گی۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ
عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘ o
۹۲؎ حل لغات:۔ اَلْقِصَامُن: اَنْ یُّفْعَلَ بِہٖ مِثْلَ مَا فَعَلَہ‘ مِنْ قَتْلٍ اَوْقَطْعٍ اَوْضَرْبٍ اَوْ جَرْحٍ (لسان) عربی زبان میں قصاص کے معنے یہ ہیں کہ کسی شخص سے وہی سلوک کیا جائے جو اس نے قتل یا قطع یا ضرب یا زخم کرنے کی صورت میں دوسرے سے کیا ہے۔
تاج العروس میں لکھا ہے۔ اَلْقِصَاصُ اَلْقَتْلُ بِالْقَتْلِ وَالْجُرْحُ بِالْجُرْحِ کہ قصاص اس چیز کا نام ہے کہ قتل کے مقابلہ میں قتل اور زخم کے مقابلہ میں زخم کیا جائے۔
تفسیر:۔ بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سجھتے ہیں کہ اسلام نے قتل کے بارہ میں جوکچھ بیان کیا ہے صرف بائیبل کے تتبع میں کیا ہے خود اصولی رنگ میں اس بارہ میں کوئی ہدایت نہیں دی ۔ ان کے نزدیک یہودیوں کو جو یہ کہا گیا تھا کہ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنَ بِالْعَیقنِ وَ الْاَ نٰفَ بِالْاَ نْفِ وَالْاُ ذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنُّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحُ قِصَاص’‘(مائدہ آیت۴۶) یعنی جان کے بدلہ میں جان اور آنکھ کے بدلہ میں آنکھ اور ناک کے بدلہ میں ناک اور کان کے بدلہ میں کان اور دانت کے بدلہ میں دانت ار زخموں کے بدلہ میں زخم برابر کا بدلہ ہیں اس حکم کو قرآن کریم نے اس جگہ دُہرا دیا ہے مگر ان کا یہ خیال محض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے ۔ میرے نزدیک بنی نوع انسان کی مذہبی، سیاسی، تمدنی اور عائلی زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والا کوئی مسئلہ بھی ایسا نہیں جسے اسلام نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان نہ کیا ہو۔ بیشک وہ پہلے مذاہب کی تعلیموں کا بھی بعض مقامات پر ذکر کرتا ہے مگر نفس مسئلہ پردہ پہلے خود روشنی ڈالتا ہے اور اس کے متعلق ایک جامع اور کامل تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اس کے بعد وہ غیر مذاہب ولوں پر حجت تمام کرنے یا انہیں شرمندہ کرنے کے لئے ان کی تعلیموں کو بھی ان کے سامنے پیش کرتا ہے۔ تاکہ ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہوئے انہوں نے اس کے احکام کو کس طرح پسِ پشت پھینک رکھا ہے۔ اسج گہ بھی قصاص کی بنی نوع انسان کو جو تعلیم دی گئی ہے یہ یہودیوں کی اتباع میں نہیں دی گئی بلکہ ان احکام کے سلسلہ میں دی گئی ہے جو اکیسویں رکوع سے دئے جا رہے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو پچھلی آیات میں بتلایا گیاتھا کہ کامل الایمان لوگوں کی علامات یہ ہوتی ہیں کہ وہ بَاْسَآئَ میں بھی صبر کرتے ہیں اور ضَرَّآئَ میں بھی صبر کرتے ہیں اور حِیْنَ البَاْس بھی صبر کرتے ہیں یعنی خواہ ان پر مالی مشکلات آئیں اور فقروفاقہ تک ان کی نوبت پہنچ جائے تب بھی وہ جادہ استقامت پر قائم رہتے ہیں اور خواہ جسمانی مشکلات آئیں اور بیماریاں ان کو گھیر لیں تب بھی وہ صبر کرتے ہیں۔ اور خواہ لڑائیوں میں مارے جائیں تب بھیی وہ دشمن سے مرعوب نہیں ہوتے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ آخر یہ صبر کا سلسلہ کب تک لے گا۔ کیا لوگ ہمیں مارتے ہی چلے جائیں اور ہم خاموش بیٹھے رہیں اور اگر ایسا ہو تو ہماری زندگی کی کیا صورت ہو گئی؟ اس لئے فرمایا کہ تمہارا کام تو یہی ہے کہ تم صبر کرو لیکن کچھ اور لوگ جن کے سپرد حکومت کا نظام کیا گیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے ظالموں سے بدلہ لیں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں چنانچہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلیٰ میں انہی لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے اسجگہ ’’تم‘‘ سے صرف حکام مراد ہیں جو لاء اینڈ آرڈر یعنی نظم و ضبط کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ عام لوگ مراد نہیں۔ اور کُتِبَ کہہ کر بتایا ہے کہ حکام کا فرض ہے کہ وہ قصاص لیں ۔ حکام کو یہ اختیار نہیں کہ وہ معاف کر دیں۔ الَصَّابِرِیْنَ فِی البَاْسَآئِ وَالضَّرَّآء وَحِیْنَ الْبَاسِ میں تو عوام مخاطب تھے مگر کُتِبَ عَلَیْکُمْ میں صرف حکام سے خطاب کیا گیا ہے کہ وہ قصاص لیں۔ اور فِی الْقَتْلٰی کہہ کر تصریح کر دی گئی ہے کہ اس میں جروح شامل نہیں۔ اور درحقیقت یہی وہ آیت ہے جس میں قتل کی سزا کے متعلق اسلامی تعلیم بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قتل کی سزا قتل ہے۔ اور یہ عام حکم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فِی الْقَتْلیٰ فرمایا ہے کہ مقتولوں کے متعلق یہ حکم ہے یہ کوئی سوال نہیں کہ وہ مقتول کون ہو۔ اور کس قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ اس آیت کے سوا قتل ِ عمد کی دنیوی سزا کا ذکر قرآن کریم کی کسی اور آیت میں نیہں ہے پس یہی آیت ہے جس پر اسلامی فقہ کی بنیاد ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلمان میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا۔ نہ اس میں یہ ذکر ہے کہ کس کس آلہ سے قتل کرنے والے کی سزا قتل ہے بلکہ خواہ کسی آلہ سے کوئی شخص قتل کرے۔ اس کو قتل کیا جائیگا۔ بلکہ حدیثوں سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ ایک قتل کے کیس میں بعض دفعہ ایک سے زیادہ افراد کو بھی مارا گیا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ صَنْعَاء میں ایک شخص کو کئی لوگوں نے مل کر قتل کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سب کو جو تعداد میں سات تھے قتل کروادیا۔ اور فرمایا کہ اگر سارا شہر قتل میں شریک ہوتا تو میں سب کو قتل کرادیتا۔ (طحادی) اسی طرح حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ لَایَحِلُّ دَمُ اٍمْرِ ئٍ مُسْلِمٍ یَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَّابِاِحْدَیْ ثَلَاثٍ اَلثَّیِّبُ الزَّانِیْ وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِکُ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَا عَۃِ(مسلم کتاب القصاص) یعنی صرف تین گناہ ایسے ہیں جن کی بنا پر مسلمان کو قتل کرنا جائز ہے ۔ اول شادی شدہ شخص ہو اور پھر زنا کرے۔ دوم کوئی شخص قاتل ثابت ہو جائے ۔ سوم جو شخص اسلام کو چھوڑ کر جماعت مسلمہ سے الگ ہو جائے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ صحیح مسلم میں تو صرف یہی الفاظ بیان کئے گئے ہیں مگر نسائی میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ رَجُل’‘ یَخْرُجُ مِنَ الْاِسْلَامِ ئُحَارِبُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَ رَسُوْلَہ‘ فَیُقْتَلُ اَوْ یُصَلَّبُ اَوْ یُنْفیٰ مِنَ الْاَرضِ۔ (نسائی جلد ۲ کتاب تحریم الدم باب الصلب) یعنی وہ شخص جو اسلام کو چھوڑ کر مسلمانوں سے جنگ شروع کر دے۔ اس کے متعلق جائز ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے یا صلیب پر لٹکا دیا جائے یا اُسے جلا وطن کر دیا جائے۔یہ حدیث بتاتی ہے کہ عورت مرد کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ جو بھی قتل کریگا اسے قتل کیا جائیگا اور جان کے بدلہ جان لی جائیگی۔ اسی طرح مسند احمد بن جنبل بخاری۔ نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَتَلَ مُعَاھِدًا لَمْ یَرِحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی کافر معاہد کو مار دے وہ جنت کی خوشبو نہیں سونکھے گا۔ اور یہی سزا قرآن کریم میں ایک مسلمان کے قاتل کی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ یَّقْتُلْ مُوْ مِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَآئُ ہ‘ جَھَنَّمَ خَالِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ‘ وَاَعَدَّ لَہ‘ عَذَابًا عَظِیْمًا(نساء آیت۹۴) یعنی جو شخص کسی مومن کو دیدہ دانستہ قتل کر دے اس کی سزا جہنم ہو گی وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا اور اُسے اپنے قرب سے محروم کر دیگا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کریگا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے ۔ چنانچہ ابو جعفر طحاوی اپنی کتاب ’’شرح معانی الاثار‘‘ میں لکھتے ہیں۔ اِنَّ النَّبِیَّ صِلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُتِیَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ قَدْ قَتَلَ مُعَاھِدًا مِنْ اَھْلِ الذِّمَّۃِ فَاَمَرَ بِہٖ فَضُرِبَ عُنُقُہ‘ وَقَالَ اَنَا اَوْلٰی مَنْ وَنٰی بِذِ مَّیِہٖ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسلمان لایا گیا جس نے ایک معاہد کا فر کو جو اسلامی حکومت کی رعایا بن چکا تھا قتل کر دیا تھا آپ نے اس کے قتل کئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں عہد پورا کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ عہد کی نگہداشت رکھنے والا ہوں(نیل الاوطار جلد۶ صفحہ۲۸۳) اسی طرح طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت روایت کی ہے کہ ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر دیا تو آپ نے اس مسلمان کے قتل کئے جانے کا حکم دے دیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ لَا یُقْتَلُ مُوْمِن’‘ بِکَافِرٍ کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائیگا۔ مگر ساری حدیث دیکھنے سے بات حل ہو جاتی ہے۔ حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں کہ لَا یُقْتَلُ مُوْمِن’‘ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْعَھْدًفِیْ عَھْدِہٖ۔ اس حدیث کا یہ دوسرا فقرہ کہ وَلَاذُوْ عَھْدٍفِیْ عَھْدِہٖ اس کے معنوں کو حل کر دیتا ہے اگر اس کے یہ معنے ہوں کہ کافر کے بدلہ میں مسلمان نہ مارا جائے تو پھر ذُوْ عَھْدٍ کے یہ معنے کرنے ہونگے کہ وَلَا ذُوْ عَھْدٍ بِکَافِرٍ کہ کسی ذوعہد کو بھی کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے۔ حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ پس یہاں کافر سے مراد محارب کافر ہے نہ کہ عام کافر۔ تبھی فرمایا کہ ذمی کافر بھی محارب کافر کے بدلہ میں نہیں مارا جائیگا۔
اب ہم صحابہؓ کا طریق عمل دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ بھی غیر مسلم قاتل کو قتل کی سزا ہی دیتے تھے۔ چنانچہ طبری جلد ۵ صفحہ۴۴ میں قماذبان ابن ہر مزان اپنے والد کے قتل کا واقعہ بیان کرتاہے ۔ ہرمزان ایک ایرانی ریئس اور مجوسی المذہب تھا اور حضرت عمر ؓ خلیفہ ثانی کے قتل کی سازش میں شریک ہونیکا شبہ اس پر کیا گیا تھا۔ اس پر بلا تحقیق جوش میں آکر عبید اللہ بن عمرؓ نے اس کو قتل کر دیا وہ کہتا ہے۔ کَانَتِ الْعَجْمُ بِالْمَدِیْنَۃِ یَسْتَرُوْحُ بَعْضپھَا اِلیٰ بَعْض، فَمَرَّ فیروز بِاَبِیْ وَمَعَہ‘ خَنْجَر‘ لَہ‘ رَاسَانِ فَتَنَارَ لَہ‘ مَنْہُ۔ وَقَالَ مَاتَمْنَعُ بِھٰذِہِ الْبِلَادِ فَقَالَ اَبُسُّ بِہٖ فَرَاہُ رَجُل’‘ فَلَمَّا اُصِیْبَ عُمَرُ قَالَ رَاَیْتُ ھٰذَا مَعَ الْھُرِ مَزَانِ دَفَعَہ‘ اِلیٰ فِیْرَوزفَاَقْبَلَ عُبَیْدُ اللّٰہِ فَقَتَلَہ‘ فَلَمَّاوُ لِّیَ عُثَمَانُ وَعَانِیْ فَاَمْکَنَنِیْ مِنْہُ ثُمَّ قَالَ یَابُنَیَّ ھٰذَا قَاتِلُ اَبِیْکَ وَاَنْتَ اَوْلیٰ بِہٖ مِنَّا فَاذْھَبْ فَاَقْتُلْہُ فَخَرَجْتُ بِہٖ وَ مَافِی الْارْضِ اَحَد’‘ اِلَّا مَعِی اِلّا اِنَّھُمْ یَطْلُبُوْنَ اِلَیَّ فِیْہِ فَقُلْتُ لَھُمْ اَلِیْ قَتْلُہ‘ قُالُوْا نَعَمْ وَسَبُّوْ عُبَیْدَ اللّٰہِ فَقُلْتُ اَفَلَکُمق اَنْ تَمْنَعُوْہُ قَالُوْ ا لَا وَسَبُّوۃ فَتَرَکْنُہ‘ لِلّٰہِ وَلَھُمْ۔ فَلعْتَمَلُوْنِیْ فَوَ اللّٰہِ مَابَلَغْتُ الْمَنْزِلَ اِلَّا عَلیٰ رُئُوْسِ الرِّجَالِ وَاَکُفِّھِمْ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایرانی لوگ مدینہ میں ایک دوسرے سے ملے جُلے رہتے تھے (جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دوسرے ملک میں جاکر وطنیت نمایاں ہو جاتی ہے) ایک دن فیروز (قاتل عمرؓ خلیفہ ثانی) میرے باپ سے ملا اور اس کے پاس ایک خنجر تھا جو دونوں طرف سے تیز کیا ہوا تھا۔ میرے باپ نے اس خنجر کو پکڑ لیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس ملک میں تو اس خنجر سے کیا کام لیتا ہے(یعنی یہ ملک تو امن کا ملک ہے اس میں ایسے ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے) اُس نے کہا کہ میں اس سے اونٹ ہنکانے کا کام لیتا ہوں۔ جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے اُسوقت کسی نے ان کو دیکھ لیا اور جب حضرت عمرؓ مارے گئے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے خود ہر مزان کو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔اِس پر عبید اللہ(حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے)نے جا کر میرے باپ کو قتل کر دیا ۔ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا اور عبیداللہ کو پکڑ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ اے میرے بیٹے! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تو ہماری نسبت اس پر زیادہ حق رکھتا ہے پس جا اور اس کو قتل کر دے میں نے اس کو پکڑ لیا اور شہر سے باہر نکلا۔ راستہ میں جو شخص مجھے ملتا میرے ساتھ ہو جاتا لیکن کوئی شخص مقابلہ نہ کرتا۔ وہ مجھ سے صرف اتنی درخواست کرتے تھے کہ میں اسے چھوڑ دوں۔ پس میں نے سب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا میرا حق ہے کہ میں اسے قتل کردوں۔ سب نے جواب دیا کہ ہاں تمہارا حق ہے کہ اسے قتل کر دو اور عبداللہ کو بھلا بُرا کہنے لگے کہ اس نے ایسا بُرا کام کیا ہے پرھ میں نے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کو حق ہے کہ اسے مجھ سے چھڑالو انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں اور پھر عبداللہ کو بُرا بھلا کہا۔ کہ اس نے بلا ثبوت اس کے باپ کو قتل کر دیا اس پر میں نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر اس کو چھور دیا۔ اور مسلمانوں نے فرطِ مسرت سے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھالیا۔ اور خداتعالیٰ کی قسم میں اپنے گھر تک لوگوں کے سروں اور کندھوں پر پہنچا اور انہوں نے مجھے زمین پر قدم تک نہیں رکھنے دیا۔ اس روایت سے ثابت ہے کہ صحابہؓ کا طریق عمل بھی یہی رہا ہے کہ وہ غیر مسلم کے مسلم قاتل کو سزائے قتل دیتے تھے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی ہتھیار سے کوئی شخص مارا جائے وہ مارا جائیگا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکمومت ہی ہے۔ کیونکہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ کو گرفتار بھی حضرت عثمانؓ نے ہی کیا اور اس کق قتل کے لئے ہر مزان کے بیٹے کے سپرد بھی انہوں نے ہی کیا۔ نہ ہرمزان کے کسی وارث نے اس پر مقدمہ چلایا اور نہ اس نے گرفتار کیا۔
اس جگہ اس شبہ کا ازالہ کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کو سزا دینے کے لئے آیا مقتول کے وارثوں کے سپر دکرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عثمانؓ نے کیا یا خود حکومت کو سزا دینی چاہیے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ ایک جزوی معاملہ ہے اس لئے اس کو اسلام نے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق عمل کرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے قوم انے تمدن اور حالات کے مطابق جس طریق کو زیادہ مفید دیکھے اختیار کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں طریق ہی خاص خاص حالات میں مفید ہوتے ہیں۔
اس کے بعد فرماتا ہے ۔ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی۔ آزاد آزاد کے بدلہ میں غلام غلام کے بدلہ میں اور عورت عورت کے بدلہ میں قتل کی جائے ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ آزاد مقتول کے بدلہ میں کسی آزاد کہ ہی قتل کیا جائے خواہ اس کا قاتل کئی غلام ہی ہو۔ اور غلام مقتول کے بدلہ میں کسی غلام کو ہی قتل کی جائے خواہ اس کا قاتل کوئی حُرّ ہو اور عورت مقتول کے بدلہ میں کسی عورت کو ہی قتل کیا جائے خواہ اس کا قاتل کوئی مرد ہو۔ کیونکہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَامُن نِی الْقَتْلیٰ میں حکم پہلے بیان ہوچکا ہے۔ درحقیقت یہ جملہ مستائفہ ہے۔ اور جملہ مستائفہ اس لئے آتا ہے کہ پہلے جملہ میں جو سوال مقدر ہو اس کو بیان کئے بغیر نئے جملہ میں جواب دیا جائے اور بغیر عطف کے اس کو بیان کیا جائے(شرح مختصر معانی مولفہ ابن یعقوب و بہائوالدین جلد۳ مطبوعہ مصر صفحہ۵۴) اس جگہ بھی یہ جملہ ایک سوال مقدر کے جواب کے لئے لایا گیا ہے۔ اور اس میں عرب کی ان رسوم کا قلع قمع کیا یا ہے جو ان میں عام طور پر رائج تھیں۔ اور وہ سوال مقدر یہ ہے کہ کیا اس حکم سے عرب کا پہلا طریق موقوف ہو جائیگا؟ سو فرمایا کہ ہاں اور اس کی چند مثالیں بیان کر دیں کہ یہ سب موقوف ہیں۔ چنانچہ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثیٰ میں ان کی صرف چندمثالیں بیان کی گئی ہیں نہ کہ کل رسوم گویا ھَلُّمَ جَرٍّا کی طرح کا یہ فقرہ ہے اور مراد یہ ہے کہ اس حکم کے ذریعہ وہ تمام امتیاز مٹا دیئے گئے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ عربوں میں بعض خاندانوں کو بڑا سمجھا جاتا تھا اور بعض کو چھوٹا ۔ بعض کو آزاد سمجھا جاتا تھا اور بعض کو غلام اور جب کسی سے کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو وہ لوگ یہ دیکھاکرتے تھے کہ آیا مجرم غلام ہے یا آزاد۔ اور اگر غلام ہے تو کسی بڑے آدمی کا غلام ہے یا چھوٹے کا۔ مرد ہے یا عورت اعلیٰ خاندان میں سے ہے یا ادنیٰ خاندان میں سے امیر ہے یا غریب۔ اور سزا میں ان تمام امور کو ملحوظ رکھا جاتا اور آزاد مردوں اور عورتوں کو وہ سزائیں نہ دی جائیں جو غلام مردوں اور عورتوں کو دی جاتی تھیں۔ اسی طرح اعلیٰ خاندانوں کے افراد کو وہ سزائیں نہیں دی جاتی تھیں جو ادنیٰ خاندانوں کے افراد کو دی جاتی تھیں۔ چونکہ اسلام نے کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی میں یہ عام حکم دے دیا تھا کہ ہر ایک شخص جو قتل کی اجائے اس کا قاتل لازماً قتل ہو خواہ عورت مرد کو مارے یا مرد عورت کو مارے۔ خواہ آزاد غلام کو مارے یا غلام آزاد کہ مارے۔ خواہ ایک شخص کو جماعت مارے اور خواہ کافر معاہد کو مسلمان مارے اس لئے طبعی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آئندہ قصاص کیا پہلے طریق پر بھی جو جاہلیت میں رائج تھا لیا جائیگا یا نہیں۔ سو اس کا جواب دیا کہ نہیں اور ہرگز نہیں۔ وہ امتیازات اب مٹائے جاتے ہیں۔ اور اس کے لئے صرف تین مثالیں دے دیں۔ باقی مثالیں اس نے چھوڑ دی ہیں۔ کیونکہ عربی زبان میں قاعدہ ہے کہ اگر کسی جگہ تین مثالیں بیان ہوں۔ تو اس جگہ ھَلُمَّ جَرًّا ساتھ مل جاتا ہے اور سب مثالیں انہی تین مثالوں میں شامل سمجھی جاتی ہیں۔ اس جگہ بھی تین مثالوں سے مراد ہر قسم کی مثال ہے اور یہ ہدایت دی گئی ہے کہ کواہ قاتل حُر اور مقتول عبد ہو یا قتل مرد اور مقتول عورت ہو یا قاتل عورت اور مقتول مرد ہو جو بھی قتل کرے اسے قتل کی سزا دو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل بھی اس کی تصدیق کرتا ہے آپ ؓ نے ایک عورت کے بدلہ میں مرد کوقتل کیا(مسلم جلد ۲ کتاب القصاص و نیل الاوطار جلد ۶ صفحہ۲۸۹) اسی طرح غلام کے بدلہ میں آزاد کے مارے جانیکا حکم دیا۔ جیسے سمرۃ ابن جندب کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ فَمَّلَ عَبْدَہُ قَتَلْنَا ہُ وَمَنْ جَدَعَہ‘ جَدَعْنَا ہُ یعنی جوشخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے اس کے بلدہ میں قتل کریں گے اور جوشخص اپنے غلام کے ہاتھ پائوں کاٹیگا۔ ہم اس کے بدلہ میں اس کے ہاتھ پائوں کاٹیں گے۔(ابن ماجہ ابواب الدیات باب ھل یقتل الحر بالعبد)
اس کے بعد فرمایا ہے فَمَنْ عُفِیَ لَہ‘ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ء’‘ فَاتِّبَاع’‘ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآء’‘ وَاَدَآء’‘ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ یعنی اگر کسی مقتول کے وارث کسی مصلحت کے ماتحت قاتل کو اس کے جرم کا کچھ حصہ معاف کر دیں تو ان کو اختیار ہے۔
بعض لوگ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ حکومت کو قاتل کے گرفتر کرنے یا اس کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں بلکہ یہ تمام اختیار مقتول کے ورثاء کو حاصل ہے۔ مگر یہ درست نہیں بلکہ یہ تمام اختیار مقتول کے ورثاء کو حاصل ہے مگر یہ درست نہیں اس جگہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اگر مقتول کے ورثاء احسان کے طور پر قاتل کو معاف کر دیں تو حکومت کو آن کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے اس حق معافی کے سوا رشتہ داروں کا کوئی تعلق قاتل کے ساتھ نہیں ۔ قاتل کو گرفتار کرنا یا اس پر مقدمہ چلانا حکومت ہی کاکام ہے اور اُسی کے ذمہ ہے جیسا کہ کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلیٰ میں حکومت کے ذمہ وار افسران کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ وہ قتل کے واقعات کے چھان بین کریں اور مجرم کو قرار واقعی سزا دلوائیں۔
اسلام نے مقتول کے وارثوں کو عفو کا جو اختیار کیا ہے اس کے متعلق کہاجا سکتا ہے کہ اس میں بعض دفعہ نقصانات کا بھی احتمال ہو سکتا ہے۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو اس کے وارث ہی قتل کروا دیں اور پھر قاتل کو معاف کردیں۔ یہ شبہ ایک معقول شبہ ہے۔ مگر اسلام نے اس قسم کے خدشات کا بھی ازالہ کر دیا ہے اور گو ایک طرف اس نے دو مخالف خاندانوں میں صلح کرانے کے لئے عفو کی اجازت دی ہے مگر دوسری طرف ایسی ناجائز کاروائیوں کی بھی روک تھام کر دی ہے۔ چنانچہ عفو کے ساتھ اس نے اصلاح کی شرط لگا دی جس کے معنے یہ ہیں کہ عفو اسی وقت جائز ہوتا ہے جب اس کے نتیجہ میں اصلاح کی اُمید ہو۔ اگر عفو باعثِ فساد ہے تو ایسا عفو ہر گز جائز نہیں اور حکومت باوجود وارثوں کے عفو کر دینے کے اپنے طور پر سزا دے سکتی ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا ایک واقعہ جو طبری نے لکھا ہے بتاتا ہے کہ ابتدائے اسلام سے اس احتیاط پر عمل ہوتا چلا آیا ہے وہ واقعہ اس طرح ہے کہ عدل بن عثمان بیان کرتے ہیں۔ رَاَیْتُ عَلِیًّا عَمَّ خَارِ جًا مِنْ ھَمْدَانَ فَرَ اَ ی فِئَتَیْنِ تَقْتُلَانِ فَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا ثُمَّ مَعنٰی فَسَمِعَ صَوْتًا یَا غَوْ ثًابِاللّٰہِ فَخَرَجَ یَحُضُّ نَحْوَہ‘ حَتّٰی سَمِعْتُ خَفْقَ فَعْلِہِ وَھُوَ یَقُوْلُ اَتَاکَ الْغَوْثُ فَاِذَا رَجُل’‘ یُلَا زِمُ رَجُلًًا فَقَالَ یَا اَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ بِعْتُ مِنْ ھٰذَا ثَوْ بًا بِتِسْعَۃِ وَرَاھِمَ وَشَرَطْتُ عَلَیْہِ اَنْ لَّا ُٰعْطِیَنِیق مَغْمُوْرًا وَلَا مَقْطُوْ مًا وَکَانَ شَرْ طُھُمْ یَوْ مَئِذٍ فَاَتَیْتُہ‘ بِھٰذِہِ الدَّرَاھِمِ لِیُبَدِّلَھَالِیْ فَاَ بیٰ فَلَزِ مْتُہ‘ فَلَطَمَنِیْ فَقَالَ اَبْدِ لْہُ فَقَالِ بِیّنَتَکَ عَلَی اللَّطْمَۃِ فَاَتَا ہُ بِالْبَیِّنَۃِ فَاَ قْعَدَہ‘ ثُمَّ قَالَ دُوْنَکَ فَاَقِصِّ فَقَالَ اِنِّیْ قَدْ عَفَوْتُ یَا اَمِیْرَا لْمُوْ مِنِیْنَ قَالَ اِنَّمَا اَرَدْتُ اَنْ اَعْتَاطَہُ فِیْ عَقِّکَ ثُمَ ضَرَبَ الرَّجُلَ نِسْعَ دُرَّاتٍ وَقَالَ ھٰذَا حَقُّ السُّلْطَانِ۔ یعنی میں نے دیکھا کہ حضرت علی ؓ ہمدان سے باہر مقیم تھے کہ اسی اثناء میں آپ نے دو گروہوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا۔ اور آپ نے ان میں صلح کر ادی لیکن ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ آپ کو کسی شخص کی آواز آئی۔ کہ کوئی خدا کے لئے مدد کو آئے۔ پس آپ تیزی سے اُس آواز کی طرف دوڑے حتیٰ کہ آپ کے جوتوں کی آواز بھی آرہی تھی اور آپ کہتے چلے جاتے تھے کہ ’’مدد آگئی مد د آگئی۔‘‘ جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی دوسرے سے لپٹا ہوا ہے ۔جب اُس نے آپ کو دیکھا تو عرض کیا کہ اے امیر المومنین: میں نے اس شخص کے پاس ایک کپڑا نو درہم کو بیچا تھا اور شرط یہ تھی کہ کوئی روپیہ مشکوک پا کٹا ہوا نہ ہو۔ اور اس نے اس کو منظور کر لیا تھا۔ لیکن آج جو میں اس کو بعض ناقص روپے دینے کے لئے آیا تو اس نے بدلانے سے انکار کر دیا۔ جب میں پیچھے پڑا تو اس نے مجھے تھپڑ مارا۔ آپ نے مشتری سے کہا کہ اس کو روپے بدل دے پھر دوسرے شخص سے کہا کہ تھپڑ مارنے کا ثبوت پیش کر جب اس نے ثبوت دے دیا تو آپ نے مارنے والے کو بٹھا دیا اور اُسے کہا کہ اس سے بدلہ لے۔ اس نے کہا اے امیر المومنین! میں نے اس کو معاف کر دیا۔ آپ نے فرمایا تو نے تو اس کو معاف کر دیا مگر میں چاہتا ہوں کے تیرے حق میں احتیاط سے کام لوں۔ معلوم ہوتا ہے وہ شخص سادہ تھا اور پنے نفع نقصان کو نہیں سمجھ سکتا تھا اور پھر اس شخص کو ساتھ کوڑے مارے اور فرمایا اس شخص نے تو تجھے معاف کر دیا تھا مگر یہ سزا حکومت کی طرف سے ہے۔
غرض اسلام نے مظلوم کو یا بصورت مقتول اس کے ورثاء کو مجرم کا جرم معاف کردینے کی تو اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی حکومت کو بھی اختیار دیا ہے کہ اگر وہ یہ محسوس کرے کہ مظلوم کم فہم ہے یا ظالم کو معاف کردینے سے اس کی دلیری اور شوخی اور بھی بڑھ جائے گی یا مقتول کے ولی اپنے نفع نقصان کو ی پبلک کے نفع نقصان کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا خود شریک جرم ہیں تو اس صورت میں باوجود ان کے معاف کر دینے کے خود مجرم کو سزا دے اور اس سے بہتر اور کونسی تجویز دنیا میں امن اور صلح کے قیام کی ہو سکتی ہے۔ اگر ایک طرف مجرموں کو معاف کر دینے سے خطرات بڑھ جاتے ہیں تو دوسری طرف ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص جرم تو کر لیتا ہے مگر بعد میں وہ خود بھی سخت پشیمان ہوتا ہے اور اس کے رشتہ داروں کی بھی ایسی نازک حالت ہوتی ہے کہ رحم کا تقاضا ہوتا ہے کہ اُسے چھوڑ دیا جائے۔ اور خود جن لوگوں کے خلاف وہ جرم ہوتا ہے وہ بھی یا اُن کے ولی بھی چاہتے ہیں کہ اُس سے درگذر کریں۔ ایسی صورت میں دونوں کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے موجودہ تمدن نے کوئی علاج نہیں رکھا۔ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس سے تیرہ سو سال پہلے سے ساتویں صدی کے تاریک تمدن میں ایسے اعلیٰ درجہ کے تمدن کی بنیاد رکھی جس کی نظیر بیسویں صدی کا دانا مدبر بھی پیش نہیں کر سکتا۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے عفو سے کام لینا حاکم کا کام نہیں بلکہ مقتول کے اولیاء اور ورثاء کا کام ہے ، ہاں اگر حاکم مجاز دیکھے کہ عفواپنے اندر مضرات کے بعض پہلو رکھتا ہے تو وہ معافی کو کالعدم بھی قرار دے سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت علیؓ کے واقعہ سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ لیکن اگر وہ شخص جسکا حق ہے قصاص لے معاف نہ کرنا چاہے تو حکام کا فرض ہے کہ وہ لازماً قصاص لیں۔ مِنْ اَخِیْہِ کہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض اوقات دشمنی اور عداوت اور بُغض سے قتل نہیں ہوتا ہے اس لئے اَخِیْ کہہ کر قاتل کے لئے رحم کی تحریک کر دی کہ آخر وہ تمہارا بھائی ہے۔ اگر اُس سے نادانستہ طور پر غلطی ہو گئی ہے تو تم جانے دو۔ اور اُسے معاف کر دو۔ اِدھر قاتل کو بھی شرمندہ کیا کہ تجھے شرم نیہں آتی کہ تو نے اپنے بھائی کو قتل کیا ہے۔
شَیْ ء’‘ اس جگہ نکرہ کے طور پر استعمال ہوا ہے اور عربی زبان میں نکرہ تعظیم کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور تحقیر کے لئے بھی ۔ پس فَمَنْ عُفِیَ لَہ‘ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ء’‘ سے مراد کلی معافی بھی ہو سکتی ہے ور جزوی بھی یعنی قتل نہ کرنا دیت لے لینا یا دیت میں بھی کمی کر دینا جائز ہے اور قتل نہ کرنا اور دیت بھی نہ لینا جائز ہے۔ دونوں صورتوں میں سے جو بھی کوئی چاہے اختیار کر سکتا ہے اور اگر بعض ورثاء معاف کر دیں اور بعض نہ کریں تو قاتل کو قتل کی سزا نہیں دی جائیگی جیسے مقتول کے دو بیٹے ہوں ان میں سے ایک معاف کر دے اور دوسرا نہ کرے تو قاتل قتل نہیں ہو گا لیکن اگر حاکم سمجھے کے چونکہ وارث ہی شرارت سے مروانے والے ہیں۔ اس لیے وہ معاف کرتے ہیں تو حاکم معاف نہیں کرے گا۔ بلکہ انہیں سزا دے گا۔ اور وارثوں کی شرارت ثابت ہو جانے کی وجہ سے ان کے وارثت کا حق بھی زائل ہوجائیگا۔
فَاتِّبَاع’‘ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآء’‘ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ میں یہ بتایا کہ دیت لینے والے کو چاہیے کہ مناسب رنگ میں دیت وصول کرے۔ یعنی اگر قاتل یکدم ادا نہیں کر سکتا تو وصول کرنے میں سختی نہ کرے بلکہ اُسے کچھ مہلت دے دے او ر دیت دینے والے کو چاہیے کہ وہ ادا کرنے میں سُستی یا شرارت نہ کرے بلکہ تکلیف اٹھا کر بھی دیت ادا کر دے اور کسی ناواجب تاخیر یا شرارت سے
وَلَکُمْ فِی تَتَّقُوْنَo
کام نہ لے۔
ذٰلِکَ تَّخْفِیْف’‘ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃ’‘۔ فرمایا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے آسانی پیدا کر دی گئی ہے اور اس ذریعہ سے اس نے تمہارے لئے اپنی رحمت کا سامان مہیا کیا ہے تمہیں چاہیے کہ اسے مدنظر رکھو اور خداتعالیٰ کے اس احسان کی قدر کرو۔
فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہ‘ عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘ فرماتا ہے کہ اگر اس کے بعد میں کوئی زیادتی کریگا اور اِعْتَدٰی سے کام لیگا تو اس کے لئے درد ناک عذاب مقدر ہے۔ یعنی اگر مقتول کے ورثاء دیت بھی لے لیں اور موقعہ پا کر دوسرے کو بھی قتل کر دیں تو وہ کسی رحم کے مستحق نہیں ہونگے بلکہ انہیں لازماً سزا دی جائے گی۔ یعنی حکومت دوسرے فریق کو انہیں معاف کرنے کی اجازت بھی نہیں دیگی تاکہ اس قسم کی وحشیانہ حرکات قومی اور اخلاق کو نہ بگاڑیں اور لوگوں کے اندر قانون کا احترام قائم ہو۔
۹۳؎ حل لغات:۔ اَلْاَلْبَابَ جمع ہے۔ اس کا مفرد لُبّ’‘ کے معنے مغز کے ہیں۔ لیکن مراد عقل ہے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ اے عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ اسے کبھی نہ چھوڑنا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرنے والا تو مر گیا اب اگر اس کے قاتل کو قتل کر دیا جائیگا۔ تو مقتول تو زندہ نہیں ہو سکتا پھر قصاص میں حیات کس طرح ہوئی؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر قاتل کو قتل نہ کیا جائے تو بالکل ممکن ہے کہ کل وہ کسی دوسرے کو قتل کر دے اور پرسوں کسی اور کو مار ڈالے اس لئے فرمایا کہ قصاص میں زندگی ہے۔ یعنی اگر قاتل سے قصاص نہ لیا جائیگا تو وہ تم میں سے کسی اور کی زندگی کا خاتمہ کر دے گا۔ لیکن اگر قاتل کو موت کی سزا دی جائے تو آئندہ قتل کے جرم کم ہو جائیںگے اور اس طرح کئی لوگوں کی جانیں بچ جائیںگی۔
پھر اس رنگ میں بھی قصاص حیات کا موجب ہے کہ جب قاتل کو سزا مل جاتی ہے تو رشتہ داروں کے دلوں میں سے بُغض اور کینہ نکل جاتا ہے اور مقتول کی عزت قائم ہو جاتی ہے اگر قاتل کو سزا نہ ملے تو رشتہ داروں کے دل میں بغض اور کینہ رہتا ہے یونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے آدمی کو قتل کر کے اس کی ذلت کی گئی ہے۔ پس قصاص مقتول کی عزت قائم کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے لیکن اس کے علاوہ میرے نزدیک اس آیت میں موجودہ زمانہ کے متعلق ایک پیشگوئی بھی پائی جاتی ہے ۔ عرب تو قصاص کے بڑی سختی سے پابند تھے ۔ یہاں تک کہ اگر باپ مارا جائے تو وہ پوتے سے بھی اس کابدلہ لے لیتے تھے۔ پس یہ ہدایت صرف ان کو نہیں ہو سکتی۔ بلکہ درحقیقت یہ آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے ۔ کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ قصاص کو اڑانے کی تلقین کی جائیگی ۔اُس وقت تم مضبوطی سے اس تعلیم پر قائم رہنا جیسے آج کل بعض یوروپین ممالک میں اس قسم کی تحریکات وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں کہ موت کی سزا منسوخ ہونی چاہیے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اے عقلمندوں ان تحریکات کو کبھی قبول نہ کرنا ورنہ اس کے بہت سے مفاصد ظاہر ہونگے۔ اور تمہاری جانوں کی کوئی قیمت باقی نہیں رہے گی۔
آخر میںلَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ ہم نے یہ حکم اسی لئے دیا ہے کہ تم قتل سے بچو۔ اور اس زندگی کو پائو جو قصاص کے نتیجہ میں حاصل وہتی ہے اگر تم قصاص کو چھوڑ دو گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا تمدن درہم برہم ہو جائیگا۔ پس تم اس بات
کُتِبَ عَلَیْکُمْ
عَلَی الْمُتَّقِیْنَo
سے بچو کہ تمہارا تمدن ٹوٹ جائے اور تمہار ا نظام درہم برہم ہو جائے او ر تمہاری جانوں اور مالوں کی کوئی قیمت باقی نہ رہے۔
پھر اس کے علاوہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے ایک اور معنے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ان الفاظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ زندگی کی تمہیں اس لئے ضرورت ہے کہ تم اور تقویٰ حاصل کر لو۔ گویا بتایا کہ بے فائدہ جان گنوانا اس لئے قابلِ احتراز ہے کہ یہ دنیا درالعمل ہے اس میں رہنے سے آخرت کا توشہ انسان جمع کر لیتا ہے پس اس کی حفاظت بھی ضروری ہے تاکہ تم تقویٰ حاصل کر سکو۔ غرض ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے وجہ بتا دی کہ مومن باوجود آخرت پر ایمان رکھنے کے زندگی کی کیوں قدر کرتا ہے۔
۹۴؎ حل لغات:۔ خَیْر’‘ا:مفردات میں لکھا ہے۔ وَقَوْلہ تَعَالیٰ اِنْ تَرَکَ خَیْرًا اَیْ مَالًا وَقَالَ بَعْضپ الْعُلَمَائِ لَایُقَالُ لَلْمَالِ خَیْر’‘ حَتّٰی یَکُوْنَ کَثِیْرًا وَمِنْ مَکَانٍ طَیِّبٍ۔یعنی اس آیات میں خَیْر’‘ سے مراد مال ہے اور بعض علماء کے نزدیک مال کو خَیْر’‘ اس وقت کہیں گے جب وہ زیادہ ہو اور نیک ذرائع سے کمایا ہو اہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ اس آیتمیں اللہ تعالیٰ نے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے متعلق مرنے والے کو جو وصیت کرنے کا حکنم دیا ہے اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی وصیت ہے جس کی تعلیم دی گئی ہے ۔ جبکہ شریعت نے خود احکام وراثت کو سورۃ نصاء میں تفصیلاً بیان کر دیا ہے اور ان کے نزول کے بعد رشتہ داروں کے نام وصیت کرنا بے معنی بن جاتا ہے ۔ سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ وصیت کے احکام چونکہ دوسری آیات میں نازل ہو چکے ہیں۔ اس لئے یہ آیت منسوخ ہے اب اِس پر کسی عمل کی ضرورت نہیں ۔ مگر ہمارے نزدیک قرآن کریم محض قلت تدبر کی بطنا پر ظہور میں آیا ہے ۔ جب مسلمانوں کو کسی آیت کا مفہوم پوری طرح سمجھ میں نہ آیا تو انہوں نے کہدیا کہ وہ منسوخ ہے ۔ اور اس طرح کئی کئی سوا ٓیات تک انہوں نے منسوخ قرار دے دیں ۔ اگر وہ سمجھتے کہ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف قابل عمل ہے تو وہ ہر آیت پر غور کرتے ۔ اور اگر اسے حل کرنے سے قاصر رہتے تو خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے اوراس سے دعائیں کرتے کہ وہ اُن کی مدد کرے اور اپنے کلام کی حقیقت سمجھنے کی انہیں توفیق عطا فرمائے ۔ اور اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا اللہ تعالیٰ اُن کی رہنمائی کے سامان پیدا فرما دیتا اور انہیں مشکل آیات کا حل نظر آجاتا ۔ مگر انہوں نے بدقسمتی سے یہ آسان راستہ اختیار کر لیا کہ جس آیت کا مطلب سمجھ نہ آیا اُسے منسوخ قرار دے دیا۔ یہی طریق انہوںنے یہاںبھی اختیار کر لیا ہے مگر اس اایت کے جو معنے ہم کرتے ہیں۔ اگر اس کے مدنظر رکھا جائے تو یہ حکم بڑا ہی پر حکمت نظر آتا ہے اور اسے منسوخ قرار دینے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ درحقیقت یہاں وصیت کا لفظ صرف عام تاکید کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے والدین اور اقربین کے متعلق تو وصیت کرنیکا حکم دیا ہے مگر اولاد کو ترک کر دیا ہے ۔ حالانکہ قلبی تعلق کے لحاظ سے اولاد کا ذکر بھی ضرور ہونا چاہیے تھا ۔ یہ بات بتائی ہے کہ یہاں ماں کی تقسیم کا مسئلہ بیان نہیں کیا جا رہا بلکہ ایک عام تاکید کی جا رہی ہے اور اولاد کی بجائے والدین اور اقربین کا ذکر ا س لئے کیا گای ہے کہ اس آیت کا سیاق وسباق بتا رہا ہے کہ یہ حکم جنگ اور اس کے مشابہ دوسرے حالات کے متعلق ہے ۔ چنانچہ اس سے چند آیات پہلے الصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْ سَآ ئِ وَالضَّرَّآئِ وَا حِیْنَ الْبَاْسِ میں لڑائی کا ذکر آچکا ہے ۔ اسی طرح آگے چل کر وَقَا تِلُوْ افِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذْیَن یُقَاتِلُوْنَکُمْ میں پھر جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور چانکہ جنگ میں بالعموم نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ جن کے ہاں یا تو اوالاد ہوتی ہی نہیں یا چھوٹی عمر کی ہوتی ہے ۔اسلئے والدین اور اقربین کے حق میں وصیت کرنیکا حکم دیا۔ اور اولاد کا ذکر چھوڑدیا ۔اور یہ ہدایت فرمائی کہ جب کسی شخص کی موت کا وقت قریب آجائے یا وہ کسی ایسے خطرناک مقام کی طرف جانے لگے ۔ جہاں جانے کا نتیجہ ع۳ام حالات میں موت ہوا کرتا ہے ۔ اور پھر اُس کے پاس مال کثیر بھی ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ وصیت کر دے کہ اُس کی جائیداد احکام الٰہیہ کے مطابق تقسیم کی جائے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو۔ اور یہ تاکید بجائے اس کے کہ کسی اور کو کی جائے اپنے رشتہ داروں کو کرے ۔ اور اگر مال کا کوئی حصہ صدقہ کرنا ہو تو اس کا بھی اظہار کر دے ۔میں سمجھتا ہوں اگر مسلمان اِس تعلیم پر عمل کرتے تو وہ رواج جو شرعی تقسیم وراثت کے خلاف اُن میں جاری رہا کبھی جاری نہ ہوتا ۔ جس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو وہاں تو کسی روض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن ایسے ممالک جہاں رواج کا سوال پیدا ہو وہاں اس امر کی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ مرنے والا اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں یہ وصیت کر جائے کہ اُن میں معروف کے مطابقت جائیداد تقسیم کی جائے ورنہ اُس کا مال رواجی مستحقوں کو مل جائیگا اوراصل مستحقین محروم رہ جائیں گے ۔ رہایہ سوال کہ معروف کیا ہے ؟سوایک تو احکام وراثت معروف ہیں اُن پر عمل کرنے کی تاکید ہونی چاہیے ۔دوسرے بعض حقوق ایسے ہیںجو احکام وراثت سے باہر ہیں ۔اور جن کو قاعدہ میں تو بیان نہیں کیا گیا مگر مذہبی اور اخلاقی طور پر انہیں پسند کیا گیا ہے اوراُن کے لیئے شریعت نے ۳/۱تک وصیت کردینے کا دروازہ کھلا رکھا ہے ۔ مثلاً اگر وہ چاہے تو کچھ روپیہ غربا ء کی بہبودی کیلئے وقف کر دے اور اس کی اپنے رشتہ داروں کو تاکید کر جائے ۔
اَلْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَاْلاَ قْرَبِیْنَ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کے ورثا ء کا فرہوں تو اُن کیلئے حسن سلوک کی وصیت کر جائے ۔کیونکہ ایسی صورت میں وصیت کے بغر کافروالدین یا دوسرے قریبی رشتہ داروں کو کچھ نہیں مل سکتا ۔ اگر وہ دیکھے کہ انہیں کچھ مال دے دینے سے فائدہ ہوگا تواُن کے متعلق تاکید کر دے کہ فلاں فلاں شخص کو مریے مال میں سے اس قدر حصہ ضڑور دیدیا جایئے اور اگر دیکھے کہ وہ اس روپیہ کو اسلام کے خلاف خرچ کر ینگے تو نہ دے ۔ کافر والدین یا اقربین کیلئے ورثہ نہیں رکھا گیا۔ ہاں وصیت کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ تاکہ اگر وہ اسلام کے خلاف اپنے مال کو استعمال کرنے والے ہوں تو انہیں مال نہ پہنچ سکے اور اگر جائز طور پر مدد کے مستحق ہوں تو اُن کی مدد کی جا سکے ۔
اِس آیت کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ مرنے والا اپنے پوتوں اور اپنے بھائیوں کے بیٹوں کیلئے بھی کچھ وصیت کر جائے اور تاکہ اُن کی مدد ہو جائے ۔ اور شریعت کے کسی حکم کی بھی خلاف ورزی نہ ہو ۔کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے اگر دادا کی زندگی میں اس کا بیٹا فوت ہو جائے تو پوتوں اور پوتیوں کو وراثت سے حصہ نہیں ملتا۔پس ایسی صورت میں اگر وہ اپنی جائیداد کے ۳/۱ حصہ میں سے اپنے پوتوں اور پوتیوں یا بھائیوں کے بیٹوں کو کچھ روپیہ دینا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے ۔
فَمَنْ بَدَّ لَہ‘
سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘o
(۴) جن ممالک میں اہپنے اپنے قانون رائج ہیں وہاں دو صورتیں ہیں ۔بعض تو ایسی جگہیں ہیں جہاں مرنے کے وقت کی وصیت کو ہی معتبر سمجھا جاتا ہے ۔ جیسے روس کا ملک ہے اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں مرنے والے کی وصیت پر عمل نہیں ہوتا بلکہ حکومت نے جو قانون مقرر کیا ہوا ہو اس کے مطابق ورثہ تقسیم ہوتا ہے ۔ اگر ایسے ممالک ہوں جہاں مرنے والے کی وصیت تسلیم کی جاتی ہے تو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جن ورثاء کو رواج کے مطابق ورثہ نہیں مل سکتا انہیں وصیت کی وجہ سے شریعت کے مطابق حصہ مل جائیگا اور اسلامی تعلیم اُن ممالک میں بھی زندہ ہو جائیگی جن میں اسلامی حکومت نہیں مگر وہ مرنے والے کی وصیت پر عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اور جہاں اسلامی قانون کے مطابق ورثہ تقسیم نہ ہو سکتا ہو وہاں خواہ جائز ورثاء کو ورثہ نہ مل سکے پھر بھی اس کے نتیجہ میں مسلمان اس گناہ سے بچ جائیں گے جو اس حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ وابستہ ہے اور صرف وصیت تبدیل کرنے والے گنہگار قرار پائیں گے ۔مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وصیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی وارث کو جس کا شریعت نے حصہ مقرر کر دیا ہے اس کے حق سے زیادہ دے دے ۔ رسول کریم صلے الہ علیہ وسلم نے اس سے بری سختی سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے ۔اِنَّ اللّٰہَ اَعْطیٰ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ فَلَا وَصِیَّۃَ لِلْوَارِثِ (ترمذی)اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کا حق مقرر کر دیا ہے ۔اس لئے کسی وراث کیلئے جس کا اللہ تعالیٰ نے حصہ مقرر کر دیا ہے ۔ وصیت نہیں ہو سکتی ۔پس یہ آیت نہ منسوخ ہے ۔ نہ بلا ضرورت ۔بہت دفعہ مرنے کے بعد ورثا ء میں تقسیم مال پر جھگڑا ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ غیر رشتہ دار بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اتنا روپیہ دینے کا اس نے وعدہ کیا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی کہ مرنیوالے کو وصیت کر دینی چاہیے تاکہ کوئی جھگڑا نہ ہوااور یہ سوال نہ اُٹھے کہ مرنے والے نے علاوہ رشتہ داروں کے اور وں کے حق میں بھی وصیت کی ہے ۔ اور یہ وصیت رشتہ داروں کے سامنے ہونی چاہیے ۔
اس آیت میں مال کیلئے خیر کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نیک ذرائع سے کمایا ہوا مال ہی درحیقت مال ہے ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم ہمیشہ جائز طورپر کماو۔ اور حلال مال جمع کرنے کی کوشش کرو۔اگر ناجائز ذرائع اختیار کرو گے تو پھر وہ مال خیر نہیں رہیگا بلکہ شر بن جائیگا۔
اسی طرح اِنْ تَرَکَ خَیْراً میں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ انسان اپنا تمام مال آخرپچھلوں کیلئے ہی چھوڑ جاتا ہے اور خود خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ جاتا ہے ۔ اور جب حالت یہ ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ وہ کیوں نا جائز مال کمائے جسے دوسرے کھائیں اور وہ خود دوزخ میں جائے ۔غرض اللہ تعالیٰ نے اِنْ تَرَکَ خَیْراً کے الفاظ استعمال فرما کر نصیحت کی ہے کہ ناجائز ذرائع سے کما کر اپنے پچھلوں کیلئے مال نہ چھوڑو بلکہ جائز ذرائع سے کماؤ۔ورنہ ناجائز ذرائع سے کمایا ہوا مال تو تمہارا ہے ہی نہیں ۔ تم نے اُس کی وصیت کیا کرنی ہے ۔
۹۵؎تفسیر :۔فرمایا۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے اور بعد میں کئوی دوسرا شخص اس میں تغیر وتبدل کر دے تو اس صورت میں
فَمَنْ خَافَ مِنْ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
تمام تر گناہ اس شخص کی گردن پر ہے جس نے وصیت میں ترمیم و تنسیخ کی۔ یہ تغیر دو صورتوں میں ہو سکتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ لکھا نے والا تو کچھ اور لکھا ئے ۔ مگر لکھنے والا شرارت سے کچھ اور لکھدے ۔ یعنی لکھوانے والے کی موجودگی میں ہی اُس کے سامنے تغیر وتبدل کر دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد اس میں تغیر و تبدل کر کے ۔یعنی وصیت میں جو کچھ کہا گیا ہو اس کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ اُس کے خلاف چلے ۔ اِن دونوں صورتوں میں اس گناہ کا وبال صرف اُسی پر ہو گا جو اسے بدل دے ۔ (اِثْمُہٗ میں سبب مسبب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے ۔ل اور مراد گناہ نہیں بلکہ گناہ کا وبال ہے )یہ االفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں کسی قرآنی حکم کی طرف اشارہ ہے اور وہ حکم وراثت کا ہی ہے ۔ ورنہ اس کا کیا مطلب کہ بدلنے کا گناہ بدلنے والوں پر ہو گا ۔ وصیت کرنیوالے پر نہیں ہوگا ۔کیونکہ اگر اس وصیت کی تفصیلات شرعی نہیں تو بدلنے والے کو گناہ کیوں ہو ۔ اس کے گناہ ہگار ہونیکاسوال تبھی ہو سکتا ہے جبکہ کسی شرعی حکم کا خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ اور وہ اسی طرح ہو سکتی ہے کہ مرنے والا تو یہ وصیت کر جائے۔ لیکن وارث کی وصیت پر عمل نہ کریں۔ ایسی صورت میں وصیت کرنے والا تو گناہ سے بچ جائے گا لیکن وصیت تبدیل کرنے والے وارث گناہگار قرار پائیں گے۔
۹۶؎ حل لغات:۔ جَنَفًا: جَنَفَ کا مصدر ہے اور جَنَفَ فِی الْوَصِیَّۃِ کے معنے ہیں مَالَ وَجَارَ یعنی اُس نے وصیت کرتے ہوئے نا انصافی کی اور عدل کے راستہ سے ہٹ گیا۔(اقرب)
تفسیر:۔ اب بتایا کہ اگر کسی شخص کو یہ معلوم ہو کہ موصی کی وصیت میں کوئی نقص ہے اور خوف ہو کہ اس سے فتنہ پیدا ہو گا تو وہ ورثاء کو جمع کر کے اگر ان کے درمیان صلح کر ادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ جب اس نے شریعت کے مطابق اپنی جائیداد تقسیم کرنے کی ہدایت کی ہے تو ورثاء کو نقصان پہنچنے کا احتمال کس طرح ہو سکتا ہے کیونکہ شریعت پر عمل کرنے کے باوجود وصیت کرنے کی صورت میں بعض نقصانات کا بھی احتمال ہو سکتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص 1/3حصہ کی وصیت کردے اور باقی وارث اتنے ہوں کہ بقیہ مال میں سے ان کو بہت کم حصہ ملتا ہو تو ایسی صورت میں اگروصیت کرنے والے اور ان رشتہ داروں کے درمیان جن کو نقصان پہنچنے یا جن کے نظر انداز کئے جانے کا امکان ہو صلح کر ادی جائے یا وہ شخص جن کے حق میں وصیت ہے ان کو باہمی سمجھوتے سے اس بات پر راضی کر لیا جائے کہ باوجود وصیت کے وہ ایک دوسرے کو اس کا حق ادا کردینگے تو یہ کوئی گناہ کی بات نہیں۔ اسے چاہیے کہ وصیت کرنے والے اور اس کے محبوب یا مبغوض ورثاء میں صلح کرادے تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرتے وقت اگر وصیت کرنے والا کسی فریق کو نقصان پہنچا رہا ہو اور جسے وصیت لکھوائی جا رہی ہو وہ سمجھتا ہو کہ بعض ورثاء سے اُس کی اَنْ بَنْ ہے۔ اور اس ناراضگی کی وجہ سے یہ ایسی وصیت کر رہا ہے تو اُسے سمجھا دے۔ اور
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ
تَتَّقْوْنَo
مرنے والے اور اس کے وارثوں میں صلح کرادے تو یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ اس قسم کی اصلاح اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں بلکہ صرف ایک منفی نیکی ہے جس میں انسان کے گنہگار ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ الفاظ اس فعل کو صرف ایک منفی نیکی قرار دینے کے لئے استعمال نہیں کئے گئے بلکہ اس لئے استعمال کئے گئے ہیں کہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بری وضاحت سے فرمایا تھا کہ فَمَنْ بَدَّ لَہ‘ بَعْدَ مَا سَمِعَہ‘ فَاِنَّمَا اِثْمَہ‘ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّ لُوْنَہ‘ یعنی جو شخص وصیت کو اس کے سننے کے بعد بدل دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گناہگار ہو گا۔ پس چونکہ اس سے پہلے وصیت میں تبدیلی کرنا اللہ تعالیٰ نے گناہ کا موجب قرار دیا تھا۔ اس لئے لازماً یہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ بعض محتاط طبیعتیں کہیں اس طرف مائل نہ ہو جائیں کہ وصیت میں غلطی واقع ہونے کے باوجود پھر بھی اسکو تبدیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ یہ تبدیلی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ ہو۔ پس اس قسم کے خدشات کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے زیر تفسیر آیت میں بتا دیا کہ اگ رواقعہ میں کوئی غلطی واقع ہو گئی ہو تو اس کو دور کردینا کوئی گناہ کی بات نہیں۔ بلکہ ایک ایسی نیکی ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کا مستحق بنا دیگی۔ چنانچہ آخر میں اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو وصیت کرنے والے کو تسلی دی کہ اگر وہ اپنی غلطی کی اصلاح کر لے تو اللہ تعالیٰ اُسے معاف کر دے گا اوردوسرے طرف رَحِیْم’‘ فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص مداخلت کر کے وصیت کے نقائص کو دُور کرنے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کریگا اور اُسے اپنے فضلوں کا مورد بنائیگا۔ پس غَفُوْر’‘ کالفظ ان وصیت کرنے والوں کو بشارت دیتا ہے جو اپنی غلطی کی اصلاح کرلیں۔ اور رَحِیْم’‘ کا لفظ ان لوگوں کے موردِ انعام ہونے پر دلالت کرتا ہے جو وصیت کی کسی غلطی کو درست کرنے کی کوشش کریں۔
۹۷؎ حل لغات:۔ تَتَّقُوْنَ:اِتَّقٰی سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے۔ اور تَقْوٰی کے معنے ہیں جَعْلَ النَّفْسِ فِیْ وَ قَایَۃٍ مِمَّا یُخَافُ۔۔۔ وَفِیْ تَعَارْفِ الشَّرْئِ حِفْظُ النَّفْسِ عَمَّا یُوْثِمْ(مفردات) یعنی اپنے نفس کو ایسی تمام چیزوں سے ایک ڈھال کے پیچھے محفوظ کر لیا جن سے خوف محسوس کیا جاتا ہے۔ اور شرعی نقطہ نگاہ سے تقْوٰی سے مراد گناہوں سے بچنا ہے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرۃ۳؎۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ اے مومنو!تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزے رکھنے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح پہلی امتوں پر روزے رکھنے فرض کئے گئے تھے۔
دنیا میں بعض تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جو منفرد ہوتی ہیں۔ اکیلے انسان پر آتی ہیں اور وہ ان سے گھبراتا ہے۔ شکوہ کرتا ہے کہ میں ان تکالیف کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ لیکن بعض تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جن میں سارے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ ان تکالیف پر جب کوئی انسان گھبراتا یا شکوہ کا اظہار کرتا ہے تو لوگ اُسے یہ کہہ کر تسلی دیا کرتے ہیں کہ میاں یہ دن سب پر آتے ہیں اور کوئی شخص یہ امید نہیں کر سکتا کہ وہ ان تکلیفوں سے بچ جائے ۔ مثلاً موت ہے موت ہر انسان پر آتی ہے۔ دنیا میں کوئی احمق سے احمق انسان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو کہے کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ مجھ پر موت نہ آئے۔ موت اس پر ضرور آئے گی چاہیے جلدی آجائے یا دیر میں۔ پس کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ کہہ کر خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ روزے ایسی نیکی ۔ ثواب اور قربانی ہیں جن میں سارے ہی ادیان شریک ہیں۔ اور انہوں نے خداتعالیٰ کے اس حکم کو پورا کیا ہے ۔ پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ جس کے حصول کے لئے ساری قومیں کوشش کرتی رہی ہیں تم اس سے بچنے کی کوشش کرو۔ اگر یہ کوئی نیا حکم ہوتا اگر روزے صرف تم پرہی فرض ہوتے تو تم دوسرے لوگوں سے کہہ سکتے تھے کہ تم اسے کیا جانو۔ تم نے تو اس کا مزہ ہی نہیںچکھا۔ لیکن وہ لوگ جو اس دروازہ میں سے گذر چکے ہیں۔ اور جو اس بوجھ کو اٹھا چکے ہیں انہیں تم کیا جواب دو گے۔ لازماً مسلمانوں پر حجت اُنہی احکام میں ہوسکتی ہے جو پہلی قوموں کو بھی دیئے گئے اور انہوں نے ان احکام کو پورا کیا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مسلمانو! تم ہوشیار ہو جائے ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی تمہیں بتا دیتے ہین کہ روزے پہلی قوموں پر بھی فرض کئے گئے تھے۔ اور انہوں نے اس حکم کو اپنی طاقت کے مطابق پورا کیا تھا اگر تم پر اعتراض کریں گی اور کہیں گی کہ ہمیں بھی خداتعالیٰ نے روزوں کا حکم دیا تھا اور ہم نے اُسے پورا کیا اب تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں تو تم اس حکم کو صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے۔ غرض مسلمانوں کی غیرت اور ہمت بڑھانے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ روزے صرف تم پر ہی فرض نہیں کئے گئے بلکہ پہلی قوموں پر بھی فرض کئے گئے تھے۔ اور ان قوموں نے اپنی طاقت کے مطابق اس حکم کو پورا کیا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روزوں کی شکل میں اختلاف تھا اور وہ اختلاف آج تک نظر آتا ہے۔ کہیں اس قسم کے روزے ہوا کرتے تھے جنہیں وصال کہتے ہیں کہ درمیان میں سحری نہ کھانا۔اس قسم کے روزوں میں صرف شام کے وقت روزہ کشائی کی جاتی اور دوسری سحری نہ کھا کر متواتر آٹھ پہر روزہ رکھا جاتا۔
کہیں ایسے روزے ہوتے کہ روزہ کشائی بھی نہ ہوتی اور تین تین چارچار پانچ پانچ دن متواتر روزہ رکھا جاتا۔ ایسے روزے بھی پائے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو ہلکی غذا کھانے کی اجازت دی گئی ہے مگر ٹھوس غذائوں سے منع کیا گیا ہے جیسے ہندئووں یا عیسائیوں میں روزے ہوتے ہیں۔ ہندئووں کے روزوں کے متعلق تو عام طور پر مشہور ہے کہ ان کا روزہ یہ ہوتا ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز نہیں کھانی۔ اس کے علاوہ اگر وہ کئی سیر آم ، کیلے، اورنارنگیاں وغیرہ کھا جائیں تو ان کے روزہ میں فرق نہیں آتا۔ روٹی اور سالن کو چھوڑ کر باقی جو چیزچاہیں کھا لیں۔
پھر اس سے بھی آسان روزے رومن کیتھولک عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں۔ آخر انہوں نے بھی کسی مذہبی روائت کی بنا پر ہی یہ روزے رکھنے شروع کئے ہونگے یا کسی حواری سے کوئی بات پہنچی ہو گئی اُن کا روزہ یہ ہوتا ہے کہ گوشت نہیں کھانا۔ اگر وہ آلو اُبال کر یا کدو کا بھرتنہ بنا کر اس کے ساتھ روٹی کھالیں تو ان کا روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ اگر گوشت کی بوٹی ان کے معدہ میں چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے پس روزوں کے متعلق بھی مختلف اقوم میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ اور اپنے اپنے زمانہ میں ان احکام میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں بھی پوشیدہ ہونگی۔ مثلاً جو قومیں کثرت سے گوشت کھانے والی ہوں وہ ان اخلاق سے رفتہ رفتہ محروم ہو جاتی ہین جو سبزی کے استعمال کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اخلاقی اصلاح کے لئے اور انہیں یہ بتانے کے لئے کہ سبزی بھی غذا میں ضروری ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے دیا ہو کہ ہفتہ میں کم از کم ایک دن تم پر ایسا آنا چاہیے جب تم گوشت نہ کھائو۔ تو یہ نہایت پُر حکمت روزہ ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلام نے ہماری غذا کے متعلق یہ ایک عام حکم دے دیا ہے کہ گوشت بھی کھائو اور سبزیاں بھی کھائو۔ آگ پر پکی ہوئی چیزیں بھی استعمال کرو۔ اور جنہیں آگ نے نہ چُھوا ہو وہ بھی استعمال کر لو۔ غرض ہماری غذا میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی احتیاطیں جمع کر دی ہیں۔ لیکن پہلی قوموں کے لئے ممکن ہے اس قسم کی احتیاطیں ناقابلِ برداشت پابندیاں ہوں۔ اور ان کے اخلاق کی اصلاح کے لئے اس قسم کے روزے تجویز کئے گئے ہوں۔ مثلاً وہ قومیں جو جنگی ہوتی ہیں اور جن کا شکار پر گذارہ ہوتاہ ے وہ ایک عرصہ تک گوشت کھانے کی وجہ سے ایسے اخلاق سے عاری جاتی ہیں جو سبزی کھانے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیدیا گیا ہو کہ وہ ہفتہ میں ایک دن گوشت کھانا چھوڑ دیں تو یقینا یہ روزہ ان کے لئے بہت مفید تھا۔ پس پہلی قوموں میں روزے تو تھے مگر شکل وہ نہ تھی جو اسلام میں ہے پس کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ میں جو مشابہت پہلے لوگوں کے ساتھ بیان کی گئی ہے وہ کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف فرضیت کے لحاظ سے ہے یعنی کَمَا کُتِبَ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ ایسے ہی روزے رکھتے تھے جیسے مسلمان رکھتے ہیں۔ یا اُتنے ہی روزے رکھتے تھے جتنے مسلمان رکھتے تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان پر بھی روزے فرض تھے اور تم پر بھی فرض کئے گئے ہیں گویا صرف فرضیت میں مشابہت ہے نہ کہ تفصیلات میں۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں ـ’’روزہ‘‘ کے ماتحت لکھا ہے کہ:۔
IT WOULD BE DIFFICULT TO NAME ANY RELIGIOUS SYSTEM OF ANY DESCRIPTION IN WHICH IT IS WHOLLY UNRECOGNISED.
ٰیعنی دنیا کا کوئی باقاعدہ مذہب ایسا نہیں جس میں روزہ کا حکم نہ ملتا ہو۔ بلکہ ہر مذہب میں روزوں کا حکم موجود ہے۔ چنانچہ اس بارہ میں سب سے پہلے ہم یہودی مذہب کو دیکھتے ہیں۔ تورات میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پر گئے تو انہوں نے چالیس۴۰ دن رات کا روزہ رکھا اور ان ایام میں انہوں نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’سو وہ (یعنی موسیٰ) چالیس۴۰ دن اور چالیس رات وہیں خدا وند کے پاس رہا اور نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا۔‘‘ (خروج باب۳۴ آیت۲۸)
اسی طرح احبار باب۱۶ آیت۲۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ساتویں مہینہ کی دسویں تاریخ کو ایک روزہ رکھنا یہود کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل ہمیشہ یہ روزے رکھتے رہے اور انبیاء بنی اسرائیل بھی اس کی تاکید کرتے رہے۔ زبور میں حضرت دائود فرماتے ہیں:۔
’’میں نے تو ان کی بیماری میں جب وہ بیمار تھے ٹاٹ اوڑھا اور روزے رکھ رکھ کر اپنی جان کو دُکھ دیا۔‘‘
(زبور باب ۳۵ آیت۱۳)
یسعیاہ بنی فرماتے ہیں:۔
’’ دیکھو تم اس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت کے مکے مارو پس اب تم اس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز غالمِ بالا پر سُنی جائے۔‘‘
(یسعیاہ باب۵۸ آیت۴)
دانی ایل فرماتے ہیں:۔
’’ میں نے خداوند خدا کی طرف رخ کیا اور میں منت اور مناجات کر کے اور روزہ رکھ کر اور ٹاٹ اوڑھ کر ور راکھ پر بیٹھ کر اُس کا ظالب ہوا۔‘‘
(دانی ایل باب۹ آیت۳)
یو ایل نبی فرماتے ہیں:۔
’’خداوند کا روزِ عظیم نہایت خوفناک ہے۔ کون اس کی برداشت کر سکتا ہے۔ لیکن خداوند فرماتا ہے اب بھی پورے دل سے اور روزہ رکھ کر اور گریہ وزاری و ماتم کرتے ہوئے میری طرف رجوع لائے اور اپنے کپڑوں کو نہیں بلکہ دلوں کو چاک کر کے خداوند اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو۔ کیونکہ وہ رحیم و مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے۔‘‘
(یو ایل باب ۲ آیت۱۱ تا۱۳)
یہودیت کے بعد عیسائیت کو دیکھا جائے تو اس میں بھی روزوں کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیحؑ کے متعلق انجیل بتاتی ہے کہ انہوں نے چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ رکھا متی میں لکھا ہے:۔
’’ اور چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر کو اُسے بھوک لگی‘‘ (متی باب ۴ آیت ۲)
اسی طرح حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کو ہدایت دی کہ:۔
’’جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اُداس نہ بنائو کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزدار جانے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دیگا۔‘‘ (متی باب۶ آیت۱۶ تا۱۸)
اِسی طرح ایک دفعہ جب حواری ایک بد روح کو نہ نکال سکے تو
’’ اُس کے شاگردوں نے تنہائی میں اس سے پوچھا کہ ہم اسے کیوں نہ نکال سکے تو اس نے ان سے کہا کہ یہ قسم دعا اور روزہ کے سوا کسی اور طرح نہیں نکل سکتی۔‘‘۱؎ (مرقس باب۹ آیت۲۸۔۲۹)
بد رُوح نکالنا حواریوں کی ایک اصلاح تھی ۔ وہ بیماریوں اور مختلف قسم کی خرابیوں کو دیو کہا کرتے تھے اور حضرت مسیح ؑ ناصری کے پاس آکر دروخواست کیا کرتے تھے کہ یہ دیو نکال دیں۔ ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ بیماریوں یا خاص قسم کی دماغی
۱؎ یہ آیت موجودہ اناجیل سے نکال دی گئی ہے۔
خرابیاں دور کر دی جائیں۔ اس قسم کے بعض بیمار تھے جن کا حضرت مسیح ؑ ناصری نے علاج کیا اور وہ اچھے ہو گئے۔ اور جب ایک موقعہ پر حواری یاک بد رُوح کو نہ نکال سکے تو آپ نے فرمایا۔ کہ یہ دیو روزوں اور دعائوں کے بغیر نہیں نکلتے۔ یعنی کمالاتِ رُوحانیہ کا حصول روزوں اور دُعائوں کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کجہ وہی مسیحؑ ناصری جنہوں نے یہ کہا تھ اکہ بڑی بڑی بیماریاں روزوں اور دعائوں کے بغیر نہیں نکل سکتیں۔ انہی کی امت آج روزوں سے اتنی بے خبر ہے اور وہ اتنا کھاتے ہیں کہ شاید ایشیائی ہفتہ بھر میں اتنا نہیں کھاتے جتنا وہ ایک دن میں کھا جاتے ہیں۔ پس انہوں نے روزہ کیا رکھنا ہے وہ تو روزوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ سال بھر میں صرف تین دن ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن ہندئووں کی طرح جیسے وہ روزہ میں صرف چولھے کی پکی ہوئی چیزیں نہیں کھاتے۔ مثلاً وہ پھلکا نہیں کھاتے۔ لیکن دودھ دو دو سیر پی جائیں گے۔ عیسائی سبھی صرف چند چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں باقی سب کچھ کھاتے رہتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ روزے ہو گئے۔ حالانکہ حضرت مسیح ؑ یہودیوں میں سے تھے اور یہودیوں میں روزہ بڑا مکمل ہوتا ہے اور پھر حضرت مسیح ؑ خود مانتے ہیں کہ کئی قسم کے دیو یعنی روحانی یا جسمانی بیماریوں ایسی ہیں جو روزہ رکھنے والے کی دعا سے دور ہو تی ہیں اس کے بغیر نہیں ہوتیں۔
یہودیت اور عیسائیت کے بعد ہندو مذہب کو دیکھا جائے تو ان میں بھی کئی قسم کے برت پائے جاتے ہیں اور ہر قسم کے برت کے متعلق الگ الگ شرائط اور قیود ہیں جن کا تفصیلی ذکر ان کی کتاب’’دھرم سندھو‘‘ میں پایا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا میں ہندو اور جین مت کے روزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور رزتشتی مذہب کے متعلق بھی لکھا ہے کہ کنفیوشس نے اپنے پیروئوں کو روزے رکھنے کی تلقین کی تھی۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۹ زیر لفظFASTING)
غرض روزہ روحانی ترقی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمام مذاہب میں مشترک طور پر نظر آتا ہے اور تمام اُمتیں روزوں سے برکتیں حاصل کرتی رہی ہیں۔ بلکہ آجکل تو ایک نئی قسم کا روزہ نکل آیا ہے کہ اگر کسی سے جھگڑا ہو تو کھانا پینا چھوڑ دیا۔ گاندھی جی نے انگریز کے مقابلہ میں اسی قسم کے کئی مرن برت رکھے تھے ۔ بہرحال مذاہب کی ایک لمبی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے جس کی اہمیت مذہبی دنیا میں ہمیشہ تسلیم کی جاتی رہی ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس صورت اور شکل میں اسلام نے اس کو پیش کیا ہے وہ باقی مذاہب سے نرالی ہے ۔ اسلام میں روزوں کی یہ صورت ہے کہ ہر بالغ عاقل کو برابر ایک مہینہ کے روزے رکھنے کا حکم ہے سوائے اس صورت کے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا اُسے بیماری کا یقین ہو یا سفر پر ہو یا بالکل بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہو۔ ایسے لوگ جو بیمار ہوں یا سفر پر ہوں ان کے لئے حکم ہے کہ وہ دوسرے اوقات میں روزہ رکھیں۔ اور جو بالکل معذور ہو گئے ہوں ان کے لئے کوئی روزہ نہیں۔
روزہ کی صورت یہ ہے کہ پوپھٹنے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک انسان کوئی چیز نہ کھائے نہ پیئے نہ کم نہ زیادہ اور نہ مخصوص تعلقات کی طرف توجہ کرے۔ پو پھٹنے سے پہلے وہ کھانا کھا لے تاکہ اس کے جسم پر غیر معمولی بوجھ نہ پڑے۔ اور غروب آفتاب پر روزہ افطار کر دے۔ صرف شام کو ہی کھانا کھا کر متواتر روزے رکھنا ہماری شریعت نے نا پسند کیا ہے۔
اس جگہ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ کے متعلق ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف کسی قوم میں کسی رواج کا پایا جانا یا پہلوں میں کسی دستور کا ہونا اس امر کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ آئندہ نسلیں بھی ضرور اس کا لحاظ رکھیں۔ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو پہلے لوگوں میں موجود تھیں لیکن دراصل وہ غلط تھیں۔ اور بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو آج لوگوں میں پائی جاتی ہیں حالانکہ وہ بھی غلط ہیں پس محض اس وجہ سے کہ پہلی قومیں کوئی عبادت کرتی رہی ہیں یہ نتیجہ نکالنا کہ آئندہ بھی وہ کی جائے صحیح نہیں۔ قرآن کریم نے اس اعتراض کے وزن کو قبول کیا ہے اور بتایا کہ ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلی اُمّتوں میں روزہ کا وجود اس کی فضیلت کی کوئی دلیل ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنے یہں کہ تم پر یہ کوئی زائد بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ بلکہ پہلوں پر بھی یہ بوجھ ڈالا گیا تھا۔ پس یہ روزوں کی فضیلت کی دلیل نہیں بلکہ روزوں کی اہمیت کی دلیل ہے۔ روزوں کی فضیلت اور اس کے فوائد پر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم بچ جائو ۔ اس کے کئی معنے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک معنی تو یہی ہیں کہ ہم نے تم پر اس لئے روزے فرض کئے ہیں تاکہ تم ان قوموں کے اعتراضوں سے بچ جائو جو روزے رکھتی رہی ہیں۔ جو بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کرتی رہی ہیں۔ جو موسم کی شدت کو برداشت کر کے خداتعالیٰ کو خوش کرتی رہی ہیں۔ اگر تم روزے نہیں رکھو گے تو وہ کہیں گی تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم باقی قوموں سے روحانیت میں بڑھ کر ہیں لیکن وہ تقویٰ تم میں نہیں جو دوسری قوموں میں پایا جاتا تھا۔ غرض اگر اسلام میں روزے نہ ہوتے تو باقی مسلمان دوسری قوموں کے سامنے ہدفِ ملامت بنے رہتے۔ عیسائی کہتے یہ بھی کوئی مذہب ہے اس میں روزے تو ہیں ہی نہیں جن سے قلوب کی صفائی ہوتی ہے جن کے ساتھ روحانی ساکھ بیٹھتی ہے جن کے ذریعہ انسان بدی سے بچتا ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ ہم نے سینکڑوں سال روزے رکھے لیکن مسلمانوں میں روزے نہیں۔ اسی طرح زرتشتی ہندو اور دوسری سب قومیں کہتیں۔ اسلام بھی کوئی مذہب ہے اس میں روزے نہیں۔ ہم روزے رکھتے ہیں اور اس طرح خداتعالیٰ کو خوش کرتے ہیں ۔ غرض ساری دنیا مسلمانوں کے مقابلہ میں آجاتی اور کہتی مسلمانوں میں روزے کیوں نہیں۔ پس فرمایا ۔ اے مسلمانو! ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم دشمن کے اعتراضات سے بچ جائو۔ اگر اسلام میں روزہ نہ ہوتا یا تم روزے نہ رکھتے تو غیر مذاہب والے تم پر جائز طور پر اعتراض کرتے اور تم ان کی نگاہوں میں غقیر ہو جاتے۔
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنمیں دوسرا اشارہ اس امر کی طرف کیا گیا ہے کہ اس ذریعہ سے خداتعالیٰ روزہ دار کا محافظ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اِتَّقَاء کے معنے ہیں ڈھال بنانا۔ وقایہ بنانا۔ نجات کا ذریعہ بنانا۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ تم پر روزے رکھنے اس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم خداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لو اور ہر شر سے اور ہر خیر کے فقدان سے محفوظ رہو۔ ضعف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تویہ کہ انسان کو کوئی شر پہنچ جائے اور دوسرے یہ کہ کوئی نیکی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے۔ جیسے کسی کو کوئی مار بیٹھے تو یہ بھی ایک شر ہے۔ اور یہ بھی شر ہے کہ کسی کے ماںباپ اس سے ناراض ہو جائیں۔ حالانکہ اگر کسی کے والدین ناراض ہو کر اس کے گھر سے نکل جائیںتو بظاہر اس کا کوئی نقصان نظر نہیں آتا۔ بلکہ ان کے کھانے کا خرچ بچ سکتا ہے۔ لیکن ماں باپ کی رضا مندیایک خیر اور برکت ہے اور جب وہ ناراض ہو جائیں تو انسان ایک خیر سے محروم ہو جاتا ہے۔ اِتَّقَاء ان دونوں باتوں پر دلالت کرتا ہے اور متقی وہ ہے جسے ہر قسم کی خیر مل جائے اور وہ ہرقسم کی ذلت اور شر سے محفوظ رہے۔
اس سے آگے پھر شر کا دائرہ بھی ہر کام کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے مثلا اگر کوئی شخص گاڑی میں سفر کر رہا ہے تو اس کا شر سے محفوظ رہنا یہی ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش نہ آئے۔ اور وہ بحفاظت منزلِ مقصود پر پہنچ جائے۔ اسی طرح روزے کے سلسلہ میں بھی ایسے ہی خیر وشر مراد ہو سکتے ہیں جن کا روزے سے تعلق ہو۔ روزہ ایک دینی مسئلہ ہے یا بلحاظ صحتِ انسانی دنیوی امور سے بھی کسی حد تک تعلق رکھتا ہے پس لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن کے یہ معنے ہوئے کہ تا تم دینی اور دنیوی شُرور سے محفوظ رہو۔ دینی خیر و برکت تمہارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے یا تمہاری صحت کو نقصان نہ پہنچ جائے۔کیونکہ بعض دفعہ روزے کئی قسم کے امراض سے نجات دلانے کا بھی موجب ہو جاتے ہیں۔
آجکل کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھاپا یا ضعف آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہو جاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہو تی ہے۔ بعض نادان تو اس خیال میں اس حد تک ترقی کر گئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ جس دن ہم زائد مواد کوفنا کرنے میں کامیاب ہو گئے اس دن موت بھی دنیا سے اُٹھ جائیگی۔ یہ خیال اگرچہ احمقانہ ہے تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھکان اور کمزوری وغیر ہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اورروزہ اس کے لئے بہت مفید ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں تو دورانِ رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت ار تروتازگی کا احسان ہونے لگتا ہے یہ فائدہ تو صحتِ جسمانی کے لحاظ سے ہے مگر روحانی لحاظ سے اس کا یہ فائدہ ہے کہ جو لوگ روزے رکھتے ہیں خداتعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے۔ اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد خداتعالیٰ نے دعائوں کی قبولیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعائوں کو سنتا ہوں پس روزے خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں اور روزے رکھنے والا خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں اور روزے رکھنے والاخداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لیتا ہے جو اسے ہر قسم کے دکھوں اور شر ور سے محفوظ رکھتا ہے۔
پھر روزے کے ذریعہ دکھوں سے انسان اس طرح بھی بچتا ہے کہ (۱)جب وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے لئے تکلیف میں ڈالتا ہے تو خدتعالیٰ اس کے گناہوں کی سزا سے اُسے بچالیتا ہے۔ (۲) جب وہ فاقے رہ کر بھوک کی تکلیف محسوس کرتا ہے تو اپنے غریب بھائیوں کی خبر گیری کرتا ہے اور ان کا ہلاکت سے بچنا خود اُسے بھی ہلاکت سے بچا لیتا ہے کیونکہ بعض افرادِ قوم کے بچنے سے آخر ساری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دنوں میں بہت کثرت سے صدقہ و خیرات کیاکرتے تھے۔ احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے دنوں میں آپ تیز چلنے والی آندھی کی طرح صدقہ کیا کرتے تھے۔ اور درحقیقت یہ قومی ترقی کا ایک بہت بڑا گُر ہے کہ انسان اپنی چیزوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ تمام قسم کی تباہیاں اُسی وقت آتی ہیں جب کسی قوم کے افراد میں یہ احسان ہو جائے کہ ان کی چیزیں انہی کی ہیں دوسروں کا ان میں کوئی حق نہیں اور ان سے فائدہ اُٹھانے کا حق اُنہی کو ہے جن کو وہ چیزیں دی گئی ہیں۔ دنیا کے نظام کی بنیاد اس اصل پر ہے کہ میری چیز دورا ستعمال کرے۔ اور رمضان اس کی عادت ڈالتا ہے۔ روپیہ ہمارا ہے کھانے پینے کی چیزیں ہماری ہیں مگر حکم یہ ہے کہ دوسروں کو ان سے فائدہ پہنچائو۔ اور کھلائو۔ کیونکہ اس سے دنیا کے تمدن کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ پھر روزوں کے ذریعہ انسان ہلاکت سے اس طرح بھی محفوظ رہتا ہے کہ روزے انسان کے اندر مشقت برداشت کرنے کا مادہ پیدا کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ہر قسم کی مشقت برداشت کرنے کے عادی ہوں وہ مشکلات کے آنے پر ہمت نہیں ہارتے بلکہ دلیری سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
دنیوی گورنمنٹوں میں بھی ایک ریزروفوج ہوتی ہے جو سال میں ایک دو مہینے کام کرتی ہے اور جب جنگ کا موقعہ آتا ہے تو چونکہ اس کو مشق کروائی ہوئی ہوتی ہے اس لئے فوراً اسے بلوالیا جاتا ہے۔ چونکہ عام طور پر تمام مسلمان بارہ مہینے روزے نہیں رکھتے اور نہ ہی تہجد پڑھتے ہیں اس لئے رمضان میں خصوصیت کے ساتھ ہدایت فرما دی کہ تمام مسلمان اس ماہ میں روزوں کی مشق کریں جس طرح وہ فوج جو مشق کرتی رہیت ہے دشمن کی فوج سے شکست نہیں کھاتی اسی طرح جس قوم کے لوگ متقی اور نیک ہوتے ہیں اور جو خداتعالیٰ کے لئے ہر ایک چیز کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں شیطان کی مجال نہیں ہوتی کہ ان کو زک دے سکے یہی وجہ ہے کہ جب تک تمام مسلمان روحانی سپاہی تھے شیطان نے ان پر کوئی حملہ نہیں کیا لیکن جب خال خال رہ گئے تو اس وقت ان پر حملہ کیا گیا۔ اور شیطان نے ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ان کو تباہ کر دیا۔
پس روزے قوم میں قربانی کی عادت پید ا کرنے کا موجب ہوتے ہیں ۔ دین کی خدمت کے لئے بالعموم مومنوں کو گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔ اور تبلیغی جہاد میں کھانے پینے کی تکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے غرباء کو تو ایسی تکلیف برداشت کرنے کی عادت ہوتی ہے مگر امراء کو اس کی عادت نہیں ہوتی۔ پس روزوں کے ذریعہ ان کو بھی بھوک اور پیاس کی برداشت کی مشق کرائی جاتی ہے تاکہ جس دن خدتعوالیٰ کی طرف سے آواز آئے کہ اے مسلمانو! آئو اور خداتعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو۔ تو وہ سب اکٹھے اُٹھ کھڑے ہوں اور خداتعالیٰ کی راہ میں بغیر کسی قسم کا بوجھ محسوس کئے اپنے آپ کو پیش کر دیں۔
پس روزوں کا یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کو نیکی کے لئے مشقت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے انسان دنیا میں کئی قسم کا کام کرتا ہے۔ وہ محنت و مشقت بھی کرتا ہے۔ وہ آوارگی بھی کرتا ہے وہ اِدھر اُدھر بھی پھرتا ہے وہ گپیں بھی ہانکتا ہے۔ بالکہ فارغ نہ انسانی دماغ رہتا ہے نہ اس کا جسم کچھ نہ کچھ کام انسان ضرور کرتا رہتا ہے۔ مگر بعض لغو کام ہوتے ہیں بعض مضر اور بعض مفید اور بعض بہت ہی اچھے ۔ لیکن رمضان انسان کو ایک ایسے کام کی عادت ڈالتا ہے جس کے نتیجہ میں اسے نیک کاموں میں مشقت برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے انسانی زندگی کی راحت اور آرام کی چیزین کیا ہوتی ہیں یہی کھانا پینا سونا اور جنسی تعلقات۔ تمدن کا اعلیٰ نمونہ جنسی تعلقات ہیں۔ جن سے دوستوں سے ملنا اور عزیزوں سے تعلقات رکھنا بھی شامل ہے۔ مگر جنسی تعلقات میں سب سے زیادہ قریبی تعلق میاںبیوی کا ہے پس انسانی آرام انہی چند باتوں میں مضمر ہے کہ وہ کھاتا ہے وہ پیتا ہے وہ سوتا ہے۔ اور وہ جنسی تعلقات قائم رکھتا ہے کسی صوفی نے کہا ہے کہ تصوف کی جان کم بولنا، کم کھانا اور کم سونا ہے اور رمضان اس تصوف کی ساری جان کا نچوڑ اپنے اندر رکھتا ہے کم سونا آپ ہی اس میں آجاتا ہے۔ کیونکہ رات کو تہجد کے لئے اُٹھنا پڑتا ہے ۔ کم کھانا بھی ظاہر بات ہے کیونکہ سارا دن فاقہ کرنا پڑتا ہے۔ اور جنسی تعلقات کی کمی بھی ظاہر ہے پھر کم بولنا بھی رمضان میں آجاتا ہے۔ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا۔ روزہ یہ نہیں کہ انسان اپنا منہ کھانے پینے سے بند رکھے بلکہ روزہ یہ ہے کہ لغو باتیں بھی نہ کرے۔ پس روزہ دار کیل ئے بیہودہ باتوں سے بچنا لڑائی جھگڑے سے بچنا اور اسی طرح کی اور لغو باتوں سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہوتاہے۔ اس طرح کم بولنا بھی رمضان میں آگیا۔ گویا کم کھانا کم بولنا کم سونا اور جنسی تعلقات کم کرنا یہ چاروں باتیں رمضان میں آگئیں۔ اور یہ چاروں چیزیں نہایت ہی اہم ہیں۔ اور انسانی زندگی کا ان سے گہرا تعلق ہے پس جب ایک روزہ دار ان چاروں آرام و آسائش کے سامانوں میں کمی کرتا ہے تو اس میں مشقت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ زندگی کے ہر دور میں مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتا اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔
پھر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن میں ایک اور فائدہ یہ بتایا کہ روزہ رکھنے والا برائیوں اور بدیوں سے بچ جاتا ہے اور یہ غرض اس طرح پوری ہوتی ہے کہ دنیا سے انقطاع کی وجہ سے انسان کی روحانی نظر تیز ہو جاتی ہے اور وہ ان عیوب کو دیکھ لیتا ہے جو اسے پہلے نظر نہ آتے تھے۔ اسی طرح گناہوں سے انسان اس طرح بھی بچ جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے روزہ اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی شخص اپنا منہ بند رکھے اور سارا دن نہ کچھ کھائے اور نہ پیئے بلکہ روزہ یہ ہے کہ مونہہ کو کھانے پینے سے ہی نہ روکا جائے بلکہ اُسے ہر روحانی نقصان دہ اور ضر ررساں چیز سے بھی بچایا جائے نہ جھوٹ بولا جائے نہ گالیاں دی جائیں نہ غیبت کی جائے۔ نہ جھگڑا کیا جائے۔ اب دیکھو زبان پر قابو رکھنے کا حکم تو ہمیشہ کے لئے ہے۔ لیکن روزہ دار خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کوئی شخص ایک مہینہ تک اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے تو یہ امر باقی گیارہ مہینوں میں بھی اس کے لئے حفاظت کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور اس طرح روزہ اُسے ہمیشہ کے لئے گناہوں سے بچا لیتا ہے۔
پھر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنمیں روزوں کا ایک اور فائدہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں تقویٰ پر ثباتِ قسم حاصل ہوتا ہے اور انسان کو روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ روزوں کے نتیجہ میں صرف امراء ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاسل نہیں کرتے بلکہ غرباء بھی اپنے اندر ایک نیا روحانی انقلاب محسوس کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے وصال سے لطف انداوز ہوتے ہیں غرباء بیچارے سارا سال تنگی سے گذارہ کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ انہیں کئی کئی فاقے بھی آجاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے ذریعہ نہیں توجہ دلائی ہے کہ وہ ان فاقوں سے بھی ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے لئے فاقوں کا اتنا بڑا ثواب ہے کہ حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلصَّوْ لِیْ وَاَنَا اُجْرٰی بِہٖ۔ یعنی ساری نیکیوں کے فوائد اور ثواب الگ الگ ہیں لیکن روزہ کی جزاء خود میری ذات ہے۔ اور خداتعالیٰ کے ملنے کے بعد انسان کو اور کیا چاہیے۔ غرض روزوں کے ذریعہ غربا کو یہ نکتہ بتایا گیا ہے کہ ان تنگیوں پر بھی اگر وہ بے صبر اور ناشکر ے نہ ہوں اور حرف شکایت زبان پر نا لائیں جیسا کہ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمیں خداتعالیٰ نے کیا دیا ہے کہ نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں تو یہی فاقے ان کے لئے نیکیاں بن جائیں گی۔ اور ان کا بدلہ خود خدا تعالیٰ ہو جائیگا۔ پس اللہ تعالیٰ نے روزوں کو غرباء کے لئے تسکین کا موجب بنایا ہے تاکہ وہ مایوس نہ ہوں او ریہ نہ کہیں کہ ہماری فقرو فاقہ کی زندگی کس کام کی ۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ میںا نہیں یہ گر بتایا ہے کہ اگر وہ اس فقروفاقہ کی زندگی کو کداعتالیٰ کی رضاء کے مطاق گذراریں تو یہی انہیں خداتعالیٰ سے ملا سکتی ہے۔ دنیا میں اس قدر لوگ امیر نہیں جتنے غریب ہیں اور تمام دینی سلسلوں کی ابتداء بھی غرباء سے ہی ہوئی ہے اور انتہا بھی غرباء پر ہی ہوئی ۔ بلکہ قریباً تمام انبیاء بھی غرباء میں سے ہی ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوئی بڑے آدمی نہ تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوئی بڑے آدمی نہ تھے۔ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام بھی کوئی امیر کبیر نہ تھے۔ آپ کی جائیداد کی قیمت قادیان کے ترقی کرنے کے باعث بڑھ گئی ورنہ اس کی قیمت خود آپ نے دس ہزار روپیہ لگائی تھی۔ اور اتنی مالیت کی جائیداد سے کونسی بڑی آمد ہوسکتی ہے۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام بھی بڑی آدمی نہ تھے ۔ اگرچہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ بعد میںبڑا بنا دیتا ہے لیکن یہ سب کچھ بعد میں جفؒ کے طور پر ہوا۔ ابتداء میں تمام سلسلوں کے بانی غریب ہی ہوئے امراء اور بادشاہ نہیں ہوئے۔ بیشک درمیانی طبقہ کے لوگوں میں سے بھی بعض دفعہ انبیاء ہوتے رہے لیکن بادشاہ صرف چند ایک ہی ہوئے۔ جیسے حضرت دائود علیہ السلام یاحضرت سلیمان علیہ السلام۔ مگر یہ بھی ایسے نہیں ہیں کہ کسی سلسلہ کے بانی ہوں۔ بپھر دنیا کی اسی فیصد آبادی غریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی کثرت کی دلجوئی رمضان کے ذریعہ کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ مت سمجھو کہ فاقہ کش کو خداتعالیٰ نہیں ملتا پس وہ غرباء جو سمجھتے ہیں کہ ان کی عمر رائیگاں گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں رمضان کے ذریعہ بتایا ہے کہ وہ انہیں فاقوں میں سے گذر کر اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے فیوض حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ فاقہ میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کو نہ بھولیں اور اس کے متعلق اپنی زبان پ رکوئی حرفِ شکایت نہ لائیں۔ اس کے مقابلہ میں روزہ امیر لوگوں کے لئے تقویٰ کے حصول کا ذریعہ اس طرح ہوتا ہے کہ جب ایک انسان جس کے پاس کھانے پینے کے تمام سامان موجو دہوتے ہین محض اللہ تعالیٰ کی رجاء کے لئے اپنے آپ کو فاقہ میں ڈالتا ہے اور خداتعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے کچھ نہیں کھاتا۔ اور جو حلال چیزیں خداتعالیٰ نے اُسے دی ہیں انہیں بھی استعمال نہیں کرتا۔ اس کے گھر میں گھی، گوشت ، چاول وغیرہ کھانے کی تمام ضروریات موجو د ہوتی ہیں۔ مگر وہ خداتعالیٰ کے لئے انہیں ترک کر دیتا ہے تو اس کے دل میں خود بخود یہ جذبہ پیدا ہوتاہے کہ جب میں نے حلال چیزوں کو بھی خداتعالیٰ کی رضاء کے لئے چھوڑ دیا ہے تو میں ان چیزوں کی کیوں خواہش کرون جنہیں خداتعالیٰ نے حرام قرار دیاہوا ہے اس طرح اس کے اندر ضبطِ نفس کی قوت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے قدم کو نیکیوں کے میدان میں بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
روزوں کا ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان خداتعالیٰ سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے ۔ خداتعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نیندے سے پاک ہے۔ انسان ایسا تو نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی نیند کو بالکل چھوڑ دے مگر وہ اپنی نیند کے ایک حصہ کو روزوں میں خداتعالیٰ کیلئے قربان ضرور کرتا ہے سحری کھانے کے لئے اُٹھتا ہے تہجد پڑھتا ہے ۔ عورتیں جو روزہ نہ رکھیں اور سحری کے انتظام کے لئے جاگتی ہیں۔ کچھ وقت دعائوں میں اور کچھ نماز میں صرف کرنا پڑتا ہے اور اس طرح رات کا بہت کم حصہ سونے کے لئے باقی رہ جاتا ہے اور کام کرنے والوں کے لئے تو گرمی کے موسم میں دو تین گھنٹے ہی نیند کے لئے باقی رہ جاتے ہیں ۔ اس طرح انسان کو اللہ تعالیٰ کھانے پینے سے پاک ہے۔ انسان کھانے پینا بالکل تو نہیں چھوڑ سکتا۔ مگر پھر بھی رمضان میں اللہ تعالیٰ سے وہ ایک قسم کی مشابہت ضرور پیدا کر لیتا ہے پھر جس طرح اللہ تعالیٰ سے خیر ہی خیر ظاہر ہوتا ہے اسی طرح انسان کو بھی روزوں میں خاص طور پر نیکیاں کرنے کا حکم ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔ جو شخص غیبت، چغلخوری اور بدگوئی وغیرہ بُری باتوں سے پرہیز نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہوتا۔ گویا مومن بھی کوشش کرتا ہے کہ اس سے خیر ہی خیر ظاہر ہو۔ اور وہ غیبت اور لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے۔ اس طرھ وہ اس حد تک خداتعالیٰ سے مشابہت پیدا کر لیتا ہے جس حد تک ہو سکتی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی مثل کی طرف دوڑتی ہے۔ فارسی میں ضرب المثل ہے کہ
’’کند ہمجنس باہم جنس پرواز‘‘
پس روزہ کا ایک روحانی فائدہ یہ ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے اعلیٰ درجہ کا اتصال ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ خود اس کا محافظ بن جاتا ہے۔
پھر روزوں کا روحانی رنگ میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا الہام انسانی قلب پر نازل ہوتا ہے اور اس کی کشفی نگاہ میں زیادہ جِلا اور نور پیدا ہوتا ہے درحقیقت اگر غور سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی عادت تو نہیں مگر اس میں عادت سے ایک مشابہت ضرور پائی جاتی ہے۔ انسان کی طرح اس کی آنکھیں تو نہیں مگر وہ بصیر ضرور ہے اس کے کان نہیں مگر وہ سمیع ضرور ہے اسی طرح گو اس میں کوئی عادت نہیں پائی جاتی مگر اس میں یہ بات ضروری پائی جاتی ہے کہ جب وہ ایک کام کرتا ہے تو اُسے دوہراتا ہے۔ انسان میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو ہاتھ یا پیر ہلانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ انہیں بار بار ہلاتے ہیں اور عادت کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ کوئی بات باربار کی جائے اور یہ بات اللہ تعالیٰ میں بھی ہے کہ جب وہ ایک خاص موقعہ پر اپنا فضل نازل کرتا ہے تواس موقعہ پر باربارفضل کرتاہے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے ماتحت چونکہ رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا تھا۔ اس لئے اگر اس رسولؐ کی اتباع کی جائے جس پر قرآن کریم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ کی عادت سے مشابہت رکھنے والی صفت کے ماتحت ان لوگوں کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی وجہ سے دنیا سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس سے تعلقات نہیں رکھتے۔ کھانے پینے اور سونے میں کمی کرتے ہیں ۔ بے ہودہ گوئی وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے الہام سے نوازتا اور ان پررویا صادقہ اور کشوفِ صحیحہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور اسرار غیبیہ سے مطلع کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کا بھی ایک الہام ہے کہ
پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی
اس میں بھی وہی عادت والی بات بیان کی گئی ہے خداتعالیٰ نے ایک دفعہ بہار میں اپنی رحمت کی شان دکھائی تھی اس لئے جب پھر موسم بہار آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کہتی ہے کہ اب کے میرے بندے کیا کہیں گے اس لئے ہم پھر اپنی شان دکھاتے ہیں۔ اور اگر بندے اس سے فائدہ اٹھائیں تو اگلی بہار میں پھر وہی انعام نازل ہوتا ہے غرض کلامِ الہٰی کو اگر درخت تصور کر لیا جائے تو جو صفتِ الہٰی عادت کے مشابہ ہے وہ ہر رمضان میں اسے جھنجھوڑتی ہے اس سے مومنوں کو تازہ بتازہ پھل حاصل ہوتے ہیں۔
پھر روزوں سے اس زنگ میں بھی روحانیت ترقی کرتی ہے کہ جب انسان خداتعالیٰ کے لئے کھانا پینا ترک کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کے لئے اس کی راہ مین مرنے کو تیار ہے۔ اور جب وہ اپنی بیوی سے مخصوص تعلقات قطع کرتا ہے تو اس بات پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کیل ئے اپنی نسل کو بھی قربان کر دینے کیلئے تیار ہے اور جب وہ روزوں میں ان دونوں اقسام کے نمونے کر دیتا ہے تو وہ خداتعالیٰ کی لقاء کا مستحق ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ سے تعلق قائم ہونے اور روحانیت کے مضبوط ہوجانے کی وجہ سے وہ شخص ہمیشہ کے لئے گمراہی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
پھر رمضان کے ذریعہ استقلال کی عادت بھی ڈالی جاتی ہے کیونکہ یہ نیکی متواتر ایک عرصہ تک چلتی ہے۔ انسان دن میںکئی کئی مرتبہ کھانے کا عادی ہوتا ہے ۔ غرباء اور امراء شہری ار دیہاتی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق عام ایام میں کئی دفعہ کھاتے پیتے ہیں مگر رمضان میں تمام کھانے سمٹ سمٹا کر صرف دو بن جاتے ہیں۔ اسی طرح جہاںدوسرے ایام میں وہ ساری رات سوئے رہتے ہیں وہاں رمضان کے ایام میں انہیں تہجد اور سحری کے لئے اُٹھنا پڑتا ہے اور دن کو بھی قرآن کریم کی تلاوت میں اپنا کافی وقت صرف کرنا پڑتا ہے ۔ غرض رمضان کے ایام میں اپنی عادت کی بہت کچھ قربانی کرنی پڑتی ہے اور یہ قربانی ایک دن نہیں دو دن نہیں مگر متواتر ایک مہینہ تک بغیر ناغہ کے کرنی پڑتی ہے پس روزوں سے استقلال کا عظیم الشان سبق ملتا ہے۔ اور درحقیقت بغیر مستقل قربانیوں کے کوئی شخص خداتعالیٰ کو نہیں پا سکتا کیونکہ حقیقی محبت جوش دلانے سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ وہ عارضی ہوتی ہے بلکہ حقیقی محبت استقلال سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہو اکہ آپ کی ایک بیوی نے چھت سے ایک رسہ اس لئے لٹکا رکھا ہے کہ جب نماز پڑھتے پڑھتے انہیں اونگھ آنے لگے تو اس کا سہارا لے لیں تو آپ نے فرمایا یہ کوئی عبادت نہیں۔ عبادت وہی ہے جسے انسان بشاشت سے ادا کر سکے۔ اور جس کے نتیجہ میں ایسا ملال پیدا نہ ہو۔ جو اس کے دوام اور استقلال کو قطع کرنیکا موجب بن جائے۔
اسی طرح روزوں کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ مومنوں کو ایک مہینہ تک اپنے جائز حقوق کو بھی ترک کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ انسان گیارہ مہینے حرام چھوڑنے کی مشق کرتا ہے مگر بارھویں مہینہ میں وہ حرام نہیں بلکہ حلال چھوڑنے کی مشق کرتا ہے ۔ یعنی روزوں کے علاوہ دوسرے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کیلئے ہم کسی طرح حرام چھوڑسکتے ہیں۔ مگر روزوں کے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے لئے کس طرح حلال چھوڑ سکتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حلال چھوڑنے کی عادت پیدا کئے بغیر دنیا میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں اکثر فساد اس لئے نہیں ہوتے کہ لوگ حرام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اکثر فساداس لئے ہوتے ہیں کہ لوگ حلال کو بھی ترک کرنے کیل ئے تیار نہیں ہوتے ۔ وہ لوگ بہت ہی کم ہیں جو ناجائز طور پر کسی کا حق دبائیں مگر وہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں جو لڑائی اور جھگڑے کو پسند کرلیں گے مگر اپنا حق چھوڑنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہونگے۔ سینکڑوں پاگل اور نادان دنیا میں ایسے ہیں جو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے دنیا مین عظیم الشان فتنہ و فساد پیدا کر دیتے ہیں۔ اور اس بات کی کوئی پراوہ نہیں کرتے کہ دنیا کا امن برباد ہورہا ہے ۔حالانکہ اگر وہ ذاتی قربانی کریں تو بہت سے جھگڑے اور فساد مٹ سکتے ہیں اور نہایت خوشگوار امن قائم ہو سکتا ہے۔ پس رمضان کا مہینہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم صرف حرام ہی نہ چھوڑو بلکہ خداتعالیٰ کے لئے اگر ضرورت پڑ جائے تو حلال یعنی اپنا حق بھی چھوڑ دو۔ تاکہ دنیا میں نیکی قائم ہو اور خداتعالیٰ کا نام بلند ہو۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی عبادتیں اپنے اندر کئی قسم کے سبق رکھتی ہیں۔ بعض سبق ایسے ہوتے ہیں جو ہر عبادت سکھاتی ہے اور بعض سبق ایسے ہوتے ہیں جو ایک سے زیادہ عبادتوں کی نسبت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور بعض سبق ایسے ہیں جو ساری عبادتوں کی مجموعی حالت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے پیدا کردہ عالم میں ہمیں یہ نقشہ نظر آتا ہے کہ اس کا ہر فرد اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے پھر دو افراد مل کر اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں پھر دو سے زیادہ افراد مل کر اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں۔ پھر سارا عالم اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے یہی حال عبادتوں کا ہے۔ اور جس طرح قانونِ قدرت میں ایک ترتیب اور ربط موجود ہے اسی طرح عبادتوں میں بھی ربطِ ہے مگر یہ بات صرف شریعت اسلامیہ میں ہی پائی جاتی ہے باقی شرائع میں نہیں۔ ان میں نماز۔ زکوٰۃ اور روزہ کی قسم کی عبادتیں ہین۔ مگر ان کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ وہ ایسی ہی ہیں جیسے بکھری ہوئی اینٹیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا ہر حکم اپنے اندر ایک اور حکمت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نماز اور روزہ ہے۔ نماز اپنی ذات میں ایک سبق رکھتی ہے اور روزہ بھی اپنی ذات میں ایک سبق رکھتا ہے۔ مگر پھر نماز اور روزہ مل کر ایک اور سبق رکھتے ہیں۔ اگر نماز نہ ہوتی صرف روزے ہوتے تو یہ سبق رہ جاتا ۔ اگر اگر روزے نہ ہوہتے صرف نماز ہی ہوتی تب بھی یہ سبق رہ جاتا۔ بیشک روزے اپنی ذات میں مفید ہیں اور نماز اپنی ذات میں مفید ہے جس طرح اسلام کی ساری عبادتیں اپنی اپنی ذات میں مفید ہیں لیکن نماز اور روزہ مل کر ایک نیا سبق دیتے ہیں جس کا میں اس موقعہ پر ذکر کر رہا ہوں۔
نماز کا اصل مقام طہارت ہے جسے وضو کی حالت کہتے ہیں۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص وضو کر کے نماز کے لئے بیٹھ جات اہے وہ نماز ہی کی حالت میں ہوتا ہے ۔ نماز اس حالت کا انتہائی مقام ہے ۔ ورنہ اصل نماز مومن کی وہ قلبی کیفیت ہے جو وضو سے تعلق رکھتی ہے۔ اب یہ دیکھنا چاہیے کہ وجو کی کیا حقیقت ہے؟ وضو کے ذریعہ جو فعل ہم کرتے ہیں وہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو خواہ وہ پیشاب پاخانہ کے رنگ میں خارج ہو خواہ مرد عورت کے تعلقات کے ذریعہ سے خارج ہو یا اور ایسے رنگوں سے خارج ہو جن سے طہارت کو نقصان پہنچتا ہے۔ غرض وضو کا مدار کسی چیز کے جسم سے نہ نکلنے پر ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نماز کی طہارت کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو۔ لیکن روزہ کی طہارت کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم کے اندر داخل نہ ہو۔ بیشک روزہ میں مرد و عورت کے تعلقات سے بھی روکا گیا ہے۔ مگر یہ اس لئے ہے کہ روزہ کی حالت میں انسان کی کلی توجہ اور طرف نہ ہو۔ ورنہ روزہ کا اصل مدار کسی چیز کیجسم میں داخل نہ ہو۔ ورنہ روزہ کا اصل مدار کسی چیز کے جسم میں داخل نہ ہونے پر ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ روزہ کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم میںداخل نہ ہو۔ اگر صرف نماز ہی ہوتی اور وضو صرف ظاہری صفائی ہوتا تو کہا جاتا کہ اس سے مراد صرف ہاتھ منہ اور پائوں کا دھونا ہے۔ اسی طرھ اگر روزہ ہوتا اور کوئی چھوٹی چھوٹی چیز کھالی جاتی تو کہا جاسکتا تھا کہ روزہ سے مراد فاقہ کرانا ہے۔ لیکن جسم سے کچھ خارج ہونے سے وضو کا باطل ہو جانا اور کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے روزہ کا ٹوٹ جانا بتاتا ہے کہ کسی چیز کے خارج ہونے کا نماز سے اور کسی چیزکے اندر داخل ہونے کا روزہ سے تعلق ہے۔ اور ان دونوں کو ملا کر یہ لطیف بات نکلتی ہے کہ انسان طہارت میںاس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جبتک وہ دو احتیاطیں نہ کرے۔ یعنی بعض چیزین اپنے جسم سے نکلنے نہ دے اور بعض چیزیں داخل نہ ہونے دے۔ اگر ہم ان دو باتوں کا لحاظ رکھ لیں کہ بعض چیزوں کو جسم سے نکلنے نہ دیں اور بعض کو داخل نہ ہونے دیں تو طہارت کامل ہو جاتی ہے۔ نماز اور روزہ سے مجموعی طور پر انسان کو یہ گُر سکھایاگیا ہے کہ ہر انسان کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہیے کہ بعض چیزوں کے جسم سے نکلنے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے ان کو نکلنے نہ دے اور بعض چیزوں کے جسم میں داخل ہونے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے انہیں داخل نہ ہونے دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی گندی چیزیںہیں جن کا نکلنا روحانیت کے لحاظ سے مضر ہوتا ہے۔ دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ گند کا نکلنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ کیا ایسے گند بھی ہیں جن کا نہ نکلنا اچھا ہوتا ہے۔ اس کے متعلق ہمیں قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گند ایسے بھی ہیں جن کا نہ نکلنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کی طبیعت میں غصہ زیادہ ہے۔ اگر کسی موقعہ پر اسے سخت غصہ آگیا مگر وہ اسے نکلنے نہیں دیتا تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ نیک اور متقی انسان کو بھی غصہ آجاتا ہے مگر وہ اسے روک لیتا ہے۔ جیسے نماز کے وقت اس بات کا لحاظ رکھ لیتا ہے کہ اس وقت ایسی چیزیں ظاہر نہ ہوں جو وضو کو باطل کر دیں۔ بعض کیفیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ روک دینے سے کم نکلتی ہیں اور اگر انہیں نکلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے تو بڑھ جاتی ہیں غصہ بھی ایسی ہی کیفیات میں سے ہے۔ ہمارے ہاں محاورہ بھی یہی ہے۔ کہتے ہیں کہ اب تو آپ نے غصہ نکال لیا ہے اب جانے دو۔ یعنی گالی گلوچ یا مار پیٹ کے ذریعہ سے غصہ کا اظہار کر لیا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے دبالیتا اور روک لیتا تو وہ اس کے لئے نیکی بن جاتی ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کسی کے دل میں کوئی بُرا خیال پیدا ہو مگر وہ اسے روک لے اور اس پر عمل نہ کرے تو یہ اس کے لئے نیکی ہو جاتی ہے غرض قلب کے بعض ایسے ھالات ہوتے ہیں کہ اگر انہیں ظاہر کیا جائے تو طہارت باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ان کو دل ہی میں رکھیں تو نیکی بن جاتی ہے۔ یہ سبق نماز سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ کوئی چیز جسم میں داخل نہ ہونے دی جائے اس کی مثال جھوٹ ہے استہزاء چغلخوری اور غیبت وغیرہ کی باتیں ہیں۔ ان کا نہ سننا بھی نیکی ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی باتیں انسان کو روحانیت سے عاری کر دیتی ہیں پس اخلاقِ فاضلہ مکمل کرنے کے لئے ان دونوں کا خیال رکھناضروری ہوتا ہے۔ کہ بعض قسم کے گند و نکو باہر نہ نکلنے دیا جائے اور بعض کو اندر داخل نہ ہونے دیا جائے۔ روزہ ہمارے لئے یہ سبق رکھتا ہے کہ ہم ان تمام ناپاک اور گندی باتوں سے بچیں جن کو اپنے اندر داخل کرنے سے ہماری روحانیت باطل ہو جاتی ہے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کے قرب سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اس سوال کا جواب کہ روزے صرف رمضان کے مہینہ میں ہی کیوں رکھوائے جاتے ہیں۔ سارے سال پر ان کو کیوں نہ پھیلا دیا گیا یہ ہے کہ جب تک تواتر اور تسلسل نہ ہو صحیح مشق نہیں ہوسکتی۔ ہر مہینہ میں اگر ایک دو دن کا روزہ رکھ دیا جاتا تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا ایک وقت کے کھانے میں تو بعض اوقات سیر وغیرہ کے باعث بھی کھانا نہیں کھایا جا سکتا۔ مگر کیا ا سے بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے؟ حکومت بھی فوجیوں سے متواتر مشق کراتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہر مہینہ میں ایک دن ان کی مشق کے لئے رکھدے۔ غرض جو کام کبھی کبھی کیا جائے اس سے مشق نہیں ہو سکتی۔ مشق کے لئے مسلسل کام کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پورے ایک ماہ کے روزے مقرر فرما دیئے تاکہ مومنوں کو خداتعالیٰ کیل ئے بھوکا پیاسا رہنے اور رات کو عبادت کیلئے اُٹھنے اور دن کو ذکرِ الہٰی اور قرآن کرنیکی عادت ہو اور ان کی روحانی صلاحیتیں ترقی کریں۔
غرض رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لے کر آتا ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور انسان جب چاہے ان سے حصہ لے سکتا ہے صرف مانگنے کی دیر ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندہ کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہاںبندہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر بعض دفعہ دوسروں کے دروازہ پر چلا جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگِ بدر کے بعد ایک عورت کو دیکھا کہ وہ پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر پھر رہی تھی۔ اُسے جو بچہ بھی نظر آتا وہ اُسے اُٹھا کر اپنے گلے سے لگا لیتی اور پیار کر کے چھوڑ دیتی۔ آخر اسی طرح تلاش کرتے کرتے اُسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ اُسے سے اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ اس عورت کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اللہ تعالیٰ کو اپنے گمشدہ بندہ کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔ سو اس رحیم و کریم ہستی سے تعلق پیدا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ ہر گھڑی رمضان کی گھڑی ہو سکتی ہے اور ہر لمحہ قبولیت دُعا کا لمحہ بن سکتا ہے۔ اگر دیر ہوتی ہے تو بندہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی اس کے احسانات میں سے ہی ہے کہ اس نے رمضان کا ایک مہینہ مقر ر کر دیا۔ تاکہ وہ لوگ جو خود نہیں اُٹھ سکتے ان کو ایک نظام کے ماتحت اُٹھنے کی عادت ہو جائے اور ان کی غفلتیں ان کی ہلاکت کا موجب نہ ہوں۔
پس یاد رکھو کہ روزے کوئی مصیبت نہیں ہیں ۔ اگر یہ کوئی دکھ کی چیزی ہوتی تو انسان کہہ سکتا تھا کہ میں دکھ میں کیوں پڑوں ۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے روزے دکھوں سے بچانے اور گناہوں سے محفوظ رکھنے اور اللہ تعالیٰ کی لِقاء حاصل کرنے کا
اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ
کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
ایک ذریعہ ہیں۔ اور گوبظاہر یہ ہلاکت کا باعث معلوم ہوتے ہیں ۔ کیونکہ انسان فاقہ کرتا ہے۔ جاگتا ہے۔ بے وقت کھانا کھاتا ہے جسس سے معدہ خراب ہوجاتا ہے اور پھر ساتھ ہی اس کے یہ احکام بھی ہیں کہ صدقہ و خیرات زیادہ کرو۔ اور غرباء کی پرورش کا خیال رکھو۔ مگر یہی قربانیاں ہیں جو اُسے خداتعالیٰ کا محبوب بناتی ہیں۔ اور یہی قربانیاں ہیں جو قومی ترقی کا موجب بنتی ہیں۔
۹۸؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے چند گنتی کے دن ہیں جن میں روزے رکھنا تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ہاں جو تم میں سے بیمار یا مسافر ہو اس کے لئے اور دنوں میں اس تعداد کا پورا کرنا ضروری ہو گا۔
اَیَّا مًا مَّعْدُوْدَاتٍ اور فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے الفاظ صاف طور پر بتاتے ہیں کہ یہ روزے جن کا حکم دیا جا رہا ہے نفلی نہیں بلکہ واجب ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر ہو تو اُسے بہرحال بعد میں اس تعداد کو پورا کرنا ہوگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب رمضان کے دنوں میں میں بیمار تھا یا سفر پر گیا ہوا تھا تو اب رمضان کے بعد میں کیوں روزے رکھوں جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں رمضان المبارک کے روزوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف عام طور پر روزے رکھنے کا ذکر ہے وہ غلطی پر ہیں۔ اگر ان کی یہ بات صحیح ہو تو فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا۔ اول تو اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صرف ایسے ہی روزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کے لئے شریعت کی طرف سے بعض ایام مقرر ہیں ۔ دوسرے اَیّامٍ اُخَرَ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایام کسی خاص مہینہ سے متعلق ہیں۔ پس کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ سے عام نفلی روزے مراد لینا کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا۔
پھر اس بارہ میں اللہ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ جو شخص بیمار یا مسافر ہو اُسے بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ بلکہ اور دنوں میں اس کمی کو پورا کرنا چاہیے۔ میں نے اپنے تجربہ کی بنا پر یہ بات دیکھی ہے کہ رمضان کے بارہ میں مسلمانوں میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے۔ کئی تعلیم یافتہ لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ رمضان کی برکات کے قائل ہی نہیں اور بغیر کسی بیماری یا اور عذرِ شرعی کے روزہ کے تارک ہیں۔ اور دوسرے ول لوگ ہیں جو سارااسلام روزہ میں ہی محدود سمجھتے ہیں۔ اور ہر بیمار، کمزور، بوڑھے بچے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ ضرور روزہ رکھے خواہ بیماری بڑھ جائے یا صحت کو نقصان پہنچ جائے ۔ یہ دونوں افراط تفریط میں مبتلا ہیں۔ اسلام کا یہ ہرگز منشا نہیں کہ وہ انسان کو اس راستہ سے ہٹا دے جو اس کی کامیابی کا ہے۔ اگر تو شریعت چٹی ہوتی یا جرمانہ ہوتا تو پھر بے شک ہر شخص پر خواہ وہ کوئی بوجھ اُٹھا سکتا یانہ اٹھا سکتا اس کا اُٹھانا ضروری ہوتا۔ جیسے حکومت کی طرف سے جرمانہ کر دیا جائے تو اس وقت ی نہیں دیکھا جاتا کہ جس پر جرمانہ کیا گیا ہے اس میں ادا کرنے کی استطاعت بھی ہے یا نہیں بلکہ جس پر جرمانہ ہو اسے خواہ گھر بار بیچنا پڑے۔ بھوکا رہنا بڑے جرمانہ کی رقم ادا کرنا اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے احکام چٹی نہیں بلکہ وہ انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہیں۔ اور ان پر عمل کرنے سے خود انسان کو ہی آرام میسر آتا اور اُس کی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ جن مذاہب نے شریعت کو چٹی قرار دیا ہے ان کے ماننے والوں کے لئے تو ضروی ہے کہ خواہ کچھ ہو وہ اپنے مذہبی احکام کو ضرور پورا کریں۔ لیکن جس مذہب کے احکام کی غرض محض انسانی فائدہ ہو اس میں نفع و نقصان کا موازنہ ہوتا ہے اور جو صورت زیادہ مفید ہو اسے اختیار کر لیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے بعض احکام کے سلسلہ میں بعض شرائط مقرر کر دی ہیں تاکہ اگر وہ شرائط کسی میں پائی جائیں تو وہ اس حکم پر عمل کرے اور اگر نہ پائی جائیں تو نہ کرے۔ یہ شرائط صرف جسمانی عبادت کے لئے ہی نہیں بلکہ مالی عبادت کے لئے بھی ہیں۔جیسے زکوٰۃ ہے اور وطنی قربانی اور اتصال و اتحاد کی کوشش کے لئے بھی ہیں۔ جیسے حج ہے اسی طرح اور جتنے مسائل و اسلام سے تعلق رکھتے ہییں اور جتنے احکام فرض ہیں ان سب کے لئے یہ شرط ہے کہ جب انسان کو طاقت ہو انہیں ضرور ادا کرے لیکن جب اس کے طاقت سے بات بڑھ جائے تو ہو معذور ہے اگر حج انسان کے مالدار ہونے اور امن و صحت کی شرط سے مشروط ہے۔ اگر زکوٰۃ کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک خاص مقدار میں کسی کے پاس ایسا مال ہو جو اس کے ضروریات سے ایک سال بڑھا رہے۔ اگر نماز کے لئے یہ شرط ہے کہ جو کھڑا نہ ہو سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے وہ لیٹ کر نماز ادا کرے تو رمضان کے لئے بھی شرط ہے کہ اگرانسان مریض ہو۔ خواہ اسے مرض لاحق ہو چکا ہو یاا یسی حالت میں ہو جس میں روزہ رکھنا اسے یقینی طور پر مریض بنا سکتا ہو۔ جیسے حاملہ ہے یا دودھ پلانے والی عورت ہے یا ایسا بوڑھا شخص ہے جس کے قومیٰ مین انحطاط شروع ہو چکا ہے ای اتنا چھوٹا بچہ ہے جس کے قومیٰ نشوونما پا رہے ہیں تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہیے مسافر بیمار کا روزہ رکھنا ایسا ہی لگو ہے جیسے حائصنہ کا روزہ رکھنا۔ کون نہیں جانتا کہ حائصنہ کا روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بیوقوفی اور جہالت ہے یہی حال بیمار اور مسافر کا ہے۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں۔ پھر وہ بچہ جس کے قومیٰ نشوونما پا رہے ہیں اور آئندہ پچاس ساٹھ سال کے لئے وہ طاقت کا ذخیرہ اپنے اندر جمع کر رہا ہے۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ہو سکتا۔ مگر جس میں طاقت ہے اور جو رمضان کا صحیح معنوں میں مخاطب ہے وہ اگر روزہ نہیں رکھتا تو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کروانی چاہیے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزے رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہو گا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے۔ کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہوتا ہے اس وقت ان کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہیے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہو جائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماںباپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچوں کو جرات دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سار ے روزے رکھیگا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلو م ہوتے ہیں میں سمجھتا ہوں ایسے بچے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کریگا او رنہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کرینگے۔
بہرحال ان باتوں میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جہاں شریعت روکتی ہے۔ وہان رک جانا چاہیے اور جہاں حکم دیتی ہے وہاں عمل کرنا چاہیے۔ مگر مسلمان اس وقت اعتدال کو ترک کر بیٹھے ہیں ان میں یا تو وہ لوگ ہیں جو روزہ ہی نہیں رکھتے اور یا وہ لوگ ہیں جو روزہ کے پابند ہیں کہ بیماری اور سفر میں بھی اسے ضروری سمجھتے ہیں۔ اوربعض تو اس میں اس قدر شدت اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھواتے ہیں اور اگر وہ توڑنا چاہیں تو توڑنے نہیں دیتے۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ سات سات آٹھ آٹھ سال کے بچوں نے روزے رکھے تو ماں باپ نے ان کی نگرانی کی کہ وہ روزہ توڑ نہ دیں یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ بے شک روزہ کا ادب و احترام ان کے دلوں مین پیدا کرنا ضروری ہے اور انہیں بتانا چاہیے کہ اگر وہ سارا دن روزہ نہیں رکھ سکتے تو روزہ رکھیں ہی نہیں۔ لیکن یہ کہ اگر وہ رکھ لیں تو پھر توڑیں نہیں خواہ مرنے لگیں نہایت ظالمانہ فعل ہے اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔
غرض ایک طرف تو مسلمانوں میں ایسے لو گ ہیں جو روزہ کے بارہ میں اس قدر سختی کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو روزوں کی ضرور ت ہی کے قائل نہیں بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ اسی خیال کا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں میں نے اخبارات میں پڑھا تھا کہ ایک شخص ٹرکی یا مصر سے یہاں آیا ۔ وہ تقریریں کرتا پھرتا تھا کہ ایک اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں ہوتے تو ضرور روزہ کی شکل بدل دیتے۔ اس لئے ہمیں بھی بدل دینی چاہیے کیونکہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ اور ہے۔ اور اس کی صورت وہ یہ پیش کرتا تھا کہ روزہ کی حالت میں روٹی نہ کھائی جائے بلکہ کچھ کیک اور بسکٹ وغیرہ کھا لئے جائیں۔ غرض ایک طبقہ افراط کی طرف چلا گیا ہے تو دوسرا تفریط کی طرف ۔ حالانکہ اسلام ایک وسطی مذہب ہے او روہ جہاں بیمار اور مسافر کو اجازت دیتا ہے کہ وہ بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھیں وہاں ہر بالغ اور باصحت مسلمان پر یہ واجب قرار دیتا ہے کہ وہ رمضان کے روزے رکھے اور ان مبارک ایام کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح و تحمید اور قرآن کریم کی تلاوت اور دعائوں اور ذکر الہٰی میں بسر کرے تاکہ اُسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔
بہر حال روزہ کے بارہ میں شریعت نے نہایت تاکید کی ہے ۔ اور جہاں اس کے متعلق حد سے زیادہ تشدد ناجائز ہے وہاں حد سے زیادہ نرمی بھی ناجائز ہے۔ پس نہ تو اتنی سختی کرنی چاہیے کہ جان تک چلی جئے اور نہ اتنی نرمی اختیار کرنی چاہیے کہ شریعت کے احکام کی ہتک ہو اور ذمہ داری کو بہانوں سے ٹال دیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کئی لوگ محض کمزوری کے بہانہ کی وجہ سے روزے نہیںرکھتے اور بعض تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر روزہ رکھا جائے تو پیچش ہو جاتی ہے۔ حالانکہ روزہ چھوڑنے کے لئے یہ کوئی کافی وجہ نہیں کہ پیچش ہو جایا کرتی ہے۔ جب تک پیچش نہ ہو انسان کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہے۔ جب پیچش ہو جائے تو پھر بے شک چھوڑ دے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتا ہے مگر یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ صرف اپس ضعف کی وجہ سے روزہ چھوڑنا ناجائز ہے جس میں ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے۔ ورنہ یوں تو بعض لوگ ہمیشہ ہی کمزور رہتے ہیں تو کیا وہ کبھی بھی روزہ نہ رکھیں۔ میں اڑھائی تین سال کا تھا جب مجھے کالی کھانسی ہوئی تھی۔ اس وقت سے میر ی صحت خراب ہے۔ اگر ایسے ضعف کو بہانہ بنانا جائز ہو تومیرے لئے تو شاید ساری عمر میں ایک روزہ بھی رکھنے کا موقع نہیں تھا۔ضعف وغیرہ جسے روزہ چھوڑنے کا بہانا بنایا جاتا ہے اسی کی برداشت کی عادت ڈالنے کے لئے تو روزہ رکھایا جاتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ نماز بدی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ اس پر کوئی شخص کہے کہ میں نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ اس کی وجہ سے بدی کرنے سے رک جاتا ہوں۔ پس روزہ کی تو غرض ہی یہی ہے کہ کمزوری کو برداشت کرنے کی عادات پیدا ہو ورنہ یوں تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں اس لئے روزہ نہیں رکھتا کہ مجھے بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے۔ حالانکہ اس قسم کی تکالیف کی برداشت کی عادت پیدا کرنے ہی کے لئے روزہ مقرر کیا گیا ہے۔ جو شخص روزہ رکھے کیا وہ چاہتا ہے کہ فرشتے سارا دن اس کے پیٹ میں کباب ٹھونستے رہیں۔ وہ جب بھی روزہ رکھے گا اسے بھوک اور پیاس ضرور برداشت کرنی پڑیگی۔ اور کچھ ضعف بھی ضرور ہو گا۔ اور اسی کمزوری اور ضعف کو برداشت کرنیکی عادت پیدا کرنے کیلئے روزہ رکھایا جاتا ہے۔ بے شک روزہ کی اور بھی حکمتیں ہیں جیسے ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے غرباء اور فاقہ زدہ لوگوں کی اعانت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے مگر بہر حال روزہ اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ انسان کو کوئی تکلیف ہی نہ ہو اور وہ کوئی ضعف محسوس نہ کرے بلکہ اس لئے رکھا جاتا ہے کہ اسے ضعف برادشت کرنے کی عادت پیدا ہو۔ پس ضعف کے خوف برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو۔ پس ضعف کے خوف سے روزہ چھوڑنا ہرگز جائز نہیں۔ سوائے اس کے کہ کوئی بوڑھا ہو چکا ہو یا ڈاکٹر اس کے ضعف کو بھی بیماری قرار دے چکا ہو۔ ایسی صورت میں بیشک روزہ نہیں رکھنا چاہیے مگر ضعف کے متعلق ظاہری ڈیل ڈول اور صورت سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے ۔ بعض لوگ بظاہر موٹے تازے ہوتے ہیں اور چلتے پھرتے بھی ہیںل لیکن دراصل وہ بیمارہوتے ہیں۔ اور ان کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوتا۔ بالخصوص جن لوگوں کو دل کی بیماری ہو۔ ایسے لوگوں کے لئے بھوک پیاس کا برداشت کرنا سخت خطرناک ہوتا ہے پس پس کمزوری یا ضعف کا فیصلہ بظاہر دیکھنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ڈاکٹر کیا کہتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ڈاکٹر بھی دیانت داری سے کام نہیں لیتے۔ ذرا کوئی شخص دو چار بار جھک کر سلام کر دے تو جو چاہے ڈاکٹر سے لکھوالے ظاہر ہے کہ ایسے سرٹیفیکیٹ کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر حقیقی طور پر ڈاکٹر کسی کو مشورہ دے کہ اسے کے لئے روزہ رکھنا مضر ہے تو گو وہ بظاہر تندرست بھی نظر آئے اس کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ بیمار اور مسافر کے لئے روزہ جائز نہیں ۔ چنانچہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا:۔
’’جو شخص مریض اور مسافر ہونیکی حالت میں ماہِ ایام میں روزہ رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے خداتعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھے ۔ مرض سے صحت پا نے اور سفر ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔ کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہیے ۔ مریض یا مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئیگا۔‘‘
(فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۳۲أ۱۳۳)
پھر فرمایا ہے۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کو بڑی دقت پیش آئی ہے۔ اور انہوں نے اس کے کئی معنے کئے ہیں۔ یہ دقت زیادہ تر اس وجہ سے پیش آئی ہے کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں جو ہ‘ کی ضمیر استعمال ہوئی ہے اس کے مرجع کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے اس کا مرجع صوم کو قرار دیا ہے اور بعض نے فِدْیَۃ’‘ طَعَاَمُ مِسْکِیْنٍ کو۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس مشکل کو ’’الفوذ الکبیر‘‘ میں اس طرح حل کیا ہے کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کی طرف گئی ہے اس پر یہ اعتراض پڑتا تھا کہ یہ اضماء قبل الذکر ہے یعنی ضمیر پہلے آ گئی ہے اور مرجع بعد میں ہے۔ حالانکہ مرجع پہلے ہونا چاہیے تھا اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ فدیہ کا مقام چونکہ نحوًا مقدم ہے یعنی وہ متدا ہے اس لئے اس کی ضمیر اس کے ذکر سے پہلے آسکتی ہے۔
دوسرا اعتراض یہ پڑتا تھا کہ فِدْیَۃ’‘ مونث ہے اور ضمیر مذکر۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ فدیہ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کا قائم مقام ہے اور وہ مذکر ہے ۔ اس لئے فدیہ کی طرف بھی مذکر کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ اس بنا پر انہوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ ان لوگوں پر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہوں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دینا واجب ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت میں صدقۃ الفطر کی طرف اشارہ ہے جو اسلام میں نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ غرباء بھی عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں۔
دوسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ مومنوں میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ روزوں کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ بھی دے دیا کریں۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور احادیث سے چونکہ یہ بات ثابت نہیں کہ روزہ دار فدیہ بھی دے اس لئے یہ معنے تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے علاوہ عقلی طور پر یہ معنے اس لئے بھی نا قابلِ قبول ہیں کہ فدیہ تو اس پر ہونا چاہیے جو روزنہ نہ رکھ سکے جو شخص باقاعدہ روزے رکھ رہا ہے اس پر فدیہ کیسا؟ ہاں اگر کوئی شخص اس شکریہ میں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس عبادت کے بجا لانے کی توفیق بخشی ہے روزہ رکھ کر ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کرے تو وہ ثواب کا مستحق ہے کیونکہ اس نے روزہ بھی رکھا اور ایک مسکین کو کھانا بھی کھلایا۔ مگر بہرحال وہ ایک زائد نیکی ہو گی ۔ قرآن کریم کسی کو اس بات کا پابند قرار نہیں دیتا کہ وہ روزہ بھی رکھے او رایک مسکین کوکھانا بطور فدیہ بھی کھلائے۔
(۳) مفسرین نے اس آیت کے ایک معنے یہ کئے ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ سے پہلے لَا محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ وَعَلَی الَّذِیْنَ لَا یُطِیْقُوْنَہ‘۔ اور ہ‘ کی ضمیر کا مرجع وہ صوم کو قرار دیتے ہیں یعنی وہ لوگ جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیا کریں وہ کہتے ہیں کہ اسجگہ لَا اُسی طر ح مخدوف ہے جس طرح آیت یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا(نساء آیت ۱۷۷) میں تَضِلُّوْا سے پہلے بھی لَا مخدوف ہے ا ور آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ باتیں اس لئے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جائو۔گو یہ بھی کہاجا سکتا ہے کہ یہاں لَا مقدر نہیں بلکہ ایک مضاف محذوف ہے اور اصل عبار ت یوں ہے کہ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ مَّخَافَۃَ اَنْ تَضِلُّوْا یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے لئے یہ باتیں تمہارے گمراہ ہو جانے کے خدشہ کی بنا ء پر بیان کرتا ہے۔
(۴) بعض نے اس آیت کا یوں حل کیا ہے کہ عربی زبان میں اَطَاقَ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی شخص نے کام تو کیا مگر بہت مشکل اور مصیبت سے۔ گویا جب کوئی شخص اپنے نفس کو انتہائی مشقت میں ڈالے بغیر کوئی کام سر انجام دینے کی اپنے اندر طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کے لئے اَطَاقَ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے اَلَّذیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ سے وہ لوگ مراد ہیں جو روزہ سے سخت تکلیف اٹھاتے ہیں اور جن کی بدنی طاقت بالکل زائل ہو جاتی ہے بلکہ بعض دفعہ غشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے جیسے بوڑھے یا دل کے مریض یا اعصابی کمزوری کے شکار یا حاملہ اور مرضعہ ۔ ایسے لوگ جو بظاہر تو بیمار نظر نہیں آتے لیکن روزے رکھنے سے بیمار ہو جاتے ہیں ان کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ روزے رکھنے کے بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ اپنی طرف سے دیدیا کریں۔ ان معنوں کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ قرطبی نے یُطِیْقُوْنَ کی ایک قرات یُطَوِّ قُوْنَ بھی بیان کی ہے۔ یعنی جو لوگ صرف مشقت سے روزہ نبھا سکتے ہیں۔ اور جن کی صحت روزے رکھنے سے غیر معمولی طور پر خراب ہو جاتی ہے وہ بیشک روزے نہ رکھیں ہاں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دیدیا کریں۔
میرے نزدیک چونکہ اَطَاقَ بابِ اِفعال میں سے ہے اور بابِ افعال کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ سلب کے معنے دیتا ہے اس لئے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ لوگ جن کی طاقت کمزور ہو گئی ہے یعنی قریباً ضائع ہو گئی ہے وہ بیشک روزہ نہ رکھیں مگر چونکہ ان کا روزہ نہ رکھنا محض اجتہادی امر ہو گا مرض ظاہر کے نتیجہ میں نہیں ہو گا بلکہ صرف متوقع کمزوری کے نتیجہ میں ہو گا۔ اور اجتہاد میں غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے اگر ان کو فدیہ دینے کی طاقت ہو تو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ان دنوں میں دے دیا کرین تاکہ ان کی غلطی کے امکان کا کفارہ ادا ہوتا ہے۔
(۵) ایک اور معنے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ پر کھولے ہیں وہ یہ ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر روزہ کی طرف پھرتی ہے اور مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی بیماری شدید ہے یا جن ک سفر پر مشقت ہے وہ تو بہرحال فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مطابق دوسرے ایام میں روزے رکھیں گے۔ لیکن وہ لوگ جو کسی معمولی مرض میں مبتلا ہیں یا کسی آسانی سے طے ہونے والے سفر پر نکلے ہیں اگر وہ طاقت رکھتے ہوں تو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ بھی دے دیا کریں۔ اس وجہ سے کہ ممکن ہے انہوں نے روزہ چھوڑنے میں غلطی کی ہو۔ وہ اپنے آپ کو بیمار سمجھتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی بیماری ایسی نہ ہو کہ وہ روزہ ترک کر سکیں۔ یا وہ اپنے آپ کو مسافر سمجھتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا سفر سفر ہی نہ سمجھا گیا ہو۔ پس چونکہ ان کی رائے میں غلطی کا ہر وقت امکان ہے اس لئے ایسے بیماروں اور مسافروں کو چاہیے کہ ان میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں وہ دوسرے ایام میں فوت شدہ روزوں کو پورا کرنے کے علاوہ ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کریں۔ تاکہ ان کی اس غلطی کا کفار ہو جائے۔ اور اگر یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر کا مرجع فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مَسْکِیْنٍ کو ہی قرار دیا جائے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے لکھا ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اس حکم کو صدقہ الفطر پر محمول کیا جائے۔ اس آیت کا فَمَنْ کَانَ مَنْکُمْ مَّرِ یضًا اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ سے تعلق ہو گا اور اس کے یہ معنے ہونگے کہ اگرچہ مریض اور مسافر کو یہ اجازت ہے کہ وہ اور دنوں میں روزہ رکھ لیں لیکن ان میں سے وہ لوگ جن کو آسودگی حاصل ہو اور وہ ایک شخص کو کھانا کھلا سکتے ہوں۔ا نہیں چاہیے کہ ایک مسکین کا کھانا۔ بطور فدیہ رمضان دے دیا کریں۔ اگر طاقت نہ ہو تو پھر تو فدیہ رمضان دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر طاقت ہو تو خواہ وہ بیمار ہوں یا مسافر انہیں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ رمضان دینا چاہیے۔ اگر روک عارضی ہو اور وہ بعد میں دور ہو جائے روزہ تو بہر حال رکھنا ہو گا۔ فدیہ دیدینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ ان مبارک ایام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بنا پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کر سکے۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ شرطِ استطاعت ان دونوں حالتوں میں دینا چاہیے۔ پھر جب عذر دور ہو جائے تو روزہ بھی رکھنا چاہیے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے۔ بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اس کی صحت اجازت اسے پھر روزے رکھنے ہونگے۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اور صحت ہونے کے بعد وہ ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طور پر خراب ہو جائے۔ باقی جو بھی کھانا کِھلانے کی طاقت رکھتا ہو اگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایام میں روزے رکھے یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے۔
اس آیت میں جو اَلَّذِیْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دو کا بدل یعنی قائم مقام ہو سکتا ہے۔ اول ان مومنوں کا جن کا ذکریٰٓاَ یُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِیَّامُ میں کیا گیا ہے ۔ دوم اُن لوگوں کو جن کا ذکر نَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ میں ہے ۔ اگر اسے یٰٓاَ یُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا کا بدل سمجھا جائے تو اس آیت کے یہ معنے ہو نگے کہ وہ لوگ جو ضعف کی وجہ سے روزے سے سخت تکلیف اُٹھاتے ہیں اور اپنے نفس پر بڑی مشقت برداشت کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے ایک مسکین کا کھانا بطورفدیہ دے دیا کریں ۔اور اگر دوسرا بدل لیں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ مریض اور مسافر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دے دیں اور پھر دوسرے دنوں میں روزے بھی رکھیں ۔کیونکہ بعض امراض ایسی ہوتی ہیں یا بعض سفر ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ آیا اس میں روزہ ترک کیا جا سکتا ہے یا نہیں ! حدیث میں آیا ہے کہ مشکوک اشیاء میں بھی محارم ہی کے نیچے ہوتی ہیں ۔کیونکہ جو مشکوک تک پہنچتا ہے وہ آہستہ آہستہ محارم تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔ پس اگر یہ دونوں باتیں مشکوک ہوں تو ایسے مسافر اورمریض کو چاہیے کہ فدیہ دے دے اور رخصت سے فائدہ اٹھائے اور بعد میں روزے بھی رکھ لے ۔ اس میں ایسی بیماری والا جس کی بیماری مشتبہ ہو یا ایسا سفر والا جس کا سفر مشتبہ ہو مراد ہیں ۔ان میں سے جو لوگ طاقت رکھتے ہوں اُن پر فدیہ دینا لازم ہے ۔
شَھْررَمَضَانَ
فَعِدَّۃُٗ
کیونکہ ممکن ہے انہوں نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی ہو ۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی مذہب تھا کہ ایسے لوگ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں ۔ اور رمضان کے دنوں میں فدیہ دیں ۔
پھر فرماتا ہے ۔ فَمَنْ تَطَوَّ َع خَیْرً افَھُوَ خَیْرُٗ لَّہٗ جو شخص پوری بشاشت اور شوق کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتا ہے تو خواہ وہ ابتداء میں تکلف کے ساتھ ہی ایسا کرے اور اسے اپنے نفس پر ایک رنگ میں بوجھ ہی محسوس ہو تب بھی اس کا نتیجہ اس کے لئے اچھا نکلیگا ۔ یعنی وہ نیکی اس کے لئے بہترین نتائج پیدا کرنے والی ثابت ہو گی ۔ عربی زبان میں تَطَوُّع کا لفظ اُس وقت استعمال ہوتا ہے جب اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر کسی حکم کی اطاعت کی جائے ۔ اور تکلف سے بشاشت کا اظہار کیا جائے ۔پس فَمَنْ تَطَوَّ َع خَیْرً افَھُوَ خَیْرُٗ لَّہمیں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو شخص پورے شعر صدر کے ساتھ کسی نیکی میں حصہ نہ لے سکے اُسے چاہیے کہ کم از کم اپنے نفس پر بوجھ ڈالتے ہوئے ہی اس میں حصہ لے اور اپنے چہرہ پر تکلف سے بشاشت پیداکرے اس کا نتیجہ یہ وہ گا کہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے خیر اوربرکت کے رستے کھول دیگا ۔یعنی نیکیوں میں ترقی کرتے کرتے اُسے ایسا مقام میسر آجائیگا کہ نیکی اس کی غذابن جائیگی اور تحریکات پر عمل اس کیلئے ایسا ہی آسان ہو جائیگا جیسے اعلیٰ درجہ کے مومنوں کیلئے آسان ہوتاہے ۔ لیکن اس کے علاوہ تَطَوُّعکے معنے محاورہ میں غیر واجب کا م کے نفلی طور پر کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۔ اور امام راغب نے اپنی مشہور کتاب مفردات میں اس کی تصریح کی ہے ۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے ۔ کہ جو شخص نفلی طور پر کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اس کیلئے بہت بہتر ہو گا ۔یعنی رمضان میں روزے رکھنے یا ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا حکم تو ہم نے دے دیا ہے لیکن اگر کوئی شخص ثواب کی نیت سے اس میں کوئی زیادتی کرنا ہے و اسے اس کا اختیار ہے ۔ مثلاً وہ اختیار رکھتا ہے کہ ایک کی بجائے دو مساکین کا کھانا بطور فدیہ دے دے ۔ یا وہ اختیار رکھتا ہے کہ روزہ بھی رکھے اور حصول ثواب کیلئے ایک مسکین کو کھانا بھی کھلاتا رہے ۔ یا رمضان کے روزوں کے علاوہ نفلی طور پر دوسرے ایام میں بھی روزے رکھے ۔ یہ سب حصول ثواب کے ذرائع ہیںجن میں ہر مومن اپنی اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے کراللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے ۔
پھر فرمایا ۔وَاَنْ تَصُوْمُوْاخَیْرُٗ لَکُمْ ۔ اس کے بعد لوگ یہ معنے کرتے ہیں ۔ کہ اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ مگر یہ صحیح نہیں ۔اگر یہ معنے ہوتے تواِنْ تَصُوْمُوْا کہناچاہیئے تھا۔نہ کہ َاَنْ تَصُوْمُوْا۔اس کے صحیح معنے یہ ہیں کہ اگر تم علم رکھتے ہوتو سمجھ سکتے ہو کہ روزہ رکھنا تمہارے لئے بہر حال بہتر ہے ۔ یعنی ہم نے جس حکم کیلئے یہ تمہید اُٹھائی ہے ۔ وہ کوئی حصول حکم نہیں بلکہ ایک غیر معملی خیر اور برکت رکھنے والا حکم ہے ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم اسے پوری توجہ سے سُنو اور اس پر عمل کرو۔
مِّنْ اَیَّامِ
تَشْکُرُوْنَo
۹۹؎ حل لغات:۔ ھُدًی:یہ مصدر ہے اور فاعل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ یعنی لوگوں کو ہدایت دینے والا (مزید تشریح کیلئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرۃ ۳؎)
بَیِّنَاتٍ۔ جمع ہے اس کا مفرد اَلْبَیِّنَۃُ ہے ۔جس کے معنے ہیں اَلدَّلَالَۃُ الْوَاضِحَۃُ عَقَلِیَّۃً کَانُتْ اَوْ مَحْسُوْسَۃً یعنی واضح دلیل خواہ وہ عقلی ہو یا حس سے تعلق رکھتی ہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ رمضان کا مہینہ ان مقدس ایما کی یاد دلاتا ہے جن میں قرآن کریم جیسی کامل کتاب کا دنیا میں نزول ہوا۔ ہو مبارک دن ۔وہ نیا کی سعادت کی ابتداء کے دن ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُسکی برکت کے دروازے کھولنے والے دن جب دنیا کی گھناونی شکل اس کے بد صورت چہرے اور اس کے اذیت پہنچانے والے اعمال سے تنگ آکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار حڑا میں جا کر اور دنیا سے منہ موڑ کر اور اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر صرف اپنے خدا کی یاد میں مصروف رہا کرتے تھے اور خیال کرتے ھتے کہ دنیا سے اس طرح بھاگ کر وہ اپنے فرض کو ادا کرینگے جسے ادا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے۔ انہی تنہائی کی گھڑیوں میں انہی خدائی کے اوقات میں انہی غور وفکر کی ساعات میں رمضان کا مہینہ آپ پر آگیا ۔ اور جہاں تک معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے چوبیسویں رمضان کو ہو جو دنیا کو چھوڑ کر علیحدگی میں چلا گیا تھا اسے اس کے پیدا کرنے والے اُس کی تربیت کرنے والے اُس کو تعلیم دینے والے اور اس سے محبت کرنے والے خدا نے حکم دیا کہ جاؤ اور جا کر دنیا کو ہدایت کا راستہ دکھاؤ۔ اور بتایا کہ تم مجھے تنہائی میں اور غار حرا میں ڈھونڈتے ہو مگر میں تمہیں مکہ کی گلیوں اور ان کے شووروشغب میں ملوں گا۔ جاؤ اور اپنی قوم کو پیغام پہنچا دو کہ میں نے تم کو ادنیٰ حالت میں پیدا کر کے اور پھر ترقی دے کر اس لئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ کھاؤ پیو اور مر جاؤ اور کوئی سوال تم سے نہ کیا جائے ۔
آپ اس آواز کو سن کر حیران رہ گئے ۔ آپ نے جبرائیل کو حیرت سے دیکھ کر کہا کہ ماانا بقاری ء ۔میں تو پڑھنا نہیں جناتا ۔یعنی اس قسم کا پیغام مجھے عجیب معلوم ہوتا ہے ۔ کیا یہ الفاظ میرے منہ سے مکہ والوں کے سامنے زیب دینگے ۔ کیا میری قوم ان کو قبول کرے گی اور سُنے گی ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو متواتر حکم دیا گیا کہ جاؤ اور پڑھو۔ جاؤاور پڑھو ۔جاؤاور پڑھو۔تب آپ نے اس آواز پر اس ارشاد کی تعمیل میں تنہائی کو چھوڑا اور جلوت اختیار کی ۔مگر وہ کیسی مجلس تھی ۔ وہ ایسی نہ تھی کہ جس میں ایک دوست بیٹھ کر دوسرے دوست کے سامنے اپنے شکوے بیان کرتا ہے ۔ ۔وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں دوست اپنے دوست کے خوش کر نیووالے حالات سنتا اور اس سے لطف اٹھاتا ہے ۔ وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں انسان اپنی ذہنی کوفت اور تھکان دور کرتا ہے ۔وہ قصوں کہانیوں والی مجلس نہ تھی ۔شعروشاعری کی مجلس نہ تھی ۔وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں مباغثات اور مناظرات ہوتے ہیں ۔ بلکہ وہ جلس ایسی تھی جس میں ایک طرف سے متواتر اور پیہم اخلاص کا اظہار ہوتا تھا تو دوسری طرف سے متواتر اور پیہم گالیاں ۔دُشنام ۔ڈراوے اور دھمکیاں ملتی تھیں ۔ وہ ایسی مجلس تھی جس میں ایک دفعہ جانے کے بعد دوسارے دن جانے کی خواہش باقی رہتی ۔وہ ایسی گالیٓں اور ایسے ارادے اور ایسی دھمکیاں ہوتی تھیں کہ ایک طرف اُن کے دینے والے سمجھتے تھے کہ اگر اس شخص میں کوئی حس باقی ہے تو کل اس منہ سے ایسی بات ہرگز نہیں نکلے گی ۔ وہ خوش ہوتے تھے کہ آج ہم نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی زبان بند کر دی اوردوسری طرف جب خدا تعالیٰ کا سورج چڑھتا تو خداتعالیٰ کا یہ عاشق صادق خدا تعالیٰ کا پیغام مکہ والوں کو پہنچانے کے لیئے پھر نکل کھڑا ہوتا۔پھر تمام دن وہی گالیاں وہی دھمکیاں اور وہی ڈراوے ہوتے تھے اور اسی میں شام ہو جاتی ۔مگر جب رات کا پردہ ھائل ہوتا تو وہ سمجھتے کہ شاید آج یہ خاموش ہو گیا ہو گا۔مر وہ جس کے کانوں میں خدائی آواز گونج رہی تھی ۔ وہ مکہ والوں سے دب کر کیسے خاموش ہو جاتا اگر تو اس کی رات سوتے گزرتی ت وبے شک اس پیغٓم کو بھول جاتا ۔ مگر جب اُس کے سونے کی حالت جاگنے ہی کی ہوتی تو وہ کیسے بھول سکتا تھا ۔وہ سبق جو دوہرایا نہ جائے بیشک بھول سکتا ہے ۔ مگر جب آپ کی یہ حالت تھی کہ جو نہی سرہانے پر سر رکھا وہی اِقْرَئْ کی آواز آنی شروع ہو جاتی تو آپ کس طرح اس پیغام کو بھول جاتے ۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رمضان ہی میں یہ آواز آئی اور رمضان ہی میں آپ نے غار حرا سے باہر نکل کر لوگوں کو یہ تعلیم سنانی شروع کی ۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ اْلقُرْاٰنُ یعنی رمضان کہ مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اُترا۔ دوسری جگہ آتا ہے اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۔یعنی قرآن لیلۃ القدر میں اُترا گیا ہے ۔
رَمَضَان رَمَض سے نکلا ہے ۔جس کے معنے عربی زبان میں جلن اور سوزش کے ہیں ۔ خواہ وہ جلن دھوپ کی ہو خواہ بیماری کی ۔ اس لئے رَمَضَان کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا موسم جس میں سختی کے اوقات اور ایام ہوں ۔ اور اِدھر فرمایا ۔ہم نے اسے رات کو اتارا ہے اور رات تاریکی اور مصیبت پر دلالت کرتی ہے ۔ پس ان دونوں آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ الہام کا نزول تکالیف اور مصائب کے ایام میں ہوا کرتاہے ۔ جب تک کوئی قوم مصائب اور شدائد سے دوچار نہیں ہوتی ۔جب تک اُس کے دن راتیں نہیں بن جاتے جب تک وہ بھوک اور پیاس کی شدت سے تکلیف نہیں اُٹھاتی اُس وقت تک خدا تعالیٰ کا کلام اُس پر نازل نہیں ہوسکتا۔ اور اس ماہ کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی بتایا ہے کہ اگر تم اپنے اوپر الہام الٰہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہوں تو ضروری ہے کہ تکالیف اور مصائب میں سے گذرو اِس کے بغیر الہام الٰہی کی نعمت تمہیں میسر نہیں آسکتی ۔ پس رمضان کلام الٰہی کو یاد کرانے کا مہینہ ہے ۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی چاہیے ۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی اس مہینہ میں درس قرآن کا انتظام کرتے ہیں۔ دوستوں کو چاہیے کہ اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کیا کریں اور قرآن کریم کے معانی پر غور کیا کریں تاکہ اُن کے اندر قربانی کی روح پیدا ہو جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی ۔ بہر حال یہ مہینہ بتاتا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا فتح کرے اُس کیلئے ضروری ہے کہ وہ غار حرا کی علیحدگیوں میں جائے ۔ دنیا چھوڑے بغیر نہیں مل سکتی ہے ۔ پہلے اس سے علیحدگی اختیار کرنی ضروری ہوتی ہے ۔ اس کے ملنے کا بیشک یہی طریق ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کیلئے وقف کر دیا جائے۔ لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کیلئے کا ہو کر اس پر قبضہ کرنا چاہے وہ اُسی صورت میں کر سکیگا جب اُسے چھوڑ دیگا دیکھو ۔ابوجہل نے دنیا کیلئے کوشش کی اور اُسے حاسل کیا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے چھوڑدیا اور پھر بھی وہ آپ کی مل گئی ۔ بلکہ ابو جہل سے زیادہ ملی۔ابوجہل زیادہ سے زیادہ مکہ کا ایک رئیس تھا ۔مگر آپ اپنی زندگی میں ہی سارے عرب کے بادشاہ ہو گئے اور آج ساری دنیا کے شہنشاہ ہیں۔ غرض جو دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی وہ ابو جہل کو کہاں حاصل ہوئی ۔ مگر ابو جہل کو جو کچھ حاصل ہوا وہ دنیا کمانے سے ملا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ ملا وہ دنیا چھوڑنے سے ملا ۔ پس روحانی جماعتوں کو دنیا چھوڑ دینے سے ملتی ہے ۔ اور دنیوی لوگوں کو دنیا کمانے سے لمتی ہے ۔ اور رمضان ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ پہلے شدائد اور مصائب قبول کرو۔ راتوں کی تاریکیاں قبول کرو۔ اور ان چیزوں سے مت گھبراو ٔ ۔کیونکہ یہی قربانیاں تمہاری کامیابی کا ذریعہ ہیں۔
غرض رمضان ایک خاص اہمیت رکھنے والا مہینہ ہے ۔ اور جس شخص کے دل میں اسلام اور ایمان کی قدر ہوتی ہے ۔ وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کلئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سولم کے درمیان گذر جائیں ۔ کتنے ہی سال ہمیں اور انکو آپس میں جدا کرتے چلے جائیں کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اور ان میں حائل ہو تا چلا جائے لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے تو یوں معلوم وہتا ہے کہ ان صدیوں اور سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوڑتا سا کر کے رکھ دیا ہے ۔ اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام فاصلہ کو رمضان نے سیمٹ سماٹ کر ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے ۔ وہ بُعد جو ایک انسان کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے ۔ اور بُعد جو ایک مخلوق کو اپنے خالق سے ہوتا ہے ۔ وہ بُعد جو ایک کمزور اور نالائق ہستی کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خڈا سے ہوتا ہے وہ یوں سمٹ جاتا ہے وہ یو مٹ جاتا ہے وہ یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے سورج کی کرنوں سے رات کا اندھیرا ۔یہی وہ حالت ہے جسکے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔ اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِ نِّیْ قَرِیْبُٗ ۔ جب رمضان کا مہینہ آئے۔اور میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں کہ میں انیہں کس طرح مل سکتا ہوں تو تُو انہیں کہدے کہ رمضان اور خدا میں کوئی فرق نہیں ۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں خدا اپنے بندوں کیلئے ظٓہر ہوا۔ اور اُس نے چاہا کہ پھر اپنے بندوں کو اپنے پاس کھینچ کر لے آئے ۔ اس کلام کے ذریعہ جو حبل اللہ ہے ۔ جو خدا کا دہ رسہ ہے جس کا ایک سِرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا مخلوق کے ہاتھ میں اب یہ بندوں کا کام ہے کہ وہ اس رسہ پر چڑھ کر خدا تک پہنچ جائیں ۔
اب میں بتاتا ہوں کہشَھْرُرَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ اْلقُرْاٰنُ کے تین معنے ہو سکتے ہیں ۔
اول اس جگہ فی تعلیلیہ ہے اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم اتارا گیا ہے ۔ یعنی رمضان المبارک کے روزوں کی اس قدر اہمیت ہے کہ ان کے بارہ میں قرآن کریم میں خاص طور پر احکام نازل کئے گئے ہیں۔ اور جس حکم کے بارہ میں قرآنی وحی نازل ہو اُس کے متعلق ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کتنا اہم اور ضروری ہو گا۔ فی کے یہ معنے لغت سے بھی ثابت ہیں ۔چنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں تَکلَّمْتَ مَعَکَ فِیْ ھٰذَالْاَ مْرِ میں نے تجھ سے اس امر کے متعلق گفتگو کی ۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی اس کی مثال پائی جاتی ہے ۔ سورۃ یوسف میں اِمْرَ أۃُ الْعَزِیْز کے متعلق آتا ہے کہ اُس نے کہا فَدٰلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتَّنِیْ فِیْہِ (یوسف آیت ۳۳)یہ وہ شخص ہے جس کے بارہ میں تم نے مجھے ملامت کی ہے ۔ اسی طرح حدیث میں آتاہے ۔ عُذِّبَتْ اِمْرَ رائَ ۃٗ فِیْ عِرَّۃٍ حَبَسَتْھَا( بخاری جلد ۲ کتاب المساقاۃ) ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا کیونکہ اُس نے اُسے بغیر کھلائے پلائے باندھ دیا تھا یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا ۔چنانچہ حدیثوں سے صاف طور پر ثابت ہے کہ قرآن کریم کا نزول رمضان کے مہینہ میں شروع ہوا۔ اور گو تاریخ کی تعیین میں اختلاف ہے لیکن محدثین عام طورپر ۲۴ تاریخ کی روایت کو مقدم بتاتے ہیں ۔ چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ زرقانی دونوں نے اس روایت کو ترجیح دی ہے کہ قرآن کریم رمضان کی ۲۴ تاریخ کو اُترنا شروع ہوا تھا ۔(زرقانی شرح مواہب للدنیہ جلد اول صفحہ ۲۰۷وبحر محیط جلد ۲ صفحہ ۳۹)
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ رمضان میں پورا قرآن اتارا گیاس ۔ جیسے احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت رضی اللہ عنہا سے فرمایا ۔اِنَّ جِبْرِیْلَ کَانَ یُعَارِ ضَنِیَ اْلقُرْاٰنَ فِیْ کُلِّ سَنَۃٍ مَرَّۃً وَ اِنَّہٗ عَارَ ضُنِیَ الْاٰنَ مَرَّ تَیْنِ (زرقانی شرح مواہب اللدنیہ جلد ۸ صفحہ ۲۵۰،صفحہ ۲۶۳)یعنی جبریل ہر سال رمضان کے مہینہ میں تمام قرآن کریم کا میرے ساتھ ایک دفعہ دور کیا کرتے تھے۔ مگر اس سال انہوں نے دو دفعہ دور کیا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی قرآن نازل ہوا ہے مگر رمضان المبارک کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں جس حد تک قرآن کریم نازل ہو چکا ہوتا تھا جبریل اس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر دور کیا کرتے تھے۔ گویا دوسرے الفاظ میں دوبارہ تمام قرآن کریم آپ پر نازل کیا جاتا۔ بخاری کتاب بدر الوحی میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَجْوَدُ النَّاسِ وَکَانَ اَجْوَ دَ مَایِکُوْنُ فِیْ کُلٍّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیْدَ ارِسُہُ الْقُرْاٰنَ فَلَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَجْوَدُ اِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَۃِ۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور زیادہ ترسخاوت آپ رمضان میں فرمایا کرتے تھے جبکہ جبریل آپ سے ملتے تھے۔ اور جبریل رمضان کے مہینہ میں ہررات آپ سے ملا کرتے تھے اور تمام قرآن کریم کا آپ کے ساتھ مل کر دور کیا کرتے تھے اُن دنوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارش لانے والی ہوا سے بھی اپنے جود وکریم میں بڑھ جاتے تھے۔
ان حوالجات سے ثابت ہے کہ ابتدائے نزولِ قرآن میں رمضان کے مہینہ میںہوا اور پھر ہر رمضان میں جتنا قرآن اس وقت تک نازل ہو چکا ہوتا تھا جبریل دوبارہ نازل ہو کر اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر دوہراتے تھے۔ اس روایت کو مدنظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ سارا قرآن کریم ہی رمضان میں نازل ہوا۔ بلکہ کئی حصے متعدد بار نازل ہوئے یہاں تک کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد اگر ۲۳ رمضان آئے تو بعض آیات ایسی تھیں جو ۲۳ بار نازل ہوئیں بعض ۲۲ بار نازل ہوئیں ۔ بعض ۲۱ بار اور بعض ۲۰ بار۔ اسی طرح جو آیات آخری سال نازل ہوئی وہ بھی دو دفعہ دہرائی گئیں۔ کیونکہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کی حیاتِ طیبہ کے آخری سال میں جبریل علیہ السلام نے دو دفعہ قرآن کریم آپ کے ساتھ دہرایا اور یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے کہ ملائکہ جو بھی کام کرتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے حکم سے کرتے ہیں۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کہ جبریل علیہ السلام کا رمضان میں آپ کے ساتھ مل کر قرآن کریم کا دور کرنا نزول نہیں کہلا سکتا کیونکہ فرشتہ اُترتا ہی اسی وقت ہے جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو اور اسلامی زبان میں اس کے لئے نزول کی اصلاح ہی استعمال ہوتی ہے۔ پس اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنَ سے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اس مہینہ میں تمام قرآن کا نزول ہوا۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رمضان اسلامی نام ہے اس مہینے کا پہلا نام زمانہ جاہلیت میں نائق ہوا کرتا تھا(فتح البیان)۔
ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی۔ چونکہ ھُدًی اور بِیِّنَاتٍ دونوں قرآن کریم کا حال ہیں۔ اس لئے اس کے معنے یہ ہوئے کہ یہ قرآن ایسا ہے کہ اول تو وہ ھُدًی ہے یعنی لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے دوم اس میں ہدایت کے دلائل ہیں یعنی وہ یونہی لوگوں کو نہیں کہتا کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو بلکہ وہ دلائل بھی دیتا ہے ۔ اور لِلنَّاسِ کا لفظ رکھ کر بتایا کہ یہ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے صرف بعض لوگوں کے لئے نہیں۔ وَلْفُرْقَانَ اور پھر اس میں ایسے دلائل بھی جو حق اور باطل میں امتیاز کردیتے ہیں۔
فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ میں بتایا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ رمضان کا مبارک مہینہ نصیب کرے اور وہ ان دنوں میں سفر میں بھی نہ ہو اور اس کی صحت بھی اچھی ہو اُسے چاہیے کہ وہ پورے مہینہ کے مسلسل روزے رکھے اور اپنے لئے خیر اور برکت کے زیادہ سے زیادہ سامان جمع کرے اور ان مبارک ایام کو سستی اور غفلت میں ضائع نہ کرے۔
پھر فرماتا ہے ۔یُرِیْدُ اللّٰہَ بِکُمُ الْئُسْرَ وَلَا ئُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔ یعنی ہم نے رمضان میں روزے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ تم ایمان لائو اور پھر اپنی زندگی تنگیوں میں بسر کرو۔ حالانکہ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ ان دنوں مومنوں کو اپنے نفس پر زیادہ تنگی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ درحقیقت اس آیت میں عظیم الشان نکتہ بتایا گیا ہے کہ خداعتالیٰ کے لئے بھوکا رہنا یا دین کے لیے قربانیاں کرنا انسان کے لئے کسی نقصان کا موجب نہیں بلکہ سراسر فائدہ کا باعث ہوتا ہے۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ رمضان میں انسان بھوکا رہتا ہے وہ قرآن کریم کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھوکے تھے ہم نے رمضان قرر کیاتاکہ تم روٹی کھائو۔ پس معلوم ہوا کہ روٹی وہی ہے جو خدا کھلاتا ہے اور اصل زندگی اسی سے وابستی ہے کہ انسان خدا کے لئے قربانی کر اور پھر جو کچھ ملے اسے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوا کھائے۔ اس کے سوا جو روٹی ہے وہ دراصل کھانے والے کے لئے روحانی ہلاکت کا موجب ہوتی ہے۔ پس مومن کا فرض ہے کہ جو لقمہ بھی اس کے مونہہ میں جائے اس کے متعلق پہلے دیکھ لے کہ وہ کس کے لئے ہے اگر تو وہ خدا کے لئے ہے تو وہی روٹی ہے اور اگر نفس کے لئے ہے تو وہ روٹی نہیں بلکہ پتھر ہیں۔ اسی طرح جو کپڑا خدا کے لئے پہنا جائے وہی لباس ہے اور جو نفس کے لئے پہنتا ہے وہ ننگا ہے۔ دیکھو کیسے لطیف پیرا یہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جب تک تم خدا کے لئے تکالیف اور مصائب برادشت نہ کرو تم کبھی سہولت حاصل نہیں کر سکتے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی ابطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خوید۔ وہ ان دنوں خوب گھی مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اس طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خوید کے بعد گھوڑا۔ یہ چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے۔ اسی طرح افطاری میں تنوع اور سحری میں تکلفات بھی نہیں ہونے چاہیں اور یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ سارا دن بھوکے رہے ہیں اب پر خوری کر لیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام ؓ افطاری کے لئے کوئی تکلفات نہ کرتے تھے۔ کوئی کھجور سے کوئی نمک سے بعض پانی سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس طریق کو پھر جاری کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہؓ کے نمونہ کو زندہ کریں۔
پھر فرماتا ہے وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرو۔ مفسرین نے اس کے یہ معنے کئے ہیں اور میں خود بھی کبھی کبھی یہ معنے کیا کرتا ہوں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہینہ بھر کے روزے مقرر کرنے کی وجہ بتائی ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کا مہینہ اس لئے مقرر کیا ہے تا دن پورے ہوجائیں ۔ اگر یونہی حکم دے دیتا کہ روزے رکھو تو کوئی دس رکھ لیتا کوئی بیس رکھ لیتا اور کوئی رکھتا ہی چلا جاتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک مہینہ مقرر کر دیا تاکہ روحانی تکمیل کے لئے جس مدت کی ضرورت ہے اس کو تم پورا کر لو۔ یہ معنے بھی اپنی جگہ درست ہیں مگر اس کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ اصل زندگی انسان کی وہی ہے جو نیکی میں گذرے عمر کا وہ حصہ جو دنیا کے لئے گذر جاتا ہے ضائع چلا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے روزے اس لئے رکھے ہیں تاکہ تم اپنی حقیقی عمر پوری کر لو۔ جو لوگ دنیا حاصل کرنے میں ہی مصروف رہتے ہیں وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق زندہ نہیں بلکہ مردہ ہوتے ہیں۔ اور مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاَخِرَۃِ اَعْمَی۔ کے مطابق جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہاں میں بھی اندھا ہی ہو گاپس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ کہ ہم نے روزے اس لئے مقرر کئے ہیں تا تم دنیا میں اپنی مقررہ عمر گذار لو چونکہ بنی نوع انسان کے لئے کھانا پینا لازمی ہے۔ اس لئے سارا سال تو روزے نہیں رکھے جا سکتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس اصل کے مطابق کہ ایک نیکی کا ثواب کم سے کم دس گنا ملتا ہے ایک ماہ کے روزے مقرر کر دیئے اور اس طرح رمضان سارے سال کے روزوں کا قائم مقام ہو گیا۔گویا جس نے اس مہینہ میں روزے رکھ لئے اس نے سارے سال کے روزے رکھ لئے اور اس طرح اس کی زندگی واقعی زندگی ہو گئی۔
پھر فرماتا ہے وَلِتُکَبِّرُ و اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ۔ یہ روزے اس لئے مقرر کئے گئے ہیں کہ تم اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاتھا شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنَ کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شَھْر کے مقابلہ میں وَلِتُکْمِلُواالْعِدَّۃَ کے الفاظ رکھ دیئے۔ اور بتایا کہ اگر ہم ایک مہینہ مقرر نہ کرتے تو کوئی کم روزے رکھتا اور کوئی زیادہ اور اس طرح وہ روحانی ترقی جو مہینہ بھر کے روزوں کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتی ہے اسے وہ حاصل نہ کر سکتے۔
اس کے بعد اُنْزِل فِیْہِ الْقُرْاٰنَ کے مقابلہ میں وَ لِتُکَبِّرُوْ االلّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ کے الفاظ رکھ کر بتایا کہ ہم نے کوئی اور مہینہ اس لئے مقرر نہیں کیا کہ نزول ِ قرآن کو یاد کر کے اس ماہ میں تمہارے دل میں خاص جوش پیدا ہو سکتا ہے۔ جب رمضان کا مہینہ آئیگا تو لازماً تمہیں یہ خیال بھی آئیگا کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم پر خداتعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل قرآن کریم جیسی مقدس کتاب کی شکل میں نازل ہوا ہے اور تمہارا دل خود بخود اس مہینہ میں خداتعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کی طرف متوجہ ہو جائیگا۔
پھروَ لِتُکَبِّرُوْ االلّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ دن اس لئے ہیں کہ تا اللہ تعالیی کی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو یہ نہیں کہ تم شکوہ کرو کہ ہمیںبھوکا رکھا۔ بلکہ یہ سمجھو کہ بڑا احسان کیا کہ روزہ جیسی نعمت ہمیں عطا کی۔ یہاں مومن کا نقطہ نگاہ واضح کیا گیا ہے کہ اسے قربانی کا جو مو قعہ بھی ملے وہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتا ہے۔ اور جس قوم کا یہ نقطہ نگاہ ہو جائے۔ اسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا۔ وہ ضرور کامیاب ہو کر رہتی ہے۔ ایسی قوم حقیقی معنوں میں زندہ قوم ہو جاتی ہے۔ جب ایک شخص کے دل میں یہ خیال ہو کہ مجھ پر جو دینی ذمہ داریاں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرے گا۔ اور جو شخص خداتعالیٰ کی بڑائی کرے خداتعالیٰ اس ی بڑائی کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تمہیں جو کوئی تحفہ دے تم اسے اس سے بہتر تحفہ دو۔ اور جب ہمیں یہ حکم دیاگیا ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ایسا نہ کرے۔ انسان اس کی خدمت میں تحفہ پیش کرے اور وہ اس سے بہتر تحفہ اسے نہ دے۔ پس جو شخص خداتعالیٰ کی بڑائی کرتا ہے خداتعالیٰ اس کی بڑائی کرتا ہے۔ مگر شرط یہی ہے کہ تکبیر صرف منہ سے نہ ہو ۔ جس تکبیر سے وہ خوش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گالیاں کھائو۔ ماریں کھائو۔ پتھر کھائو اور پھر بھی خداتعالیٰ کی تکبیر کرو کہ اس نے ہمیں یہ مواقع عطا کئے ہیں۔ گویا حقیقی تکبیر یہی ہے کہ جتنا زیادہ ظلم ہو اتنا ہی زیادہ انسان خداتعالیٰ کی طرف جھکے اور کہے کہ مجھ پر اس کے کتنے احسان ہو رہے ہیں جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی تکبیر کرے اور اس کی بڑائی بیان کرے ایسے شخص کی تکبیر کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ یقییناً اس کو بڑھاتا ہے اور اس کی بڑائی کے سامان پیدا کرتا ہے۔ ورنہ صرف مُنہ کی تکبیر یں اس کے کسی کام نہیں آسکتیں۔
اس کے بعد فرمایا ولَعَلَّلُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ یہ روزے ہم نے اس لئے مقرر کئے ہیں تاکہ تم اس کے شکر گذار بنو۔ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے وَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مقابل میں رکھ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ سہولت ہم نے اس لئے رکھی ہے کہ تم شکر گذار بنو کہ خداتعالیٰ نے مدارجِ عالیہ کے حصول کے لئے ہمارے لئے کس قدر سہولتیں رکھ دی ہیں اور تمہاری جبینِ نیاز ہمیشہ اس کے حضور جھکی رہے۔
غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تین احکام دیئے ہیں اور تین ہی حکمتیں بیان فرمائی ہیں تین احکام تو یہ دیئے کہ (۱) مہینہ کے روزے رکھو (۲) رمضان میں رکھو (۳) مریض اور مسافر کو ان دنوں میں رخصت ہے۔ اس کے مقابل میں تین ہی حکمتیں بیان فرمائی (۱) کہا تھا کہ ایک مہینہ کے روزے رکھو اس کے لئے فرمایا کہ اگر ہم روزے مقرر نہ کرتے تو لوگ کم و بیش رکھتے اور اس طرح وہ تعداد پوری نہ ہوتی جو روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے (۲) کہا تھا کہ رمضان میں روزے رکھو۔ اس پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ رمضان کو کیوں مقرر کیا ہے جس مہینہ میں کوئی چاہتا رکھ لیتا اس لئے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کا نزول یاد آکر خداتعالیٰ کو یاد کرنے کا جوش پیدا کرتا ہے اور اس مبارک مہینہ میں خداتعالیٰ کی عبادت اور ذکرِ الہٰی کی طرف تمہیں زیادہ توجہ پید ا ہوگئی۔ (۳) کہا تھا کہ بعض کے لئے رخصت ہے ۔ اس لئے وجہ یہ بتائی کہ ان آسانیوں کو دیکھ کر خداتعالیٰ کو ہمارا کتنا خیال ہے اس نے ہمارے فائدہ کے لئے حکم دیا۔ اور اس میں بھی ہمارے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ یہ عِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مقابلہ میں فرمایا کہ یہ تخفیف اور سہولت اس لئے ہے کہ تم خداتعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اس کی محبت سے اپنے سینہ و دل کو منور کرو۔ اسی طرح لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ رمضان ہم نے اس لئے اُتارا ہے کہ تم شکر گذار بنو۔ یعنی ہر تکبر کے بعد شکر کرو کہ خدا نے اپنی تکبیر کی توفیق دی اور پھر اس بات کا شکر کرو کہ خداتعالیٰ نے اپنے شکر کی توفیق دی۔ اور پھر شکر کی توفیق ملنے پر شکر کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے شکر کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائیگا کہ انسان ہر وقت اس کے دروازہ پر گِرا رہے گا اور اس غلام کی طرح ہو جائے جو کسی صورت میں بھی اپنے آقا کو نہیں چھوڑتا۔
وَاِذَ سَاَلَکَ
یَرْشُدُوْنَo
۱۰۰؎ حل لغات:۔ اُجِیْبُ:اَحَابَ سے مضارع متکلم کاصیغہ ہے اور اَلْحِجَابَۃُ کے معنے یہں۔ اَلْعَطَاعُ مِنَ اللّٰہِ وَالطَّاعَۃُ مِنَ الْعَبْدِ (مفردات) یعنی اجابت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو بخشش کرنے یا دینے کے معنے ہوتے ہیں اور اگر بندے کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنے اطاعت کے ہیں۔ پس اُجِیْبُ کے معنے ہوئے میں سنکر بدلہ دیتا ہوں یا اسے قبول کرتاہوں۔
وَلْیُوْمِنُوْ ابِیَ: اٰمَنَ بِہٖ کے معنے ہیں (۱) اُسے مان لیا (۲) اس کی صفات کو تسلیم کر لیا ۔ پس وَلْیُوْ مِنُوْ اِلْی کے یہ معنے ہوئے کہ (۱) وہ مجھے مانیں اور (۲) میری صفات کو تسلیم کریں۔
لَعَلَّکُمْ: لَعَلَّ مِنْ اَخَوَاَتِ اِنَّ۔ لَعَلَّ اِنَّ کے اخوات میں سے ہے۔ وَذَکَرَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِیْنَ اَنَّ رَدَلَّ مِنَ اللّٰہِ وَاجِب’‘ (مفردات) اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنے یقین کے ہوتے ہیں ۔ نیز لَعَلَّ کی مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرہ ۲۲؎۔
تفسیر:۔فرماتا ہے اے رسول! جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں اور پوچھیں کہ ہمارا خدا کہاں ہے ۔ جیسے عاشق پوچھتا پھرتا ہے کہ میرا محبوب کہاں ہے تو تو انہیں کہہ دے کہ تم گھبرائو نہیں میں تو تمہارے بالکل قریب ہوں۔ یہاں عِبَادِیْ سے رمراد عاشقانِ الہٰی ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح عاشق ہر جگہ دوڑا پھرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا معشوق کہاں ہے اسی طرح جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو انہیں کہہ دے کہ گھبرائو نہیں میں تمہارے قریب ہی ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے عشاق کے دل کو توڑنا نہیں چاہتا۔
پھر فرمایا ہے۔ میرے قریب ہونیکا ثبوت یہ ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَافِ۔ جب کوئی شخص کامل تڑپ اور سوز وگداز کے ساتھ مجھ سے دُعا کرتا ہے تو میں س کی دعا کو قبول کر لیتا ہوں۔ اور یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ میں قریب ہوں۔ اگر میں بعید ہوتا تو میں اس کی سجدے کی آہستہ آواز کو بھی کیسے سن سکتا۔ اور اگر میں بعید ہوتا تو اس کی گوشہ تنہائی میں بیٹھے ہوئے ہاتھ اُٹھا کر یا قیام کی صورت میں آہستہ آواز والی دُعا کیسے سُن لیتا۔ میرا اس دُعا کو سُن لینا بتاتا ہے کہ میں اس کے قریب ہوں۔
دوسری جگہ قرآن کریم میں خداتعالیٰ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ یعنی پاس ہونا تو الگ رہا جو انسان کی رگ ِ جان ہے ہم اس سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں اس کے معنے یہ ہوئے کہ وہ پاس ہی نہیں بلکہ انسان کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔ اور یہ ظاہرہ ے کہ پاس بیٹھنے والا صرف وہ آواز سنتا ہے جو منہ سے کہی جائے اور جو اندر بیٹھا ہو وہ بات سنتا ہے جو دل سے کہی جائے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے لفظ قریب کی دوسری جگہ تشریح کر دی کہ قریب کا مفہوم یہ ہے کہ حبل الورید یعنی رگِ جان سے بھی میں زیادہ قریب ہوں اور میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں خواہ وہ زبان سے کی گئی ہو یا دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی ہو کیونکہ میرا اس سے تعلق ایسا قریب ہے کہ میں اس کے دل میں بیٹھا ہوا ہوں۔
بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہہم نے تو بڑے اضطراب سے دعائیں کی تھیں مگر وہ قبول نہیں ہوئیں پھر یہ آیت کس طرح درست ثابت ہوئی ۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ بے شک اَلدَّاعِ کے ایک معنے ہر پکارنے والے کے بھی ہیں۔ مگر اس کے ایک معنے ایسے پکارنے والے کے بھی ہیں جس کا اوپر ذکر ہو رہاہے۔ اور مراد یہ ہے کہ وہ بندے جو مجھے ملنے کے اضطراب میں اور سب کچھ بھول جاتے ہیں اور مجھ سے صرف میرا قرب اور وصال چاہتے ہیں میں انکی دُعا کو سنتا اور انہیں انے قریب میں جگہ دیتا ہوں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں وَاِذَ ا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عِنِّیْ فرمایا ہے۔ یعنی وہ میرے بارے میں سوال کرتے یہں اس میں روٹی کا کہیں ذکرنہیں۔ نوکری کا کہیں ذکر نہیں بلکہ صرف غَنِّیْ فرمایا ہے عَنِ الْخُبْرِ یا عَنِ الْوَظِیْفَۃِ نہیں فرمایا۔ پس جو شخص خداتعالیٰ کا قرب مانگے اور وہ اسے نہ ملے اسے تو بے شک اعتراض ہو سکتا ہے لیکن دوسروں کے لئے اس میں کوئی اعتراض کی گنجائش نہیں۔
پھر اس آیت کی عبارت ایسی ہے کہ اس سے اضطراب اور گھبراہٹ کی طرف خاص طور پر اشارہ پایا جاتا ہے بعض مضامیں الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتے لیکن ہو عبارت میں پنہاں ہوتے ہیں اور یہی حالت یہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرے بندے میری طرف دوڑتے ہیں۔ ان کے اندر ایک اضطراب اور عشق پیدا ہوتا ہے اور وہ چلاتے ہیں کہ ہمارا خدا کہاں ہے تو تو ان سے کہدے کہ میں تمہاری طرح کے پکارنے والے کی پکار کو کبھی رد نہیں کرتا بلکہ اُسے ضرور سنتا اور قبول کرتا ہوں۔ ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں یہ مضمون ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ہمیں اپنی ذات ہی کی قسم ہے کہ ہم ضرور ان کو اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخش دیتے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مذہب اور علم کے آدمی کو اپنا رستہ دکھانے کے لئے تیار رہتا ہے۔ بشرطیکہ انسان اس کے لئے کوشش کرے۔ اور اس کی دُعا کو وہ ضرور سن لیتا ہے۔ باقی دعائوں کی قبولیت میں وہ انسان مصالح کو بھی مدنظر رکھتا ہے بعض دفعہ انسان جو چیز مانگتا ہے خداتعالیٰ کے علم میں وہ اس کے لئے مہلک ہوتی ہے۔ پھر بعض دفعہ ملازمت ایک ہوتی ہے اس کو مانگنے والے دو ہوتے ہیں اب ایک ملازمت دو کو تو نہیں مل سکتی ہو لازماً ایک ہی کو ملے گی۔ مگر وہ چیز جس کے بانٹنے کے باوجوس اس میں کوئی کمی نہیں آسکتی وہ خدتعالیٰ کی ذات ہے باقی تمام اشیاء محدود ہیں۔ اگر ایک چیز کے دو مانگنے والے سامنے آجائیں تو وہ لازماً زیادہ حقدار کو دی جائیگی یا اگر وہ مضر ہو تو گو اس کو کوئی اور حقدار نہ ہو مگر پھر بھی وہ اپنے مومن بندہ کو نہیں دیگا کیونکہ وہ دوست سے دشمنی کیونکر کر سکتا ہے اور کیسے ممکن ہے کہ جس چیز کے متعلق ہو جانتا ہے کہ آگ ہے وہ اپنے دوست کو دے دے ۔ غرض سب دعائوں کی قبولیت میں روکیں ہوتی ہیں مگر ایک دُعا ہے جس کے قبول ہونے میں کوئی روک نہیں اور جس کے لینے میں کوئی برائی نہیں۔ دنیا کی ہر چیز میں برائی ہو سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ وَیَل’‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ بعض نماز پڑھنے والوں کے لئے بھی ہلاکت ہے مگر خداتعالیٰ کو مانگنے میں کوئی ویل نہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ خداتعالیٰ کسی سے اس لئے نہ ملے کہ وہ ہلاکت میں نہ پڑے یااس لئے نہ ملے کہ خداتعالیٰ کے وجود میں کمی نہ آجائے۔ جس طرح ہوا ہر ایک کے ناک میں جاتی ہے مگر اُس میں کمی نہیں ہوتی اسی طرح خداتعالیٰ ہر بندہ کو مل سکتا ہے اور پھر بھی اس میں کمی نہیں ہوتی۔ سورج کی شعاعوں سے سب مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے۔ مگر ان میں کوئی کمی نہیں آتی چاند کی شعاعوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔ تم چاند کی روشنی میں گھنٹوں بیٹھ کر لطف اٹھائو مگر اس کا نور پھر بھی اُتنے کا اتنا ہی رہیگا۔ یہی حال خدتعالیٰ کا ہے۔ بلکہ خداتعالیٰ تو ان سے بھی کامل ہے۔ ان چیزوں میں بھی ممکن ہے کوئی خفیف سے کمی ہو جاتی ہو۔ مگر خداتعالیٰ میں اتنی بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے وہ اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ تم میری طرف آئو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم کس طرح تیزی سے قدم مارتے ہوئے اس راستہ پر چل پڑو گے جس سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور باوجود یہ کہ وہ غیر مرئی ہے تم اس کو پالو گے اور اس کا وصال حاصل کر لو گے۔ درحقیقت اگر غور کیا جائے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی روحانی ترقی اور بندوں اور خدا کے باہمی اتصال کے لئے تین تغیرات کا ذکر فرمایا ہے جن کے بغیر کوئی انسان خداتعالیٰ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
سب سے پہلا تغیر جو کسی انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں خداتعالیٰ سے ملوں اور س کا قرب حاصل کروں۔ مگر ظاہر ہے کہ صرف خواہش کا پیدا ہونا اسے خداتعالیٰ کے دربار تک نہیں پہنچا سکتا بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ اسے کوئی ایسا ہاوی اور رہنما میسر آئے جو اسے اس مقصد میں کامیابی کا طریق بنائے۔ اور اس کی مشکلات کو دور کرے۔ اسلام اس فطری تقاضا کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ بیشک ان لوگوں کے دلوں میں یہ خواہش تو پیدا ہو گئی ہے کہ انہیں خدا ملنا چاہیے لیکن اب دوسرا تغیر ان میں یہ بھی پیدا ہو نا چاہیے کہ وہ تجھ سے پوچھیں یعنی ہدایت پانے اور خداتعالیٰ کو تلاش کرنے کے لئے انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جانا چاہیے اور آپ سے اپنے محبوب حقیقی کا پتہ دریافت کرنا چاہیے جس طرح بیمار کی تندرستی کے لئے ایک تو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ سمجھ لے کہ وہ بیمار ہے اور دوسرے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس ڈاکٹر کے پاس جائے جو اعلیٰ درجہ کا تجربہ کار ہو۔ اسی طرح خداتعالیٰ کو پانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ نہ صرف خداتعالیٰ کو پانے کی سچی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہو بلکہ وہ اس خواہش کے حصول کیل ئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اختیار کر لے جو انسان کو خداتعالیٰ تک پہنچانے والے ہیں۔
پھر تیسری بات جو قرب الہٰی کے لئے ضروری ہے اور جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا سوال عَنِّیْ ہو۔ یعنی ان کی غرض محض خدا تعالیٰ کو پانا ہو۔ لوگ کئی اغراض کے ماتحت مذہب میں داخل ہوتے ہیں۔ بعض لوگ محض ایک جماعت میں منسلک ہونے کے لئے داخل ہوتے ہیں بعض معاشرت یا تمدن کے خیال سے داخل ہوتے ہیں مگر فرمایا ان کا سچے مذہب میں داخل ہونا محض خداتعالیٰ کے وصال اور اس کے قرب کے حصول کے لئے ہو۔ کوئی اور خواہش اس کے پیچھے کام نہ کر رہی ہو۔ ہاں اگر دوسرے فوائد ضمنی طور پر حاصل ہو جائیں تو اور بات ہے لیکن اصل غرض محض خداتعالیٰ کا حصول ہونا چاہیے۔
پھر عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب اِذَا کے بعد ف آتی ہے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ پہلے کام کے نتیجہ میں فلاں بات پیدا ہوئی۔ اس جگہ بھی اِذَا سَالَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ تَرِیْب’‘ کے یہ معنے ہیں کہ جب یہ تین باتیں جمع ہو جائیں۔ یعنی سوال کرنے والے سوال کریں کہ ہمیں خداتعالیٰ کی ضرورت ہے پھر تجھ سے سوال کریں فلاسفوں اور سائنسدانوں سے سوال نہ کریں ۔ عیسیٰ موسیٰ سے سوال نہ کریں بلکہ تیرے پاس آئیں قرآن کے پاس آئیں یا تیرے خلفاء کے پا س آئیں اور پھر وہ میری ذات کے متعلق سوال کریں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میں ان کے قریب ہو جاتا ہوں اور انہیں اپنا چہرہ دکھا دیتا ہوں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ جب سورۃ ق میں جو کہ مکی سورۃ ہے خداتعالیٰ یہ فرما چکا تھا کہ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(ق آیت ۱۷) ہم انسان سے اس کی رگ ِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں تو پھر سورۃ بقرہ میں جو مدنی سورۃ ہے یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں تو تو ان کو یہ جواب دے دے کہ میں قریب ہوں۔ جب مکی آیت کے ذریعہ نہیں معلوم ہو چکا تھا کہ خداتعالیٰ بہت ہی قریب ہے تو پھر یہ سوال ہی کوئی نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس آیت کے نازل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اور اگر کوئی سوال کرتا بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے یہ فرما سکتے تھے کہ خداتعالیٰ تو بتا چکا ہے کہنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد ۔ لیکن قرآن کریم خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ اور خداتعالیٰ کا کلام بلا ضرورت نہیں ہوا کرتا۔ پس معلوم ہوا کہ یہاں خداتعالیٰ کا سوال بیان کرنا اور پھر اس کا جواب دینا کوئی اور حکمت دیتا ہے۔ اور یہاں جو قریب کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے وہ قرب اور بُعد مراد نہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد۔ اگریہاں بھی یہی مراد ہوتی تو پھر یہ کیوں فرماتا کہ جب لوگ تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یہ جواب دیجیو۔ پس معلوم ہوا کہ اس جواب میں جو قریب کہا گیا ہے وہ بھی کوئی اور معنے رکھتے ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان دونوں آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ایک عجیب فرق رکھا ہے۔ او روہ یہ کہ قرب اور بُعد ہمیشہ نسبت کے ساتھ ہوتا ہے ایک چیز ہمارے قریب ہوتی ہے مگر وہی دوسرے سے بعیدہوتی ہے۔ پس قریب اور بعید ایک نسبتی چیز ہے۔ جب ہم ایک چیز کو قریب کہتے ہیں تو ایک نسبت سے کہتے ہیں حالانکہ دوسری نسبت سے وہی چیز بعید ترین ہو سکتی ہے۔ سورہ ق میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہ‘ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلیْہِ مَنْ حَبْلِ الْوَرِیْہِ۔ کہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اس کے دل میں جو وسوسہ ہوتا ہے اس کو بھی جانتے ہیں اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی قریب تر ہیں۔ تو اس میں اِلَیْہِ کی نسبت سے اَقْرَبُ فرمایا ہے۔لیکن آیت وَاِذَ سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب’‘ میں قَرِیْب’‘ کا لفظ کسی نسبت سے نہیں فرمایا۔بلکہ بلانسبت فرمایا ہے اور اس کی کوئی حد بندی نہیں کی۔ اس عدمِ حد بندی میں ایک لطیف نکتہ ہے اور وہ یہ کہ انسان جو اپنی ضرورت خداتعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے وہ مختلف اوقات میں مختلف اشیاء کے متعلق ہوتی ہے کبھی تو وہ انسانوں کے متعلق ہوتی ہے او رکبھی حیوانوں کے متعلق۔ کبھی جانداروں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی بے جانوں کے متعلق۔ کبھی خداتعالیٰ کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی ملائکہ کے متعلق۔ کبھی اس دنیا کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی اگلے جہان کے متعلق ۔ کبھی اس زمین پر رکھنے والی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق۔ غرض انسان کی مختلف احتیاطیں ہیں اور ایسی وسیع ہیں کہ جن کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی۔ لیکن انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب اسے کسی چیز کی طلب ہوتی ہے تو اس کے حاصل کرنے کے متعلق وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتا ہے جو قریب ہو پھر قریب کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک یہ بھی قریب ہے کہ کوئی ذریعہ جلد سے میسر جائے۔چنانچہ ہر انسان ایک مدعا حاصل کرنے کے لئے جو ذریعہ قریب دیکھتا ہے اس کو لے لیتا ہے۔ اور بعید کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر اس کے علاوہ قریب ایک اور رنگ میں بھی ہوتا ہے یعنی وہ ذریعہ جو مدعا اور منزل مقصود کے قریب تر پہنچا دے ۔ انسان اس ذریعہ کو اختیار کرتا ہے اور دوسروں کو چھوڑ دیتا ہے ۔ غرض بہت سے قریب ہیں جن کا کسی چیزمیں پایا جانا ہر انسان دیکھتا ہے ۔ اور جب وہ سارے قرب کسی میں پالیتا ہے تو اس کو اپنے مدعا کے حصول کے لئے چن لیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ وَاِذَ اسَالَکَ عِبَادِیْ عَنّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہ انسان اپنے مختلف مقاصد کے لئے کوشش کرتا ہے اور ان کے لئے دیکھتا ہے کہ کونسا ذریعہ اختیار کروں جس سے جلد کامیان ہو جائوں۔ جب انسان ذرائع کو سوچتے سوچتے یہاں تک پہنچے کہ میں دُعا کر وں تو اس کو کہدو کہ اللہ قریب ہے۔ قَرِیْب’‘ اِلَیْہِ نہیں فرمایا۔ اس لئے کہ خداتعالیٰ نہ صرف انسان کے قریب ہے بلکہ ہر ایک چیز کے قریب ترین ہے اور وہ مدعا حاصل کرنے کا سب سے قریب ترین ذریعہ ہے۔ یوں قریب ہونا اور بات ہے۔ غرض خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے بھی قریب ہوں اور وہ مقصد جسے تم حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے بھی قریب ہوں اور وہ مقصد جسے تم حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے بھی قریب ہوں گویا اس آیت میں قربِ مکان کا ذکر نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ حصولِ مدعا کے لئے جتنے قربوں کی ضرورت ہے وہ سب خداتعالیٰ میں موجود ہیں مثلاً ایک شخص ولایت میں بیٹھا ہوا روپیہ کا محتاج ہے وہ وہاں سے ہمیں مدد کے لئے لکھتا ہے۔ اگر ہم اُسے روپیہ بھیجیں تو کئی دنوں کے بعد اُسے ملے گا لیکن اگر ہم اس کے لئے دُعا کریں تو ممکن ہے کہ ادھر ہمارے منہ سے دعا نکلے اور ادھر اللہ تعالیٰ اس کا کوئی انتظام کر دے۔ تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں اگر کوئی مدد حاصل کرنا چاہتے ہو تو مجھ سے کہو۔ اور خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے نہ ہاتھ ہلانے کی ضرور ت ہے نہ پائوں کیونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں۔ پھر وہ انسان ہی کے قریب نہیں بلکہ جس مدعا اور مقصد کو حاصل کرنا ہو اس کے بھی قریب ہے۔ ادھر انسان یہ کہتا ہے کہ الہٰی فلاں چیز مجھے مل جائے اور ادھر وہ چیز خواہ لاکھوں میل کے فاصلہ پر ہو خداتعالیٰ اس پراسی وقت قبضہ کر لیتا ہے۔ کہ یہ ہمارے فلاں بندہ کے لئے ہے۔ کیونکہ جس طرح خداتعالیٰ اس بندہ کے قریب ہے اسی طرح اس چیز کے بھی قریب ہے ۔ غرض کامیابی کے حصول کے لئے یہ ذریعہ سب سے بڑا اورسب سے زیادہ مفید ہے۔
پھر اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر ایک اور لطیف مضمون کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور وہ یہ کہ اگر میں تمہیں نظر نہیں آتا تو یہ نہ سمجھ لینا کے میں تم سے دور ہوں میں تو تمہارے بالکل قریب ہوں اور اسی وجہ سے تمہیں نظر نہیں آتا۔ کیونکہ صرف وہی چیز تمہیں نظر نہیں آتی جو زیادہ قریب ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے اندر کی آواز کو نہیں سن سکتا کانشنس اور ضمیر کی آواز آتی ہے مگر کان اسے نہیں سن سکتے۔ اس لئے کہ آواز بھی دور کی سنائی دیتی ہے جب ہم کوئی آواز سنتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ یہ آواز باہر سے ہو کر آئی ہے۔ کیونکہ کان کا پردہ قدرتی طور پر اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہوا کا زور کان کے پردہ پر پڑتا ہے تو اس سے ایک حرکت پیدا ہوتی ہے ارتعاش کہ لہریں یعنی وائی بریشنزVIBRATIONS پیدا ہوتی ہے اور یہی وائی بریشنز دماغ میں جاتی ہے اور دماغ ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے یہی وائی بریشن ہیں جو ریڈیو کے والوز میں پڑتی ہے اور ریڈیو ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے ۔ انسانی بناوٹ میں ریڈیو کان ہے اور اعصاب دماگی والوز ہیں۔ ان کے ذریعہ جو حرکات دماغ میں منتقل ہوتی ہیں وہ وہاں سے آواز بن کر سُنائی دیتی ہیں۔ پس آواز کے معنے ہی باہر والی چیز کے ہوتے ہیں۔ جب آواز آتی ہے تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ یہ باہر سے آئی ہے کیونکہ آواز آ ہی باہر سے سکتی ہے۔ اندرونی آواز جو سنائی دیتی ہے۔ مثلا پیٹ میں گُڑ گُڑ کی آواز آتی ہے تو دراصل اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وائی بریشن باہر اثر ڈالتی ہیں اور ہم وہ آواز سن لیتے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ جو اندر کی آواز ہوتی ہے اسے تم نہیں سن سکتے۔ کیونکہ وہ تمہارے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ غرض جس طرح تم بہت بعید کی چیز کو نہیں دیکھ سکتے اور بہت قریب کی چیز کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح تم بعید کی آواز کو بھی نہیں سن سکتے اور قریب کی ااواز کو بھی نہیں سن سکتے جن لوگوں کو اس کا علم نہیں وہ اس پر تعجب کریں تو کریں۔ ورنہ یہ سب کچھ حرکات پر مبنی ہوتا ہے۔ جو کچھ تم سنتے ہو وہ بھی حرکات ہیں جن کو کان آواز میں دل ڈالتے ہیں اور جو کچھ تم دیکھتے ہو وہ بھی حرکات ہیں جن کو آنکھیں شکل میں تبدیل کر ڈالتی ہیں جو چیز تمہارے سامنے گڑی ہوتی ہے وہ تصویر نہیں ہوتی بلکہ وہ فیچرزFEATURESٰؑ نقش ہوتے ہیں جو آنکھوں کے ذریعہ دماغ میں جاتے ہیں اور وہ انہیں تصویر میں بدل ڈالتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آجکل ریڈیو سیٹ کے ذریعہ تصویریں بھی باہر جانے لگ پڑی ہیں۔ ان حرکات کے متعلق قاعدہ ہے کہ تمام حرکات خواہ وہ کان کی ہوں یا آنکھ کی ایک حد بندی کے اندر ہوتی ہیں یعنی ایک درجہ ان کا اعلیٰ ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ ہوتا ہے ان دونوں کے درمیان جو چیز ہوتی ہے اسے آنکھ دیکھ سکتی ہے اور جو چیز اس حد بندی سے دور ہو اسے آنکھ نہیں دیکھ سکتی اسی طرح جو آواز اس حد بندی کے اندر ہوگئی اسے کان سن لے گا اور جو آواز اس حد بندی سے دور ہو گئی اس ے کان نہیں سن سکے گا۔ اور جو آواز اس حد بندی سے نیچے ہو گی اسے بھی کان نہیں سن سکتا۔
جو میں بہت سے آوازیں پیدا ہوتی رہتی ہیں جیسے بادلوں کے ااپس میں ٹکرانے کی آواز۔ یا اجرام فلکی کے آپس میں ٹکرانے کی آواز۔ لیکن وہ اتنی شدید ہوتی ہیں کہ ہم ان کی شدت کی وجہ سے انہیں نہیں سن سکتے۔ جس طرح کان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ایسی آواز سن سکے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔ یا وہ ایسی آواز سن سکے جو اس کی طاقت سے کم ہو اسی طرح جو نظارہ آنکھ کی طاقت سے زیادہ ہو وہ آنکھ نہیں دیکھ سکتی اور جو نظارہ اس کی طاقت سے کم ہو وہ بھی نہیں دیکھ سکتی۔ پس اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ مجھ کو نہ دیکھنے کی یہ وجہ نہیں کہ میں تم سے دور ہوں میں تم سے دور نہیں بلکہ تمہارے اتنا قریب ہوں کہ تم مجھے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے دیکھ بھی نہیں سکتے اور نہ تم میری آواز سن سکتے ہو۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خداتعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں تو پھر وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِیْ قَرِیْب’‘ کہنے کا کیا مطلب ہوا؟ کیونکہ انسان پوچھتا تو اس کے متعلق ہے جو اُسے نظر آتا ہو۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی سوال مبہم بھی ہوتا ہے۔ جیسے رات کو کوئی شخص سفر پر جا رہا ہو اور اسے خطرہ محسوس ہو تو وہ آواز دیتا ہے کہ کوئی ہے؟ اب اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ اسے کوئی انسان نظر آرہا ہوتا ہے بلکہ وہ اس خیال سے آواز دیتا ہے ک اگر کوئی شخص وہاں ہوتو آئے اور اس کی مدد کرے اور جنگل میں تنہائی اور اندھیرے کی وجہ سے جو گھبراہٹ اس پر طاری ہے وہ دور ہو جائے۔ اسی طرح اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب دنیا میں انسان تنہائی محسوس کرے اور سمجھے کہ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت ہے اور خداتعالیٰ جو غیر مرئی ہے اس کے متعلق وہ کہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو آئے اور میرے مدد کرے تو خداتعالیٰ کہتا ہے کہ تم میرے اُس بندے کو بتا دو کہ میں موجود ہوں اور پھر زیادہ دور بھی نہیں بلکہ میں تمہاراے قریب ہی ہوں۔ دُنیا میں پاس رہنے والا شخص بھی بعض اوقات مدد نہیں کرتا۔ بعض دفعہ تو وہ مدد کا ارادہ ہی نہیں کرتا اور کہتا ہے مرتا ہے تو مر ے مجھے اس کی مدد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور بعض اوقات وہ اپنے اندر زیادتی کرنے والے کے خلاف مدد کرنے کی طاقت نہیں پاتا۔ جیسے کوئی شیر گائوں میں آجائے او رکسی پر حملہ آور ہو تو دوسرے لوگ بجائے اس کی مدد کرنے کے بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اگر کوئی بندہ گھبرا کر آواز دے اور کہے کہ کوئی ہے؟ تو وہاں خدا موجود ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے بندے نے اگرچہ مبہم طور پر آواز دی ہے کہ شاید کوئی موجود ہو تو و بول پڑے لیکن میں اس کی مبہم پکار کو بھی اپنی طرف منسوب کر لیتا ہوں۔ اور سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے ہی بُلا رہا ہے۔ میں بھول جاتا ہوں کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے خیالی طور پر کہہ رہا ہے۔ میں اس وقت اگر مگر کو چھوڑ دیتا ہوں اور فوراً اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑتا ہوں۔اس لئے اگر کوئی میرے متعلق سوال کرے تو اُسے بتا دو کہ میں قریب ہی ہوں۔ دور نہیں۔ بے شک دنیا میں بعض دفعہ کوئی دوسرا شخص قریب بھی ہوتا ہے تو پھر بھی وہ مدد کرنے کا ارادہ نہیں کرتا۔ یا اس کی مدد کی طاقت نہیں رکھتا لیکن میں تو یہ ارادہ کر کے بیٹھا ہوں کہ اس کی مدد کروں گا۔ اور پھر میرے اندر اس کی مدد کرنے کی طاقت بگھی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ صرف مسلمانوں ہی کی دعائیں نہیں سنتا بلکہ خواہ کوئی ہندو ہو یا عیسائی۔ سکھ ہو یا آریہ اگر وہ خداتعالیٰ کے حضور سچے دل سے گڑ گڑائے اور اپنی حالت زار پیش کر کے اس کی مدد چاہے تو خداتعالیٰ اس کی دُعا کو سنتا اور اسے قبول کرتا ہے۔ بے شک وہ ایک سچے مسلمان کی دُعائیں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ قبول کرتا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس نے اپنی رحمت کا دروازہ دنیا کی باقی قوموں اور افراد کے لئے بند کر رکھا ہے۔ بلکہ ہر شخص جو اس کے دروازہ پر جاتا ہے اور اس کے حضور گر جاتا ہے خداتعالیٰ اس پر رحم کرتا اور اس کی حاجات کو پورا فرماتا ہے وہ واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا ذَعَانِ۔ جب کوئی پکارنے والا اپنی مدد کے لئے مجھے آواز دیتا ہے تو میں اسکی پکار کا ضرور جواب دیتا ہوں۔ اور اسے اپنی بارگاہ سے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں کرتا۔
پھر فرماتا ہے فَلْیَسْتَجِیْبُوْلِیْ۔ جب میں تمہاری باتیں سنتا ہوں اور تمہاری دُعائیں قبول کرتا ہوں تو تمہیں بھی ایسا بن جانا چاہیے کہ تمہاری دُعائیں قبول ہوں۔ یہ مت خیال کرو کہ میں ہر ایک دُعا کو سنتا ہوں۔ میرے احکام کے خلاف جو دُعائیں ہونگی یا میرے مقرر کردہ فرائض کے خلاف ہونگی یا اخلاقی نظام کے خلاف ہونگی میں انہیں کیسے سن سکتا ہوں۔ کیا میں انہیں قبول کر کے اپنے رسول کو ہلاک کردوں۔ یا کیا میں انہیں قبول کر کے اخلاقی نظام کو توڑ ڈالوں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دُعائیںبھی سنی جائیں تو چاہیے کہ تمہاری دُعا میرے نظام کے خلاف نہ ہو۔ تمہاری دُعا دین کے خلاف نہ ہو ۔ تمہاری دُعا اخلاقی نظام کے خلاف نہ ہو۔
کہتے ہیں کہ ایک عرب حج کے لئیے گیا تو وہ خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کہ ایک دُعا کر رہا تھا اور وہ ایسی گندی تھی کہ اُسے سنکر پولیس نے اس کو قید کر لیا۔ وہ دُعا یہ کر رہا تھا کہ اے خدا! تو ایسا کر کہ میری محبوبہ کا خاوند اس سے نارا ض ہو جائے اور وہ مجھے مل جائے۔ گویا نعوذ باللہ خداتعالیٰ بھی اس کی بدکاری میں شریک ہو جائے۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک چور نے بیان کیا کہ میں جب سیندھ لگانے لگتا ہوں تو دو رکعت نماز پڑھ لیتاہوں تاکہ چوری سے پہلے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کر لوں اور مجھے اس کام میں کامیابی حاصل ہو۔ اخبارات میں عموماً اشتہارات چھپتے رہتے ہیں کہ ایسے تعویذ جن کو پاس رکھنے سے تم جس عورت کو چاہو بلا سکتے ہو۔ اس تعویذ کے اثر سے وہ عورت خود بخود تمہارے پاس آجائیگی۔ اور پھر کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ ہے اسے خداتعالیٰ کا کلام آتا ہے۔ اس نے یہ تعویذ تیار کئے ہیں۔ یہ دین کے ساتھ تمسخر ہے۔ خداتعالیٰ بدکاریوں میں کبھی شریک نہیں ہوتا۔ کہنے والے بیشک ایسا کہتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِی وَلْمُوْسِوُا بِیْ۔ اگر میں نے کہا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سُنتا ہوں تو اس س ے یہ نہ سمجھ لینا کہ میں ہر ایک پکار کو سن لیتا ہوں جس پکار کو میں سُنتا ہوں اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اول میں اس کی پکار کو سنتا ہوں جو میری بھی سنے (۲) میں اس کی پکار سنتا ہوں جسے مجھ پر یقین ہو مجھ پر بدظنی نہ ہو۔ اگر دعا کرنے والے کو میری طاقتوں اور قوتوں پر یقین ہی نہیں تو میں اس کی پکار کو کیوں سنوں۔ پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں جس دعا میں یہ دو شرطیں پائی جاتئیں گی وہی قبول ہو گی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اَلدَّاعِ فرمایا ہے جس کے معنے ہیں ایک خاص دعا کرنے والا۔ اور اس کے آگے وہ شرائط بتا دیں۔ جو اَلدَّاعِ میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ میری سُنے اور مجھ پر یقین رکھے ۔ یعنی وہ دُعا میرے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق ہو۔ جائز ہو ناجائز نہ ہو۔ اخلاق کے مطابق ہو۔ سنت کے مطابق ہو۔ اگر کوئی شخص ایسی دعائیں کرے گا تو میں بھی اس کی دعائوں کو سنوں گا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! میرا فلاں عزیز مر گیا ہے تو اُسے زندہ کر دے تو یہ دعا قرآن کے خلاف ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف ہے ۔جب اس نے قرآن کی ہی نہیں مانی ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہیں مانی تو خدا اس کی بات کیوں مان لے۔ پس فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْ وَلْیُوْ مِنُوْ ابِیْ۔ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم میری باتیں مانو اور مجھ پر یقین رکھو اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے تو میں تمہاری دُعا کیسے سُن سکتا ہوں؟ پس قبولیت دُعا کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اول فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْ تم میری باتیں مانو(۲)وَلْیُوْ مِنُوْ ابِیْ اور مجھ پر یقین رکھو۔ جو لوگ ان شرائط کو پورا نہیں کرتے وہ دیندار نہیں۔ وہ میرے احکام پر نہیں چلتے اس لئے میں بھی یہ وعدہ نہیں کرتا کہ میں ان کی ہر دُعا سُنوں گا۔ بیشک میں ان کی دُعائوں کو بھی سنتا ہوں مگر اس قانون کے ماتحت ان کی ہر دعا کو نہیں سنتا۔ لیکن جو شخص اس قانون پر چلتا ہے اور پھر دعائیں بھی کرتا ہے میں اس کی ہر دعا کو سنتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بازار میں چند بنئے بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ کیا کوئی ایک پائو تلِ کھا سکتا ہو۔ وہ ایک پائو تکل کھانا بہت بڑا کام سمجھتے تھے ان میں سے ایک نے کہا جو ایک پائو تل کھال یا س کو میں پانچ روپے انعام دونگا۔ پس سے ایک زمین دار گزر رہا تھا اس نے جب سُنا کہ پائو تل کھانے پر شرط لگی ہوئی ہے تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی اس نے خیال کیا کہ بھلا ایک پائو تل کھانا کونسی بڑی بات ہے جس پر انعام دیا جائے۔ ضرور اس کے ساتھ کوئی اور شرط ہو گی۔ وہ آگے بڑھا اور پوچھا شاہ جی! ’’تل سلیاں سمیت کھانے نے کہ بغیر سلیاں دے۔‘‘ یعنی پھلیوں سمیت تلِ کھانے ہیں یا الگ کئے ہوئے بیج کھانے ہیں ۔ اس زمیندار کے نزدیک تو پائو تلِ کھانے کوئی چیز نہ تھی لیکن وہ سب بنئے تھے جو آدھا پھلکا کھانے کے عادی تھے۔ جب اس نے یہ کہ اکہ شاہ جی کیا تل پھلیوں سمیت کھانے ہیں تو اس بنئے نے کہا چوہدری صاحب آپ جائیے ہم تو آدمیوں کی باتیں کرتے ہیں۔[
اسی طرح اللہ تعالیٰ جہاں یہ کہتا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں ۔ وہاں بھی وہ آدمیوں کا ہی ذکر کرتا ہے۔ جانوروں کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ ہر پکارنے والے کی پکار کو نہیں سنتا۔ وہ صرف اس شخص کی پکار کو سنتا ہے جسے یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ پر ہی سب ذمہ داری نہیں بلکہ مجھ پر بھی کچھ ذمہ داری ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ اے خدا! فلاں کی لڑکی مجھے اُدھال کر لا دے یا فلاں کا مال مجھے دے دے یا میرے فلاں شخص کی جان نکال دے تو خدا تعالیٰ اپنے آپ کو ان دُعائوں کا مخاطب نہیں سمجھتا پس فرمایا فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْمیں ہر اس دعا کو سنتا ہوں جس کا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے اور پھر اُسے مجھ پر پورا یقین بھی ہو۔ اور جو ایسا کرتے ہیں وہ غلط دُعائیں مانگتے ہی نہیں کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہؓ ایسی دُعائیں مانگتے تھے کہ اے خدا فلاں کا مال ظالمانہ طور پر ہمیں دیدے ۔ پس خداتعالیٰ بھی یہاں انسانوں کا ذکر کرتا ہے حیوانوں کا نہیں اور فرمایا ہے کہ میں دُعائیں سنتا ہوں لیکن اس کے لئے دو شرطیں ہیں اول دُعا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے۔ دوم اسے مجھ پر یقین بھی ہو۔ جب اسے مجھ پر یقین ہو گا تو اس کا اعتماد بھی دعا کی قبولیت کے لئے اکسا ئیگا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ سب سے زیادہ کس کے لئے دُعائیں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میںسب سے زیادہ اس شخص کے لئے دعا کرتا ہوں جو مجھ آکر کہے کہ میرے لئے کوئی دعا کرنے والا نہیں آپ میرے لئے دعا کریں۔جب وہ مجھ پر اعتماد کرتا ہے حالانکہ وہ میرا وقف بھی نہیں ہوتا تو میں اس پر اعتماد کیوں نہ کروں۔ پس فرمایا۔ وَلْیُوْ مِنُوْابِیْ جو مجھ پر یقین رکھتا ہے اور میرے منشا کے مطابق دُعا کرتا ہے میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ لیکن جسے یقین نہ ہو اور وہ میرے منشاء کے مطابق دعا نہ کرتا ہو تو ا سکی دعا قبول نہیں ہو سکتی۔ اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ الَایَزَالُ ئُسْتَجَابُ لِنْعَبْدِ مَالَمْ یَدْعُ بِاِثْمٍ اَوْ قَطِیْعَۃِ رِحْمٍ مَالَمْ ئَسْتَعْجَلْ۔ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْاِ سْتِعْجَالُ قَالَ یَقُوْلُ قَدْ دَعَوْتُ وَقَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ اَرَی ئُسْتَجَابُ لِیْ فَیَسْتَحْسِرُ عِنْہُ ذَالِکَ وَیَدْعُ الدُّعَائَ(مسلم جلد ۲ کتاب الذکرو الدعاء)یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ندے کی دعائوں کو قبول کرتا ہے جب تک کہ وہ قطع رحم اور گناہ کے متعلق نہ ہوں۔ مگر اس صورت میں نہیں کہ وہ جلدی کرے ۔ صحابہؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ! جلدی سے کیا مرا دہے۔ آپ نے فرمایا وہ یہ کہنے لگتا ہے کہ میں نے بڑی دُعا کی مگر میں دیکھتاہوں کہ میری دُعا قبول نہیں ہوئی۔ پھر وہ دُعا سے تھک جاتا ہے اور دُعا چھوڑ بیٹھتا ہے۔ غرض دُعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور یقین رکھے اور مایوسی اس کے قریب بھہ نہ پھٹکے پھر فرماتا ہے ۔لَعَلَّھُمْ یَرْ شُدُوْنَ ۔ اس کے نتیجہ میں یقیناً وہ کامیاب ہونگے۔ رشد کے معنے ہوتے ہیں رستہ دکھائی دینا۔ پس لَعَلَّھُمْ رَرْشُدُوْنَ کے معنے ہیں کہ انہیں وہ رستہ مل جائیگا جو انہیں کامیابی تک پہنچا دیگا۔ لَعَلَّ کے معنے عام طور پر شاید کے ہوتے ہیں لیکن اس جگہ اس کے معنے شاید کے نہیں۔ یہاں یہ لفظ کلام الملوک کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارا شاید بھی یقینی ہوتا ہے۔ چنانچہ بالعموم حکام کہہ دیتا ہے کہ اگر تم درخواست کرو تو حکومت غور کرے گی۔ لفظ شک کے ہوتے ہیں ۔لیکن دراصل وعدہ ہوتا ہے کہ ہم ضرور ایسا کر دیں گے ۔ لغت والے بھی لکھتے ہیں کہ جب لَعَلَّ کا لفظ خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس وقت اس کے معنے یقین کے ہوتے ہیں۔ (مفردات راغب) پس لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ کے یہ معنے ہیں کہ ابھی تک تو مجھے ان تک آنا پڑتا ہے مگر جب وہ یہ مقام حاصل کر لیں گے تو پھر ان کے اندر یہ طاقت پیدا ہو جائیگی کہ وہ خود مجھ تک آسکیں گے۔ چنانچہ پہلے اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر بتایا تھا کہ میں ان کے پاس آتا ہوں مگر یَرْشُدُوْنَ کہہ کر بتایا کہ بندہ میں ترقی کرتے کرتے ایک قسم کی الوہیت کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے پہلے اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے نابینا آدمی کے پاس اس کا دوست بیٹھا رہے ۔ مگر پھر یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے جیسے نابینا کے سامنے اس کا محبوب بیٹھا ہو۔ یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عبادت کرتے وقت ہر انسان کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ یا کم سے کم وہ یہ سمجھے کہ خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ اب خدا تعالیٰ کے دیکھنے کے یہی معنے ہیں کہ وہ اس کے قریب ہو جاتا ہے ورنہ عیکھ تو وہ عرش سے بھی رہا ہے درھقیقت اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بندہ کے اس قدر قریب آجاتا ہے کہ انسان یہ یقین کرنے لگ جاتا ہے کہ خداتعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے بلکہ اس سے ترقی کر کے وہ اس مقام کو بھی حاصل کر لیتا ہے جس میں وہ خود بھی خداتعالیٰ کو دیکھنے لگ جاتا ہے اور اعلیٰ درجہ کے کمالات روحانیہ تک پہنچ جاتا ہے۔
چونکہ اس آیت سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی روزوں کا ذکر ہے اس لئے اس آیت کے ذریعہ مومنوں کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے بندوں کی دُعائیں سُنتا اور ان کی حاجات کو پورافرماتا ہے لیکن رمضان المبار کے ایام قبولیت دُعا کے لئے مخصوص ہیں۔ اس لئے تم ان دنوں سے فائدہ اُٹھائو اور خداتعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ ورنہ اگر رمضان کے مہینہ میں بھی تم خالی ہاتھ رہے تو تمہاری بد قسمتی میں کوئی شبہ نہیں ہو گا۔
دنیا میں ہر کام اپنے وقت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اگر اسوقت وہ کام کیا جائے تو جیسے اعلیٰ درجہ کے نتائج اس وقت مرتب ہوتے ہیں وہ دوسرے وقت میں نہیں ہوتے۔ تمام غلے اور ترکاریاں بونے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے اگر اس وقت کو مدنظر نہ رکھا جائے تو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ مگر وہ وقت جادو یا ٹونے کی طرح نہیں ہوتا کہ اس کے آنے سے کوئی خاص اثر پیدا ہو جاتا ہے اس لئے وہ کام ہو جاتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جس وقت کسی کامیابی کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں تو وہی اس کے کرنے کا وقت ہوتا ہے اگر گیہوں کا دانہ ایک خاص وقت میں بونے سے اُگتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت اس میں کوئی خاص بات پیدا ہو جاتی ہے بلکہ اس کے اُگنے کے لئے جو سامان ضروری ہوتے ہیں وہ اس وقت مہیا ہو جاتے ہیں اگر وہی سامان کسی دوسرے وقت مہیا ہو سکیں تو او وقت بھی وہ ضرور اُگ آئیگا۔ تو تمام کاموں کے لئے ضروری سامان مہیا ہونیگا ایک وقت مقرر ہے ۔ اسی طرح دُعا کے لئے بھی وقت مقرر ہیں ان وقتوں میں کی ہوئی دُعا بھی بہت بڑے نتائج پیدا کرتی ہے۔ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِتَّقُوْا دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ۔ مظلوم کی بد دعا سے ڈر و کیونکہ جب وہ ہر طرف مصائب ہی مصائب دیکھتا اور خداتعالیٰ کے سوا کوئی سہارا نہیں پاتا تو اس کی تمام تر توجہ خداتعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے اور وہ خداتعالیٰ کے آگے گِر پڑتا ہے اور اس وقت وہ جو بھی دعا کرتا ہے قبول ہو جاتی ہے کیونکہ دعا کے قبول ہونے کے سامانوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا سامان یہ بھی ہے کہ انسان کی ساری توجہ ہر طرف سے ہٹ کر خداتعالیٰ ہی کی طرف ہو جائے۔ چونکہ مظلوم کی یہی حالت ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے بھی یہ ایک موقعہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح دُعا کے قبول ہونے کے اوقات بھی ہیں۔ لیکن وہ ظاہری سامانوں کی حد بندیوں کے نیچے نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی قلوب کی خاص حالوتں ماور کیفیات سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں وہی انسان محسوس کر سکتا ہے جس پر وہ حالت وارد ہو۔ مگر دُعا کی قبولیت کا ایک او ر وقت بھی ہے جس کے معلوم کرنے کے لئے باریک قلبی کیفیات سے واقف ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ وقت رمضان کا مہینہ ہے ۔ یہ آیت خداتعالیٰ نے روزوں کے ساتھ بیان کی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ اس کا روزوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس کے روزوں کے ساتھ بیان کرنے کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح مظلوم کی ساری توجہ محدود ہو کر ایک ہی طرف یعنی خداتعالیٰ کی طرف لگ جاتی ہے اسی طرح ماہِ رمضان میں مسلمانوں کی توجہ خداتعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے۔ اور قاعدہ ہے کہ جب کوئی پھیلی ہوئی چیز محدود ہو جائے تو اس کا زور بہت بڑھ جاتا ہے جیسے دریا کا پات جہاں تنگ ہوتا ہے وہاں پانی کا بڑا زور ہوتا ہے اسی طرح رمضان کے مہینہ میں وہ اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو دعا کی قبولیت کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اس مہینہ میں مسلمانوں میں ایک بہت بڑی جماعت ایسی ہوتی ہے جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتی ہے۔ پھر سحری کیلئے سب کو اُٹھانا پڑتا ہے اور اس طرح ہر ایک کو کچھ نہ کچھ عبادت کا موقعہ مل جاتا ہے۔ اس وقت لاکھوں انسانوں کی دُعائیں جب خداتعالیٰ کے حضور پہنچتی ہیں تو خداتعالیٰ ان کو رد نہیں کرتا۔ بلکہ انہیں قبول فرماتا ہے۔ اس وقت مومنوں کی جماعت ایک کرب کی حالت میں ہوتی پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان کی دُعا قبول نہ ہو۔ درد اور کرب کی حالت کی دعا ضرور سنی جاتی ہے جیسے یوُنسؑ کی قوم کی حالت کو دیکھ کر خداتعالیٰ نے ان کو بخش دیا اور ان سے عذاب ٹل گیا اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سب اکٹھے ہو کر خداتعالیٰ کے حضور جھک گئے تھے۔
اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ
لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَo
پس رمضان کا مہینہ دُعائوں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے یہی وہ مہینہ ہے جس میں دُعا کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قَرِیْب’‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اگر وہ قریب ہونے پر بھی نہ مل سکے تو اور کب مل سکیگا۔ جب بندہ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیتا ہے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اب وہ خداتعالیٰ کا درچھوڑ کر اور کہیں نیہں جائیگا تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کی آواز خود اس کے کانوں میں بھی آنے لگتی ہے جس کے معنے سوائے اس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور جب کوئی بندہ اس مقام تک پہنچ جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے خدا کو پالیا۔
۱۰۱؎ حل لغات:۔ رَفَث’‘: اَلرَّفَتُ کَلَام’‘ مُتَضَمِّن’‘ لِمَا ئُسْتَقْبَحُ ذِکْرُ ہ‘ مِنْ ذِکْرِ الْجَمَاعِ وَدَوَاعِیْہِ وَجَعَلَ کَنَا یَۃً عَنِ الْجَمَاعِ ۔
یعنی رَفَثَ کا لفظ جماع اور اس کے محرکات کے لئے کنایۃً استعمال ہوتا ہے۔ (مفردات)
لَبَاس’‘ لَّکُمْ: لِبَاس’‘ کے معنے اصل میں سِتْر’‘ کے ہیںیعنی ڈھانپنے والی چیز۔ مگر قراان کریم نے اس کے اور معنے بھی بتائے ہیں۔ چنانچہ سورہ اعراج میں لباس کے دو کام بتائے گئے ہیں فرماتا ہے۔ یَبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوْارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا(اعراف آیت ۲۷) یعنی اے بنی آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا اور تمہیں زینت بخشتا ہے۔ لباس کا تیسرا کام ایک اور جگہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ(نحل آیت ۸۲) اس نے تمہارے لئے گرمی سردی کے ضرر سے بچانے کے لئے سرابیل بنائے ہیں ۔ پس لباس کا تیسرا کام گرمی سردی کے ضر ر سے بچانا ہے۔
تَخْتَانُوْنَ: خَانَ یَخُوْنُ سے باب افتعال ہے۔ اور جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے ۔ اور اِخْتَانَہ‘ اِخْتِیَانًا کے معنے ہیں اُوْ تُمِنَ فَلَمْ یَنْصَھْ وَخَانَ الْعَھْدَ نَقَضَہ‘۔ یعنی اِخْتَافَ کے معنے ہیں امانت کا حق دار نہ کیا اور عہد کو توڑا(اقرب)
عَفَا عَنْکُمْـ: عَفَا عَنْہُ وَلَہ‘ ذَنْبَہ‘ وَعَنْ ذَنْبِہٖ صَفَحَ عَنْہُ وَتَرَکَ عُقُوْبَتَہ‘ وَ ھُوَ یَسْتَحِقُّھَا وَ اَعْرَضَ مُوَا خَذَ تِہٖ۔ یعنی عَفَا کے معنے ہیں (۱) اس کا قصور معاف کر دیا اور اس سے مواخذہ نہ کیا۔ (۲) اور عَفَااللّٰہُ عَنْ فُلَانٍ کے معنے ہیں مَحَا ذُنُوْبَہ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ مٹا دیئے۔ (اقرب) (۳) وَقَدْ ئُسْتَعْمَلُ عَفَا اللّٰہُ عَنْکُمْ فِیْمَا لَمْ یَسْبَقْ بِہٖ ذَنْب’‘ وَلّا یُتَصَوَّرُ۔ عَفَا کا لفظ بعض دفعہ ایسے آدمی کے لئے بھی بولا جاتا ہے جس نے نہ کوئی گناہ کیا ہو اور نہ اس کے متعلق گناہ کا خیال ہو سکتا ہو(اقرب)
بَاشِرُوْ ھُنّ: باب مفاعلہ سے امر کا صیغہ ہے اور بَاشَرَ الْاَمْرَ کے معنے ہیں تَوَلَّاہُ بِنَفْسِہٖ اس نے خود کوئی کام کیا۔ وَبَاشَرَہُ النَّعِیْمُ: اَخَاضَ عَلَیْہِ حَتّٰی کَاَنَّہ‘ مَسَّ بَشْرَ تَہ‘۔ اور بَاشَرَ ہُ النَّعِیْمُ کے معنے ہیں اُسے اس کثرت سے نعمتیں حاصل ہوئیں کہ اس کے چمڑے کو چھونے لگیں۔ (اقرب) اور اَلْمُبَاشَرَۃُ کے معنے ہیں اَلْاِفْضَائُ بِالْبَشْرَ تَیْنِ۔ ہم صحبت ہونا(اقرب)
کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ۔ کَتَبَ لَہُ میں عام طور پر لام فائدہ کے لئے آتا ہے اور کتابت کے معنے مقدر کردینے اور فرض کر دینے کے ہیں۔ اس جگہ مقدر کر دینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
مِنْ کے معنے اس جگہ امتیاز کے ہیں۔
عَاکِفُونَ: عَاکِف’‘ عَکَفَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور عَاکِفُوْنَ جمع کا صیغہ ہے۔ اور عَکَفَ کے معنے ہیں اَلْاِقْبَالُ عَلَی الشَّیْئِ وَ مُلَا زَمَتَہ‘ عَلٰی سَبِیْلِ التُعْظِیْمِ لَہ‘۔ یعنی کسی چیزک ی طرف پوری طرح متوجہ ہونا۔ اور اس کے ساتھ اس کی تعظیم کی خاطر تعلق قائم رکھنا یا اس میں رہنا۔ پس عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ کے معنے میں مسجدوں کا لازم پکڑنے والے اور ان میں بیٹھے رہنے والے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے روزوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں سے بے تکلف ہونا جائز ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لبا س ہو۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لباس کے تین کام بتائے گئے ہیں اول ننگ ڈھانکنا۔ دوم زینت کا موجب ہونا۔ سوم سردی گرمی کے ضرر سے انسانی جسم کو بچانا۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَا سًا یُّوَارِیْ سَوْ اٰتِکُمْ وَرِیْشًا (اعراف آیت۲۷) یعنی اے آدم کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ہے جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا ہے اور تمہارے لئے زینت کا موجب بھی ہے۔ اسی طرح سورہ نحل میں فرماتا ہے۔ وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ (نحل آیت ۸۲) یعنی اس نے تمہارے لئے کئی قسم کی قمیصیں بنائی ہیں جو تمہیں گرمی سردی سے بچاتی ہیں۔ اوربعض قمیضیں یعنی زر ہیں ایسی بھی ہیں جو تمہیں آپس کی جنگ کی سختی سے بچاتی ہیں۔ پس ھُنَّ لِبَاس’‘ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لَبَاس’‘ لَھُنَّ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہمیشہ لباس کا کام دیں یعنی (۱) دوسرے کے عیب چھپائیں (۲) ایک دوسرے کے لئے زینت کا موجب بنیں (۳) پھر جس طرح لباس سردی گرمی کے ضر ر سے انسانی جسم کو محفوظ رکھتا ہے اسی طرح مرد عورت سُکھ دُکھ کی گھڑیوں میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔ اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کی دلجمعی اور سکون کا باعث بنیں۔ غرض جس طرح لباس جسم کی حفاظت کرتا ہے اور اسے سرد ی گرمی کے اثرات سے بچاتا ہے اسی طرح انہیں ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہیے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مثال دیکھ لو۔ انہوں نے شادی کے معًا بعد کس طرح اپنا سارا مال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی دقت پیش نہ آئے۔ اور آپ پورے اطمینان کے ساتھ خدمتِ خلق کے کاموں میں حصہ لیتے جائیں۔ یہ اہلی زندگی کو خوشگوار رکھنے کا کتنا شاندار نمونہ ہے جو انہوں نے پیش کیا۔
عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ تم اپنے نفسوں کے حقوق کو تلف کیا کرتے تھے اور ان کا پورا حق ادا نہیں کرتے تھے پس اس نے تم پر اپنے فضل سے توجہ کی اور تمہاری اس حالت کی اصلاح کر دی۔
یہ حق تلفی جس کی طرف اس آیت میں اشار ہ کیا گیا ہے درحقیقت اس والہانہ عشق کی وجہ سے تھی جو صحابہؓ کے دلوں میں عبادت اور ذکر الہٰی کے متعلق پایا جات تھا۔ انہوں نے جب رمضان کی برکات کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ان دنوں میں آسمان سے اُتر آتا ہے اور بندوں پر اپنے انوار اور برکات کی بارش نازل کرتا ہے تو انہوں نے چاہا کہ وہ رمضان کی راتیں بھی ذکر الہٰی اور عبادت میں بسر کریں اور جنسی تعلقات سے بالا رہیں۔ اسی طرح کھانے پینے کے متعلق بھی بعض ناواجب قیود انہوں نے اپنے اوپر عاید کر رکھی تھیں۔ چنانچہ بخاری میں حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس آیت کے نزول سے قبل صحابہؓ میں سے جب کوئی شخص افطاری سے قبل سو جاتا تو آنکھ کھلنے پر وہ نہ رات بھر کچھ کھاتا اور نہ اگلے دن کھاتا یہاں تک کہ پھر دوبارہ شام کا وقت آجاتا۔ ایک دفعہ ایک انصاری جو روزہ دار تھے انہوں نے افطاری کے قریب اپنی بیوی سے کچھ کھانے کے لئے مانگا۔ اس نے کہاکہ گھر میں تو کچھ نہیں مگر کہیں سے کچھ مانگ لاتی ہوں۔ انتے میں انہیں نیند آگئی او روہ سو گئے۔ بیوی باہر سے کھانا لے کر آئی تو چونکہ وہ سو چکے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ساری رات بھوکے رہے اور اگلے دن بھی ان کا روزہ ہی رہا۔ بارہ بجے کے قریب وہ شدت ضعف کی وجہ سے بیہوش ہو گئے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلیٰ نَسَآئِکُمْ ھَنَّ لَبَاس’‘ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاس’‘ لَّھُنَّ اسی طرح یہ آیت نازل ہوئی کہ وَکُلُوْ ا وَاشْرَبُوْاحَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (بخاری جلد اول کتاب الصوم) درحقیقتیہ پابندیاں یہود کی بعض رسوم کا نتیجہ تھیں ۔ یہود میں یہ رواج تھا کہ وہ ایٹونمنٹ ڈے یعنی یوم کفارہ کا جب روزہ رکھتے تو ایک صبح سے دوسری صبح تک نہ کچھ کھاتے نہ پیتے (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۵ صفحہ ۳۴۸)اُن کو دیکھ کر مسلمانوں کو بھی خیال پیدا ہوا کہ شاید جب آدمی سو جائے توا س کے بعد وہ کچھ نیں کھا سکتا۔ اسی طرح مر د عورت کے اختلاط کے متعلق خیال کرتے تھے کہ جس وقت کھانا منع ہو وہ بھی منع ہے ان خیالات کے وجہ سے اگر کوئی سو جاتا تو کھانا نہ کھاتا اور اپنی بیوی کے پاس بھی نہ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ بیفائدہ تکلیف ہے اس کی کچھ ضرورت نہیں صرف وہی پا بندی انسان کیلئے خیرو برکت کا موجب ہوتی ہے جو الٰہی منشاء کے مطابق ہو۔ ورنہ بلا ضرورت اپنے آپ کو مختلف قیدوں اور پابندیوں میں جکڑ تے چلے جانا اور درست نہیں ہوتا۔
فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَغَفَا عَنْکُمْ فرمایا کہ اب ہم نے تم پر رحم کر دیا ہے ۔ اور تمہارے لئے آسانی بہم پہنچادی ہے اس لئے خدا تعایلٰ کا سکر ادا کرو اور پہلے سے بھی زیادہ شوق اور مستعدی کے ساتھ نیک کاموں میں حصہ لو۔
اس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب مومن بندے خدا تعالیٰ کی رضا ء کیلئے اپنے آپ کو کسی مشقت میں ڈالتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جو ش میں آتی ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں انسان کیلئے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے ۔ گویا اُن کے اخلاص کا انہیں دم نقد فائدہ دے دیتا ہے ۔
پھر فرماتا ہے ۔ فَاْلٰٔنَ بَاشِرُدْھُنَّ وَاْبتَغُوْ امَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ۔ کَتَبَ عَلَیْہِ اور کَتَبَ لَہٗ میں فرق ہے ۔ کَتَبَ عَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیں۔اُس پر فرض کیا گیا ہے ۔ اور کَتَبَ لَہکے منعے ہوتے ہیں اْس کیلئے کوئی انعام مقرر کیا گیا ہے ۔یا کوئی حق مقرر کیا گیا ہے ۔ (یا استعارۃً تقدیر مقررہ کے معنوں میں بھی آجاتا ہے )پاس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے جائز کیا ہے یا جن سے نہیں روکا اُن کے بے شک کرو۔ وہ تمہارا حق ہیں ۔ اُنکو چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں ۔یا یہ کہ جو اولاد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اُس کی جستجو کرو یعنی جو طریق اولاد حاصل کرنیکا اُس نے مقرر کر رکھا ہے اسکے مطابق عمل کرو۔
اسی طرح وَاْبتَغُوْامَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْسے یہ بھی مراد ہے کہ اس مقدس مہینہ میں جو کچھ برکات خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقرر کر رکھی ہیں ان کے حصول کلیئے پوری کوشش کرو۔ پہلا طریق جو حقوق نفس کو تلف کرنے والا تھا اس کے نتیجہ میں ممکن تھا کہ تمہارے جسم کو کوئی نقصان پہنچ جاتا اور تم زیادہ محنت اور مشقت نہ کر سکتے ۔ مگر اب جبکہ ہم نے اس کی تلافی کر دی ہے اور تمہارے جسم کو بے جا کوفت سے بچال لیا ہے تمہارا فرض ہے کہ تم کمر ہمت باندھ کر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اُن درجات عالیہ کی تلاس کرو جن کو خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھا ہے ۔
وَکُلُوْ اوَاشْرَ بُوْ ا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْظُ اْلَا بْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَ سْوَ دِمِنَ الْفَجْرِ ۔فرماتا ہے تم اس وقت تک کھاؤ پیئو جب تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے ۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ ؓ نے غلطی سے سیاہ اور سفید دھاگے اپنے پاس رکھنے شروع کر دئیے اور انہوں نے نے خیال کیا کہ ہمیں اس وقت تک کھانے پینے کی اجازت ہے جب تک کہ ہمیں سفید اور سیاہ دھاگے میں فرق نظر نہ آنے لگے ۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عدیؓ رسول کریم صیل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔اور انہپوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے سیاہ اور سفید دو دھاگے اپنے تکیہ کے نیچے رکھ دئیے ہیں تاکہ جب سیاہ اور سفید دھاگے میں فرق نظر آنے لگے تو مجھے معلوم ہو جائے کہ اب کھانا پینا چھوڑ دینا چاہیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ بات سنکر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے تمہارا تکیہ بہت چوڑا ہے کہ اُس کے نیچے خیط ابیض اور خیط اسود دونوں آگئے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا ۔ اس سے مراد تو صرف رات کی سیاہی اور دن کی سفید ہے ۔ ظاہر ی دھاگے مراد نہیں ہیں (مسلم کتاب الصیام ) اسی طرح بعض اور صحابہ ؓ بھی سفید اور سیاہ دھاگے اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور وہ اس وقت تک کھاتے پیتے رہتے ھتے جب تک کہ اہن دونوں میں انہیں فرق نظر نہ آجاتا۔ آکر اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ نازل فرمائے تب انہیں معلوم ہوا کہ خیط ابیض اور خیط اسود سے سفید اور سیاہ دھاگے نہیں بلکہ اس سے صبح صادق اور صبح کا ذب کا فرق مراد ہے ۔
پنچاب میں میں بھی بعض زمیندار رمضان کی راتوں میں سفید اور سیاہ دھاگے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اور چونکہ دھاگا اچھی روشنی میں نظر آتا ہے مدھم روشنی میں نظر نہیں آتا اس لئے وہ کافی روشنی ہونے تک کھاتے پیتے رہتے ہیں ۔بلکہ بعض لوگوں کی نظر چونکہ کمزور ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے وہ دن چڑھنے کے بعد بھی اس آیت کی روسے کھاتے پینے کا جواز ثابت کر لیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی میں ہی اس فرق کا پتہ لگ سکتا ہے ۔بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خیط ابیض اور خیط اسود کے الفاظ استعارۃً استعمال فرمائے ہیں ۔ اور مراد یہ ہے کہ صرف اس وہم کی بنا پر کھانا پینا ترک نہیں کر دینا چاہیے کہ ممکن ہے صبح ہو گئی ہو۔ بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ صبح صادق اور صبح کاذب میں امتیاز ہو اجائے اور پوپھٹ جائے ۔
ثُمَّ اَتِمُّو الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ۔اس جگہ لیل سے گہری تاریکی مراد نہیں بلکہ صرف سورج غروب ہونے کا وقت مراد ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُو الْفِطْرَ (مسلم کتاب الصیام ) کہ جب تک لوگ سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ خیر پر قائم رہیں گے ۔ یعنی احکام اسلامی کی حقیقی روح ان میں زندہ رہیگی ۔ ورنہ جب لوگ رسوم یا وہم سے کام لینے لگتے ہیںتو فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں اور اُن کے اوہام انہیں دور ازسکار باتوں میں الجھا دیتے ہیں ۔ اور اُن کی حالت بالکل اس شخص کی سی ہو جاتی ہے ۔ جو نماز کی نیت باندھتے ہوئے اپنے وہم میں اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ پہلے تو امام کو انگلی مار مار کر کہتا کہ پیچھے اس امام کے اور پھر رفتہ رفتہ اُس نے امام کو دھکے دینے شروع کر دئیے ۔ اِسی طرح جن لوگوں کاوہم بڑھ جاتا ہے وہ پہلے سورج کے غروب ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ مگر چونکہ ابھی سُرخی باقی ہوتی ہے اس لئے اں کی تسلی نہیں ہوتی اور وہ زیادہ انتظار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب گہری تاریکی چھا جائے تب افطاری کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب گہری تاریکی چھا جائے تب افطاری کرتے ہیں۔یہ طریق شریعت کے خلاف ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اَتِمُّو الصِیَّامَ اِلَی الَّیْلِ کا حکم دیا ہے ۔ اور لیل کا وقت سورج ڈوبنے سے لیکر سورج نکلنے تک ہے ۔ یہ مراد نہیں کہ جب تک اچھی طرح تاریکی نہ چھا جائے اس وقت تک تم روزہ افطار ہی نہ کرو۔
وَلَا تُبَاَ شِرُ وْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ ۔اس کے معتلق اختلاف ہوا ہے کہ آیا اعتکاف کی وجہ سے مباشرت ممنوع قرار دی گئی ہے ۔ یا مسجد کی حرمت کی وجہ سے ۔ میرے نزدیک اعتکاف کی وجہ سے مباشرت سے نہیں روکا گیا بلکہ مسجد کے احترام کی وجہ سے روکا گیا ہے ۔ جس کی طرف وَلَا تُبَاَ شِرُ وْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدکے الفاظ اشارہ کر رہے
وَلَا تَاْ کُلُوْآ
تَعْلَمُوْنَo
ہیں۔کہ مباشرت کی نفی اعتکاف کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ مساجد کی وجہ سے ہے ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چہیے کہ مباشرت ملمں کو بھی کہتے ہیں ۔ اور احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایسی حالت میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوتے تھے آپ کا سر بھی پانی سے دھودیتی تھیںاور بالوں کی کنگھی بھی کر دیا کرتی تھیں (بخاری ابواب الاعتکاف)
پس اس جگہ مباشرت کی نہی سے محض مخصوص تعلقات یا اُس کے مبادی مراد ہیں جسم کو چھونا مراد نہیں۔
تِلْکَ حُدُ وْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَ بُوْھَا۔ فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں۔ تم اُن کے قریب بھی مت جاو تاکہ غلطی سے تمہارا قدم اللہ تعالیٰ کے محارم میں نہ جا پڑے ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ ؓ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور بھی ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ پس جو شخص ان مشتبہ امور سے بچا اُس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچانے کیلئے بری احتیاط سے کام لیا۔ لیکن جو شخص ان مشتبہ امور میں جا پڑا وہ اس چروا ہے کی مانند ہے جو رکھ کے آس پاس اپنا ریوڑ چرارہا ہے۔ اور قریب ہے کہ اُس کا ریوڈ رکھ کے اندر چلا جائے ۔ پھر آپ نے نے فرمایا کہ اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِیً اَلَا اِنَّ حِیَ اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہٖ مَحَارِمُہٗ ۔کان کھول کر سنو کہ ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین میں اس کی رکھ اُس کی حرام کردہ چیزیں ہیں (بخاری الایمان باب فضل من اِسْتَبْرَأَ لدینہِ) پس محارم اللہ تعالیٰ کی رکھ ہوتے ہیں ۔اور اگر کوئی انسان اُن کے قریب جائے تو اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ اُس کا قدم ڈگمگا جائے اور وہ ناجائز امور کا مرتکب ہو کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موردبن جائے ۔پس اسل تقویٰ یہی ہے کہ انسان حدود اللہ کے قریب جانے سے بھی بچے تاکہ شیطان اُس کے قدم کو ڈگمگانہ دے ۔
کَذٰ لِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ۔ اس میںآیات سے مراد احکام الٰہیہ ہیں۔ اور فرماتا ہے کہ ان احکام کی اصل غرض تمہارا اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے ۔ پس تمہیں چاہیے کہ تم ہمیشہ تقوی اللہ کو محلوظ رکھو اور نہ صرف اللہ کی حدود کو نہ توڑو بلکہ شبہات کے بھی پرے رہنے کی کوشش کرو۔
مباد تمہارا قدم پھسل جائے اور تم تقویٰ سے دور چلے جاؤ۔
۱۰۲؎ حل لغات:۔ تَاکُلُوْا : اَکَلَ کے معنے کھانے کے ہوتے ہیں ۔لیکن جب غذا کے سوا اور چیزوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے ہلاک کرنے یا فنا کر دینے کے ہوتے ہیں۔
تُدْلُوْا:اَدْلیٰ سے جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور اَدْلیٰ اِدلَائً کے معنے ہیں اَرْسَلَ الدَّلْوَ فِی الْبِر، اس نے کوئیں میں ڈول ڈالا اور اَدْلیٰ فُلَا ن’‘ فِی فُلَافٍ کے معنے ہیں۔ قَالَ قَبِیْحًا اس نے کسی کے متعلق بُری بات کہی اور اَدْلیٰ بِحُجَّنِہٖ کے معنے ہیں اس نے اپنی دلیل پیش کی اور اَدْلیٰ اِلَیْہِ بِمَالٍ کے معنے ہیں۔ اس نے اُسے مال دیا۔(اقرب) تُدْلُوْا بِھَا اصل میں لَا تُدْلُوْ ابِھَا کے معنوں میں ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ (۱) ایک دوسرے کے مال حکام کے پاس نہ لے جائو۔ یعنی جھوٹے مقدمات بنا کر اُن کے مال نہ لو (۲) حاکموں کو بطور رشوت مال نہ دو۔
تفسیر:۔ اپنے مال کو تو انسان کھایا ہی کرتا ہے پس لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ سے مراد ہے کہ ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ مت کھائو۔ انسان دوسرے کا ہل کئی طرح کھاتا ہے۔ اول جھوٹ بول کر ۔ دوم ناجائز ذرائع سے چھین کر۔ سوم سود کے ذریعہ سے۔ چہارام رشوت لے کر یہ سب امور باطل میں داخل ہیں۔
وَتُدْ لُوْا بِھَا اِلَی الْحُکِّامِ میں بتایا کہ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کا مال کھانا ناجائز ہے۔ اسی طررح تم حکام کو بھی روپیہ کا لالچ نہ دو تاکہ اس ذریعہ سے تم دوسرے کا مال کھا سکو۔ اس آیت میں افسران بالا کو رشوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور اُسے حرام اور ناجائز قرار دیا گیا۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اپنے مالوں کو حکام کے پاس نہ لے جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ کے ذریعہ کھا جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ کے ذریعہ مت کھا جائو۔یعنی ان کے متعلق جھوٹے مقدمات دائر نہ کرو۔ اور یہ نہ سمجھو کہ اگر حاکم انصاف کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے تمہیں کسی کا حق دلادے گا تو وہ تمہارے لئے جائز ہو جائیگا۔ کیونکہ دنیوی عدالتوں سے بالا ایک آسمانی عدالت بھی ہے اور جب اس نے اپنے قانون میں ایک چیز کو ناجائز قرار دے دیا ہے تو دنیا کی کوئی عدالت خواہ اُسے جائز بھی قرار دے دے وہ بہر حال ناجائز اور حرام ہی رہے گا۔
چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ‘ بِحَقَّ اَخِیْہِ شَیْئًا فَلَا یَاْ خُذُہ‘۔ فَاِنَّمَا اَقْطَعُ لَہ‘ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ ۔ (بخاری جلد ۴ کتاب الاحکام) یعنی اگر میں کسی شخص کے لئے اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا غلط فیصلہ کر دوں تو اُسے چاہیے کہ وہ اس کے لینے سے انکار کر دے کیونکہ میں اس کے لئے آگے کے ایک ٹکڑے کا فیصلہ کرتا ہوں۔
اسی طرح بخاری اور مسلم میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت آتی ہے کہ اَنَّہ‘ سَمِعَ خَصُوْمَۃً بِبَابِ حُجْرَتِہٖ فَخَرَجَ اِلَیْھِمْ فَقَالَ اِنَّمَا اَنَا بِشَر’‘ وَ اِنَّمَا یَاْ تِیْنِی الْخَصْمُ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ اَنْ یَّکُوْنَ اَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَاَحْسِبُ اَنَّہ‘ صَادِق’‘ فَاَقْضِیَ لَہ‘ بِذٰلِکَ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ‘ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَاِنَّمَا ھِیَ قِطْعَۃ’‘ مِّنَ النَّارِ فَلْیَاْ خُذْ ھَااَوْیَنْرُکْھَا۔ (بخاری کتاب الاحکام) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے مکان کے دروازہ پر کسی جھگڑے کی آواز سنی آپ شور سُن کر باہر تشریف لے آئے اور لوگوں سے فرمایا کہ دیکھو میں بھی ایک انسان ہوں۔ میرے پاس مقدمات والے آتے ہیں تو ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو۔ اور میں اس کی باتوں کی وجہ سے خیال کرلوں کہ وہی سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ پس اگر میں کوئی ایسای فیصلہ کر دوں تو جس شخص کیلئے میں کسی
یَسْئَلُوْنَکَ
لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
مسلمان کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کروں اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں نے اُسے دیا ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اس آگ کے ٹکڑا پر قبضہ کر لے اور چاہے تو اُسے چھوڑ دے۔
۱۰۴؎ حل لغات:۔ اَلْاَ ھِلَّۃ۔ ھَلَال’‘ کی جمع ہے ۔ وَقِیْلَ یُسَمّٰی ھِلَا لًا لِلَیْلَتَیْنِ اَوْ اِلیٰ ثَلَاثٍ اَوْ اِلیٰ سَبْعٍ۔ اور ہلال دوراتوں کے چاند کو کہتے ہیں۔ اسی طرح تین اور سات راتوں کے چاند کو ہلال کہا گیا ہے۔(اقرب الموارد)
مَوَاقِیْتُ: مِیْقَات’‘ کی جمع ہے اور اَلْمِیْقَاتُ کے معنے ہیں۔ اَلْوَقْتُ۔ وقت۔ وَقِیْلَ اَلْوَقْتُ الْمَغْرُوْبُ لِلْشَّیْئِ۔ اور کہا گیا ہے کہ میقات سے مراد وہ خاص وقت بھی ہے جو کسی کام کے لئے مقرر کیا جائے۔ وَالْمُوْعِدُ الَّذِیْ جُعِلَ لَہ‘ وَقْت’‘۔ اور میقات اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے لئے کوئی وقت مقرر کیا گیا ہو۔ وَقَدْ یُسْتَعَارُ لَلْمَوْضِعِ الَّذِیْ جُعِلَ وَقْتًا لِشَّیْئِ۔ اور وہ خاص جگہ جہاں کوئی خاص کام وقت مقرر پر کیا جائے۔ اُسے بھی میقات کہتے ہیں۔(اقرب)
تفسیر: صحابہ کرامؓ نے جب دیکھ ا کہ کس طرح رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ ان کے قریب آجاتا اور ان کی دُعائوں کو قبول فرماتا ہے۔ تو ان کے دلوں میں شوق پیدا ہوا کہ وہ باقی مہینوں کے بارہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
سے سوال کریں تاکہ وہ ان کی برکات سے بھی مستفیض ہو سکیں۔ چنانچہ فرمایا کہ لوگ تجھ سے چاندوں کے بارہ میں سوال کرتے ہیں تو انہیں کہدے کہ ھِیَ مَوَ اقِیْتُ لِلنَّاسِ یہ لوگوں کے لئے وقت کا اندازہ کرن کا ایک ذریعہ ہیں۔ یعنی ہر قمری مہینہ اس لئے مقرر نہیں کیا گیا کہ اس کے ساتھ شریعت کے کسی خاص حکم کا تعلق ہے بلکہ ان مہینوں کا چاند کے ساتھ اس لئے تعلق رکھا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ گذشتہ یا آئندہ کام کا وقت پہچانا جاتا ہے اور پھر لِلنَّاس ِ فرمایا کہ بتایا کہ عوام کے فائدہ کے لئے یہی چاند کے مہینے کام دیتے ہیں۔ ورنہ وہ حساب جس کی سورج کی گردش پر بنیاد ہے اس سے صرف علمی طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے عام لوگ اس سے فائدہ اُٹھانے کی استعداد نہیں رکھتے۔
پھر فرمایا وَالْحِجِّ۔ قمری مہینوں کا دوسرا فائدہ حج سے تعلق رکھتا ہے یعنی بوجہ اس کے کہ حج کا فریضہ قمری مہینہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ عبادت سارے سال میں چکر لگاتی رہتی ہے اور مختلف طبائع کے لوگ اور گرم سرد ممالک کے رہنے والے اپنی اپنی طبیعت اور اپنے اپنے حالات کے مطابق اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اگر حج کسی شمسی مہینہ میں مقرر کر دیا جاتا تو لازماً وہ ہر سال ایک ہی مہینہ میں ہوتا۔ اور کئی لوگوں کے لئے حج کا فریضہ ادا کرنا ناممکن ہو جاتا۔ مگر اب حج کی عبادت سارے سال میں چکر لگاتی رہتی ہے اور ہر شخص اپنے اپنے حالات کے مطابق بیت اللہ کا سفر کر کے حج کی برکات سے مستفیق ہو سکتا ہے۔
ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسلام کے نزدیک چاند ہی وقت کا اندازہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں سورج کو بھی وقت کا اندازہ کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآئً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہ‘ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْ ا عَد۔ دَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ (یونس آیت۶) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے سورج کو اپنی ذات میں ایک روشن وجود بنایا ہے اور چاند کو نور بنایا ہے جوسورج سے اکتسابِ نور کر رہا ہے۔ اسی طرح سورج افور چاند کی ہم نے منازل مقرر کر دی ہیں تاکہ تمہیں سالوں کی گنتی اور حساب معلوم ہوا کرے۔ پھر سور انعام میں فرماتا ہے ۔ فَالِقُ الْاِ صْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْرِ الْعَلِیْمِ(انعام آیت۹۷) یعنی خدا صبح کو ظاہر کرنے والا ہے اور اس نے رات کو سکون اور آرام کا موجب اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا اور یہ فیصلہ ایک غالب اور علم رکھنے والے خدا کا ہے۔
اسی طرح سورہ رحمٰن میں فرماتا ہے اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ(رحمن آیت۶) سورج اور چاند دونوں ایک حساب کے ماتحت کام کر رہے ہیں یعنی ان کی حرکات قانون سے آزاد نہیں بلکہ ایک معین اور مقرر ہ قانون کے مطابق ہیں۔ اور اسی مقررہ قانون کا یہ نتیجہ ہے کہ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ زمین کی روئیدگی اور سبزہ سب اپنے اُگنے ۔ نشوونما پانے اور پھل لانے میں سورج اور چاند کے پیچھے چلتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں۔
ان آیات قرآنیہ سے واضح ہے کہ تاریخ اور حساب کے ساتھ سورج اور چاند دونوں کا تعلق ہے۔ اور یہ علوم کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے تھے اگر سورج اور چاند کا وجود نہ ہوتا۔ اگر سورج اور چاند نہ ہوتے تو دنوں اور سالوں کا اندازہ ہی نہ ہو سکتا۔ اس لئے کہ اندازہ اور فاصلہ معلوم کرنے کے لئے کسی مستقل چیز کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے پٹواری حساب لگاتے ہیں تو کہتے ہیں فلاں زمین فلاں کنوئیں سے اتنے کرم کے فاصلے پر ہے یا فلاں درخت سے اتنے کرم کے فاصلے پر ہے۔ پس چونکہ کسی مستقل چیز کے بغیر فاصلہ کا معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے اس لئے اگر سورج اور چاند نہ ہوتے تو سالوں اور دنوں کا اندازہ بھی نہ ہو سکتا۔
اسلام نے اپنی عبادات میں سورج اور چاند دونوں سے وقت کے اندازے کئے ہیں۔ مثلاً دن بھر کی نمازوں کے اوقات اور روزہ کی ابتداء اور اس کی افطاری وغیرہ کا تعلق شمسی نظام کے ساتھ ہے۔لیکن جہاں عبادات کسی خاص مہینہ سے تعلق رکھتی ہیں وہاں قمری نظام سے کام لیا گیا ہے جیسے رمضان اور ایام حج کے لئے قمری مہینوں کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ دونوں عبادتیں سال کے ہر حصہ میں چکر کھاتی رہیں۔ اور ایک مومن فخر کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ اس نے سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے۔ مثلاً رمضان کا انحصار چونکہ قمری مہینوں پر ہے ۔ اس لئے ۳۶ سال میں ایک دور ختم ہو جاتا ہے اور رمضان کبھی جنوری میں آجاتا ہے اور کبھی فروری میں کبھی مارچ میں اور کبھی اپریل میں اس طرح سال کے ۳۶۰ دنوں میں سے ہر دن ایسا ہوتا ہے جس میں انسان نے روزہ رکھا ہوتا ہے لیکن اگر شمسی مہینوں پر روزے مقرر ہوتے تو اگر ایک دفعہ جنوری میں روزے آتے تو پرھ ہمیشہ جنوری میں ہی روزے رکھنے پڑتے اور اس طرح عبادت کو وسعت حاصل نہ ہوتی۔ پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے متعلق کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گذارا ہے۔ عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے لیکن سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے لحاظ سے انسان دماغ سورج سے زیادہ تسلی پاتا ہے۔ بہر حال قمری اور شمسی دونوں نظام حساب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے وہ چاند کے مہینوں سے ہی زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ شمسی نظام سے تعلق رکھنے والے حسابات ان کی علمی استعداد سے بالا ہوتے ہیں۔
وَلَیْسَ الْبِرَّ بِاَنْ قَاْتُواالْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا کہتے ہیں اسلام سے پہلے عربوں کا دستور تھا کہ جب وہ حج کے لئے احرام باندھ لیتے اور اس دوران میں انہیں گھر آنے کی ضرورت پیش آتی تو وہ دروازوں سے آنے کی بجائے گھروں کی پشت سے دیوار پھاند کر آتے تھے(بخاری کتاب التفسیر) ہو سکتا ہے کہ یہ آیت اسی کے متعلق ہو کہ تم ایسا نہ کرو مگر میرے نزدیک چونہ اس آیت سے پہلے گھروں کی پشت سے داخل ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لئے اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ تم گھروں میں ان کی پشت سے داخل نہ ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کام کو سر انجام دینے کے جو صحیح طریق مقرر کئے گئے ہیں تم ان سے کام لو ورنہ تمہیں کامیابی حاصل نہ ہو گی۔ چنانچہ دیکھ لو اس سے پہلے یہ سوال بیان کیا گیا ہے کہ رمضان میں تو ہم نے مشقت برداشت کی اور خداتعالیٰ ہمیں مل گیا۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ باقی مہینوں میں ہم نفس کشی کے لئے کیا کریں اور کون کون سے طریق اختیار کریں۔ خداتعالیٰ نے بتایا کہ تمہاری خواہش تو نیک ہے مگر یہ یاد رکھو کہ خداتعالیٰ تک پہنچنے کا یہ ذریعہ نہیں کہ زیادہ تکلیف اٹھا ئو بلکہ حقیقی ذریعہ یہ ہے کہ جو طریق ہم نے نیکی میں تریقی کرنے کے تمہیں بتائے ہوئے ہیں تم ان پر عمل کرو۔ تمہیں خود بخود اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائیگا۔ اور اگر تم ایسا نہ کرو توتمہاری مثلا ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی آقا اپنے ملازم کو بلائے اور وہ دیر کر کے آئے تو پوچھے تم دیر کر کے کیوں آئے ہو۔ اس پر وہ کہدے کہ دروازے سے نہیں آیا بلکہ دیوار پھاند کر آیا ہوں اور مجھے دیوار پھاند نے میں بہت دیر لگ گئی تھی اس لئے میں جلد ی نہیں پہنچ سکا۔ اگر وہ یہ جواب دے تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اس جواب سے اس کا آقا خوش ہو جائیگا۔ اور اُسے انعام دیگا اور کہہ گا کہ چونکہ یہ دیوار پھاند کر آیا ہے اور اس نے بڑی مشقت برداشت کی ہے اس لئے اسے ترقی دی جائے؟ اسی طرح خواہ مخواہ مشقت اُٹھا کر اپنی طرف سے نئی نئی راہیں ایجاد کرنا اور ان پر اپنا وقت ضائع کرنا اور اپنے قویٰ کو نقصان پہنچانا کوئی نیکی نہیں۔ نیکی یہ ہے کہ لوگ اپنے آسمانی آقا کی آواز پر لبیک کہیں اور اس راستہ کو اختیار کرین جو شریعت نے ان کے لئے قائم کر دیا ہے غرض اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ طریق جو میں نے تمہیں بتائے ہوئے ہیں اگر ان کے ژریعہ سے تم میرے پاس آئو گے تو مجھ تک پہنچ سکو گے اور اگر اور ذرائع عمل میں لائو گے اور ان میں تمہیں بتائے ہوئے ہیں اگر ان کے ذریعہ سے تم میرے پاس آئو گے تو مجھ تک پہنچ سکو گے اور اگر اور ذرائع عمل میں لائو گے اور اُن میں تمہیں محنت بھی زیادہ کرنی پڑے تو یہ زیادہ محنت کرنا تمہیں خداتعالیٰ تک نہیں پہنچائیگا۔ جیسا کہ ہندئووں میں سے بعض اُلٹے لٹکے رہتے ہیں بعض اپنے ہاتھ کھڑے کر کے خشک کر لیتے ہیں۔ مگر انہیں خداتعالیٰ کی کوئی رضا حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان بھی عبادتیں کرتے ہیں جو مشقت میں ان سے بہت کم ہوتی ہیں لیکن پھر بھی وہ رضائے الہٰی کو حاصل کر لیتے ہیں۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے بھی جیج اعوج کے دور میں بڑی بڑی مشقتیں اپنے نفس پر دارد کیں اور وہ غلط راستہ پر چلنے
ٓوَقَاتِلُوا فِیْ
یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo
لگے۔ بیسیوں قسم کی چلہ کشیاں تھیں جو انہوں نے اختیار کر لیں اور بیسیوں قسم کے ذکر تھے جو انہوں نے خود ہی ایجاد کر لئے۔ اگر مسلمان اپنے آپ کو ان مشقتوں میں ڈالنے کی بجائے قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے تو وہ قرب الہٰی کی ان منازل کو دنوں میں طے کر لیتے جنہیں وہ سالوں میں بھی طے نہ کر سکے۔ بلکہ ان ریاضتوں کے نتیجہ میں ان میں سے کئی مسلوں اور مدقوق ہو کر مر گئے۔ کئی دیوانے ہو گئے اور کئی مر گی کا شکار ہو گئے۔
وَاْتُواالْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَا بِھَا وَاتَّقُوااللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ اس میں بتایا کہ کامیابی ہمیشہ ابواب ہی کے ذریعہ اانے سے ہوا کرتی ہے۔ اگر تم ایسا نجیہں کرتے اور دروازوں میں سے داخل ہونے کی بجائے دیواریں پھاند کر اندر داخل ہونا چاہتے ہو تو تمہیں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ مثلاً لڑائی کے زمانہ میں اگر تم ہتھیاروں سے کام لینا نہ سیکھو اور جنگی فنون کی تربیت نہ لو بلکہ یونہی سینہ تان کر دشمن کے سامنے چلے جائو۔ تو تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر چھوٹی سے چھوٹی تلوار بھی تمہارے پاس ہو یا تمہیں لاٹھی چلانا ہی آتا ہو تو تم قوم کے لئے مفید وجود بن سکتے ہو۔ پس کامیابی کے لئے ان ذرائع اور اسباب کو استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ ورنہ اسے ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پھر وَاتَّقُوااللّٰہَ کہہ کر اس طرف ۹اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کے نظام کی ہتک کرنا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں انہی کے مطابق چلو اپنے پاس سے نئے نئے طریق وضع نہ کرو۔ مثلاً رمضان کے مہینہ میں بیشک روزے رکھنا ایک بڑی نیکی ہے لیکن اگر اسی پر قیاس کرتے ہوئے کوئی شخص کسی اور مہینہ میں بھی تیس تیس روزے رکھنے شروع کر دے اور سمجھے کے وہ اس طرح اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیگا تو وہ ایسا ہی ہو گا جیسے کوئی دوروازہ سے داخل نہ ہو بلکہ نقب لگا کر داخل ہو اور اندر جا کر کہے کہ دیکھئے میں کسی مشقت اٹھا کر آپ تک پہنچا ہوں۔ ایسے شخص کی کوئی تعریف نہیں کر سکتا بلکہ ہر شخص اسے ملامت کرے گا اور اس کے فعل کو قبلِ ندمت قرار دیگا۔
۱۰۵؎ تفسیر:۔ اب اللہ تعالیٰ نے دینی جنگوں کے احکام بیان کرنے شروع کئے ہیں۔ چنانچہ اس پہلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ نے وہ تمام شرائط بیان کر دی ہیں جن کو مذہبی جنگوں میں ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ہے اسے مسلمانو! ان کفار سے جو تم سے جنگ کر رہے یہں تم بھی محض اللہ تعالیٰ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ یا نفس کی ملونی شامل نہ ہو جنگ کرو اور یاد رکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل نہیں کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو بہر حال پسند نہیںکرتا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ جس جنگ کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے وہ صرف وہی ہے جو اول فی سبیل اللہ ہو۔ یعنی ذاتی لالچوں ، ذاتی حرصوں ملک کے فتح کرنے کی نیت یا اپنے رسوخ کو بڑھانے کی نیت سے نہ ہو بلکہ صرف خداتعالیٰ کے لئے ہو یعنی ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہو جو خداتعالیٰ کی راہ میں اور اس کے دین کے راستہ میں پیدا کی گئی ہوں۔ اگر وہ دینی جنگ نہیں تو اُسے فی سبیل اللہ نہیں کہا جا سکتا۔ مسیحی مصنف فی سبیل اللہ کے الٖاط سے دھوکہ کھاتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ فی سبیل اللہ سے مراد زبردستی مسلمان بنانے کے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اس کے معنے تو یہ یہیں کہ صرف وہی جنگ جائز ہے جو خداتعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اس کی رضا چاہنے کے لئے ہو۔ چنانچہ اسی قسم کے الفاظ اسی سورۃ کی آیت نمبر۲۶۳ میں بھی استعمال کئے گئے ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنَّاً وَّ لَآ اَذَیً لَّھُمْ اَجْرُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْف’‘ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَفُوْنَ۔ یعنی جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر خرچ کرنے کے بعد نہ کسی رنگ میں احسان جتاتے ہیں اور نہ کسی قسم کی تکلیف دیتے ہیں ان کے رب کے پاس ان کے اعمال کا بدلہ محفوظ ہے اور نہ تو انہیں کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہونگے۔ اس آیت میں جو فی سبیل اللہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں انہیں کی تشریح آیت نمبر۲۶۶ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَآئَ مَرْمنَاتِ اللّٰہِ یعنی وہ لوگ اپنے اموال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔
اسی طرح لسان العرب جو لغت کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ کُلُّ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ مِنَ الْخَیْرِ فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَیْ مِنَ الطُّرُقِ اِلَی اللّٰہِ یعنی ہر نیکی جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے جو انسان کو خداتعالیٰ تی پہنچا دیتا ہے۔ اور نہایۃ میں لکھا ہے۔ وَسَبِیْلِ اللّٰہِ عَامّ’‘ یَقَعُ عَلیٰ کُلِّ عَمَلٍ خَالِصٍ سُلِکَ بِہٖ طَرِیْقُ التَّقَرُّبِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ بِاَدَامِ الْفَرَائِضِ وَالنَّوَافِلِ وَاَنْوَاعِ التَّطَّوُّعَاتِ یعنی سَبِیْلِ اللّٰہ ایک عام اصلاح ہے جس کا اطلاق ہر ایسے عمل نیک پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی حاسل کی جاتی ہو۔ خواہ وہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعہ ہو یا نوافل یا دوسری نیکیوں میں حصہ لینے کے ذریعہ ہو۔
پس قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کے یہ معنے نہیں کہ تم دوسروں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لئے جنگ کرو۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب کوئی قوم دین کے بارہ میں تم سے جنگ کرے اور تمہارا مقدس مذہب تم سے زبارستی چھڑانا چاہے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور دینی مشکلات کو دور کرنے کے لئے دشمن سے جنگ کرو۔ پس اس میں کفار کو زبردستی مسلمان بناے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ کفار کے اس جبر کو دور کرنے کا ذکر ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے مذہبی آزادی تک باقی نہیں رہی تھی۔
دوسری شرط اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ بیان کی ہے کہ لڑائی صرف انہی لوگوں سے جائز ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں ہتھیار اُٹھا چکے ہوں۔ جیسا کہ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ کے الفاظ اس پر شاہد ہیں۔
تیسری شرط جو یُقَاتِلُوْ نَکُمْ میں بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ تمہارے لئے صرف انہی سے جنگ کرنا جائز ہے جو تم سے لڑتے ہیں۔ یعنی جو لوگ باقاعدہ سپاہی نہیں اور لڑائی میں عملاً حصہ نہیں لیتے جیسے بچے بوڑھے عورتیں وغیرہ ان کو مارنا یا ان سے لڑائی کرنا جائز نہیں گویا سول آبادی کو لڑائی کے دائرہ سے کلیتہ باہر رکھا گیاہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم کی جو تشریح فرمائی ہے وہ ان احکام سے ظاہر ہے جو آپ اس وقت دیتے تھے جب آپ کسی کو کمانڈر بنا کر جنگ پر بھجواتے تھے۔ چنانچہ مسلم جلد ۲ کتاب الجہاد میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا دستہ فوج کا کسی کو افسر بنا کر بھجواتے تھے تو آپ اُسے اور دوسرے مسلمانوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور پھر فرماتے اُغْزُوْا بِسْمِ اللّٰہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اور اللہ تعالیٰ کی خاطر جنگ کے لئے جائو۔ قَاتِلُوْ امَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ اس شخص کے ساتھ جنگ کر و جو اللہ تعالیٰ کا کفر اختیار کرے۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ تم کافر سے لڑو بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جس شخص سے تمہاری لڑائی ہے اگر وہ مسلمان ہو جائے تو پھر تم نے اس سے لڑنا نہیں تمہیں لڑائی کی صرف اس وقت تک اجازت ہے جب کفر اللہ کی شرط موجود ہے۔اگر کسی شخص نے لڑائی تو شروع کی مگر جب تمہارا لشکر پہنچا تو اس نے کہدیا کہ میں اسلام اختیار کرتا ہوں تو بس لڑائی ختم ہو جائیگی ۔ وَلَا تَغُلُّوا اور قطعی طور پر خیانت سے کام نہ لو۔وَلَا تَغْدِرُوا اور بد عہدی نہ کرو۔دھوکہ بازی سے کام نہ لو۔ اگر تم اپنے دشمن سے کوئی وعدہ کر لو تو بعد میں اُسے کسی بہانہ سے توڑنے کی کوشش نہ کرو۔ وَلَا تُمَثِّلُوْا اور تم مثلہ نہ کرو یعنی کفار اپنی رسم کے مطابق اگر مسلمان مقتولین کے ناک کان بھی کاٹ دیں تو بھی تم ان کے مردوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کرو۔ وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا اور کسی نابالغ بچے کو نہ مارو کیونکہ وہ جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ سیرتِ حلبیہ میں اس کے علاوہ بعض اور نصائح بھی درج ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو جنگ پ رجاتے وقت یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ لَاتَقْتُلُوا اِمْرَئَ ۃً۔ کسی عورت کو نہیں مارنا۔ وَلا مُعْتَزِلًا بِصوْمَعَۃٍ۔ اور عبادت گاہوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی نہیں مارنا۔کیونکہ گودہ ایک ایسی قوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو تمہاری مخالف ہے مگر وہ خدا کا نام لیتے ہیں پھر فرماتے وَلَا تَقْرَبُوْا نَخْلًا۔ کسی کھجور کے درخت کے قریب بھی نہ جانا یعنی کھجور کو نقصان پہنچانے کا خیال بھی نہ کرنا۔ کیونکہ اس سے ان کے رزق پر اثر پڑتا ہے اور تمہارا حملہ ان کے حملے کو دور رکھنے کی نیت سے ہے ان کو مستقل تباہ کرنے کی غرض سے نہیں۔وَلَا تَقْطَعُوْا شَجَرًا بلکہ کوئی درخت بھی نہ کاٹنا کیونکہ وہ غریبوں اور مسافروں کو سایہ دینے کے کام آتا ہے اور تم لڑنے کے لئے جا رہے ہو اس لئے نہیں جا رہے کہ وہ قوم سایہ سے بھی محروم ہو جائے۔ وَلَا تَھْدِ مُوْا بِنَائً۔ اسی طرح عمارتوں کو مت گِرائو۔ قلعہ کا انہدام ایک علیحٰدہ چیز ہے۔ وہ جنگ کے حملے کو روکنے کے لئے ہوتا ہے۔ مگر یہ جائز نہیں کہ کسی ملک کے باشندوں کے بے گھر کر دیا جائے اورا ن کے مکانوں کو گرادیا جائے یا انہیں آگ لگا دی جائے۔ اسی طرح آپ کی دوسری ہدایات میں ہے کہ ملک میں ڈر اور ہراس پیدا نہ کیا جائے۔ دنیوی حکومتیں جب کسی ملک میں داخل ہوتی ہیں تو اندھا دھند مظالم شروع کر دیتی ہیں محض اس لئے کہ حکومت کا رعب قائم ہو جائے۔ مگر اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مفتوحہ ممالک میں جائو تو ایسے احکام جاری کرو جن سے لوگوں کو آسانی ہو تکلیف نہ ہو۔ اور فرمایا جب لشکر سڑکوں پر چلے تو اس طرح چلے کہ عام مسافروں کا راستہ نہ رکے ایک صحابیؓ کہتے ہیں ایک دفعہ لشکر اس طر نکلا کہ لوگوں کے لئے اپنے گھروں سے نکلنا اور راستہ چلنا مشکل ہو گیا اس پر آپ نے منادی کروائی کہ جس نے مکانوں کو بند کیا راستہ روکا اس کا جہاد جہاد نہیں رہیگا۔
غرض اسلام کہتا ہے کہ تم کو جنگ میں عورتوں کے مارنے کی اجازت نہیں تم کو بچوں کے مارنے کی اجازت نہیں ۔ تم کو بڈھوں کے مارنے کی اجازت نہیں۔ تم کو بد عہدی کر نے کی اجازت نہیں۔ تم کو دھوکا دینے کی اجازت نہیں۔ تم کو مقتولین کے ناک کان کاٹنے کی اجازت نہیں۔ تم کو پادریوں اور پنڈتوں اور گیانیوں کو مارنے کی اجازت نہیں۔ تم کو کوئی باغ اور درخت کاٹنے کی اجازت نہیں۔ تم کو کوئی عمارت گرانے کی یا اُسے آگ لگانے کی اجازت نہیں ور اگر کبھی ان ہدایات کی خلاف ورزی ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ عرب کے دستور کے مطابق عورتیں بھی لڑائی میں شامل ہوتی تھیں اور چونکہ وہ دوسروں کو قتل کرتی تھیں لازماً وہ خود بھی قتل کی جاتی تھیں مگر ایک موقعہ پر ایک لڑائی کے بعد جب ایک عورت کی لاش آپ نے دیکھی تو آپ کے چہرے پرغم اور غصہ کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا اسلام اس کو پسند نہیں کرتا یہ فعل اسلامی تعلیم کے خلاف ہوا ہے(بخاری جلد۲ کتاب الجہاد والسیر) اُحد کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار پیش کی اور فرمایا یہ تلوار میں اس شخص کو دونگا جو اس کا حق ادا کرنے کا وعدہ کرے۔ بہت سے لوگ اس تلوار کو لینے کے لئے کھڑے ہوئے آپ نے ابودجانہؓ انصاری کو وہ تلوار دی۔ لڑائی میں ایک جگہ مکہ والوں کے کچھ سپاہی ابودجانہؓ پر حملہ آور ہوئے۔ جب آپ نے ان سے لڑ رہے تھے تو ااپ نے دیکھ کہ ایک سپاہی سب سے زیادہ جوش کے ساتھ لڑائی میں حصہ لے رہا ہے۔ آپ نے تلوار اُٹھائی اور اس کی طرف لپکے لیکن پھر اس کو چھوڑ کر واپس آگئے۔ آپ کے کسی دوست نے پوچھا۔ آپ نے اُسے کیوں چھوڑ دیا۔ آپ نے جواب میں کہا۔ میں جب اس کے پاس گیا تو اس کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلا جس سے مجھے معلوم ہواگیا کہ وہ مرد نہیں عورت ہے ان کے ساتھی نے کہا بہرحال وہ سپاہیوں کی طرح فوج میں لڑ رہی تھی۔ پھر آپ نے اُسے چھوڑا کیوں؟ ابودُجانہ ؓ نے کہا میرے دل نے برداشت نہ کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تلوار کو ایک کمزور عورت پر چلائوں۔ غرض آپ عورتوں کے ادب اور احترام کی ہمیشہ تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں۔ مگر پھر بھی مسلمان ان باتوں کی برداشت کرتے چلے جاتے تھے۔ صرف ایک ہی عورت تھی جس نے شروع سے لیکر آخر تک اسلام کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا اور مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹ لینے میں بہت مشہور تھی یعنی ہندو۔ فتح مکہ کے وقت آپ نے صرف اس کے قتل کا حکم دیا مگر وہ باقی عورتوں کے ساتھ آئی اور مسلمان ہو گئی اور پھر آپ نے اُسے بھی کچھ نہیں کہا۔ کیونکہ آپ نے فرمایا توبہ نے اس کے سارے گناہوں کو دھو دیا ہے۔
چوتھی شرط وَلَا تَعْتُدُوْا اِنَّ اللّٰہِ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ کے الفاظ میں یہ بیان فرمائی کہ باوجود دشمن کے حملہ میں ابتداء کرنے کے لڑائی کو صرف اس حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حد تک دشمن نے محدود رکھا ہے اور اسے وسیع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ نہ علاقہ کے لحاظ سے اور نہ ذرائع جنگ کے لحاظ سے اور فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حد سے زیادہ گذر جانے والوں سے محبت نہیں کرتا یا یوں کہو کہ جو لوگ حد سے گذر جانے والے ہوں وہ کبھی خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص طبعی طور پر اللہ تعالیٰ سے محبت کر ہی نہیں سکتا ۔کیونکہ وہ حق کا مطالبہ کرنے میں حد سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کو غصہ اا گیا اور اس نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا تو اب یہ ایک غلطی تو ہے جس کی اُسے سزا ملنی چاہیے۔ مگر یہ سزا اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ ہم اُسے بلائیں اور ڈانٹ دیں کہ تم نے فلاں کو تھپڑ کیوں مارا لیکن بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس شخص سے قصور سر زد ہوا ہو جب تک وہ اس کا قیمہ نہ کر لیں ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ اور پھر یہیں تک بس نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ جب وہ اگلے جہاں میں پہنچے تو وہاں بھی خدا اس کو دوزخ میں ڈالے اور اُسے ایسا عذاب دے جو کسی اور کو نہ دیا گیاہو حالانکہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے وہ حد سے گذرنے والوں سے محبت نہیں کرتا اور نہ حد سے گذرنے والا خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے۔ اس زمانہ میں بڑی بڑی طاقتیں اس بات کی مدعی ہیں کہ انہوں نے عدل و انصاف کو کمال تک پہنچا دیا ہے مگر ان کی حالت ہی ہے کہ وہ لڑائی میں ہر قسم کے جھوٹ اور ظلم اور دھوکا اور فریب سے کام لیتی ہیں اور جب تک دشمن کو پیس نہ لیں ان کے دل کی آگ ہی نہیں بجھتی کہیں گیسیں استعمال کی جاتی ہیں تو کہیں قیدیوں کو پکڑ کر لڑائی کے وقت اپنے آگے رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اور کئی ظالمانہ طریق اختیار کئے جاتے ہیں۔ مثلا یہ بھی اعتداء میں داخل ہے ۔ کہ دشمن کا لباس پہن کر یا اس کا نشان دکھا کر حملہ کر دیا جائے یا صلح کے بہانہ سے حملہ کیا جائے یہ تمام امور ناجائز اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں۔ بہرحال اوپر کی دونوں آیات سے مندرجہ ذیل چھ امور کا استنباط ہوتا ہے۔
پہلی بات یہ مستنبط ہوتی ہے کہ غیر شرعی طریق سے جائز کام بھی ناجائز ہو جاتا ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں جن میں داخل ہونیکا تم کو ہر وقت اور پورا اختیار ہے ان میں بھی اگر تم دیواریں پھاند پھاند کر داخل ہو تو یہ امر خداتعالیٰ کے نزدیک نیکی نہیں سمجھا جا ئیگا۔ اس مثال سے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لئے ایک رستہ بنایا ہے۔ اگر تو انسان اس رستہ سے اس کام کو کرتا ہے تو اس کا کام نیکی قرار دیا جائیگا۔ لیکن اگر کام نیک ہو مگر اس کے کرنے کا طریق غلط ہو تو پھر وہ عمل نیک نہیں رہے گا۔ مثلاً نماز ایک نیکی ہے لیکن اگر کوئی شخص بغیر وضو کے نماز پڑھے یا پہلے نماز پڑھ لے بعد میں وضو کرے یا بے وقت نماز پڑھے تو باوجود اس کے کہ وہ نماز پڑھے گا جو ایک عبادت ہے وہ اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکے گا بلکہ ایک بدی کا مرتکب ہو گا۔ بعینہٖ اسی طرح اظہار غضب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غیرت کو ایک نیکی قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود بھی نہایت غیرت مند ہے اور وہ بری باتوں پر اظہار غضب بھی کرتا ہے لیکن غیرت کے جائز موقعہ پر بھی اگر کوئی شخص غیرت کا اظہار غلط طریق پر کرے اور شریعت اظہار غیرت یا اظہار غضب کا یہ طریق بتائے کہ اس جگہ سے مومن اُٹھ جائے مگر مومن اس جگہ سے بجائے اُٹھ جانے کے لڑنے لگے تو شریعت اس مومن کو بھی گنہگار قرار دے گی۔
دوسری بات جو اس آتی سے مستنبط ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نیکی تقویٰ کا نام ہے ۔ یعنی نیک کام کو نیک راہ سے بجا لانا ۔ پس مومن کا فرض ہے کہ ہر گھر میں اس کے دروازہ سے داخل ہو یعنی ہر نیک کام کے لئے خداتعالیٰ نے جو طریق تجوریز کیا ہے اس طریق سے اس کام کو کرے۔ جو شخص اس طریق سے کام نہ کرے وہ نیک نہیں کہلا سکتا۔
تیسری بات جو مذکورہ بالا آیات سے مستنبط ہوتی ہے یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اوپر کے بتائے ہوئے راستہ میں ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ یعنی یہ حکم ہم نے یونہی نہیں دیئے ۔ تمہاری ترقی اور کامیابی بھی اسی طریق سے وابستہ ہے۔ کامیابی کا اس امر کے ساتھ وابستہ ہونا ایک ظاہر امر ہے جو راستے کسی عمارت میں داخل ہونے کے ہوں جب انسان ان راستوں سے داخل ہو تبھی وہ بغیر کسی تکلیف کے اپنے مدعا کو پاسکتا ہے۔ اگر ان راستوں سے داخل ہو تبھی وہ بغیر تکلیف کیااپنے مدعا کو پاسکتا ہے۔ اگر ان راستوں کو چھوڑ کر دیواریں پھاندنی شروع کر دے تو اس کی تکلیف بڑھ جائیگی اور اس کی حماقت کی بھی لوگ شکایت کرنے لگیں گے۔
چھوتھی بات اس آیت سے یہ مستبنط ہوتی ہے کہ کسی شخص پر جارحانہ حملہ کرنا خلاف شریعت ہے ۔چنانچہ آیت مذکورہ بالا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِلَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْ نَکُمْ۔ یہ تو تمہارے لئے جائز ہے کہ اگر کوئی تم پر قاتلانہ حملہ کرے تو تم اپنا بجائو کرو۔ لیکن تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم خود کسی پر جا کر حملہ کرو۔
پانچواں استنباط ان آیات سے یہ ہو تا ہے کہ دفاع بھی وہ جائز ہے جو مقرر حدود کے اندر ہو۔ یعنی دفاع میں بھی انسان
وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
پوری طرح آزاد نہیں۔ اس کے لئے بھی قیود اور شرائط ہیں اور ان قیود اور شرائط سے آزاد ہو کر جو دفاع کیا جائے وہ بھی ناجائز اور حرام ہوتا ہے ۔ مثلاً کوئی شخص کسی کو تھپڑ مارے تو جس شخص کو تھپڑ مارا گیا ہے اس کے لئے یہ درست نہ ہو گا کہ اس تھپڑ کی سزا کے لئے دوسرے شخص کا سر پھوڑ دے۔
چھٹی بات اس آیت سے یہ مستنبط ہوتی ہے کہ اگر کوئی ان قیود کو توڑے تو باوجود مظلوم ہونے کے خداتعالیٰ کی نظروں سے وہ گر جائیگا۔ کیونکہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ اگر تم دفاع میں بھی اعتداء سے کام لو اور خداتعالیٰ کی مقررہ قیود کو نظر انداز کر دو تو تم اللہ تعالیٰ کی محبت کھو بیٹھو گے اور اس کی نصرت تم سے جاتی رہے گی۔
۱۰۶؎ حل لغات:۔ اَلْفِتْنَۃُ کے معنے ہیں (۱) اَلْعَذَابُ ۔ عذاب (۲) اَلْاِبْتِلَاء۔ ابتلاء (۳) اِخْتِلَافُ النَّاسِ فِی الْآٰ رَائِ وَمَا یَقَعُ بَیْنَھُمْ مِنَ الْقِتَالِ۔ وہ لڑائی جو اختلافِ اراء کی وجہ سے لوگوں میں پیدا ہو۔ (اقرب)
تفسیر:۔ مخالفین اسلام کے نزدیک اس آیت میںمسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جہاں کوئی کافر ملے اُسے مار ڈالو۔ مگر اس میں ہر گز یہ نہیں کہا گیا کہ جہاں کوئی کافر ملے اسے تہ تیغ کر دو۔ اس جگہ وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ کے حکم کے ماتحت صرف وہ کفار آتے ہیں جن کا پہلے ذکر آچکا ہے اور جنہوں نے مسلمانوں سے عملاً جنگ شروع کر دی تھی ایسے لوگوں کے ساتھ لڑائی جاری رکھنے میں نہ اخلاقاً کوئی اعتراض ہو سکتا ہے اور نہ شرعًا۔ اور حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جہاں کہیں بھی تمہاری اور ان کی جنگ کے ذریعہ سے مٹھ بھیڑ ہو جائے وہاں تم ان سے جنگ کرو۔ یہ نہیں کہ اِکا دُکا ملنے پر حملہ کرتے پھرو۔ بلکہ تمہاری جنگ صرف باقاعدہ فوج کے ساتھ ہونی چاہیے۔ خواہ وہ فوج ہو جس نے مقابلہ میں ابتداء کی ہے یا اُسی فوج کا کوئی دوسرا حصہ ہو جو اس کی مدد کر رہا ہو۔
پھر فرمایا وَاَخْرِجُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَ جُوْ کُمْ اور تم بھی انیہں اس جگہ سے نکال دو جس جگہ سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ ان الفاظ میں یہ پیشگوئی مخفی تھی کہ ایک زمانہ میں مسلمان ایسی طاقت حاصل کرلیں گے کہ وہی مقام جہاں سے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو نکلنے پر مجبور کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس میں مسلمانوں کو فاتحانہ طور پر داخل کرے گا۔ اور یا تو مسلمان کفار کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے اور یا کفار مسلمانوں کی منتیں کرتے اور ان کے آگے ہاتھ جوڑتے دکھائی دینگے۔ اسی غلبہ کی طرف سورۃ توبہ میں بھی بَرَآئَ ۃ’‘ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عَاھَدْ تُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ مشرکین مکہ کہتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ تو یہ ہے کہ میں مکی نبی ہوں جس کی پیشگوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی ۔ مگر یہ تو مکہ چھوڑ کر مدینہ چلا گیا ہے۔ پھر یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ اب خداتعالیٰ نے عرب کو فتح کر کے جس کے بغیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں نہیں آسکتے تھے اس اعتراض کو دور کر دیا ہے اور آپؐ اور آپؐ کے ساتھی اس الزام سے بری ہو چکے ہیں اس کے بعد فرمایا فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ اعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرَ مُعْجِزِی اللّٰہَ۔ تم ملک عرب میں چار مہینے تک پھر کر دیکھ لو اور جان لو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے یعنی اس سفر کے نتیجہ میں تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ اسلام عرب کے کونہ کونہ پر غالب آچکا ہے۔ اور تمہارے تمام اعتراضات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ پس اَخْرِ جُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَ جُوْکُمْ میں اسی غلبہ کی پیشگوئی ہے اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جس طرح انہوں نے تم کو ظالمانہ طور پر ملک سے نکالا ہے اسی طرح تم بھی ان کا تصرف وہاں سے ہٹا دو۔ اس جگہ اَخْرِ جُوْ ھُمْ سے ان کا نکالنا مراد نہیں۔ بلکہ ان کے تصرف کو مٹانا مرا دہے۔ کیونہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کو وہاں سے نکالا نہیں بلکہ ان کی اولاد کو خود آپ نے مکہ میں رہنے کی اجازت دی۔ چنانچہ ابو جہل جو سب سے بڑا مشرک اور دشمن اسلام تھا فتح مکہ کے موقعہ پر اس کے بیٹے عکرمہ نے بھاگ کر ایبے سینیا جانے کا ارادہ کیا اور وہ مکہ سے چلا بھی گیا مگر اس کی بیوی ے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت حاصل کر لی اور وہ مکہ میں آزادنہ طور پر رہنے لگ گیا ۔پس چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے اس کی تشریح کر دی ہے اس لئے اَخْرِ جُوْ ھُمْ میں کفار کے جبری نکالنے کا کوئی حکم نہیں بلکہ وہاں سے ان کا تصرف دور کرنے کا ذکر ہے ۔ یا زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کو نکالنے کا حکم ہے جو شریر ہوں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں جاری رکھنے والے ہوں اور ایسے لوگوں کو دنیا کی ہر حکومت نکالتی ہے اور اس میں کسی قسم کا حرج نہیں سمجھتی۔
وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۔ پھر فرماتا ہے یاد رکھو قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو فتنہ میں ڈالنا زیادہ خطرناک گناہ ہے پس تم ایسای طریق مت اختیار کرو ۔ کیونکہ یہ بے دین لوگوں کا کام ہے۔
اس جگہ فتنہ سے مراد وہی دورِ آزمائش ہے جس میں سے مسلمان گذر رہے تھے۔ اور جس کا اس سے پہلے ان الفاظ میں ذکر آچکا ہے کہ کفار بالاوجہ محض دینی اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو مارتے اور انہیںاپنے گھروں سے نکالتے ہیں۔ فرماتا ہے دین کی وجہ سے لوگوں کو دکھ دینا اور انہیں ان کے گھروں سے نکالنا دنیوی لڑائیوں اور عام سیاسی جنگوں کی نسبت کہ جن میں قومی حقوق وغیرہ کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ بہت زیادہ ہولناک جرم ہے کیونکہ دنیا دین کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔
اور یہ بھی کہ فتنہ یعنی مومنوں کی تعذیب اس غرض سے کہ وہ پنے دین کو چھوڑ دیں قتل سے بڑھ کر ہے۔ کیا بلحاظ اس کے کہ دین کے معاملہ میں جان کچھ حقیقت نہیں رکھتی اور کیا بلحاظ اس کے کہ ایسے ظلم کا نتیجہ نہایت خطرناک فساد ہوتا ہے اور ذہنی آزادی جاتی رہتی ہے اور دلوں میں بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ پس فرمایا کہ ان کو قتل کرنا کوئی ظلم نہیں کیونکہ قتال تو قتال سے ہی جائز ہو جاتا ہے اور یہ لوگ تو قتال سے بڑھ کر مذہبی دست اندازی اور مذہب کی خاطر تعزیب سے بھی کام لیتے یہں جو قتال سے بڑھ کر ہے۔
پھر اَلْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ بیشک قتل ایک بہت بُرا فعل ہے۔ مگر فتنہ پیدا کرنا اس سے بھی زیادہ بُری چیز ہے کیونکہ اس سے لاکھوں بلکہ کڑوروں جانیں ضائع چلی جاتی ہیں۔ قتل کرنے سے تو صرف ایک یا چند جانیں ضائع ہوتی ہیں لیکن ایک فتنہ پر واز شخص بعض دفعہ ایسی بات کر دیتا ہے جس سے قومیں آپ میں لڑ پڑتی ہیں اور جماعتوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جاتا ہے ۔ فتنہ باز لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو معمولی بات کہی تھی مگر ان کا ایک معمولی بات کہنا دراصل ایک زہر ہوتا ہے جس کا دور دور تک اثر پھیلتا ہے او رپھر اس سے خطرناک لڑائیاں شروع ہو جاتی ہں جن سے لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں۔ بیشک فتنہ شروع میں چھوٹا نظر آتا ہے مگر اس کا انجام بہت بڑا ہوتا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے قتل سے بھی منع کیا ہے مگر فتنہ سے اس سے بھی زیادہ زور کے ساتھ منع کیا ہے۔ افسوس ہے کہ لوگ عام طور پر قتل سے تو بچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر فتنہ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ جب تک لوگ یہ نہ سمجھیں کہ فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر بُرا فعل ہے اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیںہ و سکتا۔
وَلَاتُقٰتِلُوْ ھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْ کُمْ فِیْہِ۔ اب فرمات اہے کہ تم مسجد حرام کے پاس ان سے اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک کہ وہ خود جنگ کی ابتداء نہ کریں کیونکہ اس طرح حج اور عمرہ کے راستہ میں روک پیدا ہوتی ہے ۔ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْ ھُم ْہاں اگر وہ کود ایسی جنگ کی ابتداء کریں تو پھر تم مجبور ہو اور تمہیں جواب دینے کی اجازت ہے۔ گَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکَافِرِیْنَ۔ اور جو لوگ عقل اور انصاف کے احکام کو رد کر دیتے ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ اس آیت میں یہ ہدایت دی گئی کہ اس امر کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ مذہبی عبادتوں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں روکیں پیدا نہ ہوں اگر دشمن کسی ایسی جگہ پر جنگ کی طرح نہ ڈالے جہاں جنگ کرنے سے مذہبی عبادتوں میں رخنہ پیدا ہوتا ہو تو مسلمانوں کو بھی اس جگہ جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اگر دشمن خود مذہبی عبادت گاہوں کو لڑائی کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے۔
اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ عبادتگاہوں کے اردگرد بھی لڑائی نیہں ہونی چاہیے ۔ کجا یہ کہ عبادت گاہوں پر براہ راست حملہ کیا جائے یا ان کو مسمار کیا جائے۔ یا ان کو توڑا جائے۔ ہاں اگر دشمن کود عبادت گاہوں کو لڑائی کا قلعہ بنا لے تو پھر ان کے نقصان کی ذمہ داری اس پر ہے مسلمانوں پر نہیں۔
فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ ہاں اگر انہیں ہوش آجائے اور وہ اس بات سے رُک جائیں تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے یعنی اگر دشمن مذہبی مقامات میں لڑائی شروع کرنے کے بعد اس کے خطرناک نتائج کو سمجھ جائے اور مذہبی مقام سے نکل کر دوسری جگہ کو میدان جنگ بنالے تو مسلمانوں کو اس بہانہ سے ان کی مذہبی مقاموں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے کہ اس جگہ پر پہلے ان کے دشمنوں نے لڑائی شروع کی تھی بلکہ فوراً ان مقامات کے ادب اور احترام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حملہ کا رُخ بدل دینا چاہیے۔
وَقٰتِلُوْھُمْ
عَلَے الظّٰلِمِیْنَo
۱۰۷؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے چونکہ کفار تم سے لڑائی شروع کر چکے ہیں اس لئے تم بھی اس وقت تک لڑائی جاری رکھو جب تک کہ دین میں دخل اندازی کرنے کے طریق کو وہ چھوڑ نہ دیں۔ اور یہ تسلیم نہ کر لیں کہ دین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس میں جبر کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں۔ اگر وہ یہ طریق اختیار کر لیں اور دین میں دخل اندازی سے باز آجائیں تو فوراً لڑائی بند کر دو کیونہ سزا صرف ظالموں کو دی جاتی ہے اور اگر وہ اس قسم کے ظلم سے باز آجائیں تو پھر ان سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
یہ امر یاد رکھنا چا ہیے کہ پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نے اَلْفِتْنَۃُ فرمایا تھا اور کہا تھا کہ اَلْفِتْنَتُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ مگر اس جگہ صرف فِتْنَۃ’‘ فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں فتنہ کفار اور قِتَال کا مقابلہ کرنا تاھ پاس معرفہ لانا ضروری تھا اور اس جگہ مقابلہ نہ تھا پس نکرہ لایا گیا تاکہ عظمتِ فتنہ پر دلالت کرے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ تم اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک کہ یہ عظیم الشان فتنہ دور نہ ہو جائے۔
بعض لوگوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ تم یہاں تک لڑو کہ کفر باقی نہ رہے۔ لیکن یہ معنے غلط ہیں ۔ اس جگہ فتنہ سے مراد کفر نہیں بلکہ دین سے دخل اندازی ہے جس کا سورۃ الحج کی اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اُذِنَ لَلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا د وَاِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِ ھِمْ لَقَدِیْرُ oلا اِلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْامِنْ دِیَار ھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ط وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسِ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّ مَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعَ وَّ صَلَوٰت’‘ وَّ مَسٰجِدُ یُذْ کَرْ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاط (سورہ حج آیت ۴۰۔۴۱) یعنی اس لئے کہ مسلمانوں پر ظلم کیا گیا یعنی مسلمانوں جو جن سے دشمن نے لڑائی شروع کر رکھی ہے آج جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ یقینا ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ ہاں ان مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جن کو ان کے گھروں سے بغیر کسی جرم کے نکال دیا گیا۔ ان کا صرف اتنا ہی جرم تھا (اگر یہ کوئی جرم ہے) کہ وہ کہتے تھے اللہ ہمارا رب ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالم لوگوں کو دوسرے عادل لوگوں کے ذریعہ سے ظلم سے روکتا نہ رہے تو گرجے عبارت گاہیں اور مسجدیں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ظالموں کے ہاتھ سے تباہ ہو جائیں۔ پس دنیا میں مذہب کی آزادی قائم رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ مظلوموں کو اور ایسی قوموں کو جن کے خلاف دشمن پہلے جنگ کا اعلان کر دیتا ہے جنگ کی اجازت دیتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ لڑائی صرف اس وقت تک جاری رکھنی چاہیے جب تک فتنہ باقی رہے۔ یعنی لوگ تبدیل مذہب کے لئے ایک دوسرے کو مجبور کرتے رہیں ۔ اگر یہ حالات بدل جائیں مذہبی دست اندازی ختم ہو جائے اور دین کے معاملہ کو صرف ضمیر کامعاملہ قرار دیا جائے تو خواہ دشمن حملہ میں ابتداء کر چکا ہو سوائے دفاع کے اس کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی
اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ
مَعَ الْمُتَّقِیْنَo
چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہؓ کرام نے ابھی اس آیت کے یہی معنے سمجھے ہیں۔ چنانچہ بخاری میں آتا ہے کہ ایک شخص اس زمانہ میں جبکہ حضرت علی ؓاور معاویہؓ کے درمیان جنگ جاری تھی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ حضرت علیؓ کے زمانہ کی جنگوں میں کیوں شامل نہیں ہوتے حالانکہ قرآن کریم میں صاف حکم موجود ہے کہ وَقٰتِلُوْ ھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃ’‘۔ انہوں نے جواب دیا کہ فَعَلْنَا عَلیٰ عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ کَانَ الْاِسْلَامُ قَلِیْلًا فَکَانَ الرَّجُلُ یُفْتَنُ فِیْ دِیْنِہٖ۔ اِمَّا قَتَلُوْہُ وَ اِمَّا یُعَذِّ بُوْہُ حَتَّی کَثُرَ الْاِسْلَامُ فَلَمْ تَکُنْ فِتْنَۃ’‘(بخار ی کتاب التفسیر) یعنی ہم نے یہ حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں پورا کر دیا ہے۔ جبکہ اسلام بہت قلیل تھا اور آدمی کو اس کے دین کی وجہ سے فتنہ میں ڈالا جاتا تھا یعنی یا تو اُسے قتل کیا جاتا تھا یا عذاب دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ پھر کسی کو فتنہ میں نہیں ڈالا جاتا تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک فتنہ نہ رہنے سے یہ مراد ہے لوگ دینی معاملات میں جبرواکراہ سے ام نہ۰ لیں اور محض دین قبول کرنے کی وجہ سے نہ کسی کو قتل کریں۔ ور نہ کسی قسم کاعذاب دیں۔ اگر یہ معنے نہ ہوتے تو فَاِنِ انْتَھَوْا کیوں آتا۔ کیونکہ یہ تو لوگوں کے بتائے ہوئے معنوں کے خلاف پڑا ہے اور ہمارے معنوں کے مطابق ہے۔
وَیْکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ کے الفاظ نے بھی مذکورہ بالا حصہ کی تشریح کر دی اور بتا دیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین کا اختیار کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو جائے اور اس کے متعلق کسی کاور کا ڈر نہ ہو۔ گویا دین کے اختیار کرنے کے بارے میں ہرشخص کو کامل آزادی حاصل ہو جائے اور اگر لوگ مسلمان ہونا چاہیں تو وہ بغیر کسی خوف کے ہو سکیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں جبر کی تعلیم نیہں دی گئی۔ اگر جبر کی تعلیم ہوتی اور اس وقت تک جنگ جاری رکھنا ضروری ہوتا جب تک تمام لوگ مسلمان نہ ہو جائیں تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مشرکوں سے صلح کے معاہدات نہ کرتے۔ پس یہ کہنا کہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ مشرکوں سے اس وقت تک لڑائی جاری رکھو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں اور کفر اور شرک مٹ نہ جائے بالکل غلط ہے۔
۱۰۸؎ حل لغات:۔ اَلْحَرَامُ کے معنے ہیں اَلْمُمْنُوْعُ مِنْہُ۔ جس چیز سے روکا گیا ہو۔ (مفردات)
اِعْتَدُوْ ا عَلَیْہِ: عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ کسی فعل کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ بولا جاتا ہے جو اس فعل کے لئے بولا جائے۔ چنانچہ صاحب مفردات نے اس موقعہ پر لکھا ہے کہ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْ ا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا عْتَدٰی عَلَیْکُمْ اَیْ قَابِلُوْ ہُ بِحَسْبِ اِعْتِدَائِہٖ وَ تَجَاروِزُوْ ا اِلَیْہِ بِحَسْبِ تَجَاوُزِہٖ۔ یعنی اس کے معنے یہ ہیں کہ اسکی زیادتی کے مقابلہ میں اس کی زیادتی کے مطابق ہی سلوک کرو۔
وَاَنْفِقُوْا فِیْ
یُحِبُّ الْمُھْسِنِیْنَo
اس کا مفصل ذکر اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ(بقرہ آیت۱۶) میں گذر چکا ہے ۔ اس جگہ بھی جرم کے لئے جو لفظ بولا گیا ہے وہی سزا کیلئے لایا گیا ہے۔ پس اس کے معنے ظلم کے نہیں بلکہ ظلم کی سزا کے ہیں۔
تفسیر:۔ اس میں بتایا کہ اگر کفار حرمت والے مہینوں یعنی ذوالقعدہ۔ ذولحجہ، محرم اور رجب کا پاس کریں تو تم بھی کرو۔ اور اگر وہ نہ کریں۔ تو تمہارے لئے مجبوری ہے تم بھی مقابلہ میں اس وقت تک جنگ کر سکتے ہو جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آجائیں۔
وَالْحُرُمٰتُ قِصَاص’‘۔ اس میں اصولی طور پر یہ تعلیم دی کہ جن چیزوں میں حرمت پائی جاتی ہے ان میں بھی قصاص کا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی چیز کی حرمت قصاص کو بالکل باطل کر دے۔ چنانچہ آغے اس کی تشریح کر دی اور صاف طور پر فرمادیا کہ فَمَنِ اعْتدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدٰ عَلَیْکُمْ یعنی اگر وہ تم پر زیادتی کریں اور تمہارے مقدس مقامات کا پاس نہ کریں تو تمہارے لئے بھی جائز ہے کہ تم ان کی شرارت اور زیادتی کے مطابق نہیں سزا دو۔ اور ان کے کسی مقام کی تقدیس کی پروا نہ کرو کیونہ انہوں نے خود حرمت کو توڑا ہے۔ مگر ساتھ ہی فرمایا کہ وَاتَّقُواللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۔ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اور جائز حد سے تجاوز نہ کرو۔ اور اس حقیقت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کا ساتھ دیتا ہے۔ یعنی حرمات کی ہتک کا بدلہ لینے کی تو تنہیں اجازت ہے۔ مگر تقویٰ کا بلند مقام یہ ہے کہ تم اس حکم کو اپنے سامنے رکھو کہ فَمَنْ عَفٰی وَاَصْلَحَ فَاَ جْرُہ‘ عَلَی اللّٰہِ یعنی جو شخص دشمن کو معاف کر دے اور اس کی معافی کے نتیجہ میں دوسرے کی اصلاح ہوتی ہو تو وہ یقیناً ایک مستحسن کام کرتا ہے اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ عربی زبان میں بعض دفعہ جزائے جُرم کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے جو جرم کے متعلق استعمال ہو ا ہو۔ اسی قاعدہ کے مطابق یہاںفَمَنِ اعْتدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدٰ عَلَیْکُمْ کہا گیا ہے جس کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ جو شخص تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی کہ تم پر کی گئی ہے۔ مگر مراد زیادتی کا بدلہ لینا ہے (اسکی تفصیل کے لیے دیکھیں تفسیر کبیر جلد اول صفحہ۱۶۶)
۱۰۹؎ تفسیر:۔ اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہوئی ہے ۔ انہیں خداتعالیٰ کی رہ میں جہاں کوئی تکلیف پیش آتی ہے وہ فورًا کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے ہم اس میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں۔ حالان اس کیہرگیز یہ معنے نہیں کہ جہاں موت کا ڈر ہو وہاں سے مسلمان کو بھاگ جانا چاہیے اور اسے بزدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جبدشمن سے لڑائیاں ہو رہی ہوں تو اس وقت اپنے مالوں کو خوب خرچ رکرو۔ اگر تم اپنے اموال کو روک لو گے تو اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان پیدا کرو گے۔ چنانچہ احادیث میں حضرت ابو ایوب انصاری سے مروی ہے کہ انہوںنے اس وقت جب کہ وہ قسطنطنیہ فتح کرنے کیلئے گئے ہوئے تھے کہا کہ یہ آیت ہم انصار کے بارہ میں نازل ہوئی تھی اور پھر انہوں نے بتایا کہ پہلے توہم خداتعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خوب خرچ کیا کرتے تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تقویت اور عزت دی اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا تو قَلْنَا ھَلْ نُقِیْمُ فِیْ اَ مْوَالِنَا وَنُصْلِحْھَا (ابودائود جلد اول کتاب الجہاد) ہم نے کہا کہ اگر اب ہم اپنے مالوں کی حفاظت کریں اور اسے جمع کریں تو یہ اچھا ہو گا۔ اس وقت یہ آیت اُتری کہ تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہو۔ پس اپنے مالوں کو جمع نہ کرو۔ بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خوب خرچ کرو۔ ورنہ تمہاری جانیں ضائع چلی جائیں گی۔ دشمن تم پر چڑھ آئیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم ہلاک ہو جائو گے۔
وَاَحْسِنُوْا: اور اپنے فرائض کو عمدگی سے ادا کرو یا اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالی وسعت عطا فرمائی ہے تو اپنے نادار اور غریب بھائیوں کے اخراجات بھی برداشت کرو اور نیکی کی نئی سے نئی راہیں تلاش کرتے رہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔
پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غرباء کی امداد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور فرمایا ہے کہ تم زکوٰۃ اور عُشر وغیرہ مقررہ ٹیکس بھی دو مگر اس کے علاوہ ہم تم سے بعض طوعی ٹیکس بھی مانگتے ہیں۔ چنانچہ ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اَنْفِقُوْ ا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ ہمیشہ غرباء کی امداد کیلئے روپیہ دیتے رہو۔ وَلَاتُلْقْوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ اور اپنے نفسوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ یعنی اے مالدارو! اگر تم اپنے زائد مال خوشی سے دے دو گے تو وہ تو زائد ہی ہیں تم کو کوئی حقیقی نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو ہلاک ہو جائو گے۔ یہ الفاظ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے زارِروس کے ساتھ ہونے والے واقعات کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو جو کچھ زرِ روس اور روسی امراء یا فرانس کے امراء کا حال ہوا وہی تمہارا ہو گا۔ آخر عوام ایک دن تنگ آکر لوٹ مار پر اُتر آئیں گے۔ اور شاہ پوری محاورہ کے مطابق دُعائے خیر پڑھ دیں گے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس محاورہ کی تشریح یہ بیان کرتے تھے کہ ہمارے علاقے میں کچھ مدت پہلے زمیندار بنیئے سے قرض لیتے جاتے تھے اور بنیا بھی دیتا جاتا تھا کچھ عرصہ تک تو انہیں اس کا احساس نہ ہوتا۔ مگر جب سب علاقہ اس بنیئے کا مقروض ہو جاتا اور زمینداروں کی سب آمد اس کے قبضہ میں چلی جاتی تو یہ دیکھ کر اس علاقے کا کوئی بڑا زمیندار تمام چودھریوں کو اکٹھا کرتا اور کہتا کہ بتائو اس بنیئے کا قرض کتنا ہے۔ وہ بتاتے کہ اتنا قرض ہے اس پر وہ دریافت کرتا کہ اچھا پھر اس قرضے کے اترنے کا کوئی ذریعہ ہے یا نہیں وہ جواب دیتے کہ ہمیں تو کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اس پر وہ کہتا کہ اچھا تو پھر ’’دُعائے خیر پڑھ دو‘‘۔ چنانچہ وہ سب دُعائے خیر پڑھ دیتے۔ اور اس کے بعد ہتھیار لے کر بنیئے کے مکان کی طرف چل پڑتے اور اُسے قتل کر دیتے اور اس کے بہی کھانے سب جلا دیتے۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں ایسی ہی حالت کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ دیکھو ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اگر تمہارے پاس زائد مال ہو تو اُسے خداتعالیٰ کے راستہ میں خرچ کر دیا کرو۔ اور اپنی جانوں پر ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یعنی بے شک کمائو تو خوشی سے مگر اس دولت کو اپنے گھر میں جمع نہ رکھا کرو۔ ورنہ کسی دن لوگ تمہارے خلاف اُٹھ کھڑے ہونگے اور تم ہلاک ہو جائو گے۔
پھر فرماتا ہے ۔ وَاَحْسِنُوْا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر ہم تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ تم نیکی کرو۔ اور وہ اس طرح کہ تم خود اپنی ضرورتوں کو کم کر کے اور مال بچا کر خداتعالیٰ کی راہ میں دے دیا کرو۔ مگر یاد رکھو کہ یہ عمل تم لوگوں سے ڈر کر نہ کرو بلکہ خوشی سے کرو۔ اگر تم ڈر کر کرو گے تو غریبوں کی مدد تو ہو جائے گی مگر خداتعالیٰ خوش نہیں ہو گا۔ لیکن اگر خوشی سے یہ قربانی کرو گے تو غریب بھی خوش ہونگے ۔ تم بھی ہلاکت سے بچ جائو گے اور خداتعالیٰ بھی تم پر خوش ہو گا۔
وَاَتِمُّواالْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ط
پھر فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ پھر ہماری کمائی کا صلہ ہم کو کیا ملا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا صلہ مال سے زیادہ ملے گا۔ اور وہ تمہارے پیدا کرنے والے خدا کی محبت ہے۔ تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری عاقبت بھی درست ہو جائیگی۔
یہ معنے تو سیاقِ کلام کے لحاظ سے ہیں لیکن اس کے ایک معنے صرف اس ٹکڑہ آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ہیں کہ عبادات میں یا کھانے پینے میں یا محنت و مشقت میں یا صفائی و طہارت میں کبھی کوئی ایسی راہ احتیار نہ کرو۔جس کا نتیجہ تمہاری صحت یا تمہاری جان یا تمہاری عقل یا تمہارے اخلاق کے حق میں بُرا نکلے۔ تَھْلُکَۃ کا لفظ جو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے اس کے معنے کسی ایسے فعل کے ہوتے ہیں جس کا انجام ہلاکت ہو۔ اور نتیجہ بُرا نکلے۔ پس اس لفظ کے استعمال کرنے سے قرآن کریم نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اسلام دین یا عزت یا تمدن کی حفاظت کے لئے انسان کو اپنی جان خطرہ میں ڈالنے سے نہیںر وکتا بلکہ ایسے کاموں سے روکتا ہے جن کا کوئی نیک نتیجہ برآمد ہونے کی امید نہ ہو۔ اور جن میں انسان کی جان یا کسی اور مفید شے کے بلاوجہ برباد ہونیکا خطرہ ہو۔
شَدِیْدُ الْعِقَابِo
۱۱۰؎ تفسیر:۔ یہاں سے حج اور عمرہ کے احکام کا آغازہوتا ہے۔ حج اسلامی ارکان میں سے ایک اہم رُکن ہے۔ اور ہر شخص جو بیت اللہ کا حج کرنا چاہے ۔ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ میقات پر پہنچنے کے بعد احرام باندھ لے۔ میقات ان مقامات کو کہتے ہیں جہاں پہنچنے پر اسلامی ہدایات کے مطابق حاجیوں کو احرام باندھنا پڑتا ہے۔ مدینہ منورہ کی طرف سے آنے والوں کے لئے ذوالحلیفہ شام کی طرف سے آنے والوں کے لئے جُحفہ۔ عراق کی طرف سے آنے والوں کے لئے ذات عرق۔ نجد کی طرف سے آنیوالوں کے لئے قرن المنازل اور یمن کی طرف سے آنے والوں کے لئے یلملم میقات مقرر ہیں۔ پاکستان سے جانے والوں کیلئے یلملم ہی میقات مقرر ہے اور حاجیوں کو جہاز میں ہی حرام باندھنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ان میقات کے اندر رہتے ہیں انہیں احرام کے لئے بارہ جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی اپنی جگہوں سے ہی احرام باندھ سکتے ہیں۔ احرام کا طریق یہ ہے کہ انسان حجمت بنو کر غسل کر کرے۔ خوشبو لگائے۔ اور اس کے بعد سلے ہوئے کپڑے اتار کر ایک چادر تہہ بند کے طور پر کمر سے باندھ لے اور دوسری چادر جس کے اوپر اوڑھ لے ۔ سر کو ننگا رکھے اور دور کعت نفل پڑھے اور اس کے بعد اپنے اوقات کا اکثر حصہ تکبیر و تلبیہ اور تسبیح و تحمید میں بسر کرے اور بار بار لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنَّمَعْۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ کہتا رہے۔ ہر نماز کے بعد خصوصیت کے ساتھ بلند آواز کے ساتھ تلبیہ کہنا چاہیے۔ محرم کے لئے سِلے ہوئے کپڑے یعنی قمیض شلوار پاجامہ یا کوٹ وغیرہ پہننا۔ سر کو ڈھانپنا۔ جرابیں پہننا۔ خوشبو لگانا خوشبودار رنگوں سے رنگے کپڑے پہننا۔ سرمنڈوانا ناخن اتارنا جو میں نکالنا یا انکو مارنا جنگل کے کسی جانور کا شکار کرنا ۔ شکار کے جانور کو ذبح کرنا۔ کسی کو شکار کیلئے کہنا یا کسی شکاری کی مدد کرنا۔ شہوانی تعلقات قائم کرنا یا شہوانی گفتگو کرنا۔فحش کلامی کرنا یا فحش اشعار پڑھنا۔ فسق و فجور اور لڑائی جھگڑے میں حصلہ لینا۔ یہ سب امور ناجائز ہوتے ہیں۔ البتہ محرم غسل کر سکتا ہے کپرے دھو سکتا ہے اور دریائی جانور کا شکار بھی کر سکتا ہے۔ محرم عورت کے لئے بھی ان ہدایات کی پابندی ضروری ہے ۔ البتہ اُسے بے سلے کپڑے پہننے کی ضرورت نہیں۔ اُسے اپنا معمولی لباس یعنی قمیض پاجامہ اور دوپٹہ ہی رکھنا چاہیے البتہ وہ برقعہ نہیں اوڑھ سکتی۔
جب حاجی حدودِ حرم میں داخل ہو (یعنی مکہ معظمہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ میں جو حرم کہلاتا ہے) تو وہ آدابِ حرم کو ملحوظ رکھے۔ اور جب بیت اللہ پر پہلی مرتبہ نظر پڑے تو اللہ تعالیٰ کے حضور فوراًً دُعا کیلئے اپنے ہاتھ اُٹھا دے کیونکہ وہ قبولیت دُعا کا خاص وقت ہوتاہے اس کے بعد جب بیت اللہ کے پاس پہنچے تو حجرا سود سے خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے۔ طواف کرتے ہوئے اگر ممکن ہو تو ہر دفعہ حجرا سود کو بوسہ دینا چاہیے۔ اور اگر ممکن نہ ہو تو صرف ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کر دینابھی کافی ہے۔ طواف سے فارغ ہونے کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور پھر صفا اور مروہ کے درمیان ساتھ مرتبہ چکر لگائے۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا اور مروہ سے صفا تک دوسرا پھر مکہ معظمہ میں ٹھہر کر ایام حج کا انتظار کر جب ذولحجہ کی آٹھویں تاریخ ہو تو وہ مکہ سے منیٰ چلا جائے اوروہاں پانچوں نمازیں پرھے پھروہاں سے دوسری صبح نماز فجر ادا کرنے کے بعد عرفات کی طرف ایسے وقت میں چلے کہ ہواں بعد زواں داخل ہو اور ظہر و عصر کی نمازیں وہاں جمع کر کے ادا کرے اور سورج کے ڈوبتے تک عرفات میں ہی رہے افور دعائوں اور عبادت میں اپنا وقت گذارے اس کے بعد مزدلفہ مقام میں آئے۔ جہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھے او وہاں رات بھر عبادت اور دعائوں میں بسر کرے۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے مشعر الحرام پر جا کر دُعا کرے۔ اور وہاں سے سورج نکلنے سے پہلے ہی روانہ ہو کر منیٰ پہنچے اور وہاں جا کر جمرۃ العقبہ پر سات کنکریاں مارے اور ہر دفعہ کنکر پھینکنے کے ساتھ تکبیر کہے۔ مگر یہ کام سورج نکلنے کے بعد کرے۔ یہاں سے فارغ ہو کر قربانی کرے۔ سر منڈاوئے اور پھر اسی دن شام تک یا اگلے دن مکہ مکرمہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف کرے۔ افضل یہ ہے کہ اسی دن شام تک جا کر کعبہ کا طواف کر آئے۔ پھر دوسرے دن منیٰ میں واپس آجائے۔ اور بعد زوال جمرۃ الدنیا۔ جمرۃ الوسطیٰ اور جمرۃ العقبہ پر سات سات پتھر مارے۔ اسی طرح تیسرے دن اور پھر چوتھے دن بھی جو ایام تشریق کہلاتے ہیں یعنی گیارھویں بارھویں اور تیرھویں ذوالحج کو تیرھویں تاریخ کو منیٰ سے واپس آجائے اور بیت اللہ کا طواف الوداع کرے۔ جو شخص یہ تمام مناسک بجا لانئے وہ فریضہ حج ادا کر لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور سر خرو ہو جاتا ہے۔
عمر ہ بھی یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص حرم کے اندر رہنے والا ہو تو وہ حرم سے اور اگر باہر کا ہو تو میقات سے احرام باندھے خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے اور پھر حلق یا قصر کر دے۔ اور اگر قربانی کرنا چاہے تو قربانی بھی کر دے۔ لیکن عمرہ میں قربانی لازمی نہیںہوتی۔ حج اور عمرہ میں یہ فرق ہے کہ عمرہ کے لئے کسی خاص وقت یا مہینہ کی قید نہیں بلکہ وہ سال کے ہر حصہ میں ہو سکتا ہے جبکہ حج صرف شوال ۔ ذوالقعدہ اور ذولحج میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ ترمذی میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے متعلق پوچھا کہ اَوَاجِبَۃ‘؟ کیا عمرہ واجب ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لَا وَ اِنْ تَِعْتَمِرُوْ اخَیْر’‘ لَّکُمْ عمرہ اور واجب تو نہیں۔ لیکن اگر تم عمرہ کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
فَاِنْ اُحْصِرْ تُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔ اس میں بتایا کہ اگر حج یا عمرہ کرنے والا کوئی شخص بیماری کی وجہ سے یا جنگ کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے راستہ میں ہی روک دیا جائے اور وہ مکہ مکرمہ جا کر حج یا عمرہ نہ کر سکے تو پھر جو قربانی بھی میسر آئے اُسے دے دینی چاہیے اور اس وقت تک احرام نہیں کھولنا چاہیے جب تک کہ قربانی محلہ نہ پہنچ جائے۔ یعنی اس جگہ پر جہاں قربانی نے ذبح ہونا ہے۔ ابن القاسم کا قول ہے کہ اگر قربانی ساتھ ہو تب قربانی دے ورنہ نہیں۔ اور جمہور کا قول ہے کہ جس جگہ روکا جائے وہیں قربانی کر دے اور سر منڈوا ڈالے جو سب سے آخر ی عمل ہے اس کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے (بحر محیط جلد ۲ صفحہ۷۳) امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک بھی محلہ سے مراد وہی جگہ ہے جہاں حاجی کو روک دیا گیا ہو۔ لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک حرم ہے۔
میرے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے کیونکہ اگر تو جنگ ہو اور دشمن نے اُسے روکا ہو تو وہ اس کی قربانی کو آگے کیسے جانے دیگا۔ ایسی صورت میں وہ جہاں روکا جائے وہیں قربانی کر کے حلق کر دے لیکن اگر بیماری کے سبب سے حاجی کو روکا گیا ہو اور وہ قربانی آگے بھجوا سکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ قرنانی کے حرم پہنچنے تک سر نہ منڈوائے اور کوشش کرے کہ وہ حرم کے اندر ہی ذبح ہو۔ اس کے بعد حلق کر دے ۔ ضیمنی طور پر اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب مسلمانوں کو بیت اللہ کی زیارت سے جبرًا روک دیا جائیگا لیکن اس کے بد اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو کفار پر فتح عطا فرمائیگا۔ اور وہ امن سے حج بیت اللہ کر سکیں گے۔ چنانچہ صلح حُدییبہ میں ایسا ہی ہوا۔ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف طواف کی نیت سے تشریف لے گئے تھے ۔ قریش نے اطلاع ملنے پر چیتوں کی کھالیں پہن لیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے لیا اور قسمیں کھائیں کہ وہ مر جائیں گے مگر آپؐ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دینگے۔ آخر یہ معاہد ہ طے پایا کہ اس سال مسلمان مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کر لیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہؓ واپس چلے گئے مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مکہ فتح ہو گیا اور مسلمان آزادی کے ساتھ آنے جانے لگے۔
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاسِہٖ فَفِدْ یَۃ’‘ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَ قَۃٍ اَوْ نُسُکٍ۔ فرماتا ہے۔ اگر کوئی شخص تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے اُسے سر منڈوانا پڑے۔ جیسے اس کے سر میں جُوئیں پڑ جائیں یا پھوڑے نکل آئیں تو وہ سر منڈوا سکتا ہے۔ مگر اس صورت میں اسے صیام یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دینا پڑے گا۔ قرآن کریم نے فدیہ کی تینوں اقسام کو غیر معین رکھا ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد سے اس کی تعیین ہو جاتی ہے حدیثوں میں آتا ہے کہ کعب بن عجرہؓ ایک صحابی تھے ان کے سر میں جُوئیں پڑ گئیں۔ اور ان کی اتنی کثرت ہو گئی کہ جو میں ان کے منہ پر گرتی تھیں وہ کہتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ اے کعب! تجھے ان جوئوں کی وجہ سے بہت تکلیف ہے تو سر منڈوا دے اور صُمْ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ اَوْ اَطْعِمْ شَتَّۃَ مَسَاکِیْنَ اَوْ اُنْسُکْ شَاۃً۔ تو فدیہ کے طور پر تین دن کے روزے رکھ لے چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری کی قربانی دے دے۔
میرے نزدیک اس آیت میں جو فدیہ کی ترتیب ہے وہ امارت اور غربت کے لحاظ سے ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص غریب ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔ اگر متوسط درجہ کا ہو تو چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے اور اگر مالدار ہوت و قربانی دے دے۔ بہر حال قربانی مقدم ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے اور اس کے بعد روزے ہیں اور یہ ترتیب درجہ کی بلندی کے لحاظ سے ہے ۔ یعنی ادنی ٰ فدیہ یہ ہے کہ چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اور اس سے اعلیٰ فدیہ یہ ہے کہ ایک قربانی دے دے۔ اور یہ حکم محصر مَحِلَّہُ تک ختم ہو گیا ہے۔
فَاِذَ اَمنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔ فرماتا ہے جب جنگ ختم ہو جائے یا دوسری روکاوٹیں دور ہو جائیں تو اس کے بعد جو شخص عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر فائدہ اُٹھائے اور قرِان یا تمتع کر تو جو قربانی واجب ہے۔ لیکن اکیلے عمرہ یا حج میں واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اور اگر ان میں سے کسی کی نیت کر کے جائے اور کسی وجہ سے روکا جائے تو اس پر قربانی واجب ہو گی اور جب تک قربانی ذبح نہ ہو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ سر نہ منڈوائے ۔ ہاں اگر قربانی وہاں پہنچ نہ جائے اس وقت تک سر نہ منڈائے۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمتع اور قِران کی خصوصیات جو خالی حج اور خالی عمرہ کے مقابلہ میں ہیں بیان فرمائی ہیں۔ اور فَاِ ذَا اَمِنْتُمْ کے الفاظ اس لئے بڑھائے ہیں کہ اس حکم کو پہلے حکم کا حصہ نہ سمجھ لیا جائے۔ اس حکم کو احصار کے ذکر کے بعد اس لئے بیان کیا کہ اس صورت میں بلا احصار قربانی ہونی چاہیے اور حج اور عمرہ میں احصار سے قربانی ہوتی ہے ورنہ نہیں۔ اس لئے اس کو احصار کے ذکر کے بعد بیان کیا۔
اس جگہ تمتع اور قِران کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ ان میں قربانی ضروری ہو گی خواہ احصار نہ ہی ہوا ہو۔ اور جسے اس کی توفیق نہ ہو وہ جیسا کہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے تین دن کے روزے مکہ میں اور سات دن کے روزے واپس آکر رکھے۔
فرماتا ہے فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَا مُ ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ۔ (۱) بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تین دن کے روزے ذولحج کی ساتویں ۔ آٹھویں اور نویں تاریک کو رکھے جائیں (۲) حضرت امام ابو حنیفہ ؓ کہتے ہیں کہ اگر وہ ان ایام میں روزے نہیںرکھیگا تو اس پر قربانی بھی واجب ہو گی (۳) بعض کہتے ہیں کہ روزے چونکہ قربانی کے بدلہ میں ہیں اس لئے حج کے بعدرکھنے چاہیں (۴) بعض کہتے ہیں کہ یہ روزے واپسی سے پہلے مکہ میں ہی رکھنے چاہیں (۵) بعض نے احرام عمرہ اور احرام حج کے درمیانی عرصہ میں روزے رکھنے کو کہا ہے۔ (بحر محیط جلد ۲ صفحہ۷۸) میری نزدیک یہ روزے ایام تشریق یعنی گیارھویں بارھویں اور تیرھویں ذولحجہ کو رکھنے چاہیں اور فِی الْحَجِّ سے مراد اس جگہ فِیْ اَیَّامٍ ہے۔ باقی سات روزے گھر پر بھی رکھے جا سکتے ہیں ۔ اس جگہ تِلْکَ عَشَرَ ۃ’‘ کَا مَلَۃ’‘ کا فقرہ اس لئے زائد کیا گیا ہے کہ وَسَبْعَۃٍ کی جگہ اَوْ نہ سمجھ لیا جائے اور غلطی سے یہ معنے نہ کر لئے جائیں کہ وہاں رکھے تو تین رکھ اور گھر رکھے تو سات رکھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آخر میں تِلْکَ عَشَرَ ۃ’‘ کَا مَلَۃ’‘ فرما کر بتا دیا کہ صرف تین یا سات روزے رکھنا مراد نہیں بلکہ پورے دس روزے رکھنے مراد ہیں یا یہ الفاظ تاکید کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ اور تِلْکَ عَشَرَۃ’‘ کَامِلَۃ’‘ کے یہ معنے ہیں کہ یہ رعزے ثواب یا قربانی کے قام مقام ہونے کے لحاظ سے کامل فدیہ ہیں۔
ذٰلِکَ لَمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہ‘ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فرماتا ہے یہ حکم یعنی تمتع کا صرف باہر کے لوگوں کے لئے ہے کیونکہ ان کو آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے مکہ والے تو ہر وقت عمرہ کر سکتے ہیں ان کے لئے تمتع یا قران نہیں ہے۔
اس آیت کے بارہ میں مفسرین میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے (۱) بعض کہتے ہیں کہ قربانی نہ ملنے کی صورت میں روزوں کا حکم صرف آفاقیوں کے لئے ہے مکہ والوں کے لئے نہیں۔ کیونکہ وہ تو اپنے شہر میں ہی قربانی مہیا کر سکتے ہیں۔ یہ امام شافعی کا مذہب ہے۔ (۲) بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت روزوں کے متعلق ہے ۔ یعنی روزوں کا حکم اہل مکہ کے لئے نہیں بلکہ صرف باہر والوں کے لئے ہے۔ گویا انہوں نے صیام کو ذٰلِکَ کے ماتحت رکھا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ دونوں درست نہیں کیونکہ اس صورت میں مکہ والوں کو سہولت رہتی ہے (۳) امام ابو حنیفہ ؓ کہتے ہیں کہ اس سے تمتع اور قِران والے احکام مراد ہیںجن کا ذکر فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃ، اِلَی الْحَجِّ میں آچکا ہے اور ا سک یمعنے یہ ہیں کہ تمتع اور قِران اہل مکہ کے لئے جائز نہیں۔ میرے نزدیک امام ابو حنیفہ کے معنے زیادہ درست ہیں اور عقل بھی انہی کی تائید کر تی ہے۔ کیونکہ مکہ والے تو ہر وقت عمرہ کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد حاَضِرِ الْمَسْجِدٍ الْحِرَامِ میں بھی اختلاف ہے کہ ان سے کون لوگ مراد ہیں (۱) حضرت ابن عباسؓ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے تمام اہل حرم مرا د ہیں (۲) عطاء کہتیہ یں کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو ہر جہت سے مواقیت کے اندر
اَلْحَجُّ اَشْھُر’‘
یٰٓا ُولِی الْاَ لْبَابِo
رہتے ہیں (۳)زہری کہتے ہیں کہ ایک یا دو دن کے سفر تک رہنے والے مراد ہیں (۴)بعض کہتے ہیں کہ اس سے صرف اہل مکہ مراد ہیں اور یہی معنے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتے ہیں۔
آخر میں فرمایا۔ وَاتَّقُو االلّٰہَ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ۔ یعنی حج کی عبادت محض اس غرض کے لئے ہے کہ تمہارے دلوں میں تقویٰ پیداہو۔ اور تم ماسوی اللہ سے نظر ہٹا کر صرف اللہ تعالیٰ کو ہی اپنی ڈھال بنا لو۔ اگر حج بیت اللہ یا عمرہ سے کسی کو یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا کوئی مخفی کبر اس کے سامنے آگیا ہے اسے چاہیے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ماتھے کو زمین پر رکھ دے اور جس قدر خلوص بھی اس کے دل میں باقی رہ گیا ہو اس کی مدد سے گریہ و زاری کر یا کم سے کم گِریہ وزاری کی شکل بنائے اور خداتعالیٰ کے حضور جھک کر کہے کہ اے میرے خدا! لوگوں نے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدہ کے لئے روحانی باغ تیار ہو رہے ہیں۔ پر اے میرے رب میں دیکھتا ہوں کہ جو بیج میں نے لگایا تھا اس میں سے تو کوئی روئیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی ۔ نہ معلوم میرے کِبر کاکوئی پرندہ اُسے کھا گیا یا میری وحشت کا کوئی روئیدگی نکلنے نہ دی۔ اے خدا! اب میں کیا کروں کہ جب میرے پاس کچھ تھا میں نے بے احتیاطی سے اُسے اس طرح خرچ نہ کیا کہ نفع اٹھاتا ۔ مگر آج تو میرا دل خالی ہے ۔ میرے گھر میں ایمان کا کوئی دانہ نہیں کہ میں بوئوں اے خدا! میرے اس ضائع شدہ بیج کو پھر مہیا کر دے اور میری کھوئی ہوئی متاع ایمان مجھے واپس عطا کر۔ اور اگر میرا ایمان ضائع ہو چکا ہے تو تو اپنے خزانے سے اور اپنے ہاتھ سے اپنے اس دھتکارہے ہوئے بندہ کوایک رحمت کا بیج عطا فرماتاکہ میں اور میر نسلیں تیری رحمتوں سے محروم نہ رہ جائیں اور ہمارا قدم ہمارے سچی اور اعلیٰ قربانی کرنیوالے بھائیوں کے مقام سے پیچھے ہٹ کر نہ پڑے بلکہ تیرے مقبول بندوں کے کندھوں کے ساتھ ساتھ ہمارے کندھے ہوں۔
وَاعْلَمُوْ ااَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ العِقَابِ میں اس طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ہمیشہ خائف رہو اور اپنے تمام کاموں کی تقوی اللہ پر بنیاد رکھو ورنہ تمہارا پہلا ایمان بھی ضائع ہو جائیگا۔ اور تم خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جائو گے۔
۱۱۱؎ حل لغات:۔ رَفَثَ: مصدر ہے اور لانفی جنس کے بعد واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ رَفَثَ سے مراد ہر ایسا کلام ہے جس کے اندر کوئی ایسی بات جس کے اندر جماع یا اس کے متعلقات کا ذکر ہو۔ (۲) جب اس کے بعد اِلیٰ صلہ ہو تو اس وقت کنایہ کے طور پر اس کے معنے جماع کے لئے جاتے ہیں (مفردات) اور طبری نے کہا ہے اَلرَّفَثُ اَللَّغْوُ مِنَ الْکَلَامِ (بحرِ محیط) رفث لغو اور بے ہودہ گفتگو کو بھی کہتے ہیں۔
فُسُوْقَ: فَسَقَ کا مصدر ہے اور فسوق کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کر دینا۔ (۲) نافرمانی (۳) سچے راستہ سے دوسری طرف جُھک جانا۔ (اقرب)
جِدَالَ: باب مفاعلہ سے مصدر ہے اور اس کے معنے جھگڑا کرنے کے ہیں۔
زَاد: جس چیز کو انسان بطور سفر خرچ اپنے ساتھ لے لے۔
اِتَّقُوْنِ: امر جمع کا صیغہ ہے جو وَقٰی سے باب افتعال کے مضارع کے صیغہ سے بنا ہے۔ اِتَّقَا ء (مصدر) جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کا مفعول ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ک اپنی حفاظت کا ذریعہ بنا لینا۔
تفسیر: اَلْحَجُّ اَشْھُر’‘ مَّعْلُوْمٰت’‘ میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حج کے بارہ میں قرآن کریم نے کوئی نیا حکم نہیں دیا بلکہ اسی حکم کو قائم رکھا ہے جس حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں چلا آرہا ہے۔ اس وجہ سے حج کے مہینے بھی سب لوگوں کو معلوم ہیں یعنی شوال، ذوالقعدہ، اور ذوالحجہ۔ گو امام ابو حنیفہ ؓ اور امام شافعیؒ کے نزدیک ذوالحجہ کے صرف دس دن اشہرا الحج میں شامل ہیں۔ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجِّ جو شخص ان مہینوں میں حج کو اپنے اوپر فرض کر کے چل پڑے۔ اُسے چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو پاک رکھے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جو جنسی جذبات کو ابرانگیختہ کرنے والی ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عشقیہ اشعار پڑھنا اس میں داخل نہیں۔ کیونکہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایام حج میں جاہلیت کے اشعار پڑھے تھے۔ یہ روایت اگرچہ قرآن کریم کے اس واضح حکم کی موجودگی میں درست تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ انہوں نے ایسا کیا تھا تو امتدادِ زمانہ کی وجہ سے ہم نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کس غرض کے ماتحت جاہلیت کے اشعار پڑھے تھے۔ ممکن ہے انہوں نے دوران گفتگو میں کسی دلیل کیل ئے پڑھے ہوں اور سننے والوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہو کہ وہ شوقیہ طور پر اس قسم کے اشعار پڑھ رہے ہیں۔ بہر حال اس قسم کا کلام خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور ان دنوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اسکی عبادت میں صرف کرنا چاہیے۔ مگر اس ممانعت کے یہ بھی معنے نہیں کہ رفث۔ فسوق اور جدال دوسرے دنوں میں جائز ہے۔ بلکہ اس ممانعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی ہے کہ اگر کچھ عرصہ تک انسان اپنے نفس پر دبائو ڈال کر ایسے کام چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے دوسرے دنوں میں بھی ان کو چھوڑنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ کیونکہ مشق ہونے کی وجہ سے اس کے لئے سہولت پیدا ہو جاتیہے بعض دفعہ بشریٰ کمزوریوں کی وجہ سے انسان ایک لمبے وقت کے لئے کسی کام کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ ایسی حالت میں اس کے اندار استعداد پیدا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے کچھ وقت کے لئے اس کام سے روک دیا جائے۔ جب کچھ عرصہ تک رکا رہتا ہے تو اس کی ضبط کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ وہ کلی طور پر اس کام کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنی کمزوریوں میں سے کسی ایک کمزوری پر غالب آنے کی کوشش کرے۔ اور مہینہ بھر اس سے بچتا رہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خداتعالیٰ رمضان کے بعد بھی اس کی مدد کریگا۔ اور اسے ہمیشہ کے لئے اس بدی پر غالب آنے کی توفیق عطا فرما دیگا۔
یہاں رفٰث:فسوق اور جدال میں گناہوں کے چھوڑنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ رفث مرد عورت کے مخصوص تعلقات کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بد کلامی کرنا۔ گالیاں دینا۔ گندی باتیں کرنا۔ قصے سُنانا۔ لغو اور بے ہودہ باتیں کرنا جسے پنجابی میں گپیں مارنا کہتے ہیں۔ یہ تمام امور بھی رفث میں ہی شامل ہیں۔ اور فسوق وہ گناہ ہیں جو خداتعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں انسان اس کی اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر نکل جاتا ہے۔ آخر میں جدال کا ذکر کیا ہے جو تعلقات باہمی کو توڑنے والی چیز ے ان تین الفاظ کے ذریعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے تین اصلاحوں کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ فرمایا ہے (۱) اپنی ذاتی اصلاح کرو اور اپنے دل کو ہر قسم کے گندے اور ناپاک میلانات سے پاک رکھو۔ (۲) اللہ تعالیٰ سے اپنا مخلصانہ تعلق رکھو (۳) انسانوں سے تعلقات محبت کو استعار رکھو۔ گویا یہ صرف تین بدیاں ہی نہیں جن سے روکا گیا ہے بلکہ تین قسم کی بدیاں ہیں جن سے باہر کوئی بدی نہیں رہتی۔ کیونہ بدی یا تو اپنے نفس سے تعلق رکھتی ہے یا خداتعالیٰ سے تعلق رکھتی ہے۔ اور یا پھر مخلوق سے تعلق رکھتی ہے۔ اور روحانیت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی ذاتی اصلاح کے بعد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی سرگرم رہے۔
وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ۔ فرماتا ہے تمہیں ان باتوں کے چھوڑنے میں کئی قسم کی دقتیں پیش آئیں گی۔ مثلاً کسی شخص کو گالی دے دی جائے تو اس کیلئے صبر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر تم خدا کے لئے ان پابندیوں کو اپنے اوپر عائد کر و گے اور نیکیوں میں حصہ لو گے تو تم جو بھی نیک کام کرو گے۔ اللہ تعالیٰ اسے ضرور ظاہر کر دیگا۔ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نیکی کو پوشیدہ نہیں رہنے دیتا۔ گو بعض صورتوں میں نیکیوں پر پردہ بھی پڑا رہتا ہے مگر آخر کار نیکی ظاہر ہو کر رہتی ہے۔ اور دشمن بھی اس کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں کو ہی دیکھ لو۔ وہ آپؐ کو گالیاں دیتے تھے مگر ابو سفیان ہر قل کے سامنے آپؐ کو کوئی عیب بیان نہ کر سکا۔ صرف اتنا ہی کہہ سکا کہ اب ایک عہدہم میں اور اس میں ہوا ہے معلوم نہیں وہ اسے پورا کرتا ہے یا نہیں۔ تو فرمایا کہ تم جو نیکی بھی کرو گے خداتعالیٰ اُسے ضرور ظاہر کردے گا۔ اور لوگوں پر تمہارے اچھے کردار اور بلند اخلاق کا گہرا اثر پڑے گا۔
وَتَزَ وَّ دُوْا۔ فرمایا جب تم سفر کے لئے نکلو توہمیشہ اپنے ساتھ زادراہ لے لیا کرو۔ اسجگہ تَزَوَّ دُوْا سے دونوں زاد مراد ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ آمدو رفت اور کھانے پینے کے اخراجات کا انتظام کر لیا کرو۔ اور یہ بھی کہ نیکی اور تقوی کا زاد ساتھ لو۔ چونکہ اس سے پہلے وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اور حسنات میں ترقی کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی تھی اس لئے تَزَوَّدُوْا کہہ کر بتایا کہ حج اور عمرہ کا ثواب تو بہت بڑا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ تم زیارت کعبہ کے شوق بھیک مانگتے ہوئے وہاں پہنچو۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم پہلے زادِ راہ کا انتظام کرو۔ اور جب آمد و رفت اور رہائش اور کھانے پینے وغیرہ کے تمام اخراجات کا انتظام ہو جائے تو اس کے بعد سفر کے لئے نکلو۔ فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی اور یاد رکھو کہ بہتر زاد رہ ہے جس سے تم سوال اور گناہ سے بچو۔
افسوس ہے اس زمانہ میں مسلمانوں میں عام طور پر یہ سمجھا جاتاہے کہ اسلام اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ انسان کو اسباب سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ اپنے تمام معاملات خداتعالیٰ پر چھوڑ دینے چاہیں۔ مگر یہ قطعًا غلط اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اس لئے یہاں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ جب تم سفر کے لئے نکلو تو ضروری سامان اور زادِ راہ سے کبھی غفلت اختیار نہ کرو۔
فَاِذَآاَفَضْتُمْ
لَمِنَ الضَّآلِّیْنَo
لیکن تَزَ وَّ دُوْا کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ تم تقویٰ کا زاد لو۔ اور چونکہ تقویٰ کا زاد مخفی تھا اس لئے اسے فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی کے الفاظ میں کھول کر بیان کر دیا اور بتایا کہ تقویٰ سب سے بہتر زد ہے جو آخرت کے سفر میں تمہاراے کام آنے والا ہے انہیں معنوں میں بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’وقت تھوڑا ہے اور کر عمر ناپیدا۔ تیز قدم اٹھائو کہ شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ باربار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیاں کاری کا موجب ہو یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو۔ جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو‘‘۔ (کشتی نوح)
چونکہ اس سے پہلے حج کا ذکر آچکا ہے اس لئے فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی۔ فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اب حج سے تمہاری ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے تمہیں تقویٰ کا پہلے سے بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے جیسے صاف کپڑوں والا چھوٹے چھوٹے داغ اور دھبے سے بھی بچنے کی کوشش کیا کرتا ہے۔
پھر فرمایا ہے وَاتَّقُوْنِ یَا اُولِی الْاَلبَابِ۔ اے عقلمندوں اگر تم اپنے بچائو کا سامان کرنا چاہتے ہوتو میری طرف جھکو۔ اور صرف مجھے ہی اپنی حفاظت کا ذریعہ بنائو۔ باقی تمام ذرائع اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں۔
۱۱۲؎ حل لغات:۔ کَمَا کے معنے ’’جس طرح‘‘ کے بھی ہوتے ہیں۔ اور ’’اس لئے‘‘ کے بھی چنانچہ سیبویہ یہ کہتا ہے کَمَا اِنَّہُ لَا یَعْلَمُ تَجَاوَزَاللّٰہُ عَنْہُ کہ چونکہ وہ نہ جانتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا گناہ معاف کر دیا۔
اِنْ یہ اِنَّ سے مخففہ ہے اور اس کے معنے قریباً ’’گو‘‘ کے ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اِنْ نافیہ ہے یہ فتراء کا قول ہے۔ کَسائی کہتا ہے کہ اِنْ کے معنے قَدْ کے بھی ہوتے ہیں اور اس جگہ اس کے معنے قَدْ کے ہی ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے تمہارے لئے یہ کوئی گناہ کی بات نہیں کہ حج کے ایام میں تم اپنے رب سے کوئی اور فضل بھی مانگ لو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فضل سے مراد اس جگہ تجارت ہے اور میرے نزدیک بھی یہ درست ہے مگر فضل سے صرف تجارت مراد لینا ایک وسیع مضمون کو محدود کر دینا ہے۔ درحقیقت آج اسلام کو جس بہت بڑی مصیبت کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں چاروں طرف کفر غالب ہے اور مسلمان جمود اور بے حسی کا شکار ہیں۔ ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لئے اس جنون سے کام لیں جس جنون سے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے کام لیا تھا اور اسلام کو تھوڑے عرصہ میں ہی تمام معلومہ دنیا میں غالب کر دیا تھا پس حج کے ذکر کے ساتھ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ فرما کر میرے نزدیک اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اس عظیم الشان اجتماع سے بعض دوسرے فوائد بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کا وہ فضل تلاش کرو جس کے نتیجہ میں مسلمان قعرِ مذلت سے نکل کر بامِ عروج پر پہنچ جائیں اور اسلام کی اشاعت کے لئے مختلف ممالک کے با اثر اور ممتاز افراد کے ساتھ مل کر ایسی سکیمیں سوچو جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے اوراسلام دنیا پر غالب آجائے۔ غرض اس فضل کو تلاش کرنا جس سے نتیجہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو اللہ تعالیٰ نے ہمارا فرض قرار دیا ہے اور یہ جو فرمایا ہے کہ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم خداتعالیٰ کا فضل تلاش کرو۔ یہ کلام کا ایک طریق ہے جس کا مقصد کسی اہم نیکی کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی طریق کلام کو اس جگہ استعمال کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے اچھے موقعہ کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تلاش نہ کرنا کیا کوئی گناہ کی بات ہے کہ تم اسے چھوڑ رہے ہو۔ یعنی اس عظیم الشان اجتماع کے موقعہ کو جبکہ دنیا کے چاروں کناروں سے لوگ یہاں جمع ہیں غنیمت جانو اور اسے اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو۔
یہ لَا جُنَاحَ بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ لَا جُنَاحَ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا میں لَاجُنَاحَ کا ستعمال کیا گیا ہے۔
فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوااللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعِرِ الْحَرَامِ۔ فرمایا جب تم عرفات سے واپس آئو تو مشعرالحرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ عرفات مکہ سے شمال مشرق کی طرف قریباً نو میل کے فاصلہ پر ایک وسیع میدان ہے جہاں ۹ ذولحجہ کو تمام حاجی جمع ہوتے ہیں یہاں ٹھہرنا اور عبادت کرنا اتنا اہم ہے کہ اگر کوئی شخص حج کے اور تمام مناسک ادا کرے مگر عرفات کے میدان میں نہ پہنچ سکے تو اس کا حج ہی نہیں ہوتا۔ اور مشعر الحرام مزدلفہ میں ایک چھوٹی سی پہاڑی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم عرفات میں عبادت کر چکو اور وہاں سے واپس لوٹو تو مشعرالحرام کے پاس جو مزدلفہ میں ایک پہاڑی ہے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ آپ یہاں بھی دُعا کیا کرتے تھے مگر اب عام طور پر لوگ اس جگہ دُعا نہیں کرتے بلکہ اس جگہ کا پتہ لگانے میں بھی دقت محسوس ہوتی ہے چنانچہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ ہم نے اس کا پتہ لگانے کی بڑی کوشش کی مگر نہ لگا۔ اور یونہی دعا کر کے چل پڑے۔ معلوم ہوتا ہے یہ کوئی بڑی پہاڑی نہیں بلکہ ٹیلہ سا ہے۔ چونکہ وہاں ایسے کوئی ٹیلے ہیں اور مجمع بھی بہت ہوتا ہے اس لئے اس کا آسانی سے پتہ نہیں لگ سکتا۔
اس آیت میں اَفَضْتُمْ کا لفظ استعمال فرما کر اس امر کا بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو تمہارے قلوب اللہ تعالیٰ کی برکات اورا س کے انوار سے اس طرح معمور ہونے چاہیں جیسا کہ ایک برتن اپنے کناروں تک پانی سے بھرا ہوتا ہے۔ اور پھر اسی حالت میں جبکہ ساقی کو ثر کی روحانی شراب سے تمہارے جام لباب بھرے ہوئے ہوں تم مشعر الحرام کے پاس پہنچو اور اللہ تعالیٰ کو یاد رکرو۔ گویا روحانی انعامات کی وہ بارش جو عرفات میں تم پر نازل ہوئی ہے وہ تمہیں بہاتی ہوئی مشعر الحرام کی طرف لے جائے اور تمہیں اپنے محبوب کے قدموں تک پہنچا دے۔
وَاذْ کُرُوْہُ کَمَا ھَدٰ لکُمْ اس کے دو معنے ہیں۔ ایک یہ کہ اُذْکُرُوْہُ ذِکْرًا کَمَا ھَدٰ لکُمْ اس کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور دوسرے یہ کہ اس کا ذکر کرو کیونکہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے ان معنوں کے لحاظ سے اس جگہ کَمَا کا استعمال ایسا ہی ہے جیسا کَمَا اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ (حجر آیت ۹۱) میں کیا گیا ہے۔
وَاِنْ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ میں اِنْ مخففہ ہے اور اس کے معنے ’’گو‘‘ کے ساتھ ملتے ہیں۔ فرّاد نے کہا ہے کہ اس کے معنے نفی کے ہیں۔ اور لام کے معنے اِلَّا کے ہیں۔ یعنی ’’تم اس ہدایت سے پہلے نہ تھے مگر گمراہ‘‘۔ کسائی نے کہا ہے کہ اس کے معنے قَدْ کے ہیں اور لام زائد ہے ۔یعنی تم ضرور اس سے پہلے گمراہوں میں سے تھے۔
ثُمَّ اَفِیضُوْا مِنْ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
۱۱۳؎ حل لغات:۔اَفِیْضُوْا: اَفَاضَ بَفِیْضُ سے امر کا صیغہ ہے اور اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ کے معنے ہیں دَفَعْتُمْ مِنْھَا بِکَثْرَۃٍ تَشبِیْھًا بِفَیْضَ الْمَآئِ۔ یعنی تم وہاں سے کثرت سے چل پڑو۔ یہ معنے پانی کے کثرت سے بہنے کے ساتھ بطور تشبیہ کے ہیں (مفرداتِ راغب)
تفسیر:۔ اس آیت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ افاضہ تو ہو چکا پھر یہ کون سا نیا افاضہ ہے جس کے طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی عفرات سے تو لوٹ آئے پھر اور کہاں سے لوٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ کہ اس جگہ ثُم’‘ کے معنے ’’اور‘‘ کے ہیں۔ اور اس بات کو اس لئے دہرایا ہے کہ پہلے اسبارہ میں کوئی حکم نہ تھا بلکہ صرف اظہار واقعہ کیا گیا تھا۔ اب حکم نہ تھا بلکہ صرف اظہار واقعہ کیا گیا تھا۔ اب حکم دیا کہ جہاں سے دوسرے لوگ واپس لوٹتے رہے ہیں وہیں سے تم بھی لوٹو۔ اور یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ قریش اور ان کے ساتھیوں کا طریق تھا کہ وہ مزولفہ سے آگے عرفات میں نہیں جاتے تھے۔ بلکہ مزولفہ ہی سے واپس چلے آتے تھے۔ اور اس کی وجہ وہ یہ قرار دیتے تھے کہ عرفات حدودِ حرم سے باہر ہے اس لئے ہم وہاں نہیں جائیں گے بلکہ مزدلوہ میں مشعرالحرام کے پاس ہی ٹھہریں گے جو حرم کے اندر ہے اور کہتے کہ ہم حرم کے باشندے ہین اس لئے ہم حرم سے باہر نہیں جا سکتے لیکن دوسرے قبائل عرفات میں جا کر حج کرتے تھے۔ اس لئے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جس طرح دوسرے لوگ عرفات میں جاتے اور پھر وہاں سے واپس آتے ہیں اسی طرح تم بھی وہاںجائو اور جس طرح وہ عرفات سے واپس آتے ہیں اسی طرح تم بھی واپس آئو۔ لیکن اگر ثُمَّ کے معنے ’’پھر‘‘ یا ’’تب‘‘ کے کئے جائیں تو اس صورت میں اس کا یہ مطلب ہو گا ۔ کہ پھر تم مزولفہ سے لوٹو جہاں سے سب لوگ واپس لوٹتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ قریش اور بنو کنانہ جو حمس یعنی بڑے پکے دیندار کہلاتے تھے وہ بھی یہیں سے واپس چلے جاتے تھے۔
مزولفہ سے لوٹنے کے متعلق یہ حکم ہے کہ تمام حاجی نماز پڑھ کر اور دُعا کر کے سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے چلیں اور منیٰ میں سورج نکلنے کے بعد پہنچ جائیں۔ جہاں رمی جمار کی جاتی ہے۔ قربانیاں دی جاتی ہین اور احرام کی حالت ختم ہو جاتی ہے۔
یہ آیت چکڑالویوں پر بھی حجت ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے خود اس جگہ کا نام نہیں بتایا ۔ پس تفسیر کیلئے سنت کا تفھص بھی ضروری ہے۔ پھر فرماتا ہے ۔ وَاسْتَغْفِرُوااللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘۔ تم ان مناسک کے ساتھ ساتھ استغفار بھی کرتے رہو کیونکہ حج ایک بہت بڑا ابتلاء بھی ہے۔ مجھ سے کئی لوگوں نے بیان کیا کہ ہم نے حج کیا اور ہمار ادل پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو گیا۔ اسی طرح بہت سے لوگوں نے بیان کیا ککہ حج کے دنوں میں تو بڑا جوش ہوتا ہے مگر بعد میں دل پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حج میں ظاہر پر اسقدر زور ہے کہ اس کے مقابلہ میں باطن بہت حد تک پوشیدہ ہو جاتا ہے ۔ مثلاً وہاں حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگاتے ہیں۔ بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ منیٰ میں تین ٹیلوں پر جواب برحیوں کی شکل
فَاِذَا قَضَیْتُمْ
عَذَابَ النَّارِo
میںہیں کنکر پھینکتے ہیں۔ اس لئے اگر ساتھ ساتھ استغفار نہ ہو تو دل پر زنگ لگ جاتا ہے اسی طرح وہاں پانچ پانچ گھنٹے بیٹھ کر عبادت کرنی پڑتی ہے۔ ہزاروں کے مجمع میں میں نے ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جو دُعا کرتا ہو۔ لوگ حج صرف اسقدر سمجھتے ہیں کہ خطیب جب کھڑا ہو تو اس کے رومال کے ساتھ رومال ہلا دیں۔ مگر مجھے خداتعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اور میں نے وہاں کثرت سے دُعائیں کیں ۔ تو چونکہ یہ نماز کی طرح ایک معین عبادت نہیں اس لئے لوگ اس کی اہمیت محسوس نہیں کرتے۔ شریعت نے صرف ظاہر
بتا دیا ہے اور باطن کو انسان پر چھوڑ دیا ہے ۔ مگر وہاں یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اکثر لوگ جانتے ہی نہیں کہ ہم نے یہاں دُعا یا عبادت کرنی ہے ۔ پس فرماتا ہے حج کے ایام میں تمہیں استغفار کی سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ حج میں ظاہر زیادہ نمایاں ہے اور باطن جو جوہر عبادت ہے مخفی ہے۔ اگر انسان باطن کی طرف توجہ نہ کرے اور صرف ظاہر پر عمل کر کے سمجھ لے کہ اس نے شریعت کی اصل غرض کو پورا کر دیا ہے۔ تو اس کا دل زنگ آلود ہو جاتا ہے۔
۱۱۴؎ حل لغات:۔ اَوْ کے معنے ’’ یا‘‘ کے بھی ہوتے ہیں اور یہ لفظ اظہار ترقی کے لئے بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اَوْکا لفظ کسی چیز کو حقیر ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
اَشَدُّ۔ یہ ذکر کی صفت ہے جو بطور حال پہلے بیان کر دی گئی ہے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے جب تم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق حج بیت اللہ کا فرض ادا کر چکو تو خداتعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادون کو دیاد کرتے ہو۔ اہل عرب میں دستور تھا کہ جب وہ حج سے فرغ ہو جاتے تو تین دن منیٰ میں مجالیس منعقد کر کے اپنے باپ دادوں کے کارنامے بیان کرتے اور اپنے اپنے قبیلہ کی بہادری شہرت اور سخاوت کی تعریف میں قصیدے پڑھتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ تو اپنے باپ دادوں کی تعریف میں قصائد پڑھا کرتے تھے۔ مگر ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ جب تم مناسک حج کو ادا کر چکو تو تم خداتعالیٰ کو اس طرح یاد رکرو جیسے تم اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہو۔ یعنی جس طرح ایک چھوٹا بچہ جو اپنی ماں سے جدا ہوتا ہے روتا اور چلاتا ہوا کہتا ہے کہ میں نے اپنی ماں کے پاس جانا ہے اس یطرح تم بھی بار بار خداتعالیٰ کا ذکر کرو تاکہ اس کی محبت تمارے رگ و ریشہ میں سرایت کر جائے۔ خداتعالیٰ ایک وارء الوراء ہستی ہے اس کا حسن براہ راست انسان کے سامنے نہیں آتا بلکہ کئی واسطوں کے ذریعہ سے آتا ہے۔ اگر اُس کے حسن کو الفاظ میں بیان کیا جائے اور پھر ہم اس پر غور کریں اور سوچیں تو آہستہ آہستہ معنوی طور پر اس کی شکل ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ اگر تم مالک کا نام لو اور اس کی مالکیت کو ذہن میں لائو۔ قدوس کا نام لو اور اس کی ستاریت کو ذہن میں لائو۔ غفور کا نام لو اور اس کی غفوریت کو ذہن میں لائو۔ غفور کانام لو اور اس کی غوریت کو ذہن میں لائو تو یہ لازمی بات ہے کہ آہستہ آہستہ خداتعالیٰ کی ایک مکمل تصویر تمہارے سامنے آجائیگی۔ اور محبت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا تو کسی کا وجود سامنے ہو۔ حضرت مسیح وعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک شعر میں اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ؎
دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی
حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی
یعنی اگر محبوب خود سامنے نہیں آتا تو اس کی آواز تو سنائی دے اور اس کے حُسن کی کوئی نشانی تو نظر آئے۔ پس رب رحمٰن ۔ رحیم، مالک یوم الدین، ستار غفار، قدوس، مہیمن سلام، جبار، قہار اور دوسری صفاتِ الہٰیہ کو جب ہم اپنے ذہن میں بٹھا لیتے یہں تو خداتعالیٰ کی ایک تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ غرض صفاتِ الہیہ کے باربار دُہرانے اور توتر سے دُہرانے کے نتیجہ میں ہمارے دل میں محبت بنتی ہے اور اس تصویر کی وجہ سے ہی ہماری دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح بچوں کے دل میں اپنے ماں باپ کی ملاقات کا اشتیاق ہوتا ہے۔ اسیطرح تمہارا ابھی خداتعالیٰ کے ساتھ ایساہی روحانی تعلق ہونا چاہیے۔ گویا تمہارا چلن اور تمہارا آرام صرف خداتعالیٰ کے ساتھ ہی وابستہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ اسی پر تمہاری روحانی زندگی کا مدار ہے۔ اور حج کے بعد ذکر الہٰی کی طرف توجہ دلا کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ تمہارا خداتعالیٰ سے اب ایک روحانی پیوند قائم ہو چکا ہے۔ پس جس طرح ایک بچہ اپنے ماں باپ کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی کے دن بسر کرتا ہے اس طرح تم بھی خداتعالیٰ کی صفات کا آئینہ بنو اور اسی کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی کے دن بسر کرو۔
پھر فرماتا ہے۔ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ہم نے پہلے تو تمہیں یہ ہدایت دی ہے کہ تم خداتعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہو۔ مگر ہمارا یہ حکم صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو روحانیت میں ابھی اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچے۔ ورنہ جو لوگ اپنے ماں باپ کی محبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کا ہاتھ پوشیدہ دیکھتے ہیں اور خداتعالیٰ کے مقابلہ میں ماں باپ کے تعلق کو بالکل ہیچ سمجھتے ہیں ۔ ان کو چاہیے کہ وہ خدتعالیٰ کا ایسے رنگ میں ذکر کریں کہ ان کے دنیوی تعلقات میں اس کی کوئی مثال دکھائی نہ دے اور ماںباپ کا ذکر اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہو جائے۔
فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقْوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ۔ فرماتا ہے بعض لوگ ایسے ہین جو خداتعالیٰ سے صرف دنیا ہی مانگتے ہیں۔ جیسے عیسائی ہیں ۔وہ یہی دعا کرتے ہیں کہ ’’ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے‘‘(متی باب۶ آیت ۱۱) انہیں حرام و حلال سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ انہیں کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کا مطمع نظر محض دنیا طلبی ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا کے ساتھ حَسَنَۃً کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ جس میں یہ اشارہ ہے کہ ایسے لوگ صرف دنیا پر جان دیتے ہیں۔ حالانکہ خالی دنیوی عزت جس کے ساتھ اخروی عزت نہ ہو ایک *** ہوتی ہے۔ جیسے یہود کو آجکل خالی دنیوی عزت ملی ہوئی ہے ۔ اسی طرھ عیسائیوں کو صرف دنیوی عزت ملی ہوئی ہے مگر اُخروی عزت سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملا۔ اسی لئے فرمایا کہ وَمَالَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ یعنی ہم انہیں دنیا تو دے دیتے ہیں مگر اُخروی انعامات میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ لیکن دوسری طرف خالی اُخروی عزت بھی ایک بے ثبوت چیزہوتی ہے۔ ثبوت والی چیز وہی ہوتی ہے جس میں دین اور دنیا دونوں اکٹھے ملیں۔ اسی لئے فرمایا کہ ایک اور گروہ ایسا ہے جو یہ دعا کرتا رہتا ہے کہ رَبَّنَا اٰتَنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ یعنی الہٰی ہمیں دنیا میں بھی عزت بخش اور آخرت میں بھی ہمارے مقام کو بلندکر۔ اگر ہمیں دنیا ملے تو ہم اسے اپنی ذات کے لئے استعمال نہ کریں بلکہ تیرے دین کی شوکت ظاہر کرنے کیلئے استعمال کریں اور تیری رضا اور خوشنودی کے لئے اُسے صرف کریں۔ اگر ایسا ہو تو پھر انسان کو دنیا میں بھی عزت ملتی ہے۔ اور خداتعالیٰ کے حضور بھی اس کا مرتبہ بڑھتا ہے۔ یہ دُعا جو اسلام نے ہمیں سکھائی ہے بظاہر بہت چھوٹی سی دعا ہے لیکن ہر قسم کی انسانی ضرورتوں پر حاوی ہے ۔انسان کہتا ہے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً اے ہمارے رب ہم کو اس دنیا میں حسنہ کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے یہ درست نہیں۔ حسنات کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا جس کے معنے بہت سی نیکیوں کے ہیں مگر یہ اعتراض عربی زبان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر یہاں حسنات کا لفظ ہوتا تو اسکے معنے یہ ہوتے کہ ہمیں کچھ اچھی چیزیں ملیں لیکن حسنہ کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں جو کچھ ملے خیر ہی ملے۔ پس رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً کے یہ معنے ہیں کہ اے ہمارے رب! دنیا میں ہم کو جو کچھ دے حسنہ دے ۔ روٹی دے تو حلال و طیب ہو پچنے والی ہو۔ کپڑا دے تو حال دے طیب دے ضرورت کے مطابق دے ننگ ڈھانکنے والا دے۔ پسندیدہ دے۔ بیوی دے تو ایسی دے جو ہمدرد ہو ہم خیال ہو دیندار ہو محبت کرنے والی ہو۔ نیکی میں تعاون کرنے والی ہو بچے پیدا کرنے والی ہو ان بچوں کو نیک تربیت کرنے والی ہو۔ مکان دے تو مبارک ہو۔ وہ بیماریوں والا گھر نہ ہو۔ سل دق اور ٹائیفائیڈ کے جراثیم اس میں نہ ہوں۔ کوئی چیز ایسی نہ ہو جو صحت پر بُرا اثر کرنے والی ہو۔ کوئی ہمسایہ ایسا نہ ہو جو دکھ دینے والا ہو۔ وہ ایسے محلہ میں نہ ہو جہاں کے رہنے والے بُرے ہوں۔ وہ ایسے شہر میں نہ ہو جسے تو مریے لئے اچھا نہ سمجھتا ہو۔ ہمیں حاکم دے تو ایسے دے جو رحمد دل ہوں۔ تقویٰ سے کام لینے والے ہوں۔ انصاف سے کام لینے والے ہوں۔ ماتحتوں سے محبت کرنے والے ہوں ۔ ہمیں اُستاد دے تو ایسے دے جو علم رکھنے والے اور اچھا پڑھانے والے ہوں۔ وہ شوق سے پڑھائیں وہ ظالم نہ ہوں۔ خرابیاں پیدا کرنے والے اور دوسروں کو ورغلانے والے نہ ہوں۔ دوست دے تو ایسے دے جو خیرخواہ ہوں ۔ محبت کرنے والے ہوں۔ مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ خوشی میں شریک ہونے والے ہوں۔ دکھوں میں ہاتھ بٹانے والے ہوں۔ غرض رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً اے ہمارے رب! دنیا میں ہم کو وہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ پس یہاں حسنات کی بجائے حسنہ کا لفظ رکھ کر اس کے مفہوم کو خداتعالیٰ نے وسیع کر دیا ہے ۔ اور جب مومن یہ دعا کرتا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ خدایا مجھے ہر وہ چیز دے جو میری ضرورت کے مطابق ہو اور پھر وہ چیز کے لئے اور الفاظ بھی استعمال ہو سکتے تھے۔ خداتعالیٰ نے وہ الفاظ استعمال نہیں کئے بلکہ حسنہ کا لفظ استعمال کیا ہے اس لئے یہ لفظ ظاہری اور باطنی ددنوں خوبیوں کے لحاظ سے اچھی ہو مگر ظاہری صورت کے لحاظ سے اچھی نہ ہو۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی بڑی بااخلاق ہو ۔ مگر فرض کرو وہ نکٹی ہے یا اندھی ہے یا بہری ہے تو وہ حسنہ نہیں کہلائیگی حسنہ وہی بیوی کہلائیگی جس کے اخلاق بھی اچھے ہوں شکل بھی اچھی ہو ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا ہو۔ تو حسنہ کا لفظ ظاہری اور باطنی دونوں خوبیون پر دلالت کرتا ہے۔ اور مومن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ خدایا مجھے جو چیز بھی دے وہ ایسی ہو جو ظاہری اور باطنی دونوں خوبیاں رکھتی ہو۔
پھر فرمایا وَفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً آخرت میں بھی ہمیں وہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ یعنی وہ بھی ظاہر و باطن میں ہمارے لئے اچھی ہو۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ آخرت میں تو ہر چیز اچھی ہوتی ہے۔ ہواں کی چیزوں کے لئے حسنہ کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بات غلط ہے۔ آخرت میں بھی بعض چیزیں ایسی ہین جو باطن میں اچھی میں مگر ظاہر میں بُری ہیں۔ مثلاً دوزخ ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ پس ایک لحاظ سے وہ اچھی چیز ہے۔ مگر ایک لحاظ سے وہ بری بھی ہے ۔ پس جب آخرت کے لئے خداتعالیٰ نے حسنہ کا لفظ رکھا تو اس لئے کہ تم یہ دُعا کرو کہ الہٰی ہماری اصلاح دوزخ سے نہ ہو بلکہ تیرے فضل سے ہو۔ اور آخرت میں ہمیں وہ چیز نہ دیجیئو جو صرف باطن میں ہی اچھی ہو۔ جیسے دوزخ باطن میں اچھا ہے کہ اس سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ مگر ظاہر میں برا ہے ۔کیونکہ وہ عذاب ہے ۔ آخرت میں حسنہ صرف جنت ہے ۔ جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور جس کا باطن بھی اچھا ہے۔
پھر فرمایا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ ہم کو عذاب نار سے بچا۔ اس سے مراد وہی عذاب نار نہیں جو مرنے کے بعد ملے گا۔ یہ عذاب نار دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھنے والی دُعائوں کے بعد وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہا گیا ہے۔ پس وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں دنیا کے عذاب نار سے بھی بچا اور آخرت کے عذاب نار سے بھی محفوظ رکھ۔ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں کئی لوگ عذاب نار میں گرفتار ہوتے ہیں۔ انیہں کئی قسم کے دُکھ ہوتے ہیں۔ تکلیفیں ہوتی ہیں۔ حسرتیں ہوتی ہیں۔ قسم قسم کے مصائب ہوتے ہیں مگر جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ خدایا مجھے عذاب نار سے بچا۔ تو خداتعالیٰ اُسے اس عذاب سے بچا لیتا ہے۔ تب وہ چیزیں جو پہلے اس کے لئے نار تھیں جنت بن جاتی ہیں۔ [
اسی طرح اس سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہے جس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دُعا سکھائی ہے۔ بظاہر یہ ایک مختصر سی دُعا ہے مگر بڑی جامع اور وسیع دعا ہے۔
عَذَابَ النَّارِ کے لحاظ سے دنیا کی لڑائی بھی مراد لی جا سکتی ہے ۔کیونکہ لڑائی بھی آگے کا ہی عذاب ہے۔ پس جو شخص یہ دُعا کرے گا کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰ خِرَۃِ حَسَںَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ وہ گویا خدتعالیٰ کے بیان فرمودہ الفاظ میں یہ دعا کرے گا کہ الہٰی دنیا میں مجھ پر کوئی ساعت ایسی نہ آئے جو بُری ہو۔ لڑائی مجھے سے دُور رہے اور آگ کا عذاب میرے قریب نہ پہنچے۔
اگر کوئی سپاہی لڑائی میں شامل ہو اور وہ یہ دُعا کرے۔ تو اس کی دُعا کے یہ معنے ہوںگے۔ کہ اس لڑائی کے بد اثرات سے مجھے بچا ۔ بندوق کی گولی آئے تو وہ مس کر جائے۔ میرے دائیں نکل جائے یا بائیں کل جائے۔ اوپر نکل جائے یا نیچے نکل جائے۔
اُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْب’‘
سَرِیْعُ الْحِسَابِoوَاذْکُرُوااللّٰہَ
تُحْشَرُوْنَo
بہر حال وہ مجھے نہ لگے۔ اور میں اس سے محفوظ رہوں پس یہ ایک جامع دُعا ہے جو اسلام نے سکھائی ہے اور جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
۱۱۵؎ تفسیر:۔ کسب کے معنے محنت کر کے کسی چیز کو حاصل کرنے کے ہوتے ہیں لیکن اس جگہ کَسَبُوْا کا لفظ اوپر والی دُعا کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ جو کچھ انہوں نے کمایا اس سے ان کو حصہ ملے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسب کا لفظ زبان یا دل کے مفعل پر بھی بولا جاتا ہے اور مراد یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی نعماء طلب کرتے رہتے ہیں وہ اپنے اپنے اخلاص اور ایمان کے مطابق خداتعالیٰ سے اجر پائیں گے۔
وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور بدی کی جزا میں کوئی دیر نہیں لگتی بلکہ ادھر عمل سرزد ہوتا ہے اور ادھر اس کی جزا ظاہر ہو جاتی ہے یعنی انسان کا ہر عمل اس کے جوارح پر فوراً اثر ڈال دیتا ہے۔ یہ مضمون قرآن کریم میں کئی جگہ بیان ہوا ہے اور حدیثوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص برا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نشان پڑ جاتا ہے اور اگر وہ توبہ نہیں کرتا اور اس کے بد اعمال بڑھتے چلے جاتے ہیں تو یہ سہا نقطے بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اور جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو ایک سفید نقطہ اس کے دل پر پڑ جاتا ہے اور جب اس کے بعد وہ متواتر نیک اعمال بجا لاتا ہے تو یہ سفید نقطے بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں یہا ں تک کہ اس کا سارا دل منور ہو جاتا ہے۔
سَرِیْعُ الْحِسَابِ میں اللہ تعالیٰ کی اسی سنت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر کام کا اثر فوراً انسان کے دل پر پڑجاتا ہے۔ اور یہ بھی ایک قسم کا حساب ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لیا جاتا ہے۔ تازہ تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انسانی حرکت ایسی نہیں جو فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے پس عمل اور اس کی جزایہ دو توام بھائی ہیں کہ ایک کے ساتھ دوسرا بھی ظہور میں آجاتا ہے۔
۱۱۶؎ تفسیر:۔ اس آیت میں جن مقررہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا خصوصیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے وہ ایام تشریق ہیں یعنی ۱۱۔ ۱۲۔۱۳ ذولحجہ یا ایام منیٰ ہیں ۔جو دسویں تاریخ سے شروع ہوتے ہیں اور ۱۳ کو ختم ہو جاتے ہیں۔
فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یُوْمِیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ۔ فرماتا ہے جو شخص جلدی کرے اور دو دنوں میں ہی واپس چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ دراصل دسوین ذوالحجہ کے بعد رمی الجماد کے لئے تین دن رکھے گئے ہیں۔ مگر اجازت ہے کہ کوئی شخص دو دن کے بعد بھی لوٹ آئے ۔ اس بارہ میں امام ابو حنیفہ کا مذہب تو یہ ہے کہ ایام تشریق کے تیسرے دن صبح کے وقت جا سکتا ہے۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ دوسرے دن رمی الجماد کے بعد بھی جا سکتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر عصر کا وقت آجئے تو نہیں جا سکتا۔ اس سے پہلے جا سکتا ہے۔ گویا اس سے تیسرے دن کی رمی معاف ہو گئی۔ پھر بعض نے کہا ہے کہ جس نے تعجیل کی نیت کی اسے چاہیے کہ وہ یام النحر کو رمی کرے۔
پھر فرماتا ہے وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیہِ لِمَنِ اتَّقٰی۔ اور جو شخص پیچھے رہ جائے یعنی تیسرے دن رمی کر کے جائے۔ اسے بھی کوئی گنا ہ نہیں اور یہ وعدہ اس شخص کیلئے ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ لِمَنِ اتَّقٰی کا تعلق تعجمیل کے ساتھ ہے مگر میرے نزدیک اس کا تعلق نہ تعجیل کے ساتھ ہے نہ تاخیر کے ساتھ بلکہ لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کے متعلق لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کے ساتھ ہے ورنہ جو گنہگار ہے وہ تو گہنگار رہی ہے اس کے متعلق لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کہنا تو درست ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ نفی اِنْم صرف ایسے شخص کے لئے ہے جو متقی ہو۔ یعنی اگر وہ کسی اور طرح گنہگار نہیں تو اس تعجیل یا تاخیر سے گنہگار نہیں ہوتا۔
آخر میں وہ اتَّقُوا اللّٰہَ وَاعَلَمُوْا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ ان مناسک کی اصل غرض یہ ہے کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ تمہارا بیت اللہ کا طواف کرنا حجراسود کو بوسہ دینا۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔ مزدلفہ منیٰ عرفات اور مشعرا لحرام میں اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنا۔ اور رمی الجماد کرنا۔ یہ سب اس غرض کے ہئے ہے کہ تمہارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی سچی محبت پیدا ہو اور تم سمجھو کہ ایک دن تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور اکٹھے ہونے والے ہو۔ پس اگر تم نے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھا اور اس کی رہ میں ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کیا اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا تع جس طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ اور اسمٰعیل ؑ اور ہاجرہؓ کو برکت دی تھی۔ اُسی طرح وہ تمہیں بھی برکت عطا فرمائے گا اور تمہاری نسلوں کو بھی اپنی دائمی حفاظت اور پناہ میں لے گا۔ پس تقویٰ کو اپنا شعار بنائو اور اس دن کو یاد رکھو جب تم سب کو اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے خداعتالیٰ کے ضور حاضر ہونا پڑیگا۔
حج کے احکام تو ختم ہو گئے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جگہوں میں جانے اور وہاں چکر لگانے کی کیا حکمتیں ہیں؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ میرے نزدیک اس کی ظاہری حکمتوں میں سے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّ اَوَّلَ بِیْتٍ وُّ ضِعَ لِلنَّاسِ اَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ(آل عمران آیت۹۷) کہ سب سے پہلا گھر جو تمام دنیا کے فائدہ کے لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہیں بنایا بلکہ یہ آدم کے زمانہ سے چلا آتا ہے (خواہ وہ کوئی آدم ہو) پس وُضِعَ لَلنَّاسِ میں پیشگوئی تھی کہ چونکہ خداتعالیٰ نے اسے ساری دُنیا کو اکٹھا کرنے کے لئے بنایا ہے اس لئے تمام لوگوں کو اس جگہ جمع کیا جائیگا چنانچہ اسی غرض کے لئے حج کی خاص تاریخیں مقرر کر دی گئیں۔ گویا دوسرے الفاظ میں تمام دنیا کے لوگ جمع ہو سکیں ۔گویا دوسرے الفاظ میں تمام دنیا کو اکٹھا کرنے اور جہان بھر کے اتقیاء او ر صلحاء کو جمع کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے اپنے مائدہ روحانی پر لوگوں کو ایک عظیم الشان دعوت دی ہے تاکہ قومی اور ملکہ منافرت درمیان سے اُٹھ جائے اورباہمی تعلقات وسیع ہو جائیں۔ اور ایکدوسرے کی محبت ترقی کرے۔ اور یہ خیال کہ ہم فلاں قوم سے ہیں اور ہمار اغیر فلاں قوم سے ہے مٹ جائے۔ میرے نزدیک منیٰ میں لوگوں کے تین دن اسی لئے فارغ رکھے گئے ہیں کہ وہاں لوگ ذکر الہٰی اور عبادت میں اپنا وقت گذارنے کے علاوہ آپس میں ایک دوسرے سے ملیں اور حالات معلوم کریں قادیان اور ربوہ میں بھی لوگ مختلف اوقات میں آتے رہتے ہیں۔ مگر وہ تعلقات نہیں بڑھتے جو جلسہ سالانہ کے ایام میں بڑھتے ہیں۔ اگر حج سے یہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے تو میرے نزدیک وہ تفرقے اور شقاق مٹ سکتے ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کو کمزور کر رکھا ہے۔ اور ان کے درمیان اختلافِ عقائد کے باوجود زبردست اتحاد پیدا ہو سکتا ہے غرض حج گو ایک مذہبی عبادت ہے مگر اس میں روحانی فوائد کے علاوہ یہ ملی اور سیاسی غرض بھی ہے کہ مسلمانوں کے ذی اثر طبقہ میں سے ایک بڑی جماعت سال میں ایک جگہ جمع ہو کر تمام عالم کے مسلمانوں کی حالت سے واقف ہوتی رہے۔ اور ان میں اخوت اور محبت ترقی کرتی رہے اور انہیں ایک دوسرے کی مشکلات سے آگاہ ہونے اور آپس میں تعاون کرنے اور ایک دوسرے کی خوبیوں کو اخذ کرنے کا موقعہ ملتا رہے۔ گو افسوس ہے کہ اس غرض سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حج سے یہی غرضتھی تو پھر مکہ مکرمہ میں ہی کیوں تمام مسلمانوں کا اجتماع کافی تھا عرفات منی ٰ اور مزدلفہ میں جانے کی کیا غرض ہے؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ عفرات منیٰ اور مزدلفہ میں جمع کرنے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ شہر میں اجتماع کی صورت نہیں ہوسکتی اور نہ لوگوں کا آپس میں صحیح رنگ میں میل جول ہو سکتا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو کھلے میدانوں میں جمع ہونے کا حکم دیدیا تاکہ وہاں لوگ آسانی سے ایک دوسرے سے مل سکیں چونکہ جگہ بھی کھلی ہوتی ہے او ر وقت بھی فارغ ہوتا ہے اس لئے ایک دوسرے کو ملنے کا مدعا خوب اچھی طرح پورا ہو سکتا ہے لیکن اس کے علاوہ خداتعالیٰ نے مزدلفہ منیٰ اور عرفات کو اس شرف کے لئے س لئے چُنا ہے کہ عرفا ساحل سمندر کی طرف ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی راستہ سے حضرت ہاجرہؓ اوراسمٰعیل ؑ کو چھوڑنے کے لئے شام سے تشریف لائے تھے۔ اور عرفات وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی ان پر تجلی ظاہرہوئی ۔ اور مزدلفہ وہ مقام ہے جہاں آپ سے یہ وعدہ کیا گیاکہ اس قربانی کے بدلہ میں تجھے بہت بلند درجات عطا کئے جائیںگے اور منیٰ وہ مقام ہے جہاں حضرت ہاجرہؓ گھبرائی ہوئی پہنچتی تھیں مگر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں خدا کے حکم سے تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں تو انہوں نے کہا اِذًا لَّا یُضَیِّعُنَا۔ اگر یہ بات ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا اور وہ واپس چلی گئیں۔ گویا شیطان ہمیشہ کے لئے مار دیا گیا۔ اسلئے یہاں شیطان کو کنکر مارے جاتے ہیںَ
پھر حج بیت اللہ کی ایک غرض شعارء اللہ کا احترام اور ان کی عظمت لوگوں کے دلوں میں قائم کرنا ہے۔ شعائر اللہ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ہیں۔ چونکہ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا ذہن صرف ظاہر سے باطن کی طرف منتقل ہوا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ میں ان کے سامنے ایسے نشانات رکھدیئے جو خداتعالیٰ کو یاد دلانے والے اور اس کی محبت دلوں میں تازہ کرنے ولاے ہیں۔ حج دراصل اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کر تا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاجرہؓ او راسمٰعیل ؑ کو بیت اللہ کے قریب ایک وادی غیر ذی زرع میں انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر سرانجام دی تھی بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ وہ اپنے بچے حضرت اسمٰعیلؑ کی گردن پر چھُری پھیرنے کیلئے تیار ہو گئے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی یاد گھار حج کی صورت میں قائم کر دی۔ حالانکہ اگر یہ درست ہوتا تو چونکہ یہ واقعہ شام میں ہوا تھا۔ اس لئے حج کا اصل مقام شام ہوتا نہ کہ حجاز اور لوگوں وہاں جمع ہو کر خداتعالیٰ کی یاد کرتے اور کہتے ابراہیم نے کس قدر قربنی کی تھی۔ لیکن خداتعالیٰ حج کیلئے مکہ مکرمہ کو چُنا اور منیٰ اور مزولفہ اور عرفات میں جانا اور وہاں مناسک حج بجا لانا ضروری قرار دیا۔ پس میرے نزدیک حج کا تعلق آپکا چُھری پھیرنے کیلئے تیار ہو جانیوالے واقعہ سے نہیں بلکہ اس واقعہ سے ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہؓ اور اسمٰعیل ؑ کو خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک ایسی وادی میں لا کر پھینک دیا جہاں پانی کا ایک قطرہ تک نہ تھا۔ اور کھانے کے لئے ایک دانہ تک نہ تھا جب انسان حج کے لئے جاتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آجاتا ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرنے والے بچائے جاتے ہیں۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی عزت دیتا ہے۔ اور حج کرنے والے کے دل میں بھی خدتعالیٰ کی محبت بڑھتی اور اس کی ذات پر یقین ترقی کرتا ہے پھر وہ اپنے آپ کو اس گھر میں دیکھ کر جو ابتدائے دنیا سے خداتعالیٰ کی یاد کے لئے بنایا گیا ہے۔ ایک عجیب روحانی تعلق ان لوگوں سے محسوس کرتا ہے جو ہزاروں سال پہلے سے اس روحانی سلک میں پروئے چلے آتے ہیں جس میں یہ شخص پرویا ہوا ہے۔ یعنی خداتعالیٰ کی یاد اور اس کی محبت کا رشتہ جو سب کو باندھے ہوئے ہے خواہ وہ پرانے ہوں یا نئے اسی طرح بیت اللہ کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا نقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اور اسے احساس ہوتا ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ نے غیر معمولی طور پر چاروں طرف سے لوگوں کو اس گھر کے گرد جمع کر دیا ہے۔ جب انسان بیت اللہ کو دیکھتا ہے اور اس پر اس کی نظر پڑتی ہے تو اس کے دل پر ایک خاص اثر پڑتا ہے اور وہ قبولیت دعا کا ایک عجیب وقت ہوتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے حج کیا تو میں نے ایک حدیث پڑھی ہوئی تھی کہ جب پہلے پہل خانہ کعبہ نظر آئے تو اس وقت جو دعا کی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے۔ فرمانے لگے اس وقت میرے دل میںکئی دعائوں کی خواہش ہوئی لیکن میرے دل میں فوراً خیال پیدا ہوا کہ اگر میں نے یہ دعائیں مانگیں اور قبول ہو گئیں۔ اور پھر کوئی اور ضرورت پیش آئی تو پھر کیا ہو گا۔ پھر تو نہ حج ہو گاا ور نہ یہ خانہ کعبہ نظر آئیگا۔ کہنے لگے تب میں نے سوچ کر یہ نکالا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کروں کہ یا اللہ! میں جو دعا کیا کروں وہ قبول ہوا کرے۔ تاکہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے ۔ میں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی ہوئی تھی۔ جب میں نے حج کیا تو مجھے بھی وہ بات یاد آگئی۔ جونہی خانہ کعبہ نظر آیا ہمارے نانا جان نے ہاتھ اُٹھائے کہنے لگے دُعا کر لو۔ وہ کچھ اور دُعائیں مانگنے لگ گئے مگر میں نے تو یہی دُعا کی کہ یا اللہ! اس خانہ کعبہ کو دیکھنے کا مجھے روز روز کہاں موقعہ ملے گا۔آج عمر بھر میں قمست کے ساتھ موقع ملا ہے پس میری تو یہی دُعا ہے کہ تیرا اپنے رسول سے وعدہ ہے کہ اس کو پہلی دفعہ حج کے موقعہ پر دیکھ کر جو شخص دعا کریگا وہ قبول ہو گی میری دُعا تھج سے یہی ہے کہ ساری عمر میری دُعائیں قبول ہوتی رہیں۔ چنانچہ اس کے فضل اور احسان سے میں برابر یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ میری ہر دعا اس طرح قبول ہوتی ہے کہ شاید کسی اعلیٰ درجہ کے شکاری کا نشانہ بھی اس طرح نہیں لگتا۔
اسی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگاتے وقت جب انسان دیکھتا ہے کہ ہزاروں لوگ اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں اور ہزاروں ہی اس کے گرد نمازیں پڑھ رہے ہیں تو اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں دنیا سے کٹ کر خداتعالیٰ کی طرف آگیا ہوں اور میرا بھی اب یہی کام ہے کہ میں اس کے حضور سربسجود رہوں۔ پھر سعی بین الصفا و المروۃ میں حضرت ہاجرہؓ کا واقعہ انسان کے سامنے آتا ہے اور اس کا دل اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ انسان اگر جنگل میں بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ڈیرہ لگا دے تو خدا تعالی اُسے کبھی ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے لئے خود اپنے پاس سے سامان مہیا کرتا اور اُسے معجزات اور نشانات سے حصہ دیتا ہے پھر وہاں جتنے مقام شائع کا درجہ رکھتے ہیں ان کے بھی ایسے نام رکھ دیئے گئے ہیں کہ جن سے خداتعالیٰ کی طرف توجہ پیداہوتی ہے مثلا سب سے پہلے لوگ منیٰ میں جاتے ہیں یہ لفظ اُمْنِیْۃ سے نکلا ہے جس کے معنے آرزو اور مقصد کے یہں اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ لوگ اس جگہ محض خدا کو ملنے اور شیطان کامل نفرت اور علیحدگی کا اظہار کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ پھر عرفات ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اب ہمیں خدا تعالیٰ کی پہچان اور اس کی معرفت حاصل وہ گئی ہے اور ہم اس سے مل گئے ہیں اس کے بعد مزدلفہ ہے جو قرب کے معنوں پر دلالت کرتا ہے اور جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ وہ مقصد جس کی ہم تلاش کر رہے ہیں وہ ہمارے قریب آ گیا ہے۔ اسی طرح مشعر الحرام جو ایک پہاڑی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مخلصانہ عقیدت اور ابراہیم کے جذبات ہمارے دلوں میں پیدا کرتی ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر دعائیں فرمایا کرتے تھے۔ پھر مکہ مکرمہ ایسی جگہ ہے جہاں سوائے چند درختوں اور اذخر گھاس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہر جگہ ریت ہی ریت اور کنکر ہی کنکر ہیں اور کچھ چھوٹی چھوٹی گھاٹیاں ہیں۔ غرض وہ ایک نہایت ہی خشک جگہ ہے نہ کوئی سبزہ ہے نہ باغ دنیا کی کشش رکھنے والی چیزوں میں سے وہاں کوئی بھی چیز نہیں۔ پس وہاںجانا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے قرب اور رضا ء کے لئے ہی ہو سکتا ہے اور یہی غرض حج بیت اللہ کی ہے پھر احرام باندھنے میں بھی ایک خاص بات کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کو یوم الحشر کا اندازہ ہو سکے کیونکہ جیسے کفن میں دو چاردریں ہوتی ہیں۔ احرام میں بھی دو ہی ہوتی ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ کے لئے اور دوسری نیچے کے حصہ کے لئے۔ پھر سر بھی ننگا ہوتا ہے اور عرفات وغیرہ میں یہی نظارہ ہوتا ہے۔ جب لاکھوں آدمی اس شکل میں وہاں جمع ہوتے ہیں توحشر کا نقشہ انسان کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کہ ہم خداتعالیٰ کے سامنے ہیں اور کفن میں لپٹے ہوئے ابھی قبروں سے نکل کر اس کے سامنے حاضر ہوئے ہیں پھر حج بیت اللہ میں حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسمٰعلؑ حضرت ہاجرہؓ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی واقعات زندگی انسان کی آنکھوں اور عرفان پیدا ہوتا ہے۔ یوں تو اور قوموں نے بھی اپنے بزرگوں کے واقعات تصویری زبان میں کھینچنے کی کوشش کی ہے جیسے ہندو و دسہرہ میں اپنے پُرانے تاریخی واقعات دہراتے ہیں مگر مسلمانوں کے سامنے خداتعالیٰ نے ان کے آبائو اجداد کے تاریخی واقعات کو اسی طرز پر رکھا ہے کہ اس سے پرانے واقعات کی یا د بھی تازہ ہو جاتی ہے۔ اور آئندہ پیش آنے والے حادثہ یعنی قیامت کا نقشہ بھی اانکھوں کیسامنے کھچ جاتا ہے اسی طرح رمی الجماد کی اصل غرض بھی شیطان سے بیزاری کا اظہار کرنا اور ان جماد کے نام بھی ھمرۃ الدنیا۔ جمرۃ الوسطیٰ اور جمرۃ العقبیٰ اس لئے رکھے گئے ہیں کہ انسان اس امر کا اقراء کرے کہ وہ دنیا میں بھی اپنے آپ کو شیطان سے دور رکھے گا اور عالم برزخ اور عالم عقبیٰ میں بھی ایسی حالت میں جائیگا کہ شیطان کو کائی اثر اُس کی روح پر نہیں ہو گا۔ اسی طرح ذبیحہ سے اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رکھے اور جاب بھی اس کی طرف سے آواز آئے وہ فورا اپنا سر قربنی کے لئے جھکا دے اور اس کی راہ میں اپنی جان تک دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔ پھر سات طواف سات سعی اور سات ہی رمی یہں۔ اس سات کے عدد میں روحانی مدارج کی تکمیل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ اس کے بھی سات ہی درجے ہیں جن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ سورہ مومنوں میں ان درجات کی تفصیل دی گئی ہے اسی طرح حجر اسود کہ بوسہ دینا بھی ایک تصویری
وَمِنَ النَّاسِ
اَلَدُّالْخِصَامِo
زبان ہے بوسہ کے ذریعہ انسان اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں اس وجود کو جس کو میں بوسہ دے رہا ہوں اپنے آپ سے جدارکھنا پسند نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے جسم کا ایک حصہ بن جائے۔ غرض حج ایک عظیم الشان عبادت ہے جو ایک سچے مومن کے لئے ہزاروں برکات اور انوار کا موجب بنتی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ آجکل مسلمان صرف رسمی رنگ میں یہ فریضہ ادا کرنے کی وجہ سے اس کی برکات سے پوری طرح متمتع نہیں ہوتے۔
۱۱۷؎ حل لغات: مسَالَدُّ الْخِصَامِ: اَلَدّ لَدَّ یَلِدُّ سے اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور اَلَدُّ کے معنے ہیںاَلشَّدِ یْدُ الْخُصُوْ مَۃِ۔ وہ دشمن جو دشمنی میں بہت بڑھا ہوا ہو۔ خِصَام’‘ یہ مصدر ہے جس کے معنے مجادلہ یعنی جھگڑے کے ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ جب وہ کسی مجلس میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرتے ہیں تو تم سمجھتے ہو واہ وا یہ کتنے عقلمند اور سمجھدار ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے سارے علوم پر حاوی ہیں اور انکی عقل کو کوئی پہنچ نہیں سکتا اور پھر وہ اپنی دینداری کے متعلق اتنا یقین لوگوں کو دلاتے ہیں کہ کہتے ہیں خدا کی قسم ہمارے دل میں جو نیکیاں بھر ہوئی ہیں ان کو کوئی نہیں جانتا ہم سے مشورہ لیا جائے تو ہم یوں کر دیں گے دوں کردیں۔ مگر فرماتا ہے حقیقت کیا ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ بدتریں دشمن جوتمہارے ہو سکتے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ جھگڑا لو اور خطرناک ہوتا ہے وہ ہوتا تمہارے ساتھ ہے وہ مسلمان کہلاتا ہے اور جب کسی مجلس میں بیٹھ جاتا ہے تو ساری مجلس پر چھا جاتا ہے اور اپنی دینداری او ر تقویٰ پر قسمیں کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا دل تو قوم کے لئے کھلا جا رہا ہے ۔ جب دیکھنے والا اسے دیکھتا ہے اورسننے والا اس کی باتیں سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ قطب الاقطاب بیٹھا ہے مگر فرماتا ہے ۔ دنیا میں تمہارے یہودی بھی دشمن ہیں۔ عیسائی بھی دشمن ہین او رقومیں بھی دشمن ہیں مگر یہ ان سے بھی بڑا اور خطرناک دشمن ہوتا ہے بظاہر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کا ایک مجسمہ ہے لیکن معاملہ پرعکس ہوتا ہے وہ کوئی دینی نکتے بیان نہیں کرتا بلکہ دنیوی امور کے متعلق ایسی باتیں کرتا ہے جو بظاہر تو بڑی اچھی ہوتی ہیں مگر درحقیقت ان کی تہہ میں منافقت کام کر رہی ہوتی ہے۔ اور پرھا س کے جھوٹا ہونے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خداگواہ ہے میرے دل میں تو اخلاص ہی اخلاص ہے اور میں تو محض اپنے دوستوں کی خیر خواہی اور بھلائی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوں۔ فرماتا ہے تم ایسے شخص کی چکنی چپڑی باتوں سے کبھی دھوکا نہ کھائو۔ اور جب بھی تمہیں کوئی ایسا شخص نظر آئے۔ فوراً لاحول پڑھ کر اس سے علیٰحدہ ہو جائو اور سمجھ لو کہ تمہارے سامنے ایک شیطان بیٹھا ہے جو قسمیں کھا کھا کر اور اپنی خیر خواہی کا لوگوں کو یقین دلا دلا کر انہیں دھوکا اور فریب دے رہا ہے۔
وَاِذَا تَوَلّٰی
لَایُحِبُّ الْفَسَادَo
۱۱۸؎ حل لغات:۔ تَوَلّٰی:وَلِیَ سے باب تفعل ہے اور اَلتَّوَلِّیْ کے معنے ہیں اَلْاِنْصِرَافُ بَالْبَدْنِ اَوِ الْقَوْلِ۔ بدن کے ساتھ پھر جانا یعنی پیٹھ پھیر لینا۔ مرتد ہو جاتا یا اپنی بات سے پھر جانا۔ حاکم اور والی بن جانا۔
اَلْحَرْثُـ: کے معنے ہیں مَایَسْتَنْبُتُ بِالْبَذْرِ وَالنَّوٰی وَالْغَرْسِ۔ یعنی جو چیز بیج گٹھلی یا پودے سے اُگائی جائے۔(اقرب)
نَسْل کے معنے ہیں (۱) عقب یعنی اولاد بیٹے بیٹیاں (۲) مخلوق (۳) اگلی نسل یعنی صرف بیٹوں تک نہیں بلکہ دس دس بیس بیس پشتوں تک جو اولاد چلتی ہے اُسے بھی نسل ہی کہتے ہیں۔
تفسیر:۔ فرمایا ایسے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ رعایا اور ملک کی خدمت کریں بجائے اس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیر اختیار کرنی شروع کر دیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور ملک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے ملک کی تمدنی اور اخلاقی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ حرث کے لغوی معنے تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حرث کا لفظ استعارۃً وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع ملک کی تمدنی حالت کو بہت بنانے والے ہوتے ہیں ان ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدن تباہ ہو۔ اقتصاد برباد ہو۔ مالی حالت میں ترقی نہ ہو۔ اس طرح وہ نسل ِ انسانی کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں۔ اور ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپنی طاقتوں کو کھو بیٹھتی ہیں اور ایسی تعلیمات جن کو سیکھ کر وہ ترقی کر سکتی ہیں ان سے محروم ہو جاتی ہیں۔
پھر فرمایا ہے کہ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ اللہ تعالیٰ فساد پسند نہیں کرتا۔ اس لئے ایسے بادشاہ اور حکمران خداتعالیٰ کی نگاہ میں مغضوب ہیں اور وہ ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک وہی بادشاہ صحیح معنوں میں بادشاہ کہلا سکتا ہے جو لوگوں کے لئے ہر قسم کا امن مہیا کرے۔ ان کی اقتصادی حالت کو درست کرے اور انکی جانوں کی حفاظت کرے۔ کیا بلحاظ صحت کا خیال رکھنے کے اور کیا بلحاظ اس کے کہ وہ غیر ضروری جنگیں نہ کرے اور اپنے ملک کے افراد کو بلاوجہ مرنے نہ دے ۔ گویا ہر قسم کے امن اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلام کے نزدیک حکومت پر عاید ہوتی ہے۔ اور وہ اس امر کی پابند ہے کہ ملک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی کا ہمیشہ خیال رکھے۔
وَاِذَ قِیْلَ لَہُ
وَلَبِئْسَ الْمِھَادُo
۱۱۹؎ حل لغات:۔اِتَّقِ: وَتَی یَقِی سے باب افتعال کا امر کا صیغہ ہے اس کے اصل معنے یہ ہیں کہ انسان اس چیز سے جو سامنے سے آرہی ہو بچنے کے لئے ہٹ جائے مگر یہ معنے اس جگہ چسپاں نہیں ہوتے کیونکہ انسان خداتعالیٰ سے نہیں بچ سکتا ۔ خواہ وہ کسی جگہ چلا جائے بہر حال دوسرے معنے ہی لینے پڑیں گے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی حفاظت کا ذریعہ بنا لے۔
اَخَذَ تْہُ : اَلْاَخُذُ کے معنے ہیں حَوْزُ الشَّیئِ وَتَحْسِیْلُہ‘۔۔۔۔۔ وَتَارَہْ بِالْقَھْرِ۔ کسی چیز کو زبردستی لے لینا یا حاصل کرنا یا پکڑ لینا (اقرب) اور اَخَذَ تْہُ بِکَنَا کے معنے ہیں حَمَلَتْہُ عَلیٰ کَذَا۔ اُسے کسی کام پر اکسا دیا یا اُس کی ترغیب دی۔
اَلْعِزَّۃُ: وَرُبَمَا اسْنُعِیْرَتِ الْعِزَّۃُ اِلْحَمِیَّۃِ و الْاَنْفَۃِ الْمَذْمُوْ مَۃِ۔ وَمِنْہُ فِی الْقُرٓاٰنِ وَاِذَ قِیْلَ لَہ‘ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِذَّۃُ الْعِذَّۃُ بَالْاِثْمِ (اقرب) یعنی بعض اوقات عَزۃ کا لفظ بطور استعارہ جھوٹی غیرت اور پچ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس اَخَذَ تْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ کے معنے یہ ہوئے کہ جھوٹی قومی غیرت نے اُسے گناہ کی خاطر گھیر لیا یا اُسے گناہ پر آمادہ کر دیا۔
جَھَنَّم: وَارُ الْعِقَابِ بَعْدَ الْمَوْتِ۔ یعنی جہنم موت کے بعد سزا کی جگہ کا نام ہے (اقرب) جہنم کے لئے قرآن کریم میں اور بھی کئی لفظ آتے ہیں۔ جیسے جَحِیْم۔ سَعِیْر۔ سَقَرْ ۔ لظَی وغیرہ۔
تفسیر:۔فرماتا ہے جب اُسے کہا جائے کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ تم تو دو کوڑی کے بھی آڈمی نہیں تھے تمہیں تو جو کچھ ملا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کیو جہ سے ملا ہے ۔ تو اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ۔ اُسے اپنی جھوٹی عزت کی پچ گناہوں پر اور زیادہ دلیر ہوتی ہے۔ اس کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ اس کے پہلے گناہوں اور شاعت اعمال کی وجہ سے ہتک عزت کا جنون اس کے سرپر سوار ہو جاتا ہے اور اسے ہدایت سے اور زیادہ دور پھینک دیتا ہے۔ اور یہ بھی کہ اپنی عزت کی پچ اُسے گناہوں کے لئے پکڑلیتی ہے یعنی اس سے اور زیادہ گناہوں کا ارتکاب شروع کرا دیتی ہے۔ فرماتا ہے یہاں ممکن ہے تم لوگوں کو فریب دے لو لیکن آخر جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے۔ وَلَبِئْسَ الْمِھَادِ۔اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے ۔ جہنم بے شک اگلے جہان میں ہے لیکن ایک جہنم ایسے انسانوں کے لئے اس جہان میں بھی پیدا کر دیا جاتا ہے جب شریف انسان مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں تو انہیں ایسا جواب مل جاتا ہے کہ یہی دنیا ان کے لئے جہنم بن جاتی ہے افسوس ہے کہ دنیا میںبہت سے لوگ صرف اس لئے اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کہ جب انہیں ان کی غلطی بتائی جائے او رکہا جائے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ تو اپنی ہتک عزت کے خیال سے وہ دیوانہ نہ ہو کر بجائے نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے ناصح کا مقابلہ کرنے لگ جاتے ہین مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کسی میں کوئی غلطی یا نقص دیکھے بازار میں کھڑے ہو کر اُسے تبنیہہ کرنا شروع کردے۔ سمجھانا ہمیشہ علیحدگی میں چاہیے۔ اور سمجھانے والے کو اپنی حیثیت اور
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ
بِالْعِبَادِo
قابلیت بھی دیکھنی چاہیے کہ وہ جس شخص کو سمجھانا چاہتا ہے اسے سمجھانے کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ تاکہ اس کا اُلٹا نتیجہ نہ نکلے غرض جہاں غلطی کرنے والوں کو برداشت کی طاقت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے اور سمجھانے والاے کی بات کو ٹھنڈے دل سے سنُنا چاہیے۔ وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ سمجھانے والا احتیاط سے کام لے۔ یہ نہ ہو کہ وہ جس کو چاہے لوگوں میں ذلیل کرنا شروع کر دے۔ اس مثال کو حج کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ حج کی بڑی غرض قومی تفرقوں کو مٹا کر اتفاق و اتحاد اور محبت و یگا نگت کے تعلقات کو بڑھانا ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا میں لڑتے جھگڑتے اور فساد پیدا کرتے رہتے ہیں۔ انہیں متوجہ کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتا ہے تو انہیں بھی چاہیے کہ وہ اتفاق و اتحاد قائم رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے کینے اور بغض چھوڑدیں۔ درحقیقت صحیح معنوں میں حج کرنے والا صرف وہی شخص کہلا سکتا ہے جو اس قسم کے فتنہ و فساد سے مجتنب رہے۔لیکن جو شخص فساد کرتا اور بنی نوع انسان کو دکھ پہنچاتا ہے وہ اپنے عمل سے اس وحدت اور مرکزیت کو نقصان پہنچاتا ہے جس کو قائم کرنے کیلئے اسلام نے حج بیت اللہ کا حکم دیا ہے۔
۱۲۰؎ حل لغات:۔ یَشْریْ:شَریٰ سے مضارع کا صیغہ ہے اور شَرَیٰ کے معنے خریدنے اور بیچنے دونوں کے ہوتے ہیں۔(اقرب)
رَئُ وْف’‘: رَئوف’‘ فَعُوْل’‘ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ رَئُ وْف’‘ رَأ فَۃ’‘ سے ہے اور رافت کے معنے تکلیف کو دیکھ کر اس کے دور کرنے کی طرف توجہ کرنے کے ہیں۔ رافت اور رحمت دونوں ہم معنے لفظ ہیں مگر رحمت وسیع ہے اور رافت قدرے محدود ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اُسے چھڑانا۔ پس رئوف کے معنے ہوئے تکلیف میں دیکھ کر چھڑانے والا۔ رحمت دُکھ و سکھ دونوں کے لئے ہوتی ہے۔ مگر رافت ہمیشہ دکھ پر ہی ہوتی ہے گویا رحمت عام ہے اور رافت خاص۔
تفسیر:۔ اس مثال میں بتایا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ اُسے بھی خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیتے ہیں اور جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے اپنی جان کو بھی قربان کر دیتے ہیں اور جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے اپنی جان کو بھی قربان کرنے پر تیار رہتے ہوں وہ دورسروں کو نقصان پہنچانے کیلئے کب کوئی قدم اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ مثلال دیکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہیں بھی آخر الذکر گروہ کا سا طریق اختیار کرنا چاہیے اور نہ صرف فتہنہ و فساد سے مجتبب رہنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دینا چاہیے۔
وَاللّٰہُ رَئْ وْف’‘ بِالْعِبَادِ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی شفقت کر نے والا ہے۔ اس کی شفقت کا تقاضا ہے کہ تم بھی فتنہ و فساد سے بچو ۔ اور اپنی زندگیوں کو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کرو تاکہ تم بھی رئوف بالعباد خدا کے مظہر بن جائو۔
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا
عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘o
۱۲۱؎ حل لغات:۔ اَلسِّلْمُ کے معنے ہیں اَلصُّلحُ۔ اَلسَّلَامُ وَالْاِسْلَامُ (اقرب) یعنی (۱) صلح (۲) امن کو قائم کرنا (۳)اسلام۔
کَآفَّۃً۔ کَفّ’‘ کے معنے ہیں جمع کرنا۔ روکنا۔ پس کَآفَّۃ’‘ کے معنے جمع کرنے والے یاروکنے والے کے ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتاہے۔ اے مومنو! تم سارے کے سارے پورے طور پر اسلام میں داخل ہو جائو اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر کامل طور پر کرھ لو۔ یا اے مسلمانو تم اطاعت اور فرمانبرداری کی ساری راہیں اختیار کرو۔ اور کوئی بھی حکم ترک نہ کرو۔ اس آیت میں کَآفَّۃً اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا بھی حال ہو سکتا ہے اور اَلسِّلْمِ کا بھی۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جائو یعنی تمہارا کوئی فرد بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اطاعت اور فرمانبرداری کے مقام پر کھڑا نہ ہو۔ یا جس میں بغاوت اور نشوز کے آثار پائے جاتے ہوں۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم پورے کا پورا سلام قبول کرو۔ یعنی اس کا کوئی حکم ایسا نہ ہو جس پر تمہارا عمل نہ ہو۔ یہ قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ ہر مومن سے چاہتا ہے کہ انسان اپنی تمام آرزوئوں تمام خواہشوں اور تمام امنگوں کو خداتعالیٰ کے لئے قربان کر دے اور ایسا نہ کرے کہ جو اپنی مرضی ہو وہ تو کر لے اور جو نہ ہو وہ نہ کرے۔ یعنی اگر شریعت اس کو حق دلاتی ہو تو کہے میں شریعت پر چلتا ہوں اور اسی کے ماتحت فیصلہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر شریعت اس سے کچھ دلوائے اور ملکی قانون نہ دلوائے تو کہے کہ ملکی قانون کی رو سے فیصلہ ہونا چاہیے۔ یہ طریق حقیقی ایمان کے بالکل منافی ہے۔ چونکہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کمزور لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو قومی ترقی اور رفاہیت کے دور میں فتنہ و فساد پر اُتر آتے ہیں۔ اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری پہلی حالت کیا تھی او رپھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں کیا کچھ عطا کر دیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت فرماتا ہے کہ بے شک تم مومن کہلاتے ہو مگر تمہیںیاد رکھنا چاہیے کہ صرف مونہہ سے اپنے آپ کو مومن کہنا تمہیں نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ تم اگر نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اول ہر قسم کی منافقت اور بے ایمانی کو اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرو۔ اور قوم کے ہر فرد کو ایمان اور اطاعت کی مضبوط چٹان پر قائم کر دو۔ دوم صرف چندا حکام پر عمل کر کے خوش نہ ہو جائو۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل بجالائو۔ اور صفاتِ الہیہ کا مل مظہر بنے کی کوشش کرو۔
پھر فرماتا ہے وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ‘ لَکُمْ عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘۔ تم شیطان کے پیچھے نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس آیت میں خطوات کا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ شیطان ہمیشہ قدم بقدم انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ کبھی یکدم کسی انسان کو بڑے گناہ کی تحریک نہیں کرتا۔ بلکہ اسے بدی کی طرف صرف ایک قدم اٹھانیکی ترغیب دیتا ہے اور جب وہ ایک قدم اُٹھا لیتا ہے تو پھر دوسرا قدم اُٹھانیکی تحریک کرتا ہے اس طرح آہستہ آہستہ اور
فَاِنْ زَلَلْتُمْ
عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘o
ھَلْ یَنْظُرُوْنَ
تُرْجَعُ الْاُمُوْرُO
قدم بقدم اسے بڑے گناہوں میں ملوث کر دیتا ہے پس فرماتا ہے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تمہاراصرف چند احکام پر عمل کر کے خوش ہوجانا اور باقی احکام کو نظر انداز کر کے سمجھ لینا کہ تم پکے مسلمان ہو ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ اگر تم اسی طرح احکام الہیہ کو نظر انداز کرتے رہے تو رفتہ رفتہ جن احکام پر تمہارا اب عمل ہے ان احکام پر بھی تمہار ا عمل جاتا رہیگا۔ پس اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہو۔ اور شیطانی وساوس سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرو۔
۱۲۲؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے اگر تم اپنی اصلاح نہیں کرو گے اور طاقت اور قوت حاصل کرنے کے بعد بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی بجائے ان پر ظلم کرنا شروع کروگے۔ اور انہیں مالی اور جسمانی نقصانات پہنچائو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمہارے سر پر ایک غالب خدا موجود ہے جو تمہیں سزا دینے کی بھی طاقت رکھتا ہے اور تم سے تمہارا اقتدار بھی چین سکتا ہے۔ پس خداتعالیٰ سے ڈرو جو ایکدم میں تمہیں بادشاہ سے گدا اورامیر سے فقیر بنا سکتا ہے اور تمہاری عزت کو ذلت میں بدل سکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی حکیم کہہ کر بتایا کہ اس کا کوئی فعل ظالمانہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر کام کے پیچھے بڑی بڑی حکمتیں کام کر رہی ہوتی ہیں ۔ پس اس کی سزا بھی ظالمانہ نہیں ہوتی بلکہ انسان اصلاح کے لئے ہوتی ہے۔ اگر لوگ اپنی درنگی چھوڑ دیں اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلیں۔ اور بنی نوع انسان کی خدمتد اپنا شعار بنا لیں اور سچائی اور راستی اور دیانت اور امانت کو اختیار کر لیں اور ہر قسم کا کھوٹ اپنے دلوں سے نکال دیں اور پاک باطن اور نیک دل اور بااخلاق اور خدا ترس بن جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتا اور انکی تضرعات کو سنتا اور ان کی ناکامیوں اور ذلتوں کو کامیابیوں اور عزتوں میں بدل دیتا ہے۔
۱۲۳؎ تفسیر:۔ اس میں بتایا کہ یہ کفار جو مسلمانوں کی مخالفت کر رہے ہیں اور منافق جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور اسلام کی تباہی کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر تو اس بات کے منتظر ہیں کہ کب وہ دن آئے کہ اسلام دنیا سے مٹ جائے اور خدائے واحد کی حکومت پر شیطانی طاقتیں غلبہ حاصل کر لیں لیکن درحقیقت اپنے عمل سے وہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس بادلوں کے خیالوں میں آئے۔ یعنی اپنی مخفی تدبیر سے ان کی ہلاکت اور بربادی کے سامان پیدا کر دے۔ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ آسمان سے اس کے فرشتے نازل ہوں جو انہیں کچل کر رکھ دیں۔ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کوئی ایسا نشان ظاہر ہو
سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ
شَدِیْدُ الْعِقَابO
جس کے نتیجہ میں یہ روز روز کے جھگڑے مٹ جائیں اور خداتعالیٰ کا آخری فیصلہ ایک چمکتے ہوئے نشان کی صورت مین سب کو نظر آجائے۔ اور آخر ایک دن ایسا ہی ہوگا۔ خدا ان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو گا اور ان کی ہلاکت کی ساعت ان کے سروں پر منڈلانے لگے گی۔ چنانچہ جنگِ بدر میں خداتعالیٰ بادلوں میں سے ہی اپنا چہرہ ظاہر کیا۔ یعنی ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بارش ہوئی جس سے کفار کو شدید نقصان اور مومنوں کو جنگی لحاظ سے عظیم الشان فائدہ پہنچا اور پھر مومنوں کی مدد اور کفار پر رُعب طاری کرنے کے لئے ملائکہ بھی دلوں پر نازل ہوئے۔ بلکہ جنگِ بدر میں کئی کفار نے ملائکہ کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا۔ اور قُضِیَ الْاَمْرُ کے ماتحت عرب کے سردار چُن چُن کر مارے گئے۔ یہاں تک کہ وہ بھی جسے وہ سیدالوادی کہتے تھے دو انصاری لڑکوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اور مکہ میں ایسا کہرام مچا کہ کوئی گھر نہ تھا جس میں ماتم نہیں پڑاہو۔ اور گو یہود اس کا براہ راست کوئی اثر نہیں پڑا مگر اس جنگ کے نتیجہ میں ہی ان کی شرارتیں ظاہر ہوئیں۔ اور آخر وہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے۔ غرض ان کا منہ مانگا نشان انہیں مل گیا اور ان کی شوکت کی جڑھ کاٹ کر رکھ دی گئی اور پھر یہی سلوک بعد میں پیدا ہونے والے دشمنوں سے بھی ہوتا رہا اور خداتعالیٰ انہیں اپنی قہری تجلی کے جلوے بار بار دکھاتا رہا یہاں تک کہ اسلام دنیا پر غالب آگیا۔
۱۲۴؎ تفسیر:۔میں ترتیب مضمون کو بیان کرتے ہوئے اوپر بتا چکا ہوں کہ اس جگہ یہود مخاطب ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس پیشگوئی پر بحث ہو رہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق تھی۔ اور آپ کو اس پیشگوئی کا مصداق ثابت کیا جارہا ہے۔ چنانچہ اسی تسلسل میں اللہ تعالیٰ نے وَمِنْ حِیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ میں فتح مکہ کی پیشگوئی کی۔ یہ پیشگوئی اس وقت کی گئی تھی جبکہ مکہ پر کفار کاغلبہ اور حکومت تھی اور مسلمان مدینہ میں پناہ ڈھونڈ رہے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعے بتایا کہہ ایک وقت آئیگا جب تم مکہ فتح کر لو گے اور تمہارے لئے حج بیت اللہ کے راستے بالکل کھل جائیں گے۔ پھر اسی ضمن میں صلح حدیبیہ کی بھی پیشگوئی کی کیونکہ بتایا کہ اگر تمہیں عمرہ سے روکا جائے تو تمہیں کیا کرنا چاہیے۔ گویا پہلے سے پیشکوئی کر دی کہ تمہیں ایک زمانہ میں عمرہ کرنے سے بھی روکا جائیگا۔
اسی طرح مَنْلَمْ یَکُنْاَھْلُہ‘ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَام میں یہ اشارہ مخفی تھا کہ مکہ ایک دن تمہارے لئے گھر کے طور پر بننے والا ہے۔ غرض ان آیات میں یہ بتایا گیا تھا کہ مکہ کے دروازے تمہارے لئے کھلنے والے ہیں۔ اور تم اس میں امن سے داخل ہو گے۔ چانچہ فتح مکہ سے پہلے ہی فرما دیا کہ فَاِذَا امِنْتُمْ جب تم امن میں آجائو تو ایسا کرو۔
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ
بِغَیْرِ حِسَابٍO
اب ان پیشگوئیوں کے ساتھ ہی بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم ان سے پوچھو کہ ہم نے انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے کس قدر کھلے نشانات دکھائے ہیں اور یہ جو ہم نے فتح مکہ کی پیشگوئی کی ہے یہ بھی ایک زبردست نشان ہے جس سے ثابت ہو جائیگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ پس وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی عظیم الشان نعمت یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی ناقدری کرتے ہوئے اسے مٹانے کے درپے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں سخت سزا دیگا۔ چنانچہ فتح مکہ کے ساتھ ہی یہود کی بھی انتہائی ذلت ہوئی اور وہ بھی تباہ ہوتے چلے گئے۔
اس آیت کا ایک یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے یہود کو پہلے بھی بہت سے نعمتیں عطا فرمائی تھیں جن کی انہوں نے ناشکری کی مثلاً سب سے بڑی نعمت تو ان پر یہی نازل ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے متواتر انبیاء ان میں مبعوث فرمائے لیکن یہود نے ہمیشہ ان کی تکژیب کی اور ان کی مخالفت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ یہاں تک کہ بعض انبیاء کو انہوں نے جان سے بھی مارڈالا۔ یہ خداتعالیٰ کی نعمت کی ایک عظیم الشان ناشکری تھی جو ان سے ظاہر ہوئی۔ اسی طرح عیسائیوں نے جو یہود کی ایک شاخ ہیں اس قدر ناشکری کی کہ شریعت کو *** قرار دیدیا۔ غرض یہود کی ان متوتر شرکشیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتِ نبوت ان سے واپس لے لی کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا الہٰی سنت کے مطابق وہ نعمتیں اس سے چھین لی جاتی ہیں اور اسے رنج و غم اور حسر ت ویاس کے لمبے عذاب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔
۱۲۵؎ تفسیر:۔ فرمایا یہ لوگ ابھی اس پیشگوئی کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ کیونکہ دنیا اپنی تمام دلفریبیوں اور عنائیوں کے ساتھ ان کے سامنے کھڑی ہے اور طاقت اور دولت کے نشہ نے ان کی نگاہوں کو ایسا خیرہ کر رکھا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں ہم مسلمانوں سے کہاں شکست کھا سکتے ہیں بلکہ وہ ان پیشگوئیوں پر مسلمانوں سے تمسخر کرتے اور ان کا مضحکہ اُڑاتے ہیں اور انہیں طعنے دیتے ہیں کہ ہمیں تو نقدمل رہا ہے۔ تمہارا انعام کہاں ہے مگر ایک دن ان کو معلوم ہو جائیگا کہ ہم کس طرح مسلمان کو غلبہ عطا کرتے اور کفار کو نیچا دکھاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ جب قیامت کا دن آئیگا تو متقی لوگ ان کفار پر غالب ہونگے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کا نظارہ اس قیامت کے دن بھی ہو گا۔ جو مرنے کے بعد آنے والا ہے جب کہ کفار دوزخ میں جائیں گے اور مومن جنت میں اور وہ ہمیشہ کے لئے جوق ہو جائیں گے کیونکہ آخرت میں مقابلہ تو ہے نہیں کہ دوزخی جنتیوں پر کسی وقت فوقیت لے جاسکیں۔ مگر اس قیامت کے دن سے لوگ نصیحت حاصل نہیں کر سکتے اور نہ اسے حجت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور اس آیت میں اس غلبہ کو بطور دلیل صداقت پیش کیا گیا ہے۔ پس اس آیت میں یومِ قیامت سے مراد وہی دن ہے جس دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح حاصل ہوئی اور کفار کو شکست جس دن دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ ہو جو اکیلا اور بے یارومددگار تھا اور قوم کے ظالموں کا نشانہ بنا ہوا تھا وہ تو حاکم ہو گیا اور جو ملک کے بادشاہ اور حکمران تھے محکوم اور ذلیل ہو گئے۔
وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا کے الفاظ میں مومنوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کفار پر حقیقی غلبہ حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑی چیز کی تمہیں ضرورت ہے وہ تقویٰ ہے بیشک ایمان بھی ایک قیمتی دولت ہے لیکن اگر اس ایمان کے مطابق عل نہیں تو وہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں کوئی قیمت نہیں رکھتا۔
واللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ میں بغیر حساب کے الفاظ کفار کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے ہیں۔ اور جب کوئی چیز بے حساب ملے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بدلہ سے بہت زیادہ ہے۔ حساب کر کے تو جتنا کسی کا حق بنتا ہے اتنا ہی دیا جاتا ہے مگر بغیر حساب کے اسی صورت میں دیا جاتا ہے جب حق ہے زیادہ دیا جائے ۔ پس ان الفاظ میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ مومنوں کو ان کے بدلہ سے بہت بڑھ چڑھ کر انعام ملیگا۔ دوسرے اس میں کفار کو بتایا کہ تم کو جو کچھ ملا ہے اس کے متعلق تو تم سے پوچھا جائے گا کہ کس کس طرح خرچ کیا ہے لیکن ان کو اس طرح ملے گا کہ ان سے حساب بھی نہیں لیا جائیگا۔ گویا تم کو تو ملازموں کی طرح ملا ہے اور تم اس میں خیانت کر کے سزا کے موردبنتے ہو۔ لیکن ان کو ہدیہ کے طور پر ملیگا۔ اور اس میں تصرف کا ان کو اختیار کامل ہو گا۔ دراصل سلوک دو قسم کا ہوتا ہے ایک دوستانہ اور دوسرا ملازمانہ ۔ چونکہ دوستی میں غیریت باقی نہیں رہتی اس لئے فرمایا کہ ہم مومنوں کو بغیر حساب دینگے اور ان سے ایسا سلوک کریں گے جو ایک دوست دوست سے کرتا ہے۔ چنانچہ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایکدفعہ فرمایا کہ میر امت میں سے سترہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے لیکن جس کے ساتھ غیریت کا معاملہ ہو اس سے سختی کے ساتھ حساب لیا جاتا ہے اور حساب ہی کے مطابق اسے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں کفار کے متعلق یہ الفاظ کہیں استعمال نہیں ہوئے کہ انہیں بغیر حساب دیا جائیگا۔ بلکہ ان کے متعلق جہاں بھی آیا ہے یہی آیا ہے کہ وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی ایک دفعہ فرمایا مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ یعنی وہ شخص جس کا سختی سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات سنی تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ کیا قرآن میں یہ نہیں آتا کہ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومنوں کا بھی حساب ہو گا۔ آپ نے فرمایا حساب سے مراد یہ ہے کہ پوری طرح حساب لیا جائے۔ ورنہ مومن کا حساب تو محض سرسری ہو گا(بخاری کتاب الرقاق) پس مومنوں کو جو کچھ ملے گا بغیر حساب کے ہی ملے گا۔ اسی طرح بغیر حساب کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ختم ہونے والا انعام ملے گا۔ اور چونکہ یہ آیت اس دنیا کے غلبہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس لئے وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کی قربانیوں سے بہت زیادہ اجر عطا فرمائیگا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی میں اس دنیا میں جو کچھ ملا وہ بے حساب ہی ملا۔ بے شک ان کی قربانیوں کی چمک بھی آنکھوں
کَانَ النَّاسُ
صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍO
کو خیرہ کرنے والی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جو انہیں دینی اور دنیوی رنگ میں غیر معمولی اجر عطا فرمایا وہ ان کی قربانیوں سے بہت زیادہ تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو مادی رنگ میں انہیں تختِ شاہی پر بٹھا دیا اور دوسری طرف روحانی رنگ میں انہیں ایسی برکات سے نوازا کہ رَضِیَ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کا دائمی سرٹیفیکٹ انہیں حاصل ہو گیا۔
وَاللّٰہ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ میں کفار کے اس شبہ کا بھی ازالہ کیا گیا ہے کہ یہ مٹھی بھر مسلمان ہم پر کس طرح غالب آسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ جب کسی قوم پر اپنے انعامات نازل کرنا چاہے تو اسے بے حساب انعام دیا کرتا ہے۔ بے شک تم حساب کی رو سے یہی سمجھتے ہو کہ ایک شخص دو پر غالب نہیں آسکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا سلوک مسلمانوں سے اس سے بالکل مختلف ہو گا۔ ان کا ایک شخص تمہارے دو پر ہی نہیں بلکہ ان کا ایک آدمی تمہارے دس آدمیوں پر بھی غالب آجائیگا۔ اور فتح و کامیابی کا پرچم لہراتے ہوئے واپس لوٹے گا۔
۱۲۶؎ تفسیر:۔ اس آیت کے متعلق بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے آیا یہ کہ لوگ ایک اُمت تھے یعنی سب نیک تھے پھر نبی آئے اور اختلاف ہو گیا۔ یا یہ کہ لوگ بدتھے اور نبی آئے۔ میرے نزدیک اس کے یہی معنے ہیں کہ لوگ بد تھے اور نبی آئے۔ اس کی دلیل قرآن کریم سے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ نبی لوگوں کی خرابی پر ہی بھیجتا ہے خود اس آیت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ لوگ بد تھے۔ کیونکہ فرمایا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ۔ نبی بشارتیں اور انذار لے کر آئے اور انذار کا ساتھ ہونا بتاتا ہے کہ خدا سے دور لوگ موجود تھے۔ دوسرا ثبوت اسی آیت سے یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔ وہ نبی اس لئے آئے کہ جس بات میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اس میں فیصلہ کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل کے متعلق اختلاف موجو دتھا پس یہ بھی دلیل ہے کہ اُمَّۃً وَّاحِدَۃ’‘ سے یہ مراد نہیں کہ لوگ نیک تھے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً کیوں کہا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ اَلْکُفْرُمِلَّۃ’‘ وَاحِدَۃ’‘ کُفر بھی ایک ہی ملت ہے۔ یعنی اصل الاصول کفر کا یہی ہے کہ خدا سے لوگوں کو دور کیا جائے جس طرح اسلام بھی ملتِ واحدہ ہے۔ یعنی سب اسلامی امتیں ایک ہیں۔کیونکہ ان کے اصول ایک ہیں۔ گو تفصیلِ شرائع میں اختلاف ہو۔ پس مَلَّۃٖ واحدہ کہنے سے مراد انکا اتفاق یا باہمی محبت بتانا مدنظر نہیں بلکہ یہ مد نظر ہے کہ سب کافر ہی کافر تھے نیک لوگ ان میں نہ تھے کیونکہ کفر کے مقابلہ میں دوسری جماعت در حقیقت مومنوں کی ہی ہوتی ہے۔ کافر آپس میں خواہ کتنے ہی مختلف الخیال ہوں پھر بھی اصل غرض جو خدا کا قرب پانا ہے اس کے متعلق سب کا ایک ہی رویہ ہوتا ہے اور سب اپنے اپنے دائرہ میں ایک ہی کام کر رہے ہوتے ہیں یعنی خدا سے لوگوں کو دور کردینا۔
یا یہ کہ کَانَ کے معنے ’’تھے‘‘ کے نہیں بلکہ ’’میں‘‘ کے ہیں۔ اور اس کا یہ مطلب ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اُمَّۃ’‘ وَاحِدَۃ’‘ بنایا ہے۔ یعنی دوسرے حیوانات بھی اُمت ہیں پھر امت ِ واحدہ نہیں ہیں۔ انسان مدنیٰ الطبع ہے اور اس کو آپس میں مل کر رہنا پڑتا ہے اور اس کا لاذمی نتیجہ اختلاف اور شقاق پیدا ہونا ہے۔ بڑی نعمت کیساتھ بڑے خطرات بھی ہوتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کی بدیاںبھی انسان اخذ کر تا ہے۔ جب تمدن کے یہ نقائص بڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نبی بھیجتا ہے جو اختلاف کو دور کر دیں اور ملنے جلنے کی وجہ سے جو اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور ضد کی وجہ سے لوگ اپناپنا دین بنا بیٹھے ہیں اس کی وہ اصلاح کریں۔ اگر کہا جائے کہ یہ معنے ہوتے تو چاہیے تھا کہ کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَتَشَاجَرُوْ وَاخْتَلَفُوْا فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ فَا نے اس امر پر دلالت کر دی ہے کہ پچھلی بات پہلی بات کے نتیجہ میں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اُمَّۃً وَاحِدَۃ ہونے کا نتیجہ نبیوں کی بعثت نہیں ہے۔ اس لئے یہاں لازماً مقدر تسلیم کرنا پڑیگا اور فِیْمَا اخْتَلَفُوْافِیْہِ اس مقدر کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اَلْکُتُب نہیں کہا بلکہ اَلْکِتٰبِ کہا ہے جس میں جنس کتاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہر نبی کو کو ئی نہ کوئی کتاب ضرور دی جاتی ہے خواہ نئی ہو یا پرانی۔ یہ نہیں کہ ہر ایک کو الگ الگ کتاب ملے بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر نبی کو الگ الگ کتاب دی جاتی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ اور تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی اس مضمون کی تائید نہیں کرتی اگر اَنْزَلَ کے لفظ یہ استدلال کیا جائے کہ ہر نبی پر کتاب اُتری ہے تو یہ لفظ تو قرآن میں غیر انبیاء کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ پھر وہاں بھی یہی مراد لینی پڑے گی کہ انہیں بھی کتاب ملی تھی حالانکہ اسے کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے وَقَالَتْ طَّآئِفَۃ’‘ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اَمِنْوْا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّھَارِ وَاکُفْرُ وْآ اٰخِرَہُ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ(آل عمران آیت ۷۳) یعنی اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ مومنوں پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس پر دن کے ابتدائی حصہ میں تو ایمان لے آئو اور اس کے پچھلے حصہ میں اس سے انکار کر دو۔ شاید اس ذریعہ سے وہ بھی مرتد ہو کر اپنے دین کو چھوڑ دیں۔ حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ جو کچھ نازل ہوا وہ مومنوں پر نازل نہیں ہوا تھا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ پس اَنْزَلَ کا لفظ یہ ثابت نہیں کرتا کہ ہر نبی پر مستقل طور پر کوئی کتاب نازل ہوئی ہے اور نہ اَلْکِتَاب کا لفظ ان کے دعویٰ کو ثابت کرتا ہے اگر ہر نبی صاحب کتاب جدیدہ ہوتا تو اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ کہ بجائے اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکُتُبَ کہنا چاہیے تھا مگر خداتعالیٰ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ نبی تو لاکھوں آئے مگر لاکھوں کتابیں نازل نہیں ہوئیں۔
درحقیقت اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر نبی جب بھی مبعوث ہو ا ہے تو کسی نہ کسی کتاب کے ساتھ مبعوث ہوا ہے۔ یعنی وہ اس لئے بھیجا گیا تھا کہ خداتعالیٰ کی کتاب کو دنیا میں قائم کرے۔ یہاں اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ ہر نبی کو کوئی نجئی کتاب دی گئی تھی۔ بلکہ صرف کتاب دیئے جانے کا ذکر ہے۔ اور کتاب پرانی بھی ہوتی ہے اور نئی بھی۔ چنانچہ قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد متواتر انبیاء آتے رہے۔ مگر ان کا کام صرف یہ تھا کہ وہ تورات کی ترویج کریں اور اس کے احکام پر لوگوں سے عمل کروائیں۔ پس یہ عقیدہ کہ ہر نبی ضرور کوئی نئی کتاب لاتا ہے نہ صرف قرآن کریم کے خلاف ہے بلکہ انبیاء کی ایک لمبی تاریخ بھی اس عقیدہ کو واضح طور پر رد کرتی ہے۔
لِیَحْکُمَ بِیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔ میں یَحْکُمَ کی ضمیر غائب کا مرجع اللہ تعالیٰ بھی ہو سکتا ہے۔ اور رسول اور کتاب بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے یا رسول فیصلہ کرے یا کتاب فیصلہ کرے۔ اس سے معلقم ہوتا ہے کہ انبیاء کے آنے سے پہلے بھی لوگوں میں اختلاف موجود ہوتا ہے جسے خدایا اس کا رسول یا اس کی کتاب آکر دُور کرتے ہیں۔ یہ ایک غلط خیال ہے جو لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ انبیاء کے آنے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوتا ہے وہ اختلاف پیدا نہیں کرتے بلکہ اختلاف جو واقعہ ہو چکا ہوتا ہے اسے مٹا کر وحدت پیدا کرتے ہیں۔
وَمَااخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْ ہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰت سے پھر شبہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ اختلاف در حقیقت بعد میں ہی پیدا ہوا۔ پہلے اُن میں کوئی اختلاف نہ تھا مگر یہ درست نہیں ۔کیونکہ مَا جَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰت کے بعد اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْ ہُ رکھ کر بتادیا ہے ۔کہ یہ کتاب کا ذخر ہے ۔ ]پس اس آیت میں پہلے اختلاف کا ذکر نہیں بلکہ ایک اور اختلاف کا ذکر ہے ۔ جو نبیوں کی آمد سے پیدا ہوتا ہے ۔ پہلا اختلاف تو وہ تھا کہ جس کے باوجود اُن کو اُمَۃً وَّاحِدَۃً کہا تھا ۔لیکن اب صداقت کے متعلق اختلاف پیدا ہوا اور دلائل کے آنے کے بعد پیدا ہوا۔اگر یہ کہا جائے کہ اس اختلاف کا تو پہلے ذکر ہی نہیں ۔ پھر اس آیت کا یہاں کیا جوڑ ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت ایک سوال مقدر کا جواب ہے ۔ جو پہلی آیت لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْ افِیْہِسے پیدا ہوتاہے ۔ اور وہ یہ تھا کہ اگر نبیوں کے بعثت کی غرض اختلاف کو مٹانا تھا تو پھر اُن کی بعثت کا کیا فائدہ ہوا انہوں نے تو آکر اور اختلاف پیدا کر دیا اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ یہ اخلاف اور پہلا اختلاف مختلف ہیں۔ پہلا اختلاف اسیا تھا کہ جیسے مختلف بیمار ہو ںاور دوا نہ ہو۔ اور دوسرا ایسا ہے کہ بیمار کو دوا دی جائے اور وہ نہ پیئے ۔پاس پہلا اختلاف مجبوری کا تھا اور اس کی تلافی ضروری تھی اور یہ اختلاف حق کے مقابلہ میں پیدا ہوا ہے ۔ بہر حاکل اب حق تو........آگیا ہے جس کا اگر لوگ چاہیں تو مان لیں پس پہلا اختلاف خرابی ہی خرابی پیدا کرتا تھا اور یہ اختلاف ایسا ہے کہ اس میں ہدایت کی اُمید ہے کینکہ حق موجود ہے ۔ اب اگر اختلاف ہے تو صرف ضد کی وجہ سے ہے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ اختلاف صرف اِلَّا الَّذِیْنَ اوتو ہ کو ہے ۔ یعنی اس تعلیم سے جو ہم نے بھیجی ہے صرف اُن لوگوں کو اختلاف ہے جن کی طرف وہ کتاب آئی ہے یا تعلیم یا نبی آیا ہے ۔جو دوسرے لوگ ہیں اُن کو اِس سے کوئی اختلاف نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ اختلاف اُس نبی یا اُس کتاب یا اس تعلیم کے نتیجہ میں نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر فی الواقعہ وہ تعلیم جو ہم نے بھیجی ہے یا نبی جو بھیجا ہے اختلاف کا موجب ہوتے تو جو لوگ بے تعلق ہیں مثلاً غیر اقوام جو اُن کی مخاطب نہیں یا بعد میں آنے والے لوگ ہو کیوں انکی تعلیم کی تعریف کرتے ۔ واقعہ میں اگر دیکھا جائے تو نبیوں کی مخالفت کا زمانہ جب گذر جاتا ہے ۔ تو لوگ اُن کی تعلیم کی بری تعریف کرتے ہیں۔جیسے اب مسیحؑ کی تعلیم کی لوگ تعریف کرتے ہیں ۔ ابراہیم ؑاور موسیٰ ؑ اور ذرتشت ؑ کی تمام اقوام تعریف کرتی ہیں ۔ حالانکہ اُس کتاب کی لوگ مخالفت کرتے ہیں ۔جس میں وہ مخاطب ہوں ۔پس معلوم ہوا کہ اصل وجہ تعلیم یا نبی نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بات ہوتی ہے کہ ہم اس کی اطاعت کس طرح کریں ۔ یا ان احکام کو مان کر ہمارے آرام میں خلل آئیگا ۔جب دوسرے لوگ مخاطب ہوں تو خوب تعریف کرتے ہیں کہ واہ وہ! کیا اچھی تعلیم ہے۔
تیسری بات بَغْیًا بَیْنَھُمْ میں یہ بیان فرمائی کہ یہ اختلاف بھی درحقیقت اس کتاب کی وجہ سے نہیں پیدا ہوا بلکہ درحقیت پہلے اختلاف کا نتیجہ ہے ۔ نبی آنے سے پہلے جو شرکشی اور عداوت آپس میں لوگوں کی پیدا ہو چکی تھی وہی اس تعلیم کی مخالفت پر لوگوں کو آمادہ کر رہی ہے ۔ یا یہ سوال ہے کہ اس نبی کو ہم کیونکر مان لیں ؟ یا یہ کہ فلاں نے اِسے مان لیا ہے ۔ اب ہم کس طرح مان لیں ۔ یا یہ فلاں عقیدہ کی جو ہمارے دشمنوں کا ہے تائید کرتا ہے ۔ اس کو مان لیں تو اُن کے سامنے ہماری نظیریں نیچی ہو جائیں ۔جیسے حنفی کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہابیوں کی فلاں فلاں باتوں کی تائید کی ہے ۔ اس لئے ہم انہیں نہیں مانتے ۔اِسی طرںوہابی کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے حنفیوں کی بعض باتوں کی تائید کی ہے ۔ اس لئے ہم ااپ کو قبول نہیں کر سکتے ۔ پس نبی کو ماننے کی وجہ وہ عداوت ہوتی ہے جو اس نبی کے آنے سے پہلے اُن میںموجود ہوتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ نبی کے آنے کے بعد ایک جماعت ایسی پیدا ہو اجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے والی اور اس کے احکام پر عمل کرنے والی ہوتی ہے ۔ اس لئے گو اس کے آنے سے بھی اختلاف نظر آتا ہے ۔ لیکن روحانی نگاہ رکھنے والا جانتاہے کہ نبی کے آنے سے اختلاف کی قوت کم ہو جاتی ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ سے دور رہنے والے لوگ گھٹ جاتے ہیں اور ایک بڑی جماعت ایسی پیدا ہو جاتی ہے جو خدائے واحد کی پرستار ہوتی ہے ۔غرض اختلاف اس کتاب کے سبب سے نہیں بلکہ پہلے اختلاف کے باعث لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیںجو ان لوگوں کے اندر پہلے سے موجود تھا ۔یا یہ کہ وہ بَغْیْ جو بَیْنَھُمْ ہے ۔ یعنی ساری کی ساری اُنہی کے قبضہ میں ہے ۔ ہمارے رسولوں اور اُس کے اتباع میں اس کا کوئی حصہ نہیں وہ اس اختلاف کا باعث ہے اس سے الزام اور بھی سخت ہو جاتا ہے کہ یہ بغی کرتے ہیں باوجود اس کے کہ دوسری طرف سے اُن کی خیر خواہی اور ترقی کے سامان ہو رہے ہیں۔
چ۔ اس میں چوتھا جواب دیا ہے کہ اختلاف کا الزام نبیوں پر نہیں آسکتا اور وہ یہ کہ اُن کے آنے سے پہلے تو دیکھو کہ کوئی بھی حق کا ماننے والا نہ تھا ۔مگر اب ایک پارٹی تو حق کو مانتی ہے ۔پس اختلاف درحقیقت مٹ گیا پیدا نہ ہوا ۔ کیونکہ پہلے مثلاً ایک لاکھ
اَمْ ھَسِبْتُمْ
نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْب’‘O
آدمی خدا تعالیٰ کے متعلق اٹکل پچو باتیں بنا رہے تھے ۔ اب ایک ہزار نے مان لیا اور ننا نوے ہزار نے نہ مانا تو اختلاف کم ہوا یا زیادہ۔ ایک ہزار آدمی اس خیالی اختلاف سے نکل کر یقین اور ثوق کے مقام پر کھڑے ہوئے جہاں سے اللہ تعالیٰ کے جلال کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔پس اس آیت کے تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس چیز کی طرف ہدایت دی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا یعنی جس کا ذکر وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوتُوْہُ میں ہوا تھا ۔ اخْتَلَفُوْ افِیْہِ مِنَ الْحَلِقْ میں فِیْہِ کی جوضمیر ہے الْحَلِقْاُس کی صفت ہے ۔ یعنی اُس چیز کی طرف جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور جس کی صفت یہ ہے کہ وہ حق ہے یا حق میں سے یہ ۔ یا مِنْ بیان کیلئے ہے اور معنے یہ ہیں کہ ہدایت کی اُس چیز کی طرف جس کی نسبت لوگوں نے اختلاف کیا تھا حالانکہ وہ حق تھی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ پہلے ہی مومن تھے تو ھَدَی اللّٰہُ کے کیا معنے ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی پچھلی بات کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ نام لے لیا کرتے ہیں جیسے کہتے ہیں یہ بادشاہ جب پیدا ہوا تو یوں ہوا ۔ حالانکہ وہ پیدائش کے وقت بادشاہ نہیں ہوتا۔ یا کہتے ہیں یہ عالم جب سول میں پڑھنے گیا ۔ پس الَّذِیْنَ اٰمِنُواُن کا موجودہ نام ہے جس کو پرانے واقعہ کو دہراتے وقت قارم رکھا ۔تاکہ اُن کا احترام قائم رہے اور اُن کی طرف کفر کسی وقت بھی منسوب نہ ہو۔ یا یہ کہ استعداد مخفی جو ُن کے اندر تھی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ا نہیں الَّذِیْنَ اٰمِنُو کہا گیا ہے ۔یعنی وہ جو مومن بننے والے تھے اور اس کیلئے سامان بہم پہنچا رہے تھے۔
فَھَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمِنُوْ الِمَا اخْتَلَفُوْ افِیْہِ مِنَ الْحَلِقمیں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگوں نے کتاب الٰہی کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن سب وعدوں کو جو اس نبی کے ذریعہ سے اپنی قوم کے متعلق مٹھی بھر مومنوں کے حق میں پورا کر دیا اور مومنوں کو دو کامیابیاں دے دیں جو سب قوم کے لئے مقدر تھیں۔ اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں بھی اشارہ ہے کہ ہر شخص کے دو گھر ہیں ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں جب کوئی ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ ظالم کا جنت کا گھر مومن کو اور اس کا دوذخ کا گھر کافر کو دے دیتا ہے۔ کفار نے چونکہ بلاوجہ کتابِ الہٰی کی مخالفت کی اور اس کے سبب سے مومنوں کو سخت دُکھ برادشت کرنے پڑے خداتعالیٰ نے حکم دے دیا کہ وہ انعامات جو ساری قوم کے لئے مقدر تھے وہ مٹھی بھر مسلمانوں کو دے دیئے جائیں اور باقی قوم کو بوجہ ظالم ہونے کے ان سے محروم کر دیا جائے۔
۱۲۷؎ حل لغات:۔ مَسَّتْھُمْ: مَسَّ الشَّیئَ کے معنے ہیں لَمَسَہ‘ وَاَفْضٰی اِلَیْہِ بِیَدِہٖ مِنْ غَیْرِ حَائِلٍ کسی چیز کو بغیر کسی درمیانی روک کے اس نے چُھوآ (اقرب)
بَاْسَآء: کے معنے ہیں اَلشِّدَّۃُ سختی وَاِسْم’‘ لِلْحَرْبِ وَالْمُشَقَّۃِ وَالضِّرْبِ۔ اور بَاْسَاء کے لفظ کا اطلاق جنگ اور مشقت اور جسمانی تکالیف پر بھی ہوتا ہے۔
ضَرَّآئُ کے معنے ہیں اَلذَّمَانَۃُ وَالشِّدَّۃُ قحط۔ اَلنَّفْصُ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ۔ مالی اور جانی نقصان۔
تفسیر:۔ اس آیت میں ان ابتلائوں کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں پر آنے والے تھے۔ چونکہ اس سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ جب دنیا پرضلالت چھا جاتی ہے تو اس وقت خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی آتا ہے جس کی لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ اس لئے اب فرماتا ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ بغیر ابتلائوں کے تم ترقی کر جائو گے۔ تمہاری ترقی ابتلائوں کے آنے پر ہی موقوف ہے جیسا کہ پہلوں کی ترقی کا باعث بھی ابتلاء ہی ہوئے۔ چنانچہ اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَسَّھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآ عُ وَزُلْزَلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ‘ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ ا نہیں مالی مشکلات بھی پیش آئیں اور جانی بھی اور وہ دوسرے پائوں تک ہلادیئے گئے اور ان پر ادقدر ابتلاء آئے کہ آخر اس وقت کے رسول اور مومنوں کو دُعا کی تحریک پیدا ہو گئی اور وہ پکار اُٹھے کہ اے خدا تیری مدد کہاں ہے۔ اس آیت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے پاک بندے بھی کسی وقت اللہ تعالیٰ کی مدد سے ایسے مایوس ہو جاتے ہیں کہ انہیں مَتٰی نُصْرُ اللّٰہِ کہناپڑتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس مایوسی کا تصور بادی النظر میں پیدا ہوتا ہے اس سے انبیاء اور ان پر ایمان لانے والے کلیۃً پاک ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّہ‘ لَایَاْیَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ(یوسف آیت ۸۸) کہ صرف کافر ہی خداتعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب مَتٰی کا لفظ بولیں تو اس سے مراد مایوسی نہیں ہوتی بلکہ تعیین کے لئے ایک درخواست ہوتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ فلاں بات کے لئے ایک وقت مقرر فرماد یا جائے۔ ایسا ہی اس جگہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ کے یہ معنے نہیں کہ وہ مایوسی کا شکار ہو کر ایسا کہتے ہیں بلکہ درحقیقت ان الفاظ میں وہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ الہٰی اس بات کی تعیین فرمادی جائے کہ وہ مدد کب آئیگی ۔ گویا مزید اطمینان کے لئے وہ آنے والی نصرت سے وقت کی تعیین کروانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد جلد نازل ہو۔ یہ دُعا کا ایک موثر طریق ہے اور اس میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ ان پر اسقدر ابتلاء آئے کہ وہ ہلادیئے گئے اور ان میں دُعا کی تحریک پیدا ہو گئی۔ اور ابتلائوں کی بڑی غرض بھی ہی ہوتی ہے۔ کہ خداتعالیٰ سے تعلق مضبوط ہو جب مومنوں کو دعا کی تحریک ہوتی ہے تو خداتعالیٰ آسمان سے اپنی نصرتِ نازل فرما دیتا ہے۔ اور ان کے مصائب کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
مگر اس کے علاوہ حتی کے معنے ’’گی‘‘ کے بھی ہوتے ہیں اور یہ معنے کُتب نحو اور قرآن کریم سے ثابت ہیں۔ مغنی اللبیب میںلکھا ہے ۔ وَمُرَاوِفَۃُ کَیِ التَّعْلِبْلِیَّۃِ حَتّٰی یعنی حَتّٰی کے معنے اس ’’گی‘‘ کے مترادف بھی ہوتے ہیں جو کسی بات کی وجہ بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی اس حتیٰ سے پہلے جو بات ہوتی ہے وہ بعد میں آنے والی بات کے لئے بطور سبب کے ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی حتی ان معنوں میں آیا ہے ۔ چنانچہ سورۃ منافقون میں آتا ہے۔ ھُمُ الَّذِیْنَ یَقْولُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلیٰ مَنْ عِنْدَ رُسُوْلِ اللّٰہِ حَتَّی یَنْفَضُّوْا(آیت ۸)یعنی جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو۔ تاکہ وہ بھاگ جائیں۔ نحوی اس کی یہ مثال بھی دیتے ہیں کہ اَ سْلِمْ حَتّٰی تَدْ خُلَ الْجَنَّۃَ یعنی فرمانبرداری کرتا کہ تو جنت میں داخل ہو جائے۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ زلزلہ جو کفار کے ہاتھوں سے ہم نے پیدا کیا اس کی غرض ہی یہ تھی کہ ہمارے بندے ہم سے مانگیں اور ہم ان کو دیں۔ پس مانگنے کی طرف توجہ پھیرنے اور اپنی قوتِ فضل کو ظاہر کرنے کے لئے اس وقت تک ہم چُپ رہے جب تک کہ ان کے دل میں دعا کی زور سے تحریک پیدا نہ ہوئی۔ اور یہ تحریک ہم نے خود کروائی تاکہ ایک طرف ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھے اور دوسری طرف جب اللہ تعالیٰ کی نصرت معجزانہ طور پر آئے تو ان کے ایمان پڑھیں اور کفار میں سے جو غور کرنے والے ہوں انہیں ہدایت حاصل ہو۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ جب یہ غرض پوری ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرمادیتا ہے کہ لو اب ہماری مدد آگئی۔
ابتلائوں کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ خداتعالیٰ انسان کی ہمت عیکھ کر ابتلا ء ڈالتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایسے ابتلاء انسان پر ڈالے جن کے برداشت کرنے کی اس میں طاقت ہی نہ ہو۔ ہاں انسان ایسے ابتلائوں میں ضرور ڈالا جاتا ہے جن کے متعلق وہ غلطی سے خیال کرلیتا ہے کہ میں ان کو برداشت نہیں کر سکوں گا۔لیکن اس کا یہ خیال درست نہیں ہوتا وہ ان کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے فرما دیا ہے۔ کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وْسْعَھَا یعنی خداتعالیٰ کسی پر ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جس کے اُٹھانے کی اس میں طاقت نہ ہو۔ بوجھ ہمیشہ وہی ڈالا جاتا ہے جس کے اُٹھانے کی انسان میں طاقت ہوتی ہے۔ سوائے اس کے کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کا منشا ہو۔ ورنہ جو ابتلاء کسی جماعت کی ترقی کے لئے ہوتے ہیں وہ طاقت برداشت سے باہر نہیں ہوتے ہاں مومن بعض دفعہ خیال کر لیتا ہے کہ وہ اس کی طاقت سے بلا ہیں۔ مگر یہ اس کی غلطی ہوتی ہے جب مومن ایک ابتلاء کو برداشت کر لیتا ہے تو اُسے پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کا ایمان کتنا مضبوط ہے پھر اور رنگ میں اس پر ابتلاء آتا ہے اور وہ اُسے بھی برداشت کر لیتا ہے اور اس کے دل میں کسی قسم کا شکوہ پیدا ہونے کی بجائے شکرو امتنان کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اتنی طاقت دی کہ میں نے اسے برداشت کر لیا تب اس کا ایمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے اور وہ اس سے بڑے بڑے ابتلاء برداشت کر نے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ غرض جوںجوں انسان دلیر ہوتا جاتا ہے آگے بڑھتا جاتا ہے اس طرح ایک تو اسے اپنے ایمان کی پختگی کا پتہ لگ جاتا ہے ۔ دوسرے قربانیوں کے میدان میں اُسے دوسروں سے آگے پڑھنے کا موقعہ مل جاتا ہے اور وہ ترقی کر جاتا ہے۔
غرض ابتلاء کے دو فائدے ہوتے ہیں ۔ اول یہ کہ انسان کو اپنی حالت کا پتہ لگتا ہے کہ خداتعالیٰ کی راہ میں اس کی جان کس قدر تکلیف اُٹھا سکتی ہے۔ دوسرے اس میں آگے قدم بڑھانے کی جرات پیدا ہوتی ہے۔ ان ابتلائوں کا آنا ایسا ضروری ہے کہ نبیوں کی کوئی جماعت ایسی نہیں ہوئی جس پر ابتلاء نہ آئے ہوں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ وہ جنت جس کی وسعت کا اندازہ بھی تم نہیں لگا سکتے تمہیں یونہی مل جائیگی یا وہ دنیوی کامیابیاں جن کا تمہیں وعدہ دیا جا رہا ہے بغیر قربانیوں کے تمہیں مل جائیگی اور تم پر وہ حالت نہیں گذرے گی جو پہلوں پر گذرتی رہی۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ وہ حالت ضرورآئیگی۔ اس لئے یہ مت خیال کرو کہ تم آسانی سے کامیاب ہو جائو گے۔ جب تک تم ان حالتوں میں سے نہیں گذرو گے جن میں سے پہلے لوگ گذرے اس وقت تک تمہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ انہین بڑی بڑی تکالیف پہنچی تھیں جسمانی بھی اور مالی بھی۔ انہیں اپنی جائیدادیں چھوڑنی پڑیں ۔ رشتہ داروں کو ترک کرنا پڑا۔ فاقے کرنے پڑے۔ ماریں کھائیں۔ قتل ہوئے۔ غرض وہ کئی رنگ میں ہلائے گئے جس طرح زلزلہ سے عمارت کبھی دائیں طرف جھکنے لگتی ہے اور کبھی بائیں طرف اسی طرح دیکھنے والے ان کے متعلق یہی سمجھتے تھے کہ یہ اب گِرے کہ گِرے حتی کہ ان کی تکالیف بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئیں کہ دشمن نے یہ خٰال کر لیا کہ اب یہ گِر ہی گئے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے رسول اور مومنوں نے دعائیں کرنی شروع کیں کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ اے خدا! ابتالء اب اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ کی مدد آئے اور ہمیں کامیابی عطا کرے۔
مَتٰی نُصْرُ اللّٰہِ کے لفظی معنے چونکہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئیگی۔ اس لئے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان کو خداتعالیٰ کی مدد کے متعلق نعوذ باللہ شبہ پیدا ہو گیا تھا۔ کہ شاید وہ آئے یا نہ آئے۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ خدا یا تیری مدد کب آئیگی۔ مگر یہ صحیح نہیں اول تو مَسَّھُمْ میں مَسَّ کا لفظ دومعنوں میں استعمال ہوا ہے ۔مگر یہ کہ عملاً ان کو مشکلات پہنچیں اور دوسرے یہ کہ وہ مشکلات دل پر اثر کرنے والی نہیں تھیں صرف سطحی تھیں ان کے دل مضبوط تھے پس جب مشکلات کے باوجود وہ بہادر دل تھے۔ تو ان کے متعلق کسی مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ دوسرے سوال کبھی التجاء کا رنگ بھی رکھتا ہے انسان کسی سے پوچھتا ہے کہ یہ بات آپ کب کرینگے۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ نہیں کرینگے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ کردیں۔ اسی طرح مجسٹریٹ سے جب پوچھا جاتا ہے کہ میری باری کب آئے گی تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ کبھی نہیں آئے گی۔ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آجئے۔
بدر کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ اے خدا! اگر یہ مختصر سا گروہ بھی ہلاک ہو گیا تو دنیا میں تیری عبادت کون کریگا۔ تو اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ خداتعالیٰ پر یقین نیہں تھا بلکہ اس رنگ میں دُعا کر کے آپؐ نے خداتعالیٰ کی غیرت کو برانگیختہ کیا۔ اسی طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے جب صلیب پر لٹکتے وقت کہا کہ ایلی ایلی اسبقتنی یعنی اے خدا! چاہیے تو یہ تھا کہ اس مصیبت کے وقت تو میری مدد کر کے آتا لیکن تو تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ تو آپ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ خداتعالیٰ مصیبت کے وقت انہیں واقعہ میں چھوڑ گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ میرا دل گھبرا رہا ہے آپ جلدی میری مدد کے لئے آجائیں پس اس رنگ میں جب دُعا کی جاتی ہے تو قبولیت دُعا پر حدِم یقین کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ خداتعالیٰ کو غیرت دلانے کے لئے ہوتی ہے اسی طرح جب مومن کہتے ہیں مَتٰی نَصْرُ اللّٰہ اے خدا! تیری مدد اور نصرت کب آئیگی تو خداتعالیٰ کہتا ہے سُنو۔ میری مدد آپہنچی۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے لئے تشریف لے گئے تو مکہ والوں کو خیال تک بھی نہیں تھا کہ آپ ان پر حملہ آور ہونگے۔ ابوسفیان خود آپ سے مدینہ میں مل کر آرہا تھا۔ جب لوگوں نے آپ کا لشکر دیکھا تو بعض نے کہا کہ یہ لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا۔ اس پر ابوسفیان نے کہا۔ تم پاگل تو نہیں ہو گئے میں ابھی مدینہ سے آرہا ہوں۔ وہاں کوئی لشکر تیار نہیں تھا۔ مگر اگلے ہی چار پانچ منٹ میں مسلمان آس کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ابوسفیان کو گرفتار کر لیا اور دوسرے دن مکہ فتح ہو گیا۔ غرض خداتعالیٰ کی نصرت اچانک آتی اور مومنوں کو کامیاب کر دیتی ہے۔ عیسائیوں نے تین سو سال تک بڑے بڑے مصائب برداشت لیکن ایک دن انہوں نے سُنا کہ روم کا بادشاہ عیسائی ہو گیا ہے اورآئندہ سے ملک کا مذہب عیسائیت ہو گا اور اس اعلان کے ساتھ ہی ان کے تمام مصائب ختم ہو گئے۔
غرض مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ میں یہ بتایا ہے کہ مومن دُعائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ الہٰی ابتلاء بڑھ گئے ہیں۔ اب تیری مدد
یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا
بِہٖ عَلِیْم’‘O
آجائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب’‘۔ سُنو! خدا کی مدد قریب ہی ہے یعنی جب ابتلاء تمہاری ترقیاب کے لئے آئیں تو پھر تمہیں تباہ ہونے کا ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہارے نفسوں میں خرابی ہے اور تم جانتے ہو کہ خداتعالیٰ تمہیں سزا دینا چاہتاہے تو پھر یقینا تمہارے لئے مدد نہیں آئیگی۔ لیکن اگرتمہارے نفسوں میں کوئی خرابی نہیں تمہارا ایمان مضبوط ہے تم تقویٰ کی راہ پر قدم مارہے ہو۔ وساوس پر تمہیں قابو حاصل ہے تو ابتلاء تمہارے لئے خوف و خطر کا باعث نہیں ہوسکتے۔ درحقیقت ایک سچے مومن پر جب ابتلاء آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس ابتلاء کے ساتھ ہی خداتعالیٰ کی مدد بھی آرہی ہے۔ مولانا رومؒ نے اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے کہ
؎ ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنجِ کرم بنہادہ است
یعنی جب کسی قوم پر کوئی آزمائش کا وقت آتا ہو خداتعالیٰ کی طرف سے اس کے نیچے انعامات کا ایک بہت بڑا خزانہ مخفی ہوتا ہے۔
پس ابتلاء کسی خطرہ کا موجب نہیں ہوتے بلکہ ابتلاء کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ اور ترقی عطا کرے گا۔ ڈر اور خوف صرف اپنے نفس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پس ہمیشہ اپنے نفس پر غور کرتے رہنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آیا اس میں کوئی ایسی بات تو پیدا نہیں ہو گئی جو تباہی کا باعث بن جائے۔ اگر اس میں وساوس پیدا نہیں ہوتے اگر ایمان مضبوط ہے اور دل شکر اور امتنان کے جذبات سے پر ہے تو انسان کو خوش ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایسی حالت میں ابتلاء بہت بڑے انعامات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ابتلاء آنے پر دل میں وساوس پیدا ہوں اورایمان میں کمزوری محسوس ہو تو سمجھ لو کہ یہ ابتلاء ترقی کا باعث نہیں بلکہ ہلاکت کا باعث ہیں۔ غرض اصل درحقیقی ایمان وہی ہوتا ہے جو ابتلائوں میں سے گذرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اسی کے نتیجہ میں ابدی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
۱۲۸؎ تفسیر:۔ چونکہ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ پہلے لوگوں پر بھی مالی اور جانی مشکلات آئی تھیں اور وہی ان کی قومی ترقی کا باعث ہوئیں جیسا کہ مَسَّھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ اس لئے جب صحابہؓ نے یہ بات سنی تو ان کے دل بھی ان قربانیوں کے لئے بے تاب ہو گئے اور انہوں نے بے اختیار ہو کر روحانی ترقیات کے حصول کیلئے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! اگر قومی ترقی کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں بھی بتایا جائے کہ ہم کیا خرچ کریں تاکہ ہمارا قدم بھی عشق کے میدان میں کسی دوسرے سے پیچھے نہ رہے۔
دوسراسوال جانی قربانیوں کے متعلق ہو سکتا تھا۔ سو اس کا جواب کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ میں دیا گیا ہے جس سے قرآن کریم کی نہایت اعلیٰ درجہ کی ترتیب پر روشنی پڑتی ہے۔
اس آیت کے متعلق لوگ عام طور پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ سوال کچھ ہے اور جواب کچھ ہے ۔ پوچھا تو یہ گیا ہے کہ کیا خرچ کریں؟ اور جواب یہ دیا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی اپنے اموال میںسے خرچ کرو۔ وہ فلاںفلاں کو دو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض قلتِ مدبر کی وجہ سے ہے سوال کا جواب آیت میں موجود ہے جب اس نے فرمادیا کہ جو کچھ بھی تم اچھے مال سے خرچ کرو تو اس میں سائل کا جواب مکمل آگیا۔ اول یہ کہ کوئی حد بندی نہیں ۔ جتنے کی توفیق ہوا تنا خرچ کرو۔ دوم یہ ہے کہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ جو خرچ کرو وہ طیب مال ہو۔ جو لوگ حرام کماتے ہیں اور اس میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے سمجھتے یہں کہ ہم نے اپنے گناہ کا کفارہ کردیا وہ غلطی پر ہیں۔ خداتعالیٰ ایسے ہی مال کو قبول کرتا ہے جو اچھا۔۔۔۔۔۔ ہو۔ سوم یہ کہ صرف حلال نہیں دینا بلکہ طیب دینا ہے یعنی جس مال کو قبول کرنا اس شخص پر گراں نہ گذرے جس کو مال دیا جائے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ خیر کے معنے مال کے ہیں۔ اچھے مال کے معنے کہاں سے نکالے گئے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خیر کے اصل معنے بہترین شے کے ہیں۔ اور مال کو اسی صورت میں خیر کہتے ہیں جب کہ وہ طیب ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔ مفرادتِ راغب میں ہے ۔ وَقَالَ بَعْضپ الْعُلَمَائِ لَا یُقَالُ لَلْمَالِ خَیْر’‘ حَتّٰی یَکُوْنَ کَثِرًا وَمِنْ مَکَانٍ طَیِّبٍ یعنی مال کو خَیْراسی صورت میں کہیں گے جبکہ وہ زیاد ہو اور پاک ذرائع سے حاصل کیاگیا ہو۔ اور خود طیب ہو پس خیر کہنے سے یقینا قرآن کریم نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ طیب اموال میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔اگر کہا جائے کہ اگر کوئی شخص حرام کماتا ہو لیکن صدقہ طیب مال سے دے تو کیا یہ اس حکم کے مطابق ہو گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تھوڑی سی گندگی بھی بہت سے پاکیزہ شے کو گندہ کر دیتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص رشوت لیتا یاچوری کرتا یا ظالم سے دوسرے کا مال لیتا ہے تو خواہ اس قسم کا مال تھوڑا ہو اس کا سب مال گندہ ہو جائیگا اور وہ اس حکم کو پورا کرنے والا نہ ہوگا۔ غرض سوال کا مکمل جواب اسی آیت میں آگیا۔ ہاں اس سے زائد مضمون بھی بتا دیااگر خرچ کرو تو کہاں کہاں خرچ کرو۔ گویا اس طرف اشارہ کیا کہ خرچ کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ صحیح جگہ خرچ کرنا مشکل ہے۔ پس جو خرچ کرو۔ احتیاط سے کرو اور مستحقین کو دو۔ یہ قرآنی کمال ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں وسیع مضمون بیان کردیتا ہے۔ دیکھو یہاں کتنے مختصر لفظوں میں سوال کا جواب بھی دے دیا۔ یہ بھی بتا دیا کہ مال حلال دو(طیب میں حلال کا مفہوم بھی شامل ہے) اور یہ بھی کہ حلال مال طیب بھی ہو۔ یہ نہیں کہ ٹوٹی ہوئی جوتی ہو جو کسی کام کی نہیں دیدی بیشک وہ اس کا مال ہے۔ بے شک اس کا دینا اسے حلال سے مگر وہ طیب نہیں۔ کیونکہ جسے دی گئی ہے اس کے کام کی نہیں۔ یا مثلاً ایک بھوکا کھانا مانگنے آیا ہے گھر میں کھانا تیار ہے مگر اُسے آتا دے دیا۔ یہ مال بھی ہے حلا ل بھی ہے۔ مگر بھوکے کی ضرورت کو پورا نہیں کرات۔ طیب یہ ہے کہ خود کم کھائے اسے پکا ہوا کھانا دے جسے وہ فوراً کھا سکے۔ یہ سب کچھ بتا کہ یہ بھی بتا دیا کہ فلاں فلاں جگہ مال خرچ کرنا زیادہ مناسب ہے۔ سبحان اللہ کیا معجزانہ اعجاز ہے۔ قرآن مجید میں ایسی مثالیں اور بھی ہیں کہ سوال کا جواب دے کر زائد مضمون بتا دیا ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قسم کا کلام فرماتے تھے۔ آپ سے کسی نے پوچھا کہ سمندر کا پانی کے بارہ میں کیا حکم ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا ھُوَ الطَّھُوْرُ مَائُ ہ‘ وَ الْحِلُّ مَیْتَتُہ‘۔اس کاپانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے یعنی سمندری جانور کو ذبح کرنے کی شرط نہیں۔ جیسے مچھلی، اب دیکھو یہاں سوال کا جواب بھی دیا ہے اور زائد مضمون بھی بتا دیا ہے۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کیا خرچ کرنے کے الفاظ سے صدقہ کے اقسام کا دریافت کرنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ یعنی ہمارا خرچ کرنا کس کس موقعہ اور کن کن لوگوں کے لئے ہو۔ اور اس جگہ غالباً یہی مراد ہے۔ کیونکہ کمیت کے متعلق سوال آگے آتا ہے ۔ مَاذَا اسے سوال کبھی اُس چیز کے متعلق کیا جاتا ہے اور کبھی اس کی صفات کے متعلق۔ نحوی لکھتے ہیں کہ صفات کے متعلق صرف ذوی العقول کے بارہ میں سوال کیا جاتا ہے۔لیکن یہ حد بندی بالوجہ معلوم ہوتی ہے میرے نزدیک اس جگہ پوچھنے والا یہ نہیں پوچھتا کہ صدقہ کس چیز کا ہو۔ بلکہ یہ پوچھتا ہے کہ صدقہ کی صفات کیا ہوں۔ سوا للہ تعالیٰ نے جواب دے دیا کہ معین نہیں ہر اچھی چیز خرچ کرو۔ یعنی طیب مال سے ہو اور جتنی توفیق ہو اس قدر دیا جائے اور ساتھ ایک بات زائد بتا دی کہ تم اپنے ایمان یا اپنی حالت کے ماتحت جو کچھ خرچ کرو۔ یہاں یہاں خرچ کرو۔
پھر فرمایا وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍفَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْم’‘۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے تم کسی ایک نیکی پر حصر نہ کرو۔ بلکہ ہر قسم کی نیکیاں بجا لائو۔اور ہر خیر اور برکت کا دروازہ اپنے اوپر کھولنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ تمہارے سامنے ایک لامتناہی زندگی ہے جس میں تمہاری روح نے قربِ الہٰی کی باریک درباریک روہوں پر چلنا ہے ۔ پس کس ایک یا چند نیکیوں پر اکتفاء نہ کرو۔ بلکہ خیر میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ اور اس امر پر یقین رکھو کہ ایک علیم ہستی تمہاری ہر حرکت اور سکون کو دیکھ رہی ہے۔ وہ تمہیں دنیا و آخرت میں اس کا بہترین اجر دیگی۔
۱۲۹؎ تفسیر:۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ صحابہؓ لڑائی کو اس لئے نا پسند کرتے تھے کہ وہ نعوذباللہ بُزدل تھے۔ بلکہ ان کی ناپسندیدگی کہ وجہ صرف یہ تھی کہ مومن صلح پسند ہوتا ہے اور اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ لڑائی نہ ہو اور صلح سے فیصلہ ہو جائے اور اگر وہ اپنے دشمن سے لڑتا ہے تو مجبوراً لڑتا ہے۔ صحابہؓ بھی دل سے صلح جوتھے اور وہ چاہتے تھے کہ اگر کُشت و خون کے بغیر یہ فتنہ دب سکے تو دب جائے مگر انہیں مجبوراً لڑائی لڑنی پڑی۔ پس یہ صحابہؓ کی تعریف ہے نہ کہ ان کی مذمت۔ یہ ان کی بُزدلی نہیں بلہ یہ قابل تعریف امر ہے کہ باوجود دشمنوں کے شرارتوں کے وہ یہی چاہتے تھے کہ کہ اگر صلح سے فیصلہ ہو جائے تو اچھا ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ تم تو نہیں چاہتے تھے کہ لڑو۔ حالانکہ دشمن تم پر ظلم پر ظلم کر رہا تھا۔ اور تمہیں مار رہا تھا مگر میں جانتا تھا کہ یہ دشمن بغیر لڑائی کے باز آنے والے نہیں۔ اس لئے اب ان کی اصلاح کا یہی ذریعہ ہے کہ ان سے لڑا جائے اور انہیں انکے کئے کا مزا چکھایا جائے۔
عیسائیوں نے آیت سے دھوکا کھاتے ہوئے اعتراض کیا ہے کہ مسلمان چونکہ لڑائی سے ڈرتے تھے اس لئے معلوم ہوا کہ ہو بزدل اور ڈر پوک تھے۔ مگر صحابہؓ کو بزدلی کا طعنہ دینے والے عیسائی یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے اپنے حواری کیسے بہادر اور دلیر تھے اور انہوں نے مسیح کی گرفتاری کے وقت کیسی جرات کا مظاہرہ کیا۔ انجیل گواہ ہے کہ کوئی ایک حواری بھی ایسا نہیں نکلا جس نے دلیری سے مسیح کا ساتھ دیا ہو بلکہ ایک حواری نے آپ پر تین دفعہ *** کی اور باقی سب اُس انتہائی نازک گھڑی میں آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ ایسے با ایمان اور دلیر حواریوں کو مقدس قرار دینے والے عیسائی اگر صحابہؓ پر اعتراض کریں تو ان کی عقل پر تعجب آتا ہے پھر عیسائیوں کی یہ ایک عجیب عادت ہے کہ صحابہؓ کے لڑائی پر جانے کا ذکر ہو تو بھی اعتراض کرتے ہیں اور نہ جانے کا ذکر ہو تب بھی اعتراض کرتے ہیں۔ جہاں غنیمت کا ذکر آتا ہے وہاں کہنے لگ جاتے ہیں کہ مسلمان بڑے لالچی تھے مال کی لالچ کے لئے لڑتے تھے اور اس موقعہ پر لکھتے ہیں کہ وہ بڑے بزدل تھے۔ لڑائی سے ڈرتے تھے حالانکہ اگر ان کی لڑائی لوٹ مار کے شوق کے لئے تھی تو پھر کراہت کیسی اور اگر کراہت تھی تو پھر شوق کیسا۔ اصل بات یہ ہے کہ غلط معنے کر کے انسان اضداء میں پھنس جاتاہے۔ بات وہی ہے جو میں نے بتائی ہے کہ مومن صلح پسند ہوتا ہے اسے اگر مجبور کیا جائے تو وہ لڑتا ہے ورنہ وہ یہی پسند کرتا ہے کہ لوگوں کی جانیں ضائع نہ ہوں۔
پھر فرماتا ہے۔ عَیسٰٓی اَنْ تَکْرَ ھُوْ ا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْر’‘ لَّکُمْ وَسَعٰٓ اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَر’‘ لَّکُمْ درحقیقت انسانی علم اور سمجھ نہایت ہی محدود ہے اور ان دونوں کے محدود ہونے کی وجہ سے انسان بعض دفعہ ایک بات کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے۔ حالانکہ وہ اس کیلئے مضر ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ ایک بات کو اپنے لئے مضر خیال کرتا ہے حالاکہ وہ اس کے لئے مفید ہوتی ہے اور دونوں کے پیچھے یا جذبہ محبت کا ناجائز استعمال کام کر رہا ہوتا ہے یا جذبہ نفرت کا ناجائز استعمال کام کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی بعض دفعہ تو شدید محبت کی وجہ سے وہ کسی چیز کے مضرات کو نہیں دیکھ سکتا اور بعض دفعہ شدید نفرت کی وجہ سے وہ دوسری چیز کے حسن کو دیکھنے سے قاصر رہتا ہے اور وہ یقینی طور پر کسی امر کے متعلق یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ آیا وہ میرے لئے مفید ہے یا مضر۔ اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض دفعہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو لیکن حقیقتاً وہ تمہارے لئے مفید ہوتی ہے اور بعض دفعہ تم ایک چیز کو مفید خیال کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے لئے مضر ہوتی ہے تم کبھی کسی چیز سے فوائد حاصل کرنے کے لئے سامان مہیا کرتے ہو لیکن پھر بھی نتیجہ خراب نکلتا ہے ۔ جس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ بعض ایسے سامان جن سے اچھا نتیجہ نکل سکتا تھا تمہاری نظر سے مخفی رہے پس جبکہ انسان کی ایسی حالت ہے کہ اس کی امید کے مطابق ہر وقت اچھے نتیجے نہیں نکلتے بلکہ بعض اوقات بُرے نتائج نکل آتے ہیں تو وہ کیا کرے۔ سو اس کا علاج یہی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے حضور گرے اور عاجزی سے یہ دعا کرے کہ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اے خدا ! مجھ کہ ہرامر میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی صحیح اور سیدھا راستہ دکھاتا میں غلطیوں سے محفوظ رہوں۔ اور اپنی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کو نہ دیکھے بلکہ مجت اور نفرت کے جذبات سے بالا ہوکر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی نگاہ رکھے اور اس سے دعائیں کرتا رہے کہ وہ اسے سیدھا راستہ دکھائے اور اس سے دعائیں کرتا رہے کہ وہ اسے سیدھا راستہ دکھائے اور اپنی نیت اورارادہ کو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے تابع کر دے۔ تب اس کے لئے کامیابی ہی کامیابی ہو گی اور خیر اور برکت کیدروازے اس کے لئے کھولے جائیں گے۔
آخر میں وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ کہہ کر بتایا کہ تم تو نہیں جانتے لیکن خداتعالیٰ تمام حالات کو جانتا ہے۔ یعنی تم کفار سے لڑائی کرنا رحم کے خلاف سمجھتے ہو۔ حالانکہ بعض دفعہ شریر کو سزا دینا اس کی اصلاح کے لئے ضروری ہوتا ہے اور اس کو چھوڑ دینا خود اس کیلئے اور دوسرے لوگوں کے لئے مضر ہوتا ہے۔ پس چونکہ یہ لوگ اب بغیر جنگ کے باز آنے والے نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے۔
یَسْعَلُوْکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ
فِیْھَا خٰلِدُوْنَO
۱۳۰؎ تفسیر:۔ فرمایا یہ عزت والے مہینوں یعنی محرم، رجب، ذیقعدہ اور ذولحج کے متعلق تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آیا ان میں لڑائی کرنا جائز ہے؟ یہ سوال کس طرح پیدا ہوا؟ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو اس کے بعد بھی مکہ ولوں کے جوشِ غضب میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی بلکہ انہوں نے مدینہ والوں کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں کہ چونکہ تم نے ہمارے آدمیوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے اس لئے اب تمہارے لئے ایک ہی راہ ہے کہ یا تو تم ان سب کو قتل کر دو۔ یا مدینہ سے باہر نکال دو ورنہ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مدینہ پر حملہ کر دیںگے اور تم سب کو قتل کر کے تمہاری عورتوں پر قبضہ کر لیں گے اور پھر انہوں نے صرف دھمکیوں پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ان ایام میں یہ کیفیت تھی کہ بسا اوقات آپؐ سار ی ساری رات جگ کر بسر کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم رات کو ہتھیار باندھ کر سویا کرتے ھتے تاکہ رات کی تاریکی میں دشمن کہیں اچانک حملہ نہ کر دے۔ ان حالات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک طرف تو مدینہ کے قرب و جوار میں بسنے والے قبائل سے معاہدات کرنے شروع کر دیئے اور دوسری طرف ان خبروں کی وجہ سے کہ قریش حملہ کی تیاریاں کر رہے ہیں آپؐ نے ۲ء ہجری میں حضرت عبداللہ بن حجشؓ کو بارہ آدمیوں کے ساتھ نخلہ بھجوایا۔ اور انہیں ایک خط دی کر ارشاد فرمایا کہ اسے دو دن کے بعدکھولا جائے۔ حضرت عبداللہ بن حجشؓ نے دو دن کے بعد خط کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ تم نخلہ میں قیام کرو۔ اور قریش کے حالات کا پتہ لگا کر ہمیں اطلاع دو۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس دوران میں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ جو شام سے تجارت کا مال لے کر واپس آرہا تھا وہاں سے گذرا ۔ حضرت عبداللہ بن حجش ؓ نے ذاتی اجتہاد سے کام لے کر ان پر حملہ کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں کفار میں سے ایک شخص عمروبن الحضرمی مارا گیا اور دو گفتار ہو ئے۔ اور مال غنیمت پر بھی مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ جب انہوں نے مدینہ میں واپس آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپؐ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں لڑائی کی اجازت نہیں دی تھی اور مالِ غنیمت کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ابنِ جریرؓ نے حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن حجشؓ اور ان کے ساتھیوں سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ ابھی رجب شروع نہیں ہوا۔ حالانکہ رجب کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ وہ خیال کرتے رہے کہ ابھی۳۰ جمادی الثانی ہے۔ رجب کا آغاز نہیںہوا۔ بہر حال عمروبن الحضری کا ایک مسلمان کے ہاتھوں مارا جانا تھا کہ مشرکین نے شور مچا نا شروع کر دیا کہ اب مسلمانوں کو اس مقدس مہینوں کی حرمت کا بھی پاس نہیںرہا جن میں ہر قسم کی جنگ بند رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ بے شک ان مہینوں میں لڑائی کرنا سخت ناپسندیدہ امر ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ سے لوگوں کو روکا جائے۔ اور خداتعالیٰ کی توحید کا انکار کیا جائے اور مسجد حرام کو باطل کیا جائے۔ اور اس کے باشندوں کو بغیر کسی جرم کے محض اس لئے کہ وہ خدا ئے واحد پر ایمان لائے تھے اپنے گھروں سے نکال دیا جائے تمہیں ایک بات کا تو خیال آگیا مگر تم نے یہ نہ سوچا کہ تم خود کتنے بڑے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہو اور خدااور اس کے رسول کا انکار کر کے اور مسجد حرام کی حرمت کو باطل کر کے اور اس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکلا کر کتنے ناپسندیدہ افعال کے مرتکب ہوئے ہو جب تم خود ان قبیح حرکات کے مرتکب ہو چکے ہو۔ تو تم مسلمانوں پر کس مونہہ سے اعتراض کرتے ہو۔ ان سے تو صرف نادانستہ طور پر ایک غلطی ہوئی ہے۔ مگر تم تو جانتے بوجھتے ہوئے یہ سب کچھ کر رہے ہو۔
وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ علامہ ابو البقاء کے نزدیک بغیر اعادہ جار کے جر جائز نہیں اس لئے ان کا خیال ہے کہ یہ متعلق ہے فعل محذوف کا اور پورا جملہ یہ ہے وَصَدُّ عَنِ الْمَسْدِدِ الْحَرَامِ۔ کشاف نے بھی صَدّ’‘ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَام کے ہی معنے کئے ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کا عطف بِہٖ پر ہے اور ضمیر مجرور پر عطف بلا اعادہ جار کے برخلاف قول بصریوں کے جائز ہے۔ اہل عرب میں اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔جیسے کہتے ہیں۔ مَافِیْھَا غَیْرُہ‘ وَفَرْسِہٖ۔ یعنی اس گھر میں اس کے اور اسکے گھوڑے کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس مثلا میں فَرْسِہٖ کا عطف ضمیر مجرور پر کیا گیا ہے۔
پھر فرمایا۔ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۔ فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ اس جگہ فتنہ سے وہی فتنہ مراد ہے جس کا لَایَزَ الُوْنَ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ حَتّٰی یُرَدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنَکُمْ میں ذکر آتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو مرتد کرنے اور انہیں اسلام سے منحرف کرنے کی سازشوں کا نام فتنہ رکھا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ کفار تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے تاکہ اگر ان کو طاقت ہو تو تم کو اپنے دین سے مرتد کر دیں۔ یعنی گو تمہارا مرتد کر دینا ان کی طاقت سے بارہ ہے مگر کفار کی غرض تم سے لڑنے کی یہی ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں مرتد کر دیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کفار اپنے بدارادوں میں تو خداتعالیٰ کے فضل سے ناکام رہے اور مسلمانوں پر فتح نہ پا سکے مگر اِکَّا دوکا آدمی جو ان کے قبضہ میں آ گیا انہوں نے اپنی طرف سے اس کو مرتد کرنے کی پوری پوری کوشش کی۔
اِنَّ الَّذِیْنَ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘O
چنانچہ بلالؓ ۔ ابو جندلؓ اور یاسرؓ کی مثالیں اس امر پر کافی سے زیادہ روشنی ڈالتی ہین۔ انہی جبراً مرتد کرنے کی کوششوں کے متعلق فرمایا ہے۔ کہ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو دکھ میں ڈالنا بہت زیادہ خطرناک گنا ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے منحرف ہو جائیں اور کفر کی حالت میں ہی مر جائیں۔ ایسے لوگوں کے اعمال میں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اکارت چلے جائیں گے۔
حَبِطَتْ کے متعلق بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب کسی شخص نے کوئی عمل کر لیا۔ تو وہ ضائع کس طرح ہو گیا؟ اس اعتراض کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کا ذہن خَبِطَتْ کے اصل معنوں کی طرف نہیں جاتا۔ حَبِطَتْ کے اصل معنوں کا پتہ قرآن کریم کے ایک دوسرے مقام سے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطر میں فرماتا ہے کہ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا ط اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ ط(فاطر آیت ۱۱) یعنی جو شخص عزت چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرے۔ کیونکہ تمام عزتیں خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کی طرف پاکیزہ روحیں صعود کرتی ہیں اور عمل صالح یعنی ایمان کے مطابق عمل ان کو بلند کرتا ہے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال خداتعالیٰ کے حضور قبولیت کا جامہ پہن لیتے ہیں اور انسان کو اللہ تعلایٰ کا مقرب بنا دیتے ہیں۔ پس حَبِطَتْ اَعْمَا لُھُمْ کے یہ معنے ہیں کہ چونکہ ان کے اعمال خداتعالیٰ کے لئے نہیں تھے اس لئے وہ انہیں قبول نہیں کرے گا اور ان کی روحون کا صعود آسمان کی طرف نہیں ہوگا۔
اسی طر حَبِطَتْ اَعْمَا لُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰ خِرَۃِ کے یہ بھی معنے ہیں کہ خواہ ایمان لانے کے بعد کسی شخص کو اسلام کی بڑی بھاری خدمت کی توفیق ملی ہو پھر بھی اگر اس کا انجام کفر پر ہوا ہے تو اس کی پہلی دینی خدمات بھی رائیگاں چلی جائیں گی کیونکہ اس نے اپنے عمل سے ان خدمات کو باطل قرار دے دیا اورآخرت میں بھی اس کے وہ اعمال اس کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ کیونکہ اس کا خاتمہ اچھا نہ ہوا۔
وَاُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّار اور یہی لوگ دوزخ کی آگ میں پڑنے والے ہونگے۔ کیونکہ دنیا میں بھی انہوں نے اپنے ارتدار سے فتنے اور فساد کی آگ کو بھڑکایا تھا۔
۱۳۱؎ تفسیر:۔ چونکہ گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا تھا جو ارتداد کی حالت میں ہی اس دنیا سے اُٹھ جائیں اور بتایا تھا کہ ایسے لوگوں کی اسلام کو مٹانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ اس لئے اب اللہ تعالیٰ ان کے مقابلہ میں ان لوگوں کا ذکر فرماتا ہے جن کو ارتداء کے بعد توبہ کی توفیق مل جائے۔ اور وہ پھر اسلام میں داخل ہو جائیں چونکہ ازنداد کا داغ ایک نہایت ہی بدنما داغ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے توبہ کیل ئے صرف ایمان لانا کافی قرارنہیں دیا بلکہ فرمایا کہ ایسے لوگوں کی توبہ اس وقت قبول ہو گئی جب ایمان لانے کے بعدوہ ہجرت اختیار کریں یعنی بزدلی اور اخفائے ایمان جیسی گندی عادتوں کو کلی طور پر ترک کردیں یا اس علاقہ سے نکل جائیں جہاں دینی معاملات میں جبر سے کام لیا جاتا ہو۔ اور پھر دین کی راہ میں ایک ننگی تلوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مالی اور جانی جہاد کریں۔ اگر وہ ایسا کرینگے تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائیں گے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ایک دفعہ حضرت عمرؓ حج کے لئے مکہ تشریف لے گے۔ تو حج کے بعد آپ کی ملاقات کے لئے لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔ انہی ملاقاتیوں میں مکہ کے روساء اور سردار انِ قریش کے بعض لڑکے بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بڑی عزت سے بٹھایا۔ اور ان سے مختلف باتیں پوچھتے رہے اتنے میں ایک غلام صحابی آیا۔ وہ غلام جو ابتدائے اسلام میں ان روساء عرب اور سرداران قریش کے باپ دادئوں کی جوتیاں کھایا کرتے تھے جنہیں وہ گالیوں میں گھسیٹتے اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مار مار کر زخمی کر دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان نوجوانوں سے کہا۔ ذرا پیچھے ہٹ جائو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی ہیں وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اور صحابی قریب ہو کر حضرت عمرؓ سے باتیں کرنے لگ گئے۔ اتنے میں ایک اور صحابی آگیا۔ حضرت عمرؓ نے پھر ان نوجوانوں سے کہا۔ ذرا پیچھے ہٹ جائو او ران کے لئے جگہ چھوڑ دو۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی ہیں۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ جوتیوں تک جا پہنچے۔ یہ دیکھ کر وہ مجلس سے اُٹھ کر باہر آگئے اور ایسی حالت میں آئے کہ انکی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا۔ کیا کبھی یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ ہم کسی زمانہ میں اس قدر ذلیل ہو جائیں گے کہ وہ لوگ جو ہماری جوتیاں اُٹھانا اپنے لئے فخر کا موجب سمجھا کرتے تھے مجلس میں ایک ایک کر کے ہم سے آگے بٹھائے جائیں گے اور ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا جائیگا۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ہم جوتیوں تک جا پہنچیں گے۔ گویا وہ جو ذلیل تھے معزز ہو گئے اور ہم جو معزز تھے ذلیل ہو گئے ۔ یہ تمام نوجوان اگرچہ ایماندار تھے مگر غصہ اور جوش میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔ لیکن ان میں سے ایک نوجوان جس کا ایمان زیادہ مضبوط تھا وہ کہنے لگا۔ بھائی تم نے بات تو ٹھیک کہی مگر اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اور کس نے ہمارے باپ دادا سے کہا تھا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شدید مخالفت کی تھی ۔ اس لئے آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم مجلس میں پیچھے ہٹا دیئے گئے۔ مگر وہ جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت کی تھی۔ جنہوں نے اپنی جانیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں قربان کر دیئے تھے ان میں سے گو بہت سے مارے گئے مگر اب بھی جو باقی ہیں ان کا حق ہے کہ ان کی عزت کی جائے۔ اور ان کو ہم سے زیادہ ادب کے مقام پر بٹھایا جائے۔ انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے مگر کیا اب اس ذلت کو مٹانے کا کوئی ذریعہ نہیں؟ یا کیا کوئی ایسی قربانی نہیں جو اس گناہ کا کفارہ ہو سکے؟اس پر اسی نے کہا چلو حضرت عمرؓ کے پاس ہی چلیں اور انہی سے اس کا علاج دریافت کریں۔ چنانچہ وہ پھر آپ کے مکان پر گئے اور دستک دی مجلس اسوقت تک برخواست ہو چکی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اندر بلا لیا۔ اور کہا کس طرح آنا ہوا وہ آپ جانتے ہی ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں معذور تھا کیونکہ اس وقت جو لوگ میرے پاس آے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی تھے اور میرے لئے ضروری تھا کہ میں ا نکی عزت و تکریم کرتا۔ انہوں نے کہا ہم اس بات کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم
یَسْئَلُوْنَکَ
تَتَفَکَّرُوْنَO
جانتے ہیں کہاہمارے باپ دادا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار کر کے اپنے لئے بہت بڑی ذلت مول کے لی۔ مگر کیا کوئی ایسای طریق نہیں جس سے یہ ذلت مول لے لی۔ مگر کیا کوئی ایسا طریق نہیں جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانیوں سے مٹ سکے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ چونکہ اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان نوجوانوں کے باپ دادا کو کتنی بڑی عزت اور وجاہت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ اسلام کی دشمنی کے زمانہ میں بھی اگر وہ کسی مسلمان کو پناہ دے دیتے تھے تو کسی شخص کو یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس مسلمان کو دکھ پہنچا سکے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کر کے یہ واقعات آئے اور اس کا تصور کر کے ان پر رقت طاری ہو گئی اور بات کرنا آپ کے لئے مشکل ہو گیا۔ اور غلبہ رقت میں آپ نے صرف اپنا ہاتھ اُٹھایا اور شمال کی طرف جہاں شام میں ان دنوں عیسائیوں سے لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کر کے کہا کہ اس کا علاج صرف وہاں ہے یعنی اب اس ذلت کا علاج ایک ہی ہے او روہ یہ ہے کہ اس جہاد میں شامل ہو کر اپنی جانیں دے دو۔ پھر خود بخود لوگ ان باتوں کو بھول جائیں گے۔ چنانچہ اسی وقت وہ لوگ وہاں سے اُٹھے اور اپنے اونٹوں پر سوار ہو کر شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ سات نوجوان تھے جو اس ذلت کو دور کرنے کے لئے جہا د میں شامل ہو ئیاور تاریخ بتاتی ہے کہ پھر ان نوجوانوں میں سے ایک بھی زندہ مکہ کی طرف واپس نہیں آیا۔ سب اسی جنگ میں شہید ہو ئے۔ جس طرح ان نوجوانوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں قربان کر کے رضاء الہٰی حاصل کی تھی ۔ اسی طرح ارتداد کے بعد اسی صورت میں توجہ قبول ہو سکتی ہے۔ جب زبان سے ایمان کا اظہار کیا جائے اور عمل سے ہجرت اختیار کی جائے۔ خواہ حقیقی رنگ میں یا معنوی رنگ میں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں کفار سے جہاد کیا جائے یہی وہ ذرائع ہیں جن سے وہ رحمت الہٰی کے موردبن سکتے ہیں۔
۱۳۲؎ حل لغات:۔ اَلْخَمْرُ: اَلْخَمْرُ اِسْمُ کُلِّ مُسْکِرٍ خْامِرِ الْعَقْلِ(اقرب) خمر ہر ایک نشہ دینے والی چیز کو کہتے ہیں۔ جو عقل کو ڈھانپ دیتی ہے۔
اَلْمَیْسِرِ: یَسَرَسے مَفْعِل’‘ کا صیغہ ہے اور اَلْمَیْسِرِ کے معنے ہیں اَللَّعْبُ بِالْقَدَاحِ (۱)تیروں سے جُوا کھیلنا۔ (اَرْھُو۔ النَّرْدُ اَوْکُلُّ قِمَارٍ) اَوْ ھُوَ الْجُزُوْرُ الَّتِیْ کَانُوْا یَتَقَا مَرُوْنَ عَلَیْھَا (اقرب) (۲) نَرد یعنی شطرنج اور چوپٹ کو بھی میسر کہتے ہیں (۳) ہر قسم کا جوا بھی میسر کہلاتا ہے۔ (۴) میسر ان اونٹوں کو بھی کہتے ہیں جن پر لاٹری ڈالتے تھے۔
اَلْاِثْمُ: اَلْاَفْعَالُ الْمُبْطِلَۃُ عَنِ الْخِیْرِ۔ وہ کام جو نیکیوں سے روک دیں ان کو اِثْم’‘ کہتے ہیں (۲) اِثْم’‘ کا لفظ کبھی سزا اور تکلیف اور دکھ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اپنے نتیجہ کے اعتبار سے تکلیف وغیرہ کے معنے دیتا ہے ۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ کبھی سبب کو مسسب کی جگہ استعمال کر لیتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں اسے دوسری جگہ ان عنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّ مَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّضْعَلْ ذٰلِکَ یَلْ قَ اَثَامًا (فرقان آیت۲۹) اسجگہ یَلْقَ اَثَامًا کے یہ معنے ہیں کہ جو شخص یہ کام کریگا وہ سزا پائیگا۔
اَلْعَفْوَ: خِیَارُ الشَّیْئِ وَاَطْیَبُہ‘ بہتر سے بہتر اور پاک سے پاک چیز (۲) مَایَفْضُلُ عَنِ النَّفَقَۃِ وَلَا عَسَرَ عَلیٰ صَاحِبِہٖ فِیْ اعْطَا ئِہٖ۔ جو کسی کے خرچ سے بچ رہے اور دینے والے کو اس کے دینے میں تنگی محسوس نہ ہو۔ (۳) عَفْوُ الْمَالِ۔ وہ مال جو بغیر سوال کے دیا جائے۔ کہتے ہیں اَعْطَیْتُہ‘ عَفْوْا یا اَعْطَیْتُہ‘ عَفْرَ الْمَالِ۔ میں نے اُسے بغیر مانگے دیا۔(اقرب)
تفسیر:۔فرماتا ہے کہ لوگ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ جائز ہیں یا ناجائز۔ تو ان سے کہدے کہ شراب اور جوئے میں کچھ خرابیاں ہیں اور کچھ فوائد لیکن خرابیاں فوائد کی نسبت زیادہ ہیں۔ یہ کیا ہی لطیف جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ان کے سوال پر انہیں فوری طور پر منع نہیں کیا کہ تم شراب نہ پیو اور جوا نہ کھیلو۔ بلکہ فرمایا کہ ان میں فوائد تھوڑے اور نقصانات زیاد ہ۔ اب تم خود سوچ لو کہ تمہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس جواب میں اصولی طور پر خداتعا لیٰ نے ہمارے لئے یہ قاعدہ بیان فرمایا دیا ہے کہ اگر کسی کام میں فائہد زیادہ ہو اور نقسان کم تو اسے اختیار کر لیا کرو۔ اور اگر نقصان زیادہ ہو اور فائدہ کم تو اسے کبھی اختیار نہ کرو۔ بالخصوص ایسا کام تو کبھی اختیار نہ کرو جس میں اِثْم’‘ کَبِیْر’‘ ہو۔ اِثْم’‘ کے معنے گناہ کے بھی ہیں اور اِثْم’‘ کے معنے نیکیوں سے محرومی کے بھی ہیں۔ گویا انسان کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس کے نتیجہ میں اسے گناہ ہو۔ یا جس کے نتیجہ میں وہ نیکیوں سے محروم ہو جائے ۔ خواہ اس میں بظاہر کچھ فوائد بھی دکھائی دیتے ہوں۔
پھر مَنَافِعُ لَلنَّاسِ فرما کر اسلام نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ خواہ تمہاری نگاہ میں کوئی چیز کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو ۔ تمہارا فرض ہے کہ تم اس کی خوبیوں سے کلی طور پر انکار نہ کرو۔ جب شراب اور جوئے جیسی چیزیں بھی فوائد سے خالی نہیں تو دوسری ضور رساں چیزوں کو تم فوائد سے خالی کیوں سمجھتے ہو۔ بے شک تمہارا فرض ہے کہ تم ان کے ضر ر سے بچو۔ اور آئندہ نسلوں کو بچائو لیکن تمہاری بینائی ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کسی چیز کا صرف تاریک پہلو ہی دیکھے بلکہ ہر چیز کا تاریک اور روشن دونوں پہلو سامنے رہنے چاہییں اور حسن کا اقرار کرنے میں تمہیں کبھی بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمان اس بارہ میں خود آآکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سوال کیا کرتے تھے ۔ حالانکہ عرب کے رہنے والے شراب پینے کے اس قدر عادی تھے کہ وہ اس پر فخر کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک عرب شاعر کہتا ہے
؎ اَلَا ھُبِّیْ بِصَحْنِکِ فَاسْبَحِیْنَا
فَلَا تُبْقِیْ خُمُوْرَ الْاَنْدَرِیَنَا
یعنی اے میری محبوبہ تو بیدار ہو۔ اور اپنے بڑے پیالے میں ہم کو صبوحی پلا۔ اور اس قدر پلا کہ علاقہ شام کے اندر شہر کے شراب فروشوں کی شراب میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے۔ سب کی سب ہمیں پلادے۔ اسی طرح جنگوں کے موقعہ پر وہ خصوصیت سے شراب کا زیادہ استعمال کیا کرتے تھے تاکہ وہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر لڑیں۔ اور عاقبت اندیشی کا خیال ان میں نہ رہے۔ مگر ایسے ماحول میں رہنے کے باوجود انہوں نے خود پوچھا کہ یا رسول اللہ! شراب اور جُوئے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ ابھی شراب اور جوئے کی حرمت نازل نہیں ہو ئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہنے کے بعد وہ محسوس کرتے تھے کہ یہ چیزیں قرب الہٰی میں روک ہیں۔ اور ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کوئی واضح حکم نازل ہونا چاہیے۔ پس یہ سوال خود اپنی ذات میں صحابہ کرامؓ کی پاکیزگی ان کی بلندی اخلاق اور ان کے اعلیٰ کردار کا ایک زبردست ثبوت ہے۔ شراب اور جوا یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جن کے روکنے کے لئے دنیا میں بڑی بڑی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ مگر اسلام کے سوا اورکوئی مذہب ان کو روک نہیں سکا۔ صرف اسلام ہی ہے جسے اس میدان میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ چنانچہ شراب کے متعلق اسلامی تعلیم کو جو وہ شراب کے متعلق دیتے ہیں بیان کرتے ہیں اور سب سے پہلے اسی مذہب کا ذکر کرتے ہیں جو سب سے قدیم مذہب ہونے کا مدعی ہے یعنی ویدک مذہب، ہندو مذہب کی شراب کے متعلق جو تعلین ہے اس کیل ئے ہمیں زیادہ چھان بین کی ضرورت نہیں اس مذہب کی بنا ویدوںپر ہے اور وید خود اس مسئلہ پر کافی سے زیادہ روشنی ڈالتے ہیں۔ ویدوں پر خصوصاً رگوید پر جو چاروں ویدوں میں سے اہم ہے ایک اجمالی نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ شراب نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کا استعمال بعض موقعوں پر ضروری اور موجب ثواب بتایاگیا ہے۔ اور ہند کی رشی اسے ایک مقدس اور پاک چیز قرار دیتے ہیں۔ وید کے منتر یکے بعد دیگرے ہماری آنکھوں کے سامنے اس سنجیدہ کوشش کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں جو ہندوستان کا برگزیدہ پُجاری اپنے پرماتما کی توجہ کو کھینچنے کے لئے شراب کو پیش کر کے کرتا ہے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو معلو م ہوتا ہے کہ قدیم ہندوستان کے پجاری کی پوجا میں شراب کاد وسری چیزوں کی نسبت بہت زیادہ دخل تھا۔ وہ سوم کا رس نہ صرف خود پیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ بہت سی پوجا کی چیزوں کو بھی نہلاتا ہے اور اندر اور دوسرے دیوتائوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انکے سامنے بھی اسے پیش کرتا ہے۔ اسی طرح اتھروید میں اشونی کماردیوتائوں کی پوجا کے وقت جو منتر پڑھنے کے لئے بتائے گئے ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ایام کا ہندو پجاری اس چیزکو ایسا متبرک سمجھتا تھا کہ صرف خود ہی شراب کو استعمال نہ کرتا تھا بلکہ اپنے دیوتا سے بھی اس کے استعمال کی درخواست کرتا تھا۔ چنانچہ کانڈ نمبر۹ ادھیائے نمبر۱ منتر نمبر۱۷ میں لکھا ہے۔
’’اے اشونی کمارو! پہاڑوں میں، جنگلوں میں، جنگلی جڑی بوٹیوں میں جو مدھو(شراب) ہے اس وقت (یعنی یگیہ کی تقریب پر) جو کشیدگی کی جاتی ہے اس کا رس میرے اور آپ کیلئے ہو۔‘‘
اس منتر میں تو صرف دیوتا سے شراب کے استعمال کی درخواست ہی کی گئی ہے۔ مگر بلور کے بنائے ہوئے نیتر کی پوجا کے وقت اس سے بھی زیادہ یہ کام کیا جاتا ہے کہ اسے شراب سے غسل دیا جاتا ہے۔ گویا عملاً اسے شراب پلائی جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ اتھروید کا یہ منتر پڑھا جاتا ہے کہ
’’اے باور کے بنائے ہوئے نیتر! آپ ہمارے مہمان ہو کر ہمارے گھر میں رہیگا اور ہم آ پ کو گھی شراب شہد اور میٹھے میٹھے اسی طرح کے کھانے دیتے ہیں۔ آپ ہماری ہمیشہ بھلائی سوچتے رہا کریں۔ جیسے باپ اپنی اولاد کے لئے بہتری سوچتا رہتا ہے۔‘‘
(اتھروید کانڈ نمبر ۱۰ اوھیائے نمبر۶ منتر ۲۶،۲۷)
یہ دومنتر تو اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ قدیم ہند کا پجاری پوجا کے وقت اپنے دیوتا سے شراب پینے کی درخواست کرتا ہے اور خود شراب پیتا اور بلور کے نیتر کو شراب میں غوطہ دیتا ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ وضاحت اسی وید کے کانڈ نمبر۱۰ ادھیائے نمبر۱۰ اور منتر نمبر۱۰ میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوتا خود بھی اپنی کامیابی کی خوشی میں شراب کا استعمال کرتے یہں چنانچہ لکھا ہے:۔
’’اپنے دشمنوں کو قابو کر کے فتح حاصل کرنے کے لئے اندر سے شراب کے پیالے پیئے۔‘‘
اس زمانہ میں آریہ مت کے بعض ممبروں نے سوم کے رس اور اسی قسم کے اور الفاظ کی تشریح کرتے وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وید میں شراب کا کوئی ذکر نہیں بلکہ گلو وغیرہ کے رس کاذکر ہے مگر جب ہم تمام کی تمام ہندو قوم کا طریق عمل دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ہندو قوم کا میل جول کسی ایسی قوم سے جو شراب کی سخت عادی ہو کبھی لمبے عرصے تک اور پورے طور پر نہیں رہا جس سے خیال ہو سکے کہ دوسروں سے یہ عادات انہوں نے اخذ کر لی ہیں تو ہم کو ان تاویلات کے ماننے میں بہت کچھ تاتل ہوتا ہے۔ مگر جب ہم اتھرووید کے کانڈ نمبر۱۸ انوداک نمبر۱ سوکت نمبر۱ منتر ۴۸ کو دیکھتے ہیں تو ان تاویلات کا قبول کرنا ہمارے لئے بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس میں ہم یہ لکھ ہو ا پاتے ہیں کہ:۔
’’ یہ سوم بہت ہی لذیذ اور خوش ذائقہ ہے اور کچھ میٹھا بھی اور کچھ تیز و تُرش بھی ہے ایسے سوم کو پینے والے اندر دیوتا کے مقابلہ پر جنگ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘
ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو مذہب پورے طور پر شراب کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ اور بعض عبادات میں اس کا استعمال ضروری قرار دیتا ہے ۔ ہندوئوں کا تمدن بھی اس نتیجہ کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی تاریخ بھی اسکی صحت پر شاہد ہے۔
ایرانی مذہب کی تعلیم:۔ دوسرا قدیم مذہب ایرانیوں کا مذہب ہے ۔ ایرانی قوم ایک مسلسل اورلمبی تاریخ رکھتی ہے بلکہ تازہ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوء تعجب نہیں اس کا تمدن دیدک سے بھی پرانا ہو۔ اس قوم کے مذہب قدیم و جدیدسے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شراب جائز تھی۔ زردشتی مذہب کی واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ زردشت کسی جدید مذہب کا بانی نہ تھا بلکہ اس نے قدیم ایرانی مذہب کو جو مرورزمانہ سے بہت کچھ بگڑ گیا تھا دوبارہ زندہ کیا تھا۔ پس ایرانی مذہب کا فتویٰ شراب کے متعلق معلوم کرنے کے لئے ہمیں زردشت کی بعثت سے پہلے اور بعد دونوں زمانوں پر نظر ڈالنی چاہیے۔ گو تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی لوگ شراب بکثرت استعمال کرتے تھے مگر مذہبی طور پر وہ اس کو کیسا سمجھتے تھے اس کا پتہ ہمیں زردشتی کتب سے ہی ملتا ہے ۔ چنانچہ پہلوی کتب میں زردشت کی پیدائش کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے والد یورو شامپ کو فرشتہ نے ایک شراب کا گلاس دیا جس کے پینے کے قریب زمانہ میں ہی اس کی بیوی دو عذونامی حاملہ ہوئی اور ایک ایسا لڑکا جنی جس نے مشرقی تاریخ میں ایک نیا انقلاب پیدا کرنا تھا۔
ایک مقدس انسان کی پیدائش کے لئے فرشتہ نے شراب کا گلاس انکے والد کو پلانا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زردشت کے زمانہ سے پہلے بھی شراب کا استعمال مذہباً نہ صرف جائز بلکہ مستحسن تھا۔
زردشت نے ایرانی مذہب میں جو اصلاح کی اس کی رو سے بھی شراب کا استعمال ایک مستحسن امر قرار دیا گیا۔ چنانچہ افرنجسن کی دعا جو زردشتی مذہب کے پادریوں کے پڑھے جانے کے لئے مخصوص ہیں ان کے پڑھے جانے کے وقت جو رسوم ادا کی جاتی ہیں ان میں بھی شراب کا دخل ہے۔ دستوران دعائوں کے پڑھنے کے وقت ایک قالین پر جسے زمین پر بچھایا ہوا ہوتا ہے بیٹھ جاتا ہے اور اس کے سامنے دھات کی تھالی یا کسی پودہ کے پتہ پر اس موسم کے اعلیٰ سے اعلیٰ میوہ جات اور پھول رکھے جاتے ہیں اور ساتھ ہی برتنوں میں تازہ دودھ اور شراب اور تازہ پانی اور شربت پڑا ہوتا ہے۔ غرض ایرانی مذاہب کے مطابق بھی شراب کا استعمال ایک مستحسن اور پسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے۔ اور بعض مذہبی رسوم کی ادائیگی کے وقت شراب کا استعمال یا اس کا پاس رکھنا ضروری قرار دی گیا ہے۔
شراب اور بائیبل:۔ تیسرا قدیم مذہب اسرائیلی مذہب ہے ۔ یہ مذہب بھی ہندو مذہب اور زردشتی مذہب کی طرح اپنا سلسلہ ابتدائے آفرنیش سے شروع کرتا ہے گو اس مذہب کی بنیاد حضرت موسیٰ ؑ نے رکھی ہے۔ مگر یہ ایک مسلسل سلسلہ تاریخ کے ذریعہ ابو البشر آدم علیہ السلام سے اپنا تعلق جا ملاتا ہے۔ اس مذہب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شراب کا استعمال ابتدا ئے آفرینش سے برابر چلا آیا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسے کبھی برا نہیں سمجھا گیا بلکہ خود انبیاء علیہم السلام بھی اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش باب۹ آیت ۲۰ تا۲۳ میں لکھا ہے:۔
’’اور نوح کھیتی باڑی کرنے لگا اور اس نے ایک انگور کا باغ لگایا۔ اور اس کی مے پی کر نشہ میں آیا۔ اور اپنے ڈیرے کے اندر آپ کو ننگا کیا اور کنعان کے باپ حام نے اپنے باپ کو ننگا دیکھا۔ اور اپنے دو بھائیوں کو جو باہر تھے خبر دی۔ تب سم اور یافث نے ایک کپڑا لیا اور اپنے دونوں کاندھوں پر دھرا اور پچھلے پائوں جا کر اپنے باپ کی برہنگی کو چھپایا۔‘‘
یہ توحضرت نوح ؑ کا حال ہے۔ جو پہلے نبی ہیں جن کی تاریخ ایک حد تک۔۔۔۔۔ محفوظ ہے۔ اور جن کے بعد تاریخ ایک حد تک تفصیلی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ آپ کے بعد دوسرا مہتم بالشان زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے ان کی نسبت ہم بائیبل کے باب۱۴ آیت ۱۸ میں پڑھتے ہیں کہ ملک صدق سالم کے بادشاہ نے ان کی دعوت میں روٹی اور مے پیش کی تھی۔ اسی طرح حضرت لوط کی نسبت پیدائش باب۹آیت۳۲، ۳۵ میں لکھا ہے کہ لوط کی لڑکیوں نے اپنے باپ کومے پلائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں نہ صرف شراب منع نہ سمجھی جاتی تھی بلکہ ضروریات زندگی میں سے خیال کی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ واقعہ عذاب کے بعد کا ہے۔ جس وقت کہ حضرت لوط اپنی دونوں لڑکیوں سمیت جنگل میں ایک غار میں رہتے تھے۔ اس وقت ان کے پاس شراب کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بائیبل کے بیان کے مطابق اس وقت کے طرز معاشرت کے ماتحت انہوں نے ان چند ضروری اشاء میں جو وہ برباد ہونے والی بستی سے لیکر نکلے تھے شراب کا شامل کرنا بھی ضروری خیال کیا تھا۔ بنو اسرائیل میں نبوت کے منتقل ہونے میں بھی شراب کا بہت کچھ دخل ہے۔ کیونکہ جیسا کہ بائیبل کے بیان سے معلوم ہوتا ہے ابتداء بڑے لڑکے ہی وارث ہو اکرتے تھے اور انہی کی نسل سے شجرہ چلایا جاتا تھا۔ چنانچہ اس طریق کے مطابق حضرت اسحاق نے بھی اپنے بڑے لڑکے عیسو کو برکت دینی چاہی۔۔۔۔۔۔ مگر جیسا کہ پیدائش باب ۲۷ سے معلوم ہوتا ے کہ حضرت یعقوبؑ کی والدہ نے انکو کھانا پکا کر دیا۔ اور انہوں نے لذیذ کھانا کھالا کر اور عمدہ شراب پلا کر (آیت۲۵) اور اپنے آپ کو عیسو ظاہر کر کے ان سے اپنے حق میں دُعا کروالی۔ اور اس طرح نبوت عیسُو کے خاندان سے نکل کر یعقوب یعنی سرائیل کے خاندان میں آگئی۔ پس بنی اسرائیل اپنی روحانی ترقیات میں ایک حد تک مے کے بھی ممنون ہیں۔
پھر نہ صرف یہ کہ بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت اسحاقؑ نے خود ہی مے پی۔ بلکہ حضرت یعقوبؑ کے حق میں بھی جن کو وہ اپنا بڑا لڑکا عیسو خیال کررہے تھے یہ دعا کی کہ خداتجھے اناج اور مے کی زیادتی بخشے(آیت ۲۸) جس کے ذریعے انہوں نے بنی اسرائیل کے لئے ہمیشہ شراب کا استعمال ضروری قرار دیدیا کیونکہ اگر وہ شراب کا استعمال ترک کر دیں۔ تو یہ دعا باطل جاتی ہے حضرت اسحاق کی اس دعا کو حضرت یعقوب نیبھی اپنی وفات کے وقت کی دعا سے اور تقویت دے دی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے بیٹے یہود اور اس کی اولاد کے حق میں خبر دی ہے۔ کہ انکی آنکھیں شراب کے نشہ سے سُرخ رہیں گی۔ (پیدائش باب۴۹آیت۱۲) اس زمانہ کے بعد بنی اسرائیل کی تاریخ میں سب سے بڑا اور اہم زمانہ حضرت موسیٰ کا ۔۔۔۔۔ ہے۔ حضرت موسیٰ یہودی مذہب کے بانی ہیں۔ اور اپنے سے پہلے سب شریعتوں کے ناسخ ہیں۔ مگر جہاں انہوں نے ایسے بہت سے قانون اور رواج جو ان سے پہلے بنی اسرائیل میں رائج تھے موقوف کئے ہیں۔ شراب کے متعلق پہلے حکم کو تبدیل نہیں کیا بلکہ انہوںنے شراب کو خداوند کا چڑھاو اقرار دے کراس کو مقدس کہا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ گنتی باب۱۸ آیت۱۲ سے معلوم ہوتا ہے اچھی سے اچھی شراب کا حضرت ہارونؑ اور ان کی اولاد کے لئے جن کو کہانت کا عہدہ سپر د کیا گیا تھا وعدہ کیا گیا ہے اور بنی اسرائیل کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ عمدہ شرابیں خداتعالیٰ کے نام پر معبد پر چڑھائیں جنہیں کاہن استعمال کریں۔
یہ وعدے جو اوپر بیان ہوئے ہیں صرف حضرت ہارون اور ان کی اولاد کے لئے ہیں۔ مگر دوسرے بنی اسرائیل کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ بلکہ ان کے لئے بھی حضرت موسیٰؑ سے خداتعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ خداتعالیٰ کے حکموں پر عمل کرینگے اور شریعت کی پابندی کرینگے تو ان کے لئے رحم کے پھل اور ان کی زمین کے پھل اور ان کے غلہ اور انکی مے اور ان کے تیل اور ان کی گائیوں کی بڑھتی اور ان کی بھیڑوں کے گلوں میں اس زمین پر جس کی بابت اس نے ان کے باپ دادوں سے قسم کر کے کہا کہ تجھ کو دونگا برکت بخشیگا۔(استثنا باب۷آیت ۱۳) اس حوالہ کے علاوہ تورات میں اور بھی کئی جگہ بنی سرائیل کے لئے شراب کی کثرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اور حضرت مسیح کی آمد تک جس قدر انبیاء اور سلاطین گذرے ہیں عموماً سب کے ذکروں میں شراب کا بیان ہے گویا ان کی تمام تاریخ سے شراب کا استعمال نہایت کثرت سے ثابت ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰ کے بعد مذہبی دنیا میں عظیم الشان تبدیلی کر دینے والی ہستی جس کے بعد نبی عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا کوئی تغیر عظیم پیدا کرنیو الا انسان مبعوث نہیں ہوا حضرت مسیح ہیں۔ س وقت ان کے ماننے والوں کو دنیا میں ایک خاص مرتبہ اور عزت حاصل ہے۔ اور ان کی تعلیم کو نہایت کامل اور مکمل ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی شراب کے متعلق جو کچھ فتویٰ دیا ہے وہ اس کی تقدیس کا ہی ہے ۔ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح شراب کی تقدیس کا ہی ہے۔ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح شراب کو بُرا نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ خود اس کو استعمال کرتے تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہو معجزانہ طور پر شراب بنا کر لوگوں کو پلاتے تھے۔ حضرت مسیح کو خود شراب استعمال کرنا تو متی باب ۲۶ آیت۲۹ سے ثابت ہے جہاں لکھا ہے کہ مسیح نے حواریوں سے کہا کہ
’’میں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کے پھل کا رس پھر نجہ پیونگا اس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہت میں نیا نہ ہوں۔‘‘
اور ان معجزانہ طور پر شراب بنانا او ردوسروں کو پلانا یوحنا باتب۲ آیت۳ تا ۱۰ سے ثابت ہوتا ہے ۔ ان آیات کا مضمون یہ ہے:۔
’’ اور جب مے گھٹ گئی۔ یسوع کی ماں نے اس سے کہا کہ ان کے پاس مے نہ رہی۔ یسوع نے اس سے کہا ۔ کہ اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام میرا وقت ہنود نہیں آیا۔ اس کی ماں نے خادموں کو کہا۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے سو کرو۔ اوروہاں پتھر کے چھ مٹکے طہارت کے لئے یہودیوں کے دستور کے مطابق دھرے تھیاور ہر یک میں دو یا تین من کی سمائی تھی۔ یسوع نے انہیں کہا۔ مٹکوں میں پانی بھرو۔ سو انہوں نے ان کو لبالب بھرا پھر اس نے انہیں کہا کہ اب نکالو۔ اور مجلس کے سردار پس لے جائو۔ اور دے لے گئے جب میر مجلس نے وہ پانی جو مے بن گیا تھا چکھا اور نہیں جانا کہ یہ کہاں سے تھا مگر چاکر کہ جنہوں نے وہ پانی نکالا تھا جانتے تھے تومیر مجلس نے دولہا کو بلایا اور اسے کہ اکہ ہر شخص پہلے اچھی مے خرچ کرتا ہے اور ناقص اسوقت کہ جب پی کے چھک گئے۔ پر تونے تو اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔‘‘
مذکورہ بالاحوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائے عالم سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت تک تمام کے تمام مذاہب شراب کے جواز کا فتویٰ دیتے چلے آئے ہیں بلکہ اس کا استعمال بعض مذہبی رسوم میں بھی واجب رکھاجاتا رہا ہے اور اسے متربرک کاور مفید شے قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ان مذاہب کی موجودگی اور ان کے رسوخ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ نے ان تمام مذاہب کی تعلیم کے خلاف اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اپنے پیروئوں کو سنایا کہ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیھِمَآاِثْم’‘ کَبِیْر’‘ وَمَنَا فِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآاَکْبَرُ مِنْ تَّفْعِھِمَا۔ یعنی لوگ تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ شراب اور جوئے کے متعلق کیا حکم ہے ؟ تو کہدے کہ ان میں نقصان بھی بہت ہے اور لوگوں کے لئے منافع بھی ہیں اور ان کا ضررر ان کے نفع سے زیادہ ہے۔
قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ سے بھی زیادہ زوردار الفاظ میں شراب کو منع کیا گیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْس’‘ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِیٰ الْخَمْرِوَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلوٰۃِ۔ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَاِنْتَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا عَلیٰ رَسُوْلِنَاالْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۔(مائدہآیت۹۱ تا۹۳) یعنی اسے مومنو شراب اور جوا اور چڑھاوے کی جگہیں اور لاٹری شیطانی کاموں میں سے ہیں۔ سو ان سے بچو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔ شیطان سوائے اس کے اور کچھ نہیں چاہتا کہ تمارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے عداوت اور بغض پیدا کر دے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نماز سے تم کو روکدے۔ پس کیا تم باز رہو گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور وہمیشہ چوکس رہو۔ اور اگر تم باوجود سمجھانے کے پھر جائو تو خوب یاد رکھو کہ ہمارے رسول کا فرض صرف یہی ہے کہ تم لوگوں تک حق کو پہنچادے۔
ان آیات میں شراب کو قطعی طور پر منع کر دیا گیا ہے اور ایک مسلمان کے لئے اس چیز کا استعمال ہر گز جائز نہیں۔ میں بتا چکا ہوں کہ جس وقت یہ حکم اسلام نے دیا ہے اس وقت تک تمام مذاہب شراب کو نہ صرف یہ کہ برا نہیں قرار دیتے تھے بلکہ اس کے استعمال کو بالعموم اچھا سمجھتے تھے اور بعض مذاہب کی رسوم میں اس کا استعمال واجب تھا۔ ایسے موقعہ پر اسلام کا شراب کو منع فرمانا کوئی معمولی بات نہ تھی بلکہ اس زمانہکی طب بھی شراب کو ایک نہایت ہی مقوی اور اعلیٰ درجہ کی شے قرارد یتی تھی اور اس کا پینا صحتِ جسمانی کے لئے نہایت مفید قرار دیا جاتا تھا۔ مگر باوجود ان سب باتوں کے اسلام نے شراب کو منع فرمایا۔ اور قطعی طور پر اس کا استعمال ناجائز قرار دے دیا۔ اور یونہی بلا وجہ نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ اور دلائل دیتے وقت بھی تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ اس کے استعمال کو منع کرتے وقت یہ بھی اقرار کیا کہ اس میں فوائد بھی ہیں ممکن ہے بعض فلسفیوں نے اس کے استعمال کو بعض حالات میں ناپسند کیا ہو لیکن جس رنگ میں اسلام نے اس مسئلہ کو حل کیا ہے اور کسی نے نہیں کیا۔ مثلاً جینی مت جو درحقیقت مذہب نہیں ہے بلکہ ایک فلسفہ ہے اس میں بھی شراب کی ممانعت کا کچھ پتہ چلتا ہے۔ مگر کس بنا پر؟ کسی عقلی بنا پر نہیں ۔ کسی علمی بنا پر نہیں۔ کسی مدلل پیرا یہ میں نہیں بلکہ اس لئے کہ شراب کے تیار کرنے میں بہت سے کیڑوں کی جان جاتی ہے۔ ورچونکہ جان کا ہلاک کرنا جینی اصول کے ماتحت ناجائز ہے اس لئے شراب کا استعمال باکمال پیروئوں کو نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ممانعت درحقیقت نہ تو کلی ممانعت ہے اور نہ شراب پر بزاتہ نظر ڈال کر اور اس بات کو مدنظر رکھ کر کہ شراب کا اثر اس کے استعمال کرنے والوں پر کیا پڑیگا اس کا حکم دیا گیا ہے بلکہ صرف اس لئے کہ شراب کا استعمال جینی فلسفہ کے اس مرکزی اصل کے خلاف تھا کہ جیو ہتیا کسی طرح نہیں ہونی چاہیے ۔ اس کا استعمال ناپسند کیا گیا ہے۔ غرض اسلام تمام مذاہب میں سے بلکہ تمام تعلیموں مین سے شراب کے منع کرنے اور بادلائل طور پر منع کرنے میں منفرد ہے۔ اور ایسے وقت میں اس نے شراب سے اپنے پیروئوں کو منع کیا ہے جبکہ لوگ ابھی اس مناعی کے حکم کو پورے طور پر سمجھنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے صاف بتایا تھا کہ شراب کے نقصانات اس کے منافع سے زیادہ ہیں۔ مسلمان اطباء اپنی کتب میں برابر شراب کی تعریفیں اور خوبیاں بیان کرتے رہے ہاور اس کثرت سے بیان کرتے رہے کہ انکی کتب کو پڑھ کر حیرت آتی ہے۔ چنانچہ میں اسجگہ صرف موجز کی کسی قدر عبارت مختصراً بیان کر دیتا ہوں جو ایک عام درسی کتاب ہے۔ اس کتاب کا مسلمان مصنف شراب کے وصف کو یوں بیان کرتا ہے:۔
’’اور چاہیے کہ مجلس شراب کے اردگرد منظر لذیذ ہو۔ پھول ہوں۔ پیارے دوست ہوں عمدہ خوشبو ئیں ہوں۔ دل خوش کن راگ ہو اور ہرغم پہنچانے ولی اور دل کو تنگ کرنیوالی چیز کو دور کر دینا چاہیے۔ مثلاً بغل کی بو، بوسیدہ لباس، غم و غصہ اور شراب نہا کر اور عمدہ کپڑے پہن کر اور سراور داڑھی کے بال کھلے چھوڑ کر اور ناخن کٹوا کر پینی چاہیے۔ اور یہ بھی چاہیے کہ جس مقام پر شراب پی جائے وہ ہوادار اور کھلا ہو۔ اور جاری پانی کے کنارے پر ہو۔ اور اس وقت لطیفہ گو دوست ساتھ ہوں کیونکہ شراب نفسانی قوتوں کو تحریک کرتی ہے اور تمام شہوات کو اُبھارتی ہے پس جب کوئی قوت اپنے مطلب کو نہیں پاتی توتکلیف محسوس کرتی ہے اور منقبض ہو جاتی ہے پس نفس شراب کی طرف پورے شوق سے راغب نہیں ہوتا۔ اور نہ پورے طور پر اسے ہضم کرتا ہے ۔ پس شراب ک نفع کم ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات شراب کا پینا بیگار ہو جاتا ہے اور شراب پینے سے نفع کی نسبت نقصان زیادہ ہو جاتا ہے۔‘‘
راب کی نسبت یہ رائے ساتویں صدی ہجری کے ایک مصری مسلمان مصنف کی ہے اور اس سے قیاس کی اجا سکتا ہے کہ باوجود سات سو سال کی علمی ترقی کے مسلمان بھی شراب کی مضرت کو علمی طور پر سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اور اس وقت تک کی تحقیقات سے مجبور ہو کر لکھتے رہے ہیں کہ شراب کا نفع اس کی مضرتوں سے زیادہ ہے حالانکہ قرآن شریف صاف فرما چکا ہے کہ اس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ ہے۔ غرض قرآن کریم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے جو تعلیم شراب کے متعلق تمام مذاہب کے برخلاف دی تھی اور جس طرح دی تھی وہاں انسانی عقل نہیں پہنچ سکتی تھی۔ حتیٰ کہ باوجود قرآن کریم کے بیان کے خود مسلمان اطباء علمی طور پر شراب کی مضرت کو ثابت نہیں کر سکے اور ان کو مجبوراً اس امر کا اقرار کرنا پڑا کہ شراب ایک نہایت ہی نفع رساں شے ہے۔
زمانہ پر زمانہ گذرتا گیا اور صدی ک بعد صدی آتی گئی مگر شراب کے متعلق وہی تحقیق رہی جو ہزاروں سال سے چلی آتی تھی کہ شراب ایک عمدہ شے ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس تحقیق کی اور بھی تصدیق ہوتی گئی اور اگر کسی علم کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے کلام کی تکذیب کر سکے تو کہا جا سکتا ہے کہ علم طب نہایت دلیری سے قرآن کریم کے اس ارشاد کی تکذیب صدیوں تک کرتا رہا۔ یونانی طب کے دور ختم ہونے اور طب جدید کے دور شروع ہونے پر اور ہزاروں تحقیقاتوں کو تو ردی کر کے پھینک دیا گیا۔ لیکن شراب کی خوبیوں کے اظہار پر پہلے سے بھی زیادہ زور دیا جانے لگا۔ اگر طب قدیم تندرست آدمی کی صحت کے قیام اور کمزور کی طاقت بڑھانے کیلئے شراب کے استعمال کو مفید قرار دیتی تھی طب جدید نے بعض خطرناک قسم کے مریضوں کا علاج ہی برانڈی تجویز کیا اور اس کے فوائد پر اس قدر زور دیا جانے لگا کہ کوئی ہسپتال مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا جس میں برانڈی کی چند بوتلیں نہ رکھی گئی ہوں۔ اور شراب کو آبِ حیات قرار دیا جانے لگا۔ اور بعض لوگ علی الاعلان کہنے لگے کہ جب تک شراب کو اسلام جائز نہ قرار دے دنیا کا اسلام کیطرف جھکنا ناممکن امر ہے۔ مگر باوجود ان تمام تحقیقاتوں اور طبعی شہادتوں کے قرآن کریم کا یہ فیصلہ روشن حروف میں چمک رہا تھا کہ شراب کی مضر میں اس کے فوائد سے زیادہ ہیں۔ اور باوجود زمانہ کی ناموافق رائے کے کوئی شخص اس فیصلہ کو بدل نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ قرآن کریم خدا کا کلام اور آخری شریعت ہے جس کے بعد کوئی اور شریعت نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کہ شراب کی مضرتیں صرف جسم انسانی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا اثر اخلاق پر بھی پڑتا ہے اور بہت پڑتا ہے جیساکہ خود قرآن کریم نے سورۃ مائدہ میں اس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ بھی فرمایا ہے کہ شیطان تمہارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے عداوت اور بُغض پید ا کرنا چاہتا ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو کھانے پینے کی چیزوں کے ان اثرات کی طرف جو اخلاق پر ہوتے ہیں توجہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اور اس زمانہ میں تو ایک بہت بڑی مشکل یہ بھی پیدا ہو ئی تھی کہ تمدن اور تہذیب کی خرابی اور زوال اور انحظاط کے باعث وہ قوم جو راب سے مجتنب ہے اپنے اخلاق میں بہت ہی گر گئی تھی۔ پس مقابلہ کیا جاتا تو کس طرح اور چند مثالوں سے کبھی کوئی مسئلہ پوری طرح صاف نہیں ہو سکتا۔ جو امر قوموں سے تعلق رکھتا ہو اس کے حل کرنے کے لئے قوموں کی ہی مثالیں درکار ہوتی ہیں اور ان کا بہم پہنچانا ناممکن ہو رہاتھا۔ پس علمی طور پر علم طب کے ذریعے ہی اس پر روشنی پڑتی تھی اور اس مسئلہ کا پورے طور پر فیصلہ ہو سکتا تھا۔
قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا ایک ایک لفظ جس قدر معانی پر دلالت کرتا ہے ان تمام معانی کی صداقت خداتعالیٰ خود ظاہر کرتا ہے اور زور آور نشانوں سے ثابت کرتا ہے ہاں بعض معانی کی صداقت ہمیشہ سے ثابت چلی آتی ہے۔ تاکہ ہر زمانہ کے لوگوں کے لئے وہ حجت ہو۔ اور بعض معانی کی صداقت وہ آہستہ آہستہ مختلف زبانوں میں ثابت کرتا ہے۔ تا معلوم ہو کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے اور کسی انسان کا اس کی تالیف میں دخل نہیں کیونکہ اس میں وہ باتیں ہیں جو اس زانہ کے علوم سے تعلق نہیں رکھتیں۔ شراب کے حکم کے متعلق بھی یہ دونوں پہلو اختیار کئے گئے تھے۔ اس کی اخلاقی مضرتیں تو ہر زمانہ میں ثابت کی جا سکتی تھیں۔ گو لوگ اس کی طرف پوری توجہ کریں یا نہ کریں۔ اور گو بعض زمانوں میں بہ نسبت دوسرے زمانوں کے ان کا ثابت کرنا زیادہ مشکل ہو ۔لیکن شراب پینے کی چیز ہے اور پینے کی چیزوں کا پہلا اثر جسم انسانی پر پڑتا ہے اورا ن اشیاء کے متعلق طبعًا لوگوں کی توجہ بھی ایسے ہی اثرات کے معلوم کرنے کی طرف پھرتی ہے۔ پس اس حکم کی اہمیت اور خوبی اسی وقت پورے طور پر منکشف ہو سکتی تھی جبکہ اس کے جسمانی اثرات کی مضرتیں بھی روز روشن کی طرح ثاب ہوں۔ اور پھر اس کے نفع سے زیادہ ثابت ہوں۔ اس اظہار ِ حقیقت کا بھی آخر وقت آگیا اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو بعض ایسی ایجادوں کی توفیق دی جن کے ذریعہ سے انسان نہایت باریک اؑصاب اور ریشوں پر مختلف ادویات اور اغذیہ اور تغیرات موسم اور احساسات کا جو اثر ہوسکتا ہے اسے معلوم کرنے کے قابل ہو گیا۔ ان ایجادوں نے جہاں اور عظیم الشان تغیرات پیدا کئے ہواں شراب کے متعلق بھی قدیم علمی تحقیقات کی غلطی کو ثابت کر دیا اور اکثر علماء طب کو اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس کے ضرر اس کے نفعوں سے زیادہ ہیں اس قدیم اور مستحکم خیال کے بدل دینے کا فخر علم النفس کے ایک ماہر کرپن کو حاصل ہے جس نے اپنے بعض ہم کٰالوں ی مدد سے کوشش کر کے اس امر کو ثابت کر دیا کہ شراب کی چھوٹی سے چھوٹی مقدار کے ایک ہی دفعہ کے استعمال سے بھی انسانی دماغ کے باریک ریشوں اور الیٰ درجہ کے علمی مرکزوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے اسی طرح ہاج نے بھی الکوہل کے اس اثر کے متعلق تجربات کئے جو پٹھوں پر پڑتا ہے۔ اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ شراب کے استعمال سے برداشت اور ذکاوت اور صبر کی قوتوں کو نہایت سخت نقصان پہنچتا ہے۔ مسٹر الیگزینڈر برائس ایم۔ڈی ۔ڈی۔پی۔ایچ جو ماہر علم الاغذیہ ہیں شراب کے متعلق اپنی تحقیقات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔
’’ اس میں کچھ شبہ اب باقی نہیں رہا کہ شراب درحقیقت ایک نہات سخت زہر ہے جو باریک ریشوں کو تباہ کر دیتا ہے پہلے تو یہ اپنا خواب آور اثر ظاہر کرتا ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ خصوصاً اعصاب کو سخت نقصان پہنچاتا ہے ۔ درحقیقت اس کا حق نہیں کہ اسے مقوی ادویہ میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ صرف ایک ایسی دوائی ہے جو ایک عارضی تحریک کر دیتی ہے مگر اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک ضعف رہتا ہے۔ قریبا تمام سمجھدار ڈاکٹروں کی رائے اب یہی ہو گئی ہے کہ صحب یں اس کی قطعًا کوئی ضرورت نہیں ۔ اور اگر بیماری کے علاج میں اس کا فائدہ بالکل مشتبہ نہ سمجھا جائے تو بھی یہ بات تو متحقق ہے کہ یہ اس قابل ہے کہ اس کی جگہ عموماً دوسری ایسی دوائیں استعمال کی جائیں جو اس سے کم ضرر رساں ہیں۔‘‘
ان انکشافات کا اثر لازمی طور پر علم طب پر پڑنا تھا اور پڑا۔ چنانچہ۱۹۰۰ء سے برابر علم طب کے ماہروں کی توجہ اس طرف پھرنی شروع ہو گئی جکہ شراب کے استعمال کو کم کیا جائے۔ چنانچہ ایڈنبرگ کے ایک ہسپتال میں جہاں ۱۸۹۱ء میں فی مریض اوسطاً نو روپیہ کی شراب خرچ ہوئی تھی ۱۹۰۰ء میںکل ۱۲آنے کی خرچ ہوئی۔ اس تجربہ کی کامیابی نے ان کی توجہ کو اور بھی کھینچا اور ۱۹۰۹ء میں سرتھامس فریرز نے جو بہت بڑے ڈاکٹروں میں سے ہیں اپنے زیر علاج مریضوں کو ایک ماشہ شراب بھی استعمال نہیں کرائی۔ اب اب بہت سے ہسپتال اس قسم کے تجارب کر رہے ہیں اور سوائے چند شدید بیماریوں مثلاً نمونیا خناق اور محرقہ کے بہت کم استعمال کی جا جاتی ہے۔ اور تندرستوں کے لئے بھی اس کا استعمال اب مضر سمجھا جاتا ہے ۔ غرض قرآن کریم کے فیصلہ کے تیرہ سو سال بعد دنیا پر اب آکر روشن ہو ا ہے کہ شراب کے ضرر اس کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں۔ اور علمی طور پر یہ بات تحقیق کو پہنچ گئی ہے اور اب وہ لوگ جو اچھی بات کے قبول کرنے کیلئے کسی رسم یا عادت یا خیال یا اصول کی پرواہ نہیں کرتے اپنی غلطی کی اصلاح کی فکر کر رہے ہیں ۔ وہ لوگ اپنی کوشش میں کامیاب ہونگے یا عادات رسم اور پرانے مذہبی خیالات غالب آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ مگر یہ بات ظاہر ہے کہ یہ جدوجہد اور جدید علمی تحقیق اس امر کو روز روش کی طرح ثابت کر رہی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم باقی تمام مذہاب کی تعلیمیوں پر ایک زبردست فوقیت رکھتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کے بعض احکام کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے جوتمام دیگر مذاہب کے برخلاف دیتا ہے دنیا کو تیرہ سو سال کی تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس لمبی تحقیق کے بعد ہزاروں دھکے کھا کر وہ اسی نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ جو حکم اسلام نے دیا تھا وہی درست اور صحیح تھا۔
ایک میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شراب کے معاملہ میں نہ صرف بلحاظ تعلیم کے اسلام کو دیگر ادیان پر تفوق حاصل ہے بلکہ بلحاظ تاثیر کے بھی دیگر ادیان پر اور تمام اخلاقی تحریکوں پر اسے تفوق حاصل ہے۔ جن لوگوں نے شرابیوں کی حالت کا کبھی غور سے مطالعہ کیا ہے اور ایسے لوگوں سے ان کو واسطہ پڑا ہے جنہیں شراب کی عادت ہو چکی ہو۔ وہ اس امر کو خوب اچھی طرح جانتے یہں کہ شراب کی عادت جن لوگوں کو پڑ جاتی ہے ان کے لئے اس کا چھوڑنا سخت مشکل ہوتا ہے ۔ بلکہ دوسرے نشوں کے برخلاف شراب میں ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ جن لوگوں کو اس کی سخت عادت پڑ جاتی ہے ان کو اس سے ایک قسم کا مجنونانہ لگائو ہو جاتا ہے جو ورثہ کے طور پر ان کی اولاد میں بھی منتقل ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ جب تک شراب میں مخمور نہ رہیں۔ ان کو چین نیہں آتا اور اس کے حاصل کرنے کے لئے سخت سے سخت جرم سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ پس شراب کی عادت کا چھڑادینا کوئی معمولی بات نہیں۔ میں بتا چکا ہوں کہ صرف اسلام ہی ایک مذہب ہے جس نے نہایت عمدگی سے اور دلائل کے ستھ شراب کی ممانعت اپنے پیروئوں کو کی ہے۔ اور باقی سب ادیان نہ صرف یہ کہ شراب کے استعمال سے اپنے پیروئوں کو روکتے نہیں بلکہ ان میں سے بعض مذاہب نے اس کا استعمال مذہبی رسوم کے اندر داخل کر رکھا ہے لیکن میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ باوجود اس اجازت کے بلکہ بعض صورتوں میں حکم کے ان مذاہب کے بڑے بڑے آمیوں نے شراب کی مضرتوں کو دیکھ کر یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ اگر شراب کا استعمال اسی طرح جاری رہا تو ان کی قومیں کیا بلحاظ صحت و تندرستی کے اور کیا بلحاظ اخلاق و آداب کے بہت گر جائیں گی۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے عالم سے ہی ایسے لوگ ہوتے چلے آئے ہیں جو یہ تحریک کرتے رہے ہیں کہ شراب کا استعمال کم کیا جائے۔ اور اعتددال کو ہر حالت میں مدنظر رکھا جائے۔ تمام مشرقی ممالک کی ترایخ(اور یہی ممالک پرانے زمانہ میں تہذیب و تمند کے جھنڈے کوبلند کرنے والے تھے) اس بات پر شاہد ہے کہ قدیم سے قدیم زمانہ سے ہندوستان، ایران، چین۔ فلسطین ۔مصر۔یونان اور کارتھج کے علماء مذہبی فلاسفر اور مقنن بدستی سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا یہی کہ اگر بعض آدمیوں نے کچھ مدت کے لئے شراب کا استعمال کم کر دیا تو کچھ عرصلہ کے بعد پھر تما م کا تمام ملک اس ’’آپ حیات‘‘ سے اپنی روح کو تازہ کرنے کے لئے دوڑپڑا۔ امریکہ کو ہی دیکھ لو۔ امریکہ میں شراب نوشی کے انسداد کے لئے حکمومت نے کتنی کوششیں کیں۔ لیکن چونکہ ایمان ان لوگوں کے دلوں میں نہیں تھا بلکہ ممانعتِ شراب کے پیچھے صرف ایک قانون کا م کر رہا تھا اس لئے یہ تحریک ناکام رہی۔ ہزار ہا موتیں صرف اس وجہ سے واقعہ ہوئیں کہ لوگ شراب پینے کے شوق میں سپرٹ لی لیتے اور سپرٹ میں چونکہ زہر یلی چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اس لئے کئی اندھے ہو جاتے اور کئی مر جاتے۔ پھر امریکہ میںنصف سے زیادہ ایسے لوگ تھے جو باہر سے ناجائز طور پر شرابیں منگواتے اور پیتے ۔ گورنمنٹ کا قانون تھا کہ ڈاکٹر کے سرٹیفیکیٹ کے بعغیر کسی شخص کو شراب نہیں مل سکتی اس قانون کی وجہ سے ہزاروں ڈاکٹروں کی آمدنیاں پہلے سے کئی گنا بڑھ گئیں وہ فیس لے کر سرٹیفیکیٹ دے دیتے کہ فلاں شخص کا معدہ کمزور ہے اور کوئی ایسی بیماری ہے اسے پینے کیلئے شراب ملنی چاہیے۔ غرض ہزاروں ڈاکٹروں کا گذارہ محض اسی قسم کے سر ٹیفیکیٹوں پر ہو گیا اور باوجود شراب نوشی کے خلاف قانون بن جنے کے لوگ کئی قسم کے حیلوں سے کوشش کرتے کہ کسی طرح قانون شکنی کریں۔ غرض کسی ملک میں کسی مدبر کسی مقنن کسی واعظ اور کسی فلاسفر کی کوشش کا یہ نتیجہ نہیں نکلا کہ لوگوں نے واقعہ میں شراب کم کر دی ہو۔ اور وہ س عہد پر قائم رہے ہوں۔ اگر ایکی جماعت نے اس کا استعمال کم کر دیا تع دوسرے نے اس کی کسر پوری کر دی۔ شراب بہر حال اپنے مرکز پر قائم رہی اور اسے کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا سکا۔
اب آئو اور اس کے مقابلہ میں تاثیر کو دیکھو جو انسدادِ شراب نوشی کے متعلق اسلام کو حاصل ہے اسلام اس وقت دنیا میں آیا جبکہ علم و سائینس کا رواج دنیا میں بہت کم تھا۔ یونانی علوم اپنی ترقی کی انتہا کو پہنچ کر مسیحی پادریوں کی سعی سے گوشہ گمنامی میں جا بیٹھے تھے اور سوائے معدودے چند آدمیوں کے دوسرے ولگ ان سے ناواقف تھے۔ خصوصاً ایشیائے و چک پر جس کا ان علوم کی ترقی میں خاص حصہ تھا سخت اندھیراچھا یا ہوا تھا۔ ہندوستانی فلسفہ بھی تنزل پر تھا۔ ایران بھی اخلاقی اور علمی طور پر انحطاط کی طرف قدم زن تھا۔ اور عربوں کی حالت توسخت ناگفتہ بہ تھی۔ حجازی عربوں میں پڑھنا لکھنا ہی بہت بڑا علم تھا۔ اور اس جن کے واقف بھی چند آدمیوں سے زیادہ نہ تھے۔ علم الاخلاق ان کے ہاں وہی تھا جو ان کے شاروں نے اپنے شعروں میں نظم کیا اور علم طب ان کیہاں وہی تھا جو ان کی بڑی بوڑھیاں بطور صدری نسخوں کے یکے بعد دیگرے ایک دوسری کو سناتی چلی آئی تھیں۔ اور وہ علم الاخلاق جس کی طرف ان کیشاعروں نے راہنمائی کی ہے یہی ہے کہ شراب انسان کے اخلاق کو اعلیٰ کرتی ہے اور اسے دلیر اور سخی بناتی ہے اور یہی دو خصائل ہیں جن کی رب پر واہ کرتا تھا۔ اس کے نزدیک تمام علم الاخلاق انہیں دو صفات میں مرکوز تھا۔ اور ان کا علمِ طب بھی انکو یہی ہدایت کرتا تھا کہ ہر مرض کا علاج شراب کا جام ہے پس عرب اپنے علوم کے لحاظ سے شراب سے متنضر نہیں بلکہ اس کا دلدادہ تھا۔ ہ رعرب شراب کا عادی تھا۔ اور عادی بھی ایسا کہ اس کے روز مرہ کے شغلوں کو پڑھو شراب کے ذکر سے ان کی کوئی نظم خالی نظر نہیں آتی۔ عرب کا مشہور شاعر طرفہ جو اپنی زبان کی خوبی اورمضامین کی بلندی کی وجہ سے عرب کا دوسرے نمبر کا شاعت سمجھا جاتا ہے لکھتا ہے:۔ ؎
وَاِنْ تَبْغِنِیْ فِیْ حَلْقَۃِ الْقَوْمِ تُلْفِنِیْ
وَاِنْ تَقْقَنِصْنِیْ فِی الْحَوَانِیْتِ تَصْتَدِیْ
کَرِیْم’‘ یُرَوِّیْ نَفْسَہ‘ فِیْ حَیَاتِہٖ
سَتَعْلَمُ اِنْ مِتْنَا غَدًا اَیُّنَا المصَّدِیْ
یعنی اگر تو میری تلاش قوم کی مجلس شوریٰ میں کرے تو تو مجھے وہاں پائیگا۔ یعنی میں باوجود نو عمر ہونیکے قوم کا معتمد ہوں(یہ صرف بیس سال کی عمر مین مارا گیا تھا) اور اگر تو مجھے شراب کی دو کانوں پر تلاش کرے تو وہاں بھی مجھے پائیگا۔ یعنی دو ہی مقام ہیں جہاں میں مل سکتا ہوں اپنی دانائی کی وجہ سے قوم کی مجلس شوریٰ میں مجھے جانا پڑتا ہے اور اپنی شراب نوشی کی وجہ سے شراب خانوں پر میرا پھیرا ہوتا رہتا ہے ۔ پھر کہتا ہے میں اور شریف النفس ہوں کہ اپنے نفس کو میں نے اس زندگی میں سیراب کر دیا ہے۔ اور اگر اے دوستوہم مر جائیں تو تم کو بعد مرون معلوم ہو جائیگا کہ کون پیاسا ہے۔ یعنی میں اس قدر شراب پینے والا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی نشہ میں ہی اٹھوں گا۔ طرفہ کی یہ باتیں باتیں ہی نہیں بلکہ وہ اس پر عمل پیرا بھی تھا۔ چنانچہ عرب کے بادشاہ عمر و بن ہند نے جب اس کے بعض اشعار پر جو اس نے بادشاہ کی ہجو میں کہے تھے ناراض ہو کر عین اس کے عنفو انِ شباب میں اس کے قتل کا حکم اپنے والئی بحران کو لکھا اور اس نے طرفہ سے دریافت کیا کہ وہ اپنے لئے بہترین طریقہ موت کا چُنے۔ تو اس نے یہ پسند کیا کہ اس کے پاس بہت سی شراب رکھدی جائے اور اسی کو پیتے وقت اس کی رگوں کا خون نکال کر اسے قتل کر دیا جائے۔
اسی طرح عرب کا ایک شاعر ابو ممجن ثقفی اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے کہتا ہے ؎
اِذَامِتُّ فَادْفْنِّیْ اِلیٰ اَصْلِ کَرْمَۃٍ
تُرَوِّی عِظَامِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ عُرُوْ قُھَا
وَلَا تُدْفِنِّیْ الْفَلَاۃِ فَاِنَّنِیْ
اَخَافُ اِذَا مَامِتُّ اَنْ لَّا اَذُوْقَھَا
یعنی جب میں مر جائوں تو مجھے انگور کے درختوں کے پاس دفن کیجییو تاکہ اس کی جڑیں میری ہڈیوں کو سیراب کرتی رہیں اور مجھ جنگل میں دفن نہ کیجیئو۔ تا ایسا نہ ہو کہ مرنے ے بعد میں شراب سے محروم رہ جائوں۔ (کتاب الشعر و الشعراء لا بن قتیبہ)
شعراء کے کلام کے علاوہ لغتِ عرب بھی عرب کے شراب پر شیدائی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ عربی زبان میں شراب کے نام اس کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ انکو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اور کسی زبان میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تمدن عرب بھی اس بات کا شاہد ہے کہ عرب شراب نوشی میں نہ صرف کامل تھا بلکہ باقی تمام دنیا سے بڑھا ہوا تھا۔ کیونکہ عرب میں شراب کشید کرنے کا طریق بہت قدیم زمانہ میں دریافت کر لیا گیا تھا۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برمٹنیکا میں لکھا ہے:۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانہ کے لوگوں کو شراب کے کشید کرنے کا طریق معموم تھا اور تاریخی کے زمانوں میں عرب لوگ شراب کے کشید کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔‘‘
اس تاریخی شہادت معلوم ہوتا ہے کہ عرب قدیم زمانہ میں شراب بنانے اور اس کے استعمال کرنے میں سب سے آگے تھے۔ بلکہ وہ دنیا کے لئے کشید گردہ شراب کی جو خمیر سے تیار کردہ شراب سے زیادہ سخت اور زیادہ عادی بنا دینے والی ہے اکیلی منڈی بنا ہوا تھا یہ ملک تھا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے۔ اور یہ قوم تھی جس سے شراب چھڑانے کا انہوں نے ارادہ کیا۔ اس ارادہ کے پورا کرنے کیلئے انہوں نے کیا تدابیر اختیار کیں۔ اور ان کا کیا نتیجہ نکلا یہ ایک حیرت انگیز تاریخی واقعہ ہے جس پر تمام عقلیں دنگ ہیں اور کل دانا انگشت بدنداں۔ اس شراب کے نشہ میں مخمور رہنے والی قوم اور شراب کو اپنا ایک ہی دل لگی کا ذریعہ سمجھنے والی جماعت میں ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نکلتے ہیں۔ اور مختصر اور صاف لفظوں میں خداتعالیٰ کا یہ حکم سنا دیتے ہیں کہ شراب کے نقصانات چونکہ اس کے نفع سے زیادہ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لئے اس کو حرام کر دیا ہے پس ہر ایک مسلمان کو چاہیے کہ اس سے پرہیز کرے اور اس کا بنانا۔ بیچنا ۔ پینا اور پلانا ترک کر دے۔ اور اس حکم کو سن کر وہ شراب کے شیدائی اپنا سر نیچا کر لیتے ہیں۔ اور ایک شخص کے منہ سے بھی اس کے خلاف آواز نہیں نکلتی۔ ہر ایک ان میں سے شرح صدر سے اس حکم کو قبول کر لیتا ہے اور اس وقت کے بعد شراب کا گلاس کسی ایک فرد کے منہ کے قر
تَشْعُرُوْنَo
وقت وہ فارم پُر کرتے ہیں جو داخلہ کیلئے محکمہ تعلیم کی طرف سے مقرر ہوتا ہے ۔امتحان کیلئے یونیورسٹی کا فارم پُر کرتے ہیںاور اس میں ذراسی غلطی ہونے سے بھی اُن کا دل دھڑکنے لگ جاتا ہے ۔ اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں کام خراب نہ ہو جائے ۔ مگر خدا تعالیٰ سے بغیر کوئی فارم پُر کرنے کے اور بغیر کسی شرط پر عمل کرنے کے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ حضور اپنے ملائکہ کی فوج بھیجکر ہماری مدد کیجئے۔حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہاں بھی ایک فارم کی ضرورت ہے ۔ جب تک وہ فارم پُر کر کے اُسپر دستخط نہ کئے جائیں ۔اُس وقت تک خدا تعالیٰ کی نصرت شامل حال نہیں ہو سکتی اور وہ صبر اور صلوٰۃ کا فرم ہے ۔ جب تک صبر اور صلوٰ ۃ کے فارم پر دستخظ نہ کروگے تب تک خدا تعالیٰ کی مدد حاصل نہیں ہو سکے گی۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔اس جگہ اللہ تعالیٰ نے صلوٰۃ کے لفظ کو اُڑادیا ہے ۔ اور صرف َ مَعَ الصّٰبِرِیْنکے الفاظ رکھے ہیں۔ مَعَ اْلُمصَلِّیْنَ نہیں فرمایا ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں صابر کا لفظ اپنے اندر استقلال کے معنے رکھتے ہے اور صابر کا لفظ صرف صبر کا قائم مقام نہیں بلکہ صبر اور صلوٰۃ دونوں کا قائم مقام ہے ۔پس اس کے صرف یہ معنے نہیں کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے بلکہ اسکے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صبرو صلوٰۃ دونوں استقلال کے ساتھ قائم رہنے والوں کے ساتھ ہے ۔ کیونکہ دعا بھی وہی قبول ہوتی ہے جو استقلال سے کی جائے ۔ پس اللہ تعالیٰ صبر کرنیوالوں کے ساتھ رہے کہ یہ معنے ہیں ۔ کہ اگر صبر اور صلوٰۃ کے ذرائع کو استقلال سے استعمال کر و گے تو کامیاب ہو جاؤگے ۔
اِس آیت میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے جو کچھ عرصہ تکلیف برداشت کرتے اور یہ کہنے لگے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تو ہماری سُنتا ہی نہیں ۔ہم تو اُسے پکار پکار کر تھک گئے اب دعا کرنیکا کیا فائدہ ۔اور بعض لوگوں کو تو اس قدر ٹھوکر لگتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے ہی منکر ہو جاتے ہیں۔پس اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَکہہ کر بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی کوحاصل ہوگی جو مشکلات کے وقت استقامت دکھا ئیگا اور صبر اور صلوٰ ۃ کے ذرائع کو استقلال سے استعمال کرتا چلا جائیگا۔
۶۹؎حل لغات:۔ لَا تَقُوْلُوْ الِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتُٗ۔جب قَالَ کے بعد صلہ کے طور پر لام آئے تو اُس کے معنے خطاب کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب قَالَ لِفُلَافٍ کہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اُس نے فلاں کو کہا ۔ اِسی طرح قَالَ لِفُلَافٍکے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ اُس کے حق میں کہا ۔ پس اس آیت میں دونوں معنے ہیں ۔ یہ بھی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارے جاتے ان کو مردہ مت کہواور یہ بھی کہ تم اُن کے بارہ میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں۔ اس آیت میں اَمْوَاتُٗ سے پہلے اور بَلْ کے بعد دونون جگہ ھُمْ محذوت ہے ۔ پس عبادت یوں ہوگی ھُمْ اَمْوَاتُٗ بَلْ ھُمْ لَحْیَآئُٗ۔
اَمْوَاتُٗکیلئے دیکھیں حل لغات سورۃ بقرۃ ۶۹؎یَّشْعُرُوْنَ :۔ دیکھیں حل لغات سورۃ بقرہ۱۵؎
تفسیر :۔ اِس آیت میں خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونیوالوں کو اس لئے زندہ کہا گیا ہے ۔ کہ اہل عرب میں یہ رواج تھا کہ جو لوگ ماریجائیں اور اُن کا بدلہ لے لیا جائے اُن کلئے تو وہ اَحْیَاء کا لفظ استعمال کرتے تھے اور اُن کو زندہ کہتے تھے ۔لیکن جن مقتولوں کا بدلہ نہ لیا جائے وہ انہیں اَمْوَاتُٗ یعنی مردے کہا جاتے تھے ۔یہ محاورہ اُن میں اس لئے رائج ہوا کہ عربوں میں یہ مشہور تھا کہ جو شخص ماراجائے اور اس کا بدلہ نہ لیا جائے اُس کی روح الو کی شکل میں آکر چیختی رہتی ہے اور جب اس کا بدلہ لے لیا جائے تب وہ آرام کرتی ہے ۔ اس سے ان میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ جس مقتول کا بدلہ لے لیا جائے وہ زندہ ہوتا ہے ۔اور جس کا بدلہ نہ لیا جائے وہ مردہ ہوتا ہے ۔چنانچہ انہی معنوں میں ایک شاعر حارث بن حلزہ نے کہا ہے کہ ؎
اِنْ فَبِشْتُمْ مَا بَیْنَ مَلْحَۃَ فَالصَّاقِبٖ
فِیْھاَ ا لْاَ مْوَ تُ وَ ا لْاَ حْیَآء‘
(سبعہ معلقات قصیدہ نمبر۷)
اس میں شاعر فریق مخالفکو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ تم بڑے شریف اور معزز ہو مگر ایسا ہرگز نہیں تم ملحہ اور صاقب کے درمیان جہاں ہمارے اور تمہارے در میان جنگ ہوئی تھی جائو اور وہاں قبریں کھود کر دیکھو تو اُن میں تمہیں کچھ مردے دکھائی دینگے اور کچھ زندہ۔ یعنی تم نے اپنی قوم کے مقتولوں کا بدلہ نہیں لیا۔ اس لئے وہ مردہ ہیں مگر ہمارے جو آدمی نکلیں گے وہ بزبان حال بتاتے جائیں گے کہ وہ زندہ ہیں کیونکہ ان کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ اس میں اس بارہ میں اتینی غیرت تھی کہ اگر کسی مقتول کا بدلہ نہ لیا جاتا تو وہ اُسے حد درجہ کے بے غیرتی سمجھتے تھے کیونکہ ان میں یہ روایت چلی آتی تھی کہ جس مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے اس کی رُوح اُلو بن کر رات دن چیختی رہتی ہے اور جب اس کا بدلہ لے لیا جائے تب وہ نجات پاتی ہے۔ پس شاعر کہتا ہے کہ تم ہمارے باپ دادوں کی قبریں کھود کر دیکھو اور ان سے پوچھو کہ ان کا بدلہ الے لیا گیا ہے یا نہیں ہم نے انکی بجائے دشمن قبیلہ کے کئی کئی اشخاص مار دیئے ہیں۔ پس ہمارے باب دادا مرے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں۔ اگر اُن میں کچھ لوگ مرے ہوئے نظر آئیں تو وہمارے باپ دادا نہیں ہونگے بلکہ تمہارے باپ دادا ہونگے غرض جس مقتول کا بدلہ لے لیا جائے اہل عرب کے محاورہ کے مطابق وہ زندہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جو مسلمان شہید ہو گئے ہیں تم انہیں مردہ مت کہو۔ وہ خداتعالیٰ کے زندہ سپاہی ہیں۔ اور خداتعالیٰ ان کا ضرور بدلہ لے گا۔ چنانچہ اگر ایک صحابیؓ مارا گیا تو اس کے مقابلہ پر مشرکوں کے پانچ پانچ آدمی مارے گئے۔ اور ہر جنگ میں کفار مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہلاک ہوئے۔ سوائے جنگ ِ اُحد کے کہ اس میں بہت سے مسلمان مارے گئے تھے مگر اُن کا بدلہ بھی خداتعالیٰ نے دوسری جنگوں میں لے لیا۔
دوسرے معنی محاورہ میں اس کے یہ ہوتے ہیں کہ جس شخص کا کام جاری رکھنے والے لوگ پیچھے باقی ہوں اس کے نسبت بھی کہتے ہیں۔ مَامَاتَ کہ وہ مرا نہیں اور مردہ اسے کہتے ہیں جو مرے اور اس کا کوئی اچھا اور نیک قائم مقام نہ ہو۔ چنانچہ عبدالملک بادشاہ نے زہری کے ایک مدرسہ کا معائنہ کیا تو اس مدرسہ کے طلباء میں اصمعی بھی تھے جو بہت بڑے مشہور نجومی گزرے ہیں۔ بادشاہ نے اصمعی کا امتحان لیا اور اس سے کوئی سوال پوچھا تو اصمعی نے اس کا نہایت معقول جواب دیا۔ بادشاہ نے اس کا جواب سن کر خوش ہو کر زہری سے کہا کہا مَامَاتَ مَنْ خَلَفَ مِثْکَ کہ وہ شخص نہیں مرا جس نے ایسے لوگ پیچھے چھوڑے ہوں جیسا کہ تو نے چھوڑے ہیں۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ یہ لوگ مردہ نہیں کہلا سکتے کیونکہ جس کام کے لئے انہوں نے جان دی ہے اس کے چلانے والاے لوگ موجود ہیں۔ اور ایک کے مرنے پر دو اس کی جگہ لینے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پس ان کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اچھے قائم مقام پیدا کر دیئے ہیں۔ اور یہ لوگ اپنی تعداد میں پہلے سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ مردہ تو وہ ہوتا ہے جس کا بعد میں کوئی اچھا قائم مقام نہ ہو مگر ان کے تو بہت سے قائم مقام پیدا ہو گئے ہیں اور اائندہ بھی ایسا ہی ہو گا کہ ہم ان میں سے ایک ایک کی جگہ کئی کئی قائم مقام پیدا کرتے چلے جائیں گے اور وہ قوم کبھی مرتی نہیں جس کے افراد اپنے شہداء کی جگہ لیتے چلے جائیں جو قوم اپنے قائم مقام پیدا کرتی چلی جاتی ہے وہ خواہ کتنی بھی چھوٹی ہو اسے کوئی مار نہیں سکتا پس فرماتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مسلمان مارئے گئے ہیں مسلمان مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں۔ اگر ان میں سے ایک مرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اگر جنگ بدر میں کچھ مسلمان مارتے گئے تو اُحد میں اس سے زیادہ کھڑے ہو گئے۔اُحد میں کچھ تکلیف پہنچی اور کچھ مسلمان مارے گئے تو غزوہ خندق میں اس سے زیادہ کھڑے ہو گئے۔ اور غزوہ خندق کے مقابلہ میں فتح مکہ کے موقعہ پر زیادہ لوگ آئے اور اگر فتح مکہ کے موقعہ پر ان کو کچھ نقصان پہنچاتو جنگ تبوک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کہیں زیادہ تعداد لے لگئے۔ غرض ہر قدم پر پہلے سے زیادہ قربانی کرنے والے لوگ اُن میں موجود ہوتے تھے۔ اور جو قوم قربانی کے اس مقام پر پہنچ جاتی ہے اُسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا اور ایسی قوم وہی ہوتی ہے جسے خداتعالیٰ خود کھڑا کرتا ہے۔
تیسرے معنے محاورہ میں اس کے یہ ہوتے ہیں کہ وہ رنج و غم سے آزاد ہیں۔ یعنی جس کا آخری حال یہ ہوا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی راہ میں قتل کیا گیا۔ اُسے اگلے جہان میں کیا دُکھ پہنچنا ہے۔ پس چونکہ وہ خوش و خرم ہیں اور اس زندگی سے اعلیٰ زندگی پا چکے یہں اس لئے ان کو مردہ نہ کہو۔کیونکہ موت غم کی حالت پر دلالت کرتی ہے ورنہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد زندگی تو کافر و مومن سب کو ملیگی پس اُن کو مردہ نہ کہنے سے یہ منشاء ہے کہ مردہ کہنے میں دُکھ کا مفہوم پایا جاتا ہے حالانکہ وہ سُکھ میں ہیں اور اُن کو خداتعالیٰ کی طرف سے انعامات مل رہے یہں پھر انہیں مردہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ شہید کو ایک اعلیٰ حیات مرنے کے بعد ہی مل جاتی ہے۔ جبکہ دوسرے لوگوں کو عرصہ تک ایک درمیانی حالت میں رہنا پڑتا ہے۔ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید تین دن کے اندر اندر زندہ ہوجاتا ہے۔ اور اس کمال کو حاصل کر لیتا ہے جسے دوسرا شخص ایک لمنے عرصے میں حاصل کرتا ہے۔ پس فرماتا ہے ان لوگوں نے مرکر فوراً وہ زندگی حاصل کر لی ہے جس میں رُوح کو کمال حاصل ہو جاتا ہے ورنہ عام زندگی میں تو سب لوگ شریک ہوتے ہیں۔ حتیّٰ کہ ابوجہل کو بھی وہ زندگی حاصل ہو گی اگر وہ زندگی اُسے حاصل نہیں تو وہ جہنم میں کیسے جائیگا۔ پس زندگی تو مومن اور کافر دونوں کو حاصل ہوگی۔لیکن شہید چونکہ خداتعالیٰ کی خاطر اپنی زندگی دے دیتا ہے۔ اس لئے اُسے مرنے کے بعد ہی ایک اعلیٰ حیات مل جاتی ہے۔
پھر اس آیت میں شہید کو زندہ قرار دینے کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ راہ میں جان دینے میں مومن کو صرف یہی خدشہ ہوتا ہے کہ اگر میں مرگیا تو اعمال صالحہ سے محروم رہ جائوں گا۔ مثلاً ایک شخص کی عمر چالیس سال ہے ۔ اگر ساٹھ سال تک وہ اور زندہ رہتا تو اس عرصہ میں وہ ایک بہت سی نیکیاں کر سکتا تھا۔ پس موت کے راستہ میں صرف یہی ایک خیال اس کے لئے روک بن سکتا ہے ورنہ اگر وہ صحیح طور پر آخرت کو مقدم کرتا ہے تو کوئی دنیوی خیال اس کے راستہ میں روک بن ہی نہیں سکتا۔ یہی ایک خیال ہے جو اُسے جان دینے سے روک سکتا ہے کہ اتنی مدت کی نمازوں روزوں جہاد اور تبلیغ سے محروم رہ جائوں گا اس شبہ کی معقولیت کو اللہ تعالیٰ نے بھی تسلیم کیا ہے اور پھر اس کا جواب بھی دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَات’‘ بَلْ اَحْیَآء‘۔ تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والوں کو مُردہ مت کہو وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں۔یعنی شہید کے اعمال کبھی ختم نیہں ہو سکتے وہ زندہ ہے اور اس کے اعمال ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں۔ اس نے خدا کے لئے اپنی جان قربان کر دی اور خدا نے نہ چاہا کہ اُس کے اعمال ختم ہو جائیں۔ کوئی دن نہیں گذرتا کہ تم نمازیں پڑھو اور ان کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اُن سے محروم رہے کوئی رمضان نہیں گذرتا کہ تم اُسکے روزے رکھو اور اُن کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اس سے محروم رہے۔ کوئی حج نہیں کہ تم تکلیف اٹھا کر اس کا ثواب حاصل کرو اور شہید اس ثواب سے محروم رہے غرض وہ لوگ وہی برکتیں حاصل کر رہے ہیں جو تم کر رہے ہو اور اس طرح خداتعالیٰ کے قرب میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں جس طرح تم بڑھتے جا رہے ہو۔پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فلسفۂ موت و حیات پر نہایت لطیف رنگ میں روشنی ڈالی ہے۔ اور بتایا ہے کہ شہادت کا مقام حاصل کرنے والوں کو دائمی حیات حاصل ہوتی ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی فوجوں نے مارا ہو گا۔ وہ کس قدر خوش ہوئی ہونگی اور انہوں نے کس مسرت سے کہا ہو گا کہ لو یہ قصہ ختم ہو گیا۔ مگر کیا واقعہ میں وہ قصہ ختم ہو گیا؟ دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام حسین ؓ آج بھی زندہ ہیں۔ مگر یزید کو اس وقت بھی مردہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے رستہ میں قربان ہوتا ہے تو اس کا خون رائیگاں نہیں جاتا بلکہ اس کی جگہ اللہ تعالیٰ ایک قوم لاتا اور اپنے سلسلہ میں داخل کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں تم انہیں مردہ مت کہو کیونکہ وہ زندہ ہیں۔ خداتعالیٰ نے ان لوگوں کو زندہ اس لئے بھی کہا کہ جب ایک شخص کی جگہ دس کھڑے ہو گئے تو وہ مرا کہاں۔ اور جب وہ مرا نہیں تو اُسے مردہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ کے مقربین اور اس کی راہ میں شہید ہونے والے کبھی نہیں مرتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر لٹکائے گئے اور پھر وہ زندہ ہی صلیب سے اُتارے گئے گو جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے بعض نے یہ بھی سمجھا کہ آپ مر گئے ہیں۔ مگر آپ کو صلیب پر لٹکانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ اس صلیب پر لٹکانے کے جرم میں آج بھی جب کہ اس واقعہ پر انیس سو سال کا عرصلہ گذر چکا ہے یہود صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں۔ حالانکہ پچاس ساٹھ سال کے بعد لوگ اپنے دادوں پڑدادوں کا نام تک بھول جاتا ہیں بیسیوں آدمی ہیں جو مجھ سے ملتیہ یں اور میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ آپ کے دادا کا کیا نام تھا تو وہ بتا نہیں سکتے۔ اور کہتے ہیں پتہ نہیں کیا نام تھا اور اگر دادا کا نام لوگ جانتے بھی ہوں تو سو سال پہلے کے آباء کو تو لاکھوں کروڑوں میں سے کوئی ایک جانتا ہے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارنے کی کوشش پر انیس سوسال گذر گئے اور آج تک یہودیوں کو پھانسیاں مل رہی ہیں۔ اسی طرح مکہ کے جن اکابر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مارنا چاہا۔ کیا آج دنیا میں ان لوگوں کا کوئی نام لیوا ہے؟ اُحد کے مقام پر ابوسفیان نے آواز دی تھی اور کہا تھا کیا تم میں محمد( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو مارڈالا ہے ۔ پھر اس نے آواز دی۔ کیا تم میں ابو بکرؓ ہے؟ اور جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار ڈالا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں عمرؓ ہے؟ جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے عمرؓ کو بھی مار ڈالا ہے ۔لیکن آج جائو اور دنیا کے کناروں پر اس آواز دینے والے کے ہمنوا کفار کے سردار ابوجہل کو بلائو اور آواز دو ۔ کہ کیا تم میں ابوجہل ہے۔ تو تم دیکھو گے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام پر تو کروڑوں آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی اور ساری دنیا بول اُٹھیگی کہ ہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم میں موجود ہیں کیونکہ آپکی نمائندگی کا شرف ہمیں حاصل ہے۔ لیکن ابوجہل کو بلانے پر تمہیں کسی گوشہ سے بھی آواز اٹھتی سنائی نہیں دیگی۔ ابوجہل کی اولاد آج بھی دنیا میں موجود ہے مگر کسی کو جرات نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ میں ابوجہل کی اولاد میں سے ہوں۔ شاید عتبہ اور شیبہ کی اولاد بھی آج دنیا میں موجود ہو۔ مگر کیا کوئی کہتا ہے کہ میں عتبہ اور شیبہ کی اولاد ہوں۔ پس خداتعالیٰ کی راہ میں مارے جانے والے کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ قیامت تک زندہ رہتے ہیں اور آئندہ نسلیں ان کا نام لے لے کر ان کے لئے دعائیں کرتی ہیں ان کی خوبیوں کو یاد رکھتی ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کے متعلق مفسریں سے جو میں اختلاف رکھتا ہوں اس میں میں حق پر ہوں۔ اگر وہاں فتح مکہ مراد نہ لی جائے بلکہ تحویل قبلہ مراد لیں تو اس آیت کا یہاں کوئی تعلق ہی معلوم نہیں ہوتا۔ نماز اور قبلہ کے ذکر میں شہیداء کا ذکر کیسے آگیا۔ جنگ کے ساتھ شہداء کا ذکر قابلِ تسلیم بھی ہے لیکن تحویل قبلہ کے ساتھ اس کا ذکر بالکل بے جوڑ معلوم ہوتا ہے۔ پس یہ آیت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پہلی آیت وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ سے مراد فتح مکہ ہی ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اگر فتح مکہ کی غرض سے تمہیں لڑائیاں کرنی پڑیں تو گھبرانا نہیں کیونکہ اس میں تمہاری زندگی ہے اور جو لوگ مارے جائیں ان کو مردہ مت کہو۔ کیونکہ وہ زندہ ہیں اور جو لوگ اپنی نادانی سے اُن کو مردہ کہتے ہیں ان کے نفس میں اتنی حِس ہی نہیں کہ وہ اس کی اہمیت کو محسوس کریں اس میں ان معترضین کا بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ لڑائیوں کی اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو فرماتا ہے کہ تمہاری آنکھیں اس بینائی سے جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو عطا کی ہے محروم ہیں۔ تم کو کیا معلوم کہ اسلام کی فتح کی بنیاد انہی لوگوں کے ہاتھ سے رکھی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ہاں مارے جانے والے اس کو خوب سمجھتے ہیں کہ ہمارے شہید ہونے سے اسلام کو کیا فائدہ ہو گا۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک فعہ حضرت جابربن عبداللہ کو دیکھا کہ وہ بہت افسردہ اور غمگین کھڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا تم کیوں غمگین ہو۔ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! میرے والد اُحد کی جنگ میں مارے گئے ہیں اور انہوں نے اپنے پیچھے بہت بڑا عیال اور قرضہ چھوڑا ہے اس لئے میں افسردہ ہوں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ کیا میں تمہیں خوشخبری نہ دوں کہ موت کے بعد تمہارے والد کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ وہ خداتعالیٰ کے سامنے جب زندہ ہو کر حاضر ہوئے توا للہ تعالیٰ نے ان سے خو ش ہو کر بالمشافہ کلام کیا اور فرمایا۔ اے مریے بندے تو مجھ سے جو کچھ مانگنا چاہتا ہے مانگ میں تجھے دوںگا۔ انہوں نے عرض کیا حضور میری صرف اتنی ہی خواہش ہے کہ میں پھر زندہ ہو کر دنیا میں جائوں اور ااپ کیر اہ میں مارا جائوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ایسا کر تو سکتا ہوں مگر میں یہ قانون بنا چکا ہوں کہ جو ایک دفعہ مر جائے اس کو دنیا میں واپس نہیں بھیجوں گا۔
(ترمذی جلد ۳ ابواب التفسیر سورہ آل عمران) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو سچا ایمان لاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارا مرنا قوم کو زندہ کرنے کا موجب ہو گا اور آخرت میں بھی ہمارے لئے بہت بڑا ثواب کا موجب ہو گا اس لئے وہ موت کو کوئی خوف والی چیز نہیں سمجھتے۔ وہ خداتعالیٰ کی رہ میں جان دے کر بھی زندہ ہوتے ہیں اور جانیں نہ دینے والے زندہ رہ کر بھی مردہ ہوتے ہیں۔چنانچہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو انذاری پیشگوئی فرمائی تھی جب اس کی میعاد گذر گئی اور آتھم نہ مرا تو ظاہربین لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ ایک دفعہ نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی بعض لوگوں نے ہنسی اڑانی شروع کر دی کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور آتھم ابی تک زندہ ہے اُس وقت دربار میں خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی بیٹھے ہوئے تھے جن کے نواب صاحب مرید تھے۔باتوںباتوں میں نواب صاحب سے مونہہ سے بھی یہ فقرہ نکل گیا کہ ہاں! مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اس پر خواجہ غلام فریم صاحب جوش میں آگئے۔ اور انہوں نے بڑے جلال سے فرمایا کہ کون کہتا ہے کہ آتھم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش نظر آرہی ہے اس پر نواب صاحب خاموش ہو گئے توبعض لوگوں ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر زندہ معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً مردہ ہوتے ہیں۔ اور بعض مردہ نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً زندہ ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ زندہ ہوتیہ یں ان میں سے ہزاروں روحانی نگاہ رکھنے والوں کو مرادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قبرستان میں رہتے تھے ایک دفعہ کسی نے ان سے کہا کہ آپ زندوں کو چھوڑ کر قبرستان میں کیوں آگئے ہیں۔ پس رُوحانی مردوں اور رُوحانی زندوں کو پہچاننا ہر ایک کا کام نہیں۔ مگر اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک ظاہری علامت ایسی بتا دی ہے جس سے روحانی مردوں اور زندوں کو پہچاننے میں بڑی حد تک آسانی ہوتی ہے۔
وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔ شعور وہ علم ہوتا ہے جو انسان کے اندر کی طرف سے باہر کو آتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی دوسرے سے کوئی بات سن کر ایک نتیجہ قائم کرے تو وہ شعور نہیں کہلائیگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکیگا کہ میں نے شعور حاصل کر لیا۔ بلکہ یہ کہگا کہ مجھے علم ہو گیا۔ لیکن اگر اس کے نفس کے اندر سے وہ بات پیدا ہو تو وہ کہگا مجھے فلاں بات کا شعور ہوا۔ چنانچہ جب ایک بچہ بالغ ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہوہ شعور کی عمر تک پہنچ گیا حالانکہ اس کو علم پہلے بھی حاصل ہوتا ہے بالوں کو شعار اسی لئے کہتے ہیں وہ اندر سے باہر کی طرف آتے ہین اور شعار لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے ساتھ چمٹا ہوا ہوتا ہے اور شعر کو بھی اس لئے شعر کہتے ہیں کہ اس کے الفاظ اندر سے باہر آتے ہیں اور اس کا مضمون ایسا ہوتا ہے جو انسان کے اندرونی احساسات کا ترجمان ہوتا ہے اور اُسے پڑھ کر انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ بات تو میرے اندر بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ غالب اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ۔ ؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ ج اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ باتیں کہ شہداء کو ایک اعلیٰ درجہ کی حیات حاصل ہے۔ یا ایک ایک شہید کی جگہ لینے کیلئے پچا پچاس ور سو سو آدمی آئیں گے یا دو رنج و غم سے کلی طور پرآزاد ہیں۔ یا ان کے خون رائیگاں نہیں جائیں گے انسانی شعور سے تعلق رکھتی ہیں اگر کوئی شخص فطرتِ صحیحہ پر غور کرنے کا عادی ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ماں جب تک اپنی جان کی قربانی پیش نہیں کرتی اُسے بچہ حاصل نہیں ہوتا۔ دانہ جب تک خاک میں مل کر اپنی جان کو نہیں کھوتا وہ ایک سے ساتھ سو دانوں میں تبدیل نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی قوم زندہ نہیں ہو سکتی جب تک اس کے افراد جانوں کو ایک بے حقیقت شیٗ سمجھ کر اُسے قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار نہ ہوں اور کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جب تک اس کے افراد کے دلوں میں اپنے شہداء کا پورا احترام نہ ہو۔ یہ ایک فطرتی آواز ہے جو شعور کے کانوں سے سنی جا سکتی ہے مگر جن لوگوں کو شعور حاصل نہیں۔ وہ بات بات پر اعتراض کرتے رہتے ہیں اور جب بھی کسی مالی یا جانی قربانی کا مطالبہ کیا جائے ان کے قدم لڑکھڑانے لگ جاتے ہیں۔ اور وہ ان لوگوں کو بیوقوف سمجھتے جو اپنے آپ کو قربانیوں کی آگ میں جھونکنے کے لئے آگے نکل آتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہے کہ تم اپنے شعور سے کام لو اور شہدا ء کو مردہ کہہ کر ان کی بے حرمتی مت کرو۔ وہ مردہ نہیں بلکہ حقیقتاً وہی زندہ ہیں۔ کیونکہ تاریخ ان
وَلَنَبْلُوَ نَّکُمْ
وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَo
کے نام کو زندہ رکھی گی اور آئندہ آنے والی نسلیں انہیں کے نقشِ قدم پر چلیں گی اور ان کے کارناموں کو یاد رکھیں گی اورہمیشہ ان کی بلندی درجات اور مغرفرت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعائیں کرتی رہیں گی۔ تم اُسے زندہ سمجھتے ہو جو جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہو حالانکہ زندہ وہ ہے جس نے مرکر اپنی قوم کو زندہ کر دیا اگر تمہیں شہداء بھی مردہ نظر آتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا شعور ناقص ہے تم اس کی اصلاح کرو اور زندگی اور موت کے سلسلہ کو سمجھنے کی کوشش کرو۔
۷۰؎ حل لغات:۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ: بَلَا ء’‘ کسی کے خیر اور شر کے ظاہر کرنے کو کہتے ہیں اور یہ ظاہر کرنا تین اگراض کے لئے ہوتا ہے۔ اول اپنا علم بڑھانے کے لئے جیسے اُستاد اپنے شاگرد کا اس غرض کے لئے امتحان لیتا ہے کہ اُسے معلوم ہو کہ طالب علم نے اپنا سبق یاد کیا ہے یا نہیں۔ دوم اس لئے کہ جس کو ابتلاء میں ڈالا گیا ہے اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کی کیسی حالت ہے کیونکہ عام لوگ خود بھی نہیں جانتے کہ جلاں بات ہم میں ہے یا نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ منافقوں کے متعلق فرماتا ہے وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ(بقرۃ ع۲)یعنی منافق فسادی ہیں مگر وہ اس امر کو سمجھتے نہیں کہ ہم فساد کر رہے ہیں۔ سوم۔ اس لئے کہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ اس شخص کی ایمانی حالت کیسی ہے۔ یہ مثال اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑسے سوال کیا تو اس کی غرض یہ تھی کہ فرشتوں کو معلوم ہو کہ آدم ؑ میں کیا کیا طاقتیں ہیں۔ خدا تعالیٰ چونکہ غلیم و خبیر ہے ۔ اس لئے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتا ہے تو پچھلے دو مونوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نہ کہ پہلے ہیں اگر ابتلاء نہ آئے تو انسان ایمان میں ترقی نہ کر سکے۔ اور اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس کے ایمان کی کیا حالت ہے۔(مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورۃ بقرہ۵۰؎)
ثَمَرات: اس کے معنے پھلوں کے بھی ہوتے ہیں اور کوششوں کے نتائج کے بھی۔
وَبَشِّرِالصّٰبِرِیِنْ: بشارت ایسی خبر کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے چہرہ پر اثر پڑے۔ خواہ وہ خوشی کی خبر ہو یا غم کی۔
تفسیر:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ قسم کے ابتلائوں کا ذکر فرمایا ہے اور کہا ہے کہ ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم ان ابتلائوں میں سے گذرے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ ایک ابتلاء تو یہ ہو گا کہ دشمنوں کے حملوں کا خوف تمہیں لاحق ہو گا۔ ساری قومیں تمہارے خلاف کھڑی ہو جائیں گی۔ اور تم یہ حملہ کریں گی۔ حکومتیں تم سے ناراض ہو جائیں گی۔ اور تمہیں مٹانے کی کوشش کرینگی۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن سے بزدل لوگ ڈر جاتے ہیں اور کہتے ہیں خدا جانے اب کیا ہو گا اور بہت سے لوگوں کے حوصلے اس خوف کی وجہ سے پست ہو جاتے ہیں ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ پبلک اور حکومت نے ہمارے خلاف جتھہ بنا لیا ہے یا پنچائت نے ہمارے خلاف فیصلہ کر دیا ہے۔
پھر اس سے ترقی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھوک کے ذریعے مومنوں کے ثباتِ قسم کا امتحان لیتا ہے۔ بھوک کی تکلیف سے یہ مراد ہے کہ جب خداتعلایٰ کے مامور کی آواز پر ایک گروہ جمع ہو جاتا ہے تو لوگ ان کا بئیکاٹ کر دیتے ہیں۔ ملازمتوں سے برخواست کر دیتے ہیں۔ دوکانوں سے سودا نہیں دیتے۔ پیشہ وروں سے کام لینا بند کر دیتے ہیں گویا پہلے تو صرف دھمکیاں دیتے ہیں جن کی وجہ سے خوف لاحق ہوتا ہے کہ وہ کہیں نقصان نہ پہنچادیںمگر دوسرے قدم پر وہ عملی رنگ میںبھوک اور افلاس کے سامان پیدا کر دیتے ہیں مثلاً یہ کہ ان کو کوئی سودا نہیں دینا۔ ان کے پاس غلہ نہیں بیچنا جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تو ہر قسم کے کھانے پینے کی چیزیں روک لی گئیں اور یہ بائیکاٹ کا سلسلہ ایک لمبے عرصے تک جاری رہا۔
پھر فرماتا ہے کہ ان مصائب کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تمہارے مالوں کا لوٹنا بھی جائز قرار دے دیا جائیگا۔ گویا پہلے تو اپنے پاس سے مال واسباب اور سودا اور غلہ وغیرہ دینا بند کیا جائیگا اور پھر مومنوں کے پس جو کچھ اندوختہ ہو گا اُسے بھی لوٹنا جائز قرار دے دیا جائیگا۔ لیکن جب اس سے بھی کچھ نہیں بنتا تو پھر وہ مومنوں کی جانوں پر حملہ شروع کر دیتے ہیں۔لیکن جب وہ جان دینے سے بھی باز نہیں آتے تو ان کی اولادوں پر حملے کرنے لگ جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے ہمارے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر بعض خبیث الطبع لوگ ایسے بھی آتے ہیں جو احمدیوں کے بچے اُٹھا کر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہا س ذریعہ سے جماعت کو دکھ پہنچائیں اسی طرح ثمرات کے نقصان سے یہ بھی مراد ہے کہ دشمن ان کی کوششوں میں رخنہ ڈالیں گے اور انہیں مکٹلف قسم کے منافع سے محروم کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ادنیٰ درجہ کے مومنوں پر جو ابتلاء آتے ہیں وہ تو اس لئے آتے ہیں کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کی ایمانی حالت کیسی ہے۔ اور جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں پر آتے ہیں وہ اس لئے آتے ہیں کہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ ان کی کیا حالت ہے۔ عام طور پر لوگ اپنے متعلق خیال کرتے ہیں کہ انہیں ایمان میں ثباتِ قدم حاصل ہے مگر موقعہ آنے پر ان سے کزوری ظاہر ہو جاتی ہے اور ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے اندر یہ یہ کمزوری ہے اور وہ اس کو دور کرنے کی وشش کرتے ہیں پھر ابتلاء آتا ہے تو انکو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر فلاں نقص بھی موجود ہے اور وہ اُسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر ابتلاء آتا ہے تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر فلاں نقص بھی موجود ہے اور و ہ اُسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ وہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر اس لئے ابتلاء لائے جاتے ہیں تاکہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ یہ کیسے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے ہیں کہ کوئی مصیبت ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کرتی۔ غرض بتایا کہ ہم تمہارے اندرونہ کو ظاہر کرنے کے لئے پانچ قسم کے ابتلاء تم پر وارد کرینگے۔ جن میں سے ایک خوف ہو گا جو بیرونی دکھ کا نام ہے دوسرا ابتلاء بھوک کا ہو گا۔ جو اندرونی تکلیف ہے۔گویا بعض کوبیرونی دکھوں اور تکالیف کے ذریعہ اور بعض کو اندرونی تکلیفوں کے ذریعہ سے ہم آزمائیں گے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لڑائی کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں مگر بھوک کو برداشت نہیں کر سکتے۔ فوجوں میں سپاہی لڑتے ہیں مگر چونکہ وہ بھوک کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لئے انہیں چنے وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ مگر مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی وہ خدا کے لئے بھوکا رہنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ کو باہر بھیجا تو ان میں سے کسی نے بھی یہ نہ پوچھا کہ ہم کھائینگے کیا۔ چنانچہ وہ پتے کھا کر گذارہ کرتے تھے۔ اسی طرح ایک دفعہ انہوں نے کھجوروں کی گٹھلیاں کھا کر گذارہ کیا۔ پس فرمایا ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ تم بہادر ہو یا نہیں اور یہ بھی کہ تم بھوک برداشت کرتے ہو یا نہیں۔
الَّذِیْنَ اِذَآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo
پھر بعض لوگ بھوک اور خوف تو برداشت کر لیتے ہیں مگر مال کے خطرہ کو برداشت نہیں کر سکتے بعض مال کے خطرہ کو برداشت کر لیتے ہیں مگر جان کے خطرہ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ پس فرماتا ہے تمہیں مالی اور جانی نقصانات بھی برداشت کرنے پڑیں گے اور بعض دفعہ اپنی کوششوں کے نتائج سے بھی محروم رہنا پڑیگا۔ ثمرات کے کم ہونے کی مثال اُحد کی جنگ ہے کہ ہو کفار سے لڑے بھی اور شہید بھی ہوئے مگر انہیں اس کا ثمرہ نہ ملا۔ اسی طرح ثمرات کے نقصان میں تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ کی بربادی بھی شامل ہے۔ جو جنگ کا ایک لازمی نتیجہ ہوتی ہے غرض بتایا کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہو گا کہ تم کام کرو گے مگر اس کے فوائد تمہاری امیدوں کے مطابق نہیں نکلیںگے۔ مگر فرمایا وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ وہ لوگ جو ان تمام ابتلائوں کو برداشت کرلیں گے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں گے۔ ان کو کوئی ڈر نہیں۔ وہ کہتے ہیں لوگ ہمیں ڈراتے ہیں تو بے شک ڈرائیں۔ اگر ہمارا مقاطعہ کرتے ہیں تو بے شک کریں۔ اگر وہ ہمیں سودا سلف نہیںدیتے تو بے شک نہ دیںہم تو خداتعالیٰ کے رستے میں قربانیوں کرتے چلے جائیں گے۔ اسی طرح اگر وہ ہمارے مال لوٹنے پر آئے ہیں تو بے شک لوٹ لیں اور پھر جب وہ ان کی جانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں توکہتے ہیں کہ تم ہمیں قتل کر کے ان کی تباہی کا سامان پیدا کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اچھا تم یہ کام بھی کر کے دیکھ لو۔ ہمیں تمہارے ان کاموں کی بھی پروا نہیں۔ غرض ابتداء سے انتہا تک وہ ان کے ہر حملہ کے مقابلہ میں قائم رہتے ہیں اور یہی کہتے رہتے ہیں کہ جو کچھ تمہاری مرضی ہے کر کے دیکھ لو۔ تم ہمیں صداقت سے منحرف نہیں کر سکتے۔ جب وہ پانچوں قسم کے ابتلائوں سے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ ان میں ثابت قدم رہتے ہیں اور استقلال سے ان کو برداشت کرتے ہیں تو اللہ تعالیی انہیں بشارت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مبارک ہو تمہارے ایمان کی پختگی ثابت ہو گی۔ تم امتحان میں پاس ہو گئے اب تم اگلی جماعت کی تیاری کرو۔
اس آیت سے بھی پتہ لگتا ہے کہ مِنْ حِیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ میں قبلہ کی طرف منہ کرنے کا ذکر نہ تھا بلکہ فتح مکہ کا ذکر تھا۔ ورنہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مارے جانے اور ان ابتلائوں میں پڑنے کا کیا تعلق تھا۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس آیت میں یہی حکم دیا گیا تھا کہ تم نے مکہ فتح کرنا ہے۔ مگر وَلَنَبْلَُ نَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ میں بتایا کہ کام آسانی سے نہیں ہو گا بلکہ تمہیں سخت تکالیف میں سے گذرنا ہو گا۔لیکن یہ تکالیف تمہارے لئے بہتر ہو نگی کیونکہ ان سے تمہارے ایمانوں کی پختگی ظاہر ہو جائیگی۔
۷۱؎ حل لغات:۔مُصِیْبَۃ’‘۔ ہمارے ملک میں مصیبت ان تکلیف دہ واقعات کو کہتے ہیں جو انسان کو پیش آتے ہیں۔ لیکن عربی زبان میں مصیبت ایسی چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو بہر حال پہنچنے والی ہو۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان مشکلات سے بھاگتا اور ناپسندیدہ باتوں سے کنارہ کشی کرتا ہے۔ اور جو چیزیں اس کی خوشی اور مسرت کا باعث ہوتی ہیں اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے پس جس چیز کی طرف انسان خود بخود جائے وہ پہنچنے والی نہیں کہلاسکتی۔لیکن جس سے انسان بھاگے اور وہ اُسے پکڑلے وہ پہنچنے والی کہلاتی ہے۔ اور چونکہ مصیبت سے ہر انسان بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی مصیبت اسے آچمٹتی ہے۔ اس لئے عربی زبان میں ایسی چیز کو جو انسان کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس کے پاس پہنچ کر رہے مصیبت کہتے ہیں۔ لیکن اُردو میں خالص اس کے وہی معنے رہ گئے ہیں جو عربی میں ضمنی تھے اور مصیبت صرف اس بات کو کہتے ہیں جو تکلیف دہ ہو۔
تفسیر:۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ جزع فزع کرنے کی بجائے پورے یقین اور ایمان کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اُسی کی طرف ہم لوٹنے والے ہیں۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے امید رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو وہ گھبرانے اور جزع فزع کرنے کی بجائے خداتعالیٰ پر توکل رکھیں اور اُسی کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے سچے دل سے یہ کہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے مگر اپنے اندر نہایت وسیع مطالب رکھتا ہے۔
(۱) اس فقرے میں دو جملے ہیں۔ ایک تو اِنَّا لِلّٰہِہے یعنی ہم اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ اور دوسراوَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَہے۔ یعنی ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پہلا جملہ اس مضمون پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی مالک اپنی چیز کو اپنے ہاتھوں تباہ نہیں کرتا بلکہ اسے محفوظ رکھنے کو کوشش کرتا ہے وہ مالک برا ہی بیوقوف ہوگا جو اپنی چیز کو آپ تباہ کرنے کی کوشش کرے۔ پس اگر بندہ محض خدا کا ہو جائے اور اُسی کو اپنا حقیقی مالک سمجھے تو اس کے دل میں یہ وہم بھی نہیں آسکتا ہے کہ وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے واپس لے لی ہے۔ یا وہ مصائب جو مجھ پر نازل ہو رہے ہیں ان میں میری تباہی اور بربادی مقصود ہے۔ جو مومن یہ یقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا ہوں اور جس طرح ماں اپنے بچہ کو گود میں رکھتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ نے بھی مجھے اپنی گود میں اٹھایا ہوا ہے وہ یہ تصور بھی کس طرح کر سکتا ہے کہ میں تباہ ہو جاونگا۔ اور میری تکلیف مجھ سے دور نہیں کی جائیں گی۔ محافظ کا تو فرض ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کو ہر نقصان سے بچائے پھر اللہ تعالیٰ جوتمام محافظوں سے بڑا محافظ ہے کب کسی مومن کو تباہ کر سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ جب کوئی چیز اپنے بندے سے واپس لیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس چیز کو تباہ کرنا چاہتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے زیادہ بہتر جگہ میں رکھتا ہے۔ اس کی مثال باکل ایسی ہی ہے جیسے عورتیں انے گھروں کی صفائی کرتے وقت سامان وغیرہ کو ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیتی ہیں تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ عورتیں اپنی چیزوں کو اِدھر اُدھر رکھیں تو وہ رونے لگ جائیں۔ یا مثلاً زمیندار کھیت میں بیج ڈالتا ہے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیج کو ضائر کر رہا ہے مگر وہ روتا نہیں اس لئے کہ اس کا نتیجہ تباہی نہیں بلکہ ترقی ہوتا ہے۔ چنانچہ وہی بیج جب کچھ عرصلہ کے بعد اُسے لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی شکل میں واپس ملتا ہے اتو اس کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح بندہ اگر یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کریگا اُس میں میری بہتری ہو گی تو کبھی بھی جزع فزع اور بے صبری کا اظہار نہ کرے۔ جب انسان ایک خوبصورت عمارت بناتا اور پہلی عمارت کو توڑتا پھوڑتا ہے تو اُس پر روتا نہیں۔ بلکہ خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کپڑے کا دل اور اس کی آنکھیں ہوتیں تو جب درزی اُسے کاٹتا تو وہ رونے کی بجائے خوش ہوتا کہ یہ مجھے اچھا بنانے لگا ہے۔ یہی حال انسان کا ہے اگر انسان یہ یقین رکھے کہ خداتعالیٰ میرا مالک ہے اور وہ جو تبدیلی بھی کریگا میرے فائدے کے لئے کریگا تو وہ جزع فزع نہیں کر سکتا۔ ہاں غم کا اظہار کرنا صبر کے خلاف نہیں ہوتا۔ شادی کے وقت لڑکیاں اپنے گھروں کو رخصت ہوتی ہیں تو ماں باپ رونے لگ جاتے ہیں مگر یہ جزع فزع نہیں کہلاتا۔ کیونکہ غم درحقیقت ایک قدرتی احسا س ہے۔ جو مصیبت کے وقت ہر انسان کے اندر پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس کی علامت دل پر بوجھ ہونا اور آنکھوں میں آنسو آجانا ہے لیکن جزع فزع کرنے والا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ خدا نے اُسے تباہ کر دیا ہے اور یہ چیز مومنانہ توکل اور ایمان کے بالکل خلاف ہے۔ پس اَنَّا لِلّٰہِ یہ بتاتا گیا ہے کہ مصیبت یا ابتلاء کے آنے پر کافر تو یہ سمجھتا ہے کہ میں مارا گیا لیکن مومن یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بلا میں بھی میرے لئے کوئی خیر اور برکت کا پہلو پوشیدہ رکھا ہو گا۔
(۲) اِنَّا لِلّٰہِ کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ مومن کو جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ جھٹ کہتا ہے کہ میرا تو اس چیز کے ساتھ صرف ایک عارضی تعلق تھا اصل تعلق تو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اور اُسی کی کاطر اس چیز سے بھی میرا تعلق تھا اب اگر اُس نے اپنی کسی حکمت کے باعث یہ چاہا ہے کہ میرا اس چیز سے تعلق ٹوٹ جائے تو میں اس کے فعل پر کیوں اعتراض کروں۔ اس کی مثال حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی میں بھی ملتی ہے۔ ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ ماںباپ کو عموماً چھوٹے بچے بہت پیارے ہوتے ہیں اس لحاظ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس سے بہت اُنس تھا اور پھر اس لئے بھی آپ اس سے زیادہ پیار کرتے تھے کہ وہ عموماً بیمار رہتا تھا۔ میری عمر جب وہ فوت ہوا اٹھاراہ سال کے قریب تھی اس کی آخری بیماری کے ایام میں اس کا علاج کرنے میں بہت سے معالج مصروف تھے مثلا حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس روز صبح کی نماز پڑھ کر گھر آئے تو ساتھ ہی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور ڈاکٹر صاحبان بھی آگئے۔ اس وقت اسے ضعف کی شکایت تھی۔ لیکن چہرہ سے اچھی حالت معلوم ہوتی تھی ڈاکٹروں نے اُسے دیکھ کر کہا کہ اب افاقہ معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ مطمئن ہو گئے لیکن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ چونکہ زیادہ تجربہ کار تھے اس لئے آپ نے فوراً معلوم کر لیا کہ بچہ کی حالت نازک ہے۔ انہو ں نے گھبرا کر فوراً نبض دیکھنی شروع کر دی۔ لیکن نبض کی حرکت معلوم نہ ہوئی۔ کیونکہ جوں جوں انسان موت کے قریب ہوتا جاتا ہے اس کی نبض پیچھے ہٹنی شروع ہو جاتی ہے۔ پھر آپ نے اس کی بغل میں ہاتھ رکھا وہاں بھی نبض نہ ملی ۔ جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ نبض نہیںملتی تو آپ نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور جلدی مشک دیجیئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹرنک میں سے مشک نکلالنے کے لئے تشریف لے گئے تو چونکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت تھی اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبارک احمد سے بہت پیار رکھتے ہیں اس لئے آپ نے جب دیکھا کہ مبارک احمد فوت ہو رہا ہے تو آپ کو اتنی گھبراہٹ ہوئی کہ آپ کھڑے بھی نہ رہ سکے ۔زمین پر بیٹھ گئے اور فرمایا حضور جلدی سے مشک لائیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس فقرہ سے سمجھ گئے کہ بچے کی حالت اچھی نہیں اور ویسے ہی بغیر مشک لئے واپس آگئے۔ اور فرمایا کیا بچہ فوت ہو گیا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ہاں حضور فوت ہو گیا ہے۔ آپ نے فوراً اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنپڑھا۔ اور بجائے کسی گھبراہٹ کا اظہار کرنے کے باہر کے احمدیوں کو خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مومنوں پر ابتلاء آیا ہی کرتے ہیں۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ بلکہ اپنے ایمان کو پختہ رکھنا چاہیے اور پھر لکھاکہ مبارک احمد کی وفات کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے مجھے خبر دے دی تھی کہ یہ چھوٹی عمر میں ہی اُٹھا لیا جائیگا۔ پس اس کے فوت ہونے سے خداتعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہو گئی۔ پھر آپ نے اس کے کتبہ کے لئے جو اشعار لکھے۔ اُن میں سے ایک یہ بھی مصرع ہے کہ ع
بُلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جان فد اکر
یہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن کا ہی ایک رنگ میں مفہوم رکھتاہے۔ غرض مومن کو جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرا تو کدا سے تعلق ہے اگر میرے کسی عزیز کو خداتعالیٰ نے اپنے پاس بُلا لینا مناسب سمجھا ہے تو مجھے اس پر کیا شکوہ ہو سکتا ہے اُسی کی چیز تھی اور وہی بلانے کا حق دار تھا پس۔ اِنَّا لِلّٰہِکے ایک تو یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تباہ نہیں کریگا اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ ہمارا خدا راضی ہے اس میں ہم بھی راضی ہیں۔
(۳) تیسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اَنَا لِلّٰہِ نہیں فرمایا بلکہ اِنَّا لِلّٰہِ فرمایا ہے تاکہ یہ اقرار صرف انفرادی رنگ میں نہ ہو بلکہ ہر انسان علیٰ وجہ البصیرت اس یقین پر قائم ہو کہ دنیا کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی ہے اور ہمارا ان سے محض عارضی تعلق ہے۔ پس نہ صرف مجھے بلکہ دنیا کے کسی انسان کوبھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خداتعالیٰ کے کسی فعل پر اعتراض کرے یا اس کی کسی تلخ قاش پر اپنا مونہہ بنانا شروع کر دے میثنوی رومی میں حضرت لقمانؓ کے متعلق جن کو بعض لوگ نبی بھی سمجھتے ہیں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہو ابھی چھوٹے ہی تھے کہ انہیں کسی نے ان کے والدین کی وفات کی وجہ سے غلام بنا لیا اور ایک تاجر کے پاس بیچ دیا۔ اس تاجر نے انہیں ذہین اور ہوشیار سمجھ کر ان سے غلاموں والا سلوک ترک کر دیا اور ان سے محبت کرنے لگا۔ ایک دن کسی نے اس کو تحفۃً ایک خربوزہ پیش کیا جو بظاہر بہت اچھا تھا۔ اس نے ایک قاش کاٹ کر حضرت لقمان کو دی۔ حضرت لقمان نے پھر مزے لے لے کر کھائی ۔ حتی کہ تاجر نے یہ سمجھ کر کہ یہ بڑا میٹھا خربوزہ ہے ایک قاش خود بھی چھکی تو اسے معلوم ہوا کہ نہایت کڑوا خربوزہ ہے۔ اس پر وہ حضرت لقمان کو خفا ہا کہ تم نے بتایا کیوںنہیں۔ اگر تم بتا تے تو میں تمہیں اور کڑوی قاشیں نہ کھلاتا۔ حضرت لقمان نے کہا کہ جس ہاتھ سے اتنی میٹھی قاشیں میں کھائی ہوئی تھیں کیا میں اتنا ہی بے شرم تھا کہ اس کی ایک دو قاشوں کو کڑوی سمجھ کر رد کر دیتا۔ تواِنَّالِلّٰہِ کا بھی یہی مفہوم ہے۔کہ وہ خدا جس نے ہمیں اتنی بڑی نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں اگر اس نے کسی حکمت کے ماتحت ایک نعمت واپس لے لی ہے یا ہزاروں خوشیوں کے ہوتے ہوئے ایک مصیبت ہم پر آگئی ہے تو کیا ہوا سب کچھ تو اسی کا دیا ہوا ہے۔ اگر وہ اپنی مرضی سے ایک چیز واپس لے لیتا ہے تو اس پر جزع فزع کرنے سے زیادہ اور کیا حماقت ہو سکتی ہے۔
(۴) چوتھے معنے جو اس سے زیادہ اعلیٰ اور مومن کے مقام کے مطابق ہیں وہ یہ ہیں کہ نہ صرف سب کی سب نعمتیں اُسی کی ہیں اور وہی اس کا حقیقی مالک ہے اگر ایک نعمت اس نے واپس لے لی تو کیا ہوا۔ بلکہ ہمارے پاس جو کچھ باقی ہے اگر وہ بھی ہم سے لے لینا چاہے تو ہم باقی چیزیں بھی اس کی راہ میں دینے کے لئے تیار ہیں۔چنانچہ صحابہؓ کرم میں اس کی بہت سے مثالیں ملتی ہیں۔ حضر ت عثمان بن مظعونؓ ایک بڑے مخلص صحابی تھے اور مکی زندگی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سے اتنی محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد جب آپؐ کے بیٹے حضرت ابراہیم ؓ فوت ہوئے تو آپؓ نے انہیں فرمایا کہ جا اپنے بھائی عثمان بن مظعونؓ کے پاس ۔ گویا ان کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا قرار دیا۔ وہ کسی رئیس کے بیٹے ان کے والد فوت ہو گئے تو ان کے باپ کے کسی دوست نے ان کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اعلان کر دیا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے کوئی شخص اسے تکلیف نہ دے۔ چند دن تو وہ آزاد نہ طور پر پھرتے رہے اور انہیں کسی نے کوئی تکلیف نہ دی لیکن ایک دن انہوں نے دیکھا کہ بعض کمزور مسلمانوں اور غلاموں کو کفار سخت تکلیف دے رہے ہیں اور انہیں تپتی ریت پر لٹا کر دکھ دے رہے ہیں ان سے یہ نظارہ برداشت نہ ہو سکا تو فوراً گھر آکر اُس ریئس سے کہا کہ چچا مہربانی کر کے اپنی پناہ واپس لے لو۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ دوسرے مسلمانوں کو تو لوگ سخت سے سخت سزائیں دیں اور میں مزے سے اِدھراُدھر پھروں۔ چنانچہ اُس ریئس نے اپنی اپنی پناہ کا اعلان منسوخ کر دیا۔ اسی اثناء میں لبید جو ایک بہت بڑا شاعر تھا(اور جو بعد میںمسلمان بھی ہو گیا) وہ مکہ میں آیا اور لوگوں نے اس کے اعزاز میں ایک مجلس مشاعرہ قائم کی۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ اور وہ ریئس بھی وہیں تھے اکثر شعراء نے اپنے اپنے شعر پڑھے۔ پھر لبید کی باری آئی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ
اَلَا کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللّٰہُ بَاطِل‘
یعنی سُنو! کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے سوا فنا ہونیوالی ہے ابھی انہوں نے یہ مصرع پڑھا ہی تھا کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ بول اُٹھے کہ خوب کہا ٹھیک کہا۔ اس پر لبید کو غصہ آیا کہ کیا میں اتنا ہی حقیر ہوں کہ اس چھوٹے سے بچے کی تصدیق کا محتاج ہوں۔ اور اس نے اہل مجلس کو غیر دلائی کہ یہ کیا بدتہذیبی ہے جو تم لوگوں نے اختیار کر لی ہے کہ ایک بچہ مجھے داد دیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان بن مظعون کو ڈانٹا اور کہا کہ خبردار آئندہ ایسا نہ کرنا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرا مصرع پڑھا ع
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَا لَۃَ زَائِل‘
یعنی ہر نعمت ایک دن زائل ہونے والی ہے۔ اس پر حضرت عثمان بن مظعون پرھ بول اُٹھے اور کہنے لگے۔ یہ درست نہیں جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہو نگی۔ لبید کو سخت غصہ آیا اور اس نے پھر لوگوں کو غیرت دلائی کہ تم نے میری بے عزتی کی ہے اب میں کوئی شعر نہیں پڑھوں گا۔ اس پر ایک شخص کو اتنا جوش آیا کہ اس نے اُٹھکر حضر ت عثمان بن مظعون کے منہ پر ایک مکا مارا جس کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ نکل گئی۔ ان کے وہ ہمدرد ریئس جنہوں نے ان کو پناہ دے رکھی تھی وہ بھی وہی پاس بیٹھے تھے ۔ چونکہ وہ اتنی طاقت نہیں رکھتے تھے کہ دوسروں کے مقابلہ میں کھڑے ہو سکیں اس لئے انہوں نے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو ہی ڈانٹنا شروع کر دیا۔ اور جس طرح کسی غریب عورت کے بچے کو کوئی امیر آدمی کا بچہ مار جائے تو وہ اپنے بچے کو ہی ڈانٹتی ہے اور کہتی ہے کہ تو گھر سے کیوں باہر نکلا تھا۔ اسی طرح انہوں نے بھی حضرت عثمان بن مظعونؓ کو ڈانٹنا شروع کیا کہ تجھے میں نے نہیں کہا تھا کہ میری پناہ سے نہ نکلو۔ اب دیکھا اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ اس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ نے جواب میں کہا چچا! آپ کو تو میری ایک آنکھ کے نکلنے کا افسوس ہے اور میری تو دوسری آنکھ بھی خداتعالیٰ کے راستے میں نکلنے کے لئے تیار ہے۔ تو حقیقی مومن قربانی سے گھبراتا نہیں بلکہ جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا اس کی کوئی قیمتی متاع ضائع ہو جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ مرنے والا اور باقی رہنے والے ساب اس کے ہی ہیں۔ پس اگر وہ اللہ کی چیز تھی اورہ م بھی اسی کے ہیں تو اللہ تعالیٰ اگر اپنے ایک غلام کے پاس رکھوائی ہوئی امانت واپس لے گیا تو اسے شکوہ کیا کیا حق ہے۔ میں تو سب کچھ اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔
(۵) مگر یہ پہلا حصہ کچھ استفناء ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر دوسرا حصہ اس کے ساتھ لگادیا کہ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اور اس طرح اس تعزیت کو مکمل فرما دیا۔ پہلے فرمایا تھا کہ اگر ہم تم کو کوئی انعام دیتے ہیں اور پھر وہ انعام تم سے لے لیتے ہیں تو تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میرے محسن نے فلاں چیز مجھے دی تھی اور میں اس سے پانچ سال یا دس سال یا بیس سال یا تیس سال یا چالیس سال یا پچاس سال تک فائدہ اٹھاتا رہا اس کے بعد وہ اپنی امانت مجھ سے کیوں لے گیا۔ اس بات پر اُسے شکوے کا کیا حق ہے۔ یہ تو اس کا احسان تھا کہ جتنی مدت وہ چیز اس کے پاس رہی اس سے وو پوری طرح فائدہ اُٹھاتا رہا۔ اب کے بعد فرماتا ہے کہ یاد رکھو اگر تمہارا کوئی عزیز ہم نے تم سے دُدا کر دیا ہے تو مومن کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ دنیا سے کسی کااُٹھ جانا دائمی جُدائی کا موجب تو نہیں ہوتا۔ اگر یہ دائمی جُدائی ہوتی اور فرض کرو کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہ ہوتی۔ تب بھی کیا خدا کا حق نہیں تھا کہ جو چیز اُس نے دی ہے وہ اُسے واپس لے لے۔ لیکن وہ زائد وعدہ یہ کرتا ہے کہ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ ایک شخص اگر خدا کی طرف گیا ہے تو ہم بھی ایک دن اُسی کی طرف چلے جائیں گے ۔فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے پہلے سفر طے کر لیا اور کوئی بعد میں سفر کے لئے چل پڑیگا ورنہ منزل مقصود سب کی ایک ہی ہے اور جب منزل مقصود ایک ہے ہے تو اس میں گھبراہٹ کی کونسی بات ہے۔ بچے بعض دفعہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ولایت بھیج دیئے جاتے ہیں ۔ اب کسی کی زندگی کا کیا اعتبار ہوتاہ ے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک یا دو دن بھی اور زندہ رہیگا۔ نہ والدین جانتے ہیں کہ انہوں نے اتنا عرصہ زندہ رہنا ہے نہ لڑکے جانتے ہیں کہ ان کی زندگی کب تک ہے۔ مگر باوجود اس کے جب لڑکوں کو پڑھنے کے لئے ولایت بھیجا جاتا ہے تو پانچ پانچ چھ چھ دس دس سال تک مائیں صبر کرتی ہیں باپ صبر کرتے ہیں اور وہ گھبراہٹ سے کام نہیں لیتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخر ہمارے بچے ایک دن آجائیںگے۔ یا اگر کسی سفر پر کوئی شخص پہلے چل پڑتا ہے اور دوسروں نے بھی وہیں جانا ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم چند دن مے بعد اُس سے جا ملیں گے جانا تو ہے ہی۔تو اللہ تعالیی فرماتا ہے کہ پہلے یہ اقرار کرو کہ خدا نے ہم پر جو احسان کیا ہے ہم اس کے شکر گذار ہیں پھر یہ بھی سمجھ لو کہ تم سارے ایک دن خدا کے پاس جمع ہونے والے ہو اور اس کے پاس پہنچ کر اکٹھے ہو جائو گے۔ پس فرماتا ہے کہ جب تم سارے ایک دن اکٹھے ہو تو خدا کے فعل پر شکوہ یاجزع فزع کتنی بڑی نادانی ہے۔ اگر تم جزع فزع کر وگے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا اپنے عزیزوں سے آخری اتصال کمزور ہو جائیگا۔ کیونکہ جس خُدا کے اختیار میں یہ ہے کہ وہ اگلے جہان میں سب کو اکٹھا کر دے اس کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ وہ اگلے جہان میں بعض کو خدا جُدا رکھے۔ پس مومن کی اصل تعزیت اِنَّالَلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی ہے۔ باقی جہاں تک جسم کا تعلق ہے جسم جب کٹتا ہے تو ضرور دکھ پاتا ہے۔ صحابہؓ جنگوں میں شہید ہوئے اور اپنی خوشی سے شہید ہوئے۔ لیکن جہاں تک جسم کے کٹنے کا سوال ہے ان کو ضرور تکلیف ہوئی پس جسم بے شک دُکھ پاتا ہے مگر اللہ تعالیی کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے اُس بندے پر جس کی رُوح خدا کے آستانہ پر جُھکی رہے اور اس سے کہے کہ اے میرے رب! مجھے کوئی شکوہ نہیں تو نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا۔ یہی عین مصلحت تھی اور یہی چیز میرے لئے بہتر تھی۔ تیرا فعل بالکل درست ہے اور گو مجھے سمجھ میں نہ آئے مگر میں یہی کہتا ہوں کہ تیرا کوئی کام حکمت کے بغیر نہیں۔
(۶) پھر اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَمیں ایک اور مضمون بھی بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ جب کوئی رنج انسان کو پہنچتا ہے۔ تو فطرت کہتی ہے کہ میرے اندر آخر کوئی کمزوری تھی ۔ تبھی تو مجھے یہ دُکھ پہنچا۔ اگر میں طاقتور ہوتا تو یہ دُکھ کیوں پہنچتا۔ اب اس دُکھ کو کوئی طاقتور ہی دُور کر سکتا ہے۔ غرض رنج ہمیشہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت مد د کرے۔ اور جب انسانی ذہن کو فطرت اس طرف لے جاتی ہے کہ اب کوئی غیر طاقت ہی مدد کرے تو معًا اس کا دل اِدھر مائل ہوتا ہے۔ کہ الہ تعالیی کے سوا کون ہے جو اس دُکھ کو دُور کرے۔ چنانچہ اُس وقت وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا ہی ہوں اور میں اسی سے مدد مانگتا ہوں اس کے سوااور کون ہو سکتا ہے جو میری مدد کرے۔اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَکے بے شک یہ بھی معنے ہیں کہ آخر ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے لیکن اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ اگر ہم نے لوٹنا ہے تو خداتعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ اگرہم نے گریہ وزاری کرنی ہے تو اس کے سامنے ہی کرنی ہے۔ پس اسلام نے یہ سبق فطرت کے تقاضا کے عین مطابق دیا ہے جب کوئی رنج پہنچتا ہے تو یہ انسان کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے اس لئے وہ اُسے خود دور نہیں کر سکتا ۔ وہ طبعًا یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے دوست اور عزیز اس کی مدد کریں۔ مگر فرمایا یاد رکھو تمہارا سب سے بڑاعزیز اور دوست خداتعالیٰ ہے ۔ تم اس کے سامنے جھکو اور اس سے مدد طلب کرو۔ جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سبق پر عمل کرتے ہیں وہ ناکام و نامراد نہیں رہتے۔ ناکام و نامراد وہی ہوتا ہے جو غیر بطعی فعل کرتا ہے۔ مثلاً رات کو ڈاکہ پڑتا ہے تو عقلمند شخص اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس جاتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے لیکن بیوقوف انسان دوڑ کر جنگل کی طرف چلا جاتا ہے حالانکہ جنگل میں اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں وہتا۔ اسی طرح روحانی دنیا میں ایک عقل مند انسان تو اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے لیکن بیوقوف یو نہی ہائے اماں ہائے اماں! کہتا رہتا ہے۔ اب صاف ظاہر ہے کہ اماں نے کیا کرنا ہے جو کچھ کرنا ہے خداتعالیٰ نے ہی کرنا ہے اور وہ خداتعالیٰ کے پاس جاتا نہیں وہ اس کے پاس جاتا ہے جو کچھ نہیں کر سکتا۔ پس انسان کا فرض ہے کہ جب اُسے کوئی رنج پہنچے تو وہ فوراًاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہے۔ یعنی اگر مجھ پر مصیبت آگئی ہے تو بقول پنجابی بزرگوں کے ’’ملا کی دوڑ مسیت تک‘‘ میں نے تو خداتعالیٰ کے طرف جانا ہے اور اس سے مدد طلب کرنی ہے اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے اپنی برکات سے حصہ دیتا اور اس کے مصائب کو دور فرماتا ہے۔
(۷)اسی طرح اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتامیں یہ لطیف مضمون بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے غلام ہیں اور اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پس اگر ہم صبر سے کام لیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اس صدمہ کا بہتر بدلہ مل جائے گا۔ پھر ہمیں کسی جزع فزع کی کیا ضرورت ہے۔ گھبراہٹ صرف اسے ہو سکتی ہے جو یہ سمجھتا ہو ک دُکھوں اور تکالیف کے بدلہ میں کوئی جزا مقدر نہیں۔ مگر مومن تو سمجھتے ہیں کہ جب ہم خداتعالیٰ کے پاس جائینگے تو وہ ہمارے دکھوں کا بدلہ اپنے غیر معمولی انعامات کی شکل میں ہمیں عطا فرمائیگا۔ اور جب کوئی ایمان اور یقین کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو تو اسے بے صبری دکھانے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صابرین کی تعریف فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ ہمارے نزدیک کون لوگ صابر ہیں۔ اسلام کے نزدیک صابرین کی یہ تعریف ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی توجہ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو پھر مایوسی کیسی ایک بچہ جب ماں کی گود میں ہوتا ہے تو وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ اسی طرح وہ بھی اپنے ااپ کو خداتعالیٰ کی گود میں سمجھتے ہیں اس لئے کسی مصیبت کے آنے پر مایوس نہیں ہوتے۔ اور اگر صبر کے معنے بدی سے رُکنے کے سمجھے جائیں تو پھر اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ جب اُن پر کوئی ایسی تکلیف آتی ہے جس سے انسان بدی کی طرف مائل ہو تا ہے ۔ جیسے قحط ہے کہ اس میں لوگ چوریاں وغیرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ تب بھی وہ خداتعالیٰ ہی کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اگر صبر سے مراد نیکی پر قائم رہنا ہو تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ جب کوئی شیطانی تحریک انہیں نیکی سے منحرف کر نا چاہے تو اس وقت بھی وہ فوراً خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہین اور اسی سے اپنے روحانی پیوند کا اظہار کرتے ہیں۔
غرض یہ بظاہر ایک چھوٹا سا جملہ ہے مگر اپنے اندر بڑے وسع مطالب رکھتا ہے۔ اور جو لوگ صاحب حال ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس فقرہ کے کہنے سے جن تکالیف کا ازالہ ممکن ہو اُن کا تو ازالہ ہو جاتا ہے اور جن کا ازالہ ناممکن ہو ان کا نسان کو کسی اور رنگ میں بدلہ مل جاتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ مردے اس دنیا مین واپس نہیں آتے۔ پس اگر کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس سنت اور فیصلہ کے ماتحت وہ زندہ ہو کر اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا۔ لیکن اگر یہ فقرہ پورے ایمان اور اخلاص کے ساتھ کہا جائے تو کہنے
اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ
ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o
والے کو کسی نہ کسی رنگ میں اس کا بدلہ ضرور مل جاتا ہے۔ اور اگر اسان کا کوئی ایسا نقصان ہو جائے جس کا بدلہ ملنا ممکن ہو مگر وہ پھر بھی نہ ملے تو اس کے متعلق یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص اس میں روک بن رہی ہے ورنہ اس کا بدلہ ضرور مل جاتا۔
۷۲؎ حل لغات:۔ صَلٰوۃ’‘:جیسا کہ اوپر حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کیصَلٰوۃ’‘ کئی معنے ہیں۔ مگر جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے صرف مغفرت اور حسنِ ثناء کے ہوتیہ یں۔ عبادت کے معنے اس لئے چسپاں نہیں ہو سکتے کہ عبادت خداتعالیٰ کی کی جاتی ہے اس کی طرف سے آتی نہیں۔ اسی طرح رحمت کے معنے بھی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ صَلٰوۃ کے ساتھ ہی رحمت کا لفظ بھی آگیا ہے۔ پس اس جگہ اس کے معنے صرف یہ یہیں کہ ان لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف سے مغفرت حاصل ہو گی یا انہیں ثنائے جمیل عطا کی جائیگی۔
تفسیر:۔ اس آیت میں بتایا کہ جو لوگ ارضی اور سماوی آفات پر سچے دل سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی مغفرت سے حصہ دیتا ہے یعنی وہ ان کے نقصانات کا ازالہ کرتا اور ان کی ناکامی کو کامیابی میں اوفر تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے۔ اسی طرح اُن پر اللہ تعالیٰ کا فضل حسن ثناء کی صورت میں نازل ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نیک شہرت دنیا میں قائم کر دیتا ہے اور لوگوں کی زبانوں پر ان کا ذکر خیر جاری ہو جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت کے لئے کتنی بری قربانیوں سے کام لیا تھا۔ انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں اور اولادوں کو بلا دریغ قربان کر دیا اور کسی بڑی سے بری مصیبت کی وبھی پرواہ نہ کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج دشمنان اسلام تک بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں مگر جب صحابہؓ کی قربانیوں کا ذکر آتا ہے تو وہ یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے جو نمونہ دکھایا وہ یقینا بے مثال تھا۔ ایک فرانسیسی مورخ لکھتا ہے کہ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر آتی ہے کہ ہمیں چند آدمی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس مدینہ کی ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد میں جس پرکھجور کی شاخوں کی چھت پڑی ہوئی تھی اور جو ذرا سی بارش سے بھی ٹپکنے لگ جاتی تھی آہستہ آہستہ سرگوشیاں کرتے دکھائی دیتے تھے۔ اور جب ہم ان کے قریب پہنچ کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ آپس میں کی اباتیں کر رہے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ہم قیصر و کسریٰ کو کس طرح شکست دیں اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چند سالوں کے اندر اندر واقعہ میں ایسا ہی ہو گیا۔ اور ان بے سرو سامان اور کمزور درویشوں نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو پاش پاش کر دیا۔ غرض اشد ترین دشمنوں نے بھی تسلیم کر لیا کہ مسلمانوں کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی تھی اور وہ ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے۔
یہاں صَلٰوۃ اور رحمۃ کو اکٹھا کرنے میں یہ حکمت ہے کہ دنیا میں ھکومتوں کی طرف سے عزت افزائی کے دو ہی طریق مقرر ہیں ۔ یا تو کوئی خاص اعزاز بخشا جاتا ہے یا مادی رنگ میں کوئی انعام دیا جاتا ہے جیسے اعزازی طور پر لوگوں کو خطابات دیئے جاتے ہیں اور مادی طور پر انہیں مربعے وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ مگر گورنمنٹ کے خطابات تو بے حقیقت ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ ایک ایسے شخص کو خان بہادر کا خطاب دے دیتی ہے جو بزدل ہوتا ہے اور چوہے سے بھی ڈر جاتا ہے۔ مگر خداتعالیٰ کی طرف سے جسے کوئی خطاب دیا جاتا ہے وہ اس کا سچ مچ اہل ہوتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ دونوں طرف دھوکا کھا جاتے ہیں۔ وہ گورنمنٹ کے خانبہادروں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے حالانکہ جب خداتعالیٰ کسی کو کوئی خطاب دیتا ہے تو اس کے اوصاف بھی اس میں پیدا کر دیتا ہے ۔ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص جو احمدی تھا مگر اس کے دماغ میں کچھ نقص تھا قادیان آیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگا کہ مجھے الہام ہوتا ہے کہ تو محمدؐ ہے تو موسیٰ ؑ ہے تو عیسیٰ ؑ ہے۔۔ آپ نے فرمایاکیا اس کے بعد تمہیں وہ کچھ ملتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ ملا تھا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا۔ وہ کہنے لگا ملتا تو کچھ نہیں آپ نے فرمایا پھر یہ شیطانی الہام ہے ۔کیونکہ خداتعالیٰ تو یہ تمسخر نہیں کرتا نہ کہ کسی کو کوئی خطاب دے اور اس کے اوصاف اس میں پیدا نہ کرے۔ خداتعالیٰ تو جب کسی کو کوئی خطاب بخشتا ہے تو اس کے مطابق اُسے طاقتیں بھی دیتا ہے۔ یہ شیطان ہے جو تمہیں دیتا تو کچھ نہیں مگر تمہارا نام موسیٰ اور عیسیٰ اور محمدؐ رکھتا چلا جاتا ہے۔ غرض صلوٰۃ کا تعلق روحانی انعامات سے ہوتا ہے اور رحمت کا تعلق ان مادی انعامات سے ہوتا ہے جس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں پس بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ابتلائوں میں ثابت قدم رہنے والوں کو روحانی برکات سے بھی مستفیض کرتا ہے اور انہیں مادی فوائد اور ترقیات جو ماحول سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی عطا کرتاہے۔
وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ۔ اس جگہ ہدایت سے مراد صرف صراطِ مستقیم پر چلنا نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی ہدایت یافتہ اور صراطِ مستقیم پر قائم ہوتے ہیں۔ یہاں یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کے راستہ پر لئے جائے گا اور وہ اپنے اخلاص اور ایمان میں آگے ہی آگے بڑھتے جائینگے۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ مشکلات اور مصائب میں اللہ تعالیٰ انہیں صحیح راستہ بتاتا جائیگا اور مشکلات کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی انہیں نظر آتا جائیگا۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ بندہ جب سچے دل سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتا ہے اور مصائب پر صبر سے کام لیتا ہے تو مومن کی یہ حالت دیکھ کر اللہ تعالیٰ بھی عرش پر بیتاب ہو جاتا ہے۔ اور وہ اس محبت اور اخلاص کی جزا دینے کے لئے اُسے اپنی ہدایت کی راہوں پر چلاتے ہوئے منزلِ مقصود پر پہنچا دیتاہ ے۔ گویا صبر اور استقامت کے نتیجہ میں وہ منعم علیہ گروہ میں شامل ہو جاتا ہے اور وصلِ الہٰی کے دروازے اس پر کھول دیئے جاتے ہیں۔ غرض تین قسم کے انعامات کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (۱)اول ہدایت کی راہوں میں ترقی(۲) دوم مشکلات میں صحیح راہنمائی(۳) سوم خداتعالیٰ کا دائمی وصال۔ اور جن کو یہ فوائد حاصل ہوں ان کو اپنے کسی عارضی نقصان کا خیال بھی کس طرح آسکتا ہے۔
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ
شَاکِر’‘ عَلِیْم’‘o
۷۳؎ حل لغات:۔ صَفَا: صَفَاۃ’‘ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں سخت موٹے پتھر جن پر مٹی نہ ہو۔ اور کھیتی بھی نہ ہو سکے۔ صفا بیت اللہ کے پاس بڑے بڑے پتھروں کی ایک پہاڑی کا بھی نام ہے۔
اَلْمَرْوَۃَ: یہ مَرْو کا مفرد ہے اور مروہ ان سفید چھوٹے چھوٹے چمکتے ہوئے چقماتی صفت رکھنے والے پتھروں کو کہتے ہیں جن سے لوگ آگے نکالتے ہیں۔ مروہ بھی ایک پہاڑی کانام ہے جو بیت اللہ کے پاس ہے اور اس کی وجہ تسمید یہ ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنی ہوئی ہے۔ غرض صفا اور مروہ دو پہاڑیوں کا نام ہے جو خانہ کعبہ کے پاس ہیں۔ اور اب خانہ کعبہ وسیع ہو کر انکو آ لگا ہے اور ایک دروازہ ان میں آکر کھلتا ہے ان پر ایک بازار ہے جو سوقِ صفا کہلاتا ہے اور شہر کا حصہ ہے اور اسی بازار میں اب سعی ہوتی ہے پہلے دونوں پہاڑیاں الگ الگ تھیں لیکن اب بھرتی پڑ کر مل گئی ہیں اور ایک ہی معلوم ہوتی ہیں صرف دو نشان لوگوں نے سعی کے لئے بنا رکھے ہیں جس سے سعی شروع کرنے اور ختم کرنے کا حال انسان کو معلوم ہوتا ہے۔
اِعْتَمَرَ:۔ اِعْتَمَرَالْمَکَافَ کے معنے ہوتے ہیں قَصَدَہ‘ وَ زَارَہ‘۔ کسی بزرگی رکھنے والے مکان کی طرف جانے کا قصد کیا۔ اور اس کی زیارت کی۔ اسی طرح کہتے ہیں اِتَّخَذْ نَا نَادِیًا نَعْتَمِرُہ‘۔ کہ ہم نے ایک ایسی مجلس قائم کی ہے جس میں ہم بار بار جاتے ہیں اور ہماری آپس میں ملاقات ہوتی ہے پس اعتماد کے اصل معنے کسی شہر کی زیارت یا کسی ایسے مکان کی طرف جانے کے ہیں جو اپنی بزرگی یا دوستوں کی ملاقات کے لحاظ سے قابلِ اعزاز ہو۔ لیکن شریعت میں طواف بیت اللہ اور صفا اور مروہ کی سعی کا نام ہے۔ اور یہ عبادت سال کے ہر حصہ میں ہو سکتی ہے لیکن حج کا ایک خاص وقت مقرر ہے اسی طرح حج اور عمرہ میں یہ فرق ہے کہ عمرہ میں وہیں سے احرام باندھ لیتے اور سر منڈا لیتے ہیں۔ لیکن حج میں مقرر جگہوں سے احرام باندھنا ضروری ہوتا ہے۔
جُنَاح’‘: جَنَحَ کے معنے ہوتے ہیں مَالَ یعنی جُھک گیا۔ پروں کو بھی اور بازوئوں کوبھی اسی لئے جناح کہتے ہیں اور گناہ کو بھی جناح اسی لئے کہتے ہیں کہ اس میں انسان بدی کی طرف جُھک جاتا ہے گناہ کا لفظ دراصل جناح کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
یَطَّوَّفَ: طَوَّفَ حَوْلَ الشَّیْئِ وَبِہِ کے معنے ہیں طَافَ وَاَکْثَرَ الْمَشْیَ حَوْلَہُ اس نے کسی چیز کے ارد گرد چکر لگایا اور کثرت کے ساتھ گھوما (اقرب) طَافَ یَطُوْفُ بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔چنانچہ لسان العرب میں لکھاہے طَافَ بِالْقَوْمِ وَ عَلَیْھِمْ کے معنے ہیں اِسْتَدَارَوَجَآئَ مِنْ نَوَاحِیْہِ اس نے چکر لگایا اور کناروں کی طرف سے اس کے پاس آیا انہی معنوں میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جنتیوںکی نسبت فرماتا ہے یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَان’‘ مُّخَلَّدُوْنَ (واقعہ آیت۱۸) یعنی اُن کے پاس بار بار نوجوان خادم اُن کی خدمت کے لئے آئیں گے اس جگہ صفا اور مروہ کے گرد گھومنا مراد نہیں بلکہ بار بار اُن کے پاس جانا مراد ہے۔
تَطَوَّع کے معنے ہیں تَبَرَّعَ بِلَا قَصْدِ اُجْرَۃٍ بِاحْتِمَالِ مُشَقَّۃٍ کسی نیکی کو بغیر اُجرت اور بدلہ کی خواہش کے کرنا(۲) تکلیف اٹھا کر کوئی کام کرنا۔ اسی لئے والنٹیر کو عربی زبان میں مطاوع کہتے ہیں ۔کیونکہ وہ بغیر تنخواہ کے آنریری طو پر کام کرتا ہے۔
شَاِکِر’‘: جب یہ لفظ خداتعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ انعام نازل کرتا ہے یا حکم بجا لانے پر جزا دیتا ہے۔ اور جب یہ بندہ کے لئے آئے تو اُس وقت اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا شکر گزار ہوتا ہے۔
تفسیر:۔ اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اِللّٰہِ فرماتا ہے صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں یقینا اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ہیں۔ یہ وہ پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان حج اور عمرہ میں خانہ کعبہ کے طواف کے بعد سعی کی جاتی ہے او رسات دفعہ چکر لگایا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ چودہ دفعہ دوڑنا چاہیے۔ مگر یہ کمزور خیال ہے ۔ اصل میں سات دفعہ ہی سعی ہے اور یہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے صفا سے شروع کر کے مروہ پر جاتے ہیں اور وہاں سے صفا پرآتے ہیں۔ یہ سعی چونکہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کی یاد گار ہے اس لئے یہ پہاڑیاں اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور بچے اسمٰعیل کو عرب کی بے آب و گیاہ دادی میں چھوڑ آئو۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم کی تعمیل کی اور حضرت ہاجرہ اور اسمٰعیل کو انہوں نے خانہ کعبہ کے پاس لا کر بسا دیا جہاں پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کی ایک پتی تک نہ تھی۔ صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوروں کی آپ نے انہیں دی اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دُعائیں مانگتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ جب پانی ختم ہوا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی۔ اور آخر شدت پیاس کی وجہ سے وہ تڑپنے لگ گئے حضڑت ہاجرہ سے اُن کی پیاس کی تکلیف دیکھی نی گئی۔ اور وہ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑیں۔ مگر پانی نہ ملا۔ قریب ہی صفا پہاڑی تھی وہ دوڑ کر اُس پر چڑھ گئیں۔ کہ شاید کوئی شخص نظر آئے اور وہ اُس سے پانی مانگیں۔ مگر جب وہاں سے کوئی شخص دکھائی نہ دیا تو دوسری پہاڑی مروہ پر دوڑ کر چڑھ گئیں اور ہاں سے بھی کوئی آدمی نظر نہ آیا۔تو پھر صفا کی طرف آئیں اور اس طرھ انہوں نے سات چکر کاٹے۔ آخر چکر میں جب وہ مروہ پر تھیں ان کو ایک آواز آئی حضرت ہاجرہ نے پکار کر کہا۔کہ اے شخص جس کی یہ آواز ہے اگر تو ہماری مدد کر سکتا ہے تو کر۔ یہ آواز اللہ تعالیٰ کے ایک فرشتہ کی تھی۔ اُس نے کہا ہاجرہ جا اور دیکھ کہ اسمٰعیل کے پائوں کے نیچے خداتعالیٰ نے ایک چشمہ پھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ وہ واپس آئیں اور انہوں نے دیکھا کہ جہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام شدتِ پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے تھے۔ وہاں پانی کا ایک چشمہ پھوٹ رہا ہے اور بڑے زور سے اس میں سے پانی نکل رہا ہے۔ زمزم کا کنواں وہی چشمہ ہے جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لئے معجزانہ طور پر پھوڑا گیا تھا۔ چنانچہ اس چشمہ کی وجہ سے اس قدر ترقی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے وہاں عظیم الشان شہر قائم کر دیا۔
غرض صفا اور مروہ کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ صبر کرتے اور استقامت کے ساتھ خدمت دین میں حصہ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ ہاجرہ اور اسمٰعیل کی طرف انہیں اپنے آسمانی نشانات دکھاتا اور دائمی زندگی اور غیر معمولی انعامات عطا کرتا ہے۔ اگر تم بھی صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ایسے ہی انعامات سے نوایگا اور تمہیں بھی شعائر اللہ میں داخل کردیگا۔
فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا۔ چونکہ بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ صفا اور مروہ پر جانا گناہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَاجُنَاحَ ورنہ یہ مراد نہیں کہ جائو یا نہ جائو تمہارا اختیار ہے ۔ کیونکہ حج اور عمرہ میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی ضروری ہوتی ہے اسی طرح فَلَاجُنَاحَ کے یہ معنے ہیں کہ طواف جائز ہے۔ کیونکہ جب اس چیز کے متعلق جسے لوگ حرام جانیں فتویٰ دیا جائے تو اس وقت اس فقرہ کے معنے صرف اس خیال کی نفی کرنی ہوتی ہے نہ کہ اس کا جواز بتانا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہی مذہب تھا کہ طواف ضروری ہے چنانچہ بخاری جلد اول باب و جوب الصفا و المروۃ وجعل من شائر اللہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے عروہ بن زبیر سے ایک روایت مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ طواف جائز ہے ضروری نہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ بِئْسَمَا قُلْتَ یَا بْنَ اُخقتِیْ اِنَّ ھٰذِہِ لَوْ کَانَتْ کَمَا اَوَّ لْتَھَا عَلَیْہِ کَانَتْ لَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ لَایَطَّوَّ فَ بِھِمَا۔یعنی اے میرے بھانجے تو نے یہ بہت ہی غلط استدلال کیا ہے۔ اگر یہ بات اسی رنگ میں ہوتی جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو عبارت یوں ہوتی کہ لَاجُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ لَا یَطَّوَّفَ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَیْنَھُمَا فَلَیْسَ لِاَ حَدٍ اَنْ یَّتْرُکَ الطَّوَافَ بَیْنَھُمَا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یہی تھی کہ آپ صفا اور مروہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ پس کس شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس سنت کے خلاف معنی کرے بہر حال حضرت عمروہ بن زبیر جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے ان کا یہی مذہب تھا کہ طواف ضروری نہیں۔ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ حضرت انؓ عطا اور مجاہد کابھی یہی قول ہے کہ طواف ضروری نہیں۔ امام احمد بن حنبل کا یہ مذہب ہے کہ یہ ضروری تو نہیں مگر کسی شخص کو نہیں چاہیے کہ وہ جان بوجھ کر طواف چھوڑے ہاں اگر بلا ارادہ چھوٹ جائے تو کوئی گناہ نہیں مگر مناسب یہی ہے کہ نہ چھوڑے امام شافعی اور مالک کے نزدیک صفا اور مروہ کا طواف واجب ہے اور ارکانِ حج میں سے ہے اور ثوری اور امام ابوحنیفہؓ کے نزدیک اگر کوئی چھوڑ دے اور بغیر طواف کئے حج پورا کرے تو اُس پر قربانی لازم ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّف بِھِمَا کہنے کی وجہ سے بتائی ہے کہ انصار مسلمان ہونے سے پہلے منات بُت کے لئے احرام باندھا کرتے تھے جس کی مشعل کے پاس لوگ عبادت کیا کرتے تھے اور اس زمانہ میں جو شخص احرام باندھتا وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتا تھا۔ جب وہ لوگ مسلمان ہو گئے تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارہ میں دریافت کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم صفا اور مروہ کی سعی گناہ سمجھا کرتے تھے لیکن اب اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی(بخاری کتاب الحج) پس چونہ اس وقت ایک جماعت ایسی تھی جو صفا اور مروہ کے درمیان طواف کرنے کو جائز نہیں سمجھتی تھی اس لئے اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ اس میں کوئی گناہ تو نہیں۔ تو اس کا جواب یہی ہو گا کہ کوئی گناہ نہیں۔ باقی رہا یہ سوال کہ یہ سعی صرف جائز ہے یا واجب تو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے صرف یہ بحث اُٹھائی ہے کہ جو لوگ اس کام کو غلطی اور گناہ قرار دیتے ہیں وہ درست نہیں کہتے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اس کا ضروری ہونا ثابت ہے ۔ پس لَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ یہ کام اختیاری ہے کوئی کرے یا نہ کرے یا کرے بلکہ درحقیقت یہ نصیحت کا ایک طریق ہے کہ جب کسی ضرویر بات کی طرف انسان توجہ نہ کرے تو کہتے ہیں کہ یہ بات گناہ نہیں۔ یعنی تم نے جو ادھر توجہ نہیں کی تو شاید گناہ سمجھ کر نہیں کی حالانکہ یہ تو ضروری بات تھی ان معنوں کو سورۃ نساء کی یہ آیت بالکل حل کر دیتی ہے۔ کہ وَاِنِ امْرَاَ ۃ’‘ خَافَتْ مِنْ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَھُمَا صُلْحَا بَیْنَھُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْر’‘(نساء آیت ۱۲۹) یعنی اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے نشوز یا اعراض سے ڈرتی ہو۔ تو اگر وہ آپس میں کسی طریق پر صلح کر لیں تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں اور صلح بہت اچھی چیز ہے۔ اس آیت میں فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَا کے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کا بھی یہی مطلب ہے کہ میاںبیوی سوچیں کہ صلح سے رہنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اگر عورت کے قصور کی وجہ سے مرد کو غصہ ہے۔ تو وہ چھوڑ دے اور اگر عورت کا قصور نہیں تو مرد اپنی اصلاح کر لے۔ پس جس طرح اس آیت میں صلح کے متعلق فَلَا جُنَاحَ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اسی طرح فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا میں جہاں اسے ناجائز سمجھنے والوں کے خیال کی نفی کی گئی ہے وہاں لوگوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے کہ صفا اور مروہ کا طواف کوئی گناہ کی بات نہیں یعنی تم جو ادھر تو جہ نہیں کر رہے تو شاید گناہ سمجھ کر نہیں کر رہے حالانکہ یہ تو ضروری بات ہے۔
وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص نیکی کے کاموں میں اس لئے حصہ لیتا ہے کہ ان کے بدلہ میں اُسے کوئی چیز مل جائے تو یہ ایک سودا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے سودا کرنا کوئی پسندیدہ فعل نہیں۔ عبادت تو انسان کو اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کے شکر کے طور پر بجا لانی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے اُس پر کئے ہیں۔ نہ اس لئے کہ اگر میں نے عبادت نہ کی تو مجھے کوئی انعام نہیں ملیگا۔ عبادت کے مقابلہ میں انعام کی خواہش ایک ادنیٰ خواہش ہے۔ اصل مقام یہی ہے کہ انسان محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے بے پایاں احسانات کے شکر کے طور پر اپنا سر اُس کے حضور جھکا ئے اور رات دن اُس کی عبادت میں مشغول رہے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہییے کہ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا کے الفاظ سے وجوب طواف کی نفی نہیں کی گئی بلکہ مراد یہ ہے کہ عمرہ جتنی بار کرو اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا۔ اسی طرح حج بھی اگر ایک سے زیادہ دفعہ کر سکو تو یہ بھی تمہارے لئے موجب ثواب ہو گا۔ گویا اس آیت میں وجوبِ طواف کی نفی نہیں بلکہ یہ تحریک کی گئی ہے کہ حج اور عمرہ دونوں باربار کرنے چاہیں اور بار بار ان مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے آتے رہنا چاہیے۔
فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِر’‘ عَلِیْم’‘۔ فرمایاتم خدا تعالیٰ سے دودا نہ کرو بلکہ اُسی پر سچا توکل رکھو ۔ وہ تمہاری نیکیوں کو کبھی ضائع نہیں کریگا اور تمہیں خود ان کی بہتر سے بہتر جزا دیگا ۔ وہ بہت قدردان اور بہت جاننے والا ہے ۔ شاکر کے ساتھ علیم کا اضافہ اس لئے فرمای اکہ اسنان کو جو جزائیں ملتی ہیں اُنکی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ بعض جزائیں انسان کو تباہ کر دینے والی ہوتی ہیں اور بعض اس کیلئے مفید اور بابرکت ہوتی ہیں ۔ اگر کسی اندھے کو عینک لگانے کیلئے دی جائے یا کسی جذامی کو اچھے کپڑے دے دئیے جائیں گتو ہو چیزیں اُن کے کسی کام نہیں آسکتیں ۔ خواہ وہ کتنی قیمتی کیوں نہ ہوں ۔ اس لئے فرمایا میں تمہارے حالات کوخوب جانتا ہون اُنہی کے مطابق میں تمہیں انعام دو ںگااور تمہیں ایسی جزا دو نگا جو تمہیں دائمی طور پر فائدہ پہنچا نیوالی ہوگی۔
ترتیب وربط:۔ اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ والی آیت میں بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ اْلَمسْجِدِ الْحًرامِ سے جو استدلال میں نے کیا تھا وہی صحیح ہے ۔ کیونکہ تحویل قبلہ کے
اِنَّ الَّذِیْنَ
اللّٰعِنُوْنَo
مسئلہ سے صفا اور مروہ کے شعائر ہونیکا کوئی تعلق نیہں اور پرھ مسلمان تو وہاں جاہی نہیں سکتے تھے کہ صفا اور مروہ کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ۔دراصل اس آیت میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم فتح مکہ کی کوشش کرو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے لئے حج کا راستہ جائیگا ۔اور صفا اور مروہ پر جانا بھی تمہارے لئے ممکن ہو جائیگا۔
۷۴؎ حل لغات:۔ بَیِّنٰتُٗ ۔بَیِنَۃُٗ کی جمع ہے اوربَیِّنٰتُٗاُن براہین اور نشانات کو کہتے ہیںجو اپنی صداقت پر آپ شاہد ہوتے ہیں۔ (مزید تشریح کیلئے دیکھیں حل لُغات سورۃ نحل ۲۵؎)
ھُدٰ وہ تعلیمات جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ اور انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں۔
لَعْنَۃُٗ دور کرنے کو کہتے ہیں۔ یعنی کسی کو دھتکاریا جھڑک کر دور کر دینا ۔ یا اُسے پاس نہ آنے دینا۔
تفسیر:۔ لَا عِن’‘ کے معنے *** کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ مگر *** کرنے والے دو قسم کے ہو سکتے ہیں۔ اول وہ شخص جسے دوسروں پر لعنتیں ڈالنے اور بُرا بھلا کہنے کی عادت ہو۔ یہ معنی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے کیونکہ جو شخص اپنے بھائیوں پر لعنتیں ڈالنے والا ہو وہ بد اخلاق اور منافق ہوتا ہے اور قرآن کریم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے بد اخلاق اور منافق ہوتا ہے اور قرآن کریم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے بد اخلاق اور منافق طبع لوگ خداتعالیٰ کا ساتھ دیں۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا ظل نہیں ہوتے۔
لَا عِن’‘سے ایسا شخص بھی مراد ہو سکتا ہے جس کے سپرد اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہو اور وہ لوگ جن کو ایسے فرائض سپرد کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص پر *** پڑے گی اور فلاں اس کے غضب کا شکار ہو گا۔ پس لَاعِنُوْن سے راد وہ ہستیاں ہیں جنہیں خداتعالیٰ کی طرف سے *** کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
اَلْکِتٰب سے مراد اس جگہ قرآن کریم ہے اور الناس سے مراد یہودی نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جنگ کے اعلان کے ساتھ جو ابھی ہوا نہیں بلکہ اس کی طرف اشارے ہو رہے ہیں منافقوں کی منافقت ظاہر ہو جائیگی۔ چنانچہ فرماتا ہے یہ دشمن ایمان لوگ جن کے دلوں میںمنافقت ہے جب ان کو قربانی کے احکام سُنائے جاتے ہیں تو وہ ایسی تعلیموں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ان باتوں کو مخالفوں کے ٍسامنے پیش کیا جائے۔ اس قسم کے لوگ ہمیشہ علیحدگی میں کہا کرتے ہیں کہ مانا کہ یہ باتیں درست ہیں مگر ان کو دشمنوں کیسامنے پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے لوگوں کی طرف سے خواہ مخواہ مخالفت ہو گی۔ غرض الہٰی سلسلوں میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے احکام نازل ہوتے ہیں جن پر عمل کرنا مخالفوں کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے تو ایسا طبقہ جو دوسروں کی ناراضگی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے مداہنت سے کام لیکر ان کو چُھپا نا شروع کردیتا ہے تاکہ نہ لوگوں کو صحیح تعلیم کا علم ہو اور نہ ان کا جذبہ مخالفت بھڑکے اس قسم کی مداہنت کمزوری کے دور میں نہیں ہوتی۔ بلکہ طاقت اور غلبہ کے دور میں ہوتی ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ میں رہے منافقین کا کوئی فتنہ نہیں اُٹھا لیکن جب مدنی زندگی آئی اور اسلام نے طاقت پکڑنی شروع کر دی اور یہ اعلان ہونے لگے کہ جب تک مکہ فتح نہ ہو تم نے جنگ کو جاری رکھنا ہے تو جو لوگ کمزور ایمان والے تھے انہوں نے کافروں سے اپنی حفاظت کی طرح ڈالنی شروع کر دی اور کفار کے پاس جا جا کر اس رنگ میں باتیں کرنی شروع کیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو بڑے اچھے آدمی ہیں وہ تو نہیں چاہتے کہ لڑائی ہو مگر جو شیلی طبائع والے ان کو اُکساتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لڑائی ہو جائے اسی طرح بعض لوگ کلام الہٰی پر پردہ ڈالتے اور اُسے چُھپاتے اور دشمنوں کو جا جا کر کہتے کہ تم تسلی رکھو تم پر کوئی تباہی نہیں آسکتی حالانکہ اگر کفار کے متعلق کوئی خبر دی جائے اور ان کو بتایانہ جائے کہ تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے فلاں انذاری پیشگوئی کی ہے تو پیشگوئی کی شان اور اس کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن اگر پہلے سے کہہ دیا جائے کہ تم پر عذاب آئیگا۔ تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تم توبہ کر لو تو عذاب کے آنے پر ان پر حجت قائم ہو سکتی ہے۔ اور عقلمندوں کے لئے ایک ایک بہت بڑانشان بن جاتا ہے لیکن منافق محض اس لئے کہ ہمارے تعلقات خراب نہ ہو جائیں ایسی باتوں کو چھپاتے ہیں اور ڈر کے مارے ظاہر نہیں کرتے ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ برکتوں سے کلی طور پر محروم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کی *** کے علاوہ جن لوگوں کو خداتعالیٰ نے *** کا اختیار دیا ہوا ہے وہ بھی ان پر *** ڈالیں گے ۔ جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے مامورین نے بھی اپنے دشمنوں پر لعنتیں ڈالیں۔ بلکہ اب تک لوگ ان پر لعنتیں ڈالتے رہتے ہیں اور قیامت تک ان پر لعنتیں پڑتی رہیں گی۔
بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بعض جگہ کئی کئی صفوں میں مخالفین پر *** ڈالی ہے۔ اور آپ متواتر *** *** *** لکھتے چلے گئے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ انہیں گالیاں دی ہیں۔ حالانکہ آپ نے گالیاں نہیں دیں بلکہ ایک خدائی فیصلہ کا اعلان کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ لوگ اپنے بُرے اعمال کی وجہ سے خداتعالیٰ کی رحمت سے دُور چلے گئے ہیں۔ جس طرح ایک مجسٹریٹ اگر کسی مجرم کو چھ ماہ قید کی سزا دے تو اس سزا کو درست اور قابلِ قبول قرر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا شخص جسے گورنمنٹ نے فیصلہ کا کوئی اختیار نہ دیا ہو کسی مجرم کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ اُسے قید کر دیا جائے تو سب لوگ اُسے پاگل تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے انبیاء بھی رُوحانی عالم کے مجئسٹریٹ ہوتے ہیں۔ اگر وہ مجرموں کو مجرم قرار نہ دیں اور اُن کے بارہ میں اپنا فیصلہ نافذ نہ کریں تو وہ خود مجرم بنتے ہیں۔ پس اُن کا کسی پر *** ڈالنا قانون کے تابع ہوتا ہے اور ایسا کہنا اُن کے فرائضِ منصبی کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے لیکن دوسرے لوگ جو بلاوجہ لعنتیں ڈالتے رہتے ہیں وہ اپنی بداخلاقی اور کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُنہیں دوسروں پر *** ڈالنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔
اِلَّا الَّذِیْنَ
التَّوََّابُ الرَّحِیْمُo
۷۵؎ تفسیر:۔ ہمارے ملک میں عام طور پر عام طور پر لوگ توجہ صرف اس بات کا نام سمجھتے ہیں کہ زبان سے ایک دو دفعہ یہ فقرہ دہرادیا جائے کہ میری توبہ اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم ایسا کہہ دیں تو ہمارے سارے گناہ بخشے گئے۔ حالانکہ صرف منہ سے توبہ توبہ کہہ دینا اور اپنے اعمال میں کوئی تغیر پیدا نہ کرنا کسی انسان کو مغفرت کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ توبہ درحقیقت تین باتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اول زبان سے اپنے قصور کا اعتراف کرنا۔ دوم اپنی غلطی کے متعلق دل میں ندامت پیدا ہونا۔ سوم جو قصور کیا ہے اس کا عملاً ازالہ کرنا ۔گویا جس مقام پر انسان غلطی کرنے سے پہلے کھڑا ہو اُسی مقام پر وہ رجوع کر کے آجئے اس قسم کی توبہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک بہٹ بڑا انقلاب ہے جو انسانی روح میں واقع ہوتا ہے کیونکہ انسان کے دل میں اپنے گناہوں سے شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہونا۔ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت اور روحانیت کے حصول کی خواہش پیدا ہونا اس کے دل کا اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے پگھل جانا۔ اس کی سفلی خواہشات پر ایک موت کا وارد ہو جانا ایسا ہی ہے جیسے اُس نے اپنے آپ کو خدا کے لئے صلیب پر لٹکا لیا۔ اور اپنی پہلی زندگی پر موت وارد کر لی۔ عیسائی لوگ جو اسلامی توبہ کی حقیقت سے ناواقف ہیں بالعموم اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے توبہ کا دروازہ کھول کر گناہ کا دروازہ کھول دیا ہے۔ حالانکہ اسلام جس توبہ کو پیش کرتا ہے وہ مکمل ہی نہیں ہو سکتی جب تک انسان زبان سے اپنے قصور کا اقرار اور دل سے اپنے فعل پر ندامت کا اظہار نہ کرے اور آئندہ اس سے مجتنب رہنے کا پختہ عہد کرتے ہوئے گذشتہ قصور کا ازالہ بھی نہ کرے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی توبہ گناہ پر دلیری پیدا کر دیتی ہے۔ گناہ پر دلیری تو اُن کا یہ عقیدہ پیدا کرتا ہے کہ ہمارے تمام گناہ مسیح نے اٹھا لئے ہیں۔ اب ہمیں کسی فکر کی ضرورت نہیں لیکن وہ توبہ جسے اسلام پیش کرتا ہے اور جو گذشتہ افعال کے کلی ترک اور آئندہ کے لئے کلی طور پر نیکی کے راستہ کو اختیار کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف صدق دل سے رجوع کرنے کے نام ہے وہ گناہ پر دلیری پیدا نہیں کر تی بلکہ گناہ کو بیخ دبُن سے اکھیڑ دیتی ہے اور انسان کو ایک نیا روحانی انسان بنا دیتی ہے۔ اس قسم کی توبہ کرنیوالوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو پوری طر ح خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اور دل میں ندامت پیدا کرتے اور اپنے گناہ کو دور کرتے ہیں اور پھر یہیں تک بس نہیں کرتے بلکہ اَصْلُحُوْا وہ دوسروں سے بھی عیوب دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ان میں اتنا تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور انہیں بدیوں سے اتنا بُغض ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اپنی اصلاح نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی بدیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں وَبَیَّنُوْا اور نہ صرف اپنے گرد و پیش کی اصلاح کرتے ہیں بلکہ علی الاعلان دُنیا کے سامنے اس بات کو پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور اسی میں دنیا کی نجات ہے فَاُولٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ فرماتا ہے جب کوئی شخص ایسی توبہ کرتا ہے تو میں بھی فضل کے ساتھ اُس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْا
وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَo
توبہ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے رجوع برحمت ہونے اور فضل نازل کرنے کے ہوتیہ یں۔ لیکن جب بندے کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی ندامت کا اظہار کرنے اور جرم کا اقرار کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف جھک جانے کے ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے جرم کا اقرار کر کے ندامت کا اظہار کریں اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور دوسروں کی بھی اصلاح کریں اور اسلام پر پوری مضبوطی سے قائم ہو جائیں۔ ایسے لوگوں کے قصور کو معاف کر کے میں پھر انکو اس مقام پر لا کھڑا کرتا ہوں جہاں وہ پہلے ہوتے ہیں اور پھر میں اپنے پُرانے طریق پر ان کے لئے فضلوں کا سلسلہ شروع کر دیتا ہوں کیونکہ میں بڑا شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہوں۔
۷۶؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے ان توبہ کرنے والوں کے بالمقابل جو لوگ کفر کی حالت میں ہی مر گئے۔ ان پر خداتعالیٰ کی *** ہو گی۔ اسی طرح ملائکہ اور سارے انسانوں کی *** ہو گی۔
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ سارے انسانوں کی اُن پر *** ہو گی اس میں اور پہلی آیت میں جس *** کا ذکر کیا گیا ہے اس میں یہ فرق ہے کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ نے صرف خاص لوگوں کو *** کرنے کی اجازت دی تھی ۔ کیونکہ وہاں *** سے مراد اُن کی تباہی کی پیشگوئی تھی جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء کیا کرتے ہیں۔ مگر یہاں اُن کے متعلق پیشگوئی کرنا مقصود نہیں ۔کیونکہ یہاں *** رکرنیوالوں میں سب لوگوں کو شامل کر لیا گیا ہے۔ اور سارے کے سارے لوگ تباہی کی پیشگوئیاں نہیں کیا کرتے ۔ پس یہاں وہ *** مراد ہے جو فطرتی طور پر انسان کے دل سے اٹھتی ہے مثلاً اگر ایک چور کے سامنے بھی اگر چوری کا ذکر ہو تو وہ فوراً کہہ اُٹھتا ہے کہ چور بہت بُرے ہوتے ہیں حالانکہ وہ خود اس فعل کا مرتکب ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس کی فطرت اسے بُرا قرار دیتی ہے۔ اسی طرح یہاں *** کرنے سے یہ مراد ہے کہ کفار کے افعال پر ہر ایک شخص خواہ نیک ہو خواہ بد فطرتی طور پر *** کرتا ہے بلکہ ایک مجرم خواہ اپنی ذات کو بُرا نہ کہے مگر جرم کو ضرور بُرا کہے گا اور اسی کا نام *** ہے۔ خدا اور ملائکہ صفت انسان تو علی الاعلان *** کرتے ہیں لیکن باقی دنیا فطری اور اصولی طور پر *** کرتے ہے۔ جیسے کوئی قوم جھوٹ کو اچھا نہیں سمجھتی۔کوئی قوم غیبت چوری اور قتل وغیر ہ کو اچھا نہیں سمجھتی۔ ہاں انفرادی طور پر اگر کوئی ان کا ارتکاب کرے تو خود اس کا اپنا نفس اسے شرمندہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے بے ایمانی کا ارتکاب ہے۔ اس جگہ اسی قسم کی *** مراد ہے کہ خوہ اپنے فعل وہ وہ برا نہ کہیں مگر دوسروں کے اُسی قسم کے فعل کو دیکھ کر وہ ضرور بُرا کہتے ہیں چنانچہ کسی سے پوچھ کر دیکھ لو وہ یہی کہیگا کہ جھوٹ بُرا ہے غیبت بُری ہے چوری بُری ہے قتل بُرا ہے ظلم بُرا ہے ۔
وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ الرَّحِیْمُo
حالانکہ بعض دفعہ وہ خود ان جرائم کا مرتکب ہوتا ہے اسی طرح کوئی قوم بحیثیت قوم اندھیرے میں چھپ کر کسی کو مار ڈالنے کو اچھا نہیں سمجھتی ۔ کوئی قوم بحیثیت قوم چوری کو اچھا فعل نہیں سمجھتی کوئی قوم بحیثیت غیبت کو اچھا خیال نہیں کرتی۔ اسی طرح وہ افراد جو اس قسم کے کاموں کو کرتے وقت انہیں اچھا خیال کرتے ہیں وہ بھی دوسرے موقعہ پر انہیں بُرا اور ناجائز سمجھتے ہیں ۔ غرض یہ *** ایسی ہے جو کہیں نہیں مٹتی۔ کیونکہ انسانی فطر اس کی ہمنوا ہوتی ہے۔
پھر فرماتا ہے خٰلِدِیْنَ فِیْھَایہ قانون ایسا ہے جو ہمیشہ قائم رہیگا۔ کئی فلسفے اور تہذیبیں بدل گئیں مگر یورپ آج بھی یہی کہتا ہے کہ جھوٹ بُرا ہے ظلم بُرا ہے چوری پُری ہے غیبت بُری ہے۔ یہ *** قائم ہے اورہمیشہ قائم رہے گی۔ یونانی اور ایرانی فلسفہ بھی یہی کہتا ہے یوروپین فلسفہ بھی یہی کہتا ہے غرض یہ ایک نہ مٹنے والا اصل ہے اس میں کبھی تغیر نہیں آسکتا۔ کل اگر کوئی اور تہذیب آئیگی تو وہ بھی یہی کہے گی اس کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتی۔
لَایُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَاَبُ وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَ فرماتا ہے کہ جب منکرین انبیاء کا پیمانہ عمل لبریز ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ آسمانی عذاب میں جکڑے جاتے ہیں اور یہ عذاب ایسا ہوتا ہے کہ نہ تو اسے ہلکا کیا جاتا ہے اور نہ انہیں ڈھیل دی جاتا ہے ۔ ہاں عذاب کے آنے سے پہلے پہلے ان کے لئے موقعہ ہوتا ہے کہ وہ توبہ کر لیں ۔لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے کوئی فائدہ نہ اٹھائیں اور انکار پر کمر بستہ رہیں اور خدائی نشانات کی تضحیک کرتے رہیں تو ایک دن عذاب الہٰی کے کوڑے ان پر برسنے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی شیخ و پکار بالکل عبث ہوتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو وہ لوگ جنہوں نے خداتعالیٰ کے فرستادوں کا مقابلہ کیا۔ ہزاروں سال گذرنے کے باوجود آج بھی ان پر *** پڑ رہی ہے۔ نمرود کو ہلاک ہوئے ہزاروں سال گذر گئے ہیں ۔ فرعون کو سمندر میں ڈوبے ہزاروں سال گذر گئے وہ فقیہی اور فریسی جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا تھا ان پر بھی دو ہزار سال گذر گئے ابوجہل کو جنگِ بدر میں ہلاک ہوئے بھی چودہ سو سال ہو گئے مگر آج بھی ہر شریف انسان نمرود کا نام لیتا ہے تو اس پر *** ڈالتا ہے فرعون کا نام لیتا ہے تو اس پر *** ڈالتا ہے فقیہیوں اور فریسیوں کا ذکر آتا ہے تو ان پر *** ڈالتا ہے ابوجہل کا ذکر آتا ہے تو ان پر *** ڈالتا ہے۔ اور پھر اگلے جہان میں جو انہیں عذاب دیا جا رہا ہے اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ غرض یہ عذاب برابر جاری ہے۔ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کا مقابلہ کیا۔
۷۷؎ تفسیر:۔فرماتا ہے تمہارا خدا تو ایک ہی خدا ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور پھر وہ رحمٰن اور رحیم ہے ایسی کامل صفات رکھنے والے خدا پر ایمان رکھتے ہوئے تمہیں اپنے دشمنوں سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہاری حفاظت کے لئے تمہارا خدا موجود ہے۔ پس تم اس پر توکل رکھو اور اُسی سے مدد مانگتے رہو۔ وہ تمہارا دشمن کو تم پر کبھی غالب نہیں آنے دیگا۔ اور خواہ تمہاری کشتی مشکلات کے بھنور میں کتنے بھی چکر کھائے پھر بھی وہ تمہیں اس میں سے نکال کر ساحل کامیابی پر پہنچا دے گا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں بہشتی مقبرہ سے ایک کشتی پر آرہا ہوں اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ راستہ میں کثرت سے پانی ہے اور ایک طوفان سا آیا ہوا معلوم ہوتا ہے جب ہم پُل والی جگہ کے قریب پہنچے ۔جہاں صرف دو لکڑیاں لوگوں کے آنے جانے کے لئے رکھی رہتی تھیں تو وہاں میں کیا دیکھتا ہوں کہ کشتی بھنور میں پھنس گئی ہے اور چکر کھانے لگی ہے اس سے سب لوگ جو کشتی میں بیٹھے تھے ڈرنے لگے جب ان کی حالت مایوسی تک پہنچ گئی تو یکدم پانی میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک تحریر تھی اور اس میں لکھا تھا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے ان سے درخواست کرو تو کشتی بھنور میں سے نکل جائیگی۔ میں نے کہا۔ یہ تو شرک ہے میں اس کے لئے ہرگز تیار نہیں خواہ ہماری جان چلی جائے میں جوں جوں انکار کرتا گیا چکر بڑھتے گئے۔ اس پر میرے ساتھیوں میں سے بعض نے کہا کہ اس میں کیا حرج ہے۔ اور انہوں نے پیر صاحب کے نام ایک رقعہ لکھ کر بغیر میرے علم کے پانی میں ڈال دیا جب مجھے علم ہوا تو میں نے جوش سے کہا کہ یہ شرک ہے اور میں نے فوراً پانی میں چھلانگ لگا دی اور کود کر وہ کاغذ پکڑ لیا اور اُسے باہر لے آیا اور جونہی میں نے ایسا کیا کشتی بھنور میں سے نکل گئی۔ پس مومن پر خواہ کتنی بھی مشکلات آئیں اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر توکل رکھے اور اُس کے سوا کسی اور کا خوف اپنے دل میں نہ پیدا ہونے دے۔
یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ اچھا اگر وہی ایک معبود ہے تو ہمیں کیا معلوم کہ وہ ہم سے کیا معاملہ کریگا۔ اس لئے فرمایا کہ وہ رحمٰن اور رحیم ہے۔ وہ ہمیشہ محبت کا ہی معاملہ کرتا ہے اور بندہ کو نہیں چھوڑتا۔ سوائے اس کے کہ بندہ اُسے خود چھوڑ دے۔ وہ پہلے بغیر کسی عمل کے انسان پر اپنے بے انتہا فضل نازل کرتا ہے اور جب ان سا مانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو رحیمیت کے ماتحت اس پر مزید احسان کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔ خداتعالیٰ کے رحمٰن و رحیم ہونے کی مثال درحقیقت اس بوڑھے کے کھجور لگانے کی سی ہے جس نے بادشاہ سے دو تین دفعہ کئی ہزار روپیہ انعام کے طور پر لے لیا تھا۔ بادشاہ کا خزانہ تو محدود تھا س لئے وہ منہ پھیر کر چلا گیا مگر ہمارے خدا کا خزانہ محدود نہیں ۔ ہمارا بادشاہ تو خود کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ اور پھر مانگتے چلے جائو تاکہ میں تمہیں دیتا چلا جائوں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے انتہا فضل کرنیوالا اور بار بار رحم کرنے والا اس کے خزانے غیر محدود ہیں وہ کہتا ہے کہ تم پھر کام کرو تو میں پھر تمہیں انعام دونگا۔ پھر کرو تو میں پھر دونگا۔ اور ہمیشہ تمہیں اپنے انعامات سے حصہ دیتا چلا جائوںگا۔
اسجگہ اِلٰھُکُمْ سے جو شبہ پیدا ہوتا تھا کہ شاید کسی اور کا خدابھی ہو گا یا کئی خدا ہوتے ہون گے اس کا ازالہ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سے کر دیا اور الرَحْمٰنُ الرَّحِیْمُ سے اس کی کامل صفات بیان کر کے مقلاً بھی کسی اور اِلٰہ کی ضرورت نہ رہنے دی۔
ترتیب وربط:۔ اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ابراہیمی دعا کے مطابق ہم نے تمہارا منہ بیت اللہ کی طرف کر دیا اور پھر فتح مکہ پر اس نے خاص طور پر زور دیا اور بتایا کہ لوگ فتح مکہ کا انتظار کر رہے ہیں فتح ہونے پر وہ اسلام میں جوق در جوق داخل ہو جائیںگے اور چونکہ جنگوں میں کئی قسم کی تکالیف پیش آتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے صبر کی تلقین کی اور دعائیں مانگنے کی طرف توجہ دلائی اور ساتھ ہی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہؓ کی قربانیوں کی مثال بیان کر کے اس حقیقت کو واضح کیا کہ جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انکو کبھی ضائع نہیں کرتا پھر حج اور عمرہ اور صفا اور مروہ کے طواف کا ذکر کے کے اس طرف اشارہ فرمایا۔ کہ ہم نے جو تمہیں حج کا حکم دیا ہے تو ضڑور ہے کہ وہ وقت آئے کہ جس میں تم آسانی سے حج کر سکو۔ اور صفا اور مروہ کا طواف کر سکو۔ غرض ان آیات میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مکہ ایک دن ضرور فتح ہو گا کیونکہ جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں اس وقت کفار مسلمانوں کو بیت اللہ کے قریب بھی نہیں آنے دیتے تھے۔ بلکہ اس کے کئی سال بعد بھی کفار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طواف نہیں کرنے دیا۔ مگر بتایا کہ ایک وقت آئیگا کہ مکہ پر تمہارا قبضہ ہو گا اور تمہیں حج اور عمرہ میں کسی قسم کی دقت کا سامنا پیش نہیں
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ
لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَo
پڑیگا۔ اور پھر آخر میں فرمایا کہ تمہارا خدا یک ہی خدا ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ رحمٰن اور رحیم ہے پس تمہیں اُسی سے تعلق رکھنا چاہیے۔ اور دشمنوں کی کثرت کو دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی توحید کو دنیا میں قائم کریگا اور تمہیں اپنی رحمانیت اور رحیمیت کے نظارے دکھائیگا۔
۷۸؎ حل لغات:۔ اِخْتِلَاف’‘۔ یہ اِخْتَلَفَ کا مصدر ہے اور اِخْتَلَفَ زیْد’‘ عَمْرًد کے معنے ہیں کَانَ خَلِیْفَتُہ‘ یعنی زید عمرو کا قائم مقام ہوا۔وَجَعَلَہ‘ خَلْفَہ‘ اُسے اپنے پیچھے کیا۔ اسی طرھ اس کے ایک معنے ہیں اَخَذَہ‘ مِنْ خَلْفِہٖ۔ اُسے پیچھے سے پکڑا۔(اقرب)
مفردات امام راغب میں لکھا ہے اِنَّ نِی اخَتَلَفِ اللَّیْلِ وَالنَّھْارِ کے معنے ہیں فِیْ مَجِیْ ئِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھَمَا خَلْفَ الْاٰخِرِ وَتَعَاقُبِھَا۔ یعنی رات اور ان کا ایک دوسرے کے آگے پیچھے آنا(مفردات)
اَلْفُلَک کے معنے ہیں اَلسَّفِیْنَۃُ۔ کشتی (اقرب) یہ لفظ مذکر بھی استعمال ہوتا ہے اور مونث بھی۔ اس طرح یہ لفظ واحد اور جمع دونوں طرح بولا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں دونوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ایک جگہ آتا ہے اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ (الصافات آیت۱۴۱) یہ واحد کی مثال ہے۔ دوسری جگہ فرماتا ہے حِتّٰی اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِھِمْ بِرِ یْحٍ طَیِّبَۃٍ(یونس آیت۲۳) اس میں فُلْک کی طرف ھُمْ جو جمع کی ضمیر ہے پھیری گئی ہے گویا یہاں یہ لفظ جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
تفسیر:۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ وَّ احِد’‘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ یعنی تمہارا معبود اپنی ذات میں اکیالا اور واحد خدا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ بے انتہا کرم کرنیوالا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اب اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمایت اور رحیمیت کے مختلف نظائر کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ہستی کو ثبوت پیش کیا ہے ۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کی طرف بنی نوع انسان کو توجہ دلاتا ہے۔ اور فرماتا ہے کہ اس پیدائش میں عقلمند قوم کے لئے بڑے بھاری نشان ہیں۔ یعنی اگر وہ سوچیں اور غور سے کام لیں تو اس امر کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کا انسانی زندگی کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ اور یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن کے پیچھے صرف اللہ تعالیٰ کی رحمایت کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔ انسان کی کسی کوشش اور عمل کا اس میں دخل نہیں چنانچہ دیکھ لو ہوا اور پانی اور سورج اور چاند اور ستارے انسان کے کسی عمل کے نتیجہ میں اسے نہیں ملے بلکہ محض اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمایت کے ظہور کے طور پر ان کو بنی نوع انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو انسان ایک لمحہ کیلئے بھی دنیا میں زندہ نہ رہ سکتا۔ پھر آسمانوں اور زمین میں اگر ایک معین قانون کام نہ کر رہا ہوتا اور ایک غیر متبدل نظام جاری نہ ہوتا تب بھی انسانی زندگی بے کار ہو کر رہ جاتی۔مگر اللہ تعالیٰ نے جہاں دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے بنائی وہاں اس نے ہرچیز کو ایک قانون کا بھی پابند بنا دیا تاکہ انسان بغیر کسی خطرہ کے ترقی کر سکے۔ اور زمین اور آسمان کی ہر چیز اس کی خدمت میں مصروف رہے اس حقیقت کو ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰت طِبَاقًاط مَاتَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوْتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ لا ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍہ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّ تَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ھُوَ حَسِیْر’‘(سورۃ الملک آیت۴،۵)یعنی بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے ساتھ آسمان درجہ بدرجہ بنائے اور تو رحمٰن خدا کی پیدائش میں کوئی رخنہ نہیں دیکھتا ۔ تو اپنی آنکھ کو اِدھر اُدھر پھیر کر اچھی طرح دیکھ۔ کیا تجھے خدا کی مخلوق میں کسی جگہ بھی کوئی نقص نظر آتا ہے پھر بار بار اپنی نظر کو چکر دے آخر وہ تیری طرف نکام ہو کر لوٹ آئیگی او ر وہ تھکی ہوئی ہو گی۔ یعنی اُسے نظامِ عالم میں کوئی بھی خلافِ قانون بات یا نقص نظر نہیں آئیگا۔ غرض کارخانہ عالم کا ایک معین قانون سے وابستہ ہونا اور زمین آسمان اور سورج اور چاند اور ستاروں کاا س قانون کے ماتحت ہمیشہ چلتے چلے جانا اور کبھی اس میں کوئی انحراف واقع نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ اس کائنات کو بنانے والایقینا ایک خدا ہے۔ اگر ایک سے زیادہ بنانے والاے ہوتے جیسا کہ عیسائی تین خدائوں کے قائل ہیں توایک ہی قانون ہر جگہ کام کرتا دکھائی نہ دیتا بلکہ اس میں ضرور کوئی نہ کوئی رخنہ واقع ہو جاتا پس آسمانوں اور زمین کی پیدائش کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کا ثبوت کر دیا کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اپنی مخلوق پر بے انتہا کرم کریوالا اور انہیں ایسے انعامات سے فیضیاب کرنے والا ہے جن میں بندوں کی کسی کوشش یا عمل کا دخل نہیں۔ اسی طرح آسمانوں اور شمین کی پیدائش اس کی صفت رحیمیت کا بھی ثبوت ہے کیونکہ دنیا میں جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بہتر سے بہتر نتائج پیدا کرتا ہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے زمین میں ہل چلایا ہو اور بیج ڈالا ہو اور پانی دیا ہو اور نگرانی کی ہو اور پھر اسے ایک دانہ کے بدلہ میں کئی کئی سو دانے نہ ملے ہوں۔ یا کسی نے صحیح محنت کی ہو اور وہ اپنی محنت کے پھل سے محروم رہا ہو۔ یہ دونوں صفات پہلو بہ پہلو چل رہی ہیں۔ رحمانیت کا بھی ظہور ہو رہا ہے اور رحیمیت کا بھی ظہور ہو رہا ہے اور ہر چیز اپنے وجود سے خداتعالیٰ کی طرف انگلی اُٹھا کر اس کی ہستی کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔
درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم ایسا ہے جو دوسری چیزوں کے علم اور معرفت کے بعد حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ کلی علم ہے بعض چیزیں اپنی ذات میں نظر آنے والی ہوتیہ یں ان کے دیکھنے سے انسان کو ان کا علم ہو جات اہے۔ مثلاً بچہ کے سامنے اگرہم انگلی رکھیں اور قطع نظر اس سے کہ وہ اس قسم کی تفصیلات معلوم کرے کہ اُس انگلی کے پیچھے ایک پنجہ ہے اور اس پنجہ کے پیچھے ایک بازو ہے اور اس بازو کے پیچھے ایک کندھا ہے۔ وہ کندھا گردن کے واسطہ سے سر سے ملتا ہے اور اس سر میں ایک دماغ ہے جس کے حکم سے ان چیزون نے حرکت کی ہے اور پھر یہ انگلی میرے سامنے آئی ہے۔ وہ یہ سمجھ لے گا کہ اتنی لمبی اور اتنی موٹی ایک چیز میرے سامنے آگئی ہے پاس انگلی کا علم باقی علم کی ضرورت کا پابند نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم کلی علم کے طور پر ہے اور جب تک جزئیات کا علم نہ ہو اس وقت تک کلی علم حاصل نہیں ہو سکتا ۔ ہم خداتعالیٰ تک اس کی مخلوقات کے ذریعے سے پہنچتے ہیں اور پھر اس میں بھی تکمیل کے بعد تکمیل اور وسعت کے بعد وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک چیز کے علم کے بعد دوسری چیز کا علم حاصل ہوتا ہے اور دوسری چیز کے بعد تیسری چیز کا ۔ اور تیسری چیز کے بعد چوتھی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مخلوق کی جزئیات کا علم ہوتے ہوتے انسان خداتعالیٰ تک معرفت پیدا کرتا جاتا ہے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان بھی اگر غور کرے تو اس کے لئے بھی خداتعالیٰ کی ہستی کی دلیل موجود ہے ۔ جیسے ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا کہ تم خدا کو کیوں مانتے ہو تو وہ ہنس پڑا کہ میں اتنا پاگل تو نہیں ہوں کہ خدا کو بھی نہ پہچان سکوں۔ بکریوں کی مینگنیاں راستہ میں پڑی ہوئی ہوتی ہیں تو میں ان کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہوں کہ یہاں سے بکری گذری ہے اونٹ کا پاخانہ پڑا ہوا ہو تو اُسے دیکھ کر میں سمجھ لیتا ہوں کہ ادھر سے اُونٹ گذرا ہے تو کیا اتنی وسیع دنیا کو دیکھ کر میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک خدا موجود ہے جو اس ساری دنیا کا خالق اور اس نظام کا پیدا کرنیوالا ہے۔ یہ ایک بسیط علم ہے جس پر فلسفیوں نے اعتراض کیا ہے کہ آخر اتفاقات بھی تو ہوتے ہیں ۔ اس لئے خالی خالی زمین و آسمان کی پیدائش اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ ان کا کوئی خالق ہے۔ بعض چیزیں اتفاقا بھی ہو جاتی ہیں اور تمام لوگ کہتے ہیں کہ یہ اتفاقی بات ہے۔ قرآن مجید نے فلسفیوں اور مفکرین یورپ کے اس اعتراض کی تردید میں یہ دلیل دی ہے کہ خالی اس دنیا کا وجود بیشک خداتعالیٰ کے خالق ہونے کی مکمل دلیل نہیں اور تم اس کو اتفاقی کہہ سکتے تھے مگر اس تمام عالم میں ایک ترتیب کا پایاجانا اور ہرچیز کی دوسری چیز کے ساتھ جوڑ موجود ہونا یہ سب کچھ اتفاقی نہیں بلکہ اس دنیا کی ترتیب اور ہر چیز کا دوسری چیز کے ساتھ جوڑ اور ہر ذرہ کی حکمت یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اس سارے نظام اور ساری دنیا کا پیدا کرنیوالا خدا موجود ہے جس نے حکمت کے ماتحت اس ساری دنیا کو پیدا کیا ہے اُس نے انسان کی آنکھ پیدا کی جس میں دیکھنے کی طاقت رکھی تو اس کے مقابل میں سورج کے اندر روشنی پیدا کی جس کے ذریعہ سے انسان دیکھتا ہے ناک پیدا کی جس سے انسان سونگھتا ہے تو اس کے مقابل میں خوشبو پیدا کی۔ کان پیدا کی جس سے انسان سنتا ہے تو اس کے مقابل میں ہوا میں یہ خصوصیت رکھی کہ وہ جنبش کرتی ہے اور اس کے ذریعہ سے کان تک آواز پہنچتی ہے ۔ اب کیا دیکھنے کے لئے آنکھ اگر اتفاقاً پیدا ہو گئی ہے تو اس کے مقابل میں سورج کی روشنی بھی اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ سونگھنے کے لئے اگر ناک اتفاقاً پیدا ہو گئی تو کیا اس کے مقابل خوشبو بھی اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ اگر سننے کے لئے کان اتفاقاً پیدا ہو گئے تو کیا اس کے مقابل میں ہوا کے اندر بھی جنبش کر کے کانوں تک آواز پہنچانے کی قابلیت اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ پاس ان چیزوں کے اندر اگر کوئی جوڑ نہ وہوتا کوئی ترتیب نہ ہوتی اور کوئی حکمت نہ ہوتی تو انکو اتفاق کہا جاسکتا تھا لیکن دنیا کا کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں کوئی ترتیب نہ ہو کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں حکمت نہ ہو۔ کوئی چیزایسی نہیں جس کا کسی دوسری چیز سے جوڑ اور وابستگی نہ ہو تو ہم کس طرح مان لیں کے یہی ساری کی ساری چیزیں اور یہ سارے کا سارا نظام خود بخود اور اتفاقی ہے۔ مگر یہ دلیل اُسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے جب انسان بڑا ہو اور ان چیزوں پر غور کرے۔ آنکھوں سے دیکھ دل و دماغ سے سوچے ادھر ان چیزوں پر نگا ڈالنے ادھر اپنے دل کے جذبات پر غور کرے۔ سورج اور چاند کی روشنی کو دیکھے ہوا اور اس کے اثرات پر غور رکے۔ گرمی اور سردی کے اثرات کو دیکھے سبزیوں اور ترکاریوں کے پیدا ہونے اور ان کی خاصیتوں پر غور کرے جب تک وہ ان چیزوں پر غور کرنے اور ان سے نتیجہ نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ تک کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ یہ بات خلافِ عقل ہے کہ ایک بچہ ان تمام چیزوں پر غور کر کے اس نتیجہ تک پہنچ جائے کہ ایک خدا موجود ہے۔ بچہ توسب سے پہلے اپنی ماں سے روشناس ہوتا ہے اور اسی کو سب کچھ سمجھتا ہے پھر جب اس کو پتہ لگتا ہے کہ ماں کو بھی سب چیزیں باپ ہی لا کر دیتا ہے تو پھر وہ باپ سے محبت کرتا ہے بڑا ہو کر جب اپنی گلی کے بچوں سے کھیلتا ہے تو پھر ان سے محبت کرتا ہے اگر اس کا کوئی دوست نہ ملے تو رونے لگ جاتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ میرے دوست کو بلائو اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں۔ پھر کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کا شوق پیدا ہوتا ہے تو ان سے محبت کرتا ہے۔ اگر اُس کی مرضی کے مطابق کھانا نہ ملے یا مرضی کے مطابق کپڑا نہ ملے تو روٹھ جاتا ہے کہ میرا اس کے بغیر گذارہ نہیں پھر اور بڑا ہوتا ہے تو سیر وشکار سے محبت کرتا ہے اور ان چیزوں کے بغیر اپنی زندگی بے لطف سمجھتا ہے۔ غرض یہ چیزیں ایک ایک کر کے اس کے سامنے آتی ہیں اور ہر ایک کے متعلق وہ یہی اندازہ لگاتا ہے کہ اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں۔ گویا وہی اس کا خدا ہوتا ہے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ ان چیزوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے پہلے ماں سے محبت ہوتی ہے تو اُسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے پھر باپ سے محبت ہوتی ہے تو اسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے۔ پھربھائیوں اور دوستوں سے محبت سے محبت ہوتی ہے تو ان کو اپنا خدا سمجھتا ہے پھر کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں سے محبت ہوتی ہے تو ان کو اپنا خدا سمجھتا ہے۔یہاں تک کہ جب عاقل و بالغ ہوجاتا ہے تو پھر اگر اس پر خدا کا فضل ہو جائے اچھا استاد مل جائے جو اسے علم سکھائے اور ماں باپ بھی اچھی طرح تربیت کرنے والے ہوں تب وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر حقیقی خدا کی طرف آجائیگا اور سمجھ لیگا کہ یہ سب نقلی خدا تھے جن کو میں نے اپنی خواہشات کے ماتحت سب کچھ سمجھ رکھا تھا۔ اصل خدا تو وہ ہے جو ان سب کا پیدا کرنیوالا ہے غرض پہلے غیر اللہ کی محبت انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی کا سارا انحصار انہی پر ہے۔ لیکن ایک ایک کر کے پھر ان کو چھوڑتا چلا جاتا ہے پہلے ماں کی گود کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور اس سے الگ ہونے میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے ۔ پھر بڑا ہوتا ہے تو بھائیوں اور دوستوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور اپنی زندگی کا تمام سُکھ اور راحت انہیں کے ساتھ کھیلنے میں سمجھتا ہے جب ان کے ساتھ مل کر کھیل ریا ہو تو ماں کے بلانے پر بھی نہیں جاتا۔ اس کی ساری خوشی کھیلنے میں ہوتی ہے۔ پھر اور بڑا ہوتا ہے تو سیر و شکار سے محبت ہوتی ہے پھر صحن اور گلی میں کھیلنے کو بھول جاتا ہے اور اس کی ساری خوشیاں سیر وشکار میں مرکوز ہو جاتی ہیں اگر اس کو ان چیزوں سے روکا جائے تو اس میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے لیکن آہستہ آہستہ آپ ہی آپ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو غور و فکر کے بعد خدا کی حقیقی شکل اس کو نظر آجاتی ہے اور ان تمام چیزوں کو لغو سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے اسی ترتیب طبعی کے ماتحت مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے ایک ستارہ کو چمکتا ہوا دیکھا تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ پھر چاند کو دیکھا کہ ستارہ سے بڑا اور اس سے زیادہ روشن ہے تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ پھر سورج کو دیکھا کے ستارے اور چاند دونوں سے بہت بڑا اور اس سے زیادہ روشن ہے تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ مگر جب ایک ایک کر کے سب چُھپ گئے تو آپ نے فرمایا اِنِّیْ وَجَّھْتُ وِجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ(انعام ع۹) یعنی میں نے تمام کج راہوں سے بچتے ہوئے اپنی توجہ اس خدا کی طرف پھیر دی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آخر میں آپ خدا تعالیٰ پر ایمان لے آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ واقعہ تو درست نہیں مگر مفسرین کا دماغ اس بات تک صحیح پہنچا ہے کہ انسان دماغ بغیر الہام کے جب ہدایت پاتا ہے تو ادنیٰ سے اعلیٰ تک جاتا ہے بچے کے نزدیک ابتداء میں اُس کی ماں ہی سب کچھ ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں اُس کا خدا ہوتی ہے بلکہ اس کی ماں کی بھی خبر نہیں ہوتی وہ سب سے پہلے پستان ہی کو خدا سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مجھے اس سے دودھ ملتا ہے اگر پستان نہ ملے تو روتا ہے پھر ماں کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ پھر باپ کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ پھر بھائی سے محبت کرتا ہے پھر ساتھ کھیلنے والوں سے محبت کرتا ہے گلی اور محلے والوں کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے پھر دوسری ضروریات کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر اپنا مقصود سمجھتا ہے ۔ مگر آہستہ آہستہ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ چیزیں اسے خدا تک پہنچا دیتی ہیں۔ اگر سال یا چھ مہینے کے بچہ کے اندر بولنے اور سمجھنے کی طاقت ہوتی اور اُسے کہا جاتا کہ تُو بڑا ہو کر اپنی ماں کی گود کو چھوڑ دیگا تو وہ اس بات سے اتنا حیران ہوتا جتنا کہ ایک سائنسدان اس بات سے حیران ہوتاکہ اُسے کہا جائے آگ جلاتی نہیں بلکہ بجھاتی ہے یا سورج روشنی نہیں دیتا۔یا چاند کی روشنی مکتسب نہیں بلکہ آپ ہی آپ ہے ۔ غرض جس طرح ایک سائنسدان ان اوپر کی باتوں سے حیران ہوگا وہ بچہ بھی اگر اس کو یہ بات سمجھائی جا سکتی کہ ایک دن وہ اپنی ماں کی گود سے اُتر جائیگا اور اس کی رغبت اپنی ماں سے کم ہو جائیگی حیران ہو تا۔ اگر سات آٹھ سال کے بچہ کو یہ بات کہہ دی جائے کہ بڑا ہو کر تو ایک عورت سے شادی کرے گا اور اس سے تیری رغبت زیادہ ہو جائیگی اور تو اپنی ماں کو چھوڑ دیگا تو وہ کہیگا کہ میں ایسا پاگل تو نہیں ہوں کہ اپنی ماں کو چھوڑدوں وہ اور ہونگے جو ایسا کرتے ہیں میں تو کبھی اس طرح نہیں کرونگا۔ پس یہ ایک فطرتی چیز ہے کہ انسان مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے اور جس وقت وہ اس چیز سے رغبت کر رہا ہوتاہے اس وقت وہ یہ وہم بھی نہیں کر سکتا کہ ایک دن میں اس چیز کو چھوڑ دونگا۔ اور جب بڑا ہوتا ہے تو پھر اس بات کا اسے خیال بھی نہیں آتا کہ کسی وقت میں اس چیز سے رغبت رکھتا تھا اور اس کے بغیر اپنی زندگی حرام سمجھتا تھا۔ یہی معنے اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اللّٰہ کے ہیں کہ پہلے انسان غیر اللہ کی طرف توجہ کرتا ہے جو بظاہر غیر اللہ کا راستہ ہے مگر اللہ تک پہنچنے کا اصل راستہ یہی ہے۔ اگر بچہ کے اندر پستان کی محبت نہ ہوتی تو اُس کے اندر ماں کی محبت بھی کبھی نہ ہوتی۔ اگر بچہ کو ماں سے محبت نہ ہوتی تو اس کو باپ سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی۔ اگر بچہ کو باپ سے محبت نہ ہوتی تو اس کو بھائی اور بہنوں سے محبت نہ ہوتی تو اس کو دوستوں اور ساتھ کھیلنے والوں سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی۔ اگو اگر اس کو اپنے اپنے وقت پر ان اشیاء سے رغبت نہ ہوتی تو سچی بات یہ ہے کہ خدا کو بھی اپنے وقت پر نہ پا سکتا۔ بات یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت میں جو خلا محسوس کرتا ہے اُس کو پُر کرنے کے لئے وہ مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہ چیز میری ضرورت کو پورا کردے۔ جب اُس چیز سے اس کی تسلی نہیں ہوتی تو پھر دوسری چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید اس چیز سے میری ضرورت پوری ہو جائے۔ جب اس سے بھی اسے طمانیت حاصل نہیں ہوتی تو پھر چوتھی چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہی میرا مقصود ہو۔ یہاں تک کہ ایک ایک کر کے ان تمام چیزوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور آخر خداتک جا پہنچتا ہے اور جب اس کو اللہ مل جاتا ہے تو اس کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر اس مقام سے نہیں ہلتا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّ اِلیٰ رَبِّکَ الْمُنتَھٰی(نجم آیت ۴۳) کہ ان تمام چیزوں میں سے جو غیر اللہ ہیں گذر کر ایک دن انسان اپنی منزل مقصود یعنی خدا تک پہنچتا ہے اور وہ فورا ہی اس منزل پر نہیں پہنچ جاتا بلکہ راستہ میں کئی چیزیں آتی ہیں جن کو بچپن کی وجہ سے خدا سمجھ لیتا ہے مگر آہستہ آہستہ اُن سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور ہر چیز اس کی انگلی پکڑ کر اُس کو خدا کے قریب کر دیتی ہے۔
زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر تم نظامِ عالم پر غور کرو تو تمہیں ذرہ ذرہ میں خداتعالیٰ کو وجود نظر آئیگا۔ اور تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جس قدر اشیاء پیدا کی ہیں ان تمام کو حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے یعنی ان کی پیدائش بلاوجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی بہت بڑا مقصد کام کر رہا ہے اور چونکہ وہ مقصد اس دنیا میں پورا ہوتانظر نہیں آتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسانی زندگی اسی دنیا تک محدود نہ ہو تاکہ وہ اس نظام کی عظمت کے مطابق اس اعلیٰ مقام کو حاصل کر کے جس کے لئے اس کی پیدائش معرض، وجود میں آئی ہے ۔ اگر انسان کی زندگی صرف اس دنیا تک ختم ہو جانے والی ہوتی تو اس کے لئے اتنا بڑا نظام جاری کرنا جس کے اسرار کو علوم کی انتہائی ترقی کے باوجود ابھی تک سائنسدان بھی معلوم نہیں کر سکے ایک لغو اور خلافِ عقل فعل قرار پاتا ہے۔
مجھے یاد ہے ۱۹۴۶ء میں جب ہم نے قادیان میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کے لئے ڈاکٹر سرشانتی سرذب صاحب بھٹنا گر ڈاکٹر سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ گورنمنٹ آف انڈیا کو بلوایا تو انہوں نے تقریر کرتے ہوئے یہی کہا کہ آج سائنسدان کے غرور کا سار اس قدر نیچا ہو چکا ہے کہ وہ ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ سائنس ان اشیاء کی بھی مناسب تشریح کر سکتی ہے جو ظاہری طور پر ہمیں نظر آتی ہیں اور جب زمین اور آسمان میں اس قدر اسرار پائے جاتے ہیں کہ سائنس اپنی تمام ترقی کے باوجود ابی مادیات میں سے بھی ایک بہت چھوٹے سے حصے کی تشریح کر سکی ہے تو پھر اس وسیع کائنات کو جس وجود کے لئے ایک خادم کے طور پر پیدا کیا گیا ہے اس کی پیدائش کو عبث قرار دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
پھر فرماتا ہے وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ۔ رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں بھی عقلمند لوگوں کے لئے بڑے بھاری نشان ہیں۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمانیت کا ثبوت پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے اور سورج اور چاند اور ستارے وغیرہ بنائے۔ اسی طرح اُس نے اپنی رحمانیت کے ماتحت یہ بھی انتظام کیا ہو اہے کہ رات اور دن کا ایک تسلسل جاری ہے۔ اور ہر رات کے بعد ایک دن کا ظہور ہوتا ہے۔ اگر رات نہ آتی تو انسان اپنی طاقتوں کو کھو بیٹھتا۔ اور اگر دن نہ چڑھتا تو انسانی زندگی بے کار ہو کر رہ جاتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ کے ماتحت رات اور دن بنادیئے تاکہ انسان اپنی نیند پوری کر کے قویٰ میں تازگی حاصل کرے اور دن بھر کام کر کے اپنے آپ کو مفید وجود بنائے رات اور دن کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے روحانی رنگ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ نے مادی ظلمت کو دور کرنے کے لئے انتظام کر رکھا ہے روحانی طور پر بھی ظلمت اور نور کا ایک سلسلہ جاری ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر رکھے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں روحانی ظلمتیں کا فور ہوتی رہتی ہیں۔ ان سامانوں میں سے ایک تو یہ ہے کہ ملائکہ انسانی قلوب میں نیک تحریکات کرتے رہتے ہیں اور انہیں ظلمات سے بچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن جب بنی نوع انسان کی اکثریت ظلمت میں گرفتار ہو جائے اور ملکی تحریکات ان پر اثر نہ کریں اور شیطان ان پر تسلط جمالے تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور مامورین کے ذریعہ ان کی ظلمتوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لوگ روحانی عالم کے آفتاب و ماہتاب ہوتے ہیں اور ان پر ایمان لانے والے ستاروں کی طرح دنیا کی ہدایت کا موجب بنتے ہیں۔ غرض اِخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھارِ میں اللہ تعالیٰ نے رحمانیت کے اس فیضان کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے ڈریعہ ملائکہ اور انبیاء اور مامورین اور مجددین اور اولیاء وغیرہ بنی نوع انسان کو ظلمات سے نور کی طرف لے جاتے ہیں اور دنیا کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں۔
وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ جیسے کشتیوں اور جہازوں کے بغیر تم سمندروں میں نہ ایک طرف کا مال دوسری طرف پہنچا سکتے ہو اور نہ وہاں سے کوئی مال اپنے استعمال کے لئے لاسکتے ہو ۔ اسی طرح خداتعالیٰ نے رُوحانی دنیا میں بھی بعض ایسے وجود بنائے ہیں جو لوگوں کے لئے کشتی کاکام دیتے ہیں وہ خداتعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے فیضان لاتے ہیں اور تمہیں زمین سے اُٹھا کر خداتعالیٰ تک پہنچا دیتے ہیں پھر جس طرح وہی شخص سمندری طوفانوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جو کشتی میں سوار ہو اسی طرح روحانی بلائوں اور آفات سے بھی وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو اپنے زمانہ کے روحانی نجات دہندہ کی کشتی میں سوار ہو۔
وَمَااَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئٍ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ زمین کو حیاتِ تازہ بخشنے کے لئے آسمان سے پانی نازل فرماتا ہے اسی طرح وہ لوگوں کی روحانی تشنگی فرو رکرنے کے لئے آسمان سے ہی وحی نازل کیا کرتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ جسمانی بارش کو تو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں لیکن جب آسمان سے وحی الہٰی کی بارش ہوتی ہے تو اس سے فائدہ اتھانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ سے وحی الہٰی کی بارش سے فائدہ اُٹھانے اور نہ اُٹھانیوالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں تین قسم کے آدمی پائے جاتے ہیں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی مثال اچھی زمین کی طرح ہوتی ہے۔ جو نرم ہو پانی کو اپنے اندر جذب کرنے کی قابلیت رکھتی ہو اور پھر اچھی کھیتی اُگاسکتی ہو۔ جب بارش نازل ہوتی ہے تو وہ زمین بارش کے پانی کو سمیٹ لیتی اور اُسے اپنے اندر جذب کرلیتی ہے اور پھر زمین سے کھتی نکلتی اور لوگوں کے کام آتی ہے گویا وہ خود بھی پانی پیتی ہے اور باقی لوگوں کے کام آتی ہے گویا وہ خود بھی پانی پیتی ہے اور باقی لوگوں کے لئے بھی غذا مہیاکرتی ہے۔ اور دوسری قسم کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی مثال اس زمین کی طرح ہوتی ہے جو سخت ہو لیکن اپنے اندر نشیب رکھتی ہو۔ جب پانی گِرتا ہے تو وہ اس زمین میں جمع ہو جاتا ہے اور گو ایسی زمین خود پانی نہیں پیتی لیکن چونکہ وہ پانی کو جمع کر لیتی ہے اس لئے وہ پانی جانور پیتے ہیں آدمی استعمال کرتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو اس پانی سے سیراب کرتے ہیں لیکن ایک تیسری قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی مثال اس سخت اور پتھریلی زمین کی طرح ہوتی ہے جو نہ صرف سخت اور پتھریلی ہو بلکہ مسطح اور ہموار بھی ہو۔ اس میں کوئی گڑھا نہ ہو جب آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے تو نہ وہ آپ پانی پیتی ہے کیونکہ وہ سخت اور پتھریلی ہوتی ہے اور نہ پانی جمع کرتی ہے کیونکہ وہ مسطح اور ہموار ہوتی ہے۔ پھر فرمایا پہلی مثال تو اس شخص کی ہے جو عالم باعمل ہو۔ وہ دین حاصل کرتا ہے اور نہ صرف خود اس کے احکام پر عمل کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے اور ان کو عامل بنانے کی کوشش کرتا ہے گویا وہ عالم بھی ہوتا ہے اور عامل بھی ہوتا ہے۔ وہ تعلیم بھی حاصل کرتا ہے اور معلم بھی ہوتا ہے۔ لیکن تیسری قسم کا آدمی نہ عامل ہوتا ہے اور نہ معلم ہوتا ہے نہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ دوسری مثال بوجہ اس کے کہ دونوں مثالوں سے حل ہو جاتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی مگر ہر شخص ادنیٰ غور سے سمجھ سکتا ہے کہ دوسری مثال اس شخص کی ہے جو معلم تو ہے مگر عامل نہیں۔ وہ دین سیکھتا ہے اُس کے احکام سنتا ہے اس کی تعلیموں سے واقفیت رکھتا ہے مگر خود دیندار نہیں ہوتا۔ ایسا شخص چونکہ خدا اور اس کے رسول کی باتیں دوسروں تک پہنچاتا رہتا ہے اس لئے وہ بھی ایک مفید وجود ہوتا ہے گو ذاتی طور پر وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں قسم کے انسانوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کے آنے پر یہی تین گروہ دنیا میں نظر آتے ہیں یعنی کچھ تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان کی تعلیموں پر عمل کرتے ہیں اور وحی الہٰی کی بارش سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اعراض سے کام لیتے ہیں اور انبیاء کا انکار کر دیتے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دین کو سمجھتے تو ہیں مگر اپنی غفلت اور سستی کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ مادی بارش کا ذکر فرماکر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جس طرح تم بارش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہو۔ اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم اس روحانی بارش سے بھی فائدہ اُٹھائو ہو محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل ہوئی اور ان پتھروں کی طرح مت بنو جو بارش کا کوئی قطرہ اپنے اندر جذب نہیں کرتے۔ پھر جس طرح آسمان سے بارش برستی ہے توزمین کی اندرونی تہوں میں جو پانی مخفی ہوتا ہے اس میں بھی جو ش پیدا ہوتا ہے اور کنوئوں کا پانی بھی چڑھ آتا ہے اسی طرح انبیاء پر جب وحی الہٰی کی بارش نازل ہوتی ہے تو عوام الناس کو بھی کثرت کے ساتھ خوابیں آنی شروع ہو جاتی ہیں اور ان کی توجہ بھی خداتعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے چنانچہ اس زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی صداقت میں ہزار ہا لوگوں کو خوابیں آئیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کی خوابیں اکٹھی کی جائیں تو ایک بہت بڑی کتاب بن سکتی ہے۔
اسی طرح وحی الہٰی کے فیضان کے دائرہ کو اللہ تعالیٰ اس رنگ میں بھی وسیع کر دیتا ہے کہ جو لوگ انبیاء پر ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ ان کے دماغوں میں بھی ایک نئی روشنی پیدا کر دیتا ہے اور ان کی عقلیں تیز ہو جاتی ہیں ان کا فکر بلند ہو جاتا ہے ان کی فراست ترقی کرجاتی ہے اور ان کی دماغی صلاحیتیں زیادہ تیز ی سے اُبھرنے لگتی ہیں۔
پھر فرماتا ہے خداتعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَۃٍ۔ اس نے زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اس میں مادی جانوروں کے علاوہ ان لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو انبیاء کے آنے سے پہلے مردہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں روحانی زندگی کی کوئی رمق تک نظر نہیں آتی لیکن جب آسمانی صُور پُھونکا جاتا ہے تو اس وقت ایسے مردہ بھی زندہ ہو جاتے ہیں اور لولے لنگڑے بھی چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر یہ لوگ جو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف علوم و فنون اور مختلف قابلیتوں کے مالک ہوتے ہیں نبی کی آواز پر لبیک کہنے کے بعد دین کی اشاعت کے لئے دنیا میں چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور اپنی تبلیغی جدوجہد سے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو دین کی طرف کھینچ لاتے ہیں جو اس کے دین کی رونق اور تازگی کا موجب بنتے ہیں۔ ان معنوں کے لحاظ سے دَآبَّۃٍ سے ان مومنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو زمین کی روحانی رونق اور آبادی کا باعث ہوتے ہیں اور جن سے موجودہ اور آئندہ نسلیں ہزاروں قسم کے مادی اور روحانی فوائد اُٹھاتی ہیں۔
وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ رحیمیت کا ثبوت پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ صفتِ رحمانیت کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے جس قدر فیضان ہیں ان میں تو کافر بھی برابر کے شریک ہیں لیکن رحیمیت کے دائرہ میں جب مومن اور کافر کا مقابلہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تائید مومنوں کو کامیاب کرتی اور کفار کو ان کے بد ارادوں میں ناکام کر دیتی ہے اس جگہ استعارہ کے طور پر ہوائوں سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو خاص خاص وقتوں میں چلا کرتی ہیں خصوصاً وہ ہوائیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے چلیں اور جنہوں نے آپ کے انوار کو ساری دنیا میں پھیلا دیا مثلاً جنگِ بدر کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریت اور کنکریوں کی ایک مٹھی پھینکی تو اُسی وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی تیز ہوا چلی جس نے مومنوں کی تائید کی۔ اور کفار کو ایسا بے دست و پا کر دی اکہ تھوڑی دیر میں ہی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور کفار کے بڑے بڑے لیڈر خاک و خون میں تڑپنے لگے اور ان کے مسلح اور آزمودہ کار سپاہی میدان سے منہ پھیر کر بھاگ نکلے۔
پھر غزوہ احزاب میں بھی ایساہی ہوا اور خداتعالیٰ نے آپ کی تائید میں ہوا چلائی اور کفار بد حواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک رات سخت آندھی چلی جس نے قناطوں کے پردے توڑ دیئے۔ چولھوں پر سے ہنڈیاں گرادیں اور بعض قبائل کی آگیں بُجھ گئیں۔ مشرکین عرب میں یہ رواج تھا کہ وہ ساری رات آگ جلائے رکھتے تھے اور اس کو نیک شگون سمجھتے تھے اور جس کی آگ بُجھ جاتی تھی وہ خیال کرتا تھا کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے اور وہ اپنا خیمہ اٹھار کر لڑائی کے میدان سے پیچھے ہت جاتا تھا جن قبائل کی آگ بجھی انہوں نے اس رواج کے مطابق اپنے خیمے اٹھائے اور پیچھے کو چل پڑے۔ انکو دیکھ کر ارد گرد کے قبائل نے سمجھا کہ شاید یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر شبخون مار دیا ہے اور ہمارے آس پاس کے قبائل بھاگ رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی جلدی جلدی اپنے ڈیرے سمیٹے اور میدان سے بھاگنا شروع کر دیا۔ ابوسفیان اپنے خیمہ میں آرام سے لیٹا تھا کہ اس واقعہ کی خبر اُسے بھی پہنچی وہ گھبرا کر اپنے بندھے ہوئے اونٹ پر چڑھ بیٹا اور اس کو ایڑیاں مارنی شروع کر دیں۔ آخر کسی نے اُسے توجہ دلائی کہ وہ یہ کیا حماقت کر رہا ہے اس پر اس کے اونٹ کی رسیاں کھولی گئیں اور وہ بھی اپنے ساتھیوں سمیت میدان سے بھاگ گیا۔
پھر ہوائوں کی طرح بارشیں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں برسیں اور بادلوں نے بھی آپ کا ساتھ دیا چنانچہ جنگِ بدر کے موقعہ پر جبکہ صحابہؓ کو پانی کی سخت ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کر دی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو پانی بھی مل گیا اور ان کی زمین بھی جو ریتیلی تھی اور میدان جنگ بننے والی تھی سخت ہو گئی۔ اُدھر کافروں کی زمین جو سخت تھی بارش کی وجہ سے ایسی خراب ہو گئی کہ وہ اُس پر پھسلنے لگ گئے۔ اسی طرح مدینہ میں آپ کی دُعا کی برکت سے ایک دفعہ کئی دن بارش ہوتی رہی لیکن جب وہ بارش تکلیف کی صورت اختیار کرنے لگی اور مومنوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو آپ ہی کی دُعا کی برکت سے وہ رُکی اور مدینہ سے ہٹ کر اردگرد کے علاقوں پر برسنے لگ گئی۔
اسی طرح جب مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید مخالفت کی اور بار بار عذاب کا مطالبہ کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان پر ویسا ہی سات سالہ قحط نازل فرمائے جیسا کہ اس نے یوسف کے زمانہ میں نازل کیا تھا۔ جنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ کی اس بد دُعا کی وجہ سے حجاز میں ایسا شدید قحط پڑا کہ لوگوں کو مردار اور ہڈیاں اور چمڑے تک کھانے پڑے اور ان کی صحتیں اس قدر کمزور ہو گئیں کہ انہیں ہر وقت آنکھوں کے سامنے دھواں سا نظر آتا تھا اور یہ عذاب پورے سات سال تک ممتد رہا۔ آخر لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے درخواست کی کہ مضر یعنی قبائلِ حجاز کے لئے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی تکلیف کو دُور کرے۔ چنانچہ آپؓ نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے بارشیں فرمائیں اور قحط دُور ہوا۔ بلکہ ایک روایت میں ذکر آتا ہے کہ خود ابوسفیان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا
وَمِنَ النَّاسِ
شَدِیْدُ الْعَذَابِo
کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تیری قوم ہلاک ہو گئی۔ دعا کر کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دُور کرے۔ چنانچہ آپ نے دُعا فرمائی اور یہ عذاب دُور ہوا(بخاری جلد ۳ کتاب اتفسیر القرآن سورۃ دُخان) یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہوائیں بھی مسخر کر دی تھیں اور بادل بھی مسخر کر دیئے تھے اور کامل مومنوں کے لئے بھی وہ ایسا ہی کیا کرتا ہے بے شک ہوائیں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں اور بارشیں ہمیشہ برستی رہتی ہیں مگر بدر اور احزاب کی ہوائوں نے بتا دیا کہ وہ مومنوں کے لئے بشارت اور کافروں کے لئے عذاب تھیں اسی طرح بارشیں بھی بے شک عام طور پر ہوتی رہتی ہیں مگر بدر اور مدینہ کی بارشوں نے بتا دیا کہ وہ مسخر شدہ تھیں اور مسخر شدہ بارشیں اور ہوائیں ہمیشہ مومنوں کی تائید اور کفار کی تذلیل کے لئے جاری ہوتی ہیں اور ایسے امور تقدیر خاص کے ماتحت جاری ہوتے ہیں۔
۷۹؎ حل لغات:۔ اَنْدَادًا : یہ نِدّ’‘ کی جمع ہے اور اَلنِّدُّ کے معنے ہیں اَلْمِثقلُ وَلَایَکُوْنُ اِلَّا مُخَالِفًا نِدّ مثل کو کہتے ہیں۔ اور یہ لفظ ہمیشہ مد مقابل کے لئے بولا جاتا ہے۔ یُقَالُ مَالَہ‘ نِدّ’‘ اَیْ مَالَہ‘ نَظِیْر’‘ کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی نِد نہیں یعنی اس کا کوئی نظیر نہیں اس کی جمع انداد آتی ہے۔
یہاں اَذْ۔ حِیْنَ کے معنے میں استعمال ہوا ہے اور حین کے معنے وقت کے ہیں۔
اسی طرح اسجگہ لَوْ کی جزاء محذوف ہے جو کہ یَعْلَمُوْا ہے۔ معنے اس طرح ہونگے کہ اگر یہ ظالم لوگ اس گھڑی کو جس میں اُن پر عذاب نازل ہو گا دیکھ لیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ سب قوت اللہ ہی کے لئے ہے۔
تفسیر:۔ قرآن کریم میں مشرکوں کے معبودوں کے لئے چار الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ (۱) نِدّ (۲) شریک (۳) اِلٰہ (۴)رب ۔اور یہ چاروں نام چار قسم کے شرکوں پر دلالت کرتے ہیں۔ نِدّ شریک فی الجوہر کو کہتے ہیں یعنی ایسی ہستی کو جس کی محض عبادت ہی مدنظر نہ ہو بلکہ جیسے خداتعالیٰ کی ذات ہے ویسے ہی اس چیز کو ازروئے ذات سمجھا جائے اور شریک وہ ہے جسے کاموں میں شریک باری تعالیٰ قرار دیا جائے خواہ بعض صفات میں یا کل صفات میں خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے اور اِلٰہ یعنی معبود کا لفظ جب خداتعالیٰ مشرکوں کی نسبت استعمال کرے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ یہ لفظ بھی نِد سے وسیع ہے کیونکہ عام طور پر وہ بھی اِلٰہ قرار دیئے جاتے ہیں جو خداتعالیٰ کے شریک فی الجوہر تسلیم نہیں کیے جاتے۔ جیسے ہندئوئوں وغیرہ کے دیوتا ہیں اور رب ان ہستیوں کو کہا جاتا ہے جن کی ہر ایک بات بلا تمیز خیر و شر مان لی جائے بغیر اس کے کہ لوگ ان کی عبادت کریں یا انہیں خداتعالیٰ کی صفات میں شریک قرار دیں۔ ان چاروں قسم کے شرکوں کی مثالیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ نِدّ قرار دینے والی مسیحی اقوام ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا قرار دیتی ہیں وہ انہیں صفاتِ الوہیت کی وجہ سے خدا قرار نہیں دیتیں بلکہ اس وجہ سے خدا قرار دیتی ہیں کہ ان کے نزدیک وہ ازلی ابدی ہیں۔یعنی وہ انہیں شریک فی الجوہر ہونے کے لحاظ سے کدا مانتی ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدائی کی وہ تمام صفات جو ذات کے لحاظ سے خداتعالیٰ میں موجود ہونی ضروری ہیں ان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یا جیسے پارسی لوگ دو الگ الگ خدائوں کے قائل ہیں۔ یزدان کو وہ روشنی کا خدا سمجھتے ہیں اور اہرمن کو تاریکی کا خدا قرار دیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بعض ہستیوں کو صرف شریک قرار دیتے ہیں یعنی بعض کاموں میں انہیں متصرف تو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کی پرستش نہیں کرتے گویا انہیں صرف شریک فی الصفات مانتے ہیں جیسا کہ عرب کے لوگ تھے وہ جنات وغیرہ کو حکم اور تصرف میں تو خداتعالیٰ کا شریک قرر دیتے تھے مگر انہیں معبود یا رب یا نِدّ خیال نہیں کرتے تھے صرف اُن کا یہ اعتقاد تھا کہ فلاں وادی میں جسے وہ سید الوادی قرار دیتے تھے جن متصرف ہے اور وہ اس میں آتا جاتا ہے۔ وہ اس کا ادب بھی کرتے تھے اور خداتعالیٰ کی طرفح اس سے ڈرتے بھی تھے لیکن اس کی عبادت نہیں کرتے تھے۔
اِلٰہ یعنی معبود کا لفظ نِدّ سے وسیع ہے۔ چنانچہ کئی لوگ ایسے ہیں جو بعض ہستیوں کو معبود تو سمجھتے ہیں اور اُن کی عبادت بھی کرتے ہیں مگر انہیں خدا تعالیٰ کا شریک فی الجوہر تسلیم نہیں کرتے ۔ جیسے ہندو اپنے دیوتائوں کی عبادت کرتے ہیں مگر اُن کو متصرف یا شریک فی الجوہر قرار نہیں دیتے ۔ اسی طرح ان میں ماں باپ کی عبادت بھی پائی جاتی ہے مگر ان کو شریک یا رب یا نِدّ نہیں سمجھا جاتا۔ چوتھا نام رب ہے اور گو اس کے اصل معنے پیدا کرکے کمال تک پہنچانے والے کے ہیں۔ مگر اصطلاح مذاہب میں ہر ایک مربی اور سردار کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اس سے ایسے لوگ مراد ہوتے ہیں جن کی ہر ایک بات بلاتمیز خیر و شر مان لی جائے۔جیسے گم گشتہ اقوام میں پیروں فقیروں کے متعلق اعتقادرکھا جاتا ہے۔ اسلام اجتہادی مسائل میں دوسروں کی اطاعت جائز قرار دیتا ہے لیکن جس شخص کی خدا اور انبیاء کے حکم کے خلاف نصوص صریحہ میں اطاعت کی جائے وہ گویا رب سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِنَّخَذُوْا اَحْبَارَ ھُمْ وَرُحْبَانَہُمْ اَرْ بَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ(توبہ آیت ۳۱) یعنی یہود نے اپنے اھباء اور راہبوں کو خدا کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔
ان چاروں الفاظ میں سے اِلٰہ اور رب کے الفاظ تو خداتعالیٰ کے لئے بھی استعمال کر لئے جاتے ہیں لیکن نِدّ اور شریک کے الفاظ صرف معبود ان باطلہ کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ جہاں نِدّ کا لفظ استعمال ہوگا وہاں شریک فی الجوہر مراد ہو گا۔(اگر جوہر میں مشابہت نہ ہو تو وہ چیز مثل کہلائیگی نِدّ نہیں۔) اور جس جگہ شریک کا لفظ استعمال ہو گا وہاں شریک فی الصفات مراد ہو گا خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے اور جہاں اِلٰہ یعنی معبود کا لفط ہو گا وہاں صرف عبادت کو مدنظر رکھا جائیگا۔ خواہ انہیں خدا کا شریک فی الجوہر تسلیم نی کیا جائے۔ اور جہاں رب کا لفظ استعمال ہو گا وہاں ایسی ہستیاں مراد ہونگی جن کی ہر ایک بات خیر و شر کی تمیز کے بغیر مان لی جائے اور خدا اور اس کے رسول کے احکام کی پرواہ نہ کی جائے قرآن کریم میں ان سب اقسام کے شریک کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ قُلْ یَآ اَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآ ئٍ بِیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شُیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْتَوَ لَّوْا فَقُوْ لُو ا اشْھَدُوْ ابِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔(آل عمران آیت ۶۵)یعنی تو کہہ دے کہ اے اہل کتاب کم سے کم ایک ایسی بات کی طرف تو آجائو جو ہمارے اور تمہاراے درمیان مشترک ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ہم آپس میں ایک دوسرے کے رب نہ بنایا کریں ۔لیکن اگر اس دعوتِ اتحاد کے بعد بھی وہ لوگ پھر جائیں تو ان سے کہدو کہ تم گواہ رہو کہ ہم خداتعالیٰ کے فرمانبردار ہیں۔ اس آیت میں (۱) لَانَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ (۲) وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا (۳) وَلَا یَتَّحِذُ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْ بَابْا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فرمایا کہ اِلٰہ یعنی معبود اور شریک اور رب تینوں اقسامِ شرک کی نفی تو صراحتًا کی گئی ہے۔ مگر نِدّ کی ضمنی طور پر نفی کی گئی ہے۔ کیونکہ نِدّ ان تینوں کے اندر شامل ہے۔ یعنی جو نِدّ ہو گا۔ وہ بغیر عبادت اور شرک فی الصفات اور اطاعتِ کامل کے نہیں ہو گا۔ اور جب غیر اللہ کی عبادت اور شریک فی الصفات اور رب بنانے کو گناہ قرار دے دیا گیا تو نِدّ کی خود بخود نفی ہو گئی لیکن اس کے علاوہ لَا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ سے بھی نِدّ کی نفی ہو جاتی ہے۔
غرض اسلام توحید کے جس بلند ترین مقام پر بنی نوع انسان کو پہنچانا چاہتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان نہ تو کسی کو خداتعالیٰ کا شریک فی الجوہر سمجھے ۔ نہ کسی کو اس کے کام میں شریک قرار دے خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے۔ نہ غیر اللہ میں سے کسی کی پرستش کی جائے اور نہ خدا اور اس کے انبیاء کے احکام کے خلاف کسی کی اس طرح اطاعت کی جائے جس طرح خداتعالیٰ کی اطاعت کی جاتی ہے۔ یہ تمام چیزیں توحید حقیقی کے منافی ہیں۔
یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ کے دو معنے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ان انداد سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی خدا تعالیٰ سے کرنی چاسہیے اتنی ہی وہ اپنے انداد سے بھی کرتے ہیں۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ خداتعالیٰ سے بھی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے دلوں میں خداتعالیٰ سے کوئی حقیقی محبت نہیں پائی جاتی ۔پہلے معنے کے لحاظ سے تو دونوں سے ان کی محبت یکساں معلوم ہوتی ہے لیکن دوسرے معنے کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا خدا تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ محض ایک لاف زنی ہے۔ ورنہ ان دونوں محبتوں میں بڑا بھاری فرق ہوتا۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ کے بھی دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ مومن مشرکوں کی نسبت خداتعالیٰ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ یعنی جو محبت مشرکوں کو خداتعالیٰ سے ہے اس سے بہت زیادہ محبت مومن اپنے خدا سے کرتے ہیں۔ یا مشرک اپنے بتوں سے جو محبت کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ محبت مومن اپنے خداتعالیٰ سے کرتے ہیں۔ اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ مومن خداتعالیٰ کے سوا دوسری چیزوں سے جو محبت کرتے ہیں ان تمام چیزوں کی محبت کی نسبت وہ خداتعالیٰ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اگر دونوں محبتوں کا مقابلہ ہو جائے تو خداتعالیٰ کی محبت کا پہلو ہمیشہ بھاری ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر اس محبت کی ان الفاظ میں تشریح فرمائی ہے کہ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآئُ کُمْ وَاَبْنَآئُ کُمْ وَاِخْوَ انُکُمْ وَاَزْوَ اجُکُمْ وَ عَشِیْرَ تُکُمْ وَاَمْوَالُ اِقْتَرَ فْتُمُرْ ھَا وَتِجَارَۃ’‘ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْ ضَونَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمق مِنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَا دٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(توبہ آیت۲۴)یعنی کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے بگڑ جانے سے تم ڈرتے ہو اور گھر جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ خدا اور اس کے رسول سے اور خدا کے راستہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ پیارے ہیں تو تم کو خدا سے کوئی محبت نہیں۔ تب تم اللہ تعالیٰ کے عذاب کا انتظار کرو۔ اور خداتعالیٰ ایسے نافرمانوں کو کبھی اپنا راستہ نہیںدکھاتا۔ یعنی کامل محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان اس کی خاطر ہر ایک چیز کو قربان کر دے۔ اگر اس بات کے لئے وہ تیار نہیں تو منہ کی باتیں اس کے لئے کچھ بھی مفید نہیں یوں تو ہر شخص کہہ دیتا ہے کہ مجھے خدا سے محبت ہے اور اس کے رسول سے محبت ہے بلکہ مسلمان کہلانیوالا کوئی بھی شخص نہیں ہوگا جو یہ کہتا ہو کہ مجھے خدا سے اور اس کے رسول سے محبت نہیں ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس اقرار کا اثر اس کے اعمال پر اس کے جو روح پر اور اس کے اقوال پر کیا پڑتا ہے۔ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے آپ کوسرشار بتاتے ہیں ور آپ کی تعریف میں نعتیں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو خود بھی نعتیں کہتے ہیں۔ آپ کے احکام کی فرمانبرداری کی طرف ان کو کچھ بھی توجہ نہیں ہوتی وہ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس سے ملنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی عزیز آجائے تو وہ سو کام چھوڑ کر اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے۔ اپنے دوستوں اور پیاروں کی ملاقات کا موقعہ ملے تو پھُولا نہیں سماتا۔ حکام کے حضور شرف بار یابی حاصل ہو تو اس کی گردن فخر سے اونچی ہو جاتی ہے لیکن لوگ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ااور نماز کے قریب بھی نہیں جاتے۔ یا نماز پڑھتے ہیں تو اس طرح کہ کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی۔ یا اگر باقاعدہ بھی پڑھی تو ایسی جلدی جلدی پڑھتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ سجدہ سے انہوں نے کب سر اٹھایا اور کب دوبارہ سجدہ کیا جس طرح مرغا چونچیں مار کر دانہ اٹھاتا ہے اسی طرح وہ بھی سجدہ کر لیتے ہیں نہ خشوع ہوتا ہے نہ خضوع۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے روزہ کا بدلہ اپنے آپ کو قرار دیا ہے۔ مگر لوگ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کا دامن پکڑنے کے لئے نہیں جاتے۔ اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ خداتعالیٰ کی محبت ظاہر کرتے ہیں لیکن لوگوں کے حقوق دباتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ بہتان باندھتے ہیں غیبتیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے عشق کا اظہار کرتے ہیں لیکن قرآن کریم کا مطالعہ اور اس پر غور کرنے کی توفیق ان کو نہیں ملتی۔ غرض محبت کا دعویٰ اور شے ہے اور حقیقی محبت اور شے ہے۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ انسان اس وقت تک کبھی سچا مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ عملاً خداتعالیٰ سے ایسی محبت نہ کرے کہ اس کے مقابلہ میں نہ ماں باپ کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بیٹوں کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بھائیوں کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بیویوں کی محبت ٹھہر سکے نہ قبیلہ اور قوم کی محبت ٹھہر سکے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ ثَلَا ث’‘ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلَا وَۃَ الْاِیْمَانِ اَنْ یَکُوْنَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ‘ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا وَاَنْ یُّحِبَّ الْمَرْ ئَ لَا یُحِبُّہ‘ اِلَّا لِلّٰہِ وَاَنْ یَکْرَہَ اَنْ یَعُوْدَ فِی االْکُفْرِ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ(بخاری جلد اول کتاب الایمان) یعنی جس شخص میں یہ تین باتیں پائی جائیں اس کے متعلق سمجھ لو کہ اُسے حلاوتِ ایمان حاصل ہو گئی ہے۔ اول یہ کہ خدا اور اس کا رسول اس کی نگاہ میں تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہو۔ دوم انسان دوسرے سے محض اللہ کے لئے محبت کرے سوم۔ ایمان لانے کے بعد وہ کفر کی طرف لوٹنا ایسا ہی ناپسند کرے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔
وَلَوْ یَرْی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْ یَرَدْنَ الْعَذَابَ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آج تو یہ لوگ
اَذْتَبَرَّ اَالَّذِیْنَ
بِھِمُ الْاَسْبَابُo
اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں اور بتوں کو خداتعالیٰ کا شریک قرار دے رہے ہیں لیکن اگر یہی لوگ اس وقت کا نظارہ اپنے ذہنوں میں لا سکیں جب وہ عذاب کو دیکھنے گے تو انہیں سب کچھ بھول جائے اور انہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کا شریک بنانا کوئی معمولی گناہ نہیں۔ اس وت تو یہ لا علمی اور جہالت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں لیکن اگر یہ ُس وقت کا تصور کر سکیں جب ان پر اپنے معبودوں کی بے بضاعتی روشن ہو جائیگی تو وہ ایسا کبھی نہ کریں جیسا کہ فتح مکہ کے موقعہ ہر تمام کفار نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ان کے معبود ان کے کسی کام نہ آئے بلکہ وہ توڑ پھوڑ کر پھینک دیئے گئے اور بیت اللہ کو خدائے واحد کی عبادت کے لئے پاک کر دیا گیا۔
اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اخروی عذاب کی بھی تفصیل بیان فرمائی ہے جو کفار کو ملیگا اور بتایا ہے کہ انہیں تمثیلی طور پر سانپ اور بچھو اور اسی قسم کی اور خوفناک چیزیں نظر آئیں گی۔ جو درحقیقت انہی کے اعمال کی ایک شکل ہونگی۔ کیونکہ دنیا میں انہوں نے سانپوں کی طرح لوگوں ڈسا اور بچھوئوں کی طرف نیش زنی سے کام لیا اور درندوں کی طرح لوگوں کو چیرا پھاڑا اس لئے خداتعالیٰ کی سزا کے لئے سانپوں اور بچھوئوں کو ہی اُن پر مسلط کر دیگا اور انہیں اپنے اعمال کی سزا دیگا۔
یہ آیت اپنے مضمون کے لحاظ سے پہلی آیت سے نہایت گہرا تعلق رکھتی ہے۔ بلکہ درحقیقت یہ دونوں آیات ایک ہی مضمون کی حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ باوجود ان دلائل کے جو حق و باطل میں فرق کرینوالے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا کا ذرہ ذرہ خداتعالیٰ کی وحدانیت کا ثبوت دے رہا ہے اور باوجود اس کے کہ یہ لوگ خداتعالیٰ کی تقدیر خاص کو بھی دیکھ رہے ہیں جو مومنوں کے حق میں جاری ہے پھر بھی یہ لوگ خداتعالیٰ کے نِد قرار دے رہے ہیں اور ان سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی خداتعالیٰ سے کرنی چاہیے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ تباہ ہونے والے ہیں۔
۸۰؎ حل لغات:۔ تَبَّرَّأَ باب تفعل سے ماضی کا صیغہ ہے اور اس کے معنے ہیں تَخَلَّصَ یعنی اُس نے چھٹکارا حاصل کر لیا(اقرب) اور اَلتَّبَرِّی (مصدر) کے معنے ہیں اَلتَّغَصِّی مِمَّا یُکْرَ ہُ مُجَاوَرَتُہ‘ یعنی ناپسندیدہ چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا(مفردات) پس آیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ معبود اِن باطلہ یا وہ ہستیاں جنہیں خداتعالیٰ کا شریک قرار دیا جاتا ہے عبادت کرنے والوں کو ناپسندیدہ قرار دینگے۔ اور اپنے آپ کو پاک ٹھہرائیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو ایسے اعمال کرنے والوں کے ساتھ نہ تھے۔
اَلَاسْبَابُ : سَبَب’‘ کی جمع ہے اور اَلسَّبَبُ کے معنے ہیں مَایُتَوَ صَّلُ بِہٖ اِلیٰ غَیْرِہٖ۔ وہ چیز جس کے ذریعہ سے غیر تک پہنچا جائے۔ اسی طرح اس کے معنے رستہ محبت اور قرابت کے بھی ہیں۔
وَقَالَ الَّذِیْنَ
مِنَ النَّارِo
تفسیر:۔ فرماتا ہے ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ جن کو یہ لوگ نِد قرار دیتے ہیں وہ بھی اس وقت کہہ اُٹھیں گے کہ خدایا ہمارا دن ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور اس طرح ان سے اپنی برات اور نفرت کا اظہار کرینگے اور خدائی عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
وَتَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْاَسْبَابَ۔ اور ان کی نجات کے تمام ذرائع منقطع ہو جائیں گے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ باء بمعنے عَنْ بھی آتی ہے اور باء بمعنے سبب بھی آتی ہے۔ اور با قعدیہ کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے یعنی فعل لازم کو متعدی بنانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ پہلی صورت میں عَنْ کے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ ان کے اسباب ان سے کٹ جائیں گے یعنی وہ چیزیں جو ان کے پاس تھیں اور جن کی نسبت وہ خیال کیا کرتے تھے کہ ہم ان کی وجہ سے خداتعالیٰ تک پہنچ جائینگے یا وہ قرابتیں اور محبتیں جو رشتہ داری کی وجہ سے انہیںحاصل تھیں وہ سب کی سب کٹ جائینگی اور ان کے تمام سہارے جاتے رہیں گے۔
باء کے معنے سبب لینے کی صورت میں یہاں ایک محذوف ماننا پڑے گا اور عبادت یوں ہو گئی کہ وَتَقَطَّعَتْ بِسَبَبِ کُفْرِ ھِمُ الْاَسْبَابَ کہ ان کے کفر کی وجہ سے اُن کے تمام ذرائع کامیابی جاتے رہیں گے۔ اور وہ تباہ ہو جائیںگے۔
تیسری صورت میں اس کا یہ مطلب ہو گا کہ جن چیزوں کو وہ خداتعالیٰ کے وصال کا ذریعہ قرار دیتے ہیں یا وہ ضائع جن کو وہ خداتعالیٰ تک پہنچانیوالا سمجھتے ہیں وہی ان کو کاٹ دیں گے اور ان کی تباہی کا موجب بن جائیںگے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَا تَتَّبِعُواالسُّبُلَ فَتَغَرَّقَ بِکُمْ مَنْ سَبِیْلِہٖ ط (انعام آیت۱۵۴) کہ تم مختلف راستوں کے پیچھے نہ پڑو۔ ورنہ وہ تمہیں صحیح راستہ سے منحرف کر دینگے اور تمہیں ادھر اُدھر لے جا کر تباہ کر دینگے۔
۸۱؎ حل لغات:۔ کَرَّۃً: اَلْکَرَّۃُ بِالْفَتْحِ اَلْمَرَّۃُ یعنی کرۃ کے معنے ایک دفعہ کے ہیں (اقرب) اَلْکَرُّ (مصدر) اَلْعَطْفُ عَلَی الشَّیْئِ کسی چیز کی طرف لوٹنا(مفردات)پس آیت کے معنے یہ ہونگے کہ وہ کہینگے کہ کاش ہمیں ایک دفعہ اور لوٹنے کا موقعہ مل جائے۔
تفسیر:۔ فرمایا اس دنیا میں تو تم خداتعالیٰ کے شریک بناتے اور اس کے نِدّ قرار دیتے ہو مگر وہاں جا کر تمہارا یہ حال ہو گا کہ تم واپس اس دنیا مین آنے کی خواہش کرو گے اور کہو گے ہم تو خیال کرتے تھے کہ یہ معبود ہمارے کام آئینگے مگر انہوں نے تو موقعہ پر آکر دھوکا دے دیا۔ اس لئے ہمیں ایک بار پھر دنیا میں لوٹا تاکہ ہم بھی اُن سے ایسا ہی بے وفائی کا سلوک کرسکیں۔
کَذٰلِکَ یُوِ یْھِمُ اللّٰہُ اَعْمَا لَھُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْھِمْ فرماتا ہے ہم اُن کے اعمال انہیں اس حال میں دکھائیں گے کہ وہ حَسَرَاتٍ ہونگے۔ یعنی وہ اعمال انہیں حسرتیں ہی حسرتیں نظر آئیں گے اور وہ حسرتیں ایسی ہونگی کہ جن کا وبال انہیں پر پڑیگا یعض حسرتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا غیروں پر اثر پڑتا ہے مگر فرماتا ہے وہ ایسی حسرتیں ہونگی جن کا اثر خود انہیں پر پڑے گا دوسروں پر نہیں۔ اس جگہ اگر حَسَرَاتٍ کو مفعول قرار دیا جائے تو رواتت قلبی مراد ہو گی اور معنے یہ ہونگے کہ وہ خداتعالیٰ سے کہیں گے کہ اگر ہمیں مبلغ بنا کر دنیا میں بھیج دیا جائے تو ہم وہاں جاکر شوربرپا کر دیں گے کہ خداتعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔
وَمَا ھُمْ بِخَارِ جِیْنَ مِنَ النَّار سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ دوزخی آگ سے نکالے نہیں جائیں گے کیونکہ اس جگہ خداتعالیٰ کے سلوک کا ذکر نہیں بلکہ ان کی اپنی کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ خود اپنی ذاتی جدوجہد اور کوشش سے اس میں سے نکل نہیں سکیں گے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے اگر ہم کہیں کہ بیمار ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور پھر اسے دوسرے دن ہسپتال لے جایا جائے تو کوئی شخص یہ نہیں کہیگا کہ کل تو تم نے یہ کہا تھا کہ بیمار ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور آج تم اس کو ہسپتال داخل کر آئے ہو۔ کیونکہ ہمارایہ مطلب نہیں تھا کہ غیر بھی اُسے وہاں نہیں لیجا سکتے اسی طرح اس آیت میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود دوزخ سے نہیں نکل سکیں گے ۔چنانچہ اس کی وجاحت قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہو جاتی ہے کہ کُلَّمَآ اَرَادُوْآ اَنْ یَّخْرُ جُوٰامِنْھَآاُعِیْدُ وْا فِیْھَا وَقِیْلَ لَھُمْ ذُوْ قُوْاعَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ(سجدۃ آیت۲۱) یعنی جب کبھی وہ دوزخ سے نکلنے کا ارادہ کرینگے تو پھر اُسی کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا کہ اب دوزخ کا وہ عذاب چکھو جس کو تم جھٹلا یا کرتے تھے۔ پس اس جگہ جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود اس عذاب سے نکل نہیں سکیں گے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ خداتعالیٰ بھی انہیں دوزخ سے نہیں نکالے گا اور انہیں دائمی عذاب میں مبتلا رکھے گا۔
دراصل اس بارہ میں بھی مومنوں اور کافروں میں بہت بڑا فرق رکھا گیا ہے ۔ مومنوں کے لئے تو جنت حق قرار دیا گیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ (توبہ آیت۱۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانین اور ان کے اموال اس وعدہ کے ساتھ خرید لئے ہیں کہ ان کو جنت ملے گی گویا یہ ایک سودا ہے جو ان کا خدا تعالیٰ سے ہو چکا۔ یوں تو کسی کا بھی خداتعالیٰ پر کوئی ذاتی حق نہیں مگر جس حق کو خداتعالیٰ خود تسلیم کرلے وہ تو حق ہی سمجھا جائیگا۔ مگر کافروں کے لئے فرمایا کہ اگر وہ دوزخ کی تکالیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو نہیں نکل سکیں گے عربی زبان میں جو باء تاکید کے لئے آتی ہے اس کے معنے ہرگز کے ہوتے ہیں۔ پس اس جگہ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ میں تاکید کے معنے پائے جاتے ہیں۔ یعنی وہ اپنی ذاتی جد و جہد کے ساتھ جہنم میں سے ہرگز نکل نہیں سکیں گے۔ ہاں جب خداتعالیٰ چاہے گا تو انہیں دوزخ سے نکال لے گا۔ جیسا کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جہنم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جب کہ اُس میں کوئی بھی نہیں رہے گا اور ہوا اس کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گی۔(کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۲۴۵)
یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ
عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘o
۸۲؎ حل لغات:۔ طَیَّبًا۔ طَابَ سے صفت مشبہ ہے اور طَیِّب’‘ کے معنے ہیں۔ اَلْحَلَالُ۔ حلال اور جب مَال’‘ طَیِّب’‘کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں ایسا مال جو شرعی لحاظ سے حلا ل ہو(اقرب)
پھر لکھا ہے وَاَصْلُ الطَّیِّبِ مَاتَسْتَلِذُّہُ الْحَوَاسُّ وَمَا تَسْتَلِذُّہُ النَّفْسُ۔ اور درحقیقت طیب اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسانی حواس لذیذ قرار دیں اور جس سے انسان کا دل لطف اندوز ہو۔ پس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ایسی چیزیں کھائو جو شرعی لحاظ سے حلال ہوں اور ظاہری لحاظ سے بھی تم انہیں لذیذ اور پسندیدہ سمجھو۔
خُطُوَات کے معنے ہیں طُرُق’‘ وَسُبُل’‘ رستے اور طریق۔ اس کا مفرد خُطْوَ ۃ’‘ ہے جس کے معنے مَابَیْنَ الْقَدَمَیْنِ کے ہیں یعنی دو قدموں کے درمیان کی جگہ اور فاصلہ(اقرب)
تفسیر:۔ اس رکوع سے اللہ تعالیٰ نے ابراہیمی پیشگوئی کے اس دوسرے پہلو کو بیان کرنا شروع کیا ہے کہ یُعَلِمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَ یعنی وہ نبی انہیں شریعت اور اس کے اسرار سے آگاہ کر ے گا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے سب سے پہلے حلال اور طیب کھانے کی تعلیم کو لیا ہے۔ کیونکہ انسانی اعمال اس کی ذہنی حالت کے تابع ہوتے ہیں اور ذہنی حالت غذا سے متاثر ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے لوگو! جو کچھ زمین میں ہے اُس میں سے حلال اور طیب اشیاء کا استقلال کرو۔ یعنی تم صرف یہی نہ دیکھا کرو کہ جو کچھ تم کھا رہے ہو وہ حلال ہے یا نہیں بلکہ یہ بھی دیکھ لیا کرو کہ وہ طیب بھی ہے یا نہیں اگر کسی چیز کا کھانا تمہارے مناسب حال نہ ہو خواہ اس لحاظ سے کہ وہ تمہاری صحت کے لئے مضر ہو یا اس لحاظ سے کہ ملکی اور قومی حالات کی وجہ سے تمہیں اس کے کھانے کی عادت نہ ہو یا اس وجہ سے کہ تمہاری طبیعت اس سے انقباض محسوس کرتی ہو۔ تو تم محض یہ دیکھ کر کہ شریعت نے اسے حلال قرار دیا ہے اسے مت کھائو۔ کیونکہ تمہارے لئے کھانے میں صرف حرام و حلال کا امتیاز مدنظر رکھنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تم ایسی چیزوں کا انتخاب کیا کرو جو تمہاری طبیعت اور تمہارے ماحول اور تمہارے معمول کے مطابق ہوں اور جن کا کوئی مضر اثر تم پر پڑنے کا امکان نہ ہو۔ مثلاً نزلہ اور زکام اور کھانسی میں تُرش اشیاء کا استعمال کھانسی کو اور بھی بڑھا دیتا ہے اب اگر کوئی شخص کھانسی میں تُرش میوے استعمال کرتا ہے یا اسہال میں گوشت روٹی استعمال کرتا ہے توخواہ یہ چیزیں حلال کیوں نہ ہوں اس وجہ سے کہ وہ اس کے لئے ٹھیک نہیں ہیں ان کا استعمال اسے نقصان پہنچائیگا پس اس جگہ طیب کو حلال کے ساتھ لگا کر یہ بتایا ہے کہ صرف حلال کھانا ہی مومن کا کام نہیں بلکہ یہ دیکھنا بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چیز طیب ہو یعنی گندی اور سڑی ہوئی نہ ہو مضر صحت نہ ہو۔ جو ساتھ کھانا کھانے والے لوگ ہوں ان کی طبائع کے خلاف نہ ہو۔
وَلَا تَتَّبِعُوْا اخُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ۔ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو ۔ یعنی ایسا نہ کرو کہ جس طرف شیطان جا
اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ
مَا لَاتَعْلَمُوْنَo
رہا ہے اُسی طرف تم بھی چلنا شروع کر دو۔ وہ تمہارا دشمن ہے اور دشمن سے ہمیشہ دُور رہنا چاہیے نہ کہ اُس کی پیروی کرنی چاہیے۔
کھانے پینے کے ذکر کے بعد شیطان کا ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اگر تم حلال اور پھر حالا میں سے بھی طیب رزق چھوڑ دو گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ تم شیطان کے پیچھے چل پڑوگے کیونکہ انسان جو کچھ کھاتا ہے اس سے جسم تیار ہوتا ہے اور ناجائز یا مضر اشیاء کے استعمال سے تیار شدہ جسم یقینا انسان کو بدی کی طرف لے جائیگا نیکی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔
۸۳؎ حل لغات:۔ اِنَّمَا: (اِنَّ کے ساتھ مَا زائدہ ہے) لغت میں لکھا ہے اِذَا اُدْخِلَ عَلَیْہِ مَا یَبْطُلُ عَمَلُہ‘ وَیَقْتَضِیْ اِثْبَاتَ الْحُکْمِ وَصَرْ فِہٖ عَمَّا عَدَاہ‘۔ جب اِنَّ پر مَا داخل ہو جائے تو اس کا عمل باطل ہو جاتا ہے اور بعد میں مذکور چیز کے لئے کسی بات کو ثابت کرنے اور باقی (غیر مذکور) چیزوں سے اس بات کی نفی کرنے کا مقتضی ہوتا ہے۔ (مفردات)
اَلسُّوْئُ: کُلُّ مَا یُغَمُّ الْاِنْسَانَ مِنَ الْاُمُوْرِ الدُّ نْیوِ یَّۃِ وَالْاُخْرَوِیَّۃِ وَمِنَ الْاَ حْوَالِ النَّفْسِیَّۃ، وَالْبَدَنِیَّۃِ وَالْخَارِجَۃِ۔ یعنی اَلسُّوْئَ سے مراد وہ تمام غمزدہ کر دینے والی تکالیف ہیں جو انسان کو دنیوی اور اُخروی امور نیز رُوحانی اور جسمانی اور دوسرے حالات کی وجہ سے زندگی میں پیش آتی ہیں۔(مفرادت)
اَلْفَحْشَآء:۔ اَلْفَحْشَائُ وَالْفَاحِشَۃُ مَایَشْتَدُّ قُبْحُہ‘ مِنَ الذُّنُوْبِ ۔ وَالْبُخْلُ فِیْ اَدَا ئِ الذَّکوٰۃِ وَقِیْلَ کُلُّ مَا نَھَی اللّٰہُ عَنْہُ۔ یعنی فَحْشَاء اور فَاحِشَۃ سے مراد سخت بُرائی والا گناہ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میںبخل کرنا۔ اور بعض کے نزدیک ہر وہ کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہو۔(اقرب)
اَلْفُحْشُ وَالْفَحْشَا ئُ وَالْفَاحِشَۃُ مَا عَظُمَ قُبْحَہ‘ مِنَ الْاَ فْعَالِ وَالْاَ قْوَالِ۔ فحش۔ فحشاء اور فاحشہ سے ہر ایسا قول یا فعل مراد ہے جو بہت ہی بُرا ہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ شیطان کے پیچھے چلنے کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر انسان کو مختلف قسم کی بُرائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے جیسے بدظنی ہے یا جھوٹ ہے یا کینہ ہے یا جہالت ہے یا سُستی اور غفلت ہے یا بُزدلی ہے یا تکبر ہے یا بے غیرتی ہے یا ناشکری ہے یہ وہ بُرائیاں ہیں جن سے صرف انسان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچتا ہے اور جن کی طرف سوء کے لفظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن جب انسان اپنی اصلاح نہیں کرتا تو دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فحشاء یعنی ایسی بدیاں کرواتا ہے جن کا دوسرے لوگوں پر بھی اثر پڑتا ہے جیسے خیانت اور تہمت اور ظلم اور دھوکا اور قتل اور چوری اور مارپیٹ اور گالی اور ناواجب طرفداری اور رشوت وغیرہ ایسے جرائم ہیں جو دوسروں سے تعلق رکھتے ہیں پھر وہ بدیوں میں اور زیادہ بڑھاتا ہے اور آخر انسان کو خدا کے مقابلہ میں کھڑا کر دیتا ہے۔ یا انسان کے اندر ایسی بے حیائی پیدا کر دیتا ہے کہ اُسے دوسروں کے سامنے بھی برائیوں کے ارتکاب میں کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا۔ اور وہ بر ملا خدائی احکام
وَاِذَ اقِیْلَ
لَا یَھْتَدُوْنَo
کے خلاف لب کشائی شروع کر دیتا ہے یا اُس پر افتراء پروازی شروع کر دیتا ہے۔ گویا پہلے تو وہ ایسی بدیاں کرواتا ہے جن کا ضر صرف اس کی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ پھر غیرتِ انسانی مٹتی ہے تو ایسی بدیاں کرواتا ہے جن سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں۔ پھر اور ترقی کر کے اس کی زبان سے ایسی باتیں نکلواتا ہے جو خداتعالیٰ ی ہتک کرنے والی اور اس کا مضحکہ اڑانے والی ہوتی ہیں۔ اور اس طرح وہ درجہ بدرجہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے غرض شیطان کبھی یکدم بڑے گناہ پر انسان کو آمادہ نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے وساوس کی یہ ترتیب ہوتی ہے کہ وہ پہلے چھوٹی بدی کا حکم دیتا ہے پھر بے حیائی پر آمادہ کرتا ہے۔ اور پھر خدا پر جھوٹ باندھنے کے لئے تیار کر دیتا ہے ۔ گویا چھوٹی نافرمانی سے شروع کر کے اُسے انتہا تک لے جاتا ہے۔
۸۴؎ تفسیر:۔ اس آیت میں بتایا کہ شیطان کی پیروی کرنے کا ایک یہ نتیجہ بھی نکلنا ہے کہ اگر لوگوں کو خداتعالیٰ کی بات ماننے کے لئے کہا جائے تو ان کی عقل ایسی ماری جاتی ہے کہ وہ کہدیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی بات مانین گے اور اُنہیں کے پیچھے چلیں گے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت فرمایا تو مکہ والوں نے آپ کا شدیدمقابلہ کیا ۔ وہ لوگ آخر کیوں مقابلہ کرتے تھے اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ کیا ہم اس مذہب کو چھوڑ دیں جس پر ہمارے آبائو اجداد قائم تھے۔ گویا وہ کسی چیز کے ذاتی حُسن کو نہیں دیکھتے تھے بلکہ صرف حسنِ اضافی اُن کے پیش نظر تھا اور باوجود اس کے کہ وہ جاہلانہ باتیں تھیں اُن لوگوں نے ان کے لئے اپنا مال اور اپنے عزیزوں اور اقرباء تک قربان کر دیئے تاکہ وہ چیزیں جو ان کی ہیں بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ اگر تمہارے باپ دادا بیوقوف ہوں تو کیا پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو وہ کرتے چلے آئے ہیں یعنی تمہارے باپ دادا تو اپنی بیوقوفی کی وجہ سے تباہ ہوئے تھے کیا تم بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر تباہ ہونا چاہتے ہو۔
ہمارے سلسلہ میں بھی لوگوں کے داخل ہونے میں سب سے بڑی روک یہی ہے کہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا وہ باتیں جنہیں پہلے لوگ سالہا سال سے مانتے چلے آئیں ہیں ہم چھوڑدیں یہ تو بڑی مشکل بات ہے ۔ غرض اس آیت میں مخالفین اسلام کا سب سے بڑا عتراض یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم تو اسی طریق کی پیروی کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا تھا اس جگہ قَالُوْا سے یہ مراد نہیں کہ وہ منہ سے بھی ایسا کہتے ہیں بہت لوگ منہ سے بھی کہتے ہیں لیکن بہت ہیں جو منہ سے نہیں کہتے مگر پھر بھی ان کا انکار کی وجہ یہی ہوتی ہے۔ اور قول کا لفظ ان معنوں میں عربی زبان میں استعمال ہو جاتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں اِمْثَلَاَ الْحَوْضُ وَقَالَ قَطْنِیْ یعنی حوض بھر گیا اور اس نے زبان حال سے یہ کہا کہ بس بس۔ اس آیت میں بھی اسی محاورہ کے مطابق قول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ
لَا یَعْقِلُوْنَo
اللہ تعالیٰ مخالفین اسلام کے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اتنا تو سوچیں کہ اگر ان کے باپ دادے ایسے ہوں کہ وہ کچھ بھی عقل نہ رکھتے ہوں اور نہ راہ راست پر ہوں تو کیا پھر بھی وہ ان کے پیچھے چلتے چلے جائیں گے یعنی کسی کی اتباع دو ہی طرح ہوتی ہے یا تو وہ بڑا عقلمند ہو اور یا پھر خداتعالیٰ سے اُس نے ہدایت پائی ہوئی ہو۔ لیکن اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو کیا پھربھی اُس کی اِتباع کی جاتی ہے؟ اور تمہارے باپ دادوں کی تعلیم ان دونوں امور سے خالی ہے نہ عقل کے مقابلہ میں ٹھہرتی ہے اور نہ آسمانی شہادت اُس کی تائید میں ہے یہ ایک عجیب بات ہے کہ لوگ اپنے باپ دادا سے دین کے بارے میں تو اختلاف نہیں کرنا چاہتے لیکن دنیوی امور کے بارہ میں وہ روزانہ اُن سے اختلاف کرتے ہیں ہزار ہا مثالیں اس امر کی پائی جاتی ہیں کہ دنیوی امور میں لوگوں نے اپنے باپ دادا کی اقتداء نہیں کی بلکہ انہوں نے صرف یہ دیکھا کہ اُن کا فائدہ کس امر میں ہے وہ روزانہ ریلوں میں چڑھتے ہیں اور کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہمارے باپ دادا تو گدھوں پر سوار ہوتے تھے ہم ریل گاڑیاں پر کیوں سوار ہوں اسی طرح عقلی اور علمی باتوں میں ان کی پیروی نہیں کرتے بلکہ نئی روشنی کے علوم سے فائدہ اُٹھاتے اور ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر دین کا معاملہ ہو تو ان کے باپ دادے بڑے عقلمند بن جاتے ہیں۔ حالانکہ خود اُن کا عمل اس طریق کے خلاف گواہی دے رہا ہوتا ہے مگر ایسی صاف اور موٹی بات بھی جب انکے سامنے رکھی جاتی ہے تو وہ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور صداقت سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
۸۵؎ حل لغات:۔ یَنْعِقُ: نَعَقَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور نَعَقَ الرَّاعِیْ بِغَنَمِہٖ کے معنے ہیں صَاح۔ بِھَاوَ زَجَرَھَا۔ چروا ہے نے اپنی بکریوں کو آواز دی اور اُن کو ڈانٹا۔ اور جب نَعَقَ الْغُرَابُ کہیں تو معنے ہونگے صَاحَ کوے نے کائیں کائیں کی۔ اور نَعَقَ الْمُؤَذِّنُ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْتَہ‘ بِالْاَ ذَانِ۔ موذن نے اذان کے لئے اپنی آواز بلند کی۔(اقرب)
نِدَآء’‘: اَلنِّدَائُ کے معنے ہیں رَفْعُ الصَّوْتِ وَ ظُھُوْرُ ہ‘۔ آواز کا بلند اور واضح ہونا۔(اقرب)
تفسیر:۔ زیرتفسیر آیت ایک تمثیلِ مرکب ہے جس میں حذفِ مضاف سے کام لیا گیا ہے اور دَاعِیٰ کا لفظ اس میں محذوف ہے۔ یعنی اصل عبارت یوں ہے کہ مَثَلُ دَاعِی الَّذِیْنَ کَفَرُوْ اکَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کفار کے داعی ہیں ۔ آپ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو جانوروں کو اپنی طرف بلانے کے لئے آواز دیتا ہے۔ مگر وہ جانور اُس کی آواز کے سوا اور کچھ نیہں سُنتے گویا یہ کفار بھی رات اور دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سُنتے ہیں اور صبح وہ شام انہیں وحی الہٰی اُنائی جاتی ہے۔ ہر وقت ان کے کانوں میں نیکی اور تقویٰ اور خدا ترسی کی باتیں ڈالی جاتی ہیں مگر یہ لوگ جانوروں کی طرح الفاظ تو سنتے ہیں اور آواز تو ان کے کانوں میں پڑتی ہے لیکن اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور اپنی پُرانی ڈگر پر چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس تمثیل میں بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے لئے ایک داعی کے طور پر ہیں۔ اور کفار آپ کے لئے ریوڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؐ ان کو اپنی طرف بلاتے ہیں اور آپؐ کی دُعا اور نداء بھی وہ سنتے ہیں مگر وہ جانوروں کی طرح اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے گویا جانوروں کو بلانے والے کا سا حال ہمارے نبی کا ہوتا ہے کہ اس کی بات کو یہ لوگ سمجھتے نہیں۔ اس تشریح پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہٖ کے کل اجزاء میں مطابقت ہونی ضروری ہوتی ہے مگر وہ یہاں موجودنہیں اس کا جواب یہ ہے کہ تمثیلِ مرکب میں مشبہ اور مشبہ بہٖ کے تمام افراد میں مطابقت نہیں دیکھی جاتی بلکہ صرف اتنی بات دیکھی جاتی ہے کہ آیا ان میں کسی خاص بات میں مشابہت پائی جاتی ہے یا نہیں اور اگر ہو تو تشبیہ درست سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ سیبویہ کا یہی قول ہے کہ مرکب تمثیل میں تمام اجزاء مشبہ کا مشبہ بہٖ کے اجزاء کے مطابق ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے صرف بعض اجزاء کی مطابقت ہی کافی سمجھی جاتی ہے۔
ان معنوں پر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کفار کی مثال بھیڑ بکریوں کی سی ہے تو بھیڑ بکریاں تو داعی کی آواز سنتی ہیں اور کفار بھی سُنتے ہیں پھر اُن کو صُمّ’‘ کیوں کہا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ صُمّ’‘ سے یہاں یہ مراد نہیں کہ وہ جسمانی طور پر بہرے ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کے کان حق بات سننے سے قاصر ہیں اور صُمّ’‘ کے بعد بُکْم’‘ کے یہ معنے ہیں کہ وہ حق بات کہہ نہیں سکتے اسی طرح صُمّ’‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ حق بات کو دیکھ نہیں سکتے اسی طرح صُمّ’‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ حق بات سن نہیں سکتے گویا وہ آواز تو سنتے ہیں لیکن اس کی حقیقت نہیں سمجھتے اور نہ اس کے مطابق اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں پس جہاں سُننے کا ذکر ہے وہاں یہ مراد ہے کہ وہ صرف الفاظ سُنتے ہیں اور جہاں نہ سُننے کا ذکر ہے وہاں حقیقت کا سُننا مراد ہے اور جہاں نہ سُننے کا ذکر ہے وہاں حقیقت کا سُننا مراد ہے اور حقیقت کے سمجھنے کی نفی سے دُعا اور نداء کے سننے کی نفی نہیں ہو سکتی۔ اور یا پھر صُمّ’‘ سے ایسے لوگ مراد ہیں جن سے کسی فائدہ کی امید نہ کی جاتی ہو کہ یہ معنے بھی لُغتاً ثابت ہیں چنانچہ اقرب الموارد جو لُغت کی مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے اَلْاَ صُمُّ اَلْاَ صُمُّ اَیْضماً اَلرَّجُلُ لَا یُطْمَعُ فِیْہِ یعنی ایسے شخص کو بھی اصم کہتے ہیں جس سے کسی بھلائی کی اُمید نہ کی جا سکے۔
دوسرے معنے اس کے یہ یہں کہ ان کفار کی مثال جانوروں کی طرح ہے جن کو بلانے والا اپنی طرف بلاتا ہے اور جانور بلانے والے کی آواز سُن کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔۔ گو اس کے الفاظ کا مطلب اور مفہوم نہیں سمجھتے اس ی طرح یہ لوگ بھیڑ چال کے طور پر ایک دوسرے کی اتباع کرتے ہیں اوریہ کبھی غور نہیں کرتے کہ کہنے والا کیا کہتا ہے اور آیا اس پر عمل کرنا ان کے لئے مفید ہے یا مضر۔ وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ ہمارے سردار یا ہمارے لیڈر نے فلاں بات کہی ہے یا ہماری قوم یا برادری ایسا کہتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی عقل و فہم اور تدبر کے تمام دروازے بند کر لیتے ہیں اور اندھا دھند اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔ پس ان کی مثال جانوروں کی سی ہے کہ دوسرے کی بات سن کر یہ لوگ اس پر غور کرنے کے عادی نہیں بلکہ اندھی تقلید کے خوگر ہیں ۔ گویا ان کے کان بھی ہیں مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ انہیں جس طرف بلایا جا رہا ہے وہ ہلاکت اور بربادی کی جگہ ہے یا امن اور سلامتی کا مقام ہے۔ ان کی زبانیں بھی ہیں مگر دلیری سے حق بات کہنے کی جرات کھو بیٹھی ہیں اور ان کی آنکھیں بھی ہیں مگر سلامتی کی راہ ان کو دکھائی نہیں دیتی۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ان کفار کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو چیختا اور چلاتا اور بتوں کو اپنی مدد کے لئے بلاتا
یَٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ
تَعْبُدُوْنَo
ہے اور اس کا بلانا دو طرح ہے ایک دعا کے ذریعہ سے دوسرا نداء کے ذریعہ سے۔ نداء ایسی آواز کو کہتے ہیں جو سنی جائے یا نہ سُنی جائے اور دعا اس آواز کو کہتے ہیں جو سنی جائے۔ فرماتا ہے وہ بت جن کو یہ لوگ اپنی مد دکے لئے پکارتے ہیں۔ وہ نہ ان کی دُعا سنتے ہیں نہ نداء۔ گویا ان کفار کا کام محض دعا اور نداء ہی ہے ورنہ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی نہیںسُنتے ۔ نہ دُعا سنتے ہیں نہ نداء سنتے ہیں اس لئے ان کے بلانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس صورت میں اِلَّا کو زائدہ تسلیم کرنا ڑیگا ار یا پھر یہ فقرہ اس طرح ہو گاک کہ لَا یَسْمَعُ اِلَّا ھُوَ یَدْ ھُوْا دُعَائً وَ نَدَائً۔ یعنی وہ بُت تو کچھ نہیں سنتے مگر وہ پکارنے والا برابر دُعائیں کئے چلا جاتا ہے اور آوازیں دیتا چلا جاتا ہے۔ ان معنوں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ چیختے چلاتے ہیں تو پھر وہ بُکْم’‘ کیسے ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بُکْم’‘ کے یہ معنے ہیں کہ وہ حقیقت کا اپنی زبان سے اقرار کرنے کے لحاظ سے گونگے ہیں۔ اور اس کی دلیل صُمّ’‘ اور عَمْی’‘ کے الفاظ ہیں جیسے صُمّ’‘ سے ایسے لوگ مراد ہیں جن کے کان حق بات کے سُننے سے بہرے ہیں اور عُمْی’‘ سے مراد حق کو نہ دیکھنے والاے لوگ ہیں اسی طرح بُکْم’‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو روحانی نقطہ نگاہ سے گونگے ہیں۔ اور جو سچائی کا برملا اظہار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اگر یہاں صرف بُکْم’‘ کا لفظ ہوتا تو اعتراض درست ہوتا۔ لیکن صُم’‘ اور عُمْی’‘ کے الفاظ نے صحیح معنے واضح کر دیئے۔
ترتیب و ربط:۔ اس آیت کا آیت ماقبل سے پہلے معنوں کے لحاظ سے یہ تعلق ہے کہ پہلی آیت میں خداتعالیٰ نے فرمایا تھا وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا کہ جب انہیں خداتعالیٰ کی طرف بلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا اس کی اتباع کرو تو وہ اُسے سنکر اعراض اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریق کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں دعوتِ حق دینا ایسا ہی ہے جیسے جانوروں کو اپنی طرف بلانا۔ یہ لوگ بھی آپ کی آواز سُنتے ہیں مگر سمجھتے نہیں کہ اس آواز پر لبیک کہنا کس قدر ضروری ہے اور وہ اپنے باپ دادا کے طریق پر چلتے چلے جاتے ہیں۔
دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا پہلی آیت سے یہ تعلق ہے کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآئُ ھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ کہ یہ لوگ اپنے باپ دادا کے پیچھے چلنے کے تو بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کے باپ دادا اپنے بتوں کو پکارتے اور آوازیں دیتے تھک گئے اور کچھ بھی نتیجہ برآمد نہ ہوا ۔ ایسی صورت میں ان کا یہ کہنا کہ ہم اپنے باپ دادا ہی کی پیروی کر ینگے ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی بتوں کو بلائے اور اس کا بلانا بالکل بیکار ثابت ہو اور اُسے کوئی جواب نہ ملے پاس ان لوگوں کا بھی اپنے بتوں کے سامنے چیخنا چلانا انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔
۸۶؎ تفسیر:۔ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اسلامی شریعت نے صرف حلال چیزوں کے کھانے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ حلال میں سے بھی طیب اشیاء کے استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور یہ اسلام کی ایسی امتیازی خصوصیت ہے جس میں کوئی اور مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس نے حلال کے مقابلہ میں صرف حرام کا درجہ ہی نہیں رکھا بلکہ اس سے اتر کر ا نے بعض چیزوں کو مکروہ بھی قرار دیا ہے اور مومنوں کے لئے ان کا استعمال ناپسند فرمایا ہے گویا چار مختلف مدارج ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے اول طیب دوم حلال سوم حرام چہارم مکروہ۔ حلال ترقی کرتے کرتے طیب تک پہنچ جاتا ہے اور حرام گرتے گرتے مگروہ تک آجاتا ہے غرض اسلام اور دیگر مذاہب میں یہ فرق ہے کہ دوسرے مذاہب صرف حلال حرام تک اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں اور اسلام حلال اور حرام کے علاوہ بعض چیزوں کو طیب یا مکروہ بھی قرار دیتا ہے۔ اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کونسی چیزیں بعض حالات میں حلال ہو جاتی ہیںگو اصل میں حرام ہوں اور کون سی چیزیں بعض حالات میں حرام ہو جاتی ہیں گو اصل میں حلال ہوں اور اس طرح موازنہ اشیاء کو قائم کرتا اور ایک لطیف باب گناہ اور نیکی کے امتیاز کے لئے کھول دیتا ہے مثلا ہماری شریعت میں لوگوں کو ایذاء دینے سے منع کیا گیا ہے۔ اب اگر حلال چیز سے کسی وقت دوسروں کو ایذاء پہنچ جائے تو اس وقت اس کا استعمال کرنا بھی حرام ہا جائیگا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ اَکَلَ مِنْ ھٰذِہِ الشَّجَرِ یَعْنِی الثُوْمَ فَلَا یَاتِیَنَّ الْمَسَاجِدَ۔ (مسلم جلد اول کتاب المساجد) یعنی جو شخص کچے لہسن کا استعمال کر اسے چاہیے کہ مسجد میں نہ آئے۔ ایک دوسری حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے کہ فَاِنَّ الْمَلَا ئِکَۃَ تَاَذّٰی مِمَّا تَآ ذّٰی مِنْہُ الْاِنْسُ کہ ملائکہ بھی ان چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جن سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔(مسلم جلد اول کتاب المساجد) اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ باوجود اس کے کہ لہسن کھانا جائز ہے پھر بھی مساجد میں آنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن اور پیاز وغیرہ کا کھانا ممنوع قرار دے دیا ۔ اور ایسے شخص کو نماز باجماعت سے بھی روک دیا۔ ورنہ نماز تو کسی صورت میں بھی چھوڑی نہیں جاسکتی اور اگر مسجد میں نماز نہیں پڑھے گا تو بہر حال اُسے گھر پر نماز پڑھنی پڑے گی۔ لیکن اس وجہ سے کہ وہ دوسروں کے لئے دُکھ اور تکلیف کا موجب نہ بنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص اجتماعی عباردت سے الگ رہے تاکہ مومنوں کو تکلیف نہ ہو۔ غرض یہ اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اس نے نہ صرف حلت و حرمت کے مسائل بیان کئے بلکہ اس نے یہ بھی بتادیا ہے کہ کھانے کی چیزوں میں سے ادنیٰ درجہ کراہت کا ہے پس مومنوں کو حلال اور حرام پر ہی نظر نہیں رکھنی چاہیے بلکہ انہیں تقویٰ کی باریک راہیں اختیار کرتے ہوئے حلال میں سے بھی طیب چیزوں کو اختیار کرنا چاہیے اور حرام چیزیں تو الگ رہیں مکروہ چیزوں کے پاس پھٹکنے سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حلال کی بجائے صرف طیب کا لفظ رکھا ہے جس کی وجہ ہے کہ یہاں خاص طور پر مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے یعنی اعلیٰ درجہ کے مومنوں کو۔ ورنہ اس رکوع کے شروع میں بھی یٰٓاَ یُّھَاالنَّاسُ کُلُوْامِمَّا فِی الْاَرْض، حَلٰلاً طَیِّبًا میں اَلنَّاسُ سے مراد مومن ہی تھے کیونکہ کفار کو قرآن کریم مسائل تفصیلی میں حکم نہیں دیتا۔ لیکن ہواں اَلنَّاسُ سے ادنیٰ درجہ کے مومن مراد تھے جو طبعی خواہشات کی طرف جھکنے والے تھے۔ اسی لئے وہاں ان کی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ حکم دیا کہ کُلُوْا مِمَّا فِالْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا یعنی جو کچھ حلال اور طیب ہے کھائو۔ کیونکہ ہو سکتا تھا کہ وہ صرف طیبات تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھ سکتے بلکہ خالص حلت و حرمت کے دائرہ کے اندر ہی رہنا چاہیے اور زیادہ پابندیاں اپنے لئے برداشت نہ کر سکیں لیکن یہاں خاص درجہ کے مومنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم یدا کہ کُلُوْامِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَ قْنٰکُمْ تم صرف وہ طیبات استعمال کرو جو ہم نے تمہیں عطا کی
اِنَّمَا حَرَّمَ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
ہیں۔ یہی وجہ ے کہ پہلے حکم کے نتیجہ میں فرمایا تھا کہ تم شیطان کے پیچھے چلنے سے بچ جائئو گے لیکن یہاں یہ فرمایا کہ اگر تم صرف طیبات ہی استعمال کر و گے تو اس کے نتیجہ میں تم اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لا سکو گے یعنی تمہیں ایسے نیک اعمال کی توفیق ملے گی جو تمہاری روح کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ کی طرف کھینچ کر لے جائیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر وضاحتاً فرمایا کہ یٰٓاَ یَّھَاالرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا(مومنوں آیت۵۲) یعنی اے ہمارے رسولو! تم طیبات کھائو اور مناسب حال اعمال بجا لائو۔ گویا اسلام نے انسانی اعمال اور اخلاق پر غذا کے اثرات کو واضح طور پر تسلیم فرمایا ہے اور مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس نقطہ کو ہمیشہ مدنظر رکھیں اور غذائی معاملات میں طیبات کو ترجیح دیا کریں تاکہ ان کے اخلاق بھی متوازن رہیں اور ان میں ناواجب اونچ نیچ کا کوئی پہلو دکھائی نہ دے۔ غرض یہاں اعلیٰ درجہ کے ایمان کے مناسب حال کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ فرمایا۔ اور جب انسان طیبات پر حصر کر لیگا تو نہ صرف یہ کہ وہ منہیات سے بچ جائیگا بلکہ وہ صالحات کی بھی توفیق پائیگا۔ پس اعلیٰ درجہ کے مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حلال بھی نہ کھائے بلکہ خاص طور پر طیب کو مدنظر رکھے یا پھر اس آیت میں صرف طیب کو اس لئے بیان کر دیا کہ حلال اسی میں آجاتا ہے۔
۸۷؎ حل لغات:۔ اَلْمَیْتَۃُ۔ اَلْمَیْتَۃُ مَالَمْ تَلْحَفْہُ الذَّکوٰۃُ۔ وَالْحَیَوَانُ الَّذِیْ یَمُوْتُ حَتْفَ اَنْغِہٖ(اقرب) اَلْمَیْتَہُ مَیْت’‘ کا مونث ہے۔ اور مَیْتَۃ’‘ سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو بغیر کسی بیرونی سبب کے مرے اور اُسے ذبح نہ کیا جائے (اقرب) اور مَیْتَۃ’‘ سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو بغیر کسی بیرونی سبب کے مرے اور اُسے ذبح نہ کیا جائے۔(اقرب)
اور شریعت اسلام کے نزدیک اُسے بھی مُردار ہی کہتے ہیں جو ذبح نہ ہو خواہ ایسا جانور خودبخود مر جائے یا کوئی دوسرا اُسے مار دے۔
دَم’‘ کے معنے کون کے ہیں اور اس سے مراد دِم مسفع، ہے جو ذبح کرنے سے بہ جاتا ہے۔ اندر کا خون مراد نہیں۔
اُضْطُرَّ:ضَرَّ سے باب افتعال کا ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اِضْطَرَّہ‘ اِلَیْہِ کے معنے ہیں اَحْوَجَہ‘ وَاَلْجَاہ‘ فَاضْطُرَّ بِصِیْغَۃِ الْمَجْھُوْلِ اَیْ اُلْجِیَٔ(اقرب) اضطرار کسی شخص کو ایسے کام پر مجبور کر دینے کو کہتے ہیں جو اس کے لئے باعث ضر ر ہو یا اُسے ناپسند ہو۔ یہ مجبوری خواہ بیرونی ہو جیسے تہد ید و تخویف یا اندرونی ہو جیسے قدرتی مطالبات اور طبعی حوائج یعنی بھوک وغیرہ ان دونوں میں سے کسی قسم کی مجبوری کے ماتحت انسان کام کرے تو اُسے اضطرار کہتے ہیں۔
بَاغٍ:بَغَیَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور اَلْبَغْیُ کے معنے ہیں(ا) اَلظُّلْمُ۔ ظلم (۲) اَلْجُرْمُ وَالْجِنَایَۃُ ۔ قصور (۳)اَلْعِصْیَانُ۔ نافرمانی (۴) کُلُّ مُجَاوَزَۃٍ وَاِفًرَاطٍ عَلَی الْمِقْدَارِ الَّذِیْ ھُوَ حَدُّ الشَّیْ ئِ فَھُوَ بَغْی’‘ ۔ کسی مقررہ حد سے تجاوز کرنا بھی بغی ہے(اقرب)
اور اَلْبَاغِی سے مراد ہے (۱) اَلطَّالِبُ۔ چاہنے والا (۲) اَلظَّالِمُ ظالم (۳) وَاَلْعَاصِی عَلَی اللّٰہِ وَالنَّاسِ۔ اور وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور لوگوں کی مخالفت میں کھڑا ہوجائے۔
عَادٍ: حد سے گذر جانے والا یعنی جو قانون پر عمل کرتے کرتے کچھ زیادتی یا کمی کر دے۔
اِثْم’‘:اس جگہ اس کے معنے سزا کے ہیں۔ سبب کو مسبب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ سزا کا سبب گناہ ہوتا ہے۔ (۲)اِثْم’‘ کے معنے گناہ کے بھی ہو سکتے ہیں ۔
اُھِلَّ: اَھَلَّ سے فعل ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اَھَلَّ الْھِلَالُ وَاُھِلَّ (مجھولًا) کے معنے ہیں ہلال ظاہر ہو گیا (۲)اَھَلَّ الْقَوْمُ الْھِلَالَ رَفَعُوْا اَصْوَا مَّھُمْ عِنْدَ رُوْیَتِہٖ۔ لوگوں نے ہلال پر آواز بلند کی (چاند کو ہلال اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کے دیکھنے پر آواز بلند کی جاتی ہے)(۳) اور اَھَلَّ الصَّبِیُّ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْنَہُ بِالْبُکَائِ یعنی بچہ رونے لگا۔ (۴) اور اَھََلَّ الرَّجُلُ کہیں تو معنے ہونگے نَظَرَ اِلَی الْھِلَالِ آدمی نے ہلال دیکھا (۵) اور اَھَلَّ الشَّھْرُ کے معنے ہیں ظَھَرَ ھِلَا لُہ‘ نئے مہینے کا ہلال نکالا (۶) اَھَلَّ السَّیْفُ بِغُلَانٍ کے معنے ہیں قَطَعَ فِیْہِ تلوار نے اُسے کاٹ دیا۔ (۷) اَھَلَّ الْعَطْشَانُ کے معنے ہیں رَفَعَ لِسَانَہ‘ اِلیٰ لُھَاتِہٖ لِیَعْتَمِعَ لَہُ رِیْقُہ‘ یعنی پیاسے نے اپنی زبان تھوک سے تر کرنے کے لئے حلق کے قریب کی۔ (۸) اَھَلَّ اللّٰہُ السِّحَابَ کے معنے ہیں خداتعالیٰ نے بادل برسایا (۹) اَھَلَّ الشَّھْرَ کے ہیں رَایَ الْھِلَالَ چاند دیکھا۔ (۱۰) اَھَلَّ اْ لُملَبِیّ کے معنے ہیں رفَعَ صَوْنَہ‘ بِالتَّلْبِیَۃِ بُفَالَ اَھَلَّالْمُحْرِمُ بِالْحِجّ وَالْعُمْرَۃِ لَبّٰی وَرَفَعَ صَوْ تَہ‘۔ محرم نے حج اور عمرہ کے لئے تلبید کیا اور آواز بلند کی۔ (۱۱) اَھَلَّ فُلَان’‘ بِذِکْرِ اللّٰہِ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْتَہ‘ بِہٖ عِنْدَ نِعْمَۃ اَوْرُوْیَۃِ شَیْ ء یُعْجِبُہ‘ فلاں شخص نے کوئی نعمت دیکھ کر ذکر الہٰی کے لئے اپنی آواز بلند کی (۱۲) اَھَلَّ بِالنَّسْمِیَۃِ عَلیٰ الذَّ بِیْحَۃِ کے معنے ہیں کے معنے ہیں قَالَ بِسْمِ اللّٰہِ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا۔ وَمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہکے معنے ہیں نُوْدِیَ عَلَیْہِ بِغَیْرِ اسْمِ اللّٰہِ عِنْدَ ذبْحِہٖ۔ جو جانور خداتعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لے کر ذبح کیا جائے(اقرب)
تفسیر:۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ میں جن اشیاء کے کھانے سے منع کیا گی اہے۔ وہ دو قسم کی ہیں اول حرام دوم ممنوع۔ لُغۃً توحرام کا لفظ دونوں قسموں پر حاوی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اس آیت میں صرف چار چیزوں کو ھرام قرار دیا ہے۔ یعنی مردار ، خون، سور کا گوشت اور وہ تمام چیزیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام سے نامزد کر دی اگیا ہو ان کے سوا بھی شریعت میں بعض اور چیزوں کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ لیکن وہ چیزیں اشیاء ممنوعہ کی فہرست میں تو آئیں گی۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق حرام نہیں ہونگی۔ جیسے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نَھیٰ عَنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَعَنْ کُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ(مسلم جلد ۲ کتاب الصید والذبائح) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے کو کھانا ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ نَھٰی لُحُوْمِ الْحُمُرِ الْاِنْسِیَّۃ، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔(مسلم جلد ۲ کتاب الصید دالذبائح)
یہ احکام اس آیت یا دوسری آیات کے مضمون کے مخالف نہیں ہیں۔ کیونکہ جس طرح اوامر کئی قسم کے ہیں بعض جرض ہیں بعض واجب ہیں اور بعض سنت ہیں۔ اسی طرح نہی بھی کئی اقسام کی ہے۔ ایک نہی محرمہ ہے اور یاک نہی مانعہ ہے اور ایک نہی تنزیہی ہے۔ پس حرام چار اشیاء ہیں باقی ممنوع ہیں اور ان سے بھی زیادہ وہ ہیں جن کے متعلق نہی تنزیہی ہے کہ انسان ان سے بچے حرام اور ممنوع میں وہی نسبت ہے جو فرض اور واجب میں ہے۔ پس جن اشیاء کو قرآن کریم نے حرام کہا ہے ان کی حرمت زیادہ سخت ہے اور جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے وہ حرمت میں ان سے نسبتا کم ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے احکام میں ان کی مثال فرض اور واجب اور سنت کی سی ہے حرام تو بمزلہ فرض کے ہے اور منع بمنزلہ واجب کے جس طرح فرض اور واجب میں فرق ان کی سزائوں کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اسی طرح جن اشیاء کی حرمت قرآن کریم میں آئی ہے اگر انسان اُن کو استعمال کرے گا تو اس کی سزا زیادہ سخت ہو گئی اور جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ان کے استعمال سے اس سے کم درجہ کی سزا ملے گی لیکن بہر حال دونوں جرم قابل گرفت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوں گے حرام فعل کا ارتکاب کرنے سے انسان کے ایمان پر اثر پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ لازماً بدی ہوتی ہے۔ لیکن دوسری چیزوں کے استعمال کا نتیجہ لازماً بدی اور بے ایمانی کے رنگ میں نہیں نکلتا۔ چنانچہ دیکھ لو ۔ مسلمانوں میں سے بعض ایسے فرقے جو ان اشیاء کو مختلف تاویلات کے ذریعے جائز سمجھتے اور انہیں کھالیتے ہیں جیسے مالکی ان کا اثر انکے ایمان پر نہیں پڑتا۔ اور ان میں نے ایمانی اور بدی پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ گذشتہ دور میں تو ان میں اولیاء اللہ بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ لیکن خنزیر کا گوشت یا مردار کھانے والا کوئی شخص ولی اللہ نظر نہیں آئیگا۔ پس حرمت کے بھی مدارج ہیں اور ان چاروں حرام چیزوں کے سوا باقی تمام ممنوعات ہیں جن کو عام اصلاح میں حرام کہا جاتا ہے ورنہ قرآنی اصطلاح میں وہ حرام نہیں ہیں۔ دراصل ایک حرمت ایسی ہے۔ جو صرف لُغتاً حرمت کہلاتی ہے اس لحاظ سے ہر وہ چیز جس سے کسی دوسرے کو منع کر دیا جائے حرام کہلائیگی۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کی ہوئی چیز جس سے کسی دوسرے کو منع کر دیا جائے حرام کہلائیگی۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کی ہوئی چیزیں ہیں۔لیکن قرآنی اصطلاح میں صرف یہی چار چیزیں حرام ہیں۔
اس آیت میں مردار کھانے سے اللہ تعالیٰ نے اس لئے روکا ہے کہ مردار کا خون بہت سی زہروں پر مشتمل ہوتا ہے اور مُردار کی نسبت اغلب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ بیماری سے یا زہر سے یا زہریلے جانوروں کے کاٹے سے مرا ہو۔ اور یہ سب حالتیں ایسی ہیں کہ ان میں جانور کا گوشت استعمال کرنیکے قابل نہیں رہتا اور اگر گِر کر یا کسی ار صدمہ سے مرا ہو تب بھی قاعدہ ہے کہ سخت صدمہ کا اثر فوراً خون میں زہر پیدا کر دیتا ہے پس درحقیقت کھانے کے قابل صرف وہی گوشت ہوتا ہے جو ذبح کئے ہوئے جانور کا ہو۔ ورنہ اُس کا لازماً بد اثر ہو گا۔ اور یہ چیز صرف خیالی نہیں بلکہ موجودہ طب نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ خواہ کوئی جانور عمر طبعی پا کر بوجہ بڈھا ہونے کے مرے یا کسی اونچے مقام سے گر کر ہلاک ہو یا کسی صدمہ سے جانبر نہ ہو سکے یا کسی بیماری کا شکار ہو اس کے کون میں کئی قسم کے خطرناک جراثیم اور کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ میڈیکل جیورس پروڈنسMIDICAL JURISPRUDENCEجو ڈاکٹر کی ایک مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ مردہ کے گوشت میں بہت جلد کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں جن سے ایسے زہر پیدا ہوتے ہیں جنہیںAL-KALIDES CADAVERICEیاPTOMAINES کہتے ہین۔ یہ زہر سخت مہلک ہوتے ہیں اور ان کا اثر کچلا اور ایڑوپین کے مشابہ ہوتا ہے (صفحہ۵۲۲)
اِسی طرح خون بھی مختلف قسم کے زہروں پر مشتمل ہوتا ہے اور صحت کے لئے سخت مضر چیز ہے۔ فزیالوجی والے لکھتے ہیں کہ کون انسانی بدن میں ایک ایسے گڑھے کی طرح ہوتا ہے جس میں بے حد مچھلیاں اور مینڈک اور کیڑے ہر وقت اپنی غذا بھی اُس سے لیتے ہوں اور اپنا فضلہ بھی اس میں پھینکتے ہوں۔ کیونکہ اس میں بے انتہا سیلز تیر رہے ہوتے ہیں اور ہروقت اُسے خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خون کا ہی کام ہے کہ وہ ٹشوز سے مردہ مادہ کو ان آرگنز تک لے جاتا ہے جو اُسے خون سے صاف اور علیٰحدہ کرتے ہیں۔ پس خون مختلف قسم کے زہروں اور ردی مادوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور جسم کے اندر خداتعالیٰ نے اُس کے صاف کرنے کے لئے کئی سامان بنائے ہوئے ہیں لیکن جب وہ جسم سے باہر آجائے تو اُس کے زہر اُس کے اندر ہی رہ جاتے ہیں اور اس کا استعمال صحت کے لئے سخت مضر ہوتا ہے۔ اور چند منٹ میں خراب ہو جاتا ہے بلکہ ہوا کے کیڑے مل کر بہت جلد نشوونما پا جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ گوشت جس سے خون دھویا جائے دیر تک رہتا ہے بہ نسبت اس کے جسے خون لگا ہوا ہو۔ پس خون کا بد اثر بھی ظاہر ہے۔
خنزیر کے گوشت کا اثر بھی انسان کے جسم اور اُس کے اخلاق پر نہایت بُرا پڑتا ہے۔ جسم پر تو اُس کا اس طرح گندہ اثر پڑتا ہے کہ اس کے گند اور کیچڑ میں رہنے اور گندی ذہنیت کو پسند کرنے کے سبب سے اس کے گوشت سے کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ مسٹرJOHN ATHAN NICHOLSONُٓٓاپنی کتاب SWINE FLESH میں لکھتے ہیں :۔
IT IS EXCEPTIONAL EVIDENCE AGAINST THE HATEFUL HOG WHEN WE SY TAPE WORM, SCROFULA, CANCER AND ENEYSTER TRICHINA AND UNKNOWN AMONG STRICT JEWS. THEY NEVER TOUCH THE HOG FLESH.
یعنی سور کا گوشت کے متعلق ایک غیر معمولی عجیب شہادت یہ ہے کہ کدو دانیاور سِل کا مادہ یہودیوں کے اندر اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ اگر ان کی یہ بات پوری طور پر تسلیم نہ بھی کی جائے تب بھی اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ سور خور قوموں میں یہ بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں۔
سور کے گوشت سے ایک مہلک بیماری پیدا ہوتی ہے جسےTRICHINOSISکہتے ہیں۔ اس میں پہلے ہیضہ کی علامات ظاہر ہوتی ہیں پھر بخار ہوجاتا ہے پھر بدن میں درد شروع ہو جاتا ہے اور آخر میں نمونیا ہو جاتا ہے۔ میڈیکل جمیورس پروڈنس میں لکھا ہے کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں۔
اسی طرح سور کے گوشت سے آنتوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں جو کدو دانہ کے مشابہ ہوتے ہیں اور سالہا سال تک رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ایف بٹلر ایم ۔ڈی۔ ایف ۔آر۔سی ۔پی اپنی کتاب ’’پریکٹس آف میڈیسن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سور میں یہ بیماری پاخانہ کھانے سے پیدا ہوتی ہے لیکن ان ضرروں سے بھی بڑھ کر بلکہ اصل باعث اس کی حرمت کا دو خرابیاں ہیں جو اخلاق میں پیدا ہوتی ہیں۔ صرف سورہی ایک ایسا جانور ہے جس میں نر کو نر پر پھاندنے کی عادت ہے پس وہ لوگ جو سور کا گوشت کھانے کے عادی ہیں ان میں بھی دیوٹی بڑھ جاتی ہے اور حیا کا مادہ کم ہو جاتا ہے۔
پھر اس میں شجاعت بھی نہیں ہوتی بلکہ تہور کی عادت ہوتی ہے جس وقت اپسے غصہ آجائے وہ آگے پیچھے نہیں دیکھتا بلکہ سیدھا حملہ کرتا ہے او راسی عادت کی وجہ سے شکار اسے جلد مار لیتا ہے۔ جب شکار ی اُسے گولی مارتا ہے تو وہ غصہ میں سیدھا حملہ کرتا ہے اور اس طرح جلدی گِر جاتا ہے۔ اسی طرح جو قوم سور کا گوشت کھانے والی ہوگی اس میں بھی شجاعت نہیں پائی جائیگی بلکہ تہور پایا جائیگا۔
بانی سلسلہ احمدیہ اپنی مشہور تصنیف’’اسلامی اصولوں کی فلاسفی‘‘ میں خنزیر کی حرمت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:۔
’’ایک نکتہ اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ خنزیر جو حرام کیا گیا ہے خدا نے ابتداء سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے یونکہ خنزیر کا لفظ خنز اور اَر سے مرکب ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں اس کو فاسد اور خراب دیکھتا ہوں۔ خنز کے معنے بہت فاسد۔ آرٰ کے معنے دیکھتا ہوں پس اس جانور کا نام جو ابتداء سے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سور کہتے ہیں یہ لفظ بھی سور اور اَر سے مرکب ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میں اس کو بہت بُرا دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔ اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں یعنی بہت فاسد اس کی تشریح کی حاجت نہیں اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانونِ قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بدن اور روح پر پلید ہی ہو۔ کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذائوں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کااثر بھی بد ہی پڑے گا جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی)
چوتھی چیز جسے حرام قرار دیا گیا ہے وہ ہے جوشرک کے طور پر ذبح کی جائے اور ا سکے قربان کرنے کا باعث خداتعالیٰ کے سوا اور ہستیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش ہو۔ چونکہ اس میں خدائے وحد لا شیرک کی ہتک کی جاتی ہے اور اس کی صفات دوسری ہستیوں کو دی جاتی ہیں اس لئے اس کو استعمال کرنا انسان کو بے غیرت بناتا ہے بلکہ درحقیقت ایسے جانور کو کھانا دلی ناپانی اور بے غیرتی کی علامت ہے۔ پس اسلام نے اس کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ یہ حرمت اس کے بطعی نقصانات سے نہیں بلکہ دینی نقصانات کی وجہ سے ہے کیونکہ جو شخص کسی ایسے جانور کا گوشت کھاتا ہے جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو وہ اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ اُسے خداتعالیٰ کی توحید سے کوئی محبت نہیں۔ وہ بظاہر خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے مگر اپنے باطن میں اس نے اور بھی کئی بُت چُھپا رکھے ہیں جن کی وہ پرستش کرتا ہے۔ پس اس کا کھانا اس کے دل کو ناپاک کرتا اور اُسے مشرکوں کا ہمرنگ بنا دیتا ہے۔
عیسائی لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے تورات کی نقل کرتے ہوئے ان اشیاء کو حرام قرار دیا ہے کسی حکمت کی وجہ سے ان کو حرام قرار نہیں دیا۔ مگر ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو تورات نے حرام کیا ہے مگر قرآن نے حرام نہیں کیا مثلاً اونٹ کو تورات میں حرام قرار دیا گیا ہے (احبار باب۱۱آیت۴) لیکن اسلام میں اس کا کھانا جائز ہے اگر کہو کہ عربوں کی خاطر اُسے حرام نہیں کیا گیا۔ تو میں کہتا ہوں کہ خرگوش کو بھی تورات میں حرام کیا گیا ہے (احبار باب۱۱ آیت۶) لیکن اسلام میں اس کا کھانا بھی جائز ہے۔ اگر اونٹ عربوں کی خاطر حلال کیا گیا تھا تو خرگوش کو حلال قرار دینے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ پھر اگر یہ احکام تورات کی ہی نقل ہوتے تو چاہیے تھا کہ تورات کے تمام احکام کو نقل کر لیا جاتا۔ مگر قرآن کریم نے اس کے بہت سے احکام کو چھوڑ دیا ہے۔ مثلا تورات نے مردار کھانے والے کے لئے یہ سزار مقرر کی ہے کہ وہ ناپاک ہو جائیگا اور کپڑے دھونے کے بعد بھی شام تک ناپاک رہیگا (احبار باب۱۱ آیت۳۹۔۴۰) لیکن قرآن کریم نے اس بے معنی بات کو چھوڑ دیا۔ پاس یہ کہنا کہ قرآن نے تورات کی نقل کی ہے واقعات کے لحاظ سے بالکل غلط بات ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ تورات تو حرمت کی کوئی وجہ بیان نہیں کی لیکن قرآن کریم حرمت کی وجہ بھی بتاتا ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ فرماتاہے ۔ قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُھَرَّ مًا مَّسْفُوْ حًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہُ رِجْس’‘ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ (انعام آیت۱۴۶)یعنی تو اس سے کہہ دے کے جو کچھ میری طرف نازل کیا گیا ہے میں تو اس میں اُس شخص پر جو کسی چیز کو کھانا چاہے سوائے مردار یا بہتے ہوئے خون یا سور کے گوشت کے کوئی چیز حرام نہیں پاتا۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک چیز نجس ہے یا میں فسق کو حرام پاتا ہوں۔ یعنی اس چیز کو جس پر خداتعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ لیکن جو شخص اس کے کھانے پر مجبور ہو جائے بغیر اس کے کہ وہ شریعت کا مقابلہ کرنے والا ہو یا حد سے نکلنے والا ہو یعنی وہ جان بوجھ کر ایسے موقعہ پر نہ گیا ہو یا کھاتے وقت ضرورت سے زیادہ نہ کھائے تو وہ یاد رکھے کہ تیرا رب یقینا بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے یعنی ایسا شخص اگر ان کھانوں کو کھالے تو اللہ تعالیٰ اُس کو اُن کے بد اثرات سے بچا لیگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مردہ اور بہا ہوا خون اور سور کا گوشت حرام کرنے کی وجہ ان کا تکلیف دہ ہونا ہے کیونکہ رجس کے معنے گند اور عذاب کے ہوتے ہیں پس مراد یہ ہے کہ یہ چیزیں گندی ہیں اور انسان کے لئے رُوحانی اور جسمانی طور پر موجب دکھ ہیں۔
اس کے علاوہ سورۃ مائدہ آیت ۴ اور سورۃ نحل آیت ۱۱۶ میں بھی حلال اور حرام اشیاء کا ذکر ہے اور سب میں یہی چیزیںبیان کی گئی ہیں۔ سوائے سورۃ مائدہ کے کہ وہاں مَیْتَۃ’‘ کی تشریح کر کے بتایا ہے کہ اس میں گلا گھونٹا ہوا یا لاٹھی سے مارا ہوا جانور یا سینگ لگنے سے مرا ہوا جانور یا وہ جانور جسے کسی درندے نے کھا لیا ہو وہ بھی مردار کے حکم میں شامل ہے۔
اُھِلَّ بِہٖ بِغَیْرِ اللّٰہِ کو اس نے علحیٰدہ بیان کیا ہے کہ اگرچہ اس سے ظاہری طور پر کوئی نقصان معلوم نہیں ہوتا مگر اس کے استعمال کرنے سے روحانی رنگ میں یہ بُرا نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کے اندر باحت اور بے دینی پیدا ہو جاتی ہے اور خدتعالیٰ سے اس کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ پس بائیبل نے تو بغیر کوئی حکمت واضح کرنے کے بعض چیزوں کو حرام قرار دے دیا ۔ مگر قرآن کریم نے حرام کرنے کی وجہ بھی بتائی ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حلت و حرمت کے مسائل تورات سے نقل کر لئے گئے ہیں۔
فَمَن ِاضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ میں پہلی شرط تو یہ رکھی کہ یہ استثنیٰ صرف اس شخص کے لئے ہے جو مفطر ہو جائے اور اضطرار کے معنے کسی شخص کو کسی ایسے کام پر مجبور کر دینے کے ہیں جو اس کے لئے باعثِ ضر ر یا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ اور یہ مجبوری دو قسم کی وہتی ہے ایک بیرونی تہدید و تخویف اور ایک اندرونی جیسے ہیجانِ جذبات اور مطالبات نیچر وغیرہ (مفردات راغب) دوسری شرط یہ رکھی کہ وہ عادی یعنی حد سے گذرنے والا نہ ہو۔ باغی کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی پنے کسی عیسائی دوست کے گھر میں بیٹھا ہوا ہو اور وہ بے تکلفی سے گھر والوں سے کہے کہ مجھے کچھ کھانے کے لئے دو اور وہ سور کا گوشت سامنے رکھ دیں تو وہ اُسے بے تکلف کھناے لگ جائے۔ یہ بغاوت اور نافرمانی ہو گی۔ سور کا گوشت کھانا صر ف اُس وقت جائز ہو گا جب وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو اور اُسے کھانے کے لئے سور کے گوشت کے سوا اور کوئی چیز کھانے کی میسر نہ آرہی ہو۔ کیونکہ اس وقت اس کے استعمال میں نقصان کم اور عدمِ استعمال میں نقصان زیادہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وَلَا عَادٍ فرما کر بتا دیا کہ مضطر کو بھی کلی طور پر اجازت نہیں دی گئی کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لے بلکہ صرف اتنا کھانے کی اجازت دی گئی ہے جس سے اس کی زندگی قائم رہ سکے اگر وہ ان حدود کا خیال رکھیگا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر وہ اس خیال سے اکہ آج تو پہلی مرتبہ سور کا گوشت کھانے کا موقعہ ملا ہے خوب سیر ہو کر کھا لے تو یہ ناجائز ہو گا۔بہر حال اٖطرار تاویلی نہیں بلکہ حقیقی ہونا چاہیے تب ان چیزوں کا استعمال اس کے لئے جائز ہو گا۔
آخر میں فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایسی مجبوری کی حالت میں کھانے والے پر کوئی گناہ نہیں تو بخشنے کے کیا معنے ہوئے۔ اور اگر ایسی حالت میں کھانا بھی گناہ ہے تو پھر فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ کا کی امطلب ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے پتہ لگتا ہے کہ انسان سے جو کمزوریاں سر زد ہوتی ہیں۔ چونکہ اس جگہ ایسے لوگوں کا ذکرکیا جا رہا تھا جنہیں مجبوری کی حالت میں لحمِ خنزیر وغیرہ استعمال کرنے کا اجازت دی گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ تمہارا اس حالت کو پہنچنا بتاتا ہے کہ تم تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز نہیں تھے ورنہ خداتعالیٰ تمہیں اس حالت سے بچا لیتا اور تمہارے رزق کے لئے غیب سے کوئی اور صورت پیدا فرما دیتا۔ آخر آج تک اُمتِ محمدیہ میں لاکھوں اولیاء اللہ گذرے ہیں کیا کسی ادنیٰ سے ادنیٰ ولی کے متعلق بھی یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اُس پر ایسا فاقہ آیا کہ وہ مردار یا سور کا گوشت کھانے پر مجبور ہو گیا۔ اگر نہیںتو پھر ایسے شخص کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ اُس سے اپنی پہلی زندگی میں کوئی نہ کوئی قصور ایسا ضرور سرزد ہواہے جس کی پاداش میں اُسے یہ دن دیکھنا پڑا کہ وہ مومن کہلاتے ہئوے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے ہوتے ہوئے سور کا گوشت کھانے پر مجبور ہو گیا۔ بے شک ایسی حالت میں اُس کا بقدر ضرورت چند لقمے لے لینا اور موت سے اپنے آپ کو بچا لینا جائز ہے لیکن چونکہ اس کی یہ حالت کسی مخفی شامت اعمال کا نتیجہ ہو گی اس لئے اُسے چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لے کر اپنی گذشتہ کمزوریوں پر ندامت کے آنسو بہائے۔ خداتعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفارء سے کام لے اور دُعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کمزوریوں کو معاف فرمائے اور ان پر پردہ ڈالے اور اُسے اپنی مغفرت کے دامن میں لے لے۔ اگر وہ سچے دل سے ایسا کریگا تو وہ اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائے گا۔ اور آئندہ اس قسم کے حالات میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہو جائے گا۔
ایک صحابی کا واقعہ ہے انہیں جنگ میں پکڑ کر اور قید کر کے قیصر کے پاس بھیجا گیا۔ اس نے چاہا کہ انہیں قتل کر دے۔ مگر
اِنَّ الَّذِیْنَ
عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘o
اس کے مصاحبوں نے کہا کہ قتل نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ مسلمان بھی ہمارے قیدیوں کو قتل نہیں کرتے اور اگر عمرؓ کو پتہ لگ گیا کہ اُن کے ایک آدمی کہ قتل کیا گیا ہے تو وہ اس کا سختی سے انتقام لیں گے۔ قیصر نے کہا میں تو چاہتا ہوں کہ اسے ایسی سزا دوں جو دوسروں کے لئے باعثِ عبرت ہو۔ اس پر انہوں نے کہا۔ اسے سور کا گوشت کھلانا چاہیے۔ چنانچہ انوں نے اس صحابی کو چند دن بھوکا رکھا اور پھر سور کا گوشت کھانے کو دیا اس نے کھانے سے سختی سے انکار کر دیا وہ اُسے کھانے پر مجبور کر رہے تھے کہ قیصر کے سر میں شدید درد شروع ہوگئی جس کا اُن سے کوئی علاج نہ ہو سکا۔ اس کے مصاحبوں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے یہ اس شخص کو تکلیف دینے کی وجہ سے ہے۔ اخر یہ قرار پایا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کو دُعا کے لئے لکھا جائے۔ اور چونکہ ایسی صورت میں ان کے لئے یہ مناسب نہ تھا کہ ایک مسلمان پر وہ ایسی سختی کریں ورنہ دعا مشکل تھی۔ اس لئے وہ مجبور ہو کر اُسے کھانا دینے لگے گئے پس جو لوگ ایمان میں پختہ ہوتے ہیں خداتعالیٰ ان پر ایسا موقعہ ہی نیہں لاتا کہ انہیں حرام چیز کھانی پڑے خداتعالیٰ خود ان کے لئے ہر قسم کی خیرو برکت کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔
اس کادوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی موقعہ پر انتہائی مجبوری کی وجہ سے مردار یا سور کا گوشت استعمال کر لیا جائے تو جن زہریلے اثرات کی وجہ سے شریعت نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بہر حال ایک مومن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج کا تدارک اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان غفور اور رحیم خدا کا دامن مظبوطی سے پکڑے اور اُسے کہے کہ اے خدا میں نے تو تیری اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لئے اس زہریلے کھانے کو کھالیا ہے لیکن اب تو ہی فضل فرما اور ان مہلک اثرات سے میری روح اور جسم کو بچا جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسی حکمت کے باعث آخر میں اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ کہاگیا ہے۔تاکہ انسان مطمئن نہ ہوجائے بلکہ بعد میں بھی وہ اس کی تلافی کی کوشش کرتا رہے اور خداتعالیٰ سے اُس کی حفاظت طلب کرتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غالبًا شریعت کی اسی رخصت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کسی حاملہ عورت کی حالت ایسی ہو جائے کہ مرد ڈاکٹر کی مدد کے بغیر اُس کا بچہ پیدا نہ ہو سکتا ہو اور وہ مرد ڈاکٹر کی مدد نہ لے اور اُسی حال میں مر جائے تو اس عورت کی موت خود کشی سمجھی جائے گی۔ اسی طرح انسان کی ایسی حالت ہو جائے کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگے اور وہ سور یا مردار کا گوشت کسی قدر کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
۸۸؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ وہ لوگ جو اس عظیم الشان تعلیم کو چھپاتے ہیں جسے خدانے لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے اور اس کے بدلہ میں دنیوی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ انڈیلتے ہیں۔ یہ آیت حلت و حرمت کے مسائل کے بیان کرنے کے معًا بعد لا کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس طرح مردار اور خود اور سور کا گوشت تم پر حرام ہے اور جس طرح غیر اللہ کے نام پرذبح کیا ہوا جانور کھانا تمہارے لئے گناہ ہے اسی طرح یاد رکھو کہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیے دینا اور خداتعالیٰ کو چھوڑ دینا بھی مُردار اور سور کا گوشت کھانے سے کم نہیں۔ جس طرح وہ حرام خور ی ہے اسی طرح یہ بھی حرامخوری ہے کہ انسان دین سے واقف ہوتے ہوئے کلمہ حق کہنتے سے احتراز کرے۔ اور ڈرے کہ اگر میں نے اپنے عقیدہ کو نہ چھپایا یا خدا اور اس کے رسول کے احکام پر بر ملا اظہار کر دیا تو میری ملازمت جاتی رہے گی یا میری تجارت ماری جائیگی یا میرے دوستوں کے حلقہ میں میری عزت کم ہو جائیگی۔ فرماتا ہے جو لوگ صحیح علم رکھنے کے بعد بھی منافقت سے کام لیتے ہیں اور دنیوی مفاد کو دینی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں انگارے ڈال رہے ہیں۔
مَایَا کُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ۔ اس آیت میں بُطُوْن کا لفط تاکید کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور فِیْ بُطُوْنِھِمْ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کے بطون کے اندر آگ کا عذاب پیدا کیا جائے گا۔ یعنی انہیں اندرونی عذاب دیا جائیگا جو بیرونی عذاب سے زیادہ سخت ہوتا ہے اسی مفہوم کو ایک شاعر نے اس طرح ادا کیا ہے کہ ؎
دُخُوْلُ النَّارِ لِلْمَھْجُوْرِ خَیْر’‘
مِنَ الْھِجْرِ الَّذِیْ ھُوَ یَتَّقِیْہِ
لِاَنَّ دُخُوْ لَہ‘ فِی النَّارِ اَدْنٰی
عَذَابًا مِنْ دُخُوْلِ النَّارِ فِیْہِ
یعنی ایک مہجور انسان جو اپنے محبوب کے فراق میں نالہ و فریاد کر رہا ہو اس کا آگ میں داخل ہو جانا اس جدائی کی آگ سے زیادہ آسان ہوتا ہے جس سے وہ بچنا چاہتا ہے ۔ کیونکہ اس کا آگ کے اندر داخل ہونا اس سے کم تکلیف دہ ہے کہ آگ اس کے اندر داخل ہو جائے اور وہ اس کے رگ و ریشہ کو جلا کر راکھ کر دے۔ اسی محاورہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ آگ میں داخل کئے جائیں گے بلکہ فرمایا کہ وہ آگ اپنے پیٹوں میں ڈال رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے ایک اندرونی جہنم تیار کر رہے ہیں ۔ گویا اس آیت میں سبب کی جگہ مسبب استعمال ہوا ہے۔
وَلَایُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یُوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے قیامت کے دن کلام تک نہیں کرے گا۔ یہ ایک عظیم الشان نکتہ تھا۔ جسے افسوس کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے فراموش کر دیا۔ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ان سے نہیں بولیگا۔ حالانکہ قیامت کا دن وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافروں سے بھی کلام کرے گا ۔ جیسا کہ دوسری جگہ قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَیُوْمَ یُنَّادِیْھِمْ فَیَقُوْلَ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ(قصص آیت۶۶) یعنی اس دن خداتعالیٰ کفار کو پکارے گا اور کہیگا تم نے میرے رسولوں کے پیغام کا کیا جواب دیا تھا ۔ پس قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کا کفار سے بھی کلام کرنا ثابت ہے تو بعض لوگوں سے اس کا
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ
عَلَی النَّارِo
منہ پھیر لینا اور ان سے کلام تک نہ کرنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے شدید ناراض ہو گا۔ ار وہ نہیں چاہیگا کہ ان سے زجر کے رنگ میں بھی کلام کرے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کا کلام نہ کرنا اس کی ناراضگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر اس زمانہ کے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا اپنے بندوں سے کلام نہ کرنا نعوذباللہ ایک بڑی نعمت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل امتِ محمدیہ کو حاصل ہوئی حالانکہ خیرِ اُمت کی علامت یہ ہونی چاہیے تھی کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت کا دروازہ ان پر زیادہ سے زیادہ کھولتا اور پہلی قوموں سے بھی زیادہ نہیں شرفِ مکالمہ و مخاطبہ عطا فرماتا۔ مگر انہوں نے زحمت کو رحمت سمجھ لیا اور خداتعالیٰ سے دوری کو ایک انعام سمجھ کر اُسے حرز جان بنا لیا۔
اس آیت کا ایک یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کا کلام نہیں کریگا۔ اور یہ عام محاورہ ہے ہماری زبان میں بھی کہتے ہیں کہ میں تم سے بات نہیں کرونگا۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میں تم سے دوستانہ کلام نہیں کرونگا پس اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس روز ان سے دوستانہ کلام نہیں کریگا۔ بلکہ اس کا کلام ایسا ہی ہوگا جیسے ایک جج کسی مجرم کو سزا کاحکم سُناتے وقت کلام کرتا ہے ۔ مگر بہر حال خواہ کوئی معنے لئے جائیں خداتعالیٰ کا ترک گفتگو اس کی ناراضگی کی نشانی ہے۔ مگر مسلمان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نعوذباللہ خداتعالیٰ کا اُمت محمدیہ پر یہ انعام نازل ہوا کہ اس نے ان سے کلام کرنا ترک کر دیا اور وحی اور الہام کے سلسلہ کو منقطع کر دیا۔
پھر فرمایا وَلَا یُزَکِّیْھِمْ۔ چونکہ اسلام کی رو سے کفار کو دوزخ میں ڈالنے کی غرض ہی یہی ہے کہ ان کا تزکیہ ہو اس لئے وَلَا ئُزَکِّیْھِمْ کے یہ معنے نہیں کہ وہ انہیں پاک نہیں کریگا۔ بلکہ یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک قرار نہیں دے گا۔
ترتیب وربط:۔ ان آیات میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ساتھ ہی یہود کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے چنانچہ اِنَّمَا حَرَّ مَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ میں ان کے اس اعتراض کو دور کیا گیا ہے کہ یہ نبی ان چیزوں کو کیوں حلال کرتا ہے جو شریعت موسویہ میں حرام تھیں۔اگر یہ ان پیشگوئیوں کا مصداق ہے تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہیہ اعتراض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ جو احکام کسی خاص وقت کے مناسب حال تھے ان کو دوام کا رنگ نہیں دیا جا سکتا تھا اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے یہود کے ہاں اونٹ حرام تھا۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت حلال تھا۔ پس جس طرح موسیٰ علیہ السلام سے قبل بعض چیزیں حلال تھیں اور کئی انبیاء تک ان کو استعمال کرتے رہے مگر بعد میں ان کو حرام کر دی گیا۔ اسی طرح موسوی شریعت کے بعد بھی خداتعالیٰ اختیار رکھتا تھا کہ وہ بعض حرام سمجھی جانے والی چیزوں کو حلال کر دیتا۔ پس اس پر اعتراض کرنا نادانی کی علامت ہے۔
۸۹؎ حل لغات:۔ اِشْتَرٰی اور اَلضَّلٰلَۃَ کی حل لغات کے لئے دیکھیں تفسیر سورۃ بقرہ حل لغات۱۷؎
نیز اَلْھُدٰی کی حل لغات کیل ئے دیکھیں سورۃ البقرۃ حل لغات۳؎ اور ۷؎۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ
شِقَاقٍم بَعِیْدٍo
تفسیر:۔ فرماتا ہے یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کی بجائے گمراہی اور مغفرت کی بجائے عذاب کو اختیار کر لیا ہے۔ پس آگ کے عذاب پر ان کی برداشت تعجب انگیز ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کوئی جبر نہیں کیا بلکہ اُسے نیکی اور بدی کے اختیار کرنے پر کامل مقدرت بخشی ہے۔ اور پھر انبیاء کے ذریعہ اس نے بنی نوع انسان کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ ہدایت کی اہے اور ضلالت کیا ہے اب یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی عطا کر دہ عقل اور اس کے کلام سے فائدہ اٹھا کر ہدایت کی راہ اختیار کرے یا شیطان کے پیچھے چل کر ضلالت کو اختیار کر لے اگر وہ ضلالت کو ہدایت پر ترجیح دیتا ہے تو اس کے نتائج بھی طبعی طور پر اسے عذاب کی صورت میں برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی اس جسارت اور نابینائی پر تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ اور فرماتا ہے فَمَا اَصْبَرَ ھُمْ عَلَی النَّارِ۔ جب انہوں نے مغفرت پر عذاب کو ترجیح دی ہے تو ان کو عذاب کو برداشت کر لینے کی جرات بڑی تعجب انگیز ہے۔
اس آیت کے متعلق یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا خداتعالیٰ بھی تعجب کا اظہار کیا کرتا ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات کلام میں حقیقی تعجب مراد نہیں ہوتا بلکہ اس سے یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ کیسی بے وقوفی کر رہے ہیں کیا یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی جسے اپنے اوپر وارد کر کے وہ صبر کرتے ۔ پس فَمَا اَصْبَرَ ھُمْ عَلَی النَّارِ کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ واقعہ میں بڑے صبر کرنے والے ہیں اور خداتعالیٰ ان کے صبر کی تعریف کر رہا ہے یا ان کے صبر پر تعجب کا اظہار کر رہا ہے بلکہ یہ تعریض ہے اور اس سے لوگوں کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان بیوقوفوں کی موجودہ حالت بتاتی ہے کہ یہ لوگ عذاب پر بہت ہی صبر کرنیوالے ہیں۔ نہ یہ کہ عذاب پر وہ واقعہ میں صبر کرینگے کیونکہ معمولی عذاب بھی انسان کی قوتِ برداشت سے باہر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر مَا کو استفہامیہ قرار دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ کس چیز نے انہیں آگ پر صبر کرنیوالا بنا دیا؟ اور اگرمَا کو فافیہ قرار دیا جائے تو پرھ اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ مَااَصْبَرَ ھُمُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ۔ اللہ تعالیٰ انہیں آگ پر صبر نہ دے۔یعنی خوب سزا دے اور وہ سزا ان کو اچھی طرح محسوس ہو۔
۹۰؎ حل لغات:۔شِقَاق’‘: شَاقَّ کا مصدر ہے اور شَاتہ‘ کے معنے ہیں خَالَفَہ‘ وَعَادَاہُ۔ وَحَقِیْقَتُہ‘ اَنَّ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا فِیْ شِقٍّ غَیْرِ شِقِّ صَلِبِہٖ یعنی اس نے اس کے مخالفت اور دشمنی کی اور اس کی حقیقت معنے یہ ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی مخالف جانب سے آیا(اقرب)
تفسیر:۔ فرماتا ہے یہ عذاب انہیں اس وجہ سے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بڑے بھاری احسانات سے کام لیتے ہوئے انہیں ایک ایسا قانون بخشا تھا جس کا ایک ایک حرف صداقت پر مشتمل ہے۔ مگر ان لوگوں نے انتہا درجہ کی عداوت اور دشمنی میں مبتلا ہونے کی وجہ
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ
ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo
سے اُسے ٹھکرا دیا۔ اور خدائی پیغام کے منکر بن گئے۔
شِقَاقٍ بَعِیْدٍ سے ایسی عداوت مراد ہے جو اپنی شدت میں انتہا درجہ تک پہنچی ہوئی ہو اور جس کا سلسلہ ایک طویل مدت تک بھی منقطع نہ ہو۔
۹۱؎ حل لغاتـ:۔ اَلْبِرُّ: اَلصِّلَۃُ وَ الطَّاعَۃُ وَالصِّدْقُ۔ بِرّ کے معنے صلہ رحمی اطاعت اور سچائی کے ہیں(اقرب)
مفرداتِ امام راغب میں لکھا ہے۔ اَلْبِرُّ: اَلتَّوَسُّعُ فِیْ فِعْلِ الْخَیْرِ۔ پھر لکھا ۔ بَرَّ الْعَبْدُ رَبَّہ‘ اَیْ تَوَ سَّعَ فِیْ طَاعَتِہٖ فَمِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ اَلثَّوَابُ وَفِی الْعَبْدِ الَطَّاعَۃُ۔ یعنی بِرّ کے معنے ہیں نیکی میں وسعت اختیار کرنا۔ چنانچہ بَرَّ الْعَبْدُ رَبَّہُ کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں وسعت اختیار کی۔ برّ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس سے مراد ثواب دینا ہے اوراگر بندے کی طرف منسوب ہو تو اس سے مراد اطاعت کرنا ہے۔
اَلْبَاسَآئُ کے معنے ہیں اَلشِّدَّۃُ شدت (۲) اِسْم’‘ الْحَرْبِ جنگ (۳) اَلْمُشَقَّۃُ وَالضَّرْبُ مشقت اور مار۔
اَلضَّرَّآء کے معنے ہیں(۱)اَلزَّمَانَۃُ قحط (۲) اَلشِّدَّۃُ سختی و مصیبت (۳) اَلنَّقْصُ فِی الْاِمْوَالِ وَالْا نْفُسِ مال اور افرادمیں کمی (۴) فَظِیْضُ السَّرَّآئِ یہ سَرَّاء یعنی فراخی کا اُلٹ ہے۔(اقرب)
اَلْبَاسُ: کے معنے ہیں (ا) اَلْفَقْرُ مالی مشکلات۔ (۲) اَلْعَذَابُ عذاب (۳) اَلشِّدَّۃ فِی الْحَرْبِ جنگ کی سختی (۴) اَلْقُوَّۃُ قوت ۔ قرآن کریم میں آتا ہے وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْس’‘ شَدِیْد’‘ کہ ہم نے لوہے کو نازل کیا جس میں بڑی قوت ہے۔
تفسیر:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیکی اور تقویٰ کے متعلق اسلامی نقطہء نگاہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور بتایا کہ حقیقی نیکی کس چیز کا نام ہے۔ اگر غور سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں نیکی اور تقویٰ کے متعلق بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور مختلف جماعتوں اور مختلف قوموں اور مختلف زمانہ کے لوگوں کے نزدیک نیکی کی تعریف مختلف رہی ہے۔ غرباء نیکی کی کچھ اور تعریف کرتے ہیں اور اُمراء کچھ اور کرتے ہیں۔ پھر ممالک کے لحاظ سے بھی نیکی کی تعریف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں حاجی بڑے نیک شمار ہوتے ہیں یہاںتک کہ ایک شخص خواہ صوم و صلوٰۃ اور دوسرے احکام شرعی کا کتنا ہی پابند کیوں نہ ہو لگ اس کے مقابلہ میں حاجی کو ترجیح دینگے خواہ اس نے سفر حج میں اپنے اوقات فضول اور لغو طور پر ہی ضائع کئے ہوں۔ اور حج کرنے کے بعد بھی اپنے اندر کوئی تغیر پیدا نہ کیا ہو۔ اور صوم و صلوٰۃ کا بھی چنداں پابند نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک ریل کے سٹیشن پر ایک نابینا بڑھیا بیٹھی تھی کہ ایک شخص نے اس کی چادر اُٹھالی۔ بڑھیا کو جب پتہ لگا کہ چاردر غائب ہے تو اس نے آواز دی کر کہا۔ کہ بھائی حانی! مجھ غریب کی چادر کیوں لی ہے۔ میرے پاس تو اَور کوئی کپڑا نیہں میں تو سردی سے ٹھٹھر کر مر جائوں گی۔ وہ چادر تو اس شخص نے لا کر رکھ دی مگر پوچھا کہ تجھے کس طرح پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ ایسے کام حاجی ہی کیا کرتے ہیں۔ اب دیکھو کووہ عورت اس سے واقف نہ تھی ار نہ اس کی آنکھیں سلامت تھیں مگر اس نے پہچان لیا کہ ایسی سنگدلی حاجی میں ہی پائی جاسکتی ہے لیکن باوجود اس کے پھر بھی عام طور پر ہمارے ملک میںحاجیوں کو بڑا نیک سمجھا جاتا ہے لیکن عرب میں جائو تو وہ لوگ حج کو نیکی قرار دینگے۔ بلکہ ان میں نیکی سخاوت کو سمجھا جائیگا۔ وہ لوگ اگر کسی کی نیکی کی تعریف کرینگے تو کہنگے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے کیونکہ بڑا سخی ہے۔ اسی طرح اب یورپ میں اسلام پھیلے تو وہاں روزے کو بڑی نیکی سمجھا جائیگا کیونکہ وہ لوگ کثرت سے کھانے پینے والے ہیں۔ پس جب ان کو کھانے پینے سے رکنا پڑے گا تو وہ حج اور زکوٰۃ اور نما زوغیرہ احکام شرعی کی بجا آوری کو اعلیٰ نیکی قرار دینے کی بجائے صرف روزہ رکھنے کو سب سے بڑی نیکی قرار دینگے۔ پھر ہمارے ملک میں یہ بھی بڑی نیکی خیال کی جاتی ہے کہ کوئی شخص نماز کا پابند ہو۔ ایسے شخص کے متعلق بھی لو گ کہتے ہیں کہ بڑا نیک ہے کیونکہ نماز پا بند ہے۔ لیکن صحابہؓ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندی نماز نہیں تھا کیونکہ وہ لوگ نیکی کے اس اعلیٰ مقام پر کھڑے تھے جہاں صرف پابندے نماز کو بڑی نیکی قرار دینا ایسی ہی بات تھی جیسے کہا جائے جلاں شخص بڑا بہادر ہے کیونکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا ہے یا فلان شخص بڑا تیز نظر ہے کیونہک اس کی ماں جو اس کے پاس بیٹھی تھی اسے اس کی پہچان لیا ہے۔ یا فلاں شخص کا معدہ بڑا ہی مضبوط ہے کیونکہ اس نے ایک چنا ہضم کر لیا۔ پاس جیسا کہ بہادری تیز فطری اور مضبوطی معدہ کے یہ معیار نہایت مضحکہ خیز ہیں اسی طرح صحابہؓ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندی نماز مضحکہ خیز تھا۔ کیونکہ وہ لوگ دین کے لئے بڑی بری قربانیاں اور سخت آزمائشوں کو نیکی سمجھتے تھے اور جس شخص میں یہ باتیں زیادہ پاتے تھے اس کو نیک سمجھتے تھے پس نیک اور نیکی کی تعریف ہر زمانہ ہر ملک ہر قوم میں جُدا جدا اور مختلف رہی ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ پھیرنا کوئی نیکی نہیں۔ اگر کوئی شخص قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور اُس کی نماز میں وہ اخلاص نہیں جو حقیقی نماز میں ہوتا ہے تو اسے قبلہ کی طرف منہ کر کے بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ نیکی منہ کے کسی طرف پھیر لینے کا نام نہیں۔ بلکہ نیکی نام ہے اس کیفیت کا جو دل کے اندر پیدا ہوتی ہے اور ظاہری حرکات اس کیفیت کا ایک نشان ہیں۔ پس اگر ان ظاہری حرکات میں وہ چیز نہیں جس کا دل سے تعلق ہے تو یہ ظاہری حرکات کچھ چیز نہیں۔ محض قبلہ کی طرف رُخ کرنا یا نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا یا حج کرنا یہ تمام باتیں دلی کیفیت نہ ہونے کے باعث ہیج ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ یہ وہ ہتھیار ہیں جو بغیر اس قلبی کیفیت کے دُند اور ناکارہ ہوتے ہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص کے پاس تلوار تو ہو مگر کُند ہو یا ہتھیار تو ہوں مگر زنگ خوردہ ہوں پس جس طرح ہتھیاروں کی قیمت ان کی تیزی اور صفائی سے وابستہ ہے اسی طرح ان اعمال کی قدروقیمت خداتعالیٰ کی نظر میں اُسی وقت ہوتی ہے جبکہ ان کے ذریعے خداتعالیٰ کی رضا جوئی مقصود ہو۔
اس آیت میں نیکی کی علامات بیان کی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کے نزدیک حقیقی نیکی کیا چیز ہے فرماتا ہے مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنا نیکی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاص اور سوز و گداز کی کیفیت بھی ہونی چاہیے اگر اس کے نتیجہ میں دُوائوں اور ذکرِ الہٰی کی عادت پیدا نہیں ہوتی اگر اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔ اگر اس کے نتیجہ میںیتیموں اور غریبوں اور مسکینوں کی محبت ترقی نہیں کرتی تو محض مشرق و مغرب کی طرف منہ کر لینا کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ مشرق و مغرب کی طرف منہ پھیرنے کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس لئے ذکر فرمایا ہے کہ چند رکوع قبل اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَ لُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ(آیت۱۱۶) یعنی اے مسلمانو! بے شک آج تم کمزور سمجھے جاتے ہولیکن یاد رکھو مشرق و مغرب سب اللہ کا ہی ہے ہم ایک دن ان لوگوں سے حکومت چھین کر تمہیں مشرق و مغرب کا حکمران بنا دینگے اور تم جس طرف بھی اپنے لشکر لے کر نکلو گے تم اللہ کے وجود کو جلوہ گر پائوگے یعنی قدم قدم پر تمہیں فتوحات نصیب ہو نگی اور قدم قدم پر خداتعالیٰ تمہارے لئے اپنے نشانات ظاہر فرمائیگا۔ پس چونکہ مسلمانوں کی دنیوی فتوحات کی پہلے پیشگوئی کی جا چکی ہے جس کے مطابق انہوں نے مشرق و مغرب کا حکمران بننا تھا۔ اور جب کسی قوم کو دنیوی فتوحات حاصل ہو جائیں تو اس بات کا شدید خطرہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں دنیا کی طرف ہی نہ جھک جائے اور خداتعالیٰ سے مخلصانہ تعلق جو اس کی فتوحات کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے اس کو نظر انداز نہ کر دے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو ان کی اعتقادی اور عملی اصلاح کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَ لُّوْا وُجُوْ ھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ یعنی کامل نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق و مغرب کے ملکوں پر اپنا تسلط جما لو اور فتوحات پر فتوحات حاصل کرتے چلے جائو بے شک یہ بھی اللہ تعالی کا ایک بڑا بھاری انعام ہے مگر کامل نیکی صرف مادی فتوحات کا نام نہیں بلکہ نام ہے اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر اور ملائکہ پر اور قرآن کریم پر اور تمام نبیوں پر سچے دل سے ایمان لانیکا اور کامل نیکی نام ہے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سائلوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے اپنے اموال خرچ کرنے کا ۔ اسی طرح کامل نیکی نام ہے نمازیں قائم کرنیکا اور زکوٰۃ دینے کا اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے کا اور مالی مشکلات اور بیماریوں اور جنگ میں صبر اور استقامت سے کام لینے کا پس بے شک دنیوی فتوحات بھی حاصل کرو مگر اس بات کو مت بھولو کہ صرف ملکوں پر غلبہ حاصل کرنا تمہارا مقصود نہیں بلکہ تمہارا مقصد اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنا اور اس کی مخلوق کی سچی خدمت کرنا ہے اور یہی وہ غرض ہے جو ہر وقت تمہاری نظروں کے سامنے رہنی چاہیے اس کے بعد فرماتا ہے وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بَاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ اس حصہ آیت کا لفظی ترجمہ یہ بنتا ہے کہ’’ نیکی وہ ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ معنے درست نہیں۔ اَلْبِرَّ اسم ہے اور اس کے بعد ایسی خبر آنی چاہیے جو اس کے مطابق ہو۔ لیکن مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اس کے مطابق نہیں ۔ اسلئے یہاں بعض الفاظ محذوف سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ نحویوں نے اس کی تین توجیہات کی ہیں۔ اول مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ میں مَنْ سے پہلے بِرُّ کا لفظ محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ بِرُّ مَنْ اٰمَنَ یعنی کامل نیکی تو اس شخص کی نیکی ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر سچے دل سے ایمان لایا۔ عربی زبان میں بالعموم ایسا ہوتا ہے کہ مضاف کو حذف کر دیا جاتا ہے جیسے سورہ یوسف میں آتا ہے وَاسْئَلِ الْقَرْیَۃَ اس کے لفظی معنے یہ ہیں کہ بستی سے پوچھو۔حالانکہ بستی سے کوئی نہیں پوچھا کرتا بلکہ بستی والوں سے پوچھا کرتا ہے۔ پس جس طرح وَاسْئَلِ الْقَرْیَۃَ سے مراد وَاسْئَلْ اَھْلَ الْقَرْیَۃِ ہے اور اس جملہ میں اھل کا لفظ محذوف ہے۔ اسی طرح مِنْ اٰمَنَ سے پہلے بَرُّ کا لفظ محذوف ہے(سیبو یہ جلد اول صفحہ۱۰۸)
دوسری صورت یہ ہے کہ اَلْبِرُّ کو مصدر سمجھ کر اس کے معنے اسم فائل کے لئے جائیں اور عبارت کا مفہوم یہ نکالا جائے کہ وَلٰکِنَّ الْبَآرَّ مَنْ اٰمَنَ یعنی بڑا نیک اور محمد رسو ل اللہ ؐ کا کامل متبع وہ ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر اور کتبِ سماویہ پر اور سارے نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اپنے مال کو بوجود تنگی کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے غریبوں میں تقسیم کر تا رہتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ اَلْبِرُّ کے لفظ سے پہلے ذُوْ کا کلمہ محذوف سمجھا جائے اور عبارت یوں ہو کہ وَلٰکِنْ ذَالْبِرِّمَنْ اٰمَنَ یعنی کامل نیکی رکھنے والا وہ شخص ہے جو اللہ پر ایمان لایا۔گویا اس آیت کے مفہوم کو تین صورتیں واضح کرتی ہیں اور آیت کے اگلے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوںصورتیں ہی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہیں۔ کیونکہ اس آیت کے بعد وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ کے الفاظ آتے ہیں اور اَلْمُوْفُونَ حالتِ رفع میں ہے اور اَلصَّابِرِیْنَ حالتِ نصب میں۔ اگر اَلْبَارَّ مَنْ اٰمَنَ یا ذَاالبِّرِ مَنْ اٰمَنَ والی ترکیب صحیح سمجھی جائے تو اَلْمُوْفُوْنَ مرفوع نہیں آسکتا۔اور اگر بِرُّ مَنْ اٰمَنَ صحیح سمجھا جائے تو الَصَّابِرِیْنَ حالت نصبی میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت دو مختلف کلمات کو دو صورتوں میں استعمال کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ یہاں تینوں صورتیں ترکیب کے لحاظ سے درست ہیں اور تینوں معنے ہی خداتعالیٰ کے منشا کے مطابق ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی کے لئے پہلی شرط جو کسی صورت میں بھی بدل نہیں سکتی یہ ہے کہ انسان کو ایمان باللہ حاصل ہو ۔ کبھی کوئی زمانہ ایسا نہیں آسکتا جس میں یہ کہا جا سکے کہ ایمان باللہ کی اب ضرورت نہیں رہی۔ دوسرے یوم آخرت پر ایمان ہو۔ یہ حکم بھی کبھی نہیںبدل سکتا ۔تیسرے ملائکہ پر ایمان ہو یہ صداقت بھی ہمیشہ سے چلی آئی ہے اور چلی جا ئیگی ۔چہارم کتاب یعنی وحی الہٰی پر ایمان ہو۔ اس جگہ الکتاب کا لفظ اللہ تعالیٰ نے واحد رکھا ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی نیہں ہونی چاہیے کہ کسی ایک کتاب پر بھی ایمان لانا کافی ہے بلکہ الکتاب سے مراد یہ ہے کہ وہ ساری وحی الہٰی پر ایمان لانے والا ہو۔ خواہ کسی پہلے زمانہ میں نازل ہو چکی ہو۔ یا آئندہ نازل ہو۔ پنجم اسے نبیوں پر ایمان ہو۔ یہ پانچوں نیکیاں ایسی ہیں جن کے بغیر کبھی کوئی شخص روحانیت کا ادنیٰ سے ادنیٰ مقام بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اعمال کی طرف توجہ کی ہے اور سب سے پہلے مال خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے مگر اس کے لئے بھی صرف اٰتَی الْمَالَ نہیں فرمایا کیونکہ اگر انسان ناجائز طور پر مال خرچ کر دے تو یہ نیکی نہیں بلکہ بدی ہے۔ اس لئے اٰتَی الْمَالَ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے عَلیٰ حُبِّہٖ رکھا اور حُبِّہٖ کی ضمیر مال کی طرف جا سکتی ہے اور اِیْتَائِ مال کی طر ف بھی جا سکتی ہے اور اس شخص کی طرف بھی جا سکتی ہے جسے مال دیا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ اٰتَی الْمَالَ عَلیٰ حُبِّ الْمَالِ یعنی باوجود مال کے وہ اُسے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّ اِیْتَا ئِ الْمَالِ۔ یعنی وہ اپنا مال چٹی سمجھ کر نہ دے بلکہ اُسے صدقہ و خیرات دینے کا شوق ہو۔ اور وہ اس نیکی میں ایک لذت محسوس کرتے ہوئے اپنا مال پیش کرے۔ تیسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ جسے مال دے اسے ذلیل سمجھ کر نہ دے بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر دے۔ اسی طرح اس کی عادات بگاڑنے کے لئے نہ دے بلکہ اس لئے دے کہ وہ اُسے اچھے کاموں میں لگائے۔ اورترقی کرے۔ چوتھی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّ اللّٰہِ ہو اللہ کی رضا اور اس کی محبت کے حصول کے لئے مال دے کوئی دنیوی مفاد یا شہرت اس کے پیچھے کام نہ کر رہی ہو۔ ان چار شرائط کے ساتھ مال خرچ کرنا کبھی ناپسندیدہ نہیں ہو سکتا۔ یا یوں سمجھ لو کہ یہ مال خرچ کرنے کے چار مدارج ہیں پہلا درجہ ادنیٰ ہے جس کی طرف قریب کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ دوسرا درجہ ادنیٰ ہے جس کی طرف قریب کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ دوسرا درجہ اس سے اعلیٰ ہے ۔ تیسرا درجہ اس سے بھی اعلیٰ ہے اور چوتھا درجہ سب سے اعلیٰ ہے۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں مال کی محبت ہو اور پھر بھی وہ اسے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ نیک کاموں میں روپیہ خرچ کرنے کی اُسے عادت ہو گئی ہو اور اس کا مزہ اس نے چکھا ہوا ہو جس کی وجہ سے وہ خود دلی شوق اور محبت سے اس قسم کی نیکیوں کی تلاش میں رہے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ جسے مال دیا جائے اُسے اپنا بھائی سمجھ کر دیا جائے تاکہ وہ اُسے اچھے کاموں میں لگائے اور ترقی کرے لیکن پھر اس سے بھی اوپر ایک اور درجہ ہے اور وہ یہ کہ اس کے اس انفاق میں خالص اللہ تعالیٰ کی محبت کام کر رہی ہو۔ وہ اس وجہ سے مال خرچ نہ کرے کہ اسے مال خرچ کرنے کی عادت ہو چکی ہے یا اُسے اپنے غریب بھائیوں سے محبت ہے بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا اس کے پیش نظر ہو اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے وہ دوسروں سے حسنِ سلوک کرے۔ یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور اسے صوفیاء نے اتنا بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض نے یہاںتک کہا ہے کہ ہمیں نہ جنت کی ضروت ہے نہ دوزخ کی بلکہ صرف خداتعالیٰ کی ضرورت ہے ۔ اگر خداتعالیٰ دوزخ میں پڑنے سے ملتا ہو تو ہم اس میں بھی جانے کے لئے تیار ہیں ۔ یہ بہت بلند مقام ہے۔ کیونکہ اس مقام پر سوائے خداتعالیٰ کے اور کوئی چیز انسان کے سامنے نہیں رہتی صرف خدا ہی خدا رہ جاتا ہے اوفر اس کا حُسن انسان پر اس قدر ممستولی ہو جاتا ہے کہ اس کے سوا کوئی اور چیز اُسے نظر ہی نہیں آتی۔
اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ خدا کی محبت کے لئے کہاں خرچ کرے۔ سو اس کی تشریح بھی کر دی اور بتایا کہ (۱) وہ قرابت والوں کو دے اس لئے کہ انسان پر ان کا بڑا حق ہوتا ہے۔ مثلاً ماں پاب ہیں جو بچوں کی پرورش اور ان کی نگہداشت کے لئے اتنی بڑی قربانیاں کرتے ہیں جن کی مثال کسی اور جگہ نہیں مل سکتی۔ اسی طرح دوسرے رشتہ دا اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ اگر وہ حاجت مد ہوںت و ان کی امداد کی جائے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ (۲) پھر فرمایا کہ وہ یتامیٰ کو دے چونکہ ان کی خبر گیری کرنیوالا کوئی نہیں ہوتا اس لئے ان کے حقوق کو مدنظر رکھنے کی تعلیم دی۔ (۳) تیسرے نمبر پر مساکین کو رکھا جن کے پاس اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مال بھی نہیں ہوتا۔ اور وہ لوگوں کے سامنے دست سوال بھی دراز نہیں کرتے۔ گویا وہ اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں کہ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَانًا۔ وہ غربت کے باوجود اپنے اندر اخلاقی بلندی رکھتے ہیں اور اپنے و قار کو قائم رکھنے کے لئے دوزروں سے مانگنے کی ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔(۴) چوتھے نمبر پر مسافر کو رکھا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے غربت کی شرط نہیں لگائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں غربت مسافروں کی امداد کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں اگر کسی اسودہ حال مسافر کی مدد کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے وہ مالدار تو ہو مگر راستہ میں اس کا مال ضائع ہو گیا ہو۔ اگر ایسا ہو تو وہ بطور حق بھی لے سکتا ہے اور کوئی چیز گرد رکھ کر بھی اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ اسی طرھ حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ ملکی اور غیر ملکی مسافروں اور سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے بعد پانچویں نمبر پر سائل کو رکھا۔ اس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ غریب اورمفلس ہے تو اُسے ابن السبیل کہ اجا سکتا ہے کہ اگر وہ غریب اور مفلس ہے تو اُسے ابن السبیل کے بعد کیوں رکھا ہے۔
سو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے سوال کرنا پسندیدہ قرار نہیں دیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جس شخص کے پاس ایک وقت کا کھانا ہے اور پھر بھی وہ سوال کرتا ہے وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ اسی طرح حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غصہ آیا اور آپ نے اس سے آٹا چھین کر اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور فرمایا اب مانگ آپ کی اس سے غرض یہ تھی کہ وہ لوگوں کے لئے بار نہ بنے بلکہ خود کام کرے اور دوسروں سے مانگ کر کھانے کی ذلت سے بچے پس چونکہ اسلام نے مانگ کر کھانا ناپسند کیا ہے اس لئے یہ بتانے کیلئے کہ سوال کرنا ایک ناپسندیدہ امر ہے مسائل کو سب سے آخر میں رکھا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں اعلیٰ درجہ کے اخلاق پیدا ہوں اور بجائے اس کے کہ لوگ سوال کرتے پھریں۔ وہ خود لوگوں کی ضروریات کا پتہ لگا کر ان کو پورا کیا کریںتاکہ ان کے لئے سوال کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
وَفِی الرِّقَاب۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر روپیہ خرچ کرنے کا ذکر کیا ہے جو قید میں پڑے ہوئے ہوں۔ اس جملہ میں ایک مضاف محذوف ہے جو فَکُ کا لفظ ہے۔ یعنی اصل عبارت یوں ہے کہ وَفِیْ فَکِّ الرِّقَابِ۔ اس گروہ کو پیچھے رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں میں زیادہ تر غیر مذاہب کے ہی قیدی ہو سکتے ہیں۔ اور قاعدہ ہے کہ اقرب کا حق دوسروں سے مقدم ہوتا ہے۔ ابن السبیل کو تو مہمان کے طور پر رکھا ہے کہ خواہ وہ کافر ہو اُسے بھی دو۔ مگر قیدی تو ایسے ہی لوگ ہونگے جو مسلمانوں کے مقابلہ میںلڑائی کے لئے آئے ہونگے۔ اس لئے فِی الرِّقَابِ کو بعد میں رکھا۔ لیکن یہ بھی اسلام کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ اُسی شخص کے متعلق جو مسلمانوں کو مارنے کے لئے آیاتھا کہتا ہے کہ اسے روپیہ دے کر آزاد کرادو۔ اسی طرح فِی الرِّقَابِ میں قرضدار اور ضامن کو امداد دینا بھی شامل ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہر قسم کے صدقات دیئے لیکن غلام آزاد کرنیکا موقعہ نہیں ملا میں جب حج کے لئے مکہ گیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ اگر سو دو سو روپیہ میں کوئی غلام مل جائے تو میری طرف سے آزاد کر دینا مگر مجھے کوئی غلام نہ ملا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی بھی توفیق عطا فرمادی۔ چنانچہ مرزا محمد اشرف صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ کی روایت ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے دو غلام آزاد کر وا دیئے تھے۔
پھر فرماتا ہے وَاَتَامَ الصَّلوٰۃَ وَاٰتَی الذَّکوٰۃَ کامل نیک وہ شخص ہے جس نے نماز کو قائم رکھا اور زکوٰۃ دی۔ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے وسیع معنے ہیں۔ مگر شریعت نے ان کو اپنی ایک مخصوص اصطلاح نماز اور زکوٰۃ ہی مراد ہے۔ جن میں سے ایک خدا اور انسان کے تعلقات کو استوار کرتی اور دوسری انسان اور انسان کے باہمی تعلقات میں رابط قائم کرتی ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ صرف مال خرچ کرنے سے تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتے۔ بلکہ تمہارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ تم نمازیں قائم کرو۔ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ گویا حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جب تک ایک منظم رنگ میں ادا نہ کیا جائے اُس وقت تک انسان نیکی کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتا۔
پھر فرمایا۔ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ۔ نیکی اورتقویٰ کا اعلیٰ مقام جن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے ان کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ معاہدات کی پابندی کرتے ہیں اور اگر لوگ ان پر سختی کریں یاظلم سے کام لیں تو وہ صبر سے کام لیتے ہیں۔ گویا ایک طرف تو وہ اسلامی تمدن کو قائم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور کبھی بدعہدی یا دھوکا بازی سے کام نہیں لیتے اور دوسری طرف اگر مذہبی قومی اور ملکی ضرورت کے لئے انہیں سختیاں بھی برداشت کرنی پڑیں تو وہ استقلال کے ساتھ ان کو برداشت کرتے ہیں اور استقامت کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں۔ اس جگہ عہد سے مراد صرف زبانی عہد ہی نہیں بلکہ تمدن سے تعلق رکھنے والے تمام اہم مسائل بھی اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ تمدن دنیا میں ایک دوسرے کے حقوق کی اسی رنگ میں حفاظت ہوتی ہے کہ ہر شخص سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے دائرہ سے تجاوز نہ کرے اور دوسروں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو تمدن کو قائم کرنے والے سمجھے جاتے ہیں اور اگر اس کے خلاف عمل کریں تو فتنہ و فساد پیدا کرنے والے قرار پاتے ہیں۔ اسلام چونکہ صلح و آشتی اور محبت کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے اس لئے اس نے کامل الایمان لوگوں کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ وہ معاہدات کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بتایا کہ وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَھِیْنَ الْبَاْسِ۔ وہ فقرہ فاقہ اور تنگیوں میں صبر سے کام لیتے ہیں اور جسمانی دکھوں اور مصائب میں بھی صبر سے کام لیتے ہیں۔ اس جگہ اَلْبَاسَآئِ سے مالی مشکلات اور ضَرَّاء سے جسمانی مشکلات اور امراض وغیرہ مراد ہیں اور بَاْس سے شدتِ حرب مراد ہے۔ گویا ادنیٰ سے اعلیٰ ابتلائوں کی طرف ترقی کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ یہ لڑائیاں جن کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے دوقسم کی ہو سکتی ہیں ایک وہ جو بھائیوں بھائیوں میں ہوں اور دوسری وہ جو غیروں سے ہوں۔ اگر آپس میں جھگڑا ہو تو وہ اَلصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ کے مطابق اپنے حقوق کو خود چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور سچے ہو کر جھوٹوں کا ساتذ لل اختیار کرتے ہیں اور اگر غیروں سے ہو تو وہ بھاگتے نہیں بلکہ دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے اور قیام امن کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتے ہیں۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَ قُوْا۔ فرماتاہے یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدق و وفا کا نمونہ دکھایا۔ وَاُولٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ اور یہی لوگ مصائب اور دکھوں سے نجات پانے والے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت اس لئے بیان کی کہ انسان کو سب سے زیادہ تکلیف اپنے حقوق کو پامال ہوتے دیکھ کر ہوتی ہے۔ دوسرے سے حسن سلوک کو تو وہ احسان سمجھتا ہے مگر جب کوئی شخص اُسے دکھ پہنچاتا ہے تو وہ اپنی ہتک محسوس کرتا ہے۔ پس چونکہ یہ ان کی غیر معمولی قربانی تھی کہ انہوں نے خدا کے لئے دوسروں کے مظالم سہے اس لئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو میں خصوصیت کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ یہ سچے اور راستباز لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے ہیں یعنی انہوں نے اپنے ایمان کو عملی طور پر سچا کر کے دکھا دیا ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو مصائب سے بچنے والے ہیں۔ کیونکہ مصائب اگر آسمانی ہوں تو ان کا علاج یہ ہوتا ہے کہ لوگ خداتعالیٰ پر ایمان لائیں اور اس کی عبادت کریں اور اگر تمدنی مصائب ہوں تو ان کا علاج یہ ہوتا ہے کہ تمدنی قوانین کو مدنظر رکھیں۔ اور یہ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر بھی عمل کرنے والے ہیں اور تمدنی خرابیوں سے بھی بچنے والے ہیں۔ پس یہ لوگ دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتے۔ جو قوم ذلیل یاہلاک ہو گی وہ یا تو خداتعالیٰ کو چھوڑ کر ہلاک ہو گی یا تمدنی قوانین کو نظر انداز کر کے اپنی ہلاک مول لے گی۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ
عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘ o
۹۲؎ حل لغات:۔ اَلْقِصَامُن: اَنْ یُّفْعَلَ بِہٖ مِثْلَ مَا فَعَلَہ‘ مِنْ قَتْلٍ اَوْقَطْعٍ اَوْضَرْبٍ اَوْ جَرْحٍ (لسان) عربی زبان میں قصاص کے معنے یہ ہیں کہ کسی شخص سے وہی سلوک کیا جائے جو اس نے قتل یا قطع یا ضرب یا زخم کرنے کی صورت میں دوسرے سے کیا ہے۔
تاج العروس میں لکھا ہے۔ اَلْقِصَاصُ اَلْقَتْلُ بِالْقَتْلِ وَالْجُرْحُ بِالْجُرْحِ کہ قصاص اس چیز کا نام ہے کہ قتل کے مقابلہ میں قتل اور زخم کے مقابلہ میں زخم کیا جائے۔
تفسیر:۔ بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سجھتے ہیں کہ اسلام نے قتل کے بارہ میں جوکچھ بیان کیا ہے صرف بائیبل کے تتبع میں کیا ہے خود اصولی رنگ میں اس بارہ میں کوئی ہدایت نہیں دی ۔ ان کے نزدیک یہودیوں کو جو یہ کہا گیا تھا کہ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنَ بِالْعَیقنِ وَ الْاَ نٰفَ بِالْاَ نْفِ وَالْاُ ذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنُّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحُ قِصَاص’‘(مائدہ آیت۴۶) یعنی جان کے بدلہ میں جان اور آنکھ کے بدلہ میں آنکھ اور ناک کے بدلہ میں ناک اور کان کے بدلہ میں کان اور دانت کے بدلہ میں دانت ار زخموں کے بدلہ میں زخم برابر کا بدلہ ہیں اس حکم کو قرآن کریم نے اس جگہ دُہرا دیا ہے مگر ان کا یہ خیال محض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے ۔ میرے نزدیک بنی نوع انسان کی مذہبی، سیاسی، تمدنی اور عائلی زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والا کوئی مسئلہ بھی ایسا نہیں جسے اسلام نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان نہ کیا ہو۔ بیشک وہ پہلے مذاہب کی تعلیموں کا بھی بعض مقامات پر ذکر کرتا ہے مگر نفس مسئلہ پردہ پہلے خود روشنی ڈالتا ہے اور اس کے متعلق ایک جامع اور کامل تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اس کے بعد وہ غیر مذاہب ولوں پر حجت تمام کرنے یا انہیں شرمندہ کرنے کے لئے ان کی تعلیموں کو بھی ان کے سامنے پیش کرتا ہے۔ تاکہ ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہوئے انہوں نے اس کے احکام کو کس طرح پسِ پشت پھینک رکھا ہے۔ اسج گہ بھی قصاص کی بنی نوع انسان کو جو تعلیم دی گئی ہے یہ یہودیوں کی اتباع میں نہیں دی گئی بلکہ ان احکام کے سلسلہ میں دی گئی ہے جو اکیسویں رکوع سے دئے جا رہے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو پچھلی آیات میں بتلایا گیاتھا کہ کامل الایمان لوگوں کی علامات یہ ہوتی ہیں کہ وہ بَاْسَآئَ میں بھی صبر کرتے ہیں اور ضَرَّآئَ میں بھی صبر کرتے ہیں اور حِیْنَ البَاْس بھی صبر کرتے ہیں یعنی خواہ ان پر مالی مشکلات آئیں اور فقروفاقہ تک ان کی نوبت پہنچ جائے تب بھی وہ جادہ استقامت پر قائم رہتے ہیں اور خواہ جسمانی مشکلات آئیں اور بیماریاں ان کو گھیر لیں تب بھی وہ صبر کرتے ہیں۔ اور خواہ لڑائیوں میں مارے جائیں تب بھیی وہ دشمن سے مرعوب نہیں ہوتے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ آخر یہ صبر کا سلسلہ کب تک لے گا۔ کیا لوگ ہمیں مارتے ہی چلے جائیں اور ہم خاموش بیٹھے رہیں اور اگر ایسا ہو تو ہماری زندگی کی کیا صورت ہو گئی؟ اس لئے فرمایا کہ تمہارا کام تو یہی ہے کہ تم صبر کرو لیکن کچھ اور لوگ جن کے سپرد حکومت کا نظام کیا گیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے ظالموں سے بدلہ لیں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں چنانچہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلیٰ میں انہی لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے اسجگہ ’’تم‘‘ سے صرف حکام مراد ہیں جو لاء اینڈ آرڈر یعنی نظم و ضبط کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ عام لوگ مراد نہیں۔ اور کُتِبَ کہہ کر بتایا ہے کہ حکام کا فرض ہے کہ وہ قصاص لیں ۔ حکام کو یہ اختیار نہیں کہ وہ معاف کر دیں۔ الَصَّابِرِیْنَ فِی البَاْسَآئِ وَالضَّرَّآء وَحِیْنَ الْبَاسِ میں تو عوام مخاطب تھے مگر کُتِبَ عَلَیْکُمْ میں صرف حکام سے خطاب کیا گیا ہے کہ وہ قصاص لیں۔ اور فِی الْقَتْلٰی کہہ کر تصریح کر دی گئی ہے کہ اس میں جروح شامل نہیں۔ اور درحقیقت یہی وہ آیت ہے جس میں قتل کی سزا کے متعلق اسلامی تعلیم بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قتل کی سزا قتل ہے۔ اور یہ عام حکم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فِی الْقَتْلیٰ فرمایا ہے کہ مقتولوں کے متعلق یہ حکم ہے یہ کوئی سوال نہیں کہ وہ مقتول کون ہو۔ اور کس قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ اس آیت کے سوا قتل ِ عمد کی دنیوی سزا کا ذکر قرآن کریم کی کسی اور آیت میں نیہں ہے پس یہی آیت ہے جس پر اسلامی فقہ کی بنیاد ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلمان میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا۔ نہ اس میں یہ ذکر ہے کہ کس کس آلہ سے قتل کرنے والے کی سزا قتل ہے بلکہ خواہ کسی آلہ سے کوئی شخص قتل کرے۔ اس کو قتل کیا جائیگا۔ بلکہ حدیثوں سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ ایک قتل کے کیس میں بعض دفعہ ایک سے زیادہ افراد کو بھی مارا گیا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ صَنْعَاء میں ایک شخص کو کئی لوگوں نے مل کر قتل کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سب کو جو تعداد میں سات تھے قتل کروادیا۔ اور فرمایا کہ اگر سارا شہر قتل میں شریک ہوتا تو میں سب کو قتل کرادیتا۔ (طحادی) اسی طرح حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ لَایَحِلُّ دَمُ اٍمْرِ ئٍ مُسْلِمٍ یَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَّابِاِحْدَیْ ثَلَاثٍ اَلثَّیِّبُ الزَّانِیْ وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِکُ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَا عَۃِ(مسلم کتاب القصاص) یعنی صرف تین گناہ ایسے ہیں جن کی بنا پر مسلمان کو قتل کرنا جائز ہے ۔ اول شادی شدہ شخص ہو اور پھر زنا کرے۔ دوم کوئی شخص قاتل ثابت ہو جائے ۔ سوم جو شخص اسلام کو چھوڑ کر جماعت مسلمہ سے الگ ہو جائے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ صحیح مسلم میں تو صرف یہی الفاظ بیان کئے گئے ہیں مگر نسائی میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ رَجُل’‘ یَخْرُجُ مِنَ الْاِسْلَامِ ئُحَارِبُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَ رَسُوْلَہ‘ فَیُقْتَلُ اَوْ یُصَلَّبُ اَوْ یُنْفیٰ مِنَ الْاَرضِ۔ (نسائی جلد ۲ کتاب تحریم الدم باب الصلب) یعنی وہ شخص جو اسلام کو چھوڑ کر مسلمانوں سے جنگ شروع کر دے۔ اس کے متعلق جائز ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے یا صلیب پر لٹکا دیا جائے یا اُسے جلا وطن کر دیا جائے۔یہ حدیث بتاتی ہے کہ عورت مرد کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ جو بھی قتل کریگا اسے قتل کیا جائیگا اور جان کے بدلہ جان لی جائیگی۔ اسی طرح مسند احمد بن جنبل بخاری۔ نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَتَلَ مُعَاھِدًا لَمْ یَرِحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی کافر معاہد کو مار دے وہ جنت کی خوشبو نہیں سونکھے گا۔ اور یہی سزا قرآن کریم میں ایک مسلمان کے قاتل کی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ یَّقْتُلْ مُوْ مِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَآئُ ہ‘ جَھَنَّمَ خَالِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ‘ وَاَعَدَّ لَہ‘ عَذَابًا عَظِیْمًا(نساء آیت۹۴) یعنی جو شخص کسی مومن کو دیدہ دانستہ قتل کر دے اس کی سزا جہنم ہو گی وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا اور اُسے اپنے قرب سے محروم کر دیگا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کریگا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے ۔ چنانچہ ابو جعفر طحاوی اپنی کتاب ’’شرح معانی الاثار‘‘ میں لکھتے ہیں۔ اِنَّ النَّبِیَّ صِلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُتِیَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ قَدْ قَتَلَ مُعَاھِدًا مِنْ اَھْلِ الذِّمَّۃِ فَاَمَرَ بِہٖ فَضُرِبَ عُنُقُہ‘ وَقَالَ اَنَا اَوْلٰی مَنْ وَنٰی بِذِ مَّیِہٖ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسلمان لایا گیا جس نے ایک معاہد کا فر کو جو اسلامی حکومت کی رعایا بن چکا تھا قتل کر دیا تھا آپ نے اس کے قتل کئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں عہد پورا کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ عہد کی نگہداشت رکھنے والا ہوں(نیل الاوطار جلد۶ صفحہ۲۸۳) اسی طرح طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت روایت کی ہے کہ ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر دیا تو آپ نے اس مسلمان کے قتل کئے جانے کا حکم دے دیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ لَا یُقْتَلُ مُوْمِن’‘ بِکَافِرٍ کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائیگا۔ مگر ساری حدیث دیکھنے سے بات حل ہو جاتی ہے۔ حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں کہ لَا یُقْتَلُ مُوْمِن’‘ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْعَھْدًفِیْ عَھْدِہٖ۔ اس حدیث کا یہ دوسرا فقرہ کہ وَلَاذُوْ عَھْدٍفِیْ عَھْدِہٖ اس کے معنوں کو حل کر دیتا ہے اگر اس کے یہ معنے ہوں کہ کافر کے بدلہ میں مسلمان نہ مارا جائے تو پھر ذُوْ عَھْدٍ کے یہ معنے کرنے ہونگے کہ وَلَا ذُوْ عَھْدٍ بِکَافِرٍ کہ کسی ذوعہد کو بھی کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے۔ حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ پس یہاں کافر سے مراد محارب کافر ہے نہ کہ عام کافر۔ تبھی فرمایا کہ ذمی کافر بھی محارب کافر کے بدلہ میں نہیں مارا جائیگا۔
اب ہم صحابہؓ کا طریق عمل دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ بھی غیر مسلم قاتل کو قتل کی سزا ہی دیتے تھے۔ چنانچہ طبری جلد ۵ صفحہ۴۴ میں قماذبان ابن ہر مزان اپنے والد کے قتل کا واقعہ بیان کرتاہے ۔ ہرمزان ایک ایرانی ریئس اور مجوسی المذہب تھا اور حضرت عمر ؓ خلیفہ ثانی کے قتل کی سازش میں شریک ہونیکا شبہ اس پر کیا گیا تھا۔ اس پر بلا تحقیق جوش میں آکر عبید اللہ بن عمرؓ نے اس کو قتل کر دیا وہ کہتا ہے۔ کَانَتِ الْعَجْمُ بِالْمَدِیْنَۃِ یَسْتَرُوْحُ بَعْضپھَا اِلیٰ بَعْض، فَمَرَّ فیروز بِاَبِیْ وَمَعَہ‘ خَنْجَر‘ لَہ‘ رَاسَانِ فَتَنَارَ لَہ‘ مَنْہُ۔ وَقَالَ مَاتَمْنَعُ بِھٰذِہِ الْبِلَادِ فَقَالَ اَبُسُّ بِہٖ فَرَاہُ رَجُل’‘ فَلَمَّا اُصِیْبَ عُمَرُ قَالَ رَاَیْتُ ھٰذَا مَعَ الْھُرِ مَزَانِ دَفَعَہ‘ اِلیٰ فِیْرَوزفَاَقْبَلَ عُبَیْدُ اللّٰہِ فَقَتَلَہ‘ فَلَمَّاوُ لِّیَ عُثَمَانُ وَعَانِیْ فَاَمْکَنَنِیْ مِنْہُ ثُمَّ قَالَ یَابُنَیَّ ھٰذَا قَاتِلُ اَبِیْکَ وَاَنْتَ اَوْلیٰ بِہٖ مِنَّا فَاذْھَبْ فَاَقْتُلْہُ فَخَرَجْتُ بِہٖ وَ مَافِی الْارْضِ اَحَد’‘ اِلَّا مَعِی اِلّا اِنَّھُمْ یَطْلُبُوْنَ اِلَیَّ فِیْہِ فَقُلْتُ لَھُمْ اَلِیْ قَتْلُہ‘ قُالُوْا نَعَمْ وَسَبُّوْ عُبَیْدَ اللّٰہِ فَقُلْتُ اَفَلَکُمق اَنْ تَمْنَعُوْہُ قَالُوْ ا لَا وَسَبُّوۃ فَتَرَکْنُہ‘ لِلّٰہِ وَلَھُمْ۔ فَلعْتَمَلُوْنِیْ فَوَ اللّٰہِ مَابَلَغْتُ الْمَنْزِلَ اِلَّا عَلیٰ رُئُوْسِ الرِّجَالِ وَاَکُفِّھِمْ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایرانی لوگ مدینہ میں ایک دوسرے سے ملے جُلے رہتے تھے (جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دوسرے ملک میں جاکر وطنیت نمایاں ہو جاتی ہے) ایک دن فیروز (قاتل عمرؓ خلیفہ ثانی) میرے باپ سے ملا اور اس کے پاس ایک خنجر تھا جو دونوں طرف سے تیز کیا ہوا تھا۔ میرے باپ نے اس خنجر کو پکڑ لیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس ملک میں تو اس خنجر سے کیا کام لیتا ہے(یعنی یہ ملک تو امن کا ملک ہے اس میں ایسے ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے) اُس نے کہا کہ میں اس سے اونٹ ہنکانے کا کام لیتا ہوں۔ جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے اُسوقت کسی نے ان کو دیکھ لیا اور جب حضرت عمرؓ مارے گئے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے خود ہر مزان کو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔اِس پر عبید اللہ(حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے)نے جا کر میرے باپ کو قتل کر دیا ۔ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا اور عبیداللہ کو پکڑ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ اے میرے بیٹے! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تو ہماری نسبت اس پر زیادہ حق رکھتا ہے پس جا اور اس کو قتل کر دے میں نے اس کو پکڑ لیا اور شہر سے باہر نکلا۔ راستہ میں جو شخص مجھے ملتا میرے ساتھ ہو جاتا لیکن کوئی شخص مقابلہ نہ کرتا۔ وہ مجھ سے صرف اتنی درخواست کرتے تھے کہ میں اسے چھوڑ دوں۔ پس میں نے سب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا میرا حق ہے کہ میں اسے قتل کردوں۔ سب نے جواب دیا کہ ہاں تمہارا حق ہے کہ اسے قتل کر دو اور عبداللہ کو بھلا بُرا کہنے لگے کہ اس نے ایسا بُرا کام کیا ہے پرھ میں نے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کو حق ہے کہ اسے مجھ سے چھڑالو انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں اور پھر عبداللہ کو بُرا بھلا کہا۔ کہ اس نے بلا ثبوت اس کے باپ کو قتل کر دیا اس پر میں نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر اس کو چھور دیا۔ اور مسلمانوں نے فرطِ مسرت سے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھالیا۔ اور خداتعالیٰ کی قسم میں اپنے گھر تک لوگوں کے سروں اور کندھوں پر پہنچا اور انہوں نے مجھے زمین پر قدم تک نہیں رکھنے دیا۔ اس روایت سے ثابت ہے کہ صحابہؓ کا طریق عمل بھی یہی رہا ہے کہ وہ غیر مسلم کے مسلم قاتل کو سزائے قتل دیتے تھے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی ہتھیار سے کوئی شخص مارا جائے وہ مارا جائیگا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکمومت ہی ہے۔ کیونکہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ کو گرفتار بھی حضرت عثمانؓ نے ہی کیا اور اس کق قتل کے لئے ہر مزان کے بیٹے کے سپرد بھی انہوں نے ہی کیا۔ نہ ہرمزان کے کسی وارث نے اس پر مقدمہ چلایا اور نہ اس نے گرفتار کیا۔
اس جگہ اس شبہ کا ازالہ کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کو سزا دینے کے لئے آیا مقتول کے وارثوں کے سپر دکرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عثمانؓ نے کیا یا خود حکومت کو سزا دینی چاہیے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ ایک جزوی معاملہ ہے اس لئے اس کو اسلام نے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق عمل کرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے قوم انے تمدن اور حالات کے مطابق جس طریق کو زیادہ مفید دیکھے اختیار کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں طریق ہی خاص خاص حالات میں مفید ہوتے ہیں۔
اس کے بعد فرماتا ہے ۔ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی۔ آزاد آزاد کے بدلہ میں غلام غلام کے بدلہ میں اور عورت عورت کے بدلہ میں قتل کی جائے ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ آزاد مقتول کے بدلہ میں کسی آزاد کہ ہی قتل کیا جائے خواہ اس کا قاتل کئی غلام ہی ہو۔ اور غلام مقتول کے بدلہ میں کسی غلام کو ہی قتل کی جائے خواہ اس کا قاتل کوئی حُرّ ہو اور عورت مقتول کے بدلہ میں کسی عورت کو ہی قتل کیا جائے خواہ اس کا قاتل کوئی مرد ہو۔ کیونکہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَامُن نِی الْقَتْلیٰ میں حکم پہلے بیان ہوچکا ہے۔ درحقیقت یہ جملہ مستائفہ ہے۔ اور جملہ مستائفہ اس لئے آتا ہے کہ پہلے جملہ میں جو سوال مقدر ہو اس کو بیان کئے بغیر نئے جملہ میں جواب دیا جائے اور بغیر عطف کے اس کو بیان کیا جائے(شرح مختصر معانی مولفہ ابن یعقوب و بہائوالدین جلد۳ مطبوعہ مصر صفحہ۵۴) اس جگہ بھی یہ جملہ ایک سوال مقدر کے جواب کے لئے لایا گیا ہے۔ اور اس میں عرب کی ان رسوم کا قلع قمع کیا یا ہے جو ان میں عام طور پر رائج تھیں۔ اور وہ سوال مقدر یہ ہے کہ کیا اس حکم سے عرب کا پہلا طریق موقوف ہو جائیگا؟ سو فرمایا کہ ہاں اور اس کی چند مثالیں بیان کر دیں کہ یہ سب موقوف ہیں۔ چنانچہ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثیٰ میں ان کی صرف چندمثالیں بیان کی گئی ہیں نہ کہ کل رسوم گویا ھَلُّمَ جَرٍّا کی طرح کا یہ فقرہ ہے اور مراد یہ ہے کہ اس حکم کے ذریعہ وہ تمام امتیاز مٹا دیئے گئے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ عربوں میں بعض خاندانوں کو بڑا سمجھا جاتا تھا اور بعض کو چھوٹا ۔ بعض کو آزاد سمجھا جاتا تھا اور بعض کو غلام اور جب کسی سے کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو وہ لوگ یہ دیکھاکرتے تھے کہ آیا مجرم غلام ہے یا آزاد۔ اور اگر غلام ہے تو کسی بڑے آدمی کا غلام ہے یا چھوٹے کا۔ مرد ہے یا عورت اعلیٰ خاندان میں سے ہے یا ادنیٰ خاندان میں سے امیر ہے یا غریب۔ اور سزا میں ان تمام امور کو ملحوظ رکھا جاتا اور آزاد مردوں اور عورتوں کو وہ سزائیں نہ دی جائیں جو غلام مردوں اور عورتوں کو دی جاتی تھیں۔ اسی طرح اعلیٰ خاندانوں کے افراد کو وہ سزائیں نہیں دی جاتی تھیں جو ادنیٰ خاندانوں کے افراد کو دی جاتی تھیں۔ چونکہ اسلام نے کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی میں یہ عام حکم دے دیا تھا کہ ہر ایک شخص جو قتل کی اجائے اس کا قاتل لازماً قتل ہو خواہ عورت مرد کو مارے یا مرد عورت کو مارے۔ خواہ آزاد غلام کو مارے یا غلام آزاد کہ مارے۔ خواہ ایک شخص کو جماعت مارے اور خواہ کافر معاہد کو مسلمان مارے اس لئے طبعی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آئندہ قصاص کیا پہلے طریق پر بھی جو جاہلیت میں رائج تھا لیا جائیگا یا نہیں۔ سو اس کا جواب دیا کہ نہیں اور ہرگز نہیں۔ وہ امتیازات اب مٹائے جاتے ہیں۔ اور اس کے لئے صرف تین مثالیں دے دیں۔ باقی مثالیں اس نے چھوڑ دی ہیں۔ کیونکہ عربی زبان میں قاعدہ ہے کہ اگر کسی جگہ تین مثالیں بیان ہوں۔ تو اس جگہ ھَلُمَّ جَرًّا ساتھ مل جاتا ہے اور سب مثالیں انہی تین مثالوں میں شامل سمجھی جاتی ہیں۔ اس جگہ بھی تین مثالوں سے مراد ہر قسم کی مثال ہے اور یہ ہدایت دی گئی ہے کہ کواہ قاتل حُر اور مقتول عبد ہو یا قتل مرد اور مقتول عورت ہو یا قاتل عورت اور مقتول مرد ہو جو بھی قتل کرے اسے قتل کی سزا دو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل بھی اس کی تصدیق کرتا ہے آپ ؓ نے ایک عورت کے بدلہ میں مرد کوقتل کیا(مسلم جلد ۲ کتاب القصاص و نیل الاوطار جلد ۶ صفحہ۲۸۹) اسی طرح غلام کے بدلہ میں آزاد کے مارے جانیکا حکم دیا۔ جیسے سمرۃ ابن جندب کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ فَمَّلَ عَبْدَہُ قَتَلْنَا ہُ وَمَنْ جَدَعَہ‘ جَدَعْنَا ہُ یعنی جوشخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے اس کے بلدہ میں قتل کریں گے اور جوشخص اپنے غلام کے ہاتھ پائوں کاٹیگا۔ ہم اس کے بدلہ میں اس کے ہاتھ پائوں کاٹیں گے۔(ابن ماجہ ابواب الدیات باب ھل یقتل الحر بالعبد)
اس کے بعد فرمایا ہے فَمَنْ عُفِیَ لَہ‘ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ء’‘ فَاتِّبَاع’‘ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآء’‘ وَاَدَآء’‘ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ یعنی اگر کسی مقتول کے وارث کسی مصلحت کے ماتحت قاتل کو اس کے جرم کا کچھ حصہ معاف کر دیں تو ان کو اختیار ہے۔
بعض لوگ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ حکومت کو قاتل کے گرفتر کرنے یا اس کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں بلکہ یہ تمام اختیار مقتول کے ورثاء کو حاصل ہے۔ مگر یہ درست نہیں بلکہ یہ تمام اختیار مقتول کے ورثاء کو حاصل ہے مگر یہ درست نہیں اس جگہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اگر مقتول کے ورثاء احسان کے طور پر قاتل کو معاف کر دیں تو حکومت کو آن کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے اس حق معافی کے سوا رشتہ داروں کا کوئی تعلق قاتل کے ساتھ نہیں ۔ قاتل کو گرفتار کرنا یا اس پر مقدمہ چلانا حکومت ہی کاکام ہے اور اُسی کے ذمہ ہے جیسا کہ کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلیٰ میں حکومت کے ذمہ وار افسران کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ وہ قتل کے واقعات کے چھان بین کریں اور مجرم کو قرار واقعی سزا دلوائیں۔
اسلام نے مقتول کے وارثوں کو عفو کا جو اختیار کیا ہے اس کے متعلق کہاجا سکتا ہے کہ اس میں بعض دفعہ نقصانات کا بھی احتمال ہو سکتا ہے۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو اس کے وارث ہی قتل کروا دیں اور پھر قاتل کو معاف کردیں۔ یہ شبہ ایک معقول شبہ ہے۔ مگر اسلام نے اس قسم کے خدشات کا بھی ازالہ کر دیا ہے اور گو ایک طرف اس نے دو مخالف خاندانوں میں صلح کرانے کے لئے عفو کی اجازت دی ہے مگر دوسری طرف ایسی ناجائز کاروائیوں کی بھی روک تھام کر دی ہے۔ چنانچہ عفو کے ساتھ اس نے اصلاح کی شرط لگا دی جس کے معنے یہ ہیں کہ عفو اسی وقت جائز ہوتا ہے جب اس کے نتیجہ میں اصلاح کی اُمید ہو۔ اگر عفو باعثِ فساد ہے تو ایسا عفو ہر گز جائز نہیں اور حکومت باوجود وارثوں کے عفو کر دینے کے اپنے طور پر سزا دے سکتی ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا ایک واقعہ جو طبری نے لکھا ہے بتاتا ہے کہ ابتدائے اسلام سے اس احتیاط پر عمل ہوتا چلا آیا ہے وہ واقعہ اس طرح ہے کہ عدل بن عثمان بیان کرتے ہیں۔ رَاَیْتُ عَلِیًّا عَمَّ خَارِ جًا مِنْ ھَمْدَانَ فَرَ اَ ی فِئَتَیْنِ تَقْتُلَانِ فَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا ثُمَّ مَعنٰی فَسَمِعَ صَوْتًا یَا غَوْ ثًابِاللّٰہِ فَخَرَجَ یَحُضُّ نَحْوَہ‘ حَتّٰی سَمِعْتُ خَفْقَ فَعْلِہِ وَھُوَ یَقُوْلُ اَتَاکَ الْغَوْثُ فَاِذَا رَجُل’‘ یُلَا زِمُ رَجُلًًا فَقَالَ یَا اَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ بِعْتُ مِنْ ھٰذَا ثَوْ بًا بِتِسْعَۃِ وَرَاھِمَ وَشَرَطْتُ عَلَیْہِ اَنْ لَّا ُٰعْطِیَنِیق مَغْمُوْرًا وَلَا مَقْطُوْ مًا وَکَانَ شَرْ طُھُمْ یَوْ مَئِذٍ فَاَتَیْتُہ‘ بِھٰذِہِ الدَّرَاھِمِ لِیُبَدِّلَھَالِیْ فَاَ بیٰ فَلَزِ مْتُہ‘ فَلَطَمَنِیْ فَقَالَ اَبْدِ لْہُ فَقَالِ بِیّنَتَکَ عَلَی اللَّطْمَۃِ فَاَتَا ہُ بِالْبَیِّنَۃِ فَاَ قْعَدَہ‘ ثُمَّ قَالَ دُوْنَکَ فَاَقِصِّ فَقَالَ اِنِّیْ قَدْ عَفَوْتُ یَا اَمِیْرَا لْمُوْ مِنِیْنَ قَالَ اِنَّمَا اَرَدْتُ اَنْ اَعْتَاطَہُ فِیْ عَقِّکَ ثُمَ ضَرَبَ الرَّجُلَ نِسْعَ دُرَّاتٍ وَقَالَ ھٰذَا حَقُّ السُّلْطَانِ۔ یعنی میں نے دیکھا کہ حضرت علی ؓ ہمدان سے باہر مقیم تھے کہ اسی اثناء میں آپ نے دو گروہوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا۔ اور آپ نے ان میں صلح کر ادی لیکن ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ آپ کو کسی شخص کی آواز آئی۔ کہ کوئی خدا کے لئے مدد کو آئے۔ پس آپ تیزی سے اُس آواز کی طرف دوڑے حتیٰ کہ آپ کے جوتوں کی آواز بھی آرہی تھی اور آپ کہتے چلے جاتے تھے کہ ’’مدد آگئی مد د آگئی۔‘‘ جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی دوسرے سے لپٹا ہوا ہے ۔جب اُس نے آپ کو دیکھا تو عرض کیا کہ اے امیر المومنین: میں نے اس شخص کے پاس ایک کپڑا نو درہم کو بیچا تھا اور شرط یہ تھی کہ کوئی روپیہ مشکوک پا کٹا ہوا نہ ہو۔ اور اس نے اس کو منظور کر لیا تھا۔ لیکن آج جو میں اس کو بعض ناقص روپے دینے کے لئے آیا تو اس نے بدلانے سے انکار کر دیا۔ جب میں پیچھے پڑا تو اس نے مجھے تھپڑ مارا۔ آپ نے مشتری سے کہا کہ اس کو روپے بدل دے پھر دوسرے شخص سے کہا کہ تھپڑ مارنے کا ثبوت پیش کر جب اس نے ثبوت دے دیا تو آپ نے مارنے والے کو بٹھا دیا اور اُسے کہا کہ اس سے بدلہ لے۔ اس نے کہا اے امیر المومنین! میں نے اس کو معاف کر دیا۔ آپ نے فرمایا تو نے تو اس کو معاف کر دیا مگر میں چاہتا ہوں کے تیرے حق میں احتیاط سے کام لوں۔ معلوم ہوتا ہے وہ شخص سادہ تھا اور پنے نفع نقصان کو نہیں سمجھ سکتا تھا اور پھر اس شخص کو ساتھ کوڑے مارے اور فرمایا اس شخص نے تو تجھے معاف کر دیا تھا مگر یہ سزا حکومت کی طرف سے ہے۔
غرض اسلام نے مظلوم کو یا بصورت مقتول اس کے ورثاء کو مجرم کا جرم معاف کردینے کی تو اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی حکومت کو بھی اختیار دیا ہے کہ اگر وہ یہ محسوس کرے کہ مظلوم کم فہم ہے یا ظالم کو معاف کردینے سے اس کی دلیری اور شوخی اور بھی بڑھ جائے گی یا مقتول کے ولی اپنے نفع نقصان کو ی پبلک کے نفع نقصان کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا خود شریک جرم ہیں تو اس صورت میں باوجود ان کے معاف کر دینے کے خود مجرم کو سزا دے اور اس سے بہتر اور کونسی تجویز دنیا میں امن اور صلح کے قیام کی ہو سکتی ہے۔ اگر ایک طرف مجرموں کو معاف کر دینے سے خطرات بڑھ جاتے ہیں تو دوسری طرف ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص جرم تو کر لیتا ہے مگر بعد میں وہ خود بھی سخت پشیمان ہوتا ہے اور اس کے رشتہ داروں کی بھی ایسی نازک حالت ہوتی ہے کہ رحم کا تقاضا ہوتا ہے کہ اُسے چھوڑ دیا جائے۔ اور خود جن لوگوں کے خلاف وہ جرم ہوتا ہے وہ بھی یا اُن کے ولی بھی چاہتے ہیں کہ اُس سے درگذر کریں۔ ایسی صورت میں دونوں کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے موجودہ تمدن نے کوئی علاج نہیں رکھا۔ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس سے تیرہ سو سال پہلے سے ساتویں صدی کے تاریک تمدن میں ایسے اعلیٰ درجہ کے تمدن کی بنیاد رکھی جس کی نظیر بیسویں صدی کا دانا مدبر بھی پیش نہیں کر سکتا۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے عفو سے کام لینا حاکم کا کام نہیں بلکہ مقتول کے اولیاء اور ورثاء کا کام ہے ، ہاں اگر حاکم مجاز دیکھے کہ عفواپنے اندر مضرات کے بعض پہلو رکھتا ہے تو وہ معافی کو کالعدم بھی قرار دے سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت علیؓ کے واقعہ سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ لیکن اگر وہ شخص جسکا حق ہے قصاص لے معاف نہ کرنا چاہے تو حکام کا فرض ہے کہ وہ لازماً قصاص لیں۔ مِنْ اَخِیْہِ کہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض اوقات دشمنی اور عداوت اور بُغض سے قتل نہیں ہوتا ہے اس لئے اَخِیْ کہہ کر قاتل کے لئے رحم کی تحریک کر دی کہ آخر وہ تمہارا بھائی ہے۔ اگر اُس سے نادانستہ طور پر غلطی ہو گئی ہے تو تم جانے دو۔ اور اُسے معاف کر دو۔ اِدھر قاتل کو بھی شرمندہ کیا کہ تجھے شرم نیہں آتی کہ تو نے اپنے بھائی کو قتل کیا ہے۔
شَیْ ء’‘ اس جگہ نکرہ کے طور پر استعمال ہوا ہے اور عربی زبان میں نکرہ تعظیم کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور تحقیر کے لئے بھی ۔ پس فَمَنْ عُفِیَ لَہ‘ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ء’‘ سے مراد کلی معافی بھی ہو سکتی ہے ور جزوی بھی یعنی قتل نہ کرنا دیت لے لینا یا دیت میں بھی کمی کر دینا جائز ہے اور قتل نہ کرنا اور دیت بھی نہ لینا جائز ہے۔ دونوں صورتوں میں سے جو بھی کوئی چاہے اختیار کر سکتا ہے اور اگر بعض ورثاء معاف کر دیں اور بعض نہ کریں تو قاتل کو قتل کی سزا نہیں دی جائیگی جیسے مقتول کے دو بیٹے ہوں ان میں سے ایک معاف کر دے اور دوسرا نہ کرے تو قاتل قتل نہیں ہو گا لیکن اگر حاکم سمجھے کے چونکہ وارث ہی شرارت سے مروانے والے ہیں۔ اس لیے وہ معاف کرتے ہیں تو حاکم معاف نہیں کرے گا۔ بلکہ انہیں سزا دے گا۔ اور وارثوں کی شرارت ثابت ہو جانے کی وجہ سے ان کے وارثت کا حق بھی زائل ہوجائیگا۔
فَاتِّبَاع’‘ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآء’‘ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ میں یہ بتایا کہ دیت لینے والے کو چاہیے کہ مناسب رنگ میں دیت وصول کرے۔ یعنی اگر قاتل یکدم ادا نہیں کر سکتا تو وصول کرنے میں سختی نہ کرے بلکہ اُسے کچھ مہلت دے دے او ر دیت دینے والے کو چاہیے کہ وہ ادا کرنے میں سُستی یا شرارت نہ کرے بلکہ تکلیف اٹھا کر بھی دیت ادا کر دے اور کسی ناواجب تاخیر یا شرارت سے
وَلَکُمْ فِی تَتَّقُوْنَo
کام نہ لے۔
ذٰلِکَ تَّخْفِیْف’‘ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃ’‘۔ فرمایا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے آسانی پیدا کر دی گئی ہے اور اس ذریعہ سے اس نے تمہارے لئے اپنی رحمت کا سامان مہیا کیا ہے تمہیں چاہیے کہ اسے مدنظر رکھو اور خداتعالیٰ کے اس احسان کی قدر کرو۔
فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہ‘ عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘ فرماتا ہے کہ اگر اس کے بعد میں کوئی زیادتی کریگا اور اِعْتَدٰی سے کام لیگا تو اس کے لئے درد ناک عذاب مقدر ہے۔ یعنی اگر مقتول کے ورثاء دیت بھی لے لیں اور موقعہ پا کر دوسرے کو بھی قتل کر دیں تو وہ کسی رحم کے مستحق نہیں ہونگے بلکہ انہیں لازماً سزا دی جائے گی۔ یعنی حکومت دوسرے فریق کو انہیں معاف کرنے کی اجازت بھی نہیں دیگی تاکہ اس قسم کی وحشیانہ حرکات قومی اور اخلاق کو نہ بگاڑیں اور لوگوں کے اندر قانون کا احترام قائم ہو۔
۹۳؎ حل لغات:۔ اَلْاَلْبَابَ جمع ہے۔ اس کا مفرد لُبّ’‘ کے معنے مغز کے ہیں۔ لیکن مراد عقل ہے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ اے عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ اسے کبھی نہ چھوڑنا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرنے والا تو مر گیا اب اگر اس کے قاتل کو قتل کر دیا جائیگا۔ تو مقتول تو زندہ نہیں ہو سکتا پھر قصاص میں حیات کس طرح ہوئی؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر قاتل کو قتل نہ کیا جائے تو بالکل ممکن ہے کہ کل وہ کسی دوسرے کو قتل کر دے اور پرسوں کسی اور کو مار ڈالے اس لئے فرمایا کہ قصاص میں زندگی ہے۔ یعنی اگر قاتل سے قصاص نہ لیا جائیگا تو وہ تم میں سے کسی اور کی زندگی کا خاتمہ کر دے گا۔ لیکن اگر قاتل کو موت کی سزا دی جائے تو آئندہ قتل کے جرم کم ہو جائیںگے اور اس طرح کئی لوگوں کی جانیں بچ جائیںگی۔
پھر اس رنگ میں بھی قصاص حیات کا موجب ہے کہ جب قاتل کو سزا مل جاتی ہے تو رشتہ داروں کے دلوں میں سے بُغض اور کینہ نکل جاتا ہے اور مقتول کی عزت قائم ہو جاتی ہے اگر قاتل کو سزا نہ ملے تو رشتہ داروں کے دل میں بغض اور کینہ رہتا ہے یونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے آدمی کو قتل کر کے اس کی ذلت کی گئی ہے۔ پس قصاص مقتول کی عزت قائم کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے لیکن اس کے علاوہ میرے نزدیک اس آیت میں موجودہ زمانہ کے متعلق ایک پیشگوئی بھی پائی جاتی ہے ۔ عرب تو قصاص کے بڑی سختی سے پابند تھے ۔ یہاں تک کہ اگر باپ مارا جائے تو وہ پوتے سے بھی اس کابدلہ لے لیتے تھے۔ پس یہ ہدایت صرف ان کو نہیں ہو سکتی۔ بلکہ درحقیقت یہ آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے ۔ کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ قصاص کو اڑانے کی تلقین کی جائیگی ۔اُس وقت تم مضبوطی سے اس تعلیم پر قائم رہنا جیسے آج کل بعض یوروپین ممالک میں اس قسم کی تحریکات وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں کہ موت کی سزا منسوخ ہونی چاہیے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اے عقلمندوں ان تحریکات کو کبھی قبول نہ کرنا ورنہ اس کے بہت سے مفاصد ظاہر ہونگے۔ اور تمہاری جانوں کی کوئی قیمت باقی نہیں رہے گی۔
آخر میںلَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ ہم نے یہ حکم اسی لئے دیا ہے کہ تم قتل سے بچو۔ اور اس زندگی کو پائو جو قصاص کے نتیجہ میں حاصل وہتی ہے اگر تم قصاص کو چھوڑ دو گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا تمدن درہم برہم ہو جائیگا۔ پس تم اس بات
کُتِبَ عَلَیْکُمْ
عَلَی الْمُتَّقِیْنَo
سے بچو کہ تمہارا تمدن ٹوٹ جائے اور تمہار ا نظام درہم برہم ہو جائے او ر تمہاری جانوں اور مالوں کی کوئی قیمت باقی نہ رہے۔
پھر اس کے علاوہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے ایک اور معنے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ان الفاظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ زندگی کی تمہیں اس لئے ضرورت ہے کہ تم اور تقویٰ حاصل کر لو۔ گویا بتایا کہ بے فائدہ جان گنوانا اس لئے قابلِ احتراز ہے کہ یہ دنیا درالعمل ہے اس میں رہنے سے آخرت کا توشہ انسان جمع کر لیتا ہے پس اس کی حفاظت بھی ضروری ہے تاکہ تم تقویٰ حاصل کر سکو۔ غرض ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے وجہ بتا دی کہ مومن باوجود آخرت پر ایمان رکھنے کے زندگی کی کیوں قدر کرتا ہے۔
۹۴؎ حل لغات:۔ خَیْر’‘ا:مفردات میں لکھا ہے۔ وَقَوْلہ تَعَالیٰ اِنْ تَرَکَ خَیْرًا اَیْ مَالًا وَقَالَ بَعْضپ الْعُلَمَائِ لَایُقَالُ لَلْمَالِ خَیْر’‘ حَتّٰی یَکُوْنَ کَثِیْرًا وَمِنْ مَکَانٍ طَیِّبٍ۔یعنی اس آیات میں خَیْر’‘ سے مراد مال ہے اور بعض علماء کے نزدیک مال کو خَیْر’‘ اس وقت کہیں گے جب وہ زیادہ ہو اور نیک ذرائع سے کمایا ہو اہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ اس آیتمیں اللہ تعالیٰ نے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے متعلق مرنے والے کو جو وصیت کرنے کا حکنم دیا ہے اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی وصیت ہے جس کی تعلیم دی گئی ہے ۔ جبکہ شریعت نے خود احکام وراثت کو سورۃ نصاء میں تفصیلاً بیان کر دیا ہے اور ان کے نزول کے بعد رشتہ داروں کے نام وصیت کرنا بے معنی بن جاتا ہے ۔ سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ وصیت کے احکام چونکہ دوسری آیات میں نازل ہو چکے ہیں۔ اس لئے یہ آیت منسوخ ہے اب اِس پر کسی عمل کی ضرورت نہیں ۔ مگر ہمارے نزدیک قرآن کریم محض قلت تدبر کی بطنا پر ظہور میں آیا ہے ۔ جب مسلمانوں کو کسی آیت کا مفہوم پوری طرح سمجھ میں نہ آیا تو انہوں نے کہدیا کہ وہ منسوخ ہے ۔ اور اس طرح کئی کئی سوا ٓیات تک انہوں نے منسوخ قرار دے دیں ۔ اگر وہ سمجھتے کہ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف قابل عمل ہے تو وہ ہر آیت پر غور کرتے ۔ اور اگر اسے حل کرنے سے قاصر رہتے تو خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے اوراس سے دعائیں کرتے کہ وہ اُن کی مدد کرے اور اپنے کلام کی حقیقت سمجھنے کی انہیں توفیق عطا فرمائے ۔ اور اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا اللہ تعالیٰ اُن کی رہنمائی کے سامان پیدا فرما دیتا اور انہیں مشکل آیات کا حل نظر آجاتا ۔ مگر انہوں نے بدقسمتی سے یہ آسان راستہ اختیار کر لیا کہ جس آیت کا مطلب سمجھ نہ آیا اُسے منسوخ قرار دے دیا۔ یہی طریق انہوںنے یہاںبھی اختیار کر لیا ہے مگر اس اایت کے جو معنے ہم کرتے ہیں۔ اگر اس کے مدنظر رکھا جائے تو یہ حکم بڑا ہی پر حکمت نظر آتا ہے اور اسے منسوخ قرار دینے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ درحقیقت یہاں وصیت کا لفظ صرف عام تاکید کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے والدین اور اقربین کے متعلق تو وصیت کرنیکا حکم دیا ہے مگر اولاد کو ترک کر دیا ہے ۔ حالانکہ قلبی تعلق کے لحاظ سے اولاد کا ذکر بھی ضرور ہونا چاہیے تھا ۔ یہ بات بتائی ہے کہ یہاں ماں کی تقسیم کا مسئلہ بیان نہیں کیا جا رہا بلکہ ایک عام تاکید کی جا رہی ہے اور اولاد کی بجائے والدین اور اقربین کا ذکر ا س لئے کیا گای ہے کہ اس آیت کا سیاق وسباق بتا رہا ہے کہ یہ حکم جنگ اور اس کے مشابہ دوسرے حالات کے متعلق ہے ۔ چنانچہ اس سے چند آیات پہلے الصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْ سَآ ئِ وَالضَّرَّآئِ وَا حِیْنَ الْبَاْسِ میں لڑائی کا ذکر آچکا ہے ۔ اسی طرح آگے چل کر وَقَا تِلُوْ افِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذْیَن یُقَاتِلُوْنَکُمْ میں پھر جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور چانکہ جنگ میں بالعموم نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ جن کے ہاں یا تو اوالاد ہوتی ہی نہیں یا چھوٹی عمر کی ہوتی ہے ۔اسلئے والدین اور اقربین کے حق میں وصیت کرنیکا حکم دیا۔ اور اولاد کا ذکر چھوڑدیا ۔اور یہ ہدایت فرمائی کہ جب کسی شخص کی موت کا وقت قریب آجائے یا وہ کسی ایسے خطرناک مقام کی طرف جانے لگے ۔ جہاں جانے کا نتیجہ ع۳ام حالات میں موت ہوا کرتا ہے ۔ اور پھر اُس کے پاس مال کثیر بھی ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ وصیت کر دے کہ اُس کی جائیداد احکام الٰہیہ کے مطابق تقسیم کی جائے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو۔ اور یہ تاکید بجائے اس کے کہ کسی اور کو کی جائے اپنے رشتہ داروں کو کرے ۔ اور اگر مال کا کوئی حصہ صدقہ کرنا ہو تو اس کا بھی اظہار کر دے ۔میں سمجھتا ہوں اگر مسلمان اِس تعلیم پر عمل کرتے تو وہ رواج جو شرعی تقسیم وراثت کے خلاف اُن میں جاری رہا کبھی جاری نہ ہوتا ۔ جس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو وہاں تو کسی روض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن ایسے ممالک جہاں رواج کا سوال پیدا ہو وہاں اس امر کی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ مرنے والا اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں یہ وصیت کر جائے کہ اُن میں معروف کے مطابقت جائیداد تقسیم کی جائے ورنہ اُس کا مال رواجی مستحقوں کو مل جائیگا اوراصل مستحقین محروم رہ جائیں گے ۔ رہایہ سوال کہ معروف کیا ہے ؟سوایک تو احکام وراثت معروف ہیں اُن پر عمل کرنے کی تاکید ہونی چاہیے ۔دوسرے بعض حقوق ایسے ہیںجو احکام وراثت سے باہر ہیں ۔اور جن کو قاعدہ میں تو بیان نہیں کیا گیا مگر مذہبی اور اخلاقی طور پر انہیں پسند کیا گیا ہے اوراُن کے لیئے شریعت نے ۳/۱تک وصیت کردینے کا دروازہ کھلا رکھا ہے ۔ مثلاً اگر وہ چاہے تو کچھ روپیہ غربا ء کی بہبودی کیلئے وقف کر دے اور اس کی اپنے رشتہ داروں کو تاکید کر جائے ۔
اَلْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَاْلاَ قْرَبِیْنَ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کے ورثا ء کا فرہوں تو اُن کیلئے حسن سلوک کی وصیت کر جائے ۔کیونکہ ایسی صورت میں وصیت کے بغر کافروالدین یا دوسرے قریبی رشتہ داروں کو کچھ نہیں مل سکتا ۔ اگر وہ دیکھے کہ انہیں کچھ مال دے دینے سے فائدہ ہوگا تواُن کے متعلق تاکید کر دے کہ فلاں فلاں شخص کو مریے مال میں سے اس قدر حصہ ضڑور دیدیا جایئے اور اگر دیکھے کہ وہ اس روپیہ کو اسلام کے خلاف خرچ کر ینگے تو نہ دے ۔ کافر والدین یا اقربین کیلئے ورثہ نہیں رکھا گیا۔ ہاں وصیت کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ تاکہ اگر وہ اسلام کے خلاف اپنے مال کو استعمال کرنے والے ہوں تو انہیں مال نہ پہنچ سکے اور اگر جائز طور پر مدد کے مستحق ہوں تو اُن کی مدد کی جا سکے ۔
اِس آیت کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ مرنے والا اپنے پوتوں اور اپنے بھائیوں کے بیٹوں کیلئے بھی کچھ وصیت کر جائے اور تاکہ اُن کی مدد ہو جائے ۔ اور شریعت کے کسی حکم کی بھی خلاف ورزی نہ ہو ۔کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے اگر دادا کی زندگی میں اس کا بیٹا فوت ہو جائے تو پوتوں اور پوتیوں کو وراثت سے حصہ نہیں ملتا۔پس ایسی صورت میں اگر وہ اپنی جائیداد کے ۳/۱ حصہ میں سے اپنے پوتوں اور پوتیوں یا بھائیوں کے بیٹوں کو کچھ روپیہ دینا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے ۔
فَمَنْ بَدَّ لَہ‘
سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘o
(۴) جن ممالک میں اہپنے اپنے قانون رائج ہیں وہاں دو صورتیں ہیں ۔بعض تو ایسی جگہیں ہیں جہاں مرنے کے وقت کی وصیت کو ہی معتبر سمجھا جاتا ہے ۔ جیسے روس کا ملک ہے اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں مرنے والے کی وصیت پر عمل نہیں ہوتا بلکہ حکومت نے جو قانون مقرر کیا ہوا ہو اس کے مطابق ورثہ تقسیم ہوتا ہے ۔ اگر ایسے ممالک ہوں جہاں مرنے والے کی وصیت تسلیم کی جاتی ہے تو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جن ورثاء کو رواج کے مطابق ورثہ نہیں مل سکتا انہیں وصیت کی وجہ سے شریعت کے مطابق حصہ مل جائیگا اور اسلامی تعلیم اُن ممالک میں بھی زندہ ہو جائیگی جن میں اسلامی حکومت نہیں مگر وہ مرنے والے کی وصیت پر عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اور جہاں اسلامی قانون کے مطابق ورثہ تقسیم نہ ہو سکتا ہو وہاں خواہ جائز ورثاء کو ورثہ نہ مل سکے پھر بھی اس کے نتیجہ میں مسلمان اس گناہ سے بچ جائیں گے جو اس حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ وابستہ ہے اور صرف وصیت تبدیل کرنے والے گنہگار قرار پائیں گے ۔مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وصیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی وارث کو جس کا شریعت نے حصہ مقرر کر دیا ہے اس کے حق سے زیادہ دے دے ۔ رسول کریم صلے الہ علیہ وسلم نے اس سے بری سختی سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے ۔اِنَّ اللّٰہَ اَعْطیٰ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ فَلَا وَصِیَّۃَ لِلْوَارِثِ (ترمذی)اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کا حق مقرر کر دیا ہے ۔اس لئے کسی وراث کیلئے جس کا اللہ تعالیٰ نے حصہ مقرر کر دیا ہے ۔ وصیت نہیں ہو سکتی ۔پس یہ آیت نہ منسوخ ہے ۔ نہ بلا ضرورت ۔بہت دفعہ مرنے کے بعد ورثا ء میں تقسیم مال پر جھگڑا ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ غیر رشتہ دار بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اتنا روپیہ دینے کا اس نے وعدہ کیا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی کہ مرنیوالے کو وصیت کر دینی چاہیے تاکہ کوئی جھگڑا نہ ہوااور یہ سوال نہ اُٹھے کہ مرنے والے نے علاوہ رشتہ داروں کے اور وں کے حق میں بھی وصیت کی ہے ۔ اور یہ وصیت رشتہ داروں کے سامنے ہونی چاہیے ۔
اس آیت میں مال کیلئے خیر کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نیک ذرائع سے کمایا ہوا مال ہی درحیقت مال ہے ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم ہمیشہ جائز طورپر کماو۔ اور حلال مال جمع کرنے کی کوشش کرو۔اگر ناجائز ذرائع اختیار کرو گے تو پھر وہ مال خیر نہیں رہیگا بلکہ شر بن جائیگا۔
اسی طرح اِنْ تَرَکَ خَیْراً میں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ انسان اپنا تمام مال آخرپچھلوں کیلئے ہی چھوڑ جاتا ہے اور خود خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ جاتا ہے ۔ اور جب حالت یہ ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ وہ کیوں نا جائز مال کمائے جسے دوسرے کھائیں اور وہ خود دوزخ میں جائے ۔غرض اللہ تعالیٰ نے اِنْ تَرَکَ خَیْراً کے الفاظ استعمال فرما کر نصیحت کی ہے کہ ناجائز ذرائع سے کما کر اپنے پچھلوں کیلئے مال نہ چھوڑو بلکہ جائز ذرائع سے کماؤ۔ورنہ ناجائز ذرائع سے کمایا ہوا مال تو تمہارا ہے ہی نہیں ۔ تم نے اُس کی وصیت کیا کرنی ہے ۔
۹۵؎تفسیر :۔فرمایا۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے اور بعد میں کئوی دوسرا شخص اس میں تغیر وتبدل کر دے تو اس صورت میں
فَمَنْ خَافَ مِنْ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
تمام تر گناہ اس شخص کی گردن پر ہے جس نے وصیت میں ترمیم و تنسیخ کی۔ یہ تغیر دو صورتوں میں ہو سکتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ لکھا نے والا تو کچھ اور لکھا ئے ۔ مگر لکھنے والا شرارت سے کچھ اور لکھدے ۔ یعنی لکھوانے والے کی موجودگی میں ہی اُس کے سامنے تغیر وتبدل کر دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد اس میں تغیر و تبدل کر کے ۔یعنی وصیت میں جو کچھ کہا گیا ہو اس کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ اُس کے خلاف چلے ۔ اِن دونوں صورتوں میں اس گناہ کا وبال صرف اُسی پر ہو گا جو اسے بدل دے ۔ (اِثْمُہٗ میں سبب مسبب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے ۔ل اور مراد گناہ نہیں بلکہ گناہ کا وبال ہے )یہ االفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں کسی قرآنی حکم کی طرف اشارہ ہے اور وہ حکم وراثت کا ہی ہے ۔ ورنہ اس کا کیا مطلب کہ بدلنے کا گناہ بدلنے والوں پر ہو گا ۔ وصیت کرنیوالے پر نہیں ہوگا ۔کیونکہ اگر اس وصیت کی تفصیلات شرعی نہیں تو بدلنے والے کو گناہ کیوں ہو ۔ اس کے گناہ ہگار ہونیکاسوال تبھی ہو سکتا ہے جبکہ کسی شرعی حکم کا خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ اور وہ اسی طرح ہو سکتی ہے کہ مرنے والا تو یہ وصیت کر جائے۔ لیکن وارث کی وصیت پر عمل نہ کریں۔ ایسی صورت میں وصیت کرنے والا تو گناہ سے بچ جائے گا لیکن وصیت تبدیل کرنے والے وارث گناہگار قرار پائیں گے۔
۹۶؎ حل لغات:۔ جَنَفًا: جَنَفَ کا مصدر ہے اور جَنَفَ فِی الْوَصِیَّۃِ کے معنے ہیں مَالَ وَجَارَ یعنی اُس نے وصیت کرتے ہوئے نا انصافی کی اور عدل کے راستہ سے ہٹ گیا۔(اقرب)
تفسیر:۔ اب بتایا کہ اگر کسی شخص کو یہ معلوم ہو کہ موصی کی وصیت میں کوئی نقص ہے اور خوف ہو کہ اس سے فتنہ پیدا ہو گا تو وہ ورثاء کو جمع کر کے اگر ان کے درمیان صلح کر ادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ جب اس نے شریعت کے مطابق اپنی جائیداد تقسیم کرنے کی ہدایت کی ہے تو ورثاء کو نقصان پہنچنے کا احتمال کس طرح ہو سکتا ہے کیونکہ شریعت پر عمل کرنے کے باوجود وصیت کرنے کی صورت میں بعض نقصانات کا بھی احتمال ہو سکتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص 1/3حصہ کی وصیت کردے اور باقی وارث اتنے ہوں کہ بقیہ مال میں سے ان کو بہت کم حصہ ملتا ہو تو ایسی صورت میں اگروصیت کرنے والے اور ان رشتہ داروں کے درمیان جن کو نقصان پہنچنے یا جن کے نظر انداز کئے جانے کا امکان ہو صلح کر ادی جائے یا وہ شخص جن کے حق میں وصیت ہے ان کو باہمی سمجھوتے سے اس بات پر راضی کر لیا جائے کہ باوجود وصیت کے وہ ایک دوسرے کو اس کا حق ادا کردینگے تو یہ کوئی گناہ کی بات نہیں۔ اسے چاہیے کہ وصیت کرنے والے اور اس کے محبوب یا مبغوض ورثاء میں صلح کرادے تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرتے وقت اگر وصیت کرنے والا کسی فریق کو نقصان پہنچا رہا ہو اور جسے وصیت لکھوائی جا رہی ہو وہ سمجھتا ہو کہ بعض ورثاء سے اُس کی اَنْ بَنْ ہے۔ اور اس ناراضگی کی وجہ سے یہ ایسی وصیت کر رہا ہے تو اُسے سمجھا دے۔ اور
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ
تَتَّقْوْنَo
مرنے والے اور اس کے وارثوں میں صلح کرادے تو یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ اس قسم کی اصلاح اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں بلکہ صرف ایک منفی نیکی ہے جس میں انسان کے گنہگار ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ الفاظ اس فعل کو صرف ایک منفی نیکی قرار دینے کے لئے استعمال نہیں کئے گئے بلکہ اس لئے استعمال کئے گئے ہیں کہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بری وضاحت سے فرمایا تھا کہ فَمَنْ بَدَّ لَہ‘ بَعْدَ مَا سَمِعَہ‘ فَاِنَّمَا اِثْمَہ‘ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّ لُوْنَہ‘ یعنی جو شخص وصیت کو اس کے سننے کے بعد بدل دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گناہگار ہو گا۔ پس چونکہ اس سے پہلے وصیت میں تبدیلی کرنا اللہ تعالیٰ نے گناہ کا موجب قرار دیا تھا۔ اس لئے لازماً یہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ بعض محتاط طبیعتیں کہیں اس طرف مائل نہ ہو جائیں کہ وصیت میں غلطی واقع ہونے کے باوجود پھر بھی اسکو تبدیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ یہ تبدیلی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ ہو۔ پس اس قسم کے خدشات کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے زیر تفسیر آیت میں بتا دیا کہ اگ رواقعہ میں کوئی غلطی واقع ہو گئی ہو تو اس کو دور کردینا کوئی گناہ کی بات نہیں۔ بلکہ ایک ایسی نیکی ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کا مستحق بنا دیگی۔ چنانچہ آخر میں اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو وصیت کرنے والے کو تسلی دی کہ اگر وہ اپنی غلطی کی اصلاح کر لے تو اللہ تعالیٰ اُسے معاف کر دے گا اوردوسرے طرف رَحِیْم’‘ فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص مداخلت کر کے وصیت کے نقائص کو دُور کرنے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کریگا اور اُسے اپنے فضلوں کا مورد بنائیگا۔ پس غَفُوْر’‘ کالفظ ان وصیت کرنے والوں کو بشارت دیتا ہے جو اپنی غلطی کی اصلاح کرلیں۔ اور رَحِیْم’‘ کا لفظ ان لوگوں کے موردِ انعام ہونے پر دلالت کرتا ہے جو وصیت کی کسی غلطی کو درست کرنے کی کوشش کریں۔
۹۷؎ حل لغات:۔ تَتَّقُوْنَ:اِتَّقٰی سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے۔ اور تَقْوٰی کے معنے ہیں جَعْلَ النَّفْسِ فِیْ وَ قَایَۃٍ مِمَّا یُخَافُ۔۔۔ وَفِیْ تَعَارْفِ الشَّرْئِ حِفْظُ النَّفْسِ عَمَّا یُوْثِمْ(مفردات) یعنی اپنے نفس کو ایسی تمام چیزوں سے ایک ڈھال کے پیچھے محفوظ کر لیا جن سے خوف محسوس کیا جاتا ہے۔ اور شرعی نقطہ نگاہ سے تقْوٰی سے مراد گناہوں سے بچنا ہے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرۃ۳؎۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ اے مومنو!تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزے رکھنے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح پہلی امتوں پر روزے رکھنے فرض کئے گئے تھے۔
دنیا میں بعض تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جو منفرد ہوتی ہیں۔ اکیلے انسان پر آتی ہیں اور وہ ان سے گھبراتا ہے۔ شکوہ کرتا ہے کہ میں ان تکالیف کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ لیکن بعض تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جن میں سارے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ ان تکالیف پر جب کوئی انسان گھبراتا یا شکوہ کا اظہار کرتا ہے تو لوگ اُسے یہ کہہ کر تسلی دیا کرتے ہیں کہ میاں یہ دن سب پر آتے ہیں اور کوئی شخص یہ امید نہیں کر سکتا کہ وہ ان تکلیفوں سے بچ جائے ۔ مثلاً موت ہے موت ہر انسان پر آتی ہے۔ دنیا میں کوئی احمق سے احمق انسان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو کہے کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ مجھ پر موت نہ آئے۔ موت اس پر ضرور آئے گی چاہیے جلدی آجائے یا دیر میں۔ پس کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ کہہ کر خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ روزے ایسی نیکی ۔ ثواب اور قربانی ہیں جن میں سارے ہی ادیان شریک ہیں۔ اور انہوں نے خداتعالیٰ کے اس حکم کو پورا کیا ہے ۔ پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ جس کے حصول کے لئے ساری قومیں کوشش کرتی رہی ہیں تم اس سے بچنے کی کوشش کرو۔ اگر یہ کوئی نیا حکم ہوتا اگر روزے صرف تم پرہی فرض ہوتے تو تم دوسرے لوگوں سے کہہ سکتے تھے کہ تم اسے کیا جانو۔ تم نے تو اس کا مزہ ہی نہیںچکھا۔ لیکن وہ لوگ جو اس دروازہ میں سے گذر چکے ہیں۔ اور جو اس بوجھ کو اٹھا چکے ہیں انہیں تم کیا جواب دو گے۔ لازماً مسلمانوں پر حجت اُنہی احکام میں ہوسکتی ہے جو پہلی قوموں کو بھی دیئے گئے اور انہوں نے ان احکام کو پورا کیا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مسلمانو! تم ہوشیار ہو جائے ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی تمہیں بتا دیتے ہین کہ روزے پہلی قوموں پر بھی فرض کئے گئے تھے۔ اور انہوں نے اس حکم کو اپنی طاقت کے مطابق پورا کیا تھا اگر تم پر اعتراض کریں گی اور کہیں گی کہ ہمیں بھی خداتعالیٰ نے روزوں کا حکم دیا تھا اور ہم نے اُسے پورا کیا اب تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں تو تم اس حکم کو صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے۔ غرض مسلمانوں کی غیرت اور ہمت بڑھانے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ روزے صرف تم پر ہی فرض نہیں کئے گئے بلکہ پہلی قوموں پر بھی فرض کئے گئے تھے۔ اور ان قوموں نے اپنی طاقت کے مطابق اس حکم کو پورا کیا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روزوں کی شکل میں اختلاف تھا اور وہ اختلاف آج تک نظر آتا ہے۔ کہیں اس قسم کے روزے ہوا کرتے تھے جنہیں وصال کہتے ہیں کہ درمیان میں سحری نہ کھانا۔اس قسم کے روزوں میں صرف شام کے وقت روزہ کشائی کی جاتی اور دوسری سحری نہ کھا کر متواتر آٹھ پہر روزہ رکھا جاتا۔
کہیں ایسے روزے ہوتے کہ روزہ کشائی بھی نہ ہوتی اور تین تین چارچار پانچ پانچ دن متواتر روزہ رکھا جاتا۔ ایسے روزے بھی پائے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو ہلکی غذا کھانے کی اجازت دی گئی ہے مگر ٹھوس غذائوں سے منع کیا گیا ہے جیسے ہندئووں یا عیسائیوں میں روزے ہوتے ہیں۔ ہندئووں کے روزوں کے متعلق تو عام طور پر مشہور ہے کہ ان کا روزہ یہ ہوتا ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز نہیں کھانی۔ اس کے علاوہ اگر وہ کئی سیر آم ، کیلے، اورنارنگیاں وغیرہ کھا جائیں تو ان کے روزہ میں فرق نہیں آتا۔ روٹی اور سالن کو چھوڑ کر باقی جو چیزچاہیں کھا لیں۔
پھر اس سے بھی آسان روزے رومن کیتھولک عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں۔ آخر انہوں نے بھی کسی مذہبی روائت کی بنا پر ہی یہ روزے رکھنے شروع کئے ہونگے یا کسی حواری سے کوئی بات پہنچی ہو گئی اُن کا روزہ یہ ہوتا ہے کہ گوشت نہیں کھانا۔ اگر وہ آلو اُبال کر یا کدو کا بھرتنہ بنا کر اس کے ساتھ روٹی کھالیں تو ان کا روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ اگر گوشت کی بوٹی ان کے معدہ میں چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے پس روزوں کے متعلق بھی مختلف اقوم میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ اور اپنے اپنے زمانہ میں ان احکام میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں بھی پوشیدہ ہونگی۔ مثلاً جو قومیں کثرت سے گوشت کھانے والی ہوں وہ ان اخلاق سے رفتہ رفتہ محروم ہو جاتی ہین جو سبزی کے استعمال کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اخلاقی اصلاح کے لئے اور انہیں یہ بتانے کے لئے کہ سبزی بھی غذا میں ضروری ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے دیا ہو کہ ہفتہ میں کم از کم ایک دن تم پر ایسا آنا چاہیے جب تم گوشت نہ کھائو۔ تو یہ نہایت پُر حکمت روزہ ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلام نے ہماری غذا کے متعلق یہ ایک عام حکم دے دیا ہے کہ گوشت بھی کھائو اور سبزیاں بھی کھائو۔ آگ پر پکی ہوئی چیزیں بھی استعمال کرو۔ اور جنہیں آگ نے نہ چُھوا ہو وہ بھی استعمال کر لو۔ غرض ہماری غذا میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی احتیاطیں جمع کر دی ہیں۔ لیکن پہلی قوموں کے لئے ممکن ہے اس قسم کی احتیاطیں ناقابلِ برداشت پابندیاں ہوں۔ اور ان کے اخلاق کی اصلاح کے لئے اس قسم کے روزے تجویز کئے گئے ہوں۔ مثلاً وہ قومیں جو جنگی ہوتی ہیں اور جن کا شکار پر گذارہ ہوتاہ ے وہ ایک عرصہ تک گوشت کھانے کی وجہ سے ایسے اخلاق سے عاری جاتی ہیں جو سبزی کھانے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیدیا گیا ہو کہ وہ ہفتہ میں ایک دن گوشت کھانا چھوڑ دیں تو یقینا یہ روزہ ان کے لئے بہت مفید تھا۔ پس پہلی قوموں میں روزے تو تھے مگر شکل وہ نہ تھی جو اسلام میں ہے پس کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ میں جو مشابہت پہلے لوگوں کے ساتھ بیان کی گئی ہے وہ کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف فرضیت کے لحاظ سے ہے یعنی کَمَا کُتِبَ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ ایسے ہی روزے رکھتے تھے جیسے مسلمان رکھتے ہیں۔ یا اُتنے ہی روزے رکھتے تھے جتنے مسلمان رکھتے تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان پر بھی روزے فرض تھے اور تم پر بھی فرض کئے گئے ہیں گویا صرف فرضیت میں مشابہت ہے نہ کہ تفصیلات میں۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں ـ’’روزہ‘‘ کے ماتحت لکھا ہے کہ:۔
IT WOULD BE DIFFICULT TO NAME ANY RELIGIOUS SYSTEM OF ANY DESCRIPTION IN WHICH IT IS WHOLLY UNRECOGNISED.
ٰیعنی دنیا کا کوئی باقاعدہ مذہب ایسا نہیں جس میں روزہ کا حکم نہ ملتا ہو۔ بلکہ ہر مذہب میں روزوں کا حکم موجود ہے۔ چنانچہ اس بارہ میں سب سے پہلے ہم یہودی مذہب کو دیکھتے ہیں۔ تورات میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پر گئے تو انہوں نے چالیس۴۰ دن رات کا روزہ رکھا اور ان ایام میں انہوں نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’سو وہ (یعنی موسیٰ) چالیس۴۰ دن اور چالیس رات وہیں خدا وند کے پاس رہا اور نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا۔‘‘ (خروج باب۳۴ آیت۲۸)
اسی طرح احبار باب۱۶ آیت۲۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ساتویں مہینہ کی دسویں تاریخ کو ایک روزہ رکھنا یہود کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل ہمیشہ یہ روزے رکھتے رہے اور انبیاء بنی اسرائیل بھی اس کی تاکید کرتے رہے۔ زبور میں حضرت دائود فرماتے ہیں:۔
’’میں نے تو ان کی بیماری میں جب وہ بیمار تھے ٹاٹ اوڑھا اور روزے رکھ رکھ کر اپنی جان کو دُکھ دیا۔‘‘
(زبور باب ۳۵ آیت۱۳)
یسعیاہ بنی فرماتے ہیں:۔
’’ دیکھو تم اس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت کے مکے مارو پس اب تم اس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز غالمِ بالا پر سُنی جائے۔‘‘
(یسعیاہ باب۵۸ آیت۴)
دانی ایل فرماتے ہیں:۔
’’ میں نے خداوند خدا کی طرف رخ کیا اور میں منت اور مناجات کر کے اور روزہ رکھ کر اور ٹاٹ اوڑھ کر ور راکھ پر بیٹھ کر اُس کا ظالب ہوا۔‘‘
(دانی ایل باب۹ آیت۳)
یو ایل نبی فرماتے ہیں:۔
’’خداوند کا روزِ عظیم نہایت خوفناک ہے۔ کون اس کی برداشت کر سکتا ہے۔ لیکن خداوند فرماتا ہے اب بھی پورے دل سے اور روزہ رکھ کر اور گریہ وزاری و ماتم کرتے ہوئے میری طرف رجوع لائے اور اپنے کپڑوں کو نہیں بلکہ دلوں کو چاک کر کے خداوند اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو۔ کیونکہ وہ رحیم و مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے۔‘‘
(یو ایل باب ۲ آیت۱۱ تا۱۳)
یہودیت کے بعد عیسائیت کو دیکھا جائے تو اس میں بھی روزوں کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیحؑ کے متعلق انجیل بتاتی ہے کہ انہوں نے چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ رکھا متی میں لکھا ہے:۔
’’ اور چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر کو اُسے بھوک لگی‘‘ (متی باب ۴ آیت ۲)
اسی طرح حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کو ہدایت دی کہ:۔
’’جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اُداس نہ بنائو کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزدار جانے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دیگا۔‘‘ (متی باب۶ آیت۱۶ تا۱۸)
اِسی طرح ایک دفعہ جب حواری ایک بد روح کو نہ نکال سکے تو
’’ اُس کے شاگردوں نے تنہائی میں اس سے پوچھا کہ ہم اسے کیوں نہ نکال سکے تو اس نے ان سے کہا کہ یہ قسم دعا اور روزہ کے سوا کسی اور طرح نہیں نکل سکتی۔‘‘۱؎ (مرقس باب۹ آیت۲۸۔۲۹)
بد رُوح نکالنا حواریوں کی ایک اصلاح تھی ۔ وہ بیماریوں اور مختلف قسم کی خرابیوں کو دیو کہا کرتے تھے اور حضرت مسیح ؑ ناصری کے پاس آکر دروخواست کیا کرتے تھے کہ یہ دیو نکال دیں۔ ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ بیماریوں یا خاص قسم کی دماغی
۱؎ یہ آیت موجودہ اناجیل سے نکال دی گئی ہے۔
خرابیاں دور کر دی جائیں۔ اس قسم کے بعض بیمار تھے جن کا حضرت مسیح ؑ ناصری نے علاج کیا اور وہ اچھے ہو گئے۔ اور جب ایک موقعہ پر حواری یاک بد رُوح کو نہ نکال سکے تو آپ نے فرمایا۔ کہ یہ دیو روزوں اور دعائوں کے بغیر نہیں نکلتے۔ یعنی کمالاتِ رُوحانیہ کا حصول روزوں اور دُعائوں کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کجہ وہی مسیحؑ ناصری جنہوں نے یہ کہا تھ اکہ بڑی بڑی بیماریاں روزوں اور دعائوں کے بغیر نہیں نکل سکتیں۔ انہی کی امت آج روزوں سے اتنی بے خبر ہے اور وہ اتنا کھاتے ہیں کہ شاید ایشیائی ہفتہ بھر میں اتنا نہیں کھاتے جتنا وہ ایک دن میں کھا جاتے ہیں۔ پس انہوں نے روزہ کیا رکھنا ہے وہ تو روزوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ سال بھر میں صرف تین دن ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن ہندئووں کی طرح جیسے وہ روزہ میں صرف چولھے کی پکی ہوئی چیزیں نہیں کھاتے۔ مثلاً وہ پھلکا نہیں کھاتے۔ لیکن دودھ دو دو سیر پی جائیں گے۔ عیسائی سبھی صرف چند چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں باقی سب کچھ کھاتے رہتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ روزے ہو گئے۔ حالانکہ حضرت مسیح ؑ یہودیوں میں سے تھے اور یہودیوں میں روزہ بڑا مکمل ہوتا ہے اور پھر حضرت مسیح ؑ خود مانتے ہیں کہ کئی قسم کے دیو یعنی روحانی یا جسمانی بیماریوں ایسی ہیں جو روزہ رکھنے والے کی دعا سے دور ہو تی ہیں اس کے بغیر نہیں ہوتیں۔
یہودیت اور عیسائیت کے بعد ہندو مذہب کو دیکھا جائے تو ان میں بھی کئی قسم کے برت پائے جاتے ہیں اور ہر قسم کے برت کے متعلق الگ الگ شرائط اور قیود ہیں جن کا تفصیلی ذکر ان کی کتاب’’دھرم سندھو‘‘ میں پایا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا میں ہندو اور جین مت کے روزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور رزتشتی مذہب کے متعلق بھی لکھا ہے کہ کنفیوشس نے اپنے پیروئوں کو روزے رکھنے کی تلقین کی تھی۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۹ زیر لفظFASTING)
غرض روزہ روحانی ترقی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمام مذاہب میں مشترک طور پر نظر آتا ہے اور تمام اُمتیں روزوں سے برکتیں حاصل کرتی رہی ہیں۔ بلکہ آجکل تو ایک نئی قسم کا روزہ نکل آیا ہے کہ اگر کسی سے جھگڑا ہو تو کھانا پینا چھوڑ دیا۔ گاندھی جی نے انگریز کے مقابلہ میں اسی قسم کے کئی مرن برت رکھے تھے ۔ بہرحال مذاہب کی ایک لمبی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے جس کی اہمیت مذہبی دنیا میں ہمیشہ تسلیم کی جاتی رہی ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس صورت اور شکل میں اسلام نے اس کو پیش کیا ہے وہ باقی مذاہب سے نرالی ہے ۔ اسلام میں روزوں کی یہ صورت ہے کہ ہر بالغ عاقل کو برابر ایک مہینہ کے روزے رکھنے کا حکم ہے سوائے اس صورت کے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا اُسے بیماری کا یقین ہو یا سفر پر ہو یا بالکل بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہو۔ ایسے لوگ جو بیمار ہوں یا سفر پر ہوں ان کے لئے حکم ہے کہ وہ دوسرے اوقات میں روزہ رکھیں۔ اور جو بالکل معذور ہو گئے ہوں ان کے لئے کوئی روزہ نہیں۔
روزہ کی صورت یہ ہے کہ پوپھٹنے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک انسان کوئی چیز نہ کھائے نہ پیئے نہ کم نہ زیادہ اور نہ مخصوص تعلقات کی طرف توجہ کرے۔ پو پھٹنے سے پہلے وہ کھانا کھا لے تاکہ اس کے جسم پر غیر معمولی بوجھ نہ پڑے۔ اور غروب آفتاب پر روزہ افطار کر دے۔ صرف شام کو ہی کھانا کھا کر متواتر روزے رکھنا ہماری شریعت نے نا پسند کیا ہے۔
اس جگہ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ کے متعلق ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف کسی قوم میں کسی رواج کا پایا جانا یا پہلوں میں کسی دستور کا ہونا اس امر کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ آئندہ نسلیں بھی ضرور اس کا لحاظ رکھیں۔ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو پہلے لوگوں میں موجود تھیں لیکن دراصل وہ غلط تھیں۔ اور بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو آج لوگوں میں پائی جاتی ہیں حالانکہ وہ بھی غلط ہیں پس محض اس وجہ سے کہ پہلی قومیں کوئی عبادت کرتی رہی ہیں یہ نتیجہ نکالنا کہ آئندہ بھی وہ کی جائے صحیح نہیں۔ قرآن کریم نے اس اعتراض کے وزن کو قبول کیا ہے اور بتایا کہ ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلی اُمّتوں میں روزہ کا وجود اس کی فضیلت کی کوئی دلیل ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنے یہں کہ تم پر یہ کوئی زائد بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ بلکہ پہلوں پر بھی یہ بوجھ ڈالا گیا تھا۔ پس یہ روزوں کی فضیلت کی دلیل نہیں بلکہ روزوں کی اہمیت کی دلیل ہے۔ روزوں کی فضیلت اور اس کے فوائد پر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم بچ جائو ۔ اس کے کئی معنے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک معنی تو یہی ہیں کہ ہم نے تم پر اس لئے روزے فرض کئے ہیں تاکہ تم ان قوموں کے اعتراضوں سے بچ جائو جو روزے رکھتی رہی ہیں۔ جو بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کرتی رہی ہیں۔ جو موسم کی شدت کو برداشت کر کے خداتعالیٰ کو خوش کرتی رہی ہیں۔ اگر تم روزے نہیں رکھو گے تو وہ کہیں گی تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم باقی قوموں سے روحانیت میں بڑھ کر ہیں لیکن وہ تقویٰ تم میں نہیں جو دوسری قوموں میں پایا جاتا تھا۔ غرض اگر اسلام میں روزے نہ ہوتے تو باقی مسلمان دوسری قوموں کے سامنے ہدفِ ملامت بنے رہتے۔ عیسائی کہتے یہ بھی کوئی مذہب ہے اس میں روزے تو ہیں ہی نہیں جن سے قلوب کی صفائی ہوتی ہے جن کے ساتھ روحانی ساکھ بیٹھتی ہے جن کے ذریعہ انسان بدی سے بچتا ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ ہم نے سینکڑوں سال روزے رکھے لیکن مسلمانوں میں روزے نہیں۔ اسی طرح زرتشتی ہندو اور دوسری سب قومیں کہتیں۔ اسلام بھی کوئی مذہب ہے اس میں روزے نہیں۔ ہم روزے رکھتے ہیں اور اس طرح خداتعالیٰ کو خوش کرتے ہیں ۔ غرض ساری دنیا مسلمانوں کے مقابلہ میں آجاتی اور کہتی مسلمانوں میں روزے کیوں نہیں۔ پس فرمایا ۔ اے مسلمانو! ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم دشمن کے اعتراضات سے بچ جائو۔ اگر اسلام میں روزہ نہ ہوتا یا تم روزے نہ رکھتے تو غیر مذاہب والے تم پر جائز طور پر اعتراض کرتے اور تم ان کی نگاہوں میں غقیر ہو جاتے۔
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنمیں دوسرا اشارہ اس امر کی طرف کیا گیا ہے کہ اس ذریعہ سے خداتعالیٰ روزہ دار کا محافظ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اِتَّقَاء کے معنے ہیں ڈھال بنانا۔ وقایہ بنانا۔ نجات کا ذریعہ بنانا۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ تم پر روزے رکھنے اس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم خداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لو اور ہر شر سے اور ہر خیر کے فقدان سے محفوظ رہو۔ ضعف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تویہ کہ انسان کو کوئی شر پہنچ جائے اور دوسرے یہ کہ کوئی نیکی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے۔ جیسے کسی کو کوئی مار بیٹھے تو یہ بھی ایک شر ہے۔ اور یہ بھی شر ہے کہ کسی کے ماںباپ اس سے ناراض ہو جائیں۔ حالانکہ اگر کسی کے والدین ناراض ہو کر اس کے گھر سے نکل جائیںتو بظاہر اس کا کوئی نقصان نظر نہیں آتا۔ بلکہ ان کے کھانے کا خرچ بچ سکتا ہے۔ لیکن ماں باپ کی رضا مندیایک خیر اور برکت ہے اور جب وہ ناراض ہو جائیں تو انسان ایک خیر سے محروم ہو جاتا ہے۔ اِتَّقَاء ان دونوں باتوں پر دلالت کرتا ہے اور متقی وہ ہے جسے ہر قسم کی خیر مل جائے اور وہ ہرقسم کی ذلت اور شر سے محفوظ رہے۔
اس سے آگے پھر شر کا دائرہ بھی ہر کام کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے مثلا اگر کوئی شخص گاڑی میں سفر کر رہا ہے تو اس کا شر سے محفوظ رہنا یہی ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش نہ آئے۔ اور وہ بحفاظت منزلِ مقصود پر پہنچ جائے۔ اسی طرح روزے کے سلسلہ میں بھی ایسے ہی خیر وشر مراد ہو سکتے ہیں جن کا روزے سے تعلق ہو۔ روزہ ایک دینی مسئلہ ہے یا بلحاظ صحتِ انسانی دنیوی امور سے بھی کسی حد تک تعلق رکھتا ہے پس لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن کے یہ معنے ہوئے کہ تا تم دینی اور دنیوی شُرور سے محفوظ رہو۔ دینی خیر و برکت تمہارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے یا تمہاری صحت کو نقصان نہ پہنچ جائے۔کیونکہ بعض دفعہ روزے کئی قسم کے امراض سے نجات دلانے کا بھی موجب ہو جاتے ہیں۔
آجکل کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھاپا یا ضعف آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہو جاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہو تی ہے۔ بعض نادان تو اس خیال میں اس حد تک ترقی کر گئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ جس دن ہم زائد مواد کوفنا کرنے میں کامیاب ہو گئے اس دن موت بھی دنیا سے اُٹھ جائیگی۔ یہ خیال اگرچہ احمقانہ ہے تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھکان اور کمزوری وغیر ہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اورروزہ اس کے لئے بہت مفید ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں تو دورانِ رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت ار تروتازگی کا احسان ہونے لگتا ہے یہ فائدہ تو صحتِ جسمانی کے لحاظ سے ہے مگر روحانی لحاظ سے اس کا یہ فائدہ ہے کہ جو لوگ روزے رکھتے ہیں خداتعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے۔ اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد خداتعالیٰ نے دعائوں کی قبولیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعائوں کو سنتا ہوں پس روزے خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں اور روزے رکھنے والا خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں اور روزے رکھنے والاخداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لیتا ہے جو اسے ہر قسم کے دکھوں اور شر ور سے محفوظ رکھتا ہے۔
پھر روزے کے ذریعہ دکھوں سے انسان اس طرح بھی بچتا ہے کہ (۱)جب وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے لئے تکلیف میں ڈالتا ہے تو خدتعالیٰ اس کے گناہوں کی سزا سے اُسے بچالیتا ہے۔ (۲) جب وہ فاقے رہ کر بھوک کی تکلیف محسوس کرتا ہے تو اپنے غریب بھائیوں کی خبر گیری کرتا ہے اور ان کا ہلاکت سے بچنا خود اُسے بھی ہلاکت سے بچا لیتا ہے کیونکہ بعض افرادِ قوم کے بچنے سے آخر ساری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دنوں میں بہت کثرت سے صدقہ و خیرات کیاکرتے تھے۔ احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے دنوں میں آپ تیز چلنے والی آندھی کی طرح صدقہ کیا کرتے تھے۔ اور درحقیقت یہ قومی ترقی کا ایک بہت بڑا گُر ہے کہ انسان اپنی چیزوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ تمام قسم کی تباہیاں اُسی وقت آتی ہیں جب کسی قوم کے افراد میں یہ احسان ہو جائے کہ ان کی چیزیں انہی کی ہیں دوسروں کا ان میں کوئی حق نہیں اور ان سے فائدہ اُٹھانے کا حق اُنہی کو ہے جن کو وہ چیزیں دی گئی ہیں۔ دنیا کے نظام کی بنیاد اس اصل پر ہے کہ میری چیز دورا ستعمال کرے۔ اور رمضان اس کی عادت ڈالتا ہے۔ روپیہ ہمارا ہے کھانے پینے کی چیزیں ہماری ہیں مگر حکم یہ ہے کہ دوسروں کو ان سے فائدہ پہنچائو۔ اور کھلائو۔ کیونکہ اس سے دنیا کے تمدن کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ پھر روزوں کے ذریعہ انسان ہلاکت سے اس طرح بھی محفوظ رہتا ہے کہ روزے انسان کے اندر مشقت برداشت کرنے کا مادہ پیدا کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ہر قسم کی مشقت برداشت کرنے کے عادی ہوں وہ مشکلات کے آنے پر ہمت نہیں ہارتے بلکہ دلیری سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
دنیوی گورنمنٹوں میں بھی ایک ریزروفوج ہوتی ہے جو سال میں ایک دو مہینے کام کرتی ہے اور جب جنگ کا موقعہ آتا ہے تو چونکہ اس کو مشق کروائی ہوئی ہوتی ہے اس لئے فوراً اسے بلوالیا جاتا ہے۔ چونکہ عام طور پر تمام مسلمان بارہ مہینے روزے نہیں رکھتے اور نہ ہی تہجد پڑھتے ہیں اس لئے رمضان میں خصوصیت کے ساتھ ہدایت فرما دی کہ تمام مسلمان اس ماہ میں روزوں کی مشق کریں جس طرح وہ فوج جو مشق کرتی رہیت ہے دشمن کی فوج سے شکست نہیں کھاتی اسی طرح جس قوم کے لوگ متقی اور نیک ہوتے ہیں اور جو خداتعالیٰ کے لئے ہر ایک چیز کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں شیطان کی مجال نہیں ہوتی کہ ان کو زک دے سکے یہی وجہ ہے کہ جب تک تمام مسلمان روحانی سپاہی تھے شیطان نے ان پر کوئی حملہ نہیں کیا لیکن جب خال خال رہ گئے تو اس وقت ان پر حملہ کیا گیا۔ اور شیطان نے ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ان کو تباہ کر دیا۔
پس روزے قوم میں قربانی کی عادت پید ا کرنے کا موجب ہوتے ہیں ۔ دین کی خدمت کے لئے بالعموم مومنوں کو گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔ اور تبلیغی جہاد میں کھانے پینے کی تکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے غرباء کو تو ایسی تکلیف برداشت کرنے کی عادت ہوتی ہے مگر امراء کو اس کی عادت نہیں ہوتی۔ پس روزوں کے ذریعہ ان کو بھی بھوک اور پیاس کی برداشت کی مشق کرائی جاتی ہے تاکہ جس دن خدتعوالیٰ کی طرف سے آواز آئے کہ اے مسلمانو! آئو اور خداتعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو۔ تو وہ سب اکٹھے اُٹھ کھڑے ہوں اور خداتعالیٰ کی راہ میں بغیر کسی قسم کا بوجھ محسوس کئے اپنے آپ کو پیش کر دیں۔
پس روزوں کا یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کو نیکی کے لئے مشقت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے انسان دنیا میں کئی قسم کا کام کرتا ہے۔ وہ محنت و مشقت بھی کرتا ہے۔ وہ آوارگی بھی کرتا ہے وہ اِدھر اُدھر بھی پھرتا ہے وہ گپیں بھی ہانکتا ہے۔ بالکہ فارغ نہ انسانی دماغ رہتا ہے نہ اس کا جسم کچھ نہ کچھ کام انسان ضرور کرتا رہتا ہے۔ مگر بعض لغو کام ہوتے ہیں بعض مضر اور بعض مفید اور بعض بہت ہی اچھے ۔ لیکن رمضان انسان کو ایک ایسے کام کی عادت ڈالتا ہے جس کے نتیجہ میں اسے نیک کاموں میں مشقت برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے انسانی زندگی کی راحت اور آرام کی چیزین کیا ہوتی ہیں یہی کھانا پینا سونا اور جنسی تعلقات۔ تمدن کا اعلیٰ نمونہ جنسی تعلقات ہیں۔ جن سے دوستوں سے ملنا اور عزیزوں سے تعلقات رکھنا بھی شامل ہے۔ مگر جنسی تعلقات میں سب سے زیادہ قریبی تعلق میاںبیوی کا ہے پس انسانی آرام انہی چند باتوں میں مضمر ہے کہ وہ کھاتا ہے وہ پیتا ہے وہ سوتا ہے۔ اور وہ جنسی تعلقات قائم رکھتا ہے کسی صوفی نے کہا ہے کہ تصوف کی جان کم بولنا، کم کھانا اور کم سونا ہے اور رمضان اس تصوف کی ساری جان کا نچوڑ اپنے اندر رکھتا ہے کم سونا آپ ہی اس میں آجاتا ہے۔ کیونکہ رات کو تہجد کے لئے اُٹھنا پڑتا ہے ۔ کم کھانا بھی ظاہر بات ہے کیونکہ سارا دن فاقہ کرنا پڑتا ہے۔ اور جنسی تعلقات کی کمی بھی ظاہر ہے پھر کم بولنا بھی رمضان میں آجاتا ہے۔ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا۔ روزہ یہ نہیں کہ انسان اپنا منہ کھانے پینے سے بند رکھے بلکہ روزہ یہ ہے کہ لغو باتیں بھی نہ کرے۔ پس روزہ دار کیل ئے بیہودہ باتوں سے بچنا لڑائی جھگڑے سے بچنا اور اسی طرح کی اور لغو باتوں سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہوتاہے۔ اس طرح کم بولنا بھی رمضان میں آگیا۔ گویا کم کھانا کم بولنا کم سونا اور جنسی تعلقات کم کرنا یہ چاروں باتیں رمضان میں آگئیں۔ اور یہ چاروں چیزیں نہایت ہی اہم ہیں۔ اور انسانی زندگی کا ان سے گہرا تعلق ہے پس جب ایک روزہ دار ان چاروں آرام و آسائش کے سامانوں میں کمی کرتا ہے تو اس میں مشقت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ زندگی کے ہر دور میں مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتا اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔
پھر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن میں ایک اور فائدہ یہ بتایا کہ روزہ رکھنے والا برائیوں اور بدیوں سے بچ جاتا ہے اور یہ غرض اس طرح پوری ہوتی ہے کہ دنیا سے انقطاع کی وجہ سے انسان کی روحانی نظر تیز ہو جاتی ہے اور وہ ان عیوب کو دیکھ لیتا ہے جو اسے پہلے نظر نہ آتے تھے۔ اسی طرح گناہوں سے انسان اس طرح بھی بچ جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے روزہ اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی شخص اپنا منہ بند رکھے اور سارا دن نہ کچھ کھائے اور نہ پیئے بلکہ روزہ یہ ہے کہ مونہہ کو کھانے پینے سے ہی نہ روکا جائے بلکہ اُسے ہر روحانی نقصان دہ اور ضر ررساں چیز سے بھی بچایا جائے نہ جھوٹ بولا جائے نہ گالیاں دی جائیں نہ غیبت کی جائے۔ نہ جھگڑا کیا جائے۔ اب دیکھو زبان پر قابو رکھنے کا حکم تو ہمیشہ کے لئے ہے۔ لیکن روزہ دار خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کوئی شخص ایک مہینہ تک اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے تو یہ امر باقی گیارہ مہینوں میں بھی اس کے لئے حفاظت کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور اس طرح روزہ اُسے ہمیشہ کے لئے گناہوں سے بچا لیتا ہے۔
پھر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنمیں روزوں کا ایک اور فائدہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں تقویٰ پر ثباتِ قسم حاصل ہوتا ہے اور انسان کو روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ روزوں کے نتیجہ میں صرف امراء ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاسل نہیں کرتے بلکہ غرباء بھی اپنے اندر ایک نیا روحانی انقلاب محسوس کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے وصال سے لطف انداوز ہوتے ہیں غرباء بیچارے سارا سال تنگی سے گذارہ کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ انہیں کئی کئی فاقے بھی آجاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے ذریعہ نہیں توجہ دلائی ہے کہ وہ ان فاقوں سے بھی ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے لئے فاقوں کا اتنا بڑا ثواب ہے کہ حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلصَّوْ لِیْ وَاَنَا اُجْرٰی بِہٖ۔ یعنی ساری نیکیوں کے فوائد اور ثواب الگ الگ ہیں لیکن روزہ کی جزاء خود میری ذات ہے۔ اور خداتعالیٰ کے ملنے کے بعد انسان کو اور کیا چاہیے۔ غرض روزوں کے ذریعہ غربا کو یہ نکتہ بتایا گیا ہے کہ ان تنگیوں پر بھی اگر وہ بے صبر اور ناشکر ے نہ ہوں اور حرف شکایت زبان پر نا لائیں جیسا کہ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمیں خداتعالیٰ نے کیا دیا ہے کہ نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں تو یہی فاقے ان کے لئے نیکیاں بن جائیں گی۔ اور ان کا بدلہ خود خدا تعالیٰ ہو جائیگا۔ پس اللہ تعالیٰ نے روزوں کو غرباء کے لئے تسکین کا موجب بنایا ہے تاکہ وہ مایوس نہ ہوں او ریہ نہ کہیں کہ ہماری فقرو فاقہ کی زندگی کس کام کی ۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ میںا نہیں یہ گر بتایا ہے کہ اگر وہ اس فقروفاقہ کی زندگی کو کداعتالیٰ کی رضاء کے مطاق گذراریں تو یہی انہیں خداتعالیٰ سے ملا سکتی ہے۔ دنیا میں اس قدر لوگ امیر نہیں جتنے غریب ہیں اور تمام دینی سلسلوں کی ابتداء بھی غرباء سے ہی ہوئی ہے اور انتہا بھی غرباء پر ہی ہوئی ۔ بلکہ قریباً تمام انبیاء بھی غرباء میں سے ہی ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوئی بڑے آدمی نہ تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوئی بڑے آدمی نہ تھے۔ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام بھی کوئی امیر کبیر نہ تھے۔ آپ کی جائیداد کی قیمت قادیان کے ترقی کرنے کے باعث بڑھ گئی ورنہ اس کی قیمت خود آپ نے دس ہزار روپیہ لگائی تھی۔ اور اتنی مالیت کی جائیداد سے کونسی بڑی آمد ہوسکتی ہے۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام بھی بڑی آدمی نہ تھے ۔ اگرچہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ بعد میںبڑا بنا دیتا ہے لیکن یہ سب کچھ بعد میں جفؒ کے طور پر ہوا۔ ابتداء میں تمام سلسلوں کے بانی غریب ہی ہوئے امراء اور بادشاہ نہیں ہوئے۔ بیشک درمیانی طبقہ کے لوگوں میں سے بھی بعض دفعہ انبیاء ہوتے رہے لیکن بادشاہ صرف چند ایک ہی ہوئے۔ جیسے حضرت دائود علیہ السلام یاحضرت سلیمان علیہ السلام۔ مگر یہ بھی ایسے نہیں ہیں کہ کسی سلسلہ کے بانی ہوں۔ بپھر دنیا کی اسی فیصد آبادی غریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی کثرت کی دلجوئی رمضان کے ذریعہ کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ مت سمجھو کہ فاقہ کش کو خداتعالیٰ نہیں ملتا پس وہ غرباء جو سمجھتے ہیں کہ ان کی عمر رائیگاں گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں رمضان کے ذریعہ بتایا ہے کہ وہ انہیں فاقوں میں سے گذر کر اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے فیوض حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ فاقہ میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کو نہ بھولیں اور اس کے متعلق اپنی زبان پ رکوئی حرفِ شکایت نہ لائیں۔ اس کے مقابلہ میں روزہ امیر لوگوں کے لئے تقویٰ کے حصول کا ذریعہ اس طرح ہوتا ہے کہ جب ایک انسان جس کے پاس کھانے پینے کے تمام سامان موجو دہوتے ہین محض اللہ تعالیٰ کی رجاء کے لئے اپنے آپ کو فاقہ میں ڈالتا ہے اور خداتعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے کچھ نہیں کھاتا۔ اور جو حلال چیزیں خداتعالیٰ نے اُسے دی ہیں انہیں بھی استعمال نہیں کرتا۔ اس کے گھر میں گھی، گوشت ، چاول وغیرہ کھانے کی تمام ضروریات موجو د ہوتی ہیں۔ مگر وہ خداتعالیٰ کے لئے انہیں ترک کر دیتا ہے تو اس کے دل میں خود بخود یہ جذبہ پیدا ہوتاہے کہ جب میں نے حلال چیزوں کو بھی خداتعالیٰ کی رضاء کے لئے چھوڑ دیا ہے تو میں ان چیزوں کی کیوں خواہش کرون جنہیں خداتعالیٰ نے حرام قرار دیاہوا ہے اس طرح اس کے اندر ضبطِ نفس کی قوت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے قدم کو نیکیوں کے میدان میں بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
روزوں کا ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان خداتعالیٰ سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے ۔ خداتعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نیندے سے پاک ہے۔ انسان ایسا تو نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی نیند کو بالکل چھوڑ دے مگر وہ اپنی نیند کے ایک حصہ کو روزوں میں خداتعالیٰ کیلئے قربان ضرور کرتا ہے سحری کھانے کے لئے اُٹھتا ہے تہجد پڑھتا ہے ۔ عورتیں جو روزہ نہ رکھیں اور سحری کے انتظام کے لئے جاگتی ہیں۔ کچھ وقت دعائوں میں اور کچھ نماز میں صرف کرنا پڑتا ہے اور اس طرح رات کا بہت کم حصہ سونے کے لئے باقی رہ جاتا ہے اور کام کرنے والوں کے لئے تو گرمی کے موسم میں دو تین گھنٹے ہی نیند کے لئے باقی رہ جاتے ہیں ۔ اس طرح انسان کو اللہ تعالیٰ کھانے پینے سے پاک ہے۔ انسان کھانے پینا بالکل تو نہیں چھوڑ سکتا۔ مگر پھر بھی رمضان میں اللہ تعالیٰ سے وہ ایک قسم کی مشابہت ضرور پیدا کر لیتا ہے پھر جس طرح اللہ تعالیٰ سے خیر ہی خیر ظاہر ہوتا ہے اسی طرح انسان کو بھی روزوں میں خاص طور پر نیکیاں کرنے کا حکم ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔ جو شخص غیبت، چغلخوری اور بدگوئی وغیرہ بُری باتوں سے پرہیز نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہوتا۔ گویا مومن بھی کوشش کرتا ہے کہ اس سے خیر ہی خیر ظاہر ہو۔ اور وہ غیبت اور لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے۔ اس طرھ وہ اس حد تک خداتعالیٰ سے مشابہت پیدا کر لیتا ہے جس حد تک ہو سکتی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی مثل کی طرف دوڑتی ہے۔ فارسی میں ضرب المثل ہے کہ
’’کند ہمجنس باہم جنس پرواز‘‘
پس روزہ کا ایک روحانی فائدہ یہ ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے اعلیٰ درجہ کا اتصال ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ خود اس کا محافظ بن جاتا ہے۔
پھر روزوں کا روحانی رنگ میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا الہام انسانی قلب پر نازل ہوتا ہے اور اس کی کشفی نگاہ میں زیادہ جِلا اور نور پیدا ہوتا ہے درحقیقت اگر غور سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی عادت تو نہیں مگر اس میں عادت سے ایک مشابہت ضرور پائی جاتی ہے۔ انسان کی طرح اس کی آنکھیں تو نہیں مگر وہ بصیر ضرور ہے اس کے کان نہیں مگر وہ سمیع ضرور ہے اسی طرح گو اس میں کوئی عادت نہیں پائی جاتی مگر اس میں یہ بات ضروری پائی جاتی ہے کہ جب وہ ایک کام کرتا ہے تو اُسے دوہراتا ہے۔ انسان میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو ہاتھ یا پیر ہلانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ انہیں بار بار ہلاتے ہیں اور عادت کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ کوئی بات باربار کی جائے اور یہ بات اللہ تعالیٰ میں بھی ہے کہ جب وہ ایک خاص موقعہ پر اپنا فضل نازل کرتا ہے تواس موقعہ پر باربارفضل کرتاہے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے ماتحت چونکہ رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا تھا۔ اس لئے اگر اس رسولؐ کی اتباع کی جائے جس پر قرآن کریم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ کی عادت سے مشابہت رکھنے والی صفت کے ماتحت ان لوگوں کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی وجہ سے دنیا سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس سے تعلقات نہیں رکھتے۔ کھانے پینے اور سونے میں کمی کرتے ہیں ۔ بے ہودہ گوئی وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے الہام سے نوازتا اور ان پررویا صادقہ اور کشوفِ صحیحہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور اسرار غیبیہ سے مطلع کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کا بھی ایک الہام ہے کہ
پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی
اس میں بھی وہی عادت والی بات بیان کی گئی ہے خداتعالیٰ نے ایک دفعہ بہار میں اپنی رحمت کی شان دکھائی تھی اس لئے جب پھر موسم بہار آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کہتی ہے کہ اب کے میرے بندے کیا کہیں گے اس لئے ہم پھر اپنی شان دکھاتے ہیں۔ اور اگر بندے اس سے فائدہ اٹھائیں تو اگلی بہار میں پھر وہی انعام نازل ہوتا ہے غرض کلامِ الہٰی کو اگر درخت تصور کر لیا جائے تو جو صفتِ الہٰی عادت کے مشابہ ہے وہ ہر رمضان میں اسے جھنجھوڑتی ہے اس سے مومنوں کو تازہ بتازہ پھل حاصل ہوتے ہیں۔
پھر روزوں سے اس زنگ میں بھی روحانیت ترقی کرتی ہے کہ جب انسان خداتعالیٰ کے لئے کھانا پینا ترک کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کے لئے اس کی راہ مین مرنے کو تیار ہے۔ اور جب وہ اپنی بیوی سے مخصوص تعلقات قطع کرتا ہے تو اس بات پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کیل ئے اپنی نسل کو بھی قربان کر دینے کیلئے تیار ہے اور جب وہ روزوں میں ان دونوں اقسام کے نمونے کر دیتا ہے تو وہ خداتعالیٰ کی لقاء کا مستحق ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ سے تعلق قائم ہونے اور روحانیت کے مضبوط ہوجانے کی وجہ سے وہ شخص ہمیشہ کے لئے گمراہی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
پھر رمضان کے ذریعہ استقلال کی عادت بھی ڈالی جاتی ہے کیونکہ یہ نیکی متواتر ایک عرصہ تک چلتی ہے۔ انسان دن میںکئی کئی مرتبہ کھانے کا عادی ہوتا ہے ۔ غرباء اور امراء شہری ار دیہاتی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق عام ایام میں کئی دفعہ کھاتے پیتے ہیں مگر رمضان میں تمام کھانے سمٹ سمٹا کر صرف دو بن جاتے ہیں۔ اسی طرح جہاںدوسرے ایام میں وہ ساری رات سوئے رہتے ہیں وہاں رمضان کے ایام میں انہیں تہجد اور سحری کے لئے اُٹھنا پڑتا ہے اور دن کو بھی قرآن کریم کی تلاوت میں اپنا کافی وقت صرف کرنا پڑتا ہے ۔ غرض رمضان کے ایام میں اپنی عادت کی بہت کچھ قربانی کرنی پڑتی ہے اور یہ قربانی ایک دن نہیں دو دن نہیں مگر متواتر ایک مہینہ تک بغیر ناغہ کے کرنی پڑتی ہے پس روزوں سے استقلال کا عظیم الشان سبق ملتا ہے۔ اور درحقیقت بغیر مستقل قربانیوں کے کوئی شخص خداتعالیٰ کو نہیں پا سکتا کیونکہ حقیقی محبت جوش دلانے سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ وہ عارضی ہوتی ہے بلکہ حقیقی محبت استقلال سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہو اکہ آپ کی ایک بیوی نے چھت سے ایک رسہ اس لئے لٹکا رکھا ہے کہ جب نماز پڑھتے پڑھتے انہیں اونگھ آنے لگے تو اس کا سہارا لے لیں تو آپ نے فرمایا یہ کوئی عبادت نہیں۔ عبادت وہی ہے جسے انسان بشاشت سے ادا کر سکے۔ اور جس کے نتیجہ میں ایسا ملال پیدا نہ ہو۔ جو اس کے دوام اور استقلال کو قطع کرنیکا موجب بن جائے۔
اسی طرح روزوں کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ مومنوں کو ایک مہینہ تک اپنے جائز حقوق کو بھی ترک کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ انسان گیارہ مہینے حرام چھوڑنے کی مشق کرتا ہے مگر بارھویں مہینہ میں وہ حرام نہیں بلکہ حلال چھوڑنے کی مشق کرتا ہے ۔ یعنی روزوں کے علاوہ دوسرے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کیلئے ہم کسی طرح حرام چھوڑسکتے ہیں۔ مگر روزوں کے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے لئے کس طرح حلال چھوڑ سکتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حلال چھوڑنے کی عادت پیدا کئے بغیر دنیا میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں اکثر فساد اس لئے نہیں ہوتے کہ لوگ حرام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اکثر فساداس لئے ہوتے ہیں کہ لوگ حلال کو بھی ترک کرنے کیل ئے تیار نہیں ہوتے ۔ وہ لوگ بہت ہی کم ہیں جو ناجائز طور پر کسی کا حق دبائیں مگر وہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں جو لڑائی اور جھگڑے کو پسند کرلیں گے مگر اپنا حق چھوڑنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہونگے۔ سینکڑوں پاگل اور نادان دنیا میں ایسے ہیں جو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے دنیا مین عظیم الشان فتنہ و فساد پیدا کر دیتے ہیں۔ اور اس بات کی کوئی پراوہ نہیں کرتے کہ دنیا کا امن برباد ہورہا ہے ۔حالانکہ اگر وہ ذاتی قربانی کریں تو بہت سے جھگڑے اور فساد مٹ سکتے ہیں اور نہایت خوشگوار امن قائم ہو سکتا ہے۔ پس رمضان کا مہینہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم صرف حرام ہی نہ چھوڑو بلکہ خداتعالیٰ کے لئے اگر ضرورت پڑ جائے تو حلال یعنی اپنا حق بھی چھوڑ دو۔ تاکہ دنیا میں نیکی قائم ہو اور خداتعالیٰ کا نام بلند ہو۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی عبادتیں اپنے اندر کئی قسم کے سبق رکھتی ہیں۔ بعض سبق ایسے ہوتے ہیں جو ہر عبادت سکھاتی ہے اور بعض سبق ایسے ہوتے ہیں جو ایک سے زیادہ عبادتوں کی نسبت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور بعض سبق ایسے ہیں جو ساری عبادتوں کی مجموعی حالت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے پیدا کردہ عالم میں ہمیں یہ نقشہ نظر آتا ہے کہ اس کا ہر فرد اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے پھر دو افراد مل کر اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں پھر دو سے زیادہ افراد مل کر اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں۔ پھر سارا عالم اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے یہی حال عبادتوں کا ہے۔ اور جس طرح قانونِ قدرت میں ایک ترتیب اور ربط موجود ہے اسی طرح عبادتوں میں بھی ربطِ ہے مگر یہ بات صرف شریعت اسلامیہ میں ہی پائی جاتی ہے باقی شرائع میں نہیں۔ ان میں نماز۔ زکوٰۃ اور روزہ کی قسم کی عبادتیں ہین۔ مگر ان کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ وہ ایسی ہی ہیں جیسے بکھری ہوئی اینٹیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا ہر حکم اپنے اندر ایک اور حکمت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نماز اور روزہ ہے۔ نماز اپنی ذات میں ایک سبق رکھتی ہے اور روزہ بھی اپنی ذات میں ایک سبق رکھتا ہے۔ مگر پھر نماز اور روزہ مل کر ایک اور سبق رکھتے ہیں۔ اگر نماز نہ ہوتی صرف روزے ہوتے تو یہ سبق رہ جاتا ۔ اگر اگر روزے نہ ہوہتے صرف نماز ہی ہوتی تب بھی یہ سبق رہ جاتا۔ بیشک روزے اپنی ذات میں مفید ہیں اور نماز اپنی ذات میں مفید ہے جس طرح اسلام کی ساری عبادتیں اپنی اپنی ذات میں مفید ہیں لیکن نماز اور روزہ مل کر ایک نیا سبق دیتے ہیں جس کا میں اس موقعہ پر ذکر کر رہا ہوں۔
نماز کا اصل مقام طہارت ہے جسے وضو کی حالت کہتے ہیں۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص وضو کر کے نماز کے لئے بیٹھ جات اہے وہ نماز ہی کی حالت میں ہوتا ہے ۔ نماز اس حالت کا انتہائی مقام ہے ۔ ورنہ اصل نماز مومن کی وہ قلبی کیفیت ہے جو وضو سے تعلق رکھتی ہے۔ اب یہ دیکھنا چاہیے کہ وجو کی کیا حقیقت ہے؟ وضو کے ذریعہ جو فعل ہم کرتے ہیں وہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو خواہ وہ پیشاب پاخانہ کے رنگ میں خارج ہو خواہ مرد عورت کے تعلقات کے ذریعہ سے خارج ہو یا اور ایسے رنگوں سے خارج ہو جن سے طہارت کو نقصان پہنچتا ہے۔ غرض وضو کا مدار کسی چیز کے جسم سے نہ نکلنے پر ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نماز کی طہارت کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو۔ لیکن روزہ کی طہارت کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم کے اندر داخل نہ ہو۔ بیشک روزہ میں مرد و عورت کے تعلقات سے بھی روکا گیا ہے۔ مگر یہ اس لئے ہے کہ روزہ کی حالت میں انسان کی کلی توجہ اور طرف نہ ہو۔ ورنہ روزہ کا اصل مدار کسی چیز کیجسم میں داخل نہ ہو۔ ورنہ روزہ کا اصل مدار کسی چیز کے جسم میں داخل نہ ہونے پر ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ روزہ کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم میںداخل نہ ہو۔ اگر صرف نماز ہی ہوتی اور وضو صرف ظاہری صفائی ہوتا تو کہا جاتا کہ اس سے مراد صرف ہاتھ منہ اور پائوں کا دھونا ہے۔ اسی طرھ اگر روزہ ہوتا اور کوئی چھوٹی چھوٹی چیز کھالی جاتی تو کہا جاسکتا تھا کہ روزہ سے مراد فاقہ کرانا ہے۔ لیکن جسم سے کچھ خارج ہونے سے وضو کا باطل ہو جانا اور کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے روزہ کا ٹوٹ جانا بتاتا ہے کہ کسی چیز کے خارج ہونے کا نماز سے اور کسی چیزکے اندر داخل ہونے کا روزہ سے تعلق ہے۔ اور ان دونوں کو ملا کر یہ لطیف بات نکلتی ہے کہ انسان طہارت میںاس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جبتک وہ دو احتیاطیں نہ کرے۔ یعنی بعض چیزین اپنے جسم سے نکلنے نہ دے اور بعض چیزیں داخل نہ ہونے دے۔ اگر ہم ان دو باتوں کا لحاظ رکھ لیں کہ بعض چیزوں کو جسم سے نکلنے نہ دیں اور بعض کو داخل نہ ہونے دیں تو طہارت کامل ہو جاتی ہے۔ نماز اور روزہ سے مجموعی طور پر انسان کو یہ گُر سکھایاگیا ہے کہ ہر انسان کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہیے کہ بعض چیزوں کے جسم سے نکلنے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے ان کو نکلنے نہ دے اور بعض چیزوں کے جسم میں داخل ہونے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے انہیں داخل نہ ہونے دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی گندی چیزیںہیں جن کا نکلنا روحانیت کے لحاظ سے مضر ہوتا ہے۔ دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ گند کا نکلنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ کیا ایسے گند بھی ہیں جن کا نہ نکلنا اچھا ہوتا ہے۔ اس کے متعلق ہمیں قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گند ایسے بھی ہیں جن کا نہ نکلنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کی طبیعت میں غصہ زیادہ ہے۔ اگر کسی موقعہ پر اسے سخت غصہ آگیا مگر وہ اسے نکلنے نہیں دیتا تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ نیک اور متقی انسان کو بھی غصہ آجاتا ہے مگر وہ اسے روک لیتا ہے۔ جیسے نماز کے وقت اس بات کا لحاظ رکھ لیتا ہے کہ اس وقت ایسی چیزیں ظاہر نہ ہوں جو وضو کو باطل کر دیں۔ بعض کیفیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ روک دینے سے کم نکلتی ہیں اور اگر انہیں نکلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے تو بڑھ جاتی ہیں غصہ بھی ایسی ہی کیفیات میں سے ہے۔ ہمارے ہاں محاورہ بھی یہی ہے۔ کہتے ہیں کہ اب تو آپ نے غصہ نکال لیا ہے اب جانے دو۔ یعنی گالی گلوچ یا مار پیٹ کے ذریعہ سے غصہ کا اظہار کر لیا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے دبالیتا اور روک لیتا تو وہ اس کے لئے نیکی بن جاتی ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کسی کے دل میں کوئی بُرا خیال پیدا ہو مگر وہ اسے روک لے اور اس پر عمل نہ کرے تو یہ اس کے لئے نیکی ہو جاتی ہے غرض قلب کے بعض ایسے ھالات ہوتے ہیں کہ اگر انہیں ظاہر کیا جائے تو طہارت باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ان کو دل ہی میں رکھیں تو نیکی بن جاتی ہے۔ یہ سبق نماز سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ کوئی چیز جسم میں داخل نہ ہونے دی جائے اس کی مثال جھوٹ ہے استہزاء چغلخوری اور غیبت وغیرہ کی باتیں ہیں۔ ان کا نہ سننا بھی نیکی ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی باتیں انسان کو روحانیت سے عاری کر دیتی ہیں پس اخلاقِ فاضلہ مکمل کرنے کے لئے ان دونوں کا خیال رکھناضروری ہوتا ہے۔ کہ بعض قسم کے گند و نکو باہر نہ نکلنے دیا جائے اور بعض کو اندر داخل نہ ہونے دیا جائے۔ روزہ ہمارے لئے یہ سبق رکھتا ہے کہ ہم ان تمام ناپاک اور گندی باتوں سے بچیں جن کو اپنے اندر داخل کرنے سے ہماری روحانیت باطل ہو جاتی ہے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کے قرب سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اس سوال کا جواب کہ روزے صرف رمضان کے مہینہ میں ہی کیوں رکھوائے جاتے ہیں۔ سارے سال پر ان کو کیوں نہ پھیلا دیا گیا یہ ہے کہ جب تک تواتر اور تسلسل نہ ہو صحیح مشق نہیں ہوسکتی۔ ہر مہینہ میں اگر ایک دو دن کا روزہ رکھ دیا جاتا تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا ایک وقت کے کھانے میں تو بعض اوقات سیر وغیرہ کے باعث بھی کھانا نہیں کھایا جا سکتا۔ مگر کیا ا سے بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے؟ حکومت بھی فوجیوں سے متواتر مشق کراتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہر مہینہ میں ایک دن ان کی مشق کے لئے رکھدے۔ غرض جو کام کبھی کبھی کیا جائے اس سے مشق نہیں ہو سکتی۔ مشق کے لئے مسلسل کام کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پورے ایک ماہ کے روزے مقرر فرما دیئے تاکہ مومنوں کو خداتعالیٰ کیل ئے بھوکا پیاسا رہنے اور رات کو عبادت کیلئے اُٹھنے اور دن کو ذکرِ الہٰی اور قرآن کرنیکی عادت ہو اور ان کی روحانی صلاحیتیں ترقی کریں۔
غرض رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لے کر آتا ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور انسان جب چاہے ان سے حصہ لے سکتا ہے صرف مانگنے کی دیر ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندہ کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہاںبندہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر بعض دفعہ دوسروں کے دروازہ پر چلا جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگِ بدر کے بعد ایک عورت کو دیکھا کہ وہ پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر پھر رہی تھی۔ اُسے جو بچہ بھی نظر آتا وہ اُسے اُٹھا کر اپنے گلے سے لگا لیتی اور پیار کر کے چھوڑ دیتی۔ آخر اسی طرح تلاش کرتے کرتے اُسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ اُسے سے اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ اس عورت کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اللہ تعالیٰ کو اپنے گمشدہ بندہ کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔ سو اس رحیم و کریم ہستی سے تعلق پیدا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ ہر گھڑی رمضان کی گھڑی ہو سکتی ہے اور ہر لمحہ قبولیت دُعا کا لمحہ بن سکتا ہے۔ اگر دیر ہوتی ہے تو بندہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی اس کے احسانات میں سے ہی ہے کہ اس نے رمضان کا ایک مہینہ مقر ر کر دیا۔ تاکہ وہ لوگ جو خود نہیں اُٹھ سکتے ان کو ایک نظام کے ماتحت اُٹھنے کی عادت ہو جائے اور ان کی غفلتیں ان کی ہلاکت کا موجب نہ ہوں۔
پس یاد رکھو کہ روزے کوئی مصیبت نہیں ہیں ۔ اگر یہ کوئی دکھ کی چیزی ہوتی تو انسان کہہ سکتا تھا کہ میں دکھ میں کیوں پڑوں ۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے روزے دکھوں سے بچانے اور گناہوں سے محفوظ رکھنے اور اللہ تعالیٰ کی لِقاء حاصل کرنے کا
اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ
کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
ایک ذریعہ ہیں۔ اور گوبظاہر یہ ہلاکت کا باعث معلوم ہوتے ہیں ۔ کیونکہ انسان فاقہ کرتا ہے۔ جاگتا ہے۔ بے وقت کھانا کھاتا ہے جسس سے معدہ خراب ہوجاتا ہے اور پھر ساتھ ہی اس کے یہ احکام بھی ہیں کہ صدقہ و خیرات زیادہ کرو۔ اور غرباء کی پرورش کا خیال رکھو۔ مگر یہی قربانیاں ہیں جو اُسے خداتعالیٰ کا محبوب بناتی ہیں۔ اور یہی قربانیاں ہیں جو قومی ترقی کا موجب بنتی ہیں۔
۹۸؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے چند گنتی کے دن ہیں جن میں روزے رکھنا تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ہاں جو تم میں سے بیمار یا مسافر ہو اس کے لئے اور دنوں میں اس تعداد کا پورا کرنا ضروری ہو گا۔
اَیَّا مًا مَّعْدُوْدَاتٍ اور فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے الفاظ صاف طور پر بتاتے ہیں کہ یہ روزے جن کا حکم دیا جا رہا ہے نفلی نہیں بلکہ واجب ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر ہو تو اُسے بہرحال بعد میں اس تعداد کو پورا کرنا ہوگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب رمضان کے دنوں میں میں بیمار تھا یا سفر پر گیا ہوا تھا تو اب رمضان کے بعد میں کیوں روزے رکھوں جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں رمضان المبارک کے روزوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف عام طور پر روزے رکھنے کا ذکر ہے وہ غلطی پر ہیں۔ اگر ان کی یہ بات صحیح ہو تو فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا۔ اول تو اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صرف ایسے ہی روزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کے لئے شریعت کی طرف سے بعض ایام مقرر ہیں ۔ دوسرے اَیّامٍ اُخَرَ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایام کسی خاص مہینہ سے متعلق ہیں۔ پس کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ سے عام نفلی روزے مراد لینا کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا۔
پھر اس بارہ میں اللہ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ جو شخص بیمار یا مسافر ہو اُسے بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ بلکہ اور دنوں میں اس کمی کو پورا کرنا چاہیے۔ میں نے اپنے تجربہ کی بنا پر یہ بات دیکھی ہے کہ رمضان کے بارہ میں مسلمانوں میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے۔ کئی تعلیم یافتہ لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ رمضان کی برکات کے قائل ہی نہیں اور بغیر کسی بیماری یا اور عذرِ شرعی کے روزہ کے تارک ہیں۔ اور دوسرے ول لوگ ہیں جو سارااسلام روزہ میں ہی محدود سمجھتے ہیں۔ اور ہر بیمار، کمزور، بوڑھے بچے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ ضرور روزہ رکھے خواہ بیماری بڑھ جائے یا صحت کو نقصان پہنچ جائے ۔ یہ دونوں افراط تفریط میں مبتلا ہیں۔ اسلام کا یہ ہرگز منشا نہیں کہ وہ انسان کو اس راستہ سے ہٹا دے جو اس کی کامیابی کا ہے۔ اگر تو شریعت چٹی ہوتی یا جرمانہ ہوتا تو پھر بے شک ہر شخص پر خواہ وہ کوئی بوجھ اُٹھا سکتا یانہ اٹھا سکتا اس کا اُٹھانا ضروری ہوتا۔ جیسے حکومت کی طرف سے جرمانہ کر دیا جائے تو اس وقت ی نہیں دیکھا جاتا کہ جس پر جرمانہ کیا گیا ہے اس میں ادا کرنے کی استطاعت بھی ہے یا نہیں بلکہ جس پر جرمانہ ہو اسے خواہ گھر بار بیچنا پڑے۔ بھوکا رہنا بڑے جرمانہ کی رقم ادا کرنا اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے احکام چٹی نہیں بلکہ وہ انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہیں۔ اور ان پر عمل کرنے سے خود انسان کو ہی آرام میسر آتا اور اُس کی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ جن مذاہب نے شریعت کو چٹی قرار دیا ہے ان کے ماننے والوں کے لئے تو ضروی ہے کہ خواہ کچھ ہو وہ اپنے مذہبی احکام کو ضرور پورا کریں۔ لیکن جس مذہب کے احکام کی غرض محض انسانی فائدہ ہو اس میں نفع و نقصان کا موازنہ ہوتا ہے اور جو صورت زیادہ مفید ہو اسے اختیار کر لیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے بعض احکام کے سلسلہ میں بعض شرائط مقرر کر دی ہیں تاکہ اگر وہ شرائط کسی میں پائی جائیں تو وہ اس حکم پر عمل کرے اور اگر نہ پائی جائیں تو نہ کرے۔ یہ شرائط صرف جسمانی عبادت کے لئے ہی نہیں بلکہ مالی عبادت کے لئے بھی ہیں۔جیسے زکوٰۃ ہے اور وطنی قربانی اور اتصال و اتحاد کی کوشش کے لئے بھی ہیں۔ جیسے حج ہے اسی طرح اور جتنے مسائل و اسلام سے تعلق رکھتے ہییں اور جتنے احکام فرض ہیں ان سب کے لئے یہ شرط ہے کہ جب انسان کو طاقت ہو انہیں ضرور ادا کرے لیکن جب اس کے طاقت سے بات بڑھ جائے تو ہو معذور ہے اگر حج انسان کے مالدار ہونے اور امن و صحت کی شرط سے مشروط ہے۔ اگر زکوٰۃ کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک خاص مقدار میں کسی کے پاس ایسا مال ہو جو اس کے ضروریات سے ایک سال بڑھا رہے۔ اگر نماز کے لئے یہ شرط ہے کہ جو کھڑا نہ ہو سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے وہ لیٹ کر نماز ادا کرے تو رمضان کے لئے بھی شرط ہے کہ اگرانسان مریض ہو۔ خواہ اسے مرض لاحق ہو چکا ہو یاا یسی حالت میں ہو جس میں روزہ رکھنا اسے یقینی طور پر مریض بنا سکتا ہو۔ جیسے حاملہ ہے یا دودھ پلانے والی عورت ہے یا ایسا بوڑھا شخص ہے جس کے قومیٰ مین انحطاط شروع ہو چکا ہے ای اتنا چھوٹا بچہ ہے جس کے قومیٰ نشوونما پا رہے ہیں تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہیے مسافر بیمار کا روزہ رکھنا ایسا ہی لگو ہے جیسے حائصنہ کا روزہ رکھنا۔ کون نہیں جانتا کہ حائصنہ کا روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بیوقوفی اور جہالت ہے یہی حال بیمار اور مسافر کا ہے۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں۔ پھر وہ بچہ جس کے قومیٰ نشوونما پا رہے ہیں اور آئندہ پچاس ساٹھ سال کے لئے وہ طاقت کا ذخیرہ اپنے اندر جمع کر رہا ہے۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ہو سکتا۔ مگر جس میں طاقت ہے اور جو رمضان کا صحیح معنوں میں مخاطب ہے وہ اگر روزہ نہیں رکھتا تو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کروانی چاہیے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزے رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہو گا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے۔ کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہوتا ہے اس وقت ان کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہیے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہو جائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماںباپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچوں کو جرات دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سار ے روزے رکھیگا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلو م ہوتے ہیں میں سمجھتا ہوں ایسے بچے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کریگا او رنہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کرینگے۔
بہرحال ان باتوں میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جہاں شریعت روکتی ہے۔ وہان رک جانا چاہیے اور جہاں حکم دیتی ہے وہاں عمل کرنا چاہیے۔ مگر مسلمان اس وقت اعتدال کو ترک کر بیٹھے ہیں ان میں یا تو وہ لوگ ہیں جو روزہ ہی نہیں رکھتے اور یا وہ لوگ ہیں جو روزہ کے پابند ہیں کہ بیماری اور سفر میں بھی اسے ضروری سمجھتے ہیں۔ اوربعض تو اس میں اس قدر شدت اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھواتے ہیں اور اگر وہ توڑنا چاہیں تو توڑنے نہیں دیتے۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ سات سات آٹھ آٹھ سال کے بچوں نے روزے رکھے تو ماں باپ نے ان کی نگرانی کی کہ وہ روزہ توڑ نہ دیں یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ بے شک روزہ کا ادب و احترام ان کے دلوں مین پیدا کرنا ضروری ہے اور انہیں بتانا چاہیے کہ اگر وہ سارا دن روزہ نہیں رکھ سکتے تو روزہ رکھیں ہی نہیں۔ لیکن یہ کہ اگر وہ رکھ لیں تو پھر توڑیں نہیں خواہ مرنے لگیں نہایت ظالمانہ فعل ہے اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔
غرض ایک طرف تو مسلمانوں میں ایسے لو گ ہیں جو روزہ کے بارہ میں اس قدر سختی کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو روزوں کی ضرور ت ہی کے قائل نہیں بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ اسی خیال کا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں میں نے اخبارات میں پڑھا تھا کہ ایک شخص ٹرکی یا مصر سے یہاں آیا ۔ وہ تقریریں کرتا پھرتا تھا کہ ایک اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں ہوتے تو ضرور روزہ کی شکل بدل دیتے۔ اس لئے ہمیں بھی بدل دینی چاہیے کیونکہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ اور ہے۔ اور اس کی صورت وہ یہ پیش کرتا تھا کہ روزہ کی حالت میں روٹی نہ کھائی جائے بلکہ کچھ کیک اور بسکٹ وغیرہ کھا لئے جائیں۔ غرض ایک طبقہ افراط کی طرف چلا گیا ہے تو دوسرا تفریط کی طرف ۔ حالانکہ اسلام ایک وسطی مذہب ہے او روہ جہاں بیمار اور مسافر کو اجازت دیتا ہے کہ وہ بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھیں وہاں ہر بالغ اور باصحت مسلمان پر یہ واجب قرار دیتا ہے کہ وہ رمضان کے روزے رکھے اور ان مبارک ایام کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح و تحمید اور قرآن کریم کی تلاوت اور دعائوں اور ذکر الہٰی میں بسر کرے تاکہ اُسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔
بہر حال روزہ کے بارہ میں شریعت نے نہایت تاکید کی ہے ۔ اور جہاں اس کے متعلق حد سے زیادہ تشدد ناجائز ہے وہاں حد سے زیادہ نرمی بھی ناجائز ہے۔ پس نہ تو اتنی سختی کرنی چاہیے کہ جان تک چلی جئے اور نہ اتنی نرمی اختیار کرنی چاہیے کہ شریعت کے احکام کی ہتک ہو اور ذمہ داری کو بہانوں سے ٹال دیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کئی لوگ محض کمزوری کے بہانہ کی وجہ سے روزے نہیںرکھتے اور بعض تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر روزہ رکھا جائے تو پیچش ہو جاتی ہے۔ حالانکہ روزہ چھوڑنے کے لئے یہ کوئی کافی وجہ نہیں کہ پیچش ہو جایا کرتی ہے۔ جب تک پیچش نہ ہو انسان کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہے۔ جب پیچش ہو جائے تو پھر بے شک چھوڑ دے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتا ہے مگر یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ صرف اپس ضعف کی وجہ سے روزہ چھوڑنا ناجائز ہے جس میں ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے۔ ورنہ یوں تو بعض لوگ ہمیشہ ہی کمزور رہتے ہیں تو کیا وہ کبھی بھی روزہ نہ رکھیں۔ میں اڑھائی تین سال کا تھا جب مجھے کالی کھانسی ہوئی تھی۔ اس وقت سے میر ی صحت خراب ہے۔ اگر ایسے ضعف کو بہانہ بنانا جائز ہو تومیرے لئے تو شاید ساری عمر میں ایک روزہ بھی رکھنے کا موقع نہیں تھا۔ضعف وغیرہ جسے روزہ چھوڑنے کا بہانا بنایا جاتا ہے اسی کی برداشت کی عادت ڈالنے کے لئے تو روزہ رکھایا جاتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ نماز بدی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ اس پر کوئی شخص کہے کہ میں نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ اس کی وجہ سے بدی کرنے سے رک جاتا ہوں۔ پس روزہ کی تو غرض ہی یہی ہے کہ کمزوری کو برداشت کرنے کی عادات پیدا ہو ورنہ یوں تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں اس لئے روزہ نہیں رکھتا کہ مجھے بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے۔ حالانکہ اس قسم کی تکالیف کی برداشت کی عادت پیدا کرنے ہی کے لئے روزہ مقرر کیا گیا ہے۔ جو شخص روزہ رکھے کیا وہ چاہتا ہے کہ فرشتے سارا دن اس کے پیٹ میں کباب ٹھونستے رہیں۔ وہ جب بھی روزہ رکھے گا اسے بھوک اور پیاس ضرور برداشت کرنی پڑیگی۔ اور کچھ ضعف بھی ضرور ہو گا۔ اور اسی کمزوری اور ضعف کو برداشت کرنیکی عادت پیدا کرنے کیلئے روزہ رکھایا جاتا ہے۔ بے شک روزہ کی اور بھی حکمتیں ہیں جیسے ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے غرباء اور فاقہ زدہ لوگوں کی اعانت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے مگر بہر حال روزہ اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ انسان کو کوئی تکلیف ہی نہ ہو اور وہ کوئی ضعف محسوس نہ کرے بلکہ اس لئے رکھا جاتا ہے کہ اسے ضعف برادشت کرنے کی عادت پیدا ہو۔ پس ضعف کے خوف برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو۔ پس ضعف کے خوف سے روزہ چھوڑنا ہرگز جائز نہیں۔ سوائے اس کے کہ کوئی بوڑھا ہو چکا ہو یا ڈاکٹر اس کے ضعف کو بھی بیماری قرار دے چکا ہو۔ ایسی صورت میں بیشک روزہ نہیں رکھنا چاہیے مگر ضعف کے متعلق ظاہری ڈیل ڈول اور صورت سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے ۔ بعض لوگ بظاہر موٹے تازے ہوتے ہیں اور چلتے پھرتے بھی ہیںل لیکن دراصل وہ بیمارہوتے ہیں۔ اور ان کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوتا۔ بالخصوص جن لوگوں کو دل کی بیماری ہو۔ ایسے لوگوں کے لئے بھوک پیاس کا برداشت کرنا سخت خطرناک ہوتا ہے پس پس کمزوری یا ضعف کا فیصلہ بظاہر دیکھنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ڈاکٹر کیا کہتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ڈاکٹر بھی دیانت داری سے کام نہیں لیتے۔ ذرا کوئی شخص دو چار بار جھک کر سلام کر دے تو جو چاہے ڈاکٹر سے لکھوالے ظاہر ہے کہ ایسے سرٹیفیکیٹ کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر حقیقی طور پر ڈاکٹر کسی کو مشورہ دے کہ اسے کے لئے روزہ رکھنا مضر ہے تو گو وہ بظاہر تندرست بھی نظر آئے اس کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ بیمار اور مسافر کے لئے روزہ جائز نہیں ۔ چنانچہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا:۔
’’جو شخص مریض اور مسافر ہونیکی حالت میں ماہِ ایام میں روزہ رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے خداتعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھے ۔ مرض سے صحت پا نے اور سفر ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔ کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہیے ۔ مریض یا مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئیگا۔‘‘
(فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۳۲أ۱۳۳)
پھر فرمایا ہے۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کو بڑی دقت پیش آئی ہے۔ اور انہوں نے اس کے کئی معنے کئے ہیں۔ یہ دقت زیادہ تر اس وجہ سے پیش آئی ہے کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں جو ہ‘ کی ضمیر استعمال ہوئی ہے اس کے مرجع کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے اس کا مرجع صوم کو قرار دیا ہے اور بعض نے فِدْیَۃ’‘ طَعَاَمُ مِسْکِیْنٍ کو۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس مشکل کو ’’الفوذ الکبیر‘‘ میں اس طرح حل کیا ہے کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کی طرف گئی ہے اس پر یہ اعتراض پڑتا تھا کہ یہ اضماء قبل الذکر ہے یعنی ضمیر پہلے آ گئی ہے اور مرجع بعد میں ہے۔ حالانکہ مرجع پہلے ہونا چاہیے تھا اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ فدیہ کا مقام چونکہ نحوًا مقدم ہے یعنی وہ متدا ہے اس لئے اس کی ضمیر اس کے ذکر سے پہلے آسکتی ہے۔
دوسرا اعتراض یہ پڑتا تھا کہ فِدْیَۃ’‘ مونث ہے اور ضمیر مذکر۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ فدیہ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کا قائم مقام ہے اور وہ مذکر ہے ۔ اس لئے فدیہ کی طرف بھی مذکر کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ اس بنا پر انہوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ ان لوگوں پر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہوں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دینا واجب ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت میں صدقۃ الفطر کی طرف اشارہ ہے جو اسلام میں نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ غرباء بھی عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں۔
دوسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ مومنوں میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ روزوں کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ بھی دے دیا کریں۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور احادیث سے چونکہ یہ بات ثابت نہیں کہ روزہ دار فدیہ بھی دے اس لئے یہ معنے تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے علاوہ عقلی طور پر یہ معنے اس لئے بھی نا قابلِ قبول ہیں کہ فدیہ تو اس پر ہونا چاہیے جو روزنہ نہ رکھ سکے جو شخص باقاعدہ روزے رکھ رہا ہے اس پر فدیہ کیسا؟ ہاں اگر کوئی شخص اس شکریہ میں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس عبادت کے بجا لانے کی توفیق بخشی ہے روزہ رکھ کر ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کرے تو وہ ثواب کا مستحق ہے کیونکہ اس نے روزہ بھی رکھا اور ایک مسکین کو کھانا بھی کھلایا۔ مگر بہرحال وہ ایک زائد نیکی ہو گی ۔ قرآن کریم کسی کو اس بات کا پابند قرار نہیں دیتا کہ وہ روزہ بھی رکھے او رایک مسکین کوکھانا بطور فدیہ بھی کھلائے۔
(۳) مفسرین نے اس آیت کے ایک معنے یہ کئے ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ سے پہلے لَا محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ وَعَلَی الَّذِیْنَ لَا یُطِیْقُوْنَہ‘۔ اور ہ‘ کی ضمیر کا مرجع وہ صوم کو قرار دیتے ہیں یعنی وہ لوگ جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیا کریں وہ کہتے ہیں کہ اسجگہ لَا اُسی طر ح مخدوف ہے جس طرح آیت یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا(نساء آیت ۱۷۷) میں تَضِلُّوْا سے پہلے بھی لَا مخدوف ہے ا ور آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ باتیں اس لئے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جائو۔گو یہ بھی کہاجا سکتا ہے کہ یہاں لَا مقدر نہیں بلکہ ایک مضاف محذوف ہے اور اصل عبار ت یوں ہے کہ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ مَّخَافَۃَ اَنْ تَضِلُّوْا یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے لئے یہ باتیں تمہارے گمراہ ہو جانے کے خدشہ کی بنا ء پر بیان کرتا ہے۔
(۴) بعض نے اس آیت کا یوں حل کیا ہے کہ عربی زبان میں اَطَاقَ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی شخص نے کام تو کیا مگر بہت مشکل اور مصیبت سے۔ گویا جب کوئی شخص اپنے نفس کو انتہائی مشقت میں ڈالے بغیر کوئی کام سر انجام دینے کی اپنے اندر طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کے لئے اَطَاقَ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے اَلَّذیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ سے وہ لوگ مراد ہیں جو روزہ سے سخت تکلیف اٹھاتے ہیں اور جن کی بدنی طاقت بالکل زائل ہو جاتی ہے بلکہ بعض دفعہ غشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے جیسے بوڑھے یا دل کے مریض یا اعصابی کمزوری کے شکار یا حاملہ اور مرضعہ ۔ ایسے لوگ جو بظاہر تو بیمار نظر نہیں آتے لیکن روزے رکھنے سے بیمار ہو جاتے ہیں ان کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ روزے رکھنے کے بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ اپنی طرف سے دیدیا کریں۔ ان معنوں کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ قرطبی نے یُطِیْقُوْنَ کی ایک قرات یُطَوِّ قُوْنَ بھی بیان کی ہے۔ یعنی جو لوگ صرف مشقت سے روزہ نبھا سکتے ہیں۔ اور جن کی صحت روزے رکھنے سے غیر معمولی طور پر خراب ہو جاتی ہے وہ بیشک روزے نہ رکھیں ہاں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دیدیا کریں۔
میرے نزدیک چونکہ اَطَاقَ بابِ اِفعال میں سے ہے اور بابِ افعال کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ سلب کے معنے دیتا ہے اس لئے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ لوگ جن کی طاقت کمزور ہو گئی ہے یعنی قریباً ضائع ہو گئی ہے وہ بیشک روزہ نہ رکھیں مگر چونکہ ان کا روزہ نہ رکھنا محض اجتہادی امر ہو گا مرض ظاہر کے نتیجہ میں نہیں ہو گا بلکہ صرف متوقع کمزوری کے نتیجہ میں ہو گا۔ اور اجتہاد میں غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے اگر ان کو فدیہ دینے کی طاقت ہو تو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ان دنوں میں دے دیا کرین تاکہ ان کی غلطی کے امکان کا کفارہ ادا ہوتا ہے۔
(۵) ایک اور معنے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ پر کھولے ہیں وہ یہ ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر روزہ کی طرف پھرتی ہے اور مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی بیماری شدید ہے یا جن ک سفر پر مشقت ہے وہ تو بہرحال فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مطابق دوسرے ایام میں روزے رکھیں گے۔ لیکن وہ لوگ جو کسی معمولی مرض میں مبتلا ہیں یا کسی آسانی سے طے ہونے والے سفر پر نکلے ہیں اگر وہ طاقت رکھتے ہوں تو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ بھی دے دیا کریں۔ اس وجہ سے کہ ممکن ہے انہوں نے روزہ چھوڑنے میں غلطی کی ہو۔ وہ اپنے آپ کو بیمار سمجھتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی بیماری ایسی نہ ہو کہ وہ روزہ ترک کر سکیں۔ یا وہ اپنے آپ کو مسافر سمجھتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا سفر سفر ہی نہ سمجھا گیا ہو۔ پس چونکہ ان کی رائے میں غلطی کا ہر وقت امکان ہے اس لئے ایسے بیماروں اور مسافروں کو چاہیے کہ ان میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں وہ دوسرے ایام میں فوت شدہ روزوں کو پورا کرنے کے علاوہ ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کریں۔ تاکہ ان کی اس غلطی کا کفار ہو جائے۔ اور اگر یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر کا مرجع فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مَسْکِیْنٍ کو ہی قرار دیا جائے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے لکھا ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اس حکم کو صدقہ الفطر پر محمول کیا جائے۔ اس آیت کا فَمَنْ کَانَ مَنْکُمْ مَّرِ یضًا اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ سے تعلق ہو گا اور اس کے یہ معنے ہونگے کہ اگرچہ مریض اور مسافر کو یہ اجازت ہے کہ وہ اور دنوں میں روزہ رکھ لیں لیکن ان میں سے وہ لوگ جن کو آسودگی حاصل ہو اور وہ ایک شخص کو کھانا کھلا سکتے ہوں۔ا نہیں چاہیے کہ ایک مسکین کا کھانا۔ بطور فدیہ رمضان دے دیا کریں۔ اگر طاقت نہ ہو تو پھر تو فدیہ رمضان دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر طاقت ہو تو خواہ وہ بیمار ہوں یا مسافر انہیں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ رمضان دینا چاہیے۔ اگر روک عارضی ہو اور وہ بعد میں دور ہو جائے روزہ تو بہر حال رکھنا ہو گا۔ فدیہ دیدینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ ان مبارک ایام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بنا پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کر سکے۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ شرطِ استطاعت ان دونوں حالتوں میں دینا چاہیے۔ پھر جب عذر دور ہو جائے تو روزہ بھی رکھنا چاہیے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے۔ بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اس کی صحت اجازت اسے پھر روزے رکھنے ہونگے۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اور صحت ہونے کے بعد وہ ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طور پر خراب ہو جائے۔ باقی جو بھی کھانا کِھلانے کی طاقت رکھتا ہو اگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایام میں روزے رکھے یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے۔
اس آیت میں جو اَلَّذِیْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دو کا بدل یعنی قائم مقام ہو سکتا ہے۔ اول ان مومنوں کا جن کا ذکریٰٓاَ یُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِیَّامُ میں کیا گیا ہے ۔ دوم اُن لوگوں کو جن کا ذکر نَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ میں ہے ۔ اگر اسے یٰٓاَ یُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا کا بدل سمجھا جائے تو اس آیت کے یہ معنے ہو نگے کہ وہ لوگ جو ضعف کی وجہ سے روزے سے سخت تکلیف اُٹھاتے ہیں اور اپنے نفس پر بڑی مشقت برداشت کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے ایک مسکین کا کھانا بطورفدیہ دے دیا کریں ۔اور اگر دوسرا بدل لیں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ مریض اور مسافر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دے دیں اور پھر دوسرے دنوں میں روزے بھی رکھیں ۔کیونکہ بعض امراض ایسی ہوتی ہیں یا بعض سفر ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ آیا اس میں روزہ ترک کیا جا سکتا ہے یا نہیں ! حدیث میں آیا ہے کہ مشکوک اشیاء میں بھی محارم ہی کے نیچے ہوتی ہیں ۔کیونکہ جو مشکوک تک پہنچتا ہے وہ آہستہ آہستہ محارم تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔ پس اگر یہ دونوں باتیں مشکوک ہوں تو ایسے مسافر اورمریض کو چاہیے کہ فدیہ دے دے اور رخصت سے فائدہ اٹھائے اور بعد میں روزے بھی رکھ لے ۔ اس میں ایسی بیماری والا جس کی بیماری مشتبہ ہو یا ایسا سفر والا جس کا سفر مشتبہ ہو مراد ہیں ۔ان میں سے جو لوگ طاقت رکھتے ہوں اُن پر فدیہ دینا لازم ہے ۔
شَھْررَمَضَانَ
فَعِدَّۃُٗ
کیونکہ ممکن ہے انہوں نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی ہو ۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی مذہب تھا کہ ایسے لوگ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں ۔ اور رمضان کے دنوں میں فدیہ دیں ۔
پھر فرماتا ہے ۔ فَمَنْ تَطَوَّ َع خَیْرً افَھُوَ خَیْرُٗ لَّہٗ جو شخص پوری بشاشت اور شوق کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتا ہے تو خواہ وہ ابتداء میں تکلف کے ساتھ ہی ایسا کرے اور اسے اپنے نفس پر ایک رنگ میں بوجھ ہی محسوس ہو تب بھی اس کا نتیجہ اس کے لئے اچھا نکلیگا ۔ یعنی وہ نیکی اس کے لئے بہترین نتائج پیدا کرنے والی ثابت ہو گی ۔ عربی زبان میں تَطَوُّع کا لفظ اُس وقت استعمال ہوتا ہے جب اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر کسی حکم کی اطاعت کی جائے ۔ اور تکلف سے بشاشت کا اظہار کیا جائے ۔پس فَمَنْ تَطَوَّ َع خَیْرً افَھُوَ خَیْرُٗ لَّہمیں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو شخص پورے شعر صدر کے ساتھ کسی نیکی میں حصہ نہ لے سکے اُسے چاہیے کہ کم از کم اپنے نفس پر بوجھ ڈالتے ہوئے ہی اس میں حصہ لے اور اپنے چہرہ پر تکلف سے بشاشت پیداکرے اس کا نتیجہ یہ وہ گا کہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے خیر اوربرکت کے رستے کھول دیگا ۔یعنی نیکیوں میں ترقی کرتے کرتے اُسے ایسا مقام میسر آجائیگا کہ نیکی اس کی غذابن جائیگی اور تحریکات پر عمل اس کیلئے ایسا ہی آسان ہو جائیگا جیسے اعلیٰ درجہ کے مومنوں کیلئے آسان ہوتاہے ۔ لیکن اس کے علاوہ تَطَوُّعکے معنے محاورہ میں غیر واجب کا م کے نفلی طور پر کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۔ اور امام راغب نے اپنی مشہور کتاب مفردات میں اس کی تصریح کی ہے ۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے ۔ کہ جو شخص نفلی طور پر کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اس کیلئے بہت بہتر ہو گا ۔یعنی رمضان میں روزے رکھنے یا ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا حکم تو ہم نے دے دیا ہے لیکن اگر کوئی شخص ثواب کی نیت سے اس میں کوئی زیادتی کرنا ہے و اسے اس کا اختیار ہے ۔ مثلاً وہ اختیار رکھتا ہے کہ ایک کی بجائے دو مساکین کا کھانا بطور فدیہ دے دے ۔ یا وہ اختیار رکھتا ہے کہ روزہ بھی رکھے اور حصول ثواب کیلئے ایک مسکین کو کھانا بھی کھلاتا رہے ۔ یا رمضان کے روزوں کے علاوہ نفلی طور پر دوسرے ایام میں بھی روزے رکھے ۔ یہ سب حصول ثواب کے ذرائع ہیںجن میں ہر مومن اپنی اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے کراللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے ۔
پھر فرمایا ۔وَاَنْ تَصُوْمُوْاخَیْرُٗ لَکُمْ ۔ اس کے بعد لوگ یہ معنے کرتے ہیں ۔ کہ اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ مگر یہ صحیح نہیں ۔اگر یہ معنے ہوتے تواِنْ تَصُوْمُوْا کہناچاہیئے تھا۔نہ کہ َاَنْ تَصُوْمُوْا۔اس کے صحیح معنے یہ ہیں کہ اگر تم علم رکھتے ہوتو سمجھ سکتے ہو کہ روزہ رکھنا تمہارے لئے بہر حال بہتر ہے ۔ یعنی ہم نے جس حکم کیلئے یہ تمہید اُٹھائی ہے ۔ وہ کوئی حصول حکم نہیں بلکہ ایک غیر معملی خیر اور برکت رکھنے والا حکم ہے ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم اسے پوری توجہ سے سُنو اور اس پر عمل کرو۔
مِّنْ اَیَّامِ
تَشْکُرُوْنَo
۹۹؎ حل لغات:۔ ھُدًی:یہ مصدر ہے اور فاعل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ یعنی لوگوں کو ہدایت دینے والا (مزید تشریح کیلئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرۃ ۳؎)
بَیِّنَاتٍ۔ جمع ہے اس کا مفرد اَلْبَیِّنَۃُ ہے ۔جس کے معنے ہیں اَلدَّلَالَۃُ الْوَاضِحَۃُ عَقَلِیَّۃً کَانُتْ اَوْ مَحْسُوْسَۃً یعنی واضح دلیل خواہ وہ عقلی ہو یا حس سے تعلق رکھتی ہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ رمضان کا مہینہ ان مقدس ایما کی یاد دلاتا ہے جن میں قرآن کریم جیسی کامل کتاب کا دنیا میں نزول ہوا۔ ہو مبارک دن ۔وہ نیا کی سعادت کی ابتداء کے دن ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُسکی برکت کے دروازے کھولنے والے دن جب دنیا کی گھناونی شکل اس کے بد صورت چہرے اور اس کے اذیت پہنچانے والے اعمال سے تنگ آکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار حڑا میں جا کر اور دنیا سے منہ موڑ کر اور اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر صرف اپنے خدا کی یاد میں مصروف رہا کرتے تھے اور خیال کرتے ھتے کہ دنیا سے اس طرح بھاگ کر وہ اپنے فرض کو ادا کرینگے جسے ادا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے۔ انہی تنہائی کی گھڑیوں میں انہی خدائی کے اوقات میں انہی غور وفکر کی ساعات میں رمضان کا مہینہ آپ پر آگیا ۔ اور جہاں تک معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے چوبیسویں رمضان کو ہو جو دنیا کو چھوڑ کر علیحدگی میں چلا گیا تھا اسے اس کے پیدا کرنے والے اُس کی تربیت کرنے والے اُس کو تعلیم دینے والے اور اس سے محبت کرنے والے خدا نے حکم دیا کہ جاؤ اور جا کر دنیا کو ہدایت کا راستہ دکھاؤ۔ اور بتایا کہ تم مجھے تنہائی میں اور غار حرا میں ڈھونڈتے ہو مگر میں تمہیں مکہ کی گلیوں اور ان کے شووروشغب میں ملوں گا۔ جاؤ اور اپنی قوم کو پیغام پہنچا دو کہ میں نے تم کو ادنیٰ حالت میں پیدا کر کے اور پھر ترقی دے کر اس لئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ کھاؤ پیو اور مر جاؤ اور کوئی سوال تم سے نہ کیا جائے ۔
آپ اس آواز کو سن کر حیران رہ گئے ۔ آپ نے جبرائیل کو حیرت سے دیکھ کر کہا کہ ماانا بقاری ء ۔میں تو پڑھنا نہیں جناتا ۔یعنی اس قسم کا پیغام مجھے عجیب معلوم ہوتا ہے ۔ کیا یہ الفاظ میرے منہ سے مکہ والوں کے سامنے زیب دینگے ۔ کیا میری قوم ان کو قبول کرے گی اور سُنے گی ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو متواتر حکم دیا گیا کہ جاؤ اور پڑھو۔ جاؤاور پڑھو ۔جاؤاور پڑھو۔تب آپ نے اس آواز پر اس ارشاد کی تعمیل میں تنہائی کو چھوڑا اور جلوت اختیار کی ۔مگر وہ کیسی مجلس تھی ۔ وہ ایسی نہ تھی کہ جس میں ایک دوست بیٹھ کر دوسرے دوست کے سامنے اپنے شکوے بیان کرتا ہے ۔ ۔وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں دوست اپنے دوست کے خوش کر نیووالے حالات سنتا اور اس سے لطف اٹھاتا ہے ۔ وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں انسان اپنی ذہنی کوفت اور تھکان دور کرتا ہے ۔وہ قصوں کہانیوں والی مجلس نہ تھی ۔شعروشاعری کی مجلس نہ تھی ۔وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں مباغثات اور مناظرات ہوتے ہیں ۔ بلکہ وہ جلس ایسی تھی جس میں ایک طرف سے متواتر اور پیہم اخلاص کا اظہار ہوتا تھا تو دوسری طرف سے متواتر اور پیہم گالیاں ۔دُشنام ۔ڈراوے اور دھمکیاں ملتی تھیں ۔ وہ ایسی مجلس تھی جس میں ایک دفعہ جانے کے بعد دوسارے دن جانے کی خواہش باقی رہتی ۔وہ ایسی گالیٓں اور ایسے ارادے اور ایسی دھمکیاں ہوتی تھیں کہ ایک طرف اُن کے دینے والے سمجھتے تھے کہ اگر اس شخص میں کوئی حس باقی ہے تو کل اس منہ سے ایسی بات ہرگز نہیں نکلے گی ۔ وہ خوش ہوتے تھے کہ آج ہم نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی زبان بند کر دی اوردوسری طرف جب خدا تعالیٰ کا سورج چڑھتا تو خداتعالیٰ کا یہ عاشق صادق خدا تعالیٰ کا پیغام مکہ والوں کو پہنچانے کے لیئے پھر نکل کھڑا ہوتا۔پھر تمام دن وہی گالیاں وہی دھمکیاں اور وہی ڈراوے ہوتے تھے اور اسی میں شام ہو جاتی ۔مگر جب رات کا پردہ ھائل ہوتا تو وہ سمجھتے کہ شاید آج یہ خاموش ہو گیا ہو گا۔مر وہ جس کے کانوں میں خدائی آواز گونج رہی تھی ۔ وہ مکہ والوں سے دب کر کیسے خاموش ہو جاتا اگر تو اس کی رات سوتے گزرتی ت وبے شک اس پیغٓم کو بھول جاتا ۔ مگر جب اُس کے سونے کی حالت جاگنے ہی کی ہوتی تو وہ کیسے بھول سکتا تھا ۔وہ سبق جو دوہرایا نہ جائے بیشک بھول سکتا ہے ۔ مگر جب آپ کی یہ حالت تھی کہ جو نہی سرہانے پر سر رکھا وہی اِقْرَئْ کی آواز آنی شروع ہو جاتی تو آپ کس طرح اس پیغام کو بھول جاتے ۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رمضان ہی میں یہ آواز آئی اور رمضان ہی میں آپ نے غار حرا سے باہر نکل کر لوگوں کو یہ تعلیم سنانی شروع کی ۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ اْلقُرْاٰنُ یعنی رمضان کہ مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اُترا۔ دوسری جگہ آتا ہے اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۔یعنی قرآن لیلۃ القدر میں اُترا گیا ہے ۔
رَمَضَان رَمَض سے نکلا ہے ۔جس کے معنے عربی زبان میں جلن اور سوزش کے ہیں ۔ خواہ وہ جلن دھوپ کی ہو خواہ بیماری کی ۔ اس لئے رَمَضَان کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا موسم جس میں سختی کے اوقات اور ایام ہوں ۔ اور اِدھر فرمایا ۔ہم نے اسے رات کو اتارا ہے اور رات تاریکی اور مصیبت پر دلالت کرتی ہے ۔ پس ان دونوں آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ الہام کا نزول تکالیف اور مصائب کے ایام میں ہوا کرتاہے ۔ جب تک کوئی قوم مصائب اور شدائد سے دوچار نہیں ہوتی ۔جب تک اُس کے دن راتیں نہیں بن جاتے جب تک وہ بھوک اور پیاس کی شدت سے تکلیف نہیں اُٹھاتی اُس وقت تک خدا تعالیٰ کا کلام اُس پر نازل نہیں ہوسکتا۔ اور اس ماہ کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی بتایا ہے کہ اگر تم اپنے اوپر الہام الٰہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہوں تو ضروری ہے کہ تکالیف اور مصائب میں سے گذرو اِس کے بغیر الہام الٰہی کی نعمت تمہیں میسر نہیں آسکتی ۔ پس رمضان کلام الٰہی کو یاد کرانے کا مہینہ ہے ۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی چاہیے ۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی اس مہینہ میں درس قرآن کا انتظام کرتے ہیں۔ دوستوں کو چاہیے کہ اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کیا کریں اور قرآن کریم کے معانی پر غور کیا کریں تاکہ اُن کے اندر قربانی کی روح پیدا ہو جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی ۔ بہر حال یہ مہینہ بتاتا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا فتح کرے اُس کیلئے ضروری ہے کہ وہ غار حرا کی علیحدگیوں میں جائے ۔ دنیا چھوڑے بغیر نہیں مل سکتی ہے ۔ پہلے اس سے علیحدگی اختیار کرنی ضروری ہوتی ہے ۔ اس کے ملنے کا بیشک یہی طریق ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کیلئے وقف کر دیا جائے۔ لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کیلئے کا ہو کر اس پر قبضہ کرنا چاہے وہ اُسی صورت میں کر سکیگا جب اُسے چھوڑ دیگا دیکھو ۔ابوجہل نے دنیا کیلئے کوشش کی اور اُسے حاسل کیا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے چھوڑدیا اور پھر بھی وہ آپ کی مل گئی ۔ بلکہ ابو جہل سے زیادہ ملی۔ابوجہل زیادہ سے زیادہ مکہ کا ایک رئیس تھا ۔مگر آپ اپنی زندگی میں ہی سارے عرب کے بادشاہ ہو گئے اور آج ساری دنیا کے شہنشاہ ہیں۔ غرض جو دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی وہ ابو جہل کو کہاں حاصل ہوئی ۔ مگر ابو جہل کو جو کچھ حاصل ہوا وہ دنیا کمانے سے ملا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ ملا وہ دنیا چھوڑنے سے ملا ۔ پس روحانی جماعتوں کو دنیا چھوڑ دینے سے ملتی ہے ۔ اور دنیوی لوگوں کو دنیا کمانے سے لمتی ہے ۔ اور رمضان ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ پہلے شدائد اور مصائب قبول کرو۔ راتوں کی تاریکیاں قبول کرو۔ اور ان چیزوں سے مت گھبراو ٔ ۔کیونکہ یہی قربانیاں تمہاری کامیابی کا ذریعہ ہیں۔
غرض رمضان ایک خاص اہمیت رکھنے والا مہینہ ہے ۔ اور جس شخص کے دل میں اسلام اور ایمان کی قدر ہوتی ہے ۔ وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کلئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سولم کے درمیان گذر جائیں ۔ کتنے ہی سال ہمیں اور انکو آپس میں جدا کرتے چلے جائیں کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اور ان میں حائل ہو تا چلا جائے لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے تو یوں معلوم وہتا ہے کہ ان صدیوں اور سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوڑتا سا کر کے رکھ دیا ہے ۔ اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام فاصلہ کو رمضان نے سیمٹ سماٹ کر ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے ۔ وہ بُعد جو ایک انسان کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے ۔ اور بُعد جو ایک مخلوق کو اپنے خالق سے ہوتا ہے ۔ وہ بُعد جو ایک کمزور اور نالائق ہستی کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خڈا سے ہوتا ہے وہ یوں سمٹ جاتا ہے وہ یو مٹ جاتا ہے وہ یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے سورج کی کرنوں سے رات کا اندھیرا ۔یہی وہ حالت ہے جسکے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔ اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِ نِّیْ قَرِیْبُٗ ۔ جب رمضان کا مہینہ آئے۔اور میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں کہ میں انیہں کس طرح مل سکتا ہوں تو تُو انہیں کہدے کہ رمضان اور خدا میں کوئی فرق نہیں ۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں خدا اپنے بندوں کیلئے ظٓہر ہوا۔ اور اُس نے چاہا کہ پھر اپنے بندوں کو اپنے پاس کھینچ کر لے آئے ۔ اس کلام کے ذریعہ جو حبل اللہ ہے ۔ جو خدا کا دہ رسہ ہے جس کا ایک سِرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا مخلوق کے ہاتھ میں اب یہ بندوں کا کام ہے کہ وہ اس رسہ پر چڑھ کر خدا تک پہنچ جائیں ۔
اب میں بتاتا ہوں کہشَھْرُرَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ اْلقُرْاٰنُ کے تین معنے ہو سکتے ہیں ۔
اول اس جگہ فی تعلیلیہ ہے اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم اتارا گیا ہے ۔ یعنی رمضان المبارک کے روزوں کی اس قدر اہمیت ہے کہ ان کے بارہ میں قرآن کریم میں خاص طور پر احکام نازل کئے گئے ہیں۔ اور جس حکم کے بارہ میں قرآنی وحی نازل ہو اُس کے متعلق ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کتنا اہم اور ضروری ہو گا۔ فی کے یہ معنے لغت سے بھی ثابت ہیں ۔چنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں تَکلَّمْتَ مَعَکَ فِیْ ھٰذَالْاَ مْرِ میں نے تجھ سے اس امر کے متعلق گفتگو کی ۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی اس کی مثال پائی جاتی ہے ۔ سورۃ یوسف میں اِمْرَ أۃُ الْعَزِیْز کے متعلق آتا ہے کہ اُس نے کہا فَدٰلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتَّنِیْ فِیْہِ (یوسف آیت ۳۳)یہ وہ شخص ہے جس کے بارہ میں تم نے مجھے ملامت کی ہے ۔ اسی طرح حدیث میں آتاہے ۔ عُذِّبَتْ اِمْرَ رائَ ۃٗ فِیْ عِرَّۃٍ حَبَسَتْھَا( بخاری جلد ۲ کتاب المساقاۃ) ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا کیونکہ اُس نے اُسے بغیر کھلائے پلائے باندھ دیا تھا یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا ۔چنانچہ حدیثوں سے صاف طور پر ثابت ہے کہ قرآن کریم کا نزول رمضان کے مہینہ میں شروع ہوا۔ اور گو تاریخ کی تعیین میں اختلاف ہے لیکن محدثین عام طورپر ۲۴ تاریخ کی روایت کو مقدم بتاتے ہیں ۔ چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ زرقانی دونوں نے اس روایت کو ترجیح دی ہے کہ قرآن کریم رمضان کی ۲۴ تاریخ کو اُترنا شروع ہوا تھا ۔(زرقانی شرح مواہب للدنیہ جلد اول صفحہ ۲۰۷وبحر محیط جلد ۲ صفحہ ۳۹)
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ رمضان میں پورا قرآن اتارا گیاس ۔ جیسے احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت رضی اللہ عنہا سے فرمایا ۔اِنَّ جِبْرِیْلَ کَانَ یُعَارِ ضَنِیَ اْلقُرْاٰنَ فِیْ کُلِّ سَنَۃٍ مَرَّۃً وَ اِنَّہٗ عَارَ ضُنِیَ الْاٰنَ مَرَّ تَیْنِ (زرقانی شرح مواہب اللدنیہ جلد ۸ صفحہ ۲۵۰،صفحہ ۲۶۳)یعنی جبریل ہر سال رمضان کے مہینہ میں تمام قرآن کریم کا میرے ساتھ ایک دفعہ دور کیا کرتے تھے۔ مگر اس سال انہوں نے دو دفعہ دور کیا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی قرآن نازل ہوا ہے مگر رمضان المبارک کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں جس حد تک قرآن کریم نازل ہو چکا ہوتا تھا جبریل اس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر دور کیا کرتے تھے۔ گویا دوسرے الفاظ میں دوبارہ تمام قرآن کریم آپ پر نازل کیا جاتا۔ بخاری کتاب بدر الوحی میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَجْوَدُ النَّاسِ وَکَانَ اَجْوَ دَ مَایِکُوْنُ فِیْ کُلٍّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیْدَ ارِسُہُ الْقُرْاٰنَ فَلَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَجْوَدُ اِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَۃِ۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور زیادہ ترسخاوت آپ رمضان میں فرمایا کرتے تھے جبکہ جبریل آپ سے ملتے تھے۔ اور جبریل رمضان کے مہینہ میں ہررات آپ سے ملا کرتے تھے اور تمام قرآن کریم کا آپ کے ساتھ مل کر دور کیا کرتے تھے اُن دنوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارش لانے والی ہوا سے بھی اپنے جود وکریم میں بڑھ جاتے تھے۔
ان حوالجات سے ثابت ہے کہ ابتدائے نزولِ قرآن میں رمضان کے مہینہ میںہوا اور پھر ہر رمضان میں جتنا قرآن اس وقت تک نازل ہو چکا ہوتا تھا جبریل دوبارہ نازل ہو کر اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر دوہراتے تھے۔ اس روایت کو مدنظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ سارا قرآن کریم ہی رمضان میں نازل ہوا۔ بلکہ کئی حصے متعدد بار نازل ہوئے یہاں تک کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد اگر ۲۳ رمضان آئے تو بعض آیات ایسی تھیں جو ۲۳ بار نازل ہوئیں بعض ۲۲ بار نازل ہوئیں ۔ بعض ۲۱ بار اور بعض ۲۰ بار۔ اسی طرح جو آیات آخری سال نازل ہوئی وہ بھی دو دفعہ دہرائی گئیں۔ کیونکہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کی حیاتِ طیبہ کے آخری سال میں جبریل علیہ السلام نے دو دفعہ قرآن کریم آپ کے ساتھ دہرایا اور یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے کہ ملائکہ جو بھی کام کرتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے حکم سے کرتے ہیں۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کہ جبریل علیہ السلام کا رمضان میں آپ کے ساتھ مل کر قرآن کریم کا دور کرنا نزول نہیں کہلا سکتا کیونکہ فرشتہ اُترتا ہی اسی وقت ہے جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو اور اسلامی زبان میں اس کے لئے نزول کی اصلاح ہی استعمال ہوتی ہے۔ پس اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنَ سے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اس مہینہ میں تمام قرآن کا نزول ہوا۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رمضان اسلامی نام ہے اس مہینے کا پہلا نام زمانہ جاہلیت میں نائق ہوا کرتا تھا(فتح البیان)۔
ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی۔ چونکہ ھُدًی اور بِیِّنَاتٍ دونوں قرآن کریم کا حال ہیں۔ اس لئے اس کے معنے یہ ہوئے کہ یہ قرآن ایسا ہے کہ اول تو وہ ھُدًی ہے یعنی لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے دوم اس میں ہدایت کے دلائل ہیں یعنی وہ یونہی لوگوں کو نہیں کہتا کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو بلکہ وہ دلائل بھی دیتا ہے ۔ اور لِلنَّاسِ کا لفظ رکھ کر بتایا کہ یہ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے صرف بعض لوگوں کے لئے نہیں۔ وَلْفُرْقَانَ اور پھر اس میں ایسے دلائل بھی جو حق اور باطل میں امتیاز کردیتے ہیں۔
فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ میں بتایا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ رمضان کا مبارک مہینہ نصیب کرے اور وہ ان دنوں میں سفر میں بھی نہ ہو اور اس کی صحت بھی اچھی ہو اُسے چاہیے کہ وہ پورے مہینہ کے مسلسل روزے رکھے اور اپنے لئے خیر اور برکت کے زیادہ سے زیادہ سامان جمع کرے اور ان مبارک ایام کو سستی اور غفلت میں ضائع نہ کرے۔
پھر فرماتا ہے ۔یُرِیْدُ اللّٰہَ بِکُمُ الْئُسْرَ وَلَا ئُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔ یعنی ہم نے رمضان میں روزے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ تم ایمان لائو اور پھر اپنی زندگی تنگیوں میں بسر کرو۔ حالانکہ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ ان دنوں مومنوں کو اپنے نفس پر زیادہ تنگی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ درحقیقت اس آیت میں عظیم الشان نکتہ بتایا گیا ہے کہ خداعتالیٰ کے لئے بھوکا رہنا یا دین کے لیے قربانیاں کرنا انسان کے لئے کسی نقصان کا موجب نہیں بلکہ سراسر فائدہ کا باعث ہوتا ہے۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ رمضان میں انسان بھوکا رہتا ہے وہ قرآن کریم کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھوکے تھے ہم نے رمضان قرر کیاتاکہ تم روٹی کھائو۔ پس معلوم ہوا کہ روٹی وہی ہے جو خدا کھلاتا ہے اور اصل زندگی اسی سے وابستی ہے کہ انسان خدا کے لئے قربانی کر اور پھر جو کچھ ملے اسے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوا کھائے۔ اس کے سوا جو روٹی ہے وہ دراصل کھانے والے کے لئے روحانی ہلاکت کا موجب ہوتی ہے۔ پس مومن کا فرض ہے کہ جو لقمہ بھی اس کے مونہہ میں جائے اس کے متعلق پہلے دیکھ لے کہ وہ کس کے لئے ہے اگر تو وہ خدا کے لئے ہے تو وہی روٹی ہے اور اگر نفس کے لئے ہے تو وہ روٹی نہیں بلکہ پتھر ہیں۔ اسی طرح جو کپڑا خدا کے لئے پہنا جائے وہی لباس ہے اور جو نفس کے لئے پہنتا ہے وہ ننگا ہے۔ دیکھو کیسے لطیف پیرا یہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جب تک تم خدا کے لئے تکالیف اور مصائب برادشت نہ کرو تم کبھی سہولت حاصل نہیں کر سکتے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی ابطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خوید۔ وہ ان دنوں خوب گھی مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اس طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خوید کے بعد گھوڑا۔ یہ چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے۔ اسی طرح افطاری میں تنوع اور سحری میں تکلفات بھی نہیں ہونے چاہیں اور یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ سارا دن بھوکے رہے ہیں اب پر خوری کر لیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام ؓ افطاری کے لئے کوئی تکلفات نہ کرتے تھے۔ کوئی کھجور سے کوئی نمک سے بعض پانی سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس طریق کو پھر جاری کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہؓ کے نمونہ کو زندہ کریں۔
پھر فرماتا ہے وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرو۔ مفسرین نے اس کے یہ معنے کئے ہیں اور میں خود بھی کبھی کبھی یہ معنے کیا کرتا ہوں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہینہ بھر کے روزے مقرر کرنے کی وجہ بتائی ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کا مہینہ اس لئے مقرر کیا ہے تا دن پورے ہوجائیں ۔ اگر یونہی حکم دے دیتا کہ روزے رکھو تو کوئی دس رکھ لیتا کوئی بیس رکھ لیتا اور کوئی رکھتا ہی چلا جاتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک مہینہ مقرر کر دیا تاکہ روحانی تکمیل کے لئے جس مدت کی ضرورت ہے اس کو تم پورا کر لو۔ یہ معنے بھی اپنی جگہ درست ہیں مگر اس کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ اصل زندگی انسان کی وہی ہے جو نیکی میں گذرے عمر کا وہ حصہ جو دنیا کے لئے گذر جاتا ہے ضائع چلا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے روزے اس لئے رکھے ہیں تاکہ تم اپنی حقیقی عمر پوری کر لو۔ جو لوگ دنیا حاصل کرنے میں ہی مصروف رہتے ہیں وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق زندہ نہیں بلکہ مردہ ہوتے ہیں۔ اور مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاَخِرَۃِ اَعْمَی۔ کے مطابق جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہاں میں بھی اندھا ہی ہو گاپس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ کہ ہم نے روزے اس لئے مقرر کئے ہیں تا تم دنیا میں اپنی مقررہ عمر گذار لو چونکہ بنی نوع انسان کے لئے کھانا پینا لازمی ہے۔ اس لئے سارا سال تو روزے نہیں رکھے جا سکتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس اصل کے مطابق کہ ایک نیکی کا ثواب کم سے کم دس گنا ملتا ہے ایک ماہ کے روزے مقرر کر دیئے اور اس طرح رمضان سارے سال کے روزوں کا قائم مقام ہو گیا۔گویا جس نے اس مہینہ میں روزے رکھ لئے اس نے سارے سال کے روزے رکھ لئے اور اس طرح اس کی زندگی واقعی زندگی ہو گئی۔
پھر فرماتا ہے وَلِتُکَبِّرُ و اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ۔ یہ روزے اس لئے مقرر کئے گئے ہیں کہ تم اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاتھا شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنَ کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شَھْر کے مقابلہ میں وَلِتُکْمِلُواالْعِدَّۃَ کے الفاظ رکھ دیئے۔ اور بتایا کہ اگر ہم ایک مہینہ مقرر نہ کرتے تو کوئی کم روزے رکھتا اور کوئی زیادہ اور اس طرح وہ روحانی ترقی جو مہینہ بھر کے روزوں کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتی ہے اسے وہ حاصل نہ کر سکتے۔
اس کے بعد اُنْزِل فِیْہِ الْقُرْاٰنَ کے مقابلہ میں وَ لِتُکَبِّرُوْ االلّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ کے الفاظ رکھ کر بتایا کہ ہم نے کوئی اور مہینہ اس لئے مقرر نہیں کیا کہ نزول ِ قرآن کو یاد کر کے اس ماہ میں تمہارے دل میں خاص جوش پیدا ہو سکتا ہے۔ جب رمضان کا مہینہ آئیگا تو لازماً تمہیں یہ خیال بھی آئیگا کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم پر خداتعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل قرآن کریم جیسی مقدس کتاب کی شکل میں نازل ہوا ہے اور تمہارا دل خود بخود اس مہینہ میں خداتعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کی طرف متوجہ ہو جائیگا۔
پھروَ لِتُکَبِّرُوْ االلّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ دن اس لئے ہیں کہ تا اللہ تعالیی کی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو یہ نہیں کہ تم شکوہ کرو کہ ہمیںبھوکا رکھا۔ بلکہ یہ سمجھو کہ بڑا احسان کیا کہ روزہ جیسی نعمت ہمیں عطا کی۔ یہاں مومن کا نقطہ نگاہ واضح کیا گیا ہے کہ اسے قربانی کا جو مو قعہ بھی ملے وہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتا ہے۔ اور جس قوم کا یہ نقطہ نگاہ ہو جائے۔ اسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا۔ وہ ضرور کامیاب ہو کر رہتی ہے۔ ایسی قوم حقیقی معنوں میں زندہ قوم ہو جاتی ہے۔ جب ایک شخص کے دل میں یہ خیال ہو کہ مجھ پر جو دینی ذمہ داریاں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرے گا۔ اور جو شخص خداتعالیٰ کی بڑائی کرے خداتعالیٰ اس ی بڑائی کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تمہیں جو کوئی تحفہ دے تم اسے اس سے بہتر تحفہ دو۔ اور جب ہمیں یہ حکم دیاگیا ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ایسا نہ کرے۔ انسان اس کی خدمت میں تحفہ پیش کرے اور وہ اس سے بہتر تحفہ اسے نہ دے۔ پس جو شخص خداتعالیٰ کی بڑائی کرتا ہے خداتعالیٰ اس کی بڑائی کرتا ہے۔ مگر شرط یہی ہے کہ تکبیر صرف منہ سے نہ ہو ۔ جس تکبیر سے وہ خوش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گالیاں کھائو۔ ماریں کھائو۔ پتھر کھائو اور پھر بھی خداتعالیٰ کی تکبیر کرو کہ اس نے ہمیں یہ مواقع عطا کئے ہیں۔ گویا حقیقی تکبیر یہی ہے کہ جتنا زیادہ ظلم ہو اتنا ہی زیادہ انسان خداتعالیٰ کی طرف جھکے اور کہے کہ مجھ پر اس کے کتنے احسان ہو رہے ہیں جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی تکبیر کرے اور اس کی بڑائی بیان کرے ایسے شخص کی تکبیر کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ یقییناً اس کو بڑھاتا ہے اور اس کی بڑائی کے سامان پیدا کرتا ہے۔ ورنہ صرف مُنہ کی تکبیر یں اس کے کسی کام نہیں آسکتیں۔
اس کے بعد فرمایا ولَعَلَّلُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ یہ روزے ہم نے اس لئے مقرر کئے ہیں تاکہ تم اس کے شکر گذار بنو۔ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے وَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مقابل میں رکھ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ سہولت ہم نے اس لئے رکھی ہے کہ تم شکر گذار بنو کہ خداتعالیٰ نے مدارجِ عالیہ کے حصول کے لئے ہمارے لئے کس قدر سہولتیں رکھ دی ہیں اور تمہاری جبینِ نیاز ہمیشہ اس کے حضور جھکی رہے۔
غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تین احکام دیئے ہیں اور تین ہی حکمتیں بیان فرمائی ہیں تین احکام تو یہ دیئے کہ (۱) مہینہ کے روزے رکھو (۲) رمضان میں رکھو (۳) مریض اور مسافر کو ان دنوں میں رخصت ہے۔ اس کے مقابل میں تین ہی حکمتیں بیان فرمائی (۱) کہا تھا کہ ایک مہینہ کے روزے رکھو اس کے لئے فرمایا کہ اگر ہم روزے مقرر نہ کرتے تو لوگ کم و بیش رکھتے اور اس طرح وہ تعداد پوری نہ ہوتی جو روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے (۲) کہا تھا کہ رمضان میں روزے رکھو۔ اس پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ رمضان کو کیوں مقرر کیا ہے جس مہینہ میں کوئی چاہتا رکھ لیتا اس لئے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کا نزول یاد آکر خداتعالیٰ کو یاد کرنے کا جوش پیدا کرتا ہے اور اس مبارک مہینہ میں خداتعالیٰ کی عبادت اور ذکرِ الہٰی کی طرف تمہیں زیادہ توجہ پید ا ہوگئی۔ (۳) کہا تھا کہ بعض کے لئے رخصت ہے ۔ اس لئے وجہ یہ بتائی کہ ان آسانیوں کو دیکھ کر خداتعالیٰ کو ہمارا کتنا خیال ہے اس نے ہمارے فائدہ کے لئے حکم دیا۔ اور اس میں بھی ہمارے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ یہ عِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مقابلہ میں فرمایا کہ یہ تخفیف اور سہولت اس لئے ہے کہ تم خداتعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اس کی محبت سے اپنے سینہ و دل کو منور کرو۔ اسی طرح لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ رمضان ہم نے اس لئے اُتارا ہے کہ تم شکر گذار بنو۔ یعنی ہر تکبر کے بعد شکر کرو کہ خدا نے اپنی تکبیر کی توفیق دی اور پھر اس بات کا شکر کرو کہ خداتعالیٰ نے اپنے شکر کی توفیق دی۔ اور پھر شکر کی توفیق ملنے پر شکر کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے شکر کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائیگا کہ انسان ہر وقت اس کے دروازہ پر گِرا رہے گا اور اس غلام کی طرح ہو جائے جو کسی صورت میں بھی اپنے آقا کو نہیں چھوڑتا۔
وَاِذَ سَاَلَکَ
یَرْشُدُوْنَo
۱۰۰؎ حل لغات:۔ اُجِیْبُ:اَحَابَ سے مضارع متکلم کاصیغہ ہے اور اَلْحِجَابَۃُ کے معنے یہں۔ اَلْعَطَاعُ مِنَ اللّٰہِ وَالطَّاعَۃُ مِنَ الْعَبْدِ (مفردات) یعنی اجابت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو بخشش کرنے یا دینے کے معنے ہوتے ہیں اور اگر بندے کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنے اطاعت کے ہیں۔ پس اُجِیْبُ کے معنے ہوئے میں سنکر بدلہ دیتا ہوں یا اسے قبول کرتاہوں۔
وَلْیُوْمِنُوْ ابِیَ: اٰمَنَ بِہٖ کے معنے ہیں (۱) اُسے مان لیا (۲) اس کی صفات کو تسلیم کر لیا ۔ پس وَلْیُوْ مِنُوْ اِلْی کے یہ معنے ہوئے کہ (۱) وہ مجھے مانیں اور (۲) میری صفات کو تسلیم کریں۔
لَعَلَّکُمْ: لَعَلَّ مِنْ اَخَوَاَتِ اِنَّ۔ لَعَلَّ اِنَّ کے اخوات میں سے ہے۔ وَذَکَرَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِیْنَ اَنَّ رَدَلَّ مِنَ اللّٰہِ وَاجِب’‘ (مفردات) اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنے یقین کے ہوتے ہیں ۔ نیز لَعَلَّ کی مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرہ ۲۲؎۔
تفسیر:۔فرماتا ہے اے رسول! جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں اور پوچھیں کہ ہمارا خدا کہاں ہے ۔ جیسے عاشق پوچھتا پھرتا ہے کہ میرا محبوب کہاں ہے تو تو انہیں کہہ دے کہ تم گھبرائو نہیں میں تو تمہارے بالکل قریب ہوں۔ یہاں عِبَادِیْ سے رمراد عاشقانِ الہٰی ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح عاشق ہر جگہ دوڑا پھرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا معشوق کہاں ہے اسی طرح جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو انہیں کہہ دے کہ گھبرائو نہیں میں تمہارے قریب ہی ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے عشاق کے دل کو توڑنا نہیں چاہتا۔
پھر فرمایا ہے۔ میرے قریب ہونیکا ثبوت یہ ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَافِ۔ جب کوئی شخص کامل تڑپ اور سوز وگداز کے ساتھ مجھ سے دُعا کرتا ہے تو میں س کی دعا کو قبول کر لیتا ہوں۔ اور یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ میں قریب ہوں۔ اگر میں بعید ہوتا تو میں اس کی سجدے کی آہستہ آواز کو بھی کیسے سن سکتا۔ اور اگر میں بعید ہوتا تو اس کی گوشہ تنہائی میں بیٹھے ہوئے ہاتھ اُٹھا کر یا قیام کی صورت میں آہستہ آواز والی دُعا کیسے سُن لیتا۔ میرا اس دُعا کو سُن لینا بتاتا ہے کہ میں اس کے قریب ہوں۔
دوسری جگہ قرآن کریم میں خداتعالیٰ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ یعنی پاس ہونا تو الگ رہا جو انسان کی رگ ِ جان ہے ہم اس سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں اس کے معنے یہ ہوئے کہ وہ پاس ہی نہیں بلکہ انسان کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔ اور یہ ظاہرہ ے کہ پاس بیٹھنے والا صرف وہ آواز سنتا ہے جو منہ سے کہی جائے اور جو اندر بیٹھا ہو وہ بات سنتا ہے جو دل سے کہی جائے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے لفظ قریب کی دوسری جگہ تشریح کر دی کہ قریب کا مفہوم یہ ہے کہ حبل الورید یعنی رگِ جان سے بھی میں زیادہ قریب ہوں اور میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں خواہ وہ زبان سے کی گئی ہو یا دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی ہو کیونکہ میرا اس سے تعلق ایسا قریب ہے کہ میں اس کے دل میں بیٹھا ہوا ہوں۔
بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہہم نے تو بڑے اضطراب سے دعائیں کی تھیں مگر وہ قبول نہیں ہوئیں پھر یہ آیت کس طرح درست ثابت ہوئی ۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ بے شک اَلدَّاعِ کے ایک معنے ہر پکارنے والے کے بھی ہیں۔ مگر اس کے ایک معنے ایسے پکارنے والے کے بھی ہیں جس کا اوپر ذکر ہو رہاہے۔ اور مراد یہ ہے کہ وہ بندے جو مجھے ملنے کے اضطراب میں اور سب کچھ بھول جاتے ہیں اور مجھ سے صرف میرا قرب اور وصال چاہتے ہیں میں انکی دُعا کو سنتا اور انہیں انے قریب میں جگہ دیتا ہوں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں وَاِذَ ا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عِنِّیْ فرمایا ہے۔ یعنی وہ میرے بارے میں سوال کرتے یہں اس میں روٹی کا کہیں ذکرنہیں۔ نوکری کا کہیں ذکر نہیں بلکہ صرف غَنِّیْ فرمایا ہے عَنِ الْخُبْرِ یا عَنِ الْوَظِیْفَۃِ نہیں فرمایا۔ پس جو شخص خداتعالیٰ کا قرب مانگے اور وہ اسے نہ ملے اسے تو بے شک اعتراض ہو سکتا ہے لیکن دوسروں کے لئے اس میں کوئی اعتراض کی گنجائش نہیں۔
پھر اس آیت کی عبارت ایسی ہے کہ اس سے اضطراب اور گھبراہٹ کی طرف خاص طور پر اشارہ پایا جاتا ہے بعض مضامیں الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتے لیکن ہو عبارت میں پنہاں ہوتے ہیں اور یہی حالت یہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرے بندے میری طرف دوڑتے ہیں۔ ان کے اندر ایک اضطراب اور عشق پیدا ہوتا ہے اور وہ چلاتے ہیں کہ ہمارا خدا کہاں ہے تو تو ان سے کہدے کہ میں تمہاری طرح کے پکارنے والے کی پکار کو کبھی رد نہیں کرتا بلکہ اُسے ضرور سنتا اور قبول کرتا ہوں۔ ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں یہ مضمون ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ہمیں اپنی ذات ہی کی قسم ہے کہ ہم ضرور ان کو اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخش دیتے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مذہب اور علم کے آدمی کو اپنا رستہ دکھانے کے لئے تیار رہتا ہے۔ بشرطیکہ انسان اس کے لئے کوشش کرے۔ اور اس کی دُعا کو وہ ضرور سن لیتا ہے۔ باقی دعائوں کی قبولیت میں وہ انسان مصالح کو بھی مدنظر رکھتا ہے بعض دفعہ انسان جو چیز مانگتا ہے خداتعالیٰ کے علم میں وہ اس کے لئے مہلک ہوتی ہے۔ پھر بعض دفعہ ملازمت ایک ہوتی ہے اس کو مانگنے والے دو ہوتے ہیں اب ایک ملازمت دو کو تو نہیں مل سکتی ہو لازماً ایک ہی کو ملے گی۔ مگر وہ چیز جس کے بانٹنے کے باوجوس اس میں کوئی کمی نہیں آسکتی وہ خدتعالیٰ کی ذات ہے باقی تمام اشیاء محدود ہیں۔ اگر ایک چیز کے دو مانگنے والے سامنے آجائیں تو وہ لازماً زیادہ حقدار کو دی جائیگی یا اگر وہ مضر ہو تو گو اس کو کوئی اور حقدار نہ ہو مگر پھر بھی وہ اپنے مومن بندہ کو نہیں دیگا کیونکہ وہ دوست سے دشمنی کیونکر کر سکتا ہے اور کیسے ممکن ہے کہ جس چیز کے متعلق ہو جانتا ہے کہ آگ ہے وہ اپنے دوست کو دے دے ۔ غرض سب دعائوں کی قبولیت میں روکیں ہوتی ہیں مگر ایک دُعا ہے جس کے قبول ہونے میں کوئی روک نہیں اور جس کے لینے میں کوئی برائی نہیں۔ دنیا کی ہر چیز میں برائی ہو سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ وَیَل’‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ بعض نماز پڑھنے والوں کے لئے بھی ہلاکت ہے مگر خداتعالیٰ کو مانگنے میں کوئی ویل نہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ خداتعالیٰ کسی سے اس لئے نہ ملے کہ وہ ہلاکت میں نہ پڑے یااس لئے نہ ملے کہ خداتعالیٰ کے وجود میں کمی نہ آجائے۔ جس طرح ہوا ہر ایک کے ناک میں جاتی ہے مگر اُس میں کمی نہیں ہوتی اسی طرح خداتعالیٰ ہر بندہ کو مل سکتا ہے اور پھر بھی اس میں کمی نہیں ہوتی۔ سورج کی شعاعوں سے سب مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے۔ مگر ان میں کوئی کمی نہیں آتی چاند کی شعاعوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔ تم چاند کی روشنی میں گھنٹوں بیٹھ کر لطف اٹھائو مگر اس کا نور پھر بھی اُتنے کا اتنا ہی رہیگا۔ یہی حال خدتعالیٰ کا ہے۔ بلکہ خداتعالیٰ تو ان سے بھی کامل ہے۔ ان چیزوں میں بھی ممکن ہے کوئی خفیف سے کمی ہو جاتی ہو۔ مگر خداتعالیٰ میں اتنی بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے وہ اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ تم میری طرف آئو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم کس طرح تیزی سے قدم مارتے ہوئے اس راستہ پر چل پڑو گے جس سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور باوجود یہ کہ وہ غیر مرئی ہے تم اس کو پالو گے اور اس کا وصال حاصل کر لو گے۔ درحقیقت اگر غور کیا جائے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی روحانی ترقی اور بندوں اور خدا کے باہمی اتصال کے لئے تین تغیرات کا ذکر فرمایا ہے جن کے بغیر کوئی انسان خداتعالیٰ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
سب سے پہلا تغیر جو کسی انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں خداتعالیٰ سے ملوں اور س کا قرب حاصل کروں۔ مگر ظاہر ہے کہ صرف خواہش کا پیدا ہونا اسے خداتعالیٰ کے دربار تک نہیں پہنچا سکتا بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ اسے کوئی ایسا ہاوی اور رہنما میسر آئے جو اسے اس مقصد میں کامیابی کا طریق بنائے۔ اور اس کی مشکلات کو دور کرے۔ اسلام اس فطری تقاضا کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ بیشک ان لوگوں کے دلوں میں یہ خواہش تو پیدا ہو گئی ہے کہ انہیں خدا ملنا چاہیے لیکن اب دوسرا تغیر ان میں یہ بھی پیدا ہو نا چاہیے کہ وہ تجھ سے پوچھیں یعنی ہدایت پانے اور خداتعالیٰ کو تلاش کرنے کے لئے انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جانا چاہیے اور آپ سے اپنے محبوب حقیقی کا پتہ دریافت کرنا چاہیے جس طرح بیمار کی تندرستی کے لئے ایک تو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ سمجھ لے کہ وہ بیمار ہے اور دوسرے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس ڈاکٹر کے پاس جائے جو اعلیٰ درجہ کا تجربہ کار ہو۔ اسی طرح خداتعالیٰ کو پانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ نہ صرف خداتعالیٰ کو پانے کی سچی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہو بلکہ وہ اس خواہش کے حصول کیل ئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اختیار کر لے جو انسان کو خداتعالیٰ تک پہنچانے والے ہیں۔
پھر تیسری بات جو قرب الہٰی کے لئے ضروری ہے اور جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا سوال عَنِّیْ ہو۔ یعنی ان کی غرض محض خدا تعالیٰ کو پانا ہو۔ لوگ کئی اغراض کے ماتحت مذہب میں داخل ہوتے ہیں۔ بعض لوگ محض ایک جماعت میں منسلک ہونے کے لئے داخل ہوتے ہیں بعض معاشرت یا تمدن کے خیال سے داخل ہوتے ہیں مگر فرمایا ان کا سچے مذہب میں داخل ہونا محض خداتعالیٰ کے وصال اور اس کے قرب کے حصول کے لئے ہو۔ کوئی اور خواہش اس کے پیچھے کام نہ کر رہی ہو۔ ہاں اگر دوسرے فوائد ضمنی طور پر حاصل ہو جائیں تو اور بات ہے لیکن اصل غرض محض خداتعالیٰ کا حصول ہونا چاہیے۔
پھر عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب اِذَا کے بعد ف آتی ہے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ پہلے کام کے نتیجہ میں فلاں بات پیدا ہوئی۔ اس جگہ بھی اِذَا سَالَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ تَرِیْب’‘ کے یہ معنے ہیں کہ جب یہ تین باتیں جمع ہو جائیں۔ یعنی سوال کرنے والے سوال کریں کہ ہمیں خداتعالیٰ کی ضرورت ہے پھر تجھ سے سوال کریں فلاسفوں اور سائنسدانوں سے سوال نہ کریں ۔ عیسیٰ موسیٰ سے سوال نہ کریں بلکہ تیرے پاس آئیں قرآن کے پاس آئیں یا تیرے خلفاء کے پا س آئیں اور پھر وہ میری ذات کے متعلق سوال کریں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میں ان کے قریب ہو جاتا ہوں اور انہیں اپنا چہرہ دکھا دیتا ہوں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ جب سورۃ ق میں جو کہ مکی سورۃ ہے خداتعالیٰ یہ فرما چکا تھا کہ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(ق آیت ۱۷) ہم انسان سے اس کی رگ ِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں تو پھر سورۃ بقرہ میں جو مدنی سورۃ ہے یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں تو تو ان کو یہ جواب دے دے کہ میں قریب ہوں۔ جب مکی آیت کے ذریعہ نہیں معلوم ہو چکا تھا کہ خداتعالیٰ بہت ہی قریب ہے تو پھر یہ سوال ہی کوئی نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس آیت کے نازل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اور اگر کوئی سوال کرتا بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے یہ فرما سکتے تھے کہ خداتعالیٰ تو بتا چکا ہے کہنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد ۔ لیکن قرآن کریم خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ اور خداتعالیٰ کا کلام بلا ضرورت نہیں ہوا کرتا۔ پس معلوم ہوا کہ یہاں خداتعالیٰ کا سوال بیان کرنا اور پھر اس کا جواب دینا کوئی اور حکمت دیتا ہے۔ اور یہاں جو قریب کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے وہ قرب اور بُعد مراد نہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد۔ اگریہاں بھی یہی مراد ہوتی تو پھر یہ کیوں فرماتا کہ جب لوگ تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یہ جواب دیجیو۔ پس معلوم ہوا کہ اس جواب میں جو قریب کہا گیا ہے وہ بھی کوئی اور معنے رکھتے ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان دونوں آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ایک عجیب فرق رکھا ہے۔ او روہ یہ کہ قرب اور بُعد ہمیشہ نسبت کے ساتھ ہوتا ہے ایک چیز ہمارے قریب ہوتی ہے مگر وہی دوسرے سے بعیدہوتی ہے۔ پس قریب اور بعید ایک نسبتی چیز ہے۔ جب ہم ایک چیز کو قریب کہتے ہیں تو ایک نسبت سے کہتے ہیں حالانکہ دوسری نسبت سے وہی چیز بعید ترین ہو سکتی ہے۔ سورہ ق میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہ‘ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلیْہِ مَنْ حَبْلِ الْوَرِیْہِ۔ کہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اس کے دل میں جو وسوسہ ہوتا ہے اس کو بھی جانتے ہیں اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی قریب تر ہیں۔ تو اس میں اِلَیْہِ کی نسبت سے اَقْرَبُ فرمایا ہے۔لیکن آیت وَاِذَ سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب’‘ میں قَرِیْب’‘ کا لفظ کسی نسبت سے نہیں فرمایا۔بلکہ بلانسبت فرمایا ہے اور اس کی کوئی حد بندی نہیں کی۔ اس عدمِ حد بندی میں ایک لطیف نکتہ ہے اور وہ یہ کہ انسان جو اپنی ضرورت خداتعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے وہ مختلف اوقات میں مختلف اشیاء کے متعلق ہوتی ہے کبھی تو وہ انسانوں کے متعلق ہوتی ہے او رکبھی حیوانوں کے متعلق۔ کبھی جانداروں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی بے جانوں کے متعلق۔ کبھی خداتعالیٰ کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی ملائکہ کے متعلق۔ کبھی اس دنیا کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی اگلے جہان کے متعلق ۔ کبھی اس زمین پر رکھنے والی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق۔ غرض انسان کی مختلف احتیاطیں ہیں اور ایسی وسیع ہیں کہ جن کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی۔ لیکن انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب اسے کسی چیز کی طلب ہوتی ہے تو اس کے حاصل کرنے کے متعلق وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتا ہے جو قریب ہو پھر قریب کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک یہ بھی قریب ہے کہ کوئی ذریعہ جلد سے میسر جائے۔چنانچہ ہر انسان ایک مدعا حاصل کرنے کے لئے جو ذریعہ قریب دیکھتا ہے اس کو لے لیتا ہے۔ اور بعید کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر اس کے علاوہ قریب ایک اور رنگ میں بھی ہوتا ہے یعنی وہ ذریعہ جو مدعا اور منزل مقصود کے قریب تر پہنچا دے ۔ انسان اس ذریعہ کو اختیار کرتا ہے اور دوسروں کو چھوڑ دیتا ہے ۔ غرض بہت سے قریب ہیں جن کا کسی چیزمیں پایا جانا ہر انسان دیکھتا ہے ۔ اور جب وہ سارے قرب کسی میں پالیتا ہے تو اس کو اپنے مدعا کے حصول کے لئے چن لیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ وَاِذَ اسَالَکَ عِبَادِیْ عَنّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہ انسان اپنے مختلف مقاصد کے لئے کوشش کرتا ہے اور ان کے لئے دیکھتا ہے کہ کونسا ذریعہ اختیار کروں جس سے جلد کامیان ہو جائوں۔ جب انسان ذرائع کو سوچتے سوچتے یہاں تک پہنچے کہ میں دُعا کر وں تو اس کو کہدو کہ اللہ قریب ہے۔ قَرِیْب’‘ اِلَیْہِ نہیں فرمایا۔ اس لئے کہ خداتعالیٰ نہ صرف انسان کے قریب ہے بلکہ ہر ایک چیز کے قریب ترین ہے اور وہ مدعا حاصل کرنے کا سب سے قریب ترین ذریعہ ہے۔ یوں قریب ہونا اور بات ہے۔ غرض خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے بھی قریب ہوں اور وہ مقصد جسے تم حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے بھی قریب ہوں اور وہ مقصد جسے تم حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے بھی قریب ہوں گویا اس آیت میں قربِ مکان کا ذکر نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ حصولِ مدعا کے لئے جتنے قربوں کی ضرورت ہے وہ سب خداتعالیٰ میں موجود ہیں مثلاً ایک شخص ولایت میں بیٹھا ہوا روپیہ کا محتاج ہے وہ وہاں سے ہمیں مدد کے لئے لکھتا ہے۔ اگر ہم اُسے روپیہ بھیجیں تو کئی دنوں کے بعد اُسے ملے گا لیکن اگر ہم اس کے لئے دُعا کریں تو ممکن ہے کہ ادھر ہمارے منہ سے دعا نکلے اور ادھر اللہ تعالیٰ اس کا کوئی انتظام کر دے۔ تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں اگر کوئی مدد حاصل کرنا چاہتے ہو تو مجھ سے کہو۔ اور خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے نہ ہاتھ ہلانے کی ضرور ت ہے نہ پائوں کیونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں۔ پھر وہ انسان ہی کے قریب نہیں بلکہ جس مدعا اور مقصد کو حاصل کرنا ہو اس کے بھی قریب ہے۔ ادھر انسان یہ کہتا ہے کہ الہٰی فلاں چیز مجھے مل جائے اور ادھر وہ چیز خواہ لاکھوں میل کے فاصلہ پر ہو خداتعالیٰ اس پراسی وقت قبضہ کر لیتا ہے۔ کہ یہ ہمارے فلاں بندہ کے لئے ہے۔ کیونکہ جس طرح خداتعالیٰ اس بندہ کے قریب ہے اسی طرح اس چیز کے بھی قریب ہے ۔ غرض کامیابی کے حصول کے لئے یہ ذریعہ سب سے بڑا اورسب سے زیادہ مفید ہے۔
پھر اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر ایک اور لطیف مضمون کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور وہ یہ کہ اگر میں تمہیں نظر نہیں آتا تو یہ نہ سمجھ لینا کے میں تم سے دور ہوں میں تو تمہارے بالکل قریب ہوں اور اسی وجہ سے تمہیں نظر نہیں آتا۔ کیونکہ صرف وہی چیز تمہیں نظر نہیں آتی جو زیادہ قریب ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے اندر کی آواز کو نہیں سن سکتا کانشنس اور ضمیر کی آواز آتی ہے مگر کان اسے نہیں سن سکتے۔ اس لئے کہ آواز بھی دور کی سنائی دیتی ہے جب ہم کوئی آواز سنتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ یہ آواز باہر سے ہو کر آئی ہے۔ کیونکہ کان کا پردہ قدرتی طور پر اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہوا کا زور کان کے پردہ پر پڑتا ہے تو اس سے ایک حرکت پیدا ہوتی ہے ارتعاش کہ لہریں یعنی وائی بریشنزVIBRATIONS پیدا ہوتی ہے اور یہی وائی بریشنز دماغ میں جاتی ہے اور دماغ ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے یہی وائی بریشن ہیں جو ریڈیو کے والوز میں پڑتی ہے اور ریڈیو ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے ۔ انسانی بناوٹ میں ریڈیو کان ہے اور اعصاب دماگی والوز ہیں۔ ان کے ذریعہ جو حرکات دماغ میں منتقل ہوتی ہیں وہ وہاں سے آواز بن کر سُنائی دیتی ہیں۔ پس آواز کے معنے ہی باہر والی چیز کے ہوتے ہیں۔ جب آواز آتی ہے تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ یہ باہر سے آئی ہے کیونکہ آواز آ ہی باہر سے سکتی ہے۔ اندرونی آواز جو سنائی دیتی ہے۔ مثلا پیٹ میں گُڑ گُڑ کی آواز آتی ہے تو دراصل اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وائی بریشن باہر اثر ڈالتی ہیں اور ہم وہ آواز سن لیتے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ جو اندر کی آواز ہوتی ہے اسے تم نہیں سن سکتے۔ کیونکہ وہ تمہارے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ غرض جس طرح تم بہت بعید کی چیز کو نہیں دیکھ سکتے اور بہت قریب کی چیز کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح تم بعید کی آواز کو بھی نہیں سن سکتے اور قریب کی ااواز کو بھی نہیں سن سکتے جن لوگوں کو اس کا علم نہیں وہ اس پر تعجب کریں تو کریں۔ ورنہ یہ سب کچھ حرکات پر مبنی ہوتا ہے۔ جو کچھ تم سنتے ہو وہ بھی حرکات ہیں جن کو کان آواز میں دل ڈالتے ہیں اور جو کچھ تم دیکھتے ہو وہ بھی حرکات ہیں جن کو آنکھیں شکل میں تبدیل کر ڈالتی ہیں جو چیز تمہارے سامنے گڑی ہوتی ہے وہ تصویر نہیں ہوتی بلکہ وہ فیچرزFEATURESٰؑ نقش ہوتے ہیں جو آنکھوں کے ذریعہ دماغ میں جاتے ہیں اور وہ انہیں تصویر میں بدل ڈالتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آجکل ریڈیو سیٹ کے ذریعہ تصویریں بھی باہر جانے لگ پڑی ہیں۔ ان حرکات کے متعلق قاعدہ ہے کہ تمام حرکات خواہ وہ کان کی ہوں یا آنکھ کی ایک حد بندی کے اندر ہوتی ہیں یعنی ایک درجہ ان کا اعلیٰ ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ ہوتا ہے ان دونوں کے درمیان جو چیز ہوتی ہے اسے آنکھ دیکھ سکتی ہے اور جو چیز اس حد بندی سے دور ہو اسے آنکھ نہیں دیکھ سکتی اسی طرح جو آواز اس حد بندی کے اندر ہوگئی اسے کان سن لے گا اور جو آواز اس حد بندی سے دور ہو گئی اس ے کان نہیں سن سکے گا۔ اور جو آواز اس حد بندی سے نیچے ہو گی اسے بھی کان نہیں سن سکتا۔
جو میں بہت سے آوازیں پیدا ہوتی رہتی ہیں جیسے بادلوں کے ااپس میں ٹکرانے کی آواز۔ یا اجرام فلکی کے آپس میں ٹکرانے کی آواز۔ لیکن وہ اتنی شدید ہوتی ہیں کہ ہم ان کی شدت کی وجہ سے انہیں نہیں سن سکتے۔ جس طرح کان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ایسی آواز سن سکے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔ یا وہ ایسی آواز سن سکے جو اس کی طاقت سے کم ہو اسی طرح جو نظارہ آنکھ کی طاقت سے زیادہ ہو وہ آنکھ نہیں دیکھ سکتی اور جو نظارہ اس کی طاقت سے کم ہو وہ بھی نہیں دیکھ سکتی۔ پس اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ مجھ کو نہ دیکھنے کی یہ وجہ نہیں کہ میں تم سے دور ہوں میں تم سے دور نہیں بلکہ تمہارے اتنا قریب ہوں کہ تم مجھے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے دیکھ بھی نہیں سکتے اور نہ تم میری آواز سن سکتے ہو۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خداتعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں تو پھر وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِیْ قَرِیْب’‘ کہنے کا کیا مطلب ہوا؟ کیونکہ انسان پوچھتا تو اس کے متعلق ہے جو اُسے نظر آتا ہو۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی سوال مبہم بھی ہوتا ہے۔ جیسے رات کو کوئی شخص سفر پر جا رہا ہو اور اسے خطرہ محسوس ہو تو وہ آواز دیتا ہے کہ کوئی ہے؟ اب اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ اسے کوئی انسان نظر آرہا ہوتا ہے بلکہ وہ اس خیال سے آواز دیتا ہے ک اگر کوئی شخص وہاں ہوتو آئے اور اس کی مدد کرے اور جنگل میں تنہائی اور اندھیرے کی وجہ سے جو گھبراہٹ اس پر طاری ہے وہ دور ہو جائے۔ اسی طرح اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب دنیا میں انسان تنہائی محسوس کرے اور سمجھے کہ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت ہے اور خداتعالیٰ جو غیر مرئی ہے اس کے متعلق وہ کہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو آئے اور میرے مدد کرے تو خداتعالیٰ کہتا ہے کہ تم میرے اُس بندے کو بتا دو کہ میں موجود ہوں اور پھر زیادہ دور بھی نہیں بلکہ میں تمہاراے قریب ہی ہوں۔ دُنیا میں پاس رہنے والا شخص بھی بعض اوقات مدد نہیں کرتا۔ بعض دفعہ تو وہ مدد کا ارادہ ہی نہیں کرتا اور کہتا ہے مرتا ہے تو مر ے مجھے اس کی مدد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور بعض اوقات وہ اپنے اندر زیادتی کرنے والے کے خلاف مدد کرنے کی طاقت نہیں پاتا۔ جیسے کوئی شیر گائوں میں آجائے او رکسی پر حملہ آور ہو تو دوسرے لوگ بجائے اس کی مدد کرنے کے بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اگر کوئی بندہ گھبرا کر آواز دے اور کہے کہ کوئی ہے؟ تو وہاں خدا موجود ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے بندے نے اگرچہ مبہم طور پر آواز دی ہے کہ شاید کوئی موجود ہو تو و بول پڑے لیکن میں اس کی مبہم پکار کو بھی اپنی طرف منسوب کر لیتا ہوں۔ اور سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے ہی بُلا رہا ہے۔ میں بھول جاتا ہوں کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے خیالی طور پر کہہ رہا ہے۔ میں اس وقت اگر مگر کو چھوڑ دیتا ہوں اور فوراً اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑتا ہوں۔اس لئے اگر کوئی میرے متعلق سوال کرے تو اُسے بتا دو کہ میں قریب ہی ہوں۔ دور نہیں۔ بے شک دنیا میں بعض دفعہ کوئی دوسرا شخص قریب بھی ہوتا ہے تو پھر بھی وہ مدد کرنے کا ارادہ نہیں کرتا۔ یا اس کی مدد کی طاقت نہیں رکھتا لیکن میں تو یہ ارادہ کر کے بیٹھا ہوں کہ اس کی مدد کروں گا۔ اور پھر میرے اندر اس کی مدد کرنے کی طاقت بگھی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ صرف مسلمانوں ہی کی دعائیں نہیں سنتا بلکہ خواہ کوئی ہندو ہو یا عیسائی۔ سکھ ہو یا آریہ اگر وہ خداتعالیٰ کے حضور سچے دل سے گڑ گڑائے اور اپنی حالت زار پیش کر کے اس کی مدد چاہے تو خداتعالیٰ اس کی دُعا کو سنتا اور اسے قبول کرتا ہے۔ بے شک وہ ایک سچے مسلمان کی دُعائیں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ قبول کرتا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس نے اپنی رحمت کا دروازہ دنیا کی باقی قوموں اور افراد کے لئے بند کر رکھا ہے۔ بلکہ ہر شخص جو اس کے دروازہ پر جاتا ہے اور اس کے حضور گر جاتا ہے خداتعالیٰ اس پر رحم کرتا اور اس کی حاجات کو پورا فرماتا ہے وہ واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا ذَعَانِ۔ جب کوئی پکارنے والا اپنی مدد کے لئے مجھے آواز دیتا ہے تو میں اسکی پکار کا ضرور جواب دیتا ہوں۔ اور اسے اپنی بارگاہ سے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں کرتا۔
پھر فرماتا ہے فَلْیَسْتَجِیْبُوْلِیْ۔ جب میں تمہاری باتیں سنتا ہوں اور تمہاری دُعائیں قبول کرتا ہوں تو تمہیں بھی ایسا بن جانا چاہیے کہ تمہاری دُعائیں قبول ہوں۔ یہ مت خیال کرو کہ میں ہر ایک دُعا کو سنتا ہوں۔ میرے احکام کے خلاف جو دُعائیں ہونگی یا میرے مقرر کردہ فرائض کے خلاف ہونگی یا اخلاقی نظام کے خلاف ہونگی میں انہیں کیسے سن سکتا ہوں۔ کیا میں انہیں قبول کر کے اپنے رسول کو ہلاک کردوں۔ یا کیا میں انہیں قبول کر کے اخلاقی نظام کو توڑ ڈالوں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دُعائیںبھی سنی جائیں تو چاہیے کہ تمہاری دُعا میرے نظام کے خلاف نہ ہو۔ تمہاری دُعا دین کے خلاف نہ ہو ۔ تمہاری دُعا اخلاقی نظام کے خلاف نہ ہو۔
کہتے ہیں کہ ایک عرب حج کے لئیے گیا تو وہ خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کہ ایک دُعا کر رہا تھا اور وہ ایسی گندی تھی کہ اُسے سنکر پولیس نے اس کو قید کر لیا۔ وہ دُعا یہ کر رہا تھا کہ اے خدا! تو ایسا کر کہ میری محبوبہ کا خاوند اس سے نارا ض ہو جائے اور وہ مجھے مل جائے۔ گویا نعوذ باللہ خداتعالیٰ بھی اس کی بدکاری میں شریک ہو جائے۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک چور نے بیان کیا کہ میں جب سیندھ لگانے لگتا ہوں تو دو رکعت نماز پڑھ لیتاہوں تاکہ چوری سے پہلے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کر لوں اور مجھے اس کام میں کامیابی حاصل ہو۔ اخبارات میں عموماً اشتہارات چھپتے رہتے ہیں کہ ایسے تعویذ جن کو پاس رکھنے سے تم جس عورت کو چاہو بلا سکتے ہو۔ اس تعویذ کے اثر سے وہ عورت خود بخود تمہارے پاس آجائیگی۔ اور پھر کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ ہے اسے خداتعالیٰ کا کلام آتا ہے۔ اس نے یہ تعویذ تیار کئے ہیں۔ یہ دین کے ساتھ تمسخر ہے۔ خداتعالیٰ بدکاریوں میں کبھی شریک نہیں ہوتا۔ کہنے والے بیشک ایسا کہتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِی وَلْمُوْسِوُا بِیْ۔ اگر میں نے کہا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سُنتا ہوں تو اس س ے یہ نہ سمجھ لینا کہ میں ہر ایک پکار کو سن لیتا ہوں جس پکار کو میں سُنتا ہوں اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اول میں اس کی پکار کو سنتا ہوں جو میری بھی سنے (۲) میں اس کی پکار سنتا ہوں جسے مجھ پر یقین ہو مجھ پر بدظنی نہ ہو۔ اگر دعا کرنے والے کو میری طاقتوں اور قوتوں پر یقین ہی نہیں تو میں اس کی پکار کو کیوں سنوں۔ پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں جس دعا میں یہ دو شرطیں پائی جاتئیں گی وہی قبول ہو گی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اَلدَّاعِ فرمایا ہے جس کے معنے ہیں ایک خاص دعا کرنے والا۔ اور اس کے آگے وہ شرائط بتا دیں۔ جو اَلدَّاعِ میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ میری سُنے اور مجھ پر یقین رکھے ۔ یعنی وہ دُعا میرے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق ہو۔ جائز ہو ناجائز نہ ہو۔ اخلاق کے مطابق ہو۔ سنت کے مطابق ہو۔ اگر کوئی شخص ایسی دعائیں کرے گا تو میں بھی اس کی دعائوں کو سنوں گا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! میرا فلاں عزیز مر گیا ہے تو اُسے زندہ کر دے تو یہ دعا قرآن کے خلاف ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف ہے ۔جب اس نے قرآن کی ہی نہیں مانی ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہیں مانی تو خدا اس کی بات کیوں مان لے۔ پس فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْ وَلْیُوْ مِنُوْ ابِیْ۔ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم میری باتیں مانو اور مجھ پر یقین رکھو اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے تو میں تمہاری دُعا کیسے سُن سکتا ہوں؟ پس قبولیت دُعا کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اول فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْ تم میری باتیں مانو(۲)وَلْیُوْ مِنُوْ ابِیْ اور مجھ پر یقین رکھو۔ جو لوگ ان شرائط کو پورا نہیں کرتے وہ دیندار نہیں۔ وہ میرے احکام پر نہیں چلتے اس لئے میں بھی یہ وعدہ نہیں کرتا کہ میں ان کی ہر دُعا سُنوں گا۔ بیشک میں ان کی دُعائوں کو بھی سنتا ہوں مگر اس قانون کے ماتحت ان کی ہر دعا کو نہیں سنتا۔ لیکن جو شخص اس قانون پر چلتا ہے اور پھر دعائیں بھی کرتا ہے میں اس کی ہر دعا کو سنتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بازار میں چند بنئے بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ کیا کوئی ایک پائو تلِ کھا سکتا ہو۔ وہ ایک پائو تکل کھانا بہت بڑا کام سمجھتے تھے ان میں سے ایک نے کہا جو ایک پائو تل کھال یا س کو میں پانچ روپے انعام دونگا۔ پس سے ایک زمین دار گزر رہا تھا اس نے جب سُنا کہ پائو تل کھانے پر شرط لگی ہوئی ہے تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی اس نے خیال کیا کہ بھلا ایک پائو تل کھانا کونسی بڑی بات ہے جس پر انعام دیا جائے۔ ضرور اس کے ساتھ کوئی اور شرط ہو گی۔ وہ آگے بڑھا اور پوچھا شاہ جی! ’’تل سلیاں سمیت کھانے نے کہ بغیر سلیاں دے۔‘‘ یعنی پھلیوں سمیت تلِ کھانے ہیں یا الگ کئے ہوئے بیج کھانے ہیں ۔ اس زمیندار کے نزدیک تو پائو تلِ کھانے کوئی چیز نہ تھی لیکن وہ سب بنئے تھے جو آدھا پھلکا کھانے کے عادی تھے۔ جب اس نے یہ کہ اکہ شاہ جی کیا تل پھلیوں سمیت کھانے ہیں تو اس بنئے نے کہا چوہدری صاحب آپ جائیے ہم تو آدمیوں کی باتیں کرتے ہیں۔[
اسی طرح اللہ تعالیٰ جہاں یہ کہتا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں ۔ وہاں بھی وہ آدمیوں کا ہی ذکر کرتا ہے۔ جانوروں کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ ہر پکارنے والے کی پکار کو نہیں سنتا۔ وہ صرف اس شخص کی پکار کو سنتا ہے جسے یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ پر ہی سب ذمہ داری نہیں بلکہ مجھ پر بھی کچھ ذمہ داری ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ اے خدا! فلاں کی لڑکی مجھے اُدھال کر لا دے یا فلاں کا مال مجھے دے دے یا میرے فلاں شخص کی جان نکال دے تو خدا تعالیٰ اپنے آپ کو ان دُعائوں کا مخاطب نہیں سمجھتا پس فرمایا فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْمیں ہر اس دعا کو سنتا ہوں جس کا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے اور پھر اُسے مجھ پر پورا یقین بھی ہو۔ اور جو ایسا کرتے ہیں وہ غلط دُعائیں مانگتے ہی نہیں کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہؓ ایسی دُعائیں مانگتے تھے کہ اے خدا فلاں کا مال ظالمانہ طور پر ہمیں دیدے ۔ پس خداتعالیٰ بھی یہاں انسانوں کا ذکر کرتا ہے حیوانوں کا نہیں اور فرمایا ہے کہ میں دُعائیں سنتا ہوں لیکن اس کے لئے دو شرطیں ہیں اول دُعا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے۔ دوم اسے مجھ پر یقین بھی ہو۔ جب اسے مجھ پر یقین ہو گا تو اس کا اعتماد بھی دعا کی قبولیت کے لئے اکسا ئیگا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ سب سے زیادہ کس کے لئے دُعائیں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میںسب سے زیادہ اس شخص کے لئے دعا کرتا ہوں جو مجھ آکر کہے کہ میرے لئے کوئی دعا کرنے والا نہیں آپ میرے لئے دعا کریں۔جب وہ مجھ پر اعتماد کرتا ہے حالانکہ وہ میرا وقف بھی نہیں ہوتا تو میں اس پر اعتماد کیوں نہ کروں۔ پس فرمایا۔ وَلْیُوْ مِنُوْابِیْ جو مجھ پر یقین رکھتا ہے اور میرے منشا کے مطابق دُعا کرتا ہے میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ لیکن جسے یقین نہ ہو اور وہ میرے منشاء کے مطابق دعا نہ کرتا ہو تو ا سکی دعا قبول نہیں ہو سکتی۔ اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ الَایَزَالُ ئُسْتَجَابُ لِنْعَبْدِ مَالَمْ یَدْعُ بِاِثْمٍ اَوْ قَطِیْعَۃِ رِحْمٍ مَالَمْ ئَسْتَعْجَلْ۔ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْاِ سْتِعْجَالُ قَالَ یَقُوْلُ قَدْ دَعَوْتُ وَقَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ اَرَی ئُسْتَجَابُ لِیْ فَیَسْتَحْسِرُ عِنْہُ ذَالِکَ وَیَدْعُ الدُّعَائَ(مسلم جلد ۲ کتاب الذکرو الدعاء)یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ندے کی دعائوں کو قبول کرتا ہے جب تک کہ وہ قطع رحم اور گناہ کے متعلق نہ ہوں۔ مگر اس صورت میں نہیں کہ وہ جلدی کرے ۔ صحابہؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ! جلدی سے کیا مرا دہے۔ آپ نے فرمایا وہ یہ کہنے لگتا ہے کہ میں نے بڑی دُعا کی مگر میں دیکھتاہوں کہ میری دُعا قبول نہیں ہوئی۔ پھر وہ دُعا سے تھک جاتا ہے اور دُعا چھوڑ بیٹھتا ہے۔ غرض دُعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور یقین رکھے اور مایوسی اس کے قریب بھہ نہ پھٹکے پھر فرماتا ہے ۔لَعَلَّھُمْ یَرْ شُدُوْنَ ۔ اس کے نتیجہ میں یقیناً وہ کامیاب ہونگے۔ رشد کے معنے ہوتے ہیں رستہ دکھائی دینا۔ پس لَعَلَّھُمْ رَرْشُدُوْنَ کے معنے ہیں کہ انہیں وہ رستہ مل جائیگا جو انہیں کامیابی تک پہنچا دیگا۔ لَعَلَّ کے معنے عام طور پر شاید کے ہوتے ہیں لیکن اس جگہ اس کے معنے شاید کے نہیں۔ یہاں یہ لفظ کلام الملوک کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارا شاید بھی یقینی ہوتا ہے۔ چنانچہ بالعموم حکام کہہ دیتا ہے کہ اگر تم درخواست کرو تو حکومت غور کرے گی۔ لفظ شک کے ہوتے ہیں ۔لیکن دراصل وعدہ ہوتا ہے کہ ہم ضرور ایسا کر دیں گے ۔ لغت والے بھی لکھتے ہیں کہ جب لَعَلَّ کا لفظ خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس وقت اس کے معنے یقین کے ہوتے ہیں۔ (مفردات راغب) پس لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ کے یہ معنے ہیں کہ ابھی تک تو مجھے ان تک آنا پڑتا ہے مگر جب وہ یہ مقام حاصل کر لیں گے تو پھر ان کے اندر یہ طاقت پیدا ہو جائیگی کہ وہ خود مجھ تک آسکیں گے۔ چنانچہ پہلے اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر بتایا تھا کہ میں ان کے پاس آتا ہوں مگر یَرْشُدُوْنَ کہہ کر بتایا کہ بندہ میں ترقی کرتے کرتے ایک قسم کی الوہیت کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے پہلے اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے نابینا آدمی کے پاس اس کا دوست بیٹھا رہے ۔ مگر پھر یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے جیسے نابینا کے سامنے اس کا محبوب بیٹھا ہو۔ یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عبادت کرتے وقت ہر انسان کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ یا کم سے کم وہ یہ سمجھے کہ خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ اب خدا تعالیٰ کے دیکھنے کے یہی معنے ہیں کہ وہ اس کے قریب ہو جاتا ہے ورنہ عیکھ تو وہ عرش سے بھی رہا ہے درھقیقت اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بندہ کے اس قدر قریب آجاتا ہے کہ انسان یہ یقین کرنے لگ جاتا ہے کہ خداتعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے بلکہ اس سے ترقی کر کے وہ اس مقام کو بھی حاصل کر لیتا ہے جس میں وہ خود بھی خداتعالیٰ کو دیکھنے لگ جاتا ہے اور اعلیٰ درجہ کے کمالات روحانیہ تک پہنچ جاتا ہے۔
چونکہ اس آیت سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی روزوں کا ذکر ہے اس لئے اس آیت کے ذریعہ مومنوں کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے بندوں کی دُعائیں سُنتا اور ان کی حاجات کو پورافرماتا ہے لیکن رمضان المبار کے ایام قبولیت دُعا کے لئے مخصوص ہیں۔ اس لئے تم ان دنوں سے فائدہ اُٹھائو اور خداتعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ ورنہ اگر رمضان کے مہینہ میں بھی تم خالی ہاتھ رہے تو تمہاری بد قسمتی میں کوئی شبہ نہیں ہو گا۔
دنیا میں ہر کام اپنے وقت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اگر اسوقت وہ کام کیا جائے تو جیسے اعلیٰ درجہ کے نتائج اس وقت مرتب ہوتے ہیں وہ دوسرے وقت میں نہیں ہوتے۔ تمام غلے اور ترکاریاں بونے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے اگر اس وقت کو مدنظر نہ رکھا جائے تو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ مگر وہ وقت جادو یا ٹونے کی طرح نہیں ہوتا کہ اس کے آنے سے کوئی خاص اثر پیدا ہو جاتا ہے اس لئے وہ کام ہو جاتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جس وقت کسی کامیابی کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں تو وہی اس کے کرنے کا وقت ہوتا ہے اگر گیہوں کا دانہ ایک خاص وقت میں بونے سے اُگتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت اس میں کوئی خاص بات پیدا ہو جاتی ہے بلکہ اس کے اُگنے کے لئے جو سامان ضروری ہوتے ہیں وہ اس وقت مہیا ہو جاتے ہیں اگر وہی سامان کسی دوسرے وقت مہیا ہو سکیں تو او وقت بھی وہ ضرور اُگ آئیگا۔ تو تمام کاموں کے لئے ضروری سامان مہیا ہونیگا ایک وقت مقرر ہے ۔ اسی طرح دُعا کے لئے بھی وقت مقرر ہیں ان وقتوں میں کی ہوئی دُعا بھی بہت بڑے نتائج پیدا کرتی ہے۔ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِتَّقُوْا دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ۔ مظلوم کی بد دعا سے ڈر و کیونکہ جب وہ ہر طرف مصائب ہی مصائب دیکھتا اور خداتعالیٰ کے سوا کوئی سہارا نہیں پاتا تو اس کی تمام تر توجہ خداتعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے اور وہ خداتعالیٰ کے آگے گِر پڑتا ہے اور اس وقت وہ جو بھی دعا کرتا ہے قبول ہو جاتی ہے کیونکہ دعا کے قبول ہونے کے سامانوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا سامان یہ بھی ہے کہ انسان کی ساری توجہ ہر طرف سے ہٹ کر خداتعالیٰ ہی کی طرف ہو جائے۔ چونکہ مظلوم کی یہی حالت ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے بھی یہ ایک موقعہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح دُعا کے قبول ہونے کے اوقات بھی ہیں۔ لیکن وہ ظاہری سامانوں کی حد بندیوں کے نیچے نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی قلوب کی خاص حالوتں ماور کیفیات سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں وہی انسان محسوس کر سکتا ہے جس پر وہ حالت وارد ہو۔ مگر دُعا کی قبولیت کا ایک او ر وقت بھی ہے جس کے معلوم کرنے کے لئے باریک قلبی کیفیات سے واقف ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ وقت رمضان کا مہینہ ہے ۔ یہ آیت خداتعالیٰ نے روزوں کے ساتھ بیان کی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ اس کا روزوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس کے روزوں کے ساتھ بیان کرنے کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح مظلوم کی ساری توجہ محدود ہو کر ایک ہی طرف یعنی خداتعالیٰ کی طرف لگ جاتی ہے اسی طرح ماہِ رمضان میں مسلمانوں کی توجہ خداتعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے۔ اور قاعدہ ہے کہ جب کوئی پھیلی ہوئی چیز محدود ہو جائے تو اس کا زور بہت بڑھ جاتا ہے جیسے دریا کا پات جہاں تنگ ہوتا ہے وہاں پانی کا بڑا زور ہوتا ہے اسی طرح رمضان کے مہینہ میں وہ اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو دعا کی قبولیت کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اس مہینہ میں مسلمانوں میں ایک بہت بڑی جماعت ایسی ہوتی ہے جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتی ہے۔ پھر سحری کیلئے سب کو اُٹھانا پڑتا ہے اور اس طرح ہر ایک کو کچھ نہ کچھ عبادت کا موقعہ مل جاتا ہے۔ اس وقت لاکھوں انسانوں کی دُعائیں جب خداتعالیٰ کے حضور پہنچتی ہیں تو خداتعالیٰ ان کو رد نہیں کرتا۔ بلکہ انہیں قبول فرماتا ہے۔ اس وقت مومنوں کی جماعت ایک کرب کی حالت میں ہوتی پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان کی دُعا قبول نہ ہو۔ درد اور کرب کی حالت کی دعا ضرور سنی جاتی ہے جیسے یوُنسؑ کی قوم کی حالت کو دیکھ کر خداتعالیٰ نے ان کو بخش دیا اور ان سے عذاب ٹل گیا اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سب اکٹھے ہو کر خداتعالیٰ کے حضور جھک گئے تھے۔
اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ
لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَo
پس رمضان کا مہینہ دُعائوں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے یہی وہ مہینہ ہے جس میں دُعا کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قَرِیْب’‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اگر وہ قریب ہونے پر بھی نہ مل سکے تو اور کب مل سکیگا۔ جب بندہ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیتا ہے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اب وہ خداتعالیٰ کا درچھوڑ کر اور کہیں نیہں جائیگا تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کی آواز خود اس کے کانوں میں بھی آنے لگتی ہے جس کے معنے سوائے اس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور جب کوئی بندہ اس مقام تک پہنچ جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے خدا کو پالیا۔
۱۰۱؎ حل لغات:۔ رَفَث’‘: اَلرَّفَتُ کَلَام’‘ مُتَضَمِّن’‘ لِمَا ئُسْتَقْبَحُ ذِکْرُ ہ‘ مِنْ ذِکْرِ الْجَمَاعِ وَدَوَاعِیْہِ وَجَعَلَ کَنَا یَۃً عَنِ الْجَمَاعِ ۔
یعنی رَفَثَ کا لفظ جماع اور اس کے محرکات کے لئے کنایۃً استعمال ہوتا ہے۔ (مفردات)
لَبَاس’‘ لَّکُمْ: لِبَاس’‘ کے معنے اصل میں سِتْر’‘ کے ہیںیعنی ڈھانپنے والی چیز۔ مگر قراان کریم نے اس کے اور معنے بھی بتائے ہیں۔ چنانچہ سورہ اعراج میں لباس کے دو کام بتائے گئے ہیں فرماتا ہے۔ یَبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوْارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا(اعراف آیت ۲۷) یعنی اے بنی آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا اور تمہیں زینت بخشتا ہے۔ لباس کا تیسرا کام ایک اور جگہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ(نحل آیت ۸۲) اس نے تمہارے لئے گرمی سردی کے ضرر سے بچانے کے لئے سرابیل بنائے ہیں ۔ پس لباس کا تیسرا کام گرمی سردی کے ضر ر سے بچانا ہے۔
تَخْتَانُوْنَ: خَانَ یَخُوْنُ سے باب افتعال ہے۔ اور جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے ۔ اور اِخْتَانَہ‘ اِخْتِیَانًا کے معنے ہیں اُوْ تُمِنَ فَلَمْ یَنْصَھْ وَخَانَ الْعَھْدَ نَقَضَہ‘۔ یعنی اِخْتَافَ کے معنے ہیں امانت کا حق دار نہ کیا اور عہد کو توڑا(اقرب)
عَفَا عَنْکُمْـ: عَفَا عَنْہُ وَلَہ‘ ذَنْبَہ‘ وَعَنْ ذَنْبِہٖ صَفَحَ عَنْہُ وَتَرَکَ عُقُوْبَتَہ‘ وَ ھُوَ یَسْتَحِقُّھَا وَ اَعْرَضَ مُوَا خَذَ تِہٖ۔ یعنی عَفَا کے معنے ہیں (۱) اس کا قصور معاف کر دیا اور اس سے مواخذہ نہ کیا۔ (۲) اور عَفَااللّٰہُ عَنْ فُلَانٍ کے معنے ہیں مَحَا ذُنُوْبَہ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ مٹا دیئے۔ (اقرب) (۳) وَقَدْ ئُسْتَعْمَلُ عَفَا اللّٰہُ عَنْکُمْ فِیْمَا لَمْ یَسْبَقْ بِہٖ ذَنْب’‘ وَلّا یُتَصَوَّرُ۔ عَفَا کا لفظ بعض دفعہ ایسے آدمی کے لئے بھی بولا جاتا ہے جس نے نہ کوئی گناہ کیا ہو اور نہ اس کے متعلق گناہ کا خیال ہو سکتا ہو(اقرب)
بَاشِرُوْ ھُنّ: باب مفاعلہ سے امر کا صیغہ ہے اور بَاشَرَ الْاَمْرَ کے معنے ہیں تَوَلَّاہُ بِنَفْسِہٖ اس نے خود کوئی کام کیا۔ وَبَاشَرَہُ النَّعِیْمُ: اَخَاضَ عَلَیْہِ حَتّٰی کَاَنَّہ‘ مَسَّ بَشْرَ تَہ‘۔ اور بَاشَرَ ہُ النَّعِیْمُ کے معنے ہیں اُسے اس کثرت سے نعمتیں حاصل ہوئیں کہ اس کے چمڑے کو چھونے لگیں۔ (اقرب) اور اَلْمُبَاشَرَۃُ کے معنے ہیں اَلْاِفْضَائُ بِالْبَشْرَ تَیْنِ۔ ہم صحبت ہونا(اقرب)
کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ۔ کَتَبَ لَہُ میں عام طور پر لام فائدہ کے لئے آتا ہے اور کتابت کے معنے مقدر کردینے اور فرض کر دینے کے ہیں۔ اس جگہ مقدر کر دینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
مِنْ کے معنے اس جگہ امتیاز کے ہیں۔
عَاکِفُونَ: عَاکِف’‘ عَکَفَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور عَاکِفُوْنَ جمع کا صیغہ ہے۔ اور عَکَفَ کے معنے ہیں اَلْاِقْبَالُ عَلَی الشَّیْئِ وَ مُلَا زَمَتَہ‘ عَلٰی سَبِیْلِ التُعْظِیْمِ لَہ‘۔ یعنی کسی چیزک ی طرف پوری طرح متوجہ ہونا۔ اور اس کے ساتھ اس کی تعظیم کی خاطر تعلق قائم رکھنا یا اس میں رہنا۔ پس عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ کے معنے میں مسجدوں کا لازم پکڑنے والے اور ان میں بیٹھے رہنے والے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے روزوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں سے بے تکلف ہونا جائز ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لبا س ہو۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لباس کے تین کام بتائے گئے ہیں اول ننگ ڈھانکنا۔ دوم زینت کا موجب ہونا۔ سوم سردی گرمی کے ضرر سے انسانی جسم کو بچانا۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَا سًا یُّوَارِیْ سَوْ اٰتِکُمْ وَرِیْشًا (اعراف آیت۲۷) یعنی اے آدم کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ہے جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا ہے اور تمہارے لئے زینت کا موجب بھی ہے۔ اسی طرح سورہ نحل میں فرماتا ہے۔ وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ (نحل آیت ۸۲) یعنی اس نے تمہارے لئے کئی قسم کی قمیصیں بنائی ہیں جو تمہیں گرمی سردی سے بچاتی ہیں۔ اوربعض قمیضیں یعنی زر ہیں ایسی بھی ہیں جو تمہیں آپس کی جنگ کی سختی سے بچاتی ہیں۔ پس ھُنَّ لِبَاس’‘ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لَبَاس’‘ لَھُنَّ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہمیشہ لباس کا کام دیں یعنی (۱) دوسرے کے عیب چھپائیں (۲) ایک دوسرے کے لئے زینت کا موجب بنیں (۳) پھر جس طرح لباس سردی گرمی کے ضر ر سے انسانی جسم کو محفوظ رکھتا ہے اسی طرح مرد عورت سُکھ دُکھ کی گھڑیوں میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔ اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کی دلجمعی اور سکون کا باعث بنیں۔ غرض جس طرح لباس جسم کی حفاظت کرتا ہے اور اسے سرد ی گرمی کے اثرات سے بچاتا ہے اسی طرح انہیں ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہیے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مثال دیکھ لو۔ انہوں نے شادی کے معًا بعد کس طرح اپنا سارا مال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی دقت پیش نہ آئے۔ اور آپ پورے اطمینان کے ساتھ خدمتِ خلق کے کاموں میں حصہ لیتے جائیں۔ یہ اہلی زندگی کو خوشگوار رکھنے کا کتنا شاندار نمونہ ہے جو انہوں نے پیش کیا۔
عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ تم اپنے نفسوں کے حقوق کو تلف کیا کرتے تھے اور ان کا پورا حق ادا نہیں کرتے تھے پس اس نے تم پر اپنے فضل سے توجہ کی اور تمہاری اس حالت کی اصلاح کر دی۔
یہ حق تلفی جس کی طرف اس آیت میں اشار ہ کیا گیا ہے درحقیقت اس والہانہ عشق کی وجہ سے تھی جو صحابہؓ کے دلوں میں عبادت اور ذکر الہٰی کے متعلق پایا جات تھا۔ انہوں نے جب رمضان کی برکات کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ان دنوں میں آسمان سے اُتر آتا ہے اور بندوں پر اپنے انوار اور برکات کی بارش نازل کرتا ہے تو انہوں نے چاہا کہ وہ رمضان کی راتیں بھی ذکر الہٰی اور عبادت میں بسر کریں اور جنسی تعلقات سے بالا رہیں۔ اسی طرح کھانے پینے کے متعلق بھی بعض ناواجب قیود انہوں نے اپنے اوپر عاید کر رکھی تھیں۔ چنانچہ بخاری میں حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس آیت کے نزول سے قبل صحابہؓ میں سے جب کوئی شخص افطاری سے قبل سو جاتا تو آنکھ کھلنے پر وہ نہ رات بھر کچھ کھاتا اور نہ اگلے دن کھاتا یہاں تک کہ پھر دوبارہ شام کا وقت آجاتا۔ ایک دفعہ ایک انصاری جو روزہ دار تھے انہوں نے افطاری کے قریب اپنی بیوی سے کچھ کھانے کے لئے مانگا۔ اس نے کہاکہ گھر میں تو کچھ نہیں مگر کہیں سے کچھ مانگ لاتی ہوں۔ انتے میں انہیں نیند آگئی او روہ سو گئے۔ بیوی باہر سے کھانا لے کر آئی تو چونکہ وہ سو چکے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ساری رات بھوکے رہے اور اگلے دن بھی ان کا روزہ ہی رہا۔ بارہ بجے کے قریب وہ شدت ضعف کی وجہ سے بیہوش ہو گئے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلیٰ نَسَآئِکُمْ ھَنَّ لَبَاس’‘ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاس’‘ لَّھُنَّ اسی طرح یہ آیت نازل ہوئی کہ وَکُلُوْ ا وَاشْرَبُوْاحَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (بخاری جلد اول کتاب الصوم) درحقیقتیہ پابندیاں یہود کی بعض رسوم کا نتیجہ تھیں ۔ یہود میں یہ رواج تھا کہ وہ ایٹونمنٹ ڈے یعنی یوم کفارہ کا جب روزہ رکھتے تو ایک صبح سے دوسری صبح تک نہ کچھ کھاتے نہ پیتے (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۵ صفحہ ۳۴۸)اُن کو دیکھ کر مسلمانوں کو بھی خیال پیدا ہوا کہ شاید جب آدمی سو جائے توا س کے بعد وہ کچھ نیں کھا سکتا۔ اسی طرح مر د عورت کے اختلاط کے متعلق خیال کرتے تھے کہ جس وقت کھانا منع ہو وہ بھی منع ہے ان خیالات کے وجہ سے اگر کوئی سو جاتا تو کھانا نہ کھاتا اور اپنی بیوی کے پاس بھی نہ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ بیفائدہ تکلیف ہے اس کی کچھ ضرورت نہیں صرف وہی پا بندی انسان کیلئے خیرو برکت کا موجب ہوتی ہے جو الٰہی منشاء کے مطابق ہو۔ ورنہ بلا ضرورت اپنے آپ کو مختلف قیدوں اور پابندیوں میں جکڑ تے چلے جانا اور درست نہیں ہوتا۔
فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَغَفَا عَنْکُمْ فرمایا کہ اب ہم نے تم پر رحم کر دیا ہے ۔ اور تمہارے لئے آسانی بہم پہنچادی ہے اس لئے خدا تعایلٰ کا سکر ادا کرو اور پہلے سے بھی زیادہ شوق اور مستعدی کے ساتھ نیک کاموں میں حصہ لو۔
اس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب مومن بندے خدا تعالیٰ کی رضا ء کیلئے اپنے آپ کو کسی مشقت میں ڈالتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جو ش میں آتی ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں انسان کیلئے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے ۔ گویا اُن کے اخلاص کا انہیں دم نقد فائدہ دے دیتا ہے ۔
پھر فرماتا ہے ۔ فَاْلٰٔنَ بَاشِرُدْھُنَّ وَاْبتَغُوْ امَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ۔ کَتَبَ عَلَیْہِ اور کَتَبَ لَہٗ میں فرق ہے ۔ کَتَبَ عَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیں۔اُس پر فرض کیا گیا ہے ۔ اور کَتَبَ لَہکے منعے ہوتے ہیں اْس کیلئے کوئی انعام مقرر کیا گیا ہے ۔یا کوئی حق مقرر کیا گیا ہے ۔ (یا استعارۃً تقدیر مقررہ کے معنوں میں بھی آجاتا ہے )پاس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے جائز کیا ہے یا جن سے نہیں روکا اُن کے بے شک کرو۔ وہ تمہارا حق ہیں ۔ اُنکو چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں ۔یا یہ کہ جو اولاد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اُس کی جستجو کرو یعنی جو طریق اولاد حاصل کرنیکا اُس نے مقرر کر رکھا ہے اسکے مطابق عمل کرو۔
اسی طرح وَاْبتَغُوْامَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْسے یہ بھی مراد ہے کہ اس مقدس مہینہ میں جو کچھ برکات خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقرر کر رکھی ہیں ان کے حصول کلیئے پوری کوشش کرو۔ پہلا طریق جو حقوق نفس کو تلف کرنے والا تھا اس کے نتیجہ میں ممکن تھا کہ تمہارے جسم کو کوئی نقصان پہنچ جاتا اور تم زیادہ محنت اور مشقت نہ کر سکتے ۔ مگر اب جبکہ ہم نے اس کی تلافی کر دی ہے اور تمہارے جسم کو بے جا کوفت سے بچال لیا ہے تمہارا فرض ہے کہ تم کمر ہمت باندھ کر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اُن درجات عالیہ کی تلاس کرو جن کو خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھا ہے ۔
وَکُلُوْ اوَاشْرَ بُوْ ا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْظُ اْلَا بْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَ سْوَ دِمِنَ الْفَجْرِ ۔فرماتا ہے تم اس وقت تک کھاؤ پیئو جب تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے ۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ ؓ نے غلطی سے سیاہ اور سفید دھاگے اپنے پاس رکھنے شروع کر دئیے اور انہوں نے نے خیال کیا کہ ہمیں اس وقت تک کھانے پینے کی اجازت ہے جب تک کہ ہمیں سفید اور سیاہ دھاگے میں فرق نظر نہ آنے لگے ۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عدیؓ رسول کریم صیل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔اور انہپوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے سیاہ اور سفید دو دھاگے اپنے تکیہ کے نیچے رکھ دئیے ہیں تاکہ جب سیاہ اور سفید دھاگے میں فرق نظر آنے لگے تو مجھے معلوم ہو جائے کہ اب کھانا پینا چھوڑ دینا چاہیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ بات سنکر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے تمہارا تکیہ بہت چوڑا ہے کہ اُس کے نیچے خیط ابیض اور خیط اسود دونوں آگئے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا ۔ اس سے مراد تو صرف رات کی سیاہی اور دن کی سفید ہے ۔ ظاہر ی دھاگے مراد نہیں ہیں (مسلم کتاب الصیام ) اسی طرح بعض اور صحابہ ؓ بھی سفید اور سیاہ دھاگے اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور وہ اس وقت تک کھاتے پیتے رہتے ھتے جب تک کہ اہن دونوں میں انہیں فرق نظر نہ آجاتا۔ آکر اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ نازل فرمائے تب انہیں معلوم ہوا کہ خیط ابیض اور خیط اسود سے سفید اور سیاہ دھاگے نہیں بلکہ اس سے صبح صادق اور صبح کا ذب کا فرق مراد ہے ۔
پنچاب میں میں بھی بعض زمیندار رمضان کی راتوں میں سفید اور سیاہ دھاگے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اور چونکہ دھاگا اچھی روشنی میں نظر آتا ہے مدھم روشنی میں نظر نہیں آتا اس لئے وہ کافی روشنی ہونے تک کھاتے پیتے رہتے ہیں ۔بلکہ بعض لوگوں کی نظر چونکہ کمزور ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے وہ دن چڑھنے کے بعد بھی اس آیت کی روسے کھاتے پینے کا جواز ثابت کر لیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی میں ہی اس فرق کا پتہ لگ سکتا ہے ۔بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خیط ابیض اور خیط اسود کے الفاظ استعارۃً استعمال فرمائے ہیں ۔ اور مراد یہ ہے کہ صرف اس وہم کی بنا پر کھانا پینا ترک نہیں کر دینا چاہیے کہ ممکن ہے صبح ہو گئی ہو۔ بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ صبح صادق اور صبح کاذب میں امتیاز ہو اجائے اور پوپھٹ جائے ۔
ثُمَّ اَتِمُّو الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ۔اس جگہ لیل سے گہری تاریکی مراد نہیں بلکہ صرف سورج غروب ہونے کا وقت مراد ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُو الْفِطْرَ (مسلم کتاب الصیام ) کہ جب تک لوگ سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ خیر پر قائم رہیں گے ۔ یعنی احکام اسلامی کی حقیقی روح ان میں زندہ رہیگی ۔ ورنہ جب لوگ رسوم یا وہم سے کام لینے لگتے ہیںتو فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں اور اُن کے اوہام انہیں دور ازسکار باتوں میں الجھا دیتے ہیں ۔ اور اُن کی حالت بالکل اس شخص کی سی ہو جاتی ہے ۔ جو نماز کی نیت باندھتے ہوئے اپنے وہم میں اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ پہلے تو امام کو انگلی مار مار کر کہتا کہ پیچھے اس امام کے اور پھر رفتہ رفتہ اُس نے امام کو دھکے دینے شروع کر دئیے ۔ اِسی طرح جن لوگوں کاوہم بڑھ جاتا ہے وہ پہلے سورج کے غروب ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ مگر چونکہ ابھی سُرخی باقی ہوتی ہے اس لئے اں کی تسلی نہیں ہوتی اور وہ زیادہ انتظار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب گہری تاریکی چھا جائے تب افطاری کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب گہری تاریکی چھا جائے تب افطاری کرتے ہیں۔یہ طریق شریعت کے خلاف ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اَتِمُّو الصِیَّامَ اِلَی الَّیْلِ کا حکم دیا ہے ۔ اور لیل کا وقت سورج ڈوبنے سے لیکر سورج نکلنے تک ہے ۔ یہ مراد نہیں کہ جب تک اچھی طرح تاریکی نہ چھا جائے اس وقت تک تم روزہ افطار ہی نہ کرو۔
وَلَا تُبَاَ شِرُ وْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ ۔اس کے معتلق اختلاف ہوا ہے کہ آیا اعتکاف کی وجہ سے مباشرت ممنوع قرار دی گئی ہے ۔ یا مسجد کی حرمت کی وجہ سے ۔ میرے نزدیک اعتکاف کی وجہ سے مباشرت سے نہیں روکا گیا بلکہ مسجد کے احترام کی وجہ سے روکا گیا ہے ۔ جس کی طرف وَلَا تُبَاَ شِرُ وْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدکے الفاظ اشارہ کر رہے
وَلَا تَاْ کُلُوْآ
تَعْلَمُوْنَo
ہیں۔کہ مباشرت کی نفی اعتکاف کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ مساجد کی وجہ سے ہے ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چہیے کہ مباشرت ملمں کو بھی کہتے ہیں ۔ اور احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایسی حالت میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوتے تھے آپ کا سر بھی پانی سے دھودیتی تھیںاور بالوں کی کنگھی بھی کر دیا کرتی تھیں (بخاری ابواب الاعتکاف)
پس اس جگہ مباشرت کی نہی سے محض مخصوص تعلقات یا اُس کے مبادی مراد ہیں جسم کو چھونا مراد نہیں۔
تِلْکَ حُدُ وْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَ بُوْھَا۔ فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں۔ تم اُن کے قریب بھی مت جاو تاکہ غلطی سے تمہارا قدم اللہ تعالیٰ کے محارم میں نہ جا پڑے ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ ؓ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور بھی ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ پس جو شخص ان مشتبہ امور سے بچا اُس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچانے کیلئے بری احتیاط سے کام لیا۔ لیکن جو شخص ان مشتبہ امور میں جا پڑا وہ اس چروا ہے کی مانند ہے جو رکھ کے آس پاس اپنا ریوڑ چرارہا ہے۔ اور قریب ہے کہ اُس کا ریوڈ رکھ کے اندر چلا جائے ۔ پھر آپ نے نے فرمایا کہ اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِیً اَلَا اِنَّ حِیَ اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہٖ مَحَارِمُہٗ ۔کان کھول کر سنو کہ ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین میں اس کی رکھ اُس کی حرام کردہ چیزیں ہیں (بخاری الایمان باب فضل من اِسْتَبْرَأَ لدینہِ) پس محارم اللہ تعالیٰ کی رکھ ہوتے ہیں ۔اور اگر کوئی انسان اُن کے قریب جائے تو اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ اُس کا قدم ڈگمگا جائے اور وہ ناجائز امور کا مرتکب ہو کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موردبن جائے ۔پس اسل تقویٰ یہی ہے کہ انسان حدود اللہ کے قریب جانے سے بھی بچے تاکہ شیطان اُس کے قدم کو ڈگمگانہ دے ۔
کَذٰ لِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ۔ اس میںآیات سے مراد احکام الٰہیہ ہیں۔ اور فرماتا ہے کہ ان احکام کی اصل غرض تمہارا اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے ۔ پس تمہیں چاہیے کہ تم ہمیشہ تقوی اللہ کو محلوظ رکھو اور نہ صرف اللہ کی حدود کو نہ توڑو بلکہ شبہات کے بھی پرے رہنے کی کوشش کرو۔
مباد تمہارا قدم پھسل جائے اور تم تقویٰ سے دور چلے جاؤ۔
۱۰۲؎ حل لغات:۔ تَاکُلُوْا : اَکَلَ کے معنے کھانے کے ہوتے ہیں ۔لیکن جب غذا کے سوا اور چیزوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے ہلاک کرنے یا فنا کر دینے کے ہوتے ہیں۔
تُدْلُوْا:اَدْلیٰ سے جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور اَدْلیٰ اِدلَائً کے معنے ہیں اَرْسَلَ الدَّلْوَ فِی الْبِر، اس نے کوئیں میں ڈول ڈالا اور اَدْلیٰ فُلَا ن’‘ فِی فُلَافٍ کے معنے ہیں۔ قَالَ قَبِیْحًا اس نے کسی کے متعلق بُری بات کہی اور اَدْلیٰ بِحُجَّنِہٖ کے معنے ہیں اس نے اپنی دلیل پیش کی اور اَدْلیٰ اِلَیْہِ بِمَالٍ کے معنے ہیں۔ اس نے اُسے مال دیا۔(اقرب) تُدْلُوْا بِھَا اصل میں لَا تُدْلُوْ ابِھَا کے معنوں میں ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ (۱) ایک دوسرے کے مال حکام کے پاس نہ لے جائو۔ یعنی جھوٹے مقدمات بنا کر اُن کے مال نہ لو (۲) حاکموں کو بطور رشوت مال نہ دو۔
تفسیر:۔ اپنے مال کو تو انسان کھایا ہی کرتا ہے پس لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ سے مراد ہے کہ ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ مت کھائو۔ انسان دوسرے کا ہل کئی طرح کھاتا ہے۔ اول جھوٹ بول کر ۔ دوم ناجائز ذرائع سے چھین کر۔ سوم سود کے ذریعہ سے۔ چہارام رشوت لے کر یہ سب امور باطل میں داخل ہیں۔
وَتُدْ لُوْا بِھَا اِلَی الْحُکِّامِ میں بتایا کہ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کا مال کھانا ناجائز ہے۔ اسی طررح تم حکام کو بھی روپیہ کا لالچ نہ دو تاکہ اس ذریعہ سے تم دوسرے کا مال کھا سکو۔ اس آیت میں افسران بالا کو رشوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور اُسے حرام اور ناجائز قرار دیا گیا۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اپنے مالوں کو حکام کے پاس نہ لے جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ کے ذریعہ کھا جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ کے ذریعہ مت کھا جائو۔یعنی ان کے متعلق جھوٹے مقدمات دائر نہ کرو۔ اور یہ نہ سمجھو کہ اگر حاکم انصاف کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے تمہیں کسی کا حق دلادے گا تو وہ تمہارے لئے جائز ہو جائیگا۔ کیونکہ دنیوی عدالتوں سے بالا ایک آسمانی عدالت بھی ہے اور جب اس نے اپنے قانون میں ایک چیز کو ناجائز قرار دے دیا ہے تو دنیا کی کوئی عدالت خواہ اُسے جائز بھی قرار دے دے وہ بہر حال ناجائز اور حرام ہی رہے گا۔
چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ‘ بِحَقَّ اَخِیْہِ شَیْئًا فَلَا یَاْ خُذُہ‘۔ فَاِنَّمَا اَقْطَعُ لَہ‘ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ ۔ (بخاری جلد ۴ کتاب الاحکام) یعنی اگر میں کسی شخص کے لئے اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا غلط فیصلہ کر دوں تو اُسے چاہیے کہ وہ اس کے لینے سے انکار کر دے کیونکہ میں اس کے لئے آگے کے ایک ٹکڑے کا فیصلہ کرتا ہوں۔
اسی طرح بخاری اور مسلم میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت آتی ہے کہ اَنَّہ‘ سَمِعَ خَصُوْمَۃً بِبَابِ حُجْرَتِہٖ فَخَرَجَ اِلَیْھِمْ فَقَالَ اِنَّمَا اَنَا بِشَر’‘ وَ اِنَّمَا یَاْ تِیْنِی الْخَصْمُ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ اَنْ یَّکُوْنَ اَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَاَحْسِبُ اَنَّہ‘ صَادِق’‘ فَاَقْضِیَ لَہ‘ بِذٰلِکَ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ‘ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَاِنَّمَا ھِیَ قِطْعَۃ’‘ مِّنَ النَّارِ فَلْیَاْ خُذْ ھَااَوْیَنْرُکْھَا۔ (بخاری کتاب الاحکام) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے مکان کے دروازہ پر کسی جھگڑے کی آواز سنی آپ شور سُن کر باہر تشریف لے آئے اور لوگوں سے فرمایا کہ دیکھو میں بھی ایک انسان ہوں۔ میرے پاس مقدمات والے آتے ہیں تو ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو۔ اور میں اس کی باتوں کی وجہ سے خیال کرلوں کہ وہی سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ پس اگر میں کوئی ایسای فیصلہ کر دوں تو جس شخص کیلئے میں کسی
یَسْئَلُوْنَکَ
لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
مسلمان کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کروں اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں نے اُسے دیا ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اس آگ کے ٹکڑا پر قبضہ کر لے اور چاہے تو اُسے چھوڑ دے۔
۱۰۴؎ حل لغات:۔ اَلْاَ ھِلَّۃ۔ ھَلَال’‘ کی جمع ہے ۔ وَقِیْلَ یُسَمّٰی ھِلَا لًا لِلَیْلَتَیْنِ اَوْ اِلیٰ ثَلَاثٍ اَوْ اِلیٰ سَبْعٍ۔ اور ہلال دوراتوں کے چاند کو کہتے ہیں۔ اسی طرح تین اور سات راتوں کے چاند کو ہلال کہا گیا ہے۔(اقرب الموارد)
مَوَاقِیْتُ: مِیْقَات’‘ کی جمع ہے اور اَلْمِیْقَاتُ کے معنے ہیں۔ اَلْوَقْتُ۔ وقت۔ وَقِیْلَ اَلْوَقْتُ الْمَغْرُوْبُ لِلْشَّیْئِ۔ اور کہا گیا ہے کہ میقات سے مراد وہ خاص وقت بھی ہے جو کسی کام کے لئے مقرر کیا جائے۔ وَالْمُوْعِدُ الَّذِیْ جُعِلَ لَہ‘ وَقْت’‘۔ اور میقات اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے لئے کوئی وقت مقرر کیا گیا ہو۔ وَقَدْ یُسْتَعَارُ لَلْمَوْضِعِ الَّذِیْ جُعِلَ وَقْتًا لِشَّیْئِ۔ اور وہ خاص جگہ جہاں کوئی خاص کام وقت مقرر پر کیا جائے۔ اُسے بھی میقات کہتے ہیں۔(اقرب)
تفسیر: صحابہ کرامؓ نے جب دیکھ ا کہ کس طرح رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ ان کے قریب آجاتا اور ان کی دُعائوں کو قبول فرماتا ہے۔ تو ان کے دلوں میں شوق پیدا ہوا کہ وہ باقی مہینوں کے بارہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
سے سوال کریں تاکہ وہ ان کی برکات سے بھی مستفیض ہو سکیں۔ چنانچہ فرمایا کہ لوگ تجھ سے چاندوں کے بارہ میں سوال کرتے ہیں تو انہیں کہدے کہ ھِیَ مَوَ اقِیْتُ لِلنَّاسِ یہ لوگوں کے لئے وقت کا اندازہ کرن کا ایک ذریعہ ہیں۔ یعنی ہر قمری مہینہ اس لئے مقرر نہیں کیا گیا کہ اس کے ساتھ شریعت کے کسی خاص حکم کا تعلق ہے بلکہ ان مہینوں کا چاند کے ساتھ اس لئے تعلق رکھا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ گذشتہ یا آئندہ کام کا وقت پہچانا جاتا ہے اور پھر لِلنَّاس ِ فرمایا کہ بتایا کہ عوام کے فائدہ کے لئے یہی چاند کے مہینے کام دیتے ہیں۔ ورنہ وہ حساب جس کی سورج کی گردش پر بنیاد ہے اس سے صرف علمی طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے عام لوگ اس سے فائدہ اُٹھانے کی استعداد نہیں رکھتے۔
پھر فرمایا وَالْحِجِّ۔ قمری مہینوں کا دوسرا فائدہ حج سے تعلق رکھتا ہے یعنی بوجہ اس کے کہ حج کا فریضہ قمری مہینہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ عبادت سارے سال میں چکر لگاتی رہتی ہے اور مختلف طبائع کے لوگ اور گرم سرد ممالک کے رہنے والے اپنی اپنی طبیعت اور اپنے اپنے حالات کے مطابق اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اگر حج کسی شمسی مہینہ میں مقرر کر دیا جاتا تو لازماً وہ ہر سال ایک ہی مہینہ میں ہوتا۔ اور کئی لوگوں کے لئے حج کا فریضہ ادا کرنا ناممکن ہو جاتا۔ مگر اب حج کی عبادت سارے سال میں چکر لگاتی رہتی ہے اور ہر شخص اپنے اپنے حالات کے مطابق بیت اللہ کا سفر کر کے حج کی برکات سے مستفیق ہو سکتا ہے۔
ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسلام کے نزدیک چاند ہی وقت کا اندازہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں سورج کو بھی وقت کا اندازہ کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآئً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہ‘ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْ ا عَد۔ دَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ (یونس آیت۶) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے سورج کو اپنی ذات میں ایک روشن وجود بنایا ہے اور چاند کو نور بنایا ہے جوسورج سے اکتسابِ نور کر رہا ہے۔ اسی طرح سورج افور چاند کی ہم نے منازل مقرر کر دی ہیں تاکہ تمہیں سالوں کی گنتی اور حساب معلوم ہوا کرے۔ پھر سور انعام میں فرماتا ہے ۔ فَالِقُ الْاِ صْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْرِ الْعَلِیْمِ(انعام آیت۹۷) یعنی خدا صبح کو ظاہر کرنے والا ہے اور اس نے رات کو سکون اور آرام کا موجب اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا اور یہ فیصلہ ایک غالب اور علم رکھنے والے خدا کا ہے۔
اسی طرح سورہ رحمٰن میں فرماتا ہے اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ(رحمن آیت۶) سورج اور چاند دونوں ایک حساب کے ماتحت کام کر رہے ہیں یعنی ان کی حرکات قانون سے آزاد نہیں بلکہ ایک معین اور مقرر ہ قانون کے مطابق ہیں۔ اور اسی مقررہ قانون کا یہ نتیجہ ہے کہ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ زمین کی روئیدگی اور سبزہ سب اپنے اُگنے ۔ نشوونما پانے اور پھل لانے میں سورج اور چاند کے پیچھے چلتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں۔
ان آیات قرآنیہ سے واضح ہے کہ تاریخ اور حساب کے ساتھ سورج اور چاند دونوں کا تعلق ہے۔ اور یہ علوم کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے تھے اگر سورج اور چاند کا وجود نہ ہوتا۔ اگر سورج اور چاند نہ ہوتے تو دنوں اور سالوں کا اندازہ ہی نہ ہو سکتا۔ اس لئے کہ اندازہ اور فاصلہ معلوم کرنے کے لئے کسی مستقل چیز کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے پٹواری حساب لگاتے ہیں تو کہتے ہیں فلاں زمین فلاں کنوئیں سے اتنے کرم کے فاصلے پر ہے یا فلاں درخت سے اتنے کرم کے فاصلے پر ہے۔ پس چونکہ کسی مستقل چیز کے بغیر فاصلہ کا معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے اس لئے اگر سورج اور چاند نہ ہوتے تو سالوں اور دنوں کا اندازہ بھی نہ ہو سکتا۔
اسلام نے اپنی عبادات میں سورج اور چاند دونوں سے وقت کے اندازے کئے ہیں۔ مثلاً دن بھر کی نمازوں کے اوقات اور روزہ کی ابتداء اور اس کی افطاری وغیرہ کا تعلق شمسی نظام کے ساتھ ہے۔لیکن جہاں عبادات کسی خاص مہینہ سے تعلق رکھتی ہیں وہاں قمری نظام سے کام لیا گیا ہے جیسے رمضان اور ایام حج کے لئے قمری مہینوں کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ دونوں عبادتیں سال کے ہر حصہ میں چکر کھاتی رہیں۔ اور ایک مومن فخر کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ اس نے سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے۔ مثلاً رمضان کا انحصار چونکہ قمری مہینوں پر ہے ۔ اس لئے ۳۶ سال میں ایک دور ختم ہو جاتا ہے اور رمضان کبھی جنوری میں آجاتا ہے اور کبھی فروری میں کبھی مارچ میں اور کبھی اپریل میں اس طرح سال کے ۳۶۰ دنوں میں سے ہر دن ایسا ہوتا ہے جس میں انسان نے روزہ رکھا ہوتا ہے لیکن اگر شمسی مہینوں پر روزے مقرر ہوتے تو اگر ایک دفعہ جنوری میں روزے آتے تو پرھ ہمیشہ جنوری میں ہی روزے رکھنے پڑتے اور اس طرح عبادت کو وسعت حاصل نہ ہوتی۔ پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے متعلق کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گذارا ہے۔ عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے لیکن سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے لحاظ سے انسان دماغ سورج سے زیادہ تسلی پاتا ہے۔ بہر حال قمری اور شمسی دونوں نظام حساب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے وہ چاند کے مہینوں سے ہی زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ شمسی نظام سے تعلق رکھنے والے حسابات ان کی علمی استعداد سے بالا ہوتے ہیں۔
وَلَیْسَ الْبِرَّ بِاَنْ قَاْتُواالْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا کہتے ہیں اسلام سے پہلے عربوں کا دستور تھا کہ جب وہ حج کے لئے احرام باندھ لیتے اور اس دوران میں انہیں گھر آنے کی ضرورت پیش آتی تو وہ دروازوں سے آنے کی بجائے گھروں کی پشت سے دیوار پھاند کر آتے تھے(بخاری کتاب التفسیر) ہو سکتا ہے کہ یہ آیت اسی کے متعلق ہو کہ تم ایسا نہ کرو مگر میرے نزدیک چونہ اس آیت سے پہلے گھروں کی پشت سے داخل ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لئے اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ تم گھروں میں ان کی پشت سے داخل نہ ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کام کو سر انجام دینے کے جو صحیح طریق مقرر کئے گئے ہیں تم ان سے کام لو ورنہ تمہیں کامیابی حاصل نہ ہو گی۔ چنانچہ دیکھ لو اس سے پہلے یہ سوال بیان کیا گیا ہے کہ رمضان میں تو ہم نے مشقت برداشت کی اور خداتعالیٰ ہمیں مل گیا۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ باقی مہینوں میں ہم نفس کشی کے لئے کیا کریں اور کون کون سے طریق اختیار کریں۔ خداتعالیٰ نے بتایا کہ تمہاری خواہش تو نیک ہے مگر یہ یاد رکھو کہ خداتعالیٰ تک پہنچنے کا یہ ذریعہ نہیں کہ زیادہ تکلیف اٹھا ئو بلکہ حقیقی ذریعہ یہ ہے کہ جو طریق ہم نے نیکی میں تریقی کرنے کے تمہیں بتائے ہوئے ہیں تم ان پر عمل کرو۔ تمہیں خود بخود اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائیگا۔ اور اگر تم ایسا نہ کرو توتمہاری مثلا ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی آقا اپنے ملازم کو بلائے اور وہ دیر کر کے آئے تو پوچھے تم دیر کر کے کیوں آئے ہو۔ اس پر وہ کہدے کہ دروازے سے نہیں آیا بلکہ دیوار پھاند کر آیا ہوں اور مجھے دیوار پھاند نے میں بہت دیر لگ گئی تھی اس لئے میں جلد ی نہیں پہنچ سکا۔ اگر وہ یہ جواب دے تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اس جواب سے اس کا آقا خوش ہو جائیگا۔ اور اُسے انعام دیگا اور کہہ گا کہ چونکہ یہ دیوار پھاند کر آیا ہے اور اس نے بڑی مشقت برداشت کی ہے اس لئے اسے ترقی دی جائے؟ اسی طرح خواہ مخواہ مشقت اُٹھا کر اپنی طرف سے نئی نئی راہیں ایجاد کرنا اور ان پر اپنا وقت ضائع کرنا اور اپنے قویٰ کو نقصان پہنچانا کوئی نیکی نہیں۔ نیکی یہ ہے کہ لوگ اپنے آسمانی آقا کی آواز پر لبیک کہیں اور اس راستہ کو اختیار کرین جو شریعت نے ان کے لئے قائم کر دیا ہے غرض اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ طریق جو میں نے تمہیں بتائے ہوئے ہیں اگر ان کے ژریعہ سے تم میرے پاس آئو گے تو مجھ تک پہنچ سکو گے اور اگر اور ذرائع عمل میں لائو گے اور ان میں تمہیں بتائے ہوئے ہیں اگر ان کے ذریعہ سے تم میرے پاس آئو گے تو مجھ تک پہنچ سکو گے اور اگر اور ذرائع عمل میں لائو گے اور اُن میں تمہیں محنت بھی زیادہ کرنی پڑے تو یہ زیادہ محنت کرنا تمہیں خداتعالیٰ تک نہیں پہنچائیگا۔ جیسا کہ ہندئووں میں سے بعض اُلٹے لٹکے رہتے ہیں بعض اپنے ہاتھ کھڑے کر کے خشک کر لیتے ہیں۔ مگر انہیں خداتعالیٰ کی کوئی رضا حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان بھی عبادتیں کرتے ہیں جو مشقت میں ان سے بہت کم ہوتی ہیں لیکن پھر بھی وہ رضائے الہٰی کو حاصل کر لیتے ہیں۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے بھی جیج اعوج کے دور میں بڑی بڑی مشقتیں اپنے نفس پر دارد کیں اور وہ غلط راستہ پر چلنے
ٓوَقَاتِلُوا فِیْ
یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo
لگے۔ بیسیوں قسم کی چلہ کشیاں تھیں جو انہوں نے اختیار کر لیں اور بیسیوں قسم کے ذکر تھے جو انہوں نے خود ہی ایجاد کر لئے۔ اگر مسلمان اپنے آپ کو ان مشقتوں میں ڈالنے کی بجائے قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے تو وہ قرب الہٰی کی ان منازل کو دنوں میں طے کر لیتے جنہیں وہ سالوں میں بھی طے نہ کر سکے۔ بلکہ ان ریاضتوں کے نتیجہ میں ان میں سے کئی مسلوں اور مدقوق ہو کر مر گئے۔ کئی دیوانے ہو گئے اور کئی مر گی کا شکار ہو گئے۔
وَاْتُواالْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَا بِھَا وَاتَّقُوااللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ اس میں بتایا کہ کامیابی ہمیشہ ابواب ہی کے ذریعہ اانے سے ہوا کرتی ہے۔ اگر تم ایسا نجیہں کرتے اور دروازوں میں سے داخل ہونے کی بجائے دیواریں پھاند کر اندر داخل ہونا چاہتے ہو تو تمہیں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ مثلاً لڑائی کے زمانہ میں اگر تم ہتھیاروں سے کام لینا نہ سیکھو اور جنگی فنون کی تربیت نہ لو بلکہ یونہی سینہ تان کر دشمن کے سامنے چلے جائو۔ تو تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر چھوٹی سے چھوٹی تلوار بھی تمہارے پاس ہو یا تمہیں لاٹھی چلانا ہی آتا ہو تو تم قوم کے لئے مفید وجود بن سکتے ہو۔ پس کامیابی کے لئے ان ذرائع اور اسباب کو استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ ورنہ اسے ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پھر وَاتَّقُوااللّٰہَ کہہ کر اس طرف ۹اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کے نظام کی ہتک کرنا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں انہی کے مطابق چلو اپنے پاس سے نئے نئے طریق وضع نہ کرو۔ مثلاً رمضان کے مہینہ میں بیشک روزے رکھنا ایک بڑی نیکی ہے لیکن اگر اسی پر قیاس کرتے ہوئے کوئی شخص کسی اور مہینہ میں بھی تیس تیس روزے رکھنے شروع کر دے اور سمجھے کے وہ اس طرح اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیگا تو وہ ایسا ہی ہو گا جیسے کوئی دوروازہ سے داخل نہ ہو بلکہ نقب لگا کر داخل ہو اور اندر جا کر کہے کہ دیکھئے میں کسی مشقت اٹھا کر آپ تک پہنچا ہوں۔ ایسے شخص کی کوئی تعریف نہیں کر سکتا بلکہ ہر شخص اسے ملامت کرے گا اور اس کے فعل کو قبلِ ندمت قرار دیگا۔
۱۰۵؎ تفسیر:۔ اب اللہ تعالیٰ نے دینی جنگوں کے احکام بیان کرنے شروع کئے ہیں۔ چنانچہ اس پہلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ نے وہ تمام شرائط بیان کر دی ہیں جن کو مذہبی جنگوں میں ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ہے اسے مسلمانو! ان کفار سے جو تم سے جنگ کر رہے یہں تم بھی محض اللہ تعالیٰ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ یا نفس کی ملونی شامل نہ ہو جنگ کرو اور یاد رکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل نہیں کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو بہر حال پسند نہیںکرتا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ جس جنگ کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے وہ صرف وہی ہے جو اول فی سبیل اللہ ہو۔ یعنی ذاتی لالچوں ، ذاتی حرصوں ملک کے فتح کرنے کی نیت یا اپنے رسوخ کو بڑھانے کی نیت سے نہ ہو بلکہ صرف خداتعالیٰ کے لئے ہو یعنی ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہو جو خداتعالیٰ کی راہ میں اور اس کے دین کے راستہ میں پیدا کی گئی ہوں۔ اگر وہ دینی جنگ نہیں تو اُسے فی سبیل اللہ نہیں کہا جا سکتا۔ مسیحی مصنف فی سبیل اللہ کے الٖاط سے دھوکہ کھاتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ فی سبیل اللہ سے مراد زبردستی مسلمان بنانے کے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اس کے معنے تو یہ یہیں کہ صرف وہی جنگ جائز ہے جو خداتعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اس کی رضا چاہنے کے لئے ہو۔ چنانچہ اسی قسم کے الفاظ اسی سورۃ کی آیت نمبر۲۶۳ میں بھی استعمال کئے گئے ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنَّاً وَّ لَآ اَذَیً لَّھُمْ اَجْرُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْف’‘ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَفُوْنَ۔ یعنی جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر خرچ کرنے کے بعد نہ کسی رنگ میں احسان جتاتے ہیں اور نہ کسی قسم کی تکلیف دیتے ہیں ان کے رب کے پاس ان کے اعمال کا بدلہ محفوظ ہے اور نہ تو انہیں کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہونگے۔ اس آیت میں جو فی سبیل اللہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں انہیں کی تشریح آیت نمبر۲۶۶ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَآئَ مَرْمنَاتِ اللّٰہِ یعنی وہ لوگ اپنے اموال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔
اسی طرح لسان العرب جو لغت کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ کُلُّ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ مِنَ الْخَیْرِ فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَیْ مِنَ الطُّرُقِ اِلَی اللّٰہِ یعنی ہر نیکی جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے جو انسان کو خداتعالیٰ تی پہنچا دیتا ہے۔ اور نہایۃ میں لکھا ہے۔ وَسَبِیْلِ اللّٰہِ عَامّ’‘ یَقَعُ عَلیٰ کُلِّ عَمَلٍ خَالِصٍ سُلِکَ بِہٖ طَرِیْقُ التَّقَرُّبِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ بِاَدَامِ الْفَرَائِضِ وَالنَّوَافِلِ وَاَنْوَاعِ التَّطَّوُّعَاتِ یعنی سَبِیْلِ اللّٰہ ایک عام اصلاح ہے جس کا اطلاق ہر ایسے عمل نیک پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی حاسل کی جاتی ہو۔ خواہ وہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعہ ہو یا نوافل یا دوسری نیکیوں میں حصہ لینے کے ذریعہ ہو۔
پس قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کے یہ معنے نہیں کہ تم دوسروں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لئے جنگ کرو۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب کوئی قوم دین کے بارہ میں تم سے جنگ کرے اور تمہارا مقدس مذہب تم سے زبارستی چھڑانا چاہے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور دینی مشکلات کو دور کرنے کے لئے دشمن سے جنگ کرو۔ پس اس میں کفار کو زبردستی مسلمان بناے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ کفار کے اس جبر کو دور کرنے کا ذکر ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے مذہبی آزادی تک باقی نہیں رہی تھی۔
دوسری شرط اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ بیان کی ہے کہ لڑائی صرف انہی لوگوں سے جائز ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں ہتھیار اُٹھا چکے ہوں۔ جیسا کہ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ کے الفاظ اس پر شاہد ہیں۔
تیسری شرط جو یُقَاتِلُوْ نَکُمْ میں بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ تمہارے لئے صرف انہی سے جنگ کرنا جائز ہے جو تم سے لڑتے ہیں۔ یعنی جو لوگ باقاعدہ سپاہی نہیں اور لڑائی میں عملاً حصہ نہیں لیتے جیسے بچے بوڑھے عورتیں وغیرہ ان کو مارنا یا ان سے لڑائی کرنا جائز نہیں گویا سول آبادی کو لڑائی کے دائرہ سے کلیتہ باہر رکھا گیاہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم کی جو تشریح فرمائی ہے وہ ان احکام سے ظاہر ہے جو آپ اس وقت دیتے تھے جب آپ کسی کو کمانڈر بنا کر جنگ پر بھجواتے تھے۔ چنانچہ مسلم جلد ۲ کتاب الجہاد میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا دستہ فوج کا کسی کو افسر بنا کر بھجواتے تھے تو آپ اُسے اور دوسرے مسلمانوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور پھر فرماتے اُغْزُوْا بِسْمِ اللّٰہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اور اللہ تعالیٰ کی خاطر جنگ کے لئے جائو۔ قَاتِلُوْ امَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ اس شخص کے ساتھ جنگ کر و جو اللہ تعالیٰ کا کفر اختیار کرے۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ تم کافر سے لڑو بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جس شخص سے تمہاری لڑائی ہے اگر وہ مسلمان ہو جائے تو پھر تم نے اس سے لڑنا نہیں تمہیں لڑائی کی صرف اس وقت تک اجازت ہے جب کفر اللہ کی شرط موجود ہے۔اگر کسی شخص نے لڑائی تو شروع کی مگر جب تمہارا لشکر پہنچا تو اس نے کہدیا کہ میں اسلام اختیار کرتا ہوں تو بس لڑائی ختم ہو جائیگی ۔ وَلَا تَغُلُّوا اور قطعی طور پر خیانت سے کام نہ لو۔وَلَا تَغْدِرُوا اور بد عہدی نہ کرو۔دھوکہ بازی سے کام نہ لو۔ اگر تم اپنے دشمن سے کوئی وعدہ کر لو تو بعد میں اُسے کسی بہانہ سے توڑنے کی کوشش نہ کرو۔ وَلَا تُمَثِّلُوْا اور تم مثلہ نہ کرو یعنی کفار اپنی رسم کے مطابق اگر مسلمان مقتولین کے ناک کان بھی کاٹ دیں تو بھی تم ان کے مردوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کرو۔ وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا اور کسی نابالغ بچے کو نہ مارو کیونکہ وہ جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ سیرتِ حلبیہ میں اس کے علاوہ بعض اور نصائح بھی درج ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو جنگ پ رجاتے وقت یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ لَاتَقْتُلُوا اِمْرَئَ ۃً۔ کسی عورت کو نہیں مارنا۔ وَلا مُعْتَزِلًا بِصوْمَعَۃٍ۔ اور عبادت گاہوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی نہیں مارنا۔کیونکہ گودہ ایک ایسی قوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو تمہاری مخالف ہے مگر وہ خدا کا نام لیتے ہیں پھر فرماتے وَلَا تَقْرَبُوْا نَخْلًا۔ کسی کھجور کے درخت کے قریب بھی نہ جانا یعنی کھجور کو نقصان پہنچانے کا خیال بھی نہ کرنا۔ کیونکہ اس سے ان کے رزق پر اثر پڑتا ہے اور تمہارا حملہ ان کے حملے کو دور رکھنے کی نیت سے ہے ان کو مستقل تباہ کرنے کی غرض سے نہیں۔وَلَا تَقْطَعُوْا شَجَرًا بلکہ کوئی درخت بھی نہ کاٹنا کیونکہ وہ غریبوں اور مسافروں کو سایہ دینے کے کام آتا ہے اور تم لڑنے کے لئے جا رہے ہو اس لئے نہیں جا رہے کہ وہ قوم سایہ سے بھی محروم ہو جائے۔ وَلَا تَھْدِ مُوْا بِنَائً۔ اسی طرح عمارتوں کو مت گِرائو۔ قلعہ کا انہدام ایک علیحٰدہ چیز ہے۔ وہ جنگ کے حملے کو روکنے کے لئے ہوتا ہے۔ مگر یہ جائز نہیں کہ کسی ملک کے باشندوں کے بے گھر کر دیا جائے اورا ن کے مکانوں کو گرادیا جائے یا انہیں آگ لگا دی جائے۔ اسی طرح آپ کی دوسری ہدایات میں ہے کہ ملک میں ڈر اور ہراس پیدا نہ کیا جائے۔ دنیوی حکومتیں جب کسی ملک میں داخل ہوتی ہیں تو اندھا دھند مظالم شروع کر دیتی ہیں محض اس لئے کہ حکومت کا رعب قائم ہو جائے۔ مگر اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مفتوحہ ممالک میں جائو تو ایسے احکام جاری کرو جن سے لوگوں کو آسانی ہو تکلیف نہ ہو۔ اور فرمایا جب لشکر سڑکوں پر چلے تو اس طرح چلے کہ عام مسافروں کا راستہ نہ رکے ایک صحابیؓ کہتے ہیں ایک دفعہ لشکر اس طر نکلا کہ لوگوں کے لئے اپنے گھروں سے نکلنا اور راستہ چلنا مشکل ہو گیا اس پر آپ نے منادی کروائی کہ جس نے مکانوں کو بند کیا راستہ روکا اس کا جہاد جہاد نہیں رہیگا۔
غرض اسلام کہتا ہے کہ تم کو جنگ میں عورتوں کے مارنے کی اجازت نہیں تم کو بچوں کے مارنے کی اجازت نہیں ۔ تم کو بڈھوں کے مارنے کی اجازت نہیں۔ تم کو بد عہدی کر نے کی اجازت نہیں۔ تم کو دھوکا دینے کی اجازت نہیں۔ تم کو مقتولین کے ناک کان کاٹنے کی اجازت نہیں۔ تم کو پادریوں اور پنڈتوں اور گیانیوں کو مارنے کی اجازت نہیں۔ تم کو کوئی باغ اور درخت کاٹنے کی اجازت نہیں۔ تم کو کوئی عمارت گرانے کی یا اُسے آگ لگانے کی اجازت نہیں ور اگر کبھی ان ہدایات کی خلاف ورزی ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ عرب کے دستور کے مطابق عورتیں بھی لڑائی میں شامل ہوتی تھیں اور چونکہ وہ دوسروں کو قتل کرتی تھیں لازماً وہ خود بھی قتل کی جاتی تھیں مگر ایک موقعہ پر ایک لڑائی کے بعد جب ایک عورت کی لاش آپ نے دیکھی تو آپ کے چہرے پرغم اور غصہ کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا اسلام اس کو پسند نہیں کرتا یہ فعل اسلامی تعلیم کے خلاف ہوا ہے(بخاری جلد۲ کتاب الجہاد والسیر) اُحد کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار پیش کی اور فرمایا یہ تلوار میں اس شخص کو دونگا جو اس کا حق ادا کرنے کا وعدہ کرے۔ بہت سے لوگ اس تلوار کو لینے کے لئے کھڑے ہوئے آپ نے ابودجانہؓ انصاری کو وہ تلوار دی۔ لڑائی میں ایک جگہ مکہ والوں کے کچھ سپاہی ابودجانہؓ پر حملہ آور ہوئے۔ جب آپ نے ان سے لڑ رہے تھے تو ااپ نے دیکھ کہ ایک سپاہی سب سے زیادہ جوش کے ساتھ لڑائی میں حصہ لے رہا ہے۔ آپ نے تلوار اُٹھائی اور اس کی طرف لپکے لیکن پھر اس کو چھوڑ کر واپس آگئے۔ آپ کے کسی دوست نے پوچھا۔ آپ نے اُسے کیوں چھوڑ دیا۔ آپ نے جواب میں کہا۔ میں جب اس کے پاس گیا تو اس کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلا جس سے مجھے معلوم ہواگیا کہ وہ مرد نہیں عورت ہے ان کے ساتھی نے کہا بہرحال وہ سپاہیوں کی طرح فوج میں لڑ رہی تھی۔ پھر آپ نے اُسے چھوڑا کیوں؟ ابودُجانہ ؓ نے کہا میرے دل نے برداشت نہ کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تلوار کو ایک کمزور عورت پر چلائوں۔ غرض آپ عورتوں کے ادب اور احترام کی ہمیشہ تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں۔ مگر پھر بھی مسلمان ان باتوں کی برداشت کرتے چلے جاتے تھے۔ صرف ایک ہی عورت تھی جس نے شروع سے لیکر آخر تک اسلام کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا اور مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹ لینے میں بہت مشہور تھی یعنی ہندو۔ فتح مکہ کے وقت آپ نے صرف اس کے قتل کا حکم دیا مگر وہ باقی عورتوں کے ساتھ آئی اور مسلمان ہو گئی اور پھر آپ نے اُسے بھی کچھ نہیں کہا۔ کیونکہ آپ نے فرمایا توبہ نے اس کے سارے گناہوں کو دھو دیا ہے۔
چوتھی شرط وَلَا تَعْتُدُوْا اِنَّ اللّٰہِ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ کے الفاظ میں یہ بیان فرمائی کہ باوجود دشمن کے حملہ میں ابتداء کرنے کے لڑائی کو صرف اس حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حد تک دشمن نے محدود رکھا ہے اور اسے وسیع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ نہ علاقہ کے لحاظ سے اور نہ ذرائع جنگ کے لحاظ سے اور فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حد سے زیادہ گذر جانے والوں سے محبت نہیں کرتا یا یوں کہو کہ جو لوگ حد سے گذر جانے والے ہوں وہ کبھی خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص طبعی طور پر اللہ تعالیٰ سے محبت کر ہی نہیں سکتا ۔کیونکہ وہ حق کا مطالبہ کرنے میں حد سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کو غصہ اا گیا اور اس نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا تو اب یہ ایک غلطی تو ہے جس کی اُسے سزا ملنی چاہیے۔ مگر یہ سزا اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ ہم اُسے بلائیں اور ڈانٹ دیں کہ تم نے فلاں کو تھپڑ کیوں مارا لیکن بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس شخص سے قصور سر زد ہوا ہو جب تک وہ اس کا قیمہ نہ کر لیں ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ اور پھر یہیں تک بس نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ جب وہ اگلے جہاں میں پہنچے تو وہاں بھی خدا اس کو دوزخ میں ڈالے اور اُسے ایسا عذاب دے جو کسی اور کو نہ دیا گیاہو حالانکہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے وہ حد سے گذرنے والوں سے محبت نہیں کرتا اور نہ حد سے گذرنے والا خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے۔ اس زمانہ میں بڑی بڑی طاقتیں اس بات کی مدعی ہیں کہ انہوں نے عدل و انصاف کو کمال تک پہنچا دیا ہے مگر ان کی حالت ہی ہے کہ وہ لڑائی میں ہر قسم کے جھوٹ اور ظلم اور دھوکا اور فریب سے کام لیتی ہیں اور جب تک دشمن کو پیس نہ لیں ان کے دل کی آگ ہی نہیں بجھتی کہیں گیسیں استعمال کی جاتی ہیں تو کہیں قیدیوں کو پکڑ کر لڑائی کے وقت اپنے آگے رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اور کئی ظالمانہ طریق اختیار کئے جاتے ہیں۔ مثلا یہ بھی اعتداء میں داخل ہے ۔ کہ دشمن کا لباس پہن کر یا اس کا نشان دکھا کر حملہ کر دیا جائے یا صلح کے بہانہ سے حملہ کیا جائے یہ تمام امور ناجائز اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں۔ بہرحال اوپر کی دونوں آیات سے مندرجہ ذیل چھ امور کا استنباط ہوتا ہے۔
پہلی بات یہ مستنبط ہوتی ہے کہ غیر شرعی طریق سے جائز کام بھی ناجائز ہو جاتا ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں جن میں داخل ہونیکا تم کو ہر وقت اور پورا اختیار ہے ان میں بھی اگر تم دیواریں پھاند پھاند کر داخل ہو تو یہ امر خداتعالیٰ کے نزدیک نیکی نہیں سمجھا جا ئیگا۔ اس مثال سے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لئے ایک رستہ بنایا ہے۔ اگر تو انسان اس رستہ سے اس کام کو کرتا ہے تو اس کا کام نیکی قرار دیا جائیگا۔ لیکن اگر کام نیک ہو مگر اس کے کرنے کا طریق غلط ہو تو پھر وہ عمل نیک نہیں رہے گا۔ مثلاً نماز ایک نیکی ہے لیکن اگر کوئی شخص بغیر وضو کے نماز پڑھے یا پہلے نماز پڑھ لے بعد میں وضو کرے یا بے وقت نماز پڑھے تو باوجود اس کے کہ وہ نماز پڑھے گا جو ایک عبادت ہے وہ اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکے گا بلکہ ایک بدی کا مرتکب ہو گا۔ بعینہٖ اسی طرح اظہار غضب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غیرت کو ایک نیکی قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود بھی نہایت غیرت مند ہے اور وہ بری باتوں پر اظہار غضب بھی کرتا ہے لیکن غیرت کے جائز موقعہ پر بھی اگر کوئی شخص غیرت کا اظہار غلط طریق پر کرے اور شریعت اظہار غیرت یا اظہار غضب کا یہ طریق بتائے کہ اس جگہ سے مومن اُٹھ جائے مگر مومن اس جگہ سے بجائے اُٹھ جانے کے لڑنے لگے تو شریعت اس مومن کو بھی گنہگار قرار دے گی۔
دوسری بات جو اس آتی سے مستنبط ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نیکی تقویٰ کا نام ہے ۔ یعنی نیک کام کو نیک راہ سے بجا لانا ۔ پس مومن کا فرض ہے کہ ہر گھر میں اس کے دروازہ سے داخل ہو یعنی ہر نیک کام کے لئے خداتعالیٰ نے جو طریق تجوریز کیا ہے اس طریق سے اس کام کو کرے۔ جو شخص اس طریق سے کام نہ کرے وہ نیک نہیں کہلا سکتا۔
تیسری بات جو مذکورہ بالا آیات سے مستنبط ہوتی ہے یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اوپر کے بتائے ہوئے راستہ میں ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ یعنی یہ حکم ہم نے یونہی نہیں دیئے ۔ تمہاری ترقی اور کامیابی بھی اسی طریق سے وابستہ ہے۔ کامیابی کا اس امر کے ساتھ وابستہ ہونا ایک ظاہر امر ہے جو راستے کسی عمارت میں داخل ہونے کے ہوں جب انسان ان راستوں سے داخل ہو تبھی وہ بغیر کسی تکلیف کے اپنے مدعا کو پاسکتا ہے۔ اگر ان راستوں سے داخل ہو تبھی وہ بغیر تکلیف کیااپنے مدعا کو پاسکتا ہے۔ اگر ان راستوں کو چھوڑ کر دیواریں پھاندنی شروع کر دے تو اس کی تکلیف بڑھ جائیگی اور اس کی حماقت کی بھی لوگ شکایت کرنے لگیں گے۔
چھوتھی بات اس آیت سے یہ مستبنط ہوتی ہے کہ کسی شخص پر جارحانہ حملہ کرنا خلاف شریعت ہے ۔چنانچہ آیت مذکورہ بالا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِلَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْ نَکُمْ۔ یہ تو تمہارے لئے جائز ہے کہ اگر کوئی تم پر قاتلانہ حملہ کرے تو تم اپنا بجائو کرو۔ لیکن تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم خود کسی پر جا کر حملہ کرو۔
پانچواں استنباط ان آیات سے یہ ہو تا ہے کہ دفاع بھی وہ جائز ہے جو مقرر حدود کے اندر ہو۔ یعنی دفاع میں بھی انسان
وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
پوری طرح آزاد نہیں۔ اس کے لئے بھی قیود اور شرائط ہیں اور ان قیود اور شرائط سے آزاد ہو کر جو دفاع کیا جائے وہ بھی ناجائز اور حرام ہوتا ہے ۔ مثلاً کوئی شخص کسی کو تھپڑ مارے تو جس شخص کو تھپڑ مارا گیا ہے اس کے لئے یہ درست نہ ہو گا کہ اس تھپڑ کی سزا کے لئے دوسرے شخص کا سر پھوڑ دے۔
چھٹی بات اس آیت سے یہ مستنبط ہوتی ہے کہ اگر کوئی ان قیود کو توڑے تو باوجود مظلوم ہونے کے خداتعالیٰ کی نظروں سے وہ گر جائیگا۔ کیونکہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ اگر تم دفاع میں بھی اعتداء سے کام لو اور خداتعالیٰ کی مقررہ قیود کو نظر انداز کر دو تو تم اللہ تعالیٰ کی محبت کھو بیٹھو گے اور اس کی نصرت تم سے جاتی رہے گی۔
۱۰۶؎ حل لغات:۔ اَلْفِتْنَۃُ کے معنے ہیں (۱) اَلْعَذَابُ ۔ عذاب (۲) اَلْاِبْتِلَاء۔ ابتلاء (۳) اِخْتِلَافُ النَّاسِ فِی الْآٰ رَائِ وَمَا یَقَعُ بَیْنَھُمْ مِنَ الْقِتَالِ۔ وہ لڑائی جو اختلافِ اراء کی وجہ سے لوگوں میں پیدا ہو۔ (اقرب)
تفسیر:۔ مخالفین اسلام کے نزدیک اس آیت میںمسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جہاں کوئی کافر ملے اُسے مار ڈالو۔ مگر اس میں ہر گز یہ نہیں کہا گیا کہ جہاں کوئی کافر ملے اسے تہ تیغ کر دو۔ اس جگہ وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ کے حکم کے ماتحت صرف وہ کفار آتے ہیں جن کا پہلے ذکر آچکا ہے اور جنہوں نے مسلمانوں سے عملاً جنگ شروع کر دی تھی ایسے لوگوں کے ساتھ لڑائی جاری رکھنے میں نہ اخلاقاً کوئی اعتراض ہو سکتا ہے اور نہ شرعًا۔ اور حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جہاں کہیں بھی تمہاری اور ان کی جنگ کے ذریعہ سے مٹھ بھیڑ ہو جائے وہاں تم ان سے جنگ کرو۔ یہ نہیں کہ اِکا دُکا ملنے پر حملہ کرتے پھرو۔ بلکہ تمہاری جنگ صرف باقاعدہ فوج کے ساتھ ہونی چاہیے۔ خواہ وہ فوج ہو جس نے مقابلہ میں ابتداء کی ہے یا اُسی فوج کا کوئی دوسرا حصہ ہو جو اس کی مدد کر رہا ہو۔
پھر فرمایا وَاَخْرِجُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَ جُوْ کُمْ اور تم بھی انیہں اس جگہ سے نکال دو جس جگہ سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ ان الفاظ میں یہ پیشگوئی مخفی تھی کہ ایک زمانہ میں مسلمان ایسی طاقت حاصل کرلیں گے کہ وہی مقام جہاں سے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو نکلنے پر مجبور کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس میں مسلمانوں کو فاتحانہ طور پر داخل کرے گا۔ اور یا تو مسلمان کفار کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے اور یا کفار مسلمانوں کی منتیں کرتے اور ان کے آگے ہاتھ جوڑتے دکھائی دینگے۔ اسی غلبہ کی طرف سورۃ توبہ میں بھی بَرَآئَ ۃ’‘ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عَاھَدْ تُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ مشرکین مکہ کہتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ تو یہ ہے کہ میں مکی نبی ہوں جس کی پیشگوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی ۔ مگر یہ تو مکہ چھوڑ کر مدینہ چلا گیا ہے۔ پھر یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ اب خداتعالیٰ نے عرب کو فتح کر کے جس کے بغیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں نہیں آسکتے تھے اس اعتراض کو دور کر دیا ہے اور آپؐ اور آپؐ کے ساتھی اس الزام سے بری ہو چکے ہیں اس کے بعد فرمایا فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ اعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرَ مُعْجِزِی اللّٰہَ۔ تم ملک عرب میں چار مہینے تک پھر کر دیکھ لو اور جان لو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے یعنی اس سفر کے نتیجہ میں تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ اسلام عرب کے کونہ کونہ پر غالب آچکا ہے۔ اور تمہارے تمام اعتراضات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ پس اَخْرِ جُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَ جُوْکُمْ میں اسی غلبہ کی پیشگوئی ہے اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جس طرح انہوں نے تم کو ظالمانہ طور پر ملک سے نکالا ہے اسی طرح تم بھی ان کا تصرف وہاں سے ہٹا دو۔ اس جگہ اَخْرِ جُوْ ھُمْ سے ان کا نکالنا مراد نہیں۔ بلکہ ان کے تصرف کو مٹانا مرا دہے۔ کیونہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کو وہاں سے نکالا نہیں بلکہ ان کی اولاد کو خود آپ نے مکہ میں رہنے کی اجازت دی۔ چنانچہ ابو جہل جو سب سے بڑا مشرک اور دشمن اسلام تھا فتح مکہ کے موقعہ پر اس کے بیٹے عکرمہ نے بھاگ کر ایبے سینیا جانے کا ارادہ کیا اور وہ مکہ سے چلا بھی گیا مگر اس کی بیوی ے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت حاصل کر لی اور وہ مکہ میں آزادنہ طور پر رہنے لگ گیا ۔پس چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے اس کی تشریح کر دی ہے اس لئے اَخْرِ جُوْ ھُمْ میں کفار کے جبری نکالنے کا کوئی حکم نہیں بلکہ وہاں سے ان کا تصرف دور کرنے کا ذکر ہے ۔ یا زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کو نکالنے کا حکم ہے جو شریر ہوں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں جاری رکھنے والے ہوں اور ایسے لوگوں کو دنیا کی ہر حکومت نکالتی ہے اور اس میں کسی قسم کا حرج نہیں سمجھتی۔
وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۔ پھر فرماتا ہے یاد رکھو قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو فتنہ میں ڈالنا زیادہ خطرناک گناہ ہے پس تم ایسای طریق مت اختیار کرو ۔ کیونکہ یہ بے دین لوگوں کا کام ہے۔
اس جگہ فتنہ سے مراد وہی دورِ آزمائش ہے جس میں سے مسلمان گذر رہے تھے۔ اور جس کا اس سے پہلے ان الفاظ میں ذکر آچکا ہے کہ کفار بالاوجہ محض دینی اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو مارتے اور انہیںاپنے گھروں سے نکالتے ہیں۔ فرماتا ہے دین کی وجہ سے لوگوں کو دکھ دینا اور انہیں ان کے گھروں سے نکالنا دنیوی لڑائیوں اور عام سیاسی جنگوں کی نسبت کہ جن میں قومی حقوق وغیرہ کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ بہت زیادہ ہولناک جرم ہے کیونکہ دنیا دین کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔
اور یہ بھی کہ فتنہ یعنی مومنوں کی تعذیب اس غرض سے کہ وہ پنے دین کو چھوڑ دیں قتل سے بڑھ کر ہے۔ کیا بلحاظ اس کے کہ دین کے معاملہ میں جان کچھ حقیقت نہیں رکھتی اور کیا بلحاظ اس کے کہ ایسے ظلم کا نتیجہ نہایت خطرناک فساد ہوتا ہے اور ذہنی آزادی جاتی رہتی ہے اور دلوں میں بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ پس فرمایا کہ ان کو قتل کرنا کوئی ظلم نہیں کیونکہ قتال تو قتال سے ہی جائز ہو جاتا ہے اور یہ لوگ تو قتال سے بڑھ کر مذہبی دست اندازی اور مذہب کی خاطر تعزیب سے بھی کام لیتے یہں جو قتال سے بڑھ کر ہے۔
پھر اَلْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ بیشک قتل ایک بہت بُرا فعل ہے۔ مگر فتنہ پیدا کرنا اس سے بھی زیادہ بُری چیز ہے کیونکہ اس سے لاکھوں بلکہ کڑوروں جانیں ضائع چلی جاتی ہیں۔ قتل کرنے سے تو صرف ایک یا چند جانیں ضائع ہوتی ہیں لیکن ایک فتنہ پر واز شخص بعض دفعہ ایسی بات کر دیتا ہے جس سے قومیں آپ میں لڑ پڑتی ہیں اور جماعتوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جاتا ہے ۔ فتنہ باز لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو معمولی بات کہی تھی مگر ان کا ایک معمولی بات کہنا دراصل ایک زہر ہوتا ہے جس کا دور دور تک اثر پھیلتا ہے او رپھر اس سے خطرناک لڑائیاں شروع ہو جاتی ہں جن سے لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں۔ بیشک فتنہ شروع میں چھوٹا نظر آتا ہے مگر اس کا انجام بہت بڑا ہوتا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے قتل سے بھی منع کیا ہے مگر فتنہ سے اس سے بھی زیادہ زور کے ساتھ منع کیا ہے۔ افسوس ہے کہ لوگ عام طور پر قتل سے تو بچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر فتنہ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ جب تک لوگ یہ نہ سمجھیں کہ فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر بُرا فعل ہے اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیںہ و سکتا۔
وَلَاتُقٰتِلُوْ ھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْ کُمْ فِیْہِ۔ اب فرمات اہے کہ تم مسجد حرام کے پاس ان سے اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک کہ وہ خود جنگ کی ابتداء نہ کریں کیونکہ اس طرح حج اور عمرہ کے راستہ میں روک پیدا ہوتی ہے ۔ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْ ھُم ْہاں اگر وہ کود ایسی جنگ کی ابتداء کریں تو پھر تم مجبور ہو اور تمہیں جواب دینے کی اجازت ہے۔ گَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکَافِرِیْنَ۔ اور جو لوگ عقل اور انصاف کے احکام کو رد کر دیتے ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ اس آیت میں یہ ہدایت دی گئی کہ اس امر کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ مذہبی عبادتوں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں روکیں پیدا نہ ہوں اگر دشمن کسی ایسی جگہ پر جنگ کی طرح نہ ڈالے جہاں جنگ کرنے سے مذہبی عبادتوں میں رخنہ پیدا ہوتا ہو تو مسلمانوں کو بھی اس جگہ جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اگر دشمن خود مذہبی عبادت گاہوں کو لڑائی کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے۔
اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ عبادتگاہوں کے اردگرد بھی لڑائی نیہں ہونی چاہیے ۔ کجا یہ کہ عبادت گاہوں پر براہ راست حملہ کیا جائے یا ان کو مسمار کیا جائے۔ یا ان کو توڑا جائے۔ ہاں اگر دشمن کود عبادت گاہوں کو لڑائی کا قلعہ بنا لے تو پھر ان کے نقصان کی ذمہ داری اس پر ہے مسلمانوں پر نہیں۔
فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ ہاں اگر انہیں ہوش آجائے اور وہ اس بات سے رُک جائیں تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے یعنی اگر دشمن مذہبی مقامات میں لڑائی شروع کرنے کے بعد اس کے خطرناک نتائج کو سمجھ جائے اور مذہبی مقام سے نکل کر دوسری جگہ کو میدان جنگ بنالے تو مسلمانوں کو اس بہانہ سے ان کی مذہبی مقاموں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے کہ اس جگہ پر پہلے ان کے دشمنوں نے لڑائی شروع کی تھی بلکہ فوراً ان مقامات کے ادب اور احترام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حملہ کا رُخ بدل دینا چاہیے۔
وَقٰتِلُوْھُمْ
عَلَے الظّٰلِمِیْنَo
۱۰۷؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے چونکہ کفار تم سے لڑائی شروع کر چکے ہیں اس لئے تم بھی اس وقت تک لڑائی جاری رکھو جب تک کہ دین میں دخل اندازی کرنے کے طریق کو وہ چھوڑ نہ دیں۔ اور یہ تسلیم نہ کر لیں کہ دین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس میں جبر کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں۔ اگر وہ یہ طریق اختیار کر لیں اور دین میں دخل اندازی سے باز آجائیں تو فوراً لڑائی بند کر دو کیونہ سزا صرف ظالموں کو دی جاتی ہے اور اگر وہ اس قسم کے ظلم سے باز آجائیں تو پھر ان سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
یہ امر یاد رکھنا چا ہیے کہ پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نے اَلْفِتْنَۃُ فرمایا تھا اور کہا تھا کہ اَلْفِتْنَتُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ مگر اس جگہ صرف فِتْنَۃ’‘ فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں فتنہ کفار اور قِتَال کا مقابلہ کرنا تاھ پاس معرفہ لانا ضروری تھا اور اس جگہ مقابلہ نہ تھا پس نکرہ لایا گیا تاکہ عظمتِ فتنہ پر دلالت کرے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ تم اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک کہ یہ عظیم الشان فتنہ دور نہ ہو جائے۔
بعض لوگوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ تم یہاں تک لڑو کہ کفر باقی نہ رہے۔ لیکن یہ معنے غلط ہیں ۔ اس جگہ فتنہ سے مراد کفر نہیں بلکہ دین سے دخل اندازی ہے جس کا سورۃ الحج کی اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اُذِنَ لَلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا د وَاِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِ ھِمْ لَقَدِیْرُ oلا اِلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْامِنْ دِیَار ھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ط وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسِ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّ مَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعَ وَّ صَلَوٰت’‘ وَّ مَسٰجِدُ یُذْ کَرْ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاط (سورہ حج آیت ۴۰۔۴۱) یعنی اس لئے کہ مسلمانوں پر ظلم کیا گیا یعنی مسلمانوں جو جن سے دشمن نے لڑائی شروع کر رکھی ہے آج جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ یقینا ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ ہاں ان مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جن کو ان کے گھروں سے بغیر کسی جرم کے نکال دیا گیا۔ ان کا صرف اتنا ہی جرم تھا (اگر یہ کوئی جرم ہے) کہ وہ کہتے تھے اللہ ہمارا رب ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالم لوگوں کو دوسرے عادل لوگوں کے ذریعہ سے ظلم سے روکتا نہ رہے تو گرجے عبارت گاہیں اور مسجدیں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ظالموں کے ہاتھ سے تباہ ہو جائیں۔ پس دنیا میں مذہب کی آزادی قائم رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ مظلوموں کو اور ایسی قوموں کو جن کے خلاف دشمن پہلے جنگ کا اعلان کر دیتا ہے جنگ کی اجازت دیتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ لڑائی صرف اس وقت تک جاری رکھنی چاہیے جب تک فتنہ باقی رہے۔ یعنی لوگ تبدیل مذہب کے لئے ایک دوسرے کو مجبور کرتے رہیں ۔ اگر یہ حالات بدل جائیں مذہبی دست اندازی ختم ہو جائے اور دین کے معاملہ کو صرف ضمیر کامعاملہ قرار دیا جائے تو خواہ دشمن حملہ میں ابتداء کر چکا ہو سوائے دفاع کے اس کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی
اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ
مَعَ الْمُتَّقِیْنَo
چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہؓ کرام نے ابھی اس آیت کے یہی معنے سمجھے ہیں۔ چنانچہ بخاری میں آتا ہے کہ ایک شخص اس زمانہ میں جبکہ حضرت علی ؓاور معاویہؓ کے درمیان جنگ جاری تھی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ حضرت علیؓ کے زمانہ کی جنگوں میں کیوں شامل نہیں ہوتے حالانکہ قرآن کریم میں صاف حکم موجود ہے کہ وَقٰتِلُوْ ھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃ’‘۔ انہوں نے جواب دیا کہ فَعَلْنَا عَلیٰ عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ کَانَ الْاِسْلَامُ قَلِیْلًا فَکَانَ الرَّجُلُ یُفْتَنُ فِیْ دِیْنِہٖ۔ اِمَّا قَتَلُوْہُ وَ اِمَّا یُعَذِّ بُوْہُ حَتَّی کَثُرَ الْاِسْلَامُ فَلَمْ تَکُنْ فِتْنَۃ’‘(بخار ی کتاب التفسیر) یعنی ہم نے یہ حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں پورا کر دیا ہے۔ جبکہ اسلام بہت قلیل تھا اور آدمی کو اس کے دین کی وجہ سے فتنہ میں ڈالا جاتا تھا یعنی یا تو اُسے قتل کیا جاتا تھا یا عذاب دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ پھر کسی کو فتنہ میں نہیں ڈالا جاتا تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک فتنہ نہ رہنے سے یہ مراد ہے لوگ دینی معاملات میں جبرواکراہ سے ام نہ۰ لیں اور محض دین قبول کرنے کی وجہ سے نہ کسی کو قتل کریں۔ ور نہ کسی قسم کاعذاب دیں۔ اگر یہ معنے نہ ہوتے تو فَاِنِ انْتَھَوْا کیوں آتا۔ کیونکہ یہ تو لوگوں کے بتائے ہوئے معنوں کے خلاف پڑا ہے اور ہمارے معنوں کے مطابق ہے۔
وَیْکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ کے الفاظ نے بھی مذکورہ بالا حصہ کی تشریح کر دی اور بتا دیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین کا اختیار کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو جائے اور اس کے متعلق کسی کاور کا ڈر نہ ہو۔ گویا دین کے اختیار کرنے کے بارے میں ہرشخص کو کامل آزادی حاصل ہو جائے اور اگر لوگ مسلمان ہونا چاہیں تو وہ بغیر کسی خوف کے ہو سکیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں جبر کی تعلیم نیہں دی گئی۔ اگر جبر کی تعلیم ہوتی اور اس وقت تک جنگ جاری رکھنا ضروری ہوتا جب تک تمام لوگ مسلمان نہ ہو جائیں تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مشرکوں سے صلح کے معاہدات نہ کرتے۔ پس یہ کہنا کہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ مشرکوں سے اس وقت تک لڑائی جاری رکھو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں اور کفر اور شرک مٹ نہ جائے بالکل غلط ہے۔
۱۰۸؎ حل لغات:۔ اَلْحَرَامُ کے معنے ہیں اَلْمُمْنُوْعُ مِنْہُ۔ جس چیز سے روکا گیا ہو۔ (مفردات)
اِعْتَدُوْ ا عَلَیْہِ: عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ کسی فعل کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ بولا جاتا ہے جو اس فعل کے لئے بولا جائے۔ چنانچہ صاحب مفردات نے اس موقعہ پر لکھا ہے کہ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْ ا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا عْتَدٰی عَلَیْکُمْ اَیْ قَابِلُوْ ہُ بِحَسْبِ اِعْتِدَائِہٖ وَ تَجَاروِزُوْ ا اِلَیْہِ بِحَسْبِ تَجَاوُزِہٖ۔ یعنی اس کے معنے یہ ہیں کہ اسکی زیادتی کے مقابلہ میں اس کی زیادتی کے مطابق ہی سلوک کرو۔
وَاَنْفِقُوْا فِیْ
یُحِبُّ الْمُھْسِنِیْنَo
اس کا مفصل ذکر اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ(بقرہ آیت۱۶) میں گذر چکا ہے ۔ اس جگہ بھی جرم کے لئے جو لفظ بولا گیا ہے وہی سزا کیلئے لایا گیا ہے۔ پس اس کے معنے ظلم کے نہیں بلکہ ظلم کی سزا کے ہیں۔
تفسیر:۔ اس میں بتایا کہ اگر کفار حرمت والے مہینوں یعنی ذوالقعدہ۔ ذولحجہ، محرم اور رجب کا پاس کریں تو تم بھی کرو۔ اور اگر وہ نہ کریں۔ تو تمہارے لئے مجبوری ہے تم بھی مقابلہ میں اس وقت تک جنگ کر سکتے ہو جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آجائیں۔
وَالْحُرُمٰتُ قِصَاص’‘۔ اس میں اصولی طور پر یہ تعلیم دی کہ جن چیزوں میں حرمت پائی جاتی ہے ان میں بھی قصاص کا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی چیز کی حرمت قصاص کو بالکل باطل کر دے۔ چنانچہ آغے اس کی تشریح کر دی اور صاف طور پر فرمادیا کہ فَمَنِ اعْتدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدٰ عَلَیْکُمْ یعنی اگر وہ تم پر زیادتی کریں اور تمہارے مقدس مقامات کا پاس نہ کریں تو تمہارے لئے بھی جائز ہے کہ تم ان کی شرارت اور زیادتی کے مطابق نہیں سزا دو۔ اور ان کے کسی مقام کی تقدیس کی پروا نہ کرو کیونہ انہوں نے خود حرمت کو توڑا ہے۔ مگر ساتھ ہی فرمایا کہ وَاتَّقُواللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۔ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اور جائز حد سے تجاوز نہ کرو۔ اور اس حقیقت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کا ساتھ دیتا ہے۔ یعنی حرمات کی ہتک کا بدلہ لینے کی تو تنہیں اجازت ہے۔ مگر تقویٰ کا بلند مقام یہ ہے کہ تم اس حکم کو اپنے سامنے رکھو کہ فَمَنْ عَفٰی وَاَصْلَحَ فَاَ جْرُہ‘ عَلَی اللّٰہِ یعنی جو شخص دشمن کو معاف کر دے اور اس کی معافی کے نتیجہ میں دوسرے کی اصلاح ہوتی ہو تو وہ یقیناً ایک مستحسن کام کرتا ہے اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ عربی زبان میں بعض دفعہ جزائے جُرم کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے جو جرم کے متعلق استعمال ہو ا ہو۔ اسی قاعدہ کے مطابق یہاںفَمَنِ اعْتدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدٰ عَلَیْکُمْ کہا گیا ہے جس کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ جو شخص تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی کہ تم پر کی گئی ہے۔ مگر مراد زیادتی کا بدلہ لینا ہے (اسکی تفصیل کے لیے دیکھیں تفسیر کبیر جلد اول صفحہ۱۶۶)
۱۰۹؎ تفسیر:۔ اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہوئی ہے ۔ انہیں خداتعالیٰ کی رہ میں جہاں کوئی تکلیف پیش آتی ہے وہ فورًا کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے ہم اس میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں۔ حالان اس کیہرگیز یہ معنے نہیں کہ جہاں موت کا ڈر ہو وہاں سے مسلمان کو بھاگ جانا چاہیے اور اسے بزدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جبدشمن سے لڑائیاں ہو رہی ہوں تو اس وقت اپنے مالوں کو خوب خرچ رکرو۔ اگر تم اپنے اموال کو روک لو گے تو اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان پیدا کرو گے۔ چنانچہ احادیث میں حضرت ابو ایوب انصاری سے مروی ہے کہ انہوںنے اس وقت جب کہ وہ قسطنطنیہ فتح کرنے کیلئے گئے ہوئے تھے کہا کہ یہ آیت ہم انصار کے بارہ میں نازل ہوئی تھی اور پھر انہوں نے بتایا کہ پہلے توہم خداتعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خوب خرچ کیا کرتے تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تقویت اور عزت دی اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا تو قَلْنَا ھَلْ نُقِیْمُ فِیْ اَ مْوَالِنَا وَنُصْلِحْھَا (ابودائود جلد اول کتاب الجہاد) ہم نے کہا کہ اگر اب ہم اپنے مالوں کی حفاظت کریں اور اسے جمع کریں تو یہ اچھا ہو گا۔ اس وقت یہ آیت اُتری کہ تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہو۔ پس اپنے مالوں کو جمع نہ کرو۔ بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خوب خرچ کرو۔ ورنہ تمہاری جانیں ضائع چلی جائیں گی۔ دشمن تم پر چڑھ آئیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم ہلاک ہو جائو گے۔
وَاَحْسِنُوْا: اور اپنے فرائض کو عمدگی سے ادا کرو یا اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالی وسعت عطا فرمائی ہے تو اپنے نادار اور غریب بھائیوں کے اخراجات بھی برداشت کرو اور نیکی کی نئی سے نئی راہیں تلاش کرتے رہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔
پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غرباء کی امداد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور فرمایا ہے کہ تم زکوٰۃ اور عُشر وغیرہ مقررہ ٹیکس بھی دو مگر اس کے علاوہ ہم تم سے بعض طوعی ٹیکس بھی مانگتے ہیں۔ چنانچہ ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اَنْفِقُوْ ا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ ہمیشہ غرباء کی امداد کیلئے روپیہ دیتے رہو۔ وَلَاتُلْقْوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ اور اپنے نفسوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ یعنی اے مالدارو! اگر تم اپنے زائد مال خوشی سے دے دو گے تو وہ تو زائد ہی ہیں تم کو کوئی حقیقی نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو ہلاک ہو جائو گے۔ یہ الفاظ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے زارِروس کے ساتھ ہونے والے واقعات کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو جو کچھ زرِ روس اور روسی امراء یا فرانس کے امراء کا حال ہوا وہی تمہارا ہو گا۔ آخر عوام ایک دن تنگ آکر لوٹ مار پر اُتر آئیں گے۔ اور شاہ پوری محاورہ کے مطابق دُعائے خیر پڑھ دیں گے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس محاورہ کی تشریح یہ بیان کرتے تھے کہ ہمارے علاقے میں کچھ مدت پہلے زمیندار بنیئے سے قرض لیتے جاتے تھے اور بنیا بھی دیتا جاتا تھا کچھ عرصہ تک تو انہیں اس کا احساس نہ ہوتا۔ مگر جب سب علاقہ اس بنیئے کا مقروض ہو جاتا اور زمینداروں کی سب آمد اس کے قبضہ میں چلی جاتی تو یہ دیکھ کر اس علاقے کا کوئی بڑا زمیندار تمام چودھریوں کو اکٹھا کرتا اور کہتا کہ بتائو اس بنیئے کا قرض کتنا ہے۔ وہ بتاتے کہ اتنا قرض ہے اس پر وہ دریافت کرتا کہ اچھا پھر اس قرضے کے اترنے کا کوئی ذریعہ ہے یا نہیں وہ جواب دیتے کہ ہمیں تو کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اس پر وہ کہتا کہ اچھا تو پھر ’’دُعائے خیر پڑھ دو‘‘۔ چنانچہ وہ سب دُعائے خیر پڑھ دیتے۔ اور اس کے بعد ہتھیار لے کر بنیئے کے مکان کی طرف چل پڑتے اور اُسے قتل کر دیتے اور اس کے بہی کھانے سب جلا دیتے۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں ایسی ہی حالت کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ دیکھو ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اگر تمہارے پاس زائد مال ہو تو اُسے خداتعالیٰ کے راستہ میں خرچ کر دیا کرو۔ اور اپنی جانوں پر ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یعنی بے شک کمائو تو خوشی سے مگر اس دولت کو اپنے گھر میں جمع نہ رکھا کرو۔ ورنہ کسی دن لوگ تمہارے خلاف اُٹھ کھڑے ہونگے اور تم ہلاک ہو جائو گے۔
پھر فرماتا ہے ۔ وَاَحْسِنُوْا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر ہم تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ تم نیکی کرو۔ اور وہ اس طرح کہ تم خود اپنی ضرورتوں کو کم کر کے اور مال بچا کر خداتعالیٰ کی راہ میں دے دیا کرو۔ مگر یاد رکھو کہ یہ عمل تم لوگوں سے ڈر کر نہ کرو بلکہ خوشی سے کرو۔ اگر تم ڈر کر کرو گے تو غریبوں کی مدد تو ہو جائے گی مگر خداتعالیٰ خوش نہیں ہو گا۔ لیکن اگر خوشی سے یہ قربانی کرو گے تو غریب بھی خوش ہونگے ۔ تم بھی ہلاکت سے بچ جائو گے اور خداتعالیٰ بھی تم پر خوش ہو گا۔
وَاَتِمُّواالْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ط
پھر فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ پھر ہماری کمائی کا صلہ ہم کو کیا ملا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا صلہ مال سے زیادہ ملے گا۔ اور وہ تمہارے پیدا کرنے والے خدا کی محبت ہے۔ تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری عاقبت بھی درست ہو جائیگی۔
یہ معنے تو سیاقِ کلام کے لحاظ سے ہیں لیکن اس کے ایک معنے صرف اس ٹکڑہ آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ہیں کہ عبادات میں یا کھانے پینے میں یا محنت و مشقت میں یا صفائی و طہارت میں کبھی کوئی ایسی راہ احتیار نہ کرو۔جس کا نتیجہ تمہاری صحت یا تمہاری جان یا تمہاری عقل یا تمہارے اخلاق کے حق میں بُرا نکلے۔ تَھْلُکَۃ کا لفظ جو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے اس کے معنے کسی ایسے فعل کے ہوتے ہیں جس کا انجام ہلاکت ہو۔ اور نتیجہ بُرا نکلے۔ پس اس لفظ کے استعمال کرنے سے قرآن کریم نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اسلام دین یا عزت یا تمدن کی حفاظت کے لئے انسان کو اپنی جان خطرہ میں ڈالنے سے نہیںر وکتا بلکہ ایسے کاموں سے روکتا ہے جن کا کوئی نیک نتیجہ برآمد ہونے کی امید نہ ہو۔ اور جن میں انسان کی جان یا کسی اور مفید شے کے بلاوجہ برباد ہونیکا خطرہ ہو۔
شَدِیْدُ الْعِقَابِo
۱۱۰؎ تفسیر:۔ یہاں سے حج اور عمرہ کے احکام کا آغازہوتا ہے۔ حج اسلامی ارکان میں سے ایک اہم رُکن ہے۔ اور ہر شخص جو بیت اللہ کا حج کرنا چاہے ۔ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ میقات پر پہنچنے کے بعد احرام باندھ لے۔ میقات ان مقامات کو کہتے ہیں جہاں پہنچنے پر اسلامی ہدایات کے مطابق حاجیوں کو احرام باندھنا پڑتا ہے۔ مدینہ منورہ کی طرف سے آنے والوں کے لئے ذوالحلیفہ شام کی طرف سے آنے والوں کے لئے جُحفہ۔ عراق کی طرف سے آنے والوں کے لئے ذات عرق۔ نجد کی طرف سے آنیوالوں کے لئے قرن المنازل اور یمن کی طرف سے آنے والوں کے لئے یلملم میقات مقرر ہیں۔ پاکستان سے جانے والوں کیلئے یلملم ہی میقات مقرر ہے اور حاجیوں کو جہاز میں ہی حرام باندھنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ان میقات کے اندر رہتے ہیں انہیں احرام کے لئے بارہ جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی اپنی جگہوں سے ہی احرام باندھ سکتے ہیں۔ احرام کا طریق یہ ہے کہ انسان حجمت بنو کر غسل کر کرے۔ خوشبو لگائے۔ اور اس کے بعد سلے ہوئے کپڑے اتار کر ایک چادر تہہ بند کے طور پر کمر سے باندھ لے اور دوسری چادر جس کے اوپر اوڑھ لے ۔ سر کو ننگا رکھے اور دور کعت نفل پڑھے اور اس کے بعد اپنے اوقات کا اکثر حصہ تکبیر و تلبیہ اور تسبیح و تحمید میں بسر کرے اور بار بار لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنَّمَعْۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ کہتا رہے۔ ہر نماز کے بعد خصوصیت کے ساتھ بلند آواز کے ساتھ تلبیہ کہنا چاہیے۔ محرم کے لئے سِلے ہوئے کپڑے یعنی قمیض شلوار پاجامہ یا کوٹ وغیرہ پہننا۔ سر کو ڈھانپنا۔ جرابیں پہننا۔ خوشبو لگانا خوشبودار رنگوں سے رنگے کپڑے پہننا۔ سرمنڈوانا ناخن اتارنا جو میں نکالنا یا انکو مارنا جنگل کے کسی جانور کا شکار کرنا ۔ شکار کے جانور کو ذبح کرنا۔ کسی کو شکار کیلئے کہنا یا کسی شکاری کی مدد کرنا۔ شہوانی تعلقات قائم کرنا یا شہوانی گفتگو کرنا۔فحش کلامی کرنا یا فحش اشعار پڑھنا۔ فسق و فجور اور لڑائی جھگڑے میں حصلہ لینا۔ یہ سب امور ناجائز ہوتے ہیں۔ البتہ محرم غسل کر سکتا ہے کپرے دھو سکتا ہے اور دریائی جانور کا شکار بھی کر سکتا ہے۔ محرم عورت کے لئے بھی ان ہدایات کی پابندی ضروری ہے ۔ البتہ اُسے بے سلے کپڑے پہننے کی ضرورت نہیں۔ اُسے اپنا معمولی لباس یعنی قمیض پاجامہ اور دوپٹہ ہی رکھنا چاہیے البتہ وہ برقعہ نہیں اوڑھ سکتی۔
جب حاجی حدودِ حرم میں داخل ہو (یعنی مکہ معظمہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ میں جو حرم کہلاتا ہے) تو وہ آدابِ حرم کو ملحوظ رکھے۔ اور جب بیت اللہ پر پہلی مرتبہ نظر پڑے تو اللہ تعالیٰ کے حضور فوراًً دُعا کیلئے اپنے ہاتھ اُٹھا دے کیونکہ وہ قبولیت دُعا کا خاص وقت ہوتاہے اس کے بعد جب بیت اللہ کے پاس پہنچے تو حجرا سود سے خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے۔ طواف کرتے ہوئے اگر ممکن ہو تو ہر دفعہ حجرا سود کو بوسہ دینا چاہیے۔ اور اگر ممکن نہ ہو تو صرف ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کر دینابھی کافی ہے۔ طواف سے فارغ ہونے کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور پھر صفا اور مروہ کے درمیان ساتھ مرتبہ چکر لگائے۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا اور مروہ سے صفا تک دوسرا پھر مکہ معظمہ میں ٹھہر کر ایام حج کا انتظار کر جب ذولحجہ کی آٹھویں تاریخ ہو تو وہ مکہ سے منیٰ چلا جائے اوروہاں پانچوں نمازیں پرھے پھروہاں سے دوسری صبح نماز فجر ادا کرنے کے بعد عرفات کی طرف ایسے وقت میں چلے کہ ہواں بعد زواں داخل ہو اور ظہر و عصر کی نمازیں وہاں جمع کر کے ادا کرے اور سورج کے ڈوبتے تک عرفات میں ہی رہے افور دعائوں اور عبادت میں اپنا وقت گذارے اس کے بعد مزدلفہ مقام میں آئے۔ جہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھے او وہاں رات بھر عبادت اور دعائوں میں بسر کرے۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے مشعر الحرام پر جا کر دُعا کرے۔ اور وہاں سے سورج نکلنے سے پہلے ہی روانہ ہو کر منیٰ پہنچے اور وہاں جا کر جمرۃ العقبہ پر سات کنکریاں مارے اور ہر دفعہ کنکر پھینکنے کے ساتھ تکبیر کہے۔ مگر یہ کام سورج نکلنے کے بعد کرے۔ یہاں سے فارغ ہو کر قربانی کرے۔ سر منڈاوئے اور پھر اسی دن شام تک یا اگلے دن مکہ مکرمہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف کرے۔ افضل یہ ہے کہ اسی دن شام تک جا کر کعبہ کا طواف کر آئے۔ پھر دوسرے دن منیٰ میں واپس آجائے۔ اور بعد زوال جمرۃ الدنیا۔ جمرۃ الوسطیٰ اور جمرۃ العقبہ پر سات سات پتھر مارے۔ اسی طرح تیسرے دن اور پھر چوتھے دن بھی جو ایام تشریق کہلاتے ہیں یعنی گیارھویں بارھویں اور تیرھویں ذوالحج کو تیرھویں تاریخ کو منیٰ سے واپس آجائے اور بیت اللہ کا طواف الوداع کرے۔ جو شخص یہ تمام مناسک بجا لانئے وہ فریضہ حج ادا کر لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور سر خرو ہو جاتا ہے۔
عمر ہ بھی یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص حرم کے اندر رہنے والا ہو تو وہ حرم سے اور اگر باہر کا ہو تو میقات سے احرام باندھے خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے اور پھر حلق یا قصر کر دے۔ اور اگر قربانی کرنا چاہے تو قربانی بھی کر دے۔ لیکن عمرہ میں قربانی لازمی نہیںہوتی۔ حج اور عمرہ میں یہ فرق ہے کہ عمرہ کے لئے کسی خاص وقت یا مہینہ کی قید نہیں بلکہ وہ سال کے ہر حصہ میں ہو سکتا ہے جبکہ حج صرف شوال ۔ ذوالقعدہ اور ذولحج میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ ترمذی میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے متعلق پوچھا کہ اَوَاجِبَۃ‘؟ کیا عمرہ واجب ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لَا وَ اِنْ تَِعْتَمِرُوْ اخَیْر’‘ لَّکُمْ عمرہ اور واجب تو نہیں۔ لیکن اگر تم عمرہ کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
فَاِنْ اُحْصِرْ تُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔ اس میں بتایا کہ اگر حج یا عمرہ کرنے والا کوئی شخص بیماری کی وجہ سے یا جنگ کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے راستہ میں ہی روک دیا جائے اور وہ مکہ مکرمہ جا کر حج یا عمرہ نہ کر سکے تو پھر جو قربانی بھی میسر آئے اُسے دے دینی چاہیے اور اس وقت تک احرام نہیں کھولنا چاہیے جب تک کہ قربانی محلہ نہ پہنچ جائے۔ یعنی اس جگہ پر جہاں قربانی نے ذبح ہونا ہے۔ ابن القاسم کا قول ہے کہ اگر قربانی ساتھ ہو تب قربانی دے ورنہ نہیں۔ اور جمہور کا قول ہے کہ جس جگہ روکا جائے وہیں قربانی کر دے اور سر منڈوا ڈالے جو سب سے آخر ی عمل ہے اس کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے (بحر محیط جلد ۲ صفحہ۷۳) امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک بھی محلہ سے مراد وہی جگہ ہے جہاں حاجی کو روک دیا گیا ہو۔ لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک حرم ہے۔
میرے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے کیونکہ اگر تو جنگ ہو اور دشمن نے اُسے روکا ہو تو وہ اس کی قربانی کو آگے کیسے جانے دیگا۔ ایسی صورت میں وہ جہاں روکا جائے وہیں قربانی کر کے حلق کر دے لیکن اگر بیماری کے سبب سے حاجی کو روکا گیا ہو اور وہ قربانی آگے بھجوا سکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ قرنانی کے حرم پہنچنے تک سر نہ منڈوائے اور کوشش کرے کہ وہ حرم کے اندر ہی ذبح ہو۔ اس کے بعد حلق کر دے ۔ ضیمنی طور پر اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب مسلمانوں کو بیت اللہ کی زیارت سے جبرًا روک دیا جائیگا لیکن اس کے بد اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو کفار پر فتح عطا فرمائیگا۔ اور وہ امن سے حج بیت اللہ کر سکیں گے۔ چنانچہ صلح حُدییبہ میں ایسا ہی ہوا۔ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف طواف کی نیت سے تشریف لے گئے تھے ۔ قریش نے اطلاع ملنے پر چیتوں کی کھالیں پہن لیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے لیا اور قسمیں کھائیں کہ وہ مر جائیں گے مگر آپؐ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دینگے۔ آخر یہ معاہد ہ طے پایا کہ اس سال مسلمان مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کر لیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہؓ واپس چلے گئے مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مکہ فتح ہو گیا اور مسلمان آزادی کے ساتھ آنے جانے لگے۔
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاسِہٖ فَفِدْ یَۃ’‘ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَ قَۃٍ اَوْ نُسُکٍ۔ فرماتا ہے۔ اگر کوئی شخص تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے اُسے سر منڈوانا پڑے۔ جیسے اس کے سر میں جُوئیں پڑ جائیں یا پھوڑے نکل آئیں تو وہ سر منڈوا سکتا ہے۔ مگر اس صورت میں اسے صیام یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دینا پڑے گا۔ قرآن کریم نے فدیہ کی تینوں اقسام کو غیر معین رکھا ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد سے اس کی تعیین ہو جاتی ہے حدیثوں میں آتا ہے کہ کعب بن عجرہؓ ایک صحابی تھے ان کے سر میں جُوئیں پڑ گئیں۔ اور ان کی اتنی کثرت ہو گئی کہ جو میں ان کے منہ پر گرتی تھیں وہ کہتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ اے کعب! تجھے ان جوئوں کی وجہ سے بہت تکلیف ہے تو سر منڈوا دے اور صُمْ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ اَوْ اَطْعِمْ شَتَّۃَ مَسَاکِیْنَ اَوْ اُنْسُکْ شَاۃً۔ تو فدیہ کے طور پر تین دن کے روزے رکھ لے چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری کی قربانی دے دے۔
میرے نزدیک اس آیت میں جو فدیہ کی ترتیب ہے وہ امارت اور غربت کے لحاظ سے ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص غریب ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔ اگر متوسط درجہ کا ہو تو چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے اور اگر مالدار ہوت و قربانی دے دے۔ بہر حال قربانی مقدم ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے اور اس کے بعد روزے ہیں اور یہ ترتیب درجہ کی بلندی کے لحاظ سے ہے ۔ یعنی ادنی ٰ فدیہ یہ ہے کہ چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اور اس سے اعلیٰ فدیہ یہ ہے کہ ایک قربانی دے دے۔ اور یہ حکم محصر مَحِلَّہُ تک ختم ہو گیا ہے۔
فَاِذَ اَمنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔ فرماتا ہے جب جنگ ختم ہو جائے یا دوسری روکاوٹیں دور ہو جائیں تو اس کے بعد جو شخص عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر فائدہ اُٹھائے اور قرِان یا تمتع کر تو جو قربانی واجب ہے۔ لیکن اکیلے عمرہ یا حج میں واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اور اگر ان میں سے کسی کی نیت کر کے جائے اور کسی وجہ سے روکا جائے تو اس پر قربانی واجب ہو گی اور جب تک قربانی ذبح نہ ہو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ سر نہ منڈوائے ۔ ہاں اگر قربانی وہاں پہنچ نہ جائے اس وقت تک سر نہ منڈائے۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمتع اور قِران کی خصوصیات جو خالی حج اور خالی عمرہ کے مقابلہ میں ہیں بیان فرمائی ہیں۔ اور فَاِ ذَا اَمِنْتُمْ کے الفاظ اس لئے بڑھائے ہیں کہ اس حکم کو پہلے حکم کا حصہ نہ سمجھ لیا جائے۔ اس حکم کو احصار کے ذکر کے بعد اس لئے بیان کیا کہ اس صورت میں بلا احصار قربانی ہونی چاہیے اور حج اور عمرہ میں احصار سے قربانی ہوتی ہے ورنہ نہیں۔ اس لئے اس کو احصار کے ذکر کے بعد بیان کیا۔
اس جگہ تمتع اور قِران کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ ان میں قربانی ضروری ہو گی خواہ احصار نہ ہی ہوا ہو۔ اور جسے اس کی توفیق نہ ہو وہ جیسا کہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے تین دن کے روزے مکہ میں اور سات دن کے روزے واپس آکر رکھے۔
فرماتا ہے فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَا مُ ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ۔ (۱) بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تین دن کے روزے ذولحج کی ساتویں ۔ آٹھویں اور نویں تاریک کو رکھے جائیں (۲) حضرت امام ابو حنیفہ ؓ کہتے ہیں کہ اگر وہ ان ایام میں روزے نہیںرکھیگا تو اس پر قربانی بھی واجب ہو گی (۳) بعض کہتے ہیں کہ روزے چونکہ قربانی کے بدلہ میں ہیں اس لئے حج کے بعدرکھنے چاہیں (۴) بعض کہتے ہیں کہ یہ روزے واپسی سے پہلے مکہ میں ہی رکھنے چاہیں (۵) بعض نے احرام عمرہ اور احرام حج کے درمیانی عرصہ میں روزے رکھنے کو کہا ہے۔ (بحر محیط جلد ۲ صفحہ۷۸) میری نزدیک یہ روزے ایام تشریق یعنی گیارھویں بارھویں اور تیرھویں ذولحجہ کو رکھنے چاہیں اور فِی الْحَجِّ سے مراد اس جگہ فِیْ اَیَّامٍ ہے۔ باقی سات روزے گھر پر بھی رکھے جا سکتے ہیں ۔ اس جگہ تِلْکَ عَشَرَ ۃ’‘ کَا مَلَۃ’‘ کا فقرہ اس لئے زائد کیا گیا ہے کہ وَسَبْعَۃٍ کی جگہ اَوْ نہ سمجھ لیا جائے اور غلطی سے یہ معنے نہ کر لئے جائیں کہ وہاں رکھے تو تین رکھ اور گھر رکھے تو سات رکھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آخر میں تِلْکَ عَشَرَ ۃ’‘ کَا مَلَۃ’‘ فرما کر بتا دیا کہ صرف تین یا سات روزے رکھنا مراد نہیں بلکہ پورے دس روزے رکھنے مراد ہیں یا یہ الفاظ تاکید کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ اور تِلْکَ عَشَرَۃ’‘ کَامِلَۃ’‘ کے یہ معنے ہیں کہ یہ رعزے ثواب یا قربانی کے قام مقام ہونے کے لحاظ سے کامل فدیہ ہیں۔
ذٰلِکَ لَمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہ‘ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فرماتا ہے یہ حکم یعنی تمتع کا صرف باہر کے لوگوں کے لئے ہے کیونکہ ان کو آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے مکہ والے تو ہر وقت عمرہ کر سکتے ہیں ان کے لئے تمتع یا قران نہیں ہے۔
اس آیت کے بارہ میں مفسرین میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے (۱) بعض کہتے ہیں کہ قربانی نہ ملنے کی صورت میں روزوں کا حکم صرف آفاقیوں کے لئے ہے مکہ والوں کے لئے نہیں۔ کیونکہ وہ تو اپنے شہر میں ہی قربانی مہیا کر سکتے ہیں۔ یہ امام شافعی کا مذہب ہے۔ (۲) بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت روزوں کے متعلق ہے ۔ یعنی روزوں کا حکم اہل مکہ کے لئے نہیں بلکہ صرف باہر والوں کے لئے ہے۔ گویا انہوں نے صیام کو ذٰلِکَ کے ماتحت رکھا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ دونوں درست نہیں کیونکہ اس صورت میں مکہ والوں کو سہولت رہتی ہے (۳) امام ابو حنیفہ ؓ کہتے ہیں کہ اس سے تمتع اور قِران والے احکام مراد ہیںجن کا ذکر فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃ، اِلَی الْحَجِّ میں آچکا ہے اور ا سک یمعنے یہ ہیں کہ تمتع اور قِران اہل مکہ کے لئے جائز نہیں۔ میرے نزدیک امام ابو حنیفہ کے معنے زیادہ درست ہیں اور عقل بھی انہی کی تائید کر تی ہے۔ کیونکہ مکہ والے تو ہر وقت عمرہ کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد حاَضِرِ الْمَسْجِدٍ الْحِرَامِ میں بھی اختلاف ہے کہ ان سے کون لوگ مراد ہیں (۱) حضرت ابن عباسؓ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے تمام اہل حرم مرا د ہیں (۲) عطاء کہتیہ یں کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو ہر جہت سے مواقیت کے اندر
اَلْحَجُّ اَشْھُر’‘
یٰٓا ُولِی الْاَ لْبَابِo
رہتے ہیں (۳)زہری کہتے ہیں کہ ایک یا دو دن کے سفر تک رہنے والے مراد ہیں (۴)بعض کہتے ہیں کہ اس سے صرف اہل مکہ مراد ہیں اور یہی معنے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتے ہیں۔
آخر میں فرمایا۔ وَاتَّقُو االلّٰہَ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ۔ یعنی حج کی عبادت محض اس غرض کے لئے ہے کہ تمہارے دلوں میں تقویٰ پیداہو۔ اور تم ماسوی اللہ سے نظر ہٹا کر صرف اللہ تعالیٰ کو ہی اپنی ڈھال بنا لو۔ اگر حج بیت اللہ یا عمرہ سے کسی کو یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا کوئی مخفی کبر اس کے سامنے آگیا ہے اسے چاہیے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ماتھے کو زمین پر رکھ دے اور جس قدر خلوص بھی اس کے دل میں باقی رہ گیا ہو اس کی مدد سے گریہ و زاری کر یا کم سے کم گِریہ وزاری کی شکل بنائے اور خداتعالیٰ کے حضور جھک کر کہے کہ اے میرے خدا! لوگوں نے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدہ کے لئے روحانی باغ تیار ہو رہے ہیں۔ پر اے میرے رب میں دیکھتا ہوں کہ جو بیج میں نے لگایا تھا اس میں سے تو کوئی روئیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی ۔ نہ معلوم میرے کِبر کاکوئی پرندہ اُسے کھا گیا یا میری وحشت کا کوئی روئیدگی نکلنے نہ دی۔ اے خدا! اب میں کیا کروں کہ جب میرے پاس کچھ تھا میں نے بے احتیاطی سے اُسے اس طرح خرچ نہ کیا کہ نفع اٹھاتا ۔ مگر آج تو میرا دل خالی ہے ۔ میرے گھر میں ایمان کا کوئی دانہ نہیں کہ میں بوئوں اے خدا! میرے اس ضائع شدہ بیج کو پھر مہیا کر دے اور میری کھوئی ہوئی متاع ایمان مجھے واپس عطا کر۔ اور اگر میرا ایمان ضائع ہو چکا ہے تو تو اپنے خزانے سے اور اپنے ہاتھ سے اپنے اس دھتکارہے ہوئے بندہ کوایک رحمت کا بیج عطا فرماتاکہ میں اور میر نسلیں تیری رحمتوں سے محروم نہ رہ جائیں اور ہمارا قدم ہمارے سچی اور اعلیٰ قربانی کرنیوالے بھائیوں کے مقام سے پیچھے ہٹ کر نہ پڑے بلکہ تیرے مقبول بندوں کے کندھوں کے ساتھ ساتھ ہمارے کندھے ہوں۔
وَاعْلَمُوْ ااَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ العِقَابِ میں اس طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ہمیشہ خائف رہو اور اپنے تمام کاموں کی تقوی اللہ پر بنیاد رکھو ورنہ تمہارا پہلا ایمان بھی ضائع ہو جائیگا۔ اور تم خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جائو گے۔
۱۱۱؎ حل لغات:۔ رَفَثَ: مصدر ہے اور لانفی جنس کے بعد واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ رَفَثَ سے مراد ہر ایسا کلام ہے جس کے اندر کوئی ایسی بات جس کے اندر جماع یا اس کے متعلقات کا ذکر ہو۔ (۲) جب اس کے بعد اِلیٰ صلہ ہو تو اس وقت کنایہ کے طور پر اس کے معنے جماع کے لئے جاتے ہیں (مفردات) اور طبری نے کہا ہے اَلرَّفَثُ اَللَّغْوُ مِنَ الْکَلَامِ (بحرِ محیط) رفث لغو اور بے ہودہ گفتگو کو بھی کہتے ہیں۔
فُسُوْقَ: فَسَقَ کا مصدر ہے اور فسوق کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کر دینا۔ (۲) نافرمانی (۳) سچے راستہ سے دوسری طرف جُھک جانا۔ (اقرب)
جِدَالَ: باب مفاعلہ سے مصدر ہے اور اس کے معنے جھگڑا کرنے کے ہیں۔
زَاد: جس چیز کو انسان بطور سفر خرچ اپنے ساتھ لے لے۔
اِتَّقُوْنِ: امر جمع کا صیغہ ہے جو وَقٰی سے باب افتعال کے مضارع کے صیغہ سے بنا ہے۔ اِتَّقَا ء (مصدر) جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کا مفعول ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ک اپنی حفاظت کا ذریعہ بنا لینا۔
تفسیر: اَلْحَجُّ اَشْھُر’‘ مَّعْلُوْمٰت’‘ میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حج کے بارہ میں قرآن کریم نے کوئی نیا حکم نہیں دیا بلکہ اسی حکم کو قائم رکھا ہے جس حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں چلا آرہا ہے۔ اس وجہ سے حج کے مہینے بھی سب لوگوں کو معلوم ہیں یعنی شوال، ذوالقعدہ، اور ذوالحجہ۔ گو امام ابو حنیفہ ؓ اور امام شافعیؒ کے نزدیک ذوالحجہ کے صرف دس دن اشہرا الحج میں شامل ہیں۔ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجِّ جو شخص ان مہینوں میں حج کو اپنے اوپر فرض کر کے چل پڑے۔ اُسے چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو پاک رکھے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جو جنسی جذبات کو ابرانگیختہ کرنے والی ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عشقیہ اشعار پڑھنا اس میں داخل نہیں۔ کیونکہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایام حج میں جاہلیت کے اشعار پڑھے تھے۔ یہ روایت اگرچہ قرآن کریم کے اس واضح حکم کی موجودگی میں درست تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ انہوں نے ایسا کیا تھا تو امتدادِ زمانہ کی وجہ سے ہم نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کس غرض کے ماتحت جاہلیت کے اشعار پڑھے تھے۔ ممکن ہے انہوں نے دوران گفتگو میں کسی دلیل کیل ئے پڑھے ہوں اور سننے والوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہو کہ وہ شوقیہ طور پر اس قسم کے اشعار پڑھ رہے ہیں۔ بہر حال اس قسم کا کلام خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور ان دنوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اسکی عبادت میں صرف کرنا چاہیے۔ مگر اس ممانعت کے یہ بھی معنے نہیں کہ رفث۔ فسوق اور جدال دوسرے دنوں میں جائز ہے۔ بلکہ اس ممانعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی ہے کہ اگر کچھ عرصہ تک انسان اپنے نفس پر دبائو ڈال کر ایسے کام چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے دوسرے دنوں میں بھی ان کو چھوڑنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ کیونکہ مشق ہونے کی وجہ سے اس کے لئے سہولت پیدا ہو جاتیہے بعض دفعہ بشریٰ کمزوریوں کی وجہ سے انسان ایک لمبے وقت کے لئے کسی کام کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ ایسی حالت میں اس کے اندار استعداد پیدا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے کچھ وقت کے لئے اس کام سے روک دیا جائے۔ جب کچھ عرصہ تک رکا رہتا ہے تو اس کی ضبط کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ وہ کلی طور پر اس کام کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنی کمزوریوں میں سے کسی ایک کمزوری پر غالب آنے کی کوشش کرے۔ اور مہینہ بھر اس سے بچتا رہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خداتعالیٰ رمضان کے بعد بھی اس کی مدد کریگا۔ اور اسے ہمیشہ کے لئے اس بدی پر غالب آنے کی توفیق عطا فرما دیگا۔
یہاں رفٰث:فسوق اور جدال میں گناہوں کے چھوڑنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ رفث مرد عورت کے مخصوص تعلقات کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بد کلامی کرنا۔ گالیاں دینا۔ گندی باتیں کرنا۔ قصے سُنانا۔ لغو اور بے ہودہ باتیں کرنا جسے پنجابی میں گپیں مارنا کہتے ہیں۔ یہ تمام امور بھی رفث میں ہی شامل ہیں۔ اور فسوق وہ گناہ ہیں جو خداتعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں انسان اس کی اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر نکل جاتا ہے۔ آخر میں جدال کا ذکر کیا ہے جو تعلقات باہمی کو توڑنے والی چیز ے ان تین الفاظ کے ذریعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے تین اصلاحوں کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ فرمایا ہے (۱) اپنی ذاتی اصلاح کرو اور اپنے دل کو ہر قسم کے گندے اور ناپاک میلانات سے پاک رکھو۔ (۲) اللہ تعالیٰ سے اپنا مخلصانہ تعلق رکھو (۳) انسانوں سے تعلقات محبت کو استعار رکھو۔ گویا یہ صرف تین بدیاں ہی نہیں جن سے روکا گیا ہے بلکہ تین قسم کی بدیاں ہیں جن سے باہر کوئی بدی نہیں رہتی۔ کیونہ بدی یا تو اپنے نفس سے تعلق رکھتی ہے یا خداتعالیٰ سے تعلق رکھتی ہے۔ اور یا پھر مخلوق سے تعلق رکھتی ہے۔ اور روحانیت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی ذاتی اصلاح کے بعد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی سرگرم رہے۔
وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ۔ فرماتا ہے تمہیں ان باتوں کے چھوڑنے میں کئی قسم کی دقتیں پیش آئیں گی۔ مثلاً کسی شخص کو گالی دے دی جائے تو اس کیلئے صبر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر تم خدا کے لئے ان پابندیوں کو اپنے اوپر عائد کر و گے اور نیکیوں میں حصہ لو گے تو تم جو بھی نیک کام کرو گے۔ اللہ تعالیٰ اسے ضرور ظاہر کر دیگا۔ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نیکی کو پوشیدہ نہیں رہنے دیتا۔ گو بعض صورتوں میں نیکیوں پر پردہ بھی پڑا رہتا ہے مگر آخر کار نیکی ظاہر ہو کر رہتی ہے۔ اور دشمن بھی اس کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں کو ہی دیکھ لو۔ وہ آپؐ کو گالیاں دیتے تھے مگر ابو سفیان ہر قل کے سامنے آپؐ کو کوئی عیب بیان نہ کر سکا۔ صرف اتنا ہی کہہ سکا کہ اب ایک عہدہم میں اور اس میں ہوا ہے معلوم نہیں وہ اسے پورا کرتا ہے یا نہیں۔ تو فرمایا کہ تم جو نیکی بھی کرو گے خداتعالیٰ اُسے ضرور ظاہر کردے گا۔ اور لوگوں پر تمہارے اچھے کردار اور بلند اخلاق کا گہرا اثر پڑے گا۔
وَتَزَ وَّ دُوْا۔ فرمایا جب تم سفر کے لئے نکلو توہمیشہ اپنے ساتھ زادراہ لے لیا کرو۔ اسجگہ تَزَوَّ دُوْا سے دونوں زاد مراد ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ آمدو رفت اور کھانے پینے کے اخراجات کا انتظام کر لیا کرو۔ اور یہ بھی کہ نیکی اور تقوی کا زاد ساتھ لو۔ چونکہ اس سے پہلے وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اور حسنات میں ترقی کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی تھی اس لئے تَزَوَّدُوْا کہہ کر بتایا کہ حج اور عمرہ کا ثواب تو بہت بڑا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ تم زیارت کعبہ کے شوق بھیک مانگتے ہوئے وہاں پہنچو۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم پہلے زادِ راہ کا انتظام کرو۔ اور جب آمد و رفت اور رہائش اور کھانے پینے وغیرہ کے تمام اخراجات کا انتظام ہو جائے تو اس کے بعد سفر کے لئے نکلو۔ فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی اور یاد رکھو کہ بہتر زاد رہ ہے جس سے تم سوال اور گناہ سے بچو۔
افسوس ہے اس زمانہ میں مسلمانوں میں عام طور پر یہ سمجھا جاتاہے کہ اسلام اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ انسان کو اسباب سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ اپنے تمام معاملات خداتعالیٰ پر چھوڑ دینے چاہیں۔ مگر یہ قطعًا غلط اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اس لئے یہاں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ جب تم سفر کے لئے نکلو تو ضروری سامان اور زادِ راہ سے کبھی غفلت اختیار نہ کرو۔
فَاِذَآاَفَضْتُمْ
لَمِنَ الضَّآلِّیْنَo
لیکن تَزَ وَّ دُوْا کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ تم تقویٰ کا زاد لو۔ اور چونکہ تقویٰ کا زاد مخفی تھا اس لئے اسے فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی کے الفاظ میں کھول کر بیان کر دیا اور بتایا کہ تقویٰ سب سے بہتر زد ہے جو آخرت کے سفر میں تمہاراے کام آنے والا ہے انہیں معنوں میں بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’وقت تھوڑا ہے اور کر عمر ناپیدا۔ تیز قدم اٹھائو کہ شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ باربار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیاں کاری کا موجب ہو یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو۔ جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو‘‘۔ (کشتی نوح)
چونکہ اس سے پہلے حج کا ذکر آچکا ہے اس لئے فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی۔ فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اب حج سے تمہاری ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے تمہیں تقویٰ کا پہلے سے بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے جیسے صاف کپڑوں والا چھوٹے چھوٹے داغ اور دھبے سے بھی بچنے کی کوشش کیا کرتا ہے۔
پھر فرمایا ہے وَاتَّقُوْنِ یَا اُولِی الْاَلبَابِ۔ اے عقلمندوں اگر تم اپنے بچائو کا سامان کرنا چاہتے ہوتو میری طرف جھکو۔ اور صرف مجھے ہی اپنی حفاظت کا ذریعہ بنائو۔ باقی تمام ذرائع اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں۔
۱۱۲؎ حل لغات:۔ کَمَا کے معنے ’’جس طرح‘‘ کے بھی ہوتے ہیں۔ اور ’’اس لئے‘‘ کے بھی چنانچہ سیبویہ یہ کہتا ہے کَمَا اِنَّہُ لَا یَعْلَمُ تَجَاوَزَاللّٰہُ عَنْہُ کہ چونکہ وہ نہ جانتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا گناہ معاف کر دیا۔
اِنْ یہ اِنَّ سے مخففہ ہے اور اس کے معنے قریباً ’’گو‘‘ کے ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اِنْ نافیہ ہے یہ فتراء کا قول ہے۔ کَسائی کہتا ہے کہ اِنْ کے معنے قَدْ کے بھی ہوتے ہیں اور اس جگہ اس کے معنے قَدْ کے ہی ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے تمہارے لئے یہ کوئی گناہ کی بات نہیں کہ حج کے ایام میں تم اپنے رب سے کوئی اور فضل بھی مانگ لو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فضل سے مراد اس جگہ تجارت ہے اور میرے نزدیک بھی یہ درست ہے مگر فضل سے صرف تجارت مراد لینا ایک وسیع مضمون کو محدود کر دینا ہے۔ درحقیقت آج اسلام کو جس بہت بڑی مصیبت کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں چاروں طرف کفر غالب ہے اور مسلمان جمود اور بے حسی کا شکار ہیں۔ ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لئے اس جنون سے کام لیں جس جنون سے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے کام لیا تھا اور اسلام کو تھوڑے عرصہ میں ہی تمام معلومہ دنیا میں غالب کر دیا تھا پس حج کے ذکر کے ساتھ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ فرما کر میرے نزدیک اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اس عظیم الشان اجتماع سے بعض دوسرے فوائد بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کا وہ فضل تلاش کرو جس کے نتیجہ میں مسلمان قعرِ مذلت سے نکل کر بامِ عروج پر پہنچ جائیں اور اسلام کی اشاعت کے لئے مختلف ممالک کے با اثر اور ممتاز افراد کے ساتھ مل کر ایسی سکیمیں سوچو جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے اوراسلام دنیا پر غالب آجائے۔ غرض اس فضل کو تلاش کرنا جس سے نتیجہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو اللہ تعالیٰ نے ہمارا فرض قرار دیا ہے اور یہ جو فرمایا ہے کہ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم خداتعالیٰ کا فضل تلاش کرو۔ یہ کلام کا ایک طریق ہے جس کا مقصد کسی اہم نیکی کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی طریق کلام کو اس جگہ استعمال کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے اچھے موقعہ کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تلاش نہ کرنا کیا کوئی گناہ کی بات ہے کہ تم اسے چھوڑ رہے ہو۔ یعنی اس عظیم الشان اجتماع کے موقعہ کو جبکہ دنیا کے چاروں کناروں سے لوگ یہاں جمع ہیں غنیمت جانو اور اسے اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو۔
یہ لَا جُنَاحَ بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ لَا جُنَاحَ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا میں لَاجُنَاحَ کا ستعمال کیا گیا ہے۔
فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوااللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعِرِ الْحَرَامِ۔ فرمایا جب تم عرفات سے واپس آئو تو مشعرالحرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ عرفات مکہ سے شمال مشرق کی طرف قریباً نو میل کے فاصلہ پر ایک وسیع میدان ہے جہاں ۹ ذولحجہ کو تمام حاجی جمع ہوتے ہیں یہاں ٹھہرنا اور عبادت کرنا اتنا اہم ہے کہ اگر کوئی شخص حج کے اور تمام مناسک ادا کرے مگر عرفات کے میدان میں نہ پہنچ سکے تو اس کا حج ہی نہیں ہوتا۔ اور مشعر الحرام مزدلفہ میں ایک چھوٹی سی پہاڑی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم عرفات میں عبادت کر چکو اور وہاں سے واپس لوٹو تو مشعرالحرام کے پاس جو مزدلفہ میں ایک پہاڑی ہے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ آپ یہاں بھی دُعا کیا کرتے تھے مگر اب عام طور پر لوگ اس جگہ دُعا نہیں کرتے بلکہ اس جگہ کا پتہ لگانے میں بھی دقت محسوس ہوتی ہے چنانچہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ ہم نے اس کا پتہ لگانے کی بڑی کوشش کی مگر نہ لگا۔ اور یونہی دعا کر کے چل پڑے۔ معلوم ہوتا ہے یہ کوئی بڑی پہاڑی نہیں بلکہ ٹیلہ سا ہے۔ چونکہ وہاں ایسے کوئی ٹیلے ہیں اور مجمع بھی بہت ہوتا ہے اس لئے اس کا آسانی سے پتہ نہیں لگ سکتا۔
اس آیت میں اَفَضْتُمْ کا لفظ استعمال فرما کر اس امر کا بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو تمہارے قلوب اللہ تعالیٰ کی برکات اورا س کے انوار سے اس طرح معمور ہونے چاہیں جیسا کہ ایک برتن اپنے کناروں تک پانی سے بھرا ہوتا ہے۔ اور پھر اسی حالت میں جبکہ ساقی کو ثر کی روحانی شراب سے تمہارے جام لباب بھرے ہوئے ہوں تم مشعر الحرام کے پاس پہنچو اور اللہ تعالیٰ کو یاد رکرو۔ گویا روحانی انعامات کی وہ بارش جو عرفات میں تم پر نازل ہوئی ہے وہ تمہیں بہاتی ہوئی مشعر الحرام کی طرف لے جائے اور تمہیں اپنے محبوب کے قدموں تک پہنچا دے۔
وَاذْ کُرُوْہُ کَمَا ھَدٰ لکُمْ اس کے دو معنے ہیں۔ ایک یہ کہ اُذْکُرُوْہُ ذِکْرًا کَمَا ھَدٰ لکُمْ اس کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور دوسرے یہ کہ اس کا ذکر کرو کیونکہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے ان معنوں کے لحاظ سے اس جگہ کَمَا کا استعمال ایسا ہی ہے جیسا کَمَا اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ (حجر آیت ۹۱) میں کیا گیا ہے۔
وَاِنْ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ میں اِنْ مخففہ ہے اور اس کے معنے ’’گو‘‘ کے ساتھ ملتے ہیں۔ فرّاد نے کہا ہے کہ اس کے معنے نفی کے ہیں۔ اور لام کے معنے اِلَّا کے ہیں۔ یعنی ’’تم اس ہدایت سے پہلے نہ تھے مگر گمراہ‘‘۔ کسائی نے کہا ہے کہ اس کے معنے قَدْ کے ہیں اور لام زائد ہے ۔یعنی تم ضرور اس سے پہلے گمراہوں میں سے تھے۔
ثُمَّ اَفِیضُوْا مِنْ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
۱۱۳؎ حل لغات:۔اَفِیْضُوْا: اَفَاضَ بَفِیْضُ سے امر کا صیغہ ہے اور اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ کے معنے ہیں دَفَعْتُمْ مِنْھَا بِکَثْرَۃٍ تَشبِیْھًا بِفَیْضَ الْمَآئِ۔ یعنی تم وہاں سے کثرت سے چل پڑو۔ یہ معنے پانی کے کثرت سے بہنے کے ساتھ بطور تشبیہ کے ہیں (مفرداتِ راغب)
تفسیر:۔ اس آیت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ افاضہ تو ہو چکا پھر یہ کون سا نیا افاضہ ہے جس کے طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی عفرات سے تو لوٹ آئے پھر اور کہاں سے لوٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ کہ اس جگہ ثُم’‘ کے معنے ’’اور‘‘ کے ہیں۔ اور اس بات کو اس لئے دہرایا ہے کہ پہلے اسبارہ میں کوئی حکم نہ تھا بلکہ صرف اظہار واقعہ کیا گیا تھا۔ اب حکم نہ تھا بلکہ صرف اظہار واقعہ کیا گیا تھا۔ اب حکم دیا کہ جہاں سے دوسرے لوگ واپس لوٹتے رہے ہیں وہیں سے تم بھی لوٹو۔ اور یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ قریش اور ان کے ساتھیوں کا طریق تھا کہ وہ مزولفہ سے آگے عرفات میں نہیں جاتے تھے۔ بلکہ مزولفہ ہی سے واپس چلے آتے تھے۔ اور اس کی وجہ وہ یہ قرار دیتے تھے کہ عرفات حدودِ حرم سے باہر ہے اس لئے ہم وہاں نہیں جائیں گے بلکہ مزدلوہ میں مشعرالحرام کے پاس ہی ٹھہریں گے جو حرم کے اندر ہے اور کہتے کہ ہم حرم کے باشندے ہین اس لئے ہم حرم سے باہر نہیں جا سکتے لیکن دوسرے قبائل عرفات میں جا کر حج کرتے تھے۔ اس لئے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جس طرح دوسرے لوگ عرفات میں جاتے اور پھر وہاں سے واپس آتے ہیں اسی طرح تم بھی وہاںجائو اور جس طرح وہ عرفات سے واپس آتے ہیں اسی طرح تم بھی واپس آئو۔ لیکن اگر ثُمَّ کے معنے ’’پھر‘‘ یا ’’تب‘‘ کے کئے جائیں تو اس صورت میں اس کا یہ مطلب ہو گا ۔ کہ پھر تم مزولفہ سے لوٹو جہاں سے سب لوگ واپس لوٹتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ قریش اور بنو کنانہ جو حمس یعنی بڑے پکے دیندار کہلاتے تھے وہ بھی یہیں سے واپس چلے جاتے تھے۔
مزولفہ سے لوٹنے کے متعلق یہ حکم ہے کہ تمام حاجی نماز پڑھ کر اور دُعا کر کے سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے چلیں اور منیٰ میں سورج نکلنے کے بعد پہنچ جائیں۔ جہاں رمی جمار کی جاتی ہے۔ قربانیاں دی جاتی ہین اور احرام کی حالت ختم ہو جاتی ہے۔
یہ آیت چکڑالویوں پر بھی حجت ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے خود اس جگہ کا نام نہیں بتایا ۔ پس تفسیر کیلئے سنت کا تفھص بھی ضروری ہے۔ پھر فرماتا ہے ۔ وَاسْتَغْفِرُوااللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘۔ تم ان مناسک کے ساتھ ساتھ استغفار بھی کرتے رہو کیونکہ حج ایک بہت بڑا ابتلاء بھی ہے۔ مجھ سے کئی لوگوں نے بیان کیا کہ ہم نے حج کیا اور ہمار ادل پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو گیا۔ اسی طرح بہت سے لوگوں نے بیان کیا ککہ حج کے دنوں میں تو بڑا جوش ہوتا ہے مگر بعد میں دل پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حج میں ظاہر پر اسقدر زور ہے کہ اس کے مقابلہ میں باطن بہت حد تک پوشیدہ ہو جاتا ہے ۔ مثلاً وہاں حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگاتے ہیں۔ بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ منیٰ میں تین ٹیلوں پر جواب برحیوں کی شکل
فَاِذَا قَضَیْتُمْ
عَذَابَ النَّارِo
میںہیں کنکر پھینکتے ہیں۔ اس لئے اگر ساتھ ساتھ استغفار نہ ہو تو دل پر زنگ لگ جاتا ہے اسی طرح وہاں پانچ پانچ گھنٹے بیٹھ کر عبادت کرنی پڑتی ہے۔ ہزاروں کے مجمع میں میں نے ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جو دُعا کرتا ہو۔ لوگ حج صرف اسقدر سمجھتے ہیں کہ خطیب جب کھڑا ہو تو اس کے رومال کے ساتھ رومال ہلا دیں۔ مگر مجھے خداتعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اور میں نے وہاں کثرت سے دُعائیں کیں ۔ تو چونکہ یہ نماز کی طرح ایک معین عبادت نہیں اس لئے لوگ اس کی اہمیت محسوس نہیں کرتے۔ شریعت نے صرف ظاہر
بتا دیا ہے اور باطن کو انسان پر چھوڑ دیا ہے ۔ مگر وہاں یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اکثر لوگ جانتے ہی نہیں کہ ہم نے یہاں دُعا یا عبادت کرنی ہے ۔ پس فرماتا ہے حج کے ایام میں تمہیں استغفار کی سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ حج میں ظاہر زیادہ نمایاں ہے اور باطن جو جوہر عبادت ہے مخفی ہے۔ اگر انسان باطن کی طرف توجہ نہ کرے اور صرف ظاہر پر عمل کر کے سمجھ لے کہ اس نے شریعت کی اصل غرض کو پورا کر دیا ہے۔ تو اس کا دل زنگ آلود ہو جاتا ہے۔
۱۱۴؎ حل لغات:۔ اَوْ کے معنے ’’ یا‘‘ کے بھی ہوتے ہیں اور یہ لفظ اظہار ترقی کے لئے بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اَوْکا لفظ کسی چیز کو حقیر ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
اَشَدُّ۔ یہ ذکر کی صفت ہے جو بطور حال پہلے بیان کر دی گئی ہے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے جب تم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق حج بیت اللہ کا فرض ادا کر چکو تو خداتعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادون کو دیاد کرتے ہو۔ اہل عرب میں دستور تھا کہ جب وہ حج سے فرغ ہو جاتے تو تین دن منیٰ میں مجالیس منعقد کر کے اپنے باپ دادوں کے کارنامے بیان کرتے اور اپنے اپنے قبیلہ کی بہادری شہرت اور سخاوت کی تعریف میں قصیدے پڑھتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ تو اپنے باپ دادوں کی تعریف میں قصائد پڑھا کرتے تھے۔ مگر ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ جب تم مناسک حج کو ادا کر چکو تو تم خداتعالیٰ کو اس طرح یاد رکرو جیسے تم اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہو۔ یعنی جس طرح ایک چھوٹا بچہ جو اپنی ماں سے جدا ہوتا ہے روتا اور چلاتا ہوا کہتا ہے کہ میں نے اپنی ماں کے پاس جانا ہے اس یطرح تم بھی بار بار خداتعالیٰ کا ذکر کرو تاکہ اس کی محبت تمارے رگ و ریشہ میں سرایت کر جائے۔ خداتعالیٰ ایک وارء الوراء ہستی ہے اس کا حسن براہ راست انسان کے سامنے نہیں آتا بلکہ کئی واسطوں کے ذریعہ سے آتا ہے۔ اگر اُس کے حسن کو الفاظ میں بیان کیا جائے اور پھر ہم اس پر غور کریں اور سوچیں تو آہستہ آہستہ معنوی طور پر اس کی شکل ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ اگر تم مالک کا نام لو اور اس کی مالکیت کو ذہن میں لائو۔ قدوس کا نام لو اور اس کی ستاریت کو ذہن میں لائو۔ غفور کا نام لو اور اس کی غفوریت کو ذہن میں لائو۔ غفور کانام لو اور اس کی غوریت کو ذہن میں لائو تو یہ لازمی بات ہے کہ آہستہ آہستہ خداتعالیٰ کی ایک مکمل تصویر تمہارے سامنے آجائیگی۔ اور محبت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا تو کسی کا وجود سامنے ہو۔ حضرت مسیح وعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک شعر میں اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ؎
دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی
حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی
یعنی اگر محبوب خود سامنے نہیں آتا تو اس کی آواز تو سنائی دے اور اس کے حُسن کی کوئی نشانی تو نظر آئے۔ پس رب رحمٰن ۔ رحیم، مالک یوم الدین، ستار غفار، قدوس، مہیمن سلام، جبار، قہار اور دوسری صفاتِ الہٰیہ کو جب ہم اپنے ذہن میں بٹھا لیتے یہں تو خداتعالیٰ کی ایک تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ غرض صفاتِ الہیہ کے باربار دُہرانے اور توتر سے دُہرانے کے نتیجہ میں ہمارے دل میں محبت بنتی ہے اور اس تصویر کی وجہ سے ہی ہماری دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح بچوں کے دل میں اپنے ماں باپ کی ملاقات کا اشتیاق ہوتا ہے۔ اسیطرح تمہارا ابھی خداتعالیٰ کے ساتھ ایساہی روحانی تعلق ہونا چاہیے۔ گویا تمہارا چلن اور تمہارا آرام صرف خداتعالیٰ کے ساتھ ہی وابستہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ اسی پر تمہاری روحانی زندگی کا مدار ہے۔ اور حج کے بعد ذکر الہٰی کی طرف توجہ دلا کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ تمہارا خداتعالیٰ سے اب ایک روحانی پیوند قائم ہو چکا ہے۔ پس جس طرح ایک بچہ اپنے ماں باپ کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی کے دن بسر کرتا ہے اس طرح تم بھی خداتعالیٰ کی صفات کا آئینہ بنو اور اسی کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی کے دن بسر کرو۔
پھر فرماتا ہے۔ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ہم نے پہلے تو تمہیں یہ ہدایت دی ہے کہ تم خداتعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہو۔ مگر ہمارا یہ حکم صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو روحانیت میں ابھی اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچے۔ ورنہ جو لوگ اپنے ماں باپ کی محبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کا ہاتھ پوشیدہ دیکھتے ہیں اور خداتعالیٰ کے مقابلہ میں ماں باپ کے تعلق کو بالکل ہیچ سمجھتے ہیں ۔ ان کو چاہیے کہ وہ خدتعالیٰ کا ایسے رنگ میں ذکر کریں کہ ان کے دنیوی تعلقات میں اس کی کوئی مثال دکھائی نہ دے اور ماںباپ کا ذکر اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہو جائے۔
فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقْوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ۔ فرماتا ہے بعض لوگ ایسے ہین جو خداتعالیٰ سے صرف دنیا ہی مانگتے ہیں۔ جیسے عیسائی ہیں ۔وہ یہی دعا کرتے ہیں کہ ’’ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے‘‘(متی باب۶ آیت ۱۱) انہیں حرام و حلال سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ انہیں کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کا مطمع نظر محض دنیا طلبی ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا کے ساتھ حَسَنَۃً کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ جس میں یہ اشارہ ہے کہ ایسے لوگ صرف دنیا پر جان دیتے ہیں۔ حالانکہ خالی دنیوی عزت جس کے ساتھ اخروی عزت نہ ہو ایک *** ہوتی ہے۔ جیسے یہود کو آجکل خالی دنیوی عزت ملی ہوئی ہے ۔ اسی طرھ عیسائیوں کو صرف دنیوی عزت ملی ہوئی ہے مگر اُخروی عزت سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملا۔ اسی لئے فرمایا کہ وَمَالَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ یعنی ہم انہیں دنیا تو دے دیتے ہیں مگر اُخروی انعامات میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ لیکن دوسری طرف خالی اُخروی عزت بھی ایک بے ثبوت چیزہوتی ہے۔ ثبوت والی چیز وہی ہوتی ہے جس میں دین اور دنیا دونوں اکٹھے ملیں۔ اسی لئے فرمایا کہ ایک اور گروہ ایسا ہے جو یہ دعا کرتا رہتا ہے کہ رَبَّنَا اٰتَنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ یعنی الہٰی ہمیں دنیا میں بھی عزت بخش اور آخرت میں بھی ہمارے مقام کو بلندکر۔ اگر ہمیں دنیا ملے تو ہم اسے اپنی ذات کے لئے استعمال نہ کریں بلکہ تیرے دین کی شوکت ظاہر کرنے کیلئے استعمال کریں اور تیری رضا اور خوشنودی کے لئے اُسے صرف کریں۔ اگر ایسا ہو تو پھر انسان کو دنیا میں بھی عزت ملتی ہے۔ اور خداتعالیٰ کے حضور بھی اس کا مرتبہ بڑھتا ہے۔ یہ دُعا جو اسلام نے ہمیں سکھائی ہے بظاہر بہت چھوٹی سی دعا ہے لیکن ہر قسم کی انسانی ضرورتوں پر حاوی ہے ۔انسان کہتا ہے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً اے ہمارے رب ہم کو اس دنیا میں حسنہ کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے یہ درست نہیں۔ حسنات کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا جس کے معنے بہت سی نیکیوں کے ہیں مگر یہ اعتراض عربی زبان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر یہاں حسنات کا لفظ ہوتا تو اسکے معنے یہ ہوتے کہ ہمیں کچھ اچھی چیزیں ملیں لیکن حسنہ کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں جو کچھ ملے خیر ہی ملے۔ پس رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً کے یہ معنے ہیں کہ اے ہمارے رب! دنیا میں ہم کو جو کچھ دے حسنہ دے ۔ روٹی دے تو حلال و طیب ہو پچنے والی ہو۔ کپڑا دے تو حال دے طیب دے ضرورت کے مطابق دے ننگ ڈھانکنے والا دے۔ پسندیدہ دے۔ بیوی دے تو ایسی دے جو ہمدرد ہو ہم خیال ہو دیندار ہو محبت کرنے والی ہو۔ نیکی میں تعاون کرنے والی ہو بچے پیدا کرنے والی ہو ان بچوں کو نیک تربیت کرنے والی ہو۔ مکان دے تو مبارک ہو۔ وہ بیماریوں والا گھر نہ ہو۔ سل دق اور ٹائیفائیڈ کے جراثیم اس میں نہ ہوں۔ کوئی چیز ایسی نہ ہو جو صحت پر بُرا اثر کرنے والی ہو۔ کوئی ہمسایہ ایسا نہ ہو جو دکھ دینے والا ہو۔ وہ ایسے محلہ میں نہ ہو جہاں کے رہنے والے بُرے ہوں۔ وہ ایسے شہر میں نہ ہو جسے تو مریے لئے اچھا نہ سمجھتا ہو۔ ہمیں حاکم دے تو ایسے دے جو رحمد دل ہوں۔ تقویٰ سے کام لینے والے ہوں۔ انصاف سے کام لینے والے ہوں۔ ماتحتوں سے محبت کرنے والے ہوں ۔ ہمیں اُستاد دے تو ایسے دے جو علم رکھنے والے اور اچھا پڑھانے والے ہوں۔ وہ شوق سے پڑھائیں وہ ظالم نہ ہوں۔ خرابیاں پیدا کرنے والے اور دوسروں کو ورغلانے والے نہ ہوں۔ دوست دے تو ایسے دے جو خیرخواہ ہوں ۔ محبت کرنے والے ہوں۔ مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ خوشی میں شریک ہونے والے ہوں۔ دکھوں میں ہاتھ بٹانے والے ہوں۔ غرض رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً اے ہمارے رب! دنیا میں ہم کو وہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ پس یہاں حسنات کی بجائے حسنہ کا لفظ رکھ کر اس کے مفہوم کو خداتعالیٰ نے وسیع کر دیا ہے ۔ اور جب مومن یہ دعا کرتا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ خدایا مجھے ہر وہ چیز دے جو میری ضرورت کے مطابق ہو اور پھر وہ چیز کے لئے اور الفاظ بھی استعمال ہو سکتے تھے۔ خداتعالیٰ نے وہ الفاظ استعمال نہیں کئے بلکہ حسنہ کا لفظ استعمال کیا ہے اس لئے یہ لفظ ظاہری اور باطنی ددنوں خوبیوں کے لحاظ سے اچھی ہو مگر ظاہری صورت کے لحاظ سے اچھی نہ ہو۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی بڑی بااخلاق ہو ۔ مگر فرض کرو وہ نکٹی ہے یا اندھی ہے یا بہری ہے تو وہ حسنہ نہیں کہلائیگی حسنہ وہی بیوی کہلائیگی جس کے اخلاق بھی اچھے ہوں شکل بھی اچھی ہو ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا ہو۔ تو حسنہ کا لفظ ظاہری اور باطنی دونوں خوبیون پر دلالت کرتا ہے۔ اور مومن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ خدایا مجھے جو چیز بھی دے وہ ایسی ہو جو ظاہری اور باطنی دونوں خوبیاں رکھتی ہو۔
پھر فرمایا وَفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً آخرت میں بھی ہمیں وہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ یعنی وہ بھی ظاہر و باطن میں ہمارے لئے اچھی ہو۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ آخرت میں تو ہر چیز اچھی ہوتی ہے۔ ہواں کی چیزوں کے لئے حسنہ کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بات غلط ہے۔ آخرت میں بھی بعض چیزیں ایسی ہین جو باطن میں اچھی میں مگر ظاہر میں بُری ہیں۔ مثلاً دوزخ ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ پس ایک لحاظ سے وہ اچھی چیز ہے۔ مگر ایک لحاظ سے وہ بری بھی ہے ۔ پس جب آخرت کے لئے خداتعالیٰ نے حسنہ کا لفظ رکھا تو اس لئے کہ تم یہ دُعا کرو کہ الہٰی ہماری اصلاح دوزخ سے نہ ہو بلکہ تیرے فضل سے ہو۔ اور آخرت میں ہمیں وہ چیز نہ دیجیئو جو صرف باطن میں ہی اچھی ہو۔ جیسے دوزخ باطن میں اچھا ہے کہ اس سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ مگر ظاہر میں برا ہے ۔کیونکہ وہ عذاب ہے ۔ آخرت میں حسنہ صرف جنت ہے ۔ جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور جس کا باطن بھی اچھا ہے۔
پھر فرمایا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ ہم کو عذاب نار سے بچا۔ اس سے مراد وہی عذاب نار نہیں جو مرنے کے بعد ملے گا۔ یہ عذاب نار دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھنے والی دُعائوں کے بعد وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہا گیا ہے۔ پس وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں دنیا کے عذاب نار سے بھی بچا اور آخرت کے عذاب نار سے بھی محفوظ رکھ۔ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں کئی لوگ عذاب نار میں گرفتار ہوتے ہیں۔ انیہں کئی قسم کے دُکھ ہوتے ہیں۔ تکلیفیں ہوتی ہیں۔ حسرتیں ہوتی ہیں۔ قسم قسم کے مصائب ہوتے ہیں مگر جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ خدایا مجھے عذاب نار سے بچا۔ تو خداتعالیٰ اُسے اس عذاب سے بچا لیتا ہے۔ تب وہ چیزیں جو پہلے اس کے لئے نار تھیں جنت بن جاتی ہیں۔ [
اسی طرح اس سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہے جس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دُعا سکھائی ہے۔ بظاہر یہ ایک مختصر سی دُعا ہے مگر بڑی جامع اور وسیع دعا ہے۔
عَذَابَ النَّارِ کے لحاظ سے دنیا کی لڑائی بھی مراد لی جا سکتی ہے ۔کیونکہ لڑائی بھی آگے کا ہی عذاب ہے۔ پس جو شخص یہ دُعا کرے گا کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰ خِرَۃِ حَسَںَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ وہ گویا خدتعالیٰ کے بیان فرمودہ الفاظ میں یہ دعا کرے گا کہ الہٰی دنیا میں مجھ پر کوئی ساعت ایسی نہ آئے جو بُری ہو۔ لڑائی مجھے سے دُور رہے اور آگ کا عذاب میرے قریب نہ پہنچے۔
اگر کوئی سپاہی لڑائی میں شامل ہو اور وہ یہ دُعا کرے۔ تو اس کی دُعا کے یہ معنے ہوںگے۔ کہ اس لڑائی کے بد اثرات سے مجھے بچا ۔ بندوق کی گولی آئے تو وہ مس کر جائے۔ میرے دائیں نکل جائے یا بائیں کل جائے۔ اوپر نکل جائے یا نیچے نکل جائے۔
اُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْب’‘
سَرِیْعُ الْحِسَابِoوَاذْکُرُوااللّٰہَ
تُحْشَرُوْنَo
بہر حال وہ مجھے نہ لگے۔ اور میں اس سے محفوظ رہوں پس یہ ایک جامع دُعا ہے جو اسلام نے سکھائی ہے اور جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
۱۱۵؎ تفسیر:۔ کسب کے معنے محنت کر کے کسی چیز کو حاصل کرنے کے ہوتے ہیں لیکن اس جگہ کَسَبُوْا کا لفظ اوپر والی دُعا کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ جو کچھ انہوں نے کمایا اس سے ان کو حصہ ملے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسب کا لفظ زبان یا دل کے مفعل پر بھی بولا جاتا ہے اور مراد یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی نعماء طلب کرتے رہتے ہیں وہ اپنے اپنے اخلاص اور ایمان کے مطابق خداتعالیٰ سے اجر پائیں گے۔
وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور بدی کی جزا میں کوئی دیر نہیں لگتی بلکہ ادھر عمل سرزد ہوتا ہے اور ادھر اس کی جزا ظاہر ہو جاتی ہے یعنی انسان کا ہر عمل اس کے جوارح پر فوراً اثر ڈال دیتا ہے۔ یہ مضمون قرآن کریم میں کئی جگہ بیان ہوا ہے اور حدیثوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص برا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نشان پڑ جاتا ہے اور اگر وہ توبہ نہیں کرتا اور اس کے بد اعمال بڑھتے چلے جاتے ہیں تو یہ سہا نقطے بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اور جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو ایک سفید نقطہ اس کے دل پر پڑ جاتا ہے اور جب اس کے بعد وہ متواتر نیک اعمال بجا لاتا ہے تو یہ سفید نقطے بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں یہا ں تک کہ اس کا سارا دل منور ہو جاتا ہے۔
سَرِیْعُ الْحِسَابِ میں اللہ تعالیٰ کی اسی سنت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر کام کا اثر فوراً انسان کے دل پر پڑجاتا ہے۔ اور یہ بھی ایک قسم کا حساب ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لیا جاتا ہے۔ تازہ تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انسانی حرکت ایسی نہیں جو فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے پس عمل اور اس کی جزایہ دو توام بھائی ہیں کہ ایک کے ساتھ دوسرا بھی ظہور میں آجاتا ہے۔
۱۱۶؎ تفسیر:۔ اس آیت میں جن مقررہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا خصوصیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے وہ ایام تشریق ہیں یعنی ۱۱۔ ۱۲۔۱۳ ذولحجہ یا ایام منیٰ ہیں ۔جو دسویں تاریخ سے شروع ہوتے ہیں اور ۱۳ کو ختم ہو جاتے ہیں۔
فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یُوْمِیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ۔ فرماتا ہے جو شخص جلدی کرے اور دو دنوں میں ہی واپس چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ دراصل دسوین ذوالحجہ کے بعد رمی الجماد کے لئے تین دن رکھے گئے ہیں۔ مگر اجازت ہے کہ کوئی شخص دو دن کے بعد بھی لوٹ آئے ۔ اس بارہ میں امام ابو حنیفہ کا مذہب تو یہ ہے کہ ایام تشریق کے تیسرے دن صبح کے وقت جا سکتا ہے۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ دوسرے دن رمی الجماد کے بعد بھی جا سکتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر عصر کا وقت آجئے تو نہیں جا سکتا۔ اس سے پہلے جا سکتا ہے۔ گویا اس سے تیسرے دن کی رمی معاف ہو گئی۔ پھر بعض نے کہا ہے کہ جس نے تعجیل کی نیت کی اسے چاہیے کہ وہ یام النحر کو رمی کرے۔
پھر فرماتا ہے وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیہِ لِمَنِ اتَّقٰی۔ اور جو شخص پیچھے رہ جائے یعنی تیسرے دن رمی کر کے جائے۔ اسے بھی کوئی گنا ہ نہیں اور یہ وعدہ اس شخص کیلئے ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ لِمَنِ اتَّقٰی کا تعلق تعجمیل کے ساتھ ہے مگر میرے نزدیک اس کا تعلق نہ تعجیل کے ساتھ ہے نہ تاخیر کے ساتھ بلکہ لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کے متعلق لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کے ساتھ ہے ورنہ جو گنہگار ہے وہ تو گہنگار رہی ہے اس کے متعلق لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کہنا تو درست ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ نفی اِنْم صرف ایسے شخص کے لئے ہے جو متقی ہو۔ یعنی اگر وہ کسی اور طرح گنہگار نہیں تو اس تعجیل یا تاخیر سے گنہگار نہیں ہوتا۔
آخر میں وہ اتَّقُوا اللّٰہَ وَاعَلَمُوْا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ ان مناسک کی اصل غرض یہ ہے کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ تمہارا بیت اللہ کا طواف کرنا حجراسود کو بوسہ دینا۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔ مزدلفہ منیٰ عرفات اور مشعرا لحرام میں اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنا۔ اور رمی الجماد کرنا۔ یہ سب اس غرض کے ہئے ہے کہ تمہارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی سچی محبت پیدا ہو اور تم سمجھو کہ ایک دن تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور اکٹھے ہونے والے ہو۔ پس اگر تم نے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھا اور اس کی رہ میں ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کیا اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا تع جس طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ اور اسمٰعیل ؑ اور ہاجرہؓ کو برکت دی تھی۔ اُسی طرح وہ تمہیں بھی برکت عطا فرمائے گا اور تمہاری نسلوں کو بھی اپنی دائمی حفاظت اور پناہ میں لے گا۔ پس تقویٰ کو اپنا شعار بنائو اور اس دن کو یاد رکھو جب تم سب کو اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے خداعتالیٰ کے ضور حاضر ہونا پڑیگا۔
حج کے احکام تو ختم ہو گئے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جگہوں میں جانے اور وہاں چکر لگانے کی کیا حکمتیں ہیں؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ میرے نزدیک اس کی ظاہری حکمتوں میں سے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّ اَوَّلَ بِیْتٍ وُّ ضِعَ لِلنَّاسِ اَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ(آل عمران آیت۹۷) کہ سب سے پہلا گھر جو تمام دنیا کے فائدہ کے لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہیں بنایا بلکہ یہ آدم کے زمانہ سے چلا آتا ہے (خواہ وہ کوئی آدم ہو) پس وُضِعَ لَلنَّاسِ میں پیشگوئی تھی کہ چونکہ خداتعالیٰ نے اسے ساری دُنیا کو اکٹھا کرنے کے لئے بنایا ہے اس لئے تمام لوگوں کو اس جگہ جمع کیا جائیگا چنانچہ اسی غرض کے لئے حج کی خاص تاریخیں مقرر کر دی گئیں۔ گویا دوسرے الفاظ میں تمام دنیا کے لوگ جمع ہو سکیں ۔گویا دوسرے الفاظ میں تمام دنیا کو اکٹھا کرنے اور جہان بھر کے اتقیاء او ر صلحاء کو جمع کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے اپنے مائدہ روحانی پر لوگوں کو ایک عظیم الشان دعوت دی ہے تاکہ قومی اور ملکہ منافرت درمیان سے اُٹھ جائے اورباہمی تعلقات وسیع ہو جائیں۔ اور ایکدوسرے کی محبت ترقی کرے۔ اور یہ خیال کہ ہم فلاں قوم سے ہیں اور ہمار اغیر فلاں قوم سے ہے مٹ جائے۔ میرے نزدیک منیٰ میں لوگوں کے تین دن اسی لئے فارغ رکھے گئے ہیں کہ وہاں لوگ ذکر الہٰی اور عبادت میں اپنا وقت گذارنے کے علاوہ آپس میں ایک دوسرے سے ملیں اور حالات معلوم کریں قادیان اور ربوہ میں بھی لوگ مختلف اوقات میں آتے رہتے ہیں۔ مگر وہ تعلقات نہیں بڑھتے جو جلسہ سالانہ کے ایام میں بڑھتے ہیں۔ اگر حج سے یہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے تو میرے نزدیک وہ تفرقے اور شقاق مٹ سکتے ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کو کمزور کر رکھا ہے۔ اور ان کے درمیان اختلافِ عقائد کے باوجود زبردست اتحاد پیدا ہو سکتا ہے غرض حج گو ایک مذہبی عبادت ہے مگر اس میں روحانی فوائد کے علاوہ یہ ملی اور سیاسی غرض بھی ہے کہ مسلمانوں کے ذی اثر طبقہ میں سے ایک بڑی جماعت سال میں ایک جگہ جمع ہو کر تمام عالم کے مسلمانوں کی حالت سے واقف ہوتی رہے۔ اور ان میں اخوت اور محبت ترقی کرتی رہے اور انہیں ایک دوسرے کی مشکلات سے آگاہ ہونے اور آپس میں تعاون کرنے اور ایک دوسرے کی خوبیوں کو اخذ کرنے کا موقعہ ملتا رہے۔ گو افسوس ہے کہ اس غرض سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حج سے یہی غرضتھی تو پھر مکہ مکرمہ میں ہی کیوں تمام مسلمانوں کا اجتماع کافی تھا عرفات منی ٰ اور مزدلفہ میں جانے کی کیا غرض ہے؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ عفرات منیٰ اور مزدلفہ میں جمع کرنے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ شہر میں اجتماع کی صورت نہیں ہوسکتی اور نہ لوگوں کا آپس میں صحیح رنگ میں میل جول ہو سکتا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو کھلے میدانوں میں جمع ہونے کا حکم دیدیا تاکہ وہاں لوگ آسانی سے ایک دوسرے سے مل سکیں چونکہ جگہ بھی کھلی ہوتی ہے او ر وقت بھی فارغ ہوتا ہے اس لئے ایک دوسرے کو ملنے کا مدعا خوب اچھی طرح پورا ہو سکتا ہے لیکن اس کے علاوہ خداتعالیٰ نے مزدلفہ منیٰ اور عرفات کو اس شرف کے لئے س لئے چُنا ہے کہ عرفا ساحل سمندر کی طرف ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی راستہ سے حضرت ہاجرہؓ اوراسمٰعیل ؑ کو چھوڑنے کے لئے شام سے تشریف لائے تھے۔ اور عرفات وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی ان پر تجلی ظاہرہوئی ۔ اور مزدلفہ وہ مقام ہے جہاں آپ سے یہ وعدہ کیا گیاکہ اس قربانی کے بدلہ میں تجھے بہت بلند درجات عطا کئے جائیںگے اور منیٰ وہ مقام ہے جہاں حضرت ہاجرہؓ گھبرائی ہوئی پہنچتی تھیں مگر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں خدا کے حکم سے تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں تو انہوں نے کہا اِذًا لَّا یُضَیِّعُنَا۔ اگر یہ بات ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا اور وہ واپس چلی گئیں۔ گویا شیطان ہمیشہ کے لئے مار دیا گیا۔ اسلئے یہاں شیطان کو کنکر مارے جاتے ہیںَ
پھر حج بیت اللہ کی ایک غرض شعارء اللہ کا احترام اور ان کی عظمت لوگوں کے دلوں میں قائم کرنا ہے۔ شعائر اللہ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ہیں۔ چونکہ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا ذہن صرف ظاہر سے باطن کی طرف منتقل ہوا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ میں ان کے سامنے ایسے نشانات رکھدیئے جو خداتعالیٰ کو یاد دلانے والے اور اس کی محبت دلوں میں تازہ کرنے ولاے ہیں۔ حج دراصل اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کر تا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاجرہؓ او راسمٰعیل ؑ کو بیت اللہ کے قریب ایک وادی غیر ذی زرع میں انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر سرانجام دی تھی بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ وہ اپنے بچے حضرت اسمٰعیلؑ کی گردن پر چھُری پھیرنے کیلئے تیار ہو گئے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی یاد گھار حج کی صورت میں قائم کر دی۔ حالانکہ اگر یہ درست ہوتا تو چونکہ یہ واقعہ شام میں ہوا تھا۔ اس لئے حج کا اصل مقام شام ہوتا نہ کہ حجاز اور لوگوں وہاں جمع ہو کر خداتعالیٰ کی یاد کرتے اور کہتے ابراہیم نے کس قدر قربنی کی تھی۔ لیکن خداتعالیٰ حج کیلئے مکہ مکرمہ کو چُنا اور منیٰ اور مزولفہ اور عرفات میں جانا اور وہاں مناسک حج بجا لانا ضروری قرار دیا۔ پس میرے نزدیک حج کا تعلق آپکا چُھری پھیرنے کیلئے تیار ہو جانیوالے واقعہ سے نہیں بلکہ اس واقعہ سے ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہؓ اور اسمٰعیل ؑ کو خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک ایسی وادی میں لا کر پھینک دیا جہاں پانی کا ایک قطرہ تک نہ تھا۔ اور کھانے کے لئے ایک دانہ تک نہ تھا جب انسان حج کے لئے جاتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آجاتا ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرنے والے بچائے جاتے ہیں۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی عزت دیتا ہے۔ اور حج کرنے والے کے دل میں بھی خدتعالیٰ کی محبت بڑھتی اور اس کی ذات پر یقین ترقی کرتا ہے پھر وہ اپنے آپ کو اس گھر میں دیکھ کر جو ابتدائے دنیا سے خداتعالیٰ کی یاد کے لئے بنایا گیا ہے۔ ایک عجیب روحانی تعلق ان لوگوں سے محسوس کرتا ہے جو ہزاروں سال پہلے سے اس روحانی سلک میں پروئے چلے آتے ہیں جس میں یہ شخص پرویا ہوا ہے۔ یعنی خداتعالیٰ کی یاد اور اس کی محبت کا رشتہ جو سب کو باندھے ہوئے ہے خواہ وہ پرانے ہوں یا نئے اسی طرح بیت اللہ کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا نقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اور اسے احساس ہوتا ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ نے غیر معمولی طور پر چاروں طرف سے لوگوں کو اس گھر کے گرد جمع کر دیا ہے۔ جب انسان بیت اللہ کو دیکھتا ہے اور اس پر اس کی نظر پڑتی ہے تو اس کے دل پر ایک خاص اثر پڑتا ہے اور وہ قبولیت دعا کا ایک عجیب وقت ہوتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے حج کیا تو میں نے ایک حدیث پڑھی ہوئی تھی کہ جب پہلے پہل خانہ کعبہ نظر آئے تو اس وقت جو دعا کی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے۔ فرمانے لگے اس وقت میرے دل میںکئی دعائوں کی خواہش ہوئی لیکن میرے دل میں فوراً خیال پیدا ہوا کہ اگر میں نے یہ دعائیں مانگیں اور قبول ہو گئیں۔ اور پھر کوئی اور ضرورت پیش آئی تو پھر کیا ہو گا۔ پھر تو نہ حج ہو گاا ور نہ یہ خانہ کعبہ نظر آئیگا۔ کہنے لگے تب میں نے سوچ کر یہ نکالا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کروں کہ یا اللہ! میں جو دعا کیا کروں وہ قبول ہوا کرے۔ تاکہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے ۔ میں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی ہوئی تھی۔ جب میں نے حج کیا تو مجھے بھی وہ بات یاد آگئی۔ جونہی خانہ کعبہ نظر آیا ہمارے نانا جان نے ہاتھ اُٹھائے کہنے لگے دُعا کر لو۔ وہ کچھ اور دُعائیں مانگنے لگ گئے مگر میں نے تو یہی دُعا کی کہ یا اللہ! اس خانہ کعبہ کو دیکھنے کا مجھے روز روز کہاں موقعہ ملے گا۔آج عمر بھر میں قمست کے ساتھ موقع ملا ہے پس میری تو یہی دُعا ہے کہ تیرا اپنے رسول سے وعدہ ہے کہ اس کو پہلی دفعہ حج کے موقعہ پر دیکھ کر جو شخص دعا کریگا وہ قبول ہو گی میری دُعا تھج سے یہی ہے کہ ساری عمر میری دُعائیں قبول ہوتی رہیں۔ چنانچہ اس کے فضل اور احسان سے میں برابر یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ میری ہر دعا اس طرح قبول ہوتی ہے کہ شاید کسی اعلیٰ درجہ کے شکاری کا نشانہ بھی اس طرح نہیں لگتا۔
اسی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگاتے وقت جب انسان دیکھتا ہے کہ ہزاروں لوگ اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں اور ہزاروں ہی اس کے گرد نمازیں پڑھ رہے ہیں تو اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں دنیا سے کٹ کر خداتعالیٰ کی طرف آگیا ہوں اور میرا بھی اب یہی کام ہے کہ میں اس کے حضور سربسجود رہوں۔ پھر سعی بین الصفا و المروۃ میں حضرت ہاجرہؓ کا واقعہ انسان کے سامنے آتا ہے اور اس کا دل اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ انسان اگر جنگل میں بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ڈیرہ لگا دے تو خدا تعالی اُسے کبھی ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے لئے خود اپنے پاس سے سامان مہیا کرتا اور اُسے معجزات اور نشانات سے حصہ دیتا ہے پھر وہاں جتنے مقام شائع کا درجہ رکھتے ہیں ان کے بھی ایسے نام رکھ دیئے گئے ہیں کہ جن سے خداتعالیٰ کی طرف توجہ پیداہوتی ہے مثلا سب سے پہلے لوگ منیٰ میں جاتے ہیں یہ لفظ اُمْنِیْۃ سے نکلا ہے جس کے معنے آرزو اور مقصد کے یہں اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ لوگ اس جگہ محض خدا کو ملنے اور شیطان کامل نفرت اور علیحدگی کا اظہار کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ پھر عرفات ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اب ہمیں خدا تعالیٰ کی پہچان اور اس کی معرفت حاصل وہ گئی ہے اور ہم اس سے مل گئے ہیں اس کے بعد مزدلفہ ہے جو قرب کے معنوں پر دلالت کرتا ہے اور جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ وہ مقصد جس کی ہم تلاش کر رہے ہیں وہ ہمارے قریب آ گیا ہے۔ اسی طرح مشعر الحرام جو ایک پہاڑی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مخلصانہ عقیدت اور ابراہیم کے جذبات ہمارے دلوں میں پیدا کرتی ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر دعائیں فرمایا کرتے تھے۔ پھر مکہ مکرمہ ایسی جگہ ہے جہاں سوائے چند درختوں اور اذخر گھاس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہر جگہ ریت ہی ریت اور کنکر ہی کنکر ہیں اور کچھ چھوٹی چھوٹی گھاٹیاں ہیں۔ غرض وہ ایک نہایت ہی خشک جگہ ہے نہ کوئی سبزہ ہے نہ باغ دنیا کی کشش رکھنے والی چیزوں میں سے وہاں کوئی بھی چیز نہیں۔ پس وہاںجانا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے قرب اور رضا ء کے لئے ہی ہو سکتا ہے اور یہی غرض حج بیت اللہ کی ہے پھر احرام باندھنے میں بھی ایک خاص بات کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کو یوم الحشر کا اندازہ ہو سکے کیونکہ جیسے کفن میں دو چاردریں ہوتی ہیں۔ احرام میں بھی دو ہی ہوتی ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ کے لئے اور دوسری نیچے کے حصہ کے لئے۔ پھر سر بھی ننگا ہوتا ہے اور عرفات وغیرہ میں یہی نظارہ ہوتا ہے۔ جب لاکھوں آدمی اس شکل میں وہاں جمع ہوتے ہیں توحشر کا نقشہ انسان کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کہ ہم خداتعالیٰ کے سامنے ہیں اور کفن میں لپٹے ہوئے ابھی قبروں سے نکل کر اس کے سامنے حاضر ہوئے ہیں پھر حج بیت اللہ میں حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسمٰعلؑ حضرت ہاجرہؓ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی واقعات زندگی انسان کی آنکھوں اور عرفان پیدا ہوتا ہے۔ یوں تو اور قوموں نے بھی اپنے بزرگوں کے واقعات تصویری زبان میں کھینچنے کی کوشش کی ہے جیسے ہندو و دسہرہ میں اپنے پُرانے تاریخی واقعات دہراتے ہیں مگر مسلمانوں کے سامنے خداتعالیٰ نے ان کے آبائو اجداد کے تاریخی واقعات کو اسی طرز پر رکھا ہے کہ اس سے پرانے واقعات کی یا د بھی تازہ ہو جاتی ہے۔ اور آئندہ پیش آنے والے حادثہ یعنی قیامت کا نقشہ بھی اانکھوں کیسامنے کھچ جاتا ہے اسی طرح رمی الجماد کی اصل غرض بھی شیطان سے بیزاری کا اظہار کرنا اور ان جماد کے نام بھی ھمرۃ الدنیا۔ جمرۃ الوسطیٰ اور جمرۃ العقبیٰ اس لئے رکھے گئے ہیں کہ انسان اس امر کا اقراء کرے کہ وہ دنیا میں بھی اپنے آپ کو شیطان سے دور رکھے گا اور عالم برزخ اور عالم عقبیٰ میں بھی ایسی حالت میں جائیگا کہ شیطان کو کائی اثر اُس کی روح پر نہیں ہو گا۔ اسی طرح ذبیحہ سے اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رکھے اور جاب بھی اس کی طرف سے آواز آئے وہ فورا اپنا سر قربنی کے لئے جھکا دے اور اس کی راہ میں اپنی جان تک دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔ پھر سات طواف سات سعی اور سات ہی رمی یہں۔ اس سات کے عدد میں روحانی مدارج کی تکمیل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ اس کے بھی سات ہی درجے ہیں جن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ سورہ مومنوں میں ان درجات کی تفصیل دی گئی ہے اسی طرح حجر اسود کہ بوسہ دینا بھی ایک تصویری
وَمِنَ النَّاسِ
اَلَدُّالْخِصَامِo
زبان ہے بوسہ کے ذریعہ انسان اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں اس وجود کو جس کو میں بوسہ دے رہا ہوں اپنے آپ سے جدارکھنا پسند نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے جسم کا ایک حصہ بن جائے۔ غرض حج ایک عظیم الشان عبادت ہے جو ایک سچے مومن کے لئے ہزاروں برکات اور انوار کا موجب بنتی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ آجکل مسلمان صرف رسمی رنگ میں یہ فریضہ ادا کرنے کی وجہ سے اس کی برکات سے پوری طرح متمتع نہیں ہوتے۔
۱۱۷؎ حل لغات: مسَالَدُّ الْخِصَامِ: اَلَدّ لَدَّ یَلِدُّ سے اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور اَلَدُّ کے معنے ہیںاَلشَّدِ یْدُ الْخُصُوْ مَۃِ۔ وہ دشمن جو دشمنی میں بہت بڑھا ہوا ہو۔ خِصَام’‘ یہ مصدر ہے جس کے معنے مجادلہ یعنی جھگڑے کے ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ جب وہ کسی مجلس میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرتے ہیں تو تم سمجھتے ہو واہ وا یہ کتنے عقلمند اور سمجھدار ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے سارے علوم پر حاوی ہیں اور انکی عقل کو کوئی پہنچ نہیں سکتا اور پھر وہ اپنی دینداری کے متعلق اتنا یقین لوگوں کو دلاتے ہیں کہ کہتے ہیں خدا کی قسم ہمارے دل میں جو نیکیاں بھر ہوئی ہیں ان کو کوئی نہیں جانتا ہم سے مشورہ لیا جائے تو ہم یوں کر دیں گے دوں کردیں۔ مگر فرماتا ہے حقیقت کیا ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ بدتریں دشمن جوتمہارے ہو سکتے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ جھگڑا لو اور خطرناک ہوتا ہے وہ ہوتا تمہارے ساتھ ہے وہ مسلمان کہلاتا ہے اور جب کسی مجلس میں بیٹھ جاتا ہے تو ساری مجلس پر چھا جاتا ہے اور اپنی دینداری او ر تقویٰ پر قسمیں کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا دل تو قوم کے لئے کھلا جا رہا ہے ۔ جب دیکھنے والا اسے دیکھتا ہے اورسننے والا اس کی باتیں سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ قطب الاقطاب بیٹھا ہے مگر فرماتا ہے ۔ دنیا میں تمہارے یہودی بھی دشمن ہیں۔ عیسائی بھی دشمن ہین او رقومیں بھی دشمن ہیں مگر یہ ان سے بھی بڑا اور خطرناک دشمن ہوتا ہے بظاہر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کا ایک مجسمہ ہے لیکن معاملہ پرعکس ہوتا ہے وہ کوئی دینی نکتے بیان نہیں کرتا بلکہ دنیوی امور کے متعلق ایسی باتیں کرتا ہے جو بظاہر تو بڑی اچھی ہوتی ہیں مگر درحقیقت ان کی تہہ میں منافقت کام کر رہی ہوتی ہے۔ اور پرھا س کے جھوٹا ہونے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خداگواہ ہے میرے دل میں تو اخلاص ہی اخلاص ہے اور میں تو محض اپنے دوستوں کی خیر خواہی اور بھلائی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوں۔ فرماتا ہے تم ایسے شخص کی چکنی چپڑی باتوں سے کبھی دھوکا نہ کھائو۔ اور جب بھی تمہیں کوئی ایسا شخص نظر آئے۔ فوراً لاحول پڑھ کر اس سے علیٰحدہ ہو جائو اور سمجھ لو کہ تمہارے سامنے ایک شیطان بیٹھا ہے جو قسمیں کھا کھا کر اور اپنی خیر خواہی کا لوگوں کو یقین دلا دلا کر انہیں دھوکا اور فریب دے رہا ہے۔
وَاِذَا تَوَلّٰی
لَایُحِبُّ الْفَسَادَo
۱۱۸؎ حل لغات:۔ تَوَلّٰی:وَلِیَ سے باب تفعل ہے اور اَلتَّوَلِّیْ کے معنے ہیں اَلْاِنْصِرَافُ بَالْبَدْنِ اَوِ الْقَوْلِ۔ بدن کے ساتھ پھر جانا یعنی پیٹھ پھیر لینا۔ مرتد ہو جاتا یا اپنی بات سے پھر جانا۔ حاکم اور والی بن جانا۔
اَلْحَرْثُـ: کے معنے ہیں مَایَسْتَنْبُتُ بِالْبَذْرِ وَالنَّوٰی وَالْغَرْسِ۔ یعنی جو چیز بیج گٹھلی یا پودے سے اُگائی جائے۔(اقرب)
نَسْل کے معنے ہیں (۱) عقب یعنی اولاد بیٹے بیٹیاں (۲) مخلوق (۳) اگلی نسل یعنی صرف بیٹوں تک نہیں بلکہ دس دس بیس بیس پشتوں تک جو اولاد چلتی ہے اُسے بھی نسل ہی کہتے ہیں۔
تفسیر:۔ فرمایا ایسے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ رعایا اور ملک کی خدمت کریں بجائے اس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیر اختیار کرنی شروع کر دیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور ملک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے ملک کی تمدنی اور اخلاقی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ حرث کے لغوی معنے تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حرث کا لفظ استعارۃً وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع ملک کی تمدنی حالت کو بہت بنانے والے ہوتے ہیں ان ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدن تباہ ہو۔ اقتصاد برباد ہو۔ مالی حالت میں ترقی نہ ہو۔ اس طرح وہ نسل ِ انسانی کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں۔ اور ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپنی طاقتوں کو کھو بیٹھتی ہیں اور ایسی تعلیمات جن کو سیکھ کر وہ ترقی کر سکتی ہیں ان سے محروم ہو جاتی ہیں۔
پھر فرمایا ہے کہ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ اللہ تعالیٰ فساد پسند نہیں کرتا۔ اس لئے ایسے بادشاہ اور حکمران خداتعالیٰ کی نگاہ میں مغضوب ہیں اور وہ ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک وہی بادشاہ صحیح معنوں میں بادشاہ کہلا سکتا ہے جو لوگوں کے لئے ہر قسم کا امن مہیا کرے۔ ان کی اقتصادی حالت کو درست کرے اور انکی جانوں کی حفاظت کرے۔ کیا بلحاظ صحت کا خیال رکھنے کے اور کیا بلحاظ اس کے کہ وہ غیر ضروری جنگیں نہ کرے اور اپنے ملک کے افراد کو بلاوجہ مرنے نہ دے ۔ گویا ہر قسم کے امن اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلام کے نزدیک حکومت پر عاید ہوتی ہے۔ اور وہ اس امر کی پابند ہے کہ ملک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی کا ہمیشہ خیال رکھے۔
وَاِذَ قِیْلَ لَہُ
وَلَبِئْسَ الْمِھَادُo
۱۱۹؎ حل لغات:۔اِتَّقِ: وَتَی یَقِی سے باب افتعال کا امر کا صیغہ ہے اس کے اصل معنے یہ ہیں کہ انسان اس چیز سے جو سامنے سے آرہی ہو بچنے کے لئے ہٹ جائے مگر یہ معنے اس جگہ چسپاں نہیں ہوتے کیونکہ انسان خداتعالیٰ سے نہیں بچ سکتا ۔ خواہ وہ کسی جگہ چلا جائے بہر حال دوسرے معنے ہی لینے پڑیں گے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی حفاظت کا ذریعہ بنا لے۔
اَخَذَ تْہُ : اَلْاَخُذُ کے معنے ہیں حَوْزُ الشَّیئِ وَتَحْسِیْلُہ‘۔۔۔۔۔ وَتَارَہْ بِالْقَھْرِ۔ کسی چیز کو زبردستی لے لینا یا حاصل کرنا یا پکڑ لینا (اقرب) اور اَخَذَ تْہُ بِکَنَا کے معنے ہیں حَمَلَتْہُ عَلیٰ کَذَا۔ اُسے کسی کام پر اکسا دیا یا اُس کی ترغیب دی۔
اَلْعِزَّۃُ: وَرُبَمَا اسْنُعِیْرَتِ الْعِزَّۃُ اِلْحَمِیَّۃِ و الْاَنْفَۃِ الْمَذْمُوْ مَۃِ۔ وَمِنْہُ فِی الْقُرٓاٰنِ وَاِذَ قِیْلَ لَہ‘ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِذَّۃُ الْعِذَّۃُ بَالْاِثْمِ (اقرب) یعنی بعض اوقات عَزۃ کا لفظ بطور استعارہ جھوٹی غیرت اور پچ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس اَخَذَ تْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ کے معنے یہ ہوئے کہ جھوٹی قومی غیرت نے اُسے گناہ کی خاطر گھیر لیا یا اُسے گناہ پر آمادہ کر دیا۔
جَھَنَّم: وَارُ الْعِقَابِ بَعْدَ الْمَوْتِ۔ یعنی جہنم موت کے بعد سزا کی جگہ کا نام ہے (اقرب) جہنم کے لئے قرآن کریم میں اور بھی کئی لفظ آتے ہیں۔ جیسے جَحِیْم۔ سَعِیْر۔ سَقَرْ ۔ لظَی وغیرہ۔
تفسیر:۔فرماتا ہے جب اُسے کہا جائے کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ تم تو دو کوڑی کے بھی آڈمی نہیں تھے تمہیں تو جو کچھ ملا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کیو جہ سے ملا ہے ۔ تو اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ۔ اُسے اپنی جھوٹی عزت کی پچ گناہوں پر اور زیادہ دلیر ہوتی ہے۔ اس کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ اس کے پہلے گناہوں اور شاعت اعمال کی وجہ سے ہتک عزت کا جنون اس کے سرپر سوار ہو جاتا ہے اور اسے ہدایت سے اور زیادہ دور پھینک دیتا ہے۔ اور یہ بھی کہ اپنی عزت کی پچ اُسے گناہوں کے لئے پکڑلیتی ہے یعنی اس سے اور زیادہ گناہوں کا ارتکاب شروع کرا دیتی ہے۔ فرماتا ہے یہاں ممکن ہے تم لوگوں کو فریب دے لو لیکن آخر جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے۔ وَلَبِئْسَ الْمِھَادِ۔اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے ۔ جہنم بے شک اگلے جہان میں ہے لیکن ایک جہنم ایسے انسانوں کے لئے اس جہان میں بھی پیدا کر دیا جاتا ہے جب شریف انسان مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں تو انہیں ایسا جواب مل جاتا ہے کہ یہی دنیا ان کے لئے جہنم بن جاتی ہے افسوس ہے کہ دنیا میںبہت سے لوگ صرف اس لئے اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کہ جب انہیں ان کی غلطی بتائی جائے او رکہا جائے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ تو اپنی ہتک عزت کے خیال سے وہ دیوانہ نہ ہو کر بجائے نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے ناصح کا مقابلہ کرنے لگ جاتے ہین مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کسی میں کوئی غلطی یا نقص دیکھے بازار میں کھڑے ہو کر اُسے تبنیہہ کرنا شروع کردے۔ سمجھانا ہمیشہ علیحدگی میں چاہیے۔ اور سمجھانے والے کو اپنی حیثیت اور
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ
بِالْعِبَادِo
قابلیت بھی دیکھنی چاہیے کہ وہ جس شخص کو سمجھانا چاہتا ہے اسے سمجھانے کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ تاکہ اس کا اُلٹا نتیجہ نہ نکلے غرض جہاں غلطی کرنے والوں کو برداشت کی طاقت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے اور سمجھانے والاے کی بات کو ٹھنڈے دل سے سنُنا چاہیے۔ وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ سمجھانے والا احتیاط سے کام لے۔ یہ نہ ہو کہ وہ جس کو چاہے لوگوں میں ذلیل کرنا شروع کر دے۔ اس مثال کو حج کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ حج کی بڑی غرض قومی تفرقوں کو مٹا کر اتفاق و اتحاد اور محبت و یگا نگت کے تعلقات کو بڑھانا ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا میں لڑتے جھگڑتے اور فساد پیدا کرتے رہتے ہیں۔ انہیں متوجہ کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتا ہے تو انہیں بھی چاہیے کہ وہ اتفاق و اتحاد قائم رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے کینے اور بغض چھوڑدیں۔ درحقیقت صحیح معنوں میں حج کرنے والا صرف وہی شخص کہلا سکتا ہے جو اس قسم کے فتنہ و فساد سے مجتنب رہے۔لیکن جو شخص فساد کرتا اور بنی نوع انسان کو دکھ پہنچاتا ہے وہ اپنے عمل سے اس وحدت اور مرکزیت کو نقصان پہنچاتا ہے جس کو قائم کرنے کیلئے اسلام نے حج بیت اللہ کا حکم دیا ہے۔
۱۲۰؎ حل لغات:۔ یَشْریْ:شَریٰ سے مضارع کا صیغہ ہے اور شَرَیٰ کے معنے خریدنے اور بیچنے دونوں کے ہوتے ہیں۔(اقرب)
رَئُ وْف’‘: رَئوف’‘ فَعُوْل’‘ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ رَئُ وْف’‘ رَأ فَۃ’‘ سے ہے اور رافت کے معنے تکلیف کو دیکھ کر اس کے دور کرنے کی طرف توجہ کرنے کے ہیں۔ رافت اور رحمت دونوں ہم معنے لفظ ہیں مگر رحمت وسیع ہے اور رافت قدرے محدود ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اُسے چھڑانا۔ پس رئوف کے معنے ہوئے تکلیف میں دیکھ کر چھڑانے والا۔ رحمت دُکھ و سکھ دونوں کے لئے ہوتی ہے۔ مگر رافت ہمیشہ دکھ پر ہی ہوتی ہے گویا رحمت عام ہے اور رافت خاص۔
تفسیر:۔ اس مثال میں بتایا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ اُسے بھی خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیتے ہیں اور جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے اپنی جان کو بھی قربان کر دیتے ہیں اور جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے اپنی جان کو بھی قربان کرنے پر تیار رہتے ہوں وہ دورسروں کو نقصان پہنچانے کیلئے کب کوئی قدم اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ مثلال دیکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہیں بھی آخر الذکر گروہ کا سا طریق اختیار کرنا چاہیے اور نہ صرف فتہنہ و فساد سے مجتبب رہنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دینا چاہیے۔
وَاللّٰہُ رَئْ وْف’‘ بِالْعِبَادِ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی شفقت کر نے والا ہے۔ اس کی شفقت کا تقاضا ہے کہ تم بھی فتنہ و فساد سے بچو ۔ اور اپنی زندگیوں کو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کرو تاکہ تم بھی رئوف بالعباد خدا کے مظہر بن جائو۔
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا
عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘o
۱۲۱؎ حل لغات:۔ اَلسِّلْمُ کے معنے ہیں اَلصُّلحُ۔ اَلسَّلَامُ وَالْاِسْلَامُ (اقرب) یعنی (۱) صلح (۲) امن کو قائم کرنا (۳)اسلام۔
کَآفَّۃً۔ کَفّ’‘ کے معنے ہیں جمع کرنا۔ روکنا۔ پس کَآفَّۃ’‘ کے معنے جمع کرنے والے یاروکنے والے کے ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتاہے۔ اے مومنو! تم سارے کے سارے پورے طور پر اسلام میں داخل ہو جائو اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر کامل طور پر کرھ لو۔ یا اے مسلمانو تم اطاعت اور فرمانبرداری کی ساری راہیں اختیار کرو۔ اور کوئی بھی حکم ترک نہ کرو۔ اس آیت میں کَآفَّۃً اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا بھی حال ہو سکتا ہے اور اَلسِّلْمِ کا بھی۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جائو یعنی تمہارا کوئی فرد بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اطاعت اور فرمانبرداری کے مقام پر کھڑا نہ ہو۔ یا جس میں بغاوت اور نشوز کے آثار پائے جاتے ہوں۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم پورے کا پورا سلام قبول کرو۔ یعنی اس کا کوئی حکم ایسا نہ ہو جس پر تمہارا عمل نہ ہو۔ یہ قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ ہر مومن سے چاہتا ہے کہ انسان اپنی تمام آرزوئوں تمام خواہشوں اور تمام امنگوں کو خداتعالیٰ کے لئے قربان کر دے اور ایسا نہ کرے کہ جو اپنی مرضی ہو وہ تو کر لے اور جو نہ ہو وہ نہ کرے۔ یعنی اگر شریعت اس کو حق دلاتی ہو تو کہے میں شریعت پر چلتا ہوں اور اسی کے ماتحت فیصلہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر شریعت اس سے کچھ دلوائے اور ملکی قانون نہ دلوائے تو کہے کہ ملکی قانون کی رو سے فیصلہ ہونا چاہیے۔ یہ طریق حقیقی ایمان کے بالکل منافی ہے۔ چونکہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کمزور لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو قومی ترقی اور رفاہیت کے دور میں فتنہ و فساد پر اُتر آتے ہیں۔ اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری پہلی حالت کیا تھی او رپھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں کیا کچھ عطا کر دیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت فرماتا ہے کہ بے شک تم مومن کہلاتے ہو مگر تمہیںیاد رکھنا چاہیے کہ صرف مونہہ سے اپنے آپ کو مومن کہنا تمہیں نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ تم اگر نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اول ہر قسم کی منافقت اور بے ایمانی کو اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرو۔ اور قوم کے ہر فرد کو ایمان اور اطاعت کی مضبوط چٹان پر قائم کر دو۔ دوم صرف چندا حکام پر عمل کر کے خوش نہ ہو جائو۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل بجالائو۔ اور صفاتِ الہیہ کا مل مظہر بنے کی کوشش کرو۔
پھر فرماتا ہے وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ‘ لَکُمْ عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘۔ تم شیطان کے پیچھے نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس آیت میں خطوات کا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ شیطان ہمیشہ قدم بقدم انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ کبھی یکدم کسی انسان کو بڑے گناہ کی تحریک نہیں کرتا۔ بلکہ اسے بدی کی طرف صرف ایک قدم اٹھانیکی ترغیب دیتا ہے اور جب وہ ایک قدم اُٹھا لیتا ہے تو پھر دوسرا قدم اُٹھانیکی تحریک کرتا ہے اس طرح آہستہ آہستہ اور
فَاِنْ زَلَلْتُمْ
عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘o
ھَلْ یَنْظُرُوْنَ
تُرْجَعُ الْاُمُوْرُO
قدم بقدم اسے بڑے گناہوں میں ملوث کر دیتا ہے پس فرماتا ہے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تمہاراصرف چند احکام پر عمل کر کے خوش ہوجانا اور باقی احکام کو نظر انداز کر کے سمجھ لینا کہ تم پکے مسلمان ہو ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ اگر تم اسی طرح احکام الہیہ کو نظر انداز کرتے رہے تو رفتہ رفتہ جن احکام پر تمہارا اب عمل ہے ان احکام پر بھی تمہار ا عمل جاتا رہیگا۔ پس اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہو۔ اور شیطانی وساوس سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرو۔
۱۲۲؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے اگر تم اپنی اصلاح نہیں کرو گے اور طاقت اور قوت حاصل کرنے کے بعد بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی بجائے ان پر ظلم کرنا شروع کروگے۔ اور انہیں مالی اور جسمانی نقصانات پہنچائو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمہارے سر پر ایک غالب خدا موجود ہے جو تمہیں سزا دینے کی بھی طاقت رکھتا ہے اور تم سے تمہارا اقتدار بھی چین سکتا ہے۔ پس خداتعالیٰ سے ڈرو جو ایکدم میں تمہیں بادشاہ سے گدا اورامیر سے فقیر بنا سکتا ہے اور تمہاری عزت کو ذلت میں بدل سکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی حکیم کہہ کر بتایا کہ اس کا کوئی فعل ظالمانہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر کام کے پیچھے بڑی بڑی حکمتیں کام کر رہی ہوتی ہیں ۔ پس اس کی سزا بھی ظالمانہ نہیں ہوتی بلکہ انسان اصلاح کے لئے ہوتی ہے۔ اگر لوگ اپنی درنگی چھوڑ دیں اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلیں۔ اور بنی نوع انسان کی خدمتد اپنا شعار بنا لیں اور سچائی اور راستی اور دیانت اور امانت کو اختیار کر لیں اور ہر قسم کا کھوٹ اپنے دلوں سے نکال دیں اور پاک باطن اور نیک دل اور بااخلاق اور خدا ترس بن جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتا اور انکی تضرعات کو سنتا اور ان کی ناکامیوں اور ذلتوں کو کامیابیوں اور عزتوں میں بدل دیتا ہے۔
۱۲۳؎ تفسیر:۔ اس میں بتایا کہ یہ کفار جو مسلمانوں کی مخالفت کر رہے ہیں اور منافق جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور اسلام کی تباہی کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر تو اس بات کے منتظر ہیں کہ کب وہ دن آئے کہ اسلام دنیا سے مٹ جائے اور خدائے واحد کی حکومت پر شیطانی طاقتیں غلبہ حاصل کر لیں لیکن درحقیقت اپنے عمل سے وہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس بادلوں کے خیالوں میں آئے۔ یعنی اپنی مخفی تدبیر سے ان کی ہلاکت اور بربادی کے سامان پیدا کر دے۔ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ آسمان سے اس کے فرشتے نازل ہوں جو انہیں کچل کر رکھ دیں۔ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کوئی ایسا نشان ظاہر ہو
سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ
شَدِیْدُ الْعِقَابO
جس کے نتیجہ میں یہ روز روز کے جھگڑے مٹ جائیں اور خداتعالیٰ کا آخری فیصلہ ایک چمکتے ہوئے نشان کی صورت مین سب کو نظر آجائے۔ اور آخر ایک دن ایسا ہی ہوگا۔ خدا ان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو گا اور ان کی ہلاکت کی ساعت ان کے سروں پر منڈلانے لگے گی۔ چنانچہ جنگِ بدر میں خداتعالیٰ بادلوں میں سے ہی اپنا چہرہ ظاہر کیا۔ یعنی ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بارش ہوئی جس سے کفار کو شدید نقصان اور مومنوں کو جنگی لحاظ سے عظیم الشان فائدہ پہنچا اور پھر مومنوں کی مدد اور کفار پر رُعب طاری کرنے کے لئے ملائکہ بھی دلوں پر نازل ہوئے۔ بلکہ جنگِ بدر میں کئی کفار نے ملائکہ کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا۔ اور قُضِیَ الْاَمْرُ کے ماتحت عرب کے سردار چُن چُن کر مارے گئے۔ یہاں تک کہ وہ بھی جسے وہ سیدالوادی کہتے تھے دو انصاری لڑکوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اور مکہ میں ایسا کہرام مچا کہ کوئی گھر نہ تھا جس میں ماتم نہیں پڑاہو۔ اور گو یہود اس کا براہ راست کوئی اثر نہیں پڑا مگر اس جنگ کے نتیجہ میں ہی ان کی شرارتیں ظاہر ہوئیں۔ اور آخر وہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے۔ غرض ان کا منہ مانگا نشان انہیں مل گیا اور ان کی شوکت کی جڑھ کاٹ کر رکھ دی گئی اور پھر یہی سلوک بعد میں پیدا ہونے والے دشمنوں سے بھی ہوتا رہا اور خداتعالیٰ انہیں اپنی قہری تجلی کے جلوے بار بار دکھاتا رہا یہاں تک کہ اسلام دنیا پر غالب آگیا۔
۱۲۴؎ تفسیر:۔میں ترتیب مضمون کو بیان کرتے ہوئے اوپر بتا چکا ہوں کہ اس جگہ یہود مخاطب ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس پیشگوئی پر بحث ہو رہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق تھی۔ اور آپ کو اس پیشگوئی کا مصداق ثابت کیا جارہا ہے۔ چنانچہ اسی تسلسل میں اللہ تعالیٰ نے وَمِنْ حِیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ میں فتح مکہ کی پیشگوئی کی۔ یہ پیشگوئی اس وقت کی گئی تھی جبکہ مکہ پر کفار کاغلبہ اور حکومت تھی اور مسلمان مدینہ میں پناہ ڈھونڈ رہے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعے بتایا کہہ ایک وقت آئیگا جب تم مکہ فتح کر لو گے اور تمہارے لئے حج بیت اللہ کے راستے بالکل کھل جائیں گے۔ پھر اسی ضمن میں صلح حدیبیہ کی بھی پیشگوئی کی کیونکہ بتایا کہ اگر تمہیں عمرہ سے روکا جائے تو تمہیں کیا کرنا چاہیے۔ گویا پہلے سے پیشکوئی کر دی کہ تمہیں ایک زمانہ میں عمرہ کرنے سے بھی روکا جائیگا۔
اسی طرح مَنْلَمْ یَکُنْاَھْلُہ‘ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَام میں یہ اشارہ مخفی تھا کہ مکہ ایک دن تمہارے لئے گھر کے طور پر بننے والا ہے۔ غرض ان آیات میں یہ بتایا گیا تھا کہ مکہ کے دروازے تمہارے لئے کھلنے والے ہیں۔ اور تم اس میں امن سے داخل ہو گے۔ چانچہ فتح مکہ سے پہلے ہی فرما دیا کہ فَاِذَا امِنْتُمْ جب تم امن میں آجائو تو ایسا کرو۔
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ
بِغَیْرِ حِسَابٍO
اب ان پیشگوئیوں کے ساتھ ہی بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم ان سے پوچھو کہ ہم نے انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے کس قدر کھلے نشانات دکھائے ہیں اور یہ جو ہم نے فتح مکہ کی پیشگوئی کی ہے یہ بھی ایک زبردست نشان ہے جس سے ثابت ہو جائیگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ پس وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی عظیم الشان نعمت یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی ناقدری کرتے ہوئے اسے مٹانے کے درپے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں سخت سزا دیگا۔ چنانچہ فتح مکہ کے ساتھ ہی یہود کی بھی انتہائی ذلت ہوئی اور وہ بھی تباہ ہوتے چلے گئے۔
اس آیت کا ایک یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے یہود کو پہلے بھی بہت سے نعمتیں عطا فرمائی تھیں جن کی انہوں نے ناشکری کی مثلاً سب سے بڑی نعمت تو ان پر یہی نازل ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے متواتر انبیاء ان میں مبعوث فرمائے لیکن یہود نے ہمیشہ ان کی تکژیب کی اور ان کی مخالفت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ یہاں تک کہ بعض انبیاء کو انہوں نے جان سے بھی مارڈالا۔ یہ خداتعالیٰ کی نعمت کی ایک عظیم الشان ناشکری تھی جو ان سے ظاہر ہوئی۔ اسی طرح عیسائیوں نے جو یہود کی ایک شاخ ہیں اس قدر ناشکری کی کہ شریعت کو *** قرار دیدیا۔ غرض یہود کی ان متوتر شرکشیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتِ نبوت ان سے واپس لے لی کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا الہٰی سنت کے مطابق وہ نعمتیں اس سے چھین لی جاتی ہیں اور اسے رنج و غم اور حسر ت ویاس کے لمبے عذاب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔
۱۲۵؎ تفسیر:۔ فرمایا یہ لوگ ابھی اس پیشگوئی کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ کیونکہ دنیا اپنی تمام دلفریبیوں اور عنائیوں کے ساتھ ان کے سامنے کھڑی ہے اور طاقت اور دولت کے نشہ نے ان کی نگاہوں کو ایسا خیرہ کر رکھا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں ہم مسلمانوں سے کہاں شکست کھا سکتے ہیں بلکہ وہ ان پیشگوئیوں پر مسلمانوں سے تمسخر کرتے اور ان کا مضحکہ اُڑاتے ہیں اور انہیں طعنے دیتے ہیں کہ ہمیں تو نقدمل رہا ہے۔ تمہارا انعام کہاں ہے مگر ایک دن ان کو معلوم ہو جائیگا کہ ہم کس طرح مسلمان کو غلبہ عطا کرتے اور کفار کو نیچا دکھاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ جب قیامت کا دن آئیگا تو متقی لوگ ان کفار پر غالب ہونگے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کا نظارہ اس قیامت کے دن بھی ہو گا۔ جو مرنے کے بعد آنے والا ہے جب کہ کفار دوزخ میں جائیں گے اور مومن جنت میں اور وہ ہمیشہ کے لئے جوق ہو جائیں گے کیونکہ آخرت میں مقابلہ تو ہے نہیں کہ دوزخی جنتیوں پر کسی وقت فوقیت لے جاسکیں۔ مگر اس قیامت کے دن سے لوگ نصیحت حاصل نہیں کر سکتے اور نہ اسے حجت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور اس آیت میں اس غلبہ کو بطور دلیل صداقت پیش کیا گیا ہے۔ پس اس آیت میں یومِ قیامت سے مراد وہی دن ہے جس دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح حاصل ہوئی اور کفار کو شکست جس دن دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ ہو جو اکیلا اور بے یارومددگار تھا اور قوم کے ظالموں کا نشانہ بنا ہوا تھا وہ تو حاکم ہو گیا اور جو ملک کے بادشاہ اور حکمران تھے محکوم اور ذلیل ہو گئے۔
وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا کے الفاظ میں مومنوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کفار پر حقیقی غلبہ حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑی چیز کی تمہیں ضرورت ہے وہ تقویٰ ہے بیشک ایمان بھی ایک قیمتی دولت ہے لیکن اگر اس ایمان کے مطابق عل نہیں تو وہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں کوئی قیمت نہیں رکھتا۔
واللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ میں بغیر حساب کے الفاظ کفار کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے ہیں۔ اور جب کوئی چیز بے حساب ملے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بدلہ سے بہت زیادہ ہے۔ حساب کر کے تو جتنا کسی کا حق بنتا ہے اتنا ہی دیا جاتا ہے مگر بغیر حساب کے اسی صورت میں دیا جاتا ہے جب حق ہے زیادہ دیا جائے ۔ پس ان الفاظ میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ مومنوں کو ان کے بدلہ سے بہت بڑھ چڑھ کر انعام ملیگا۔ دوسرے اس میں کفار کو بتایا کہ تم کو جو کچھ ملا ہے اس کے متعلق تو تم سے پوچھا جائے گا کہ کس کس طرح خرچ کیا ہے لیکن ان کو اس طرح ملے گا کہ ان سے حساب بھی نہیں لیا جائیگا۔ گویا تم کو تو ملازموں کی طرح ملا ہے اور تم اس میں خیانت کر کے سزا کے موردبنتے ہو۔ لیکن ان کو ہدیہ کے طور پر ملیگا۔ اور اس میں تصرف کا ان کو اختیار کامل ہو گا۔ دراصل سلوک دو قسم کا ہوتا ہے ایک دوستانہ اور دوسرا ملازمانہ ۔ چونکہ دوستی میں غیریت باقی نہیں رہتی اس لئے فرمایا کہ ہم مومنوں کو بغیر حساب دینگے اور ان سے ایسا سلوک کریں گے جو ایک دوست دوست سے کرتا ہے۔ چنانچہ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایکدفعہ فرمایا کہ میر امت میں سے سترہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے لیکن جس کے ساتھ غیریت کا معاملہ ہو اس سے سختی کے ساتھ حساب لیا جاتا ہے اور حساب ہی کے مطابق اسے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں کفار کے متعلق یہ الفاظ کہیں استعمال نہیں ہوئے کہ انہیں بغیر حساب دیا جائیگا۔ بلکہ ان کے متعلق جہاں بھی آیا ہے یہی آیا ہے کہ وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی ایک دفعہ فرمایا مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ یعنی وہ شخص جس کا سختی سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات سنی تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ کیا قرآن میں یہ نہیں آتا کہ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومنوں کا بھی حساب ہو گا۔ آپ نے فرمایا حساب سے مراد یہ ہے کہ پوری طرح حساب لیا جائے۔ ورنہ مومن کا حساب تو محض سرسری ہو گا(بخاری کتاب الرقاق) پس مومنوں کو جو کچھ ملے گا بغیر حساب کے ہی ملے گا۔ اسی طرح بغیر حساب کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ختم ہونے والا انعام ملے گا۔ اور چونکہ یہ آیت اس دنیا کے غلبہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس لئے وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کی قربانیوں سے بہت زیادہ اجر عطا فرمائیگا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی میں اس دنیا میں جو کچھ ملا وہ بے حساب ہی ملا۔ بے شک ان کی قربانیوں کی چمک بھی آنکھوں
کَانَ النَّاسُ
صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍO
کو خیرہ کرنے والی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جو انہیں دینی اور دنیوی رنگ میں غیر معمولی اجر عطا فرمایا وہ ان کی قربانیوں سے بہت زیادہ تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو مادی رنگ میں انہیں تختِ شاہی پر بٹھا دیا اور دوسری طرف روحانی رنگ میں انہیں ایسی برکات سے نوازا کہ رَضِیَ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کا دائمی سرٹیفیکٹ انہیں حاصل ہو گیا۔
وَاللّٰہ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ میں کفار کے اس شبہ کا بھی ازالہ کیا گیا ہے کہ یہ مٹھی بھر مسلمان ہم پر کس طرح غالب آسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ جب کسی قوم پر اپنے انعامات نازل کرنا چاہے تو اسے بے حساب انعام دیا کرتا ہے۔ بے شک تم حساب کی رو سے یہی سمجھتے ہو کہ ایک شخص دو پر غالب نہیں آسکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا سلوک مسلمانوں سے اس سے بالکل مختلف ہو گا۔ ان کا ایک شخص تمہارے دو پر ہی نہیں بلکہ ان کا ایک آدمی تمہارے دس آدمیوں پر بھی غالب آجائیگا۔ اور فتح و کامیابی کا پرچم لہراتے ہوئے واپس لوٹے گا۔
۱۲۶؎ تفسیر:۔ اس آیت کے متعلق بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے آیا یہ کہ لوگ ایک اُمت تھے یعنی سب نیک تھے پھر نبی آئے اور اختلاف ہو گیا۔ یا یہ کہ لوگ بدتھے اور نبی آئے۔ میرے نزدیک اس کے یہی معنے ہیں کہ لوگ بد تھے اور نبی آئے۔ اس کی دلیل قرآن کریم سے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ نبی لوگوں کی خرابی پر ہی بھیجتا ہے خود اس آیت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ لوگ بد تھے۔ کیونکہ فرمایا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ۔ نبی بشارتیں اور انذار لے کر آئے اور انذار کا ساتھ ہونا بتاتا ہے کہ خدا سے دور لوگ موجود تھے۔ دوسرا ثبوت اسی آیت سے یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔ وہ نبی اس لئے آئے کہ جس بات میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اس میں فیصلہ کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل کے متعلق اختلاف موجو دتھا پس یہ بھی دلیل ہے کہ اُمَّۃً وَّاحِدَۃ’‘ سے یہ مراد نہیں کہ لوگ نیک تھے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً کیوں کہا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ اَلْکُفْرُمِلَّۃ’‘ وَاحِدَۃ’‘ کُفر بھی ایک ہی ملت ہے۔ یعنی اصل الاصول کفر کا یہی ہے کہ خدا سے لوگوں کو دور کیا جائے جس طرح اسلام بھی ملتِ واحدہ ہے۔ یعنی سب اسلامی امتیں ایک ہیں۔کیونکہ ان کے اصول ایک ہیں۔ گو تفصیلِ شرائع میں اختلاف ہو۔ پس مَلَّۃٖ واحدہ کہنے سے مراد انکا اتفاق یا باہمی محبت بتانا مدنظر نہیں بلکہ یہ مد نظر ہے کہ سب کافر ہی کافر تھے نیک لوگ ان میں نہ تھے کیونکہ کفر کے مقابلہ میں دوسری جماعت در حقیقت مومنوں کی ہی ہوتی ہے۔ کافر آپس میں خواہ کتنے ہی مختلف الخیال ہوں پھر بھی اصل غرض جو خدا کا قرب پانا ہے اس کے متعلق سب کا ایک ہی رویہ ہوتا ہے اور سب اپنے اپنے دائرہ میں ایک ہی کام کر رہے ہوتے ہیں یعنی خدا سے لوگوں کو دور کردینا۔
یا یہ کہ کَانَ کے معنے ’’تھے‘‘ کے نہیں بلکہ ’’میں‘‘ کے ہیں۔ اور اس کا یہ مطلب ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اُمَّۃ’‘ وَاحِدَۃ’‘ بنایا ہے۔ یعنی دوسرے حیوانات بھی اُمت ہیں پھر امت ِ واحدہ نہیں ہیں۔ انسان مدنیٰ الطبع ہے اور اس کو آپس میں مل کر رہنا پڑتا ہے اور اس کا لاذمی نتیجہ اختلاف اور شقاق پیدا ہونا ہے۔ بڑی نعمت کیساتھ بڑے خطرات بھی ہوتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کی بدیاںبھی انسان اخذ کر تا ہے۔ جب تمدن کے یہ نقائص بڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نبی بھیجتا ہے جو اختلاف کو دور کر دیں اور ملنے جلنے کی وجہ سے جو اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور ضد کی وجہ سے لوگ اپناپنا دین بنا بیٹھے ہیں اس کی وہ اصلاح کریں۔ اگر کہا جائے کہ یہ معنے ہوتے تو چاہیے تھا کہ کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَتَشَاجَرُوْ وَاخْتَلَفُوْا فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ فَا نے اس امر پر دلالت کر دی ہے کہ پچھلی بات پہلی بات کے نتیجہ میں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اُمَّۃً وَاحِدَۃ ہونے کا نتیجہ نبیوں کی بعثت نہیں ہے۔ اس لئے یہاں لازماً مقدر تسلیم کرنا پڑیگا اور فِیْمَا اخْتَلَفُوْافِیْہِ اس مقدر کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اَلْکُتُب نہیں کہا بلکہ اَلْکِتٰبِ کہا ہے جس میں جنس کتاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہر نبی کو کو ئی نہ کوئی کتاب ضرور دی جاتی ہے خواہ نئی ہو یا پرانی۔ یہ نہیں کہ ہر ایک کو الگ الگ کتاب ملے بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر نبی کو الگ الگ کتاب دی جاتی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ اور تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی اس مضمون کی تائید نہیں کرتی اگر اَنْزَلَ کے لفظ یہ استدلال کیا جائے کہ ہر نبی پر کتاب اُتری ہے تو یہ لفظ تو قرآن میں غیر انبیاء کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ پھر وہاں بھی یہی مراد لینی پڑے گی کہ انہیں بھی کتاب ملی تھی حالانکہ اسے کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے وَقَالَتْ طَّآئِفَۃ’‘ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اَمِنْوْا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّھَارِ وَاکُفْرُ وْآ اٰخِرَہُ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ(آل عمران آیت ۷۳) یعنی اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ مومنوں پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس پر دن کے ابتدائی حصہ میں تو ایمان لے آئو اور اس کے پچھلے حصہ میں اس سے انکار کر دو۔ شاید اس ذریعہ سے وہ بھی مرتد ہو کر اپنے دین کو چھوڑ دیں۔ حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ جو کچھ نازل ہوا وہ مومنوں پر نازل نہیں ہوا تھا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ پس اَنْزَلَ کا لفظ یہ ثابت نہیں کرتا کہ ہر نبی پر مستقل طور پر کوئی کتاب نازل ہوئی ہے اور نہ اَلْکِتَاب کا لفظ ان کے دعویٰ کو ثابت کرتا ہے اگر ہر نبی صاحب کتاب جدیدہ ہوتا تو اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ کہ بجائے اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکُتُبَ کہنا چاہیے تھا مگر خداتعالیٰ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ نبی تو لاکھوں آئے مگر لاکھوں کتابیں نازل نہیں ہوئیں۔
درحقیقت اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر نبی جب بھی مبعوث ہو ا ہے تو کسی نہ کسی کتاب کے ساتھ مبعوث ہوا ہے۔ یعنی وہ اس لئے بھیجا گیا تھا کہ خداتعالیٰ کی کتاب کو دنیا میں قائم کرے۔ یہاں اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ ہر نبی کو کوئی نجئی کتاب دی گئی تھی۔ بلکہ صرف کتاب دیئے جانے کا ذکر ہے۔ اور کتاب پرانی بھی ہوتی ہے اور نئی بھی۔ چنانچہ قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد متواتر انبیاء آتے رہے۔ مگر ان کا کام صرف یہ تھا کہ وہ تورات کی ترویج کریں اور اس کے احکام پر لوگوں سے عمل کروائیں۔ پس یہ عقیدہ کہ ہر نبی ضرور کوئی نئی کتاب لاتا ہے نہ صرف قرآن کریم کے خلاف ہے بلکہ انبیاء کی ایک لمبی تاریخ بھی اس عقیدہ کو واضح طور پر رد کرتی ہے۔
لِیَحْکُمَ بِیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔ میں یَحْکُمَ کی ضمیر غائب کا مرجع اللہ تعالیٰ بھی ہو سکتا ہے۔ اور رسول اور کتاب بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے یا رسول فیصلہ کرے یا کتاب فیصلہ کرے۔ اس سے معلقم ہوتا ہے کہ انبیاء کے آنے سے پہلے بھی لوگوں میں اختلاف موجود ہوتا ہے جسے خدایا اس کا رسول یا اس کی کتاب آکر دُور کرتے ہیں۔ یہ ایک غلط خیال ہے جو لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ انبیاء کے آنے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوتا ہے وہ اختلاف پیدا نہیں کرتے بلکہ اختلاف جو واقعہ ہو چکا ہوتا ہے اسے مٹا کر وحدت پیدا کرتے ہیں۔
وَمَااخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْ ہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰت سے پھر شبہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ اختلاف در حقیقت بعد میں ہی پیدا ہوا۔ پہلے اُن میں کوئی اختلاف نہ تھا مگر یہ درست نہیں ۔کیونکہ مَا جَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰت کے بعد اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْ ہُ رکھ کر بتادیا ہے ۔کہ یہ کتاب کا ذخر ہے ۔ ]پس اس آیت میں پہلے اختلاف کا ذکر نہیں بلکہ ایک اور اختلاف کا ذکر ہے ۔ جو نبیوں کی آمد سے پیدا ہوتا ہے ۔ پہلا اختلاف تو وہ تھا کہ جس کے باوجود اُن کو اُمَۃً وَّاحِدَۃً کہا تھا ۔لیکن اب صداقت کے متعلق اختلاف پیدا ہوا اور دلائل کے آنے کے بعد پیدا ہوا۔اگر یہ کہا جائے کہ اس اختلاف کا تو پہلے ذکر ہی نہیں ۔ پھر اس آیت کا یہاں کیا جوڑ ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت ایک سوال مقدر کا جواب ہے ۔ جو پہلی آیت لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْ افِیْہِسے پیدا ہوتاہے ۔ اور وہ یہ تھا کہ اگر نبیوں کے بعثت کی غرض اختلاف کو مٹانا تھا تو پھر اُن کی بعثت کا کیا فائدہ ہوا انہوں نے تو آکر اور اختلاف پیدا کر دیا اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ یہ اخلاف اور پہلا اختلاف مختلف ہیں۔ پہلا اختلاف اسیا تھا کہ جیسے مختلف بیمار ہو ںاور دوا نہ ہو۔ اور دوسرا ایسا ہے کہ بیمار کو دوا دی جائے اور وہ نہ پیئے ۔پاس پہلا اختلاف مجبوری کا تھا اور اس کی تلافی ضروری تھی اور یہ اختلاف حق کے مقابلہ میں پیدا ہوا ہے ۔ بہر حاکل اب حق تو........آگیا ہے جس کا اگر لوگ چاہیں تو مان لیں پس پہلا اختلاف خرابی ہی خرابی پیدا کرتا تھا اور یہ اختلاف ایسا ہے کہ اس میں ہدایت کی اُمید ہے کینکہ حق موجود ہے ۔ اب اگر اختلاف ہے تو صرف ضد کی وجہ سے ہے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ اختلاف صرف اِلَّا الَّذِیْنَ اوتو ہ کو ہے ۔ یعنی اس تعلیم سے جو ہم نے بھیجی ہے صرف اُن لوگوں کو اختلاف ہے جن کی طرف وہ کتاب آئی ہے یا تعلیم یا نبی آیا ہے ۔جو دوسرے لوگ ہیں اُن کو اِس سے کوئی اختلاف نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ اختلاف اُس نبی یا اُس کتاب یا اس تعلیم کے نتیجہ میں نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر فی الواقعہ وہ تعلیم جو ہم نے بھیجی ہے یا نبی جو بھیجا ہے اختلاف کا موجب ہوتے تو جو لوگ بے تعلق ہیں مثلاً غیر اقوام جو اُن کی مخاطب نہیں یا بعد میں آنے والے لوگ ہو کیوں انکی تعلیم کی تعریف کرتے ۔ واقعہ میں اگر دیکھا جائے تو نبیوں کی مخالفت کا زمانہ جب گذر جاتا ہے ۔ تو لوگ اُن کی تعلیم کی بری تعریف کرتے ہیں۔جیسے اب مسیحؑ کی تعلیم کی لوگ تعریف کرتے ہیں ۔ ابراہیم ؑاور موسیٰ ؑ اور ذرتشت ؑ کی تمام اقوام تعریف کرتی ہیں ۔ حالانکہ اُس کتاب کی لوگ مخالفت کرتے ہیں ۔جس میں وہ مخاطب ہوں ۔پس معلوم ہوا کہ اصل وجہ تعلیم یا نبی نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بات ہوتی ہے کہ ہم اس کی اطاعت کس طرح کریں ۔ یا ان احکام کو مان کر ہمارے آرام میں خلل آئیگا ۔جب دوسرے لوگ مخاطب ہوں تو خوب تعریف کرتے ہیں کہ واہ وہ! کیا اچھی تعلیم ہے۔
تیسری بات بَغْیًا بَیْنَھُمْ میں یہ بیان فرمائی کہ یہ اختلاف بھی درحقیقت اس کتاب کی وجہ سے نہیں پیدا ہوا بلکہ درحقیت پہلے اختلاف کا نتیجہ ہے ۔ نبی آنے سے پہلے جو شرکشی اور عداوت آپس میں لوگوں کی پیدا ہو چکی تھی وہی اس تعلیم کی مخالفت پر لوگوں کو آمادہ کر رہی ہے ۔ یا یہ سوال ہے کہ اس نبی کو ہم کیونکر مان لیں ؟ یا یہ کہ فلاں نے اِسے مان لیا ہے ۔ اب ہم کس طرح مان لیں ۔ یا یہ فلاں عقیدہ کی جو ہمارے دشمنوں کا ہے تائید کرتا ہے ۔ اس کو مان لیں تو اُن کے سامنے ہماری نظیریں نیچی ہو جائیں ۔جیسے حنفی کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہابیوں کی فلاں فلاں باتوں کی تائید کی ہے ۔ اس لئے ہم انہیں نہیں مانتے ۔اِسی طرںوہابی کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے حنفیوں کی بعض باتوں کی تائید کی ہے ۔ اس لئے ہم ااپ کو قبول نہیں کر سکتے ۔ پس نبی کو ماننے کی وجہ وہ عداوت ہوتی ہے جو اس نبی کے آنے سے پہلے اُن میںموجود ہوتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ نبی کے آنے کے بعد ایک جماعت ایسی پیدا ہو اجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے والی اور اس کے احکام پر عمل کرنے والی ہوتی ہے ۔ اس لئے گو اس کے آنے سے بھی اختلاف نظر آتا ہے ۔ لیکن روحانی نگاہ رکھنے والا جانتاہے کہ نبی کے آنے سے اختلاف کی قوت کم ہو جاتی ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ سے دور رہنے والے لوگ گھٹ جاتے ہیں اور ایک بڑی جماعت ایسی پیدا ہو جاتی ہے جو خدائے واحد کی پرستار ہوتی ہے ۔غرض اختلاف اس کتاب کے سبب سے نہیں بلکہ پہلے اختلاف کے باعث لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیںجو ان لوگوں کے اندر پہلے سے موجود تھا ۔یا یہ کہ وہ بَغْیْ جو بَیْنَھُمْ ہے ۔ یعنی ساری کی ساری اُنہی کے قبضہ میں ہے ۔ ہمارے رسولوں اور اُس کے اتباع میں اس کا کوئی حصہ نہیں وہ اس اختلاف کا باعث ہے اس سے الزام اور بھی سخت ہو جاتا ہے کہ یہ بغی کرتے ہیں باوجود اس کے کہ دوسری طرف سے اُن کی خیر خواہی اور ترقی کے سامان ہو رہے ہیں۔
چ۔ اس میں چوتھا جواب دیا ہے کہ اختلاف کا الزام نبیوں پر نہیں آسکتا اور وہ یہ کہ اُن کے آنے سے پہلے تو دیکھو کہ کوئی بھی حق کا ماننے والا نہ تھا ۔مگر اب ایک پارٹی تو حق کو مانتی ہے ۔پس اختلاف درحقیقت مٹ گیا پیدا نہ ہوا ۔ کیونکہ پہلے مثلاً ایک لاکھ
اَمْ ھَسِبْتُمْ
نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْب’‘O
آدمی خدا تعالیٰ کے متعلق اٹکل پچو باتیں بنا رہے تھے ۔ اب ایک ہزار نے مان لیا اور ننا نوے ہزار نے نہ مانا تو اختلاف کم ہوا یا زیادہ۔ ایک ہزار آدمی اس خیالی اختلاف سے نکل کر یقین اور ثوق کے مقام پر کھڑے ہوئے جہاں سے اللہ تعالیٰ کے جلال کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔پس اس آیت کے تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس چیز کی طرف ہدایت دی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا یعنی جس کا ذکر وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوتُوْہُ میں ہوا تھا ۔ اخْتَلَفُوْ افِیْہِ مِنَ الْحَلِقْ میں فِیْہِ کی جوضمیر ہے الْحَلِقْاُس کی صفت ہے ۔ یعنی اُس چیز کی طرف جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور جس کی صفت یہ ہے کہ وہ حق ہے یا حق میں سے یہ ۔ یا مِنْ بیان کیلئے ہے اور معنے یہ ہیں کہ ہدایت کی اُس چیز کی طرف جس کی نسبت لوگوں نے اختلاف کیا تھا حالانکہ وہ حق تھی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ پہلے ہی مومن تھے تو ھَدَی اللّٰہُ کے کیا معنے ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی پچھلی بات کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ نام لے لیا کرتے ہیں جیسے کہتے ہیں یہ بادشاہ جب پیدا ہوا تو یوں ہوا ۔ حالانکہ وہ پیدائش کے وقت بادشاہ نہیں ہوتا۔ یا کہتے ہیں یہ عالم جب سول میں پڑھنے گیا ۔ پس الَّذِیْنَ اٰمِنُواُن کا موجودہ نام ہے جس کو پرانے واقعہ کو دہراتے وقت قارم رکھا ۔تاکہ اُن کا احترام قائم رہے اور اُن کی طرف کفر کسی وقت بھی منسوب نہ ہو۔ یا یہ کہ استعداد مخفی جو ُن کے اندر تھی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ا نہیں الَّذِیْنَ اٰمِنُو کہا گیا ہے ۔یعنی وہ جو مومن بننے والے تھے اور اس کیلئے سامان بہم پہنچا رہے تھے۔
فَھَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمِنُوْ الِمَا اخْتَلَفُوْ افِیْہِ مِنَ الْحَلِقمیں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگوں نے کتاب الٰہی کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن سب وعدوں کو جو اس نبی کے ذریعہ سے اپنی قوم کے متعلق مٹھی بھر مومنوں کے حق میں پورا کر دیا اور مومنوں کو دو کامیابیاں دے دیں جو سب قوم کے لئے مقدر تھیں۔ اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں بھی اشارہ ہے کہ ہر شخص کے دو گھر ہیں ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں جب کوئی ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ ظالم کا جنت کا گھر مومن کو اور اس کا دوذخ کا گھر کافر کو دے دیتا ہے۔ کفار نے چونکہ بلاوجہ کتابِ الہٰی کی مخالفت کی اور اس کے سبب سے مومنوں کو سخت دُکھ برادشت کرنے پڑے خداتعالیٰ نے حکم دے دیا کہ وہ انعامات جو ساری قوم کے لئے مقدر تھے وہ مٹھی بھر مسلمانوں کو دے دیئے جائیں اور باقی قوم کو بوجہ ظالم ہونے کے ان سے محروم کر دیا جائے۔
۱۲۷؎ حل لغات:۔ مَسَّتْھُمْ: مَسَّ الشَّیئَ کے معنے ہیں لَمَسَہ‘ وَاَفْضٰی اِلَیْہِ بِیَدِہٖ مِنْ غَیْرِ حَائِلٍ کسی چیز کو بغیر کسی درمیانی روک کے اس نے چُھوآ (اقرب)
بَاْسَآء: کے معنے ہیں اَلشِّدَّۃُ سختی وَاِسْم’‘ لِلْحَرْبِ وَالْمُشَقَّۃِ وَالضِّرْبِ۔ اور بَاْسَاء کے لفظ کا اطلاق جنگ اور مشقت اور جسمانی تکالیف پر بھی ہوتا ہے۔
ضَرَّآئُ کے معنے ہیں اَلذَّمَانَۃُ وَالشِّدَّۃُ قحط۔ اَلنَّفْصُ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ۔ مالی اور جانی نقصان۔
تفسیر:۔ اس آیت میں ان ابتلائوں کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں پر آنے والے تھے۔ چونکہ اس سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ جب دنیا پرضلالت چھا جاتی ہے تو اس وقت خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی آتا ہے جس کی لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ اس لئے اب فرماتا ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ بغیر ابتلائوں کے تم ترقی کر جائو گے۔ تمہاری ترقی ابتلائوں کے آنے پر ہی موقوف ہے جیسا کہ پہلوں کی ترقی کا باعث بھی ابتلاء ہی ہوئے۔ چنانچہ اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَسَّھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآ عُ وَزُلْزَلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ‘ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ ا نہیں مالی مشکلات بھی پیش آئیں اور جانی بھی اور وہ دوسرے پائوں تک ہلادیئے گئے اور ان پر ادقدر ابتلاء آئے کہ آخر اس وقت کے رسول اور مومنوں کو دُعا کی تحریک پیدا ہو گئی اور وہ پکار اُٹھے کہ اے خدا تیری مدد کہاں ہے۔ اس آیت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے پاک بندے بھی کسی وقت اللہ تعالیٰ کی مدد سے ایسے مایوس ہو جاتے ہیں کہ انہیں مَتٰی نُصْرُ اللّٰہِ کہناپڑتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس مایوسی کا تصور بادی النظر میں پیدا ہوتا ہے اس سے انبیاء اور ان پر ایمان لانے والے کلیۃً پاک ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّہ‘ لَایَاْیَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ(یوسف آیت ۸۸) کہ صرف کافر ہی خداتعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب مَتٰی کا لفظ بولیں تو اس سے مراد مایوسی نہیں ہوتی بلکہ تعیین کے لئے ایک درخواست ہوتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ فلاں بات کے لئے ایک وقت مقرر فرماد یا جائے۔ ایسا ہی اس جگہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ کے یہ معنے نہیں کہ وہ مایوسی کا شکار ہو کر ایسا کہتے ہیں بلکہ درحقیقت ان الفاظ میں وہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ الہٰی اس بات کی تعیین فرمادی جائے کہ وہ مدد کب آئیگی ۔ گویا مزید اطمینان کے لئے وہ آنے والی نصرت سے وقت کی تعیین کروانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد جلد نازل ہو۔ یہ دُعا کا ایک موثر طریق ہے اور اس میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ ان پر اسقدر ابتلاء آئے کہ وہ ہلادیئے گئے اور ان میں دُعا کی تحریک پیدا ہو گئی۔ اور ابتلائوں کی بڑی غرض بھی ہی ہوتی ہے۔ کہ خداتعالیٰ سے تعلق مضبوط ہو جب مومنوں کو دعا کی تحریک ہوتی ہے تو خداتعالیٰ آسمان سے اپنی نصرتِ نازل فرما دیتا ہے۔ اور ان کے مصائب کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
مگر اس کے علاوہ حتی کے معنے ’’گی‘‘ کے بھی ہوتے ہیں اور یہ معنے کُتب نحو اور قرآن کریم سے ثابت ہیں۔ مغنی اللبیب میںلکھا ہے ۔ وَمُرَاوِفَۃُ کَیِ التَّعْلِبْلِیَّۃِ حَتّٰی یعنی حَتّٰی کے معنے اس ’’گی‘‘ کے مترادف بھی ہوتے ہیں جو کسی بات کی وجہ بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی اس حتیٰ سے پہلے جو بات ہوتی ہے وہ بعد میں آنے والی بات کے لئے بطور سبب کے ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی حتی ان معنوں میں آیا ہے ۔ چنانچہ سورۃ منافقون میں آتا ہے۔ ھُمُ الَّذِیْنَ یَقْولُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلیٰ مَنْ عِنْدَ رُسُوْلِ اللّٰہِ حَتَّی یَنْفَضُّوْا(آیت ۸)یعنی جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو۔ تاکہ وہ بھاگ جائیں۔ نحوی اس کی یہ مثال بھی دیتے ہیں کہ اَ سْلِمْ حَتّٰی تَدْ خُلَ الْجَنَّۃَ یعنی فرمانبرداری کرتا کہ تو جنت میں داخل ہو جائے۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ زلزلہ جو کفار کے ہاتھوں سے ہم نے پیدا کیا اس کی غرض ہی یہ تھی کہ ہمارے بندے ہم سے مانگیں اور ہم ان کو دیں۔ پس مانگنے کی طرف توجہ پھیرنے اور اپنی قوتِ فضل کو ظاہر کرنے کے لئے اس وقت تک ہم چُپ رہے جب تک کہ ان کے دل میں دعا کی زور سے تحریک پیدا نہ ہوئی۔ اور یہ تحریک ہم نے خود کروائی تاکہ ایک طرف ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھے اور دوسری طرف جب اللہ تعالیٰ کی نصرت معجزانہ طور پر آئے تو ان کے ایمان پڑھیں اور کفار میں سے جو غور کرنے والے ہوں انہیں ہدایت حاصل ہو۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ جب یہ غرض پوری ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرمادیتا ہے کہ لو اب ہماری مدد آگئی۔
ابتلائوں کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ خداتعالیٰ انسان کی ہمت عیکھ کر ابتلا ء ڈالتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایسے ابتلاء انسان پر ڈالے جن کے برداشت کرنے کی اس میں طاقت ہی نہ ہو۔ ہاں انسان ایسے ابتلائوں میں ضرور ڈالا جاتا ہے جن کے متعلق وہ غلطی سے خیال کرلیتا ہے کہ میں ان کو برداشت نہیں کر سکوں گا۔لیکن اس کا یہ خیال درست نہیں ہوتا وہ ان کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے فرما دیا ہے۔ کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وْسْعَھَا یعنی خداتعالیٰ کسی پر ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جس کے اُٹھانے کی اس میں طاقت نہ ہو۔ بوجھ ہمیشہ وہی ڈالا جاتا ہے جس کے اُٹھانے کی انسان میں طاقت ہوتی ہے۔ سوائے اس کے کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کا منشا ہو۔ ورنہ جو ابتلاء کسی جماعت کی ترقی کے لئے ہوتے ہیں وہ طاقت برداشت سے باہر نہیں ہوتے ہاں مومن بعض دفعہ خیال کر لیتا ہے کہ وہ اس کی طاقت سے بلا ہیں۔ مگر یہ اس کی غلطی ہوتی ہے جب مومن ایک ابتلاء کو برداشت کر لیتا ہے تو اُسے پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کا ایمان کتنا مضبوط ہے پھر اور رنگ میں اس پر ابتلاء آتا ہے اور وہ اُسے بھی برداشت کر لیتا ہے اور اس کے دل میں کسی قسم کا شکوہ پیدا ہونے کی بجائے شکرو امتنان کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اتنی طاقت دی کہ میں نے اسے برداشت کر لیا تب اس کا ایمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے اور وہ اس سے بڑے بڑے ابتلاء برداشت کر نے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ غرض جوںجوں انسان دلیر ہوتا جاتا ہے آگے بڑھتا جاتا ہے اس طرح ایک تو اسے اپنے ایمان کی پختگی کا پتہ لگ جاتا ہے ۔ دوسرے قربانیوں کے میدان میں اُسے دوسروں سے آگے پڑھنے کا موقعہ مل جاتا ہے اور وہ ترقی کر جاتا ہے۔
غرض ابتلاء کے دو فائدے ہوتے ہیں ۔ اول یہ کہ انسان کو اپنی حالت کا پتہ لگتا ہے کہ خداتعالیٰ کی راہ میں اس کی جان کس قدر تکلیف اُٹھا سکتی ہے۔ دوسرے اس میں آگے قدم بڑھانے کی جرات پیدا ہوتی ہے۔ ان ابتلائوں کا آنا ایسا ضروری ہے کہ نبیوں کی کوئی جماعت ایسی نہیں ہوئی جس پر ابتلاء نہ آئے ہوں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ وہ جنت جس کی وسعت کا اندازہ بھی تم نہیں لگا سکتے تمہیں یونہی مل جائیگی یا وہ دنیوی کامیابیاں جن کا تمہیں وعدہ دیا جا رہا ہے بغیر قربانیوں کے تمہیں مل جائیگی اور تم پر وہ حالت نہیں گذرے گی جو پہلوں پر گذرتی رہی۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ وہ حالت ضرورآئیگی۔ اس لئے یہ مت خیال کرو کہ تم آسانی سے کامیاب ہو جائو گے۔ جب تک تم ان حالتوں میں سے نہیں گذرو گے جن میں سے پہلے لوگ گذرے اس وقت تک تمہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ انہین بڑی بڑی تکالیف پہنچی تھیں جسمانی بھی اور مالی بھی۔ انہیں اپنی جائیدادیں چھوڑنی پڑیں ۔ رشتہ داروں کو ترک کرنا پڑا۔ فاقے کرنے پڑے۔ ماریں کھائیں۔ قتل ہوئے۔ غرض وہ کئی رنگ میں ہلائے گئے جس طرح زلزلہ سے عمارت کبھی دائیں طرف جھکنے لگتی ہے اور کبھی بائیں طرف اسی طرح دیکھنے والے ان کے متعلق یہی سمجھتے تھے کہ یہ اب گِرے کہ گِرے حتی کہ ان کی تکالیف بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئیں کہ دشمن نے یہ خٰال کر لیا کہ اب یہ گِر ہی گئے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے رسول اور مومنوں نے دعائیں کرنی شروع کیں کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ اے خدا! ابتالء اب اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ کی مدد آئے اور ہمیں کامیابی عطا کرے۔
مَتٰی نُصْرُ اللّٰہِ کے لفظی معنے چونکہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئیگی۔ اس لئے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان کو خداتعالیٰ کی مدد کے متعلق نعوذ باللہ شبہ پیدا ہو گیا تھا۔ کہ شاید وہ آئے یا نہ آئے۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ خدا یا تیری مدد کب آئیگی۔ مگر یہ صحیح نہیں اول تو مَسَّھُمْ میں مَسَّ کا لفظ دومعنوں میں استعمال ہوا ہے ۔مگر یہ کہ عملاً ان کو مشکلات پہنچیں اور دوسرے یہ کہ وہ مشکلات دل پر اثر کرنے والی نہیں تھیں صرف سطحی تھیں ان کے دل مضبوط تھے پس جب مشکلات کے باوجود وہ بہادر دل تھے۔ تو ان کے متعلق کسی مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ دوسرے سوال کبھی التجاء کا رنگ بھی رکھتا ہے انسان کسی سے پوچھتا ہے کہ یہ بات آپ کب کرینگے۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ نہیں کرینگے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ کردیں۔ اسی طرح مجسٹریٹ سے جب پوچھا جاتا ہے کہ میری باری کب آئے گی تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ کبھی نہیں آئے گی۔ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آجئے۔
بدر کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ اے خدا! اگر یہ مختصر سا گروہ بھی ہلاک ہو گیا تو دنیا میں تیری عبادت کون کریگا۔ تو اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ خداتعالیٰ پر یقین نیہں تھا بلکہ اس رنگ میں دُعا کر کے آپؐ نے خداتعالیٰ کی غیرت کو برانگیختہ کیا۔ اسی طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے جب صلیب پر لٹکتے وقت کہا کہ ایلی ایلی اسبقتنی یعنی اے خدا! چاہیے تو یہ تھا کہ اس مصیبت کے وقت تو میری مدد کر کے آتا لیکن تو تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ تو آپ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ خداتعالیٰ مصیبت کے وقت انہیں واقعہ میں چھوڑ گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ میرا دل گھبرا رہا ہے آپ جلدی میری مدد کے لئے آجائیں پس اس رنگ میں جب دُعا کی جاتی ہے تو قبولیت دُعا پر حدِم یقین کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ خداتعالیٰ کو غیرت دلانے کے لئے ہوتی ہے اسی طرح جب مومن کہتے ہیں مَتٰی نَصْرُ اللّٰہ اے خدا! تیری مدد اور نصرت کب آئیگی تو خداتعالیٰ کہتا ہے سُنو۔ میری مدد آپہنچی۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے لئے تشریف لے گئے تو مکہ والوں کو خیال تک بھی نہیں تھا کہ آپ ان پر حملہ آور ہونگے۔ ابوسفیان خود آپ سے مدینہ میں مل کر آرہا تھا۔ جب لوگوں نے آپ کا لشکر دیکھا تو بعض نے کہا کہ یہ لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا۔ اس پر ابوسفیان نے کہا۔ تم پاگل تو نہیں ہو گئے میں ابھی مدینہ سے آرہا ہوں۔ وہاں کوئی لشکر تیار نہیں تھا۔ مگر اگلے ہی چار پانچ منٹ میں مسلمان آس کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ابوسفیان کو گرفتار کر لیا اور دوسرے دن مکہ فتح ہو گیا۔ غرض خداتعالیٰ کی نصرت اچانک آتی اور مومنوں کو کامیاب کر دیتی ہے۔ عیسائیوں نے تین سو سال تک بڑے بڑے مصائب برداشت لیکن ایک دن انہوں نے سُنا کہ روم کا بادشاہ عیسائی ہو گیا ہے اورآئندہ سے ملک کا مذہب عیسائیت ہو گا اور اس اعلان کے ساتھ ہی ان کے تمام مصائب ختم ہو گئے۔
غرض مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ میں یہ بتایا ہے کہ مومن دُعائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ الہٰی ابتلاء بڑھ گئے ہیں۔ اب تیری مدد
یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا
بِہٖ عَلِیْم’‘O
آجائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب’‘۔ سُنو! خدا کی مدد قریب ہی ہے یعنی جب ابتلاء تمہاری ترقیاب کے لئے آئیں تو پھر تمہیں تباہ ہونے کا ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہارے نفسوں میں خرابی ہے اور تم جانتے ہو کہ خداتعالیٰ تمہیں سزا دینا چاہتاہے تو پھر یقینا تمہارے لئے مدد نہیں آئیگی۔ لیکن اگرتمہارے نفسوں میں کوئی خرابی نہیں تمہارا ایمان مضبوط ہے تم تقویٰ کی راہ پر قدم مارہے ہو۔ وساوس پر تمہیں قابو حاصل ہے تو ابتلاء تمہارے لئے خوف و خطر کا باعث نہیں ہوسکتے۔ درحقیقت ایک سچے مومن پر جب ابتلاء آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس ابتلاء کے ساتھ ہی خداتعالیٰ کی مدد بھی آرہی ہے۔ مولانا رومؒ نے اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے کہ
؎ ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنجِ کرم بنہادہ است
یعنی جب کسی قوم پر کوئی آزمائش کا وقت آتا ہو خداتعالیٰ کی طرف سے اس کے نیچے انعامات کا ایک بہت بڑا خزانہ مخفی ہوتا ہے۔
پس ابتلاء کسی خطرہ کا موجب نہیں ہوتے بلکہ ابتلاء کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ اور ترقی عطا کرے گا۔ ڈر اور خوف صرف اپنے نفس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پس ہمیشہ اپنے نفس پر غور کرتے رہنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آیا اس میں کوئی ایسی بات تو پیدا نہیں ہو گئی جو تباہی کا باعث بن جائے۔ اگر اس میں وساوس پیدا نہیں ہوتے اگر ایمان مضبوط ہے اور دل شکر اور امتنان کے جذبات سے پر ہے تو انسان کو خوش ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایسی حالت میں ابتلاء بہت بڑے انعامات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ابتلاء آنے پر دل میں وساوس پیدا ہوں اورایمان میں کمزوری محسوس ہو تو سمجھ لو کہ یہ ابتلاء ترقی کا باعث نہیں بلکہ ہلاکت کا باعث ہیں۔ غرض اصل درحقیقی ایمان وہی ہوتا ہے جو ابتلائوں میں سے گذرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اسی کے نتیجہ میں ابدی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
۱۲۸؎ تفسیر:۔ چونکہ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ پہلے لوگوں پر بھی مالی اور جانی مشکلات آئی تھیں اور وہی ان کی قومی ترقی کا باعث ہوئیں جیسا کہ مَسَّھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ اس لئے جب صحابہؓ نے یہ بات سنی تو ان کے دل بھی ان قربانیوں کے لئے بے تاب ہو گئے اور انہوں نے بے اختیار ہو کر روحانی ترقیات کے حصول کیلئے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! اگر قومی ترقی کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں بھی بتایا جائے کہ ہم کیا خرچ کریں تاکہ ہمارا قدم بھی عشق کے میدان میں کسی دوسرے سے پیچھے نہ رہے۔
دوسراسوال جانی قربانیوں کے متعلق ہو سکتا تھا۔ سو اس کا جواب کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ میں دیا گیا ہے جس سے قرآن کریم کی نہایت اعلیٰ درجہ کی ترتیب پر روشنی پڑتی ہے۔
اس آیت کے متعلق لوگ عام طور پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ سوال کچھ ہے اور جواب کچھ ہے ۔ پوچھا تو یہ گیا ہے کہ کیا خرچ کریں؟ اور جواب یہ دیا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی اپنے اموال میںسے خرچ کرو۔ وہ فلاںفلاں کو دو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض قلتِ مدبر کی وجہ سے ہے سوال کا جواب آیت میں موجود ہے جب اس نے فرمادیا کہ جو کچھ بھی تم اچھے مال سے خرچ کرو تو اس میں سائل کا جواب مکمل آگیا۔ اول یہ کہ کوئی حد بندی نہیں ۔ جتنے کی توفیق ہوا تنا خرچ کرو۔ دوم یہ ہے کہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ جو خرچ کرو وہ طیب مال ہو۔ جو لوگ حرام کماتے ہیں اور اس میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے سمجھتے یہں کہ ہم نے اپنے گناہ کا کفارہ کردیا وہ غلطی پر ہیں۔ خداتعالیٰ ایسے ہی مال کو قبول کرتا ہے جو اچھا۔۔۔۔۔۔ ہو۔ سوم یہ کہ صرف حلال نہیں دینا بلکہ طیب دینا ہے یعنی جس مال کو قبول کرنا اس شخص پر گراں نہ گذرے جس کو مال دیا جائے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ خیر کے معنے مال کے ہیں۔ اچھے مال کے معنے کہاں سے نکالے گئے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خیر کے اصل معنے بہترین شے کے ہیں۔ اور مال کو اسی صورت میں خیر کہتے ہیں جب کہ وہ طیب ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔ مفرادتِ راغب میں ہے ۔ وَقَالَ بَعْضپ الْعُلَمَائِ لَا یُقَالُ لَلْمَالِ خَیْر’‘ حَتّٰی یَکُوْنَ کَثِرًا وَمِنْ مَکَانٍ طَیِّبٍ یعنی مال کو خَیْراسی صورت میں کہیں گے جبکہ وہ زیاد ہو اور پاک ذرائع سے حاصل کیاگیا ہو۔ اور خود طیب ہو پس خیر کہنے سے یقینا قرآن کریم نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ طیب اموال میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔اگر کہا جائے کہ اگر کوئی شخص حرام کماتا ہو لیکن صدقہ طیب مال سے دے تو کیا یہ اس حکم کے مطابق ہو گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تھوڑی سی گندگی بھی بہت سے پاکیزہ شے کو گندہ کر دیتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص رشوت لیتا یاچوری کرتا یا ظالم سے دوسرے کا مال لیتا ہے تو خواہ اس قسم کا مال تھوڑا ہو اس کا سب مال گندہ ہو جائیگا اور وہ اس حکم کو پورا کرنے والا نہ ہوگا۔ غرض سوال کا مکمل جواب اسی آیت میں آگیا۔ ہاں اس سے زائد مضمون بھی بتا دیااگر خرچ کرو تو کہاں کہاں خرچ کرو۔ گویا اس طرف اشارہ کیا کہ خرچ کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ صحیح جگہ خرچ کرنا مشکل ہے۔ پس جو خرچ کرو۔ احتیاط سے کرو اور مستحقین کو دو۔ یہ قرآنی کمال ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں وسیع مضمون بیان کردیتا ہے۔ دیکھو یہاں کتنے مختصر لفظوں میں سوال کا جواب بھی دے دیا۔ یہ بھی بتا دیا کہ مال حلال دو(طیب میں حلال کا مفہوم بھی شامل ہے) اور یہ بھی کہ حلال مال طیب بھی ہو۔ یہ نہیں کہ ٹوٹی ہوئی جوتی ہو جو کسی کام کی نہیں دیدی بیشک وہ اس کا مال ہے۔ بے شک اس کا دینا اسے حلال سے مگر وہ طیب نہیں۔ کیونکہ جسے دی گئی ہے اس کے کام کی نہیں۔ یا مثلاً ایک بھوکا کھانا مانگنے آیا ہے گھر میں کھانا تیار ہے مگر اُسے آتا دے دیا۔ یہ مال بھی ہے حلا ل بھی ہے۔ مگر بھوکے کی ضرورت کو پورا نہیں کرات۔ طیب یہ ہے کہ خود کم کھائے اسے پکا ہوا کھانا دے جسے وہ فوراً کھا سکے۔ یہ سب کچھ بتا کہ یہ بھی بتا دیا کہ فلاں فلاں جگہ مال خرچ کرنا زیادہ مناسب ہے۔ سبحان اللہ کیا معجزانہ اعجاز ہے۔ قرآن مجید میں ایسی مثالیں اور بھی ہیں کہ سوال کا جواب دے کر زائد مضمون بتا دیا ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قسم کا کلام فرماتے تھے۔ آپ سے کسی نے پوچھا کہ سمندر کا پانی کے بارہ میں کیا حکم ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا ھُوَ الطَّھُوْرُ مَائُ ہ‘ وَ الْحِلُّ مَیْتَتُہ‘۔اس کاپانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے یعنی سمندری جانور کو ذبح کرنے کی شرط نہیں۔ جیسے مچھلی، اب دیکھو یہاں سوال کا جواب بھی دیا ہے اور زائد مضمون بھی بتا دیا ہے۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کیا خرچ کرنے کے الفاظ سے صدقہ کے اقسام کا دریافت کرنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ یعنی ہمارا خرچ کرنا کس کس موقعہ اور کن کن لوگوں کے لئے ہو۔ اور اس جگہ غالباً یہی مراد ہے۔ کیونکہ کمیت کے متعلق سوال آگے آتا ہے ۔ مَاذَا اسے سوال کبھی اُس چیز کے متعلق کیا جاتا ہے اور کبھی اس کی صفات کے متعلق۔ نحوی لکھتے ہیں کہ صفات کے متعلق صرف ذوی العقول کے بارہ میں سوال کیا جاتا ہے۔لیکن یہ حد بندی بالوجہ معلوم ہوتی ہے میرے نزدیک اس جگہ پوچھنے والا یہ نہیں پوچھتا کہ صدقہ کس چیز کا ہو۔ بلکہ یہ پوچھتا ہے کہ صدقہ کی صفات کیا ہوں۔ سوا للہ تعالیٰ نے جواب دے دیا کہ معین نہیں ہر اچھی چیز خرچ کرو۔ یعنی طیب مال سے ہو اور جتنی توفیق ہو اس قدر دیا جائے اور ساتھ ایک بات زائد بتا دی کہ تم اپنے ایمان یا اپنی حالت کے ماتحت جو کچھ خرچ کرو۔ یہاں یہاں خرچ کرو۔
پھر فرمایا وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍفَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْم’‘۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے تم کسی ایک نیکی پر حصر نہ کرو۔ بلکہ ہر قسم کی نیکیاں بجا لائو۔اور ہر خیر اور برکت کا دروازہ اپنے اوپر کھولنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ تمہارے سامنے ایک لامتناہی زندگی ہے جس میں تمہاری روح نے قربِ الہٰی کی باریک درباریک روہوں پر چلنا ہے ۔ پس کس ایک یا چند نیکیوں پر اکتفاء نہ کرو۔ بلکہ خیر میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ اور اس امر پر یقین رکھو کہ ایک علیم ہستی تمہاری ہر حرکت اور سکون کو دیکھ رہی ہے۔ وہ تمہیں دنیا و آخرت میں اس کا بہترین اجر دیگی۔
۱۲۹؎ تفسیر:۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ صحابہؓ لڑائی کو اس لئے نا پسند کرتے تھے کہ وہ نعوذباللہ بُزدل تھے۔ بلکہ ان کی ناپسندیدگی کہ وجہ صرف یہ تھی کہ مومن صلح پسند ہوتا ہے اور اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ لڑائی نہ ہو اور صلح سے فیصلہ ہو جائے اور اگر وہ اپنے دشمن سے لڑتا ہے تو مجبوراً لڑتا ہے۔ صحابہؓ بھی دل سے صلح جوتھے اور وہ چاہتے تھے کہ اگر کُشت و خون کے بغیر یہ فتنہ دب سکے تو دب جائے مگر انہیں مجبوراً لڑائی لڑنی پڑی۔ پس یہ صحابہؓ کی تعریف ہے نہ کہ ان کی مذمت۔ یہ ان کی بُزدلی نہیں بلہ یہ قابل تعریف امر ہے کہ باوجود دشمنوں کے شرارتوں کے وہ یہی چاہتے تھے کہ کہ اگر صلح سے فیصلہ ہو جائے تو اچھا ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ تم تو نہیں چاہتے تھے کہ لڑو۔ حالانکہ دشمن تم پر ظلم پر ظلم کر رہا تھا۔ اور تمہیں مار رہا تھا مگر میں جانتا تھا کہ یہ دشمن بغیر لڑائی کے باز آنے والے نہیں۔ اس لئے اب ان کی اصلاح کا یہی ذریعہ ہے کہ ان سے لڑا جائے اور انہیں انکے کئے کا مزا چکھایا جائے۔
عیسائیوں نے آیت سے دھوکا کھاتے ہوئے اعتراض کیا ہے کہ مسلمان چونکہ لڑائی سے ڈرتے تھے اس لئے معلوم ہوا کہ ہو بزدل اور ڈر پوک تھے۔ مگر صحابہؓ کو بزدلی کا طعنہ دینے والے عیسائی یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے اپنے حواری کیسے بہادر اور دلیر تھے اور انہوں نے مسیح کی گرفتاری کے وقت کیسی جرات کا مظاہرہ کیا۔ انجیل گواہ ہے کہ کوئی ایک حواری بھی ایسا نہیں نکلا جس نے دلیری سے مسیح کا ساتھ دیا ہو بلکہ ایک حواری نے آپ پر تین دفعہ *** کی اور باقی سب اُس انتہائی نازک گھڑی میں آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ ایسے با ایمان اور دلیر حواریوں کو مقدس قرار دینے والے عیسائی اگر صحابہؓ پر اعتراض کریں تو ان کی عقل پر تعجب آتا ہے پھر عیسائیوں کی یہ ایک عجیب عادت ہے کہ صحابہؓ کے لڑائی پر جانے کا ذکر ہو تو بھی اعتراض کرتے ہیں اور نہ جانے کا ذکر ہو تب بھی اعتراض کرتے ہیں۔ جہاں غنیمت کا ذکر آتا ہے وہاں کہنے لگ جاتے ہیں کہ مسلمان بڑے لالچی تھے مال کی لالچ کے لئے لڑتے تھے اور اس موقعہ پر لکھتے ہیں کہ وہ بڑے بزدل تھے۔ لڑائی سے ڈرتے تھے حالانکہ اگر ان کی لڑائی لوٹ مار کے شوق کے لئے تھی تو پھر کراہت کیسی اور اگر کراہت تھی تو پھر شوق کیسا۔ اصل بات یہ ہے کہ غلط معنے کر کے انسان اضداء میں پھنس جاتاہے۔ بات وہی ہے جو میں نے بتائی ہے کہ مومن صلح پسند ہوتا ہے اسے اگر مجبور کیا جائے تو وہ لڑتا ہے ورنہ وہ یہی پسند کرتا ہے کہ لوگوں کی جانیں ضائع نہ ہوں۔
پھر فرماتا ہے۔ عَیسٰٓی اَنْ تَکْرَ ھُوْ ا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْر’‘ لَّکُمْ وَسَعٰٓ اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَر’‘ لَّکُمْ درحقیقت انسانی علم اور سمجھ نہایت ہی محدود ہے اور ان دونوں کے محدود ہونے کی وجہ سے انسان بعض دفعہ ایک بات کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے۔ حالانکہ وہ اس کیلئے مضر ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ ایک بات کو اپنے لئے مضر خیال کرتا ہے حالاکہ وہ اس کے لئے مفید ہوتی ہے اور دونوں کے پیچھے یا جذبہ محبت کا ناجائز استعمال کام کر رہا ہوتا ہے یا جذبہ نفرت کا ناجائز استعمال کام کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی بعض دفعہ تو شدید محبت کی وجہ سے وہ کسی چیز کے مضرات کو نہیں دیکھ سکتا اور بعض دفعہ شدید نفرت کی وجہ سے وہ دوسری چیز کے حسن کو دیکھنے سے قاصر رہتا ہے اور وہ یقینی طور پر کسی امر کے متعلق یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ آیا وہ میرے لئے مفید ہے یا مضر۔ اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض دفعہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو لیکن حقیقتاً وہ تمہارے لئے مفید ہوتی ہے اور بعض دفعہ تم ایک چیز کو مفید خیال کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے لئے مضر ہوتی ہے تم کبھی کسی چیز سے فوائد حاصل کرنے کے لئے سامان مہیا کرتے ہو لیکن پھر بھی نتیجہ خراب نکلتا ہے ۔ جس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ بعض ایسے سامان جن سے اچھا نتیجہ نکل سکتا تھا تمہاری نظر سے مخفی رہے پس جبکہ انسان کی ایسی حالت ہے کہ اس کی امید کے مطابق ہر وقت اچھے نتیجے نہیں نکلتے بلکہ بعض اوقات بُرے نتائج نکل آتے ہیں تو وہ کیا کرے۔ سو اس کا علاج یہی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے حضور گرے اور عاجزی سے یہ دعا کرے کہ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اے خدا ! مجھ کہ ہرامر میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی صحیح اور سیدھا راستہ دکھاتا میں غلطیوں سے محفوظ رہوں۔ اور اپنی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کو نہ دیکھے بلکہ مجت اور نفرت کے جذبات سے بالا ہوکر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی نگاہ رکھے اور اس سے دعائیں کرتا رہے کہ وہ اسے سیدھا راستہ دکھائے اور اس سے دعائیں کرتا رہے کہ وہ اسے سیدھا راستہ دکھائے اور اپنی نیت اورارادہ کو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے تابع کر دے۔ تب اس کے لئے کامیابی ہی کامیابی ہو گی اور خیر اور برکت کیدروازے اس کے لئے کھولے جائیں گے۔
آخر میں وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ کہہ کر بتایا کہ تم تو نہیں جانتے لیکن خداتعالیٰ تمام حالات کو جانتا ہے۔ یعنی تم کفار سے لڑائی کرنا رحم کے خلاف سمجھتے ہو۔ حالانکہ بعض دفعہ شریر کو سزا دینا اس کی اصلاح کے لئے ضروری ہوتا ہے اور اس کو چھوڑ دینا خود اس کیلئے اور دوسرے لوگوں کے لئے مضر ہوتا ہے۔ پس چونکہ یہ لوگ اب بغیر جنگ کے باز آنے والے نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے۔
یَسْعَلُوْکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ
فِیْھَا خٰلِدُوْنَO
۱۳۰؎ تفسیر:۔ فرمایا یہ عزت والے مہینوں یعنی محرم، رجب، ذیقعدہ اور ذولحج کے متعلق تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آیا ان میں لڑائی کرنا جائز ہے؟ یہ سوال کس طرح پیدا ہوا؟ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو اس کے بعد بھی مکہ ولوں کے جوشِ غضب میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی بلکہ انہوں نے مدینہ والوں کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں کہ چونکہ تم نے ہمارے آدمیوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے اس لئے اب تمہارے لئے ایک ہی راہ ہے کہ یا تو تم ان سب کو قتل کر دو۔ یا مدینہ سے باہر نکال دو ورنہ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مدینہ پر حملہ کر دیںگے اور تم سب کو قتل کر کے تمہاری عورتوں پر قبضہ کر لیں گے اور پھر انہوں نے صرف دھمکیوں پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ان ایام میں یہ کیفیت تھی کہ بسا اوقات آپؐ سار ی ساری رات جگ کر بسر کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم رات کو ہتھیار باندھ کر سویا کرتے ھتے تاکہ رات کی تاریکی میں دشمن کہیں اچانک حملہ نہ کر دے۔ ان حالات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک طرف تو مدینہ کے قرب و جوار میں بسنے والے قبائل سے معاہدات کرنے شروع کر دیئے اور دوسری طرف ان خبروں کی وجہ سے کہ قریش حملہ کی تیاریاں کر رہے ہیں آپؐ نے ۲ء ہجری میں حضرت عبداللہ بن حجشؓ کو بارہ آدمیوں کے ساتھ نخلہ بھجوایا۔ اور انہیں ایک خط دی کر ارشاد فرمایا کہ اسے دو دن کے بعدکھولا جائے۔ حضرت عبداللہ بن حجشؓ نے دو دن کے بعد خط کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ تم نخلہ میں قیام کرو۔ اور قریش کے حالات کا پتہ لگا کر ہمیں اطلاع دو۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس دوران میں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ جو شام سے تجارت کا مال لے کر واپس آرہا تھا وہاں سے گذرا ۔ حضرت عبداللہ بن حجش ؓ نے ذاتی اجتہاد سے کام لے کر ان پر حملہ کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں کفار میں سے ایک شخص عمروبن الحضرمی مارا گیا اور دو گفتار ہو ئے۔ اور مال غنیمت پر بھی مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ جب انہوں نے مدینہ میں واپس آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپؐ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں لڑائی کی اجازت نہیں دی تھی اور مالِ غنیمت کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ابنِ جریرؓ نے حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن حجشؓ اور ان کے ساتھیوں سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ ابھی رجب شروع نہیں ہوا۔ حالانکہ رجب کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ وہ خیال کرتے رہے کہ ابھی۳۰ جمادی الثانی ہے۔ رجب کا آغاز نہیںہوا۔ بہر حال عمروبن الحضری کا ایک مسلمان کے ہاتھوں مارا جانا تھا کہ مشرکین نے شور مچا نا شروع کر دیا کہ اب مسلمانوں کو اس مقدس مہینوں کی حرمت کا بھی پاس نہیںرہا جن میں ہر قسم کی جنگ بند رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ بے شک ان مہینوں میں لڑائی کرنا سخت ناپسندیدہ امر ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ سے لوگوں کو روکا جائے۔ اور خداتعالیٰ کی توحید کا انکار کیا جائے اور مسجد حرام کو باطل کیا جائے۔ اور اس کے باشندوں کو بغیر کسی جرم کے محض اس لئے کہ وہ خدا ئے واحد پر ایمان لائے تھے اپنے گھروں سے نکال دیا جائے تمہیں ایک بات کا تو خیال آگیا مگر تم نے یہ نہ سوچا کہ تم خود کتنے بڑے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہو اور خدااور اس کے رسول کا انکار کر کے اور مسجد حرام کی حرمت کو باطل کر کے اور اس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکلا کر کتنے ناپسندیدہ افعال کے مرتکب ہوئے ہو جب تم خود ان قبیح حرکات کے مرتکب ہو چکے ہو۔ تو تم مسلمانوں پر کس مونہہ سے اعتراض کرتے ہو۔ ان سے تو صرف نادانستہ طور پر ایک غلطی ہوئی ہے۔ مگر تم تو جانتے بوجھتے ہوئے یہ سب کچھ کر رہے ہو۔
وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ علامہ ابو البقاء کے نزدیک بغیر اعادہ جار کے جر جائز نہیں اس لئے ان کا خیال ہے کہ یہ متعلق ہے فعل محذوف کا اور پورا جملہ یہ ہے وَصَدُّ عَنِ الْمَسْدِدِ الْحَرَامِ۔ کشاف نے بھی صَدّ’‘ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَام کے ہی معنے کئے ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کا عطف بِہٖ پر ہے اور ضمیر مجرور پر عطف بلا اعادہ جار کے برخلاف قول بصریوں کے جائز ہے۔ اہل عرب میں اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔جیسے کہتے ہیں۔ مَافِیْھَا غَیْرُہ‘ وَفَرْسِہٖ۔ یعنی اس گھر میں اس کے اور اسکے گھوڑے کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس مثلا میں فَرْسِہٖ کا عطف ضمیر مجرور پر کیا گیا ہے۔
پھر فرمایا۔ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۔ فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ اس جگہ فتنہ سے وہی فتنہ مراد ہے جس کا لَایَزَ الُوْنَ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ حَتّٰی یُرَدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنَکُمْ میں ذکر آتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو مرتد کرنے اور انہیں اسلام سے منحرف کرنے کی سازشوں کا نام فتنہ رکھا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ کفار تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے تاکہ اگر ان کو طاقت ہو تو تم کو اپنے دین سے مرتد کر دیں۔ یعنی گو تمہارا مرتد کر دینا ان کی طاقت سے بارہ ہے مگر کفار کی غرض تم سے لڑنے کی یہی ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں مرتد کر دیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کفار اپنے بدارادوں میں تو خداتعالیٰ کے فضل سے ناکام رہے اور مسلمانوں پر فتح نہ پا سکے مگر اِکَّا دوکا آدمی جو ان کے قبضہ میں آ گیا انہوں نے اپنی طرف سے اس کو مرتد کرنے کی پوری پوری کوشش کی۔
اِنَّ الَّذِیْنَ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘O
چنانچہ بلالؓ ۔ ابو جندلؓ اور یاسرؓ کی مثالیں اس امر پر کافی سے زیادہ روشنی ڈالتی ہین۔ انہی جبراً مرتد کرنے کی کوششوں کے متعلق فرمایا ہے۔ کہ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو دکھ میں ڈالنا بہت زیادہ خطرناک گنا ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے منحرف ہو جائیں اور کفر کی حالت میں ہی مر جائیں۔ ایسے لوگوں کے اعمال میں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اکارت چلے جائیں گے۔
حَبِطَتْ کے متعلق بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب کسی شخص نے کوئی عمل کر لیا۔ تو وہ ضائع کس طرح ہو گیا؟ اس اعتراض کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کا ذہن خَبِطَتْ کے اصل معنوں کی طرف نہیں جاتا۔ حَبِطَتْ کے اصل معنوں کا پتہ قرآن کریم کے ایک دوسرے مقام سے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطر میں فرماتا ہے کہ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا ط اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ ط(فاطر آیت ۱۱) یعنی جو شخص عزت چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرے۔ کیونکہ تمام عزتیں خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کی طرف پاکیزہ روحیں صعود کرتی ہیں اور عمل صالح یعنی ایمان کے مطابق عمل ان کو بلند کرتا ہے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال خداتعالیٰ کے حضور قبولیت کا جامہ پہن لیتے ہیں اور انسان کو اللہ تعلایٰ کا مقرب بنا دیتے ہیں۔ پس حَبِطَتْ اَعْمَا لُھُمْ کے یہ معنے ہیں کہ چونکہ ان کے اعمال خداتعالیٰ کے لئے نہیں تھے اس لئے وہ انہیں قبول نہیں کرے گا اور ان کی روحون کا صعود آسمان کی طرف نہیں ہوگا۔
اسی طر حَبِطَتْ اَعْمَا لُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰ خِرَۃِ کے یہ بھی معنے ہیں کہ خواہ ایمان لانے کے بعد کسی شخص کو اسلام کی بڑی بھاری خدمت کی توفیق ملی ہو پھر بھی اگر اس کا انجام کفر پر ہوا ہے تو اس کی پہلی دینی خدمات بھی رائیگاں چلی جائیں گی کیونکہ اس نے اپنے عمل سے ان خدمات کو باطل قرار دے دیا اورآخرت میں بھی اس کے وہ اعمال اس کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ کیونکہ اس کا خاتمہ اچھا نہ ہوا۔
وَاُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّار اور یہی لوگ دوزخ کی آگ میں پڑنے والے ہونگے۔ کیونکہ دنیا میں بھی انہوں نے اپنے ارتدار سے فتنے اور فساد کی آگ کو بھڑکایا تھا۔
۱۳۱؎ تفسیر:۔ چونکہ گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا تھا جو ارتداد کی حالت میں ہی اس دنیا سے اُٹھ جائیں اور بتایا تھا کہ ایسے لوگوں کی اسلام کو مٹانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ اس لئے اب اللہ تعالیٰ ان کے مقابلہ میں ان لوگوں کا ذکر فرماتا ہے جن کو ارتداء کے بعد توبہ کی توفیق مل جائے۔ اور وہ پھر اسلام میں داخل ہو جائیں چونکہ ازنداد کا داغ ایک نہایت ہی بدنما داغ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے توبہ کیل ئے صرف ایمان لانا کافی قرارنہیں دیا بلکہ فرمایا کہ ایسے لوگوں کی توبہ اس وقت قبول ہو گئی جب ایمان لانے کے بعدوہ ہجرت اختیار کریں یعنی بزدلی اور اخفائے ایمان جیسی گندی عادتوں کو کلی طور پر ترک کردیں یا اس علاقہ سے نکل جائیں جہاں دینی معاملات میں جبر سے کام لیا جاتا ہو۔ اور پھر دین کی راہ میں ایک ننگی تلوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مالی اور جانی جہاد کریں۔ اگر وہ ایسا کرینگے تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائیں گے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ایک دفعہ حضرت عمرؓ حج کے لئے مکہ تشریف لے گے۔ تو حج کے بعد آپ کی ملاقات کے لئے لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔ انہی ملاقاتیوں میں مکہ کے روساء اور سردار انِ قریش کے بعض لڑکے بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بڑی عزت سے بٹھایا۔ اور ان سے مختلف باتیں پوچھتے رہے اتنے میں ایک غلام صحابی آیا۔ وہ غلام جو ابتدائے اسلام میں ان روساء عرب اور سرداران قریش کے باپ دادئوں کی جوتیاں کھایا کرتے تھے جنہیں وہ گالیوں میں گھسیٹتے اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مار مار کر زخمی کر دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان نوجوانوں سے کہا۔ ذرا پیچھے ہٹ جائو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی ہیں وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اور صحابی قریب ہو کر حضرت عمرؓ سے باتیں کرنے لگ گئے۔ اتنے میں ایک اور صحابی آگیا۔ حضرت عمرؓ نے پھر ان نوجوانوں سے کہا۔ ذرا پیچھے ہٹ جائو او ران کے لئے جگہ چھوڑ دو۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی ہیں۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ جوتیوں تک جا پہنچے۔ یہ دیکھ کر وہ مجلس سے اُٹھ کر باہر آگئے اور ایسی حالت میں آئے کہ انکی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا۔ کیا کبھی یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ ہم کسی زمانہ میں اس قدر ذلیل ہو جائیں گے کہ وہ لوگ جو ہماری جوتیاں اُٹھانا اپنے لئے فخر کا موجب سمجھا کرتے تھے مجلس میں ایک ایک کر کے ہم سے آگے بٹھائے جائیں گے اور ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا جائیگا۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ہم جوتیوں تک جا پہنچیں گے۔ گویا وہ جو ذلیل تھے معزز ہو گئے اور ہم جو معزز تھے ذلیل ہو گئے ۔ یہ تمام نوجوان اگرچہ ایماندار تھے مگر غصہ اور جوش میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔ لیکن ان میں سے ایک نوجوان جس کا ایمان زیادہ مضبوط تھا وہ کہنے لگا۔ بھائی تم نے بات تو ٹھیک کہی مگر اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اور کس نے ہمارے باپ دادا سے کہا تھا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شدید مخالفت کی تھی ۔ اس لئے آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم مجلس میں پیچھے ہٹا دیئے گئے۔ مگر وہ جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت کی تھی۔ جنہوں نے اپنی جانیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں قربان کر دیئے تھے ان میں سے گو بہت سے مارے گئے مگر اب بھی جو باقی ہیں ان کا حق ہے کہ ان کی عزت کی جائے۔ اور ان کو ہم سے زیادہ ادب کے مقام پر بٹھایا جائے۔ انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے مگر کیا اب اس ذلت کو مٹانے کا کوئی ذریعہ نہیں؟ یا کیا کوئی ایسی قربانی نہیں جو اس گناہ کا کفارہ ہو سکے؟اس پر اسی نے کہا چلو حضرت عمرؓ کے پاس ہی چلیں اور انہی سے اس کا علاج دریافت کریں۔ چنانچہ وہ پھر آپ کے مکان پر گئے اور دستک دی مجلس اسوقت تک برخواست ہو چکی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اندر بلا لیا۔ اور کہا کس طرح آنا ہوا وہ آپ جانتے ہی ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں معذور تھا کیونکہ اس وقت جو لوگ میرے پاس آے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی تھے اور میرے لئے ضروری تھا کہ میں ا نکی عزت و تکریم کرتا۔ انہوں نے کہا ہم اس بات کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم
یَسْئَلُوْنَکَ
تَتَفَکَّرُوْنَO
جانتے ہیں کہاہمارے باپ دادا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار کر کے اپنے لئے بہت بڑی ذلت مول کے لی۔ مگر کیا کوئی ایسای طریق نہیں جس سے یہ ذلت مول لے لی۔ مگر کیا کوئی ایسا طریق نہیں جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانیوں سے مٹ سکے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ چونکہ اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان نوجوانوں کے باپ دادا کو کتنی بڑی عزت اور وجاہت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ اسلام کی دشمنی کے زمانہ میں بھی اگر وہ کسی مسلمان کو پناہ دے دیتے تھے تو کسی شخص کو یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس مسلمان کو دکھ پہنچا سکے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کر کے یہ واقعات آئے اور اس کا تصور کر کے ان پر رقت طاری ہو گئی اور بات کرنا آپ کے لئے مشکل ہو گیا۔ اور غلبہ رقت میں آپ نے صرف اپنا ہاتھ اُٹھایا اور شمال کی طرف جہاں شام میں ان دنوں عیسائیوں سے لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کر کے کہا کہ اس کا علاج صرف وہاں ہے یعنی اب اس ذلت کا علاج ایک ہی ہے او روہ یہ ہے کہ اس جہاد میں شامل ہو کر اپنی جانیں دے دو۔ پھر خود بخود لوگ ان باتوں کو بھول جائیں گے۔ چنانچہ اسی وقت وہ لوگ وہاں سے اُٹھے اور اپنے اونٹوں پر سوار ہو کر شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ سات نوجوان تھے جو اس ذلت کو دور کرنے کے لئے جہا د میں شامل ہو ئیاور تاریخ بتاتی ہے کہ پھر ان نوجوانوں میں سے ایک بھی زندہ مکہ کی طرف واپس نہیں آیا۔ سب اسی جنگ میں شہید ہو ئے۔ جس طرح ان نوجوانوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں قربان کر کے رضاء الہٰی حاصل کی تھی ۔ اسی طرح ارتداد کے بعد اسی صورت میں توجہ قبول ہو سکتی ہے۔ جب زبان سے ایمان کا اظہار کیا جائے اور عمل سے ہجرت اختیار کی جائے۔ خواہ حقیقی رنگ میں یا معنوی رنگ میں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں کفار سے جہاد کیا جائے یہی وہ ذرائع ہیں جن سے وہ رحمت الہٰی کے موردبن سکتے ہیں۔
۱۳۲؎ حل لغات:۔ اَلْخَمْرُ: اَلْخَمْرُ اِسْمُ کُلِّ مُسْکِرٍ خْامِرِ الْعَقْلِ(اقرب) خمر ہر ایک نشہ دینے والی چیز کو کہتے ہیں۔ جو عقل کو ڈھانپ دیتی ہے۔
اَلْمَیْسِرِ: یَسَرَسے مَفْعِل’‘ کا صیغہ ہے اور اَلْمَیْسِرِ کے معنے ہیں اَللَّعْبُ بِالْقَدَاحِ (۱)تیروں سے جُوا کھیلنا۔ (اَرْھُو۔ النَّرْدُ اَوْکُلُّ قِمَارٍ) اَوْ ھُوَ الْجُزُوْرُ الَّتِیْ کَانُوْا یَتَقَا مَرُوْنَ عَلَیْھَا (اقرب) (۲) نَرد یعنی شطرنج اور چوپٹ کو بھی میسر کہتے ہیں (۳) ہر قسم کا جوا بھی میسر کہلاتا ہے۔ (۴) میسر ان اونٹوں کو بھی کہتے ہیں جن پر لاٹری ڈالتے تھے۔
اَلْاِثْمُ: اَلْاَفْعَالُ الْمُبْطِلَۃُ عَنِ الْخِیْرِ۔ وہ کام جو نیکیوں سے روک دیں ان کو اِثْم’‘ کہتے ہیں (۲) اِثْم’‘ کا لفظ کبھی سزا اور تکلیف اور دکھ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اپنے نتیجہ کے اعتبار سے تکلیف وغیرہ کے معنے دیتا ہے ۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ کبھی سبب کو مسسب کی جگہ استعمال کر لیتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں اسے دوسری جگہ ان عنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّ مَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّضْعَلْ ذٰلِکَ یَلْ قَ اَثَامًا (فرقان آیت۲۹) اسجگہ یَلْقَ اَثَامًا کے یہ معنے ہیں کہ جو شخص یہ کام کریگا وہ سزا پائیگا۔
اَلْعَفْوَ: خِیَارُ الشَّیْئِ وَاَطْیَبُہ‘ بہتر سے بہتر اور پاک سے پاک چیز (۲) مَایَفْضُلُ عَنِ النَّفَقَۃِ وَلَا عَسَرَ عَلیٰ صَاحِبِہٖ فِیْ اعْطَا ئِہٖ۔ جو کسی کے خرچ سے بچ رہے اور دینے والے کو اس کے دینے میں تنگی محسوس نہ ہو۔ (۳) عَفْوُ الْمَالِ۔ وہ مال جو بغیر سوال کے دیا جائے۔ کہتے ہیں اَعْطَیْتُہ‘ عَفْوْا یا اَعْطَیْتُہ‘ عَفْرَ الْمَالِ۔ میں نے اُسے بغیر مانگے دیا۔(اقرب)
تفسیر:۔فرماتا ہے کہ لوگ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ جائز ہیں یا ناجائز۔ تو ان سے کہدے کہ شراب اور جوئے میں کچھ خرابیاں ہیں اور کچھ فوائد لیکن خرابیاں فوائد کی نسبت زیادہ ہیں۔ یہ کیا ہی لطیف جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ان کے سوال پر انہیں فوری طور پر منع نہیں کیا کہ تم شراب نہ پیو اور جوا نہ کھیلو۔ بلکہ فرمایا کہ ان میں فوائد تھوڑے اور نقصانات زیاد ہ۔ اب تم خود سوچ لو کہ تمہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس جواب میں اصولی طور پر خداتعا لیٰ نے ہمارے لئے یہ قاعدہ بیان فرمایا دیا ہے کہ اگر کسی کام میں فائہد زیادہ ہو اور نقسان کم تو اسے اختیار کر لیا کرو۔ اور اگر نقصان زیادہ ہو اور فائدہ کم تو اسے کبھی اختیار نہ کرو۔ بالخصوص ایسا کام تو کبھی اختیار نہ کرو جس میں اِثْم’‘ کَبِیْر’‘ ہو۔ اِثْم’‘ کے معنے گناہ کے بھی ہیں اور اِثْم’‘ کے معنے نیکیوں سے محرومی کے بھی ہیں۔ گویا انسان کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس کے نتیجہ میں اسے گناہ ہو۔ یا جس کے نتیجہ میں وہ نیکیوں سے محروم ہو جائے ۔ خواہ اس میں بظاہر کچھ فوائد بھی دکھائی دیتے ہوں۔
پھر مَنَافِعُ لَلنَّاسِ فرما کر اسلام نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ خواہ تمہاری نگاہ میں کوئی چیز کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو ۔ تمہارا فرض ہے کہ تم اس کی خوبیوں سے کلی طور پر انکار نہ کرو۔ جب شراب اور جوئے جیسی چیزیں بھی فوائد سے خالی نہیں تو دوسری ضور رساں چیزوں کو تم فوائد سے خالی کیوں سمجھتے ہو۔ بے شک تمہارا فرض ہے کہ تم ان کے ضر ر سے بچو۔ اور آئندہ نسلوں کو بچائو لیکن تمہاری بینائی ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کسی چیز کا صرف تاریک پہلو ہی دیکھے بلکہ ہر چیز کا تاریک اور روشن دونوں پہلو سامنے رہنے چاہییں اور حسن کا اقرار کرنے میں تمہیں کبھی بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمان اس بارہ میں خود آآکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سوال کیا کرتے تھے ۔ حالانکہ عرب کے رہنے والے شراب پینے کے اس قدر عادی تھے کہ وہ اس پر فخر کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک عرب شاعر کہتا ہے
؎ اَلَا ھُبِّیْ بِصَحْنِکِ فَاسْبَحِیْنَا
فَلَا تُبْقِیْ خُمُوْرَ الْاَنْدَرِیَنَا
یعنی اے میری محبوبہ تو بیدار ہو۔ اور اپنے بڑے پیالے میں ہم کو صبوحی پلا۔ اور اس قدر پلا کہ علاقہ شام کے اندر شہر کے شراب فروشوں کی شراب میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے۔ سب کی سب ہمیں پلادے۔ اسی طرح جنگوں کے موقعہ پر وہ خصوصیت سے شراب کا زیادہ استعمال کیا کرتے تھے تاکہ وہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر لڑیں۔ اور عاقبت اندیشی کا خیال ان میں نہ رہے۔ مگر ایسے ماحول میں رہنے کے باوجود انہوں نے خود پوچھا کہ یا رسول اللہ! شراب اور جُوئے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ ابھی شراب اور جوئے کی حرمت نازل نہیں ہو ئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہنے کے بعد وہ محسوس کرتے تھے کہ یہ چیزیں قرب الہٰی میں روک ہیں۔ اور ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کوئی واضح حکم نازل ہونا چاہیے۔ پس یہ سوال خود اپنی ذات میں صحابہ کرامؓ کی پاکیزگی ان کی بلندی اخلاق اور ان کے اعلیٰ کردار کا ایک زبردست ثبوت ہے۔ شراب اور جوا یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جن کے روکنے کے لئے دنیا میں بڑی بڑی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ مگر اسلام کے سوا اورکوئی مذہب ان کو روک نہیں سکا۔ صرف اسلام ہی ہے جسے اس میدان میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ چنانچہ شراب کے متعلق اسلامی تعلیم کو جو وہ شراب کے متعلق دیتے ہیں بیان کرتے ہیں اور سب سے پہلے اسی مذہب کا ذکر کرتے ہیں جو سب سے قدیم مذہب ہونے کا مدعی ہے یعنی ویدک مذہب، ہندو مذہب کی شراب کے متعلق جو تعلین ہے اس کیل ئے ہمیں زیادہ چھان بین کی ضرورت نہیں اس مذہب کی بنا ویدوںپر ہے اور وید خود اس مسئلہ پر کافی سے زیادہ روشنی ڈالتے ہیں۔ ویدوں پر خصوصاً رگوید پر جو چاروں ویدوں میں سے اہم ہے ایک اجمالی نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ شراب نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کا استعمال بعض موقعوں پر ضروری اور موجب ثواب بتایاگیا ہے۔ اور ہند کی رشی اسے ایک مقدس اور پاک چیز قرار دیتے ہیں۔ وید کے منتر یکے بعد دیگرے ہماری آنکھوں کے سامنے اس سنجیدہ کوشش کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں جو ہندوستان کا برگزیدہ پُجاری اپنے پرماتما کی توجہ کو کھینچنے کے لئے شراب کو پیش کر کے کرتا ہے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو معلو م ہوتا ہے کہ قدیم ہندوستان کے پجاری کی پوجا میں شراب کاد وسری چیزوں کی نسبت بہت زیادہ دخل تھا۔ وہ سوم کا رس نہ صرف خود پیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ بہت سی پوجا کی چیزوں کو بھی نہلاتا ہے اور اندر اور دوسرے دیوتائوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انکے سامنے بھی اسے پیش کرتا ہے۔ اسی طرح اتھروید میں اشونی کماردیوتائوں کی پوجا کے وقت جو منتر پڑھنے کے لئے بتائے گئے ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ایام کا ہندو پجاری اس چیزکو ایسا متبرک سمجھتا تھا کہ صرف خود ہی شراب کو استعمال نہ کرتا تھا بلکہ اپنے دیوتا سے بھی اس کے استعمال کی درخواست کرتا تھا۔ چنانچہ کانڈ نمبر۹ ادھیائے نمبر۱ منتر نمبر۱۷ میں لکھا ہے۔
’’اے اشونی کمارو! پہاڑوں میں، جنگلوں میں، جنگلی جڑی بوٹیوں میں جو مدھو(شراب) ہے اس وقت (یعنی یگیہ کی تقریب پر) جو کشیدگی کی جاتی ہے اس کا رس میرے اور آپ کیلئے ہو۔‘‘
اس منتر میں تو صرف دیوتا سے شراب کے استعمال کی درخواست ہی کی گئی ہے۔ مگر بلور کے بنائے ہوئے نیتر کی پوجا کے وقت اس سے بھی زیادہ یہ کام کیا جاتا ہے کہ اسے شراب سے غسل دیا جاتا ہے۔ گویا عملاً اسے شراب پلائی جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ اتھروید کا یہ منتر پڑھا جاتا ہے کہ
’’اے باور کے بنائے ہوئے نیتر! آپ ہمارے مہمان ہو کر ہمارے گھر میں رہیگا اور ہم آ پ کو گھی شراب شہد اور میٹھے میٹھے اسی طرح کے کھانے دیتے ہیں۔ آپ ہماری ہمیشہ بھلائی سوچتے رہا کریں۔ جیسے باپ اپنی اولاد کے لئے بہتری سوچتا رہتا ہے۔‘‘
(اتھروید کانڈ نمبر ۱۰ اوھیائے نمبر۶ منتر ۲۶،۲۷)
یہ دومنتر تو اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ قدیم ہند کا پجاری پوجا کے وقت اپنے دیوتا سے شراب پینے کی درخواست کرتا ہے اور خود شراب پیتا اور بلور کے نیتر کو شراب میں غوطہ دیتا ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ وضاحت اسی وید کے کانڈ نمبر۱۰ ادھیائے نمبر۱۰ اور منتر نمبر۱۰ میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوتا خود بھی اپنی کامیابی کی خوشی میں شراب کا استعمال کرتے یہں چنانچہ لکھا ہے:۔
’’اپنے دشمنوں کو قابو کر کے فتح حاصل کرنے کے لئے اندر سے شراب کے پیالے پیئے۔‘‘
اس زمانہ میں آریہ مت کے بعض ممبروں نے سوم کے رس اور اسی قسم کے اور الفاظ کی تشریح کرتے وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وید میں شراب کا کوئی ذکر نہیں بلکہ گلو وغیرہ کے رس کاذکر ہے مگر جب ہم تمام کی تمام ہندو قوم کا طریق عمل دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ہندو قوم کا میل جول کسی ایسی قوم سے جو شراب کی سخت عادی ہو کبھی لمبے عرصے تک اور پورے طور پر نہیں رہا جس سے خیال ہو سکے کہ دوسروں سے یہ عادات انہوں نے اخذ کر لی ہیں تو ہم کو ان تاویلات کے ماننے میں بہت کچھ تاتل ہوتا ہے۔ مگر جب ہم اتھرووید کے کانڈ نمبر۱۸ انوداک نمبر۱ سوکت نمبر۱ منتر ۴۸ کو دیکھتے ہیں تو ان تاویلات کا قبول کرنا ہمارے لئے بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس میں ہم یہ لکھ ہو ا پاتے ہیں کہ:۔
’’ یہ سوم بہت ہی لذیذ اور خوش ذائقہ ہے اور کچھ میٹھا بھی اور کچھ تیز و تُرش بھی ہے ایسے سوم کو پینے والے اندر دیوتا کے مقابلہ پر جنگ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘
ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو مذہب پورے طور پر شراب کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ اور بعض عبادات میں اس کا استعمال ضروری قرار دیتا ہے ۔ ہندوئوں کا تمدن بھی اس نتیجہ کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی تاریخ بھی اسکی صحت پر شاہد ہے۔
ایرانی مذہب کی تعلیم:۔ دوسرا قدیم مذہب ایرانیوں کا مذہب ہے ۔ ایرانی قوم ایک مسلسل اورلمبی تاریخ رکھتی ہے بلکہ تازہ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوء تعجب نہیں اس کا تمدن دیدک سے بھی پرانا ہو۔ اس قوم کے مذہب قدیم و جدیدسے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شراب جائز تھی۔ زردشتی مذہب کی واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ زردشت کسی جدید مذہب کا بانی نہ تھا بلکہ اس نے قدیم ایرانی مذہب کو جو مرورزمانہ سے بہت کچھ بگڑ گیا تھا دوبارہ زندہ کیا تھا۔ پس ایرانی مذہب کا فتویٰ شراب کے متعلق معلوم کرنے کے لئے ہمیں زردشت کی بعثت سے پہلے اور بعد دونوں زمانوں پر نظر ڈالنی چاہیے۔ گو تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی لوگ شراب بکثرت استعمال کرتے تھے مگر مذہبی طور پر وہ اس کو کیسا سمجھتے تھے اس کا پتہ ہمیں زردشتی کتب سے ہی ملتا ہے ۔ چنانچہ پہلوی کتب میں زردشت کی پیدائش کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے والد یورو شامپ کو فرشتہ نے ایک شراب کا گلاس دیا جس کے پینے کے قریب زمانہ میں ہی اس کی بیوی دو عذونامی حاملہ ہوئی اور ایک ایسا لڑکا جنی جس نے مشرقی تاریخ میں ایک نیا انقلاب پیدا کرنا تھا۔
ایک مقدس انسان کی پیدائش کے لئے فرشتہ نے شراب کا گلاس انکے والد کو پلانا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زردشت کے زمانہ سے پہلے بھی شراب کا استعمال مذہباً نہ صرف جائز بلکہ مستحسن تھا۔
زردشت نے ایرانی مذہب میں جو اصلاح کی اس کی رو سے بھی شراب کا استعمال ایک مستحسن امر قرار دیا گیا۔ چنانچہ افرنجسن کی دعا جو زردشتی مذہب کے پادریوں کے پڑھے جانے کے لئے مخصوص ہیں ان کے پڑھے جانے کے وقت جو رسوم ادا کی جاتی ہیں ان میں بھی شراب کا دخل ہے۔ دستوران دعائوں کے پڑھنے کے وقت ایک قالین پر جسے زمین پر بچھایا ہوا ہوتا ہے بیٹھ جاتا ہے اور اس کے سامنے دھات کی تھالی یا کسی پودہ کے پتہ پر اس موسم کے اعلیٰ سے اعلیٰ میوہ جات اور پھول رکھے جاتے ہیں اور ساتھ ہی برتنوں میں تازہ دودھ اور شراب اور تازہ پانی اور شربت پڑا ہوتا ہے۔ غرض ایرانی مذاہب کے مطابق بھی شراب کا استعمال ایک مستحسن اور پسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے۔ اور بعض مذہبی رسوم کی ادائیگی کے وقت شراب کا استعمال یا اس کا پاس رکھنا ضروری قرار دی گیا ہے۔
شراب اور بائیبل:۔ تیسرا قدیم مذہب اسرائیلی مذہب ہے ۔ یہ مذہب بھی ہندو مذہب اور زردشتی مذہب کی طرح اپنا سلسلہ ابتدائے آفرنیش سے شروع کرتا ہے گو اس مذہب کی بنیاد حضرت موسیٰ ؑ نے رکھی ہے۔ مگر یہ ایک مسلسل سلسلہ تاریخ کے ذریعہ ابو البشر آدم علیہ السلام سے اپنا تعلق جا ملاتا ہے۔ اس مذہب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شراب کا استعمال ابتدا ئے آفرینش سے برابر چلا آیا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسے کبھی برا نہیں سمجھا گیا بلکہ خود انبیاء علیہم السلام بھی اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش باب۹ آیت ۲۰ تا۲۳ میں لکھا ہے:۔
’’اور نوح کھیتی باڑی کرنے لگا اور اس نے ایک انگور کا باغ لگایا۔ اور اس کی مے پی کر نشہ میں آیا۔ اور اپنے ڈیرے کے اندر آپ کو ننگا کیا اور کنعان کے باپ حام نے اپنے باپ کو ننگا دیکھا۔ اور اپنے دو بھائیوں کو جو باہر تھے خبر دی۔ تب سم اور یافث نے ایک کپڑا لیا اور اپنے دونوں کاندھوں پر دھرا اور پچھلے پائوں جا کر اپنے باپ کی برہنگی کو چھپایا۔‘‘
یہ توحضرت نوح ؑ کا حال ہے۔ جو پہلے نبی ہیں جن کی تاریخ ایک حد تک۔۔۔۔۔ محفوظ ہے۔ اور جن کے بعد تاریخ ایک حد تک تفصیلی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ آپ کے بعد دوسرا مہتم بالشان زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے ان کی نسبت ہم بائیبل کے باب۱۴ آیت ۱۸ میں پڑھتے ہیں کہ ملک صدق سالم کے بادشاہ نے ان کی دعوت میں روٹی اور مے پیش کی تھی۔ اسی طرح حضرت لوط کی نسبت پیدائش باب۹آیت۳۲، ۳۵ میں لکھا ہے کہ لوط کی لڑکیوں نے اپنے باپ کومے پلائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں نہ صرف شراب منع نہ سمجھی جاتی تھی بلکہ ضروریات زندگی میں سے خیال کی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ واقعہ عذاب کے بعد کا ہے۔ جس وقت کہ حضرت لوط اپنی دونوں لڑکیوں سمیت جنگل میں ایک غار میں رہتے تھے۔ اس وقت ان کے پاس شراب کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بائیبل کے بیان کے مطابق اس وقت کے طرز معاشرت کے ماتحت انہوں نے ان چند ضروری اشاء میں جو وہ برباد ہونے والی بستی سے لیکر نکلے تھے شراب کا شامل کرنا بھی ضروری خیال کیا تھا۔ بنو اسرائیل میں نبوت کے منتقل ہونے میں بھی شراب کا بہت کچھ دخل ہے۔ کیونکہ جیسا کہ بائیبل کے بیان سے معلوم ہوتا ہے ابتداء بڑے لڑکے ہی وارث ہو اکرتے تھے اور انہی کی نسل سے شجرہ چلایا جاتا تھا۔ چنانچہ اس طریق کے مطابق حضرت اسحاق نے بھی اپنے بڑے لڑکے عیسو کو برکت دینی چاہی۔۔۔۔۔۔ مگر جیسا کہ پیدائش باب ۲۷ سے معلوم ہوتا ے کہ حضرت یعقوبؑ کی والدہ نے انکو کھانا پکا کر دیا۔ اور انہوں نے لذیذ کھانا کھالا کر اور عمدہ شراب پلا کر (آیت۲۵) اور اپنے آپ کو عیسو ظاہر کر کے ان سے اپنے حق میں دُعا کروالی۔ اور اس طرح نبوت عیسُو کے خاندان سے نکل کر یعقوب یعنی سرائیل کے خاندان میں آگئی۔ پس بنی اسرائیل اپنی روحانی ترقیات میں ایک حد تک مے کے بھی ممنون ہیں۔
پھر نہ صرف یہ کہ بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت اسحاقؑ نے خود ہی مے پی۔ بلکہ حضرت یعقوبؑ کے حق میں بھی جن کو وہ اپنا بڑا لڑکا عیسو خیال کررہے تھے یہ دعا کی کہ خداتجھے اناج اور مے کی زیادتی بخشے(آیت ۲۸) جس کے ذریعے انہوں نے بنی اسرائیل کے لئے ہمیشہ شراب کا استعمال ضروری قرار دیدیا کیونکہ اگر وہ شراب کا استعمال ترک کر دیں۔ تو یہ دعا باطل جاتی ہے حضرت اسحاق کی اس دعا کو حضرت یعقوب نیبھی اپنی وفات کے وقت کی دعا سے اور تقویت دے دی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے بیٹے یہود اور اس کی اولاد کے حق میں خبر دی ہے۔ کہ انکی آنکھیں شراب کے نشہ سے سُرخ رہیں گی۔ (پیدائش باب۴۹آیت۱۲) اس زمانہ کے بعد بنی اسرائیل کی تاریخ میں سب سے بڑا اور اہم زمانہ حضرت موسیٰ کا ۔۔۔۔۔ ہے۔ حضرت موسیٰ یہودی مذہب کے بانی ہیں۔ اور اپنے سے پہلے سب شریعتوں کے ناسخ ہیں۔ مگر جہاں انہوں نے ایسے بہت سے قانون اور رواج جو ان سے پہلے بنی اسرائیل میں رائج تھے موقوف کئے ہیں۔ شراب کے متعلق پہلے حکم کو تبدیل نہیں کیا بلکہ انہوںنے شراب کو خداوند کا چڑھاو اقرار دے کراس کو مقدس کہا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ گنتی باب۱۸ آیت۱۲ سے معلوم ہوتا ہے اچھی سے اچھی شراب کا حضرت ہارونؑ اور ان کی اولاد کے لئے جن کو کہانت کا عہدہ سپر د کیا گیا تھا وعدہ کیا گیا ہے اور بنی اسرائیل کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ عمدہ شرابیں خداتعالیٰ کے نام پر معبد پر چڑھائیں جنہیں کاہن استعمال کریں۔
یہ وعدے جو اوپر بیان ہوئے ہیں صرف حضرت ہارون اور ان کی اولاد کے لئے ہیں۔ مگر دوسرے بنی اسرائیل کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ بلکہ ان کے لئے بھی حضرت موسیٰؑ سے خداتعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ خداتعالیٰ کے حکموں پر عمل کرینگے اور شریعت کی پابندی کرینگے تو ان کے لئے رحم کے پھل اور ان کی زمین کے پھل اور ان کے غلہ اور انکی مے اور ان کے تیل اور ان کی گائیوں کی بڑھتی اور ان کی بھیڑوں کے گلوں میں اس زمین پر جس کی بابت اس نے ان کے باپ دادوں سے قسم کر کے کہا کہ تجھ کو دونگا برکت بخشیگا۔(استثنا باب۷آیت ۱۳) اس حوالہ کے علاوہ تورات میں اور بھی کئی جگہ بنی سرائیل کے لئے شراب کی کثرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اور حضرت مسیح کی آمد تک جس قدر انبیاء اور سلاطین گذرے ہیں عموماً سب کے ذکروں میں شراب کا بیان ہے گویا ان کی تمام تاریخ سے شراب کا استعمال نہایت کثرت سے ثابت ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰ کے بعد مذہبی دنیا میں عظیم الشان تبدیلی کر دینے والی ہستی جس کے بعد نبی عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا کوئی تغیر عظیم پیدا کرنیو الا انسان مبعوث نہیں ہوا حضرت مسیح ہیں۔ س وقت ان کے ماننے والوں کو دنیا میں ایک خاص مرتبہ اور عزت حاصل ہے۔ اور ان کی تعلیم کو نہایت کامل اور مکمل ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی شراب کے متعلق جو کچھ فتویٰ دیا ہے وہ اس کی تقدیس کا ہی ہے ۔ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح شراب کی تقدیس کا ہی ہے۔ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح شراب کو بُرا نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ خود اس کو استعمال کرتے تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہو معجزانہ طور پر شراب بنا کر لوگوں کو پلاتے تھے۔ حضرت مسیح کو خود شراب استعمال کرنا تو متی باب ۲۶ آیت۲۹ سے ثابت ہے جہاں لکھا ہے کہ مسیح نے حواریوں سے کہا کہ
’’میں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کے پھل کا رس پھر نجہ پیونگا اس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہت میں نیا نہ ہوں۔‘‘
اور ان معجزانہ طور پر شراب بنانا او ردوسروں کو پلانا یوحنا باتب۲ آیت۳ تا ۱۰ سے ثابت ہوتا ہے ۔ ان آیات کا مضمون یہ ہے:۔
’’ اور جب مے گھٹ گئی۔ یسوع کی ماں نے اس سے کہا کہ ان کے پاس مے نہ رہی۔ یسوع نے اس سے کہا ۔ کہ اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام میرا وقت ہنود نہیں آیا۔ اس کی ماں نے خادموں کو کہا۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے سو کرو۔ اوروہاں پتھر کے چھ مٹکے طہارت کے لئے یہودیوں کے دستور کے مطابق دھرے تھیاور ہر یک میں دو یا تین من کی سمائی تھی۔ یسوع نے انہیں کہا۔ مٹکوں میں پانی بھرو۔ سو انہوں نے ان کو لبالب بھرا پھر اس نے انہیں کہا کہ اب نکالو۔ اور مجلس کے سردار پس لے جائو۔ اور دے لے گئے جب میر مجلس نے وہ پانی جو مے بن گیا تھا چکھا اور نہیں جانا کہ یہ کہاں سے تھا مگر چاکر کہ جنہوں نے وہ پانی نکالا تھا جانتے تھے تومیر مجلس نے دولہا کو بلایا اور اسے کہ اکہ ہر شخص پہلے اچھی مے خرچ کرتا ہے اور ناقص اسوقت کہ جب پی کے چھک گئے۔ پر تونے تو اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔‘‘
مذکورہ بالاحوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائے عالم سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت تک تمام کے تمام مذاہب شراب کے جواز کا فتویٰ دیتے چلے آئے ہیں بلکہ اس کا استعمال بعض مذہبی رسوم میں بھی واجب رکھاجاتا رہا ہے اور اسے متربرک کاور مفید شے قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ان مذاہب کی موجودگی اور ان کے رسوخ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ نے ان تمام مذاہب کی تعلیم کے خلاف اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اپنے پیروئوں کو سنایا کہ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیھِمَآاِثْم’‘ کَبِیْر’‘ وَمَنَا فِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآاَکْبَرُ مِنْ تَّفْعِھِمَا۔ یعنی لوگ تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ شراب اور جوئے کے متعلق کیا حکم ہے ؟ تو کہدے کہ ان میں نقصان بھی بہت ہے اور لوگوں کے لئے منافع بھی ہیں اور ان کا ضررر ان کے نفع سے زیادہ ہے۔
قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ سے بھی زیادہ زوردار الفاظ میں شراب کو منع کیا گیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْس’‘ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِیٰ الْخَمْرِوَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلوٰۃِ۔ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَاِنْتَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا عَلیٰ رَسُوْلِنَاالْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۔(مائدہآیت۹۱ تا۹۳) یعنی اسے مومنو شراب اور جوا اور چڑھاوے کی جگہیں اور لاٹری شیطانی کاموں میں سے ہیں۔ سو ان سے بچو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔ شیطان سوائے اس کے اور کچھ نہیں چاہتا کہ تمارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے عداوت اور بغض پیدا کر دے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نماز سے تم کو روکدے۔ پس کیا تم باز رہو گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور وہمیشہ چوکس رہو۔ اور اگر تم باوجود سمجھانے کے پھر جائو تو خوب یاد رکھو کہ ہمارے رسول کا فرض صرف یہی ہے کہ تم لوگوں تک حق کو پہنچادے۔
ان آیات میں شراب کو قطعی طور پر منع کر دیا گیا ہے اور ایک مسلمان کے لئے اس چیز کا استعمال ہر گز جائز نہیں۔ میں بتا چکا ہوں کہ جس وقت یہ حکم اسلام نے دیا ہے اس وقت تک تمام مذاہب شراب کو نہ صرف یہ کہ برا نہیں قرار دیتے تھے بلکہ اس کے استعمال کو بالعموم اچھا سمجھتے تھے اور بعض مذاہب کی رسوم میں اس کا استعمال واجب تھا۔ ایسے موقعہ پر اسلام کا شراب کو منع فرمانا کوئی معمولی بات نہ تھی بلکہ اس زمانہکی طب بھی شراب کو ایک نہایت ہی مقوی اور اعلیٰ درجہ کی شے قرارد یتی تھی اور اس کا پینا صحتِ جسمانی کے لئے نہایت مفید قرار دیا جاتا تھا۔ مگر باوجود ان سب باتوں کے اسلام نے شراب کو منع فرمایا۔ اور قطعی طور پر اس کا استعمال ناجائز قرار دے دیا۔ اور یونہی بلا وجہ نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ اور دلائل دیتے وقت بھی تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ اس کے استعمال کو منع کرتے وقت یہ بھی اقرار کیا کہ اس میں فوائد بھی ہیں ممکن ہے بعض فلسفیوں نے اس کے استعمال کو بعض حالات میں ناپسند کیا ہو لیکن جس رنگ میں اسلام نے اس مسئلہ کو حل کیا ہے اور کسی نے نہیں کیا۔ مثلاً جینی مت جو درحقیقت مذہب نہیں ہے بلکہ ایک فلسفہ ہے اس میں بھی شراب کی ممانعت کا کچھ پتہ چلتا ہے۔ مگر کس بنا پر؟ کسی عقلی بنا پر نہیں ۔ کسی علمی بنا پر نہیں۔ کسی مدلل پیرا یہ میں نہیں بلکہ اس لئے کہ شراب کے تیار کرنے میں بہت سے کیڑوں کی جان جاتی ہے۔ ورچونکہ جان کا ہلاک کرنا جینی اصول کے ماتحت ناجائز ہے اس لئے شراب کا استعمال باکمال پیروئوں کو نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ممانعت درحقیقت نہ تو کلی ممانعت ہے اور نہ شراب پر بزاتہ نظر ڈال کر اور اس بات کو مدنظر رکھ کر کہ شراب کا اثر اس کے استعمال کرنے والوں پر کیا پڑیگا اس کا حکم دیا گیا ہے بلکہ صرف اس لئے کہ شراب کا استعمال جینی فلسفہ کے اس مرکزی اصل کے خلاف تھا کہ جیو ہتیا کسی طرح نہیں ہونی چاہیے ۔ اس کا استعمال ناپسند کیا گیا ہے۔ غرض اسلام تمام مذاہب میں سے بلکہ تمام تعلیموں مین سے شراب کے منع کرنے اور بادلائل طور پر منع کرنے میں منفرد ہے۔ اور ایسے وقت میں اس نے شراب سے اپنے پیروئوں کو منع کیا ہے جبکہ لوگ ابھی اس مناعی کے حکم کو پورے طور پر سمجھنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے صاف بتایا تھا کہ شراب کے نقصانات اس کے منافع سے زیادہ ہیں۔ مسلمان اطباء اپنی کتب میں برابر شراب کی تعریفیں اور خوبیاں بیان کرتے رہے ہاور اس کثرت سے بیان کرتے رہے کہ انکی کتب کو پڑھ کر حیرت آتی ہے۔ چنانچہ میں اسجگہ صرف موجز کی کسی قدر عبارت مختصراً بیان کر دیتا ہوں جو ایک عام درسی کتاب ہے۔ اس کتاب کا مسلمان مصنف شراب کے وصف کو یوں بیان کرتا ہے:۔
’’اور چاہیے کہ مجلس شراب کے اردگرد منظر لذیذ ہو۔ پھول ہوں۔ پیارے دوست ہوں عمدہ خوشبو ئیں ہوں۔ دل خوش کن راگ ہو اور ہرغم پہنچانے ولی اور دل کو تنگ کرنیوالی چیز کو دور کر دینا چاہیے۔ مثلاً بغل کی بو، بوسیدہ لباس، غم و غصہ اور شراب نہا کر اور عمدہ کپڑے پہن کر اور سراور داڑھی کے بال کھلے چھوڑ کر اور ناخن کٹوا کر پینی چاہیے۔ اور یہ بھی چاہیے کہ جس مقام پر شراب پی جائے وہ ہوادار اور کھلا ہو۔ اور جاری پانی کے کنارے پر ہو۔ اور اس وقت لطیفہ گو دوست ساتھ ہوں کیونکہ شراب نفسانی قوتوں کو تحریک کرتی ہے اور تمام شہوات کو اُبھارتی ہے پس جب کوئی قوت اپنے مطلب کو نہیں پاتی توتکلیف محسوس کرتی ہے اور منقبض ہو جاتی ہے پس نفس شراب کی طرف پورے شوق سے راغب نہیں ہوتا۔ اور نہ پورے طور پر اسے ہضم کرتا ہے ۔ پس شراب ک نفع کم ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات شراب کا پینا بیگار ہو جاتا ہے اور شراب پینے سے نفع کی نسبت نقصان زیادہ ہو جاتا ہے۔‘‘
راب کی نسبت یہ رائے ساتویں صدی ہجری کے ایک مصری مسلمان مصنف کی ہے اور اس سے قیاس کی اجا سکتا ہے کہ باوجود سات سو سال کی علمی ترقی کے مسلمان بھی شراب کی مضرت کو علمی طور پر سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اور اس وقت تک کی تحقیقات سے مجبور ہو کر لکھتے رہے ہیں کہ شراب کا نفع اس کی مضرتوں سے زیادہ ہے حالانکہ قرآن شریف صاف فرما چکا ہے کہ اس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ ہے۔ غرض قرآن کریم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے جو تعلیم شراب کے متعلق تمام مذاہب کے برخلاف دی تھی اور جس طرح دی تھی وہاں انسانی عقل نہیں پہنچ سکتی تھی۔ حتیٰ کہ باوجود قرآن کریم کے بیان کے خود مسلمان اطباء علمی طور پر شراب کی مضرت کو ثابت نہیں کر سکے اور ان کو مجبوراً اس امر کا اقرار کرنا پڑا کہ شراب ایک نہایت ہی نفع رساں شے ہے۔
زمانہ پر زمانہ گذرتا گیا اور صدی ک بعد صدی آتی گئی مگر شراب کے متعلق وہی تحقیق رہی جو ہزاروں سال سے چلی آتی تھی کہ شراب ایک عمدہ شے ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس تحقیق کی اور بھی تصدیق ہوتی گئی اور اگر کسی علم کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے کلام کی تکذیب کر سکے تو کہا جا سکتا ہے کہ علم طب نہایت دلیری سے قرآن کریم کے اس ارشاد کی تکذیب صدیوں تک کرتا رہا۔ یونانی طب کے دور ختم ہونے اور طب جدید کے دور شروع ہونے پر اور ہزاروں تحقیقاتوں کو تو ردی کر کے پھینک دیا گیا۔ لیکن شراب کی خوبیوں کے اظہار پر پہلے سے بھی زیادہ زور دیا جانے لگا۔ اگر طب قدیم تندرست آدمی کی صحت کے قیام اور کمزور کی طاقت بڑھانے کیلئے شراب کے استعمال کو مفید قرار دیتی تھی طب جدید نے بعض خطرناک قسم کے مریضوں کا علاج ہی برانڈی تجویز کیا اور اس کے فوائد پر اس قدر زور دیا جانے لگا کہ کوئی ہسپتال مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا جس میں برانڈی کی چند بوتلیں نہ رکھی گئی ہوں۔ اور شراب کو آبِ حیات قرار دیا جانے لگا۔ اور بعض لوگ علی الاعلان کہنے لگے کہ جب تک شراب کو اسلام جائز نہ قرار دے دنیا کا اسلام کیطرف جھکنا ناممکن امر ہے۔ مگر باوجود ان تمام تحقیقاتوں اور طبعی شہادتوں کے قرآن کریم کا یہ فیصلہ روشن حروف میں چمک رہا تھا کہ شراب کی مضر میں اس کے فوائد سے زیادہ ہیں۔ اور باوجود زمانہ کی ناموافق رائے کے کوئی شخص اس فیصلہ کو بدل نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ قرآن کریم خدا کا کلام اور آخری شریعت ہے جس کے بعد کوئی اور شریعت نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کہ شراب کی مضرتیں صرف جسم انسانی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا اثر اخلاق پر بھی پڑتا ہے اور بہت پڑتا ہے جیساکہ خود قرآن کریم نے سورۃ مائدہ میں اس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ بھی فرمایا ہے کہ شیطان تمہارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے عداوت اور بُغض پید ا کرنا چاہتا ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو کھانے پینے کی چیزوں کے ان اثرات کی طرف جو اخلاق پر ہوتے ہیں توجہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اور اس زمانہ میں تو ایک بہت بڑی مشکل یہ بھی پیدا ہو ئی تھی کہ تمدن اور تہذیب کی خرابی اور زوال اور انحظاط کے باعث وہ قوم جو راب سے مجتنب ہے اپنے اخلاق میں بہت ہی گر گئی تھی۔ پس مقابلہ کیا جاتا تو کس طرح اور چند مثالوں سے کبھی کوئی مسئلہ پوری طرح صاف نہیں ہو سکتا۔ جو امر قوموں سے تعلق رکھتا ہو اس کے حل کرنے کے لئے قوموں کی ہی مثالیں درکار ہوتی ہیں اور ان کا بہم پہنچانا ناممکن ہو رہاتھا۔ پس علمی طور پر علم طب کے ذریعے ہی اس پر روشنی پڑتی تھی اور اس مسئلہ کا پورے طور پر فیصلہ ہو سکتا تھا۔
قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا ایک ایک لفظ جس قدر معانی پر دلالت کرتا ہے ان تمام معانی کی صداقت خداتعالیٰ خود ظاہر کرتا ہے اور زور آور نشانوں سے ثابت کرتا ہے ہاں بعض معانی کی صداقت ہمیشہ سے ثابت چلی آتی ہے۔ تاکہ ہر زمانہ کے لوگوں کے لئے وہ حجت ہو۔ اور بعض معانی کی صداقت وہ آہستہ آہستہ مختلف زبانوں میں ثابت کرتا ہے۔ تا معلوم ہو کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے اور کسی انسان کا اس کی تالیف میں دخل نہیں کیونکہ اس میں وہ باتیں ہیں جو اس زانہ کے علوم سے تعلق نہیں رکھتیں۔ شراب کے حکم کے متعلق بھی یہ دونوں پہلو اختیار کئے گئے تھے۔ اس کی اخلاقی مضرتیں تو ہر زمانہ میں ثابت کی جا سکتی تھیں۔ گو لوگ اس کی طرف پوری توجہ کریں یا نہ کریں۔ اور گو بعض زمانوں میں بہ نسبت دوسرے زمانوں کے ان کا ثابت کرنا زیادہ مشکل ہو ۔لیکن شراب پینے کی چیز ہے اور پینے کی چیزوں کا پہلا اثر جسم انسانی پر پڑتا ہے اورا ن اشیاء کے متعلق طبعًا لوگوں کی توجہ بھی ایسے ہی اثرات کے معلوم کرنے کی طرف پھرتی ہے۔ پس اس حکم کی اہمیت اور خوبی اسی وقت پورے طور پر منکشف ہو سکتی تھی جبکہ اس کے جسمانی اثرات کی مضرتیں بھی روز روشن کی طرح ثاب ہوں۔ اور پھر اس کے نفع سے زیادہ ثابت ہوں۔ اس اظہار ِ حقیقت کا بھی آخر وقت آگیا اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو بعض ایسی ایجادوں کی توفیق دی جن کے ذریعہ سے انسان نہایت باریک اؑصاب اور ریشوں پر مختلف ادویات اور اغذیہ اور تغیرات موسم اور احساسات کا جو اثر ہوسکتا ہے اسے معلوم کرنے کے قابل ہو گیا۔ ان ایجادوں نے جہاں اور عظیم الشان تغیرات پیدا کئے ہواں شراب کے متعلق بھی قدیم علمی تحقیقات کی غلطی کو ثابت کر دیا اور اکثر علماء طب کو اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس کے ضرر اس کے نفعوں سے زیادہ ہیں اس قدیم اور مستحکم خیال کے بدل دینے کا فخر علم النفس کے ایک ماہر کرپن کو حاصل ہے جس نے اپنے بعض ہم کٰالوں ی مدد سے کوشش کر کے اس امر کو ثابت کر دیا کہ شراب کی چھوٹی سے چھوٹی مقدار کے ایک ہی دفعہ کے استعمال سے بھی انسانی دماغ کے باریک ریشوں اور الیٰ درجہ کے علمی مرکزوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے اسی طرح ہاج نے بھی الکوہل کے اس اثر کے متعلق تجربات کئے جو پٹھوں پر پڑتا ہے۔ اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ شراب کے استعمال سے برداشت اور ذکاوت اور صبر کی قوتوں کو نہایت سخت نقصان پہنچتا ہے۔ مسٹر الیگزینڈر برائس ایم۔ڈی ۔ڈی۔پی۔ایچ جو ماہر علم الاغذیہ ہیں شراب کے متعلق اپنی تحقیقات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔
’’ اس میں کچھ شبہ اب باقی نہیں رہا کہ شراب درحقیقت ایک نہات سخت زہر ہے جو باریک ریشوں کو تباہ کر دیتا ہے پہلے تو یہ اپنا خواب آور اثر ظاہر کرتا ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ خصوصاً اعصاب کو سخت نقصان پہنچاتا ہے ۔ درحقیقت اس کا حق نہیں کہ اسے مقوی ادویہ میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ صرف ایک ایسی دوائی ہے جو ایک عارضی تحریک کر دیتی ہے مگر اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک ضعف رہتا ہے۔ قریبا تمام سمجھدار ڈاکٹروں کی رائے اب یہی ہو گئی ہے کہ صحب یں اس کی قطعًا کوئی ضرورت نہیں ۔ اور اگر بیماری کے علاج میں اس کا فائدہ بالکل مشتبہ نہ سمجھا جائے تو بھی یہ بات تو متحقق ہے کہ یہ اس قابل ہے کہ اس کی جگہ عموماً دوسری ایسی دوائیں استعمال کی جائیں جو اس سے کم ضرر رساں ہیں۔‘‘
ان انکشافات کا اثر لازمی طور پر علم طب پر پڑنا تھا اور پڑا۔ چنانچہ۱۹۰۰ء سے برابر علم طب کے ماہروں کی توجہ اس طرف پھرنی شروع ہو گئی جکہ شراب کے استعمال کو کم کیا جائے۔ چنانچہ ایڈنبرگ کے ایک ہسپتال میں جہاں ۱۸۹۱ء میں فی مریض اوسطاً نو روپیہ کی شراب خرچ ہوئی تھی ۱۹۰۰ء میںکل ۱۲آنے کی خرچ ہوئی۔ اس تجربہ کی کامیابی نے ان کی توجہ کو اور بھی کھینچا اور ۱۹۰۹ء میں سرتھامس فریرز نے جو بہت بڑے ڈاکٹروں میں سے ہیں اپنے زیر علاج مریضوں کو ایک ماشہ شراب بھی استعمال نہیں کرائی۔ اب اب بہت سے ہسپتال اس قسم کے تجارب کر رہے ہیں اور سوائے چند شدید بیماریوں مثلاً نمونیا خناق اور محرقہ کے بہت کم استعمال کی جا جاتی ہے۔ اور تندرستوں کے لئے بھی اس کا استعمال اب مضر سمجھا جاتا ہے ۔ غرض قرآن کریم کے فیصلہ کے تیرہ سو سال بعد دنیا پر اب آکر روشن ہو ا ہے کہ شراب کے ضرر اس کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں۔ اور علمی طور پر یہ بات تحقیق کو پہنچ گئی ہے اور اب وہ لوگ جو اچھی بات کے قبول کرنے کیلئے کسی رسم یا عادت یا خیال یا اصول کی پرواہ نہیں کرتے اپنی غلطی کی اصلاح کی فکر کر رہے ہیں ۔ وہ لوگ اپنی کوشش میں کامیاب ہونگے یا عادات رسم اور پرانے مذہبی خیالات غالب آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ مگر یہ بات ظاہر ہے کہ یہ جدوجہد اور جدید علمی تحقیق اس امر کو روز روش کی طرح ثابت کر رہی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم باقی تمام مذہاب کی تعلیمیوں پر ایک زبردست فوقیت رکھتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کے بعض احکام کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے جوتمام دیگر مذاہب کے برخلاف دیتا ہے دنیا کو تیرہ سو سال کی تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس لمبی تحقیق کے بعد ہزاروں دھکے کھا کر وہ اسی نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ جو حکم اسلام نے دیا تھا وہی درست اور صحیح تھا۔
ایک میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شراب کے معاملہ میں نہ صرف بلحاظ تعلیم کے اسلام کو دیگر ادیان پر تفوق حاصل ہے بلکہ بلحاظ تاثیر کے بھی دیگر ادیان پر اور تمام اخلاقی تحریکوں پر اسے تفوق حاصل ہے۔ جن لوگوں نے شرابیوں کی حالت کا کبھی غور سے مطالعہ کیا ہے اور ایسے لوگوں سے ان کو واسطہ پڑا ہے جنہیں شراب کی عادت ہو چکی ہو۔ وہ اس امر کو خوب اچھی طرح جانتے یہں کہ شراب کی عادت جن لوگوں کو پڑ جاتی ہے ان کے لئے اس کا چھوڑنا سخت مشکل ہوتا ہے ۔ بلکہ دوسرے نشوں کے برخلاف شراب میں ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ جن لوگوں کو اس کی سخت عادت پڑ جاتی ہے ان کو اس سے ایک قسم کا مجنونانہ لگائو ہو جاتا ہے جو ورثہ کے طور پر ان کی اولاد میں بھی منتقل ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ جب تک شراب میں مخمور نہ رہیں۔ ان کو چین نیہں آتا اور اس کے حاصل کرنے کے لئے سخت سے سخت جرم سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ پس شراب کی عادت کا چھڑادینا کوئی معمولی بات نہیں۔ میں بتا چکا ہوں کہ صرف اسلام ہی ایک مذہب ہے جس نے نہایت عمدگی سے اور دلائل کے ستھ شراب کی ممانعت اپنے پیروئوں کو کی ہے۔ اور باقی سب ادیان نہ صرف یہ کہ شراب کے استعمال سے اپنے پیروئوں کو روکتے نہیں بلکہ ان میں سے بعض مذاہب نے اس کا استعمال مذہبی رسوم کے اندر داخل کر رکھا ہے لیکن میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ باوجود اس اجازت کے بلکہ بعض صورتوں میں حکم کے ان مذاہب کے بڑے بڑے آمیوں نے شراب کی مضرتوں کو دیکھ کر یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ اگر شراب کا استعمال اسی طرح جاری رہا تو ان کی قومیں کیا بلحاظ صحت و تندرستی کے اور کیا بلحاظ اخلاق و آداب کے بہت گر جائیں گی۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے عالم سے ہی ایسے لوگ ہوتے چلے آئے ہیں جو یہ تحریک کرتے رہے ہیں کہ شراب کا استعمال کم کیا جائے۔ اور اعتددال کو ہر حالت میں مدنظر رکھا جائے۔ تمام مشرقی ممالک کی ترایخ(اور یہی ممالک پرانے زمانہ میں تہذیب و تمند کے جھنڈے کوبلند کرنے والے تھے) اس بات پر شاہد ہے کہ قدیم سے قدیم زمانہ سے ہندوستان، ایران، چین۔ فلسطین ۔مصر۔یونان اور کارتھج کے علماء مذہبی فلاسفر اور مقنن بدستی سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا یہی کہ اگر بعض آدمیوں نے کچھ مدت کے لئے شراب کا استعمال کم کر دیا تو کچھ عرصلہ کے بعد پھر تما م کا تمام ملک اس ’’آپ حیات‘‘ سے اپنی روح کو تازہ کرنے کے لئے دوڑپڑا۔ امریکہ کو ہی دیکھ لو۔ امریکہ میں شراب نوشی کے انسداد کے لئے حکمومت نے کتنی کوششیں کیں۔ لیکن چونکہ ایمان ان لوگوں کے دلوں میں نہیں تھا بلکہ ممانعتِ شراب کے پیچھے صرف ایک قانون کا م کر رہا تھا اس لئے یہ تحریک ناکام رہی۔ ہزار ہا موتیں صرف اس وجہ سے واقعہ ہوئیں کہ لوگ شراب پینے کے شوق میں سپرٹ لی لیتے اور سپرٹ میں چونکہ زہر یلی چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اس لئے کئی اندھے ہو جاتے اور کئی مر جاتے۔ پھر امریکہ میںنصف سے زیادہ ایسے لوگ تھے جو باہر سے ناجائز طور پر شرابیں منگواتے اور پیتے ۔ گورنمنٹ کا قانون تھا کہ ڈاکٹر کے سرٹیفیکیٹ کے بعغیر کسی شخص کو شراب نہیں مل سکتی اس قانون کی وجہ سے ہزاروں ڈاکٹروں کی آمدنیاں پہلے سے کئی گنا بڑھ گئیں وہ فیس لے کر سرٹیفیکیٹ دے دیتے کہ فلاں شخص کا معدہ کمزور ہے اور کوئی ایسی بیماری ہے اسے پینے کیلئے شراب ملنی چاہیے۔ غرض ہزاروں ڈاکٹروں کا گذارہ محض اسی قسم کے سر ٹیفیکیٹوں پر ہو گیا اور باوجود شراب نوشی کے خلاف قانون بن جنے کے لوگ کئی قسم کے حیلوں سے کوشش کرتے کہ کسی طرح قانون شکنی کریں۔ غرض کسی ملک میں کسی مدبر کسی مقنن کسی واعظ اور کسی فلاسفر کی کوشش کا یہ نتیجہ نہیں نکلا کہ لوگوں نے واقعہ میں شراب کم کر دی ہو۔ اور وہ س عہد پر قائم رہے ہوں۔ اگر ایکی جماعت نے اس کا استعمال کم کر دیا تع دوسرے نے اس کی کسر پوری کر دی۔ شراب بہر حال اپنے مرکز پر قائم رہی اور اسے کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا سکا۔
اب آئو اور اس کے مقابلہ میں تاثیر کو دیکھو جو انسدادِ شراب نوشی کے متعلق اسلام کو حاصل ہے اسلام اس وقت دنیا میں آیا جبکہ علم و سائینس کا رواج دنیا میں بہت کم تھا۔ یونانی علوم اپنی ترقی کی انتہا کو پہنچ کر مسیحی پادریوں کی سعی سے گوشہ گمنامی میں جا بیٹھے تھے اور سوائے معدودے چند آدمیوں کے دوسرے ولگ ان سے ناواقف تھے۔ خصوصاً ایشیائے و چک پر جس کا ان علوم کی ترقی میں خاص حصہ تھا سخت اندھیراچھا یا ہوا تھا۔ ہندوستانی فلسفہ بھی تنزل پر تھا۔ ایران بھی اخلاقی اور علمی طور پر انحطاط کی طرف قدم زن تھا۔ اور عربوں کی حالت توسخت ناگفتہ بہ تھی۔ حجازی عربوں میں پڑھنا لکھنا ہی بہت بڑا علم تھا۔ اور اس جن کے واقف بھی چند آدمیوں سے زیادہ نہ تھے۔ علم الاخلاق ان کے ہاں وہی تھا جو ان کے شاروں نے اپنے شعروں میں نظم کیا اور علم طب ان کیہاں وہی تھا جو ان کی بڑی بوڑھیاں بطور صدری نسخوں کے یکے بعد دیگرے ایک دوسری کو سناتی چلی آئی تھیں۔ اور وہ علم الاخلاق جس کی طرف ان کیشاعروں نے راہنمائی کی ہے یہی ہے کہ شراب انسان کے اخلاق کو اعلیٰ کرتی ہے اور اسے دلیر اور سخی بناتی ہے اور یہی دو خصائل ہیں جن کی رب پر واہ کرتا تھا۔ اس کے نزدیک تمام علم الاخلاق انہیں دو صفات میں مرکوز تھا۔ اور ان کا علمِ طب بھی انکو یہی ہدایت کرتا تھا کہ ہر مرض کا علاج شراب کا جام ہے پس عرب اپنے علوم کے لحاظ سے شراب سے متنضر نہیں بلکہ اس کا دلدادہ تھا۔ ہ رعرب شراب کا عادی تھا۔ اور عادی بھی ایسا کہ اس کے روز مرہ کے شغلوں کو پڑھو شراب کے ذکر سے ان کی کوئی نظم خالی نظر نہیں آتی۔ عرب کا مشہور شاعر طرفہ جو اپنی زبان کی خوبی اورمضامین کی بلندی کی وجہ سے عرب کا دوسرے نمبر کا شاعت سمجھا جاتا ہے لکھتا ہے:۔ ؎
وَاِنْ تَبْغِنِیْ فِیْ حَلْقَۃِ الْقَوْمِ تُلْفِنِیْ
وَاِنْ تَقْقَنِصْنِیْ فِی الْحَوَانِیْتِ تَصْتَدِیْ
کَرِیْم’‘ یُرَوِّیْ نَفْسَہ‘ فِیْ حَیَاتِہٖ
سَتَعْلَمُ اِنْ مِتْنَا غَدًا اَیُّنَا المصَّدِیْ
یعنی اگر تو میری تلاش قوم کی مجلس شوریٰ میں کرے تو تو مجھے وہاں پائیگا۔ یعنی میں باوجود نو عمر ہونیکے قوم کا معتمد ہوں(یہ صرف بیس سال کی عمر مین مارا گیا تھا) اور اگر تو مجھے شراب کی دو کانوں پر تلاش کرے تو وہاں بھی مجھے پائیگا۔ یعنی دو ہی مقام ہیں جہاں میں مل سکتا ہوں اپنی دانائی کی وجہ سے قوم کی مجلس شوریٰ میں مجھے جانا پڑتا ہے اور اپنی شراب نوشی کی وجہ سے شراب خانوں پر میرا پھیرا ہوتا رہتا ہے ۔ پھر کہتا ہے میں اور شریف النفس ہوں کہ اپنے نفس کو میں نے اس زندگی میں سیراب کر دیا ہے۔ اور اگر اے دوستوہم مر جائیں تو تم کو بعد مرون معلوم ہو جائیگا کہ کون پیاسا ہے۔ یعنی میں اس قدر شراب پینے والا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی نشہ میں ہی اٹھوں گا۔ طرفہ کی یہ باتیں باتیں ہی نہیں بلکہ وہ اس پر عمل پیرا بھی تھا۔ چنانچہ عرب کے بادشاہ عمر و بن ہند نے جب اس کے بعض اشعار پر جو اس نے بادشاہ کی ہجو میں کہے تھے ناراض ہو کر عین اس کے عنفو انِ شباب میں اس کے قتل کا حکم اپنے والئی بحران کو لکھا اور اس نے طرفہ سے دریافت کیا کہ وہ اپنے لئے بہترین طریقہ موت کا چُنے۔ تو اس نے یہ پسند کیا کہ اس کے پاس بہت سی شراب رکھدی جائے اور اسی کو پیتے وقت اس کی رگوں کا خون نکال کر اسے قتل کر دیا جائے۔
اسی طرح عرب کا ایک شاعر ابو ممجن ثقفی اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے کہتا ہے ؎
اِذَامِتُّ فَادْفْنِّیْ اِلیٰ اَصْلِ کَرْمَۃٍ
تُرَوِّی عِظَامِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ عُرُوْ قُھَا
وَلَا تُدْفِنِّیْ الْفَلَاۃِ فَاِنَّنِیْ
اَخَافُ اِذَا مَامِتُّ اَنْ لَّا اَذُوْقَھَا
یعنی جب میں مر جائوں تو مجھے انگور کے درختوں کے پاس دفن کیجییو تاکہ اس کی جڑیں میری ہڈیوں کو سیراب کرتی رہیں اور مجھ جنگل میں دفن نہ کیجیئو۔ تا ایسا نہ ہو کہ مرنے ے بعد میں شراب سے محروم رہ جائوں۔ (کتاب الشعر و الشعراء لا بن قتیبہ)
شعراء کے کلام کے علاوہ لغتِ عرب بھی عرب کے شراب پر شیدائی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ عربی زبان میں شراب کے نام اس کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ انکو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اور کسی زبان میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تمدن عرب بھی اس بات کا شاہد ہے کہ عرب شراب نوشی میں نہ صرف کامل تھا بلکہ باقی تمام دنیا سے بڑھا ہوا تھا۔ کیونکہ عرب میں شراب کشید کرنے کا طریق بہت قدیم زمانہ میں دریافت کر لیا گیا تھا۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برمٹنیکا میں لکھا ہے:۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانہ کے لوگوں کو شراب کے کشید کرنے کا طریق معموم تھا اور تاریخی کے زمانوں میں عرب لوگ شراب کے کشید کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔‘‘
اس تاریخی شہادت معلوم ہوتا ہے کہ عرب قدیم زمانہ میں شراب بنانے اور اس کے استعمال کرنے میں سب سے آگے تھے۔ بلکہ وہ دنیا کے لئے کشید گردہ شراب کی جو خمیر سے تیار کردہ شراب سے زیادہ سخت اور زیادہ عادی بنا دینے والی ہے اکیلی منڈی بنا ہوا تھا یہ ملک تھا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے۔ اور یہ قوم تھی جس سے شراب چھڑانے کا انہوں نے ارادہ کیا۔ اس ارادہ کے پورا کرنے کیلئے انہوں نے کیا تدابیر اختیار کیں۔ اور ان کا کیا نتیجہ نکلا یہ ایک حیرت انگیز تاریخی واقعہ ہے جس پر تمام عقلیں دنگ ہیں اور کل دانا انگشت بدنداں۔ اس شراب کے نشہ میں مخمور رہنے والی قوم اور شراب کو اپنا ایک ہی دل لگی کا ذریعہ سمجھنے والی جماعت میں ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نکلتے ہیں۔ اور مختصر اور صاف لفظوں میں خداتعالیٰ کا یہ حکم سنا دیتے ہیں کہ شراب کے نقصانات چونکہ اس کے نفع سے زیادہ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لئے اس کو حرام کر دیا ہے پس ہر ایک مسلمان کو چاہیے کہ اس سے پرہیز کرے اور اس کا بنانا۔ بیچنا ۔ پینا اور پلانا ترک کر دے۔ اور اس حکم کو سن کر وہ شراب کے شیدائی اپنا سر نیچا کر لیتے ہیں۔ اور ایک شخص کے منہ سے بھی اس کے خلاف آواز نہیں نکلتی۔ ہر ایک ان میں سے شرح صدر سے اس حکم کو قبول کر لیتا ہے اور اس وقت کے بعد شراب کا گلاس کسی ایک فرد کے منہ کے قر