• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 5۔6 یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 5۔ یونی کوڈ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۃ مریم
یہ سورۃ مکی ہے۔اور بسم اللہ سمیت اس کی ننانوے آیات ہیں ۔
اس سورۃ کا نام اس مناسبت سے مریم رکھا گیا ہے کہ اس میںجو بڑا اور مہتم بالشان واقعہ بیان ہوا ہے اور جس کے گرد دوسرے تمام واقعات چکر لگاتے ہیںوہ حضرت مریم علیہا السلام کا واقعہ ہے۔ یوںتو حضرت مریم علیہا السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہونے کے باوجود بہرحال ایک غیر نبیہ عورت تھیں اور حضرت زکریا اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کو ان پر فضیلت حاصل تھی لیکن ہر شخص اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔مثلاً جب ہم نے اس بات کا ذکر کرنا ہوکہ کوئی شخص کسی کے اعلیٰ درجہ کے کیریکٹر کو دیکھ کر اپنی ذہانت اور تقویٰ کی وجہ سے کس طرح جلد سے جلد اس پر ایمان لے آتا ہے ۔ تو صاف ظاہر ہے کہ ہم اس کی مثال میں رسول کریم ﷺکا نام نہیں پیش کر سکتے کیونکہ رسول کریم ﷺ کی مثال آپ کے مقام کی بلندی کے لحاظ سے یہاں چسپاں نہیں ہوتی۔ ایسے موقعہ پر لازماًہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے اور انہی کے وجود کو بطور مثال پیش کرینگے۔اسی طرح خواہ ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنے درجہ اور مقام میں بڑا سمجھتے ہوں لیکن اگر یہ ذکر ہو کہ کس طرح بعض ذہین اور ہوشیار لڑکے چھوٹی عمر میں ہی صداقت کو پالیتے ہیں اور اس کے لئے قربانی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو اس امر کی مثال کے طور پر ہم حضرت ابوبکرؓکا نام نہیں لیں گے جب بھی نام لیں گے حضرت علی ؓکا لیں گے تو چونکہ اس سورۃ میں زیادہ تر ایسے امور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو مریم اور مریمی صفات والے وجودوں کی طرف انسان کی توجہ کو منعطف کرتے ہیں ۔ اس لئے باوجود اس کے کہ اس سورۃ میں حضرت ابراہیم ؑ کا بھی ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کا بھی ذکر ہے ۔ حضرت اسماعیل ؑکا بھی ذکر ہے۔ حضرت ادریس ؑکا بھی ذکر ہے۔حضرت زکریاؑکا بھی ذکر ہے۔ حضرت یحییٰ ؑکا بھی ذکر ہے ۔اس سورۃ کا نام مریم رکھا گیا ہے۔ اس لئے کہ یہ سورۃ ہم کو مریم اور مریمی صفات والے وجودوں کی طرف توجہ دلاتی ہے۔
یہ سورۃ مکی ہے اور وہ تمام صحابہ جنہوں نے اسبارہ میں اپنی رائے ظاہر کی ہے اس کو مکی ہی قرار دیتے ہیں ۔ مغربی مصنف بھی اس سورۃ کو مکی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ راڈول وہیری اور میور یہ تینوں مستشرق اس کے مکی ہونے کے قائل ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ اس کے زمانہ نزول کو ذرا آگے پیچھے بیان کرتے ہیں ۔ مثلا میور کے نزدیک اس کا وقت نزول قبل از ہجرت زندگی کے آخری زمانہ کے ساتھ ملتا ہے یعنی جب رسول کریم ﷺ طائف کے لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لئے گئے اور ان کی سنگدلی اور بدسلوکی کی وجہ سے واپس آ گئے تو میور کے نزدیک اس وقت یہ سورۃ آپ پر نازل ہوئی تھی اور یہ واقعہ دسویں سال نبوت کا ہے گویا وہ اس سورۃ کو آخری مکی زندگی کی قرار دیتا ہے۔ راڈول اس کو مکی ہی قرار دیتا ہے لیکن کوئی خاص وقت اس کے لئے معین نہیں کرتا۔ اور وہیری جیسا کہ اس کی عام طور پر عادت ہے بات وہی کہہ دیتا ہے جو ہماری تاریخوں میں ہوتی ہے لیکن کوشش کرتا ہے کہ نیش زنی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دے۔ اس نے بھی یہی قرار دیا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے لیکن ابتدائی زمانہ کی ہے ۔ صرف اپنی علمیت جتانے کیلئے اتنا فرق بتاتا ہے کہ یہ سورۃ اتنی ابتدائی نہیں جتنی صحابہ کہتے ہیں بلکہ اس سے سال بھر پیچھے کی ہے۔ حالانکہ کوئی شخص یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ تیرہ سو سال بعد پیدا ہو کر اس کو یہ کس طرح پتہ لگ گیا۔ کہ یہ سال بھر پہلے کی ہے یا بعد کی۔ اس قسم کا قول محض تمسخر ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے اسلام کا جو دوسرا دور تھا یعنی ہجرت حبشہ کا۔ اس کے ابتداء میں یہ نازل ہوئی اور پھر کچھ عرصہ تک نازل ہوتی چلی گئی ۔ گویا وہ اس کو پانچویں یا چھٹے سال کی قرار دیتا ہے۔ لیکن سند کوئی نہیں بیان کرتا۔ (کمنٹری اون دی قرآن وہیری جلد سوم)
اس بارہ میں حدیثوں سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے اور درحقیقت وہی اصل روایات ہیں جن پر اس مسئلہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ کیونکہ جو لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ رہے اور جنہوں نے اس زمانہ کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا وہی صحیح گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ سورۃ کب نازل ہوئی۔ وہ یہی ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی سورۃ ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جو رسول کریم ﷺ کے نہایت ابتدائی صحابہ میں سے تھے وہ اس سورۃ کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ سورۃ میرے ابتدائی اموال میں سے ہے۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓکے متعلق آتا ہے کہ قال فی بنی اسرائیل والکھف و مریم انھن من العتاق الاول و ھن من تلادی (بخاری کتاب التفسیر) یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے ایک مجلس میں بیان فرمایا کہ سورۂ بنی اسرائیل ، سورہ کہف اور سورہ مریم یہ ابتدائی زمانہ میں نازل ہونے والی سورتوںمیں سے ہیں۔ وھن من تلادی اور یہ میرے پرانے اموال میں سے ہیں ۔ یعنی جب میں ابتداء میں اسلام لایا تو اس وقت جو سورتیں میں نے حفظ کیں۔ ان میں یہ سورتیں بھی شامل تھیں ۔ اب ظاہر ہے کہ جوشخص ابتداء میں اسلام لایا اور جس نے یہ سورتیں یاد کیں ہم اس کی بات مانیں گے یا اس پادری کی بات مانیں گے جو تیرہ سوسال بعد پیدا ہوا۔
یہ تو مذہبی ثبوت ہے ۔ تاریخی ثبوت اس بات کا کہ یہ سورۃ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جب دشمنی کا زور بڑھ گیا اور دشمنوںنے اسلام کو اپنی پوری طاقت اور قوت سے کچلنا چاہا تو رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو بلا کر فرمایا کہ تم لوگ یہاں سے ہجرت کر جائو۔ صحابہ نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ آپ ہمیں ہجرت کیلئے فرماتے ہیں تو کیا آپ بھی ہجرت کر کے تشریف لے جائیں گے رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہیں میں اس وقت تک انتظار کروں گا۔ جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ہجرت کا واضح حکم نہ مل جائے لیکن تم پر جو مظالم ہو رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے میرا دل یہی چاہتا ہے کہ تم ہجرت کر جائو انہوں نے کہا یا رسول اللہ! کونسا ملک ہے جہاں ہمیں امن میسر آسکتا ہے ۔ آپ نے مغرب کی طرف ہاتھ اٹھا کر فرمایا ادھر ایک ملک ہے جس کا بادشاہ عادل اور منصف ہے ۔ تم اگر وہاں چلے جائو تو تم کو امن میسر آ جائے گا۔ وہ اشارہ آپ کا ایبے سینیا کی طرف تھا جس کو حبشہ کہتے ہیں ۔ چنانچہ آپ کے ارشاد پر صحابہ کی ایک جماعت ادھر جانے کیلئے تیار ہو گئی۔ جو لوگ ادھر ہجرت کر کے گئے ا ن میں حضرت جعفر بن ابی طالبؓ بھی تھے جو حضرت علی کے سگے بھائی اور رسول کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ جب یہ لوگ مکہ سے حبشہ چلے گئے تو پہلے تو کفار نے خیال کیا کہ اچھا ہوا مسلمان مکہ سے نکل گئے اور ہماری کوششیں کامیاب ہو گئیں لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے وفا دارخادم حضرت ابوبکر ۔ حضرت علیؓ ۔حضرت عثمان ؓاور کئی اور بڑے بڑے خاندانوں کے نوجوان اطمینان سے مکہ میں بیٹھے ہیں اور مکہ کی تبلیغ اسی پرانے جوش و خروش سے جاری ہے تو انہیں خیال آیا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت کومکہ سے نکال دینا ہماری کامیابی نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ ہماری شکست کی علامت ہے۔ کیونکہ اس طرح اسلام کے دو مرکز قائم ہو گئے اور مکہ سے نکل کر تبلیغ ایک قوم کی جگہ دو قوموں یعنی اہل مکہ اور مسیحیوں میں ہونی شروع ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب انہیں یہ اطلاعات بھی ملنی شروع ہو گئیں کہ ان لوگوں کو امن میسر آ گیا ہے اور نہ کوئی انہیں مارتا ہے نہ پیٹتا ہے اور نہ کسی قسم کا دکھ دیتا ہے بلکہ وہ آرام سے عبادتیں اور ذکر الٰہی کرتے اور محنت کر کے اپنے لئے روزی پیدا کرتے ہیں۔ تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یہ تو ہم سے بڑی غلطی ہوئی ۔ کہ ہم نے سختی کی اور مسلمان بھاگ گئے۔ اگر وہ اپنے ملک میں ہی رہتے تو ہم جب چاہتے ان کو مار سکتے تھے۔ مگر اب جو غیر ملک میں چلے گئے ہیں تو ہمارے قبضہ سے نکل گئے ہیں اور بجائے اس کے کہ مسلمانوں کو ضعف پہنچتا ان کو ایسا ٹھکانہ میسر آگیا ہے کہ اب وہ ہمارے خلاف بڑی آسانی کے ساتھ پروپیگنڈا کریں گے اور ہماری ہمسایہ حکومت کو ہمارے خلاف اکسائیں گے۔ چنانچہ اس کے انسداد کے لئے انہوں نے مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ ایک وفد حبشہ جائے اور اس کے ساتھ مختلف قسم کے تحائف بھیجے جائیں جو بادشاہ اور اس کے امراء اور پادریوں وغیرہ کیلئے ہوں۔ یہ وفد بادشاہ کے سامنے پیش ہو اور اسے کہے کہ تم ہمارے ہمسایہ ہو اور تمہارے ساتھ ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں ۔ لیکن اب ہماری قوم کے کچھ باغی تمہارے ملک میں آ کر پناہ گزیں ہو گئے ہیں ان لوگوں کو اپنے ملک سے نکال دو اور واپس مکہ میں بھجوا دو اور تجویز کی کہ اسی موقعہ پر بادشاہ اور اس کے درباریوں کو تحائف دئیے جائیں تاکہ ان کے دل میں نرمی پیدا ہو اور وہ ان لوگوں کوو اپس کر دیں۔
چنانچہ یہ وفد حبشہ گیا ۔ اس وفد میں حضرت عمرو بن العاص بھی جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے شامل تھے۔عمرو بن العاص بڑے لسان آدمی تھے اور عام طور پرحکومت کی طرف سے جو ڈیپوٹیشن جاتے تھے ان میں عمرو بن العاص ضرور شامل ہوتے تھے۔ چنانچہ بعض اور جگہوں پر بھی مکہ والوں نے ان کو بھیجا ہے۔ انہوں نے نجاشی بادشاہ حبشہ کے سامنے بڑی عمدہ تقریر کی اور کہا بادشاہ سلامت آپ ہمارے ہمسائے ہیں۔ یمن میں آپ کی حکومت ہے اور یمن اور حجاز ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں اس وجہ سے ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہئے۔ مگر اب یہ ایک نیا فتنہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارے ملک کے کچھ بھگوڑے آپ کے ملک میں آ گئے ہیں اور آپ نے ان کو پناہ دے دی ہے۔ ہم حیران ہیں کہ آپ نے ہمارا ہمسایہ اور تعلق دار ہو کر ہمارے دشمنوں کو پناہ کس طرح دے دی ہے۔ آپ انہیں مکہ میں واپس بھجوا دیں تاکہ ہمارے تعلقات آپ سے بدستور اچھے رہیں۔ اور ان میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو۔ بادشاہ نے کہا میں ان لوگوں کو بلوا کر اور ان سے پوچھ کر فیصلہ کروں گا۔ چنانچہ مسلمان مہاجرین کو بلوایا گیا اور بادشاہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا جھگڑا ہے صحابہ نے کہا ہمارا ن سے کوئی سیاسی جھگڑا نہیں صرف مذہبی اختلاف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے شہر میں خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا جسے ہم نے قبول کر لیا۔ اب یہ لوگ ہمیں ہمارے مذہب کے مطابق عبادت کرنے نہیں دیتے اور مذہبی معاملات میں دخل دیتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی عبادت کریں اور یہ کہتے ہیں کہ جس طرح ہم عبادت کرتے ہیں اس طرح عبادت کرو اور چونکہ ہم ایسا نہیں کرتے اس لئے یہ برا مناتے اور ہمیں دکھ دیتے ہیں ۔ جس سے مجبور ہو کر ہمیں اپنا ملک اور اپنی قوم چھوڑنے پڑے۔ بادشاہ پر اس کا نیک اثر ہوا اور اس نے کہا عقائد میں اختلاف تو ہوا ہی کرتا ہے اس بنیاد پر ہم مسلمانوں کو واپس نہیں کر سکتے (تاریخ کامل ابن اثیر جلد۲صفحہ۳۲) اور اس نے مسلمانوں سے کہا کہ تم میرے ملک میں آزادی سے رہو اور اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرو۔ جب یہ جواب ممبران وفد نے سنا تو انہوں نے وہ تحائف استعمال کئے جو مکہ والوں نے انہیں دئیے تھے چنانچہ بڑے بڑے بطریقوں اور پادریوں کو انہوں نے تحفے دئیے (بطریق درحقیقت Petriarchکا عربی تلفظ ہے جو ایک بڑے پادری کو جو اپنے حلقہ میں قریبا پوپ کی حیثیت رکھتا ہے کہا جاتا ہے) اور انہیں اکسایا کہ یہ دراصل تمہارے بھی دشمن ہیں اور ہمارے بھی۔ کیونکہ ان کے خیالات اور عقائد عیسائیت کے سخت خلاف ہیں ۔ اور یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی والدہ کی ہتک کرتے ہیں ۔ اگر تم ان لوگوں کو حبشہ میں رہنے کا موقع دو گے۔ تو تم عیسائیت سے دشمنی کرو گے ۔ اس اشتعال انگیزی کے نتیجہ میں جیسا کہ آجکل ہمارے خلاف لوگوں کو جوش آ جاتا ہے ان کا بھی مشتعل ہو جانا ایک لازمی امر تھا۔ چنانچہ انہیں غصہ آیا اور انہوں نے تجویز کی کہ دوسرے دن پھر بادشاہ کے سامنے یہ معاملہ رکھا جائے ۔ چنانچہ دوسرے دن جب دربار لگا تو بڑے بڑے پادریوں نے پھر اس سوال کو اٹھایا اور انہوں نے نجاشی سے کہا کہ یہ معاملہ خالی سیاسی ہی نہیں بلکہ مذہبی بھی ہے کیونکہ یہ لوگ مذہبا ًمکہ والوں کے ہی خلاف نہیں بلکہ ہمارے بھی خلاف ہیں اور مسیح اور ان کی والدہ کی ہتک کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں نہیں رکھنا چاہئے۔
بادشاہ نے ان کو پھر بلوایا اور پوچھا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کی ہتک کرتے ہو۔ کیا یہ درست ہے ۱ اس پر حضرت جعفرؓ جو رسول کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی اور حضرت علیؓ کے سگے بھائی تھے مسلمانوں کی طرف سے آگے بڑھے اور انہوں نے کہا۔ اے بادشاہ! میں آپ کو اپنی مذہبی کتاب کی چند آیتیں سنا دیتا ہوں ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر ہے۔ آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ ہم ان کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے سورۂ مریم کی چند ابتدائی آیتیں پڑھ کر سنائیں ۔ جب انہوں نے یہ آیتیں سنائیں ۔ تو چونکہ عام طور پر عیسائیوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے اور ان کی والدہ کے متعلق خدا کی والدہ ہونے کا خیال پایا جاتا تھا اور ایبے سینیا میں یہ مشرکانہ خیالات زیادہ تھے اس لئے پادریوں نے شور مچا دیا کہ ہمارے مسیح کی ہتک کی گئی ہے۔ مگر بادشاہ کا یہ مذہب نہیں تھا۔وہ یونیٹیرین خیالات کا تھا جو خدا تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں اور روایات سے پتہ لگتا ہے کہ وہ بعد میں مسلمان بھی ہو گیا تھا۔ اس نے کہا مسلمان جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک ہے۔ بلکہ تاریخوں میں لکھا ہے اس نے ایک تنکا اٹھا کر کہا خدا کی قسم جو کچھ ان آیات میں بیان کیا گیا ہے میں مسیح اور اس کی والدہ کو اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں سمجھتا۔ اس پر پادری اور زیادہ جوش میں آ گئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے ان لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی تو ملک میں بغاوت ہو جائے گی اور آپ کے خلاف لوگوں میں جوش پیدا ہو جائے گا۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی تو ملک میں بغاوت ہو جائے گی تو نجاشی کو غصہ آگیا اور اس نے کہا میں چھوٹا تھا کہ تم نے میرے چچا سے مل کر مجھے بادشاہت سے محروم کرنا چاہا۔ مگرمیرے خدا نے میری مدد کی اور اس نے مجھے حکومت عطا فرمائی۔ پس میں اگر بادشاہ بنا ہوں تو اس خدا کے فضل سے جس نے میرے مقابلہ میں تمہیں شکست دی اور مجھے کامیاب فرمایا۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ جس خدا نے میرے بچپن میں میری مدد فرمائی تھی اس خدا کو میں اب جوان ہو کر چھوڑ دوں گا۔ جائو جو تمہارے جی میں آتا ہے کر لو۔ میں انصاف کے معاملہ میں تمہاری کوئی بات سننے کیلئے تیار نہیں اور اس نے مکہ کے وفد کو واپس لوٹا دیا اور مسلمانوں کو عزت کے ساتھ دربار سے رخصت کیا ۔ ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ ہجرت حبشہ جو دعویٰ نبوت کے پانچویں سال کے نصف اول میں ہوئی۔ اس سے پہلے سورۂ مریم نازل ہو چکی تھی اور مسلمانوں میں پھیل بھی چکی تھی تبھی تو مہاجرین نے شاہ حبشہ کے سامنے اپنے عقیدہ کی توضیح کیلئے اسے پڑھا پس یہ ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورۃ ہے اور ہجرت حبشہ سے پہلے کی ہے (یہ روایت جس کااوپر ذکر کیا گیا ہے محمد بن اسحا ق نے ام سلمہؓ سے اپنی سیرۃ میں اور امام احمد بن حنبل نے ابن مسعودؓ سے اپنی مسند میں بیان کی ہے) مقاتل کے نزدیک سورۂ مریم کی صرف آیت سجدہ مدنی ہے باقی ساری سورۃ مکی ہے۔ راڈول کا خیال ہے کہ اس سورۃ کی آیت ۱ تا ۳۷ کی عبارت سورۂ آل عمران کی آیت ۳۵ تا ۵۷ سے فرق رکھتی ہے (اس سورۃ میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے) وہ کہتا ہے کہ یہ فرق اس اعتراض سے بچنے کیلئے کیا گیا ہے کہ لوگ شاعر کہیں گے۔ گویا اس کے نزدیک اہل عرب کے اعتراض سے ڈر کر ان آیات کے طرز بیان کو بدل دیا گیا ہے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ دنیا میں ہر شخص جانتا ہے کہ شعر کس چیز کا نام ہے اور اہل عرب تو خاص طور پر شعر گوئی میں مشہور تھے۔ وہ قرآن کریم کی نثر کو شعر کس طرح کہہ سکتے تھے حقیقت یہ ہے کہ ان یورپین مستشرقین نے قرآن تو کیا سمجھنا تھا انہوں نے دشمنوں کا اعتراض بھی نہیں سمجھا ۔ان کا اعتراض یہ نہیں تھا کہ یہ کوئی باوزن کلام ہے بلکہ اصل اعتراض ان کا یہ تھا کہ یہ کلام اپنے اندر شاعرانہ روح رکھتا ہے۔ مستشرقین یورپ نے یہ سمجھ لیا کہ اس سورۃ میں چونکہ ندیّا اور رضیّا وغیرہ الفاظ آتے تھے اس لئے شاید ان الفاظ کی وجہ سے مشرکین مکہ رسول کریم ﷺ کو شاعر کہا کرتے تھے حالانہ ان کا اعتراض روح شاعری کے متعلق تھا یعنی جس طرح شاعر اپنے مضمون کو مختلف پیرایوں میں بدل بدل کر بیان کرتا ہے اسی طرح قرآن کریم مختلف رنگوں میں بات کو پھیر پھیر کر بیان کرتا ہے۔ ورنہ ان میں خود بڑے بڑے شاعر موجود تھے وہ بھلا کہہ سکتے تھے کہ یہ کلام شعر ہے ۔ مگر یورپین مستشرقین نے یہ خیال کر کے کہ انہوں نے ندیّا اور رضیّا کی وجہ سے آپ کو شاعر قرار دیا تھا یہ اعتراض کر دیا کہ آل عمران میں اس طرز کوبدل دیا گیا ہے۔
میرے نزدیک اس سورۃ کا وقت نزول چوتھے سال نبوت کا آخر یا پانچویں سال نبوت کا شروع ہے کیونکہ تاریخوں سے صاف طور پر ثابت ہے کہ مکی وفد جب مسلمان مہاجرین کو حبشہ سے واپس لانے کیلئے گیا اور بادشاہ نے انہیں واپس کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے پادریوں کو اپنے ساتھ ملا کر مسلمانوں پر ہتک مسیح کا لزام لگا دیا۔ اس پر حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیات پڑھ کر حضرت مسیح ؑ کے متعلق اسلامی عقیدہ بتایا جس پر بادشاہ کی تسلی ہو گئی اور وہ اپنے جواب پر پختہ ہو گیا اور ہجرت حبشہ رجب ۵عیسوی میں ہوئی تھی یعنی رسول کریم ﷺ کے دعویٰ پر جب ساڑھے چار سال گزر چکے تھے۔ اگر ہم سال کو ابتداء یعنی محرم سے شمار کریں تو یہ عرصہ ساڑھے چار سال کا بنتا ہے اور اگر درمیان سے شمار کریں تو اور بھی چھوٹا ہو جاتا ہے کیونکہ وحی نبوت کا آغاز رمضان میں ہوا ہے میں اس وقت پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ جب مورخین نبوت کے سال شمار کرتے ہیں تو پہلے سال کا شمار محرم سے کرتے ہیںیا رمضان سے۔ اگر وہ ابتدائی مہینہ سے شمار کرتے ہوں تب تو یہ ساڑھے چار سال کا عرصہ بنتا ہے اور اگر وہ رمضان سے شمار کرتے ہیں تو اس صورت میں یہ عرصہ تین سال دس ماہ کا بن جائے گا ۔ بہرحال یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہجرت حبشہ سے پہلے یہ سورۃ نازل ہوئی اور اور اتنا عرصہ پہلے نازل ہوئی کہ صحابہؓ نے اس کو یاد کر لیا۔ اس غرض کیلئے ہمیں کم از کم پانچ چھ ماہ کا عرصہ ضرور نکالنا پڑے گا ۔ جس میں یہ سورت اتنی معروف ہو گئی کہ صحابہؓ نے اس کو حفظ کر لیا۔ ان امور کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ چوتھے سال کا آخری حصہ اس کے نزول کا وقت تھا اس سے پہلے تین سال تک رسول کریم ﷺ پر برابر الہامات نازل ہوتے رہے لیکن عیسائیت کو مخاطب نہیں کیا گیا تین سال کے بعد یکدم عیسائیت کو مخاطب کیا گیا اور تفصیلی طور پر مخاطب کیا گیا ۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے ذکر کے علاوہ جن پیشگوئیوں پر عیسائیوں کے نزدیک ان کے دعویٰ کی بنیاد تھی ان سب کی طرف اشارہ کیا گیا ۔ اسی طرح مسیحیوں کے عقائد کو بیان کیا گیا اور ان کو دلائل کے ساتھ رد کیا گیا اس کے چار پانچ ماہ کے بعد حبشہ کی طرف ہجرت ہو جاتی ہے جہاں عیسائی بادشاہت ہوتی ہے اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس سے متاثر ہو کر ایک صحابی عبید اللہ بن جحش جو مکہ سے ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے وہاں مرتد ہو کر عیسائی ہو گئے ۔ (زرقانی جلد ۱ صفحہ ۲۱۰)
اس سورۃ کا ایسے وقت میں نازل ہونا صاف طور پر بتاتا ہے کہ اس کے نزول میں ایک بہت بڑی حکمت پوشیدہ تھی۔ جو قرآن کریم کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ رسول کریم ﷺ مکہ میں پیدا ہوئے جہاں عیسائیت کا کوئی زور نہیں تھا۔ آپ کی مخالفت کرنے والے وہ لوگ تھے جن کا عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سوائے اس کے کہ تین چار عیسائی غلام تھے مگر ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور پھر تین سال تک آپ پر وحی ہوتی رہتی ہے مگر اس میں عیسائیت کا کوئی تفصیلی ذکر نہیں ہوتا۔لیکن یکدم چوتھے سال کے آخر یا پانچویں سال کے شروع میں تفصیلی طور پر عیسائیت کو مقابل میں رکھ کر بحث شروع کر دی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ عیسائیت کیوں پیدا ہوئی۔ مسیح ؑ کے متعلق کیا کیا پیشگوئیاں تھیں اور اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کی کیا حیثیت ہے اور پھر اس کے فوراً بعد ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے جائو جہاں ایک عیسائی حکومت ہے یہ ساری باتیں بتاتی ہی کہ اس کلام کا نازل کرنے والا ایک عالم الغیب خدا ہے جب تک اسلام اور عیسائیت کے ٹکرائو کی کوئی صورت نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ضرورت نہیں سمجھی کہ قبل از وقت عیسائیت کا کوئی ذکر کیا جائے۔ لیکن جونہی وہ وقت قریب آ گیا جب مسلمانوں نے ایک عیسائی ملک میںجانا تھا تو مسلمانوں کو بیدار رکھنے اور ان کو ہوشیار کرنے کیلئے اور یہ بتانے کیلئے کہ اب عیسائیوں سے تمہارا مقابلہ ہو گا تمہیں ان کے مقابلہ میں کونسا پہلو اپنے سامنے رکھنا چاہئے یکدم ایک سورۃ نازل ہو جاتی ہے جس میں عیسائی عقائد اور عیسائی تعلیمات پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ مسیحیت کی کیا غرض ہے اور اس کا اصل مقصد کیا ہے۔ اس میںصاف طور پر اس امر کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اب تم کو مسیحیوں سے واسطہ پڑنے والا ہے۔ اس لئے ان کے مذہب کے بارہ میں تم کو ہوشیار کیا جاتا ہے۔ پس سورۂ مریم کے نزول میں قطعی اور یقینی طورپر ہجرت حبشہ کی پیشگوئی مخفی تھی اور قبل از وقت مسلمانوں کو بتا دیا گیا تھا کہ اب تم ایک ایسی جگہ جانے والے ہو جہاں عیسائیت سے تمہارا واسطہ پڑے گا۔ اس لئے ان کے عقائد کے متعلق ہوشیار رہو۔ یہ ایک غیر معمولی اشارہ تھا جس کو مسلمانوں نے تو نہیں سمجھا مگر عیسائیوں نے سمجھ لیا کیونکہ ریورنڈ وہیری اور سر میور کا سارا زور اس امر کے ثابت کرنے کیلئے صرف ہو جاتا ہے کہ اس سورۃ کو کسی اور سال کی نازل شدہ قرار دیں۔ حالانکہ سورۂ مریم چوتھے سال میں نازل ہو یا آٹھویں سال میں عیسائیوں کا اس سے کیا تعلق ہو سکتا ہے اگر اس کا مضمون عیسائیت کرردّ کر دیتا ہے تو خواہ یہ چوتھے سال کے آخر میں نازل ہو یا دسویں سال میں عیسائیوں کے لئے برابر ہے مگر انہوں نے بڑا زور صرف کیا ہے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے پہلے کی نہیں کیونکہ ان کا ذہن اس طرف چلا گیا ہے کہ اگر یہ ہجرت حبشہ سے پہلے کی نازل شدہ ثابت ہو جائے تو یہ اس امر کا ایک صریح اور واضح ثبوت ہوگا کہ اس میں ہجرت حبشہ کی پیشگوئی کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اسلام اب عیسائی ممالک میں جانے والا ہے۔ پس یہ اعتراض ان کے دل میں کھٹکا۔ اور چونکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ قرآن کریم میں کوئی پیشگوئی نہیں اس لئے انہوں نے ضروری سمجھا کہ اس کا کوئی حل تلاش کریں ورنہ مسلمان مجبور کریں گے کہ بتائو تمہارے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ تین سال تک مشرکین مکہ کے سامنے عیسائیوں کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ نہ ان کی تعلیم کا نہ تاریخ کا۔ نہ غلط عقائد کا۔ مگر پھر یکدم ایک پوری کی پوری سورۃ اتاری جاتی ہے اور توجہ دلائی جاتی ہے کہ اب ایسے واقعات رونما ہونے والے ہیں کہ مسلمانوں کو عیسائیوں سے واسطہ پڑے گا اور ان ممالک میںبھی جہاں عیسائیوں کا زور ہو گا۔ اسلام کو ان کے مقابلہ کیلئے نکلنا پڑے گا۔ کیا اس سے ظاہر نہیںہوتا کہ اسلام اور عیسائیت کا جو ٹکرائو ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قبل از وقت اس کی خبر دے دی تھی اور چونکہ یہ ایسی چیز ہے جس کو برداشت کرنا ان کی طاقت سے بالکل باہر ہے اس لئے قرآنی نشان کو باطل کرنے کیلئے انہوں نے کوشش کی کہ اس سورۃ کو ہجرت حبشہ سے بعد کی قرار دیں۔مگر اس عظیم الشان نشان پر پردہ ڈالنے کیلئے انہیں اور تو کچھ نہ سوجھا اپنے آپ کو بڑا ادیب ظاہر کرنے کیلئے انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اس سورۃ کے الفاظ اور اس کا سٹائل بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ بعد میں نازل ہوئی تھی (تفسیر وہیری جلد۳)حالانکہ عربی سٹائل کو وہ جانتے ہی نہیں ۔ بلکہ عربی تو الگ رہی اگر شکسپیئر کے ڈرامے ہی ہم ان کے سامنے رکھ دیں اور ان سے دریافت کریں کہ بتائو یہ کون سے سال کا ہے اور وہ کون سے سال کا۔ تو وہ سخت ذلیل ہو کر شرمندہ اور لاجواب ہو جائیں گے اور یہ ہرگز نہیں بتا سکیں گے کہ یہ کس سال کا ہے اور وہ کس سال کا۔ زبان کاسٹائل پہچان کر یہ بتانا کہ یہ عبارت کس سن کی ہے ایک لمبی تاریخ پر عبور کا متقاضی ہوتا ہے جس میںکوئی زبان تدریجاًارتقائی منازل طے کرتی ہے اور پھر اس میں بھی ہزاروں قسم کی غلطیاں ہو جاتی ہیں ۔ بعض شاعر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ابتدائی ایام میں بعض الفاظ اپنے شعروں میں استعمال کئے ہیں جن کو آخری ایام میں انہوں نے استعمال نہیںکیا ایسے شخص کی کسی نظم کو اگر ہم دیکھیں گے تو ان الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکیں گے کہ یہ آخری زمانہ کی نظم ہے یا ابتدائی زمانہ کی مگر اس قسم کا اظہار خیال بھی صرف چند الفاظ کی بناء پر ہو گا۔یہ نہیں کہ شعر کی بناوٹ دیکھ کر کوئی شخص کہہ سکے کہ یہ فلاں زمانہ کی ہے اور وہ فلاں زمانہ کی۔ غالب بہت بڑا شاعر گزرا ہے مگر اس کے کلام پر بھی جرح کرنے والے کہتے ہیں کہ جیسے بعض سہل سے سہل شعر ہم اس کے آخری زمانہ کے کلام میں دکھا سکتے ہیں ویسے ہی بعض آسان شعر ہم اس کے ابتدائی زمانہ کے کلام میں بھی دکھا سکتے ہیں ۔ پس یہ کہنا کہ غالب کے کلام میں بعد میں امپروومنٹ ہو گئی تھی غلط بات ہے اسی طرح ریورنڈ وہیری اور سر میور کا یہ ایک فرضی ڈھکوسلہ ہے جس سے ان کا مقصد یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اتنے بڑے ماہر فن اور ادیب ہیں کہ ہم کلام کا سٹائل دیکھ کر ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ کون سے زمانہ کی ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا ماہر فن بھی اس قسم کی بات نہیں بتا سکتا۔اس زمانہ میں ہی اگر جرمنی ، فرانس ، امریکہ اور انگلستان کے ادیبوں سے دریافت کیا جائے کہ فلاں فلاں قومی شاعر جو تم میں گزرے ہیں ان کی فلاں فلاں نظمیں کس سن کی ہیں تو وہ یہی کہیں گے کہ کیا ہم منجم ہیں کہ اس قسم کی بات بتا سکیں۔ سوائے اس کے کہ کسی کو ذاتی طور پر علم ہو کہ فلاں نظم کس سن میں کہی گئی تھی کوئی شخص نظموں کو دیکھ کر ان کے سن کی تعیین نہیں کر سکتا لیکن قرآن کریم کے متعلق وہ یہ اندازہ لگانے بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ آیتیں فلاں سن کی ہیں اور یہ فلاں سن کی ۔ اس سے ان کی غرض محض اتنی ہوتی ہے کہ جو پیشگوئی ثابت ہوتی ہو اس میں رخنہ ڈال دیں اور اسلام کی صداقت پر پردہ ڈال دیں ۔
غرض وہیری اور میور کا فعل خود دلالت کرتا ہے کہ وہ دونوں اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ اس سورۃ کا نزول ایسے وقت میں ہوا ہے کہ یہ آئندہ کے حالات کے متعلق بڑی بھاری پیشگوئی بن جاتی ہے پس انہوں نے چاہا کہ اس پر پردہ ڈال دیں اور اسے بعد کے زمانہ کی قرار دے دیں۔ غرض یہ ایک عجیب نشان ہے کہ تین سال تک متواتر کلام الٰہی نازل ہوتا رہتا ہے مگر اس میں عیسائیت کا کوئی تفصیلی ذکر نہیں ہوتا ۔ لیکن جونہی عیسائیت سے ٹکرائو کا زمانہ قریب آتا ہے ایک سورۃ نازل ہوجاتی ہے اور پھر چھ ماہ یا سال کے بعد مسلمان ہجرت کر کے ایک عیسائی ملک میں چلے جاتے ہیں ۔ وہاں عیسائیوں سے ان کی بحثیں ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں عیسائی ایک مسلمان کا شکار کر لیتے ہیں اور اسے عیسائی بنا لیتے ہیں لیکن مسلمانوں نے ان کے بادشاہ کا شکار کر لیا اور وہ مسلمان ہو گیا ۔ پس قبل از وقت اس سورۃ کا نازل ہونا اور اس کے معاً بعد ایسے حالات کا پیدا ہو جانا جن کے نتیجہ میں اسلام اور عیسائیت کا ٹکرائو ہو گیا اسلام کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان ہے۔
اس سورۃ کے نزول کے بعد عیسائیت کا ذکر زمانۂ قبل از ہجرت میں ختم ہو جاتا ہے پھر مدینہ میں جا کر عیسائیت کا ذکر شروع ہوا ہے درمیان میں عیسائیت کی طرف اشارے ضرور کئے گئے ہیں لیکن تفصیل کے ساتھ عیسائیت کا ذکر پھر سورۂ آل عمران میں ہوا ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے یا تیسرے سال مدینہ میںنازل ہوئی۔ خود اس سورۃ کا مضمون بھی اس کے مدنی ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس میں جنگ احد اور اس کے متعلقہ واقعات کا ذکر ہے اور یا پھر عیسائیت کا ذکر سورۂ نساء میں آتا ہے کہ وہ بھی مدنی سورۃ ہے بلکہ سورۂ آل عمران کے بعد چوتھے سال سے اس کا نزول شروع ہوا ہے اور کچھ حصہ چوتھے سال کے بعد بھی نازل ہوا ہے سورۂ نساء کے علاوہ کسی حد تک تفصیل سے عیسائیت کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے اور یہ سورۃ بھی سورۃ نساء کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور اکثر حصہ اس کا پانچویں اور چھٹے سال ہجری میں نازل ہوا ہے بلکہ اس کی کچھ آیتیں رسول کریم ﷺ کی وفات کے قریب بھی نازل ہوئیں۔ پس قبل از ہجرت کی سورتوں میں سے جس سورۃ میں عیسائیت کو براہ راست بیان کیا گیا ہے اور کھلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وہ سورۂ مریم ہے اور جیسا کہ قیاس کیا جا سکتا ہے یہ سورۃ چوتھے سال نبوت کے آخر یا پانچویں سال نبوت کے شروع میں نازل ہوئی ہے تبھی صحابہؓ نے اس کو ہجرت حبشہ سے پہلے یاد کر لیا اور حبشہ کے بادشاہ کے سامنے اسے پڑھ کر سنایا۔ اس سورۃ کا یہ وقت نزول صاف طور پر بتا تا ہے کہ اس سور ۃ میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ اب عیسائیت کے ساتھ بھی تعلقات کی بنیاد رکھی جانے والی ہے اورآنے والی حبشہ کی ہجرت کی طرف اس میں واضح طور پر اشارہ کیا گیا تھا جس سے پتہ لگتا ہے کہ قرآن کریم کا نزول ایک عالم الغیب ہستی کی طرف سے ہوا ہے ۔جو واقعات اور حالات مسلمانوں کو پیش آنے والے ہوتے تھے۔ ان کو قریب زمانہ میںبیان کر دیا جاتا تھا تاکہ وقت پر اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہو کر مومنوں کیلئے ان کے ایمانوں کی زیادتی کا موجب ثابت ہو ۔میں سمجھتا ہوں ریورنڈ وہیری اور میور کے دل پر بھی اسی بات کا اثر ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے باوجود تاریخی اور حدیثی شہادتوں کے اس سورۃ کو بعد از ہجرت حبشہ یا قریب ہجرت مدینہ کے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مگر ان کے دل کی دھڑکن بتاتی ہے کہ اس سورۃ کے نزول کا وقت ایک ایسا بین اشارہ تھا کہ اس کے سمجھنے سے ریورنڈ وہیری اور میور بھی نہیں بچ سکے اور انہیں اس کے نزول کا وقت بدلنے کی ناکام کوشش کرنی پڑی ۔ آخری تاریخی شہادت کی موجودگی میں وہ کیا بات تھی جس سے مجبور ہو کر ان کو اس کا وقت ِنزول بعد میں ثابت کرنا پڑا ۔ صرف یہی کہ اگر اس کا وقت نزول وہی تھا جو تاریخ بتاتی ہے تو یہ اسلام کی سچائی کا ایک بہت بڑا ثبوت تھا۔
یہاں کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ہم یہ کس طرح مان لیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل کی ہے کیوں نہ یہ سمجھ لیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے خود بخود سوچ لیا ہو گاکہ مکہ میں مخالفت زیادہ ہے اب لازماً ہمیں ہجرت کرنی پڑے گی اور یہ بھی سوچ لیا ہوگا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کریں اس لئے انہوں نے عیسائیت کا قرآن کریم میں ذکر کر دیا اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک عقلی طور پر یہ ممکن ہے لیکن ساتھ ہی عقل اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ اگر عیسائیت کا ذکر کیا جاتا تو اس کی تعریف کی جاتی نہ کہ تردید۔ مگر اس سورۃ میں تو عیسائیوں کی شروع سے لے کر آ خر تک تردید کی گئی ہے ۔ دوسرے محمد رسول اللہ ﷺ یہ تو سوچ سکتے تھے متبعین کو حبشہ بھجوا دیں گے مگر انہیں یہ کس نے بتا دیا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک وہاں رہیں گے ان کے عیسائیوں سے مباحثات ہونگے اور اس لئے ضروری ہے کہ عیسائیت کے متعلق انہیں تفصیلاً واقفیت ہو کیونکہ اس سورۃ کے ذریعہ صرف یہی نہیں بتایا گیا تھا کہ ہجرت ہو گی بلکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایک لمبے عرصہ تک عیسائیوں سے مقابلہ ہوگا اور ایک دوسرے کی تردید کے لئے مختلف قسم کے دلائل استعمال کئے جائیں گے ۔پس یہ وسوسہ محض بے بنیاد ہے حقیقت یہی ہے کہ عیسائیوں نے چونکہ اس قرآنی معجزہ کو محسوس کرلیا تھا اس لئے انہوں نے پورا زور لگایا کہ اس سورۃ کو ہجرت حبشہ کے بعد کی نازل شدہ سورۃ قرار دیں چنانچہ میور کہتا ہے کہ اس میںہجرت کی طرف تو اشارہ ہے مگر ہجرت حبشہ کی طرف نہیں بلکہ ہجرت طائف کی طرف ۔ گویا وہ اسے ان آخری ایام مکی کی جو طائف میں گزرے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طائف میں بھی بعض عیسائی غلام تھے اور واقعہ طائف میں ایک عیسائی غلام عداس نامی کا ذکر بھی آتا ہے جو رسول کریم ﷺ سے ملا اور اس نے آپ سے والہانہ عقیدت کا اظہار کیا ۔ مگر اس قسم کے عیسائی غلام خود مکہ میں بھی تھے اور تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ لوہا کو ٹاکرتے تھے یا اسی قسم کے بعض اور کام کیا کرتے تھے۔ سفر طائف میں جس عیسائی غلام کا ذکر آتا ہے اس کے متعلق تاریخ میں لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو۱ اس نے کہا نینوہ کا ۔ آپ نے فرمایا کیا وہی نینوہ جس میں میرا بھائی یونس ؑ آیا تھا؟ اور پھر آپ نے اسے تبلیغ کی جس سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے آپ کے ہاتھ چوم لئے ۔ پس بے شک طائف میں بھی کچھ عیسائی تھے مگر ان کے ساتھ کوئی مذہبی مقابلہ پیش نہیں آیا کہ اس سورۃ کو طائف کے واقعہ پر چسپاں کیا جائے۔و ہیری نے بھی اسے دبے لفظوں میںہجرت حبشہ کے بعد کی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ کہتا ہے یہ سورۃ اتنی دور تو نازل نہیں ہوئی جتنی دور میور بتاتا ہے مگر اتنی قریب بھی نازل نہیں ہوئی جتنی قریب مسلمان بتاتے ہیں اس نے اس سورۃ کو بعد از ہجرت حبشہ پانچویں یا چھٹے سال کی قرار دیا ہے اور میور نے اسے گیارھویں سال میں نازل ہونے والی قرار دیا ہے۔وہیری کہتا ہے اس میں بیان کردہ واقعات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ محمد (ﷺ) کو کتاب مقدس کا بہت کم علم تھا اور جن لوگوں نے اسے بتایا وہ بھی بہت کم جانتے تھے اس کا جواب ہم اگلی آیتوں کی تفسیر میں دینگے۔
ترتیب سورۃ :
اس سورۃ کا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ سورۃ بنی اسرائیل میں اس سوال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ اسلام کس طرح ترقی کرے گا یہ بتایا گیا تھا کہ سلسلہ محمدیہ سلسلہ موسویہ سے مشابہ ہے جس طرح موسوی سلسلہ نے ترقی کی تھی اسی طرح اسلام بھی ترقی کرے گا چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل میں موسوی سلسلہ کے کچھ واقعات بیان کر کے بتایا گیا تھا کہ موسوی سلسلہ کے متعلق یہ مقدر تھا کہ اس پر زمانہ موسیٰؑ کے بعد دو تباہیاں آئیں گی اور اسی طرح پر دو ترقیوں کا زمانہ بھی آئے گا اور چونکہ اسلام کی ترقی موسوی سلسلہ کے مشابہ ہے اس لئے مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلو ک ہوگایعنی جس طرح وہاں زمانہ موسیٰؑ کے بعد دو تباہیاں اور دو ترقیاں مقدر تھیں ۔ اسی طرح یہاں بھی زمانہ نبوی کے بعد مسلمانوں کے لئے دو تباہیاں اور دو ترقیاں مقدر ہیں ۔ چنانچہ جیسا کہ بنی اسرائیل کی پہلی تباہی حضرت دائود ؑ کے زمانہ کے بعد ہوئی جو بڑی ترقی کا دور تھا اور اس میںیروشلم تباہ ہوا جو یہود کا مرکز تھا۔ اسی طرح زمانہ نبوی کے بعد بنو عباس کے زمانہ میںجو بڑی ترقی کا دور تھا۔ پہلی تباہی آئی اور بغداد جو اسلامی حکومت کا مرکز تھا وہ تباہ ہو گیا اور مسلمان علماء بغداد سے بھاگ کر ادھر ادھر منتشر ہو گئے اور مرکز پر غیروں کا قبضہ ہو گیا۔ پھر جس طرح وہاں جو پہلی تباہی آئی وہ زمانہ زیادہ تر حکومت کے مرکز کی تباہی تھی۔ یعنی نبو کد نضر نے یروشلم کو تباہ کیا اور وہاں کا تمام قیمتی سامان اپنے ساتھ لے گیا اور یہود جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ اسی طرح یہاں جو پہلی تباہی آئی وہ بھی زیادہ تر اسلامی حکومت کے مرکز کی تباہی تھی اور زمانہ بھی قریباً قریباً وہی تھا ۔ یعنی جتنے عرصہ بعد یروشلم پر تباہی آئی اتنے عرصہ بعد ہی بغداد پر تباہی آئی۔ اس کے بعد دوسری تباہی جو ٹائٹس کے زمانہ میں یہود پر آئی وہ ایسی تھی جس کے بعد یہودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور ان میں سے کچھ ایران کے علاقہ میں چلے گئے۔ کچھ مصر کی طرف نکل گئے اور انہیں اپنا وطن بالکل چھوڑ دینا پڑا۔ اسی طرح ایک دوسری تباہی مسلمانوں کیلئے بھی مقدر تھی ۔ چنانچہ جس طرح بنی اسرائیل کی دوسری تباہی ظہور مسیح سے پہلے شروع ہوئی اور اس کے بعد بھی کچھ عرصہ تک جاری رہی۔ اسی طرح زمانہ اسلام میں بھی ہوا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو اس سے کچھ عرصہ پہلے سے ہی مسلمانوں پر یہ عمومی تباہی مغربی مسیحی طاقتوں کے ذریعہ سے جو رومن ایمپائر کے قائم مقام تھیں آنی شروع ہوئی اور وہ ہر جگہ کمزور ہوتے چلے گئے ان کی حکومتیں تباہ ہو گئیں اور اسلام کو پھر ایک سخت دھکا لگا اور ساری دنیا سے اسلامی حکومت کا نشان مٹ گیا۔یہ تباہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی رہی اور بعد میں بھی جاری رہی لیکن جیسا کہ پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے مقدر یہی ہے کہ ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کی یہ تباہی ترقی کی صورت میں بدل جائے گی اور انہیں دنیا میں پھر عروج حاصل ہو جائے گا۔
پہلی موسوی تباہی کے بعد یہود کو دوبارہ زندگی اس طرح حاصل ہوئی تھی کہ جو دشمن قوم تھی اس نے ان کو دوبارہ یروشلم بنانے میں مد د دی اور اس نے انہیں اپنے مرکز میں لا کر بسا دیا۔ اسی طرح مسلمانوں کی پہلی تباہی کے موقعہ پر بھی ایسا ہی نشان ظاہر ہوا بلکہ یہ نشان مسلمانوں کے حق میں زیادہ مکمل صورت میں ظاہر ہوا۔ اور وہ اس طرح کہ فارس اور مید کا بادشاہ جس نے یہود کو یروشلم کے آباد کرنے میں مدد دی تھی یہودی نہیں ہوا تھا صرف ان کا ہمدرد اور خیر خواہ تھا ۔ لیکن وہ ترک بادشاہ جنہوں نے اسلامی حکومت کو تباہ کیا تھا خود مسلمان ہو گئے اور بجائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کی تباہی میںحصہ لیتے اور ان کی ترقی اور احیاء میں حصہ لینے لگے۔ اور اسلام پھر دوبارہ ان کے ہاتھوں سے عروج کے ایک نئے دور میں سے گزرنے لگا۔ اس کے مقابلہ میں دوسری تباہی جو بنی اسرائیل پر آئی تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حاکم قوم خود مسیحی ہو گئی اور یہودی مذہب سے اس کی اس حد تک دلچسپی ہو گئی کہ مسیحی روایتوں کے ساتھ ساتھ تورات کا ادب اور احترام اور اسرائیلی انبیاء کا ادب اور احترام بھی ان میں قائم ہو گیا۔ مسلمانوں کیلئے بھی یہی مقدر ہے کہ وہ حاکم قومیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کیا ہے وہی ایک دن اسلام قبول کریں گی اور پھر دوبارہ محمد رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین کو دنیا میں عزت اور کامیابی حاصل ہو گی۔ اس کے بعد سورۂ کہف میں اسی مضمون کو اور کھول کر بیان کیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ دوسری تباہی کے بعد جو ذریعہ خدا تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو ترقی دینے کا اختیار کیا تھا وہی اب بھی اختیار کیا جائے گا۔ یہ کیا ذریعہ تھا جو اختیار کیا گیا اور موسوی سلسلہ کی یہ تباہی کس طرح ترقی میں تبدیلی ہوئی۔ مسیحی دنیا اسے خوب واقف ہے ۔وہ رنگ جو اس وقت تک موسوی سلسلہ کا چلا جاتا تھا اسے یکسر بدل دیا گیا اور مسیح ناصری جنہوں نے یہ کہا تھا کہ میں قانون کو بدلنے نہیں آیا بلکہ اسے پورا کرنے آیا ہوں (متی باب ۵ آیت ۱۷۔۱۸) ان کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے تبلیغ دین کی ایسی توفیق دی کہ ان کے ذریعہ سے پھر تورات کی حکومت ایک نئے رنگ میں دنیا میں قائم ہو گئی اور وہی قوم جو مردہ ہو چکی تھی پھر موسوی سلسلہ کے آخری خلیفہ مسیح ناصری پر ایمان لا کر دنیا میں ترقی کر گئی اور موسوی سلسلہ پھیل گیا۔ ایسا ہی بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں سے بھی ہوگا چنانچہ یہ بتانے کے لئے کہ مسلمانوں کی دوبارہ ترقی بھی ایک مسیح کے ذریعہ سے ہو گی سورۂ مریم کو سورۂ کہف کے بعد رکھا گیا اور اس میں مسیح علیہ السلام کے واقعات بیان کر کے توجہ دلائی گئی کہ ایک ایسا ہی نشان مسلمانوں میں بھی ظاہر ہوگا اور مسلمان پھر اس نشان کے ذریعہ سے ترقی کریں گے۔ چنانچہ جس طرح موسوسی سلسلہ کی ترقی ایک مسیح کے ساتھ وابستہ تھی اسی طرح اسلام کی ترقی ایک مسیح کے ساتھ وابستہ ہو گی جس طرح وہاں اصحاب کہف یعنی مسیح ناصری کے اتباع کے ذریعہ سے وہ غلبہ ملا تھا اسی طرح یہاں آنے والے مسیح کیلئے نئے اصحاب کہف پیدا ہونگے اور ان کے ذریعہ سے دوبارہ اسلام غالب آ ئے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سورۂ کہف میں معرج موسوی کا ذکر کیا اور بتایا کہ معراج موسوی کے اندر ہی اسلام کی ترقی کی خبر دی گئی تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس معراج کے نتیجہ میں موسوی اور محمدی ؑ سلسلہ میں شدید رقابت پیدا ہو جائے گی۔ چنانچہ جب محمدی سلسلہ ترقی کرے گا۔ موسوی سلسلہ اسے رقابت کی نظروں سے دیکھے گا اور اس رقابت کے نتیجہ میں جیسا کہ عام طور پر قاعدہ ہے کہ جب دورقیب ہوں اور ان میں سے ایک ذرا بھی غافل ہو تو وہ مارا جاتا ہے۔ مسلمان غفلت کرینگے اور موسوی سلسلہ کے علمبردار یعنی مسیح ناصری کے پیرو ان پر غالب آجائیں گے اور مسلمانوں کو مغلوب کر لینگے۔
پھر اس مشابہت کے لئے سورۂ کہف میں ایک پرانا واقعہ بنی اسرائیل کی قوم کا بیان کیا اور بتایا کہ بنی اسرائیل میں ذوالقرنین کا ایک واقعہ گزرا ہے تم دیکھو کہ کس طرح ذوالقرنین کے ذریعہ تباہ شدہ یہودیوں کو دوبارہ حکومت ملی۔ وہ واقعہ بھی اس موقعہ پر ظاہر کیا جائے گا اور مسلمان جو تباہ ہو چکے ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں پھر ایک دوسرے ذوالقرنین کے ذریعہ سے تباہی سے بچائے گا اور پھر ان کی ترقی اور حفاظت کے سامان پیدا فرمائے گا۔
اس کے بعد سورۂ مریم کو شروع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بتاچکا ہوں پہلی سورتوں کے مضمون سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام کی ترقی اور اس کے تنزل کا دور موسوی سلسلہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ جس طرح موسوی سلسلہ کے ٹوٹنے پر اس کا احیاء مسیح ناصری کے ذریعہ سے ہوا جو موسوی سلسلہ کا آخری نقطہ تھا اسی طرح اسلام کی طاقت اور اس کی شوکت کے ٹوٹنے پر اس کا دوبارہ احیاء مسیح محمدی ؑ کے ذریعہ سے ہوگا جو محمدیؑ سلسلہ کا آخری نقطہ ہو گا مگر چونکہ محمدیؑ سلسلہ کا اصل مقابلہ مسیح ناصری کی قوم کے ساتھ ہوگا اور اسلام کا ٹوٹنا مسیح ناصری کی قوم کی وجہ سے ہوگا جو موسوی سلسلہ کا آخری نقطہ تھا۔ اس لئے محمدی ؑ سلسلہ جب ترقی کرے گا تو اسے اصل مقابلہ مسیح ناصری ؑ کی قوم سے ہی پیش آئے گا ۔ اس لئے اگر ہم تاریخی طور پر غور کرنا چاہیں تو ہمیں بجائے موسوی سلسلہ پر غور کرنے کے مسیحی سلسلہ پر غور کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اسلام کے اصل دشمن وہی ہیں ۔ اس مناسبت کے لحاظ سے سورۂ کہف کی تشریحات کے بعد اب وہ اس قوم کے حالات کی طرف آتا ہے جن سے مسلمانوں کا اصل مقابلہ تھا اور بتاتا ہے کہ مسلمانوں پر مسیح کے ذریعہ سے ہی تباہی آئی یعنی مسیح ناصری کی قوم کے ذریعہ سے اور مسلمانوں نے اگر تباہی سے بچنا ہے تب بھی مسیح کے ذریعہ سے ہی یعنی مسیح موعود پر ایمان لانے کی وجہ سے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اب عیسائیت کی تاریخ بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ تاریخ تمہارے لئے شمع راہ ہو گی اور تمہیں مدنظر رکھنا پڑے گا کہ اس طرح عیسائیت کی بنیاد پڑی اور اس رنگ میں تمہارے احیاء کی بنیاد ڈالی جائے گی ۔ گویا سورۂ مریم۔ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف کی تیسری کڑی ہے اور یہ تینوں سورتیں ایک ہی مضمون کی حامل اور ایک ہی طریق پر چل رہی ہیں ۔
پھر اس سورۃ کا ایک قریبی تعلق سورۂ کہف سے یہ بھی ہے کہ سورۂ کہف کے آخر میں شریعت اور توحید پر زور دیا گیا تھا اور اس سورۃ میں مسیح کے ذکر سے کلام شروع کیا گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے شریعت اور توحید میں وہ خطرناک ابہام پیدا ہونے والے تھے اور اس طرح بات صاف کر دی گئی ۔
پھر ان دونوں سورتوں کا ایک یہ تعلق بھی ہے کہ سورۂ کہف میں مسیحیوں کی انتہاء بیان کی گئی تھی اور اس میں ان کی ابتداء بیان کی گئی ہے۔ بظاہر اس کے الٹ ہونا چاہئے تھا۔ مگر بیج چونکہ مخفی ہوتا ہے اور کسی چیز کے ظاہر ہونے کے بعد ہی اس کی حقیقت کھلتی ہے اس لئے اسے بعد میں رکھا تاکہ مسیحیوں اور غیروں پر ظاہر ہو کہ کہاں سے بات شروع ہوئی تھی اور ختم کس شکل میں جا کر ہوئی۔
خلاصہ سورۃ
اس سورۃ کے شروع کے مقطعات میں جو صفات الٰہیہ کا اختصار ہیں مسیحیت اور اسلام کے عقائد کا مقابلہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ گو مسیحیت کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن اس میں خلاف ِصداقت عقائد داخل ہو گئی ہیں اور وہ عقائد صفات الٰہیہ کے بھی خلاف ہیں (خلاصہ مفہوم کھٰیٰعص)
اس کے بعد مسیح کا واقعہ حضرت زکریا کے ذکر سے شروع کیا ۔ کیونکہ مسیح علیہ السلام کی بہت بڑی علامت جو یہود میں مشہور تھی وہ مسیح سے پہلے ایلیا نبی کا آسمان سے اتر نا تھا (ملا کی باب ۴ آیت ۵) چنانچہ مسیح کے نزول کے بعد سب سے اہم سوال ان سے یہی کیا جاتا تھا۔ اور اسی سوال کے حل کرنے کی طرف انجیل نے غیر معمولی توجہ دی ہے اور بتایا ہے کہ ایلیا سے مراد یوحنا ہے ( متی باب ۱۱ آیت ۱۵ وباب ۱۷ آیت ۱۲ و مرقس ۹ آیت ۱۳) اور یہ کہ ایلیا نے آسمان سے نہیں آنا تھا بلکہ زمین سے ہی نکلنا اور ماں کے پیٹ سے پیدا ہونا تھا (متی باب ۱۱ آیت ۱۱ولوقاب ۷ آیت ۲۸) ذکر رحمت …
ایلیا کے ذکر کے بعد مسیح ؑ کا ذکر کیا لیکن مسیح ؑ کے دعویٰ کے ذکر کی بجائے اس کی والدہ کے ذکر سے اس کا ذکر شروع کیا۔ کیونکہ مسیح ؑ کی پیدائش سے ہی بعثت محمدیہؐ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے ان کی دو بیویوں سے تھے۔ یعنی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق ۔ حضرت اسماعیل پلوٹھے تھے اور حضرت اسحاق آپ کے دوسرے بیٹے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان دونوں کے بار ہ میں وعدے تھے۔
حضرت اسماعیل کے متعلق پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰تا۱۲وب۱۷ آیت ۸ تا ۱۴و آیت ۱۸ و۲۰و باب ۲۱آیت ۱۳ ‘۱۷و ۱۸ تا ۲۱ میں وعدے موجود ہیں ۔
اور حضرت اسحاق ؑ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان کا پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۹و۲۱ میں ذکر ہے۔
پھر ان دونوں بیٹوں کیلئے مجموعی پیشگوئی پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۷ و۱۸ میں کی گئی ۔ ان حوالہ جات کو جب پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۱ سے ملایا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عہد ابراہیمی حضرت اسحاق کے ذریعہ سے شروع ہونا تھا مگر پورا دونوں بیٹوں کے ذریعہ سے ہونا تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہد ابراہیمی کا آخری ظہور نسل اسماعیل سے ہونا تھا لیکن جب عہد کا اسحاق سے بدل کر اسماعیل کی طرف پھیرا جاتا تو لازماً نسل اسحاق کو ایک بڑا دھکا لگنا تھا اور ان پر گراں بھی گزرتا تھا۔ اس لئے ضروری تھا کہ اس تبدیلی کو تدریجی طور پر ظاہر کیا جائے اور مدلل طور پر قائم کیا جائے۔
ان آیات میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بار بار اور متواتر عہد کے توڑنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ اب اسحاق کی نسل کی جگہ اسماعیل کی نسل کے ذریعہ سے عہد ابراہیمی کو پورا کیا جائے۔ لیکن بنو اسحاق کو آخری تنبیہ کرتے ہوئے اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک کنواری کے ہاں بیٹا پیدا کیا جائے اور اسے موسیٰ کا خلیفہ مقرر کیا جائے اس خلیفہ موسوی کی وجہ سے بنو اسرائیل کے ذریعہ سے پورا ہونے والا عہد آدھا رہ گیا یعنی باپ کا تعلق بنو اسرائیل سے کٹ گیا اور صرف ماں کا تعلق رہ گیا جو بنی اسرائیل سے تھیں ۔
پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ بن باپ کے بچہ ہونا ناممکن ہے گو خدا کیلئے سب کچھ ممکن ہے مگر پھر بھی لوگ اس کو سنت اللہ کے خلاف کہہ دیا کرتے تھے۔ مگر تازہ تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ یہ بات سنت اللہ کے خلاف نہیں بلکہ قانون قدرت کے اندر ہے چنانچہ ہم ذیل میں ایک تازہ شہادت پیش کرتے ہیں :۔
‏ Dr. Halen Superwayیونیورسٹی کالج لندن کی یہ تھیوری ہے کہ پیدائش کیلئے ہمیشہ ضروری نہیں کہ نر کی ضرورت ہو چنانچہ Lencetلندن کے ایک ہفتہ واری میگزین میں اس کے تجربات شائع ہوتے ہیں ۔ پھر Sunday Pictorial لندن 6نومبر 1955ء میں اسی تھیوری کے متعلق ایک شائع شدہ مضمون کے جواب میں ایک ہفتہ بعد یعنی 13نومبر کو شائع ہونے والے رسالہ میں تین ایسی عورتوں کی شہادت بھی شائع ہوئی ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ ان کا یہ بچہ خود بخود ہوا ہے اس کی پیدائش میں کسی مرد کا دخل نہیں۔ اس کے بعد 28دسمبر کے رسالہ میں لکھا ہے کہ انیس عورتوں نے اس امر کی مزید شہادت دی ہے۔
بہرحال چونکہ قرآن کریم کا اصل منشاء یہ تھا کہ ابراہیمی وعدہ اب محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ سے پورا ہواہے جو کہ بنو اسماعیل میں سے ہیں اس لئے حضرت مسیح ناصری کے بن باپ پیدا ہونے کے واقعہ کا ذکر تفصیلی طور پر کیا اور اس طرف اشارہ کیا کہ خود پیدائش مسیح ہی اس طرف اشارہ کر رہی تھی کہ بنو اسحاق کے ذریعہ سے ابراہیمی عہد کے پور اہونے کا وقت ختم ہو رہا ہے ۔ تبھی خدا تعالیٰ نے مسیح کے ذریعہ سے عہد کی آدھی اہمیت ختم کر دی۔ باقی آدھی خود مسیح ناصری کے پیروئوں نے کم کر دی کیونکہ انہوں نے ختنہ کو جو عہد کی علامت تھا موقو ف کر دیا اور اس طرح عہد کو بنو اسحق سے ہمیشہ کیلئے مٹا دیا۔ حالانکہ ختنہ ابراہیمی عہد کی خاص شرط تھی ۔ چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ
’’ میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرنا اوریہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔‘‘
(پیدائش باب ۱۷آیت ۱۰ و۱۱)
اسی طرح لکھا ہے۔
’’ میرا عہد تمہارے جسم میں ابدی عہد ہوگا اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہ ہوا اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے کیونکہ اس نے میرا عہد توڑا۔‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۴) واذکر فی الکتب ………
پھر حضرت مسیح کے واقعات بتائے اور ان کی صداقت کی دلیلوں کے ساتھ ان جھوٹے دعووں کا بھی ازالہ کیا جو ان کے متبعین ان کی نسبت کرتے ہیں ماشارت الیہ ……
اس کے بعد رسول کریم ﷺ کے ذکر کو چھیڑا کہ ان گزشتہ واقعات میں اور مسیح کی آمد میں ایک اسماعیلی موعود کی خبر دی گئی تھی سوو ہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ لیکن لوگ ان کے مخالف ہیں اور ان کی مخالفت کی بڑی وجہ ان کی کثرت ہے جو دلیل نہیں اور ان کے جھوٹا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ خود ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ لیکن ان کی کثرت فائدہ نہ دے گی اور آخر وہ سب تباہ ہونگے۔ وانا اللہ ربی ……
پھر فرمایا آج تو یہ لوگ خوب باتیں بناتے ہیں اور اسلام کے متعلق بات سننا تک پسند نہیں کرتے لیکن ایک دن عذاب کو دیکھ کر خوب دیکھنے اور سننے لگ جائینگے اور زمین مسلمانوں کے سپرد ہو جائے گی اسمع بھم ……
اس کے بعد اس وعدہ ابراہیمی کو تفصیل سے بیان کرتا ہے جس کا ذکر پہلے اشارۃً آیا تھا اور بتاتا ہے کہ کس طرح ابراہیم سے ایک وعدہ ہوا جو اسحاق اور موسیٰ کے ذریعہ سے پورا ہوا ۔ واذکر فی الکتب ……
اس کے بعد اسماعیل کا ذکر کرتا ہے کیونکہ اس جگہ یہ بتانا مقصود تھا کہ اسحاق کے وعدہ کے بعد اسماعیل کا وعدہ پورا ہونا تھا ورنہ زمانہ کے لحاظ سے حضرت موسیٰ ؑحضرت اسماعیل کے بعد تھے ان کاذکر حضرت اسماعیل سے پہلے اس لئے کیا گیا کہ وہ اسحاق کے وعدہ کا حصہ تھے جو اسماعیلی وعدہ سے پہلے پورا ہونا ضروری تھا۔ واذکر فی الکتب……
اس کے بعد حضرت ادریس ؑ کا ذکر کیا جن کے بارہ میں رفعناہ مکانا علیا کا ذکر فرما کر بتایا کہ ان کو بھی حضرت مسیح سے رفع روحانی میںایک مشابہت ہے چنانچہ عہد نامہ قدیم پیدائش باب ۵ آیت ۲۴ میں لکھا ہے کہ حنوک (جسے عرب لوگ ادریس کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی باتیں لوگوں کو سناتا تھا ۔ بائبل میں بھی لکھا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ چلتا تھا ۔ پیدائش باب ۵ آیت ۲۲ اور اس سے مراد بھی خدا تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کرنے کے ہیں یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا ایک اعلیٰ ظہور تھا اور خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتا تھا) غائب ہو گیا ۔ اس لئے کہ خدا نے اسے لے لیا کا ترجمہ قرآن کریم میں رفعناہ مکانا علیا سے کیا گیا ہے اور ایسے ہی الفاظ حضرت مسیح ناصری کے متعلق ہیں ۔ لیکن باوجود اس کے مسیحی حنوک کو خدا نہیں کہتے۔ بلکہ انسان ہی سمجھتے ہیں ۔ پھر ان لفظوں سے مسیح کو کیوں خدا سمجھنے لگ گئے ہیں بلکہ بقول بائبل حنوک کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ وہ موت کے بغیر ہی آسمان پر چلا گیا اور خدا باپ کی طرح اس نے کبھی موت نہ چکھی ۔ واذکر فی الکتب ………
پھر بتاتا ہے کہ یہ سب لوگ آدم سے لے کر نوح تک اور نوح سے اسرائیل کے آخری نبیوں تک انسان تھے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں سے مسیح کو خدائی کا عہدہ دیا جاتا ہے اولئک الذین ……
اس کے بعد بتایا کہ لوگوں نے تعلیمات سماوی کو بھلا کر لہو ولعب کو اختیار کر لیا ہے لیکن اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا ۔ نتیجہ انہی کے لئے اچھا ہو گا جو ان امور سے توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی باتوں کو سنیں گے (مخلف من بعدھم……تک)
پھر بعد الموت کا چونکہ اس زمانہ میں سب سے زیادہ انکار ہونا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر کیا اور پھر ان کے انکار کا ذکر کر کے دلیل دی کہ مابعد الموت زندگی کوئی عجیب شئے نہیں ایسا ضرور ہوگا اور مجرم ضرور سزا پائینگے اور نیک نجات حاصل کریں گے (ویقول الانسان …… تک)
پھر سچائی کے دشمنوں کا ایک حربہ بیان کرتا ہے کہ جب اخروی سزا کا ذکر کیا جاتا ہے تو منکر کہتے ہیں کہ قیامت کی بات تو قیامت کو دیکھی جائے گی اب کس کا حال اچھا ہے، کس کی دولت زیادہ ہے، کس کے افراد زیادہ ہیں ۔فرماتا ہے ہمیشہ سے سچائی آہستہ آہستہ ترقی کرتی رہی ہے جب تک وہ وقت نہ آئے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ دلیل کس کے ساتھ ہے اور قربانی اور نیک نمونہ کس کے ساتھ ہے جس کے ساتھ دلیل ہو اور جس کے ساتھ نیک نمونہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اس دنیا میں بھی آخر وہی جیتے گا۔ (واذ اتلی…… سے ونرثہ …… تک)
اس کے بعد فرماتا ہے منکرین صداقت ہمیشہ شرک میں مبتلا ہوتے ہیں اور شرک کو تقویت کا موجب سمجھتے ہیں مگر شرک ہمیشہ ذلت اور شکست کا موجب ہوتا ہے۔ وہی چزیں جن کو لوگ تقویت کا موجب بتاتے ہیں ان کی کمزوری کا موجب ثابت ہوتی ہیں واتخذوا من دون اللہ……… سے یکون علیھم ضدا تک) پھر فرماتا ہے کہ جب دلائل سے کافر عاجز آ جاتا ہے تو دھینگا مشتی پر اتر آتا ہے مگر اس کی پروانہ کر آخر یہ دھینگا مشتی ہی تو دنیوی غلبہ کا سبب بنے گی۔ دشمن دھینگا مشتی نہ کرے تو اسلام کو دنیوی غلبہ کس طرح حاصل ہو گا(یعنی اسلام جارحانہ لڑائی کی اجازت نہیںد یتا۔ پس اس کے غلبہ کا ذریعہ یہی بن سکتا ہے کہ دشمن ظلم پر اتر آئے) جب وہ ظلم پر اتر ے گا تو مسلمانوں کو بھی لڑنے کی اجازت ہوگی ۔ اور چونکہ دشمن خدا تعالیٰ کو عقیدۃً بھی ناراض کر چکا ہو گا خدا تعالیٰ کی مدد سے مسلمان جیت جائیں گے (الم ترانا ……سے سیجعل لھم الرحمن وداً تک)
پھر فرماتا ہے کہ یہودپر کلام عبرانی زبان میںنازل ہوتا تھا لوگ یہ نہ اعتراض کریں کہ اب عربی زبان میں کلام کیوں اترا ہے ۔ ہر قوم سے ان کی زبان میں کلام ہونا چاہئے تاکہ آسانی سے تبلیغ ہو سکے اور دوست دشمن سمجھ سکیں اور کفار پر حجت تمام ہو۔ ہماری طرف سے سزا حجت کے بعد ہی دی جاتی ہے اور وہی سزا عبرتناک ہوتی ہے (فانما یَسَّرنٰہ ………)

کھیعص : میں نے متعدد بار بیان کیا ہے کہ حروف مقطعات کے متعلق مختلف ائمہ اسلام میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اگر کوئی تشریح ایسی ہو جو رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کی جاتی ہو تو بہرحال وہ دوسرے لوگوں کے خیالات سے مقدم سمجھی جائے گی۔ اس نقطہ نگاہ سے رسول کریم ﷺ کی طرف مقطعات کے متعلق دو ہی معنے منسوب ہیں ۔ بعض روایتوں میں تو یہ آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے سامنے یہودیوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ یہ حروف اعداد کے حروف ہیں ۔ مثلا ً الم ہے اس میں الف کا ایک لام کے تیس اور م کے چالیس اعداد ہیں۔ گویا الم کے اکہتر عدد ہوئے اور رسول کریم ﷺ نے ان معنوں کو رد نہیں کیا۔پس بوجہ ان معنوں کو رد نہ کرنے کے وہ معنے بھی ہمارے نزدیک قابل قبول ہونگے۔ کیونکہ اگر وہ غلط ہوتے تو رسول کریم ﷺ ان کو رد فرما دیتے ۔ اور قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معنے بھی اپنے اندر بعض پیشگوئیاں رکھتے ہیں جو وقت پر پوری ہوئیں ۔
اس کے علاوہ رسول کریم ﷺ کی طرف ایسے معنے بھی منسوب ہیں جن میںصفات الہٰیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مثلاً یہی کھیعص ہے حضرت ام ہانی جو رسول کریم ﷺ کی چچا زاد بہن تھیں وہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کے معنے کاف۔ ھاد۔ عالم او علیم اور صادق کے ہیں یعنی ک قائم مقام صفت کافی کا ہے ۔ ھاء قائم مقام صفت ہادی کی ہے ع قائم مقام صفت عالم یا علیم کی ہے اور ص قائم مقام صفت صادق کی ہے (فتح البیان) گویا ان مقطعات میں خدا تعالیٰ کی صفت کافی صفت ہادی صفت عالم یا علیم اور صفت صادق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
حضرت علیؓ کی بھی ان الفاظ کے متعلق ایک روایت آتی ہے جو ان معنوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی کھیعص میں صفات ِالٰہیہ کی طرف ہی اشارہ کیا گیا ہے۔وہ روایت یہ ہے کہ حضرت علیؓ کو جب کوئی بڑی مصیبت پیش آتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے۔ کہ یا کھیعص اغفرلی ۔ یعنی اے کھیعص مجھے معاف فرما دے اور چونکہ دعا کا صفات الہٰیہ سے خاص تعلق ہوتا ہے اس لئے یہ روایت بتاتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی کھیعص کو صفات الٰہیہ کا قائم مقام سمجھتے تھے۔
حضرت ابن عباسؓ نے بھی ان حروف مقطعات سے صفات الٰہیہ ہی مراد لی ہیں مگر انہوں نے ام ہانیؓ والی روایت سے کچھ اختلاف کیا ہے وہ کہتے ہیں ک کبیرکا ہے ھاء ھاد کی ہے یاء امین کی ہے ع سے عزیز مراد ہے اور ص سے صادق مراد ہے گویا حضرت ابن عباسؓ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں صفات الٰہیہ کا ذکر کیا گیا ہے مگر وہ اس کی تشریح میں کچھ اختلاف کرتے ہیں۔ ام ہانی ؓ کی روایت میں ک سے کاف مراد لیا گیا تھا مگر ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اس سے کبیر مراد لیا تھا ۔ دو ع سے انہوں نے عالم یا علیم مراد لیا تھا مگر ابن عباسؓ اس سے عزیز مراد لیتے ہیں۔ اسی طرح ام ہانی ؓکی روایت میں یاء کو چھوڑ دیا گیا تھا مگر ابن عباسؓ یاء سے امین مراد لیتے ہیں ۔
ابن مسعودؓ اور بعض صحابہؓ کہتے ہیں کہ ک سے الملک مراد ہے ھاء سے الالٰہ مراد ہے یاء اور ع سے العزیز مراد ہے اور ص سے المصور مراد ہے ۔( فتح البیان)
یہ روایتیں گو مختلف ہیں مگر ہم ان سے اتنا نتیجہ نکالنے میں ضرور حق بجانب ہیں کہ رسول کریم ﷺ اور تمام صحابہؓ نے بالاتفاق ان حروف سے صفات الٰہیہ مراد لی ہیں گو اُن کی تعیین میں بعض صحابہ ؓ نے اختلاف کیا ہے لیکن یہ ظاہر ہے ک جو تعیین رسول کریم ﷺ نے فرمائی وہی مقدم ہے اور صحابہؓ کی تعیین رسول کریم ﷺ کی تعیین کے مقابلہ میں مخفی ظنی سمجھی جائے گی ۔اگر ابن مسعودؓ کچھ اور معنے کرتے ۔ابن عباس ؓ کچھ اور معنے کرتے حضرت علیؓ کچھ اورممعنے کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ سب نے اپنے اپنے پاس سے معنے بنائے ہیں ۔ مگر حضرت علیؓ بھی ان سے صفات الٰہیہ مراد لیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ بھی صفاتِ الٰہیہ مراد لیتے ہیں اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی ان سے صفاتِ الٰہیہ مراد لیتے ہیں۔ پس ان روایات سے اتنا تو پتہ لگ گیا کہ رسول کریم ﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ حروف صفات الٰہیہ کے قائم مقام ہیں ۔ باقی ہر شخص کا اپنی اپنی عقل کے مطابق کچھ صفات الٰہیہ تجویز کرلینا کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ اس اصولی امر میں ہمیں سب متفق نظر آتے ہیں۔ کہ ان حروف میںصفات الٰہیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔رہا یہ کہ ان حروف میں کونسی صفات بیان کی گئی ہیں اس کو سورۃ کا مضمون خود واضح کر دیتا ہے۔ اگر کوئی غلط معنے کرتا ہے تو ہمارے پاس صداقت کو معلوم کرنے کا ایک ذریعہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم ساری سورۃ پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ اس میں کن صفات الٰہیہ کا ذکر آتا ہے اگر ان صفات کا ذکر موجود نہیں ہوگا تو ہم ان معنوں کو غلط قرار دیدینگے اور اگر موجود ہو گا تو ہم ان معنوں کو درست قرار دیدینگے لیکن اور سورتوں کو جانے دو اس سورۃ میں جو صفات الٰہیہ بیان کی گئی ہیں چونکہ ان کی تعیین خود رسول کریم ﷺسے ثابت ہے اس لئے اس بارہ میں کسی اور تشریح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سب سورتوں کے مقطعات کے معنے رسول کریم ﷺ سے ثابت نہیں ۔ لیکن اس سورۃ کے مقطعات کے معنے خود رسول کریم ﷺ سے ثابت ہیں اور ام ہانی ؓ کہتی ہیں کہ میں نے یہ معنے رسول کریم ﷺسے سنے ہیں اور دوسرے صحابہؓ اپنے علم کے مطابق اس کی تشریح کرتے ہیں اور چونکہ یہ مسلمہ اصل ہے کہ جو تشریح رسول کریم ﷺ سے ثابت ہو وہ ہر دوسری تشریح پر مقدم سمجھی جائے گی۔ اس لئے بہر حال ام ہانیؓ کے بیان کردہ معنوں کو ہی ترجیح دی جائے گی یعنی ک کے معنے کافی کے ہیں ھاء کے معنے ہادی کے ہیں ع کے معنے عالم یا علیم کے ہیں اور ص کے معنے صادق کے ہیں اور میرے نزدیک یہی معنے اس سورۃ کی کنجی ہیں ۔
اس جگہ ایک اور بات بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ حروف پانچ ہیں لیکن رسول کریم ﷺ نے جو صفات الٰہیہ بیان فرمائی ہیں وہ چار ہیں۔ حروف میں ک ھا یا ع اور ص مگر رسول کریم ﷺ صفات بیان فرماتے ہیں ک ھا ع اور ص کی ۔یاء کو چھوڑ جاتے ہیں ۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ یہ بات کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ یاء صرف نداء کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور رسول کریم ﷺ نے اس جگہ یاء کو حرف ندا ہی قرار دیا ہے اور پہلی دو صفات بعد کی دو صفات کا نتیجہ قرار دی گئی ہیں ۔گویا ان حروف کو اگر کھولا جائے تو عبارت یوں بنے گی۔ کہ انت کاف انت ھاد یا عالم یا صادق۔ اے علیم اور اے صادق خدا تو کافی اور ہادی ہے۔
ان معنوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کافی اور ہادی جو ظہور ہیں عالم یا علیم اور صادق کا وہ مسیحیت اور اسلام میں فیصلہ کن ہیں کیونکہ جب ہم یہ کہیں کہ اے ع اور ص تم کاف اور ہاء ہو ۔ تو اس کے صاف معنے یہ ہوں گے کہ ع اور ص منبع ہیں کاف اور ہاء کا۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو عقلی طور پر بھی ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ ایک صفات تو وہ ہوتی ہیں جو اپنا لازمی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں۔ لیکن بعض صفات ایسی ہیں جن کا لازمی نتیجہ پیدا ہوتا ہے گویا وہ صفات بعض دوسری صفات کے لئے بطور منبع ہوتی ہیں۔ مثلاً خدا مطعم ہے مگر کھلانے کی صفت پیدا کرنے کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر اگر رزق ہی موجود نہ ہو تووہ کھلائے گا کیا ؟ پس اس کا مطعم ہونا تقاضا کرتا ہے کہ وہ رازق بھی ہو۔ تو بعض صفات ابتدائی اور منبع کے طور پر ہوتی ہیں اور بعض تابع صفات ہوتی ہیں۔یہاں ک اور ھاء کی صفات تابع ہیں اور ع اور ص کی صفات منبع کے طور پر ہیں اور کھیعص کے یہ معنے ہیں کہ یا عالم یا صادق انت کاف انت ھاد اے علیم اور صادق خدا تو کافی اور ہادی ہے۔گویا کافی اور ہادی تابع صفات ہیں اور علیم اور صادق اصل صفات ہیں یعنی خدا تعالیٰ کے علیم اور صادق ہونے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ خدا کافی بھی ہو اور خدا ہادی بھی ہو۔ گویااس جگہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے یہ کہتا ہے کہ تم خدا سے یہ کہو کہ کھیعص اے میرے علیم اور صادق خدا میں مانتا ہوں کہ تو علیم ہونے کی وجہ سے کافی ہے اور صادق ہونے کی وجہ سے ہادی ہے جب تو علیم ہے تو ضروری ہے کہ تو کافی بھی ہو اور جب تو صادق ہے تو ضروری ہے کہ تو ہادی بھی ہو اور یہ بات عقلی طور پر بھی ظاہر ہے۔مثلاً جب کوئی شخص عالم ہو گا تو لازماً وہ کافی بھی ہو گا جیسے علاج کیلئے تشخیص کامل کی ضرورت ہوتی ہے اور تشخیص کامل کیلئے علم کامل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس شخص کو معالجات سے تعلق رکھنے والی ساری باتیں معلوم نہیں وہ علاج نہیں کر سکتا اور جس کو معلوم ہوں و ہ لازماً صحیح علاج بھی کر سکے گا۔ پس یہ ایک واضح امر ہے کہ جو علیم ہوگا وہ کافی بھی ہوگا کیونکہ علم ہی کفایت کرتا ہے نہ کہ جہالت۔
دنیا میں دو ہی قانون جاری ہیں ۔ایک قانون قدرت اور دوسرا قانون شریعت ، قانون قدرت میںبھی کامل راہنمائی وہی کر سکتا ہے جو علیم ہو۔ جیسے وہی ڈاکٹر کامیاب ہو سکتا ہے جو بڑا جاننے والا ہو اور قانون شریعت میں بھی وہی وجود کامل راہنمائی کر سکتا ہے جو علیم ہو جو وجود ہماری جسمانی ضرورتوں کا علم نہیں رکھتا یا ہماری روحانی ضرورتوں کا علم نہیں رکھتا وہ ہمیں صحیح نسخہ بھی نہیں بتا سکتا۔ پس علیم کیلئے ضروری ہے کہ وہ کافی ہو۔ اسی طرح جو صادق ہو گا وہی صحیح ہادی بھی ہوگا کیونکہ جھوٹ اور غلطی گمراہ کرنے والی چیز ہیں اور ہادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ صادق ہو۔ پس وہی ہادی ہو سکتا ہے جو صادق ہو بلکہ تمام صداقتوں کا منبع ہو۔ اس کے سوا ہر جگہ کی ہدایت مشتبہ اور ناقابل قبول ہو گی۔
غرض جب کوئی شخص یہ مانے گا کہ کوئی ہستی علیم ہے تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ صفت کافی بھی اس میں پائی جاتی ہے اور جب کوئی شخص یہ مانے گا کہ کوئی ہستی صادق ہے تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ صفت ہادی بھی اس میں پائی جاتی ہے اور اگر یہ دو اصول درست ہیں اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہودی مذہب جو بنیاد ہے عیسائیت کی وہ خدا تعالیٰ کو علیم بھی سمجھتا ہے اور صادق بھی سمجھتا ہے تو لازماً ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کافی بھی ہے اور خدا تعالیٰ ہادی بھی ہے ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ بائبل اس بارہ میں کیا کہتی ہے۔
پہلے ہم خدا تعالیٰ کی صفت علم کو لیتے ہیں ۔ انجیل میں لکھا ہے۔
’’ لیکن اس دن اور اس گھڑی کو میرے باپ کے سوا آسمان کے فرشتوں تک کوئی نہیں جانتا۔‘‘ (متی باب ۲۴ آیت ۳۶)
یہ حوالہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں علم کی مختلف مقداریں ہیں کوئی مقدار علم ایسی ہے جسے انسان جانتا ہے۔ کوئی مقدار علم ایسی ہے جسے فرشتے جانتے ہیں اور کوئی مقدار علم ایسی ہے جسے نہ انسان جانتا ہے نہ فرشتے جانتے ہیں صرف خدا جانتا ہے۔ گویا علم کامل صرف خدا تعالیٰ کی ذات سے مختص ہے اور جب علم کامل اسی میں ہوا تو لازماً اسے کافی بھی ماننا پڑا۔ پھر لکھا ہے۔
’’ خدا وند نے دانائی سے زمین کی بنیاد کی اور عقلمندی سے آسمان کو آراستہ کیا ۔ اس کی دانش سے گہرائیاں پھوٹ نکلیں اور آسمان سے اوس کی بوندیں ٹپکیں ۔‘‘ (امثال باب۳ آیت ۱۹و ۲۰)
یعنی خدا نے علم پر قانون قدرت کی بنیاد رکھی اور اسے آراستہ کیا اور پھر اس کے بعد جو بھی علم پیدا ہوتا ہے خواہ وہ روحانی یا جسمانی اس کے علم سے نکلتا ہے کیونکہ لکھا ہے’’ اس کی دانش سے گہرائیاں پھوٹ نکلیں ‘‘ اس کے بعد’’ آسمان سے اوس کی بوندیں ٹپکیں‘‘یعنی خدا تعالیٰ نے علم کو اتنا کامل کیا کہ آسمان بھی انسان کی ہدایت کیلئے ٹپک پڑا یعنی الہام اور کلام الٰہی نازل ہوا اور اس نے علم کو ہر رنگ میں مکمل کر دیا۔ یہ حوالہ بتاتا ہے کہ ہدایت ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور وہی کامل ہدایت ہوتی ہے کیونکہ ایک علیم ہستی اس کے پیچھے ہوتی ہے انسان اپنی طرف سے کچھ نہیں کر سکتا۔
پھر صدق کے متعلق لکھا ہے۔
’’ اے خداوند سچائی کے خدا تو نے مجھے مخلصی دی ہے۔‘‘ (زبور باب ۳۱ آیت۵)
اس سے ظاہر ہے کہ مخلصی یعنی نجات کا واسطہ "خداوند سچائی کے خدا "کے ساتھ ہے جس طرح شریعت کا واسطہ ایک علیم ہستی کے ساتھ ہے ۔ پھر لکھا ہے۔
’’ تیسری صداقت ابدی صداقت ہے اور تیری شریعت سچائی ہے۔‘‘ (زبور باب ۱۱۹ آیت ۱۴۲)
گویابائبل اور انجیل دونوں سے یہ ثابت ہے کہ علم کامل صرف خدا تعالیٰ کو حاصل ہے اور صداقت کاملہ بھی اسی کو حاصل ہے اور جب بائبل کے نزدیک علیم اور صادق صرف خدا تعالیٰ کا ہی وجود ہے تو عیسائیوں کیلئے اس امر کو تسلیم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا۔ کہ سوائے علیم کے کوئی کافی نہیں ہو سکتا اور سوائے صادق کے کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اور اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی صفت علیم اور اس کا ظہور کافی یہ کفارہ کے خلاف ہیں خدا تعالیٰ کی صفت صادق اور اس کا ظہور ہادی شریعت کے *** ہونے اور مسیحی مسئلہ نجات کے خلاف ہیں ۔ اگر خدا تعالیٰ عالم یا علیم ہے تو مذہب میں کفارہ کی کوئی جگہ نہیں ۔ کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سکیم کے ماتحت اس دنیا کو چلایا اور اپنے انبیاء لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے مگر آخر وہ سکیم ناکام ہوئی اور پھر واپس لوٹ کر خدا تعالیٰ کو اپنے بیٹے کی قربانی دینی پڑی۔ اگر یہ درست ہے تو پھر نہ وہ علیم ہوا اور نہ کافی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفت صادق اور اس کا ظہور ہادی اگر درست ہے تو عیسائیوں کا شریعت کو *** قرار دینا اور نجات کیلئے کفارہ کا مسئلہ ایجاد کر لینا بالکل غلط ہے۔
غرض کٰھٰیٰعٓصٓمیں اللہ تعالیٰ نے عیسائیت کے مقابلہ کیلئے ایک بنیادی اصول بیان فرما دیا ہے اور بتایا ہے کہ عیسائیوں سے صفاتِ الٰہیہ کو مدنظر رکھ کر بحث کیا کرو اس کے نتیجہ میں ان کے تمام عقائد باطل ثابت ہو جائیں گے۔ اگر خدا کافی ہے تو پھر یہ کہنا کہ شریعت میں انسان خود رستہ تجویز کر سکتا ہے یا شریعت *** ہے بیوقوفی کی بات ہے جو کافی ہے وہ رحمت ہے اور جوغیر کافی ہے وہ *** ہے۔ اسی طرح جو صادق ہے اور جس کے اندر تمام سچائیاں پائی جاتی ہیں اگر اس کا وجود نجات نہیں دلا سکتا تو پھر کسی غیر صادق کا وجود کس طرح نجات دلا سکتا ہے ۔نجات تو وہی دلائے گا جو صادق ہو گا جیسے حضرت دائود نے کہا کہ
’’ اے خدا وند سچائی کے خدا تو نے مجھے مخلصی دی ہے‘‘ (زبور باب ۳۱آیت۵)
غرض کٰھٰیٰعٓصٓمیں عیسائیت اور اسلام کے مباحثات کا صحیح طریق بتایا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اگر عیسائیوں سے مقابلہ کرو تو صفاتِ الٰہیہ کی بنا ء پر کرو اور ان پر یہ امر واضح کر دو کہ تمہارے عقیدہ کو تسلیم کرلینے سے صفات باری باقی نہیں رہتیں اور جب عیسائیت کو ماننے سے صفات باری پر ہی زد پڑتی ہے تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ خدا خدا نہ رہا اور یہ واضح بات ہے کہ سچا مذہب وہی ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں سے منوائے اور اس کی صفات پر ان کا ایمان قائم کرے۔ جو مذہب خدا تعالیٰ کو ہی ختم کرتا اور اس کی صفات پر تبر رکھ دیتا ہے وہ سچا کس طرح ہو سکتا ہے۔غرض کافی اور ہادی یہ دو صفات ایسی ہیں جن کو اگر مدنظر رکھا جائے تو اسلامی تعلیم اور عیسائی تعلیم دونوں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں اور صاف طور پر پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں اور اسلام کیا کہتا ہے۔وہ خدا تعالیٰ کے وجود کو کس رنگ میں پیش کرتے ہیں اور اسلام خدا تعالیٰ کے وجود کو کس رنگ میں پیش کرتا ہے پس ع اور ص وہ صفات ِمنبع ہیں جن کو اگر مانا جائے تو لازماً اسے کافی اور ہادی بھی ماننا پڑتا ہے۔ اگر اسے ہادی نہ مانا جائے تو خدا تعالیٰ کا صادق ہونا ثابت نہیں ہو سکتا۔ اور اگر اسے کافی نہ مانا جائے تو خدا تعالیٰ کا علیم ہونا ثابت نہیں ہو سکتا ۔ غرض ان مقطعات میں خدا تعالیٰ کی صفت کافی کو کفارہ کے مقابلہ میں اور صفت ہادی کو عیسائی نظریہ نجات کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے اور درحقیقت عیسائیوں کے یہی دو بنیادی مسئلے ہیں جن میں اسلام کے ساتھ ان کا ٹکرائو ہوتا ہے۔تثلیث ان مسائل کے تابع ہے۔ اصل مسئلہ جس پر اسلام اور عیسائیت آپس میں ٹکراتے ہیں وہ کفارہ اور عدم نجات کا ہے۔ عیسائیت نجات کو بالکل نہیں مانتی اور عیسائیت کفارہ کے بغیر کوئی روحانی ترقی تسلیم نہیں کرتی۔ ان دو عقیدوں سے خدا تعالیٰ کی صفت کافی اور خدا تعالیٰ کی صفت ہادی باطل ہو جاتی ہیں ۔ اور ان دونوں صفات کے باطل ہونے سے اس کاعلیم اور صادق ہونا بھی باطل ہو جاتا ہے گویا عیسائیت کے ان ہر دو عقائد کو مان لینے سے خدا تعالیٰ کی خدائی باطل ہو جاتی ہے اور جب کسی مذہب کی تعلیم کے نتیجہ میں خدا کی خدائی باطل ہو جائے تو ہمیںیہی ماننا پڑے گا کہ وہ مذہب خود باطل ہے کیونکہ مذہب خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے کے ساتھ ہی وابستہ ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت کے بنیادی عقائد میں سے تثلیث بھی ایک اہم عقیدہ ہے لیکن ان کا یہ عقیدہ کفارہ اور نجات کے ساتھ اس طرح وابستہ ہے کہ اگر کفارہ اور عدم نجات باطل ہو جائیں تو ساتھ ہی تثلیث بھی باطل ہو جاتی ہے اور اگر تثلیث کو الگ کر لیا جائے تو کفارہ اور عدم نجات باطل ہو جاتے ہیں چنانچہ دیکھ لو عیسائیت کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کو نجات دلانے کیلئے خدا تعالیٰ نے اپنے اکلوتے بیٹے مسیح کو دنیا میں کفارہ کیلئے بھیجا ۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہ معاف نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کے عدل کے خلاف ہے اگر وہ انسان کے گناہ معاف کر دیتا تو وہ عادل نہ رہتا لیکن چونکہ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ بنی نوع انسان نجات پا ئیں اس لئے اس نے اپنے بیٹے کو دنیا میں اس غرض کیلئے بھیجا کہ وہ پھانسی پر لٹک جائے اور اس کے پھانسی پر لٹک کر مر جانے کے نتیجہ میں وہ لوگ جو اس پر ایمان لائیں روحانی سزا سے بچ جائیں اور اس کا پھانسی پر لٹک کر مر جانا لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کفارہ بغیر تثلیث کے نہیںہو سکتا کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پھانسی دی اور تین دن کے بعد اس کو زندہ کیا۔ یہ چیز تبھی تسلیم کی جا سکتی ہے جب ایک سے زیادہ خدا ہوں۔ اگر ایک سے زیادہ خدا نہ ہوںتو یہ بات ہو ہی نہیں سکتی ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو نعوذ باللہ پھانسی دے کر تین دن کے بعد اپنے آپ کو زندہ نہیں کر سکتا۔ مگر تین خدائوں کو تسلیم کرنے کی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ تینوں برابر کی طاقت رکھتے ہیں یا ان میں کم و بیش طاقت ہے اگر ایک کم طاقت رکھتا ہے اور دوسرا زیادہ۔ تو خد اتعالیٰ میں نقص ثابت ہو ا اور ناقص چیز تمام مذاہب کے متفقہ عقیدہ کے مطابق خدا نہیں ہو سکتی۔ اس پر کسی لمبی بحث کی ضرورت نہیں ۔ یہ ایک منطقی نظریہ ہے کہ ناقص چیز ازلی ابدی نہیں ہو سکتی اور جو ہستی ازلی ابدی نہ ہو وہ خدا نہیں ہو سکتی۔اس پر کسی لمبی بحث کی ضرورت نہیں ۔ یہ ایک منطقی نظریہ ہے کہ ناقص چیز ازلی ابدی نہیں ہو سکتی اور جو ہستی ازلی ابدی نہ وہ کدا نہیں ہو سکتی۔ اس پر تمام مذاہب متفق ہیں بلکہ عیسائیت کو بھی اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ناقص چیز ازلی ابدی نہیں ہو سکتی اور خدا تعالیٰ کیلئے ازلی ابدی ہوناضروری ہے۔
میں ابھی نوجوان تھا قریباً بیس سال کی عمر تھی کہ میں تبدیلی آب ہوا کے لئے ڈلہوزی گیا وہاں ایک مشہور پادری آئے ہوئے تھے جن کا نام غالباً فرگوسن تھا۔انہوں نے سینکڑوں عیسائی بنا لئے تھے اور وہ پہاڑ پر بھی اپنے ٹریکٹ تقسیم کرتے اور عیسائیت کی تعلیم پھیلاتے رہتے تھے۔ کچھ مسلمان جو غیرت مند تھے وہ مولویوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اس فتنہ کا مقابلہ کریں مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم سے تو مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ آخر وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ آپ چلیں اور ان سے بات کریں ہم لوگ بڑے شرمندہ ہیں ۔ میں ابھی چھوٹی عمر کا ہی تھا اور میری دینی تعلیم ایسی نہ تھی لیکن میں ان کے کہنے پر تیار ہو گیا اور ہم چند آدمی مل کر ان کی کوٹھی کی طرف چل پڑے وہاں جا کر میں نے ان سے کہا کہ پادری صاحب میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت ہم میز پر بیٹھے ہوئے تھے اور میرے سامنے ایک پنسل پڑی ہوئی تھی۔میں نے کہا فرمائیے اگر یہ پنسل اٹھانے کی ضرورت ہو اور آپ اس وقت مجھے بھی آواز دیں کہ آئو اور میری مدد کرواپنے ساتھیوں کو بھی آواز دینی شروع کر دیں۔ اپنے بہرے کو بھی بلائیں اپنے باورچی کو بھی بلائیں ۔اپنے اردگرد کے ہمسایوں کو بھی بلائیں اور جب سارا محلہ اکٹھا ہو جائے تو آ پ ان سے یہ کہیں کہ یہ پنسل میز پر سے اٹھا کر میرے ہاتھ میں دے دو تو وہ آپ کے متعلق کیا خیال کریںگے؟ کہنے لگا! اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا مطلب خود بخود آ جائے گا آپ صرف یہ بتائیں کہ آیا یہ بات معقول ہو گی اور اگر آپ ایسا کریں تو لوگ آپ کے متعلق کیا سمجھیں گے؟ کہنے لگا پاگل سمجھیں گے۔ میں نے کہا اب یہ بتائیے کہ باپ خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں ؟ کہنے لگا تھی میں نے کہا بیٹے خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں ؟ کہنے لگا تھی میں نے کہا روح القدس خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں ؟ کہنے لگا تھی میں نے کہا پھر یہ وہی پنسل والی بات ہو گئی کہ تینوں میں ایک جیسی طاقت ہے اور اس کام کے کرنے کے قابل ہیں مگر تینوں بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہیں حالانکہ وہ اکیلے اکیلے بھی دنیا کو پیدا کر سکتے تھے۔ میں نے کہا آپ یہ بتائیں کیا دنیا میں کوئی کام ایسا ہے جس کو باپ خدا کر سکتا ہے اور بیٹا خدا نہیں کر سکتا یا بیٹا خدا کر سکتا ہے اور روح القدس خدا نہیں کر سکتا یا روح القدس خدا کر سکتا ہے اور باپ خدا نہیں کر سکتا یا بیٹا خدا کر سکتا ہے او رباپ خدا نہیں کر سکتا؟ کہنے لگا کوئی نہیں ۔ میںنے کہا پھر جھگڑا کیا ہے اگر دو خدا فارغ بیٹھے رہتے ہیں تو یہ بڑی مصیبت ہے کہ وہ کام تو کر سکتے ہیں مگر فارغ بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہیں اور اگر ایک کام کو تینوں مل کر کرتے ہیں حالانکہ ان تینوں میں سے ہر ایک اکیلا اکیلا بھی وہ کام کر سکتا ہے تو یہ جنون کی علامت ہے اس پر وہ گھبرا کر کہنے لگا کہ عیسائیت کی اصل بنیاد کفارہ کے مسئلہ پر ہے تثلیث کا مسئلہ تو ایمان کے بعد سمجھ میں آتا ہے میں نے کہا کہ جب تک تثلیث سمجھ میں نہ آئے انسان ایمان نہیں لا سکتا اور جب تک ایمان نہ لائے تثلیث سمجھ میں نہیں آ سکتی تو یہ تو دور تسلسل ہو گیا جس کو تمام منطقی ناممکن قرار دیتے ہیں اس پر وہ کہنے لگا کہ آپ مجھے معاف کریں کفارے پر بات کریں۔
پس درحقیقت کفارہ تعلق رکھتا ہے تثلیث کے ساتھ اگر کفارہ باطل ہو جائے تو تثلیث خود بخود باطل ہو جاتی ہے اور چونکہ یہ عقیدہ صریح مشرکانہ ہے اس لئے اس جگہ عالم کی صفت کی طرف خصوصیت سے اشارہ کیا گیا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اس بات پر بڑی بحث کی ہے کہ جس چیز کا انسان عالم کامل ہو اسے وہ بنا بھی سکتا ہے ۔مثلاً انسان کو علم ہے کہ اینٹیں جوڑنے سے مکان بن جاتا ہے تو اس علم کے نتیجہ میں وہ مکان بنا لیتا ہے یاا سے علم ہے کہ مٹی گھول کر لکڑی کے سانچوں میں ڈھالو توکچی اینٹ بن جاتی ہے اور پھر اسے آگ میں ڈال دیا جائے تو پختہ ہو جاتی ہے تو اس علم کے نتیجہ میں وہ پختہ اینٹ بنا لیتا ہے ۔اسی طرح اگر کسی کو یہ پتہ لگ جائے کہ مٹی کس طرح بنتی ہے تو مٹی بھی بنا سکتا ہے ۔ غرض خلق علم کے تابع ہے ۔جب کسی چیز کا کامل علم حاصل ہو جائے تو اسے انسان بھی بنا سکتا ہے۔ اگر کسی کو گھڑی بنانے کا پورا علم حاصل ہو جائے تو وہ گھڑی بنا لے گا ۔ جسے افعال الاعضاء کا پور اعلم حاصل ہو جائے وہ ڈاکٹر بن جائے گا۔ غرض کسی چیز کا علم کامل خلق پر قدرت دے دیتا ہے اور جب کوئی ہستی کامل علم والی ہو تو لازماً اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ کامل خلق بھی کر سکتی ہے اور کامل تدبیر بھی کر سکتی ہے اور یہ کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور مدبر کی ضرورت نہیں۔ جیسے فرگوسن کے سامنے میں نے یہی دلیل پیش کی کہ جب تینوں خدا کامل ہیں تو پھر ایک کی موجودگی میں باقیوں کی کیا ضرورت ہے خدا باپ کو لے لو۔ خدا بیٹے کو لے لو۔ خدا روح القدس کو لے لو۔ جب باپ خدا بھی وہی کچھ کر سکتا ہے جو بیٹا خدا کر سکتا ہے اور بیٹا خدا بھی وہی کچھ کر سکتا ہے جو روح القدس خدا کر سکتا ہے تو پھر ایک خدا ہی کافی ہے باقی دو کی ضرورت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کاف میں صفت کافی کی طرف اشارہ کر کے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافی ہے بندوں کی پیدائش کیلئے بھی اور ان کے نظام کیلئے بھی اور ان کی تدبیر کیلئے بھی ۔اس میںنہ کسی کفارہ کی ضرورت ہے اور نہ بیٹے اور روح القدس کی مدد کی ضرورت ہے۔
یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ باوجود خدا تعالیٰ کو کافی سمجھنے کے تم بھی تو فرشتوں کے قائل ہو۔ اسی طرح تم اس دنیا میں ہوائوں کے اور بجلیوں کے اور مادہ کے قائل ہو یا نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کو ہم تابع حیثیت دیتے ہیں اور تابع حیثیت اور ہوتی ہے اور برابر کی حیثیت اور ہوتی ہے ۔تابع چیز ایسی ہی ہوتی ہے جیسے خادم ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو پس پردہ رکھنے کیلئے ایک قانون بنایا ہوا ہے اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا کوئی نیک نتیجہ نکلنا تھا اور ہمیں اس کے بدلہ میں انعامات ملنے تھے تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پس پردہ رہتی۔ کیونکہ جو ظاہر چیزیں ہیں ان پر ایمان لانا کسی ثواب کا موجب نہیں ہوتا۔ سورج ہمیں نظر آتا ہے اور ہم اس کا وجود مانتے ہیں مگر اس کے ماننے سے ہمیں انعام نہیں ملتا۔اسی طرح پہاڑ نظر آتے ہیں اور ہم ان کا وجود تسلیم کرتے ہیں مگر ہمیں ان پہاڑوں کو ماننے سے ثواب نہیں ملتا ۔چونکہ انسانی پیدائش کی غرض تکمیل روحانیت تھی اور تکمیل روحانیت ثواب کے ساتھ تعلق رکھتی تھی اس لئے جب کسی چیز کی تیزی اور اس کے ارتقاء کا سوال آئے گا لازماً امتحان اور آزمائش کا بھی سوال آ جائے گااور امتحان اور آزمائش زیادہ تر اسی چیز کے متعلق ہوتی ہیں جس کے حصول میں مشکلات حائل ہوں پس ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود مخفی رہے ورنہ بنی نوع انسان کی ترقی کی سکیم بالکل بے کار چلی جاتی اور جب خدا نے پوشیدہ رہنا تھا تو یہ لازمی بات تھی کہ کچھ روحانی سامان پیدا کئے جاتے اور کچھ جسمانی سامان پیدا کئے جاتے ۔ روحانی اسباب میں فطرت صحیحہ اور فرشتے شامل ہیں اور جسمانی اسباب میں مادہ اور اس کو حرکت دینے والا قانون شامل ہے پس فرشتوں کا وجود یا مادہ کا وجود کسی اعتراض کا موجب نہیں عیسائی برابر کے خدا پیش کرتے ہیں اور ہم خادم اور تابع چیزیں پیش کرتے ہیں اور خادم اور تابع چیزوں کی ضرورت اس لئے ہے تا اللہ تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء رہے اور خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ایسا پردہ حائل رہے جس کو مجاہد اور محنت سے کام لینے والا انسان ہی پھاڑ سکے، ہر انسان نہیں غرض علم مبداء اور علم موجودات کا جو واقف ہو گا لازماً قادر مطلق وجود ہوگا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کا صادق ہونا بھی ایک مجاہد کی نجات کا ضامن ہوتا ہے ۔ اگر انسان بغیر کفارہ کے نجات نہیں پا سکتا تھا تو تمام سابق انبیاء جھوٹے قرار پاتے ہیں اور ان کو بھیجنے والا بھی جھوٹا قرار پاتا ہے۔کیونکہ آدم آیا اور اس نے یہی کہا کہ مجھ پر ایمان لائو۔ نوح ؑ آیا اور اس نے یہی کہا کہ مجھ پر ایمان لائو۔ آدم کا واقعہ تو تورات میں تفصیل کے ساتھ موجود نہیں ۔ نوحؑ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور بائبل بتاتی ہے کہ نوحؑ نے آ کر یہی کہا کہ مجھ پر ایمان لائو۔ اگر انسان بغیر کفارہ کے نجات نہیں پا سکتا تو نوحؑ جھوٹا تھا اور نوح کو بھیجنے والا بھی جھوٹا تھا ۔ پھر ابراہیم آئے انہوں نے بھی بنی نوع انسان سے یہی کہا کہ جو صداقتیںمیں پیش کرتا ہوں۔ ان کو مانو۔ گو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بھی بائبل میں ادھورا ہے جیسے آدم کا ذکر ادھورا ہے لیکن اس کے بعد موسیٰ کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور بائبل بتاتی ہے کہ انہوں نے دنیا کے سامنے اپنی تعلیم پیش کی اور ان سے یہی کہا کہ اگر تم اس تعلیم کو نہیں مانو گے تو تم خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آ جائو گے اور اگر مانو گے تو نجات پا جائو گے ۔ انہوں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ میں تعلیم تو دیتا ہوں مگر تم اس پر عمل نہیں کر سکتے۔ جیسے عیسائی کہتے ہیں کہ شریعت پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ موسیٰؑ نے یہی کہا کہ اگر تم عمل کرو گے تو نجات پا جائو گے۔ پس عیسائی عقیدہ اگر سچا ہے اور نجات ناممکن ہے تو موسیٰؑ جھوٹا تھا اور اس نے نعوذباللہ بڑا فریب کیا کہ اپنی تعلیم کے متعلق لوگوں سے یہ کہا کہ اگر تم اس پر عمل کرو گے تو نجات پا جائو گے اور اگر وہ نبی تھا جیسے بائبل کہتی ہے کہ وہ نبی تھا تو پھر خدا بھی نعوذ باللہ جھوٹا قرار پاتا ہے جس نے اسے اس تعلیم کے ساتھ بھیجا۔ اسی طرح موسیٰؑ کے بعد آنے والے باقی تمام انبیاء بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں کیونکہ ہر ایک نے یہی کہا کہ میری تعلیم پر چلو گے تو نجات پائو گے چنانچہ زبور میں لکھا ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام نے بھی ہی فرمایا کہ
’’ تیری شریعت سچائی ہے‘‘ (زبور باب ۱۱۹ آیت ۱۴۲)
اگر شریعت پر عمل نہیںہو سکتا جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ شریعت *** ہے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ سچائی پر عمل نہیں ہو سکتا ۔ صرف جھوٹ پر عمل ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہنا پڑے گا کہ سچائی سے نجات نہیں مل سکتی صرف جھوٹ سے مل سکتی ہے۔ غرض اگر ہم یہ مان لیں کہ انسان شریعت پر عمل کرنے سے نجات نہیں پا سکتا اور نبیوں کی اتباع نہیں کر سکتا تو سارے انبیاء کا سلسلہ جھوٹا ماننا پڑتا ہے لیکن اگر وہ صادق خدا ہے تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نجات ہے کیونکہ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے تمام نبیوں نے یہی کہا کہ اگر تم ہماری باتوں کو مانو گے تو نجات پا جائو گے۔
دوسرے عربی زبان میں صدق کے لفظ میں دوام کے معنے بھی پائے جاتے ہیں خالی سچائی کے معنے نہیں ۔ بلکہ وہ چیز جو قائم رہنے والی ہوتی ہے اس پر بھی صدق کا لفظ حاوی ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے صادق ہونے کے یہ معنے بھی ہیں کہ اس کا وجود اور اس کی تعلیم ہمیشہ قائم رہنے والی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ خدا تعالیٰ کا قول اور اس کا فعل تبھی قائم رہنے والے ہو سکتے ہیں جب بنی نوع انسان بھی قائم رہنے والے ہوں۔ اگر مخلوق نے نجات نہیں پانی اور ہلاک ہو جانا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کے قول نے بھی قائم نہیں رہنا اور اس کے فعل نے بھی قائم نہیں رہنا کیونکہ اس کا قول اور اس کا فعل مخلوق کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں لیکن اگر اس کا قول اور فعل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں تو معلوم ہوا کہ انسان قائم رہے گا اور وہ نجات پا سکتا ہے اگر اس نے فنا ہو جانا تھا تو خدا تعالیٰ کا ہمیشہ قائم رہنے والا قول اور فعل باطل ہو جاتا ہے۔ غرض صدق کامل اپنے ظلی صدق کا بھی مطالبہ کرتا ہے کیونکہ صدق دوام پر دلالت کرتا ہے اور دوام ِصفات بغیر دائمی موہبت ِصفات کے نہیںہو سکتا۔ خود بائبل بھی ہماری اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ بائبل میں آتا ہے خدا نے انسان کو اپنی شکل پر بنایا (پیدائش باب ۱ آیت ۲۶ و ۲۷) اب خدا تعالیٰ کی شکل کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ خدا تعالیٰ کے بھی نعوذ باللہ ہماری طرح ناک ، کان ،آنکھیں اور منہ ہیں ۔ اس کے یہی معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اندر جو صفات پائی جاتی ہیں وہ انسان کے اندر بھی پائی جا سکتی ہیں اور اگر یہ درست ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی شکل پر بنایا گیا اور خدا تعالیٰ صادق ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ انسان اپنے اندر تقویٰ اور راستبازی اور طہارت بھی پیدا کر سکتا ہے ورنہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ جو صادق ہے اس کا ارادہ اور فعل غلط نکلے اور انسان بوجہ گندی سرشت کے شیطان بن گیا۔ پس جو مذہب یہ کہتا ہے کہ انسان گندی سرشت کے ساتھ دنیا میں آیا دوسرے لفظوں میںوہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ارادہ کیا مگر کوئی وجود بھی وہ اپنی شکل پر پیدا نہ کر سکااس نے آدمؑ کو اپنی شکل پر پیدا کیا لیکن وہ گنہگار ہو گیا یعنی یا تو خدا تعالیٰ کی شکل ناقص ہے یا وہ اپنے ارادہ میں ناکام رہا اور شیطان خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ پہلے پھل کو بھی لے گیا اور اس کے اگلے پھلوں کو بھی چرا کر لے گیا بلکہ اس کے آخری پھل مسیح کی بھی آزمائش کیلئے آ گیا۔ کیا یہ خدا تعالیٰ کی ہتک نہیں اور کیا یہ عقیدہ خدا تعالیٰ کی صداقت پر حرف لانے والا نہیں ؟ خدا تو یہ کہتا ہے کہ میں نے انسان کو اپنی شکل پر بنایا مگر ہوتا یہ ہے کہ پہلا انسان بھی شیطان کی شکل پر بن جاتا ہے یعنی اس کی بات ماننے لگ جاتا ہے اور اس کی آئندہ نسل بھی ورثہ کے گناہ میں ہمیشہ کیلئے مبتلا ہو جاتی ہے اور شیطان کے نقش قدم پر چلنے لگ جاتی ہے حتیٰ کہ مسیح جو نجات دہندہ کے طو رپر آیا تھا وہ بھی اتنا کمزورثابت ہوتا ہے کہ شیطان اس کی آزمائش کے لئے آ جاتا ہے۔ (متی باب ۴ آیت ۱تا ۱۱)
مگر اس کے مقابلہ میں قرآن کریم جو تعلیم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نجات دینے کیلئے کسی کفارہ کا محتاج نہیں۔ اس نے اپنے بندوں کو ہدایت کیلئے ہی بنایا ہے اور ان کی پیدائش میں فطری طور پر اس نے نیکی کا مادہ رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں شیطان کے اس دعویٰ کا ذکر کرتے ہوئے کہ وہ انسان کو خراب کرے گا فرماتا ہے۔
قال ارء یتک ھذا الذی کرمت علیّ لئن اخّرتن الی یوم القیامۃ لاحتنکنّ ذرّیّتہ الا قلیلا o قال اذھب فمن تبعک منھم فان جھنم جزاؤکم جزاء موفورا o واستفزز من استطعت منھم بصوتک واجلب علیھم بخیلک ورجلک وشارکھم فی الاموال والاولاد وعدھم وما یعدھم الشیطان الا غرورا o ان عبادی لیس لک علیھم سلطان وکفی بربک وکیلا o ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر لتبتغوا من فضلہ انہ کان بکم رحیما o (بنی اسرائیل ع۷)
یعنی جب آدم پیدا ہوئے اور ان کی عدم اطاعت اور نافرمانی کی وجہ سے شیطان پر غضب نازل ہوا تو اس نے کہا یہ آدمی جس کو مجھ پر فضیلت بخشی گئی ہے اس کے مقابلہ میں اگر آپ مجھے قیامت تک موقعہ دیں ۔تو میں اس کی اولاد پر غالب آ جائوں گا سوائے کچھ لوگوں کے۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ قرآن کریم کے رو سے (یہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ کہہ دیں یہ غلط بات ہے) شیطان بھی کہنے کی طاقت نہیں رکھتاکہ سارے انسان خراب ہیں جو عیسائیوں کا عقیدہ ہے اور شیطان نے بھی یہ جرأت نہیں کی کہ سب کو خراب قرار دے بلکہ اس نے تسلیم کیا کہ کچھ انسان پھر بھی بچ جائیں گے۔ لاحتنکنّ ذریتہ الا قلیلا نہایت واضح آیت ہے اور بتا رہی ہے کہ یہ مسئلہ اتنا غلط ہے کہ شیطان کو بھی یہ جرات نہیں ہو سکی کہ وہ کہے کہ ہر انسان خراب ہے وہ بھی اقرار کرتا ہے کچھ انسان میرے حملہ سے ضرور بچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :۔ اذھب فمن تبعک منھم فان جھنم جزاؤکم جزاء موفورا ۔ جائو ان میں سے جو اپنی مرضی سے تمہارے پیچھے چلے گا اس کو سزا دی جائے گی اور تو ان کو ڈرا یا بلا جس کو چاہے اپنی آواز سے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے لے جا اور ان کو اموال اور اولاد میں شریک کر اور انہیں وعدے دے و ما یعد ھم الشیطن الا غرورا اور شیطان تو ہمیشہ جھوٹے وعدے دیا کرتا ہے۔ انا عبادی لیس لک علیھم سلطان لیکن میں یہ بتا دیتا ہوں کہ تو نے تو یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں بندوں کو چھین کر لے جائوں گا مگر میرا دعویٰ یہ ہے کہ جو شخص میری طرف آنا چاہے گا تو اسے کبھی اپنی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ و کفی بربک وکیلا اور وہ انسان جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے اس سے زیادہ حفاظت میں اور کون ہو سکتا ہے۔ ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر لتبتغوا من فضلہ انہ کان بکم رحیما اور تمہارا رب وہ ہے جو تمہاری کشتی کو آرام سے سمندر میں لے جاتا ہے تاکہ تم اس کے فضل کی تلاش کرو اور اللہ تعالیٰ بڑا رحم کرنے والا ہے۔
ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسانی فطرت پاک ہے اور اگر فطرت پاک ہے تو پھر یقینا اس کو بدی پر غالب آنے کی طاقت بھی حاصل ہے اور اگر انسان بدی پر غالب آ سکتا ہے تو پھر کسی کفارہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ بلکہ صحیح فطرت کوشش اور توبہ اور اس کے نتیجہ میں خدا کا رحم نجات کیلئے کافی ہیں ۔ چنانچہ ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ :-
اول:۔ شیطان نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ وہ اکثر بنی نوع انسان کو اپنے قابو میں لے آئے گا۔ گویا قرآن کریم بنی نوع انسان کی خرابی کے عقیدہ کو شیطان کی طرف منسوب کرتا ہے یہی نہیں کہ اسلام اس کو رد کرتا ہے ۔ رد کرنا اور چیز ہوتی ہے اور کسی عقیدہ کو اتنا گندہ قرار دینا کہ اس کو شیطانی فعل کہنا بالکل اور بات ہوتی ہے ۔اس عقیدہ کے متعلق قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ یہ شیطان کا عقیدہ ہے اور شیطان کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ اس نے یہ نہیں کہا کہ سارے انسان خراب ہو جائیں گے بلکہ اس نے بھی یہ کہا کہ اکثر انسانوں کو میں خراب کر لوں گا۔
دوسری بات قرآن کریم یہ بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کہا کہ تم کوشش کرو ہم تمہیں روکتے نہیں۔ ہم نے انسان کو بنایا ہی ا س لئے ہے کہ وہ تمہارا مقابلہ کرے اور اپنے اندر نیکی پیدا کرنے کی کوشش کرے لیکن فرماتا ہے تم صرف بیرونی اثرات سے ہی اس پر اپنا اثر ڈال سکو گے ورنہ فطرتاً ہم نے اسے پاک بنایا ہے۔ عیسائیت تو یہ کہتی ہے کہ گناہ انسان کے دل میںگھس گیا اور ورثہ کے طورپر نسل انسانی میں چل پڑا۔ حالانکہ اگر یہ درست ہے تو شیطان کے پیچھے چلنے کی تحریک خود انسان کے دل سے پیدا ہونی چاہئے۔ لیکن اسلام اس کے دل کو پاک قرار دیتا ہے۔ بلکہ اس انسان کے دل کو بھی پاک قرار دیتا ہے جو شیطان کے قبضہ میں چلا جاتا ہے۔ فرماتا ہے۔
واستفزز من استطعت منھم بصوتک واجلب علیھم بخیلک ورجلک وشارکھم فی الاموال والاولاد وعدھم یعنی جس کو چاہے تو اپنی آواز سے ورغلانے کی کوشش کراور جس پر چاہے اپنے گھوڑے چڑھا کر لے جا یعنی اپنا لائو لشکر اس پر لے جا اور جس پر چاہے اپنے پیادے لے جا یعنی خواہ جو غالب لوگ ہیں ان کے ذریعہ ان کو ورغلا یا جو ماتحت ہیں ان کے ذریعہ ورغلا اور خواہ تو انہیں مال کی لالچ دے یا اولاد کی ترقی کی لالچ دے بہرحال میرے بندوں پر تیرا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
اس آیت میں بنی نو ع انسان کو خراب کرنے والی جن تحریکا ت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو دل سے پیدا ہوتی ہو بلکہ یہ ساری چیزیں ایسی ہیںجو باہر سے آتی ہیں اور انسان کو خراب کر دیتی ہیں ۔ مثلاً فرمایا کہ تم گانے بجانے سے انسان کو خراب کرو گے ۔ تم دھمکیوں سے اسے خراب کرو گے یعنی یہ کہ اگر سچ بولا تو پھانسی پر لٹک جائو گے یا تم نے سچ بولا تو قید ہو جائو گے پھر فرمایا وشار کھم فی الاموال تم اس کو لالچیں دو گے کہ اگر تم نے حرام مال نہ کھایا تو ہمیشہ غریب رہو گے اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو حرام مال کھائو والاولاد۔ اسی طرح جتھے بنانے کیلئے اور پارٹی بازی کیلئے تم اسے اکسائو گے اور کہو گے کہ جب تک تم فریب نہ کرو گے کامیاب نہیں ہو سکوگے وعد ھم اور پھر ہر قسم کی ترقیات کے وعدے دو گے کہ اگر تم جھوٹ اور فریب او رمکر اور دغا بازی سے کام لو گے تو خوب ترقی کرو گے ۔ یہ ساری چیزیں ایسی ہیںجو خارجی ہیں اگر انسان کا دل ناپاک تھا تو پھر ان چیزوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ اللہ تعالیٰ فرمادیتا کہ چونکہ آدم نے گناہ کیا تھا اس لئے انسان گنہگار ہو گیا مگر جتنی چیزیں قرآن کریم نے انسان کو بگاڑنے اور خرابی میںمبتلا کرنے والی بیان کی ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہیں جو خارجی ہیں یعنی (1)گانا بجانا (2)دھمکیاں مثلاً یہی کہ کہیں انبیاء کے ماننے والے ترقی نہ کر جائیں اس لئے ان پر خوب ظلم کرو (3) حرص اور لالچ۔
غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ انسان کی خرابی کیلئے تمہیں بیرونی ذرائع اختیار کرنے پڑیں گے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ اندرونی طور پر وہ محفوظ ہے ۔ مگر ورثہ کا گنا ہ اندر سے پیدا ہوتا ہے۔ باہر سے نہیں آتا جیسے کسی شخص کی والدہ کو سل کا مرض ہو اور وہ بچپن میں اپنی والدہ کا دودھ پیتا رہا ہو جس سے سل کا مادہ اس کے اندر داخل ہو گیا ہو تو ایسے شخص کو جب سل کا مرض ہو گا تو یہ اس کی اندرونی بیماری کہلائے گی لیکن ایک اور انسان ایسا ہوتا ہے جو کسی مسلول کی تیمارداری میں مشغول رہا اور اس کے کپڑوں اور سانس وغیرہ کے ذریعہ سے سل کے کیڑے اس کے اندر چلے گئے اور وہ بیمار ہو گیا ۔ اب گو سل کا مرض اس کو بھی ہوا ہے مگر اس کی بیماری باہر سے آئی ہے اوراس کی بیماری اندر سے پیدا ہوئی تھی۔ اسی طرح اور کئی بیماریاں ہیں جو ماں باپ سے ورثہ میں اولاد کو ملتی ہیں ۔ مثلاً مرگی کا مرض ہے ۔ عموماً جن بچوں کے ماں باپ کو مرگی ہوتی ہے انہیں بھی مرگی کے دورے شروع ہو جاتے ہیں ۔ یا جنون ہے یہ بھی ورثہ میں ملتا ہے ۔ ہم نے بعض دفعہ تین تین پشتوں میں جنون کا مرض منتقل ہوتے دیکھا ہے ۔ چونکہ انسان زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا اس لئے اس بارہ میں لمباتجربہ نہیںہو سکتا لیکن ممکن ہے اگر کوئی سوسائٹی بن جائے اور وہ اس کی تحقیق کرے تو شاید سات سات آٹھ آٹھ پشتوں تک یہ مرض ظاہر ہوتی چلی جائے۔ آتشک کی ایک صورت تو یقینا ایسی ہے جو سات سات پشتوں تک چلی جاتی ہے بلکہ یورپ کے تازہ لٹریچر میں مَیںنے پڑھا ہے کہ بعض دفعہ پندرہ پندرہ بیس بیس پشت تک بھی اس مرض کے نشان ملتے ہیں گو اس کی شکل اس شکل سے بدل جاتی ہے جو ابتدائی حالت میں مرض کی ہوتی ہے لیکن بہرحال آئندہ نسل میں یہ مرض چلتی چلی جاتی ہے ۔ اب یہ مرض کہیں باہر سے نہیں آتی خود انسان کے اندر اس مرض کا مادہ ہوتا ہے ۔ جب نفس پر ضعف اور کمزوری غالب آ تی ہے تو کبھی ناک کی ہڈی بیٹھنی شروع ہو جائے گی اور کبھی کوئی اور علامت ظاہر ہو جائے گی جس سے معلوم ہوگا کہ آتشک کا مادہ اس کے اندر تھا لیکن اگر یہ مرض باہر سے آئے۔ مثلاً فرض کرو باپ کو آتشک ہو گئی تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ مرض اسے باپ سے ملی ہے بلکہ ہم کہیں گے کہ یہ مرض باہر سے آئی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم نے یہاں بگاڑ کے جتنے ذرائع بتائے ہیں وہ سب کے سب خارجی ہیں یہ نہیں کہا کہ آدم نے گناہ کیا تھا اس لئے انسان کو تم خراب کر لوگے بلکہ فرمایا کہ تم اسے لالچیں دو گے اس کے اندر ڈر اور خوف پیدا کرو گے ۔ اسے گانے بجانے کی طرف توجہ دلائو گے اور اس طرح تم اسے خراب کر دو گے گویا خرابی کے تمام اسباب خارجی ہونگے اندرونی نہیں ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بیان فرمائی ہے جس میں صاف طور پر ان معنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو میں نے مقطعات میں ک کے بیان کئے تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان عبادی لیس لک علیھم سلطان جو میرے ساتھ تعلق رکھنے والے بندے ہیں ان پرتیرا قبضہ کبھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان پر لالچ ڈر اور خوف وغیرہ کا کوئی اثر ہو سکتا ہے۔ وکفی بربک وکیلا اور تیرا رب اپنے بندے کا وکیل یعنی نگران ہونے کے لحاظ سے کافی ہے ۔ جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کی پناہ میں آ جائے گا تو شیطان اس پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ اپنا معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے یہاں کفٰی کا لفظ استعمال کر کے صاف طور پر ان معنوں کی طرف اشارہ کر دیا جو میں نے بیان کئے تھے ۔ میں نے بتایا تھا کہ ک اس جگہ کافی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ظاہر کر دی اور کفی کا لفظ استعمال کر کے بتا دیا کہ اس سورۃ میں خدا تعالیٰ کے کافی ہونے کا ذکر ہے ۔ جب کوئی شخص اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے تو پھر کارساز ہونے کے لحاظ سے خدا تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوتا ہے اور شیطان اس پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ اگر ورثہ کے گناہ کی وجہ سے ہر انسان پیدائشی طور پر ناپاک ہوتا جیسے عیسائی کہتے ہیں تو ایسے لوگ خواہ تقویٰ اختیار کرتے خواہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتے ضرور تباہ ہو جاتے مگر ایسا نہیں ہوتا جس سے صاف پتہ لگا ہے کہ گناہ بیرونی اثرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔فطرت اپنی ذات میں پاکیزہ ہے۔آگے اس کی دلیل دیتا ہے اور فرماتا ہے ۔ ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر لتبتغوا من فضلہ انہ کان بکم رحیما تم گناہ کو ایک خطرناک طوفان سمجھتے ہو۔ایک ایسی آفت خیال کرتے ہو جو تباہ کر دینے والی ہوتی ہے اور تم گناہ کو دیکھ کر سمجھتے ہو کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس نے انسان کے اندر ڈیرہ ڈال لیا ہے اور اب یہ اس سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ مگر فرماتا ہے گناہ اپنی ذات میں کوئی چیز ہی نہیں یہ سارا وہم ہے اس کی موٹی مثال سمندر ہے تم دیکھتے ہو کہ سمندر میں کشتیاں چلتی ہیں دخانی کشتیاں تو اب بھی چلتی ہیں جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں سودے لے جاتی ہیں لیکن پہلے زمانہ میں بادبانی کشتیوں کا رواج تھا جو ہوا کے زور پر چلتی تھیں۔ فرماتا ہے کشتیوں کا انحصار ہی ہوا پر ہے لیکن کبھی ہوا طوفان بھی بن جاتی ہے جب وہ حد سے بڑھ جاتی ہے تو طوفان کہلاتی ہے لیکن باوجود اس کے کہ کبھی کبھی ہوا طوفان بن جاتی ہے۔ جب دنیا میں ہوائوں سے کشتیاں چلا کرتی تھیں اگر دنیا سے کہا جاتا کہ ہوائیں بند کی جائیں یا طوفان بند کئے جائیں تو ساری دنیا پکار اٹھتی کہ طوفان کیا ہے یہ تو کبھی کبھی آتا ہے اگر ہوائیں بند ہو گئیں تو ہماری تجارتیں ماری جائیں گی اور ہماری روزی کا سارا سامان جاتا رہے گا۔ اگر طوفان کے نتیجہ میں ہزاروں کشتیوں میں سے کوئی ایک ڈوب بھی جاتی ہے تو کیا ہوا یہ مثال بیان فرما کر اللہ تعالیٰ اس امر کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ تم گناہ گناہ کرتے ہو حالانکہ وہ تو ایک اعتداء کا نام ہے جس طرح وہی ہوا جو جہازوں کو ایک سر ے سے دوسرے سرے تک لے جاتی ہے بعض دفعہ طوفان بن جاتی ہے اسی طرح وہی قوتیں جو انسان کی ترقی اور اس کے فائدہ کیلئے اس کے اندر رکھی گئی ہیں جب بگڑ جاتی ہیں تو انہی کا نام گناہ بن جاتا ہے۔ گویا گناہ ایک طوفان ہے جذبات کا۔ مگر طوفان ہوا کے حد سے بڑھنے کا نام ہوتا ہے اس کے نیچے اس کی سب حرکت نیک ہوتی اور نیک نتائج پیدا کرتی ہے۔ مثلاً انسان کو خدا تعالیٰ نے آنکھیں دیکھنے کیلئے دی ہیں جن سے وہ دن رات کام لیتا ہے ایک بدمعاش سے بدمعاش انسان کے بھی سارے دن کے اعمال کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آنکھوں کا کتنا ناجائز استعمال کیا ہے تو پتہ لگے گا کہ دو سو دفعہ اس نے اپنی آنکھوں کا جائز استعمال کیا ہے اور ۲۰۰؍۱ دفعہ ناجائز استعمال کیا ہے کہیں اس نے گھر کی صفائی کی ہوگی کہیں اس نے دوستوں سے ملاقات کی ہو گی۔ کہیں اس نے محنت اور مزدوری کی ہوگی اور یہ سارے کام اس نے آنکھ سے کئے ہوں گے جو آنکھوں کا جائز استعمال ہے ۔ لیکن ایک دفعہ اس نے کسی غیر عورت کو بھی دیکھ لیا ہو گا ۔ اگر اس کی آنکھ ماری جاتی تو بیشک ناجائز فعل اس سے نہ ہوتا ۔ مگر جائز فعل بھی وہ نہ کر سکتا پس فرماتا ہے ۔گناہ کی تعریف جو تم نے سمجھی ہے وہ غلط ہے۔ تم گناہ کو اپنی ذات میں بری چیز سمجھتے ہو حالانکہ وہ قوتیں جو انسان کی ترقی اور اس کے فائدہ کیلئے پیدا کی گئی ہیں انہی میں افراط اور تفریط کا نام گناہ ہوتا ہے۔ مثلاً اسراف صدقہ کی زیادتی کا نام ہے اور بخل مال کی حفاظت میں شدت پکڑنے کا نام ہے اور صدقہ اور حفاظت مال کے بغیر دنیا چل ہی نہیں سکتی۔ اسی طرح زنا ر جولیت کے بے موقعہ استعمال کا نام ہے اور رہبانیت اس کے عدم استعمال کا نام ہے اگر رجولیت کا استعمال نہ ہو تو دنیا کیونکر چلے اور اگر اس پر ضبط نہ رکھا جائے تو انسان کی صحت کس طرح قائم رہے۔
غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے گناہ کا فلسفہ بیان فرمایا ہے۔ اور بتایا ہے کہ انسان کی پیدائش نیک ہے بدی باہر سے آتی ہے اور یہ دعویٰ کہ انسان کی اکثریت گناہ میں مبتلا ہو گی ایک شیطانی خیال ہے۔
(2) دوسری آیت جو اس مضمون کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم o ثم رددنٰہ اسفل سافلین o الا الذین امنوا وعملوا الصلحت فلھم اجر غیر ممنون o (التین)
فرماتا ہے ہم نے انسان کو بہتر سے بہتر قوتیں دے کر پیدا کیا ہے ۔ ثم رددنٰہ اسفل سافلین مگر اس کے بعد ہم اس کو بعض دفعہ نیچے ہی نیچے لے جاتے ہیں ۔ یہاں ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ ٹھیک ہے میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ پہلے آدم آیا اور اس نے ترقی کی مگر اس کے گناہ کی وجہ سے نسل انسانی گر گئی ۔ اس شبہ کے ازالہ کیلئے فرمایا الا الذین امنوا وعملوا الصلحت فلھم اجر غیر ممنون میں سارے انسان نہیں جاتے بلکہ وہ حصہ جو امنوا وعملوا الصلحت والا تھا وہ تو احسن تقویم پر قائم رہا۔ صرف دوسرا حصہ جس نے اس راستہ کو چھوڑ دیا تھا وہ سزا میں مبتلا ہوا اور نبیوں کی جماعت سے الگ ہو گیا ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ الا الذین امنوا وعملوا الصلحت میں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ نبیوں کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور ان کی نیکی بھی کسبی ہے اور گناہ بھی کسبی ہے نہ نیکی ورثہ کی ہے نہ گناہ ورثہ کا ہے اور عیسائیوں سے ہماری بحث ہی یہی ہے کہ تم بتائو آیا نبیوں کی جماعتیں بھی کفارہ پر ایمان لائے بغیر بچ سکتی ہیںیا نہیں ؟ وہ کہتے ہیں نہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ مومن اور عمل صالح کرنے والوں یعنی نبی کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے والے لوگوں کیلئے ایک غیر مقطوع اجر ہوگا۔ پس یہ خیال کہ گناہ انسان کی پیدائش میں رکھا گیا ہے بالکل غلط ہے ۔
یہاں عیسائی اعتراض کر سکتے ہیں کہ ہمارا تو یہی دعویٰ ہے کہ انسان کی فطرت میںچونکہ بدی ہے وہ نیک عمل کر ہی نہیں سکتا اور اسی لئے ہم شریعت کو *** قرار دیتے ہیں ۔ اس کا جواب قرآن کریم مندرجہ ذیل آیت میں دیتا ہے۔ فرماتا ہے:-
ونفس وما سوھا o فالھمھا فجورھا وتقوٰھا o قد افلح من زکھا o وقد خاب من دسّٰھاo (الشمس)
ہم شہادت کے طو رپر نفس انسانی کو اور اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ قوتوں کے ساتھ پیدا کرنے کے واقعہ کوپیش کرتے ہیں ۔ سوّٰی کے معنے ہوتے ہیں جس میں کوئی کجی نہ ہو اور تسویہ کے معنے ہوتے ہیں برابر کر دینا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط۔ ونفس وما سوھا میں مامصدر یہ ہے اور اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ہم شہادت کے طو رپر پیش کرتے ہیں نفس کو اور اس کے بغیر افراط و تفریط کے اعلیٰ درجہ کی قوتوں کے ساتھ پیدا کئے جانے کو ۔فالھمھا فجورھا وتقوٰھا جب ہم نے اسے پیدا کر دیا تو اس کے بعد ہم نے اس نفس کو الہام کیا فجورھا و تقوھا کہ فجور کیا ہے یعنی کن باتوں سے تو راستہ سے اِدھر اُدھر ہو سکتا ہے وتقوھا اور کون سے ایسے راستے ہیں جن پر چل کر تو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے ۔ اس آیت سے ایک تو یہ پتہ لگا کہ اللہ تعالیٰ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسانی نفس میں تسو یہ پایا جاتا ہے کجی نہیں پائی جاتی نیکی پائی جاتی ہے بدی نہیں پائی جاتی۔
دوسرے نہ صرف اپنی ذات میں اس میں درستی پائی جاتی ہے بلکہ اس میں نیکی اور بدی کا ایک احساس بھی پایا جاتا ہے یعنی ہم نے اس کے اندر ایک کانشنس رکھی ہے جو پہچانتی ہے کہ کونسا اچھا راستہ ہے اور کونسا برا۔ مثلاً ایک سوٹی جسے چھیل کر صاف کر لیا گیا ہو اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ میں صاف ہوں۔ لیکن انسان کو پتہ ہوتا ہے کہ میرے اندر فلاں خوبی پائی جاتی ہے یا مثلاً یوں سمجھ لو کہ ایک انسان جس کی جیب میں روپیہ ہو ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ آدمی بے پیسہ کے نہیں لیکن اگر اس کو پتہ نہیں کہ میری جیب میں روپیہ پڑا ہوا ہے تو وہ اس کو استعمال نہیں کر سکے گا۔
یہاں بھی دو باتیں بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ ہم نے انسان کو ہر قسم کی کجی سے پاک بنایا ہے اور دوسرے یہ کہ صرف پاک ہی نہیں بنایا بلکہ اسے یہ بھی بتا دیا ہے کہ تیرے اندر یہ یہ باتیں خرابی کی ہوں گی اور یہ یہ باتیں نیکی ہوں گی۔ گویا وہ صرف پاک ہی نہیں بلکہ وہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ میرے اندر جو قوتیں پائی جاتی ہیں میں نے ان کو اس اس طرح استعمال کرنا ہے اور اس کے اندر ایک کانشنس ہے جو پہچانتی ہے کہ اگر میں نے اس طرح کیا تو میرا یہ فعل بدی ہوگا اور اگر اس طرح کیا تو میرا فعل نیکی ہوگا۔
قد افلح من زکھاo وقد خاب من دسّٰھاo کی آیت میں مضمون کو اور بھی واضح کر دیا۔ کہ وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اس کو پاک رکھا یعنی اس کے اندر خدا تعالیٰ نے خرابیاں پیدا نہیں کیں۔ پس جو شخص اس کے تزکیہ کو قائم رکھتا ہے اور اسے خراب نہیں ہونے دیتا وہ بڑا کامیاب انسان ہے۔ وقد خاب من وسٰھا اور جو اس کی پاکیزگی کو مسل ڈالتا اور اس کی نیکی کو اپنے پائوں سے کچل ڈالتا ہے وہ سخت ناکام و نامراد ہو گا۔
(4) پھر فرماتا ہے سبح اسم ربک الاعلیٰ o الذی خلق فسوی o والذی قدر فھدیٰ o والذی اخرج المرعیٰ o فجعلہ غثاء احوٰی o سنقرئک فلا تنسیٰ o الا ماشاء اللہ انہ یعلم الجھر وما یخفیٰ o ونیسرک للیسرٰی o فذکر ان نفعت الذکریٰ o سیذکر من یخشیٰ o ویتجنبھا الاشقی o الذی یصلی النار الکبریٰ o
(سورۃ الاعلیٰ)
یعنی اے انسان تو اپنے اعلیٰ رب کی تسبیح کر۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیونکہ معلوم ہوا کہ تیرا رب اعلیٰ ہے۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے الذی خلق فسویٰ اس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اسے ہر قسم کے عیب سے پاک بنایا۔ والذی قدر فھدی پھر اس نے انسان کی طاقتوں کا ایک معیارمقرر کیا کہ اس حد تک انسان ترقی کر سکتا ہے ۔ فھدی اور پھر بتایا کہ اس مقام تک پہنچنے کی یہ یہ ترکیب ہے ۔ یعنی اگر ادنیٰ مومن بننا چاہتے ہو تو یہ یہ تدبیر ہے ۔ اعلیٰ مومن بننا چاہتے ہو تو یہ یہ کام کرو ۔شہید اور صدیق بننا چاہتے ہو تو اس اس طرح کرو ۔ گویا قد ر فھدی میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے مختلف روحانی گریڈ مقرر کر کے ساتھ ہی طریقے بھی بتادئیے کہ اس اس طرح عمل کرو گے تو ان گریڈوں کو حاصل کر لوگے۔
درحقیقت الذی خلق کے معنے الذی خلق الانسان کے ہیں ۔ کیونکہ آگے ساری باتیں وہ بیان کی گئی ہیں جو انسان سے تعلق رکھتی ہیں مثلاً ہدایت کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ واضح بات ہے کہ ہدایت درختوں کے لئے نہیں ہوتی۔ جانوروں کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کے لئے ہوتی ہے ۔ پس فرماتا ہے تم اپنے اندازہ سے یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ کا قانون انسان کے متعلق کیا ہے اور دوسری مخلوق کے متعلق کیا ہے ۔ تم کھیتیوں اورسبزیوں ترکاریوں کو دیکھو والذی اخرج المر عی فجعلہ عثاء احوی تمہیں دکھائی دے گاکہ ایک وقت کے بعد وہ بالکل بے کار اور سیاہ ہو جاتی ہیں اور ان کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہتی لیکن اس کے مقابلہ میں انسان آتا ہے تو انسانوں کی اچھی چیزیں یعنی ان کا مغز اور روحانیت قائم رہتی ہے۔ پچھلے سال کے پھل سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے لیکن آدم کی تعلیم آج تک قائم ہے نوح کی تعلیم آج تک قائم ہے ابراہیم کی تعلیم آج تک قائم ہے۔ موسیٰ کی تعلیم آج تک قائم ہے۔ معلوم ہوا کہ اس جگہ اور قانون ہے اور اس جگہ اور قانون ہے ۔اگر یہ گندی چیز ہوتی تو اس کے قائم رکھنے کے معنے کیا تھے اورضرورت کیا تھی کہ اسے ہزاروں سال تک زندہ رکھاجاتا؟ پھر فرماتا ہے سنقرئک فلا تنسٰی۔ آدم اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ کی تعلیم کے متعلق تو لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کیا پتہ انہوں نے یہی تعلیم دی تھی یا کچھ اور دی تھی اب ہم تجھے بتاتے ہیں کہ سنقرئک فلا تنسی ہم تجھ کو ایک سبق پڑھائیں گے جو تو کبھی نہیں بھولے گا الا ماشاء اللہ سوائے اس کے کہ کسی حکم کے متعلق خدا تعالیٰ خود کہہ دے کہ یہ عارضی ہے اور اسے بعد میں منسوخ کر دے جیسے پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا ۔اس قسم کے عارضی احکام کے سوا ہم تجھ کو ایک ایسی تعلیم دینے والے ہیں فلا تنسٰی جسے تو بھولے گا نہیں ۔ اس جگہ مخاطب صرف رسول کریم ﷺ نہیں بلکہ تمام انسان مخاطب ہیں اور اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ انسان جتنا بھی زور لگا لے اس تعلیم کو تو بھلا نہیں سکتا۔ یعنی ہم اسے قائم رکھیںگے اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس میں انسان کے مخفی سے مخفی خیالات کا بھی ذکر ہے اور ان بیرونی حوادث کا بھی ذکر ہے جو اس کے اعمال پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔و نیّسرک للیسری اور ہم اس تعلیم کے پھیلانے میں تمہارے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں گے اور یہ تعلیم پھیلتی چلی جائے گی ۔اگر شریعت *** ہے تو ہم ایک تعلیم بھیجنے والے ہیں ہم دیکھیں گے کہ اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں ۔ فذکر ان نفعت الذکری یہ جو ہم نے دلیلیں دی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ انسانی قلوب کی اصلاح شریعت اور اس سے متعلقہ چیزوں سے ہو جاتی ہے پس انہی طریقوں کو تم بھی استعمال کرو۔ سیذکر من یخشی جب تم اس تعلیم کو پیش کرو گے تو جو لوگ اپنے دل میں خوفِ خدا رکھنے والے ہوں گے وہ اس سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔ا س میں بھی اشارہ کیا ہے کہ نیکی ورثہ کی چیز ہے نہ کہ بدی۔ کیونکہ خشیت دل میں پیدا ہوتی ہے و یتجنبھا الا شقی اور اس سے وہ شخص بچنے کی کوشش کرے گا جو اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال چکا ہو۔ آیت کا یہ دوسرا حصہ بھی بتاتا ہے کہ شقاوت خودانسان کی پیدا کردہ ہوتی ہے ورنہ ہر انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے پاک ہے۔
(5) پھر فرماتا ہے الم نجعل لہ عینین ولسانا وشفتین وھدینہ النجدین (سورۃ البلد) کیا انسان یہ نہیں سوچتا کہ ہم نے اسے آنکھیں دی ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ انسان گنہگار ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسان نے گناہ کوورثہ میں لیا ہے کیا ہم نے اسے آنکھیں نہیں دیں ۔کیا ہم نے اس نے زبان نہیں دی۔ کیا ہم نے اسے ہونٹ نہیں دئیے ۔اگر انسان فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا اور اس کی نجات کفارہ پر ہی منحصر تھی تو ہم نے اسے آنکھیں کیوں دی تھیں اور وہ دیکھتا کیوںہے اور اگر اس کا دل گندا تھا اور وہ کسی واقف انسان سے تبادلہ خیالات کر کے اپنے گند کو دور نہیں کر سکتا تھا تو ہم نے اسے زبان کیوں دی تھی اور ا س کے ہونٹ کیوں بنائے تھے وھدینٰہ النجدین۔ پھر ہر انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے ایک کانشنس رکھی ہے جو نیکی اور بدی کا موازنہ کرتی ہے۔ اگر یہ نیکی اور بدی کا موازنہ کر ہی نہیں سکتا تو اس کانشنس کی کیا ضرورت تھی۔کفارہ تو ایسا ہی ہے جیسے گڑھے میں پتھر ڈال کر کوئی شخص یہ سمجھ لے کہ اس طرح اس کا پیٹ بھر جائے گا ۔ چیز وہ ہوتی ہے جس کا کوئی منطقی نتیجہ نکلتا ہو۔ جب اس کا کوئی منطقی نتیجہ نکلتا ہی نہیں اور انسان دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تو اسے سوچنا چاہئے کہ پھر اس کی ضرورت کیا ہے ۔ اگر کفارہ پر ہی بنی نوع انسان کی نجات منحصر تھی تو کیا ضرورت تھی آنکھ کی کیا ضرورت تھی زبان کی کیا ضرورت تھی ہونٹوں کی۔ اس کے بعد فرماتا ہے وھدینٰہ النجدین۔ پھر ہم نے اس کو دونوں راستے بتادئیے۔
قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ بعض دفعہ چھوٹے سے چھوٹے لفظ میں بڑی بھاری بات بیان کر دیتا ہے۔ قرآن کریم میں رستہ کا ذکر کئی دوسرے مقامات پر بھی آتا ہے مگر کسی جگہ اس کے لئے سبیل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور کسی جگہ طریق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے نجد کا لفظ استعمال کیا ہے۔ سبیل اور طریق کے الفاظ چھوڑ دئیے ہیں۔ اس اختلاف سے پتہ لگتا ہے کہ یہاں مضمون کے ساتھ نجد کا ہی تعلق ہے سبیل اور طریق کا تعلق نہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لغت میں نجد کے معنے اونچے راستے کے ہیں ۔ جو چڑھائی والا ہو۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ یہ مضمون بیان کیا ہے کہ چڑھائی والے راستہ پر جب انسان چلتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے سانس پھولتا ہے اور اس کے پائوں وغیرہ میں کھلیاں پڑجاتی ہیں ۔ اسی حالت کی طرف اللہ تعالیٰ نے یہاں اشارہ کیاہے۔ یہ تو سیدھی بات ہے کہ جیسے فلا اقتحم العقبۃ میں تشریح کر دی گئی ہے اس سے دنیوی رستہ مراد نہیں ۔ کیونکہ آگے یہ مضمون آتا ہے کہ اس نے صدقہ نہیں دیا۔ خیرایت نہیں دی ،یتامیٰ اور مساکین کا خیال نہیں رکھا ۔پس صاف پتہ لگتا ہے کہ اس جگہ ظاہری رستہ مراد نہیں بلکہ دو راستوں سے مراد نیکی اور بدی کا راستہ ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز انسان کے اندر ورثہ سے آ جائے اس کے لئے اسے محنت نہیںکرنی پڑتی ۔ مثلاً آنکھیں ہیں یہ ہمیں ورثہ میں ملی ہیں ان میں ہمارا کوئی دخل نہیں۔اس لئے آنکھوں سے دیکھنے کیلئے ہمیں نہ کسی مشق کی ضرورت ہوتی ہے نہ محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے آپ ہی آپ ہم دیکھنے لگ جاتے ہیں اسی طرح زبان ہمیں ورثہ میں ملی ہے اور ہم آپ ہی آپ بولنے لگ جاتے ہیں یا ہاتھ اور پائوں ہیں یہ بھی آپ ہی آپ چلنے لگ جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمیں ورثہ کے طور پر ملے ہیں ۔ اگر گناہ بھی ورثہ میں ملا ہوتا ۔ تو اس کے لئے کسی مشق کی ضرورت نہیں تھی اور گناہ کاراستہ چڑھائی والا راستہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ جیسے ہاتھ اور پائوں ہمیں ورثہ میں ملے ہیں ۔ ہم نے اپنے ماں باپ سے لئے۔ انہوں نے اپنے ماں باپ سے لئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں ان کے ہلانے جلانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ اسی طرح گناہ بھی اگر ورثہ میں ملا ہے تو اس کے کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہئے تھی۔ کیونکہ وہ طاقتیں جو ورثہ کے ساتھ آتی ہیں ان کے استعمال میں انسان کو محنت نہیں کرنی پڑتی۔ لیکن فرماتا ہے ہم نے نجدین بنائے ہیں یعنی اگر تم نیکی میں بڑھنا چاہو تو تمہیں اس کیلئے بھی کوشش کرنی پڑے گی اور اگر تم بدی میں بڑھنا چاہو تو تمہیں اس کے لئے بھی کوشش کرنی پڑے گی۔ پس نہ نیکی ورثہ میں ملی ہے نہ بدی ورثہ میں ملی ہے۔دونوں چیزیں ایسی ہیں جن کیلئے محنت کرنی پڑتی ہے ۔ گویا ہر چیز SELF ACQUIREDہے۔ بدی میں ترقی کرنا چاہو تو تمہیں محنت کرنی پڑے گی نیکی میں ترقی کرنا چاہو توتمہیں محنت کرنی پڑے گی ۔اگر گناہ ورثہ میں ملا ہوتاتو پہلے جھوٹ اور پہلی چوری کیلئے کوئی محنت نہ کرنی پڑتی ۔ مگر جب کوئی پہلا جھوٹ بولتا ہے تو اس کا رنگ فق ہو جاتا ہے اور جب کوئی پہلی چوری کرتا ہے وہ آپ ہی بھاگا پھرتا ہے اور بعض دفعہ تو ایسی حرکات کرتا ہے کہ لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اس نے چوری کی ہے ۔ہمارے میں مشہور ہے کہ ایک برہمن سے گائے ماری گئی اس زمانہ میں یہ قانون قدرت تھا کہ اگر برہمن گائے مارے تو اسے قتل کر دیا جائے۔ وہ گائے کو اپنے مکان میں ہی بند کر کے بھاگا۔ راستہ میں جب بھی وہ دو آدمیوں کو آپس میں باتیں کرتا دیکھتا۔ فوراً اس کے پاس پہنچتا اور کہتا کہ آپ گائے گائے کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہم تو گائے کا کوئی ذکر نہیں کر رہے وہ کہتا نہیں تم مجھ سے چھپاتے ہو۔ ضرور تم گائے کا ذکر کر رہے ہو ۔پھر آگے چلتا اور جب پھر دو تین آدمیوں کو آپس میں باتیں کرتے دیکھتا تو ان کے پاس پہنچتا اور کہتا یہ آپ بچھڑا بچھڑا کیا کہہ رہے ہیں ۔وہ کہتے ہم تو کوئی ذکر نہیں کررہے وہ کہتا نہیں کوئی بات ضرور ہے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی بازار ختم نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کو شبہ پڑ گیا اور انہوں نے اسے پکڑ لیا۔ گھر گئے تومری ہوئی گائے نکل آئی تو جب انسان کسی قسم کا بھی گناہ کرتا ہے پہلی مرتبہ اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے اور وہ شرمندہ ہوتا ہے۔ چور چوری کرنے کے بعد گھبرایا پھرتا ہے ۔ڈاکو ڈاکہ مارنے کے بعد گھبرایا پھرتا ہے اگر گناہ ورثہ میں آیا ہوتا تو گناہ کا راستہ نجد کیوں ہوتا اور اس کیلئے چڑھائی کیوں چڑھنی پڑتی۔
(6) پھر فرماتا ہے قال ربنا الذی اعطٰی کل شی خلقہ ثم ھدٰی (طہ ع۲) حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون سے کہتے ہیں کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی طاقت کے مطابق قوتیں دی ہیں اور پھر یہ بتایا ہے کہ وہ اس اس طرح ترقی کر سکتی ہے ۔ا س جگہ کل شیء خلقہ میں انسان کی خلق بھی شامل ہے اور بائبل خود مانتی ہے کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کا خدا سے تعلق ہو۔ اور وہی انسان مبارک ہے جو اس کے احکام کو سنتا اور ان پر عمل کرتا ہے ۔ (امثال باب۸ آیت ۳۴)
(7) اسی طرح فرماتا ہے ولو شئنا لاتینا کل نفس ھدھا ولکن حق القول منی لاملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین (سجدہ ع۲)
اگر ہم چاہتے تو ہر جان کو اس کی ہدایت دے دیتے ۔ اس جگہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا مضمون پہلی آیتوں کے مضمون کے خلاف ہے لیکن حقیقتاً خلاف نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا و لو شئنا لھدینا کل نفس اگر یہ الفاظ ہوتے تب بھی اس کا مضمون پہلے مضامین کے خلاف نہ ہوتا ۔لیکن یہاں ھدٰ ھا کے الفاظ ہیں یعنی ہر نفس جو ہم نے پیدا کیا ہے اس کے اندر اس کی ہدایت کا بھی سامان رکھا ہے۔ بعض لوگ اس ہدایت کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں اگر ہم چاہتے تو مجبور کر کے انہیں ہدایت واپس دے دیتے۔ مگر جبر سے چونکہ پیدائش ِانسانی کی غرض باطل ہو جاتی تھی اس لئے ہم نے جبر نہیں کیا۔ یہ بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ انسان کا نفس پاک پیدا کیا گیا ہے اور ہر انسان ہدایت کے ساتھ بھیجا جاتا ہے ۔لیکن بعض لوگ اپنی حماقت اور بیوقوفی سے اپنے اندر سے ہدایت نکال کر پھینک دیتے ہیں فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو ہم ان کے نفس کی اندرونی ہدایت انہیں پھر واپس دے دیتے یعنی ان کو ہدایت رد کرنے کی توفیق نہ ملتی ۔ مگر جو لوگ اپنے دل کی ہدایت کو چھوڑ گئے ہمارا فیصلہ ان کے بارہ میں یہی ہے کہ ان کو ہم ان کے عمل کی سز ا دیتے ہیں ورنہ ہمارا دل یہی چاہتا تھا کہ ان کو بھی ہدایت دیتے چنانچہ اسی مضمون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ولکن حق القول منی لاملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین یعنی ہم نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے اعمال کی وجہ سے دوزخ میں چلا جاتا ہے ورنہ ہماری طرف سے تو اس کی ہدایت کے سامان موجود تھے۔
(8) اسی طرح فرماتا ہے و ازلفت الجنۃ للمتقین (شعراء ع۵) ہم نے متقیوں کے لئے جنت کو قریب کر دیا ہے یعنی ایک طرف ان کی فطرت انہیں جنت کی طرف لے جاتی ہے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی مدد ان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی طرح اندرونی اور بیرونی ہدایتیں ان کو جنت کی طرف راغب کرتی ہیں ۔
(9) اسی طرح فرماتا ہے و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات ع۳) میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبد بنیں۔ یعنی تمام بنی نوع انسان کے پیدا کرنے کی غرض یہ ہے کہ وہ عبد بنیں اور عبد کے متعلق دوسری جگہ قرآن کریم میں یہ تشریح آئی کہ یا ایھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبٰدی وادخلی جنتی (الفجر ع۱) یعنی اے نفس مطمئنہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے پر راضی ہو گیا ۔توُ اپنے رب کی طرف ایسی حالت میں لوٹ آ کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے ۔ توُ اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے کے معنے یہ ہیں کہ وہ پاک ہے اور اس کا دل اس قدر صفائی اختیار کر چکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن گیا ہے فادخلی فی عبادی۔ اس کے بعد فرماتا ہے جب یہ مقام کسی انسان کو میسر آ جائے کہ وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو جائے اور خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے تواس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کا عبد بن جاتا ہے گویا وہ جو فرمایا تھا کہ ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ۔ میں نے جن اور انس کو صرف اپنا عبد بننے کیلئے پیدا کیا ہے اس مقصد ِپیدائش کو وہ پالیتا ہے اور جو شخص اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر لے لازماً وہ وادخلی جنتی کا مستحق ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کی پیدائش کی غرض یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عبد بن جائیں اور جو غرض پیدائش انسانی کی اللہ تعالیٰ قرار دے اسے کون باطل کر سکتا ہے۔ پھر نہ صرف اس نے پیدائش انسانی کی یہ غرض قرار دی ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ انسانوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کو وہ خوشخبری دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یا ایھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبٰدی وادخلی جنتی
یہاں ایک اور لطیف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ نفس مطمئنہ کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ راضیۃ مرضیۃ جن سے خدا راضی ہو گیا اور جو اپنے خدا سے راضی ہو گئے۔ ادھر خدا تعالیٰ صحابہؓ کے متعلق فرماتا ہے رضی اللہ عنھم و رضواعنہ(التوبہ ع ۱۳) اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے ۔ اب اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے یا ایھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبٰدی وادخلی جنتیپر غور کرو۔ تو دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یا ایتھا الجماعۃ الصحابۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبٰدی وادخلی جنتیگویا قرآن کریم کی ان آیتوں نے شہادت دے دی کہ صحابہ کرامؓ اس مقام تک پہنچ چکے تھے جس پر پہنچ کر انسان خدا تعالیٰ کے عباد میں داخل ہو جاتا اور اس کی جنت کا وارث ہو کر اپنے مقصد حیات کو پالیتا ہے۔
(10) ایک اور آیت جو اس مضمون کو واضح کرتی ہے وہ قرآن کریم میں اسی واقعہ کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ گزرا۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدم کے متعلق فرماتا ہے لم نجد لہ عزما (طہ ع۶)یعنی حضرت آدم سے جو غلطی ہوئی تھی وہ اجتہادی تھی اس میں ان کے عزم کا کوئی دخل نہیں تھا۔ غلطیاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک اجتہادی غلطیاں اور ایک عزم کے ساتھ تعلق رکھنے والی غلطیاں ۔ آگے اجتہادی غلطیوں کی کئی قسمیں ہیں اور عزم والی غلطیوں کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ غلطی اجہتادی قسم کی تھی عزم والی غلطیوں میں سے نہیں تھی۔ ارادۂ آدم نہیں تھا کہ غلطی کرے مگر ہو گئی اور یہ صاف بات ہے کہ گناہ کے دو حصے ہوتے ہیں ۔ ایک گناہ کا ظاہری حصہ ہوتا ہے اور ایک اس کا باطنی حصہ ہوتا ہے ۔ جو چیز انسان کو نجات سے محروم کرتی ہے وہ گناہ کا باطنی حصہ ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گناہ کی ظاہری سزا محض لوگوں کو مل جاتی ہے مگر نجات سے محروم کرنے والا صرف باطنی حصہ ہوتا ہے ظاہری نہیں۔ مثلاً چوری ہے چوری کہتے ہیں کسی کا مال اٹھا کر لے جانے کو۔ اب بیسیوں دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلطی سے دوسرے کی چیز اٹھا کر لے جاتا ہے مثلاً بعض لوگوں کے پیروں میں حس کم ہوتی ہے اور وہ دوسرے کی جوتی پہن کر چلے جاتے ہیں۔ فرض کرو ایسا شخص پکڑا جائے ۔ اس کا مقدمہ عدالت میں جائے اور وہ قید ہو جائے تو گناہ کی ایک ظاہری سزا تو اسے مل جائے گی مگر اس کا دل سیاہ نہیں ہوگا کیونکہ اس نے جوتی ارادۃً نہیں اٹھائی تھی۔
حیدر آباد کے جو نظام تھے ان کے ایک پھوپھی زاد بھائی کا بیٹا مجھے ملنے کیلئے قادیان آیا۔ اس نے کسی مقصد کیلئے مجھ سے دعا کروانی تھی ۔میرے دل میں خیال آیا کہ ایسے لوگ روز روز کہاں قابو آتے ہیں انہیں اچھی طرح نصیحت کرنی چاہئے۔چنانچہ شام کا کھانا میں نے ان کو اپنے ساتھ ہی کھلایا اور پھر میں نے انہیں نصیحتیں کرنی شروع کر دیں اور گیارہ بارہ بجے تک انہیں سمجھتا تا رہا۔ میں نے کہا بتائو تم نماز پڑھتے ہو وہ کہنے لگا گھر پر تو کبھی پڑھ ہی لیتے ہیں مگر سفر میں صفائی وغیرہ کا چونکہ پورا اہتمام نہیں رہتا اس لئے نماز نہیں پڑھی جاتی۔ میں نے کہا تم لاکھوں روپے کے مالک ہو اور اب بھی تم آئے ہو تو پانچ سات نوکر تمہارے ساتھ ہیں اگر تمہارا یہ حال ہے تو غرباء کا کیا حال ہوتا ہوگا حالانکہ غرباء پر نماز زیادہ فرض نہیں جیسے تم پرفرض ہے ویسے ہی ان پر فرض ہے مگر تمہیں ان کے مقابلہ میں بیسیوں سہولتیں حاصل ہوتی ہیں تم نے گاڑی کے کمرے ریزرو کروائے ہوتے ہیں اور تم مزے سے ان میں لیٹے ہوئے آتے ہو۔ تم خدا تعالیٰ کو کیا جواب دو گے اور نمازیں نہ پڑھنے کا کیا عذر پیش کرو گے ایک غریب تو کہہ دے گا کہ اللہ میاں پر مجھے غصہ آ گیا کہ میرے خدا نے مجھے نہیں پوچھا تو میں اس کی عبادت کیوں کروں اس کا یہ جواب چاہے پاگلانہ ہو مگر بہرحال کچھ نہ کچھ جواب تو ہے لیکن تمہارے پاس کیا جواب ہوگا؟میں نے دیکھا جس طرح کسی پر پورا اثر ہو جاتا ہے ویسی ہی کیفیت اس کی ہو گئی ۔اس کی رونے والی حالت ہو گئی اور اس نے کہا کہ اب میں باقاعدہ نماز پڑھا کروں گا گیارہ بارہ بجے کے قریب ہم فارغ ہوئے اور وہ اپنی قیام گاہ پر چلے گئے ۔گھر پہنچے تو انہوں نے اپنے نوکروں سے کہا ۔ کہ صبح نماز کیلئے مجھے ضرور جگا دینا آج میں سخت شرمندہ ہوا ہوں اگر کل انہوں نے پھر مجھ سے پوچھ لیا کہ نماز پڑھی تھی یا نہیں تو میں کیا جواب دوں گا ۔نوکروں نے کہا کہ آپ بارہ بجے سونے لگے ہیں نو بجے سو کر بھی آپ صبح نہیں اٹھتے اور اب تو بہت رات گذر چکی ہے آپ صبح اٹھیں گے کس طرح ؟ انہوں نے کہا کچھ ہو مجھے ضرور جگا دینا۔ اگر تم نے مجھے نہ جگایا تو میں تمہیں سز ادوں گا چنانچہ صبح ہوئی تو نوکروں نے جگا دیا۔ اب وہ بیچارا نماز پڑھنے کا عادی تو نہیں تھا نوکروں کے جگانے پر اٹھ تو بیٹھا مگر اسی طرح سوئے ہوئے مسجد کی طرف چل پڑا راستہ میں کہیں ٹھوکر لگتی تو نوکر دوڑ کر اسے پکڑ لیتے۔ آخر اسی طرح مسجد پہنچے اور پھر سوئے ہوئے ہی انہوں نے نماز پڑھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو نیند کے غلبہ میں آتے وقت اپنا بوٹ تو وہیں چھوڑ گئے اور کسی کی پھٹی پرانی جوتی پہن کر چل پڑے نصف راہ تک پہنچے تو کسی نوکر کی نظر پڑ گئی اور اس نے کہا نواب صاحب یہ کیا؟ آپ تو کسی کی جوتی پہن کر آ گئے ہیں اس پر نواب صاحب کی بھی آنکھ کھلی اور وہ اپنے پائوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگے بھئی جلدی جائو اور یہ جوتی بدل لائو۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں اس کی جوتی چرا لایا ہوں ۔اس واقعہ کی وجہ سے صبح مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے میری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آج مسجد میں جا کر نماز پڑھی تھی مگر نیند کے غلبہ کی وجہ سے وہ اپنا نرم اور نازک اور ملائم بوٹ تو وہیں چھوڑ آئے اور کسی کی پھٹی پرانی جوتی پہن کر آ گئے اب دیکھو کسی نواب کے منہ پر تو یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہ نواب ہے فرض کرو جوتی کا مالک وہاں پہنچ جاتا اور ان کی گردن میں ہاتھ ڈال کر کہتا کہ چل تجھے پولیس کے حوالے کروں تو چور ہے تو بظاہر انہیں سزا مل جاتی مگر یہ غلطی انہیں نجات سے محروم کرنے والی نہیں تھی کیونکہ اس میں ان کے عزم کا دخل نہیں تھا۔ اسی طرح آتشک اور سوزاک یہ دومرضیں بظاہر گناہ کا پھل سمجھی جاتی ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ گناہ اس کا نہ ہو بلکہ اس کے باپ یا دادا کا ہو۔ فرض کرو ایک شخص کسی بیوہ سے شادی کرتا ہے اس کے پہلے خاوند کو آتشک کا مرض تھا جس سے اسے بھی آتشک ہو گئی۔ اب جب یہ اپنی بیوی کے پاس جائے گا اسے بھی آتشک ہو جائے گی اور یہ بھی اس سزا میں مبتلا ہو جائے گا ۔ اب بظاہر یہ ہے تو زنا کی سزا مگر اس کی وجہ سے وہ جہنم میں نہیں جائے گا اور نہ اس کا دل سیاہ ہوگا بلکہ شاید اس کا دل اس کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ صاف ہو جائے تو اصل چیز جو دل کی سیاہ کرنے والی ہے وہ گناہ کا باطنی حصہ ہوتا ہے اس کے ظاہر ی حصہ کی وجہ سے اگر کوئی نقصان پہنچ بھی جائے تووہ عارضی ہوتا ہے مستقل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس جگہ آدم کے متعلق فرماتا ہے کہ لم نجد لہ عزما۔ آدم کے اندر ہم نے عزم نہیں پایا ۔ یعنی اس سے جو غلطی ہوئی وہ اجتہادًا ہوئی جیسے بائبل کے حوالہ جات سے ثابت ہے کہ شیطان نے کہا یہ بڑا نیک کام ہے اس کے نتیجہ میں تمہیں نیک اور بد کے پہچاننے کی طاقت حاصل ہو جائے گی اور آدم نے سمجھا کہ یہ بات درست ہے اور وہ غلطی میں مبتلا ہو گئے ۔پس ان کی غلطی اجتہادی غلطی تھی عزم والی غلطی تھی۔
(11) اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ان اللّٰہ یغفر الذنوب جمیعاً (الزمر ع۶) یعنی سچی توبہ سے انسان کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ عیسائیت کہتی ہے کہ گناہ معاف نہیں ہوتے مگر ہم یہاں یہ بحث نہیں کر رہے کہ انجیل کا بیان درست ہے یا قرآن کریم کا بیان درست ہے ۔ہم صرف یہ بحث کر رہے ہیںکہ اس بارہ میں قرآن کریم کیا کہتا ہے ۔ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جب معاف ہو جاتے ہیں تو لازماً سزا بھی معاف ہو جاتی ہے۔
(12) اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمن ع۳) جو شخص خدا تعالیٰ کے مقام کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے اسے دو جنتیں ملتی ہیں ۔ ایک اس دنیا میں اور ایک اگلے جہان میں ۔ اب یہ واضح بات ہے کہ یہاں جنت ملنے سے مراد دنیوی اموال نہیں ہو سکتے۔ اگر دنیوی اموال مراد لئے جائیں تو خدا تعالیٰ کے کئی نیک بندے ایسے گزرے ہیں جن کے دنیوی حالات تو کفار سے بہت ہی ادنیٰ تھے۔ خو درسول کریم ﷺ کو ہی لے لو۔ آج یورپ کا مزدور آپ سے زیادہ اچھا کھانا کھاتا اور زیادہ اچھے کپڑے پہنتا ہے پس اگر اس جگہ جنت سے دنیوی نعماء مراد لی جائیں تو یقینا یورپ کا مزدور جنت میں ہے اور بڑے بڑے صلحاء اور اولیاء نعوذ باللہ جنت میںنہیں تھے۔ پس اس جگہ جنت سے مراد روحانی امن ہی ہوسکتا ہے اور جنت ملنے سے مراد خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولمن خاف مقام ربہ جنتان جو شخص خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے وہ اس جہان میں بھی خدا تعالیٰ کا مقرب ہے اور اگلے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کے قرب میں جگہ حاصل کرے گا ۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ ہر انسان میں خدا تعالیٰ کا مقرب بننے کی قابلیت موجود ہے اگر گناہ انسان کو ورثہ میں ملا ہوا ہوتا تو اس کا قرب اسے کہاں حاصل ہو سکتا تھا۔
(13) اسی طرح فرماتا ہے من کان فی ھذہ اعمیٰ فھو فی الاٰخرۃ اعمیٰ (بنی اسرائیل ع۸) جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو گا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا ۔ اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ جو شخص اس دنیا میں جسمانی لحاظ سے اندھا ہوگا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا۔ یہ تو بڑے ظلم کی بات ہے کہ ایک شخص اس جہان میں بھی اندھا ہو اور اسے اگلے جہان میں بھی اندھا رکھا جائے۔ اس کے معنے بھی درحقیقت خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھنے والے کے ہیں اور اندھے سے مراد وہ ہے جس نے خدا تعالیٰ کو نہیںدیکھا۔ پس من کان فی ھذہ اعمیٰ فھو فی الاٰخرۃ اعمیٰ سے دو معنے نکلتے ہیں ایک منفی صورت میں اور ایک مثبت صورت میں ۔ ایک وہ ہیںجو اعمیٰ ہیں اور ایک وہ ہیں جو اعمیٰ نہیںکیونکہ فرماتا ہے جو اس دنیا میں اعمیٰ ہو گا وہ اگلے جہان میں بھی اعمیٰ ہی رہے گا ۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ کچھ لوگ اعمیٰ ہوں گے اور کچھ اعمیٰ نہیں ہونگے پس یہ آیت بھی بتا رہی ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک بعض کا دل پاک بھی ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس جگہ یہی مضمون بیان فرماتا ہے کہ اس دنیا میں جس شخص کا قلب خراب ہو گیا (معلوم ہوا کہ ساری دنیا کا قلب خراب نہیں ) وہ اگلے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی قابلیت نہیںرکھے گا۔
(14) اسی طرح حدیث میں آتا ہے کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھوّد انہ او ینصّرانہ او یمجّسانہ (بخاری کتاب الجنائز باب ما قیل فی اولاد المشرکین )ہر بچہ فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے اور نیکی کی روح اپنے اندر رکھتا ہے۔ پھر اس کے ماں با پ اسے سکھا کر کبھی یہودی بنا دیتے ہیں کبھی نصرانی بنا دیتے ہیں اور کبھی مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ اس سے بھی پتہ لگاکہ انسان جو پیدا ہوتا ہے فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے اور بدی پیدائش کے بعد اردگرد کے اثرات کے نتیجہ میں آتی ہے۔
(15) اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ہر انسان کا دل خدا تعالیٰ نے صاف بنایا ہے پھر وہ دنیا میں آ کر یا نیکی کرتا ہے یا بدی کرتا ہے جب وہ کوئی نیکی کرتا ہے تو ایک سفید نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے اور جب کوئی بدی کرتا ہے تو ایک سیاہ نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے ۔ پھر جوں جوں وہ نیکیاں یا بدیاں کرتا چلا جاتا ہے۔ ان سفید یا سیاہ نقطوں کی تعداد بڑھنی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ ایک دن اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے یا اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے اگر اس کاسارا دل سفید ہو جاتا ہے تو وہ بدی سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اگر اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے تو وہ نیکی سے محروم ہو جاتا ہے (تفسیر ابن جریر زیر آیت کلا بل ران علی قلوبھم (سورۃ تطفیف) ) اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ انسان فطرت صحیحہ لے کر دنیا میں آتا ہے اور ایک لمبے عرصے تک اس کی فطرت صحیحہ قائم رہتی ہے ۔ جب اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے اور نیکی اس پر غالب آ جاتی ہے تو بغیر کفارہ کے نجات پا جاتا ہے اور جب اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے او ربدی اس پر غالب آ جاتی ہے تو پھر کوئی کفارہ اسے فائدہ نہیںدے سکتا۔ اس کے برخلاف مسیحیت یہ کہتی ہے کہ آدمؑ نے گناہ کیا اور اس کی وجہ سے اسے سزا دی گئی پھر اس کا گناہ ورثہ میں اس کی اولاد کو ملا۔اب انسان گناہ سے خود بخود نہیں بچ سکتا۔کیونکہ یہ اسے ورثہ میں ملا ہے۔ اس کے لئے کفارہ کی ضرورت تھی جو مسیح نے پیش کیا اور انسان کا تمام گناہ اس نے اپنے سر پر اٹھالیا۔ گویا مسیحی تعلیم کے مطابق انسان شیطان کا غلام بن کر پید ا ہوتا ہے او رپھر مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے کے نتیجہ میں شیطان کے پنجہ سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے۔
میں اوپر بتا چکا ہوں کہ مسیحیت کے اس عقیدہ سے تعلق رکھنے والے تمام امور کا قرآن کریم نے انکار کر دیا ہے۔ قرآن کریم کے نزدیک نہ گناہ ورثہ میں ملا نہ انسان پیدائشی لحاظ سے گنہگار ہے اور نہ اس کیلئے کسی کفارہ کی ضرورت ہے ۔ انسان کی فطرت پاکیزہ بنائی گئی ہے اور اس میں ترقی کی قابلیت رکھتی گئی ہے یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ کا محبوب بھی ہو سکتا ہے اور اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے ۔اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے تو اس عقیدہ کار د کیا ہے کیا خود بائبل بھی اس کی تصدیق کرتی ہے؟ اگر بائبل بھی اس عقیدہ کی تصدیق نہیں کرتی تو پھر عیسائیوں کیلئے بھی اس عقیدہ کے باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیںرہتا۔ اس بارہ میں اگر ہم غور کریں تو چار مسائل ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں ۔
1۔ یہ مسئلہ کہ انسان کو ورثہ میں گناہ ملا۔
2۔ یہ مسئلہ کہ چونکہ انسان کو ورثہ میں گناہ ملا اس لئے وہ پاک نہیں ہو سکتا۔
3۔ یہ مسئلہ کہ انسان کو ورثہ میں گناہ ملا اس لئے وہ پاک نہیں ہو سکتاتھا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ رحیم و کریم بھی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے رحم و کرم کے ماتحت اس کے لئے کسی قربانی کی ضرورت تھی۔
4۔ یہ مسئلہ کہ اس قربانی سے انسان حقیقۃ ًپاک ہو گیا ؟
یہ چار مسائل ہیں جو اس امر پر غور کرتے ہوئے ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ آدم ؑ نے گناہ کیا تھا اس لئے تمام نسل انسانی گنہگار ہو گئی کیونکہ اسے آدم سے ورثہ میں گناہ ملا ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا آدم ؑ نے واقعہ میں گناہ کیا تھا اور آیا بائبل اور انجیل اس کی تصدیق کرتی ہے؟ اگر بائبل کے رو سے آدم نے گناہ ہی نہیں کیا تو یہ سارا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں بائبل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آدم نے گناہ نہیں کیا بلکہ بائبل سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے بھی گناہ نہیں کیا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر میں نے جب بائبل کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ گناہ نہ آدم نے کیا تھا نہ شیطان نے بلکہ نعوذ باللہ گناہ خالص اللہ تعالیٰ کا تھا اس کا ثبوت میں ذیل میں پیش کرتا ہوں۔
آدم کا واقعہ پیدائش کی کتاب میں بیان ہے (یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ بائبل سے مراد وہ مجموعہ کتب ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں کے حالات پر مشتمل ہے ۔ حضرت موسیٰ ؑ سے ملا کی نبی تک کے حالات کا جو حصہ ہے وہ پرانا عہد نامہ کہلاتا ہے اور حضرت مسیح اور ان کے حواریوں کے حالات پر جو حصہ مشتمل ہے وہ نیا عہد نامہ کہلاتا ہے۔ یہودیوں کے نزدیک صرف پرانا عہد نامہ واجب العمل ہے لیکن عیسائیوں کے نزدیک پرانا اور نیا دونوں عہد نامے واجب العمل ہیں ۔ پرانے عہد نامہ میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ کتابیں شامل ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب پیدائش ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام کا بھی ذکر ہے)
پیدائش بات ۲ آیت ۸ تا ۱۰ میں لکھا ہے: -
’’ اور خداو ند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا۔ اور خداوند خدا نے ہر درخت کو جو دیکھنے میں خوشنما اور کھانے کیلئے اچھا تھا زمین سے اگایا اور باغ کے بیج میںحیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا۔‘‘
اس جگہ بائبل یہ بتاتی ہے کہ آدم کی پیدائش کے بعد خدا تعالیٰ نے عدن میں ایک باغ لگایا جس میں ہر قسم کے درخت اگائے اور اس باغ کے عین وسط میں حیات اور نیک و بد کی پہچان کا درخت لگایا ۔ یہ میںآگے چل کر بتائوں گا کہ نیک و بد کی پہچان کا درخت الگ تھا اور حیات کا درخت الگ یا دونوں ایک ہی تھے ۔ میرے نزدیک یہ دونوں ایک تھے لیکن بائبل اس بارہ میں مضطرب اور متردد ہے کہیں وہ ان دونوں کو ایک درخت بتاتی ہے اور کہیں دو بتاتی ہے۔
آگے لکھا ہے۔
’’ اور خدا وند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا۔کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔‘‘ (پیدائش باب ۲ آیت ۱۶و۱۷)
گویا خدا نے عدن کے باغ میں ہر قسم کے درخت لگائے اور درمیان میں حیات اور نیک و بد کی پہچان کا درخت لگایا اور آدم سے کہا کہ تجھے اور تو تمام درختوں کے پھل کھانے کی اجازت ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت میں سے کچھ نہ کھانا ۔ اگر کھائو گے تو مر جائو گے۔ آگے حوا کی روایت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے کہا ’’ جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے۔‘‘ ( پیداش باب ۳ آیت ۳)
غرض پہلے تو بائبل کی اپنی روایت ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم سے یہ کہا کہ اس نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کچھ نہ کھانا ورنہ مر جائو گے اور پھر حوا کی روایت نے بھی اس کی تصدیق کر دی کہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا تھا کہ نہ اس درخت کے پھل کو کھانا اور نہ اسے چھونا ورنہ مر جائو گے۔
اب آدم کے پاس شیطان آتا ہے (شیطان کے لئے بائبل نے سانپ کا لفظ استعمال کیا ہے) وہ آ کر کیا کہتا ہے بائبل کہتی ہے کہ -:
’’ سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہر گز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک وبد کے جاننے والے بن جائو گے۔‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۵)
ان روایتوں پرغور کر کے دیکھیںتو نہ آدم کا گناہ نظر آتا ہے نہ شیطان کا۔ بلکہ سارا گناہ نعوذ باللہ خدا کا نظر آتا ہے ۔ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ درخت زندگی کا درخت اور نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا یعنی اس درخت سے زندگی حاصل ہوتی تھی اور اس درخت سے نیک وبد کے پہچاننے کی طاقت حاصل ہوتی تھی مگر بائبل کہتی ہے کہ خدا نے آدم سے یہ کہا کہ -:
’’ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا ‘‘ (پیدائش باب ۲ آیت ۱۷)
گویا خدا نے آدم سے جھوٹ بولا ۔ درخت تو وہ زندگی کا تھا درخت تو وہ علم کی ترقی کا تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ جس روز تو نے اس میںسے کچھ کھایا تو مر جائے گا۔ مر نے کے معنے جسمانی بھی ہوسکتے ہیں اور روحانی بھی۔ لیکن کوئی معنے لے لئے جائیں ۔ دونوں صورتوں میں خدا تعالیٰ کی یہ بات بالکل غلط ثابت ہوتی ہے۔ اگر روحانی موت مراد لو تو یہ بھی جھوٹ ہے۔ کیونکہ نیک وبد کی پہچان ؎سے انسان کی روحانی موت نہیں ہوتی بلکہ اسے روحانی زندگی ملتی ہے اور اگر جسمانی موت مراد لو تو یہ بھی جھوٹ ہے ۔ کیونکہ وہ زندگی کا درخت تھا۔ جس کے کھانے سے موت نہیں آ سکتی تھی۔ غرض بائبل کے خدا نے آدم کو دھوکا دیا کہ وہ درخت جو زندگی بخشنے والا تھا ۔ وہ درخت جو عقل پیدا کرنے والا تھا اس کے متعلق یہ کہا کہ اس کا پھل نہ کھائو۔ ورنہ مر جائو گے اور حوا بھی یہی کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ ’’تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے‘‘ ( پیدائش باب ۳ آیت ۳)
صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے نعوذ باللہ من ذالک غلط بیانی کی اور آدم کو دھوکا دیا اس کے مقابلہ میں جب شیطان نے کہا کہ
’’ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جائو گے۔ ‘‘ ( پیدائش باب ۳۱ آیت ۵)
تو اس میں کوئی جھوٹ نہیںتھا۔ دونوں باتیں وہی تھیں جو اس درخت کے خواص میںشامل تھیں ۔ وہ حیات کا درخت تھا اور وہ نیک و بد کی پہچان کا درخت تھا ۔ یعنی اس کے کھانے سے زندگی بھی ملتی تھی اور اس کے کھانے سے نیک وبد کے پہچاننے کی قابلیت بھی پیدا ہوتی تھی۔ پس شیطان نے آدم کو دھوکا نہیں دیا بلکہ بائبل کی رو سے خود خدا نے نعوذ باللہ آدم کو دھوکا دیا پھر اور آگے دیکھو جب آدم اور حوا نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو کیا وہ مر گئے؟وہ مرے نہیں بلکہ زندہ رہے اور شیطان کی بات ہی سچی نکلی کہ ’’ تم ہرگز نہ مرو گے‘‘ خدا تعالیٰ کی یہ بات کہ ’’ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا ‘‘ غلط نکلی۔ اسی طرح وہ اس درخت کو کھا کر جیسا کہ بائبل میں سے آگے ذکر آتا ہے نیک و بد کو بھی پہچاننے لگ گئے ۔ پس بائبل کے رو سے آدم اور شیطان کا کوئی قصور نہیں خود خدا نے ان کو دھوکا دیا ۔ آدم نے کوشش کی کہ وہ نیک وبد کو پہچاننے لگے اور آدمی بن جائے اور اس کو دنیا کا کوئی شخص بدی نہیں کہہ سکتا ۔ آدم نے نیکی کے راستہ میں ترقی کرنے کی کوشش کی اور شیطان نے کہا کہ خدا تمہیں دھوکا دے رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے اس کے کھانے سے تم مر جائو گے حالانکہ تم مرو گے نہیں بلکہ زندہ رہو گے او رپھر اس کے کھانے سے تمہارے اندر عقل پیدا ہو جائے گی اور تمہیں سمجھ آ جائے گی کہ نیکی کیا چیز ہے اور بدی کیا چیز ہے اور بائبل خود مانتی ہے کہ اس درخت کا پھل کھانے سے ان کے اندر عقل پیدا ہو گئی اور وہ نیک و بد کو پہچاننے لگ گئے۔پس نہ آدم نے گناہ کیا اور نہ شیطان نے۔ گناہ کا مرتکب صرف ایک ہی ہے اور وہ بائبل کا خدا ہے جس نے حیات کے درخت کو جھوٹ بول کر موت کا درخت ظاہر کیا اور کہا کہ اس کے کھانے سے تم مر جائو گے۔ اور یہ مرنا یا جسمانی ہو سکتا تھا یا روحانی مگر دونوں باتیں غلط تھیں۔ جسمانی لحاظ سے بھی وہ مر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ حیات کا درخت تھا اور روحانی لحاظ سے بھی وہ مر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا یعنی انسان کو ایک نئی روحانی زندگی بخشنے والا تھا۔ پس اگر گناہ کیا تو آدم نے نہیں کیا بلکہ نعو ذباللہ خدا نے کیا اور آدم کو دھوکا دیا۔
یہاں عیسائیت یہ نہیں کہہ سکتی کہ خدا باپ نے جھوٹ بولا ہے خدا بیٹے نے جھوٹ نہیںبولا۔ کیونکہ عیسائیت میں جب خدا تعالیٰ کا ذکر ہو تو اس سے مراد قانیم ثلاثہ ہوتے ہیں۔ باپ خدا بیٹے سے جدا نہیں ۔ پس جب باپ خدا نے جھوٹ بولا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ بیٹے نے بھی جھوٹ بولا اور بیٹا روح القدس سے جدا نہیں ۔ پس جب باپ خدا نے جھوٹ بولا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ بیٹے نے بھی جھوٹ بولا اور روح القدس نے بھی جھوٹ بولا۔
پس اگر گناہ ورثہ میں آیا ہے تو بائبل کی رو سے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آدم گنہگار نہ تھا بلکہ خدا یا دوسرے لفظوں میں یسوع گنہگار تھا جس نے نعوذبا للہ من ذالک جھوٹ بولا اور اسی پر سارا الزام آتا ہے۔ بہرحال بائبل نے خدا تعالیٰ کو ایسی بھیانک شکل میںپیش کیا ہے جو نہایت خطرناک اور افسوسناک ہے اور ان حوالجات کی موجوگی میں یسوع ہرگز نجات دہندہ نہیں کہلا سکتا ۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جھوٹ بولنے والا اور دوسرے کو دھوکا اور فریب دینے والا نجات دہندہ ہو سکے ۔ بائبل بتاتی ہے کہ خدا نے جھوٹ بول کر آدم سے کہا کہ تم اس درخت کا پھل کھانے سے مر جائو گے اور تمہیں نقصان پہنچے گا ۔ حالانکہ وہ زندگی کا درخت تھا وہ نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا اس کے کھانے سے نہ جسمانی لحاظ سے آدم مر سکتا تھا اور نہ روحانی لحاظ سے مر سکتا تھا۔
پھر آدم کے گنہگار ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ اسے جو غلطی لگی وہ محض اجتہادی تھی ۔ قرآن کریم نے بھی یہی بتایا ہے کہ آدم سے اجتہادی غلطی ہو گئی اور اگر ہم بائبل کے واقعہ کو صحیح مانیں تب بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ آدم سے اجتہادی غلطی ہوئی ۔ پیدائش باب ۱ آیت ۲۷ ‘۲۸ میں لکھا ہے-:
’’ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ۔ خدا کی صورت پر اس کو پیدا کیا۔ نر و ناری ان کو پیدا کیا۔‘‘
یعنی انسان جس کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اس میں مرد بھی شامل ہے اور عورت بھی۔ انسان مرد بھی خدا کی صورت پر بنایا گیا ہے اور انسان عورت بھی خدا کی صورت پر بنائی گئی ہے ۔ اب خدا کی صورت پربنانے کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ خدا تعالیٰ کے بھی اسی طرح ناک ، کان ، آنکھ اور منہ وغیرہ ہیں بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات آدم میں آ گئیں اور جب خدا تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور بتایا کہ تمہیں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تم میری صفات کے مظہر بنو تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ نیک وبد کے پہچاننے کی صفت آدم میں نہ آتی۔ پس شیطان نے آدم سے کہا کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے اور اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ نیک و بد کو پہچاننے کی طاقت رکھتا ہے ۔ پس جس طرح خدا نیک وبد کو پہچانتا ہے تمہیں بھی نیک وبد کو پہچاننا چاہئے اور اس کا طریق یہی ہے کہ اس نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھا لو۔ اگر تم اسے کھائو گے نہیں تو نیک اور بد کی پہچان کس طرح کرو گے ۔ اور جب نیک اور بد کو پہچاننے کی قابلیت تم میں پیدا نہ ہو گی تو تم خدا تعالیٰ کی صفات کے کامل مظہر نہیں بن سکو گے ۔ پس ضروری ہے کہ تم اس درخت کا پھل کھائو یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ اس درخت کا پھل کھا کر خدا تعالیٰ کی طرح ہو جائو یا تیسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ اگر تم اس درخت کا پھل کھا لو گے تو تم اس مقصد کو حاصل کر لوگے جس کیلئے خدا نے تم کو پیدا کیا ہے۔
فرض کرو تمام واقعہ اسی طرح ہوا ہو تو اس کے بعد آدم کو اگر اجتہادی غلطی لگ گئی تو اس میں اس کا قصور کیا تھا۔ ایک شخص آدم کے پاس آتا ہے اور آ کر کہتا ہے کہ تم کو معلوم ہے کہ تمہیں خدا کی شکل پر پیدا کیا گیا ہے اور تم کو معلوم ہے کہ اس کے معنے صرف اتنے ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہو اور تم کو پتہ ہے کہ اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ نیک وبد کو پہچانتا ہے پس اگر تم نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھا لو گے تو تم اپنے مقصد ِپیدائش کو حاصل کر لو گے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر بن جائو گے۔ یہ اتنی زبردست دلیل تھی کہ آدم اجتہادی غلطی میں مبتلا ہو گیا اور اس نے سمجھاکہ یہ جو کچھ کہا جا رہا ہے بالکل درست ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں آدم کے ایک دفعہ دھوکا کھانے کے باوجود اگر آج بھی اسی رنگ میں لوگوں کے سامنے دلیل پیش کی جائے تو کئی لوگ آج بھی دھوکا کھا جائیں گے اور سمجھیں گے کہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی تھا کہ اس درخت کا پھل کھا لیا جائے یہ منشاء نہیں تھا کہ اسے نہ کھایا جائے۔
غرض آدم کوغلطی لگنے کا امکان بائبل کے رو سے موجود ہے ۔ خود بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ نیک وبد کو پہچاننا خدا تعالیٰ اپنی صفت قرار دیتا ہے۔ پیدائش باب ۳ آیت ۲۲ میں لکھا ہے:۔
’’ اور خداوند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک وبد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا‘‘
اس جگہ ’’ ہم ‘‘ سے عیسائیوں کے نزدیک اقانیم ثلاثہ مراد ہیں یعنی ہم اقانیم ثلاثہ میں سے ایک کی مانند اور یہودیوں کے نزدیک ’’ہم ‘‘ سے خدا اور اس کے فرشتے مراد ہیں کیونکہ جیسے خدا نیک وبد کو پہچانتا ہے اسی طرح فرشتے بھی نیک اور بد کو پہچانتے ہیں پس یہودیوں کے نزدیک تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ جیسے خدا اور اس کے فرشتے نیکی اور بدی کو پہچانتے ہیں اسی طرح آدم بھی نیکی اور بدی کو پہچاننے لگ گیا اور عیسائیوں کے نزدیک اس کے یہ معنے ہونگے کہ جیسے باپ خد ااور بیٹا خدا اور روح القدس خدا نیکی اور بدی کو پہچانتے ہیں ۔ اسی طرح آدم بھی نیکی اور بدی کو پہچاننے لگ گیا۔
اس حوالہ سے صاف پتہ لگ گیا کہ نیک اور بد کو پہچاننا خدا تعالیٰ کی صفت ہے اور جو اسے پہچانتا ہے وہ خدا جیسا ہو جاتا ہے یا خدا کی صورت پر ہو جاتا ہے یا بائبل کی رو سے اس صورت پر ہو جاتا ہے جس صورت پر اسے خدا نے پیدا کیا۔
ضمناً میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ حیات کے درخت کے بارہ میں بائبل کا خیال عجیب مضحکہ خیز ہے ۔ پیدائش باب ۲ آیت ۱۰و ۱۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درخت ایک ہی تھا لکھا ہے خدا نے
’’ باغ کے بیج میں حیات کا درخت اور نیک وبد کی پہچان کا درخت بھی لگایا۔‘‘
یہاں مفرد لفظ ’’ لگایا ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ’’لگائے‘‘ جمع کا لفظ ہے وہ یہاں استعمال نہیںکیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی درخت میں یہ دونوں صفات تھیں ۔ اس کے کھانے سے حیات بھی ملتی تھی اور اس کے کھانے سے نیک و بد کے پہچاننے کی طاقت بھی پیدا ہوتی تھی۔
اس کے بعد آیت ۱۷ میں لکھا ہے۔
’’ خدا وند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔‘‘
یہاں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ ایک درخت ہے اور ایک درخت سے ہی آدم کو روکا گیا۔ اگر دو درخت ہوتے تو دونوں سے روکنا چاہئے تھا مگر وہ منع کرتا ہے ایک درخت سے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی حیات کا درخت تھا اور وہی نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا لیکن پیدائش باب ۳ آیت ۲۲ میں لکھا ہے۔
’’ اور خدا وند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے ۔ اس لئے خدا وند خدا نے اس کو باغ عدن سے باہر کر دیا۔‘‘
یہاں دو درخت ہو گئے نیک وبد کی پہچان کا درخت الگ الگ ہو گیا اور حیات کا درخت الگ ہو گیا۔ چونکہ آدم نے نیک وبد کی پہچان کے درخت میں سے کھا کر نیک وبد کو پہچاننے کی قابلیت پیدا کر لی تھی اس لئے خدا نے اسے باغ عدن سے باہر نکال دیا کہ کہیں وہ حیات کے درخت کا پھل بھی نہ کھا لے اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث نہ ہو جائے۔
پھر پیدائش باب ۲ آیت ۱۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ سے پہلے آدم کے لئے موت مقرر نہ تھی کیونکہ لکھا ہے۔
’’ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا‘‘
جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر آدم اور حوا اس میں سے نہیں کھائیں گے توہ نہیںمریں گے پس موت اس درخت میں سے کھانے کا نتیجہ تھی ۔ اگر نہ کھاتے تو وہ کبھی نہ مرتے۔ اسی طرح پیدائش باب ۳ آیت ۴ میں آتا ہے کہ
’’ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے‘‘
اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ موت کو اس درخت کا پھل کھانے کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح رومیوں باب ۵ آیت ۱۲ میں لکھا ہے کہ
’’ گناہ کے سبب سے موت آئی۔‘‘
پھر یعقوب باب ۱آیت ۱۵ میں لکھا ہے:۔
ان حوالہ جات سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بائبل ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ اگر تم نے اس درخت میں سے کچھ کھایا تو مر جائو گے ۔ حالانکہ تھا وہ درخت حیات کا اور حیات کے درخت میں سے کھا کر انسان مرتا نہیں جیتا ہے۔
دوسری طرف رومیوں اور یعقوب میں لکھا ہے کہ موت گناہ کے نتیجہ میں آئی یعنی اگر وہ گناہ نہ کرتے تو نہ مرتے۔ اب ہم اس کے ساتھ پیدائش باب ۳ آیت ۲۲ کو ملاتے ہیں تو حیرت آتی ہے اس میں یہ ذکر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو باغ عدن میں سے نکال دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ حیات کے درخت میں سے کچھ کھا کر ہمیشہ زندہ رہے۔ حالانکہ جب گناہ کا نتیجہ موت تھا تو چونکہ وہ پہلے نیک وبد کے درخت میںسے کھا کے گنہگار بن چکا تھا اس لئے خواہ دس ہزار دفعہ بھی وہ اس درخت میں سے کھاتا وہ زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔
پس یا تو یہ کہنا چاہئے کہ گناہ کا نتیجہ موت نہیں اس درخت کے کھانے کا نتیجہ زندگی ہے لیکن ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ گناہ کا نتیجہ زندگی ہے لیکن ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ گناہ کا نتیجہ موت ہے اور د وسری طرف بائبل یہ کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو باغ عدن میں سے نکال دیا تا ایسا نہ ہو کہ وہ درخت میںسے کچھ کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے ۔ معلوم ہوا کہ گناہ کا نتیجہ موت نہیں بلکہ اس درخت کا پھل کھانے کے نتیجہ میں گناہ کے باوجود انسان زندہ رہ سکتا تھا۔
پھر یہ سوال ہے کہ آدم کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے گناہ کیا حالانکہ آدم کے باپ نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا نہ آدم کی ماں نے کوئی گناہ کیا تھا۔ اگر بغیر اس کے کہ ماں باپ نے کوئی گناہ کیا ہو بیٹا گناہ کر سکتا ہے تو بغیر اس کے ماں باپ نے کوئی نیکی کی ہو بیٹا نیکی بھی کر سکتا ہے اور اگر آدم نیکی کر سکتا تھا تو باقی لوگ کیوں نہیں کر سکتے؟ معلوم ہوا کہ اس میں ورثہ کا کوئی سوال نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ ترقی بھی کر سکتا ہے اور تنزل بھی کر سکتا ہے ۔ آدم کا باپ گنہگار نہیں تھا بلکہ اس کا تو کوئی باپ تھا ہی نہیں۔ مگر آدم نے گناہ کر لیا۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ گناہ اور نیکی دونوں خاص حالات میں ظاہر ہو سکتے ہیں اور ان چیزوں میں ورثہ کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔
پس کفارہ ایک بلا ضرورت شئے ہے۔
پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم کا گناہ کس طرح بخشا گیا؟ اگر توبہ سے بخشا گیا تو اسی طرح اولاد کا گناہ بھی بخشا جا سکتا ہے اور کفارہ کی کوئی ضرورت تسلیم نہیں کی جا سکتی۔
غرض وہ ساری بنیاد جس پر کفارہ کی عمارت کھڑی کی گئی ہے اور جس کو مدنظر رکھتے ہوئے عیسائیت کہتی ہے کہ چونکہ انسان گناہ سے خود بخود نجات نہیں پا سکتا اس لئے کفارہ پر ایمان لانا ضروری ہے بائبل اور خود انجیل کی گواہی سے باطل ثابت ہوتی ہے۔
پھر بائبل سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدم کا سارا واقعہ تمثیلی ہے اور اس پر کسی عقیدہ کی بنیاد رکھنا عقل کے سراسر خلاف ہے کیونکہ بائبل میں لکھا ہے کہ جب حوا نے درخت کا پھل کھا لیااور پھر آدم کو بھی دیا۔
’’ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں ‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت۷)
درخت کا پھل کھانے سے ننگا ہو جانا یہ صاف بتاتا ہے کہ اس واقعہ میں تمثیلی زبان اختیار کی گئی ہے ۔
پھر لکھا ہے -:
’’ اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں اور انہوں نے خداوند کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سنی۔‘‘
(پیدائش باب ۳ آیت ۷و ۸)
یہ الفاظ بھی اس واقعہ کے تمثیلی ہونے کی واضح دلیل ہیں ۔ ٹھنڈک اور گرمی پیدا کرنے والا خود خدا ہے اور اسے ان چیزوں کی کوئی احتیاج نہیں ۔یہ نہیں کہ جس طرح لوگ گرمی کے موسم میں کوئٹہ اور مری چلے جاتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کو بھی ضرورت ہے کہ وہ ٹھنڈے وقت باہر نکلا کرے اور گرمی سے اپنے آپ کو بچائے مگربائبل بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ٹھنڈا وقت دیکھ کر اور یہ معلوم کر کے کہ ابھی سورج نہیں نکلا باغ میں پھرنا شروع کر دیا تاکہ گرمی سے اسے تکلیف نہ ہو صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ تمثیلی زبان ہے اور جو کچھ بیان کیا گیا ہے استعارہ کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔
اسی طرح لکھا ہے :۔
’’ اور آدم اور اس کی بیوی نے اپنے آپ کو خداوند کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا۔‘‘ (آیت ۸)
یہ بھی تمثیلی زبان ہے کیونکہ خدا تعالیٰ سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں قرآن کریم میں بھی ذکر آتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ سے مخفی ہو۔ خواہ زمین کی سطح پر کوئی چیز ہو یا تحت الثر ی میں ۔ سب اس کے علم میں ہیں مگر بائبل بتاتی ہے کہ آدم اور حوا باغ کے درختوں میں چھپ گئے تاکہ خدا تعالیٰ انہیں دیکھ نہ سکے۔ یہ الفاظ بھی اس واقعہ کے تمثیلی ہونے کا ثبوت ہیں۔
پھر ایک اور بات لکھی ہے جس سے خدا تعالیٰ کے علم کی محدودیت کا پتہ چلتا ہے لکھا ہے۔
’’ تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور اس سے کہا کہ تو کہاں ہے۔‘‘ (آیت ۹)
گویا وہ خدا جو زمین و آسمان کے ذرہ ذرہ کو جانتا ہے جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں اس نے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ ارے آدم تو کہاں ہے ۔ ارے آدم تو کہاں ہے ۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ تمثیلی زبان ہے ورنہ وہ تو عرش پر بیٹھا ہوا سب کچھ دیکھ رہا ہے اور اگر وہ دیکھ نہیں رہا تو مخلوق کی نگرانی کس طرح کر رہا ہے؟ غرض بائبل بتاتی ہے کہ جب وہ باغ میں چھپ گئے تو خدا تعالیٰ نے انہیں آوازیں دینی شروع کر دیں کہ اے آدم تو کہاں ہے۔
’’ اس نے کہا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا تھا اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا۔‘‘
( پیدائش باب ۳ آیت ۱۰)
کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے آدم کا یہ خیال کر لینا کہ میں باغ میں چھپ کر خدا تعالیٰ کی نظروں سے پوشیدہ ہو جائوں گا یہ بھی عقل کے بالکل خلاف بات ہے۔
غرض یہ حوالہ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ اس جگہ ظاہری واقعہ مراد نہیں بلکہ تمثیلی رنگ میں اس کو بیان کیا گیا ہے اور استعارہ کی زبان اس کے اظہار کے لئے اختیار کی گئی ہے اور تمثیلی کلام اور استعارات ہمیشہ تعبیر طلب ہوتے ہیں اس لحاظ سے یہ بھی ایک تعبیر طلب کلام ہے نہ کہ حقیقی واقعہ۔
پس جس کلام پر اس عقیدہ کی بنیاد رکھی گئی ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور اس کا دل سیاہ ہو گیا ہم کہتے ہیں کہ وہ سارا کلام ہی تمثیلی ہے جیسے خدا تعالیٰ کا باغ میں پھرنا اس کا ٹھنڈے وقت سیرکیلئے آنا۔ آدم کا اسے نظر نہ آنا اور پھر اللہ تعالیٰ کا آدم کو آوازیں دینا اور کہنا اے آدم تو کہاں ہے۔ یہ سب تمثیلی کلام ہے۔ اسی طرح باقی واقعہ بھی تمثیلی ہے پس اس پر کسی مذہبی عقیدہ کی بنیا د رکھنا عقل کے خلاف ہے۔
پھر جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں آدم کا گناہ کر لینا حالانکہ اس کا نہ باپ تھا نہ ماں یہ بھی بتاتا ہے کہ گناہ اور نیکی دونوںخاص حالات میں ظاہر بھی ہو سکتے ہیں اور مٹ بھی سکتے ہیں ۔ پس کفارہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اگر باہر سے نیکی نہیں آ سکتی تو باہر سے گناہ بھی نہیں آ سکتا۔ اور اگر گناہ باہر سے آ سکتا ہے تو نیکی بھی آ سکتی ہے ۔ اگر آدم جس کا نہ باپ تھا نہ ماں اس کے اندر باہر سے گناہ آگیا تو اولاد میں باہر سے نیکی بھی آ سکتی ہے ۔ یہ دونوں چیزیں مساوی سمجھی جائیں گی۔
پھر بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ آدم گناہ کے باوجود خدا تعالیٰ کا مقدس رہا ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب عیسائیوں کی طرف سے یہی دیا جاتا ہے کہ آدم کا گناہ بخشا گیا۔ ہم کہتے ہیںاسی طرح اولاد کا گناہ بھی بخشا جا سکتا ہے ان کیلئے کسی کفارہ کی ضرورت نہیں رہتی۔
کفارہ کے مسئلہ کو ثابت کرنے کیلئے یا انسان کے نفس کے ایسے خراب ہو جانے کے لئے کہ اس کی درستی اور اصلاح ناممکن ہو یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ آدم کے گناہ کے بعد انسان خراب ہو گیا اور وہ نیکی پر قائم نہیں رہ سکا۔ اگر بائبل سے یہ ثابت ہو کہ انسان آدم کے گناہ کے بعد نیکی پر قائم نہیں رہ سکا تو پھر بائبل کے مطابق کفارہ کو درست تسلیم کرنا پڑے گا لیکن اگر بائبل سے ہی پتہ لگے کہ آدم کے گناہ کے بعد (جسے قرآن کریم گناہ قرار نہیںدیتا) انسان خراب نہیں ہو ابلکہ وہ نیکی پر قائم رہا تو پھر کفارے کی بنیاد ہی باطل ہو جاتی ہے ۔ جب کفارہ کے بغیر انسان نیک بھی ہو سکتا تھا اور گناہ سے بھی بچ سکتا تھا تو اس کی نجات کیلئے کسی نئی چیز کی ضرورت نہ رہی۔ اس بارہ میں ہم انجیل ہی کی تعلیم لے لیتے ہیں ۔ رومیوں باب ۵ آیت ۱۴ میں لکھا ہے -:
’’آدم سے لے کر موسیٰ تک موت نے ان پر بھی بادشاہی کی جنہوں نے اس آدم کی نافرمانی کی طرح جو آنے والے کا مثیل تھا گناہ نہ کیا تھا۔‘‘ (رومیوں باب ۵ آیت ۱۴ )
اس جگہ آنے والے مسیح سے مراد مسیح ہے او رآنے والے کا مثیل آدم کو قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آدم سے لے کر موسیٰ تک موت نے ان پر بھی بادشاہت کی جنہوں نے آدم کی طرح (جو مسیح کا مثیل تھا) گناہ نہیں کیا تھا ۔ گویا پولوس مانتا ہے کہ آدم سے لے کر موسیٰ تک بہت سے لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے گناہ نہیں کیا تھااور جب انہوں نے گناہ نہیں کیا تھا تو یہ ثابت ہوا کہ انسان گناہ سے بچ سکتا ہے ۔ بہرحال انجیل مانتی ہے کہ آدم کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا لیکن لطیفہ یہ ہے کہ چونکہ یہ مسئلہ حضرت مسیح کی صلیب کے واقعہ کے بعد جب لوگوں کی طرف سے اعتراضات ہوئے تو گھبراہٹ میں جلدی سے بنا لیا گیا تھا ۔ اسی لئے حواری کبھی کچھ کہہ دیتے تھے اور کبھی کچھ مثلاً یہی فقرہ جس کو اوپر درج کیا گیا ہے صاف طور پر بتاتا ہے کہ آدم سے لے کر موسیٰ تک ایسے کئی لوگ گزرے ہیں جنہوں نے گناہ نہیں کیا گویا آدم کے گناہ کرنے کے باوجود اس کی اولاد کو ورثہ میں گناہ نہیں ملا۔ لیکن اسی کتاب کے اسی باب کی بارہویں آیت میں لکھا ہے کہ
’’ یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سب نے گناہ کیا ‘‘
یعنی آدم کو گناہ کی سزا موت ملی ۔ اور آدم کی وجہ سے موت سب آدمیوں میں پھیل گئی ۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیا۔
’’ کیونکہ شریعت کے دئیے جانے تک دنیا میں گناہ تو تھا مگر جہاں شریعت نہیں وہاں گناہ محسوب نہیں ہوتا۔‘‘
(رومیوں باب ۵ آیت ۱۳)
گویا پولوس ایک ہی باب میں دو آیتیں لکھتا ہے پہلے تو یہ لکھتا ہے کہ چونکہ سب نے گناہ کیا اس لئے موت سب آدمیوں میں پھیل گئی (کیونکہ موت کے متعلق ان کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ گناہ کے نتیجہ میں آئی ہے) لیکن آیت ۱۴ میں جا کر کہہ دیا کہ
’’ موت نے ان پر بھی بادشاہی کی جنہوں نے اس آدم کی نافرمانی کی طرح جو آنے والے کا مثیل تھا گناہ نہ کیا تھا۔‘‘
لیکن اب انہیں ایک اور مشکل پیش آگئی اور وہ یہ کہ مسیحیوں کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شریعت شروع ہوئی ہے پہلے نہیں۔ جب پہلے کوئی شریعت ہی نہیں تھی تو گناہ کہاں تھا؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ
’’ شریعت کے دئیے جانے تک دنیا میں گناہ تو تھا مگر جہاں شریعت نہیں وہاں گناہ محسوب نہیں ہوتا۔‘‘ (رومیوں باب ۵ آیت ۱۳)
گویا ان کے نزدیک شریعت اور گناہ دو اگ الگ چیزیں ہیں اور یہ بالکل درست ہے اس میں ہم بھی ان سے متفق ہیں۔ شریعت الفاظ میں بیان کرتی ہے کہ اس طرح نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہو جائے گا اور گناہ تب ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرتا ہے جس سے شریعت نے بنی نوع انسان کو بصراحت روکا ہو ورنہ شریعت کے نزول سے پہلے گناہ محسوب نہیں ہوتا پس اتنی بات تو درست ہے۔ لیکن خواہ شریعت موجود نہ ہو جو چیز بری ہے وہ بہرحال بری ہو گی۔ مثلاً قرآن کریم نازل ہوا اور اس نے کہا کہ ظلم نہ کرو۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے اور ہم نے سمجھ لیا کہ ظلم کرنا اچھا نہیں لیکن قرآن کریم میں یہ حکم نازل نہ ہوتا اور یہ نہ کہا جاتا کہ ظلم نہ کرو ۔ تو پھر بھی ظلم کرنے والا ایک برے فعل کا مرتکب ہوتا۔ یہی حال اور برائیوں کا ہے۔ شریعت نازل نہ ہوتی تو پھر بھی برائیاں، برائیاں ہی رہتیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا کہ ایک فعل کودس بیس آدمی برا کہتے اور دس بیس آدمی برا نہ کہتے۔ پچاس ساٹھ کہتے کہ یہ نیکی ہے اور پچاس ساٹھ کہتے یہ نیکی نہیں ۔ بہرحال احساس برائی کا اور احساس نیکی کا یہ شریعت کے ساتھ تعلق نہیںرکھتا فطرت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ یہی چیز پولولس پیش کرتا ہے کہ دنیا میںگناہ تھا لیکن جہاں شریعت نہیں وہاں گناہ محسوب نہیں ہوتا تھااور یہ نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ گناہ ہے ۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر کسی موقعہ پر شریعت نہ ہو تو ہر برا فعل گناہ تو ہوگا لیکن وہ گناہ شریعت کے مطابق محسوسب نہیں ہوگا۔ مثلاً ایک جگہ پر شریعت موجود نہیں اور لوگ نمازیں نہیں پڑھتے۔ فرض کرو وہ جنگلوں میںرہتے ہیں یا دور پہاڑوں پر رہتے ہیں اور انہیں پتہ نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺمبعوث ہو چکے ہیں تو خدا تعالیٰ ان سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے اسلام کی بتائی ہوئی نماز کیوں نہیں پڑھی یا تم نے اسلام کا بتایا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھا۔ کیونکہ اس نماز اور روزہ کا تو انہیںکچھ پتہ ہی نہ تھا ۔ حدیثوں میں صاف طور پر آتا ہے کہ قیامت کے دن چار قسم کے لوگ شرعی مؤاخذہ سے محفوظ ہونگے۔ اول مادر زاد بہرے ۔ دوم پاگل ۔ سوم پیر فرتوت۔ چہارم وہ لوگ جن تک اسلام کی تبلیغ نہیں پہنچی اور وہ اسی حالت میں فوت ہو گئے۔ ایسے لوگوں کے امتحان کے لئے ان کی طرف کوئی اور رسول مبعوث کیا جائے گا۔ اگر وہ اسے مان لیں گے تو نجات پا جائیں گے اور اگر نہیں مانیں گے تو سزا پائیں گے (روح المعانی جلد ۴ زیر آیت و ماکنا معذبین حتی نبعث رسولا) اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم سے استدلال کر کے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ بعض لوگوں کا محاسبہ فطرت کے مطابق ہو گا یعنی قرآن کریم کی شریعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا محاسبہ نہیں ہوگا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت کے اندر جو باتیں رکھی ہیں ان کے ماتحت ان کا محاسبہ ہوگا۔ انسانی فطرت بھی بعض چیزوں کو گناہ قرار دیتی ہے بغیر اس کے کہ شریعت انسان کی راہنمائی کرے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک چور آپ کے پاس علاج کیلئے آیا۔ آپ نے اسے نصیحت کی کہ تم لوگوں کا مال لوٹ لیتے ہو یہ بہت بری بات ہے تمہیں اس قسم کی حرام کمائی سے بچنا چاہئے۔ اس نصیحت کو سن کر وہ کہنے لگا واہ مولوی صاحب آپ نے بھی مولویوں والی ہی بات کی۔ بھلا ہمارے جیسا بھی کوئی حلال مال کماتا ہے آپ تھوڑی دیر نبض پر ہاتھ رکھ کر فیس وصول کر لیتے ہیں اور ہم سردی کے موسم میں ٹھٹھرتے ہوئے اور اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھے ہوئے جاتے ہیں۔ کس طرح ہمیںپولیس کا ڈر ہوتا ہے کس طرح قدم قدم پر ہمیں پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے مگر ہم تمام مصیبتوں کو برداشت کرنے کے بعد جاتے ہیں اور اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال کر روپیہ لاتے ہیں۔ بھلا ہم سے زیادہ حلال کمائی اور کسی کی ہو سکتی ہے؟ آ پ فرماتے تھے یہ سن کر میں نے جھٹ اسے اور باتوں میں لگا دیا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اس سے پوچھا کہ تم چوری کس طرح کرتے ہو؟ وہ کہنے لگا ہم سات آٹھ آدمی مل کر چوری کرتے ہیں ۔ ایک گھر کی ٹوہ لگانے والا ہوتا ہے جو بتاتا ہے کہ فلاں گھر میں اتنا مال ہے ایک سیندھ لگانے کا مشاق ہوتا ہے ایک باہر کھڑا پہرہ دیتا رہتا ہے دو آدمی گلی کے سروں پر کھڑے رہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ادھر آئے تو وہ فوراً بتا دیں ۔ ایک آدمی اندر جانے والا ہوتا ہے اور ایک آدمی اچھا لباس پہن کر دور کھڑا ہوتا ہے جس کے پاس چوری کا تمام مال ہم جمع کرتے جاتے ہیں تاکہ اگر کوئی د یکھ بھی لے تو شبہ نہ کرے بلکہ سمجھے کہ یہ کوئی شریف آدمی ہے جو اپنا مال لئے کھڑ اہے باقیوں نے اپنے جسم پر تیلا ملا ہوا ہوتا ہے اور وہ لنگوٹ باندھ کر اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر ایک سنار ہوتا ہے جس کو ہم تمام زیورات دے دیتے ہیں وہ سونا گلا کر ہمیں دے دیتا ہے اور ہم سب آپس میں مل کر تقسیم کر لیتے ہیں ۔ جب وہ یہاں تک پہنچا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے میںنے کہا اگر وہ سنارا سارامال لے جائے اور تمہیں کچھ نہ دے تو پھر تم کیا کرو؟ اس پر وہ بے اختیار کہنے لگا۔ کیا وہ اتنا بے ایمان ہو جائے گا کہ دوسروں کا مال کھا جائے؟ میں نے کہا معلوم ہوتا ہے تمہاری نگاہ میں بھی ایمان اور بے ایمانی میں کچھ فرق ضرور ہے اور تمہاری فطرت سمجھتی ہے کہ فلاں فعل بے ایمانی ہے اور فلاں فعل نیکی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام بھی یہی فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی فطرت پر ایمان ہو جائے گا اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ تم نے وہ نماز کیوں نہیں پڑھی جو محمد رسول اللہ ﷺنے بتائی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ یہ کہے گا کہ تمہاری فطرت میں کسی نہ کسی ہستی کی عبادت کا مادہ رکھا گیا تھا تم یہ بتائو کہ اس فطرت کی آواز کے مطابق تم نے عبادت کی تھی یا نہیں ؟یا مثلاً جھوٹ ہے ، چوری ہے، ڈاکہ ہے، دوسرے کا مال تو انسان کھا لیتا ہے لیکن جب اس کا اپنا مال کوئی شخص اٹھا لیتا ہے تو کہتا ہے فلاں بڑا بے ایمان ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کی چیز کھانا یہ بھی بے ایمانی سمجھتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ شریعت کے مطابق وہ مجرم ہوگا اور اسے سزا دی جائے گی پس یہ مسئلہ تو ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسئلہ درست ہے تو پھر کفارہ کہاں رہا؟
انجیل اگر یہ کہتی کہ فطرت انسانی *** ہے تو پھر یہ مسئلہ قائم رہ جاتا لیکن انجیل یہ کہتی ہے کہ شریعت *** ہے (گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳) یعنی وہ جو انسان کا نفس کسی فعل کو گناہ قرار دیتا ہے انجیل اس کے خلاف نہیں بلکہ انجیل کہتی ہے کہ شریعت *** ہے یعنی شریعت میں ایسے احکام دئیے گئے ہیں جن پر لوگ عمل نہیں کر سکتے اور وہ کہتی ہے کہ اسی وجہ سے مسیح نے شریعت اڑا دی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موسیٰ ؑسے پہلے بھی شریعت اڑی ہوئی تھی اور انسان کی نجات کے لئے کسی کفارہ کی ضرورت نہیں تھی بلکہ فطرت کے مطابق عمل کرکے وہ نجات پا جاتا تھا یا فطرت کے خلاف عمل کر کے سزا پا لیتا تھا۔ پھر اب کسی کفارہ کی کیا ضرورت ہے؟ گویا اصل مسئلہ صرف اتنا بنا کہ مو سیٰؑ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے شریعت بھیج کر لوگوں کو مصیبت میں ڈال دیا ۔ مگر اس کا علاج کفارہ نہیں تھا۔ اصل علاج صرف اتنا تھا کہ شریعت کو منسوخ کر دیا جاتا۔ یہ چاہے کتنی ہی بیوقوفی کی بات ہوتی مگر بہرحال جہاں تک علاج کا سوال ہے اصل علاج صرف اتنا تھا ۔ کیونکہ رومیوں کے حوالہ سے صاف ماننا پڑتا ہے کہ موسیٰؑ سے پہلے شریعت نہیں تھی اور بوجہ شریعت نہ ہونے کے لوگوں کو شریعت کے ماتحت گنہگار نہیں قرار دیا جاسکتا تھا اور جب شریعت کے مطابق وہ گنہگار نہیں تھے تو شریعت انہیں سزا بھی نہیں دلا سکتی تھی اور پھر رومیوں کے حوالہ کے مطابق ایسے لوگ بھی تھے جو گنہگار نہیں تھے یعنی فطرت کے گنہگار بھی نہیں تھے۔
ان سارے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو خرابی پیدا ہوئی وہ آدم کے گناہ کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کی اس غلطی سے ہوئی کہ اس نے موسیٰ ؑ کے ذریعہ ایک شریعت نازل کر دی ۔ جب لوگ اس پر عمل نہ کر سکے اور ان کی سزا کا سوال آیاتو اللہ تعالیٰ نے یسوع مسیح کو بھیج کر شریعت کو ہمیشہ کیلے اڑا دیا ۔ حالانکہ اس کیلئے یسوع مسیح کو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی جس خدا نے موسیٰؑ کو شریعت دی تھی وہی یوشعؑ کو کہہ دیتا کہ چونکہ لوگ اس پر عمل نہیں کر سکتے اس لئے میں اسے منسوخ کر تا ہوں۔
پھر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر گناہ ہوتا ہے مگر محسوب نہیں ہوتا تو پھر خدا تعالیٰ کا عدل کہاں رہا۔ کفارہ کی دوسری بنیاد عدل پر رکھی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ بنی نوع انسان کو گناہوں کی سزا نہ دے تو وہ عادل نہیں رہتا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ صرف نام بدل دینے سے تو کوئی چیز اپنی ماہیت سے الگ نہیں ہو سکتی۔ایک چور چوری کر رہا ہے اور ہم کہتے ہیں اس کو کوئی سزا نہیں ملے گی کیونکہ ابھی موسیٰؑ کی شریعت نازل نہیں ہوئی۔ اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص چوری کرتا ہے اور ہم کہتے ہیں یہ دائمی جہنم میں جائے گا کیونکہ موسٰیؑ کی شریعت اس کو گنہگار قرار دیتی ہے۔ حالانکہ چیز ایک ہے اس نے بھی اسی طرح مال اٹھایا ہے جس طرح پہلے نے اٹھایا ہے ۔ مگر ایک کے فعل کو ہم اس لئے جرم قرار نہیں دیتے کہ موسیٰؑ کی شریعت ابھی نازل نہیں ہوئی اور ایک کو ہم اس لئے جرم قرار دے دیتے ہیں کہ موسیٰؑ کی شریعت نازل ہو چکی ہے۔ ایک کو ہم چھوڑ دیتے ہیں اور دوسرے کو ہم پکڑ لیتے ہیں حالانکہ دونوں سے ایک ہی فعل سرزد ہوا ہے ۔ یہ کہاں کا عدل ہے اور کونسا انصاف اس کی اجازت دیتا ہے۔ بہرحال عدل تو پھر بھی نہ رہا۔ یا مثلاً جھوٹ بولنا یا لوگوں پر ظلم کرنا ہے اگر اس سے ہم لوگوں کو منع نہیں کرتے یا یہ نہیں کہتے کہ فلاں شخص نے جھوٹ بول کر یا ظلم کر کے گناہ کیا تو ان فعلوں کا مرتکب متقی اور پاک دل کس طرح ہو سکتا ہے؟ محض ہمارے نہ روکنے کی وجہ سے۔ محض ہمارے جھوٹے کو گنہگار نہ کہنے کی وجہ سے یا ظالم کو گنہگار نہ کہنے کی وجہ سے یا چور کو گنہگار نہ کہنے کی وجہ سے وہ متقی کس طرح بن سکتا ہے ؟ اور اگر وہ گنہگار نہیں ا ور ایک دوسرا شخص انہی افعال کی وجہ سے گنہگار کہلاتا ہے تو عدل تو پھر بھی قائم نہ رہا۔
یہاں تک تو اصولی اور فلسفیانہ طور پر میں نے بحث کی ہے اب میں یہ بتاتا ہوں کہ عملاً بھی بائبل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میںنیک لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں ۔ حنوک جو حضرت آدم ؑکے پڑپوتے اور نوح کے پردادا تھے ان کے متعلق لکھا ہے۔
’’حنوک تین سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور اس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں اور حنوک کی کل عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور وہ غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اسے اٹھا لیا ۔‘‘ (پیدائش باب ۵ آیت ۲۲ تا ۲۴)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حنوک خدا تعالیٰ کے ساتھ چلتے رہے۔اس کے یہ معنے تو ہو نہیں سکتے کہ حنوک اور خدا دونوں سفر پر اکٹھے رہے اور جس طرح لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ چلو امریکہ دیکھ آئیں یا کسی اور ملک کی سیر کر آئیں اسی طرح وہ تین سو سال تک خدا تعالیٰ کے ساتھ سیریں کرتے رہے۔ یہ بائبل کا ایک محاورہ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ حنوک نیک انسان تھا اور خدا ئی صفات اس نے اپنے اندر پیدا کر لی تھیں یعنی جو کام خدا تعالیٰ کرتا ہے وہی کام حنوک کیا کرتا تھا۔ وہ بڑا رحم کرنے والا تھا ، وہ بڑا حسن سلوک کرنے والا تھا ، وہ ظلم نہیں کرتا تھا ، وہ ہر شخص سے پیار اور محبت سے پیش آتا تھا ، وہ عدل اور انصاف سے کام لیتا تھا ، وہ غرباء کی خبرگیری کیا کرتا تھا ۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی یہ صفات کہ وہ رب ہے رحمن ہے رحیم ہے مالک ہے غفور ہے یہ ساری صفات اس میں بھی پائی جاتی تھیں اور پھر وہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ۔ گویا مسیح کے ساتھ اسے کلی مشابہت تھی اور ویسا ہی مقام حنوک کو حاصل تھا جیسے مسیح کو حاصل ہوا ۔ بلکہ مسیح کو تو ساری زندگی تیس سال ملی مگر حنوک 365سال تک زندہ رہا اور تمام عمر اس نے نیکی اور تقویٰ میں بسر کی۔ اس سے پتہ لگا کہ حنوک جو آدم کا پڑپوتا اور نوح کا پڑدادا تھا وہ اتنا نیک تھا کہ گویا خدا کی مثال تھا اور پھر وہ زندہ آسمان پراٹھا لیا گیا ۔ اس کے ساتھ جب ہم حضرت مسیح کا یہ حوالہ ملاتے ہیں کہ
’’ آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوا اس کے جو آسمان سے اترا ‘‘ (یوحناباب ۳ آیت ۱۳)
تو حنوک کا مقام اور بھی واضح ہو جاتا ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حنوک کا آنا بھی آسمان سے ہی تھا تبھی وہ آسمان پر چلا گیا۔
درحقیقت اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ آسمان پر جانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن پر بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ اپنا تصرف رکھتا ہے اور انہیں اپنی حفاظت اور پناہ میں لے لیتا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں میں سے حنوک بھی تھے جنہوں نے بچپن سے ہی خدا تعالیٰ کے فضل اوراس کے رحم کے سایہ کے نیچے پرورش پائی اور بقول بائبل وہ بھی آسمان پر اٹھا لئے گئے۔
پھر حنوک سے بھی زیادہ شاندار ذکر بائبل میں ملک صدق سالم کا موجود ہے اور انجیل بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جب عراق میں ظلم ہوئے اور ان کے چچا اور بھائیوں نے انہیں دکھ دیا تو خدا تعالیٰ نے ان سے کہا کہ یہاں سے ہجرت کر کے فلسطین چلے جائیں ۔ صرف حضرت لوط ؑآپ پر ایمان لائے تھے وہ لوط ؑکو ساتھ لے کر چلے۔ آپ کی بیوی بھی ساتھ تھیں ۔ راستہ میں مصر سے ہوتے ہوئے اور حضرت ہاجرہؓ سے شادی کرتے ہوئے فلسطین پہنچے۔ اس ملک کے متعلق آپ کو بشارت مل چکی تھی کہ یہاں آپ کو جگہ دی جائے گی اور آپ کو ماننے والے یہاں پیدا ہو جائیں گے۔ جب آپ فلسطین میں آ کر بس گئے اور اردگرد کے بادشاہوں نے دیکھا کہ ابراہیم ؑ لوگوں میں مقبول ہو رہا ہے تو انہوں نے آپ سے لڑائی کی۔ آپ بھی ان کے مقابلہ میں نکلے اور انہیں شکست دی ۔ جب آپ انہیں شکست دے کر واپس آ رہے تھے تو ملک صدق سالم ایک بادشاہ آپ سے ملا۔ وہ اپنے زمانہ میں بہت بڑا نیک اور بزرگ اور ولی اللہ سمجھا جاتا تھا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غنیمت کے اموال کا دسواں حصہ ملک صدق سالم کی خدمت میں پیش کیا۔ ملک صدق سالم نے اس روپیہ کے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ روپیہ کی مجھے ضرورت نہیں جو آدمی آپ پکڑ لائے ہیں صرف وہ دے دئیے جائیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا میں یہ مال آپ کو ضرور دوں گا تا ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ ملک صدق سالم کی وجہ سے میں دولت مند ہوا ہوں گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کو قبول کیا ۔ (پیدائش باب ۱۴آیت ۱۸ تا ۲۴)
انجیل میں اس واقعہ کو زیادہ تشریح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے لکھا ہے -:
’’ یسوع ہمیشہ کیلئے ملک صدق کے طریقہ کا سردار کاہن بن کر ہماری خاطر پیشرو کے طور پر داخل ہوا ہے‘‘
(عبرانیوں باب ۶ آیت ۲۰)
اس جگہ پولوس اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ یسوع مسیح ہمیشہ کیلئے ملک صدق سالم کے طریقہ کار کا سردار کاہن بن کر ہماری خاطر پیشرو کے طور پر داخل ہوا ہے یعنی باقی لوگ تو مر جاتے ہیں ۔ موسیٰؑ آئے اور فوت گئے۔ دائود آئے اور فوت ہو گئے ، سلیمان آئے اور فوت ہو گئے لیکن ملک صدق سالم نہیں مرا۔ اسی طرح مسیح بھی نہیں مرا۔
پھر آگے لکھا ہے -:
’’ اور یہ ملک صدق سالم کا بادشاہ خدا تعالیٰ کا کاہن ہمیشہ کاہن رہتا ہے ‘‘ (عبرانیوں باب ۷ آیت ۱)
یعنی ملک صدق سالم پر کبھی موت نہیں آتی۔
پھر لکھا ہے -:
’’ جب ابراہام بادشاہوں کو قتل کر کے واپس آتا تھا تو اسی نے اس کا استقبال کیا اور اس کے لئے برکت چاہی۔‘‘ (ایضاً)
یعنی ملک صدق سالم نے براہیم کو برکت دی ۔ معلوم ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑا سمجھتا تھا کیونکہ بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ ملک صدق سالم نے یہ نہیں کہا کہ اے ابراہیم خدا تجھے برکت دے بلکہ اس نے یہ کہا کہ اے ابراہیم تیرے مال میں برکت ہو یعنی میں تجھے برکت دیتا ہوں۔
اور لکھا ہے -:
’’ اسی کو ابراہیم نے سب چیزوں کو وہ یکی دی ۔‘‘
آگے لکھا ہے -:
’’ یہ اول تو اپنے نام کے معنی کے موافق راستبازی کا بادشاہ ہے (کیونکہ صدق راستبازی کو کہتے ہیں ) اور پھر سالم یعنی صلح کا بادشاہ (سالم سلامتی سے نکلا ہے) یہ بے باپ ، بے ماں ، بے نسب نامہ ہے ۔ نہ اس کی عمر کا شروع نہ زندگی کا آخربلکہ خدا کے بیٹے کا مشابہ ٹھہرا۔‘‘ (عبرانیوں باب ۷ آیت ۱ تا ۳)
یعنی ملک صدق سالم کا نہ باپ تھا نہ ماں تھی۔ وہ خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ابدی تھا۔ نہ اس کی عمر کا کوئی شروع ہے اور نہ زندگی کا آخر۔ نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ کبھی مرتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمیش کیلئے زندہ ہے اور خدا تعالیٰ کے بیٹے کے مشابہ ہے جس طرح مسیح ازل سے ابد تک ہے (وہ مسیح نہیں جو مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ بلکہ وہ مسیح جو اقنوم ثلاثہ میں شامل ہے) اسی طرح ملک صدق سالم بھی ازلی ابدی ہے۔ نہ اس کی کوئی ابتداء اور نہ انتہاء۔
اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس دنیا میں ایک اور وجود بھی تھا جو نیک تھا اور ایسا نیک تھا کہ وہ راستبازی اور صلح کا بادشاہ تھا اور ابراہیم کو برکت دینے کا حق رکھتا تھا۔
پھر انجیل میں حضرت زکریا ؑ اور ان کی بیوی کے متعلق لکھا ہے -:
’’ وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے ہیں تھے‘‘ (لوقاباب ۱ آیت۶)
پھر یوحنا کے بارے میں حضرت زکریا علیہ السلام کو فرشتے نے کہا -:
’’وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگااور ہرگز نہ مے نہ کوئی اور شراب پئے گا اور اپنی ماں کے بطن ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا۔‘‘ (لوقاباب ۱آیت ۱۵)
گویا یوحنا پر روح القدس کا نزول ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد نہیں ہوگا بلکہ ابھی وہ ماں کے پیٹ میں ہی ہو گا کہ روح القدس اس پر نازل ہو گا اور وہ اسے اپنے تصرف میں لے لیگا اور یہ صاف بات ہے کہ گناہ ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے جب کسی پر ماں کے پیٹ میں ہی روح القدس نازل ہو جائے گا تو وہ گناہ کا مرتکب ہی نہیں ہو سکے گا۔
غرض یوحنا کے متعلق بھی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی گناہ اور خرابی ان کے قریب نہیں آئی۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں تک کہا کہ -:
’’ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میںیوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ‘‘
(متی باب ۱۱ آیت ۱۱ و۱۲)
اس طرح اس نے یوحنا کو اپنی وفات سے بھی بالا ثابت کیا۔ کیونکہ مسیح بھی عورت سے پیدا ہوا تھا اور یوحنا بھی عورت سے پیدا ہوئے۔
ان حوالوں سے ظاہر کہ انجیل کے رو سے حضرت زکریا اور ان کی بیوی دونوں بے عیب تھے اور خدا تعالیٰ کے قانون پر چلنے والے تھے۔ اسی طرح یوحنا ماں کے پیٹ سے ہی روح القدس سے بھرے ہوئے تھے اور وہ کامل اور بے عیب تھے۔ اب اگر یوحنا اور زکریاا ور ان کی بیوی بے گناہ ہو سکتے ہیں تو اسی قانون کے تحت دوسرے لوگ بھی کیوں بے گناہ نہیں ہو سکتے۔ جب عملاً حضرت مسیح سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں جو کفارہ واقعہ ہونے سے پہلے نیک ،راستباز ، بے عیب اور شریعت پر چلنے والے تھے تو معلوم ہوا کہ کفارہ کے بغیر بھی دنیا میں نیکی قائم تھی اور جب کفارہ کے بغیر دنیا میں نیکی قائم تھی تو آئندہ بھی قائم رہ سکتی ہے اور اس کے لئے کسی کفارہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
بعض دفعہ مسیحی علماء اس سوال کے متعلق کہ پہلے لوگ جو نجات پا گئے تھے انہوں نے کس طرح نجات پائی اورپہلے لوگوں میں سے جو نیک گزرے ہیں وہ کس طرح نیک ہوئے تھے؟ یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ پہلے لوگ بھی مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نیک ہوئے تھے اور مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نیک ہوئے تھے اور مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے کی وجہ سے ہی ان کو نجات ملی تھی۔ مگر ظاہر ہے کہ ان کا یہ دعویٰ محض ڈھکوسلہ ہے ۔ وہ اپنے اس دعویٰ کی بنیاد محض اس بات پر رکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت دائودؑ اور بعض اور انبیاء نے مسیح کی خبر دی تھی حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں کہیں مسیح کی خبر کا پتہ نہیں لگتا۔ یہ محض ایک دھوکا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اتنی خبر دی تھی کہ ان کی اولاد کو بابرکت کیا جائے گا اور یہ کہ ان کی اولاد کے ذریعہ خدا تعالیٰ اپنے تقدس کو ظاہر کرے گا ۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر اولاد ابراہیم کے حق میں ہے کسی خاص فرد کے حق میں نہیں ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی تھے وہ اس پیشگوئی کے ماتحت آ جاتے ہیں ۔ حضرت اسحاق علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نہیں تھے وہ اس پیشگوئی کے ماتحت آ جاتے ہیں۔ اس طرح یعقوب۔ یوسف ۔ موسیٰ ۔ دائود اور زکریا سب اس پیشگوئی کے ماتحت آتے ہیں ۔ بعض اور نبیوں کی پیشگوئیوں سے بے شک معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک آنے والے مسیح کی خبر دے رہے ہیں لیکن کسی آنے والے کے متعلق خبر دینا اور یہ خبر دینا کہ خدا تعالیٰ کا ایک بیٹا ہوگا جو لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو گا اور اس کے بغیر دنیا کو نجات نہیں مل سکے گی ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ قریباً ہر نبی کی خبر پہلے سے موجود تھی اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خبر بھی پہلے سے موجود تھی مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ ان کے آنے کی اس رنگ میں خبر موجود تھی کہ ان کے کفارہ پر ایمان لانے سے دنیا کو نجات ملے گی۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو خبر اپنی اولاد کے متعلق دی تھی وہ خبر اگر فرض کر و اس مفہوم کی بھی ہو کہ آئندہ زمانہ میں میرا ایک بیٹا ایسا ہوگا جس سے دنیا کو نجات ملے گی تو بہرحال وہ مسیح پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ مسیح کے دعویٰ کی ساری بنیاد اس بات پر ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں ۔ عیسائیت کہتی ہے کہ آدم کے بیٹے کا گنہگار ہونا ضروری ہے اور گنہگار دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا پس ضروری ہے کہ اس کیلئے کوئی ایسا وجود تلاش کیا جائے جو آدم کا بیٹا نہ ہو چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنا اکلوتا یسوع مسیح دنیا میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے ۔ اگر مسیح خدا تعالیٰ کا بیٹا تھا تو پھر وہ ابراہیم کا بیٹا نہیں تھا اور اگر وہ ابراہیم کا بیٹا تھا تو کفارہ کا موجب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا بیٹا نہیں تھا۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی کو مسیح پر چسپاں کرنا کفارہ کی ساری بنیاد ہی اکھیڑ دیتا ہے ۔ مجھے یاد ہے میں چھوٹا تھا سترہ اٹھارہ سال میری عمر ہو گی کہ میں لاہور گیا اور مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں کسی پادری سے گفتگو کروں ۔ لاہور کا سب سے بڑا پادری جو بعد میںمشنری کالج سہارنپور کا پرنسپل مقرر ہو گیا تھا میں اس سے ملنے چلا گیا اور میں نے اس سے یہی سوال کیا کہ پہلے لوگ کس طرح نجات پاتے تھے؟ وہ کہنے لگا وہ بھی مسیح پر ایمان رکھتے تھے اور اس ایمان کی وجہ سے ہی انہوں نے نجات پائی۔ میں نے کہا اگر میں کہہ دوں کہ مجھ پر ایمان لا کر انہوں نے نجات پائی ہے تو پھر اس کا کیا حل ہوگا؟ وہ کہنے لگاپیشگوئی بھی تو ہونی چاہئے۔ میں نے کہا یہ ٹھیک ہے آپ یہ بتائیں کہ مسیح کے متعلق کون سی پیشگوئی تھی؟ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی پیش کی۔ میں نے کہا آپ ابراہیم کی ساری پیشگوئیاں نکال لیں اگر ان میں ایک طرف یہ ذکر آتا ہے کہ میں اسحاق کی اولاد کو یوں برکت دوں گا تو ساتھ ہی اسماعیل ؑ کی اولاد کا بھی ذکر ہے۔ اگر آپ کا یہ حق ہے کہ آپ اس پیشگوئی کومسیح ؑ پر چسپاں کریں تو ہمیں کیوں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اس پیشگوئی کو محمد رسول اللہ ﷺ پر چسپاں کر لیں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے؟ پھر میں نے کہا پہلے آپ میرے اس سوال کا جواب دیں کہ کفارہ کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مسیح ؑخدا کا بیٹا تھا۔ اگر وہ ابراہیم کا بیٹا تھا تو کفارہ نہیں ہو سکتا۔ میرے اس سوال پر اس نے بڑے چکر کھائے حالانکہ وہ پچپن ساٹھ سال کی عمر کا تھا۔ آخر گھنٹہ بھر کی بحث کے بعد وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا مجھے معاف فرمائیں ۔ یونانی میں ایک مثل ہے کہ ہر بیوقوف سوال کر سکتا ہے مگر جواب دینے کے لئے عقلمند انسان چاہئے ۔ گویا اس نے مجھے بیوقوف بنایا اور اپنے متعلق کہا کہ میں اتنا عقل مند نہیں کہ ہر بے وقوف کا جواب دے سکوں ۔ میرا بھی اس وقت جوانی کا زمانہ تھا میں بھلا کب رکنے والا تھا میں نے کہا مجھے بڑا افسوس ہے میں آپ کو عقل مند سمجھ کر ہی آیا تھا۔ تو مسیح اگر ابراہیم کی اولاد میں سے تھا تو کفارہ باطل ہو جاتا ہے اور اگر وہ خدا کا بیٹا تھا تو ابراہیم کی پیشگوئی پوری نہیں ہوتی۔ ایک صورت میں مسیح کفارہ نہیں بن سکتا اور دوسری صورت میں ابراہیم کی پیشگوئی پوری نہیں ہوتی۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد میں سے کسی آنے والے کی خبر دی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ وہ ہے کون ۔ حضرت ابراہیم کہتے ہیں کہ میری اولاد میں سے ایک شخص آئے گا اور ابراہیمی نسل میں بھی یہ مشہور ہے کہ اس نے کسی بڑے آدمی کے ظہور کی خبر دی تھی ۔ اب ہم د یکھتے ہیں کہ دنیا میں دو آدمی کھڑے ہوتے ہیں ایک کہتا ہے میں اس پیشگوئی کا مستحق ہوں اور دوسرا کہتا ہے میںاس پیشگوئی کا مستحق ہوں ایک سے ہم پوچھتے ہیں کہ تیرے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تو اس پیشگوئی کا مصداق ہے؟ وہ کہتا ہے میرا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اس کا باپ ابراہیم تھا۔ دوسرے سے ہم پوچھتے ہیں کہ تمہارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم ابراہیم کی نسل میں سے ہو وہ کہتا ہے میری ماں فلا ں تھی ۔ وہ فلاں سے بیاہی گئی تھی اور وہ شخص جس سے میری ماں بیاہی گئی تھی وہ فلاں کا بیٹا تھا وہ فلاں کا بیٹا تھا اور وہ ابراہیم کا بیٹا تھا ۔ کیا دنیا کا کوئی بھی معقول آدمی اس بات کو تسلیم کرے گا کہ وہ واقعہ میں ابراہیم کی اولاد میں سے ہے ۔ وہ کہتا ہے میرا باپ فلاں تھا ، دادا فلاں تھا، پردادافلاں تھا اور اس طرح چلتے چلتے وہ اپنا نسب نامہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میری ماں فلاں سے بیاہی گئی تھی اور وہ ابراہیم کی اولاد میں سے تھا۔ ہر شخص اسی کی بات مانے گا جو اپنی ماں کے شوہر کو ابراہیم کی اولاد میں سے قرار دے کر یہ سمجھ رہا ہو کہ میں بھی ابراہیم کی اولاد میں سے ہوں مسیح اور آنحضرت ﷺ کی یہی کیفیت ہے۔ حضرت مسیح کا جو نسب نامہ متی باب ۱ میں درج کیا گیا ہے اور جسے ’’ یسوع مسیح ابن دائود ابن ابراہام کا نسب نامہ ‘‘قرار دیا گیا ہے اس کے آخر میں لکھا ہے کہ
’’ یعقوب سے یوسف پیدا ہوا یہ اس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے‘‘ (انجیل متی باب ۱ آیت ۱۶)
گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام تک مسیح کا نسب نامہ نہیں پہنچتا بلکہ یوسف کا نسب نامہ پہنچتا ہے جن سے حضرت مریم بیاہی گئی تھیں۔ اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ میرا باپ عبداللہ تھا وہ عبدالمطلب کا بیٹا تھا اور اسی طرح چلتے چلتے آپ اس نسب نامہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا دیتے ہیں ۔ پس ہم عیسائیوں سے کہتے ہیں کہ تم جس وجود پر ابراہیم کی پیشگوئی کو چسپاں کر تے ہو اور جسے ابراہیم کی اولاد میں سے قرار دیتے ہو وہ تو صاف کہتا ہے کہ میری ماں مریم جس سے بیاہی گئی تھی وہ ابراہیم کی اولاد میں سے تھا میں ابراہیم کی اولاد میں سے نہیں ۔ لیکن ہم جس وجود پر اس پیشگوئی کو چسپاں کرتے ہیں یعنی محمد رسول اللہ ﷺ وہ یقینی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔ پھر تم اس پیشگوئی کا مصداق حضرت مسیح کو کس طرح قرار دیتے ہو۔
باقی رہا یہ دعویٰ کہ میں دنیا کا نجات دہندہ ہوں یہ محمد رسول اللہ ﷺ نے بھی کہا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ (آل عمران ع ۴)
اے محمد رسول اللہ ﷺ تو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اس قدر روحانی ترقی حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جائو تو میری اطاعت کرو اور میری بیعت میں شامل ہو جائونتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف تم نجات پا جائو گے بلکہ خدا تعالیٰ کے محبوب بن جائو گے ۔ گویا محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے سے انسان کو صرف نجات ہی نہیں ملتی بلکہ وہ اس قدر روحانی ترقی حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے یٰاایھا الذین اٰمنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم (انفال ع۳) کہ اے مومنو! تم خدا اور اس کے رسول کے احکام کو قبول کرو کیونکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کیلئے اپنی طرف بلا رہا ہے ۔ اس جگہ محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو زندہ کرتے ہیں اور چونکہ انجیل خود تسلیم کرتی ہے کہ گناہ کا نتیجہ موت ہے اس لئے ان الفاظ میں درحقیقت محمد رسول اللہ ﷺ کو دنیا کا نجات دہندہ قرار دیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ آپ کی اتباع میں ہی بنی نوع انسان کو اس موت سے نجات مل سکتی ہے جو گناہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔
کفارہ کے متعلق ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تین اقنوم تھے تو پھر مسیح کے ذمہ کفارہ کیوں لگایا گیا۔ مان لیا کہ آدم نے گناہ کیا تھا یہ بھی ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ آدم کا گناہ ورثہ کے طو رپر اس کی اولاد میں چلا گو یہ بالکل احمقانہ بات ہے۔ اس کے بعد ہم یہ تیسری احمقانہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ ورثہ کا گناہ ایسی چیز ہے جو کسی طرح علاج پذیر نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے بہرحال کوئی خارجی علاج چاہئے۔ پھر یہ چوتھی احمقانہ بات بھی ہم مان لیتے ہیں کہ اس ورثہ کے گناہ کا علاج کفارہ ہے گو یہ علاج بالکل ویسا ہی ہے جیسے ہمارے ملک کی مثل ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کسی کے گھٹنے پر چوٹ لگی تو اس نے اپنی آنکھ پر ہاتھ رکھ کر شور مچانا شروع کر دیا کہ ہائے مر گیا۔ ہائے مر گیا ۔ یہ بھی بالکل وہی بات ہے کہ دنیا سے گناہ دور نہیںہو سکتا لیکن مسیح کے صلیب پر لٹکنے سے وہ گناہ دور ہو گیا ۔ یہ بالکل بے جوڑ بات ہے لیکن چلو ہم مان لیتے ہیں کہ ایسا ہوا اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اس کے لئے کوئی خدائی طاقتوں والا وجود چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ اس غرض کیلئے خدا باپ نے کیوں نہ اپنے آپ کو پیش کر دیا۔آخر رحم کی صفت خدا باپ میں بھی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ جب وہ دنیا پر اتنا رحم کرتا ہے کہ جس کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا ۔ تو خدا باپ نے کیوں نہ اپنے آپ کو کفارہ کے لئے پیش کر دیا؟ روح القدس خدا نے کیوں نہ اپنے آپ کو پیش کر دیا؟آخر کیا وجہ ہے کہ بیٹے نے اس غرض کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا؟ اس کے دو ہی جواب ہو سکتے ہیں یا تو یہ بات ماننی پڑے گی کہ خدا باپ اور خدا روح القدس کے مرنے سے دنیا فنا ہو جاتی تھی اس لئے خدا بیٹے نے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر دیا۔لیکن اس صورت میں ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بیٹا ناقص خدا ہے اس کے مرنے سے دنیا فنا نہیں ہو سکتی تھی اس لئے اسے پیش کر دیا گیا۔ باپ خدا نے اپنے آپ کو اس لئے پیش نہ کیا۔کہ اگر وہ مرا تو ساری دنیا تباہ ہو جائے گی۔ دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ خدا باپ اور خدا روح القدس کے دل میں بنی نوع انسان کی اتنی محبت اور اتنا پیار نہیں تھا جتنا پیار خدا بیٹے کے دل میں تھا۔مگر یہ جواب خدا باپ اور خدا روح القدس دونوں کو ناقص قرار دیتا ہے۔ دوسرے انجیل کے بھی خلاف ہے کیونکہ انجیل میں لکھا ہے کہ خدا محبت ہے(گرنتھیوں باب ۱۳ آیت ۱۱) اور یہ فقرہ نہ روح القدس کے متعلق ہے نہ مسیح کے متعلق ہے۔ غرض ایک صورت میں بیٹا ناقص قرار پاتا ہے اور ماننا پڑتا ہے کہ وہ ایک غیر ضروری شئے تھا جس کے مرنے سے دنیا فنا نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن اگر خدا باپ مر جاتا تو ساری دنیا تباہ ہو جاتی اور اگر بیٹے کے دل میں بنی نوع انسان کی کامل محبت تھی تو پھر باپ خدا اور روح القدس خدا دونوں ناقص قرار پاتے ہیں۔ بہرحال دونوں صورتوں میں ایک نہ ایک خدا ضرور ناقص قرار پاتا ہے اور ناقص چیز تمام مذاہب کے مسلمہ عقیدہ کے مطابق خدا نہیں ہو سکتی۔
پھر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہودیت کے نزدیک کفارہ ضروری ہے ؟ ہم کہتے ہیں بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ کفارہ ضروری نہیں اس لئے کفارہ کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب گناہ معاف نہ ہو سکتے ہوں لیکن بائبل کہتی ہے کہ گناہ معاف ہو سکتے ہیں اور تمام بائبل گناہوں کی معافی کی تعلیم سے بھری ہوئی ہے۔ اسی طرح ان قربانیوں کی تعلیم سے بھری پڑی ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہوتی ہیں ۔ بلکہ بائبل بتاتی ہے کہ خود آدم کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کی قربانیوں کو خدا نے قبول کیا اور انہیں اپنے قرب میں جگہ دی۔ بائبل میں لکھا ہے: -
’’چند روز کے بعدیوں ہوا کہ قائن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پلوٹھے بچوں کا اور کچھ ان کی چربی کا ہدیہ لایا اور خداوند نے ہابل کو اور اس کے ہدیہ کو منظور کیا (یعنی ہابل بھی خدا تعالیٰ کا مقرب ہو گیا اور اس کا ہدیہ بھی منظور ہو گیا) پر قائن کو اور اس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔ (یہ قائن وہی ہے جسے ہمارے ہاں قابیل کہتے ہیں ) اس لئے قائن نہایت غضبناک ہوا اور اس کا منہ بگڑا اور خداوند نے قائن سے کہا توکیوںغضبناک ہوا اور تیرا منہ کیوں بگڑا ہوا ہے (یعنی خدا تعالیٰ نے جب قائن کے ہدیہ کو قبول نہ کیا تو اس کا منہ بگڑ گیا اور اسے سخت غصہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا منہ بگڑا ہوا دیکھا تو اس نے کہا اے قائن تجھے کیوں غصہ آیا ہے اور تیرا منہ کیوں بگڑا ہوا ہے) اگر تو بھلا کرے تو کیا تومقبول نہ ہوگا اور اگر تو بھلا نہ کرے توگناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تواس پر غالب آ ‘‘ (پیدائش باب ۴ آیت ۳ تا۷)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ : -
اول : باوجود آدم کے گناہ کے اس کے بعض بیٹوں کی قربانی قبول ہوتی تھی۔چنانچہ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی اور وہ خداتعالیٰ کا منظورِ نظر ہو گیا کیونکہ لکھا ہے کہ ’’ خداوند نے ہابل کو اور اس کے ہدیہ کو منظور کیا‘‘ ہابل کو قبول کرنے کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ خدا نے ہابل کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔ا س کا مطلب یہی ہے کہ خدا نے اس کو اپنا منظورِ نظر بنا لیا اور اس کے ہدیہ کو ایک زندہ قربانی تصور کیا جو انسان کے درجہ کو برابر بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ کیونکہ قبول کرنے کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو ملنا شروع ہو جائے۔اب ہابل اور قائن دونوں آدم کی اولاد تھے اور آدم کے گناہ کے بعد پیدا ہوئے۔ ان دونوں میں ورثہ کے طور پر گناہ آنا چاہئے تھا۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ گناہ لے کر پیدا ہوئے تھے جب انہوں نے قربانی کی تو ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قربانی ردّکی گئی ۔ اگر ورثہ میں انہیں گناہ ملا تھا تو اول تو انہیں قربانی کرنی ہی نہیں چاہئے تھی اور اگر کرتے تو دونوں کی قربانیاں ردّکر دی جاتیں ۔
دوم اسی حوالہ میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قائن سے کہا :
’’ اگر تو بھلا کرے تو کیا تو مقبول نہ ہوگا‘‘
یعنی اگر تو نیک بنے توکیا خدا تجھے اپنا مقرب نہ بنائے گا۔ ان الفاظ کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر تو نیک بننا چاہے تو بن سکتا ہے اور نیک بننے کادروازہ تیرے لئے ہر وقت کھلا ہے اور ’’ کیا تو مقبول نہ ہوگا ‘‘ کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا مقبول اور اس کا مقرب بننے کا دروازہ بھی تیرے لئے کھلا ہے جو نجات سے بڑا درجہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کے حضور عمل سے مقبول ہوتے تھے نہ کہ کفارہ سے۔ اور یہ کہ گناہ کرنے کے بعد بھی انسان توبہ سے مقبول ہو سکتا تھا۔ اور یہ دونوں باتیں بتاتی ہیں کہ ہر انسان نیک بھی بن سکتا ہے اور ہر انسان خدا تعالیٰ کا مقرب بھی ہو سکتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قائن جو گناہ کی وجہ سے نامقبول ہو چکا تھا اسے یہ نہ کہا جاتا کہ اگر تو بھلا کرے تو کیا تو مقبول نہ ہو گا۔‘‘
سوم پھر لکھا ہے: -
’’اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے‘‘
مسیحیت کہتی ہے کہ آدم کے گناہ کے بعد گناہ انسان کے دل میں بویا گیا۔ ورثہ کے بھی یہی معنے ہوتے ہیں ۔ مگر بائبل کہتی ہے کہ گناہ اس کے دل میں نہیں گیا بلکہ وہ اس کے گھر کے دروازہ کے باہر دبکا بیٹھا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ا نسان کے دل میں نہیں بلکہ باہر سے آتا ہے۔ پس بائبل کے نزدیک آدم کے گناہ کے بعد گناہ کا بیج انسان کے دل میں نہیں بویا گیا بلکہ ہر انسان کے دروازہ کے باہر دبکا بیٹھا ہے۔ گویا گناہ ایک خارجی شئے ہے نہ کہ ورثہ کی چیز جو جزو بدن ہو جاتی ہے۔
چہارم پھر لکھا ہے: -
’’ پر تو اس پر غالب آ‘‘
یعنی اے قائن تو اس پر غالب آ ۔ جب خدا کہتا ہے تو ایسا کر۔ تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے ایک چھوٹے بچے کو پیار میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے (سوائے اس کے کہ ہم غلط مذاق کر رہے ہوں) کہ جا اور موٹر کو اٹھا لایا یا اور ہاتھی کو پکڑلا۔ ہم اسے وہی بات کہیں گے جو اس کی طاقت کے اندر ہوگی۔ اگر دفتر میں ہی کوئی افسر اپنے چپڑاسی کو بلائے اور کہے کہ جیکب آباد کی طرف جو انجن جاتا ہے وہ اٹھا کر لے آ۔ توتم جانتے ہو وہ کیاکرے گا؟ وہ چپ کرکے اورکوئی بہانہ بناکروہاںسے کھسک جائے گا۔ اس کے چہرے کارنگ اڑ جائے گااوروہ دوسروںسے جاکرکہے گاکہ صاحب پاگل ہو گیاہے۔کیونکہ اس نے ایک ایسی بات کہی ہے جو انسانی طاقت میں ہی نہیں ۔ اسی طرح اگر گناہ دب ہی نہیں سکتا تھا تو خدا تعالیٰ نے قائن سے یہ کیوں کہا کہ تواس پر غالب آ سکتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کی قربانی کو رد کر دیا اور کہا کہ چونکہ تو نے اس اخلاص اور نیک نیتی سے قربانی نہیں کی جس اخلاص اور نیک نیتی سے قربانی قبول ہو سکتی ہے۔ اس لئے میں تیری قربانی کو قبول نہیں کرتا۔ مگر ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ میں نے جو قربانی رد کر دی ہے وہ ہمیشہ کیلئے رد کر دی ہے تیرے لئے اب بھی موقعہ ہے کہ تو گناہوں پر غالب آ جائے اور میرا قرب حاصل کر لے۔ گویا انسان کے لئے اپنی ذاتی جدوجہد سے گناہ پر غالب آنا ممکن تھا ۔
غرض آدم کا گناہ تو الگ رہا ۔ قائن کے اپنے گناہ کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیںجو دبائی نہ جا سکے۔ اگر تو کوشش کرے تو گناہ پر غالب آ سکتا ہے اور میں تجھے یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تو اس پر غالب آ۔اوپر کے حوالہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی قابیل کے متبع ہیں اور مسلمان ہابیل کے متبع۔ کیونکہ عیسائی کفارہ کی معافی کے قائل ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوںکے اس لئے دشمن ہیں کہ قابیل کی طرح ان کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔ پس وہ اس کا بدلہ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کی جماعت سے لینا چاہتے ہیں۔ پھر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے قابیل سے کہا تھا کہ اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے۔آج کل ہمیں وہی نظارہ نظر آ رہا ہے ۔ عیسائی دنیا میں اس کثرت کے ساتھ گناہ پایا جاتا ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں۔
بہرحال بائبل کے نزدیک انسان بعد از گناہ آدم بھی نیک ہو سکتا تھا اور یہ کہ گناہ کا بیج اس کے دل میں نہیں بویا گیا تھا۔ بلکہ اس وقت بھی وہ باہر سے آتا تھا اور اگر وہ گناہ کر بیٹھتا تھا تب بھی اس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا تھا اور آئندہ گناہ پر غالب آنے کا امکان اس کیلئے موجود تھا۔ بلکہ نہ صرف وہ گناہ پر غالب آنے کی طاقت رکھتا تھا بلکہ وہ خدا تعالیٰ کا مقبول ہونے کی بھی طاقت رکھتا تھا ۔ پس وہ کیفیت جس کے نتیجہ میں کفارہ کی ضرورت مسیحی بتاتے ہیں بائبل کے بیان کے رُو سے موجود ہی نہیں ۔
ایک سوال کفارہ کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ فرض کرو دنیا میںنیکی موجود نہیں تھی اور فرض کرو کہ کفارہ کی ضرورت تھی۔ پھر بھی کیا اس کفارہ کیلئے خدا تعالیٰ کے بیٹے کی ضرورت تھی؟ اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسیح خد کا بیٹا تھا؟
یہ سوال کہ کفارہ کی ضرورت تھی ۔ اس کیلئے ہم خود مسیح کی کتاب کو دیکھتے ہیں ۔ بائبل اس بات کو مانتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء مختلف معجزات دکھاتے رہے ہیں ۔ اس کے نزدیک نبی مرد ے زندہ کرتے تھے۔ نبی بیماروں کو اچھا کرتے تھے۔ نبی تھوڑے سے کھانے کو بڑھا دیتے تھے اسی طرح اور قسم قسم کے معجزات دکھاتے تھے۔ لیکن مسیحی کہتے ہیں ( میں مسیحیوں کا لفظ اس لئے استعمال کرتا ہوں کہ بہت سی باتیں مسیحی اپنے پاس سے کہہ دیتے ہیں اور باوجود اس کے کہ انجیل بگڑ چکی ہے پھر بھی ان باتوں کا انجیل سے ثبوت نہیں ملتا) کہ گناہ کا معاف کرنا یہ انسانی طاقت سے بالا ہے۔ انبیاء بے شک مرد ہ زندہ کر لیتے تھے۔ جیسا کہ ایلیا ہ نبی اور الیسع کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے مردے زندہ کئے (نمبر۱ سلاطین باب ۱۷ آیت ۲۲ و نمبر۲ سلاطین باب ۴ آیت ۳۵) مگر گناہ کا معاف کر دینا یہ ناممکن تھا اور اس کے لئے بیٹے کے کفارہ کی ضرورت تھی۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا انجیل اس عقیدہ کی تصدیق کرتی ہے۔
انجیل میں لکھا ہے کہ لوگ ایک مفلوج کو چارپا ئی پر پڑا ہوا مسیح کے پاس لائے۔ مسیح نے اسے دیکھا اور کہا ۔
’’ بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے‘‘ (متی باب ۹ آیت ۲)
اس پر لوگ حیران ہوگئے کہ کیا یہ گناہ معاف کرتا ہے۔ یہی بات آج کل مسیحیت کہتی ہے کہ انسان گناہ کس طرح معاف کرسکتا ہے لیکن انجیل میں لکھا ہے کہ
’’ یسو ع نے ان کے خیال معلوم کر کے کہا کہ تم کیوں اپنے دلوں میں برے خیال لاتے ہو۔ آسان کیا ہے یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہنا کہ اُ ٹھ اور چل پھر ‘‘
یعنی ان دونوں میں سے کون سی آسان بات ہے۔ ایک مفلوج کو یہ کہہ دینا کہ اُٹھ اور چل پھر یہ آسان ہے یا ایک گنہگار کو یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یہ آسان ہے ۔ مسیحیت کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اٹھ اور چل پھر کہنا زیادہ آسان ہے اور یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے ناممکن ہے۔ لیکن حضرت مسیح کے متعلق انجیل بتاتی ہے کہ انہوں نے کہا ۔
’’ اس لئے کہ تم جان لو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے (اس نے مفلوج سے کہا) کہ اٹھ اپنی چارپائی اٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔ وہ اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا ‘‘
(متی باب ۹ آیت ۱تا۸)
گویا پہلے حضرت مسیح کے گناہ معاف کرنے کے فقرہ پر لوگ حیران ہوئے کہ کیا آدم زاد بھی لوگوں کے گناہ معاف کر سکتا ہے۔ مسیح نے کہا اس لئے کہ تم جان لو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے میں اس مفلوج سے یہ کہتا ہوں کہ اٹھ اپنی چارپائی اٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔ اس پر وہ اور حیران ہوئے اور اس خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا ہے ۔ یہ واقعہ انجیل میں آتا ہے بتاتا ہے کہ گناہ معاف کرنا اور کسی بیمار سے یہ کہنا کہ اٹھ اور اپنے گھر چلا جا یہ معجزہ آدمیوں کا ہے خدا کا نہیں ۔
اسی طرح یوحنا باب ۸ آیت ۱ تا ۱۱ میں ایک زانیہ عورت کا قصہ درج ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس عورت کو مسیح نے معاف کر دیاحالانکہ وہ مسیح یا اس کے کفارہ پر ایمان نہیں لائی تھی۔
باقی رہا یہ امر کہ اگر خدا کے بیٹے کے ذریعہ ہی گناہ معاف ہو سکتا ہے تو کیامسیح خدا کا بیٹا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی دلیل اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ مسیح نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسیح میں خدائی صفات بھی پائی جاتی تھیں ؟ مثلاً ہم جب کہتے ہیں کہ خدا ہے تو اس کی ہستی کے دلائل بھی پیش کرتے ہیں اور وہ مختلف قوتیں اور طاقتیں جو انسان میں نہیں پائی جاتیں اس کی ہستی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔لیکن مسیحی کوئی ایسی چیز پیش نہیں کرتے جو اور نبیوں میں تو نہ پائی جاتی ہو اور مسیح میں پائی جاتی ہو بلکہ بہت سی باتیں بائبل میں نبیوں کے متعلق ایسی پائی جاتی ہیں جو مسیح میں نہیں پائی جاتیں ۔ مگریہ ایک الگ بحث ہے سوال یہ ہے کہ مسیحیت کی ساری بنیاد اس بات پر ہے کہ مسیح نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا اور چونکہ اس نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا اس لئے خدا کا بیٹا ہو گیا ۔ ہم کہتے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو خد اکا بیٹا کہا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کا بیٹا کوئی اصطلاح ہے یا یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے جن معنوں میں عام طور پر یہ لفظ ہماری زبان میں بولا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ زید کا بیٹا یا عمرو کا بیٹا یا خالد کا بیٹا یا اس کے کوئی اور معنے ہیں۔
جہاں تک اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہنے کا تعلق ہے جب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں حضرت مسیح کے یہ الفاظ نظر آتے ہیں کہ ’’ہاں اے باپ کیونکہ ایسا ہی تجھے پسند آیا۔ میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا اور کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سوائے بیٹے کے اور اس کے جس پر بیٹا اسے ظاہر کرنا چاہئے۔ ‘‘ (متی باب ۱۱ آیت ۲۶۔۲۷)
یہاں مسیح نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا ہے ۔ جہاں تک لفظوں کا تعلق ہے ہم مانتے ہیں کہ خدا کے بیٹے کے الفاظ انجیل میں مسیح کے متعلق آئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مسیح کو بیٹا کہنے کے وہی معنے ہیں جو جسمانی بیٹے کے ہوتے ہیں یا اس کے کچھ اور معنے ہیں۔
اسی طرح یوحنا باب ۳ ایت ۱۷ میں آتا ہے: -
’’ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیںبھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے‘‘
یہاں مسیح نے پھر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسی بات کہی ہے جو انجیل کے پاس ایک دوسرے حوالہ کے خلاف ہے۔ یہاں وہ کہتے ہیں ’’خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے ‘‘ لیکن دوسری جگہ لوقا باب ۲۰ آیت ۹ تا ۱۲ میں حضرت مسیح ایک تمثیل بیان کرتے ہیں جو باغ کی تمثیل کہلاتی ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے باغ لگایا اور اسے کرایہ پر دے دیا جن لوگوں کو وہ باغ کرایہ پر دیا گیا تھا ان کے پاس باغ کے مالک نے اپنا ایک نوکر بھیجا تاکہ وہ پھل کا حصہ دے دیں ۔ لیکن باغبانوں نے اسے مارا اور خالی ہاتھ واپس کر دیا ۔ پھر اس نے ایک دوسرا نوکر بھیجا مگر انہوں نے اس کو بھی پِیٹ کر نکال دیا پھر اس نے ایک تیسرا نوکر بھیجامگر انہوں نے اس کو بھی مارا اور زخمی کر کے نکال دیا………… اس پر باغ کے مالک نے کہا اب میں اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجتا ہوں شاید باغبان اس کا لحاظ کریں اور باغ کا پھل اسے دے دیں لیکن جب اس کا اکلوتا بیٹا باغبانوں کے پاس آیا تو انہوں نے آپس میں مل کر یہ فیصلہ کیا کہ آئو ہم اسے قتل کردیں تاکہ یہ باغ ہماری میراث ہو جائے اور پھر ہمیںپوچھنے والا کوئی نہ رہے ۔ چنانچہ انہوں نے بیٹے کو باغ کے باہر پھانسی پر لٹکا دیا ۔ حضرت مسیح ؑیہ تمثیل بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں تم جانتے ہو پھر کیا ہوگا۔ پھر یہی بات رہ جائے گی کہ باغ کا مالک آپ آئے گا اور وہ ان مالیوں کو نکال دے گا اور باغ کو کسی اور قوم کے سپرد کر دے گا۔یہ تمثیل صاف بتاتی ہے کہ بیٹے کا آنا سزا کیلئے ہوگا چونکہ وہ لوگ باغ کا مالیانہ ادا نہیں کرتے تھے اس لئے خدا اپنے بیٹے کو بھیجے گا تاکہ ان پر حجت تمام کرکے انہیں سزا دے ۔ پس یہ تمثیل مسیح کے اس قول کے بالکل خلاف ہے کہ
’’ خدا نے بیٹے کودنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے‘‘
پھر متی میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ :۔
’’ تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بنائو اور ان کو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نا م سے بپتسمہ دو۔ ‘‘
(متی باب ۲۸ آیت ۱۹)
اس کے علاوہ بھی بعض جگہوں پر حضرت مسیح نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہا ہے ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھلانا چاہئے کہ جہاں حضرت مسیح نے بعض جگہ اپنے آپ کو بیٹابلکہ اکلوتا بیٹا کہا ہے وہاں اکثر مقامات پر اپنے آپ کو ابن آدم بھی کہا ہے۔ پس ہمارا کیا حق ہے کہ ہم ان کے ایک دعویٰ کو دوسرے دعویٰ پر فوقیت دیں۔ مسیح ہی کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور مسیح ہی کہتا ہے کہ میں ابن آدم ہوں۔ اور جب دونوں دعوے ایک شخص کے ہیں تو ان میں سے کسی ایک دعویٰ کو دوسرے دعویٰ پر فوقیت دے دینا ہمارے لئے جائز نہیں ہوسکتا۔ہمیں یا تو دلائل سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ابن اللہ والی بات غلط ہے اور یا دلائل سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ابن آدم والی بات غلط ہے۔ بہرحال جب ایک شخص دونوں باتیں کہتا ہے تو محض اپنی عقل سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں بات سچی ہے اور فلاں بات غلط۔ انجیل میں لکھا ہے: -
’’ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے۔ ‘‘ (متی باب ۲۰ آیت ۲۸)
مثیل مسیح یعنی بانی سلسلہ احمدیہ ؑنے بھی یہی کہا ہے
؎ ’’ منہ از بہر ما کرسی کہ مامور یم خدمت را‘‘
یعنی میرے لئے کرسی نہ رکھو کہ مجھے خدا نے دنیا کی خدمت کیلئے مامور کیا ہے۔ چونکہ دنیا میں عام طور پر لوگ غرباء سے کام لیتے ہیں اور ان پر کئی قسم کے مظالم کرتے ہیں ۔ اس لئے مسیح نے کہا کہ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ وہ خدمت لے بلکہ اس لئے آیا ہے کہ خدمت کرے۔ جہاں تک اخلاقی تعلیم کا سوال ہے یہ بڑی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے کہ انسان کو ظلم نہیںکرنا چاہئے اور دوسروں کی خدمت میںاپنی زندگی بسر کرنی چاہئے لیکن جہاں تک یہ سوال ہے کہ مسیح کیا تھا؟ اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح آدم کا بیٹا تھا۔
پھر لکھا ہے
’’ جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کے آنے کے وقت ہو گا‘‘ (متی باب ۲۴ آیت ۳۸)
اسی طرح اسی باب کی چوالیسویں آیت میں لکھا ہے ۔
’’ جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہوگا ابن آدم آ جائے گا‘‘
یعنی مسیح کی پہلی آمد بھی ابن آدم کی حیثیت میں تھی اور جب وہ دو بارہ آئے گا تب بھی ابن آدم کی حیثیت میں ہی آئے گا۔ مگر وہ ایسا اچانک آئے گا کہ لوگوں کو اس کی آمد کا گمان بھی نہ ہوگا یعنی جس طرح خدا تعالیٰ کے انبیاء آتے ہیں اور لوگ ان کی آمد کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے انہیں جھوٹا کہنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح مسیح ؑکے ساتھ ہو گا۔
پھر لکھا ہے : -
’’ فانی خوراک کیلئے محنت نہ کرو بلکہ اس خوراک کیلئے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے جسے ابن آدم تمہیں دے گا‘‘
(یوحنا باب آیت ۲۷)
یعنی لوگ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں روٹی کپڑا ملے لیکن تمہیں ان چیزوں کیلئے کوشش نہیںکرنی چاہئے۔ بلکہ اس خوراک کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے جو حقیقی زندگی بخشتی ہے اور جو ابن آدم یعنی مسیح سے حاصل ہوتی ہے ۔باقی چیزیں تو سب فانی اور عارضی فائدہ پہنچانے والی ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس تعلیم کے باوجود سب سے زیادہ حضرت مسیح کی امت نے ہی دنیا کمانے کی طرف توجہ کی ہے اور سب سے زیادہ انہوں نے ہی روحانیت کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔
پھر لکھا ہے مسیح نے کہا :-
’’ اے یہوداہ کیا تو بوسہ لے کر ابن آدم کو پکڑواتا ہے۔ ‘‘ (لوقا باب ۲۲ آیت ۴۸)
یہوداہ حضرت مسیح کا ایک شاگرد تھاجس نے تیس روپوں کے بدلے انہیں دشمنوں کے حوالے کر دیا تھا ۔ مسیح ان دنوں چھپے پھرتے تھے اور وہ ان کے شاگر د ایک ہی قسم کا لباس پہنتے تھے اور منہ کو بھی ڈھانک کر رکھتے تھے تاکہ حضرت مسیح کا ان کو پتہ نہ چل جائے (یوحنا باب ۲۱ آیت ۴) دشمن بھی آپ کی تلاش میں تھا اور وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح ہمیں پتہ لگ جائے کہ ان میں سے مسیح ؑکون سا ہے۔ آخر انہوں نے تیس روپے رشوت دے کر حضرت مسیح ؑ کے ایک شاگرد کو جس کا نام یہوداہ تھا اپنے ساتھ ملا لیا اور اس نے کہا تم میرے ساتھ چلو۔ جہاں سب اکٹھے بیٹھے ہوئے ہونگے۔ وہاں آگے بڑھ کر میں جس شخص کا بوسہ لوں تم سمجھ جانا کہ وہی مسیح ہے اور اسے گرفتار کر لینا۔ ادھر حضرت مسیح ؑکو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت الہام کے ذریعہ بتا دیا کہ تمہارا فلاں شاگرد اس طرح غداری کرے گا۔ چنانچہ جب یہوداہ دشمن کے سپاہی لے کر وہاں پہنچا اور وہ آپ کا بوسہ لینے کیلئے آگے بڑھا تو حضرت مسیح نے کہا
’’ اے یہوداہ کیا تو بوسہ لے کر ابن آدم کو پکڑواتا ہے۔ ‘‘ (لوقا باب ۲۲ آیت ۴۸)
گویا مسیح جب آیا تب بھی ابن آدم تھا جب دوبارہ آئے گا تب بھی ابن آدم ہو گا اور جب صلیب پر لٹکایا گیا تب بھی وہ اپنے قول کے مطابق ابن آدم ہی تھا۔
پس جب مسیح ؑ خود اپنے آپ کو ابن آدم کہتا ہے تو خدا تعالیٰ کے بیٹے کے ایسے معنے کرنے جو تورات اور انجیل کی تعلیم کے خلاف ہوں کس طرح جائز ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں یا تو ہم یہ کہیں گے کہ حضرت مسیح نعوذباللہ فاتر العقل لوگوں کی طرح کبھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیتے تھے اور کبھی ابن آدم کہنے لگ جاتے تھے اور یا پھر ہمیں اس کا کوئی حل نکالنا پڑے گا اور ان میں سے ایک کو استعارہ اور دوسرے کو اصل قرار دینا پڑے گا۔ اگر ہمیں پتہ لگ جائے کہ استعارہ کونسا ہے اور اصل کونسا تو ہم بڑی آسانی سے صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں ۔ اگر ابن آدم استعارہ ہو تو پھر ابن اللہ کو اصل ماننا پڑے گا اور اگر ابن اللہ استعارہ نکل آئے تو ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح ہو جائے گی کہ خدا تعالیٰ کے بیٹے کی قربانی پر جو کفارہ کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ ساری کی ساری غلط ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں مسیح کے یہ الفاظ نظر آتے ہیں کہ : -
’’ مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے ‘‘ (متی باب ۵ آیت ۹)
یہاں حضرت مسیح ؑ اپنے سوا دوسرے انسانوں کو بھی خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ خدا کا بیٹا کہلانا انسان کو خدا نہیں بنا دیتا۔ اگر کسی شخص کو خدا کا بیٹا ماننے سے اس میں خدائی تسلیم کرنی پڑتی ہے تو پھر وہ تمام لو گ جو صلح کراتے ہیں اس حوالہ کے مطابق خدائی کے دعو یدار بن سکتے ہیں اور وہ تمام کے تمام اس بات کے مستحق ہو جاتے ہیں کہ کفارہ دے سکیں۔ لیکن اس حوالہ سے صرف یہی نہیںنکلتا کہ حضرت مسیح کے سوا اور لوگ بھی خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اوراس طرح جو حق مسیح کا سمجھا گیا تھا کہ وہ لوگوں کے لئے کفارہ ہو سکتا ہے باطل ہو جاتا ہے بلکہ اس سے ایک اور بات بھی نکلتی ہے ۔ حضرت مسیح اس حوالہ سے یہ کہتے ہیں کہ
’’ مبارک ہیںوہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیںگے‘‘
اس جگہ لوگوں کو صرف خدا کا بیٹا قرار نہیں دیا گیا بلکہ وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ کیوں خدا کے بیٹے کہلائیں گے اگر خالی خدا تعالیٰ کے بیٹے کے الفاظ استعمال کئے جاتے تو یہ پتہ نہیں لگ سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ کے بیٹے کہلانے کی وجہ کیا ہے۔ ہو سکتا تھا کہ ہم کوئی وجہ پیش کرتے اور دوسرا کہہ دیتا کہ ممکن ہے کوئی اور وجہ ہو۔ لیکن حضرت مسیح نے یہاں وجہ بھی بتائی ہے کہ کیوں یہ سمجھا جائے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور وہ وجہ صلح کرانابتائی گئی ہے۔ آپ فرماتے ہیں مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔ گویا صلح کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلانے کی شرط رکھا ہے اور بتایا ہے کہ جو صلح کرواتا ہے وہ بڑا مبارک ہے کیونکہ صلح کرانے سے انسان خداتعالیٰ کا بیٹا بن جاتا ہے ۔ اس حوالہ سے صرف یہی نہیں نکلتا کہ مسیح کے سوا اور لوگ بھی خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں بلکہ ایک اور بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے نہیں۔ اگر انہیں بیٹا کہا گیا ہے تو پھر کسی چھوٹی وجہ سے کہا گیا ہے یہ وجہ ان میں موجود نہ تھی۔ کیونکہ حضرت مسیح خود کہتے ہیں کہ
’’ یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں ۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں۔ ‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۳۴)
گویا متی کا ایک حوالہ تو یہ بتاتا ہے کہ صلح کرانے کی وجہ سے انسان کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلانے کا حق ہوتا ہے اور دوسرا حوالہ یہ بتاتا ہے کہ یہ وجہ مسیح میں نہیں تھی اس لئے مسیح خدا کا بیٹا نہیں کہلا سکتا۔
اسی طرح ایک اور حوالہ ہے جس میں دوسرے انسانوں کو بھی خدا یا خدا کا بیٹا کہا گیا ہے اور حضرت مسیح خود یہ بتاتے ہیں کہ میرا اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہنا یہ معنے نہیں رکھتا کہ میں واقعہ میں خدا یا خدا کا بیٹا ہوں۔ یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۵ تا ۲۹ میں لکھا ہے حضرت مسیح نے یہود سے کہا: -
’’ جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں (یعنی میری سچائی معلوم کرنے کیلئے تمہیں باہر سے کسی شہادت کے معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جو کام خدا تعالیٰ نے مجھ سے کروائے ہیں وہ اپنی ذات میں اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ میں سچا اور راستباز انسان ہوں) لیکن تم اس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میںسے نہیں ہو (یعنی چونکہ تم میری جماعت سے نہیں اس لئے تم میرے مخالف ہو) میری بھیڑیں میری آوازیں سنتی ہیں (یعنی جو لوگ میری جماعت میں سے ہیں وہ میری آواز کو سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں ) اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں اور میں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیںمیرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔ میں اور باپ ایک ہیں (جب حضرت مسیح نے یہودیوں سے یہ بات کہی تو چونکہ آخری فقرہ یہ تھا کہ کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا اور پھر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ میں اور باپ ایک ہیں اور باپ سے مراد خدا تھا تو اس کے معنے یہ بن گئے کہ میں اور خدا ایک ہیں ۔ اس سے یہودیوں نے سمجھا کہ یہ شخص خدا ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے اس فقرہ پر ) یہودیوں نے اسے سنگسار کرنے کے لئے پھر پتھر اٹھائے یسوع نے انہیںجواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں ۔ ان میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو (یعنی مسیح نے ان سے کہا کہ میں لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو۔ میں لوگوں کو حلم اور عفو کی تعلیم دیتا ہوںکیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو۔ میں لوگوں کو محبت الٰہی اور خدا ترسی کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو میں بنی نوع انسان کی خود بھی خدمت کرتا ہوںاوردوسروں کو بھی خدمت کرنے کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو جو کام خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کئے ہیں ان میں سے بہتیرے کام میںنے کئے ہیں ۔ تم مجھے یہ بتائو کہ میرا کون سا جرم ہے جس کی وجہ سے تم مجھے سنگسار کرنا چاہتے ہو؟) یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں (یعنی خدمت خلق اور غریبوں سے اچھا سلوک اور حلم اور عفو کی تعلیم اور رحم دلی یہ چیزیں نہیں جن کی وجہ سے ہم تجھے سنگسار کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہمارے سنگسار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تو نے اپنی زبان سے کفر کا کلمہ نکالا ہے) اور اس لئے کہ تو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے (یعنی تو نے انسان ہو کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ میںخدا ہوں۔اس لئے ہم تجھے سنگسار کریں گے) یسوع نے انہیں جواب دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میںنے کہا تم خدا ہو (یعنی کیا بائبل میں یہ بات درج نہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کو خدا کہا ہے؟) جبکہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پس خدا کا کلام آیا اور کتاب مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں ۔ آیا تم اس شخص سے جسے باپ نے مقدس کر کے دنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے اس لئے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں ؟(حضرت مسیح کہتے ہیں تمہارے لئے بائبل میں خدا کا لفظ بولا گیا ہے مگر تم خدا نہیں ہو گئے نہ تم اس لفظ کی وجہ سے کافر بن گئے لیکن میرے لئے صرف بیٹے کا لفظ بولا گیا ہے اور تم کہتے ہو کہ میں کافر ہوں۔ جب مجھ سے پہلے لوگوں کے لئے خدا کا لفظ استعمال ہوا اور وہ کافر نہ ہوئے بلکہ یہ سمجھا گیا کہ یہ ایک استعارہ ہے جو استعمال کیا گیا ہے تو میرے لئے بیٹے کے لفظ کا استعمال کونسا قہر ہو گیا کہ تم نے مجھے کافر قرار دے دیا۔ یہاں حضرت مسیح نے صاف طور پر اقرار کیا ہے کہ بائبل میں جو ان کے متعلق بیٹے کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ بیٹے کے معنوں میںنہیں کیونکہ دوسروں کی نسبت خدا کا لفظ آیا ہے مگر تم یہ کبھی نہیں کہتے کہ وہ واقعہ میں خدا بن گئے تھے ۔ جب تم انہیں مشرک نہیں کہتے جب تم اس لفظ کے باوجود انہیں خدا ئی کا دعویٰ کرنے والے قرار نہیں دیتے تو مجھے کیوں کہتے ہو کہ میں نے یہ لفظ استعمال کر کے خدائی کا دعویٰ کر دیا ہے اور اس وجہ سے میں کافر اور سنگسار کئے جانے کے قابل ہوں ) اگر میں اپنے باپ کے کام نہیںکرتا تو میرا یقین نہ کرو (یعنی لفظی ہیر پھیر اور شرارتوں سے کام لینے کا کیا فائدہ؟ سوال یہ ہے کہ جو کام میں کرتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کے جلال کے اظہار کیلئے کرتا ہوں یا اس کے خلاف کرتا ہوں ۔ موحدوں والے کرتا ہوں یا مشرکوں والے کرتا ہوں اگر میں تمام کام موحدوں والے کرتا ہوں تو الہام میں اگر میرے متعلق خدا تعالیٰ نے بیٹے کا لفظ استعمال کیا ہے تو بہرحال اس کے کچھ اور معنے کرنے پڑیں گے اور ضروری ہوگا کہ اس بارے میں کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل میرے کاموں کود یکھا جائے )لیکن اگر میں کرتا ہوں تو گو میرا یقین نہ کرومگر ان کاموں کا تو یقین کرو تاکہ تم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ۔ انہوں نے پھر اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ‘‘
(یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۵تا ۳۹)
اس حوالہ سے صاف پتہ لگتا ہے کہ مسیح نے خود اپنے بیٹا ہونے کے معنے کر دئیے ہیں اور بتایا ہے کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں خداکا بیٹا ہوں تو میری مراد یہ نہیں ہوتی کہ واقعہ میں خدا کی خدائی مجھ میں آ گئی ہے یا میںبھی ایک خدا ہوں۔ بلکہ جس طرح بائبل میں دوسرے لوگوں کے متعلق آتا ہے کہ وہ خدا ہیں لیکن اس کے باوجود خدا نہیں بن گئے بلکہ یہ ایک استعارہ تھا جو استعمال ہوا۔ اسی طرح جب میں اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا ہوں تو یہ بھی ایک استعارہ ہوتا ہے۔ یہ مراد نہیں ہوتی کہ میں واقعہ میں خدا بن گیا ہوں۔
اس حوالہ میں یہود کی شریعت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے وہ ہمیں زبور میں ملتا ہے زبور باب ۸۲ میں آتا ہے۔
’’ خدا کی جماعت میں خدا موجود ہے وہ الہٰوں کے درمیان عدالت کرتا ہے (یعنی مومن لوگ خدا ہیں اور ان خدائوں کے درمیان وہ عدالت کرتا ہے) تم کب تک بے انصافی سے عدالت کرو گے۔غریب اور یتیم کا انصاف کرو۔ غمزدہ اورمفلس کے ساتھ انصاف سے پیش آئو۔ غریب اور محتاج کو بچائو۔ شریروں کے ہاتھ سے ان کو چھڑائو۔ وہ نہ کچھ جانتے ہیں نہ سمجھتے ہیںوہ اندھیرے میں ادھر ادھرچلتے ہیں زمین کی سب بنیادیں ہل گئی ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ تم الٰہ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو تو بھی تم آدمیوں کی طرح مرو گے اور امراء میں سے کسی کی طرح گر جائو گے۔ اے خد ا اٹھ زمین کی عدالت کر۔ کیونکہ تو ہی سب قوموں کا ملک ہو گا‘‘
حضرت دائود ؑ کے انہی کلمات کی طرف حضرت مسیح ؑ اوپر کے حوالہ میں اشارہ کرتے ہیں ۔ اس میں ایک تو یہ آیت ہے کہ
’’ وہ الہٰوں درمیان عدالت کرتا ہے‘‘
اور پھر آیت ۶ اور ۷ تو بالکل واضح ہیں یعنی یہ کہ
’’ میں نے کہا تھا کہ تم الٰہ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو۔‘‘
اس جگہ حضرت دائود ؑ یہ کہتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل تم سب الٰہ ہو ۔ تم سب خدا ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوںنے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ باوجود اس کے کہ میںنے تمہیں خدا کہا ہے اور خدا کا بیٹا بھی کہا ہے تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ چونکہ تم نہ اصلی خدا ہو اور نہ اصل میں خدا کے بیٹے ہو ۔ اس لئے تم آدمیوں کی طرح مرو گے ۔ یعنی خدا تو مرتا نہیں لیکن تم موت سے نہیں بچو گے۔ تمہیں خدا اور خدا کا بیٹا اس لئے کہا گیا ہے کہ تم دنیا میں خدا کی طرح انصاف قائم کرو گے اور خدا تعالیٰ کے قوانین لوگوں میں جاری کرو گے پس چونکہ تم دنیا میں خدا کے مظہر ہو گے اس لئے استعارۃً تمہیں کبھی خدا اور خدا کا بیٹا کہہ دیا گیا ہے۔
بعض لوگ جو اس بات کے قائل ہیں کہ انبیاء کے دلی خیالات کا نام ہی الہام ہوتا ہے وہ اس کتاب کو دائود کی زبور کہتے ہیں۔ لیکن ہم قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اسے خدا تعالیٰ کا الہام سمجھتے ہیں اور ہمارے نقطہ نگاہ سے حضرت دائود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ نبی اسرائیل خد ااور خدا کے بیٹے ہیں لیکن آگے تشریح کر دی گئی ہے کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ یہ واقعہ میں خدا یا خدا کے بیٹے بن جائیں گے۔ بلکہ خدا اور خدا کے بیٹے کہلانے کے باوجود مرینگے بھی یہ کھائیں گے بھی یہ پہنیں گے بھی صرف اس لئے ان کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا ہے کہ یہ دنیا میںانصاف قائم کریں گے اور خدا تعالیٰ کے احکام پر لوگوں کو چلائیں گے ۔ حضرت دائود ؑ بنی اسرائیل کو توجہ دلاتے ہیں کہ خدا نے تم کو اپنا نام دیا ہے۔ خدا نے تم کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے تم کو بھی چاہئے کہ اس نام کی وجہ سے اپنے کردار کا جائزہ لو۔ غریبوں سے انصاف کرو ۔ کمزوروں کو اٹھائو ۔ ستم رسیدہ پر رحم کرو۔ عفو اور درگزرسے کام لو اور خدائی صفات اپنے اندر پیدا کرو۔
ان حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب حضرت مسیح ؑ نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا تو ان معنوں میں نہیں کہا تھا کہ سچ مچ اپنے آپ کو خدا کا بیٹا سمجھتا تھا کیونکہ اپنے قول کے مطابق وہ اپنے آپ کو اسی طرح خدا تعالیٰ کا بیٹا سمجھتا تھا جس طرح دائود نے بنی اسرائیل کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا۔ اسی طرح بائبل میں اور کئی مقامات پر مختلف لوگوں کے متعلق خدا یا خدا کے بیٹے کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ پس جن معنوں میں وہ خدا اور خدا کے بیٹے تھے انہی معنوں میں حضرت مسیح نے بھی اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا۔
عیسائیوں کی طرف سے عام طور پر یہ دھوکا دیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح کو خدا یا خدا کا بیٹا اور معنوں میں کہا گیا ہے لیکن یوحنا کا حوالہ صاف بتاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو انہی معنوں میں خدا کا بیٹا کہتا تھا جن معنوں میں پہلے لوگوں کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا تھا۔ اگر اور معنے ہوتے تو حضرت مسیح کی دلیل باطل ہو جاتی ہے ۔ حضرت مسیح یہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو بے شک خدا کا بیٹا کہا ہے لیکن بیٹا کہنے سے میںخدائی کا مدعی نہیں بن جاتا۔ کیونکہ پہلے لوگوں کو بھی خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ مسیح کا دعویٰ اور قسم کا تھا تو یہ دلیل باطل ہو جاتی ہے یہودی کہہ سکتے تھے کہ پہلے لوگوں کو اور رنگ میں خدا کا بیٹا کہا گیا ہے مگر تم اپنے آپ کو اور رنگ میں خدا کا بیٹا کہتے ہو۔ مگر مسیح کا اس حوالہ کو پیش کرنا صاف بتاتا ہے کہ مسیح اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ جن معنوں میں پہلے لوگوں کو خدا یا خدا کا بیٹا کہا گیا ہے انہی معنوں میں میں بھی خدا کا بیٹا ہونے کا مدعی ہوں اور جب مسیح انہی معنوں میں خدا کے بیٹے ہوئے جن معنوں میں پہلے لوگوں کو خدا یا خدا کا بیٹا کہا گیا ہے انہی معنوں میں میں بھی خدا کا بیٹا ہونے کا مدعی ہوں اور جب مسیح انہی معنوں میں خدا کے بیٹے ہوئے جن معنوں میں پہلے لوگ خدا کے بیٹے تھے تو کفارہ دینے کا حق جیسے مسیح کو حاصل تھا ویسے ہی تمام اسرائیلی نبیوں کو اور ان کے مخلص مومنوں کو حاصل تھا اور اگر ان کو یہ حق حاصل نہیں تھا تو مسیح کو بھی نہیں تھا کیونکہ کفارہ کی بنیاد مسیح کے ابن اللہ ہونے پر ہے اور میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ مسیح بیٹا کہلانے میں منفرد نہیں بلکہ سینکڑوں انبیاء اور ہزاروں لاکھوں مومنوں کو بھی بائبل میں خداکا بیٹا کہا گیا ہے۔
یہاں تک تو اس بات کا ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ مسیح کے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خدا کا بیٹا ہونے کا مدعی تھا اور اسی لئے وہ کفار ہ ہوا یہ بائبل کی رو سے درست نہیں ۔ بے شک وہ بیٹا ہونے کا مدعی تھا مگر انہی معنوں میںجن معنوں میں پہلے لوگ خدا کے بیٹے کہلائے ور پھر وہ اس کے ساتھ ہی ابن آدم ہونے کا بھی مدعی تھا۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مسیح کا ابن آدم ہونا اصل حقیقت تھی یا اس کا ابن اللہ ہونا اصل حقیقت ہے اور اس کے لئے ہم پھر اس کے کلام کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
میں نے بتایا ہے کہ مسیح نے یہ تسلیم کیاہے کہ میں انہی معنوں میں خدا کا بیٹا ہوں جن معنوں میں بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے اور جب مسیح کے اپنے قول سے یہ بات ثابت ہو گئی تو معلوم ہوا کہ اگر مسیح کو کفارے کا حق حاصل تھا تو ان کو بھی حاصل تھا اور اگر ان کو حاصل نہیں تھا تو مسیح کو بھی حاصل نہیں تھا۔ اب ہم ایک اور طرح اس مسئلہ پر غور کرتے ہیں ۔ دنیا میں جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں تو اس کا اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہنا استعارۃًبھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ واقعہ میں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے رہا ہو۔ اور چونکہ یہ دونوں امکان موجود ہوتے ہیں ۔ اس لئے فیصلہ کے لئے ہمیں بہرحال کوئی نہ کوئی رستہ نکالنا پڑے گا۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بعض دفعہ کسی شخص کے متعلق ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ شیر ہے اور کسی کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ وہ باز ہے لیکن ہم اصلی شیر کو بھی شیر ہی کہتے ہیں ۔ ہم اپنے بچہ کو چڑیا گھر لے جاتے ہیں تو ایک جانور جو پنجرہ میں بند ہوتا ہے اس کی طرف اشارہ کر کے ہم کہتے ہیں یہ شیر ہے اور دوسری طرف ہمارے سامنے اگر کوئی بڑا بہادر اور دلیر انسان بیٹھا ہو تو اس کے متعلق بھی ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ شیر ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ بچہ کس طرح پہچانتا ہے کہ وہ شیر اور ہے اور یہ شیراور ہے؟ بہرحال کوئی پہچان ہونی چاہئے جو اس فرق کو واضح کر سکے اور وہ پہچان اسی طرح ہوتی ہے کہ بچہ نے جو نیچر ل ہسٹری کتابیں پڑھی ہوئی ہوتی ہیں ان میںیہ لکھا ہوتا ہے کہ شیر کے پنجے ہوتے ہیں دم ہوتی ہے منہ اس طرح ہوتا ہے شکل اس طرح ہوتی ہے پس جب ہم کسی انسان کو شیر کہہ دیتے ہیں اور بچہ دیکھتا ہے کہ اس کی دم نہیں ۔ا س کے پنجے نہیں اس کی شکل آدمیوں کی سی ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اسے شیر استعارہ کے طو رپر کہا گیا ہے اور جب ہم چڑیا گھر کے شیر کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ وہی شیر ہے جس کی کتابوں میں تصویریں آتی ہیں ۔ اسی طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص خدا کا بیٹا تھا اور ہم استعارۃً کلام کرتے ہیں ہماری مراد یہ نہیں ہوتی کہ وہ حقیقتاً خدا ہے یا خدا کا بیٹا ہے تو اس وقت ہمارا سامع یہ کس طرح فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کو ہم نے جو خدا یا خدا کا بیٹا کہا ہے تو ہماری مراد استعارہ ہے حقیقت نہیں ۔ اس کے لئے بہرحال کوئی نہ کوئی معیار ہونا چاہئے تاکہ لوگوں کو کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ ﷺکے متعلق فرماتا ہے کہ ان الذین یبا یعونک انما یبایعون اللہ ید اللہ فوق ایدیھم (الفتح ع۱) اے محمدرسول اللہ ﷺوہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ تیری بیعت نہیں کرتے بلکہ خدا کی بیعت کر تے ہیں ید اللہ فوق ایدیھم ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ہاتھ محمدرسول اللہﷺ کا ہوتا تھا خدا کاہاتھ نہیں ہوتا تھا ۔ اب اس آیت کے باوجود ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا نہیں مانتے۔ کیوں نہیں مانتے؟اس لئے کہ قرآن کریم نے بعض اور مقامات پر خداتعالیٰ کی جو خصوصیات بیان کی ہیں وہ محمد رسول اللہ ﷺ میںنہیں پائی جاتی تھیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کھاتا پیتا نہیں محمد رسول اللہ ﷺ کھاتے پیتے تھے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند مگر محمد رسول اللہ ﷺ کو اونگھ بھی آتی تھی اور نیند بھی آتی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کو بیوی کی ضرورت نہیں ۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی نو بیویاںتھیں ۔ گویا وہ باتیں جو خدا میں نہیں ہوتیںوہ محمد رسول اللہ ﷺ میںپائی جاتی تھیں اور وہ باتیں جو خدا میں ہوتی ہیں وہ محمد رسول اللہ ﷺ میں نہیں پائی جاتی تھیں ۔ پس جب خدا نے کہا ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ تو ہم نے سمجھ لیا کہ یہ استعارہ ہے۔ یہ مراد نہیں کہ آپ واقعہ میں خدا بن گئے تھے۔ چنانچہ ہمارا عقیدہ اور دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہی ہے کہ آپ بشر تھے سوائے بعض جہلاء کے جو محمد رسول اللہ ﷺ کو بشر قرار نہیں دیتے۔
تھوڑا ہی عرصہ ہوا ایک دوست مجھ سے ملنے کیلئے آئے وہ اَن پڑھ تھے مگر قرآن کریم کی آیتیں بہت صاف پڑھتے تھے ۔ میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ جس دوست کے ذریعہ مجھے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی ہے وہ قرآن کریم نہایت اچھا پڑھتے تھے ان کے پاس رہنے کی وجہ سے میری زبان بھی صاف ہو گئی۔ پھر انہوں نے بتایا کہ میں ایک دفعہ اپنے بعض رشتہ داروں کے پاس گیا اور انہیں میں نے کہا کہ دیکھو رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ انما انا بشر مثلکم (حم سجدہ ع۱)
میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں۔ اس پر وہ کہنے لگے دیکھو میاں یہ اچھی طرح سن لو تم ہمارے رشتہ دار ہو اس لئے ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ ہم تمہیں ماریں لیکن اب تم چپ کر کے یہاں سے چلے جائوکیونکہ یہ بات ہم نے کبھی نہیں سنی تھی کہ محمد رسول اللہ ﷺ بھی آدمی ہیں آج تم نے یہ بات بھی کہہ دی تو بعض جہلاء اس قسم کے بھی ہیں لیکن مسلمانوں کا سمجھدار طبقہ ہمیشہ سے یہی تسلیم کرتا چلا آیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺگو تمام انسانوں کے سردار ہیں ۔ تمام نبیوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے محبوب اور پیارے ہیں ۔ لیکن بہرحال وہ انسان ہیں ۔ پس مسیح جب کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ وہ باتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں کیا وہ ان کا مدعی ہے؟
جہاں تک کھانے پینے کاسوال ہی عیسائی یہ کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ مسیح انسانی بھیس میں آیا تھا اس لئے وہ کھاتا پیتا تھا ۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے لیکن کم از کم جو روحانی باتیں ہیں وہ تو خدا میں رہیں گی۔ یہ تو نہیں کہ خدا اس دنیا میں آکر وہ کمالات بھی بھول جائے گا جو خدا ہونے کی حیثیت سے اس میں پائے جانے چاہئیں ۔ مرقس باب ۱۰ آیت ۱۷۔۱۸ میں لکھا ہے۔
’’ اور جب وہ باہر نکل کر راہ میں جا رہا تھا تو ایک شخص دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس سے پوچھنے لگا کہ اے نیک استاد میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں۔ یسوع نے اس سے کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘
پہلی صفت خدا تعالیٰ کی اس کا نیک ہونا ہے کیونکہ عیب دار خدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن پہلی صفت جو خدا میں پائی جانی ضروری ہے مسیح اس سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘
میں اس جگہ دوستوں کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعتراضات سن کر عیسائیوں نے اب بعض مقامات سے بائبل کو بدل ڈالا ہے۔ مثلاً اسی واقعہ کو متی میں اب اس طرح درج کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح نے اسے یہ جواب دیا کہ ’’تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے‘‘ (متی باب ۱۹ ایت ۱۷)
حالانکہ انگریزی بائیبلیں جو انگلستان میں چھپی ہوئی ہیں اور بائبل کے وہ اردو ایڈیشن جو 1910ء سے پہلے کے ہیں ۔ ان سب میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ حضرت مسیح نے اسے یہ جواب دیا کہ ’’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعتراض کیا کہ تم کہتے ہو کہ مسیح خدا کا بیٹا تھا اس لئے وہ کفارہ ہو گیا حالانکہ یہ حوالہ صاف بتا رہا ہے کہ مسیح خدا نہیں تھاکیونکہ وہ تو اپنے نیک ہونے سے بھی انکاکر رہا ہے اور جب وہ خدا نہیں تھا تو کفارہ کس طرح ہوا ۔ گویا ایک طرف اس سے کفارہ باطل ہو جاتا ہے اور دوسری طرف اس سے توحیدثابت ہوتی ہے۔ عیسائیوں کو اور تو کوئی جواب نہ سوجھا۔ انہوں نے بائبل کے نئے اردو ایڈیشنوں میں ان الفاظ کی بجائے یہ الفاظ لکھ دئیے کہ : -
’’ تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے۔ ‘‘
گویا یہ ظاہر کیا کہ حضرت مسیح نے اسے یہ جواب د یا تھا کہ تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں سوال کر رہا ہے ۔ نیک تو صرف خدا ہے حالانکہ تمام انگریزی بائبلوں میں اور تمام یونانی اور جرمن بائبلوں میں اور اردو کی تمام پرانی بائبلوں میں یہ الفاظ تھے کہ ’’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ۔ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘ اس قسم کی سترہ اٹھارہ تبدیلیاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعتراضات کے نتیجہ میں عیسائیوں نے بائبل میں کی ہیں۔ بہرحال کہنے والے نے یہی کہا کہ اے نیک استاد میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں۔ اور حضرت مسیح نے اسے کہا کہ ’’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ۔ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘
اس حوالہ سے باتیں نکل آئیں ۔ اول خدا میں نیکی ہے کیونکہ بغیر نیکی کے وہ خدا ہی نہیں ہو سکتا دوم مسیح میں نیکی نہیں اور ان دو باتوں کا یہ لازمی نتیجہ نکل آیا کہ چونکہ مسیح میں نیکی نہیں اس لئے وہ خدا نہیں ۔
اسی طرح متی باب ۲۴ آیت ۳۲ تا ۳۷ میں لکھا ہے:۔
’’ اب انجیر کے درخت سے ایک تمثیل سیکھو جونہی اس کی ڈالی نرم ہوتی اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے اسی طرح جب تم ان سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے (یعنی مسیح کی آمد ثانی) میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی ۔ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی لیکن اس دن (یعنی مسیح کی آمد ثانی کے دن) اور اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ۔ ‘‘
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسیح اپنے عالم الغیب ہونے سے انکار کرتا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت اس کا عالم الغیب ہونا بھی ہے ۔ پس جب مسیح کہتا ہے کہ میں علم غیب نہیںجانتا اور مستقبل کے حالات کا مجھے علم نہیں تو دوسرے الفاظ میں وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ جب میں اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا ہوں تو میں حقیقتاً نہیں کہتا بلکہ صرف استعارۃً کہتا ہوں۔ یعنی میری مراد صرف اتنی ہوتی ہے کہ میں خدا کا پیارا ہوں۔
اسی طرح انجیل میں خدائے واحد کے لفظ پر بھی زور دیا گیا ہے۔ یوحنا باب ۵ آیت ۴۴ میں لکھا ہے۔
’’ تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو اور وہ عزت جو خدائے واحد کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے کیونکر ایمان لا سکتے ہو۔‘‘
عیسائیت ہمارے سامنے تثلیث پیش کرتی ہے لیکن مسیح صاف طور پر خدائے واحد کا لفظ استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو اور وہ عزت جو خدائے واحد کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے کیونکر ایمان لا سکتے ہو۔
اسی طرح یوحنا باب ۱۷ آیت ۳ میں لکھا ہے:۔
’’ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں ۔‘‘
یہاں سے ایک اور بات بھی ثابت ہوئی۔ پہلا حوالہ جو یوحنا باب ۵ کا تھا اس کا ایک بودہ سا جواب مسیحی دے سکتے تھے اور وہ یہ کہ جب ہم خدائے واحد کالفظ استعمال کرتے ہیں تو ہماری مراد اقنوم ثلاثہ سے ہوتی ہے جس میں خدا باپ بھی شامل ہے خدا بیٹا بھی شامل ہے اور وہ کہتے بھی یہی ہیں کہ ’’ تین ایک ہیں اور ایک تین ‘‘
پس وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم بھی تین کو ایک سمجھتے ہیں اور خدائے واحد سے مراد خدا باپ ، خدا بیٹا اور خدا روح القدس کا مجموعہ ہے۔ اس جواب کو یوحنا کے اوپر کے حوالہ نے رد کر دیا۔ کیونکہ یہاں مسیح کا ذکر خدائے واحد سے الگ کر کے کیا گیا ہے۔
الفاظ یہ ہیں : -
’’ اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں‘‘
اس جگہ خدائے واحد کی جو اصطلاح استعمال کی گئی ہے اس میں مسیح شامل نہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ مسیح سے علیحدہ ہو کر خدائے واحد بنتا ہے اس کے ساتھ مل کر نہیں اور توحید اسی کا نام ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے نہ بیٹے کو نہ روح القدس کو اور نہ کسی اور کو۔
غرض اس حوالہ نے بھی بتا دیا کہ بیٹے کا لفظ ایک استعارہ تھا جو مسیح کے متعلق استعمال کیا گیا تھا اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ وہ خدا کا شریک تھا بلکہ یہ ویسا ہی ایک پیار کا کلمہ تھا جیسے مائیں اپنے بیٹے کو کہتی ہیں کہ یہ میرا بیٹا میرے جگر کا ٹکڑا اور میرا دل ہے ۔ جس طرح بندوں کو حق حاصل ہے کہ وہ پیار میں اس طرح کلام کریں اسی طرح خدا کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بندوں سے پیار اور محبت کی گفتگو کرے۔ دنیا میں بسااوقات اپنے کسی عزیز یا دوست کے بچہ کو جب انسان دیکھتا ہے تو کہہ دیتا ہے تو میرا بچہ ہے ۔ اب یہ تو نہیںہوتاکہ وہ بعد میں ورثہ کا دعویٰ کرد ے اور کہے فلاں فلاں اس بات کے گواہ ہیں کہ اس نے ان کے سامنے مجھے اپنا بچہ قرار دیا تھا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ محبت اور پیار کے الفاظ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح مائیں اپنے بچوں کا ذکر کرتی ہیں تو کہتی ہیں ۔ ہائے میرا کلیجہ ۔ ہائے میرا دل ۔ ہائے میری آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اب اس کا یہ مطلب تو نہیںہوتا کہ وہ بچہ سچ مچ ان کا کلیجہ یا دل یا آنکھیں ہوتا ہے یا عورت مر جائے تو ساتھ ہی بچے کو بھی دفن کر دیا جائے اور کہا جائے کہ یہ بچہ تو ہے ہی نہیں یہ تو اس عورت کا کلیجہ یا دل تھا۔ کیا دنیا میں کبھی کسی نے ایسی حماقت کی ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ محبت اور پیار کے الفاظ ہوتے ہیں ۔اسی قسم کے الفاظ خدا تعالیٰ بھی اپنے پیاروں کے متعلق استعمال کر لیتا ہے اور بعض دفعہ ان کو اپنا بچہ کہہ دیتا ہے جیسے اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہا یا جیسے اس نے اور کئی نبیوں کو کہا ۔ پس کسی کو بیٹاکہنے کے یہ معنے نہیں کہ اب خدائے واحد نہیں رہا یا نعوذ باللہ دو یا تین خدا ہو گئے ہیں ۔
غرض یہ حوالہ بھی بتاتا ہے کہ مسیح کے نزدیک خدا اور ہے اور وہ اور۔ چنانچہ خدائے واحد کے وجود کا الگ ذکر کیا گیا ہے اور مسیح کا الگ ذکر کیا گیا ہے اگر مسیح خدا ہوتا تو اس کے علیحدہ ذکر کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ خدائے واحد میں باپ خدا بھی آ جاتا، بیٹا خدا بھی آ جاتا اور روح القدس خدا بھی آ جاتا۔مگر اسے خدائے واحد سے الگ کیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے وجود میں شامل نہیں۔ پس ان حوالوں سے ثابت ہوا کہ جب مسیح کو خدا کا بیٹا کہاگیا تو اس سے مراد حقیقتاً بیٹا نہ تھا بلکہ اسے استعارہ کے طور پر بیٹا کہا گیا تھا۔
پھر مسیحی عقیدہ یہ ہے کہ مسیح خدا کی طرح بے جسم ہے ۔ جب وہ اس دنیا میں آیا تو اس نے لوگوں کے لئے جسم اختیار کیا ورنہ خدا کے بیٹے کا کوئی جسم نہیں جیسے باپ خدا کا کوئی جسم نہیں یا جیسے روح القدس خدا کاکوئی جسم نہیں ۔ اسی طرح بیٹے کا بھی کوئی جسم نہیں ۔ جب وہ اس دنیا میں آیا تاکہ بنی نوع انسان کے گناہوں کی خاطر صلیب پر لٹک جائے تو اس نے اپنے لئے ایک جسم اختیار کر لیا ۔ گویا جسم اختیار کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بنی نوع انسان کے بدلہ میںپھانسی پر لٹک جائے اور ایک دفعہ موت اختیار کرے کیونکہ موت کو گناہ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے ۔ جب مسیح نے دوسروں کا گناہ اٹھا لیا تو اس پرموت آنی لازمی تھی۔ مگر جب موت آ گئی تو اس کے بعد وہ سکیم جو بنی نوع انسان کے گناہ معاف کرانے کیلئے اختیار کی گئی تھی ختم ہو گئی۔ اب اگر عیسائیوں کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو ضروری تھا کہ مسیح جب دوبارہ زندہ ہوا تو اس کے ساتھ اس کا جسم نہ ہوتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی غرض پوری ہو چکی تھی۔ بنی نوع انسان کے گناہ معاف ہو چکے تھے اور اب بیٹے کے تجسم کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ وہ ویسا ہی کامل ہو چکا تھا جیسے خدا کا باپ کامل ہے مگر انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد بھی جب ان کے نزدیک مسیح دوبارہ زندہ ہوا مسیح کے ساتھ اس کا جسم تھا اور وہ اسی جسم سمیت آسمان پر گیا یا بعض دوسری روایتوں کے مطابق اسی جسم کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر جا کر غائب ہو گیا۔ گویا صرف یہی نہیں کہ انجیل کے روسے مسیح قبر میں سے جسم لے کر نکلا۔ حالانکہ اسے جسم کے ساتھ نکلنا نہیں چاہئے تھا۔ بلکہ وہ آسمان پر بھی اس جسم کو لے گیا ۔ حالانکہ اب جسم کے کوئی معنے ہی نہیں تھے۔ جب تک وہ دنیا میں نہیں آیا تھا اس کا کوئی جسم نہیں تھا پھر عارضی طور پر اس نے بنی نوع انسان کے گناہوں کو اپنے اوپر لینے کیلئے جسم اختیار کیا۔ اس کے بعد جب وہ غرض پوری ہو چکی تو لازماً اس کے ساتھ اس کا جسم نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مگر انجیل بتلاتی ہے کہ دوبارہ جی اٹھنے کے بعد بھی وہ جسم سمیت اٹھا اور پھر آسمان پر بھی جسم سمیت گیا۔اس طرح اس کی خدائی کی ساری عمارت گر جاتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیح جو عیسائیوں کے نزدیک خدا باپ کے برابر ہے وہ اب تک اسی جسم کے ساتھ آسمان پر بیٹھا ہوا ہے اور اس قید کے ساتھ مقید ہے ۔ اور پھر ا نجیل میں یہ بھی ذکر نہیں کہ وہ کب اس جسم سے الگ ہو گا بلکہ انجیل سے تویہ ظاہر ہے کہ جب وہ دوبارہ آئے گاتب بھی اسی جسم کے ساتھ آئے گا کیونکہ لکھا ہے جب وہ آئے گا تو
’’اس وقت لوگ ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے‘‘
(یعنی اس کا دعویٰ آسانی کے ساتھ نہیں پہچانا جائے گا بلکہ کئی قسم کے شکوک و شبہات بھی اس کے متعلق پیدا کئے جائیں گے)
(مرقس باب ۱۳ آیت ۲۷)
گویا انجیل یہ بتاتی ہے کہ دوبارہ بھی لوگ اس جسم کے ساتھ مسیح کو آسمان سے اترتا دیکھیں گے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اب دوبارہ مسیح پر موت نہیں آ سکتی کیونکہ پہلی موت اس پر کفارہ کے لئے آئی تھی جب وہ کفار ہ ہو چکا تو اب دوسری موت کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ یا تو عیسائیوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ مسیح اب ہمیشہ کیلئے جسم کی قید میں رہے گا اور وہ اس سے کبھی رہائی حاصل نہیں کر سکتا اور یا انہیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ تھیوری جو ان کے تجسم کے متعلق انہوں نے پیش کی تھی وہ باطل ہے کیونکہ اگر یہ تھوری درست ہوتی تو صلیب کے واقعہ کے بعد انہیں جسم سے آزاد ہو جانا چاہئے تھا مگر بجائے آزاد ہونے کے وہ بائبل کے رو سے اسی جسم کے ساتھ زندہ ہوئے اور اسی جسم کے ساتھ آسمان پر چلے گئے۔
پھر عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ مسیح کفارہ ہو گیا ہے اس دعویٰ کے ثابت کرنے سے پہلے یہ سوال حل کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا مسیح کفارہ پر راضی تھا ۔ ساری دلیل کفارہ کی یہی ہے کہ خدا لوگوں کے گناہ معاف نہیں کر سکتا اور چونکہ وہ معاف نہیں کرسکتا اس لئے اس نے بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ مسیح کو سزاد ے کر قبول کر لیا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر زید مقروض ہے اور بکر اس کا قرضہ ادا کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے تو زید کا قرضہ اتر جاتا ہے ۔ بنی نوع انسان گناہ کر کے خدا تعالیٰ کے مقروض ہو گئے ہیں اور وہ بوجہ عادل ہونے کے ان کو معاف نہیںکر سکتا کیونکہ ان کے خیال میں عدل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ گنہگار کو ضرور سزا دی جائے۔ پس اس کا علاج اس نے یہ کیا کہ اپنے بیٹے سے لوگوں کا قرضہ وصول کر لیا۔ فرض کرو یہ بات ٹھیک ہے۔ اگرچہ گناہ روپیہ کی طرح نہیں بلکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کو سرطان کا پھوڑا نکلا ہوا ہو۔ ایسے شخص کے متعلق اگر دس ہزار لوگ بھی یہ کہیں کہ یہ پھوڑا اسے نہیںنکلا ہوا بلکہ ہمیں نکلا ہوا ہے اور ہم اس کی تکلیف اٹھانے کیلئے تیار ہیں تو وہ اس کی تکلیف کو نہیں اٹھا سکتے۔ اسی طرح دنیا میں اور کئی چیزیں ہیں جن کا بدلہ نہیں دیا جا سکتااور گناہ بھی انہیں چیزوں میں سے ہے لیکن ہم فرض کر لیتے ہیں کہ گناہ کا بدلہ دیا جا سکتا ہے اور عیسائیوں کی بات درست ہے۔ تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کے قرض کے بدلہ میں دوسرے سے زبردستی روپیہ چھین لینا جائز ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر الف کا قرضہ ب اپنی مرضی سے ادا کر دے تو ایسا کر سکتا ہے لیکن اگر الف کا قرضہ ہم معاف نہ کریں اور ب کی جیب سے جبر اً روپیہ نکال لیں تو ہم نے انصاف ہی نہیں کیا بلکہ ظلم کیا ۔ انصاف اس لئے نہیں کیا کہ ہم نے اس سے قرض وصول نہیں کیا جس سے وصول کرنا چاہئے تھا اور ظلم اس لئے کیا کہ ہم نے جبر سے کام لیا اور دوسرے کی جیب سے زبردستی روپیہ نکال لیا۔پس اگر مسیح لوگوں کے گناہوں کا قرض ادا کرنے پرراضی ہو اور باقی باتیں بھی ثابت ہو جائیں تو ہمیں مان لینا پڑے گا کہ وہ کفارہ ہو گیا ۔ لیکن اگر باقی باتیں مسیحیت ثابت بھی کر دے جن کا ہم نے اوپر رد کیا ہے اور یہ ثابت نہ کرے کہ بنی نوع انسان کے گناہ کا بوجھ اپنی مرضی سے مسیح نے اٹھایا تو کفارے کا تمام گھر وندا ختم ہو جاتا ہے کیونکہ جس کو کفارہ کیلئے پیش کیا گیا ہے وہ کفارہ دینے پر راضی نہیں تھا۔ اس کے متعلق ہم انجیل کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس بارہ میں کیا بیان دیتی ہے ۔
مرقس باب ۱۴آیت ۳۲ تا ۴۲ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر وہ ایک جگہ آئے جس کا نام گتسمنی (Gethsemane)تھا اور اس نے (یعنی مسیح نے) اپنے شاگردوں سے کہا یہاں بیٹھے رہو جب تک میں دعا کروں۔ اور پطرس اور یعقوب اور یوحنا کو اپنے ساتھ لے کر نہایت حیران اور بے قرار ہونے لگا (یعنی حضرت مسیح نے صرف تین ساتھ لئے اور علیحدگی میںدعا کرنے کیلئے چلا گیا) اور ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے تم یہاں ٹھہرو اور جاگتے رہو (یعنی پہلے تو باقی شاگردوں کو پیچھے چھوڑا تھا اور صرف تین شاگرد اپنے ساتھ لئے تھے لیکن پھر اس خیال سے کہ ممکن ہے ان کی وجہ سے طبیعت میں حجاب پیدا ہو اور پوری طرح گریہ وزاری نہ ہو سکے اس نے انہیں بھی کہا کہ تم یہاں ٹھہرو اور جاگتے رہو) اور وہ تھوڑا آگے بڑھا اور زمین پر گر کر دعا کرنے لگا کہ اگر ہو سکے تو یہ گھڑی مجھ پر سے ٹل جائے۔ (یعنی صلیب پر لٹکنا جس کے ذریعہ سے اس نے تمام بنی نوع انسان کے گناہ اٹھانے تھے اس کے متعلق اس نے یہ دعا کی کہ اے خدا یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے اور دشمن مجھے صلیب پر نہ لٹکا دے) اور کہا اے ابا اے باپ تجھ سے سب کچھ ہو سکتا ہے اس پیالہ کو میرے پاس سے ہٹا لے (ان الفاظ کے صاف معنے یہ ہیں کہ اسے مجبور کیا جا رہا تھا کہ وہ پھانسی پر لٹکے) اپنی مرضی سے وہ پھانسی پرلٹکنے کیلئے تیار نہیں تھا پھر اس نے کہا ) توبھی جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں بلکہ جو تو چاہتا ہے وہی ہو (یعنی میں تو یہ چاہتا ہوں کہ صلیب پر نہ لٹکوں اور کفارہ نہ بنوں۔ لیکن تو چاہتا ہے کہ میں صلیب پر لٹک جائوں گویا مجھ سے زبردستی ایک کام لے رہا ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی بینکر اس شخص سے تو قرضہ وصول نہ کرے جس نے روپیہ لیا اور بازار جاتے ہوئے کسی کی جیب سے زبردستی روپیہ نکال کر یہ سمجھ لے کہ اس کا قرضہ ادا ہو گیا ہے۔ مسیح صاف الفاظ میں کہتا ہے ’’ تو بھی جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں بلکہ جو تو چاہتا ہے وہی ہو‘‘ یعنی میں تو نہیں چاہتا کہ صلیب پر لٹکوں لیکن اگر تو لٹکانا ہی چاہتا ہے تو مجھے منظور ہے)پھر وہ آیا اور انہیں سوتے پا کر پطرس سے کہا اے شمعون تو سوتا ہے کیا تو ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکا (پطرس کا اصل نام شمعون تھا مسیح نے اس کا نام پطر س رکھا جس کے معنے چٹان کے ہیں اور جس میںاس طرف اشارہ تھا کہ آئندہ زمانہ میںیہ شخص مسیحیت کے لئے چٹان ثابت ہو گا) جاگو اور دعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو ۔ روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے(یعنی چونکہ خدا کا منشاء ہے کہ میںصلیب پر لٹک جائوں اس لئے میرا دل تو نہیں ڈرتا مگر جہاں تک بشریت کا تعلق ہے میرا جسم اپنی کمزوری محسوس کرتا ہے) وہ پھر چلا گیا اور وہی بات کہہ کر دعا کی (یعنی پھر یہی کہا کہ اے خدا میری مرضی صلیب پر لٹکنے کی نہیں لیکن اگر تو لٹکانا چاہتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں)اور پھر آ کر انہیں سوتے پایا کیونکہ ان کی آنکھیں نیند سے بھری تھیں اور وہ نہ جانتے تھے کہ اسے کیا جواب دیں (غرض مسیح گھبراہٹ اور بے قراری میں بار بار آتے تھے اور یہ دیکھتے تھے کہ میرے حواری اس مصیبت اور تکلیف کی گھڑی میں میرا ساتھ دے رہے ہیں یا نہیں ۔ مگر وہ جب بھی آتے حواریوں کو سویا ہوا پاتے) پھر تیسری بار آ کر ان سے کہا اب سوتے رہو اور آرام کرو۔ بس وقت آ پہنچا ہے دیکھو ابن آدم گنہگاروں کے ہاتھ میں حوالہ کیا جاتا ہے دیکھو میرا پکڑوانے والا نزدیک آ پہنچا ہے۔‘‘
اس حوالہ سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح اپنی مرضی سے ہرگز کفارہ نہیں ہوا۔ اس کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح یہ پیالہ ٹل جائے اور صلیب پر اسے نہ لٹکنا پڑے ۔ پس جو کچھ ہوا زبرستی ہوا۔
اس بارہ میںدوسری گواہی لوقا کی ہے اس میں لکھا ہے۔
’’ پھر وہ نکل کر اپنے دستور کے موافق زیتون کے پہاڑ کو گیا اور شاگرد اس کے پیچھے ہو لئے اور اس جگہ پہنچ کر اس نے ان سے کہا دعا کرو کہ آزمائش میں نہ پڑو اور وہ ان سے بمشکل الگ ہو کر کوئی پتھر کا ٹپہ آگے بڑھا اور گھٹنے ٹیک کر یوں دعا کرنے لگا کہ اے باپ اگر تو چاہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے تو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو (گویا یہ انجیل بھی مانتی ہے کہ مسیح نے یہ کہا کہ میری مرضی تو اس میں نہیں لیکن اگر تیری مرضی مجھے صلیب پر لٹکانے کی ہی ہے تو میں اسے قبول کرتا ہوں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لو کہ میں تو قرضہ دینا نہیں چاہتا لیکن اگر تو چھیننا چاہتا ہے تو چھین لے) اور آسمان سے ایک فرشتہ اس کو دکھائی دیا وہ اسے تقویت دیتا تھا (یعنی خدا کو فرشتہ تقویت دیتا تھا یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گھوڑے کو کوئی چوہابلکہ اس سے بھی کوئی چھوٹی چیز سہارا دے) پھر وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہو کر اور بھی دلسوزی سے دعا کرنے لگا (گویا فرشتے کی تقویت بھی کام نہ آئی اور وہ اس دعا میں مشغول ہو گیا کہ کسی طرح یہ صلیب کی مصیبت مجھ سے ٹل جائے) اور اس کا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہو کر زمین پر ٹپکتا تھا (حالانکہ وہ دن سخت سردی کے تھے ۔د سمبر کا مہینہ تھا شمالی علاقہ میںمسیح رہتے تھے اور پھر اس وقت پہاڑی پر چڑھے ہوئے تھے مگر اس پریشانی کا ان پر اتنا اثر تھا کہ ایسی سخت سردی میں بھی دعا کرتے وقت ان کا پسینہ ٹپ ٹپ بہنے لگا ۔ اس دعا کے بعد وہ اپنے شاگردوں کے پاس آئے چونکہ انسان کے لئے اپنا عیب بیان کر نا مشکل ہوتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ کہیں دشمن کوئی طعنہ نہ دیدے اس لئے یہاں لوقا نے ایک عجیب بات لکھ دی ہے ۔ مرقس نے تو صاف طور پر بیان کر دیا تھا کہ اس شدت گھبراہٹ میں مسیح بار بار اپنے شاگردوں کے پاس آتے اور کہتے کہ اٹھو اور دعا کرو مگر وہ اٹھنے کا نام نہیں لیتے تھے لیکن لوقا کو خیال آیا کہ یہ تو بڑی بدنامی کی بات ہے لوگ کیا کہیں گے کہ مسیح کے اچھے شاگرد تھے اتنی بڑی مصیبت میں بھی وہ نہ جاگ سکے اور باوجود اس کے مسیح بار بار کہتے تھے کہ اٹھو اور دعا کرو وہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ا س بدنامی کے دھبہ کو دور کرنے کیلئے لوقا لکھتا ) جب دعا سے اٹھ کر شاگردوں کے پاس آیا تو انہیں غم کے مارے سوتے پایا(گویا شدت غم میں وہ بالکل سو رہے تھے)اور ان سے کہا تم سوتے کیوں ہو (لوقا کے نزدیک اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تم غم کیوں کرتے ہو اور شدت غم میں تم کیوں سو رہے ہو۔ گویا غم میں انسان سویا کرتا ہے اور جب غم نہ ہو تو اٹھ کر دعا کیا کرتا ہے۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ چونکہ لوقا کو یہ خیال آگیا کہ پڑھنے والے کیا خیال کریں گے کہ یہ عجیب شاگرد تھے جو اتنی بڑی مصیبت میں ہی سوئے رہے اس لئے اس نے یہ الفاظ لکھ دئیے کہ وہ حواری شدت غم میں سو رہے تھے مسیح نے ان سے کہا) اٹھ کر کہ دعا کرو تا کہ آزمائش میں نہ پڑو۔‘‘
(لوقا باب ۲۲ آیت ۳۹ تا ۴۶)
اس حوالہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر لٹکنا نہیں چاہتا تھا اور کفارہ کی ساری بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ مسیح اپنی مرضی سے لوگوں کے گناہوں کے بدلہ میں صلیب پر لٹکا۔ جب وہ اپنی مرضی سے صلیب پر ہی نہیں لٹکا توکفارہ کس طرح ہوا؟
بعض دفعہ عیسائی یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس میں جبر کا کوئی سوال ہی نہیں مسیح نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ’’ تو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو۔ ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے ایک نبی سے یہ کب امید ہو سکتی ہے کہ خدا چاہے اور وہ نہ چاہے مسیح نے بھی جب دیکھا کہ خدا کی مرضی اسی میں ہے کہ میں صلیب پر لٹک جائوں تو اس نے خدا تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا تیری مرضی پوری ہو ۔ لیکن اس سے اتنا تو ثابت ہو گیا کہ وہ اپنی مرضی سے کفارہ نہیں ہوا اور کفارہ خدا تعالیٰ کی مرضی سے نہیں ہوتابلکہ اگر کفارہ ہو سکتا ہے تو کفارہ دینے والے کی مرضی سے ہوتا ہے مسیح صاف طور پر کہتا ہے کہ میری مرضی نہیں کہ میں کفارہ پیش کروں یہ اور بات ہے کہ جبر کے بعد وہ تیار ہوگیا ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بعض دفعہ ڈاکو جنگل میں کسی مسافر کو پکڑ لیتے ہیں تو وہ ہنس ہنس کر انہیں روپیہ دینا شروع کر دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر میں بولا تو یہ مجھے قتل کر دیں گے لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی مرضی سے انہیںروپیہ دے رہا ہوتا ہے ۔ اسی طرح یہ سوال نہیں کہ خدا نے اسے جبراً ایک بات پر تیار کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ بات مسیح کی اپنی مرضی سے ہوئی؟اگر اس کی مرضی سے ہوئی ہے تب تووہ کفارہ ہوا ورنہ نہیں اور اوپر کے حوالہ جات بتا رہے ہیں کہ مسیح نے صاف طور پر یہ کہا کہ میری مرضی نہیں کہ صلیب پر لٹکوں۔ پس جو کچھ ہوا جبر سے ہوا اور یہ چیز ایسی ہے جو کفارہ کو باطل ثابت کر دی ہے۔
بعض عیسائی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ مسیح کی عارضی حالت تھی بعد میں اس کی یہ کیفیت بدل گئی تھی۔ اس امر کا جائزہ لینے کیلئے ہم یہ دیکھتے ہیںکہ صلیب کے وقت مسیح کی کیا حالت تھی۔ساری انجیل میں عبرانی کا ایک ہی فقرہ محفوظ ہے جو مسیح نے صلیب کے وقت بولا اور وہ فقرہ یہ ہے کہ ایلی ایلی لما سبقتنی (متی باب ۲۷ آیت ۴۶)یعنی جب مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا اور ان کے ہاتھوں اور پائوں میں کیل گاڑے گئے تو مسیح نے نہایت ہی دردناک طور پر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ ایلی ایلی اے میرے خدا اے میرے خدا لما سبقتنی تو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ آخر میںنے کیا گناہ کیاہے کہ تو نے مجھے چھوڑ دیا اور مجھ سے اپنے رحم و کرم کی نظر ہٹا لی۔ اس دعا سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ مسیح اپنے مرضی سے صلیب پر نہیں لٹکا بلکہ آخری حالت میںبھی وہ یہی سمجھتا تھاکہ خدا نے مجھے چھوڑ دیا ہے اور اس نے مجھے اس مصیبت میںڈال دیا ہے گویا مسیح اس بات پر خوش نہیں تھا کہ اس کو صلیب پر لٹکایا جائے اور جب وہ اس بات پر خوش نہ تھا نہ صلیب سے پہلے اور نہ بعد۔ اور وہ یہ قربانی دینے کیلئے تیار نہیں تھا تو اس کا صلیب پر لٹکنا کفارہ کا موجب نہیں ہو سکتا۔
پھر اس کے ساتھ ہی ایک اور سوال بھی حل کرنا ضروری ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ کیا مسیح آدم کے گناہ سے خود پاک تھا کہ قابل کفارہ ہو؟ کفارہ کی تھیوری یہ ہے کہ انسان پاک نہیںہو سکتا کیونکہ آدم نے گناہ کیا تھا اور وہ آدم کی نسل میں سے ہے اور چونکہ نسل اپنے باپ کی وارث ہوتی ہے۔ اس لئے جو آدم کی اولاد ہے وہ بہرحال اپنے باپ کے گناہ کی وارث ہے اور چونکہ وہ گناہ کی وارث ہے اس لئے اولاد آدم گناہ سے بچ نہیں سکتی اور چونکہ وہ گناہ سے بچ نہیں سکتی اور نجات نہیں پا سکتی اور نہ کوئی گنہگار انسان دوسرے گنہگار کے لئے کفارہ ہو سکتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ کوئی ایسا وجود ہوتا جو گنہگار نہ ہوتا اور اپنی مرضی سے لوگوں کے گناہ اٹھا لیتا اور ان کی سزا خود برداشت کر لیتا تاکہ دوسرے لوگ گناہ کی سزا سے بچ جائیں ۔ اور یہ وجود مسیح ناصری تھا جو خدا کابیٹا تھا اس نے تمام لوگوں کے گناہ اٹھا لئے اور صلیب پر لٹک کر ان کے لئے کفارہ بن گیا۔ یہ ہے کفارہ کی تھیوری ۔ اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح گناہ سے پاک نہیں تھا تو یہ ساری تھیوری ختم ہو جاتی ہے ۔ جب وہ گناہ سے پاک ہی نہیں تھا تو کفارہ بھی نہیں ہو سکتا تھا ۔ انبیاء کے متعلق عیسائی یہی کہتے ہیں کہ چونکہ وہ گنہگار تھے اس لئے کفارہ نہیں ہو سکتے تھے ابراہیم کفارہ نہیں ہو سکتا تھا موسیٰ کفارہ نہیں ہو سکتا تھا د ائود کفارہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ خود گنہگار تھے اور گنہگار دوسرے گنہگار کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن بائبل سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح خود بھی پاک نہیں تھا اور جب وہ پاک نہیں تھا تود وسرے گنہگاروں کا وہ بھی بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔
انسان کو گنہگار ثابت کرنے کی دلیل مسیحیت یہ دیتی ہے کہ وہ گناہ کرنے والے آدم کی نسل میں سے ہے اور چونکہ وہ آدم کی نسل میں سے ہے اس لئے گنہگار ہے ۔ ہم کہتے ہیں مسیح ؑ بھی حوا کے ذریعہ آدم کی اولاد میں سے تھا اور اس لئے وہ بھی گنہگار تھا۔ مسیحی کہتے ہیں کہ انسان نے گناہ آدم سے ورثہ میں لیا ہے۔ جب مسیح ؑ کا کوئی باپ ہی نہیں تھا تو آدم کا گناہ اس کے ورثہ میں نہیں آیا۔ ہم کہتے ہیں کہ ورثہ باپ اور ماں دونوں سے مل سکتا ہے ۔ مثلاً اگر ماں کے اندر آتشک ہو تو بچے کے اندر بھی آتشک کا مادہ آ سکتا ہے یا اگر ماں کو سل ہو تو بچے کے اندر بھی سل کا مادہ آ سکتا ہے۔ کئی مائیں مسلول ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اولاد میں بھی سل کا مادہ آ جاتا ہے۔ اسی طرح مائوں کو مرگی یا جنون کا مرض ہوتا ہے تو اولاد میں بھی مرگی اور جنون کا مرض آ جاتا ہے۔ غرض دنیا کے حالات پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی ، جسمانی یا روحانی عیوب جو ماں باپ میں ہوتے ہیں وہ ورثہ کے طور پر ان کی اولاد میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں ۔ یہ نہیں ہوتا کہ صرف باپ سے ورثہ کے طور پر کوئی بات آ جائے اور ماں کی طرف سے نہ آئے بلکہ باپ اور ماں دونوں کا ورثہ ملتا ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے جب مسیحؑ حوا کی اولاد میں سے تھا تو خواہ اس کا باپ کوئی نہ ہو تب بھی اس نے اپنی ماں سے ورثہ کا گناہ پا لیا تھا اور وہ دوسرے انسانوں کی طرح گنہگار تھا۔ مسیح اسی صورت میں گناہ کے ورثہ سے بچ سکتا ہے جب یہ ثابت کیا جائے کہ وہ آدم اور حوا دونوں کی اولاد میں سے نہیں تھا۔ جب اس کا نہ باپ ہو نہ ماں۔ تب بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ورثہ کا گناہ نہیں پایا۔ اور یا پھر یہ ثابت ہو جائے کہ حوا نے گناہ نہیں کیا۔ تب حضرت مسیح ؑورثہ کے گناہ سے بچ سکتے ہیں کیونکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسیح ؑ حوا کی اولاد میں سے ہے جس نے گناہ نہیں کیا تھا آدم کی اولاد میں سے نہیں جس نے گناہ کیا تھا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس صورت میں بھی مسیح نگاہ سے نہیں بچ سکتا۔کیونکہ اگر فرض کر لیا جائے کہ حوا نے گناہ نہیں کیا تھا۔ گناہ صرف آدم نے کیا تھا تب بھی اگر مسیح کو حوا نے جنا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس میں گناہ کا مادہ نہیں آیا۔ لیکن مسیح تو اس عورت کا بیٹا ہے جو حوا سے ہزاروں سال بعد ہوئی اور جو کئی ہزار واسطے حوا تک رکھتی تھی اس دوران میں ہزاروں دفعہ آدم کی اولاد نے حوا کی بیٹیوں کو چھؤا پھر اور حوا کی بیٹیاں ہوئیں تو ان کو پھر آدم کی اولاد نے چھؤا۔ اس طرح کئی ہزار چکر کھانے کے بعد حضرت مریم پیدا ہوئیں ۔ وہ اتنے ہزار چکر میں آدم کے گناہ کے اثر سے بچ کس طرح سکتی تھیں اگر تو وہ براہ راست حوا کی اولاد میں سے ہوتیں اور حوا بے گناہ ہے اور چونکہ مریم براہ راست بغیر کسی واسطہ کے حوا کی بیٹی ہے۔ اس لئے گناہ کا مادہ اس میں نہیں آیا مگر براہ راست حوا کی اولاد میں سے نہیں بلکہ حوا کی ان بیٹیوں کی اولاد میں سے ہے جو ہزاروں دفعہ گناہوں سے ملوث ہو چکی ہیں۔ پس وہ عورت جو آدم کے گناہ کا حصہ لے چکی تھی کس طرح مسیح کے پاک ہونے کا موجب ہو سکتی تھی۔
پھر یہ بھی درست نہیں کہ حوا بے گناہ تھی ۔ بلکہ بائبل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حوا آدم سے بھی زیادہ گنہگار تھی۔
بائبل میں لکھا ہے :۔
’’ اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا (یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ بائبل میں سانپ سے مراد شیطان ہوتا ہے) اور اس نے عورت سے کہا کیا واقعہ خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا (گویا شیطان حوا کے پاس گیا اور اس نے چالاکی یہ کی کہ حوا سے جا کر یہ نہیں کہا کہ میں نے سنا ہے کہ فلاں درخت کا پھل کھانے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ممانعت ہو چکی ہے بلکہ اس نے یہ کہا کہ کیا خدا نے یہ کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل نہ کھانا) عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے۔ تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جائو گے عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کیلئے خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کراپنے لئے لنگیاں بنائیں۔اورانہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سنی اور آدم اور اس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا۔ تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور اس نے کہا کہ تو کہاں ہے۔ اس نے کہا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا تھا اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا اس نے کہا کہ تجھے کس نے بتایا کہ تو ننگا ہے کیا تو نے اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا آدم نے کہا کہ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا۔ تب خداوند خد انے عورت سے کہا کہ تو نے یہ کیا کِیا ۔عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھ کو بہکا یا تو میں نے کھایا اور خداوند خدا نے سانپ سے کہا اس لئے کہ تو نے یہ کیا تو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھہرا۔ تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھر خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔وہ تیر ے سر کو کچلے گا اور تو اس کی ایڑی پر کاٹے گا ۔ پھر اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھائوں گا ۔ تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا اور آدم سے اس نے کہا چونکہ تو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا اس لئے زمین تیرے سبب سے *** ہوئی ۔ مشقت کے ساتھ تو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھائے گا اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اونٹ کٹارے اُگائے گی اور تو کھیت کی سبزی کھائے گا تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تو پھر لوٹ نہ جائے ۔ اس لئے کہ تو اس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۱تا ۲۰)
یہ وہ واقعہ ہے جو بائبل میں آدم کے گناہ کے متعلق آتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ شیطان کا مقصود آدم کو ورغلانا تھاکیونکہ شیطان سمجھتا تھا کہ آدم کے وجود سے میری حکومت باطل ہو جاتی ہے ۔حوا کا مقام ایسا نہیں تھا کہ شیطان کو اس سے خطرہ ہوتا ۔ پس اس کی اصل غرض یہ تھی کہ آدم کو جنت سے نکالا جائے۔ گویا اصل ساکن جنت آدم تھا ۔ حوا آدم کے طفیل پیدا ہوئی اور آدم کے طفیل ہی اسے جنت ملی۔ پس شیطان کا اصل مقصد آدم کو بہکانا تھا مگر شیطان آدم کے پاس نہیں گیا بلکہ حوا کے پاس گیا اور اسے پھل کھانے پر آمادہ کیا اور پھر حوا نے آگے آدم کو پھل کھلایا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور شیطان پہلے حوا کے پاس کیوں گیا جبکہ اس کی اصل غرض آدم کو بہکانا تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شیطان کی اصل غرض گو آدم کو بہکانا تھی مگر وہ ڈرتا تھا کہ اگر میں براہ راست آدم کے پاس گیاتو میں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گا۔ اور آدم میرے دھوکا میں نہیں آئے گا۔ اس لئے وہ پہلے حوا کے پاس گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ حوا جلد قابو آ جائے گی او رپھر حوا کے ذریعہ آدم کو ورغلانا آسان ہو جائے گا۔چنانچہ جب آدم سے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ
’’ کیا تو نے اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا ‘‘
تو آدم نے یہی جواب دیا کہ
’’ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا‘‘
یعنی آپ کی طرف سے یہ عورت مجھے تحفہ کے طور پر ملی تھی۔ میں دھوکا میں آ گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ عورت جو خدا تعالیٰ کا عطیہ ہے یہ تو غلطی نہیں کر سکتی اور میں نے اس کے کہنے سے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ غرض آدم بھی یہی کہتا ہے کہ عورت نے مجھے بہکایا اور شیطان بھی پہلے حوا کے پاس ہی گیا اور اس نے اسے ورغلایا۔ ان واقعات سے ظاہر ہے کہ
1۔ پہلے گناہ حوانے کیا۔
2۔ حوا آدم سے زیادہ کمزور اور گناہ میںپھنسنے کے زیادہ قابل تھی۔ اسی لئے شیطان پہلے حوا کے پاس گیا حالانکہ اس کا اصل مقصود آدم تھا۔
3۔ جو نسل آدم اور حوا سے پیدا ہوگی اس میں ورثہ کے گناہ کی کمزوری اس اولاد سے کم آ ئے گی جو صرف حوا سے پیدا ہو گی۔ کیونکہ آدم اور حوا کی اولاد نے کچھ باپ کا ورثہ لیا ہے اور کچھ ماں کا ورثہ لیا ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب طاقتور اور کمزور چیزیں آپس میں ملتی ہیں تو وہ ایک درمیانی کیفیت پر آ جاتی ہیں لیکن وہ اولاد جو خالص حوا سے پیدا ہوگی وہ لازماً گناہ کے زیادہ قریب ہوگی۔
جب یہ حالات ہیں تو مسیح صرف حوا سے پیدا ہونے کی وجہ سے دوسرے لوگوں کی نسبت گناہ کے زیادہ قریب ہو گئے ۔ پس وہ دوسروں کے گناہوں کا کفارہ نہیں ہو سکتے۔
کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طاقت میں ہے کہ حوا کی نسل میں سے نیک لوگوں کو پیدا کر دے۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ حوا کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا کر دے جو ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہوں۔ لیکن کفارہ کی بنیاد اس بات پر نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طاقت میں یہ بات داخل ہے یا نہیں کہ وہ حوا کی نسل سے نیک لوگوں کو پیدا کر دے۔ بلکہ اس بات پر ہے کہ ہر انسان پیدائشی طور پر گنہگار ہے اور یہ گناہ کا مادہ اس نے آدم سے ورثہ میں لیا ہے ورنہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کی قدرت کا سوال ہے ہمارا عقیدہ تو آدم کی اولاد کے متعلق بھی یہی ہے کہ اس میں سے بھی نیک لوگ ہو سکتے ہیںاور ہوتے رہے ہیں ۔پس اگر اللہ تعالیٰ کی طاقت کا ہی سوال ہو تو خدا تعالیٰ کی طاقت میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ حوا گنہگار کی اولاد سے نیک لوگ پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کی طاقت میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ آدم گنہگار کی اولاد سے نیک لوگ پیدا کرے لیکن عیسائیوں کا عقیدہ تو یہ ہے کہ جو گنہگار ہو اس کی اولاد نیک ہی نہیں ہو سکتی اور جب ان کا یہ عقیدہ ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طاقت کا کیا سوال رہا اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہنے کیلئے تیار ہیں کہ حوا کی اولاد نیک بن سکتی ہے تو پھر ہم کہیں گے کہ خدا تعالیٰ میں یہ بھی طاقت ہے کہ وہ آدم کے نطفہ سے نیک اولاد پیدا کردے۔ ایسی صورت میں نہ ورثہ کے گناہ پر زور دینے کی کوئی ضرورت رہتی ہے نہ گنہگاروں کی نجات کیلئے خدا تعالیٰ کے بیٹے کی قربانی کی ضرورت رہتی ہے گویا کفارے کی تمام عمارت ایک آن میںمنہدم ہو جاتی ہے عیسائی سیدھی طرح تسلیم کر لیں کہ خدا تعالیٰ کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ گنہگارماں باپ سے نیک اولاد پیدا کر دے لیکن اگر وہ حوا کی اولاد کے متعلق تو خدا تعالیٰ کی طاقت تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں اور آدم کی اولاد کے متعلق اس کی طاقت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تو یہ خود ایک قابل اعتراض امر ہوگا۔بہرحال اصل سوال صرف اتنا ہے کہ خدا میں نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے یا نہیں؟اگر خدا تعالیٰ میں گنہگار ماں سے نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے تو خدا تعالیٰ میں گنہگار باپ سے بھی نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے اور اگر خدا میں گنہگار باپ سے نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ میں گنہگار ماں سے بھی نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت نہیں ۔ بہرحال اگر وہ گنہگار ماں سے نیک اولاد پیدا کرسکتا ہے تو گنہگار باپ سے بھی نیک اولاد پیدا کر سکتا ہے اور وہ گنہگار باپ سے نیک اولاد پیدا نہیں کر سکتا تو گنہگار ماں سے بھی نیک اولاد پیدا نہیں کر سکتا۔
غرض مسیح اگر گنہگار ماں کے بطن سے نیک پیدا ہو سکتا ہے تو باقی لوگ بھی نیک پیدا ہو سکتے ہیں بلکہ دوسرے لوگ مسیح سے زیادہ نیک ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے اندر باپ اور ماں دونوں کے اثرات ہیں ۔
میں نے اوپر لاہور کے ایک پادری کا ذکر کیا ہے جو بعد میں سہارنپور مشنری کالج کا پرنسپل ہو گیا ۔ میری اس سے جو گفتگو ہوئی اس کا ایک حصہ میں بیان کر چکا ہوں۔ اب گفتگو کا دوسرا حصہ بیان کرتا ہوں۔ اس پادری کا نام غالباً وڈ تھا۔ میں نے اس سے کہا پادری صاحب آپ یہ بتائیں کہ ٹھنڈے پانی اور گرم پانی کو اگر آپس میں ملائیں تو کیا ہو گا۔ وہ کہنے لگا پانی سمویا جائے گا۔کچھ گرم پانی کی گرمی کم ہو جائے گی اور کچھ سرد پانی کی سردی کم ہو جائے گی ایک درمیانی سی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ میں نے کہا اب یہ بتائیے شیطان پہلے آدم کے پاس گیا تھا یا حوا کے پاس ؟ کہنے لگا حوا کے پاس میں نے کہا شیطان کا مقصود کیا تھا کیا حوا کو بگاڑنا مقصود تھا یا آدم کو بگاڑنا مقصود تھا؟ کہنے لگا شیطان کا مقصود تو آدم کو بگاڑنا تھا۔میں نے کہا جب آدم مقصود تھا تو وہ براہ راست آدم کے پاس کیوں نہیں گیا راستہ میں چکر کاٹنے کی اسے کیا ضرورت تھی؟ اس نے کہا وہ براہ راست آدم کے پاس اس لئے نہیں گیا کہ اس نے سمجھا حوا کمزور ہے اور میں اسے آسانی سے ورغلا لوں گا ۔ اس کے بعد آدم کو یہ حوا خود بخود ورغلائے گی میری ضرورت نہیںرہے گی۔ میں نے کہا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حوا آدم سے کمزور تھی ۔کہنے لگا ہاں۔ میں نے کہا جب حوا آدم سے کمزور تھی اور گناہ کا ارتکاب پہلے اسی نے کیا اور اسی نے آدم کو ورغلایا تو وہ وجود جو صرف حوا سے پیدا ہوا وہ بے گناہ کس طرح ہو گیا؟ میں نے کہا آپ گرم اور ٹھنڈے پانی کی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں سمجھ لیں کہ آدم کی مثال ٹھنڈے پانی کی سی تھی اور حوا کی مثال گرم پانی کی سی تھی۔ ان دونوں کے ملنے سے جو اولاد پیدا ہوتی وہ لازماً اتنی گنہگار نہیں ہو سکتی جتنی وہ اولاد گنہگار ہو سکتی ہے جو صرف حوا سے پیدا ہوئی ہے ۔ پس مسیح جو حوا سے پیدا ہوا وہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ گنہگار تھا۔کہنے لگا کیا مٹی میں سے سونا نہیں نکلتا؟ میں نے کہا ہمارا اور آپ کا سارا جھگڑا ہی یہی ہے۔ اگر مٹی میں سے سونا نکل سکتا ہے تو پھر آدم کو آپ بے شک گنہگار کہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی مانیں کہ اس کی اولاد نیک ہو سکتی ہے ضروری نہیں کہ وہ گنہگار ہی ہو۔اب جو میں نے اس طرح پکڑا تو کہنے لگا مٹی میں سے سونا نہیں نکلتا، سونے میں سے سونا نکلتا ہے۔ آدم چونکہ گنہگار تھا اس لئے اس کی اولاد بھی ضرور گنہگار ہو گی وہ نیک نہیں ہو سکتی کیونکہ سونے میں سے سونا نکلتا ہے ۔ میں نے کہا تو پھر حوا کا بیٹا دوسروں سے زیادہ گنہگار ماننا پڑے گا کیونکہ حوا آدم سے زیادہ گنہگار تھی۔ اس نے نہ صرف خود رخت کا پھل کھایا بلکہ آدم کو بھی کھلایا اور اس طرح وہ دوہری گنہگار بنی۔ اس پر وہ پھر جھنجلا کر کہنے لگا مٹی کی کان میں سے سونا نہیں نکلتا۔ کان مٹی کی ہوتی ہے مگر اندر سے سونا نکل آتا ہے میں نے کہا تو پھر آدم کے متعلق بھی یہی نظریہ تسلیم کریں کہ گو وہ گنہگار تھا مگر اس کی اولاد میں سے ایسے لوگ بھی پیدا ہو سکتے ہیں جو نیک ہوں اور ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوں۔
اب عیسائیوں کے لئے صرف ایک ہی پہلو رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح کے متعلق وہ یہ کہیں کہ اس کے ماں باپ کے گناہ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو سکتا۔وہ ابن اللہ تھا اور اپنی ذات میں ہر قسم کے گناہوں سے پاک تھا۔ اس کے متعلق یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حوا کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے وہ دوسروں کی نسبت کم گنہگار تھا یا زیادہ گنہگار تھا۔ وہ بوجہ ابن اللہ ہونے کے گناہ سے پاک تھا ۔ گویا اس کا پاک ہونا ماں کے بطن سے پیدا ہونے کے سبب سے نہیں تھا بلکہ ابن اللہ ہونے کی وجہ سے تھا۔ اس پر ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اگر مسیح کے بغیر باپ کے پیدا ہونے میں کوئی خاص حکمت نہیں تھی اور ابن اللہ ہونے کی وجہ سے اس نے ماں باپ کا اثر قبول نہیں کرنا تھا تو اگر اس کا باپ ہوتا تب بھی اس نے اس کے اثر کو قبول نہیں کرنا تھا۔ اگر مسیح ایک شادی شدہ عورت کے گھر میں پیدا ہوتا اور اس کا باپ ہوتا تو پھر بھی اس نے آدم اور حوا کے اثر کو قبول نہیں کرنا تھاکیونکہ اس کی اصل حیثیت ابن اللہ کی تھی ۔ پھر خدا نے یہ کیا ظلم کیا کہ اس نے گنہگار تو ہونا نہیں تھا مگر پھر بھی اس نے مسیح کو ایسے رنگ میں پیدا کیا کہ وہ ساری دنیا میں ذلیل ہو گیا اور جہاں بھی لوگ بیٹھتے یہی کہتے کہ وہ نعوذ باللہ حلال زادہ نہیں جب اس نے نہ باپ کا اثر قبول کرنا تھا نہ ماں کا اثر قبول کرنا تھا تو اس جھگڑے کی ضرورت کیا تھی اور خدا نے مریم اور مسیح کو ایک گندے الزام کے نیچے رکھ کر کیوں تکلیف دی جب وہ ابن اللہ تھا اور اپنی ذات میں ہر قسم کے گناہوں سے پاک تھا تو اسے باپ او رماں دونوں سے پیدا کرنا چاہئے تھا تاکہ وہ اپنے زور سے پاک ہوتا اور ولدالزنا ہونے کے الزام سے بھی بچتا۔
اس جگہ مسیحی یہ کہہ سکتے ہیں کہ تم بھی تواس کو بن باپ مانتے ہو آخر تم کس وجہ سے یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ وہ بن باپ پیدا ہوا اور دشمن کو اس پر یہ الزام لگانے کا موقع ملا کہ وہ ولد الزنا ء ہے ۔تم کفارہ کو تو مانتے نہیں اور جو وجہ ہم پیش کرتے ہیں اس کو رد کرتے ہو۔پھر تم کیوں کہتے ہو کہ وہ بن باپ پیدا ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مسیح کے بن باپ ہونے کی یہ وجہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ وعدہ تھا کہ آئندہ ان کی اولاد میں پے درپے انبیاء آئیں گے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین وآسمان کے قیام تک ان کی نسل میں رہے گی اور پھر پے درپے نبیوں کی معرفت یہ وعدہ کیا گیا تھا ۔ یہ وعدہ صدیوں تک اس طرح متواتر پورا ہوا کہ موسوی سلسلہ کے لوگ دلیر ہو گئے اور انہیں اس امر کا یقین ہو گیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے خدا تعالیٰ اولاد ابراہیم کو نہیں چھوڑ سکتا اور موسوی سلسلہ سے نبوت اور بادشاہت باہر نہیں جا سکتی۔ اس کانتیجہ یہ نکلنا شروع ہوا کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء کا انذار بیکار جانے لگا ۔ نبی آتے اور وہ اپنی تعلیم پیش کرتے تو یہود ان کا مضحکہ اڑا دیتے۔ جیسے یرمیاہ وغیرہ آئے اور یہود نے ہنس کر ان کو رد کر دیا اور سمجھا کہ خدا نے یہ نعمت ہمیں ہمیشہ کیلئے دے دی ہے ۔ تب خدا نے انہیں بعض نبیوں کی معرفت یہ خبر دی کہ ایک کنواری بیٹا جنے گی یعنی وہ موعود آدھا اسرائیلی اور آدھا غیر اسرائیلی ہو گا۔ یہ ایک انذار تھا جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اگر یہود نبیوں کی باتیں نہ سننے پر اسی طرح مصرّ رہے تو آئندہ وہ نبی آئے گا جو نہ باپ کی طرف سے اسرائیلی ہو گا اور نہ ماں کی طرف سے اسرائیلی ہو گا ۔ سو مسیح کے وجود میں وہ وعدہ پورا ہوا مسیح بن باپ کے پیدا ہوا اور اس کے ذریعہ سے یہود کو نوٹس دے دیا گیا کہ آدھی نبوت ان سے لے لی گئی ہے۔ کیونکہ نسل ہمیشہ باپ سے چلتی ہے سو انہیں کہا گیا کہ اب جو نبی آیا ہے وہ باپ کی طرف سے یہود میں سے نہیں ہے اگر اس کے انذار سے بھی یہود نے فائدہ نہ اٹھایا تو اگلا نبی بالکل ہی غیراسرائیلی ہو گا گو ابراہیم کی نسل سے ہوگا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے وعدے تھے اور اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا تھاکہ بلا وجہ ان وعدوں کی برکات سے یہود کو محروم کر دے اس لئے اس نے پہلے متواتر انبیاء بھیجے ۔ جب یہود میں متواتر نبی آتے رہے اور ان کو یہ یقین کامل ہو گیا کہ اب یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نبوت غیر اسرائیلیوں میں چلی جائے تو خدا تعالیٰ نے اپنے بعض انبیاء کی معرفت ایک ایسے رنگ میں انذار کیا جس کے بعد اگر ان کے اندر کچھ بھی ایمان ہوتا تو ان کو ہوش آ جانا چاہئے تھا اور یہ سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اب ہماری شرارتوں کی وجہ سے ضرور کچھ ہونے والا ہے۔ مگر وہ پھر بھی نہ سمجھے اور اپنی شرارتوں پر مصرّ رہے۔ آخر خدا تعالیٰ نے اپنے انذار کے مطابق مسیح کو بن باپ پیدا کیا اور یہودیوں کو سمجھایا کہ آدھی نبوت تو ہم نے لے لی ہے اگر آئندہ بھی باز نہ آئے تو سزا کے طور پر نبوت کا باقی حصہ بھی لے لیا جائے گا ۔ چنانچہ اب جو نبی آیا ہے یہ ماں کی طرف سے تو یہودی ہے مگر باپ کی طرف سے نہیں ۔ لیکن آئندہ ایک بالکل غیر اسرائیلی نبی آئے گا گو وہ ابراہیم کی نسل میں سے ہی ہو گا چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محمد رسول ا للہ ﷺ کو بھیجا جو بنو اسماعیل میں سے تھے اور بنی اسرائیل میں سے نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے منقطع ہو گیا ۔ پس ہمارا حضرت مسیح کو بن باپ ماننا قابل اعتراض نہیں ۔ ہمارے نزدیک اس میں بڑی حکمت ہے لیکن جو حکمت وہ بتاتے ہیںہم نے اسے رد کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس طرح حضرت مسیح بے گناہ نہیں بلکہ دوسروں سے بھی زیادہ گنہگار ثابت ہوتے ہیں اور کفارہ بالکل باطل چلا جاتا ہے۔
مسئلہ کفارہ کے متعلق ایک اور قابل غور سوال یہ ہے کہ کیا مسیح کے صلیب پانے سے دنیا کا کفارہ ہو سکتا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسیح کی صلیب کا واقعہ جس رنگ میں بائبل پیش کرتی ہے اگر ہم اسے تسلیم بھی کر لیں تب بھی یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ مسیح نے واقعہ میں کوئی قربانی پیش کی تھی ۔ کیونکہ انجیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صرف ڈیڑھ دن کے قریب قبر میں رہا۔جمعہ کے دن دوپہر کے وقت مسیح کی صلیب کا واقعہ ہوا ہے اور اتوار کے دن صبح کے وقت وہ اٹھ بیٹھا (مرقس باب ۱۶) جمعہ کے بعد کی رات سے ہفتہ کی شام تک چوبیس گھنٹے ہوئے اور ہفتہ کی شام سے اتوار کی صبح تک بارہ گھنٹے ہوئے گویا انجیل کی رو سے مسیح صرف 36گھنٹے قبر میں رہا۔ فرض کرو یہ عیسائی عقیدہ کہ مسیح ڈیڑھ دن تک دوزخ میں رہا درست ہو تو بھی سوال یہ ہے کہ مسیح کا ڈیڑھ دن قبر میں رہنا دنیا کے گناہوں کا کفارہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ عیسائی عقیدہ کے مطابق دوزخ ابدی ہے اور ہر انسان جو دوزخ میں ڈالا جائے گا ہمیشہ کیلئے ڈالا جائے گا۔ لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کچھ مدت کے بعد خدا تعالیٰ دوزخیوں کو بھی معاف فرما دے گا اور انہیں جنت میں داخل کر د یگا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ امّہٗ ھاویۃ (القارعہ) یعنی دوزخ رحم مادر کی طرح ہے جس طرح رحم میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد بچہ باہر آ جاتا ہے اسی طرح دوزخی کچھ عرصہ تک دوزخ میں رہنے کے بعد اس میں سے نکل آئیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیںجنت میںداخل کر دے گا لیکن عیسائی عقیدہ یہ ہے کہ دوزخ ابدی ہے اور جو بھی اس میں جائے گا وہ اس میں سے کبھی نہیں نکل سکے گا ۔ اب ساری دنیا جو مسیح پر ایمان رکھتی ہے وہ کروڑوں کروڑ کی ہے اسی زمانہ میں ساٹھ ستر کروڑ بلکہ اس سے بھی زیادہ عیسائی ہیں ۔ اگر یہ ستر کروڑ آدمی دوزخ میں جاتا اور اس میں ابد تک رہتا تو ستر کروڑ کو ابدیت سے ضرب دے کر دیکھ لو کہ کتنا وقت بن جاتا ہے اور یہ تو صرف اس زمانہ کے عیسائیوں کی تعداد ہے ۔ اگر مسیح سے لے کر اس وقت تک کے ان تمام لوگوں کا شمار کیا جائے جو مسیح پر ایمان لائے تھے اور ایک انسانی نسل کی اوسط عمر ہم تیس سال فرض کر لیں اور دنیا کی اوسط عیسائی آبادی دس کروڑ مان لیں کیونکہ پہلے وہ تھوڑے تھے پھر لاکھ دو لاکھ ہوئے۔ پھر ستر اسی لاکھ ہوئے پھر کروڑوں کروڑ تک پہنچ گئے یہاں تک کہ ان کی ایک ایک زمانہ میںستر ستر اسی اسی کروڑ تک تعداد ہو گئی۔ اس تمام تعداد کی اوسط اگر ہم صرف دس کروڑ رکھیں اور ایک صدی میں تین نسلیںفرض کریں تو اب تک ستاون عیسائی نسلیںدنیا میں گزر چکی ہیں۔ستاون کو دس کروڑ سے ضرب دیں تو پانچ ارب ستر کروڑ آدمی بن جاتا ہے ۔ اب پانچ ارب ستر کروڑ آدمی کی سزا کو ہدایت سے ضرب دے کر دیکھو تو کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ گویا اگر مسیح کفارہ نہ بنتا تو اس پانچ ارب ستر کروڑ نے ہمیشہ ہمیش کیلئے دوزخ میں رہنا تھا اور یہ زمانہ اتنا بڑا تھا جس کی تعیین ہند سوں میں ہو نہیں سکتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بیٹے کو صرف ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر پانچ ارب ستر کروڑ آدمی کے ابدی عذاب کا کفارہ قبول کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ مسیح کو اس لئے صلیب پر لٹکایا گیا تھا تاکہ اللہ تعالیٰ کے عدل پر کوئی حرف نہ آئے۔ مگر یہ کیا عدل ہے کہ پانچ ارب ستر کروڑ عرب کی ابدیت کا عذاب ڈیڑھ دن میں پورا کر لیا گیا ۔ گویا اور لوگ دوزخ میں پڑتے تو انہیں ابد الآباد تک دوزخ میں رکھا جاتا لیکن اپنے بیٹے کا سوال آیا تو اسے ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر کہہ دیا کہ چلو سب کا کفارہ ہو گیا۔ یہ تو ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک گائوں کے کچھ شرارتی لڑکے باہر کھیل رہے تھے کہ انہوں نے ایک مردہ گدھادیکھا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ آئو ہم اسے پکاکر کھا لیں زندہ کیا اور مردہ کیا گوشت تو ہے ہی ۔ چنانچہ انہوں نے مل کر گدھا پکایا اور کھا لیا۔ گائوں والے ایسی باتوں کو سخت برا سمجھتے ہیں ۔ انہیں پتہ لگا تو وہ بھاگے بھاگے اپنے ملاں کے پاس گئے اور اسے کہنے لگے کہ غضب ہو گیا ۔ آج لڑکونںنے مردہ گدھا پکا کر کھا لیا ہے ایسا نہ ہو کہ خد اتعالیٰ کا کوئی عذاب ہم پر نازل ہو جائے۔ ملاں نے کہا یہ تو بڑے گناہ کی بات ہوئی ہے اب فوراً اس کا کفارہ ادا کرنا چاہئے ورنہ اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو جائے گا۔ وہ پہلے ہی گھبرائے ہوئے تھے ملاں نے انہیں اور ڈرا دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ملاں جی اس مشکل کا آپ ہی کوئی حل نکالیں ایسا نہ ہو کہ ہم سب برباد ہو جائیں ۔ ملاں نے کہا اچھا میںکتابیںدیکھوں گا اور پھر بتائوں گا کہ اس کاکیا علاج ہے چنانچہ وہ سارا دن فقہ کی کتابیںدیکھتا رہا اور شام کو گائوں والوں سے کہنے لگا کہ لو بھئی مسئلہ نکل آیا ہے ۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ ایک بڑا سا شہتیر کھڑا کر کے اس کے چاروں طرف روٹیوں کا ڈھیر لگانا شروع کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ ڈھیر شہتیر کے آخری سرے تک پہنچ جائے اور پھر وہ روٹیاں خدا تعالیٰ کے نام پر دے دی جائیں ۔ مطلب یہ تھا کہ روٹیاں مجھے دے دی جائیں کیونکہ خدا کے نام پر جو کچھ دیا جاتا ہے ملاں کو ہی دیا جاتا ہے۔ اس نے سمجھا کہ چلو اس طرح کچھ دن مفت روٹیاں کھا لیں گے اور جو باقی رہیں گی وہ بیچ لیں گے ۔ گائوں چھوٹا سا تھا اور لوگ غریب تھے انہوں نے یہ سنا تو ان کے ہوش اڑ گئے اور کہا ملاں جی ہم تو یہ کفارہ دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔فقہ میں یہی لکھا ہے کہ اس گناہ کا کفارہ اسی طرح ادا ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے پھر آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ ایک لڑکا بولا کہ ملاں جی کا اپنا بیٹا نور جمال بھی اس میں شامل تھا۔ انہوں نے کہا سچ کہتے ہو؟ لڑکوں نے کہا بالکل سچ ہے وہ ہمارے ساتھ تھا آخر انہوں نے مشورہ کیا۔ کہ اب پھر ملا جی سے پوچھنا چاہئے شاید مسئلہ کی کوئی شکل بدل جائے۔چنانچہ وہ پھر ملاں جی کے پاس آئے اور کہنے لگے ملاں جی آپ کا بیٹا نور جمال بھی اس میں شامل تھا یہ سن کر ملاں جی کو فکر ہوا کہ اب تو مجھے بھی کفارہ دینا پڑے گا کہنے لگا اچھا میں پھر کتابیں دیکھوں گا ۔ چنانچہ کتابیںدیکھ کر کہنے لگے لو میاں یہ مسئلہ بھی نکل آیا ہے کہ اگر اتنی توفیق نہ ہو تو پھر شہیتر کو زمین پر ڈال کر اس پر ایک ایک پھلکا رکھ دیا جائے اور وہ چندپھلکے صدقہ میں دے دئیے جائیں تو یہ تو میاں نور جمال والی بات ہو گئی کہ پانچ ارب ستر کروڑ کو اگر عذاب دیا جائے تو ابدی طور پر عذاب دیا جائے لیکن جب اپنے بیٹے کا سوال آیا تو کہہ دیا کہ ہم انصاف سے کام لے رہے ہیں ۔ ہم اسے ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ ساری دنیا کے گناہوں کا کفارہ ہو گیا ۔ اور ابھی تو دنیا جاری ہے پانچ سو یا ہزار سال تک بھی دنیا اور جاری رہی تو گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب احمدیت کی وجہ سے عیسائیت دن بدن کم ہی ہو گی ترقی نہیں کر ے گی لیکن ہمارے بڑھتے بڑھتے بھی تین چار ارب کا اس تعداد میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ مگر اتنی بڑی تعداد کے گناہوں کے کفارہ کا جب سوال آیا تو کہہ دیا گیا کہ ہم نے اپنے بیٹے کو ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر سب سزا پوری کر لی ہے اور ہمارے عدل اور انصاف کا تقاضہ پورا ہو گیا ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ پانچ ارب ستر کروڑ کو تو ابدی عذاب دینے کا فیصلہ کرنا اور یہ کہنا کہ وہ دوزخ میں سے کبھی نہیں نکل سکیں گے اور اپنے بیٹے کے متعلق یہ کہہ دینا کہ چونکہ وہ ڈیڑھ دن جہنم میںرہ آیا ہے اس لئے سب لوگوں کی سزا معاف ہو گئی ہے۔ تم اس تجویز کو کسی کے سامنے رکھ کر دیکھ لو۔ مسیح اور خدا کا نام نہ لو۔ اتنا کہو کہ ایک شخص تھا جس کے ذمہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب قرض تھا لوگوں نے اس سے روپیہ کا تقاضا کیا مگر وہ ادا نہ کر سکا آخر معاملہ عدالت میں گیا اس نے درخواست کی کہ یہ قرض مجھے معاف کر دیا جائے مگر جج نے کہا کہ میں معاف نہیں کر سکتا کیونکہ معاف کرنا میرے دل کے منافی ہے میں ایسی بے انصافی نہیں کر سکتا کہ تمہارے ذمہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہو اور تمہیں سزا نہ دی جائے۔ مگر اس کے بعد اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ اس ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے بدلہ میں تم ڈیڑھ روپیہ دے دو اور جب اس نے ڈیڑھ روپیہ دے دیا تو اس نے کہا کہ اب سارا قرض معاف ہو گیا ہے۔ کیا دنیا کا کوئی بھی عقل مند اس فیصلہ کو معقول قرار دے گا؟ ہر شخص کہے گا کہ قاضی صرف بے ایمان ہی نہیں بلکہ بڑا چالاک اور فریبی بھی تھا ۔ گویا اس کا الزام بڑھ جائے گا اور دنیا اسے عادل نہیں کہے گی بلکہ کہے گی کہ وہ بڑا ظالم تھا بڑا چالاک اور فریبی تھا کہ اس نے اپنے بیٹے سے ڈیڑھ روپیہ لے کر یہ فیصلہ کر دیا کہ لوگوں کا ڈیڑھ لاکھ روپیہ ادا ہو گیا ہے ۔ اسی طرح کفارہ کی جو صورت بتائی جاتی ہے وہ خدا تعالیٰ پر الزام کو بڑھانے والی ہے گھٹانے والی نہیں ۔ اور اس قسم کے کھیل سے اس کا عادل ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ غیر عادل ہونے کے علاوہ چالاک اور دھوکے باز ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پھر ڈیڑھ دن بھی اسے دوزخ میں کیوں رکھا؟
اگر کہو کہ انسان اور خدا میں بے انداز فرق ہے چونکہ انسان کی حالت اور ہے اور خدا تعالیٰ کی حالت اور ہے اس لئے انسان کو جتنا عذاب ابدی جہنم میں ملے گا وہی عذاب خدا تعالیٰ کے بیٹے کو ڈیڑھ دن میں مل گیا ہے اس وجہ سے بنی نوع انسان کی ابدی سزا کے مقابلہ میں ابن اللہ کا صرف ڈیڑھ دن کے لئے جہنم میں جانا کوئی قابل تعجب امر نہیں۔ جوعذاب ان کو ابدیت میں ملنا تھا وہی مسیح کو ڈیڑھ دن میں مل گیا۔یہ بھی ایک جواب ہے جو دیا جا سکتا ہے۔
اس کا رویہ ہے کہ جب خدا اور انسان میں بے انداز فرق ہے اور عیسائی بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں تو بے انداز فرق کے لحاظ سے یہ انسانی طاقت میں ہی نہیں کہ وہ خدا اور اس کی مخلوق کے باہمی فرق کو سمجھ سکے بے انداز چیز انسانی اندازوں سے باہر ہوتی ہے اور اندازہ ہمیشہ اسی چیز کا کیا جاتا ہے جو محدود ہو اور جس کا سمجھنا انسانی طاقتوں کے لحاظ سے ممکن ہو۔ اب بے انداز فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ ارب ستر کروڑ انسانوں کے مجموعی عذاب کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کہنا ہے کہ انہوں نے اندازہ لگالیا ہے کہ انسانی عذاب کی جو مقدار ہے وہ خدا تعالیٰ کو کتنے عرصہ میں مل سکتی ہے حالانکہ جب انسان اور خدا میں ہے ہی بے انداز فرق تو وہ یہ اندازہ کس طرح لگا سکتے ہیں کہ ڈیڑھ دن میں تمام عذاب خدا تعالیٰ کو پہنچ گیا ہے ۔ ایسی صورت میں تو اسے ایک منٹ کیلئے بھی دوزخ میں رکھنا درست نہ تھا بلکہ ایک سکینڈ کا ہزارواں حصہ بھی اس کے لئے کافی سے زیادہ تھا کیونکہ یہ مقابلہ محدود طاقتوں والے انسانوں اور غیر محدو د طاقتوں والے خدا کا ہے اور غیر محدود طاقت والے خدا کا اندازہ محدود طاقت والوں کے ساتھ کرنا عقل کے بالکل خلاف ہے۔ پھر تو ایک سکینڈ کی تعیین بھی اس کے لئے نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ بے انداز فرق کے لحاظ سے تو جتنی دیر آنکھ جھپکنے میں لگتی ہے اتنی دیر کا عذاب بھی خدا تعالیٰ کیلئے ناممکن ہے ۔ا یسی صورت میں ڈیڑھ دن کا اندازہ انہوں نے کہاں سے نکال لیا اور اپنی محدود طاقتوں کے ساتھ غیر محدو د طاقتوں والے خدا کے متعلق یہ کس طرح سمجھ لیا کہ اس نے ڈیڑھ دن میں وہ عذاب برداشت کر لیا جو انسان اربوں سال میں برداشت کر سکتا تھا۔
پھر یہ بھی سوال ہے کہ دوزخ میں گیا کون تھا ابن آدم گیا تھا یا ابن اللہ گیاتھا؟ اگر ابن آدم گیا تھا تو سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ابن آدم کی روح چونکہ بہرحال جسم سے پیدا ہوتی ہے اور وہ جسم کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس لئے اس کی روح دوزخ میں چلی گئی لیکن وہاں تو کوئی اور روح تھی ہی نہیں جسم بے شک انسان کا تھا لیکن اس میں ابن اللہ تھا اور ابن اللہ اگر جسم کی قید سے آزاد ہوجائے تو اسی وقت خدا بن جاتا ہے۔و ہ اسی وقت تک ابن آدم کہلاسکتا ہے جب تک وہ جسم کی قید میں ہے جب وہ اس جسم کی قید سے آزاد ہو جائے تو وہ اسی وقت ابن اللہ بن جاتا ہے اور جب وہ ابن اللہ ہو گیا تو اس کی حالت خدا کی سی ہو گئی اور جب اس کی حالت خدا والی ہو گی تو اس کے دوزخ میں جانے کے کوئی معنے ہی نہیں ۔ کیا خدا کو بھی سردی گرمی لگتی ہے یا وہ بھی سردی سے آرام اور گرمی سے تکلیف محسوس کرتا ہے؟ انسان کی روح تو اگر دوزخ میں جائے گی تو وہ گرمی محسوس کرے گی ۔ سرد مقام پر رکھی جائے گی تو سردی محسوس کرے گی مگر ابن اللہ جو خدا ہے اس کے لئے سردی اور گرمی کا کیا سوال ہے ۔ دوزخ بھی اس کی پیدائش ہے اور جنت بھی اس کی پیدائش ہے ۔ نہ دوزخ اسے تکلیف پہنچا سکتی ہے او رنہ جنت اسے آرام پہنچا سکتی ہے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوزخ میں اپنا پائوں ڈالے گا اور وہ ٹھنڈی ہوجائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کے لئے دوزخ کوئی چیز ہی نہیں ۔ پس اگر مسیح ابن آدم تھا اور اس میں انسانی روح تھی تو دوزخ میں خدا نہیں گیا بلکہ انسان گیا اور اگر اس میں ابن اللہ کی روح تھی تو جونہی اس کی روح جسم کی قید سے آزاد ہوئی وہ فوراً خدا کی طرح ہو گئی اور جب وہ خدا کی طرح ہو گئی تو اب خواہ اسے دوزخ میں بھی لے جائواسے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔ آخر مسیح کی کوئی دو روحیں تو تھی نہیں کہ کہا جائے کہ ایک اس میں آدمی کی روح تھی اور ایک خدا کی روح تھی۔ اس میں ایک ہی روح تھی جو ابن اللہ کی تھی اور جب وہ روح جسم کی قید سے آزاد ہوگئی تو اس کیلئے دوزخ ، دوزخ ہی نہ رہا ۔ پھر اگر اس کو دوزخ میں بھی لے جائو تو وہاں اس کا جانا اس کیلئے کسی عذاب کا موجب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مادی احساسات سے بالا ہے نہ اس پر دوزخ اثر کرتی ہے نہ جنت۔
عیسائی بعض دفعہ گھبرا کر یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ سب تمثیلی کلام ہے تم خواہ مخواہ اسے حقیقت پر محمول کرتے ہو۔ ہم کہتے ہیں اگر یہ تمثیلی کلام ہے تو تمثیلی کلام سے نئے نئے مسئلے نہیںنکلا کرتے ۔ اس صورت میں بھی کفارہ باطل ثابت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب تم حقیقت بیان نہیں کر رہے بلکہ تمثیل بیان کر رہے ہو۔ تو اس سے عجیب و غریب مسائل نکالنا اور ان پر ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دینا تمہارے لئے جائز نہیں ہوسکتا۔ مثلاً اگر ہم کسی شخص کے متعلق یہ کہیں کہ وہ سچ مچ شیر ہے اور جب کوئی شخص ہم سے پوچھے کہ اس کی دم کہاں ہے یا اس کے پنجے وغیرہ کہاں ہیں اور ہم کہیں کہ یہ تو تمثیلی کلام تھا تم نے خواہ مخواہ اسے حقیقی شیر سمجھ لیا تو اس کے بعد ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ ہم اسے حقیقی شیر ہی کہتے پھریں۔اسی طرح اگر یہ تمثیلی کلام ہے تو عیسائیوں کو ماننا پڑے گا کہ مسیح کو ابن اللہ بھی تمثیلی طور پر کہا گیا تھا اور اگر وہ تمثیلی طور پر ابن اللہ تھا تو پھر نہ وہ لوگوں کے گناہ اٹھا سکتا تھا اور نہ ڈیڑھ دن دوزخ میں رہ سکتا تھا یہ ساری کی ساری باتیں ہی باطل اور بے حقیقت ہو کر رہ جاتی ہیں ۔
اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ عیسائیوں کی ساری باتیں مان لینے کے باوجود کہ کفار ہ بھی کوئی ممکن چیز ہے اور مسیح ابن اللہ تھا کیا یہ بات ثابت ہے کہ وہ قربانی مسیح نے پیش کر دی تھی جسے کفار ے کا موجب کہا جاتا ہے؟ انجیل کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے ۔ مسیح نہ تو صلیب پر لٹک کر مرا اور نہ اس نے وہ قربانی پیش کی جسے کفار ے کا موجب قرار دیا جاتا ہے۔مسیح کا صلیب پر سے زندہ اتر آنا درحقیقت ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عیسائیت کی موت ہے۔اگر مسیح صلیب پر سے زندہ اتر آئے تھے تو عیسائیت کلی طو رپر ختم ہو جاتی ہے اور اگر مسیح صلیب کے واقعہ کے بعد اپنی طبعی موت مر گئے تھے تو وہ غلط عقائد جو غیر احمدیوں میں پھیلے ہوئے ہیں سب کے سب ختم ہو جاتے ہیں ۔ گویا مسیح کا صلیب پر سے زندہ اتر آنا عیسائیت کو ختم کر دیتا ہے اور مسیح کا طبعی موت مرجانا اسلام سے الحاد کو ختم کر دیتا ہے۔ اگر عیسائیت مر جاتی ہے تو اس میں بھی اسلام کی زندگی ہے اور اگر الحاد مٹ جاتا ہے تواس میںبھی اسلام کی زندگی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دونوں کارنامے سر انجام دئیے ہیں ۔ آپ نے مسیح کو صلیبی موت سے بچا کر ایک طرف مسیح کو *** سے بچایا اور دوسری طرف عیسائیت کو مار دیا۔ کیونکہ ایک ایسا نبی جس نے رسول کریم ﷺ سے فیض حاصل نہیں کیا۔جس نے آپؐ کے دین سے استفادہ نہیں کیا۔ جس نے آپؐ کے باغ سے خوشہ چینی نہیں کی اس کا اسلام میں آنا اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی نہ صرف ہتک ہے بلکہ ان کے کام کو بالکل ختم کر دینا ہے ۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو حملے کر کے عیسائیت اور الحاد دونوں کو ختم کر دیا۔ ایک دفعہ آپ نے مسیح کو زندہ کر کے عیسائیت کو ختم کیا اور دوسری دفعہ آپ نے مسیح کو مار کر اسلام سے الحاد کو ختم کیا۔ یہ اتنے بڑے کارنامے ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے۔ مگر افسوس ہے کہ نہ ابھی تک ہماری جماعت نے ان کارناموں کی طرف توجہ کی ہے اور نہ ان کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا ہے۔ باقی باتیں کہ مسیح واقعہ ٔ صلیب کے بعد کہاں گیا یہ ضمنی دلائل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش کئے ہیں ۔ اصل چیز مسیح کا صلیب سے زندہ اتر آنا ہے ۔ اگر وہ صلیب پر سے زندہ اتر آیا ہے تو عیسائیت ختم ہے۔ چنانچہ اس بات کا اقرار خود مسیحی لوگ بھی کر رہے ہیں ۔Mr.Criltondon جو کہ انٹر یونیورسٹی فیلو شپ آف لندن کے سیکرٹری جنرل ہیں انہوں نے 11مارچ1956ء کو لندن مسجد میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ
’’ اگر مسیح کی وفات کے متعلق جماعت احمدیہ کا نظریہ درست ہے تو پھر عیسائیت باقی نہیں رہ سکتی۔ اگر فی الواقع مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تو پھر عیسائیت کی ساری بنیادہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور ایسی صورت میں عیسائیت کی تمام عمارت کا زمین پر آ رہنا یقینی ہے۔‘‘ (الفضل 27نومبر 1956ء)
پس اگر مسیح طبعی موت مر چکا ہے تو مسلمانوں کا الحاد ختم ہے۔ اس طرح وہ تمام تانا بانا جو انہوں نے بنایا ہوا ہے سب کا سب ٹوٹ جاتا ہے اور وہ غلط عقائد جن میں وہ ایک عرصہ سے مبتلا ہو چکے ہیں سب کے سب باطل ثابت ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ اگر مسیح طبعی موت مر گیا ہے توآنے والا مسیح امت محمدیہ میں سے ہو گا اور جب آنے والا امت محمدیہ میں سے ہوگا تو اسلام اور مسلمانوں کیلئے ایک بہت بڑا مطمحنظر قائم ہو جاتا ہے ۔ وہ قومیں جن کی امید یں مر جاتی ہیںفنا ہو جاتی ہیں مگر وہ قومیں جن کی امیدیں نہیں مرتیں وہ کبھی فنا نہیں ہوتیں۔ جب بھی وہ گرنے لگتی ہیں ان کی امیدیں ان کو پھر کھڑا کر دیتی ہیں ۔ پھر ان کے اندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کر دیتی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ ہمارے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہمارے لئے بڑے بڑے درجے حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ لیکن جب کسی قوم کی امید کا پہلو مار دیا جائے تو وہ قوم بھی ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو عظیم الشان کارنامے سر انجام دئیے ہیں ۔ ایک طرف آپ نے مسیح کو صلیب سے اترنے کے بعد زندہ کر کے عیسائیت کو مار دیا اور دوسری طرف آپ نے مسیح کو قرآن کریم کی آیات کے مطابق وفات یافتہ ثابت کر کے اسلام کو الحاد سے بچا لیا۔ یہ کیسا شاعرانہ مضمون ہے کہ آپ نے مسیح کو زندہ کر دیا اور عیسائیت کو مار دیا اور مسیح کو مار دیا اور اسلام کو زندہ کر دیا ۔ چونکہ عیسائیت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مسیح صلیب پر مرا ہی نہیں بلکہ زندہ رہا اور زندہ اترا تو ساتھ ہی کفارہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ بہرحال یہ ایک سوال ہے جو ہمارے سامنے آتا ہے کہ کیا مسیح صلیب پر لٹک کر فوت ہو ا اور کیا اس نے وہ قربانی پیش کی جو کفارہ کا موجب ہو سکتی تھی؟ انجیل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے مسیح نہ صلیب پر لٹک کر مرا اور نہ اس نے وہ قربانی پیش کی جسے کفارہ کہا جاتا ہے۔ اگر ہم انجیل پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کا اصل معجزہ جس پر مسیحیت کو نازہے اور جو مسیحیت کے ابتدائی آثار میں نمایاں طو رپر نظر آتا ہے یوناہ نبی کا معجزہ ہے ۔ صلیب کے واقعہ کے بعد ایک لمبے عرصہ تک عیسائی کمزور رہے ۔ وہ کبھی کسی ملک میں بھاگ کر چلے جاتے تھے اور کبھی کسی ملک میں بھاگ کر چلے جاتے تھے اور کبھی کسی ملک میں عام طور پر وہ چھپ کر رہتے تھے۔ کیونکہ جب لوگوں کو ان کا پتہ لگتا تو وہ ان پر مختلف قسم کے مظالم کرتے۔ا بتدائی مظالم کے سوا جو فلسطین میں یہودیوں کی طرف سے ہوئے۔ بعد میں یہ مظالم زیادہ تر مشرک قوموں خصوصاً رومیوں کی طرف سے ہوتے تھے۔ ایک عیسائی یہ رٹ لگانے سے نہیں رہ سکتا تھا کہ مسیح اس دنیا کا بادشاہ ہے مگر ادھر بادشاہت کا لفظ اس کی زبان پر آتا اور ادھر رومیوں کو آگ لگ جاتی اور وہ فوراً مظالم شروع کر دیتے ۔ اس زمانہ میں یہودیت کا حملہ کمزور ہو چکا تھا بلکہ بعض جگہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مسیحی چھپتے تو ان کے ساتھ یہودی بھی چھپ جاتے تھے۔ چونکہ مذہب ملتا جلتا تھا اور یہودی ابھی موسوی شریعت سے اتنے دور نہیں ہوئے تھے جتنے آجکل ہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس لئے جس طرح ہم بھی نمازیں پڑھتے ہیں اور غیر احمدی بھی روزے رکھتے ہیں ہم بھی حج کرتے ہیں اور غیر احمدی بھی نمازیں پڑھتے ہیں ہم بھی قرآن مانتے ہیں اور غیر احمدی بھی قرآن مانتے ہیں اور اگر کوئی شخص صرف ظاہری شکل دیکھے عقائد کے اختلاف پر نظر نہ ڈالے تو وہ یہی کہے گا کہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کوئی فرق نہیں ۔ اسی طرح جو ایمان تورات پر مسیحیوں کو تھا ویسا ہی ایمان یہودیوں کو تھا۔جس طرح صدقہ و خیرات عیسائی کرتے تھے ویسے ہی صدقہ و خیرات یہودی کرتے تھے۔ جس طرح تورات کی تعلیموں کو عیسائی قابل عمل سمجھتے تھے اسی طرح تورات کی تعلیم کو یہودی قابل عمل سمجھتے تھے اور چونکہ تمام تعلیم میں دونوں مشترک نظر آتے تھے اس لئے جب رومی لوگ عیسائیت کے خلاف بھڑکے اور انہوں نے ظلم کرنے شروع کئے تو ساتھ ہی انہوں نے یہودیوں پر بھی ظلم کرنے شروع کر دئیے اور یہ خیال کیا کہ یہ بھی ان کے ساتھ ہی ہیں۔ پس ابتدائے عیسائیت میں تو ظلم یہودیوں کی طرف سے ہوئے مگر پھر شکل بدل گئی اور جب رومی دکھ دیتے تھے تو وہ عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کو اکٹھا دکھ دیتے تھے۔ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ ان میں سے یہودی کون ہے اور عیسائی کون ہے۔ چنانچہ جب عیسائی بھاگ کر کہیں چھپتے تھے تو یہودی بھی ان کے ساتھ ہی چھپ جاتے تھے اور روما میں جو آثار پائے جاتے ہیں ان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے مگر میں سمجھتا ہوں عیسائیوں نے یہ بڑی ہمت کی کہ باوجود اس کے کہ روم میں ان کی بڑی مخالفت تھی اور حکومت کی طرف سے ان پرشدید مظالم ہوتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے وہاں تبلیغ پر بڑا زور دیا۔چنانچہ روم میں ان کے بڑے بھاری مشنز قائم تھے وہاں ان کی تبلیغ کی وجہ سے لوگ مخالفت بھی کرتے ، ظلم بھی کرتے، جائیدادیں بھی چھین لیتے ۔ مگر ظلم زیادہ دیر تک نہیں چلا کرتا۔ پہلے کچھ عرصہ مارتے پیٹتے اور پھر چھوڑ دیتے جیسے آجکل ہندوستان میں ہندوئوں کو بعض مقامات پر جوش آتا ہے اور وہ مسلمانوں کو مارنا شروع کر دیتے ہیں مگر کچھ عرصہ کے بعد خاموشی ہو جاتی ہے۔ پھرکسی اور علاقہ میں ظلم شروع ہو جاتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد وہاں بھی خاموش ہو جاتی ہے۔ ان کا بڑا مرکز ایک تو روم تھا دوسرا مرکز انطاکیہ تھا اور تیسرا مرکز اسکندریہ تھا۔ ان تینوں جگہ عیسائی پادریوں پر حملے ہوتے تھے اور دشمن انہیں یا تو مار دیتا یا زخمی کر دیتا۔ان متواتر حملوں کی وجہ سے عیسائی بعض دفعہ اپنے گھروں یا محلوں میں چھپ جاتے یا بھاگ کر اردگرد کے گائوں میں چلے جاتے یا اپنی رہائش کے لئے زمین دوز جگہیں بنا لیتے۔ اس زمانہ میں یہ رواج تھا کہ بعض لوگ اپنی قبریں تہ خانوں میں بناتے تھے اور ان کے لئے زمین سے پتھر نکال کر لاتے تھے۔ ان پتھروں کے نکالنے سے جو زمین میں گڑھے بن جاتے تھے انہی کو صاف کر کے عیسائی ان میں رہنا شروع کر دیتے تھے۔ روم میں ایسی کئی جگہیں ہیں جہاں عیسائی ایک لمبے عرصہ تک چھپے رہے۔ اور جن کو کیٹا کومبز(Catacombs)کہتے ہیں۔ ان میں ابھی تک ایسی تصویریں ہیں جو دینی روح قائم رکھنے یا اپنے شہداء کی یاد تازہ رکھنے کیلئے انہوں نے کھینچی ہوئی ہیں۔ اسی طرح قبروں پر کئی جگہ کتبے لگے ہوئے ہیں۔ اور ان میں یہ ذکر ہے کہ یہ کس کی قبر ہے اور کس طرح شہید ہوا ہے ان غاروں کا ایک حصہ میں نے بھی دیکھا ہے ۔ سارا تو دیکھا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ ستر میل تک یہ علاقہ پھیلا ہوا ہے ۔ بہرحال ان کیٹا کومبز کے دیکھنے سے پرانی عیسائی تاریخ کا پتہ لگ جاتا ہے کیونکہ مسیحیت کے پھیلنے سے پہلے کے مظالم کا نقشہ ان آثار کو دیکھنے سے آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے اور کتبوںکی عبارات اور تصویروں سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت مسیحیوں کے کیا عقائد تھے۔ تیسری صدی مسیحی میں روم کا بادشاہ عیسائی ہو گیا تھا اور پھر مسیحیت کو طاقت حاصل ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھنے والی جس قدر باتیں ہیں ان کا پتہ انہی کیٹا کومبز کے دیکھنے سے لگتا ہے ۔ ان کیٹا کومبز میں ہمیں زیادہ تر تین تصویریں ملتی ہیں ۔ ایک نوح کی کشتی کی۔ ایک گڈریا کی جس کے اردگر د بھیڑیں ہیںاور ایک یوناہ نبی کی جسے مچھلی نگل رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تاریخ میں عیسائی مذہب کی بنیاد صرف تین چیزوں پر رکھی گئی تھی یا یوں کہو کہ تین مسئلے تھے جو عیسائیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتے تھے۔ گڈریا کی تصویر میں اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح یہود کی گم گشتہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے آیا ہے ۔ نوح کی کشتی کے یہ معنے تھے کہ مسیح ہمارا نجات دہندہ ہے اور یوناہ نبی کی تصویر سے وہ معجزہ مراد تھا جس پر آگے چل کر بحث کی جائے گی۔ گویا ان تین تصویروں کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا تھاکہ مسیحیت کی بنیاد انہی تین باتوں پر ہے ۔ (1)اس پر کہ مسیح اپنی گم گشتہ بھیڑوں کو جمع کرنے کیلئے آیا ہے۔ (2)اس پر کہ مسیح نجات دہندہ ہے ۔ (3)اس پر کہ مسیح کو ویسا ہی معجز ہ دیا گیا ہے جیسے یوناہ نبی کو دیا گیا تھا۔
پس مسیحیت کی بنیاد اس معجزہ پر ہے بلکہ مسیحیت اس کو ہی ایک حقیقی معجزہ قرار دیتی ہے اور تمام ابتدائی زمانہ کے نقوش اور تصاویر جن کا مسیحیت کے لٹریچر سے پتہ لگتا ہے وہ بھی اسی طرف راہنمائی کرتی ہیں یعنی گڈریا کی تصویر جسے اپنی بھیڑوں سمیت دکھایا گیا ہے ۔ نوح کی کشتی کی تصویر اور یوناہ نبی کے مچھلی کے پیٹ میں جانے کی تصویر۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیت کا اصل معجزہ یہی تھا خود مسیح بھی اسے اپنا منفرد اور اصل معجزہ قرار دیتا ہے ۔ انجیل میں لکھا ہے حضرت مسیح وعظ کر رہے تھے کہ
’’ بعض فقیہوں اور فریسیوں نے جواب میں اس سے کہا اے استاد ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں (یعنی ہم ماننے کے لئے تو تیار ہیں لیکن دلائل سے ہماری تسلی نہیں ہوتی ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے)اس نے جواب دے کر ان سے کہا ۔ اس زمانہ کے برے اور زنا کار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا۔ کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔‘‘ (متی باب 12 آیت 38تا40)
مسیح نے اس سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں تم کو اور کئی نشان دکھا چکا ہوں تم ان سے کیوں فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اسی طرح مسیح نے یہ نہیں کہا کہ میں تم کو کئی نشان دکھائوں گا۔ بلکہ مسیح نے کہا کہ یوناہ نبی کے نشان کے سوا ان کو اور کوئی نشان نہیں دکھایا جائے ۔ گایہ بتاتا ہے کہ مسیح اپنے اس نشان کو ایک ہی نشان قرار دیتا ہے ظاہر ہے کہ خدا کا کوئی نبی ایسا نہیںہو سکتا جس نے ایک ہی نشان دکھایاہو خود انجیل سے ظاہر ہے کہ مسیح نے اور بھی کئی نشان دکھائے ہیں ۔ پس مسیح کا یہ کہنا کہ ’’ یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا‘‘ اس کے معنے یہ ہیں کہ جہاں تک یہودیت کا تعلق ہے بنیادی نشان مسیح کو یوناہ نبی والا ہی دیا جائے گا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ابتدائی زمانہ کے مسیحیوں کی شہادت سے بھی یہی بات ثابت ہے اور درحقیقت ابتدائی زمانہ کا عیسائی ہی اس بات کا اہل تھا کہ وہ یہ سمجھتا کہ عیسائیت کی کیا غرض ہے ۔ ان کی تصویروں میں سے پہلی تصویر ہی یوناہ نبی کے مسیحی یہ تسلیم کرتے تھے کہ یوناہ نبی والا نشان ہی مسیح کا اصل نشان ہے۔ باقی دو تصویریں اس پہلی تصویر کے تابع ہیں یعنی یوناہ نبی والے نشان میں ہی نجات بھی شامل ہے اور یوناہ نبی والے نشان میں جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا گڈریا والی مثال بھی شامل ہے۔ کیونکہ مسیح واقعہ صلیب کے بعد اپنی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرنے کیلئے ایران اور افغانستان اور کشمیر میں گیا اور اس نے انہیں خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ اور پھر مسیح خود بھی کہتا ہے کہ ایک ہی نشان ہے جو اس زمانہ کے لوگوں کو دکھایا جائے گا اور وہ یوناہ نبی والا نشان ہے ۔ ایک ہی نشان کے معنے یہ ہیں کہ یہ ایک ہی اہم نشان ہے یا ایک ہی قابل اعتماد نشان ہے۔ غرض ابتدائی زمانہ کا عیسائی بھی تسلیم کرتا ہے کہ عیسائیت کی حقیقی شان یوناہ نبی والے نشان سے ہی ظاہر ہوتی ہے اور مسیح بھی اس کو اپنا منفرد اور مہتمم بالشان نشان قرار دیتا ہے۔
لوقا میں بھی یہ ذکر آتا ہے اس میں لکھا ہے: -
’’ اس زمانہ کے لوگ برے ہیں وہ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا۔ کیونکہ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کیلئے ٹھہرے گا۔‘‘
(لوقاباب 11آیت 30-29)
لوقا نے یہاں ایک زائد بات کہی ہے۔ متی نے تو یہ کہہ کراپنی بات ختم کر دی تھی کہ ’’یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا‘‘ یہاں متی نے اس بات پر زور نہیں دیا کہ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کیلئے نشان ٹھہرا تھا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرے گا۔متی نے صرف اتنا لکھا ہے کہ ’’نینوہ کے لوگ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کو مجرم ٹھہرائیں گے کیونکہ انہوں نے یوناہ کی منادی پر توبہ کر لی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو یوناہ سے بھی بڑا ہے‘‘ (متی باب 12آیت 41) مگر لوقا اس بات پر زور دیتا ہے کہ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کیلئے نشان ٹھہرا تھا اسی طرح ابن آد بھی اس زمانہ کے لوگوں کیلئے نشان ٹھہرے گا ۔ گویا اس نشان کے متعلق وہ خاص طور پر یہ بتاتا ہے کہ نینوہ کے لوگوں کیلئے جس رنگ میںیوناہ نشان ٹھہرا تا تھا اسی رنگ میں اس زمانہ کے لوگوں کے لئے مسیح نشان ٹھہرے گا۔
ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل نشان جو زمانۂ مسیح میںدکھایا جانے والا تھا وہ یوناہ نبی والا نشان تھا۔ یہ نشان کیا تھا اس کے متعلق مسیح خود کہتا ہے کہ : -
’’ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میںرہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔‘‘
اس جگہ حضرت مسیح نے خود تشریح کر دی ہے کہ یوناہ نبی کے نشان سے کیا مراد ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔ مشابہت کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ہر چیز میں مشابہت ہو بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصولی باتوں میں مشابہت ہوگی۔چنانچہ اسی مشابہت کی بناء پر مسیح کہتا ہے کہ جس طرح یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات رہا اسی طرح مسیح قبر میں تین دن رات رہے گا ۔ گویا اس نشان کا مقصد یہ تھا کہ مسیح بھی تین دن رات قبر میںرہے اور یوناہ نبی کی طرح خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رہے۔ آخر کسی کا مچھلی کے پیٹ میں چلے جانا تو کوئی معجزہ نہیں ۔ ہزاروں لوگ مچھلی کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں اور کوئی نہیں کہتاکہ یہ معجزہ ہوا ہے پھر یوناہ نبی کا کیا معجزہ تھا؟ یوناہ نبی کا معجزہ یہ تھا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رہا۔ تاکہ اس کی قوم کیلئے اس کا وجود خدا تعالیٰ کا ایک نشان ثابت ہو۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ یوناہ نبی کس طرح مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات رہا۔ اس کے لئے ہم یوناہ نبی کی کتاب کو دیکھتے ہیں اس میں لکھا ہے: -
’’ خداوند کا کلام یوناہ نبی متی پر نازل ہوا۔کہ اٹھ اس بڑے شہر نینوہ کو جا اور اس کے خلاف منادی کر کیونکہ ان کی شرارت میرے حضور پہنچی ہے (نینوہ ایک بڑا شہر تھا خدا تعالیٰ نے یوناہ سے کہا کہ جائو اور ان لوگوں کو سمجھائو) لیکن یوناہ خدا وند کے حضور سے ترسیس کوبھاگااور یافا میں پہنچا اور وہاں اسے ترسیس کو جانے والا جہاز ملا۔ اور وہ کرایہ دے کر اس میں سوار ہوا تاکہ خداوند کے حضور سے ترسیس کو اہل جہاز کے ساتھ جائے (یعنی بجائے اس کے کہ وہ اور نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرتے اور نینوہ والوں کو تبلیغ کرتے ان کے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے پہلے اس کی طرف سے عذاب کی خبریں ملتی ہیں او رپھر لوگوں کے تضرع پر وہ ان کو معاف کر دیتا ہے اور لوگ نبیوں کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا۔اس لئے میں نینوہ میں جاتا ہی نہیں چنانچہ وہ ترسیس جانے کیلئے جہاز میں سوار ہو گئے) لیکن خداوند نے سمندر پر بڑی آندھی بھیجی اور سمندر میں سخت طوفان برپا ہوا اور اندیشہ تھا کہ جہازتباہ ہو جائے۔ تب ملاح ہراساں ہوئے اور ہر ایک نے اپنے دیوتا کو پکارا اور وہ اجناس جو جہاز میں تھیں سمندر میں ڈال دیں تاکہ اسے ہلکا کریں (پہلے زمانہ میں بادبانی جہاد ہوتے تھے جو زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے اس لئے جب طوفان آتا اور جہاز ڈوبنے کا خطرہ ہوتا تو وہ اپنے سامان کا کچھ حصہ سمندر میںپھینک دیتے تھے تاکہ اس کا بوجھ ہلکا ہو جائے) لیکن یوناہ جہاز کے اندر پڑا سو رہا تھا (باقی لوگ تو دعائیں کر رہے تھے اور جہاز کا بوجھ ہلکا کر رہے تھے اور یوناہ اندر سو رہے تھے) تب ناخدا اس کے پاس جاکر کہنے لگا تو کیوں پڑا سو رہا ہے اٹھ اپنے معبود کو پکار شاید وہ ہم کو یاد کرے اور ہم ہلاک نہ ہو ں اور انہوں نے آپس میں کہا آئو ہم قرعہ ڈال کر دیکھیں کہ یہ آفت ہم پرکس کے سبب سے آئی۔ چنانچہ انہوں نے قرعہ ڈالا اور یوناہ کانام نکلا۔ تب انہوں نے اس سے کہا تو ہم کو بتا کہ یہ آفت ہم پر کس سبب سے آئی ہے۔ تیرا کیا پیشہ ہے اور تو کہاں سے آیا ہے۔ تیرا وطن کہاں ہے اور تو کس قوم کا ہے ۔ اس نے ان سے کہا میں عبرانی ہوں (ضمنی طور پر ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ بائبل کا یہ بیان غلط ہے۔ یوناہ عبرانی نہیں تھا بلکہ کسی اور قوم کا نبی تھا۔ کیونکہ وہ نینوہ والوں کی طرف بھیجا گیا تھا جو کہ اشور کا دارالخلافہ تھا اور وہاں کے لوگ اشور قوم کے تھے۔ اشور الگ علاقہ ہے اور شہر بابل کے شمال سے شروع ہو کر آرمینیا کی سرحد سے جا ملتا ہے اور مشرقی طرف اس کی کردستان سے ملتی ہے اور مغربی سمت دجلہ کے مغرب کے علاقہ کے ایک حصہ پر مشتمل ہے۔ گویا موجودہ عراق کا ایک حصہ اس میں شامل ہے۔ ایک زمانہ میں اس علاقہ میں زبردست حکومت قائم تھی۔ اس کا دارالخلافہ پہلے تو اسور تھا جو موصل سے ساٹھ میل جانب شما ل واقعہ تھااور اب اسے قلعات شرجت کہتے ہیں لیکن تیرہ سو سال قبل مسیح اس شہر کو چھوڑ کر نینوہ کو دارالحکومت قرار دیا گیا۔ محققین یورپ بھی اس بارہ میں مختلف الخیال ہیں کہ آیا یونس نبی اسرائیلی ہے یا نہیں ) اور خداوند آسمان کے خدا بحر وبر کے خالق سے ڈرتا ہوں۔ تب وہ خوف زدہ ہو کر اس سے کہنے لگے تو نے یہ کیا کیا۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ وہ خداوند کے حضور سے بھاگا ہے اس لئے کہ اس نے خود ان سے کہا تھا۔ تب انہوں نے اس سے پوچھا ہم تجھ سے کیا کریں کہ سمندر ہمارے لئے ساکن ہوجائے کیونکہ سمندر زیادہ طوفانی ہوتا جاتا ہے؟ تب اس نے ان سے کہا مجھ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دو تو تمہارے لئے سمندر ساکن ہو جائے گا کیونکہ میںجانتا ہوں کہ یہ بڑا طوفان تم پر میرے ہی سبب سے آیا ہے ۔ تو بھی ملاحوں نے ڈانڈ چلانے میں بڑی محنت کی کہ کنارہ پر پہنچیں لیکن نہ پہنچ سکے کیونکہ سمندر ان کے خلاف اور بھی زیادہ موجزن ہوتا جاتا تھا۔ تب انہوں نے خداوند کے حضور گڑگڑا کر کہا اے خداوند ہم تیری منت کرتے ہیں کہ ہم اس آدمی کی جان کے سبب سے ہلاک نہ ہوں اور تو خون ناحق کو ہماری گردن پر نہ ڈالے کیونکہ اے خداوند تو نے جو چاہا سو کیا اور انہوں نے یوناہ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور سمندر کا تلاطم موقوف ہو گیا تب وہ خداوند سے بہت ڈر گئے اور انہوں نے اس کے حضور قربانی گزرانی اور نذریں مانیں لیکن خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یوناہ کو نگل جائے اور یوناہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ تب یوناہ نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے یہ دعا کی۔ میں نے اپنی مصیبت میںخداوند سے دعا کی اور اس نے میری سنی۔ میں نے پاتال کی تہ سے دہائی دی تو نے میری فریاد سنی۔ تو نے مجھے گہرے سمندر کی تہ میںپھینک دیا او رسیلاب نے مجھے گھیر لیا۔ تیری سب موجیں اور لہریںمجھ پر سے گزر گئیں اور میں سمجھا کہ تیرے حضور سے دور ہو گیا ہوں ۔ لیکن میںپھر تیری مقدس ہیکل کو دیکھوں گا سیلاب نے میری جان کا محاصرہ کیا سمندر میری چاروں طرف تھا۔ بحری نبات میرے سر پرلپٹ گئی۔ میں پہاڑوں کی تہ تک غرق ہو گیا۔ زمین کے اڑ بنگے ہمیشہ کیلئے مجھ پر بند ہوگئے۔ تو بھی اے خداوند میرے خدا تو نے میری جان پاتال سے بچائی جب میرا دل بیتاب ہوا تو میںنے خداوند کو یاد کیا اور میری دعا تیری مقدس ہیکل میں تیرے حضور پہنچی۔ جو لوگ جھوٹے معبودوں کومانتے ہیں وہ شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔میں حمد کرتا ہوا تیرے حضور قربانی گزاروں گا۔ میں اپنی نذریں ادا کروں گا۔ نجات خداوند کی طرف سے ہے اور خداوند نے مچھلی کو حکم دیا اور اس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا اور خداوند کا کلام دوسری بار یوناہ پرنازل ہوا کہ اٹھ اس بڑے شہر نینوہ کو جا اور وہاں اس بات کی منادی کر جس کا میں تجھے حکم دیتا ہوں۔ تب یوناہ خدا وند کے کلام کے مطابق اٹھ کر نینوہ کو گیا اور نینوہ بہت بڑا شہر تھا۔ اس کی مسافت تین دن کی راہ تھی اور یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا۔ اس نے منادی کی اور کہا چالیس روز کے بعد نینوہ برباد کیا جائے گا تب نینوہ کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ واعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا اور یہ خبر نینوہ کے بادشاہ کو پہنچی اور وہ اپنے تخت پر سے اٹھا اور بادشاہی لباس کو اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور بادشاہ اور اس کے ارکان دولت کے فرمان سے نینوہ میں یہ اعلان کیا گیا۔ اور اس بات کی منادی ہوئی کہ کوئی انسان یا جوان گلہ یا رمہ کچھ نہ چکھے اور نہ کھائے نہ پئے۔ لیکن انسان اور حیوان ٹاٹ سے ملبس ہوں اور خدا کے حضور گریہ وزاری کریں بلکہ ہرشخص اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے شاید خدا رحم کرے اور اپنا ارادہ بدلے اور اپنے قہر شدید سے باز آئے اور ہم ہلاک نہ ہوں۔ جب خدا نے ان کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بری روش سے باز آئے تو وہ اس عذاب سے جو اس نے ان پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اسے نازل نہ کیا۔ لیکن یوناہ اس سے نہایت ناخوش اور ناراض ہوا اور اس نے خداوند سے یوں دعا کی کہ اے خداوند جب میںاپنے وطن ہی میں تھا اور ترسیس کو بھاگنے والا تھا تو کیامیں نے یہی نہ کہا تھا ۔ میں جانتا تھا کہ تو رحیم و کریم خدا ہے جو قہر کرنے میںدھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے ۔ اب اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں کہ میری جان لے لے کیونکہ میرے اس جینے سے مرجانا بہتر ہے تب خداوند نے فرمایا کیا تو ایسا ناراض ہے اور یوناہ شہر سے باہر مشرق کی طرف جا بیٹھااور وہاں اپنے لئے ایک چھپر بنا کر اس کے سایہ میں بیٹھ رہا کہ دیکھے شہر کا کیا حال ہوتا ہے۔ تب خداوند خدا نے کدو کی بیل اگائی اور اسے یوناہ کے اوپر پھیلا دیا کہ اس کے سر پر سایہ ہو اور وہ تکلیف سے بچے۔ (بائبل کہتی ہے اس نے پہلے چھپر بنایا اور پھر خدا نے کدو کی بیل اُگائی حالانکہ چھپر کے بعد بیل کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی چھپر زیادہ آرام دہ ہوتا ہے مگر قرآن کریم میں چھپر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیاخالی بیل کا ذکر کیا گیا ہے جو ثبوت ہے کہ قرآنی بیان ہی صحیح اور عقل کے مطابق ہے) اور یوناہ اس بیل کے سبب سے نہایت خوش ہوا لیکن دوسرے دن صبح کے وقت خدا نے ایک کیڑا بھیجا جس نے اس بیل کو کاٹ ڈالا۔ اور وہ سوکھ گئی اور جب آفتاب بلندہوا تو خد انے مشرق سے لو چلائی اور آفتاب کی گرمی نے یوناہ کے سر میں اثر کیا اور وہ بیتاب ہو گیا اور موت کا آرزو مند ہوکرکہنے لگا کہ میرے اس جینے سے مر جانا بہتر ہے اور خدا نے یوناہ سے فرمایا کیا تو اس بیل کے سبب سے ایسا ناراض ہے اس نے کہا میںیہاں تک ناراض ہوں کہ مرنا چاہتا ہوں ۔ تب خداوند نے فرمایا کہ تجھے اس بیل کا اتنا خیال ہے جس کیلئے تو نے نہ کچھ محنت کی اور نہ اسے اُگایا جو ایک ہی رات میں اُگی اور ایک ہی رات میں سوکھ گئی اور کیا مجھے لازم نہ تھا کہ میں اتنے بڑے شہر نینوہ کا خیال کروں۔ جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے داہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے اور بے شمار مویشی ہیں ‘‘ (یوناہ باب ۱ تا ۴)
یہ ہے وہ یوناہ نبی کا واقعہ جس کی طرف حضرت مسیح اشارہ کرتے ہیں ۔ اس واقعہ کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یوناہ نبی کو جب یہ الہام ہوا کہ جا اور اپنی قوم کوتبلیغ کر تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی قوم کو تبلیغ کرتے اس خیال سے کہ نبی جب تبلیغ کرتے ہیںتو انہیں کچھ انذاری پیشگوئیاں بھی ملتی ہیں ۔ لیکن خدا تعالیٰ رحم کر کے اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے اور اس طرح انہیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ انہوں نے ایک دوسرے ملک کو بھاگ کر جانا چاہا تاکہ وہ اس ذلت سے بچ سکیں جو انہیں اپنی قوم سے پہنچ سکتی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ وہ نینوہ کے لوگوں کی طرف ہی جائیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں ۔ چنانچہ اس نے تدبیر کر کے انہیںسمندر میں پھینکوادیا۔ اور پھر ایک بڑی مچھلی کو انہیں نگل جانے کا حکم دے دیا جس نے انہیں زندہ نگل لیا ۔ چنانچہ بائبل کے بیان کے مطابق وہ مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے اور دعائیں زندہ شخص ہی کیا کرتا ہے نہ کہ مردہ۔ پس مچھلی کے پیٹ میں وہ زندہ گئے اور مچھلی کے پیٹ میں جب تک رہے وہ زندہ رہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق مچھلی نے آپ کو اگل دیا۔ سمندر میں نہیں بلکہ خشکی پر اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نینوہ کے لوگوں کی تبلیغ کیلئے بھجوایا گیا ۔ چنانچہ وہ گئے اور اپنی تبلیغ میں کامیاب ہوئے۔ اس معجزہ سے ظاہر ہے کہ
(1)یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ میںزندہ گیا۔
(2)وہ مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات زندہ رہا۔
(3)وہ مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکلا۔
(4)اس کا اصل تبلیغ کازمانہ مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد شروع ہوا۔
پہلے تو انہوں نے لوگوں کو بتایا ہی نہیں کہ مجھے تمہاری اصلاح کیلئے بھجوایا گیا ہے۔ ممکن ہے چند لوگوں سے انہوں نے ذکر کیا ہو لیکن عام لوگوں کو ان کے مشن کی کوئی خبر نہیں تھی۔وہ وہاں سے بھاگے اورانہوں نے چاہا کہ ایک دوسرے ملک کو نکل جائیں لیکن مچھلی کے واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر ان کو اپنے ملک میںبھجوا کر کہا کہ اب تبلیغ کرو۔ چنانچہ انہوں نے تبلیغ کی اور لوگ آپ پر ایمان لائے۔
اس نشان کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص ا س امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ واقعہ اسی صورت میں مسیح پر چسپاں ہو سکتا ہے۔ جب
اول۔ مسیح زندہ قبر میں جائے
دوم۔ مسیح زندہ قبر میںرہے
سوم۔ مسیح زندہ قبر میں سے نکلے
چہارم۔ قبر سے نکلنے کے بعد اسے ایک کامیاب تبلیغ کا زمانہ میسر آئے۔
یہ چار چیزیں ہیںجو یوناہ نبی کے واقعہ سے نکلتی ہیں۔ اگر مسیحی کہانی صلیبی موت کی ٹھیک ہے تو پھر یہ چاروں باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں (1)اگر مسیح صلیب پر مر گیا اور زندہ قبر میں نہیں گیا اور (2)اگر مسیح قبر میں تین دن رات مرا رہا بلکہ دوزخ میں رہا۔ تو یوناہ نبی سے اس کی کوئی مشابہت ثابت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یوناہ نبی تین دن رات مچھلی کے پیٹ میںزندہ رہا۔اور اس کی خدا تعالیٰ سے صلح رہی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا رہا۔ لیکن مسیح اول تومر کر قبرمیں گیا اور پھر دوزخ میں رہا گویا وہ خد اتعالیٰ سے دور ہو گیا۔ (3)اسی طرح اگر مسیح قبر میں سے دوبارہ زندہ ہو کر نکلے ہیں تو اس صورت میں بھی وہ یوناہ نبی کے مثیل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ سے دوبارہ زندہ ہو کر نہیںنکلے وہ پہلے بھی زندہ تھے، مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رہے اور زندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں سے نکلے۔ (4)اگر قبر میں سے جی اٹھنے کے بعد مسیح کا مشن ختم ہو گیا جیسے مسیحیت کہتی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کے گناہوں کے کفارہ کے طور پر پہلے تین دن دوزخ میں رہااور جب وہ دوبارہ جی کر اٹھا تو آسمان پر اپنے باپ کے تخت پر بیٹھنے کیلئے چلا گیا۔ تو اس کی یوناہ نبی سے کوئی بھی مشابہت باقی نہیں رہتی۔کیونکہ یوناہ نبی کا تو یہ معجزہ تھا کہ اسے مچھلی کے پیٹ میں سے نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک کامیاب تبلیغ کا موقع عطا فرمایا اور درحقیقت اصل معجزہ یہی تھا کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ دیکھو یوناہ نے میری بات کو رد کیا اور وہ میرا پیغامبر نہ بنا وہ ڈرا کہ میں لوگوں میں ذلیل ہوں گااور لوگ مجھے قبول نہیں کرینگے۔ چنانچہ وہ بھاگا لیکن ہم نے اسے مچھلی کے پیٹ میںڈالا اور پھر مچھلی کے پیٹ میںزندہ رکھا اور آخر ہم نے مچھلی کو حکم دیا تو اس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا۔ اس کے بعد ہم نے پھر اسے نینوہ میں ہی بھجوایا اور اس نے تبلیغ کی اور وہ اپنی تبلیغ میں کامیاب رہا۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے اس بات کا اظہار کیا کہ جس شخص کو خدا اپنا پیغامبر بناتا ہے وہ اپنے آپ کو خواہ کتنا بھی کمزور خیال کرے اور خواہ دنیا کے لوگ اسے کتنا بھی حقیر سمجھیں اللہ تعالیٰ یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ اسی کے ذریعہ اپنے پیغام کو کامیاب کرے اور لوگوں میں اسے مقبول بناوے۔ یہ ہے یوناہ کا اصل نشان جو نینوہ والوں کو دکھایا گیا لیکن مسیح کا واقعہ جس رنگ میں عیسائی پیش کرتے ہیں اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو اس کی یوناہ سے کوئی بھی مشابہت ثابت نہیںہو سکتی۔کیونکہ یوناہ نبی کا اصل معجزہ یہ تھا کہ اسے تبلیغ کا موقعہ دیا گیااور لوگوں نے دیکھا کہ وہی جو اپنی کمزوری کی وجہ سے ڈر کر بھاگ گیا تھا ایک کامیاب مصلح ثابت ہوا اور لوگوں نے اس کو قبول کر کے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی۔ ورنہ یوناہ نبی جب مچھلی کے پیٹ میں گئے تھے نینوہ والوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ یوناہ جب مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے تب بھی نینوہ والوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا۔یوناہ جب مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلے تب بھی نینوہ والوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ ان کے اور نینوہ والوں کے درمیان اس وقت پانچ سات سو بلکہ ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ انہوں نے یہ کب دیکھا کہ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں گیا ہے یا مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا ہے یا مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلا ہے پس ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں تھی جو نینوہ والوں نے دیکھی ہو۔ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گیا تب بھی نینوہ والوں نے اسے نہیں دیکھا۔جب وہ مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا تب بھی نینوہ والوں نے اسے نہیں دیکھااور جب مچھلی نے اسے اُگل دیا تب بھی نینوہ والوں کے پاس دوبارہ گیا اور انہوں نے دیکھا کہ یہ وہ شخص ہے جو ڈر کر بھاگ گیا تھا مگر پھر خدا تعالیٰ اسے پکڑ کر واپس لایا ہے اور جس جگہ کے متعلق یہ سمجھتا تھا کہ وہاں مجھے کامیابی نہیں ہوگی وہیں اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی عطا فرمائی ہے تو یہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی طاقتوں کا ایک بہت بڑا نشان بن گیا جو انہوں نے دیکھا اور مسیح نے اپنے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ
’’ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کیلئے نشان ٹھہرا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کیلئے ٹھہرے گا‘‘
(لوقا باب ۱۱ آیت ۳۰)
اب سوال یہ ہے کہ نینوہ والوں نے کیا دیکھا تھا۔ نینوہ والوں نے یوناہ کو مچھلی کے پیٹ میں جاتے نہیں دیکھا۔ مچھلی کے پیٹ میں رہتے نہیں دیکھا مچھلی کے پیٹ میں سے نکلتے نہیں دیکھا۔ نینوہ والوں نے یہی دیکھا کہ ایک شخص پر الہام نازل ہوا کہ جا اور نینوہ والوں کو ہماری طرف بلا۔ مگر اسے جرأت نہ ہوئی کہ وہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچائے۔ اور اس نے بھاگ کر کسی اور ملک کو جانا چاہا مگر کئی مصیبتوں اور تکلیفوں کے بعد خدا تعالیٰ اسے پھر نینوہ والوں کے پاس گیا اور نینوہ والے اس کا پیغام ماننے پر مجبو رہو گئے۔ پس اگر کوئی نشان ایسا ہے جو نینوہ والوں نے دیکھا تو وہ یہی نشان ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک مچھلی کے پیٹ میں ان کا جانا ہے یہ بھی ایک نشان ہے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا یہ بھی ایک نشان ہے اور مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلنا یہ بھی ایک نشان ہے مگر یہ نشانات ایسے ہیں جو نینوہ والوں نے نہیں دیکھے ۔ انہوں نے جو نشان دیکھا وہ یہی ہے کہ یوناہ نبی کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا اور وہ وہاں سے چلا گیا۔ اس نے نہ چاہا کہ نبوت کا پیغام لوگوں تک پہنچائے لیکن خدا اُسے سینکڑوں میل سے مجبورکر کے اور کئی قسم کی تکلیفوں میں سے گزار کر پھر اسے اپنی قوم کے پاس لایا اور خدا تعالیٰ نے وہ مشن پورا کر کے دکھا دیا جس کے لئے اس نے یوناہ کو کھڑا کیا تھا۔ لوگوں نے ان کا انکار بھی کیا ، مقابلہ بھی کیا مگر آخر قوم کو جھیکنا پڑا۔ یہ نشان تھا جو نینوہ والوں نے دیکھا پس مسیح کیلئے یہ بھی نشان اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مسیح قبر میں زندہ جائے، قبر میںزندہ رہے اور قبر میں سے زندہ نکلے۔ مگر اتنا حصہ وہ ہوگا جس کو دشمن نے نہیں د یکھا۔ اس کے بعد نشان کا یہ حصہ آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تبلیغ کر کے جو اس وقت نینوہ کے قریب اور ایران اور افغانستان اور کشمیر میںرہتی تھیں اپنے مذہب میں داخل کرے اور اس طرح اس مقصد میں کامیاب ہو جو اللہ تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا تھا۔ اگر ایسا ہو جائے تو یوناہ نبی سے مسیح کی مماثلت ثابت ہو جاتی ہے اور وہ معجزہ جس کے دکھانے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا وہ دنیا پر ظاہر ہو جاتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہوتا یوناہ نبی والا نشان پورا نہیں ہو سکتا۔بہرحال جس طرح یوناہ نبی نے مچھلی کے پیٹ میں سے نکلنے کے بعد اپنی قوم کو تبلیغ کی اور وہ اس تبلیغ میں کامیاب ہوئے اسی طرح مسیح کے لئے بھی ضروری تھا کہ وہ قبر میں سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کو تبلیغ کرتا اور انہیں ہدایت پر لاتا۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو یوناہ نبی کا نشان مکمل نہیں ہو سکتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے وہی نشان دکھایا ہے جو یوناہ نبی نے اپنی قوم کو دکھایا تھا۔ نینوہ والوں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ وہ شخص جو اپنے آپ کو ناقابل سمجھتے ہوئے یہاں سے بھا گ گیا تھا اور جس نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے سے گریز کیا تھا وہ پھر ہم میں واپس آیا اور ہم اس پر ایمان لانے پر مجبور ہوئے لیکن مسیح واقعۂ صلیب کے بعد اگر غائب ہو گیا تھا تو یوناہ سے اس کی مشابہت کس طرح ہوئی اور نینوہ والوں کی طرح کونسا نشان تھا جو لوگوں نے دیکھا۔ گویا وہ نشان جو یوناہ نبی کی طرح مسیح کیلئے دکھانا ضروری تھا اور جس کا ماحصل یہ تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے بھی کام لے لیتا ہے جو اپنے آپ کو کام کے ناقابل سمجھتے ہیں وہ تو مسیح نے نہ دکھایا اور وہ حصہ جو یوناہ نبی نے لوگوں کو نہیں دکھایا تھا وہ مسیح نے دکھا دیا۔ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں گیا مگر نینوہ والوں نے یہ نشان نہیں دیکھا۔ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا مگر نینوہ والوں نے یہ نشان نہیں دیکھا ۔ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلا مگر نینوہ والوں نے یہ نشان نہیں دیکھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جب یوناہ کو پھر نینوہ میں لایا تو انہوں نے لوگوں کو کام کر کے دکھایا کہ دیکھو خدا تعالیٰ سے کوئی شخص بھاگ نہیں سکتا۔ میں بھاگا تھا مگر پھر مجھے پکڑ کر خدا تمہاری طرف واپس لایا۔ یہ نشان تھا جو لوگوں نے دیکھا اور ہر شخص جو معمولی عقل و سمجھ سے کام لے کر بھی اس نشان پر غور کرے گا وہ بے اختیار یہ کہہ اُٹھے گا کہ سبحان اللہ یہ کتنا بڑا نشان ہے۔ یوناہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا پیغامبر بنے اور وہ ڈر کر کسی اور ملک کی طرف بھاگا مگر خدا اسے پکڑ کر پھر نینوہ والوں کے پاس لایا اور جب اس نے پیغام پہنچایا تو وہی نینوہ والے جن کے متعلق اس کا خیال تھا کہ وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے اس پر ایمان لانے پرمجبور ہوئے اور انہوں نے یوناہ کے سامنے اپنا سر جھکا دیا۔وہ اس نشان پر جتنا بھی غور کرے گا اسے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان لانا پڑے گا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھے گا کہ اللہ تعالیٰ کتنی بڑی طاقتوں کا مالک ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رُتبہ بخشتا ہے لیکن اگر یوناہ لوگوں سے یہ کہتا کہ دیکھو میں مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا تھا یا مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکلا تھا۔ تو لوگ کہتے یہ بالکل جھوٹ اور فریب ہے ہم اسے نہیں مان سکتے۔ پس مسیح کی یوناہ نبی سے مماثلت اگر پوری ہو سکتی تھی تو اسی طرح کہ وہ یوناہ نبی کی طرح زندہ ہی قبر میں جاتا، زندہ ہی قبر میں رہتا اور زندہ ہی قبر میں سے نکلتا اور پھر واقعہ صلیب کے بعد بنی اسرائیل کے ایک حصہ میں کامیاب تبلیغ کرتا۔لیکن انجیل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو نشان یوناہ نے لوگوں کو نہیں دکھایا تھا وہ تو مسیح نے لوگوں کو دکھایا اور جو نشان یوناہ نے لوگوں کو دکھایا وہ مسیح نے نہیں دکھایا۔مچھلی کے پیٹ میں زندہ جانے، اس کے پیٹ میں زندہ رہنے اور اس کے پیٹ میں سے زندہ نکلنے کا نشان یوناہ نے نینوہ والوں کو نہیںدکھایا۔مگر انجیل کہتی ہے کہ قبر میں جانے ، قبر میں رہنے اور قبر میں سے نکلنے کا نشان مسیح نے لوگوں کو دکھایا۔ پھر بائبل بتاتی ہے کہ یوناہ نے نینوہ والوں کو یہ نشان دکھایا کہ مچھلی کے پیٹ میں سے نکلنے کے بعد اس نے تبلیغ کی اور نینوہ والے اسے ماننے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن انجیل کہتی ہے کہ مسیح قبر میں سے نکلنے کے بعد غائب ہو گیا اور اس نے کوئی تبلیغ نہیں کی ۔ گویا جو نشان یوناہ نے دکھایا تھا اور جو اصل نشان تھا وہ تو مسیح نے نہیں دکھایا اور جو نہیں دکھایا تھا وہ مسیح نے دکھایا۔ پھر بائبل تو بتاتی ہے کہ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں زندہ گیا ، زندہ رہا ، اور زندہ نکلا ۔ لیکن مسیحی کہتے ہیں کہ مسیح قبر میں مر کر گیا ، قبر میں تین دن مردہ پڑا رہا اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر باہر نکل آیا ۔ اگر مسیحیوں کی یہ بات درست ہے تو یوناہ نبی کا نشان مسیح نے نہیں دکھایا اور اگر اس نے یوناہ نبی کا نشان دکھایا تھا اور وہ صلیب پر نہیں مرا۔ نہ مردہ ہونے کی حالت میں قبر میںرہا تو کفارہ کا مسئلہ بالکل ختم ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ کفارہ تب ثابت ہوتا ہے جب یہ مانا جائے کہ مسیح نے صلیب پر لٹک کر لوگوں کے گناہ اٹھا لئے۔ اگر وہ زندہ ہی رہا تھا تو ثابت ہوا کہ اس نے کوئی قربانی نہیں دی تھی اور جب قربانی نہیں دی تھی تو کفارہ بھی باطل ہوا۔
غرض صلیب کا واقعہ جسے مسیحی پیش کرتے ہیں سر تاپا اس نشان کے خلاف ٹھہرتا ہے جو یوناہ نے دکھایا تھا اور جس کے دکھانے کا مسیح نے اپنی قو م سے وعدہ کیاتھا۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ نتیجہ جو ہم نے یوناہ نبی کی پیشگوئی سے نکالا ہے آیا اس کا ذکر مسیح کی کسی پیشگوئی میں بھی ہے؟ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم انجیل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ یہی بات حضرت مسیح نے بھی بیان کی ہے بلکہ مسیح سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں اور جنہوں نے حضرت مسیح کے آنے کی پیشگوئی کی تھی انہوں نے بھی اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ یسعیاہ میں لکھا ہے: -
’’خداوند یہوواہ جو اسرائیل کے تتر بتر کئے ہوئوں کا جمع کرنے والا ہے یوں فرماتا ہے کہ میں ان کے سوا جو اسی کے ہو کے جمع ہوئے ہیں اوروں کو بھی اس پاس جمع کروں گا۔‘‘ (یسعیاہ باب ۵۶ آیت۸)
یہاںیسعیاہ نبی یہ پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جبکہ خدا تعالیٰ اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو پھر اکٹھا کرے گا اور ایک نبی بھیجے گا جس کے اردگرد وہ جمع ہو جائیں گی۔ یسعیاہ نبی جو اس جگہ خبر دیتے ہیں یہ مسیح کے بارہ میں ہے کیونکہ مسیح کے سوا اور کوئی شخص نہیں جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ میںبنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کیلئے آیا ہوں ۔ یہ جو گمشدہ بھیڑیں ہیںان سے مراد بنی اسرائیل کے دس قبیلے ہیں جن کو نبو کد نضر کے زمانہ میں عراقی حکومت نے حملہ کر کے تباہ کر دیا تھا ۔ اس حملہ کا افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس وقت یہودیوں میںپھوٹ پڑی ہوئی تھی اور وہ ایک دوسرے کی دشمنی میں مشغول رہتے تھے چنانچہ اس وقت یہود کی دو حکومتیں بنی ہوئی تھیں ایک اسرائیلی کہلاتے تھے اور دوسرے یہودی کہلاتے تھے ۔ ایک یروشلم سے تعلق رکھتے تھے اور دوسروں نے اپنا الگ دارالحکومت بنایا ہوا تھا ۔ جب عراقی حکومت نے یہودی حکومت کو تباہ کرنے کیلئے حملہ کیا تو یہود کا ایک حصہ دوسروں کی دشمنی کی وجہ سے اس کے ساتھ مل گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عراقی حکومت یہود کی آپس کی پھوٹ کی وجہ سے ملک پر غالب آ گئی اور اس نے یہود کے تمام مقدس مقامات تباہ کر دئیے حتیٰ کہ یروشلم کا معبد جو حضرت سلیمان علیہ السلام کا بنا یا ہوا تھا اس میں سؤر کی قربانی کی گئی اور اسی طرح اور بہت کچھ مظالم کئے گئے ۔ چونکہ یہود کا حکومت سے دیر سے مقابلہ چلا آتا تھا اس لئے حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب ان کا پوری طرح قلع قمع کر دیا جائے۔ چنانچہ بارہ یہودی قبائل میں سے دس کو اس نے پکڑ لیا اور مشرق کے علاقہ میںلا کر پھیلا دیا۔ صرف دو قبائل فلسطین میں رہ گئے تھے اور یہ دو قبائل وہ تھے جنہوں نے اپنی قوم سے دشمنی کر کے دشمن کا ساتھ دیا تھا اس لئے ان سے دشمن نے رعایت برتی۔بہرحال وہ دس قبائل جو مشرق کے علاقہ میں لا کر پھیلا دئیے گئے تھے ان کے متعلق بائبل میں تو اتنا ہی لکھا ہوا ہے کہ ایران کے مشرق کے علاقہ میں یہود کے دس قبائل کو پھیلا دیا گیا۔ لیکن ہماری تحقیقات سے ثابت ہے کہ یہ علاقے افغانستان اور کشمیر کے تھے اور چونکہ ایک لمبا فاصلہ درمیان میں حائل ہو گیا تھا اور بابلیوں کی کوشش بھی یہی تھی کہ یہ لوگ واپس نہ آئیںاس لئے دیر تک ان کا حال چھپا رہا۔مگر تمام یہود انہوں نے مشرق میں نہیں بھیجے بلک کچھ لوگ اپنی خدمت کے لئے انہوں نے بابل اور اس کے ارد گرد رکھ لئے تھے ۔ یہ لوگ جو وہاں رہے تھے فارس اور مید کے بادشاہوں کی مدد سے پھر واپس آئے اور انہوں نے یروشلم کی بستیاں دوبارہ بسائیں۔ ان یہودیوں کا قرآ ن کریم میں بھی ذکر آتا ہے۔مگر وہ لوگ جو کشمیر اور افغانستان بھیج دئیے گئے تھے ان کا واپس آنا مشکل تھا اور پھر چونکہ وہ ایک لمبا عرصہ بدھوں کے ساتھ رہے اور ان کی تہذیب سے متاثرہو گئے اس لئے وہ اپنی روایات اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کو بھی بھول گئے اس وجہ سے ان کے واپس آنے کی کوئی صورت نہیں بنتی تھی۔ ان لوگوں کے متعلق یہود کا یہ خیال تھا کہ یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق مسیح ان گمشدہ بھیڑوں کو واپس لا کراپنی قوم سے ملا دے گا اور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی جس سے یہود کو یہ امید تھی کہ ان کی گمشدہ بھیڑیں پھر اپنے بھائیوں سے آ ملیں گی وہی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام بھی اس بارہ میں کئی جگہ پر ذکر فرماتے ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنے شاگردوں کی جماعت کو تبلیغ کیلئے بھجوایا تو اس موقعہ پر انہوں نے اپنے شاگردوں کو جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ
’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔‘‘
(متی باب ۱۰ آیت ۶)
یہ نصیحت انہوں نے اسی لئے کی تاکہ وہ پیشگوئی پوری ہو جائے جو یسعیاہ نبی نے کی تھی کہ جو اسرائیلی کھوئے گئے ہیں وہ مسیح کے ذریعہ پھر اکٹھے ہو جائیں گے آپ کہتے ہیں غیر قوموں کی طرف توجہ نہ کرنا بلکہ صرف اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اور انہیں تبلیغ کرنا۔
اسی طرح متی باب ۱۵ آیت ۲۱تا ۲۸ میں لکھا ہے کہ ایک عورت کی لڑکی بیمار تھی معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا تھا کہ جن آدمی کو بیمار کر دیا کرتے ہیں اور اگر جن نکال دیا جائے تو آدمی اچھا ہو جاتا ہے ۔ اس نے سنا ہوا تھا کہ مسیح جن نکالتا ہے ایک دفعہ حضرت مسیح کہیں جا رہے تھے کہ اس نے آپ کو دیکھ لیا اور وہ آپ کے پیچھے پیچھے شور مچاتی اور آوازیں دیتی دوڑی کہ اے خدا کے مقدس مجھ پر رحم کر اور میری لڑکی کا جن نکال دے۔ لیکن حضرت مسیح اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ غیر قوم کی تھی مگر وہ برابر شور مچاتی چلی جاتی تھی اور درخواست کرتی تھی کہ اس کی بیٹی کو بد روح سے بچایا جائے ۔ جب شاگردوں نے دیکھا کہ اس طرح ایک عورت پیچھے پیچھے شور مچاتی آ رہی ہے تو انہوں نے آپ کو توجہ دلائی کہ حضور یہ عورت میلوں میل سے بھاگی چلی آ رہی ہے اور شور مچا رہی ہے کہ میری بیٹی کی بد روح نکالی جائے۔ اس پر حضرت مسیح نے کہا۔
’’ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘
اس میں حضرت مسیح نے بتایا کہ میرا اصل مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کے گھرانے کی وہ دس قومیں جو کھوئی گئی ہیں انہیں تبلیغ کروں اور انہیں پھر اپنے مذہب پر قائم کروں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں کو الہام سے یہ معلوم ہوچکا تھا کہ دوسری قوموں میں رہنے کی وجہ سے وہ اپنے مذہب کو بھول چکی ہیں اور موسوی شریعت پر ان کا عمل نہیں رہا اور خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ دوبارہ ان کو مذہب کی طرف لایا جائے ’’ کھوئی ہوئی بھیڑوں‘‘ کے الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف ظاہری طور پر وہ غیر ملک میں چلی گئی تھیں بلکہ روحانی طور پر بھی غیر مذاہب کا اثر انہوں نے قبول کر لیا تھا پس وہ روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے کھوئی ہوئی تھیں۔ اسی وجہ سے جس طرح حضرت مسیح نے یہ کہا کہ یوناہ نبی کے نشان کے سوا اور کوئی نشان یہودیوں کو نہیں دکھایا جائے گا اور یہی میرا سب سے بڑا نشان ہو گا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ میرا سب سے بڑا مشن یہی ہے کہ میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو پھر جمع کروں۔ اسی طرح یوحنا میں حضرت مسیح کا یہ قول درج ہے کہ
’’ میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے ان کا بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا۔‘‘ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۶)
یہاں حضرت مسیح یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ یہودی کسی اور ملک میں رہتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ’’میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں‘‘ یعنی اس ملک کی نہیں بلکہ وہ کسی اور ملک میں رہتی ہیں اور میرے لئے یہ امر فیصل شدہ اور مقدر ہے کہ میں ان کو لائوں ۔ ان بھیڑوں نے تو میرا نکار کیا ہے لیکن وہ میری آواز سنیں گی اور مجھے مان لیں گی یوں تو نبی کا انکار لوگ کیا ہی کرتے ہیں حضرت مسیح کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ تو ضد کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں مگر وہ ضد کی وجہ سے انکار نہیں کرینگے بلکہ جلدی ہی مجھ پر ایمان لے آئیں گے۔
’’ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا‘‘ یہ الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ اس وقت موسوی قوم کا ایک بڑا حصہ موسوی شریعت کو چھوڑ سبیٹھا تھا اور اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ وہ حضرت مسیح کے ذریعہ پھر ان کو موسوی مذہب کی طرف واپس لائے اور اس طرح سب کو ایک قوم بنا دے۔
ان حوالہ جات سے ثابت ہے کہ گزشتہ نبیوں کے ذریعہ سے مسیحی مشن کی نسبت یہ خبر دی گئی تھی کہ
(1) وہ اسی طرح مشرقی ممالک کے یہود کو پیغام دے گا جس طرح فلسطین کے یہود کو دے گا۔
(2) یہ کہ مسیح کے نزدیک جہاں فلسطین کی بھیڑوں نے اس کو کم مانا ہے وہاں دوسری بھیڑیں اس کی آواز کو زیادہ سنیں گی
اور اس پر جلد ایمان لائیں گی۔
(3) مسیح کا ان لوگوں تک جانا اور انہیں پیغام پہنچانا ضروری ہے۔
یہ تین باتیں ہیں جو ان حوالوں سے نکل آتی ہیں ۔ اول یہود کے ملک سے باہر کچھ یہودی قبائل ہیں جن تک مسیح اپنا پیغام پہنچائے گا ۔ دوسرے وہ لوگ اس کی بات سنیں گے اور اسے مان لیں گے ۔ تیسرے مسیح کا ان لوگوں تک جانا کوئی اختیاری بات نہیں بلکہ ان کا وہاں جانا اور پیغام پہنچانا ایک ضروری امر ہے ۔ا ن تین نتیجوں کو یوناہ نبی کی پیشگوئی سے ملا لو تو ایک ہی بات بن جاتی ہے۔ یوناہ نبی کو بھی ایک غیر ملک کی طرف بھجوایا گیا تھا چنانچہ واقعات پڑھ کر دیکھ لو۔ یوناہ نینوہ کی مملکت میں نہیں رہتے تھے انہیں الہام ہوا کہ جائو اور نینوہ والوں کو ہمارا پیغام پہنچائو جو مشرق کی طرف ہے ۔ اسی طرح مسیح کو حکم دیا گیا کہ وہ مشرق کی طرف ایک غیر ملک میں جائیں اور انہیں پیغام پہنچائیں ۔ دوسرے یوناہ نبی کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ نے جبری طور پر وہاں بھجوایاورنہ وہ تو وہاں سے بھاگے تھے اور چاہتے تھے کہ نینوہ نہ جائیں لیکن خدا تعالیٰ نے جبر کر کے یوناہ کو وہاں بھجوا دیا۔ اسی طرح پیشگوئی بتاتی تھی کہ حضرت مسیح کو بھی اللہ تعالیٰ جبر اً اپنے ملک سے نکال کر ایک غیر ملک میں لے جائے گااور ان کے ذریعہ اپنا پیغام یہود کی گمشدہ بھیڑوں تک پہنچائے گا (3)جب وہ وہاں جائیں گے تو لوگ ان کو قبول کرلینگے اور ان کے دعویٰ پر ایمان لائیں گے۔
یوناہ نبی کے ساتھ جوو اقعہ ہوا وہ اسی طرح ہوا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں گئے ۔ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ پھر مچھلی نے ان کو خشکی پر اگلا۔ اور جب وہ اچھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ جائو اور نینوہ والوں کو ہمارا پیغام پہنچائو۔ اس طرح یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ میں کتنا ہی بھاگوں بہرحال خدا تعالیٰ کی بات مجھے ماننی پڑے گی چنانچہ وہ واپس آئے اور انہوں نے نینوہ والوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا ۔ پہلے تو انہوں نے معمولی سا انکار کیا مگر جونہی عذاب کے آثار ظاہر ہوئے انہوں نے مان لیا۔
غرض ان حوالوں کو جب ہم یوناہ نبی کی پیشگوئی کے حوالہ سے ملا کر دیکھتے ہیںتو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یوناہ نبی والا معجزہ جو حضرت مسیح نے دکھانا تھا وہ مسیح کے زندہ قبر میں جانے ، زندہ قبر میں رہنے اور زندہ قبر میں سے نکلنے پر ہی مشتمل نہیں تھا بلکہ اس میں یہ چوتھی بات بھی بتائی گئی تھی اور یہی اہم بات تھی کہ مسیح کو خدا تعالیٰ یوناہ نبی کی طرح ان اسرائیلی قبائل کی طرف لے جائے گا جو کھوئے گئے تھے۔ اور وہ ان کو خدا کا کلام سنا ئے گا اور وہ لوگ اس کی باتیں مانیں گے اور یہ ایک ایسا نشان ہوگا جسے اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیںدیکھیں گی۔ جیسے نینوہ کے لوگوں نے نشان دیکھا تھا ۔ اب دیکھ لو مسیح کے ساتھ جو حالات گزرے ہیں وہ بھی بالکل اسی طرح تھے ۔ مسیح فلسطین میں پیدا ہوا اور اس کی بولی عبرانی تھی۔ اس کی ماں بھی فلسطین میں موجود تھی اور اس کا جو باپ کہلاتا تھا وہ بھی وہیں موجود تھا۔ اسی طرح باپ کے دوسرے بیٹے بھی موجود تھے ۔ پھوپھی بھائی بھی وہیں تھے پھر وہاں سب کے سب ان کی اپنی قوم کے لوگ تھے۔ اپنا رسم و رواج تھا اپنا تمدن اور اپنا طریق تھا اور یہ چیزیں ایسی ہیں جو بڑی اہمیت رکھنے والی ہیں اور جن سے انسان کا غیر معمولی لگائو ہوتا ہے مگر جہاں ان کو بھیجا جا رہا تھا وہ ایک غیر ملک تھا اور اس کے ساتھ مسیح کا کوئی بھی تعلق نہیں تھا۔افغانستان کی زبان کہاں اور فلسطین کی زبان کہاں۔ اسی طرح کشمیر کی زبان کہاں اور فلسطین کی زبان کہاں اور مسیح کی زبان کہاں۔ ان دونوں میں کوئی بھی تو نسبت نہیںتھی ۔ پھر اسرائیلی قبائل بدھوںاور دوسری اقوام سے مل کر انہی کے تمدن اور انہی کے رسم و رواج کواختیار کر چکے تھے جن کا بدلنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے علاوہ فلسطین سے افغانستان اور کشمیر تک کا رستہ بھی بڑا کٹھن اور تکلیف دہ تھا اول تو کوئی سہولتیں میسر نہ تھیں اور پھر وہ اڑھائی ہزار میل طے کر کے جانا اور بھی مشکل تھا ۔ پس جس طرح یوناہ نبی کا دل نینوہ والوں کی طرف جانے سے گھبراتا تھا اسی طرح مسیح کا دل بھی افغانستان اور کشمیر جانے سے گھبراتا تھا کیونکہ وہاں جانے سے اپنی زبان کو چھوڑنا پڑتا تھا۔ اپنی قوم کو چھوڑنا پڑتا تھا آسان طریق یہی تھا کہ مسیح اپنی قوم میں رہتے اور فلسطین میںبیٹھے ہوئے یہود کو تبلیغ کرتے رہتے۔ مگر جس طرح یوناہ نبی نے گریز کیا تو خدا تعالیٰ نے اس پر جبر کیا اور ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ جن کے نتیجہ میں وہ مجبور ہو کر نینوہ والوں کے پاس جائیں اور انہوں نے بھی سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ سے بھاگنے کے کوئی معنے نہیں جہاں وہ مجھے بھجوانا چاہتا ہے وہاں مجھے ضرور جانا چاہئے اسی طرح حضرت مسیح کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کئے کہ ملک میںان کے خلاف مخالفت کی ایک عام رو چل پڑی۔ یہاں تک کہ ان پر مقدمہ ہوا۔ انہیں عدالت میں حاضر ہونا پڑا اور آخر عدالت نے انہیں پھانسی کا حکم دے دیا اور پھر صلیب پر انہیںلٹکنا پڑا ۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی پیشگوئی کے مطابق اسی طرح بچا لیا جس طرح یوناہ کو بچایا تھا جس طرح یوناہ نبی کو جب سمندر میں ڈالا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی مقرر کر دی تھی جس نے انہیں زندہ نگل لیا اور پھر وہ مچھلی کے پیٹ میں تین رات دن زندہ رہے اور پھر زندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں سے نکل آئے اور یہ دیکھ کر ان کا ایمان تازہ ہو گیا کہ میرے رب میں کتنی بڑی طاقتیں ہیں اور وہ کس طرح اپنے بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح بھی جب صلیب پر سے زندہ اترے۔ قبر میں زندہ رہے اور پھر زندہ ہی قبر میں سے باہر آئے تو ان کا ایمان بھی تازہ ہو گیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ میں بہت بڑی طاقتیں ہیں ۔ مگر جب قبر میں سے نکلے تو اب حالات کی وجہ سے وہ اس ملک میں جانے پر مجبور ہو گئے جس ملک میں اللہ تعالیٰ انہیں بھجوانا چاہتا تھا۔ کیونکہ حکومت کی طرف سے جس کو پھانسی کا حکم مل چکا ہو اور پھر وہ بچ رہا ہو وہ اس ملک میں رہ ہی نہیں سکتا اگر رہے گا تو پکڑا جائے گا اور پھر دوبارہ پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ غرض خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ یوناہ نبی کی طرح وہ مجبور ہو کر کشمیر اور افغانستان کی طرف چلے گئے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نبی خدا کی راہ میں موت سے نہیں ڈرتا لیکن نبی نکمی زندگی کو برداشت نہیںکر سکتا۔ وہ کام کے لئے پیدا کیاجاتا ہے اور کام ہی کا عاشق ہوتا ہے ۔وہ ایک مشین ہوتا ہے جو ہر وقت چلتی ہے پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسیح اپنی باقی عمر ادھرادھر چھپ کر گزار دے۔ پس اس واقعہ نے جہاں اس کے ایمان کو اور بھی مضبوط کر دیا وہاں اسے جلد سے جلد فلسطین چھوڑ کریوناہ نبی کی طرح مشرق میں جا کر خدا تعالی کا کلام سنانے پر مجبور کر دیا۔ جب مسیح نے ان کو یہ واقعات سنائے ہونگے اور بتایا ہو گا کہ ان ان حالات کی وجہ سے میں تمھاری طرف آنے پرمجبور ہوا ہوں تو کس طرح ان کے ایمان بڑھ گئے ہوںگے اور کس طرح ان کے دلوں میں اللہ تعالی کے شکر کے جذبات پیدا ہوئے ہوں گے ۔ کشمیر کی تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ جب حضرت مسیح کشمیر میں داخل ہوئے تو ان کے زخم ابھی موجود تھے۔معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں جراح اتنے اچھے نہیں ہوتے تھے۔چناچہ لکھا ہے کہ جب شہزادہ نبی کشمیر پہنچاتو اس کے ہاتھوںاور پیروں پر زخم تھے جن کا ایک لمبے عرصہ تک وہاں کے جراح علاج کرتے رہے جب حضرت مسیح نے ان کو یہ واقعات سنائے ہوںگے کہ اس طرح جبراً اللہ تعالی مجھے فلسطین سے نکال کرتمہاری طرف لایا ۔اگر میں وہیں رہتاتو وہ دوبارہ مجھے پھانسی دیدیتے۔تو وہ اپنی خوش قسمتی پر کتنا ناز کرتے ہونگے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالی قدرت رکھتا تھا کہ انہیں پھر بچا لیتا ۔وہ پھر صلیب پر لٹکاتے تو پھر بچا لیتا مگراس طرح صلیب پرچڑھنا اور اترنا ہی رہتا تو حضرت مسیح تبلیغ نہیں کر سکتے تھے۔ بہرحال جب یہ باتیں انہوں نے سنی ہوںگی تو ان کے دلوں میںخدا تعالی کی محبت کتنی بڑھ گئی ہوگی کہ وہ ایک نبی کو ہمارے ملک میں لایا تا کہ ہم اس کے ذریعہ ہدایت حاصل کریں ۔ بیشک بعض لوگوں نے مخالفت بھی کی ہوگی اور مخالفت ہونی بھی چاہئے مگر تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ حضرت مسیح کے بہت جلد معتقد ہو گئے اور بہت جلد انہوں نے ایک نبی کی حیثیت میں آپ کو ماننا شروع کر دیا۔ غرض ان حالات میں خدا تعالیٰ نے ان کو مجبو رکر کے وہاں بھجوا دیا ۔ اگر ہم یہ تشریح نہ مانیں تو کفارہ تو الگ رہا مسیح ایک سچا اور راستباز انسان بھی نہیں رہتا ۔ کیونکہ مسیح صاف کہتا ہے کہ میں قبر میں زندہ جائوں گا ، قبر میں زندہ رہوں گا اور قبر میں سے زندہ نکلوں گا، اور یہ کہ ان واقعات کے بعد میرا گمشدہ بھیڑوں کی طرف جانا ضروری ہے تاکہ یوناہ نبی سے میری مماثلت ثابت ہو جائے۔ یوناہ آخر کس وقت تبلیغ کیلئے نینوہ والوں کی طرف گئے تھے۔ اسی وقت جب وہ مچھلی کے پیٹ میںسے نکلے۔ اسی طرح مسیح کا اصلی کام کا زمانہ وہی تھا جب وہ قبر میں سے نکلا۔ اگر یہ بات واقع نہیں ہوئی اور اگر قبر میں سے زندہ نکلنے کے بعد مسیح نے تبلیغ نہیں کی اور اس نے اپنی گمشدہ بھیڑوں کو جمع نہیں کیا تو مسیح بھی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور یسعیاہ وغیرہ وہ انبیاء بھی نعوذ باللہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں ۔ جنہوں نے مسیح کے متعلق یہ خبر دی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرے گا۔
پس یہ واقعات اس امر کا قطعی ثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ مسیح کیلئے صلیب پر مرنا یا کفارہ ہونا مقدر ہی نہیں تھا اور اگر کفارہ کو مانا جائے تو مسیح کو سچا ماننا بھی ناممکن ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی سب سے بڑی پیشگوئی جھوٹی نکلتی ہے ۔ اسی طرح وہ کلام بھی جھوٹا ثابت ہوتا ہے جو یسعیاہ نبی پر نازل ہوا اور جس کی بعض اور نبیوں نے بھی خبر دی تھی۔ پس ثابت ہوا کہ مسیح نے وہ قربانی نہیں کی جو کفارہ ماننے والے اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور نہ وہ کفارہ ہوا۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو واقعہ ہوا کیا وہ اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ مسیح زندہ قبر میں جائے گا زندہ قبر میں رہے گا اور زندہ قبر میں سے نکلے گا یا وہ اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ مسیح قبر میں مردہ گیا۔ مردہ ہونے کی حالت میں ہی رہا اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر باہر نکلا۔ میں اس غرض کیلئے چند بڑی بڑی باتیں بیان کرتا ہوں جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا۔
پہلی چیز تو یہ ہے کہ مسیح جس حاکم کے سامنے پیش کیا گیا وہ حاکم مسیح کا خیر خواہ تھا اور مسیح کے بعض ماننے والوں کا دوست تھا۔ مسیح کے ماننے والے جو ابھی ظاہر میں حواری نہیں بنے تھے لیکن دل سے آپ پر ایمان لا چکے تھے ان میں ایک یوسف آرمیتیا بھی تھا۔ انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ یوسف آرمیتیا بوجہ اس کے کہ یہودیوں میں بڑا معزز اور مالدار انسان تھا پیلا طوس کا دوست تھا۔ جب مسیح پیلاطوس کے سامنے پیش ہوئے تو پیلا طوس نے بار بار کوشش کی کہ کسی طرح وہ مسیح کو چھوڑ دے۔ اس بارہ میں اس نے جو تدابیر کیںان میں سے ایک تدبیر یہ تھی کہ جس دن وہ پیش ہوئے وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے ساتھ ہی سبت کا دن آتا تھا ۔ جو یہودیوں کا ایک مقدس تہوار ہے مگر اس دن ایک اور خاص تہوار بھی تھا جس میں رومی حکومت یہود کو خوش کرنے کیلئے ایک قیدی چھوڑا کرتی تھی تاکہ یہودیہ سمجھیں کہ حکومت مذہب کا احترام کرتی ہے اور اس کا دل ان کے مذہب سے متاثر ہے ۔ اس تقریب کی وجہ سے پیلا طوس نے یہ کوشش کی کہ وہ حضرت مسیح کو یہ کہہ کر کہ ہم نے کوئی نہ کوئی قیدی تو چھوڑنا ہی ہے چلو اسے ہی چھوڑ دیں آپ کو رہا کر دے۔ مگر یہودیوں نے کہا کہ ہم اس تجویز کو نہیں مان سکتے فلاں ڈاکو کو بیشک چھوڑ دیا جائے مگر مسیح کو نہ چھوڑا جائے (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۲۱و ۲۲) اس بارہ میں انجیل میںبہت سے اختلافات ہیں جن میں اس وقت پڑنے کی ضرورت نہیں ۔ بہرحال مسیح کو انہوں نے چھڑوانے نہیں دیا۔ اتنے میںجب پیلا طوس اپنی ذاتی دلچسپی سے مسیح کو چھوڑنے کی کوشش کر رہا تھا عدالت میں ایک پیغامبر آیا اور اس نے کہا کہ مجھے آپ کی بیوی نے بھجوایا ہے ۔ جب پیلا طوس اس کی بات سننے کیلئے اٹھا تو اس نے کہا آپ کی بیوی نے مجھے یہ پیغام آپ تک پہنچانے کیلئے دیا ہے کہ آج میں ساری رات سوئی نہیں کیونکہ فرشتے مجھے بار بار آ کر کہتے تھے کہ یہ شخص بے گناہ ہے اسے سزا نہ دینا ورنہ مر جائو گے (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۱۹) پیلاطوس نے جب یہ بات سنی تو اس نے مزید کوشش شروع کر دی کہ کسی طرح یہودی مسیح کو رہا کر دینا مان لیں ۔ مگر انہوں نے نہ مانا بلکہ انہوں نے دھمکی دی کہ ہم رو م میں بادشاہ کو لکھیں گے کہ ایک شخص جو حکومت کا باغی تھا اور بادشاہت کا دعویٰ کرتا تھا پیلا طوس نے اسے چھوڑ دیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ پیلا طوس بھی باغی ہے۔ یہ سن کر پیلا طوس ڈر گیا اور اس نے پانی منگوا یا۔ یہودیوں کو تمثیلی زبان میں گفتگو کرنے کا بہت شوق تھا۔ اسی طریق کے مطابق اس نے پانی منگوایا اور سب کے سامنے اپنے ہاتھ دھو کر کہا کہ مجھ پر اس گناہ کی کوئی ذمہ واری نہیں میں اس انسان کے خون سے بری ہوں ۔ اگر گناہ ہوگا تو وہ تم پر اور تمہاری اولادوں پر ہوگا۔ اس پر ان سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں ہاں اس کا خون ہم پر اور ہماری اولادوں کی گردن پر ہے ( انجیل متی باب ۲۷ آیت ۲۴، ۲۵) تب پیلا طوس نے مسیح کو ان کے حوالے کر دیا ہے کہ اسے لے جائو اور صلیب پر لٹکا دو۔
جب وہ مسیح کو لے کر صلیب کے مقام پر پہنچے ہیں تو انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت چھٹا گھنٹہ آ گیا تھا۔ اور چھٹے گھنٹے کے معنے اس زمانہ کے لحاظ سے تین اور چار بجے کے درمیان کے وقت کے ہیں ۔ اس دن دو اور مجرم بھی پیش تھے جن کو پھانسی پر لٹکایا جانا تھا۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ ایک مجرم کے لٹکانے اور تین مجرموں کے لٹکانے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ ایک آدمی کو تھوڑے وقت لٹکایا جا سکتا ہے مگر تین آدمیوں کو لٹکانے کیلئے لازماً زیادہ وقت لگے گا ۔ پھر ایک اور بات بھی ہے جس کو عام طور پر نہ مسلمان سمجھتے ہیںاور نہ بوجہ اپنے مذہب کے ناواقف ہونے کے عیسائی سمجھتے ہیں ۔ اس زمانہ میں صلیب کیلئے ایک لکڑی گاڑی جاتی تھی۔ جس کی شکل اس قسم کی ہواکرتی تھی۔



جب کسی شخص کے متعلق یہ فیصلہ ہو جاتا تھا کہ اسے صلیب پر لٹکا دیا جائے تو وہ اس لکڑی کے ساتھ سیدھا کھڑا کر دیا جاتا اور اس کے بازئوں کو پھیلا کر دو ڈنڈوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا۔ اس کے بعد مجرم کے بازوئوں اور ٹانگوں کے نرم گوشت میں کیل گاڑ دئیے جاتے اور وہ اسی طرح بھوکا پیاسا صلیب پر لٹکا لٹکا مر جاتا۔بعض حالات میں علاوہ ان کیلوں کے جو بازوئوں کے گوشت اور پنڈلیوں کے گوشت میں گاڑے جاتے تھے وہ ایک ایک کیل ہتھیلیوں میں بھی گاڑ دیتے تھے لیکن جن لوگوں کو علم التشریح کی واقفیت ہے وہ جانتے ہیں کہ یہاں بھی کیلوں کاگاڑنا ہڈیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔ بہرحال صلیب دیتے وقت کیل جسم کی ہڈیوں میں نہیں گاڑے جاتے تھے بلکہ بازوئوں اور پنڈلیوں کے نرم نرم گوشت میں گاڑے جاتے تھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جسم کے گوشت میں کیل گاڑ دینا یہ بھی انسان کو خطرناک تکلیف پہنچاتا ہے۔ بلکہ کیل تو الگ رہے معمولی ٹیکہ سے بھی بعض لوگ چیخیں مارنے لگ جاتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس صلیب سے انسان کی موت کئی دنوں کے بعد واقع ہوتی تھی اور وہ سسک سسک کر اپنی جان دیتا تھا فوری طور پر موت واقع نہیں ہوتی تھی۔ اس میں صرف ہیبت کا پہلو ہے جو دماغی لحاظ سے سخت اذیت پہنچاتا ہے یعنی انسان یہ دیکھتا ہے کہ اب کیل آ گئے ہیں اب ہتھوڑا آ گیا ہے۔ اب کیل گاڑنے والا آ گیا ہے۔ اب کیل گاڑنے کیلئے اٹھا ہے ۔ اب کیل جسم پر رکھا گیا ہے۔ اب کیل پر ہتھوڑا پڑنے والا ہے۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو اس کے دماغ کو خوف زدہ کردیتی ہیں اور وہ اس کی ہیبت سے شدید متاثر ہوتا ہے ورنہ محض گوشت کٹ جانے سے ایسی تکلیف نہیں ہوتی جسے برداشت نہ کیا جا سکتا ہو۔ لڑائیوں میں ہزاروں مرتبہ تلوار لگتی ہے اور گوشت کٹ کر علیحدہ ہو جاتا ہے مگر چونکہ وہ تلوار یکدم آ پڑتی ہے اس لئے اس کی ہیبت طاری نہیں ہوتی۔ لیکن کیل کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اب نہ معلوم کیا ہونے والا ہے۔ لیکن تلوار لگ کر اگر گوشت کٹ جائے تو بعض دفعہ اس کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی جتنی ڈاکٹر کی سوئی سے انسان محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ اس کا پتہ اسی وقت لگتا ہے جب گوشت کٹ چکا ہوتا ہے بلکہ بسااوقات ایسی حالت میں جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہڈی سلامت ہے تو بجائے گھبرانے کے بے اختیار الحمد للہ کہہ اٹھتا ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر ٹیکا لگانے کیلئے سرنج تیار کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ شاید ڈاکٹر مجھے ذبح کرنے لگا ہے اور اس پر ایک ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیح کے ساتھ جو کچھ گزرا وہ دماغی لحاظ سے ایک نہایت ہی تکلیف دہ واقعہ تھا۔ لیکن وہ حقیقی تکلیف جس سے انسان مر جاتا ہے وہ آپ کو نہیں ہوئی۔ لیکن چونکہ آپ نازک طبیعت انسان تھے آپ نے اس تکلیف کو بھی شدت سے محسوس کیا اور بیہوش ہو گئے ۔ اس کے مقابلہ میں وہ چور جو آپ کے دائیں بائیں لٹکائے گئے تھے وہ ایک دوسرے سے مذاق کرتے رہے۔ بلکہ ان میں سے ایک نے مسیح کو طعنہ دے کر کہا کہ اگر تو مسیح ہے تو اپنے آپ کو بھی اور ہم کو بھی بچا۔ اس پر دوسرے نے اسے جھڑک کر کہا کہ تو خدا سے ڈر ہم تو اپنے کئے کی سزا پا رہے ہیں اور یہ بے گناہ ہے۔ (انجیل لوقاباب ۲۳ آیت ۳۹۔۴۰) اب دیکھو وہ صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں مگر مذاق جاری ہے کیونکہ سنگدل لوگ تھے اور ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ اسی قسم کی طبیعت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنے اندر سختی برداشت کرنے کا مادہ رکھتے ہیں۔کشمیر میں ہی ہمارا ایک احمدی خاندان ہے جو پہلے زمانہ میں مظفر آباد کے راجہ تھے۔ مہاراجہ کشمیر نے حملہ کر کے انہیں شکست دی اور راجہ کو قید کر کے سری نگر لے آیا اور ان کے گزارہ کیلئے وظیفہ مقرر کر دیا۔ یہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد حکومت کی بات ہے جس کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اول رضی ا للہ عنہ ریاست جموں و کشمیر میں ملازم تھے۔ وہ مسلمان راجہ بڑا خوبصورت اور قوی نوجوان تھا اور اس کی شکل مہاراجہ کو بڑی پسند تھی۔ ایک دن وہ پولو کھیلتے ہوئے گرا اور اس کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ انہوں نے علاج کرایا اور ہڈی جڑ گئی۔ مگر ہڈی کچھ ٹیڑھی جڑی۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ مہاراجہ نے کہا کیوں راجہ صاحب آپ فلاں دن پولو کھیلتے ہوئے گرے تھے اور آپ کو چوٹ آئی تھی۔ بتائیے اب ہڈی کا کیا حال ہے جڑ گئی ہے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا جڑ گئی ہے اس نے کہا آئیے مجھے دکھائیں ۔ انہوں نے دکھائی تو کہنے لگاراجہ صاحب یہ آپ نے کیا کیا۔ یہ ہڈی تو ٹیڑھی جڑی ہے اور اس سے آپ کی خوبصورتی پر دھبہ آ گیا ہے۔ آپ اتنے خوبصورت انسان تھے آپ مجھے بتاتے تو میں اپنا ڈاکٹر آپ کیلئے مقرر کر دیتا اور اس ہڈی کو بالکل صحیح جڑوا دیتا۔ وہ اس وقت کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بڑے اطمینان سے اپنے بازو پر دبائو ڈال کر اتنے زور سے اسے جھٹکا دیا کہ بازو دو ٹکڑے ہو گیا اور کہنے لگے ’’ مہاراجہ اب جڑوا دیں‘‘ یہ دیکھ کر مہاراجہ پر ایسی حالت ہو گئی کہ وہ بے ہوش ہو نے لگا اور دربار سے اٹھ کر چلا گیا۔ تو ایسے ایسے سنگدل لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی مگر حضرت مسیح ایک نازک مزاج انسان تھے۔ اردگرد کے چور تو مذاق کرتے رہے اور مسیح بے ہوش ہو گئے جب انہیں ہوش آیا تو کراہنا شروع کر دیا۔ مگر معلوم ہوتا ہے آپ کے حواس قائم تھے کیونکہ انجیل بتاتی ہے کہ اوپر سے آپ کی والد ہ آ گئیں ۔ آپ نے اپنی والدہ کو دیکھا اور آپ پر ایک عجیب قسم کی کیفیت طاری ہو گئی۔ آپ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ نہ معلوم میری والدہ کو اس وقت کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی۔ سامنے ہی آپ کا ایک شاگرد تھو ما نا می کھڑا تھا ۔ آپ نے تھوما کی طرف دیکھا اور کہا۔ اے تھوما یہ تیری ماں ہے اور اپنی والدہ سے کہا اے عورت یہ تیرا بیٹا ہے۔ بعض لوگ تھوما س سے یہ غلطی کھاتے ہیں کہ تھوماس کے معنے ہوتے ہیں توام بھائی۔ جس سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح کا باپ تھا لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے۔ تھوماس کے معنے عبرانی میں دودھ شریک بھائی کے ہوتے ہیں ۔ پس اس نام سے صرف اتنا نکلتا ہے کہ حضرت مسیح کو جس عورت کا دودھ پلایا گیا تھا اسی عورت نے تھوماس کو بھی دود ھ پلایا تھا۔ یا یہ کہ خود حضرت مریم کا دودھ اس نے پیا تھا اور اس طرح وہ حضرت مسیح کا دودھ شریک بھائی ہو گیا تھا ۔ بہرحال حضرت مسیح نے اس چھوٹے سے فقرہ میں نہایت لطیف طریق پر ایک طرف تھوما کو توجہ دلائی کہ میں تو اس وقت صلیب پر لٹکا ہوا ہوں اور گو مجھے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے اس کے وعدوں کے سمجھنے میں کوئی غلطی کی ہو۔ اس لئے اب میں اپنی والدہ کو تیرے سپرد کرتا ہوں اور اپنی والدہ سے کہا کہ تھوما کو اپنا بیٹا سمجھنا ۔ ساری انجیل میں اپنی ماں سے محبت کا اظہار اگر حضرت مسیح نے کیاہے تو صرف اس جگہ۔ ورنہ انجیل پڑھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہیں اپنی والدہ سے کچھ خار سی ہے۔ کیونکہ کسی جگہ پر ان کی محبت کا اظہار نہیں ۔ بہرحال حضرت مسیح کی یہی کیفیت رہی۔ کبھی انہیں ہوش آجاتا اور کبھی وہ بے ہوش ہو جاتے ۔ اس موقعہ پر پیلا طوس کی طرف سے جو پہریدار مقرر کئے گئے تھے وہ بھی دل میں ان کے مرید تھے ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ حضرت مسیح ؑ تکلیف برداشت نہیں کر سکتے تو وہ دوڑ کے گئے ۔ اور انہوں نے اسفنج کا ایک ٹکڑہ لے کر اسے شراب اور مر سے بھگویا اور حضرت مسیح کو چوسنے کیلئے دیا۔ انجیل میں تو صرف اتنا لکھا ہے کہ اسفنج کو سرکہ میں ڈبو کر انہوں نے حضرت مسیح کو چوسنے کیلئے دیا (انجیل مرقس باب ۵ آیت ۳۶) مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ کو شراب اور مرکا مرکب دیا گیا (جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۴زیر لفظ صلیب) عیسائی لوگ بعض دفعہ اس بات پر بڑا زور دیا کرتے ہیں کہ یہود نے آپ پر اتنا ظلم کیا کہ جب آپ شدت تکلیف سے کراہ رہے تھے تو انہوں نے شراب اور مر کے مرکب میں اسفنج بھگویا اور چوسنے کیلئے آپ کو دیا۔ حالانکہ رومی کتب کے حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ جس شخص کے ساتھ وہ رعایت کرنا چاہتے تھے اور جس کو وہ تکلیف سے بچانا چاہتے تھے اس کو وہ شراب اور مر کا مرکب دیا کرتے تھے۔ معلوم نہیں طبی طور پر یہ چیز فائدہ بخش بھی ہے یا نہیں لیکن اس زمانہ میں لوگ یہی سمجھتے تھے کہ جس کو شراب اور مر دی جائے اس کی تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ پس یہ واقعہ بھی بتا رہا ہے کہ وہ لوگ جو آپ کے پہرہ کیلئے مقرر کئے گئے تھے وہ بھی دل میں آپ کے مرید تھے اور چاہتے تھے کہ آپ کی تکلیف کو کم کرنے میں وہ جس قدر بھی حصہ لے سکتے ہوں لیں ۔ پھر جیسا کہ میں بتاچکا ہوں انہیں جمعہ کے دن پچھلے پہر صلیب پر لٹکایا گیا تھا اور مغرب سے سبت کا دن شروع ہو جاتا تھا ۔ آج کل تو رات کے بارہ بجے کے بعد سے اگلا دن شمار کیا جاتا ہے لیکن اسلامی طریق یہ ہے کہ سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اگلا دن شروع ہو گیا ہے اور یہی طریق بنی اسرائیل میں بھی رائج تھا۔ اس لحاظ سے سورج کے غروب ہوتے ہی سب کا دن شروع ہو جاتا تھا اور یہودیوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر کوئی سبت کے دن صلیب پر لٹکا رہے تو اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے ۔ چنانچہ دو تین گھنٹہ کے بعد ہی پیلا طوس نے انہیں توجہ دلائی کہ اگر یہ صلیب پر لٹکا رہا اور سبت کا دن شروع ہو گیا تو تم پر عذاب آ جائے گا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے یکدم ایک زور دار آندھی چلا دی جس سے چاروں طر ف تاریکی چھا گئی (انجیل مرقس باب ۱۵ آیت ۳۳) اس کو دیکھ کر یہودی اور بھی ڈرے کہ ایسا نہ ہو یہ صلیب پر رہے اور سبت شروع ہو جائے ۔چنانچہ انہوں نے پیلاطوس سے خود درخواست کی کہ اب ان کو اتار لیا جائے (انجیل یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱) ایسا نہ ہو کہ ہم پر عذاب نازل ہو جائے۔ اب فرض کرو انہیں سورج غروب ہونے سے آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ پہلے اتار لیا گیا تھا ۔ تب بھی ان کی صلیب کا وقت کچھ نہ کچھ تو ضرور کم ہو جائے گا اگر سات بجے سورج غروب ہواکرتا تھا اور ساڑھے تین بجے انہیں صلیب پر لٹکایا گیا تھا تو یہ کل وقت ساڑھے تین گھنٹے بنتا ہے لیکن چونکہ شدید آندھی کی وجہ سے سخت تاریکی چھا گئی تھی اور سبت شروع ہو جانے کے خوف سے انہیں جلدی اتار لیا گیا تھا اس لئے اگر آدھ یا پون گھنٹہ بھی یہ وقت فرض کر لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اڑھائی سے تین گھنٹہ تک حضرت مسیح کو صلیب پر رہنا پڑا۔ حالانکہ اس صلیب پر سات سات دن تک بھی بعض لوگ زندہ رہتے تھے اور وہ صرف بھوک اور پیاس کی وجہ سے یا زخموں کا زہر جسم میں پھیل جانے کی وجہ سے ہلاک ہوتے تھے۔ پھر یہ بھی قاعدہ تھا کہ جو لوگ صلیب پر سے زندہ اتر آتے تھے ان کی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں۔ مگر پہرے دار چونکہ حضرت مسیح کے مرید تھے انہوں نے چوروں کی تو ہڈیاں توڑ یں مگر حضرت مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑیں دراصل صلیب دینے کے اصل معنے بھی ہڈیاں توڑ کر گودا نکال دینے کے ہیں اور یہ نام اسی لئے رکھا گیا تھا کہ اگر لوگ صلیب پر مرتے نہیں تھے بلکہ بعد میں ہڈیاں توڑ کر ان کا گودا نکالا جاتا تھا لیکن حضرت مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں (انجیل یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۳)۔ پھر حضرت مسیح کے صلیب پر سے زندہ اتر آنے کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ انجیل میں لکھا ہے ۔ جب حضرت مسیح کو اتارا گیا تو ایک سپاہی دوڑتا ہوا گیا اور اس نے آپ کی پسلی میں آہستہ سے نیزہ مار کر دیکھا تو اس میں سے خون اور پانی بہ نکلا (انجیل یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۴) جسم میں سے خون اور پانی نکلنا یہ تو کوئی محاورہ نہیں ۔ اس کے معنے یہی ہیں کہ سیال خون نکل آیا ۔ ورنہ انجیل کا بیان ہی اگر درست ہو تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ پانی الگ چیز ہے اور خون الگ۔اور خون کو سیال بنانے والی سِرم کے علاوہ کوئی اور بھی چیز ہے حالانکہ کوئی اور چیز ہے ہی نہیں ۔ پس اس کے معنے پانی اور خون کے نہیں بلکہ بہتے ہوئے خون کے ہیں۔ مگر یہودیوں میں انہوں نے یہ مشہور کر دیا کہ وہ مر گیا ہے اور اسی لئے ہم نے اس کی ہڈیاں نہیں توڑیں۔ معلوم ہوتا ہے یہودی بھی دل میں گھبرائے ہوئے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے ایک بے گناہ کو سزا دلوائی ہے پس چونکہ ان کے دل میں چور تھا اور وہ جانتے تھے کہ ہم ایک نیک اور خدارسیدہ انسان کو سزا دلوا رہے ہیں اس لئے جب انہوں نے ایک شدید آندھی دیکھی توڈر گئے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا عذاب معلوم ہوتا ہے اور انہوں نے زیادہ مزاحمت نہیں کی۔ بلکہ کہا کہ اچھا اگر وہ مر گیا ہے تو اسے دفن کر دو۔
ان تمام واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح کے صلیب پر مرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا۔عام طور پر ساتویں دن تک بھی لوگ زندہ رہا کرتے تھے اور ہڈیاں توڑ کر انہیں مارنا پڑتا تھا کجا یہ کہ اڑھائی یا تین گھنٹہ تک صلیب پر رہنے کے نتیجہ میں وہ فوت ہو جاتے۔ ان کا صلیب پر لٹکنے کا وقت زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین گھنٹے ہو سکتا ہے مگر جب اس صلیب پر سات سات دن تک بھی لوگ زندہ رہتے تھے تو ساڑھے تین گھنٹہ بلکہ اس سے بھی کم عرصہ میں آپ کس طرح فوت ہو سکتے تھے اور پھر وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ آپ کے ماننے والے آپ کے پہریدار تھے اور انہوں نے آپ کی تکلیف کو کم کرنے اور آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بہرحال جب حضرت مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا گیا تو یوسف آرمیتیاپیلا طوس کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ لاش میرے حوالے کی جائے۔ چنانچہ پیلا طوس نے حکم دے دیا کہ لاش یوسف آرمیتیا کو دے دی جائے (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۵۸) اس کے بعد یوسف آرمیتیانے ان کو ایک قبر میں جا کر رکھ دیا۔ مگر وہ قبر ہماری قبروں جیسی نہیں تھی۔ اس قبر میں تو کسی کو رکھا جائے تو اس کا سانس بند ہو جائے کیونکہ یہ اور طرح بنائی جاتی ہے وہ قبر ایک کھلی کوٹھڑی تھی جو چٹان میں کھدی ہوئی تھی (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۶۰) یوسف آرمیتیانے اس قبر میں حضرت مسیح کو جا کر رکھ دیا اور سامنے دروازہ پر ایک پتھر لڑھکا دیا (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۶۱) تاکہ لوگوں کو شبہ بھی نہ ہو اور ہوا کی آمدورفت بھی جاری رہے۔ یہ سارے واقعات بتاتے ہیں کہ یہ امر قطعی طور پر ناممکن تھا کہ مسیح صلیب پر مر سکتا ۔ یوں تو بعض دفعہ انسان بیٹھے ہوئے زمین پر سے اٹھنے لگتا ہے تو اس کا دم نکل جاتا ہے چلتے چلتے کھڑا ہوتا ہے تو دم نکل جاتا ہے مگر یہ اور چیز ہے ہم جس امر پر بحث کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ عام طور پر ان حالات میںجو حضرت مسیح کو پیش آئے لوگ مرا نہیں کرتے بلکہ زندہ رہتے ہیں اور حضرت مسیح کی موت بھی ان حالات میں قطعی طور پر ناممکن تھی۔شروع سے لے کر آخر تک ان کے ساتھ ایسے لوگ رہے جو ان کے مرید تھے یا ان کے دوست اور خیرخواہ تھے اور انہوں نے ہر ممکن کوشش آپ کو بچانے کیلئے کی۔ پھر ان کی خیرخواہی کا اس امر سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جب حضرت مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا گیا اور ایک قبر میں رکھ دیا گیا تو یہودیوں نے درخواست کی کہ جس کوٹھڑی میں مسیح کو رکھا گیا ہے اس پر تین دن تک پہرہ لگا دیا جائے کیونکہ مسیح کہا کرتا تھا کہ یوناہ کی طرح تین دن رات کے بعد زندہ ہو جائوں گا۔ مگر پیلا طوس نے انہیں سرکاری پہریدار دینے سے انکار کر دیاا ور کہا کہ ’’ تمہارے پاس پہرے والے ہیں جائو جہاں تک تم سے ہو سکے اس کی حفاطت کرو‘‘ (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۶۵)
پیلا طوس کی اس انکار سے یہی غرض تھی کہ اگر سرکاری پہریدار مقرر کئے گئے تو حضرت مسیح باہر نہیں نکل سکیں گے اور اگر وہ پہریداروں کا مقابلہ کریں گے تو ان کا مقابلہ حکومت کا مقابلہ سمجھا جائے گا لیکن اگر عام لوگ پہرہ پر ہوئے تو ان کا مقابلہ آسانی کے ساتھ کیا جا سکے گا۔ پس پیلا طوس نے انکار کرد یا اور کہا کہ میں پولیس دینے کیلئے تیار نہیں۔
پھر اس کے بعد جو واقعات ہوئے وہ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے۔
اگر عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق مسیح مر کر زندہ ہو چکے تھے تو وہ خدا کے بیٹے بن چکے تھے۔ا یسی صورت میں انہیں لوگوں کا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر انجیل بتاتی ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ چھپ چھپ کر پھرا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہا کرتے تھے کہ کسی کو بتانا نہیں کہ میں زندہ ہوں۔ بلکہ انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے حواریوں کو بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں رہتے ہیں ۔ ممکن ہے یوسف آرمیتیاکے مکان میں ہی رہتے ہوں۔کیونکہ لکھا ہے کہ مسیح یکدم ظاہر ہو جاتا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہی کہیں ادھر ادھر غائب ہو جاتا۔ ایک دفعہ جب وہ اپنے حواریوں کے پاس آئے تو انہیں دیکھنے کے باوجود یہ یقین نہ آیا کہ یہ سچ مچ مسیح کھڑا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے مچھلی کا ایک ٹکڑا اور کچھ شہد دیا اور اس نے ان کے سامنے کھایا تب انہیں یقین آیا کہ وہ واقعہ میں مسیح کو دیکھ رہے ہیں ۔ (انجیل لوقاباب ۲۴ آیت ۴۱تا ۴۳)
اب یہ ظاہر ہے کہ کوئی روح ایسا نہیں کیا کرتی۔ اس قسم کے کام جسم ہی کیا کرتا ہے مگر چونکہ قانون حکومت کے مطابق وہ پھانسی کی سزا کے مستحق ہو چکے تھے اور اگر پکڑے جاتے تو دوبارہ پھانسی پر لٹکا دئیے جاتے اس لئے ضروری تھا کہ وہ چھپ کررہتے اور حواریوں کو بھی نہ بتاتے کہ وہ کہاں رہائش رکھتے ہیں ۔
بہرحال انجیل کے بیانات سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ صلیب پر زندہ رہے۔قبر میں زندہ رہے اور پھر زندہ ہی اس قبر میں سے نکلے اور انہوں نے حواریوں کو بتایا کہ میں زندہ ہوں ۔ لطیفہ یہ ہے انجیل بتاتی ہے جب تھوما کو یہ خبر پہنچی کہ مسیح زندہ ہے تو اس نے کہا جب تک میں اس کے ہاتھوں میں کیلوں کے نشان نہ دیکھوں گا اور جب تک ان کیلوں کے نشان میں اپنی انگلی نہ ڈالوں گا میں اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ مسیح دوبارہ زندہ ہو گیا ہے ۔ اس پر حضرت مسیح نے تھوما کو بلایا اور کہا میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ میری پسلی پر ڈال اور دیکھ کہ میں مسیح ہی ہوںکوئی روح نہیں۔
(انجیل یوحنا باب ۲۰ آیت ۲۴ تا ۲۹)
یہ سارے واقعات بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح نے جو پیشگوئی کی تھی کہ یوناہ نبی کا نشان اس قوم کو دکھایا جائے گا وہ لفظ بلفظ پوری ہو ئی۔ایک گوشت پوست والے مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا مگر وہ صلیب پر زندہ رہا۔ وہ زندہ قبر میں داخل ہوا اور زندہ ہی قبر میں سے نکلا اور اس کے بعد وہ لوگوں سے چھپتا پھراکیونکہ قانون اس ملک میں رہنے کی انہیں اجازت نہیں دیتا تھا اور یہی اللہ تعالیٰ کی وہ مخفی تدبیر تھی جس کے ماتحت وہ مجبور ہوئے کہ کشمیر اور افغانستان کی طرف جائیں اور بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو تلاش کریں۔ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ ان حالات کے نتیجہ میں مسیح اس ملک میں رہنا مناسب ہی نہیں سمجھے گا اور وہ خوشی سے خود ان قوموں کی طرف چلا جائے گا جن کی ہدایت اور اصلاح کیلئے اسے مبعوث کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اب فلسطین میں میرا رہنا مشکل ہے تووہ مشرق کی طرف چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام بنی اسرائیل کے ان دس قبائل کو پہنچاتے رہے جو کشمیر اور افغانستان میں آ بسے تھے۔ اس بحث کا اگلا حصہ بائبل سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ افغانستان اور کشمیر کی تاریخوں اور بعض پرانی قبائلی روایات وغیرہ سے اس کا تعلق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ایک کتاب میں جس کا نام ’’ مسیح ہندوستان میں ‘‘ ہے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح ہجرت کر کے افغانستان اور کشمیر کی طرف آ گئے تھے۔ اس کے علاوہ بعض اور تحقیقاتیں بھی ہوئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب کی طرف سے ایک نبی جسے شہزادہ نبی کہا جاتا تھا اور جس کے ہاتھوں اور پائوں میں زخموں کے نشانات تھے ہجرت کر کے کشمیر میں آیا اور اس نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔
غرض کھیعصمیں عیسائیت کے ابطال کیلئے خدا تعالیٰ کی چار صفات پیش کی گئی ہیں ۔یعنی صفت کافی ، صفت ہادی ، صفت علیم اور صفت صادق اور جیسا کہ میں شروع میں بتا چکا ہوں خدا تعالیٰ کی صفت کافی اور ہادی اس کی صفت علیم اور صادق کے تابع ہیں جو علیم ہوتا ہے وہ کافی ہوتا ہے اور جو صادق ہوتا ہے وہ ہادی ہوتا ہے۔ اس وقت ہی کسی کا علاج ناقص ہوتا ہے جب اسے ساری مرض کا علم نہ ہو۔ یا مرض کا علاج معلوم نہ ہو۔ تشخیص ناقص ہو تب بھی نسخہ ناقص ہوتا ہے لیکن جو علیم ہو گا اور جسے ہر بات کا علم ہو گا اس کا نسخہ اپنی ذات میں مکمل ہو گا یہ نہیں ہوگا کہ باوجود علم کے وہ مرض ادھورا بتائے یا باوجود علم کے نسخہ ناقص لکھے۔ دوسری صفت صادق ہے صادق کے معنے ہوتے ہیں مخلص سچا اور دوستی میں پکا ۔ اب جو شخص سچا ہو گا مخلص ہوگا اور دوستی میں پکا ہوگا لازماً وہ ہادی بھی ہو گا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک صادق انسان کا دوست اور پیارا اور رحم کا مستحق وجود ڈوب رہا ہو اور وہ اسے نکالے نہیں۔ تباہ ہو رہا ہو اور وہ اسے بچائے نہیں۔ غرض علیم کی صفت کے ماتحت ہادی لفظ آتا ہے۔ عیسائیت کے تمام مسائل اپنی چار صفات کے اردگر چکر کھاتے ہیں کیونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے علیم اور کافی ہونے کو اور اس کے صادق اور ہادی ہونے کو نہیں سمجھا اور اس لئے انہوں نے غلط عقائد اختیار کر لئے۔ اس سورۃمیں چونکہ خدا تعالیٰ نے عیسائیت کا ذکر کیا ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان صفات کو بیان کیا گیا ہے جو عیسائیت کے رد میں کام آنے والی تھیں۔
میں نے بتایا تھاکہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان مقطعات کو صفات الٰہیہ قرار دیا ہے اور میری ایک پرانی رؤیا بھی اس کی تصدیق کرتی ہے ۔ میں ایک دفعہ سندھ سے آ رہا تھاکہ میں نے رویاء میں دیکھا کہ کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ قرآن کریم میں جو کھیعصآتا ہے ان حروف مقطعات میں میرا بھی ذکر آتا ہے اور چونکہ میرا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثیل مسیح ناصری ہیں اس لئے درحقیقت ان حروف مقطعات میں میرا ذکر ہونے کے یہ معنے ہیں کہ کھیعص میں مسیحیت کا ذکر ہے اور جب اس میں پہلی مسیحیت کا ذکر تو اس لحاظ سے ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے کافی اور ہادی ہونے اور اس کے علیم اور صادق ہونے کی صفات کو نہ سمجھ کر غلط مذہب اختیار کر لیاا ور ہمارے حق میں یہ مقطعات اس لحاظ سے ہونگے کہ ہم نے انہی صفات سے کام لے کر عیسائیت کا رد کر دیا۔ گویا مراد تودونوں سلسلے ہوں گے مسیح ناصری کا سلسلہ بھی اور مسیح موعود کا سلسلہ بھی مگر عیسائیت کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ان صفات کو مدنظر نہ رکھ کر وہ صحیح راستہ سے بھٹک گئے اور ہمارے لئے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات نے ہماری تائید کی اور ہم نے ان کے ذریعہ سے عیسائیت کو کچل دیا۔
درحقیقت دنیا میں تمام روحانی کام صفاتِ الٰہیہ سے ہی چلتے ہیں اور اگر کسی کو علم صحیح عطا ہو جائے تو وہ صرف صفات الٰہیہ سے ہی تمام غلط مذاہب کو رد کر سکتا ہے اورا ن کا باطل ہونا ثابت کر سکتا ہے۔
---------------------------------------------------------------------------------------

(اس سورت میں ) تیرے رب کی (اس) رحمت کا ذکر (ہے) جو اس نے اپنے بندہ زکریا پر (اس وقت) کی جب اس نے اپنے رب کو آہستہ آوازسے پکارا ۔ ۳؎
۳؎ حل لغات
ذکر رحمت ربک خبر ہے ایک مبتداء محذوف کی جو ھذا ہے یعنی ھذا زکر رحمت ربک یہ ذکر ہے تیرے رب کی رحمت کا ۔ یہاں مصدر جو ذکر ہے فعل کا عمل کررہا ہے اور یہ عبارت اپنے معنوں کے لحاظ سے اس طرح ہے کہ ھذا ذکر رحمت ربک عبدہ ای زکریا حین نادہ یہ ذکر ہے تیرے رب کی رحمت کا ۔ وہ رحمت جو اس نے اپنے بندہ پر کی۔ کون سے بندہ پر ؟ زکریا پر۔ کس وقت کی؟ جب اس نے اپنے رب کو ایک ایسی آواز میں پکارا جو خفی یعنی آہستہ تھی۔
نادی کے معنے ہوتے ہیں صاح بہ یعنی اونچی اور بلند آواز سے پکارا اور نادی فلانا کے معنے ہوتے ہیں جالسہ فی النادی اس کے ساتھ مجلس میں اٹھتا بیٹھتا رہا اور اس کے معنے فاخرہکے بھی ہوتے ہیں ۔ یعنی کسی کے ساتھ مفاخرت کی باتیں کیں اور نادی بسرہ کے معنے ہوتے ہیں اظھرہ اس نے اپنے دل کا رازاس پر ظاہر کیا (اقرب)
تفسیر :
میں اوپر بتا چکا ہوں کہ اس سورۃ میں عیسائیت پر بحث کی گئی ہے اور عیسوی عقائد کی تردید کیلئے کھیعص میں چار صفات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ دو بنیادی صفات کی طرف اور دو ایسی صفات کی طرف جو ان صفات کا لازمی ظہور ہیں ۔ بنیادی صفات علیم اور صادق کی ہیں اور وہ صفات جو ان دو کا لازمی نتیجہ ہیں وہ کافی اور ہادی کی صفات ہیں ۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ زکریا سے وہ زکریا مراد نہیں جن کی کتاب بائبل میں شامل ہے۔ وہ زکریا ۴۸۷ سال قبل مسیح گزرے ہیں اور یہ زکریا وہ ہیں جو حضرت مسیح کے قریب زمانہ میں آپ کی والدہ کے کفیل تھے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زکریا بھی نبی تھے لیکن اناجیل میں ان کا ذکر بطور کاہن کیا گیا ہے بطور نبی کے نہیں۔ مگر اس مشکل کو رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث بالکل حل کر دیتی ہے۔آپ فرماتے ہیں اِنَّ اللّٰہ یبعث لھذہ الامۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا (ابو داؤد جلد۲ کتاب الملاحم صفحہ ۲۱۲) یعنی اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر صدی کے سر پر احیاء دین کیلئے ایک مجدد مبعوث فرمایا کرے گا۔ اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے وعدہ اللّٰہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم (نور ع ۷) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں بھی زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے خلفاء یعنی مجددین کو پہلے زمانہ کے اسرائیلی خلفاء کا مثیل قرار دیا ہے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل (مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم صفحہ ۳۳ مکتوب نمبر۲۳۴ ،نمبر۲۴۹)یعنی میری امت کے علماء روحانی یعنی مجددین انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں ۔ پس ممکن ہے کہ ایسے نبی جو کسی دوسرے نبی کے کام کی تکمیل کیلئے آتے ہوں ان کے لئے بائبل میں کاہن کا لفظ استعمال ہوتا ہو۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق بھی کفاریہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص کاہن ہے معلوم ہوتا ہے بنی اسرائیل ایسے رنگ میں نبیوں اور کاہنوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ مکہ والے کاہن کو برا سمجھتے تھے جب رسول کریم ﷺ نبی ہونے کا دعویٰ کرتے تو وہ سمجھتے کہ یہ کاہن ہے لیکن اس کے علاوہ جب ہم بائبل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ یہود کے حالات دیکھ کر بہت چھوٹی چھوٹی جگہوں میں اپنے نبی بھیج دیا کرتا تھا یہاں تک کہ بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ بعض دفعہ سینکڑوں انبیاء ایک ہی زمانہ میں ہوئے ہیں (نمبر۱ سلاطین باب۲۲آیت ۶) بلکہ بعض بڑے بڑے پایہ کے انبیاء بھی ایک ہی زمانہ میں بھیجے گئے ہیں ۔ چنانچہ حر قی ایل ۔ دانی ایل اور یرمیاہ یہ سب ایک ہی وقت میںآگے پیچھے ہوئے بلکہ کچھ حصہ ان کی زندگیوں کا متوازی بھی گزرا ہے۔ پس اگر بائبل نے زکریا کو نبی نہیں کہا تو یہ کوئی قابل تعجب بات نہیں ۔ جب بائبل کہتی ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک زمانہ میں چار چار سو نبی آئے (نمبر۱ سلاطین باب ۲۲ آیت ۶) اور وہ نام ایک کا بھی نہیں لیتی تو معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میں اتنی کثرت سے نبی آیا کرتے تھے کہ بائبل نے ان کے ناموں کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔ قرآن کریم نے اپنی ضرورت کے مطابق جن نبیوں کا نام ضروری سمجھا لے لیا اور بائبل نے جن نبیوں کی ضرورت سمجھی ان کا نام لے لیا۔ باقیوں کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کون تھے اور ان کے کیا نام تھے۔ بہرحال حضرت زکریا کو انجیل نے گو کاہن قرار دیا ہے مگر قرآن کریم انہیں نبی قرار دیتا ہے اور اس جگہ زکریا سے وہی زکریا مراد ہیں جو حضرت مسیح کی والدہ کے کفیل تھے اور حضرت مسیح کے قریب ترین زمانہ میں گزرے ہیں ۔
عیسائیت کے تفصیلی ذکر سے پہلے حضرت زکریا کا ذکر کرنے کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہود میں یہ پیشگوئی پائی جاتی تھی کہ مسیح کی آمد سے پہلے ایلیاہ نبی کا آنا ضروری ہے۔ چونکہ حضرت زکریا کے ہاں یحییٰ پیدا ہونے والے تھے اور حضرت یحییٰ ارہاص تھے مسیح ناصری کے یعنی وہ اس لئے آئے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے آنے کے لئے راستہ تیار کرتے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ وہ یہود کو حضرت مسیح سے واقف اور انٹرڈیوس کرانے کے لئے آئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کے ذکر سے پہلے حضرت زکریا کا ذکر فرمادیا۔ چنانچہ جب ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ملاکی نبی کی یہ پیشگوئی نظر آتی ہے کہ ’’دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجو ں گا۔‘‘ (ملا کی باب ۴ آیت ۵)
اس جگہ ’’خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن‘‘ سے مراد حضرت مسیح کی آمد ہے۔ چنانچہ جب مسیح ناصری نے دعویٰ کیا تو یہود نے یہی سوال کیا کہ وہ ایلیا ہ جو آنے والا تھا وہ کہاں ہے؟ حضرت مسیح نے جواب دیا کہ اس سے مراد یوحنا ہے اور فرمایا کہ
’’چاہو تو مانو ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے۔‘‘ (انجیل متی باب ۱۱ آیت ۱۴)
پس چونکہ حضرت یحییٰ جن کا انجیل میں یوحنا نام آتا ہے اور جو ایلیاء نبی کے بروز تھے جب تک ظاہر نہ ہوتے حضرت مسیح نہیں آسکتے تھے اس لئے ضروری تھا کہ مسیح کے ذکر سے پہلے حضرت یحییٰ کی پیدائش کا ذکر کیا جاتا تا ملا کی نبی کی پیشگوئی کے پورا ہونے کی طرف اشارہ کر دیا جاتا اور لوگوں کو بتا دیا جاتا کہ دیکھو وہ ایلیا ہ بھی آ گیا جس کی ملا کی نبی نے خبر دی تھی اور پھر ہمارا مسیح بھی دنیا میں ظاہر ہو گیا۔
دوسری وجہ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش کا موجب حضرت مریم علیہا السلام ہوئیں۔ چنانچہ سورہ ٔ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
کلمادخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یمریم انی لک ھ۔ذا قالت ھو من عند اللہ ان اللہ یرزق من یشاء مغیر حساب o ھنالک دعا زکریا ربہ قال رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ انک سمیع الدعا o (آل عمران ع ۴)
یعنی حضرت زکریا علیہ السلام جو حضرت مریم کے کفیل تھے اور جن کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی وہ ایک دفعہ اپنی عبادت گاہ میں گئے اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت مریم جو اس وقت چھوٹی بچی تھیں ان کے پاس کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے مریم سے پوچھا کہ انی لک ھذا بیٹی تمہیں یہ چیزیں کہاں سے ملی ہیں ۔ چھوٹے بچوں سے عام طور پر لوگ محبت او رپیار کی وجہ سے اس قسم کی باتیں پوچھا ہی کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ھومن عنداللّٰہ یہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں ۔ مفسرین اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کیلئے آسمان سے یہ چیزیں بھجوا دیا کرتا تھاحالانکہ یہاں آسمان سے آنے کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ جواب صرف اس نیک تربیت کا نتیجہ تھا جو حضرت مریم علیہاالسلام نے جب یہ جواب دیا تو ایک تین چار سال کے بچہ کے منہ سے یہ بات سن کر کہ اللہ سب کچھ دیتا ہے یہ نعمتیں بھی اللہ نے ہی دی ہیں حضرت زکریا علیہ السلام کے دل پر چوٹ لگی اور انہوں نے خیال کیا کہ جب واقعہ یہی ہے کہ ہر چیز اللہ دیتا ہے اور ایک بچی بھی یہی کہہ رہی ہے تو میں تو سمجھدار اور تجربہ کار ہوں میں کیوں نہ یقین کروں کہ ہر چیز خدا ہی دیتا ہے۔ چنانچہ ھنالک دعا زکریا ربہ یہ جواب سن کر حضرت زکریا علیہ السلام کو توجہ ہوئی کہ میں بھی اپنی ضرورت کی چیز خدا تعالیٰ سے مانگوں۔ میرے گھر میں بھی کوئی بچہ نہیں ۔ اگر مریم کی طرح میرے گھر میں بھی بچہ ہوتا اور میں اس سے پوچھتا کہ چیز تمہیں کس نے دی ہے اور وہ کہتا کہ خدا نے تو جس طرح مریم کی بات سن کر میرا دل خوش ہوا ہے اسی طرح اپنے بچہ کی بات سن کر میرا دل خوش ہوتا۔پس حضرت مریم علیہا السلام حضرت یحییٰ کی پیدائش کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرانے کا ایک محرک ہو گئیں اور اس طرح بالواسطہ طور پر جہاں خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے ماتحت حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت مسیح کے ارہاص کے طور پر آئے وہاں حضرت مریم علیہاالسلام جو حضرت مسیح کی والدہ تھیں حضرت یحییٰ کی پیدائش کیلئے ارہاص بن گئیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے حضرت زکریا کی دعا سنی اور ان کے گھر میں بچہ پیدا ہو گیا۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا ۔ یہاں خالی یہ نہیں فرمایا کہ ذکر رحمت ربک زکریا بلکہ عبدہ زکریا فرمایا ہے ۔ اس میں جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا ایک بہت بڑی حکمت ہے اور قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ وہ ہر لفظ ایسے موقع پر استعمال کرتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے کوئی لفظ زائد یا بے معنی نہیں ہوتا۔
اس آیت میں بھی پہلے فرمایا ذکر یعنی ھذا ذکر اور ذکر کے معنے صرف ایک واقعہ بیان کرنے کے نہیں ہوتے بلکہ اسے یاد کرانے کے ہوتے ہیں۔ یعنی جو واقعہ ہم بیان کرنے لگے ہیں یہ ایسا اہم ہے کہ ہر شخص کو یہ واقعہ یاد رکھنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی طاقتوں اور اس کی قدرتوں پر ایمان لانا چاہئے۔ رحمت ربک ۔ یہ واقعہ کیا ہے یہ تیرے رب کی رحمت کا نشان ہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ رحمت تھی زکریا پر۔ ربوبیت ہوئی مریم کی۔ پھر ربک کیوں کہا گیا۔ خالی یہ کیوں نہیں کہا کہ ذکر رحمۃ الرب ۔ یہ رب کی رحمت کا ذکر ہے رحمت ربک کیوں کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کا رب کی بجائے ربک کے الفاظ لانا صاف بتا رہا ہے کہ یہاں کسی ایسی چیز کا بیان ہے جس میں ربوبیت محمدؐ کا بھی ذکر ہے ۔ اب اگر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ جس طرح یحییٰ علیہ السلام ارہاص تھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اسی طرح حصرت عیسیٰ علیہ السلام ارہاص تھے محمد رسول اللہ ﷺ کے کیونکہ حضرت عیسیٰ کے وجود میں جو بن باپ پیدا ہوئے یہ خبردی گئی تھی کہ اب موسوی دور ختم ہو چکا ہے اور وہ پیشگوئی شروع ہونے والی ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے اسماعیل کے متعلق یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ’’ دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برو مند کروں گا اور اسے بہت بڑھائوں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بنائوں گا۔‘‘
(پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۰ و پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۸)
اسی طرح وہ وعدہ پور اہونے والا ہے جو موسیٰ سے کیا گیا تھا کہ
’’ خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔‘‘
(استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵)
پس یہ واقعہ چونکہ ایک لمبے سلسلہ کی کڑی تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے رحمت ربککے الفاظ استعمال کئے اور محمد رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ یہ تیرے رب کی رحمت کا نشان ہے کہ اس نے اتنے لمبے عرصہ سے دنیا کو تیری طرف متوجہ کرنے کیلئے تیار کیا ۔ پہلے اس نے یحییٰ کو پیدا کیا جو عیسیٰ کے لئے ارہاص تھا۔ پھر اس نے عیسیٰ کو پیدا کیا جو تیرے لئے راستہ صاف کرنے والا تھا۔
پھر فرماتا ہے عبدہ زکریا حالانکہ اگر عبد کا ذکر نہ بھی کیا جاتا تب بھی فقرہ مکمل تھا۔ اس لفظ کو زائد کرنے میںحکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ ایک عمومی اور ایک خصوصی یعنی ایک وہ رحمتیں ہوتی ہیں جو صفت رحمانیت کے ماتحت ہوتی ہیں اور مومن اور کافر سب کو ملتی ہیں اور ایک وہ رحمتیں ہوتی ہیں جو خاص طو رپر اعلیٰ درجہ کے کارکنوں کو ملتی ہیں۔ جو جزاء کے طور پر ہوتی ہیں اور صفت رحیمیت کے ماتحت نازل ہوتی ہیں ۔ رحمت ربک میں صرف رحمت کا ذکر تھا یہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ یہ رحمانیت سے تعلق رکھنے والی رحمت ہے یا رحیمیت سے تعلق رکھنے والی رحمت ہے۔ عبدہ نے بتا دیا کہ یہ رحیمیت والی رحمت ہے وہ رحمت مراد ہے جو کسی کام کے نتیجہ میں نازل ہوتی ہے ایسے احسان کا ذکر نہیں جو بغیر خدمت اور کوشش کے صرف رحمانیت کے نتیجہ میں کیا جاتا ہے۔
اگر صرف زکریا کہا جاتا تو یہ سارا مضمون غائب ہو جاتا لیکن عبدہ زکریا کہہ کر بتایا کہ ہم نے زکریا پر جو رحمت نازل کی وہ عام رحمت نہیں تھی بلکہ خود زکریا بھی بہت نیک تھے اور انہوں نے بڑی بڑی خدمات کی تھیں۔ یہ سارا مضمون صرف و نحوکے چند اشاروں میں اللہ تعالیٰ نے ادا کر دیا ہے۔
اس سے یہ بھی پتہ لگا کہ ایک دعا ایسے شخص کی ہوتی ہے جو رحمت کا مستحق نہیں ہوتا اور ایک دعا ایسے شخص کی ہوتی ہے جو رحمت کا مستحق ہوتا ہے مگر رحمت کی صفت بھی آپ ہی آپ ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اس کیلئے بھی بعض ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس رحمت کو ابھارنے والی ہوں چنانچہ کبھی مشکلات کبھی دشمنوں کے مظالم اور کبھی اپنی بیکسی اور بے بسی انسانی قلب میں دعا کا ایک غیر معمولی جوش پیدا کر دیتی ہے اور آسمان سے اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو جاتی ہے ۔ گویا صفات الٰہیہ کا ظہور بعض خاص خاص محرکات کی وجہ سے ہوا کرتا ہے ۔ اس جگہ اس رحمت کے نزول کی کیا وجہ ہوئی اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں کیا ہے کہ اذ نادیٰ ربہ ندآء خفیا یعنی حضرت زکریا کے پکارنے کی وجہ سے وہ رحمت آئی جو خالص خدمت گاروں کیلئے آیا کرتی ہے۔
جیسا کہ اوپر بتا یا چکا ہے نَادٰی کے کئی معنے ہوتے ہیں جن میں سے ایک معنے بلند آواز سے پکارنے کے بھی ہیں مگر وہ معنے یہاں چسپاں نہیںہو سکتے کیونکہ اگر وہ معنے لئے جائیں تو پھر خفیا کے کوئی معنے نہیں بنتے۔ پس یہاں لازماً کوئی اور معنے لینے پڑیں گے اور وہ معنے یہی ہیں کہ اس نے مخفی آواز میں اپنے دل کا بھید اس پر ظاہر کیا۔
دنیا میں دو طرح کی دعائیں ہواکرتی ہیں۔ ایک تو وہ دعا ہوتی ہے جس میں انسان دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے اور اس غرض کیلئے وہ بلند آواز سے دعائیہ کلمات کو دوہراتا چلا جاتا ہے اور ایک دعا ایسی ہوتی ہے جو انسان علیحدگی میں کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور بھی اس کے ساتھ شامل ہو ۔ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو اس کا اصل مقام اخفاء ہوتا ہے۔ یعنی آہستہ آہستہ دعا کرنا تاکہ دوسروں کے کانوں میں آواز نہ پڑے۔ مثلاً اگر اس میں اضطراب اور اضطرار ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں نے لوگوں کے سامنے تضرع سے دعا کی تو میری آواز نکلے گی جس کو میں پسند نہیں کرتا تووہ علیحدگی میں دعا کرتا ہے تاکہ اس کے اضطراب اور اضطرار پر کوئی دوسرا مطلع نہ ہو۔ یہاں حضرت زکریا کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ نادی ربہ نداء خفیا حضرت زکریا نے آہستہ آواز میں دعا کی یعنی وہ اس دعا میں دوسروں کو شریک کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ کیوں نہیں کرتے تھے؟ اس کا ہمیں سورۂ آل عمران سے پتہ چلتا ہے اور یہاں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کسی انسان کو الٰہی ارشادات سے یہ معلوم ہو کہ اب خدا تعالیٰ کا فیضان کسی اور طرف منتقل ہونے والا ہے تو چاہے وہ خود اللہ تعالیٰ کے انوار کا حامل ہو اس کے دل کو دکھ پہنچتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس کے ہاتھ سے وہ نور ختم ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ خواہ ایک منزل پرے ہٹ کر نور ختم ہو بہرحال میں وہ آخری چراغ نہ بنوں جس پر آسمانی نور کا خاتمہ ہو۔ سورۂ آل عمران سے پتہ چلتا ہے کہ مریم کی حالت دیکھ کرحضرت زکریا کو یہ شبہ پڑ گیا تھا کہ آنے والا اسرائیلی موعود مریم کے بطن سے پیدا ہونے والا ہے ۔ کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ایسے اشارے ہوئے کہ مریم کا خیال رکھو ادھر مریم نے چھوٹی عمر میں ایسی باتیںشروع کر دیں جو ان کی نیکی اور تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار پر دلالت کرتی تھیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کیلئے اپنے نشانات دکھانے شروع کر دئیے اور لوگوں کے دلوں میں ان کے تقویٰ اور ان کی بندگی کا احساس پیدا کر دیا۔ چنانچہ کوئی کھانا لا رہا ہوتا ، کوئی پھل پیش کر رہا ہوتا اور کوئی اور چیز تحفتہً لا کر دے رہا ہوتا۔ ادھر انہوں نے مریم کو دیکھا کہ اس کے دل میں کوئی دنیوی رغبت نہیں۔ بچہ ہونے کے باوجود وہ محسوس کرتی تھیں کہ یہ نعمتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہیں اور اسی کے فضل اور احسان کا نتیجہ ہیں۔ حضرت زکریا نے ان تمام باتوں کو دیکھ کر محسوس کیا کہ وہ موعود جس پر بنی اسرائیل کی نبوت کا خاتمہ مقدر ہے۔ مریم کے پیٹ سے پیدا ہونے والا ہے ادھر ملا کی نبی اور بعض دوسرے انبیاء کی پیشگوئیاں ان کے سامنے تھیں جو بتا رہی تھیں کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ اب ختم ہونے والا ہے۔ پس حضرت زکریا نے اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا فیضان اب ختم ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جس کا ان آیات میں ذکر آتا ہے اور کہا کہ اے میرے رب میرے دل میں دیر سے یہ خواہش پائی جاتی تھی مگر آج مریم کی بات سن کر میرا دل بیقرار ہو گیا ہے اور میں اپنے دل کا راز تجھ پر ظاہر کرنے کیلئے مجبور ہو گیا ہوں پس یہاں نادی کے وہ معنے نہیں جو شور مچانے کے ہیں بلکہ نادی ربہ نداء خفیا کے یہ معنے ہیں کہ اس نے خدا سے وہ راز سربستہ بیان کیا جو اس نے اپنے دل میں چھپایا ہوا تھااور خدا تعالیٰ سے مانگتا نہیں تھا مریم کی بات سن کر اس کے دل میں جوش پیدا ہوا اور اس نے اپنے رب سے اپنے درد کا اظہار کر دیا۔ بیشک خدا تعالیٰ کیلئے کوئی چیز راز نہیں مگر جب تک کوئی دعا مانگی نہیں جائے گی اصطلاحاً اسے ایک راز ہی سمجھا جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اسی رنگ میں ایک جگہ خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
؎ وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے
حقیقت یہی ہے کہ کئی خواہشیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں بندہ ایک مدت تک چھپائے رکھتا ہے اور کہتا ہے خدا تعالیٰ سے کیا مانگنا ہے لیکن کسی وقت محرک ایسا پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے دل کا راز سربستہ خدا تعالیٰ کے سامنے ظاہر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے نداء خفیا میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ خدایا یہ میرے دل کا ایک راز تھا۔ میری پہلے سے یہی خواہش تھی کہ مجھے بیٹا ملے مگر اب مریم کی بات میں نے سنی ہے تو اس خواہش کو دل میں چھپائے رکھنے کی طاقت نہیں رہی۔


ترجمہ آیت نمبر ۵ :
(اور) کہا اے میرے رب (میری حالت تو یقینا ایسی ہے کہ ) میری تمام ہڈیاں تک کمزور ہو گئی ہیں اور (میرا) سر بڑھاپے کی وجہ سے بھرک اٹھا ہے اور اے میرے رب میں (کبھی بھی) تجھ سے دعائیں مانگنے کی وجہ سے ناکام و نامراد نہیں رہا۔ ۴؎
۴؎ حل لغات :
الوھن کے معنے ہیں ضعف من حیث الخلق او الخلق (مفردات) یعنی خواہ پیدائش کے لحاظ سے کمزوری ہو یا اخلاق کے لحاظ سے کمزوری ہو اسے وھن کہتے ہیں پس وھن العظم منی کے معنے ہوں گے کہ میری ہڈیاں کمزر ہو گئی ہیں ۔
تفسیر :
حضرت زکریا علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے رب میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں ۔ قاعدہ یہ ہے کہ بڑھاپے میں ہڈیاں Brittleہو جاتی ہیں یعنی ایسی نازک ہو جاتی ہیں کہ ذرا سی ٹھوکر سے بھی ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کا جڑنا مشکل ہو جاتا ہے اسی لئے جو ان کی ہڈی تو جلدی جڑ جاتی ہے لیکن بوڑھے آدمی کی ہڈی ٹوٹ جائے تو وہ آسانی سے نہیں جڑتی۔ پس رب انی وھن العظم کے یہ معنے ہوئے کہ میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور میرا ضعف اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب مجھ میں تاب مقاومت باقی نہیں رہی۔ واشتعل الرأس شیبا۔ اور میرا سر بڑھاپے کی وجہ سے شعلے مارنے لگ گیا ہے۔ بال جب سفید ہو تے ہیں تویکدم سفید نہیں ہوتے بلکہ پہلے بالوں کا رنگ اڑتا ہے اور وہ سیاہی سے زرد ی مائل ہو جاتے ہیں پھر ان میں سفیدی آتی ہے مگر وہ اتنی تیز اور نمایاں نہیں ہوتی۔ صرف ہلکی ہلکی سفیدی ہوتی ہے لیکن جب بڑھاپا غالب آ جائے تو سر کے بال بہت زیادہ سفید ہو جاتے ہیں ۔اسی کیفیت کا ان الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے کہ میرا سر تو اب بڑھاپے کی وجہ سے شعلے مارنے لگ گیا ہے۔
ولم اکن بدعائک رب شقیا۔ اور اے میرے رب میں تیری دعا کے ساتھ کبھی شقی نہیں ہوا۔
اس کے ایک معنے یہ ہیں بدعائی ایاک یعنی تجھے پکارنے کی وجہ سے یا ان دعائوں کی وجہ سے جو میں تجھ سے مانگا کرتا ہوں میں کبھی شقی نہیں ہوا۔میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ مجھے اپنے کسی مقصد میں ناکامی ہوئی ہو اور شقاوت میرے حصہ میں آئی ہو۔
شقاوت سعادت کی ضد ہے اور سعادت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ایسی مدد انسان کے شامل حال ہونا جس سے اسے خیر حاصل ہو جائے اور شقاوت کے معنے ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کی مدد کا میسر نہ آنا جس کی وجہ سے اسے مخصوص خیر حاصل نہ ہو۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کے دونوں مطلب لئے جا سکتے ہیں ۔ یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ تیرے حضور دعا کرنے کی وجہ سے مجھے کبھی ناکامی نہیں ہوئی اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے اس لئے تیرے مخصوص کر لینے کی وجہ سے اور تیرے انعامات کی وجہ سے میں نے یہ برکت پائی ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہو اکہ مشکلات میں مجھے ناکامی ہوئی ہو بلکہ ہمیشہ مجھے کامیابی ہوئی ہے اور میں نے اپنے مقصد کو حاصل کیا ہے۔



ترجمہ آیت نمبر۶،۷ :
اور میں یقینا اپنے رشتہ داروں سے اپنے (مرنے کے) بعد (کے سلوک) سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ پس تو اپنے پاس سے ایک دوست (یعنی بیٹا) عطا فرما اور جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوب (سے جو دین و تقویٰ ہم کو ورثہ میں ملا ہے اس ) کا بھی وارث ہو اور اے میرے رب اس کو (اپنا ) پسندیدہ (وجود) بنائیو ۔ ۵؎
حل لغات :
موالی مولی کی جمع ہے اور اس کے بہت سے معنے ہیں چنانچہ مولی کے ایک معنے دوست کے بھی ہوتے ہیں اور مولی کے معنے ابن العم یعنی چچا زاد بھائی کے بھی ہیں جنہیں پنجابی میں ’’ شریکے والے‘‘ کہتے ہیں (اقرب) اس جگہ موالی سے مراد شریک ہی ہیں اور مطلب یہ ہے کہ میں اپنے شریکوں سے ڈرتا ہوں کہ وہ نہ معلوم میرے بعد کیسا معاملہ کرینگے۔
عاقر اس مرد یا عورت کو کہتے ہیں جس کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو۔ اصل میں عقر کے معنے زخمی کر دینے کے ہیں ۔ چنانچہ عقر الخلۃ کے معنے ہوتے ہیں قطع رأسھا کلہ مع الجمار فیبست یعنی اس نے کھجور کے درخت کا اوپر کا حصہ اس قدر کاٹ دیا کہ وہ سوکھ گیا اور اس میں پھل لگنا بند ہو گیا (اقرب)۔ جس مرد یا عورت کی اولاد نہ ہو چونکہ وہ بھی اپنے خاندان کو زخمی کر دیتا اور اسے مار دیتا ہے اس لئے بے نسلی کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے اصل معنے کاٹ دینے اور زخمی کر دینے کے ہی ہیں ۔ عقر کا لفظ عورت کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے او رمرد کیلئے بھی۔
الولیّ : الوالی کے معنے ہیں المحب و الصدیق محب اور دوست نیز اس کے معنے ہیں النصیر ۔ مددگار ۔ وقال ابن فارس وکل من ولی امرا احدفھو ولیہ جو شخص کسی کے امور کو سنبھالنے والا ہو وہ اس کا ولی کہلاتا ہے۔ نیز ولی کے معنے حافظ النسب کے بھی ہیں یعنی نسب کا محافظ (اقرب)
مفردات میںہے ھب لی من لدنک ولیا ای ابنایکون من اولیائک یعنی ایسا بیٹا عطا کر جو تیرے مقربین میں سے ہو۔
تفسیر:
اس دعا میں حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنی ضرورت حقہ کا اظہار کیا ہے ۔ وہ کوئی دولت مند نہیں تھے کہ انہیں اپنے بعد اپنی دولت کا فکر ہوتا وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی تھے پس ان کا خوف دولت کے جانے کا نہیں تھا بلکہ تعلیم کے مفقود ہونے کا تھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام پر وہت فیملی میں سے تھے اور ان کے رشتہ دار بھی پروہت تھے جو بیت المقدس اور دوسری عبادت گاہوں کے ساتھ تعلق رکھتے تھے ۔ حضرت زکریا علیہ السلام ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ الٰہی ان میں ایسی دنیا داری آچکی ہے کہ ان کا کوئی قدم یہودیت اور مذہب کو بچانے کیلئے نہیں اٹھتا۔ معلوم ہوتا ہے مسلمان پیروں کی طرح یہود میں بھی بزرگی وراثت بن گئی تھی اور گدیاں قائم ہو گئی تھیں جیسے مسلمانوں میں پیر مر جائے تو اس کے بیٹے کو پیر بنا لیا جاتا ہے چاہے وہ کیسا ہی بے دین ہو۔ اسی طرح وہاں بیٹا موجود ہوتا تو بیٹا گدی سنبھال لیتا۔ بیٹا نہ ہوتا تو چچا کا بیٹا گدی پر بیٹھ جاتا۔ گویا ان کی حالت مسلمان پیروں جیسی ہو گئی تھی جو کہلاتے تو پیر ہیں مگر عملی لحاظ سے و ہ دین سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک سید پیر صاحب کا لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ وہ ایک دفعہ گھوڑے پر سوار ہو کر ہرن کے شکار کیلئے گئے۔ شکار کرنا منع نہیں رسول کریم ﷺ نے گو خود شکار نہیں کیا مگر حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپ شکار کروایا کرتے تھے چنانچہ ایک غزوہ میں آپ نے سعد بن ابی وقاص کو بلایا اور فرمایا کہ دیکھو وہ ہر ن جا رہا ہے اسے تیر مارو۔ جب وہ تیر مارنے لگے تو آپ نے پیار سے اپنی ٹھوڑی ان کے کندھے پر رکھ دی اور فرمایا اے خدا اس کا نشانہ بے خطا کر دے۔ تو شکار بری چیز نہیں ۔ اس میں جو لطیفہ ہے وہ آگے آتا ہے بہرحال پیر صاحب نے ہرن کے پیچھے اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ ہرن بہت مضبوط تھا اس نے بھاگنا شروع کیا اور کئی میل تک بھاگتا چلا گیا۔ اس زمانہ میں بندوقیں نہیں تھیں۔ تیر یا نیزہ سے شکار کرتے تھے۔ پیر صاحب بھی ہرن کے پیچھے اپنا گھوڑا دوڑاتے چلے گئے اور آخر اسے زخمی کر کے گرا لیا۔ جب وہ نیچے اترے اور ہرن کو ذبح کرنے لگے تو بجائے اس کے کہ وہ تکبیر کہہ کر اسے ذبح کرتے انہیں اتنا غصہ چڑھا ہوا تھا کہ چھری پھیرتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ ’’ ارے سؤر تو نے تو میرا گھوڑا ہی مار دیا ہے اے سؤر تو نے تو میرا گھوڑا ہی مار دیا ہے‘‘گویا غصہ یہ تھا کہ وہ بھا گا کیوں۔ حالانکہ انسان ہو یا جانور جسے بھی اپنی جان کا خوف ہوگا بھاگے گا۔
غرض یہودیوں میں بھی مسلمانوں کی طرح یہ رواج تھا کہ جب خاندان میں ایک دفعہ کوئی بزرگ ہو جاتا تو اس کی اولاد اس کی گدی سنبھال لیتی تھی خواہ وہ کیسی ہی نالائق ہوتی ۔ حضرت زکریا علیہ السلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انی خفت الموالی من وراء ی۔ خدایا میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے بھی ڈرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ان کے اندر دین کی خدمت کا کوئی احساس نہیں ۔ وکانت امراتی عاقرا ۔ اور پھر میری بیوی بھی بانجھ ہے اگر میں جوان ہوتا یا میری بیوی جوان ہوتی تو ہو سکتا تھا کہ میرے ہاں کوئی اولاد پیدا ہو جاتی کیونکہ بوڑھے مرد سے بھی جوان عورت کو بچے پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح بعض دفعہ ادھیڑ عمر والی عورت اگر کسی جوان مرد سے شادی کر لے تو اس کے ہاں بھی بچے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں مگر فرماتے ہیں دنیا میں بچے پیدا ہونے کے جو اسباب ہوتے ہیں وہ نہ میرے اندر پائے جاتے ہیں اور نہ میری بیوی کے اندر پائے جاتے ہیں ۔ فھب لی من لدنک ولیا پس اے خدا تو مجھے اپنے پاس سے ایک ایسا شخص عطا فرما جو ہمارے خاندان کی اولادوں کا حافظ ہو اور ان کو دین پر قائم کرے۔ یرثنی و یرث من اٰل یعقوب جو میرابھی وارث ہو اور آل یعقوب کا بھی وارث ہو۔ یعنی جو میرے اندر قوم کی خدمت اور دین کی اشاعت کیلئے نیک جذبات پائے جاتے ہیں وہ بھی اس میں پائے جائیں اور اسی طرح بنی اسرائیل میں جو نیکیوں کا ورثہ چلا آتا ہے اور موسیٰ اور ہارون اور دائود اور سلیمان اور دوسرے انبیاء سے انہوں نے جو جو خوبیاں حاصل کی ہیں وہ سب کی سب اس میں پائی جائیں ۔ واجعلہ رب رضیا۔ اور اے میرے رب تو اس کو دنیا میں ایک پسندیدہ وجود بنا دے۔
دیکھو یہ کسی لطیف دعا ہے اور کس طرح دعا کے چاروں کونے اس میں پورے کر دئیے گئے ہیں۔ اس دعا کو اگر ہم اپنے الفاظ میں بیان کریں تو اس کی یہ صورت ہو گی کہ ’’ اے میرے خدا اندرونی قوی مضمحل ہو گئے ہیں ۔ میرا بیرونی چہرہ مسخ ہو گیا ہے۔ میں ہمیشہ سے ہی ترے الطاف خسروانہ کا عادی ہوں ۔ اس لئے مایوسیاں اور ناکامیاں میں نے کبھی دیکھی نہیں ۔ ناز کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہو چکی ہے ۔ رشتہ دار میرے برے اور موت کے بعد گدی سنبھالنے کے منتظربیوی میری بیکار۔ ان سب وجوہ کے ساتھ میں مانگنے آیا ہوں اور کیا مانگنے آیا ہوں یہ مانگنے آیا ہوں کہ اے میرے خدا تو مجھے بیٹا دے۔ ایسا بیٹا دے جو میرا ہم خیال اور دوست ہو ایسا بیٹا جو میرے بعد تک زندہ رہنے والا اور میرے خاندان کو سنبھالنے والا ہو اور ایسا بیٹا دے جو میرے اخلاق اور آل یعقوب کے اخلاق کو پیش کرنے والا ہو ۔ گویا صرف میرے نام کو ہی زندہ نہ کرے بلکہ اپنے دادوں پر دادوں کے نام کو بھی زندہ کردے اور پھر وہ انسانوں ہی کیلئے باعث خوشی نہ ہو بلکہ اے میرے رب وہ تیرے لئے بھی باعث خوشی ہو۔‘‘
سبحان اللہ کیسی لطیف دعا ہے کہ اندر میرا خراب ہو چکا ہے باہر میرا خراب ہو چکا ہے بیوی میری بیکار ہو چکی ہے رشتہ دار میرے خراب ہو چکے ہیں اور میں مانگتا یہ ہوں کہ تو مجھے بیٹا دے مگر اس بڑھاپے میں بھی میںناقص بیٹا نہیں مانگتا بلکہ میں یہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے وہ بیٹا دے جو میرے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اپنے باپ دادوں کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور پھر وہ میرا ہی پسندیدہ نہ ہو بلکہ تیرا بھی پسندیدہ اور محبوب ہو۔ یہ دعا ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام نے کی۔ بے شک وہ پیشگوئیوں کی بنا پر جانتے تھے کہ نبوت کا نور اب بنی اسرائیل سے چھینا جانے والا ہے مگر پھر بھی انسان خیال کرتا ہے کہ شاید کوئی ایسا ذریعہ نکل آئے جس سے قوم بچ جائے اور وہ ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں نہ گرے ۔ پس حضرت زکریا علیہ السلام نے یحییٰ کیلئے اس لئے دعا کی کہ وہ جانتے تھے کہ اب ایک ایسا شخص آنے والا ہے جس پر بنی اسرائیل کی نبوت ختم ہو جائے گی۔ سو انہوں نے چاہا کہ کوئی ایسی صورت نکل آئے جس کے نتیجہ میں آنے والے موعود کو قوم مان لے اور اس کی امداد اور نصرت کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے اور خدا تعالیٰ کا نور کچھ دنوں کیلئے اور ہماری قوم میں باقی رہ جائے ۔ چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا انجیل سے جو حال معلوم ہوتا ہے اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی آمد کی بڑی غرض یہی تھی کہ قوم کو حضرت مسیح پر ایمان لانے کیلئے تیار کریں۔ انجیل میں لکھا ہے حضرت یحییٰ نے لوگوں سے کہا ’’ میں تو تمہیں توبہ کے لئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن جو میرے بعد آتا ہے (یعنی مسیح ) وہ مجھ سے زور آور ہے میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لائق نہیں وہ تمہیں روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا‘‘ (انجیل متی باب ۳ آیت ۱۱)
بہرحال حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سارا زور اس بات پرمعلوم ہوتا ہے کہ وہ خود مقصود نہیںبلکہ مسیح کی مدد کیلئے کھڑے ہوئے ہیں اور حضرت زکریا علیہ السلام نے جو دعا مانگی وہ بھی اسی لئے مانگی تھی کہ ان کا بیٹا آنے والے اسرائیلی موعود کے لئے رستہ صاف کرے۔ شاید وہ اپنی کوشش اور جدوجہد سے بنی اسرائیل کو آنے والے مسیح کی طرف متوجہ کر سکے اور اس طرح قوم پر جو عذاب آنے والا ہے وہ ٹل جائے ۔ یہ چیز ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام کے سامنے تھی۔ اب اس پس منظر کے سامنے ساری عیسائیت کو رکھ لو اس کی کوئی حقیقت بھی باقی نہیں رہتی ۔ عیسائیت اپنے آپ کو بنیاد قرار دیتی ہے اور یہ پس منظر بتاتا ہے کہ وہ عمارت کی آخری اینٹ تھی کسی نئے مذہب اور نئے اصول کی تعلیم اس کا مقصد نہیں تھا بلکہ ایک لمبے عرصہ سے جو نبوت اور وحی و الہام کا سلسلہ بنی اسرائیل میں جاری تھا اس کے خاتمہ کا اس ذریعہ سے اعلان کیا گیا تھا ۔ گویا مسیحیت کوئی بنیادی چیز نہیں بلکہ خاتمہ کی اینٹ ہے حضرت زکریا کی کوشش یہ تھی کہ یہ نور کچھ اور دیر قائم رہے اور انہیں ایک ایسا بیٹا ملے جو اس بات کیلئے اپنا پور ا زور صرف کر دے کہ بنی اسرائیل مسیح کے منکر نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سن کر حضرت یحییٰ کو بھیج دیا اور اس نے اپنا سارا زور بھی لگا لیا مگر پھر خدا تعالیٰ کی تقدیر ہی پوری ہوئی اور وہی کچھ ہوا جس کا وہ فیصلہ کر چکا تھا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں جب فرشتے ان کے پاس لوط کی بستی کی ہلاکت کی خبر لے کر آئے یا انسان آئے جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے لوط کی قوم کو تباہ کرنے کا حکم دیا ہے تو اس خبر کو سن کر انہیں درد پہنچا اور انہوں نے دعا کرنی شروع کی کہ یا اللہ اس قوم پر سے عذاب ٹل جائے ۔ دعا کرتے کرتے ان کے دل میں جوش پید اہو گیا اور انہوں نے کہا خدایا! ’’ کیا تو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا شاید اس شہر میں پچاس راستباز ہوں کیا تو اسے ہلاک کرے گا اور ان پچاس راستبازوں کی خاطر جو اس میں ہوں اس مقام کو نہ چھوڑے گا۔ ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جائیں ‘‘
اللہ تعالیٰ نے کہا اے ابراہیم !
’’ اگر مجھے سدوم میں شہر کے اندر پچاس راستباز ملیں تو میں ان کی خاطر اس مقام کو چھوڑ دوں گا‘‘
اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا کہ معلوم ہوتا ہے اس میں پچاس بھی نیک آدمی نہیں ہیں اور انہوں نے کہا کہ اچھا
’’ اگرچہ میں خاک اور راکھ ہوں شاید پچاس راستبازوں میں پانچ کم ہوں کیا ان پانچ کی کمی کے سبب سے تو تمام شہر کو نیست کرے گا اس نے کہا اگر مجھے وہاں پینتالیس ملیں تو میں اسے نیست نہیں کروں گا۔پھر اس نے اس سے کہا کہ شاید وہاں چالیس ملیں ۔ تب اس نے کہا کہ میں ان چالیس کی خاطر بھی یہ نہیں کروں گا ۔ پھراس نے کہا ۔خداوند ناراض نہ ہو تو میں کچھ اور عرض کروں۔ شاید وہاں تیس ملیں ۔ اس نے کہا اگر مجھے وہاں تیس بھی ملیں تو بھی ایسا نہیں کروں گا۔ پھر اس نے کہا ۔ دیکھئے میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرأت کی شاید وہاں بیس ملیں ۔ اس نے کہا میں بیس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا۔ تب اس نے کہا خداوند ناراض نہ ہو تو میں ایک بار اور کچھ عرض کروں۔ شاید وہاں دس ملیں ۔ اس نے کہا ۔ میں دس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا۔‘‘
(پیدائش باب ۱۸ آیت ۲۳ تا ۳۳)
اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش ہو گئے۔اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب یہ بستی ضرور تباہ ہو کر رہے گی ۔ اب دیکھو خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی خوش کر دیا اور اپنی تقدیر بھی پوری کر دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب یہ دعا کر رہے ہوں گے تو وہ اپنے دل میں کتنے خوش ہوں گے اور انہوں نے اسے خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان سمجھا ہو گا کہ خدا تعالیٰ ایک بستی کو بتاہ کرنے کا ارادہ کر چکا ہے مگر ان کی دعا اور التجا پر وہ کہتا ہے کہ اچھا میں نے تمہاری بات مان لی اگر اس میں پچاس مومن ہوئے تو میں اس بستی کو کبھی ہلاک نہیں کروں گا۔ پھر وہ پینتالیس پر آئے تو خدا تعالیٰ نے یہ بات بھی مان لی پھر چالیس پر آئے تو یہ بات بھی مان لی۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے دس پر بات آ گئی مگر اس کے بعد خود بخود ان کی زبان بند ہو گئی اور انہوں نے خیال کیا کہ اب میں ا س سے زیادہ خدا تعالیٰ کو اور کیا کہوں۔ میری تو اب زبان ہی نہیں چلتی۔ اسی طرح حضرت زکریا کے دل میں جب اس بات سے گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ قوم تباہ ہونے والی ہے تو ان کے دل میں خیال آیا کہ میں تو اتنا بوڑھا ہو چکا ہوں کہ اس بوجھ کے اٹھانے کی اب مجھ میں ہمت ہی نہیں رہی ۔ اگر خدا تعالیٰ مجھے کو ئی بیٹا دے اور ایسا بیٹا دے جو نبی ہو اور وہ آنے والے اسرائیلی موعود کا راستہ صاف کرے اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی تحریک کرے تو ممکن ہے یہ عذاب ہماری قوم پر سے ٹل جائے اور خدا تعالیٰ کا نور اس میں کچھ اور مدت تک باقی رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بہت اچھا ہم تجھے بیٹا دیں گے اور اسے نبی بھی بنا دینگے مگر پھر بھی ہماری تقدیر ہی پوری ہو گی یہودی قوم پھر بھی ایمان نہیں لائے گی بلکہ خود تمہارا بیٹا انہی لوگوں کے ہاتھ سے قید خانہ میں قتل کیا جائے گا۔

ترجمہ آیت ۸ :
(اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ) اے زکریا ہم تجھے ایک لڑکے کی خبر دیتے ہیں ( جوجوانی کی عمر تک پہنچے گا اور ) اور اس کا نام (خدا کیطرف سے ) یحییٰ ہو گا ہم نے اس سے پہلے کسی کو اس نام سے یاد نہیں کیا۔ ۶؎
۶؎ حل لغات :
غلام کا لفظ تین مختلف عمروں والوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے یعنی پیدائش سے لے کر جوانی تک کی عمر والے کو بھی غلام کہتے ہیں۔ جوانی سے لے کر کہولت تک کی عمر والے کو بھی غلام کہتے ہیں اور کہولت سے لے کر بڑھاپے تک کی عمر والے کو بھی غلام کہتے ہیں۔ گویا زندگی کے چار دروں بچپن، جوانی ‘ ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں سے بڑھاپے کو چھوڑ کر باقی تینوں زمانوں کے لئے غلام کا لفظ بولا جاتا ہے۔
سمیّ کے معنے ہم نام کے بھی ہوتے ہیں ۔ اور سمی کے معنے نظیر اور مثل کے بھی ہوتے ہیں ۔ (اقرب)
تفسیر :
دعا مانگنے والا خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ انسان زکریا تھا جس نے اللہ تعالیٰ سے ایک کامل دعا مانگی۔ اب دوسرے کامل کی قبولیت کو دیکھو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سنو اے زکریا! ہم تمہیں ایک بچہ کی بشارت دیتے ہیں جو ادھیڑ عمر تک پہنچے گا مگر بڑھاپا نہیں دیکھے گا۔ اسمہ یحییٰ اور اس کا نام یحییٰ ہوگا ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ پیدائش سے پہلے نام نہیں رکھا جاتا بلکہ پیدائش کے بعد نام رکھا جاتا ہے۔ پس اسمہ یحییٰ کے معنے یہ ہیں کہ جب وہ پیدا ہو تو تم اس کا نام یحییٰ رکھنا۔ یہ مطلب نہیں کہ بچہ پیدا ہوتے ہی کہنا شروع کر دے گا کہ میرا نام یحییٰ ہے۔
یحییٰ کے متعلق یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میں تو ان کا نام یحییٰ آتا ہے لیکن اردو بائبل میں یحییٰ کی بجائے یوحنا نا م لکھا ہے ۔ عبرانی اور یونانی زبان میں انہیں Johnاور Jhananبھی کہتے ہیں ۔ انگریزی بائبلوں میں ان کا نام Johnلکھا ہے۔ عبرانی کے متعلق تو مجھے معلوم نہیں کہ یوحنا کے کیا معنے ہیں لیکن عربی میں یہ بامعنی لفظ ہے اور یحییٰ کے معنے ہیں وہ شخص جو زندہ رہتا ہے ۔ پس اسمہ یحییٰ میںاس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ بچہ زندہ رہے گا تم اس کا نام یحییٰ رکھنا یا اس کی صفت یحییٰ ہوگی اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہوگا۔قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ شہداء ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اس لحاظ سے یحییٰ نام میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوگا اور ایسے اعلیٰ درجہ کا روحانی مقام رکھے گاکہ دنیا میں اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا چنانچہ یہ واضح بات ہے کہ مسیح جیسا نبی کبھی مر نہیں سکتا اور جب مسیح مر نہیں سکتا مسیح اس لئے نہیں مر سکتا کہ وہ ایک نہ مرنے والے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کا ارہاص تھا اور یوحنا اس لئے نہیں مر سکتا کہ وہ مسیح کا ارہاص تھا۔ جو خود ایک نہ مرنے والے نبی کا ارہاص تھا چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اب تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء گزرے ہیں ۔مگر ہمیں تو سو نبیوں کا بھی علم نہیں باقی سب مر گئے ہیں پس نبی کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے بعض زندہ رہتے ہیں اور بعض مر جاتے ہیں۔ حضرت یحییٰ ؑ ان نبیوں میں سے ہیں جو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے گئے ہیں کیونکہ ان کی نبوت مسیح ؑ کے ساتھ وابستہ تھی اور مسیح ؑ اس لئے نہیں مر سکتے کہ ان کی نبوت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ تھی جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے والے نبی ہیں۔
لم نجعل لہ من قبل سمیا۔ سمی کے معنے ہوتے ہیں اسی قسم کا نام رکھنے والا یعنی ہم اسم۔ اور سمی کے معنے مثل کے بھی ہوتے ہیں۔ مفسرین غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس جگہ سمی ہم اسم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام سے پہلے دنیا میں کسی کا نام یحییٰ نہیں رکھا گیا تھا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ خود بائبل میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر آتا ہے جن کا نام یوحنا تھا۔ چنانچہ نمبر2سلاطین باب 25آیت 23میں یہودیوں کے ایک سردار کا نام یوحنا لکھا ہے۔ اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک پڑپوتے کا نام یوحنا تھا۔ دیکھونمبر1 تواریخ باب 3آیت 15 ۔ اسی طرح عزرا نبی کے ساتھ جو لوگ ایران سے یروشلم بنانے کے لئے آئے ان میں سے ایک شخص کا نام یوحنا تھا (عزرا باب 8 آیت 12) پس مفسرین کا یہ خیال کہ اس نام کا پہلے کوئی شخص نہیں گذرا یہ واقعات کے خلاف ہے۔
عیسائیوں کو ایسی بات خدا دے ۔ انہوں نے سمیاً کے معنے مفسرین کے بیان کے مطابق یہ سمجھ لئے کہ اس کا ہم نام کوئی نہیں اور پھر بائبل سے یوحنا کے ہم نام بتانے لگے گئے اور پھر اس اعتراض کو مزید پختہ کرنے کے لئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ کسی سے بائبل کی تھوڑی سی باتیں سنی ہوئی تھیں ان سے دھوکاکھا کر آپ نے یہ خیال کر لیا کہ یحییٰ نام کا پہلے کوئی شخص نہیں گزرا۔ چنانچہ اس کے لئے وہ یہ حوالہ بیان کرتے ہیں کہ انجیل میں لکھا ہے جب حضرت زکریا کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو چونکہ وہ اس سے پہلے گونگے ہو چکے تھے اس لئے آٹھویں دن ان کے رشتہ دار لڑکے کا ختنہ کرنے آئے اور انہوں نے نے تجویز کیا کہ اس کا نام اس کے باپ کے نام پر زکریا رکھا جائے مگر اس کی ماں نے کہا نہیں اس کا نام یوحنا رکھا جائے۔ اس پر انہوں نے اس سے کہا۔ کہ: -
’’ تیرے گھرانے میں کسو کا یہ نام نہیں‘‘
(لوقا باب آیت 61)
یعنی تیرے خاندان میں چونکہ پہلے یہ کسی کا نام نہیں اس لئے ہم یہ نام نہیں رکھتے۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت زکریا کو اشارہ کیا کہ تو اس کا کیانام رکھنا چاہتا ہے۔ انہوں نے تختی منگوا کر اس پر لکھا کہ اس کا نام یوحنا ہے اور اسی وقت ان کی زبان کھل گئی اور وہ بولنے لگے گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ انجیل میں یہ جو فقرہ آتا ہے کہ
’’تیرے گھرانے میں کسو کا یہ نام نہیں‘‘
معلوم ہوتا ہے یہ فقرہ کسی نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو سنایا مگر انہیں پوری طرح یاد نہ رہا اور بجائے اس کے کہ وہ یہ سمجھتے کہ یوحنا نام زکریا کے خاندان میں سے کسی کا نہیں تھا۔ انہوں نے قرآن میں یہ لکھوا دیا کہ اس سے پہلے یہ نام دنیا میں کسی شخص کا نہیں تھا۔ حالانکہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ ہی نہیں کیاکہ اس سے پہلے کسی کا نام یوحنا نہیں تھا۔ قرآن کے الفاظ بالکل واضح ہیں۔ مفسرین کی غلطی ان کے ساتھ ہے۔ قرآن کریم تو یہ کہتا ہی نہیں کہ ان کا ہم نام کوئی نہیں تھا۔ قرآن کریم یہ کہتا کہ لم نجعل لہ من قبل سمیا۔ ہم نے اس سے پہلے کسی اور کو اس کا سمی نہیں بنایا۔ اب بتائو کہ بچوںکے نام ان کے ماں باپ رکھا کرتے ہیں یا خدا رکھا کرتا ہے؟ عیسائیوں میںدیکھ لو۔ ہندوئوں میں دیکھ لو۔ مسلمانوں میں دیکھ لو۔ کون نام رکھا کرتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے۔کہ ماں باپ بچوں کے نام رکھا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لم نعجل لہ من قبل سمیا ہم نے اس سے پہلے کسی کا نام یوحنا نہیں رکھا۔ اب فرض کرو یوحنا دنیا میں دس کروڑ بھی ثابت ہو جائیں۔ تب بھی کیا حرج ہے۔ کیونکہ سوال یہ نہیں کہ یوحنا نام پہلے تھا یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے پہلے کسی اور کا نام خود خداتعالیٰ نے یوحنا رکھا تھا؟ بے شک کروڑ چھوڑ دس ارب یوحنا ثابت ہو جائیں ان کا نام خدا نے یوحنا نہیں رکھا تھا بلکہ ان کے ماں باپ نے رکھا تھا اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے یہ نام پہلے کسی کا نہیں رکھا۔ اگر ایک نام دس کروڑ دفعہ بھی ماں باپ رکھیں تب بھی خدا اگر پہلی دفعہ کسی کا وہ نام رکھے گا تو وہ تو یہی کہے گا کہ میں نے یہ نام اس سے پہلے کسی کا نہیں رکھا ۔ ہمارے ملک میں لاکھوں محمدہوں گے۔ لاکھوں عبداللہ ہوں گے۔ لاکھوں عبدالرحمن ہوں گے۔ لاکھوں عبدالرحیم ہوں گے مگر ان کے نام ماں باپ نے رکھے ہیں۔ اگر کل کسی کو الہام ہو کہ تو اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمن رکھ اور پھر وہ اس کا نام عبدالرحمن رکھ دے تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے عبدالرحمن تو اس سے پہلے لاکھوں ہوں خدا نے ا سے پہلے اور کسی کا نام عبدالرحمن نہیں رکھا۔ وہ نام ان کے ماں باپ نے رکھے ہیں۔ اسی طرح اگر تو خداتعالیٰ نے یہ کہا ہوتاکہ یوحنا کا ہم نام کوئی نہیں ہو گا تب تو اعتراض ہو سکتا تھا لیکن قرآن تو یہ کہتا ہے کہ ہم نے اور کسی کو یہ نام نہیں دیا اور یہ ٹھیک بات ہے کہ جتنے نام بتائے جاتے ہیں وہ سب ایسے ہیں جو ماں باپ نے رکھے تھے اور یہاں اس کا نام ذکر ہے جو خداتعالیٰ نے رکھا۔ اس لئے اعتراض کی کوئی بات نہیں۔
دوسرے عربی زبان میں سمیا کے معنے مثل کے بھی ہوتے ہیں پس لم نجعل لہ من قبل سمیا کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی مثل نہیں بنایا۔ گویا اس میں ان کے بے مثل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اب سوال ہو سکتا ہے کہ یحییٰ بے مثل کس طرح ہو گئے۔ کیاموسیٰ ؑاس جیسا نہیں تھا؟ ہم کہتے ہیں بے مثل ہونا بھی اپنے اپنے دائرہ میں ہوتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں فلاں شخص گھوڑے کا بے مثل سوار ہے۔ فلاں بے مثل کاتب ہے۔ فلاں بے مثل انگریز ہے۔ اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ جو گھوڑے کی سواری میں بے مثل ہے وہ بے مثل کاتب بھی ہے یا بے مثل رنگساز بھی ہے یا بے مثل تفسیر لکھنے والا بھی ہے۔ جو شخض بے مثل کہلاتا ہے وہ اپنی کسی خاص خوبی میں بے مثل کہلاتا ہے۔ یہ مراد نہیں ہوتی کہ سارے جہان کی خوبیاں اور کمالات اس میں پائے جاتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ یحییٰ کس بات میں بے مثل تھے۔ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یحییٰ وہ پہلے نبی ہیں جن کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ الیاس کا نام پا کر آئے ہیں گویا ارہاص والے نبیوں میں سے یہ پہلے نبی تھے جو الیاس کا نام پاکر اس کی خو بو پر آئے۔ اس سے پہلے پرانے نبیوں میں کوئی ایسا نبی نہیں مل سکتا جو کسی دوسرے نبی کے لئے ارہاص کے طور پر آیا ہو۔ لیکن یحییٰ کے بعد حضرت مسیح ؑ آگئے جو محمد رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ارہاص تھے۔ اور پھر حضرت سید احمد صاحب بریلوی آ گئے جوحضرت مسیح موعود ؑکے لئے ارہاص تھے۔ پس لم نجعل لہ من قبل سمیا میں یہی خبر دی گئی تھی کہ ہم نے اس سے پہلے کسی اور کو اس کا مثل نہیں بنایا۔ یعنی یحییٰ وہ پہلے شخص ہیں جو کسی کے مثیل ہو کر آئے ہیں چنانچہ دیکھ لو اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں تو ہمیں بار بار یحییٰ کا نام لینا پڑتا ہے۔ کیونکہ پیشگوئیوں میں بتایا گیا تھا کہ مسیح آسمان سے نازل ہو گا۔ جب مخالف ہم سے پوچھتے ہیں کہ بتائو وہ مسیح کہاں ہے؟ تو ہم کہتے ہیں مسیح ناصری کے وقت میں بھی لوگوں نے یہی سوال کیا تھا۔ جب حضرت مسیح ؑ نے دعویٰ کیا تو لوگوں نے پوچھا کہ ملا کی نبی کی کتاب میں ایلیاہ ؔ کے دوبارہ نزول کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ وہ مسیح سے پہلے آئے گا وہ ایلیاہ کہاں ہے۔ حضرت مسیح ؑ نے جواب دیا کہ یوحنا ہی ایلیاہ ہے۔ اگر چاہو تو قبول کر لو۔ پس جس طرح وہاں ایلیاہ کے نام پر یوحنا آیا اسی طرح یہاں مسیح ناصری کے نام پر خداتعالیٰ نے ایک دوسرے مسیح کو بھیج دیا۔ اس طرح اب ہماری جماعت بھی مجبور ہے کہ وہ یحییٰ کے نام کو زندہ رکھے کیونکہ مثلیت کا نکتہ انہی کے ذریعہ سے حل ہوا ہے۔
غرض لم نجعل لہ من قبل سمیا سے یہ مراد ہے کہ ہم نے اس کا مثل پہلے نہیںبنایا اور اسے ایسی خصوصیت عطا فرمائی ہے جو پہلے کسی کو نہیں دی گئی۔ چنانچہ موٹی مثال موجود ہے کوئی بتا دے کہ یوحنا سے پہلے کسی اور نبی کو مثیل ایلیاہ قرار دیاگیا ہو۔ اگر عیسائی اور یہودی بھی مانتے ہیں کہ اس پہلو کے لحاظ سے اس کاکوئی مثل پہلے نہیں گذرا تو اس کا بے مثل ہونا ثابت ہو گیا۔ بے مثل ہونے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ساری دنیا کی خصوصیات کسی میں پائی جائیں۔ کسی ایک بات میں بھی اگر کوئی بے مثل ہو تو اسے بے مثل کہا جا سکتا ہے۔ جیسے ایک بات میں نے بھی بتا دی ہے۔ اسی طرح اور بھی بعض خوبیاں ہو سکتی ہیں جو ان کو بے مثل بنانے والی ہوں۔ انجیل میں بھی اس کے مطابق ہی حضرت یحییٰ ؑکی تعریف آئی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑنے کہا کہ
’’ میں تم سے کہتا ہوں کہ ان میں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی نبی بڑا نہیں۔‘‘
(انجیل لوقا باب 7آیت 28)
گویا انجیل بھی ان کو بے مثل قرار دیتی ہے۔ مگر انجیل نے جو مثال دی ہے وہ غلط ہے۔ انجیل کہتی ہے کہ اس سے کوئی بڑا نبی نہیں ہوا مگر کیا وہ موسیٰ ؑسے بھی بڑا تھا ؟ حالانکہ وہ موسیٰ ؑ کا تابع تھا۔ کیا وہ ابراہیم ؑ سے بھی بڑا تھا؟ حالانکہ وہ ابراہیم کا تابع تھا۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات جو بیان کی گئی ہے غلط ہے۔ کیونکہ موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ اور دوسرے کئی انبیاء یوحنا سے بڑے تھے۔لیکن قرآن نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں اس نے یہ مثال نہیں دی صرف اتنا کہا ہے کہ کسی بات میں ہم نے اسے بے مثل بنایا تھا۔ مسیح کہتا ہے کہ وہ بڑے نبی ہونے میں بے مثل ہے مگر خود عیسائی عقیدہ اس کے خلاف ہے پس حضرت یحییٰ کے بے مثل ہونے کا ثبوت بھی انجیل سے مل گیا اور انجیل کے جھوٹا ہونے کا ثبوت بھی مل گیا۔ جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق تیرے پاس آتے ہیں اور قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے ۔ خداتعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے مگر خد اس بات کا بھی گواہ ہے کہ یہ منافق اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ اسی طرح اس حوالہ سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ قرآن نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو جو بے مثل کہا تھا وہ درست تھا ۔ انجیل بھی اسے بے مثل مانتی ہے مگر ساتھ ہی جو وجہ اس نے بتائی اس نے بتا دیا کہ انجیل جھوٹی ہے اور قرآن سچاکیونکہ وہ وجہ خود عیسائی مسلمات کے خلاف ہے اور وہ یوحنا کو تمام انبیاء سے بڑا قرار نہیں دیتے۔
اب میں بتاتا ہوں کہ یوحنایعنی یحییٰ کا انجیل سے کیا حال معلوم ہوتا ہے۔
لوقا میں لکھا ہے زکریا کاہن اور اس کی بیوی الیسبات (یعنی الزبتھ) بڈھے تھے۔ عورت بانجھ تھی۔ لڑکا کوئی نہ تھا۔ دونوں نیک اور راستباز تھے۔ ایک دن وہ خوشبو جلانے کے لئے ہیکل میں گیا تو فرشتہ ملا جس نے کہا کہ
’’زکریا مت ڈر کہ تیری دعا سنی گئی اور تیری جورو الیسبات تیرے لئے ایک بیٹا جنے گی تو اس کا نام یوحنا رکھنا اور تجھے خوشی و خورمی ہو گی اور بہتیرے اس کی پیدائش سے خوش ہوں گے کیونکہ وہ خدا وند کے حضور بزرگ ہو گا اور نہ مے اور نہ کوئی نشہ پئے گا اور اپنی ماں کے پیٹ ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا اور بنی اسرائیل میں سے بہتوں کو ان کے خداوند خدا کی طرف پھیرے گا اور وہ اس کے آگے الیاس کی طبیعت اور قدرت کے ساتھ چلے گا۔‘‘
(لوقا باب آیت 5تا25)
پھر لکھا ہے کہ یہ فرشتہ جبریل تھا اور لکھا ہے کہ چونکہ زکریا نے فرشتہ کی بات پر شک کیا اس لئے اسے یوحنا کی پیدائش بلکہ ختنہ کے وقت تک کے لئے یعنی قریباً دس ماہ کے لئے گونگا کیا گیا۔ یہ بات قرآن شریف سے مختلف ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ ان کے نبی ہونے کے لحاظ سے قرآن کریم کا بیان زیادہ درست ہے۔ قرآن کریم کا بیان ایک نبی کی شان کے مطابق ہے اور انجیل کا بیان نبی کی شان کے خلاف ہے۔
بائبل کے بیان اور قرآنی بیان میں کچھ اختلافات بھی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: -
(1) قرآن کہتا ہے کہ حضرت زکریا ؑ کو دعا کی تحریک حضرت مریم علیہ السلام کے ایک معصومانہ کلام سے ہوئی ۔ بائبل اس بارہ میں خاموش ہے مگر خاموش ہونا واقعہ کے غلط قرار دینے کے مترادف نہیں ہوتا۔ بائبل نے جہاں بشارت کا ذکر کیا ہے تسلیم کیا ہے کہ زکریا ؑ بیٹے کے لئے دعا کیاکرتے تھے۔ کیونکہ لکھاہے فرشتے نے اسے کہا کہ ’’تیری دعا سنی گئی‘‘ (لوقا باب آیت 13) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا بیٹے کے لئے دعا کیا کرتے تھے۔ لیکن بائبل نے یہ نہیں بتایا کہ اس دعا کا محرک کیا ہوا۔قرآن کریم نے یہی واقعہ ابتداء سے بیان کیا ہے اور بتایا کہ جب حضرت مریم علیہ السلام سے ان کی باتیں ہوئیں تو اس بچی کے معصومانہ کلام سے ان کے دل میں دعا کا جوش پیدا ہوا اور انہوںنے اپنے رب سے یہ دعا کی گویا بائبل نے صرف اتنا واقعہ بیان کیاہے جو بعد کا ہے دعا کے محرک کا ذکر اس نے نہیں کیا۔ اس سے اس کے نقص کا تو اظہار ہوتا ہے لیکن قرآن کریم کی غلطی ظاہر نہیں ہوتی۔
ہمارے پاس اس بات کا ثبوت کہ قرآن کریم کی روایت ہی صحیح ہے یہ ہے کہ حضرت یحییٰ ؑ حضرت زکریا ؑ کی آخری عمر میں پیدا ہوئے تھے اور اس با ت کو خود بائبل بھی تسلیم کرتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب فرشتہ نے انہیں یحییٰ کی پیدائش کی خوشخبری دی تو انہوں نے کہا کہ
’’میں اس بات کو کس طرح جانوں۔ کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے‘‘۔
(لوقا باب 1آیت 19)
اب سوال یہ ہے کہ حضرت زکریا نے اس سے پہلے کیوں نہیں دعا کی؟ آخری عمر میں جا کر دعا کرنا صاف بتاتا ہے کہ کوئی نیا محرک پیدا ہوا تھا اور وہ نیا محرک یہی تھا کہ حضرت مریم ؑ پیدا ہو چکی تھیں جن کے ایک معصومانہ کلام سے انہیں دعا کی تحریک پیدا ہوئی۔ پس قرائن اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ قرآن کریم کی بات ہی صحیح ہے۔ بہرحال اس بات کو اختلاف قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص صبح کی بات بیان کرے اور دوسرا دس بجے کی اور ان دونوں باتوں کو سامنے رکھ کرکوئی شخص کہنا شروع کر دے کہ ان میں بڑااختلاف ہے۔ ہر شخض جو حقیقت کو سمجھتا ہو گا وہ فوراً کہے گا کہ ان میں اختلاف کونسا ہے۔ ایک صبح کی بات ہے او ر دوسری دس بجے کی ہے۔ اختلاف تب ہوتا جب ایک ہی وقت کی بات میں متضاد بیان ہوتا۔ بائبل کے یہ الفاظ کہ اے زکریا تیری دعا سنی گئی بتاتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کو قبولیت دعا سے شروع کرتی ہے لیکن قرآن کریم جو واقعہ بیان کرتا ہے وہ دعا کرنے سے پہلے کا ہے۔ پس بائیبل کی اس خاموشی کے صرف یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم میں ابتداء سے واقعہ بیان کیا گیا ہے اور بائبل نے اس دعا کے محرک کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے اس کے بیان کے نامکمل ہونے کا تو پتہ چلتا ہے لیکن قرآن کریم کی غلطی ظاہر نہیں ہوتی۔
(2) بائبل کہتی ہے کہ ایک فرشتہ نے یہ بشارت دی مگر قرآن کہتا ہے کہ خداتعالیٰ نے کہا کہ اے زکریا تیرے ہاں بیٹا ہو گا۔ بظاہر یہ اختلاف ہے لیکن حقیقت میں نہیں۔ کیونکہ خداتعالیٰ کا کلام اکثر فرشتے لاتے ہیںاور فرشتے اپنے پاس سے غیب کی باتیں نہیں کر سکتے ورنہ ان کو خدا ماننا پڑے گا۔ پس اگر فرشتے نے کہا تب بھی وہ خدا کی طرف سے کہا اس لئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ فرشتے نے یوں کہا اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے یوں کہا اور چونکہ اس جگہ پر یہ الفاظ ہیں کہ ’’تیری دعا سنی گئی‘‘ اس لئے اس کے معنے یہ ہیں کہ فرشتے کو خدا نے بتایا تھا کہ میں نے زکریا کی دعا سن لی ہے۔ پس فرشتہ کا قول خداتعالیٰ کی نمائندگی میں تھا اور اس کا ذکر دونوں طرح کیا جاسکتا تھا۔ اس طرح بھی کہ فرشتے نے کہا اور اس طرح بھی کہ خدا نے کہا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے خواب میں اگر کوئی شخص آم دیکھتا ہے تو اس کی تعبیریہ ہوتی ہے کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص ایسی خواب دیکھے اور اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو جائے اور اس کی پیدائش پر کہے خدا نے مجھے پہلے سے بتایا دیا تھا کہ میرے ہاں لڑکا ہو گا تو کیاکوئی شخص کہہ سکتا کہ تم جھوٹ بولتے ہو تمہیں خدا نے کب کہا تھا تم نے تو آم دیکھا تھا؟ اگر کوئی شخص ایسا اعتراض کرے تو سب لوگ اسے پاگل کہیں گے کیونکہ خواہ آم کی شکل میں اسے بتایا گیا ہو بہرحال بتایا تو اسے خدا نے ہی تھا۔ اسی طرح تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ فرشتے نے یوں کہا اور تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے یوں کہا۔ آخر فرشتہ اپنے پا س سے تو کچھ نہیں کہتا ہے۔ وہ تو جو کچھ کہتا ہے خدا کی طرف سے ہی کہتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کے ایک دوسری جگہ کے بیان سے ظاہر ہے کہ یہی حقیقت ہے کیونکہ سورئہ آل عمران میں اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فنادتہ الملٰئکۃ و ھو قائم یصلی فی المحراب ان اللہ یبشرک بیحییٰ (آل عمران آیت 4رکوع12) یعنی حضرت زکریا علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے کہ اتنے میں ملائکہ ظاہر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا تمہیں یحییٰ کی پیدائش کی بشارت دیتا ہے۔ دیکھ لو یہاں خداتعالیٰ کے بولنے کا ذکر نہیں بلکہ ملائکہ کے بولنے کا ذکر ہے۔ پس معلوم ہواکہ سورئہ مریم میں خداتعالیٰ کے بولنے کا جو ذکر ہے اس سے مراد بھی براہ راست بولنا نہیں بلکہ ملائکہ یا ان کے سردار جبریل کی معرفت بولنا ہے جیسا کہ سورئہ آل عمران میں لکھا ہے ۔ پس یہ اختلاف نہیں ایک مزید لطیف تشریح ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ فرشتہ جب کلام کرتا ہے تو وہ خداتعالیٰ ہی کا کلام ہوتا ہے۔ اس کے متعلق یہ بھی کہہ سکتے ہیں خدا نے یوں کہا اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ فرشتہ نے یوں کہا۔ وہیریؔ اس جگہ لکھتا ہے کہ مسلمان دماغ بھی کیسا عجیب ہے بائبل میں لکھا ہے کہ جبریل ظاہر ہوا لیکن قرآن کہتا ہے کہ فرشتوں نے اسے پکارا اور پھر اسے ایک معمولی اختلاف سمجھتے ہیں۔ گویا وہیری نے ہنسی اڑائی ہے کہ مسلمان بھی عجیب انسان ہیں اتنا بڑا اختلاف قرآن اور انجیل میں پایاجاتا ہے اورپھر اسے معمولی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ اگر غور کیا جائے تو یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ فرشتوں نے یوں کہا اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ فرشتہ نے یوں کہا۔ کیونکہ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جتنے اہم کلام ہوتے ہیں ان کے نزول کے وقت کئی کئی فرشتے ساتھ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عالم الغیب فلایظھر علی غیبہ احداo الا من ارتضیٰ من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ و من خلفہ رصداo لیعلم ان قد ابلغوا رسلت ربھم و احاط بما لدیھم و احصی کل شیی عدد o (سورۃ جن رکوع2) یعنی اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور وہ سوائے اپنے رسولوں کے اور کسی کو اپنے غیب سے کثرت کے ساتھ اطلاع نہیں دیتا اور پھر جو غیب نازل ہوتا ہے اس کے ساتھ بہت سے فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں تاکہ وہ اس کلام کی نگرانی کریں۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنا کوئی اہم کلام کسی فرشتہ کے ذریعہ بھجواتا ہے تو اس کے ساتھ اَوربھی بہت سے سپاہی فرشتے متعین ہوتے ہیں۔ پس فرشتہ کہو تب بھی درست ہے کیونکہ بولتے وقت ایک ہی بولے گا اور اگر فرشتے کہو تب بھی درست ہے کیونکہ کلام الٰہی کے ساتھ کئی کئی فرشتے آتے ہیں۔ جب خداتعالیٰ نے یہ کہا کہ فنادتہ الملئکہ اسے ملائکہ نے پکارا تو اس کے معنے یہ تھے کہ چونکہ یہ ایک اہم کلام تھا اس لئے ہم نے بہت سے فرشتوں کے ساتھ اپنا کلام بھجوایا اور اگر انجیل نے اسے ایک فرشتہ قرا ر دیا ہے تب بھی درست ہے کیونکہ جب بولے گا تو ایک ہی بولے گا ۔ مگر اس کا بولنا دوسروں کی نمائندگی میں ہو گا۔ جیسے گورنر یا وزراء سے ملنے کے لئے جب کوئی وفد جاتا ہے تو اخباروں والے یہی لکھتے ہیں کہ وفد نے یہ بات کہی۔ حالانکہ وفد نہیں بولتا بلکہ ان کی طرف سے کوئی ایک شخص بولتا ہے۔ آئیں گے سات آ ٹھ لیکن بولے گا ایک۔ اگر سات آٹھ یکدم بولنا شروع کر دیں تو گورنر ان سب کو نکال دے کہ تم کیسے بد تہذیب ہو۔ اسی طرح فرشتہ کہو تب بھی درست ہے اور فرشتے کہو تب بھی درست ہے۔ تعجب ہے کہ اتنی معمولی بات جس کے یوروپین لوگ رات دن عادی ہیں اور وہ وفود کے طریق ملاقات کو اچھی طرح جانتے ہیں وہی اگر قرآن کریم میں آ جائے تو اس پر ہنسی اڑانے لگ جاتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے ع
ایں گنا ہیست کہ در شہر شما نیز کنند
یہ گنا ہ وہ ہے جو تمہارے شہر میں بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں یہ طریق وہ ہے جو رات دن تمہارے ہاں جاری ہے اس پر اعتراض کیسا؟
پھر ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو اس میں بھی اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ پیدائش باب 18میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے :
’’پھر خدا وند ممرے کے بلوطوں میں اسے نظر آیا اور وہ دن کوگرمی کے وقت اپنے خیمہ کے دروازہ پر بیٹھا تھا اور اس نے اپنی آنکھیں اٹھا کر نظر کی اور کیا دیکھتا ہے کہ تین مرد اس کے سامنے کھڑے تھے۔ وہ ان کو دیکھ کر خیمہ کے دروازہ سے ان سے ملنے کو دوڑا اور زمین تک جھکا اور کہنے لگا کہ اے میرے خدا وند اگر مجھ پرآپ نے کرم کی نظر کی ہے تو اپنے خادم کے پاس سے چلے نہ جائیں بلکہ تھوڑا سا پانی لایا جائے اور آپ اپنے پائوں دھو کر اس درخت کے نیچے آرام کریں۔ میں کچھ روٹی لاتا ہوںآپ تازہ دم ہو جائیں تب آگے بڑھیں کیونکہ آپ اسی لئے اپنے خادم کے ہاں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا جیسا تو نے کہا ہے ویسا ہی کر اورابراہام ڈیرے میں سارا کے پاس دوڑا گیا اور کہا کہ تین پیمانہ باریک آٹا جلدلے اور اسے گوندھ کر پھلکے بنا اور ابراہام گلہ کی طرف دوڑا اور ایک موٹا تازہ بچھڑا لا کر ایک جوان کو دیا اور اس نے جلدی جلدی اسے تیار کیا۔ پھر اس نے مکھن اور دودھ اس بچھڑے کو جو اس نے پکوایا تھا لے کر ان کے سامنے رکھا اور آپ ان کے پاس درخت کے نیچے کھڑا رہا اور انہوں نے کھایا ۔ پھر انہوںنے اس سے پوچھا کہ تیری بیوی سارہ کہاں ہے۔ اس نے کہا وہ ڈیرے میں ہے تب اس نے کہا میں پھر موسم بہار میں تیرے پاس آئوں گا اور دیکھ تیری بیوی سارہ کے بیٹا ہو گا (دیکھو یہاں پہلے خدا نظر آتا ہے۔ پھر تین مرد دکھائی دیتے ہیں اور وہ باتیں شروع کر دیتے ہیں مگر یکدم ان کی گفتگو میں ہی پھر یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ میں پھر موسم بہار میں تیرے پاس آئوں گا) اس کے پیچھے ڈیرے کا دروازہ تھا ۔ سارہ وہاں سے سن رہی تھی اور ابرہام اور سارہ ضعیف اور بڑی عمر کے تھے۔اور سارہ کی وہ حالت نہیں رہی تھی جو عورتوں کی ہوتی ہے۔ تب سارہ نے اپنے دل میں ہنس کر کہا کیا اس قدر عمر رسیدہ ہونے پر بھی میرے لئے شادمانی ہوسکتی ہے۔ حالانکہ میرا خاوند بھی ضعیف ہے۔ پھر خدا وند نے ابرہام سے کہا (اب پھر میں کی بجائے خدا وند ہو گیا ہے) کہ سارہ کیوں یہ کہہ کر ہنسی کہ کیا میرے جو ایسی بڑھیا ہو گئی ہوں واقعی بیٹا ہوگا ۔ کیا خداوند کے نزدیک کوئی مشکل ہے۔ موسم بہار میں معین وقت پر میں تیرے پاس پھر آئوں گا اور سارہ کے بیٹا ہو گا۔ تب سارا انکار کر گئی کہ میں نہیں ہنسی کیونکہ وہ ڈرتی تھی پر اس نے کہا نہیں تو ضرور ہنسی تھی۔‘‘
(پیدائش باب 18آیت 1تا 15)
اس حوالہ کو دیکھو۔ پہلے یہ کہا گیا ہے کہ ابراہیم ؑ کو خدا نظر آیا۔ پھر خدا کی بجائے تین مرد کہا گیا اور انہوں نے گفتگو شروع کر دی اور کھانا بھی کھایا۔ اس کے بعد پھر تینوں غائب ہو گئے اور ذکر اس طرح شروع کیا گیا کہ ’’ اس نے کہا میں پھر موسم بہار میں تیرے پاس آئوں گا‘‘۔ یعنی پھر تین کا ذکر ایک شخص کے طور پر کرنا شروع کر دیا گیا اور ان کے لئے ضمیر ’اس‘ اور ’’میں‘‘ کی استعمال کی گئی۔ مگر آگے چل کہہ دیا گیا کہ ’’خدا وندنے ابرہام سے کہا کہ سارہ کیوں یہ کہہ کر ہنسی کہ کیا میرے جو ایسی بڑھیا ہو گئی ہوں واقعی بیٹاہو گا‘‘۔ پس اس میں تو عیسائیوں کے لئے کوئی تعجب کی بات نہیں۔ لیکن اگر قرآن نے ایک جگہ یہ کہہ دیا کہ ملائکہ نے زکریا کو خبر دی تھی اور دوسری جگہ یہ کہہ دیا کہ خدا نے اسے خبر دی تھی تو اس میںان کے نزدیک بڑے تعجب کی بات ہے۔ حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اس میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ تعجب کی بات ہے۔ انجیل میں بے شک ایک فرشتے کا ذکر آتا ہے مگر جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے اہم کلام کے ساتھ کئی فرشتے نازل ہوا کرتے ہیں گو کلام ایک ہی فرشتہ کرتا ہے۔ پس ہم بائبل کے بیان کو بھی غلط نہیں کہتے۔ اس نے بھی ٹھیک کہا اور قرآن نے جو کچھ کہا وہ بھی ٹھیک کہا۔
(3) انجیل میں لکھا ہے کہ وہ مسیح کے لئے بطور ارہاص ہو گا مگر قرآن میں اس کا ذکر نہیں۔ یہ بھی ایک اختلاف ہے جو عیسائیوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک اس کا یہاں ذکر نہیں مگر سورئہ آل عمران میں لکھا ہے مصدقا بکلمۃ من اللہ (آل عمران ع 3 ) پس اختلاف کوئی نہ رہا۔ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ ایلیاہ کی روح اور اس کی قوت میں مسیح کے آگے آگے چلے گا اور قرآن نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی آمد سے ایک پیشگوئی کو پورا کرے گا جو صحف سابقہ میں پائی جاتی ہے اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سب واقعہ ایک ہی جگہ بیان ہو۔ بائبل میں بھی کوئی ٹکرہ کسی جگہ پایا جاتا ہے اور کوئی کسی جگہ۔
(4) قرآن میں لکھا ہے کہ زکریا کو تو تین دن خاموش رہنے کانشان دیا گیا (خواہ خود خاموش رہنے کا یا خداتعالیٰ کی طرف سے زبان بند ہو جانے کا) مگر بائبل کہتی ہے کہ ان کی زبان بطور سزا بند رہی اور یحییٰ ؑ کی پیدائش کے بعد ان کے ختنہ کے دن تک وہ گونگے رہے۔ آخر ختنہ کے دن جب انہوںنے یہ لکھ کر دیا کہ اس کا نام یحییٰ رکھو تب ان کی زبان کھلی۔ (لوقا باب 1آیت 64)
ان دونوں میں اختلاف تو ہے لیکن خود سوچ لو کہ عقل اور فطرت کسے سچا بتاتی ہے۔ ایک نبی یا بائبل کے بیان کے مطابق کاہن پر (جو ایسا ہی مقام رکھتا ہے جیسا ہمارے ہاں محدث کا مقام ہوتا ہے) خداتعالیٰ ابراہیمی انعام نازل کرتا ہے یعنی جس طرح ابراہیم ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں بیٹے کا وعدہ کیا تھا اسی طرح زکریا ؑ کے ساتھ اس نے بیٹے کا وعدہ کیا ایسے بیٹے کاجو بقول مسیح ؑ سب نبیوں کا موعود تھا اور اس نے ضرور پیدا ہونا تھا۔ کیونکہ اس کے بغیر مسیح ؑ پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔ لیکن محض زکریا کے اس قول پر کہ میں بھی بوڑھا ہوں اور میری بیوی بھی بوڑھی ہے بچہ کہاں سے ہو گا اس پر یہ عذاب نازل کیا جاتا ہے کہ اسے دس ماہ کے لئے گونگا کر دیا جاتا ہے حالانکہ بائبل سے ثابت ہے کہ یہی فعلِ سرّی زوجہ ابراہیم ؑ نے بھی کیا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ
’’ سارہ نے اپنے دل میں ہنس کر کہا کیا اس قدر عمر رسیدہ ہونے پر بھی میرے لئے شادمانی ہو سکتی ہے حالانکہ میرا خاوند بھی ضعیف ہے‘‘
(پیدائش باب 18 آیت 12)
لیکن اس پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوا اور خداتعالیٰ نے اس کو ایک دن کے لئے بھی گونگا نہیں کیا۔ حالانکہ اگر یہ فعل جرم تھا تو اس جرم کے بدلہ میں یہی عذاب سارہ پر بھی نازل ہونا چاہئے تھا۔ مگر اس پر توکوئی عذاب نازل نہیں ہوا اور زکریا ؑ نے یہی بات کہی تو اسے دس ماہ کے لئے گونگا کر دیا گیا۔
پھر بائبل سے ہی ثابت ہے کہ زکریا کا یہ قول انکار کے طور پر نہ تھا بلکہ محض اظہار تعجب کے طور پر تھا یعنی کتنی بڑی عظمت اور شان کا نشان ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوقا میں فرشتہ کا یہ قول درج ہے کہ ’’ اے زکریا مت ڈر کہ تیری دعا سنی گئی‘‘
(لوقا باب 1آیت 13)
اب سوال یہ ہے کہ کیا زکریا اس دن بوڑھے ہوئے تھے یا زکریا کی بیوی اس دن بوڑھی ہوئی تھیں وہ لازماً چھ مہینے یا سال دو سال پہلے بوڑھے ہو چکے تھے اور اگر یہ بات انہیں قطعی طور پر ناممکن نظر آتی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے ہاں بیٹا پیدا ہی نہیں ہو سکتا تو وہ اس قسم کی دعا کرتے ہی کیوں؟ ان کا دعا کرنا اور بائبل میں فرشتے کا یہ قول درج ہونا کہ ’’ اے زکریا مت ڈر کہ تیری دعا سنی گئی‘‘ بتاتا ہے کہ زکریا کا اس بات پر ایمان تھا کہ خدا ایسا کر سکتا ہے۔ زکریا جانتا تھا کہ میں بوڑھا ہو چکاہوں۔ زکریا جانتا تھا کہ میری بیوی بھی بوڑھی ہو چکی ہے۔ مگر وہ یہ بھی یقین رکھتا تھا کہ خداتعالیٰ بڑی قدرتوں کا مالک ہے۔ اس لئے وہ اس سے دعائیں کرتا رہتا تھا۔ پس جب اس کی دعا کی قبولیت کی اطلاع اسے ملی تو وہ حیرت و استعجاب کا شکارتو ہو سکتا تھا کہ خداتعالیٰ ایسا قادر ہے کہ ایسی غیر معمولی دعا بھی سن سکتا ہے مگر وہ منکر اور متردد نہیں ہو سکتا تھا اور سزا منکر اور متردد کو ملا کرتی ہے۔ حیرت اور ستعجاب ظاہرکرنے والے کو انعام ملا کرتا ہے۔ پس بائبل کی اپنی شہادت قرآنی معنوں کی تائید کرتی ہے کہ زکریا نشان کا طالب ضرور ہوا مگر انکار کا مرتکب نہیں ہوا۔ پس بائبل کا یہ بیان کہ اسے سزا ملی اور وہ دس ماہ تک گونگا رہا غلط ہے اور قرآن کریم کا یہ بیان ہی درست ہے کہ صرف تین دن تک اس نے کلام نہ کیا۔ اور یہ خاموشی ذکر الٰہی کے لئے تھی نہ کہ بطور سزا کے۔ جیسا کہ سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایتک الا تکلم الناس ثلثۃ ایام الا رمزا واذکر ربک کثیر ا وسبح بالعشی والابکار (آل عمران 4رکوع) یعنی تیرے لئے حکم یہ ہے کہ تو لوگوں سے تین دن تک کلام نہ کرے سوائے اشارہ کے اور بجائے لوگوں سے باتیں کرنے کے ان ایام میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو اور صبح اور شام اس کی تسبیح کرو۔ چونکہ تین دن انہوں نے ذکر الٰہی کرنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ ان دنوں میں اور باتیں نہ کرو ۔ ورنہ اسے کوئی بیماری نہیں تھی۔ چنانچہ قرآن کریم نے اسی الزام کو دور کرنے کے لئے جو انجیل نے حضرت زکریا پر لگایا ہے کہ وہ گونگے ہو گئے تھے فرمایا ایتک الا تکلم الناس ثلث لیال سویا۔ تیرا نشان یہ ہے کہ تو تین دن رات کلام نہیں کرے گا مگر ہو گا بے عیب اور تندرست (سویا) کوئی بیماری تجھے نہیں ہو گی۔ اب دیکھ لو قرآنی بات کتنی سچی نظر آتی ہے کہ خدا نے جب حضرت زکریا کی دعا قبول کی تو انہوں نے کہا خدایا اب مجھے بھی شکریہ کا موقع دیجئے۔ خدا نے کہا تین دن مسجد میںاعتکاف بیٹھو اور ذکر الٰہی میں مشغول رہو یہ تمہاری طرف سے ہمارے شکریہ کا ایک نشان ہوگا لیکن بائبل کا بیان عقلاً بھی غلط ہے یعنی دلیل کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔
قرآن کریم اور بائبل میں یہ ایک نمایاں فرق ہے کہ بائبل ہمیشہ انبیاء پر گناہ کا الزام لگانے پر دلیر ہوتی ہے۔ مگر ایسے ہر الزام کی قرآن کریم تردید کرتا ہے۔ مثلاً بائبل میں لکھا ہے کہ ہارون نے شرک کیا (خروج باب 32آیت 1تا 6) قرآن کہتا ہے کہ اس نے شرک نہیں کیا۔ بائبل کہتی ہے کہ زکریا نے خدا کی قدرت کا انکارکیا تو اسے سزا ملی (لوقا باب 1آیت 20، 21) قرآن کہتا ہے کہ اس نے خدائی وعدہ کو سن کر چاہا کہ اسے شکریہ کا کوئی کام بتایا جائے چنانچہ خداتعالیٰ نے تین دن چپ کا روزہ رکھنے اور ذکر الٰہی کی کثرت کا ارشاد فرمایا اور اس عرصہ میں ان پر نہ کوئی عذاب آیا نہ بیماری ہوئی۔
اسی طرح بائبل نے حضرت سلیمان ؑ کو مجرم اور عیاش اور بے دین قرار دیا ہے (نمبر1سلاطین باب 11آیت 1تا 6) لیکن قرآن کریم نے ان کو راستباز اور مومن اور نیک قرار دیا ہے۔ یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ قرآنی تاریخ سچی ہے اور بائبل کی روایات مخدوش۔ اگر یہ لوگ جن کا ذکر ہے خدا کے برگزیدہ تھے تو پھر ان سے ان افعال کا ارتکاب نہیں ہو سکتا اور اگر برگزیدہ نہ تھے تو پھر نبیوں میں ان کا ذکر کرنا حماقت ہے۔ عجیب بات ہے کہ وہی باتیں جو بائبل میں نبیوں کی نسبت لکھی ہیں عوام الناس یا پادریوں کے ماں باپ کی نسبت کہی جائیں تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو جائیں گے مگر دلیری سے ان باتوں کو نبیوں کی نسبت تسلیم کر لیتے ہیں۔
(5) بائبل کہتی ہے کہ جب مریم حاملہ ہوئیں اور یوحنا کی ماںکے پاس گئیں تو یوحنا کی ماں روح القدس سے بھر گئیں اور بولیں کہ ’’یہ کیونکر ہوا کہ میرے خدا وند کی ماں میرے پاس آئی کہ دیکھ تیرے سلام کی آواز جونہی میرے کان تک پہنچی لڑکا میرے پیٹ میں خوشی سے اچھل پڑا۔‘‘ (لوقا باب 1آیت 43، 44)لیکن قرآن کہتا ہے کہ اتینہ الحکم صبیا (مریم آیت 1) اور یہ کہ سیدا و حصورا (آل عمران آیت رکوع4) یعنی اس کو خدا نے روحانی طاقت اور روحانی حکمت اور روحانی بادشاہی بچپن سے ہی عطا فرمائی تھی۔ اور یہ کہ وہ سردار تھا اور ہر قسم کی بدیوں سے پاک اور منزہ تھا۔ گویا عیسائیوں کے نزدیک اختلاف یہ ہے کہ بائبل تو یحییٰ کو مسیح ؑ کا غلام قرار دیتی ہے مگر قرآن کہتا ہے کہ یحییٰ سید تھا اور بچپن سے ہی اسے سرداری عطا کی گئی تھی۔
اس کاجواب یہ ہے کہ انجیل کے دوسرے حوالوں سے ظاہر ہے کہ لوقا کا بیان محض زیب داستان کے لئے ہے ورنہ حقیقت سے اسے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اگر یوحنا مسیح ؑ کا خادم تھا جیسا کہ لوقا نے اس واقعہ میں لکھا ہے تو کیا مصیبت پڑی تھی کہ مسیح ؑ یوحنا کا شاگرد ہوتا۔ اناجیل کے مصنفوں نے اپنے آقا کو عزت دینے کے لئے اس موقعہ پر سخت ظلم کئے ہیں۔ مثلا متی کہتا ہے کہ مسیح ؑ یوحنا سے بپتسمہ پانے کے لئے آیا اور اسے کہا کہ مجھے اپنا مرید بنائو تو یوحنا نے کہا کہ میں تجھ سے بپتسمہ پانے کا محتاج ہوں (متی باب 3آیت 14) یعنی حضور میرے استاد ہیں اور میں تو آپ کا شاگرد ہوں میں آپ کو کس طرح بپتسمہ دے سکتا ہوں۔ پھر یہ بات مسیح ؑ کے منہ میں بھی ڈالی گئی ہے کہ ’’اب ہونے دے کیونکہ ہمیں مناسب ہے کہ یوں ہی سب راستبازی پوری کریں‘‘ (انجیل متی بات 3آیت 15) یعنی ہے تو یہ ٹھیک کہ میں بڑا ہوں اور تو چھوٹا ہے لیکن چونکہ نبی خبر دے چکے ہیں اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ جواب کتنا غیر معقول ہے ۔ اگر مسیح یوحنا کی شاگردی سے بالا تھا تو نبیوں نے یہ پیشگوئی کیوں کی اور خداتعالیٰ نے ایسا مقدر کیوں کیا؟ یہ عجیب بات ہے کہ مسیح جاتا ہے یوحنا کی بیعت کرنے اور یوحنا آگے سے یہ کہتا ہے کہ میں کس کی بیعت لوں میں تو خود چھوٹا ہوں اور تو بڑا ہے اور مسیح کہتا ہے پہلے نبیوں سے غلطی ہو گئی ہے۔ ہے تو یہی درست کہ میں بڑا ہوں لیکن چونکہ وہ ایک بات کہہ چکے ہیں اس لئے اب اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے۔
یہ ایسی ہی بات ہے جیسے شیعوں کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج کی رات خداتعالیٰ کے پاس گئے اور باتیں ہونے لگیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ حضور اتنی دور سے میں چل کر آیا ہوں اب دیدار تو کروا دیجئے۔ اس پر اللہ میاں نے پردہ اٹھایا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دیکھا کہ حضرت علی ؓ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا حضور نے اتنی تکلیف دے کر بلایا ۔ یہ دیدار تو نیچے بھی روزانہ ہو جاتا ہے۔ خداتعالیٰ نے کہا اس میں بھی راز ہوتے ہیں۔ اسی قسم کا راز یوحنا والے واقعہ میں ہے کہ مسیح یوحنا کے پا س ان کے مرید بننے کے لئے جاتے ہیں اور یوحنا کہتے ہیں توبہ توبہ بھلا مجھ میں یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ میں آپ کی بیعت لوں اور حضرت مسیح کہتے ہیں کہ ہوں تو میں ہی سردار لیکن چونکہ نبیوں کے منہ سے ایک بات نکل چکی ہے اس لئے اس کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ کیا لغویت ہے۔ مرقس نے بھی اسی رنگ کو اختیار کیا ہے گو اوپر والی گفتگو اس نے بیان نہیں کی۔ لوقا نے بھی اس گفتگو کا تو ذکر نہیں کیا لیکن یوحنا کی شاگردی اور ماتحتی کا اوپر کے واقعہ میں اظہار کیا ہے۔ یوحنا نے مسیح کے یوحنا سے بپتسمہ پانے کا ذکر چھوڑدیا ہے مگر ان باتوں سے کیا بنتا ہے۔ تین اناجیل کہہ رہی ہیں کہ یوحنا نے مسیح کو بپتسمہ دیا جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ استاد بنا۔ بے شک مسیح اس سے بڑھ گیا مگر بڑھنے کے وقت بڑھا۔ اس سے پہلے تو وہ بہرحال یوحنا کا شاگرد تھا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے دنیا میں کئی شاگرد استا د سے بڑھ جاتے ہیں۔ استاد پرائمری پاس ہوتا ہے لیکن اس کا شاگرد ایم اے پاس کرلیتا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جب وہ پرائمری میں پڑھ رہا ہو تو پرائمری کا استاد اسے پڑھانے سے انکار کر دے اور کہے کہ تو بڑا ہے اور میں چھوٹا ۔ بے شک جب وہ ایم اے ہو جائے گا تو استاد سے آگے نکل جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے وہ اپنے استاد کی شاگردی سے انکار نہیں کر سکتا۔ پس یہ کہناکہ یوحنا نے پیٹ سے اس کی بڑائی کا اقرار کیا ایک عبث فعل ہے۔ اگر ایسا تھا تو اسے بپتسمہ پر مقرر ہی کیوں کیا گیا؟
قرآن نے جو بات بیان کی ہے کہ یوحنا مسیح کا مصدق تھا وہیری اپنی کتاب کی جلد 2ص 17میں اس پر سخت برافروختہ ہوا ہے کہ ایک ماتحت اور چھوٹے درجہ کے نبی کو مصداق قرار دیا گیا ہے۔ مگر یہ اس کی حماقت ہے ۔ جو کچھ قرآن نے کہا ہے وہ انجیل نے بھی کہا ہے اور بتایا ہے کہ وہ مسیح کے لئے بطورارہاص تھا۔
(6) قرآن کہتا ہے کہ مریم کے پاس رزق آتا تھا بائبل میں اس کا ذکر نہیں۔ اس اختلاف سے کچھ ثابت نہیں ہوتا یہ ایک طبعی امر ہے کہ لوگ بچوں کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خصوصاً ان بچوں کو جو نذر کے ہوں اور لوگ ان کی خدمت کرتے ہیں۔ جو لوگ صحیح طور پر ان کی قدر سمجھتے ہیں وہ ان کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ انہیں صدقہ وغیرہ دے دیتے ہیں۔ اسی جذبہ کے ماتحت حضرت مریم کے لئے بھی لوگ مختلف تحائف لاتے ہوں گے۔ چنانچہ میور اور آرنلڈ نے اپنی کتب میں مسیحیوں کی روایات سے اس کے مشابہ باتیں نقل کی ہیں (دیکھو وہیری جلد 2ص16) اور انہوں نے اسے معجزانہ رنگ میں بیان کیا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ ہم تفاسیر کے قصوں کو صحیح نہیں سمجھیں۔ مثلاً تفاسیر والے لکھتے ہیں کہ حضرت زکریا نے مریم کے پاس کھانا دیکھا تو انہیں شبہ ہوا کہ کوئی بدمعاش آتا ہے اور وہ اس قسم کی چیزیں پہنچاتا ہے۔ چنانچہ وہ مریم کو کمرہ میں بند کر دیتے تھے اور پھر سات دروازے آگے پیچھے بند کر دیتے تھے مگر رزق ان کے پاس پھر بھی آ جاتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مفسرین کو سات دروازوں سے کوئی خاص دلچسپی ہے کیونکہ یوسف ؑ کے واقعہ میںبھی وہ لکھتے ہیں کہ زلیخا نے سات دروازے بند کرکے یوسف کو ورغلانے کی کوشش کی۔ پس سات دروازوں سے مفرین کوکوئی خاص لگائو ہے۔ مریم کو بھی اگر روٹی آتی تھی تو سات بند دروازوں سے اور زلیخا اگر یوسف کو چھیڑتی تھی تو سات دروازے بند کرکے۔ قرآن نے صرف اتنا کہا ہے کہ حضرت زکریا نے ان کے پاس کھانے پینے کی چیزیں دیکھیں تو انہوں نے پوچھا کہ یہ چیزیں تمہیں کس نہ دی ہیں۔ حضرت مریم نے جواب دیا کہ اللہ نے۔ ایک معصوم بچی کے یہ الفاظ ان کے لئے دعا کا محرک بن گئے اور انہوں نے کہا کہ خدایا مجھے بھی ایک بچہ عطا فرما جو اپنے اندر روحانی اوصاف اور کمال رکھتا ہو۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہودی روایتوں سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے جیسا کہ میور اور آرنلڈ نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے۔


(زکریانے) کہا اے میرے رب! میرے ہاںلڑکاکیسے ہو سکتا ہے حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہائی حد کو پہنچ چکا ہوں۔ (الہام لانے والے فرشتہ نے) کہا کہ (جس طرح تو کہتا ہے واقعہ) اسی طرح(ہے) (مگر) تیرا رب کہتا ہے کہ یہ (بات) مجھ پر آسان ہے اور (دیکھ کہ)میں تجھے اس سے پہلے پیدا کر چکا ہوں حالانکہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔
حل لغات :
عتی عتی سے بنا ہے اور عتا کے معنے حد سے نکل جانے کے ہیں۔ عاتیاسم فاعل ہے۔عتی بھی عاتی کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ امام راغب کہتے ہیں کہ آیت من الکبر عیتا میں عتی سے مراد بڑھاپے کی اس حالت کے ہیں جس کا کوئی مداو ا اور علاج نہیں ہو سکتا۔
تفسیر :
حضرت زکریا کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملی کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا تو انہوں نے کہا اے میرے رب انّٰی یکون لی غلم میرے ہاں کس طرح بیٹا پیدا ہو گا وکانت امراتی عاقرا حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے و قد بلغت من الکبر عیتا اور میں بڑھاپے کی انتہاء کو پہنچ چکاہوں۔
غلام ہونے میں دو باتیں پائی جاتی تھیں۔ اول یہ کہ بیٹا ہو اور دوسرے یہ کہ کہولت کی عمر تک پہنچنے والا ہو۔ اور پھر جب کسی شخص کو بیٹے کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ تم بھی اس کی زندگی کا اچھا حال دیکھو گے۔ حضرت زکریا اتنے عظیم الشان انعام کے وعدہ پر استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اول تو میں بوڑھا اور میری بیوی بانجھ اور پھر میں حد درجہ کا بوڑھا لیکن مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ میرے ہاں بیٹا ہو گا اور اس کی پیدائش کے بھی کچھ عرصہ بعد تک میں زندہ رہوں گا اور اس کی تربیت کر سکوں گا۔ گویا یہ ذوالعجائب الہام ہے۔ قال کذالک اس نے کہا اسی طرح ہو گا قال ربک ھو علی ھیّن۔ تیرا رب کہتا ہے کہ یہ بات مجھ پر آسان ہے۔
ہمارے مفسرین نے اس جگہ عیسائیوں سے ڈر کر یہ لکھا ہے کہ قال کذالک میں فرشتہ کے قول کا ذکر ہے اور قال ربک میں اللہ تعالیٰ کی بات بیان کی گئی ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں کثرت سے ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ حاضر کا صیغہ استعمال ہو رہا ہوتا ہے مگر وہ غائب میں بدل جاتا ہے اور غائب کا صیغہ استعمال ہو رہا ہوتا ہے اور پھر وہ حاضر میں بدل جاتا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ قال کذالک کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ یہ فرشتہ کا قول ہے اور اگلے حصہ کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرشتہ اگر کچھ کہتا ہے تو وہ بھی خداتعالیٰ کی طرف ہی منسوب ہوتا ہے کیونکہ فرشتہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ خداتعالیٰ کا کلام دوسرے تک پہنچاتا ہے۔ پس اس امتیاز کی کوئی ضرورت نہیں اگر فرشتہ نے یہ کہا تھا کہ اسی طرح واقعہ ہو گا تب بھی اس نے خداتعالیٰ کی طرف سے ہی کہا تھا اپنی طرف سے نہیں کہا۔ پس یہ بات بھی خداتعالیٰ کی طرف ہی منسوب ہو گی۔ درحقیقت قال کذالکاورقال ربک میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دونوں باتوں کو تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی سمجھو کہ اس کلام کا منبع خدا تھا اور جہاں خود کلام کرے وہاں یہ سمجھو کہ اب اس نے براہ راست کلام کیا ہے۔
وقد خلقتک من قبل ولم تک شیئا اور اس سے پہلے میں نے تجھے پیدا کیا تھا اور توکچھ بھی نہیں تھا۔ میرے نزدیک یہاں جسمانی پیدائش مراد نہیں کیونکہ جسمانی پیدائش زکریا سے خاص طور پر تعلق نہیں رکھتی تھی۔ اگر پیدائش جسمانی کا ذکر ہوتا تو خلقتک کی بجائے یہ کہنا چاہئے تھا کہ ساری دنیا کو میں نے پیدا کیا ہے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں تھی ۔ مگر یہاں حضرت زکریا کو خاص طور مخاطب کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جسمانی پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ درحقیقت اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا لم نجعل لہ من قبل سمیا میں ذکر آتا ہے کہ ہم تجھے ایک غیر معمولی بیٹا عطا فرمائیں گے جو بعض باتوں میں بے مثل ہو گا۔ اول بیٹا ہونا اور پھر بعد تک زندہ رہنے والا بیٹا ہونا اور پھر غیر معمولی شان کا بیٹا ہونا یہ ساری باتیں اپنے اندر حیرت انگیز رنگ رکھتی تھیں۔ قال کذالک قال ربک ھو علی ھین میں اللہ تعالیٰ نے پہلی دو باتوں کا جواب دے دیا تھا۔ اب تیسری بات کا جواب دیتا ہے کہ تمہاری بھی پہلے کوئی حیثیت نہیں تھی مگر پھر ہم نے تمہیں علوم بخش دئیے ۔ اسی طرح ہم میں یہ بھی طاقت ہے کہ ہم تیرے بیٹے کو بھی علوم عطا فرما دیں۔

ترجمہ۔ (زکریا نے )کہا اے میرے رب! میرے لئے کوئی حکم بخش۔ فرمایا تیرے لئے یہ حکم ہے کہ تو لوگوںسے تین راتیں متواتر کلام نہیں کرے گا (یعنی کلام نہ کرنا) ۔
تفسیر :
آیت کے معنے قرآن کریم میں کئی مقامات پر حکم کے بھی آئے ہیں۔ آیات قرآنیہ کو بھی اسی وجہ سے آیات کہا جاتا ہے کہ ان میں احکام الٰہیہ کا بیان ہوتا ہے پس رب اجعل لہ ایۃ کے یہ معنے ہیں کہ خدایا مجھے کوئی حکم دے جس کی میں تعمیل کروں۔ یعنی تو نے جو مجھ پر یہ احسان فرمایا ہے میں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اب تو مجھے کوئی ایسا حکم دے جو تیرے شکر کی ایک ظاہری علامت ہو اور جس کو پورا کرکے میرا دل خوش ہو جائے کہ میں نے رب کا حکم پورا کر دیا ہے۔
بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں آئندہ کی خبروں کے لئے نشان مقرر ہوتے تھے جن میں سے بعض نشان تو آسمانی ہوتے تھے اور بعض میں صرف عبادت کا حکم ملتا تھا۔ چنانچہ پیدائش باب 9میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے حضرت نوح اور ان کی اولاد سے آئندہ سب دنیا پر طوفان نہ لانے کا عہد کیا اور اس کے لئے قوس قزح کو نشان مقرر کیا۔ بائبل کے الفاظ یہ ہیں کہ: -
’’ خدا نے نوح اور اس کے بیٹوں سے کہا کہ دیکھو میں خود تم سے اور تمہارے بعد تمہاری نسل سے اور سب جانداروں سے جو تمہارے ساتھ ہیں۔ کیا پرندے کیا چوپائے۔ کیا زمین کے جانور یعنی زمین کے ان سب جانوروں کے بارے میں جو کشتی سے اترے عہد کرتا ہوں۔ میں اس عہد کو تمہارے ساتھ قائم رکھوں گا کہ سب جان دار طوفان کے پانی سے پھر ہلاک نہ ہوں گے اور نہ کبھی زمین کو تباہ کرنے کے لئے پھر طوفان آئے گا اور خدا نے کہا کہ جو عہد میں اپنے اورتمہارے درمیان اور سب جانداروں کے درمیان جو تمہارے ساتھ ہیں پشت در پشت ہمیشہ کے لئے کرتا ہوں اس کا نشان یہ ہے کہ میں اپنی کمان کو بادل میں رکھتا ہوں ۔وہ میرے اور زمین کے درمیان عہد کا نشان ہو گی اور ایسا ہو گا کہ جب میں زمین پر بادل لائوں گا تو میری کمان بادل میں دکھائی دے گی اور میں اپنے عہد کو جو میرے اور تمہارے اور ہرطرح کے جاندار کے درمیان ہے یاد کروں گا اور تمام جاندار وں کی ہلاکت کے لئے پانی کا طوفان پھر نہ ہوگا اور کمان بادل میں ہو گی اور میں اس پر نگاہ کروں گا تاکہ اس ابدی عہد کو یاد کروں جو خدا کے اور زمین کے سب طرح کے جاندار کے درمیان ہے۔ پس خدا نے نوح سے کہا کہ یہ اس عہد کا نشان ہے جو میں اپنے اور زمین کے کل جانداروں کے درمیان قائم کرتا ہوں۔‘‘ (پیدائش باب 9آیت 9تا 17)
یہ روایت گو بگڑی ہوئی ہو مگر بہرحال اس سے یہود کی روایات اور ان کے دستور کا علم ہو جاتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ جب کوئی عہد کرتا تھا تو اس کے پورا ہونے کا وہ کوئی ظاہری نشان بھی مقرر کر دیتا تھا۔ اسی طرح بعض دفعہ ایسا نشان مقرر کیا جاتا تھا جس کا کرنا خود بندے کے اختیار میں ہو۔ چنانچہ پیدائش باب 17آیت 9تا 11میںلکھا ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ
’’تو میرے عہد کو ماننا اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت اسے مانے اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا اور یہ اس عہد کانشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔‘‘
اسی طرح حزقی ایل باب 20میں سبت کو ایک نشان قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ
’’میرے سبتوں کو مقدس جانو کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان نشان ہوں تاکہ تم جانو کہ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں۔‘‘
ان حوالجات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں کسی نیک کام کا کرنا پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے لئے ایک ظاہری نشان سمجھا جاتا تھا۔ اسی رنگ میں حضرت زکریا نے بھی خداتعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے کوئی نشان دیا جائے یعنی مجھے کوئی ایسا حکم دیاجائے کہ جب میں اسے پورا کر وں تو یہ وعدہ اٹل ہو جائے کیونکہ جب بندہ اپنا وعدہ پورا کر دے تو اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے اور اس کوکسی اور رنگ میں نہیں بدلتا۔
قال ایتک الا تکلم الناس ثلث لیال سویا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا تیرے لئے وہ حکم جو اس بات کی علامت ہو گا کہ تو نے خدا کا شکر ادا کر دیا ہے یہ ہے کہ تو لوگوں سے تین راتیں کلام نہیں کرے گا اس حالت میں کہ تو تندرست اور بے عیب ہو گا اور بغیر کسی بیماری کے ہو گا۔ اور ان دنوں میں ذکر الٰہی کرتا رہے گا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کہ ایتک الا تکلم ثلث لیال بلکہ فرمایاہے الا تکلم الناس تو لوگوں سے کلا م نہیں کرے گا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کامل صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے بھی باتیں کیا کرتا ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت زکریا علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے کتنی لمبی باتیں کی ہیں کہ رب انی وھن العظم منی واشتعل الرأس شیبا ولم اکن بدعائک رب شقیا o وانی خفت الموالی من وراء ی وکانت امراتی عاقرا فھب لی من لدنک لیا o یرثنی ویرث من ال یعقوب واجعلہ ربرضیا o یہ تمام باتیں کسی آدمی سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے کی گئی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے بعض دفعہ فرشتوں سے بھی ہمکلام ہوتے ہیں ۔ پس الناسکے لفظ نے اس کلام کا اسثناء کر دیا جو خدا اور اس کے ملائکہ سے کی جاتی ہے اور اس طرف اشارہ کر دیا کہ یہ صر ف ایک روز تھا جس میں انہیں خاموشی کے ساتھ ذکرالٰہی کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔ یہ نہیں کہ ان کی زبان ماری گئی تھی۔ اگر زبان ماری جاتی تو لا تکلمکہنا چاہئے تھا مگر کہا یہ گیا ہے کہ الا تکلم الناستوان تین راتوں میں لوگوں سے کلام نہیں کرے گا یعنی ان تین راتوں میں لوگوں سے کلام نہ کیجیئو۔ گویا تو خدا کے لئے اپنے اوپر یہ واجب کر لے گا کہ میں نے تین رات دن لوگوں سے گفتگو نہیں کرنی حالانکہ تو تندرست ہو گا اور تجھ طاقت ہو گی کہ تو باتیں کرے۔
یہاں خداتعالیٰ کے ایک وعدے کو اس کے ایک حکم کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے۔ اس میں حکم یہ ہے کہ اگر بندہ وہ حکم پورا کر دے جو خداتعالیٰ کی طرف سے اسے دیا گیا ہے تو وہ وعدہ کسی صورت میں بھی ٹل نہ سکے اور وہ بہرحال پورا ہو جائے۔
اسی طرح ثلاث لیال سے صرف تین راتیں مراد نہیں بلکہ دن بھی ساتھ ہی مراد ہیں۔ جیسے حضرت موسیٰ علی السلام کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ووعدنا موسی ثلثین لیلۃ (اعراف ع 17) ہم نے موسیٰ ؑ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا حالانکہ وہاں دن بھی مراد ہیں۔ پس یہاں بھی تین راتوں سے تین رات دن مراد ہیں نہ کہ صرف تین راتیں۔

ترجمہ : اس کے بعد(زکریا) محراب سے نکل کر اپنی قوم کے پاس گئے۔ اور انہیں آہستہ آواز میں کہاکہ صبح اور شام خداتعالیٰ کی تسبیح کرتے رہو ۔
حل لغات :
محراب کے معنے چوبارہ کے بھی ہوتے ہیںاور محراب کے معنے گھر کے اچھے حصہ کے بھی ہوتے ہیں۔ مسجد کے محراب کو اسی لئے محراب کہتے ہیں کہ وہاں امام کھڑا ہوتا ہے جو سب سے زیادہ معزز ہوتا ہے اور محراب اس جگہ کو بھی کہتے ہیںجہاں بادشاہ علیحدگی میںمسائل پر غور کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں اور عوام کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہوتی اور قلعہ کو بھی محراب کہتے ہیں اور شیر کی کچھار کو بھی محراب کہتے ہیں۔ (اقرب)
اوحی الیہ ایحاء کے معنے ہوتے ہیں ۔ بعثہ اس کو مبعوث کیا۔ اسی طرح اوحی بکذا کے معنے ہوتے ہی الھمہ بہ ۔ اس کو کسی بات کی خبر دی اور اساس میں لکھا ہے کہ وحیت الیہ واوحیت اذا کلمتہ بما نخفیہ من غیرہ یعنی وحیت الیہ اور اوحیت کے معنے ہوتے ہیں ایسی طرز پر بات کرنا کہ دوسرے اس کو نہ سنیں۔ اور مصباح ؔمیں ہے کہ بعض العرب یقول وحیت الیہ ووحیت لہ و اوحیت الیہ ولہ یعنی بعض اہل عرب کے نزدیک و حیت الیہ اور وحیت لہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ معنے سب کے ایک ہی ہیں۔ پس اوحی کے معنے صرف اشارہ کرنے کے نہیں بلکہ اس سے مراد کسی سے ایسے رنگ میں بات کرنا ہے کہ دوسرے لوگ نہ سنیں۔
بکرۃصبح سے دوپہر تک کو کہتے ہیں۔اور عشیادن کے آخری حصہ کو کہتے ہیں۔ بعض زبان دان کہتے ہیں کہ مغرب سے عشاء تک کے وقت کے لئے عشی کا لفظ بولا جاتا ہے (اقرب)
تفسیر :
حضرت زکریا ؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب تین رات دن خاموش رہ کر ذکر الٰہی کرنے کی ہدایت ہوئی تو انہوں نے نیت کرلی کہ میں اب کوئی بات نہیں کروں گا اور خدا کے ذکر میں مشغول رہوں گا۔ چنانچہ وہ اپنے کمرہ میں سے یا مسجد کے اس حصہ میں سے جہاں امام کھڑا ہوتا ہے باہر آئے اور انہوں نے ایسے رنگ میں بات کی کہ غیر لوگ اس کو نہ سنیں گویا نہایت آہستگی سے اپنے دوستوں کے پاس کھڑے ہو کر بات کی تاکہ غیر لوگ نہ سنیں۔ ا س سے بھی معلوم ہوا کہ ان کے گونگے ہونے کا کوئی سوال نہیں تھا صرف ایسے رنگ میں بات کرنا مراد تھا کہ دوسروں کو سنائی نہ دے۔
سورئہ آل عمران میں اوحی الیھم کی بجائے رمزا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایتک الا تکلم الناس ثلثۃ ایام الا رمزا (آل عمرا ع4) رمزا کے معنے چونکہ عام طور پر اشارہ کے ہوتے ہیں س لئے انجیل سے متاثر ہوکر ہمارے مفسرین نے بھی ا س کے معنے اشارہ کے کر لئے ہیں حالانکہ لغت والے لکھتے ہیں کہ اس کے معنے ہونٹوں سے یا آنکھوں سے یا بھووں سے اشارہ کرنے کے ہیںاور ظاہر ہے کہ ہونٹوں سے انسان اشارہ نہیں کیا کرتا صرف آہستگی سے گفتگو کیا کرتا ہے ۔ پس ہونٹوں کے اشارہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ صوت نہ نکلے جیسے کسی کا گلا خراب ہو تو کہا جاتا ہے کہ تم اس طرح بولو کہ تمہاری آواز نہ نکلے۔ بلکہ ثعالبی جو لغت کے امام ہیں وہ تو اپنی کتاب فقہ اللغۃ میں لکھتے ہیں کہ ھومختصل بالشفۃ رمز کا لفظ ہونٹوں سے اشارہ کرنے کے لئے مخصوص ہے۔ (اقرب و فقہ اللغۃ فصل فی تفصیل تحریکات مختلفۃ) یعنی صرف ہونٹ سے بولنا گلا استعمال نہ کرنا اور یہ معنے اوحی الیھم کے بالکل مطابق ہیں یعنی اونچا بولنا ان کو منع تھا۔ ہونٹوں میں یعنی آہستہ کلام کر سکتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت تھی۔ چونکہ خدائی ارشاد پہنچانے کے لئے بعض قریبی لوگوں کو بتانا ضروری تھا اس لئے انہوں نے آہستگی سے کہہ دیا کہ میں خدائی حکم کے ماتحت تین دن ذکر الہٰی کروں گا تم بھی صبح و شام ذکر الٰہی کرو۔
بکرۃ چونکہ صبح سے لے کر دوپہر تک کے وقت کو کہتے ہیں اور عشیا کا لفظ زوال سے لے کرر ات تک کے وقت پر استعمال ہوتا ہے اس لئے بکرۃ و عشیا سے مراد یہ ہے کہ تم سارا دن عبادت کرو۔ میں بھی یہ ایام عبادت میں بسر کروں گا ۔


(اس کے بعد یحییٰ پیدا ہو گیا اور ہم نے اسے کہا) اے یحییٰ ! تو (الٰہی) کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے اور ہم نے اسے چھوٹی عمر میں ہی (اپنے) حکم سے نواز تھا۔ (اور یہ بات) ہماری طرف سے بطور مہربانی (اور شفقت کے تھی) اور (اسے )پاک کرنے کے لئے (تھی)اور وہ بڑ امتقی تھا ۔
حل لغات :
حنان کے کئی معنے ہیں اس کے معنے رحمت کے بھی ہیں۔ رزق کے بھی ہیں۔ برکت کے بھی ہیں۔ دل کی نرمی کے بھی ہیں۔ ہیبت کے بھی ہیں اور وقار کے بھی ہیں(اقرب) اس جگہ حنانا من لدنا کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے اسے دل کی نرمی بخشی۔
تفسیر :
اس آیت سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ تورات اور اس کے صحیفے اس وقت تک منسوخ نہیں ہوئے تھے کیونکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام پر کسی نئی کتاب کے اترنے کے نہ مسلمان قائل ہیں اور نہ عیسائی۔ پس الکتب سے مراد تورات ہی ہے جس کومضبوطی سے پکڑنے کا حضرت یحییٰ علیہ السلام کو حکم ہوا اور پھر آگے مسیح نے بھی یوحنا سے بپتسمہ لیا۔ گویا اسی کے دین کی اتباع کا اقرار کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کوئی نئی کتاب نہیں لائے کیونکہ جب ایک ہی زمانہ میں دو نبی ظاہر ہو رہے تھے اور ایک ہی قوم کی طرف آنے والے تھے اور ایک دوسرے کا شاگر دہونے والا تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ ایک تو تورات پر مضبوطی سے قائم ہو اور دوسرا اس شریعت کو منسوخ کرکے ایک اور کتاب لے آئے۔ پس یہ الفاظ اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ موسوی شریعت ابھی جاری رہنے والی تھی۔ اگر وہ مسیح ؑ کے ذریعہ منسوخ ہونے والی ہوتی تو اتنی شدت کے ساتھ نہ کہا جاتا کہ خذاالکتب بقوۃ ۔ اس کتاب پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرو۔ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس وقت تک بنی اسرائیل کے لئے تورات ہی واجب العمل تھی۔ اگر وہ جلدی ہی منسوخ ہو جانے والی ہوتی تو ا س قدر تاکید نہ کی جاتی کہ تم پوری مضبوطی کے ساتھ اس پر عمل کرو۔ یہ الفاظ دفع الوقتی کے لئے استعمال نہیں ہو سکے بلکہ اسی صورت میں استعمال ہو سکتے ہیں جب اس شریعت نے ابھی کچھ عرصہ تک قائم رہنا ہو۔
واتینہ الحکم صبیا۔ اور ہم نے اس کو بچپن کی عمرسے ہی حکم دیا تھا۔ صبیاکے معنے بچپن کی عمر کے بھی ہوتے ہیں لیکن درحقیقت مراد یہ ہے کہ وہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا قرب عطا کر دیا۔ یعنی ابھی لوگ ان کو بچہ ہی جانتے تھے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ان پر کلام نازل ہونے لگ گیا۔ ہماری زمین میں بھی محاورہ ہے کہ فلاں تو ابھی کل کا بچہ ہے۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ ابھی تو وہ چھوٹی عمر کا ہے۔ یہ مطلب نہیںہوتا کہ وہ دودھ پیتا بچہ ہے لیکن اس کے علاوہ جوانی کے لئے بھی یہ لفظ بول لیتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں دو نبی یعنی حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام آگے پیچھے آئے اور ان دونوں کے متعلق صبیاکا لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ جب ان کی والدہ نے یہودیوں سے کہا کہ اس سے بات کرو تو انہوں نے کہا کیف نکلم من کان فی المھد صبیا ہم ایک بچہ سے کس طرح بات کر سکتے ہیں گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لوگوں نے صبیکہا اور یحییٰ علیہ السلام کو بھی خدا نے صبیقرار دیا۔ اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ ہے کہ انہوں نے بچپن میں کلام کی تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ ایتنہ الحکم صبیا۔ پھر وہاں تو دشمنوں نے آپ کو صبی قرار دیاہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یکلم الناس فی المھد و کھلا (آل عمران ع 5) کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں مگر آپ کے متعلق صبی کا لفظ دشمنوں نے ہی استعمال کیا ہے۔
جس طرح اتینہ الحکم صبیا میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اگر مسیح ؑکی عظمت کے تم اس وجہ سے قائل ہوکہ وہ بچپن میں ہی اپنے دشمنوں پر بھاری تھا تو وہی عظمت تم یحییٰ کو بھی کیوں نہیں دیتے جبکہ ہم نے اسے بھی بچپن میں ہی اپنا قرب عطا کردیا تھا ۔ اسی طرح یہاں بھی حضرت مسیح ؑ کی تعلیم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ عیسائیوں کا بڑا زور اس امر پر ہے کہ حضرت مسیح ؑ نرمی اور حلم اور عفو اور بردباری کی تعلیم دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں فرمادیا کہ یحییٰ بھی دل کا بڑا حلیم اور بردبار اور نرم مزاج تھا۔ اگر نرمی اور حلم کسی فضیلت کا باعث ہیں تو یہ فضیلت حضرت یحییٰ کو بھی حاصل ہے ۔غرض جتنی باتیں حضرت مسیح ؑ کی افضلیت کے متعلق پیش کی جاتی ہیں ان سب کی اللہ تعالیٰ نے اس جگہ تردید کردی ہے۔
(1) کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح ؑ دل کے بڑے حلیم تھے اور ان کی طبیعت میں رافت اور محبت تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یحییٰ بھی دل کا بڑا حلیم تھا اور اس کی طبیعت میں بھی رافت اور محبت ڈالی گئی تھی۔
(2) کہا جاتا ہے کہ مسیح ؑ ایک نئی شریعت لایا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یحییٰ کو بھی کہا تھا کہ خذ الکتب بقوۃ تو اس کتاب پر مضبوطی سے عمل کر۔
(3) کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے بچپن میں کلام کیا اور یہ ان کی فضیلت کی دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یحییٰ کو بھی بچپن میں اپنا مامور بنا کر لوگوں کی طرف بھیج دیا تھا۔
(4) کہا جاتا ہے کہ مسیح ؑ گناہوں سے پاک تھا کیونکہ ساتھ ہی فرماتا ہے وزکوۃ اس میں پاکیزگی اور تقدس بھی پایا جاتا تھا۔
غرض جتنی خصوصیات حضرت مسیح ؑ میں بیان کی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ نے وہ سب کی سب حضرت یحییٰ میں بیان کر دی ہیں اور اس طرح عیسائیوں پر حجت تمام کی ہے کہ اگر ان خصوصیات کی وجہ سے حضرت مسیح کو تم تمام نبیوں پر فضیلت دیتے ہو تو پھر یحییٰ کو بھی تم ایسا ہی کیوں نہیں سمجھتے جبکہ اس میں بھی یہی باتیں پائی جاتی تھیں۔
وکان تقیا ۔ اور وہ صاحب تقویٰ تھا۔ پہلے فرمایا کہ اس میں زکوٰۃ یعنی پاکیزگی پائی جاتی تھی پھر فرمایا کہ اس میں تقویٰ پایا جاتا تھا۔ اردو میں جب ہم معنی الفاظ آ جائیں تو انسان سمجھتا ہے کہ ان کے کوئی الگ الگ معنے نہیں صرف ایک ہی مفہوم کو مختلف الفاظ میں حسن کلام کے لئے ادا کیا گیا ہے۔ لیکن عربی زبان میں یہ بات نہیں۔ عربی زبان میں ہر لفظ الگ الگ معنے رکھتا ہے۔ پس کان تقیا اور مفہوم کا حامل ہے اور زکوٰۃ کا لفظ اور مفہوم کا حامل ہے۔ زکوٰۃ کا لفظ عربی زبان میں اندرونی خرابیوں کو دور کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور تقویٰ کا لفظ باہر سے آنے والی خرابیوں کو دور کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ ہم نے اس کو اپنے پاس سے حلم اور نرمی بخشی اور ہم نے اس کے اندرونی خیالات بھی پاکیزہ بنائے اور جو باہر سے خرابیاں آتی ہیں ان کے مقابلہ کی بھی اس کو طاقت بخشی۔
و برا ………… عصیااور وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا تھا اور ظالم اور نافرمان نہیں تھا 11؎
11؎ حل لغات:۔ برنی یمینہ کے معنے ہوتے ہیں صدق۔ اس نے اپنی قسم کو پورا کرکے دکھایا یعنی اپنی بات کا پکا اورسچا نکلا۔ اور براوالدہ کے معنے ہوتے ہیں احسن …… بہ ۔ اس نے اپنے والد کی پوری اطاعت کی اور اس کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کیا۔ وتحریر ……ھہ اور جو باتیں اس کو پسند تھیں ان کو اس نے اختیار کیا اور جو باتیں اس کا ناپسند تھیں ان کو اس نے چھوڑ دیا فھو…… وبار ۔ ایسے شخص کو بر بھی کہتے ہیں اور بار بھی کہتے ہیں (اقرب)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے باپ کو خوش کرنے کے لئے ظاہری اور باطنی طور پر وہ تمام اخلاق اپنے اندر پیدا کر لے جن کو وہ پسند کرتا ہو اور ان تمام برائیوں کو ترک کر دے جن کو وہ ناپسند کرتا ہو تو اس وقت سے اسے بر اور بار کہتے ہیں ۔ لیکن بری میںبار سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔
جبرالعظم کے معنے ہوتے ہیں اصلحہ من کسر۔ اس نے ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کیا۔ لیکن جبرالعظم بنفسہ۔ کے معنے ہوں گے صلح بعد الکسر ۔ ہڈی ٹوٹ گئی تھی مگر پھر درست ہو گئی اور جبرالفقیر کے معنے ہوتے ہیں اغناہ اس نے فقیر کو غنی کر دیا۔ اور جبر فلانا علی الامر کے معنے ہوتے ہیں اکرھہ ۔ اس نے فلاں کو کسی کام پر سختی سے مجبور کیا (اقرب) گویا جہاں اس کے معنے اصلاح کرنے کے ہیں وہاں کسی کی مرضی کے خلاف اس پر ظلم کرکے جبراً اس سے کام لینے کے بھی ہیں گویا ایک معنے ایسے ہیں جن میں نیکی اور اصلاح پائی جاتی ہے اور ایک معنے ایسے ہیں جن میں سختی اور ظلم پایا جاتا ہے۔
عصیا بمعنے عاصی استعمال ہوا ہے یعنی وہ نافرمان نہیں تھا۔
تفسیر:۔
برابوالدیہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس کا اپنے ماں باپ سے یہ سلوک تھا کہ وہ ان کا پورا مطیع اور فرمانبردار تھا۔ وہ ان تمام اخلاق فاضلہ کو پسند کرتا تھا جن کو وہ پسند کرتے تھے اور ان تمام برائیوں سے بچتا تھا جن کو وہ ناپسند کرتے تھے۔
ولم……… عصیا ۔ اور پھروہ جبار اور نافرمان بھی نہیں تھا۔
یہ خوبیاں چو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں یہ بھی اسی لئے بیان کی ہیں کہ عیسائی حضرت مسیح ؑ کے متعلق یہ کہا کرتے ہیں کہ اس نے کیا ہی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کہ
’’جو کوئی تیرے داہنے گالے پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔‘‘
(انجیل متی باب 5آیت39)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یحییٰ بھی جبار نہیں تھا۔ اس نے جو تعلیم دی اس میں بھی ظلم کا کوئی پہلو نہیں تھا۔
اسی طرح عیسائی حضرت مسیح ؑکی یہ بڑی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا
’’ جو قیصر کا ہے قیصرکو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو‘‘
(انجیل متی باب 22آیت21)
اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ یحییٰ بھی عصیا نہیں تھا۔ اس نے بھی یہی تعلیم دی تھی کہ نافرمانی مت کرو۔ اور قیصر کا حق قیصر کو اور خدا کا حق خدا کو دو۔

غرض وہ ساری خوبیاں جو حضرت مسیح ؑ میں بیان کی جاتی ہیں۔ اللہ تعایٰ نے اپنے رنگ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بھی تھیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت یحییٰ حضرت مسیح ؑ سے درجہ میں کم تھے لیکن یہاچہ درہ اور مقام پر بحث نہیں۔ بلکہ اللہ تعالی ٰاس
بات کا ذکر کر رہا ہے کہ حضرت مسیح ؑ میں کوئی نرالی خصوصیت نہیں تھی۔ چونکہ عیسائی حضرت مسیح کو غیر معمولی عظمت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان میں بعض اخلاق مخصوص طور پرپائے جاتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کو رد کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ ساری خوبیاں حضرت یحییٰ ؑ میں بھی پائی جاتی تھیں۔ اگر ان باتوں کی وجہ سے تم عیسیٰ کو فضیلت دیتے ہو تو یحییٰ کو کیوں فضیلت نہیں دیتے؟

اور جب وہ پیدا ہوا تب بھی اس پر سلامتی تھی اور جب وہ مرے گا اور جب وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا (تب بھی اس پر سلامتی ہوگی) ۔
تفسیر :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ جب وہ پیدا ہوئے تب بھی اس پر سلامتی تھیں اور جب وہ مرے گا تب بھی اس پر سلامتی ہو گی اور جب وہ زندہ کرکے دوبارہ اٹھایا جائے گا تب بھی اس پرسلامتی ہو گی۔ اس سے بعض لوگوں کا ذہن اس طرف منتقل ہوا ہے کہ یہاں سلامتی سے جسمانی سلامتی مراد ہے اور چونکہ یہ سلامتی ان کی موت کے دن کے لئے بھی مقدر تھی۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے۔ حالانکہ اگر آپ سلامتی نازل ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ آپ قتل سے محفوظ رہے تو قیامت کے دن آپ پر سلامتی نازل ہونے کے کیا معنے ہیں۔کیا قیامت کے دن بھی کوئی دشمن آپ کے قتل کی تدبیر کرے گا کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی سلامتی آپ کے لاحق حال ہو گی۔ اگر سلامتی کا اس جگہ یہی مفہوم لیا جائے کہ اس میں دشمنوں کی تدابیر قتل کا رد ہے۔ تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ جس دن حضرت یحییٰ پیدا ہوئے اس دن بھی وہ قتل سے محفوظ رہیں گے۔ جس دن وہ فوت ہوں گے اس دن بھی وہ قتل نہیں ہوں گے اور جب قیامت کے دن دن وہ دوبارہ زندہ ہوں گے تو اس دن بھی قتل نہیں ہوں گے۔ اب بتائو کیا قیامت کے دن بھی وہ قتل ہو سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے متعلق یوم یبعث حیا پر بھی سلامتی کا وعدہ کرنا پڑا۔
درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں تین مختلف زمانوں کو بیان کیا ہے مگر لوگوں نے غلطی سے اس کا مفہوم کچھ کا کچھ سمجھ لیا۔ دراصل انسانی زندگیاں تین ہوتی ہیں۔ ایک زندگی شروع ہوتی ہے انسانی پیدائش اور ختم ہوتی ہے انسانی موت پر۔ دوسری زندگی موت سے شروع ہوتی اور قیامت تک قائم رہتی ہے۔ اس زندگی کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے۔ مگر اس کے بعد ایک تیسرا زمانہ ہے۔ جسے قرآن کریم یوم البعث قرار دیا ہے اور جس دن کامل طور پر جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل کر دئے جائیں گے۔ یہ تین ابتدائی نقطے ہیں انسانی زندگی کے ۔ پیدائش ابتدائی نقطہ ہے حیوۃ الدنیا کا۔ موت ابتدائی نقطہ ہے حیات برزخی کا۔ اور یوم البعث ابتدائی نقطہ ہے حیات اخروی کا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے تینوں نقطہ ہائے حیات میں سلامتی ہی سلامتی ہے اس کی پیدائش پر بھی ہماری طرف سے سلامتی نازل ہو گی اور وہ زندگی بھر اس سے متمتع ہوتا رہے گا۔ پھر جب وہ وفات پا ئے گا تب بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اور وہ عالم برزخ میں بھی سلامتی سے حصہ پائے گا اور اس کے بعد جب یوم البعث آئے گا تو اس دن بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اوروہ اخروی حیات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت رہے گا۔
غرض اس آیت میں قتل کا کوئی ذکر ہی نہیں ۔ اس میں تین زندگیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان تینوں زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے مورد ہوں گے مگر یہ سلام صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحیی علیہ السلام کے لئے نہیں آیا بلکہ سب مومنوں کے لئے آیا ہے۔ چنانچہ سور ہ انعام ع 6 میں آتا ہے واذاجائک الذین یؤمنون بایتنا فقل سلام علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ۔ یعنی جب تیرے پاس ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے لوگ آئیں تو ان کو ہمارا یہ پیغام دے دینا کہ تم پر سلام ہو ۔ تمہارے رب نے تمہارے لئے اپنے آپ پر رحمت واجب کرلی ہے۔ یہ سلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے حالانکہ ان میں سے کئی شہید ہوئے۔ پھر سب مومنوں کی نسبت آتا ہے۔ الذین تتوفھم الملئکۃ طیبین یقولون سلام علیکم ادخلوا الجنۃ بما کنتم تعلمون(نحل ع 4) یعنی جن لوگوں کی روح فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ انہیں کہتے چلے جاتے ہیں کہ تم پرسلامتی ہو۔ جائو اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جائو۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرشتے مومنوں کی جان کئی طرح نکالتے ہیں۔ تو کیا اگر سلامتی کے معنے دشمنوں کے ہاتھوں سے نہ مارے جانے کے ہیں تو یہ عجیب بات نہ ہو گی کہ دشمن ان کو قتل بھی کر رہا ہو گا اور فرشتے ساتھ ساتھ سلام بھی کرتے جا رہے ہوں گے۔ گویا جو بات ہو رہی ہو گی اس کی تردید کر رہے ہوں گے۔ اسی طرح سورئہ طہ میں آتا ہے والسلام علی من اتبع الھدیجو بھی ہدایت کے تابع چلے اس پر سلامتی ہے۔ اگر سلام کے معنے دشمنوں کے قتل سے محفوظ رہنے کے لئے جائیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کبھی کوئی مومن قتل نہیں ہوتا ۔ پھر سورئہ مائدہ ع 3میں مومنوں کی نسبت فرمایا ہے یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کو جو خداتعالیٰ کی رضا کے تابع ہوتے ہیں سلام کے راستے دکھاتا ہے۔ اب اگر سلام کے معنے دشمنوں کے ہاتھوں قتل نہ ہونے کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ایسی زندگی بخشتا ہے کہ وہ کبھی دشمن کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوتے جوالبداہت غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سلام ایک وسیع معنوں کا حامل لفظ ہے ۔ بعض موقعوں پر یقینا اس کے یہ معنے بھی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے کسی حملہ سے بچا لے گا لیکن بعض جگہ بیماری سے بچانے کے اور بعض جگہ ناکامی سے بچانے کے معنے ہوں گے۔ بہرحال بغیر کسی زبردست قرینہ کے ایک عام لفظ کے کوئی خاص معنے کرنے اور وہ بھی ایسے جو تاریخی واقعات کے سراسر خلاف ہوں کسی صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتے۔ پس یہاں سلامتی سے جسمانی سلامتی مراد نہیں بلکہ روحانی سلامتی مراد ہے۔ اگر جسمانی سلامتی مراد ہو تو موت کے دن بھی اس پر سلامتی ہونے کے کوئی معنے نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ انسان جب بھی مرتا ہے کسی بیماری یا حادثہ سے مرتا ہے اور جب وہ کسی بیماری یا حادثہ سے ہلاک ہو گا تو اس کے لئے سلامتی کہاں ہوئی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جسمانی سلامتی مراد نہیں بلکہ روحانی سلامتی مراد ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جس دن وہ پیدا ہو گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی اور وہ تمام دماغی اور جذباتی کمزوریوں سے محفوظ ہو گا اور جس دن وہ مرے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی یعنی وہ تمام روحانی امراض سے پاک ہو گا اور جس دن وہ دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی۔
یہ آیت بھی حضرت مسیح ؑکی ایک خصوصیت کو رد کرنے کے لئے بیان کی گئی ہے۔ مسلمان کہتے ہیں کہ سوائے حضرت عیسیٰ ؑ اور اس کی والدہ کے دنیا میں کوئی شخص مس شیطان سے پاک نہیں۔ یہ بات عیسائیوں نے نہیں کہی بلکہ مسلمانوں نے مسیحیوں پر احسان کرکے ان کے لئے پیدا کی ہے ۔ خداتعالیٰ جانتا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب خود مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دینا ہے کہ مسیح ؑ مس شیطان سے پاک تھا اور یہ اس کی ایک ایسی خصوصیت ہے جس میں وہ منفرد ہے۔ اس کی تردید کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کی نسبت فرما دیا وسلم علیہ یوم ولد ۔یوحنا بھی اپنی پیدائش کے دن خداتعالیٰ کی سلامتی کے نیچے تھا۔ اگر پیدائش کے وقت شیطان ہرشخص کو چھیڑتا ہے توکیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کیا ہی برکت والا وہ دن تھا جس دن یحییٰ پیدا ہو اور شیطان نے اسے چھیڑا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر شیطان ہر انسان کو اس کی پیدائش پر چھیڑتا ہے تو یحییٰ کی نسبت یہ نہیںکہا جا سکتا کہ وہ بڑی برکتوں والا اور سلامتی کا دن تھا جس دن یحییٰ پیدا ہوا۔ ہاں اگر شیطان نے اسے نہیں چھیڑا تب بے شک کہا جا سکتا ہے کہ وہ بڑی ہی برکتوں والا دن تھا جب یحییٰ پیدا ہوا اور شیطان نے اسے چھیڑا۔ پس حضرت یحییٰ علیہ السلام میں اللہ تعالیٰ نے وہ ساری خوبیاں بیان کر دی ہیں جو عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح میں پائی جاتی تھیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں جو اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور کمالات پائے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے ان کو عیسائیوں کے سامنے پیش کرنا تھا اور عیسائیوں نے ان کا انکار کرتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ ساری خوبیاں تو مسیح میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے ذریعہ مسلمانوں کی توجہ اس طرف پھیری کہ تم انجیل میں یوحنا کے حالات دیکھ لو تمہیں وہ ساری خوبیاں بلکہ ان سے بھی بڑ ھ کر یوحنا میں دکھائی دیں گی جو مسیح ؑ میں بیان کی جاتی ہیں۔ میں نے بتایا ہے کہ یوحنا کے متعلق اناجیل میں یہاں تک لکھا ہے کہ
’’میں تم سے کہتا ہوں کہ ان میں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی نہیں بڑا نہیں‘‘
(انجیل لوقا باب 7آیت 28)
اسی طرح یوحنا کے متعلق سابق انبیاء کی پیشگوئیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ پس مسیح ؑ کو کوئی خاص خصوصیت حاصل نہیں جس کی وجہ سے اسے خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیا جا سکے۔ باقی یہ کہ ایک بڑا تھا اور ایک چھوٹا۔ اس سے ہم بھی انکار نہیں کرتے۔ لیکن یہ کہ وہ کوئی نرالی خصوصیات رکھتا تھا یہ ایک ایسی بات ہے جو اناجیل کے رو سے بالکل باطل ہے بلکہ یوحنا کے متعلق تو یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ وہ خدا کے حضور میں بزرگ ہو گا اور ہرگز نہ مَے نہ کوئی اور شراب پئے گا۔‘‘ (انجیل لوقا باب 1آیت 15)
اور مسیح انجیل کے رو سے نہ صرف خود شراب پیتا تھا بلکہ شراب بنانے کا معجزہ بھی اس نے دکھایا تھا (انجیل یوحنا باب 2آیت 1تا 11) اسی طرح مسیح ؑ اگر روزہ رکھتا اور عبادتیں کرتا تھا تو یہ باتیں یوحنا میں بھی پائی جاتی تھیں۔ غرض خداتعالیٰ نے اس سورۃ میں مسلمانوں کو یہ گر بتایا ہے کہ عیسائیوں کے مقابلہ میں تم یحییٰ کے حالات کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ جتنی باتیں مسیح کے متعلق بیان کی جاتی ہیں وہ ساری کی ساری یوحنا میں بھی پائی جاتی ہیں اور جب یہ حالت ہے تو مسیح کی اس میں خصوصیت کیا رہی۔
پس یایحیی خذ الکتب بقوۃ سے آخر رکوع تک مسیحیت کے رد کے دلائل بیان کئے گئے ہیں اور مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کرو گے تو عیسائی مانیں گے نہیں۔ ہم تمہیں گر بتاتے ہیں کہ انجیل میں یوحنا کا ذکرپڑھو۔ وہاں تمہیںوہی باتیں ملیں گی جو عیسائی حضرت مسیح ؑ میں بیان کرتے ہیں۔ پس تم انہیں بتائو کہ مسیح ؑ میں کوئی نرالی خصوصیت نہیں جس کی وجہ سے اسے خدایا خدا کا بیٹا قرار دیا جا سکے۔

اور تو(اس) کتاب میںمریم کا (جو) ذکر (آتا ہے اسے)بیان کر (خصوصاً اس با ت کو کہ) جب وہ اپنے رشتہ داروں سے مشرقی (جانب ایک) جگہ چلی گئی ۔
حل لغات :
انتبذ کے معنے ہوتے ہیں اعتزل وتنحی ناحیۃ ۔ وہ الگ ہو گیا اور ایک طرف چلا گیا۔ (اقرب)
شرقی کے متعلق لغت میں لکھا ہے الشرقی المنسوب الی الشرق وکل مکان فی جھۃ الشرق وکل ما اتجہ نحو الشرق ۔ یعنی شرقی کے معنے مشرق کی طرف کے بھی ہوتے ہیںاور شرقی ہر ایسے مکان کوبھی کہتے ہیں جس کا منہ مشرق کی طرف ہو ۔ (اقرب)
تفسیر :
واذکر فی الکتب مریم کے یہ معنے ہیں کوتو کتاب میں مریم کا ذکر کر یاکتاب میں مریم کا جو ذکر ہے اس کو اپنے ذہن میں لا۔
الکتٰب سے مراد اگر قرآن کریم لیا جائے تو اس کا یہ مفہوم ہو گا کہ اس قرآن کے ذریعہ تو مریم کا ذکر بیان کر۔ لیکن الکتب سے مراد بائبل بھی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ بائبل میں مریم کا جو ذکر آتا ہے اس کو بیان کر یا اسے اپنے ذہن میں ملا۔ یہ ظاہر ہے کہ بائبل میںبہت کچھ غلط واقعات اپنی طرف سے شامل کر دئیے گئے ہیں پس واذکر فی الکتب مریم کے یہ معنے ہوں گے کہ بائبل میں مریم کے جوحالات بیان کئے گئے ہیں ان کو بھی دیکھو اور پھر قرآن کریم میں جو حالات بیان ہوئے ہیں ان کو پڑھو اور دونوں کا مقابلہ کرکے اندازہ لگائو کہ مریم کے حالات کس کتاب نے زیادہ عمدگی کے ساتھ ان کی شان کے مطابق پیش کئے ہیں۔
اس سورۃ میں خداتعالیٰ نے پہلے حضرت زکریا علیہ السلام کا واقعہ بیان کرکے یحییٰ کی پیدائش کا ذکر کیا کیونکہ پیشگوئیوں کے مطابق یحییٰ کی پیدائش مسیح ؑ کے لئے بطور ارہاص تھی اور مسیح ؑ دنیامیں اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتے تھے جب تک کہ ان سے پہلے ایلیاہ کا بروز ظاہر نہ ہو جاتا۔ اب خداتعالیٰ یحییٰ کے ذکر کے بعد مریم کا ذکر کرتا ہے۔ کیونکہ جس طرح یحییٰ کا وجود مسیح ؑ سے پہلے ضروری تھااور یحییٰ کا آنا ایک نشان کے طور پر تھا اسی طرح مسیح کی بن باپ ولادت بھی یہود کے لئے ایک عظیم الشان نشان تھی۔ کیونکہ اس ذریعہ سے یہود کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ اب بنی اسرائیل میں سے نبوت کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس نعمت کو ان کے دوسرے بھائیوں کی طرف منتقل کر دے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم نے بیسیوں دفعہ سنا ہے کہ مسیح کی بن باپ ولادت نبوت کا کا نٹا پھیرنے اور یہود کو یہ بتانے کے لئے تھی کہ بنی اسرائیل سے خداتعالیٰ نے اب اپنا منہ موڑ لیا ہے۔ اور وہ ان کی بداعمالیوں کی سزا میں اب نبوت کا سلسلہ ایک دوسری قوم میں منتقل کرنے والا ہے۔ چونکہ سلسلہ نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے اس لئے خداتعالیٰ نے مسیح کوبن باپ پیدا کیا۔ یہ بتانے کے لئے کہ اب یہود میں کوئی مرد ایسا نہیں رہا جس کی اولاد میں سے کسی کو نبی بنایا جا سکے۔ چنانچہ اب ہم جس کو نبی بنا رہے ہیں بغیر باپ کے بنا رہے ہیں صرف اس کی ماں اسرائیلی ہے مگر آنے والے نبی میں اتنا حصہ بھی نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ اسرائیل سے اپنے تعلقات کلی طور پر منقطع کر لے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں بھی اس مسئلہ کا بار بار ذکر فرمایا ہے چنانچہ مواہب الرحمن وغیرہ میں یہ مضمون پایا جاتا ہے اور درجنوں دفعہ ہم نے آپ کی زبان سے بھی یہ بات سنی ہے کہ حضرت مریم بھی ایک علامت تھیں اس خدائی انتباہ کی کہ نبوت اب بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں منتقل ہونے والی ہے اور موسیٰ ؑ کی اس پیشگوئی کا ظہور بالکل قریب ہے جس میں اس نے بتایا تھا کہ
’’خدا وند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں (یعنی بنی اسماعیل) میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔‘‘ (استثناء باب 18آیت 15)
پس چونکہ مریم بھی ایک خدائی نشان تھیں اس لئے ہمیں پوری طرح تحقیق کرنی چاہئے کہ بائبل اور قرآن نے ان کا وجود کس شکل میں پیش کیا ہے۔
عربی زبان میں حضرت مسیح ؑ کی والدہ کے لئے مریم کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن عبرانی زبان میں اس کا تلفظ کئی رنگ میں آتا ہے۔ چنانچہ ماریہؔ۔ مریمؔ۔ مریوم۔ یہ تین تلفظ ہیں جن میں اس لفظ کو ادا کیا جاتا ہے۔ انجیل میں جہاں حضرت مسیح کی والدہ کا ذکر آتا ہے وہاں تو مریم کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے مگر جہاں دوسری عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کا نام کبھی مریم آتا ہے اور کبھی ماریہ۔ غرض مریمؔ۔ ماریہؔ اور مریوم یہ مختلف تلفظ ہیں جو اس زمانہ کے لوگوں میں رائج تھے۔ مگر غالباً حضرت مسیح کی عظمت کی وجہ سے ان کی والدہ کے لئے صرف ایک ہی نام رکھا گیا تھا یعنی مریم۔
سب سے پہلے بائبل میں یہ نام تورات کے صحیفہ میں آیا ہے اور اس میں حضرت موسیٰ ؑ کی ہمشیرہ کا یہ نام بتایا گیا ۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہی وہ بہن تھی جو موسیٰ کے دریا میںپھینکنے کے بعد ان کے پیچھے پیچھے گئی جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آتا ہے یعنی میم کی زیر سے۔ اس کے بعد یہ نام دوسری دفعہ نئے عہد نامہ میں آتا ہے اور اس جگہ کا تلفظ مریم میم کی زبر سے آتا ہے۔
اس لفظ کے معنوں میںاختلاف ہے۔ بعض نے لکھا ہے اس کے معنے سمندر کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے سمندر کا ستارہ کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ مریم کے معنے ’’دن کی مالکہ‘‘ کے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے ’’ماسٹر کی مہر‘‘ کے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے سمندر کے استاد کے لئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ مریم کے معنے سمندر کی مر (Myrrh)کے ہیں۔ مر قسم کی گوند ہوتی ہے جو دوائوں میں استعمال ہوتی ہے۔
درحقیقت جن لوگوں نے عبرانی زبان کی تحقیق کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مریم کے جو مختلف معنے کئے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے مشابہ بعض اور الفاظ عربی اور ایرانی اور دوسری زبانوں میں پائے جاتے ہیں ۔ لوگوں نے ان زبانوں کے ملتے ہوئے الفاظ سے یہ معنے اخذ کر لئے اور اس طرح اختلاف پیدا ہو گیا۔ مثلاً ’’سمندر کے مِر‘‘ کے جو معنے کئے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ موسیٰ ؑ کی بہن کا نام تورات میں مریم آتا ہے اور مَرْعربی زبان میں ایک گوند کانام ہے اور یَم ْسمندر کو کہتے ہیں۔ پس انہوں نے دوسری زبانوں کے مشابہ الفاظ کو دیکھ کر مِریم کا یہ ترجمہ کر لیا کہ ’’سمندر کا مِر‘‘ ۔ اسی طرح بعض معنے ایرانی ا ور دوسری زبانوں کے ملتے ہوئے الفاظ سے اخذ کئے گئے ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے Hebrewزبان کی پوری تحقیق کی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ اس کے معنے یا توسینہ زور کے ہیں یا موٹی کے ہیں۔ گویا اس کے ایک معنے خود سر کے اور ایک موٹاپے کے لئے جاتے ہیں۔ خود سر کا مفہوم بھی موٹاپے کی طرف ہی جاتا ہے کیونکہ جو مضبوط بچہ ہوتا ہے وہی اَڑتا اور مقابلہ کرتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ عام طور پر جو بچے مشکل سے پیدا ہوتے تھے اور وزنی ہوتے تھے ان کا نام رکھا جاتا تھا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اصل میں ہر ملک کی خوبصورتی کا معیار الگ الگ ہوتا ہے۔سامی نسلوں میں یعنی یہودیوں اور عربوں میں موٹاپا خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے بانت سعاد میں شاعر اپنی محبوبہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
ھیفاء مقبلۃ عجزاء مدبرۃ
یعنی جب وہ سامنے سے آ رہی ہو تو پتلی کمر والی دکھائی دیتی ہے اور جب واپس جا رہی ہوتو موٹی دکھائی دیتی ہے۔ تو چونکہ موٹاپا ان میں خوبصورتی کا معیار تھا اس لئے جو لڑکی خوبصورت ہوتی تھی اور موٹی بھی ہوتی تھی اس کا نام مریم رکھ دیا جاتا تھا۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ صرف خوبصورتی کی وجہ سے یہ نام رکھا جاتا تھا۔ یہ معنے غالباً انہوں نے اس لئے کر لئے ہیں کہ حضرت مریم کی عیسائیوں میں جو تصویریں پائی جاتی ہیں ان میں وہ زیادہ موٹی نظر نہیں آتیں۔
انجیل میں جیسا کہ میں بتا چکاہوں کہ مریمؔ اور ماریہؔ کے نام تبدیل ہوتے رہتے ہیں یعنی ایک دوسرے کی جگہ بولے جاتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح ؑ کی والدہ کے لئے ہمیشہ مریم کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں یہ نام بہت معروف تھا کیونکہ انجیل میں کئی عورتوں کا یہ نام مذکور ہے۔
مریم کی زندگی کے حالات :
انجیل قبل از ولادت مسیح مریم کے حالات کے بارہ میں بالکل خاموش ہے۔ متی باب 1آیت 18سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مریم کنواری حاملہ ہوئی تو یوسف جس سے اس کی منگنی ہوئی تھی اس نے اسے چھوڑنا چاہا مگر فرشتہ نے اسے منع کیا اور اسے یوسف کی جورو قرار دیا اور کہا اے یوسف تو اپنی جورو کو گھر لے جا۔ اس سے پہلے کوئی واقعہ متی میں نہیں ہے۔ مرقس نے اس پیدائش کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ لوقا نے اس معجزانہ پیدائش کا ذکر کیا ہے ۔ مگر اسی وقت اس نے مریم کا ذکر کیا ہے جب فرشتہ نے اسے حمل کی خبر دی اور وہ حاملہ ہو گئی کیونکہ لکھا ہے کہ مریم کنواری تھی اور اس کی یوسف سے منگنی ہوئی تھی مگر شادی سے پہلے فرشتہ نے اسے حمل کی خبر دی اور وہ حاملہ ہوئی(انجیل لوقا باب 1آیت 27تا 35) لیکن حاملہ ہونے سے پہلے کے حالات پر لوقا نے کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ صرف اتنا بتایا ہے کہ مریم زکریاکی بیوی کی رشتہ دار تھی اور اس کے گھر آتی جاتی تھی۔ اس کے ماں باپ اور اس کے بچپن کے حالات پر اس نے کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ یوحنا اس بارہ میں بالکل خاموش ہے۔
قرآن کریم نے مریم کے خاندان کا بھی ذکر کیا ہے اور اس کی والدہ کا بھی ذکر کیا ہے اور اس کی پیدائش کا واقعہ بھی ذکر کیا ہے جس سے مسیح کی پیدائش کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ آخر اتنابڑا نشان دکھانے کے لئے کوئی ابتدائی علامات بھی تو ہونی چاہئیں۔ وہ ابتدائی علامات قرآن کریم پیش کرتا ہے انجیل نہیں۔ چنانچہ سورئہ آل عمران ع 4میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عمران کے خاندان کی ایک عور ت تھی (یعنی موسوی خاندان کی) اس نے اپنے دل میں محسوس کیا کہ کہ دین کی حالت خراب ہو رہی ہے اور اس کی اصلاح کے لئے واقفین زندگی کی ضرورت ہے۔ اگر میرا بچہ ہوا تو میں اس کام کے لئے اسے وقف کر دوں گی اور خداتعالیٰ سے اس نے یہ وعدہ کیا اور دعا کی کہ وہ اس کی نذر کو قبول کرے اور اس میں برکت دے۔ لیکن جب اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو بجائے لڑکے کے وہ لڑکی تھی جس پر اسے مایوسی ہوئی کہ وہ کام جس کے لئے اس نے اپنی اولاد وقف کی تھی لڑکے سے نہ ہو سکے گا اور گھبرا کر پھرخدا سے دعا کی کہ الٰہی اب کیاکروں میرے گھر میں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے حالانکہ خدا جانتا تھا کہ جو نر اولاد اس نے مانگی تھی وہ اس لڑکی برابر کام نہیں کر سکتی تھی۔
اصل بات یہ ہے کہ زمانہ کی خرابی کا احساس تو نیک لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو چکا تھا مگر اس خرابی کو دور کرنے کا جوصحیح وقت تھا اسے وہ نہیں جانتے تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ خرابی پیدا ہو چکی ہے اور دین سے محبت رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں جوش تھا کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ مرد اپنی جگہ فکر مند تھے اور عورتیں اپنی جگہ فکر مند تھیں۔ عورتوں نے اس طرف توجہ کی کہ ہم اپنی اولادیں خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کریں گی مگر ان کو کیا معلوم تھا کہ اس اصلاح کا صحیح موقعہ کونسا ہے۔ اگر مریم کی والدہ کی دعا اس وقت قبول ہوتی تو مسیح ؑ اپنے وقت سے بیس سال پہلے پیدا ہو جاتے۔ حالانکہ درمیان میں یحییٰ نے بھی آنا تھا اور ان کا آنا مسیح کے لئے ارہاص کے طور پر تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو اس رنگ میں قبول کیا کہ بجائے اس کے کہ انہیں وہ بیٹا دیتا جو دین کی خدمت کرتا اس نے انہیں وہ بیٹی دی جس سے آگے چل کر ایک عظیم الشان بیٹا پیدا ہونے والا تھا۔ اس طرح دعا بھی قبول ہو گئی اور زمانہ کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وقت مقدر تھا وہ بھی نہ ٹلا۔
غرض خداتعالیٰ جو حالات سے واقف تھا اگر اسی وقت اس کی دعا سن لیتا تو وہ بچہ اس خدمت کو سر انجام نہیں دے سکتا تھا جو امّ ِ مریم کے ذہن میں تھی۔ اس نے پرانی پیشگوئیوں کے مطابق کہ کنواری لڑکا جنے گی جویہود کو نجات دلوائے گا اور وہ ایک غیر معمولی فرزند کی ماں ہو گی۔ لڑکے کی بجائے لڑکی دے دی اور اس کی ماں کی دعا اس رنگ میں سنی گئی کہ لڑکی سے ایک ایسا فرزند پیدا ہو جو یہود کی رستگاری کا موجب ہوا۔
بہرحال ماں نے جب دیکھا کہ لڑکی ہوئی ہے تو چونکہ نذر مان چکی تھی اس نے اسے علماء اور مجاوروں کی تربیت میں دے دیا ۔ مگر اس لئے نہیں کہ وہ بے بیاہی رہے بلکہ صرف دینی تربیت کے لئے ۔ کیونکہ ماں دعا کرتی ہے کہ میں اس کے لئے اور اس کی اولاد کے لئے تجھ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ شیطان سے محفوظ رہیں۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے اس خیال سے کہ میں چونکہ دعا کر چکی ہوں اس لئے اگر علماء کے سپرد اسے کیا گیا تو وہ اس کی اچھی تربیت کریں گے اور اسے دین کی باتیں سکھائیں گے اور یہ آگے اپنی اولاد کو سکھائے گی اسے پادریوں اور مجاوروں کے سپرد کر دیا۔ ورنہ ان کی خواہش تھی کہ یہ لڑکی شادی کرے اور اسکے بچے پیدا ہوں کیونکہ وہ اس کے لئے اور پھر اس کی اولادکے لئے بھی دعا کرتی ہیں کہ وہ شیطان سے محفوظ رہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ چاہتی تھی کہ ان کی بیٹی شادی کرے اور اس کے بچے ہوں۔
خداتعالیٰ نے ماں کی دعا سنی اور مریم پر خاص فضل کیا۔ وہ زکریا کاہن کی تربیت میں پلی اور دوسرے کاہنوں کی نگرانی میں رہی اور اس کے دل میں دین کی محبت پیدا ہوئی۔ چنانچہ بچپن ہی میں وہ اس یقین پر پہنچی کہ جو کچھ ملتا ہے خدا سے ملتا ہے۔ اس کے ایک ایسے ہی جواب سے زکریا متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنے لئے بھی لڑکے کی دعا کی جس سے یحییٰ پیدا ہوئے اور اس طرح عیسیٰ کی ماں عیسیٰ کے ارہاص والے نبی کے پیدا کرنے میں ممد ہوئی اور اپنے بیٹے کی سخت سے سخت مشکل کے حل کرنے والی بن گئی کہ ایلیاہ نبی کی آمد کے بغیر اس کا دعویٰ ثابت نہ ہو سکتا تھا سو یحییٰ ایلیاہ کامثیل بنا اور عیسیٰ کی ماں کی ایک معصوم حرکت سے اس کا وجود ظہورمیں آیا۔
مریم کی بعد کی زندگی کے حالات انجیل میں یہ لکھے ہیں کہ حمل کے بعد یوسف اسے گھر لے گیا۔ شادی کاکوئی ذکر نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہود میں منگنی شادی ہی سمجھی جاتی تھی اور حضرت مسیح ؑ پیدا ہوئے ۔ ان کی پیدائش تک یوسف نے مریم سے کوئی تعلق نہ رکھا۔ ان کی پیدائش کے بعد وہ ان کے پاس گیا اور دوسرے بچے پیدا ہوئے ۔ (انجیل متی باب 1آیت 25)
پھر لکھا ہے
’’یسوع بچپن سے اپنے ماں باپ سے نفور تھا اور جب اس نے دعویٰ کیا مریم اس پر ایمان نہیں لائی بلکہ اس کی باتوں کو تعجب سے دیکھتی رہی‘‘۔
متی باب 12آیت 46تا 50میں لکھا ہے: -
’’جب وہ بھیڑسے یہ کہہ ہی رہا تھا تو دیکھو اس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اس سے بات کرنا چاہتے تھے۔ کسی نے اس سے کہا دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے تجھ سے بات کیا چاہتے ہیں۔ پر اس نے جواب میں خبر دینے والے سے کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی اور اپنا ہاتھ اپنے شاگردوں کی طرف بڑھا کر کہا کہ دیکھو میری ماں اور میرے بھائی کیونکہ جو کوئی میرے باپ کی جو آسمان پر ہے مرضی چلتاہے میرا بھائی اور بہن اور ماں وہی ہے۔‘‘
اس سے پتہ لگا کہ مسیح نے اپنے بھائیوں اور اپنی ماں کو مومن نہیں قرار دیا۔ کیونکہ انہوں نے یہ کہا کہ ’’ جو کوئی میرے باپ کی جو آسمان پر ہے مرضی پر چلتا ہے میرا بھائی اور بہن اور ماں وہی ہے یعنی یہ خدا کی مرضی پر چلنے والے نہیں۔
پس انجیل کی رو سے حضرت مریم منکرہ اور کافرہ تھیں۔ انہوں نے مسیح کی باتوں کو نہیں مانا۔ مرقس باب 2آیت 31تا 35اور لوقا باب 8آیت 20میں بھی یہی مضمون ہے۔ اور یوحنا تو اس واقعہ پر بالکل خاموش ہے۔
متی میں پھر اور وضاحت سے لکھا ہے کہ لوگوں نے کہا کہ کیا یسوع کی ماں اور بھائی اور سب بہنیں ہمارے ساتھ نہیں۔ یعنی لوگوں نے کہا کہ اگریہ سچا ہے تو اس کی ماں ہمارے ساتھ کیوں ہے۔ اس کے بھائی ہمار ے ساتھ کیوں ہیں۔ اس کی بہن ہمارے ساتھ کیوں ہیں۔ وہ اس پر کیوں ایمان نہیں لائے۔ گویا متی صاف طور پر اقرار کرتا ہے کہ مسیح پر نہ مریم ایمان لائی تھیں نہ مسیح کی بہنیں ایمان لائی تھیں نہ مسیح کے بھائی ایمان لائے تھے۔ اور یہود کہا کرتے تھے کہ یسوع کے سب بھائی اور بہنیں اور اس کی والدہ ہمارے ساتھ ہیں۔ اگر یہ سچا ہے تو چاہئے تھا کہ وہ اس پر ایمان لاتے۔ جس پر مسیح نے کہا کہ
’’نبی اپنے وطن اور گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیں ہے۔‘‘ (انجیل متی باب13آیت 55تا 57)
یعنی میں اپنے وطن میں بے عزت ہوں اور اپنے گھر میں بھی بے عزت ہوں۔ مگر میری یہ بے عزتی اس بات کی دلیل نہیں کہ میں جھوٹا ہوں کیونکہ نبیوں کے گھر والے ہمیشہ ان کے مخالف ہوا کرتے ہیں۔
پھر یہیں تک بس نہیں۔ مرقس باب 3سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے عزیز اور رشتہ دار اسے پاگل سمجھا کرتے تھے۔ چنانچہ لکھا ہے۔
’’جب اس کے عزیزوں نے یہ سنا تو اسے پکڑنے کو نکلے کیونکہ کہتے تھے وہ بے خود ہے۔‘‘
(انجیل مرقس باب 3آیت 21)
گویا بجائے اس کے کہ وہ اس پر ایمان لاتے وہ اسے دیوانہ اور مجنون سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ اسے پکڑ کر رکھیں تاکہ وہ ادھراُدھر نہ پھرے۔
ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ انجیل کے نزدیک مریم اور ان کی دوسری اولاد اور یوسف جو باپ کہلاتا تھا مسیح ؑ پر ایمان نہیں لائے اور مسیح ؑ ان سے تُر شروئی سے پیش آتا تھا حتیٰ کہ بائبل کے رو سے عین صلیب کے وقت بھی مسیح ؑ نے اپنی ماں کی طرف توجہ نہیں کی۔ ماں کے دل میں درد تھا اور وہ صلیب کے وقت وہاں پہنچی۔ مگر بائبل بتاتی ہے کہ اس وقت بھی مسیح ؑنے اپنی ماں سے محبت کے ساتھ بات نہیں کی بلکہ اسے جب کھڑا دیکھا تو تھوماؔ سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ تیری ماںے اور مریم سے کہا اے عورت یہ ہے تیرا بیٹا۔ (انجیل یوحنا باب 9آیت 26و 27) گویا اس وقت بھی انجیل کی رو سے مسیح کے دل میں مریم کی نسبت اتنا بغض تھا کہ بجائے یہ کہنے کے کہ اے ماں یا اے مریم مسیح نے اس وقت بھی یہ کہا کہ اے عورت یہ ہے تیرا بیٹا۔ اس طرح انہوں نے اپنا اخلاقی فرض تو ادا کر دیا اور ماں کو اس کا ٹھکانہ بتا دیا اور تھوما سے بھی کہہ دیا کہ اس کی اپنی ماں کی طرح خدمت کرنا لیکن اس وقت بھی ان کے جذبات انجیل کی رو سے اتنے زخمی تھے کہ بجائے اس کے کہ ایسے خطرناک موقعہ پر جبکہ انہیں صلیب پر لٹکایا جا رہا تھا وہ اپنی محبت کا اظہار کرتے انہوں نے اس وقت بھی ماں کا لفظ نہیں بولا بلکہ اسے اے عورت کہہ کر مخاطب کیا۔
پھر انجیل کے بیان کے مطابق اس کی اپنی ماں سے بے رخی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ایک عورت نے اس کے لیکچر سے متاثر ہو کر کہا کہ
’’مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تُو رہا اور وہ چھاتیاں جو تُونے چوسیں۔‘‘
یعنی کیا ہی وہ اچھی عورت تھیں جس کے پیٹ میں تُو رہا۔ اور کیا ہی وہ اچھی عورت تھی جس کی چھاتیوں سے تو نے دودھ پیا۔ اب کم از کم اس موقعہ پر ہی مسیح اس عورت کی تعریف کو پی جاتے اور کچھ نہ کہتے۔ مگر مسیح سے اتنی بات بھی برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے کہا
’’ہاں مبارک ہیں وہ جو خدا کا کلام سنتے ہیںاور اسے مانتے ہیں ‘‘۔ (انجیل لوقا باب 11 آایت 27و 28)
یعنی وہ ماں کوئی مبارک نہیں جس کے پیٹ میں میں رہا۔ وہ ماں کوئی مبارک نہیں جس کی چھاتیوں سے میں نے دودھ پیا۔ بلکہ مبارک وہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اسے مانتے ہیں جس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ مریم نے خدا کا کلام سنا اور نہ اسے مانا۔ غرض دوسرے کے منہ سے بھی وہ ان کی تعریف نہیں سن سکتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان کے دشمن جانی تھے اور وہ انہیں مومن نہیں سمجھتے تھے۔
لیکن قرآن خود مسیح ؑ کے منہ سے کہلواتا ہے کہ برابوالدتی (مریم ع 2) میں تو اپنی ماں کا بڑا فرمانبردار ہوں۔ میں اس سے بڑی محبت اور پیار کرنے والا ہوں۔ اب خود ہی دیکھ لو کہ ان دونوں میں سے کونسی تاریخ سچی ہو گی۔ ایک طرف بائبل کہتی ہے کہ فرشتہ نے مریم سے کہا کہ
’’خدا کی طرف سے تجھ پرفضل ہوا ہے اور دیکھ تو حاملہ ہو گی اور تیرے بیٹاہو گا۔ اس کا نام یسوع رکھنا وہ بزرگ ہو گا خداتعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا۔‘‘ (انجیل لوقا باب 1آیت 30، 31)
مگر باوجود اس کے فرشتہ اسے ایک ایسی خبر دے گیا تھا جوظاہری حالات کے لحاظ سے قطعی طور پر ناممکن نظر آتی تھی۔ اور پھر خدا نے اس ناممکن کو ممکن بنا کر دکھا دیا ۔ پھر بھی یہ عظیم الشان نشان دیکھنے کے باوجود وہ بائبل کے مطابق مسیح کو پاگل سمجھتی رہی اور اس پر ایمان نہ لائی۔ یوں اگرکسی کو بچہ کے متعلق خواب آ جائے اور پھر اس کے ہاں بچہ پیدا بھی ہوجائے تو بے شک یہ ایک نشان تو ہو گا مگر اتنا بڑا نہیں ہو گا جتنا یہ معجزہ تھا۔ اگر کسی عورت کو ایسی خواب آ جائے اور پھر اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے اور وہ نیک بھی بن جائے تب بھی ممکن ہے کہ ماں کسی وقت ناراض ہو کر اسے کہہ دے کہ تو نے میرا کوئی حق ادا نہیں کیا۔ لیکن یہاں کوئی معمولی نشان نہیں دکھایا جاتا۔ یہاں ایک کنواری حاملہ ہوتی ہے۔ فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور اسے خبر دیتا ہے کہ تیرے ہاں بچہ ہو گا اور وہ اپنے اندر یہ یہ صفات رکھے گا۔ اور پھر واقعہ میں اسے حمل ہوجاتا ہے اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ دنیا میںغیر معمولی عزت اور شہرت حاصل کرتا ہے۔ کیا دنیا کی کوئی بھی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ اتنے عظیم الشان واقعہ کے بعد بھی وہ عورت اپنے بچہ کو پاگل کہے گی یا اس کے دعویٰ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے گی جس نے خداتعالیٰ کی قدرت کا اتنا عظیم الشان نشان دیکھا ہو ۔ اس کے لئے تو انکار کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی پس انجیل کا یہ بیان کہ وہ اپنی ماں کا نافرمان تھا عقلی لحاظ سے بھی بالکل ناقابل تسلیم ہے۔ مگر قرآن خود مسیح کی زبان سے یہ کہلواتا ہے کہ برابوالدتی میں تو اپنی والدہ سے نہایت ہی حسن سلوک کرنے والا ہوں۔
پھربائبل کہتی ہے کہ مریم کافرہ تھی مگر قرآن کہتاہے کہ فتقبلھا ربھا بقبول حسن و ابتھا نباتا حسنا (آل عمران ع4) یعنی خدا نے مریم کی والدہ کی دعا کو قبول فرمایا اور وہ نیکیوں پر پختہ ہو گئی اور خداتعالیٰ نے اسے غیر معمولی ترقی اور عظمت بخشی۔ پس قرآن اسے مومن اور اعلیٰ درجہ کی نیکیوں کی حامل قرار دیتا ہے لیکن انجیل جو اسے خدا کی ماں قرار دیتی ہے وہ اسے کافرہ اور بے ایمان ٹھہراتی ہے۔
پھر فرماتا ہے ان اللہ اصطفٰک وطھرک واصطفک علی نساء العلمین (آل عمران ع ۵) یعنی اے مریم اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بزرگ بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے پاک کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تجھے اس زمانہ کی ساری عورتوں پر فضیلت بخشی ہے۔ غرض قرآن وہ بات کہتا ہے جو فطرت کہتی ہے اور انجیل وہ بات کہتی ہے جس کا فطرت انکار کرتی ہے۔ اتنے بڑے نشان کے بعد یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ مریم انکار کرے۔ پس صحیح بات وہی ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ دشمن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعات کا صحیح علم نہیں تھا انہوں نے غلط باتیں اس میں درج کر دیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں اے احمقو! تم صحیح لکھنے والوں کو اس قرآن کے سامنے لائو۔وہ جس کے متعلق تم کہتے ہو کہ اسے پتہ نہیں تا وہ تو سچی باتیں بتاتاہے اور جن کے متعلق تم کہتے ہو کہ انہیں سب کچھ پتہ تھا وہ جھوٹی باتیں بتاتے ہیں۔ کیا یہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا عظیم الشان ثبوت نہیں؟
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اصطفک علی نساء االعلمین کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انجیل میں کئی مریموں کا نام آتا ہے جن کی نیکی اور تقدس کی بری تعریف کی گئی ہے لیکن وہ مریم جو ماں تھی مسیح کی اسی کو عیسائیوں نے مسیح کا دشمن اور مخالف ظاہر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مریم مگدلینی اور دوسری عورتوں کو ام عیسیٰ پر فضیلت دیتے ہو۔ حالانکہ تم جن مریموں کو لئے بیٹھے ہو وہ اس مریم کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی تھیں۔ سب سے بہتر اور سب سے مقدس وہی مریم تھی جو عیسیٰ کی ماں تھی۔
پھر فرماتا ہے یامریم اقنتی لربک واجدی وارکعی مع الراکعین (آل عمران ۵ )
راکع اس شخص کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان خالص عطا کر دیاجائے۔ پس یامریم اقنتی لربک واجدی وارکعی مع الراکعین کے یہ معنے ہیں کہ اے مریم اپنے رب کی فرمانبردارہو۔ اس کی عبادت بجا لائو اور باقی مومنوں کے ساتھ مل کر اس کی جماعت میں شامل رہو۔ گویا قرآن صاف طور پر اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ مریم اول درجہ کے ایمانداروں میں سے تھیں۔ مگر انجیل کہتی ہے کہ وہ بد عورتیں جو مسیح کے سر پر تیل ملا کرتی تھیں وہ توبا ایمان تھیں اور جس نے اتنا بڑا معجزہ دیکھاوہ بے ایمان تھی۔
اب بظاہر یہ سب عام باتیں ہیں کوئی مخفی اور غیب کی باتیں نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کرنے کے بعد کہ مریم خداتعالیٰ کی فرمانبردار اور نماز گزار اور مومنوں کی جماعت میں شامل تھی فرماتا ہے ذٰلک من انباء الغیب نوحیہ الیک (آل عمران ۵) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تیری طرف وحی کے ذریعہ نازل کر رہے ہیں۔ یعنی یہ باتیں تمہیں بظاہر معمولی نظر آتی ہیں لیکن انجیل ان باتوںکو کھا گئی ہے اور اس لئے اب یہ غیب کی خبریں بن گئی ہیں۔ انجیل میں لکھا ہے کہ مریم کافرہ تھی۔ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ مسیح کو پاگل سمجھتی تھی مگر ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ وہ ایماندار تھی ،وہ فرمانبردار تھی اور وہ مسیح پر سچے دل سے ایمان لانے والوں میں شامل تھی۔ وہیریؔ کہتا ہے کہ قرآن کو پتہ نہیں کہ صحیح واقعات کیا ہیں اور قرآن کہتا ہے کہ ہم تمہیں وہ تاریخ بتا رہے ہیں جو بائبل میں بھی درج نہیں۔ یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے قرآن کی صداقت کا کہ بائبل جو عیسائیوں کی کتاب ہے اور جس میں مسیح اور اس کی والدہ کے متعلق سچی باتیںہونی چاہئیں تھیں وہ تو غلط باتیں لکھتی ہے اور قرآ ن کے متعلق سچی تاریخ پیش کرتا ہے۔ فرماتا ہے ذٰلک من انباء الغیب نوحیہ الیک ۔ یہ باتیں انجیل میں نہیںلکھیں۔ یہ عیسائیوںنے چھپا دی تھیں اب ہم تم کو بتا رہے ہیں کیونکہ ان کے بغیر مسیح کی کہانی پوری نہیں ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ انجیل کا بیان بتاتا ہے کہ اپنے قرب کو ظاہر کرنے کے لئے حواریوں نے خدا کی ماں پر الزام لگانے سے دریغ نہیں کیا۔ محض یہ ظاہرکرنے کے لئے ہم متی ؔاور مرقسؔ ور لوقاؔ اور یوحناؔ اور تھوماؔ بڑے مقرب تھے مسیح کی والدہ پر انہوں نے انتہائی ظلم کیا کہ اسے کافرہ اور بے ایمان قرار دے دیا۔ لیکن قرآن نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیا اور بتا دیا کہ مریم مومنہ تھی، مریم راستبا زتھی اور انجیل میں جو باتیں ان کے خلاف لکھی ہیں وہ سراسر جھوٹی اور مفتریانہ ہیں۔
وہیری نے الزام لگایا تھا کہ قرآن جھوٹا ہے لیکن قرآن نے تیرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ ہم اس میں وہ باتیں بیان کر رہے ہیں جو انجیل میںبھی نہیں یا یہ کہ انجیل نے ان کے متعلق جھوٹ بولا ہے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قرآن سچا ہے اور انجیل جھوٹی۔
اذانتبذت من اھلھا مکانا شرقیا حضرت مریم کا وطن جیسا کہ بائبل سے ثابت ہوتا ہے ناصرہ تھا ان کا بھی اور ان کے خاوند یوسف کا بھی لیکن چونکہ عبادت گاہ یروشلم تھی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے (بائبل سے نہیں) کہ بچپن میں ان کو دینی تعلیم و تربیت کے لئے یروشلم میں حضرت زکریا ؑ کے پاس چھوڑ گیا تھا مگر جیسا کہ قرآن کریم سے ہی پتہ چلتا ہے حضرت مریم کی والدہ کا یہ منشاء نہیں تھاکہ وہ کاہن یا نن بنیں۔ اس لئے انہوں نے ہمیشہ وہاں نہیں رہنا تھا۔ چنانچہ حضرت مریم کے متعلق انہوں نے دعا کی تھی کہ الٰہی اس کی اولاد بھی پیدا ہو جو نیکی اور تقویٰ پر قائم رہنے والی ہو۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی شادی کرنا چاہتی تھیں پس جب وہ جوان ہوئیں اور بالغ ہو گئیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی والدہ انہیں ناصرہ اپنے وطن لے گئیں۔ پس اذانتبذت من اھلھا مکانا شرقیا سے یروشلم اور اس میں رہنے والے مراد نہیں۔بلکہ اس سے ان کے وہی اہل مراد لئے جائیں گے جو کہ ناصرہ میں تھے۔ ان سے وہ ایک طرف ہو کر مکان شرقی میں چلی گئیں۔
یہ شرقی مکان کیا تھا؟ مفسرین کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ کسی مشرقی شہر کی طرف گئی تھیں۔ انجیل کہتی ہے کہ وہ ناصرہ میں تھیں جو ان کا اور ان کے خاوند کا وطن تھا (انجیل لوقا باب ۱آیت ۲۶ تا ۳۱) اور ناصرہ یوروشلم کے شمال کی طرف ہے نہ کہ مشرق کی طرف۔ پس یہ معنے نہیں لئے جا سکتے کہ حضرت مریم اس وقت یروشلم سے ناصرہ کو چلی گئیں بلکہ اس جگہ ناصرہ کی رہائش کے زمانہ کا کوئی واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال جہاں تک بائبل کی تاریخ کا سوال ہے حضرت مریم مشرق کے مکان کی طرف نہیں گئیں بلکہ اپنے وطن میں رہیں اور یوروشلم کے لحاظ سے وہ شمال میں تھیں۔
بائبل کی تاریخ کوئی معتبر تاریخ تو ہے نہیں مگر بہرحال اس کی اپنے زمانہ کے متعلق باتیں بلاعقلی یا نفعلی دلیلوں کے رد نہیں کی جا سکتیں کیونکہ وہ اس زمانہ کے قریب کی باتیں ہیں اور چونکہ شرقی کے معنے عربی زبان میں ایسے مکان کے بھی ہوتے ہیں جس کا منہ مشرق کی طرف ہو اور مشرق کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے مکانا شرقیا کے معنے ہوئے۔ مشرق کی جانب یا ایسے مکان جس کا منہ مشرق کی طرف تھا۔ ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم قرآن کریم کی بنا ء پر بائبل کے بیان کو رد بھی نہیں کر سکتے اور آسانی سے یہ معنے کر سکتے ہیں کہ وہ ایک ایسے مکان میں گئیں جس کا منہ مشرق کی طرف تھا۔
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ قرآن کریم میں تو اہم باتیں بیان کی جاتی ہیں آخر یہ کوئی قصہ کہانی کی کتاب تو ہے نہیں کہ غیرضروری تفصیلات بھی بیان کی جائیں اور بتایا جائے کہ فلاں نے اس رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کی پگڑی اس رنگ کی تھی۔اس میںتو وہی باتیں بیان ہوتی ہیں جو اپنے اندر اہمیت رکھتی ہیں۔ پس سوال پیدا ہوتاہے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا کہ وہ ایک مکان شرقی کی طرف گئیں۔ مکان شرقی کی کوئی خصوصیت ہونی چاہئے جس کا مریم کے واقعہ سے تعلق ہو۔ ور نہ یہ ایک بے معنی بات بن جائے گی۔
سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہود کے نزدیک مشرق کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سب سے اول تو رات میں لکھا ہے کہ
’’خدا وند خدا نے عدن میں پورب کی جانب سے ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا۔‘‘ (پیدائش باب ۲آیت ۸)
پورب کے معنے مشرق کے ہوتے ہیں یعنی خدا نے عدن میں مشرقی جانب جنت بنائی اور اس میں آدم کو رکھا گیا۔ پس بائبل کے نزدیک جنت اور انسانی ابتداء کا تعلق مشرق سے ہے۔
بابلی لوگ جہاں یہودی قید ہو کر گئے تھے اور جن کے خیالات اور روایات سے وہ بہت ہی متاثر تھے وہ بھی مشرق کو بہت متبرک خیال کرتے تھے ۔ وہ مشرق کو روشنی کا دروازہ سمجھتے تھے اور طوفان نوح سے بچانے والا جو ہیرو تھا (اسے تم لیڈر کہہ لو یا پیغمبر کہو) ان کا عقیدہ تھا کہ وہ مشرق کاباشندہ تھا لیکن مغرب کی نسبت ان کا خیال تھا کہ وہ مردوں کی دنیا ہے۔ غرض بابلی لوگ مشرق کو روشنی کا دروازہ اور مغرب کو مردوں کی دنیا خیال کرتے تھے اور طوفان نوح سے بچانے والے بطل کو وہ مشرق کا باشندہ سمجھتے تھے۔
حزقیل نبی بھی چونکہ اسی علاقہ میں رہے اس لئے وہ بھی اپنی کتاب میںلکھتے ہیںکہ
’’روح مجھ کو اٹھاکے خدا وند کے گھر کے پوربی دروازہ پر جس کا رخ پورب کی طرف ہے لے گئی۔‘‘ (حزقیل باب۱۱آیت ۱)
یعنی جوہیکل بنی ہوئی تھی اس کا دروازہ پورب کی طرف تھا ۔ معلوم ہوتا ہے اس خیال سے کہ مشرق کی طرف روشنی آتی ہے وہ ہیکلوں میں بھی اس امر کو مدنظر رکھتے تھے کہ ان کے دروازے مشرق کی طرف ہوں اور وہ اس کو برکت والا خیال کرتے تھے۔
متی باب ۲آیت ۲ میں لکھا ہے کہ مجوسی آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے پورب میں اس کا ستارہ دیکھا اور اسے سجدہ کرنے کو آئے ہیں یعنی مسیح کی پیدائش پر انہوں نے مشرق میں ستارہ دیکھا اور انہوں نے سمجھا کہ وہ جس کے آنے کی صحیفوں میں خبر تھی پیدا ہو گیا ہے۔ گنتی باب ۲۴ آیت ۱۷ میں ہے۔
’’یعقوب میں سے ایک ستارہ نکلے گا۔‘‘
اس میں ایک نبی کی خبر دی گئی تھی اور روایات اسے مشرق کی طرف بتاتی تھیں۔ پس چونکہ پہلی کتابوں میں ایک ستارہ کے نکلنے کی خبر تھی اور یہودی روایات میں یہ بات پائی جاتی تھی کہ وہ ستارہ مشرق سے نکلے گا۔ اس لئے پورب سے جو لوگ آئے انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک ستارہ مشرق میں دیکھاہے جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ نبی جس کے آنے کی پیشگوئی کی گئی تھی پیدا ہو گیا ہے۔
مکاشفات باب ۷ آیت ۲میں لکھا ہے : -
’’پھر میں نے ایک فرشتے کو پورب سے اٹھتے دیکھا جس کے پاس زندہ خدا کی مہر تھی۔‘‘
مکاشفات بے شک مسیح کے بعد کی کتاب ہے لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہود اور نصاریٰ میں مشرق کا خاص احترام تھا اور وہ عبادت گاہوں کے دروازے مشرق کی طرف بناتے تھے بلکہ بعض مشرق کی طرف منہ کرکے عبادت بھی کرتے تھے۔ اس وجہ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ مریم ایک عبادت گاہ میں جسکا منہ مشرق کی طرف تھا تاکہ جنت اولیٰ اور بشارت عظیمہ سامنے رہیںعبادت کے لئے گئیں۔
یادرکھنا چاہئے کہ عیسائیوں کے عبادت گاہ اور مسلمانوں کی عبادت گاہ میں فرق ہوتا ہے۔ عیسائیوں کی عبادت گاہ میں جدھرامام کا منہ ہوتا ہے اسی طرف مقتدیوں کا منہ نہیں ہوتا بلکہ ان دونوں کے منہ آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو امام بھی قبلہ رو کھڑا ہوتا ہے اور مقتدیوں کا منہ بھی قبلہ رخ ہوتا ہے۔ مگر ان میں عبادت گاہ کا دروازہ مشرق کی طرف ہو گا۔ امام اور مقتدی سب اس دروازہ سے داخل ہوں گے مگر اندر داخل ہوکر امام اپنا منہ مشرق کی طرف کر لے گا اور مقتدی اپنا منہ مغرب کی طرف کر لیں گے یا یوں کہو کہ مقتدیوں کا منہ امام کی طرف ہو گا اور امام کا منہ مقتدیوں کی طرف ہو گا۔
غرض عیسائی اپنی عبادت گاہوں کا دروازہ مشر ق کی طرف بناتے ہیں بلکہ بعض فرقوں کے متعلق یہ ثابت ہے کہ وہ عبادت بھی مشرق کی طرف ہی منہ کرتے ہیں۔ میں یہ تحقیق نہیں کر سکا کہ آیا سارے ایسا کرتے ہیں یا صرف بعض فرقے ایسا کرتے ہیں۔ بہرحال بعض فرقوں کے متعلق میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ مشرق کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے ہیں۔ پس مکانا شرقیا کے معنے یہ ہوئے کہ وہ مکان جس کا منہ مشرق کی طرف تھا۔ معلوم ہوتا ہے جب حضرت مریم جوان ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں دعا کا جوش پیدا کیا اور وہ گھر سے نکلیں اور ایک عبادت گاہ میں گئیںوہ عبادت گاہ ایسی تھی جس کا منہ مشرق کی طرف تھا اس یادگار میں کہ جنت اور انسانی ابتداء کا تعلق مشرق سے ہے۔


ترجمہ :
اور( اپنے اور ) ان (یعنی رشتہ داروں) کے درمیان پردہ ڈال دیا (یعنی ان سے تعلق قطع کرکے اپنے آپ کو چھپا دیا) اس وقت ہم نے اس کی طرف اپنا کلام لانے والا فرشتہ(یعنی جبرئیل) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک تندرست بشر کی شکل میں ظاہر ہوا۔
حل لغات : -
روح کے معنے اس چیز کے ہیں جس سے حیات نفس قائم ہے اور روح کے معنے نبوت کے بھی ہیں اور روح کے معنے جبریل کے بھی ہیں اور روح کے معنے وحی کے بھی ہیں ۔ نبوت کو روح اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی انسان کو ایک نئی روحانی زندگی بخشتی ہے اور جبریل کو بھی اسی لئے روح کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسا کلام لاتا ہے جو زندگی بخش ہوتا ہے۔ اسی طرح وحی کو بھی اسی لئے روح کہتے ہیں کہ وہ ایمان کو تازہ کرتی ہے غرض یہ ساری چیزیں روح کہلاتی ہیں۔
تفسیر : -
فاتخذت من دونھم حجابا کا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے دعا میں خلوت کے حصول کے لئے پردہ کھینچ لیا۔ موجودہ زمانہ میں مکانوں کے اندر دروازے بنائے جاتے ہیںجو آسانی کے ساتھ بندکر لئے جاتے ہیں لیکن اس زمانہ میں دروازوں کا رواج نہیں تھا صرف پردے کھینچ لئے جاتے تھے بلکہ بنو عباس کے زمانہ تک شاہی محلات کے اندر دروازے نہیں ہوتے تھے۔ شاہان مغلیہ کی عمارتوں سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تخلیہ کے لئے پردہ ڈال لیا کرتے تھے۔ پس فاتخذت من دونھم حجابا کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی ایسی بات کرنے کے لئے علیحدہ ہوئیں جس میں حجاب کی ضرورت تھی۔ بلکہ چونکہ وہ دعا اور عبادت کے لئے علیحدہ ہوئی تھی اور اس کے لئے تخلیہ کی ضرورت تھی انہوں نے پردہ کھینچ لیا تاکہ لوگ ان کونہ دیکھیںاور وہ علیحدگی میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر سکیں۔ حضرت زکریاعلیہ اسلام بھی عبادت گاہ میں تھے جب انہیں الہام ہوا۔ اسی طرح حضرت مریم بھی عبادت گاہ میں ہی تھیں جب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ تخلیہ میں گئیں اور دعا میں مشغول ہو گئیں تو ارسلنا الیھا روحنا ہم نے اپنا فرشتہ ان کی طرف بھیجا۔ فتمثل لھا بشرا سویا اور وہ ان کے لئے ایک مثالی جسم بن گیاجیسے خواب میں اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے بکرا ذبح کیا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کا کوئی بیٹا یا بیٹی یا کوئی اور قریبی رشتہ دار فوت ہو جائے گا۔ یا خواب میں چوہا دیکھے تو اس سے مراد کوئی منافق ہو گا یا خواب میں دیکھے کہ میرے گھر میں چور آیا ہے تو اس سے مراد داماد ہو گا۔ اب تعبیر بظاہر بالکل بے جوڑ نظر آتی ہے۔ لیکن ہرشخص جانتا ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تصویری زبان میں یہ واقعات اس کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہاں بھی اسی مثالی وجود کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ فتمثل لھا اس نے ان کے لئے ایک تمثیلی شکل اختیار کر لی۔ بشرا سویا ایک ایسے انسان کی صورت جو تندرست تھا۔ گویا اس وقت حضرت مریم پرجو کلام نازل ہوا ان الفاظ میں اس کی کیفیت بتائی گئی ہے کہ وہ کس رنگ میں نازل ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ آپ پر وحی کس طرح نازل ہوتی ہے تو آپ نے فرمایاکبھی تو وہ گھنٹی کی آواز کی طرح نازل ہوتی ہے یعنی یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک گھنٹی بجی ہے اور اس کے بعد کلام الٰہی نازل ہونے لگتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کا کوئی فرشتہ آتا ہے اور وہ مجھ سے بات کرتا ہے اور کبھی وہ دوسری شکل اختیار کر لیتا ہے۔
یہاں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ وہ وحی ایسی نہیں تھی جو مریم کے کا ن پر پڑی یا اس کی زبان پر جاری ہوئی۔ بلکہ وہ ایک خواب یا کشف کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ انہوں نے کشف میں دیکھا کہ ایک فرشتہ سامنے آیا ہے جو ایک تندرست انسان کی شکل میں ہے اور اس فرشتہ نے انہیں خداتعالیٰ کا پیغام پہنچایا ہے۔ درحقیقت اگر ہم گہرا غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہی ہے جو نزول کے وقت مختلف شکلیں اختیار لیتا ہے اور کبھی وہ کسی شکل میں نازل ہو جاتا ہے اور کبھی کسی شکل میں۔ حضرت مریم پر جب کلام الٰہی نازل ہوا تو اس کلام نے اس وقت ایک انسان کی شکل اختیار کر لی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جبریل تھا جو ان کے سامنے ظاہر ہوا۔ حالانکہ اگر اسے جبریل کہو تب بھی حقیقت تو وہی ہے جو میں نے بتائی ہے کہ خداتعالیٰ کا کلام ہی مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص خواب میں بینگن دیکھتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوںگے کہ کلام نے بینگن کی شکل اختیار کر لی یا اگرکوئی شخص فرشتہ دیکھتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کلام الٰہی نے اس وقت فرشتہ کی شکل اختیار کر لی۔ بہرحال خداتعالیٰ کا کلام نزول کے وقت مختلف رنگ اختیار کر لیتا ہے۔
میں ابھی چھوٹا بچہ تھا کہ میں نے رویاء میں دیکھا کہ جس طرح کٹورہ بجائیں تو اس میں سے ٹن کی آواز نکلتی ہے۔ اسی طرح کسی نے کٹورہ بجایا ہے اور اس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوئی ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ آواز پھیلنی شروع ہوئی اور پھیلتی چلی گئی۔ جس طرح دریا میں پتھر پھینکا جائے تو اس کے بعد پانی میں ایک دائرہ سا بن جاتا ہے جو پھیلتا چلا جاتا ہے اسی طرح وہ آواز جو ّ میں پھیلنی شروع ہوئی اور آخر پھیلتے پھیلتے جو ّکے عین وسط میں ایک خالی فریم پیدا ہو گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس فریم میں ایک تصویر بننی شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ اس تصویر نے انسان کی شکل اختیا رکر لی۔ پھر یکدم اس میں حرکت پیدا ہوئی اور تصویر میں سے ایک آدمی کود کر نکلا اور میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا میں خدا کا فرشتہ ہوں۔مجھے خدا نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہیں سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھائوں میں نے کہا سکھائو۔ چنانچہ اس نے مجھے سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کر دی۔ جب وہ ایاک نعبد و ایاک نستعینتک پہنچا تو کہنے لگا کہ اب تک جتنی تفسیریں لکھی گئی ہیں اسی آیت تک لکھی گئی ہیں اگر تم کہو تو تمہیں اس سے آگے بھی سکھا دوں۔ میں نے کہا ہاں آگے بھی سکھائوں چنانچہ اس نے مجھے ساری سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھا دی۔
اب دیکھو اس رویاء میں آواز پیدا ہوئی آواز فریم بن گئی۔ فریم میں تصویر ظاہر ہوئی اور تصویر آدمی کی شکل میں کود کر میرے سامنے آ گئی اور اس نے مجھ سے بات کی۔ پس یہ ساری چیزیں اسی رنگ میں ہوتی ہیں کہ کلام الٰہی مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔ پس اس میں خاص بات کوئی نہیں جن لوگوں کو اس کوچہ کا علم نہیں وہ حیران ہوتے ہیں کہ نہ معلوم یہ کیا بات ہے مگر اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ اس کے قسم کے واقعات کثرت سے ہوتے رہتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ حضرت مریم سے پیش آیا اور کلام الٰہی ایک آدمی کی شکل بن کر ان کے سامنے آ گیا۔ اس سے حمل کی حقیقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے صرف کن فیکونکا ایک نشان تھا نہ کہ کسی فرشتے یا روح کا ان کے اندر داخل ہو جانا۔
اس جگہ روحنا کا جو لفظ آتا ہے اس سے مسیحی یہ نتیجہ نکالتے ہیںکہ خدا مریم کے اندر داخل ہو گیا تھا اور وہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن نے ان کے عقیدہ ابنیت کی تصدیق کر دی ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ وہ ایک فرشتہ تھا جو ان کے سامنے متمثل ہوا مگر چونکہ ا س جگہ روحنا کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنے ہیں ’’ہماری روح‘‘ اس لئے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب خدا کہہ رہا ہے کہ ہماری روح نے ایک تمثل اختیار کیا تو اس کے صاف طور پر یہ معنے ہیں کہ خدا مریم کے اندر داخل ہو گیا تھا اور ان کا یہ عقیدہ کہ مسیح خدا یا خدا کا بیٹا تھا درست ہے۔
اس کاجواب یہ ہے کہ لوقا باب ۱ آیت ۳۵ میں ہے کہ فرشتہ نے حضرت مریم سے کہا کہ
’’روح القدس تجھ پر نازل ہو گا‘‘
جب فرشتہ نے مریم سے یہ کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہو گا اور قرآن کہتا ہے کہ خدا مریم کے اندر داخل ہو گیا تو یہ انجیل کی تصدیق نہ ہوئی بلکہ تردید ہوئی کیونکہ انجیل تو یہ مانتی ہی نہیں کہ خدا اس کے اندر داخل ہوا تھا۔ وہ صرف اتنا کہتی ہے کہ روح القدس اس پر نازل ہوا تھا۔
پھر متی باب ۱ آیت ۱۸ میں ہے
’’وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی ۔‘‘
یہاں معاملہ اور بھی مشتبہ ہو گیاکیونکہ متی کے الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف القدس اس پر نازل ہی نہیں ہوا بلکہ روح القدس اس کے اندر داخل ہو گیا۔
اسی طرح متی باب ۱ آیت ۲۰ میں ہے
’’جو اس کے رحم میں ہے سو روح القدس سے ہے۔‘‘
اس میں روح القدس سے حاملہ ہونے کی تشریح کر دی کہ جو اس کے رحم میں ہے سو روح القدس سے ہے یعنی اس کے نطفہ سے ہے۔ یہاں اور بھی مشکل پیش آگئی کیونکہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا مریم کے اندر داخل ہوا تھا یا روح القدس مریم کے پیٹ میں داخل ہوا تھا۔ کیونکہ متی یہ بتاتا ہے کہ روح القدس مریم سے ملا اور اس کے نطفہ سے آگے مسیح پیدا ہوا پس عیسائیوں کا یہ خیال کہ قرآن نے انجیل کی تصدیق کر دی ہے بالکل غلط ہے ۔ اول تو قرآن کہتا ہے کہ روح نے متمثل ہو کر اسے خبر دی یہ نہیں کہتا کہ روح اس کے اندر چلی گئی اور انجیل خدا کی جگہ روح القدس کا حمل بتاتی ہے۔ گویا دونوں باتیں مسیحی عقیدہ کے خلاف ہیں۔ مسیحی عقیدہ جو مشہور ہے وہ یہ ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے اور قرآن یہ نہیں کہتا اور انجیل کا مطلب یا تو یہ ہے کہ وہ روح القدس کا فرزند تھا یا یہ کہ خدا روح القدس تھا اور یہ دونوں باتیں مسیحی عقیدہ کے خلاف ہیں۔ قرآن صرف اتنابتاتا ہے کہ ایک فرشتہ ان کے سامنے متمثل ہوا اور اس نے انہیں خداتعالیٰ کی طرف سے ایک بیٹے کی خبر دی۔ پس روحنا سے عیسائیوںکا یہ نتیجہ نکالنا کہ قرآن انجیل کا مصدق ہے بالکل غلط ہے۔

ترجمہ
(مریم نے اس سے )کہا میں تجھ سے رحمن (خدا) کی پناہ مانگتی ہوںاگر تیرے اندر کچھ بھی تقویٰ ہے ۔
تفسیر:
یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کی طرف رحمن کا لفظ منسوب کیا ہے اور یقینا خداتعالیٰ کی بات ہی درست ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ عیسائیت خدا تعالیٰ کی رحمانیت ہی کی منکر ہے اور عیسائیت کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ خدا رحمن نہیں۔ اگر وہ رحمن ہے تو پھر وہ گناہ بھی بخش سکتا ہے لیکن عیسائیت کہتی ہے کہ وہ کسی کو بخش نہیں سکتاکیونکہ یہ اس کے عدل کے خلاف ہے گویا جو کام اس دنیا میں ہرانسان کرتا ہے اور جس کام کے کرنے پر انسان کی تعریف کی جاتی ہے نہ کہ مذمت وہ خدا نہیں کر سکتا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا رحم تقاضا کرتا تھا کہ وہ اپنے بندوں کو بخشے۔ پس اس نے اپنے بیٹے کو دنیامیں بھیجا اور وہ لوگوں کے گناہوں کے بدلہ میں پھانسی پر لٹک گیا۔ اب چونکہ تمام گناہ خود اس نے اٹھا لئے ہیں اور وہ لوگوں کے گناہوں کے بدلہ میں کفار ہ ہو گیا اس لئے لوگوں کو کسی اور عمل کی ضرورت نہیں وہ مسیح ؑ پر ایمان لانے کے نتیجہ میں ہی نجات پا جائیں گے۔ غرض عیسائیت کی ساری بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ خدا رحمن نہیں۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ حضرت مریم نے جب یہ نظارہ دیکھا تو انہوں نے کہا۔ انی اعوذ الرحمن منک ان کنت تقیا۔ اگر تو تقی ہے تو میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں ۔ رحمن کے معنے ہیں وہ ہستی ہے جو بغیر کسی عمل کے انسان کو اپنی نعمتوں سے متمتع فرماتی ہے۔
یہ ایک رویاء کا نظارہ تھا جو حضرت مریم نے دیکھا اور رویاء میں جب انسان کوئی خطرہ کی بات دیکھتاہے۔ تو جس طرح مادی دنیا میں وہ گھبراتا ہے اسی طرح خواب میں بھی گھبراتا ہے۔ مثلاً اگر تم رویا ء میں دیکھو کہ تم اوپر سے گرنے لگے ہو توڈرو گے۔ اگر تم دیکھوکہ تم ڈوبنے لگے ہو تو تم گھبرائو گے۔ اسی طرح خواب میں اگر کوئی دیکھے کہ وہ مرنے لگا ہے تو وہ خوش نہیں ہو گا بلکہ غمزدہ ہوگا۔ پس بے شک یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو انہوں نے دیکھا۔ لیکن ظاہر میں جو بات ناپسندیدہ ہو وہ اگر کشف میں پیش آئے تو انسان ناپسندیدگی کا ہی اظہار کرے گا۔ اسی وجہ سے حضرت مریم نے جب فرشتہ کو انسانی صورت میں اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو وہ گھبرا گئیں اور انہوں نے کہا کہ انی اعوذ الرحمن منک ان کنت تقیا۔ ان الفاظ میں ان کے قلب کی کیفیت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ حضرت مریم اس نظارہ کو دیکھ کر اس قدر گھبرائیں کہ انہوں نے اس سے کہا کہ اگر تجھ میں تقویٰ پایا جاتا ہے تو میں خدائے رحمن سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے تیرے شر سے بچا لے۔ رحمن کے معنے ہیں وہ ہستی جو بے محنت اور کوشش کے اپنے فضل نازل کرتی ہے۔ گویا وہ اس قدر گھبرا گئیں کہ انہوں نے کہا خدایا تو میرے عمل کو نہ دیکھ کہ میں نے تیری رضا کے لئے کچھ کیا ہے یا نہیں میں تجھے رحمانیت کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ تو مجھے اس کے شر سے محفوظ رکھ۔ اگر اس میں رحیمیت کا واسطہ ہوتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ خدایا کچھ عمل میں نے بھی کئے ہوئے ہیں ان کی جزاء کے طورپر میں تجھ سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھ پررحم فرما لیکن وہ رحیمیت کا واسطہ نہیں دیتیں۔ وہ اپنے انتہائی درد اور کرب کی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئی رحمانیت کا واسطہ دیتی ہیں اور کہتی ہیں خدایا میرا کوئی عمل نہیں مجھ بے عمل پر ہی رحم کر دے اوریہ کرب و بلا کا وقت مجھ سے دور فرما دے۔
ان الفاظ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب انسان انتہائی مشکلات میں مبتلا ہو اور کرب و بلا نے اسے گھیرا ہوا ہو تو اس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے اسی طرح دعا کیا کرے کہ خدایا میرا کوئی عمل نہیں۔ لیکن میں بے عمل ہوتے ہوئے بھی تیری رحمانیت کا تجھے واسطہ دیتا ہوں اور تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو مجھ پر اپنا فضل نازل فرما۔
ان کنت تقیا انہوں نے اس لئے کہا کہ خدا کا واسطہ دینا بھی اسی شخص پر کچھ ڈال سکتا ہے جس میں خدا کا ڈر اور خوف پایا جائے ورنہ قاتل جب قتل کرتے ہیں تو لوگ انہیں بار بار خدا کا واسطہ دیتے ہیں مگر ان کے دلوں میں ذرا بھی رحم پیدا نہیں ہوتا۔ آج کل ہماری مخالفت میں بھی لوگوں کا یہی حال ہے۔انہیں خدا کا لاکھ دفعہ خوف دلایا جائے ان کو خدا کا خوف آتا ہی نہیں۔ حضرت مریم بھی جانتی تھیں کہ اگریہ نیک نہیں تو اس کے سامنے خدا کا نام لینا بیکار ہے بلکہ ادب کے بھی خلاف ہے پس انہوں نے کہا کہ میں خدا کا واسطہ تو تجھے دیتی ہوں مگر ایسی شرط کے ساتھ کہ تو نیک ہو۔ اگر تو نیک نہیں تو پھر میں خدا سے کہوں گی کہ وہ آپ میری حفاظت کرے۔

ترجمہ :-
(اس پر اس فرشتہ نے )کہامیں تو صرف تیرے رب کا بھیجا ہوا پیغامبر ہوں۔ تاکہ میں تجھے (وحی کے مطابق ایک پاک لڑکا دوں(جو جوانی کی عمر تک پہنچا گا)
حل لغات: -
غلام کے متعلق پہلے بتایا جا چکا ہے کہ بچہؔ ، جوانؔاور ادھیڑؔ عمر والا تینوں کے لئے غلام کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور زکیا کا لفظ زکوٰۃ سے ہے اور اس سے کے معنے ایسے شخص کے ہیں جس میں اندرونی پاکیزگی پائی جاتی ہو۔
تفسیر: -
جب حضرت مریم نے کہا کہ اگر تم میں کچھ تقویٰ ہو اور تم خداتعالیٰ سے ڈرتے ہو تو رحمن کے نام سے پناہ مانگتی ہوں۔ توفرشتہ نے کہا گھبرائو نہیںمیں تمہارے رب کی طرف سے ایک پیغامبر کے طو رپر آیا ہوں لاھب لک غلٰما زکیا تاکہ میں تم کو ایک زکی غلام دوں۔
رسولکا لفظ بتاتا ہے کہ بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ شخص درحقیقت حضرت مریم کا خاوند تھا یا خداتعالیٰ کی طرف سے خاوند تجویز کیا گیا تھا یہ درست نہیں۔ کیونکہ وہ یہ نہیں کہتا کہ میں کوئی کام کرنے آیا ہوں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے صرف ایک پیغامبر کے طور پر بھجوایا گیا ہوں۔ لاھب لک غلٰما زکیا
اھب کے متعلق بھی خیال ہو سکتا ہے کہ شاید اس کے معنے دینے کے ہوں اور مراد یہ ہو کہ وہ تعلقات رکھے لیکن یہ بھی درست نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ جو چیز یقینی اور قطعی ہو وہ ایسے لفاظ میں بیان کرتا ہے جن میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو مثلاً مستقبل کی خبر بیان کی جاتی تو اسے ماضی کے صیغہ میں بیان کیا جاتا ہے یہ بتانے کے لئے کہ تم اس بات کو ایسا ہی سمجھو جیسا کہ یہ ہو چکی ہے۔ اس طرح اس پیشگوئی پر زور دینے کے لئے کہ یہ پیشگوئی ضروریپوری ہو گی اس نے اھب کہا جس کے معنے یہ ہیں کہ میں دینے آیا ہوں۔ یعنی اس بات کوایسا ہی سمجھو کہ گویا بیٹا مل گیا ہے۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ لڑکا خدا دیا کرتا ہے فرشتہ نہیں دیا کرتا۔ پس اھب لک سے مراد صرف لڑکے کی خبر ہے نہ کہ لڑکا دینا۔خدائی خبر چونکہ یقینی ہوتی ہے اس لئے اسے گویا چیز کے مل جانے کے برابر ظاہر کیا اور اس نے کہا کہ میں خدائی وحی کے مطابق تجھ کو ایک پاک لڑکا دینے آیا ہوں یعنی میں اس لئے آیا ہوں کہ تجھ کو ایک پاک لڑکے کے پیدا ہونے کی خبر دوں اور یہ کشف قطعی اور یقینی ہے۔ اسے ایسا ہی سمجھو جیسا کہ لڑکا مل گیا ہے۔

ترجمہ :
(مریم نے )کہا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہو گا حالانکہ اب تک مجھے کسی مرد نے نہیں چھوا اور میںکبھی بدکاری میں مبتلا نہیںہوئی ۔
حل لغات :
بغیکے معنے ہوتے ہیں جو تجاوز عن الاقتصاد کرے۔ یہ تجاوز اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی۔ انسان عدل سے احسان کی طرف جائے گا تو اچھا ہو گا اور حق سے باطل کی طرف تجاوز کرے گا تو برا ہو گا۔ اور بغت المراۃکے معنے ہوتے ہیں فجرت اس نے بدکاری کی۔ لتجاوزھا الی ما لیس لھا ۔ کیونکہ جو حق تھا اس سے وہ آگے نکل گئی۔ (مفردات)
تفسیر :
حضرت مریم بھی زکریا کی طرح تعجب کا اظہار کرتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ انی یکون لی غلام میرے ہاں بچہ کس طرح پیدا ہو سکتا ہے۔
اس جگہ غلام سے مراد بچہ ہی ہے بڑی عمر کا انسان مراد نہیں۔ یوں تو بڑی عمر کا آدمی بھی عربی زبان کے لحاظ سے غلام کہلاتا ہے لیکن یہ چونکہ مریم کا کلام ہے اور ان کے لئے حیرت کی بات بچہ پیدا ہونا ہی تھا اس لئے اس جگہ غلام کے معنے بچہ ہی کے لئے جائیں گے۔ بہرحال حضرت مریم کو تعجب پیدا ہوا کہ میرے ہاں کس طرح بچہ پیدا ہو سکتا ہے جبکہ مجھے نہ توکسی مرد نے چھوا ہے اور نہ میں باغیہ ہوں۔
اگر حضرت مریم کے اس استعجاب کو ظاہری حالات پر محمول کیاجائے اور خواب میں بھی ان کے وہی حواس سمجھے جائیں جو جاگتے ہوئے ہوتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ چونکہ ظاہر میں ایسی بات ناممکن ہوتی ہے اس لئے رؤیا میں بھی انہوں نے وہی بات کہہ دی جو ظاہر میں کہی جاتی ہے۔ خواب میں دونوں قسم کی کیفیات انسان پر وارد ہوتی ہیں کبھی صرف نظارہ اور کلام تاثیر رویاء کے نیچے ہوتا ہے دلی جذبات تاثیر رویاکے نیچے نہیں ہوتے۔ کبھی انسان دیکھتا ہے کہ بیٹا مارا گیا ہے اور وہ بڑا خوش ہے حالانکہ بیٹے کے مرنے پر انسان کو خوشی نہیں ہو سکتی وہ ضرورروتا اور غمزدہ ہوتا ہے۔ پس جب رویاء میں وہ بیٹے کے مرنے پر خوش ہوتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ رویاء میں اس کے جذبات بھی تاثیر رویاء کے نیچے تھے۔ ورنہ بیٹے کے مارے جانے پر اسے رونا چاہئے تھا۔ اگر وہ خوش ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے قلب کی کیفیت بھی رئویا کے ماتحت تھی۔ لیکن بعض دفعہ دیکھے گا کہ بیٹا مارا گیا ہے اور میں رو رہا ہوں۔ اب جہاں تک بیٹے کے مارے جانے کا سوال ہے۔ اس کی تعبیر تو یہ ہو گی کہ اس کا بیٹانیک ہو گا اور دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گااور اس تعبیر پر اسے خوش ہونا چاہئے۔ مگر چونکہ اس نے دیکھا کہ وہ رو رہا ہے اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ اس کا رونا رویاء کی تعبیر کے نیچے نہ تھا بلکہ ظاہری کیفیات کے تابع تھا۔ غرض کبھی تاثیر قلبی رویاء کے نظارہ کے ماتحت نہیںہوتی۔ ایک شخص خواب میں گنا دیکھتا ہے اور بڑا خوش ہوتا ہے۔ حالانکہ گنے کی تعبیر غم ہے۔ پس خواب میں اس کا خوش ہونا بتاتا ہے کہ اس وقت تعبیر اس پر اثر نہیں کر رہی تھی بلکہ ظاہری حالات اثر کر رہے تھے۔ چونکہ ظاہر میں انسان گنا ملنے پر خوش ہوتا ہے اس لئے خواب میںبھی وہ خوش ہو گیا۔ اور اگر وہ گنا ملنے پر رو رہا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس وقت اس کے دل کی کیفیت بھی رویاء کی تعبیر کے نیچے تھی۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کو صرف تعبیر الرویاء جاننے والے ہی سمجھ سکتے ہیں دوسرے لوگ نہیں۔ پس اگر اس قول سے حضرت مریم کی تعبیر ظاہری مراد لی جائے تو اس سے صرف اتنا نکلے گا کہ چونکہ ظاہر میں ایسی باتیں بری سمجھی جاتی ہیں اس لئے جب اس نے یہ بات کہی تو حضرت مریم نے کہا۔ ہائے ہائے تم کیسی باتیںکر رہے ہو کبھی مردوں کے بغیر بھی بچہ پیدا ہو ا ہے اور اگر یہ الفاظ بھی تاثیر رویاء کے ماتحت سمجھے جائیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ چونکہ ان کو بلا مرد کے ایک بچہ کی ولادت کی خبر دی جا رہی تھی اس لئے وہ حیرت ظاہر کر رہی ہیں کہ کیا خدا مجھ سے یہ سلوک کرے گا۔
بہرحال اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ حضرت مریم نے یہی سمجھا تھا کہ بغیر شادی کے اور شادی سے پہلے اولاد ہو گی۔ کیونکہ لم یمسسنی بتاتا ہے کہ وہ سمجھتی تھیں کہ اولاد اس رویاء کے دن کے بعد شادی سے پہلے ہو گی ورنہ ماضی کے ذکرکی نفی کے معنے کیا ہوئے۔
دوسرے لم اک بغیا بھی یہی بتاتا ہے۔پہلا جائز تعلق کی نفی کرتا ہے اور دوسرا ناجائز تعلق کی۔ آئندہ شادی کے ہونے یا نہ ہونے کا وہ ذکر تک نہیں کرتیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے اس وقت یہ سوال نہیں تھا کہ مجھے وقف کیا ہوا ہے اس لئے میرے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی بلکہ اس وقت ان کے سامنے اپنی ماضی کی حالت تھی جس میں اولاد ناممکن تھی۔ اگر آئندہ تعلقات کے نتیجہ میں وہ اولاد کاوعدہ سمجھتیں تو وہ یایہ کہتیں کہ میری تو شادی نہیں ہو سکتی پھر اولاد کیسی اور یا پھر شادی کا احتمال تھا وہ اس وعدہ پر تعجب نہ کرتیں۔

ترجمہ :
(فرشتہ نے) کہا (بات) اسی طرح (ہے جس طرح تو نے کہی) (مگر) تیرے رب نے یہ کہا ہے کہ یہ (کام) مجھ پر آسان ہے اور (ہم اس لئے یہ لڑکا پیدا کریں گے) تاکہ اسے لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیںاور اپنی طرف سے رحمت کا (موجب بھی) بنائیں اور یہ (امر) ہماری تقدیر میں طے ہو چکا ہے ۔
حل لغات :
مقضیا عربی زبان میں قضاء اور قدر دو الگ الگ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں مگر عام طور پر لوگ ان دونوں لفظوں کو ہم معنی سمجھتے ہیںحالانکہ حقیقتاً یہ ہم معنے نہیں۔ مفردات میں لکھا ہے القضاء فصل الامر قولا کان ذٰلک او فعلا۔ قضاء کسی امرکے فیصلہ کرنے کا نام ہے خواہ وہ قولاً ہو یا فعلاً ہو۔ وکل واحد منھما علی وجھین الٰھی و بشری اور یہ قضاء الٰہی بھی ہوتی ہے اور بشری بھی۔ یعنی کبھی خداکے متعلق قضاء کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے اور کبھی بشر کے متعلق قضاء کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے۔ والقضاء من اللہ تعالیٰ اخص من القدر لانہ الفصل بین التقدیر فالقدر ھو التقدیر والقضاء ھو الفصل و والقطع یعنی جب قضاء الٰہی کا ذکرکیا جائے تو وہ قدر سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ کیونکہ قدر صرف ایک معیار یا سکیم کے تجویز کرنے کو کہتے ہیں اور قضاء کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس سکیم کے جاری کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب شام تشریف لے گئے اور وہاں طاعون پڑ گئی۔ جو طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے اور حضرت ابو عبیدہ ؓ اور اسلامی لشکر نے آپ کا استقبال کیا تو اس وقت صحابہ ؓ نے مشورہ دیا کہ چونکہ اس وقت علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس لئے آپ کو واپس تشریف لے جانا چاہئے۔ حضرت عمر ؓ نے ان کے مشورہ کو قبول کرکے فیصلہ کرلیا کہ آپ واپس لوٹ جائیں گے۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ ظاہرپر بڑا اصرار کرنے والے تھے انہیں جب اس فیصلہ کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ اتفرمن القضاء کیا آپ قضا الٰہی سے بھاگ رہے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے کہا افر من قضاء اللہ الی قدراللہ میں اللہ تعالیٰ کی قضاء سے اس کی قدر کی طرف بھاگ رہاہوں یعنی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فیصلہ ہے اور ایک عام فیصلہ۔ یہ دونوں فیصلے اسی کے ہیں کسی اور کے نہیں۔ پس میں اس کے فیصلہ سے بھاگ نہیں رہا بلکہ اس کے ایک فیصلہ سے اس کے دوسرے فیصلہ کی طرف جا رہاہوں۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ کو جب طاعون کی خبر ملی اور آپ نے مشورہ کے لئے لوگوں کواکٹھا کیا تو آپ نے دریافت کیا کہ شام میں تو پہلے بھی طاعون پڑا کرتی ہے پھر لوگ ایسے موقعہ پر کیاکیاکرتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جب طاعون پھیلتی ہے تو لوگ بھاگ کر ادھر ادھر چلے جاتے ہیں اور طاعون کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی مشورہ کی طرف آپ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے ایک عام قانون بھی بنایا ہوا ہے کہ جوشخص طاعون کے مقام سے بھاگ کر ادھر ادھر کھلی ہوا میں چلا جائے وہ بچ جاتاہے۔ پس جبکہ یہ قانون بھی خداتعالیٰ کا ہی بنایا ہوا ہے تو میں اس کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کر رہا بلکہ اس کی قضاء سے قدرکی طرف لوٹ رہاہوں۔ یعنی خداتعالیٰ کے خاص قانون کے مقابلہ میں اس کے عام قانون کی طرف جا رہا ہوں۔ پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں بھاگ رہا ہوں میں صرف ایک قانون سے اس کے دوسرے قانون کی طرف جارہا ہوں ۔پس حضرت عمر ؓنے بھی قضاء اور قدر میں فرق کیاہے اور مفردات والے لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے اس قول کا مفہوم یہی تھا۔کہ ان القدر ما لم یکن قضاء فمرجو ان یدفعہ اللہ یعنی جب تک قدر قضاء کارنگ اختیار نہ کرلے اُس وقت تک امید ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ نے اُسے ٹلادے۔گویا آپ نے بتایا کہ چونکہ میں ابھی اس ملک میں داخل نہیں ہوااور خداتعالیٰ نے ایک دوسرا قانون بھی بنایا ہو ا ہے کہ جو لوگ طاعون زدہ مقام سے اِدھر اُدھر بھاگ جاتے ہیں وہ بچ جاتے ہیں اِس لیے میں اُسی کے ایک دوسرے قانون سے فائدہ اُٹھا رہا ہوں ۔فاذا قضی فلا مدفع لہ لیکن جب وہ فیصلہ کردے تو پھر اُس کے فیصلہ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔
تفسیر:
ھو علی ھین کے یہ معنی نہیں کہ اور لوگوں کے لئے تو یہ بات مشکل ہے اور میرے لئے آسان ہے کیونکہ انسان کے لئے تو یہ چیز قطعی طور پر ناممکن ہے۔ یہاں صرف خداتعالیٰ کے پہلو کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے متقابل بیان مد نظر نہیں اور مراد یہ ہے کہ جب میں کسی کام کا ارادہ کر لوں تو میرے لئے کوئی مشکل نہیں۔
ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا اس جگہ لام لامِ عاقبت ہے یعنی ہم ضرور ایسا کرینگے اور اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہماری ایک آیت ہو جائیگا اور لوگو ںکے لئے ایک نشان بن جائیگا اور ہمارے اس فعل کے نتیجہ میں وہ لوگوں کیلئے رحمت بن جائے گا ۔مراد یہ کہ ہم جو اُسے بغیر باپ کے پیدا کریں گے تو یہ نشان ہو گا اس بات کا کہ ابراہیمی نُور اب ہم بنی اسرائیل سے نبی اسمعیل کی طرف منتقل کرنے والے ہیں۔ورحمۃ منااور پھر اس کے ساتھ ہی ہم اُسے لوگوں کیلئے رحمت بنادیں گے ۔ یہاں سوال پیداہوتا ہے کہ جب بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ منقظع ہو گیا تو مسیح لوگوں کے لئے رحمت کس طرح بنا ؟اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ مسیح کے ظہور کے بعد اُس کی تعلیم سے یہود کی خشونت اور اُن کی درشتی میں جو کمی آنے والی تھی اُس کا رحمۃ منامیں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے یہود کی خشونت کو دُور کیا جائے گا۔کیونکہ وہ دُنیا کو محبت اور پیا ر کی تعلیم د ے گا اور رحم پر اپنا سارا زور صرف کرے گا ۔پس وہ لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت کا ایک ذریعہ بن جائے گا ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے بنی اسمٰعیل کی طرف نعمت نبوت منتقل ہونے کے نتیجہ میں ہی نبی آخر الزمان نے پیداہونا تھا پس چونکہ وہ ذریعہ بننے والا تھا رحمتہ للعالمین کے ظہور کا اور وہ رحمت والی تعلیم کا راستہ صاف کرنے والا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اُسے اپنی رحمت کے ماتحت نازل کیا ہے یعنی ہم نے اُ س کو ذریعہ بنایا ہے اُس عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کا جس کے نتیجہ میں نبی آخر الزما ن نے پیداہونا ہے۔ گویا مسیح ایک کُنجی تھا اس دروازہ کی جس کے کھلنے پر خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت نے دنیا پر نازل ہونا تھا۔
یہ قرآن کریم کا کتنا بڑا کمال ہے کہ مسیح سردار تو عیسائیوں کے ہیں لیکن انجیل میں جہاں مسیح کی پیدائش کی پیشگوئی ہے وہاں یہ ذکر تک نہیں کیا گیا کہ مسیح دنیا کو محبت کی تعلیم دے گا ۔مگر قرآن مجید نے اُس کی پیدائش کی پیشگوئی میں ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش سے پہلے مریم کو بتا دیا تھا کہ وہ محبت کی تعلیم دے گا۔یہ مضمون قرآن کریم کے انصاف اور کمال پر دلالت کرتا ہے اور انجیل کے ناقص ہونے کی دلیل ہے ۔مسیح ؑ کا سب سے بڑا کمال اس کی رحم کی تعلیم تھی ۔مگر انجیل نے اس کی پیدائش کی پیشگوئی میں اس کا ذکر تک نہیں کیا ہاں قرآن نے کیا ہے جو اس کے کامل اور سچا ہونے کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تمام انبیاء اپنے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی آیت ہوتے ہیں ۔مگر عیسائیوں کی عادت ہے کہ وہ بعض الفاظ سے نا جائز فائدہ اٹھا نے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا حضرت مسیح کی اہمیت پر دلالت کرتے ہیں اور ہم بھی اُن کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر عیسائی اِس قسم کے الفاظ سے انہیں غیر معمولی اہمیت دے دیتے ہیں ۔ ہمارا اُن سے یہ اختلاف نہیں کہ ہم نعوذباللہ ادنیٰ درجہ کا نبی سمجھتے ہیں ۔ہم بھی مسیح کو خدا تعالیٰ کا نبی اور رسول سمجھتے ہیں مگر ہم یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کوئی ایسی فوقیت حاصل تھی جو دوسرے نبیوں کو حاصل نہیںتھی یا اُن میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ کمالات پائے جاتے تھے ۔بہر حال اس آیت میں حضرت مسیح کے متعلق جو آیت کا لفظ آیا ہے عیسائی اُس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اُنہیں قرآن نے غیر معمولی اہمیت دی ہے مگر یہ درست نہیں۔قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ اس نے آیت کا لفظ اور لوگوں کے متعلق بھی استعمال کیا ہے چنانچہ ایک نبی کے متعلق آتا ہے ۔ولنجعلک ایۃ للناس اس جگہ پہلے ایک نبی کی رئو یا ء بیان کی گئی ہے اور پھر اس رویا کو بیان کرکے کہا گیا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تجھے لوگوں کیلئے آیت بنادینگے ۔ یہ حزقیل نبی تھے موسیٰ ؑ اور دائود ؑ سے درجہ میں چھوٹے تھے ۔
پھر نبی تو الگ رہے اُونٹنی تک کو آیت کہا گیا ہے۔چنانچہ اعراف ع۱۰ میں آتا ہے ھذۃ نا قۃ اللہ لکم ایۃ ۔یہ خدا کی اونٹنی ہے جو تمہارے لئے آیت ہے ۔اگر اونٹنی آیت ہو سکتی ہے تو مسیح کے آیت ہونے میں اس کی کونسی فضیلت رہی ۔
پھر فرعون کے متعلق فرماتا ہے ۔فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک اٰیۃ (یونس)
ہم آج تیرے جسم کو بچا لیں گے تاکہ تو اپنے بعد میں آنے والوں کے لئے ایک آیت بن جائے ۔گویا قرآن کریم میں مسیح کے علاوہ دوسرے رسولوں کو بھی آیت کہا گیا ہے ۔جانوروں کو بھی آیت کہا گیا ہے بلکہ ایک دشمن خدا اور کافر فرعون کو بھی آیت کہا گیا ۔پس آیت کے اتنے ہی معنے ہیں کہ اُس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی صداقت نظر آجاتی ہے۔ یہ معنے نہیں کہ اُسے دوسروں سے کوئی بڑا درجہ حاصل ہوجاتا ہو۔ اِسی طرح یہ جو فرمایا کہ رحمۃ منا یہ بھی کوئی خاص فضیلت کی بات نہیں ۔حضرت یحییٰ کے متعلق اس سے پہلے فرمایا گیا تھا کہ حنانا من لدنا اور حنان کا لفظ عربی زبان میں رحمت کے معنو ں میں ہی استعمال ہوتا ہے ۔چنانچہ لُغت والے لکھتے ہیں کہ حنان اس اظہا ر محبت کو کہتے ہیں جس میں آواز ہو ۔جیسے ماں کو بعض دفعہ جوش آتا ہے تو وہ اپنے بچہ کو پچکارنے لگ جاتی ہے اور زبان سے بھی محبت اور پیا ر کے الفاظ دُہراتی ہے۔ پس محبت کے کمال پر جبکہ زبان سے بھی محبت کا اظہار ہونے لگے حنان کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور یہ محبت بغیر رحمت کے نہیں ہو سکتی جب بھی اس قسم کا اظہار ہو گا پہلے رحمت آئے گی ۔پس حنان کا لفظ بھی رحمت کے مترادف ہے اور یہ حضرت یحییٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے کہ ہم نے اُسے حنان دی اور اُس میں رحمت پیدا کردی ۔بلکہ مزید بات یہ ہے کہ یحییٰ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے اُ سے حنان یا رحمت اپنے پاس سے بخشی ۔لیکن مسیح کے لئے یہ نہیں کہاگیا کہ ہم نے اُسے رحمت بخشی بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے اُسے لوگوں پر رحمت کرکے اُتارا ۔گویا رحمت خدا تعالیٰ کیطرف منسوب کی گئی ہے نہ کہ مسیح کی طرف پس یحییٰ ایک مجسم رحمت تھے اور عیسیٰ ؑ صرف لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنا کر بھیجے گئے تھے اور ظاہر ہے کہ مجسم رحمت بڑی چیز ہے ۔ پھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت نہ صرف یہ کہا گیا آپ رحمت بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ آپ رحمتہ للعالمین تھے فرماتا ہے وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین (الانبیاء) اے ہمارے رسول ہم نے تجھے تمام جہان کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے گویا حضرت عیسیٰ کو رحمت بھی نہیں کہا صرف رحمت کا نشان کہا ۔حضرت یحییٰ کو رحمت کہا اور محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق فرمایا کہ ہم نے اُن کو رحمت ہی نہیں بنایا بلکہ ایسی رحمت بنایا ہے جو مختص القوم اور مختص الزمان نہیں بلکہ سارے جہان کے لئے اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے ہے۔گویا رسول کریم ﷺ کو۔
(۱) ایک تو رحمت بنایا گیا نہ کہ صرف لوگوں پر رحمت کرکے بھیجوایا گیا۔
(۲) دوسرے رحمت بھی مختص القوم ومختص الزمان نہیں بنایا گیا بلکہ رحمت للعالمین بنایا گیا ۔
یہاں ایک عیسائی کہ سکتا ہے کہ ہم یہ نہیں مان سکتے کہ وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین میں آپ کو سارے جہان کے لئے رحمت قرار دیا گیا ہے کیونکہ مریم کی نسبت بھی تو کہا گیا ہے کہ اُسے عالمین کی عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے جیسا کہ فرما تا ہے ان اللہ اصطفٰک وطھرک واصطفک علی نساء العلمین مگر آپ لوگ وہاں نساء العالمین کے یہ معنی کرتے ہیں کہ مریم کو اپنی قوم کی عورتوں پر فضیلت دی گئی تھی ۔اگر وہا ں عالمین سے صرف قوم کی عورتیں مراد ہو سکتی ہیں تو یہاں بھی یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین میں آپ کو اپنی قوم کے لئے رحمت قرار دیا گیا ہے نہ کہ سارے جہان کے لئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ الفاظ محدود معنے بھی رکھتے ہیں اور غیر محدود بھی ۔ یہ سیا ق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ کسی لفظ کے معنے محدود ہیں یا غیر محدود ۔ سورئہ انبیاء میں غیر عرب قوموں کا ذکر کرکے اس فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے ۔خصوصاََ بنی اسرائیل کا ذکر کرکے کیونکہ پہلے بتایا ہے ان الا رض یرثھا عبادی الصلحون اور پھر یہ آیت آتی ہے ۔پس اس جگہ بنو اسرائیل کو شامل کر کے تما م انسانوںپر رسول کریم ﷺ کی فضیلت کا ذکر ہے ۔اس لئے یہ وعدہ بہر حال وسیع ہے ۔اگر غیر قوموں کا ذکر نہ ہو تا تو تمہارا حق تھا کہ تم کہتے کہ جس طرح وہا ں تمہارے نزدیک صرف بنی اسرائیل کی عورتوں پر مریم کی فضیلت کا ذکر اِسی طرح یہا ں یہ بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو اس زمانہ کے عربوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ۔مگر یہاں عربوں کا ذکر نہیں بلکہ غیر قوموں کا ذکر ہے اور بنی اسرائیل کی نعمتیں اُن سے چھین کر مسلمانوں کو دئیے جانے کا بیان ہے پس سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ رحمتہ لّلعالمین میں غیر قومیں بھی شامل ہیں لیکن مریم والا وعدہ صرف اپنی قوم کی عورتوں کے متعلق ہے پس رسول کریم ﷺ کے متعلق مختص القوم والزمان ہونے کے معنے نہیں لئے جاسکتے کیونکہ وہاں ایک غیر قوم کا ذکر ہے۔ ایسی قوم کا جو اپنے آپ کو ساری دنیا سے افضل سمجھتی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نعمتیں چھین کر مسلمانوں کو دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ پس رسول کریم ﷺ کا رحمت ہونا صرف قبائل عرب کیلئے نہیں بلکہ سب اقوام ِ عالم کیلئے ہے۔
وکان امرامقضیا چونکہ پہلے خدا تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ ھو علی ھینیعنی خدا اگر کسی کو بغیر باپ پیدا کرنا چاہے تو اُس کے لئے یہ کو ئی مشکل امر نہیں اِس لئے اب یہ بتا تا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قضاء تھی کہ مریم کے ہاں ایسا بیٹا پیدا ہوگا جو بغیر باپ کے ہوگا اور اس طرح بنی اسرائیل سے سلسلہ ٔ نبوت کا انقطاع ہو کر بنی اسمٰعیل میں منتقل ہو جائیگا ۔یہ وہ تقدیر نہیں تھی جو ٹل جا تی بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے متعلق احکام جاری ہو چکے تھے۔

اس پر مریم نے (اپنے پیٹ میں) اُس (بچہ )کو اٹھا لیا اور پھر اس کو لے کر ایک دور مکان کی طرف چلی گئی۔
تفسیر :
حضرت مریم کس طرح حاملہ ہوئیں یہ ایک الٰہی راز ہے جو قانونِ قدرت سے بالا ہے یا اگر قانون قدرت میں شامل ہے تو یہ ایک ایسا حصہ ہے جس کا ابھی انسان کو علم نہیں ہوسکا ۔قانون قدرت کے بھی کئی راز ایسے ہیں جن کا ابھی انسان کوپتہ نہیں لگا جیسے اٹیم بم کا اس سے پہلے نسلِ انسانی کو کوئی علم نہیں تھالیکن اب اس کا انکشاف ہوا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کئی راز ایسے ہیں جن کو ابھی دنیا دریافت نہیں کرسکی ۔اُنہی اسرار میں سے ایک بن باپ ولادت بھی ہے ۔ بہر حال وہ خدا جس نے کُن سے سب کچھ پیدا کیا ہے وہ مادہ میں بھی نئے تغیر پیدا کرسکتا ہے لیکن اس کے علاوہ تاریخ میں ہمیں بعض ایسی شہادتیں بھی نظر آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور بچے بھی بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں ۔مثلاََمنچو خاندان جو چین پر حکمران تھا اور جو ۰۶؁ یا ۰۷ ؁ میں آکر تباہ ہوا اس کی بنیاد بھی اِسی طرح پڑی کہ اس خاندان کی ایک پڑدادی بغیر نکاح کے حاملہ ہوگئی لوگوں نے بڑا شور مچایا مگر اس نے کہا اِس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ وہ کسی گڈریا کی بیٹی تھی اُس نے کہا میں ایک دن اپنے جانور چرا رہی تھی کہ ایک فرشتہ نازل ہو اور اس نے کہا کہ میں تجھ پر خدا کا نور ڈالتا ہوں تیرے ہا ں ایک لڑکا پیدا ہوگا چنانچہ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ مجھے حمل ہو گیا ہے پس اس میں میرا کوئی قصور نہیں ۔
لوگوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے کہا یہ ایک آئندہ کی خبر بتا رہی ہے انتظار کروکہ کیا ہوتا ہے چنانچہ نو ماہ کے بعداس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگیا ۔لوگوں نے کہا کہ اس عورت کی پہلی بات تو سچی ہو گئی اب اگلی خبر کا انتظار کرنا چاہئے۔ چنانچہ وہ لڑکا جوان ہوا اور اٹھارہ بیس سال کی عمر میں اس کی شادی ہوگئی پھر جلد ی ہی اس کے ہاں بھی ایک لڑکا پیدا ہوگیا ۔وہ پندرہ سولہ برس کا تھا کہ ملک میں فساد ہوگیا۔چونکہ وہ بہادر تھااُس نے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملایا اور حملہ کرکے اِرد گرد کے دیہات پر قابض ہوگیا ۔اس کا میابی سے اس کا حوصلہ بڑھااور اس نے آگے قدم بڑھایا ۔پھر وہاں کامیابی ہوئی تو اور آگے بڑھا یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ چین کا بادشاہ بن گیا۔ اس واقعہ نے ثابت کردیا کہ جو کچھ اُس عورت نے کہا تھا درست تھا اور اسے خدا ہی نے خبر دی تھی ۔اِسی طرح چنگیز خاں نو ترکوں کی دوسری نسل کا سردار ہے اس کے متعلق بھی ایسا ہی واقعہ ہو ا۔ترکوں کی دو شاخیں ہیں ۔ایک شاخ برلاس ہے جس میں سے ہم ہیں اور دوسری شاخ وہ ہے جس میں چنگیز خان ۔باتو خان۔جتلائی خان وغیرہ مشہور لوگ گذرے ہیں ۔چنگیز خاں کا باپ جب مرگیا اور اس کی ماں بیوہ ہوگئی توملک کے رواج کے لحاظ سے اُسکی ماں ہی بادشاہ تسلیم کی گئی۔ایک دن اس کی ماں نے درباریوں کو بلایا اور کہا کہ مجھے حمل ہوگیا ہے درباریوں نے شور مچادیا کہ ہم تجھے قتل کردیں گے ۔اُس نے کہا اس میں میرا کوئی قصور نہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا ہے اور وہ میرے آر پار ہوگیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی مجھے بتایا گیا کہ تیرے ہاں ایک لڑکا ہوگا جو دنیا کا بادشاہ ہو گا ۔ چنانچہ اس کے بعد جب میں بیدار ہوئی تو مجھے حمل ہو چکا تھا ۔ انہوں نے یہ سُنکر صبر کر لیا اور فیصلہ کیا کہ ہمیں اس خبر کے پورا ہونے کا انتظار کرنا چاہئے چنانچہ اسی حمل سے چنگیز خاں پیداہوا جس سے ساری دنیا میں بڑی بھا ری تباہی آئی اور دنیا کا بادشاہ بنا۔
اِسی طرح اور بہت سے واقعات انسائیکلوپیڈیا بر ٹینیکا میں بیان کئے گئے ہیںاور عجیب بات یہ کہ اس قسم کے جتنے بچے پیدا ہوئے ہیں اُن کے پیدا ہونے سے پہلے عورتوں کو کوئی نہ کوئی خواب بھی آئی ہے جس کی وجہ سے ہم اُن پر الزام نہیں لگا سکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ بولا ۔پس مسیح ؑ کی بن باپ ولادت کوئی قابل تعجب نہیں ۔کیونکہ مسیح ؑ کی پیدائش کے علاوہ اس قسم کے اور بھی کئی واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں ۔
فحملتہسے مراد وہی حمل ہے جو اس رویاء کے نتیجہ میں ہوا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی بات تسلیم کی ہے چنانچہ ’’مواھب الرحمن ‘‘ میں آپ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ یہ بات ہمارے عقائد میں داخل ہے کہ مسیح بن باپ پیدا ہوئے اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے لئے سوائے اِن دو صورتوں کے اور کوئی صورت ہی نہیں کہ یا تو ہم یہ کہیں کہ وہ خدا کے حکم کے ماتحت پیدا ہوئے تھے اور یا یہ کہیں کہ اُن کی ولادت نا جائز تھی ۔غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے اپنا عقیدہ یہی بیا ن فرمایا ہے کہ مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور یہی ہمارہ عقیدہ ہے ۔میں نے زیادہ زور اس پر اس لئے دیا ہے مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبایعین نے لکھا ہے کہ مسیح کا باپ تھا اور اُس کا نا م یوسف تھا حالانکہ جیسا کہ بتا چکا ہوں انجیل کے رُو سے بھی یوسف نے اُس وقت تک مریم کے ساتھ تعلقات نہیں رکھے جب تک کہ مسیح پیدا نہیں ہوگئے۔
فانتبذت بہ مکانا قصیا اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حمل کے ایام میں ایک وقت حضرت مریم پر ایسا بھی آیا جب انہیں کہیں دور جانا پڑا۔اس کے متعلق جب ہم بائبل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں وہاں سے کچھ تفصیل ملتی ہے۔ وہ تفصیل یقیناایسی ہے کہ اگر اُس میں غلط بیانی کی کوئی وجہ ثابت نہ ہو تو اُسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
لوقا باب ۲ میں لکھا ہے کہ
ـــ’’اُن دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر اگسطس کی طرف سے یہ حکم جاری ہو اکہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں ۔یہ پہلی اسم نویسی سوریہ کے حاکم کورینس کے عہد میں ہوئی اور سب لوگ نام لکھوانے کے لئے اپنے اپنے شہر کو گئے پس یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرہ سے دائود کے شہر بیت لحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے اس لئے کہ وہ دائود کے گھرانے اور اولاد سے تاکہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے ‘‘ (انجیل لوقاب باب ۲ آیت اتا ۴)
انجیل کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ چونکہ قیصر اگسطس نے حکم دیا تھا کہ تمام شہرو ں اور گائوں کے لوگوں کے نام لکھے جائیں اس لئے یوسف بھی جو حضرت مریم کے شوہر تھے ناصرہ سے بیت لحم گئے کیونکہ وہ دائود کی نسل میں سے تھے اور بیت لحم اُس وقت قبیلہ دائود کا ایک بہت بڑا شہر تھا ۔اس سفر میں حضرت مریم بھی اُن کے ساتھ تھیں ۔مگر آگے لکھا ہے کہ چونکہ بیت لحم میں بہت سے لوگ اپنے نام لکھوانے کے لئے آئے ہوئے تھے اس لئے انہیں سرائے میں جگہ نہ ملی اور وہ کہیں باہر ٹھہرے ۔وہیں حضرت مریم کو دردِزہ شروع ہو ا اور بچہ پیدا ہوگیا ۔ (انجیل لوقاب باب ۲آیت ۷)
بیت لحم یروشلم سے جنوب کی طرف پانچ میل کے فاصلہ پر ہے اور بہت زرخیز علاقہ ہے ۔ناصرہ سے بھی بیت لحم جنوب کی طرف ہے اور قریباً ستّرمیل دُور ہے۔پس مکانا قصیا میں اسی سفر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کا انجیل میں ذکر آتا ہے کہ وہ ناصرہ سے بیت لحم گئیں۔

پس (جب وہ وہاں پہنچی)تو اُسے دردِزہ (اٹھی اور اُسے)مجبورکرکے ایک کھجور کے تنہ کی طرف لے گئی (جب مریم کو یقین ہو گیا کہ اسکے ہا ں بچہ ہونیوالا ہے تو اس نے دنیا کی انگشت نمائی کا خیا ل کرکے)کہا اے کاش میں اس سے پہلے مرجاتی اور میری یاد مٹا دی جاتی ۔
حل لغات :
مخاض کے معنے شدت کے ساتھ دردِزہ ہونے کے بھی ہیں اور مخاض پیدائش کے وقت کے قریب آجانے کو بھی کہتے ہیں ۔اِس وقت کے قریب آجانے کی بڑی علامت بھی دردِزہ ہی ہوا کرتی ہے۔
جذع تنے کو بھی کہتے ہیں اور بڑی شاخ کوبھی کہتے ہیں۔
تفسیر :
کھجور کے تنہ کی طرف انسان تبھی جاتا ہے جب وہ گھر میں نہ ہو اور جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے بائبل میں یہ ذکر آتا ہے کہ انہیں سرائے میں جگہ نہ ملی اور چونکہ وہ میدان میں ڈیرہ ڈالے پڑی تھیں معلوم ہوتا ہے اس جگہ پر کوئی کھجور کا درخت ہو گا جس کے نیچے وہ اُس وقت آگئیں ۔
ہمارے مفسرین کہتے ہیں کہ وہ درد کا سہارا لینے کے لئے وہاں گئیں تھیں لیکن درد کا سہارا لینے کی وجہ جیسا آگے چل کر بتائوں گا میرے نزدیک عیسائی روایتوں سے ڈر کر بنائی گئی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہر درخت سایہ بھی دیتا اور سہارا بھی دیتا ہے اور یہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں اس کے اندر پائی جاتی ہیں ۔پھر انہوں نے سہارا کیوں کہا سایہ کیوں نہ کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی روایات سے مطابقت رکھنے کا خیال ہمارے مفسرین کے ذہنوں پر غالب رہااور انہوں نے سایہ کی بجائے سہارا لینے کا ذکر کر دیا ۔اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ درد میں سہارے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔چنانچہ جب شدید دردِزہ ہورہا ہو تو اُس وقت ہوشیار عورتیں زچہ کو پکڑا دیتی ہیں اور اُسے کہتی ہیں کہ ہمارے ہاتھ کو زور سے دبائو ۔وہ زور سے دباتی ہے تو اُسے درد میں ایک قسم کا سہارا مل جاتا ہے اور بچہ آسانی سے پیدا ہوجاتا ہے ۔ پس اتنی بات تو درست ہے کہ درد میں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک اس آیت کے متعلق مفسرین کی یہ توجیہ درست نہیں ۔
قالت یلیتنی مت قبل ھذا و کنت نسیا منسیا بعض لوگوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں چونکہ بچہ جو پیداہونیوالا تھا بغیر باپ کے تھا اس لئے وہ گھبرائیں اور انہوں نے کہا کہ ہا ئے اب میں کیا کرونگی اور لوگوں کو کیا جواب دونگی ۔لیکن میرے نزدیک یہ درست نہیں ۔ تجربہ کا ر لوگ جانتے ہیں کہ پہلا بچہ ہمیشہ اتنی تکلیف کے ساتھ ہوتا ہے کہ عورت بے اختیار ہوکر کہتی ہے کہ ہائے میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی ۔میں نے اپنے خاندان میں اپنی بیویوں اور بچیوں کو بھی دیکھا ہے ۔اُن میں سے ہر ایک اپنے پہلے بچہ کی ولادت پر یہی کہتی تھی ہائے میں اس سے پہلے مر جاتی ۔اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ واقعہ بھی اپنی ذات میں غیر معمولی تھا کہ ایک کنواری کے ہاں لڑکا پیدا ہوا مگر عام طور پر پہلوٹھے بچوں کی پیدائش کی تکلیف پر لڑکیا ں اسی طرح کہا کرتی ہیں ۔ پس اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میں سمجھتا ہوں کہ شاید اس میں مخفی طور پر اُس حدیث کی تردید کی طرف بھی اشارہ ہو جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اُسے چھوتا ہے جسکی وجہ سے وہ رونے لگتا ہے لیکن مسیح جب پیدا ہو اتو شیطان نے اُسے نہیں چھُوا۔ پیدائش پر بچہ اس لئے روتا ہے کہ راستہ تنگ ہوتا ہے اور وہ نہایت تکلیف کے ساتھ رحم مادر میں سے باہر آتا ہے اُدھر عورت چیختی ہے کیونکہ اُسکی ہڈیاں ٹوٹتی ہیں ۔پس اللہ تعالیٰ نے یہ بتا کر کہ حضرت مریم کو اچھی خاصی درد ہوئی اس طرف بھی اشارہ کردیاہے کہ جب مریم کو اتنی درد ہوئی تو تم سمجھ سکتے ہو کہ عیسٰی کو بھی ضرور درد ہوئی ہوگی اور وہ بھی تکلیف سے چیخا چلایا ہو گا۔


پس (فرشتہ نے )اس کو نچلی جانب کیطرف سے پکارکر کہا کہ (اے عورت) غم نہ کر اللہ (تعالیٰ) نے تیر ی نچلی جانب ایک چشمہ بہایا ہوا ہے (اسکے پاس جا اور اپنی اور بچہ کی صفائی کر ) اور (وہ ) کھجور (جو تیرے قریب قریب ہوگی اس)کی ٹہنی کو پکڑ کر اپنی طرف ہلا۔ وہ تجھ پر تازہ بتازہ پھل پھینکے گی ۔
حل لغات :
تحتکے معنے نیچے کے بھی ہوتے ہیں اور نشیب کے بھی ہوتے ہیں کیونکہ نشیب بھی نیچے کی طرف ہوتا ہے ۔ اگر تم کسی پہاڑ پر جارہے ہوتو وہ جگہ بھی نیچے کہلائے گی جس طرف پہاڑی اُترتی ہو اور وہ جگہ جو تمہارے پائوں کے نیچے ہوگی وہ بھی تحت کہلائیگی ۔
سریا سرَیٰ سے ہے جس کے معنے چلنے والی چیز کے ہیں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ سریا سرو سے ہے جس کے معنی بلندیٔ شان اور عظمت کے ہیں ۔
ھزّ کے معنے زور سے ہلانے کے ہوتے ہیں۔
تفسیر :
فنادھا من تحتھا سے مفسرین کا ذہن پائوں کے نیچے والے معنوں کی طرف چلا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰی چونکہ نیچے تھے اس لئے انہوں نے یہ آواز دی مگر بعض نے کہا ہے کہ اس مراد حضرت مسیح ؑ نہیں بلکہ فرشتہ ہے جس نے پائوں کی طرف سے کلام کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس جگہ مراد فرشتہ ہی ہے ۔مگر یہ بالکل احمقانہ خیال ہے کہ فرشتہ نے جسم کے نیچے سے بات کی۔ تحتھاسے مراد نشیب ہے کیونکہ جس جگہ پر اُن کے ہاں بچہ پیدا ہوا اُس کے پاس نشیب تھا اور نشیب کے نیچے چشمہ تھا ۔ بائبل کی روایت سے پتہ لگتا ہے کہ بچہ بیت لحم میں پیدا ہوا اور بیت لحم ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے جو سمندر سے ۲۳۵۰ فٹ اونچی ہے ۔اس کے ارد گرد سبز وادیاں ہیں جو سارے یہود اہ سے زیادہ سر سبز ہیں ۔اس پہاڑی کے اندر دو تین چشمے ہیں جن کو چشمئہ سلیمان کہتے ہیں اور یہیں سے شہر میں پانی لایا جاتا ہے ۔ گویا شہر میںپانی نہیں بلکہ تالاب سلیمان سے نالیوں کے ذریعہ پانی لایا جا تا ہے ۔مگر شہر سے جنوب مشرق کی طرف آٹھ سو گز یعنی نصف میل پر اور وہ بھی نیچے ڈھلوان کی طرف چشمہ ہے (قاموس کتاب المقدس ترجمہ وتالیف ڈاکٹر جارج ای پوسٹ ایم ڈی )پس فنادھا من تحتھا سے مراد ہے کہ اُنہیں چشمہ کی طرف سے آواز آئی ۔انسان آواز سے بھی اندازہ لگا لیتا ہے کہ جگہ کہاں ہے ۔مثلاََ اگر ہمیں کوئی شخص بائیں طرف سے آواز دے تو ہم اُس آواز سے فوراََ قیاس کرلیں گے کہ یہ آواز ہمیں بائیں طرف سے آئی ہے دائیں طرف سے نہیں آئی ۔پس حضرت مریم کو جگہ بتانے کے لئے کہ تمہیں کہاں سے پانی ملے گا فرشتہ نے اُس نشیب سے اُنہیں آوازدی اور اس طرح بتایا کہ پہاڑی کا جو نشیب ہے یہاں سے تمہیں پانی مل جائے گا ۔ یہ مراد نہیں کہ وہ اُن کی کمر کے نیچے سے بولا ۔جغرافیہ سے بھی ثابت ہے کہ وہاں چشمے پائے جاتے ہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ بائبل بتاتی ہے حضرت مریم جب بیت لحم گئیں توانہیں ٹھہرنے کے شہر میں جگہ نہیں ملی پس وہ شہر سے باہر جاکر رہیں اور بائبل بتاتی ہے کہ وہ اس جگہ رہیں ۔ گڈریے اپنے جانور چرایا کرتے تھے (انجیل لوقاب باب۲آیت ۸) اور گڈریے اپنے جانور ہمیشہ شہر سے کچھ فاصلے پر چرایا کرتے ہیں اسی وجہ سے لکھا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے اُسے کھلیان میں ڈالا ۔ پس شہر اور چشموں کے درمیان کسی جگہ پر جاکر ٹھہر گئیں ۔شاید انہیں یہ بھی خیال ہو کہ اگرمیں شہرمیں رہی تو لوگ شور ڈالیں گے یہ کس کا بچہ ہے اس لئے بہتر ہے کہ شہر سے کچھ فاصلہ پر جا کر رہوں ۔ چنانچہ انہوں نے نے شہر سے کچھ فاصلہ پر ڈیرہ لگادیا ۔ جہاں سے پانی نزدیک تھا مگر بوجہ اجنبی جگہ ہونے کے انہیں علم نہیں تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے فرشتہ نے اُنہیں الہاماً بتا دیا کہ اس طرف چشمہ بہ رہا ہے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مسیح ؑ کو اس ذریعہ سے حضرت اسمعٰیل سے مشابہت دی گئی ہو ۔حضرت اسمعٰیل علیہ السلام بھی جب مکہ میں چھوڑے گئے تو اُن کی والدہ کو اللہ تعالیٰ کے فرشتہ نے آوازدی تھی کہ جا ہم نے تیرے بیٹے کے پائوں تلے سے چشمہ پھوڑ دیا ہے۔بہر حال یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا کہ اس نے حضرت مریم کی گھبراہٹ کے وقت انہیں بتا دیا کہ فلاں جگہ پانی ہے وہاں سے تم اپنی ضرورت پوری کرلو۔
ہمارے مفسرین تحتک سریاکے یہ معنی کرتے ہیں کہ خدانے تیرے نیچے ایک شاندار وجود بنایا ہے یعنی تیرا بچہ بڑی شان والا ہوگا اور بعض نے کہا کہ یہ لفظ حضرت مسیح ؑ کی شان کی بلندی اور اُن کی عظمت کے اظہار کے لئے بولا گیا ہے ۔در حقیقت ہمارے مفسرین کو شوق ہے کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے حضرت مسیح کی تعریف کرتے رہیں اور اُن کی شان کی بلندی کے قصے بیان کرتے پھیریں ۔اُن کے پیدا ہونے کا ذکر ہو تو کہتے ہیں کہ تمام دنیا میں سے صرف وہی مسِ شیطان سے پاک تھے اور موت کا ہو توکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہے ۔ پس یہ معنے اُن کی اِسی دیرینہ ذہنیت کا نتیجہ ہیں حالانکہ بات سیدھی تھی بچہ پیدا ہوا تو ماں کو اپنی اور بچہ کی صفائی کے لئے پانی کی ضرورت تھی ۔ خیال تھا کہ کپڑے دھونے اور بچے کو نہلانے کے لئے پانی کی ضرورت تھی ۔ خیال تھا کہ پکپڑے دھونے اور بچے کو نہلانے کے لئے پانی کہاں سے آئیگا فرشتے نے کہا کہ نیچے پانی موجود ہے وہاں سے اپنی ضرورت پوری کرلو اور جغر افیہ سے ثابت ہے کہ بیت لحم میں پہاڑی کے نیچے چشمے موجود ہیں ۔
اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ فکلی واشربی وقری عینا یعنی کھا اور پی اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر ۔کھجور کا ذکر چونکہ پہلے آچکا ہے اس لئے مراد یہ ہے کہ کھجوریں کھا اور پانی پی اور تجھے یہ جو فکر تھا کہ میں گندکا کیا علاج کروں گی اُس کو اب دُور کردے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ یہ اگلی عبارت صاف طور پر بتارہی ہے یہاں سریاکے معنے رفعت کے نہیں بلکہ چشمہ کے ہیں ۔پہاڑی کے نشیب میں چشمہ تھا ۔خدا تعالیٰ نے کہا کہ کھجوریں کھا ۔پانی پی او ر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر ۔
اب اس مقام پر ایک بہت بڑی مشکل پیش آجاتی ہے جس کو حل کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ عیسائی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ کی پیدائش ۲۵دِسمبرکو ہوئی اور لوقا کہتا ہے کہ قیصر اگسطِس نے اُس وقت مردم شماری کا حکم دیا تھا جس کے لئے یوسف اور مریم ناصرہ سے بیت لحم گئے اور وہیں حضرت مسیؑح کی پیدائش ہو ئی ۔ گویا ۲۵ دسمبر کو ۔اُس زمانہ میں جب قیصر اگسطِس کے حکم کے ماتحت یہودکی پہلی مردم شمارہوئی مسیح ؑ بیت لحم میں پیدا ہوئے۔ قرآن بتاتا ہے کہ مسیح اس موسم میں پیدا ہوئے جس میں کھجور پھل دیتی ہے اور کھجور کے زیادہ پھل دینے کا زمانہ دسمبر نہیں ہوتا بلکہ جولائی اگست ہوتا ہے اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک چشمے کا بھی پتہ بتایا جہاں وہ اپنے بچے کو نہلا سکتی تھیں اور اپنی صفائی کر سکتی تھیں تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جولائی اگست کا مہینہ تھا ورنہ سخت سردی کے موسم میں چشمہ کے پا نی سے نہانا اور بچے کو بھی غسل دینا خصوصاََ ایک پہاڑ پر اور عرب کے شمال میں عقل کے بالکل خلاف تھا ۔لیکن عیسائی تاریخ یہی کہتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ دسمبر میں پیدا ہوئے اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیح کی پیدائش دسمبر میں ہوئی تھی تو سوال پیدا ہو تا ہے کہ قرآن تو حضرت مریم سے کہتا کہ ھزی الیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رطبا جنیا تو کھجور کے تنہ کو ہلا تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی ۔حالانکہ کھجور اُس وقت بہت کم ہوتی ہے۔کھجور زیادہ تر جولائی اگست میں ہو تی ہے اور مسیح کی پیدائش دسمبر میں ہوئی۔ پس اگریہ درست ہے کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے کھجور کا کیوں ذکر کیا جبکہ کھجوریں اُس موسم میں ہوتی ہی نہیں ۔اس اعتراض سے ڈر کر ہمارے مفسرین نے یہ لکھ دیا کہ حضرت مریم کھجور کے تنہ کے پاس درد کا سہارا لینے گئی تھیں۔ انہیں خیال آیا کہ مسیح کی پیدائش دسمبر میں بتائی جاتی ہے اور دسمبر میںکھجورکے درخت پر بہت کم پھل لگتا ہے پھر وہ کھجور کے سوکھے درخت کے پاس کیوں گئی تھیں ۔اِس کا جواب اُنہوں نے یہ سوچا کہ وہ درد کا سہار الینے گئی تھیں ۔مگر انہیں یہ خیال نہ آیا کہ ساتھ قرآن نے یہ کہا کہ کھا اور یہ بھی کہا ہے کہ کھجور کے تنہ کو ہلا تو تجھ پر تازہ کھجوریں گرینگی ۔ صرف اس وجہ سے کہ عیسائی بیان اُن کے سامنے تھا کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے اوردسمبر میں کھجور کو بہت کم پھل لگتا ہے ۔ انہوں نے یہ معنی کر لئے کہ وہ سہارا لینے کے لئے کھجور کے سوکھے درخت کے پاس گئی تھیں لیکن بعض مفسروں کو فکلی اور تسٰقط علیک رطبا جنیا کا بھی خیال آیا اور انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا ۔حضرت مریم کھجور کے سوکھے درخت کو ہلاتیں تو تازہ بتازہ کھجوریں گرنی شروع ہوجا تی تھیں۔
دوسری مشکل ہمارے سامنے یہ پیش آتی ہے کہ یہ واقعہ یہود یہ میں ہوا ہے ۔قرآن اس موقعہ پر کھجور کا ذکر کرتا ہے اور بائبل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں زیتون بادام اور انگور ہوتا تھا کھجور کا ذکر نہیں آتا اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ دسمبر میں بادام بھی نہیں ہوتا۔ انگور بھی نہیں ہوتا اور زیتون بھی نہیں ہوتا گویا قرآن صرف کھجور کا ذکر کرتا ہے مگر دسمبر میں کھجور بہت کم ہوتی ہے اور تاریخ بائبل یہودیہ میں زیتون ، بادام اور انگور کا تو ذکر کرتی ہے لیکن کھجور کا ذکر نہیں کرتی اور پھر یہ تینوں چیزیں بھی دسمبر میں نہیں ہوتیں ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیااس علاقہ میں جسمیں انجیل حضرت مسیح کی پیدائش بتاتی ہے کھجور ہوتی تھی یا نہیں ۔اِس کے متعلق جب ہم بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خود بائبل اس بات پر گواہ ہے کہ اُس علاقہ میں کھجور ہو کرتی تھی ۔چنانچہ لکھا ہے
"تب موسٰی کے سُسر قینی کی اولاد کھجوروں کے شہر سے بنی یہوداہ کے ساتھ یہوداہ کے بیابان کو جو عراد کے دکھن کی طرف ہے چڑھیں ۔" (قاضیوں باب ۱آیت ۱۶)
عراد جس کا حوالہ میں ذکر آتا ہے بیت لحم سے کوئی سو میل کے فاصلہ پرہے اور چونکہ اس سے شمالی کی طرف کھجوروں کا شہر تھااس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت لحم کے قریب قریب یقینا کھجوریں پائی جاتی تھیں ۔ پھر یہودیہ کا علاقہ جس میں بیت لحم ہے چونکہ عرب سے ملتا ہے اس لئے بھی اُس میں کھجوروں کا پایا جانا بالکل قرین قیاس ہے لیکن اس تحقیق سے الی جذع النخلۃ تک تو بات ٹھیک ہوگئی ۔پتہ لگ گیا کہ اُس علاقہ میں کھجور پائی جاتی تھی لیکن یہ سوال ابھی حل نہیں ہوا کہ قرآن کہتا ہے کہ مسیح جس موسم میں پیدا ہوئے اُس وقت کھجوریں درخت پر لگی ہوئی تھیں اور کھجوریں بھی پختہ تھیں اور کھانے کے قابل تھیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے جبکہ کھجوریںبہت کم ہوتی ہیں ۔اس سے لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک حضرت مسیح ؑ کی پیدائش اس موسم میں ہوتی ہے جس میں کھجور لگی ہوئی ہوتی ہے مسیحی تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح ۲۵دسمبر کو پیدا ہوا ۔بعض اس کا وقت اپریل بتاتی ہیں ۔مگر دسمبر یا اپریل میں کھجور درخت پر بہت کم ہوتی ہے ۔پس ہمیں اس مسئلہ کی مزید تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
میں نے کہا تھا کہ لوقا نے جوکچھ بیان کیاہے اگر اُس میں غلط بیانی کی کوئی وجہ نہیں تو ٹھیک ہے لیکن اب اس قرآنی آیت نے ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم وہ وجہ تلاش کریں جس کی بناء پر ان دونوں باتوں کا آپس میں جوڑ نظر نہیں آتا ۔اس نقطہ نگاہ سے اب ہم پھر تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوقا کو مردم شماری کے بارہ میں غلطی لگی ہے ۔وہ کہتا ہے کہ یوسف اور مریم مردم شماری کی غرض سے ناصرہ سے بیت لحم گئے ۔لیکن جب ہم روما کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ مسیح کی پیدائش کے سن میں کوئی مردم شماری ہوئی ہی نہیں ہوئی اور وہ لکھتا ہے کہ یہ یہود کے لئے اتنی نئی چیز تھی کہ وہ حیران ہوتے تھے اور تعجب کرتے تھے کہ اس مردم شماری کی غرض کیا ہے ۔اگر سات سال پہلے بھی مردم شماری ہوچکی ہوتی تویہود اتنے حیران کیوں ہوتے ؟ علاوہ ازیں تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہیروڈ (HEROD)کی وفات کے وقت کون سٹیسلس واردس گورنر تھا۔ لوقا کا بیان کردہ کورینس (QUIRINIUS) نہیں تھا بلکہ رومی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے گورنر سینٹی نس (SENTINIS) اور (TITNIS) تھے ۔اول الذکر ۹قبل مسیح سے ۶قبل مسیح تک رہا اور دوسرے کا ذکر تاریخ میں ۱۰ قبل مسیح میں آتا ہے ۔(انسائیکلوپیڈیا ببلیکا زیر لفظ کرانیکل) اس سے نتیجہ نکلا کہ مسیح کی پیدائش سے دس سال قبل سے لے کر ہیروڈ کی وفات تک کورنیس نام کا کوئی گورنر تھا ہی نہیں ۔پس جبکہ دس سال قبل مسیح سے بعد وفات ہیروڈ تک کے گورنروں کے نام ہمیں معلوم ہیں اور اُن میں سے کوئی بھی لوقا کا بیان کردہ کورنیس نہ تھا اور جوزیفس کے بیان کے مطابق اُس وقت کوئی مردم شماری ہی نہ تھی تو ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ لوقا کے ذہن میں واقعات مشوش ہوگئے ہیں۔یا تو اُس نے مردم شماری کا ذکر سن کر جو کئی سال بعد ہوئی تھی ،یہ سمجھ لیا کہ وہ پہلے ہوئی تھی اور یوسف اس کے لئے باہر گئے تھے اور پھر پیدائش کا واقعہ اُس نے ساتھ ملالیا ۔اور یا پھراُس نے جان بوجھ کر اُن واقعات کو بدلا اور یہی حقیقت ہے۔ اب میں بتاتا ہوں کہ کس طرح قرآنی بات سچی ثابت ہوتی ہے ۔
بات یہ ہے کہ حضرت مریم بغیر خاوند کے حاملہ ہوئیں ۔خاوند نے شور مچایا کہ یہ میرا حمل نہیں ۔اِدھر خاوند کو خواب آگئی کہ مریم کو اپنے گھر میں لے آکیونکہ وہ جو کہتی ہے ٹھیک کہتی ہے۔مگر جس کو خواب آگئی اُسکی تسلی ہوگئی کہ میری بیوی بدکار نہیں۔لیکن شہر والے تو نہیں مان سکتے تھے جو بھی سُنیگا وہ کہیگا کہ حرام کا ہے۔ اور کوئی خاوند یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی بیوی کو بد کار کہا جا ئے ۔پس چونکہ لوگوں میں بدنامی کا ڈر تھا ۔اِس لیے تین چار مہینے جب تک حمل چھپ سکتا تھا وہ اپنے گھر میں رہے اورجب دیکھا کہ پیٹ بڑا ہورہا ہے اور حمل اب چھپ نہیں سکتا تو ایک دور کے علاقہ میں چلے گئے اور وہا ں جا کر بچہ پیدا ہوا ۔اب لوقا کیلئے اس بات کے اظہار میں کیا مشکل تھی لوقا کیلئے یہ مشکل تھی کہ وہ صرف یہی نہیں بتاتا کہ مریم کو خواب میں فرشتہ ملا اور اُس نے بتایا کہ تو حاملہ ہوگی بلکہ وہ ساتھ ہی معجزے بھی بیان کرنے شروع کردیتا ہے کہ ادھر مریم حاملہ ہوئیں اور اُدھر خداوند کے ظہور کی وجہ سے معجزے ظاہر ہونے لگ گئے۔ چنانچہ مریم حضرت زکریا کی بیوی سے ملنے گئیں تو وہ کہنے لگیں کہ ’’ میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی ہے ‘‘پھر کہا کہ ’’ دیکھو تیرے سلام کی آواز جونہی میرے کا ن تک پہنچی لڑکا میرے پیٹ میں خوشی سے اُچھل پڑا ۔‘‘(لوقا باب۱ آیت ۴۳،۴۴) اور یہ ظاہر بات ہے کہ جب اس حمل کے ساتھ ہی معجزات ظاہر ہونے لگ گئے تھے تو حمل کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ مگر اِدھر واقعات بتارہے تھے کہ یوسف اور مریم ایک لمبے عرصہ تک باہر رہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یوسف کو خواب آچکی تھی کہ میری بیوی کا کوئی قصور نہیں ۔ مگر صرف یوسف کی خواب سے کیا بنتا تھا۔سوال لوگوں میں بدنامی کا تھا پس یوسف نے یہ تدبیر کی کہ جب تک حمل چھپ سکتا تھا انہیں اپنے گھر میں رکھا اور جب دیکھا کہ اب حمل چھپ نہیں سکتا تو وہ اُنہیں کسی دور مقام پر لے گیا تاکہ لوگوں میں بدنامی نہ ہو اور بچہ کہیں باہر ہی پیدا ہوجائے لیکن لوقا کی غرض یہ تھی کہ مسیح کی خدائی ثابت کرے اِس لئے اُس نے حمل کے ساتھ ہی مسیح کے معجزے بیان کرنے شروع کردئیے کہ ابھی وہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا کہ زکریا کی بیوی حضرت مریم کو دیکھکر کہہ اُٹھیں کہ میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی ہے بلکہ زکریا کی بیوی تو الگ رہی یوحنا جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں تھا وہ بھی خوشی سے اچھل پڑا اور پیٹ میں ہلنے لگ گیا ۔پس لوقا نے یہ سمجھا کہ اگر حمل کی وجہ سے مریم کا باہر جانا ثابت ہو تو یہ خیال کیاجائے گا کہ گویا مریم اور اُس کے خاوند یوسف اللہ تعالیٰ کے اِس قدر نشانات اور معجزات کے باوجود لوگوں کے اعتراض سے ڈرتے تھے لیکن اِدھر وہ اس امر سے بھی انکار نہیں کر سکتا تھا کہ یوسف اور مریم باہر گئے ۔ پس سوال پیدا ہوتا تھا کہ جب یہ حمل معجزانہ تھا اور جب حمل کے ساتھ ہی مسیح کے معجزات بھی ظاہر ہونے لگ گئے تھے تو پھر اس حمل کو چھپانے کی ضرورت نہیں تھی اور جب نہیں تھی تو پھر یوسف اور مریم باہر کیوں گئے ۔اس اعتراض سے بچنے کے لئے وہ سات سال بعد کی مردم شماری کے واقعہ کو پہلے بیان کرتاہے تاکہ یوسف اور مریم کے باہر جانے کی ایک قانونی وجہ نکل آئے اور لوگو ں کو بتایا جا سکے کہ وہ حمل کو چھپانے کے لئے باہر نہیں گئے بلکہ اس لئے گئے تھے کی قیصر نے مردم شماری کا حکم دیا تھا اور اُن کابیت لحم میں جانا ضروری تھا ۔ پس رومی تاریخ کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لوقا نے پردہ ڈالا۔ درحقیقت یہ مردم شماری اُس وقت نہیں ہوئی محض پیدائش کو چھپانے کے لئے یہ سفر تھا نہ کہ مردم شماری کے لئے اور واقعہ بھی یہی ہے۔ یوسف خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت حضرت مریم کو اپنے گھر تو لے آیا مگر دیکھا کہ اگرمیں مریم کو پنے گھر میں ہی رکھوں تو میری ناک کٹتی ہے پس اُس نے یہ تدبیر کی کہ جب حمل چھپ نہیں سکتا تھا تو وہ انہیں اپنے ساتھ لیکر کسی بہانہ سے سفر پر چلاگیا ۔ اب سیدھی بات ہے کہ اگر وہ بچہ پیدا ہونے کے فوراََ بعد ہی اپنے شہر میں واپس آجاتے تو اعتراض قائم رہتا کہ مریم کو تمہارے گھر آئے تو ابھی پانچ ماہ ہی ہوئے تھے یہ بچہ کہاں سے پیدا ہوگیا ۔ اگر وہ ٹھیک نوماہ کے بعد بھی واپس آتے اور کہتے کہ جائز حمل کے نتیجہ میں پید ا ہوا ہے تو بچہ کی شکل سے لوگ پہچان جاتے کی یہ نوزائیدہ بچہ ہے یا اس کی پیدائش پر چار پانچ ماہ گذر چکے ہیں ۔اسبات کو چھپانے کا صرف ایک ہی طریق تھا کہ وہ کئی سال باہر رہتے چنانچہ بڑی عمر کا بچہ لے آئو تو پھر کچھ پتہ نہیں لگ سکتا کہ وہ کب پیدا ہوا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اُن کو کئی سال باہر رہنا پڑا۔ میں قیاساََ سمجھتا ہوں کہ وہ آٹھ نو سال باہر رہے اور پھر واپس آئے ۔بہر حال چونکہ یوسف حضرت مریم کو اپنے گھر لے آئے تھے لیکن گھر لانے سے پہلے چند ماہ کا حمل تھا ۔اس لئے سمجھاجا سکتا ہے کہ اگر وہ چند سال باہر رہتے تو اس پر پر دہ پڑ جاتا اور یہ سمجھا جاتا کہ عیسٰی شادی کے بعد جائز حمل سے پیدا ہوئے ہیں لیکن اگر اُسی وقت لے آتے تو راز فاش ہوجاتا ۔فرض کرو یوسف حضرت مریم کو اپریل میں اپنے گھر لایا تو لوگ حمل کا وقت اپریل سے شروع کریں گے اور اس طرح اُن کے نزدیک دسمبر میں بچہ پیدا ہو جانا چاہیے ۔اگر وہ اگست ستمبر میں پیدا ہوجاتا ہے تو لوگ کہیں گے کہ یہ حرام کا بچہ ہے کیونکہ خاوند تو اسے اپریل میں اپنے گھر لایا تھا اور بچہ اگست ستمبر میں پیدا ہو گیا۔ اگر وہ بچہ باہر جنوالیتا ہے اور واپس اُس وقت آتا ہے جب شادی پر نو مہینے گذر جاتے ہیں تب ہر شخص جو بچے کو دیکھے گا کہیگا کہ یہ دسمبر میں پیدا ہوا ہے اور کہیں گے کی یہ تین چار ماہ کا معلوم ہوتاہے ۔آخر کون شخص ہے جو تین مہینے اور ایک مہینہ کے بچہ میں فرق نہ کر سکے پس اگر یوسف دسمبر میں ہی اپنے بچے کو لے آتے اور کہتے کہ یہ اِسی مہینہ میں پیدا ہوا ہے تو ہر شخص کہتا کہ یہ بالکل غلط بات ہے یہ تو پانچ چھ ماہ پہلے کا معلوم ہوتاہے ۔اِس پر پردہ اُسی صورت میں پڑ سکتا تھا جب وہ کئی سال باہر رہتے۔ چونکہ قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ حضرت مسیح اس موسم میں پیداہوئے جس موسم میں کھجور تیا ر ہوتی ہے اور کھجور زیادہ تر جولائی اگست میں ہوتی ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ جولائی یا اگست میں پیدا ہوئے اور حضرت مریم کو اکتوبر یا نومبر میں حمل ہوا ۔اگر وہ جولائی کے مہینہ میں یا اگست کے شروع میں پیدا ہوئے تھے تو حضرت مریم کو اکتوبر میں حمل ہوا اور اگر وہ اگست کے وسط یا آخر میں پیدا ہوئے تو حضرت مریم کو نومبر میں حمل ہو ا ۔ بہر حال قرآن کریم کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت مریم کو ۱۵ اکتوبر سے ۱۵ نومبر تک کسی تاریخ میں حمل ہوا ہے تبھی جاکر اُس موسم میں بچہ پیدا ہوتا ہے جس میں کھجورزیادہ تر پھل دیتی ہے۔ نومبر میں حمل ہو ا تو مریم اپنی ماں سے تو نہیں چھپا سکتی تھی اُس نے اپنی ماں کو ضرور بتایا ہوگا اور پھر ماں نے اپنے رشتہ داروں کوبتایا ہو گااور وہ روئے پیٹے ہوں گے اور پھر یوسف کے پاس گئے ہوں گے کہ وہ کسی طرح مریم کو اپنے گھر لے آئے اور یہ بات دب جائے ۔یوسف نے پہلے انکار کرنا چاہا مگر خدا تعالیٰ نے خواب میں اُسے حکم دیا کہ وہ انکار نہ کرے اور مریم کو اپنے گھر لے آئے اب وہ خدا سے بھی ڈرتا تھا اور لوگوں سے بھی ڈرتا تھا وہ خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں مریم کو اپنے گھر میں لے آیا ۔فرض کرو فروری میںیامارچ کے آخر میں وہ اُن کو اپنے گھر لایا اور مئی جون میں جب اس نے دیکھا کہ اب حمل پر پر دہ نہیں پڑ سکتا تو وہ کوئی بہانہ بناکر جنوب کی طرف سفر پر چلاگیا اور بیت لحم میں پہنچ کر بچہ پیدا ہوگیا ۔اب اگر اُسی وقت وہ اپنے بچہ کو واپس لے آتے تو بڑے بیوقوف بنتے کیونکہ وہ تو نکلے ہی اس لئے تھے کہ لوگوں کو بچہ کی پیدائش کا علم نہ اور وہ یہ نہ کہیں کہ مریم تو تمہارے گھر میں مارچ میں آئی تھیں جولائی یا اگست میں بچہ کس طرح پیدا ہوگیا ۔اگر وہ چھ مہینے کے بعد بھی واپس لاتے تب بھی بیوقوف بنتے کیونکہ وہ کہتے کہ ایک مہینہ ہوا ہمارے ہاں یہ بچہ پیدا ہوا ہے اور اس کی شکل چار پانچ مہینے کے بچے والی ہوتی اور چار پانچ مہینے کا فرق بڑا بھاری فرق ہوتا ہے ۔ پس وہ کئی سا ل باہر رہے تاکہ اسبات پر پر دہ پڑ جائے اور لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات نکل جائے اور جب وہ بچہ بڑا ہو گیا تو پھر اپنے وطن میں واپس آئے ۔متی سے بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ کئی سال مصر میں رہے (انجیل متی باب ۲آیت۱۳) اب واقعات تویہ بتاتے ہیں کہ یوسف اور مریم لوگوں سے ڈر کر باہر گئے ۔ مگر لوقا بتاتا ہے کہ مسیح ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا کہ اُس کے معجزے ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور سب کو پتہ لگ گیا کہ مریم روح القدس کی وجہ سے حاملہ ہے ۔اب جبکہ سب کو پتہ لگ گیا تھا اور مسیح کے معجزے بھی ظاہر ہونے شروع ہوگئے تھے تو اس حمل کو چھپانے اور اُن کے باہر جانے کی کوئی وجہ نہ تھی مگر دوسری طرف واقعات بتاتے ہیں کہ یوسف اور مریم باہر گئے اور باہر ہی بچہ پیداہوا ۔ پس سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر سب کو علم تھا کہ مریم روح القدس سے حاملہ ہے تو پھر یوسف اور مریم باہر کیوں گئے۔اس سوال کو حل کرنے کے لئے لوقا سات سال بعد کی مردم شماری کو سات سا ل پہلے بیان کرتا ہے ۔ اُس نے خیال کیا کہ ستر اسی سال گذر چکے ہیں (کیونکہ لوقا کی انجیل مسیح ؑ کے واقعہ صلیب کے بعد لکھی گئی ہے ) کون یاد رکھے گا کہ مردم شماری کس سال میں ہوئی۔آئو ہم دنیا کے سامنے یہ وجہ پیش کردیں کہ یوسف اور مریم کسی اور غرض سے نہیں بلکہ مردم شماری کی غرض سے ناصرہ سے بیت لحم گئے تھے لیکن قرآن تو سچی بات بتاتا ہے ۔اُس نے وہ بات بتائی ہے جو عین فطرت انسانی کے مطابق ہے اور اس سے واضح ہوتاہے کہ مسیح ؑ کی پیدائش دسمبر میں نہیں ہوئی جیسا کہ عیسائی بتلاتے ہیں بلکہ جولائی یا اگست میں ہوئی ہے جبکہ کھجور کے درخت کثرت سے پھل تیار ہوجاتا ہے ۔ عیسائیوں نے دسمبر کی پیدائش محض اس لئے بیان کی ہے تاکہ اصل واقعہ پر پردہ پڑا رہے اور لوگ یہ سمجھیں کہ حضرت مسیح شادی کے بعد جائز حمل سے پیدا ہوئے ہیں ۔
پھر انجیل میں مسیح کی پیدائش کا موقع بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’اسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلّہ کی نگہبانی کررہے تھے ۔‘‘ (لوقا باب ۲ آیت ۸)
ظاہر ہے کہ گرمی کا موسم تھا نہ کہ شدید سردی کا ۔دسمبر کا مہینہ تو علاوہ شدید سردی کے فلسطین میں سخت بارش اور دُھند کاہوتا ہے۔ کون تسلیم کرسکتا ہے کہ ایسے موسم میں کھلے میدان میں چرواہے اپنے گلّوں کو لیکر باہر نکل آئے تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ گرمی کا موسم تھا چنانچہ پیکس تفسیر بائبل میں انجیل لوقا کے مفسّر پرنسپل اے۔جے۔گریوایم۔اے۔ڈی کی طرف سے لوقا کے اس بیان پر حضرت مسیح ؑ کی پیدائش جس موسم میں ہوئی تھی اُس وقت چرواہے گلّوں کو باہر نکال کر کھلے میدان میں راتیں بسر کرتے تھے مندرجہ ذیل تبصرہ موجود ہے کہ یہ موسم ماہ دسمبر کا نہیں ہوسکتا ہمارا کرسمس ڈے مقابلۃ ًبعد کی ایک روایت ہے جو کہ پہلے مغرب میں پائی گئی ‘‘۔اسی طرح بشپ جارنس اپنی کتاب RISE OF CHRISTIANITYمیں تحریر کرتے ہیں :
’’اس تعین کے لئے کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے کہ ۲۵ دسمبر ہی مسیح کی پیدائش کا دن تھا اگر ہم لوقا کی بیان کردہ ولادت مسیح کی کہانی پر یقین کرلیں کہ اس موسم میں گڈریے رات کے وقت اپنی بھیڑوں کے گلّہ کی نگرانی بیت لحم کے قریب کھیتوں میں کرتے تھے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش موسم سرما میں نہیں ہوئی جبکہ رات کو ٹمپریچر اتنا گرجاتا ہے کہ یہود یہ کے پہاڑی علاقہ میں برف باری ایک عام بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کرسمس ڈے کافی بحث و تمحیص کے بعد قریباََ ۳۰۰ ؁ء میں متعین کیاگیا ہے‘‘(ص۷۹)
پس اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مسیح کی پیدائش دسمبر میں نہیں ہوئی۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت مریم کو دردِزہ ہوئی تو وہ ایک کھجور کے نیچے گئیں اور کھجور اُس وقت موجود تھی ۔لیکن انجیل جس زمانہ کی خبر دیتی ہے اُس وقت کھجور نہیں ہوتی ۔میں نے بتایا ہے کہ در حقیقت انجیل کی غلط بیانی کی ایک وجہ موجود ہے اور وہ یہ کہ لوقا بتاتا ہے کہ مسیح سے حاملہ ہونے پرصرف مریم کو خبر نہیں ہوئی بلکہ جب وہ اپنی بہن الزبتھ کو ملنے گئیں جو زکریا کی بیوی تھیں تو اُن کے پیٹ میں یحییٰ خوشی سے ہلا جس سے یہ بات دوسروں میں بھی پھیل گئی کہ مریم حاملہ ہے ۔پھر قرآن تو خاموش ہے ۔لیکن انجیل بتاتی ہے کہ حضرت مریم کو جب فرشتہ نے خبر دی کہ تُوحاملہ ہوگی تو انہوں نے صرف تعجب کا ہی اظہار نہیں کیا کہ بغیر خاوند کے مجھے کس طرح حمل ہوسکتا ہے بلکہ وہ اس پر خوش ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ ’’دیکھ میں خداوندکی بندی ہوں میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو‘‘ (انجیل لوقا باب۱ ۳۸)اب اس چیز کے ساتھ یہ بات ملتی نہیں کہ جب حمل ہوچکا تھا اور لوگوں پر ظاہر ہوچکا تھا کہ یہ بچہ روح القدس سے ہے باپ سے نہیں اور مریم کو بھی فرشتے کی وجہ سے تسلی ہوگئی تھی اور وہ خوش تھیں کہ مجھے ایسا حمل ہوا ہے تو پھر وہ اپنی جگہ سے غائب کیوں ہوئیں کیونکہ ساری انجیلیں اِسبات پر متفق ہیں کہ بچہ کسی اور جگہ ہوا ۔سوال یہ ہے کہ کسی اور جگہ کیوں ہوا اپنے وطن میں ہی کیوں نہ ہوا ؟ اس بات کو چھپانے کے لئے کہ غائب ہونے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ اپنا بچہ چھپانا چاہتی تھیں لوقا کہتا ہے کہ چونکہ وہ مردم شماری کا وقت تھا اسلئے وہ اپنے نام لکھوانے کیلئے وہاں گئے تھے اور مردم شماری کا مہینہ دسمبر بتایا جاتا ہے۔ اِس سے اُن کی غرض یہ تھی کہ شہر والوں پر یہ ظاہر کریں کہ مسیح دسمبر میں پیداہوا ہے اور اُس دن سے نو مہینے پورے ہوجاتے ہیں جب یوسف اُسے اپنے گھر میں لایا اور اس طرح حمل پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔لیکن قرآن نے تو اصل واقعہ بیان کرنا تھااِس لئے اُس نے اُس وقت سے تاریخ بیان کی ہے جب وہ روح القدس سے حاملہ ہوئیاور بائبل نے اُس وقت سے تاریخ بنانے کی کوشش کی ہے جب وہ یوسف کے گھر میں آئی ۔تم یوں سمجھ لو کہ قرآنی بیان کے مطابق حضرت مریم نومبر میں حاملہ ہوئیں اِس لحاظ سے نو مہینے جولائی کے آخر میں ختم ہوجاتے ۔چونکہ بعض بچے ۲/۱ ۸ ماہ بعد بعض ۹ماہ بعد اور بعض ساڑھے نوماہ بعد پیدا ہوتے ہیں ۔اِس لئے ہم اندازاََ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ ۱۵جولائی سے ۱۵ اگست تک کسی وقت میں پیدا ہوئے اور اُس وقت کھجور بکثرت ہوتی ہے لیکن انجیل کہتی ہے کہ وہ ۲۵دسمبر کو پیدا ہوئے ۔اب ہم ۲۵دسمبر سے اُلٹ حساب کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ حضرت مریم کو ۲۵ مارچ کو حمل ہو ااور چونکہ عیسائیوں نے مسیح کی پیدائش اُس وقت کی بتائی ہے جبکہ یوسف کے مریم کو گھر لا لانے کے بعد نوماہ ہوتے تھے اس لئے معلوم ہوتاہے کہ مارچ میں کسی وقت یوسف اُن کو اپنے گھر میں لایا ۔نومبر میں وہ حاملہ ہوئی تھیں ۔فرض کرو ۱۵ نومبر کو وہ حاملہ ہوئیں چوتھے مہینے جاکر حمل نمایا ں ہوجاتا ہے چوتھے مہینے جب بات کھلی تو یوسف خدا کے حکم سے اُن کو اپنے گھر میں لے آیا ۔اب لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کہ یہ حلال کا حمل ہے حرام کانہیں عیسائیوں نے مارچ سے حساب لگایا اور اس کے ٹھیک ۹ماہ بعد دسمبر میں اُس کی پیدائش بتائی ۔ پس عیسائی مجبور تھے کہ اُنکی تاریخ پیدائش ۲۵دسمبر ہی بتاتے ورنہ لوگوں کو کیا جواب دیتے کہ خاوند کے گھر میں مارچ میں آئی اور بچہ پیدا ہوگیا جولائی اگست میں ۔اس کا ایک ہی طریق تھا کہ وہ اُن کی تاریخ پیدائش کو چھپا دیتے اور کسی بعد کے مہینہ میں اُن کی ولادت ظاہر کرتے۔
یوں سمجھ لوکہ نومبر میں مریم حاملہ ہوئیں مارچ میں پیٹ بڑا ہوگیا اور یوسف تک بات پہنچی اُس نے ارادہ کیا کہ طلاق دیدوں۔ مگر خدا تعالیٰ نے خواب میں بتلایا کہ یہ بدکار نہیں بلکہ اسے معجزانہ طورپر حمل ہواہے۔چنانچہ مارچ میں وہ انہیں گھر لے آیا ۔ممکن ہے فروری میں ہی لے آیا ہو مئی جون میں کوئی عذر کرکے وہ انکو ناصرہ سے باہر لے گیا ۔اب خاوند ساتھ تھا اور اُسے یقین تھا کہ یہ خدائی فعل ہے وہ انہیں شہر سے باہر لے گیا۔ جولائی کے کے آخر یا اگست میں حضرت مسیح پیداہوئے ۔چند سال یوسف باہر رہے جب واپس آئے تو پیدائش دسمبر کی بتائی یا یوں کہوکہ یوسف نے تو پیدائش ٹھیک ہی بتائی انجیل نے انکی پیدائش دسمبر میں بتائی جو مارچ میں مریم کو گھر لانے کی صورت میں ۹ماہ بعد کی تھی تا کہ لوگ سمجھیں کہ مسیح یوسف کی اولاد سے ہے اس صورت میں کھجور کا معاملہ بھی صاف ہوجاتا ہے کیونکہ جولائی اگست میں کھجوریں بکثرت لگی ہوئی ہوتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ جب یوسف اس واقعہ سے شرماتا تھا اور جب وہ اس پر پردہ ڈالنا چاہتا تھا تو اُسکے سوا کیا صورت تھی کہ وہ حمل اُس وقت سے ظاہر کرتا جب مریم اُنکے گھر آگئی تھیں اور اِس صور ت میں اس کے حمل کو چار پانچ ماہ بعد کی ظاہر کرنی ضروری تھا اور اسی طرح پیدائش بھی چار پانچ ماہ بعد ظاپر کرنی ضروری تھی ۔ ممکن ہے سات سال کے بعد جو مردم شماری ہوئی وہ دسمبر میں ہوئی ہو اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوقا نے اُسے پیدائش کے سال پر چسپاں کردیا ہو۔ ظاہر ہے کہ لوقا نے ستر اسی سال بعد کتاب لکھی ہے اتنے عرصہ بعد کسی کو کیا یاد رہتا ہے کہ کب مردم شماری ہوئی تھی ۔اس تشریح سے جو نہایت اہم تشریح ہے اور جو رومن تاریخ کے واقعات سے موید ہے اور انجیل کی روایا ت کی روشنی اس کی تائید کرتی ہے قرآن میں پھل دار کھجور کے ذکر کا واقعہ صاف ہوجا تا ہے۔

پس ان کو کھائو اور(چشمہ سے پانی بھی ) پیو اور (خود نہاکر اور بچہ کو نہلا کر)اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ۔پھر اگر (اس عرصہ میں )تو کسی مرد کو دیکھے تو کہہ دے میں نے رحمن (خدا) کے لئے ایک روزے کی نذر کی ہوئی ہے پس آج میں کسی انسان سے بات نہیں کرونگی۔
تفسیر :
خدا نے کہا کہ کھائو اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی رکھو۔ فاما ترین من البشر احدا اور اگر تمہیں کوئی شخص نظر آئے تو فقولی انی نذرت للرحمن صوما فلن اکلم الیوم انسیا اُسے کہو کہ آج میں نے خدا کے لئے روزہ رکھاہوا ہے پس آج میں کسی سے بات نہیں کروں گی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں روزہ سے مراد خاموشی کا روزہ ہے یعنی اُن کے لئے کلام کرنا بالکل ممنوع تھا ۔لیکن میرے نزدیک یہ درست نہیں ۔دراصل حضرت مریم کو بھی زکریا کی طرح روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور حضرت زکریا کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ اُنہیں اونچی آواز سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے سے روک دیا گیا تھا لیکن آہستہ بولنا اُن کے لئے جائز تھا ۔یہاں بھی اِسی رنگ کا روزہ مراد ہے یعنی حضرت مریم کو خداتعالیٰ نے حکم دیا کہ زیادہ باتیں نہیں کرنی بلکہ اپنا وقت ذکر الٰہی میں بسر کرنا ۔پس روزہ سے مراد وہ روزہ نہیں جس میں کھا نا پینا ترک کیا جا تا ہے کیونکہ اُس وقت تو وہ نفاس کی حالت میں تھیں اور وہ روزہ اُس وقت ہوتا ہی نہیں۔ اور پھر خصوصاََ اس لئے بھی روزہ مراد نہیں لیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کلی واشربیکھائو اور پی جس سے معلوم ہوا کہ کھانا پینا اُن کے لئے منع نہیں تھا۔ پس یہاں صوم سے مراد یہ ہے کہ زیادہ باتیں نہیں کرنی ۔ زیادہ باتیں میں اس لئے کہتا ہوں کہ ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے کہاہے قولی۔ کہو ۔اگر بات بالکل منع تھی تو وہ کہہ کس طرح سکتی تھیں کہ میں روزہ سے ہوں ۔یہ لفظ صاف بتاتا ہے کہ اُنہیں بات کرنا بالکل منع نہ تھا وہ ایک حد تک بات کرسکتی تھیں۔ لیکن ساتھی ہی ہدایت تھی کہ اپنے وقت کو ذکر الٰہی میں بسر کریں ۔اِس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ ابھی بچہ پیدا ہوا تھا اس لئے لازماََ جوبھی ملتا وہ ضرور پوچھتا کہ یہ کس کا بچہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ آج ذکر الٰہی کرواور جو شخص تم سے کچھ پوچھنا چاہے تو اُسے بھی کہہ دو کہ آج میں نے ذکر الٰہی کرناہے۔ اِسطرح بات ختم ہوجائیگی اور اگلی بات پیداہی نہیں ہوگی ۔پس صوم سے مراد کلام کی حد بندی ہے یعنی فضول اور لغو باتیں نہیں کرنی ۔بلکہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرناہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ لگ گیا کہ نفاس اور حیض کی حالت میں ذکر الٰہی منع نہیں ۔ لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ ایسی حالت میں دل میں بھی ذکر الٰہی نہیں کیا جاسکتا حالانکہ اگر ذکر الٰہی منع ہو جائے تو روحانیت بالکل مرجائے بلکہ بعض لوگ تو مُنہ سے بھی ذکر الٰہی کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ عورت حیض کے دنوں میں بھی قرآن کوکسی کپڑے یا رومال سے پکڑ کر اور پھر صاف سُتھرے کپڑے پر رکھ کر پڑھ سکتی ہے ہاتھ سے پکڑنا اس لئے منع ہے کہ ممکن ہے ہاتھ کو حیض کی نجاست لگی ہو ئی ہو۔چنانچہ جن عورتوں نے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے قرآن پڑھا ہے وہ اب بھی حیض کے ایام میں کپڑے پر قرآن رکھ کر پڑھ لیتی ہیں ۔ میرا یہ عقیدہ نہیں لیکن اگر کوئی پڑھے تو ہم اُسے کہتے کچھ نہیں۔کیونکہ قرآن بہر حال خدا تعالیٰ کا کلام ہے اگر کسی کے نزدیک حیض کی حالت میں اُسے دیکھ کر پڑھنا جائز ہو تو کیا حرج ہے ۔

اس کے بعد وہ اس کو لیکر اپنی قوم کے پاس اس کے دعویٰ کی تصدیق کرتی ہوئی آئی۔ جنہوں نے کہا اے مریم تُونے بہت بُرا کام کیا ہے ۔
تفسیر :
مفسرین اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ جب وہ وہاں سے فارغ ہوئیں اور چلنے پھرنے کے قابل ہوئیں تو اپنی قوم کے پاس آئیں ۔بچہ اُن کی گود میں تھا ۔انہوں نے اعتراض کیا کہ مریم تُو نے یہ کیا بلا ماری ہے حضرت مریم نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو اس بچہ سے پوچھ لو ۔چنانچہ حضرت مسیح ؑ اُس وقت بولے اور انہوں نے کہا کہ میں خدا کا نبی ہو ں ۔گو یا مسیح کا پہلا معجزہ ہی جھوٹا تھا ۔وہ نبی نہیں تھا مگر اُس نے کہا میں نبی ہوں ۔وہ نماز نہیں پڑھتا تھا مگر اُس نے کہا خدا نے مجھے نماز کا حکم دیا ہے حالانکہ وہ اُس وقت پوتڑوں میں پاخانہ پھرتا تھا گویا مفسرین کے نزدیک حضرت مسیح ابھی اپنی ماں کی گود میں ہی تھے کہ انہوں نے جھوٹ بولنے کی مشق شروع کردی اور جب اُن پر نماز فرض نہیں تھی کہنے لگے کہ نماز پڑھتا ہوا اور جب پوری طرح ہو ش بھی نہیں تھا تو کہنے لگے کہ میں نبی ہو گیا ہوں اس بارہ میں اُن کا استدلال تحملہ اور یکلم الناس فی المھدسے ہے ۔
اب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں کہ وہ اسبارہ میں کیا کہتی ہے ۔مرقس کہتا ہے کہ یوحنا کے ظہور کے وقت ناصرہ میں تھا (انجیل مرقس باب۱آیت ۹)
متی باب ۴آیت ۱۳ میں بھی لکھا ہے کہ جب یوحنا گرفتار ہوا تو مسیح ناصرہ چھوڑ کر کفر نا حوم ایک گلیلی شہر میں گیا گویا وہ یہ تو نہیں بتاتے کہ پیدائش کے بعد حضرت مسیح ناصرہ کب گئے مگر یہ بتا تے ہیں کہ جب یوحنا کا ظہو ر ہوا تو اُس وقت وہ نا صرہ میں تھے اور اس کی گرفتاری پر وہ کفرنا حوم چلے گئے ۔اِس سے پتہ لگا کہ حضرت مسیح ؑ جب جوان ہوئے توناصرہ میں آتے جاتے تھے ۔لوقا سے معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش کے کچھ دنوں بعد یوسف اور مریم ناصرہ چلے گئے اور وہیں مسیح پلا۔ (انجیل لوقا باب۲آیت ۳۹)گویا یوحنا اِسبارہ میں بالکل خاموش ہے۔متی کچھ نہیں کہتا کہ وہ پیدا ہو کر کہا ں گئے ۔مرقس کچھ نہیں کہتا وہ پیدا ہوکر کہاں گئے لیکن لوقا کہتا ہے کہ وہ ناصرہ گئے ۔
لوقا باب ۱ آیت ۲۶و۲۷میں لکھا ہے کہ خداکا فرشتہ مریم پر ناصرہ میں ظاہر ہوا اور وہیںاُسے حاملہ ہونے کی خوشخبری دی۔ یہ حوالہ بتاتا ہے کہ حضرت مریم ناصرہ میں رہتی تھیں مردم شماری کے لئے بیت لحم گئیں اور پھر بچہ پیدا ہونے پر نا صرہ میں آگئیں اور حضرت مسیح وہیں ناصرہ میں رہے یہاں تک کہ یوحنا نے نبوت کا دعویٰ کیا ۔
اِس روایت کے مطابق حضرت مریم ناصرہ کی رہنے والی تھیں اور وہیں وہ مسیح کو لے گئیں اور لے جانے کا وقت پیدائش کے معاََ بعد کا ہے ۔ اگر یہ بیا ن درست ہے تو معلوم ہو اکہ مسیح کو اس کی والدہ پیدائش کے معاََ بعد اپنے وطن لے گئی تھیں جس کا نا م ناصرہ تھا۔ اس صورت میں اِن آیات کا مطلب یہ ہوگا کہ مسیح نے پیدا ہوتے ہی کلام کیا ۔کیونکہ قرآنی الفاظ یہ ہیں کہ فاتت بہ قومھا حضرت مریم اپنے رشتہ داروں اور تعلق والوںکے پاس اُن کو لائیںاور مسیح نے اُن سے کلام کیا ۔پس اگر یہ صحیح ہے کہ وہ ناصرہ کی رہنے والی تھیں اور ناصرہ میں ہی اپنے بچے کو لے گئیں اور پیدائش کے چند دن بعد لے گئیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح نے پیدائش کے چند دن بعد ہی کلام کیا ۔لیکن اب ہم تحقیق کرتے ہیں کہ کیا لوقا کا یہ بیا ن ٹھیک ہے کہ مریم ناصرہ کی تھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیا ن درست نہیں۔
متی میں لکھا ہے کہ جب مسیح پیدا ہوا تو اُس وقت مریم بیت لحم میں تھیں لیکن وہ اصل وطن کا ذکر نہیں کرتا بلکہ باب۲ میں جو ذکر ہے اُس سے شبہ ہوتا ہے کہ اُن کا وطن بیت لحم کے سوا کوئی اور تھا مگر وہ بیت لحم کے قریب ہی تھا۔ اس کے بعد اُس میں لکھا ہے کہ چونکہ بادشاہ ہیرو دیس کو شبہ تھا کہ یہ لڑ کا جو پیدا ہوا ہے بڑا ہوکر حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرے گاکیونکہ مجوسی فقیروں نے اُسے بتایا تھا کہ ایسا لڑکا پیدا ہوا ہے اور ہم پورب میں اُس کا ستا رہ دیکھ کر آئے ہیں اس لئے ہیرو دیس نے انہیں کہا کہ جب تمہیں اُس کا پتہ ملے تو مجھے بھی بتانا۔ اُس کی غرض یہ تھی کہ میں اُسے مروا ڈالوں گا تاکہ حکومت کو نقصان نہ پہنچے مگر متی کہتا ہے جب مجوسی آئے اور انہوں نے حضرت مسیح کو دیکھ لیا تو رات کو فرشتہ نے اُنہیں کہا کہ اب ہیرودیس کے پاس نہیں جانا چنانچہ وہ کسی دوسرے راستہ سے اپنے ملک کو روانہ ہوگئے ۔ان کے جانے کے بعد یوسف پر فرشتہ ظاہر ہوا اور اُس نے کہا کہ بادشاہ بچہ کو مروانا چاہتا ہے تو اُٹھ اور بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر میں بھا گ جا ۔چنانچہ یوسف اور مریم بچے کو لیکر مصر میں بھا گ گئے ۔اِدھر جب بادشاہ نے دیکھا کہ مجوسی واپس نہیں آئے بلکہ کسی اور راہ سے اپنے ملک کو واپس چلے گئے ہیں تواُسے سخت غصہ آیا اور اُس نے حکم دے دیا کہ بیت لحم اور اُس کے گردو نواح کے وہ تمام لڑکے جو دوسال یا اس سے چھوٹی عمر کے ہوں قتل کردئیے جائیں (یہ قصہ دراصل موسیٰ ؑ کی نقل میں بنایا گیا ہے) بہر حال یوسف خدا سے خبر پاکر مسیح کو مصر لے گیا اور خدا تعالیٰ نے کہا تو اُس وقت تک مصر میں ہی رہ جب تک کہ میں دوبارہ تجھ کو کوئی خبر نہ دُوں (متی باب ۲)
اب دیکھو یہ بیان لوقا سے کتنا مختلف ہے ۔ لوقا کہتا ہے کہ مریم پیدائش کے معاََ بعد نا صرہ گئیں اور متی کہتا ہے کہ وہ مصر گئیں اور متی کہتا ہے کہ یہ قیاسی بات نہیں بلکہ الہاما ًیوسف کو کہا گیا کہ تُو نے وطن واپس نہیں جانا بلکہ مصر جاناہے اور پھر الہاما ًکہا کہ تُو نے مصر سے نہیں ہلنا جب تک کہ میں دوبارہ تجھ پر الہام نازل نہ کروں ۔چنانچہ وہ وہاں رہے یہانتک کہ ہیرودیس مر گیا ۔پھر خدا نے اُس کو خبر دی کہ اب ہیرو دیس مرگیا ہے تو واپس اسرائیل کے ملک چلا جا۔ لیکن جب یوسف واپس آیا اور اُسے معلوم ہوا کہ اَرخَلاؤس اپنے باپ کی جگہ پر بیٹھا ہے تو وہ ڈر اکہ اگر میں اسرائیل کے ملک یعنی یہودیہ میں گیا تو مجھے مار ڈالیں گے (اس سے معلوم ہوا کہ بائبل کی رُو سے وہ جوڈیا یعنی یہودیہ کے کسی شہر کا باشند ہ تھا ) تب خدا سے اطلاع پاکر (گویا خدا تعالیٰ کو اَر خَلاؤس کا پہلے علم نہ تھا ) وہ جلیل کے ایک شہر ناصرہ میں جا کر رہا تاکہ وہ جو نبیوں نے کہا تھا پورا ہوکہ وہ ناصری کہلائیگا (انجیل متی باب ۲ آیت اتا ۲۳)
اس حوالہ سے کتنی باتیں ظاہر ہوتی ہیں :
۱۔ اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح بیت لحم میں پیدا ہوا۔
۲۔ پیدائش کے بعدیو سف خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت مریم اور بچہ کو لیکر مصر گیا ۔
۳۔ مصر میں وہ ہیرو دیس کی وفا ت تک رہا ۔
۴۔ ہیرو دیس کی وفات بعد خدا تعالیٰ نے اُسے اپنے ملک میں واپس جانے کے لئے کہا ۔
۵۔ مگر جب وہ وطن میں واپس جانے سے ڈرا تو خدا تعالیٰ سے علم پاکر وہ گلیل کے شہر نا صرہ میں گیا ۔
۶۔ اور خدانے کہا کہ تو نا صرہ میں اس لئے جا تاکہ وہ جو نبیوں نے کہا تھا پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا ۔
اگر وہ ناصرہ کے رہنے والے ہوتے تو خدا کیوں کہتا کہ تُو ناصرہ چلا جا تاکہ وہ جو نبیوں نے کہا تھا پورا ہو کہ وہ نا صری کہلائے گا۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ یوسف نا صرہ کا رہنے والا نہیں تھا بلکہ اس کا وطن کوئی اور تھا ۔نا صرہ میں مصر سے واپس آنے کے بعد اُس نے قیام کیا ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسیح ؑ کا وطن نا صرہ نہ تھا ۔وہ نا صرہ پیدائش کے معا ًبعد نہیں گیا بلکہ مصر سے واپسی پر گیا ۔اگر فوراََ بھی گیا تو نا صرہ میں رشتہ دارو ں سے گفتگوکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہاں اُس کے کوئی رشتہ دار نہ تھے اور قرآن رشتہ داروں سے گفتگو کا ذکر کرتا ہے کیونکہ فرماتا ہے کہ اتت بہ قومھا وہ اُسے اپنے رشتہ داروں اور قوم کے لوگوں کے پاس لائی ۔
اب ہمیں اِن دونوں بیا نوں سے پتہ لگ گیا کہ اگر لوقا کا بیا ن صحیح ہے کہ پیدائش کے کچھ دنوں کے بعدیوسف اور مریم ناصرہ چلے گئے تو متی کے حوالہ سے پتہ لگتا ہے کہ ناصرہ لے گئی تھی تب بھی وہاں اُنکے بولنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ قرآن اُن کے بولنے کا ذکر وہاں کرتا ہے جہاں اُن کی قوم کے لوگ تھے اور اگر وہ مصر میں رہا اور پھر نا صرہ گیا جو اس کا وطن نہیں تھا تو بچپن میں بولنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ بائبل کے بیان کے مطابق یوحنا کے دعو ے بلکہ اس کی گرفتاری تک وہ ناصرہ میں رہا ۔پس یہ کلام یوحنا کے دعویٰ تک کے زمانہ کا بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ کیونکہ اُس وقت تک ناصرہ میں تھا ۔
متی سے پتہ لگتا ہے مسیح یروشلم میں دو دفعہ گیا ہے جس کے ارد گرد اُن کا وطن تھا ۔ایک دفعہ بارہ برس کی عمر میں اور ایک دفعہ بتیس سال کی عمر میں ۔ بارہ سال کی عمر میں جب وہ یروشلم آیا تو اس وقت کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا ۔سوائے اس کے کہ وہ بزرگوں کی باتیں سنتا تھا اور کھیل کود میں شامل نہیں ہوتا تھا ۔ اِس کے بعد وہ ۳۲ سال کی عمر میں دوبارہ یروشلم آیا اور اسی علاقہ میں اُس کے رشتہ دار ثابت ہوتے ہیں ۔ پس اِن دو سفروں میں کسی ایک سفر میں ہی اس کا یہ مکالمہ ہو سکتا ہے اور غالباًیہ مکالمہ دوسرے سفر میں تھا جب وہ مسیحیت کی تبلیغ کرنے کے لئے یروشلم آیا جس نسبت لکھا ہے کہ وہ اس کی بعثت کے قریباًتیسرے سال میں ہوا تھا جبکہ وہ دوسال سے اپنے دعویٰ کا اعلان کرچکا تھا (انجیل متی باب۲۱) ۔ اُس وقت اس کے مُنہ سے یہ کلمات جو قرآن کریم نے کہے ہیں بالکل درست ثابت ہوتے ہیں ۔پہلے سفر کے حالات جب بچہ تھا اس پر چسپا ں نہیں ہوتے۔
خلاصہ یہ ہے کہ رشتہ داروں سے مسیح ؑ نے باتیں کیں ۔انجیل کہتی ہے کہ پیدائش کے بعد مسیح ؑ ناصرہ گیا وطن نہیں گیا ۔پس وطن کسی دوسرے وقت میں گیا اور دوسری جگہ یروشلم کا گرد ونواح ہے جہاں اُس کا جا نا دو دفعہ ثابت ہے ۔ایک دفعہ بچپن میں جب اُس کی ماں اور باپ اُس کے حالات سے ابھی نا آشنا تھے اور دوسری دفعہ جب وہ مدعی ہوکر گیا ۔پس یہ گفتگو اُسی وقت ہوئی ۔اس سے پتہ لگ گیا کہ اتت بہ قومھا تحملہ سے وہ زمانہ مراد ہے جب مسیح ۳۳ سال کے ہوچکے تھے اور دعویٰ نبوت کرچکے تھے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے تحملہ سے کیا مراد ہے ۔ بچہ کو تو ما ں اُسی وقت اُٹھا تی ہے جب وہ چھوٹا ہوتا ہے ۔سویاد رکھنا چاہیے کہ بیشک اس کے ایک معنے گود میں اٹھا نے کے ہیں ۔لیکن اِس کے علاوہ مجازی طور پر یہ کسی کا ساتھ دینے اور اس کی تائید اور نصرت کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں آتا ہے مثل الذین حملوا التورۃ ثم لم یحملوھا (جمعہ ع۱) یعنی وہ لوگ جن پر تورات رکھی گئی تھی لیکن انہوں نے اُسکو اُٹھا یا نہیں ۔اب دیکھو یہاں حمل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر حملوا کے یہ معنی نہیں کہ تورات انکے سروں پر رکھدی گئی تھی بلکہ اُسکی تائید کرنے کا انکو حکم دیا گیا تھا اور جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ لم یحملوھا تو اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ ہر یہودی نے تورات اپنے ہاتھ سے پھینک دی تھی بلکہ مطلب یہ تھا کہ انہوں نے تورات کی تبلیغ اور تائید چھوڑ دی تھی ۔چنانچہ مفردات امام راغب میں مثل الذین حملوا التورۃ ثم لم یحملوھاکے معنی کرتے ہوئے لکھا ہے کلفوا ان یقوموا بحقھا فلم یحملوھایعنی یہودیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ تورات کے واجبات کو ادا کریں اُس کی ظاہری اور باطنی طور پر تائید وحفاظت کریں اور اُس کے احکام پر خود بھی عامل ہوں اور دوسروں کو بھی اسکی تبلیغ کریں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا ۔گویا خدا تعالیٰ نے حملوا کہا مگر اسکے یہ معنے نہیں کہ ہر یہودی کے سر پر تورات رکھی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے لم یحملوھا کہا مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر یہودی نے تورات اُٹھا کر پھینک دی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما یا کہ انہوں نے تورات نہیں اُٹھا ئی تو انہوں نے ظاہر میں تورات اُٹھائی ہوئی تھی اور جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ تو رات اُن پر رکھی گئی تو ظاہرمیں اُن کے سروں پر کوئی تورات نہیں تھی ۔پس حمل کے معنے کبھی تائید اور نصرت اور ساتھ دینے کے بھی ہوتے ہیں ۔ انجیل کہتی ہے کہ مسیح ؑ پر اُن کی ماں ایمان نہیں لائی لیکن قرآن کہتا ہے کہاتت بہ قومھا تحملہجب انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ماں اُن کے ساتھ اُن کی تصدیق کرتی اور اُن کے دعویٰ کی تائید کرتی ہوئی آئی ۔اِسی طرح تحملہ کے معنی حوصلہ دلانے اور ہمت بڑھانے کے بھی ہوسکتے ہیں ۔پس اتت بہ قومھا تحملہ کے یہ معنے نہیں کہ حضرت مریم مسیح کو اُٹھائے ہوئے تھیں بلکہ مرادیہ ہے کہ وہ مسیح ؑ کی تعلیم پر عمل کرنے والی اور اس کی تصدیق کرنے والی تھیں ۔ گویاانجیل نے جو الزام لگایاتھا کہ مریم حضرت مسیح کو نہیں مانتی تھی قرآن کریم نے اتت بہ قومھا تحملہ کے الفاظ میں اس کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے ۔ وہ تو مسیح ؑ کے ساتھ ساتھ آئی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں اس پر ایمان لاتی ہوں یہ سچا ہے۔ تم کہتے ہویہ حرام کا بچہ ہے کیا حرام کے بچے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ۔تم اس سے بات کرکے تو دیکھو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ یہ حلال زادہ ہے یا نہیں ۔
قالوا یامریم لقد جئت شیئا فریا انہوں نے کہا اے مریم تو نے یہ کیا گند پھیلایا ہے ۔ پہلے تونے ایک گندہ کام کیا اور آگے یہ بھی خدا پر جھوٹ بولنے لگ گیا ۔گویا انہوں نے یہ طعن کیا کہ چونکہ یہ حرام کا تھا اس لئے ایسی باتیں کرنے لگ گیا ہے ۔

اے ہارون کی بہن ! تیرا باپ تو برا آدمی نہیں تھا ۔
تفسیر :
یعنی اے ہارون کی بہن تیرا باپ تو برا آدمی نہیں تھا اور تیری ما ں بھی بدکار نہیں تھی پھر یہ کیا اندھیر ہوگیا ہے ۔ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت مریم کی دوسری والدہ سے ایک اور بھا ئی تھا جس کا نام ہارون تھا لیکن یہودی تاریخ سے سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔اِس لئے ایسی بے دلیل بات پیش نہیں کی جا سکتی ۔بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن اس لئے کہا کہ وہ انکی نسل میں سے تھیں ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ الزبتھ جو حضرت زکریا کی بیوی تھیں بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہارون کے خاندان میں سے تھیں اور چونکہ یہ اُن کی رشتہ دار تھیں اس لئے قرآن نے اُن کو اُن کے قبیلہ کی زبان میں اُخت ِہارون کہہ دیا (دیکھو القرآن از جارج سیل زیر آیت یا اُخت ِہارون) یہ اُن عیسائیوں نے تشریح کی ہے جو منصف مزاج ہیں اور تعصب کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے ۔ بعض عیسائیوں نے تو اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم تاریخ سے ایسے ناواقف تھے کہ اُنہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہارون حضرت مسیح سے چودہ سو سال پہلے گذرے ہیں لیکن بعض دوسرے عیسائیوں نے خود اعتراض کو ردّ کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ بات غلط ہے۔محمد رسول اللہ ﷺ کو موسیٰ اور ہارون کے زمانہ کا خوب علم تھا ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہی کئی جگہ ذکر آتا ہے کہ موسیٰ اور ہارون کے بعد فلاں نبی آئے پس یہ اعتراض صیح نہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت زکریا کی بیوی الزبتھ ہارون کے خاندان میںسے تھیں اور مریم اُن کی رشتہ دار تھیں اِس لئے انہوں نے حضرت مریم کو بھی ہارون کی بہن کہہ دیا۔
حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ایک دفعہ یہ اعتراض پیش ہواتو آپ نے فرمایا کہ یہود انبیاء وصلحا ء کے نام پر اپنے اپنے خاندان کے مردوں عورتوں کے نام رکھ لیا کرتے تھے (تفسیر فتح البیان جلد ۶وتفسیر ابن جریر جلد ۱۶)لیکن میرے نزدیک اس کے ایک اورمعنی بھی ہیں ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن طنز کے طور پر کہا ہے۔ بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی ایک سوتیلی بہن تھی جو ہارون کی سگی تھی یا بعض مورخوں کے نزدیک وہ حضرت موسیٰ کی سوتیلی بہن نہیں بلکہ سالی تھی اور اس کا نام بھی مریم تھا ۔گنتی باب۱۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مریم نے جو ہارون کی سگی بہن اور حضرت موسیٰ ؑ کی سوتیلی بہن تھی اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ کی سالی تھی ۔بہر حال ہارون سے اُس کا زیادہ رشتہ تھا اور موسیٰ ؑ سے کم ۔ہارون کے ساتھ مل کر ایک کوشی عورت سے شادی کرنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اعتراض کئے تھے ۔قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ یہ اعتراض اس حد تک تھا گویا ناجائز تعلق قائم کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یایھا الذین امنوا لا تکونوا کالذین اٰذوا موسیٰ فبراہ اللہ مما قالو (احزاب ع۹)یعنی اے ایمان والوں تم اُن لوگوں کی طرح مت بنو جنہوں نے موسیٰ ؑ کو اذیت دی اور پھر خدانے اُس کی بریت کی ۔ معلوم ہوتا ہے یا تو اُن کا یہ اعتراض تھا کہ ایک بدکار عورت سے موسیٰ نے شادی کرلی ہے ۔ بہرحا ل پتہ لگتاہے کہ اُن پر ناجائز رشتہ کا الزام لگایا گیا تھا ۔بائبل میں لکھا ہے کہ اس جرم کی سزا میں مریم کو کوڑھی کردیا گیا۔ مگرچونکہ بائبل ایک طرف یہ بتاتی ہے کہ ہارون اور مریم دونوں نے اعتراض کیا اور دوسری طرف بائبل سے ہی معلوم ہوتاہے کہ صرف مریم کو سزا ملی ہارون کو سزا نہیں ملی ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون کانام بائبل میں حسب معمول انبیاء پر اعتراض کرنے کے شوق میں درج کیا گیا ہے ورنہ ایک جرم میں دونوں کو سزا کیوں نہ ملتی ۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ ہارون نے اعتراض نہیں کیا صرف مریم نے اعتراض کیا تھا ۔آخر ہارون کی سفارش پر حضرت موسیٰ ؑ نے خداتعالیٰ سے دعا کی اور مریم کا قصور معاف کیاگیا اور صرف سات دن کوڑھی بن کر رہنا پڑا ۔ لیکن اس جرم سے پہلے جس شان اور عظمت کے ساتھ اُس کا ذکر کیا جاتا ہے اس شان اور عظمت سے بعد میں اُس کا ذکر نہیں کیاگیا بلکہ بعض تو اس کی طرف اور بھی عیوب منسوب کرتے ہیں۔ پس میرے نزدیک یاخت ھارون کہہ کرانہوں نے طعنہ دیا ہے اے ہارون کی بہن یعنی جس طرح اس مریم نے قہر مارا اور وہ کوڑھی ہوگئی تھی اسی طرح تونے بھی کوڑھیوں والا کام کیاہے ۔پس ان الفاظ میں اُن کی طعنہ زنی تھی کہ اُس مریم نے بھی طوفان اٹھایا تھا تُونے بھی طوفان اُٹھایا ہے ۔ اس نے موسیٰ پر بدکاری کا الزام لگایا تھا اور تُو نے آپ بدکاری کی ہے حالانکہ تیرا باپ بُرا نہیں تھا اور تیری ماں بھی بُری نہیں تھی پس تُو نے یہ کیا گند اُچھالا ہے ۔

اس پر اُس نے اُس (بچہ ) کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر لوگوں نے کہا ہم اس سے کس طرح باتیں کریں جو کل تک پنگھوڑے میں بیٹھنے والا بچہ تھا۔
تفسیر :
جیسا کہ میں اُوپر بتا چکا ہوں ہمارے نزدیک حضرت مسیح کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی تھی اور الٰہی نشان کے طور پر ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے یہ فعل اس لئے کیا کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نسل سے جو نبیوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا خدا تعالیٰ اسکو ختم کرکے بنی اسمعیل کی طرف منتقل کرنا چاہتا تھا اور یہ سلسلہ اتنا لمبا ہوگیا تھا کہ بنو اسحاق کے خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کی نبوت اُن کے گھروں سے منتقل ہوکر اب کسی اور قوم میں چلی جائے گی اس کے لئے ایک بڑی ٹھوکر کی ضرورت تھی اور وہ ٹھوکر حضرت مسیح ؑ کی بن باپ پیدائش تھی ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک معجزہ تھا مگر یہ معجزہ ایک ابتلا کا رنگ لئے ہوئے تھا ۔
معجزے کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک معجزے ہدایت دینے کے لئے اور لوگوں پر حجت تمام کرنے کے لئے ہوتے ہیں ۔ وہ ایسے معجزے ہوتے ہیں جن کو دشمن سے بھی منوایا جا سکتا ہے ۔اگر منوایا نہ جاسکے تو وہ حجت کس طرح ہوسکتے ہیں۔ پس جو معجزے حجت کے لئے آتے ہیں وہ ایسی شکل میں آتے ہیں جن کو منوایا جاسکے۔ مثلاََ ایک پیشگوئی ہے جسے شائع کردیا گیا ۔ دشمن نے اُس پر بحث کی۔ اس کے مختلف پہلوئوں پر جرح کی اور پھر وہ پیشگوئی پوری ہوگئی تو اُ س کا کوئی دشمن انکار نہیں کرسکتا ۔سوائے اُن کے جو ضدی طبیعت کے ہوں یا مثلاََ قرآن کریم کا معجزہ ہے یہ ایسا معجزہ ہے جو عیسائی سے بھی منوایا جا سکتا ہے ہم اُسے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن سامنے پڑ ا ہے اگر ہمت ہے تو اس جیسی کتاب بنا لائو ۔ یاعرفان الٰہی کا معجزہ ہے ۔فطرت کے باریک رازوں کو ظاہر کرنے کا معجزہ ہے ۔یہ ہر ایک سے منوایا جاسکتا ہے۔ توجو معجزے ہدایت کے لئے آتے ہیں اُن کے لئے یہ شرط ہوتی ہے کہ وہ ایسے ہی ہوں جن کو دشمن سے بھی منوایا جاسکے۔اِسی طرح بعض معجزات ایسے ہوتے ہیں جو صرف تقویت ایمان کے لئے ہوتے ہیں اُن کا منوایا جانا ضروری نہیں ہوتا وہ صرف مومنوں کے از دیاد ایمان کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں اور ایسی شکل میں ظاہر کئے جاتے ہیں کہ مومن تو مان لیتا ہے اور کافر نہیں مانتا مثلاً رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیانی سوراخوں سے ایک دفعہ پانی پھوٹ نکلا اور ایک لوٹا پانی بہت سے لوگوں کی ضروریا ت کے لئے پورا ہوگیا یا تھوڑا سا کھانا کھا لیا اور وہ سیر ہوگئے یا مثلاََ یہ معجز ہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے کُرتے پر سرخی کے چھینٹے پڑے ۔اب ایک مومن اِن معجزات کو مان جائے گا لیکن دوسرا کہے گا کہ اپنے مریدوں سے جھوٹ بلوالیا ہے یا مثلاً میں نے ایک دفعہ کشفی حالت میں دیکھا کہ میرے مُنہ میں مشک ڈالا گیا ہے ۔جب میں جاگا تو میرے منہ سے مشک کی خوشبو آرہی تھی اور اُس سے کہا کہ سونگھ کر دیکھو میرے منہ سے کسی چیز کی خوشبو آرہی ہے یا نہیں ۔اُس نے سونگھا تو کہا کہ مشک کی خوشبو آرہی ہے ۔اب یہ معجزہ میرے لئے تقویت ایمان کا موجب تھا ۔ میری بیوی کے لئے بھی تقویت ایمان کا موجب تھا مگر دوسروں کے لئے اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ۔ اِسی طرح ایک دفعہ مجھے روزہ لگااور بہت تکلیف ہوئی اس حالت میں یکدم مجھ پر غنودگی طاری ہوئی اور میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا اور اُس نے میرے مُنہ میں پان ڈالا ہے جب میری آنکھ کھلی تو پیاس بالکل غائب تھی۔تو ایک معجزے تقویت ایمان کے لئے ہوتے ہیں اور وہ مخصوص ہوتے ہیں مومنوں کے لئے اورایک آیت ہوتے ہیں یعنی دشمنوں پر حجت تمام کرنے کے لئے آتے ہیں ۔یہ معجزے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دشمنوں کے سامنے کھلے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور کچھ معجزے ایسے ہوتے ہیں جو ابتلائی ہوتے ہیں اوراُن میں رنج اور کوفت کا پہلو پایا جا تا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کسی حکمت کے ماتحت اُن کو ظاہر فرماتا ہے ۔ حضرت مسیح کی بن باپ ولادت بھی ایسے ہی ابتلائی معجزوں میں سے ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ یہود کو بتائے کہ اب نبوت تم میں ختم ہونیوالی ہے اور اس کے نشان کے طور پر اُس نے مسیح کو بن باپ پیدا کردیا لیکن یہودی مذہب پر ایمان لانیوالوں کے لئے یہ بات ماننی کہ آئندہ ہماری قوم میں سے نبوت مٹ جائے گی اور ایک غیر قوم میں چلی جائیگی بالکل ناممکن تھا ۔اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ یہودی قوم کی توجہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف پھرائے اور اس نے ایک کنواری کے بطن سے حضرت مسیح کو پیدا کردیا ۔ بے شک یہ ایک معجزہ تھا لیکن یہود کے لئے یہ معجزہ نہیں تھا ۔وہ سنتے ہی کہتے تھے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے یہ شخص (نعوذباللہ) حرامزادہ ہے ۔ خود مسیح کیلئے بھی یہ معجزہ تقویت ایمان کا موجب نہیں تھا بلکہ وہ شرمندگی سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو ابن آدم کہا کرتا تھا ۔ قرآن کریم نے ابن مریم نام رکھ دیا ۔وہ اپنے آپ کو ابن آدم بھی اِسی لئے کہتے تھے کہ لوگ پوچھتے ہونگے کہ کس کے بیٹے ہو وہ کہتے کہ میں ابن آدم ہوں ۔قرآن کریم نے ایک آسان ذریعہ اختیار کرلیا کہ اُن کی والدہ کی طرف انہیں منسوب کردیا اور کہہ دیا کہ وہ ابن مریم تھے پس یہ ایک معجزہ تو ہے مگر بنی اسرائیل کی ٹھوکر کیلئے اور ان کو ہوشیار کرنے کے لئے کہ جس مامور کے تم ماننے والے ہو اس کا باپ بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے کانٹا بدل دیا اور ظاہر کردیا کہ غیر قوم سے نبی آئیگا۔ گو یا یہ ایک ٹھوکر تھی محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اور عیسائیوں کے لئے اسلام کا رستہ کھولنے کے لئے۔
فاشارت الیہحضرت مریم جب مسیح ؑ کے ساتھ اپنی قوم میں آئیں تو انہوں نے کہا اے مریم تُو نے یہ کیا بدکاری کی ہے تُو تو بڑے اچھے خاندان میں سے تھی ۔ فاشارت الیہاس پر انہوں نے اُس کی طرف اشارہ کیا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم جانتی تھیں کہ عیسیٰ ؑ نے جواب دینا ہے تبھی تو انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ نے اس موقعہ پر معجزانہ کلام کیا یہ فقرہ اُن کی تردید کرتا ہے ورنہ مریم کو کس طرح پتہ تھا کہ یہ کلام کریگا۔ اشارت الیہکا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے بھی بولا کرتا تھا اور چونکہ بولا کرتا تھا اس لئے انہیں پتہ تھا کہ اب بھی بولیگا۔
اگر کہا جائے کہ سورئہ آل عمران سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت مریم کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ یکلم الناس فی الھدو وکھلا (آل عمران)یہ بچہ مہدوکہل میں باتیں کرے گا اس لئے انہوں نے اسکی طرف اشارہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آل عمران میں جس الہام کا ذکر ہے اُس میں مو قع نہیں بتایا گیا کہ کس موقع پر بات کریگا صرف اتنا کہا گیا ہے کہ بات کریگا ۔ پس سوال یہ ہے کہ اس موقع پر انہوں نے کیوں اشارہ کیا ؟ یا تو الہام بتایا کہ وہ ہمیشہ ہی دُودھ پیتے زمانہ میں باتیں کرے گا اور چونکہ وہ پہلے بھی باتیں کیا کرتا تھا اس لئے اس موقعہ پر بھی اُنہوں نے اس کی طرف اشارہ کردیا۔ مگر اس کا توکوئی بھی قائل نہیں کہ اس سے پہلے بھی عیسیٰ ؑ بولا کرتے تھے اور بعد میں بھی بولا کرتے تھے اِس لئے یہ الہام اس فعل کا محرک نہیں ہو سکتا ۔اُن کا حضرت مسیح ؑ کی طرف اشارہ کرنا در حقیقت یہود کے اعتراض کا جواب تھا ۔انہوں نے اعتراض یہ کیا تھا کہ تُو نے ایک نا جائز فعل کا ارتکا ب کیا ہے اور اپنی قوم اور خاندان کو بدنام کیا ہے حضرت مریم نے اس اعتراض کا جواب اس رنگ میں دیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کردیا کہ تم اس سے باتیں کر کے دیکھ لو کیا تمہیں یہ بدکاری کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے ۔ اگر تمہار اخیال درست ہے کہ میں نے ایک حرام فعل کا ارتکا ب کیا ہے تو پھر بدکاری کے نتیجہ میں یہ عظیم الشان لڑکا کس طرح پیدا ہوگیا ۔تمہارے اصل کے مطابق تو خود یہ لڑ کا تمہارے تما م شبہات اور وساس کو دور کرنے والا اور میری بریت کو ثابت کرنے والا ہے ۔
قالوا کیف نکلم من کان فی المھد صبیا یہ آیت حضرت مسیح ؑ کے بچپن میں کلام کرنے کے متعلق بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ہم اس سے کس طرح کلام کریں جو کہ مہد میں ایک بچہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چائیے کہ مہد کا لفظ تیاری کے زمانہ کے لئے بھی بولا جا تاہے ۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ ومھدت لہ تمھیدا (مدثر ع1)یعنی میں نے کافر کو مال دیا، روپیہ دیا اور اس کی ترقیات کے لئے بڑے بڑے سامان مہیا کئے ۔ پس مہد کا لفظ محاورۃََ اُس زمانہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو تیا ری کا زمانہ ہو اور تیاری کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اُس زمانہ میں انسان آئندہ کے لئے اپنے اندر طاقتیں جمع کرتا ہے یہاں بھی جوانی کے زمانہ کے لئے استعارۃََ مہد کا لفظ بولا گیا ہے اور قوم کے بڑے لوگ چھوٹی عمر کے نوجوانوں کا ذکر الٰہی الفاظ میں کیا کرتے مگر اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ واقعہ میں پنگھوڑے میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ ہم سے بہت چھوٹے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو آپ کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی۔ بڑھا پا شروع ہوچکا تھا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار مکہ کی طرف سے ایک رئیس آپ سے گفتگو کرنے کے لئے آیا تو وہ بار بار کہتا کہ اے بچے میں تجھے کہتا ہوں کہ میری بات مان لو ۔ حالانکہ اُسوقت آپ قریباََ ساٹھ سال کی عمر کے تھے مگر پھر بھی وہ آپ کو بچہ کہتا تھا کیونکہ خود اسی سا ل کا تھا۔ تو قوم کے بڑے لوگوں کا یہ کہہ دینا کہ اس سے ہم کیا گفتگو کریں یہ تو ابھی کل کا بچہ ہے کوئی قابل تعجب بات نہیں ۔مولوی سید محمدؐاحسن صاحب امرو ہی جب سخت غصّہ میں آیا کرتے تو انجمن کے ممبروں سے کہا کرتے تھے کہ تم کل کے بچے ۔دودھ پیتے بچّے میرے سامنے بات کرتے ہو ۔اب اگر کوئی اس بات کو سُنکر یہ کہنا شروع کردے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چودہ ممبروں پر مشتمل ایک انجمن بنائی تھی جس میں صرف ایک جوان شخص تھا باقی سب دُودھ پیتے بچے تھے تو یہ کیسی ہنسی والی بات ہوگی ۔جس طرح مولوی محمد ؐ احسن صاحب کہتے تھے کہ تم کل کے بچے ہو اسی طرح یہودی کہتے کہ یہ جو ہمارے سامنے پوتڑ وں میں کھیلا ہوا ہے کیا ہم اس سے بات کریں ۔ یعنی ابھی تو اس کے سیکھنے کے دن ہیں یہ ہمیں کیا بتائیگا کہ ہم اس سے بات کریں گویا ان الفاظ میں وہ اپنے علم و فضل اور اپنی عمر کی بڑائی پر فخر کرتے ہیں ۔
دیکھو سورئہ آل عمران میں بتایا گیا ہے کہ یکلم الناس فی المھدوکھلا (ع۵)مسیح مہد اور کہل میں کلام کرے گا ۔ اِس سے مسلمان یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ ایک پیشگوئی ہے جس میں بتا یا گیا تھا کہ مسیح بچپن میں کلام کرے گا اور مہد سے مراد حقیقی مہد ہے لیکن یہ نتیجہ نکا لنا درست نہیں ۔کیونکہ سورئہ آل عمران میں مہد کے ساتھ کہل بھی لگایا گیا ہے ۔ اگرمہد میں بولنا معجزہ ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا کہولت میں بولنا بھی معجزہ ہوتاہے ۔کیا ۳۳ سے پچاس سال تک کی عمر میں جو کہولت کا زمانہ ہوتاہے لوگ بولا کرتے ہیں یا تینتیس سے پچاس سال تک کی عمر والا اگر بولے تو اُسے بڑا معجزہ مراد نہیں بلکہ بولنے کی نوعیت مراد ہے اگر کسی عمر میں بولنا مراد ہوتا تو ساتھ کہل کا لفظ کیوں ہوتا ۔اگر کہل میں بولنا معجزہ ہوتا ہے تو پھر مہد سے مراد بھی دودھ پیتے بچے کا کلام کرنا مراد ہوسکتا ہے اور اگر کہولت کا کلام عام بات ہے مہد کا زمانہ بھی وہی زمانہ لیا جائے گا جس میں عام بچے بولتے ہیں ۔اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ پھر پیشگوئی کیو ں کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مہد کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی کرنیکی وہی ضرورت ہے جو کہولت کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی کرنے کی۔ آخر کہولت کی عمر والے باتیں کیا کرتے ہیں یا نہیں جب کیا کرتے ہیں تو پھر یہاں پیشگوئی کیوں کی ؟بہر حال کو ئی نہ کوئی غرض ہے جس کے ماتحت اللہ تعالی نے یہ پیشگوئی کیوں کی ہے اور ہمیں وہ غرض تلاش کرنی چاہیے ۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ کلام اپنی ذات میں معجزہ ہوتاہے قطع نظر عمر کے۔یعنی ہے تویہ معجزہ اگر معجزہ نہ ہوتا تو پیشگوئی نہ ہوتی اور یہ نہ کہا جاتا کہ ایسا ہوجائے گا مگر سوال یہ ہے کہ معجزہ آیا عمر کے لحاظ سے ہوتا ہے یا اس میں کوئی اور بات ہوتی ہے ؟ ہم مان لیتے ہیں اگر دو مہینے کا بچہ بول پڑے تو یہ بڑ امعجزہ ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے وہ پچاس سال کی عمر میں بھی بولے گا پچاس سال کی عمر میں بولنا کس طرح معجزہ ہوسکتا ہے؟اس کا جواب وہی ہے جو میں اُوپر دے چکا ہوں کہ قطع نظر عمر کے کلام اپنی ذات میں بھی معجزہ ہوتا ہے ۔مثلاََ قرآن کریم ایک بڑا معجزہ ہے مگر رسول کریم ﷺ پر یہ کس وقت نا زل ہونا شروع ہوا ۔ جب آپ دومہینے کے بچے تھے یا چالیس سا ل کے تھے۔چالیس سال کی عمر سے قرآن کریم نازل ہونا شروع ہو ا اور تریسٹھ سال کی عمر تک نازل ہوتا چلا گیا ۔مگر ہم پھر بھی اُس کو معجزہ کہتے ہیں ۔کیا اس لئے کہ آپ دو مہینے کے تھے جب یہ نازل ہوا یا تین مہینے کے تھے جب یہ نازل ہوا ۔بلکہ ہم اس کلام کو کلام کی وجہ سے معجزہ کہتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کلام اِس شان کا ہے کہ دنیا اس کی مثال لانے سے عاجز ہے ۔پس یکلم الناس فی المھد وکھلا کے یہ معنے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ اپنی تیا ری اور جوانی کے زمانہ میں بھی اور کہل کے زمانہ میں بھی ایسی باتیں کریں گے جو معجزانہ ہوں گی۔ اور تمام انبیا ء ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قرب اور اسکی محبت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں ۔خود رسول کریم ﷺ نے تریسٹھ سال تک وہ کلام کیا کہ مسیح ؑ تو مسیح ؑ ،موسیٰ ؑ کا کلام بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔چنانچہ موسیٰ کی تورات اور عیسیٰ کی انجیل قرآن کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا رکھتی ہیں ۔حالانکہ یہ کلام چالیس سال کی عمر میں نازل ہونا شروع ہوا تھا ۔پس خدا ہی یہ بتا سکتا تھا کہ مسیح ایسا کلام کرے گا جو معجزہ ہوگا ۔یہ معجزہ دو مہینے کے بچہ کے کلام کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اس کلام کی ذاتی خوبیوں اور حُسن کی وجہ سے ہے۔ پس مہد کے معنے بچپن کے کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر وہ جوانی میں بھی ایسی باتیں کرتے تھے جو عام آدمی نہیں کرسکتے تھے تو وہ معجزہ تھا ۔جس طرح رسو ل کریم ﷺ چالیس سال کی عمر میں بولے مگراُن کا کلام پھر بھی معجزہ تھا اور ایسا معجزہ کہ مسیح کو اس کا ہزارواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوا ۔ پس محمد رسول اللہ ﷺ اور موسیٰ ؑ وغیرہ کا کلام جس طرح بڑی عمر میں معجزہ تھا اور خدا تعالیٰ ہی اس کے متعلق پہلے سے بتاسکتا تھا اسی طرح مسیح کے متعلق تھا ۔ پس پیشگوئی کی ضرورت مہد میں کلام کرنے کیلئے نہ تھی کیونکہ اس کے ساتھ کہل بھی لگا ہوا ہے کیونکہ کلام خاص جس طرح جوانی میں معجزانہ ہوتا ہے اسی طرح کہولت اور بڑھاپے میں بھی معجزانہ ہوتا ہے ۔



(یہ سُنکر ابن مریم نے ) کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس نے مجھے کتاب بخشی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔ اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید کی ہے اور مجھے اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنیوالا بنایا ہے اور مجھے ظالم اور بد بخت نہیں بنایا۔
تفسیر :
یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ اگر مہد سے مراد بچپن کا زمانہ ہی لیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ حضرت مسیح ابھی دُودھ پیتے بچے تھے کہ آپ نے یہ کلام کیا تو اِن آیات میں جس قدر باتیں انہوں نے بیان کی ہیں وہ ساری کی ساری اُس وقت جھوٹی بنتی ہیں ۔اگر وہ دو مہینے کی عمر میں بولے تھے تو غو ر کرو وہ کیا کہتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں انی عبداللہ عبداللہ کے معنے اس جگہ محض مخلوق کے نہیں ہوسکتے کیونکہ مخلوق ہونے کے لحاظ سے تو سب انسان برابر ہیں اور حضرت مسیح اپنی وہ خصوصیا ت بیان کررہے ہیں جن میں انہیں دوسروں سے امتیاز حاصل ہے پس عبداللہ کے معنے ہیں خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنیوالا اوراُس کی صفات کو دنیا میں ظاہر کرنے والا۔ ایک دودھ پیتا بچہ کہتا کہ میں اللہ کا مطیع اور فرما نبردار ہوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے اخلاق کو دنیا میں ظاہر کرنے والا ہوں ۔اب اگر دُودھ پیتا بچہ ایسا کہتا ہے تو وہ یقیناجھوٹ بولتا ہے کوئی معجزہ نہیں دکھاتا بلکہ اُس کی اپنی حالت یہ تھی کہ ابھی اُس کو طہارت بھی اس کی ماں کرواتی تھی۔وہ چوستا تھا ماں کا پستان اور کہتا تھا کہ میں عبداللہ ہوں۔ کیا عبداللہ کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی ماں کا پستان پکڑ کر چُوسنا شروع کردے۔ یہ عجیب نظارہ ہوگا کہ اِدھر وہ کہتا ہوگا انی عبداللہ اور پھر ماں کی طرف مُنہ کرکے اس کا پستان چوسنے لگ جاتا ہوگا گویا فعل کرتا ہے بچے والا اور دعویٰ کرتا ہے بڑے مقرب اور پاکیزہ انسانوں والا اور پھر جو کچھ کہتا ہے محض جھوٹ ہے ۔ کہتا ہے میں اللہ کا عبدہوں اور اس کی عبادت کرتا نہیں تھا بلکہ اگر وہ اُس وقت اپنے دعویٰ کے مطابق نماز پڑھنی شروع کردیتا تو اُس کی ماں اُسے پھینک کر چلی جاتی اور شاید وہ سارا دن پاخانہ میں لتھڑا رہتا ۔
پھر کہتا ہے اتنی الکتباُس نے مجھے کتاب دی ہے ۔سوال یہ ہے اُس وقت خدا تعا لیٰ نے اُسے کونسی کتا ب دی تھی ؟
پھر کہتا ہے وجعلنی نبیااس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے حالانکہ یہ جھوٹ تھا ۔
اِسی طرح کہتا ہے وجعلنی مبٰرکا این ما کنت اُس نے مجھے برکت والا بنایا ہے جہاں کہیں بھی میں ہوں ۔چلنا آتا نہیں ماں گود میں اُٹھائے پھرتی ہے اور کہتا یہ ہے کہ اینما کنت جہاں کہیں بھی میں جا ئوں خدا تعالیٰ کی برکت میرے ساتھ ہے ۔
واوصٰنی بالصلوٰۃ اور اس نے مجھے نماز کا حکم دیا ہے حا لانکہ طہارت بھی کوئی دوسرا کراتا تھا اور نماز پڑھنی آتی نہیں تھی۔
والذکٰوۃ اور اس نے مجھے زکوۃ کا حکم دیا ہے حالانکہ اس کے پوتڑے بھی اس کی ماں بناتی تھی اور کہتا یہ ہے کہ مجھے خدا نے زکوۃ دینے کا حکم دیا ہے ۔
وبرا بوالدتی اور میں اپنی ماں کا بڑا فرمانبردار ہوں حالانکہ ماں کی کیا فرمانبرداری کرنی تھی ماں تو اُسے اپنا خون چوسا رہی تھی اور اپنی گود میں اٹھائے پھرتی تھی اور راتوں کو اُس کے لئے جاگتی تھی ۔
ولم یجعلنی جبارا شقیا اور اس نے مجھے جبار اور شقی نہیں بنایا حالانکہ اُس وقت اُس نے جبار کیا ہونا تھا چٹکی کاٹنے سے وہ رونے لگ جاتا تھا ۔
غرض اگر یہ درست ہے کہ انہوں نے بچپن میں کلام کیا تو یہ جتنی باتیں ہیں سب کی سب جھوٹ بن جاتی ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ یہ آئندہ کی خبریں تھیں جو اُن کی زبان پر جاری ہوئیںلیکن اگر اتنی باتوں کو آئندہ کی خبریں بنانا ہے تو صرف اِسی با ت کو کہ وہ بچپن میں کلام کرے گا آئندہ کی خبر کیونہ کہا جائے ۔سارا سوال حل ہوجاتا ہے ۔پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخر اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض کیا تھی۔ وہ کہتے ہیں غرض یہ تھی کہ یہود کو معجزہ دکھایا جائے حا لانکہ اس معجزے سے بجائے اس کے کہ وہ کچھ فائدہ اٹھاتے وہ تو اور زیادہ بگڑے ہونگے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے جھوٹ کہتا ہے ۔ کہتا ہے کہ خدا نے مجھے کتاب دی حالانکہ اس کے پاس کوئی کتاب نہیں ۔کہتا ہے کہ اُس نے مجھے نبی بنایا ہے حالانکہ ابھی اُس کو طہارت بھی اس کی ماں کرواتی ہے ۔ کہتا ہے کہ اُس نے مجھے زکوۃ کا حکم دیا ہے حالانکہ پاس پیسہ بھی نہیں اور اگر کہو کہ دشمن پر صرف اُن کا بولنا حجت تھا گویا معجزہ کسی اور بات میں نہیں تھا بلکہ معجزہ صرف اتنا تھا کہ اتنی چھوٹی عمر کا بچہ بول پڑ ا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اتنے جھوٹ بلوانے کی کیا ضرورت تھی ۔ ایک دو ماکا بچہ تو اگر خالی اتنا ہی کہدیگا کہ ’’چچا جان کیا حال ہے آپ کیسی باتیں کررہے ہیں خدا کا خوف کریں ‘‘ تو بڑے بڑے جبہّ پوش فقیہوں اور فریسیوں نے اُس وقت بھاگ جانا تھا اتنے جھوٹ بلوانے کی ضرورت ہی نہیں تھی حقیقت یہ ہے کہ حضرت مریم کئی سال باہر رہیں جب وہ تیس سال کے ہوگئے (انجیل لوقاباب۳ آیت ۲۳) اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو نبوت کے مقام پر فائز کردیا تو حضرت مریم اُنکو ساتھ لیکر اپنی قوم واپس آئیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے دشمن رشتہ دار ٹو ہ میں رہے یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی اور دشمنوں نے راز کا پتہ لگا ہی لیا اور یا پھر خدا تعالیٰ نے اپنے نشان کو نمایاں کرنے کیلئے راز فاش کروادیا۔
عربی کی کتابوں میں ایک لطیفہ لکھا ہے جو دراصل لطیفہ نہیں بلکہ کثیفہ ہے مگر اس لئے کہ یہا ں چسپاں ہوتا ہے اُسے بیان کردیتا ہوں ۔
ہماری عربی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی مولوی صاحب تھے جو بڑے بے وقوف اور بخیل تھے ۔ جو بھی روپیہ آتا اُسے جمع کرلیتے اور بیوی کو صرف آنہ دو آنے خرچ کرنے کے لئے دے دیتے۔ تنگ آکر وہ طلاق لے لیتی دوسری آتی تو اُسے بھی اس مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا آخر ایک عورت آئی اور اس نے ارادہ کر لیا کہ میں اس بخیل سے اس کا سا را روپیہ چھین لوں گی چنانچہ اُس نے آتے ہی اپنے پاس سے خوب مزیدار چیزیں پکا پکا کر اُسے کھلانی شروع کر دیں اور کہتی یہ میرے بھائی نے بھیجی ہیں۔ یہ میرے چچا نے بھیجی ہیں یہ میرے فلاں رشتہ دارنے بھیجی ہیں۔ اِسی طرح اُس نے پیاز اور لہسن وغیرہ خوب کھلانے شروع کر دئیے اُس نے یہ پتہ بھی لگا لیا کہ روپیہ کہاں رکھاہے چنانچہ وہ رسّی کو موم لگاکر اس جگہ لٹکاتی جہاں روپیہ رکھا تھا اور ایک اشرفی نکال لیتی اور اُس سے اُسے کھلانا پلانا شروع کردیا جب وہ اشرفی ختم ہوجاتی تو ایک اور نکال لیتی ۔آخر نفاخ چیزیں کھاکھاکراُس کا جگر خراب ہوگیا اور پیٹ پھولنا شروع ہوگیا ۔ جب اس کا پیٹ کچھ زیادہ بڑھ گیا تو عورت نے اس کا پیٹ ملنا شروع کردیا اور پیٹ ملتے ملتے کہا کہ تمہیں حمل ہوگیا ہے۔ وہ گو مولوی تھا مگر بے وقوف تھا ۔سنتے ہی کہنے لگا خبردار کسی کو بتانا نہیں ورنہ میری بڑی بدنامی ہوگی ۔اُس نے کہا فکر نہ کرو میں کسی کو نہیں بتاتی غرض اس طرح اس کا پیٹ پھولتا چلاگیا اور وہ یقین دلاتی چلی گئی کہ یہ حمل ہے نو ماہ کے بعد اُس نے اپنی ایک ہمسائی سے جو اس کی سہیلی تھی مشور ہ کیا اور دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ کسی کا بچہ اٹھا کر لے آتے ہیں اور اسے دکھادیتے ہیں کہ یہ تیرے حمل کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے چنانچہ وہ کسی اور کا بچہ لے آئے اور انہوں نے اُس کا پیٹ خوب ملنا شروع کیا اور پھر ایک بچہ نکال کر دکھادیا کہ لو یہ بچہ پیدا ہوگیا ہے اس نے منتیں کرنی شروع کیں کہ کسی کو بتانا نہیں اور پھر کہا کہ اب بچہ تو پیدا ہو گیاہے اس کے دُودھ کا کیا انتظام ہوگا وہ کہنے لگی کہ دُودھ کا فکر نہ کرومیں اس کا خود انتظام کرلوں گی۔ ادھر اُس نے سارے شہر میںخبر مشہور کردی کہ مُلا جی کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوا ہے اور سارے شہر کے لوگ اُس کے پاس آنے لگے ۔وہ اس قدر گھبرایا کہ شہر چھوڑ کر ہی بھاگ گیا اور پندرہ بیس سال تک اِدھر اُدھر پھرتا رہا ۔آخر اُسے خیال آیا کہ اب تو بات پرانی ہوچکی ہے سب لوگ اس قصہ کو بھول چکے ہوں گے آئو اب وطن واپس چلوں چنانچہ بیس سال کے بعد وہ اپنے شہر میں واپس آیا ۔شہر کی حالت بالکل بدل چکی تھی ۔پُرانے لوگوں میں سے کئی مرچکے تھے اور بچے جوان ہوچکے تھے ۔ایک جگہ کچھ نوجوان کھیل رہے تھے ۔اس نے ایک لڑکے کو بلایا اور پوچھا کہ کچھ جانتے ہو فلاں مکان کس گلی میں ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ مجھے توکچھ علم نہیں ۔وہ حیران ہوا اور اُس نے پوچھا کہ لڑکے تمہاری عمر کتنی ہے ۔اُس نے کہا عمر کا تو مجھے علم نہیں مگر جس سال قاضی کے پیٹ سے بچہ پیداہوا تھا اُسی سال میں پیداہو ا تھا ۔ ایسا ہی لطیفہ اس جگہ گزرا حضرت مریم تو بھاگیں مگر وہ رشتہ دار جو اُن کے شریک تھے انہوں نے اس واقعہ کو یاد رکھا اور جب آپ واپس پہنچیں اور انہوں نے دیکھا کہ وہی بچہ آگیا ہے جس کی خبر مشہور ہوئی تھی تو انہوں نے حضرت مریم کو طعنہ دیا ۔
فاشارت الیہ اُن کے طعنہ پر حضرت مریم شرما گئیں اور انہوں نے حضرت مسیح کی طرف اشارہ کردیا مگر وہ بچہ اب جوان ہوکر خدا تعالیٰ کا نبی بن چکا تھا۔ اُس نے کہاتم کیا بکواس کرتے ہو انی عبداللہ اٰتٰنی الکتب وجعلنی نبیامیں خدا تعالیٰ کی صفات کو دنیا میں ظاہر کرنیوالا ہو ں۔ میں خدا تعالیٰ کے اخلاق کو دنیا میں قائم کرنے والا ہوں ۔خدا نے مجھے کتاب دی ہے اور خدا نے مجھے نبی بنا یا ہے کیا ایسی اولاد حرام کی اولاد ہوسکتی ہے وجعلنی مبارکا این ما کنت اور اُس نے مجھے مبارک بنایا ہے جہاں کہیںبھی میں ہو واوصنی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ اور خدا نے مجھے نماز کا اور زکوۃ کا حکم دیا ہے مادمت حیاجب تک کہ میں زندہ رہوں ۔ اگر یہ دُودھ پیتے زمانہ کا معجزہ تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دُودھ پیتے وقت چلتے پھرتے بھی تھے اور نماز یں بھی پڑھتے تھے اور زکوتیں بھی دیتے تھے حالانکہ اس بات کونہ غیر احمدی مانتے ہیں اور نہ عیسائی مانتے ہیں ۔ اگر کہو کہ یہ آئندہ کی پیشگوئیاں تھیں تو سوال یہ ہے کہ وہ بولا تو اس لئے تھا کہ لوگ ایمان لاتے مگر اس سے تو اُن کے ایمان اور بھی خطرہ میں پڑگئے ہونگے کہ یہ کیسا جھوٹا ہے کہتا کیاہے اور اس کی حالت کیا ہے جب اس نے کہا ہوگا کہ اتنی الکتبمجھے اُس نے کتاب دی ہے تو وہ کہتے ہوں گے صریح جھوٹ ہے دکھائو کتا ب کہاں ہے اور پھر اگر اُس نے کتاب دے دی تھی تو اس کے اوّل منکر خود مسیح ؑ ہوئے کیونکہ اُس پر عمل نہیں کیا ۔
اِسی طرح جب انہوں نے کہا ہو گا کہ وجعلنی نبیا اس نے مجھے نبی بنایا ہے تو وہ کہتے ہوں گے کیسا جھوٹا ہے ۔تجھے نبی بنایاہے ۔ تُوتو ابھی ما ں کا پستان چوس رہاہے ۔
جب کہا ہو گا کہ وجعلنی مبارکا این ما کنت تو وہ کہتے ہوں کہ خوب ! ماں کی گود سے اُتر نہیں سکتا اور کہتا یہ ہے کہ میں جہاں کہیں جائوں خدانے مجھے برکت والا بنایا ہے۔
جب کہا ہوگا واوصٰنی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ مجھے اس نے نماز اور زکوۃ کا حکم دیاہے تو انہوں نے کہا ہوگا کہ اچھا فرمائیے آپ نے کتنی نمازیں پڑھی ہیںاور پھر دھیلہ آپ کی جیب میں نہیں اور کہتے یہ ہیں کہ مجھے اُس نے زکوۃ کا حکم دیا ہے ۔
جب کہا ہو گا وبرابوالدنیمیں اپنی ماں سے بڑا حسن سلوک کرنے والاہوں ۔ توکہتے ہوں گے کہ تُو ماں کے کپڑوں پر تو پیشاب کررہا ہے اور ما ں تجھے خون چوسا رہی ہے اور توکہتاہے کہ میں اپنی ماں کا بڑا فرمانبردار ہوں ۔
اسی طرح جب کہا ہوگا کہ ولم یجعلنی جبارا شقیا مجھے اُسنے جبار اور شقی نہیں بنایامیں ایسا نہیں ہوں کہ لوگوں پر ظلم کروں اور اُن کے حقوق تلف کروں تو وہ کہتے ہوں گے کہ تُو نے ظلم کیا کرناہے تجھے تو خود بات بات میں دوسروں کی احتیاج ہے ۔
لیکن اتنے جھوٹ بولنے کی بجائے وہ صرف اتنا ہی کہہ دیتے کہ چچا جان آپ میری ما ں پر کیسا ظلم کررہے ہیں اور کیسی جھوٹی باتیں اُس کے متعلق کہہ رہے ہیں ۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اتنی بات سے ہی اُن مولویوں اور پنڈتوں نے بھاگ جانا تھا ۔ان دعووں کے ساتھ تو یہ معجزہ رہا ہی نہیں صریح جھوٹ بن گیا ہے جس کا دشمن پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اس زمانہ کی باتیں ہیں جب وہ جوان ہوئے اور تیس سال کی عمر میں یورو شلم آئے اُس وقت حضرت مریم بھی اُن کے ساتھ تھیں ۔وہ جانتی تھیں کہ رشتہ دار مجھے طعنہ دیں گے پس جب انہوں نے طعنہ دیا اور کہا کہ یمریم لقد جئت شیئا فریاتو انہوں نے کہا تم مجھے کیا طعنہ دیتے ہو اسی سے پوچھ لو حضرت مسیح ؑنے کہا تم یہ کیا باتیں کررہے ہو خدا نے مجھے نبی بنایا ہے خدا نے مجھے تقویٰ و طہارت عطا کیا ہے خدا نے مجھے علم الکلام عطا کیا ہے ۔خدا نے مجھے اخلاق فاضلہ سے متصف کیا ہے ۔وبرا بوالدتی اگر ماں میرے لئے ایسی ٹھوکر کا موجب ہوتی تو میں اُس کا اتنا خدمت گزار کیوں ہوتا ۔خدا نے اس کی نیکی دیکھ کر ہی اُسے چن لیا اور مجھے اُس کے گھر میں پیدا کردیا ۔
پس یہاں مہد سے بچپن کا زمانہ نہیں بلکہ بڑی عمر کا کلام مراد ہے یعنی تیس سا ل کی عمر کا جو کہولت سے پہلے ہوتاہے ۔ کہولت کا زمانہ تیس سے پچاس تک کا ہوتا ہے اس کے بعد بڑھاپا شروع ہوتا ہے ۔مسیح تیس سال کی عمر میں نبی ہوئے اور ۳۳ سال تک اپنے ملک میں رہے ۔پس اُنہیں مہد وکہولت میں بولنے کا موقع ملا ۔بڑھاپے میں بولنے کا موقع انہیں غیر ملکوں میں جا کر ملا ۔
ان آیا ت کے متعلق اس وقت تک میںنے یہ مضمون بیان کیاہے کہ قرآن کریم حضرت مسیح ؑ کے متعلق کیانظریہ پیش کرتا ہے۔ آیا انہوں نے اس وقت کلام کیا تھا جب وہ ابھی اپنی ماں کی گود میں تھے یا اُس وقت کلام کیا تھا جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کے مقام پر فائز ہوچکے تھے مگر جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے ان آیا ت کا تعلق صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ عیسائیوں کے ساتھ بھی ہے اور اُن کی طرف سے یہ سوال پیداہوسکتا ہے کہ قرآن کریم نے ہمارے لیڈر کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ غلط ہے چنانچہ اب میں اسی سوال کی طرف آتا ہوں کہ آیا عیسائی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں کہ مسیح ؑ نے یہی کچھ بیان کیا تھا اور لوگوں سے یہ کہا تھا کہ انی عبداللہ اٰتٰنی الکتٰب وجعلنی نبیا عیسائی مفسر اور عیسائی مصنف جو اسلام کے متعلق کتابیں لکھتے ہیں وہ اس موقع پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور نہایت غصہ سے رسول اکرم ﷺ پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے اپنی بات منوانے کے لئے مسیح کے مُنہ میں جھوٹی باتیں ڈالیں ۔گویا علماء نے اپنے قول سے مسیح کی طرف تو ایک معجزہ منسوب کیا لیکن اپنے آقا اور سردار محمد رسول اللہ ﷺ کو عیسائیوں سے گالیا ں دلوائیں اور انہیں جھوٹا کہلوایا ۔وہ کہتے ہیں مسیح تو خدا تھا پھر انی عبداللہ اور اتنی الکتاب وجعلنی نبیا کہنے کے کیا معنے ہوئے ان کے نزدیک محمد رسول اللہ ﷺ نے (نعوذباللہ ) اپنی بات سچی ثابت کرنے کیلئے مسیح ؑ کی زبان سے اس قسم کے فقرے کہلوائے ہیں۔جو بالکل غلط ہیں اور جن کو مسیح ؑ کی طرف کسی صورت میں بھی منسوب نہیں کیاجا سکتا چنانچہ اس موقع پر وہ اپنی شدید نفرت کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم نے حضرت مسیح ؑ کی طرف بالکل غلط دعادی منسوب کردئیے ہیں پس ہم ان آیا ت سے اس وقت تک نہیں گذر سکتے جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ جو کچھ قرآن کریم نے بیان کیا ہے وہ درست ہے اور اناجیل سے وہی باتیں ثابت ہوتی ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہے ۔ یہ اسلامی تعلیم یا اسلام ہسٹری کا سوال نہیں کہ ہم خاموشی سے گذر جائیں اور کہیں کہ کسی غیر کا اس سے کیا تعلق ہے یہ ایسی باتیں ہیں جو ایک قوم کے لیڈر کے متعلق کہی گئی ہیں او ر دعویٰ کیا گیا ہے اُس نے یہ باتیں کیں ۔پس اُس لیڈر کے اتباع کاحق ہے کہ وہ کہیں کہ ان باتوں کا ثبوت لائو اور اگر واقعہ میں انجیل سے ان باتوں کا کوئی ثبوت نہ ملے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن انسانی کتاب سمجھا جائے گا اور یہ خیال کیا جائیگا کہ نعوذ باللہ قرآن کریم نے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ جو کچھ قرآن کریم نے بیان کیاہے وہ درست ہے اور انجیل سے بھی یہی باتیں ظاہر ہوں تو نہ صرف یہ سوال حل ہوجائیگا کہ مسیح ؑ مہد میں نہیں بولا بلکہ یہ سوال بھی حل ہوجائیگا کہ مسیح ؑ کی طر ف خدائی کا دعویٰ منسوب کرنا غلط ہے مسیح ؑ بھی ایک ویسا ہی انسان تھا جیسا کہ اور لوگ اس دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔
قرآن کریم نے حضرت مسیح ؑ کی طرف جو باتیں منسوب کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے کہاانی عبداللہ میں اللہ کا بندہ ہوں اسی طرح انہوں نے کہا اتنی الکتب وجعلنی نبیااُس نے مجھے کتاب دی ہے اور اس نے مجھے نبی بنا یا ہے ۔ اب یہ باتیں اگر درست ہیں تو اس میں شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ مسیح نہ خدا تھا نہ خدا کا بیٹا تھا بلکہ وہ خدا کا ایک نبی تھا ۔ پس ان آیا ت پر یقینا عیسائیوں کو چڑنے کا حق ہے گو بد کلامی کا حق نہیں ۔یہ تو انہیں حق حاصل ہے کہ وہ کہیں کہ قرآن کریم نے مسیح کی طرف غلط دعاوی منسوب کردئیے ہیں مگر اُن کا یہ حق نہیں کہ و ہ بد زبانی پر اتر آئیں اور گالیوں سے کام لیں ۔ بہرحال جب ہم انجیل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی عقائد غلط فہمیوں پر مبنی ہیں اور اسلام اور قرآن نے جو بات کہی ہے وہی صحیح اور درست ہے ۔
پہلی بات قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ مسیح نے کہا انی عبداللہ اب اگر انجیل بھی یہی کہتی ہے کہ مسیح اللہ کا بندہ تھا قرآن کریم کی بات سچی ثابت ہو جائے گی ۔ پس سب سے پہلے ہم اسی با ت کو لیتے ہیں اور قرآن کریم کے اس بیان کی تائید کے لئے متی باب ۴آیت اتا ۱۱ کو پیش کرے ہیں ۔اس میں لکھا ہے :
’’تب یسوع روح کے وسیلے بیابان میں لایا گیا تاکہ شیطا ن اُسے آزمائے اور جب چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھ چکا آخر کو بھوکا ہوا تب آزمائش کرنے والے نے اس کے پاس آکے کہا اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو کہہ کہ یہ پتھر روٹی بن جائیں ۔اس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی جیتا ہے ۔ تب شیطان اُسے مقدس شہر میں اپنے ساتھ لے گیا اور ہیکل کے کنگورے پر کھڑا کرکے اس سے کہا اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرادے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیر ے لئے اپنے فرشتوں کو فرمائے گا اور وے تجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے ۔ایسا نہ ہو کہ تیرے پائوں کو پتھر سے ٹھیس لگے ۔ یسوع نے اس سے کہا یہ بھی لکھا ہے کہ تُو خدا وند اپنے خدا کو مت آزما ۔پھر شیطان اُسے ایک بڑے اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی ساری بادشاہتیں اور انکی شان وشوکت اُسے دکھائیں اور اُس سے کہا اگر تو گر کے مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دیے دونگا تب یسوع نے اُسے کہا اے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور اس اکیلے کی بندگی کر( یہ آیات بتاتی ہیں کہ گو مسیح ؑ نے شیطان کو سجدہ نہیں کیا مگر مسیحی قوم نے آخر شیطان کو سجدہ کیا تبھی اُن کو دنیا کی بادشاہت مل گئی ۔ کیونکہ انجیل بتاتی ہے کہ دنیا کی بادشاہت شیطان کو سجدہ کرنے کے نتیجہ میںملتی ہے ) تب شیطان اُسے چھوڑ گیا اور دیکھو فرشتوں نے آکے اُسکی خدمت کی ۔‘‘
یہ بیا ن کس تفصیل سے مسیح کی انسانیت کی طرف اشارہ کررہا ہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ شیطان اُسے آزمانے کے لئے آیا ۔اب کوئی عقلمند یہ نہیں مان سکتا کہ شیطان جس نے مسیح کو آزمانا چاہا وہ اتنا بھی نہیں جانتا تھا کہ خدا کیا ہو تا ہے اور اس کی کیا صفات ہیں اور اس کے اندر کیا کیا طاقتیں پائی جاتی ہیں ۔بائبل میں جہاں بھی شیطان کا ذکر آتا ہے وہاں سے اتنا تو پتہ لگتا ہے کہ شیطان ایک باغی وجود تھا اور خدا تعالیٰ کی معرفت کاملہ اس کو حاصل نہیں تھی لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اتنا ضرور جا نتا تھا کہ خدا کیا ہوتا ہے اور اس کی کیا طاقتیں ہیں ۔ پس شیطان کا مسیح کے پاس اُس کی آزمائش کے لئے آنا جبکہ وہ جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ کو آزمایا نہیں جا سکتا صاف بتاتا ہے کہ شیطان یہ بھی جانتا تھا کہ مسیح خدا نہیں ۔ورنہ اگر وہ جانتا کہ یہ خدا ہے تو وہ اُسے آزمانے کے لئے کیوں آتا۔
پھر لکھتا ہے جب وہ چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ رکھ چکا تو ’’آخر بھوکا ہوا‘‘ اب چالیس دن اور چالیس رات کے روزہ کے اگر یہ معنے بھی لئے جا ئیں کہ اُس نے چالیس دن رات کھانا نہیں کھایا تب بھی اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ گاندھی جی نے توساٹھ ساٹھ دن کے بھی روزے رکھے ہیں ۔ پھر یہاں صرف بھوکا رہنے کا ذکر ہے پیاسا رہنے کا ذکر نہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح گاندھی جی پھلوں کا رس اور سوڈا وغیرہ پی لیا کرتے تھے اسی طرح وہ بھی چالیس دن رات صرف پانی اور پھلوں کا رس وغیرہ پیتے رہے روٹی انہوں نے نہیں کھائی لیکن بہرحال جب چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ ختم ہوا تو انجیل بتاتی ہے کہ انہیں بھوک لگی اور جب وہ بُھوکے ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ انسان تھے خدا نہیں تھے کیونکہ بھوک انسان کو ہی لگا کرتی ہے خدا کو نہیں ۔
عیسائی اس موقع پرکہا کرتے ہیں کہ چونکہ مسیح ؑ انسانی جسم میں تھا اس لئے انسانی حوائج بھی اس کے ساتھ لگے ہوئے تھے ۔ ہمارا تو اعتقاد ہے کہ اس کا جسم بھی انسانی تھا اور اس کی روح بھی انسانی تھی ۔ لیکن بہر حال ہم عیسائیوں سے کہتے ہیں کہ کم ازکم تم نے مسیح کا انسانی جسم مان لیا۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ اس میں انسانی روح تھی یا خدائی ۔اس کا حل اگلی آیا ت سے ہوجاتا ہے ۔
لکھا ہے شیطان نے اُس سے کہاکہ
’’اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو کہہ کہ یہ پتھر روٹی بن جائیں ۔‘‘
اس پر حضرت مسیح ؑ نے کہا
’’لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی ۔جیتاہے۔‘‘
یعنی شیطان نے کہا کہ پتھر کو روٹی بنا دے ۔اب پتھر کو روٹی بنانا خدا کے اختیا ر میں ہے انسان کے اختیار میں نہیں ۔پس چونکہ یہ چیز خدا کے اختیار میں تھی اس لئے شیطان نے کہا کہ جب تُو کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور لوگ بھی تجھے ایک فوق العا دت وجود سمجھتے ہیں تو تُو پتھر کو روٹی بنادے مگر اُس نے ایسا نہ کیا جس کے معنے یہ ہیں کہ اُس میں خدائی طاقتیں نہیں تھیں ۔
اِس موقع پر عیسائیوں کی طرف سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ روٹی نہ بنانے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس میں خدائی طاقتیں نہیں تھیں کیونکہ یہ امر اس کی مرضی پر منحصر تھا ۔اگر اس کا جی چاہتا تو وہ پتھر کو روٹی بنا سکتا تھا ۔مگر چونکہ اُس نے نہ چاہا کہ وہ ایسا کرے اس لئے پتھر روٹی نہ بن سکا ۔ پس اگر مسیح نے یہ معجزہ نہیں دکھایا تو اس سے اُس کے عجز کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ اُس نے جب شیطان کی گستاخی دیکھی تو اُس نے اُس کی بات کو رد کر دیا اور کہہ دیا کہ تم کون ہوتے ہو جو مجھ سے ایسا سوال کرو ۔ جامیں پتھر کو روٹی نہیں بناتا۔
اس کا جوب یہ ہے کہ اس امر کا فیصلہ کرنے کے لئے مسیح نے پتھر کو روٹی کیوں نہ بنایا ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ مسیح ؑ نے اس سوال کا جواب کیا دیا ہے ؟ اگر تو مسیح ؑ یہ جواب دیتا کہ میں پتھر کو روٹی نہیں بناتا یہ امر میری مرضی پر منحصر ہے تم کون ہو جو مجھے اس امر پر مجبور کرو تب تو یہ بات درست تسلیم کی جاسکتی تھی کہ مسیح ؑ نے پتھر کو روٹی اس لئے نہیں بنایا کہ وہ بنا نہیں سکتا تھا بلکہ اس لئے نہیں بنائی کہ وہ بنا نا نہیں چاہتا تھا لیکن مسیح یہ جواب دیتا ہے کہ
’’لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہرایک بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی جیتا ہے ‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ وہاں کون سے دو وجود تھے جو باتیں کررہے تھے ۔ کیا روٹی کھانے والا وجود وہاں مسیح ؑ کے علاوہ کوئی اور بھی تھا ؟صاف ظاہر ہے کہ شیطان روٹی کھانے والا نہیں تھا ۔ روٹی کھانے والا وجود صرف مسیح ؑ تھا اور مسیح ؑ یہ جواب دیتے ہیں آدمی روٹی کے بغیر بھی جیتا ہے ۔گویا مسیح ؑ نے اس امر کا اقرار کی کہ میں انسان ہوں اور روٹی کا محتاج ہوں لیکن اگر خدانے مجھے روٹی نہیں دی تو مجھے خدا کے کلام پر اعتبار کرنا چائیے اور ایسی باتیں نہیں کہنی چاہئیں کہ پتھر روٹی بن جائیں ۔
پھر اس نے کہا کہ
’’انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ۔جیتاہے‘‘
یہ بھی وہ اپنے متعلق ہی کہتا ہے ۔ پس معلوم ہوکہ مسیح ؑ خدا کی باتوں سے جیتا تھا اور جو خدا کی باتوں سے جیتا ہے وہ خدا نہیں ہوسکتا ۔
پھر لکھا ہے :
’’تب شیطان اُسے مقدس شہر میں اپنے ساتھ لے گیا اور ہیکل کے کنگورے پر کھڑا کرکے اُس سے کہاکہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرادے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیرے لئے فرشتوں کو فرمائیگا اور وے تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے ۔ ایسا نہ ہو کہ تیرے پائوں کو پتھر سی ٹھیس لگے ‘‘
یعنی شیطان نے کہا کہ تم ہیکل کے کنگرے سے اپنے آپکو نیچے گرادو۔ اگر تم ایسا کروگے تو میں سمجھ لوں گا کہ تم خدا ہو کیونکہ خدا کو چوٹ نہیں لگ سکتی ۔ اسپر مسیح نے کہا :
’’یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو مت آزما ‘‘ یعنی یہ کام بھی میں اس لئے نہیں کرتا کہ میں اپنے خدا کو کس طرح آزمائوں میں خدا کا ایک بندہ ہوں اور بندوں کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے خدا کو مت آزمائیں ۔
پھر شیطان اُسے ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی ساری بادشاہتیں اور ان کی شان وشوکت اُسے دکھائیں اور اُس سے کہا اگر تُو گر کے مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دُوں گا ‘‘۔یہ الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ مسیح ؑ خدا نہیں تھا کیونکہ خدا کی تو سب چیزیں ہیں جب وہ مسیح ؑ کو کہتا ہے کہ اگر تو مجھے سجدہ کرے تو میں سب کچھ تجھے دے دُوں گا ۔تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ شیطان جانتا تھا کہ یہ خدا نہیں ورنہ خداکو کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں تجھے سب چیزیں دے دُوں گا ۔ جو چیزیں ہیں ہی خدا کی وہ خدا کودینے کے کیا معنے ہیں ۔ پس اگر مسیح ؑ شیطان کی نظر میں خدا ہوتاتو وہ اُسے یہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ اگر تُو مجھے سجدہ کردے تو میں دنیا کی سب نعمتیں تجھے دے دونگا اور پھر جب مسیح ؑ نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ یہ سب چیزیں میری ہیں تو اس سے بھی پتہ لگا کہ وہ بھی اپنے آپ کو خدا کا بندہ ہی سمجھتا تھا ۔اگر مسیح ؑ خدا ہوتا تو مسیح ؑ کاجواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ میں تو خداہوں اور میری ہی یہ سب چیزیں ہیں تم میری ہی چیزیں مجھے دینے کا کیا وعدہ کرتے ہو ۔مگر مسیح اس کا بھی یہ جواب دیتا ہے کہ
’’ اے شیطان دُور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور اُس اکیلے کی بندگی کر‘‘۔گو یا مسیح ؑ نے اقرار کرلیا کہ میں صرف خدا کا ایک بندہ ہوں اور میرا کام یہ ہے کہ میں اُسی کو سجدہ کروں اور اُسی کی عبادت بجالائوں ۔
لوقا باب۴ آیات ۱تا ۱۳ میں بھی یہی باتیں بیان کی گئی ہیں صرف اس میں اتنی بات زائد ہے متی نے تو یہ لکھا ہے کہ وہ چالیس دن اور چالیس رات بھوکا رہنے کے بعد آزما یا گیا اور یہاں یہ لکھا ہے کہ چالیس دن تک شیطان اُسے آزماتا رہا ۔ ہمارے مولوی کہتے ہیں کہ مسیح ؑ کو شیطان نے مس بھی نہیں کیا اور انجیل کہتی ہے کہ چالیس دن تک شیطان اُسے اپنے ساتھ لے کر پھرتا رہا اور مختلف آزمائشوں میں سے اُسے گذرنا پڑا ۔گو یا اُ س کوخدا ماننے والے تو اس کو مس شیطان سے پاک نہیں کہتے لیکن محمد رسول ﷺ کے اتباع باقی سب نبیوں کو مس شیطان سے آلودہ قرار دیتے ہیں صرف اُس نا م نہاد خدا کے بیٹے کو جس کے متعلق اُس کی اُمت بھی کہتی ہے کہ چالیس دن تک شیطان کے ساتھ پھرتا رہا مس شیطان سے پاک قرار دیتی ہے ۔پھر لطیفہ یہ ہے کہ مسلمان مولوی تو یہ کہتے ہیں کہ پیدائش کے وقت جب وہ بچہ تھا اس وقت بھی اُسے شیطان نے نہیں چھوا ۔لیکن انجیل کہتی ہے کہ جب وہ بالغ اور عاقل تھا تب بھی شیطان کے ساتھ ساتھ پھرتا تھا صرف ایک دو منٹ کے لئے نہیں بلکہ چالیس دن تک پھرتا رہا۔
پھر یوحنا باب۴ آیت ۲۲ میں لکھا ہے کہ تم جسے نہیں جانتے اس کی پرستش کرتے ہو ہم جسے جانتے ہیں اس کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔‘‘
اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح اپنے آپ کو خدا کا ایک بندہ سمجھتے تھے کیونکہ فرماتے ہیں کہ میں اور باقی یہودی اُس خدا کی پرستش کرتے ہیں جس کو ہم جانتے ہیں اور تم اس کی پرستش کرتے ہو جسے تم نہیں جانتے ۔
پھر خدائی کی ایک بڑی علامت علم غیب ہوتا ہے اگر کوئی خدائی دعویدار ہو تو ضروری ہے کہ علم غیب بھی اسے حاصل ہومگر مسیح کہتا ہے کہ
’’اُس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیںجانتا نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ‘‘۔(مرقس باب ۱۳ آیت۳۲)
اُس دن یا اُس گھڑی میں اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے ۔بعض لوگ اس سے قیامت مراد لیتے ہیں اور بعض اس سے مسیح کی آمد ثانی مراد لیتے ہیں ۔ بہر حال قیامت مراد ہویا مسیح کی آمد ثانی حضرت مسیح ؑ کہتے ہیں کہ اُس گھڑی کونہ میں جانتا ہوں نہ آسمان کے فرشتے جانتے ہیں صرف خدا جانتا ہے کہ وہ کب آئے گی ۔گویا علم غیب کے متعلق حضرت مسیح ؑ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے مجھے حاصل نہیں ۔اگر وہ خدا ہوتا تو اُسے بھی یہ علم غیب حاصل ہوتا ۔
اسی طرح مرقس باب۱۰ آیت ۱۷،۱۸ میں لکھا ہے
’’اور جب وہ باہر نکل کر راہ میں جا رہا تھا تو ایک شخص دوڑ تا ہوا اُس کے پاس آیا اور اس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اُس سے پوچھنے لگا کہ اے نیک اُستا د میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں۔ یسوع نے اُس سے کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ۔ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا۔‘‘
ان آیا ت میں حضرت مسیح دو دعوے کرتے ہیں ایک یہ کہ نیک صرف خداہے ۔دوسرا یہ کہ میں نیک نہیں ہوں ۔اب اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں خدا نہیں ۔ تم منظقی صغریٰ کبریٰ بنالو۔ اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نکل نہیں سکتا ۔ایک طرف یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیک صرف خدا ہ ہے اور دوسری طرف یہ کہا گیا ہے کہ میں نیک نہیں ۔اِن دو دعووں کا سوائے اس کے اور کو ئی مفہوم نہیں کہ میں خدا نہیں گو یا حضرت مسیح انسان ہونیکا اس جگہ قرار کرتے ہیں۔
یہاں یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ بعض مسلمان بغیر حقیقت پر غور کرنیکے اس جگہ عیسائیوںسے بھی زیادہ جوش میں آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا مسیح ؑ نیک نہیں تھا ۔ اگر کسی احمدی سے یہ سوال کیا جا ئے تو وہ کہے گا کہ تم عیسائیوں سے پوچھوان کی کتاب میںیہ لکھا ہے ۔ پس اس کے جواب کی اصل ذمہ داری ان پر ہے ہم پر نہیں۔ لیکن اگر ہمیں ہی جواب دینا پڑے تو ہم یہ جواب دیں گے کہ عبداللہ کی نیکی کسبی ہوتی ہے اور یہاں حضرت مسیح کی مراد اس نیکی سے ہے جو ذاتی ہوتی ہے انسان کی نیکی کسبی ہوتی اور خدا تعالیٰ کی نیکی ذاتی ہوتی ہے۔ اسی لئے خدا قدوس کہلاتا ہے لیکن انسان قدوس نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اپنی ذات میں بے عیب ہے اور انسان بے عیب کوشش سے بنتا ہے۔ خدا تعالیٰ پر کوئی وقت ایسا نہیں آیا جب وہ ناقص تھا اور پھر اس نے کامل بننے کی کوشش کی لیکن انسان پہلے ناقص ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے ۔ پہلے وہ بچہ ہوتا ہے پھر اسے عقل آتی ہے تو وہ نماز شروع کرتا ہے اس کے بعد ایک دن کی نماز اسے کچھ اور آگے لے جاتی ہے۔ دو دن کی نماز اسے اور آگے لے جاتی ہے۔ تین دن کی نماز اسے اور آگے لے جاتی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ جیسے آج سے اربوں ارب سال پہلے تھا اسی طرح آج بھی ہی اس کی قدوسیت نہ پہلے کم تھی اور نہ آج زیادہ ہے لیکن انسان کی نیکی کسی وقت کم ہوتی ہے اور کسی وقت زیادہ ہوتی ہے چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔ جب وہ بچہ ہوتا ہے تو اس کی نیکی ادنیٰ ہوتی ہے جب وہ صداقتوں کو سمجھنے لگ جاتا ہے تو اس کی نیکی کا معیار اور زیادہ ترقی کر جاتا ہے اور جب اس پر شریعت یا الہام نازل ہونا شروع ہوتا ہے تو اس کی روحانیت اور زیادہ ترقی کر جاتی ہے۔ پس جب مسیح نے کہا کہ میں نیک نہیں تو اس کے صرف اتنے معنے تھے کہ میرے اندر ذاتی نیکی نہیں کسبی نیکی ہے۔
اسی طرح یوحنا میں لکھا ہے کہ ایک عورت کو لوگ پکڑ کر آپ کے پاس لائے اور کہا کہ یہ عورت زنا کی حالت میں پکڑی گئی ہے۔ موسیٰ ؑ کی شریعت کے مطابق زانیہ کی سزا سنگساری ہوتی ہے مگر ہم اسے آپ کے پاس لائے ہیں آپ اس کے متعلق کیا فتویٰ دیتے ہیں ۔ مسیح نے جواب دیا کہ جو شخص تم میں بے گناہ ہے وہ آگے آئے اور سب سے پہلے اس کو پتھر مارے۔ وہ لوگ یہ سن کر بھاگ گئے۔ حضرت مسیح نے اس عورت سے پوچھا کہ تجھ پر حکم لگانے والے لوگ کہاں چلے گئے اس نے کہا کہ بھاگ گئے ۔ حضرت مسیح نے کہا جامیں بھی تجھ پر کوئی حکم نہیں لگاتا۔ اس بارہ میں انجیل کے اصل الفاظ یہ ہیں ۔ لکھا ہے :
’’فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی اور اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا اے استاد یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے ۔ توریت میں موسیٰ ؑنے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کر یں پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے۔ انہوں نے اسے آزمانے کے لئے یہ کہا تاکہ اس پر الزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں ۔ مگر یسوع جھک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا۔ جب وہ اس سے سوال کرتے ہی رہے تو اس نے سیدھے ہو کر ان سے کہا کہ جو تم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اس کے پتھر مارے اور پھر جھک کر زمین پر انگلی سے لکھنے لگا۔ وہ یہ سن کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے نکل گئے اور یسوع اکیلا رہ گیا اور عورت وہیں بیچ میں رہ گئی۔ یسوع نے سیدھے ہو کر اس سے کہا۔ اے عورت یہ لوگ کہاں گئے۔ کیا کسی نے تجھ پر حکم نہیں لگایا؟ اس نے کہا اے خداوند کسی نے نہیں ۔یسوع نے کہا میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا۔ جا پھر گناہ نہ کرنا۔‘‘ (انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۳ تا ۱۱)
اب دیکھو فقیہی اور فریسی کہتے ہیں کہ موسیٰ کی شریعت میں ایسی عورتوں کو سنگار کرنے کا حکم ہے۔ حضرت مسیح کہتے ہیں کہ تم میں سے وہ شخص پہلے پتھر چلا ئے جو بے گناہ ہو۔ مگر جب سب لوگ ایک ایک کرکے غائب ہو گئے تو مسیح نے اس عورت سے کہا کہ میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا جس کے معنے یہ ہیں کہ میں بھی بے گناہ نہیں ہوں۔ یہ حوالہ بھی بتاتا ہے کہ مسیح اپنے گنہگار ہونے کا اقرار کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ وہ بندہ ہونے کا اقرار کرتا ہے۔
دوسری بات قرآن کریم نے حضرت مسیح کی طرف یہ منسوب کی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا اتنی الکتب اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اس کے لئے دیکھو یوحنا باب ۸ آیت ۲۸ جہاں حضرت مسیح کہتے ہیں کہ میں
’’ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا۔ بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں۔‘‘
یہ حوالہ اس امر پر صراحتاًدلالت کرتا ہے کہ حضرت مسیح لوگوں کو جو کچھ تعلیم دیتے تھے وہ اپنی طرف سے نہیں دیتے تھے بلکہ وہی کچھ بتاتے تھے جو خدا انہیں بتاتا تھا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتابلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا ہے اور جس طرح اس نے مجھے تعلیم دی ہے اسی طرح میں لوگوں سے کہتا ہوں ۔ مجھے یہ اختیار حاصل نہیں کہ میں اپنی طرف سے انہیں کچھ کہوں۔
اسی طرح حضرت مسیح کہتے ہیں :
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں ۔ منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو۔‘‘ (انجیل متی باب ۵ آیت ۱۷۔۱۸)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح یہود کی طرف اس لئے مبعوث کئے گئے تھے کہ وہ تورات کو رائج کریں ۔ پس قرآن کریم نے جو ان کے متعلق اتنی الکتب کے الفاظ استعمال کئے ہیں وہ بالکل صحیح اور درست ہیں ۔ اتنی الکتب کے الفاظ اس لحاظ سے بھی استعمال ہوئے ہیں کہ ایک پہلے نبی کی کتاب پر عمل کرنے اور دوسروں سے عمل کروانے کا انہیں حکم تھا اور اس لحاظ سے بھی کہ پہلی کتاب کی تفسیر انہیں الہاماً سکھائی جاتی تھی اور یہ دونوں باتیں انجیل سے ثابت ہیں ۔ حضرت مسیح نے یہ بھی کہا کہ میں تورات کو رائج کرنے اور اس کے احکام پر عمل کروانے کیلئے آیا ہوں اور یہ بھی کہا کہ میں اپنی طرف سے کوئی تعلیم نہیں دیتا بلکہ وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا مجھے سکھاتا ہے۔
تیسری بات قرآن کریم نے یہ بتائی ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی قوم کے سامنے نبوت کا دعویٰ پیش کیا اور کہا کہ وجعلنی نبیا خدا تعالیٰ نے مجھے نبی بنایا ہے۔ اس کی صداقت بھی انجیل سے ثابت ہے۔ یوحنا میں لکھا ہے حضرت مسیح نے کہا :
’’ جس نے مجھے بھیجا ہے وہ میرے ساتھ ہے (نبی اسی کو کہتے ہیں جسے لوگوں کی ہدایت کیلئے بھیجا جائے) اس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ میںہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اسے پسند آتے ہیں ۔‘‘ (انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۲۹)
یہ الفاظ ایک رنگ میں وجعلنی نبیا کی ہی تفسیر ہیں ۔ اسی طرح لکھا ہے فریسیوں نے حضرت مسیح سے کہا :
’’ ہمارا ایک باپ ہے یعنی خدا ۔ یسوع نے ان سے کہا اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے ۔ اس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں۔ کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے بھیجا۔‘‘ (انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۴۱۔۴۲)
یہاں بھی ’’اسی نے مجھے بھیجا‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو حضرت مسیح کی نبوت اور رسالت کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کا خدا تعالیٰ کو اپنا باپ کہنا ان کی الوہیت پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ یہود بھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے بیٹے کہا کرتے تھے۔ چنانچہ فریسیوں نے ان سے کہا :
’’ ہمارا ایک باپ ہے یعنی خدا ‘‘ معلوم ہوا کہ بیٹا ہونے میں مسیح کی خصوصیت نہیں یہ یہود میں عام محاورہ تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کو اپنا باپ کہا کرتے تھے اور اس قسم کے محاورہ کا ان میں رائج ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ جن لوگوں کے دلوں میں محبت الٰہی پائی جاتی ہو اور جو صرف مادی چیزوں کے پیچھے جانے والے نہ ہوں بلکہ روحانیت کی سچی تڑپ اور خدا تعالیٰ کے وصال کی حقیقی خواہش رکھتے ہوں وہ جذبات محبت کے غلبہ کے وقت خدا تعالیٰ کو ماں اور باپ کی شکل میں ہی دیکھتے ہیں اور رئویا اور کشوف میں بھی خدا تعالیٰ اپنے منتخب کردہ بندوںکو بعض دفعہ اپنا وجود ماں یا باپ کی شکل میں ہی دکھاتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں نے اپنے باپ کی شکل میں خدا تعالیٰ کو دیکھا اور میں نے ایک دفعہ خدا تعالیٰ کو حضرت اماں جان کی شکل میں دیکھا تھا تو جہاں اخلاص اور محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں وہاں بندے اپنی محبت کے جوش کے وقت خدا تعالیٰ کو ماں یا باپ کی حیثیت میں ہی دیکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ بھی رئویا و کشوف کے ذریعہ جب اپنی محبت ان پر ظاہر کرتا ہے تو بالعموم باپ یا ماں کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔ آگے یہ ایک باریک روحانی نکتہ ہے کہ وہ کن حالات میں اپنے آپ کو باپ کی شکل میں دکھاتا ہے اور کن حالات میں اپنے آپ کو ماں کی شکل میں دکھاتا ہے ۔ بہرحال یہ دونوں وجود محبت کا ایک نشان سمجھے جاتے ہیں مگر دونوں کی محبت میں فرق ہوتا ہے۔ ماں کی محبت اور رنگ کی ہوتی ہے اور باپ کی محبت اور رنگ کی ہوتی ہے ۔ ماں کی ذمہ داریاں اور قسم کی ہوتی ہیں اور باپ کی ذمہ دایاں اور قسم کی ہوتی ہیں ۔ جب خدا تعالیٰ ماں کی محبت اور ماں کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے تو وہ ماں کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے اور جب وہ باپ کی محبت اور باپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے تو باپ کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ چونکہ نبیوں کے پیرو اور ان پر ایمان لانے والے لوگ ان کی زبان سے یہ باتیں سنتے رہتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے ماں او رباپ کی طرح محبت کرتا ہے اس لئے وہ بھی ان کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں ۔اسی رنگ میں جب یہود میں خدا تعالیٰ کے انبیاء آئے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کا بار بار ذکر کیا اور بتایا کہ ہم سے خدا نے یوں محبت کی ہو جس طرح باپ اپنے بیٹے سے کرتا ہے یا ماں اپنے بچے سے کرتی ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کو باپ کہنے لگ گئے۔ اسی محاورہ کو حضرت مسیح بھی استعمال کرتے اور خدا تعالیٰ کو اپنا باپ کہتے تھے۔
دوسرا مسئلہ اس حوالہ سے یہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح کہتے ہیں :
’’ اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے اس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں‘‘
یعنی جس سے محبت ہوتی ہے اس کی محبت کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان چیزوں سے بھی محبت رکھی جائے جن سے محبوب محبت رکھتا ہو۔اس میں مدارج کا سوال نہیں ہوتا کہ فلاں چھوٹا ہے اور فلاں بڑا بلکہ انسان صرف یہ دیکھتا ہے کہ خواہ میرا مقام بڑا ہے جب میرا محبوب اور پیارا فلاں سے محبت رکھتا ہے تو میرا بھی فرض ہے کہ میں اسے محبت کروں۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے متعلق ذکرآتا ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ ان سے ملنے کیلئے آیا وہ کھڑے ہو گئے اور بادشاہ سے ملے اور پھر بیٹھ گئے پھر وزیر ملنے کیلئے آیا تو وہ اسی طرح بیٹھے رہے کھڑے نہیں ہوئے۔ اس کے بعد بادشاہ کا پہریدار آیا تو پھر وہ کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہونے کے بعد بیٹھ گئے جب یہ لوگ چلے گئے تو کسی نے کہا آپ نے یہ کیا کیا کہ جب بادشاہ آیا تو آپ اس کے اعزا ز کیلئے کھڑے ہو گئے۔ وزیر آیا تو کھڑے نہ ہوئے لیکن پہریدار آیا تو پھر کھڑے ہو گئے ۔ا نہوں نے فرمایا بادشاہ کے آنے پر میں اس لئے کھڑا ہوا تھا کہ بادشاہ کی اطاعت کا حکم ہے۔ وزیر کے آنے پر میں اس لئے کھڑا نہیں ہوا کہ وزیر کی اطاعت کا حکم نہیں ۔ اس کے بعد پہریدار آیا تو میں پھر کھڑا ہو گیا مگر اس لئے کہ وہ حافظ قرآن تھا۔ اب دیکھو پہریدار ایک ادنیٰ ملازم تھا لیکن چونکہ شاہ ولی اللہ صاحب کے محبوب کا کلام اس نے یاد کیا ہوا تھا اس لئے باوجود چھوٹا ہونے کے آپ اس کے آنے پر کھڑے ہو گئے۔ یہی بات حضرت مسیح بیان فرماتے ہیں کہ اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھے بھی عزیز سمجھتے اور میری مخالفت نہ کرتے۔ا سی نقطہ نگاہ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باوجود اس کے کہ آپ کا رتبہ بہت بڑا تھا فرمایا کہ
؎’’خاکم نثار کوچہ ٔ آل محمد ؐاست ‘‘
ادھر آپ اپنا مقام حضرت امام حسین ؓ سے بڑا بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اپنے علماء سے پوچھو کہ تمہارا مسیح جس نے آسمان سے آنا ہے وہ امام حسین سے بڑا ہو گا یا چھوٹا۔ لیکن دوسری طرف امام حسین ہی نہیں امام حسین کی اولاد در اولاد پر اپنی جان قربان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے قابل احترام وجود ہیں کیونکہ وہ بہرحال محمد رسول اللہ ﷺ کی اولاد ہیں ۔تو رتبہ اور مقام اور چیز ہے اور محبت کا تعلق اور چیز ہے۔ پس حضرت مسیح کہتے ہیں کہ اگر واقعہ میں تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہوتا اور تم اس کے بیٹے ہوتے تو تم مجھ سے محبت کیوں نہ کرتے ۔ تمہارا مجھے یہ چاہنا بتاتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے بیٹے نہیں ’’ اس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آ یا ہوں ‘‘ یعنی اپنے محبوب کی طرف سے آنے والی ہر چیز پیاری ہوتی ہے۔ پس تم جو مجھ سے محبت نہیں رکھتے تو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں اپنے محبوب کی بھی کوئی قدر نہیں ۔
حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ ایک دفعہ کھڑے تھے کہ بادل آیا اور بارش ہوئی اس کے قطرات گرے تو آپ نے اپنی زبان باہر نکالی اور بارش کا قطرہ اس پر لے لیا۔ پھر آپ نے سمجھا کہ ممکن ہے میرے اردگرد کے لوگ یہ سمجھیں کہ میں نے کیا خلاف مرتبت بات کی ہے اس لئے آپ نے فرمایا یہ میرے رب کی تازہ نعمت آئی ہے ۔ یہی مضمون حضرت مسیح بیان فرماتے ہیں کہ ’’ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں ‘‘ یعنی میں خدا تعالیٰ کا ایک تازہ انعام ہوں۔ اگر تم خدا تعالیٰ سے سچی محبت رکھنے والے ہوتے تو تم میری قدر کیوں نہ کرتے۔
’’ کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے بھیجا ‘‘ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ مسیح نے جب اپنے آپ کو بیٹا کہا تو صرف رسول ہونے کی حیثیت سے ہی کہا ہے۔
اسی طرح لوقا باب ۴ آیت ۱۶ تا ۲۲ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ایک دفعہ ناصرہ میں سبت کے دن عبادت خانہ میں گئے تو وہاں ان کو یسعیاہ نبی کی کتاب دی گئی کہ اس میں سے وعظ کریں ۔ انہوں نے کتاب کھول کر وہ مقام نکالا جہاں لکھا تھا :
’’ خداوند کا روح مجھ پر ہے اس لئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے لئے مسح کیا۔ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سنائوں۔ کچلے ہوئوں کو آزاد کروں اور خداوند کے سال مقبول کی منادی کروں ۔‘‘
اور پھر لوگوں کو وعظ و نصیحت کی۔ جب درس دے چکے تو لکھا ہے :
’’ جتنے عبادت خانہ میں تھے سب کی آنکھیں اس پر لگی تھیں۔ وہ ان سے کہنے لگا کہ آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا ہے۔‘‘
یعنی یسعیاہ نبی کی کتاب کا جو نوشتہ تھا وہ آج پورا ہو گیا ہے۔ اس نوشتہ کا یسعیاہ باب ۶۱ آیت ۱ تا ۳ میں تفصیلی طور پر ذکر آتا ہے۔ حضرت یسعیاہ کہتے ہیں :
’’خداوند خدا کی روح مجھ پر ہے کیونکہ خداوند نے مجھے مسح کیا تاکہ میں مصیبت زدوں کو خوشخبریاں دوں (یسعیاہ کہتے ہیں کہ خدا نے مجھے مسح کیا ہے تاکہ میں مصیبت زدوں کو خوشخبری سنائوں۔ مگر عیسائی کہتے ہیں کہ اس میں مسیح کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے) اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ٹوٹے دلوں کو درست کر وں اور قیدیوں کیلئے چھوٹنے اور بندھوئوں کیلئے قید سے نکالنے کی منادی کروں کہ خداوند کے سال مقبول کا اور ہمارے خدا کے انتقام کے روز کا اشتہار دوں اور ان سب کو جو غمزدہ ہیں تسلی بخشوں کہ صیہوں کے غمزدوں کیلئے ٹھکانہ کردوں کہ ان کو راکھ کے بدلے پگڑی اور نوحے کی جگہ خوشی کا روغن اور اداسی کے بدلے ستائش کی خلعت بخشوں تاکہ وے صداقت کے درخت اور خداوند کے لگائے ہوئے پودے کہلاویں کہ اس کا جلال ظاہر ہو۔‘‘ (یسعیاہ ب ۶۱ آیت ۱تا ۳)
عیسائیوں کے نزدیک یسعیاہ نبی کی یہ پیشگوئی حضرت مسیح پر چسپا ںہوتی ہے۔اگر یہ درست ہے اور یہ پیشگوئی واقعہ میں حضرت مسیح پر چسپاں ہوتی ہے تو پھر یہاں خدا کا ذکر نہیں بلکہ ایک انسان کے آنے کا ذکر ہے اور وہ جعلنی نبیاکے ماتحت ہی آتا ہے کیونکہ لکھا ہے :
’’ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ٹوٹے دلوں کو درست کروں اور قیدیوں کیلئے چھوٹنے اور بندھوئوں کیلئے قید سے نکالنے کی منادی کروں ‘‘
’’ اس نے مجھے بھیجا ہے ‘‘ کا عربی میں یہی ترجمہ ہوگا۔ کہ ارسلنی اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ یا جعلنی نبیا اس نے مجھے اپنا نبی بنایا ہے۔
یہ بھی یاد رکھو کہ اس پیشگوئی کے الفاظ مصلح موعود والی پیشگوئی کے الفاظ سے بالکل ملتے جلتے ہیں ۔ یعنی اس پیشگوئی میں بھی اسی قسم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس قسم کے الفاظ یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی میں استعمال کئے گئے ہیں ۔
پھر متی باب ۲۱ آیت ۱۰۔۱۱ میں لکھا ہے :
’’ اور جب وہ یروشلم میں داخل ہوا تو سارے شہر میں ہلچل پڑ گئی اور لوگ کہنے لگے یہ کون ہے۔ بھیڑ کے لوگوں نے کہا یہ گلیل کے ناصرہ کا نبی یسوع ہے۔‘‘
یہی بات قرآن کریم نے بیان کی ہے کہ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ مجھے خدا نے نبی بنا کر بھیجا ہے۔
پھر یوحنا باب ۷ آیت ۱۴ تا ۱۶ میں لکھا ہے کہ یسوع ایک دن ہیکل میں جا کر تعلیم دینے لگا۔ اس پر یہودیوں نے متعجب ہو کر کہا کہ اس کو بغیر پڑھے کیونکر علم آ گیا۔
’’ یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ تعلیم میری نہیں۔ بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔‘‘
گویا یہود نے جب تعجب کیا کہ اسے بغیر پڑھے تورات کا علم کس طرح آ گیا تو حضرت مسیح نے کہا یہ میری تعلیم نہیں بلکہ اس خدا کی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ پس ان الفاظ میں بھی وہ اپنے رسول ہونے کا اعلان کرتے ہیں ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کا کمال ذاتی ہوتا ہے۔ اگر وہ خدایا خدا کے بیٹے ہوتے تو یہ کمال ان کے اندر ذاتی طور پر موجود ہونا چاہئے تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ میرا اس میں ذاتی کمال کوئی نہیں خدا نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے یہ تعلیم مجھے سکھائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی لکھا ہے کہ
؎دگر استاد انامے ندا نم
کہ خواندم درد بستان محمدؐ
یعنی میں کسی اور استاد کا نام نہیںجانتا کیونکہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کے سکول میں پڑھا ہوں ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ میرے علم قرآنی علوم ہیں اور گو آپ نے ادب کے طور پر محمد رسول اللہ ﷺ کا نام لیا ہے لیکن آپ کا اشارہ قرآن کریم کی طرف ہی ہے جو خدا تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ پس آپ کا یہ شعر وہی معنے رکھتا ہے جو حضرت مسیح کے اس فقرہ کے ہیں کہ ’’ میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔‘‘
پھر وہ اسی باب کی سترھویں آیت میں کہتے ہیں :
’’ اگر کوئی اس کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اس کی تعلیم کی بابت جان لے گا کہ خدا کی طرف سے ہے یا میں اپنی طرف سے کہتا ہوں‘‘
یعنی وہ لوگ جو سچے دل سے تحقیق کرنا چاہیں وہ اگر تحقیق کریں گے تو معلوم کر لیں گے کہ یہ تعلیم میری نہیںبلکہ میرے خدا کی ہے۔ پہلی آیت میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ خدا نے مجھے بھیجا ہے اور اب اس آیت میں وہ اپنے اس دعویٰ پر اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تعلیم میں نے نہیں بنائی بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہے ۔ پھر وہ اور زیادہ اس پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں :
’’ جو اپنی طرف سے کچھ کہتا ہے وہ اپنی عزت چاہتا ہے لیکن جو اپنے بھیجنے والے کی عزت چاہتا ہے وہ سچا ہے اور اس میں ناراستی نہیں ‘‘ (آیت ۱۸)
اس میں وہ پھر اپنے رسول ہونے پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو شخص یہ کہے کہ میں اپنے پاس سے علم دیتا ہوں وہ جھوٹا ہے لیکن وہ شخص جو یہ کہے کہ میں خدا تعالیٰ سے علم حاصل کر کے دیتا ہوں وہ سچا ہے ۔ گویا حضرت مسیح عیسائیوں کو جن کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح خدا تھا اور اپنے علم سے بولتا تھا جھوٹا قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کے اس عقیدہ کو کہ مسیح خدا کا بندہ تھا سچا قرار دیتے ہیں ۔
پھر یوحنا باب ۸ آیت ۱۶ میں فرماتے ہیں :
’’ اگر میں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ میں اکیلا نہیں بلکہ میں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘
گویا وہ پھر جعلنی نبیا پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے میرے خدا نے بھیجا ہے۔
اسی طرح سترھویں آیت میں فرماتے ہیں :
’’ تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے (استثناء باب ۱۷ آیت ۷ باب ۱۹ آیت ۱۵) کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے۔ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے۔‘‘
گویا وہ اپنی سچائی کی دو شہادتیں پیش کرتے ہیں ۔ ایک یہ کہ میں اس لئے سچا ہوں کہ میں خود کہتا ہوں کہ میں سچا ہوں اور دوسرے میں اس لئے سچا ہوں کہ خدا کہتا ہے میں سچا ہوں اور جب تمہاری شریعت میں یہ لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی سچی تسلیم کی جائے گی اور میری سچائی پر بھی دو شہادتیں موجود ہیں تو تم کیوں میری سچائی کے قائل نہیں ہوتے۔
دیکھو یہ جو مسیح نے کہا ہے کہ ’’ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں ‘‘ یہ وہی دلیل ہے جو قرآن کریم نے ان الفاظ میں پیش کی ہے کہ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون (یونس ع۲)
ورنہ گواہی دینے والا بعض دفعہ جھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور دنیا میں ہزاروں ایسے واقعات ملتے ہیں۔ پس اس جگہ گواہی سے یہ مراد نہیں کہ چونکہ میں اپنے آپ کو سچا کہتا ہوں اس لئے میں سچا ہوں بلکہ اس جگہ اپنی گواہی سے مراد آپ کی دعویٰ نبوت سے پہلے کی زندگی کا پاکیزہ ہونا ہے اور حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ ایک تو میری سابقہ زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں اور دوسرے خدا نے میری تائید میں جو نشانات دکھائے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ میرا دعویٰ سچا ہے اور درحقیقت نبیوں کی زندگی کا خلاصہ صرف اتنا ہی ہوتا ہے باقی سب جھگڑے لغو اور فضول ہوتے ہیں ۔ میں نے اپنی کتاب ’’ دعوۃ الامیر ‘‘ میں اسی دلیل کو پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دلیل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں۔
؎آفتاب آمد دلیل آفتاب
اگر کوئی پوچھے کہ آفتاب کے نکلنے کی کیا دلیل ہے تو ہم اسے یہی کہیں گے کہ آفتاب کی دلیل خود آفتاب کا وجود ہے ۔ اسی طرح ایک شخص جس کی ساری زندگی ایک کھلے ورق کی طرح لوگوں کے سامنے ہے۔ جس کے متعلق اپنے اور بیگانے سب جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا خطرناک سے خطرناک اوقات میں بھی سچ سے کام لیتا ہے۔ اگر وہ خدا تعالیٰ کے متعلق کوئی بات کہے تو کوئی احمق اور بے وقوف ہی ہو گا جو اس کا انکار کرے اور کہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے لیکن اس شہادت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا کیریکٹر اور چال چلن لوگوں کیلئے ایک کھلی کتاب کی طرح ہو۔ وہ شخص جس کی زندگی کے حالات لوگوں کو معلوم نہیں وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری پہلی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔
مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہماری جماعت میں سے ایک شخص جو اچھا مخلص اور سمجھدار تھا مگر بعد میں غیر مبایعین میں شامل ہو گیا اس کے بعد پھر خدا تعالیٰ نے اس پر فضل کیا اور وہ ہماری جماعت میں شامل ہو گیا۔ ایک دفعہ کسی جھگڑے کے موقعہ پر دوسرے سے کہنے لگا کہ میرا اپنا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں ۔ میں اس وقت بچہ تھا مگر مجھے یہ سن کر ہنسی آئی کہ اس کا وجود بھلا لوگوں کیلئے کس طرح صداقت کا نشان بن سکتا ہے۔ اس کی زندگی کے توحالات ہی لوگوں کو معلوم نہیں ۔ پس اس آیت کو وہی شخص اپنی ذات پر چسپاں کر سکتا ہے جس نے لوگوں کے سامنے چیلنج کے طور پر اپنی زندگی کو پیش کیا ہو اور لوگوں نے بھی کرید کرید کر اس کے حالات زندگی کو دیکھا ہوا ہو ۔ ایک عام آدمی کی زندگی تو ہوتی ہی پردے میں ہے وہ اس دلیل کو پیش کس طرح کر سکتا ہے۔ اسی طرح انبیاء کی صداقت کے جو اور دلائل ہیں ان کے متعلق بھی لوگ غلطی کر تے ہیں اور بعض دفعہ ایک ایسی بات اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کر دیتے ہیں جو موقع اور محل کے لحاظ سے وہاں چسپاں ہی نہیں ہوتی۔
سید نور صاحب کابلی جو اب (۵۶ء سے پہلے) فوت ہو چکے ہیں نبوت کا دعویٰ کیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک دوست ان کے پاس گئے تو وہ واپس آ کر مجھے کہنے لگے کہ ان کی اور باتوں کا جواب تو مجھے آ گیا ہے لیکن ایک دلیل کو میں رد نہیں کرسکا اور وہ یہ کہ انہوں نے کہا تم لوگ مجھے پاگل کہتے ہو حالانکہ قرآن میں یہ لکھا ہے کہ جتنے نبی اور رسول آئے سب کو لوگ پاگل کہا کرتے تھے۔ پس تمہارا مجھے پاگل کہنا میری صداقت کی دلیل ہے میرے جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ تو بالکل سیدھی بات تھی نبی کو اس کے دعویٰ کے بعد محض اس کے دعویٰ کی وجہ سے لوگ پاگل کہتے ہیں لیکن سید احمد نور صاحب سے کہئے کہ آپ نے تو ابھی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا کہ ہم آپ کو رسیوں سے باندھا کرتے تھے۔ پس ایک پاگل کا اپنے آپ کو نبی کہنا اور چیز ہے اور نبی کو لوگوں کا پاگل کہنا بالکل اور چیز ہے۔ اگر تو نبوت کے دعویٰ کے بعد لوگ انہیں پاگل کہنے لگ جاتے پہلے وہ دماغی لحاظ سے بالکل ٹھیک ہوتے تو کچھ دلیل بھی تھی لیکن انہیں تو دعویٰ سے پہلے ہی کئی دفعہ جنون کی وجہ سے رسیوں سے باندھا جا چکا ہے۔ تو یہ دلیل بھی غلط استعمال ہونے لگ گئی ہے۔ اسی طرح ایک نبی کی صداقت کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اس کی سابق زندگی اتنی شاندار ہوتی ہے کہ ہر قسم کے حالات میں سے گزرنے کے باوجود لوگ اس کی زندگی کو بالکل بے عیب پاتے ہیں ۔ اردگرد کے لوگ اسے ٹٹو لتے ہیں۔ ایسے حالات اس پر گزرتے ہیں جب جھوٹ کے بغیر اس کی نجات کی کوئی صورت نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ جھوٹ نہیں بولتا اور لوگوں پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ شخص نیک اور راستباز انسان ہے۔ لیکن عام آدمیوں کی زندگیاں نمایاں نہیں ہوتیں ۔ بیسیوں چور ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ چور ہیں۔ بیسیوں جھوٹے ہوتے ہیں مگر چونکہ ان کے حالات لوگوں کے سامنے نہیں آتے اس لئے وہ مخفی رہتے ہیں۔ پس یہ آیت صرف انبیاء ہی اپنے اوپر چسپاں کر سکتے ہیں ۔ وہ لوگوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ تم نے ہماری زندگیوں کو دیکھا ۔ تم نے ہمارے حالات کو دیکھا۔ تم نے ہمارے اخلاق اور عادات کی جستجو کی۔ مگر تم نے یہی دیکھا کہ ہم جھوٹ بولنے والے نہیں ۔ پس جب ہم انسانوں پر جھوٹ نہیں بولتے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم خدا پر جھوٹ بولنے لگ جائیں ۔ یہی دلیل حضرت مسیح پیش کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں :
’’ تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے۔ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے۔‘‘
اب اگر اپنی گواہی سے صرف اتنی ہی مراد ہو کہ چونکہ میںکہہ رہاہوں اس لئے میری بات سچی ہے تو اس طرح تو دنیا میں تباہی مچ جائے۔ کیا عدالت میں مقدمہ پیش ہو تو ملزم کہہ سکتا ہے کہ ایک توا س واقعہ کا میں گواہ ہوں اور ایک خدا گواہ ہے۔ اگر وہ ایسا کہے تو سب ہنسنے لگ جائیں گے۔ پس اس جگہ مسیح نے درحقیقت وہی دلیل پیش کی ہے کہ
؎آفتاب آمد دلیل آفتاب
وہ اپنے یسوع ہونے کی حیثیت کو پیش نہیں کرتا بلکہ دعویٰ نبوت سے پہلے کی زندگی کو متحدہا نہ طور پر پیش کرتا ہے۔ مگر بہرحال اس سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ بندہ تھا۔ رسول تھا۔ خدائی کا دعویدار نہیں تھا۔
پھر متی باب ۲۱ آیت ۹ میں لکھا ہے :
’’ اور بھیڑ جو اس کے آگے آگے جاتی اور پیچھے پیچھے چلی آتی تھی پکار پکار کر کہتی تھی ابن دائود کو ہوشعنا ۔ مبارک ہے وہ جو خدا کے نام سے آتا ہے عالم بالا پر ہو شعنا ۔‘‘
یہ ایک پیشگوئی تھی جس میں مسیح کی آمد کی خبر دی گئی تھی ۔ پس جب یہ پیشگوئی پوری ہوئی تو لوگ خوش ہوئے کہ وہ شخص جس کے آنے کی خبر دی گئی تھی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آ گیا ہے۔ بہرحال یہاں حضرت مسیح کو ابن دائود کہا گیا ہے گویا انہیں بنی اسرائیل کا ہی ایک فرد قرار دیا گیا ہے خدا نہیں کہا گیا۔
پھر مرقس باب ۶ آیت ۲ تا ۵ میں لکھا ہے کہ
’’ جب سبت کے دن مسیح عبادت خانہ میں تعلیم دینے لگا تو لوگ سن کر حیران ہوئے کہ یہ کیا حکمت ہے جو اسے بخشی گئی ہے۔ کیا یہ وہی نہیں جو مریم کا بیٹا اور یعقوب اور یوسیس اور یہود اہ اور شمعون کا بھائی ہے اور کیا اس کی بہنیں یہاں ہمارے ہاں نہیں ۔‘‘
یعنی اس کے بھائی اور بہنیں تو سب مذہب میں ہمارے ساتھ متفق ہیں اس کے ساتھ نہیں پھر یہ باتیں اسے کیسے آ گئیں ۔ا س پر حضرت مسیح نے کہا :
’’نبی اپنے وطن اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیں ہوتا۔‘‘ (مرقس باب ۶ آیت ۵)
گویا وہ صاف طور پر اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ نبی اپنے وطن اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیںہوتا۔
یوحنا باب ۴ آیت ۴۴ میںبھی یہی مضمون بیان ہوا ہے لکھا ہے کہ
’’ یسوع نے خود گواہی دی کہ نبی اپنے وطن میں عزت نہیں پاتا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کچھ رشتہ دار اس کے ضرور مخالف تھے۔
یوحنا باب ۵ آیت ۳۷ میں حضرت مسیح فرماتے ہیں :
’’ باپ نے مجھے بھیجا ہے اور با پ جس نے مجھے بھیجا ہے اسی نے میری گواہی دی ہے‘‘
گویا ایک ہی آیت میں دو دفعہ انہوں نے اپنے آپ کو رسول کہا ہے :
پھر یوحنا باب ۴ آیت ۱۹ میں لکھا ہے :
’’ عورت نے اس سے کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تو نبی ہے۔‘‘
گویا لوگ بھی اس کو نبی کہتے تھے اور وہ بھی اپنے آپ کو نبی کہتے تھے مگر آج کل کے عیسائی کہتے ہیں کہ وہ خدا تھے۔
غرض عیسائیوں نے قرآن کریم کے اس بیان پر جو گالیاں دی ہیں وہ درحقیقت رسول کریم ﷺ کو نہیں دیں بلکہ اپنے مسیح کو گالیاں دی ہیں جس نے خود یہ دعوے کئے ہیں ۔
چوتھی بات قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ وجعلنی مبارکا اینما کنت یہ الفاظ بھی اس کے انسان ہونے پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ خدا اپنی ذات میں مبارک ہے اور انسان اس سے برکت حاصل کرتا ہے۔ خدا مبارک ہوتا ہے اور انسان مبارک ہوتا ہے۔ میرے ایک بچے کا نام مبارَک ہے۔ کوئی غلطی سے اسے مبارِک کہہ دیتا ہے تو میں کہتا ہوں یہ مبارِک نہیں مبارَک ہے۔ اسے برکت دی گئی ہے۔ برکت دینے والا خدا ہے پس حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ مجھے خدا نے برکت دیا گیا بنایا ہے اور جو مبارک ہے وہ یقینا انسان ہے۔ کیونکہ خدا کو کوئی برکت نہیں دے سکتا خدا تعالیٰ کے اندر ساری طاقتیں ذاتی ہیں وہ کسی سے کوئی طاقت نہیں لیتا۔ پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح مبارک ہے وہ برکت نہیں دیتا بلکہ برکت مانگتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ وہ ایک انسان تھا اس کیلئے دیکھو یوحنا باب ۸ آیت ۲۹ جہاں وہ کہتا ہے :
’’ اور جس نے مجھے بھیجا ہے میرے ساتھ ہے۔ باپ نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا (گویا وہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ مدد کا محتاج ہے اور یہ بھی کہ خدا نے اس کی مدد کی ہے) کیونکہ میں ہمیشہ ایسے کام کرتا ہوں جو اسے خوش آتے ہیں ۔‘‘
پھر مرقس باب ۶ آیت ۳۹ تا ۴۱ میں لکھا ہے :
’’ تب اس نے انہیں حکم کیا کہ ان سب کو ہری گھاس پر بانٹ بانٹ کر کے بٹھائو وے سو سو اور پچا س پچا س بانٹ میں بیٹھے۔ تب اس نے وہ پانچ روٹیاں اوردو مچھلیاں لے کے آسمان کی طرف دکھا کے برکت چاہی ۔‘‘
یعنی مسیح کے پاس ایک دفعہ بہت سے لوگ آ گئے آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ان کو کھانا کھلانے کیلئے قطاروں میں بٹھا دو۔ پھر مسیح نے پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں اپنے ہاتھ میں لیں اور آسمان کی طرف دیکھا اور خدا تعالیٰ سے برکت چاہی۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ سمجھتا تھا کہ برکت صرف خدا تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔
پھر لکھا ہے کہ اس نے ’’ روٹیاں توڑیں اور اپنے شاگردوں کو دیں کہ ان کے آگے رکھیں اور اس نے وے دو مچھلیاں ان سب میں بانٹیں وے سب کھا کے سیر ہوئے۔‘‘ (آیت ۴۱۔۴۲)
یعنی پھر برکت آ بھی گئی۔ پہلے مسیح نے خدا سے برکت مانگی اور پھر خدا نے اسے برکت دے بھی دی۔ پس مرقس تسلیم کرتا ہے کہ خدا مبارِک ہے اور مسیح مبارَک ہے ۔ خدا برکت دینے والا ہے اور مسیح برکت لینے والا ہے۔
پھر یہی مضمون مرقس باب ۸ آیت ۶ تا ۸ میں بھی بیان ہوا ہے ۔ لکھا ہے :
’’ پھر ا س نے بھیڑ کو حکم کیا کہ زمین پر بیٹھ جائیں اور اس نے وہی سات روٹیاں لیں اور شکر کر کے توڑیں (یعنی روٹی ملنے پر اس نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا ) اور اپنے شاگردوں کو دیں کہ ان کے آگے رکھ دیں اور ان کے پاس کئی ایک چھوٹی مچھلیاں تھیں ۔ سو اس نے برکت مانگ کے حکم کیا کہ انہیں بھی ان کے آگے دھریں چنانچہ انہوں نے کھایا اور سیر ہوئے۔‘‘
اس جگہ پھر برکت مانگنے کا ذکر ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پھر وہ برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ بھی گئی۔ یہ کہ یہ کیا معجزہ ہے ۔ اس جگہ ہمیں اس تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہمارا مقصد ان حوالوں سے صرف اس قدر ہے کہ قرآن کریم نے کہا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ وجعلنی مبرکا اینما کنت اور بائبل بھی یہی کہتی ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ سے برکت مانگی اور خدا تعالیٰ نے اسے برکت دی۔ پس قرآن کریم کا دعویٰ بالکل درست ہے اگر قرآن نے غلط دعویٰ کیا ہے تو پھر بائبل بھی غلط اور ناقابل اعتبار ہے۔
حدیثوں میںبھی اسی قسم کے بعض واقعات آتے ہیں ۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے غلہ خریدا جو چلتا چلا گیا اور ختم ہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔ آخر مجھے خیال آیا کہ دیکھیں تو سہی کہ ہے کتنا ۔جب اس کو تولا تو ختم ہو گیا ۔ بے شک بعض دفعہ انسان اپنی ت